Language: UR
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خداداد مشن کی تبلیغ کا حق ادا کیا اور ہر وسیلہ بروئے کار لائے کہ یہ خوشخبری لوگوں تک پہنچ جائے لیکن جب مخالفین اپنی حق دشمنی میں تعصب، ضد اور جہالت کی وجہ سے بڑھتے ہی چلے گئے تو آپ نے دنیا کو علمی اور روحانی میدانوں میں اتمام حجت کے لئے للکارا، آپ کے یہ چیلجنز روحانی دنیا میں عجائبات کے ظہور کا باعث بنے اور مسیح و مہدی کے بارہ میں پیش خبری کہ ’’وہ اموال تقسیم کرے گالیکن کوئی لینے والا نہ ہوگا‘‘ کو بھی ایک رنگ میں پورا کرنے والا بنے۔ آپ نے مخالفین کو مقابلہ میں دعوت عام دی اور ایسے سینکڑوں علمی اور روحانی چیلنجز میں بڑی بھاری رقوم معین انعامات کی صورت میں دینے کا اعلان فرمایا۔ اس کتاب میں ایسے چیلجنز کے پس منظر، تفصیل، ان کے رد عمل ، نتائج اور اثرات پر قابل قدر مواد سجایا گیا ہے جو مصنف موصوف نے اولاً ایک انعامی مقالہ کے طور پر مرتب کیا تھا جسے بعد ازاں کتابی شکل دی گئی ہے۔ چار سو صفحات سے زیادہ ضخیم یہ کتاب حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے اس روشن پہلو سے بھی متعارف کررہی ہے کہ آپ نے خدائی مشن کی تکمیل ،دین اسلام کی سربلندی اور عظمت کی خاطر نہ صرف اپنی جان، اولاً اور عزت کی بھی پرواہ نہ کی بلکہ اپنے تمام تر اموال اور جائیدادوں کو بھی اسلامی سچائیوں اورآفاقی حقائق کے پھیلاؤ اور غلبہ دین کے لئے پیش کر دیا، آپؑ کے یہ چیلنجز اس زمانہ کے تمام معروف مسلمان علماء، عیسائی پادریوں، ہندو پنڈتوں، آریہ سماجی لیڈروں، بلکہ ہر خاص و عام کے سامنے رکھے جسے اسلام، بانی اسلامﷺ، قرآن حکیم اور مسیح موعودکے حق میں ظاہر ہونے والے نشانات کے خالصتاً من جانب اللہ ہونے میں ذرہ بھی شک و شبہہ تھا۔
رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الفَاتِحِيْنَ انعام یافته مقاله حضرت مسیح موعود کے چیلنج اور ردعمل ونتائج و اثرات
نام کتاب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج اور ردعمل ونتائج واثرات تعداد طبع باراول.....1000 تاریخ اشاعت....مارچ 2008ء
تھک گئے ہم تو انہیں باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دھوتوں کا تیر چلایا ہم نے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے وریشین)
پیش لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ روحانی دنیا کے جو عجائبات ظاہر ہوئے ان میں سے ایک سلسلہ آپ کے چیلنجز سے تعلق رکھتا ہے.علمی اور روحانی میدانوں میں مقابلہ کی دعوت عام اور اکثر کے متعلق معین انعامات اس پیشگوئی کے عین مطابق ہیں جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی مال تقسیم کرے گا مگر اس کو کوئی قبول نہ کرے گا.یہ پیشگوئی اس طرح بھی پوری ہوئی کہ آپ نے روحانی دنیا کے اموال یعنی معارف قرآن لٹائے مگر ایک معمولی تعداد کے سوا دنیا کی بھاری اکثریت نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ پیشگوئی اس طرح بھی اتمام کو پہنچی کہ آپ نے چینج دے کر معین انعام دینے کی پیشکش بھی کی مگر کسی کو یہ چیلنج قبول کرنے یا آپ کے دعاوی کو توڑنے کی ہمت یا توفیق نہ ہوئی.یہ مقالہ دراصل اس پیشگوئی کے دونوں پہلوؤں کی شرح اور تفصیل.روشناس کراتا ہے.آپ نے دین کی عظمت اور سر بلندی کے لئے نہ صرف اپنی جان، عزت اور اولا د قربان کر دی بلکہ اپنی تمام جائداد کو بھی اسلامی سچائیوں اور حقائق کے پھیلا ؤ اور غلبہ کے لئے میدانِ مقابلہ میں رکھ دیا.بزبانِ شاعر
ع جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے مگر کسی کو بھی آپ کے مقابل پر آنے کی جرات نہ ہوسکی.یہ چیلنجز اس زمانہ کے تمام معروف مسلمان علماء، عیسائی پادریوں، ہندو پنڈتوں ، آریہ سماجی لیڈروں اور مختلف مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے ان تمام سر برآوردہ رہنماؤں کے نام ہیں جنہوں نے قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس اور پاکیزگی پر حملہ کیا، قرآنی صداقتوں کو جھٹلایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے زور آور نشانات کا انکار کیا.اس پہلو سے ان چیلنجز کا مطالعہ احمدیت کی تاریخ کے ایک بہت اہم باب سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح دشمنیوں اور مخالفتوں میں اسلام کا پرچم سر بلند رکھا اور تیز ہواؤں کے بالمقابل علم و حکمت کے بلند مینار تعمیر کئے اور ہر مینار کے اوپر انعام کا چراغ جلا کر رکھ دیا مگر کوئی اس مینار پر چڑھنے اور چراغ بجھانے کی جرات نہ کر سکا.آپ کی بے پناہ مصروفیات میں سلسلہ تصنیف و تالیف، اشتہارات، خطوط، زبانی گفتگو، مناظرے، مباحثے ، سفر، مقدمات میں پیشی اور جماعت کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ سلسلہ انعامات کے لئے وسیع تحقیق و تدقیق بھی شامل تھی اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا ایک الگ دلکش باب ہے.اس مقالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام انعامی چیلنج یکجا کر دیئے
گئے ہیں اور مخالفین سے تمام ضروری مباحث اور خط و کتابت کو ترتیب وارا کٹھا کر دیا گیا ہے.آپ اس کو آغاز سے اختتام تک پڑھیں گے تو اس جری اللہ کی عظمتوں کو سلام کرنے اور آپ کی بے پناہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے جو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضروریات کے مطابق عطا فرمائی تھیں.
حرف آغاز اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:.كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنٌ أَنَا وَرُسُلِي.(المجادلة : ۲۲) یعنی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.یہ آیت کریمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے.جب آپ نے مسیح موعود و مہدی معہود ہونے کا دعویٰ فرمایا تو سنت اللہ کے موافق آپ کی مخالفت شروع ہو گئی.اور ظاہر بین علماء نے آپ کے دعویٰ پر طرح طرح کے اعتراضات کرنے شروع کر دیے.اس طرح آپ کے اور مخالفین کے درمیان گویا ایک علمی و روحانی جنگ چھڑ گئی.چنانچہ آپ نے جہاں اپنے دعوی کی تائید میں سینکڑوں عقلی ونقلی دلائل پیش فرمائے.وہاں حق و باطل میں امتیاز کیلئے اپنے مخالفین کو علمی و روحانی میدان میں مقابلہ کے ہزاروں روپے انعامات پر مبنی سینکڑوں چیلنج بھی دیئے.مگر آج تک مخالفین کو کسی ایک چیلنج کو توڑنے کی توفیق نہیں مل سکی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ چیلنج ہمارے لئے ایک بہت بڑا روحانی سرمایہ ہیں نیز از دیاد ایمان کا ذریعہ ہیں.چنانچہ اسی سوچ اور ضرورت کے
پیش نظر اس مقالہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام چیلنج نفس مضمون کے اعتبار سے مختلف عناوین کے تابع حضور کے اپنے الفاظ میں ہی جمع کر دیئے گئے ہیں.اس مقالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ چیلنجوں کو یکجا کرنے کے علاوہ ان چیلنجوں کا پس منظر مخالفین کا رد عمل اور اس کا جواب بھی تحریر کر دیا گیا ہے.نیز ان چیلنجوں کے نتائج و اثرات بھی مرتب کر دئیے گئے ہیں تا کہ یہ چیلنج زیادہ سے زیادہ علمی ذوق رکھنے والوں کی دلچسپی اور متلاشیان حق کی ہدایت و راہنمائی کا ذریعہ ثابت ہوں.اس مقالہ میں جملہ چیلنجوں کو بنیادی طور پر علمی اور روحانی دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.اور ہر دو قسم کے چیلنجوں کو نفس مضمون کے اعتبار سے مزید کئی عناوین کے تابع یکجا کیا گیا ہے.اسی طرح ہر باب میں تمام چیلنجوں کو حالات و واقعات کی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے.تا کہ قارئین کو ایک مسئلہ کے متعلق تمام چیلنجوں کو یکجائی طور پر مطالعہ کر کے حقیقت حال کو سمجھنے میں مددمل سکے.اس مقالہ میں نفس مضمون کے اعتبار سے علمی و روحانی چیلنجوں کی تعداد 80 بنتی ہے.جب کہ عمومی طور پر چیلنجوں کی کل تعداد تقریباً 270 ہے..آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے
آخر پر میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں کہ جس نے مجھے فضل عمر فاؤنڈیشن کی انعامی سکیم کے تحت نہ صرف یہ مقالہ لکھنے کی توفیق عطا فرمائی بلکہ میری اس حقیر سی مساعی کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انعام کا حقدار بھی قرار دیا.الحمد لله على ذالک.اس کے بعد میں اپنے اُن کرم فرماؤں اور محسنوں کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے اس مقالہ کو قابل اشاعت بنانے میں میری مددفرمائی جن میں سے مکرم فہیم احمد خالد صاحب مربی سلسلہ، مکرم ملک سعید احمد رشید صاحب مربی سلسله مکرم تنویر احمد چوہدری صاحب مربی سلسلہ اور مکرم و جید الرحمن خاں صاحب نیز خاکسار کے بیٹے عزیزم ہشام احمد فرحان کے نام قابل ذکر ہیں.فجز ا ھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ گراں قدر علمی و روحانی سرمایہ بنی نوع انسان کی ہدایت اور روحانیت میں ترقی کا ذریعہ ثابت ہو.آمین
ترتیب اس مقالہ میں جملہ چیلنجوں کو درج ذیل ترتیب دی گئی ہے.حصہ اول......علمی چیلنج ا.وفات و حیات مسیح ۲.کتب نویسی.تفسیر نویسی ۴.کسوف و خسوف ۵.افترای علی اللہ - قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتب کا موازنہ ے.عربی دانی.دیگر متفرق علمی چیلنج
ا.حصہ دوئم.....روحانی چیلنج پیشگوئیاں ۲ نشان نمائی ۲.۳.استجابت دعا ۴.مباہلہ ۵- دیگر متفرق روحانی چلینچ
۷ ۱۲ ۱۳ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ S مسئلہ وفات وحیات مسیح مضامير حصه اول علمی چیلنی باب اول وفات و حیات مسیح مولوی محمد حسین بٹالوی کا رد عمل مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کو مباحثہ کی دعوت بعض نامور علماء کو بحث کا چیلنج مولوی احمد اللہ کو مناظرہ کی دعوت مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ مناظرہ آسمانی نشان دکھانے کی دعوت مولوی رشید احمد گنگوہی کو مباحثہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر دہلی مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد عبد الحق صاحب کو مباحثہ کی دعوت مولوی عبدالحق کی مناظرہ سے معذرت مولوی سید نذیر حسین دہلوی کو قسم کھانے کا چیلنج جامع مسجد دہلی میں مناظرہ مولوی نذیر حسین دہلوی کو مباحثہ کا تیسرا چیلنج مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی سے مباحثہ میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کو مناظرہ کا چوتھا چیلنج ۱۹ ۱۹ ۲۲ ۲۴ ۲۵ Σ ۲۶ ۲۸ ۲۸
2 مولوی الحق صاحب کو مسئلہ وفات وحیات مسیح پر بحث کرنے کی دعوت مسئلہ حیات و وفات مسیح کے متعلق دیگر چیلنج حیات مسیح اور ہزار روپیہ کا چیلنج کسی ایسی حدیث لانے کا چیلنج جس میں بجسم عنصری آسمان پر جانے کا ذکر ہو.حیات مسیح اور 20 ہزار روپیہ کا چیلنج لفظ خلت کے متعلق ہزار روپیہ کا چیلنج ۳۰ ۳۲ ۳۳ ۳۳ ۳۴ ۲۵ مردوں کے دوبارہ دنیا میں واپس آنے کی راہ میں مانع آیات کو غیر قطعیۃ الدلالت ثابت کرنے پر ۳۶ ہزار روپیہ کا چیلنج تُوَفِّی کا لفظ موت اور امانت کے معنی میں استعمال ثابت کرنے والے کو ہزار روپیہ انعام کا چیلنج حیات مسیح کے قائلین کو نزول مسیح کیلئے دعا کرنے کا چیلنج لفظ توفی سے متعلق ہزار روپیہ کا چیلنج مخالفین کا رد عمل ایک ضروری سوال مولوی عنایت اللہ گجراتی کا اشتہار مولوی عنایت اللہ گجراتی کی پیش کردہ حدیث مولوی صاحب کی غلطی کی وجہ توفی اور براہین احمدیہ باب دوم کتب نویسی ۳۷ ۳۷ ۳۸ ۴۳ ۴۵ 3 ۴۶ R ۴۷ ۵۰ ۵۱ ۵۳ ۵۷ ۵۸ ۵۹ کتب نویسی کے مقابلہ کے چیلنج براہین احمدیہ کی تالیف کا پس منظر براہین احمدیہ کے مضامین براہین احمدیہ کا رڈ لکھنے کا چیلنج براہین احمدیہ کے چینج کا رد عمل
۶۰ 3 = บ ۶۲ ۶۴ 3 ۶۷ ۶۸ ۷۲ ۷۴ ۷۵ LL > Al ۸۳ ۸۹ ۹۱ ۹۴ ۹۵ ۹۸ 1..1++ 1+1 ۱۰۲ تفسیر نویسی سرمه چشم آریہ تحفہ گولڑویہ اشتہار انعامی پچاس روپیه اعجاز احمدی ایک عظیم پیشگوئی عربی کتب نویسی کے مقابلہ کے چیلنج کرامات الصادقين نور الحق سر الخلافه حمہ اللہ الهدى والتبصرة لمن يرى عربی نویسی کے مقابلوں کے چیلنجوں کا رد عمل غلطیوں کے اعتراض کا جواب سرقہ کے اعتراض کا جواب باب سوم تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج مولوی محمد حسین بٹالوی کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کی دعوت گولڑوی صاحب کا جواب گولڑوی صاحب کی ہوشیاری گولڑوی صاحب کی لاہور آمد لاہور کے بعض احمد یوں کی طرف سے پیر صاحب کو ایک خط حضرت اقدس کی آخری اتمام حجت
۱۰۵ ۱۰۵ 1+4 ۱۰۸ == ===17 ۱۱۲ ۱۲۱ = ۱۲۳ 7 ۱۲۶ 7 ۱۳۱ ۱۳۳ ۱۴۱ ۱۴۶ 33 ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۴۹ ۱۴۹ ☐ 6 4 پیر صاحب کیلئے مباحثہ کی ایک آسان شرط پیر صاحب کی گولڑہ واپسی مقابلہ کی ایک نئی تجویز اعجاز امسیح کی اشاعت مولوی محمدحسن فیضی کی جواب لکھنے کی تیاری سیف چشتیائی بجواب انجاز مسیح اعجاز امسیح پر پیر صاحب کی نکتہ چینیاں پیر صاحب کا تصنیفی سرقہ کسوف و خسوف مخالفین کا رد عمل کسوف و خسوف باب چهارم باب پنجم افتراء علی اللہ افتری علی اللہ کے متعلق چیلنج مخالفین کا رد عمل ا.ابو منصور ۲.محمد بن تومرت عبد المومن ۴.صالح بن طریف ۵- عبید اللہ بن مهدی ۶.بیان بن سمعان ے.مقنع.ابوالخطاب الاسدی ۹.احمد بن کیال
۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۷ ۱۵۹ 17.۱۶۹ ۱۷۰ ۱۷۷ ۱۷۹ ۱۸۲ ۱۸۵ ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۸۹ ١٩٠ 191 ۱۹۲ ۱۲۹ ۱۹۳ ۱۹۳ ۱۹۵ 5 ۱۰.مغیرہ بن سعد بجلی بعض اعتراضات اور ان کے جواب باب ششم قرآن کریم کا دیگر مقدس کتب سے مقابلہ قرآن کریم اور دیگر مقدس کتب فضائل القرآن میں مقابلہ کے چیلنج توریت وانجیل کا قرآن سے مقابلہ کی دعوت وید اور قرآن کریم کا موازنہ ڈرائینگ ماسٹر لالہ مرلید ھر باب ہفتم عربی دانی میں مقابلہ کے چیلنج پیر مہر علیشاہ کو عربی دانی میں مقابلہ کی دعوت باب ہشتم عربی دانی دیگر متفرق علمی چیلنج آریہ سماج کے عقائد سے متعلق علمی چیلنج 1.ارواح بے انت ہیں ۲- تناسخ ۳.ویدوں کے رشیوں کا ملہم ہونا ۴.نیوگ ۵.نجات ۶.ویدوں کی الہامی حیثیت ے.تبدیلی مذہب کیلئے ویدوں کا پڑھنا ضروری نہیں مولوی محمد حسین بٹالوی کو دیئے گئے بعض علمی چیلنج لفظ الدجال“ کے متعلق چیلنج اپنے دعوی کے خلاف دلائل پیش کرنے کی دعوت
١٩٦ ۱۹۷ لا ۱۹۸ ۱۹۹ ۱۹۹ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۳ ۲۰۷ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۶ ۲۲۴ ۲۲۶ ۲۲۳ ۲۳۸ ۲۳۹ ۲۴۲ بظاہر متعارض چند احادیث کی تطبیق کا چیلنج گورنمٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ کے پہچاننے کیلئے ایک کھلا کھلا طریق آزمائش بٹالوی صاحب کے ایک اعتراض کا جواب علماء ندوه حکیم محمود مرزا ایرانی میاں عبدالحق غزنوی صرف عربی ام الالسنہ ہے حصّه دوم روحانی چیلنج پادری عمادالدین باب اول پیشگوئیاں پیشگوئیاں طاعون کی پیشگوئی کے متعلق چیلنج ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی آتھم کے بارہ میں پیشگوئی کے متعلق مسلمان علماء کو دیئے گئے چیلنج لیکھرام کی ہلاکت کے متعلق پیشگوئی کے بارہ میں چیلنج رو عمل مولوی محمد حسین بٹالوی کو دعوت قسم حضرت مصلح موعود کے متعلق پیشگوئی پیشگوئیوں کے ذریعہ اپنی صداقت کو پر کھنے کے پہینچ
۲۴۷ ۲۴۸ ۲۵۳ ۲۵۵ ۲۵۸ ۲۶۳ ۲۶۵ ۲۶۶ ۲۶۸ ۲۷۲ ۳۷۳ ۲۷۸ ۲۷۹ ۲۸۲ ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۸۷ ۲۸۷ है है ۲۸۸ ۲۸۹ ٢٩٠ ۲۹۱ آریہ پنڈتوں اور عیسائی پادریوں کو پیشگوئیوں کے مقابلہ کی دعوت میاں فتح مسیح کارد عمل ایک غلط بہتان کو ثابت کرنے کا چیلنج لالہ ملاوال اور لالہ شرمیت کو اپنی پیشگوئیوں کے متعلق قسم کھانے کا چیلنج پوری ہونے والی پیشگوئیوں کا فیصلہ بذریعہ قسم کی تجویز باب دوم نشان نمائی میں مقابلہ کے چیلنج دعوت نشان نمائی منشی اندر من مراد آبادی میدانِ مقابلہ میں لیکھرام میدان مقابلہ میں لیکھرام کی قادیان آمد پادری سوفٹ میدان میں قادیان کے ساہوکاروں کا نشان نمائی کا مطالبہ ساہوکاران و دیگر ہند و صاحبان قادیان کا خط بنام مرزا صاحب نامه مرزا غلام احمد صاحب بجواب خط ساہوکاران قادیان معاہدہ کا انجام چالیس روز میں نشان نمائی کے مقابلہ کی دعوت عیسائیوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج عبد اللہ آتھم کو نشان نمائی کا چیلنج ملکہ معظمہ برطانیہ کو نشان دکھانے کی دعوت تمام پادیوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج یسوع کے نشانوں کے ساتھ اپنے نشانوں کے مقابلہ کا چیلنج نشان نمائی عیسائیوں ، ہندوؤں ، آریوں اور سکھوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج
۲۹۴ ۲۹۶ ۲۹۶ ۲۹۸ ۳۰۰ ٣٠١ ☐ ☐ ۳۰۵ ۳۰۸ ۳۰۸ ٣٠٩ ۳۱۰ ۳۱۱ E ٣١٣ ۳۲۳ ۳۲۵ ۳۲۵ ۳۲۷ ۳۲۹ ۳۳۰ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۳۷ 8 ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت مسلمان علماء و مشائخ کو نشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج مولوی محمد حسین بٹالوی کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج مخالف مولویوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج اے شک کرنے والو! آسمانی فیصلہ کی طرف آجاؤ مكذب ومكفر علماء کو نشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج چالیس نامی علماء کی درخواست پر نشان دکھانے کا چیلنج روئے زمین پر موجود تمام انسانوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج تمام مخالفین کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج گزشتہ اور آئندہ زمانوں میں ظاہر ہونے والے نشانوں میں مقابلہ کا چیلنج تریاق القلوب میں بیان فرمودہ نشانات کی نظیر پیش کرنے کا چیلنج احاد الناس کو نشان دکھانے کی دعوت استجابت دعا باب سوم استجابت دعا باب چهارم مخالف مسلمانوں و مشائخ کو دعوت مباہلہ مباہلہ کے لئے اشتہار مولوی محمد حسین بٹالوی کا ردعمل مولوی ابوالحسن تبتی اور جعفر زٹلی کا رد عمل مولوی عبد الحق غزنوی کا رد عمل حافظ محمد یعقوب صاحب کی بیعت غزنوی کے ساتھ مباہلہ کا اثر مخالف علماء و مشائخ کا نام لیکر اُن کو دعوت مباہلہ مباہلہ
۳۴۷ ۳۴۸ ۳۴۸ ۳۵۰ ۳۵۲ ۳۵۶ ۳۶۱ ۳۶۲ ۳۶۹ NN ۳۷۳ ۳۷۴ ۳۷۵ ۳۷۵ ۳۷۹ ۳۸۱ ۳۸۵ ۳۶۷ ۳۸۸ ۳۸۹ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کا جواب سید رشید الدین صاحب کی تصدیق مولوی غلام دستگیر قصوری سے مباہلہ دعوت مباہلہ کے مخاطب علماء کا انجام مولوی ثناء اللہ امرتسری کو مباہلہ کا چیلنج مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ حضرت اقدس کا وصال اور علماء کا پروپیگینڈا بعض اعتراض اور ان کا جواب ثناء اللہ امرتسری کی بے نیل و مرام موت غیر مسلموں کو دعوت مباہلہ تمام آریہ کو دعوت مباہلہ لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل کو دعوت مباہلہ سردار جندر سنگھ کو قسم کھانے کا چیلنج عیسائیوں کو مباہلہ کے چیلنج ڈاکٹر مارٹن کلارک کو مباہلہ کی تجویز عبد اللہ آتھم کا رد عمل ڈاکٹر ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج تمام پادیوں اور عیسائیوں کو مباہلہ کا چیلنج شیعہ حضرات کو مباہلہ کا چیلنج عیسائیوں کو دیئے گئے چیلنج باب پنجم متفرق روحانی چیلنج پادری فتح مسیح کا ایک سوال عیسائیوں کو علامات ایمانی میں مقابلہ کی دعوت
۳۹۰ 10 الوہیت مسیح مولوی بٹالوی کے عدالت میں کرسی طلب کرنے کی حقیقت برگزیدہ بندوں کو ملنے والے انوار میں مقابلہ کی دعوت منہاج نبوت پر فیصلہ کی دعوت تائید الہی میں مقابلہ کا چیلنج مذہبی توہین آمیزی کا محرک کون؟ منشی الہی بخش کو دوطریق پر فیصلہ کی دعوت روحانی امور میں مقابلہ کی دعوت بٹالوی صاحب اور دیگر منکرین کو چالیس روز میں آسمانی نشان اور اسرار غیب دکھلانے کے مقابلہ کی دعوت تمام عیسائیوں کو نشان نمائی اور قبولیت دعا میں مقابلہ کی دعوت ۳۹۱ ۳۹۳ ۳۹۳ ۳۹۴ ۳۹۴ ۳۹۶ ۳۹۸ ۳۹۹ ۴۰۰ ۴۰۰ ۴۰۱ آئمۃ التکفیر کو تائید الہی فیض سماوی اور آسمانی نشانوں میں مقابلہ کی دعوت تمام مخالفین کو رویا صالحہ، مکاشفہ ، استجابت دعا اور الہامات صحیحہ میں مقابلہ کی دعوت تمام مذاہب کے پیروکاروں کو قبولیت دعا اور امور غیبیہ کے میدان میں مقابلہ کی دعوت ملہم ہونے کا دعوی کرنے والوں کو پیشگوئیوں اور قرآنی معارف میں مقابلہ کی دعوت میاں نذیر حسین ، مولوی بٹالوی اور دیگر تمام صوفیاں کو نشان نمائی، پیشگوئیوں اور مباہلہ کے مقابلہ کی ۴۰۳ دعوت مولوی محمد حسین بٹالوی کو خوابوں اور قرآن کریم کی رو سے مقابلہ کی دعوت مخالفین کو نشان نمائی ، معارف قرآن ، عربی انشاء پردازی اور کتب نویسی کے مقابلہ کی دعوت مکذب علماء کو مباہلہ ، نشان نمائی اور عربی دانی کے مقابلہ کی دعوت چھ طور کے نشانوں میں مقابلہ کی دعوت عام عربی دانی، قرآنی حقائق و معارف قبولیت دعا اور اخبار غیبیہ میں مقابلہ کی دعوت فتح کی نوید ۴۰۲ ۴۰۲ ۴۰۵ ۴۰۶ ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۲
ــه اوّل علمی چیلنج میں ہر میدان میں تیرے ساتھ ہوں گا اور ہر ایک مقابلہ میں روح القدس سے میں تیری مددکروں گا." (الهام مسیح موجود) تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۴۱)
3 باب اول وفات وحیات مسیح وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائده: ۱۱۷) ( ترجمہ ) اور میں ان پر نگران رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا.لیکن اے خدا! جب تو نے مجھے وفات دے دی تو ہی ان کا نگران تھا.
5 بسم اللہ الرحمن الرحیم مسئلہ وفات وحیات مسیح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ابتداء دیگر مسلمانوں کے رسمی عقیدہ کی طرح حضرت عیسی کے آسمان پر جانے اور پھر دوبارہ زمین پر واپس آنے کے قائل تھے.جیسا کہ آپ نے اپنی پہلی کتاب ” براہین احمدیہ صفحہ ۴۳۱ اور صفحہ ۵۹۳ ح، ح پر حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے اور پھر دوبارہ آنے کے متعلق لکھا تھا.مگر ۱۸۹۰ء کے اواخر میں اللہ تعالی نے آپ پر اس امر کا انکشاف فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے جس مسیح ابن مریم کے آنے کی خبر دی تھی وہ تو ہی ہے.پہلا مسیح آسمان پر خا کی جسم کے ساتھ ہرگز زندہ نہیں بلکہ وہ دیگر انبیاء کی طرح فوت ہو چکا ہے.یہ الہام حسب ذیل ہے.مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللَّهِ مَفْعُولًا “ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۲) اس سے قبل بھی کئی الہامات اور بشارات کے ذریعہ آپ مسیح موعود قرار دیئے گئے تھے مگر جب تک آپ پر صراحت کے ساتھ انکشاف نہ ہوا آپ اپنے پرانے عقیدہ پر قائم رہے.اور عام مسلمانوں کی طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو جسد عصری کے ساتھ آسمان ہی پر سمجھتے رہے.اور مانتے رہے.مگر جب انکشاف ہو گیا تو آپ نے اس کے اظہار میں ایک لمحہ کے لئے بھی توقف نہ فرمایا.اور حیات مسیح کے عقیدہ کو ترک کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو.“ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰رح)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعویٰ کے منظر عام پر آتے ہی مخالفت کی آگ مشتعل ہونا شروع ہو گئی اور آپ کے مداح اور قریبی علماء بھی آپ کے مخالف ہو گئے.مولوی محمد حسین بٹالوی جو اپنے مشہور رسالہ ” اشاعۃ السنہ میں آپ کی شہرہ آفاق کتاب براہین احمدیہ پر ایک نہایت مبسوط تبصرہ لکھ کر آپ کے مناصب جلیلہ کی تائید کر چکے تھے وہ بھی آپ کے خلاف مضامین شائع کرنے لگے.اس طرح وفات وحیات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا جس کے نتیجہ میں آپ نے ضروری اشتہار کے عنوان سے تمام علماء اور پبلک پر اتمام حجت کی غرض سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں علماء کو مسئلہ وفات و حیات مسیح پر بحث کرنے کی دعوت دی.چنانچہ آپ نے فرمایا.” اور میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ میرے پر خدا تعالی نے اپنے الہام اور القاء سے حق کو کھول دیا ہے اور وہ حق جو میرے پر کھولا گیا ہے وہ یہ ہے کہ در حقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کی روح اپنے خالہ زاد بھائی بیٹی کی روح کے ساتھ دوسرے آسمان پر ہے.اس زمانہ کے لئے جو روحانی طور پر مسیح آنے والا تھا جس کی خبر احادیث صحیحہ میں موجود ہے وہ میں ہوں.یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو لوگوں کی نظروں میں عجیب اور تحقیر سے دیکھا جاتا ہے اور میں کھول کر کہتا ہوں کہ میرا دعویٰ صرف منی بر الہام نہیں بلکہ سارا قرآن شریف اس کا مصدق ہے.تمام احادیث صحیحہ اس کی صحت کی شاہد ہیں.عقل خدا داد بھی اس کی مؤید ہے.اگر مولوی صاحبوں کے پاس مخالفانہ طور پر شرعی دلائل موجود ہیں تو وہ جلسہ عام کر بطریق مذکورہ بالا مجھ سے فیصلہ کریں ( اور واضح رہے کہ اس اشتہار کے عام طور پر وہ تمام مولوی صاحبان مخاطب ہیں جو مخالفانہ رائے ظاہر کر رہے ہیں اور خاص طور پر ان سب کے سر کردہ یعنی مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.مولوی عبدالجبار صاحب
غزنوی مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے والے مولوی شیخ عبید اللہ صاحب تبتی مولوی عبدالعزیز صاحب لدھیانوی معه برادران اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری.( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۰۴،۲۰۳) مولوی محمد حسین بٹالوی کا رد عمل مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس چیلنج کے موصول ہونے پر لکھا کہ :.۲۹ مارچ ۱۸۹۷ء کو لدھیانہ سے ایک خط پہنچا جو نہ تو مرزا صاحب کے قلم کا لکھا ہوا تھا اور نہ اس پر مرزا صاحب کا دستخط ثبت تھا اور اس کے ساتھ مرزا صاحب کا وہ اشتہار پہنچا جو ۲۶ مارچ ۱۸۹۲ء کو انہوں نے شائع کیا تھا.“ اس خط پر مولوی صاحب مذکور نے یہ لکھ کر واپس کر دیا کہ:.اس خط پر مرزا صاحب کا دستخط نہیں ہے لہذا واپس ہے.“ یکم اپریل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھ کر کہ:.اس عاجز کی منشاء کے موافق ہے“ اسے پھر مولوی محمد حسین صاحب کو واپس بھیج دیا.جس کے جواب میں مولوی صاحب نے لکھا کہ اس خط اور اس اشتہار (مورخہ ۲۶ مارچ) سے آپ نے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو منقطع کر دیا ہے اور مخاصمانہ مباحثہ کی بناء کو قائم ومستحکم کر دیا ہے.لہذا ہم بھی آپ سے دوستانہ و برادرانہ بحث بلکہ پرائیویٹ ملاقات تک نہیں چاہتے.اور مخاصمانہ مباحثہ کے لئے حاضر و مستعد ہیں.(اشاعۃ السنہ جلد ۲ صفحه ۱۲) اس کے بعد مولوی صاحب نے اشاعۃ السنہ میں یہ ذکر کر کے کہ اب اشاعۃ السنہ صرف آپ کے دعاوی کار د شائع کرے گا اور آپ کی جماعت کو تتر بتر کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ کہ اشاعۃ السنہ کا ریویو براہین آپ کو امکانی ولی ولہم نہ بنا تا تو آپ تمام مسلمانوں کی نظر میں بے
8 اعتبار ہو جاتے اور یہ کہ اسی نے آپ کو حامی اسلام بنا رکھا تھا.لکھا:.لہذا اسی اشاعۃ السنہ کا فرض اور اس کے ذمہ یہ ایک قرض تھا کہ اس نے جیسا کہ اس کو دعاوی قدیمہ کی نظر سے آسمان پر چڑھایا تھا ویسا ہی ان دعاوی جدیدہ کی نظر سے اس کو زمین پر گرا دے اور تلافی مافات عمل میں لاوے اور جب تک یہ تلافی پوری نہ ہو لے تب تک بلاضرورت شدید کسی دوسرے مضمون سے تعرض نہ کرے.“ (اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ۱ ۳ صفحه ۴۳) اس کے بعد لاہور کے چند احباب کی خواہش پر حضرت مولوی حکیم نورالدین ۱۳ را پریل ۱۸۹۱ء کو لاہور پہنچے اور منشی امیر الدین صاحب کے مکان پر فروکش ہوئے.۱۴؍ اپریل کی صبح کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی بلایا گیا.جب وہ تشریف لائے تو حافظ محمد یوسف صاحب نے فرمایا کہ:.آپ کو اس غرض سے بلایا ہے کہ آپ مرزا صاحب کے متعلق حکیم صاحب سے گفتگو کریں مولوی محمدحسین صاحب نے کہا کہ قبل از بحث مقصود چند اصول آپ سے تسلیم کرانا چاہتا ہوں اور ان اصولوں سے متعلق گفتگو ہوئی.گفتگو کے بعد اپنے طور پر ان دوستوں نے آپ سے وفات مسیح و حیات مسیح اور یہ کہ حضرت عیسی صلیب پر نہیں مرے تھے وغیرہ امور سے متعلق باتیں سنیں اور چونکہ آپ کو واپس جانا ضروری تھا اسلئے آپ لاہور بلانے والوں سے اجازت لے کر واپس لدھیانہ پہنچ گئے.اسکی تفصیلی رپورٹ ضمیمہ پنجاب گزٹ مورخہ ۲۵ را پریل ۱۸۹۱ء میں درج ہے.۱۵ را پریل کو مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس مضمون کا تار دیا.تمہارے ڈیسائیپل (حواری) نورالدین نے مباحثہ شروع کیا اور بھاگ گیا.اس کو واپس کریں یا خود آدیں ورنہ یہ متصور ہوگا کہ اس نے شکست کھائی (اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ۲ صفحه ۴۶)
9 اس تار کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۴ را پریل کو ایک خط لکھا اور ایک خاص آدمی کے ذریعہ مولوی محمد حسین صاحب کو لاہور پہنچایا.اس خط میں آپ نے تحریر فرمایا.بات تو صرف اس قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی مدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبد الرحمن صاحب اس جگہ آئے ہوئے ہیں.میں نے ان کو دو تین روز کیلئے ٹھہرا لیا ہے تا ان کے روبرو ہم بعض شبہات آپ سے دور کرا لیں اور یہ بھی لکھا کہ اس مجلس میں ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بلا لیں گے.چنانچہ مولوی موصوف حافظ صاحب کے اصرار کی وجہ سے لاہور پہنچے اور منشی امیر الدین صاحب کے مکان پر اترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بلا لیا تھا.مولوی عبدالرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اٹھ کر چلے گئے اور جن صاحبوں نے آپ کو بلایا تھا.انہوں نے مولوی صاحب کے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی محمد حسین صاحب کا طریق بحث پسند نہیں آیا.یہ تو سلسلہ دو برس تک ختم نہیں ہوگا.آپ خود ہماے سوال کا جواب دیجئے.ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے.تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا.مولوی صاحب موصوف نے بخوبی ان کی تسلی کرا دی.یہاں تک کہ تقریر ختم ہونے کے بعد حافظ محمد یوسف صاحب نے بانشراح صدر بآواز بلند کہا کہ اے حاضرین میری تو مِنْ كُلِّ الْوُجُوه تسلی ہوگئی.اب میرے دل میں نہ کوئی شبہ اور نہ کوئی اعتراض باقی ہے.پھر بعد اس کے یہی تقریر منشی عبدالحق صاحب اور منشی الہی بخش صاحب اور منشی امیرالدین صاحب اور میر زادہ امان اللہ صاحب نے کی.اور بہت خوش ہو کر ان سب نے مولوی صاحب کا شکر یہ ادا کیا اور تہہ دل سے قائل ہو گئے کہ اب کوئی شک باقی نہیں اور مولوی صاحب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلی کرانے کیلئے آپ کو تکلیف دی تھی سو ہماری بکلی تسلی ہوگئی آپ بلا جرح
10 تشریف لے جائیے.سو انہوں نے ہی بلایا تھا اور انہوں نے ہی رخصت کیا.آپ کا تو درمیان میں قدم ہی نہ تھا.پھر آپ کا یہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کس قدر بے محل ہے.آپ خود انصاف فرماویں.جب کہ ان سب لوگوں نے کہ دیا اب ہم مولوی محمد حسین کو بلا نا نہیں چاہتے ہماری تسلی ہوگئی اور وہی تو ہیں جنہوں نے مولوی صاحب کو لدھیانہ سے بلایا تھا تو پھر مولوی صاحب آپ سے اجازت کیوں مانگتے.کیا آپ سمجھ نہیں سکتے.اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہئے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسر و چشم حاضر ہے.مگر تقریری بحثوں میں صد با طرح کا فتنہ ہوتا ہے.صرف تحریری بحث چاہئے اور وہ یوں کہ سادہ طور پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں اور لوگوں کو بآواز بلند سنا دیں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دے دیں اور پھر بعد اس کے میں بھی چار ورق پر اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سناؤں.ان دونوں پر چوں پر بحث ختم ہو جاوے.اور فریقین میں سے کوئی ایک کلمہ تک تحریری طور پر اس بحث کے بارہ میں بات نہ کرے جو کچھ ہو تحریری ہو اور پرچے صرف دو ہوں.اول آپ کی طرف سے ایک چو ورقہ جس میں آپ میرے مشہور کردہ دعوی کا قرآن کریم اور حدیث کی رو سے رد لکھیں اور پھر دوسرا پر چہ چو ورقہ اسی تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں میں اللہ جلشانہ کے فضل و توفیق سے رڈالر دیکھوں اور انہی دو پرچوں پر بحث ختم ہو جائے.اگر آپ کو ایسا منظور ہوتو میں لاہور میں آ سکتا ہوں اور انشاء اللہ امن قائم رکھنے کیلئے انتظام کرادوں گا.یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے.اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز متصور ہوگی.والسلام میرزاغلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج ۱۶ را پریل ۱۸۹۱ء مکرر یہ کہ جس قدر ورق لکھنے کیلئے آپ پسند کر لیں اسی قدر اوراق پر لکھنے کی مجھے
11 اجازت دی جاوے لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہئے کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کیلئے کافی سمجھتے ہیں اور آنمکرم اس بات کو خوب یا درکھیں کہ پرچہ صرف دو ہوں گے.اول آپ کی طرف سے میرے ان دونوں بیانات کا رد ہو گا جو میں نے لکھا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت ابن مریم در حقیقت وفات پاگئے ہیں.پھر اس رد کے رد الرد کیلئے میری طرف سے تحریر ہوگی.غرض پہلے آپ کا یہ حق ہوگا کہ جو کچھ دعوئی کے ابطال کے لئے آپ کے پاس ذخیرہ نصوص قرآنیہ و حدیث موجود ہے وہ آپ پیش کریں.پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا اور بغیر اس طریق کے جو مینی با انصاف ہے اور نیز امن رہنے کیلئے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں.اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ اخیر تحریر تصور فرماویں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روا نہ رکھیں اور بحالت انکار ہرگز ہرگز کوئی تحریر یا خط میری طرف نہ لکھیں اور اگر پوری پوری و کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو صرف اسی حالت میں جواب تحریر فرماویں ورنہ نہیں.فقط.آج ۱۶ / اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں خط بھیجا گیا ہے اور ۲۰ را پریل ۱۸۹۱ ء تک آپ کے جواب کی انتظار رہے گی.اور ۲۰ را پریل تک آپ کے جواب کی انتظار رہے گی.اگر ۲۰ / اپریل ۱۸۹۱ ء تک آپ کا خط نہ پہنچا تو یہ خط آپ کے رسالہ کے جواب میں کسی اخبار وغیرہ میں شائع کر دیا جائے گا فقط.( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۰۶،۲۰۵) مولوی محمد حسین نے اپنے جواب میں دونوں شرطیں منظور کرتے ہوئے اپنی طرف سے دو شرطیں اور بڑھا دیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ.میں قبل از مباحثہ چند اصول کی تمہید کروں اور آپ سے ان کو تسلیم کراؤں“
12 اور یہ بھی لکھا کہ آپ اپنے جملہ دعاوی کے جملہ دلائل درج کر کے مجھے لکھیں.اس خط کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدلل جواب لکھا لیکن یہ مجوزہ مباحثہ بھی نہ ہوسکا.مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کو مباحثہ کی دعوت پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۳ مئی کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں علماء کو مباحثہ کیلئے دعوت دی اور اس میں مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کو بھی مخاطب کیا اور لکھا کہ اگر آپ چاہیں تو بذات خود بحث کریں اور چاہیں تو اپنی طرف سے مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی کو بحث کیلئے وکیل مقرر کر دیں.اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان مباحثہ کیلئے خط وکتابت ہوئی.موضوع مباحثہ سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ.امر مبحوث عنہ وفات وحیات مسیح ہو گا کیونکہ اس عاجز کا دعوی اسی بناء پر ہے.جب بنا ٹوٹ جاوے گی تو یہ دعویٰ خود بخود ٹوٹ جاوے گا.“ مولوی محمد حسن کا جواب مولوی محمد حسن صاحب نے حسب مشورہ مولوی محمد حسین بٹالوی یہ جواب دیا کہ." آپ کے اشتہار میں وفات مسیح اور اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے.لہذا میں یہ چاہتا ہوں کہ پہلے آپ کے مسیح موعود ہونے میں بحث ہو.پھر حضرت ابن مریم کے فوت ہونے میں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرمایا کہ:.اصل امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات ہے.اور میرے الہام میں بھی یہی اصل دیا گیا ہے کہ.
13 مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.“ سو پہلا اور اصل امر میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اب ظاہر ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح علیہ السلام کا زندہ ہونا ثابت کر دیں تو جیسا کہ پہلا فقرہ الہام اس سے باطل ہو گا ایسا ہی دوسرا فقرہ بھی باطل ہو جائے گا.کیونکہ خدا تعالی نے میرے دعوی کی شرط مسیح کا فوت ہونا بیان فرمایا ہے.میں اقرار کرتا ہوں اور حلفاً کہتا ہوں کہ اگر آپ مسیح علیہ السلام کا زندہ ہونا ثابت کر دیں گے تو میں اپنے دعوی سے دستبردار ہو جاؤں گا اور الہام کو شیطانی القاء سمجھ لوں گا اور تو بہ کروں گا.اس کے بعد بھی شرائط سے متعلق گفتگو ہوتی رہی اور مولوی محمد حسن صاحب نے یہ شرط بھی ضروری ٹھہرائی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی گفتگو سے پہلے چند اصول آپ سے تسلیم کرائیں گے.بعض نامور علماء کو بحث کا چیلنج اسی سلسلہ کی خط و کتابت کے دوران حضور نے ۲۳ مئی ۱۸۹۱ کو نامور علماء کو بحث کیلئے چیلنج دیتے ہوئے ایک اور اشتہار شائع کیا.اس اشتہار میں آپ نے مولوی عبدالعزیز لدھیانوی، مولوی محمد صاحب، مولوی مشتاق احمد صاحب، مولوی شاہدین صاحب، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی محمد حسن صاحب اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو وفات وحیات مسیح پر بحث کی دعوت دیتے ہوئے درج ذیل شرائط بیان فرمائیں.اب بحث کا آسان طریق جس کا اوپر ذکر کر آئے ہیں یہ ہے جو شرائط ذیل میں مندرج ہے.۱.یہ کہ کسی رئیس کا مکان اس بحث کیلئے تجویز ہو جیسے نواب محمد علی خان صاحب، شہزادہ نادر شاہ صاحب، خواجہ احسن شاہ صاحب اور جلسہ بحث میں کوئی افسر یورپین
14 تشریف لاویں اور اگر یورپین افسر نہ ہوں تو کوئی ہند و مجسٹریٹ ہی ہوں تا ایسا شخص کسی کا طرفدار نہ ہو.۲.یہ کہ فریقین کے سوال و جواب لکھنے کیلئے کوئی ہند و منشی تجویز کیا جائے جو خوشخط ہو.ایک فریق اول اپنا سوال مفصل طور لکھا دیوے.پھر دوسرا فریق مفصل طور پر اُس کا جواب لکھا دیوے.چند سوال میں فریق ثانی سائل ہو اور یہ عاجز مجیب اور پھر چند سوال میں یہ عاجز سائل ہوا اور فریق ثانی مجیب اور ہر یک فریق کو ایک گھنٹہ تک تحریر کا اختیار ہو.سوال جواب کی تعداد برابر ہو اور ہمیں وہی تعداد اور اسی قدر وقت منظور ہے جو فریق ثانی منظور کرے.۳.سوال و جواب میں خلط مبحث نہ ہو اور نہ کوئی خارجی نکتہ چینی اور غیر متعلق امر ان میں پایا جائے.اگر کوئی ایسی تقریر ہو تو وہ ہرگز نہ کھی جائے بلکہ اس بیجا بات سے ایسی بات کرنے والا موردالزام ٹھہرایا جائے.۴.ان سوالات و جوابات کے قلمبند ہونے کے بعد دوبارہ عوام کو وہ سب باتیں سنادی جائیں اور وہی لکھنے والا سنا دیوے.اور اگر یہ منظور نہ ہو تو فریقین میں سے ہر یک شخص اپنے ہاتھ میں پر چہ لے کر سنا دیوے.۵.ہر ایک فریق ایک ایک نقل اس تحریر کی اپنے دستخط سے اپنے مخالف کو دے دیوے.۶.آٹھ سے دس بجے تک یہ جلسہ بحث ہوسکتا ہے.اگر اس سے زیادہ بھی چاہیں تو وہ منظور ہے.مگر بہر حال نماز ظہر کے وقت یہ جلسہ ختم ہو جانا چاہئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو اختیار ہے کہ بطور خود اس جلسہ میں تشریف لاویں اور اگر دوسرے ان کی وکالت کو منظور کریں تو وہی
15 بحث کیلئے آگے قدم بڑھا دیں.ہمیں بہر حال منظور ہے.اور تحریر کی اس لئے ضرورت ہے کہ تا بیانات فریقین تحریف سے محفوظ رہیں اور اس قدر مغز خوری کے بعد اظہارحق کی کوئی سند اپنے پاس ہو.ورنہ اگر نری زبانی باتیں ہوں اور پیچھے سے خیانت پیشہ لوگ کچھ کا کچھ بنا دیں تو ان کا منہ بند کر نے کیلئے کون سی حجت یا سند ہمارے پاس ہوگی.والسلام علی من اتبع الھدی.مکرر واضح ہو کہ جلسہ بحث عید سے دوسرے دن قرار پانا چاہئے تا بوجہ تعطیل کے ملازمت پیشہ لوگ بھی حاضر ہو سکیں اور دور سے آنے والے بھی پہنچ سکیں یا جیسے مولوی صاحبان تجویز کریں.المشتهر خاکسار میرزاغلام احمد ود دیانہ محلہ اقبال گنج ۲ مئی ۱۸۹۱ء ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۷۳۲۷۲) مولوی احمد اللہ کو مناظرہ کی دعوت حضرت اقدس جولائی ۱۸۹۱ء کو امرتسر کے بعض رؤساء کی خواہش پر امرتسر تشریف لے گئے.وہاں اہلحدیث کے دو گروہ بن چکے تھے.ایک فریق مولوی احمد اللہ صاحب کا تھا اور دوسرا غزنویوں کا.حضرت اقدس نے بتاریخ کے جولائی ۱۸۹۱ء مولوی احمد اللہ صاحب کو بشرط قیام امن تحریری مناظرہ کی دعوت دی.مگر مولوی صاحب اس پر آمادہ نہ ہوئے.نتیجہ یہ نکلا کہ مولوی صاحب کی جماعت کے چند افراد حضرت اقدس کی بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.ان داخل ہونے والوں میں حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب، حضرت میاں نبی بخش صاحب رفوگر اور حضرت مولوی عنایت اللہ صاحب خاص طور قابل ذکر ہیں.
16 مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ مناظرہ ان حضرات کا سلسلہ میں داخل ہونا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب مباحثہ کیلئے مجبور ہو گئے.چنانچہ جب حضرت اقدس امرتسر سے لدھیانہ تشریف لے گئے تو ۲۰ / جولائی ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس کی جائے قیام پر ہی مباحثہ کا آغاز ہوا.اس مباحثہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی کے علاوہ کپورتھلہ اور ضلع لدھیانہ کی جماعتوں کے احباب خاص طور پر شریک تھے.یہ مباحثہ بارہ دن تک جاری رہا اور آخری پر چہ ۳۱ / جولائی کو سنایا گیا جس پر یہ مباحثہ ختم ہوا.یہ مباحثہ انہی تمہیدی امور پر ہوتا رہا جو مولوی محمد حسین صاحب منوانا چاہتے تھے.اور اصل موضوع حیات و وفات مسیح پر بحث سے بچنے کیلئے مولوی صاحب موصوف ان تمہیدی امور بحث کو طول دیتے چلے گئے.امر زیر بحث یہ رہا کہ حدیث کا مرتبہ بحیثیت حجت شرعیہ ہونے کے قرآن مجید کی طرح ہے یا نہیں اور یہ بخاری اور مسلم کی احادیث سب کی سب صحیح ہیں اور قرآن مجید کی طرح واجب العمل ہیں یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار یہی جواب دیا کہ میرا مذہب یہ ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے.جس امر میں حدیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تو وہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے.لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ کے مخالف واقع ہوں گے تو ہم حتی الوسع اس کی تطبیق اور توفیق کیلئے کوشش کریں گے.اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو اس حدیث کو ترک کر دیں گے.اور ہر مومن کا یہی مذہب ہونا چاہئے کہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شرطی طور پر حجت شرعی قرار دیوے.مگر مولوی محمد حسین صاحب اس موقف کی تردید کرتے چلے گئے اور کہتے گئے کہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا اور اپنا مذہب یہ بیان کیا کہ صحیحین کی تمام احادیث قطعی طور پر صیح اور بلا وقفہ و بلا شرط و بلا تفصیل واجب العمل والاعتقاد ہیں.اور مسلمانوں کو مومن بالقرآن ہونا
17 یہی سکھاتا ہے کہ جب کسی حدیث کی صحت بقوانین روایت ثابت ہو تو اس کو قرآن مجید کی مانند واجب العمل سمجھیں.جب حدیث صحیح خادم و مفسر قرآن اور وجوب عمل میں مثل قرآن ہے تو پھر قرآن اس کی صحت کا حکم و معیار محکم کیونکر ہوسکتا ہے.پس سنت قرآن پر قاضی ہے اور قرآن سنت کا قاضی نہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ.قرآن مجيد الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ کا تاج لازوال اپنے سر پر رکھتا ہے اور تِبْيَانًا لِكُلِّ شیء کے وسیع اور مرقع تخت پر جلوہ گر ہے.“ آخری پرچہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ مولوی محمد حسین صاحب اصل موضوع مباحثہ یعنی حیات و وفات مسیح سے گریز کر رہے ہیں اور نکمی اور فضول اور بے تعلق باتوں میں وقت ضائع کیا ہے.اب ان تمہیدی امور میں زیادہ طول دینا ہرگز مناسب نہیں.ہاں اگر مولوی صاحب نفس دعوی میں جو میں نے کیا ہے بالمقابل دلائل پیش کرنے سے بحث چاہیں تو میں حاضر ہوں.آسمانی نشان دکھانے کی دعوت اور فرمایا کہ میں ان کے مقابل پر اس طرز فیصلہ کیلئے راضی ہوں کہ چالیس دن مقرر کئے جائیں اور ہر ایک فریق خدا تعالی سے کوئی آسمانی خصوصیت اپنے لئے طلب کرے.جو شخص اس میں صادق نکلے اور بعض مغیبات کے اظہار میں خدا تعالیٰ کی تائید اس کے شامل حال ہو جائے وہی سچا قرار پائے.آخر پر فرمایا.”اے حاضرین اس وقت اپنے کانوں کو میری طرف متوجہ کرو کہ میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مولوی محمد حسین صاحب چالیس دن تک میرے مقابل پر خدا تعالی کی طرف توجہ کر کے وہ آسمانی نشان یا اسرار غیب دکھلاسکیں جو میں دکھلا سکوں تو میں قبول کرتا ہوں کہ جس ہتھیار سے چاہیں مجھے ذبح کر دیں اور جو تاوان چاہیں
18 میرے پر لگا دیں.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.“ اس پر یہ مباحثہ ختم ہو گیا.مولوی رشید احمد گنگوہی کو مباحثہ کی دعوت ان حالات میں جب ہر جگہ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اکسایا اور بھڑ کا یا جار ہا تھا حضور چاہتے تھے کہ کسی با رسوخ اور با اثر عالم سے آپ کا حیات و وفات مسیح اور آپ کے دعاوی پر مباحثہ ہو جائے تا عامتہ الناس کو حق و باطل میں امتیاز کا موقعہ مل سکے.اس لئے آپ نے تمام علماء کو بذریعہ اشتہار دعوت مناظرہ دی.مولوی رشید احمد گنگوہی ضلع سہارنپور میں ایک بہت بڑے عالم اور فقیہ اور محدث خیال کئے جاتے تھے اور انہیں گروہ مقلدین میں وہی مرتبہ اور مقام حاصل تھا جو مولوی سید نذیر حسین صاحب کو اہل حدیث گروہ میں تھا.وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباحثہ کرنے میں پہلو تہی کرتے رہے.پیر سراج الحق نعمانی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص مرید تھے اور لدھیانہ میں حضور کی خدمت میں حاضر تھے اور مولوی رشید احمد گنگوہی کے ہم زلف بھی تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد گنگوہی کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کیلئے آمادہ ہوں.چنانچہ پیر صاحب اور ان کے درمیان خط و کتابت ہوئی.حیات و وفات مسیح پر وہ بھی بحث کیلئے تیار نہ ہوئے اور لکھا کہ بحث نزول مسیح میں ہوگی اور تحریری نہیں بلکہ صرف زبانی ہوگی.لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوگی.اور حاضرین میں سے جس کے جی میں جو آوے رفع شک کے لئے بولے گا.اور بحث کا مقام سہارنپور ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سہارنپور جانا بھی منظور فرمالیا اور لکھوایا کہ حفظ امن کیلئے آپ سرکاری انتظام کر لیں.جس میں کوئی یورپین افسر ہو اور انتظام کر کے ہمیں لکھ بھیجیں.ہم تاریخ مقررہ پر آجائیں گے.تحریری مباحثہ کا جھگڑا حاضرین کی
19 کثرت رائے پر فیصلہ کیا جائے گا.اگر آپ تشریف لاتے تو ہم آپ کے اخراجات اور حفظ امن کیلئے سرکاری انتظام کے بھی ذمہ دار ہوتے.مولوی رشید احمد صاحب نے لکھا کہ انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہوسکتا.اس پر ان کو دو تین خطوط لکھے گئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر د ہلی اس کے بعد حضور لدھیانہ سے قادیان تشریف لے گئے.جب پنجاب کے علماء ایسے مباحثہ کیلئے تیار نہ ہوئے جس سے عامتہ الناس حق و باطل میں امتیاز کرسکیں تو حضور نے دہلی جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا کیونکہ دبلی اس وقت علم دین کے لحاظ سے ایک علمی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا اور وہاں مولوی نذیرحسین صاحب جو علماء اہلحدیث کے استاد اور شیخ الکل کہلاتے تھے اور شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب مولف تفسیر حقانی وغیرہ علماء رہتے تھے.آپ نے خیال فرمایا کہ شاید وہاں اتمام حجت اور عام لوگوں کو حق معلوم کرنے کا موقع مل جائے.اس لئے آپ قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے جہاں ایک ہفتہ قیام فرما کر اپنے مخلص اصحاب سمیت عازم دہلی ہوئے اور کوٹھی نواب لوہارو بازار بلی ماراں میں قیام فرما ہوئے.اور ۲ /اکتوبر ۱۸۹۱ء کو آپ نے ایک اشتہار بعنوان ذیل شائع کیا.مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد عبد الحق صاحب کو مباحثہ کی دعوت ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانان انصاف شعار و حضرت علماء نامدار اگر حضرت سید مولوی محمد نذیرحسین صاحب یا جناب مولوی محمد عبد الحق صاحب مسئلہ وفات مسیح میں مجھے مخفی خیال کرتے ہیں یا ملحد اور ماً ول تصور فرماتے ہیں اور میرے قول کو خلاف قال الله قال الرسول گمان کرتے ہیں تو حضرت موصوف پر فرض ہے کہ
20 عامہ خلائق کو فتنہ میں پڑنے سے بچانے کیلئے اس مسئلہ میں اسی شہر دہلی میں میرے ساتھ بحث کر لیں.بحث میں صرف تین شرطیں ہوں گی.اول یہ کہ امن قائم رہنے کے لئے وہ خود سرکاری انتظام کروا دیں.یعنی ایک افسر انگریز مجلس بحث میں موجود ہوں.کیونکہ میں مسافر ہوں اور اپنی عزیز قوم کا مورد عتاب اور ہر طرف سے اپنے بھائیوں مسلمانوں کی زبان سے سب اور لعن طعن اپنی نسبت سنتا ہوں.اور جو شخص مجھ پر لعنت بھیجتا ہے اور مجھے دجال کہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ آج میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے.لہذا میں بجز سرکاری افسر کے درمیان میں ہونے کے اپنے بھائیوں کی اخلاقی حالت پر مطمئن نہیں ہوں کیونکہ کئی مرتبہ تجربہ کر چکا ہوں.ولا يلدغ المومن من جحر واحد مرتين.دوسرے یہ کہ فریقین کی بحث تحریری ہو.ہر ایک فریق مجلس بحث میں اپنے ہاتھ سے سوال لکھ کر اور اس پر اپنے دستخط کر کے پیش کرے اور ایسا ہی فریق ثانی لکھ کر جواب دیوے کیونکہ زبانی بیانات محفوظ نہیں رہ سکتے اور نقل مجلس کرنے والے اپنے اعتراض کی حمایت میں اس قدر حاشیے چڑھا دیتے ہیں کہ تحریف کلام میں یہودیوں کے بھی کان کاٹتے ہیں.اس صورت میں تمام بحث ضائع ہو جاتی ہے اور جو لوگ مجلس بحث میں حاضر نہیں ہو سکتے ان کو رائے لگانے کیلئے کوئی صحیح بات ہاتھ نہیں آتی.ماسوا اس کے صرف زبانی بیان میں اکثر مخاصم بے اصل اور کچھی باتیں منہ پر لاتے ہیں.لیکن تحریر کے وقت وہ ایسی باتوں کے لکھنے سے ڈرتے ہیں تا وہ اپنی خلاف واقعہ تحریر سے پکڑے نہ جائیں اور ان کی علمیت پر کوئی دھبہ نہ لگے.تیسری شرط یہ کہ بحث وفات حیات مسیح میں ہو.اور کوئی شخص قرآن کریم اور کتب حدیث سے باہر نہ جائے.مگر صحیحین کو تمام کتب حدیث میں مقدم رکھا جائے اور بخاری کو مسلم پر کیونکہ وہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے.اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ
21 اگر مسیح ابن مریم کی حیات طریقہ مذکورہ بالا سے جو واقعات صحیحہ کے معلوم کرنے کیلئے ہیں خیر الطرق ہے ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دست بردار ہو جاؤں گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہرتا.پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے.بلکہ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسی میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا اور ان تمام نشانوں کی پروا نہیں کروں گا جو میرے اس دعوے کے مصدق ہیں.کیونکہ قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی حجت نہیں.وَمَا عِنْدَنَا شَيْءٌ إِلَّا كِتَابَ اللهِ وَإِنْ أَنْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى لِلَّهِ وَالرَّسُوْلِ.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُوْنَ میں ایک ہفتہ تک اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد حضرات موصوفہ کے جواب باصواب کا انتظار کروں گا.اور اگر وہ شرائط مذکورہ بالا کو منظور کر کے مجھے طلب کریں تو جس جگہ چاہیں حاضر ہو جاؤں گا.والسلام علی من اتبع الھدی.اور کتاب ازالہ اوہام کے خریداروں پر واضح ہو کہ میں بلی ماروں کے بازار میں کوٹھی لوہارو والی میں فروکش ہوں اور ازالہ اوہام کی جلدیں میرے پاس موجود ہیں.جو صاحب تین روپیہ قیمت داخل کریں وہ خرید سکتے ہیں.güns خاکسار غلام احمد قادیان حال وارد دهلی بازار بلیما راں کوٹھی نواب لوہارو.۲/اکتوبر ۱۸۹۱ء مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۳۴ تا ۲۳۶)
22 مولوی عبدالحق کی مناظرہ سے معذرت اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد مولوی عبدالحق صاحب تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کر کے معذرت کر گئے کہ میں ایک گوشہ نشین آدمی ہوں اور ایسے جلسوں سے جن میں عوام کے نفاق و شقاق کا اندیشہ ہو طبعا کارہ ہوں.چونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی دہلی پہنچ کر فخریہ انداز میں اپنی علمیت اور فضیلت کا اعلان کر رہا تھا اور ایک اشتہار میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھا کہ :.”یہ میرا شکار ہے کہ بدقسمتی سے پھر دہلی میں میرے قبضہ میں آ گیا ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ بھاگا ہوا شکار پھر مجھے مل گیا.“ اور لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑ کا تارہا.اس پر حضرت اقدس نے ۴ را کتوبر۱۸۹ء کو ایک اشتہار بمقابل مولوی نذیرحسین صاحب سرگروہ اہلحدیث“ شائع کیا.اس میں آپ نے مولوی عبدالحق صاحب کو چھوڑتے ہوئے مولوی سید نذیرحسین صاحب اور ان کے شاگرد بٹالوی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا.مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگرد بٹالوی صاحب جواب دہلی میں موجود ہیں ان کاموں میں اول درجہ کا شوق رکھتے ہیں.لہذا اشتہار دیا جاتا ہے کہ اگر ہر دو مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح ابن مریم کو زندہ سمجھنے میں حق پر ہیں اور قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے زندگی ثابت کر سکتے ہیں تو میرے ساتھ بپابندی کے ساتھ شرائط مندرجہ اشتہار ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ ء بالاتفاق بحث کر لیں.اور اگر انہوں نے بقبول شرائط مندرجہ اشتہار ۲ را کتوبر ۱۸۹۱ء بحث کیلئے مستعدی ظاہر نہ کی اور پوچ اور بے اصل بہانوں سے ٹال دیا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کی وفات کو قبول کر لیا ہے.بحث میں امر تنقیح طلب یہ ہوگا کہ آیا قرآن کریم اور احادیث صحیحہ
23 نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہی مسیح ابن مریم جس کو انجیل ملی تھی اب تک آسمان پر زندہ ہے اور آخری زمانہ میں آئے گا.یا یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت فوت ہو چکا ہے اور اس کے نام پر کوئی دوسرا اسی امت میں سے آئے گا.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہی مسیح ابن مریم بجسده العنصری آسمان پر موجود ہے تو یہ عاجز دوسرے دعوے سے خود دست بردار ہو جائے گا ورنہ بحالت ثانی بعد اس اقرار کےلکھانے کے درحقیقت اسی امت میں سے مسیح ابن مریم کے نام پر کوئی اور آنے والا ہے.یہ عاجز اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت دے گا.اور اگر اشتہار کا جواب ایک ہفتہ تک مولوی صاحب کی طرف سے شائع نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے گریز کی.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۳۹،۲۳۸) ۶ اکتوبر ۱۸۹۱ء کے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد مولوی سید نذیرحسین صاحب کے شاگردوں نے خود ہی ایک تاریخ معین کر کے ایک اشتہار شائع کر دیا کہ فلاں تاریخ کو بحث ہوگی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی اطلاع ہی نہ دی.اور بحث کے روز مقررہ وقت پر حضرت اقدس کے پاس آدمی بھیج دیا کہ بحث کیلئے چلئے.مولوی نذیر حسین صاحب مباحثہ کیلئے آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور دوسری طرف حضور کے خلاف لوگوں کو سخت بھڑ کا یا گیا تھا اور جلسہ کی غرض بھی بلوہ کر کے حضور علیہ السلام کو ایذاء پہنچا نا تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے حالات میں بغیر شرائط طے کئے جلسہ میں شامل نہ ہو سکتے تھے اور نہ ہوئے اور لوگوں میں یہ مشہور کر دیا گیا کہ مرزا صاحب بحث میں حاضر نہیں ہوئے اور گریز کر گئے ہیں اور شیخ الکل صاحب سے ڈر گئے ہیں.تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۷ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار بدیں عنوان شائع کیا.
24 مولوی سید نذیر حسین دہلوی کو قسم کھانے کا چیلنج اللہ جل شانہ کی قسم دے کر مولوی سید نذیرحسین صاحب کی خدمت میں بحث حیات و ممات مسیح ابن مریم کیلئے درخواست:.بالآخر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی طرح سے بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سن کر اللہ جل شانہ کی تین مرتبہ قسم کھا کر کہہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں.اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زنده بجسده العنصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور آیات قرآنی اپنی صریح دلالت سے اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ اپنے کھلے کھلے منطوق سے اسی پر شہادت دیتی ہے.اور میرا عقیدہ یہی ہے.تب میں آپ کی اس گستاخی اور حق پوشی اور بد دیانتی اور جھوٹی گواہی کے فیصلہ کیلئے جناب الہی میں تضرع اور ابتہال کروں گا.اور چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہو چکا ہے کہ ادْعُونِي اسْتَجِبْ لَكُم اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ تقویٰ کا طریق چھوڑ کر ایسی گستاخی کریں گے اور آیت لا تقف مالیس لک به علم کو نظر انداز کر دیں گے تو ایک سال تک اس گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا اثر پڑے گا جو دوسروں کیلئے بطور نشان کے ہو جائے گا.لہذا مظہر ہوں کہ اگر بحث سے کنارہ ہے تو اسی طور سے فیصلہ کر لیجئے تا وہ لوگ جو نشان نشان کرتے ہیں ان کو خدا تعالی کوئی نشان دکھا دیوے.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حلفی اقرار دربارہ ادائے پچیس روپیہ فی حدیث اور فی آیت اور بالآ خر مولوی سید نذیر حسین صاحب کو یہ بھی واضح رہے کہ اگر وہ اپنے اس عقیدہ کی تائید میں جو حضرت مسیح ابن مریم بجسده العنصر کی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے آیات صریح ببینہ
25 قطعية الدلالت و احادیث صحیحہ متصله مرفوعه مجلس مباحثہ میں پیش کر دیں اور جیسا کہ ایک امر کو عقیدہ قرار دینے کیلئے ضروری ہے یقینی اور قطعی ثبوت صعود جسمانی مسیح ابن مریم کا جلسہ عام میں اپنی زبان مبارک سے بیان فرماویں تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار شرعی کرتا ہوں کہ فی آیت وفی حدیث پچپیس رو پیدان کی نذر کروں گا.الناصح المشفق المشتهر المعلن مرزا غلام احمد قادیانی ( سرہند دہلی ) ۱۷ راکتو برا ۱۸۹ء ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۴۹٬۲۴۸) جامع مسجد دہلی میں مناظرہ اس اشتہار کے بعد ۲۰ / اکتوبر کو جامع مسجد دہلی میں انعقاد مجلس کا ہونا قرار پایا.اور حفظ امن کیلئے پولیس کا بھی انتظام ہو گیا.چنانچہ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام معہ اپنے بارہ اصحاب کے جامع مسجد دہلی بیچ کے محراب میں جا بیٹھے.جامع مسجد میں اس روز ایک بے پناہ ہجوم تھا.ایک سو سے زائد پولیس کے سپاہی اور ان کے ساتھ ایک یورپین افسر بھی آگئے.پھر مولوی سید نذیر حسین صاحب مع مولوی بٹالوی صاحب تشریف لائے جنہیں ان کے شاگردوں نے ایک دالان میں جا بٹھایا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ الکل کو رقعہ بھیجا کہ مطابق اشتہارے ار اکتو بر مجھ سے بحث کریں یا قسم کھا لیں کہ میرے نزدیک مسیح ابن مریم کا زندہ بجسد عصری اٹھایا جانا قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بینہ سے ثابت ہے.اس قسم کے بعد اگر ایک سال تک اس حلف دروغی کے اثر بد سے محفوظ رہیں تو میں آپ کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.لیکن شیخ الکل صاحب نے دونوں طریقوں میں سے کسی کو منظور نہ کیا اور حیات و وفات مسیح پر بحث کرنے سے قطعی طور پر انکار کر دیا اور اپنے آدمیوں کی معرفت سٹی مجسٹریٹ کو کہلا بھیجا کہ یہ شخص عقائد اسلام سے منحرف ہے.جب تک یہ شخص اپنے عقائد کا ہم سے تصفیہ نہ کرے ہم
26 وفات و حیات مسیح کے بارہ میں ہرگز بحث نہ کریں گے.یہ تو کافر ہے کیا کافروں سے بحث کریں؟ اس جلسہ میں خواجہ محمد یوسف صاحب رئیس وکیل آنریری مجسٹریٹ علیگڑھ بھی موجود تھے.انہوں نے حضور سے کہا کہ یہ عقاید آپ کی طرف از راہ افتراء منسوب کئے جاتے ہیں تو مجھے ایک پرچہ پر یہ سب باتیں لکھ دیں.چنانچہ آپ نے اپنے عقائد کے بارہ میں ایک پر چہ لکھ دیا اور خواجہ صاحب کو دے دیا جسے انہوں نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بلند آواز سے سنایا اور تمام معزز حاضرین جونزدیک تھے سن لیا.الغرض شیخ الکل اپنی ضد سے باز نہ آئے اور حیات و وفات مسیح پر بحث کرنے سے انکار کرتے رہے.تب سپر نٹنڈنٹ پولیس نے اس کشمکش سے تنگ آ کر اور لوگوں کی وحشیانہ حالت اور کثرت عوام کو دیکھ کر خیال کیا کہ بہت دیر تک انتظار کرنا اچھا نہیں.لہذا عوام کی جماعت کو منتشر کرنے کیلئے حکم سنایا گیا کہ بحث نہیں ہوگی لہذا آپ چلے جائیں.اس کے بعد پہلے مولوی نذیر حسین صاحب مع اپنے رفقاء کے مسجد سے باہر نکلے اور بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اصحاب نکلے.مولوی نذیر حسین دہلوی کو مباحثہ کا تیسرا چیلنج اس کے بعد ۲۳ /اکتوبر ۱۸۹۱ء کو پھر حضرت اقدس نے مولوی نذیرحسین دہلوی کو بحث کرنے کیلئے درج ذیل اشتہار دیا.”اے مولوی نذیر حسین صاحب! آپ نے اور آپ کے شاگردوں نے دنیا میں شور ڈال دیا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز دعوئی مسیح موعود ہونے میں مخالف قرآن و حدیث بیان کر رہا ہے.اور ایک نیا مذ ہب و نیا عقیدہ نکلا ہے جو سراسر مغائر تعلیم اللہ و رسول اور یہ بداہت باطل ہے.کیونکہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ بجسده العنصری آسمان پر اٹھائے گئے اور پھر کسی وقت آسمان پر سے
27 زمین پر تشریف لائیں گے.اور ان کا فوت ہو جانا مخالف قرآن وحدیث قرار دے دیا ہے جس کی وجہ سے ہزار ہا مسلمانوں میں بدظنی کا فتنہ برپا ہوگیا ہے.لہذا آپ پر فرض ہے کہ مجھ سے اس بات کا تصفیہ کر لیں کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے میں میں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا ہے یا آپ ہی چھوڑ بیٹھے ہیں اور اس قدر تو میں خود مانتا ہوں کہ اگر میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا مخالف نصوص بینہ قرآن وحدیث ہے اور دراصل حضرت عیسی ابن مریم آسمان پر زندہ بجسده العنصری موجود ہیں جو پھر کسی وقت زمین پر اتریں گے تو گو یہ میرا دعویٰ ہزار الہام سے موئید اور تائید یافتہ ہو اور گونہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسمانی نشان اس کی تائید میں دکھاؤں تا ہم وہ سب بیچ ہیں کیونکہ کوئی امر اور دعوئی اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیح مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں.اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ حضرت ایک جلسہ بحث مقرر کر کے میرے دلائل پیش کردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پیش کریں اور آیات صریحہ بینہ قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا بجسده العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں آپ کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور تمام کتا ہیں جو اس مسئلے کے متعلق تالیف کی ہیں جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی توجہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دے دوں گا.وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى كَاذِبِ يُخْفِي فِي قَلْبِهِ مَا يُخَالِفُ بَيَانَ لِسَانِهِ.مگر یہ بھی یادر کھیئے کہ اگر آپ ہی مغلوب ہو گئے اور کوئی صریحہ الدلالت آیت اور حدیث صحیح مرفوع متصل پیش نہ کر سکے تو آپ کو بھی اپنے اس انکار شدید سے تو بہ کرنی پڑے گی.وَاللهُ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۴۲۲۴۱) 66
28 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کی غیرت کو ہر طرح جوش دلایا کہ تا وہ بحث کیلئے میدان میں اتریں.مگر مولوی صاحب مختلف حیلوں بہانوں سے ہمیشہ بحث کرنے سے گریز کرتے رہے.مولوی محمد بشیر صاحب بھو یالوی سے مباحثہ جب شیخ الکل مولوی نذیر حسین دہلوی اور دوسرے علماء کا ”حیات و وفات مسیح پر مباحثہ کرنے سے انکار اور فرار سب لوگوں پر واضح ہو گیا تو دہلی والوں نے مولوی محمد بشیر بھوپالوی کو جو ان دنوں بھوپال میں ملازم تھے مباحثہ کیلئے بلایا.جس نے خلاف مرضی شیخ الکل اور مولوی محمد حسین بٹالوی اور دیگر علماء حیات و وفات مسیح پر بحث کرنا منظور کر لیا اور انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ان کی شکست ہماری شکست متصور نہ ہوگی.یہ مباحثہ ۲۳/اکتوبر ۱۸۹۱ء کو بعد نماز جمعہ شروع ہوا.تین پرچے مولوی محمد بشیر صاحب نے لکھے اور تین ہی حضرت اقدس نے لکھے.فریقین کے پرچے الحق مباحثہ دہلی“ کے نام سے چھپے ہوئے ہیں اور مسئلہ حیات و وفات مسیح ناصری کی تحقیق کے لئے مشعل راہ کا کام دے سکتے ہیں.جو شخص بھی مباحثہ دہلی کو بغور پڑھے گا اس پر صاف کھل جائے گا کہ علماء کے ہاتھ میں حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے کوئی قطعی دلیل نہیں نہ کوئی آیت اور نہ کوئی صحیح حدیث اور یہ مباحثہ اللہ کے فضل سے بہت لوگوں کی ہدایت کا باعث ثابت ہوا.میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کو مناظرہ کا چوتھا چیلنج چونکہ میاں نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگردمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر علماء دہلی نے ”حیات و وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث کرنے سے انکار کیا اور میاں سید نذیرحسین صاحب نے بحث ٹالنے کے لئے بار بار یہی عذر کیا کہ آپ کا فر ہیں اور مسلمان نہیں تو آپ نے
29 دسمبر ۱۸۹۱ء میں رسالہ آسمانی فیصلہ لکھا.جس میں خاص طور پر میاں نذیر حسین صاحب کو پھر تحریری بحث کیلئے دعوت دی اور فرمایا کہ اگر وہ لاہور آ سکیں تو ان کے آنے جانے کا کرایہ بھی ادا کروں گا ورنہ دہلی میں بیٹھے ہوئے اظہار حق کیلئے تحریری بحث کر لیں میاں صاحب کو بحث کیلئے میں اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ شیخ الکل ہیں اور لوگوں کے خیال میں سب سے علم میں بڑھے ہوئے ہیں اور علماء ہند میں بیخ کی طرح ہیں.اور کچھ شک نہیں کہ پیج کے کاٹنے سے تمام شاخیں خود بخودگریں گی.چنانچہ آپ نے فرمایا.میں اسی طرح بحث وفات مسیح کیلئے اب پھر حاضر ہوں جیسا کہ پہلے حاضر تھا.اگر میاں صاحب لاہور میں آکر بحث منظور کریں تو میں ان کی خاص ذات کا کرایہ آنے جانے کا خود دے دوں گا.اگر آنے پر راضی ہوں تو میں ان کی تحریر پر بلا توقف کرایہ پہلے روانہ کر سکتا ہوں.اب میں دہلی میں بحث کیلئے جانا نہیں چاہتا کیونکہ دہلی والوں کے شور و غوغا کو دیکھ چکا ہوں اور ان کی مفسدانہ اور اوباشانہ باتیں سن چکا ہوں وَلَا يُدَعُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ.میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر میں بحث وفات مسیح سے گریز کروں تو میرے پر بوجہ صد عن سبیل اللہ خدائے تعالیٰ کی ہزار لعنت ہو.اور اگر شیخ الکل صاحب گریز کریں تو ان پر اس سے آدھی ہی سہی اور اگر وہ حاضر ہونے سے روگردان ہیں تو میں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ اپنی جگہ پر ہی بذریعہ تحریرات اظہار حق کیلئے بحث کر لیں غرض میں ہر طرح سے حاضر ہوں اور میاں صاحب کے جواب باصواب کا منتظر ہوں میں زیادہ تر گرمجوشی سے میاں صاحب کی طرف اسلئے مستعد ہوں کہ لوگوں کے خیال میں ان کی علمی حالت سب سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ علمائے ہند میں بیخ کی طرح ہیں.اور کچھ شک نہیں کہ پیج کے کاٹنے سے تمام شاخیں خود بخود کریں گی سو مجھے بیج ہی کی طرف متوجہ ہونا
30 چاہئے اور شاخوں کا قصہ خود بخود تمام ہو جائے گا اور اس بحث سے دنیا پر کھل جائے گا کہ شیخ الکل صاحب کے پاس مسیح کی جسمانی زندگی پر کون سے دلائل یقینیہ ہیں جن کی وجہ سے انھوں نے عوام الناس کو سخت درجہ کے اشتعال میں ڈال رکھا ہے.مگر یہ پیشگوئی بھی یا درکھو کہ وہ ہرگز بحث نہیں کریں گے.اور اگر کریں گے تو ایسے رسوا ہوں گے کہ منہ دکھانے کی جگہ نہیں رہے گی.ہائے مجھے ان پر بڑا افسوس ہے کہ انھوں نے چند روز زندگی کے ننگ و ناموس سے پیار کر کے حق کو چھپایا اور راستی کو ترک کر کے ناراستی سے دل لگایا.“ آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۱۶) اس چیلنج کے ساتھ حضور نے دوسرا چیلنج یہ بھی دیا کہ چونکہ انہوں نے میرے اعلانات کو کہ میں مومن مسلمان ہوں کوئی وقعت نہیں دی اس لئے اب مولوی نذیرحسین صاحب اور ان کی جماعت کے لوگ بٹالوی وغیرہ علماء ان علامات کے اظہار کیلئے مجھ سے مقابلہ کرلیں جو قرآن کریم اور احادیث میں کامل مومن کی بتائی گئی ہیں.لیکن کسی کو بھی اس کیلئے سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی.مولوی اسحق صاحب کو مسئلہ وفات و حیات مسیح پر بحث کرنے کی دعوت ۳۰ / اکتوبر ۱۸۹۱ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان پر مولوی محمد اسحق صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مابین ”مسئلہ وفات وحیات مسیح پر گفتگو ہوئی.جس میں مولوی صاحب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا.مگر بعد میں مولوی صاحب کے بعض دوستوں کی طرف سے یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ اس بحث میں مولوی محمد الحق صاحب کو فتح ہوئی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار کے ذریعہ اصل حقیقت حال کو بیان فرمایا اور مولوی
31 صاحب کو بعض شرائط کے ساتھ دوبارہ بحث کرنے کی دعوت دی.فرمایا.مولوی محمد الحق صاحب کو مخاطب کر کے اشتہار ہذا شائع کیا جاتا ہے کہ ہر ایک خاص و عام کو اطلاع رہے کہ جو بیان مولوی صاحب کی طرف سے شائع ہوا ہے وہ محض غلط ہے.حق بات یہ ہے کہ ۳۰ /اکتوبر کی تقریر میں مولوی صاحب ہی مغلوب تھے اور ہمارے شافی و کافی دلائل کا ایک ذرہ جواب نہیں دے سکے.اگر ہمارا یہ بیان مولوی صاحب کے نزدیک خلاف واقعہ ہے تو مولوی صاحب پر فرض ہے کہ اشتہار کے شائع ہونے کے بعد ایک جلسہ بحث مقرر کر کے اس مسئلہ حیات و وفات مسیح میں اس عاجز سے بحث کر لیں.اور اگر بحث نہ کریں تو پھر ہر ایک منصف کو سمجھنا چاہئے کہ وہ گریز کر گئے.شرائط بحث بہ تفصیل ذیل ہوں گے.(۱) حیات و وفات مسیح ابن مریم کے بارہ میں بحث ہوگی.(۲) بحث تحریری ہوگی یعنی دو کا تب ہماری طرف سے اور دو کا تب مولوی صاحب کی طرف سے اپنی اپنی نوبت پر بیانات قلم بند کرتے جائیں گے اور ہر ایک فریق ایک ایک نقل و تخطی اپنے فریق ثانی کو دے دے گا.پرچے بحث کے تین ہوں گے.مولوی صاحب کی طرف سے بوجہ مدعی حیات ہونے کے پہلا پرچہ ہو گا.پھر ہماری طرف سے جواب ہوگا.تحریری بحث سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ فریقین کے بیانات محفوظ رہتے ہیں دور دست کے غائبین کو بھی ان پر رائے لگانے کا موقع مل سکتا ہے اور کسی کو یہ یارا نہیں ہوتا کہ خارج از بحث یا رطب و یابس کو زبان پر لا سکے.پبلک اس بات کوسن رکھے کہ ہم اس اشتہار کے بعد ۲ نومبر ۱۸۹۱ء کے ۱۲ بجے دن تک مولوی صاحب کے جواب اور شروع بحث کا انتظار کریں گے جس طرح دہلی میں مولوی سید نذیرحسین صاحب کو اشتہار ۱۷ راکتو بر ۱۸۹۱ء میں قسم دی گئی تھی وہی قسم آپ کو بھی دی جاتی ہے.امید ہے کہ آپ بحث سے ہرگز احتراز نہ کریں گے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۴۸، ۲۴۹)
32 مسئلہ حیات و وفات مسیح کے متعلق دیگر چیلنج اتمام الحجہ میں فرمایا:.چار طور کے دلائل سے حیات مسیح ثابت کرنے کا چیلنج " فمن ادعى ان عيسى بقى منهم حيا وما دخل في الموتى فقد استثنر فعليه ان يثبت هذا الدعوى وانت تعلم ان الادلة عندالحنيفيين لا ثبات ادعاء المدعين اربعة انواع كما لا يخفى على المتفقهين.الاول قطعي الثبوت والدلالة و ليس فيها شي من الضعف والكلالة كالأيات القرانية الصريحة والاحاديث المتواترة الصيحة بشرط كونها مستغنية من تاويلات المأولين ومنزهة عن تعارض و تناقض يوجب الضعف عند المحققين.الثاني قطعي الثبوت ظنّى الدلالة كالا يات والاحاديث المأ ولة مع تحقق الصحة والاصالة.الثالث ظنّى الثبوت قطعى الدلالة كالاخيار الاحاد الصريح مع قلة القوة وشئ من الكلالة.الرابع ظني الثبوت والدلالة كا لاخبار الاحاد المتحملة لاماني والمشتبهة اتمام الحجة - روحانی خزائن نمبر ۸ صفحه ۲۸۲) ترجمہ: پس جو کوئی یہ دعویٰ کرے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور ابھی تک وفات یافتگان میں شامل نہیں ہوئے اور وہ موت سے مستفی ہیں تو اُس کو چاہیئے کہ وہ اپنے اس دعوی کو ثابت کرے اور تو جانتا ہے کہ حنفیوں کے نزدیک کسی مدعی کے دعویٰ کو چار قسم کے دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے جیسا کہ فقہاء پر یہ امرتی نہیں ہے.ا.ایسا قطعی ثبوت اور دلیل جس میں کسی قسم کی کمزوری نہ پائی جائے.اور وہ قرآنی آیات کی طرح واضح ہو اور ہر قسم کے تعارض اور تناقض سے محققین کے نزدیک پاک اور منز ہ ہو.
33 ۲.ایسا قطعی ثبوت اور دلیل جو تاویل طلب آیات اور احادیث پر مشتمل ہومگر تحقیقی لحاظ سے وہ احادیث صحیح اور درست ہوں.۳.ایسا ظنی ثبوت یا دلیل جو واضح طور پر خبر احاد کی طرح ہو بوجہ قلت قوت اور یکتا ہونے کے لحاظ سے.۴.ایسا ظنی ثبوت اور دلیل جوظن پر مبنی ہو اور جوخبر واحد کی طرح ہو جس کے اندر کئی معانی پائے جائیں اور اشتباہ کا پہلو اپنے اندر رکھتا ہو.فرمایا.حیات مسیح اور ہزار روپیہ کا چیلنج ”وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی مسیح جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا اور جسم عنصری کے ساتھ نازل ہوگا.یادر ہے کہ یہ خیال سراسر افتراء ہے.حدیثوں میں اس کا نام ونشان نہیں.اگر کسی حدیث رسول اللہ ہے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا تھا اور پھر کسی وقت جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر سے نازل ہوگا اور چڑھنا اور اتر نا دونوں امر جسم عصری کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت ہو جا ئیں تو مجھے خدا تعالی کی قسم میں ایسی صحیح حدیث پیش کرنے والے کو ہزار روپیہ انعام دوں گا.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۳۱۸ /ح) کسی ایسی حدیث لانے کا چیلنج جس میں بجسم عنصری آسمان پر جانے کا ذکر ہو.پس اگر تم اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتر نہیں کرتے تو بتلا ؤ اور پیش
34 کرو کہ کس حدیث میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے تھے.ہائے افسوس اسقدر جھوٹ اور افترا.اے لوگو! کیا تم نے مرنا نہیں.کیا کبھی بھی قبر کا منہ نہیں دیکھو گے.از افتراء و کذب شاخوں شدست دل داند خدا کہ زمیں غم دیں چوں شدست دل ہیم عیاں نشد که شمارا بکینه ام زینساں چرا دلیر و دگر گوں شدست دل تحفه غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۲) اے مولوی صاحبان فضولی کو چھوڑو اور مجھے کوئی ایک ہی حدیث ایسی دکھلاؤ کہ جو صحیح ہو اور جو مسیح کا خا کی جسم کے ساتھ زندہ اٹھایا جانا اور اب تک آسمان پر زندہ ہونا ثابت کرتی ہو اور تواتر کی حد تک پہنچی ہو اور اس مقدار ثبوت تک پہنچ گئی ہو جو عند العقل مفید یقین قطعی ہو جاوے اور صرف شک کی حد تک محدود نہ رہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۸) حیات مسیح اور 20 ہزار روپیہ کا چیلنج پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی صحیح حدیث سے حضرت عیسی کا آسمان پر چڑھنا اور واپس اترنا ثابت کرنے کا چیلنج دیا تھا.اب اس چیلنج میں صحیح کی شرط کو اڑا کر صرف کسی وضعی حدیث سے ہی حضرت عیسی کا جسم عصری کے ساتھ آسمان پر جانا اور پھر واپس اترنا ثابت کرنے کا چیلنج دیا ہے.چنانچہ فرمایا.غرض ان لوگوں نے یہ عقیدہ اختیار کر کے چار طور سے قرآن شریف کی مخالفت کی ہے.اور پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں.صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے
35 آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں.مگر یا در ہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں.اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اترا ہے.اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کر و تو صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے.اگر کوئی حدیث پیش کرے.تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور تو بہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا.جس طرح چاہیں تسلی کر لیں.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۲۶،۲۲۵) لفظ خلت کے متعلق ہزار روپیہ کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کے تعلق میں قرآن کریم کی آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ...الخ ( آل عمران ) میں لفظ خلت کے معنی قرآن کریم، اجماع صحابہ اور گزشتہ مفسرین کی تفاسیر کی روشنی میں موت یا قتل کرتے ہوئے وفات مسیح ثابت کی ہے.مگر آپ کے ایک مخالف مولوی میاں عبدالحق غزنوی نے ۱۹۰۲ ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ آپ کے معانی اور استدلال کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھا کہ.قرآن شریف میں فقط خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل موجود ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ سے پہلے گزرے.“ ( بحوالہ تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۷۲،۵۷۱) گویا مولوی صاحب کے نزدیک خلت کا معنی صرف گزرنے کے ہیں اور حضرت عیسی کا
36 آسمان پر جانا بھی ایک قسم کا گزر جانا ہے.جو لفظ خلت کے مفہوم میں داخل ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے اس مزعومہ خیال اور عذر کے پیش نظر یہ چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.میں آپ کو ہزار روپیہ بطور انعام دینے کو طیار ہوں.اگر آپ کسی قرآن شریف کی آیت یا کسی حدیث قوی یا ضعیف یا موضوع یا کسی قول صحابہ یا کسی دوسرے امام کے قول سے یا جاہلیت کے خطبات یا دواوین اور ہر ایک قسم کے اشعار یا اسلامی فصحاء کے کسی نظم یا نثر سے یہ ثابت کر سکیں کہ خلت کے معنوں میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی شخص مع جسم عصری آسمان پر چلا جائے.خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں اوّل خَلَتْ کا بیان کرنا اور پھر ایسی عبارت میں جو بموجب اصول بلاغت و معانی تفسیر کے محل میں ہے صرف مرنا یا قتل کئے جانا بیان فرمانا.کیا مومن کے لئے یہ اس بات پر حجت قاطع نہیں ہے کہ خَلَتْ کے معنے اس محل میں دو ہی ہیں یعنی مرنا یا قتل کئے جانا.اب خدا کی گواہی کے بعد اور کس کی گواہی کی ضرورت ہے.الحمد للہ ثم الحمدللہ کہ ایسے مقام میں خدا تعالٰی نے میری سچائی کی گواہی دیدی اور بیان فرما دیا کہ خَلَتْ کے معنے مرنا یا قتل کئے جانا ہے.“ ( تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۷۶) مُردوں کے دوبارہ دنیا میں واپس آنے کی راہ میں مانع آیات کو غیر قطعية الدلالت ثابت کرنے پر ہزار روپیہ کا چیلنج حیات مسیح کے بعض قائلین کا یہ عقیدہ ہے کہ بے شک حضرت عیسی ایک دفعہ وفات پاگئے ہیں مگر دوبارہ زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے اور آخری زمانہ میں دوبارہ دنیا میں واپس تشریف لائیں گے.اس موقف کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درج ذیل چیلنج دیا.اگر کوئی یہ ثابت کر کے دکھاوے کہ قرآن کریم کی وہ آیتیں اور احادیث جو یہ ظاہر
37 کرتی ہیں کہ کوئی مردہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا قطعية الدلالت نہیں..تو ایسے شخص کو بھی بلا توقف ہزار روپیہ نقد دیا جاوے گا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۵) توفی کا لفظ موت اور امانت کے معنی میں استعمال ثابت کرنے والے کو ہزار روپیہ انعام کا چیلنج 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح ثابت کرتے ہوئے ایک یہ نکتہ بھی پیش فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کی وفات کے لئے توفی“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اس لفظ میں یہ پیشگوئی مخفی تھی کہ حضرت عیسی کی وفات صرف طبعی طریق پر ہوگی.یہ مقصد موت اور امانت کے الفاظ کے استعمال سے پورا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ موت کا لفظ متعددالمعنی ہے.یہی وجہ ہے کہ شوقی کا لفظ کبھی بھی موت کی جگہ استعمال نہیں ہوا.ایسا ثابت کرنے والے کو حضور نے بلا توقف ہزار روپیہ انعام کا چیلنج دیا.لفظ موت اور امانت کے جو متعد دا معنی ہے اور نیند اور بے ہوشی اور کفر اور ضلالت اور قریب الموت ہونے کے معنوں میں بھی آیا ہے.توفی کا لفظ کہیں دکھاوے مثلاً یہ تَوَفَّاهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ - تو ایسے شخص کو بھی بلا توقف ہزار روپیہ نقد دیا جاوے (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۵) گا.حیات مسیح کے قائلین کو نزول مسیح کیلئے دعا کرنے کا چیلنج - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں عقیدہ حیات مسیح کے خلاف اور وفات مسیح کے حق میں بیسیوں علمی چیلنج دیئے وہاں اس مسئلہ کے حل کے لئے ایک طریق یہ بھی پیش فرمایا کہ حیات مسیح کے قائلین سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسی کو نازل کر دے.کیونکہ سیچوں کی دعا
38.ضرور قبول ہوتی ہے.پس اگر وہ بچے ہیں تو ضرور صحیح اتر آئے گا.چنانچہ اس سلسلہ اقدس نے حیات مسیح کے قائلین کو دعا کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.”اگر ہمارے مخالف اپنے تئیں سچ پر سمجھتے ہیں اور اس بات پر سچ مچ یقینی طور پر ایمان رکھتے ہیں کہ در حقیقت وہی مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی تو اس فیصلہ کے لئے ایک یہ بھی عمدہ طریق ہے کہ وہ ایک جماعت کثیر جمع ہو کر خوب تضرع اور عاجزی سے اپنے مسیح موہوم کے اترنے کے لئے دعا کریں.اس میں کچھ شک نہیں کہ جماعت صادقین کی دعا قبول ہو جاتی ہے بالخصوص ایسے صادق کہ جن میں ملہم بھی ہوں.پس اگر وہ بچے ہیں تو ضرور مسیح اُتر آئے گا اور وہ دعا بھی ضرور کریں گے اور اگر وہ حق پر نہیں اور یادر ہے کہ وہ ہر گز حق پر نہیں تو دعا بھی ہر گز نہیں کرینگے کیونکہ وہ دلوں میں یقین رکھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوگی.ہاں ہماری اس درخواست کو کچے بہانوں سے ٹال دیں گے تا ایسا نہ ہو کہ رُسوائی اُٹھانی (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۷) پڑے." لفظ توفی سے متعلق ہزار روپیہ کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن آیات قرآنیہ سے وفات مسیح ثابت کی ہے ان میں سے دو آیات درج ذیل ہیں.ا - يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى....( آل عمران : ۶۵) ٢ - فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ.(مائده: ۱۱۸) مندرجہ بالا ہر دو آیات میں مُتَوَفِّیک اور تَوَفَّيْتَنِی دونوں صیغے مصدر توفی سے مشتق ہیں جو محار وہ عرب اور سیاق کلام کے اعتبار سے اپنے اندر وفات کا مفہوم رکھتے ہیں.اسی مفہوم کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا دونوں آیات میں سے کسی اور لفظ کی بجائے توفی کے
39 مشتقات کا انتخاب فرمایا ہے.مگر حیات مسیح کے بعض قائلین دونوں مقامات میں وفات کی بجائے پورا پورا لینا مراد لیتے ہیں.تاکہ وہ صرف اور صرف حضرت عیسی علیہ السلام کا جسم عنصر کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھایا جانا ثابت کر سکیں.جو کہ محاورہ عرب اور سیاق کلام کے اعتبار سے کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا.چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”ازالہ اوہام میں ان دونوں صیغوں مُتَوَفِّيكَ اور تَوَفَّيْتَنِی کے مصدر توفی کے استعمال کے متعلق ایک چیلنج دیا جو حسب ذیل ہے.تمام مسلمانوں پر واضح ہو کہ کمال صفائی سے قرآن کریم اور حدیث رسول اللہ ہے سے ثابت ہو گیا ہے کہ درحقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام برطبق آيت فيها تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ (الاعراف:۲۶) زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسر کر کے فوت ہو چکے ہیں.اور قرآن کریم کی سولہ آیتوں اور بہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لئے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اور نہ حقیقی اور واقعی طور پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اور نہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لئے کوئی قانون وراثت موجود ہے.با اینہمہ بعض علماء وقت کو اس بات پر سخت علو ہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور حیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اور نہایت بے باکی اور شوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہ توفی کالفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے وفات دینا نہیں ہے بلکہ پورا لینا ہے یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا.مگر ایسے معنے کرنا اُن کا سراسر افتراء ہے قرآن کریم کا عموما التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارے میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دے دینے کے معنوں پر ہر ایک جگہ اس کو استعمال کرتا ہے.
40 یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ ﷺ میں پایا جاتا ہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور عربی زبان جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو بلکہ جہاں کہیں تو فی کے لفظ کو خدائے تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں.کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں.کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول الله الله یا اشعار وقصائد و نظم ونثر قدیم وجدید عرب سے ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ 66 ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۳،۴۰۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توفی کے متعلق یہ چیلنج اپنی متعدد کتب میں بار بار دہرایا ہے.وبوجـه اللـه وعـزتـه انی قرات کتاب الله آيةً آيةً وتدبرت فيه ثم قرات كتب الـحـديـث بـنـظـر عميق وتدبرت فيها فما وجدت لفظ التوفي في القرآن ولا فى الاحاديث اذا كان الله فاعله واحد من الناس مفعولا به الا بمعنى الامانت وقبض الروح ومن يثبت خلاف تحقيقى هذا فله الف من الدارهم المروجت انعاما منی کذلک و عدت في كتبي التي طبعتها
41 واشعتها للمنكرين وللذين يظنون ان لفظ التوفى لا يختص بقبض الروح والاماتت عند استعمال الله العبد من عبادہ بل جاء بمعنى عام في الاحاديث وكتاب رب العالمين." ( حمامۃ البشری.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۷۲۵ ) ترجمہ:.میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو فکر اور تدبر سے پڑھا ہے.پھر میں نے بڑی گہری نظر سے کتب احادیث کو پڑھا ہے اور ان میں غور و خوض کیا ہے.میں نے قرآن کریم اور احادیث میں اللہ تعالیٰ کے فاعل اور کسی انسان کے مفعول بہ ہونے کی صورت میں ہر جگہ توفی کے لفظ کو موت اور قبض روح کے معنوں میں مستعمل پایا ہے.اگر کوئی شخص میری اس تحقیق کو غلط ثابت کر دے تو میں اسے اپنی طرف سے رائج الوقت ہزار در ہم انعام دوں گا.اسی طرح میں نے اپنی گزشتہ شائع ہونے والی کتب میں بھی منکرین اور ان لوگوں کے لئے جو توفی کے لفظ کو مذکورہ شرائط ( اللہ فاعل اور کسی ذی روح مفعول بہ ) ہونے کی صورت میں موت یا قبض روح کے معنوں میں استعمال کی بجائے قرآن اور احادیث میں عام معنوں میں استعمال پر یقین رکھتے ہیں وعدہ کیا ہے.تریاق القلوب میں فرماتے ہیں :.علاوہ اس کے جو شخص تمام احادیث اور قرآن شریف کا تتبع کریگا.اور تمام لغت کی کتابوں اور ادب کی کتابوں کو غور سے دیکھے گا.اسپر یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہ قدیم محاورہ لسان العرب ہے کہ جب خدا تعالیٰ فاعل ہوتا ہے اور انسان مفعول بہ ہوتا ہے تو ایسے موقعہ پر لفظ توفی کے معنے بجز وفات کے اور کچھ نہیں ہوتے.اور اگر کوئی
42 شخص اس سے انکار کرے تو اسپر واجب ہے کہ ہمیں حدیث یا قرآن یافن ادب کی کسی کتاب سے یہ دکھلا دے کہ ایسی صورت میں کوئی اور معنے بھی توٹی کے آجاتے ہیں.اگر کوئی ایسا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ قدسیہ سے پیش کر سکے.تو ہم بلا توقف اُسکو پانسو روپے انعام دینے کو طیار ہیں.دیکھو حق کے اظہار کے لئے ہم کس قدر مال خرچ کرنا چاہتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیتا؟ اگر سچائی پر ہوتے تو اس سوال کا ضرور جواب دیتے اور نقد روپیہ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۵۸) پاتے.براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرمایا.اور پھر ہم پہلے کلام کی طرف عود کر کے کہتے ہیں کہ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ جس جگہ کسی کلام میں تو فی کے لفظ میں خدا تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی شخص نام لے کر اس فاعل کا مفعول بهہ قرار دیا جائے ایسے فقرہ کے ہمیشہ یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالی نے اس شخص کو مار دیا ہے یا مارے گا.کوئی اور معنے ہرگز نہیں ہوتے.اور میں نے مدت ہوئی اسی ثابت شدہ امر پر ایک اشتہار دیا تھا کہ جو شخص اس کے برخلاف کسی حدیث یا دیوان مستند عرب سے کوئی فقرہ پیش کرے گا جس میں باوجود اس کے کہ توفی کا لفظ خدا فاعل ہو اور کوئی حکم مفعول بہ ہو یعنی کوئی ایسا شخص مفعول بہ ہو جس کا نام لیا گیا ہو.مگر وہ باوجود اس امر کے اس جگہ وفات دینے کے معنے نہ ہوں تو اس قدر اس کو انعام دوں گا.اس اشتہار کا آج تک کسی نے جواب نہیں دیا.اب پھر اتمام حجت کیلئے دوسو روپیہ نقد کا اشتہار دیتا ہوں کہ اگر کوئی ہمارا مخالف ہمارے اس بیان کو یقینی اور قعطی نہیں سمجھتا ہو تو احادیث صحیحہ نبویہ یا قدیم شاعروں کے اقوال میں سے جومستند ہوں اور جو عرب کے اہل زبان اور اپنے فن میں مسلم ہوں کوئی ایک ایسا فقرہ پیش کرے
43 جس میں توفی کے لفظ کا خدا تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول بہ کوئی علم جیسے زید بکر اور خالد وغیرہ اور اس فقرہ کے معنے بہداہت کوئی اور ہوں وفات دینے کے معنی نہ ہوں تو اس صورت میں میں ایسے شخص کو مبلغ دو روپیہ نقد دوں گا.ایسے شخص کو صرف یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ حدیث جس کو پیش کرے وہ حدیث صحیح نبوی ہے یا گزشتہ عرب کے شاعروں میں سے کسی کا قول ہے جو علم محاورات عرب میں مسلم الکمال ہے اور یہ ثبوت دینا بھی ضروری ہوگا کہ قطعی طور پر اس حدیث یا اس شعر سے ہمارے دعوی کے مخالف معنے نکلتے ہیں اور ان معنوں سے جو ہم لیتے ہیں وہ مضمون فاسد ہوتا ہے.یعنی وہ حدیث یا وہ شعر ان معنوں پر قطعیۃ الدلالت ہے.کیونکہ اگر حدیث یا اس شعر میں ہمارے معنوں کا بھی احتمال ہے تو ایسی حدیث یا ایسا شعر ہرگز پیش کرنے کے لائق نہ ہوگا کیونکہ کسی فقرہ کو بطور نظیر پیش کرنے کیلئے اس مخالف مضمون کا قطعیۃ الدلالت ہونا شرط ہے.وجہ یہ ہے کہ جس حالت میں صد ہا نظائر قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہو چکا ہے کہ توفی کا لفظ اس صورت میں کہ خدا تعالی اس کا فاعل اور کوئی علم یعنی کوئی نام لے کر انسان اس کا مفعول بہ ہو بجز وفات دینے اس مفعول بہ کے کسی دوسرے معنوں پر آ ہی نہیں سکتا تو پھر ان نظائر متواترہ کثیرہ کے برخلاف جو شخص دعوی کرتا ہے یہ بار ثبوت اس کی گردن پر ہے کہ وہ ایسی صریح نظیر جو قطعیۃ الدلالت ہو برخلاف ہمارے پیش کرے.فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۸۴/۳۸۳) مخالفین کا رد عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج نہ تو توڑا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو آج تک توڑنے کی توفیق مل سکی البتہ اس چیلنج کے بعد حیات مسیح کے اثبات میں لکھی گئی تمام معروف کتب میں لفظ تو فی
44 کے سلسلسہ میں کی گئی بحث کا ماحصل یہ ہے کہ :.لغت او عربی قواعد کی رو سے توفی کا حقیقی معنی پورا پورا لینا ہے جیسا کہ تفسیر بیضاوی اور تفسیر کبیر میں اَلتَّوَفِّى اَخُذُ الشَّيْءِ وَافِيًا اور تَوَفَّيْتُ مِنْهُ دَرَاهِمِی مذکور ہیں.اور موت اس کے مجازی معنی ہیں.66 محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۵۱۴ مطبوعه ۱۹۷۱ بار پنجم) جواب ا.مندرجہ بلا ہر دو مثالوں میں توفی کا مفعول ذی روح نہیں بلکہ پہلی مثال میں شی ء اور دوسری مثال میں در اھمی غیر ذی روح مفعول ہیں.اگر یہاں پر مفعول کوئی ذی روح چیز ہو جیسا کہ چیلنج میں مذکور ہے تو یہاں پر پورا پورا لینا معنی ممکن نہ ہوتا..یہ دعویٰ کہ توفی کا موت مجازی معنی ہے نہ کہ حقیقی.اس کے ثبوت میں علماء درج ذیل اقوال پیش کرتے ہیں.ا - وَمِنَ الْمَجَازِ تُوقِيَ فلانٌ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ وَ أَدْرَكَتْهُ الْوَفَاةُ ۲.دوسرا قول تاج العروس کا پیش کرتے ہیں.(اساس البلاغه از علامہ زمخشری) ” وَمِنَ الْمَجَازِ اَدْرَكَتْهُ الْوَفَاةُ اى الْمَوْتُ وَالْمَنِيَّةُ وَتُوفِّيَ فُلانٌ إِذَا مَاتَ وَ تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ إِذَا قُبِضَ رُوحُهُ“ (تاج العروس) ترجمہ.اور توفی کے مجازی معنی وفات یعنی موت کے ہیں اور توفی کا لفظ کسی کی وفات پر استعمال ہوتا ہے اور تو فاہ اللہ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی روح قبض کر لی.یعنی اس کو موت دے دی.اس سلسلہ میں ہمیں علماء سے کوئی اختلاف نہیں کیونکہ ہم خود یہی کہتے ہیں کہ بے شک ایسی جگہ توفی کے مجازی معنی موت ہی مراد ہوں گے.توفی کے حقیقی معنی پورا پورا لینا ہرگز مراد نہیں
45 ہو سکتے.کیونکہ تاج العروس اور اساس البلاغہ کے دونوں اقوال کا مفاد یہی ہے کہ توفی کے فعل کا فاعل جب خدا تعالیٰ ہو اور کسی ذی روح انسان کیلئے یہ فعل استعمال ہوا ہو تو ایسے مقام پر ہمیشہ توفی کے مجازی معنی موت ہی مراد ہوتے ہیں.ایسے مقام پر حقیقی معنی پورا لینا ہرگز مراد نہیں ہو سکتے.چنانچہ علم البیان کے جاننے والوں سے یہ امر مخفی نہیں کہ مجازی معنی وہاں مراد ہوتے ہیں جہاں حقیقی معنوں میں اس لفظ کا استعمال محال و متعذر ہو.پس خدا تعالیٰ کے انسان کو تو فی کرنے کی صورت میں توفی کے حقیقی معنی پورا لینے کے اس جگہ محال ہونے کی وجہ سے از روئے علم بیان موت کے مجازی معنے متعین اور مخصوص ہو جائیں گے جو قبض روح کی ایک صورت ہے.ہاں اگر نیند کیلئے اس مقام پر کوئی قرینہ موجود ہو تو استعارہ اس جگہ توفی کے معنی سلانے کے ہوتے ہیں.اور یہ از روئے قرآن کریم قبض روح ہی کی ایک قسم ہے جو موت کے مشابہ ہوتی ہے کیونکہ اس میں بھی روح قبض ہوتی ہے.اس جگہ اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چیلنج میں مذکور شروط ثلاثہ کی موجودگی میں توفی کے مجازی معنی موت ایک محاورہ بن کر حقیقت کا رنگ پکڑ گیا ہے.توفی کا اپنے مجازی معنی میں استعمال ایسے لفظ کے مجازی استعمال کی طرح نہیں جو محاورہ نہ بن چکا ہو.محاورہ کلام من حیث اللغہ گو مجاز ہومگر عرف عام میں وہ ایک حقیقت ہی بن جاتا ہے.ایک ضروری سوال اس جگہ ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی محل پر تو فی مصدر کا کوئی فعل استعمال ہو تو ہم دونوں حقیقی معنوں میں پورا پورا لینا اور موت میں کس طرح امتیاز کر سکتے ہیں.جواب اس صورت میں قرینہ دونوں معنوں میں سے ایک کی تخصیص کرے گا.مثلاً موت کے معنی
46 کیلئے قرینہ خدا کا فاعل ہونا اور انسان کا مفعول یہ ہونا ہوگا.اور کسی غیر ذی روح امر جیسے حق اور حال وغیرہ کیلئے استعمال کی صورت میں اس کے پورا پورا لینے کے معنوں کیلئے قرینہ ہوگی.مولوی عنایت اللہ گجراتی کا اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توفی کے چیلنج کے تقریباً چوالیس سال بعد مسجد المحدیث گجرات کے امام الصلوۃ مولوی عنایت اللہ گجراتی نے ۱۹۳۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ کے نام ایک خط میں توفی کے چینج کے مقابلہ میں مطلوبہ مثال پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور بعد میں اس آمادگی کا اظہار بطور اعلان اخبار ”سنیاسی“ گجرات میں شائع کر کے ایک ہزار روپیہ کسی امین کے پاس جمع کرانے کا مطالبہ کیا.اس کے جواب میں مرکز سے مشورہ کے بعد مرزا حاکم بیگ صاحب احمدی موجد تریاق چشم، مقیم گجرات نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں پانچ معززین گجرات کے نام بطور امین پیش کئے اور لکھا کہ مولوی صاحب ان میں سے جس پر اعتما در کھتے ہوں میں ایک ہزار روپیہ کی رقم ان کے پاس جمع کرادوں گا.چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے مولوی صاحب اخبار سنیاسی گجرات ۱۵؍ مارچ ۱۹۳۴ء کے ذریعے اس مقابلہ سے فرار اختیار کر گئے کہ میرے مخاطب تو صرف مرزا محموداحمد صاحب امام جماعت احمد یہ ہیں جو مرزا صاحب کی جائداد کے مالک ہیں.در حقیقت مولوی صاحب ایسے اعلانات سے محض سستی شہرت کے خواہاں تھے ورنہ وہ اپنے دعوی میں سنجیدہ ہوتے تو فوراً مطلوبہ مثال پیش کر کے انعام کا مطالبہ کرتے.اور جب کہ مرزا حاکم بیگ صاحب نمائندہ جماعت احمد یہ انعام کی رقم ان کے مسلمہ امین کے پاس جمع کرانے کیلئے تیار تھے تو ان کیلئے گریز کی کوئی راہ باقی نہ تھی.اصل حقیقت یہ تھی کہ مولوی صاحب اپنی اس مزعومہ مثال کے متعلق جس کے بل بوتے پر انہوں نے ڈھونگ رچا رکھا تھا خوب جانتے تھے کہ وہ چیلنج کی منشاء کے مطابق قبض الروح مع
47 الجسم کے معنوں پر مشتمل نہیں بلکہ وفات کے معنوں میں احتمال رکھتی ہے.مگر حدیث کی اس مثال کو جسے انہوں نے چھپائے رکھا تھا تا کہ ان کے ڈھونگ پر پردہ پڑا رہے بعد میں اپنی کتاب کیل الموفی میں شائع کر دی تھی.ذیل میں مولوی عنایت اللہ گجراتی کی پیش کردہ حدیث کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے.مولوی عنایت اللہ گجراتی کی پیش کردہ حدیث مولوی عنایت اللہ گجراتی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کے خلاف اپنی کتاب کیل الموفی میں ثبوت نمبر ۲۳ میں لکھا ہے.بزاز ، طبرانی ابن حبان میں بروایت عبداللہ بن عمرؓ ایک سائل کے جواب میں ارشاد نبوی ہے.وَإِذَا رَمَى الْجِمَارَ لَا يَدْرِى اَحَدٌ مَالَهُ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.الحديث بطوله.“ ترجمہ.جب حاجی جمروں کو کنکریاں مارتا ہے تو اسے اس کا اجر وثواب معلوم نہیں ہوسکتا.ہاں جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کار خیر کا اجر وثواب عطا فرمائے گا.یہ کہ اسے ایسی جگہ بہترین جگہ اور نعمتوں میں لا بسائے گا جن کا اسے وہم و خیال تک بھی نہیں تھا.تب اسے معلوم ہو گا کہ اس کا یہ اجر وثواب ہے.اس حدیث میں بھی شرائط ثلاثہ موجود ہونے پر موت کا ترجمہ ہرگز درست نہیں کیونکہ یہ تو فی قیامت کو ہوگی.(کیل الموفی صفحہ ۵۷) مولوی صاحب نے اس حدیث کا تشریحی ترجمہ کرنے کے بعد جو نتیجہ نکالا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث میں بیان کردہ تو فی قیامت کو ہو گی.اس لئے اس کا ترجمہ موت درست نہیں ہوسکتا.بلکہ یہاں اجر و ثواب کا پورا پورا لینا مراد ہے.پس مولوی صاحب کے نزدیک اس حدیث میں توفی کا لفظ تینوں شرائط کے باوجود موت کے علاوہ پورا پورا دینا“ کے مفہوم میں
48 استعمال ہوا ہے.اس سے مولوی صاحب کے نزدیک توفی کا چیلنج ٹوٹ جاتا ہے.جواب مولوی صاحب نے اس حدیث کے جو معنی بیان کئے ہیں وہ درست نہیں.اگر بفرض محال یه معنی درست تسلیم کر بھی لئے جائیں تو یہ حدیث پھر بھی حضرت اقدس کے مطالبہ کو پوری نہیں کرتی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالبہ یہ ہے کہ توفی کا لفظ قرآن وحدیث یا اقوال عرب سے روح کو جسم سمیت قبض کرنے کے معنوں میں دکھایا جائے.اس صورت میں کہ جب اللہ فاعل ہو، کوئی ذی روح مفعول بہ ہو، باب تفعل ہو اور لیل یا نیند کا کوئی قرینہ نہ ہو.مگر اس حدیث میں مولوی صاحب نے ان شرائط کی موجودگی میں توفی کے لفظ کا استعمال روح مع الجسم قبض کرنے کے معنوں میں پیش نہیں کیا جو اصل مطالبہ ہے.پس اس حدیث سے مولوی صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو توڑنے کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا.۲.عربی لغت کے لحاظ سے مولوی صاحب کے بیان کردہ معنی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ عربی لغت کے اعتبار سے توفی کے بنیادی معنی اخذ الشیء وافیا کسی شے کا پورا پورا لینا ہوتا ہے اور اس کے معنی اعطاء الشی ، وافیا یعنی کسی شے کا پورا پورا دینا از روئے لغت درست نہیں.جیسے کہ مولوی صاحب نے اس حدیث کے معنی پورا پورا اجر و ثواب دیئے جانا بیان کئے ہیں.پس توفی کے معنی دینا از روئے لغت درست ہو ہی نہیں سکتے تو آنحضرت علہ جو افضح العرب تھے تو فی کا لفظ پورا پورا ثواب دینے کے معنوں میں کہاں استعمال فرما سکتے تھے؟ خود مولوی عنایت اللہ صاحب گجراتی نے بھی اپنی کتاب ”کیل الموفی“ میں لغت کے حوالے سے توفی کے جو معنی پیش کئے ہیں ان میں بھی اس کے معنی پورا دینے کی بجائے پورا لینا ہی لکھے ہیں.پس جب تو فی کا لفظ عربی لغت میں پورا دینے کے معنوں میں استعمال ہو ہی نہیں سکتا تو اس حدیث میں توفی کا مفعول ثانی اجرہ یا ثوابہ محذوف قرار ہی نہیں دیا جاسکتا.کیونکہ ایسا
49 کرنے سے حدیث کے کچھ معنی نہیں رہتے.لہذا عربی لغت کے اعتبار سے بھی مولوی صاحب کے معنی سراسر باطل اور نا قابل قبول ہیں.۳.مولوی صاحب کے بیان کردہ معنوں کے مطابق قیامت سے پہلے پہلے رمی جمار کے اجر و ثواب کا کسی کو بھی علم نہیں ہوسکتا.صرف قیامت کے روز ہی رمی جمار کے ثواب کا پتہ چلے گا.اس سے پہلے کسی کو بھی رمی جمار کے ثواب کا علم نہیں ہوسکتا.حالانکہ کئی ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں رمی جمار کا ثواب بتایا گیا ہے جن میں سے صرف تین کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے.ا تَجِدُ ذَلِكَ عِنْدَ رَبِّكَ أَحْوَجَ مَا تَكُونُ إِلَيْهِ.یعنی جب تو رمی جمار کرے تو اپنے رب کے پاس اس چیز کو پائے گا جس کی تم کو سب سے زیادہ حاجت ہوگی.٢ أَمَّا رَمُيُكَ الْحِمَارُ فَلَكَ بِكُلِّ حَصَاةٍ رَمَيْتَهَا تَكْفِيرُ كَبِيرَةٍ مِّنَ الْمُوْبِقَاتِ ترجمہ.تیرے رمی جمار کرنے پر تیرے لئے ہر کنکر کے بدلے جسے تو نے پھینکا ہو ایک کبیرہ مہلک گناہ کی مغفرت ہوگی.٣.إِذَا رَمَيْتَ الْحِمَارَ كَانَ لَكَ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ترجمہ.کہ جب تو رمی جمار کرے تو تیرے لئے قیامت کے دن نور ہوگا.مندرجہ بالا تینوں احادیث میں خود آنحضرت ﷺ نے رمی جمار کرنے والے کا ثواب واجر بیان کر دیا ہے.پس ان احادیث کی روشنی میں زیر بحث حدیث کے الفاظ لا یدی احد مالہ یوم القیامۃ سے مراد ایسے شخص کے حق میں یہ بنتا ہے کہ ایسے شخص کو نعمت کا علم تو ہو جائے گا کہ اس کے گناہ کبیرہ معاف ہوں گے یا اس کی سب سے بڑی حاجت پوری ہوگی مگر اس ثواب کی پوری پوری کیفیت کا علم اسے قیامت کے روز ہی ہو سکے گا.اس سے پہلے اس کا علم جزوی ہو گا مگر موت کے بعد قیامت کے روز اسے رمی جمار کا پورا پورا اعلم دے دیا جائے گا.اس پہلو سے کوئی
50 اعتراض باقی نہیں رہتا.مولوی صاحب کی غلطی کی وجہ در اصل مولوی عنایت اللہ گجراتی صاحب کو حدیث کے لفظ قیامہ سے دھوکا لگا ہے جیسا کہ وہ خود تحریر فرماتے ہیں.چونکہ اس حدیث میں بیان کردہ تو فی قیامت کو ہوگی اس لئے اس کا ترجمہ موت درست نہیں.(کیل الموفی صفحہ ۵۷) حالانکہ لفظ قیامت بمعنی موت بھی استعمال ہوسکتا ہے.خود رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِيَامَتُهُ (مجمع بحار الانوار) علامہ شیخ محمد طاہر سندھی مصنف ” مجمع بحارالانوار لفظ قیامت کے نیچے لکھتے ہیں.وَقَدْ وَرَدَ فِي الْكُتُبِ وَالسُّنَّةِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْسَامِ الْقِيَامَةُ الْكُبْرَى وَالْبَعْتُ لِلْجَزَاءِ وَالْوُسْطَى وَهِيَ اِنْقِرَاضُ الْقَرْنِ وَالصُّغُرَى وَهُوَ مَوْتُ الْإِنْسَان.یعنی قرآن کریم اور حدیث سے قیامہ کے تین استعمال ثابت ہیں.قیامت کبری جو جزا سزا کیلئے بعثت کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے.اور قیامتہ وسطی جس سے مراد پہلی صدی کا خاتمہ ہے یعنی جب مسلمانوں میں تنزل کے آثار ہوں گے.اور صغریٰ یعنی موت انسانی.مندرجہ بالا حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ قیامہ کا لفظ موت کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے.پس اگر زیر بحث حدیث میں قیامہ سے مراد قیامت صغری لی جائے تو درج ذیل مفہوم بنتا ہے.”دنیا کی زندگی میں رمی جمار کے ثواب کا علم کسی کو نہیں ہوسکتا.ہاں جب قیامت
51 صغری کے وقت اس کی وفات واقع ہوگی تو اس کے بعد جزا سزا کے عمل سے اسے کسی حد تک علم ہونا شروع ہو جائے گا.“ مولوی صاحب کی پیش کردہ حدیث کے بعد اب اس مضمون پر کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوسکتا.جبکہ مولوی صاحب کا پیش کردہ مفہوم از روئے عربی قواعد درست نہیں ہوسکتا.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کے بالمقابل یہ حدیث پیش نہیں کی جاسکتی.توفی اور براہین احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توفی کے چیلنج کے بالمقابل ایک اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے کہ خود آپ نے براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اصفحہ ۴۲ رح میں اِنِّي مُتَوَفِّيكَ کا بدیں الفاظ ترجمہ کیا ہے کہ.میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا“ جواب یہ ترجمہ حجت نہیں کیونکہ اسی براہین احمدیہ کے صفحہ ۶۴۶،۴۶۵ پر اسی آیت کا ترجمہ یوں کیا کیا ہے:.”اے عیسی میں تجھے کامل اجر بخشوں گا یا وفات دوں گا.“ اس سلسلہ میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:.یاد رہے کہ براہین احمدیہ میں جو کلمات الہیہ کا ترجمہ ہے وہ باعث قبل از وقت ہونے کے کسی جگہ مجمل ہے اور کسی جگہ معقولی رنگ کے لحاظ سے کوئی لفظ حقیقت سے پھیرا گیا ہے یعنی صرف عن الظاہر کیا گیا ہے....پڑھنے والوں کو چاہئے کہ کسی ایسی تاویل کی پروانہ کریں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفر ۹۳ /ح) اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا.
52 میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفی کے معنی ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں جس کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض کے پیش کرتے ہیں مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں.میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلاً جیسا کہ سہوونسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں.گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر خدا تعالیٰ مجھے قائم نہیں رکھتا.مگر یہ دعویٰ کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کر سکتا.خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو ونسیان لازمہ بشریت ہے.“ ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۷۱ ۲۷۲) یہ بات آنحضرت ﷺ نے بھی بیان فرمائی ہے.مَاحَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ فَهُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِيْهِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِى فَإِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ أُخْطِئُ وَاصِيبُ یعنی جو بات میں اللہ تعالیٰ کی وحی سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے.( یعنی اس میں غلطی کا احتمال نہیں) لیکن جو بات میں اس وحی الہی کے ترجمہ اور تشریح کے طور پر اپنی طرف سے کہوں تو یاد رکھو کہ میں بھی انسان ہوں.میں اپنے خیال میں غلطی کر سکتا ہوں.“ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنُسَى كَمَا تَنْسَوْنَ (بخاری کتاب الصلوة باب التوحيد نحو القبلة حيث كان) یعنی میں بھی انسان ہوں.تمہاری طرح مجھ سے بھی نسیان ہوجاتا ہے.پس براہین احمد یہ میں توفی کا ترجمہ چیلنج کے خلاف پیش نہیں کیا جاسکتا.
53 باب دوم کتب نویسی قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ.إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ (الزمر (۱۰) (ترجمہ) تو کہہ دے کیا علم والے لوگ اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو صرف عقلمند لوگ حاصل کیا کرتے ہیں.
54
55 کتب نویسی کے مقابلہ کے چیلنج احادیث پاک میں حضرت امام مہدی کی جو علامات بیان کی گئی تھیں ان میں سے ایک علامت یہ تھی کہ.يفيض المال حتى لا يقبله احد بخارى كتاب الانبياء باب نزول عیسی) اس مال سے مراد کوئی روپیہ پیسہ نہ تھا بلکہ وہ علمی خزائن تھے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمایا کہ.- ” خدا نے مجھے مبعوث فرمایا ہے کہ میں ان خزائن مدفون کو دنیا میں ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہر پر تھو پا گیا ہے ان سے ان کو پاک کروں.“ ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد اول صفحه ۶۰) چنانچہ آپ نے اسی عظیم مشن کی خاطر ۸۰ سے زائد اردو عربی کتب لکھیں.اور ان کتب میں آپ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول اور اس کے پاک کلام فرقان حمید کے حسن و احسان کے جو نقشے کھینچے ہیں ان میں آپ بالکل منفرد اور یکتا ہیں.آپ کی کتب روحانی، دینی، سائنسی ، اخلاقی ، قرآنی ، تاریخی اور آسمانی علوم کا ایک بحر بیکراں ہیں.اور یہ کتب اپنے اندر الہی شوکت اور زندگی بخشنے کی طاقت رکھتی ہیں جس کا اپنوں اور غیروں دونوں کو اعتراف ہے.چنانچہ مولوی شجاع اللہ صاحب اپنی اخبار ملت ۱۹۱۰ء میں ”مرزا غلام احمد قادیانی کی مذہبی اور دینی خدمات“ کے عنوان سے لکھتے ہیں.وو ہر چند کہ پادریوں کے گروہ نے اسلام کی مخالفت میں لٹریچر کا ایک طومار کھڑا کر دیا ہے مگر کاغذی تو دوں کیلئے چند شرارے کافی ہیں.جناب مرزا غلام احمد صاحب کا لٹریچر ان کاغذی طوماروں کے لئے توپ و گولہ کا کام دیتا ہے.علاوہ
56 نصرانیت کی خاص طور پر تردید کے مرزا صاحب نے آریہ سماج کی کچلیاں توڑنے میں اسلام کی خاص طور پر خدمات انجام دے دی ہیں...غرض مرزا صاحب نے ہر ایک پہلو سے قومی اور مذہبی خدمات کے انجام دینے میں خاص طور پر کوشش کی اور اگر عوام کے دلوں میں ان کی طرف کوئی بدظنی نہ پھیلائی جاتی تو وہ مسلمانوں کی کایا پلٹ دیتے اور ان کی اخلاقی اور روحانی امراض کیلئے ایک حکیم ثابت ہوتے.تاہم ایک منصف مزاج شخص اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جو طریقہ مرزا صاحب نے قومی بہبودی اور ترقی اور امن عامہ کا تجویز کیا ہے وہی مسلمانوں کے خوفناک امراض کا ازالہ کرنے والا ثابت ہوا اور ہوگا...مرزا صاحب نے اپنی حیات میں مندرجہ ذیل مضامین پر 80 کتب لکھیں جن میں بعض بہت مبسوط ہیں.(۱) رڈ جملہ مذاہب باطلہ میں براہین احمدیہ پانچ حصہ ۲.ردنصاری میں گیارہ بے نظیر کتا ہیں..حقیقت اسلام ۳۶ لا جواب کتابیں.۴.مختلف مضامین مذہبی میں ۲۴ کے قریب کتا بیں لکھیں.آج کل کے فلاسفرانہ اور محققانہ مباحثوں اور مناظروں کے شائقین مرزا صاحب مرحوم کی کتب رڈ مذاہب باطلہ کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ کس قدر عقلی اور نقلی دلائل سے پُر صداقت اسلام کا ذخیرہ مرزا صاحب نے ان کیلئے جمع کر دیا ہے.66 ( ملت بحوالہ الحکم قادیان ۱۷ جنوری ۱۹۱۱ء.صفحه ۱۳ تا ۱۵) براہین احمدیہ کی تالیف کا پس منظر براہین احمدیہ کی تالیف ایک ایسے زمانہ میں ہوئی جب کہ انگریزی دور حکومت پورے عروج پر تھا اور عیسائی مشنری پوری قوت سے تبلیغ عیسائیت میں مشغول تھے.جگہ جگہ بائیبل سوسائٹیاں قائم کی گئیں اور اسلام اور بانی اسلام لے کے خلاف صد ہا کتب شائع کی گئیں اور کروڑہا کی تعداد میں مفت پمفلٹ تقسیم کئے گئے.ان کی رفتار و ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے صلى الله
57 کہ ۱۸۱۵ء میں عیسائیوں کی تعداد ہندوستان میں اکانوے ہزار تھی اور ا ۱۸۸ء میں چار لاکھ ستر ہزار تک پہنچ گئی.دوسری طرف آریہ سماج اور برہمو سماج کی تحریکوں نے جو اپنے شباب پر تھیں اسلام کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنایا ہوا تھا.گویا اسلام دشمنوں کے نرغہ میں گھر کر رہ گیا تھا.ان سب تحریکوں کا مقصد وحید اسلام کو کچل ڈالنا اور قرآن مجید اور بانی اسلام کی صداقت کو دنیا کی نگاہوں میں مشتبہ کرنا تھا.آریہ سماج دیدوں کے بعد کسی الہام کے قائل نہ تھے.اور تعلیم یافتہ مسلمان یورپ کے گمراہ کن فلسفہ سے متاثر ہو کر عیسائی ملکوں کی ظاہری اور مادی ترقیات کو دیکھ کر الہام الہی کے منکر ہورہے تھے اور علماء کا گروہ آپس میں تکفیر بازی کی جنگ لڑ رہا تھا.اسلام کی بے بسی و بے کسی کا نقشہ مولانا حالی مرحوم نے ۱۸۹۷ء میں اپنی مسدس حالی میں یوں کھینچا ہے.رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی پھر ملت اسلامیہ کی ایک باغ سے تمثیل دے کر فرماتے ہیں:.پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے دکھ جس کے جلانے کے قابل یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے کہ اسلام کا باغ ویراں یہی ہے براہین احمدیہ کے مضامین اس ماحول میں جبکہ قرآن مجید کی حقیقت اور آنحضرت ﷺ کی صداقت خود مسلمان کہلانے والوں پر بھی مشتبہ ہورہی تھی اور کئی ان میں عیسائیت کی آغوش میں آگرے تھے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے قرآن مجید کی فضیلت، آنحضرت ﷺ کی صداقت ، الہام کی ضرورت اور اس کی حقیقت پر مبنی ایک ایسی بے نظیر کتاب لکھی کہ جس سے جہاں دشمنان اسلام کے چھکے
58 چھوٹ گئے وہاں مسلمانان ہند کے حو صلے بھی بلند ہو گئے.نیز اس کتاب میں آپ نے یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں ، برہموسما جیوں، بت پرستوں، دہریوں ، اباحتیوں اور لامذہب وغیرہ سب کے وساوس کے مسکت جواب دیئے اور مخالفین کے اصولوں پر بھی کمال تحقیق اور تدقیق کے ساتھ عقلی بحث کی.براہین احمدیہ کا رڈ لکھنے کا چیلنج اس کتاب کا پہلا حصہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا.اس حصہ میں آپ نے جملہ مذاہب عالم کے لیڈروں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مجید کی حقیقت اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کے ثبوت میں جو دلائل ہم نے اپنی کتاب یعنی قرآن مجید سے نکال کر پیش کئے ہیں اگر کوئی غیر مسلم ان میں سے نصف یا تیسرا حصہ یا چوتھا حصہ یا پانچواں حصہ ہی اپنے مذہب کے عقائد کی صداقت کے ثبوت میں اپنی الہامی کتاب سے نکال کر دکھاوے یا اگر دلائل پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے دلائل ہی کو نمبر وار توڑ کر دکھا دے تو میں بلا تامل اپنی دس ہزار کی جائداد اس کے حوالہ کر دوں گا.اور وہ چیلنج حسب ذیل ہے.میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفی ﷺ سے منکر ہیں اتماما للحجتہ شائع کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے ان سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارہ حقیقت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیا ہ اسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے تحریر کیں ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کر کے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کر سکے تو نصف ان سے یا ثلث ان سے یا ربع ان سے یا شمس ان سے نکال کر
59 پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار تو ڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولہ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہر کر دیں کہ ایفاء شرط جیسا کہ چاہئے تھا ظہور میں آ گیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے وحیلے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۷۲ ۷۳ ) براہین احمدیہ کے چیلنج کارڈ عمل اس چیلنج کے جواب میں بعض مخالفین اسلام نے اس کتاب کا رڈ لکھنے کے پُر جوش اعلانات کئے جس پر آپ نے فورا لکھا کہ:.سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتار دھار میں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے الہہ باطلہ.(براہین احمدیہ حصہ دوم.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۷،۵۶) ایسے موقع پر عیسائیوں، آریہ سماجیوں، اور برہموسماجیوں کا فرض تھا کہ وہ اس کتاب کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی کتاب شائع کرتے.مگر سوامی دیانند صاحب بھی جو براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد تین برس تک زندہ رہے بالکل خاموش ہی رہے.اور بر ہموسما جیوں نے بھی چُپ ہی سادھ لی.البتہ آریہ سماج پشاور کے ایک مشہور شخص پنڈت لیکھرام نامی نے جو بعد میں آپ کے مقابلہ میں آکر ہمیشہ کیلئے آریہ دھرم کی شکست پر مہر لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوا ایک کتاب " تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے شائع کی..جن لوگوں کو پنڈت مذکور کی تحریرات دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس تحریر میں سوائے سب وشتم اور ہنزلیات کے اور کچھ نہیں تھا.یہ کتاب بھی جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ایسی ہی لایعنی باتوں کا مجموعہ تھی مگر اسے
60 بھی بغیر جواب کے نہیں چھوڑا گیا.حضرت بانی سلسلہ کے ایک نامور مرید حضرت مولانا نورالدین صاحب نے جو بعد میں آپ کے خلیفہ قرار پائے ” تصدیق براہین احمدیہ کے نام سے اس کا جواب شائع کیا ہے جو قابل تحسین ہے.ایک برہمو سماجی لیڈر دیونندرناتھ سہائے اس چیلنج کے متعلق لکھتے ہیں."برہمو سماج کی تحریک ایک زبردست طوفان کی طرح اٹھی اور آنا فانا نہ صرف ہندوستان بلکہ غیر ممالک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہوگئیں.بھارت میں نہ صرف ہندو اور سکھ ہی اس سے متاثر ہوئے بلکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی...عین ان ہی دنوں میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جو مسلمانوں کے ایک بڑے عالم تھے ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف کتابیں لکھیں اور ان کو مناظرے کیلئے چیلنج دیا.افسوس ہے کہ بر ہمو سماج کے کسی ودوان نے اس چیلنج کی طرف توجہ نہیں کی جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو کہ بر ہمو سماج کی تعلیم سے متاثر تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے بلکہ با قاعدہ بر ہموسماج میں داخل ہونے والے مسلمان بھی آہستہ آہستہ اسے چھوڑ گئے.(ہندی سے ترجمہ) ނދގޫ سرمه چشم آرید (رسالہ کو مدی کلکته اگست ۱۹۲۰ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کتاب ۱۸۸۶ء میں لالہ مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر رکن آریہ سماج ہوشیار پور کے ساتھ ایک مذہبی مباحثہ کے بعد لکھی جس میں معجزہ شق القمر، نجات دائمی ہے یا محدود، روح و مادہ حادث ہیں یا انا دی.اور مقابلہ تعلیمات وید و قرآن پر مفصل بحث کی گئی ہے اور اس کتاب کا رڈ لکھنے والے کو مبلغ پانچ صدر و پیدا انعام دینے کا چیلنج بھی دیا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا.
61 یہ کتاب یعنی سرمه چشم آریہ تقریب مباحثہ لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر ہوشیار پور جو عقائد باطلہ وید کی بکلی بیخ کنی کرتی ہے اس دعوئی اور یقین سے لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا ر ڈ نہیں کرسکتا کیونکہ سچ کے مقابل پر جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں رڈ کئے گئے ہیں سچ سمجھتا ہے اور اب بھی دید اور اس کے ایسے اصولوں کو ایشرکرت ہی خیال کرتا ہے تو اس کو اسی ایشر کی قسم ہے کہ اس کتاب کا رڈ لکھ کر دکھلاوے اور پانسور و پیدا انعام پاوے.(سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۲۱) تحفہ گولڑویہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کتاب ۱۹۰۰ء میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور ان کے مریدوں اور ہم خیال لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے تالیف فرمائی جس میں آپ نے اپنے دعوی کی صداقت پر زبردست دلائل دیئے اور نصوص قرآنی وحدیثیہ سے ثابت کیا کہ آنے والے مسیح موعود کا امت محمدیہ میں ظاہر ہونا ضروری تھا اور اس کے ظہور کا یہی زمانہ تھا جس میں اللہ تعالی نے مجھے مبعوث فرمایا ہے.حضرت اقدس نے اس کتاب کا رڈ لکھنے والے کو پچاس ہزار روپیہ انعام دینے کا وعدہ بھی فرمایا ہے.اشتہار انعامی پچاس روپیه میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اول سے آخر تک توڑ دیں.اور پھر مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کر کے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کر کے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل
62 کے مقابل پر جس کو دہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سُنا دیں گے.پیر صاحب کے جوابات سُنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچاس روپیہ انعام بطور فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دونگا.مگر یہ پیر صاحب کا ذمہ ہوگا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کو ہدایت کریں کہ تا وہ مبلغ پچاس روپیہ اپنے پاس بطور امانت جمع کر کے با ضابطہ رسید دیدیں اور مندرجہ بالہ طریق کی پابندی سے قسم کھا کر ان کو اختیار ہوگا کہ وہ بغیر میری اجازت کے پچاس روپیہ پیر صاحب کے حوالہ کر دیں.قسم کھانے کے بعد میری شکایت اُن پر کوئی نہیں ہوتی.صرف خدا پر نظر ہوگی جس کی وہ قسم کھائیں گے.پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ فضول عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے رڈ کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے.کیونکہ اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں.المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان یکم نمبر ۱۹۰۲ء (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳۶) اعجاز احمدی مدضلع امرتسر میں ۲۹، ۳۰ اکتو بر ۱۹۰۲ء کو مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی ثناء اللہ امرتسری کے درمیان ایک مباحثہ ہوا جس کے بعد حضرت اقدس نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کا تحریری جواب دینا مناسب خیال فرمایا.چنانچہ ۸/نومبر ۱۹۰۲ء سے ۱۲ نومبر ۱۹۰۲ ء تک صرف پانچ روز میں یہ کتاب مکمل کر لی.اس کتاب میں حضور نے محض خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے عربی زبان میں ایک طویل قصیدہ بھی درج فرمایا ہے جس میں مذکور مباحثہ کا ذکر کیا گیا ہے.حضور فرماتے ہیں.
63 چونکہ میں یقین دل سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تائید کا یہ ایک بڑا نشان ہے تا وہ مخالف کو شرمندہ اور لا جواب کرے.اس لئے میں اس نشان کو دس ہزار روپیہا انعام کے ساتھ مولوی ثناء اللہ امرتسری اور اس کے مددگاروں کے سامنے پیش کرتا ہوں.“ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۶) اور فرمایا.اگر اس تاریخ سے یہ قصیدہ اور اردو عبارت ان کے پاس پہنچے چودہ دن تک اسی قدر اشعار بلیغ و فصیح جو اس قدر مقدار اور تعداد سے کم نہ ہوں شائع کر دیں تو دس ہزار روپیہ ان کو انعام دوں گا.ان کو اختیار ہوگا کہ مولوی محمد حسین صاحب کی مدد لیں یا کسی اور صاحب کی مدد لیں.اور نیز اس وجہ سے بھی ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ میرے ایک اشتہار میں پیشگوئی کے طور پر خبر دی گئی ہے کہ اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک کوئی خارق عادت نشان ظاہر ہوگا اور گوہ نشان اور صورتوں میں بھی ظاہر ہو گیا ہے لیکن اگر مولوی ثناء اللہ اور دوسرے مخاطبین نے اس میعاد کے اندر اس قصیدہ اور اس اردو مضمون کا جوب نہ لکھایا نہ لکھوایا تو یہ نشان ان کے ذریعہ سے پورا ہو جائے گا.“ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۴۷) حضرت اقدس نے اس کتاب کے آخر پر دس ہزار روپیہ کے انعام کا ایک اشتہار بھی شائع فرمایا جس میں آپ نے چودہ دن کی بجائے ہیں دن کی مہلت کر دی اور فرمایا:.یہ رسالہ ان تمام صاحبوں کی خدمت میں جو اس قصیدہ میں مخاطب ہیں بذریعہ رجسٹری روانہ کر دوں گا.۱۸-۱۷ - ۱۹/ نومبر ۱۹۰۲ ء.ان دنوں تک بہر حال اُن کے پاس جابجا یہ قصیدہ پہنچ جائیگا.اب اُن کی میعاد ۲۰ نومبر سے شروع ہوگی.پس اس طرح پر دس دسمبر ۱۹۰۲ ء تک اس میعاد کا خاتمہ ہو جائیگا.پھر اگر ہیں
64 دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ء کی دسویں کے دن کا شام تک ختم ہو جائے گی.اُنہوں نے اس قصیدہ اور اُردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہو گیا اور میرا سلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہئے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں.لیکن اگر اب بھی مخالفوں نے عمداً کنارہ کشی کی.تو نہ صرف دس ہزار روپے کے انعام سے محروم رہیں گے.بلکہ دس لعنتیں اُن کا ازلی حصہ ہوگا.اور اس انعام میں سے ثناء اللہ کو پانچہزار ملے گا.اور باقی پانچ کو اگر فتحیاب ہو گئے ایک ایک ہزار ملے گا.“ والسلام عَلَى مِنَ اتبعُ الهُدَى خاکسار میرزاغلام احمد قادیانی (اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹اصفحہ ۲۰۵) ایک عظیم پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس چیلنج کے علاوہ بطور پیشگوئی یہ بھی تحریر فرمایا کہ.”دیکھو میں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں.اگر میں صادق ہوں اور خدا جانتا ہے کہ میں صادق ہوں تو کبھی ممکن نہ ہوگا کہ مولوی ثناء اللہ اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں.اور اردو مضمون کا رڈ لکھ سکیں.کیونکہ خدا تعالیٰ ان کی قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں کو غیبی کر دے گا.“ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۴۸) اسی طرح عربی قصیدہ میں آپ فرماتے ہیں:.فان اک كاذبا فياتي بمثلها و ان اک من ربی فیغشی و یثبر
65 یعنی اگر میں جھوٹا ہوں تو وہ ایسا قصیدہ بنا لائے گا.اور اگر میں خدا کی طرف سے ہوں تو اس کی سمجھ پر پردہ ڈالا جائے گا اور روکا جائے گا.“ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵۶) میعاد گزرگئی مگر علماء سے نہ انفرادی طور پر نہ اجتماعی طور پر اس کا جواب بن سکا.اور پیشگوئی کے مطابق سچ سچ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل نجمی کر دیئے اور ان کے قلم توڑ دیئے اور پیشگوئی مندرجہ بالا اشتہار تریاق القلوب) کے اخیر دسمبر ۱۹۰۲ ء تک ایک بڑا نشان ظہور میں آئے گا بڑی آب و تاب سے پوری ہوگئی.عربی کتب نویسی کے مقابلہ کے چیلنج حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کسی کالج یا مشہور و معروف مدرسہ میں یا کسی مشہور استاد سے دینی یا عربی علم ادب کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ بعض غیر معروف اسا تذہ سے عربی کی چند کتب پڑھی تھیں.اس لئے کسی شخص کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ آپ معمولی عربی زبان میں کوئی کتاب یا رسالہ تالیف کر سکتے ہیں.چہ جائیکہ فصیح و بلیغ عربی میں پر از معارف و حقائق معنیم کتب لکھ سکیں.یہی وجہ تھی کہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور دیگر مولویوں نے آپ سے متعلق یہ مشہور کر دیا تھا کہ آپ علوم عربیہ سے جاہل ہیں اور حقیقت یہی تھی کہ آپ کا اکتسابی علم ایسا نہ تھا کہ آپ فصیح و بلیغ عربی میں کوئی مضمون یا رسالہ یا کتاب تحریر فرماسکیں.مگر عربی زبان کا علم آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا اور اعجازی رنگ میں ہوا تھا جیسا کہ خود حضرت اقدس نے فرمایا:.وان كمالي في اللسان العربي مع قلة جهدى وقصور طلبي.آيةً واضحةً من ربي ليظهر على الناس علمی وادبي.فهل من معارض في جميع المخالفين وانی معذالک علمت اربعين الفا من اللغات
66 العربيه واعطيت بسطة كاملة في العلوم الادبية.“ یعنی عربی زبان میں باوجود میری کمی کوشش اور کوتا ہی جستجو کے جو مجھے کمال حاصل ہے وہ میرے رب کی طرف سے ایک کھلا نشان ہے تا وہ لوگوں پر میرے علم اور میرے ادب کو ظاہر کرے.پس کیا مخالفوں کے گروہوں میں سے کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آوے اور اس کے ساتھ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھایا گیا ہے اور مجھے عربی علوم پر پوری وسعت عطا کی انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲۳۴) گئی ہے.اور ضرورت الامام میں فرماتے ہیں.میں قرآن مجید کے معجزہ کے ظل کے طور پر فصاحت و بلاغت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں جو میرا مقابلہ کر سکے.“ ( ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۶) اور لجة النور میں تحریر فرماتے ہیں."كلما قلت من كمال بلاغتى فى البيان فهو بعد كتاب الله القرآن“ یعنی جو کچھ میں نے اپنی کمال بلاغت بیانی سے کہا تو وہ کتاب اللہ قرآن مجید کے بعد 66 دوسرے درجہ پر ہے.الجبہۃ النور.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۶۴) پھر انشاء پردازی کے وقت تائید الہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یہ بات اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے.“ ( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فصیح و بلیغ عربی میں میں سے زیادہ کتابیں لکھنا تائید الہی سے تھا.آپ کے اکتسابی علم کا نتیجہ نہ تھا.اس لئے آپ نے نہایت فصیح و بلیغ عربی میں ہیں سے
67 زیادہ رسالے اور کتابیں لکھیں اور مخالف علماء کو ہزار ہا روپیہ کے انعامات مقرر کر کے مقابلہ کے لئے بلایا.لیکن کسی کو بالمقابل کتاب یا رسالہ لکھنے کی جرات نہ ہوئی.چنانچہ آپ نے اپنی عربی کتب کے بالمقابل کتب لکھنے کے جو چیلنج دیئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے.کرامات الصادقين حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رسالہ ۱۸۹۳ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور اس کے ہم مشرب دوسرے علماء کی عربی دانی اور حقائق شناسی کی حقیقت ظاہر کرنے کیلئے اتمام حجت کے طور پر تصنیف فرمایا.یہ رسالہ چار قصائد اور تفسیر سورۃ فاتحہ پر مشتمل ہے.اور یہ قصائد حضرت اقدس نے صرف ایک ہفتہ کے اندر لکھے اور وہ بھی اس وقت جب آپ آتھم کے ساتھ مباحثہ سے فارغ ہو کر امرتسر میں مقیم تھے.مگر آپ نے بٹالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب علماء کو محض اتمام حجت کی غرض سے پورے ایک مہینہ میں اس رسالہ کے مقابل پر فصیح و بلیغ عربی رسالہ لکھنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اور اگر اس رسالہ کے مقابل پر میاں بطالوی صاحب یا کسی اور ان کے ہم مشرب نے سیدھی نیت سے اپنی طرف سے قصائد اور تفسیر سورۂ فاتحہ تالیف کر کے بصورت رسالہ شائع کر دی تو میں سچے دل سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ثالثوں کی شہادت سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ ان کے قصائد اور ان کی تفسیر جو سورہ فاتحہ کے دقائق اور حقائق کے متعلق ہوگی میرے قصائد اور میری تفسیر سے جو اس سورہ مبارکہ کے اسرار لطیفہ کے بارہ میں ہے ہر پہلو سے بڑھ کر ہے تو میں ہزار روپیہ نقدان میں سے ایسے شخص کو دوں گا جو روز اشاعت سے ایک ماہ کے اندر ایسے قصائد اور ایسی تفسیر بصورت رساله شائع کرے اور نیز یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اگر ان کے قصائد اور ان کی تفسیر نحوی اور صرفی و علم بلاغت کی غلطیوں سے مبرا نکلے اور میرے قصائد اور تفسیر سے بڑھ کر نکلے تو
68 پھر باوصف اپنے اس کمال کے اگر میرے قصائد اور تفسیر کے بالمقابل کوئی غلطی نکالیں توفی غلطی پانچ رو پید انعام بھی دوں گا.تفسیر لکھنے کے وقت یہ یادر ہے کہ کسی دوسرے شخص کی تفسیر کی نقل منظور نہیں ہوگی بلکہ وہی تفسیر لائق منظور ہوگی جس میں حقائق و معارف جدیدہ ہوں بشرطیکہ کتاب اللہ اور فرمودہ رسول اللہ اللہ کے مخالف نہ ہوں“ کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ ۴۹) اس بارہ میں حضور نے کرامات الصادقین میں ہی یہ بھی فرمایا.” ہم فراست ایمانیہ کے طور پر یہ پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ شیخ صاحب اس طریق مقابلہ کو بھی ہرگز قبول نہیں کریں گے اور اپنی پرانی عادت کے موافق ٹالنے کی کوشش کریں گے.مگر اب شیخ صاحب کے لئے طریق آسان نکل آیا ہے کیونکہ اس رسالہ میں صرف شیخ صاحب ہی مخاطب نہیں بلکہ وہ تمام مکفر مولوی بھی مخاطب ہیں جو اس عاجز متبع اللہ اور رسول کو دائرہ اسلام سے خارج خیال کرتے ہیں.سولا زم ہے کہ شیخ صاحب نیازمندی کے ساتھ ان کی خدمت میں جائیں اور ان کے آگے ہاتھ جوڑمیں اور رودمیں اور ان کے قدموں پر گریں لیکن مشکل یہ ہے کہ اس عاجز کو شیخ جی اور ہر ایک مکفر بداندیش کی نسبت الہام ہو چکا ہے کہ اتنی مھین من اَرَادَ اکائنگ اس لئے یہ کوششیں شیخ جی کی ساری عبث ہوں گی.اور اگر کوئی مولوی شوخی اور چالا کی کی راہ سے شیخ صاحب کی حمایت کیلئے اٹھے گا تو منہ کے بل گرا دیا جائے گا.خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کے تکبر کو توڑ دے گا اور دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے ( کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد کے صفحہ ۶۷ ،۶۶) اور ایسا ہی ہوا.یہ شیخ محمد حسین بٹالوی کو ہمت ہوئی اور نہ ہی دوسرے مکفرین کو کہ وہ اس
69 رسالہ کے مقابلہ پر رسالہ لکھ کر اپنی عربی دانی اور قرآن دانی کا ثبوت دیتے.نیز حضور نے کرامات الصادقین کے متعلق یہ بھی چیلنج فرمایا کہ.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ شیخ بطالوی صاحب نے جس قدر اس عاجز کی بعض عربی عبارات سے غلطیاں نکالی ہیں اگر ان سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ اب اس شیخ کی تیرگی اور بے حیائی اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ صحیح اس کی نظر میں غلط اور فصیح اس کی نظر میں غیر فصیح دکھائی دیتا ہے.اور معلوم نہیں کہ یہ نادان شیخ کہاں تک اپنی پردہ دری کرانا چاہتا ہے اور کیا کیا ذلتیں اس کے نصیب میں ہیں.بعض اہل علم ادیب اس کی باتیں سن کر اس کی اس قسم کی نکتہ چینیوں پر اطلاع پا کر روتے ہیں کہ یہ شخص کیوں اس قدر جہل مرکب کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے.میں نے پہلے بھی لکھ دیا ہے اور اب پھر ناظرین کی اطلاع کیلئے لکھتا ہوں کہ میاں بطالوی نے میرے ان قصائد اربعہ اور تفسیر سورہ فاتحہ کا مقابلہ کر دکھلایا اور منصفوں کی رائے میں وہ قصائد اور وہ تفسیر ان کی صرفی نحوی غلطیوں سے مبر انکلی تو میں ہر یک غلطی کی نسبت جو ان قصائد اور تفسیر میں پائی جائے یا میری کسی پہلی عربی تالیف میں پائی گئی ہو پانچ روپیہ فی غلطی شیخ بطالوی کی نذر کروں گا.“ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد سے صفحہ ۴۳ ۴۴۷ ) نور الحق مرتدین از اسلام پادریوں میں سے ایک پادری عماد الدین نے ایک کتاب بعنوان ” توزین الاقوال لکھی جو نہایت دل آزار اور اشتعال انگیز تھی.اس کتاب میں قرآن کریم ، آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اعتراضات اور الزامات کا نشانہ بنایا گیا تھا.جب یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچی تو آپ نے اس کے جواب میں یہ رسالہ نور الحق حصہ اول لکھا اور پادری مذکور کے جملہ اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات دیئے.
70 اس کتاب کے عربی زبان میں لکھنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ مرتدین از اسلام پادری لوگ اپنا مولوی اور علماء اسلام میں سے ہونا مشہور کرتے تھے اور اسی وجہ سے انگریز پادریوں کی نظر میں عزت سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی خوب خاطر مدارات کی جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے جواب میں یہ کتاب عربی زبان میں لکھی اور ان کو چیلنج کیا کہ اگر وہ اس دعوئی میں بچے ہیں کہ وہ عالم ہیں اور عربی زبان جانتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں عربی زبان میں ایسی ہی کتابیں لکھیں اور ان پادریوں کے نام بھی اس کتاب میں درج کر دیئے.بصورت مقابلہ ان کیلئے پانچ ہزار روپیہ کا انعام دینے کا وعدہ فرمایا.چنانچہ آپ نے فرمایا.فليبادر من كان من ذوى العلم والعينين وقد الهمت من ربى انهم كلهم كالاعمى ولن ياتوا بمثل هذا وانهم كانوا في دعاويهم كاذبين.فهل منهم من يبارز رسالة ويجلي في هيجاء البلاغة عن بسالة ويـكـذب الـهـامـي وياخذ انعامى ويتحامى اللعنة ويعين القوم والملة ويجتنب طعن الطاعنين.وانى فرصت لهم خمسة آلاف من الدراهم المروجة بعد مؤكد من الحلف بكل حال من الضيق والسعة بشرط ان یاتوا بمثلها فرادى فرادى او باعانة كل من عادوا وان لم يفعلوا ولن يفعلوا فاعلموا انهم جاهلون كذابون و فاسقون.نور الحق.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۶۰) پس ہر صاحب علم و بصیرت کو اس بارہ میں جلدی کرنی چاہئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا ہے کہ وہ سب کے سب اندھوں کی طرح ہیں اور اس کی نظیر ہرگز پیش نہیں کر سکیں گے.نیز یہ کہ وہ اپنے دعاوی میں جھوٹے ہیں پس کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس پیغام کے ساتھ مقابلہ کرنے کو نکلے اور بہادری کی راہ سے بلاغت کی جنگ
71 میں نمودار ہو.اور میرے الہام کو جھوٹا قرار دے سکے اور مجھ سے انعام لے اور پھر لعنت سے بچ سکے نیز قوم وملت کی اس بارہ میں مدد کر سکے.اور طعن و تشنیع کرنے والوں کی طعن سے بچ سکے.تو ایسے شخص کیلئے میں نے مؤکد قسم کے ساتھ پانچ ہزار رائج الوقت ڈالر ہر حالت تنگی اور کشائش میں مقرر کر دیئے ہیں بشرطیکہ وہ اس کی نظیر لے آئیں.خواہ انفرادی طور پر یا دشمنوں کی مدد کے ساتھ.اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں اور ہرگز وہ ایسا نہ کرسکیں گے تو جان لو کہ یہ لوگ بالکل جاہل، جھوٹے اور فاسق ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.کوئی پادری بھی اس مقابلہ کیلئے تیار نہ ہوا.اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی روز روشن کی طرح پوری ہوگئی.اس کے بعد حضور نے دار قطنی کی حدیث کے مطابق ۱۸۹۴ء میں ظاہر ہونے والے کسوف و خسوف کے عظیم الشان نشان کے بعد ”نورالحق حصہ دوم‘ لکھی اور علماء کے ان تمام اعتراضات کے جوابات معقول اور مدلل طریق سے بہ شرح وبسط دیئے.اس رسالہ کے ٹائیٹل پیج پر " زیر عنوان تنبیہ یہ بھی تحریر فرمایا.یہ کتاب مع پہلے حصہ اس کے پادری عماد الدین اور شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ اور ان کے انصار و اعوان کی حقیقت علمیہ ظاہر کرنے کیلئے تیار ہوئی ہے.جس کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ انعام کا اشتہار ہے.اگر چاہیں تو روپیہ پہلے جمع کرا لیں اور اگر بالمقابل کتاب لکھنے کیلئے تیار ہوں اور انعامی روپیہ جمع کروانا چاہیں تو ایسی درخواست کی میعادا خیر جون ۱۸۹۴ ء تک ہے.بعد اس کے سمجھا جائے گا کہ بھاگ گئے اور کوئی درخواست منظور نہیں ہوگی.“ اور اسی طرح اتمام الحجہ میں بھی رسالہ نور الحق سے متعلق لکھا.” ہماری طرف سے تمام پادریوں اور شیخ محمد حسین بٹالوی اور مولوی رُسل بابا امرتسری
72 اور دوسرے ان کے رفقاء اس مقابلہ کیلئے مدعو ہیں اور درخواست مقابلہ کیلئے ہم نے ان سب کو اخیر جون ۱۸۹۴ء تک مہلت دی ہے اور سالہ بالمقابل شائع کرنے کیلئے روز درخواست سے تین مہینہ کی مہلت ہے ( اتمام الحجہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۰۴) سر الخلافہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۴ء میں تصنیف فرمائی.اس کتاب میں آپ نے مسئلہ خلافت پر جو اہل سنت اور شیعوں میں صدیوں سے زیر بحث چلا آیا ہے سیر کن بحث کی ہے اور دلائل قطعیہ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی چاروں خلیفہ برحق تھے تاہم حضرت ابوبکر سب صحابہ سے اعلیٰ شان رکھتے تھے اور اسلام کیلئے آدم ثانی تھے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر شیعہ صاحبان کی طرف سے غصب وغیرہ کے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے مدلل اور مسکت جواب بھی دیئے ہیں.نیز ان کے اور باقی صحابہ کے فضائل کا بھی ذکر فرمایا ہے.اور شیعوں کی غلطی کو الم نشرح کیا ہے.نیز آپ نے کتاب میں عقیدہ ظہور مہدی کا ذکر کر کے اپنے دعوی مهدویت پر شرح وبسط سے بحث کی ہے.اس کتاب کے عربی زبان میں لکھنے کا مقصد حضور نے یہ تحریر فرمایا ہے.یہ کتاب مولوی محمد حسین بٹالوی اور دوسرے علماء مکفرین کے الزام اور اور ان کی مولویت کی حقیقت کھولنے کے لئے بوعدہ انعام ستائیس روپیہ شائع ہورہی ہے.“ ٹائیٹل پیچ سر الخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۱۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کے شروع میں ہی اپنی کتب سے غلطیاں نکالنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک اشتہار دیتے ہوئے یہ تجویز پیش کی ہے کہ.چاہئے کہ اول مثلا اس رسالہ کے مقابل پر رسالہ لکھیں اور پھر اگر ان کا رسالہ وو
73 غلطیوں سے خالی نکلا اور ہمارے رسالہ کا بلاغت فصاحت میں ہم پلہ ثابت ہوا تو ہم سے علاوہ انعام بالمقابل رسالہ کے فی غلطی دور و پیہ بھی لیں جس کیلئے ہم وعدہ کر چکے ہیں ورنہ یونہی نکتہ چینی کرنا حیا سے بعید ہوگا.والسلام علی من اتبع الھدی.“ (سر الخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲) اس کے بعد حضرت اقدس نے شیخ محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے ”سر الخلافہ“ جیسا رساله ۲۷ یوم میں لکھنے پر فی دن ایک روپیہ کے حساب سے ستائیس روپیہ کا انعام دینے کا وعدہ بھی فرماتے ہوئے لکھا کہ.اور اب دونوں کتابوں (یعنی کرامات الصادقین اور نورالحق.ناقل ) کے بعد یہ کتاب سرالخلافہ تالیف ہوئی ہے جو بہت مختصر ہے اور نظم اس کی کم ہے اور ایک عربی ان شخص ایسا رسالہ سات دن میں بنا سکتا ہے اور چھپنے کیلئے دس دن کافی ہیں.لیکن ہم شیخ صاحب کی حالت اور اس کے دوستوں کی کم مائیگی پر بہت ہی رحم کر کے دس دن اور زیادہ کر دیتے ہیں اور یہ ستائیس دن ہوئے.سو ہم فی دن ایک روپیہ کے حساب سے ستائیس روپیہ انعام پر یہ کتاب شائع کرتے ہیں.“ دان مزید فرمایا:.(سرالخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۰۰) پس آپ کو خدا تعالے کی قسم ہے کہ اگر آپ کو علم عربی میں کچھ بھی دخل ہے ایک ذرہ بھی دخل ہے تو اب کی دفعہ تو ہرگز منہ نہ پھیریں.اور اگر اس رسالہ میں کچھ غلطیاں ثابت ہوں تو آپ کے مقابل رسالہ کی غلطیوں سے جس قدر زیادہ ہوں گی فی غلطی ایک روپیہ آپ کو دیا جائے گا چھپیں جولائی ۱۸۹۴ء تک اس درخواست کی میعاد ہے.اگر آپ نے ۲۵ جولائی ۱۸۹۴ء تک یہ درخواست چھاپ کر بذریعہ کسی اشتہار کے نہ
74 66 بھیجی تو سمجھا جاوے گا کہ آپ اس سے بھی بھاگ گئے.“ (سرالخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۱۸) مگر جس طرح مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اور ان کے دوسرے ساتھی پہلی کتابوں و کرامات الصادقین“ اور ”نور الحق وغیرہ کے مقابلہ میں جس کے ساتھ ہزار ہا روپیہ کا انعام مقرر تھا کتا بیں لکھنے سے عاجز آ گئے اسی طرح رسالہ سر الخلافہ کے مقابلہ سے بھی عاجز رہے.حجۃ اللہ ۱۸۹۷ء میں مولوی عبدالحق غزنوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک نہایت گندہ اشتہار شائع کیا.اور آپ کی عربی دانی پر معترض ہوا اور اپنی قابلیت جتانے کے لئے عربی زبان میں مباحثہ کرنے کی دعوت دی.اس دعوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور فرماتے ہوئے یہ شرط لگائی کہ چونکہ آپ کے نزدیک میں عربی نہیں جانتا اور محض جاہل ہوں اس لئے اگر آپ مجھ سے شکست کھا گئے تو آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے ایک معجزہ سمجھ کر فی الفور میری بیعت میں داخل ہونا ہوگا.لیکن جب مولوی غزنوی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اس کے ساتھ شیخ نجفی کچھ بولا تو آپ نے مولوی غزنوی اور شیخ نجفی کو مخاطب کر کے یہ رسالہ فصیح و بلیغ عربی میں ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء کو لکھنا شروع کیا اور ۲۶ مئی ۱۸۹۷ء کو مکمل کر دیا.اس رسالہ میں جو اسرار ربانیہ اور محاسن ادبیہ پر مشتمل ہے آپ نے مکفرین علماء پر حجت قائم کرنے کیلئے نجفی اور غزنوی کے علاوہ مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھی ان الفاظ میں دعوت مقابلہ دی ” و مـن يـكتـب مـنهـم كتابا كمثل هذه الرسالة.الى ثلثة اشهر او الى الاربعة فقد كذبني صدقا وعدلا و اثبت انني لست من الحضرة الاحدية فهل في الحي حي يقضى هذه الخطة.وينجى من التفرقة
75 الامة.......ايهـا الـمـكـذبـون الكذابون.مالكم لا تجيئُون ولا تناضلون وتدعون ثم لا تبارزون ويل لكم ولما تفعلون يمعشر الجهلين.“ ( المعلن غلام احمد قادیانی ۲۶ مئی ۱۸۹۷ء) (حجۃ اللہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۴۰) ترجمہ :.اور اگر کوئی شخص اس کتاب جیسی کتاب تین یا چار ماہ کے اندر لکھ سکے تو واقعہ اس نے مجھے جھوٹا ثابت کر دیا اور اس نے گویا ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں.تو کیا اس بستی میں کوئی ذی روح ایسا ہے جو یہ کام کر کے دکھلا سکے اور اُمت کو تفرقہ سے بچا سکے....اسے جھوٹو اور مجھے جھٹلانے والو تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم مقابلہ کیلئے میدان میں کیوں نکل کھڑے نہیں ہوتے اور دعا نہیں کرتے.اے جاہلوں کے گروہ تم پر ہلاکت ہو تم ایسا کیوں نہیں کرتے.الهدى والتبصرة لمن يرى حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب اعجاز مسیح “ کا ایک نسخہ تقریظ کیلئے علامہ الشیخ محمد رشید رضا مدیر المنار کو بجھوایا.الشیخ رشید محمد رضا نے اس کتاب پر سخت تنقید کی اور ساتھ یہ کہا ان كثيرا من اهل العلم يستطيعون ان يكتبوا خيرا منه في سبعة ايام یعنی بہت سے اہل علم اس سے بہتر سات دن میں لکھ سکتے ہیں.جب اس کا ریو یو ہندوستان میں شائع ہوا تو علمائے ہند نے اس کی آڑ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف از سر نو مخالفت کا ایک طوفان برپا کر دیا.تب آپ نے احقاق حق اور ابطال باطل اور اتمام حجت کیلئے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی چاہی تو آپ کے دل میں ڈالا گیا کہ آپ اس مقصد کیلئے ایک کتاب تالیف فرما ئیں اور پھر مدیر المنار اور ہر اس شخص سے جو ان شہروں میں
76 مخالفت کیلئے اٹھے ہیں اس کی مثل طلب کریں.چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت ہی تضرع اور خشوع و خضوع سے دعا کی یہاں تک کہ قبولیت دعا کے آثار ظاہر ہوئے.چنانچہ آپ نے فرمایا.اور مجھے اس کتاب کی تالیف کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق بخشی گئی.سو میں تکمیل ابواب اور اس کی طبع کے بعد اسے اس کی طرف بھیجوں گا.اگر مدیر المنار نے اس کا اچھا جواب دیا اور عمدہ رڈ لکھا تو میں اپنی کتابیں جلا دوں گا اور اس کی قدم بوسی کروں گا اور اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤں گا اور پھر دوسرے لوگوں کو اس کے پیمانہ سے ناپوں گا.سو میں پروردگار جہان کی قسم کھاتا ہوں اور اس قسم کے عہد کو پختہ کرتا (الھدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۶۴،۴۶۳) ہوں.“ مگر ساتھ ہی یہ پیشگوئی بھی فرمائی.ام لــه فـي البراعة يـد طـولـى سيهزم فلا يرى.نبأ من الله الذى يعلم السر واخفى.“ (الهدى.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۶۵ ) یعنی کیا مدیر المنار کو فصاحت و بلاغت میں بڑا کمال حاصل ہے؟ وہ یقیناً شکست کھائے گا اور میدان مقابلہ میں نہ آئے گا.یہ پیشگوئی اس خدا کی طرف سے ہے جو نہاں در نہاں باتوں کا علم رکھتا ہے.مدیر المنار کے علاوہ دوسرے علماء وادباء سے متعلق بھی فرمایا.ام يزعمون انهم من اهل اللسان سيهزمون ويولون الدبر عن الميدان الهدى.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۶۸) یعنی کیا وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اہل زبان ہیں.عنقریب وہ شکست کھائیں گے اور میدان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے.
77 جب یہ کتاب شائع ہوئی اور اس کا ایک نسخہ شیخ رشید رضا صاحب کو بھی ہدیۂ بجھوایا گیا تو انہوں نے الھدی سے قبر مسیح کے متعلق مضمون کا بہت سا حصہ نقل کر کے جو مسیح کی کشمیر کی طرف ہجرت سے متعلق تھا اپنے رسالہ المنار میں نقل کر کے لکھا کہ ایسا ہونا عقلا ونقلا مستبعد نہیں.لیکن انہیں یہ توفیق نہ مل سکی کہ اس کے جواب میں ایسی فصیح و بلیغ کتاب لکھ کر آپ کی پیشگوئی کو باطل ثابت کرتے.اس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کمال آب و تاب سے پوری ہوئی.عربی نویسی کے مقابلوں کے چیلنجوں کا ردعمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فصیح و بلیغ عربی میں کتا میں لکھنا چونکہ تائید الہی سے تھا.آپ کے اکتسابی علم کا نتیجہ نہ تھا اس لئے مخالف علماء نے آپ کے اس چیلنج کو قبول کرنے کی بجائے ویسے ہی اعتراضات کئے جیسے کہ آنحضرت میہ کے مخالفین نے قرآنی چیلنج کے جواب میں کئے تھے کہ ایسا فصیح و بلیغ اور پر از معارف اور حقائق و دقائق کلام آنحضرت جیسے امی شخص کا کام نہیں ہوسکتا.اس لئے ایک طرف تو انہوں نے کہا إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ “ کہ اسے کوئی اور بشر سکھاتا ہے.’و اعانه علیه قوم آخرون ، یعنی دوسرے اور لوگ ہیں جو قرآن کی تالیف میں آپ کی اعانت کر رہے ہیں.اور دوسری طرف کہا کہ ”لو نشاء لـقـلـنـا مثـل هـذا ان هذا الا اساطیر الاولین “ یعنی اگر ہم چاہیں تو ہم ایسا کلام کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اس لئے اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ اس میں پہلوں کے قصوں اور سٹوریوں کے سوا رکھا ہی کیا ہے اور بعد میں آنے والے مخالف عیسائیوں نے یہ بھی لکھنا شروع کر دیا کہ قرآن کریم تو فصیح و بلیغ بھی نہیں اور اس میں نحوی اور صرفی بہت سی غلطیاں پائی جاتی ہیں.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالف علماء کو جو آپ کو جاہل اور خود کو عالم خیال کرتے تھے مقابلہ کے لئے دعوت دی اور چیلنج پر چیلنج کیا تو ان کا جواب بھی وہی تھا جو مخالفین قرآن نے دیا تھا.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت اقدس کے عربی کلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.
78 حقیقت شناس اس عبارت سے اس کا جاہل ہونا اور کوچہ عربیت سے اس کا نابلد ہونا اور دعویٰ الہام میں کا ذب ہونا نکالتے ہیں.اور خوب سمجھتے ہیں کہ یہ عبارت عرب کی عربی نہیں اور اس کی فقرہ بندی محض تک بندی ہے.اس میں بہت سے محاورات اور الفاظ کا دیانی نے از خود گھڑ لئے ہیں.عرب عرباء سے وہ منقول نہیں اور جو اس کے عربی الفاظ و فقرات ہیں ان میں اکثر کی صرف و نحو وادب کے اصول وقواعد کی رو سے اس قدر غلطیاں ہیں کہ ان اغلاط کی نظر سے ان کو مسخ شدہ عربی کہنا بے جانہیں.اور ان کے راقم کو عربی سے جاہل اور الہام وکلام الہی سے مشرف و مخاطب ہونے سے عاطل کہنا زیبا ہے.“ پھر مخالفین نے آپ پر یہ اعتراض بھی کیا کہ جو کتا ہیں عربی زبان میں آپ تصنیف فرماتے ہیں وہ دوسروں سے لکھواتے ہیں.اور ایک شامی عرب اپنے پاس رکھا ہے جو آپ کو لکھ کر دیتا ہے اور آپ اپنے نام پر شائع کر دیتے ہیں.اور یہ اعتراض جس بیہودہ رنگ میں انہوں نے کیا یقیناً مخالفین اسلام نے آنحضرت ﷺ پر اس رنگ میں نہیں کیا ہوگا.جھوٹ بولنا آسان ہوتا ہے لیکن اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے کئی اور جھوٹ بولنے پڑتے ہیں.(اشاعۃ السنہ.جلد ۵ صفحه ۳۱۶) میں اس جگہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے اصل الفاظ نقل کر دیتا ہوں تا آئندہ آنے والے لوگ آپ کے مخالفین کی ان مذموم حرکات اور ان افتراؤں کا اندازہ لگاسکیں جو وہ مقابلہ سے بچنے اور عوام الناس کو آپ سے دور رکھنے کیلئے تراشا کرتے تھے.نیز ان کے پاس اس اعتراض کا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد کتب میں کیا ہے ایک ثبوت ہو جائے.شیخ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں.امرتسر کے گلی کوچوں میں یہ خبر مشہور تھی کہ اس قصیدہ ہمزیہ کے صلہ میں کادیانی نے شامی صاحب کو دوسوروپے دیئے ہیں.میں نے شامی صاحب سے اس خبر کی حقیقت
79 دریافت کی تو انہوں نے اس سے انکار کیا.اور ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ اس مدح و تائید کے صلہ میں کادیانی نے کسی خوبصورت عورت سے نکاح کرا دینے کا وعدہ دیا تھا.وہ اس وعدہ کے بھروسہ پر قادیان چار مہینہ کے قریب رہے.اس عرصہ میں کادیانی نے ان سے عربی میں نثر و نظم میں بہت کچھ لکھوایا اور گو دودھ بالائی آم مرغ کھلانے سے ان کی اچھی مدارات کی مگر ان کے اصل مطلوب نکاح سے ان کو محروم رکھا اور وہ وعدہ پورا نہ کیا.ایک عورت فاحشہ سے ان کا نکاح کروانا چاہا مگر اس کے فاحشہ ہونے کا ان کو علم ہو گیا.اس لئے اس کے نکاح سے انہوں نے انکار کیا اور دو تین عورتیں اور ان کو دکھا ئیں مگر وہ خوبصورت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو پسند نہ آئیں.آخر وہ قادیان سے سخت ناراض ہو کر چلے گئے.جاتے ہوئے خاکسار کو ملے تو کادیانی پر بہت ناراضگی ظاہر کرتے تھے اور یہ کہتے تھے اب میں رسالہ موسومہ بکرامات کا دیانی لکھوں گا.اس میں کا دیانی کی مکاری کا خوب اظہار کروں گا.اور انہوں نے مجھ سے اس امر کی درخواست کی کہ میں ان کی یہ سرگزشت و پرحسرت کیفیت مشتہر کر دوں اور اس پر کادیانی کی اس بے وفائی اور وعدہ خلافی پر افسوس ظاہر کروں.اس درخواست کی وجہ سے یہ چند سطور لکھے گئے ہیں اور نیز اس سے عامہ خلائق کی ہدایت و صیانت مقصود مد نظر ہے تاعام لوگ کا دیانی کے دام فریب سے واقف ہو جائیں اور اس کے دام سے اپنے آپ کو بچالیں.اس مضمون کے لکھے جانے کے بعد ہم نے سنا ہے کہ کادیانی کے پروردہ پیر ومرشد وحبیب ظاہر مرید حکیم نورالدین بھیروی نے شامی کا نکاح کہیں کرا دیا ہے اور اس خبر کے سننے سے ہم کو خوشی ہوئی اور افسوس.نیز خوشی اس لئے کہ مظلوم شامی کی حق رسی ہوئی.افسوس اس لئے کہ اب شامی صاحب کی طرف سے رسالہ "کرامات کادیانی“ کی اشاعت چندے
80 ملتوی رہے گی.شامی صاحب کے نکاح کی یہ تجویز خاکسار کہیں کرا دیتا تو ان سے جس قدر چاہتا کا دیانی کے ردو مذمت میں نظم و نثر جیسی ان کو آتی ہے لکھوا لیتا.لیکن یہ پیشہ دلالی کا دیانی صاحب کا ہی خاصہ ہے جس کے ذریعہ سے انہوں نے کئی نام نامی القاب گرامی مولوی حکیم وغیرہ وغیرہ سے اکثر سکنائے پنجاب واقف ہیں ایسے باطل اور ناجائز ذرائع سے کام نکالنا ہی ان کا شیوہ معجزہ ہے.لہذا یہ جرأت مجھ سے نہ ہوسکی اور میں نے ان کو اس طرح کی امید نہ دلائی.“ (اشاعۃ السنہ.جلد ۱۵ صفحہ۲۶۱،۲۵۸) مولوی محمد حسین بٹالوی نے مذکورہ بالا بیہودہ خیالات کا اظہار جس شامی عرب کے متعلق کیا ہے وہ وہ شخص ہے جس نے حضرت اقدس کی عربی تالیف لتبلیغ کو پڑھ کر بے ساختہ کہا'' واللہ ایسی عبارت عرب بھی نہیں لکھ سکتا اور جب اس کے آخر میں شائع شدہ آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں مدحیہ قصیدہ دیکھا تو وہ پڑھ کر بے اختیار رونے لگا اور کہا خدا کی قسم! میں نے اس زمانہ میں عربوں کے اشعار بھی کبھی پسند نہیں کئے مگر ان اشعار کو میں حفظ کروں گا.اور اتنے متاثر ہوئے کہ آخر کار قادیان آ کر آپ کی بیعت کر لی.غور کا مقام ہے کہ اگر بٹالوی صاحب کا مذکورہ بیان درست ہے تو کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں کیسے رہ سکتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے شخص کو عربی ممالک کیلئے بطور مبلغ تجویز فرما سکتے تھے.اسی اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.ثم من اعتراضات العلماء وشبهاتهم التى اشاعونا في الجهلاء ان هذا الرجل لا يعلم شيئا من العربية.بل لا حظ له من الفارسيه فضلا من دخله في اساليب هذه اللهجه ومع ذالك مدحوا انفسهم وقالوا انانـحـن مـن الـعـلـمـاء المتبحرين وقالوا انه كلما كتب في اللسان
81 العربيه.من العبارات المحبرة.والقصائد المبتكرة.فليس خاطره ابا عذرها.ولا قريحته صدف الاليها و دررهـا.بل الفهـاجل من الشاميين.واخـذ عـليه كثير من المال كالمستاجرين.فليكتب الان بعد ذهابه ان كان من الصادقين.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۳۲) ترجمہ.پھر ان علماء کے اعتراضات اور شبہات میں سے جو انہوں نے جاہلوں میں پھیلا رکھے ہیں ایک یہ ہے کہ یہ شخص عربی کا ذرہ علم نہیں رکھتا بلکہ وہ تو فارسی زبان سے بھی کوئی حصہ نہیں دیا گیا اور اپنے متعلق سمجھتے ہیں کہ ہم متبحر علماء ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے جو عمدہ ، رنگین ، دلکش عبارات اور اچھوتے قصائد عربی زبان میں لکھے ہیں وہ اس کے اپنے نہیں بلکہ ایک شامی عرب نے تالیف کئے ہیں اور بہت سا مال اس کے عوض اجرت کے طور پر اس نے لیا ہے.پس اگر وہ صادق ہے تو اس کے چلے جانے کے بعد اب لکھ کر دکھائے.غلطیوں کے اعتراض کا جواب غلطیوں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” جو شخص عربی یا فارسی میں مبسوط کتابیں تالیف کرے گا ممکن ہے کہ حسب مقولہ قلما سلم مکتار کوئی صرفی یا خوی غلطی اس سے ہو جائے اور بباعث خطا نظر کے اس غلطی کی اصلاح نہ ہو سکے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سہو کا تب سے کوئی غلطی چھپ جائے اور باعث ذہول بشریت مولف کی اس پر نظر نہ پڑے.“ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۷) مولوی بٹالوی صاحب کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں." ان كتبى مبراة مما زعمت ومنزهة عما ظننت.الا سهو الكاتبين.
82 اوزيغ القلم بتغافل منى لا كجهل الجاهلين فان قدرت ان تثبت فيها عشارا فخذ منى بحذاء كل لفظ دينارا واجمع صريفا ونضارا.وكن من المتمولين (انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۴۱) 66 یعنی میری کتابیں ایسی غلطیوں سے جیسا کہ تیرا خیال ہے مبر ا اور منزہ ہ ہیں.ہاں سہو کاتب کی غلطیاں اور یا لغزش قلم سے جو بے خبری میں ہیں ایک مولف سے بعض وقت صادر ہو جاتی ہیں ان میں پائی جاسکتی ہیں لیکن وہ ایسی غلطیاں نہیں جو ایک جاہل زبان سے صادر ہوتی ہیں.اگر تم کوئی ایسی غلطی بتا سکو تو میں ہر لفظی غلطی پر ایک دینار دوں گا اس طرح تم سونا چاندی جمع کر کے مالدار بھی بن سکتے ہو.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مخالفین کے ان اعتراضوں کا ذکر کر کے کہ ان کتابوں کی عربی زبان فصیح نہیں اور یہ کہ وہ عرب اور دوسرے ادیبوں کی لکھی ہوئی ہیں اور ایک عرب گھر میں پوشیدہ رکھا ہوا ہے وہی عرب صبح شام لکھ کر دیتا ہے فرماتے ہیں.انظر الى اقوالهم وتناقض سلب العناد اصابة الاراء طورا الى عرب عزوه و تارة قالوا كلام فاسد الاملاء هذا من الرحمن يا حزب الاعداء لا فعل شامی ولا رفقائی انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۷۵) یعنی ان باتوں کو دیکھو اور ان کے تناقض پر غور کرو.عناد سے کچی اور اصابت رائے ان سے سلب ہوگئی ہے.کبھی تو میرے کلام کو عرب سے منسوب کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ کلام اچھا نہیں اور غیر فصیح اور غلطیوں سے پر ہے.سواے گروہ دشمنان.سنو! یہ رحمن خدا کی توفیق و تائید سے لکھا گیا ہے نہ یہ کسی شامی عرب کا کام ہے اور نہ میرے رفیقوں کا “
83 سرقہ کے اعتراض کا جواب پیر مہر علی گولڑوی اور مولوی محمد حسن صاحب فیضی نے یہ اعتراض بھی کیا کہ آپ نے مقامات حریری اور مقامات ہمدانی وغیرہ سے فقرے سرقہ کر کے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں.حضور علیہ السلام اس اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں.”ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف و حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو بیہودہ اور لغوطور پر اسلام میں رائج ہوگئی تھی اس کو کلام الہی کا خادم بنایا جائے اور جب کہ ایسا دعویٰ تو محض انکار سے کیا ہوسکتا ہے جب تک کہ اس کی مثال پیش نہ کی جائے.یوں تو بعض شریر اور بدذات انسانوں نے قرآن شریف پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ اس کے مضامین تو رات اور انجیل سے مسروقہ ہیں (اس مضمون پر انگریزی اور عربی اور اردو زبان میں پادریوں کی طرف کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں.ناقل ) ایسا ہی یہودی کہتے ہیں کہ انجیل کی عبارتیں طالمود میں سے لفظ بلفظ چرائی گئی ہیں.چنانچہ ایک یہودی نے حال میں ایک کتاب بنائی ہے جو اس وقت میرے پاس موجود ہے اور بہت سی عبارتیں طالمود کی پیش کی ہیں.بغیر کسی تغیر و تبدل کے انجیل میں موجود ہیں اور یہ عبارتیں صرف ایک دو فقرے نہیں بلکہ ایک بڑا حصہ انجیل کا ہے اور وہی فقرات اور وہی عبارتیں ہیں جو انجیل میں موجود ہیں.ان دنوں میں ایک اور شخص نے تالیف کی جس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ تو رات کی کتاب پیدائش جو گویا تو رات کے فلسفہ کی ایک جڑھ مانی گئی ہے ایک اور کتاب میں سے چرائی گئی ہے جو موسیٰ کے وقت موجود تھی.گویا ان لوگوں کے خیال
84 میں موسیٰ اور عیسی سب چور ہی تھے.یہ تو انبیاء علیہم السلام پر شک کئے ہیں مگر دوسرے ادیوں اور شاعروں پر نہایت قابل شرم الزام لگائے گئے ہیں.متنبی جو ایک مشہور شاعر ہے اس کے دیوان کی نسبت ایک شخص نے ثابت کیا ہے کہ وہ دوسرے شاعروں کی شعروں کا سرقہ ہے.غرض سرقہ کے الزام سے کوئی نہیں بچا.نہ خدا کی کتا بیں اور نہ انسانوں کی کتابیں.اب تنقیح طلب امر یہ ہے کہ کیا در حقیقت ان کے یہ الزامات صحیح ہیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ خدا کے ملہموں اور وحی یا بوں کی نسبت ایسے شبہات دل میں لانا تو بدیہی طور پر بے ایمانی ہے اور لعنتیوں کا کام.کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے کوئی عار کی جگہ نہیں کہ بعض کتابوں کی بعض عبارتیں یا بعض فقرات اپنے ماہموں کے دلوں پر نازل کرے.بلکہ ہمیشہ سے سنت اللہ اس طرح پر جاری ہے.رہی یہ بات کہ دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں پر بھی اعتراض آتا ہے کہ بعض عبارتیں یا اشعار بلفظیا تغیر ما بعض کی تحریرات میں پائے جاتے ہیں تو اس کا جواب ایک کامل تجربہ کی روشنی میں ملتا ہے یہی ہے کہ ایسی صورتوں کی بجز تو ارد کے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.کیونکہ جن لوگوں نے ہزار ہا جزئیں اپنی بلیغ عبارت کی پیش کر دیں ان کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ اگر پانچ سات یا دس فقرات ان کی کتابوں میں ایسے پائے جائیں کہ وہ یا ان کے مشابہ کسی دوسری کتاب میں بھی ملتے ہیں تو ان کی ثابت شدہ صداقتوں کا انکار کر دیا جائے.اسی طرح ان لوگوں کو انصاف سے دیکھنا چاہئے کہ اب تک ہماری طرف سے بائیس کتا بیں عربی فصیح و بلیغ میں بطلب مقابلہ تصنیف شائع ہو چکی ہیں اور عربی کے اشتہارات اس کے علاوہ ہیں.اس قدر تصانیف عربیہ جو مضامین دقیقہ علمیہ
85 حکمیہ پر مشتمل ہیں بغیر ایک کامل علمی وسعت کے کیونکر انسان ان کو انجام دے سکتا ہے.کیا یہ تمام علمی کتا بیں حریری یا ہمدانی کے سرقہ سے تیار ہوگئیں اور ہزار ہا معارف اور دقائق دینی اور قرآنی جو ان کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ حریری اور ہمدانی میں کہاں ہیں.اس قدر بے شرمی سے منہ کھولنا کیا انسانیت ہے؟ یہ لوگ اگر کچھ شرم رکھتے تو شرمندگی سے جیتے ہی مر جائیں کہ جس شخص کو جاہل اور علم عربی سے قطعاً بے خبر کہتے تھے اس نے تو اس قدرکتا ہیں فصیح و بلیغ عربی میں تالیف کر دیں مگر خود ان کی استعداد اور لیاقت کا یہ حال ہے کہ قریباً دس برس ہونے لگے برابر ان سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ ایک کتاب ہی بالمقابل ان کتابوں کے تالیف کر دکھلائیں مگر کچھ نہیں کر سکے.صرف مکہ کے کفار کی طرح یہی کہتے ہیں کہ لو شئنا لقلنا مثل ه...........اگر علمی اور دینی کتابیں جو ہزار ہا معارف اور حقائق پر مندرج ہوتی ہیں صرف فرضی افسانوں کی عبارتوں کے سرقہ سے تالیف ہو سکتی ہیں تو اس وقت تک کس نے آپ لوگوں کا منہ بند کر رکھا ہے؟ کیا ایسی کتابیں بازاروں میں ملتی نہیں ہیں جن سے سرقہ کر سکوں؟ ان لعنتوں کو کیوں آپ لوگوں نے ہضم کیا جو درحالت سکوت ہماری طرف سے آپ کے نذر ہوئیں اور کیوں ایک سورۃ کی بھی تفسیر عربی تالیف کر کے شائع نہ کر سکے تا دنیا دیکھتی کہ کس قدر آپ عربی دان ہیں.اگر آپ کی نیت بخیر ہوتی تو میرے مقابل تفسیر لکھنے کیلئے ایک مجلس میں بیٹھ جاتے تا دروغ گو بے حیا کا منہ ایک ہی ساعت میں سیاہ ہو جاتا.خیر تمام دنیا اندھی نہیں ہے.آخر سوچنے والے بھی موجود ہیں.ہم نے کئی دفعہ اشتہار بھی دیئے کہ تم ہمارے مقابلہ پر کوئی عربی رسالہ لکھو.پھر عربی زبان جاننے والے اس کے منصف ٹھہرائے جائیں گے.پھر اگر تمہارا رسالہ
86 فصیح و بلیغ ثابت ہوا تو میرا دعویٰ باطل ہو جائے گا.میں اب بھی اقرار کرتا ہوں کہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے اگر تمہاری تغییر لفظاً ومعنا اعلیٰ ثابت ہوئی اس وقت اگر تم میری تفسیر کی غلطیاں نکالوتو فی غلطی پانچ روپے انعام دوں گا.غرض بیہودہ نکتہ چینی سے پہلے یہ ضروری ہے بذریعہ تفسیر عربی اپنی عربی دانی ثابت کرو.کیونکہ جس فن میں کوئی شخص دخل نہیں رکھتا اس فن میں اس کی نکتہ چینی قبول کے لائق نہیں ہوتی.ادیب جانتے ہیں کہ ہزار ہا فقرات میں سے اگر دو چار فقرات بطور اقتباس ہوں تو ان سے بلاغت کی طاقت میں کچھ فرق نہیں بلکہ اس طرح کے تصرفات بھی ایک طاقت ہے.دیکھو سبع معلقہ کے دوشاعروں کا ایک مصرع پر تو ارد ہے اور وہ یہ ہے.ایک شاعر کہتا ہے يقولون لا تهلک اسی و تجمل اور دوسرا شاعر کہتا ہے یقولون لا تهلک اسی و تجلد اب بتاؤ کہ ان دونوں میں سے چور کون قرار دیا جائے.نادان انسان کو اگر یہ بھی اجازت دی جائے کہ وہ چرا کر ہی لکھے تب بھی وہ لکھنے پر قادر نہیں ہوسکتا کیونکہ اصلی طاقت اس کے اندر نہیں.مگر وہ شخص جو مسلسل اور بے روک آمد پر قادر ہے اس کا تو بہر حال یہ معجزہ ہے کہ امور علمیہ اور حکمیہ اور معارف اور حقائق کو بلا توقف رنگین اور بلیغ و فصیح عبارتوں میں بیان کر دے.“ نزول المسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه۴۳۲ تا ۴۴۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تجویز کہ میرے مخالف ”میرے مقابل تفسیر لکھنے کیلئے ایک مجلس میں بیٹھ جاتے تا دروغ گو بے حیا کا منہ ایک ہی ساعت میں سیاہ ہوجاتا“ ایسی تجویز ہے جس میں معترضین کے تمام اعتراضات لغو اور باطل ہو جاتے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فی الواقع عربی زبان کا علم نہ رکھتے اور دوسروں سے لکھواتے اور اپنے نام پر شائع کرتے
87 تھے آپ مجلس میں بیٹھ کر صیح و بلیغ عربی زبان میں نئے حقائق و معارف پر مشتمل تفسیر ہرگز نہ لکھ سکتے.اور اس طرح مخالف علماء کے اعتراضوں کی صداقت بآسانی لوگوں پر واضح ہو جاتی.لیکن ان کے اس طرف رخ نہ کرنے اور ہر دفعہ عذر اور بہانے بنا کر دعوت مقابلہ کو قبول نہ کرنے سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ان کے تمام اعتراضات لغو اور باطل تھے اور حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا علم عطا فرمایا تھا اور یہی وجہ تھی کہ مخالفین کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہوئی.
89 باب سوم تفسیر نویسی إِنَّهُ لَقُرْآن كَرِيم - فِي كِتَبٍ مَّكْنُون - لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - (الواقعه : ۸۰۷۸) ترجمہ:.یقیناً یہ قرآن بڑی عظمت والا ہے.اور ایک چھپی ہوئی کتاب میں موجود ہے.اس ( قرآن ) کی حقیقت کو وہی لوگ پاتے ہیں جو مظہر ہوتے ہیں.
90
91 تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج کے اکتوبر ۱۸۹۱ء میں مولوی محمد بشیر بھو پالوی سے وفات وحیات مسیح کے موضوع پر دہلی میں مباحثہ کے بعد حضرت اقدس نے جب دیکھا کہ چوٹی کے علماء کو اور پھر دہلی جیسے مرکزی شہر میں جا کر اتمام حجت کر چکا ہوں مگر علماء دلائل کے میدان میں آنے سے گریز کرتے ہیں اور اگر کوئی مقابلہ پر آئے بھی تو وہ اپنی ظاہری عزت اور وجاہت کو خیر باد کہنے کیلئے تیار نظر نہیں آتا تو ایک ایسی راہ اختیار کی جو مذہب کی جان ہے اور جس کے بغیر کوئی شخص آسمانی روح اپنے اندر رکھنے کا دعویدار ہی نہیں ہو سکتا.آپ نے علماء کو دعوت دی کہ اگر آپ لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور آسمان کے ساتھ آپ لوگوں کو کوئی روحانی مناسبت ہے تو آؤ! آسمانی تائیدات میں میرا مقابلہ کر کے دیکھ لو.اگر آپ لوگ کامل مومن اور متقی ہیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً آپ لوگوں کی تائید کرے گا.لیکن اگر اس نے آپ لوگوں کو مخذول اور مجبور کر دیا اور تائید الہی میرے شامل حال ہوئی تو پھر تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ حق کس کے ساتھ ہے اور باطل پر کون ہے؟ چنانچہ آپ نے اس ضمن میں کامل مومن کی چار علامتیں بیان فرمائیں.اول.یہ کہ کامل مومن کو خدا تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں یعنی پیش از وقوع خوشخبریاں جو اس کی مرادات یا اس کے دوستوں کے مطلوبات ہیں.اس کو بتلائی جاتی ہیں.دوم.یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات یا اس کے واسطہ داروں سے متعلق ہوں بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیرات آنے والے ہیں ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے.
92 سوم.یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اکثر ان دعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے.چہارم.یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق ومعارف جدیدہ ولطائف وخواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں.ان چاروں علامتوں سے مومن کامل نسبتی طور پر دوسروں پر غالب رہتا ہے.“ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۳) اس آسمانی فیصلہ کیلئے آپ نے مولوی نذیر حسین دہلوی مولوی محمد حسین بٹالوی مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی ثم امرتسری مولوی عبدالرحمن لکھو کے والے مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا خاص کر نام لے کر اور باقی تمام مولویوں، سجادہ نشینوں، صوفیوں اور پیرزادوں کو عام طور پر چینج کیا کہ.اگر تم کامل مومن ہو اور میں نعوذ باللہ کا فر اور ملحد اور دجال ہوں تو یقیناً ان تائیدات سماوی میں اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھ دے گا اور میری ہرگز تائید نہیں کرے گا.نیز اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ تم نے جو دن رات شور مچارکھا ہے کہ پہلے اپنا ایمان ثابت کرو پھر ہمارے ساتھ بحث کرو.تو آؤ! میں اپنا ایمان ثابت کرتا ہوں اور اس طریق پر کرتا ہوں جو عین مطابق قرآن و حدیث ہے لیکن اسی معیار پر تم کو بھی اپنا ایمان ثابت کرنا ہوگا.“ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن نمبر ۴ صفحه ۳۳۲) پھر علامت چہارم میں مقابلہ کا طریق کار بیان کرتے ہوئے فرمایا.” اور علامت چہارم یعنی معارف قرآنی کا کھلنا اس میں احسن انتظام یہ ہے کہ ہر یک فریق چند آیات قرآنی لکھ کر انجمن میں عین جلسہ عام میں سنادے پھر اگر جو کچھ کسی
93 فریق نے لکھا ہے کسی پہلی تفسیر کی کتاب میں ثابت ہو جائے تو یہ شخص محض ناقل متصور ہو کر مورد عتاب ہو.لیکن اگر اس کے بیان کردہ حقائق و معارف قرآنی جو فی حد ذاتها صحیح اور غیر مخدوش بھی ہوں ایسے جدید اور نو وارد ہوں جو پہلے مفسرین کے ذہن ان کی طرف سبقت نہ لے گئے ہوں اور با ینہمہ وہ معنے من کل الوجوہ تکلف سے پاک اور قرآن کریم کے اعجاز اور کمال عظمت اور شان کو ظاہر کرتے ہوں اور اپنے اندر ایک جلالت اور ہیبت اور سچائی کا نور رکھتے ہوں تو سمجھنا چاہئے کہ وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو خداوند تعالیٰ نے اپنے مقبول کی عزت اور قبولیت ظاہر کرنے کیلئے اپنے لدنی علم سے عطا فرمائی ہیں.یہ ہر چہار محک امتحان جو میں نے لکھی ہیں یہ ایسی سیدھی اور صاف ہیں کہ جو شخص غور کے ساتھ ان کو زیر نظر لائے گا وہ بلاشبہ اس بات کو قبول کر لے گا کہ متخاصمین کے فیصلہ کیلئے اس سے صاف اور سہل تر اور کوئی روحانی طریق نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں اور اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلہ میں مغلوب ہو گیا تو اپنے ناحق پر ہونے کا خود اقرار شائع کر دوں گا اور پھر میاں نذیر حسین صاحب اور شیخ بٹالوی کی تکفیر اور مفتری کہنے کی حاجت نہیں رہے گی اور اس صورت میں ہر ایک ذلت اور توہین اور تحقیر کا مستوجب وسزاوار ٹھہر ونگا اور اسی جلسے میں اقرار بھی کر دوں گا کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور میرے تمام دعاوی باطل ہیں اور بخدا میں یقین رکھتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ میرا خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا اور کبھی مجھے ضائع ہونے نہیں دے گا.“ لیکن آپ کے اس چیلنج کو کسی نے قبول نہ کیا.آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰۰)
94 مولوی محمد حسین بٹالوی کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب آسمانی فیصلہ میں جن علماء کے نام لے کر آسمانی فیصلہ کی طرف دعوت دی ان میں سے دوسرا نمبر مولوی محمد حسین بٹالوی کا تھا.اگر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب واقعی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے تو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس مقابلہ کیلئے میدان میں نکل کھڑے ہوتے تاکہ جھوٹ اور بیچ میں فیصلہ ہو جاتا مگر ہوا یہ کہ مولوی صاحب مخالفت الزام تراشی اور دشنام دہی میں پہلے سے بھی بڑھ گئے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حق اور باطل میں فیصلہ کیلئے مولوی صاحب کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کا درج ذیل چیلنج دیا."عاقل سمجھ سکتے ہیں کہ منجملہ نشانوں کے حقائق اور معارف اور لطائف حکمیہ کے بھی نشان ہوتے ہیں جو خاص ان کو دیئے جاتے ہیں جو پاک نفس ہوں اور جن پر فضل عظیم ہو جیسا کہ آیت لا يمسه الا المطهرون.اور یہ آیت وَ مَنْ يُوتَ الحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِي خِيْراً كَثِيراً - بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے.سو یہی نشان میاں محمد حسین کے مقابل پر میرے صدق اور کذب کے جانچنے کیلئے کھلی کھلی نشانی ہوگی اور فیصلہ کے لئے احسن انتظام اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مختصر جلسہ ہو کر منصفان تجویز کردہ اس جلسہ کے چند سورتیں قرآن کریم کی جن کی عبارت استنی آیت سے کم نہ ہو تفسیر کیلئے منتخب کر کے پیش کریں.اور پھر بطور قرعہ اندازی کے ایک سورۃ ان میں سے نکال کر اسی کی تفسیر معیار امتحان ٹھہرائی جائے اور اس تفسیر کیلئے یہ امر لازمی ٹھہرایا جاوے کہ بلیغ فصیح زبان عربی اور منفی عبارت میں قلمبند ہو اور دس جزو سے کم نہ ہو اور جس قدر اس میں حقایق اور معارف لکھے جائیں وہ نقل عبارت کی طرح نہ ہو.بلکہ معارف جدیدہ اور لطائف غریبہ ہوں جو کسی دوسری کتاب میں نہ پائے جائیں اور بایں ہمہ اصل تعلیم قرآنی سے مخالف نہ ہوں بلکہ ان کی قوت اور
95 شوکت ظاہر کرنے والے ہوں.اور کتاب کے آخر میں سو شعر لطیف و بلیغ عربی میں نعت اور مدح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بطور قصیدہ درج ہوں اور جس بحر میں وہ شعر ہونے چاہئیں وہ بحر بھی بطور قرعہ اندازی کے اسی جلسہ میں تجویز کیا جائے اور فریقین کو اس کام کیلئے چالیس دن کی مہلت دی جائے.اور چالیس دن کے بعد جلسہ عام میں فریقین اپنی اپنی تفسیر اور اپنے اپنے اشعار جو عربی میں ہوں گے سنا دیں.پھر اگر یہ عاجز شیخ محمدحسین بٹالوی سے حقائق ومعارف کے بیان کرنے اور عبارت عربی فصیح و بلیغ اور اشعار آبدار مدحیہ کے لکھنے میں قاصر اور کم درجہ پر رہا.یا یہ کہ شیخ محمد حسین اس عاجز سے برابر رہا تو اسی وقت یہ عاجز اپنی خطا کا اقرار کرے گا اور اپنی کتابیں جلا دے گا.“ و آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن نمبر ۵ صفحه ۶۰۳٬۶۰۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر نویسی کے چیلنج کو اس کے بعد بھی بار بار دہرایا مگر مولوی صاحب کو اس مقابلہ کی توفیق نہ مل سکی.پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کی دعوت پیر مہر علیشاہ گولڑوی راولپنڈی سے چند میل کے فاصلہ پر واقع بستی گولڑہ شریف کے سجادہ نشین تھے.سرحدی علاقہ میں یہ پیر صاحب کافی شہرت رکھتے تھے اور صوفیاء کے چشتی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے.پیر صاحب ابتداء میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں حسن ظن اور عقیدت کے جذبات رکھتے تھے لیکن بعد میں جب اپنے بعض عقیدت مندوں میں مسیح موعود علیہ السلام کی طرف میلان دیکھا تو اس خطرے کے پیش نظر کہ آپ کے مرید آپ کو چھوڑ کر مرزا صاحب کے حلقہ احباب میں شامل نہ ہو جائیں جس سے آپ کی پیری مریدی متاثر ہوسکتی ہے.آپ بھی دیگر علماء ومشائخ کی طرح مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور حضرت اقدس کے دعاوی کے
96 خلاف اپنے ایک مرید مولوی محمد غازی صاحب کی لکھی ہوئی ایک کتاب بعنوان شمس الہدایہ اپنے نام پر شائع کر دی جس میں اپنی طرف سے حیات مسیح کے حق میں اور وفات مسیح کے خلاف بہت سے دلائل دینے کی کوشش کی.یہ کتاب کسی طرح سے حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچ گئی.اس کتاب میں چونکہ کوئی نئی دلیل نہیں تھی وہی دلائل تھے جن کا جواب آپ متعدد بار اپنی کتابوں میں دے چکے تھے اس لئے حضور نے کتابی صورت میں جواب دینے کی بجائے پیر صاحب کو ایک آسان ترین فیصلہ کی طرف بلایا اور وہ یہ تھا کہ.قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے ا.ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی ما بہ الامتیاز رکھا جاتا ہے.اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے جیسا کہ آیت لَا يَمَسَّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون اس کی شاہد ہے.۲.ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لا يَمَسَّهُ إلَّا الْمُطَهَّرُونُ اس کی شاہد ہے..ان کی دعائیں اکثر قبول ہو جاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت ادعونی استجب لکم اس کی گواہ ہے.سومناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے.صادق اور کاذب کے پر کھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اس میں سے چالیس آیات یا ساری سورۃ (اگر چالیس آیات سے زیادہ نہ ہو ) لے کر فریقین یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اوّل یہ دعا کریں کہ یا الہی ! ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی
97 پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح و بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر اور جو شخص ہم دونوں فریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اور تیرے نزدیک صادق نہیں ہے اس سے یہ توفیق چھین لے.اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تا لوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائید سے محروم ہے.پھر اس دعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس کی تفسیر کو لکھنا شروع کریں اور یہ ضروری شرط ہو گی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مدگار اور ضروری ہوگا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تا اس کی فصیح عبارت اور معارف کے سننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مہلت دی جائے گی اور زانو بہ زانولکھنا ہوگا نہ کسی پردہ میں...اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیر میں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا سنائی جائیں گی اور ان ہر سہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کون سی تفسیر اور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے اور ضروری ہوگا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ صاحب کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار عز نوی اور مولوی عبداللہ پر وفیسری لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کریں جو ان کے مرید اور پیرو نہ ہوں مگر ضروری ہوگا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفاً
98 اپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی عبارت اعلی درجہ پر اور تائید الہی سے ہے.....پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے بھی ہو سکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دکھایا تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں اقرار کرلوں گا کہ حق پیر مہرعلی شاہ صاحب کے ساتھ ہے اور اس صورت میں میں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوی کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہوگئی نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق و معارف سورۃ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں ان پر واجب ہوگا کہ وہ تو بہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہوگا کہ یہ اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس دن کے عرصہ میں شائع کر دیں.“ (اشتہار ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء از مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۳۳۲ تا ۳۳۵) گولڑوی صاحب کا جواب پیر مہر علی شاہ صاحب نے جب اس اشتہار کو پڑھا تو سخت گھبرائے کیونکہ وہ نہ تو علمی قابلیت رکھتے تھے کہ مقابلہ پر تیار ہو جاتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی مقبولیت پر بھروسہ تھا کہ اس کی بنا پر مقابلہ کی جرات کرتے مگر کہلاتے تھے سجادہ نشین اور قطب اور ولی.اس لئے کھلے کھلے انکار میں ان کی قطبیت اور علمیت پر داغ لگتا تھا.اس لئے ایک ایسی چال چلے کہ مقابلہ کی نوبت بھی نہ آئے اور کام بھی بن جائے.اور وہ چال یہ تھی کہ انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا
99 کہ آپ کی شرائط منظور ہیں مگر قرآن و حدیث کی رو سے آپ کے عقائد کی نسبت بحث ہونی چاہئے.پھر اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ساتھ کے دو مولویوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ آپ اس بحث میں حق پر نہیں ہیں تو آپ کو میری بیعت کرنی پڑے گی.پھر اس کے بعد تفسیر لکھنے کا مقابلہ بھی کر لینا.(ملخص از اشتهار ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دوم) ظاہر ہے تفسیر نویسی کے مقابلہ سے گریز کرنے کی یہ ایک راہ تھی جو پیر صاحب نے اپنے مریدوں کی عقلوں پر پردہ ڈالنے کے لئے نکالی.ورنہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ عقاید کے بارہ میں حضرت اقدس کا مولومی محمد حسین صاحب اور ان کے ساتھی مولویوں کو منصف مان لینا کیا معنی رکھتا تھا.وہ لوگ تو عقاید کے معاملہ میں آپ پر کفر کے فتوے لگا کر اپنا فیصلہ پہلے ہی دے چکے تھے اور اب وہ اپنے عقائد کے خلاف کس طرح کوئی بات کر سکتے تھے.لیکن تفسیر نویسی میں مقابلہ ایک بالکل دوسری صورت رکھتا تھا.وہ اپنے غلط عقائد پر تو جو ان کے خیال میں صحیح تھے بلا تر دو قسم کھا سکتے تھے لیکن دونوں تفسیروں میں سے جو تفسیر غالب نہ ہو اس کے غلبہ کو چھپانا اور خلاف رائے ظاہر کرنا دوسرے اہل علم کی نظر میں ان کی علمی پردہ دری کرنے والا امر تھا.اس لئے تفسیر کے متعلق وہ غلط رائے نہیں دے سکتے تھے.علاوہ ازیں پیر صاحب یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت اقدس اپنی کتاب ”انجام آتھم میں یہ عہد کر چکے ہیں کہ آئیند ہ آپ علمائے زمانہ سے منقولی بحثیں نہیں کریں گے پھر آپ اپنے اس عہد کو کیسے توڑ سکتے تھے؟ پھر یہ بات کتنی معقولیت سے ور ہے جو پیر صاحب نے کی کہ بحث عقاید کے بعد مخالف مولویوں سے فیصلہ کرالو اور پھر جب وہ فیصلہ تمہارے خلاف کر دیں تو تو بہ کر کے میری بیعت کرو.اس کے بعد تفسیر نویسی میں مقابلہ کرو.بھلا اس صورت میں مخالف علماء کے حضرت اقدس کے خلاف رائے ظاہر کرنے پر جب آپ اپنی تمام کتابیں جلا دیں اور بیعت کر لیں تفسیر نویسی میں مقابلہ کا کونسا موقع ہوتا؟ کیا کوئی دور
100 شخص مرید بن کر پھر اپنے پیر سے بحث کر سکتا ہے؟ پیر صاحب تو یہ سمجھتے ہوں گے کہ انہوں نے تفسیر نویسی کے مقابلہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک عمدہ بہانہ تلاش کر لیا ہے مگر اہل فہم ان کی اس تجویز پر جتنے بھی متاسف ہوئے ہوں گے، کم ہے.گولڑوی صاحب کی ہوشیاری پیر صاحب نے جب دیکھا کہ تفسیر نویسی میں مقابلہ تو ممکن نہیں اپنے مریدوں خصوصاً سرحدی مریدوں میں اپنی عزت و شہرت کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے اس لئے لاہور میں یہ مشہور کرا دیا کہ ہم نے مرزا صاحب کی تمام شرائط منظور کر لی ہیں اور ہم تقریری بحث کرنے کیلئے حسب پروگرام لاہور آنے والے ہیں.حالانکہ حضرت اقدس چار سال قبل انجام آتھم “ میں تقریری بحثوں کو فضول سمجھ کر اس امر کا عہد کر چکے تھے کہ اب تقریری بحثیں نہیں کریں گے مگر پیر صاحب کو سستی شہرت درکار تھی.ان کے مریدوں نے لاہور کے گلی کوچوں میں پیر صاحب کی آمد آمد کا خوب ڈھنڈورا پیٹا اور حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے اور لوگوں کو احمدیوں کی مخالفت پر اکسایا.اگر پیر صاحب اور ان کے مریدوں میں ذرا بھی خدا کا خوف ہوتا تو وہ کبھی بھی ایسا جھوٹ مشہور نہ کرتے کہ گویا حضرت اقدس نے تقریری بحث کو منظور فرمالیا ہے.حضرت اقدس نے تو پیر صاحب کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کے لئے بلایا تھا مگر اس کا ان کے مرید نام بھی نہیں لیتے تھے.گولڑوی صاحب کی لاہور آمد پیر صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ حضرت اقدس نے انہیں تفسیر نویسی میں مقابلہ کیلئے بلایا ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم نے تفسیر نویسی میں مقابلے کے ذکر کو چھوڑ کر اپنی طرف سے عقاید کی بحث منظور کر لینا حضرت اقدس کی طرف سے مشہور کر دیا ہے جو واقعہ کے سراسر خلاف
101 ہے اور حضرت اقدس عقاید میں بحث بوجوہ مندرجہ بالا منظور نہیں کریں گے اور بجائے تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنے کے عقائد کی بحث کے لئے جس کو آپ ترک کر چکے ہیں ، لاہور میں ہر گز نہیں آئیں گے.اس کے باوجود انہوں نے ۲۱ اگست کو یہ اشتہار دیا اور یہ انتظار کئے بغیر کہ حضرت اقدس کی طرف سے اس کا کیا جواب دیا جاتا ہے دو تین روز بعد ہی اپنے مریدوں کی ایک بڑی جمعیت لے کر ۲۴ اگست بروز جمعہ لاہور آ پہنچے اور حضرت اقدس کو عقاید کے بارہ میں بحث کرنے کا چیلنج کرنے لگے.لاہور کے احمدیوں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ غلط جھوٹا پراپیگنڈا کر کے لوگوں کو دھوکہ دے کر مشتعل کر رہے ہیں تو انہوں نے بھی ۲۴ اگست ۱۹۰۰ء کو انکشاف حقیقت کیلئے ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ اگر :.” پیر صاحب نے حضرت مرزا صاحب کی دعوت مقابلہ اور ان کی شرائط کو منظور کر لیا ہے تو کیوں خود جناب پیر صاحب سے (ان کے مرید ) صاف الفاظ میں یہ اشتہار نہیں دلواتے کہ ہمیں حضرت مرزا صاحب کے اشتہار کے مطابق بلا کمی بیشی تفسیر القرآن میں مقابلہ منظور ہے.“ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۱۴۲،۱۴۱) لاہور کے بعض احمد یوں کی طرف سے پیر صاحب کو ایک خط جب اس اشتہار کا بھی پیر صاحب اور ان کے مریدوں نے کوئی جواب نہ دیا تو اگلے روز ۲۵ راگست ۱۹۰۰ء کو حضرت حکیم فضل الہی صاحب اور حضرت میاں معراج دین صاحب عمر نے پیر صاحب کو ایک خط لکھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ صاف صاف اور کھلے لفظوں میں لکھیں کہ حضرت اقدس مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۹۰۰ء کے اشتہار میں جو تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنے کیلئے چیلنج دیا ہے آپ اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں اور ہم آپ کو ہزار بار خدا کی قسم دے کر بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ آپ اس چیلنج کے مطابق جو حضرت اقدس نے تفسیر نویسی میں مقابلہ کیلئے
102 آپ کو دیا ہے حضرت اقدس کا مقابلہ کریں تا حق و باطل میں فیصلہ کی ایک کھلی کھلی راہ پیدا ہو جائے.اگر آپ نے اس میں پس و پیش کیا تو تفسیر نویسی کے مقابلہ کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی غیر متعلق باتوں سے کام لیا یا ہماری گزارش کا کوئی جواب ہی نہ دیا تو ظاہر ہو جائے گا کہ آپ کا منشاء ابطال باطل اور احقاق حق نہیں بلکہ آپ مخلوق کو دھوکہ دینا اور صداقت کا خون کرنا چاہتے ہیں.یہ خط ایک غیر احمدی دوست میاں عبدالرحیم صاحب داروغہ مارکیٹ لے کر پیر صاحب کے پاس گئے.ظہر کا وقت تھا.پیر صاحب نے فرمایا.عصر کے بعد جواب دیں گے.داروغہ صاحب عصر کے بعد گئے تو مریدوں نے پیر صاحب کو ملنے ہی نہ دیا.جماعت کے احباب نے ۲۶ /اگست ۱۹۰۰ء کو ایک رجسٹری چٹھی پیر صاحب کی خدمت میں اسی مضمون پر مشتمل بھیجی مگر پیر صاحب نے اسے وصول ہی نہ کیا.اس پر جماعت کی طرف سے ۲۷ اگست ۱۹۰۰ ء کو ایک اشتہار اس مضمون کا نکلا کہ اب تک نہ تو پیر صاحب نے حضرت اقدس کی شرائط منظور کی ہیں اور نہ کوئی تار حضرت صاحب کو دیا ہے.اور نہ کوئی اشتہار اپنی منظوری کا حضرت اقدس تک پہنچایا ہے.یہ جو کچھ مشہور کیا جارہا ہے بالکل غلط اور جھوٹ ہے لیکن افسوس کہ پیر صاحب نے اس اشتہار کا بھی کوئی جواب نہ دیا.اس اثناء میں حضرت اقدس کا ۲۵ اگست ۱۹۰۰ ء والا اشتہار بھی لاہور پہنچ گیا جو فوراً شائع کر دیا گیا.مگر اس پر بھی پیر صاحب تفسیر نویسی میں مقابلہ کیلئے تیار نہیں ہوئے اور ان کے مرید اشتعال پھیلانے اور نا واقفوں کو مغالطہ دینے کی کوششوں میں برابر مصروف رہے.حضرت اقدس کی آخری اتمام حجت حضرت اقدس نے آخری اتمام حجت کے طور پر ۲۸ اگست ۱۹۰۰ء کو ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں لکھا کہ اول تو پیر صاحب کو تفسیر نویسی کے مقابلہ میں آنا چاہئے لیکن اگر وہ ایسے مقابلہ کی جرات نہ کر سکتے ہوں تو میں انہیں آخری اتمام حجت کے طور پر ایک اور طریق فیصلہ کی
103 طرف بلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ:.” مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے گلی کوچے میں پیر صاحب کے مرید اور ہم مشرب شہرت دے رہے ہیں کہ پیر صاحب تو بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے لاہور میں پہنچ گئے تھے مگر مرزا بھاگ گیا اور نہیں آیا.اس لئے پھر عام لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ تمام باتیں خلاف واقعہ ہیں جبکہ خود پیر صاحب بھاگ گئے ہیں اور بالمقابل تفسیر لکھنا منظور نہیں کیا اور نہ ان میں یہ مادہ اور نہ خدا کی طرف سے تائید ہے اور میں بہر حال لاہور پہنچ جاتا مگر میں نے سنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستوں کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوش سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے....پھر بھی اگر پیر صاحب نے اپنی نیت کو درست کر لیا ہے اور سید ھے طور پر بغیر زیادہ کرنے کسی شرط کے وہ میرے مقابل میں عربی میں تفسیر لکھنے کے لئے طیار ہو گئے ہیں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بہر حال اس مقابلے کے لئے جو محض بالمقابل عربی تفسیر لکھنے میں ہو گا، لاہور میں اپنے تئیں پہنچاؤں گا.صرف دو امر کا خواہشمند ہوں جن پر لاہور میں میرا پہنچنا موقوف ہے.ا.اوّل یہ کہ پیر صاحب سیدھی اور صاف عبارت میں بغیر کسی بیچ ڈالنے یا زیادہ شرط لکھنے کے اس مضمون کا اشتہار اپنے نام پر شائع کر دیں جس پر پانچ لاہور کے معزز اور مشہور ارکان کے دستخط بھی ہوں کہ میں نے قبول کر لیا ہے کہ میں بالمقابل مرزا غلام احمد قادیانی کے عربی فصیح بلیغ میں تفسیر قرآن شریف لکھوں گا....اور چونکہ
104 موسم برسات ہے اس لئے ایسی تاریخ مقابلہ کی کھنی چاہئے کہ کم از کم تین دن پہلے مجھے اطلاع ہو جائے.۲.دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنی نواب شیخ غلام محبوب سبحان صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سید برکت علی خاں صاحب سابق اکسٹرا اسٹنٹ ایک تحریر بالاتفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں کی طرف سے گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گی.اور یادر ہے کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ یا ہمیں آدمی سے زیادہ نہیں ہیں اور میں ان کی نسبت یہ انتظام کر سکتا ہوں کہ مبلغ دو ہزار روپید ان تینوں رئیسوں کے پاس جمع کرا دوں گا.اگر میرے ان لوگوں میں سے کسی نے گالی دی یا زدوکوب کیا تو وہ تمام روپیہ میرا ضبط کر دیا جائے.میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ اس طرح پر خاموش رہیں گے کہ جیسے کسی میں جان نہیں مگر پیر مہر علی شاہ صاحب جن کو لاہور کے بعض رئیسوں سے بہت تعلقات ہیں اور شاید پیری مریدی بھی ہے ان کو روپیہ جمع کرانے کی کچھ ضرورت نہیں.کافی ہوگا کہ حضرات معزز رئیسان موصوفین بالا ان تمام سرحدی پر جوش لوگوں کے قول اور فعل کے ذمہ دار ہو جائیں جو پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور نیز ان کے دوسرے لاہوری مریدوں خوش عقیدوں اور مولویوں کی گفتار کر دار کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں جو کھلے کھلے طور پر میری نسبت کہہ رہے ہیں اور لاہور میں فتوے دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے.ان چند سطروں کے بعد جو ہر سہ رئیسان مذکورین بالا اپنی ذمہ داری سے اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کر دیں گے اور پیر صاحب کے مذکورہ بالا اشتہار کے بعد پھر میں اگر بلا توقف لاہور میں نہ پہنچ جاؤں تو
105 کا ذب ٹھہروں گا.“ پیر صاحب کیلئے مباحثہ کی ایک آسان شرط اس اشتہار کے آخر میں پیر صاحب کے مطالبہ مباحثہ کو پورا کرنے کے لئے یہ آسان تجویز لکھی کہ:.اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بالمقابل عربی تفسیر لکھنے سے عاجز ہوں جیسا کہ در حقیقت یہی سچا امر ہے تو ایک اور سہل طریق ہے جو وہ طرز مباحثہ کی نہیں جس کے ترک کے لئے میرا وعدہ ہے.اور طریق یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری مذکورہ بالا کے بعد میں لاہور میں آؤں اور مجھے اجازت دی جائے کہ مجمع عام میں جس میں ہر سہ رئیس موصوفین بھی ہوں تین گھنٹے تک پبلک کو مخاطب کر کے ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن اور حدیث سے یہی ثابت ہے کہ آسمان سے مسیح آئے گا پھر بعد اس کے لوگ ان دونوں تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کر لیں گے اور ان دونوں باتوں میں سے اگر کوئی بات پیر صاحب منظور فرماویں تو بشرط تحریری ذمہ داری رؤساء مذکورین میں لاہور میں آجاؤں گا.“ تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۱۳۷ تا ۱۴۱) پیر صاحب کی گولڑہ واپسی پیر صاحب کے متعلق مشہور تھا کہ جمعہ تک لاہور ٹھہریں گے اس لئے لاہور کے تعلیم یافتہ طبقہ نے اصرار کیا کہ حضرت پیر صاحب شاہی مسجد میں جمعہ پڑھائیں اور پبلک میں تقریر فرما دیں.جب یہ مطالبہ شدت پکڑ گیا تو پیر صاحب جو اپنی قابلیت کا علم تھا انہوں نے خیر اسی میں سمجھی کہ وہ واپس چلے جائیں چنانچہ جمعہ سے ایک روز قبل چلے جانے کی وجہ سے حضرت اقدس
106 کا اشتہار بھی لاہور میں ان کی خدمت میں پیش نہ کیا جاسکا.ناچار اشتہار کی تین کا پیاں رجسٹری کروا کر انہیں گولڑ بھجوائی گئیں اور ساتھ ہی لکھا گیا کہ وہ اس قسم کے مقابلہ میں شامل ہونے کیلئے لا ہور تشریف لے آویں تو انہیں سیکنڈ کلاس کا کرایہ اور ان کے دو خادموں کیلئے انٹر کلاس کا کرایہ پیش کیا جائے گا.مگر انہوں نے جواب ہی نہ دیا اور جو غلط نہی اور اشتعال پبلک میں پھیلا چکے تھے اسی پر نازاں ومسرور تھے.مقابلہ کی ایک نئی تجویز جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی تفسیر نویسی میں مقابلہ کیلئے کسی طرح بھی آمادہ نہ ہوئے تو حضرت اقدس نے ان پر حجت پوری کرنے کیلئے ایک اور تجویز ان کے سامنے پیش کی اور وہ یہ تھی " آج میرے دل میں ایک تجویز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی جس کو میں اتمام حجت کے لئے پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ پیر مہر علی صاحب کی حقیقت اس سے کھل جائے گی.کیونکہ تمام دنیا اندھی نہیں ہے.انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے ہیں اور وہ تدبیر یہ ہے کہ آج میں ان متواتر اشتہارات کا جو پیر مہر علی شاہ صاحب کی تائید میں نکل رہے ہیں.یہ جواب دیتا ہوں کہ اگر در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب علم و معارف قرآن اور عربی کی ادب اور فصاحت اور بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں ان میں موجود ہوں گی کیونکہ لاہور آنے پر ابھی کچھ بہت زمانہ نہیں گذرا.اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اسی جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعوی کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقائق سورۃ ممدوحہ کے بھی بیان کروں.اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت
107 کریں اور جس طرح چاہیں سورۃ فاتحہ سے استنباط کر کے میرے مخالف عربی فصیح و بلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرماویں.یہ دونوں کتابیں دسمبر 1900ء کی پندرہ تاریخ سے ستر دن تک چھپ کر شائع ہو جانی چاہئیں.تب اہل علم خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے اور اگر اہل علم میں سے تین کس جو ادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کی رُو سے اور کیا معارف قرآنی کی رو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نقد بلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے ہر روز 66 بیان کر کے روتے ہیں کہ ناحق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی.“ اسی اشتہار میں آگے چل کر حضور لکھتے ہیں کہ :.ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسن بھیں وغیرہ کو بلالیں.بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چار جزو سے کم نہیں ہونی چاہئے اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵ دسمبر ۰ ۱۹۰ء تک جو ستر دن ہیں فریقن میں سے کوئی فریق تفسیر سورۃ فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی 66 حاجت نہیں رہے گی.“ ( از اشتہار ۱۵ دسمبر ۰ ۱۹۰ء بعنوان پیر مہر علی شاہ گولڑوی مطبوعہ انوار احمدی لاہور )
108 اعجاز مسیح کی اشاعت اس اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص تائید سےحضرت اقدس علیہ السلام نے مدت معینہ کے اندر ۲۳ فروری ۱۹۰۱ء کو اعجاز مسیح “ کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر شائع کر دی اور اس کتاب کے سرورق پر آپ نے یہ پیشگوئی کرتے ہوئے بڑی تحدی سے فرمایا کہ یہ ایک لاجواب کتاب ہے.فرمایا:.فــانــه كتاب ليس له جواب فمن قام للجواب و تنمر فسوف يرى انه تقدم و تدمر “ یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کوئی شخص اس کا جواب لکھنے پر قادر نہیں ہو سکے گا.اور جس شخص نے بھی اس کا جواب لکھنے پر کمر باندھی اور تیاری شروع کی وہ سخت نادم اور ذلیل ہوگا.نیز آپ نے فرمایا:.ان ذلك الرجل الغمر ان لم يستطع ان يتولى بنفسه هذا الامر.فله ان يشرك به من العلماء الزمر.او يدعو من العرب طائفة الادباء.او يطلب من صلحاء قومه همة و دعاء لهذه اللاداء.و ما قلت هذا القول الا ليعلم الناس انهم كلهم جاهلون ولا يستطيع احد منهم ان يكتب كمثل هذا و لا يقدرون.و ليس من الصواب ان يقال ان هذا لرجل المدعو كان عالما فى سابق الزمان.و اما في هذا الوقت فقد انعدم علمه كثلج ينعدم بالذوبان و نسج عليه عناكب النسيان.“ اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳،۴۲) کہ یہ صاحب نادان شخص اگر از خود اس کام کی طاقت نہیں رکھتے تو میری طرف سے
109 اجازت ہے کہ اپنے ہم مشرب علماء کو ساتھ ملالیں یا اپنی مدد کے لئے عرب سے ایک گروہ ادیبوں کا بلا لیں یا اپنی قوم کے صلحاء سے اس مہم کے سر کرنے کے لئے ہمت اور دعا بھی طلب کر لیں.پس یہ میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ لوگ جان لیں کہ یہ سب جاہل ہیں.ان میں سے نہ ایک شخص اس کام کی طاقت رکھتا ہے نہ سب مل کر ایسا کر سکتے ہیں.اور یہ عذر درست نہیں کہ یہ کہا جائے کہ یہ شخص یعنی پیر صاحب جن کو مقابلہ کے لئے بلایا گیا ہے گذشتہ دنوں میں تو عالم تھے مگر اب ان کا علم برف کی طرح پکھل کر کالعدم ہو گیا ہے.اور دھول ونسیان کی مکڑیوں نے اس پر جالے بن دیئے ہیں.پھر بڑی شوکت سے آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ:.الحق والحق اقول ان هذا كلام كانه حسام - و انه قطع كل نزاع و ما بقى بعد خصام و من كان يظن انه فصيح و عنده کلام کانه بدر تام.فليات بمثله و الصمت عليه حرام و ان اجتمع اباء هم و ابناء هم.و اكفاء هم و علماء هم و حکماء هم و فقهاء هم ـ على ان ياتو بمثل هذا التفسير - في هذا المدى القليل الحقير - لا ياتون بمثله و لو كان بعضهم لبعض كالظهير - فانی دعوت لذالک و ان دعائی مستجاب.فلن تقدر على جوابه كذا ـ لا شيوخ و لا شاب ـ و انه كنز المعارف و مدينتها ـ و ماء الحقائق و طينتها “ اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۷،۵۶) کہ یہ حقیقت ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ یہ کلام ایک شمشیر بڑاں ہے جس نے ہر جھگڑنے والے کو کاٹ کر رکھ دیا ہے.لہذا اب کوئی مد مقابل باقی نہیں رہا.پس جو یہ سمجھتا ہے کہ فصیح البیان ہے اور اس کا کلام چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا ہے تو اس
110 پر اب خاموشی حرام ہے.اسے چاہئے کہ اس کی مثیل لائے اور خواہ ان کے باپ، بیٹے ہمنشیں ، علماء، حکماء اور فقہاء سب مل کر بھی کوشش کریں کہ اس تھوڑی اور قلیل مدت میں اس کی مثیل لاسکیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے.حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس کے بارہ میں دعا کی تو میری دعا کو شرف قبولت بخشا گیا.پس اب کوئی لکھنے والا خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا اس کا جواب لکھے پر قدرت نہیں رکھے گا.یہ معارف کا خزانہ ہے بلکہ ان کا شہر ہے اور یہ حقائق کے پانی اور حقائق کی مٹی سے بنائی گئی ہے.“ اس اعجازی کلام کو پیش کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ:.” میں نے اس کتاب کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسے علماء کیلئے معجزہ بنائے اور کوئی ادیب اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہو.اور ان کو لکھنے کی توفیق نہ ملے.اور میری یہ دعا قبول ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی اور کہا منعہ مانع من السماء.کہ آسمان سے ہم اسے روک دیں گے.اور میں سمجھا کہ اس میں اشارہ ہے کہ دشمن اس کی مثال لانے پر قادر نہیں ہوں گے.“ ( ترجمه از اعجاز مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۸) ا آج رات کو الہام ہوا منعه مانع من السماء.یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کر سکے گا.خدا نے مخالفین سے سلب طاقت اور سب علم کر لیا ہے.اگر چہ ضمیر واحد مذکر غائب ایک شخص مہر شاہ کی طرف ہے لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کر کے ایک ہی کا حکم رکھا ہے تا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو کہ تمام مخالفین ایک وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس تفسیر کے مقابلہ میں لکھنا چاہیں تو ہر گز نہ لکھ سکیں گئے“ ( ملفوظات نیا ایڈیشن جلد اصفحه ۴۴۱ )
111 چنانچہ اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق نہ پیر کوٹی کو اور نہ عرب و عجم کے کسی اور ادیب فاضل کو اس کی مثل لکھنے کی جرات ہوئی.مولوی محمد حسن فیضی کی جواب لکھنے کی تیاری حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۳ فروری ۱۹۰۱ء کو کتاب اعجاز امسیح “ شائع کر دی جو پیر صاحب کو پہنچائی گئی.اس کتاب میں پیر صاحب کے علاوہ علماء عرب و عجم کوعربی میں تفسیر نویسی کے لئے کھلی دعوت مقابلہ بھی تھی.اس دعوت مقابلہ کو قبول کرتے ہوئے ایک مولوی محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقع شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ وہ اس کا جواب لکھے گا.چنانچہ اس نے جواب کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز امسیح اور حضرت سید محمد احد رحضرت سید محمد احسن امروہی صاحب کی کتاب شمس بازغہ بجواب شمس الہدایہ پر نوٹ لکھنے شروع کئے.ان نوٹوں پر ایک جگہ اس نے لعیۃ اللہ علی الکاذبین بھی لکھ دیا جس پر ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے تحت وہ ہلاک ہو گیا.اس کی اس غیر معمولی ہلاکت نے ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر اس کا اپنا جھوٹا - ہونا ثابت کیا تو دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام منعه مانع من السماء کی سچائی کا عظیم الشان نشان فراہم کیا.مولوی محمد حسن فیضی متوفی کا ترکہ اس کے گاؤں پہنچ گیا جس میں اس کی جملہ کتب کے ساتھ کتاب اعجاز مسیح اور شمس بازغہ بھی تھیں جن پر اس نے نوٹ لکھے تھے.سیف چشتیائی بجواب اعجاز اسیح پیر مہرعلی گواز وی کو اپنے مرید مولوی حمد حسن بھیں کے ان نوٹوں کا جو اس نے اعجاز مسیح ،، کا جواب دینے کے لئے لکھے تھے علم تھا.اس لئے انہوں نے اپنے کسی مرید کے ذریعے مذکورہ
112 بالا دونوں کتابیں جن کے حاشیوں پر نوٹ لکھے ہوئے تھے منگوا لیں اور انہیں جمع کر کے سیف چشتیائی کے نام سے ایک کتاب اردو زبان میں شائع کر دی.مگر مولوی محمد حسن فیضی مرحوم کا اپنی کتاب میں ذکر تک نہ کیا.پیر صاحب نے یہ کتاب حضرت اقدس کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری بھیجی تھی.حضرت اقدس اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یہ کتاب ( یعنی سیف چشتیائی.ناقل ) مجھ کو یکم جولائی ۱۹۰۲ء کو ملی ہے جس کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے شاید اس غرض سے بھیجا ہے کہ تا وہ اس بات سے اطلاع دیں غرض کہ انہوں نے میری کتاب اعجاز آسیح اور نیز نٹس بازغہ کا جواب لکھ دیا ہے اور اس کتاب کے پہنچنے سے پہلے ہی مجھ کو یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ اعجاز مسیح کے مقابل پر وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں.لیکن افسوس کہ میرا خیال صحیح نہ نکلا.جب ان کی کتاب سیف چشتیائی مجھے ملی تو پہلے تو اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اب ہم ان کی عربی تفسیر دیکھیں گے اور بمقابل اس کے ہماری تفسیر کی قدر و منزلت لوگوں پر اور بھی کھل جائے گی.مگر جب کتاب کو دیکھا گیا اور اس کو اردو زبان میں لکھا ہوا پایا اور تفسیر کا نام ونشان نہ تھا.تب تو بے اختیار ان کی حالت پر رونا ( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲۶ تا ۴۳۱ ) آیا.اعجاز مسیح پر پیر صاحب کی نکتہ چینیاں پیر صاحب بجائے اس کے کہ حضرت اقدس کے مقابل میں اپنی طرف سے فصیح و بلیغ عربی میں سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھتے اس قسم کے اعتراضات شروع کر دیئے کہ اس کتاب میں فلاں فلاں فقرہ مقامات حریری سے سرقہ کر کے درج کیا ہے اور یہ کہ آپ کی وحی از قبیل اضغاث واحلام اور حدیث النفس ہے.حضرت اقدس نے اپنی کتاب ” نزول مسیح میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان
113 دونوں اعتراضات کا جواب دیا ہے.مختصر یہ کہ دوسو صفحہ کی کتاب میں اگر دو چار فقرے بطور توارد دوسوصفحہ ایسے بھی نکل آئیں جو کسی دوسری کتاب میں بھی درج ہوں تو اس میں کیا قباحت لازم آ گئی.جو شخص ہزار ہا صفحات پر مشتمل فصیح و بلیغ عربی لکھ سکتا ہے اسے کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ وہ دو چار فقرے کسی دوسری کتاب سے نقل کرے.یہ تو ایک قسم کا توارد ہے جو بلغاء کی کتابوں میں اکثر پایا جاتا ہے.آپ نے اس قسم کے تو ارد کی کئی ایک مثالیں بھی پیش فرمائیں.دوسرے اعتراض کے جواب میں آپ نے ”خدا کے کلام اور حدیث النفس یا شیطانی القاء کے مابہ الامتیاز کے طور پر ایک نہایت ہی لطیف مضمون کئی صفحات پر مشتمل درج فرمایا ہے جو پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے.علمی ذوق رکھنے والے احباب اس لطیف مضمون کا نزول المسیح صفحہ ۵۸ سے مطالعہ فرما سکتے ہیں.پیر صاحب کا تصنیفی سرقہ حضرت اقدس پر تو پیر صاحب نے دو سو صفحات کی کتاب میں سے دو چار فقرے لیکر سرقہ کا الزام لگایا تھا جس کا حضرت اقدس نے اپنی کتاب " نزول مسیح میں نہایت کافی وشافی جواب دیا تھا.لیکن پیر صاحب کے متعلق یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے ساری کتاب سرقہ کر کے اپنی طرف منسوب کر لی ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت اقدس نزول المسیح میں پیر صاحب کی کتاب ”سیف چشتیائی کا جواب لکھنے میں مصروف تھے کہ اچانک ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ء کو موضع بھیں ضلع جہلم سے ایک شخص میاں شہاب الدین نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ میں پیر مہر علی شاہ کی کتاب دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں اتفاقا ایک آدمی مجھ کو ملا جس کے پاس کچھ کہتا ہیں تھیں اور وہ مولوی محمد حسن کے گھر کا پتہ پوچھتا تھا اور استفسار پر اس نے بیان کیا کہ محمد حسن کی کتابیں پیر صاحب نے منگوائی تھیں اور اب واپس دینے آیا ہوں.میں نے وہ کتا بیں دیکھیں تو ایک ان
114 میں اعجاز المسیح تھی اور دوسری شمس بازغہ جن پرمحمد حسن متوفی کے نوٹ لکھے ہوئے تھے اور اتفاقاً اس وقت کتاب سیف چشتیائی بھی میرے پاس موجود تھی.جب میں نے ان کے نوٹس کا اس کتاب سے مقابلہ کیا تو جو کچھ حمد حسن نے لکھا تھا بغیر کسی تصرف کے پیر مہر علی شاہ کی کتاب وہی مسروقہ نوٹ ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں.پس مجھ کو اس سرقہ اور خیانت سے سخت حیرت ہوئی کہ کس طرح اس نے ان تمام نوٹوں کو اپنی طرف منسوب کر دیا.یہ ایسی کارروائی تھی کہ اگر مہر علی شاہ کو کچھ شرم ہوتی تو اس قسم کے سرقہ کا راز کھلنے سے مرجاتا نہ کہ شوخی اور ترک حیا سے اب تک دوسرے شخص کی تالیف کو جس سے اس کی جان گئی اپنی طرف منسوب کرتا اور بد قسمت مردہ کی تحریر کی طرف ایک ذرہ بھی اشارہ نہ کرتا.(ملخص از نزول المسیح صفحہ ۴۲.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۴۵) اس کے بعد حضرت اقدس نے میاں شہاب الدین کے دو خط نقل فرمائے ہیں جن میں سے ایک تو حضرت اقدس کے اور دوسرا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے نام ہے.ان دونوں خطوط میں اس نے وہ تمام باتیں لکھی ہیں جن کا اوپر حضرت اقدس نے ذکر فرمایا ہے.حضرت اقدس اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب دونوں نے میاں شہاب الدین کو لکھا کہ وہ دونوں کتا ہیں یعنی اعجاز امسیح اور شمس بازغہ جن پر مولوی محمد حسن فیضی متوفی کے دستخطی نوٹ موجود ہیں خرید کر ساتھ لے آؤ.اس کے جواب میں میاں شہاب الدین نے لکھا کہ:.آپ کا حکم منظور لیکن محمد حسن کا والد کتا بیں نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ میرے رو برو بے شک دیکھ لو مگر مہلت کے واسطے نہیں دیتا.خاکسار معذور ہے.کیا کرے.دوسری مجھ سے ایک غلطی ہوگئی کہ ایک خط گولڑوی کو لکھا کہ تم نے خاک لکھا کہ جو کچھ محمد حسن کے نوٹ تھے وہی درج کر دئیے اس واسطے گولڑوی نے محمد حسن کے والد کو لکھا ہے کہ ان کو کتابیں مت دکھاؤ.کیونکہ یہ شخص ہمارا مخالف ہے.اب مشکل بنی کہ محمد حسن کا والد گولڑوی کا مرید ہے اور اس کے کہنے پر چلتا ہے.مجھ کو نہایت افسوس
115 ہے کہ میں نے گولڑوی کو کیوں لکھا جس کے سبب سے سب میرے دشمن بن گئے.براہ عنایت خاکسار کو معاف فرماویں کیونکہ میرا خالی آنا مفت کا خرچ ہے اور کتابیں وہ نہیں دیتے.فقط خاکسار شہاب الدین از مقام بھیں تحصیل چکوال.(خط بنام حضرت اقدس مندرجہ نزول مسیح صفحہ سے ہے.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۵ ۴۵۲) جو خط حضرت مولوی عبد الکریم نے میاں شہاب الدین کو لکھا وہ خط اس نے مولوی کرم دین صاحب کو دکھایا.مولوی کرم دین سکنہ بھیں جو کہ بعد میں حضرت اقدس کے شدید مخالف ہو گئے اس وقت حضرت اقدس پر حسن ظن رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے بھی حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ اپنے عقیدت مندانہ جذبات کا اظہار کرنے کے بعد لکھا کہ:.کل میرے عزیز دوست میاں شہاب الدین طالبعلم کے ذریعہ سے مجھے ایک خط رجسٹری شدہ جناب مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے ملا جس میں پیر صاحب گولڑوی کی سیف چشتیائی کی نسبت ذکر تھا.میاں شہاب الدین کو خاکسار نے ہی اس امر کی اطلاع دی تھی کہ پیر صاحب کی کتاب میں اکثر حصہ مولوی محمد حسن صاحب مرحوم کے ان نوٹوں کا ہے جو مرحوم نے کتاب اعجاز مسیح “ اور شمس بازغہ“ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے.وہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آگئی ہیں.مقابلہ کرنے سے نوٹ باصلہ درج کتاب پائے گئے ہیں.یہ ایک نہایت سارقانہ کارروائی ہے کہ ایک فوت شدہ شخص کے خیالات لکھ کر اپنی طرف منسوب کر لئے اور اس کا نام تک نہ لیا.اور طرفہ یہ کہ بعض وہ عیوب جو آپ کی کلام کی نسبت وہ پکڑتے ہیں پیر صاحب کی کتاب میں خود اس کی نظیر میں موجود ہیں.وہ دونوں کتابیں چونکہ مولوی محمد حسن صاحب کے باپ کی تحویل میں ہیں اس واسطے جناب کی خدمت میں وہ کتا بیں بھیجنا مشکل ہے کیونکہ ان کا خیال
116 آپ کے خلاف ہے اور وہ کبھی بھی اس امر کی اجازت نہیں دے سکتے.ہاں یہ ہو سکے گا کہ ان نوٹوں کو بجنسہ نقل کر کے آپ کے پاس روانہ کیا جاوے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی خاص آدمی جناب کی جماعت سے یہاں آ کر خود دیکھ جاوے لیکن جلدی آنے پر دیکھا جاسکے گا.پیر صاحب کا ایک کارڈ جو مجھے پرسوں ہی پہنچا ہے باصلہا جناب کے ملاحظہ کیلئے روانہ کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے نوٹ انہوں نے چرا کر سیف چشتیائی کی رونق بڑھائی ہے لیکن ان سب باتوں کو میری طرف سے ظاہر فرمایا جانا خلاف مصلحت ہے.ہاں اگر میاں شہاب الدین کا نام ظاہر بھی کر دیا جائے تو کچھ مضائقہ نہ ہوگا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ پیر صاحب کی جماعت مجھ پر سخت ناراض ہو.آپ دعا فرما دیں کہ آپ کی نسبت میرا اعتقاد بالکل صاف ہو جاوے اور مجھے سمجھ آ جاوے کہ واقعی آپ ملہم اور مامور من اللہ ہیں.( خط مولوی کرم الدین صاحب بنام حضرت اقدس مندرجہ نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۵۵،۴۵۴) حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی کے بھی مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھیں کے ساتھ تعلقات تھے.انہوں نے بھی ایک خط مولوی کرم دین صاحب کو لکھا جس میں کتابوں کے حاصل کرنے کی از حد تاکید کی گئی تھی.اب اتفاق ایسا ہوا کہ مولوی محمد حسن فیضی متوفی کا لڑکا جو کسی جگہ پر ملازم تھا ایک ماہ کی رخصت لے کر گھر آیا.مولوی کرم الدین نے اسے چھ روپے دے کر حضرت اقدس کی کتاب اعجاز مسیح “ حاصل کر لی جس کے حاشیہ پر مولوی محمد حسن نے اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھے تھے.اس ساری سرگزشت کا ذکرتے ہوئے مولوی کرم الدین صاحب لکھتے ہیں:.
117 مکرم معظم بندہ جناب حکیم صاحب مدظلہ العالی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.۳۱ جولائی کولڑ کا گھر پہنچ گیا.اس وقت سے کار معلومہ کی نسبت اس سے کوشش شروع کی گئی.پہلے تو کتابیں دینے سے اس نے سخت انکار کیا اور کہا کہ کتابیں جعفر زٹلی کی ہیں اور وہ مولوی محمد حسن مرحوم کا خط شناخت کرتا ہے اور اس نے بتاکید مجھے کہا ہے کہ فورا کتابیں لاہور زٹلی کے پاس پہنچا دوں.لیکن بہت سی حکمت عملیوں اور شمع دینے کے بعداس کو تسلیم کرایا گیا.مبلغ چھ روپیہ معاوضہ پر آخر راضی ہوا اور کتاب اعجاز مسیح کے نوٹوں کی نقل دوسرے نسخہ پر کر کے اصل کتاب جس پر مولوی مرحوم کی اپنی قلم کے نوٹ ہیں بدست حامل عریضہ ابلاغ خدمت ہے.کتاب وصول کر کے اس کی رسید حامل عریضہ کو مرحمت فرماویں اور نیز اگر موجود ہوں تو چھ روپے بھی حامل کو دیدیجئے گا تا کہ لڑکے کو دے دیئے جاویں اور تا کہ دوسری کتاب شمس بازغہ کے حاصل کرنے میں دقت نہ ہو.کتاب شمس بازغہ کا جس وقت بے جلد نسخہ آپ روانہ فرما ئیں گے فوراً اصل نسخہ جس پر نوٹ ہیں اسی طرح روانہ خدمت ہوگا.آپ بالکل تسلی فرما دیں.انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہ ہوگی.امید ہے کہ میری یہ نا چیز خدمت حضرت مرزا صاحب اور آپ کی جماعت قبول فرما کر میرے لئے دعائے خیر فرمائیں گے.لیکن میرا التماس ہے کہ میرا نام بالفعل ہر گز ظاہر نہ کیا جاوے.“ (نقل خط مولوی کرم الدین صاحب بنام حضرت اقدس مندرجہ نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۵۶، ۴۵۷) بعد میں چھ روپے دے کر حضرت حکیم فضل دین صاحب نے دوسری کتاب بھی حاصل کر لی اور جب یہ سارا مواد حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا تو چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان
118 اس سے ظاہر ہونا تھا یعنی پیر مہر علی شاہ کی علمی پردہ دری ہونی تھی اس لئے حضور نے اسے شائع فرما دیا اور اس بات کی ہرگز پروانہ کی کہ کرم الدین کی پیر صاحب کے مرید مخالفت کریں گے.چنانچہ حضور لکھتے ہیں.مولوی کرم دین صاحب کو سہواً اس طرف خیال نہیں آیا کہ شہادت کا پوشیدہ کرنا سخت گناہ ہے جس کی نسبت آثـم قلبہ کا قرآن شریف میں وعید موجود ہے.لہذا تقویٰ یہی ہے کہ کسی لومتہ لائم کی پروا نہ کریں اور شہادت جو اپنے پاس ہو ادا کریں.سو ہم اس بات سے معذور ہیں جو جرم اخفا کے ممد و معاون بنیں اور مولوی کرم دین صاحب کا یہ اخفا خدا کے حکم سے نہیں ہے صرف دلی کمزوری ہے.خدا ان کو قوت ( نزول المسیح صفحہ ۷۷،۷۶.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۵۵) 66 جب یہ ساری کاروائی منصہ شہود پر آگئی تو اس سے پیر صاحب کی شہرت علمی و عملی کا پردہ بالکل چاک ہو گیا اور انہوں نے مولوی کرم دین صاحب کی اپنے مریدوں کے ذریعہ مخالفت شروع کر دی.مولوی کرم دین صاحب جو ایک کمزور طبیعت کے آدمی تھے انہوں نے خیر اسی میں سمجھی کہ اپنے خطوط کا ہی انکار کر دیں.چنانچہ انہوں نے سراج الاخبار، جہلم مورخہ ۴ اکتوبر ۱۹۰۲ء اور ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں یہ شائع کروایا کہ یہ خطوط جعلی اور بناوٹی ہیں.چنانچہ یہ خطوط بڑی لمبی مقدمہ بازی کا موجب ہوئے جن کا ذکر حیات طیبہ مولفہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب مرحوم سابق سوداگر مل صفحه ۲۴۸ تا ۲۵۵ میں مفصل بیان کیا گیا ہے.بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پیرمہر علی گولڑ وی صاحب کے مابین معرکہ حق و باطل اس طرح اختتام کو پہنچا کہ ہر مکر جو پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود کے خلاف استعمال کیا خدا تعالیٰ نے انہیں پر الٹا دیا اور ان کے ہر فریب کے پردے چاک کر دیئے.ہر ہتھیار جس سے پیر صاحب نے حملے کی کوشش کی خود انہیں کو گھائل کر گیا.خصوصاً سیف چشتیائی کا خود اپنے ہی
119 مصنف کو اس تیز دھار سے ہلاک کر دینا عظیم معجزے کی حیثیت رکھتا ہے.اس واقعہ کے بعد حضرت اقدس نے دوبارہ پیر مہر علی شاہ اور دیگر تمام علماء کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی غیرت کو ان الفاظ میں للکارا.عالم علم سے پہچانا جاتا ہے.ہمارے مخالفین میں دراصل کوئی عالم نہیں ہے.ایک بھی نہیں ہے ورنہ کیوں مقابلہ میں عربی فصیح بلیغ تفسیر لکھ کر اپنا علم ہونا ثابت نہیں کرتے.ایک آنکھوں والے کو اگر الزام دیا جائے کہ تو نا بینا ہے تو وہ غصہ کرتا ہے.غیرت کھاتا ہے اور صبر نہیں کرتا جب تک اپنے بینا ہونے کا ثبوت نہ دے.ان لوگوں کو چاہئے کہ اپنا عالم ہونا اپنا علم دکھا کر ثابت کریں.“ (ملفوظات نیا ایڈیشن جلد اصفحہ ۴۴) مگر کسی کو بھی اس میدان میں اترنے کی توفیق نہ مل سکی.
121 باب چهارم کسوف و خسوف فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القيامه : ۸ تا ۱۰) ترجمہ:.سو جب نظر پتھرا جائے گی.اور چاند کو خسوف لگے گا اور سورج اور چاند دونوں کو جمع کر دیا جائے گا.
122
123 کسوف و خسوف حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے نشانات میں سے منجملہ اور نشانوں کے ایک یہ نشان بھی تھا کہ رمضان شریف کے مہینے میں چاند اور سورج گرہن ہوگا.یہ گرہن اپنی ذات میں کوئی خصوصیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ گرہن ہمیشہ سے ہی لگتے آئے ہیں لیکن اس گرہن کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ اس کے متعلق پہلے سے معین تاریخیں بتا دی گئی تھیں کہ رمضان کے مہینہ میں فلاں تاریخوں میں چاند اور سورج گرہن لگے گا اور یہ کہ اس وقت ایک شخص مہدویت کا مدعی موجود ہوگا جو خدا کی طرف سے ہوگا.چنانچہ ان سب شرائط کے اکٹھا ہو جانے سے یہ گرہن ایک خاص نشان قرار دیا گیا تھا.چنانچہ وہ حدیث جس میں یہ پیشگوئی درج تھی اس کے الفاظ یہ ہیں.ان لمهدينا ايتين لم تكونا منذ خلق السموت والارض ينكسف القمر لاول ليلة من رمضان و تنكسف الشمس في النصف منه.(دار قطنی جلد دوم کتاب العيدين باب صفة الصلوة الخوف) یعنی ہمارے مہدی کیلئے دو نشانات ظاہر ہوں گے.اور جب سے کہ زمین و آسمان بنے ہیں ایسے نشانات اور کسی مدعی کیلئے ظاہر نہیں ہوئے اور وہ نشانات یہ ہیں کہ چاند پر گرہن پڑنے کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ یعنی تیرہ کو اور سورج پر گرہن پڑنے کے دنوں میں سے بیچ کے دن یعنی اٹھائیس کو گرہن لگے گا.گویا اس نشان کیلئے اس حدیث میں درج ذیل علامات ضروری قرار دی گئیں ہیں.اول.ایک مدعی مہدویت پہلے سے موجود ہو.دوم.رمضان کا مہینہ ہو.
124 سوم.اس مہینہ کی تیرھویں تاریخ کو چاند گرہن لگے گا.چہارم.اسی مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو سورج کو گرہن لگے گا.پنجم.مدعی مہدویت کا سورج اور چاند گرہن کے نشانات کو اپنے دعوی کی تائید میں پیش کرنا.یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کا یکجائی وقوع پذیر ہونا سوائے اللہ تعالیٰ کے خاص تصرف کے ہرگز ممکن نہیں.ان تمام شرائط کے ساتھ یہ نشان ایک عظیم الشان نشان قرار پاتا ہے.چنانچہ عجیب بات ہے کہ ۱۸۹۴ء کے رمضان میں عین انہی شرائط کے ساتھ چاند اور سورج کو گرہن لگا.یہ نشان نہ صرف ایک دفعہ بلکہ دو مرتبہ ظہور پذیر ہوا.چنانچہ پہلی دفعہ ۱۸۹۴ء میں زمین کے مشرقی کره یعنی یوروپ وایشیا اور افریقہ میں وقوع پذیر ہوا اور دوسری مرتبہ ۱۸۹۵ء میں زمین کے مغربی کرہ یعنی امریکہ میں وقوع پذیر ہوا.گویا اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں گرہن لگا کر اس بات کی گواہی دے دی کہ یہ امام ہماری طرف سے ہے.دوسرے یہ ظاہر کر دیا کہ اس کی دعوت بھی اس نبی ممتبوع و مطاع یعنی آنحضرت ﷺ کی طرح سارے جہان کیلئے ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس نشان کو اپنی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا اور بڑی تحدی کے ساتھ اس دعوی کو پیش کیا کہ ان تمام شرائط کے ساتھ یہ نشان اس سے پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوا اور آپ نے اپنے مخالفوں کو چیلنج دیا کہ اگر ایسا نشان پہلے کبھی گزرا ہے تو اس کی نظیر پیش کرو.چنانچہ آپ نے فرمایا.” کیا تم ڈرتے نہیں کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو جھٹلایا حالانکہ اس کا صدق چاشت کے آفتاب کی طرح ظاہر ہو گیا.کیا تم اس کی نظیر پہلے زمانوں میں سے کسی زمانہ میں پیش کر سکتے ہو.کیا تم کسی کتاب میں پڑھتے ہو کہ کسی شخص نے دعویٰ کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور پھر اس کے زمانہ میں رمضان میں
125 چاند اور سورج کا گرہن ہوا جیسا کہ اب تم نے دیکھا.پس اگر پہچانتے ہو تو بیان کرو اور تمہیں ہزار روپیہا انعام ملے گا اگر ایسا کر دکھاؤ.پس ثابت کرو اور یہ انعام لے لو.اور میں خدا تعالیٰ کو اپنے اس عہد پر گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو اور خدا سب گواہوں سے بہتر ہے.اور اگر تم ثابت نہ کر سکو اور تم ہرگز ثابت نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جو مفسدوں کیلئے تیار کی گئی ہے.( ترجمه عربی عبارت از نورالحق حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں نور الحق حصہ دوم میں مزید فرمایا کہ.”اے نادانو اور سفیہو.یہ حدیث خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے جو خیرالمرسلین ہیں اور یہ حدیث دار قطنی میں لکھی ہے جس کی تالیف پر ہزار برس سے زیادہ گزرا.پس پوچھ لو ان سے.اور اگر شک ہو تو ہمارے لئے کوئی ایسی کتاب یا اخبار نکالوجس میں تمہارا دعویٰ صاف دلیل کے ساتھ پایا جاوے.اور کوئی ایسا قائل پیش کرو کہ اس قسم کا خسوف و کسوف اس نے دیکھا ہوا اگر تم سچے ہو.اور تمہیں ہرگز مقدرت نہیں ہوگی کہ اس کی نظیر پیش کر سکو.پس تم جھوٹوں کی پیروی مت کرو.“ ( ترجمه عربی عبارت از نورالحق حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۳) پھر فرماتے ہیں:.دوسرا نشان مہدی موعود کا یہ ہے کہ اس کے وقت میں ماہ رمضان میں خسوف کسوف ہوگا اور پہلے سے جیسا کہ منطوق حدیث صاف بتلا رہا ہے کبھی کسی رسول یا نبی یا محدث کے وقت میں خسوف کسوف کا اجتماع رمضان میں نہیں ہوا.اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے.کسی مدعی رسالت یا نبوت یا محد ثیت کے وقت میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن اکٹھے نہیں ہوئے.اور اگر کوئی کہے کہ اکٹھے ہوئے ہیں تو بار ثبوت
126 اس کے ذمہ ہے.“ انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۸) اس کتاب میں آگے چل کر پھر فرمایا کہ:.اور اگر پہلے بھی کسی ایسے شخص کے وقت میں جو مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں اکٹھے ہو گئے ہوں تو اس کی نظیر پیش کریں.“ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۵۰) پھر فرماتے ہیں.اور منجملہ نشانوں کے ایک نشان خسوف وکسوف رمضان میں ہے.کیونکہ دار قطنی میں صاف لکھا ہے کہ مہدی موعود کی تصدیق کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک نشان ہوگا کہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ وہ گرہن لگ گیا.اور کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مجھ سے پہلے کوئی اور بھی ایسا مدعی گذرا ہے جس کے دعویٰ کے وقت میں رمضان میں چاند اور سورج کا گرہن ہوا ہو.سو یہ ایک بڑا بھاری نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ظاہر کیا.پس ان مولویوں کو چاہیئے تھا.کہ اگر اس پیشگوئی کی صحت میں شک تھا تو ایسی کوئی نظیر سابق زمانہ میں سے بحوالہ کسی کتاب کے پیش کرتے.جس میں لکھا ہوتا کہ پہلے ایسا دعوی ہو چکا ہے.اور اس کے وقت میں ایسا خسوف کسوف بھی ہو چکا ہے سو پیشگوئی کا بھی مفہوم یہی ہے کہ یہ نشان کسی دوسرے مدعی کو نہیں دیا گیا خواہ صادق ہو یا کاذب.صرف مہدی موعود کو دیا گیا ہے.اگر یہ ظالم مولوی اس قسم کا خسوف کسوف کسی اور مدعی کے زمانہ میں پیش کر سکتے ہیں تو پیش کریں.اس سے بیشک میں جھوٹا ہو جاؤں گا.ورنہ میری عداوت کے لئے اس قدر عظیم
127 الشان معجزہ سے انکار نہ کریں.“ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۹۳ تا ۳۳۱) پس حدیث میں یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ جب وہ سچا مہدی دعوی کر یگا تو اُس زمانہ میں قمر رمضان کے مہینہ میں اپنے خسوف کی پہلی رات میں منخف ہوگا اور ایسا واقعہ پہلے کبھی پیش نہ آیا ہوگا اور کسی جھوٹے مہدی کے وقت رمضان کے مہینہ میں اور ان تاریخوں میں کبھی خسوف کسوف نہیں ہوا.اور اگر ہوا ہے تو اس کو پیش کرو.ورنہ جبکہ یہ صورت اپنی ہیئت مجموعی کے لحاظ سے خود خارق عادت ہے تو کیا حاجت کہ سنت اللہ کے برخلاف کوئی اور معنے کئے جائیں.غرض تو ایک علامت کا بتلانا تھا سو وہ متحقق ہو گئی.اگر متحقق نہیں تو اس واقعہ کی صفحہ تاریخ میں کوئی نظیر تو پیش کرو.اور یاد رہے کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے.‘“ ضمیمه نزول المسح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۱، ۱۴۲) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاں دار قطنی کی حدیث میں بیان کردہ کسوف و خسوف کی کسی مدعی کے زمانہ میں مثال لانے کے متعدد چیلنج دیئے وہاں یہ چیلنج بھی دیا کہ :.اگر اس پیشگوئی کی عظمت کا انکار ہے تو دنیا کی تاریخ میں سے اس کی نظیر پیش کرو اور جب تک نظیر نہ مل سکے تب تک یہ پیشگوئی ان تمام پیشگوئیوں سے اول درجہ پر ہے جن کی نسبت آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَیبهِ أَحَدًا کا مضمون صادق آسکتا ہے کیونکہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ آدم سے آخیر تک اس کی نظیر نہیں.اور اگر آپ لوگوں کے نزدیک ایسی پیشگوئی پر کوئی دوسرا بھی قادر ہوسکتا ہے تو پھر آپ اسکی نظیر پیش کریں جس سے ثابت ہو کہ کسی مفتری یا رسول کے سوا کسی اور نے کبھی یہ پیشگوئی کی ہو کہ ایک زمانہ آتا ہے جس میں فلاں مہینے میں چاند اور سورج کا خسوف کسوف ہوگا اور فلاں فلاں تاریخوں میں ہوگا اور یہ نشان کسی مامور من اللہ کی تصدیق کے لئے
128 ہوگا جسکی تکذیب کی گئی ہوگی.اور اس صورت کا نشان اوّل سے آخر تک کبھی دنیا میں ظاہر نہیں ہوا ہوگا.اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ ہر گز اس کی نظیر پیش نہیں کر سکیں گے.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۳۶، ۱۳۷) مخالفین کا رد عمل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ۱۸۹۴ء میں ظاہر ہونے والے خسوف وکسوف کے نشان کو اپنی صداقت کا نشان قرار دیا تو اس کے رد عمل کے طور پر جو اعتراضات کئے گئے ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس پر حضرت بانی سلسلہ نے یہ چیلنج دیا کہ: اب تک کسی عالم نے اس حدیث کو زیر بحث لاکر اس کو موضوع قرار نہیں دیا.نہ یہ کہا کہ اس کے ثبوت کی تائید میں کسی دوسرے طریق سے مدد نہیں ملی بلکہ اس وقت سے جو یہ کتاب ممالک اسلامیہ میں شائع ہوئی تمام علماء وفضلاء متقدمین و متاخرین میں سے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آئے بھلا اگر کسی نے اکابر محدثین میں سے اس حدیث کو موضوع ٹھہرایا ہے تو اُن میں سے کسی محدث کا فعل یا قول پیش تو کرو جس میں لکھا ہو کہ یہ حدیث موضوع ہے.اور اگر کسی جلیل الشان محدّث کی کتاب سے اس حدیث کا موضوع ہونا ثابت کر سکو تو ہم فی الفور ایک منوا روپیہ بطور انعام تمہاری نذر کرینگے جس جگہ چاہو مانتا پہلے جمع کرالو.“ (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد نمبر ۷ اصفحہ نمبر ۱۳۳ تا۱۳۴) ایک اور اعتراض یہ کیا گیا کہ ۱۸۹۴ء میں لگنے والا کسوف و خسوف دار قطنی والی حدیث کے مطابق نہیں کیونکہ اس حدیث کے مطابق رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن لگنا چاہئے تھا جبکہ یہ گرہن رمضان کی ۳ ار تاریخ کو ظاہر ہوا.اس اعتراض کے جواب میں حضور نے یہ چیلنج دیا کہ:.اور بعض متاخرین نے ذکر کیا ہے کہ چاند گرہن رمضان کی تیرہ تاریخ میں رات کو ہو
129 گا اور ۲۷ رمضان کو سورج گرہن ہوگا اور باوجود اس کے یہ ایک ایسا بیان ہے کہ اس میں دار قطنی کے بیان میں سوچنے والوں کی نگاہ میں کچھ زیادہ فرق نہیں کیونکہ دارقطنی کی عبارت ایک صریح بیان اور قرینہ واضحہ صحیحہ کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چاند گرہن رمضان کی پہلی تاریخ میں ہرگز نہیں ہوگا اور کوئی صورت نہیں کہ پہلی رات واقع ہو کیونکہ اس عبارت میں قمر کا لفظ موجود ہے اور اس نیر پر تین رات تک قمر کا لفظ بولا نہیں جاتا بلکہ تین رات کے بعد اخیر مہینہ تک قمر بولا جاتا ہے اور قمر اس واسطے نام رکھا گیا کہ وہ خوب سفید ہوتا ہے اور تین رات سے پہلے ضرور ہلال کہلاتا ہے اور اس میں کسی کو کلام نہیں اور یہ وہ امر ہے جس پر تمام اہل عرب کا اس زمانہ تک اتفاق ہے اور کوئی اہل زبان میں سے اس کا مخالف نہیں اور نہ انکاری.....اور اگر تجھے شک ہو تو قاموس اور تاج العروس اور صحاح اور ایک بڑی کتاب مستمی لسان العرب اور ایسا ہی تمام کتب لغت اور ادب اور شاعروں کے شعر اور قدماء کے قصیدے غور سے دیکھے اور ہم ہزار روپیہ انعام تجھ کو دیں گے اگر تو اس کے برخلاف ثابت کر سکے.“ ( ترجمہ از عربی عبارت.نورالحق حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۹۷ تا ۱۹۹) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جب یہ چیلنج دیا کہ کسی ایسے مدعی کی نظیر پیش کی جائے جس کی صداقت کے اظہار کے لئے ایسا کسوف و خسوف وقوع پذیر ہوا ہو تو اس کے جواب میں بعض مخالفین نے بعض ایسے مدعیان کے نام پیش کئے ہیں جن کے دعوی کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں حدیث میں بیان فرمودہ تاریخوں کے مطابق کسوف و خسوف ظہور پذیر ہوا.مگر محض ایسے مدعیان پیش کر دینے سے کیا بنتا ہے جب تک ان میں سے کسی ایسے مدعی کا دعوئی اس کی اپنی کتاب سے پیش نہ کیا جائے اور نیز یہ ثابت نہ کیا جائے کہ اس نے کسوف و خسوف کے نشان کو اپنے دعوی کی صداقت کیلئے پیش بھی کیا تھا جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ اپنی کتاب
130 چشمہ معرفت میں تحریر فرماتے ہیں."پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ خسوف کسوف ہو چکا ہے اس کے ذمہ یہ ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدعی مہدویت کا پتہ دے جس نے اس کسوف و خسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہو اور یہ ثبوت یقینی اور قطعی ہونا چاہئے اور یہ صرف اس صورت میں ہوگا کہ ایسے مدعی کی کوئی کتاب پیش کی جائے جس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دار قطنی کی مقررہ تاریخوں کے موافق ہوا ہے وہ میری سچائی کا نشان ہے.غرض صرف خسوف کسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں.نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت صرف ایک دفعہ ہوا ہے اور حدیث نے ایک مدعی مہدویت کے وقت میں اپنے مضمون کا وقوع ظاہر کر کے اپنی صحت اور سچائی کو ثابت کر دیا.“ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۰،۲۳۹ ح ) مگر آج تک ایسی نظیر کسی مخالف کو پیش کرنے کی توفیق نہ مل سکی.پس یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے.
131 باب پنجم افترای علی اللہ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيل.لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينِ.فَمَا مِنْكُمُ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ.(الحاقة : ۴۵ تا ۴۸) ترجمہ:.اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور اس صورت میں تم میں سے کوئی نہ ہوتا جو اسے درمیان میں حائل ہوکر خدا کی پکڑ سے بچا سکتا.
132
133 افترای علی اللہ کے متعلق چیلنج قرآن کریم اور تقریبا تمام گزشتہ آسمانی کتب سے یہ امر ثابت ہے کہ جو شخص جھوٹی نبوت کا دعوی کر کے خدا تعالیٰ کی طرف جھوٹی وجی اور الہام منسوب کرے وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ جلد ہلاک ہو جاتا ہے.چنانچہ استثناء میں لکھا ہے.” جو نبی ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے حکم نہیں دیا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے گا.“ (استثناء.۱۸/۲۰) مفتری کی ہلاکت کے متعلق سر میاہ باب ۱۴ آیت ۱۵ میں لکھا ہے.خداوند یوں کہتا ہے ان نبیوں کی بابت جو میرا نام لے کے نبوت کرتے ہیں جنہیں میں نے نہیں بھیجا اور جو کہتے ہیں کہ تلوار اور کال اس سرزمین پر نہ ہوگا.نہ نبی تلوار اور کال سے ہلاک کئے جائیں گے.“ (برمیاه ۱۴/۱۵) جھوٹے نبیوں اور ان کے انجام کے متعلق حز قیل نبی نے کہا:.” خداوند یہوداہ کہتا ہے کہ میں تمہارا مخالف ہوں اور میرا ہاتھ ان نبیوں پر جو دھوکا دیتے ہیں اور جھوٹی غیبت دانی کرتے ہیں چلے گا.وہ میرے لوگوں کے مجمع میں 66 داخل نہ ہوں گے.( حز قیل ۸-۱۳/۹) اسی طرح سر میاہ نبی نے فرمایا.وو رب الافواج نبیوں کی مانند یوں کہتا ہے کہ دیکھ میں انہیں نا گدونا کھلاؤں گا.اور ہلاہل کا پانی پلاؤں گا.کیونکہ یروشلم کے نبیوں کے سبب ساری سرزمین میں بے دینی پھیلی ہے.“ رمیاه ۹/۱۵)
134 اللہ تعالیٰ اپنی اسی سنت اور اصول کا قرآن کریم میں ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الَا قَاوِيلِ.لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَامِنُهُ الْوَتِينِ.فَمَامِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ.الحاقة : ۴۵ تا ۴۸) ترجمہ:.اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور اس صورت میں تم میں سے کوئی نہ ہوتا جو اسے درمیان میں حائل ہو کر خدا کی پکڑ سے بچاسکتا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی صداقت کیلئے یہی اصول بیان فرمایا ہے کہ اگر یہ رسول ﷺ ہماری طرف سے نہ ہوتا پھر بھی ہماری طرف جھوٹی وحی اور الہام منسوب کرتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے اور یہ ہرگز اتنی مہلت نہ پاتا.خواہ تم سب لوگ اس کو بچانے کی ہر ممکن کوشش بھی کرتے.پس اس مدعی نبوت کا اتنی مہلت پانا اور قتل سے بچے رہنا اس بات کی زبر دست دلیل ہے کہ یہ جھوٹا نہیں.چنانچہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں.هذا ذكره على سبيل التمثيل بما يفعله الملوك بمن يتكذب عليهم فانهم لا يمهلونه بل يضربون رقبته في الحال ( تفسیر کبیر جلد۳۰ ص ۱۸ مطبع البهيه مصر ) ترجمہ.اس آیت میں مفتری کی حالت تمثیلا بیان کی ہے کہ اس سے وہی سلوک ہوگا جو بادشاہ ایسے شخص سے کرتے ہیں جو ان پر جھوٹ باندھتا ہے وہ اس کو مہلت نہیں دیتے بلکہ فی الفور قتل کرواتے ہیں.( یہی حال مفتری علی اللہ کا ہوتا ہے.) اہل سنت کی مستند کتاب شرح عقائد نسفی میں لکھا ہے.
135 فان العقل يجزم بامتناع اجتماع هذه الامور في غير الانبياء في حق من يعلم انه يفترى على الله ثم يمهله ثلاثا و عشرين سنة“ ( شرح عقائد نسفی مجتبائی ص ۱۰ اطبع محمدی) ترجمہ.عقل اس بات پر کامل یقین رکھتی ہے کہ یہ امور ( معجزات اور اخلاق عالیہ وغیرہ) غیر نبی میں نہیں پائے جاتے نیز یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ یہ باتیں کسی مفتری میں جمع نہیں کرتا اور یہ بھی کہ پھر اس کو تئیس برس مہلت نہیں دیتا.“ علامہ ابن القیم علیہ الرحمہ (المتوفی ۲۷۸ھ) نے ایک عیسائی کے سامنے یہی دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا." وهو مستمر في الافتراء عليه ثلاثة و عشرين سنة وهو مع ذالك يويده زاد المعاد جلد ۱ صفحه ۳۹، ۴۰.طبع مطبعه الميمنيه بمصر) ترجمہ: یہ کس طرح ممکن ہے کہ جسے تم مفتری قرار دیتے ہو وہ مسلسل تئیس برس تک اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ بایں ہمہ اسے ہلاک کرنے کی بجائے اس کی تائید کرے.مندرجہ بالا تمام حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا ہے اور چونکہ آنحضرت ﷺ جو صداقت کی کسوٹی ہیں آپ ۲۳ سال دعوئی وحی و الہام کے بعد زندہ رہے اس لئے کوئی جھوٹا مدعی الہام و وحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا جتنا عرصہ آنحضرت ﷺ رہے.پس قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت کے ماتحت بدلیل استقراء حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا دعوی ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی جھوٹے مدعی نبوت و الہام کو دعوی کے بعد تئیس سال کی مہلت نہیں ملی.اور اگر کسی مدعی نبوت کو بعد از دعوئی وحی و الہام ۲۳ سال تک زندگی ملی تو وہ سچا ہے.صل الله
136 حضرت بانی سلسلہ نے اپنی متعدد کتب میں اس دلیل کو اپنی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش فرمایا ہے اور متعدد باب آنحضرت ﷺ کے زمانہ وحی ( جو تئیس سال بنتا ہے ) کے مطابق مہلت پانے والے مفتری کی نظیر پیش کرنے کیلئے چیلنج دیئے ہیں جو حسب ذیل ہیں.ا.کیا کوئی ایک نظیر بھی ہے کہ جھوٹے ملہم نے جو خدا پر افتراء کرنے والا تھا ایام افتراء میں وہ عمر پائی جو اس عاجز کو ایام دعوت الہام میں ملی ؟ بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو پیش کرو.میں نہایت پر زور دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا کی ابتداء سے آج تک ایک نظیر بھی نہیں ملے گی.“ ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۱۷۶) ۲.اسی کتاب میں حضور آگے چل کر فرماتے ہیں." قرآن اور انجیل اور تورات نے یہی گواہی دی ہے.عقل بھی یہی گواہی دیتی ہے اور اس کے مخالف کوئی منکر کسی تاریخ کے حوالہ سے ایک نظیر بھی پیش نہیں کر سکتا.اور نہیں دکھلا سکتا کہ کوئی جھوٹا الہام کرنے والا ۲۵ برس تک یا ۱۸ برس تک جھوٹے الہام دنیا میں پھیلاتا رہا اور جھوٹے طور پر خدا کا مقرب اور خدا کا ماموراور خدا کافرستادہ اپنا نام رکھا اور اس کی تائید میں سالہائے دراز تک اپنی طرف سے الہامات تراش کر مشہور کرتا رہا.اور پھر وہ باوجود ان مجرمانہ حرکات کے پکڑا نہ گیا ؟ کیا کوئی امید کی جا سکتی ہے کہ کوئی ہمارا واقف اس سوال کا جواب دے سکتا ہے.ہر گز نہیں.“ ۳.فرمایا.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۶۸،۲۶۷) میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک کے کسی مفتری کی نظیر دو جس نے پچیس (۲۵) برس پیشتر اپنی گمنامی کی حالت میں ایسی پیشگوئیاں کی ہوں اور یوں روز روشن کی طرح پوری ہوگئی ہوں.اگر کوئی شخص ایسی نظیر پیش کر دے
137 تویقیناً یاد رکھو کہ یہ سارا سلسلہ اور کاروبار باطل ہو جائے گا.مگر اللہ تعالیٰ کے کاروبار کو کون باطل کر سکتا ہے.یوں تکذیب کرنا اور بلاوجہ معقول انکار اور استہزاء یہ حرامزادے کا کام ہے.کوئی حلال زادہ ایسی جرات نہیں کر سکتا.“ ( ملفوظات جلد ۲ نیا ایڈیشن صفحه ۵۳۴).میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک کے کسی مفتری کی نظیر دو جس نے ۲۵ برس پیشتر اپنی گمنامی کی حالت میں ایسی پیشگوئیاں کی ہوں.اگر کوئی شخص ایسی نظیر پیش کر دے تو یقیناً یا د رکھو کہ یہ سارا سلسلہ اور کاروبار باطل ہو جائے گا مگر اللہ تعالیٰ کے کاروبار کو کون باطل کر سکتا ہے؟ یوں تکذیب کرنا اور بلا وجہ معقول انکار اور استہزاء یہ حرام زادے کا کام ہے کوئی حلال زادہ ایسی جرات نہیں کر (لیکچرلدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۲۰) سکتا.“ کیا کسی جھوٹے کیلئے آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہو اور خدا تعالیٰ اس کو نہ پکڑے بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو ایک تو بیان کریں ورنہ اس قادر منتم سے ڈریں.جس کا غضب انسان کے غضب سے کہیں بڑھ کر ہے.“ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحه ۵) ۶.فرمایا:.”اے لوگو میری نسبت جلدی مت کرو اور یقیناً جانو کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.میں اسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں.سمجھو اور سوچو کہ دنیا میں کس قدر مفتری ہوئے اور ان کا انجام کیا ہوا.کیا وہ ذلت کے ساتھ بہت جلد ہلاک نہ کئے گئے.پس اگر یہ کاروبار بھی انسانی
138 افتراء ہوتا تو کب کا تباہ ہو جاتا.کیا کسی ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کو افتراء اور دعویٰ ولی اللہ کے بعد میری طرح ایک زمانہ دراز تک مہلت دی گئی ہو.وہ مہلت جس میں آج تک بقدر زمانہ وحی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی قریبا چوبیس برس گزر گئے اور آئندہ معلوم نہیں کہ ابھی کس قدر ہیں.اگر پیش کر سکتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ ایسے مفتری کا نام لو اور اس شخص کی مدت افتراء کا جس قدر زمانہ ہواس کا میرے زمانہ بعث کی طرح تحریری ثبوت دو اور لعنت اس شخص پر جو مجھے جھوٹا جانتا ہے اور پھر یہ نظیر مع ثبوت پیش نہ کرے.وَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اور ساتھ اس کے یہ بھی بتلاؤ کہ کیا تم کسی ایسے مفتری کو بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کے کھلے کھلے نشان تحریر اور ہزاروں شہادتوں کے ذریعہ سے میری طرح بپایہ ثبوت پہنچ چکے ہوں.“ ے.پھر فرمایا.مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۳۶۸، ۳۶۹) اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کر کے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سنا کر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تیمیس برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے زندہ رہا تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے کہ مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسور و پیہ نقد دوں گا.اور اگر ایسے لوگ کئی ہوں تو ان کو اختیار ہوگا کہ وہ روپیہ باہم تقسیم کر لیں.اس اشتہار کے نکلنے کی تاریخ سے پندرہ روز تک ان کو مہلت ہے.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۵۱)
.فرمایا:.139 میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں.وہ خوب جانتا ہے کہ میں مفتری نہیں کذاب نہیں.اگر تم مجھے خدا تعالیٰ کی قسم پر بھی اور ان نشانات کو بھی جو اس نے میری تائید میں ظاہر کئے دیکھ کر مجھے کذاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر میں تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ کسی ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ باوجود اس کے ہر روز افتراء اور کذب کے جو وہ اللہ تعالیٰ پر کرے پھر اللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کرتا جاوے.چاہئے تو یہ تھا کہ اُسے ہلاک کرے.مگر یہاں اس کے برعکس معاملہ ہے.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں اور اس کی طرف سے آیا ہوں مگر مجھے کذاب اور مفتری کہا جاتا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ ہر مقدمہ اور ہر بلا میں جو قوم میرے خلاف پیدا کرتی ہے مجھے نصرت دیتا ہے.اور اُس سے مجھے بچاتا ہے.اور پھر ایسی نصرت کی کہ لاکھوں انسانوں کے دل میں میرے لئے محبت ڈال دی.میں اس پر اپنی سچائی کو حصر کرتا ہوں.اگر تم کسی ایسے مفتری کا نشان دے دو کہ وہ کذاب ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس نے افتراء کیا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی نصرتیں کی ہوں اور اس قدر عرصہ تک اسے زندہ رکھا ہو اور اس کی مُرادوں کو پورا کیا ہو دکھاؤ.(لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۷۶،۲۷۵) ۹.لالہ شرمیت کے لئے یہ کافی ہے کہ اول تو اس نے میرا وہ زمانہ دیکھا جبکہ وہ میرے ساتھ اکیلا چند دفعہ امرتسر گیا تھا.اور نیز براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت وہ میرے ساتھ ہی پادری رجب علی کے مکان پر کئی دفعہ گیا.وہ خوب جانتا ہے کہ اس وقت میں ایک گمنام آدمی تھا.میرے ساتھ کسی کو تعلق نہ تھا اور اس کو خوب معلوم ہے کہ براہین احمدیہ کے چھپنے کے زمانہ میں یعنی جبکہ یہ پیشگوئی ایک دنیا کے رجوع کرنے کے
140 بارے میں براہین احمدیہ میں درج ہو چکی تھی میں صرف اکیلا تھا.تو اب قسم کھاوے کہ کیا یہ پیشگوئی اس نے پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟ اور قسم کھا کر کہے کہ کیا اس کے نزدیک یہ کام انسان سے ہو سکتا ہے کہ اپنی ناداری اور گمنامی کے زمانہ میں دنیا کے سامنے قطعی اور یقینی طور پر یہ پیشگوئی پیش کرے کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ تیرے پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ تو گمنام نہیں رہے گا.لاکھوں انسان تیری طرف رجوع کریں گے.اور کئی لاکھ روپیہ تجھے آئے گا.اور قریبا تمام دنیا میں عزت کے ساتھ تو مشہور کیا جائے گا.اور پھر اس پیشگوئی کو خدا پوری کر دے.حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس نے مجھ پر افتراء کیا ہے اور جھوٹ بولا ہے اور جھوٹ کی نجاست کھائی ہے.اور نیز خدا اپنی پیشگوئیوں کے موافق ہر ایک مزاحم کو نامراد ر کھے اور لالہ شرمیت قسم کھا کر کہے کہ اس نے یہ پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں ؟ اور کیا اس کے پاس کوئی ایسی نظیر ہے کہ کسی جھوٹے نے خدا کا نام لے کر ایسی پیشگوئی کی ہو اور وہ پوری ہوگئی ہو.اور چاہئے کہ اس کی نظیر کو پیش کرے.“ انجام آتھم میں فرمایا.قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۳۴) دنیا میں تم کوئی ایسی کتاب دکھا نہیں سکتے جس میں صاف اور بے تناقض لفظوں میں یہ کھلا کھلا دعوئی ہو کہ یہ خدا کی کتاب ہے حالانکہ اصل میں وہ خدا کی کتاب نہ ہو بلکہ کسی مفتری کا افتراء ہو اور ایک قوم اس کو عزت کے ساتھ مانتی چلی آئی ہو.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفہ ۶۳ ۶۴ ح)
141 مخالفین کا رد عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کے بعد آپ کے ایک مخالف حافظ محمد یوسف ضلعدار نے بعض مولویوں کی تحریک پر اس چیلنج کو توڑنے کا اعلان کر دیا اور لاہور میں بعض احمدی احباب کی موجودگی میں یہ بیان دیا کہ: ایسے کئی لوگوں کا نام میں نظیر پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے نبی یا رسول یا مامورمن اللہ ہونے کا دعوی کیا اور تئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو سناتے رہے کہ خدا کا کلام ہمارے پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کا ذب تھے.“ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار انعامی پانچ صد روپیه بنام حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر شائع فرمایا جس میں حافظ محمد یوسف صاحب علاوہ ہندوستان کے بڑے بڑے علماء ومشائخ اور سجادہ نشینوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ.اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامورمن اللہ ہونے کا دعوی کر کے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سنا کر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تئیس برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے زندہ رہا تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے کہ مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسور و پیہ نقد دوں گا.اور اگر ایسے لوگ کئی ہوں تو ان کو اختیار ہو گا کہ وہ روپیہ باہم تقسیم کر لیں.اس اشتہار کے نکلنے کی تاریخ سے پندرہ روز تک ان کو مہلت ہے کہ دنیا میں تلاش کر کے ایسی نظیر پیش کریں.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۵۱) ( اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۰۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا چیلنج کے بعد بعض علماء نے اکبر بادشاہ اور روشن دین جالندھری کے نام پیش کئے کہ ان دونوں نے جھوٹے الہام کا دعوی کیا اور ہلاک نہ
142 ہوئے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے اور تئیس برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے.اور وہ الہام پیش کرنا چاہئے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا.یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہئیں.کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے جس کی نسبت یہ ضروری ہے کہ بعض محکمات پیش کر کے یہ کہا جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ہمارے پر نازل ہوا ہے.“ تمہ اربعین.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۷۷) اس کے بعد ۶ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موصول ہوا جو حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر کی طرف سے آپ کے نام شائع کیا گیا تھا.اس رسالہ میں حافظ صاحب نے حضور کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ:.میں ایک دفعہ زبانی اس بات کا اقرار کر چکا ہوں کہ جن لوگوں نے نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ لوگ ایسے افتراء کے ساتھ جس سے لوگوں کو گمراہ کرنا مقصود تھا تئیس برس تک ( جو آنحضرت ﷺ کے ایام بعثت کا زمانہ ہے) زندہ رہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور پھر حافظ صاحب اپنے اسی اشتہار میں لکھتے ہیں.ان کے اس قول کی تائید میں ان کے دوست ابو سحاق محمد دین نام نے قطع و تین“ نام ایک رسالہ بھی لکھا تھا جس میں مدعیان کاذب کے نام معہ مدت دعوی تاریخی کتابوں کے حوالہ سے درج ہیں.( بحوالہ تحفہ الندوہ.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۹۴٬۹۳)
143 اس اشتہار کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ الندوہ کے نام سے ایک رسالہ شائع فرمایا جس میں حافظ صاحب کے اشتہار پر انتہائی عالمانہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا.” حافظ صاحب یاد رکھیں کہ جو کچھ رسالہ قطع الوتین میں جھوٹے مدعیان نبوت کی نسبت بے سروپا حکایتیں لکھیں گئی ہیں وہ حکایتیں اس وقت تک ایک ذرہ قابل اعتبار نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ مفتری لوگوں نے اپنے اس دعوے پر اصرار کیا اور توبہ نہ کی.اور یہ اصرار کیونکر ثابت ہوسکتا ہے جب تک اسی زمانہ کی تحریر کے ذریعہ سے یہ امر ثابت نہ ہو کہ وہ لوگ اسی افتراء اور جھوٹے دعوی نبوت پر مرے اور ان کا اس وقت کسی اس وقت کے مولوی نے جنازہ نہ پڑھا اور نہ وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کئے گئے اور ایسا ہی یہ حکایتیں ہرگز ثابت نہیں ہوسکتیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ ان کی تمام عمر کے مفتریات جن کو انہوں نے بطور افتراء خدا کا کلام قرار دیا تھا وہ اب کہاں ہیں اور ایسی کتاب ان کی وحی کس کس کے پاس ہے تا اس کتاب کو دیکھا جائے کہ کیا انہوں نے کبھی کسی قطعی یقینی وحی کا دعوی کیا اور اس بنا پر اپنے تئیں ظلی طور پر یا اصلی طور پر نبی اللہ ٹھہرایا ہے اور اپنی وحی کو دوسرے انبیاء علیہم السلام کی وحی کے مقابل پر منجانب اللہ ہونے میں برابر سمجھا ہے.تقول کے معنے اس پر صادق آئیں.حافظ صاحب کو معلوم نہیں کہ تقول کا حکم قطع اور یقین کے متعلق ہے.“ تحفہ الندوہ.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹۵) تقریباً سو سال گزرنے کے باوجود مخالفین کو اس چیلنج کو توڑنے والی ایک مثال بھی پیش کرنے کی توفیق نہیں مل سکی.قبل اس کے کہ رسالہ "قطع الوتین" اور بعض دیگر مخالفین کی کتب میں پیش کردہ جھوٹے مدعیان نبوت پر الگ الگ بحث کر کے ان کا بطلان ثابت کریں، پہلے آیت لـو تـقــول عـلينـا
144 بعض الاقاویل میں بیان فرمودہ شرائط کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں تا کہ واضح ہو جائے کہ ایسے لوگوں کی مثالیں اس چیلنج کے بالمقابل پیش نہیں کی جاسکتیں.سورۃ الحاقہ رکوع ۲ کی جن آیات کریمہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی صداقت کا استدلال فرمایا ہے ان آیات میں جن شرائط کا ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہیں :.اول : لفظ تقول باب تفعل سے ہے جس میں تکلف اور بناوٹ پائی جاتی ہے.اس لئے مدعی نبوت والہام کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں تکلف اور تعمد سے کام لے.مجنون اور دیوانہ اس آیت کی زد میں نہیں آ سکتے کیونکہ اس کا قول وفعل تعمد کی بنا پر نہیں ہوتا اور شریعت اسلامی میں بھی مجنون قابل مواخذہ نہیں ہے.دوم.وہ مدعی ہستی باری تعالیٰ کا قائل ہو اور اس کے علیحدہ وجود کا اقراری ہو اور اپنی باتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہو.جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہی قائل نہیں یا محض اپنی باتوں کو الہام سے تعبیر کرتے ہیں وہ اس آیت کی زد سے باہر ہوں گے جیسا کہ آیت کا لفظ علينا‘صاف بتا رہا ہے.سوم:.ایسے مدعی کیلئے از روئے آیت قرآنی چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے اس دعوی کو علی الاعلان پیش کرے اور لوگ اس کی باتوں کے باعث گمراہ ہوتے ہوں.اگر وہ اس دعوے کو چھپاتا ہے یا تحدی کے ساتھ پیش نہیں کرتا یا لوگ اس کے باعث فتنہ میں نہیں پڑتے تو وہ مدعی بھی اس سزا کے نیچے نہ آئے گا.پنجم :.ایسا شخص مدعی الوہیت نہ ہو.گویا خدا تعالیٰ کو اپنے وجود سے الگ ہستی خیال کرنے والا ہو.مدعی الوہیت کیلئے قرآن کریم میں الگ سزا کا ذکر موجود ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایسے شخص کے متعلق فرماتا ہے: وَ مَنْ يَّقُلُ مِنْهُمُ إِنِّى إِلهُ مِنْ دُونِهِ فَذلِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمُ كَذَالِكَ نَجْزِئُ
145 الظَّالِمِينَ (انبياء رکوع ۲) کہ جو شخص کہے کہ میں خدا ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیتے ہیں.ایسے ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں.پس اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ مدعی الوہیت کیلئے ضروری نہیں کہ اسے اس دنیا میں سزادی جائے.بلکہ یہ کا ذب مدعی نبوت کیلئے اللہ تعالیٰ نے لازمی اور ضروری قرار دیا ہے کہ اسے اسی دنیا میں سزادی جائے کیونکہ کوئی انسان خدا نہیں ہوسکتا اور الوہیت کا دعوی عظمندوں کو دھو کے میں نہیں ڈال سکتا.مگر نبی چونکہ انسان ہی ہوتے ہیں اس لئے ان سے دوسرے لوگوں کو دھوکا لگنے کا امکان ہے.اس لئے خدا اسی دنیا میں اس کو سزادیتا ہے.چنانچہ علامہ ابوحمد ظاہری نے بھی اپنی کتاب "الفصل فی الملل و الاهواء و النحل “ میں لکھا ہے:.و مدعى الربوبيت فى نفس قوله بيان كذبه قالوا فظهور الاية عليه ليس موجبا بضلال من له عقل واما مدعى النبوة فلا سبيل الى ظهور الايات عليه لانه يكون مضلا لكل ذي عقل (الفصل في الملل و الاهواء و النحل جلد ۱ صفحه ۱۰۹) یعنی مدعی الوہیت کا دعوی ہی خود اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے.اس لئے اس سے کسی نشان کا ظہور کسی صاحب عقل کو گمراہ نہیں کرسکتا.مگر کاذب مدعی نبوت سے نشان ظاہر نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ہر صاحب عقل کو گمراہ کرنے کا باعث ہوگا.گویا خدا تعالیٰ نے ہر دو دعووں کے مدعیوں کی سزا میں فرق رکھا ہے.پس ایک دوسرے پر قیاس کرنا غلطی ہے.لہذا لو تَقَول کے مطالبہ پر فرعون یا بہاء اللہ کے نام پیش کرنا غلطی.آیت لَوْ تَقَوَّلَ میں بیان فرمودہ شرائط کو بیان کرنے کے بعد اب ان مدعیان کی حقیقت کو پیش کیا جاتا ہے جن کو مخالفین نے حضرت مسیح موعود کے چیلنج کے بالمقابل پیش کیا.ہے.
146 ا.ابو منصور مخالفین ابومنصور کو امام ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنہ کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں جبکہ منہاج السنہ میں ایک جگہ بھی اس کے دعوی نبوت اور ۲۷ برس تک مہلت پانے کا ذکر نہیں.اور نہ ہی اُنکے کسی الہام کا ذکر ملتا ہے.منهاج السنة اور دیگر کتب تاریخ سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک ملحد انسان تھا اور رافضی خیالات کی ترویج چاہتا تھا.پھر قدرے الوہیت کا دعوے دار بن گیا.چنانچہ الاستاذ ابومنصور البغدادی اپنی شہرہ آفاق کتاب ”الفرق بين الفرق“ میں ابو منصور المحبی مدعی مذکور کے متعلق لکھتے ہیں.و ادعى هذا العجلى انه خليفة الباقر وقف يوسف بن عمر الثقفى و اتى العراق.فاخذ ابا منصور العجلي و صلبه.الفرق بين الفرق صفحہ ۱۴۹.ایڈیشن ۱۹۴۸ء) یعنی ابو منصور انجلی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ باقر کا خلیفہ ہے..پس جب یوسف بن عمر اشتفی کو اس بات کا علم ہوا، وہ عراق آیا اور ابومنصور کو پکڑ کر صلیب دے دی.پس ابو منصور کا دعویٰ نبوت ہرگز ثابت نہیں ہوتا اور نہ اس کا کوئی الہام پیش کیا گیا ہے.وہ صلیب دیا گیا اور اپنے کیفر کردار تک پہنچ گیا.پس ایسے شخص کو پیش کرنا سراسر حماقت ہے.۲.محمد بن تومرت ا.محمد بن تو مرت کا ذکر تاریخ کامل ابن اثیر جلد اصفحہ ۲۰۱ وغیرہ میں ملتا ہے مگر اس کا دعویٰ نبوت کہیں بھی مذکور نہیں.ہاں اس نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت ضرور کی اور ۵۱۴ ء میں
147 شاہ مراکش نے اسے دار السلطنت سے نکال دیا اور جبل سوس میں جا کر بغاوت کرتا رہا.۲.اس نے خود دعوئی مہدویت بھی نہیں کیا.البتہ بعض لوگوں نے اسے مہدی قرار دیا جیسا کہ لکھا ہے.فقام اليه عشرة رجال احدهم عبدالمومن فقالوا لا يوجد الا فيك فانت المهدى“ (كامل ابن الاثير جلد ۱ صفحه ۲۰۲) یعنی اس کے دس ساتھی ہو گئے جن میں سے ایک عبدالمومن تھا.انہوں نے اسے کہا کہ تیرے سوا مہدی کی صفات اور کسی میں پائی نہیں جاتیں.لہذا تو ہی مہدی ہے.اگر اس کا دعوی مہدویت ثابت ہو بھی جائے تب بھی وہ لو تقول والی آیت کے تحت نہیں آسکتا جب تک کہ جھوٹے الہام یا وحی کا مدعی نہ ہو.اور اس کی کسی کتاب سے اس کے الہام یا وحی کو ثابت نہ کیا جائے.- عبد المومن ابن تو مرت کو عبدالمومن نے مہدی قرار دیا اور عبدالمومن کو ابن تو مرت نے اپنا جانشین بنا لیا.گویا ”من ترا حاجی بگویم تو مرا ما بگو والا معاملہ ہے.محض خلیفہ یا جانشین کہلا نازیر بحث نہیں آ سکتا جب تک کہ دعوی الهام و وحی مع جمله شرائط آیت مذکورہ پیش نہ کی جائیں.لہذا عبد المومن کا ذکر بھی اس ذیل میں بے تعلق ہے.-۴- صالح بن طریف ا.صالح بن طریف نے اپنا کوئی الہام پیش نہیں کیا لہذا ” لو تقول “ نہ ہوا.۲.اس نے محض خیال کیا تھا کہ خود مہدی ہے:.ثم زعم انه المهدى الذى يخرج في آخر الزمان
148 تاریخ ابن خلدون مولفہ علامہ عبدالرحمن بن خلدون جلد ۶ صفحه ۲۰۷) یعنی اس نے خیال کیا کہ وہ مہدی جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ میں ہوں.مگر اس نے کبھی کوئی الہام پیش نہیں کیا.۳.اس نے اپنے دعوئی مہدویت کا بھی اعلان کبھی نہیں کیا.بلکہ اس کو مخفی رکھتا تھا.چنانچہ مقدمہ ابن خلدون میں لکھا ہے.و اوصی (صالح بن طريف بدينه الى ابنه الياس و عهد اليه بمولاة صاحب الاندلس من بني امية و باظهار دینه اذا قوی امرهم و قام بامره بعد ابنه الياس و لم يزل مظهرا للاسلام مشرا لما اوصاه به ابوه من كلمة كفرهم.(تاریخ ابن خلدون جلد ۷ صفحه ۲۰۷) یعنی صالح بن طریف نے اپنے دین کی اپنے بیٹے کو وصیت کی اور کہا کہ اندلس کے حاکم سے دوستی رکھنا اور جب تمہاری حکومت مضبوط ہو جائے تو اس دین کا ظاہر کرنا.چنانچہ اس کے بعد اس کا بیٹا الیاس والی ہوا اور وہ ہمیشہ اسلام کو ظاہر کرتا رہا اور باپ کے وصیت کردہ مذہب کو چھپا تا رہا.گویا صالح بن طریف نے اس دعویٰ کو عام پبلک میں بیان نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اخفاء سے کام لیتا رہا اور اسی اخفاء کی حالت میں مر گیا اور پھر اس کے بیٹے نے بھی اس کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ سب اسلام کا ہی اظہار کرتے رہے پس صالح بن طریف کو بطور نظیر پیش کرنا درست نہیں.۵- عبید اللہ بن مهدی 1.عبید اللہ بن مہدی نے بھی نبوت کا دعوی نہیں کیا.کیا.۲.اس کا کوئی الہام ثابت نہیں.
149 ۳.ابن خلقان نے وفیات الاعیان“ پر ایک روایت درج کی ہے کہ:.عبید اللہ مہدی کو دوسرے یا تیسرے سال الیع نے جو سلجامہ کا حاکم تھا قید خانہ میں قتل کر دیا تھا اور پھر ایک شیعہ نے بعد میں جھوٹ موٹ ایک دوسرے آدمی کو عبید اللہ قرار دے دیا.۶.بیان بن سمعان یہ نہ مدعی وحی ، نہ مدعی الہام اور نہ مدعی نبوت ہے.ہاں اس کے بعض واہیات قسم کے عقائد تھے مگروہ ” تقول “ کی آیت کے ماتحت کسی طرح نہیں آ سکتا.یہاں پر تو سوال صرف تقول على الله “ ہے نہ کہ غلط عقائد رکھنے کا.امام ابن تیمیہ منہاج السنہ میں اس کے غلط خیالات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :.فقتله خالد بن عبدالله القسرى.یعنی اس کے غلط عقائد کے باعث عبداللہ قسری نے اسے قتل کر دیا.منہاج السنہ جلد اصفحه ۲۳۸ طبع اولی مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ ) ے.مقنع مقتنع ۱۵۹ھ میں ظاہر ہوا اور ۱۶۲ھ میں چار سال بعد اس نے خود زہر کھا کر خود کشی کر لی اور اس کا سر قلم کیا گیا.( تاریخ کامل ابن الاثیر جلد 4 صفحہ ۱۹) پس ایسے شخص کی نظیر پیش کرنا بہت بڑی حماقت کے مترادف ہے..ابوالخطاب الاسدی ا.یہ مدعی الوہیت تھا نہ کہ مدعی الہام یا مدعی نبوت ۲.وہ قتل ہوا.چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ میں اس کے متعلق لکھتے
ہیں:.150 وو و عبدوا ابا الخطاب و زعموا انه اله و خرج ابو الخطاب على ابی جعفر المنصور..فقتله عیسی ابن موسى في الكوفة.(منہاج السنتہ جلد اصفحه ۳۳۹ طبع اولی ۱۳۲۱ھ مطبع الکبری الامیر یہ بولاق مصر محمیہ ) یعنی لوگ ابوالخطاب کو خدا کر کے پوجنے لگے.اور یہ خیال کیا کہ وہ خدا ہے.پھر ابوالخطاب نے ابوجعفر پر حملہ کیا.پس عیسی بن موسیٰ نے کوفہ میں اسے قتل کر دیا.۹.احمد بن کیال ا.اس نے نہ دعویٰ نبوت کیا اور نہ ہی وحی والہام ہونے کا دعویٰ کیا..وہ سخت ناکام و نامراد ہوا.چنانچہ ”الملل والنحل میں لکھا ہے.لما وقفوا على بدعته تبرؤا منه و لعنوه (الملل و النحل جلد ۲ صفحه ۷ ۱ برحاشيه الفصل في الملل و النحل طبع بالمطبعة الادبية بسوق الخضار القديم بمصر ١٣٢٠) یعنی اس کے متبعین کو جب اس کی بدعت کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے برأت کا اظہار کیا اور اس پر لعنت بھیجی.۱۰.مغیرہ بن سعد بجلی اس کے متعلق بھی کسی جگہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے وحی والہام یا نبوت کا دعوی کیا.پس اس کو پیش کرنا بھی جہالت ہے.پس مندرجہ بالا کا ذبوں میں سے ایک بھی ایسا وجود نہیں جو لو تقول “ کی باطل شکن تحدی کے سامنے ٹھہر سکے.ان میں سے ابو منصور، مقنع اور ابوالخطاب الاسدی کا دعوی الوہیت ثابت
151 ہے اور باقیوں میں سے کسی ایک کا بھی اپنا دعویٰ ماموریت یا نبوت ورسالت موجود نہیں جسے اس نے کھلم کھلا اور بر ملا پیش کیا ہو.بعض نادان اس چیلنج کے جواب میں فرعون مصر اور بہاء اللہ ایرانی کے نام پیش کر دیا کرتے ہیں.اس کا جواب ہم ”لو تقول “ والی آیت کی شرائط کے ضمن میں لکھ آئے ہیں کہ اس آیت کے تحت صرف مدعی نبوت و رسالت اور ماموریت آتے ہیں.الوہیت کا دعویدار اس آیت کے تابع نہیں آ سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون ہر دو کا ذبوں کیلئے الگ الگ ہے.اللہ تعالیٰ نے مدعی نبوت کا ذبہ کیلئے تو اسی دنیا میں قطع و تین اور نا کامی کی سزا مقرر فرمائی ہے جبکہ مدعی الوہیت کیلئے جہنم کی سزا مقرر فرمائی ہے.پس ”لو تقول “ کے مطالبہ پر فرعون مصر یا بہاء اللہ کا ذکر کرنا سراسر نادانی ہے.پس مذکورہ بالا ساری بحث سے صاف ثابت ہو گیا کہ آیت ولو تقول علینا“ کا مطلب تفاسیر، لغت، گذشتہ آسمانی کتب اور واقعات کی تائید سے یہی ہے کہ مفتری کو تئیس سال کی مہلت نہیں مل سکتی.اور آج تک کسی کا ذب مدعی الہام کو نہیں ملی.اور نہ قیامت تک مل سکے گی.آسمان وزمین کامل جانا ممکن ہے مگر خدا کا یہ نوشتہ نہیں مل سکتا ور نہ یہ قانون باطل ہو سکتا ہے.بعض اعتراضات وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ آیات سے استدلال پر بعض مخالفین نے بعض علمی اور فنی نوعیت کے اعتراضات اٹھائے ہیں جن کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں.اعتراض آیت ”لو تقول علینا “ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں.اس سے
152 کیونکر سمجھا جائے کہ اگر کوئی دوسرا شخص افتراء کرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا.جواب گو کہ اس آیت میں مدلول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر دلیل کی قوت چونکہ عام ہوتی ہے اس لئے ہر وہ شخص جو بناوٹ سے خدا کی طرف جھوٹا الہام منسوب کرے وہ لمبی مہلت نہیں پا سکتا.بلکہ جلد ہلاک ہو جاتا ہے.قرآن کریم کی بعض دیگر آیات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پر افتراء کرنے ولا ہر شخص مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک موقعہ پر فرماتا ہے کہ قــد خـاب من افترای (طه: ۶۲) یعنی مفتری نامراد مرے گا.اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے:.وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ (الانعام :۲۲) یعنی اس شخص سے ظالم ترکون ہے جو خدا پر افترا کرتا ہے یا خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتا ہے.پس قرآن کریم کی بیسیوں آیات سے یہ ثابت ہے کہ مفتری علی اللہ کو سزا دینے اور جلد ہلاک کرنے والا قاعدہ عام ہے نہ کہ یہ حکم صرف آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کیلئے خاص ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ کا یہ قول محل استدلال پر ہے اور منجملہ دلائل صدق نبوت کے یہ بھی ایک دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کے قول کی تصدیق تبھی ہوتی ہے کہ جھوٹا دعوی کرنے والا ہلاک ہو جائے ورنہ یہ قول منکر پر کچھ حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس کیلئے بطور دلیل ٹھہر سکتا ہے بلکہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تئیس برس تک ہلاک نہ ہونا اس وجہ سے نہیں کہ وہ صادق ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ خدا پر افتراء کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس سے خدا اسی دنیا میں کسی کو ہلاک کرے کیونکہ اگر یہ کوئی گناہ ہوتا اور سنت اللہ اس پر جاری ہوتی کہ مفتری کو اسی دنیا میں سزا دینا چاہیئے تو اس کیلئے نظیر یں ہونی
153 چاہئے تھیں.اور تم قبول کرتے ہو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں بلکہ بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ لوگوں نے تئیس برس تک بلکہ اس سے زیادہ خدا پر افتراء کئے اور ہلاک نہ ہوئے تو اب بتلاؤ کہ اس اعتراض کا جواب کیا ہوگا ؟“ اربعین نمبر ۴ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۴، ۴۳۵) اعتراض بعض لوگ اس چیلنج کے جواب میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت قُلُ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا “ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتری کو دنیا میں فائدہ ہے.یعنی اس کو لمبی مہلت ملتی ہے (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۲۱۷ طبع پنجم مئی ۱۹۷۱ء) جواب مَتَاعٌ فِي الدُّنْیا سے مراد بھی مہلت نہیں بلکہ تھوڑی مہلت ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت سے ظاہر ہے.فرمایا: "إِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النحل ركوع :١٥) اس آیت کا ترجمہ خود مولف محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۲۷۲ پر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے.انہیں نفع تھوڑا ہے اور عذاب دردناک“ غرضیکہ قرآن کریم نے مفتری کیلئے لمبی مہلت کہیں بھی بیان نہیں فرمائی جو تئیس سال تک دراز ہو جائے.ہاں تھوڑی مہلت جو ہماری بیان کردہ مہلت سے کم ہو تو اس سے ہمیں انکار نہیں.اگر کسی مفتری کو اتنی لمبی مہلت ملے جتنی آنحضرت ﷺ کو ملی تو آیت لو تقول “ کی دلیل باطل قرار پائے گی.
154 اعتراض بعض مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت یحی علیہ السلام شہید کئے گئے تھے.اور ان کو دعوی کے بعد ۲۳ برس کی مہلت نہ مل سکی؟ جواب ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ جھوٹا مدعی نبوت بعد از دعویٰ الہام و وحی ۲۳ برس کی مہلت نہیں پاسکتا.اور اگر کوئی مدعی نبوت بعد از دعوی الہام و وحی ۲۳ برس تک زندہ رہے تو وہ یقینا سچا ہے لیکن اس کا عکس کلیتا نہیں.چنانچہ اس اعتراض کا جواب مولوی ثناء اللہ امرتسری نے خوب دیا ہے." کا ذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے“ اس پر مولوی صاحب حاشیہ میں لکھتے ہیں.اس سے یہ نہ کوئی سمجھے کہ جو نبی قتل ہوا جھوٹا ہے بلکہ ان میں عموم مطلق ہے.یعنی یہ ایسا مطلب ہے کہ جو شخص زہر کھاتا ہے مر جاتا ہے.اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہر مرنے والے نے زہر بھی کھائی ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو کوئی زہر کھائے گا وہ ضرور مرے گا اور اگر اس کے سوا بھی کوئی مرے تو ہو سکتا ہے کہ اس نے زہر نہ کھائی ہو.یہی تمثیل ہے دعوی نبوت کا ذ بہ مثل زہر کے ہے.جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا.اگر اس کے سوا بھی کوئی ہلاک ہو تو ممکن ہے.ہاں یہ نہ ہوگا کہ زہر کھانے والا بیچ ( مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ ح/ ۱۷ مطبوعہ ۱۳۱۴ھ مطبع چشم نور امرتسر ) رہے." "
155 اعتراض بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ لو تَقَول والی آیت تو مدعیان نبوت کیلئے ہے.مگر مرزا صاحب نے دعوی نبوت ۱۹۰۱ء میں کیا ہے.جواب ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت بانی سلسلہ ۱۹۰۱ء سے پہلے نبی نہ تھے بلکہ عقیدہ تو یہ ہے کہ حضور براہین احمدیہ کے زمانہ میں بھی نبی تھے کیونکہ حضرت اقدس کا الہام هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی براہین احمدیہ میں موجود ہے جس میں حضور کو رسول کر کے پکارا گیا ہے اور حضور نے اس الہام کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے.دراصل یہ الجھن لفظ نبی کی تعریف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.لفظ نبی کی تعریف جو غیر احمدی علماء کے نزدیک مسلم تھی وہ یہ تھی کہ ”نبی کیلئے شریعت کا لانا ضروری ہے.نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ وہ.اس تعریف کی رو سے حضرت مرزا صاحب نہ ۱۹۰۱ء سے پہلے نبی تھے اور نہ بعد میں کیونکہ آپ کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع بھی تھے.پس چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریعی نبی نہ تھے اس لئے اوائل میں حضور اس تعریف نبوت کی رو سے اپنی نبوت کی نفی کرتے رہے جس سے بعض لوگوں کو دھو کہ لگا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس انکار سے مراد محض اس قدر تھی کہ میں صاحب شریعت براہ راست نبی نہیں ہوں.لیکن بعد میں جب ”نبی“ کی تعریف حضور پر واضح ہوگئی اور اس تعریف کو آپ نے مخالفین پر خوب واضح فرما دیا کہ نبی کیلے شریعت کا لانا ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت نبی کا متبع ہو بلکہ کثرت مکالمہ و مخاطبه مشتمل بر کثرت امور غیبیہ کا نام نبوت ہے تو اس
156 تعریف کی رو سے آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسول کہا.اب ظاہر ہے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تعریف نبوت کے رو سے حضرت صاحب کبھی بھی نبی نہ تھے اور نہ صرف حضرت صاحب بلکہ آپ سے پہلے ہزاروں انبیاء جو صاحب شریعت نہ تھے وہ بھی نبی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ وہ بھی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے لیکن ۱۹۰۱ء کے بعد کی تشریح کی رو سے ۱۹۰۱ء سے پہلے بھی حضور نبی تھے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحب شریعت نبی ہونے سے انکار اور اس کو کفر قرار دینا ابتداء سے انتہاء تک ثابت ہے.ہاں غیر تشریعی نبوت کا آپ کو دعوی تھا اور اس دعوے سے حضور نے کبھی انکار نہیں کیا.نہ ۱۹۰۱ ء سے پہلے نہ ۱۹۰۱ ء کے بعد.چنانچہ آپ نے لکھا." جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.“ ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۱،۲۱۰) پس حضرت بانی سلسلہ پر یہ اعتراض کرنا کہ آپ نے ۱۹۰۱ء میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس لئے آپ خود اس اصول کے مطابق صادق قرار نہیں پاتے بالکل غلط اور غیر صحیح ہے.کیونکہ آپ نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں جو ۱۸۸۲ء میں شائع ہوئی میں کئی ایسے الہامات درج فرمائے ہیں جن میں آپ کی نسبت نبی اور رسول کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.صرف آپ ان الفاظ کی مروجہ تعریف کی وجہ سے مختلف تعبیر فرماتے رہے جس سے آپ کے منصب نبوت کی نسبت کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوسکتا.
157 باب ششم قرآن کریم اور دیگر مقدس کتب
158
159 قرآن کریم کا دیگر مقدس کتب سے مقابلہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اصل غرض قرآن کریم کی تبلیغ واشاعت اور دیگر ادیان کی مقدس کتب پر اس کی عظمت کو قائم کرنا تھا.یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی قرآن کریم ہی آپ کی تمام تر توجہ کا مرکز بنارہا جس کا اندازہ آپ کے اس شعر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے جس وقت آپ کی بعثت ہوئی یہ وہ زمانہ تھا جبکہ آریہ سماج، برہمو سماج اور عیسائی تحریکیں بڑی متحرک تھیں اور ان کا سارا ز ور مسلمانوں کے خلاف صرف ہو ر ہا تھا.اور قرآن کریم اور بانی اسلام پر ہر طرف سے بارش کے قطروں کی مانند اعتراضات ہو رہے تھے.مسلمان مخالفین اسلام کے حملوں کے آگے بالکل بے دست و پا شخص کی مانند ہوکر رہ گئے تھے اور خود مسلمان اسلام کی نشاة ثانیہ سے قطعاً نا امید اور اس کی دوبارہ زندگی سے مایوس ہو چکے تھے.اور قرآن مجید کی حقانیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت خود مسلمان کہلانے والوں پر مشتبہ ہو رہی تھی اور کئی ان میں سے عیسائیت کی آغوش میں آ گرے تھے.ایسے حالات میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے یہ بانگ دہل یہ اعلان فرمایا کہ:.خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کر کے اور صد ہانشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد با دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرمائے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے...اور ہر ایک مخالف اپنے مغلوب اور لا جواب ہونے کا آپ گواہ ہو جائے.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۹۶=ح-ح)
160 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور اشتہارات اس بات پر گواہ ہیں کہ آپ مذہبی مباحثات میں شیر ببر کی طرح گرجے اور تمام مخالفین اسلام کو مقابلہ کیلئے للکارا اور بار بار چیلنج دیا کہ آؤ اور اپنی اپنی الہامی کتابوں کا قرآن مجید سے مقابلہ کر لو اور بصورت مغلوبیت آپ نے ہزارہا روپے دینے کا وعدہ بھی کیا.لیکن کسی کو آپ کے مقابلے پر آنے کا یارا نہ ہوا.ذیل میں وہ تمام چینج پیش کئے جارہے ہیں جو آپ نے مخالفین قرآن کو اپنی اپنی الہامی اور مقدس کتب کا قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کے لئے دیئے.فضائل القرآن میں مقابلہ کے چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام قبول کرنے کے وعدہ کے ساتھ قرآن کریم سے ہر قسم کی دینی صداقت پیش کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اگر اس امر میں شک ہو کہ قرآن شریف کیونکر تمام حقائق الہی پر حاوی ہے تو اس بات کا ہم ہی ذمہ اٹھاتے ہیں کہ کوئی صاحب طالب حق بن کر یعنی اسلام قبول کرنے کا تحریری وعدہ کر کے کسی کتاب عبرانی ، یونانی، لاطینی ، انگریزی اور سنسکرت وغیرہ سے کسی قدر دینی صداقتیں نکال کر پیش کریں یا اپنی ہی عقل کے زور سے کوئی الہیات کا نہایت بار یک دقیقہ پیدا کر کے دکھلاویں تو ہم اس کو قرآن شریف میں نکال دیں گے.بشرطیکہ اسی کتاب کی اثنائے طبع میں ہمارے پاس بھیج دیں تا اس کے کسی مقام مناسب میں بطور حاشیہ مندرج ہو کر شائع ہو جائے.مگر ایسے سوال کے پیش کرنے میں یہ شرط بھی بخوبی یادر ہے کہ جو شخص محرک اس بحث کے ہوں وہ اوّل اس صدق اور صفائی سے کسی اخبار میں شائع کرا دیں کہ یہ بحث محض حق کی خاطر کرتے ہیں اور اپنا پورا پورا جواب پانے سے مطمئن ہو کر مستعد ہیں.“ ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد نمبر اصفحه ۲۷۲ تا ۲۸۲)
161 ایک پادری صاحب نے ۱۳ مارچ ۱۸۸۲ء کے پرچہ نورافشاں میں یہ سوال پیش کیا کہ حیات ابدی کی نسبت کتاب مقدس میں کیا نہ تھا کہ قرآن یا صاحب قرآن لائے اور قرآن کن کن امروں اور تعلیمات میں انجیل پر فوقیت رکھتا ہے.تا یہ ثابت ہو کہ انجیل کے اترنے کے بعد قرآن کے نازل ہونے کی بھی ضرورت تھی.اسی طرح ایک عربی رسالہ موسوم بہ ” عبد المسیح بن اسحاق الکندی اسی غرض سے افترا کیا گیا کہ تا انجیل کی ناقص اور آلودہ تعلیم کو سادہ لوحوں کی نظر میں کس طرح قابل تعریف ٹھہرایا جاوے اور قرآنی تعلیم پر بے جا الزامات لگائے جائیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرت جوش میں آئی اور آپ نے قرآن کریم کی تعلیم سے ایک ذرہ کا ہزارم حصہ نقص نکالنے یا قرآن کریم کے بالمقابل کسی دوسری الہامی کتاب سے کسی ایسی خوبی کے پیش کرنے پر جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو آپ سزائے موت قبول کر لیں گے.چنانچہ آپ نے فرمایا.اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نکال سکے یا اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ خوبی ثابت کر سکے کہ جو قر آنی تعلیم کے برخلاف ہواور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو طیار ہیں.اب منصفو!! نظر کرو.اور خدا کے واسطے ذرہ دل کو صاف کر کے سوچو کہ ہمارے مخالفوں کی ایمانداری اور خداترسی کس قسم کی ہے کہ باوجود لا جواب رہنے کے پھر بھی فضول گوئی سے باز نہیں آتے.نور حق دیکھو راہ حق پاؤ آؤ عیسائیو ادھر آؤ جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ “ (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد نمبر اصفحہ ۲۹۸-۲) عقائد حقہ کے اثبات میں کوئی ایسی دلیل جس کے پیش کرنے سے قرآن غافل رہا ہو پیش کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.
162 پس الہی عقل از قبیل خارق عادت ہے جس کے استدلال میں کوئی غلطی نہیں اور جس نے علوم مذکورہ سے ایک ایسی شائستہ خدمت لی ہے جو کبھی کسی انسان نے نہیں لی اور اس کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے کہ دلائل وجود باری عز اسمہ اور اس کی تو حید و خالقیت وغیرہ صفات کمالیہ کے اثبات میں بیان قرآن شریف کا ایسا محیط و حاوی ہے جس سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان کوئی جدید برہان پیش کر سکے.اگر کسی کو شک ہو تو وہ چند دلائل عقلی متعلق اثبات ہستی باری عز ہ اسمہ یا اس کی توحید یا خالقیت یا کسی دوسری الہی صفت کے متعلق بطور امتحان پیش کرے تا بالمقابل قرآن شریف میں سے وہی دلائل یا ان سے بڑھ کر اس کو دکھلائے جائیں جس کے دکھلانے کے ہم آپ ہی ذمہ دار ہیں.غرض یہ دعویٰ اور یہ تعریف قرآنی لاف گذاف نہیں بلکہ حقیقت میں حق ہے اور کوئی شخص عقائد حقہ کے اثبات میں کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتا جس کے پیش کرنے سے قرآن شریف غافل رہا ہو.قرآن شریف بآواز بلند بیسیوں جگہ اپنے احاطہ نامہ کا دعوئی پیش کرتا ہے.چنانچہ بعض آیات ان میں سے ہم اس حاشیہ میں درج بھی کر چکے ہیں.سو اگر کوئی طالب حق آزمائش کا شائق ہو تو ہم اس کی تسلی کامل کرنے کے لئے مستعد اور طیار اور ذمہ وار ہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ اس پر غفلت اور لا پرواہی اور بے قدری کے زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہی تھوڑے ہیں جو صدق دلی سے طالب حق ہو کر اس خاصیت عظمی و معجزہ کبری کی آزمائش چاہیں.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحہ ۷۳.ح) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جملہ مذاہب کے پیروکاروں کو اپنی اپنی الہامی کتابوں سے قرآنی معجزات کا مقابلہ کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.کیا ان قرآنی معجزات کا کوئی کتاب جو الہامی کہلاتی ہے مقابلہ کرسکتی ہے جن سے
163 ذاتی اعجاز قرآن شریف کا ثابت ہوتا ہے اور اس کے روحانی خواص بپایہ ثبوت پہنچتے ہیں.قرآن شریف توحید کے کامل اور پر زور بیان میں اپنے اصول کو معقول اور مدلل طور پر ثابت کرنے میں ، اخلاق فاضلہ کے تمام جزئیات کے لکھنے میں، اخلاق ذمیمہ کے معالجات لطیفہ میں ، وصول الی اللہ کے تمام طریقوں کی توضیح میں ، نجات کی کچی فلاسفی ظاہر کرنے میں، صفات کاملہ الہیہ کے اکمل و اتم ذکر میں، مبدء و معاد کے پر حکمت بیان میں، روح کی خاصیتوں اور قوتوں اور طاقتوں اور استعدادوں کے بیان میں، حکمت بالغہ الہیہ کے تمام وسائل پر احاطہ کرنے میں، تمام اقسام کی صداقتوں پر مشتمل ہونے میں، تمام مذاہب باطلہ کو عقلی طور پر رد کرنے میں ، حقوق عباد اللہ کے قائم کرنے میں ، تاثیرات و تنویرات روحانیہ میں اور پھر بایں ہمہ فصیح اور بلیغ اور رنگین عبارت میں اس کمال کے درجہ تک پہنچا ہوا ہے کہ ہر یک حصہ اس کے بیان کا ان بیانات میں سے درحقیت معجزہ عظیمہ ہے جس کا مقابلہ نہ کوئی آریہ کر سکتا ہے نہ کوئی عیسائی اور نہ کوئی یہودی اور نہ کوئی اور شخص جو کسی مذہب کا پابند ہے.اس جگہ دید سراسر بے ثمر ہے اور توریت وانجیل سراسر بے اثر.یہی وجہ ہے کہ کسی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا جو قرآن شریف نے کیا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے.قل لئن اجتمعت الجن والانس على ان ياتوا بمثل هذا القرآن لا ياتون بمثله و لو كان بعضهم لبعض ظهیرا.یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر سب جن وانس اس بات پر متفق ہو جا ئیں کہ قرآن کی کوئی نظیر پیش کرنی چاہئے تو ممکن نہیں کہ کرسکیں.اگر چہ بعض بعضوں کی مدد بھی کریں.اور جو کچھ قرآن شریف کے ذاتی معجزات اس جگہ ہم نے تحریر کئے ہیں اگر کسی آریہ وغیرہ کو اپنے دل میں کچھ گھمنڈ یا سر میں کچھ غرور ہو اور خیال ہو کہ یہ معجزہ نہیں ہے بلکہ وید یا اس کی کوئی اور کتاب جس کو وہ الہامی سمجھتا ہے
164 اس کا مقابلہ کر سکتی ہے تو اسے اختیار ہے کہ آزما کر دیکھ لے.اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی مخالف ممتاز اور ذی علم لوگوں میں سے ان معجزات قرآنیہ میں سے کسی معجزہ کا انکاری ہو اور اپنی کتاب الہامی میں زور مقابلہ خیال کرتا ہو تو ہم حسب فرمائش اس کے کوئی قسم اقسام معجزات ذاتیہ قرآن شریف میں سے تحریر کر کے کوئی مستقل رسالہ شائع کر دیں گے پھر اگر اس کی الہامی کتاب قرآن شریف کا مقابلہ کر سکے تو اسے حق پہنچتا ہے کہ تمام معجزات قرآنی سے منکر ہو جائے اور جو شرط قرار دی جائے ہم سے پوری کرلئے.(سرمہ چشمہ آریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۲۷۳ تا ۲۷۵) قرآن کریم کے خلاف اعتراض ثابت کرنے پر فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دینے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.سچ تو یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں خدائے تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا اس کی عقل بھی باعث تعصب اور عناد کی زہروں کے نہایت ضعیف اور مردہ کی طرح ہو جاتی ہے اور جو بات عین حکمت اور معرفت کی ہو وہ اس کی نظر ستقیم میں سراسر عیب دکھائی دیتی ہے.سواسی خیال سے یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس قدر اصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں اور کوئی بات ان میں ایک ذرہ مؤاخذہ کے لائق نہیں اور چونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صدہا جزئیات ہوتی ہیں اور ان سب کی کیفیت کا معرض بحث میں لانا ایک بڑی مہلت کو چاہتا ہے اس لئے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں کہ اگر ان کو اصول اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اول بطور خود خوب سوچ کر دو تین ایسے بڑے سے بڑے اعتراض بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں
165 سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرہ سے نسبت ہوتی ہے یعنی ان کے سب اعتراضوں سے ان کی نظر میں اقویٰ واشد اور انتہائی درجہ کے ہوں جن پر ان کی نکتہ چینی کی پر زور نگاہیں ختم ہوگئی ہوں اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کر انہیں پر جا ٹھہری ہوں.سوایسے دویا تین اعتراض بطور نمونہ پیش کر کے حقیقت حال کو آزما لینا چاہئے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہو جائے گا.کیونکہ اگر بڑے اعتراض بعد تحقیق نا چیز نکلے تو پھر چھوٹے اعتراض ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے اور اگر ہم کافی وشافی جواب دینے سے قاصر رہے اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ جن اصولوں اور تعلیموں کو فریق مخالف نے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کر رکھا وہ ان کے مقابل پر نہایت درجہ رذیل اور ناقص اور دور از صداقت خیالات ہیں تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دیا جائے گا.لیکن اگر فریق مخالف انجام کار جھوٹا نکلا اور وہ تمام خوبیاں جو ہم اپنے ان اصولوں یا تعلیموں میں ثابت کر کے دکھلا دیں ہمقابل ان کے وہ اپنے اصولوں میں ثابت نہ کر سکا تو پھر یاد رکھنا چاہئے کہ اسے بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا اور اسلام لانے کے لئے اول حلف اٹھا کر اسی عہد کا اقرار کرنا ہوگا اور پھر بعد میں ہم اس کے اعتراضات کا جواب ایک رسالہ مستقلہ میں شائع کرا دیں گے.اور جو اس کے بالمقابل اصولوں پر ہماری طرف سے حملہ ہو اس حملہ کی مدافعت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ بھی ایک مستقل رسالہ شائع کرے اور پھر دونوں رسالوں کے چھپنے کے بعد کسی ثالث کی رائے پر یا خود فریق مخالف کے حلف اٹھانے پر فیصلہ ہوگا جس طرح وہ راضی ہو جائے.لیکن شرط یہ ہے کہ فریق مخالف نامی علماء میں سے ہو اور اپنے مذہب کی کتاب میں مادہ علمی بھی رکھتا ہو اور بمقابل ہمارے حوالہ اور بیان
166 کے اپنا بیان بھی بحوالہ اپنی کتاب کے تحریر کر سکتا ہو.تا ناحق ہمارے اوقات کو ضائع نہ کرے.اور اگر اب بھی کوئی نامنصف ہمارے اس صاف صاف منصفانہ طریق سے گریز اور کنارہ کر جائے اور بدگوئی اور دشنام دہی اور تو ہین اسلام سے بھی باز نہ آوے تو اس سے صاف ظاہر ہو گا کہ وہ کسی حالت میں اس لعنت کے طوق کو اپنے گلے سے اتارنا نہیں چاہتا کہ جو خدائے تعالیٰ کی عدالت اور انصاف نے جھوٹوں اور بے ایمانوں اور بدزبانوں اور انجیلوں اور متعصبوں کے گردن کا ہار کر رکھا ہے.والسلام على من التبع الهدى - بالآ خر واضح رہے کہ اس اشتہار کے جواب میں ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء سے تین ماہ تک کسی پنڈت یا پادری جواب دہندہ کا انتظار کیا جائے گا اور اگر اس عرصہ میں علماء آریہ وغیرہ خاموش رہے تو انہیں کی خاموشی ان پر حجت ہوگی.المشـ خاکسار غلام احمد مؤلف رساله سرمه چشم آریہ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۳۱۴۰۳۱۳) الله تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اسلام ، قرآن ، آنحضرت ﷺ اور اپنے متعلق اعتراضات پیش کرنے پر جواب دینے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:.”ہم نے ارادہ کیا ہے کہ موجودہ زمانہ میں جس قدر مختلف فرقے اور مختلف رائے کے آدمی اسلام پر یا تعلیم قرآنی پر یا ہمارے سید ومولیٰ جناب عالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں یا جو کچھ ہمارے ذاتی امور کے متعلق نکتہ چینیاں کر رہے یا جو کچھ ہمارے الہامات اور ہمارے الہامی دعاوی کی نسبت ان کے دلوں میں شبہات اور وساوس ہیں ان سب اعتراضات کو ایک رسالہ کی صورت پر نمبر وار مرتب کر کے
167 چھاپ دیں اور پھر انہیں نمبروں کی ترتیب کے لحاظ سے ہر ایک اعتراض اور سوال کا جواب دینا شروع کریں.لہذا عام طور پر تمام عیسائیوں اور ہندؤں اور آریوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور دہریوں اور برہمیوں اور طبیعوں اور فلسفیوں اور مخالف الرائے مسلمانوں وغیرہ کو مخاطب کر کے اشتہار دیا جاتا ہے کہ ہر ایک شخص جو اسلام کی نسبت یا قرآن شریف اور ہمارے سیّد اور مقتدا اور خیر الرسل کی نسبت یا خود ہماری نسبت ہمارے منصب خداداد کی نسبت ہمارے الہامات کی نسبت کچھ اعتراضات رکھتا ہو تو اگر وہ طالب حق ہے تو اس پر لازم و واجب ہے کہ وہ اعتراضات خوشخط قلم سے تحریر کر کے ہمارے پاس بھیج دے تاوہ تمام اعتر اصات ایک جگہ اکٹھے کر کے ایک رسالہ میں نمبر وار ترتیب دے کر چھاپ دیئے جائیں اور پھر نمبر وار ایک ایک کا مفصل فرمایا:.جواب دیا جائے.“ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۴۶، ۴۷) قرآن کریم کے بالمقابل کسی دوسری الہامی کتاب کو افضل ثابت کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے بالآخر میں اپنے ہر ایک مخالف کو مخاطب کر کے اعلانیہ طور پر متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ فی الواقع اپنی کتابوں کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس ذات کامل سے صادر ہیں جو اپنی پاک کتاب کو اس شرمندگی اور ندامت کا نشانہ بنانا نہیں چاہتا کہ اس کی کتاب صرف بیہودہ اور بے اصل دعووں کا مجموعہ ٹھہرے جن کے ساتھ کوئی ثبوت نہ ہو تو اس موقعہ پر ہمارے دلائل کے مقابل پر وہ بھی دلائل پیش کرتے رہیں کیونکہ بالمقابل باتوں کو دیکھ کر جلد حق سمجھ آ جاتا ہے اور دونوں کتابوں کا موازنہ ہوکر ضعیف اور قوی اور ناقص اور کامل کا فرق ظاہر ہو جاتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ آپ ہی وکیل نہ بن بیٹھیں بلکہ ہماری طرح دعوی اور دلیل اپنی کتاب میں سے پیش کریں اور
168 مباحثہ کے نظام کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ بات بھی لازم پکڑیں کہ جس دلیل سے اب ہم شروع کرتے ہیں اسی دلیل کا وجود اپنے بالمقابل رسالہ میں اپنی کتاب میں سے نکال کر دکھلا دیں.علی ہذا القیاس ہمارے ہر یک نمبر کے نکلنے کے مقابل اسی دلیل کو اپنی کتاب کی حمایت میں پیش کریں جو ہم نے اس نمبر میں پیش کی ہو.اس انتظام سے بہت جلد فیصلہ ہو جائے گا کہ ان کتابوں میں سے کونسی کتاب اپنی سچائی کو ثابت کرتی ہے اور معارف کا لا انتہاء سمندر اپنے اندر رکھتی ہے.اب ہم خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر اول نمبر کو شروع کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ یا الہی سچائی کو فاتح کر اور باطل کو ذلیل اور مغلوب کر کے دکھلا ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم.( نورالقرآن.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفه ۳۳۳٬۳۳۲) آپ نے جہاں قرآن کریم سے ہر یک صداقت ثابت کرنے کی مخالفین کو دعوت دی ہے وہاں یہ بھی چیلنج دیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے مسائل پر کسی نوع کا اعتراض وارد نہیں ہوسکتا.بلکہ اس کے بالمقابل اسلام کے جو اعتراض غیر مذہب پر ہیں وہ ان کا جواب نہیں دے سکتے.چنانچہ آپ نے فرمایا.آمین“.”ایسا ہی دوسرے مسائل غلامی اور جہاد پر بھی ان کے اعتراض درست نہیں.کیونکہ توریت میں ایک لمبا سلسلہ ایسی جنگوں کا چلتا ہے، حالانکہ اسلام کی لڑائیاں ڈیفینسو ( دفاعی ) تھیں اور وہ صرف دس سال ہی کے اندر ختم ہوگئیں.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ مسائل ان کی کتابوں میں سے نکال سکتا ہوں اور ایسے ہی میرا دعویٰ ہے کہ تمام صداقتیں قرآن کریم میں موجود ہیں.اگر کوئی مدعی ایسی صداقت پیش کرے کہ وہ قرآن میں نہیں، میں اسے نکال کر دکھانے کو تیار ہوں.اسلامی شریعت نے وہ تمام مسائل لئے ہیں جو طبعی اور فطرتی طور پر انسان کے لئے مطلوب ہیں اور جو ہر پہلو
169 سے اس کے قومی کی تربیت کرتے ہیں.ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.ہاں ! اسلام کے جو اعتراض غیر مذاہب پر ہیں وہ ان کا جواب نہیں دے سکتے.“ ( ملفوظات نیا ایڈیشن جلد نمبر اصفحہ ۱۸۸،۱۸۷) توریت و انجیل کا قرآن سے مقابلہ کی دعوت جیسا کہ گذشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت عیسائیت بڑی سر گرم عمل تھی.جگہ جگہ بائیل سوسائیٹیاں قائم تھیں اور اسلام اور قرآن پاک کو مختلف انواع کے اعتراضات کا نشانہ بنائے ہوئے تھی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیگر مذاہب کی طرح عیسائی دنیا کو بھی مقابلہ کیلئے لکار اور توریت اور انجیل کا قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا درج ذیل چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.سو توریت اور انجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی.اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورت کے ساتھ ہی مقابلہ کر نا چاہیں یعنی سورۃ فاتحہ کے ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جس ترتیب انسب اور ترکیب محکم اور نظام فطرتی سے اس سورت میں صد ہا حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چند ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو گویا ساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لا حاصل ہوگی.اور یہ بات لاف و گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کوعلوم حکمیہ میں سورہ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں.ہم کیا کریں اور کیونکر فیصلہ ہو.پادری صاحبان ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتے.بھلا اگر وہ اپنی تو ریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواص کلام الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانسور و پیہ نقد ان کو دینے کیلئے طیار ہیں.اگر وہ اپنی کل ضخیم کتابوں میں سے جو ستر کے قریب ہوں گی ، وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور منتظم در حکم و جواہر معرفت خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں جو سورہ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں اور اگر یہ روپیہ
170 تھوڑا ہو تو جسقدر ہمارے لئے ممکن ہو گا ہم ان کی درخواست پر بڑھا دیں گے.اور ہم صفائی فیصلہ کیلئے پہلے سورہ فاتحہ کی ایک تفسیر طیار کر کے چھاپ کر پیش کریں گے اور اس میں وہ تمام حقائق و معارف و خواص کلام الوہیت به تفصیل بیان کریں گے جو سورہ فاتحہ میں مندرج ہیں.اور پادری صاحبوں کا یہ فرض ہوگا کہ توریت اور انجیل اور اپنی تمام کتابوں میں سے سورہ فاتحہ کے مقابل پر حقائق اور معارف اور خواص کلام الوہیت جس سے مراد فوق العادۃ عجائبات ہیں.جن کا بشری کلام میں پایا جانا ممکن نہیں پیش کر کے دکھلائیں.اور اگر وہ ایسا مقابلہ کریں اور تین منصف غیر قوموں میں سے کہہ دیں کہ وہ لطائف اور معارف اور خواص کلام الوہیت جو سورہ فاتحہ میں ثابت ہوئے ہیں وہ ان کی پیش کردہ عبارتوں میں ثابت ہیں تو ہم پانسو روپیہ جو پہلے سے انکے لئے ان کی اطمینان کی جگہ پر جمع کرایا جائے گا دے دیں گے.“ ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ صفحه ۳۶۲) وید اور قرآن کریم کا موازنہ عیسائیت کی طرح آریہ اور برہمو سماج تحاریک بھی اس زمانہ میں بڑی متحرک تھیں اور اسلام کے خلاف سخت طور پر نبرد آزما تھیں.اور قرآنی تعلیمات کو طرح طرح کے اعتراضات کا نشانہ بنا رہی تھی.اس صورت حال کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے پہلے مذکورہ بالا انہیں دوتحریکوں کا پیچھا کیا اور ویدوں کی تعلیمات و عقائد پر ایسی کڑی تنقید کی کہ آریوں کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا.آپ نے بار بار ویدوں کو قرآنی تعلیمات سے مقابلہ وموزانہ کرنے کی آریہ سکالرز کو دعوتیں دیں.مگر کوئی بھی آریہ سکالر آپ کے سامنے دم نہ مار سکا.چنانچہ ذیل میں ایسے چیلنج پیش کئے جارہے ہیں جو آپ نے آریوں کو ویدوں کا قرآن سے مقابلہ اور دونوں کتب کی تعلیمات کا موازنہ کرانے کے سلسلہ میں دیئے.
171 ڈرائینگ ماسٹر لالہ مرلید ھر ضلع ہوشیار پور میں آریوں کے ایک مذہبی سکالر اور مدارالمہام لالہ مرلیدھر تھے جو آریہ سماج کے بڑے ہی سرگرم عمل رکن تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب پسر موعود کے متعلق پیشگوئی کی اشاعت کے بعد چند دنوں کیلئے ہوشیار پور میں قیام فرما ہوئے تو اس دوران لالہ مرلید ھر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مذہبی مناظرہ بھی عمل میں آیا جس کی تفصیل آپ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ”سرمہ چشم آریہ میں تحریر فرما دی ہے.اس مناظرہ میں ہونے والی بحث کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لالہ مرلید ھر کو قرآن اور وید کے مقابلہ پر مبنی درج ذیل چیلنج فرمائے.روحوں کے متعلق آریوں کا یہ عقیدہ ہے کہ روحیں غیر مخلوق اور غیر محدث چیز ہیں.آریوں کے اس عقیدہ کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ چیلنج دیا کہ اس عقیدہ کا ویدوں سے اثبات کیا جائے.چنانچہ آپ نے فرمایا.اگر ماسٹر صاحب کا دید بھی کچھ علم الہی رکھتا ہے تو انہیں لازم ہے کہ اس وقت بمقابلہ قرآن شریف کے وید کے وہ دلائل عقلیہ پیش کریں جن کی رو سے غیر مخلوق اور غیر محدث ہو نا روحوں کا ثابت ہوتا ہے بلکہ اس جگہ ہم مکرر گذارش کرنا چاہتے ہیں کہ بہتر یوں ہے کہ ماسٹر صاحب بغرص مقابلہ وموازنہ فلسفہ وید و قرآن شریف ہم کو اجازت دیں کہ تاہم ایک علیحدہ رسالہ روحوں کی مخلوقیت اور ان کی خواص اور قوتوں اور طاقتوں کے بارے میں اور دیگر نکات اور لطائف علم روح کے متعلق اس شرط سے لکھیں کہ کسی بات اور کسی دلیل کے بیان کرنے میں بیانات قرآنی سے باہر نہ جائیں یعنی وہی دلائل و براہین مخلوقیت ارواح پیش کریں جو قرآن شریف نے آپ پیش کئے ہیں اور وہی دقائق و معارف علم روح لکھیں جو قرآن شریف نے خود لکھے ہیں.
172 علی ہذا القیاس.ماسٹر صاحب بھی بمقابل ہمارے ایسا ہی کریں یعنی وہ بھی روحوں کی غیر مخلوقیت بدلائل عقلیہ ثابت کرنے اور علم روح کے بیان کرنے میں وید ہی کی شریعتوں کے پابندر ہیں اور وہی دلائل وغیرہ تحریر میں لاویں جو وید نے پیش کئے ہیں اور ہم دونوں فریق صرف حوالہ آیت یا شرتی پر کفایت نہ کریں بلکہ اس آیت یا شرقی کو بتمام مع ترجمہ و پستہ ونشان وغیرہ تحریر بھی کر دیں.اس طور کے مباحثہ و موزانہ سے غالب اور مغلوب میں صاف فرق کھل جائے گا اور جوان دونوں میں سے حقیقت میں خدا کا کلام ہے وہ کامل طور پر ان باتوں میں عہدہ برآ ہوگا اور اپنے حریف کو شکست فاش دے گا اور اس کی ذلت اور رسوائی کو ظاہر کرے گا لیکن ہم بطور پیشگوئی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ایسا مقابلہ وید سے ہونا ہرگز ممکن ہی نہیں کیونکہ وید اپنے بیانات میں سراسر غلطی پر ہے اور وہ بوجہ انسانی خیالات ہونے کے یہ طاقت اور قوت بھی نہیں رکھتا پر ہے کہ خدا وند علیم و حکیم کی پاک و کامل کلام کا مقابلہ کر سکے.ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ ہم نے علی التساوی یہ شرط پیش کی ہے یعنی اپنے نفس کے لئے اس طرز کے مقابلہ میں کوئی ایسا فائدہ مخصوص نہیں رکھا جس سے فریق ثانی منتفع نہ ہوسکتا ہو.پس اگر اب بھی ماسٹر صاحب کنارہ کر گئے تو کیا یہ اس بات پر دلیل کافی نہیں ہوگی کہ انکا ویدان کمالات اور خوبیوں اور پاک سچائیوں سے بکی عاری اور خالی ہے.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۱۷۱۷۱۷۰) اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرلیدھر کو قرآن کریم کے بالمقابل دید سے علم روح بیان کرنے پر سور و پیہ انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.بالآخر ہم یہ بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ اگر ماسٹر صاحب کے دل میں یہ خیال ہے کہ قرآن شریف میں علم روح بیان نہیں کیا گیا اور وید میں بیان کیا گیا ہے اور آنحضرت
173 صلی اللہ علیہ وسلم کو کیفیت روح سےکچھ خبر نہ تھی مگر وید کے چاروں رشیوں کی خبر تھی تو اس بات کا تصفیہ نہایت سہل اور آسان ہے.وہ یہ ہے کہ ماسٹر صاحب مقابلہ کرنے کے وعدہ پر ہم کو اجازت دیں تاہم علم روح کو جو قرآن شریف میں لکھا ہے جس سے معرفت کا ملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کمالیت قرآن شریف ثابت ہوتی ہے ایک مستقل رسالہ میں مرتب کر کے بحوالہ آیات قرآنی شائع کر دیں اور جب یہ رسالہ ہماری طرف سے چھپ کر شائع ہو جائے تو اس وقت ماسٹر صاحب پر واجب و لازم ہوگا کہ اس کے مقابل پروید کی شرتیوں کے ساتھ ایک رسالہ مرتب کریں جس میں روح کے بارے میں وید کی فلاسفی بیان کی گئی ہو کہ وہ کیونکر غیر مخلوق اور خدا کی طرح قدیم اور خدا سے الگ چلی آتی ہے اور اس کے خواص کیا کیا ہیں مگر ہم دونوں فریقوں پر لازم ہوگا کہ اپنی اپنی کتاب سے باہر نہ جائیں اور کوئی خود تراشیدہ خیال پیش نہ کریں بلکہ وہی بات پیش کریں جو اپنی کتاب الہامی نے پیش کی ہے اور اس آیت یا شرقی کو بہ پتہ خاص معہ ترجمہ لکھ بھی دیں تا کہ ناظرین رائے لگاسکیں کہ آیا وہ بات اس سے نکلتی ہے یا نہیں.سو اگر اس شرط سے ماسٹر صاحب مقابلہ کر دکھائیں یا کوئی اور شخص جو آریوں کے ممتاز علماء میں سے ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو خواہ ماسٹر صاحب ہوں یا منشی اندر من صاحب مراد آبادی یا منشی جیوند اس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور یا کوئی اور صاحب جو اس گروہ میں مسلّم العلم ہوں سو روپیہ نقد انعام دوں گا سرمه چشم آریہ روحانی خزائن نمبر ۲ صفحہ ۷ ۱۷ تا ۱۸۰) قرآن کریم کے بالمقابل وید سے بہشت میں وصال الہی اور لذات روحانی کا ذکر ثابت کرنے پر لالہ مرلید ھر کوسورو پیدا انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.اور اگر ماسٹر صاحب کا اعتراض سے یہ مطلب ہے کہ اسلامی بہشت میں صرف
174 دنیوی نعمتوں کا ذکر ہے وصال الہی اور روحانی لذات کا کہیں ذکر نہیں تو ہم اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے یہ عمدہ طریق سمجھتے ہیں کہ ماسٹر صاحب کسی اخبار کے ذریعہ سے پختہ طور پر ہم کو یہ اطلاع دیں کہ ہاں میری یہی رائے ہے کہ قرآن شریف میں وصالِ الہی اور لذات روحانی کا کہیں ذکر نہیں.مگر وید میں ایسا بہت کچھ ذکر ہے تو اس صورت میں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ صرف تین یا چار ہفتہ تک ایک مستقل رسالہ اسی بارہ میں بغرض مقابلہ وید و قرآن طیار کر کے جہاں تک ہو سکے بہت جلد چھپوا دیں گے اور سور و پیہ بطور انعام ایک نامی اور فاضل بر ہمو صاحب کے پاس جو آریوں کے بھائی بند ہیں امانت رکھ دیں گے.پھر اگر ماسٹر صاحب بپابندی اپنے چاروں ویدوں کی سنگتا کے جن کو وہ الہامی سمجھتے ہیں روحانی لذات اور وصال ربانی کے بارے میں جو نجات یا بوں کو حاصل ہوگا، قرآن شریف کا مقابلہ کر کے دکھلا دیں اور وہ برہمو صاحب اس کی تائید اور تصدیق کریں تو وہ سو روپیہ ماسٹر صاحب کا ہوگا ورنہ بجائے اس سو روپیہ کے ہم ماسٹر صاحب سے کچھ نہیں مانگتے صرف یہی شرط کرتے ہیں کہ مغلوب ہونے کی حالت میں ایسے وید سے جو بار بار انہیں ندامت دلاتا ہے دست بردار ہو کر اسلام کی بچی راہ کو اختیار کر لیں.( یار غالب شوکہ تا غالب شوی ) اور اگر ماسٹر صاحب اس رسالہ کی اشاعت کے بعد ایک ماہ تک خاموش رہے اور ایسا مضمون کسی اخبار میں اور نہ اپنے کسی رسالہ میں شائع کیا تو اے ناظرین آپ لوگ 66 سمجھ جائیں وہ بھاگ گئے.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۵۶،۱۵۵) تمام آریہ کو دید کا قرآن سے مقابلہ کی دعوت آریہ سماج کے پیروکار اپنے آپ کو مواحد بیان کرتے ہیں مگر ان کی الہامی کتاب وید میں
175 توحید سے متعلق کوئی تعلیم نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حقیقت کے پیش نظر تمام آریہ کو دید سے تو حید ثابت کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا :.تمام دنیا کے پردے میں گھوم آؤ.تمام قوموں سے پوچھ کر دیکھ لو.کوئی قوم ایسی نہ پاؤ گے کہ جو دید کو پڑھے اور اس کو موحدانہ تعلیم سمجھے.ہم سچ سچ کہتے ہیں اور زیادہ باتوں میں وقت کھونا نہیں چاہتے کہ جو کچھ قرآن شریف کے دس ورق سے توحید کے معارف آفتاب عالمتاب کی طرح ظاہر ہوتے ہیں اگر کوئی شخص دید کے ہزار ورق سے بھی نکال کر دکھلا دے تو ہم پھر بھی مان جائیں کہ ہاں وید میں تو حید ہے اور جو چاہے حسب استطاعت ہم سے شرط کے طور پر مقرر بھی کرالے.ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں اور خدائے واحد لاشریک کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم بہر حال ادائے شرط مقررہ پر جس طور سے فیصلہ کرنا چاہیں حاضر ہیں لیکن ناظرین خوب یاد رکھیں اور اے آریہ کے نوعمر و نوگر فتارو! تم بھی یاد رکھو کہ وید میں ہرگز تو حید محض نہیں ہے.وہ جابجا مشر کا نہ تعلیم سے مخلوط ہے.ضرور مخلوط ہے.کوئی اس کو بری نہیں کر سکتا اور زمانہ آتا جاتا ہے کہ اس کے سارے پر دے کھل جائیں.سو تم لوگ اس خدا سے ڈرو جس کی عدالت سے کسی ڈھب روپوش نہیں ہو سکتے.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۲۱۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وید برکات روحانیہ اور محبت الہیہ تک پہنچانے سے قاصر اور عاجز ہے کیونکہ وید طریقہ حقہ خدا شناسی و معرفت نعماء الہی و بجا آوری اعمال صالحہ و تحصیل اخلاق رضیہ و تزکیه نفس عن رزائل نفسیہ جیسے معارف کے صحیح طور پر بیان کرنے سے بکلی محروم ہے.چنانچہ آپ نے انہیں وجوہات کے پیش نظر مندرجہ بالا تمام امور میں ویدوں کا قرآن سے مقابلہ کرانے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.
176 کیا کوئی آریہ صفحہ زمین پر ہے کہ ہمارے مقابل پر ان امور میں وید کا قرآن سے مقابلہ کر کے دکھلا دے؟ اگر کوئی زندہ ہو تو ہمیں اطلاع دے اور جس امر میں امور دینیہ میں سے چاہے اطلاع دے تو ہم ایک رسالہ بالتزام آیات بینات و دلائل عقلیہ قرآنی تالیف کر کے اس غرض سے شائع کر دیں گے کہ تا اسی التزام سے وید کے معارف اور اس کی فلاسفی دکھلائی جائے.اور اس تکلیف کشی کے عوض میں ایسے وید خوان کے لئے ہم کسی قدر انعام بھی کسی ثالث کے پاس جمع کرا دیں گے جو غالب ہونے کی حالت میں اس کو ملے گا.شرط یہی ہے کہ وہ ویدوں کو پڑھ سکتا ہوتا ہمارے وقت کو ناحق ضائع نہ کرے.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن نمبر ۲ صفحه ۲۹۵ تا ۲۹۸) یہ امر قرآن کریم کی عظمت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تائید الہی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کسی آریہ کو بھی کسی ایک چیلنج کوتوڑنا تو کجا صرف قبول کرنے کی توفیق بھی نہ مل سکی.فالحمد لله على ذلک.
177 باب ہفتم عربی دانی ” خدا تعالیٰ نے الہام سے مجھے خبر دی تھی کہ تجھے عربی زبان میں ایک اعجازی بلاغت و فصاحت دی گئی ہے اور اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرے گا.“ (سراج منیر صفحه ۳۷ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲)
178
179 عربی دانی میں مقابلہ کے چیلنج کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہیں سے زیادہ کتابیں لکھیں اور مخالف علماء کو ہزار ہا روپیہ کے انعامات مقرر کر کے مقابلہ کیلئے بلایا.مگر کسی کو بھی بالمقابل کتاب یا رسالہ لکھنے کی جرات نہ ہو سکی بلکہ آپ کے مقابلہ میں عربی زبان میں کتب و رسائل لکھنے کی بجائے بالکل ویسے ہی اعتراضات کرنے شروع کر دیئے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے قرآنی چیلنج کے جواب میں کئے تھے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی کلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.حقیقت شناس اس عبارت سے اس کا جاہل ہونا اور کوچہ عربیت سے اس کا نابلد ہونا اور دعویٰ الہام میں کا ذب ہونا نکالتے ہیں اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ یہ عبارت عربی کی عربی نہیں اور اس کی فقرہ بندی محض بے معنی تک بندی ہے.اس میں بہت سے محاورات والفاظ کا دیانی نے از خود گھڑ لئے ہیں.عرب سے وہ منقول نہیں اور جو اس کے عربی الفاظ وفقرات ہیں ان میں اکثر صرف و نحو وادب کے اصول وقواعد کی رو سے اس قدر غلطیاں ہیں کہ ان اغلاط کی نظر سے ان کو سخ شدہ عربی کہنا بے جانہیں اور ان کے راقم کو عربی سے جاہل اور کلام الہی سے مشرف و مخاطب ہونے سے عاطل کہنا زیبا ہے." (اشاعۃ السنہ جلد ۵ انمبر ۱۳ صفحه ۳۱۶.نیز جلد ۱۵ نمبر ۸ صفحه ۱۹۱) پھر مخالفین نے آپ پر یہ بھی الزام لگایا کہ جو کتا ہیں عربی زبان میں آپ تصنیف فرماتے ہیں وہ خود نہیں لکھتے بلکہ دوسروں سے لکھواتے ہیں اور ایک شامی عرب اپنے پاس رکھتا ہے جو آپ کو لکھ کر دیتا ہے اور آپ اپنے نام پر شائع کر دیتے ہیں.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں.
180 امرتسر کے گلی کوچوں میں یہ خبر مشہور تھی کہ اس قصیدہ ہمزیہ کے صلہ میں کادیانی نے شامی صاحب کو دوسو روپے دیئے ہیں.میں نے شامی صاحب سے خبر کی حقیقت دریافت کی تو انہوں نے اس سے انکار کیا اور ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ اس مدح و تائید کے صلہ میں کادیانی نے کسی خوبصورت عورت سے نکاح کرا دینے کا ان کو وعدہ دیا تھا.وہ اس وعدہ کے بھروسہ پر قادیان میں چار مہینے کے قریب رہے.اس عرصہ میں کادیانی نے ان سے عربی نظم ونثر میں بہت کچھ کھوایا.“ اشاعۃ السنہ جلد ۵ نمبر ۱۰ صفحه ۱۵۷ تا ۱۶۱.ح) بعض مخالف علماء نے آپ پر یہ بھی اعتراض کیا کہ آپ نے مقامات حریری اور مقامات ہمدانی وغیرہ کتب سے فقرے سرقہ کر کے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں.ایسے تمام الزامات اور اعتراضات کے جواب میں ایک تو آپ نے مخالف علماء کو آمنے سامنے بیٹھ کر فصیح و بلیغ عربی زبان میں تفسیر نویسی اور کتب لکھنے کے کئی چیلنج دیئے جن کی تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے.اس کے علاوہ آپ نے عربی دانی میں مقابلہ کے بھی متعدد چیلنج دیئے جو حسب ذیل ہیں.و من آیاته انه علمنى لسانا عربية - و اعطاني نكاتا ادبية ـ و فضلني - على العالمين المعاصرين - فان كنت فى شک من آیتی و تحسب نفسک حدی بلاغتى فتحام القال والقيل - واكتب بحذائى الكثير او الـقـلـيـل ـ وجدد التحقيق و دع ما فات ـ و بارزنی موطن و عین له الميقات ـ و على و علیک ان نحضر يوم الميقاة بالرأس و العين ـ و نناضل في الاملاء كالخصمين - فان زدت فى البلاغة و حسن الاداء و جئت بكلام يسر قلوب الادباء - فاتوب على يدك من كلما ادعيت و احرق کل کتاب اشعته او اخصیت - و والله اني افعل کذالک فانظر انی اقسمت و آلیت انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۴۷، ۲۴۸)
181 مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تحریرات پر تنقید کی اور اپنے آپ کو بہت بڑا عربی دان ظاہر کیا تو اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے عربی دانی میں مقابلہ کا درج ذیل چیلنج دیا:.فالامر الذي ينجي الناس من غوائل تزویراته و هباء مقالاته ان نعرض عليه كلاما منا و كلاما آخر من بعض العرب العرباء.ونلبس علیه اسمنا و اسم تلك الادباء - ثم نقول انبئنا بقولنا و قول هؤلاء - ان کنت فی زرايتك من الصادقين فان عرف قولی و قولهم و اصاب فیمانوی و فرق كفلق الحب من النوى ـ فنعطيه خمسين روفية صلة مـنـا أو غرامة و نحسب منه ذالك كرامة و نعده من الادباء الفاضلين و نقبل انه كان فى ما زرى من الصادقين فان كان راضيا بهذا الاختبار و متصديا لهذا المضمار ــ فليخبرنا بنية صالحة كالابرار ـــ و ليشع هـذا العزم في الجرائد و الاخبار كاهل الحق و اليقين - “ 66 حمہ اللہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۴۵) ترجمہ:.پس وہ بات جولوگوں کو اس کے ( بٹالوی ) جھوٹ سے نجات دے گی یہ ہے کہ ہم اس پر اپنا کلام اور بعض دوسرے ادیب عربوں کا کلام پیش کریں اور اپنا اور ان کا نام اس پر پوشیدہ رکھیں اور پھر اس کو کہیں کہ ہمیں بتلا کہ ان میں سے ہمارا کلام کون سا ہے اور ان کا کلام کون سا ہے اگر تو سچا ہے.پس اگر اس نے میرا قول اور ان کا قول شناخت کر لیا اور گٹھلی اور دانہ کی طرح فرق کر کے دکھلا دیا پس ہم اس کو پچاس روپیہ بطور انعام یا تاوان دیں گے اور یہ اس کی کرامت سمجھی جائے گی.اور ہم اسے ادباء فاضلین میں سے شمار کریں گے اور قبول کریں گے کہ وہ عیب گیری میں راست
182 گو تھا.پس اگر اس آزمائش کے ساتھ راضی ہو اور اس میدان کیلئے تیار ہو تو بھلے مانسوں کی طرح ہمیں خبر دے اور چاہئے کہ اس قصد کو یقین کرنے والوں کی طرح اخباروں میں شائع کر دے.پیر مہر علیشاہ کو عربی دانی میں مقابلہ کی دعوت پیر مہرعلی شاہ گولڑوی نے اپنی کتاب ”سیف چشتیائی“ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فصیح و بلیغ عربی زبان میں لکھی گئی کتاب اعجاز مسیح کی عربی زبان پر تنقید کرتے ہوئے اس کی غلطیاں نکالنے کی ناکام کوشش کی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کو پہلے اپنی عربی دانی ثابت کرنے کی دعوت دیتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ اگر پیر صاحب پہلے کوئی عربی فرمایا 66 رسالہ لکھ کر اپنی عربی دانی ثابت کریں تو بعد میں ان کو اعجاز مسیح “ کی عر بی غلطیاں ثابت کرنے پر فی غلطی پانچ روپیہ انعام دینے کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا: ”ہم نے کئی مرتبہ یہ بھی اشتہار دیا کہ تم ہمارے مقابلہ پر کوئی عربی رسالہ لکھو پھر عربی زبان جاننے والے اس کے منصف ٹھہرائے جائیں گے.پھر اگر تمہارا رسالہ فصیح بلغ ثابت ہوا تو میرا تمام دعوی باطل ہو جائے گا اور میں اب بھی اقرار کرتا ہوں کہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد اگر تمہاری تفسیر لفظاً ومعنا اعلیٰ ثابت ہوئی تو اس وقت اگر تم میری تفسیر کی غلطیاں نکالوتو فی غلطی پانچ رو پہ انعام دوں گا.اسے بھلے آدمی پہلے اپنی عربی دانی ثابت کر پھر میری کتاب کی غلطیاں نکال اور فی غلطی ہم سے پانچ روپیہ لے اور بالمقابل عربی رسالہ لکھ کر میرے اس کلامی معجزہ کا باطل ہونا دکھلا.افسوس کہ دس برس کا عرصہ گذر گیا کسی نے شریفانہ طریق سے میرا مقابلہ نہیں کیا“ ( نزول مسیح.روحانی خزائن نمبر ۱۸ صفحه ۴۴۱،۴۴۰ )
183 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف مسلمان علماء ومشائخ کو عربی دانی میں مقابلہ کی دعوت دی بلکہ ایسے عیسائی پادریوں کو بھی مقابلہ کی دعوت دی جنہوں نے اسلام کو ترک کر کے عیسائیت قبول کر لی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضمیمہ نزول مسیح میں جو طویل عربی قصیدہ صرف پانچ دن میں لکھ کر شائع کیا اس کے بالمقابل مسلمان علماء کے علاوہ عیسائی پادریوں کو بھی قصیدہ لکھنے پر دس ہزار روپیہ انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.چونکہ گالیاں اور تکذیب انتہاء تک پہنچ گئی ہے جن کے کاغذات میرے پاس ایک بڑے تھیلہ میں محفوظ ہیں اور یہ لوگ اپنے اشتہارات میں بار بار گذشتہ نشانوں کی تکذیب کرتے اور آئندہ نشان ما نگتے ہیں اس لئے ہم یہ نشان ان کو دیتے ہیں اور ایسا ہی عیسائیوں نے بھی مجھے مخاطب کر کے بار بار لکھا ہے کہ انجیل میں ہے کہ جھوٹے مسیح آئیں گے اور اس طرح پر انہوں نے مجھے جھوٹا مسیح قرار دیا ہے حالانکہ خود ان دنوں میں خاص لنڈن میں عیسائیوں میں سے جھوٹا مسیح پکٹ نام موجود ہے جو خدائی اور مسیحیت کا دعوی کرتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی کو پورا کر رہا ہے.لیکن آئندہ اگر کوئی مجھے قرار دینا چاہے تو اسے لازم ہے کہ میرے نشانوں کا مقابلہ کرے.عیسائیوں میں بھی بہت سے مرتد مولوی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.اگر پادری صاحبان اس تکذیب میں سچے ہیں تو وہ ایسا قصیدہ ان مولویوں سے پانچ دن تک بنوا کر دس ہزار روپیہ مجھ سے لیں اور مشن کے کاموں میں خرچ کریں مگر جو شخص تاریخ مقررہ کے بعد کچھ بکواس کرے گا یا کوئی تحریر دکھلائے گا ، اس کی تحریر کسی گندی نالی میں پھینکنے کے لائق ہوگی.منہ “ ضمیمه نزول مسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۷ است )
185 ہشتم دیگر متفرق علمی چیلنج
186
187 آریہ سماج کے عقائد سے متعلق علمی چیلنج کی 1.ارواح بے انت ہیں ارواح کے متعلق آریہ سماج والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ارواح بے انت ہیں اور نیز یہ کہ پر میشر کو بھی ان کی تعداد کا صحیح علم نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہ دلائل اس عقیدہ کا ردفرماتے ہوئے اس عقیدہ کے اثبات پر مبلغ پانچصد روپیہا انعام دینے کا درج ذیل اعلان فرمایا:.اگر گوئی صاحب آریہ سماج والوں میں سے بپابندی اصول مسلمہ اپنے کے کل دلائل مندرجہ ”سفیر ہند و دلائل مرقومہ جواب الجواب مشمولہ اشتہار ہذا کے تو ڑ کر یہ ثابت کر دے کہ ارواح موجودہ جو سوا چار ارب کی مدت میں کل دورہ اپنا پورا کرتے ہیں بے انت ہیں اور ایشور کو تعداد ان کا نا معلوم رہا ہوا ہے تو میں اس کو مبلغ پانسور و پیہ بطور انعام کے دوں گا.اور در صورت توقف کے شخص مثبت کو اختیار ہوگا کہ مدد عدالت وصول کرے.“ ( مجموعہ اشہارات جلد نمبر اصفحه ۱۰۲) ۱۸۷۸ء میں راقم اس کا جو آریہ سماج کی نسبت پر چہ 9 فروری اور بعد اس کے سفیر ہند میں بدفعات درج ہو چکا ہے، اقرار صحیح قانونی اور عہد شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر با وا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب منجملہ آریہ سماج کے جو ان سے متفق الرائے ہوں ہماری ان وجوہات کا جواب جو سوال مذکورہ میں درج ہے اور نیز ان دلائل کے تردید جو تبصرہ مشمولہ اشتہار ہذا میں مبین ہے پورا پورا ادا کر کے بدلائل حقہ یقینیہ یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے انت ہیں اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں تو میں پانچسو روپیہ نقد اس کو بطور جرمانہ کے دوں گا اور درصورت نہ ادا ہونے روپیہ کے
188 مجیب مثبت کو اختیار ہو گا کہ امداد عدالت سے وصول کرے.تنقید جواب کی اس طرح عمل میں آوے گی جیسے تنقیح شرائط میں اوپر لکھا گیا ہے اور نیز جواب باوا صاحب کا بعد طبع اور شائع ہونے تبصرہ ہماری کے مطبوع ہوگا.“ ۲.تناسخ ( مجموعہ اشتہارات جلد نمبر صفحہ ۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریہ سماج کے مسئلہ تناسخ کے رد میں ایک مضمون تحریر فرمایا اور پنڈت کھڑک سنگھ اور بعض دیگر معروف آریہ علماء و فضلاء کو اپنے دلائل بابطال تناسخ کا رد کرنے پر مبلغ پانچ صد رو پیدا انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ منجملہ صاحبان مندرجہ عنوان مضمون ابطال تناسخ جو ذیل میں تحریر ہوگا، کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب ہوں.اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود اس قدر تاکید مزید کے اس طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متدعو یہ دید سے پیش نہیں کریں گے یا درصورت عاری ہونے وید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لئے ان پر ڈگری ہو جائے گی.اور نیز دعوی وید کا گویا وہ تمام علوم وفنون پر متضمن ہے محض بے دلیل اور باطل ٹھہرے گا.اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گزارش ہے کہ میں نے جو قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ء میں ایک اشتہار تعدادی پانسو روپیہ بابطال مسئلہ تناسخ دیا تھا وہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہ متعلق ہے.اگر پنڈت کھڑک سنگ صاحب یا کوئی اور صاحب ہمارے تمام دلائل کو نمبر وار جواب دلائل مندرجہ وید سے دیکر اپنی عقل سے توڑ دیں گے تو بلاشبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے اور بالخصوص بخدمت کھڑک سنگھ صاحب جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ
189 منٹ میں جواب دے سکتے ہیں یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اس استعداد علمی کو بروئے فضلائے نامدار ملت مسیحی اور برہمو سماج کے دکھلا دیں.“ پرانی تحریریں.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۵ ).ویدوں کے رشیوں کا ملہم ہونا آریوں کا یہ عقیدہ ہے کہ چاروں وید چار رشیوں پر الہاما نازل ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریوں کو اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.”ہندؤں کو آگ وغیرہ اپنے دیوتاؤں سے بہت پیار رہا ہے اور رگوید کی پہلی شرقی اگنی سے ہی شروع ہوتی ہے.سوجن چیزوں سے وہ پیار کرتے تھے انہیں چیزوں پر ویدوں کا نازل ہونا تھوپ دیا ورنہ ویدوں میں تو کہیں نہیں لکھا کہ حقیقت میں ایسے چار آدمی کسی ابتدائی زمانہ میں گذرے ہیں اور انہیں پر وید نازل ہوئے ہیں اور اگر لکھا ہے تو پھر آریوں پر واجب ہے کہ ویدوں کے رو سے ان کا ملہم ہونا اور ان کا سوانح عمری کسی رسالہ میں چھپوا دیں.آریوں کا یہ اعتقادی مسئلہ ہے کہ ابتدائے دنیا میں نہ صرف ایک دو آدمی بلکہ کروڑہا آدمی مختلف ملکوں میں مینڈکوں کی طرح زمین کے بخار سے پیدا ہو گئے تھے.ان میں سے آریہ دیس کے چار رشی ملہم اور باقی سب مخلوقات الہام سے بدنصیب اور ان ملہموں کے حوالے کر دی گئی تھی.اس صورت میں ضرور لازم آتا ہے کہ اپنے ملہموں کی تمیز و شناخت کے پرمیشر نے ان رشیوں کو کوئی ایسے نشان دیئے ہوں جن سے دوسرے لوگ جو اسی زمانہ میں پیدا ہوئے تھے ان کو شناخت کر سکیں اور اگر ایسے نشان دیئے تھے تو وید میں سے ثابت کرنی چاہئے.“ سرمہ چشمہ آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۸۵،۲۸۴) آریہ سماج والوں کا یہ عقیدہ کہ رشی تمام ممالک کی اصلاح کیلئے مامور ہوئے تھے پر تنقید
190 کرتے ہوئے فرمایا:.” اور یقیناً سمجھنا چاہئے کہ یہ بھی نری لاف ہے کہ وید کے رشی تمام ممالک کی اصلاح کے لئے مامور ہوئے تھے.اگر ایسا ہوتا تو وید میں ضرور یہ لکھا ہوتا کہ کبھی وہ رشی اپنی چار دیوار آریہ دیس سے نکل کر کسی دور دراز ملک میں وعظ کرنے کے لئے گئے تھے.وید میں امریکہ کا کہاں ذکر ہے.افریقہ کا نشان کہاں پایا جاتا ہے.یوروپ کے مختلف ملکوں اور حصوں سے وید کو کب خبر ہے بلکہ ایشیائی ملکوں کی اطلاع سے بھی وید غافل ہے اور اس کے پڑھنے سے جابجا صاف معلوم ہوتا ہے کہ پر میشر کی ہمگی تمامی جائیداد ہندوستان یعنی آریہ دیس ہی ہے.بھلا اگر ہم ان تمام باتوں میں بچے نہیں ہیں تو دیدوں کے رو سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ کسی وید کے رشیوں نے آریہ دیس سے باہر قدم رکھ کر اور ویدوں کو اپنی بغل میں لے کر غیر ممالک کا بھی سفر کیا تھا.یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہو سکتی.سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۸۶) ۴.نیوگ آریہ سماج کے ایک بہت ہی معروف پنڈت دیا نند نے اپنے ایک مضمون میں از روئے دید نیوگ کا اثبات کرتے ہوئے بیوہ اور بے اولا د خاوند والی عورت کے لئے نیوگ جائز قرار دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت دیانند کے اس عقیدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تو بعض آریوں نے خاوند والی عورت کیلئے نیوگ کو نا جائز قرار دیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درج ذیل چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.اس لئے ہم اس رسالہ کے ساتھ ایک سو روپیہ کا اشتہار بھی دیتے ہیں کہ اگر یہ بات خلاف نکلے کہ پنڈت دیانند نے وید کے حوالہ سے نہ صرف بیوہ کا غیر سے بغیر نکاح کے ہمبستر ہونا ستیارتھ پر کاش میں لکھا ہے بلکہ عمدہ عمدہ وید کی شرتیوں کا حوالہ دے کر
191 اس قسم کے نیوگ کو بھی ثابت کر دیا ہے کہ خاوند والی عورت اولاد کے لئے غیر سے نطفہ لیوے اور غیر اس سے اس مدت تک بخوشی ہم بستر ہوتا رہے جبتک کہ چند لڑ کے پیدا نہ ہو لیں تو ہم اس بیان کے خلاف واقعہ نکلنے کی صورت میں نقد سوروپیہ اشتہار جاری کرنے والوں کو دیدیں گے.اور اس وقت وہ گالیاں جو اشتہار میں لکھی ہیں ہمارے حق میں راست آئیں گی.اگر روپیہ ملنے میں شک ہو تو ان چاروں صاحبوں میں سے جو شخص چاہے باضابطہ رسید دینے کے بعد وہ رو پید اپنے پاس جمع کرالے اور ہر طرح سے تسلی کر لیں اور ہمیں یہ ثبوت دیں کہ خاوند والی عورت کا نیوگ جائز نہیں اور اگر اس رسالہ کے شائع ہونے سے ایک ماہ کے عرصہ میں جواب نہ دیں تو ان کی ہٹ دھرمی ثابت ہوگی اور ثابت ہوگا کہ در حقیقت وہ لوگ آپ ہی خبیث النفس اور قدیمی متعصب اور غلط بیان ہیں جو کسی طرح ناپاکی کے راہ کو چھوڑ نا نہیں چاہتے.“ آریہ دھرم.روحانی خزائن جلده اصفحه ۱۴) ۵.نجات 66 مکتی یعنی نجات کے متعلق آریہ سماج کا عقیدہ ہے کہ اعمال چونکہ محدود ہیں اس لئے محدود اعمال کا غیر محدود بدلہ نہیں ہو سکتا.لہذا نجات دائمی نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریہ کو اپنے اس خیال کی تائید میں ویدوں سے کوئی شرقی پیش کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.بھلا کوئی ایسی شرتی پیش تو کرو جس میں پر میشر نے کہا ہو کہ میں دائی نجات دینے پر قادر تو تھا لیکن میں نے نہ چاہا کہ محدود اعمال کا غیر محدود بدلہ دوں.ہم ایسے کسی آریہ کو ہزار روپیہ نقد ر دینے کو تیار ہیں.“ (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۱)
192 ۶.ویدوں کی الہامی حیثیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ویدوں کی الہامی حیثیت پر تنقید کرتے ہوئے آریوں کو وید سے کسی ایسی صرف ایک شرقی پیش کرنے کا چیلنج دیا جو پوری ہو چکی ہو.فرمایا:.پس اگر وید میں یقینی علم کی تعلیم دینے کے لئے کوئی پیشگوئی بیان کی گئی ہے اور وہ پوری ہو چکی ہے تو اس شرقی کو پیش کرنا چاہئے ورنہ وید کے بیان اور ایک گنوار نادان کے بیان میں کچھ فرق نہیں.اور یہ ضروری امر ہے کہ جو کتاب خدا کی کتاب کہلاتی ہے وہ خدا کا عالم الغیب ہونا صرف زبان سے بیان نہ کرے بلکہ اس کا ثبوت بھی دے.کیونکہ بغیر ثبوت کے نرایہ بیان کہ خدا عالم الغیب ہے انسان کے ایمان کو کوئی ترقی نہیں دے سکتا اور ایسی کتاب کی نسبت شبہ ہو سکتا ہے کہ اس نے صرف سنی سنائی چشمه معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸) باتیں لکھی ہیں.“ ے.تبدیلی مذہب کیلئے ویدوں کا پڑھنا ضروری نہیں آریہ دھرم سے تعلق رکھنے والے بعض آریوں نے آریہ مذہب کو خیر باد کہتے ہوئے اسلام قبول کر لیا.اس پر بعض آریہ صاحبوں نے ایسے نو مسلم آریوں پر یہ اعتراض کیا کہ ان کا مسلمان ہونا تب صحیح ہوتا کہ اول وہ چاروں وید پڑھ لیتے اور پھر ویدوں کے پڑھنے کے بعد چاہئے تھا کہ وہ آریہ دھرم کا اسلام سے مقابلہ کرتے.اس کے باوجود اگر وہ پوری تحقیق و تفتیش کے بعد اسلام کو حق جانتے ہوئے قبول کرتے تو اس صورت میں ان کا مسلمان ہونا صحیح تسلیم کر لیا جاتا.اس اعتراض کی تردید فرماتے ہوئے حضور نے درج ذیل چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.” اور یہ باتیں میری بے تحقیق نہیں بلکہ میں آریہ صاحبوں کو ہزار روپیہ بطور انعام دینے کو طیار ہوں.اگر وہ میرے پر ثابت کر دیں کہ جس قدر ان کی فہرست میں مرد و
193 زن آریہ درج ہیں.یا یوں کہو کہ جس قدر آریہ سماجی کہلانے والے مرد ہوں یا عورت ہوں، برٹش انڈیا میں موجود ہیں فیصدی ان میں سے پانچ ایسے پنڈت پائے جاتے ہیں جو چاروں وید سنسکرت میں جانتے ہیں.اگر چاہیں تو میں کسی سرکاری بنک میں یہ روپیہ جمع کرا سکتا ہوں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۷۰) آریہ اور پادریوں کو بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں اور کمالات پیش کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.قانون سنڈ یشن ہمارے لئے بہت مفید ہے.صرف ہم ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.دوسرے مذہبوں کو ہلاک کرنے کے لئے یہ بھی ایک ذریعہ ہو گا.کیونکہ ہمارے پاس تو حقائق اور معارف کے خزانے ہیں.ہم ان کا ایک ایسا سلسلہ جاری رکھیں گے جو کبھی ختم نہ ہوگا.مگر آریہ یا پادری کون سے معارف پیش کریں گے.پادریوں نے گزشتہ پچاس سال کے اندر کیا دکھایا ہے.کیا گالیوں کے سوا وہ اور کچھ پیش کر سکتے ہیں جو آئندہ کریں گے؟ ہندوؤں کے ہاتھوں میں بھی اعتراضوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر کسی آریہ یا پادری کو اپنے مذہب کے کمالات اور خوبیاں بیان کرنے کو بلایا جائے تو ہمارے مقابلہ میں ایک ساعت بھی نہ ٹھہر سکے.“ ( ملفوظات نیا ایڈیشن جلدا صفحه ۱۱۱) مولوی محمد حسین بٹالوی کو دیئے گئے بعض علمی چیلنج لفظ ”الدجال“ کے متعلق چیلنج اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا ان کا کوئی ہم خیال یہ ثابت کر دیوے کہ
194 الد جال کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں آیا ہے بجز دجال معہود کے کسی اور دجال کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہو ہزار روپیہ نقد بطور تاوان دوں گا.چاہیں تو مجھ سے رجسٹری کرا لیں یا تمسک لکھا لیں.اس اشتہار کے مخاطب خاص طور پر مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی ہیں جنہوں نے غرور اور تکبر کی راہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے پورے لینے کے ہیں یعنی جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھالینا اور وجود مرکب جسم اور روح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑ نا بلکہ سب کو بحیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اور صحیح سلامت لے لینا.سواسی معنی سے انکار کر کے یہ شرطی اشتہار ہے.ایسا ہی محض نفسانیت اور عدم واقفیت کی راہ سے مولوی محمد حسین صاحب نے اکد جال کے لفظ کی نسبت جو بخاری اور مسلم میں جابجا دجال معہود کا ایک نام ٹھہرایا گیا ہے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ الہ جال دجال معہود کا خاص طور پر نام نہیں بلکہ ان کتابوں میں یہ لفظ دوسرے دجالوں کے لئے بھی مستعمل ہے اور اس دعوی کے وقت اپنی حدیث دانی کا بھی ایک لمبا چوڑا دعویٰ کیا ہے.سو اس وسیع معنی الد جال سے انکار کر کے اور یہ دعوی کر کے کہ لفظ الد بال کا صارف دجال معہود کے لئے آیا ہے اور بطور علم کے اس کے لئے مقرر ہو گیا ہے.یہ شرطی اشتہار جاری کیا گیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب اور ان کے ہم خیال علماء نے لفظ توفی اور الہ جال کی نسبت اپنے دعوی متذکرہ بالا کو بپایہ ثبوت پہنچا دیا تو وہ ہزار روپیہ لینے کے مستحق ٹھہریں گے اور نیز عام طور پر یہ عاجز یہ اقرار بھی چند اخباروں میں شائع کر دے گا کہ در حقیقت مولوی محمد حسین صاحب اور ان کے ہم خیال فاضل اور واقعی طور پر محدث اور مفسر اور رموز اور
195 دقائق قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے سمجھنے والے ہیں.اگر ثابت نہ کر سکے تو پھر یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ لوگ دقائق و حقائق بلکہ سطحی معنوں قرآن اور حدیث کے سمجھنے سے بھی قاصر اور سراسر غبی اور پلید اور در پردہ اللہ اور رسول کے دشمن ہیں کہ محض الحاد کی راہ سے واقعی اور حقیقی معنوں کو ترک کر کے اپنے گھر کے ایک نئے معنے گھڑتے ہیں.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۴۶۰۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ ” الدجال“ کے متعلق چیلنج کو ایک دوسرے مقام پر دہراتے ہوئے فرمایا:.الد جال کے لفظ کی نسبت جسقدر آپ نے بیان کیا وہ سب لغو ہے.آپ نہیں جانتے کہ دجال معہود کے لئے الہ جال ایک نام مقرر ہو چکا ہے.دیکھو صحیح بخاری صفحه ۱۰۵۵.اگر آپ اکڈ جبال صحیح بخاری میں بجز دجال معہود کے کسی اور کی نسبت اطلاق ہونا ثابت کر دیں تو پانچ روپیہ آپ کی نذر ہوں گے.ورنہ اے مولوی صاحب ان فضول ضدوں سے باز آؤ.ان السمع و البــصــــر والـــفــؤاد كـــل اولئک کان عنه مسئولا آپ اگر کچھ حدیث سمجھنے کا ملکہ رکھتے ہیں اکڑ جال کے لفظ سے استعمال صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں بغیر دجال معہود کے کسی اور میں ثابت کریں.ورنہ بقول آپ کی ایسی باتیں کرنا اس شخص کا کام ہے جس کو حدیث بلکہ کسی شخص کا کلام سمجھنے سے کوئی تعلق نہ ہو.یہ آپ ہی کا فقرہ ہے آپ ناراض نہ ہوں.ایں ہمہ سنگ است که برسرے من زدی.“ (الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه (۱۲۱) اپنے دعویٰ کے خلاف دلائل پیش کرنے کی دعوت ”ہاں اگر مولوی صاحب نفس دعوی میں جو میں نے کیا ہے بالمقابل دلائل پیش کرنے
196 سے بحث کرنا چاہیں تو میں طیار ہوں اور اگر وہ خاص بحثیں جنکی درخواست اس تحریر میں کی گئی ہے پسند خاطر ہوں تو ان کیلئے بھی حاضر ہوں.اب انشاء اللہ یہ کا غذات چھپ جائیں گے اور مولوی صاحب نے جس قد ر تیز زبانی سے ناحق کو حق قرار دیا ہے پبلک کو اس پر رائے لگانے کیلئے موقعہ ملے گا.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمین.خاکسار راقم غلام احمد ۲۹ جولائی ۱۸۹۱ء الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۱۲۵) بظاہر متعارض چند احادیث کی تطبیق کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ لدھیانہ میں مباحثہ کے دوران مولوی بٹالوی صاحب کو بظاہر متعارض چند بخاری اور مسلم کی احادیث میں تطبیق کر دینے پر مبلغ پچیس روپے انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.”امام ابن خزیمہ تو فوت ہو گئے.اب ان کے دعوی کی نسبت کچھ کلام کرنا بیفا ئدہ ہے لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اپنے مضمون کے سنانے کے وقت بڑے جوش میں آ کر فرمایا تھا کہ ابن خزیمہ تو امام وقت تھے میں خود دعوی کرتا ہوں کہ دو متعارض حدیثوں میں جو دونوں صحیح الاسناد تسلیم کی گئی ہوں تو فیق و تالیف دے سکتا ہوں اور ابھی دے سکتا ہوں.آپ کا یہ دعویٰ ہر چند اس وقت ہی فضول سمجھا گیا تھا لیکن برعایت شرائط قرار یافتہ مناظرہ اس وقت آپ کی تقریر میں بولنا نا جائز اور ممنوع تھا.چونکہ آپ کی خودستائی حد سے گذرگئی ہے اور عجز و نیاز اور عبودیت کا کوئی خانہ نظر نہیں آتا اور اس وقت انا اعلم کا جوش آپ کے نفس میں پایا جاتا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اسی دعوئی کے رو سے آپ کے کمالات کی آزمائش کروں جس آزمائش کے ضمن میں میری اصل بحث بھی لوگوں پر ظاہر ہو جائے.میں بالطبع اس
197 سے کارہ ہوں کہ کسی سے خواہ نخواہ آویزش کروں لیکن چونکہ آپ کر بیٹھے ہیں اور دوسروں کو تحقیر اور ذلت کی نظر سے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ آپ کے خیال میں امام اعظم کو بھی حدیث دانی میں آپ سے کچھ نسبت نہیں.اس لئے بقول سعدی نداد کسے با تو ناگفته کار و لیکن چو گفتی دلیلش بیار چاہتا ہوں کہ چھ سات حدیثیں بخاری اور مسلم کی یکے بعد دیگرے جن میں میری نظر میں تعارض ہے آپ کی خدمت میں پیش کروں.اگر آپ ان میں تو فیق و تالیف امام ابن خزیمہ کی طرح کر دکھائیں گے تو میں تاوان کے طور پر آپ کو پچیس روپیہ نقد دوں گا اور نیز مدت العمر تک آپ کے کمالات کا قائل ہو جاؤں گا.“ (الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه۱۰۲ تا۱۰۴) مولوی بٹالوی کو بالمقابل انجیل کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.شیخ بطال محمد حسین بطالوی جو اہل قبلہ کو کافر کہنے سے باز نہیں آتا.اب اس تفسیر کے شائع ہونے سے پہلے اسی انجیل کی تفسیر لکھے تا اس کی علمی اور ایمانی قوت معلوم ہو ور نہ ایسی لیاقت قابل شرم ہے جیسا کہ اس نے عیسائیوں کے مباحثہ کی نسبت ہمارے پندرہ دن فی البدیہ تقریر پر ہماری ہی باتیں پھر اچر ا کر ڈھائی برس میں گھر میں بیٹھ کر نکتہ چینی کا مضمون تیار کیا اور مر مر کر دوسروں سے مدد لے کر ہمارے پندرہ دن کی جگہ 6 تمہیں مہینے خرچ کئے.منہ.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۲۱) گورنمٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ کے پہچاننے کیلئے ایک کھلا کھلا طریق آزمائش مولوی محمد حسین بٹالوی کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو
198 گورنمنٹ عالیہ کا دشمن اور بدخواہ ثابت کرے.تا گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو آپ پر بدظن کر سکے.چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر آپ نے گورنمنٹ کو یہ معلوم کرنے کیلئے کہ در حقیقت گورنمنٹ کا خیر خواہ کون ہے اور بدخواہ کون ہے درج ذیل تجویز پیش کی :.سو وہ طریق میری دانست میں یہ ہے کہ چند ایسے عقائد جو غلط نہی سے اسلامی عقائد سمجھے گئے ہیں اور ایسے ہیں کہ ان کو جو شخص اپنا عقیدہ بناوے وہ گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے.ان عقائد کو اس طرح پر آلہ شناخت مخلص و منافق بنایا جائے کہ عرب یعنی مکہ اور مدینہ وغیرہ بلاد اور کابل اور ایران وغیرہ میں شائع کرنے کے لئے عربی اور فارسی میں وہ عقائد ہم دونوں فریق لکھ کر اور چھاپ کر سر کار انگریزی کے حوالہ کریں تا کہ وہ اپنے اطمینان کے موافق شائع کر دے.اس طریق سے جو شخص منافقانہ طور پر برتاؤ رکھتا ہے اس کی حقیقت کھل جائے گی.کیونکہ وہ ہرگز ان عقائد کو صفائی سے نہیں لکھے گا اور ان کا اظہار کرنا اس کو موت معلوم ہوگی.“ (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۴۷) بٹالوی صاحب کے ایک اعتراض کا جواب مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ گویا آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی پر یہ الزام لگایا ہے کہ مولوی صاحب کسی ایسے ملہم کو بھی نہیں مانتے ہیں بخاری یا مسلم کی کسی حدیث کو موضوع کہیں.اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب اس سے پہلے چونکہ خود ایسے بزرگوں کو رئیس المتصوفین اور اولیاء اللہ قرار دے چکے ہیں جو بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو موضوع قرار دیتے ہیں اور اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں کئی بار ایسے بزرگوں کا عقیدت واحترام سے حوالہ دے چکے ہیں اور مولوی صاحب کے رسالہ میں کبھی کوئی ایسا ذکر نہیں ملتا جس میں آپ نے ایسے
199 بزرگوں کیلئے شیطان یا کافر کا لفظ استعمال کیا ہو.اگر کوئی ایسی مثال پیش کر سکیں تو مبلغ یکصد روپیہ بطور تاوان آپ کو ادا کر دوں گا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.ماسوا اس کے آپ کا وہ پر چہ اشاعت السنتہ موجود ہے.میں اپنے پر سو روپیہ تاوان قبول کرتا ہوں اگر منصفین اس پر چہ کو پڑھ کر یہ رائے ظاہر کریں کہ آپ نے ان اولیاء کو جنہوں نے ایسا رائے ظاہر کیا تھا کافر اور شیطان ٹھہرایا تھا اور ان کے ملہمات کو شیطانی مخاطبات میں داخل کیا تھا تو میں سور و پیہ داخل کر دوں گا.آپ اپنے شائع کردہ ریویو کے منشاء سے بھاگنا چاہتے ہیں اور ایک پورانی قوم کی عادت پر تحریفوں پرزور مار رہے ہیں و انی لکم ذالک و لات حین مناص.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲۳) علماء ندوه حضرت مسیح موعود نے علماء ندوہ کو قادیان آ کر اپنے دعوئی کے اثبات میں دلائل سننے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.اور پھر میرے معجزات اور دیگر نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے طلب ثبوت کے لئے بعض منتخب علماء ندوہ کے قادیان میں آویں اور مجھ سے معجزات اور دلائل یعنی نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا ثبوت لیں.پھر اگر سنت انبیاء علیہم السلام کے مطابق میں نے پورا ثبوت نہ دیا تو میں راضی ہوں گا کہ میری کتابیں جلائی جائیں لیکن اس قدر محنت اٹھانا بڑے باخدا کا کام ہے.“ تحفہ الندوہ.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۱) حکیم محمود مرزا ایرانی حکیم محمود مرزا ایرانی کو بالمقابل مضمون نویسی کے مقابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.
200 آج پر چہ پیسہ اخبار ۲۷ اگست ۱۹۰۴ ء کے پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ حکیم مرز امحمود نام ایرانی لاہور میں فروکش ہیں.وہ بھی ایک مسیحیت کے مدعی کے حامی ہیں.دعوی کرتے ہیں اور مجھ سے مقابلہ کے خواہشمند ہیں.میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے اس قدر شدت کم فرصتی ہے کہ میں ان کی اس درخواست کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ کل ہفتہ کے روز جلسہ کا دن ہے جس میں میری مصروفیت ہوگی.اور اتوار کے دن علی الصباح مجھے گورداسپور میں ایک مقدمہ کیلئے جانا جو عدالت میں دائر ہے ضروری ہے.میں قریباً بارہ دن سے لاہور میں مقیم ہوں.اس مدت میں کسی نے مجھ سے ایسی درخواست نہیں کی اب جبکہ میں جانے کو ہوں اور ایک منٹ بھی مجھے کسی اور کام کے لئے فرصت نہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس بے وقت کی درخواست سے کیا مطلب اور کیا غرض ہے.لیکن تاہم میں مرزا محمود صاحب کو تصفیہ کے لئے ایک اور صاف راہ بتلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کل ۳ ستمبر کو جو جلسہ میں میرا مضمون پڑھا جائے گا وہ مضمون ایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار اپنے پر چہ میں بتمام و کمال شائع کر دیں.حکیم صاحب موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مضمون کے مقابلہ میں اسی اخبار میں اپنا مضمون شائع کرا دیں.اور پھر خود پبلک ان دونوں مضمونوں کو پڑھ کر فیصلہ کر لے گی کہ کس شخص کا مضمون راستی اور سچائی اور دلائل قویہ پر مبنی ہے.اور کس شخص کا مضمون اس مرتبہ سے گرا ہوا ہے.میری دانست میں یہ طریق فیصلہ ان بدنتائج سے بہت محفوظ ہو گا جو آجکل زیادہ مباحثات سے متوقع ہے.بلکہ چونکہ اس طرز میں روئے کلام حکیم صاحب کی طرف نہیں اور نہ ان کی نسبت کوئی تذکرہ ہے اس لئے ایسا مضمون ان رنجشوں سے بھی برتر ہو گا جو باہم مباحثات سے کبھی کبھی پیش آ جایا کرتے ہیں.والسلام منہ الراقم میرزا غلام احمد قادیانی
201 لیکچر لا ہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۴۶) میاں عبد الحق غزنوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک حریف مولوی میاں عبد الحق غزنوی کو کسی ایسے مباحثہ کی نظیر لانے کا چیلنج دیتے ہوئے جس میں کوئی دوسرا آپ پر غالب رہا ہو فرمایا :.کیوں میاں عبد الحق کیا یہ تم نے سچ بولا ہے.کیا اب بھی لعنة اللـــه عـلــى الکاذبین نہ کہیں.شاباش! عبداللہ غزنوی کا خوب تم نے نمونہ ظاہر کیا.شاگرد ہوں تو ایسے ہوں.بھلا اگر بچے ہو تو ان مجامع اور مجالس کی ذرہ تشریح تو کرو جن میں میں شرمندہ ہوا.اس قدر کیوں جھوٹ بولتے ہو.کیا مرنا نہیں ہے؟ بھلا ان مباحثات کی عبارات تو لکھو جن میں تم یا تمہارا کوئی اور بھائی غالب رہا ورنہ نہ میں بلکہ آسمان بھی یہی کہہ رہا ہے کہ لعنة الله على الكاذبين.“ تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۲) صرف عربی ام الالسنہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو ام الالسنہ ثابت کرنے پر مبلغ پانچ ہزار روپے انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.لیکن اب ہم پورے طور پر اتمام حجت کے لئے ایک ایسا طریق فیصل لکھتے ہیں جس سے کوئی گریز نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم اس دعوے میں کا ذب ہیں کہ عربی میں وہ پانچ فضائل خصوصیت کے ساتھ موجود ہیں جو ہم لکھ چکے ہیں اور کوئی سنسکرت دان وغیرہ اس بات کو ثابت کر سکتا ہے کہ ان کی زبان بھی ان فضائل میں عربی کی شریک و مساوی ہے یا اس پر غالب ہے تو ہم اس کو پانچ ہزار روپیہ بلا توقف دینے کے لئے
202 قطعی اور حتمی وعدہ کرتے ہیں.( من الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۳۹) اسی طرح عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کے کمالات پیش کرنے پر پانچ ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.و لیکن اب ہم پورے طور پر اتمام حجت کے لئے ایک ایسا طریق فیصل لکھتے ہیں جس سے کوئی گریز نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم اس دعوے میں کاذب ہیں کہ عربی زبان میں وہ پانچ فضائل خصوصیت کے ساتھ موجود ہیں جو ہم لکھ چکے ہیں اور کوئی سنسکرت دان وغیرہ اس بات کو ثابت کر سکتا ہے کہ ان کی زبان بھی ان فضائل میں عربی کی شریک و مساوی ہے یا اس پر غالب ہے تو ہم اس کو پانچ ہزار روپیہ بلا توقف دینے کے لئے قطعی اور حتمی وعدہ کرتے ہیں.“ منن الرحمن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۳۹) اسی طرح عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان کے کمالات پیش کرنے پر پانچ ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.فان کنتم لا تومنون ببراعة العربية و عزازتها و لا تقرون بعظمة جمازتها فاروني في لسانكم مثل كمالاتها و مفردات کمفرداتها و مرکبات کمرکباتها و معارف معارفها و نکاتها ان كنتم صادقين.و لا حيوة بعد الخزى يا معشر الاعداء فقوموا ان كانت ذرة من الحياء.او انجعوا في غيابة الخوقاء.وموتوا كالمتندّين.و ان کنتم تنهضون للمقابلة فانى مجيزكم خمسة الاف من الدراهم المروجه بعد ان تكملوا شرائط من الرحمن روحانی خزائین جلد نمبر ۹ صفحہ نمبر ۱۲۳۸- ۲۳۹)
203 ترجمہ:.پس اگر تم عربی کی بزرگی اور ارجمندی پر ایمان نہیں لاتے اور اس کی تیز رو اونٹنی کی بزرگی کے تم قائل نہیں ہوتے پس تم اس کے کمالات کا نمونہ اپنی زبان میں مجھ کو دکھاؤ اور اس کے مفردات کے مقابل پر مفردات اور مرکبات کے مقابل پر مرکبات اور معارف کے مقابل پر معارف مجھ کو دکھلا ؤ اگر تم سچے ہو.اور ذلت کے بعد اے غافلو کیا زندگی ہے.پس اگر ذرا بھی دیا ہے تو اٹھو یا کسی گہرے کوئیں میں ڈوب کر ہلاک ہو جاؤ.شرم زدہ لوگوں کی طرح مر جاؤ.اور اگر مقابلہ کے لئے اٹھتے ہو تو میں تم کو بطور انعام پانچ ہزار روپیہ دوں گا بشرطیکہ تم موافق شرائط جواب دو.( من الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۸، ۳۳۹) پادری عمادالدین پادری عماد الدین اور بعض دیگر عیسائی پادریوں نے قرآن کریم کی بلاغت پر اعتراض گئے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پادریوں کے اعتراضات کی حقیقت کھولنے کیلئے پادری عمادالدین کو عوام کی موجودگی میں کسی قصہ کو عربی زبان میں بیان کرنے پر پچاس روپے انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.اور ہم یہ یقین تمام جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی عربی آدمی کو اس کے سامنے بولنے کیلئے پیش کریں تو وہ عربوں کی طرح اور ان کے مذاق پر ایک چھوٹا سا قصہ بھی بیان نہ کر سکے اور جہالت کے کیچڑ میں پھنسا رہ جائے.اور اگر شک ہے تو اس کو قسم ہے کہ آزما کر دیکھ لے اور ہم خود اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اگر پادری عمادالدین صاحب ہم سے درخواست کریں تو ہم کوئی عربی آدمی بہم پہنچا کر کسی مقررہ تاریخ پر ایک جلسہ کریں گے جس میں چند لائق ہندو ہوں گے اور چند مولوی مسلمان بھی ہوں گے اور عمادالدین صاحب پر لازم ہوگا کہ وہ بھی چند عیسائی بھائی اپنے ساتھ لے آویں اور
204 پھر سب حاضرین کے روبرو اول عماد الدین صاحب کوئی جو اسی وقت ان کو بتلایا جائے گا عربی زبان میں بیان کریں اور پھر وہی قصہ وہ عربی صاحب کہ جو مقابل پر حاضر ہوں گے اپنی زبان میں بیان فرماویں.پھر اگر منصفوں نے یہ رائے دے دی که عمادالدین صاحب نے ٹھیک ٹھیک عربوں کے مذاق پر عمدہ اور لطیف تقریر کی ہے تو ہم تسلی کر لیں گے کہ ان کا اہل زبان پر نکتہ چینی کرنا کچھ جائے تعجب نہیں بلکہ اسی وقت پچاس روپیہ نقد بطور انعام کو ان دیئے جائیں گے.لیکن اگر اس وقت عماد الدین صاحب بجائے فصیح اور بلیغ تقریر کے اپنے ژولیدہ اور غلط بیان کی بدبو پھیلانے لگے یا اپنی رسوائی اور نالیاقتی سے ڈر کر کسی اخبار کے ذریعہ سے یہ اطلاع بھی نہ دی کہ میں ایسے مقابلہ کے لئے حاضر ہوں تو پھر ہم بجز اس کے کہ لعنت اللہ علی الکاذبین کہیں اور کیا کہ سکتے ہیں.اور یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ اگر عماد الدین صاحب تولد ثانی بھی پاویں تب بھی وہ کسی اہل زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.“ (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۳۴، ۴۳۵)
205 حــصـه دوم روحانی چیلنج خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ تجھ سے ہر ایک مقابلہ کرنے والا مغلوب ہوگا.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۸۱)
206
207 باب اوّل پیشگوئیاں وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسِلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ - (الكهف : ۵۷) اور ہم رسولوں کو صرف بشارت دینے والا اور ( عذاب کی آمد سے ) آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجتے ہیں.
208
209 اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.پیشگوئیاں عالم الغيب فلايظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول (الجن: ۲۷) ترجمہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے پس وہ اپنے غیب پر کسی کو غلبہ نہیں دیتا بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو.اس آیت کریمہ میں غیبہ سے مراد خالص غیب ہے جس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہوتا.اسی غیب کے متعلق وہ فرماتا ہے.عنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو (انعام: ۴۰) یعنی غیب کی کنجیاں خدا تعالیٰ کے پاس ہیں اور غیب کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا.پس جس شخص کو خالص غیب پر جسے اللہ ہی جانتا ہے اطلاع دی جائے صاف ظاہر ہوگا کہ اس کیلئے غیب کا خزانہ غیب کی چابیوں سے خدا نے خودکھلا ہے.کوئی شخص ایسے خزانے کو چرا نہیں سکتا.پس جس شخص کو بکثرت امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے اور وہ خبریں بھی عظیم الشان ہوں اور آفاق اور انفس سے تعلق رکھتی ہوں اور وہ وقوع میں بھی آجائیں تو یہ امور غیبیہ یا بالفاظ دیگر پیشگوئیاں اس شخص کے منجانب اللہ ہونے پر الہی شہادت ہوتی ہیں.اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے.و ان یک صادقا يصبكم بعض الذي يعدكم.(مومن : ۲۹) یعنی اگر یہ رسول سچا ہے تو پھر اس کی پیشگوئیوں میں سے ضرور بعض تم کو پہنچ جائیں گی.گویا اس آیت کریمہ میں پیشگوئیوں کو علامت صدق قرار دیا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ
210 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیشگوئیوں کو بھی اپنی سچائی کیلئے بطور معیار صداقت پیش فرمایا.چنانچہ آپ کی ہزاروں کی تعداد میں ہر رنگ میں پیشگوئیاں پوری ہوئیں.آپ نے اپنی ذات ، اپنی اولاد ، اپنے خاندان گھر والوں دوستوں اور دشمنوں غرضیکہ ہر حصہ کے متعلق پیشگوئیاں فرمائیں اور وہ پوری ہو کر مومنوں کیلئے از دیا ایمان کا موجب ہوئیں.لیکن آپ کے مخالفین ہمیشہ کی طرح انکار کرتے رہے اور کمال صفائی سے پوری ہونے والی پیشگوئیوں پر بھی طرح طرح کے بے جا اعتراض کئے جن کے جواب دیتے ہوئے آپ نے بے شمار چیلنج دیئے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے.طاعون کی پیشگوئی کے متعلق چیلنج حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ۶ فروری ۱۸۹۸ء کو کشف میں دیکھا کہ:.” خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.“ نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۴ ) آگے حضور فرماتے ہیں.” لگانے والوں سے میں نے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.“ نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۴) اس پیشگوئی کی اشاعت کیلئے آپ نے اسی روز ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں لوگوں کو مشورہ دیا کہ چونکہ اس پیشگوئی کے مطابق عنقریب نہایت وسیع پیمانے پر طاعون پھیلنے والی ہے اس لئے طاعون کے ایام میں بہتر ہوگا کہ لوگ اپنی بستیوں سے باہر کھلے میدان میں قیام کریں.چونکہ اس اشتہار کے شائع ہونے کے وقت ملک میں طاعون کا نام ونشان بھی نہیں تھا اور بظاہر
211 اس کے پھیلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا اس لئے علماء حضرات اور حضور کے مکذبین و مکفرین کو حضور کے خلاف شور مچانے اور استہزاء کرنے کا ایک موقع میسر آ گیا.چنانچہ تحریر وتقریر کے ذریعہ اس پیشگوئی کے خلاف خوب ہنسی اڑائی گئی.پیسہ اخبار نے جو اس وقت کے مشہور اخباروں میں سے تھا لکھا.مرزا اسی طرح لوگوں کو ڈرایا کرتا ہے.دیکھ لینا خود اسی کو طاعون ہوگی.“ آخر حضور کی پیشگوئی کے مطابق اس کے چند ماہ بعد پہلے جالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع میں طاعون پھوٹی.لیکن چونکہ ابھی اس نے دوسرے علاقوں میں پوری طرح زور نہیں پکڑا تھا اس لئے شقی القلب علماء اور عوام نے بجائے اس وعید سے فائدہ اٹھانے اور توبہ استغفار سے کام لینے کے تکذیب و تمسخر کی راہ اختیار کی تو خدائے ذوالجلال کا غضب اور بھڑ کا اور ۱۹۰۲ء میں طاعون نے اس قدر زور پکڑا کہ لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے اور گھروں کے گھر خالی ہو گئے.اور لاشیں گھروں میں سڑنے لگیں.غور کا مقام ہے کہ ایک شخص جسے لوگ نعوذ باللہ کذاب اور دجال کہتے تھے وہ ملک میں طاعون کی آمد سے چار سال قبل جبکہ اس موذی مرض کا نام ونشان بھی اس ملک میں موجود نہ تھا طاعون کی خبر دیتا ہے پھر ایسے وقت میں جب کہ مرض پوری شدت کے ساتھ ملک میں پھیل گئی اور لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے اپنی اور اپنے اہل وعیال اور اپنے گھر اور اپنے مولد ومسکن کی عصمت و حفاظت کی الہامی خبر ان الفاظ میں دیتا ہے.احافظ كل من فى الدارى الا الذى علوا من استكبار و احافظک خاصه (نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۱) کہ جولوگ تیرے گھر کی چار دیواری میں ہوں گے ان کی حفاظت کروں گا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کرتے ہیں.اور تیری خاص طور پر حفاظت کروں گا.
212 ( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۰۱) پھر یہی نہیں بلکہ اپنے مخالفین کو چیلنج کیا کہ اگر ان کا بھی خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق ہے تو وہ بھی اس قسم کا دعویٰ شائع کر کے دیکھ لیں.اگر ان کے مساکن طاعون سے محفوظ رہے تو میں ان کو اولیاء اللہ میں سے سمجھ لوں گا.چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اس وقت میں نمونہ کے طور پر خدا تعالیٰ کا ایک کلام ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور بالخصوص اس جگہ مخاطب میرے مولوی ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری اور مولوی عبدالجبار اور عبد الواحد اور عبدالحق غزنوی ثم امرتسری اور جعفر زٹلی لاہوری اور ڈاکٹر عبدالحکیم خان اسسٹنٹ سرجن تر اوڑی ملازم ریاست پٹیالہ ہیں اور وہ کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے.انی احافظ كل من في الـد و احافظک خسابقہ اس کا بموجب تفہیم الہی یہ ہے کہ میں ہر ایک شخص کو جو تیرے گھر کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا اور خاص کر تجھے.چنانچہ گیارہ برس سے اس پیشگوئی کی تصدیق ہو رہی ہے اور میں اس کے کلام کے منجانب اللہ ہونے پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کی تمام کتب مقدسہ پر اور بالخصوص قرآن شریف پر.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے.پس اگر کوئی شخص مذکورہ بالا اشخاص میں سے جو شخص ان کا ہمرنگ ہے یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ یہ انسان کا افتراء ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ قسم کھا کر ان الفاظ کے ساتھ بیان کرے کہ یہ انسان کا افتراء ہے خدا کا کلام نہیں ولعنت اللہ علی من کذب وحی اللہ.جیسا کہ میں بھی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے ولعنت اللہ علی من افتری علی اللہ.اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا اس راہ سے کوئی فیصلہ کرے.اور یادر ہے کہ میرے کسی کلام میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ہر ایک شخص جو بیعت کرے وہ طاعون سے محفوظ رہے گا بلکہ یہ ذکر ہے کہ والذین
213 امنوا ولم يلبسوا ايمانهم بظلم اولئك لهم الامن وھم مهند ون.پس کامل پیروی کرین والے اور ہر ایک ظلم سے بچنے والے جس کا علم محض خدا کو ہے بچائے جائیں گے اور کمز ور لوگ شہید ہو کر شہادت کا درجہ پاویں گے اور طاعون ان کے لئے تمحیص اور تطہیر کا موجب ٹھیرے گی.اب میں دیکھوں کا کہ اس میری تحریر کے مقابل پر بغرض تکذیب کون قسم کھاتا ہے.مگر یہ امر ضروری ہے کہ اگر ایسا مکذب اس کلام کو خدا کا کلام نہیں سمجھتا تو آپ بھی دعوی کرے کہ میں بھی طاعون سے محفوظ رہوں گا اور مجھے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا ہے تادیکھ لے افتراء کی کیا جزاء ہے.والسلام علی من اتبع الھدی.( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۸۲،۵۸۱) اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام مسلمان ملہموں ، آریوں کے پنڈتوں اور عیسائی پادریوں کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.(۳) تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ، بہر حال جب تک طاعون دنیا میں رہے، گوستر برس تک رہے، قادیان کو اُس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا.کیونکہ یہ اُس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام انتوں کے لئے نشان ہے.اگر خدا تعالیٰ کے اس رسول اور اس نشان سے کسی کو انکار ہو اور خیال ہو کہ فقط رسمی نمازوں اور دعاؤں سے یا مسیح کی پرستش سے یا گائے کے طفیل سے یا ویدوں کے ایمان سے باوجود مخالفت اور دشمنی اور نافرمانی اس رسول کے ، طاعون دُور ہوسکتی ہے تو یہ خیال بغیر ثبوت کے قابل پذیرائی نہیں.پس جو شخص ان تمام فرقوں میں سے اپنے مذہب کی سچائی کا ثبوت دینا چاہتا ہے تو اب بہت عمدہ موقع ہے.گویا خدا کی طرف
214 سے تمام مذاہب کی سچائی یا کذب پہچاننے کے لئے ایک نمائش گاہ مقرر کیا گیا ہے.اور خدا نے سبقت کر کے اپنی طرف سے پہلے قادیان کا نام لے دیا ہے.اب اگر آریہ لوگ وید کو سچا سمجھتے ہیں تو اُن کو چاہئے کہ بنارس کی نسبت جو وید کے درس کا اصل مقام ہے ایک پیشگوئی کر دیں کہ اُن کا پر میشر بنارس کو طاعون سے بچالے گا.اور سناتن دھرم والوں کو چاہئے کہ کسی ایسے شہر کی نسبت جس میں گائیاں بہت ہوں مثلاً امرتسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ گئو کے طفیل اس میں طاعون نہیں آئے گی.اگر اس قدر گنو اپنا معجزہ دکھا دے تو کچھ تعجب نہیں کہ اس معجزہ نما جانور کی گورنمنٹ جان بخشی کر دے.اسی طرح عیسائیوں کو چاہئے کہ کلکتہ کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ اس میں طاعون نہیں پڑے گی کیونکہ بڑا بشپ برٹش انڈیا کا کلکتہ میں رہتا ہے.اسی طرح میاں شمس الدین اور اُن کی حمایت اسلام کے ممبروں کو چاہئے کہ لاہور کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گا.اور منشی الہی بخش اکومنٹنٹ جو الہام کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کے لئے بھی یہی موقع ہے کہ اپنے الہام سے لاہور کی نسبت پیشگوئی کر کے انجمن حمایت اسلام کو مدد دیں.اور مناسب ہے کہ عبدالجبار اور عبدالحق شہر امرتسر کی نسبت پیشگوئی کردیں.اور چونکہ فرقہ وہابیہ کی اصل جڑ دتی ہے اس لئے مناسب ہے کہ نذیرحسین اور محمد حسین دتی کی نسبت پیشگوئی کریں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گی.پس اس طرح سے گویا تمام پنجاب اس مہلک مرض سے محفوظ ہو جائے گا.اور گورنمنٹ کو بھی مفت میں سبکدوشی ہو جائے گی.اور اگر ان لوگوں نے ایسا نہ کیا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا.اور بالآخر یا در ہے کہ اگر یہ تمام لوگ جن میں مسلمانوں کے ماہم اور آریوں کے
215 پنڈت اور عیسائیوں کے پادری داخل ہیں چُپ رہے، تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ سب لوگ جھوٹے ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک بچے کا مقام ہے.“ دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸۱.صفحہ ۲۳۱،۲۳۰) البتہ اگر شک ہے تو یہ طریق ہو سکتا ہے کہ جیسا کہ میں نے خدا سے الہام پا کر ایک گروہ انسانوں کیلئے جو میرے قول پر چلنے والے ہیں عذاب طاعون سے بچنے کیلئے خوش خبری پائی ہے اور اس کو شائع کر دیا ہے.ایسا ہی اگر اپنی قوم کی بھلائی آپ لوگوں کے دل میں ہے تو آپ لوگ بھی اپنے ہم مذہبوں کیلئے خدا تعالیٰ سے نجات کی بشارت حاصل کریں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے اور اس بشارت کو میری طرح بذریعہ چھپے ہوئے اشتہاروں کے شائع کریں تا لوگ سمجھ لیں کہ خدا آپ کے ساتھ ہے.بلکہ یہ موقعہ عیسائیوں کیلئے بھی بہت ہی خوب ہے.وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ نجات مسیح سے ہے پس اب ان کا بھی فرض ہے کہ ان مصیبت کے دنوں میں عیسائیوں کو طاعون سے نجات دلا دیں ان تمام فرقوں سے جس کی زیادہ سنی گئی وہی مقبول ہے.اب خدا نے ہر ایک کو موقعہ دیا ہے کہ خواہ مخواہ زمین پر مباحثات نہ کریں.اپنی قبولیت بڑھ کر دکھلا دیں تا طاعون سے بھی بچیں اور ان کی سچائی بھی کھل جائے.بالخصوص پادری صاحبان جو دنیا اور آخرت میں مسیح ابن مریم کو ہی منجی قرار دے چکے ہیں.وہ اگر دل سے ابن مریم کو دنیا و آخرت کا مالک سمجھتے ہیں تو اب عیسائیوں کا حق ہے کہ اُن کے کفارہ سے نمونہ نجات دیکھ لیں.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹)
216 ڈپٹی عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی عبد اللہ آتھم قریباً ۱۸۳۸ء میں بمقام انبالہ پیدا ہوا اور ۲۸ / مارچ ۱۸۵۳ء کو اس نے کراچی میں میں بپتسمہ لیا ور اسی موقع پر اس نے اپنے نام کے ساتھ آئم یعنی گناہگار کا لفظ لگایا.پہلے انبالہ تر نتارن اور بٹالہ میں تحصیلدار رہا پھر سیالکوٹ انبالہ اور کرنال میں اے ای سی کے عہدہ پر رہا اور پھر ریٹائر ہونے کے بعد اس نے اپنی خدمات امرتسر مشن کو سپرد کر دیں اور اسلام کے خلاف چند کتب لکھیں.۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عیسائیوں سے ایک مباحثہ قرار پایا.عیسائیوں کی طرف سے ڈپٹی عبداللہ آتھم مناظر مقرر ہوا.یہ مباحثہ امرتسر میں ہوا اور پندرہ دن تک رہا.یہ مباحثہ جنگ مقدس کے نام سے شائع ہو چکا ہے.اس مباحثہ کے آخری دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر آتھم کے متعلق ایک پیشگوئی کا اعلان فرمایا کہ.” اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی مباحثہ کے دنوں کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لیکر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.الخ جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۲٬۲۹۱) اس پیشگوئی کے اعلان پر یہ پندرہ دن کی مقدس جنگ ختم ہوگئی اور اس پیشگوئی کے نتیجہ کا لوگ انتظار کرنے لگے.اور اللہ تعالیٰ کا چونکہ منشاء تھا کہ اس نشن کو ایک عظیم الشان صورت میں ظاہر کرے اور اس کی صورت یوں ہوئی کہ جب پیشگوئی کی میعاد ختم ہوگئی اور آتھم رجوع بحق کی وجہ سے پندرہ ماہ میں فوت نہ ہوا تو عیسائیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی غلط نکلی.اس پر حضور نے انہیں سمجھایا کہ پیشگوئی میں یہ تھا کہ آتھم اگر رجوع کرلے گا تو ہادیہ میں
217 گرائے جانے سے بچایا جائے گا اور اگر رجوع نہیں کرے گا تو ہاویہ میں گرایا جائے گا.چونکہ اس کا خوف اور رجوع ثابت ہے اتنے عرصہ میں اس نے اسلام کے خلاف کوئی لفظ نہیں نکالا.اس لئے خدا نے وج غفور و رحیم ہے اس کی موت ٹال دی مگر عیسائیوں نے نہ مانا تھا نہ مانا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مخالف علماء بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے.اور پیشگوئی کے جھوٹا ثابت ہونے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا.اس پر بذریعہ اشتہار یہ علان فرمایا کہ اگر آتھم اس بات پر حلف اٹھا جائے کہ اس پر پیشگوئی کا خوف غالب نہیں ہوا اور اس نے اپنے قلب میں اسلام اور بانی اسلام کے بارہ میں اپنے خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تو پھر اگر وہ ایک سال کے اندر اندر ہلاک نہ ہو جائے تو میں اسے ایک ہزار روپیہ نقد انعام دوں گا.پھر دوسرے اشتہار میں دو ہزار روپیہ اور تیسرے اشتہار میں تین ہزار روپیہ اور چوتھے اشتہار میں چار ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا.چنانچہ فرمایا.”ہم اپنی فتح یابی کا قطعی فیصلہ کرنے کیلئے اور تمام دنیا کو دکھانے کیلئے کہ کیونکر ہم کو فتح نمایاں حاصل ہوئی.یہ سہل اور آسان طریق تصفیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے نزدیک ہمارا یہ بیان بالکل کذب اور دروغ اور افتراء ہے تو وہ مرد میدان بن کر اس اشتہار کے شائع ہونے سے ایک ہفتہ تک ہماری مفصلہ ذیل تجویز کو قبول کر کے ہم کو اطلاع دیں.اور تجویز یہ ہے کہ اگر اس پندرہ مہینہ کے عرصہ میں کبھی ان کو سچائی اسلام کے خیال نے دل پر ڈرانے والا اثر نہیں کیا.اور نہ عظمت اور صداقت الہام نے گرداب غم میں ڈالا.اور نہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اسلامی تو حید کو انہوں نے اختیار کیا.اور نہ ان کو اسلام پیشگوئی سے دل میں ذرہ بھی خوف آیا.اور نہ ثلیث کے اعتقاد سے وہ ایک ذرہ متزلزل ہوئے.تو وہ فریقین کی جماعت کے روبرو تین مرتبہ انہیں باتوں کا انکار کریں.کہ میں نے ہرگز ایسا نہیں کیا.اور عظمت اسلام
218 نے ایک لحظہ کیلئے بھی دل کو نہیں پکڑا اور میں مسیح کے ابنیت اور الوہیت کا زور سے قائل رہا اور قائل ہوں.اور دشمن اسلام ہوں.اور اگر میں جھوٹ بولتا ہوں.تو میرے پر ایک ہی برس کے اندر وہ ذلت کی موت اور تباہی آوے جس سے یہ بات خلق اللہ پر کھل جائے کہ میں نے حق کو چھپایا.جب مسٹر آتھم صاحب یہ اقرار کریں.تو ہر ایک مرتبہ کے اقرار میں ہماری جماعت آمین کہے گی.تب اس وقت ایک ہزار روپیہ کا بدره با ضابطہ تمسک لے کر ان کو دیا جائے گا اور وہ تمسک ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین کی طرف سے بطور ضمانت کے ہوگا.جس کا یہ مضمون ہو گا.کہ یہ ہزار روپیہ بطور امانت مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے پاس رکھا گیا.اور اگر وہ حسب اقرار اپنے کے ایک سال کے اندر فوت ہو گئے.تو اس روپیہ کو ہم دونوں ضامن بلا توقف واپس کر دیں گے اور واپس کرنے میں کوئی عذر اور حیلہ نہ ہوگا.اور اگر وہ انگریزی مہینوں کے رو سے ایک سال کے اندرفوت نہ ہوئے تو یہ رو پید ان کی ملک ہو جائے گا.اور ان کی فتح یابی کی ایک علامت ہوگی.“ (ضمیمہ انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۵۷،۵۶) اب ہم یہ دوسرا اشتہار دو ہزار روپیہ انعام کے شرط سے نکالتے ہیں اگر آتھم صاحب جلسہ عام میں تین مرتبہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ میں نے پیشگوئی کی مدت کے اندر عظمت اسلامی کو اپنے دل پر جگہ ہونے نہیں دی اور برابر دشمن اسلام رہا.اور حضرت عیس کی انبیت اور الوہیت اور کفارہ پر مضبوط ایمان رکھا تو اسی وقت نقد دو ہزار روپیہ ان کو به شرائط اقرار داده اشتہار ۹ ستمبر ۱۸۹۴ء بلا توقف دیا جائے گا اور اگر ہم بعد قسم دو ہزار روپیہ دینے میں ایک منٹ کی بھی توقف کریں.تو وہ تمام لعنتیں جو نادان مخالف کر رہے ہیں ہم پر وارد ہوں گی اور ہم
219 بلاشبہ جھوٹے ٹھہریں گے اور قطعا اس لائق ٹھہریں گے کہ ہمیں سزائے موت دی جائے اور ہماری کتابیں جلا دی جائیں اور ملعون وغیرہ ہمارے نام رکھے جائیں (ضمیمہ انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۶۵) اس تحریر میں آتھم صاحب کیلئے تین ہزار روپیہ کا انعام مقرر کیا گیا ہے اور یہ انعام بعد قسم بلا توقف دو معتبر متمول لوگوں کا تحریری ضمانت نامہ لے کر ان کے حوالہ کیا جاوے گا اور اگر چاہیں تو قسم سے پہلے ہی باضابطہ تحریر لے کر یہ رو پیدران کے حوالہ ہوسکتا ہے یا ایسے دو شخصوں کے حوالہ ہو سکتا ہے جن کو وہ پسند کریں اور اگر ہم بشرائط مذکورہ بالا روپیہ دینے سے پہلو تہی کریں تو ہم کا ذب ٹھہریں گے مگر چاہئے کہ ایسی درخواست روز اشاعت سے ایک ہفتہ کے اہندر آوے اور ہم مجاز ہوں گے کہ تین ہفتہ کے اندر کسی تاریخ پر روپیہ لے کر آتھم صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جائیں.لیکن اگر آتھم صاحب کی طرف سے رجسٹر شدہ خط آنے کے بعد ہم تین ہفتہ کے اندر تین ہزار روپیہ نقد لے کر امرتسر یا فیروز پوریا جس جگہ پنجاب کے شہروں میں سے آتھم صاحب فرماویں ان کے پاس حاضر نہ ہوں تو بلا شبہ ہم جھوٹے ہو گئے اور بعد میں ہمیں کوئی حق باقی نہیں رہے گا جو اور انہیں ملزم کریں بلکہ خود ہم ہمیشہ کیلئے ملزم اور مغلوب اور جھوٹے متصور ہوں (ضمیمہ انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ اے ) گے.ناظرین! اس مضمون کو غور سے پڑھو کہ ہم اس سے پہلے تین اشتہار انعامی زرکثیر یعنی اشتہار انعامی ایک ہزار روپیہ اور اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ اور اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ مسٹر عبد اللہ تم صاحب کے قسم کھانے کیلئے شائع کر چکے ہیں اور بار بارلکھ چکے ہیں کہ اگر مسٹر آتھم صاحب ہمارے اس الہام سے منکر ہیں جس میں خدا تعالیٰ
220 کی طرف سے ہم پر یہ ظاہر ہوا کہ آتھم صاحب ایام پیشگوئی میں اس وجہ سے بعذاب الہی فوت نہیں ہو سکے کہ انہوں نے حق کی طرف رجوع کر لیا تو وہ جلسہ عام میں قسم کھالیں کہ یہ بیان سراسر افترا ہے اور اگر افتر انہیں بلکہ حق اور منجانب اللہ ہے اور میں ہی جھوٹ بولتا ہوں تو اے خدائے قادر اس جھوٹ کی سزا مجھ پر یہ نازل کر کہ میں ایک سوال کے اندر سخت عذاب اٹھا کر مر جاؤں غرض یہ قسم ہے جس کا ہم مطالبہ کرتے ہیں اس قسم پر چار ہزار روپیہ بشرایط اشتہار ۹ ستمبر ۱۸۹۴ ء وہ ۲۰ستمبر ۱۸۹۴ ء ان کی 66 نذر کریں گے.(ضمیمہ انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۹۸،۹۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتھم کے علاوہ دیگر عیسائی پادریوں ، مخالف مسلمان علماء ہندو ، آریہ اور سکھوں کو بھی آتھم کو تم پر آمادہ کروانے کا چیلنج دیا.چنانچہ آپ نے فرمایا.بالآخر ہم یہ بھی لکھے ہیں.کہ اگر اب بھی کوئی مولوی مخالف جو اپنی بدبختی سے عیسائی مذہب کا مددگار ہے.یا کوئی عیسائی یا ہند و یا آریہ یا کیسول والا سکھ ہماری فتح نمایاں کا قائل نہ ہو.تو اس کیلئے طریق یہ ہے.کہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو قسم مقدم الذکر کے کھانے پر آمادہ کرے.اور ہزار روپیہ نقدان کو دلا دے جس کے دینے میں ہم ان کے حلف کے بعد ایک منٹ کی توقف کا بھی وعدہ نہیں کرتے.اور اگر ایسا نہ کرے.اور محض اوباشوں اور بازار یبد معاشوں کی طرح ٹھٹھا ہنسی کرتا پھرے تو سمجھا جائے گا کہ وہ شریف نہیں ہے.بلکہ اس کی فطرت میں خلل ہے.“ (ضمیمہ انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱،۴۰) بالآ خر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے بطور پیشگوئی یہ پینچ دیا کہ کسی قیمت پر بھی ڈپٹی عبداللہ آ قم متم نہیں کھائیں گے.چنانچہ فرمایا.سو ہم اشتہار دیتے ہیں کہ فتح مسیح اگر بچے ہیں تو بذریعہ کسی چھپی ہوئی تحریر کے ہم کو
221 اطلاع دیں کہ کس قدر ایسے آدمیوں کے دستخط وہ چاہتے ہیں جو اس بات کا اقرار کرتے ہوں جو حقیقت میں پیشگوئی پوری ہوگئی اور پادری صاحبوں کو شکست آئی.ہم خوب جانتے ہیں کہ اگر چہ دس ہزار مسلمانوں کا بھی یہ تحریری بیان پیش کیا جائے کہ آتھم کے متعلق پیشگوئی سچی نکلی ہے مگر تب بھی آتھم صاحب ہرگز ختم نہیں کھائیں گے.اگر پادری صاحب ملامت کرتے کرتے ان کو ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی میرے مقابل پر قسم کھانے کیلئے ہر گز نہیں آئیں گے.کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.میری سچائی کیلئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہ میں ہر گز قسم نہیں اٹھائیں گے اگر چہ عیسائی ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں...اب ہم منتظر رہیں گے کہ پادری فتح مسیح کی طرف سے کیا جواب آتا ہے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسا جواب نہیں آئے گا جو ایمانداری اور حق پر مبنی ہو.صرف جھوٹا عذر ہو گا جس کی بدبو دور سے آئے گی.والسلام علی من اتبع ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۰۴،۲۰۳) پادری عبد اللہ آتھم ہر کوشش اور حیلہ کے جواب میں قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوا.بلکہ قسم نے کھانے کا یہ عذب پیش کیا کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے.آتھم صاحب سے جب الھدی.قسم کھانے کا باصرار مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے کہا.اگر مجھے قسم دینا ہے تو عدالت میں میری طلبی کرائیے.“ (نورافشاں ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۴ء) اس بیان سے اس کا مقصد یہ تھا کہ بغیر جبر عدالت میں قسم نہیں کھا سکتا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا مفصل جواب دیا کہ حضرت عیسی جانتے تھے کہ قسم کھانا شہادت کی روح ہے.وہ اس کو حرام قرار نہیں دے سکتے تھے.الہی قانون قدرت اور انسانی صحیفہ فطرت اور
222 انسانی کانشنس گواہ ہے کہ قطع خصومات کے لئے انتہائی حد قسم ہے.گورنمنٹ کے تمام عہدیدار قسم کھاتے ہیں پطرس ، پولوس ، اور خود مسیح نے قسم کھائی.فرشتے بھی قسم کھاتے ہیں خدا بھی قسم کھاتا ہے.نبیوں نے بھی قسمیں کھائی ہیں.آپ نے یہ تمام امور حوالہ جات بائیبل اپنی کتاب ضمیمہ انوار الاسلام صفحہ ۱۰۴ تا ۱۱۲ میں لکھے مگر اس کے باوجود آتھم صاحب قسم اٹھانے کیلئے تیار نہ ہوئے.جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ بعض مخالف علماء اسلام نے بھی عیسائیوں کے ساتھ مل کر پیشگوئی کے جھوٹا ہونے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا.ان میں سے ایک مولوی محمد حسین بٹالوی بھی شامل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب آتھم کو قسم کھانے کا چیلنج دیا تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے آتھم کی وکالت کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ عیسائی مذہب میں قسم کھانا منع ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اگر میاں محمد حسین بٹالوی آتھم صاحب کی وکالت کر کے یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ عیسائی مذہب میں قسم کھانا منع ہے تو اس پر واجب ہے کہ اب عیسائیوں کے مددگار بن کر اپنی اس ہذیان کا پورا پورا ثبوت دیں اور اس اشتہار کا رولکھا ئیں اور بجز اس کے اور کیا کہیں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.“ (ضمیمہ انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۱۵ ح ) بعض معترضین نے کہا ہو سکتا ہے کہ ایک برس میں انہوں نے مر ہی جانا ہو.آپ نے اس کے جواب میں فرمایا.اب تو خداؤں کی لڑائی ہے.یہ شک ٹھیک نہیں کہ شاید برس میں مرنا ممکن ہے.اگر اسی طرح کی قسم راستی کی آزمائش کیلئے ہم کو دی جائے تو ہم ایک برس کیا دس برس تک زندہ رہنے کی قسم کھا سکتے ہیں.کیونکہ دینی بحث کے وقت ضرور خدا تعالیٰ ہماری مدد
کرے گا.“ 223 چنانچہ اس کے باوجود آتھم صاحب نے قسم نہ کھائی اور آخری چار ہزار روپیہ پرمبنی انعامی اشتہار سے چھ ماہ بعد ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو فیروز پور کے مقام پر فوت ہو گیا.آتھم کی موت کے بعد حضور نے اپنے تمام مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.مگر تاہم اگر اب تک کسی عیسائی کو آتھم کس اس افتر ا پر شک ہو تو آسمانی شہادت سے رفع شک کرا لیوے.آتھم تو پیشگوئی کے مطابق فوت ہو گیا.اب وہ اپنے تئیں اس کا قائم مقام ٹھہرا کر آتھم کے مقدمہ میں قسم کھا لیوے.اس مضمون سے کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا بلکہ اس پر یہ چار حملے ہوئے تھے.اگر یہ قسم کھانے والا بھی ایک سال تک بچ گیا تو دیکھو میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے شائع کر دوں گا.کہ میری پیشگوئی غلط نکلی.اس قسم کے ساتھ کوئی شرط نہ ہوگی.یہ نہاتی صاف فیصلہ ہو جائے گا.اور جو شخص خدا کے نزدیک باطل پر ہے اس کا بطلان کھل جائے گا.“ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۱۵) فرمایا.میں یقینا جانتا ہوں کہ اگر کوئی میرے سامنے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اس پیشگوئی کے صدق سے انکار کرے تو خدا تعالیٰ اس کو بغیر سز انہیں چھوڑے گا خدا اس کو ذلیل کرے گا.روسیاہ کرے گا.اور لعنت کی موت سے اس کو ہلاک کرے گا کیونکہ اس نے سچائی کو چھپانا چاہا.جو دین اسلام کے لئے خدا کے حکم اور ارادہ سے زمین پر ظاہر ہوئی.مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہرگز نہیں.کیونکہ یہ جھوٹے ہیں.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۰۹،۲۰۸) ”اور اگر تو تکذیب سے باز نہیں آتا اور خیال کرتا ہے کہ فتح نصاری کے لئے ہوئی نہ
224 اسلام کیلئے.پس تیرے پر لازم ہے کہ تو جناب باری تعالیٰ کی قسم کھا جائے اور قسم کھا کر کہے کہ اس مقدمہ میں حق نصاری کے ساتھ ہے اور خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ آسمان سے تیرے پر ذلت کو مار نازل کرے.اگر حقیقت امر خلاف واقعہ ہو پس اگر بعد اس کے ایک برس تک تجھ کو ذلت اگور رسوائی نہ ہوئی.پس میں اقرار کرلوں گا کہ میں جھوٹا ہوں اور تجھ کو امام کی طرح جانوں گا اور اگر تو قسم نہ کھائیا اور نہ باز آئے پس تجھ پر لعنت اے دشمن اسلام ! “ (حجۃ اللہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۰۹،۲۰۸) ان تمام چیلنجوں کے باوجود کوئی شخص مرد میدان بن کر سامنے نہ آیا.نہ عیسائیوں میں سے اور نہ ہی معاند اور مکفر مولویوں میں سے.اور اس طرح ایک رنگ میں سب دشمنوں پر آپ نے حجت پوری کر دی.آتھم کے بارہ میں پیشگوئی کے متعلق مسلمان علماء کو دیئے گئے چیلنج پادری عبداللہ آتھم والی پیشگوئی وعیدی ہونے کی وجہ سے تو بہ کے نتیجہ میں ٹل گئی جس پر منکرین نے پیشگوئی کے پورا نہ ہونے کا شور مچایا تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالف علماء کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اس عادت اللہ سے تو سارا قرآن اور پہلی سماوی کتا بیں بھری ہوئیں ہیں کہ عذاب کی پیشگوئیوں کی میعاد تو بہ اور استغفار سے اور حق کی عظمت کا خوف اپنے دل پر ڈالنے سے ملتی رہی ہے جیسا کہ یونس نبی کا قصہ ہی اس پر شاہد ہے جن کی قوم کو قطعی طور پر بغیر بیان کسی شرط کے چالیس دن کی میعاد بتلائی گئی تھی لیکن حضرت آدم سے لے کر ہمارے نبی صلعم تک ایسی کوئی نظیر کسی نبی کے عہد میں نہیں جلے گی اور نہ کسی ربانی کتاب میں اس کا پتہ ملے گا کہ سکی شخص یا کسی قوم نے عذاب کی خبر سن کر اور اس کی میعاد سے مطلع ہو کر قبل نزول عذاب تو بہ اور خوف الہی کی طرف رجوع کیا ہو اور
225 پھر بھی ان پر پتھر بر سے ہوں یا اور کسی عذاب سے وہ ہلاک کئے گئے ہوں اور اگر کسی کی نظر میں کوئی بھی نظیر ہو تو پیش کرے اور یاد رکھے کہ وہ ہرگز کسی ربانی کتاب سے پیش نہیں کر سکتے گا.پس ناحق ایک متفق علیہا صداقت سے انکار کر کے اپنے تئیں جہنم کا ایندھن نہ بناویں.منہ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۰ ح ) فرمایا.اگر وہ کسی طرح اپنی بے ایمانی اور یاوہ گوئی سے باز نہ آویں تو ہم ان میں سے شیخ محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی ثم امرتسری اور مولوی رشیدہ احمد گنگوہی کو اس فیصلہ کیلئے منتخب کرتے ہیں کہ اگر وہ تینوں یا ان میں سے کوئی ایک ہمارے اس بیان کا منکر ہو اور اس کا یہ دعوی ہو کہ کہ کوئی ایسی الہامی پیشگوئی عذاب موت کیلئے کوئی تاریخ مقر ر کئی گئی ہو اس تاریخ کے بارے میں کدا تعالی کا یہ قانون قدرت قدیمہ نہیں ہے کہ وہ ایسے شخص یا ایسی قوم کی تو بہ یا خائف اور ہراساں ہونے سے جن کی نسبت وہ وعدہ عذاب ہے دوسرے وقت میں جا پڑے تو طریق فیصلہ یہ ہے کہ وہ ایک تاریخ مقرر کر کے جلسہ عام میں اس بارہ میں نصوص صریح کتاب اللہ اور احادیث نبویہ اور کتب سابقہ کی ہم سے سنیں اور صرف دو گھنٹہ تک ہمیں مہلت دیں تا ہم کتاب اور سنت اور پہلی سماوی کتابوں کے دلائل شافیہ اپنی تائید دعوی میں ان کے سامنے پیس کر دیں.پھر اگر وہ قبول کر لیں تو چاہئے کہ حیا اور شرم کر کے آئندہ ایسی پیشگوئیوں کی تکذیب نہ کریں بلکہ خود مؤید اور مصدق ہو کر دوسرے منکروں کو سمجھاتے رہیں اور خدا تعالی سے درمیں اور قومی کا طریق خا تیار کریں اور اگر ان نصوص اور دلائل سے منکر ہوں اور ان کا یہ خیال ہو کہ یہ دعوی نصوص صریحہ سے ثابت نہیں ہو سکا اور جو دلائل بیان کئے گئے ہیں وہ باطل ہیں تو ہم ان کیلئے دوسور و پیہ نقد کا انعام مقرر کرتے ہیں
226 کہ وہ اسی جلسہ میں تین مرتبہ بدیں الفاظ قسم کھائیں کہ اے خدا قادر ذوالجلال جو جھوٹوں کو سزا دیتا اور بچوں کی حمایت کرتا ہے میں تیری ذات کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ جو کچھ دلائل پیش کئے گئے وہ سب باطل ہیں اور تیری ہرگز یہ عادت نہیں کہ عذاب کے وعدوں اور میعادوں میں کسی کی تو بہ یا خائف اور حراساں ہونے سے تاخیر کر دے بلکہ ایسی پیشگوئی سراسر جھوٹ ہے یا شیطانی ہے اور ہرگز تیری طرف سے نہیں.اور اے قادر خدا اگر تو جانتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے اور حق کے برخلاف کہا ہے تو مجھے ذلت اور دکھ کے عذاب سے ہلاک کر اور جس کی میں نے تکذیب کی ہے اس کو میری ذلت اور میری تباہی اور میری موت دکھا دے اور اس دعا کے ساتھ ہر یک دفعہ ہم آمین کہیں گے اور تین مرتبہ دعا ہوگی اور تین مرتبہ ہی آمین اور بعد اس کے توقف اس قسم کھانے والے کو دوسور و پیہ نقد دیا جائے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۹،۴۸) مولوی سعد اللہ لدھیانوی نے اپنے ایک اشتہار میں لکھا کہ صرف دل میں حق کی عظمت کو ماننا اور اپنے عقائد باطلہ کو غلط سمجھنا کسی طرح عمل خیر نہیں بن سکتا.یہ مرزا صاحب کا ہی کام ہے کہ اس کا نام رجوع حق رکھتے ہیں.اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا.اے احمق دل کے اندھے دجال تو تو ہی ہے جو قرآن کریم کے برخلاف بیان کرتا ہے اور نیز اپنی قدیم بے ایمانی سے ہمارے بیان کو محرف کر کے لکھتا ہے ہم نے کب اور کس وقت کہا جو الیس رجوع جو خوف کے وقت میں ہوا اور پھر انسان اس سے پھر جائے نجات اخروی کیلئے مفید ہے بلکہ ہم تو بار بار کہتے ہیں کہ ایس ارجوع نجات اخروی کے لئے ہرگز مفید نہیں اور ہم نے کب آتھم نجاست خور مشرک کو بہشتی قرار دیا ہے یہ تو سراسر تیرا ہی افترا اور بے ایمانی ہے.ہم نے تو قرآن کریم کی تعلیم کے
227 موافق صرف یہ بیان کیا تھا کہ کوئی کافر اور فاسق جب عذاب کے اندیشہ سے عظمت اور صداقت اسلام کا خف اپنے دل میں ڈال لے اور اپنی شوخیوں اور بے باکیوں کی کسی قدر رجوع کے ساتھ اصلاح کرلے تو خدا تعالٰی وعدہ عذاب دنیوی میں تاخیر ڈال دیتا ہے یہی تعلیم سارے قرآن میں موجود ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ کفار کا قول ذکر کر کے فرماتا ہے ربنا اكشف عنا العذاب انا مومنون.( الدخان: ۱۳) اور پھر جواب میں فرماتا ہے انا کاشفوا العذاب قليلا انكم عائدون.(الدخان: ۱۶ ) سورة الدخان الجز ونمبر ۲۵ یعنی کا فر عذاب کے وقت کہیں گے کہ اے خدا ہم سے عذاب دفع کر کہ ہم ایمان لائے اور ہم تھوڑ اسا یا تھوڑی مدت تک عذاب دور کر دیں گے مگر تم اے کا فرو پھر کفر کی طرف عود کرو گے.پس ان آیات سے اور ایسا ہی ان آیتوں سے جن میں قریب الغرق کشتیوں کا ذکر ہے صریح منطوق قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب دنیوی ایسے کافروں کے سر پر سے ٹل جاتا ہے جو خوف کے دنوں اور وقتوں میں حق اور توحید کی طرف رجوع کریں گوامن پا کر پھر بے ایمان ہو جا ئیں بھلا اگر ہمارا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو اپنے معلوم شیخ بٹالوی کو کہو کہ قسم کھا کر بذریعہ تحریر یہ ظاہر کرے کہ ہمارا یہ بیان غلط ہے کیونکہ تم تو دجال ہو تو م ہرگز نہیں سمجھو گے اور وہ سمجھ لے گا اور یاد رکھو کہ وہ ہر گرفتم نہیں کھائے گا کیونکہ ہمارے بیان میں سچائی کا نور دیکھے گا اور قرآن کے مطابق پائے گا پس اب بتلا کیا دجال تیرا ہی نام ثابت ہوا یا کسی اور کا حق سے لڑتارہ آخراے مردارد یکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا (ضمیمہ انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۸۵)
228 لیکھرام کی ہلاکت کے متعلق پیشگوئی کے بارہ میں چیلنج لیکھرام پشاوری آریہ سماج کا ایک بہت تیز زبان اور شوخ طبیعت پنڈت تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بدگوئی میں تمام آریہ پنڈتوں سے بڑھا ہوا تھا اور قرآن کریم کی آیات کے ایسے ایسے گندے ترجمے شائع کرتا تھا کہ ان کو پڑھنا بھی کسی شریف آدمی کیلئے مشکل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۱۸۸۵ء میں غیر مسلموں کو اسلام کی صداقت کیلئے نشان نمائی کی دعوت دی تو لیکھرام بھی مقابلہ کیلئے آیا.مگر چند روز مخالفوں کے پاس رہ کر واپس چلا گیا.اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر پیشگوئی مصلح موعود شائع فرمائی تو لیکھرام نے بھی اس کے بالمقابل حضرت اقدس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ.شخص تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائے گا کیونکہ (نعوذ باللہ ) کذاب ہے.“ نیز یہ بھی لکھا کہ.دو تین سال کے اندر اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس کی ذریت میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا.“ ( تکذیب براہین احمدیہ حصہ دوم.بحوالہ کلیات آریہ مسافر ۱۶۰) لیکھرام کی اس پیشگوئی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکھرام کو دعوت دیتے ہوئے فیصلہ کا درج ذیل طریق پیش فرمایا.”ہند و روشن چشم جو اس الہی کا روبار کا نام فریب رکھ رہا ہے اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ ہر چند اب ہمیں فرصت نہیں کہ بالمواجہ آزمائش کے لئے ہر روز نئے نئے اشتہار جاری کریں.اور خود رسالہ سراج منیر نے ان متفرق کارروائیوں سے ہمیں مستغنی کر دیا ہے لیکن چوکہ اس وزد منش کی رو بہ بازیوں کا تدارک از بس ضروری ہے
229 جو مدت سے برقع ہیں اپنا مونہ چھپا کر کبھی اپنے اشتہاروں میں ہمیں گالیاں دیتا ہے کبھی ہم پر تہمتیں لگاتا ہے اور فریبوں کی طرف نسبت دیتا ہے.اور کبھی ہمیں مفلس بے زر قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ کس کے پاس مقابلہ کے لئے جاویں وہ تو کچھ بھی جائداد نہیں رکھتا.ہمیں کیا دے گا.کبھی ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور اپنے - اشتہاروں میں ۲۷.جولائی ۱۸۸۶ء سے تین برس تک ہماری زندگی کا خاتمہ بتلاتا ہے.ایسا ہی ایک بیرنگ خط میں بھی جو کسی انجان کے ہاتھ سے لکھایا گیا ہے جان سے مار دینے کے لئے ہمیں ڈراتا ہے.لہذا ہم بعد اس دعا کے کہ یا الہی تو اس کا اور ہمارا فیصلہ کر.اس کے نام یہ اعلان جاری کرتے ہیں.اور خاص اسی کو اس آزمائش کے لئے بلاتے ہیں کہ اب برقع سے مونہہ نکال کر ہمارے سامنے آوے اور اپنا نام و نشان بتلاوے اور پہلے چند اخباروں میں شرائط متذکرہ ذیل پر اپنا آزمائش کے لئے ہمارے پاس آنا شائع کر کے اور پھر بعد تحریری قرار داد چالیس دن تک امتحان کے لئے ہماری صحبت میں رہے.اگر اس مدت تک کوئی ایسی الہامی پیشگوئی ظہور میں آگئی جس کے مقابلہ سے وہ عاجز رہ جائے تو اسی جگہ اپنی لمبی چوٹی کٹا کر اور رشتہ ہے سودز نارکو تو ڑ کر اس پاک جماعت میں داخل ہو جائے جولا الہ الا اللہ کی توحید سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل رہبری سے گم گشتگان باد یہ شرک و بدعت کو صراط مستقیم کی شاہ راہ پر لاتے جاتے ہیں پھر دیکھے کہ بے انتہا قدرتوں اور طاقتوں کے مالک نے کیسے ایک دم میں اندرونی آلائشوں سے اسے صاف کر دیا ہے اور کیونکر نجاست بھرا ہوالتہ ایک صاف اور پاک پیرایہ کی صورت میں آ گیا ہے لیکن اگر کوئی پیش گوئی اس چالیس دن کے عرصہ میں ظہور میں نہ آئے تو چالیس دن کے حرجانہ میں سورو پیر یا جس قدر کوئی ماہواری تنخواہ سرکار انگریزی میں پاچکا ہو اس کا دو چند ہم سے
230 لے لے.اور پھر ایک وجہ معقول کے ساتھ تمام جہان میں ہماری نسبت منادی کرا دے کہ آزمائش کے بعد میں نے اس کو فریبی اور جھوٹ پایا یکم اپریل ۱۸۸۷ء سے اخیر مئی ۱۸۸۷ء تک اسے مہلت ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ اس کے اطمینان کے لئے روپیہ کی برہمو صاحب کے پاس رکھا جائے گا جو دونوں فریق کے لئے بطور ثالث ہیں اور وہ بر ہموصاحب ہمارے جھوٹا نکلنے کی حالت میں خود اپنے اختیار سے جو پہلے بذریعہ تحریر خاص ان کو دیا جائے گا اس آریہ فتح یاب کے حوالہ کر دیں گے.اور اگر اب بھی روپیہ لینے میں دھڑ کا ہو تو اس عمدہ تدبیر پر کہ خود آریہ صاحب سوچیں عمل کیا جائے گا.(سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۷۵،۳۷۴) مگر اس دعوت کو لیکھرام نے قبول نہ کیا اور مخالفت میں بڑھنا شروع کر دیا.جب لیکھر ام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت استہزاء میں حد سے بڑھ گیا اور بار بارنشان طلب کرنا شروع کر دیا تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کی جس میں آپ کو لیکھرام کی ہلاکت سے متعلق بتایا گیا.اس پیشگوئی کے شائع کرنے سے پہلے آپ نے لیکھرام سے دریافت کیا کہ اگر اس پیشگوئی کے شائع کرنے سے اس کو رنج پہنچے تو اس پیشگوئی کو شائع نہ کیا جائے.مگر اس نے اس کے جواب میں یہی لکھا کہ اس آپ کی پیشگوئیوں سے کچھ خوف نہیں آپ بے شک شائع کر دیں مگر چونکہ پیشگوئی میں وقت کی تعیین نہ تھی اور لیکھر ام وقت کی تعیین کا مطالبہ کرتا تھا اس لئے آپ نے پیشگوئی کے شائع کرنے میں اس وقت تک توقف کیا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت معلوم نہ ہو گیا.آخر اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر کہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے چھ برس کے اندرلیکھر ام پر ایک دردناک عذاب آئے گا جس کا نتیجہ موت ہوگی یہ پیشگوئی شائع کر دی.ساتھ ہی عربی زبان میں یہ الہام بھی شائع کیا جولیکھرام کی نسبت تھا یعنی عجل جسد له خوار له نصب و عذاب آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵
231 صفحہ ۶۵۰) یعنی یہ شخص گوسالہ سامری کی طرح ایک بچھڑا ہے جو یو نبی شور مچاتا ہے ورنہ اس میں روحانی زندگی کا کچھ حصہ نہیں.اس پر ایک بلا نازل ہوگی اور عذاب آئے گا.اس کے بعد آپ نے لکھا کہ اب میں تمام فرقہ ہائے مذاہب پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے یعنی ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے بالا اور خارق عادت اور اپنے اندر ہی ہیت رکھتا ہوتو سمجھو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.اس اعلان کے پانچویں سال جیسا کہ ایک الہام میں بتایا گیا تھا.یقضی امرہ فی ست یعنی پنڈت لیکھرام کا معاملہ چھ سال میں ختم ہو جائے گا کے مطابق پنڈت لیکھرام عیدالفطر کے دوسرے دن ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو شام کے چھ بجے پیشگوئی کے مطابق قتل کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی صداقت کیلئے ایک نشان ٹھہرا اور ان کیلئے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف گندہ دہانی کرتے ہیں موجب عبرت بنا.اور اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی اپنی طرف سے نہیں بلکہ علام الغیوب خدا کی طرف سے تھی.پنڈت لیکھرام چونکہ آریہ قوم کے ایک مشہور لیڈر تھے اور حضرت اقدس کی پیشگوئی کا بھی گھر گھر چر چا تھا لہذا جب پنڈت صاحب قتل ہوئے تو ملک میں طول وعرض میں شور پڑ گیا.ہند و اخبارات میں اس واقعہ قتل کو کھلم کھلا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سازش کا نتیجہ قرار دیا گیا.آپ کو قتل کی دھمکیوں پر مشتمل گمنام خطوط لکھے گئے.خفیہ انجمنوں میں قاتل کی نشاندہی کرنے پر والے کیلئے بڑی بڑی رقمیں مقرر کی گئیں.مگر اس قتل کا سراغ نہ ملنا تھا نہ ملا.اور حضرت اقدس کی حفاظت کا تو اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لے چکا تھا جیسا کہ آپ کے الہام واللہ یعصمک من الناس سے ظاہر ہے.یعنی اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا.
232 جب ہندوؤں کی کوئی تدبیر بھی کارگر ثابت نہ ہوئی تو انہوں نے حکومت پر زوردائی کہ آپ کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ چلایا جائے.چنانچہ گورنمنٹ کے مشہور اور ماہر سراغرساں اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقرر ہوئے.لاہور اور امرتسر کے معزز مہمانوں کی تلاشیاں لی گئیں.۱۸ را پریل ۱۸۹۷ء کو مسٹر لیمار چنڈ ایس پی گورداسپور اور میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر متعینہ بٹالہ نے پولیس کی ایک مختصر جمعیت کے ساتھ آپ کے گھر کی تلاشی لی لیکن نتیجہ یہی نکلا کہ آپ اور آپ کی جماعت کو اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں.آریہ پریس اور آریہ لیڈ ر چونکہ آپ کو ہی ذمہ دار سمجھتے تھے اس لئے آپ نے لیکھرام کی موت کے متعلق آریوں کے خیالات“ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپ کو سازش قتل میں شریک سمجھنے والے کو یہ چیلنج دیا کہ.اور اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہوسکتا.اور مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ < میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ میچ نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو.مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو.اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کیلئے ہونی چاہئے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے.یہ طریق نہایت سادہ اور راستی کا فیصلہ ہے شاید اس طریق سے ہمارے مخالف مولویوں کو بھی فائدہ پہنچے.میں نے سچے دل سے یہ لکھا ہے مگر یادر ہے کہ ایسی آزمائش کرنے والا
233 خود قادیان میں آوے اس کا کرایہ میرے ذمہ ہوگا.جانبین کی تحریرات چھپ جائیں گی.اگر خدا نے اس کو ایسے عذاب سے ہلاک نہ کیا جس میں انسان کے ہاتھوں کی آمیزش نہ ہو تو میں کا ذب ٹھہروں گا.اور تمام دنیا گواہ رہے.کہ اس صورت میں اسی سزا کے لائق ٹھہروں گا.جو مجرم قتل کو دینی چاہئے میں اس جگہ سے دوسرے مقام نہیں جاسکتا.مقابلہ کرنے والے کو آپ آنا چاہئے.مگر مقابلہ کرنے والا ایک ایسا شخص ہو جو دل کا بہت بہادر اور جوان اور مضبوط ہو.اب بعد اس کے سخت بے حیائی ہوگی کہ کوئی غائبانہ میرے پر ایسے ناپاک شبہات کرے.میں نے طریق فیصلہ آگے رکھ دیا ہے.اگر میں اس کے بعد روگردان ہو جاؤں تو مجھ پر خدا کی لعنت.اور اگر کوئی اعتراض کرنے والا بہتانوں سے باز نہ آوے اور اس طریق فیصلہ سے طالب تحقیق نہ ہو تو اس پر لعنت“ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۹) رد عمل رو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا دعوت قسم کے مقابلہ میں اور تو کسی کو جرات نہ ہوئی کہ ایسی قسم کھاوے البتہ آریہ قوم میں سے ایک شخص گنگا بشن نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں مگر اس کے لئے انہوں نے تین شرطیں لگا دیں.اول یہ کہ اگر پیشگوئی پوری نہ ہوئی تو (نعوذ باللہ من ذلک ) حضرت اقدس کو پھانسی کی سزا دی جائے.دوم.یہ کہ ان کے لئے یعنی لالہ گنگا بشن کیلئے دس ہزار روپیہ گورنمنٹ میں جمع کروایا جائے.یا ایسے بنک میں جس میں ان کی تسلی ہو سکے اور وہ بددعا سے نہ مریں تو ان کو وہ رو پھیل جائے.سوم.یہ کہ جب وہ قادیان میں قسم کھانے کیلئے آویں تو اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ لیکھرام کی طرح نہ کئے جائیں.
234 لالہ گنگا رام صاحب کی ان شرطوں کو حضرت اقدس نے منظور فرماتے ہوئے لکھا کہ لالہ گنگا بشن کو چاہئے کہ وہ ان الفاظ میں قسم کھاویں کہ.ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں جس میں آریہ بوں کے خیالات لیکھرام کی موت کی نسبت لکھے گئے تھے دوسرے صفحہ کے دوسرے کالم میں لکھا تھا کہ اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہوسکتا اور میری نسبت یقین رکھتا ہے کہ گویا میں سازش قتل میں شریک ہوں تو ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک ہے اور اگر شیک نہیں تو ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل ہو جو ہیبت ناک ہو.مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو.اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک ایسے عذاب سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں گا اور اس سزا کے لائق جو ایک قاتل کو ہونی چاہئے.اس اشتہار کے بعد ایک صاحب گنگا بشن نام نے اخبار سماچار مطبوعہ ۱/۳ اپریل ۱۸۹۷ء کے ذریعہ سے قسم کھانے کے لئے اپنے تئیں مستعد ظاہر کیا ور صاف طور پر اقرار کر دیا کہ حسب منشاء اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے کے لئے طیار ہوں بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ میری قسم سے آئندہ کوئی آپ کے سامنے کھڑا نہیں ہوگا.یعنی تمام مخالف قو میں لاجواب ہو جائیں گی.مگر اپنی طرف سے یہ زائد شرط لگا دی کہ میں اس صورت میں قسم کھاؤں گا کہ دس ہزار روپیہ میرے لئے جمع کر دیا جائے.اس تصریح سے کہ اگر میں زندہ رہا تو اس روپیہ کا میں حق دار ہوں گا.سو ہم نے اس نئی شرط کو بھی جو ہمارے اشتہار کے منشاء سے زائد تھی اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ لالہ گنگا بشن اس مفصلہ ذیل مضمون کی قسم بذریعہ کسی مشہور اخبار کے شائع
235 کریں اور نیز قادیان میں آکر بالموجہ بھی میرا نام لے کر یہ قسم کھاویں کہ در حقیقت لیکھرام کے قتل میں اس شخص کی شراکت ہے اور اس کی خفیہ سازش سے اس کی موت ہوئی ہے اور اگر یہ میچ نہیں ہے تو ایک سال تک مجھ کو وہ موت آوے جس میں انسان کے منصوبہ کا دخل نہ ہو.اور ایسا ہی اخبار کے ذریعہ سے اور نیز بالموجہ بھی یہ اقرار کریں کہ اگر میں ایک سال کے اندر حسب منشق ء اس قسم کے مر گیا تو میرا مرنا اس بات پر گواہی ہوگا کہ در حقیقت لیکھرام خدا کے غضب سے اور پیشگوئی کے موافق ہلاک ہوا ہے اور نیز اس بات پر گواہی ہوگی کی درحقیقت دین اسلام ہی سچا دین ہے اور باقی تمام مذاہب جیسا کہ آریہ مت سناتن دھرم اور عیسائی وغیرہ سب بگڑے ہوئے عقیدے ہیں.اس پر لالہ بشن صاحب ضمیمہ بھارت سدھا را ارا پریل ۱۸۹۷ء اور ہمدرد ہندو ۱۲ اپریل ۱۸۹۷ء میں یہ فضول عذر شائع کرتے ہیں کہ یہ شرط اشتہار ۱۵ را پریل ۱۸۹۷ء میں موجود نہیں تھی.لہذا ہم ان کو اطلاع دیت یہیں کہ اول تو خود تم نے ہمارے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء کی پابندی اختیار نہیں کی اور اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ جمع کرانے کی شرط زیادہ کر دی.جس پر ہمارا حق تھا کہ ہم بھی تمہاری اس قدر ترمیم پر جس قدر چاہتے پہلے اشتہار کی ترمیم کرتے اور یہ ایک سیدھی بات ہے کہ آپ نے ہمارے اشتہار کے منشاء سے آگے قدم رکھ کر ایک نئی شرط اپنے فائدہ کے لئے زیادہ کر دی.اس لئے ہمارا بھی حق تھا کہ ہم بھی نئی شرط کے مقابل پر جس قدر چاہیں بڑھا دیں.“ مجوعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۸۶،۳۸۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب لالہ گنگا رام صاحب کی تینوں شرطوں کو منظور فرما لیا اور قسم کے الفاظ بھی تحریر کر دیئے تو لالہ گنگا بشن صاحب نے ”ہمدرد ہندو لا ہور ۱۲.اپریل میں ایک اور شرط کا اضافہ کر دیا اور وہ یہ کہ جب مرزا صاحب (نعوذ باللہ ) جھوٹا ہونے کی صورت میں
236 پھانسی کی سزا سے مارے جائیں گے تو ان کی لاش مجھے مل جائے اور پھر وہ اس لاش سے جو چاہیں کریں جلادین دریا برد کریں یا اور کارروائی کریں.چنانچہ اس شرط کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا:.یہ شرط بھی مجھے منظور ہے اور میرے نزدیک بھی جھوٹے کی لاش ہر ایک ذلت کے لائق ہے اور یہ شرط در حقیت نہایت ضروری تھی جو لالہ گنگا رام صاحب کو عین موقعہ پر یاد آ گئی لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں.اور وہ یہ ہے کہ جب گنگا بشن رام صاحب حسب منشاء پیشگوئی مر جائیں تو ان کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشان فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے اور ہم اس لاش کو ضائع نہیں کریں گے بلکہ بطور نشان فتح مناسب مصالحوں کے ساتھ محفوظ رکھ کر عام منظر میں یا لا ہور کے عجائب گھر میں رکھا دیں گے لیکن چونکہ لاش کے وصول پانے کے لئے ابھی سے کوئی احسن انتظام چاہئے لہذا اس سے زیادہ کوئی انتظام احسن معلوم نہیں ہوتا کہ پنڈت لیکھرام کی یادگار کے لئے جو پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہوا ہے اس میں سے دس ہزار روپیہ بطور ضمانت لاش ضبط ہوکر سرکاری بنک میں جمع رہے اور کاغذات خزانہ میں یہ لکھوا دیا جائے اگر ایک سال کے اندرگنگا رام فوت ہو گیا اور اس کی لاش ہمارے حوالہ نہ کی گئی تو بعوض اس کے بطور قیمت لاش یا تاوان عدم حوالگی لاش دس ہزار روپیہ ہمارے حوالہ کر دیا جائے گا اور ایسے اقرار کی ایک نقل معہ دستخط عہدہ دار افسر خزانہ کے مجھے بھی ملنی چاہئے.“ از اشتہار ۱۶ اپریل ۱۸۹۷ء مجوعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۹۱ ۹۲) حضرت اقدس کی اس شرط کے جواب میں لالہ گنگا بشن صاحب نے لکھا کہ:.میں آریہ سماج کا نمبر نہیں تا وہ اس قدر میرے لئے ہمدردی کر سکیں کہ دس ہزار روپیہ
237 66 جمع کرا دیں.( از اشتہار ۲۷ /۱ اپریل ۱۸۹۷ء مجوعہ اشتہارات جلد۲) حضرت اقدس نے جواباً لکھا کہ:.یادر ہے کہ گنگا بشن صاحب کو دس ہزار روپیہ جمع کرانا کچھ بھی مشکل نہیں کیونکہ گر آریہ صاحبوں کی بھی درحقیقت یہی رائے ہے کہ لیکھرام کا قاتل در حقیقت یہی راقم ہے اور وہ یقین دل سے جانتے ہیں کہ الہام اور مکالمہ الہی سب جھوٹی باتیں ہیں بلکہ اس راقم کی سازش سے وقوعہ قتل ظہور میں آیا ہے تو بشوق دل لالہ گنگا بشن کو مدد دیں گے اور دس ہزار کیا پچاس ہزار تک جمع کرا سکتے ہیں اور وہ یہ بھی انتظام کر سکتے ہیں کہ جو دس ہزار روپیہ مجھ سے لیا جائے وہ آریہ سماج کے نیک کاموں میں خرچ ہو گا تو اب آریہ صاحبوں کا اس بات میں کیا حرج ہے کہ بطور ضمانت دس ہزار روپیہ جمع کرا دیں بلکہ یہ تو ایک مفت کی تجارت ہے جس میں کسی قسم کا دھڑ کا نہیں.اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ گورنمنٹ کو معلوم رہے گا کہ آریہ قوم کی رضامندی سے یہ معاملہ وقوع میں آیا ہے اور نیز اس اعلی نشان سے روز کے جھگڑے طے ہو جائیں گے.اور اگر یہ حالت ہے کہ آریہ قوم کے معزز لالہ گنگا گشن کو اس رائے میں کہ یہ عاجز لیکھرام کا قاتل ہے جھوٹا سمجھتے ہیں...تو پھر مجھے کونسی ضرورت ہے کہ ایسے شخص کے مقابلہ کا فکر کروں جس کو پہلے سے اس کی قوم ہی جھوٹا تسلیم کر چکی ہے.“ آخر میں حضور نے لکھا کہ اگر لالہ گنگا بشن کو ہماری یہ شرط منظور نہیں تو آئندہ ان کو ہرگز جواب نہیں دیا جائے گا اور ان کے مقابل پر یہ ہمارا آخری اشتہار ہے.“ از اشتہار ۲۷ را پریل ۱۸۹۷ء مجوعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۰۲۱۰۱) حضرت اقدس کے اس اشتہار کے بعد لالہ گنگا بشن صاحب بالکل خاموش ہو گئے.
238 مولوی محمد حسین بٹالوی کو دعوت قسم مولوی محمد حسین بٹالوی اس موقعہ پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرنے سے نہیں چوکے.انہوں نے تحریراً اور تقریر یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.اس پر حضرت اقدس نے لکھا کہ.مولوی محمد حسین صاحب اگر سچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی لیکھرام والی جھوٹی نکلی تو انہیں مخالفانہ تحریر کیلئے تکلیف اٹھانے کی کچھ ضرورت نہیں.ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر وہ جلسہ عام میں میرے روبرو یہ قسم کھائیں کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی اور نہ بچی نکلی اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور فی الواقعہ پوری ہوئی ہے تو اسے قادر مطلق ایک سال کے اندر میرے پر کوئی عذاب شدید نازل کر “ پھر اگر مولوی صاحب موصوف اس عذاب شدید سے ایک سال تک بچ گئے تو ہم اپنے تئیں جھوٹا سمجھ لیں گے اور مولوی صاحب کے ہاتھ پر تو بہ کریں گے اور جس قدر کتا بیں ہمارے پاس اس بارہ میں ہوں گی جلا دیں گے اور اگر وہ اب بھی گریز کریں تو اہل اسلام سمجھ لیں کہ ان کی کیا حالت ہے اور کہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے.( از اشتہار ۲۷ را پریل ۱۸۹۷ء مجوعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۸۱ ح) اس اشتہار کی اشاعت کے بعد مولوی صاحب موصوف نے بھی چند نا معقول اور لایعنی عذرات پیش کر کے خاموشی اختیار کر لی.لیکھرام کے متعلق پیشگوئی پر ہونے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ لیکھرام کی پیشگوئی میں اس کے قتل ہونے کی تصریح نہیں.اس اعتراض کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا."لعنة الله على الكاذبين.آؤ ہمارے روبرو ہماری کتابیں دیکھو جن میں متفرق
239 مقامات میں یہ پیشگوئی درج ہے.پھر اگر تصریح ثابت نہ ہو تو اسی جلسہ میں آپ کو دو سورو پیر انعام دیا جائے گا.(ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۱۸) لیکھرام کا قتل اور ہندؤں کی مذموم حرکات اس زمانہ میں دودھ ، دہی اور مٹھائی کی دوکانیں صرف ہندوؤں کی ہوتی تھیں.اس واقعہ کی وجہ سے بعض ہند و دوکانداروں نے مسلمان بچوں کو مٹھائی میں زہر ملا کر دے دیا.اس سے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے دودھ ، دہی اور مٹھائی کی دوکا نہیں کھولنا شروع کر دیں.حضرت مصلح موعود کے متعلق پیشگوئی فرمایا: چونکہ اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰ جنوری ۱۸۸۶ء پر جس میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح ہے جو بہ صفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا.دو شخص سکنہ قادیان یعنی حافظ سلطانی کشمیری وصابر علی نے رو بروئے مرزانوب بیگ ومیاں شمس الدین و مرزا غلام علی ساکنان قادیان یہ دروغ بے فروغ بر پا کیا ہے کہ ہماری دانست میں عرصہ ڈیڑھ ماہ سے صاحب مشتہر کے گھر میں لڑکا پیدا ہو گیا حالانکہ یہ قول نامبردگان سراسر افتراء اور دورغ و بمقتضائے کینہ وحسد وعناد جبلی ہے جس سے وہ نہ صرف مجھ پر بلکہ تمام مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے ہم ان کے اس قول دروغ کا رد واجب سمجھ کر عام اشتہار دیتے ہیں کہ ابھی تک جو ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء ہے ، ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بجز پہلے دولڑکوں کے جن کی عمر ۲۲،۲۰ سال سے زیادہ ہے، پیدا نہیں ہوا.لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑ کا بموجب وعدہ الہی 9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.اور یہ اتہام
240 کہ گویا ڈیڑھ ماہ سے پیدا ہو گیا ہے، سراسر دروغ ہے.ہم اس دروغ کے ظاہر کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ آج کل ہمارے گھر کے لوگ بمقام چھاؤنی انبالہ صدر بازار اپنے والدین کے پاس یعنی اپنے والد میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر کے پاس بود و باش رکھتے ہیں اور ان کے گھر متصل منشی مولا بخش صاحب ملازم ریلوے اور با بومحمد صاحب کلرک دفتر نہر رہتے ہیں.معترضین یا جس شخص کو شبہ ہو، اس پر واجب ہے کہ اپنا شبہ رفع کرنے کے لئے وہاں چلا جائے اور اس جگہ اردگرد سے خوب دریافت کر لے.اگر کرایہ آمد ورفت نہ ہو تو ہم اس کو دے دیں گے لیکن اگر اب بھی جا کر دریافت نہ کرے اور نہ دروغ گوئی سے باز آوے تو بجز اس کے کہ ہمارے اور تمام حق پسندوں کی نظر میں لعنت اللہ علی الکاذبین کا لقب پاوے اور نیز زیر عتاب حضرت احکم الحاکمین کے آوے.اور کیا ثمرہ اس یاوہ گوئی کا ہوگا.خدا تعالیٰ ایسے شخصوں کو ہدایت دیوے کہ جو جوش حسد میں آکر اسلام کی کچھ پرواہ نہیں رکھتے اور اس دروغ گوئی کے مال کو بھی نہیں سوچتے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۱۴۱۱۳) ایک صاحب جو رسالہ درۃ الاسلام کے ایڈیٹر تھے نے اپنے رسالہ کے ایک پرچہ میں یہ اعتراض کیا کہ مرزا صاحب نے پسر موعود کے سلسلہ میں مارچ ۱۸۸۶ء میں اشتہار دیا تھا کہ لڑکا پیدا ہوگا لیکن اس اعلان کے برخلاف لڑکا پیدا ہونے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی.اس پر حضرت مسیح عود علیہ السلام نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.پھر یہ شخص لکھتا ہے کہ مارچ ۱۸۸۶ ء میں اشتہار دیا تھا کہ لڑکا پیدا ہوگا.یعنی بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی.لیکن اے نادانو ! دل کے اندھو! میں کب تک تمہیں سمجھاؤں گا.مجھے وہ اشتہار ۱۸۸۶ء دکھلاؤ.میں نے کہاں لکھا ہے کہ اسی سال میں لڑکا پیدا ہونا
241 ضروری ہے.پھر یہی شخص لکھتا ہے کہ تمہیں اپنے جھوٹے الہام پر ذرہ شرم نہ آئی.پر میں کہتا ہوں کہ سیاہ دل! الہام جھوٹا نہیں تھا.تجھ میں خود الہی کلام کے سمجھنے کا مادہ نہیں.الہام میں کوئی لفظ نہ تھا کہ اس حمل میں ہی لڑکا پیدا ہو جائے گا.اب بجز اس کے میں کیا کہوں کہ لعنۃ اللہ علی الکاذبین.بیشک مجھے الہام ہوا تھا کہ موعو دلڑ کے سے قومیں برکت پائیں گی.مگر ان اشتہارات میں کوئی ایسا الہی الہام نہیں جس نے کسی لڑکے کی تخصیص کی ہو کہ یہی موعود ہے.اگر ہے تو لعنت ہے تجھ پر اگر تو وہ الہام پیش نہ کرے.ہاں دوسرے حمل میں جیسا کہ پہلے سے مجھے ایک اور لڑکے کی بشارت ملی تھی لڑکا پیدا ہوا.سو یہ بجائے خود ایک مستقل پیشگوئی تھی جو پوری ہو گئی جس کا ہمارے مخالفوں کو صاف اقرار ہے.ہاں اگر اس پیشگوئی میں کوئی ایسا الہام میں نے لکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ الہام نے اسی کو موعودلر کا قرار دیا تھا تو کیوں وہ الهام پیش نہیں کیا جاتا.پس جبکہ تم الہام کے پیش کرنے سے عاجز ہو تو کیا یہ لعنت تم پر ہے یا کسی اور پر.اور یہ کہنا کہ اس لڑکے کو بھی مسعود کہا ہے.تو اے نابکار مسعودوں کی اولاد مسعود ہی ہوتی ہے الا شاذ و نادر کون باپ ہے جو اپنے لڑکے کو سعادت اطوار نہیں بلکہ شقاوت اطوار کہتا ہے.کیا تمہارا یہی طریق ہے؟ اور بالفرض اگر میری یہی مراد ہوتی تو میرا کہنا اور خدا کا کہنا ایک نہیں ہے.میں انسان ہوں ممکن ہے کہ اجتہاد سے ایک بات کہوں اور وہ صحیح نہ ہو.پر میں پوچھتا ہوں کہ وہ خدا کا الہام کونسا ہے کہ میں نے ظاہر کیا تھا کہ پہلے حمل میں ہی لڑکا پیدا ہو جائے گا یا جو دوسرے میں پیدا ہو گا.وہ درحقیقت وہی موعود دلڑ کا ہو گا.اور وہ الہام پورا نہ ہوا.اگر ایسا الہام میرا تمہارے پاس موجود ہے تو تم پر لعنت ہے اگر وہ الہام شائع نہ کرو!“ (حجۃ اللہ.روحانی خزائن جلد ۱۲، صفحہ ۱۵۸،۱۵۷)
242 پیشگوئیوں کے ذریعہ اپنی صداقت کو پر کھنے کے چیلنج اس سے پہلے ہم گذشتہ صفحات میں از روئے قرآن ثابت کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی مدعی نبوت کے دعوئی کو پر کھنے کیلئے پیشگوئیوں کو معیار قرار دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے صدق اور کذب کو جانچنے کے لئے اپنی پیشگوئیوں کو مدار ٹھہرایا ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ کے زبردست کام اور پیشگوئیاں جو ربانی طاقت اپنے اندر رکھتی ہیں جو ملہموں اور واصلانِ الہی کو دی جاتی ہیں ، اللہ جل شانہ کے وجود اور اس کی صفات کاملہ جمیلہ جلیلہ پر دلالت قویہ قطعیہ رکھتی ہیں.لیکن افسوس کہ دنیا میں صدق دل سے خدا تعالیٰ کو طلب کرنے والے اور اس کی معرفت کی راہوں کے بھوکے اور پیاسے بہت کم ہیں اور اکثر ایسے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے جو پکارنے والے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور جگانے والے شور سے آنکھ نہیں کھولتے.ہم نے اس امر کی تصدیق کرانے کیلئے خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق اور اذن پا کر ہر ایک مخالف کو بلایا مگر کوئی شخص دل کے صدق اور سچی طلب سے ہماری طرف متوجہ نہیں ہوا.اور اگر کوئی متوجہ ہو تو وہ زندہ خدا جس کی قدرتیں ہمیشہ عقلمندوں کو حیران کرتی ہیں وہ قادر قیوم جو قدیم سے اس جہان کے حکیموں کو شرمندہ اور ذلیل کرتا رہا ہے بلاشبہ آسمانی چمک سے اس پر حجت قائم کرے گا.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۹،۱۵۷) چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے حکومت وقت کو درج ذیل تجویز پیش فرمائی.”اگر میری قوم کے یہ مولوی مجھ پر دانت پیستے ہیں اور مجھ کو جھوٹا اور بداعمال خیال کرتے ہیں تو میں اس محسن گورنمنٹ کو اپنے اور ان لوگوں کے فیصلہ کے لئے منصف
243 کرتا ہوں کہ کوئی آئندہ کی غیب گوئی جو انسان کی نیکی یا بدی سے کچھ بھی تعلق نہ رکھے اور کسی انسانی فرد پر اس کا اثر نہ ہو اپنے خدا سے حاصل کر کے بتلاؤں اور اپنے صدق یا کذب کا اس کو مدار ٹھیراؤں اور درصورت کا ذب ہونے کے ہر ایک سزا اٹھاؤں مگر ان میں کون ہے جو اس فیصلہ کو منظور کرے.“ نیز فرمایا:.( کشف الغطاء - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۰۶) ”سیدھی بات تھی کہ آپ لوگ ملہم کہلاتے ہیں.استجابت دعا کا بھی دعوئی ہے.چند پیشگوئیاں جو استجابت دعا پر بھی مشتمل ہو بذریعہ اشتہار شائع کر دیں اور اس طرف سے میں بھی شائع کر دوں.ایک برس سے زیادہ میعاد نہ ہو.پھر اگر آپ لوگوں کی پیشگوئیاں سچی نکلیں تو ایکدم میں ہزار ہا لوگ میری جماعت کے آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور جھوٹے کا منہ کالا ہو جائے گا.کیا آپ اس درخواست کو قبول کر لیں گے ؟ ممکن نہیں.“ تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیشگوئیوں پر کئے جانے والے اعتراضات کے تصفیہ کے لئے بھی کئی انعامی چیلنج دیئے جو حسب ذیل ہیں :.اس شیخ دشمن حق کا یہ بھی میرے پر افترا ہے کہ اور بھی بعض پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں.ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنتہ اللہ علی الکاذبین.ہم شیخ مذکور کوفی پیشگوئی سوروپیہ نقد دینے کو تیار ہیں اگر وہ ثابت کر سکے کہ فلاں پیشگوئی خلاف واقعہ ظہور میں آئی.مگر کیا وہ بات سن کر تحقیقات کے لئے درخواست کرے گا؟ نہیں اس کو نخوت نے اندھا کر دیا ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص مفسد اور دشمن حق ہے اس پر آشوب زمانہ میں اسلام کی عزت اور شوکت اور بزرگی ظاہر ہو.مگر یہ اس ارادہ میں ناکام رہے گا.میری بات سن رکھو.اب سے خوب یاد رکھو.کہ خدا بہت سے نشان دکھائے گا.نہیں
244 چھوڑے گا جب تک ایسے لوگوں کو ذلیل کر کے نہ دکھلائے.منہ فرمایا:.(استفتاء..روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۳۵ حاشیه ) ”اور سچ اور واقعی یہی بات ہے کہ میری کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کہ جو پوری نہیں ہوگئی.اگر کسی کے دل میں شک ہو تو وہ سیدھی نیت سے ہمارے پاس آ جائے اور بالمواجہ کوئی اعتراض کر کے اگر شافی کافی جواب نہ سنے تو ہم ایک ایک تاوان کے سزاوار ٹھہر سکتے ہیں.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۱ ) فرمایا:.ایسا اعتراض کرنا جو دوسرے پاک نبیوں پر بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وہی اعتراض آوے مسلمانوں اور نیک آدمیوں کا کام نہیں ہے بلکہ لعنتیوں اور شیطانوں کا کام ہے.اگر دل میں فساد نہیں تو قوم کا تفرقہ دور کرنے کے لئے ایک جلسہ کرو.اور مجلس عام میں میرے پر اعتراض کرو کہ فلاں پیشگوئی جھوٹی نکلی.پھر اگر حاضرین نے قسم کھا کر کہہ دیا کہ فی الواقع جھوٹی نکلی اور میرے جواب کو سنکر مدلل اور شرعی دلیل سے رد کر دیا تو اسی وقت میں تو بہ کروں گا.ورنہ چاہئے کہ سب تو بہ کر کے اس جماعت میں داخل ہو جائیں اور در دندگی اور بدزبانی چھوڑ دیں.“ فرمایا:.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۵) ”اگر میرے پر یہ الزام لگایا جائے کہ کوئی پیشگوئی میری پوری نہیں ہوئی یا پورا ہونے کی امید جاتی رہی تو اگر میں نے بحوالہ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں کے یہ ثابت نہ کر دیا کہ درحقیقت وہ تمام پیشگویاں پوری ہو گئی ہیں یا بعض انتظار کے لائق ہیں اور
245 وہ اسی رنگ کی ہیں جیسا کہ نبیوں کی پیشگوئیاں تھیں تو بلا شبہ میں ہر ایک مجلس میں جھوٹا ٹھیروں گا.لیکن اگر میری باتیں نبیوں کی باتوں سے مشابہ ہیں تو جو مجھے جھوٹا کہتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہے.“ اربعین.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۴۹) فرمایا:- ” اور اگر شک ہو تو خدا تعالیٰ کا خوف کر کے ایک جلسہ کرو اور ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سنو اور ہمارے گواہوں کی شہادت ، رؤیت جو حلفی شہادت ہوگی قلمبند کرتے جاؤ اور اگر آپ لوگوں کے لئے ممکن ہو تو باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں کسی نبی یا ولی کے معجزات کو ان کے مقابل پیش کرو لیکن نہ قصوں کے رنگ میں بلکہ رؤیت کے گواہ پیش کرو.کیونکہ قصے تو ہندوؤں کے پاس بھی کچھ کم نہیں.قصوں کو پیش کرنا تو ایسا ہے جیسا کہ ایک گوبر کا انبار مشک اور عنبر کے مقابل پر.مگر یاد رکھو کہ ان معجزات اور پیشگوئیوں کی نظیر جو میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے اور ہورہے ہیں کمیت اور کیفیت اور ثبوت کے لحاظ سے ہرگز پیش نہ کر سکو گے خواہ تلاش کرتے کرسکو کرتے مر بھی جاؤ.“ ( نزول امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۲) اے متعصب لوگو! اس قدر جھوٹ بولنا تمہیں کس نے سکھایا؟ ایک مجلس مثلاً بٹالہ میں مقرر کرو اور شیطانی جذبات سے دور ہو کر میری تقریر سنو.پھر اگر ثابت ہو کہ میری سو پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی ہو تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں.اور یوں بھی خدا سے لڑنا ہے تو صبر کرو اور اپنا انجام دیکھو.منہ اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۴۶۱ حاشیہ) ”ایسا ہی یہ لوگ جو عقل کے پورے میری بعض پیشگوئیوں کا جھوٹا نکلنا اپنے ہی دل
246 سے فرض کر کے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ جب بعض پیشگوئیاں جھوٹی ہیں یا اجتہادی غلطی ہے تو پھر مسیحیت کے دعوئی کا کیا اعتبار شاید وہ بھی غلط ہو.اس کا اوّل جواب تو یہی ہے کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.اور مولوی ثناء اللہ نے موضع مد میں بحث کے وقت یہی کہا تھا کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں اس لئے ہم ان کو مدعو کرتے ہیں اور خدا کی قسم دیتے ہیں کہ وہ اس تحقیق کیلئے قادیان میں آویں اور تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کریں اور ہم قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں ہر ایک پیشگوئی کی نسبت جو منہاج نبوت کی رو سے جھوٹی ثابت ہو ایک ایک سو روپیہ ان کی نذر کریں گے.ورنہ ایک خاص تمغہ لعنت کا ان کے گلے میں رہے گا.اور ہم آمد ورفت کا خرچ بھی دیں گے.اور کل پیشگوئیوں کی پڑتال کرنی ہوگی.تا آئندہ کوئی جھگڑا باقی نہ رہ جاوے.اور اسی شرط سے روپیہ ملے گا اور ثبوت ہمارے ذمہ ہوگا.یادر ہے کہ رسالہ نزول امیج میں ڈیڑھ سو پیشگوئی میں نے لکھی ہے تو گویا جھوٹ ہونے کی حالت میں پندرہ ہزار روپیہ مولوی ثناء اللہ صاحب لے جائیں گے اور در بدر گدائی کرنے سے نجات ہوگی.بلکہ ہم اور پیشگوئیاں بھی معہ ثبوت ان کے سامنے پیش کر دیں گے اور اسی وعدہ کے موافق فی پیشگوئی سو روپیہ دیتے جائیں گے.اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ میری جماعت ہے.پس اگر میں مولوی صاحب موصوف کیلئے ایک ایک روپیہ بھی اپنے مریدوں سے لوں گا تب بھی ایک لاکھ روپیہ ہو جائے گا وہ سب ان کی نذرہوگا.“ نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۳۱ ۱۳۲۰) میں یہ بات حتمی وعدہ سے لکھتا ہوں کہ اگر کوئی مخالف خواہ عیسائی خواہ بگفتن مسلمان.میری پیشگوئیوں کے مقابل پر اس شخص کی پیشگوئیوں کو جس کا آسمان سے اترنا
247 خیال کرتے ہیں.صفائی اور یقین اور بداہت کے مرتبہ پر زیادہ ثابت کر سکے تو میں اس کو نقد ایک ہزار روپیہ دینے کو تیار ہوں.مگر ثابت کرنے کا یہ طریق نہیں ہوگا کہ وہ قرآن شریف کو پیش کرے کہ قرآن کریم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی مان لیا ہے اور یا اس کو نبی قرار دے دیا ہے کیونکہ اس طرح پر تو میں اور بھی زور سے دعوی کرتا ہوں کہ قرآن شریف میری سچائی کا بھی گواہ ہے.“ ( تذكرة الشہا دتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۳ ۴۴ ) آریہ پنڈتوں اور عیسائی پادریوں کو پیشگوئیوں کے مقابلہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف اپنے مسلمان مکفر وں اور مکذبوں کو پیشگوئیوں کے ذریعہ اپنے صدق و کذب کو جانچنے کی دعوت دی بلکہ آریہ پنڈتوں اور عیسائی پادریوں کو بھی مقابلہ کی دعوت دی.چنانچہ آپ نے فرمایا:.” یہ اشتہار اتمام حجت کی غرض سے بمقابل منشی جیوند اس صاحب جو آریوں کی نسبت شریف اور سلیم الطبع معلوم ہوتے ہیں اور لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر ہوشیار پور جو وہ بھی میری دانست میں آریوں میں سے غنیمت ہیں اور منشی اندرمن صاحب مراد آبادی جو گویا دوسرا مصرعہ سورمنتی صاحب کا ہیں اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر رئیس امرتسر جو حضرت عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج آدمی ہیں اور پادری عماد الدین لانبر صاحب امرتسری اور پادری ٹھا کر داس صاحب مولف کتاب اظہار عیسوی کو شائع کیا جاتا ہے کہ اب ہم بجائے ایک سال کے صرف چالیس روز اس شرط سے مقرر کرتے ہیں جو صاحب آزمائش و مقابلہ کرنا چاہیں وہ برابر چالیس دن تک ہمارے پاس قادیان میں یا جس جگہ اپنی مرضی سے ہمیں رہنے کا اتفاق ہور ہیں اور برابر حاضر رہیں.پس اس عرصہ میں اگر ہم
248 کوئی امر پیشگوئی جو خارق عادت ہو پیش نہ کریں یا پیش تو کریں مگر بوقت ظہو ر وہ جھوٹا نکلے یا وہ جھوٹا تو نہ ہو مگر اسی طرح صاحب ممتحن اس کا مقابلہ کر دکھلا دیں تو مبلغ پانچ سور و پیہ نقد بحالت مغلوب ہونے کے اسی وقت بلا توقف ان کو دیا جائے گا لیکن اگر وہ پیشگوئی وغیره به پایه صداقت پہنچ گئی تو صاحب مقابل کو بشرف اسلام مشرف ہونا پڑے گا.اور یہ بات نہایت ضروری قابل یادداشت ہے کہ پیشگوئیوں میں صرف زبانی طور پر نکتہ چینی کرنا یا اپنی طرف سے شرائط لگانا نا جائز اور غیر مسلم ہوگا بلکہ سیدھا راه شناخت پیشگوئی کا یہی قرار دیا جائے گا کہ اگر وہ پیشگوئی صاحب مقابل کی رائے میں کچھ ضعف یا شک رکھتی ہے یا ان کی نظر میں قیافہ وغیرہ کے مشابہ ہے تو اسی عرصہ چالیس روز میں وہ بھی ایسی پیشگوئی ایسے ہی ثبوت سے ظاہر کر کے دکھلا دیں اور اگر مقابلہ سے عاجز رہیں تو پھر حجت ان پر ہوگی اور بحالت سچے نکلنے پیشگوئی کے بہر حال انہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور یہ تحریریں پہلے سے جانبین میں تحریر ہو کر انعقاد پا جائیں گی.چنانچہ اس رسالہ کے شائع ہونے کے وقت سے یعنی ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء سے ٹھیک تین ماہ کی مہلت صاحبان موصوف کو دی جاتی ہے.اگر اس عرصہ میں ان کی طرف سے اس مقابلہ کے لئے کوئی منصفانہ تحریک نہ ہوئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ گریز کر گئے.والسلام علی من اتبع الھدی.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۹ ،۳۱۰) میاں فتح مسیح کارد عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا پیشگوئیوں کے مقابلہ کے چیلنج کے بعد ایک عیسائی عالم میاں فتح مسیح ۱۸ اگست ۱۸۸۸ء بروز جمعہ بمقام بٹالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا اور حضرت اقدس کے ساتھ پیشگوئیوں میں مقابلہ پر آمادگی کا اظہار کیا.اور
249 دعویٰ کیا کہ میرے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ آپ کی طرح ہمکلام ہوتا ہے.لہذا آپ کے مقابلہ میں میں بھی خدا تعالیٰ سے الہام پا کر پیشگوئی کر سکتا ہوں.نیز ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کا دن اس مقابلہ کیلئے مقرر کیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ۸ امئی ۱۸۸۸ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ اس مقابلہ کی خواہش کو قبول کرتے ہوئے درج ذیل چیلنج دیا :.سو آج ہماری طرف سے بھی اس قسم کا مناظرہ قبول ہو کر عام اطلاع کے لئے یہ اعلان جاری کیا جاتا ہے کہ ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کو پیر کے روز میاں فتح محمد عیسائی روح القدس کا فیض دکھلانے اور الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلانے کے لئے ہمارے مکان پر جو نبی بخش ذیلدار کا طویلہ ہے آئیں گے جیسا کہ انہوں نے قریباً پچاس آدمی کے روبرو یہ وعدہ کر لیا ہے.پہلے ہم الہامی پیشگوئیاں بقید تاریخ پیش کریں گے اور پھر اس کے مقابل پر ان کے ذمہ ہو گا کہ ایسی ہی الہامی پیشگوئیاں وہ بھی پیش کریں.پس جو صاحب اس جلسہ کو دیکھنا چاہتے ہوں انہیں اختیار ہے کہ دس بجے تک بروز پیر ہمارے مکان پر بٹالہ میں حاضر ہو جاویں.پھر اگر میاں فتح مسیح بر طبق اپنے وعدہ کے پیر کے دن آ موجود ہوئے ہوں اور روح القدس کی الہامی طاقت جو اٹھارہ سو برس سے عیسائی جماعت سے بوجہ گمراہی ان کی کے گم ہو چکی ہے تازہ طور پر دکھلائیں اور ان پیشگوئیوں کی سچائی اپنے وقت میں ظہور میں آ جائے تو بلاشبہ عیسائیوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر ایک حجت ہوگی کیونکہ ایسے عظیم الشان میدان مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نہ کی.اور ان کو فتح دی اور مسلمانوں کو نہ دی.( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۴۶) اس اشتہار کے بعد میاں فتح مسیح حسب پروگرام پیشگوئیوں کے مقابلہ کیلئے مقررہ دن ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کو اپنے چند عیسائی ساتھیوں کے ہمراہ حاضر ہوا.اس موقعہ پر اور بھی کافی لوگ جمع
250 تھے.میاں فتح مسیح پیشگوئیوں میں مقابلہ کی بجائے ادھر ادھر کی بے مقصد اور مجبل باتیں کرنے لگا.جس پر حاضرین میں سے ایک ہندو نے مداخلت کرتے ہوئے میاں صاحب سے کہا کہ یہ جلسہ صرف بالمقابل پیشگوئیاں کرنے کے لئے منعقد کیا گیا ہے لہذا ادھر ادھر کی بے محل باتیں کرنے کی بجائے حسب پروگرام بالمقابل الہامی پیشگوئیاں کرنی چاہئیں.اس کے جواب میں میاں فتح مسیح نے کہا کہ میری طرف سے الہام کا دعویٰ نہیں ہے اور جو کچھ میرے منہ سے نکلا تھا میں نے یوں ہی فریق ثانی کی دعوت کے مقابل پر ایک دعویٰ کر دیا تھا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان کا دعویٰ جھوٹا ہے.سو ایسا ہی میں نے بھی ایک دعوی کیا.اس پر حاضرین کی طرف سے میاں فتح مسیح پر کافی لعن طعن ہوئی اور اس طرح یہ جلسہ برخواست ہو گیا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ میاں فتح مسیح کے علاوہ دیگر معزز پادریوں کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.”اب اس اشتہار کے جاری کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی معزز یورپین عیسائی صاحب ملہم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں تو انہیں بصد رغبت ہماری طرف سے اجازت ہے کہ بمقام بٹالہ جہاں آخر رمضان تک انشاء اللہ ہم رہیں گے کوئی جلسہ مقرر کر کے ہمارے مقابل پر اپنی الہامی پیشگوئیاں پیش کریں بشرطیکہ فتح مسیح کی طرح اپنی دروغگوئی کا اقرار کر کے میدان مقابلہ سے بھاگنا نہ چاہیں.اور نیز اس اشتہار میں پادری وائٹ بریجنٹ صاحب کہ جو اس علاقہ کے ایک معزز یورپین پادری ہیں ہمارے باتخصیص مخاطب ہیں.اور ہم پادری صاحب کو یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ یہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے تو ہم ان سے کوئی پیشگوئی بالمقابل طلب نہیں کریں گے بلکہ حسب درخواست ان کی ایک جلسہ مقرر کر کے فقط اپنی طرف سے ایسی الہامی پیشگوئیاں پیش
251 از وقوع پیش کریں گے جن کی نسبت ان کو کسی طور کا شک وشبہ کرنے کی گنجائش نہیں ہو گی.اور اگر ہماری طرف سے اس جلسہ میں کوئی ایسی قطعی ویقینی پیشگوئی پیش نہ ہوئی کہ جو عام ہندوؤں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی نظر میں انسانی طاقتوں سے بالاتر متصور ہو تو ہم اسی جلسہ میں دوسو روپیہ نقد پادری صاحب موصوف کو بطور ہرجانہ یا تاوان تکلیف دہی کے دے دیں گے.چاہیں تو وہ دوسور و پیہ کسی معزز ہند و صاحب کے پاس پہلے ہی جمع کرا کر اپنی تسلی کرا لیں.لیکن اگر پادری صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ حقیقت میں یہ پیشگوئی انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے تو پھر ان پر واجب و لازم ہو گا کہ اس کا جھوٹ یا سچ پر کھنے کے لئے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اخبار نورافشاں میں جو ان کی مذہبی اخبار ہے اس پیشگوئی کو درج کرا کر ساتھ اس کے اپنا اقرار بھی چھپوا ئیں کہ میں نے اس پیشگوئی کو من کل الوجوہ گوانسانی طاقتوں سے بالا تسلیم کر لیا ہے اسی وجہ سے تسلیم کر لیا ہے کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو بلا شبہ قبولیت اور محبوبیت الہی کے چشمہ سے نکلی ہے نہ کسی اور گندے چشمہ سے جو انکل و اندازہ وغیرہ ہے اور اگر بالآخر اس پیشگوئی کا مضمون صحیح اور سچ نکلا تو میں بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا کیونکہ جو پیشگوئی محبوبیت کے چشمہ سے نکلی ہے وہ اس دین کی سچائی کو ثابت کرنے والی ہے جس دین کی پیروی سے یہ مرتبہ محبوبیت کا ملتا ہے.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ محبوبیت کو نجات یافتہ ہونا ایک لازمی امر ہے." ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۴۹،۱۴۸) اس کے بعد ایک اور اشتہار میں پادری وائٹ بریجنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.ہاں اگر پادری وائٹ بریجنٹ صاحب صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے اور پھر ہم سے کوئی الہامی پیشگوئی پیش از
252 وقوع طلب کرنا چاہیں تو ہم بدیں شرط جلسہ عام میں پیش کریں گے کہ اگر ہماری پیشگوئی پیش کرده بنظر حاضرین جلسه صرف انکل اور اندازہ ہو ، انسانی طاقتوں سے بالاتر نہ ہو یا بالآ خر جھوٹی نکلے تو دوسوروپیہ ہرجانہ پادری صاحب کو دیا جائے گا ورنہ بصورت دیگر پادری صاحب کو مسلمان ہونا پڑے گا.( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۵۱) مگر پادری وائٹ بریجنٹ صاحب نے اس جلسہ میں آنا قبول نہ کیا حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک ماہ تک انتظار فرماتے رہے.لیکن بعد میں میاں فتح مسیح نے نے جون ۱۸۸۸ء کے اخبار نورافشاں میں چھپوا دیا کہ ہم اس طور پر تحقیق الہامات کیلئے جلسہ کر سکتے ہیں کہ ایک جلسہ منعقد ہو کر چار سوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں گے وہ ہمیں الہا ما بتلائے جائیں.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا :.”اس کے جواب میں اول تو یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ جیسا کہ ہم اپنے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۸۸ء میں لکھ چکے ہیں.فتح مسیح کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے.ہرگز مخاطب ہونے کے لائق نہیں.اور اس کو مخاطب بنانا اور اس کے مقابل پر جلسہ کرنا ہر ایک راست باز کیلئے عاروننگ ہے.ہاں اگر پادری وائٹ بریجنٹ صاحب ایسی درخواست کریں کہ جو نورافشاں ۷ جون ۱۸۸۸ء کے صفحہ ے میں درج ہے تو ہمیں بسر و چشم منظور ہے.ہمارے ساتھ وہ خدائے قادر و علیم ہے جس سے عیسائی لوگ ناواقف ہیں.وہ پوشیدہ بھیدوں کو جانتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے خالص بندے ہیں.لیکن لہو ولعب کے طور پر اپنا نام لینا پسند نہیں کرتا.پس اگر پادری وائٹ بریجنٹ صاحب ایک عام جلسہ بٹالہ میں منعقد کر کے اس جلسہ میں حلفاً اقرار کریں کہ
253 اگر مضمون کسی بند لفافہ کا جو میری طرف سے پیش ہو ، دس ہفتہ تک مجھ کو بتلایا جاوے تو میں بلا توقف دین مسیحی سے بیزار ہو کر مسلمان ہو جاؤں گا.اور اگر ایسا نہ کروں تو ہزار روپیہ جو پہلے سے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرا دوں گا بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جاوے گا.اس تحریری اقرار کے پیش ہونے اور نیز نورافشاں میں چھپنے کے بعد اگر دس ہفتہ تک ہم نے لفافہ بند کا مضمون بتلا دیا تو ایفاء شرط کا پادری صاحب پر لازم ہو گا ورنہ ان کے روپیہ کی ضبطی ہوگی.اور ہم نہ بتلا سکے تو ہم دعوئی الہام سے دست بردار ہو جائیں گے اور نیز جو سزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اٹھا لیں گے.فقط ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۵۲) ایک غلط بہتان کو ثابت کرنے کا چیلنج ۱۸۸۷ء میں قادیان کے چند ہندوؤں کی طرف سے بامداد واعانت لیکھرام پیشاوری ایک رساله بعنوان سرمہ چشم آریہ کی حقیقت اور فن فریب غلام احمد کی کیفیت امرتسر سے شائر ہوا.جو نہایت گندہ اور دل آزار اور سخت کلامی سے پر تھا.اور حضرت اقدس پر بے اصل الزامات لگائے گئے.جن میں سے ایک بالکل فرضی بہتان یہ تھا کہ قادیان میں جان محمد کشمیری مرزا صاحب کی مسجد کے امام کا پانچ سالہ لڑ کا سخت بیمار ہو کر قریب المرگ ہو گیا تھا.بظاہر اس بچے کے بچنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے.ایسی حالت میں وہ اس بچہ کو مرزا صاحب کے پاس لے گیا اور دعا کی درخواست کی.اس پر مرزا صاحب نے کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے ہی الہام ہوا ہے کہ اس لڑکے کیلئے قبر کھو دو یہ سن کر وہ سخت پریشان ہو گیا اور اس کے ہوش باختہ ہو گئے.اور واپس گھر آ گیا.مگر گھر پہنچتے ہی اس بچے میں صحت کے آثار نظر آنے لگے اور تھوڑی دیر بعد لڑکا تندرست ہو گیا.اس پر جب لوگوں نے مرزا صاحب کے الہام ہنسی اڑائی تو جواب دیا کہ الہام غلط نہیں ہو سکتا.دایم یہ بچہ زندہ نہیں رہ سکتا.مگر پھر بھی وہ بچہ صحت یاب ہو گیا.آریوں
254 کے اس سراسر من گھڑت بہتان کا جواب دیتے ہوئے حضرت اقدس نے فرمایا:.”اب دیکھنا چاہئے کہ وہ کنجر جو ولد الزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے شرماتے ہیں مگر آریہ میں اس قدر بھی شرم باقی نہیں رہی.جس قوم میں اس جنس کے شریف وامین لوگ ہیں وہ کیا کچھ ترقیاں نہیں کریں گے.اب اس نیک ذات آریہ پر فرض ہے کہ ایک جلسہ کرا کر ہمارے روبرو اس بہتان کی تصدیق کروائے تا اصل راوی کو حلف سے پوچھا جائے اور اس بے اصل بہتان کے لئے نہ صرف ہم اس راوی کو حلف دیں گے بلکہ آپ بھی حلف اٹھائیں گے.فریقین کے حلف کا یہ مضمون ہو گا کہ اگر سچ سچ اپنے حافظہ کی پوری یادداشت سے بلا ذرہ کم و بیش میں نے بیان نہیں کیا تو اے قادر مطلق اور اے پر میشر سب شکتی مان ایک سال تک اپنے قہر عظیم سے ایسی میری بیخ کنی کر اور ایسا ہیبت ناک عذاب نازل فرما کہ دیکھنے والوں کو عبرت ہوا اور پھر اگر ایک سال تک آسمانی عذاب سے اصل راوی محفوظ رہا تو ہم اپنے جھوٹا ہونے کا خود اشتہار دے دیں گے.کیونکہ ہم جانتے ہیں خدا تعالیٰ ایسے بہتان صریح کو بے فیصلہ نہیں چھوڑے گا.یہ تو ہمارے لئے اور ایک ملہم من اللہ کے لئے ممکن بلکہ کثیر الوقوع ہے جو کوئی خواب یا الہام مشتبہ طور پر معلوم ہو جس کی احتمالی طور پر کئی معنے کئے جائیں مگر یہ افتراء کہ قطعی طور پر ہمیں الہام ہو گیا کہ دین محمد جان محمد کا لڑکا اب مرے گا اس کی قبر کھو دو یہاں تک کہ جان محمد کو یہ خبر دی کہ اب دین محمد تیر الٹر کا ضرور مرے گا.دین محمد کے نام الہام ہو چکا قبر کھودنے کا حکم ہوا اور وہ خبر سن کر روتا روتا گھر تک گیا.یہ جھوٹ کی نجاست کس نے کھائی ہے.ایسا ایمان زادہ زرہ ہمارے سامنے آوے لیکن اب بھی اگر راقم رسالہ اپنی دوز ونشی کی عادت کو نہیں چھوڑے گا اور جلسہ عام میں راوی کو قتسم دلانے سے تصفیہ نہیں کرے گا تو ہی دس لعنتوں کا تمغہ جو پہلے اس کو ہم دے چکے ہیں
255 اب بھی موجود ہے.“ ( شحنه حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۸۶، ۳۸۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ضمیمہ نزول مسیح میں اپنی پیشگوئیوں پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ایک یہودی کی تالیف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس یہودی نے اپنی تالیف میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر نہایت سخت اعتراض کئے ہیں بلکہ وہ ایسے سخت ہیں ان کا تو ہمیں بھی جواب نہیں آتا.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ چیلنج دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.اگر مولوی ثناء اللہ یا مولوی محمد حسین یا کوئی پادری صاحبوں میں سے ان اعتراضات کا جواب دے سکے تو ہم ایک سورو پیہ نفقد بطور انعام ان کے حوالہ کریں گے.“ نزول امسیح.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۱۱) لالہ ملاوامل اور لالہ شرمیت کو اپنی پیشگوئیوں کے متعلق قسم کھانے کا چیلنج قادیان کے رہنے والے دو آریہ لالہ ملاوامل اور لالہ شرمیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی قریبی ساتھیوں میں سے تھے.حضرت اقدس کو جب بھی کسی پیشگوئی پر مبنی الہام ہوتا تو حضور اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بتا دیا کرتے تھے تاکہ وہ گواہ بن جائیں.چنانچہ جب حضرت اقدس کی بعض ایسی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں جن کے لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت گواہ تھے تو حضرت اقدس نے ان پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے ہوئے مذکورہ دونوں آریہ صاحبان کو بطور گواہ پیش فرمایا.مگر یہ دونوں آریہ صاحبان نے دیگر آریاؤں کے خوف اور ڈر سے لاعلمی کا اظہار کر دیا.یہاں تک کہ ایک اشتہار شائع کر دیا جس میں یہ بیان دیا کہ ”ہم مرزا صاحب کو فریبی جانتے ہیں ، لہم من اللہ نہیں سمجھتے اس پر حضرت اقدس نے اپنی کتاب ”شہ حق“ اپنی ایسی پیشگوئیوں
256 کی فہرست پیش فرمائی جن کے آریہ لوگ گواہ تھے.اور قادیان کے آریوں کو جو ان پیشگوئیوں کے عینی گواہ تھے آپ کی پیشگوئیوں سے لاعلمی کا اظہار کرنے پر قسم کھانے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.قادیان کے آریوں پر جو فساد پھیلانے کی جڑ ہیں فرض ہوگا کہ اگر وہ حقیقت میں ہمیں فریبی سمجھتے ہیں تو اسی قادیان میں ایک جلسہ عام میں ایک ایسی قسم کھا کر جو ہر یک شہادت کے نیچے لکھی جائے گی ان الہامی پیشگوئیوں کی نسبت لاعلمی ظاہر کریں.تب ہم بھی ان کا پیچھا چھوڑ دیں گے اور اس قادر مطلق کے حوالے کر دیں گے جو دروغ گو بے سزا نہیں چھوڑتا.اور بے عزتی سے اپنے مالک کے نام لینے والے کو ایسا ہی بے عزت کرتا ہے جیسا کہ وہ جھوٹی قسم اللہ جل شانہ کی کھا کر اس ذوالجلال کی عزت کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا.لیکن اگر اب بھی آریوں نے یہ کھلا کھلا فیصلہ نہ کیا اور صرف جعلسازی کی اوٹ میں دور سے تیر مارتے رہے اور گھر میں کچھ اور باہر سے کچھ اور اخباروں ، اشتہاروں میں کچھ اور دوسرے لوگوں کے پاس کچھ کہتے رہے تو اے ناظرین آپ لوگ سمجھ رکھیں کہ یہ ان کی ہٹ دھرمی اور دروغ گوئی کی نشانی ہے.بہر حال اب اس جلسہ کی نہایت ضرورت ہے تاہم بھی دیکھ لیں کہ سچ کا اختیار کرنا اور جھوٹ کا تیا گنا کہاں تک ان میں پایا جاتا ہے.“ (شحنہ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۸۰،۳۷۹) حضرت اقدس کے اس چیلنج کے بعد لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت اور نہ کسی اور آریہ کو میدان میں اتر کر قسم کھانے کی جرات ہوسکی.مگر دوبارہ ۱۹۰۴ء میں قادیان سے ایک اخبار شبھ چپک“ شائع ہونے لگا جس میں حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کے خلاف وہ جھوٹا پراپیگنڈا شروع کیا کہ الامان والحفیظ ! اور اس جھوٹ کو پھیلانے میں تین اشخاص خاص طور پر پیش پیش تھے.یعنی
257 (۱) اچھر چند مالک و مینیجر اخبار (۲) پنڈت سومراج ایڈیٹر اخبار (۳) بھگت رام جوان کا ہر کام میں مددگار تھا.اور ان لوگوں نے تھوڑے ہی دنوں میں اس قدر زور پکڑا کہ دوبارہ لالہ ملا وامل اور لالہ شرمپت کو اپنے ساتھ ملا لیا.اور لالہ شرمیت کی طرف منسوب کر کے اپنے اخبار میں ایک بیان شائع کیا کہ لالہ شرمیت کہتا ہے کہ ہم نے مرزا صاحب کا کوئی نشان آسمانی نہیں دیکھا حضرت اقدس نے جب لالہ شرمیت کے اس بیان کو پڑھا تو حضور کو سخت قلق ہوا.چنانچہ حضور نے قادیان کے آریہ اور ہم “ نامی کتاب میں جو اس زمانہ میں زیر تالیف تھی تحریر فرمایا کہ:.یہ چند پیشگوئیاں بطور نمونہ میں اس وقت پیش کرتا ہوں اور میں خدا اتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمپت سن چکا ہے.اور اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندراس کی سزا نازل کرے.آمین.ولعنۃ اللہعلی الکاذبین.ایسا ہی شرمیت کو بھی چاہئے کہ میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر میں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھے پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندر اس کی سزا وارد کرے.آمین ولعنتہ اللہ علی ( قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۴۲) اس کے بعد آپ نے لالہ ملا وامل کے لئے کچھ نشانات تحریر فرمائے جن کو وہ عینی شاہد تھا اور پھر لکھا:.الکاذبین.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور اگر یہ جھوٹ ہیں تو خدا ایک سال کے اندر میرے پر اور میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی سزا دے.آمین ولعنۃ اللہ علی الکاذبین.ایسا ہی ملا وامل کو چاہئے کہ چند روزہ دنیا سے محبت نہ کرے اور اگر ان بیانات سے انکاری ہے تو میری طرح قسم کھاوے کہ یہ سب افتراء ہے اور اگر یہ باتیں سچ ہیں تو ایک سال کے اندر میرے پر اور میری تمام اولاد
258 پر خدا کا عذاب نازل ہو.آمین ولعنۃ اللہ علی الکاذبین.“ ( قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۴۳ ) حضرت اقدس کے اس بیان کی اشاعت پر لالہ شرمیت اور لالہ ملاوامل کے لبوں پر مہر سکوت لگ گئی.اور ان کو یہ کسی طرح منظور نہ ہوا کہ وہ حضرت اقدس کی مطلوبہ قسم کے مقابلہ میں قسم کھاویں.یا اس کا کوئی جواب دیں اور ان کے اس غیر معمولی رویہ نے ایک مرتبہ پھر اس امر کے صحیح اور درست ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ حضرت اقدس نے لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل کو جو اپنے نشانات کا گواہ قرار دیا ہے اور تریاق القلوب وغیرہ کتابوں میں جن کا بار بار ذکر آیا ہے ، وہ ضرور ان نشانات کے گواہ تھے.ورنہ ایسے نازک موقع پر جو انہیں حضرت اقدس کے قسم کھانے کے مطالبہ کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا کبھی خاموش نہیں رہ سکتے تھے.اس خاموشی کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ عذاب الہی سے محفوظ رہے.لیکن اخبار شسمھ چپک“ کے تینوں کارندے جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اپنی شوخی و شرارت میں بڑھ جانے کی وجہ سے طاعون کا شکار ہو گئے.محترمی مرزا اسلام اللہ صاحب کا بیان ہے کہ پنڈت سومراج کو جب طاعون ہو گیا تو انہوں نے علاج کے لئے حضرت حکیم مولوی عبداللہ صاحب بسمل کو بلا بھیجا.حکیم صاحب کے استفسار پر حضرت اقدس نے کہلا بھیجا کہ علاج ضرور کرو.مگر یہ بچے گا نہیں.چنانچہ علاج کرنے کے باوجود وہ اسی شام کومر گیا.(الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۷، صفحہ ۲۰ نمبر۱) پوری ہونے والی پیشگوئیوں کا فیصلہ بذریعہ قسم کی تجویز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب "سراج منیر میں اپنی پوری ہونے والی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر قسم کھائی کہ ان پیشگوئیوں کے متعلق بیان کردہ حالات
259 و واقعات میں ذرہ برابر جھوٹ کی آمیزش نہیں ہے.اس کے باوجود اگر کسی کو ان پیشگوئیوں کے متعلق کوئی شک ہو تو وہ بھی اس کے مقابل خدا کی قسم کھا کر کہے کہ میں نے (یعنی حضرت اقدس ) جھوٹا بولا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں:.” اور میں دوبارہ اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک ذرہ ان واقعات میں تفاوت نہیں.خدا موجود ہے اور جھوٹے کے جھوٹ کو خوب جانتا ہے.اگر میں نے جھوٹ بولا ہے یا میں نے ان قصوں کو ایک ذرہ کم و بیش کر دیا ہے تو نہایت ضروری ہے کہ ایسا ظن کرنے والے خدا کی قسم کے ساتھ اشتہار دیدے کہ میں جانتا ہوں کہ اس شخص نے جھوٹ بولا ہے یا اس نے کم و بیش کر دیا ہے اور اگر نہیں کیا تو ایک سال تک اس تکذیب کا وبال مجھ پر پڑے اور ابھی میں بھی قسم کھا چکا ہوں.پس اگر میں جھوٹا ہوں گا یا میں نے ان قصوں کو کم و بیش کیا ہو گا تو اس دروغگو ئی اور افتراء کی سزا مجھے بھگتنی پڑے گی.لیکن اگر میں نے پوری دیانت سے لکھا ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے پوری دیانت سے لکھا ہے تب مکذب کو خدا بے سر انہیں چھوڑے گا.یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور ہمیشہ سچائی کی مدد کرتا ہے.اگر کوئی امتحان کیلئے اٹھے تو عین مراد ہے کیونکہ امتہان سے خدا ہم میں اور مخالفوں میں فیصلہ کر دے گا.ہمارے مخالف مولویوں کے لئے بھی یہ موقع ہے کہ ان لوگوں کو اٹھاویں جیسا کہ آتھم کے اٹھا انے کیلئے کوشش کی تھی.فیصلہ ہو جانا ہر ایک کیلئے مبارک ہے.اس سے دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ خدا موجود د ہے بچوں کی دعائیں قبول کرتا ہے.“ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۳ ۶۴ ) براہین احمدیہ میں درج شدہ تین اور پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بعض عینی شاہدین مخالف علماء کو قسم کھانے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:.
260 ’اب بتلاؤ کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جیسے براہین احمدیہ میں تصریح اور تفصیل کے ساتھ تین فتنوں کا ذکر کیا گیا تھا وہ تینوں فتنے ظہور میں آگئے.کیا محمد حسین بٹالوی یا سید احمد خان صاحب کے سی ایس آئی، یا نذیر حسین دہلوی یا عبدالجبار غزنوی یا رشید احمد گنگوہی یا محمد بشیر بھو پالوی یا غلام دستگیر قصوری یا عبداللہ ٹونکی پروفیسر لاہور یا مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ قسم کھا سکتے ہیں کہ یہ تین فتنے جن کا ذکر پیشگوئی کے طور پر براہین احمدیہ میں کیا گیا ہے ظہور میں نہیں آگئے.اگر کوئی صاحب ان صاحبوں میں سے میرے الہام کی سچائی کے منکر ہیں تو کیوں خلقت کو تباہ کرتے ہیں.میرے مقابل پر قسم کھا جائیں کہ یہ تینوں فتنے جو براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی ذکر کئے گئے ہیں یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور اگر پوری ہو گئی ہیں تو اے خدائے قادر اکتالیس دن تک ہم پر وہ عذاب نازل کر جو مجرموں پر نازل ہوتا ہے.پس اگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ اور بلا واسطہ کسی انسان کے وہ عذاب جو آسمان سے اترتا اور کھا جانے والی آگ کی طرح کذاب کو نابود کر دیتا ہے اکتالیس روز کے اندر نازل نہ ہوا تو میں جھوٹا اور میرا تمام کاروبار جھوٹا ہوگا اور میں حقیقت میں تمام لعنتوں کا مستحق ٹھہروں گا.اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس قسم کی پیشگوئیاں جن کو خود بیان کر نیوالینے اپنی تحریروں اور چھپی ہوئی کتابوں کے ذریعہ سے مخالفوں اور موافقوں میں پیش از وقت شائع کر دیا ہو اور اپنی عظمت میں میری پیشگوئیوں کے مساوی ہوں.اس زمانہ میں دکھاویں.جن میں الہی قوت محسوس ہوتب بھی میں جھوٹا ہو جاؤں گا.اور قسم کے لئے ضروری ہوگا کہ جو صاحب قسم کھانے پر آمادہ ہوں وہ قادیان میں آ کر میرے روبرو قسم کھاویں میں کسی کے پاس نہیں جاؤں گا.یہ دین کا کام ہے.پس جو لوگ باوجود مولویت کی لاف کے اس میں ستی کریں تو خود
261 کا ذب ٹھہریں گے.“ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۵۷،۵۶) اس چیلنج کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیشگوئیوں کی نظیر لانے کا درج ذیل چیلنج دیا.اور کوئی ایسی پیشگوئی میری نہیں ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئی یا اس کے دو حصوں میں سے ایک حصہ پورا نہیں ہو چکا.اگر کوئی تلاش کرتا کرتا مر بھی جائے تو ایسی پیشگوئی جو میرے منہ سے نکلی ہو اس کو نہیں ملے گی جس کی نسبت وہ کہہ سکتا ہو کہ خالی گئی.مگر بے شرمی یا بے خبری سے جو چاہے کہے.اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہزار ہا میری ایسی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہوگئیں جن کے لاکھوں انسان گواہ میں.ان کی نظیر اگر گذشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور جگہ نہیں ملے گی.اگر میرے مخالف اسی طریق سے فیصلہ کرتے تو کبھی سے ان کی آنکھیں کھل جاتیں اور میں ان کو ایک کثیر انعام دینے کو تیار تھا اگر وہ دنیا میں کوئی نظیر ان پیشگوئیوں کی پیش کر سکتے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶) مگر یہ چیلنج کسی کی طرف سے قبول نہیں کیا گیا.
263 باب دوم نشان نمائی ـلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِايْتِ رَبِّهِ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَهُ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمُ اَكِنَّةً اِنْ يَّفْقَهُوهُ وَ فِي آذَانِهِمْ وَقُرًا.(الكهف : ۵۸) اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ( ہوسکتا ) ہے جسے اس کے رب کے نشانوں کے ذریعہ سمجھایا گیا (لیکن) پھر بھی وہ ان سے روگردان ہو گیا اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے ( کما کر ) آگے بھیجا تھا اس نے بھلا دیا.یقیناً ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں.
264
265 نشان نمائی میں مقابلہ کے چیلنج تاریخ انبیاء اس حقیقت پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی تصدیق اور ان کے مخالفین پر اتمام حجت کیلئے مختلف قسم کے نشانات ظاہر فرماتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:.وہ تو ہی ہے جس کی قوت سے تمام تیرے نبی تحدی کے طور پر اپنے معجزانہ نشان دکھاتے ہیں اور بڑی بڑی پیشگوئیاں کرتے رہے ہیں جن میں اپنا غلبہ اور مخالفوں کی درماندگی پہلے سے ظاہر کی جاتی تھی.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۱۰) اس بات کی تائید قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.سنريهم ايتنا في الافاق و انه الحق او لم يكف بربك انه على كل شیء شهید.( حم السجده:۵۴) یعنی ان لوگوں کو تمام اطراف عالم میں بھی ضرور اپنے نشان دکھائیں گے اور خودان کی جانوں ( اور خاندانوں ) میں بھی.یہاں تک کہ یہ ( امر ) ان کے لئے بالکل ظاہر ہو جائے گا کہ یہ ( قرآن ) حق ہے.کیا تیرے رب کا ہر چیز پر نگران ہونا ان کے لئے کافی نہیں ؟ پس مامور من اللہ کے ذریعہ دو قسم کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں.کچھ اطراف عالم سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ نفوس انسانی سے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دونوں قسم کے نشانات دیئے گئے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر گواہ ہوئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا نام لے کر جھوٹ بولنا سخت بدذاتی ہے
266 کہ خدا نے مجھے میرے بزرگ واجب الاطاعت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دائمی زندگی اور پورے جلال اور کمال کا یہ ثبوت دیا ہے کہ میں نے اس کی پیروی سے اس کی محبت سے آسمانی نشانوں کو اپنے اوپر اترتے ہوئے اور دل کو یقین کے نور سے پر ہوتے ہوئے پایا اور اس قدر نشان غیبی دیکھے کہ ان کھلے کھلے نوروں کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو پالیا ہے.خدا کے عظیم الشان نشان بارش کی طرح میرے پر اتر رہے ہیں اور غیب کی باتیں میرے پر کھل رہی ہیں.ہزار ہا دعا ئیں اب تک قبول ہو چکی ہیں اور تین ہزار سے زیادہ نشان ظاہر ہو چکا ہے.ہزار معزز اور متقی اور نیک بخت آدمی اور ہر قوم کے لوگ میرے نشانوں کے گواہ ہیں اور تم خود گواہ ہو.“ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۰) ” اس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشانات ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں.“ 66 مگر افسوس کہ ان نشانات سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ان کا انکار کیا گیا اور یہاں تک تضحیک کی گئی کہ کہا کہ ایسے نشانات تو ہم بھی دکھا سکتے ہیں.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو نشان نمائی میں مقابلہ کے بے شمار چیلنج دیئے مگر کسی کو بھی اس میدان میں اترنے کی توفیق نہ مل سکی.دعوت نشان نمائی ۱۸۸۵ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف مذاہب کے لیڈروں اور پیشواؤں کو اسلام کی تازہ بتازہ برکات اور آیات کے دیکھنے کی دعوت دی.اس غرض کیلئے آپ نے اپنے دعوئی پر مشتمل ایک اشتہار بھی انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع فرمایا.اور
267 ساتھ ہی اعلانِ دعوت کے نام سے آپ نے ایک خط بھی شائع فرمایا جس میں ہندوستان و پنجاب کے مختلف مذاہب کے لیڈروں کو نشان نمائی کی دعوت دی گئی جس میں لکھا کہ :.اصل مدعا جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے.اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشنگوئیوں) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مولف براہین احمدیہ کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر ان آسمانی نشانوں کا خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط نیت سے (جو طلب صادق کی نشانی ہے ) کہ بجر د معائنہ آسمانی اسی جگہ ( قادیان ) میں شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے.اس شرط نیت سے آپ آویں گے تو ضرور آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے.اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں.اب آپ تشریف نہ لائیں تو آپ پر خدا کا موخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دوسو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا.اس دوسو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایانِ شان نہ سمجھیں تو اپنے ہرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے.طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ
268 تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور رجولوگ ہر جانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں.اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما ئیں.مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا تصدیق و خوارق میں توقف نہ فرمائیں.تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۳٬۱۲) منشی اندر من مراد آبادی میدان مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نشان نمائی کی اس دعوت نے آریہ سماج میں ایک حرکت پیدا کر دی اور سب سے پہلے آریہ سماج کے صدر نشی اندر من مراد آبادی نے آزمائش کے لئے آنے کا اعلان کیا اور قبول دعوت کے نام سے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط لکھ دیا.جس میں دعوت یکسالہ کے لئے چوبیس سو روپیہ پیشگی بنک میں جمع کرانے کا مطالبہ کیا اور نیز مباحثہ کرنے کی دعوت بھی دی.منشی اندر من مراد آبادی کے اس خط کے جواب میں حضور نے لکھا کہ:.مشفقی اندر من صاحب آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے جس کی اجابت مجھ پر اپنے عہد کی رو سے واجب نہیں ہے.میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرا دے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو.آپ اس کے جواب میں اول تو مجھے اپنے پاس ( نا بھ میں پھر لاہور میں ) بلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کے لئے.اس پر طرفہ یہ ہے روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا.اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری
269 تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے.یہ ہیں تفاوت راہ از کجاست تا بہ کجا.لہذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں.اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کا آپ کو مشاہدہ نہ ہو تو میں آپ چو میں سو روپیہ دے دوں گا اور آپ کو پیشگی لینے پر اصرار ہو تو مجھ کو اس سے بھی دریغ و عذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کے لئے سر دست چوبیس سو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں اس امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط ایسی لوں جن کا ماننا آپ پر واجب سے ہے.(۱) جب تک آپ کا سال مقررہ گذر نہ جاوے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زر موعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے.(۲) اگر آپ مشاہدہ آسمان کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دوامر سے ایک امر ضرور ہو.(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی و مربی ہیں اپنا بجز ااور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں پھر اس پر اپنے دستخط کریں.(ب) درصورت تخلف وعدہ آپ کی جانب سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کے یا آپ کے دوستوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو، ادا کریں تا کہ وہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جاوے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نومسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو ).آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی
270 نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے ہیں صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے امت محمدیہ میں علماء اور فضلاء اور بہت ہیں جو ایسے مباحثہ کرنے کو طیار ہیں.میں جس امر سے مامور ہو چکا ہوں اس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں.یہ مباحثہ کی صورت عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے بجائے چوبیس سو کے دس ہزار روپیہ.۳۰ مئی ۱۸۸۵ء اخبار الحکم جلد ۵ مورخہ ۷ استمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۳) حضرت اقدس نے یہ خط اور اس کے ساتھ مبلغ چوبیس صد روپے بذریعہ ایک گروہ کثیر مسلمانوں کے اندر من مراد آبادی کی خدمت میں روانہ کیا.مگر منشی صاحب اس جماعت کے پہنچنے سے پہلے پہلے لاہور سے فرید کوٹ روانہ ہو گئے.بعد میں منشی صاحب کے پتہ پر بذریعہ رجسٹری انہیں روانہ کیا گیا اور نیز بذریعہ اشتہار مشتہر بھی کر دیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار مورخہ ۳۰ مئی ۱۸۸۵ء مطبوعہ صدیقی پریس لاہور کے جواب میں منشی اندر من مراد آبادی نے ایک اشتہار مطبوع مفید عام پریس لاہور شائع کیا جس کے ذریعہ اصل واقعات کو اپنی شکست کی ذلت سے بچنے کے لئے بدل دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے مجھ سے بحث کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اب عہد شکنی کرتے ہوئے بحث سے کنارہ کشی اختیار کر گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منشی اندر من مراد آبادی کے اس الزام کا مفصل جواب لکھ کر بذریعہ رجسٹری منشی صاحب کے نام ارسال کر دیا.چنانچہ اس خط کے آخر پر آپ نے لکھا کہ :.اب قصہ کوتاہ یہ کہ یہ عاجز اس قسم کی بحثوں سے سخت بیزار ہے اور جس طور کی بحث یہ عاجز منظور رکھتا ہے وہ وہی ہے جو اس سے اوپر ذکر کی گئی.اگر آپ طالب صادق
271 ہیں تو آپ کے پر میشر کی قسم دی جاتی ہے کہ آپ ہمارے مقابلہ سے ذرا کو تا ہی نہ کریں.آسمانی نسانوں کے دیکھنے کے لئے قادیان میں آکر ایک سال ٹھہر ہیں.اور اس عرصہ میں جو کچھ وساوس عقلی طور پر آپ کے دل پر دامنگیر ہوں وہ بھی تحریری طور پر رفع کرائے جانے.پھر اگر ہم مغلوب رہے تو کس قدر فتح کی بات ہے کہ آپ کو چوبیس سو روپیہ نقد مل جائے گا اور اپنی قوم میں آپ کی بڑی نیک نامی حاصل کریں گے.لیکن اگر مغلوب ہو گئے تو آپ کو اسی جگہ قادیان میں مشرف باسلام ہونا پڑے گا.اور اس بات کا فیصلہ کہ کون غالب یا کون مغلوب رہ بذریعہ ایسے ثالثوں کے ہو جائے گا جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں.اگر آپ قادیان میں ایک سال تک ٹھرنے کی نیت سے آؤں تو ہم مراد آباد سے قادیان تک کل کرایہ آپ کا آپ کی خدمت میں بھیج دیں گے اور آپ کیلئے چوبیس سو روپیہ کسی بنک سر کاری میں داخل کیا جائے گا.مگر اس شرط سے آپ بھی ہمیں اس بات کی پوری پوری تسلی دے دیں کہ آپ بحالت مغلوبیت ضرور مسلمان ہو جائیں گے اور اگر اب بھی آپ نے بپابندی شرائط مذکورہ بالا آنے سے انکار کیا تو خوب یادرکھیں کہ یہ داغ ایسا نہیں ہے کہ پھر حلیہ یا تدبیر سے دھویا جائے مگر ہمیں امید نہیں کہ آپ آئیں کیونکہ حقانیت اسلام کا آپ کے دل پر بڑا رعب ہے اور اگر آپ آگئے تو خدا تعالیٰ آپ کو مغلوب اور رسوا کرے گا اور اپنے دین کی مدد اور اپنے بندہ کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.اخیر پر آپ کو واضح رہے کہ آج یہ خط رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجا جاتا ہے اور اگر ہمیں دن تک آپ کا کوئی جواب نہ آیا تو آپ کی کنارہ کشی کا حال چند اخباروں میں شائع کرایا جائے گا.والسلام على من اتبع الهدى.66 ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۶۵)
272 لیکھرام میدانِ مقابلہ میں پنڈت اندر من مراد آبادی کے میدان مقابلہ سے فرار کے بعد پنڈت لیکھرام پشاوری مقابلہ میں نکل آیا اور اس نے قادیان آنے پر آمادگی ظاہر کی.چنانچہ اس نے ۱۸۸۵ء کی پہلی سہ ماہی کے آخر میں حضرت اقدس سے خط و کتابت شروع کر دی اور دوسو روپیہ ماہوار کا مطالبہ کیا.حضرت اقدس نے اس کو جواب دیا کہ تم کسی قوم کے مقتدا اور پیشوا نہیں اور نہ تمہاری آمدنی دوسو روپیہ ماہوار ہے.ایسی حالت میں تم اس کے مستحق نہیں.یہ سلسلہ خط و کتابت کسی قدر لمبا ہو گیا.بالآ خر حضرت اقدس نے لیکھرام کو کہا کہ وہ آریہ سماج لاہور، قادیان، امرتسر اور لدھیانہ کے ممبروں کی حلفیا تصدیق سے ایک اقرار نامہ پیش کرے جس میں وہ اس کو اپنا مقتدا تسلیم کرتے ہوں.اس اقرار نامہ پر بعض ثقہ مسلمانوں اور بعض پادریوں کی شہادت ہو اور اسے اخبارات میں شائع کرا دیا جائے مگر پنڈت لیکھرام نے کبھی ان پانچوں آریہ سماجوں کی طرف سے دستخطی اقرار نامہ اور مختار نامہ لے کر نہ بھیجا.یہ خط و کتابت جولائی ۱۸۸۵ء تک جاری رہی.بالآ خر حضرت اقدس نے اتمام حجت کے لئے لیکھرام کی اس شرط کو بھی منظور کر لیا کہ باوجود یکہ وہ ایسی عزت اور حیثیت نہیں رکھتا جو مشتہرہ اعلان مطبوعہ مرتضائی پریس میں بیان کی گئی ہے تاہم اس کے اصرار پر چوہیں سور و پیہ بھی دینا منظور کر لیا تا کہ وہ مقابلہ میں آجاوے اور اس پر اتمام حجت ہو.چنانچہ خط جو ۱۷ جولائی ۱۸۸۵ ء کو آپ نے لکھا اس میں تحریر فرمایا کہ:.ہر چند ہم نے کوشش کی مگر ہم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ آپ ان معزز اور ذی مرتبت لوگوں میں سے ہیں جو بوجہ حیثیت عرفی اپنی کے دوسور و پیہ ماہوار پانے کے مستحق ہیں مگر چونکہ آپ کا اصرار اپنے اس دعوی پر رعایت درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ فی الحقیقت میں ایسا ہی عزت دار ہوں اور پشاور بمبئی تک جسقدر آریہ سماج ہیں وہ سب مجھے معزز اور قوم میں سے معزز بزرگ اور سر کردہ سمجھتے ہیں اس لئے آپ کی طرف لکھا جاتا ہے
273 کہ اگر آپ سچ مچ ایسے ہی عزت دار ہیں تو ہم آپ کی درخواست منظور کر لیتے ہیں اور جہاں چاہو چوہیں سور و پیہ جمع کرنے کو تیار ہیں.( از حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۳۹) اس میں حضرت اقدس نے یہ بھی کہا کہ اگر نشان دیکھ کر تم مسلمان نہ ہوتو بطور تاوان چوبیں سورو پیادا کر و اور اسے تم بھی کسی جگہ داخل کرا دو.اس مقصد کے لئے آپ نے ہیں یوم کی میعاد مقرر کی لیکن نتیجہ کیا ہوا.آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل بلایا ہم نے - در حقیقت پنڈت لیکھرام نے مقابلہ میں آنے کا عزم کیا ہی نہ تھا.وہ تو صرف لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتا تھا اور ستی شہرت حاصل کرنا چاہتا تھا.نہ اس نے چوہیں سو روپیہ جمع کرانے کا وعدہ کیا اور نہ اس شرط کو قبول کیا.آخر وہ مدت گذر گئی.اس اثناء میں پنڈت رام نے یہ چاہا کہ میں قادیان چلا جاؤں اور پھر مشتہر کر دوں گا کہ میں نشان دیکھنے کے لئے گیا تھا.مجھے کوئی نشان نہیں دکھایا گیا.مگر کافروں کے مکایدان کی ہلاکت کا ہی موجب ہوا کرتے ہیں.لیکھرام کی قادیان آمد مرزا امام دین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچازاد بھائی تھے.ان کی طبیعت پر دہریت والحاد کا غلبہ تھا اور حضرت کی مخالفت ان کا روزانہ کا شغل تھا.ان کو معلوم ہواکر لیکھر ام اس قسم کی خط و کتابت کر رہا ہے تو ان کو ایک موقعہ ہاتھ آ گیا اور لیکھرام کو ایک آلہ بنا کر انہوں نے اپنی حاسدانہ مخالفت کے کام کو سرانجام دینا چاہا.چنانچہ وہ خود گئے اور لیکھر ام کو اپنے ساتھ قادیان لے آئے.اب انہیں ایک پالتو طوطا ہاتھ آ گیا جسے انہوں نے اپنے سر پر اٹھا لیا اور
274 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اسے استعمال کرنا شروع کر دیا.مرزا امام دین کے مشورہ سے آریہ سماج کی تجدید کی گئی اور مرزا امام الدین بنشی مراد علی اور ملاحسیناں وغیرہ لوگ آریہ سماج قادیان کے ممبر بنے اور اس کا مقصد عظیم حضرت اقدس کی مخالفت قرار دیا.قادیان میں قیام کے دوران لیکھر ام ایک مرتبہ بھی حضرت اقدس کی خدمت میں اظہارِ خیالات کے لئے حاضر نہ ہوا.خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا مگر اس خط و کتابت کا کوئی بھی عملی نتیجہ پیدا نہ ہوا.لیکھر ام اپنے خطوط میں اپنی شوخی کے باعث کوئی نہ کوئی بات اسلام پر اعتراض کے رنگ میں کہ دیتا تھا جس کا جواب حضرت اقدس بڑا محققانہ اور مدلل دیتے مگر لیکھرام حقیقت حال کو سمجھنے کی بجائے ہمیشہ الٹا چلتا.آخر دسمبر ۱۸۸۵ء کے اوائل میں یہ خط و کتابت نتیجہ کے قریب آنے لگی لیکھرام نے پہلے تو سال کیلئے چوہیں سو روپیہ معاوضہ ہی طلب کیا تھا اور حضرت اقدس نے بھی مان ہی لیا تھا لیکن اب قادیان آنے کے بعد معاوضہ کی رقم صرف تین صد روپیہ ماہوار پر آ گئی.حضرت اقدس چاہتے تھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاوے اور آریہ سماج کے اصولوں اور تعلیم اسلام کا مقابلہ بھی ہو جاوے.اس لئے آپ لیکھرام کو بار بار اس طرف لانا چاہتے تھے کہ تم اپنی مذہبی سچائی کے دلائل پیش کرو اور ہم قرآن کی آیتوں سے اپنے مذہب کی سچائی پیش کریں گے.مگر لیکھر ام اس طرف آنے سے گریز کرتا رہے اور حضرت اقدس کے خطوط کا جواب دیتے وقت بڑی چالا کی سے کام لیتے ہوئے اصل مطالبہ کا ذکر تک نہ کرتا اور ہر دفعہ بنسی اور ٹھٹھے سے بار بار آسمانی نشان طلب کرتا.چنانچہ ۱۳ دسمبر ۱۸۸۵ء کو اس نے ایک خط لکھا جس میں ۱۴ یا ۱۵ تاریخ اپنے قادیان سے روانہ ہونے کا ذکر کیا تھا.حضرت اقدس نے پھر اسے مفصل لکھا مگر وہ اس طرف نہ آیا.آخر اس کی شوخی بڑھتی گئی اور اس نے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا جو اس کے لئے پیغام موت ثابت ہوا.اس خط میں اس نے لکھا کہ :.
275 وو ”مرزا صاحب......افسوس کہ آپ نے قرآنی اسپ خود کو اسپ اور اوروں کے اسپ کو خچر قرار دیتے ہیں.میں نے ویدک اعتراض کا عقل سے جواب دیا اور آپ نے قرآن پر اعتراض کا نقل سے.مگر وہ عقل سے بسا بعید ہے.اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی تو کام بہت ہے.اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں.اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو.“ ( حیات احمد جلد دوم صفحه ۴۲ ح ) حضرت اقدس نے اس خط کا آخری جواب اسے دے دیا جس میں لکھا کہ :.” جناب پنڈت صاحب آپ کا خط میں نے پڑھا.آپ یقینا سمجھیں کہ ہم کو نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے.بیجا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں.آپ کی زبان بدزبانی سے نہیں رکھتی.آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں.یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں.جو یا آپ اس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بے باکوں کو تنبیہ کر سکتا ہے.اور نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلاوے.“ ( از حیات احمد جلد دوم صفحه ۴۳ ح ) ان خطوط کو پڑھ لینے کے بعد یہ حقیت آشکار ہو جاتی ہے کہ لیکھرام نے بالآخر خیر الماکرین سے نشان مانگا اور خدا تعالیٰ نے اسی رنگ کا نشان دیا.یعنی اس کی موت کا نشان دیا.حضرت اقدس نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر لیکھر ام کی رضامندی سے ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو لیکھرام کی ہلاکت کے متعلق ایک پیشگوئی شائع کر دی.اسی پیشگوئی کے موافق وہ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو بمقام لاہور قتل ہو گیا.حکومت اور آریہ سماج کی پوری سرگرمی اور تفتیش کے باوجوداس
276 قتل کا سراغ آج تک نہیں مل سکا.اس طرح لیکھرام کا یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچ گیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی.پادری سوفٹ میدان میں پادری سوفٹ دراصل ایک دیسی عیسائی تھا اور اس کا نام رام چندر تھا.یہ گوالیار اسٹیٹ کا باشندہ تھا.عیسائی ہوکر اس نے اپنا نام تبدیل کر کے سوفٹ رکھ لیا تا کہ اس طرح وہ اپنی عیسائیت یا پہلی زندگی کو مخفی رکھ سکے.اس نے بھی سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے حضرت اقدس کو دعوت نشان نمائی کو قبول کرنے کیلئے ایک مشروط خط لکھا.اس نے آمادگی کا اظہارا ایسے رنگ میں کیا جس کا لازمی نتیجہ فرار تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے خط جو جواب دیا اس کے بعد پادری صاحب خاموش ہو گئے اور اس طرح عیسائی قوم پر بھی اتمام حجت ہوگئی.چنانچہ حضور اس کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.”آپ نے اپنے خط میں شرطیں لکھی ہیں.پہلے آپ لکھتے ہیں کہ چھ سو روپیہ یعنی تین ماہ کی تنخواہ بطور پیشنگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں بھیجا جاوے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام اس عاجز کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی دقت پیش آوے تو فوراً آپ گوجرانوالہ میں واپس آجائیں گے اور جو روپیہ آپ کو مل چکا ہو اس کو واپس لینے کا استحقاق اس عاجز کو نہیں رہے گا.یہ پہلی شرط ہے جو آپ نے تحریر فرمائی ہے.لیکن گزارش خدمت کیا جاتا ہے کہ روپیہ کسی حالت میں قبل از انفصال اس امر کے جس کیلئے بحالت مغلوب ہونے کے روپیہ دینے کے اقرار ہے آپ کو نہیں مل سکتا.ہاں البتہ روپیہ آپ کی تسلی اور اطمینان قلبی کے لئے کسی بنگ سرکاری میں جمع ہوسکتا ہے یا کسی مہاجن کے پاس رکھا جا سکتا ہے.غرض جس طرح جاہیں روپیہ کی بابت ہم آپ کی تسلی کرا سکتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ نہیں دے سکتے.اور جو اسی شرط کے
277 دوسرے حصہ میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ اگر مکان وغیرہ کے بارے میں کسی نوع کی ہم کو وقت پہنچی تو ہم فورا گوجرانوالہ میں آویں گے اور جو روپیہ جمع کرایا گیا ہے ہمارا ہو جائے گا.سو اس بات کا انتظام اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ آپ ایک دو دن کیلئے خود قادیان میں آکر مکان کو دیکھ بھال لیں اور اپنی ضروریات کا بالمواجہ تذکرہ اور تصفیہ کر لیں تا جہاں تک مجھ سے بن پڑے آپ کی خواہشوں کے پورا کرنے کیلئے کوشش کروں اور پھر بعد میں نکتہ چینی کی گنجائش نہ رہے....اس خاکسار کا یہ عہد واقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئے ان کو اپنے مکان میں سے اچھا مکان اور اپنی خواراک کے موافق خوراک دی جاوے گی.اور جس طرح ایک عزیز اور پیارے مہمان کی حتی الوسع خدمت و تواضع کرنی چاہئے اسی طرح ان کی بھی کی جائے گی.پھر آپ دوسری شرط میں لکھتے ہیں کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا جیسے کتاب اقلیدس میں ثبوت درج ہیں جن سے ہمارے دل قائل ہو جائیں.اس سلسلہ میں حضرت اقدس نے فرمایا.آپ تسلی رکھیں کہ اقلیدس کے ناچیز خیالات کو ان عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں.”چہ نسبت خاک را با عالم پاک اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی حصر رہے گا بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا.اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحققیت خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں تب تک آپ غالب اور یہ عاجز مغلوب ہو جائے گا.لیکن درصورت مل جانے ایسی گواہیوں کے جوان خوارق اور پیشگوئیوں کو انسانی طاقت سے بالاتر قرار دیتی ہوں تو آپ مغلوب اور میں بفضلہ
278 تعالیٰ غالب ہوں گا اور اسی وقت آپ پر لازم ہوگا کہ اسی جگہ قادیان میں مشرف بہ اسلام ہو جائیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جواب کے بعد پادری صاحب نے خاموشی اختیار کر لی.اور اس طرح عیسائیوں پر بھی حجت تمام ہوگئی.قادیان کے ساہوکاروں کا نشان نمائی کا مطالبہ قادیان کے بعض ہندو اور آریہ جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور بعض اکثر نشانات کے گواہ تھے بائیں انہوں نے ایک سال کے اندر اس دعوت یکسالہ کی بناء پر نشان کا مطالبہ کیا.چنانچہ انہوں نے آپ کو ایک تحریری درخواست اس غرض کے لئے دی اور حضرت اقدس نے بھی اس درخواست کو منظور فرماتے ہوئے گواہوں کے دستخطوں سے جواب دیا.اس معاہدہ میں یہ طے پایا کہ حضرت اقدس ابتدائے ستمبر ۱۸۸۵ء تا ستمبر ۱۸۸۶ ء ایک سال کے اندر اندر کوئی آسمانی نشان دکھائیں گے جو انسانی طاقتوں سے بالا ہوگا.چنانچہ اس معاہدہ کو قادیان کے ایک مشہور اور ممتاز آریہ سماجی لالہ شرمپت رائے صاحب نے شائع کر دیا جو حسب ذیل ہے.چونکہ مرزا غلام احمد صاحب مولف براہین احمدیہ اور ساہوکاران اور شرفاء اور ذی عزت اہل ہنود قصبہ قادیان میں جو طالب صادق ہونے کے مدعی ہیں آسمانی نشانوں اور پیشگوئیوں اور دیگر خوارق کے مشاہدے کے بارے میں ( جن کے دکھلانے کا مرزا صاحب کو دعویٰ ہے ) خط و کتابت بطور باہمی اقرار وعہد و پیماں کے ہو کر ہندو صاحبوں کی طرف سے یہ اقرار وعہد ہوا ہے کہ ابتدائے ستمبر ۱۸۸۵ء لغایت اخیر ستمبر ۱۸۸۶ ء یعنی برابر ایک سال تک نشانوں کے دیکھنے کے لئے مرزا صاحب کے پاس آمد دور کھیں گے اور ان کے کاغذ اور روزنانہ الہامی پیشگوئیوں پر بطور گواہ کے دستخط
279 کرتے رہیں گے اور بعد پوری ہونے کسی الہامی پیشگوئی کے اس پیشگوئی کی سچا کی کی نسبت اپنی شہادت چند اخباروں میں شایع کرا دیں گے اور مرزا صاحب کی طرف سے یہ عہد ہوا ہے کہ وہ تاریخ مقررہ سے ایک سال تک ضرور کوئی نشان دکھلاویں گے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ دونوں تحریر میں جو بطور اقرار کے باہم ہندو صاحبان و مرزا صاحب کے ہوتی ہیں شایع کی جائیں.سو ہم یہ نیت اشاعت عام و اطلاع یابی ہر ایک طالب حق کے وہ دونوں تحریریں دونوں صاحبوں سے لے کر شایع کرتے ہیں اور بشرط زندگی یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم خود گواہ رویت بن کر اس سالانہ کارروائی سے خبر گیراں رہیں گے اور بعد گزرنے پورے ایک سال کے یا سال کے اندر ہی جیسی صورت ہو جو نتیجہ ظہور میں آئے گا اسی طرح وہ بھی اپنی ذاتی واقفیت کی رو سے شائع کریں گے تاکہ حق کے بچے طالب اس سے نفع اٹھا ئیں اور پبلک کے لئے منصفانہ رائے ظاہر کرنے کا موقع ملے اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ ہو.راقم خاکسار شر میب رائے ممبر آریہ سماج قادیان ضلع گورداسپور پنجاب از حیات احمد جلد دوم نمبر ۳ صفحه ۱۳۲،۱۳۱) ساہوکاران و دیگر ہند و صاحبان قادیان کا خط بنام مرزا صاحب مخدوم و مکرم مرز اغلام صاحب سلمہ بعد ماجب بکمال ادب سے عرض کی جاتی ہے کہ جس حالت میں آپ نے لنڈن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شده خط بھیجے ہیں کہ جو طالب صادق ہو ایک
280 برس تک ہمارے پاس قادیان میں ٹھہرے تو خدا تعالیٰ اس کو ایسے نشان درباره اثبات حقیقت ضرور دکھائے گا جو کہ طاقت انسانی سے بالاتر ہوں گے.سو ہم لوگ جو آپ کے ہم سایہ اور ہمشہری ہیں لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ حقدار ہیں اور ہم آپ کی خدمت میں قسمیہ بیان کرتے ہیں جو ہم طالب صادق ہیں کسی قسم کا شر اور عناد جو بمقتضائے نفسانیب یا مغائرت مذہب نا اہلوں کے دلوں میں ہوتا ہے وہ ہمارے دلوں میں ہرگز نہیں.اور نہ ہم بعض نامنصف مخالفوں کی طرح آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہم صرف ایسے نشانوں کو قبول کریں گے جو اس قسم کے ہوں کہ ستارے اور سورج اور چاند پارہ پارہ ہوکر زمین پر گر جائیں.یا ایک سورج کی بجائے تین سورج اور ایک چانک کی جگہ دو چاند ہو جائیں یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آسمان سے جا لگے.یہ باتیں بلاشبہ ضدیت اور تعصب سے ہیں نہ حق جوئی کی راہ سے لیکن ہم لوگ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیں جن میں زمین آسمان کی زیروز بر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت.ہاں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بوجہ آپ کی راستبازی دینی کے عین محبت اور کر پا کی راہ سے آپ کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاص خاص پر مطلع کرتا ہے اور بطور پیشگوئی ان پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے یا ایسے عجیب طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے پانے برگزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا صیا ہے.سو آپ سوچ لیں کہ ہماری اس درخواست میں کچھ ہٹ دھرمی اور ضد نہیں ہے اور اس جگہ ایک اور بات واجب العرض ہے اور وہ یہ ہے کہ
281 آپ یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ شخص مشاہدہ کنندہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد اسلام کو قبول کرے.سو اس قدر تو ہم مانتے ہیں کہ یہ بیچ کے کھلنے کے بعد جھوٹھ پر قائم رہنا دھرم نہیں ہے اور یہ ایسا کام کسی بھلے منش اور سعید الفطرت سے ہوسکتا ہے لیکن مرزا صاحب آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ہدایت پا جانا خود انسان کے اختیار میں نہیں ہے.جت توفیق ایزدی اس کے شامل حال نہ ہو کسی دل کو ہدایت کے لئے کھول دینا ایک ایسا امر ہے جو صرف پر میشر کے ہاتھ میں ہے سو ہم لوگ جو صد ہا زنجیروں قوم برادری ننگ و ناموس وغیرہ میں گرفتار ہیں کیونکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خود اپنی قوت سے ان زنجیروں کو توڑ کر اور اپنے سخت دل کو آپ ہی نرم کر کے آپ ہی دروازہ ہدایت اپنے پر کھول دیں گے اور جو پر میشر سرب شکتی مان کا خاص کام ہے وہ آپ ہی کر دکھا ئیں گے بلکہ یہ بات سعادت از لی پر موقوف ہے جس کے حصہ میں وہ سعادت مقدر ہے اس کے لئے شرائط کی کیا حاجت ہے اس کو تو خود توفیق از لی کشاں کشاں چشمہ ہدایت تک لے آئے گی ایسا کہ آپ بھی اس کو روک نہیں سکتے اور آ ہم سے ایسی شرطیں موقوف رکھیں اگر ہم لوگ کوئی آپ کا نشان دیکھ لیں گے تو اگر ہدایت پانے کے لئے توفیق ایزدی ہمارے شامل حال ہوئی تو ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں اور پر میشر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اس قدر تو ہم ضرور کریں گے کہ آپ کے ان نشانوں کو جو ہم بچشم خود مشاہدہ کر لیں گے چند اخباروں کے ذریعہ سے بطور گواہ رویت شائع کرا دیں گے اور آپ کے منکرین کو ملزم ولا جواب کرتے رہیں گے اور آپ کے صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے اور بلاشبہ ہم ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہو کر ہر ایک قسم کی پیشگوئی وغیرہ پر دستخط بقید تاریخ و روز کر دیا کریں گے اور کوئی بدعہدی اور کسی قسم کی نامنصفانہ حرکت
282 ہم سے ظہور میں نہ آئے گی.ہم سراسر سچائی اور راستی سے اپنے پر میشر کو حاضر و ناظر جان کر یہ اقرار نامہ لکھتے ہیں اور اسی سے اپنی نیک نیتی کا قیام چاہتے ہیں ور سال جو نشانوں کے دکھانے کیلئے مقرر کیا گیے ہے وہ ابتدائے ستمبر ۱۸۸۵ء سے شمار کیا جاوے گا.جس کا اختتام ستمبر ۱۸۸۵ء کے اخیر تک ہو جائے گا.العبد.پچھن رام بقلم خود.جو اس خط میں ہم نے لکھا ہے اس کے موافق عمل کریں گے.پنڈت پہار امل بقلم خود.بشند اس ولد دعدا ساہوکار بقلم خود منشی تا را چند کھتری بقلم خود.پنڈت نہال چند.نست رام - فتح چند.پنڈت ہر کرن.پنڈت پیج ناتھ چودھری.بازار قادیان بقلم خود.بشند اس ولد ہیرانند برہمن از حیات احمد جلد سوم صفحه ۱۳۲ تا ۱۳۴) نامه مرزا غلام احمد صاحب بجواب خط ساہوکاران قادیان عنایت فرمای من پنڈت نہال چند صاحب و پنڈت پھارامل صاحب و چھی رام صاحب ولاله بشند اس و منشی تارا چند صاحب ودیگر صاحبان ارسال کنندگان درخواست مشاہدہ خوارق بعد ما وجب.آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے درخواست کی ہے مجھے کو ملا.چونکہ یہ خط سراسر انصاف وحق جوئی پر مبنی ہے اور ایک جماعت طالب حق نے جو عشرہ کاملہ ہے اس کو لکھا ہے اس لئے یہ تمامتر شکر گزاری اس کے مضمون کو قبول منظور کرتا ہوں.اور آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر
283 آپ صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے جو اپنے خط میں آپ لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جل شانہ کی تائید و نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسا نشان آپ کو دکھلایا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو.یہ عاجز آپ صاحبوں کے پر انصاف خط کے پڑھنے سے بہت خوش ہوا.اور اس سے زیادہ تر اس روز خوش ہوگا کہ جب آپ بعد دیکھنے کسی نشان کے اپنے وعدے کے ایفاء کے لئے جس کو آپ صاحبوں نے اپنے حلفوں اور قسموں سے کھول دیا ہے اپنی شہادت رویت کا بیان چند اخباروں میں مشتہر کر کے متعصب مخالفوں کو ملزم و لا جوات کرتے رہیں گے اور اس جگہ یہ بھی بخوشی دل آپ صاحبوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ایک سال تک کوئی نشان نہ دیکھیں یا کسی نشان کو جھوٹا باویں تو بے شک اس کو مشتہر کر دیں اور اخباروں میں چھپوا دیں.یہ امر کسی نوع سے موجب ناراضگی نہ ہوگا اور نہ آپ کے دوستانہ تعلقات میں کچھ فرق آئے گا.بلکہ یہ بات ہے جس میں خدا بھی راضی اور ہم بھی.اور ہر ایک منصف بھی.اور چونکہ آپ لوگ شرط کے طور پر کچھ روپیہ نہیں مانگتے صرف دلی سچا کی سے نشانوں کا دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے اس طرف سے بھی قبول اسلام کے لئے شرط کے طور پر آپ سے کچھ گرفت نہیں بلکہ یہ بات بقول آپ لوگوں کے توفیق ایزدی پر چھوڑی گئی ہے اور اخیر پر دلی جوش سے یہ دعا ہے کہ کہ خداوند قادر کریم بعد دکھلانے کسی نشان کے آپ لوگوں کو غیب سے قوت ہدایت پانے کی بخشے.تا آپ لوگ مائدہ رحمت الہی پر حاضر ہو کر پھر محروم نہ رہیں.اے قادر مطلق کریم و رحیم.ہم میں اور ان میں سچا فیصلہ کر اور تو ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.اور کوئی نہیں که بجز تیرے فیصلہ کر سکے.آمین ثم آمین.واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
284 خاکسار احقر العباد غلام احمد عفی اللہ عنہ شہادت گواہان حاضر الوقت ہم لوگ جن کے نام نیچے درج ہیں اس معاہدہ فریقین کے گواہ ہیں.ہمارے روبرو ساہوکاران قادیانی کے نام اوپر درج ہیں اپنے خط کے مضمون کو حلفاً تصدیق کیا اور اسی طرح مرزا غلام احمد صاحب نے بھی گواه شد گواه شد گواه شد میر عباس علی لودھیانوی فقیر عبد اللہ سنوری شہاب الدین تھہ غلام نبی معاہدہ کا انجام ( از مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۹۴) قادیان کے ہندؤوں کی درخواست پر حضرت مسیح موعود اور ان کے درمیان ایک سال میں نشان نمائی کا جو معاہدہ ہوا وہ قائم نہ رہ سکا.اور بعض ممبران آریہ سماج نے اس معاہدہ کو فسخ کرا دیا.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اس معاہدہ کے متعلق لکھا کہ :.خاص کر مسکن مؤلف ( قادیان ضلع گرداسپورہ) کے ساکنین ہنود نے کسی قدر شرط مؤلف کو مانا اور اس باب میں ایک معاہدہ لکھ دیا تھا جو متعد داخباروں ( وزیر ہند وغیرہ) میں مشتہر ہو چکا ہے مگر آخر وہ معاہدہ بھی قائم نہ رہا.بعض ممبران آریہ سماج نے اس معاہدہ کو فسخ کر دیا.اب اُن کے خط واشتہار کے جواب سے ہر طرف سے سکوت ہے.جس سے جانبہین کے لوگ مختلف نتائج نکال رہے ہیں.اشاعت السنہ نمبرے جلد نمبر ۸ صفحه ۱۷۸)
285 اگر قادیان کے ہندو اس معاہدہ پر قائم رہتے تو یقیناً اللہ تعالی ایک سال کی میعاد کے اندر اندر اسلام کی صداقت پر مبنی کئی غیر معمولی نشانات ظاہر فرما تا مگر افسوس کہ قادیان کے ہندؤوں کے میدان سے بھاگ جانے کے باعث ایسا نہ ہوسکا.چالیس روز میں نشان نمائی کے مقابلہ کی دعوت جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۵ء کے آغاز میں تمام مخالفین اسلام کو ایک سال تک قادیان میں ٹھہر کر آسمانی نشان دکھانے کی دعوت دی مگر کوئی مخالف عملی طور پر آسمانی نشان دیکھنے کیلئے تیار نہ ہوا.اس کے بعد حضرت اقدس نے ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء کو ایک اور اشتہار دیا جس میں کئی آریہ اور عیسائی معززین کو مخاطب کر کے صرف چالیس روز میں آسمانی نشان دکھانے کا چیلنج یا.یہ چیلنج حسب ذیل ہے.”ہمارے اشتہارات گزشتہ کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے یہ اشتہار دیا تھا کہ جو معزز آریہ صاحب یا پادری صاحب یا کوئی اور صاحب اور صاحب مخالف اسلام ہیں اگر ان میں سے کوئی صاحب ایک سال تک قادیان میں ہمارے پاس آ کر ٹھہرے تو درصورت نہ دیکھنے کسی آسمانی نشان کے چوہیں سو روپیہ انعام پانے کا مستحق ہوگا.سو ہر چند ہم نے تمام ہندوستان و پنجاب کے پادری صاحبان و آریہ صاحبان کی خدمت میں اسی مضمون کے خط رجسٹری کرا کر بھیجے مگر کوئی صاحب قادیان میں تشریف نہ لائے.بلکہ منشی اندر من صاحب کیلئے تو مبلغ چوبیس سو روپیہ نقد لاہور میں بھیجا گیا تو وہ کنارہ کر کے فرید کوٹ کی طرف چلے گئے ہاں ایک صاحب پنڈت لیکھرام نام پشاوری قادیان میں ضرور آئے تھے اور ان کو بار بار کہا گیا کہ اپنی حیثیت کے موافق بلکہ اس تنخواہ سے دو چند جو پشاور میں نوکری کی حالت میں پاتے تھے ہم سے بحساب ماہواری لینا کر کے ایک سال تک ٹھہرو اور اخیر پر یہ بھی کہا گیا کہ
286 اگر ایک سال تک منظور نہیں تو چالیس دن تک ہی ٹھہرو تو انہوں نے ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کو منظور نہیں کیا اور خلاف واقعہ سراسر دروغ بیضر وغ اشتہارات چھپوائے سوان کیلئے تو رسالہ سرمہ چشم آریہ میں دوبارہ یہی چالیس دن تک اس جگہ رہنے کا پیغام تحریر کیا گیا ہے ناظرین اس کو پڑھ لیں لیکن یہ اشتہاراتمام حجت کی غرض سے بمقابل منشی جیوند اس صاحب جو سب آریوں کی نسبت شریف اور سلیم الطبع معلوم ہوتے ہیں اور لالہ مرلید ھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر ہوشیار پور جو وہ بھی میری دانست میں آریوں میں سے غنیمت ہیں اور منشی اندر من صاحب مراد آبادی جو گویا دوسرا مصرعہ سورتی صاحب کا ہیں اور ماسٹر عبداللہ آتھم صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر رئیس امرتسر جو حضرات عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج آدمی ہیں اور پادری عماد الدین لاہنر صاحب امرتسری اور پادری ٹھا کر داس صاحب مولف کتاب اظہار عیسوی شائع کیا جاتا ہے کہ اب ہم بجائے ایک سال کے صرف چالیس روز اس شرط سے مقرر کرتے ہیں کہ جو صاحب آزمائش و مقابلہ کرنا چاہیں وہ برابر چالیس دن تک ہمارے پاس قادیان میں یا جس جگہ اپنی مرضی سے ہمیں رہنے کا اتفاق ہور ہیں اور برابر حاضر ر ہیں پس اس عرصہ میں اگر ہم کوئی امر پیشگوئی جو خارق عادت ہو پیش نہ کریں یا پیش تو کریں مگر بوقت ظہور وہ جھوٹا نکلے یا وہ جھوٹا تو نہ ہومگر اسی طرح صاحب ممتحن اس کا مقابلہ کر کے دکھلا دیں تو مبلغ پانسو روپیہ نقد بحالت مغلوب ہونے کے اسی وقت بلا توقف ان کو دیا جائے گالیکن اگر وہ پیشگوئی وغیرہ بہ پایہ صداقت پہنچ گئی تو صاحب مقابل کو بشرف اسلام مشرف ہونا پڑے گا.اور یہ بات نہایت ضروری قابل یادداشت ہے کہ پیشگوئیوں میں صرف زبانی طور پر نکتہ چینی کرنا یا اپنی طرف سے شرائط لگانا نا جائز اور غیر مسلم ہوگا بلکہ سیدھا راہ شناخت پیشگوئی کا
287 یہی قرار دیا جائے گا کہ اگر وہ پیشگوئی صاحب مقابل کی رائے میں کچھ ضعف یا شک رکھتی ہے یا ان کی نظر میں قیافہ وغیرہ سے مشابہ ہے تو اسی عرصہ چالیس روز میں وہ بھی ایسی پیشگوئی ایسے ہی ثبوت سے ظاہر کر کے دکھلا دیں اور اگر مقابلہ سے عاجز رہیں تو پھر حجت ان پر تمام ہوگی اور بحالت سچے نکلنے پیشگوئی کے بہر حال انہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور یہ تحریریں پہلے سے جانبین میں تحریر ہو کر انعقاد پا جائیں گے چنانچہ اس رسالہ کے شائع ہونے کے وقت سے یعنے ۲۰.ستمبر ۱۸۸۶ء سے ٹھیک تین ماہ کی مہلت صاحبان موصوف کو دی جاتی ہے اگر اس عرصہ میں ان کی طرف سے اس مقابلہ کیلئے کوئی منصفانہ تحریک نہ ہوئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ گریز کر گئے.والسلام علی من اتباع الہدی.المشتهر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب عیسائیوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج عبداللہ آتھم کو نشان نمائی کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۳ء میں مسٹر عبداللہ آ ھم کو امرتسر میں ہونے والے مباحثہ کے دوران فیصلہ کیلئے نشان نمائی کا درج ذیل چیلنج دیا.”اب میں اس مجلس میں ڈپتی عبد اللہ آتھم صاحب کی خدمت میں اور دوسرے تمام حضرات عیسائی صاحبوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس بات کو اب طور دینے کی کیا حاجت ہے کہ آپ ایسی پیشگوئیاں پیش کریں جو حضرت مسیح کے اپنے کاموں
288 اور فعل کے مخالف پڑی ہوئی ہیں.ایک سیدھا اور آسان فیصلہ ہے جو میں زندہ اور کامل خدا سے کسی نشان کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ حضرت مسیح سے دعا کریں.آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قادر مطلق ہے.پھر اگر وہ قادر مطلق ہے تو ضرور آپ کامیاب ہو جاویں گے.اور میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کے کہتا ہوں کہ اگر میں بالمقابل نشان بتانے میں قاصر رہا تو ہر ایک سزا اپنے پر اٹھالوں گا.اور اگر آپ نے مقابل پر کچھ دکھلایا تب بھی سزا اٹھالوں گا.چاہیئے کہ آپ خلق اللہ پر رحم کریں.میں بھی اب پیرانہ سالی تک پہنچا ہوا ہوں اور آپ بھی بوڑھے ہو چکے ہیں.ہمارا آخری ٹھکانا اب قبر ہے.آؤ اس طرح پر فیصلہ کر لیں.سچا اور کامل خدا بیشک بچے کی مدد کرے گا.اب اس سے زیادہ کیا عرض کروں.“ جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳۸) ملکہ معظمہ برطانیہ کو نشان دکھانے کی دعوت اگر حضور ملکہ معظمہ میرے تصدیق دعوی کیلئے مجھ سے نشان دیکھنا چاہیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ ظاہر ہو جائے.اور نہ صرف یہی بلکہ دعا کر سکتا ہوں کہ یہ تمام زمانہ عافیت اور صحت سے بسر ہو.لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو.اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں.یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو اس آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے.جس سے اس زمانہ میں عیسائی مذہب بے خبر ہے.منہ ( تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۶ ح)
289 تمام پادیوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج.اور آسمانی نشانوں کی شہادت کا یہ حال ہے کہ اگر تمام پادری مسی مسیح کرتے مر بھی جائیں تاہم ان کو آسمان سے کوئی نشان مل نہیں سکتا.کیونکہ مسیح خدا ہو تو ان کونشان دے.وہ تو بیچارہ اور عاجز اور ان کی فریاد سے بے خبر ہے.اور اگر خبر بھی ہو تو کیا ہوسکتا ہے.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۴) ۲.دیکھو ہم حضرات پادری صاحبوں کو نہ تلوار سے بلکہ ملائم الفاظ سے بار باراس طرف بلاتے ہیں کہ آؤ ہم سے مقابلہ کرو کہ دونوں شخص یعنے حضرت مسیح اور حضرت سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی برکات اور افاضات کے رو سے زندہ کون ہے.اور جس طرح خدا کے نبی پاک نے قرآن شریف میں کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے تو میں سب سے پہلے اس کی پرستش کرونگا.ایسی ہی میں کہتا ہوں کہ اے یورپ اور امریکہ کے پادریو! کیوں خواہ نخواہ شور ڈال رکھا ہے.تم جانتے ہو کہ میں ایک انسان ہوں جو کروڑہا انسانوں میں مشہور ہوں.آؤ میرے ساتھ مقابلہ کرو.مجھ میں اور تم میں ایک برس کی مہلت ہو.اگر اس مدت میں خدا کے نشان اور خدا کی قدرت نما پیشگوئیاں تمہارے ہاتھ سے ظاہر ہوئیں اور میں تم سے کمتر رہا تو میں مان لونگا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے لیکن اگر اُس سچے خدا نے جس کو میں جانتا ہوں اور آپ لوگ نہیں جانتے مجھے غالب کیا اور آپ لوگوں کا مذہب آسمانی نشانوں سے محروم ثابت ہوا تو تم پر لازم ہوگا کہ اس دین کو قبول کرو.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۰) ۳.کیا بنی اسرائیل کے بقیہ یہود یا حضرت مسیح علیہ السلام کو خداوند خداوند پکار نے
290 والے عیسائیوں میں کوئی ہے جو ان نشانات میں میرا مقابلہ کرے.میں پکار کر کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں.ایک بھی نہیں.پھر یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداری معجزہ نمائی کی قوت کا ثبوت ہے کیونکہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ نبی متبوع کے معجزات ہی وہ معجزات کہلاتے ہیں جو اس کے کسی متبع کے ہاتھ پر سرزد ہوں.پس جو نشانات خوارق عادات مجھے دیئے گئے ہیں، جو پیشگوئیوں کا عظیم الشان نشان مجھے عطا ہوا ہے ، یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ معجزات ہیں.اور کسی دوسرے نبی کے متبع کو یہ آج فخر نہیں ہے کہ وہ اس طرح پر دعوت کر کے ظاہر کر دے کہ وہ بھی اپنے اندر اپنے ہی متبوع کی قوت قدسی کی وجہ سے خوارق دکھا سکتا ہے.یہ فخر صرف اسلام کو ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ رسول ابدال آباد کے لئے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو سکتے ہیں جن کے انفاس طیبہ اور قوت قدسیہ کے طفیل سے ہر زمانہ میں ایک مرد خدا خدا نمائی کا ثبوت دیتا ہے“.( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد اصفحہ (۲۷۵ یسوع کے نشانوں کے ساتھ اپنے نشانوں کے مقابلہ کا چیلنج میں اس وقت ایک مستحکم وعدہ کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں سے یسوع کے نشانوں کو جو اس کی خدائی کی دلیل سمجھے جانتے ہیں میرے نشانوں اور فوق العادت خوارق سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ان کو ایک ہزار + روپیہ بطور انعام دوں گا.میں سچ سچ اور حلفاً کہتا ہوں کہ اس میں تخلف نہیں ہوگا.میں ایسے ثالث کے پاس روپیہ جمع کرا سکتا ہوں جس پر فریقین کا اطمینان ہو اس فیصلہ کیلئے غیر منصف ٹھہرائے جائیں گے.درخواستیں جلد آنی چاہئیں.“
291 (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۰۳) عیسائیوں ، ہندوؤں ، آریوں اور سکھوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج اور مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر کوئی سخت دل عیسائی یا ہندویا آریہ میرے اُن گذشتہ نشانوں سے جو روز روشن کی طرح نمایاں ہیں انکار بھی کر دے اور مسلمان ہونے کیلئے کوئی نشان چاہے اور اس بارے میں بغیر کسی بیہودہ حجت بازی کے جس میں بدنیتی کی بو پائی جائے سادہ طور پر یہ اقرار بذریعہ کسی اخبار کے شائک کر دے کہ وہ کسی نشان کے دیکھنے سے گو کوئی نشان ہو.لیکن انسانی طاقتوں سے باہر ہو.اسلام کو قبول کرے گا.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہوگا کہ وہ نشان کو دیکھ لیگا کیونکہ میں اُس زندگی میں سے نور لیتا ہوں جو میرے نبی متبوع کو ملی ہے.کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے.اب اگر عیسائیوں میں کوئی طالب حق ہے.یا ہندوؤں اور آریوں میں سے سچائی کا متلاشی ہے.تو میدان میں نکلے.اور اگر اپنے مذہب کو سچا سمجھتا ہے تو بالمقابل نشان دکھلانے کے لئے کھڑا ہو جائے لیکن میں پیشگوئی کرتا ہوں کہ ہرگز ایسا نہ ہوگا بلکہ بدنیتی سے پیچ در پیچ شرطیں لگا کر بات کو ٹال دینگے کیونکہ ان کا مذہب مُردہ ہے اور کوئی ان کیلئے زندہ فیض رساں موجود نہیں.جس سے وہ رُوحانی فیض پاسکیں اور نشانوں کے ساتھ چمکتی ہوئی زندگی حاصل کر سکیں.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۱،۱۴۰) میں یقیناً جانتا ہوں کہ ہندوؤں اور عیسائیوں اور سکھوں میں ایک بھی نہیں کہ جو آسمانی نشانوں اور قبولیتوں اور برکتوں میں میرا مقابلہ کر سکے.یہ بات ظاہر ہے کہ زندہ مذہب
292 وہی مذہب ہے جو آسمانی نشان ساتھ رکھتا ہو.اور کامل امتیاز کا نورا سکے سر پر چمکتا ہو.سو وہ اسلام ہے.کیا عیسائیوں میں یا سکھوں میں یا ہندوؤں میں کوئی ایسا ہے کہ اس میں میرا مقابلہ کر سکے؟ سومیری سچائی کے لئے یہ کافی حجت ہے کہ میرے مقابل پر کسی قدم کو قرار نہیں.اب جس طرح چاہو اپنی تسلی کرلو کہ میرے ظہور سے وہ پیشگوئی پوری ہوگئی جو براہین احمدیہ میں قرآنی منشاء کے موافق تھی اور وہ یہ ہے.ھو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۹) مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کیلئے آئے گا تو میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا.پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اور میری نسبت شک رکھتے ہیں.کیوں اس زمانہ کے کسی پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے.کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص در حقیقت مفتری ہے اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ دار ہیں پھر خدا تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا.میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس قدر دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور وراثت میرے قبضہ میں آئی ہے بحالت دروغ گوئی نکلنے کے وہ سب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا.اگر وہ دروغ گونکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا.یہ بات میں نے اپنے جی میں جز ما ٹھہرائی ہے اور نہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس مقابلہ کیلئے طیار ہوں اور اشتہار دینے کیلئے مستعد بلکہ میں نے تو بارہ ہزار اشتہار شائع کر دیا ہے بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا.کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آیا میری سچائی کیلئے اس سے بڑھ کر اور
293 کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کیلئے ہر وقت حاضر ہوں.اور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرف یکطرفہ کوئی امر خارق عادت دیکھنے کو طیار ہوں.اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کروں گا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے.کوئی مسلمانوں میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کا فربے دین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس کا امتحان کرلیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۸) میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ خدا کے نشان ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ایسا کوئی مہینہ کم گزرتا ہے جس میں کوئی نشان ظاہر نہ ہولیکن یہ اس لئے نہیں کہ میری روح میں تمام روحوں سے زیادہ نیکی اور پاکیزگی ہے بلکہ اس لئے ہے کہ خدا نے اس زمانہ میں ارادہ کیا ہے کہ اسلام جس نے دشمنوں کے ہاتھ سے بہت صدمات اٹھائے ہیں وہ اب سرنو تازہ کیا جائے اور خدا کے نزدیک جو اس کی عزت ہے وہ آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ظاہر کی جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین پر دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں.“ (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۴۰،۳۳۹)
294 ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت ” میرے مخلص دوست اور للہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نور دین صاحب فانی فی ابتغاء مرضات ربانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت نامہ مورخہ ۷ جنوری ۱۸۹۲ ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے جس کی عبارت کسی قدر نیچے لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے.خاکسار نابکار نور الدین بحضور خدام والا مقام حضرت مسیح الزمان سلمه الرحمن السلام علیکم کے بعد بکمال ادب عرض پرداز ہے.غریب نواز.پر یروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی.اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفان بے تمیزی کی خبر پہنچی.جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں.ازالہ اوہام میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے.اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے.کہا ہے سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے.سرخی سے اس پر قلم پھیر دو.میں نے ہرگز گریز نہیں کیا.اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی.مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا.یعنی بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو.اب ناظرین پر واضح ہو کہ پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کو تخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر انکی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے خدائے تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اسکو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو تو
295 پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے کسی نشان کے آزمانے کیلئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اسکی نظیر پیدا نہ کر سکیں.اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا.اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرما کر اپنی اس پہلی قید کو اٹھا لیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو لہذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنمی ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرر ادعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے.جسکا مضمون یہ ہے کہ اگر آپ بلا تخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کیلئے تیار ہیں تو اخبارات مندرجہ حاشیہ میں حلفاً یہ اقرار اپنی طرف سے شائع کر دیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اور اسوقت حلفا اقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائید میں کوئی نشان دیکھوں جسکی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آ جاؤں اور انسانی طاقتوں میں اسکا کوئی نمونہ انھیں تمام لواز کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا.اس اشاعت اور اس اقرار کی اسلئے ضرورت ہے کہ خدائے قیوم وقد وس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پورے انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اسکی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ اس عاجز نے خدائے تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کیلئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کیلئے قائم رہے گی طالب حق کیلئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں.اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب
296 ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں.ہماں بہ کہ جاں درره او فشانم جہاں راچہ نقصاں اگر من نمانم والسلام على من اتبع الهدى المعلمن المشتهر خاکسار میرزاغلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ یاز دہم جنوری ۱۸۹۲ء آسمانی نشان.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۰،۳۳۸) مسلمان علماء ومشائخ کونشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج مولوی محمد حسین بٹالوی کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج ”اے ناظرین! ذرا توجہ کرو.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب چالیس دن تک میرے مقابل پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر کے آسمانی نشان یا اسرار غیب دکھلا سکیں جو میں دکھلا سکتا ہوں تو میں قبول کرتا ہوں کہ جس ہتھیار سے چاہیں مجھے ذبح کر دیں اور جو تاوان چاہیں میرے پر لگائیں.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ( مجموعہ اشتہارات.جلد اصفحہ ۲۲۹) میاں عطا محمد اہلمد ضلع کچہری امرتسر کونشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج ایک صاحب عطا محمد نام نے جو امرتسر کے ضلع کی کچہری میں اہلمد تھے اور وفات مسیح کے
297 قائل تھے لیکن کسی مسیح کے اس امت میں آنے کے منکر تھے اگست ۱۸۹۳ء میں اپنے مطبوعہ خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا انتظار کرنا ہم کو واجب ولازم ہے.مسیح موعود کے آنے کی پیشگوئی گو احادیث میں موجود ہے مگر احادیث کا بیان میرے نزدیک پا یہ اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ احادیث زمانہ دراز کے بعد جمع کی گئی ہیں.اور اکثر مجموعہ احاد ہے جو مفید یقین نہیں.حضور نے اس سوال کی اہمیت کے پیش نظر جواب میں رسالہ ”شہادۃ القرآن“ لکھا جس میں اس سوال کا علمی جواب دینے کے بعد آخر پر لکھا کہ.”اور اگر بھی یہ تمام ثبوت میاں عطا محمد صاحب کے لئے کافی نہ ہوں تو پھر طریق سہل یہ ہے کہ اس تمام رسالہ کو غور سے پڑھنے کے بعد بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے مجھ کو اطلاع دیں کہ میری تسلی ان امور سے نہیں ہوئی اور میں ابھی تک افتر سمجھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری نسبت کوئی نشان ظاہر ہو تو میں انشاء اللہ القدیر ان کے بارہ میں توجہ کروں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی مخالف کے مقابل پر مجھے مغلوگ نہیں کرے گا کیونکہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کے دین کی تجدید کیلئے اس کے حکم سے آیا ہوں لیکن چاہئے کہ وہ اپنے اشتہاہر میں مجھے عام اجازت دیں کہ جس طور سے میں ان کے حق میں الہام پاؤں اس کو شائع کرا دوں اور مجھے تعجب ہے کہ جس حالت میں مسلمانوں کو کسی مجدد کے ظاہر ہونے کے وقت خوش ہونا چاہئے یہ پیچ و تاب کیوں ہے اور کیوں ان کو برا لگا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی حجت پوری کرنے کیلئے ایک شخص کو مامور کر دیا ہے لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ حال کے اکثر مسلمانوں کی ایمانی حالت نہای ردی ہو گئی ہے اور فلسفہ کی موجودہ زہر نے ان کے اعتقاد کی بیگنی کر دی ہے.ان کی زبانوں پر بے شک اسلام ہے لیکن دل اسلام سے بہت دور جا
298 پڑے ہیں خدائی کلام اور الہی قدرتیں ان کی نظر میں ہنسی کے لائق ہیں.ایسا ہی میاں عطا محمد کا حال ہے.مجھے یاد ہے کہ جب بمقام امرتسر مسٹر عبداللہ آ نظم کو ان کی موت کی نسبت پیشگوئی سنائی گئی تو میاں عطا محمد نے میرے فرودگاہ میں آ کر میرے روبروں ایک مثال کے طور پر بیان کیا کہ ایک ڈاکٹر نے میری موت کی خبر دی تھی کہ اتنی مدت میں عطا محمد فوت ہو جائے گا مگر وہ مدت خیر سے گزرگئی اور میں نے اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کو سلام کیا.اس نے کہا کہ تو کون ہے.میں نے کہا وہی عطا محمد جس کے مرنے کی آپ نے پیشگوئی کی تھی.مطلب یہ کہ یہ تمام امور جھوٹ اور لغو ہیں.مگر میاں عطا محمد کو یادر ہے کہ ڈاکٹر کی مثال اس جگہ دینا صرف اس قدر ثابت کرتا ہے کہ آسمانی روشنی سے آپ بکلی بے خبر ہیں.بے شک ایک ہستی موجود ہے جس کا نام خدا ہے اور وہ اپنے بچے مذہب کی تائید میں نہ صرف کسی زمانہ محدود تک بلکہ ہمشہ ضرورت کے وقت میں آسمانی نشان دکھلاتا ہے اور دنیا کا ایمان نئے سرے قائم کرتا ہے.ڈاکٹر کی مثال سے ظاہر کہ آپ کا اس خدا پر ایمان کس قدر ہے.اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس رسالہ کو اسی جگہ ختم کر دوں.فالحمد لله اولا واخرا وظاهرا وباطنا هو مولانا نعم المولى ونعم (شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۷۶، ۳۷۷) النصير.،، اس کے بعد میاں عطا محمد صاحب نے خاموشی اختیار کر لی.وو مخالف مولویوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج یہ خدا کی قدرت ہے کہ جس قدر مخالف مولویوں نے چاہا کہ ہماری جماعت کو کم کریں وہ اور بھی زیادہ ہوئی اور جس قدر لوگوں کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہاوہ اور بھی داخل ہوئے یہاں تک کہ ہزار ہا تک نوبت پہنچ گئی.اب ہر روز
299 سرگرمی سے یہ کارروائی ہو رہی ہے اور خدا تعالیٰ اچھے و پروں کو اس طرف سے اکھاڑتا اور ہمارے باغ میں لگاتا جاتا ہے.کیا منقول کی رو سے اور کیا معقول کی رو سے اور کیا آسمانی شہادتوں کی رو سے دن بدن خدا تعالیٰ ہماری تائید میں ہے.اب بھی اگر مخالف مولوی یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور یہ لوگ باطل پر اور خدا ہمارے ساتھ ہے اور ان لگوں پر لعنت اور غضب الہی ہے تو باوجود اس کے کہ ہماری حجت ان پر پوری ہو چکی ہے پھر دوبارہ ہم ان کوحق اور باطل پر کھنے کیلئے موقع دیتے ہیں.اگر وہ فی الواقع اپنے تئیں حق پر سمجھتے ہیں اور ہمیں باطل پر اور چاہتے ہیں کہ حق کھل جائے اور باطل معدوم ہو جائے تو اس طریق کو اختیار کر لیں.اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ پر اور میں اپنی جگہ خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کریں.ان کی طرف سے یہ عا ہو کہ یا الہی اگر یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے تیرے نزدیک جھوٹا اور کا ذب اور مفتری ہے اور ہم اپنی رائے میں بچے اور حق پر اور تیرے مقبول بندے ہیں تو ایک سال تک کوئی فوق العادت امرغیب بطور نشان ہم پر ظاہر فرما اور ایک سال کے اندر ہی اس کو پورا کر دے.اور میں اس کے مقابل پر یہ دعا کروں گا کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور در حقیقت مسیح موعود ہوں تو ایک اور نشان پیشگوئی کے ذریعہ سے میرے لئے ظاہر فرما اور اس کو ایک سال کے اندرو پرا کر.پھر اگر ایک سال کے اندر ان کی تائید میں کوئی نشان ظاہر ہوا اور میری تائد میں کچھ ظاہر نہ ہوا تو میں جھوٹا ٹھیروں گا.اور اگر میری تائید میں کچھ ظاہر امگر اس کے مقابل پران کی تائید میں بھی ویسا ہی کوئی نشان ظاہر ہو گیا تب بھی میں جھوٹا ٹھیروں گا.لیکن اگر میری تائید میں ایک سال کے عرصہ تک کھلا کھلا نشان ظاہر ہو گیا ور ان کی تائید میں نہ ہوا تو اس صورت میں میں سچاٹھیروں گا اور شرط یہ ہوگئی کہ اگر تصریحات متذکرہ بالا کی
300 رو سے فریق مخالف سچا نکلا تو میں نے کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور جہاں تک ممکن ہو میں اپنی وہ کتابیں جلا دوں گا جن میں ایسے دعوی یا الہامات ہیں.کیونکہ اگر خدا نے مجھے جھوٹا کیا تو پھر میں ایسی کتابوں کو پاک اور مقدس خیال نہیں کرسکتا.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اپنے موجود اعتقاد کے برخلاف یقینی طور پر سمجھ لوں گا کہ محمد حسین بٹالوی اور عبدالجبار غزنوی اور عبد الحق غزنوی اور رشید احمد گنگوہی اور محمد حسین کا پیارا دوست محمد بخش زٹلی اور دوسرا پیارا دوست محمد علی بو پڑی یہ سب اولیاء اللہ اور عباداللہ الصالحین ہیں.اور جس قدر ان لوگوں نے مجھے گالیاں دیں اور لعنتیں بھیجیں یہ سب ایسے کام تھے کہ جن سے خدا تعالیٰ ان پر بہت راضی ہوا اور قرب اور اصطفا اور احتبا کے مراتب ( مجموعہ اشتہارات - جلد ۲ صفحہ ۴۴۲،۴۴۱) تک ان کو پہنچایا.66 اے شک کرنے والو ! آسمانی فیصلہ کی طرف آجاؤ ”اے بزرگو! اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالئے آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے.غیظ اور غضب میں آکر حد سے مت بڑھو.میری اس کتاب کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھو کہ ان میں نور اور ہدایت ہے.خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کو تکفیر سے تھام لو.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں.آمنت بالله و ملئكته وكتبه ورسله والبعث بعد الموت واشهدان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله فاتقوالله ولا تقولوا لست مسلما واتقوا الملك الذي اليه ترجعون.
301 اور اگر اب بھی اس کتاب کے پڑھنے کے بعد شک ہے تو آؤ آزمالو خدا کس کے ساتھ ہے اے میرے مخالف الرائے مولو یو اور صوفیو! اور سجادہ نشینو ! جو مکفر اور مکذب ہو.مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ لوگ مل جل کر یا ایک ایک آپ میں سے ان آسمانی نشانوں میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں جو اولیاء الرحمن کے لازم حال ہوا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ تمہیں شرمندہ کر دیگا اور تمہارے پردوں کو پھاڑ دیگا اور اسوقت تم دیکھو گے کہ وہ میرے ساتھ ہے.کیا کوئی تم میں ہے؟ کہ اس آزمائش کے لئے میدان میں آوے اور عام اعلان اخباروں کے ذریعہ سے دیکر ان تعلقات قبولیت میں جو میرا رب میرے ساتھ رکھتا ہے اپنے تعلقات کا موازنہ کرے.یا درکھو کہ خدا صادقوں کا مددگار ہے وہ اسی کی مدد کریگا جسکو وہ سچا جانتا ہے.چالاکیوں سے باز آ جاؤ کہ وہ نزدیک ہے.کیا تم اس سے لڑو گے؟ کیا کوئی متکبرانہ اچھلنے سے درحقیقت اونچا ہو سکتا ہے.کیا صرف زبان کی تیزیوں سے سچائی کو کاٹ دو گے اس ذات سے ڈرو جس کا غضب سب غضوں سے بڑھ کر ہے.انـه مـن يــات ربه مجرمافان له جهنم لا يموت فيها ولا يحي الناصح خاکسار غلام احمد قادیانی از لودھیانه محله اقبال گنج “ مكذب ومكفر علماء کو نشان نمائی کے مقابلہ کے چیلنج ا.”اے حضرات مولوی صاحبان ! آپ لوگوں کا یہ خیال کہ ہم مومن ہیں اور یہ شخص کافر اور ہم صادق ہیں اور یہ شخص کا ذب اور متبع اسلام ہیں اور یہ شخص ملحد اور ہم مقبول الہی ہیں اور یہ شخص مردود اور ہم جنتی ہیں اور یہ شخص جہنمی.اگر چہ غور کرنے والوں کینظر میں قرآن کریم کی رو سے بخوبی فیصلہ پاچکا ہے اور اس رسالہ کے پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون.لیکن ایک اور طریق فیصلہ ہے جس کی رو
302 سے صادقوں اور کا ذبوں اور مقبولوں میں فرق ہوسکتا ہے جس کی رو سے صادقوں اور کا ذبوں اور مقبولوں اور مردودوں میں فرق ہو سکتا ہے.عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر مقبول اور مردود اپنی اپنی جگہ پر خدائے تعالیٰ سے کوئی آسمانی مدد چاہیں تو وہ مقبول کی ضرور مدد کرتا ہے اور کسی ایسے امر سے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہے اس مقبول کی قبولیت ظاہر کر دیتا ہے.سو چونکہ آپ لوگ اہل حق ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور آپ کی جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو لہم ہونے کے مدعی ہیں جیسے مولوی محی الدین وعبد الرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبدالحق غزنوی جو اس عاجز کو کافر اور جہنمی ٹھہراتے ہیں لہذا آپ پر واجب ہے کہ اس آسمانی ذریعہ سے بھی دیکھ لیں کہ آسمان پر مقبول کس کا نام ہے اور مردودکس کا نام.میں اس بات کو منظور کرتا ہوں کہ آپ دس ہفتہ تک اس بات کے فیصلہ کیلئے احکم الحاکمین کی طرف توجہ کریں تا اگر آپ بچے ہیں تو آپ کی سچائی کا کوئی نشان یا کوئی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی جو راستبازوں کو ملتی ہے آپ کو دی جائے.ایسا ہی دوسری طرف میں بھی توجہ کروں گا اور مجھے خداوند کریم و قدیر کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ نے اس طور سے میرا مقابلہ کیا تو میری فتح ہوگی.میں اس مقابلہ میں کسی پر لعنت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کروں گا.اور آپ کا اختیار ہے جو چاہیں کریں.لیکن اگر آپ لوگ اعراض کر گئے تو گریز پر حمل کیا جائے گا.میری اس تحریر کے مخاطب مولوی محی الدین ، عبدالرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبدالحق صاحب غزنوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور مولوی نذیر حسین دہلوی ہیں اور باقی انہیں کے زیر اثر آجائیں گے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۵۸،۴۵۷)
303 ماسوا اس کے جبکہ یہ حقیقت کھل گئی کہ حضرت مسیح ہرگز مصلوب نہیں ہوئے اور کشمیر میں اُن کی قبر ہے تو اب راستی کے بھوکے اور پیاسے کیونکر عیسائی مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں.یہ سامان کسر صلیب کا ہے جو خدا نے آسمان سے پیدا کیا ہے نہ یہ کہ مار مار کر لوگوں کو مسلمان بناویں.ہماری قوم کے علماء اسلام کو ذرہ ٹھہر کر سوچنا چاہیئے کہ کیا جبر سے کوئی مسلمان ہو سکتا ہے اور کیا جبر سے کوئی دین دل میں داخل ہوسکتا ہے.اور جو لوگ مسلمانوں میں سے فقراء کہلاتے ہیں اور مشائخ اور صوفی بنے بیٹے ہیں اگر وہ اب بھی اس باطل عقیدہ سے باز نہ آویں اور ہمارے دعوی مسیحیت کے مصدق نہ ہو جائیں تو طریق سہل یہ ہے کہ ایک مجمع مقرر کر کے کوئی ایسا شخص جو میرے دعویٰ مسیحیت کو نہیں مانتا اور اپنے تئیں ملہم اور صاحب الہام جانتا ہے مجھے مقام بٹالہ یا امرتسر یا لاہور میں طلب کرے اور ہم دونوں جناب الہی میں دُعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جناب الہی میں سچا ہے ایک سال میں کوئی عظیم الشان نشان جو انسانی طاقتوں سے بالاتر اور معمولی انسانوں کے دسترس سے بلند تر ہو.اس سے ظہور میں آوے.ایسا نشان کہ جو اپنی شوکت اور طاقت اور چمک میں عام انسانوں اور مختلف طبائع پر اثر ڈالنے والا ہو خواہ وہ پیشگوئی ہو.یا اور کسی قسم کا اعجاز ہو جو انبیاء کے معجزات سے مشابہ ہو.پھر اس دعا کے بعد ایسا شخص جس کی کوئی خارق عادت پیشگوئی یا اور کوئی عظیم الشان نشان اس برس کے اندر ظہور میں آ جائے اور اس عظمت کے ساتھ ظہور میں آئے جو اس مرتبہ کا نشان حریف مقابل سے ظہور میں نہ آسکے تو وہ س سچا سمجھا جائے گا جس سے ایسا نشان ظہور میں آیا.اور پھر اسلام میں سے تفرقہ دور کرنے کے لئے شخص مغلوب پر لازم ہوگا کہ اس شخص کی مخالفت چھوڑ دے اور بلا توقف اور بلا تامل اُس کی بیعت کر لے.اور اُس خدا سے جس کا غضب کھا جانے
304 والی آگ ہے ڈرے.( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۷۰) ۳.چونکہ ان لوگوں کی عداوت حد سے بڑھ گئی ہے.اس لئے میں نے ان کی اصلاح کے لئے اور ان کی بھلائی کے لئے بلکہ تمام مخلوق کی خیر خواہی کے لئے ایک تجویز سوچی ہے جو ہماری گورنمنٹ کی امن پسند پالیسی کے مناسب حال ہے جس کی تعمیل اس گورنمنٹ عالیہ کے ہاتھ میں ہے.اور وہ یہ ہے کہ یہ حسن گورنمنٹ جس کے احسانات سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہیں ایک یہ احسان کرے کہ اس ہر روزہ تکفیر اور تکذیب اور قتل کے فتووں اور منصوبوں کے روکنے کے لئے خود درمیان میں ہو کر یہ ہدایت فرمادے کہ اس تنازع کا فیصلہ اس طرح پر ہو کہ مدعی یعنے یہ عاجز جس کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ہے اور جس کو یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح نبیوں سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہوتا تھا.اُسی طرح مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور غیب کے بھید مجھ پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور آسمانی نشان دکھلائے جاتے ہیں.یہ مدعی یعنے یہ عاجز گورنمنٹ کے حکم سے ایک سال کے اندر ایک ایسا آسمانی نشان دکھاوے ایسا نشان جس کے مقابلہ کوئی قوم اور کوئی فرقہ جو زمین پر رہتے ہیں نہ کر سکے.اور مسلمانوں کی قوموں یا دوسری قوموں میں سے کوئی ایسا ملہم اور خواب بین اور معجزہ نما پیدا نہ ہو سکے جو اُس نشان کی ایک سال کے اندر نظیر پیش کرے.اور ایسا ہی ان تمام مسلمانوں بلکہ ہر ایک قوم کے پیشواؤں کو جو ملہم اور خدا کے مقرب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہدایت اور فہمائیش ہو کہ اگر وہ اپنے تئیں سچ پر اور خدا کے مقبول سمجھتے ہیں اور ان میں کوئی ایسا پاک رب ہے جس کو خدا نے ہم کلام ہونے کا شرف بخشا ہے اور الہی طاقت کے نمونے اس کو دیے گئے ہیں.تو وہ بھی ایک سال تک کوئی نشان دکھلا دیں.پھر بعد اس کے اگر ایک سال
305 تک اس عاجز نے ایسا کوئی نشان نہ دکھلایا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر اور انسانی ہاتھ کی ملونی سے بھی بلند تر ہو.یا یہ کہ نشان تو دکھلایا مگر اس قسم کے نشان اور مسلمانوں یا اور قوموں سے بھی ظہور میں آگئے تو یہ سمجھا جائے کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں اور اس صورت میں مجھکو کوئی سخت سزا دیجائے گو موت کی ہی سزا ہو.کیونکہ اس صورت میں فساد کی تمام بنیاد میری طرف سے ہوگی.اور مفسد کو سزا دینا قرین انصاف ہے اور خدا پر جھوٹ بولنے سے کوئی گناہ بدتر نہیں.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے ایک سال کی میعاد کے اندر میری مدد کی اور زمین کے رہنے والوں میں سے کوئی میرا مقابلہ نہ کر سکا.تو پھر میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ محسنہ میرے مخالفوں کو نرمی سے ہدایت کرے کہ اس نظارہ قدرت کے بعد شرم اور حیا سے کام لیں.اور تمام مردی اور بہادری سچائی کے قبول کرنے میں ہے.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۹۳ تا ۴۹۵) چالیس نامی علماء کی درخواست پر نشان دکھانے کا چیلنج فرمایا.”اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگو سچے دل سے توبہ کی نیت کر کے مجھ سے مطالبہ کریں اور خدا کے سامنے یہ عہد کر لیں کہ کوئی فوق العادت امر جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے ظہور میں آجائے تو ہم یہ تمام بغض اور شحناء چھوڑ کر محض خدا کو راضی کرنے کے لئے سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں گے تو ضرور خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھائیگا کیونکہ وہ رحیم اور کریم ہے لیکن میرے اختیار میں نہیں ہے کہ نشان دکھلانے کیلئے دو تین دن مقرر کر دوں یا آپ لوگوں کو مرضی پر چلوں.یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ جو چاہے تاریخ مقرر کرے.اگر نیت میں طلب حق ہو تو یہ مقام کسی تکرار کا
306 نہیں کیونکہ جب موجودہ زمانہ کو خدا تعالیٰ کوئی جدید نشان دکھلائے گا تو یہ تو نہیں ہوگا کہ وہ کوئی پچاس ساٹھ سال مقرر کر دے بلکہ کوئی معمولی مدت ہوگی جو مدالت کے مقدمات یا امور تجارت وغیرہ میں بھی اہل غرض اسکو اپنے لئے منظور کر لیتے ہیں.اس قسم کا تصفیہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب دلوں سے بکتی فساد دور کئے جائیں اور در حقیقت آپ لوگوں کا ارادہ ہو جائے کہ خدا کی گواہی کے ساتھ فیصلہ کر لیں اور اس طریق میں یہ ضروری ہوگا کہ کم سے کم چالیس نامی مولوی جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی اور مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی تم امرتسری اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولوی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی ایک تحریری اقرار نامه به ثبت شہادت پچاس معزز مسلمانوں کے اخبار کے ذریعہ سے شائع کر دیں کہ اگر ایسا نشان جو درحقیقت فوق العادت ہو ظا ہر ہو گیا تو ہم حضرت ذوالجلال سے ڈر کر مخالفت چھوڑ دیں گے اور بیعت میں داخل ہو جائیں گے.ص اور اگر یہ طریق آپ کو منظور نہ ہو اور یہ خیالات دامنگیر ہو جائیں کہ ایسا اقرار بیعت شائع کرنے میں ہماری کسر شان ہے اور یا اس قدر انکسار ہر ایک سے غیر ممکن ہے تو ایک اور سہل طریق ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی سہل طریق نہیں.جس میں نہ آپ کی کوئی کسر شان ہے اور نہ کسی مباہلہ سے کسی خطرناک نتیجہ کا جان یا مال یا عزت کے متعلق کچھ اندیشہ ہے اور وہ یہ کہ آپ لوگ محض خدا تعالیٰ سے خوف کر کے اور اس امت محمدیہ پر رحم فرما کر بٹالہ یا امرتسر یا لاہور میں ایک جلسہ کریں اور اس میں جہاں تک ممکن ہو او جسقدر ہو سکے معزز علماء اور دنیا دار جمع ہوں اور میں بھی اپنی جماعت کے ساتھ حاضر ہو جاؤں.تب وہ سب سیہ دُعا کریں کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ شخص مفتری ہے اور تیری طرف سے نہیں ہے اور نہ مسیح موعود ہے اور نہ مہدی
307 ہے تو اس فتنہ کو مسلمانوں میں سے دُور کر اور اس کے شر سے اسلام اور اہل اسلام کو بیچا لے جس طرح تو نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو دنیا سے اٹھا کر مسلمانوں کو اُن کے شر سے بچالیا اور اگر یہ تیری طرف سے ہے اور ہماری ہی عقلوں اور فہموں کا قصور ہے تو اے قادر ہمیں سمجھ عطا فرما تا ہم ہلاک نہ ہو جائیں اور اس کی تائید میں کوئی ایسے امور اور نشان ظاہر فرما کہ ہماری طبیعتیں قبول کر جائیں کہ یہ تیری طرف سے ہے.اور جب یہ تمام دعا ہو چکے تو میں اور میری جماعت بلند آواز سے آمین کہیں.اور پھر بعد اسکے میں دُعا کرونگا.اور اس وقت میرے ہاتھ میں وہ تمام الہامات ہونگے جو ابھی لکھے گئے ہیں اور جو کسی قدر ذیل میں لکھے جائیں گے.غرض یہی رسالہ مطبوعہ جس میں تمام یہ الہامات ہیں ہاتھ میں ہوگا اور دُعا کا یہ مضمون ہوگا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو اس رسالہ میں درج ہیں جو اِس وقت میرے ہاتھ میں ہے جن کے رُو سے میں اپنے تئیں مسیح موعود اور مہدی معہود سمجھتا ہوں اور حضرت مسیح کو فوت شدہ قرار دیتا ہوں تیرا ص کلام نہیں ہے اور میں تیرے نزدیک کاذب اور مفتری اور دجال ہوں جس نے امت محمدیہ میں فتنہ ڈالا ہے اور تیرا غضب میرے پر ہے تو میں تیری جناب میں تضرع سے دُعا کرتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے ایک سال کے اندر زندوں میں سے میرا نام کاٹ ڈال اور میرا تمام کاروبار درہم برہم کر دے اور دنیا میں سے میرا نشان مٹا ڈال اور اگر میں تیری طرف سے ہوں اور یہ الہامات جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہیں تیری طرف سے ہیں اور میں تیرے فضل کا مورد ہوں تو اے قادر کریم اسی آئندہ سال میں میری جماعت کو ایک فوق العادت ترقی دے اور فوق العادت برکات شامل حال فرما اور میری عمر میں برکت بخش اور آسمانی تائیدات نازل کر اور جب یہ دعا ہو چکے تو تمام مخالف جو حاضر ہوں آمین کہیں.
308 اور مناسب ہے کہ اس دُعا کے لئے تمام صاحبان اپنے دلوں کو صاف کر کے آویں کوئی نفسانی جوش وغضب نہ ہو اور ہار وجیت کا معاملہ نہ سمجھیں اور نہ اس دُعا کو مباہلہ قرار دیں کیونکہ اس دُعا کا نفع نقصان کل میری ذات تک محدود ہے مخالفین پر اس کا کچھ اثر نہیں.“ اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۳۷۵، ۳۷۷) روئے زمین پر موجود تمام انسانوں کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج کیا زمین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے کہ جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کر سکے.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۶) تمام مخالفین کو نشان نمائی کے مقابلہ کا چیلنج غرض قرآن شریف کی زبر دست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اُس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا اُن کا مقابلہ نہیں کرسکتی.چنانچہ میں یہی دعویٰ رکھتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام مخالف کیا مشرق کے اور کیا مغرب کے ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور نشانوں اور خوارق میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور توفیق سے سب پر غالب رہوں گا اور یہ غلبہ اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ میری روح میں کچھ زیادہ طاقت ہے بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس کے کلام قرآن شریف کی زبردست طاقت اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی مصلے کی روحانی قوت اور اعلیٰ مرتبت کا میں ثبوت دوں اور اُس نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اُس کے عظیم الشان نبی اور اس کے قومی الطاقت کلام کی پیروی کرتا ہوں اور اس سے محبت کرھتا ہوں اور وہ
309 خدا کا کلام جس کا نام قرآن شریف ہے جور بانی طاقتوں کا مظہر ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور قرآن شریف کا یہ وعدہ ہے ھم البشری فی الحیوۃ الدنیا اور یہ وعدہ ہے کہ ایدھم بروح منہ اور یہ وعدہ ہے یجعل لکم فرقا نا.اس وعدہ کے موافق خدا نے یہ سب مجھے عنایت کیا ہے.“ (چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) گزشتہ اور آئندہ زمانوں میں ظاہر ہونے والے نشانوں میں مقابلہ کا چیلنج اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں کی ہمدردی کے لئے جس قدر میرے دل میں تڑپ اور جوش ہے اور میں حیران ہوں کہ کس طرح ان لوگوں کو سمجھاؤں.یہ لوگ کسی طرح بھی مقابلہ میں نہیں آتے.تین ہی راہیں ہیں یا گزشتہ زمانہ کے نشانوں سے میرے اپنے نشانوں کا مقابلہ کر لیں یا آئندہ نشانوں میں مقابلہ کر لیں یا اور نہیں تو یہی دعا کریں کہ جس کا وجود نافع الناس ہے وہ بموجب وعدہ الہی و امــا مــا ينفع الناس فيمكث في الارض (الرعد: ۱۸) دراز زندگی پائے.پھر عیاں ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کون مقبول و منظور ہے ( ملفوظات جلد ا صفحه ۲۰۴ جدید ایڈیشن) تریاق القلوب میں بیان فرمودہ نشانات کی نظیر پیش کرنے کا چیلنج فرمایا.ہاں جو شخص دل کے اخلاص سے سچائی کا طالب ہے اُس کا یہ حق ہے کہ اپنے دل کی تسلی کے لئے آسمانی نشان طلب کرے.سو اس کتاب کے دیکھنے سے ہر ایک طالب حق کو معلوم ہوگا کہ اس بندہ حضرت عزت سے اُسی کے فضل اور تائید سے اسقدر نشان ظاہر ہوئے ہیں کہ اس تیرہ سو برس کے عرصہ میں افراد اُمت میں سے کسی اور
310 میں انکی نظیر تلاش کرنا ایک طلب محال ہے.مثلاً انہی نشانوں کو جو اس کتاب تریاق القلوب میں بطور نمونہ بیان کئے گئے ہیں ذہن میں رکھکر پھر ہر ایک چشتی قادری نقشبندی سہروردی وغیرہ میں انکی تلاش کرو.اور تمام وہ لوگ جو اس امت میں قطب اور غوث او را بدال کے نام سے مشہور ہوئے ہیں.انکی تمام زندگی میں ان کی نظیر ڈھونڈ و.پھر اگر نظیر مل سکے تو جو چاہو کہو.ورنہ خدائے غیور اور قدیر سے ڈر کر بیبا کی اور گستاخی سے باز آجاؤ.“ ( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۶) احاد الناس کو نشان دکھانے کی دعوت ر ہے احاد الناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کا فتویٰ ہے ان کیلئے مجھے یہ حکم ہے کہ اگر وہ خارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں خدائے تعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرما تا.لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیا پر پوری کر دے گا اور کچھ زیادہ دیر نہیں ہوگی کہ وہ اپنے نشان دکھاوے گالیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے وہ خدائے تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور وہ صادق ہیں جن میں دعا نہیں.نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جو ان بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی جلد ۵ صفحه ۴۴۹)
311 باب سوم استجابت دعا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَالْيَوْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقره : ۱۸۷) ترجمہ:.اور (اے رسول) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو جواب دے کہ ) میں (اُن کے ) پاس (ہی ) ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی دعا قبول کرتا ہوں.سوچاہیے کہ وہ ( دعا کرنے والے بھی) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.
312
313 حضرت مسیح ناصری ناصری کا قول ہے کہ : استجابت دعا ” درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.“ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کامل اور مقبول بندے بھی چند علامات کے ذریعہ شناخت کئے جاتے ہیں جو ان کے پھلوں کے طور پر ہوتی ہیں.درخت کا بے ثمر رہ جا ناممکن ہے لیکن کسی مقبول بارگاہ ایزدی کا ان علامات خاصہ سے محروم رہ جانا محال، ناممکن اور ممتنع ہے.انہی علامات میں سے ایک بہت بڑی علامت جو ان کے تعلق باللہ پر برہان قاطع کی حیثیت رکھتی ہے ان کی دعاؤں کا قبول ہونا ہے.تمام انبیاء اور خاصان حق کا یہی حال ہے.اس حقیقت کا ہر جگہ نمایاں ظہور نظر آتا ہے.اس کا نام معجزہ ” استجابت دعا ہے.سیدنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جو مادہ پرستی میں از منہ سابقہ سے بہت آگے تھا.اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے ساتھ تعلقات کو محض افسانہ اور داستان پارینہ قرار دیا جاتا تھا.آپ نے ذات باری پر ایک زندہ اور کامل یقین پیدا کرنے کے لئے نشانات ، چمکتے ہوئے معجزات ، دلائل عقلیہ اور براہین ساطعہ کے علاوہ ” قبولیت دعا کا اعجازی نشان بھی پیش فرمایا.یہ وہ آسمانی حربہ تھا جس نے شک و شبہات کے تمام پردوں کو تار تار کر دیا اور ظلمت و تاریکی کونور سے بدل دیا.یہ وہ آب حیات تھا جس نے لاکھوں مردوں کو زندہ کر دیا اور عالم زندہ ہو گیا.بلا شبہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بلحاظ رب اپنے ہر ایک بندہ کی اضطراری دعا سنتا ہے.مگر خدا کے پیاروں کو اس بارہ میں اس قدر کثرت حاصل ہوتی ہے جو مرتبہ خارق عادت تک پہنچ جاتی ہے اور باعتبار کمیت و کیفیت ان کی دعاؤں کی قبولیت بے نظیر ہوتی ہے.علاوہ ازیں ان کو اس باب میں ایک اور امتیاز بخشا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر چہ عام اوقات میں ان کی ہر دعا کا بعینہ
314 قبول کیا جانا ضروی نہیں بلکہ بعض اوقات الہی مصلحتوں کے ماتحت ان کی دعا اس رنگ میں پوری نہیں ہوتی لیکن جب کبھی دشمنوں سے اس خصوص میں ان کا مقابلہ ہو تو ہمیشہ ان کی ہی سنی جاتی ہے اور ان کے مخالف نا کام اور مردود کئے جاتے ہیں.ابتداء سے سنت الہی اسی طرح پر جاری ہے.کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے کہ ایک برگزیدہ حق کے مقابل پر باطل نے دعا کی ہواور وہ ذلیل نہ ہوا ہو.چنانچہ اسی سنت الہی کے پیش نظر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ” استجابت دعا“ کے نشان میں اپنے مخالفین کو کئی چیلنج دیئے مگر کسی مخالف کو مقابلہ کی جرات نہ ہوسکی.چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.بالآخر میں یہ بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ مجھے مکار اور غیرمسلم خیال کرتے ہیں تو آؤ اس طریق سے بھی مقابلہ کرو کہ ہم دونوں نشان قبولیت کے ظاہر ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تا جس کے شامل حال نصرت الہی ہو جائے اور قبولیت کے آسمانی نشان اس کے لئے خدا کی طرف سے ظاہر ہوں اور وہ اس علامت سے لوگوں کی نظر میں اپنی قبولیت کے ساتھ شناخت کیا جاوے اور جھوٹے کی ہر روزہ کشمکش سے لوگوں کو فراغت اور راحت حاصل ہو.اس کے جواب میں مولوی صاحب موصوف اپنے اشتہار یکم اگست ۱۸۹۱ء میں لکھتے ہیں کہ یہ درخواست اس وقت مسموع ہوگی جب تم اول اپنے عقائد کا عقائد اسلام ہونا ثابت کرو گے.غیر مسلم (یعنی جو مسلمان نہیں) خواہ کتنا ہی آسمانی نشان دکھاوے اہل اسلام کی طرف التفات نہیں کرتے.اب ناظرین انصاف فرما دیں کہ جس حالت میں اسی ثبوت کے لئے درخواست کی گی تھی کہ تا ظاہر جو جاوے کہ فریقین میں سے حقیقی اور واقعی طور پر مسلمان کون ہے پھر قبل از ثبوت ایک مسلمان کو جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل اور معتقد ہو غیر مسلم کہنا اور
315 لَستَ مُسلما کر کے پکارا نا کس قسم کی مسلمانی اور ایمانداری ہے.ماسوا اس کے اگر یہ عاجز بزعم مولوی محمد حسین صاحب کا فر ہے تو خیر وہ یہ خیال کر لیں کہ میری طرف سے جو ظاہر ہوگا وہ استدراج ہے.پس اس صورت میں بمقابل اس استدراج سے ان کی طرف سے کوئی کرامت ظاہر ہونی چاہئے اور ظاہرہ کہ کرامت ہمیشہ استدراج پر غالب آتی ہے.آخر مقبولوں کو ہی آسمانی مددملتی ہے.اگر میں بقول ان کے مردود ہوں اور وہ مقبول ہیں تو پھر ایک مردود کے مقابل پر اتنا کیوں ڈرتے ہیں.اگر میں بقول ان کے کافر ہونے کی حالت میں کچھ دکھاؤں گا تو وہ بوجہ اولی دکھلا سکتے ہیں مقبول جو ہوئے.کہ مقبول را رد نباشد و من عاد ولیالی ولیا فقد اذنته للحرب.ابن صیادے اگر کچھ دکھای تھا تو کیا اس کے مقابل پر معجزات نبوی ظاہر نہیں ہوئے تھے.اور دجال کے ساحرانہ کاموں کے مقابل پر عیسی نے نشان مروی نہیں ففروا این تفرون.) (ازالہ اوہام حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۵،۴۹۴) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے نہ رف ہندوستان کے تمام مسلم علماء ومشائخ کو استجابت دعا کے مقابلہ کی دعوت بی بلکہ جملہ مذاہب کے پیروکاروں کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کیلیے یہ خوبموقع ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے.اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہو گی اس کے حالہ کر دوں گا.جس طور سے اس کی تسلی ہو سکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گا.میرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۶) "B
316 پھر فرماتے ہیں.” اس اشتہار کے دینے سے اصل غرض یہی ہے کہ مذہب میں سچائی ہے وہ کبھی اپنا رنگ نہیں بکل سکتی.جیسے اول ہے ویسے ہی آخر ہے.سچامذ ہب کبھی خشک قصہ نہیں بن سکتا.سو اسلام سچا ہے.میں ہر ایک کو کیا عیسائی کیا آریہ اور کیا یہودی اور کیا برہمو اس سچائی کے دکھلانے کے لئے بلاتا ہوں.کیا کوئی ہے جو زندہ خدا کا طالب ہے.ہم مردوں کی پرستش نہیں کرتے.ہمارا خدا زندہ خدا ہے.وہ ہماری مدد کرتا ہے.وہ اپنے الہام اور کلام اور آسمانی نشانوں سے ہمیں مدد دیتا ہے.اگر دنیا کے اس سرے سے اس سرے تک کوئی عیسائی طالب حق ہے تو ہمارے زندہ خدا اور اپنے مردہ خدا کا مقابلہ کر کے دیکھ لے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس باہم امتحان کے لئے چالیس دن کافی ہیں.افسوس کہ اکثر عیسائی شکم پرست ہیں.وہ نہیں چاہتے کہ کوئی فیصلہ ہو ورنہ چالیس دن کیا حقیقت رکھتے ہیں.آتھم کی طرح اس میں کوئی شرط نہیں.اگر میں جھوٹا نکلوں تو ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں.لیکن دعاء کے ذریعہ سے مقابلہ ہو گا.جس کا سچا خدا ہے بلاشبہ سچار ہے گا.اس باہمی مقابلہ میں بیشک خدا مجھے غالب کرے گا.اور اگر میں مغلوب ہوا تو عیسائیوں کے لئے فتح ہوگی جس میں میرا کوئی جواب نہیں.اور جو تاوان مقرر ہو اور میری مقدرت کے اندر ہو دوں گا.لیکن اگر میں غالب ہوا تو عیسائی مقابل کو مردہ خدا سے دست بردار ہونا ہوگا اور بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا اور پہلے ایک اشتہا ر انہیں شرائط کے ساتھ بہ ثبت شہادت وہ کس معزز آدمیوں کے دینا ہو گا.اس سے روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۱۲ ۲۱۳)
317 حضرت بانی سلسلہ نے جہاں عمومی طور پر استجابت دعاء کے مقابلہ کے لئے چیلنج دئے وہاں معین طور پر ایک جماعت لنگڑوں، لولوں ، اندھوں، کانوں اور دوسرے بیماروں کی بذریعہ دعا صحت یابی چاہنے کے مقابلہ کے بھی متعدد چیلنج دیئے.چنانچہ مولوی عبدالحق غزنوی کو اس سلسلہ میں مقابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.”اے عزیز آپ کا اختیار ہے کہ اس طرح پر جو خدا نے مجھے مامور کیا ہے ایک جماعت لنگڑوں ، لولوں، اندھوں اور کانوں اور دوسرے بیماروں کی لے آؤ.اور پھر ان میں سے قرعہ اندازای کے طریق پر جس جماعت کو خدا میرے حوالہ کرے گا اگر میں مغلوب رہا تو جس قدر تم نے اشتہار میں گالیاں دی ہیں ان سب کا میں مستحق ہوں گا.ورنہ وہ تمام گالیوں تمہاری طرف رجوع کریں گے.“ تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۵۰) اور اگر کوئی چالا کی اور گستاخی سے اس معجزہ میں میرا مقابلہ کرے اور یہ مقابلہ ایسی صورت سے کیا جائے کہ مثلاً قرعہ اندازی سے ہیں بیمار میرے حوالہ کئے جائیں تو خدا تعالیٰ ان بیماروں کو جو میرے حصہ میں آئیں شفایابی میں صریح طور پر فریق ثانی کے بیماروں سے زیادہ رکھے گا اور یہ نمایاں معجزہ ہوگا.افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں ورنہ نظیر کے طور پر بہت سے عجیب واقعات بیان کئے جاتے.منہ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۱ ح) و لیکن آج ۱۵ مئی ۱۹۰۸ء کو میرے دل میں ایک خیال آیا ہے کہ ایک اور طریق فیصلہ کا ہے.شاید کوئی خدا ترس اس سے فائدہ اٹھاوے اور انکار کے خطرناک گرداب سے نکل آوے اور وہ طریق یہ ہے کہ میرے مخالف منکروں میں سے جو شخص اشد مخالف ہو اور مجھ کو کافر اور کذاب سمجھتا ہو وہ کم سے کم دس نامی مولوی صاحبوں یا دس
318 نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے جو دوسخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمائش کریں یعنی اس طرح پر کہ دو خطرناک بیمار لیکر جو جدا جدا بیماری کی قسم میں مبتلا ہوں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دعا کیلئے تقسیم کر لیں.پھر جس فریق کا بیمار بکلی اچھا ہو جاوے یا دوسرے بیمار کے اس کی عمر زیادہ کی جائے وہی فریق سچا سمجھا جاوے.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور میں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کر کے یہ خبر دیتا ہوں کہ جو بیمار میرے حصہ میں آوے گا یا تو خدا اسے بکلی صحت دے گا اور یا بہ نسبت دوسرے بیمار کے اس کی عمر بڑھا دے گا اور یہی امر میری سچائی کا گواہ ہو گا.اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.لیکن یہ شرط ہو گی کہ فریق مخالف جو میرے مقابل پر کھڑا ہو گا وہ خود اور ایسا ہی دس اور مولوی یا دس رئیس جو اس کے ہم عقیدہ ہوں یہ شائع کر دیں ہ در حالت میرے غلبہ کے وہ میرے پر ایمان لائیں گے اور میری جماعت میں داخل ہوں گے اور یہ اقرار تین نامی اخباروں میں شائع کرانا ہو گا.ایسا ہی میری طرف سے بھی یہی شرائط ہوں گی..اس قسم کے مقابلہ سے فائدہ یہ ہوگا کہ کسی خطرناک بیمار کی جو اپنی زندگی سے نومید ہو چکا ہے خدا تعالیٰ جان بچائے گا اور احیاء موتی کے رنگ میں ایک نشان ظاہر کرے گا.والسلام علی من اتبع الھدیٰ المشتهر میر ز غلام احمد قادیانی مسیح موعود ۵ مئی ۱۹۰۸ء چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۳۲ صفه ۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ” استجابت دعا میں مقابلہ کے علاوہ تمام مخالف علماء کو اس
319 بات کا بھی چیلنج دیا کہ وہ آپ کے خلاف سب مل کر بددعائیں کریں مگر ان کی بددعا ئیں انہیں کے خلاف پڑیں گی.فرمایا.میں محض نصیحتا اللہ مخالف علماء اور ان کے ہمخیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں.پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پرنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بددعا کرے گا وہ بددعا اسی پر پڑے گی.جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کوخبر نہیں.اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کر یہ دعائیں کرتا ہے کہ ہم میں جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا کیونکہ اس نے عام طور پر شائع کر دیا تھا کہ مرزا غلام احمد اگر جھوٹا ہے اور ضرور جھوٹا ہے تو وہ مجھ سے پہلے مرے گا.اور اگر میں جھوٹا ہوں تو میں پہلے مر جاؤں گا.اور یہی دعا بھی کی.تو پھر آپ ہی چند روز کے بعد مر گیا.اگر وہ کتاب چھپ کر شائع نہ ہو جاتی تو اس واقعہ پر کون اعتبار کر سکتا مگر اب تو وہ اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا.پس ایک شخص جو ایسا
320 مقابلہ کرے گا اور ایسے طور کی دعا کرے گا تو وہ ضرور غلام دستگیر کی طرح میری سچائی کا گواہ بن جائے گا.(اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۴۷۲،۴۷۱) ہندوستان کے تمام مشائخ، فقراء صلحاء اور مردان باصفا کو اپنے صدق یا کذب سے متعلق دعا تضرع اور استخارہ کے ذریعہ فیصلہ کروانے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.لیکن با وجود نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ وشواہد عقلیہ و آیات سماویہ پھر بھی ظالم طبع مخالف اپنے ظلم سے باز نہ آئے اور طرح طرح کے افتر اؤں سے مدد لے کر محض ظلم کی رو سے تکذیب کر رہے ہیں.لہذا اب مجھے اتمام حجت کے لئے ایک اور تجویز خیال میں آئی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے اور یہ تفرقہ جس نے ہزار ہا مسلمانوں میں سخت عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے رو با صلاح ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے تمام مشائخ اور فقراء اور مردان باصفا کی خدمت میں اللہ جل شانہ کی قسم دے کر التجا کی جائے کہ وہ میرے بارے میں اور میرے دعوی کے بارے میں دعا اور تضرع اور استخارہ سے جناب الہی میں توجہ کریں.پھر اگر ان کے الہامات اور کشوف اور رویا صادقہ سے جو حلفا شائع کریں کثرت اس طرف نکلے کہ گویا یہ عاجز کذاب اور مفتری ہے تو بے بشک تمام لوگ مجھے مردود اور مخذول اور ملعون اور مفتری اور کذاب خیال کر لیں اور جس قدر چاہیں لعنتیں بھیجیں ان کو کچھ گناہ نہیں ہوگا اور اس صورت میں ہر ایک ایماندار کو لازم ہوگا کہ مجھ سے پر ہیز کرے اور اس تجویز سے بہت آسانی کے ساتھ مجھ پر اور میری جماعت پر و بال آجائے گا.لیکن اگر کشوف اور الہامات اور رویا صادقہ کی کثرت اس طرف ہو کہ یہ عاجز منجانب اللہ اور اپنے دعوی میں سچا ہے تو پھر ہر ایک خدا ترس پر لازم ہوگا کہ میری پیروی کرے اور تکفیر اور تکذیب سے باز آوے
321 " ” يا مشائخ الهندان کنتم تحسبون انفسكم شيئا فمالكم لا تبارزوننی ولا تقاومون و انى اراكم في غلواء كم سادرين و سادرلين ثوب الخيلاء ومعجبين و اهلكم المادحون المطرء ون.تعالوا ندع الرب الجليل و نتحامى القال والقيل.ونطلب من اله البرهان والدليل.ونسئل الله ان يفتح بيننا و بينكم ليتبين الحق ويهلك الهالكون.و انى والله اتيقن فيكم انكم الثعالب و تستاسدون و بغشان و تستنسرون و كذالكم في امرى تظنون.و تعالوا نجعل الله حكما بيننا وبينكم ليكرم الله الصادقين و يخسر المبطلون.فان كان لكم نصيب من نعمتى التي انعم الله على فبارزوا علی ندائی وواجهو تلقائی وا بتدرو اولا تمهلون.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۱۳ ۴۱۴۰) ترجمہ.اے ہندوستان کے تمام مشائخو ! اگر تم اپنے آپ کو کوئی شئے سمجھتے ہو تو تم میرے مقابل پر کیوں کھڑے نہیں ہوتے.اور یقیناً میں تمہیں اپنے غلو میں پڑے دیکھتا ہوں.اور نیز میں تمہیں تکبر اور عجب کے کپڑے لٹکائے دیکھتا ہوں.اور تمہیں تعریف میں مبالغہ آرائی کرنے والوں نے ہلاک کر دیا ہے.آؤ ہم رب جلیل سے دعا کریں اور بحث مباحثہ کو ترک کر دیں اور اللہ تعالیٰ سے برہان و دلیل طلب کریں.اور اللہ تعالیٰ سے اپنے درمیان فیصلہ چاہیں.تا کہ حق ظاہر جو جائے اور ہلاک ہونے والے ہلاک ہو جائیں.اور اللہ کی قسم میں تمہیں لومڑیاں خیال کرتا ہوں.جبکہ تم اپنے آپ کو شیر سمجھتے ہو.اور فی الحقیقت تم بغشان ہومگر اپنے آپ کو گدھیں سمجھتے ہو.اور میرے متعلق تمہارے گمان کا بھی یہی حال ہے.آؤ ہم اللہ کو اپنے درمیان حکم بنا ئیں
322 تا کہ اللہ تعالیٰ سچوں کو عزت بخشے اور جھوٹوں کو رسوا کرے.اور اگر اس نعمت کا کوئی حصہ تمہارے پاس ہے جو خدا نے مجھے عطا کی ہے تو پھر میرے مقابلہ میں جلدی کرو اور دیر مت کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب برکات الدعا میں سید احمد خان صاحب کے سی ایس آئی کے رسالہ ”الدعا و والاستجابہ کا رد کرتے ہوئے سید احمد خان صاحب کو چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں.بالآخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سید صاحب اپنے اس غلط خیال سے تو بہ نہ کریں اور یہ کہیں کہ دعاؤں کے اثر کا ثبوت کیا ہے تو میں ایسی غلطیوں کے نکالنے کے لئے مامور ہوں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سید صاحب کو اطلاع دوں گا اور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دوں گا.مگر سید صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرار کریں کہ وہ بعد ثابت ہو جانے میرے دعوئی کے اپنے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے.“ برکات الدعا.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲)
323 باب چهارم مباہلہ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمُ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ ( آل عمران : (۶۲) اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ.ترجمہ :.اب جو (شخص) تیرے پاس علم (الہی ) کے آچکنے کے بعد تجھ سے اس کے متعلق بحث کرے تو تو (اُسے ) کہہ دے (کہ) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفوس کو اور تم اپنے نفوس کو.پھر گڑ گڑا کر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.
324
325 مخالف مسلمانوں و مشائخ کو دعوت مباہلہ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف مولوی صاحبان تو آپ کو ابتدائے دعوی ہی سے مباہلہ کا چیلنج دے رہے تھے مگر آپ اس خیال سے کہ دو مسلمان فریق میں مباہلہ درست نہیں ہے اعراض فرماتے رہے.لیکن جب علماء نے آپ کے خلاف کفر کا فتولی شائع کر دیا تو آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مباہلہ کرنے کی اجازت دی گئی.چنانچہ آپ نے ۱۸۹۲ء میں تمام مکفر اور مکذب مولویوں اور مفتیوں کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ.مباہلہ کے لئے اشتہار ان تمام مولویوں اور مفتیوں کی خدمت میں جو اس عاجز کو جزئی اختلافات کی وجہ سے یا اپنی نانہی کے باعث سے کافر ٹھہراتے ہیں عرض کیا جاتا ہے کہ اب میں خدا تعالیٰ سے مامور ہو گیا ہوں کہ تا میں آپ لوگوں سے مباہلہ کرنے کی درخواست کروں اس طرح پر کہ اول آپ کو مجلس مباہلہ میں اپنے عقائد کے دلائل از روئے قرآن و حدیث کے سناؤں.اگر پھر بھی آپ لوگ تکفیر سے باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کروں.سو میرے پہلے مخاطب میاں نذیر حسین دہلوی ہیں.اور اگر وہ انکار کریں تو پھر شیخ محمد حسین بطالوی.اور اگر وہ انکار کریں تو پھر بعد اس کے وہ تمام مولوی صاحبان جو مجھ کو کافر ٹھہراتے اور مسلمانوں میں سرگروہ سمجھے جاتے ہیں.اور میں ان تمام بزرگوں کو آج کی تاریخ سے جو دہم دسمبر ۱۸۹۲ء ہے.چار ماہ تک مہلت دیتا ہوں.اگر چار ماہ تک ان لوگوں نے مجھ سے بشرائط متذکرہ بالا مباہلہ نہ کیا.اور نہ کافر کہنے سے باز آئے.تو پھر اللہ تعالیٰ کی حجت ان پر پوری ہوگی.میں اول یہ چاہتا تھا کہ وہ تمام بے جا الزامات جو میری نسبت ان لوگوں نے قائم کر کے موجب کفر قرار
326 دیئے ہیں اس رسالہ میں ان کا جواب شائع کروں.لیکن باعث بیمار ہو جانے کا تب اور حرج واقع ہونے کے ابھی تک وہ حصہ طبع نہیں ہوسکا.سو میں مباہلہ کی مجلس میں وہ مضمون بہر حال سنادوں گا.اگر اس وقت طبع ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو.لیکن یادر ہے کہ ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تکفیر کے فتویٰ لکھنے والوں نے جو کچھ سمجھا ہے اول اس تحریر کی غلطی ظاہر کی جائے اور اپنی طرف سے دلائل شافیہ کے ساتھ اتمام حجت کیا جائے.اور پھر اگر باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کیا جائے اور مباہلہ کی اجازت کے بارے میں جو کلام الہی میرے پر نازل ہوا.وہ یہ ہے:.نـظـر الـلـه الیک معطرا.وقالو اتجعل فيها من يفسد فيها قال انى اعلم مالا تعلمون.قالوا كتاب ممتلئى من الكفر والكذب قل تعالواندع ابناء نا ابناء كم ونساء نا و نساء كم وانفسنا وانفسكم ثم نبتهل فنجعل لعنته الله على الكاذبين يعنی خدا تعالیٰ نے ایک معطر نظر سے تجھ کو دیکھا اور بعض لوگوں نے اپنے دلوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قائم کر دے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلاوے.تو خدا تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے.اور ان لوگوں نے کہا کہ اس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کفر سے بھری ہوئی ہے سو ان کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں پھر ان پر لعنت کریں جو کاذب ہیں.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۵،۲۶۱) اس کے بعد دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمد حسین بٹالوی اور دیگر تمام مکذب و مکفر نامی مولویوں اور سجادہ نشینوں کو ایک اشتہار کے ذریعہ مباہلہ کا حسب ذیل چیلنج دیا.
327 لہذا اس اشتہار میں خاص طور پر میاں محمد حسین بطالوی اور میاں محی الدین لکھو کے والے اور مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اور ہر ایک نامی مولوی یا سجادہ نشین کو جو اس عاجز کو کا فرسمجھتا ہو مخاطب کر کے عام طور پر شائع کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے تئیں صادق قرار دیتے ہیں تو اس عاجز سے مباہلہ کریں اور یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا.لیکن یہ بات واجبات سے ہوگی کہ فریقین اپنی اپنی تحریریں بہ ثبت دستخط گواہان شائع کر دیں کہ اگر کسی فرقہ پر لعنت کا اثر ظاہر ہو گیا تو وہ شخص اپنے عقیدہ سے رجوع کرے گا اور اپنے فریق مخالف کو سچا مان لے گا اور اس مباہلہ کے لئے اشخاص مندرجہ ذیل بھی خاص مخاطب ہیں.محمد علی واعظ.ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ.منشی سعد اللہ مدرس لدھیانہ.منشی محمد عمر سابق ملازم لدھیانہ.مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ.میاں نذیر حسین دہلوی.حافظ عبدالمنان وزیر آبادی.میاں میر حیدر شاہ وزیر آبادی.میاں محمد اسحاق پٹیالوی.“ مجموعہ اشتہارات.جلد اصفحہ ۳۹۹) مولوی محمد حسین بٹالوی کا رد عمل مولوی محمد حسین بٹالوی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عداوت اور دشمنی مذہبی دنیا میں بہت معروف ہے.آپ ہی تھے جنہوں نے تمام ہندوستان میں پھر کر قریباً دوسو مولویوں سے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ حاصل کیا اور آپ ہی تھے جنہوں نے یہ الفاظ کہے تھے کہ.میں نے ہی مرزا کو اونچا کیا تھا اور میں ہی اسے نیچے گراؤں گا.“ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب دن رات حضرت اقدس کو نقصان پہنچانے کی فکر میں مستغرق رہتے تھے.آپ کی اس معاندانہ روش کے باعث حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو بطور خاص مباہلہ کی دعوت دی.مگر مولوی صاحب مباہلہ کی دعوت قبول کرنے کے باوجود عملاً مباہلہ
328 کے میدان میں قدم رکھنے کی جرات نہ کرتے.اور مختلف قسم کے حیلے بہانے پیش کر کے فرار اختیار کر جاتے.بالآخر جب مولوی عبدالحق غزنوی کے ساتھ امرتسر میں مباہلہ کی تاریخ مقرر ہوئی تو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بھی لاہور سے ایک اشتہار بھیجا کہ میں بھی مرزا صاحب سے مباہلہ کے لئے امرتسر آتا ہوں.صرف مباہلہ ہو گا اور کوئی تقریر نہ ہوگی.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں ایک اشتہار لکھا کہ مولوی محمد حسین مجھ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے اور میرے سامنے تک نہیں آئیں گے.اگلا دن مولوی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کا تھا کہ مولوی محمد حسین بھی امرتسر پہنچ گئے.عیدگاہ میں بہت ہجوم ہو گیا اور مولوی محمد حسین بھی اس ہجوم سے اچھے خاصے فاصلہ پر کھڑے ہو کر کچھ تقریر کرنے لگے.لوگوں کا خیال تھا کہ بعد تقریر مولوی صاحب مباہلہ کریں گے.مرزا صاحب نے تو لکھا تھا کہ وہ میرے سامنے مباہلہ کے لئے نہیں آئیں گے لیکن یہ تو آگئے.جب انہوں نے آدھا پونا گھنٹہ تقریر میں گزار دیا تو مولوی عبدالحق غزنویوں کے شاگر د غزنوی مولویوں کے مشورہ سے مباہلہ کے لئے آگے بڑھے.رساله نور احمد صفحه ۳۲ ۳۳ مصنفه شیخ نور احمد احمدی بحوالہ حیات طیبه صفحه ۱۲۰) مگر مولوی صاحب کو مباہلہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ”مولوی محمد حسین صاحب مجھ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے.“ اس کے بعد حضرت اقدس کے کچھ مریدوں نے تمام اہل اسلام کو مخاطب کر کے اکتوبر ۱۸۹۸ء میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں مخالفوں سے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنے آپ کو اپنے معتقدات میں سچا سمجھتے ہیں تو مولوی محمد حسین بٹالوی سے کہیں کہ وہ حضرت اقدس سے مباہلہ کیلئے تیار ہو جائیں.اگر انہوں نے مباہلہ کر لیا اور اس مباہلہ کا کھلا کھلا اثر سال بھر کے اندر ظاہر نہ ہو گیا تو مولوی محمد حسین صاحب کو مبلغ دو ہزار پانچ سو پچھپیں روپے آٹھ آنے بطور انعام دی جائے
329 گی.مولوی صاحب موصوف اگر چاہیں تو ہم نے اطمینان کے لئے بعد منظوری مباہلہ یہ رقم متین ہفتہ کے اندر اندر انجمن حمایت اسلام لاہور یا بنگال بنک میں جمع کرا دیں گے.“ (ضمیمه تبلیغ رسالت جلد هفتم صفحه ۸۰۷۹) مولوی ابوالحسن تبتی اور جعفر زٹلی کا رد عمل مندرجہ بالا اشتہار کے جواب میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے دوشاگر دمولوی ابوالحسن نیتی اور مولوی جعفر زٹلی صاحب نے علی الترتیب ۳۱ اکتوبر اور ۱۰ارنومبر ۱۸۹۸ء کو حضرت اقدس کے خلاف دواشتہار شائع کئے جن میں حضرت اقدس کو برا بھلا کہا گیا.اور مولوی صاحب کا مباہلہ نہ کرنے کا یہ عذر پیش کیا کہ.مولوی صاحب ان مجاہیل کی فضول لاف و گزاف کی طرف توجہ نہیں کرتے.اور ان لوگوں کو مخاطب بنانا نہیں چاہتے.اگر قادیان اپنی طرف سے دعوت مباہلہ کا اشتہار دے یا کم سے کم یہ مشتہر کر دے کہ اس کے مریدوں نے جو اشتہار دیئے ہیں وہ اسی کی رضامندی و ترغیب سے دیئے گئے ہیں اس میں مولوی صاحب ممدوح اپنی طرف سے کوئی شرط پیش نہیں کرتے صرف قادیانی کی شرط میعاد ایک سال کو اڑا کر یہ چاہتے ہیں کہ اثر مباہلہ اسی مجلس میں ظاہر ہو یا زیادہ سے زیادہ تین روز میں جو عبداللہ آتھم کے مباہلہ وقسم کیلئے اس نے تسلیم کئے تھے اور قبل از مباہلہ قادیانی اس اثر کی تعیین بھی کر دے کہ وہ کیا ہوگا.بحوالہ تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۵۸،۵۷) ان کے اس عذر کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار ۲۱ نومبر 66 ۱۸۹۸ء میں فرمایا کہ:.غرض نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس درخواست مباہلہ کو جو نہایت نیک نیتی سے کی گئی تھی شیخ محمد حسین نے قبول نہیں کیا اور یہ عذر کیا کہ تین دن تک مہلت اثر مباہلہ
330 ہم قبول کر سکتے ہیں زیادہ نہیں.حالانکہ حدیث شریف میں سال کا لفظ تو ہے مگر تین دن کا نام ونشان نہیں اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حدیث میں جیسا کہ تین دن کی کہیں تحدید نہیں ایسا ہی ایک سال کی بھی نہیں تاہم ایک شخص جو الہام کا دعوی کر کے ایک سال کی شرط پیش کرتا ہے علماء امت کا حق ہے اس پر حجت پوری کرنے کے لئے ایک سال ہی منظور کر لیں.اس میں تو حمایت شریعت ہے تا مدعی کو آئیندہ کلام کرنے کی گنجائش نہ رہے.“ ( تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۵۳) مولوی عبدالحق غزنوی کا رد عمل مباہلہ کے اس چیلنج کے بعد جس میں مولوی نذیرحسین دہلوی اور مولوی محمد حسین بٹالوی خصوصی طور پر اور دیگر تمام ملکفر اور مکذب علماء کو عمومی طور پر دعوت مباہلہ دی گئی ہے اور تو کسی مولوی نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا.صرف مولوی عبدالحق غزنوی صاحب نے بذریعہ اشتہار ۲۶؎ شوال ۱۳۱۰ھ کو مباہلہ کی اس دعوت کو قبول کیا.اس اشتہار کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ م نے بھی اعلان مباہلہ بجواب اشتہار عبدالحق غزنوی“ کے عنوان سے درج ذیل اشتہار السلام - شائع فرمایا.ایک اشتہار مباہلہ مؤرخه ۲۶ شوال ۱۳۱۰ هجری شائع کردہ عبدالحق غزنوی میری نظر سے گذرا.سو اس لئے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ مجھ کو اس شخص اور ایسا ہی ایک مکفر سے جو عالم یا مولوی کہلاتا ہے مباہلہ منظور ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ القدیر میں تیسری یا چوتھی ذی قعد ۱۳۱۰ صبح تک امرتسر میں پہنچ جاؤں گا اور تاریخ مباہلہ دہم ذیقعد اور یا بصورت بارش وغیرہ کسی ضروری وجہ سے گیارہویں ذیقعدہ ۱۳۱۰ صحیح قرار پائی ہے جس سے کسی صورت میں تخلف لازم نہیں ہوگا.اور مقام مباہلہ عید گاہ جو قریب مسجد خان بہادر محمد شاہ مرحوم ہے قرار پایا ہے اور چونکہ دن کے پہلے حصہ میں
331 قریباً بارہ بجے تک عیسائیوں سے دربارہ حقیقت اسلام اس عاجز کا مباحثہ ہوگا اور یہ مباحثہ برابر بارہ دن تک ہوتا رہے گا.اس لئے مکفرین جو مجھ کو کا فرٹھہرا کر مجھ سے مباہلہ کرنا چاہتے ہیں دو بجے سے شام تک مجھ کو فرصت ہوگی.اس وقت میں بتاریخ دہم ذیقعد یا بصورت کسی عذر کے گیاراں ذیعقد ۱۳۱۰ صبح کو مجھ سے مباہلہ کر لیں اور دہم ذیقعد اس مصلحت سے تاریخ قرار پائی ہے کہ تا دوسرے علماء بھی جو اس عاجز کلمہ گواہل قبلہ کو کافر ٹھہراتے ہیں شریک مباہلہ ہو سکیں جن سے محی الدین لکھوکھے والے اور مولوی عبد الجبار صاحب اور شیخ محمد حسین بٹالوی اور منشی سعد اللہ مدرس ہائی سکول لد ہانہ اور مولوی محمد حسین صاحب رئیس لدہانہ اور میں انذیرحسین صاحب دہلوی اور پیر حیدر شاہ صاحب اور حافظ عبدالمنان وزیر آبادی اور میاں عبداللہ ٹونکی اور مولوی غلام دستگیر قصور اور مولوی شاہدین صاحب اور مولوی مشتاق احمد صاحب مدرس ہائی سکول لد ہانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی محمد علی واعظ ساکن بو پڑاں ضلع گوجرانوالہ اور مولوی محمد الحق اور سلیمان ساکنان ریاست پٹیالہ اور ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ اور مولوی محمد ملازم مطبع کریم بخش لاہور وغیرہ اور اگر یہ لوگ باوجود پہنچنے ہمارے رجسٹری اشتہارات کے حاضر میدان مباہلہ نہ ہوئے تو یہی ایک پختہ دلیل اس بات پر ہوگی کہ وہ در حقیقت اپنے عقیدہ تکفیر میں اپنے تئیں کا ذب اور ظالم اور ناحق پر سمجھتے ہیں بالخصوص سب سے پہلے شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنتہ کا فرض ہے کہ میدان میں مباہلہ کیلئے تاریخ مقررہ پر امرتسر میں آجاوے کیونکہ اس نے مباہلہ کے لئے خود درخواست بھی کر دی ہے اور یادر ہے کہ ہم بار بار مباہلہ کرنا نہیں چاہیے کہ مباہلہ کوئی ہنسی کھیل نہیں ابھی تمام مکفرین کا فیصلہ ہو جانا چاہئے.پس جو شخص اب ہمارے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد گریز کرے گا اور تاریخ مقررہ پر حاضر نہیں
332 ہوگا آئیندہ اس کا کوئی حق نہیں رہے گا کہ پھر کبھی مباہلہ کی درخواست کرے اور پھر ترک حیا میں داخل ہوگا کہ غائبانہ کا فر کہتا رہے.اتمام حجت کے لئے رجسٹری کرا کر یہ اشتہار بھیجے جاتے ہیں تا اس کے بعد مکفرین کو کوئی عذر باقی نہ رہے.اگر بعد اس کے مکفرین نے مباہلہ نہ کیا اور نہ تکفیر سے باز آئے تو ہماری طرف سے ان پر حجت پوری ہوگئی.بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ مباہلہ سے پہلے ہمارا حق ہوگا کہ ہم مکفرین کے سامنے جلسہ عام میں اپنے اسلام کی وجوہات پیش کریں.والسلام علی من اتبع الهدی المشتهر خاکسار میرزاغلام احمد ۳۰ شوال ۱۳۱۰ صبح اتمام حجت اگر شیخ محمد حسین بٹالوی دہم ذیقعد ۱۳۱۰ صبح کو مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تو اسی روز سے سمجھا جائے گا کہ وہ پیشگوئی جو اس کے حق میں چھپوائی گئی تھی کہ وہ کافر کہنے سے تو بہ کرے گا پوری ہوگئی.بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ اے خداوند قدیر اس ظالم اور سرکش اور فتان پر لعنت کر اور ذلت کی ماراس پر ڈال جواب اس دعوت مباہلہ اور تقرری شہر اور مقام اور وقت کے بعد مباہلہ کے لئے میرے مقابل پر میدان میں نہ آوے اور نہ کافر کہنے اور سب اور شتم سے باز آوے.آمین ثم آمین يا ايها لمكفرون تعالوا الى امر هو سنته الله ونبيه لا فحام المكفرن المكذبين فان توليتم فاعلموا ان لعنت الله على المكفرين الذين استبان تخلفهم و شهد تخوفهم انهم كانوا كاذبين.المشتهر میرزا غلام احمد قادیانی سچائی کا اظہار.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۸۲٬۸۱ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اعلان کے بعد پادری عبد اللہ آتھم سے مباحثہ کی غرض سے اپنے احباب کے ہمراہ امرتسر تشریف لے گئے.بہت سارے احباب باہر سے بھی مباحثہ سننے
333 کیلئے آئے ہوئے تھے.عیسائیوں سے اسی مباحثہ کے دوران میں دوسرے مباہلہ کی مقررہ تاریخ • ارذی قعدہ ۱۳۱۰ ھ یعنی ۲۷ مئی ۱۸۹۳ ء آ گئی.آپ اس تاریخ کو تیسرے پہر اپنی جماعت کے ہمراہ امرتسر کی عیدگاہ میں تشریف لائے.آپ نے اپنے اشتہار مورخہ ۳۰ /شوال ۱۳۱۰ھ میں ہندوستان بھر کے جن جن مولویوں کو مباہلہ کے لئے دعوت دی تھی ان میں سے صرف مولوی عبدالحق غزنوی صاحب اپنے بعض طالبعلموں اور درویشوں کے ساتھ عید گاہ مذکور میں موجود تھے.اس مباہلہ میں مولوی عبدالحق غزنوی نے اپنے متعلق تو کوئی لفظ زبان سے نہ نکالا البتہ حضرت اقدس کے لئے سخت سے سخت الفاظ استعمال کرنے اور گالی گلوچ سے اپنی زبان آلود کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.اس کے جواب میں حضرت اقدس نے صرف ان الفاظ کا اعادہ فرمایا.میں یہ دعا کروں گا کہ جس قدر میری تالیفات ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہے اور نہ میں کافر ہوں اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہوں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب مجھ پر نازل کرے جو ابتداء دنیا سے آج تک کسی کا فربے ایمان پر نہ کی ہو.ور آپ لوگ آمین کہیں.کیونکہ اگر میں کافر ہوں اور نعوذ باللہ دین اسلام سے مرتد اور بے ایمان تو نہایت برے عذاب سے میرا مرنا ہی بہتر ہے اور میں ایسی زندگی سے یہ ہزار دل بیزار ہوں اور اگر ایسا نہیں تو خدا تعالیٰ اپنی طرف سے سچا فیصلہ کر دے گا وہ میرے دل کو بھی دیکھ رہا ہے اور مخالفوں کے دل کو بھی.حضور کی یہ دعا اس اشتہار کے مطابق تھی جو حضرت اقدس نے ایک دن قبل یعنی ۲۱ رمئی
334 ۱۸۹۳ء کو شائع فرمایا تھا جس میں آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ میں صرف اپنے متعلق اس قسم کی بددعا کروں گا اور اس مباہلہ میں کوئی میعاد نہ تھی.اب ایک عقلمند کیلئے یہ غور کا مقام ہے کہ آپ نے عبدالحق غزنوی کے لئے کوئی بددعا نہیں کی تھی.صرف جھوٹے اور مفتری ہونے کی حالت میں اپنے لئے تباہی اور بربادی کی بددعا کی تھی اور عبد الحق غزنوی نے بھی آپ کو جھوٹا اور مفتری قرار دیتے ہوئے صرف آپ کے لئے بددعا کی تھی.اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کرنے کا نتیجہ کیا نکلا.نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں فریق کی بددعا ئیں آپ کے حق میں دعائیں بن کر لگیں اور اس مباہلہ کے بعد جو ترقی آپ کو اور آپ کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے دی وہ کسی سے مخفی نہیں.مباہلہ بعد خدائی نصرت...صداقت پر ایک زبر دست نشان ہیں.حافظ محمد یعقوب صاحب کی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا اس مباہلہ میں یہ زبردست نشان دیکھنے میں آیا کہ حضرت اقدس نے ابھی اپنی دعا ختم نہ کی تھی کہ حافظ محمد یعقوب صاحب جو حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر کے بڑے بھائی تھے اور غزنویوں کے مرید تھے ایک چیخ مار کر روتے ہوئے حضرت اقدس کے قدموں میں گر گئے اور کہا کہ آپ میری بیعت قبول کریں.حضرت اقدس نے فرمایا.مباہلہ سے فارغ ہو لیں تو بیعت لیں گے.نہ نظارہ دیکھ کر غزنوی مولویوں اور ان کے معتقدین کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے.کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ مباہلہ میں یہ حضرت اقدس کی پہلی فتح ہے.بہر حال اس طرح مباہلہ ختم ہو گیا اور حضرت اقدس واپس مکان پر تشریف لے گئے.(رسالہ نور احمد صفحه ۳۲ طبع دوم مصنفہ شیخ نور احمد احمدی)
335 غزنوی کے ساتھ مباہلہ کا اثر اس مباہلہ کا کیا اثر ہوا.حضرت اقدس نے اپنی کتاب انجام آتھم میں ایسے دس امور درج فرمائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کو خدا تعالیٰ نے اس مباہلہ کے بعد اپنی روحانی اور جسمانی برکتوں سے مالا مال کر دیا.ذیل میں ہم حضرت اقدس ہی کے الفاظ میں ان دس امور کا خلاصہ لکھتے ہیں.اول.آتھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی.وہ اپنے واقعی معنوں کے رو سے پوری ہوگئی.دوسرا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ ان عربی رسالوں کا مجموعہ ہے جو مخالف مولویوں اور پادریوں کے ذلیل کے لئے لکھا گیا تھا.تیسرا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ قبولیت ہے جو مباہلہ کے بعد دنیا میں کھل گئی.مباہلہ سے پہلے میرے ساتھ شاید تین چار سو آدمی ہوں گے.اور اب آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ میں جان فشاں ہیں.چوتھا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا.رمضان میں خسوف کسوف سوخدا نے مباہلہ کے بعد یہ عزت بھی میرے نصیب کی.ہے.پانچواں وہ امر جو مباہلہ کے بعد میرے لئے عزت کا موجب ہوا.علم قرآن میں اتمام حجت ہے.تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کر سکے.چھٹا امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور عبدالحق کی ذلت کا موجب ہوا.یہ ہے کہ عبدالحق نے مباہلہ کے بعد اشتہار دیا تھا کہ ایک فرزند اس کے گھر میں پیدا ہوگا.اور میں نے بھی خدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ اشتہار انوار الاسلام میں شائع کیا تھا کہ خدا
336 تعالیٰ مجھے لڑکا عطا کرے گا.سوخدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرے گھر میں تو لڑکا پیدا ہو گیا.جس کا نام شریف احمد ہے اور قریباً پونے دو برس کی عمر رکھتا ہے.اب عبد الحق کو ضرور پوچھنا چاہئے.کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کا لڑکا کہاں گیا.ساتواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور قبولیت کا باعث ہوا خدا کے راستباز بندوں کا وہ مخلصانہ جوش ہے جو انہوں نے میری خدمت کے لئے دکھلایا.مجھے کبھی یہ طاقت نہ ہوگی کہ میں خدا کے ان احسانات کا شکر ادا کرسکوں.جو روحانی اور جسمانی طور پر مباہلہ کے بعد میرے وارد حال ہو گئے.روحانی انعامات کا نمونہ میں لکھ چکا ہوں یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے وہ علم قرآن اور علم زبان محض اعجاز کے طور پر بخشا کہ اس کے مقابل پر صرف عبد الحق کیا بلکہ کل مخالفوں کی ذلت ہوئی.ہر ایک خاص و عام کو یقین ہو گیا.کہ یہ لوگ صرف نام کے مولوی ہیں گویا یہ لوگ مرگئے.عبد الحق کے مباہلہ کی نحوست نے اس کے اور رفیقوں کو بھی ڈبویا.اور جسمانی نعمتیں جو مباہلہ کے بعد میرے پر وارد ہوئیں.وہ مالی فتوحات ہیں.جو اس درویش خانہ کے لئے خدا تعالیٰ نے کھول دیں.مباہلہ کے روز سے آج تک پندرہ ہزار کے قریب فتوح غیب کا روپیہ آیا.جو اس نے سلسلہ کے ربانی مصارف میں خرچ ہوا.آٹھواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت زیادہ کرنے کے لئے ظہور میں آیا.کتاب ست بچن کی تالیف ہے.اس کتاب کی تالیف کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے وہ سامان عطا کئے جو تین سو برس سے کسی کے خیال میں بھی نہیں آئے تھے نواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کے زیادہ ہونے کا موجب ہوا یہ ہے کہ اس عرصہ میں آٹھ ہزار کے قریب لوگوں نے میرے ہاتھ میں بیعت کی اور بعض قادیان
337 پہنچ کر اور بعض نے بذریعہ خط تو بہ کا اقرار کیا.پس میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کی توبہ کا ذریعہ جو مجھے کوٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جو خدا کی رضا مندی کے بعد حاصل ہوتی ہے دسواں امر جو عبدالحق کے مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا جلسہ مذاہب لاہور ہے اس جلسہ کے بارے میں مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.جس رنگ اور نورانیت کی قبولیت میرے مضمون کے پڑھنے میں پیدا ہوئی.اور جس طرح دلی جوش سے لوگوں نے مجھے اور میرے مضمون کو عزت کی نگاہ سے دیکھا.کچھ ضرورت نہیں کہ میں اس کی تفصیل کروں.بہت سی گواہیاں اس بات پرسن چکے ہو کہ اس مضمون کا جلسہ مذاہب پر ایسا فوق العادت اثر ہوا تھا.کہ گویا ملائک آسمان سے نور کے طبق لے کر حاضر ہو گئے تھے.ہر ایک دل اس کی طرف ایسا کھینچا گیا تھا.کہ گویا ایک دست غیب اس کو کشاں کشاں عالم وجد کی طرف لے جا رہا ہے.جب لوگ بے اختیار بول اٹھے تھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج باعث محمد حسین وغیرہ کے اسلام کو سیکی اٹھانی پڑتی.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا اصفحہ ۳۰۹، ۳۱۷) مخالف علماء ومشائخ کا نام لیکر ان کو دعوت مباہلہ مئی ۱۸۹۳ء میں جب حضرت مسیح موعود نے پادری عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی تو مخالف علماء نے اپنی عادت کے موافق کھلم کھلا عیسائیوں کا ساتھ دیا.اس پر آپ نے اُن علماء کو مخاطب کر کے ایک اشتہار مباہلہ شائع کیا.جس میں پہلے تو اپنے منصب مسیح موعود کو پیش کیا اور فرمایا کہ مسیح موعود کا کام ہی کسر صلیب ہے.یعنی صلیب کو توڑنا اور اس کے لئے زبردست حربہ وفات مسیح ناصری کا ثابت کرنا ہے.اور پھر حضرات علماء کی اس
338 روش پر اظہار افسوس کیا کہ وہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی پروا نہ کر کے کھلم کھلا اس مسئلہ میں پادریوں کا ساتھ دے رہے ہیں.اس کے بعد آپ نے تمام مخالف علماء وسجادہ نشینوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ چیلنج دیا کہ:.سواب اٹھو اور مباہلہ کیلئے تیار ہو جاؤ.تم سن چکے ہو کہ میرا دعوئی دو باتوں پر مبنی تھا.اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر.دوسرے الہامات الہیہ پر.سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے.اب میرے بناء دعویٰ کا دوسراشق باقی رہا.سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رد نہیں کر سکتا کہ اب اس دوسری بنا ء کی تصفیہ کیلئے مجھ سے مباہلہ کر لو.اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جولکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا.اور دعا کروں گا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افتراء ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزر نے سے پہلے مجھے وفات دے.یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر.جب تک کہ موت آجائے.تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں.اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے خدائے علیم وخبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں.اور تیرے منہ کی باتیں ہیں.تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں.ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے.اور کسی کو مجذوم اور
339 کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا.اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں.کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہر یک شخص جو مباہلہ کیلئے حاضر ہو جناب الہی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم وخبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر جانتے ہیں.پس اگر یہ شخص در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افتراء ہے.تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کر دے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں.اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں.دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوان کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.اور یادر ہے کہ اگر کوئی شخص مجھے کذاب اور مفتری تو جانتا ہے مگر کافر کہنے سے پر ہیز رکھتا ہے تو اس کو اختیار ہوگا کہ اپنے دعائے مباہلہ میں صرف کذاب اور مفتری کا لفظ استعمال کرے جس پر اس کو یقین دلی ہے.اور اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے.اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا.اور میں ابھی لکھ دیتا ہوں کہ اس صورت میں مجھے کا ذب اور مور دلعنت الہی یقین کرنا چاہئے.
340 اور پھر اس کے بعد میں دجال یا ملعون یا شیطان کہنے سے ناراض نہیں اور اس لائق ہوں گا کہ ہمیشہ کیلئے لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں اور اپنے مولیٰ کے فیصلہ کو فیصلہ ناطق سمجھوں گا.اور میری پیروی کرنے والا یا مجھے اچھا اور صادق سمجھنے والا خدا کے قہر کے نیچے ہو گا.پس اس صورت میں میرا انجام نہایت ہی بد ہوگا.جیسا کہ بدذات کا ذبوں کا انجام ہوتا ہے.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچالیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر یک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا.اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی.تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا.اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا.مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا.اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تاہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تباہ کر کے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے.میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور اگر میں مر گیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہو جائے گا.میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم سے کم دس آدمی حاضر ہوں اس سے کم نہ ہوں اور جس قدر زیادہ ہوں میری خوشی اور مراد ہے.کیونکہ بہتوں پر عذاب الہی کا محیط ہو جانا ایک ایسا کھلا کھلا نشان ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ
341 سکتا.گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور تو ہین کو چھوڑنے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو.اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین.مجھے افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا کہ آج تک ان ظالم مولویوں نے اس صاف اور سید ھے فیصلہ کی طرف رخ ہی نہیں کیا.تا اگر میں ان کے خیال میں کا زب تھا تو احکم الحاکمین کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچ جاتا.ہاں بعض ان کے اپنی بدگوئی کیوجہ سے گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکائتیں میری نسبت لکھتے رہے اور اپنی عداوت باطنی کو چھپا کر مخبروں کے لباس میں نیش زنی کرتے اور کر رہے ہیں جیسا کہ شیخ بطالوی علیہ ما یستحقہ اگر ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی جناب سے رد شدہ نہ ہوتے تو مجھے دکھ دینے کیلئے مخلوق کی طرف التجا نہ لے جاتے.یہ نادان نہیں جانتے کہ کوئی بات زمین پر نہیں ہوسکتی جب تک کہ آسمان پر نہ ہو جائے اور گورنمنٹ انگریزی میں یہ کوشش کرنا کہ گویا میں مخفی طور پر گورنمنٹ کا بدخواہ ہوں یہ نہایت سفلہ پن کی عداوت ہے.یہ گورنمنٹ خدا کی گناہ گار ہوگی اگر میرے جیسے خیر خواہ اور بچے وفادار کو بدخواہ اور باغی تصور کرے.میں نے اپنی قلم سے گورنمنٹ کی خیر خواہی میں ابتدا سے آج تک وہ کام کیا ہے جس کی نظیر گورنمنٹ کے ہاتھ میں ایک بھی نہیں ہوگی اور میں نے ہزار ہاروپیہ کے صرف سے کتابیں تالیف کر کے ان میں جابجا اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی چاہئے اور رعایا ہوکر بغاوت کا خیال بھی دل میں لانا نہایت درجہ کی بدذاتی ہے اور میں نے ایسی کتابوں کو نہ صرف برٹش انڈیا میں پھیلایا ہے بلکہ عرب اور شام اور مصر اور روم اور افغانستان اور دیگر اسلامی بلاد میں محض الہی
342 نیت سے شائع کیا ہے نہ اس خیال سے کہ یہ گورنمنٹ میری تعظیم کرے یا مجھے انعام دے کیونکہ یہ میرا مذ ہب اور میرا عقیدہ ہے جس کا شائع کرنا میرے پر حق واجب تھا.تعجب ہے کہ یہ گورنمنٹ میری کتابوں کو کیوں نہیں دیکھتی اور کیوں ایسی ظالمانہ تحریروں سے ایسے مفسدوں کو منع نہیں کرتی.ان ظالم مولویوں کو میں کس سے مثال دوں.یہ ان یہودیوں سے مشابہ ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ناحق دکھ دینا شروع کیا اور جب کچھ پیش نہ گئی تو گورنمنٹ روم میں مخبری کی.کہ یہ شخص باغی ہے.سو میں بار بار اس گورنمنٹ عالیہ کو یاد دلاتا ہوں کہ میری مثال مسیح کی مثال ہے میں اس دنیا کی حکومت اور ریاست کو نہیں چاہتا اور بغاوت کو سخت بدذاتی سمجھتا ہوں میں کسی خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں اور نہ خونی مہدی کا منتظر صلح کاری سے حق کو پھیلانا میرا مقصد ہے.اور میں تمام ان باتوں سے بیزار ہوں جو فتنہ کی باتیں ہوں یا جوش دلانے والے منصوبے ہوں.گورنمنٹ کو چاہئے کہ بیدار طبعی سے میری حالت کو جانچے اور گورنمنٹ روم کی شتابکاری سے عبرت پکڑے اور خودغرض مولویوں یا دوسرے لوگوں کی باتوں کو سند نہ سمجھ لیوے کہ میرے اندر کھوٹ نہیں اور میرے لبوں پر نفاق نہیں.اب میں پھر اپنے کلام کو اصل مقصد کی طرف رجوع دے کر ان مولوی صاحبوں کا نام ذیل میں درج کرتا ہوں جن کو میں نے مباہلہ کیلئے بلایا ہے اور میں پھر ان سب کو اللہ جلشانہ کی قسم دیتا ہوں کہ مباہلہ کیلئے تاریخ اور مقام مقرر کر کے جلد میدان مباہلہ میں آویں.اور اگر نہ آئے اور نہ تکفیر اور تکذیب سے باز آئے تو خدا کی لعنت کے نیچے مریں گے.اب ہم ان مولوی صاحبوں کے نام ذیل میں لکھتے ہیں جن میں سے بعض تو اس
343 عاجز کو کا فر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی.اور بعض کا فر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں.مگر مفتری اور کذاب اور دجال نام رکھتے ہیں.بہر حال یہ تمام مکفرین اور مکذبین مباہلہ کیلئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفر یا مکذب ہیں اور درحقیقت ہر ایک شخص جو باخدا اور صوفی کہلاتا ہے اور اس عاجز کی طرف رجوع کرنے سے کراہت رکھتا ہے وہ مکذبین میں داخل ہے.کیونکہ اگر مکذب نہ ہوتا تو ایسے شخص کے ظہور کے وقت جس کی نسبت آنحضرت ﷺ نے تاکید فرمائی تھی.کہ اس کی مدد کرو اور اس کو میرا اسلام پہنچاؤ اور اس کے مخلصین میں داخل ہو جاؤ تو ضرور اس کی جماعت میں داخل ہو جاتا.اور صاف باطن فقراء کیلئے یہ موقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر اور ہر یک کدورت سے الگ ہوکر اور کمال تضرع اور ابتہال سے اس پاک جناب میں توجہ کر کے راز سر بستہ کا اسی کے کشف اور الہام سے انکشاف چاہیں.اور جب خدا کے فضل سے انہیں معلوم کرایا جائے تو پھر جیسا کہ ان کی اتقاء کی شان کے لائق ہے محبت اور اخلاص اور کامل رجوع سے ثواب آخرت حاصل کریں اور سچائی کی گواہی کیلئے کھڑے ہو جائیں.مولویان خشک بہت سے حجابوں میں ہیں کیونکہ ان کے اندر کوئی سماوی روشنی نہیں.لیکن جو لوگ حضرت احدیت سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں اور تزکیہ نفس سے انانیت کی تاریکیوں سے الگ ہو گئے ہیں.وہ خدا کے فضل سے قریب ہیں.اگر چہ بہت تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں.مگر یہ امت مرحومہ ان سے خالی نہیں.وہ لوگ جو مباہلہ کیلئے مخاطب کئے گئے ہیں یہ ہیں:.مولوی نذیر حسین دہلوی شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعتہ السنہ مولوی عبدالحمید دہلوی مہتمم مطبع انصاری مولوی رشید احمد گنگوہی مولوی عبدالحق دہلوی
344 مولف تفسیر حقانی مولوی عبدالعزیز لدھیانوی مولوی محمد لدھیانوی مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ سعد اللہ نومسلم مدرس لدھیانہ مولوی احمد اللہ امرتسری مولوی ثناء اللہ امرتسری مولوی غلام رسول عرف رسل با با امرتسری مولوی عبدالجبار غزنوی مولوی عبد الواحد غزنوی مولوی عبد الحق غزنوی محمد علی بو پڑی واعظ مولوی غلام دستگیر قصوری ضلع لاہور مولوی عبد اللہ ٹونکی مولوی اصغر علی لاہور حافظ عبد المنان وزیر آباد مولوی محمد بشیر بھوپالی شیخ حسین عرب یمانی مولوی محمد ابراہیم آره مولوی محمد حسن مولف تفسیر امروہہ مولوی احتشام الدین مراد آباد مولوی محمد الحق اجرادری مولوی عین القضاه صاحب لکھنو فرنگی محل مولوی محمد فاروق کانپور مولوی عبدالوہاب کانپور مولوی سعید الدین کانپور رامپوری مولوی حافظ محمد رمضان پشوری مولوی دلدار علی اور مسجد دائرہ مولوی محمد رحیم اللہ مدرسہ اکبر آباد مولوی ابو الانوار نواب محمد رستم علی خاں چشتی مولوی ابوالموید امروہی مالک رسالہ مظہر الاسلام اجمیر مولوی محمد حسین کوئلہ والا دہلی مولوی احمد حسن صاحب شوکت مالک اخبار شحنہ ہند میرٹھ مولوی نذیر حسین ولد امیر علی ابنیٹھ ضلع سہارنپور مولوی احمد علی صاحب سہارنپور مولوی عبد العزیز دینا نگر ضلع گورداسپور قاضی عبدالاحد خان پور ضلع راولپنڈی مولوی احمد رامپور ضلع سہارنپور محله محل مولوی محمد شفیع را مپور ضلع سہارنپور مولوی فقیر الله مدرس مدرسہ نصرت الاسلام واقعہ مسجد بنگلور مولوی محمد امین صاحب بنگلور مولوی قاضی حاجی شاہ عبد القدوس صاحب پیش امام جامع مسجد بنگلور مولوی عبد الغفار صاحب فرزند قاضی شاہ عبد القدوس صاحب بنگلور مولوی محمد ابراہیم صاحب دیلوری حال مقیم بنگلور مولوی عبد القادر صاحب پیارم بیٹی ساکن پیارم پیت علاقہ بنگلور مولوی محمد عباس صاحب ساکن دانمباری علاقہ بنگلور مولوی گل حسن شاہ صاحب
345 میرٹھ مولوی امیر علی شاہ صاحب اجمیر مولوی احمد حسن صاحب کنچوری حال دہلی خاص جامع مسجد مولوی محمد عمر صاحب دہلی فراشخانه مولوی مستعان شاہ صاحب سانبھر علاقہ جے پور مولوی حفیظ الدین صاحب دوجانہ ضلع رہتک مولوی فضل کریم صاحب نیازی غاز بیپورز مینا مولوی حاجی عابد حسین صاحب دیوبند اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین نیاز احمد صاحب بریلی میاں اللہ بخش صاحب سجادہ نشین سلیمان صاحب تو نسوی سنگبری سجادہ نشین صاحب شیخ نور احمد صاحب مہارا نوالہ میاں غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں علاقہ بہاولپور التفات احمد شاہ صاحب سجادہ نشین ردو لے مستان شاہ صاحب کا بلی محمد قاسم صاحب سجادہ نشین شاہ معین الدین شاه خاموش حیدرآباد دکن محمد حسین صاحب گدی نشین شیخ عبد القدوس صاحب گنگوہی گدی نشین او چه شاه جلال الدین صاحب بخاری ظہور الحسین صاحب گدی نشین بٹالہ ضلع گورداسپور صادق علی شاہ صاحب گدی نشین رتر چھڑ ضلع گورداسپور سید صوفی جان صاحب مراد آبادی صابری چشتی مہر شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ ضلع راولپنڈی مولوی قاضی سلطان محمود صاحب آی اعوان والہ پنجاب حیدر شاہ صاحب جلال پور کنکیاں والہ تو کل شاہ صاحب انبالہ مولوی عبد اللہ صاحب گونڈی والہ محمد امین صاحب چکوتری علاقہ گجرات پنجاب مولوی عبد الغنی صاحب جانشین قاضی اسمعیل صاحب مرحوم بنگلور مولوی ولی النبی شاہ صاحب نقشبند رامپور دار الریاست حاجی وارث علی شاہ صاحب مقام دیواضلع لکھنو میر امداد علی شاہ صاحب سجادہ نشین شاہ ابو العلا نقشبند سید حسین شاہ صاحب مودودی دہلی
346 عبد اللطیف شاہ صاحب خلف حاجی نجم الدین شاہ صاحب چشتی جودھپور قطب علی شاہ صاحب دیو گڑھ علاقہ اودے پور میواڑ میرزا بادل شاہ صاحب بدایونی مولوی عبد الوہاب صاحب جانشین عبد الرزاق صاحب لکھنو فرنگی محل علی حسین صاحب کچھوچھا ضلع فقیر آباد شیخ غلام محی الدین صوفی وکیل انجمن حمایت اسلام لاہور حافظ صابر علی صاحب رامپور ضلع سہارنپور امیر حسن صاحب خلف پیر عبداللہ صاحب دہلی منورشاہ صاحب فاضل پور ضلع گوڑ گانواں قریب دیلی محمد معصوم شاہ صاحب نبیرہ شاہ ابوسعید صاحب را مپور دار الریاست بدرالدین شاہ صاحب سجادہ نشین پہلواری ضلع پٹنہ شاہ اشرف صاحب سجادہ نشین پہلواری ضلع پٹنہ مظہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین لواد ا ضلع پٹنہ لفافت حسین شاہ صاحب سجادہ نشین لوا دا نثار علی شاہ صاحب الور دارالریاست وزیر الدین شاه صاحب سجادہ نشین مخدوم صاحب اور مولوی سلام الدین شاہ صاحب نهم ضلع رہتک غلام حسین خاں شاہ صاحب تھانوی ضلع حصار سید اصغر علی شاہ صاحب نیازی اکبر آباد واجد علی شاہ صاحب فیروز آباد ضلع اکبر آباد سید احمد شاہ صاحب ہر دوئی ضلع لکھنو مقصود علی شاہ صاحب شاہجہان پور مولوی نظام الدین چشتی صابری جھجر مولوی محمد کامل شاہ اعظم گڑھ ضلع خاص محمود شاہ صاحب سجادہ نشین بہار ضلع خاص.ان تمام حضرات کی خدمت میں یہ رسالہ پیکٹ کر کے بھیجا جاتا ہے لیکن اگر اتفاقاً کسی صاحب کو نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تا کہ دوبارہ بذریعہ رجسٹری بھیجا جائے راقم میرزا غلام احمد قادیان المكتوب الى علماء الضد ومشائخ هذه البلاد وغيرها من البلاد الاسلامية انجام آنتم روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۶۵ تا ۷۲ )
347 حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کا جواب اس مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں اور تو کسی عالم یا سجادہ نشین نے تصدیق یا تکذیب کی جرات نہ کی البتہ نواب صاحب آف بہاولپور کے پیر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف نے عربی زبان میں ایک خط آپ کی خدمت میں لکھا جس کے ایک حصہ کا ترجمہ حسب ذیل ہے.واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگر چہ میں عدیم الفرصت تھا.تاہم میں نے اس کتاب کے ایک جزو کو جوحسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھا پڑھا ہے.سواے ہر ایک حبیب سے عزیز تر.تجھے معلوم ہو کہ میں ابتداء سے تیرے لیے تعظیم کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بجر تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا.اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ بلا شبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے.میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں تیرے لیے انجام خیر وخوبی کی دعا کرتا ہوں." ( ترجمه عربی خط بحواله انجام آتھم صفحه ۱۳۲۳ تا۳۲۴) حضرت میاں غلام فرید صاحب کے اس خط کو دیکھ کر حضرت اقدس بہت خوش ہوئے اور اسے ضمیمہ انجام آتھم میں درج فرمایا اور دوسرے سجادہ نشینوں کو بھی تلقین فرمائی کہ میاں غلام فرید صاحب کے نمونہ پر چلیں.
348 سید رشید الدین صاحب کی تصدیق دوسرے سجادہ نشین سید رشید الدین صاحب العلم سندھی تھے.جنہوں نے آپ کی تصدیق کی.انہوں نے بھی حضرت اقدس کو عربی زبان میں خط لکھا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.میں نے رسول اللہ ﷺ کو عالم کشف میں دیکھا.پس میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ( ) شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے کیا یہ جھوٹا ہے یا مفتری ہے یا صادق ہے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ آپ حق پر ہیں.اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے.اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہوگا اور جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے.پس آپ اگر یہ کہو کہ ہم امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے.اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کر دیا ہے اور انشاء اللہ ہمیں وفادار پاؤ گے.(بحوالہ ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد نمبر اصفحہ ۶۰) مولوی غلام دستگیر قصوری سے مباہلہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے حضرت مسیح موعود کے مباہلہ کے چیلنج کے بعد ۱۸۹۷ء میں حضرت اقدس کو مباہلہ کا چیلنج دیا.مگر ساتھ ہی یہ شرط لگا دی کہ اگر مرزا صاحب بچے ہیں تو عین میدان مباہلہ میں ہی مجھ پر عذاب نازل ہونا چاہیے.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں ۱۵ جنوری ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ مباہلہ کا مسنون طریق وہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کے وقت اختیار کیا تھا.اور وہ یہ تھا کہ اگر وہ مقابلہ پر آتے تو ایک سال کے اندر اندر ہلاک ہو جاتے.ظاہر ہے کہ مباہلہ کا یہ ایک مسنون طریق تھا جس کی
349 اتباع مولوی غلام دستگیر قصوری کے لئے واجب تھی.مگر انہوں نے اس مسنون طریق سے انحراف اختیار کیا.مگر حضرت مسیح موعود نے مباہلہ کے اسی مسنون طریق اور اپنے الہام کے موافق مولوی غلام دستگیر قصوری کو درج ذیل چیلنج دیا.اب حاصل کلام یہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے الہام کے موافق ایک سال کا وعدہ کرتا ہوں.اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ وعدہ خلاف سنت ہے تو کوئی ایسی صحیح حدیث پیش کریں جس سے سمجھا جائے کہ فوری عذاب مباہلہ کیلئے شرط ضروری ہے.یعنی یہ کہ فوراً کا ذب یا مکذب کے صدق کا اثر فریق ثانی پر ظاہر ہو.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۹۸) مگر مولوی غلام دستگیر صاحب کو مذکورہ چیلنج کے مطابق کوئی حدیث پیش کرنے کی توفیق نہ مل سکی مگر اس کے باوجود اس مسنون طریق سے انحراف اختیار کر کے اپنے لئے ہلاکت کی ایک اور راہ تجویز کر لی اور وہ یہ کہ انہوں نے ۱۳۱۵ ہجری میں ایک کتاب ” فتح رحمانی ، لکھی.جس میں تجویز کیا کہ:.وو اللهم يا ذا الجلال والاکرام یا مالک الملک جیسا کہ تو نے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مجمع البحار کی دعا اور سعی سے اُس مہدی کا ذب اور جعلی مسیح کا بیڑہ غرق کیا.( جو ان کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا ) ویسا ہی دعا اور التجاء اس فقیر قصوری کان اللہ لہ کی ہے.جو بچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع مساعی ہے.کہ تو مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو تو بہ النصوح کی توفیق فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو اُن کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا.فـقـطـع دابــر الــقــوم الــذيــن ظلموا والحمد لله رب العلمین.انک علی کل شئی قدیر.وبا الاجابة جديرامین.یعنی جو لوگ ظالم ہیں وہ جڑ سے کاٹے جائیں گے.اور خدا.گے.اور
350 کے لئے حمد ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے اور دعا قبول کرنے والا ہے.“ (فتح رحمانی صفحه ۲۶،۲۷) مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی اس کتاب کی نسبت یہ بھی لکھا تھا کہ ” تبالة والاتباعه “ یعنی وہ اور اس کے پیرو ہلاک ہو جائیں.خدا کی قدرت که جوطریق فیصله مولوی غلام دستگر قصوری نے چاہا تھا.اس دعا کے بعد اُسی کے مطابق چند روز کے اندر اندر خود طاعون کا شکار ہو گئے.اب کیا مولوی غلام دستگیر قصوری کی کوئی قابل قدر یادگار باقی ہے؟ ہرگز نہیں.مولوی غلام دستگیر قصوری کو یہ شوق پیدا ہوا تھا کہ جس طرح امام محمد طاہر نے ایک جھوٹے مسیح پر بد دعا کی تھی اور خدا تعالیٰ نے اس کو ہلاک کر دیا تھا.اسی طرح میرے بد دعا کرنے پر خدا تعالیٰ میرے زمانہ کے مدعی مہدویت کو ہلاک کر دے گا.مگر ہوا یہ کہ اس بد دعا کے بعد چند دن کے اندر اندر خود ہی ہلاک ہو گئے.دعوت مباہلہ کے مخاطب علماء کا انجام حضرت مسیح موعود نے دعوت مباہلہ کے مخاطب علماء کا انجام بیان کرتے ہوئے فرمایا.میں نے اپنے رسالہ انجام آتھم میں بہت سے مخالف مولویوں کا نام لیکر مباہلہ کی طرف بلا یا تھا اور صفحہ 66 رسالہ مذکور میں یہ لکھا تھا کہ اگر کوئی ان میں سے مباہلہ کرے تو میں دُعا کروں گا کہ ان میں سے کوئی اندھا ہو جائے اور کوئی مفلوج اور کوئی دیوانہ اور کسی کی موت سانپ کاٹنے سے ہو اور کوئی بے وقت موت سے مرجائے اور کوئی بے عزت ہو اور کسی کو مال کا نقصان پہنچے.پھر اگر چہ تمام مخالف مولوی مرد میدان بن کر مباہلہ کیلئے حاضر نہ ہوئے مگر پس پشت گالیاں دیتے رہے اور تکذیب کرتے رہے.چنانچہ ان میں سے رشید احمد گنگوہی نے صرف لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین نہیں کہا بلکہ اپنے ایک اشتہار میں مجھے شیطان کے نام سے پکارا ہے.آخر نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ تمام بالمقابل مولویوں میں سے جو باون تھے آج تک صرف ہیں زندہ ہیں اور وہ بھی کسی نہ
351 کسی بلا میں گرفتار.باقی سب فوت ہو گئے.مولوی رشید احمد اندھا ہوا.اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا جیسا کہ مباہلہ کی دُعا میں تھا.مولوی شاہ دین دیوانہ ہو کر مر گیا.مولوی غلام دستگیر خود اپنے مباہلہ سے مرگیا اور جو زندہ ہیں اُن میں سے کوئی بھی آفات متذکرہ بالا سے خالی نہیں حالانکہ ابھی انہوں نے مسنون طور پر مباہلہ نہیں کیا تھا“.ایک دوسرے مقام پر فرمایا:.(حقیقۃ الوحی جلد ۲۲ صفحه ۳۱۳) ” اس مباہلہ پر آج کے دن تک بارہ برس اور تین مہینے اور کئی دن گذر چکے ہیں.پھر اس کے بعد اکثر لوگوں نے زبان بند کر لی اور جو بد زبانی سے باز نہ آئے.اُن میں سے بہت کم ہونگے.جنہوں نے موت کا مزہ نہ چکھا.یا کسی ذلت میں گرفتار نہیں ہوئے.چنانچہ نذیرحسین دہلوی جوان کا سرغنہ تھا جو دعوت مباہلہ میں اوّل المدعوین ہے اپنے لائق بیٹے کی موت دیکھ کر ابتر ہونے کی حالت میں دُنیا سے گزر گیا.رشید احمد گنگوہی جس کا نام دعوت مباہلہ کے صفحہ ۶۹ میں درج ہے.مباہلہ کی دعوۃ اور بددعا کے بعد اندھا ہو گیا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا اور مولوی عبد العزیز لدھیانوی جس کا ذکر بھی اسی صفحہ 49 میں ہے بعد دعوت مباہلہ اس دنیا کو چھوڑ گئے.اور ایسا ہی مولوی غلام رسول عرف رسل بابا جس کا ذکر دعوت مباہلہ کے صفحہ ہے میں ہے.بعد دعوت مباہلہ اور بددعا مذکورہ بالا کے بمقام امرتسر طاعون سے مر گیا.ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری جس کا ذکر اسی کتاب انجام آتھم کے صفحہ ۷۰ میں ہے اور جس نے خود بھی اپنا مباہلہ اپنی کتاب فیض رحمانی میں شائع کیا تھا.وہ کتاب کی تالیف کے ایک ماہ بعد مرگیا اور اسکی موت کا یہی سبب نہیں کہ میں نے انجام آتھم کے صفحہ ۶۷ میں یعنی اس کی سترھویں سطر میں اس پر اور دوسرے مخالفوں پر جو شرارتوں سے باز نہ آویں اور نہ مباہلہ کریں بددعا کی تھی اور اُن پر خدا کا عذاب چاہا تھا بلکہ اس کا اپنا مباہلہ بھی اس کی موت کا سبب ہو گیا کیونکہ اس نے میرا اور اپنا ذکر
352 کر کے خدا تعالیٰ سے ظالم کی بیخ کنی ہونی چاہی تھی سو اس کے چند روز ہی کے بعد اس کی بیخ کنی ہو گئی اور اسی صفحہ ہے میں مولوی اصغر علی نام درج ہے وہ بھی اس وقت تک بد گوئی سے باز نہ آیا جب تک خدا تعالیٰ کے قہر سے ایک آنکھ اُس کی نکل گئی.ایسا ہی اس مباہلہ کی فہرست میں مولوی عبدالمجید دہلوی کا ذکر ہے جو فروری ۱۹۰۷ء میں بمقام دہلی ہیضہ سے گزر گیا.ایسا ہی اور بہت سے لوگ تھے جو علماء یا سجادہ نشین کہلاتے تھے اور بعد اس دعوت مباہلہ کے بدگوئی اور بد زبانی سے باز نہیں آئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے بعض کو تو موت کا پیالہ پلا دیا اور بعض طرح طرح کی ذلتوں میں گرفتار ہو گئے اور بعض اس قدر دُنیا کے مکر اور فریب اور دُنیا طلبی کے گندے شغل میں گرفتار ہوئے کہ حلاوت ایمان اُن سے چھین لی گئی.ایک بھی اس بد دعا کے اثر سے محفوظ نہیں تتمہ حقیقۃ الوحی جلد ۲۲ صفحه ۴ ۴۵ تا ۴۵۵) رہا.66 مولوی ثناء اللہ امرتسری کو مباہلہ کا چیلنج اس سے پہلے انجام آتھم میں مندرج وہ دعوت مباہلہ درج کی جا چکی ہے جو حضرت اقدس نے علماء اور سجادہ نشینوں کو دی تھی اس چیلنج میں ہندوستان کے علماء میں سے ۵۸ مشہور علماء اور صوفیاء میں سے ۴۹ معروف صوفیاء کے نام درج کر کے انہیں مباہلہ کیلئے بلایا تھا اور علماء کے ناموں میں سے مولوی ثناء اللہ امرتسری کا نام بھی گیارہویں نمبر پر تھا.اور جس طرح تمام علماء کو مباہلہ کے لئے میدان میں آنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی اسی طرح مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھی.مگر اس معاملہ میں اور تمام علماء سے مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ امتیاز خاص طور حاصل ہے کہ وہ بعض علماء کی طرح دو ایک بار مباہلہ کرنے سے متعلق رکیک اور کمزور عذرات پیش کر کے خاموش نہیں ہوئے بلکہ جو دورنگی چال انہوں نے اختیار کی تھی اس پر چلتے رہے اور
353 کبھی اس سے علیحد گی نہیں کی اور وہ چال لی تھی کہ دل سے تو ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ حضرت اقدس کے ساتھ مباہلہ کی نوبت آئے مگر لوگوں پر ظاہر یہی کرنا چاہتے تھے کہ میں مباہلہ کے لئے بالکل تیار ہوں.کبھی تو اپنے ہمخیالوں کی اس پرسش پر کہ آپ مباہلہ کیوں نہیں کرتے آپ کو ضرور مباہلہ کرنا چاہئے وہ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر دیا کرتے تھے اور کبھی کبھی خود بھی ترنگ میں آکر مباہلہ مباہلہ کا شور مچادیتے تھے.لیکن جب حضرت اقدس کی طرف سے جواب دیا جاتا تو ہمیشہ مختلف حیلوں بہانوں سے فرار اختیار کر جاتے.مگر ایک دفعہ دوستوں کے اصرار پر ایک دوست کو مباہلہ پر آمادگی سے متعلق ایک تحریر بھی لکھ کر بھیج دی.وہ تحریر جب حضرت اقدس تک پہنچی تو حضور نے اپنی زیر تالیف کتاب اعجاز احمدی‘ میں فرمایا.میں نے سُنا ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کیلئے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہی مر جائے اور نیز یہ بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اعجاز امسیح کی مانند کتاب تیار کرے جو ایسی ہی فصیح بلیغ ہو اور انہیں مقاصد پر مشتمل ہو.سواگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ خواہشیں دل سے ظاہر کی ہیں نفاق کے طور پر نہیں تو اس سے بہتر کیا ہے اور وہ اس اُمت پر اس تفرقہ کے زمانہ میں بہت ہی احسان کرینگے کہ وہ مردِ میدان بن کر ان دونوں ذریعوں سے حق و باطل کا فیصلہ کر لیں گے.یہ تو انہوں نے اچھی تجویز نکالی اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے.“ آگے چل کر حضور لکھتے ہیں اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۲،۱۲۱) اگر اس چیلنج پر وہ ( مولوی ثناء اللہ صاحب ) مستعد ہوئے کہ کا ذب صادق کے پہلے
354 مرجائے تو ضرور وہ پہلے مرینگے ( اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۸) مولوی صاحب نے حضرت اقدس کی یہ کتاب شائع ہو جانے پر اپنے مباہلہ کیلئے تحریر لکھنے کا تو کوئی ذکر نہ کیا اور حضرت اقدس کی تحریر کے جواب میں صرف یہ لکھ دیا کہ.چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ اس لئے ایسے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا.“ الہامات مرزا.بار دوم صفحہ ۸۸ مطبوعہ ۱۹۰۴ء مطبع امرتسر ) لیکن باوجود اس کے کچھ مدت کے بعد مولوی صاحب نے پھر لکھا کہ:.البته آيت ثانيه ( قـل تـعـالوا ندع ابناء نا ) پر عمل کرنے کے لئے ہم تیار ہیں.میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں.جو آیت مرقومہ سے ثابت ہے جسے مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے.“ (اہل حدیث ۲۳ جون ۱۹۰۴ء صفحه ۴) مولوی صاحب کی اس تحریر کے بعد حضرت اقدس نے فروری میں قادیان کے آریوں کے مقابلہ میں اپنی کتاب ”قادیان کے آریہ اور ہم شائع فرمائی.اور اس میں لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل کو بالمقابل قسمیں کھانے کے لئے بلایا.تو اس رسالہ کی ایک جلد مولوی ثناء اللہ امرتسری کو بھی بھیجی گئی جس کے متعلق ایڈیٹر صاحب الحکم نے لکھا کہ :.اس رسالہ کی ایک جلد مولوی ثناء اللہ امرتسری کو بھی بھیجی گئی ہے.قادیان کے آریوں نے حضرت مرزا صاحب کے جو نشانات دیکھ کر تکذیب کی اور کر رہے ہیں اس رسالہ میں ان سے مباہلہ کر دیا ہے.اور ثناء اللہ نے کوئی نشان صداقت بطور خارق عادت اگر نہیں دیکھا ہے تو وہ بھی قسم کھا کر پر کھ لے تا معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کس کی حمایت کرتا اور کس کی قسم کو سچا کرتا ہے.“ (الحکم ۱۷.مارچ ۱۹۰۷ء) ایڈیٹر صاحب الحکم کی اس تحریر کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا کہ :.
355 ”مرزائیو.بچے ہو تو آؤ.اور اپنے گرو کو بھی ساتھ لاؤ.وہی عید گاہ امرتسر تیار ہے جہاں تم ایک زمانہ میں صوفی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو اور امرتسر نہیں تو بٹالہ میں آؤ.سب کے سامنے کارروائی ہوگی.مگر اس کے نتیجہ کی تفصیل اور تشریح کرشن قادیانی سے پہلے کرا دو.اور انہیں ہمارے سامنے لاؤ.جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے دعوت دی ہوئی ہے.“ (اہلحدیث ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ء) مولوی ثناء اللہ صاحب کی مندرجہ بالا تحریرہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں آئی تو حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے اس کا جواب لکھنے کے لئے ارشاد فرمایا.حضرت مفتی صاحب نے لکھا کہ.اس مضمون کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے.وہ بے شک قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اور بے شک یہ کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنت اللہ علی الکاذبین.اور اس کے علاوہ ان کو اختیار ہے کہ اپنے جھوٹے ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے جو عذاب اپنے لئے چاہیں مانگیں.حضرت اقدس نے پھر بھی اس پر رحم کر کے فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو جبکہ ہماری کتاب حقیقۃ الوحی چھپ کر شائع ہو جائے.....اس کتاب کے ساتھ ایک اشتہار بھی ہماری طرف سے ہوگا جس میں ہم یہ ظاہر کریں گے کہ ہم نے مولوی ثناء اللہ کے چیلنج کو منظور کر لیا ہے...ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے کوئی حیلہ جوئی کر کے اس مباہلہ کو اپنے سر سے نہ ٹال دیا تو پھر خدا تعالیٰ بالضرور مولوی مذکور کے متعلق کوئی ایسا نشان ظاہر کرے گا جو صدق و کذب کی پوری
356 تمیز کر دے گا.امید ہے کہ اب مولوی ثناء اللہ کو اس خود تجویز کردہ مباہلہ سے گریز کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہ محسوس ہوگی.( بدر ۴ را پریل ۱۹۰۷ ء ) حضرت اقدس کی طرف سے حضرت مفتی صاحب کے اس جواب کے بعد مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کی طرف سے ۱۲ اپریل اور ۱۹ / اپریل ۱۹۰۷ء کے پرچے جو یکجائی طور پر ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ء کو شائع ہوئے ان میں مولوی صاحب نے پھر یہ لکھا کہ.میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا.میں تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں.حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں کہ فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں.میں نے حلف اٹھانا کہا ہے.مباہلہ نہیں کہا قسم اور ہے اور مباہلہ اور ہے.(اہلحدیث ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ ء ) جب مولوی صاحب کی اپنی تحریروں سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ آپ مباہلہ پر آمادگی تو ظاہر فرماتے جائیں گے مگر میدان مباہلہ میں کبھی نہیں آئیں گے تو حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی کی طباعت کا انتظار ضروری نہ سمجھتے ہوئے اپنی طرف سے ” مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ کے عنوان سے دعائے مباہلہ شائع کر دیا اور یہ چاہا کہ مولوی صاحب جوابا اس تحریر کے نیچے جو چاہیں اپنی طرف سے دعائے مباہلہ کے طور پر لکھ کر اپنے اخبار میں شائع کر دیں.اقدس کی وہ دعا درج ذیل ہے.مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب.السلام علی من اتبع الهدی مدت سے آپ کے پرچہ اہلحدیث میں میری تکذیب و تفسیق کا سلسلہ جاری ہے.ہمیشہ مجھے آپ اپنے پرچہ میں مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتری ہے.میں نے آپ
357 سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کیا ہے.مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں.اور آپ بہت سے افترا میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا.اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تا خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے.اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے.پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون، ہیضہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر وقدیر جو علیم وخبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے.اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتر ا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک ! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر.اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے.آمین.مگر اے میرے کامل اور صادق خدا! اگر مولوی ثناء اللہ ان
358 تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں.تو کمال عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر.مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے.بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے تو بہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے.آمین یا رب العالمین.میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتارہا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزرگئی.وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بد زبانیوں میں آیت لا تقف مالیس لک به علم پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا.اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے.سواگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ ان تهتموں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے ہاتھ سے بنائی ہے.اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما.اور جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے.یا کسی اور سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر.اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین.آمین.
359 بالآ خر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.الراقم - عبد اللہ الصمد میرزا غلام احمد مسیح موعود عافاه الله واید.مرقومه ۱۵ را پریل ۱۹۰۷ء یکم ربیع الاول ۱۳۲۵ھ حضرت اقدس کی اس دعائے مباہلہ کو مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اخبار ۱/۲۶اپریل ۱۹۰۷ء میں نقل کر کے اس کے نیچے سب سے پہلے تو اپنے نائب ایڈیٹر سے یہ لکھوایا کہ:.آپ اس دعوی میں قرآن شریف کے صریح خلاف کہہ رہے ہیں.قرآن تو کہتا ہے کہ بدکاروں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مہلت ملتی ہے سنو.من كان في الضللة فليمدد له الرحمن مدا (مريم) (۷۶ وانا نملى لهم ليزدادوا اثما (آل عمران (۱۷۹) اور ویمدهم في طغيانهم يعمهون (بقره: ۱۶) آیات تمہارے اس دجل کی تکذیب کرتی ہیں اور سنو!إبــل متعنا هؤلاء وآباء هم حتى طال عليهم العمر - جن کے صاف یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے دغا باز، مفسد اور نا فرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.پھر تم کیسے من گھڑت اصول بتلاتے ہو کہ ایسے لوگوں کو بہت عمر نہیں ملتی.کیوں نہ ہو دعوئی تو مسیح کرشن اور محمد احمد بلکہ خدائی کا ہے اور قرآن میں یہ لیاقت ذلك مبلغهم من العلم ( نائب ایڈیٹر ) اور اس تحریر کے متعلق بعد میں اہلحدیث ۳۱ جولائی ۱۹۰۷ء میں لکھا کہ میں اس کو صحیح جانتا 66 ہوں." اس کے بعد مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے خود حضرت اقدس کی تحریر دعائے مباہلہ کے نیچے اپنی تحریر دعائے مباہلہ درج کرنے کی بجائے لعن طعن، دشنام دہی ، بد زبانی دریدہ دہانی لغو گوئی
360 اور مغالطہ دہی سے بھری ہوئی ایک تحریر درج کر دی جس کا خلاصہ مضمون در رج ذیل ہے.ا.اول اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی گئی اور بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا ۲.یہ کہ اس مضمون کو بطور الہام کے شائع نہیں کیا گیا بلکہ محض دعا کے طور پر ہے جس سے یہ تحریر کسی صورت میں فیصلہ کن نہیں ہو سکتی.۳.میرا مقابلہ تو آپ سے ہے.اگر میں مر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے؟ ۴.خدا کے رسول چونکہ رحیم و کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ پڑے.مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں..مختصر یہ کہ میں تمہاری درخواست کے مطابق حلف اٹھانے کو تیار ہوں اگر تم اس حلف کے نتیجے سے مجھے اطلاع دو.اور یہ تحریر مجھے منظور نہیں.اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے..خدا تعالیٰ جھوٹے ، دغا باز ،مفسد اور نافرمان لوگوں کولمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.(خلاصہ جواب امرتسری صاحب از اخبار اہلحدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء) مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کے مذکورہ بالا جواب سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب نے حضرت اقدس کے تجویز کردہ فیصلہ کو کہ ”جھوٹا بچے کی زندگی میں ہلاک ہو قبول نہیں کیا تھا اور اسے بے نتیجہ قرار دیا تھا اور یہاں تک لکھ دیا کہ.آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم با وجود سچے نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال فرما گئے اور مسیلمہ کذاب کا ذب ہونے کے صادق کے پیچھے مرا.“ ( مرقع قادیانی ۹ راگست ۱۹۰۷ء صفحه۱۱)
361 پس مولوی صاحب کی مندرجہ بالا تمام تحریرات سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولوی صاحب نے اس چیلنج کو قبول کرنے سے واضح انکار کر دیا اور پہلے کی طرح مقابل پر آنے کی راہ فرار اختیار کی.لہذا اب یہ چیلنج فیصلہ کن نہ رہا اور فیصلہ کے اعتبار سے اس کی کچھ حیثیت باقی نہ رہی.اگر مولوی صاحب جرات کر کے مباہلہ کر لیتے تو یقیناً وہ حضرت اقدس سے پہلے مرتے مگر چونکہ انہوں نے نجران کے عیسائیوں کی طرح مباہلہ سے گریز کیا اس لئے وہ حضور کی زندگی میں مرنے سے بچ گئے.اور اپنے تسلیم کردہ اصول کی رو سے ”جھوٹے ، دغاباز ،مفسد اور نافرمان لوگوں کی طرح لمبی عمر دئیے گئے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.حضرت اقدس کا وصال اور علماء کا پروپیگنڈا عجیب بات ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں تو یہ طریق فیصلہ کن نہ تھا لیکن جب حضرت اقدس کی وفات آپ کے اپنے الہامات کے مطابق ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو وقوع میں آگئی تو اب مولوی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کا پہلے فوت ہوجانا ان کے کذب کی دلیل ہے.اور اب مولوی صاحب کے نزدیک ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء والا خط فیصلہ کن بن گیا.حالانکہ وہ پہلے لکھ چکے تھے کہ اسے کوئی دانا منظور نہیں کرسکتا.“ اب یہ فیصلہ کرنا سلیم الفطرت اصحاب پر منحصر ہے کہ مولوی صاحب کی پہلی تحریریں دانائی پر مشتمل تھیں یا بعد کی تحریریں دانائی پر مشتمل ہیں.چونکہ مولوی صاحب نے دعائے مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اس لئے اب اس خط کو فیصلہ کن قرار دینا درست نہیں.کیونکہ اگر اس کے مطابق فیصلہ ہو جاتا اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی وفات پہلے ہو جاتی تو ان کے ہوا خواہ فوراً یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے مولوی صاحب نے تو اس طریق فیصلہ کو مانا ہی نہیں.لہذا یہ کیسے حجت ہوسکتا ہے؟
362 ایک اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر مولویوں کے غلط پروپیگنڈا کے جواب میں جب علماءسلسلہ نے اس پہلو سے مولویوں کا تعاقب کیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے تو اس چیلنج کو قبول ہی نہیں کیا جبکہ مباہلہ میں فریقین کی شمولیت لازمی ہے.پس اس صورت میں یہ چیلنج کسی فریق کیلئے بھی قابل حجت نہ رہا.اس پر مولویوں نے یہ پہلو اختیار کیا کہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء والے اشتہار کی تحریر دعائے مباہلہ نہ تھی بلکہ یک طرفہ دعا تھی جس کی قبولیت کے متعلق مرزا صاحب کو ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء کو یہ الہام بھی ہو چکا تھا اجیب دعوة الداع.اس الہام کے باوجود مرزا صاحب کی پہلے وفات آپ کے جھوٹا ہونے کا واضح ثبوت ہے.“ ( محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۴۴۲) جواب مولویوں کا یہ اعتراض درج ذیل وجوہ کی بناء پر غلط ہے.اول.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعائے مباہلہ والے اشتہار کا عنوان ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ تھا.اس عنوان میں لفظ ”آخری فیصلہ صاف بتا رہا ہے کہ یہ دعائے مباہلہ تھی کیونکہ لفظ ”آخری فیصلہ مذہبی رنگ میں مباہلہ کے لئے ہی بولا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لفظ کو اسی مفہوم میں استعمال فرمایا ہے (اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱) بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کے قلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو انہی معنوں میں استعمال کروایا ہے.چنانچہ خود مولوی صاحب آیت مباہلہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں.ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جانہیں کسی علمی بات کو نہ سمجھیں ، بغرض بدرا بدر باید رسا کرد.کہ آؤ ایک آخری فیصلہ بھی سنو.ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے ، اپنی بیٹیاں
363 اور تمہاری بیٹیاں اپنے بھائی بند نزدیکی اور تمہارے بھائی بند نزدیکی بلا لیں.پھر عاجزی سے جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں.خدا خود فیصلہ دنیا میں ہی کر دے گا.جو فریق اس کے نزدیک جھوٹا ہو گا دنیا میں بر باداور مورد عذاب ہوگا“.( تفسیر ثنائی جلد ۱ صفحه ۴۰ مطبوعه ۱۳۱۴ھ مطبع چشم نو را امرتسر مصنفہ مولوی ثناء اللہ امرتسری ) دوم.اس اشتہار میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ.میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت لمبی عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی نا کام ہلاک ہو جاتا ہے.“ یہ الفاظ اور طریق فیصلہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہ اشتہار دعا کا مباہلہ ہے.کیونکہ یہ قانون مباہلہ کی صورت میں ہی چسپاں ہو سکتا ہے.واقعات کی رو سے بھی اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے نزدیک بھی اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ حضور نے ایک غیر احمدی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ:.یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مر جاتا ہے.ہم نے تو اپنی تصانیف میں ایسا نہیں لکھا.وہ کونسی کتاب ہے جس میں ہم نے ایسا لکھا ہے.ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ بچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے.مسیلمہ کذاب نے تو مباہلہ کیا ہی نہیں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اتنا فرمایا تھا کہ اگر تو میرے بعد زندہ بھی رہا تو ہلاک کیا جائے گا.سو ویسا ہی ظہور میں آیا.مسیلمہ کذاب تھوڑے ہی عرصہ بعد قتل کیا گیا.اور پیشگوئی پوری ہوئی.یہ بات کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مرجاتا ہے یہ بالکل غلط ہے.ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ بچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ بچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں.جیسا کہ ہمارے ساتھ مباہلہ کرنے والوں کا
حال ہو رہا ہے.364 (الحکم ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۷ء) لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات سے ماننا پڑے گا کہ یہ اشتہار دعا کے مباہلہ کا تھا نہ کہ یکطرفہ دعا.جس طرح اشتہار کی اندرونی شہادت بتا رہی ہے کہ یہ دعائے مباہلہ تھی ، اسی طرح بیرونی شہادتوں سے بھی ظاہر ہے کہ یہ دعا یکطرفہ دعا نہ تھی.چنانچہ اس دعا کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا کہ.اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی گئی.اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا.“ ( اہلحدیث ۲۶ /اپریل ۱۹۰۷ء) ان الفاظ سے ہر عقلمند انسان بخوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ مولوی صاحب نے خود بھی اس اشتہار کو یکطرفہ دعا نہیں سمجھا اور نہ منظوری نہ لینے کا اعتراض کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اس کی اشاعت بغیر منظوری پر معترض ہونے کی وجہ کیا؟ ظاہر ہے کہ مولوی صاحب خود بھی اس دعا کو یکطرفہ دعا سمجھتے تھے جیسا کہ مولوی صاحب نے خود متعدد مقامات پر اس اشتہار کو مباہلہ کا اشتہار قرار دیا ہے.بطور نمونہ حسب ذیل حوالہ جات ملاحظہ ہوں.ا.کرشن قادیانی نے ۱۵ را پریل ۱۹۰۷ءکو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا‘“ ( مرقع قادیانی جون ۱۹۰۸ء صفحه ۱۸) ۲.”مرزا جی نے میرے ساتھ مباہلہ کا ایک طولانی اشتہار دیا تھا.“ ( مرقع قادیانی دسمبر ۱۹۰۷ صفحه ۳).وہ اپنے اشتہار مباہلہ ۱۵ را پریل ۱۹۰۷ ء میں چیخ اٹھا تھا کہ اہلحدیث نے میری عمارت کو ہلا دیا ہے.اہلحدیث ۱۹ر جون ۱۹۰۸ء)
365 کیا اس قدر تصریح کے باوجود اس اشتہار کو اشتہار مباہلہ کی بجائے یک طرفہ دعا قرار دینا دیانتداری کا خون کرنا نہیں؟ چہارم.اخبار اہلحدیث میں اشتہار ۱۵ را پریل پر بہت کچھ لکھنے کے بعد مولوی صاحب بطور خلاصہ اپنا جواب باین الفاظ لکھتے ہیں.تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے.“ (اہلحدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ ء ) یہ الفاظ کھلے طور پر اس بات کی دلیل ہیں کہ مولوی صاحب نے اسے دعائے مباہلہ ہی سمجھا تھا اور اس کی نا منظوری کو علامت دانائی قرار دیا تھا.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۱/۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء کے ایک الہام اجیب دعوة الداع اذا دعان کا تعلق ہے اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق ۱۴ را پریل ۱۹۰۷ء سے پہلے جو کچھ لکھا جا چکا ہے اس کے مطابق اگر وہ اس فیصلہ پر مستعد ہوئے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مرجائے تو وہ ضرور پہلے مریں گے.مگر وہ تو اس پر مستعد ہی نہ ہوئے.پس اس الہام کا تعلق پہلی تحریروں سے ہے جو مولوی صاحب کے متعلق لکھی گئی تھیں.ان کے مطابق اگر مباہلہ وقوع میں آجاتا تو پھر دونوں فریق میں سے کسی کی ہلاکت اس کے خلاف فیصلہ کن ہوتی.اعتراض مولف محمدیہ پاکٹ بک لکھتا ہے.مرزا صاحب کے رفیق خاص اور اخبار بدر قادیان کے ایڈیٹر مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اخبار بدر ۱۳ جون ۱۹۰۷ء میں مرزا صاحب کے اشتہار ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ بعنوان ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ“ کو مباہلہ قرار نہیں دیا بلکہ اسے یکطرفہ دعا کر کے فیصلہ کا ایک طریق قرار دیا ہے.جیسا کہ وہ لکھتے ہیں.
366 آپ کا کارڈ مرسلہ ۱۲ جون ۱۹۰۷ء حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے ۴ را پریل ۱۹۰۷ء کے بدر کا حوالہ دے کر جس میں قسم کھانے والا مباہلہ بعد حقیقۃ الوحی“ موقوف رکھا گیا ہے.حقیقۃ الوحی کا ایک نسخہ مانگا.اس کے جواب میں آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی طرف حقیقۃ الوحی بھیجنے کا ارادہ اس وقت ظاہر کیا گیا تھا جبکہ آپ کو مباہلہ کے واسطے لکھا گیا تھا.(اب) مشیت ایزدی نے آپ کو دوسری راہ سے پکڑا اور حضرت حجتہ اللہ کے قلب میں آپ کے واسطے دعا کی تحریک کر کے فیصلہ کا ایک اور طریق اختیار کیا.اس واسطے مباہلہ (سابقہ) کے ساتھ جو مشروط تھے وہ سب کے سب بوجہ نہ قرار پانے کے منسوخ ہوئے.لہذا آپ کی طرف کتاب بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی.پس اس تحریر سے بھی ثابت ہوا کہ آخری فیصلہ والا اشتہار مباہلہ نہیں بلکہ دعا ہے جس کے بعد کسی اور مباہلہ کی ضرورت ہی نہیں رہی.“ محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۶۶۰ مطبوعہ ۱۹۱۷ء بار پنجم) جواب اخبار بدر ۱۲ جون ۱۹۰۷ ء کی مندرجہ بالا تحریر جناب حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے اپنے الفاظ ہیں نہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے.لہذا ان کا وہ مفہوم لینا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصریحات بلکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے اپنے بیانات کے بھی خلاف ہے درست نہیں.اگر اسی مفہوم پر اصرار ہے تو جب اہلحدیث کسی صحابی بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تفسیر تک کو نہیں مانتے (اہلحدیث ۱٫۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء) تو جماعت احمد یہ پر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر کیونکر اعتراض کر سکتے ہیں.بہر حال مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہ عذر بھی تار عنکبوت سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.
367 اعتراض مرزا محمود احمد صاحب پسر مرزا غلام احمد قادیان صاحب نے بھی آخری فیصلہ والے اشتہار کو یکطرفہ دعا بلکہ پیشگوئی قرار دیا ہے.جیسا کہ وہ لکھتے ہیں.ایک اعتراض کیا جاتا ہے اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں.وہ یہ کہ حضرت اقدس کا الہام مولوی ثناء اللہ کے متعلق یہ تھا کہ تیری دعا سنی گئی تو پھر آپ پہلے کیوں فوت ہوئے.سو اس کا جواب میں اوپر دے آیا ہوں کہ وعید کی پیشگوئیاں مل جاتی ہیں.تو صرف اس وجہ سے کہ اصلاح کی صورت کچھ اور پیدا ہو جاتی ہے.“ (رسالة تشحمید الاذہان بابت جون جولائی ۱۹۰۸ء) اس عبارت سے بھی عیاں ہے کہ آخری فیصلہ دعا تھی جو مقبول ہوگئی.لہذا بوجہ قبولیت کے پیشگوئی بن گئی مباہلہ نہیں تھا.“ محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۶۶۲ مطبوعہ ۱۹۱۷ء بار پنجم ) جواب اس اعتراض کے جواب میں ذیل میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ایک تحریری بیان کی نقل پیش کرتے ہیں جو حضور نے ۱۶ مارچ ۱۹۳۱ء کو تحریر فرما کر حافظ محمد حسن صاحب نائب ناظم انجمن اہلحدیث لاہور کے مطالبہ پر انہیں ارسال فرمایا اور وہ یہ ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ پر اس اعلان کے مطابق آتے جو آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے خلاف ۱۹۰۷ء میں کیا تھا تو وہ ضرور ہلاک ہوتے.اور مجھے یہ یقین ہے ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو میں نے مضمون لکھا تھا اس میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ کے ساتھ
368 آخری فیصلہ کے متعلق جو کچھ حضرت مسیح موعود نے لکھا تھا وہ دعائے مباہلہ تھی.پس چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کے مقابل پر دعا نہیں کی بلکہ اس کے مطابق فیصلہ چاہنے سے انکار کر دیا وہ مباہلہ کی صورت میں تبدیل نہیں ہوئی.اور مولوی صاحب عذاب سے ایک مدت کے لئے بچ گئے.میری اس تحریر کے شاہد میری کتاب ”صادقوں کی روشنی کے یہ فقرات ہیں.مگر جبکہ اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح بدل گیا تو اس نے منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دہرانا شروع کر دیا.نیز اگر وہ ایسا کرتا تو خدا وند تعالیٰ اپنی قدرت دکھاتا اور ثناء اللہ اپنی گندا دہانیوں کا مزا چکھ لیتا.غرض میرا یہ ہمیشہ سے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا دعائے مباہلہ تھی لیکن بوجہ اس کے کہ مولوی صاحب نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا وہ دعا مبلہ نہیں تھی اور اللہ تعالی نے اس عذاب کے طریق کو بدل دیا.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ۱۶/۳/۳۱ پس حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی مندرجہ بالا تحریر سے صاف کھل گیا کہ آپ بھی ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء والے اشتہار کو دعائے مباہلہ ہی سمجھتے تھے.اعتراض ”مرزا صاحب نے آخری فیصلہ میں کاذب کی موت صادق کے سامنے واقع ہونا لکھی تھی اور ہیضہ طاعون وغیرہ مہلک امراض سے لکھی تھی.واضح رہے کہ مرزا صاحب کے خسر نواب میر ناصر کا بیان ہے کہ وفات سے ایک روز قبل میں مرزا صاحب سے ملنے گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ” میر صاحب مجھ کو وبائی ہیضہ ہو گیا ہے.( حیات نواب میر ناصر صفحہ ۱۴) محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۶۶۸، ۶۶۹ مطبوعہ ۱۹۱۷ء بار پنجم )
369 جواب یہ احا در وایت قابل صحت نہیں کیونکہ یہ واقعات کے صریح خلاف ہے.واضح ہو کہ آپ کی وفات آپ کے معالج ڈاکٹر سدر لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج لاہور نے اپنے سرٹیفیکیٹ میں لکھا کہ آپ کی وفات اعصابی اسہال کی بیماری سے ہوئی ہے جو اطباء آپ کے معالج تھے وہ سب ڈاکٹر سدر لینڈ کی رائے سے متفق تھے.لہذا روایت میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ میر ناصر نواب صاحب نے وبائی ہیضہ کے متعلق حضرت اقدس کے استفہامیہ جملے کو جملہ خبر یہ سمجھ لیا ہوگا اور آپ یہ فقرہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ لاہور میں ان دنوں وبائی ہیضہ نہ تھا.لہذا یہ جملہ بطور نمونہ جملہ خبریہ سیج نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق نہیں.پس آپ کی بیماری کی صحیح تشخیص وہی ہے جو ڈاکٹروں نے کی اور وہ پرانی اعصابی تکلیف کا دورہ تھا جس کے نتیجہ میں اسہال سے آپ کی وفات ہوئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.شاء اللہ امرتسری کی بے نیل و مرام موت بلا شبہ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد چالیس برس کی لمبی مہلت پائی کیونکہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ مولوی صاحب کو شجر احمدیت کی کامیابی دکھائے تا اس کی موت حسرت کی موت ہو جو دلائل کی موت کے بعد بہت بڑا عذاب ہے.سو اس نے کافی مہلت دے کر یہ سارا نقشہ دکھا دیا.اس عرصہ میں مولوی صاحب نے اپنا پور از ور سلسلہ احمدیہ کو نابود کرنے میں صرف کر دیا مگر دنیا جانتی ہے کہ مولوی صاحب اس مقصد میں بالکل ناکام ہوئے.اس حقیقت کا اعتراف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے شدید معاند بھی کئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ فیصل آباد میں مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر رساله المنبر نے سلسلہ احمدیہ کے شدید معاند ہونے کے باوجود ۱۹۵۶ء میں کھلے بندوں اعتراف کرتے
370 ہوئے لکھا کہ:.”ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمامتر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں اکثر تقوی تعلق باللہ دیانت خلوص علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.سید نذیر حسین دہلوی، مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی، مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رحمہم اللہ وغفرھم کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر رسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں.اگر چہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کیلئے تکلیف دہ ہوں گے اور قادیانی اخبار اور رسائل چند دن انہیں اپنی تائید میں پیش کر کے خوش ہوتے رہیں گے لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے.متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے.تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں اور دوسری طرف ۵۳ ء کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اسکا ۱۹۵۶،۵۷ء کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہو.“ المنبر لائل پور ۲۳ فروری ۱۹۶۵ء) یہ گواہی ۱۹۶۵ء کی ہے اور آج اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا قدم بہت آگے ہے.
371 پس مولوی صاحب کی وفات بے نیل و مرام ہوئی.لہذا ان کے محض چالیس سال زندہ رہنے سے تو احمدیت کی صداقت اور بھی نمایاں ہوئی.اے کاش لوگ تدبر سے کام لیں.غیر مسلموں کو دعوت مباہلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقابلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں تھا بلکہ آپ جملہ مذاہب کے پیروکاروں کو توحید کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.یہ امر بھی آپ کے مقاصد میں تھا کہ غیر مسلموں پر اسلام کی خوبیاں ظاہر کر کے انہیں دعوت اسلام دیں.سو علماء اسلام کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کو بھی آپ نے ہمیشہ سامنے رکھا اور کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا.براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے بھی آپ نے بیسیوں قیمتی مضامین دیگر مذاہب کے رد میں لکھے.ان کے ساتھ مباحثات کئے.نشانات دکھانے پر آمادگی کا اظہار کیا.لیکن انہوں نے کوئی بھی فیصلہ کن طریق اختیار نہ کیا.اب آخری حجت کے طور پر حضرت اقدس نے انہیں بھی دعوت مباہلہ دی.چنانچہ آپ نے جملہ مذاہب کے علماء وسکالرز کو مباہلہ کے متعدد چیلنج دیئے جو درج ذیل ہیں.تمام آریہ کو دعوت مباہلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ”سرمہ چشم آریہ میں آریہ کو قرآن اور ویدوں کے مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی آریہ اس مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوتو پھر فیصلہ کا آخری طریق مباہلہ رہ جاتا ہے جس کی طرف ہم آریہ صاحبان کو دعوت دیتے ہیں.چنانچہ حضرت اقدس نے آریہ مذہب کے سکالرز اور پیروکاروں کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اور اگر پھر باز نہ آدیں تو آخر الحیل مباہلہ ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارات کر آئے ہیں.مباہلہ کے لئے وید خوان ہونا ضروری نہیں ہاں با تمیز اور ایک باعزت
372 اور نامور آریہ ضرور چاہئے جس کا اثر دوسروں پر بھی پڑسکے سو سب سے پہلے لالہ مرلید ھر صاحب اور پھر لالہ جیوند اس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور اور پھر منشی اندر من صاحب مراد آبادی اور پھر کوئی اور دوسرے صاحب آریوں میں سے جو معزز اور ذی علم تسلیم کئے گئے ہوں مخاطب کئے جاتے ہیں کہ اگر وہ وید کی ان تعلیموں کو جن کو کسی قدر ہم اس رسالہ میں تحریر کر چکے ہیں.فی الحقیقت صحیح اور بچے سمجھتے ہیں اور ان کے مقابل جو قرآن شریف کے اصول تو علیمیں اسی رسالہ میں بیان کی گئی ہیں ان کو باطل اور دروغ خیال کرتے ہیں تو اس بارہ میں ہم سے مباہلہ کر لیں اور کوئی مقام مبللہ کا برضامندی فریقین قرار پا کر ہم دونوں فریق تاریخ مقررہ پر اس جگہ حاضر ہو جائیں اور ہریک فریق مجمع عام میں اٹھ کر اس مضمون مباہلہ کی نسبت جو اس رسالہ کے خاتمہ میں بطور نمونہ اقرار فریقین قلم جلی سے لکھا گیا ہے تین مرتبہ قسم کھا کر تصدیق کریں کہ ہم فی الحقیقت اس کو سچ سمجھتے ہیں اور اگر ہمارا بیان راستی پر نہیں تو ہم پر اسی دنیا میں وبال اور عذاب نازل ہو.غرض جو جو عبارتیں ہر دو کاغذ و مباہلہ میں مندرج ہیں.جو جانبین کے اعتقاد ہیں بحالت دروغ گوئی عذاب مترتب ہونے کے شرط پر ان کی تصدیق کرنی چاہئے اور پھر فیصلہ آسمانی کے انتظار کے لئے ایک برس کی مہلت ہوگی پھر اگر برس گزرنے کے بعد مولف رسالہ ہذا پر کوئی عذاب اور وبال نازل ہوایا حریف مقابل پر نازل نہ ہوا تو ان دونوں صورتوں میں یہ عاجز قابل تاوان پانسو بیہ ٹھہرے گا جس کو برضامندی فریقین خزانہ سرکاری میں یا جس جگہ بآسانی وہ روپیہ مخالف کو مل سکے داخل کر دیا جائے گا اور در حالت غلبہ خود بخود اس روپیہ کے وصول کرنے کا فریق مخالف مستحق ہوگا اور اگر ہم غالب آئے تو کچھ بھی شرط نہیں روپیہ کرتے کیونکہ شرط کے عوض میں وہی دعا کے آثار کا ظاہر ہونا کافی ہے.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۱،۳۰۰)
373 لاله شرمیت اور لالہ ملا وامل کو دعوت مباہلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”قادیان کے آریہ اور ہم میں اپنی بعض پوری ہونے والی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل ان تمام پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے عینی گواہ ہیں.اگر وہ انکار کرتے ہیں تو وہ دونوں میرے مقابل پر بطور مباہلہ قسم کھا ئیں.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں.یہ چند پیشگوئیاں بطور نمونہ میں اس وقت پیش کرتا ہوں اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے.اور کئی دفعہ لالہ شرمیت سن چکا ہے.اور اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اس کی سزا نازل کرے.آمين و لعنة الله علی الکاذبین.ایسا ہی شرمیت کو بھی چاہئے کہ میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر میں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندر اس کی سزا وارد کرے.آمین ولعنة الله على الكاذبين.ایسا ہی ملا وامل کو چاہئے کہ چند روزہ دنیا سے محبت نہ کرے اور اگر ان بیانات سے انکاری ہے تو میری طرح قسم کھاوے کہ یہ سب افترا ہے اور اگر یہ باتیں سچ ہیں تو ایک سال کے اندر میرے پر اور میری تمام اولاد پر خدا کا عذاب نازل ہو.آمین ولعنة الله على الكاذبين.“ ( قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۴۲ ۴۴۳ ) سردار جندرسنگھ کو قسم کھانے کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۵ء میں ”ست بچن “ کتاب لکھی.اس کتاب میں
374 آپ نے حضرت باوانا تک کا سچا مسلمان ہونا ثابت کیا.اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد ایک سکھ سردار جندرسنگھ نے ایک رسالہ لکھا جس کا نام ”خبط قادیانی کا علاج رکھا.اس رسالہ میں اس نے حضرت باوانانک کے مسلمان ہونے سے انکار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں.اور آپ پر بے اصل تہمتیں لگا کر آپ کی شان میں گستاخی کی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سردار جندرسنگھ کو اس قضیئے کے حل کیلئے درج ذیل چیلنج دیا.اب فیصلہ اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ اگر اپنے اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں تو ایک مجلس عام میں اس مضمون کی قسم کھاویں کہ در حقیقت با وانا تک دین اسلام سے بیزار تھے اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کو برا سمجھتے تھے اور نیز درحقیقت پیغمبر اسلام نعوذ باللہ فاسق اور بدکار تھے اور خدا کے بچے نبی نہیں تھے.اور اگر یہ دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں تو اے قادر کرتار مجھے ایک سال تک اس گستاخی کی سخت سزا دے اور ہم آپ کی اس قسم پر پانسور و پیہ ایک جگہ پر جہاں آپ کی اطمینان ہو جمع کرا دیتے ہیں.پس اگر آپ در حقیقت بچے ہوں گے تو سال کے عرصہ تک آپ کے ایک بال کا نقصان بھی نہیں ہوگا بلکہ مفت پانسور و پیہ آپ کو ملے گا اور ہماری ذلت اور روسی ہی ہوگی.اور اگر آپ پر کوئی عذاب نازل ہو گیا تو تمام سکھ صاحبان درست ہو جائیں گے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۹۹) سردار صاحب نے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دیا.
375 عیسائیوں کو مباہلہ کے چیلنج ڈاکٹر مارٹن کلارک کو مباہلہ کی تجویز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۳ء میں عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ سے قبل ڈاکٹر مارٹن کلارک کو یہ تجویز پیش کی کہ منقولی اور معقولی بحث کے علاوہ فریقین کے درمیان مباہلہ بھی ہونا چاہئے.تاکہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں قطعی فیصلہ ہو جائے.اور یہ بات کھل جائے کہ سچا اور قادر خدا کس کے ساتھ ہے؟ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے درج ذیل تجویز پیش کی.اس اشتہار کے ذریعہ سے ڈاکٹر صاحب اور ان کے تمام گروہ کی خدمت میں التماس ہے کہ جس حالت میں انہوں نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں قطعی فیصلہ ہو جائے اور یہ بات کھل جائے کہ سچا اور قادر خدا کس کا خدا ہے.تو پھر معمولی بحثوں سے یہ امید رکھنا طمع خام ہے.اگر یہ ارادہ نیک نیتی سے ہے تو اسے بہتر کوئی بھی طریق نہیں کہ اب آسمانی مدد کے ساتھ صدق اور کذب کو آزمایا جائے اور میں نے اس طریق کو بدل و جان منظور کر لیا ہے.اور وہ طریق بحث جو منقولی اور معقولی طور پر قرار پایا ہے گو میرے نزدیک چنداں ضروری نہیں مگر تا ہم وہ بھی مجھے منظور ہے.لیکن ساتھ اس کے یہ ضروریات سے ہوگا کہ ہر ایک چھ دن کی میعاد کے ختم ہونے کے بعد بطور متذکرہ بالا مجھ میں اور فریق مخالف میں مباہلہ واقع ہوگا اور یہ اقرار فریقین پہلے سے شائع کر دیں کہ ہم مباہلہ کریں گے.یعنی اس طور سے دعا کریں گے کہ اے ہمارے خدا.اگر ہم دجل پر ہیں تو فریق مخالف کی نشان سے ہماری ذلت ظاہر کر.اور اگر ہم حق پر ہیں تو ہماری تائید میں نشان آسمانی ظاہر کر کے فریق مخالف کی ذلت ظاہر فرما اور اس دعا کے وقت
376 دونوں فریق آمین کہیں گے.اور ایک سال تک اس کی میعاد ہوگی.اور فریق مغلوب کی سزاوہ ہوگی جو اوپر بیان ہو چکی ہے.“ جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۹،۴۸) عبد اللہ آتھم کا رد عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا مباہلہ کے چیلنج کا ڈاکٹر مارٹن کلارک نے تو کوئی جواب نہ دیا البتہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے درج ذیل جواب دیا.مباہلات بھی از قسم معجزات ہی ہیں.مگر ہم بروے تعلیم انجیل کسی کے لئے لعنت نہیں مانگ سکتے.جناب صاحب اختیار ہیں جو چاہیں مانگیں اور انتظار جواب ایک سال تک کریں.( بحوالہ جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۶) ڈاکٹر ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج امریکہ میں ایک شخص ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کے نام سے مشہور تھا جس نے ۱۸۹۹ء میں پیغمبر ہونے کا دعوی کیا.اور بزعم خود یورپ اور امریکہ کی عیسائی اقوام کی اصلاح اور انہیں سچا عیسائی بنانے کا بیڑا اٹھایا.یہ امریکہ کا ایک مشہور اور متمول شخص تھا.اس نے ۱۹۰۱ء میں ایک شہر صیہون آباد کیا جو اپنی خوبصورتی وسعت اور عمارات کے لحاظ سے تھوڑے ہی عرصہ میں امریکہ کے مشہور شہروں میں شمار ہونے لگا.اس شہر سے ڈاکٹر ڈوئی کا ایک اپنا اخبار ”لیوز آف ہیلنگ نکلتا تھا.اس اخبار نے ڈاکٹر ڈوئی کی شہرت اور نیک نامی کو چار چاند لگا دیئے.الغرض ڈاکٹر ڈوئی کو امریکہ میں جلد ہی بہت شہرت کا مقام حاصل ہو گیا.مشخص اسلام اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا اور ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ جس طرح بھی ہو سکے اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹادے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جب ڈاکٹر ڈوئی کے دعاوی کا علم ہوا تو آپ
377 نے ۸ / اگست ۱۹۰۲ء کو ایک چٹھی لکھی جس میں حضرت مسیح کی وفات اور سرینگر میں ان کی قبر کا ذکر کرتے ہوئے اسے مباہلہ کا درج ذیل چیلنج دیا.اور لکھا کہ.غرض ڈوئی بار بار کہتا ہے کہ عنقریب یہ سب ہلاک ہو جائیں گے.بجز اس گروہ کے جو یسوع مسیح کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت.اس صورت میں یوروپ اور امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہئے کہ وہ بہت جلد ڈوئی کو مان لیں تا ہلاک نہ ہو جائیں ہم ڈوئی کی خدمت میں یہ ادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کو مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بارموت کی پیشگوئی نہ سنائیں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے“.( ریویو آف ریلیجنز ستمبر ۱۹۰۲ء) ڈاکٹر ڈوئی نے تو حضرت اقدس کے اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دیا مگر امریکہ کے اخبارات نے اس پیشگوئی کا ذکر اچھے ریمارکس کے ساتھ کیا.چنانچہ ایک اخبار اوگوناٹ“ سان فرانسسکو نے اپنی یکم دسمبر ۱۹۰۲ء کی اشاعت بعنوان ”اسلام و عیسائیت کا مقابلہ دعا لکھا کہ.”مرزا صاحب کے مضمون کا خلاصہ جو انہوں نے ڈوئی کو لکھا یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے خدا سے یہ دعا کرے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے خدا اسے ہلاک کرے.یقینا یہ ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے.“ جب ڈوئی نے حضور کو کوئی معقول جواب نہ دیا اور مباہلہ پر آمادگی کا اظہار بھی نہ کیا تو حضور نے ۱۹۰۳ء میں چٹھی کے ذریعہ اپنے مباہلہ کے چیلنج کو پھر دہرایا اور لکھا کہ.میں ستر سال کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان
378 ہے.لیکن میں نے اپنی عمر کی کچھ پروا نہیں کی کیونکہ مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ خدا جو احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقینا سمجھو کہ اس کے صیہون پر جلد تر آفت آنے والی ہے.“ (اشتہار ۲۳ /اگست ۱۹۰۳ ء ریویو آف ریلیجنز اردو ا پریل ۱۹۰۷ ، صفحه ۱۴۴،۱۴۳) مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کا تذکرہ امریکہ کے بہت سے اخبارات میں ہوا.جن میں سے ۲۳ /اخبارات کے مضامین کا خلاصہ حضرت اقدس نے تمہ حقیقۃ الوحی میں درج فرمایا ہے.آخر جب پبلک نے ڈوئی کو بہت تنگ کیا اور جواب دینے پر مجبور کر دیا تو اس نے اپنے اخبار کے دسمبر کے پرچے میں لکھا کہ.ہندوستان کا ایک بے وقوف محمدی مسیح مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشم.میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو کیوں اس شخص کو جواب نہیں دیتا.مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو ان کو کچل کر مار ڈالوں گا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب ڈوئی کی اس گستاخی اور بے ادبی اور شوخی و شرارت کی اطلاع ملی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس فیصلہ میں کامیابی کے لئے زیادہ توجہ اور الحاح سے دعائیں کرنا شروع کر دیں.اس دوران ڈاکٹر ڈوئی امریکہ و یوروپ میں بہت شہرت اور ناموری حاصل کرتا جارہا تھا اور صحت کے لحاظ سے بھی وہ بھرے جلسوں میں اکثر اپنی شاندار صحت اور جوانی اور عروج پر فخر کیا کرتا تھا.مگر اسلام کا خدا اسے تمام دنیا میں مشہور کرنے کے بعد ذلیل ورسوا کرنا چاہتا تھا تا دنیا کو پتہ لگ جائے کہ خدا کے ماموروں کے مقابلہ پر آنے والوں کا خواہ وہ کتنی ہی عظیم شخصیت کے مالک ہوں کیا حشر ہوتا ہے.
379 آخر کار خدائی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر اس پر عین اس وقت فالج کا حملہ ہوا جبکہ وہ اپنے عالی شان و خوبصورت شہر صحون میں ہزاروں کے مجمع کو مخاطب کر رہا تھا اور اپنے شہر کے مالی بحران کو دور کرنے کے لئے میکسیکو میں کوئی بہت بڑی جائداد خریدنے کا منصوبہ اپنے مریدوں کے سامنے رکھ رہا تھا تا کہ ان سے قرضہ حاصل کر کے وہ منصوبہ مکمل کرے.چنانچہ دوران تقریر ہی خدائے منتقم اور قادر و قیوم نے اسکی اس زبان کو بند کر دیا جس سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کیا کرتا تھا.آخر اس نے بحالی صحت کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے شہر بہ شہر پھر کر علاج کرواتا رہا مگر جس شخص کو وہ صیحون میں اپنا نائب مقرر کر گیا تھا اسی نے بعد میں اعلان کر دیا کہ ڈوئی چونکہ غرور تعلی فضول خرچی اور عیاشی اور لوگوں کے پیسوں پر تعیش کی زندگی بسر کرنے کا مجرم ہے اس لئے اب وہ ہمارے چرچ کی قیادت کرنے کے قطعاً نااہل ہے.صحون شہر اور اس کی رونق بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی اور ڈوئی پر کئی لاکھ روپے کے غبن کا الزام لگایا گیا.اور چرچ سے اس کو کلیۂ بے دخل اور علیحدہ کر دیا گیا جس کے نتیجہ میں اس کی صحت دن بدن اور بھی خراب ہوتی چلی گئی اور بقول اس کے ایک مرید مسٹر لنڈ ز کے ان دنوں میں نہ صرف فالج بلکہ دماغی فتور اور کئی بیماریوں کا شکار ہو گیا.بیماری کے دنوں میں اسے نہ صرف اس کے مریدوں بلکہ اس کے اہل وعیال نے بھی اسے چھوڑ دیا ور صرف دو تنخواہ دار حبشی اس کی دیکھ بھال کرتے اور ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جاتے تھے.جس کے دوران اس کے پتھر جیسا بھاری جسم کبھی کبھی ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر جا گرتا تھا.ڈوئی اس قسم کی ہزاروں مصیبتیں سہتا ہوا آخر اور مارچ ۱۹۰۷ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق نہایت ذلت کی حالت میں اس جہان سے رخصت ہوا.تمام پادریوں اور عیسائیوں کو مباہلہ کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عبد اللہ آتھم کی موت کے متعلق جو پیشگوئی کی اس کے پورا
380 نہ ہونے کے متعلق عیسائیوں نے کافی پرو پیگنڈا کیا.چنانچہ حضرت اقدس نے عبداللہ آتھم کی وفات کے بعد ایک کتاب انجام آتھم لکھی اور اس کتاب میں آتھم کے متعلق پیشگوئی کے پورا ہونے کے عقلی و نقلی دلائل دینے کے بعد فرمایا.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ آتھم کے معاملہ میں کسی پادری صاحب یا کسی اور عیسائی کو شک ہو اور خیال کرتا ہو کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو لازم ہے کہ مجھ سے مباہلہ کرے.غرض ہر ایک فریق ہم میں سے اور عیسائیوں میں سے دعا کرے اس طرح پر کہ اول ایک فریق یہ دعا کرے اور دوسرا فریق آمین کہے اور پھر دوسرا فریق دعا کرے اور پہلا فریق آمین کہے اور پھر ایک سال تک خدا کے حکم کے منتظر رہیں اور میں اس وقت اقرار صالح شرعی کرتا ہوں کہ ان دونوں مباہلوں میں دو ہزار رو پیدان عیسائیوں کیلئے جمع کرا دوں گا جو میرے مقابل پر مباہلہ کے میدان میں آویں گے یہ کام نہایت ضروری ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ زندہ اور قادر خدا ہمارے ساتھ ہے عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہے.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۳۳۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اسی کتاب ”انجام آتھم میں مزید آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں.پس یہ روز افزوں جھگڑے کیونکر فیصلہ پاویں.مباحثات کے نیک نتیجہ سے تو نومیدی ہو چکی بلکہ جیسے جیسے مباحثات بڑھتے جاتے ہیں ویسے ہی کینے بھی ساتھ ترقی پکڑتے جاتے ہیں.سو اس نو امیدی کے وقت میں میرے نزدیک ایک نہایت سہل و آسان طریقے فیصلہ ہے.اگر پادری صاحبان قبول کر لیں اور وہ یہ ہے کہ اس بحث کا جو حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے خدا تعالیٰ سے فیصلہ کرایا جائے.اور ربانی فیصلہ کیلئے طریق
381 یہ ہوگا کہ میرے مقابل پر ایک معزز پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں.میدان مقابلہ کیلئے جو تراضی طرفین سے مقرر کیا جائے تیار ہوں.پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدا تعالیٰ سے دعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص در حقیقت خدا تعالیٰ کی نظر میں کا ذب اور مور د غضب ہے.خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کا ذب پر وہ قہر نازل کرے جو اپنی غیرت کے رو سے ہمیشہ کا ذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے.جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا.نمرود پر کیا.اور نوح کی قوم پر کیا.اور یہود پر کیا.حضرات پادری صاحبان یہ بات یاد رکھیں کہ اس باہمی دعا میں کسی خاص فریق پر نہ لعنت ہے نہ بددعا ہے.بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے جو اپنے جھوٹ کو چھوڑ نا نہیں چاہتا.ایک جہان کے زندہ ہونے کیلئے ایک کا مرنا بہتر ہے.نوٹ.ان صاحبوں میں سے کوئی منتخب ہونا چاہئے.اول ڈاکٹر مارٹن کلارک.دوسرے پادری عمادالدین پھر پادری ٹھا کر داس.یا حسام الدین بمبئی یا صفدر علی بھنڈارہ یا طامس باول یا فتح مسیح بشرط منظوری دیگران انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۴۰ ) کسی پادری یا عیسائی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا چیلنجوں کو قبول کرنے کی تویق نہ مل سکی.شیعہ حضرات کو مباہلہ کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۴ء میں فصیح و بلیغ عربی زبان میں ”سرالخلافہ کتاب تصنیف فرمائی.اس کتاب میں آپ نے مسئلہ خلافت پر جو اہل سنت اور شیعوں میں صدیوں
382 سے زیر بحث چلا آتا ہے سیر کن بحث کی اور دلائل قطعیہ سے ثابت کر دیا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھم اگر چہ چاروں خلیفہ برحق تھے لیکن حضرت ابوبکر سب صحابہ سے اعلیٰ شان رکھتے تھے اور اسلام کیلئے وہ آدم ثانی تھے اور بنظر انصاف دیکھا جائے تو آیت استخلاف کے حقیقی معنوں میں وہی مصداق تھے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر شیعہ صاحبان کی طرف سے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے مدلل اور مسکت جواب بھی دیئے ہیں نیز ان کے اور باقی صحابہ کے فضائل کا بھی ذکر فرمایا ہے.اور شیعوں کی غلطی کو قرآن آیات کی روشنی میں الم نشرح کیا ہے.پھر اہلسنت اور شیعوں کے آپس کے جھگڑوں کا جن میں اکثر لڑائی اور مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے ذکر کر کے فیصلہ کا ایک یہ طریق پیش کیا ہے کہ.” ہم دونوں فریق میدان میں حاضر ہو کر خدا تعالیٰ سے نہایت تضرع اور الحاح سے دعا کریں اور لعنۃ اللہ علی الکاذبین کہیں.پھر اگر ایک سال تک فریق مخالف پر میری دعا کا اثر ظاہر نہ ہو تو میں عذاب اپنے لئے قبول کروں گا اور اقرار کروں گا کہ میں صادق نہیں.اور علاوہ ازیں ان کو پانچ ہزار روپیہ بھی انعام دوں گا.اور یہ روپیہ اگر چاہیں تو میں گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کرا سکتا ہوں.یا جس کے پاس وہ چاہیں.لیکن اس مقابلہ کیلئے جو حاضر ہو وہ عام آدمی نہ ہو اور ایسے شخص کیلئے ضروری ہوگا کہ پہلے وہ میرے اس رسالہ کی طرح عربی زبان میں رسالہ لکھے تا معلوم ہو کہ وہ اہل علم و فضل سے ہے.( سرالخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۳۷) مگر اہل تشیع کی طرف سے صدائے برنخو است.سر الخلافہ کے آخر پر حضرت اقدس نے عقیدہ ظہور مہدی کا ذکر کر کے اپنے دعوی مہدویت پر شرح وبسط سے بحث کی.اور اس سلسلہ میں شیعہ اور اہل سنت دونوں فرقوں کے خیالات کو باطل قرار دیا.اور فرمایا کہ اگر ان تمام دلائل کے باوجود اعراض کرتے ہیں اور قبول نہیں کرتے تو
383 پھر مباہلہ کر لیتے ہیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا.وان هذا هو الحق ورب الكعبة وباطل ما يزعم اهل التشيع والسنة.فلا تعجلوا على واطلبوا الهدى من حضرة العزة واتونى طالبين فان تعرضوا ولا تقبلوا فتعالوا ندع ابناء نا وابناء كم ونساء نا نساء كم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين.(سرالخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه۳۸۰) ترجمہ:.اور یقینا یہ حق ہے اور رب کعبہ کی قسم کہ اہل تشیع اور اہل سنت کا خیال غلط ہے اور میرے متعلق جلدی مت کرو اور خدا کے حضور سے ہدایت طلب کرو.اور میرے پاس کچھ حاصل کرنے کی نیت سے آؤ.اور اگر آپ نے اعراض کیا اور مجھے قبول نہ کیا تو پھر قرآن کریم کے اس حکم فتعالوا ندع.على الكاذبين کے تحت مباہلہ کر لو.
384
385 باب پنجم متفرق روحانی چیلنج
386
387 عیسائیوں کو دیئے گئے چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امر کو ثابت کرنے کیلئے کہ روح القدس کی تائید عیسائیوں کے ساتھ ہے یا مسلمانوں کے ساتھ درج ذیل چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو قوم روح القدس سے کسی وقت تائید دی گئی ہے وہ اب بھی دی جاتی ہے کیونکہ اب بھی وہی خدا ہے جو پہلے تھا اور قوم بھی وہی ہے جو پہلے تھی سو اگر حضرات عیسائیوں کو اس بات میں کچھ شک ہو کہ اس پیشگوئی کا مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں حضرت مسیح نہیں ہیں تو نہایت صاف اور سہل طریق فیصلہ کرنے کا یہ ہے کہ چالیس دن تک کوئی ایسے پادری صاحب جو اپنی قوم میں نہایت بزرگ اور روح القدس کا بپتسما پانے کے لائق خیال کئے جاتے ہیں اور ان کی بزرگواری اور خدارسیدہ ہونے پر اکثر عیسائیوں کو اتفاق ہو وہ اس امر کی آزمائش و مقابلہ کے لئے که روح القدس کی تائیدات سے کون سی قوم عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے فیض یاب ہے کم سے کم چالیس دن تک اس عاجز کی رفاقت اور مصاحبت اختیار کریں پھر اگر کسی کرشمہ روح القدس کے دکھلانے میں وہ غالب آجائیں تو ہم اقرار کر لیں گے کہ یہ پیش گوئی حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں ہے اور نہ صرف اقرار بلکہ اس کو چند اخباروں میں چھپوا بھی دیں گے لیکن اگر ہم غالب آگئے تو پادری صاحب کو بھی ایسا ہی اقرار کرنا پڑے گا اور چند اخباروں میں چھپوا بھی دینا ہوگا کہ وہ پیشگوئی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نکلی مسیح کو اس سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ اس تصفیہ کے لئے ہماری صحبت میں بھی رہنا کچھ ضروری نہیں.“ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۵ ۲۸۶،۲۸)
388 پادری فتح مسیح کا ایک سوال پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ایک نہایت گندا خط بھیجا اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت ہی گندے الزامات لگائے اور کئی سوالات کے جوابات دریافت کئے.مستفسرہ سوالات میں سے ایک سوال یہ دریافت کیا کہ."اگر آج ایسا شخص جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے گورنمنٹ انگریزی کے زمانہ میں ہوتا تو گورنمنٹ اس سے کیا سلوک کرتی ؟ “ چنانچہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کیا آپ کو خبر نہیں کہ قیصر روم جو آنجناب ﷺ کے وقت میں عیسائی بادشاہ اور اس گورنمنٹ سے اقبال میں کچھ کم نہ تھا وہ کہتا ہے.کہ اگر مجھے یہ سعادت حاصل ہو سکتی.کہ میں اس عظیم الشان نبی کی صحبت میں رہ سکتا.تو میں آپ کے پاؤں دھویا کرتا.سو جو قیصر روم نے کہا.یقیناً یہ سعادت مند گورنمنٹ بھی وہی بات کہتی.بلکہ اس سے بڑھ کر کہتی.اگر حضرت مسیح کی نسبت اس وقت کے کسی چھوٹے سے جاگیردار نے بھی یہ کلمہ کہا ہو.جو قیصر روم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا.جو آج تک نہایت صحیح تاریخ اور احادیث صحیحہ میں لکھا ہوا موجود ہے.تو ہم آپ کو ابھی ہزار روپیہ نقد بطور انعام کے دیں گے.اگر آپ ثابت کر سکیں.اور اگر آپ یہ ثبوت نہ دے سکیں.تو اس ذلیل زندگی سے آپ کے لئے مرنا بہتر ہے.(نور القرآن نمبر۲.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۸۳٬۳۸۲)
389 عیسائیوں کو علامات ایمانی میں مقابلہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کو اپنے اپنے مذہب کی علامات ایمانی میں مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا.اگر ایمان کوئی واقعی برکت ہے تو بیشک اس کی نشانیاں ہونی چاہئیں مگر کہاں ہے کوئی ایسا عیسائی جس میں یسوع کی بیان کردہ نشانیاں پائی جاتی ہوں؟ پس یا تو انجیل جھوٹی ہے اور یا عیسائی جھوٹے ہیں.دیکھو قرآن کریم نے جو نشانیاں ایمانداروں کی بیان فرمائیں وہ ہر زمانہ میں پائی گئی ہیں.قرآن شریف فرماتا ہے کہ ایماندار کو الہام ملتا ہے.ایماندارخدا کی آواز سنتا ہے.ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں.ایماندار پر غیب کی خبریں ظاہر کی جاتی ہیں.ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں.ایماندار پر غیب کی خبریں ظاہر کی جاتی ہیں.ایماندار کے شامل حال آسمانی تائیدیں ہوتی ہیں.سوجیسا کہ پہلے زمانوں میں یہ نشانیاں پائی جاتی تھیں.اب بھی بدستور پائی جاتی ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اور قرآن کے وعدے خدا کے وعدے ہیں.اٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بیشک ذبح کر دو.ورنہ آپ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں.اور جہنم کی آگ پر آپ لوگوں کا قدم ہے.والسلام علیٰ من اتبع الهدى.الراقم میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۰ ۲۲ جون ۱۸۹۷ء ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۷۴)
390 الوہیت مسیح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی کے اپنے الہامات سے ان کی خدائی ثابت کرنے پر ایک ہزار روپیہ بطور انعام دینے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.انجیل کے کلمات سے یسوع کی خدائی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی بھلا اس سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تو شان عظیم ہے ذرا انصافاً پادری صاحبان ان میرے الہامات کو ہی انصاف کی نظر سے دیکھیں اور پھر خود ہی منصف ہو کر کہیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اگر ایسے کلمات سے خدائی ثابت ہو سکتی ہے تو یہ میرے الہامات یسوع کے الہامات سے بہت زیادہ میری خدائی پر دلالت کرتے ہیں.اور اگر خود پادری صاحبان سوچ نہیں سکتے تو کسی دوسری قوم کے تین منصف مقرر کر کے میرے الہامات اور انجیل میں سے یسوع کے وہ کلمات جن سے اس کی خدائی سمجھی جاتی ہے ان منصفوں کے حوالہ کریں.پھر اگر منصف لوگ پادریوں کے حق میں ڈگری دیں اور حلفیہ بیان کر دیں کہ یسوع کے کلمات میں سے یسوع کی خدائی زیادہ تر صفائی سے ثابت ہوسکتی ہے تو میں تاوان کے طور پر ہزار روپید ان کو دے سکتا ہوں.اور میں منصفوں سے یہ چاہتا ہوں کہ اپنی شہادت سے پہلے یہ قسم کھالیویں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ ہمارا یہ بیان صحیح ہے اور اگر صحیح نہیں ہے تو خدا تعالیٰ ایک سال تک ہم پر وہ عذاب نازل کرے جس سے ہماری تباہی اور ذلت اور بربادی ہو جائے.اور میں خوب جانتا ہوں کہ پادری صاحبان ہرگز اس طریق فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحه ۱۰۴)
391 مولوی بٹالوی کے عدالت میں کرسی طلب کرنے کی حقیقت ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف سازش کرتے ہوئے آپ کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ اقدام قتل ڈپٹی کمشنر ایم ڈبلیو ڈگلس کی عدالت میں دائر کیا.اس مقدمہ کی سماعت پر مولوی محمد حسین بٹالوی ڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوا.اور عدالت میں بیٹھنے کے لئے کرسی کے حصول کا استحقاق جتلایا.جس پر ڈپٹی کمشنر نے مولوی صاحب کے استحقاق کو تسلیم نہ کیا مگر مولوی صاحب نے اصرار کیا کہ ان کو کرسی کا استحقاق حاصل ہے.اس پر ڈپٹی کمشنر نے مولوی صاحب کو سخت جھڑ کیاں دیں اور مولوی صاحب کی سخت تو ہین ہوئی.اس واقعہ کے بے شمار عینی شاہدوں کے باوجود مولوی صاحب نے اس واقعہ کی تردید کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ مولوی صاحب کو پوری عزت و احترام کے ساتھ عدالت میں کرسی دی گئی تھی.مولوی صاحب کے اس جھوٹ اور دھوکہ دہی کی حقیقت کو آشکار کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب کو اپنا بیان سچا ثابت کرنے کیلئے درج ذیل چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.اگر در حقیقت اس شیخ بٹالوی کو کرسی ملی تھی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے بڑے اکرام اور اعزاز سے اپنے پاس ان کو کرسی پر بٹھا لیا تھا تو پتہ دینا چاہئے کہ وہ کرسی کہاں بچھائی گئی تھی.شیخ مذکور کو معلوم ہوگا کہ میری کرسی صاحب ڈپٹی کمشنر کے بائیں طرف تھی اور دائیں طرف صاحب ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ کی کرسی تھی اور اسی طرف ایک کرسی پر ڈاکٹر کلارک تھا.اب دکھلا نا چاہئے کہ کونسی جگہ تھی جس میں شیخ محمد حسین بٹالوی کے لئے کرسی بچھائی گئی تھی.سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے.اس شخص نے میری ذلت چاہی تھی اور اسی جوش میں پادریوں کا ساتھ دیا.خدا نے اس کو عین عدالت میں ذلیل کیا.یہ حق کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور یہ راستباز کی عداوت کا ثمرہ ہے.اگر اس بیان میں نعوذ باللہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو طریق فیصلہ دو.
392 اول یہ کہ شیخ مذکور ہر ایک صاحب سے جو ذکر کئے گئے ہیں حلفی رقعہ طلب کرے جس میں قسم کھا کر میرے بیان کا انکار کیا ہو اور جب ایسے حلفی رقعے جمع ہو جائیں تو ایک جلسہ بمقام بٹالہ کر کے مجھ کو طلب کرے.میں شوق سے ایسے جلسہ میں حاضر ہوں گا.میں ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے حلفاً اپنے رقعہ میں یہ بیان کیا ہو کہ محمد حسین نے کرسی نہیں مانگی اور نہ اس کو کوئی جھٹر کی ملی بلکہ عزت کے ساتھ کرسی پر بٹھایا گیا.شیخ مذکور کو خوب یاد ہے کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنا ایمان ضائع نہیں کرے گا اور ہرگز ہرگز ممکن نہ ہو گا کہ کوئی شخص اشخاص مذکورین میں سے اس کے دعوئی باطل کی تائید میں قسم کھاوے.واقعات صحیحہ کو چھپانا بے ایمانوں کا کام ہے.پھر کیونکر کوئی معزز شیخ بٹالوی کے لئے مرتکب اس گناہ کا ہوگا.اور اگر شیخ بٹالوی کو یہ جلسہ منظور نہیں تو دوسرا طریق تصفیہ یہ ہے کہ بلا توقف ازالہ حیثیت عرفی میں میرے پر نالش کرے کیونکہ اس سے زیادہ اور کیا ازالہ حیثیت عرفی ہوگا کہ عدالت نے اس کو کرسی دی اور میں نے بجائے کرسی جھڑکیاں بیان کیں.اور عدالت نے قبول کیا کہ وہ اور اس کا باپ کرسی نشین رئیس ہیں اور میں نے اس کا انکار کیا.اور استغاثہ میں وہ یہ لکھا سکتا ہے کہ مجھے عدالت ڈگلس صاحب بہادر میں کرسی ملی تھی اور کوئی جھٹر کی نہیں ملی اور اس شخص نے عام اشاعت کر دی ہے کہ مانگنے پر بھی کرسی نہیں ملی بلکہ جھڑکیاں ملیں.اور ایسا ہی استغاثہ میں یہ بھی لکھا سکتا ہے کہ مجھے قدیم سے عدالت میں کرسی ملتی تھی اور ضلع کے کرسی نشینوں میں میرا نام بھی درج ہے اور میرے باپ کا نام بھی درج تھا لیکن اس شخص نے اس سب باتوں سے انکار کر کے خلاف واقعہ بیان کیا ہے.پھر عدالت خود تحقیقات کر لے گی کہ آپ کو کرسی کی طلب کے وقت کرسی ملی تھی یا جھڑ کیاں ملی تھیں اور دفتر سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ اور آپ کے والد صاحب کب سے کرسی
393 نشین رئیس شمار کئے گئے ہیں کیونکہ سرکاری دفتروں میں ہمیشہ ایسے کاغذات موجود ہوتے ہیں جن میں کرسی نشینوں کا نام درج ہوتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۳۴،۳۳) برگزیدہ بندوں کو ملنے والے انوار میں مقابلہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے برگزیدہ بندوں کو ملنے والے انوار میں مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا.دوسرا نشان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو ان نوروں سے خاص کیا ہے جو برگزیدہ بندوں کو ملتے ہیں جن کا دوسرے لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے.پس اگر تم کوشک ہو تو مقابلہ کے لئے آؤ اور یقیناً سمجھو کہ تم ہرگز مقابلہ نہیں کر سکو گے.تمہارے پاس زبانیں ہیں مگر دل نہیں.جسم ہے مگر جان نہیں.آنکھوں کی پتلی ہے مگر اس میں نور نہیں.خدا تعالیٰ تمہیں نور بخشے تا تم دیکھ لو“ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴ ح) منہاج نبوت پر فیصلہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی کو پر لکھنے کے لئے جو اصول پیش فرمائے ان میں ایک یہ کہ آپ کے دعوی کے صدق و کذب کو منہاج نبوت پر پرکھا جائے.چنانچہ آپ اپنے مخالفین کو چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہود اسکر یوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.میں ہر روز اس بات کے لئے جشم پر آب ہوں
394 کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.مگر میدان میں نکلنا کسی محنت کا کام نہیں.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۹) تائید الہی میں مقابلہ کا چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تکذیب اور مخالفت کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.نہ معلوم کہ میری تکذیب کے لئے اس قدر کیوں مصیبتیں اٹھارہے ہیں.اگر آسمان کے نیچے میری طرح کوئی اور بھی تائید یافتہ ہے اور میرے اس دعویٰ مسیح موعود ہونے کا مکذب ہے تو کیوں وہ میرے مقابل پر میدان میں نہیں آتا؟ عورتوں کی طرح باتیں بنانا یہ طریق کس کو نہیں آتا.ہمیشہ بے شرم منکر ایسا ہی کرتے رہے ہیں.لیکن جبکہ میں میدان میں کھڑا ہوں اور تمہیں ہزار کے قریب عقلاء اور علماء اور فقراء اور فہیم انسانوں کی جماعت میرے ساتھ ہے اور بارش کی طرح آسمانی نشان ظاہر ہورہے ہیں تو کیا صرف منہ کی پھونکوں سے یہ الہی سلسلہ برباد ہوسکتا ہے؟ کبھی برباد نہیں ہوگا دہی برباد ہونگے جو خدا کے انتظام کو نابود کرنا چاہتے ہیں.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۱۸۱) مذہبی توہین آمیزی کا محرک کون؟ تقریباً ہر مذہب مذہبی رواداری کی تعلیم دیتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مذہبی رواداری کی بجائے مذہبی توہین آمیزی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں کی شان میں گستاخی اور توہین آمیز رویہ اختیار کیا جارہا تھا.عیسائی پادریوں اور
395 بعض آر یہ پنڈتوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور توہین آمیز رویہ اپنا رکھا تھا.اور آپ کی ذات بابرکات پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جواباً کسی قدر سخت رویہ اختیار کیا جس پر بعض علماء نے آپ پر یہ الزام لگایا کہ گویا عیسائی پادریوں اور پنڈتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے اور توہین کرنے پر آپ نے مجبور کیا ہے.چنانچہ اس الزام کا رد کرتے ہوئے آپ نے درج ذیل چیلنج دیئے.میں سچے دل سے اس بات کو بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کی نظر میں یہی سچ ہے کہ بدگوئی کی بنیاد ڈالنے والا میں ہی ہوں اور میری ہی تالیفات نے دوسری قوموں کو تو ہین اور تحقیر کا جوش دلایا ہے تو ایسا خیال کرنے والا خواہ ابزرور کا ایڈیٹر ہو یا انجمن حمایت اسلام لاہور کا کوئی ممبر یا کوئی اور گواہ ثابت کر دکھاوے کہ یہ تمام سخت گوئیاں جو پادری فنڈل سے شروع ہو کر امہات المومنین تک پہنچیں یا جواندرمن سے ابتدا ہو کر لیکھرام تک ختم ہوئیں.میری ہی وجہ سے بر پا ہوئی تھیں تو میں ایسے شخص کو تاوان کے طور پر ہزار روپیہ نقد دینے کو طیار ہوں“ البلاغ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۸) ایک دوسرے موقع پر فرمایا.”اے مولویت کے نام کو داغ لگانے والو!!! ذرا سوچو کہ قرآن میں کیا حکم ہے کیا یہ روا ہے کہ ہم اسلام کی تو ہین کو چپکے سے سنے جائیں.کیا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں نکالی جائیں اور ہم خاموش رہیں ہم نے برسوں تک خاموش رہ کر یہی دیکھا ہم دیکھ دیئے گئے اور صبر کرتے رہے مگر پھر بھی ہمارے بدگمان دشمن باز نہ آئے اگر تمہیں شک ہے اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے ہی عیسائیوں
396 اور آریوں کو توہین مذہب کے لئے برانگیختہ کیا ہے ورنہ یہ بیچارے نہایت سلیم المزاج اور اسلام کی نسبت خاموش تھے بے ادبی اور تو ہیں نہیں کرتے تھے اور نہ گالیاں نکالتے تھے تو آؤ ایک جلسہ کرو پھر اگر یہ ثابت ہو کہ زیادتی ہماری طرف سے ہے اور ابتداء سے ہم ہی محرک ہوئے اور ہم نے ہی ان لوگوں کے بزرگوں کو ابتداء گالیاں دیں تو ہم ہر ایک سزا کے سزاوار ہیں لیکن اگر اسلام کے دشمنوں کا ہی ظلم ثابت ہو تو ایسے خبیث طبع مولویوں کو کسی قد رسزا دینا ضروری ہے جو ہماری عداوت کیلئے اسلام کو درندوں کے آگے پھینکتے ہیں ہر یک امر کی حقیقت تحقیقات کے بعد کھلتی ہے اگر سچے ہیں تو ایک جلسہ کریں پھر اگر ہم کا ذب نکلیں تو بیشک ہندوؤں اور عیسائیوں کی تائید میں ہماری کتابیں جلا دیں.“ آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۱۰۸) منشی الہی بخش کو دو طریق پر فیصلہ کی دعوت حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر نے بہت سے لوگوں کے پاس مولوی عبداللہ غزنوی کے ایک کشف کا ذکر کیا کہ ”مولوی عبداللہ غزنوی صاحب نے خواب میں دیکھا کہ اک نور آسمان سے قادیان پر گرا اور فرمایا کہ میری اولاد اس نور سے محروم رہ گئی.“ یہی بیان حافظ صاحب نے دیگر لوگوں کے پاس ذکر کرنے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بالمشافہ بتایا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے معاند الہی بخش اکاؤنٹینٹ جو مولوی عبداللہ غزنوی کا مرید تھا کی گرفت کرتے ہوئے درج ذیل چیلنج دیا.فرمایا.اب کس قدر اندھیر کی بات ہے کہ مرشد خدا سے الہام پا کر میری تصدیق کرتا ہے اور مرید مجھے کا فرٹھیرا اتا ہے.کیا یہ سخت فتہ نہیں ہے؟ کیا ضروری نہیں کہ اس فتنہ کوکسی تدبیر سے درمیان سے اٹھایا جائے ؟ اور وہ یہ طریق ہے کہ اول ہم اس بزرگ کو
397 مخاطب کرتے ہیں جس نے اپنے بزرگ مرشد کی مخالفت کی ہے یعنی منشی الہی بخش صاحب اکونٹینٹ کو.اور ان کے لئے دو طریق تصفیہ قرار دیتے ہیں.اول یہ کہ ایک مجلس میں ان ہر دو گواہوں سے میری حاضری میں یا میرے کسی وکیل کی حاضری میں مولوی عبداللہ صاحب کی روایت کو دریافت کر لیں اور استاد کی عزت کا لحاظ کر کے اس کی گواہی کو قبول کریں.اور پھر اس کے بعد اپنی کتاب عصائے موسیٰ کو مع اس کی تمام نکتہ چینیوں کے کسی ردی میں پھینک دیں.کیونکہ مرشد کی مخالفت آثار سعادت کے برخلاف ہے اور اگر وہ اب مرشد سے عقوق اختیار کرتے ہیں اور عاق شدہ فرزندوں کی طرح مقابلہ پر آتے ہیں تو وہ تو فوت ہو گئے ان کی جگہ مجھے مخاطب کریں اور کسی آسمانی طریق سے میرے ساتھ فیصلہ کریں مگر پہلی شرط یہ ہے کہ اگر مرشد کی ہدایت سے سرکش ہیں تو ایک چھپا ہوا اشتہار شائع کر دیں کہ میں عبداللہ صاحب کے کشف اور الہام کو کچھ چیز نہیں سمجھتا اور پنی باتوں کو مقدم رکھتا ہوں اس طریق سے فیصلہ ہو جائے گا.میں اس فیصلہ کے لئے حاضر ہوں.جواب باصواب دو ہفتہ تک آنا چاہئے.مگر چھپا ہوا اشتہار ہو.والسلام علی من اتبع الهدی اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴۶۶ ،۴۶۷) منجموں اور جوتشیوں کو علم نجوم اور الہام کی رو سے مقابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا.افسوس اس زمانہ کے منجم اور جوتشی ان پیشگوئیوں میں میرا ایسا ہی مقابلہ کرتے ہیں جیسا کہ ساحروں نے موسیٰ نبی کا مقابلہ کیا تھا اور بعض نادان ملہم جو تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں وہ بلعم کی طرح میرے مقابلہ کے لئے حق کو چھوڑتے اور گمراہوں کو مدد دیتے ہیں.مگر خدا فرماتا ہے کہ میں سب کو شرمندہ کروں گا اور کسی دوسرے کو یہ اعزاز ہر گز نہیں دوں گا.ان سب کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے نجوم یا
398 الہام سے میرا مقابلہ کریں اور اگر کسی حملہ کو اب اٹھا رکھیں تو وہ نامراد ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ میں ان سب کو شکست دوں گا اور میں اس کا دشمن بن جاؤں گا جو تیرا دشمن ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اپنے اسرار کے اظہار کے لئے میں نے تجھے ہی برگزیدہ کیا ہے اور زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ میرے ساتھ.اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میرا عرش“ تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۸) روحانی امور میں مقابلہ کی دعوت - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالف علماء کو روحانی امور اور تائیدات سماوی میں مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا.افسوس کہ ہماری قوم کے مولوی اور علماء یوں تو تکفیر کے لئے بہت جلد کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ذرہ سوچتے نہیں کہ کیا یہ ہیبت اور رعب باطل میں ہوا کرتا ہے کہ تمام دنیا کو مقابلہ کے لئے کہا جائے اور کوئی سامنے نہ آسکے کیا وہ شجاعت و استقامت جھوٹوں میں بھی کسی نے دیکھی ہے جو ایک عالم کے سامنے اس جگہ ظاہر کی گئی.اگر انہیں شک ہے تو مخالفین اسلام کے جسقدر پیشوا اور واعظ اور معلم ہیں ان کے دروازہ پر جائیں اور اپنے ظنون فاسدہ کا سہارا دے کر انہیں میرے مقابلہ پر روحانی امور کے موازنہ کے لئے کھڑا کریں.پھر دیکھیں کہ خدائے تعالیٰ میری حمایت کرتا ہے یا نہیں.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۵۷ح)
399 بٹالوی صاحب اور دیگر منکرین کو چالیس روز میں آسمانی نشان اور اسرار غیب دکھلانے کے مقابلہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام منکرین کو عمومی طور پر اور مولوی محمد حسین بٹالوی کو خصوصی طور پر چالیس روز میں آسمانی نشان اور اسرار غیب دکھلانے کے مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا.”جو لوگ مجھے مفتری اور اپنے تئیں صاف اور متقی قرار دیتے ہوں میں ان کے مقابل پر اس طرز فیصلہ کیلئے راضی ہوں کہ چالیس دن مقرر کئے جائیں اور ہر ایک فریق اعملوا على مكانتكم اني عامل پر عمل کر کے خدا تعالیٰ سے کوئی آسمانی خصوصیت اپنے لئے طلب کرے.جو شخص اس میں صادق نکلے اور بعض مغیبات کے اظہار میں خدائے تعالیٰ کی تائید اس کے شامل حال ہو جائے وہی سچا قرار دیا جائے.اے حاضرین اس وقت اپنے کانوں کو میری طرف متوجہ کرو کہ میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر حضرت مولوی محمد حسین صاحب چالیس دن تک میرے مقابل پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر کے وہ آسمانی نشان یا اسرار غیب دکھلا سکیں جو میں دکھلا سکوں تو میں قبول کرتا ہوں کہ جس ہتھیار سے چاہیں مجھے ذبح کر دیں اور جو تاوان چاہیں میرے پر لگا دیں.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲۴)
400 تمام عیسائیوں کو نشان نمائی اور قبولیت دعا میں مقابلہ کی دعوت ”سواگر عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ کفارہ سے پاک ایمان اور پاک زندگی ملتی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اب میدان میں آئیں اور دعا کے قبول ہونے اور نشانوں کے ظہور میں میرے ساتھ مقابلہ کر لیں.اگر آسمانی نشانوں کے ساتھ ان کی زندگی پاک ثابت ہو جائے تو میں ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں اور ہر ایک ذلت کا سزاوار ہوں“ ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۴۳) امتہ التکفیر کو تائید الہی فیض سماوی اور آسمانی نشانوں میں مقابلہ کی دعوت (۵) پانچویں علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں.ان کے ملہموں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں.پھر اگر تائید الہی میں اور فیض سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رد سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے.اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہو تو کفر کے فتوے دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنے جن کو مخاطب ہونے کیلئے الہام الہی مجھ کو ہو گیا ہے پہلے لکھ دیں اور شائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعوی کو منظور کر لیں.میں اس کام کیلئے بھی حاضر ہوں اور میرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف ائمۃ الکفر سے کروں.انہیں سے مباہلہ کروں اور انہیں سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں.مگر یا درکھنا چاہئے کہ وہ ہرگز مقابلہ نہیں کریں گئے“ آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۴۸)
401 تمام مخالفین کو رویا صالحہ، مکاشفہ ، استجابت دعا اور الہامات صحیحہ میں مقابلہ کی دعوت مخالفین کے دل میں اگر گمان اور شک ہو تو وہ مقابلہ کر کے آزما سکتے ہیں کہ جو کچھ اس عاجز کو رویا صالحہ اور مکاشفہ اور استجابت دعا اور الہامات صحیحہ صادقہ سے حصہ وافرہ نبیوں کے قریب قریب دیا گیا ہے وہ دوسروں کو تمام حال کے مسلمانوں میں سے ہرگز نہیں دیا گیا اور یہ ایک بڑا محک آزمائش ہے کیونکہ آسمانی تائید کی مانند صادق کے صدق پر اور کوئی گواہ نہیں.جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے بے شک خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک خاص طور پر مقابلہ کے میدانوں میں اس کی دستگیری فرماتا ہے.چونکہ میں حق پر ہوں اور دیکھتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اس لئے میں بڑے اطمینان اور یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر میری ساری قوم کیا پنجاب کے رہنے والے اور کیا ہندوستان کے باشندے اور کیا عرب کے مسلمان اور کیا روم اور فارس کے کلمہ گو اور کیا افریقہ اور دیگر بلاد کے اہل اسلام اور ان کے علماء اور ان کے فقراء اور ان کے مشائخ اور ان کے صلحاء اور ان کے مرد اور ان کی عورتیں مجھے کا ذب خیال کر کے پھر میرے مقابل پر دیکھنا چاہیں کہ قبولیت کے نشان مجھ میں ہیں یا ان میں.اور آسمانی دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا ان پر.اور وہ محبوب حقیقی اپنی خاص عنایات اور اپنے علوم لدنیہ اور معارف روحانیہ کے القاء کی وجہ سے میرے ساتھ ہے یا ان کے ساتھ تو بہت جلد ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ خاص فضل اور خاص رحمت جس سے دل مورد فیوض کیا جاتا ہے اسی عاجز پر اس کی قوم سے زیادہ ہے (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۷۹،۴۷۸)
402 تمام مذاہب کے پیروکاروں کو قبولیت دعا اور امور غیبیہ کے میدان میں مقابلہ کی دعوت اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کیلئے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے.اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کرسکا تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو سہ ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اس کے حوالہ کر دوں گا جس طور سے اس کی تسلی ہو سکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گا.میرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں گا.اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل و جان روا رکھتا ہوں.میں دل سے یہ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچ کہتا ہوں.اور اگر کسی کو شک ہو اور میری اس تجویز پر اعتبار نہ ہو تو وہ آپ ہی کوئی احسن تجویز تاوان کی پیش کرے میں اس کو قبول کرلوں گا.میں ہرگز عذر نہیں کروں گا.اگر میں جھوٹا ہوں تو بہتر ہے کہ کسی سخت سزا سے ہلاک ہو جاؤں.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۶) ماہم ہونے کا دعوی کرنے والوں کو پیشگوئیوں اور قرآنی معارف میں مقابلہ کی دعوت اب جس قدر میں نے بطور نمونہ کے پیشگوئیاں بیان کی ہیں درحقیقت میرے صدق یا کذب کے آزمانے کے لئے یہی کافی ہے.اور جو شخص اپنے تئیں ملہم قرار
403 دے کر مجھے کا ذب اور جہنمی خیال کرتا ہے اس کے لئے فیصلہ کا طریق یہ ہے کہ وہ بھی اپنی نسبت چند ایسے اپنے الہامات کسی اخبار وغیرہ کے ذریعہ سے شائع کرے جس میں ایسی ہی صاف اور صریح پیشگوئیاں ہوں تب خود لوگ ظہور کے وقت اندازہ کر لیں گے کہ کون شخص مقبول الہی ہے اور کون مردود الہی.ورنہ صرف دعوؤں سے کچھ ثابت نہیں ہوسکتا.اور خدائے تعالیٰ کی عنایات خاصہ میں سے ایک یہ بھی مجھ پر ہے کہ اس نے علم حقائق و معارف قرآنی مجھ کو عطا کیا ہے.اور ظاہر ہے کہ مطہرین کی علامتوں میں سے یہ بھی ایک عظیم الشان علامت ہے کہ علم معارف قرآن حاصل ہو.کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے لا یمسہ الا امطھرون.سو مخالف پر بھی لازم ہے کہ جس قدر میں اب تک معارف قرآن کریم اپنی متفرق کتابوں میں بیان کر چکا ہوں اس کے مقابل پر کچھ اپنے معارف کا نمونہ دکھلا دیں اور کوئی رسالہ چھاپ کر مشتہر کریں تا لوگ دیکھ لیں کہ جو دقائق علم ومعرفت اہل اللہ کو ملتے ہیں وہ کہاں تک ان کو حاصل ہیں مگر بشرطیکہ کتابوں کی نقل نہ ہو.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۳) میاں نذیر حسین ، مولوی بٹالوی اور دیگر تمام صوفیاں کو نشان نمائی ، پیشگوئیوں اور مباہلہ کے مقابلہ کی دعوت ” بہر حال چونکہ میری طرف سے آسمانی فیصلہ میں ایمانی مقابلہ کیلئے درخواست ہے تو پھر مقابلہ سے دستکش ہو کر خاص مجھ سے نشانوں کیلئے استدعا کرنا اس صورت میں میاں نذیر حسین اور بٹالوی صاحب کو حق پہنچتا ہے کہ حسب تحریر میری اول اس بات کا اقرار شائع کریں کہ ہم لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں اور دراصل ایمانی انوار و علامات ہم میں موجود نہیں کیونکہ یکطرفہ نشانوں کے دکھلانے کیلئے بغرض کبرشکنی ان کی
404 کے میں نے یہی شرط آسمانی فیصلہ میں قرار دی ہے اور نیز ظاہر بھی ہے کہ ان لوگوں کو بجائے خود مومن کامل اور شیخ الکل اور ملہم ہونے کا دعوی ہے اور مجھ کو ایمان سے خالی اور بے نصیب سمجھتے ہیں تو پھر بجز مقابلہ کے اور کونسی صورت فیصلہ کی ہے.ہاں اگر اپنے ایمانی کمالات کے دعوئی سے دست بردار ہوجائیں تو پھر یکطرفہ ثبوت ہمارے ذمہ ہے اس بات کا جواب میاں نذیر حسین اور بٹالوی صاحب کے ذمہ ہے کہ وہ با وجود دعوی مومن کامل بلکہ شیخ الکل ہونے کے کیوں ایسے شخص کے مقابلہ سے بھاگتے ہیں جو ان کی نظر میں کافر بلکہ سب کافروں سے بدتر ہے اور کس بنا پر یکطرفہ نشان مانگتے ہیں.اگر فیصلہ آسمانی کے جواب میں یہ درخواست ہے تو حسب منشاء اس رسالہ کے درخواست ہونی چاہئے.یعنی اگر اپنی ایمانداری کا کچھ دعویٰ ہے تو مقابلہ کرنا چاہئے جیسا کہ آسمانی فیصلہ میں بھی شرط درج ہے ورنہ صاف اس بات کا اقرار کرے کہ ہم حقیقی ایمان سے خالی ہیں یا یک طرفہ نشان کی درخواست کریں.بالآخر ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ دونوں پیشگوئیاں میاں گلاب شاہ اور نعمت اللہ ولی کی اس عاجز کے حق میں حسب منشاء قرآن کریم کے نشان صریح ہیں جس میں کسی دست بازی اور مکر اور فریب کی گنجائش نہیں.اب اگر کوئی صوفی پردہ نشین جو پردہ سے نکلنا نہیں چاہتا بقول بٹالوی صاحب اور میر عباس علی صاحب لدھیانوی کے بالمقابل نشان دکھلانے کو طیار ہے تو وہ بھی ایسی ہی دو پیشگوئیاں انہیں ثبوتوں کے ساتھ اپنے حق میں کسی گذشتہ ولی کی طرف سے پیش کرے ہم خدا تعالیٰ کی قسم یاد کر کے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ بھی ایسے ہی نشان اور اسی درجہ ثبوت پر اور ایسی عظمت کے ساتھ باعتبار اپنے بعد زمانہ کے پائے گئے ہیں تو ہم سزائے موت اٹھانے کیلئے بھی تیار ہیں.اور اس عاجز کی اپنی گذشتہ پیشگوئیاں جو
405 تین ہزار کے قریب ہیں جو اکثر استجابت دعا کے بعد ظہور میں آئی ہیں.ان میں سے دلیپ سنگھ کے روکے جانے کی پیشگوئی ہے یعنی یہ کہ وہ اپنے قصد ارادہ پنجاب سے ناکام رہے گا.یہ پیشگوئی اجمالی طور پر اشتہار میں چھپ چکی ہے اور صد ہا آدمیوں کو زبانی سنائی گئی.اسی طرح پنڈت دیا نند کے فوت ہونے کی نسبت پیشگوئی اور شیخ مہر علی صاحب رئیس کے ابتلا اور پھر رہائی کی نسبت پیشگوئی.بٹالوی صاحب کے مخالف ہو جانے کی نسبت پیشگوئی وغیرہ پیشگوئیاں جن کا مفصل ذکر موجب طول ہے.اگر فریق مخالف کے مولویوں میں کچھ ایمان ہے تو ان پیشگوئیوں کے بارے میں بھی ایک جلسہ مقرر کر کے اول ہم سے ثبوت لیں اور پھر اس کے موافق اپنی طرف سے پیشگوئیوں کا ثبوت دیں.اور اگر بباعث اپنی تہیدستی کے ان دونوں طوروں مقابلہ سے عاجز آجائیں تو یہ بھی اختیار ہے کہ ایک سال کی مہلت پر آئندہ کیلئے آزمائش کر لیں کسی بڑے جھگڑ کی ضرورت نہیں.ہر یک پیشگوئی جو کسی دعا کی قبولیت سے ظاہر ہو کسی اخبار میں بقید اس کے وقت ظہور کے چھپواد ہیں.اور اس طرف سے بھی یہی کارروائی ہو سال گذرنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ کون موید من اللہ اور کون مخذول اور مردود ہے.“ (نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۹۶،۳۹۵) مولوی محمد حسین بٹالوی کو خوابوں اور قرآن کریم کی رو سے مقابلہ کی دعوت آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی رویا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں صادق ہوتا ہے.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق کی یہ نشانی ٹھہرائی ہے کہ اس کی خوابوں پر بیچ کا غلبہ ہوتا ہے اور ابھی آپ
406 دعوی کر چکے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں.پس اگر آپ نے یہ بات نفاق سے نہیں کہی اور آپ در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول میں بچے ہیں تو آؤ ہم اور تم اس طریق سے ایک دوسرے کو آزما لیں کہ بموجب اس محک کے کون صادق ثابت ہوتا ہے اور کس کی سرشت میں جھوٹ ہے.اور ایسا ہی اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے لھم البشری فی الحیوۃ الدنیا یعنی یہ مومنوں کا یک خاصہ ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے ان کی خواہیں سچی نکلتی ہیں.اور آپ ابھی دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں قرآن پر بھی ایمان لاتا ہوں.بہت خوب آؤ قرآن کریم کے رو سے بھی آزما لیں کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۳) مخالفین کو نشان نمائی ، معارف قرآن، عربی انشاء پردازی اور کتب نویسی کے مقابلہ کی دعوت " واعلموا ان الله ينصرنى فى كل موطن ويخزيكم من كل محتضن.و بدانید کہ خدا تعالیٰ مرا اور ہر میدا نے فتح مید ہد.واز ہر کنارا شمارا رسوامی گرداند و يرد كيدكم عليكم يا معشر الكائدين.وان كنتم تز درینی عینکم فتعالوا انجعل الله مکر شما بر شمامی افگند و اگر چشم شما مراحقیر می شمارد پس بیائید تا خدا را در ما حكما بيننا وبينكم اتريدون ان يظهر ميننا او مينكم فتعالو انفقم تحت مجارى الارتدار د شما حکم مقر رکنیم.آمی خواهید که دروغ ما یا دروغ شما ظاهر شود.پس بیائید که با مباہلہ
زیر مجاری قدرت الہی 407 مباهلين.وان كنتم تعرضون عن المباهلة.فاتوني وامكثوا عندى الى السنة الكاملة.بایستیم واگر شما از بابله کناره میکنید پس نزدم بیائید و تا سالے کامل نزدم بمانید.لاريكم بعض آيات حضرة العزه ان كنتم طالبين.وان كنتم تعرضون عن رؤية تا شمارا لبعض نشان حضرت عزت بنمایم اگر شما طالب حق ہستید.واگر شما از دیدن این نشانها کناره هذه الايات.فلكم ان تعارضوا نى فى معارف القرآن ونكات.ولن تقدروا عليها میکنید.پس اختیار شما است که در معارف قرآن و نکات آن با من معارضه کنید - و ہرگز براں تلور نخواهید شد ولو متم حاسرين.فانه علم لا يمسه الا الذى كان من المطهرين.فان لم تفعلوا اگر چہ کسرت بمیرید.چرا کہ علم قرآن علمی است که بجز پاک شدگان دیگری را در آن کوچه را ہے نیست هذا فعارضونى فى انشاء لسان العرب.فان العربية لسان الهامية پس اگر این کار نتوانید کرد.پس در انشاء زبان عرب بمن مقابلہ کنید.زیرا کہ آں زبان الهامی است و لا يكمل فيها الانبى او ولى من النخب.وان لم تبارزوا فيها ولن
تبارزوا 408 در و بجز نبی یا ولی دیگرے مکمل نتواند شد واگر دران مقابله نتوانید کرد پس کتا بے بنویسید و من نیز فاكتبوا كتابا واكتب كتابا لاصلاح مفاسد هذه الايام.ورد النصارى.وفرق اخرى بنویسم که مشتمل باشد بر اصلاح مفاسد ایں زمانہ.ور دنصاری.ورد دیگر من عبده الاصنام وافحاههم بالبرهان النام.وعلينا ان لا نقول فرقہ ہا از بت پرستان و ساکت کردن اوشاں بھجت کامل اما باید کہ ہر چہ نویسیم شيئا من عند انفسنا ولا انتم من عند انفسكم الا من كتاب الله العزيز العلام از قرآن بنویسیم ولن تفعلوا ذالك ابدا ولن تعطوا عزة هذا لمقام.فان هذا فعل من افعال و ہرگز چنیں توانید کرد.واہیں مقام عزت ہرگز شمارا دادہ نخاہد شد چرا که این کار از کار ہائے امام وقت است امام الوقت ومزيل الظلام.الذى ايدبروح من الله وزيد بسطة في العلم که دور کننده تاریکی است - واز روح القدس تائید یافته و در علم و بلاغت وسعت واعطي بلاغه الكلام وان تغلبوا فى احد منها فلست من الله العلام.حاصل کرده پس اگر شما از میں ہا.در یکے غال شوید پس من از خدا تعالی نیستم.پس اگر شما
409 فان اعرضتم عن كلما اعرضنا عليكم.فما بقى عذر لديكم.وشهدتم انكم من الكاذبين.از همه آنچه پیش کردم کناره کنید - پس عذر شما باقی نماند و شما خود گواه خواهید شد که دروغگو ہستید " " انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۱۸۴،۱۸۳) مكذب علماء کو مباہلہ ، نشان نمائی اور عربی دانی کے مقابلہ کی دعوت بیدانى لا اظن ان تحضروا لفصل هذهه القضية.والرجاء منقطع مگر من یقین نمی کنم کہ برائے فیصلہ ایں مقدمه شما حاضر خواهید شد - واز تو واز شال تو درین کار بزرگ منک و من امثالك فى هذه الخطه فكانى استنزل العصم من المعاقل امید منقطع است.پس گویا کہ من بز ہائے گوہی را از بلندی کوہ با میخوانم اوا طلب الولد من لاثاقل او استقرى الدهن من الهديد لو ابغى الطيب من الصديد.یا از زن فرزند مرده فرزندی خواہم یا از آہن دهن را تلاش می کنم - یا از زرداب خوشبو واری انى ارجع اليكم كالخاطئين.واضع وقتي في سوالي می جویم.وی بینم که این خطا امن است که سوئے شما متوجه می شوم.وبسوال از محرومان وقت خود را
410 من المحرومين.وانى لم افعل ذالك لو لم يكن مقدى اتمام الحجة.ضائع می کنم - ومن بچنین نکر دے اگر مقصد من اتمام حجت واظہار حق نبودے.واظهار الحق على الخاصة والعامة.واني ادعوكم اولا الى المباهلة.و من شما را اول سوء بمباہلہ می خانم.پس اگر قبول نہ کنسید فان لم تقبلوا فادعوكم الى ان يجيني احد منكم لرؤية آيتي ويلبث عندى الى السنة الكاملة.پس این دعوت می کنم که تا سالے کسے از شما نز دمن بماند تا کشانم بیند واگرایس وان لم تقبلوا فادعوكم الى المناضلة فى العربيه.بالشريطه المذكورة والاتية.ہم قبول نہ کنید.پس برائے معارضہ زبان عربی میخوانم.بشرطیکه مذکور است و نیز آئنده ذکر آن خواهد آمد وان لم تستطيعوا فرادى فرادى فما اضيق الأمر على من عادى.بل اذن لكم ان يجلس بعضكم بالبعض كالناصرين.اور اگر ایک یک طاقت ندارید.پس بر دشمنان خود امر را تنگ نمی کنم.بلکه شمارا اجازت می دهم که بعض بعض را مددگار شوند انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۵۰) چھ طور کے نشانوں میں مقابلہ کی دعوت عام ماسوا اس کے میں دوبارہ حق کے طالبوں کے لئے عام اعلان دیتا ہوں کہ اگر وہ اب بھی نہیں سمجھتے تو نئے سرے اپنی تسلی کر لیں.اور یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ سے چھ طور کے نشان میرے ساتھ ہیں.اول.اگر کوئی مولوی عربی کی بلاغت فصاحت میں میری
411 کتاب کا مقابلہ کرنا چاہے گا.تو وہ ذلیل ہوگا.میں ہر ایک متکبر کو اختیار دیتا ہوں کہ اسی عربی مکتوب کے مقابل پر طبع آزمائی کرے.اگر وہ اس عربی کے مکتوب کے مقابل پر کوئی رسالہ بالتزام مقدار نظم و نثر بنا سکے اور ایک مادری زبان والا جوعربی ہو قسم کھا کر اس کی تصدیق کر سکے تو میں کاذب ہوں.دوم.اور اگر یہ نشان منظور نہ ہو.تو میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بنا دیں یعنی رو برو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے.اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے.پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں.سوم.اور اگر یہ نشان بھی منظور نہ ہو تو ایک سال تک کوئی مولوی نامی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے.مگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو تو ایک سال تک کوئی مولوی نامی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے.مگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں گا.چہارم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو ایک تجویز یہ ہے کہ بعض نامی مخالف اشتہار دے دیں کہ اس تاریخ کے بعد ایک سال تک اگر کوئی نشان ظاہر ہو تو ہم تو بہ کریں گے اور مصدق ہو جائیں گے.پس اس اشتہار کے بعد اگر ایک سال تک مجھ سے کوئی نشان ظاہر نہ ہوا.جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ پیشگوئی ہو یا اور تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.پنجم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو شیخ محمد حسین بطالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ کر لیں.پس اگر مباہلہ کے بعد میری بد دعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا.کہ میں جھوٹا ہوں یہ طریق فیصلہ ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں.اور میں ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اب سچے دل سے ان
412 طریقوں میں سے کسی طریق کو قبول کریں.ششم اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے منہ بند رکھیں.اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہر الہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں سے مسلمانوں کی عادت کے طور پر پیش آویں.ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں.پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے.اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کرلوں گا.“ (ضمیمہ انجام آتھم.جلدا اصفحه ۳۰۴ تا ۳۱۹) عربی دانی قر آنی حقائق و معارف، قبولیت دعا اور اخبار غیبیہ میں مقابلہ کی دعوت "اگر یہ سوال پیش ہو کہ تمہارے حکم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ جس زمانہ کیلئے حکم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے.اور جس قوم کی صلیبی غلطیوں کی حکم نے اصلاح کرنی تھی وہ قوم موجود ہے.اور جن نشانوں نے اس حکم پر گواہی دینی تھی وہ نشان ظہور میں آچکے ہیں.اور اب بھی نشانوں کا سلسلہ شروع ہے.آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے.زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب
بند نہ رہیں.413 میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے نشانوں پر ہی ایمان لاؤ.بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر میں حکم نہیں ہوں تو میرے نشانوں کا مقابلہ کرو.میرے مقابل پر جو اختلاف عقائد کے وقت آیا ورسب بحثیں نکمی ہیں.صرف حکم کی بحث میں ہر ایک کا حق ہے جس کو میں پورا کر چکا ہوں.خدا نے مجھے چار نشان دیئے ہیں.(1) میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.(۲) میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.(۳) میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میری دعا ئیں تیس ہزار کے قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے.(۴) میں غیبی اخبار کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.یہ خدا تعالیٰ کی گواہیاں میرے پاس ہیں.اور رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیاں میرے حق میں چمکتے ہوئے نشانوں کی طرح پوری ہوئیں آسماں بار دنشان الوقت مے گوید زمیں ایں دوشاہد از پئے تصدیق من استادہ اند 66 (ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۶، ۴۹۷) میں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر اس بات کو جانتا ہوں کہ جو دنیا کی مشکلات کے
414 لئے میری دعائیں قبول ہوسکتی ہیں دوسروں کی ہرگز نہیں ہوسکتیں.اور جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت اور فصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں دوسرا ہر گز نہیں لکھ سکتا.اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لئے آوے تو مجھے غالب پائے گی.اور اگر تمام لوگ میرے مقابل پر اٹھیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا ہی پلہ بھاری ہوگا.دیکھو میں صاف صاف کہتا ہوں اور کھول کر کہتا ہوں کہ اس وقت اے مسلمانوں! تم میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو مفسر اور محدث کہلاتے ہیں اور قرآن کے معارف اور حقائق جاننے کے مدعی ہیں اور بلاغت اور فصاحت کا دم مارتے ہیں اور وہ لوگ بھی موجود ہیں جو فقراء کہلاتے ہیں اور چشتی اور قادری اور نقشبندی اور سہروردی وغیرہ ناموں سے اپنے تئیں موسوم کرتے ہیں.اٹھو اور اس وقت ان کو میرے مقابلہ پر لاؤ.“ ( ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۰۷) فرمایا.”میں تو اب بھی ماننے کو طیار ہوں اگر آیت فَلَمَّا تَوَفِّيتَنِی کے معنے بجز مارنے اور ہلاک کرنے کے کسی حدیث سے کچھ اور ثابت کر سکو یا کسی آیت یا حدیث سے حضرت عیسی علیہ السلام کا مع جسم عنصری آسمان پر چڑھنا یا مع جسم عصری آسمان سے اترنا ثابت کر سکو.یا اگر اخبار غیبیہ میں جو خدا تعالیٰ سے مجھ پر ظاہر ہوتی ہیں میرا مقابلہ کر سکو یا استجابت دعا میں میرا مقابلہ کر سکو یا تحریر زبان عربی میں میرا مقابلہ کر سکو یا اور آسمانی نشانوں میں جو مجھے عطا ہوئے ہیں میرا مقابلہ کر سکوتو میں جھوٹا ہوں.“ فرمایا.تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۳) اگر آسمانی نشانوں میں کوئی میرا مقابلہ کر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر دعاؤں کے قبول
415 ہونے میں کوئی میرے برابر اُتر سکے تو میں چھوٹا ہوں.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلہ ٹھہر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.“ اربعین نمبر ا.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۴۴، ۳۴۵) الاختبار اللطيف لمن كان يعدل اويحيف ايها الناس ان كنتم فی شک من امرى ومما اوحى الى من ربّى.فناضلوني في اتباء الغيب من حضرة الكبرياء.وان لم تقبلوا ففى استجابة الدعاء.و ان لم تقبلوا ففى تفسير القرآن في اللسان العربية.مع كمال الفصاحة درعاية الملح الادبية.فمن غلب منكم بعد ما ساق هذا المساق.فهو خير منى ولا مراء ولا شقاق.ثم ان كنتم تُعرضون عن الأمرين الاولين وتعتذرون تقولون اناما اعطينا عين رؤية الغيب ولا من قدرة على اجراء تلك العين.فصارعوني في فصاحة البينا مع التزام بيان معارف القرآن واختاروا مسحب نظم الكلام ولتسحبوا ولا ترحبوا ان كنتم من الادباء الكرام.وبعد ذالك ينظر الناظرون فى تفاضل الانشاء.ويحمدون من يستحق الحماد والابراد.ويلعنون من لعن من السماء.فهل فيكم فارس حذا الميدان.وما لک ذالک البستان.66 (ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۸۵)
416 ” خدا تعالیٰ اس زمانہ میں بھی اسلام کی تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے اور جیسا کہ اس بارہ میں میں خود صاحب تجربہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قو میں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے ورکس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا.کیا کوئی ہے؟ کہ اس امتحان میں میرے مقابل پر آوے.ہزارہا نشان خدا نے محض اس لئے مجھے دیئے ہیں کہ تا دشمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے.میں اپنی عزت نہیں چاہتا بلکہ اس کی عزت چاہتا ہوں جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۲٬۱۸۱) ”اب اس اشتہار میں اس حجت کو آپ لوگوں پر پورا کرنا مقصد ہے کہ وہ مسیح موعود در حقیقت یہی عاجز ہے.قرآن کریم کو کھولو اور توجہ سے دیکھو کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلا شبہ فوت ہو گئے.اور اگر اس عاجز کے بارے میں شک ہو تو ایک فیصلہ نہایت آسان ہے کہ ہر ایک شخص آپ لوگوں میں سے جس کا مرید ہے اس کو اس عاجز کے مقابل پر کھڑا کرے تا صداقت کے نشان دکھلانے میں وہ میرے ساتھ میرا مقابلہ کر سکے.اور یقینا سمجھو کہ اگر وہ مقابل پر آیا تو اس سے زیادہ رسوائی ہوگی جو حضرت موسیٰ کے مقابل پر بلعم کی ہوئی.اور اگر وہ مقابلہ منظور نہ کرے اور حق کا طالب ہو تو خدا تعالیٰ اس کی درخواست پر اور اس کے حاضر ہونے سے نشان دکھلائے گا بشرطیکہ وہ اس جماعت میں داخل ہونے کے لئے مستعد ہو.اور اگر اس اشتہار کے جاری
417 ہونے کے بعد آپ لوگوں کے پیر اور مشائخ اور مجہتد بدگوئی اور تکفیر سے باز نہ آویں اور اس عاجز کی صداقت کو قبول نہ کریں اور مقابلہ سے روپوش رہیں تو دیکھو کہ میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا انہیں رسوا کرے گا.اے شوخ چشم اور گرمی دار لو گو جو کسی شیخ اور پیرزادہ کے مرید ہو.یہ میرا اشتہار ضرور اپنے ایسے مرشد کو جو میرے مقام کو تسلیم نہیں کرتا دکھلاؤ.اور اگر وہ اس وقت مقابلہ سے روپوش رہے تو یقیناً سمجھو کہ وہ اپنی مشیخت نمائی میں کذاب ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے کئی قسم کے نشان دیئے ہیں جیسا کہ اس میں سے استجابت دعوات اور مکالمات الہیہ کا نشان اور معارف قرآنی کا نشان ہے.سو اپنے تئیں دھوکہ مت دو.ہر ایک کو پرکھو اور پھر سچ کو قبول کرو.اے ضعیف بندو! خدا تعالیٰ سے مت لڑو.اپنے پلنگوں پر لیٹ کر سوچو اور اپنے بستروں پر غور کرو کہ کیا ضرور نہ تھا کہ ایک دن ہمارے سید اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی.غافل مشوگر عاقلی در یاب گرصاحبدلی * شاید که نتوان یافتن دیگر چنیں ایام را “ مجموعہ اشتہارات - جلد اصفحہ ۴۳۷، ۴۳۸)
418 فتح کی نوید حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے فرمایا:.دو بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزار ہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب ہوگی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا (انوار الاسلام صفحه ۵۴)