Bunyadi Masail Aur Un Ke Jawabaat

Bunyadi Masail Aur Un Ke Jawabaat

بنیادی مسائل کے جوابات

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
فقہ

مرتّبہ: ظہیر احمد خان امیر المؤمنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھے جانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات کا ایک انتخاب۔


Book Content

Page 1

بنیادی مسائل کے جوابات امیر المؤمنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھے جانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات کا ایک انتخاب.مرتبه: ظہیر احمد خان

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL TAGS PUBLICATIONS LTD بنیادی مسائل کے جوابات Bunyaadi Masaa'il Ke Jawaabaat (Urdu) (Answers to Fundamental Questions) Enlightening answers to some of the fundamental questions asked to His Holiness Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Massih V (May Allah strengthen his hand) on a vast range of Topics Compiled by: Zaheer Ahmad Khan Cover Design by: Faiez Ahmad Saleem First edition published in the UK in 2023 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-386-2

Page 3

ابتدائیہ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی اللی تم کو اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا.اور آپ کو قرآن کریم کی صورت میں ایک ایسی کامل و مکمل شریعت عطا فرمائی جو صرف عامۃ الناس کے لئے ہی ہدایت نہیں ہے بلکہ تمام تقویٰ شعار اور متقین کو بھی ہدایت کی ارفع و اعلیٰ منازل کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے.حضور ایلم نے اپنے پر نازل ہونے والی وحی الہی کی کامل اتباع فرمائی اور قرآن کریم میں مذکور تمام احکامات و تعلیمات کی منشاء اور غرض و غایت کو اپنے عملی نمونہ کے ساتھ اس شان سے ظاہر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے طالبوں کے لئے آپ کی زبانِ مبارک سے یہ اعلان کروایا اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: 32) کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو.حضور اللی علم کی یہی وہ پاکیزہ سنت ہے جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ(مسند احمد بن حنبل، احاديث عائشہ) کے الفاظ میں اظہار فرمایا کہ آپ اللی علیم کے اخلاق قرآن کریم کے عین مطابق تھے.حضور اللی کا یہی عملی نمونہ جب صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچا تو اسی کا نام سنت متواترہ ہے.قرآن کریم کے بعد آپ کی پاکیزہ سنت ہدایت کا دوسرا اہم ذریعہ ہے.پھر حضور ا نے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَي ـ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحي (النجم:4، 5) کے قرآنی فرمان کے تحت روز مرہ زندگی کے بہت سے معاملات میں اور بہت سے دیگر امور کے بارہ میں اپنی زبانِ مبارک سے رہنما اور فیصلہ کن ارشادات بھی فرمائے ، جو احادیث رسول الل علم کے نام سے موسوم ہوئے.الغرض یہ تین چیزیں ہیں جو اُمت محمدیہ کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہیں.ان میں سب سے اول قرآن مجید ہے جو کتاب اللہ ہونے کی وجہ سے مقدم اور امام ہے.پھر سنت ہے یعنی آنحضرت ا کے وہ اعمال جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھائے.دوسرے الفاظ میں آپ کی وہ فعلی روش جو اپنے اندر تو اتر رکھتی i

Page 4

ہے اور ابتد ا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ رہے گی.اور تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے جو قرآن کی خادم اور سنت کی خادم ہے.ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک اُمت ہدایت کے ان تین ذرائع میں بیان تعلیمات پر قائم رہے گی وہ ہدایت پر قائم رہے گی.لیکن جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب لوگ قرآن کریم کو مہجور کی طرح چھوڑ دیں گے.وہ قرآن پڑھیں گے تو سہی لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے.اسی طرح مسلمان حضور الم کی پاکیزہ سنت کو ترک کر کے مختلف قسم کی بدعات میں پڑ جائیں گے.چنانچہ ہم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا اور ”إِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَي ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً“ (سنن ابن ماجه - کتاب الفتن) کی پیشگوئی بھی حرف بہ حرف پوری ہوئی.” جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِيْن“(الحجر: 92) کے انذار کے باوجو د مسلمانوں نے قرآنی آیات کی ایسی تشریحات و تفاسیر کیں جو قرآنی محکمات کے متصادم و مخالف تھیں.انہوں نے سنت نبوی کو ترک کر کے بدعات کو اپنا لیا.بعض نے حدیث کو قرآن و سنت پر قاضی بنالیا.بعض نے اپنے پاس سے باتیں گھڑ لیں اور انہیں رسول الله لم کی طرف منسوب کر دیا.ہر ایک نے اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے اس پر اصرار کیا اور اس طرح اُمت مختلف فرقوں میں بٹتی چلی گئی.اُمت کے اس بگاڑ اور تفرقہ کے اپنی انتہاء کو پہنچ جانے پر اور زمانہ کے بزبان حال چلا چلا کر ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) کا منظر پیش کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر اس اُمتِ مرحومہ پر رحم کرتے ہوئے اور اپنے محبوب بندہ، سید الرسل، خاتم النبيين الم کو دی جانے والی خوشخبری وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة:4) کے مطابق دورِ آخرین کے لئے آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو بروزی، امتی اور ظلی نبی کے طور پر مبعوث فرمایا اور آپ کو اس اُمت کی اصلاح کے لئے بہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ حکم و عدل کے منصب پر بھی فائز فرمایا تاکہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر قرآن کریم، سنت رسول اللم اور احادیث نبویہ للی یتیم کی روشنی میں کامل انصاف کے ساتھ مسلمانوں کے باہمی ii

Page 5

اختلافات کا فیصلہ فرمائیں.(صحيح بخاري كِتَابٍ أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاء ـ سنن ابن ماجه کتاب الفتن) آپ علیہ السلام کی بعثت سے قبل اور بعد بہت سے ملکوں، حکومتوں اور لوگوں نے اُمت کے اس تفرقہ کو دُور کر کے ایک ہاتھ پر جمع کرنے کی کوشش کی.جس کے لئے انہوں نے مختلف خود ساختہ خلافتوں اور تحریکات کے نام پر کئی نظام قائم کئے.اس کے لئے انہوں نے بین الا قوامی کانفرنسوں کے نام پر بھی کئی بیٹھکیں کیں.لیکن امت محمدیہ کی وحدت کا حل اللہ تعالیٰ نے چونکہ اپنے اس فرستادہ کے لئے مقرر کر چھوڑا تھا جسے اس نے مسیح محمدی کے طور پر بھجوانا تھا اور جسے رسول اللہ ﷺ نے حکم اور عدل قرار دیا تھا، اس لئے ان کی یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں.اور اللہ تعالیٰ نے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر اُمت واحدہ کی بنیاد ڈالی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عہد مبارک میں جہاں بہت سی ذمہ داریوں کو بھر پور طور پر ادا کرنے کی توفیق پائی وہاں آپ نے لوگوں کے روز مرہ عام و دینی بنیادی مسائل کے جوابات بھی ارشاد فرمائے.لوگ آپ کے پاس خود حاضر ہو کر یا خطوط کے ذریعہ اپنے مسائل بیان کرتے اور آپ ان کے جوابات عطا فرماتے.آپ کے یہ جوابات قرآن کریم، سنت رسول ام اور احادیث نبویہ ام کی روشنی میں ہوتے، جو آپ کے ملفوظات اور مکتوبات کے مجموعوں کی صورت میں ایک بیش قیمت خزانہ ہمارے پاس موجود ہے.آپ کے وصال کے بعد آپ ہی کی بیان فرمودہ پیشگوئیوں کے مطابق خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی صورت میں قدرت ثانیہ کا ظہور ہوا جس کی برکت سے احباب جماعت اپنے روز مرہ مسائل کے بارہ میں رہنمائی کے لئے زبانی اور تحریری ، اپنی ملاقاتوں اور اپنے خطوط کے ذریعہ خلفاء کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اور خلفائے احمدیت اپنے اپنے دور میں قرآن کریم، سنت رسول الله، احادیث نبویہ ﷺ اور اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں لوگوں کے مسائل کے حل کے سلسلہ میں انہیں ہدایات و رہنمائی سے نوازتے رہے ہیں.آج رُوئے زمین پر جماعت احمد یہ وہ واحد خوش نصیب جماعت ہے جو اس مادہ پرست iii

Page 6

دنیا میں خلافتِ مسیح موعود کے ذریعہ آسمانی فیوض و برکات سے بہرہ ور ہو رہی ہے.ہمارے موجودہ امام امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں بھی سابقہ ادوار خلافت کی طرح کثرت سے سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں.ان سوال کرنے والوں میں مرد، عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے ، احمدی، غیر احمدی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عام و خاص لوگ شامل ہیں.اسی طرح مختلف جماعتی ادارہ جات اور جماعتوں اور ذیلی تنظیموں کے ذمہ داران ہیں جو اپنی انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں میں ، اپنے خطوط میں ، نظام جماعت کے تحت ہونے والی مختلف جماعتی اور ذیلی تنظیموں کی Virtual ملاقاتوں میں اپنے روز مرہ تعلق رکھنے والے بنیادی مسائل کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں سوال پیش کر کے رہنمائی حاصل کرتے ہیں.ایسے بے شمار سوالات میں سے معدودے چند سوالات کے جواب منتخب کر کے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کی اجازت اور منظوری سے الفضل انٹر نیشنل میں ”بنیادی مسائل کے جوابات “ کے عنوان سے اردو میں اور ہفت روزہ ”الحکم لندن“ میں "Answers to Everyday Issues“ کے عنوان سے انگریزی میں شائع کئے جاتے ہیں.کچھ عرصہ سے اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ ان سوالات اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے جانے والے جوابات کو کتابی صورت میں مرتب کر کے بھی احباب جماعت کی خدمت میں پیش کیا جائے تاکہ لوگ ایک ہی جگہ اس روحانی مائدہ سے آسانی سے مستفیض ہو سکیں.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے الفضل میں شائع ہونے والی پہلی کم و بیش پچپن اقساط کا ایک انتخاب اس کتاب میں شائع کیا جا رہا ہے.احباب جماعت کی سہولت کے لئے اس میں ایک تفصیلی انڈیکس بھی شامل کیا گیا ہے.کتاب کے آغاز میں شامل تفصیلی انڈیکس اور ذیلی عناوین کی تیاری میں ریسرچ سیل نے بھر پور تعاون کیا ہے.اس کتاب کی ترتیب اور سیٹنگ وغیرہ ایڈیشنل وکالت اشاعت لندن کے ایک نوجوان مربی سلسلہ اور خاکسار کے شاگرد عزیزم عدیل طیب صاحب نے بڑی محنت iv

Page 7

کے ساتھ کی ہے.حضور انور ایدہ اللہ سے اس کتاب کی اشاعت کی منظوری سے لے کر اس کی طباعت تک کے تمام مراحل استاذی المکرم محترم نصیر احمد قمر صاحب ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن نے ذاتی دلچسپی سے پایہ تکمیل تک پہنچائے ہیں.فجزاهم الله تعالي احسن الجزاء امید ہے کہ احباب جماعت علم و حکمت اور معرفت سے پر اس خزانے سے نہ صرف خود بھر پور استفادہ کریں گے بلکہ اپنوں اور غیروں تک بھی اس نعمت کو پہنچائیں گے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس سعی کو قبول فرمائے اور ان سب کو جنہوں نے کسی بھی رنگ میں اس سلسلہ میں خدمت کی توفیق پائی ہے اپنی جناب سے بہترین جزا عطا فرمائے.آمین خاکسار ظہیر احمد خان مربی سلسلہ ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن 04/12/2023 V

Page 8

Page 9

انڈیکس مضامین

Page 10

Page 11

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر 1 آخری زمانه الف آنے والے مہدی آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے، کیا ہم واقعی آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں؟ آسمانی بروج، شمس و نجوم کی تاثیرات 2 آسمانی بروج کے بارہ میں رہنمائی.اور کیا یہ کہنا درست ہے کہ میرا 3 فلاں برج ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شمس و نجوم کی تاثیرات کا ذکر فرمایا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ آن لائن سسٹم کے تحت نماز 1 6 6 11 کیا کسی آن لائن سسٹم کے تحت نماز تراویح ادا کی جاسکتی ہے ؟ آنحضرت ﷺ کا حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھنا 5 کیا آنحضرت ام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں 6 دیکھا تھا؟ آئی برو پلنگ (Eyebrow plucking)، باڈی ویکسنگ(Body waxing) Eyebrow Pluck کرنے اور Body Wax اور Body Wax کرنے کے بارہ میں رہنمائی.12 14 [1]

Page 12

نمبر شمار 7 9 10 11 سوال / رہنمائی صفحہ نمبر اباضیہ فرقہ کی حدیث کی کتاب مسند الربیع بن حبیب کیا اباضیہ فرقہ کی حدیث کی کتاب مسند الربیع بن حبیب میں مذکور احادیث کو جماعت احمدیہ صحیح سمجھتی اور ان پر عمل کرتی ہے؟ احمدیت احمدیت کے غلبہ کی صورت میں دنیا کی سیاسی فضا کیسی ہو گی ؟ ایک غیر از جماعت خاتون کے جماعت کے بارہ میں بعض سوالات کے جواب.اخباروں میں مضمون نویسی ممبرات لجنہ کے اخباروں میں لکھنے کے لئے کون سے اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟ ہالینڈ میں ابھی بہت کم ممبرات لجنہ ایسی ہیں جو Independently اچھا لکھ سکتی ہیں، اس کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ اذان 12 بچوں کے اذان دینے کے بارہ میں رہنمائی.اسلام 13 اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا فلسفہ.اعتکاف 14 کیا اعتکاف گھر پر کیا جا سکتا ہے ؟ 15 کیا اعتکاف تین دن کے لئے ہو سکتا ہے؟ 18 19 20 20 30 31 32 33 34 34 [2]

Page 13

صفحہ نمبر 36 36 38 39 39 1=11 41 نمبر شمار سوال / رہنمائی 16 روزہ کے بغیر رمضان کا اعتکاف بدعت تو شمار نہیں ہوتا ؟ کیا روزہ کے بغیر اعتکاف کی کوئی سنت یا اصحاب رسول اللہ تم سے کوئی 41 17 18 مثال ملتی ہے؟ اعضاء یا خون ڈونیٹ (Donate) کرنا کیا اسلام کی تعلیم کے مطابق ہم خون اور مرنے کے بعد جسمانی اعضاء Donate کر سکتے ہیں؟ اعلانِ نکاح میں ایجاب و قبول 19 کیا لڑ کی اپنے نکاح کے موقع پر خود ایجاب و قبول کر سکتی ہے؟ 20 کیا اعلان نکاح کے موقع پر حق مہر کا ذکر کرناضروری ہے ؟ اقامت آجکل کے Covid کی وبا کے مجبوری کے حالات میں جبکہ گھر والے 21 افراد گھر پر نماز باجماعت ادا کریں تو کیا عورت نماز باجماعت کے لئے اقامت کہہ سکتی ہے؟ 22 کیا عورت امام کے بھولنے پر لقمہ دے سکتی ہے؟ اکیلی عورت کا حج پر جانا 23 کیا اکیلی عورت حج پر جاسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ 24 ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا؟ 25 ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کی بیماری کا ذکر کر کے لکھا کہ جب سب کچھ خدا 42 43 44 [3]

Page 14

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو وہ میرے بیٹے کو ٹھیک کیوں نہیں کر دیتا.اگر کہا جائے کہ انسان کو اس کے اعمال کی سزا ملتی ہے.تو میرا بیٹا تو پیدا ہی ایسا ہوا تھا، اس نے کون سا گناہ کیا ہے ؟ یہ سب میری سمجھ سے باہر ہے.مجھے یہ سب سمجھائیں.26 اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے قرآن مجید میں مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے ؟ خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ کائنات کا 27 بنانے والا کوئی تو ہو گا کیونکہ کوئی چیز خود سے نہیں بن سکتی.پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو کس نے بنایا؟ 28 خدا تعالیٰ کون ہے اور کیا ہے؟ الہامات حضرت مسیح موعود 29 بنگلہ دیش کے مرتبیان کی Virtual ملاقات مؤرخہ 08 نومبر 2020ء میں ایک مرتبی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک الہام ہوا تھا کہ ”پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو.اس بارہ میں حضور کے ارشادات.الہی کتب میں اخفاء اور متشابہات 47 51 53 30 اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتابوں میں Complicated باتیں کیوں بیان کی ہیں اور سب کچھ آسان اور واضح انداز میں کیوں نہیں بتا دیا.56 حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بعد میں اختلافات ہونے ہیں؟ [4]

Page 15

نمبر شمار سوال رہنمائی صفحہ نمبر امانت دفن کئے گئے شخص کی دوبارہ نماز جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے امانتا دفن کئے گئے شخص کی میت کو جب بہشتی مقبرہ منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی دوبارہ نماز جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے، جبکہ اسے فوت ہوئے کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہوتا ہے؟ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنا 49 57 جب کوئی مسلمان فوت ہوتا ہے تو ہم إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھتے 32 ہیں.اگر کوئی غیر مسلم فوت ہو تو کیا ہم اس کے لئے بھی یہ پڑھ سکتے 59 ہیں یا نہیں؟ انسانی جان بچانا 33 حال ہی میں امریکہ کے ڈاکٹروں نے انسانی جان بچانے کے لئے سور کے دل کو بیمار انسان کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا ہے.کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ انشورنس 34 کاروباروں میں مختلف قسم کے مفادات کے حصول نیز حادثاتی نقصانات سے بچنے کے لئے انشورنس کروانے کے بارہ میں اسلامی حکم کیا ہے؟ [5] 61 63

Page 16

صفحہ نمبر 66 67 69 71 72 نمبر شمار انگوٹھی سوال / رہنمائی 35 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین انگوٹھیاں بنوائی تھیں، دو انگوٹھیاں ہم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک میں دیکھی ہیں، تیسری انگوٹھی کس کے پاس ہے؟ اولاد 36 جب ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے تو خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی ہم پر کیوں لازم ہے؟ ایک مسجد میں دو جمعے ہو سکتے ہیں 37 کیا ایک مسجد میں دو جمعے ہو سکتے ہیں؟ فقہ احمدیہ میں اس کی نفی طرب کی گئی ہے؟ بچوں کو Adopt کرنا 38 بچوں کو Adopt کرنے نیز ان بچوں اور ان کے دیگر عزیز و اقارب کے حقوق و فرائض کے بارہ میں رہنمائی.بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا حصّہ 39 جب بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا حصہ ہے تو ہم نماز میں اَلْحَمْدُ لِلَّه سے قراءت کیوں شروع کرتے ہیں، بِسْمِ اللہ سے کیوں نہیں شروع کرتے؟ [6]

Page 17

سوال / رہنمائی صفحہ نمبر 75 76 79 81 نمبر شمار بنگلہ دیش 40 بنگلہ دیش کی لجنہ اور ناصرات کے لئے کوئی پیغام.بینکنگ 41 کیا بینک کی مینجمنٹ میں بطور انجنیئر یا بینک کی ملکیتی کسی انجنیئرنگ کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ کیونکہ اس سے سود اور شراب کے 83 86 96 87 88 87 87 52 کام پر تعاون ہو تا ہے؟ هوپ پرده 42 بچیوں کو سکارف کس عمر میں لینا چاہیئے ؟ 43 چا اور ماموں سے پردہ کرنے کے بارہ میں رہنمائی.44 کیا ایک احمدی مسلمان عورت کے لئے اپنے پاؤں کو پردہ سے باہر رکھنا جائز ہے؟ 45 پردہ کے متعلق رہنمائی.46 اسلام میں عورت کو اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم ہے لیکن ہم سکارف وغیرہ لے کر سر پر پردہ کیوں کرتے ہیں؟ 47 لڑکیاں سکول میں لڑکوں سے دوستی کیوں نہیں کر سکتیں ؟ کیا میں Halloween میں پری بن سکتی ہوں؟ [7]

Page 18

صفحہ نمبر 91 93 95 55 86 98 نمبر شمار سوال / رہنمائی پسندیدہ اور نا پسندیدہ امر 49 اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا امر سب سے پسندیدہ اور کون سا امر سب سے ناپسندیدہ ہے ؟ پلاسٹک وغیرہ کی ٹوپیاں مسجد میں رکھنا 50 کیا پلاسٹک وغیرہ کی ٹوپیاں مساجد میں رکھنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا بدعت اور نا پسندیدہ عمل ہے یا نہیں؟ تبر كات طرت کے 51 ایک نوجوان نے احمدیت کے بارہ میں نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لباس اور آپ کے زیر استعمال بعض اشیاء کے بارہ میں متفرق استفسارات حضور انور کی خدمت اقدس میں تحریر کئے.حضور انور کے اس بابت ارشادات.تبلیغ 52 ہم آن لائن ایک گردی گروپ میں تبلیغ کر رہے ہیں جس میں بعض ملاں بھی شامل ہیں جو پاکستان سے پڑھے ہوئے ہیں.اگر اس گروپ کے لوگ ہماری بات سننے میں دیانتدار نہ ہوں تو کیا ہم اس گروپ میں تبلیغ کرتے رہیں یا نہیں؟ [8]

Page 19

نمبر شمار سوال / رہنمائی Pandemic کے حالات میں ہم پہلے کی طرح تبلیغ نہیں کر پا رہی ہیں.اب ان حالات میں ہم کس طرح اپنے کام کو جاری رکھ سکتی ہیں ؟ تثلیث 54 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ”حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کے بعد پولوس نے تثلیث کا آغاز کیا.“ جبکہ احمدیوں کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی.اور پولوس اس سے پہلے فوت ہو گیا تھا.اس بارہ میں رہنمائی.تراویح 55 جلسہ سالانہ یو کے کے آخری دن کے خطاب میں نماز تراویح میں پورا سپارہ پڑھنے کی بجائے چھوٹی سورتیں پڑھنے کے بارہ میں وضاحت.تربیت 56 تربیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے حضور انور کی ہدایات.57 چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے کس طرح اور کیا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے؟ 58 لجنہ اور ناصرات کی تربیت کے بارہ میں ہدایات.59 ناصرات کی تربیت کے بارہ میں حضور انور کی ہدایات.تعبیر رویا صفحہ نمبر 99 100 103 105 107 109 110 60 ایک غیر از جماعت خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنی اور اپنے بھائی کی بعض خوا ہیں لکھ کر ان 112 کے بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی.[9]

Page 20

نمبر شمار تعدد ازدواج سوال / رہنمائی صفحہ نمبر 61 اکثر مغربی ممالک میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے قانونی اعتبار سے دوسری شادی منع ہے.لیکن اسلام نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت 113 دی ہے.اس بارہ میں رہنمائی.تعلق باللہ 62 ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ کیسے تعلق پیدا کر سکتے ہیں؟ تفسیر 115 63 اگر کوئی غیر احمدی مسلمان مجھ سے کسی غیر از جماعت عالم کی لکھی ہوئی تفسیر کے بارہ میں پوچھے تو مجھے اسے کون سی تفسیر پڑھنے کے 116 لئے بتانی چاہیے؟ 64 سورۃ النساء کی آیت 16 اور 17 کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 117 دو مختلف تفاسیر بیان فرمائی ہیں.حضور انور کی اس بارہ میں رہنمائی.65 ایک دوست نے سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کے لفظ ”اُذُن“ کے بارہ میں تحریر کر کے کہ اس سے مراد ریکارڈنگ مشین ہے استفسار کیا کیونکہ 119 کان تو کسی بات کو محفوظ نہیں رکھتے بلکہ دل و دماغ محفوظ رکھتے ہیں؟ 66 قرآن کریم کے نصف میں جو وَلْيَتَلَطَّف کا لفظ آیا ہے، اس لفظ کے قرآن کریم کے درمیان میں آنے میں کیا کچھ خاص حکمت ہے ؟ 121 [10]

Page 21

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر 67 ایک خاتون نے سورۃ النور کی ایک آیت کی خود تشریح کر کے اسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے 122 اس بارہ میں رہنمائی چاہی نیز پوچھا کہ کیا ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ 68 قرآن کریم کی آیت وَ الْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ میں کون سی عورتیں مراد ہیں اور کیا ان کے خاوندوں کے 124 ہوتے ہوئے بھی ان سے شادی ہو سکتی ہے، یا یہ آیت مخصوص زمانہ کے لئے تھی اور کیا اب یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے؟ 69 جرمنی سے ایک دوست نے قرآن کریم کی آیات وَ هُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَ جَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَ حِجْرًا مَّحْجُورًا.وَ هُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَ صِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا (الفرقان: 55,54) میں بیان نمکین اور میٹھے پانی کے دو سمندروں، نیز انسانی تخلیق کے پانی سے ہونے سے مراد انسانی جسم کے Intracellular اور Extracellular سسٹم کو قرار دے کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اس بارہ میں رہنمائی چاہی.نیز سوال کرنے والے نے یہ بھی لکھا کہ یہ Cells بھی میٹھے اور نمکین پانی پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان ایک روک حائل ہوتی ہے.نیز ہر انسانی جسم اسی قسم کے Cells پر مشتمل ہو تا ہے.70 کینیڈا سے ایک دوست نے قرآنی آیت وَ إِذَا تَوَلي سَعي فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ - یعنی جب وہ صاحب اختیار ہو جائے تو زمین میں دوڑا 127 129 [11]

Page 22

صفحہ نمبر 132 134 135 139 سوال رہنمائی نمبر شمار پھرتا ہے تاکہ اس میں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا.(البقرہ: 206) میں حرث و نسل کی تباہی سے مراد DNA اور RNA میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے نتیجہ میں انسانوں میں ہونے والی جسمانی، ذہنی اور ایمانی تبدیلی کی کوشش کے معانی اخذ کر کے اس بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی چاہی.تقدیر 71 اللہ تعالیٰ جب ہماری تقدیر لکھ دیتا ہے تو پھر ہم دعا کیوں کرتے ہیں، ہمیں دعا کی کیا ضرورت ہوتی ہے ؟ تلاوت قرآن کریم 72 قرآن کریم کی تلاوت کے بعد ”صَدَقَ اللهُ الْعَظِیم“ کے الفاظ پڑھنے کے بارہ میں رہنمائی.تناسخ 73 تناسخ کے عقیدہ کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا موقف کیا ہے؟ ܀ 74 سردیوں میں تو انسان آسانی سے تہجد کے لئے اٹھ سکتا ہے لیکن مستقل طور پر اور ان (مغربی ممالک میں گرمیوں میں اس کی عادت [12] ڈالنے کا بہترین ذریعہ کیا ہے؟

Page 23

نمبر شمار سوال / رہنمائی تیسری جنگ عظیم صفحہ نمبر 75 حضور انور نے خطبہ جمعہ میں تیسری جنگ عظیم کا ذکر فرمایا تھا.اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو کیا جماعت احمدیہ کے افراد بھی اس کی زد میں 140 آسکتے ہیں ؟ 76 ایک خاتون نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کی روشنی میں تیسری جنگ عظیم کے متعلق بیان تنبیہ کے حوالہ سے اس جنگ کے بارہ میں مزید شواہد دریافت کئے.ٹیٹو ( Tattoo) بنوانا 142 77 جسم کے جس حصہ پر ٹیٹو بنوائے گئے ہوں، اس حصہ پر پانی جلد تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ٹیٹو بنوانے والے شخص کے وضو اور غسل 146 جنابت کی تکمیل کے بارہ میں رہنمائی.کیا عورتوں کی بھنوؤں اور جسم پر ٹیٹو بنانے کا کاروبار کرنا جائز ہے؟ 148 152 88 78 فرج ) جسم کے مختلف حصوں پر Piercings کروانا 79 لڑکوں اور لڑکیوں کا اپنے جسموں کے مختلف حصوں پر Piercings کروانے کے بارہ میں سوال پر جواب.[13]

Page 24

نمبر شمار سوال / رہنمائی ہ جسمانی وضع قطع میں مصنوعی تبدیلی صفحہ نمبر 80 عورتوں کے اپنے چہرہ پر پلنگ (Plucking) اور تھریڈنگ (Threading) وغیرہ کرنے نیز جسم پر تصاویر تصاویر 153 گندھوانے کے بارہ میں سر ہنمائی.جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والے کی وفات پر تعزیت کے لئے جانا 81 جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والے کی وفات پر تعزیت کے لئے جانے کے بارہ میں رہنمائی.جماعتی نظام 155 82 بعض دوسری قومیں جو جماعت میں شامل ہو رہی ہیں، وہ جماعت کے علم الکلام سے تو بہت متاثر ہوتی ہیں لیکن جماعتی نظام اور خصوصاً مالی قربانی میں وہ پوری طرح شامل نہیں ہو پاتیں اور مقامی جماعت کے 156 ساتھ بھی ان کے مستحکم رابطے نہیں ہو پاتے، اس بارہ میں رہنمائی.جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی 83 جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے وقت کے بارہ میں مزید وضاحت.159 [14]

Page 25

نمبر شمار سوال / رہنمائی جن صفحہ نمبر ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ ایک واقعہ کہ آنحضور لم نے حضرت قتادہ بن نعمان کو ایک چھڑی عطا فرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے اپنے گھر میں موجود جن کو مار کر بھگا دینا“ کے بارہ میں مزید وضاحت.160 85 طارق میگزین “ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں جنوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انٹر ویو دینے والے نے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا بظاہر یہ موقف بیان کیا ہے کہ جنات کا وجود موجود ہے، 162 جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے موقف کے برعکس ہے.اس پر مخالفین اعتراض کرتے ہیں.اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے؟ 86 سورۃ الرحمٰن کی آیت لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ میں جن سے کیا مراد ہے؟ 87 غیر از جماعت لوگ جنوں بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں، انہیں جنوں کی حقیقت کیسے سمجھائی جاسکتی ہے؟ 88 کیا نظروں سے اوجھل ہر چیز جن ہوتی ہے اور کیا اہلیس اور فرشتے بھی جن ہو سکتے ہیں ؟ کیا احمدی عفریت کے وجود پر یقین رکھتے ہیں؟ 177 179 181 89 کیا یہ بات درست ہے کہ جنت میں اعلیٰ مقام والے لوگ اپنے سے کم مقام والوں کو تو مل سکیں گے ، لیکن کم درجہ والے اعلیٰ درجہ والوں 185 سے نہیں مل سکیں گے ؟ [15]

Page 26

نمبر شمار سوال / رہنمائی 90 ایک دہریہ کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر انسانوں کو معاف کر کے جنت میں لے جانا ہے؟ جنت و دوزخ صفحہ نمبر 185 91 اگر جنت اور دوزخ کا ظاہری تصور درست نہیں ہے تو پھر جنت اور دوزخ کیا ہے؟ اور جب قیامت آئے گی تو جنت اور دوزخ کیسی 190 لگیں گی؟ 92 کیا اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں، اور اگر وہ جانتا ہے تو پھر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ جنت و جہنم کا فیصلہ کیا کسی کی موت کا انجام اس کے مذہبی عقائد پر منحصر ہے ؟ جنگ جمل 94 ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ جنگ جمل کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بے رحمی سے ہاتھ اٹھایا تھا، جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ کا حمل ضائع ہو گیا.ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہے؟ 192 195 197 95 جنگ جمل میں شہید ہونے والوں کے مقام کے بارہ میں ، عورت کی آدھی گواہی تصور کر کے حضرت عائشہؓ سے مروی احادیث کے مقام 199 کے بارہ میں نیز مخنث کی وراثت اور گواہی کے بارہ میں رہنمائی.[16]

Page 27

نمبر شمار جوا سوال / رہنمائی 96 موبائل فونز کی مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر پیسہ جیتنے کے کھیل میں شامل ہونے نیز چھوٹے بچوں کی سالگرہ منانے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے متعلق سوالات پر مبنی محترم ناظم صاحب دارالقضاء قادیان کے خط کے جواب میں رہنمائی.جھوٹ صفحہ نمبر 201 97 ان احادیث کے بارہ میں رہنمائی جن میں جنگ کے دوران، عام لوگوں کے جھگڑوں اور میاں بیوی کے مابین صلح کرانے کے لئے 202 جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے.98 آپ کے والدین کی کون سی نصیحت آپ کے لئے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے؟ چالیس کا عدد 99 کیا مذہب کی دنیا میں چالیس کے عدد کی کوئی خاص اہمیت ہے؟ چاند گرہن کے اثرات 205 206 100 ایک خاتون نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر میں سے حاملہ عورتوں پر چاند گرہن کے اثرات کے بارہ میں 208 ایک اقتباس بھجوا کر دریافت کیا کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس [17]

Page 28

نمبر شمار سوال / رہنمائی وقت حاملہ عورت نہ سوئے اور نہ ہی کوئی چھری چاقو وغیرہ استعمال کرے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ چچا کا بیٹا رض صفحہ نمبر 101 حضور لم نے حضرت فاطمہ سے حضرت علی کے متعلق دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کا بیٹا کہاں ہے.اسی طرح حضور ا ہم نے حضرت عباس اور حضرت ابو طالب کے لئے بھی چچا کا لفظ استعمال 212 فرمایا ہے اور حضرت علی نے حضرت خدیجہ کے لئے بچی کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اس لفظ کی وضاحت.چور اور زانی کی سزا 102 ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کہ ”قرآن کریم میں چور کے ہاتھ کاٹنے اور زانی کو رجم کرنے کا واضح حکم آیا ہے“ کے حوالہ سے تحریر کیا کہ قرآن کریم میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا تو ذکر موجود ہے لیکن زانی کو رجم کرنے کا کسی آیت میں ذکر نہیں ؟ اس بارہ میں رہنمائی.214 طرح) حُبُّ الْوَطْنِ 103 حدیث رسول ﷺ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کے بارہ میں بعض غیر احمدی علماء بحث کرتے ہیں کہ یہ حضور الم کا قول نہیں اور اس کا حوالہ 216 مانگتے ہیں.ہمیں ان غیر احمدی علماء کو اس کا کیا جواب دینا چاہیئے ؟ [18]

Page 29

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر حج اور عمرہ کے موقع پر صفا مروہ کے درمیان سعی 104 صفا و مروہ کی سعی کے دوران جہاں ہم مرد دوڑتے ہیں، عورتیں کیوں نہیں دوڑتیں حالانکہ حضرت ہاجرہ اس جگہ دوڑی تھیں.اس کی 219 کیا وجہ ہے؟ و حج کے موقع پر عورتوں اور مردوں کا اکٹھے نماز پڑھنا 105 حج کے موقعہ پر عورتوں اور مردوں کا اکٹھے نماز پڑھنا.حدیث 221 106 حضرت ثوبان سے مروی ایک حدیث کہ "رسول اللہ سلم نے فرمایا تمہارے ایک خزانہ کی خاطر تین شخص قتال کریں گے اور مارے جائیں گے.تینوں خلیفوں (حکمران) کے بیٹے ہوں گے لیکن وہ خزانہ ان میں سے کسی کو بھی نہ ملے گا.پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے.وہ تمہیں ایسا قتل کریں گے کہ اس سے 223 قبل کسی نے ایسا قتل نہ کیا ہو گا.اس کے بعد آپ نے کچھ اور باتیں بھی ذکر فرمائیں جو مجھے یاد نہیں، پھر فرمایا جب تم ان (مهدی) کو دیکھو تو ان کی بیعت کرو اگرچہ تمہیں برف پر گھٹنوں کے بل گھسٹ کر جانا پڑے.کیونکہ وہ خلیفتہ اللہ المہدی ہیں.“کی تشریح.107 سنا ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ پہلا سپاہی جس نے قسطنطنیہ میں قدم رکھا جنّت میں جائے گا، کیا یہ درست ہے ؟ 227 [19]

Page 30

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر 108 حدیث نبوی ال " لا عَدْوَي وَلَا طِيَرَةَ، إِنَّمَا السُّؤْمُ فِي ثَلَاثٍ فِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَ الدَّارِ ، یعنی گھوڑے، عورت اور گھر میں 228 نحوست کے ہونے کی تشریح.حدیث ثقلین 109 حدیث ثقلین کی ثقاہت کے بارہ استفسار پر بصیرت افروز جواب.حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 110 حضور جب طالبعلم تھے اور آپ کے سامنے کوئی مشکل آجاتی تھی تو اس وقت آپ کون سی دعائیں کیا کرتے تھے ؟ 111 حضور کو اسیر راہِ مولیٰ ہونے کا موقعہ ملا ہے، اس اسیری کے متعلق حضور کچھ فرمائیں ؟ 233 235 236 112 آپ بے حد مصروف رہتے ہیں کیا آپ کی ہفتہ وار چھٹی کا کوئی انتظام ہے اور آپ اپنے دوستوں اور اہل و عیال کے لئے کس طرح وقت 237 نکالتے ہیں؟ 113 حضور جب خلافت سے پہلے افریقہ تشریف لے گئے تب کے حالات اب جیسے نہیں تھے اُس وقت آپ کو کام کرتے ہوئے کافی مشکلات کا 238 سامنا کرنا پڑا ہو گا.اس وقت کا کوئی تجربہ ہمیں بتائیں؟ 114 حضور اتنے سارے کام اکٹھے کس طرح کر لیتے ہیں؟ حضرت عائشہ کی شادی کے وقت عمر 115 آنحضور الم کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کے بارہ میں رہنمائی.239 240 [20]

Page 31

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر حضرت عیسی علیہ السلام 116 حضرت عیسی علیہ السلام پر بننے والی ڈاکومینٹری Bloodline Of Christ کا ذکر کر کے اس میں بیان کہانی کی حقیقت کے متعلق سوال.حضرت موسیٰ علیہ السلام 245 117 قرآن کریم اور بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی آنحضور الم کی طرح حجاز کے علاقہ مکہ اور مدینہ میں ہی بعثت 246 ہوئی تھی.اس بارہ میں حضور کا کیا موقف ہے؟ حضرت ہارون علیہ السلام 118 کیا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام حقیقی بھائی تھے.نیز یہ کہ جب فرعون بنی اسرائیل کے سب لڑکوں کو قتل کروا دیتا تھا تو 248 حضرت ہارون علیہ السلام کیسے زندہ بچ گئے ؟ حضرت بیٹی اور حضرت زکریا علیہما السلام کا قتل 119 کیا حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کو قتل کیا گیا تھا یا قتل سے مراد ان کے پیغام کا قتل ہے؟ حضور ام کو زہر دینے والی عورت 120 حضور الم کو زہر دینے والی عورت کے بارہ میں حضور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا ہے کہ حضور الم نے اسے معاف کر دیا تھا جبکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے اسے قتل کروا دیا تھا، اس بارہ میں رہنمائی.250 251 [21]

Page 32

نمبر شمار حلال و حرام سوال / رہنمائی 121 اسلام میں مختلف جانوروں کا گوشت کس بناء پر حلال اور حرام قرار دیا جاتا ہے؟ خور 122 قرآن کریم میں خوروں کا جو ذکر ہے، ان خوروں سے اصل میں کیا مراد ہے؟ ه حیض ( انام مخصوصہ) صفحہ نمبر 252 256 123 عورتوں کے مخصوص ایام میں قرآن کریم کے تحریری نسخہ کو پکڑنے اور پڑھنے نیز کمپیوٹر یا آئی پیڈ وغیرہ سے تلاوت قرآن کرنے کے 260 بارہ میں رہنمائی.124 عورتوں کے مخصوص ایام میں ان کے مسجد میں آنے کے بارہ میں مختلف احادیث نیز موجودہ دور میں خواتین کو ان ایام میں اپنی صفائی وغیرہ کے لئے میسر جدید ساز و سامان کے ہوتے ہوئے مساجد میں ہونے والی جماعتی میٹنگز اور اجلاسات وغیرہ میں ایسی عورتوں کی شمولیت اور ایسی غیر مسلم خواتین کو مسجد کا وزٹ وغیرہ کروانے کے بارہ میں رہنمائی.125 عورتوں کے ایام حیض میں مسجد میں آکر بیٹھنے نیز ان ایام میں تلاوت قرآن کریم کرنے کے بارہ میں رہنمائی.126 عورتوں کے مخصوص ایام میں موبائل فون پر قرآن کریم پڑھنے کے بارہ میں رہنمائی.نیز قرآن کریم میں حضرت مریم کے 261 264 266 [22]

Page 33

نمبر شمار سوال رہنمائی لئے اضطفاء“ کا لفظ استعمال کیوں کیا گیا ہے جبکہ وہ عورت تھیں اور نبی نہیں تھیں؟ 127 روزہ کے دوران اگر کسی خاتون کے ایام حیض شروع ہو جائیں تو اسے روزہ کھول لینا چاہیے یا اس روزہ کو مکمل کر لینا چاہیئے.نیز جب یہ ایام ختم ہوں تو سحری کے بعد پاک صاف ہو سکتے ہیں یا سحری سے پہلے پاک ہونا ضروری ہے؟ صفحہ نمبر 268 128 کیا ایک عورت اپنے مخصوص ایام میں کسی عورت کی میت کو غسل دے سکتی ہے؟ نیز یہ کہ جس شخص کو صدقہ دیا جائے کیا اسے بتانا 269 ضروری ہے کہ یہ صدقہ کی رقم ہے؟ حیوانات ، جانوروں کے مرنے کے بعد ان کی ارواح کا باقی رہنا 129 حیوانات کے مرنے کے بعد ان کی ارواح کے باقی رہنے کے بارہ 270 275 میں رہنمائی.طوخ ه خاتم النبیین 130 آنحضور ﷺ کے ارشاد کہ ”میں اُس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب حضرت آدم ابھی اپنی پیدائش کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھے“ کی ایک تشریح کے بارہ میں رہنمائی.[23]

Page 34

نمبر شمار خادم سوال / رہنمائی 131 ایک خادم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ایک خادم کو کون سے کام کم از کم روزانہ کرنے چاہئیں؟ خالق اور مخلوق صفحہ نمبر 279 132 اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے.اگر ہم اچھے کام کریں گے تو جنت کا وعدہ ہے اور اگر بُرے کام کریں گے تو جہنم میں جانا پڑے گا.اس 280 میں اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے؟ خطبات جمعہ 133 حضور اپنے خطبات جمعہ کی تیاری کس طرح کرتے ہیں؟ و یہ خطبہ جمعہ کے آخر پر امام کا نیچے بیٹھنا 134 خطبہ جمعہ کے آخر پر امام نیچے بیٹھتا ہے اور پھر اٹھ کر خطبہ ثانیہ پڑھتا ہے ، وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ خلیفہ وقت کے سلطان نصیر 135 ہم کس طرح حضور انور کے سلطان نصیر بن سکتے ہیں؟ خواتین کا جنازہ کے ساتھ قبرستان جانا 282 283 284 136 جنازہ کے ساتھ خواتین کے قبرستان جانے، تدفین کے وقت اُن کے مردوں کے پیچھے کھڑے ہونے یا گاڑیوں میں بیٹھے رہنے کے بارہ میں 286 استفسار پر رہنمائی.[24]

Page 35

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر دیبال هودكم 137 جلسہ جرمنی میں ایک تقریر میں دجال کو ایک شخص کی بجائے استعار کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن گزشتہ دنوں ایک ویڈیو میں صحیح مسلم کی ایک حدیث کا ذکر تھا جس میں دجال کو ایک مجسم انسان قرار دیا گیا ہے.کیا یہ حدیث Authentic ہے؟ دعا 287 138 محترم امیر صاحب بنگلہ دیش نے عرض کی کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے حضور بنگلہ دیش کے لئے کوئی ایسی 289 دعا کر دیں، جس سے ہماری کایا پلٹ جائے.139 قرآن و حدیث کو حفظ کرنے، درود شریف اور دیگر ذکر و اذکار، مختلف دعاؤں اور قرآنی سورتوں کو گن کر پڑھنے کی بابت بعض 290 استفسارات پر رہنمائی.140 اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے مانگنے میں کیا فرق ہے؟ دعائے قنوت 141 دعائے قنوت میں جو یہ فقرہ ہے کہ ”ہم چھوڑتے ہیں تیرے نافرمان کو تو کیا اس سے مراد نافرمان اولاد اور افراد جماعت بھی ہو سکتے ہیں؟ 292 294 [25]

Page 36

نمبر شمار سوال / رہنمائی دل صفحہ نمبر 142 ہم جب مذہبی اور روحانی لحاظ سے ”دل“ کی بات کرتے ہیں تو کیا اس سے مراد وہی عضو ہو تا ہے جو خون کی گردش کا کام کرتا ہے یا پھر اس 295 سے مراد روح اور دماغ ہوتا ہے ؟ دم کرنا 143 لاعلاج مریضوں پر پڑھ کر دم کرنے والی ایک دعا "يَا مَنْ اِسْمُهُ دَواءُ وَ ذِكْرُه شِفَاءُ“ ہے اس دعا کا حوالہ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ دہریہ 144 جو لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے ان کو سمجھانے کے لئے سب سے مضبوط دلیل کون سی ہے؟ دہشت گردی 145 لوگ اسلام اور Terrorism کو کیوں ملاتے ہیں؟ چہ دوسروں کو ٹریننگ دینا 299 302 304 146 ٹیم ممبر کے طور پر کام کرنے اور دوسروں کو ٹریننگ دینے کی اہمیت.306 دیوالی 147 دیوالی پر ہندوؤں کی طرف سے جو کھانے آتے ہیں ان کے متعلق استفسار پر رہنمائی.[26] 307

Page 37

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر رجم طوركم 148 کیا اس زمانہ میں بھی رجم کی سزا کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ رضاعت 308 149 ایک خاتون نے تحریر کیا کہ میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی تیس سال پہلے دودھ پلایا تھا.اب میرے بڑے بھائی کے 309 بیٹے کے ساتھ میری بیٹی کا رشتہ تجویز ہوا ہے.کیا یہ رشتہ ہو سکتا ہے؟ رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی فضلیت 150 رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں سے کس کی فضیلت زیادہ ہے؟ یہ رمضان میں گھروں کو سجانا اور رمضان کیلنڈر بنا کر عید تک دنوں کی گنتی کرنا 151 کرسمس کی طرز پر رمضان میں گھروں کو سجانے اور رمضان کیلنڈر بنا کر عید تک دنوں کی گنتی کرنے کے بارہ میں رہنمائی.روح 152 کیا نفس اور روح ایک ہی چیز ہے؟ 310 311 313 [27]

Page 38

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر 153 روح کی حقیقت کیا ہے اور جب جنت اور جہنم کائنات کے مختلف حصے ہیں تو کیا روح ان کے درمیان سفر کر سکتی ہے؟ یعنی ایک جگہ سے 316 دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟ روزه 154 ہم رمضان کے روزے کس عمر میں رکھنا شروع کریں؟ 318 155 مسافر کے لئے رمضان کے روزوں کی رخصت کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ 320 کے بعض ارشادات کی باہم تطبیق کی بابت رہنمائی.156 روزہ کے دوران کورونا ویکسین کا انجیکشن لگوانے کی بابت رہنمائی.321 322 324 Hormone patches, Contraceptive implant, 157 Hormone depot injection, Pain killer gel, Deep freeze, Deep heat جیسے طریق علاج کے روزہ کی حالت میں اختیار کرنے کی بابت رہنمائی.زراعت فوزكم 158 کیا دنیا کے موجودہ حالات میں ہمیں Farming کی طرف زیادہ توجہ [28] دینی چاہیئے.

Page 39

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر سالگرہ س 159 چھوٹے بچوں کی سالگرہ منانے سے متعلق رہنمائی.دہ سو سال پورے ہونے پر شکر کا طریق 326 160 اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈو نیشین جماعت کو قائم ہوئے 2025 ء میں سوسال پورے ہو جائیں گے ، ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے 327 لئے کیا کرنا چاہیے؟ سوال کرنا 161 انسان کو کس حد تک اسلام، قرآن کریم اور جماعت کے بارہ میں سوال اٹھانے کی اجازت ہے.اسی طرح لجنہ کی حضور انور کے ساتھ ایک ملاقات میں ایک سوال پر حضور انور کے جواب کہ ”مذہب کے معاملہ میں کیوں اور کس لئے کا سوال نہیں ہے.“ کے حوالہ سے رہنمائی.سود 162 سود کے متعلق رہنمائی.163 شیئرز اور سٹاک مارکیٹ وغیرہ کے کاروبار میں سودی عناصر کے پائے جانے کے حوالہ سے سوال پر رہنمائی.164 اسلام سے قبل سود کی حرمت کے حوالہ سے رہنمائی.165 مغربی دنیا میں جب کوئی اپنا مکان خریدنا چاہتا ہے تو اسے اس پر بھی سود دینا پڑتا ہے.تو کیا ایک مسلمان ان ممالک میں اپنا گھر نہیں خرید سکتا؟ 328 334 335 341 343 [29]

Page 40

نمبر شمار سوال / رہنمائی سوگ صفحہ نمبر 166 بیوہ کے سوگ نیز باقی لوگوں کے سوگ خصوصاً بھائی کی وفات پر بہن کے سوگ کے بارہ میں اسلامی احکامات کی روشنی میں رہنمائی.شادی بیاه هوش 344 167 اللہ تعالیٰ کی ذات ستار ہے.بچوں کے رشتے کرتے وقت جب ہم لڑکا، لڑکی یا ان کے خاندان کے بارہ میں تحقیق کرواتے ہیں تو کیا یہ 346 ٹھیک ہے؟ 168 شادی کے معاملہ میں دین کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے.مگر آجکل لوگ خوبصورتی اور دوسری خصوصیات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے جماعت کی کافی نیک اور دینی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی، اس بارہ میں رہنمائی.348 169 از هر یونیورسٹی کی ایک عہدیدار خاتون کے فتویٰ کہ ” قرآن کریم میں کوئی ایسی نص نہیں جو مسلمان لڑکی کو غیر مسلم کے ساتھ شادی 350 سے منع کرتی ہو.“ کے حوالہ سے رہنمائی.170 ہم مسلمانوں پر شادی کرنا کیوں فرض ہے؟ اگر کوئی بہت نیک ہو لیکن شادی نہ کرے تو کیا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا؟ شادی کے بعد عورت کے لئے خاوند کا نام اپنانا 353 171 | کئی دفعہ شادی کے بعد لڑکیاں اپنا نام بدل کر خاوند کے نام کے ساتھ 354 ملا کر رکھ لیتی ہیں.کیا اسلامی نظریہ کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے؟ [30]

Page 41

نمبر شمار سوال / رہنمائی 172 کیا شادی کے بعد عورت کے لئے خاوند کا نام اپنانا ضروری ہے؟ شارٹ سیلنگ (Short Selling) 173 Short Selling کے حلال و حرام ہونے کے بارہ میں رہنمائی.شرائط بیعت صفحہ نمبر 355 356 174 ایک غیر از جماعت عرب خاتون نے لکھا کہ میں نے ابھی بیعت نہیں کی کیونکہ ڈرتی ہوں کہ شاید شرائط بیعت کو پورا نہ کر سکوں.358 لیکن کیا میں اپنی سہیلیوں کو تبلیغ کر سکتی ہوں؟ شہری اور دیہی علاقہ 175 عموماً نوجوان طبقہ کاروبار یا ملازمت کے سلسلہ میں شہر چلا جاتا.نا ہے، جس سے دیہاتی جماعتوں میں کارکنان اور عہدیدار احباب کی کمی 360 ہوتی جارہی ہے، اس حالت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ صدقات وص 176 صدقات کی رقم کو مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے کے بارہ میں ایم ٹی اے کے پروگرام ”فقہی مسائل میں دیئے جانے والے ایک 362 جواب کی درستی کرواتے ہوئے رہنمائی.177 صدقات کی رقم مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے کی بابت رہنمائی.178 جس شخص کو صدقہ دیا جائے کیا اسے بتانا ضروری ہے کہ یہ صدقہ کی رقم ہے؟ 364 365 [31]

Page 42

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر طاق نمبر طوط م 179 اللہ تعالیٰ کو طاق نمبر کیوں پسند ہے؟ طلاق 366 368 371 180 ایک وقت میں دی جانے والی تین طلاقوں، غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق اور طلاق کے لئے گواہی کے مسائل کی بابت رہنمائی.181 اگر میاں بیوی میں ان کی شادی کے عرصہ میں تین دفعہ طلاق ہو جائے تو تیسری طلاق کے بعد صلح کی کیا صورت ہو گی؟ 182 ایک شخص کے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد رجوع کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کے استفسار پر اس مسئلہ پر روشنی 372 ڈالتے ہوئے رہنمائی.183 نکاح اور طلاق کے بارہ میں بعض سوالات پر رہنمائی.184 شرطی طلاق کی بابت محترم ناظم صاحب دارلافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر رہنمائی.185 تین طلاقوں کے بعد اسی بیوی کے ساتھ خانہ آبادی کے مسئلہ کی بابت رہنمائی.186 ایک خاتون نے اپنے خاوند کی بعض جسمانی امراض اور اس کے بیوی کے ساتھ سلوک کا ذکر کر کے لکھا کہ وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہے کیونکہ خاوند کا کہنا ہے کہ بیوی خاوند کو اس کی خالہ کی بیٹی سے بات نہیں کرنے دیتی.اسلام اس بارہ میں کیا کہتا ہے؟ 373 378 380 381 [32]

Page 43

نمبر شمار سوال / رہنمائی 187 یمن سے ایک دوست کے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینے کے بارہ میں رہنمائی کی درخواست.188 ایک دوست نے ناظم صاحب قضاء کو لکھے جانے والے اپنے خط کی نقل بھجوائی، جس میں انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد عدت میں بیوی سے تعلقات زوجیت قائم کر لینے اور پھر ان تعلقات کے بارہ میں قضاء سے غلط بیانی کرنے پر قضاء کے فیصلہ طلاق کی حیثیت دریافت کی.نیز دریافت کیا کہ قضاء کے اس فیصلہ طلاق سے ان کی طلاق ہو گئی ہے یا انہیں دوبارہ یہ سارا عمل کرنا پڑے گا؟ طوع ) عدت 189 خُلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت کے بارہ میں مجلس افتاء کی سفارشات پر اس مسئلہ کے فقہی پہلو کی بابت رہنمائی.190 بیوہ کے عدت کے دوران لجنہ کے پروگراموں میں شامل ہونے، نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے اور عزیزوں کے گھروں میں جانے کے بارہ میں رہنمائی کہ کیا بڑی عمر کی عورتوں کے لئے عدت کی پابندی نہیں ہونی چاہیئے.صفحہ نمبر 382 383 384 390 191 ایک عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا نکاح کے فوراً بعد قبل اس کے کہ 392 خاوند بیوی کو چھوئے، رشتہ ختم ہو جانے کی صورت میں اس عورت پر [33]

Page 44

نمبر شمار سوال / رہنمائی کوئی عدت ہے؟ نیز ایسی صورت میں یہ عورت اپنے اس پہلے خاوند سے شادی کر سکتی ہے جس سے اسے طلاق بتہ ہو چکی ہے؟ 192 دار الافتاء ربوہ کی طرف سے جاری ہونے والے فتاویٰ ملاحظہ فرمانے کے بعد ان میں سے بعض فتاوی دربارہ بیوہ کی عدت کے دوران اس کے بیٹے کی شادی، بیوہ / مطلقہ کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور فتاویٰ میں دیئے جانے والے حوالہ جات کے طریق کی بابت اہم ہدایات.ه علم کلام صفحہ نمبر 394 193 اس زمانہ میں بہت سے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں استہزاء کرتے ہیں، ہماری طرف سے ان کا جواب کس طرح 397 399 400 401 ہونا چاہیئے.عمره 194 کیا ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرہ کرنے بہتر ہیں یا ایک عمرہ کرنے کے بعد باقی وقت دیگر عبادات میں گزارا جائے؟ عورت 195 ایک خاتون کے عورتوں کے بال کٹوانے اور ان بالوں کو کینسر کے کسی غیر مسلم مریض کو Donate کرنے کے بارہ میں استفسار پر رہنمائی.196 ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا ہے کہ ”سچے مومن کو اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہیئے، کیونکہ حضرت آدم کو پہلا فتنہ بھی ایک عورت کی وجہ سے پیش آیا.“ [34]

Page 45

نمبر شمار سوال / رہنمائی جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بائبل کا بیان ہے کہ حوا حضرت آدم کو گمراہی کی طرف لے کر گئیں.اس بارہ میں تفصیلی رہنمائی.197 ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ انہیں Feminist خیال آتے ہیں جو اسلام کی تعلیم سے متضاد ہیں.نیز انہوں نے پوچھا کہ عورت نکاح میں اپنا مہر خود کیوں مقرر نہیں کر سکتی.اس کی خاموشی اس کی رضامندی کیوں سمجھی جاتی ہے؟ عورت میں شرم اور خاموشی اتنی پسند کیوں کی جاتی ہے، جبکہ ہم ایک ایسے معاشرہ میں رہتے ہیں جہاں عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے.نیز نکاح کے وقت اگر عورت خود موجود ہی نہیں تو اس کی مرضی کے بارہ میں اس کا ولی غلط بیانی بھی تو کر سکتا ہے؟ 198 قرض کا لین دین کرتے وقت گواہ ٹھہرانے کے بارہ میں سورۃ البقرۃ کی آیت کی روشنی میں عورت کی گواہی کے متعلق رہنمائی.عید صفحہ نمبر 404 409 199 دار قطنی میں ایک حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے ، جو چاہے سننے کے لئے بیٹھار ہے اور جو جانا چاہے 412 چلا جائے، کیا یہ حدیث درست ہے؟ 200 عیدین کے مواقع پر بعض لوگ مساجد میں آکر عید سے پہلے یا بعد میں نوافل ادا کرتے ہیں.اس بارہ میں رہنمائی.413 [35]

Page 46

نمبر شمار سوال / رہنمائی 201 عیدین کی نماز کے واجب ہونے نیز عید کی نماز میں امام کے کسی رکعت میں تکبیرات بھول جانے اور اس کے تدارک میں سجدہ سہو کرنے کے بارہ میں رہنمائی.202 عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانے پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد نماز جمعہ یا نماز ظہر پڑھنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دار الافتاء کی ایک رپورٹ کے جواب میں اس مسئلہ پر اصولی رہنمائی.203 عید الاضحیہ کی قربانی کتنے دنوں تک ہو سکتی ہے ؟ اس سوال کے بارہ میں دار الافتاء سے جاری ہونے والے ایک فتویٰ کے بارہ میں اہم ہدایات.غریب ملازمین کو ان کا پورا حق دینا 204 آجکل سوشل میڈیا میں خبر پھیلی ہے کہ کپڑوں کے بڑے بڑے Brands کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں اپنے غریب ملازمین کو ان کا پورا حق نہیں دیتے.اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان Brands کا بائیکاٹ ہونا چاہیئے.اس بارہ میں رہنمائی.ه غیر احمدی امام ر صفحہ نمبر 414 415 416 417 205 گھانا کے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں ایسے غیر احمدی امام بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کو سچا اور بہترین اسلام سمجھتے ہیں اور مخالفت بھی نہیں کرتے لیکن کسی مجبوری کی وجہ 419 سے قبول احمدیت کی توفیق نہیں پاتے ، تو کیا ایسے افراد یا اماموں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہو گا؟ [36]

Page 47

نمبر شمار سوال / رہنمائی غیر احمدی سے شادی کرنا 206 ایک جماعتی عہدیدار نے احمدی لڑکیوں کو غیر احمدی اور غیر مسلم صفحہ نمبر مردوں سے شادی کی اجازت ملنے پر فکر مندی اور پریشانی کا اظہار کر 421 کے اس بارہ میں رہنمائی چاہی.207 ایک غیر از جماعت خاتون کے ایک احمدی لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت مانگنے پر ہدایت.غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا 208 ایک دوست نے حدیث الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ (سنن ابي داؤد کتاب الصلوۃ) کی روشنی میں دریافت کیا کہ افراد جماعت کے لئے کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا کیوں درست نہیں؟ چه غیر احمدیوں کی نماز جنازہ پڑھنا 209 ایک احمدی کے کسی غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے بارہ میں استفسار پر رہنمائی.غیر حکومتی بینکوں یا مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین 210 ایک احمدی کے بینک کے ساتھ مختلف معاملات لین دین کے بارہ میں 422 423 425 426 [37] استفسار پر رہنمائی.

Page 48

نمبر شمار سوال / رہنمائی ه غیر مسلموں پر رحم کرنا اور ان کے لئے استغفار کرنا صفحہ نمبر 211 کیا غیر مسلموں پر رحم کرنا اور ان کے لئے استغفار کرنا جائز ہے؟ اور ان پر اتمام حجت ہونے یا نہ ہونے سے ان کے لئے رحم اور استغفار 427 کرنے میں کوئی فرق پڑے گا؟ 212 کیا میں اپنے کسی ایسے عیسائی، ہندو یا بدھ مت سے تعلق رکھنے والے دوست کی وفات پر اس کے لئے دعا کر سکتا ہوں جو جماعت احمدیہ 430 کے لئے اچھے اور پیار کے جذبات رکھتا تھا؟ طرف فتاوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام 213 ایک دوست نے ”فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام“ کے Revised ایڈیشن کے بارہ میں تحریر کیا کہ اس کتاب کے پبلشر فخر الدین ملتانی صاحب نے چونکہ ارتداد اختیار کر لیا تھا اس لئے ان کے 432 نام اور ان کے تحریر کردہ دیباچہ کو اس ایڈیشن سے حذف کر دینا چاہیئے.اس بارہ میں رہنمائی.فرشتے 214 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ” توضیح مرام“ کے حوالہ سے فرشتوں کے چاند ، سورج اور ستاروں پر اثر ڈالنے اور ان اجسام کے انسانوں پر اثر ڈالنے ، اور فرشتوں کے جسمانی طور پر زمین پر اترنے کے بارہ میں استفسار پر رہنمائی.433 [38]

Page 49

صفحہ نمبر 435 438 440 441 نمبر شمار سوال / رہنمائی 215 ایک عرب دوست نے فقہ حنفی کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد پیش کر کے اپنے بارہ میں لکھا کہ میں فقہ حنفی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ میں بھی قیاس کے خلاف ہوں.نیز دریافت کیا کہ کیا میں فقہ ظاہر یہ پر عمل کر سکتا ہوں، کیونکہ فقہ ظاہریہ نے قرآن و حدیث کی نصوص کے ظاہر پر عمل کرنے کے بارہ میں بہت زبر دست نظریہ پیش کیا ہے.اس بارہ میں رہنمائی.فیس پینٹ (Face Paint)، ٹیٹوز(Tattos) 216 ایک خاتون نے کہا کہ ایک دفعہ میں نے مینا بازار میں دیکھا تھا کہ مہندی کے سٹال پر Signs تھے کہ وہ منہ پہ Face Paint کرتے ہیں اور Tattoos بھی لگاتے ہیں.تو کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟ فیشن 217 ایک دوست نے بعض احادیث جن میں مردوں کے لئے لوہے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت آئی تھی پیش کر کے اس مسئلہ کے بارہ میں رہنمائی چاہی، اور اس ضمن میں نوجوان لڑکوں کے فیشن کے طور پر ہاتھوں میں کڑے وغیرہ پہننے کا بھی ذکر کیا.اس بارہ میں رہنمائی.قبل از پیدائش وفات 218 ایک خاتون نے اپنی بچی کی قبل از پیدائش وفات پر بعض سوالات تحریر کئے.اس بارہ میں رہنمائی.[39]

Page 50

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر قرآن کریم 219 اسلام مخالف گروپ کی طرف سے سویڈن میں قرآن کریم کے نسخہ کو جلانے کی مذمت، اس کی وجہ اور اس پر ایک احمدی مسلمان کے 442 رد عمل کے بارہ میں رہنمائی.220 قرآن کریم کے 30 پارے ہونے میں کیا خدائی حکمت ہو سکتی ہے ؟ 443 221 دو پہر بارہ بجے سے ایک بجے تک نیز جب سورج نکل رہا ہو تو قرآن کیوں نہیں پڑھنا چاہیئے؟ 222 قرآن کریم کی حافظہ ایک بچی نے استفسار بھجوایا کہ کیا میرے والد صاحب میری اقتدا میں نماز تراویح ادا کر سکتے ہیں؟ اور اگر نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کا آغاز کرنا ہو تو کیا پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دوبارہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ البقرۃ کی قراءت شروع کی جائے گی؟ نیز یہ کہ جہری نمازوں میں سورتوں کی قراءت سے قبل بسم اللہ بھی اونچی آواز میں پڑھنی چاہیئے ؟ اس بارہ میں رہنمائی.:: قرب الہی 223 خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کیا ہے؟ قم 224 کیا ہم اللہ تعالیٰ کی یا حضرت محمد م یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قسم کھا سکتے ہیں؟ 445 447 450 [40] 451

Page 51

نمبر شمار سوال / رہنمائی قول صحابی رسول م 225 اصول فقہ کے قانون ” قول صحابی رسول اہم شرعی حکم کے استنباط کے لئے دلیل ہے“ کے بارہ میں رہنمائی.قوم لوط صفحہ نمبر 452 226 کیا مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ قوم لوط کے دو شہروں سدوم اور عمورہ کے لوگوں کو ان کے گناہوں زنا اور ہم جنس پرستی وغیرہ کی پاداش 454 میں جلا دیا گیا تھا اور کیا یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے ؟ کاروبار میں اشیاء کی قیمت کی قسطوں میں ادائیگی 227 عام ضرورت کی اشیاء کی فروخت کے کاروبار میں اشیاء کی قیمت قسطوں میں ادا کر نے والوں سے عام قیمت سے کچھ زیادہ لینا سو د تو نہیں؟ کاروباری کمپنی میں نفع نقصان کی شراکت کی شرط 228 کے ساتھ سرمایہ کاری 458 22 کسی کاروباری کمپنی میں نفع و نقصان کی شراکت کی شرط کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دار الافتاء کی ایک 459 رپورٹ کے بارہ میں رہنمائی.: کتب حضرت مسیح موعود 229 ایک خاتون نے لکھا کہ غیر احمدی مسلمان اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے کہ جس نے میری 460 [41]

Page 52

صفحہ نمبر 462 463 464 466 467 469 نمبر شمار سوال / رہنمائی ساری کتب تین دفعہ نہیں پڑھیں اسے میرے دعوی کی سمجھ نہیں ہے.اور پھر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا سب احمدیوں نے یہ کتب تین دفعہ پڑھی ہیں؟ اس کا کیا جواب دیا جائے؟ کرایہ کے اپارٹمنٹ کے برتنوں کا استعمال کرنا 230 جب ہم Holidays پر جاتے ہیں اور اپارٹمنٹ بک کرتے ہیں تو کیا ہم وہاں کے Fryingpans وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں؟ کرونا وائرس 231 آجکل کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے ، حضور کے لئے سفر کرنا کب Safe ہو گا اور حضور کب کینیڈا تشریف لائیں گے ؟ 232 کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی موجودہ صورتحال میں تبلیغ کا کام ک طرح کیا جائے؟ 233 کرونا وائرس کے لئے جو آجکل ٹیکہ آیا ہوا ہے کیا وہ ہمیں لگوانا چاہیے یا نہیں؟ 234 کرونا وائرس کے ختم ہونے کے بعد دنیا پھر سے ویسے ہی نارمل ہو سکتی ہے جیسے پہلے تھی؟ 235 کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں نماز باجماعت کے لئے باہم نمازیوں کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھنے کے بارہ میں استفسار پر رہنمائی.[42]

Page 53

نمبر شمار کلمه سوال / رہنمائی صفحہ نمبر ایک خاتون نے تحریر کیا کہ کسی احمدی نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ خاتم ، رسول پاک ﷺ کا نام ہے ، اس 236 لئے کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے میں کوئی 471 حرج نہیں.احمد رسول اللہ بھی لکھا جا سکتا ہے اور مزمل اور مدثر بھی حضور نیم کے نام ہیں وہ بھی لکھے جاسکتے ہیں.کیا یہ بات درست ہے؟ 237 جماعت احمد یہ شرعی طور پر کتنے کلموں پر یقین رکھتی ہے، جو کسی حدیث یا قرآن سے ثابت شدہ ہیں؟ : گستاخ رسول کی سزا گ 238 گستاخ رسول کی سزا کے بارہ میں رہنمائی.لونڈی ول 472 474 239 لونڈیوں سے نکاح کے مسئلہ کی بابت رہنمائی.نیز لجنہ اماء اللہ کی علمی ریلی کے موقعہ پر دکھائی جانے والی ایک دستاویزی فلم میں ایک ڈیڑھ 475 منٹ تک میوزک بجنے کی شکایت پر رہنمائی.240 ایک دوست نے تحریر کیا کہ مجھے یہ معلوم کر کے شدید دھچکا لگا کہ اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم 478 [43]

Page 54

نمبر شمار سوال / رہنمائی کرنے اور ان کو بیچنے کی اجازت دیتا ہے.لونڈیوں کے ساتھ سلوک کے متعلق تفصیلی رہنمائی.241 لونڈیوں سے جسمانی فائدہ اٹھانے کے بارہ میں رہنمائی.ماتمی جلوس وم صفحہ نمبر 483 242 اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے لئے خدمت خلق کے جذبہ کے تحت اہل جلوس کو پانی وغیرہ پیش کرنے کی بابت محترم ناظم صاحب 484 دارلافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر رہنمائی.ژه مالی لین دین 243 مالی لین دین کے ایک قضائی معاملہ میں ایک فریق کے محترم مفتی صاحب سے اس معاملہ کی بابت فتویٰ کی درخواست کرنے اور اس درخواست کی نقل حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کرنے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اصولی ہدایات.یہ ماں کی طرف سے اپنی مرضی سے بچہ دے کر واپسی کا مطالبہ 244 کسی خاتون کا اپنی مرضی سے اپنا بچہ اپنی جیٹھانی کو دے کر ، کئی سال بعد دونوں خاندانوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جانے پر ماں کی طرف سے بچہ کی واپسی کے مطالبہ کے بارہ میں ایک استفسار پر رہنمائی.486 487 [44]

Page 55

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر مجھے 245 | کیا اسلام میں کسی ہیر و کا مجسمہ بنانا جائز ہے؟ مراقبه 246 مراقبہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور اس کے طریق کے بارہ میں رہنمائی.مرتی 247 ایک مرتبی کا میدان عمل میں سب سے پہلا کام کیا ہونا چاہیئے ؟ مرد و عورت کے حقوق، برابری 488 492 496 248 ایک خاتون نے اسلام میں مرد اور عورت میں برابری کے ضمن میں اپنی بعض الجھنوں کا ذکر کر کے اسلام کے مختلف حکموں کے بارہ میں 498 رہنمائی کی درخواست کی.یہ مردوں کو زردرنگ کا لباس پہنے کی مناہی 249 حضور ام کے حکم کے مطابق مردوں کو زرد رنگ کا لباس پہننے کی مناہی ہے.لیکن حضرت عثمان " کے بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اس رنگ کا لباس استعمال کرتے تھے.ہر دو باتوں کی تطبیق کس 504 طرح ہو سکتی ہے؟ مسلمان 250 میرے علاقہ میں لوگ خود کو مسلمان تو کہتے ہیں، لیکن اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ، ان لوگوں کو کس طرح تبلیغ کی جائے ؟ [45] 507

Page 56

نمبر شمار سوال / رہنمائی 251 آجکل کے حالات کی وجہ سے غیر مسلم ، مسلمانوں سے ڈرتے ہیں.ہم انہیں کیسے تسلی دے سکتے ہیں؟ ملک یمین 252 ملک یمین سے کیا مراد ہے.نیز طلاق کی صحیح شرائط کیا ہیں اور ایک دفعہ زبانی طلاق کہنے سے طلاق واقع ہونے کے متعلق کیا حکم ہے؟ ہ منافع کی رقم صفحہ نمبر 509 511 253 حکومتی بینکوں میں رقم جمع کروانے اور اس رقم پر ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لانے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دار الافتاء ربوه 514 کے ایک استفسار پر رہنمائی.254 پاکستان کے بینکوں میں جمع کرائی جانے والے رقم پر ملنے والے منافع کو اپنے ذاتی استعمال میں لانے کی بابت سوال پر رہنمائی.255 سرکاری اور غیر سرکاری بینکوں سے ملنے والے منافع کی بابت سوال کہ کیا یہ سود کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟ موت 256 ایک حدیث جس میں حضور الم نے ہدایت فرمائی ہے کہ کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے“ کے حوالہ سے سوال پر رہنمائی.257 کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد ہم خدا تعالیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں، یہ کس طرح ہوتا ہے؟ 516 518 519 521 [46]

Page 57

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر مومن 258 میں نے پڑھا ہے کہ ایک مومن کے لئے ہمیشہ بھلائیاں ہی آتی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ یہ دنیا مومن کے لئے جہنم ہے.523 اس میں کون سی بات ٹھیک ہے؟ مومن دنیا میں تکلیف و مصائب کا شکار 259 کیا خدا تعالیٰ کا نافرمان اس دنیا میں تکلیف و مصائب میں رہتا ہے یا مومن تکالیف کا شکار رہتا ہے؟ میاں بیوی 524 260 ایک خاتون نے کسی اخبار میں سے شائع ہونے والا ایک عورت کا واقعہ کہ اس نے اپنے خاوند کو اس کے شراب کے نشے میں دُھت ہونے کی وجہ سے ہمبستری سے انکار کر دیا، بیان کر کے دریافت کیا کہ اگر 527 میاں بیوی میں سے ایک فریق نشے میں ہو تو کیا باہم محبت کے جذبات قائم رہ سکتے ہیں ؟ 261 ایک خاتون نے خاوند بیوی کے حقوق و فرائض کے سلسلہ میں دو احادیث بھجوا کر دریافت کیا کہ کیا ان احادیث کا اطلاق خاوند پر بھی 528 ہوتا ہے؟ میت کو چھونا 262 گھانا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر کسی نے میت کو چھوا ہو تو کیا اس 531 [47]

Page 58

صفحہ نمبر 533 534 540 545 نمبر شمار سوال / رہنمائی کے لئے غسل کرنا فرض ہے اور کیا وہ غسل جنابت کئے بغیر نماز جنازہ میں شامل ہو سکتا ہے ؟ ہ میٹنگز میں حاضری 263 ہم اپنی میٹنگز میں حاضری کس طرح بڑھا سکتے ہیں؟ نبی یا مصلح کو دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث کرنا 264 خدا تعالیٰ کے بعض قانون قطعی اور مستقل ہیں جن میں اس کا مستقل نبی یا تابع نبی بھیجنے کا قانون بھی شامل ہے.تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے 622 سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام یا آنحضرت ام کی طرح کوئی شرعی نبی اور اگر اسلام خاتم الادیان ہے تو کیا کوئی غیر شرعی نبی آسکتا ہے یا آپ کا کوئی خلیفہ آپ کی پیروی میں نبی بن سکتا ہے؟ 265 بلاد عرب میں کسی شخص کے نبوت اور مجددیت کا دعویٰ کرنے پر اس فعل کے رڈ میں ایک عرب احمدی کی طرف سے لکھے جانے والے مضمون اور اس مضمون پر ربوہ سے بعض علماء کی طرف سے موصول ہونے والے موقف کے بارہ میں رہنمائی.نطفہ میں Lactobacillus نامی بیکٹیریا 266 نطفہ میں جو Lactobacillus نامی بیکٹیریا پایا جاتا ہے، جو ایک کی بجلی یا روشنی بھی پیدا کر سکتا ہے تو کیا یہی وہ بجلی یا روشنی ہے جس کا [48]

Page 59

نمبر شمار سوال / رہنمائی ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی پیدائش کے سلسلہ میں اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرمایا ہے؟ نظر لگنے یا مظلوم کی بددعا کا اثر ہونا 267 جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کی نظر لگ گئی یا مظلوم کی بد دعا سے کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچی ہے تو کیا یہ سوچ شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ نعماء جنت صفحہ نمبر 549 268 بعض آزاد خیال اور نام نہاد حقوق نسواں کی علمبر دار خواتین کا اسلام کے خلاف ایک اعتراض یہ ہے کہ قرآن و احادیث میں مردوں کو جنت میں ملنے والی نعماء از قسم شراب، مختلف الانواع کھانے اور عورتوں کے ملنے کا وعدہ ہے، جبکہ اس دنیا میں جو شخص ان چیزوں کو 550 استعمال کرے وہ بُرا انسان کہلاتا ہے.اسی طرح یہ وعدے صرف مردوں کے لئے ہیں اور عورتیں اس دنیا میں جو کچھ بھی کر لیں ان کے لئے ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے.اس بارہ میں تفصیلی رہنمائی.269 قرآن کریم میں جنتیوں کو نظریں جھکائیں رکھنے والی اور نیک خصال دوشیزائیں ملنے کا وعدہ دیا گیا ہے.ہماری زبان میں دوشیزہ کا مطلب عورت ہوتا ہے.اگر یہ عورتیں ہیں تو یہ انعام تو صرف مرد کو ہی ملا، مومن عورتوں کے لئے جنت میں کیا ہے؟ نیز کیا عورت صرف مرد کے 560 لئے ہی پیدا کی گئی ہے ؟ [49]

Page 60

نمبر شمار سوال / رہنمائی نفلی روزه صفحہ نمبر 270 عموماً سوموار اور جمعرات کو نفلی روزے رکھنے میں کیا حکمت ہے ؟ کیا ان دو ایام کے علاوہ اور دنوں میں بھی نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں ؟ نکاح 565 271 سیکرٹری صاحب امور عامہ جرمنی نے ایک احمدی کے ایک غیر از جماعت خاتون کے ساتھ اپنا نکاح خود پڑھنے اور بعد ازاں اس عورت کو طلاق دینے اور پھر اس عورت کے بیعت کرنے کے معاملات تحریر کر کے اس نکاح کی شرعی حیثیت کی بابت محترم مفتی صاحب سے مسئلہ دریافت کیا.یہ معاملہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی 568 خدمت اقدس میں پیش ہونے پر حضور انور نے محترم امیر صاحب جر منی کو اپنے مکتوب مؤرخہ 25 جولائی 2022ء میں اصولی ہدایات سے نوازا.نماز 272 نماز میں التحیات پڑھتے وقت جب ہم السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِي“ کہتے ہیں تو کہیں ہم شرک کے مرتکب تو نہیں ہو رہے 569 66 ہوتے کیونکہ یہ الفاظ تو زندہ انسانوں کے لئے بولے جاتے ہیں؟ 273 اگر امام کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو کس طرح نماز پڑھنی چاہیئے ؟ 571 [50]

Page 61

نمبر شمار سوال / رہنمائی 274 آنحضور ﷺ کے ارشاد کہ بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں سزا دو“ کی تشریح.275 ایک ممبر لجنہ نے عرض کیا کہ چھوٹے بچوں والی ماؤں کو نماز کے وقت بچہ کو ساتھ لے کر یا گود میں اٹھا کر نماز پڑھنا پڑتی ہے.اس وقت فطرتا نماز سے زیادہ بچہ کی طرف توجہ رہتی ہے.اس سے ہم نماز کی فضیلت سے محروم تو نہیں ہو رہی ہو تیں؟ 276 کیا یہ درست ہے کہ اگر ایک نماز رہ جائے تو پچھلی چالیس سال کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں ؟ 277 نماز میں لذت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ 278 اگر گھر میں مردوں کے ہوتے ہوئے صرف عورت اس قابل ہو کہ نماز پڑھا سکے تو کیا وہ نماز پڑھا سکتی ہے.اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ 279 ایک دوست نے لکھا کہ میں اپنی جماعت میں امام الصلوۃ ہوں.جمعہ کی نماز میں قنوت پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ آجکل وبا کے دن ہیں اور احمدیوں پر بعض ممالک میں ظلم بھی ہو رہا ہے.لیکن بعض دوستوں کو اس پر اعتراض ہے.اس بارہ میں رہنمائی.280 سنت اور نفل نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعات میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنے کے بارہ میں رہنمائی.نماز با جماعت 281 ایک دوست نے تحریر کیا کہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے صحیح بخاری کی شرح میں عورتوں کے بھی مردوں کی صفحہ نمبر 573 574 575 576 577 578 580 581 [51]

Page 62

نمبر شمار سوال / رہنمائی طرح نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے کو فرض قرار دیا ہے.اس بارہ میں رہنمائی.نماز تسبیح (صلاة التسبیح) 282 صلاۃ التسبیح کے متعلق رہنمائی.283 نماز تسبیح پڑھنے کے طریق کے بارہ میں سوال پر رہنمائی.نماز جنازه 284 کیا نماز جنازہ نماز ہے یا اسے ایسے ہی نماز کا نام دے دیا گیا ہے کیونکہ اس کے لئے مکروہ اوقات کا خیال نہیں رکھا جاتا؟ ہ نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیئے 285 نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا ہے؟ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا وقت سورۃ البقرۃ کی تلاوت میں لگتا ہے اتنا وقت اذان اور اقامت کے درمیان ہونا چاہیئے.نماز فجر کے فوراً بعد جب کہ درس قرآن ہو رہا ہو فجر کی سنتیں پڑھنا صفحہ نمبر 583 584 586 588 286 نماز فجر کے فوراً بعد جب کہ درس قرآن ہو رہا ہو کیا فجر کی سنتیں پڑھنا درست ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب 591 قرآن کریم پڑھا جا رہا ہو تو اسے توجہ اور خاموشی سے سننا چاہیئے.[52]

Page 63

نمبر شمار سوال رہنمائی صفحہ نمبر چه نوجوان نسل 287 دیکھنے میں آتا ہے کہ نوجوان نسل کا زیادہ وقت باہر کے معاشرہ کے زیر اثر گزرتا ہے، انہیں ہم جماعت کے قریب کیسے لا سکتے ہیں؟ ہم جنس پرستی هوه كم 288 غیر مسلموں کے سامنے ہم جنس پرستی کو کیسے غلط ثابت کیا جائے؟ والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا 289 والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا ہر دو کی قبولیت پر مبنی احادیث کے بارہ میں نظارت اصلاح و ارشاد مرکز یہ ربوہ کے ایک استفسار کے جواب میں رہنمائی.والدہ کی وفات کے بعد انہیں غسل دینا 593 595 598 290 ایک دوست نے لکھا کہ میری والدہ نے وفات سے قبل مجھے کہا تھا کہ ان کی وفات کے بعد میں انہیں غسل دوں.لیکن والدہ کی وفات کرونا 600 سے ہوئی اس لئے انہیں غسل نہیں دیا جا سکا.اس بارہ میں رہنمائی.والدین 291 نظارت اصلاح و ارشاد مرکز یہ ربوہ نے کتب احادیث میں مروی والد کی اپنی اولاد کے حق میں دعا اور اولاد کے خلاف بد دعا دونوں کے 601 [53]

Page 64

نمبر شمار سوال / رہنمائی قبول ہونے کے متعلق روایات اور ان کے عربی الفاظ کی مختلف لغات سے تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے رہنمائی چاہی کہ ان میں سے کون سی روایت اور کس ترجمہ کو اختیار کیا جائے؟ وتر 292 ہم عشاء کی نماز میں وتر کی آخری رکعت الگ پڑھتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ وضو 293 اگر ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جائے تو کیا نماز کے لئے دوبارہ وضو کرنے سے پہلے استنجاء کرنا ضروری ہوتا ہے؟ وفات صفحہ نمبر 603 605 294 ایک دوست نے لکھا کہ بعض دوستوں کی طرف سے اس کے کزن کی وفات پر نامناسب رویہ کا اظہار کیا گیا ہے، جس پر اسے شدید دکھ ہے.نیز اس دوست نے حضور انور سے دریافت کیا کہ کیا اسلام کی مخالفت پر فوت ہونے والے کسی عزیز کے لئے دعا کرنے سے قرآن 606 کریم ہمیں منع فرماتا ہے؟ [54]

Page 65

نمبر شمار سوال / رہنمائی صفحہ نمبر وفات شدگان 295 حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں تو اس کے بچے اس کی طرف سے یہ روزے رکھ 608 سکتے ہیں، اس بارہ میں جماعت کا کیا موقف ہے؟ 296 کیا عید الاضحیہ کے موقعہ پر وفات شدگان کے نام پر جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے؟ وقف لو 610 297 واقفات نولجنہ کی جب شادی ہوتی ہے اور ہمارے اوپر گھر کی، فیملی کی اور بچوں کی ذمہ داری آتی ہے تو اس وقت ہم اپنے وقف تو ہونے کا 612 Role صحیح طریقہ سے کیسے ادا کر سکتی ہیں؟ ولی 298 نکاح کے ایک معاملہ میں دلہن کے والد کی وفات کی صورت میں دلہن کی طرف سے اس کے تایا زاد بھائی کے ولی مقرر ہونے پر شعبہ 614 رشتہ ناطہ کی طرف سے اعتراض اٹھانے پر رہنمائی.299 نکاح میں لڑکی کی طرف سے اس کے بہنوئی کے بطور ولی نکاح تقرر کی بابت نظارت اصلاح ارشاد رشتہ ناطہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے ایک سوال پر رہنمائی.[55] 615

Page 66

نمبر شمار سوال / رہنمائی ی صفحہ نمبر یا جوج ماجوج 300 یا جوج ماجوج کون ہیں؟ یتیم بچوں کے لئے ماں کا دودھ مہیا کرنے کے لئے Milk Bank کا قیام 616 301 قادیان سے ایک دوست نے Milk Bank جہاں سے یتیم بچوں کے لئے ماں کا دودھ مہیا کیا جاتا ہے کا ذکر کر کے لکھا کہ اس طرح تو وہاں کا ھ پینے والے بچے آپس میں رضاعی بہن بھائی بن جاتے ہوں گے 617 لیکن یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کون کس کا رضاعی بھائی یا بہن ہے.کیا اسلام میں اس طرح کے MilkBank قائم کرنے کی اجازت ہے؟ دودھ [56]

Page 67

آخری زمانہ سوال: اردن سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں یہ استفسار بھجوائے کہ...ہم نے پڑھا ہے کہ آنے والے مہدی آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے، کیا ہم واقعی آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 فروری 2022ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: ہمارے زمانہ کے آخری ہونے اور مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کے اس زمانہ میں ظاہر ہونے کی جہاں تک بات ہے تو قرآن کریم، احادیث نبویہ الم اور بزرگان امت کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضور لم نے اپنی امت میں جس مسیح اور مہدی کی آمد کی وہ تیرھویں صدی ہجری کے آخر یا چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہونا خبر دی تھی وہ تیہ تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (السجدہ :6) یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین پر اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا.پھر وہ اس کی طرف ایک ایسے وقت میں جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گفتی کرتے ہو چڑھنا شروع کرے گا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سال تک مسلمان دنیا میں کمزور ہوتے جائیں گے.اس کے بعد محمد رسول الله الم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اسلام کی شوکت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے والا مامور آجائے گا.اور اسلام پھر مضبو طی سے قائم ہو جائے گا.آنحضور لم نے اسلام کی پہلی تین صدیوں کو خَيْرُ القُرون یعنی بہترین صدیاں قرار دیا ہے اور یہ ہزار سال جس میں دین کا آسمان کی طرف چڑھنا مقدر تھا وہ یقیناً ان تین صدیوں کے بعد شروع ہو نا تھا.پس تیرہ سو سال بعد دین اسلام کا از سر نو قیام مقدر تھا جو مہدی اور مسیح کے ظہور

Page 68

کے ذریعہ ہی ہو سکتا تھا.کیونکہ سورۃ جمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة : 4) یعنی اللہ تعالیٰ ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی اسے بھیجے گا جو ابھی تک ان (صحابہ) سے نہیں ملی، میں اس مسیح و مہدی کے آنے کو اللہ تعالیٰ نے حضور الم کا آنا قرار دیا تھا.اور حضور ایل ایلیم نے اس آیت کے نزول کے وقت صحابہ کے دریافت کرنے پر حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ جب ایمان ثریا ستارے پر اٹھ جائے گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص یا بہت سے اشخاص ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے.(صحيح بخاري كتاب التفسير سورة الجمعة) گویا رسول اللہ ﷺ نے اہل فارس کے اس مرد کے آنے کو اپنا آنا قرار دیا جس کے ذریعہ آخری زمانہ میں ایمان کا دنیا میں قیام اور اسلام کی دوبارہ شان مقدر تھی.ایک صاحب کشف بزرگ حضرت نعمت اللہ ولی صاحب اپنے مشہور فارسی قصیدہ میں آخری زمانہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب نین رے ( یعنی 1200 سال) گزر جائیں گے اس وقت مجھے عجیب و غریب واقعات ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں.مہدی وقت اور عیسی دوراں ہر دو کو میں شاہسوار ہوتے دیکھتا ہوں.( الاربعین فی احوال المہد بین مرتبہ محمد اسماعیل شہید صفحه 2 و4، مطبوعہ 1268 ہجری) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی المتوفی 1176 ہجری لکھتے ہیں.عَلَّمَنِي رَبِّي جَلَّ جَلَالُهُ أَنَّ الْقَيَامَةَ قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَهْدِيُّ تَهَيَّأَ لِلْخُرُوجِ یعنی خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب آچکی ہے اور مہدی کا ظہور ہوا چاہتا ہے.( التفہیمات الالہیہ ، جلد 2 صفحہ 133 تفہیم نمبر 147، مطبوعہ 1936ء مدینہ برقی پریس بجنور یوپی) علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی متعدد جگہوں پر اس مضمون کو بڑی وضاحت کے ساتھ مدلّل طور پر بیان فرمایا ہے کہ یہی وہ آخری زمانہ ہے جس میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے مسیح موعود اور مہدی معہود کی بعثت مقدر تھی.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہمارا عقیدہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے یہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے خالق ہے اگر چاہے تو کروڑوں مرتبہ زمین و آسمان کو فنا کر کے پھر ایسے ہی بنادے اور اُس نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ آدم جو پہلی امتوں کے بعد آیا جو ہم سب کا باپ تھا اس کے دنیا میں آنے کے وقت سے یہ 2

Page 69

سلسلہ انسانی شروع ہوا ہے.اور اس سلسلہ کی عمر کا پورا دور سات ہزار برس تک ہے.یہ سات ہزار خدا کے نزدیک ایسے ہیں جیسے انسانوں کے سات دن.یادر ہے کہ قانون الہی نے مقرر کیا ہے کہ ہر ایک اُمت کے لئے سات ہزار برس کا دور ہوتا ہے.اسی دور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانوں میں سات دن مقرر کئے گئے ہیں.غرض بنی آدم کی عمر کا دور سات ہزار برس مقرر ہے.اور اس میں سے ہمارے نبی الم کے عہد میں پانچ ہزار برس کے قریب گزر چکا تھا.یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ خدا کے دنوں میں سے پانچ دن کے قریب گزر چکے تھے جیسا کہ سورۃ والعضر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت ام کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانہ پر اسی قدر مدت گزر چکی تھی جو سورہ موصوفہ کے عد دوں سے ظاہر ہے.اس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں.قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مُرسل جو آدم کی صورت پر آئے گا اور یری کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا که آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا.یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبّر کرنے والے کے لئے کافی ہیں.اور ان سات ہزار برس کی قرآنِ شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رُو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلط کا زمانہ ہے اور پھر تیسر ا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سید و مولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد لم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیا ہے) اور پھر چھٹا ہزار شیطان 3

Page 70

کے کھلنے اور مسلط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پر ختم ہو جاتا ہے.اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر و برکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے.اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں.اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں.اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے.کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفضل طور پر اور یہ تفصیل قرآن شریف میں موجود ہے جس سے مسیح موعود کی نسبت قرآن شریف میں سے صاف طور پر پیشگوئی نکلتی ہے.اور یہ عجیب بات ہے کہ تمام انبیاء اپنی کتابوں میں مسیح کے زمانہ کی کسی نہ کسی پیرایہ میں خبر دیتے ہیں اور نیز دجالی فتنہ کو بھی بیان کرتے ہیں.اور دنیا میں کوئی پیشگوئی اس قوت اور تواتر کی نہیں ہو گی جیسا کہ تمام نبیوں نے آخری مسیح کے بارہ میں کی ہے.“ لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 184 تا186) ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں: تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآنِ شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دور مقرر کئے ہیں.یعنی ایک وہ دور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں...پھر ہزار پنجم کا دور آیا جو ہدایت کا دور تھا.یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی الم مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت الله العلم کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا.پس آپ کے منجانب اللہ 4

Page 71

ہونے پر یہی ایک نہایت زبر دست دلیل ہے کہ آپ کا ظہور اُس سال کے اندر ہوا جو روزِ ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے.اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت الہم نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں.چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح.مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو.کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے موعود کہلاتا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی.اِس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ که آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے.اور خدا نے جو سورۃ العصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے.اور نبیوں کا اس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہو گا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا سیح ہو گا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اول تھا.“ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 207 تا208) پس یہی وہ آخری زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے آنحضور لم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو خاتم الخلفاء کے طور پر دین اسلام کی تجدید کے لئے مبعوث فرمایا ہے.(قسط نمبر 52 ، الفضل انٹر نیشنل ،8 اپریل 2023ء ، صفحہ 4) 5

Page 72

آسمانی بروج، شمس و نجوم کی تاثیرات سوال: ایک غیر از جماعت عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمتِ اقدس میں لکھا کہ...نیز آسمانی بروج کے بارہ میں رہنمائی چاہی اور پوچھا ہے کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ میرا فلاں برج ہے؟ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شمس و نجوم کی تاثیرات کا ذکر فرمایا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے: جواب: آسمانی برجوں کا قرآن میں مختلف جگہوں پر ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ فرمایا: وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا.(الحجر: 17) اور یقینا ہم نے آسمان میں (ستاروں کی) کئی منزلیں بنائی ہیں.پھر فرمایا: تَبْرَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجا.(الفرقان: 62) یعنی برکت والی ہے وہ ہستی جس نے آسمان میں ستاروں کے ٹھہرنے کے مقام بنائے ہیں.پھر فرمایا: وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوحِ (البروج: 2) یعنی میں برجوں والے آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں.علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند، کواکب اور نجوم وغیرہ اجرام فلکی کا بھی قرآنِ کریم میں بکثرت ذکر فرمایا ہے.احادیث نبوی ایم میں ان اجرام فلکی کا ذکر مختلف معنوں میں ملتا ہے.چنانچہ احادیث میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ قیصر روم ھر قل (جو علم النجوم کا بہت بڑا ماہر تھا) نے ستاروں کی نقل و حرکت سے اندازہ لگا لیا تھا کہ حضور لیتیم کی بعثت ہو چکی ہے یا آپ کی بعثت کا زمانہ قریب ہے.(صحيح بخاري کتاب بدء الوحي) پھر حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ستارے آسمان کی زینت 6

Page 73

کے لئے ، شیاطین کو مارنے کے لئے اور راستہ معلوم کرنے کے لئے علامت کے طور پر بنائے گئے ہیں اور جس نے اس سے ہٹ کر ان کی کوئی اور تاویل کی تو اس نے غلطی کی اور ایک ایسی چیز کے درپے ہوا جس کا اسے کوئی علم نہیں.(صحیح بخاري كتاب بدء الخلق باب في النجوم) اسی طرح فرمایا جس نے نجوم کے ذریعہ سے کچھ سیکھا اس نے جادو کا ایک حصہ پایا.(سنن ابي داود كتاب الطب باب في النجوم) پھر حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سورج اور چاند کے گرہن کا کسی کی موت وحیات سے کوئی تعلق نہیں.(صحیح بخاری کتاب الجمعة باب الصلاة في كشوف الشَّمْسِ) لیکن سورج اور چاند کے گرہنوں کو حضور ﷺ نے اپنے مہدی کے مبعوث ہونے کے دو بے مثل نشان قرار دیا، جو اپنے وقت پر پوری شان کے ساتھ پورے ہوئے اور مسیح محمدی کی صداقت پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر گئے.(سنن دار قطني كتاب العيدين باب صفة صلاة الْخُسُوفِ وَالْكُسُوفِ وَهَيْئَتِهِمَا) قرآن و حدیث کی ان تعلیمات کے روشنی میں علمائے امت اجرام فلکی کی خدائی مشیئت کے بغیر از خود زمینی حوادث پر اثر ڈالنے کی تاثیرات کے عقیدہ کو شرک قرار دیتے ہیں.نیز ان اجرام فلکی کی حرکات و سکنات سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کے نظریہ کو شیطانی اور گناہ کبیرہ قرار دیتے ہیں.تاہم ان کی رفتار و حرکات کے ذریعہ وقت اور زمانہ کے تعین اور موسموں وغیرہ کی تبدیلی کے قائل ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ایم کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں اجرام فلکی کا نہایت بصیرت افروز ذکر فرمایا ہے.چنانچہ اس بارہ میں مخالفین کے ایک اعترض کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ سورج، چاند اور ستاروں میں سے کوئی ایک بھی اپنے فعل میں مستقلاً آزاد اور ذاتی طور پر مؤثر ہے یا اسے افاضہ تاثیرات میں کوئی اختیار ہے یا انوار کے پہنچانے اور بارشوں کو برسانے اور ابدان، اجسام اور ثمرات کی نشو و نما میں انہیں بالا رادہ کوئی دخل ہے....اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اشیاء کے خواص ایک حقیقت ہیں اور ان میں اس علیم و حکیم خدا کے اذن سے جس نے 7

Page 74

کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی ، تاثیرات ہیں...اور حق یہ ہے کہ سورج، چاند اور ستاروں کی تاثیرات ایسی چیزیں ہیں جنہیں مخلوق ہر وقت اور ہر آن دیکھتی ہے اور ان سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں.مثلاً موسموں اور ان کی حالتوں کا اختلاف اور ہر موسم کا مخصوص امراض، معروف نباتات اور مشہور کیڑے مکوڑوں کے ساتھ خاص ہونا ایسی چیز ہے جسے تو جانتا ہے...اور تُو جانتا ہے کہ جب سورج طلوع ہو اور روشنیاں پھیلیں تو بلا شبہ اس وقت نباتات، جمادات اور حیوانات میں خاص اثر ہوتا ہے.پھر جب دن ڈھلنے اور غروب ہونے کے قریب ہو تو اس وقت میں اور طرح کی تاثیرات ہیں.حاصل کلام یہ کہ سورج کے بعد اور اس کے مقرب کا درختوں، پھلوں، پتھروں اور بنی آدم کے مزاجوں میں نمایاں اثر اور قوی تاثیرات ہوتی ہیں...اور چاند کی کتنی خاصیتیں ہیں جنہیں دہقان اور زراعت پیشہ لوگ جانتے ہیں...اور حکماء اس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں کی سب سے زیادہ معتدل صنف خط استواء میں رہنے والے لوگ ہیں اور خاص تاثیر ہی ان کی صحت کامل اور ان کے فہم اور فراست کی برتری کا سبب ہے.(حمامة البشرکی، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 285 تا 288) آسمانی برجوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ر حمن وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں برج بنائے.برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کا فرو مومن کے روشنی پہنچاتے ہیں.“ براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 448 حاشیہ نمبر 11) پھر ان اجرام فلکی کی تاثیرات کے بارہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: دو یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں.جیسا کہ آیت وَ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا 8

Page 75

بِمَصَابِيعَ وَحِفْظًا سے ، یعنی حِفْظ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے.یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں.یہ چیزیں بجز اذن الہی کچھ نہیں کر سکتیں.ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے.لہذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اور تربد اور سقمونیا اور خیار شنبر کی تاثیرات کا تو قائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظ کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں.نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے تو اب بتلاؤ کہ سَمَاءُ الدُّنْیا کو لاکھوں ستاروں سے پر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے ؟ اور خدا کا یہ کہنا کہ یہ سب چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں.جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے.“ (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 282،283 حاشیہ) پس مذکورہ بالا حوالہ جات سے مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں جو چاند، سورج، سیارے اور ستارے نیز بروج کے نام پر ان کی مختلف منزلیں اور مقام بنائے ہیں، یہ بلا مقصد نہیں ہیں.بلکہ جہاں ان اجرام فلکی کی حرکات و سکنات کے نتیجہ میں ہماری زمین پر دن رات ادلتے 9

Page 76

بدلتے ہیں، سال، مہینے اور دن بنتے ، موسموں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے.وہاں یہ اجرام بہت سے اور طریقوں سے بھی زمین اور اہل زمین پر اثر انداز ہو رہے ہیں.ان کی بعض تاثیرات کا ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں اور ان کی کئی نئی تاثیرات سائنس روز بروز دریافت بھی کرتی رہتی ہے.اور شاید کئی تاثیرات سائنس کبھی بھی دریافت نہ کر سکے.علم النجوم کے ماہرین اور ہیئت دانوں نے سورج کے ستاروں میں حرکت کرنے اور زمین کے سورج کے گرد چکر لگانے کے حوالہ سے مختلف حساب لگا کر سال کے بارہ مہینوں کے لحاظ سے بارہ حصے بنائے ہیں اور انہیں بارہ برجوں کے نام دیئے ہیں.کسی کی تاریخ پیدائش کے اعتبار سے اسے کسی برج کے تحت شمار کرنے میں تو بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں لیکن ان خیالی اور فرضی برجوں سے علم غیب حاصل کرنے اور آئندہ زندگی کے بارہ میں پینگوئیوں کے دعاوی سب اٹکل پچو اور ٹک بندیوں کے زمرہ میں آتا ہے.اس کا حقیقت اور مصفی اعلم غیب سے کوئی بھی تعلق نہیں.(قسط نمبر 34، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2022ء صفحہ 11) 10

Page 77

آن لائن سسٹم کے تحت نماز سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خاکسار کی ملاقات مؤرخہ 13 اپریل 2021ء میں خادم کے عرض کرنے پر کہ کیا کسی آن لائن سسٹم کے تحت نماز تراویح ادا کی جا سکتی ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جواب: اگر مسجد اور اس کے عقب میں گھر ایک ہی Location میں ہوں جیسا کہ اسلام آباد یوکے کے نئے مرکز احمدیت میں مسجد مبارک اور اس کے عقب میں کارکنان کے گھر ہیں تو لاؤڈ سپیکر اور ایف اور ایف ایم ریڈیو وغیرہ کے مواصلاتی ذریعہ سے جس کے منقطع ہونے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں صرف مجبوری کی حالت میں جیسا کہ آجکل کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مجبوری ہے، نماز تراویح اور دیگر نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں.لیکن اگر مسجد اور مکانات الگ الگ Locations میں ہوں یا مکانات مسجد کے آگے ہوں تو ایسے گھروں کے مقیم اس طرح مسجد میں ہونے والی نمازوں کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی نہیں کر سکتے.بلکہ وہ اپنے اپنے گھروں میں اپنی باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں.(قسط نمبر 15 ، الفضل انٹر نیشنل 21 تا 31 مئی 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت) صفحہ 24 11

Page 78

آنحضرت ام کا حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھنا سوال: ایک دوست نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا...کہ کیا آنحضرت ام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تھا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں ان امور کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آپ کا دوسرا سوال کہ کیا حضور ام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تھا؟ اس کا جواب ہمیں احادیث سے ملتا ہے کہ حضور ام نے آنے والے مسیح موعود کو خواب میں دیکھا تھا.چنانچہ صحیح بخاری میں یہ حدیث مروی ہے کہ حضور الم نے فرمایا کہ رات میں نے خواب میں اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا اور ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جیسے تم نے بہترین رنگ کے گندمی آدمی دیکھے ہوں گے اُن سے بھی اچھا تھا.اُس کے بال دونوں شانوں تک سیدھے لٹکتے تھے.اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا.اور وہ دو آدمیوں کے کاندھے پر ہاتھ رکھے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا.میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ مسیح بن مریم ہیں.پھر میں نے ان کے پیچھے ایک اور آدمی کو دیکھا جو سخت گھنگریالے بالوں والا، داہنی آنکھ سے کانا تھا.اور ابن قطن (ایک کافر) سے بہت زیادہ مشابہ تھا.وہ ایک آدمی کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کے گرد گھوم رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ مسیح دجال ہے.اسی طرح صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں حضور ام فرماتے ہیں کہ ( معراج کی رات) میں نے عیسی، موسیٰ اور ابراہیم (علیہم السلام) کو دیکھا.عیسی (علیہ السلام) تو سرخ رنگ، گھنگریالے بال اور چوڑے سینہ کے آدمی تھے.رہے موسیٰ (علیہ السلام) تو وہ گندم گوں اور موٹے تازے سیدھے بالوں والے آدمی تھے گویا وہ (قبیلہ) زط کے آدمی ہیں.پس ان دونوں روایات میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دو الگ الگ حلیوں کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور الم نے مسیح موسوی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی دیکھا لیکن انہیں 12

Page 79

وفات یافتہ انبیاء حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کے ساتھ دیکھا.اور اپنے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دیکھا جس نے دجال کے زمانہ میں مبعوث ہو کر اس کا مقابلہ کر کے اسلام کا دفاع کرنا تھا.اور اسے آپ نے طواف کعبہ کرتے دیکھا.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 13

Page 80

آئی برو پلنگ (Eyebrow Plucking) باڈی ویکسنگ (Body Waxing) سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمتِ اقدس میں تحریر کیا کہ ایک مرتبی صاحب نے Eyebrow Pluck کرنے کو ناجائز اور زنا کے برابر قرار دیا ہے.اس بارہ میں نیز Body Wax کرنے کے بارہ میں رہنمائی کی درخواست ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 جنوری 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں: جواب: احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطر جسموں کو گودنے والیوں ، گدوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے والیوں، سامنے کے دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں اور بالوں میں پیوند لگانے اور لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں.(صحيح بخاري كتاب اللباس) اسلام کا ہر حکم اپنے اندر کوئی نہ کوئی حکمت رکھتا ہے.اسی طرح بعض اسلامی احکامات کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے، اگر اس پس منظر سے ہٹ کر ان احکامات کو دیکھا جائے تو حکم کی شکل بدل جاتی ہے.آنحضور لم کی جب بعثت ہوئی تو دنیا میں اور خاص طور پر جزیرۂ عرب میں جہاں مختلف قسم کے شرک کا زہر ہر طرف پھیلا ہوا تھا وہاں مختلف قسم کی بے راہ رویوں نے بھی انسانیت کو اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا تھا اور عور تیں اور مرد مختلف قسم کی مشرکانہ رسوم اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے.مذکورہ بالا امور کی ممانعت پر مبنی احادیث میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے.ایک یہ کہ ان کاموں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی مقصود ہو اور دوسر اصرف حسن کا حصول پیش نظر ہو.ان دونوں باتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پہلی بات یعنی خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی جہاں معاشرتی برائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے وہاں مشرکانہ افعال کی بھی عکاسی کرتی ہے چنانچہ 14

Page 81

بالوں میں لمبی گوتیں لگا کر سر پر بالوں کی پگڑی بنا کر اسے بزرگی کی علامت سمجھنا، کسی پیر اور گرو کی نذر کے طور پر بالوں کی کٹیں بنانا یا بودی رکھ لینا، چار حصوں میں بال کر کے درمیان سے استرے سے منڈوا دینا اور اسے بچوں کے لئے باعث برکت سمجھنا.اسی طرح برکت کے لئے جسم ، چہرہ اور بازو وغیرہ پر کسی دیوی، بت یا جانور کی شکل گند ھوانا.یہ سب مشرکانہ طریق تھے اور ان کے پیچھے زمانہ جاہلیت میں مذہبی تو ہمات کار فرما تھے.دوسری بات یعنی حسن کے حصول کی خاطر ایسا کرنا، بعض اعتبار سے معاشرتی بے راہ روی اور فحاشی کو ظاہر کرتی ہے.جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کا اپنی خوبصورتی کے لئے کوئی جائز طریق اختیار کرنا منع نہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے اچھا لگتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے کپڑے اچھے ہوں، میری جوتی اچھی ہو، تو کیا یہ تکبر میں شامل ہے ؟ اس کے جواب میں حضور ا نے فرمایا یہ تکبر نہیں، تکبر تو حق کا انکار کرنے اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام ہے.اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الجمال یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.(صحیح مسلم كتاب الايمان باب تخريمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ) اسی طرح یہ امر بھی ثابت ہے کہ اُس زمانہ میں بھی بچیوں کی جب شادی ہوتی تھی تو انہیں بھی اس زمانہ کے طریق کے مطابق بناؤ سنگھار کر کے تیار کیا جاتا اور خوبصورت بنایا جاتا تھا.پس جس حسن کے حصول پر حضور لم نے لعنت کا انذار فرمایا ہے، اس کا یقیناً کچھ اور مطلب ہے.چنانچہ جب ہم اس حوالہ سے ان احادیث پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ ان باتوں کی ممانعت کے ساتھ حضور م نے یہ بھی فرمایا کہ بنی اسرائیل اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی عورتوں نے اس قسم کے کام شروع کئے.( صحیح بخاری کتاب اللباس) اور پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضور ﷺ کی بعثت کے وقت یہود میں فحاشی عام تھی اور اس وقت مدینہ ا میں خصوصاً یہود کے علاقہ میں فحاشی کے کئی اڈے موجود تھے ، جن میں ملوث خواتین، مر دوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر بناؤ سنگھار کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں، اس لئے رسولِ خدام نے ان کاموں کی شناعت بیان فرما کر مومن عورتوں کو اس وقت اس سے منع فرما دیا.15

Page 82

پس ان چیزوں کی ممانعت میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ ان کے نتیجہ میں اگر انسان کی جسمانی وضع قطع میں اس طرح کی مصنوعی تبدیلی واقع ہو جائے کہ مرد و عورت کی تمیز جو خدا تعالیٰ نے انسانوں میں پیدا کی ہے وہ ختم ہو جائے، یا اس قسم کے فعل سے شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس کی طرف میلان پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا ان امور کو اس لئے بجالایا جائے کہ اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے تو یہ سب افعال ناجائز اور قابل مواخذہ قرار پائیں گے.حضور الم نے ان برائیوں کے اس پس منظر میں جہاں اُس وقت مومن عورتوں کو ان کاموں منع فرمایا وہاں تکلیف یا بیماری کی بناء پر جائز حد تک اس کا استثناء بھی فرمایا.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ النَّامِصَةِ وَالْوَاشِرَةِ وَالْوَاصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ إِلَّا مِنْ دَاءٍ (مسند احمد بن حنبل) یعنی میں نے حضور ﷺ کو عورتوں کو موچنے سے بال نوچنے، دانتوں کو باریک کرنے ، مصنوعی بال لگوانے اور جسم کو گودنے سے منع فرماتے ہوئے سنا.ہاں کوئی بیماری ہو تو اس کی اجازت ہے.اسلام نے اعمال کا دار مدار نیتوں پر رکھا ہے.لہذا اس زمانہ میں پردہ کے اسلامی حکم کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت جائز طریق پر اور جائز مقصد کی خاطر ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن اگر ان افعال کے نتیجہ میں کسی برائی کی طرف میلان پید ا ہو یا کسی مشرکانہ رسم کا اظہار ہو یا اسلام کے کسی واضح حکم کی نافرمانی ہو ، مثلاً اس زمانہ میں بھی خواتین اپنی صفائی یا ویکسنگ و غیرہ کرواتے وقت اگر پردہ کا التزام نہ کریں اور دوسری خواتین کے سامنے ان کے ستر کی بے پردگی ہوتی ہو تو پھر یہ کام حضور الی یوم کے اسی انذار کے تحت ہی شمار ہو گا.اور اس کی اجازت نہیں ہے.پھر اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے فتنہ اور فساد کو قتل سے بھی بڑا گناہ قرار دے کر فساد کو روکنے کا حکم دیا ہے.بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ رشتے اس لئے ختم کر دیئے گئے یا شادی کے بعد طلاقیں ہوئیں کہ مرد کو بعد میں پتہ چلا کہ عورت کے چہرے پر بال 16

Page 83

ہیں.اگر چند بالوں کو صاف نہ کیا جائے یا کھنچوایا نہ جائے تو اس سے مزید گھروں کی بربادی ہو گی.ناپسندیدگیوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جائے گا.اور آنحضور اتم کا اس حکم سے یہ مقصود بہر حال نہیں ہو سکتا کہ معاشرے میں ایسی صورتحال پیدا ہو کہ جس کے نتیجہ میں گھروں میں فساد پھیلے.ایسے سخت الفاظ کہنے میں جو حکمت نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ باتیں چونکہ دیوی، دیوتاؤں وغیرہ کی خاطر اختیار کی جاتی تھیں یا ان کے نتیجہ میں فحاشی کو عام کیا جاتا تھا، اس لئے آپ نے سخت ترین الفاظ میں اس سے کراہت کا اظہار فرمایا ہے اور اس طرح مشرکانہ رسوم و عادات اور فحاشی کی بیخ کنی فرمائی ہے.(قسط نمبر 31، الفضل انٹر نیشنل 08 اپریل 2022ء ، صفحہ 11) 17

Page 84

اباضیہ فرقہ کی حدیث کی کتاب مسند الربیع بن حبیب سوال: ایک عرب دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اباضیہ فرقہ کی حدیث کی کتاب مسند الربیع بن حبیب میں بیان احادیث کو جماعت احمد یہ صحیح سمجھتی اور ان پر عمل کرتی ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مئی 2020ء میں اس استفسار پر درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: احادیث نبویہ الم کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا عقیدہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ قرآن کریم اور سنت کے بعد تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور وہ قرآن کی خادم اور سنت کی خادم ہے.لیکن جو حدیث قرآن اور سنت کے نقیض ہو اور نیز ایسی حدیث کی نقیض ہو جو قرآن کے مطابق ہے یا ایسی حدیث ہو جو صحیح بخاری کے مخالف ہے تو وہ حدیث قبول کے لائق نہیں ہو گی.کیونکہ اس کے قبول کرنے سے قرآن کو اور ان تمام احادیث کو جو قرآن کے موافق ہیں رڈ کرنا پڑتا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن و سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن شریف کی اتباع کریں.اور احادیث کی جو پیغمبر خدا سے ثابت ہیں اتباع کریں.ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشر طیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو ہم اسے واجب العمل سمجھتے ہیں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث نصوص بینه قطعیہ صریحہ الدلالت قرآن کریم سے صریح مخالف واقع ہو گو وہ بخاری کی ہو یا مسلم کی میں ہر گز اس کی خاطر اس طرز کے معنی کو جس سے مخالفت قرآن لازم آتی ہے قبول نہیں کروں گا.پس جو بھی حدیث مذکورہ بالا معیار کے مطابق ہو گی، خواہ وہ کسی بھی کتاب کی ہو جماعت احمد یہ کے نزدیک قابل قبول اور قابل حجت ہے.(قسط نمبر 24، الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 18

Page 85

احمدیت سوال: مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کی طرف سے تیار کردہ تربیتی امور سے متعلق سوال وجواب مشتمل مسودہ میں ایک سوال کہ احمدیت کے غلبہ کی صورت میں دنیا کی سیاسی فضاء کیسی ہو گی؟ کے بارہ میں رہنمائی فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 مئی 2018ء میں فرمایا: جواب: سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی دو حکومتوں کے آپس میں لڑنے اور باقیوں کو ان کے درمیان صلح کروانے کا جو حکم دیا ہے اس میں دراصل یہ پیشگوئی بھی ہے کہ جب ساری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو جائے گا تو اس وقت بھی ساری دنیا میں ایک حکومت نہیں ہو گی بلکہ الگ الگ حکومتیں ہوں گی.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب احمدیت کا غلبہ ہو گا تو دنیا میں سیاسی لحاظ سے اگر چہ الگ الگ حکومتیں ہوں گی جن کے ملکی قوانین اسلامی قوانین سے نہیں ٹکرائیں گے.لیکن اس زمانہ میں سیاست اور روحانیت کے معاملات الگ الگ طے ہوں گے.خلافت حقہ اسلامیہ تو ساری دنیا میں ایک ہی ہو گی اور تمام حکومتیں علمی اور روحانی اعتبار سے خلیفہ وقت سے رہنمائی حاصل کریں گی.لیکن ان کے سیاسی معاملات میں خلیفہ وقت کا کوئی دخل نہیں ہو گا.اور کوئی خلیفہ خود فوج لے کر کسی حکومت پر حملہ آور نہیں ہو گا.(قسط نمبر 6، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 19

Page 86

سوال: ایک غیر از جماعت خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمتِ اقدس میں اپنی اور اپنے بھائی کی بعض خواہیں لکھ کر ان کے بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی، نیز جماعت کے بارہ میں اپنے بعض سوالات کے جواب بھی حضور انور سے دریافت کئے.اسی طرح ایک احمدی لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت بھی مانگی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 اگست 2021ء میں اس خط کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب باقی جہاں تک آپ کے سوالوں کا تعلق ہے تو ان کے تفصیلی جوابات تو ہمارے سلسلہ کی مختلف کتب میں موجود ہیں، وہاں سے آپ یہ تفصیلی جواب پڑھ سکتی ہیں.یہاں اختصار کے ساتھ میں ان کا جواب آپ کو بتا دیتا ہوں.1.علماء دین اور عقل رکھنے کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں پوری ہونے والی پیشگوئیوں اور نشانیوں کا نظر نہ آنا کوئی تعجب کی بات نہیں.کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نصیب ہوتا ہے.صرف کسی کے علم اور عقل کی بناء پر حاصل نہیں ہو جاتا.اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد الم کے نور نبوت کو حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ایک ان پڑھ اور ناخواندہ غلام نے تو پہچان لیا لیکن مکہ کی وادی کا سر دار اور حکمت کا باپ کہلانے والا (ابو الحکم ) اس نور کو نہ دیکھ سکا اور اس نور نبوت کو نہ ماننے کے نتیجہ میں ابو جہل کہلایا.2.آنحضور ا کے اپنی ذات کے بارہ میں لا نَبِيَّ بَعْدِي کے الفاظ فرمانے کی حقیقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( جن کے بارہ میں حضور لال کی ہم نے ارشاد فرمایا تھا کہ دین کا نصف علم عائشہ سے سیکھو) نے اس طرح بیان فرمائی کہ: قُولُوا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَ لَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ - (مصنف ابن ابي شيبه جزء6 حدیث نمبر 219) یعنی تم حضور ا کو خاتم النبیین تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد نبی نہیں ہو گا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کی وجہ یہ تھی کہ حضور ام اور خلافت راشدہ کا زمانہ گزرنے کے بعد لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہونا شروع ہو گئے تھے کہ آپ ﷺ کے بعد ہر قسم کی 20

Page 87

نبوت کا دروازہ بند ہو گیا.حضرت عائشہ چونکہ آخرین میں مبعوث ہونے والے مسیح محمدی کے بارہ میں قرآن کریم اور حضور ایلم کی بیان فرمودہ دیگر بشارات سے بھی واقف تھیں اس لئے آپ نے اس زمانہ میں لوگوں میں پیدا ہونے والی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ وہ حضور الم کو خاتم النبیین ( نبیوں کی مہر تو کہیں یعنی اب جو بھی نبی دنیا میں مبعوث ہو گا وہ صرف اور صرف حضور ا کی اتباع اور آپ کے فیوض کی برکت سے ہو گا اور حضور ا تم ہی کی شریعت کے تابع ہو گا.لیکن یہ نہ کہیں کہ آپ کے بعد کسی بھی قسم کا نبی نہیں آسکتا.کیونکہ بات حضور الم کے خاتم النبیین کے مقام کے منافی ہے.حضور الم کا مقام خاتم النبیین ثابت ہی تب ہوتا ہے جب آپ کا کوئی اتنی آپ کے فیوض و برکات اور آپ ایم کی اتباع و اطاعت کی بدولت آپ سے ظلی ، بروزی اور امتی نبوت کا مقام حاصل کرے.اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفہ اللہ ہوں.مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پر دے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر 21

Page 88

سکے کیونکہ خدا کی تائید اُن کے ساتھ نہیں.اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتد ا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.اور میرا یہ قول کہ من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب“ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ میں باوجو د نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی الی.اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی.“ ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 211،210) 22

Page 89

اپنی ایک اور تصنیف میں آپ فرماتے ہیں: ”ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت ام وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے.اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں.وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہو گی مگر نبوت شریعت والی یا نبوت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 213) 3.خلافت علی منہاج النبوۃ سے مراد خلافت کا وہ سلسلہ ہے جو نبوت کے بعد اسی کے نقش پا پر اور اسی کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے جاری ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نے اس خلافت کا وعدہ مومنین کے ساتھ ان الفاظ میں فرمایا ہے:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضِي لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ (سورة النور:56) یعنی اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا.جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا.اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا.وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے.پھر ایک حدیث رسول ا میں بھی بیان ہوا ہے کہ مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خلافة (الجامع الصغير للسيوطي الجزء الثاني صفحه 126 مطبوعه مصر 1306 هجري) یعنی ہر 23

Page 90

نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے.ان الہی وعدوں کے مطابق پہلے آنحضور ﷺ کے وصال کے معا بعد خلافت راشدہ کی صورت میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا یہ سلسلہ مومنوں میں قائم ہوا.اور پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں حضور الم کی ایک پیشگوئی کے مطابق یہی سلسلہ آپ کے غلام صادق مسیح محمدی کی بعثت کے بعد قائم ہوا.چنانچہ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی الم نے اپنے ایک ارشاد میں اس خوشخبری کو اس طرح بیان فرمایا ہے.حضرت حذیفہ بن یمان کی روایت ہے کہ آپ اللم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285 مسند النعمان بن بشیر حدیث نمبر 18596 عالم الكتب بيروت 1998ء) اس قرآنی وعدہ اور حضور الم کے مذکورہ بالا ارشادات میں یہ پیش خبریاں موجود تھیں کہ امت محمد یہ میں اللہ تعالیٰ جہاں خلافت علی منہاج النبوۃ کے سلسلے قائم فرمائے گا وہاں اس کے ساتھ مسلمانوں میں کئی دنیاوی قسم کی بادشاہتیں اور خلافتیں بھی قائم ہوں گی لیکن خلافت علی منہاج النبوۃ کی نشانی یہ ہو گی کہ وہ خلافت شدت پسندوں کا جواب شدت پسندی کے رویے دکھا کر قائم نہیں ہو گی.مسلم اللہ کے دو گروہوں کے درمیان گولیاں چلانے اور قتل و غارت کرنے سے حاصل نہیں ہو گی بلکہ وہ خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش دلانے سے قائم ہونے والی خلافت ہو گی.اور جو خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی عنایت کے نتیجہ میں ملے گی وہ نہ صرف اپنے متبعین کے لئے محبت پیار اور خوف کے بعد امن کا سامان کرنے والی ہو گی، دین کی مضبوطی کی ضامن ہو گی، اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے والی ہو گی بلکہ گل دنیا کے لئے بھی امن کی ضمانت ہو گی.حکومتوں کو انصاف کرنے اور ایمانداری اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائے گی.عوام کو ایمانداری اور محنت سے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائے گی.24

Page 91

پس یہ کام جس طرح آنحضور ﷺ کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ نے کئے آپ ان کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے نتیجہ میں قائم ہونے والی خلافت احمد یہ حقہ اسلامیہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کام اس زمانہ میں انجام دینے کی توفیق پا رہی ہے.4.جہاں تک مینارۃ المسیح کا تعلق ہے تو جس طرح سابقہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کے فرستادہ اپنے زمانوں میں پیشگوئیوں کو ظاہری طور پر بھی پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اسی سنت انبیاء کی اتباع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی خدا تعالیٰ کے اذن سے حضور ام کی درج ذیل پیشگوئی کو ظاہری طور پر پور کرنے کے لئے اس مینارہ کی تعمیر شروع کروائی.حضرت نواس بن سمعان ایک لمبی روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضور ام نے اس میں فرمایا کہ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ.(صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة) یعنی جب اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا تو وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے.حضور ا کی اس پیشگوئی کو ظاہراً پورا کرنے کے لئے کئی مسلمان بادشاہوں نے اس قسم کے مینارہ کی تعمیر کی کوشش کی.چنانچہ 461 ہجری میں دمشق میں جامع اموی میں ایک مینارہ تعمیر کیا گیا، جسے کئی سال بعد عیسائیوں نے آگ لگا کر تباہ کر دیا.بعد کے ادوار میں اس مینارہ کو دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن پھر آتش زدگی سے یہ مینارہ اور مسجد دونوں جل گئے.تیسری مرتبہ 805 ہجری میں شام کے گورنر نے اس مینارہ کی تعمیر کا کام شروع کیا اور اسے منارہ عیسی کا نام دیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی بعثت قادیان کی بستی ، جو دمشق کے عین مشرق میں واقع ہے، میں ہوئی، آپ نے بھی حضور اہیم کی اس پیشگوئی کی ظاہری علامت کو پورا کرنے کے لئے ایک مینارہ کی تعمیر شروع کروائی.جو بعض نا مساعد مالی حالات کی وجہ سے آپ کے عہد مبارک میں مکمل نہ ہو سکی لیکن آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ہی یہ تعمیر مکمل ہو کر یہ مینارہ 1915ء میں اپنی تکمیل کو پہنچا اور آج بھی آپ علیہ السلام کی بعثت کے مقام پر منارۃ المسیح کے نام سے موجود ہے.بانی 25

Page 92

جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اس مینارہ کی تعمیر کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فرمایا: حدیث نبوی میں جو مسیح موعود کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہو گا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہو گا کہ گویا یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے...غرض مسیح کے زمانہ کے لئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی روشنی اور آواز جلد تر دنیا میں پھیلے گی اور یہ باتیں کسی اور نبی کو میسر نہیں آئیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 51 مطبوعہ 2019ء) ”خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور وہ یہ کہ احادیث نبویہ میں متواتر آچکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المنارہ ہو گا یعنی اس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہا تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو.اور دین اسلام سب دینوں پر غالب آ جائے گا اُسی کے مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند منار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آجاتی ہے.سو مقدر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہو گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَي وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَي الدِّينِ كلّه (الصف: 10) یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجت کی وہ بلند آواز جس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لئے خاص کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی عمارت اونچی نہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 52 مطبوعہ 2019ء) 26

Page 93

فرمایا: یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبر خد العلیم کی پیشگوئی پوری ہو جائے.اسی غرض کے لئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا.یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسری کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 80 مطبوعہ 2019ء حاشیہ) 5.احادیث میں حضرت عیسی بن مریم کے ظہور کے چالیس سال بعد قیامت آنے کا جو ذکر ہے تو اس میں بھی کئی امور قابل تشریح ہیں جیسا کہ پیشگوئیوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ ان میں کئی باتیں تعبیر طلب ہوتی ہیں.پس ایک تو خود لفظ قیامت تشریح طلب ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ الم میں قیامت کا لفظ مختلف معانی میں بیان ہوا ہے.قیامت کا لفظ اس عالمگیر تباہی کے لئے بھی آیا ہے جب اس دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی.ہر انسان کی موت بھی اس کے لئے قیامت ہوتی ہے.نبی کا زمانہ بھی دشمنوں کے لئے قیامت کا رنگ رکھتا ہے جب ان کے باطل عقائد کو شکست ہوتی ہے اور حق کو غلبہ عطا ہوتا ہے.آنحضور الم کا عہد مبارک بھی اہل عرب کے لئے ایک قیامت ہی تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر:2) یعنی (عرب کی) تباہی کی گھڑی آگئی ہے اور چاند پھٹ گیا ہے.اسی لئے حضور ا ہم نے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح قریب ہیں جس طرح یہ (درمیانی اور شہادت کی ( و انگلیاں.(صحیح بخاري كتاب الطلاق) رو اسی طرح کسی ترقی یافتہ قوم کا تنزل یا کسی مغلوب قوم کا اچانک ترقی پانا بھی قیامت کے معنوں میں آتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام یعنی مسیح محمدی کے ظہور کے چالیس سال بعد قیامت کے ذکر پر مشتمل 27

Page 94

احادیث کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ ہزار سال کے عرصہ میں اور خصوصاً مسیح موعود کی بعثت سے قبل اسلام کی کمزوری اور کسمپرسی کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آنحضور الم کی یہ پیشگوئی لفظ لفظ پوری ہو چکی تھی کہ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَي النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَي مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَ لَا يَبْقَي مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ خَرَابْ مِنَ الْهُدَي ، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ وَهِيَ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ فِيْهِمْ تَعُودُ - یعنی قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے کہ جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کریم کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے.ان کی مسجد میں ظاہر میں تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت کے لحاظ سے بالکل ویران ہوں گی.اس زمانہ کے لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی بدترین مخلوق میں سے ہوں گے کیونکہ اُن میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور اُن میں ہی لوٹ جائیں گے.( شعب الایمان للبيهقي فصل قال وينبغي لطالب علم أن يكون تعلمه...حديث : 1858) مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر رہے تھے اور اسلام پر ہر مذہب کی طرف سے تابڑ توڑ حملے کئے جارہے تھے اور کوئی شخص ان حملوں کے جواب کے لئے میدان میں نہیں آرہا تھا.سید المعصومین رحمتہ للعالمین حضرت اقدس محمد مصطفی ایم کی ذات اطہر اور آپ کی ازواج مطہرات کے خلاف کھلم کھلا گندہ دہنی کی جار ہی تھی.اس زمانہ میں آنحضور ا کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے غلام صادق مسیح محمدی علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور آپ نے اسلام پر ہونے والے ہر حملہ کا منہ توڑ جواب دیا اور ہر دشمن اسلام کو میدان سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ اسلام کو ایک مرتبہ پھر پوری شان و شوکت عطا فرمائی اور اسے باقی تمام مذاہب پر غالب کر کے دکھایا اور آپ علیہ السلام نے اسلام اور بانی اسلام الم کی مدح میں بر ملا فرمایا: ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے 28

Page 95

ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے تھک گئے ہم تو انہی باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے پس یہ وہ قیامت ہے جو مسیح محمدی علیہ السلام اور آپ کے بعد قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ کے ذریعہ اسلام اور مخالفین اسلام کے لئے ظاہر ہوئی.جس کے نتیجہ میں اسلام اور بانی اسلام ایم کا نام اور آپ کی پیش کردہ حقیقی تعلیم دنیا کے کناروں تک پہنچی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی اس روحانی جہاد میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے اور مخالفین اسلام کی زمین روز بروز گھٹتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرمائے، آپ کو حق اور ہدایت کی راہ کو پہچاننے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اپنے فضلوں سے نواز تار ہے.آمین (قسط نمبر 41، الفضل انٹر نیشنل 21 اکتوبر 2022ء صفحہ 9) 29 29

Page 96

اخباروں میں مضمون نویسی سوال: اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ممبران لجنہ کے اخباروں میں لکھنے کے لئے کون سے اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا: جواب: جو بھی Contemporary Issues آتے ہیں اور اخباروں میں مضمون لکھے جاتے ہیں.یا آپ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ آج کل سوشل میڈیا پر یا کہیں یہ ڈسکس ہو رہے ہیں.اس کے لئے آپ سوشل میڈیا پہ، لجنہ کی ویب سائٹ پر جواب دیں تا کہ Awareness ہو.ہر ایک کو پتہ لگے کہ یہ اس کا اصل جواب ہے، اصل چیز یہ ہے.اسی طرح جو لکھنے والی ہیں ان Issues کے اوپر اسلام کے دفاع کے لئے اخباروں میں لکھیں کہ تم لوگ کہتے ہو کہ اسلام یہ کہتا ہے، یہ کہتا ہے.جبکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے.تو جتنی لکھنے والیاں ہیں ان کو Encourage کریں کہ سوشل میڈیا پہ جو مختلف Topics آتے ہیں ان Topics کو ہی لینا ہے تا کہ Attraction پیدا ہو.زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں اور توجہ دیں اور آپ کی طرف توجہ ہو.مغرب میں عورتوں کے Issues کے اوپر اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ عورت کو آزادی نہیں ہے، عورت کو پردہ کی Restrictions ہیں، عورت کو فلاں پابندی میں رکھا جاتا ہے، عورت پہ فلاں ظلم کیا جاتا ہے.اس پر عورتوں کو ہی لکھنا چاہیئے کہ تم یہ کہتے ہو.میں ایک عورت ہوں، میں نے یہ یہ یہ لکھا ہے.یہاں یو کے میں بھی لجنہ لکھتی ہے اور اس کا اچھا اثر ہوتا ہے.بجائے اس کے کہ مرد جواب دیں، عور تیں اس کا جواب دیں تو زیادہ اچھا اثر ہوتا ہے.اس لئے اپنی ایک ٹیم بنائیں.اس کا علم بھی آپ کو ہونا چاہیئے.اسلامی تعلیم کا علم بھی ہونا چاہیے.اور جب لکھیں تو تیاری کر کے با قاعده Facts andFigures کے لحاظ سے لکھنا چاہیئے تا کہ اگلے کو Impress بھی کر سکیں.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 09 اپریل 2021ء صفحہ 11) 30 30

Page 97

سوال: اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ہالینڈ میں ابھی بہت کم ممبران لجنہ ایسی ہیں جو Independently اچھا لکھ سکتی ہیں ، اس کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا: جواب: جو کم ہیں ان کو Guide کریں تو وہ تو تیار ہو جائیں گی ناں ؟ جب ایک ٹیم دو کی، چار کی، چھ کی، آٹھ کی جتنی بھی ہیں وہ تیار ہو جائیں گی تو ان کو دیکھ دیکھ کے پھر مزید اور بھی تیار ہوتی رہیں گی.کم یا زیادہ کا سوال نہیں.کام کرنے والا تو ایک بھی ہو تو انقلاب آ جاتا ہے.تو جب جواب دیں گی تو خود ہی لوگ جواب لینے کے لئے آپ کے پیچھے پڑیں گے.پھر آپ مزید جواب لکھنا شروع کر دیں گی.اور پھر دوسروں کو بھی Encouragement ہو جائے گی کہ ہم بھی شامل ہوں، ہم بھی لکھیں.کسی بھی چیز کو کرنے کے لئے یا لوگوں کو ابھارنے کے لئے کوئی Incentive ہوتا ہے تو وہ Incentive یہی ہے کہ جب دو چار کے نام اخباروں میں آئیں گے تو باقیوں کو بھی شوق پیدا ہو گا کہ ہمارا بھی نام آئے، ہم بھی لکھنے کی کوشش کریں.پھر آہستہ آہستہ اور بڑھتی جائیں گی.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 09 اپریل 2021ء صفحہ 11) 31

Page 98

اذان سوال: مساجد میں نمازوں کے لئے بچوں کے اذان دینے کے بارہ میں ایک دوست نے محترم مفتی سلسلہ صاحب سے حاصل کردہ فتویٰ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر کے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ چھوٹے بچوں کو اذان دینے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 دسمبر 2019ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اس مسئلہ پر محترم مفتی صاحب کا جواب بالکل درست ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے.اگر اذان دینے والے کے لئے بھی کوئی شرائط ہو تیں تو حضور ا ضرور ان کی طرف بھی ہمیں توجہ دلاتے جیسا کہ آپ نے نماز کی امامت کروانے والے کے لئے کئی شرائط بیان فرمائی ہیں.لیکن اذان کے بارہ میں حضور ﷺ نے صرف اس قدر فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے.اور اذان دینے والے کے لئے آپ نے کوئی شرائط بیان نہیں فرمائیں.پس اذان دینا ایک ثواب کا کام ہے لیکن یہ ایسی ذمہ داری نہیں کہ اس کے لئے غیر معمولی شرائط بیان کی جاتیں.بلکہ ہر وہ شخص جس کی آواز اچھی ہو اور اسے اذان دینی آتی ہو وہ اس ڈیوٹی کو سر انجام دے سکتا ہے.بچوں کو اذان دینے کا موقع دینے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان میں دین کے کام کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے.جو ایک بہت اچھی بات ہے.میں خود بھی یہاں مسجد مبارک میں مختلف بچوں سے اذان دلواتا ہوں.نوٹ از مرتب: حضور انور نے ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں محترم مفتی سلسلہ صاحب کے جس فتوی کی توثیق فرمائی ہے ، وہ فتویٰ بھی قارئین کے استفادہ کے لئے ذیل میں درج کیا جارہا ہے: استفتاء: اذان دینے کے لئے کم از کم عمر کیا ہے ؟ کیا بچہ اذان دے سکتا ہے؟ فتوی از مفتی صاحب: مؤذن کے لئے عمر کی کوئی قید ہمیں شریعت میں نہیں مل سکی.لہذا اگر کوئی بچہ درست طریق پر اذان دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو وہ اذان دے سکتا ہے.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 109 اپریل 2021ء صفحہ 11) 32

Page 99

33 33 اسلام سوال: سیکر ٹری صاحبہ تبلیغ کے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جواب : رپورٹیں لینے کے لئے بیعتیں نہیں کرانی.اس لئے تبلیغ کرنی ہے کہ ہمیں ان لوگوں سے ہمدردی ہے.ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لائیں اور اس ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کو اسلام کا صحیح پیغام پہنچائیں.اور پھر اس کا تقاضا ساتھ یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو بھی Improve کریں اور اپنا بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں.سیکرٹری تبلیغ کا اپنا بھی براہ راست اللہ سے تعلق ہونا چاہیئے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.( قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11)

Page 100

اعتکاف سوال: ایک خاتون نے رمضان المبارک کے اعتکاف کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا یہ اعتکاف گھر پر کیا جا سکتا ہے اور کیا یہ اعتکاف تین دن کے لئے ہو سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب 09 اگست 2015ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: جہاں تک رمضان کے مسنون اعتکاف کا تعلق ہے وہ تو جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے گھر پر اور تین دن کے لئے نہیں ہو سکتا.آنحضور الم کی سنت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ای پر رمضان المبارک میں کم از کم دس دن اور مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّي تَوَفَّاهُ اللهُ - (صحيح بخاري كتاب الاعتكاف باب الاعتكاف في العشر الاواخر والاعتكاف في المساجد كلها) ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ تم اپنی وفات تک رمضان کے آخری دس دن اعتکاف فرماتے رہے.اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رمضان کے مسائل بیان فرمائے ہیں وہاں اعتکاف کے بارہ میں احکامات بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ (سورة البقرة: 188) کہ رمضان کے اعتکاف میں ایک تو میاں بیوی کے تعلقات کی اجازت نہیں اور دوسرا یہ کہ اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مسجدیں ہیں.احادیث میں بھی اس امر کی وضاحت آئی ہے کہ رمضان کا اعتکاف مسجد میں ہی ہو سکتا 34

Page 101

ہے.چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: السُّنَّةُ عَلَي الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَ لَا يَمَسَّ امْرَأَةٌ وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَ لا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ (سنن ابي داؤد كتاب الصوم باب المعتكف يعود المريض) ترجمہ : معتکف کے لئے مسنون ہے کہ وہ مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ جنازہ میں شامل ہو اور نہ اپنی بیوی کو چھوئے اور نہ اس سے جسمانی تعلق قائم کرے.اور سوائے اشد ضروری حاجت کے جس کے سوا چارہ نہ ہو مسجد سے باہر نہ جائے.اور روزوں کے بغیر اعتکاف درست نہیں اور نہ ہی جامع مسجد کے علاوہ دوسری جگہوں پر اعتکاف درست ہے.پس قرآن کریم اور احادیث نبویہ الم کے مطابق رمضان المبارک کا مسنون اعتکاف کم از کم دس دن ہو تا ہے اور اس کے لئے مسجد میں ہی بیٹھا جاتا ہے.ہاں رمضان کے علاوہ عام دنوں میں اگر نیکی کے طور پر اور ثواب کی خاطر کوئی اپنے گھر میں چند دن کے لئے اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے اور اس کی کہیں ممانعت نہیں ملتی.علاوہ ازیں بعض فقہاء نے عورت کے گھر میں اعتکاف کرنے کو بہتر قرار دیا ہے.چنانچہ فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ میں لکھا ہے: امَّا الْمَرْأَةُ تَعْتَلِفُ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا.هدايه باب الاعتكاف یعنی عورت اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے.سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں: مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا.(روز نامہ الفضل 6 مارچ 1996ء) (قسط نمبر 1، الفضل انٹر نیشنل 27 اکتوبر تا02 نومبر 2020ء صفحہ 29) 35

Page 102

سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا کہ روزہ کے بغیر رمضان کا اعتکاف بدعت تو شمار نہیں ہوتا اور کیا روزہ کے بغیر اعتکاف کی کوئی سنت یا اصحاب رسول الم سے کوئی مثال ملتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مئی 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: آنحضور الم کی سنت سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضور ام رمضان کا اعتکاف روزوں کے ساتھ ہی فرمایا کرتے تھے.اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَن لا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةٌ وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ - (سنن ابي داؤد کتاب الصوم باب الْمُعْتَلِفِ يَعُودُ الْمَرِيضَ) یعنی سنت یہ ہے کہ معتکف کسی مریض کی عیادت اور نماز جنازہ کے لئے مسجد سے باہر نہ جائے.اور بیوی کو شہوت کے ساتھ ) نہ چھوئے، اور نہ اس کے ساتھ مباشرت کرے.اور سوائے انسانی ضرورت ( قضا حاجت وغیرہ) کے کسی اور ضرورت کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلے.اور روزوں کے بغیر اعتکاف درست نہیں.اور جامع مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف درست نہیں.پس مسنون اعتکاف کے بارہ میں صحابہ رسول اللم اور علماء و فقہاء کا یہی موقف ہے کہ اس کے لئے روزے رکھنے ضروری ہیں اور حضور ﷺ کی سنت متواترہ یہی تھی کہ آپ اہم رمضان کے آخری دس دن مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے.(صحیح مسلم کتاب الاعتكاف باب اعتكاف الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ) باقی جہاں تک رمضان کے مسنون اعتکاف کے علاوہ عام اعتکاف کرنے یا کسی نذر کا اعتکاف کرنے کی بات ہے تو ایسا اعتکاف روزہ کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ اعتکاف چند دنوں یا چند گھنٹوں کا بھی ہو سکتا ہے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور الم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں ایک رات کے لئے مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا.اس پر حضور الم نے فرمایا کہ اپنی نذر کو پورا 36

Page 103

37 37 کرو.(سنن ترمذي كتاب النذور والايمان باب مَا جَاءَ فِي وَفَاءِ النَّخْرِ) پس خلاصہ کلام یہ کہ رمضان کا مسنون اعتکاف روزوں کے ساتھ ، رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں ہو سکتا ہے.جبکہ رمضان کے علاوہ عام اعتکاف روزوں کے بغیر اور کم یا زیادہ وقت کے لئے ہو سکتا ہے.(قسط نمبر 55، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2023ء صفحہ 6)

Page 104

38 38 اعضاء یا خون ڈونیٹ (Donate) کرنا سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کینیڈا کے اطفال کی Virtual ملاقات مؤرخہ 15 اگست 2020ء میں ایک طفل نے حضور انور کی خدمت اقدس میں استفسار پیش کیا کہ کیا اسلام کی تعلیم کے مطابق ہم خون اور مرنے کے بعد جسمانی اعضاء Donate کر سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: بالکل کر سکتے ہیں، بلکہ مرنے سے پہلے بھی کر سکتے ہیں.بعض لوگ اپنے Kidney Donate کرتے ہیں، بعض اپنے Liver Donate کرتے ہیں.لیکن باقی Organs تو ہم مرنے کے بعد Donate کر سکتے ہیں.اور یہ اچھی بات ہے.جو کوئی کام تم Humanity کو Serve کرنے کے لئے کر رہے ہو تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے.اور یہ بڑی اچھی بات ہے.(قسط نمبر 9، الفضل انٹر نیشنل 12 فروری 2021ء صفحہ 12)

Page 105

اعلان نکاح میں ایجاب و قبول سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا لڑکی اپنے نکاح کے موقع پر خود ایجاب و قبول کر سکتی ہے، نیز یہ کہ اعلان نکاح کے موقع پر حق مہر کا ذکر کرنا ضروری ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 22 جولائی 2019ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں مسلمانوں مردوں کو مومن عورتوں کے ساتھ اور مسلمان عورتوں کو مومن مردوں کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے مرد و خواتین دونوں کے لئے الگ الگ الفاظ استعمال کئے ہیں.چنانچہ مردوں کے لئے فرمایا وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ کہ تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو.اور عورتوں کے لئے فرمایا وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِکِینَ کہ تم ( اپنی لڑکیاں) مشرک مردوں سے نہ بیاہا کرو.گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ولیوں پر ان کے نکاح کے انعقاد کی ذمہ داری ڈالی ہے.اسی لئے اعلان نکاح کے موقع پر لڑکی کی طرف سے اس کا ولی ایجاب و قبول کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: عورت خود بخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود بخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے.“ ( آریہ دھرم صفحہ 32 ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 37) پس اعلان نکاح میں ایجاب و قبول کے وقت لڑکی کی طرف سے اس کا ولی یہ ذمہ داری ادا کرے گا اور یہی جماعتی روایت ہے.جہاں تک اعلان نکاح میں حق مہر کے تذکرہ کی بات ہے تو یہ ضروری نہیں، کیونکہ قرآن کریم کے احکامات کے مطابق حق مہر کے تقرر کے بغیر بھی نکاح ہو سکتا ہے جیسا که فرمایا: لا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ 39

Page 106

فَرِيْضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَي الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ ( سورة البقرة:237) یعنی تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو اس وقت بھی طلاق دے دو جبکہ تم نے ان کو چھوا تک نہ ہو یا مہر نہ مقرر کیا ہو.اور ( چاہیئے کہ اس صورت میں ) تم انہیں مناسب طور پر کچھ سامان دے دو ( یہ امر ) دولت مند پر اس کی طاقت کے مطابق (لازم ہے) اور نادار پر اس کی طاقت کے مطابق.(ہم نے ایسا کرنا) نیکوکاروں پر واجب (کر دیا) ہے.(قسط نمبر 11 ، الفضل انٹر نیشنل 12 مارچ 2021ء صفحہ 11) 40 40

Page 107

اقامت سوال: اسی طرح اسی ملاقات میں خاکسار نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آجکل کے (Covid کے) مجبوری کے حالات میں جبکہ گھر والے افراد گھر پر نماز با جماعت ادا کریں تو کیا عورت نماز باجماعت کے لئے اقامت کہہ سکتی ہے، نیز امام کے بھولنے پر لقمہ دے سکتی ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا: جواب: اگر صرف گھر کے مرد اور عور تیں ہوں تو لقمہ دے سکتی ہے، لیکن غیر مرد ہوں تو حسب ارشاد حضور ایم کسی بھول، سہو کی صورت میں تالی بجائے گی.لقمہ نہیں دے گی یا سبحان اللہ نہیں کہے گی.نیز فرمایا عورت اقامت نہیں کہے گی خواہ گھر میں ہی نماز ہو رہی ہو کیونکہ حضور ام نے اس کی اجازت نہیں دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بھی آتا ہے کہ آپ جب کسی مجبوری کی وجہ سے گھر پر نماز ادا کرتے تھے اور حضرت اماں جان کو نماز میں اپنے ساتھ کھڑا کر لیا کرتے تھے (حضور علیہ السلام کے حضرت اماں جان کو ساتھ کھڑے کرنے کی مجبوری بھی حضرت اماں جان نے بیان فرمائی ہوئی ہے) لیکن یہ کہیں نہیں آتا کہ آپ نے حضرت اماں جان کو اقامت کہنے کا ارشاد فرمایا ہو.اس لئے اقامت مرد خود ہی کہے گا.اور ویسے بھی اقامت کے متعلق تو حدیث میں بھی آتا ہے کہ بوقت ضرورت امام خود بھی کہہ سکتا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ارشاد مبارک میں جس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا وہ سنن ترمذی میں عمرو بن عثمان بن یعلی بن مرہ سے مروی ہے، جسے وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا ( حضرت یعلی بن مرہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ لوگ نبی اکرم الم کے ساتھ سفر میں تھے.چنانچہ جب وہ ایک تنگ جگہ میں پہنچے تو نماز کا وقت ہو گیا.وہاں اوپر آسمان سے بارش برسنے لگی اور نیچے زمین پر کیچڑ ہو گیا.پس رسول اللہ نے اپنی سواری پر سوار رہتے ہوئے اذان دی اور اقامت کہی.پھر حضور ا نے اپنی سواری آگے کی اور اشاروں سے انہیں نماز پڑھاتے ہوئے ان کی امامت کروائی.آپ سجدے میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے.(سنن ترمذي كتاب الصلاة باب مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَي الدَّايَّةِ فِي الطِّيْنِ وَالْمَطَرِ) (قسط نمبر 15، الفضل انٹر نیشنل 21 تا 31 مئی 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت) صفحہ 24) 41

Page 108

اکیلی عورت کا حج پر جانا سوال: اکیلی عورت کے حج پر جانے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کے جاری کردہ ایک فتویٰ کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: میرے نزدیک حج اور عمرہ کے لئے عورت کے ساتھ محرم کی شرط ایک وقتی حکم تھا بالکل اسی طرح جس طرح اُس زمانہ میں اکیلی عورت کے لئے عام سفر بھی منع تھا، کیونکہ اُس وقت ایک تو سفر بہت مشکل اور لمبے ہوتے تھے ، راستوں میں کسی قسم کی سہولتیں میسر نہیں تھیں اور الٹا سفروں میں رہزنی کے خطرات بہت زیادہ تھے.چنانچہ ایک موقع پر جب حضور ایم کی خدمت میں رہزنی کی شکایت کی گئی تو آپ نے آئندہ زمانہ کے پر امن سفروں کی بشارت دیتے ہوئے حضرت عدی بن حاتم کو فرمایا: فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتَّي تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ.یعنی اگر تمہاری زندگی زیادہ ہوئی تو یقینا تم دیکھ لو گے کہ ایک ہودج نشیں عورت حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرے گی، اللہ کے علاوہ اس کو کسی کا خوف نہ ہو گا.اسی حدیث کے آخر پر حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں : فَرَأَيْتُ الظَّعِيْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيْرَةِ حَتَّي تَطُوْفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا الله یعنی میں نے ہودج نشین عورت کو دیکھا ہے کہ وہ حیرہ سے سفر شروع کرتی ہے اور کعبہ کا طواف کرتی ہے اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا.(صحيح بخاري كتاب المناقب) حیرہ اس زمانہ میں ایرانی حکومت کے تحت ایک شہر تھا جو کوفہ کے قریب واقع تھا.اس لحاظ سے اُس زمانہ میں یہ کئی دنوں کا سفر بنتا ہے.پس اگر اُس زمانہ میں ایک عورت حیرہ سے چل کر کئی دنوں کا سفر کر کے مکہ خانہ کعبہ کا طواف کرنے آسکتی ہے تو اس زمانہ میں چند گھنٹوں کا ہوائی جہاز کا سفر کر کے ایک عورت عمرہ اور حج وغیرہ کے لئے کیوں نہیں جاسکتی؟ (قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 42

Page 109

اللہ تعالیٰ سوال: گلشن وقف نولجنه و ناصرات میلبرن آسٹریلیا مورخہ 12 اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جو نظر نہیں آسکتی.(حضور انور نے سوال کرنے والی بچی کو مخاطب کرتے ہوئے چھت پر لگے بلب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) تمہیں یہ بلب نظر آرہا ہے ناں؟ اور بلب کی روشنی (حضور انور نے اپنے سامنے پڑے میز کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) یہاں پڑ رہی نظر آرہی ہے.یہ کس طرح چل کے آرہی ہے؟ یہ روشنی تمہیں وہاں سے یہاں تک آتے ہوئے چلتی ہوئی نظر آرہی ہے ؟ ( حضور انور نے دوبارہ بچی سے پوچھا) وہ بلب کی روشنی ہے ، وہ تو چمک رہا ہے اور یہاں (میز پر روشنی پڑ گئی.لیکن جو بیچ کا فاصلہ ہے اس میں بھی تو کوئی چیز نظر آنی چاہیئے.جو وہاں سے چلی، یہاں پہنچی.درمیان میں نظر آرہی ہے ؟ ( بچی نے عرض کیا کہ نظر نہیں آرہی.تو حضور نے فرمایا) نہیں نظر آرہی ناں ؟ تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ روشن ہے اور اس کی روشنی ایسی روشنی ہے جو نظر نہیں آتی.ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرتیں نظر آتی ہیں.تم دعا کرو تو تمہاری دعا کبھی قبول ہوئی ہے ؟ تم نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا کی ہے ؟ وہ پوری ہوئی؟ ( بچی نے عرض کی کہ جی پوری ہوئی.حضور نے فرمایا ) بس یہی اللہ تعالیٰ کا نظر آنا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو زمین ہے، Planet ہے، Universe ہے، پھر یہاں جو ساری Creation ہے، پودے ہیں، Vegetation - آسٹریلیا تو Flora & Fauna کی بڑی مشہور جگہ کہلاتی ہے.یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں.ہر چیز میں دیکھو.ایک Plant یہاں نکلتا ہے.ویسے کہتے ہیں کہ Plant کے اگر پتے نہ ہوں تو جو Chlorophyll ہے، اس کے ساتھ Plant کی زندگی بنتی ہے.اور پتے جو ہیں اس میں اپنا Role Play کر رہے ہوتے ہیں.لیکن یہاں میں نے ایسے Plants بھی دیکھے ہیں جو صرف ایک Stick ہے اور وہ Stem جو ہے وہی پتوں کا بھی Role ادا کر رہا ہے اور اس کے Top کے اوپر ایک خوبصورت سا بڑا Colourful قسم کا پھول لگا ہوا ہے.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے.ہر چیز جو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، اسے دیکھو اور اس پر غور کرو تو وہیں اللہ تعالیٰ نظر آتا ہے.(قسط نمبر 3، الفضل انٹر نیشنل 04 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 43

Page 110

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کی بیماری کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ جب سب کچھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو وہ میرے بیٹے کو ٹھیک کیوں نہیں کر دیتا.اگر کہا جائے کہ انسان کو اس کے اعمال کی سزا ملتی ہے.تو میرا بیٹا تو پیدا ہی ایسا ہوا تھا، اس نے کونسا گناہ کیا ہے؟ یہ سب میری سمجھ سے باہر ہے.مجھے یہ سب سمجھائیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: خدا تعالیٰ جو کامل علم والی ہستی ہے، اس کے مقابلہ پر انسان کا علم بہت ہی ناقص اور نامکمل ہے.اس لئے انسان کے لئے خدا تعالیٰ کے ہر فعل کی حکمت سمجھنانا ممکن ہے.لہذا انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں ایسا اعتراض کرنا زیب نہیں دیتا.اس سے اس کے احسانات کی ناشکری کا اظہار ہوتا ہے.کیونکہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں وہ ان گنت ہیں اور اگر ان کا انسان شکر ادا کرنا چاہے تو نا ممکن ہے.اسی لئے آنحضور اللم نے فرمایا کہ انسان کے جسم کے ہر جوڑ پر ہر روز ایک صدقہ واجب ہوتا ہے.کیونکہ اگر یہ جوڑ نہ ہوں تو اس کا سارا جسم بے کار ہو جائے.پھر ایک اور نصیحت حضور ﷺ نے ہمیں یہ فرمائی کہ تم میں سے کوئی جب ایسے شخص کو دیکھے جو مال یا جسمانی ساخت میں اس سے بہتر ہے تو اسے اس شخص پر بھی نظر ڈالنی چاہیے جو مالی لحاظ سے یا جسمانی لحاظ سے اس سے کمزور ہے.ان نصائح پر عمل کرنے سے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا حقیقی شکر پیدا ہو تا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کاموں میں بھی انسان کی ہی ترقی کے بہت سے راز مضمر ہیں.اگر یہ دکھ ، تکالیف اور بیماریاں نہ ہو تیں تو انسان میں سوچنے اور ترقی کرنے کی تحریک ہی پیدا نہ ہوتی اور وہ ایک پتھر کی طرح جامد چیز بن کر رہ جاتا.یہ تکالیف ہی ہیں جو انسان میں تحقیق اور جستجو کے مادہ کو متحرک رکھتی ہیں.چنانچہ اکثر سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے پیچھے انسانی تکالیف اور بے آرامی سے چھٹکارا پانے کی ایک مستقل جد وجہد کار فرما نظر آتی ہے.تیسری بات یہ ہے کہ جو تکالیف انسان کو پہنچتی ہیں وہ انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے ایک قانون قدرت بنایا اور دنیا میں بہت سی چیزیں پیدا کر کے انسان کو ان پر حاکم بنا دیا ہے.اب اگر انسان بعض چیزوں سے فائدہ نہ اٹھائے یا ان چیزوں کا غلط 44

Page 111

استعمال کر کے نقصان اٹھائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.چنانچہ میڈیکل سائنس سے ثابت ہے کہ ماں باپ کی بعض کمزوریوں کا ان کی اولاد پر اثر پڑتا ہے.حمل میں اگر پوری طرح احتیاط نہ برتی جائے تو بعض اوقات اس کا پیدا ہونے والے بچہ کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے ، جو مائیں ڈائٹنگ کرتی ہیں ان کے بچے بعض اوقات کمزور پیدا ہوتے ہیں، جن بچیوں کو بچپن میں مٹی چاٹنے کی عادت ہو بعض اوقات ان کی اولاد معذور پیدا ہوتی ہے.پس تکالیف خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اس قانون قدرت کے غلط استعمال یا اس میں کمی بیشی کرنے کے سبب سے ہیں جو انسانوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا تھا.البتہ اللہ تعالیٰ انسان کی بہت سی غلطیوں سے در گزر فرماتے ہوئے اسے ان کے بد نتائج سے بچاتا رہتا ہے.اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اور تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس سبب سے ہے جو تمہارے اپنے ہاتھوں نے کمایا.جبکہ وہ بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے.(سورة الشوري :31) پھر خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون قدرت میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ ہر چیز دوسرے سے اثر قبول کرتی ہے.اسی قانون کے تحت بچے اپنے والدین سے جہاں اچھی باتیں قبول کرتے ہیں وہاں بُری باتیں بھی قبول کرتے ہیں، صحت بھی ان سے لیتے ہیں اور بیماری بھی ان سے لیتے ہیں.اگر بیماریاں یا تکالیف ان کو ماں باپ سے ورثہ میں نہ ملتیں تو اچھی باتیں بھی نہ ملتیں.اور اگر ایسا ہوتا تو انسان ایک پتھر کا وجود ہوتا جو بُرے بھلے کسی اثر کو قبول نہ کرتا اور اس طرح انسانی پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی اور انسان کی زندگی جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتی.چوتھی بات یہ ہے کہ دنیوی زندگی در اصل عارضی زندگی ہے اور اس کی تکالیف بھی عارضی ہیں.اور جن لوگوں کو اس عارضی زندگی میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں ایسے شخص کی اُخروی زندگی جو دراصل دائمی زندگی ہے، کی تکالیف دور فرما دیتا ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک مومن کو اس دنیا میں رستہ چلتے ہوئے جو کانٹا بھی چبھتا ہے اس کے بدلے میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اجر لکھتا ہے یا اس کی خطائیں معاف کر دیتا ہے.اس دنیوی زندگی کے مصائب میں اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو سب سے زیادہ ڈالتا ہے.اسی لئے 45

Page 112

حضور لم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے انبیاء پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں پھر رُتبہ کے مطابق درجہ بدرجہ باقی لوگوں پر آزمائش آتی ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو حضور ا م سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا.چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ال ایم کے کئی بچے فوت ہوئے، حالانکہ صرف ایک بچہ کی وفات کا دکھ ہی بہت بڑا دکھ ہوتا ہے.پس دنیوی تکالیف اور آزمائشوں میں بہت سی الہی حکمتیں مخفی ہوتی ہیں، جن تک بعض اوقات انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ہوتی.پس انسان کو صبر اور دعا کے ساتھ ان کو برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بعض وقت مصلحت الہی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی.طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامر ادیاں لا حق حال ہوتی ہیں مگر ان سے گھبرانا نہ چاہیے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 23، ایڈیشن 2016ء) (قسط نمبر 18، الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 11) 46 46

Page 113

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ...اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے قرآن مجید میں مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟ جواب: دنیا کی مختلف زبانوں میں مذکر اور مونث کے صیغے انسانوں میں جنسی فرق کرنے کے لئے بولے جاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہ لا شریک ہے اور اس قسم کی تقسیم سے منزہ ہے.ہاں خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھانے کے لئے اپنے متعلق خود کچھ باتیں بیان فرمائی ہیں لیکن وہ سب استعارہ کے رنگ میں ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ نہ مرد ہے اور نہ عورت اور وہ ہر قسم کی جنس سے پاک ہے.اسی طرح دنیا کے تقریباً تمام معاشروں میں عورت کو مرد کی نسبت کمزور سمجھا جاتا ہے.اسلام کی بعثت کے وقت عرب میں بھی یہی تصور پایا جاتا تھا.چنانچہ قرآن کریم میں کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے لئے تو بیٹے چنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں چنیں ہیں.یعنی وہ فرشتوں کو مونث کے صیغے سے پکارتے تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے.اللہ تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ بہت ہی بری تقسیم ہے جو وہ کرتے ہیں.چنانچہ فرمایا الكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْأُنْتُي ـ تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيْزُي (سورة النجم : 22، 23) یعنی کیا تمہارے لئے تو بیٹے ہیں اور اس کے لئے بیٹیاں ہیں ؟ تب تو یہ ایک بہت ناقص تقسیم ٹھہری.پس آغاز آفرینش سے ہی مؤنث کو کمزور اور مذکر کو اعلیٰ اور طاقتور سمجھا جاتا ہے.عربی زبان میں بھی مذکر کا صیغہ کامل قوت اور قدرت والے پر دلالت کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جو تمام قوتوں کا سر چشمہ اور وراء الوراء طاقتوں کا مالک ہے اس نے اپنے لئے وہ صیغہ استعمال فرمایا ہے جو انسانوں کی نظر میں بھی اس کی ذات کے قریب ترین قرار پاتا ہے.ورنہ قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں جو تشبیہات بیان ہوئی ہیں وہ سب استعارہ کے طور پر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَني کی مصداق ہے جیسا کہ فرمایا: فَاطِرُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ.(سورة الشوري: 12) 47

Page 114

یعنی وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے ساتھی بنائے ہیں اور چارپایوں کے بھی جوڑے بنائے ہیں اور اس طرح وہ تم کو زمین میں بڑھاتا ہے.اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ بہت سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” خدا شناسی کے بارے میں وسط کی شناخت یہ ہے کہ خدا کی صفات بیان کرنے میں نہ تو نفی صفات کے پہلو کی طرف جھک جائے اور نہ خدا کو جسمانی چیزوں کا مشابہ قرار دے.یہی طریق قرآن شریف نے صفات باری تعالیٰ میں اختیار کیا ہے.چنانچہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ خدا سنتا، جانتا، بولتا، کلام کرتا ہے.اور پھر مخلوق کی مشابہت سے بچانے کے لئے یہ بھی فرماتا ہے لَيْسَ كَمِثْلم شيء...یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 377،376) پھر فرمایا: 66 تشبي ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں.ایک صفت دوسری صفت تنزیہی.اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیہی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لئے خدا نے تشبیہی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ ، آنکھ ، محبت ، غضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جب کہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لیس کمثلہ کہہ دیا.“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 277) (قسط نمبر 40 ، الفضل انٹرنیشنل 23 ستمبر 2022ء صفحہ 11) 48 48

Page 115

سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ...نیز یہ کہ خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ کائنات کا بنانے والا کوئی تو ہو گا کیونکہ کوئی چیز خود سے نہیں بن سکتی.پھر سوال پیدا ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو کس نے بنایا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کو کسی نہ کسی ذات یا ہستی نے بنایا ہے اور سائنس بھی اس بات کو مانتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز خود بخود نہیں ہے.اس اصول کو دیکھ لیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی.پس اس طرح اوپر چلتے چلتے کہ اُس کو کس نے بنایا اور اُس کو کس نے بنایا جہاں جا کر بات رُکے گی وہی خدا تعالیٰ کی ذات ہے.سائنس اسے نیچر کہتی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق اُس ہستی کو خدا تعالیٰ کی ذات مانتے ہیں.باقی خدا تعالیٰ کی لا محدود ہستی انسانی محدود علم سے بہت بالا اور برتر ہے اس کے متعلق ہمارا ایمان وہی ہے جو قرآن کریم نے ہمیں عطا فرمایا ہے کہ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ - (سورة الاخلاص) یعنی تو کہہ دے کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں ( اور وہ کسی کا محتاج نہیں).نہ اُس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے.اور اُس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے.کوئی اس کا شریک نہیں.سب اس کے حاجت مند ہیں.ذرہ ذرہ اُس سے زندگی پاتا ہے.وہ گل چیزوں کے لئے مبدء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں.وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 417) 49

Page 116

میہ السلام فرماتے ہیں: تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے.نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی ازلی اور ابدی یعنی آنادی اور اکال ہے ، نہ کسی چیز کی صفات اس کی صفات کی مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور با ایں ہمہ غیر محدود ہے.انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.“ لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 155،154) (قسط نمبر 51، الفضل انٹر نیشنل 25 مارچ 2023ء صفحہ 4) 50 50

Page 117

سوال: انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ خدا تعالیٰ کون ہے اور کیا ہے ؟ Big Bang سے کائنات کا آغاز ہوا اور اس وقت سے کائنات خود بخود چل رہی ہے تو پوری کائنات ہی خدا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد ہم خدا تعالیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں، یہ کس طرح ہوتا ہے ؟ روح کی حقیقت کیا ہے اور جب جنت اور جہنم کائنات کے مختلف حصے ہیں تو کیا روح ان کے درمیان سفر کر سکتی ہے یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟ حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2022ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: اسلامی تعلیمات ، جن پر ہمارا کامل ایمان ہے ان کے مطابق خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہستی ہے جو اس کائنات کے سارے نظام کو چلا رہی ہے.چنانچہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کو کسی نہ کسی ذات یا ہستی نے بنایا ہے اور سائنس بھی اس بات کو مانتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز خود بخود نہیں ہے بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ضرور ہے.سائنس اسے نیچر کہتی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق اس ہستی کو خدا تعالیٰ کی ذات مانتے ہیں.باقی خدا تعالیٰ کی لا محدود ہستی انسانی محدود علم سے بہت بالا اور برتر ہے.اس کے متعلق ہمارا ایمان وہی ہے جو قرآن کریم نے ہمیں عطا فرمایا ہے کہ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ - (سورة الاخلاص) یعنی تو کہہ دے کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں).نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے.اور اس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارہ میں فرماتے ہیں: ”خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے.کوئی اس کا شریک نہیں.سب اس کے حاجت مند ہیں.ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے.وہ گل چیزوں کے لئے مبدء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں.وہ نہ 51

Page 118

کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 417) تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے.نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی ازلی اور ابدی یعنی آنادی اور اکال ہے.نہ کسی چیز کی صفات اس کی صفات کی مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور باایں ہمہ غیر محدود ہے.“ لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 155،154) یاد رکھو کہ انسان کی ہر گز یہ طاقت نہیں ہے کہ ان تمام دقیق در دقیق خدا کے کاموں کو دریافت کر سکے بلکہ خدا کے کام عقل اور فہم اور قیاس سے برتر ہیں اور انسان کو صرف اپنے اس قدر علم پر مغرور نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو کسی حد تک سلسلہ علل و معلولات کا معلوم ہو گیا ہے کیونکہ انسان کا وہ علم نہایت ہی محدود ہے جیسا کہ سمندر کے ایک قطرہ میں سے کروڑ م حصہ قطرہ کا.اور حق بات یہ ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود نا پیدا کنار ہے ایسا ہی اس کے کام بھی نا پیدا کنار ہیں.اور اس کے ہر ایک کام کی اصلیت تک پہنچنا انسانی طاقت سے برتر اور بلند تر ہے...ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جس کی قدر تیں صرف ہماری عقل اور قیاس تک محدود ہیں اور آگے کچھ نہیں.بلکہ ہم اس خدا کو مانتے ہیں جس کی قدر تیں اس کی ذات کی طرح غیر محدود اور نا پید اکنار اور غیر متناہی ہیں.“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 280 تا 282) فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہیئے مگر میں اس کے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 352 مطبوعہ 2016ء) (قسط نمبر 53، الفضل انٹر نیشنل، 29 اپریل 2023ء ، صفحہ 4) 52

Page 119

الہامات حضرت مسیح موعود سوال : حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ بنگلہ دیش کے مربیان کی Virtual ملاقات مؤرخہ 08 نومبر 2020ء میں ایک مرتبی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک الہام ہوا تھا کہ ”پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو گی “ اس بارہ میں ہم حضور انور کی زبان مبارک سے کچھ سننا چاہتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: اب ایک سو تیس سال ہو گئے دلجوئی کرتے کرتے، اب اہل بنگالہ کوئی کام کریں گے تو پھر دلجوئی ہو گی.اب کام کریں اور کام کر کے دکھائیں.اپنے اندر تقویٰ کا معیار بلند کریں، اپنے اندر خدمت دین کے شوق کا معیار بلند کریں اور پھر اسے عملی جامہ پہنائیں.اور ملک میں ایک انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کریں.جتنی مخالفت ہوتی ہے، مخالفت تو ایک کھاد اور بیج کا کام دے رہی ہے، جماعت کا اتنا ہی تعارف ہو رہا ہے.جتنے احمدیوں کو مار پڑتی ہے اتنا ہی تعارف ہو رہا ہے.پاکستان میں احمدیوں کو مار پڑ رہی ہے تو اتنا باہر کی دنیا میں جماعت کا تعارف ہو رہا ہے ، بلکہ اب ملک میں بھی ہو رہا ہے.پہلے تو پاکستان میں صرف شہروں میں جماعت کی مخالفت ہوتی تھی اور شہر والوں کو پتہ تھا، اب دیہاتوں میں اور چھوٹی چھوٹی جگہوں پر بھی مخالفت ہوتی ہے، ہر جگہ پتہ لگ گیا ہے.اس تعارف ہونے کی وجہ سے باہر کی دنیا کو بھی پتہ لگ رہا ہے اور اندر بھی بعض نیک فطرت اور سعید فطرت لوگ ہیں، وہاں ان کو احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہم تحقیق کریں کہ جماعت احمد یہ کیا چیز ہے؟ اسلام کے بارہ میں ان کے کیا خیالات ہیں؟ اسلام کو یہ کیا سمجھتے ہیں؟ آنحضرت ام کا مقام ان کی نظر میں کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کے کلام کو یہ کس طرح مانتے ہیں؟ جب وہ تحقیق کرتے ہیں تو پھر اس تجسس کی وجہ سے ان کو پھر جماعت کے قریب آنے کا موقعہ ملتا ہے.تو یہ جو مخالفت ہے یہ تو آپ کے لئے کھاد کا کام دے رہی ہے ، اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اور جب آپ قربانیاں دیں گے تو اس کے بعد دلجوئی بھی آپ کی کی جائے گی.اور اس 53

Page 120

کے لئے اللہ کے فضل سے آپ نے قربانیاں دی ہیں.مسجدوں میں بم بھی پھٹے ، ہمارے مرتی کی ٹانگ بھی ضائع ہوئی، زخمی بھی ہوئے، شہید بھی ہوئے.تو وقتا فوقتا ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں.اور میں اللہ تعالیٰ سے حالات کی بہتری کے لئے دعا بھی کرتا رہتا ہوں.فکر بھی رہتی ہے.لیکن اس کے ساتھ ساتھ دلجوئی کا مقام حاصل کرنے کے لئے آپ کو بھی کوشش کرنی پڑے گی.اس لئے ہر مرتی اور معلم یہ عہد کرے کہ اس نے ڈرتے ڈرتے دن گزارنا ہے اور تقویٰ.رات بسر کرنی ہے.اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کی جو ذمہ داری اس پہ ڈالی گئی ہے، اس کو ایک خاص ولولہ اور جوش سے ملک کے کونے کونے میں پھیلانا ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے عملی نمونے دکھانے ہیں، اپنے اندر قناعت پیدا کرنی ہے.جو بھی تھوڑا بہت گزارا ملتا ہے، اور جو بھی تھوڑی بہت سہولیات جماعت کی طرف سے ملتی ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے.اور ان کو بہت سمجھنا ہے.اور اپنی قربانی کے معیار کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جانا ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بڑھنا ہے.اپنی راتوں کو زندہ کرنا ہے.ہر مرتی اور معلم کا کام ہے کہ کم از کم ایک گھنٹہ تہجد کی نماز پڑھے.اپنے جائزے لیں کہ کیا آپ لوگ ایک گھنٹہ تہجد پڑھتے ہیں؟ کیا آپ لوگ رات کو اٹھ کے ایک گھنٹہ نفل میں اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کے دعا کرتے ہیں؟ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے اور جماعت کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے.پھر قرآن کریم یہ تدبر اور غور کرنے کی عادت ڈالیں.صرف چند ایک بنے بنائے مضمون ہیں، ان کو پڑھنے سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا.اپنے علم کو بڑھائیں، اور وسیع تر کرنے کی کوشش کریں.یہی چیز ہے جو آپ کے لئے آگے انشاء اللہ کام بھی آئے گی اور آپ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے علماء سے بحث کرنے کے بھی قابل ہوں گے اور عوام الناس کو بھی بتانے کے قابل ہوں گے.ظاہری فقہ اور حدیث اور قرآن کی بعض تفسیریں تو بعض غیر احمدی علماء نے آپ سے زیادہ پڑھی ہوں گی اور وہ پڑھ کے اس کو بیان بھی کر سکتے ہیں لیکن آپ نے وہ حقیقت بیان کرنی ہے جو اس زمانہ کے حکم اور عدل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائی اور سمجھائی ہیں.اور وہی فقہ ہے جو ہم نے جاری کرنی ہے.وہی قرآن کریم کی تفسیر ہے، وہی حدیث کی تشریح ہے جو ہم نے دنیا کو بتانی ہے.اور اس کے لئے آپ کو محنت کرنی پڑے گی، اپنے علم 54

Page 121

55 55 میں اضافہ کرنا پڑے گا اور پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہو گی.اپنے علم میں اضافہ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اپنی روحانی ترقی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مددمانگیں.اور اس ملک میں جماعت احمدیہ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.اور مخالفت کے دُور ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.اپنے ملک کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.تو بہت ساری دعائیں ہیں جو انسان نے کرنی ہوتی ہیں، وہ آپ کریں.ایک جوش اور جذبے اور تڑپ سے یہ دعائیں کریں گے تو پھر دیکھیں کہ کس طرح ایک انقلاب آپ بنگلہ دیش میں لے آتے ہیں.اور پھر جب آپ پہ تھوڑی بہت سختیاں بھی آئیں گی تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان لوگوں نے سختیاں برداشت کیں ہیں اب ان کی دلجوئی بھی کرو.تب یہ دلجوئی ہو گی.(قسط نمبر 7، الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 12)

Page 122

الہی کتب میں اخفاء اور متشابہات سوال : ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتابوں میں Complicated باتیں کیوں بیان کی ہیں اور سب کچھ آسان اور واضح انداز میں کیوں نہیں بتا دیا.حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بعد میں اختلافات ہونے ہیں ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: اصل میں اعلیٰ درجہ کے ایمان کے لئے آزمائش شرط ہوتی ہے.اسی لئے سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات میں ہدایت پانے والے اور کامیابی حاصل کرنے والے متقیوں کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں.پس ایمان ہمیشہ اسی صورت میں مفید ہوتا ہے جب اس میں کوئی اخفاء کا پہلو ہو تا کہ مومن اور غیر مومن کا فرق واضح ہو سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اخفاء کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : پیشگوئی میں کسی قدر اخفاء اور متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہی ہمیشہ سے سنت الہی ہے...اگر آنحضرت ام کے متعلق جو پیشگوئیاں تورات اور انجیل میں ہیں وہ نہایت ظاہر الفاظ میں ہوتیں...تو پھر یہودیوں کو آپ کے ماننے سے کوئی انکار نہ ہو سکتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ ان میں متقی کون ہے جو صداقت کو اس کے نشانات سے دیکھ کر پہچانتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد نہم صفحہ 283، ایڈ یشن 1984) (قسط نمبر 19، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 56 56

Page 123

امانتاً دفن کئے گئے شخص کی دوبارہ نماز جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے سوال: امریکہ سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ امانت دفن کئے گئے شخص کی میت کو جب بہشتی مقبرہ منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی دوبارہ نماز جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے، جبکہ اسے فوت ہوئے کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 12 اپریل 2022ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: نماز جنازہ ایک دعا ہے جو مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے پڑھی جاتی ہے.اور جنت میں تو لا متناہی مقامات ہیں.اسی لئے نماز جنازہ کے بعد بھی لوگ مرحومین کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور جب ان کی قبروں پر جاتے ہیں تو وہاں بھی ان مرحومین کی بلندی درجات کے لئے دعا کرتے ہیں.اور یہ سارے امور آنحضور الم کی سنت سے ثابت ہوتے ہیں.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص جو مسجد کی صفائی ستھرائی کا کام کیا کرتا تھا ایک رات فوت ہو گیا اور لوگوں نے اسے دفن کر دیا.اگلے دن حضور الم نے اس شخص کی بابت دریافت تو آپ کو بتایا گیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے تو حضور الم نے فرمایا کہ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں کی.پھر حضور اس شخص کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں اس کی نماز جنازہ ادا کی.(صحيح بخاري كتاب الصلاة) اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر کی روایت ہے کہ ایک روز نبی کریم الله لم باہر تشریف لائے اور شہداء اُحد کے لئے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لئے دعا کی جاتی ہے.(صحيح بخاري كتاب الجنائز) باقی کسی امانتاد فن ہونے والے شخص کی میت کی منتقلی پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر پڑھ لیا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات بھی نہیں.چنانچہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کی وفات پر انہیں 11 اکتوبر 1905ء کو امانتاً دفن کیا گیا تھا، کیونکہ حضور علیہ السلام کی منشاء تھی کہ بہشتی مقبرہ کے قیام پر ان کی میت کو بہشتی مقبرہ منتقل کیا جائے.لہذا 26 دسمبر 1905ء کو حضرت مولوی صاحب کی میت کو بہشتی مقبرہ منتقل کرتے 57

Page 124

58 58 وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی دوبارہ نماز جنازہ ادا کی.(الحکم نمبر 36، جلد 9، مؤرخہ 17 اکتوبر 1905ء صفحہ 1.اور الحکم نمبر 1، جلد 10، مؤرخہ 10 جنوری 1906ء صفحہ 6) پس یہی ہمارا طریق ہے کہ میت کی منتقلی پر بعض اوقات ہم دوبارہ نماز جنازہ پڑھ لیتے ہیں.اور بعض اوقات نئی قبر تیار ہونے پر صرف دعا کر لی جاتی ہے.دونوں طریق ہی درست ہیں.(قسط نمبر 54، الفضل انٹر نیشنل، 6 مئی 2023، صفحہ 8)

Page 125

إنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنا سوال: اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے عرض کیا کہ جب کوئی مسلمان فوت ہوتا ہے تو ہم إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھتے ہیں.اگر کوئی غیر مسلم فوت ہو تو کیا ہم اس کے لئے بھی یہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: اگر ہمیں اس کا افسوس ہے.یا وہ تعلق والا ہے تو ظاہر ہے اسی طرح پڑھنا ہے کہ ہم سارے اللہ کے پاس ہی جانے والے ہیں.جانا تو سب نے اللہ کے حضور ہی ہے.آگے اللہ نے ان سے کیسا سلوک کرنا ہے یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے.ہو سکتا ہے کوئی غیر مسلم بھی ہو لیکن اس کی کوئی نیکی اللہ کو پسند آجائے تو اس کو اللہ تعالیٰ بخشنے کا سامان کر دے.یا جو بھی اس سے سلوک کرنا ہے وہ کرے.إِنَّا لِلہ اس لئے پڑھا جاتا ہے کہ اگر کوئی بھی نقصان ہو تو اس کا مداوا کرنا، اس کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.تو ہم یہ پڑھتے ہیں کہ ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف ہر نقصان پہ اور ہر معاملہ میں رجوع کرتے ہیں.اگر ہمارا کوئی دوست ہے یا ہمارا کوئی ایسا ہمدرد ہے جس نے ہمارے ساتھ نیکی کی ہو اس پر اگر ہم یہ دعا دے دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی اللہ کے پاس گیا اور ہم نے بھی اللہ کے پاس جانا ہے.اس کی وجہ سے ہمیں جو نقصان ہوا وہ اللہ تعالیٰ پورا کرے اور اس کی کسی بھی حرکت یا بات پہ کوئی نیک سلوک ہو سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اس سے کر دے.اصل چیز تو یہ ہے کہ إِنَّا لِلہ اس لئے پڑھی جاتی ہے کہ ہم اللہ سے یہ مانگتے ہیں کہ ہمارا نقصان پورا ہو جائے.اس کے مرنے سے ہمیں جو افسوس ہے، ہمارا صدمہ ہے وہ اللہ تعالیٰ دُور فرمائے کیونکہ ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں.کوئی بھی نقصان ہو.جان کا نقصان ہو یا مال کا نقصان ہو یا کسی بھی قسم کا نقصان ہو.کسی کے مرنے پہ ضروری نہیں ہے.کسی کو کوئی مالی نقصان بھی ہو.تمہارے پیسے ضائع ہو جائیں تب بھی تم إِنَّا لِلہ پڑھتے ہو.اس لئے کہ ہم نے ہر معاملہ میں اللہ کی طرف ہی جانا ہے.کسی پر انحصار نہیں کرنا.تو اس لئے إِنَّا لِلہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے.جس کو تم جانتے ہو اور ہ تمہارا قریبی ہے اور اس سے تمہیں فائدہ بھی پہنچتا ہے اس کے فوت ہونے سے تم اگر إِنَّا لِلہ وہ 59

Page 126

پڑھ لو تو اس میں کوئی حرج نہیں.ویسے بھی ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحم مانگ لینا چاہیئے، سوائے اس کے کہ وہ مشرک ہو.مشرک یعنی شرک کرنے والا جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ پر شرک کرتا ہے اس کے لئے دعا نہیں کرنی.باقی جو مذہب کو مانتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا بھی کی جاسکتی ہے.اس میں کوئی حرج نہیں.(قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 60 60

Page 127

انسانی جان بچانا سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حال ہی میں امریکہ کے ڈاکٹروں نے انسانی جان بچانے کے لئے سور کے دل کو بیمار انسان کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا ہے.کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 02 فروری 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: میں پہلے بھی کسی موقعہ پر اس بارہ میں بتا چکا ہوں کہ جہاں انسانی جان بچانے کا سوال ہو، وہاں اس قسم کے طریق علاج میں کوئی حرج کی بات نہیں.شراب کو بھی اسلام نے حرام قرار دیا ہے لیکن دوائیاں جو انسانی جان بچانے کا موجب ہوتی ہیں، ان میں اس کا استعمال جائز ہے.کیونکہ یہ سب اضطرار کی حالتیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں سور کے گوشت کی حرمت بیان فرمائی ہے وہاں اضطراری حالت میں اس کے استعمال کی اجازت بھی دی ہے.پس علاج کے طور پر جان بچانے کے لئے انسانی جسم میں سور کے دل کی ٹرانسپلانٹیشن (Transliteration) کرنا جو دراصل ایک اضطرار ہی کی حالت ہے ، جائز ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں.پرانے علماء و فقہاء میں سے بعض کا کہنا ہے کہ سور کا گوشت کھانا منع ہے لیکن اس کے بال اور کھال وغیرہ کا استعمال جائز ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس کی چربی کھانا بھی جائز ہے.اگر چہ ہمارے نزدیک عام حالات میں سور کی کسی بھی چیز کا ایسا استعمال جو کھانے کے مفہوم میں شامل ہو جائز نہیں.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ البقرۃ کی آیت 174 کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت میں جو لَحْمُ الْخِنْزِيرِ فرمایا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ تخم میں چربی بھی شامل ہے یا نہیں.جہاں تک لغت کا سوال ہے شَخہ یعنی چربی کو تخم سے الگ قسم کا خیال کیا جاتا ہے.لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ تخم کے نام میں شخہ شامل ہے.گو مفسرین کی دلیل ذوقی 61

Page 128

ہے اور لغت والوں کی بات اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے.مگر اس کے باوجود میرے نزدیک سور کی شخم یعنی چربی جائز نہیں.اور اس کی دلیل میرے پاس یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مردہ جانور کی چربی حرام ہے.اور سؤر کی حرمت اور مردہ کی حرمت ایک ہی آیت میں اور ایک ہی الفاظ میں بیان کی گئی ہے.پس دونوں کا حکم ایک قسم کا سمجھا جائے گا.لیکن سؤر کی جلد کا استعمال جائز ہو گا کیونکہ وہ کھائی نہیں جاتی.“ (تفسیر کبیر جلد چہارم، تفسیر سورۃ النحل صفحہ 260) اسی طرح اس سوال کہ ٹوتھ برش کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ، یہ برش اکثر سور کے بالوں سے بنائے جاتے ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”ہماری تحقیقات تو یہ ہے کہ سب کے سب برش سؤر کے بالوں کے نہیں ہوتے.باقی رہا سور کے بالوں کا استعمال.یہ شرعی لحاظ سے جائز ہے.کیونکہ سور کا گوشت حرام کیا گیا جو کھانے کی چیز ہے.اور بال کوئی کھاتا نہیں.ایک بڑے بزرگ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ سور کی چربی بھی جائز ہے کیونکہ سور کا لحم حرام کیا گیا ہے نہ کہ چربی.دوسرے فقہاء نے کہا ہے.یہ فتویٰ دینے والے کی بزرگی میں تو کلام نہیں مگر اُن کا یہ استدلال غلط ہے.ان کو زبان کے لحاظ سے غلطی لگی ہے.کیونکہ چربی لحم میں شامل ہوتی ہے.انہوں نے علیحدہ سمجھی ہے.“ ( اخبار الفضل قادیان دار الامان نمبر 5 جلد 16 ، مؤرخہ 17 جولائی 1928ء صفحہ 7) یہودی مذہب میں بھی سؤر کی افزائش اور اس کا کھانا حرام ہے لیکن انسانی جان بچانا چونکہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اس لئے عصر حاضر کے یہودی علماء کے نزدیک سور سے دل کا حصول یہودی ضوابط خوراک کی کسی بھی طرح خلاف ورزی نہیں ہے.اسی طرح عصر حاضر کے بعض مسلمان علماء نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اگر مریض کی زندگی ختم ہونے ، اس کے کسی عضو کی ناکامی، مرض کے پھیلنے اور شدید تر ہونے، یا جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سور کے دل کے Valve انسان کو لگائے جاسکتے ہیں.(قسط نمبر 33، الفضل انٹر نیشنل 06 مئی 2022ء صفحہ 9) 62

Page 129

انشورنس سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ کاروباروں میں مختلف قسم کے مفادات کے حصول نیز حادثاتی نقصانات سے بچنے کے لئے انشورنس کروانے کے بارہ میں اسلامی حکم کیا ہے؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11 اپریل 2016ء میں جو جواب عطا فرمایا، اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جواب: انشورنس صرف وہ جائز ہے جس پر ملنے والی رقم نفع و نقصان میں شرکت کی شرط کے ساتھ ہو اور اس میں جوئے کی صورت نہ پائی جاتی ہو.اگر صرف نفع کی شراکت کی شرط کے ساتھ ملے تو سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے.اسی طرح اگر پالیسی ہولڈر کمپنی کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے کہ وہ صرف اپنی جمع شدہ رقم وصول کرے گا اور اس پر سود نہ لے گا تو ایسی انشورنس کروانے میں بھی کوئی حرج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انشورنس اور بیمہ کے سوال پر فرمایا: وو سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے.قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی.دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے.“ (اخبار بدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 مارچ 1903ء صفحہ 76) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا: "اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدے اور نقصان میں شامل ہو گا تو پھر بیمہ کرانا جائز ہو سکتا ہے.“ (الفضل 7 جنوری 1930ء) ایک خط کے جواب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھایا کہ: یہ بات درست نہیں کہ ہم انشورنس کو سود کی ملونی کی وجہ سے ناجائز قرار دیتے ہیں.کم از کم میں تو اسے اس وجہ سے ناجائز قرار نہیں دیتا.63

Page 130

اس کے ناجائز ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ انشورنس کے کاروبار کی بنیاد سود پر ہے.اور کسی چیز کی بنیاد سود پر ہونا اور کسی چیز میں ملونی سود کی ہونا ان میں بہت بڑا فرق ہے.گورنمنٹ کے قانون کے مطابق کوئی انشورنس کمپنی ملک میں جاری نہیں ہو سکتی جب تک ایک لاکھ کی سیکوریٹیز گورنمنٹ نہ خریدے.پس اس جگہ آمیزش کا سوال نہیں بلکہ لزوم کا سوال ہے.2.دوسرے انشورنس کا اصول سود ہے.کیونکہ شریعت اسلامیہ کے مطابق اسلامی اصول یہ ہے کہ جو کوئی رقم کسی کو دیتا ہے یا وہ ہدیہ ہے یا امانت ہے یا شراکت ہے یا قرض ہے.ہدیہ یہ ہے نہیں.امانت بھی نہیں، کیونکہ امانت میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی.یہ شراکت بھی نہیں، کیونکہ کمپنی کے نفع و نقصان کی ذمہ داری اور اس کے چلانے کے اختیار میں پالیسی ہولڈر شریک نہیں.ہم اسے قرض ہی قرار دے سکتے ہیں اور حقیقتا یہ ہوتا بھی قرض ہی ہے.کیونکہ اس روپیہ کو انشورنس والے اپنے ارادہ اور تصرف سے کام پر لگاتے ہیں اور انشورنس کے کام میں گھاٹا ہونے کی صورت میں روپیہ دینے والے پر کوئی ذمہ واری نہیں ڈالتے.پس یہ قرض ہے اور جس قرض کے بدلہ میں کسی قبل از وقت سمجھوتہ کے ماتحت کوئی نفع حاصل ہو اسے شریعت اسلامیہ کی رو سے سود کہا جاتا ہے.پس انشورنس کا اصول ہی سود پر مبنی ہے.3.تیسرے انشورنس کا اصول ان تمام اصولوں کو جن پر اسلام سوسائٹی کی بنیا درکھنا چاہتا ہے باطل کرتا ہے.انشورنس کو کلی طور پر رائج کر دینے کے بعد تعاون باہمی ، ہمدردی اور اخوت کا مادہ دنیا سے مفقود ہو جاتا ہے.(اخبار الفضل قادیان مؤرخہ 18 ستمبر 1934 صفحہ 5) بعض ملکوں میں حکومتی قانون کے تحت انشورنس کروانا لازمی امر ہوتا ہے.ایسی انشورنس کروانا جائز ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سے ایک دوست نے 25 جون 1942ء کو سوال کیا کہ یو پی (انڈیا) گورنمنٹ نے حکم دیا ہے کہ ہر شخص جس کے پاس کوئی موٹر ہے وہ اس کا بیمہ 64

Page 131

کرائے کیا یہ جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا: ”اس کے متعلق بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ حکم صرف یوپی گورنمنٹ کا ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی گورنمنٹ کا یہی حکم ہے.یہ بیمہ چونکہ قانون کے ماتحت کیا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے اسے جبری قرار دیا گیا ہے اس لئے اپنے کسی ذاتی فائدہ کے لئے نہیں بلکہ حکومت کی اطاعت 66 کی وجہ سے یہ بیمہ جائز ہے افضل 4 نومبر 1961ء فرمود 25 جون 1942ء) انشورنس کے متعلق مجلس افتاء نے درج ذیل سفارش حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں پیش کی جسے حضور انور نے 23 جون 1980ء کو منظور فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے فتاوی کے مطابق جب تک معاہدات سود اور قمار بازی سے پاک نہ ہوں بیمہ کمپنیوں سے کسی قسم کا بیمہ کروانا جائز نہیں ہے.یہ فتاوی مستقل نوعیت کے اور غیر مبدل ہیں البتہ وقتا فوقتاً اس امر کی چھان بین ہو سکتی ہے کہ بیمہ کمپنیاں اپنے بدلتے ہوئے قوانین اور طریق کار کے نتیجہ میں قمار بازی اور سود کے عناصر سے کس حد تک مبرا ہو چکی ہیں.مجلس افتاء نے اس پہلو سے بیمہ کمپنیوں کے موجودہ طریق کار پر نظر کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگر چہ رائج الوقت عالمی مالیاتی نظام کی وجہ سے کسی کمپنی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے کاروبار میں کلیۂ سود سے دامن بچا سکے لیکن اب کمپنی اور پالیسی ہولڈر کے درمیان ایسا معاہدہ ہونا ممکن ہے جو سود اور قمار بازی کے عناصر سے پاک ہو.اس لئے اس شرط کے ساتھ بیمہ کروانے میں حرج نہیں کہ بیمہ کروانے والا کمپنی سے اپنی جمع شدہ رقم پر کوئی سود وصول نہ کرے.رجسٹر فیصلہ جات مجلس افتاء صفحه : 60 غیر مطبوعہ) (قسط نمبر 3، الفضل انٹر نیشنل 04 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 65

Page 132

انگوٹھی سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ کی مؤرخہ 07 نومبر 2020ء کو ہونے والی Virtual ملاقات میں ایک ممبر عاملہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین انگوٹھیاں بنوائی تھیں، دو انگوٹھیاں ہم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک میں دیکھی ہیں، تیسری انگوٹھی کس کے پاس ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا: جواب: أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی حضرت اناں جان نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو دے دی تھی اور دوسری انگوٹھی جس پر غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِي وَقُدْرَتِي کا الهام درج تھا، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو دے دی تھی اور ”مولی بس“ والی انگوٹھی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو دیدی تھی.أليس الله والی انگوٹھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو دی تھی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد یہ انگوٹھی جو بھی خلیفہ بنے گا، اس کو ملے گی اور بائے ذاتی ہونے کے خلافت کو منتقل ہو جائے گی.لیکن جو دوسری دو انگوٹھیاں تھیں وہ دونوں بھائیوں نے اپنے پاس رکھی رکھیں.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی انگو ٹھی جو تھی ان کی وفات کے بعد میرے والد صاحب کے پاس آئی.اس کے بعد میری والدہ نے ان کی وفات کے بعد مجھے دے دی.اور پھر اللہ تعالیٰ نے جب خلافت کا منصب دیا تو میں نے وہ انگوٹھی پہنی بھی شروع کر دی.تیسری انگوٹھی جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پاس تھی، وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کے بعد حضرت مرزا مظفر احمد صاحب کو منتقل ہو گئی تھی.حضرت مرزا مظفر احمد صاحب کے کوئی اولاد نہیں تھی تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بیٹی امتہ الجمیل صاحبہ اور محترم ناصر احمد سیال صاحب ابن حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کے بیٹے کو لے پالک بنایا تھا، اور وہ ان کے ساتھ رہا، ان کے گھر میں پلا بڑھا، تو اس کے بعد انہوں نے وہ انگوٹھی اس کو دے دی وہ آجکل امریکہ میں رہتا ہے.(قسط نمبر 6، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 66

Page 133

اولاد سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ بچے اکثر سوال کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے تو خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی ہم پر کیوں لازم ہے؟ نیز لکھا کہ دعائے قنوت میں جو یہ فقرہ ہے کہ ”ہم چھوڑتے ہیں تیرے نافرمان کو “ تو کیا اس سے مراد نافرمان اولاد اور افراد جماعت بھی ہو سکتے ہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں ان سوالات کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ ایک بچہ کو اس کے والدین کی خواہش کے مطابق پیدا کرتا ہے.پھر والدین کو نصیحت کرتا ہے کہ اولاد کے نیک اور صالح ہونے کے لئے دعا کرو اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دعا بھی سکھائی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دے کر اسے سوچنے کے لئے ذہن اور زندگی گزارنے کے لئے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے.پھر اسے اچھے اور بُرے کی پہچان کروا کر آزاد چھوڑ دیا اور اسے کہا کہ اگر اس دنیا کی عارضی زندگی میں اچھے کام کرو گے تو آخرت کی دائمی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے مختلف قسم کے انعامات کے وارث قرار پاؤ گے لیکن اگر بُرے کام کرو گے تو شیطان کے قبضہ میں چلے جاؤ گے جس کی وجہ سے ایک تو قسما قسم کے ان انعامات سے محروم رہو گے اور دوسرا شیطان کے نقش قدم پر چلنے کی وجہ سے جن روحانی بیماریوں کا شکار ہو گے ان کے علاج کے لئے اخروی زندگی کی جہنم میں جو کہ وہاں کا ہسپتال ہے طرح طرح کے تکلیف دہ علاجوں سے گزارنا پڑے گا.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ اور شیطان کے جس مکالمہ کو ہمارے لئے بیان کیا ہے اس میں بھی یہی مضمون ہے کہ جب شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں انسانوں کو تیری راہ سے بہکاؤں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے تیری بات ہر گز نہیں مانیں گے اور میں اپنے ان بندوں کو جنت جیسے انعامات سے نوازوں گا اور جو تیری بات مانیں گے تو میں ان سے جہنم کو بھروں گا.67

Page 134

پس اب یہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ خود سوچے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کر کے اس کے انعامات کا وارث بننا ہے یا شیطان کی راہ اختیار کر کے جہنم کی سزاؤں کا حقدار بننا ہے.(قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 68 88

Page 135

ایک مسجد میں دو جمعے ہو سکتے ہیں سوال: نارووال پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کیا کہ کیا نماز جنازہ نماز ہے یا اسے ایسے ہی نماز کا نام دیدیا گیا ہے کیونکہ اس کے لئے مکروہ اوقات کا خیال نہیں رکھا جاتا؟ نیز کیا ایک مسجد میں دو جمعے ہو سکتے ہیں ؟ ربوہ میں ڈیوٹی والے اسی مسجد میں علیحدہ خطبہ دیکر الگ جمعہ پڑھتے ہیں، جبکہ فقہ احمدیہ میں اس کی نفی کی گئی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 07 جنوری 2022ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: باقی جہاں تک ایک مسجد میں دو جمعوں کی ادائیگی کا سوال ہے تو اگر مجبوری ہو تو جس طرح نماز باجماعت دوبارہ ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث نبویہ الم سے ثابت ہے.(سنن ترمذي كتاب الصلوة باب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ قَدْ صُلّي فِيهِ مَرَّةً) اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی حسب ضرورت دوسری جماعت کو جائز قرار دیا ہے.(اخبار بدر قادیان جلد 6، نمبر 1، مؤرخہ 10 جنوری 1907ء صفحہ 18) اسی طرح جمعہ بھی دوبارہ ہو سکتا ہے.اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.البتہ اس کے لئے یہ احتیاط کر لینی چاہیئے کہ جس جگہ پہلے نماز جمعہ ادا کی گئی ہو وہاں دوبارہ جمعہ نہ پڑھا جائے بلکہ مسجد کے کسی اور حصہ میں ڈیوٹی والے خدام اپنے نئے خطبہ کے ساتھ الگ جمعہ پڑھ لیں.چنانچہ اس کی مثال حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں ہمیں ملتی ہے.الفضل قادیان میں مدینتہ المسیح کے عنوان کے نیچے لکھا ہے: جمعہ کے دن زن و مرد مسجد اقصیٰ میں چلے جاتے.جس سے بعض شریروں کو شرارت کرنے کا موقعہ مل گیا اور ایک دو صاحبوں کا مالی نقصان ہو گیا.اس لئے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی تجویز کو حضرت مولوی صاحب (خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ.ناقل ) نے منظور فرمالیا.وہ یہ کہ تا حصول اطمینان طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ 12 بجے 69

Page 136

سے بعد نماز جمعہ ہو جانے تک پہرہ دے اور پھر یہ فدائی مسجد مبارک میں جمعہ پڑھ لیں.چنانچہ اس جمعہ اس تجویز کے مطابق لاہور کے مخلص و پر جوش نوجوان بابو وزیر محمد صاحب اور چند افغانستانی احباب اور منشی اکبر شاہ خانصاحب نے اپنے ہیں تیس لڑکوں کے ساتھ پہرہ دیا اور جب لوگ مسجد اقصیٰ سے واپس پھرے تو حسب ارشاد امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ.ناقل ) خان صاحب نے جمعہ پڑھایا.الفضل قادیان دارلامان جلد 1 ، نمبر 4، مؤرخہ 9 جولائی 1913ء صفحہ 1) پس ایک جمعہ ہونے کے بعد دوسرا جمعہ بھی ہو سکتا ہے لیکن جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ سے ثابت ہے کہ ایسا صرف حسب ضرورت اور مجبوری ہو سکتا ہے.نیز اس کے لئے مقامی انتظامیہ کی اجازت بھی ضروری ہے اور تیسری بات یہ کہ جس مسجد میں جمعہ ہو چکا ہو وہاں دوبارہ جمعہ نہ پڑھا جائے بلکہ کسی اور جگہ پر پڑھا جائے، لیکن اگر دوسری جگہ کا انتظام ممکن نہ ہو تو اسی مسجد میں محراب سے پیچھے صحن میں یا مسجد کی کسی ایک طرف دوسرا جمعہ پڑھ لیا جائے.(قسط نمبر 51، الفضل انٹر نیشنل 25 مارچ 2023ء صفحہ 4) 70

Page 137

بچوں کو Adopt کرنا سوال: یو کے سے ایک خاتون نے بچوں کو Adopt کرنے نیز ان بچوں اور ان کے دیگر عزیز و اقارب کے حقوق و فرائض کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی چاہی ہے.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 ستمبر 2021ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اسلامی تعلیمات کی رُو سے بچوں کو Adopt کرنے کی اجازت تو ہے لیکن اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاص طور پر یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایسے بچوں کو ان کے حقیقی والدین ہی کے ناموں کے ساتھ یاد کیا جائے.(سورۃ الاحزاب: 6،5) اس لئے ایسے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی ان کے Adopt کئے جانے کے بارہ میں اور ان کے حقیقی والدین کے متعلق بتا دینا چاہیے.یہی صحیح اسلامی تعلیم ہے.جہاں تک ایسے بچوں کے وراثت وغیرہ میں شرعی حق کا تعلق ہے تو وہ ان کے حقیقی والدین کے ساتھ ہی قائم رہتا ہے.یعنی ان بچوں کے حقیقی والدین ان بچوں کے اور یہ بچے اپنے حقیقی والدین کے شرعی وارث ہوتے ہیں.Adoption کی وجہ سے ان بچوں اور ان کے حقیقی والدین کے باہمی وراثتی شرعی حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑتا.البتہ ایسے بچوں کو Adopt کرنے اور ان کی پرورش کرنے والے والدین بھی اگر کچھ ان بچوں کو دینا چاہیں تو اپنی زندگی میں ہبہ کے ذریعہ اور زندگی کے بعد وصیت کی صورت میں انہیں دے سکتے ہیں.لیکن وصیت انسان اپنے گل ترکہ کے زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ تک ہی کر سکتا ہے.(صحيح بخاري كتاب الوصايا باب أن يَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَكَفَّفُوا النَّاسَ) (قسط نمبر 45، الفضل انٹر نیشنل 16 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 71

Page 138

بسْمِ اللہ سورۃ الفاتحہ کا حصہ سوال: لندن سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جب بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا حصہ ہے تو ہم نماز میں الحمدُ للہ سے قراءت کیوں شروع کرتے ہیں، بسم اللہ سے کیوں نہیں شروع کرتے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 07 جنوری 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: احادیث میں یہ بات بڑی وضاحت سے موجود ہے کہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم با قاعدہ ایک آیت ہے اور قرآن کریم کی ہر اس سورۃ کا حصہ ہے جس کے شروع میں یہ نازل ہوئی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں اس مضمون کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے.باقی جہاں تک نماز میں سورۃ الفاتحہ یا کسی دوسری سورۃ سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بات ہے تو نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ یا کسی بھی دوسری سورۃ سے پہلے ہم بسم اللہ پڑھتے ہیں.ہاں یہ بات درست ہے کہ اسے اونچی آواز سے نہیں پڑھا جاتا بلکہ آہستہ آواز سے پڑھا جاتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث کی مستند کتب سے ایسا ہی ثابت ہے کہ حضور اللیلم نمازوں میں بِسْمِ اللہ کو سورۃ الفاتحہ اور دوسری سورتوں سے پہلے آہستہ آواز میں ہی پڑھتے تھے.چنانچہ حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ لی ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ جب بھی نماز شروع کرتے تو الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن سے شروع کرتے.(بخاري) کتاب الاذان باب ما يقول بعد التكبير) اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت الام ، حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کے پیچھے نمازیں پڑھیں.میں نے کبھی بھی ان سے بلند آواز سے (سورۃ سے پہلے ) بِسْمِ اللہ نہیں سنی.(سنن نسائی کتاب الافتتاح باب ترك الجهر بسم الله) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ بسم اللہ جہراً نہیں پڑھتے تھے.72

Page 139

خلفائے احمدیت نے بھی اسی طریق کو جاری فرمایا اور بسم اللہ جہر آ نہیں پڑھی.جماعتی پجہتی کا تقاضا یہی ہے کہ نماز با جماعت میں امام الصلوۃ وہی طریق اختیار کرے جو آنحضرت اللام ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء سے ثابت ہے.ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی نماز میں بسم اللہ جہر آ پڑھے تو ہم اسے غلط نہیں سمجھتے کیونکہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضور ام نے اسے جہر آ بھی پڑھا ہے.اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: بشم اللہ جہراً اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے.ہمارے حضرت مولوی عبد الكريم صاحب (اللَّهُمَّ اغْفِرْهُ وَارْحَمْهُ) جو شیلی طبیعت رکھتے تھے ، بسم اللہ جہر اپڑھا کرتے تھے.حضرت مرزا صاحب جہراً نہ پڑھتے تھے.ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں.صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو.ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے.ہر دو طرح جائز ہے.بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بر الگتا تھا تو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے.مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے، کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے.“ (بدر نمبر 32 جلد 11، 23 مئی 1912ء صفحہ 3) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی ایک عمر گزار کر احمدی ہوئے تھے اور احمدیت سے قبل وہ بسم اللہ جہر آہی پڑھا کرتے تھے اور چونکہ یہ طریق بھی آنحضور ام سے ثابت ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں اس سے منع نہیں فرمایا.لیکن جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد سے نیز بہت سے اور کبار صحابہ جن میں حضرت میاں عبد اللہ صاحب سنوری ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شامل ہیں، ان کی روایات سے ثابت ہو تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عمل وہی تھا جسے آپ کے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ایم نے اکثر اختیار فرمایا.73

Page 140

پس اب ہمیں اس معاملہ میں بھی پیجہتی قائم رکھنے کے لئے اسی طریق کو اختیار کرنا چاہیے جسے آنحضور ا نے کثرت سے اختیار فرمایا، اور جس طریق پر اسلام کی نشاۃ اولیٰ میں قائم ہونے والی خلافت حقہ اسلامیہ کی مسند پر متمکن ہونے والے خلفاء نے نیز اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں تجدید دین کے لئے مبعوث ہونے والے حضور ا کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت حقہ اسلامیہ کے ہر مظہر نے اپنے اپنے وقت میں عمل کیا.اسی یگانگت کو قائم رکھنے کی خاطر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کے اس استفسار پر کہ بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ہے کہ حضور الم بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے ، اگر حضور جہر آبسمِ اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں فرماتے تو جہر آ پڑھوں ورنہ چھوڑ دوں؟ حضور نے فرمایا: ”بخاری اور مسلم میں آیا ہے کہ بالجہر نہیں پڑھی تو کیا پھر یہ دوسری کتابیں بخاری مسلم سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں.“ فرمودات مصلح موعود درباره فقهی مسائل صفحه 57،56) (قسط نمبر 51، الفضل انٹر نیشنل 25 مارچ 2023ء صفحہ 4) 74

Page 141

بنگلہ دیش سوال: اسی Virtual ملاقات مورخہ 14 نومبر 2020ء میں صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ بنگلہ دیش نے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور بنگلہ دیش کی لجنہ اور ناصرات کے لئے کوئی پیغام ارشاد فرما دیں جو اس میٹنگ کے بعد وہ سب کو پہنچا دیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: سب کو میرا "السلام عليكم ورحمة الله وبركاته‘ پہنچا دیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیں کہ اپنے ایمان پہ قائم رہنا.مشکل حالات آتے ہیں، پریشانیاں آتی ہیں، تکلیفیں آتی ہیں، اس کو کبھی اپنے دین پہ حاوی نہ ہونے دینا.اور ہمیشہ ہر مشکل اور ہر تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا.اور کسی انسان سے کسی قسم کی امید نہ رکھنا.اور اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنی نسل کی تربیت کے لئے عہد کرو کہ ہم نے انہیں نیک اور صالح بناتا ہے اور صحیح مومن بنانا ہے.اور اگر یہ دعا کریں گی اور اپنے بچوں کے لئے کوشش کریں گی تو ظاہر ہے کہ خود بھی اس کے لئے کوشش کرنی پڑے گی.اس لئے اپنی اصلاح کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دیں تاکہ آئندہ نیک نسلیں پیدا ہوتی رہیں.اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ہماری عورتوں کی اصلاح ہو جائے اور ہماری عور تیں نیک ہو جائیں، ہماری عورتیں تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے لگیں تو ہماری نسلیں انشاء اللہ تعالیٰ محفوظ ہو جائیں گی، پھر ہمیں کوئی فکر نہیں ہو گی.یہی لجنہ اماءاللہ کا کام ہے اور یہی میرا پیغام سب لجنہ اماء اللہ کو اور سب ناصرات کو ہے جنہوں نے آئندہ بھی انشاء اللہ تعالی مائیں بننا ہے.(قسط نمبر 19، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 75

Page 142

بینکنگ سوال: مصر سے ایک ڈاکٹر صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ بینک کی مینجمنٹ میں بطور انجنیئر یا بینک کی ملکیتی کسی انجنیئر نگ کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ کیونکہ اس سے سود اور شراب کے کام پر تعاون ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 18 اکتوبر 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: موجود زمانہ میں بینکنگ سسٹم تقریباً ہر دنیاوی کاروبار کا لازمی جزو ہے اور دنیا کے اکثر بینکوں کے نظام میں کسی نہ کسی طرح سود کا عنصر موجود ہوتا ہے، جو ان کاروباروں کا بھی حصہ بنتا ہے.لہذا اس بات کو سمجھنے کے لئے اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسب ذیل ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اب اس ملک میں اکثر مسائل زیر وزبر ہو گئے ہیں.گل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے.اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.66 (البدر نمبر 41 و42، جلد 3، مؤرخہ یکم و 8 نومبر 1904ء صفحہ 8) پس ایسے حالات میں اگر انسان بہت زیادہ وہم میں پڑا رہے تو اس کا زندگی گزارنا ہی دُوبھر ہو جائے گا.کیونکہ عام زندگی میں جو لباس ہم پہنتے ہیں، ان کپڑوں کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں بھی کہیں نہ کہیں سودی پیسہ لگا ہو گا.جو بریڈ ہم کھاتے ہیں، اس کے کاروبار میں بھی کہیں نہ کہیں سودی پیسہ کی آمیزش ہو گی.اگر انسان ان تمام دنیاوی ضرورتوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہے جو بظاہر ناممکن ہے پھر بھی وہ مکان جس اینٹ، ریت اور سیمنٹ سے بنا ہے، ان چیزوں کو بنانے والی کمپنیوں کے کاروبار میں بھی کہیں نہ کہیں سودی کاروبار یا سود کے پیسہ کی ملونی ہو گی.پس بہت زیادہ میں میکھ نکال کر اور وہم میں پڑ کر اپنے لئے بلا وجہ مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں.حدیث میں بھی آتا ہے ، حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں.76

Page 143

أَنَّ قَوْمًا قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُوْنَنَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذكَرُوا اسْمَ اللهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمُّوا اللَّهَ عَلَيْهِ وَكُلُوهُ (صحيح بخاري كتاب البيـوع بـاب مـن لَمْ يَرَ الْوَسَاوِسَ وَنَحْوَهَا مِنَ الشَّبُهَاتِ) یعنی کچھ لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ایک جماعت ہمارے پاس گوشت لے کر آتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے (اسے ذبح کرتے وقت) اس پر اللہ کا نام لیا ہوتا ہے یا نہیں.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس گوشت پر اللہ کا نام (بسم اللہ ) پڑھ لیا کر و اور اسے کھالیا کرو.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا: " شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے.ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَلَّها پر زور دیا ہے.آنحضرت الم آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گزارہ بھی تو نہیں ہوتا.“ (الحکم نمبر 19، جلد 8، مؤرخہ 10 جون 1904 صفحہ 3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں تحصیلدار تھے.انہوں نے حضور سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ کیا اس قسم کی نوکری نائب ہمارے واسطے جائز ہے ؟ حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں.تحصیلدار یا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے نہ بیچتا ہے نہ پیتا ہے.صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے.ملک کی سلطنت اور حالات موجودہ کے لحاظ سے اضطراراً یہ امر جائز ہے.ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیئے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پیدا کرے.گورنمنٹ کے ماتحت ایسی 77

Page 144

ملازمتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ایسی باتوں سے تعلق نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہیئے.اخبار بدر نمبر 39 ، جلد 6 ، مورخہ 26 ستمبر 1907ء صفحہ 6) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بینک کی ملازمت کے بارہ میں فرماتے ہیں: جس ملازمت میں سود لینے یا اس کی تحریک کرنے کا کام کرنا پڑتا ہو وہ میرے نزدیک جائز نہیں.ہاں ایسے بینک کے حساب و کتاب کی ملازمت جائز ہے.(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 95 ، جلد 3، مؤرخہ 7 مارچ 1916ء صفحہ 9) پھر ایک اور موقع پر فرمایا: جس ملازمت میں سود کی تحریک کرنی پڑے وہ ناجائز ہے.کلر کی اور حساب رکھنا بہ تسلسل ملازمت جائز ہے.“ اخبار الفضل قادیان دار الامان نمبر 113، جلد 3، مورخہ 13 مئی 1916ء صفحہ 8) پس انسان کو وہموں اور شک و شبہ میں مبتلا ہوئے بغیر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنے معاملات اور دنیاوی امور کو بجالانے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور جہاں براہ راست کسی ممنوع کام میں پڑنے کا امکان ہو یا کسی چیز کی حرمت واضح طور پر نظر آتی ہو اس سے بہر صورت اجتناب کرنا چاہیے.لیکن بہت زیادہ وہموں میں پڑ کر جائز اشیاء کے استعمال سے بلا وجہ کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہیئے.(قسط نمبر 45، الفضل انٹر نیشنل 16 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 78

Page 145

پرده سوال: گلشن وقف نو آسٹریلیا مورخہ 12 اکتوبر 2013 ء میں ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ بچیوں کو سکارف کس عمر میں لینا چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: جواب: جب تم پانچ سال کی ہو جاؤ تو اس وقت تمہیں بغیر Leggings کے فراک نہیں پہنی چاہئیے، تمہاری ٹانگیں ڈھکی ہونی چاہئیں تاکہ تمہیں احساس ہو کہ آہستہ آہستہ ہمارا ڈر میں جو ہے وہ Cover ہونا چاہیئے.Sleeveless فراک نہیں پہنی چاہیئے.پھر چھ سات سال کی ہو جاؤ تو تمہاری Leggings میں مزید احتیاط ہو.اور جب تم دس سال کی ہو جاتی ہو تو تھوڑا سا سکارف لینے کی عادت ڈالو.اور جب گیارہ سال کی ہو جاؤ تو پھر سکارف پوری طرح لو.سکارف لینے میں تو کوئی حرج نہیں ؟ سکارف تو یہاں بھی لوگ سردیوں میں لے لیتے ہیں.سردی ہوتی ہے تو اپنے کان نہیں لپیٹ لیتے ؟ وہ سکارف ہی ہوتا ہے.اس طرح کا سکارف لو.بعض لڑکیاں ہوتی ہیں، جو دس سال کی عمر میں بھی چھوٹی سی نظر آتی ہیں.اور بعض ایسی ہوتی ہیں جو دس سال کی عمر میں بارہ سال کی لڑکی کی طرح نظر آتی ہیں، ان کے قد لمبے ہو جاتے ہیں.تو ہر لڑکی دیکھے کہ وہ اگر بڑی بڑی نظر آتی ہے، تو اس کو سکارف لے لینا چاہیئے.چھوٹی عمر میں سکارف لینے کی عادت ڈالو گی تو پھر شرم نہیں آئے گی، نہیں تو ساری عمر شرماتی رہو گی.اگر تم کہو گی کہ بارہ سال کی عمر میں، تیرہ سال کی عمر میں، چودہ سال کی عمر میں جا کر سکارف لوں گی، تو پھر سوچتی رہو گی اور پھر تمہیں شرم آ جائے گی.پھر تم کہو گی اوہو کہیں لڑکیاں میرا مذاق نہ اڑائیں.میں نے سکارف لیا تو وہ مجھ پہ ہنسیں گی.اس لئے کبھی کبھی سکارف لینے کی عادت ڈالو.سات، آٹھ ، نو سال کی عمر میں سکارف لینا شروع کر دو، اور لڑکیوں کے سامنے بھی لے لو تا کہ تمہاری شرم ختم ہو جائے.اور جب تم بڑی نظر آؤ تو تم پوری طرح سکارف لو.ٹھیک ہے، سمجھ آئی ؟ تمہارے لئے اتنا کافی ہے اور بڑی لڑکیوں کے لئے اتنا کافی ہے کہ اصل چیز پردہ کا مقصد یہ ہے کہ حیا ہونی چاہیئے.اور یہ جو یورپین ہیں یا ویسٹرن Influence کے اندر آتے ہیں، پرانے 79

Page 146

زمانہ میں ان کے لباس بھی یہاں تک ہوتے تھے اس موقع پر حضور انور نے اپنے ہاتھوں کی کلائیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.مرتب)، لمبی سیکسی فراکس ہوتی تھیں.اب تو یہ ننگے پھرتے ہیں ناں؟ سوال یہ ہے کہ مرد جو ہے وہ اچھا اور Well Dressed اس وقت کہلا تا ہے جب اس نے ٹراؤزرز پورے پہنے ہوں، کوٹ پہنا ہو ، ٹائی لگائی ہو.اور عورت کو کہتے ہیں کہ تم Well Dressed اس وقت ہو گی، جب تم نے منی سکرٹ پہنی ہو.یہ مجھے فلسفہ سمجھ نہیں آیا.اس لئے مردوں کو نہ دیکھو.اور عورتیں بھی جو خود اپنے آپ کو نگا کرتی ہیں اپنی بے عزتی کرواتی ہیں.اس لئے احمدی لڑکی، احمدی عورت کا وقار اسی میں ہے کہ اپنی حیا کو قائم کرے.کیونکہ اصل چیز حیا ہے.اور یہ حیا ہے جو دوسروں کو تمہارے پہ غلط نظر ڈالنے سے روکتی ہے.(قسط نمبر 1 ، الفضل انٹر نیشنل 27 اکتوبر تا02 نومبر 2020ء صفحہ 29) 80 60

Page 147

سوال: ایک خاتون نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی مجلس عرفان میں بیان ایک ارشاد کے حوالہ سے چچا اور ماموں سے پردہ کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی کی درخواست کی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جون 2020ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آپ نے اپنے خط میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے وہ سورۃ النور کی آیت نمبر 32 کے حوالہ سے مجلس عرفان میں ایک سوال کے جواب میں بیان فرمودہ ہے.یہ بات درست ہے کہ اس آیت میں بیان رشتے جن سے عورت کو پردہ نہ کرنے کی رخصت دی گئی ہے، ان میں چچا اور ماموں کا ذکر نہیں ہے لیکن ان دونوں کا شمار محرم رشتوں میں ہی ہوتا ہے، جیسا کہ حضور نے بھی اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے.اور سورۃ النساء میں بیان قرآنی حکم سے بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں سے نکاح کی حرمت بیان ہوئی ہے.علاوہ ازیں احادیث میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ان کے استفسار پر حضور ای ایم نے انہیں چچا سے پردہ نہ کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.لیکن اس کے ساتھ پردہ کے بارہ میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق محرم رشتوں میں بھی ہر درجہ کے رشتہ سے پردہ میں رخصت کی الگ کیفیت ہے.چنانچہ سورۃ النور میں جن محرم رشتہ داروں سے پردہ نہ کرنے کی رخصت آئی ہے، ان میں سے بھی ہر رشتہ کی دوسرے رشتہ سے پردہ کی رخصت کی ایک الگ صورت ہو گی.چنانچہ خاوند سے پردہ کی جو رخصت ہے وہ اسی آیت میں بیان والد، بیٹے اور بھائی وغیرہ سے پردہ کی رخصت سے الگ ہے.پس جس طرح اس آیت میں بیان رشتہ داروں سے پردہ کی مختلف کیفیات ہیں اسی طرح دیگر محرم رشتہ داروں سے بھی پردہ کی رخصت کی کیفیت میں فرق ہے.اور یہی مضمون حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ اپنے مذکورہ ارشاد میں سمجھا رہے ہیں کہ چا اور ماموں جو ایک 81

Page 148

82 828 ہی گھر میں ساتھ رہنے والے رشتہ دار نہیں بلکہ باہر کے لوگ ہیں، اور اگر چہ ان کا شمار محرم رشتہ داروں میں ہی ہوتا ہے، لیکن جب وہ گھر میں آئیں تو عور تیں جس طرح اسی گھر میں ساتھ رہنے والے مردوں جن میں خاوند ، باپ، بیٹے وغیرہ شامل ہیں، سے پردہ میں نسبتاً Relax ہوتی ہیں، باہر سے آنے والے محرم مردوں کی صورت میں انہیں نسبتاً کچھ زیادہ محتاط ہونا چاہیے اور اگر چہ ان کے سامنے چہرہ تو نہیں ڈھکا جاتا لیکن سر اور سینہ کو ڈھانپ کر اور اپنے آپ کو سنبھال کر ان کے سامنے بیٹھنے کا حکم ہے.پس یہ مضمون ہے جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرمارہے ہیں، نہ کہ چچا اور ماموں سے پردہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں.(قسط نمبر 2، الفضل انٹر نیشنل 13 نومبر 2020ء صفحہ 12)

Page 149

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا ایک احمدی مسلمان عورت کے لئے اپنے پاؤں کو پردہ سے باہر رکھنا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 03 مئی 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم نے جہاں پر وہ کے احکامات بیان فرمائے ہیں وہاں پہلے مومن مردوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں.اس کے بعد مومن عورتوں کے لئے پردہ کے احکامات بیان فرماتے ہوئے انہیں پہلا حکم یہی دیا کہ مومن عورتیں بھی اپنی نظریں نیچی رکھا کریں.اور پھر انہیں کہا کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں.اور اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ لوگوں پر وہ ظاہر کر دیا جائے جو عورتیں عموماً اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں.پاؤں زمین پر نہ مارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر پاؤں میں کوئی زیور (پازیب وغیرہ) پہنی ہوئی ہے تو اس کی چھنکار سے لوگوں کی توجہ اس خاتون کی طرف ہو سکتی ہے اور غیروں کی نظریں اس پر اٹھ سکتی ہیں جو پردہ کے حکم کے منافی ہے.اسی طرح اگر پاؤں پر مہندی یا نیل پالش وغیرہ لگا کر ان کا سنگھار کیا گیا ہے تو ایسے پاؤں غیر مردوں کے لئے کشش کا موجب ہو سکتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ غیر مردوں کی نظریں ایسی عورت پر اٹھیں گی، جس سے پردہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو گی.لیکن اگر پاؤں پر کسی قسم کا بناؤ سنگھار نہیں کیا گیا تو ایسے پاؤں سے چونکہ کوئی کشش پیدا نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہی بے پردگی کا سوال پیدا ہوتا ہے.اس لئے اگر انہیں پردہ میں نہ بھی رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.احادیث میں بھی پردہ کے بارہ میں مختلف ہدایات ملتی ہیں.ایک حدیث میں حضور ام نے عورت کے چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ اس کے جسم کے باقی حصہ کے پردہ کا حکم دیا ہے.ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر عورت کے پاس نہ بند نہ ہو تو کیا وہ صرف اوڑھنی اور قمیص میں نماز پڑھ سکتی ہے ؟ اس پر حضور اللم نے فرمایا کہ بشر طیکہ کہ اس کی قمیض 83

Page 150

اتنی لمبی ہو کہ اس کے پاؤں کی پشت کو بھی ڈھک دے.ایک روایت میں ہے کہ جنگ اُحد کے موقعہ پر حضرت عائشہ اور حضرت ام سلیم اپنی تہ بند او پر اٹھا کر پانی کی مشکیں بھر بھر کر لا رہی تھیں اور مردوں کو پانی پلا رہی تھیں، راوی کہتے ہیں کہ اس حالت میں ان کے پاؤں کی پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردہ سے متعلق قرآنی آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مر دوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پر شہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے.یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 341-342) شرعی پردہ کو بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کر کے اپنے سر کے بالوں کو کچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں.مثلاً منہ پر ارد گرد اس طرح پر چادر ہو (اس جگہ انسان کے چہرہ کی شکل دکھا کر جن مقامات پر پردہ نہیں ہے ان کو کھلا رکھ کر باقی پردہ کے نیچے دکھایا گیا ہے) اس قسم کے پر دہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کر سکتی ہیں اور اس طرح پر سیر کرنے میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں.“ ریویو آف ریلیجز جلد 4 نمبر 1 صفحہ 17، جنوری 1905ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غض بصر کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مقصد مرد اور عورت کی نگاہوں کو آپس میں ملنے سے بچانا ہے ورنہ جو عورت بھی باہر نکلے گی اس کے پاؤں اور 84

Page 151

85 85 اس کی چال اور اس کا قد اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور ایسی ہی کئی چیزیں مردوں کو نظر آئیں گی.(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 298) پس مذکورہ بالا نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کا ہر وہ حصہ جو اس کی زینت کے زمرہ میں آتا ہو اور غیر محرم کے لئے کشش کا باعث ہو ، عام حالات میں اس کا پردہ کرنا عورت (قسط نمبر 5، الفضل انٹر نیشنل 01 جنوری 2021ء صفحہ 18) پر لازم ہے.

Page 152

98 86 سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی Virtual ملاقات مورخہ 22 اگست 2020ء میں لجنہ کی طرف سے پردہ کے متعلق ہونے والے ایک سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: یہ پردہ صرف جماعت احمدیہ کا حکم نہیں ہے.ناصرات میں بھی اور لجنہ میں بھی تربیت ہونی چاہیئے کہ پردہ کا حکم جو ہے یہ قرآن کریم کا حکم ہے ، اللہ اور رسول کا حکم ہے.اس لئے جماعت نے وہ کام کرنے ہیں جو اللہ اور رسول نے فرمائے ہیں.اور یہ ایسے حکم ہیں، جن کا ذکر ہے، واضح حکم ہیں.قرآن کریم میں جو بعض خاص باتیں ہیں، اہم، کھلی کھلی واضح ہدایات ، احکامات ان میں ایک پردہ کا حکم ہے.اس لئے ہم کہتے ہیں.اس میں اگر صرف یہ ہوتا کہ کسی چیز سے استنباط کیا جاتا یا کسی چیز سے سمجھا جاتا، اس کو Interpret کیا جاتا کہ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے تو پھر گنجائش نکل سکتی تھی کہ لڑکیاں سمجھیں یا عورتیں سمجھیں کہ ہاں یہاں پر دہ کی اجازت ہے اور یہاں نہیں ہے.لیکن جب واضح حکم آگیا تو پھر ہم نے اس حکم پر عمل کرنا ہے اور کروانا ہے.یہ باتیں اچھی طرح لڑکیوں کے دماغوں میں ڈال دیں تو پردہ کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی.اصل چیز یہ پیدا کریں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے ، حدیث ہے.جب حیا پیدا ہو جائے گی تو خود بخود پردہ کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی.چاہے وہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکی ہے، وہ اپنے حیا کے دائرہ میں رہے گی، اپنے لباس کا خیال رکھے گی اور پھر پر دہ کا بھی خیال رکھے گی.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 109 اپریل 2021ء صفحہ 11)

Page 153

سوال: ایک سکول کی بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ اسلام میں عورت کو اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم ہے لیکن ہم سکارف وغیرہ لے کر سر پر پردہ کیوں کرتے ہیں ؟ لڑکیاں سکول میں لڑکوں سے دوستی کیوں نہیں کر سکتیں؟ اور کیا میں Halloween میں پری بن سکتی ہوں ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپ نے مکتوب مورخہ 26 جنوری 2021ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: اسلام نے پردہ کے بارہ میں عورت اور مرد دونوں کو نہایت حکیمانہ تعلیم سے نوازا ہے.چنانچہ فرمایا کہ مومن مرد اور عور تیں دونوں اپنی نظریں نیچی رکھیں یعنی اپنی آنکھوں کو نامحرموں کو دیکھنے سے بچائیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں.اس کے بعد مومن عورتوں کو مزید تاکید فرمائی کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں اور اپنے پاؤں بھی اس طرح زمین پر نہ مارا کریں کہ جس سے ان کی زینت ظاہر ہو.اس مختصر لیکن نہایت جامع تعلیم میں پردہ کے بارہ میں ہر قسم کی تفصیل بیان فرما دی گئی ہے کہ ایک مومن عورت اپنی آنکھ ، کان اور ستر کی جگہوں کی حفاظت کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس کا لباس نہ اتنا تنگ ہو کہ اس سے اس کے جسم کے اعضاء کی نمائش ہو اور نہ ہی اتنا ڈھیلا اور کھلا ہو کہ سینہ اور دوسری ستر کی جگہوں کی بے پردگی ہو رہی ہو.پاؤں زمین پر نہ مارنے کے حکم میں یہ بات سمجھا دی کہ ایک مومن عورت اس طرح کی اچھل کود سے بھی اجتناب کرے جس سے اس کی جسمانی ساخت کے اتار چڑھاؤ کا اظہار ہو.یا یہ کہ اگر پاؤں میں کوئی زیور (پازیب وغیرہ) پہنا ہوا ہے تو اس کی چھنکار سے لوگوں کی توجہ اس کی طرف ہو اور غیروں کی نظریں اس پر اٹھیں.یا اگر پاؤں پر مہندی یا نیل پالش وغیرہ لگا کر ان کا سنگھار کیا گیا ہے تو اس کی وجہ سے غیر مردوں کی نظریں اس پر اٹھیں.یہ سب باتیں پردہ کے احکامات کے منافی ہیں.پس اسلام نے عورت کے لئے صرف سر پر سکارف لینا ہی کافی قرار نہیں دیا بلکہ یہ امور بیان کر کے پردہ سے متعلقہ تمام لوازمات کو بھی خوب کھول کر بیان کر دیا کہ عورت نے کس طرح اپنے 87

Page 154

پر دہ کا خیال رکھنا ہے اور کس طرح خود کو ڈھانپنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردہ سے متعلقہ ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور پر نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقع پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں.ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنیں.ان کے حسن کے قصے نہ سنیں.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے.ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پر شہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے.یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 341-342) حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں ہی گے نہیں تو محفوظ رہیں گے...اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے ، وہ بیشک جائیں لیکن 88

Page 155

نظر کا پردہ ضروری ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 405.مطبوعہ 2016ء) جہاں تک لڑکیوں اور لڑکوں کی دوستی کی بات ہے تو اس میں بھی بنیادی حکمت عورت کی عفت کی حفاظت ہی ہے.انسان کے اپنی مخالف جنس کے ساتھ میل جول سے کئی قسم کی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے.اس لئے اسلام نے اس پہلو سے بھی محرم اور غیر محرم رشتوں کا امتیاز قائم کر کے مرد و عورت کے تعلقات کی حدود بیان فرما دیں اور اللہ اور اس کے رسول الیم نے اس بارہ میں اپنے متبعین کو بڑی واضح تعلیم سے نوازا.چنانچہ آنحضور لم نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی نامحرم عورت سے تنہائی میں نہ ملے کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے.(سنن ترمذي کتاب الفتن) حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضور الم کے اس ارشاد کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بسا اوقات سننے دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد عورت کو ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتے.یہ گویا تہذیب ہے.ان ہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے ہی کی اجازت نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقع میں یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح دو غیر محرم مرد و عورت جمع ہوں تیسرا ان میں شیطان ہو تا ہے.ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جار ہی ہے.یہ انہی تعلیموں کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی.اسلامی تعلیم کیا پاک تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی.“ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 48) Halloween کی رسم جسے اب ایک Fun خیال کیا جاتا ہے، اس کی بنیاد شیطانی نظریات اور 89

Page 156

06 90 مشرکانہ عقائد پر ہے اور ایک چھپی ہوئی برائی ہے.ایک سچے مسلمان اور خصوصاً ایک احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر وہ کام جس کی بنیاد شرک پر ہو اگر چہ وہ Fun کے طور پر ہی ہو اسے اس سے بچنا چاہیے، کیونکہ اس قسم کی رسومات انسان کو مذہب سے دور لے جاتی ہیں.پھر اس تہوار کے موقعہ پر تفریح کے نام پر بچے لوگوں کے گھروں میں فقیروں کی طرح جو مانگتے پھرتے ہیں وہ بھی ایک احمدی بچہ کے وقار کے خلاف ہے.ایک احمدی کا اپنا ایک وقار ہوتا ہے اور اس و قار کو ہمیں بچپن سے ہی بچوں کے ذہنوں میں قائم کرنا چاہیئے.ان باتوں کے علاوہ بھی اس رسم کے اور بہت سے معاشرتی بد اثرات نئی نسل پر ہو رہے ہیں.پس Halloween کی رسم میں کسی احمدی کو شامل ہونے کی اجازت نہیں چاہے بھوت، چڑیل بننا ہو یا پری بننا ہو ، کیونکہ یہ رسم ایک غلط اور مشرکانہ عقیدہ پر مبنی ہے.(قسط نمبر 31، الفضل انٹر نیشنل 08 اپریل 2022ء صفحہ 11)

Page 157

پسندیدہ اور نا پسندیدہ امر سوال: اسی ملاقات میں ایک سوال حضور انور کی خدمت اقدس میں یہ پیش ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا امر سب سے پسندیدہ اور کونسا امر سب سے ناپسندیدہ ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارہ میں فرمایا: جواب: بات یہ ہے کہ ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا کہ کونسی نیکی ہے جو میں اختیار کروں.آپ نے فرمایا کہ تم اپنے ماں باپ کی خدمت کرو جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.ایک دوسرا شخص آیا اس نے کہا کونسی نیکی ہے جو میں کروں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.آپ نے فرمایا کہ تم مالی قربانی کرو، یہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.تیسرا شخص آیا اس نے کہا بتا ئیں کو نسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جو میں کروں.آپ نے کہا اللہ کی راہ میں جہاد کرو.اسی طرح چوتھا شخص آیا اس کو ایک اور بات بتائی.تو آنحضرت الیم ان کے حالات جانتے تھے اور پتا تھا کہ کس کس میں کون کون سی کمزوریاں ہیں.کچھ ان کے حالات جاننے کی وجہ سے پتاہوں گی، کچھ اللہ تعالیٰ بھی رہنمائی کرتا ہو گا.تو ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے.یہ انسان کو خود جائزہ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات سو احکام دیئے ہیں.نیکیاں بھی بتائیں ہیں ، نواہی بھی بتائے ہیں.یہ بھی بتایا ہے کہ کیا کام کرنے ہیں اور کیا منع ہیں.اوامر کیا ہیں اور نواہی کیا ہیں.کرنے والے کام کیا ہیں اور نہ کرنے والے کام کیا ہیں.اللہ تعالیٰ نے بڑی لسٹ بتادی.اب خود انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ میرے میں کونسی کمزوری ہے جس کو میں ڈور کروں اور کونسی نیکی ہے جو میں نہیں کرتا اس کو میں کروں.تو اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے کر خود یہ کرے تو اصلاح پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے اپنے نفس سے فتویٰ لینا چاہیئے.ہر ایک فتویٰ Black and White میں ظاہر نہیں ہو جاتا.اصولی طور پر یہی حکم ہے کہ اپنی کمزوریوں کو تلاش کرو اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرو.اور نہ صرف کمزوریاں دور کرو بلکہ نیکی بھی کرو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو بنیادی اصول بتا دیا وہ یہ بتا دیا کہ تمہارے دو کام ہیں.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو، اس کی عبادت کا حق ادا کرو.اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق 91

Page 158

صحیح طرح ادا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پھر انسان کو توفیق دیتا ہے کہ وہ نیکیاں ہی کرتا رہے.کیونکہ اس کی عبادت کا حق ادا ہو رہا ہوتا ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے بندوں کا حق ادا کرو.جب انسان اس کے بندوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر کسی سے برائی نہیں کرتا اور پھر مزید نیکیوں کی بھی توفیق ملتی چلی جاتی ہے.یہ دونوں چیزیں آپس میں ملی ہوئی ہیں.تو بنیادی چیز یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو.باقی انسان تفصیلات میں جائے تو اپنا خود جائزہ لے، اپنے ضمیر سے دیکھے ، پوچھے کہ کیا برائیاں ہیں جو میں نے چھوڑنی ہیں اور کیا نیکیاں ہیں جو میں نے کرنی ہیں.باقی یہ بھی ہے کہ ایک شخص آیا اس نے آنحضرت ام سے کہا کہ میں اتنا نیک نہیں ہوں ، میرے میں بہت ساری برائیاں ہیں.آپ مجھے ایک برائی بتا دیں جو میں چھوڑ دوں، باقی میں ابھی نہیں چھوڑ سکتا.تو آنحضرت ا نے فرمایا اچھا تم یہ عہد کر لو کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا ، ہمیشہ سچ بولنا ہے.جب اس نے ہمیشہ سچ بولنے کا ارادہ کیا تو ہر دفعہ جب کوئی برائی کرنے لگتا تھا تو اسے خیال آتا تھا کہ اگر آنحضرت ام نے پوچھا کہ تم نے یہ برائی کی ہے تو اگر میں سچ بولوں گا تو شرمندگی ہو گی ، جھوٹ بولوں گا تو میں نے وعدہ کیا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا.اس طرح آہستہ آہستہ اس کی ساری برائیاں ختم ہو گئیں.تو انسان کو خود دیکھنا چاہیئے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے.اس لئے انسان کو جائزہ لینا چاہیے کہ میں نے چھوٹی سے چھوٹی بات پہ بھی جھوٹ نہیں بولنا کیونکہ یہ شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کو شرک نا پسند ہے.تو یہ بہت ساری باتیں ہیں جو ہر ایک کے حالات کے مطابق مختلف ہوتی ہیں.اس لئے خود جائزہ لے لیں کہ کیا کمی ہے.لیکن بنیادی اصول یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو اور جب کوئی کام کرنے لگو تو یہ دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے.جب یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے، میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو پھر انسان برائی سے رُکے گا اور نیکیاں کرے گا.(قسط نمبر 19، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 92

Page 159

پلاسٹک وغیرہ کی ٹوپیاں مساجد میں رکھنا سوال: نارووال پاکستان سے ایک معلم صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ پلاسٹک وغیرہ کی ٹوپیاں مساجد میں رکھنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا بدعت اور ناپسندیدہ عمل ہے یا نہیں؟ نیز نماز فجر کے فوراً بعد جب کہ درس قرآن ہو رہا ہو فجر کی سنتیں پڑھنا درست ہے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب قرآن کریم پڑھا جا رہا ہو تو اسے توجہ اور خاموشی سے سننا چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 مارچ 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: مساجد میں حسب توفیق مناسب اور صاف ستھرا لباس پہن کر جانا چاہیئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسجدوں میں زینت کے سامان اختیار کرنے کا حکم دیا ہے.(سورۃ الاعراف:32) اس حکم میں دلوں کی روحانی صفائی کے ساتھ ساتھ کپڑوں اور بدن کی ظاہری صفائی بھی شامل ہے.اس لئے جہاں تک ممکن ہو مساجد میں جاتے وقت مناسب لباس زیب تن کرنا چاہیئے اور مناسب لباس میں سر کو ڈھانپنا بھی شامل ہے.اسلام کے ہر دور میں بزرگان امت کا عمامہ ، پگڑی یا ٹوپی کے ساتھ سر ڈھانپنا ان کی عام عادت رہی ہے.احادیث میں بھی مختلف صحابہ سے مروی ہے کہ حضور ا عمامہ کا استعمال فرمایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ام فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا.اسی طرح حضرت عمرو بن حریث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی لی تم نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا.(صحیح مسلم کتاب الحج باب جَوَازِ دُخُولِ مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَاءٍ) پس مسجد میں پلاسٹک یا کپڑے وغیرہ کی کچھ صاف ستھری ٹوپیاں اس لئے رکھنا کہ اگر کوئی نمازی اپنی مرضی سے انہیں استعمال کرنا چاہے تو کر لے تو ایسا کرنے میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں، بلکہ ایک اچھی بات کی طرف ترغیب کی کوشش ہے.بعض لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ننگے سر نماز نہ پڑھیں ، انہیں اگر مسجد میں اس طرح ٹوپیوں کی سہولت مل جائے تو وہ خوشی سے اسے 93

Page 160

پہن کر نماز پڑھنا پسند کرتے ہیں.لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ زبر دستی کسی کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیئے کہ وہ ضرور یہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھے.اس لئے اگر کوئی اپنی مرضی اور خوشی سے مسجد میں پڑی یہ ٹوپیاں پہننا چاہے تو اسے روکنا نہیں چاہیے اور اگر کوئی نہ پہننا چاہے تو اسے مجبور نہیں کرنا چاہیئے.(قسط نمبر 53، الفضل انٹر نیشنل 29 اپریل 2023ء صفحہ 5) 94

Page 161

تبركات سوال: ایک نوجوان نے احمدیت کے بارہ میں نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لباس اور آپ کے زیر استعمال بعض اشیاء کے بارہ میں متفرق استفسارات حضور انور کی خدمت اقدس میں تحریر کئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 مارچ 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: احادیث میں مختلف صحابہ سے مروی ہے کہ حضور اللهم عمامہ کا استعمال فرمایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ام فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا.اسی طرح حضرت عمرو بن حریث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ العلیم نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا.(صحیح مسلم كتـاب الحـج بـاب جـواز دُخُولِ مَلَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضور الم کی اس سنت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آنحضرت ا لم نہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سر اویل بھی خریدنا آپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا نبی کہتے ہیں...علاوہ ازیں ٹوپی، کڑتہ ، چادر اور پگڑی بھی آپ کی عادت مبارک تھی.“ (الحکم نمبر 14 جلد 7.مؤرخہ 17 اپریل 1903ء صفحہ 8) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفی ایم کے حقیقی عاشق، آپ کے کامل متبع اور بچے غلام تھے.پس آپ نے حضور الم کی سنت کے مطابق پگڑی کا استعمال فرمایا.باقی جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پگڑی پہنے کی بجائے بالوں کی Knot بنانے کی بات ہے تو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضور الم کی اعلیٰ درجہ کی اطاعت اور آپ سے حد درجہ کی محبت کے نتیجہ میں ظلی اور امتی نبی 95

Page 162

کے مقام پر فائز فرمایا.انبیاء خدا تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں جن کا ادب اور احترام ہم پر واجب ہے.پس انبیاء کی ذات کے بارہ میں اس قسم کے سوال ان کی شان کے خلاف متصور ہوتے ہیں.خود بخود چلنے والے پین (Pen) والی بات غلط ہے.نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایسا کوئی بین تھا اور نہ میرے پاس ہے.ہاں اللہ تعالیٰ کا اپنے پیاروں کے ساتھ ایسا تعلق ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں خود ان کی رہنمائی کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کا یہی تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ساتھ ہے.جہاں تک احمدیہ کمیونیٹی کا تعلق ہے تو یہ کوئی نیا مذہب نہیں ہے.بلکہ اسلام کی حقیقی جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفی الم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق قائم فرمایا ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کی اصلاح اور بہتری کے لئے پہلے وقتوں میں مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں انبیاء مبعوث کرتا رہا ہے اور لوگوں کی رہنمائی کے لئے انہیں تعلیمات سے نوازتا رہا ہے.اسی طرح اس نے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ایم کو ساری دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور قیامت تک قائم رہنے والی دائمی تعلیم قرآن کریم کا آپ پر نزول فرمایا.حضور م نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب اُمت مسلمہ میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیم سے دور ہو جائیں گے.ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اس اُمت پر رحم فرماتے ہوئے اس کی رہنمائی کے لئے حضور الم کے ہی متبعین میں سے آپ کے ایک غلام صادق کو کھڑا کرے گا جو لوگوں کو اس تعلیم پر قائم کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے حضور ا تم پر نازل فرمائی تھی اور جس کی تشریح آپ نے اپنے اقوال و افعال سے فرمائی تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی اس ذمہ داری کو نبھانے میں صرف فرمائی.آپ کے وصال کے بعد حضور الم کی ہی پیشگوئی کے مطابق جماعت احمدیہ میں خلافت کا بابرکت سلسلہ جاری ہوا اور جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے بابرکت سائے میں اسلام کا پُر امن پیغام اور اس کی خوبصورت تعلیم ساری دنیا میں پہنچانے پر کمربستہ ہے.پس احمدیہ کمیونیٹی کسی انسان کا بنایا ہوا ادارہ نہیں جس کے سادہ ہونے یا نہ ہونے پر بات کی جائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا لگایا ہوا ایک پودہ ہے جو اسی کی دی ہوئی تعلیمات انسانوں کی بھلائی کے لئے دنیا 96

Page 163

میں پھیلانے میں کوشاں ہے.بُرائی اور اچھائی کے بارہ میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ بُرائی اور اچھائی کا معیار کیا ہے ؟ ہو سکتا ہے کہ ایک بات آپ کے نزدیک بُری ہو لیکن کسی دوسرے کے نزدیک اچھی ہو.اور دنیا میں اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں.لیکن مذہب کی دنیا میں جن باتوں کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا وہ اچھائی ہے اور جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا وہ بُرائی ہے، جسے اسلامی اصطلاح میں اوامر و نواہی کہا جاتا ہے.اور ایک مسلمان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان اوامر و نواہی پر کار بند ہو.یعنی جن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حکم دیا ان کو بجالائے اور جن باتوں سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ان کو ترک کر دے.اس کے اسی قسم کے اعمال کے مطابق اس سے معاملہ کیا جائے گا.جہاں تک دوسرے مذاہب کے لوگوں کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں سے جس نے بھی کوئی نیک عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر گز ضائع نہیں کرے گا.چنانچہ ایک فاحشہ عورت کے پیاسے کتے کو پانی پلانے پر اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو معاف کر دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا.یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم پر مبنی صفات کا بھی مالک ہے اور جب چاہے وہ انہیں استعمال کرنے پر قادر ہے.باقی آپ کے کوڑا اٹھانے پر جنہوں نے اعتراض کیا ہے، ان کی بات غلط ہے.جماعت احمد یہ میں تو ایسے کام کے لئے وقار عمل کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.یعنی ایسا کام جس کے کرنے سے انسان کا وقار اور عزت بڑھتی ہے.اپنے علاقہ اور ماحول کو صاف رکھنا تو ایک بہت اچھی عادت ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول الم نے بھی حکم دیا ہے.میں نے خود بھی کئی دفعہ وقار عمل کے تحت کوڑا کرکٹ اٹھایا ہے اور گندی نالیاں صاف کی ہیں.صفائی کرنے اور کوڑا کرکٹ اٹھانے سے ہر گز عزت نہیں جاتی.عزت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے حکموں کی خلاف ورزی کرنے سے عزت جاتی ہے.لہذا ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے.(قسط نمبر 23، الفضل انٹر نیشنل 19 نومبر 2021ء صفحہ 12) 97

Page 164

تبلیغ سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہالینڈ کی نو مبائعات طالبات کی Virtual ملاقات مؤرخہ 23 اگست 2020ء میں ایک طالبہ نے عرض کیا کہ ہم آن لائن ایک گردی گروپ میں تبلیغ کر رہے ہیں جس میں بعض مُلاں بھی شامل ہیں جو پاکستان سے پڑھے ہوئے ہیں.اگر اس گروپ کے لوگ ہماری بات سننے میں دیانتدار نہ ہوں تو کیا ہم اس گروپ میں تبلیغ کرتے رہیں یا نہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارہ میں رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جواب: اگر اس نے صرف بحث کرنی ہے تو اس میں وقت ضائع کرنے کا فائدہ کوئی نہیں ہے.اس سے بہتر ہے کہ کچھ بہتر لوگوں کو Approach کریں اور ان کو تبلیغ کریں، جو سننے والے بھی ہوں.اور جو ڈھیٹ ہے اور جس نے صرف بحث کرنی ہے اور اعتراض پہ اعتراض کرتے رہنا ہے اور کوئی Sense والی بات نہیں کرنی تو اس پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت کیا ہے ؟ اگر تو اس کی نیت نیک ہے، وہ سننا چاہتا ہے اور اخلاق کے دائرہ میں MoralCodes کے اندر رہ کے بات کرتا ہے ، پھر تو ٹھیک ہے، بات ہو سکتی ہے.اگر وہ غلط قسم کی باتیں کرتا ہے تو پھر اس کو چھوڑیں اور کوئی اور لوگ دیکھیں جو شریفانہ طور پر بات کر سکیں، دلیل سے بات کریں اور اپنی بات کے لئے دلیل دیں اور ہماری دلیل سنیں.پھر اس کا پوری طرح انصاف کے ساتھ Analysis کریں، پھر دیکھیں کہ کیا سچ ہے، کیا جھوٹ ہے.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 98

Page 165

سوال: اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ کا سوال پیش ہوا کہ ان Pandemic حالات میں ہم پہلے کی طرح تبلیغ نہیں کر پا رہی ہیں.اب ان حالات میں ہم کس طرح اپنے کام کو جاری رکھ سکتی ہیں.حضور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما دیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا: جواب: اب مجبوری ہے باہر تو نکل نہیں سکتے.بعض ملکوں میں حکومت کی طرف سے کو وڈ(Covid) کی وجہ سے SocialDistancing اور بعض دوسری چیزوں کی بعض پابندیاں ہیں.لیکن اس میں آن لائن اپنے ذاتی رابطے کئے جاسکتے ہیں.جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے انہوں نے سوشل میڈیا پہ آن لائن تبلیغ کے لئے پروگرام بنالئے ہیں.اگر آپ کا تبلیغ ڈپارٹمنٹ سوشل میڈیا پر کوئی ویب سائٹ بنالیتا ہے تو اس پہ لجنہ تبلیغ کر سکتی ہیں ، ساری لجنہ شامل ہو سکتی ہیں.پھر اپنے Contacts کو فون کر کے یا سوشل میڈیا کے ذریعہ سے Message بھیج کے تبلیغ کر سکتی ہیں.اسلام کی تعلیم کے بارہ میں کوئی اچھا Message ، کوئی اچھا Quote دیا.اس سے پھر آہستہ آہستہ رستے کھلتے ہیں.تو ان حالات میں بھی تبلیغ کرنے کے نئے نئے رستے Explore ہو سکتے ہیں، وہ تو خود کوشش کر کے Explore کرنے چاہئیں.(قسط نمبر 19 ، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 99 99

Page 166

تثلیث سوال: کیرالہ انڈیا سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کے بعد پولوس نے تثلیث کا آغاز کیا.“ جبکہ احمدیوں کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی.اور پولوس اس سے پہلے فوت ہو گیا تھا.اس بارہ میں رہنمائی کی درخواست ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 31 جنوری 2022ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ نے اپنے خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے یہ حضور علیہ السلام کی تصنیف چشمہ مسیحی کی عبارت ہے.یہ کتاب حضور علیہ السلام نے بریلی کے ایک مسلمان کے خط کے جواب میں تحریر فرمائی تھی.جس خط میں ایک عیسائی کی کتاب بنا بیع الاسلام کے حوالہ سے اسلام پر ہونے والے بعض اعتراضات کا ذکر تھا.حضور علیہ السلام نے اپنی اس تصنیف میں عیسائیوں کے اپنے عقائد نیز یورپ اور امریکہ کے عیسائی محققین کی طرف سے عیسائیت کے بارہ میں ہونے والی تحقیقات کی بنا پر اس خط میں اٹھائے گئے اسلام مخالف اعتراضات کا الزامی جواب دیتے ہوئے عیسائیت کی بگڑی ہوئی تعلیم کی حقیقت بیان فرمائی ہے.اسی ضمن میں حضور علیہ السلام نے عیسائی عقیدہ کے مطابق یہ بھی بیان فرمایا کہ: پولوس حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں آپ کا جانی دشمن تھا اور پھر آپ کی وفات کے بعد جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہے اس کے عیسائی ہونے کا موجب اس کے اپنے بعض نفسانی اغراض تھے جو یہودیوں سے وہ پورے نہ ہو سکے.اس لئے وہ ان کو خرابی پہنچانے کے لئے عیسائی ہو گیا اور ظاہر کیا کہ مجھے کشف کے طور پر حضرت مسیح ملے ہیں اور میں ان پر ایمان لایا ہوں اور اس نے پہلے پہل تثلیث کا خراب پودہ 100

Page 167

دمشق میں لگایا.اور یہ پولوسی تثلیث دمشق سے ہی شروع ہوئی.“ (چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 377،376) پس حضور علیہ السلام کے ان الفاظ کہ ”جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہے“ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات سے مراد عیسائی عقیدہ کے مطابق آپ کی وفات ہے جس وقت آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا.لیکن ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے اس برگزیدہ نبی کو بائیبل میں بیان لعنتی موت سے بچانے کے لئے صلیب سے نجات بخشی.جس کے بعد آپ اپنے باقی دس قبائل کی تلاش میں کشمیر کی طرف ہجرت فرما گئے.جہاں یوز آسف نبی کے نام سے آپ نے اپنے لوگوں کی تربیت کر کے ایک سو میں سال کی عمر میں وفات پائی اور وہیں پر محلہ خان یار کشمیر ہندوستان میں دفن ہوئے جہاں آج بھی آپ کی قبر موجود ہے.جہاں تک پولوس کا معاملہ ہے تو پولوس کے معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ایک اور تصنیف کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں: " جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اُس وقت وہ پولوس بھی مکفرین کی جماعت میں داخل تھا جس نے بعد میں اپنے تئیں رسول مسیح کے لفظ سے مشہور کیا.یہ شخص حضرت مسیح کی زندگی میں آپ کا سخت دشمن تھا جس قدر حضرت مسیح کے نام پر الجھیلیں لکھی گئیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی یہ پیشگوئی نہیں ہے کہ میرے بعد پولوس توبہ کر کے رسول بن جائے گا.اس شخص کے گزشتہ چال چلن کی نسبت لکھنا ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ عیسائی خوب جانتے ہیں افسوس ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دکھ دیا تھا اور جب وہ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے ایک جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا اور تثلیث کا مسئلہ گھڑا اور عیسائیوں پر سور کو جو توریت کے رُو سے ابدی حرام تھا حلال کر دیا اور شراب کو بہت وسعت دے دی اور انجیلی عقیدہ میں تثلیث کو داخل کیا تا ان تمام بدعتوں سے 101

Page 168

یونانی بت پرست خوش ہو جائیں.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 65 حاشیہ ) پس چشمہ مسیحی میں بیان حضرت عیسی کی وفات سے مراد عیسائی عقیدہ کے مطابق آپ کی وفات ہے جس وقت آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا تھا.نہ کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق آپ کی وفات مراد ہے.(قسط نمبر 52 ، الفضل انٹر نیشنل 8 اپریل 2023ء صفحہ 4) 102

Page 169

تراویح سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ میں بیان جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے وقت کے بارہ میں حضور انور کے ارشاد، اسی طرح جلسہ سالانہ یو کے کے آخری دن کے خطاب میں نماز تراویح میں پورا سپارہ پڑھنے کی بجائے چھوٹی سورتیں پڑھنے کے بارہ میں حضور انور کے ارشاد کے بارہ میں مزید وضاحت چاہی ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں ان دونوں امور کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جواب: جہاں تک نماز کو مختصر کرنے کی بات ہے تو اس بارہ میں آپ نے میری دو باتوں کو آپس میں الجھا دیا ہے.حدیث کے حوالہ سے ایک بات میں نے یہ بتائی تھی کہ حضور الم کی خدمت میں کسی نے ایک امام کی شکایت کی جو بہت لمبی نماز پڑھاتا تھا.اور اس پر حضور الہام نے ناراضگی کا اظہار فرمایا.پھر میں نے یہ بات کی تھی کہ نماز کے مختصر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جلدی جلدی ٹکریں مار کر نماز پڑھی جائے اور اس ضمن میں بطور مثال میں نے سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی ایک نماز تراویح کا ذکر کیا تھا جس میں امام چند منٹوں میں نماز تراویح کی ساری رکعتیں پڑھا دیتا ہے.پس اصل بات یہ تھی کہ نہ نماز کو اتنا لمبا کرنا چاہیے کہ مقتدی اکتا جائیں اور ان کے دل میں نماز کے لئے نفرت پیدا ہو اور نہ ہی نماز کو اس قدر مختصر کرنے کی اجازت ہے کہ وہ نماز نہیں بلکہ ٹکریں مارنا دکھائی دے.پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ حضور العلیم نے جس نماز کے مختصر کرنے کی ہدایت فرمائی ہے وہ فرض نماز ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فرض نمازیں تمام مردوں پر باجماعت ادا کرنا لازم ہیں.اور حضور لم نے فرمایا کہ چونکہ مقتدیوں میں بیمار، بوڑھے، کمزور اور کام کاج پر جانے والے بھی ہوتے ہیں، اس لئے امام کی ذمہ داری ہے کہ ان سب کا خیال رکھتے ہوئے نماز کو مناسب وقت میں پڑھائے.103

Page 170

لیکن نماز تراویح چونکہ نفلی نماز ہے اور اس کے لئے کوئی ایسی شرط نہیں کہ تمام لوگ ضرور اس میں شامل ہوں.بلکہ جو آسانی سے اس میں شامل ہو سکے اسے شامل ہونا چاہیے اور جسے کوئی عذر ہو وہ بے شک شامل نہ ہو.اس میں کوئی حرج نہیں.دوسرا نماز تراویح کا آغاز حضرت عمررؓ کے عہد خلافت میں ہوا اور آپ نے خاص طور پر قرآن کریم کی قراءت کے لئے ہی اس کو جاری فرمایا تھا.اس لئے اس میں نسبتاً لمبی قراءت ہونی چاہیئے اور اگر ممکن ہو تو رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کرنی چاہیئے.(قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 104

Page 171

تربیت سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کی Virtual ملاقات مؤرخہ 16 اگست 2020ء میں تربیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ممبران عاملہ کو توجہ دلاتے ہوئے درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: ماؤں کے ذریعہ تربیت کریں کہ جو آج کل کی یہاں بچیاں پڑھ رہی ہیں ان کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ ہونے چاہئیں.اور ان کا یہاں جو باہر نکل کے، یونیور سیٹیز میں جاکے، کالجز میں جا کے Exposure ہے اس کے ساتھ اگر مائیں پوری طرح تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو پھر وہ آپ لوگوں سے مدد لیں.لیکن اس کے باوجود لڑکیوں کے ساتھ تعلق رکھیں.اور لڑکیوں کی تربیت یہ کریں کہ وہ جیسی مرضی تعلیم حاصل کریں لیکن جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد ہے، اس کو سامنے رکھیں کہ وہ کیا ہے ؟ صرف دنیا میں ہی نہ پڑ جائیں.یہاں ان کو یہ بھی Realize کروانا چاہیے کہ یہاں آ کے اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی لحاظ سے فضل کئے ہیں ان دنیاوی فضلوں پر اللہ تعالیٰ کے شکرانے کا صحیح اظہار یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دین سے Attach ہو ا جائے.یہ اکثر لڑکوں میں بھی ہوتا ہے اس لئے پھر ماؤں کی تربیت اس لحاظ سے بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ پندرہ سال تک یا کم از کم تیرہ چودہ سال تک لڑکے بھی ماؤں ہی کے زیر اثر ہوتے ہیں (اس لئے مائیں لڑکوں کی بھی اس حوالہ سے تربیت کریں).پھر ماؤں کی تربیت کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ یہ جو مردوں کی تربیت کی ذمہ داری یہ بھی آپ لوگوں نے ہی کرنی ہے.مردوں میں بھی تربیت میں کمی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جیسا مرضی کام کرتے رہیں اور عورتیں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں.ان کی بھی ذمہ داری ہے.لیکن آپ لوگوں نے تربیت کے لحاظ سے اس چیلنج کو بھی لینا ہے کہ لڑکوں میں ، چھوٹی عمر کے اطفال جو ہیں ان کی بھی تربیت ایسے کریں کہ جب وہ خدام میں شامل ہوں تو وہ جماعت سے Attach ہوں.اسی طرح بچیاں جب ناصرات سے لجنہ میں آئیں تو وہ جماعت سے Attach ہوں.یہاں کے ماحول کا جو اثر ہے، کیونکہ کھلی تعلیم دی جاتی ہے اور بعض کھلے سوال کئے جاتے ہیں.اس پر آپ لوگوں نے ان کو کھل کے جواب 105

Page 172

.ہر دینے ہیں.اس کا طریقہ یہی ہے کہ آپ ایک Survey کریں اور ایک سوالنامہ بنا کر بھیجیں.ہے مجلس میں جائے.اور لڑکیوں کو کہیں کہ بیشک اپنا نام نہ لکھو اور تمہارے ذہن میں کسی بھی قسم کے جو سوال دین کے بارہ میں ہیں یا دنیا کے بارہ میں ہیں اور دین اور دنیا کے فرق کے بارہ میں ہیں یا کچھ شبہات ہیں، وہ بیشک ظاہر کر دو.پھر لجنہ کے Level پر مختلف Forums یہ ان کے جواب دینے کی کوشش کریں.اور یہاں مجھے بھیجیں.یہاں بھی ہم کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں.ایم ٹی اے میں بھی اس کے جواب دے سکتے ہیں.پھر آپ کے وہاں ایم ٹی اے سٹوڈیو بن چکا ہے، وہاں آپ لوگ ایم ٹی اے کے ساتھ Coordinate کر کے ایک پروگرام بناسکتے ہیں.اور لجنہ ایک پروگرام بنائے اور بغیر نام لئے ان سوالوں کے جواب دے کہ آجکل یہ یہ Issue اٹھتے ہیں یا یہ یہ سوالات دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں.اس کی وجہ سے ہماری بعض بچیوں کے ذہن بھی Pollute ہو رہے ہیں.ان کے ذہنوں کو ہم نے کس طرح صاف کرنا ہے.تو اس طرح کے بعض سوال ہیں کہ آپ کھل کے ایم ٹی اے پر Discuss کر سکتے ہیں اور بعض ہیں جو نہیں کر سکتے ، ان کو Personal Level پہ جا کے ان کے جواب دینے پڑیں گے.پھر بعض بغیر ناموں کے سوال آئیں گے تو ان کو انٹر نیٹ پر اس طرح رکھیں، کوئی ایسا Forum بنائیں جہاں تربیت کے لئے ایسے سوالوں کے جواب دیئے جا سکیں.تو آجکل اس زمانہ میں یہ بہت بڑے چیلنجز ہیں جو میڈیا نے ، لوگوں نے شبہات پیدا کرنے کے لئے ڈال دیئے ہوئے ہیں.پھر So Called تعلیم کے نام پہ اپنے آپ کو زیادہ ہی پڑھی لکھی سمجھ کے سمجھتی ہیں کہ شاید اسلام کی تعلیم بڑی Backward تعلیم ہے.حالانکہ اسلام کی تعلیم سے زیادہ اس زمانہ میں کسی بھی مذہب کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جو ماڈرن ہو اور جو زمانہ کے حساب سے اپنے آپ کو Adjust کرنے والی ہو.(قسط نمبر 10، الفضل انٹر نیشنل 05 مارچ 2021ء صفحہ 11) 106

Page 173

سوال: اسی ملاقات میں ایک خادم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے کس طرح اور کیا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا: جواب: بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو کہا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اسی وقت تربیت کرو.اسی لئے اسلام میں یہ رائج ہے اور یہ سنت ہے، آنحضرت الیم بھی یہ فرمایا کرتے تھے اور پھر ہم عمل بھی اسی بات پہ کرتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے ہیں اور بائیں کان میں تکبیر پڑھتے ہیں.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا نام اس کے کان میں پڑے اور توحید پر وہ قائم ہو.تو تربیت جو ہے وہ تو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ پہلے دن سے شروع کر دو.یہ نہ دیکھو کہ بچہ چھوٹا ہے اس کو سمجھ نہیں آئے گی.بچہ چھوٹا ہے اس کو بتاؤ، کوئی چیز تم دیتے ہو تو تم کہو کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دی ہے ، اللہ تعالیٰ نے تمہار انتظام کیا.اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا، اللہ تعالیٰ نے مجھے سہولت مہیا کی.ہم نے توحید کو قائم کرنا ہے اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ان کا ایمان پیدا کرو کہ جو چیز وہ حاصل کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے ان کا انتظام کرتا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ پر آہستہ آہستہ یقین بڑھنا شروع ہو گا.پھر بتاؤ کہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں چیزیں دیتا ہے تو ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرنا ہے.پھر کہو کہ تم ابھی چھوٹے ہو، تمہیں پتہ نہیں، تم اللہ میاں سے صرف دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی طرح انعامات دیتا رہے، ہمارے پہ فضل کرتا رہے.اور ہم بڑے ہو گئے ہیں اس لئے ہمیں کچھ تھوڑا سا پتہ لگ گیا ہے اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں.جب تم بڑے ہو گے تو تم بھی نماز پڑھنی شروع کر دو گے.پھر جب بچہ سات سال کا ہوتا ہے تو یہی آنحضرت ا نے فرمایا کہ اس کو بتاؤ کہ تم نے نماز پڑھنی ہے یا نماز فرض ہے.اور آہستہ آہستہ اس کو دو یا تین یا چار جتنی نمازیں بچہ پڑھ سکتا ہے پڑھتا ر ہے.اور جب دس کا ہو جائے، اس وقت Matured دماغ ہو جاتا ہے، پھر اس کو نماز پڑھنے کی عادت ڈال دو.تو یہ شروع کی جو تربیت ہے، وہی ہے جو بچہ کو آخر تک کام دیتی ہے.اور پھر قرآن کریم بھی بچہ پڑھتا ہے.لیکن اتنا بھی Stress بچہ پر نہ ڈالو کہ تین سال کی عمر میں اسے قرآن کریم پڑھانا شروع کر دو.چار سال کی عمر میں وہ تھک جائے اور جب گیارہ سال کی عمر کا ہو تو باہر کے ماحول میں جائے اور آزادی اس کو حاصل ہونا شروع ہو جائے.ایک درمیانہ 107

Page 174

رویہ اختیار کرو.بچہ کو سمجھاؤ اللہ تعالیٰ کی ذات پہ ایمان دلواؤ، اسلام کی سچائی کا ثبوت دو.اس زمانہ میں مسیح موعود کو دین کی سچائی قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے اس کی باتیں بتاؤ.چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنا کر ، صحابہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات سنا کر ، نبیوں کے واقعات سنا کر، اللہ تعالیٰ کے جو لوگوں پر فضل ہوئے ہیں ان کی کہانیاں سنا کے ، جو تم پہ فضل ہوئے ہیں اس کی کہانی سنا کے Interest پیدا کرو.تو اس طرح ایک محبت پیدا کی جاتی ہے.نیک نیتی سے، توجہ سے ماں باپ بچوں کو سمجھاتے رہیں، دین کی طرف لاتے رہیں تو پھر دین سے وہ Attach ہو جائیں گے تو پھر خدا تعالی کی طرف رجحان بھی ہو گا، پھر نمازوں کی طرف توجہ بھی ہو گی.لیکن پنجابیوں کی طرح یہ کہہ دینا کہ بچہ کو چھوڑ دو، بڑا ہو گا تو آپ ہی ٹھیک ہو جائے گا.یہ کام نہیں چلے گا.اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں سبق دیا کہ پہلے دن سے تربیت کرو.اس لئے وڈا ہو کے ٹھیک ہو جائے گا “ والی بات کوئی نہیں ہے.بچہ کی تربیت ساتھ ساتھ اس کی عمر کے لحاظ سے کرو اور اپنے نمونے دکھاؤ.(قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 108

Page 175

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بنگلا دیش کی Virtual ملاقات مؤرخہ 14 نومبر 2020ء میں لجنہ اور ناصرات کی تربیت کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا: جواب: لجنہ کی تربیت اس طرح کریں کہ لجنہ کو عادت ڈالیں کہ ایک تو ان کا با قاعدہ حیادار لباس ہو، وہ پر دہ کرتی ہوں اور گھر سے باہر نکلیں تو ان کا لباس ایسا نہ ہو کہ غلط قسم کے مردوں کی اس پر نظریں پڑیں، اور پردہ کر کے باہر نکلا کریں.اس بات کا خیال رکھیں کہ احمدی لڑکی اور احمدی عورت کا دوسروں سے ایک فرق ہونا چاہیئے.اور عادت ڈالیں کے ہر لجنہ ممبر جو ہے وہ روزانہ پانچ وقت نمازیں پڑھنے والی ہو.یہ کوشش کریں کہ ہر لجنہ ممبر جو ہے وہ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرنے والی ہو.اور یہ بھی کوشش کریں کہ آپ کی جو نوجوان لڑکیاں ہیں ان کو اپنے احمدیوں میں ہی رشتے کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہو بجائے اس کے کہ باہر رشتے کریں.اور جو نوجوان لڑکیاں کام کرتی ہیں یا جو عورتیں کام کرتی ہیں ان کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنے کام کی جگہ پر اپنا ایسا لباس پہنیں جو حیادار لباس ہو اور پردہ میں رہ کر کام کیا کریں.اسی طرح تربیت کے سیمینار بھی کیا کریں اور ان سیمینار میں نوجوانوں کو بلایا کریں اور ان کو سمجھایا کریں کہ اللہ اور رسول کے کیا حکم ہیں اور اس کے مطابق اپنی تربیت کریں.اسی ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ناصرات کی تربیت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ان کے لئے تربیت کے پروگرام ایسے بنائیں کہ ناصرات کی تربیت اچھی طرح کر دیں ، ان کو نمازیں پڑھنے کی عادت پڑ جائے ، ان کو قرآن کریم پڑھنے کی عادت پڑ جائے، ان کو دعائیں کرنے کی عادت پڑ جائے ، ان کو میرا ایم ٹی اے پہ جو خطبہ آتا ہے اس کو سننے کی عادت پڑ جائے، ناصرات کی اگر اچھی طرح تربیت کر دیں گی تو وہی ناصرات لجنہ میں جا کے پھر زیادہ اچھا کام کریں گی.اگر ناصرات کی آپ ٹریننگ کر دیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی لجنہ بھی بڑی اچھی ہو جائے گی.اس لئے کوشش کریں کہ ناصرات کی زیادہ سے زیادہ اچھی تربیت کر سکیں.(قسط نمبر 18، الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 11) 109

Page 176

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا کی Virtual ملاقات مؤرخہ 19 دسمبر 2020ء میں ناصرات کی تربیت کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا: جواب: شروع میں ہی بچیوں کو بتائیں کہ تمہارا لباس حیادار ہونا چاہیے.جب وہ بڑی ہوں اور لجنہ میں شامل ہوں تو پھر ان کو پتہ ہونا چاہیئے کہ حیا دار لباس کے ساتھ حجاب کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہی ہے، قرآن کریم میں ہی ہے.تو جو بچپن سے ان کو ٹریننگ دیں گی تو تبھی وہ لجنہ میں آکے اور معیار کبیر کی ناصرات بن کے حیادار لباس پہنیں گی.ان کو بچپن میں بتائیں کہ ابھی عمر چھوٹی ہے لیکن آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اس لئے تم لوگ حیا دار لباس پہنو.پھر جب بڑی ہوں تو حیا دار لباس کے ساتھ حجاب بھی ہو.جب حجاب ہو تا ہے تو حجاب خود اثر ڈال رہا ہوتا ہے بہت ساری برائیوں سے بچانے کے لئے) اور MixingUp سے ، مردوں کے ساتھ باتیں کرنے سے اور ان کے ساتھ دوستیاں لگانے سے.جو لڑکیاں یونیورسٹی اور کالج میں جاتی ہیں ان کو خود ہی احساس پیدا ہو رہا ہوتا ہے کہ ہمارا حجاب جو ہے اس کا ہم نے پاس کرنا ہے.تو اگر بچپن سے آپ تربیت کر دیں ، ناصرات کی عمر میں تو لجنہ کے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں.لجنہ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوتی.اس لئے بہت بڑا کام ہے جو ناصرات کا ہے.تو ابھی سے تربیت کر لیں تو بڑی اچھی بات ہے.کیونکہ جب کالج اور یونیورسٹی میں یہ لڑکیاں جائیں گی تب ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم کیا ہیں؟ پھر ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ بہت ساری بچیوں کو یہی نہیں پتہ ، قرآن بھی پڑھا دیتی ہیں، حدیث بھی پڑھا دیتی ہیں لیکن ان کو یہی نہیں پتہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیوں آئے ؟ جب ہمارے پاس قرآن بھی ہے، ہمارے پاس حدیث بھی ہے، ہمارے پاس آخری رسول بھی ہے ، تو مسیح موعود کی ضرورت کیا ہے ؟ یہ باتیں بچپن سے ہی پتہ ہونی چاہئیں.حضرت مسیح موعود آئے تو کیوں آئے اور کس لئے آئے؟ اس لئے آئے کہ یہ بھی آنحضور ﷺ کی ہی پیشگوئی تھی.اس کو پورا کرنے آئے.تو یہ چیزیں جو ہیں یہ بچپن سے ذہنوں میں ہونی چاہئیں.اور جب یہ بنیادی چیزیں ہوں گی تو تبھی وہ آگے بڑھیں گی.بڑے بڑے مسائل تو لوگ سیکھ ہی لیتے ہیں.بنیادی چیزیں ان کو سکھا دیں، یہ پتہ ہو کہ میرا ایمان کیا ہے، میں کیوں احمدی ہوں، میری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور اس کے بعد پھر دیکھیں 110

Page 177

کہ آپ کی لجنہ کی اگلی نسل جو آئے گی وہ اس سے بہت بہتر ہو گی جو موجودہ لجنہ کی نسل نے ( قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 111

Page 178

تعبیر رویا سوال: ایک غیر از جماعت خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنی اور اپنے بھائی کی بعض خوابیں لکھ کر ان کے بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی، نیز جماعت کے بارہ میں اپنے بعض سوالات کے جواب بھی حضور انور سے دریافت کئے.اسی طرح ایک احمدی لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت بھی مانگی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 اگست 2021ء میں اس خط کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ نے اپنی اور اپنے بھائی کی جو خوابیں تحریر کی ہیں، ان میں سفید پرندوں، سفید گھروں اور ان گھروں میں خانہ کعبہ کے ہونے کا خاص طور پر ذکر ہے.خواب میں سفید رنگ نیکی ، خیر و برکت اور دین کی صفائی کی علامت ہوتی ہے.پرندے روحانی ترقی کی علامت ہوتے ہیں.اور کسی گھر میں خانہ کعبہ کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس گھر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی شامل ہے اور گھر والوں کے دین کی اصلاح اور ان کے ہر قسم کے خوف سے امن میں ہونے کی دلیل ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی راہ حق اور حقیقی اسلام کی طرف رہنمائی فرمائے اور آنحضور لم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق مبعوث ہونے والے مسیح محمدی علیہ السلام کو پہچاننے ، ان کے دعاوی کو صدق دل سے قبول کرنے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اتمام حجت ہو جانے کے بعد بھی آنحضور ا کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جانے والوں کو آخرت میں کئی قسم کے ہم و غم کا تو بہر حال سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سید الرسل نبی آخر الزماں خاتم النبیین حضرت اقدس محمد مصطفی الم کے احکامات کی تعمیل کئے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہوتے ہیں.خواب میں آپ کے والد صاحب کا وفات کے بعد خوفناک مناظر کے دیکھنے کا بیان اسی انذار کی طرف اشارہ ہے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو سچائی پہچاننے اور اسے قبول کر کے ان کے حق میں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے.آمین (قسط نمبر 41، الفضل انٹر نیشنل 21 اکتوبر 2022ء صفحہ 9) 112

Page 179

تعدد ازدواج سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اس کے خاوند نے جماعت سے اخراج کے بعد اسے طلاق دیئے بغیر دوسرا نکاح کر لیا ہے، جبکہ قانوناً وہ دوسری شادی کا حق نہیں رکھتے اس لئے زنا کر رہے ہیں.اسلام کی رُو سے مجھے اس نکاح کی کوئی اہمیت سمجھ نہیں آئی.اس لئے اس نکاح کو منسوخ کیا جائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 جنوری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: یہ بات ٹھیک ہے کہ اکثر مغربی ممالک میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے قانونی اعتبار سے دوسری شادی منع ہے لیکن اسلام نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے.اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ جا کر جہاں دوسری شادی کی ممانعت نہیں با قاعدہ نکاح کے ذریعہ دوسری شادی کر بھی لیتا ہے تو ان مغربی ممالک میں اس کی اس دوسری بیوی کو کسی قسم کے قانونی حقوق نہیں ملتے لیکن شر عاوہ اس کی بیوی ہی مانی جائے گی اور اس کے ساتھ اس کے جسمانی تعلقات زنا شمار نہیں ہوتے.آپ کے خاوند اگر اس عورت سے بغیر نکاح کے تعلقات رکھتے ، جو کہ شرعاً حرام ہے لیکن ان مغربی ممالک کے قوانین میں اس کی گنجائش نکل آتی ہے تو کیا یہ بات آپ کو خوش کرتی؟ اسلام نے جس طرح مرد کے لئے اس کی ضرورت کے مطابق حقوق بیان کئے ہیں اسی طرح عورت کے لئے بھی اس نے مختلف حقوق قائم فرمائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی تعلیم کا یہ پہلو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے.مگر جبر کسی پر نہیں اور ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بیشک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو مجرم نقض عہد کا مر تکب 113

Page 180

ہو گا.لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اور حکم شرع پر راضی مثل ہووے تو اس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بیجا ہو گا اور اس جگہ ہے صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی.ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تعدد ازواج فرض واجب نہیں کیا ہے.خدا کے حکم کی رُو سے صرف جائز ہے.پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اُٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کر دہ قانون کی رُو سے ہے اور اس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اور اگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو اس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دیدے.کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عور تیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں تو اس صورت میں کسی آریہ کو خواہ نخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 246) (قسط نمبر 31، الفضل انٹر نیشنل 108 اپریل 2022ء صفحہ 11) 114

Page 181

تعلق باللہ سوال: اسی ملاقات میں ایک طفل نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کی کہ ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ کیسے تعلق پیدا کر سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.تم میری عبادت کرو.مجھے ایک سمجھو.میری باتیں مانو.میرے نبی جو تمہارے پاس تعلیم لے کے آتے ہیں، اس پہ عمل کرو تو تم میرے قریب آ جاؤ گے.تم نے یہاں دنیا میں کسی سے دوستی لگانی ہو تو تم دوست کی بات مانتے ہو ناں؟ اس کی بات مانتے ہو تو تبھی وہ تمہارے ساتھ دوستی کرتا ہے ناں؟ اگر تم اور وہ دونوں دوست ہو اور تمہارا دوست تمہاری بات نہ مانے اور تم اس کی بات نہ مانو تو پھر دوستی نہیں ناں رہے گی ؟ بس اللہ تعالیٰ بھی یہی کہتا ہے کہ میرے سے دوستی کرو، تم میری بات مانو اور میں پھر تمہاری باتیں مانوں گا.اور اس طرح تعلق پیدا ہو جائے گا.(قسط نمبر 9، الفضل انٹر نیشنل 12 فروری 2021ء صفحہ 12) 115

Page 182

سوال: ایک خاتون نے لکھا کہ اگر کوئی غیر احمدی مسلمان مجھ سے کسی غیر از جماعت عالم کی لکھی ہوئی تفسیر کے بارہ میں پوچھے تو مجھے اسے کون سی تفسیر پڑھنے کے لئے بتانی چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22 جولائی 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: پرانے بزرگوں کی تمام تفسیر میں اچھی ہیں.آپ کی معلومات کے لئے چند تفسیروں کے نام لکھ رہا ہوں.مثلاً تیسری صدی ہجری میں لکھی جانے والی تفسیر طبری، جس کا پورا نام ”جامع البیان فی تاویل القرآن“ ہے اور جسے ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر الطبری نے تصنیف کیا.چھٹی صدی ہجری میں امام ابو عبد اللہ محمد فخر الدین ابن خطیب الرازی کی تصنیف کردہ تفسیر ” مفاتیح الغيب المعروف التفسیر الکبیر“ بہت عمدہ تفسیر ہے.ساتویں صدی ہجری میں لکھی جانے والی تفسیر بعنوان "الجامع لاحکام القرآن معروف به قرطبی مشہور عالم ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابو بکر المعروف امام قرطبی نے تصنیف فرمائی.علاوہ ازیں تفسیر جلالین، تفسیر ابن کثیر اور تفسیر روح المعانی وغیرہ اچھی اور پڑھنے کے قابل تفاسیر ہیں.(قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 116

Page 183

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ سورۃ النساء کی آیت 16 اور 17 کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دو مختلف تفاسیر بیان فرمائی ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19 جولائی 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور نے فرمایا: جواب قرآن کریم کسی ایک زمانہ یا ایک قوم کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک تمام دنیا کی رہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے اور ہر زمانہ میں وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کو اس زمانہ کے حالات کے مطابق اس سے مسائل کے استنباط کا علم بھی عطا فرماتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَ مَا نُنَزِّلُةٌ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (سورة الحجر:22) یعنی ہمارے پاس ہر چیز کے (غیر محدود) خزانے ہیں.لیکن ہم اسے (ہر زمانہ میں اس کی ضرورت کے مطابق ایک معین اندازہ کے مطابق نازل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ام سے کئے گئے وعدہ کے مطابق آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانہ میں دین محمدی کی تجدید اور دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور اسی قرآنی بشارت کے مطابق آپ کو قرآنی علوم اور اس کے روحانی معارف سے وافر حصہ عطا فرمایا.اور پھر آپ کے وسیلہ اور برکت سے آپ کے بعد جاری ہونے والی خلافت کی مسند پر متمکن ہونے والے ہر فرد کو علوم قرآنی سے نوازا.ان وجودوں نے اپنے اپنے دور میں، اُس زمانہ کے حالات کے مطابق خدا تعالیٰ سے علم پا کر اپنی سمجھ کے مطابق قرآن کریم کے معارف دنیا کے لئے بیان فرمائے.آنحضور لم نے قرآن کریم کے مختلف متن اور مختلف بطون ہونے کی جو بشارت دی ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ سے علم لدنی کا فیض پانے والے لوگ مختلف زمانوں میں اس سے ایسے مسائل اور علوم کا استنباط کرتے رہیں گے جس کے نتیجہ میں یہ کتاب ہر زمانہ میں ترو تازہ رہے گی.117

Page 184

آپ نے اپنے خط میں جن آیات کا ذکر کیا ہے ، حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سب نے اپنے اپنے خداداد علم کے نتیجہ میں ان آیات کی تفسیر بیان فرمائی ہے.جس کے مطابق ان آیات سے معاشرہ میں پائی جانے والی مختلف قسم کی برائیوں کا استنباط کر کے ان کی شناعت بیان کی اور اپنے متبعین کو ان برائیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات سے ایسے نا پسندیدہ افعال اور بُرے اخلاق کی باتیں مراد لی ہیں، جن کا تعلق جھگڑا فساد جیسے فتیح امور سے ہے.اور آج سے ستر اسی سال قبل ایسے مرد و خواتین جو اپنے گرد و نواح میں بلا وجہ جھگڑ ا فساد کی فضاء پیدا کرتے تھے ، اخلاقاً بہت بُرے سمجھے جاتے تھے اور اُس زمانہ میں مرددوں کی مردوں اور عورتوں کی عورتوں کے ساتھ جنسی بے راہ روی معاشرہ میں عام نہیں ہوئی تھی.اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اُس زمانہ میں ان آیات میں بیان ناپسندیدہ افعال کی وہی تشریح فرمائی جو اُس زمانہ میں عام طور پر شناعت کے دائرہ میں داخل تھی.اور اب اس نئے زمانہ میں مرد و خواتین کی اس قسم کی جنسی بے راہ روی جسے Gay Movement کہا جاتا ہے، معاشرہ میں عام ہو رہی ہے، اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اس زمانہ کے حالات کے مطابق قرآن کریم کی ان آیات کی یہ تشریح فرمائی ہے اور ان آیات میں بیان بُرائی سے موجودہ زمانہ میں پھیلنے والی جنسی بے راہ روی مراد لی ہے.قرآن فہمی کے معاملہ میں اس قسم کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں بلکہ حضور ام نے اپنی امت میں پائے جانے والے اس قسم کے علمی اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے.کیونکہ اس کے نتیجہ میں قرآن کریم سے مختلف قسم کے استدلال کی نئی نئی راہیں کھلتی ہیں.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 118

Page 185

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کے لفظ ”اُذُن“ کے بارہ میں تحریر کر کے کہ اس سے مراد ریکارڈنگ مشین ہے کیونکہ کان تو کسی بات کو محفوظ نہیں رکھتے بلکہ دل و دماغ محفوظ رکھتے ہیں، رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 جنوری 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی: جواب: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں سورۃ الحاقہ کی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے تا کہ اس (واقعہ) کو تمہارے لئے ایک نشان قرار دیں اور سننے والے کان سنیں (اور دل اسے یاد رکھیں) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس تشریحی ترجمہ میں اس بات کو واضح فرما دیا ہے کہ کانوں کا کام صرف سننا ہے یاد رکھنے کا کام یا دل کرتا ہے یا دماغ کرتا ہے.چنانچہ سورۃ البقرۃ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضور مکان اور آنکھ کے فنکشن کی وضاحت میں ایک نہایت لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب ہم کوئی آواز سنتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ آواز باہر سے ہو کر آئی ہے.کیونکہ کان کا پر دوہ قدرتی طور پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہوا کا زور کان کے پردہ پر پڑتا ہے تو اس سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے.ارتعاش کی لہریں یعنی وائی بریشنز ( VIBRATIONS ) پیدا ہوتی ہیں اور یہی وائی بریشنز دماغ میں جاتی ہیں اور دماغ ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے.یہی وائی بریشن ہیں جو ریڈیو کے والوز میں پڑتی ہیں اور ریڈیو ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے.انسانی بناوٹ میں ریڈیو کان ہے اور اعصاب دماغی والوز ہیں.ان کے ذریعہ جو حرکات دماغ میں منتقل ہوتی ہیں وہ وہاں سے آواز بن کر سنائی دیتی ہیں...اور جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی حرکات ہیں، جن کو آنکھیں شکل میں تبدیل کر ڈالتی ہیں.جو چیز تمہارے سامنے گڑی ہوتی ہے وہ تصویر نہیں ہوتی بلکہ وہ فیچرز 119

Page 186

(FEATURES) یعنی نقش ہوتے ہیں جو آنکھوں کے ذریعہ دماغ میں جاتے ہیں اور وہ انہیں تصویر میں بدل ڈالتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آجکل ریڈیو سیٹ کے ذریعہ تصویریں بھی باہر جانے لگ پڑی ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 403) پس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس لطیف تفسیر کی روشنی میں میرے نزدیک سورۃ الحاقہ کی مذکورہ بالا آیت میں ایک قابل ذکر نشان کے یاد رکھنے کو کان کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ کان کے ذریعہ ہی آواز دل و دماغ تک پہنچ کر محفوظ ہوتی ہے.باقی اس آیت قرآنی میں لفظ کان سے ریکارڈنگ مشین مراد لینا آپ کی ایک ذوقی تشریح ہے ، جو اگر قرآن و سنت اور احادیث کے خلاف نہیں تو اس تشریح میں کوئی حرج کی بات نہیں.(قسط نمبر 30، الفضل انٹر نیشنل 11 مارچ 2022ء صفحہ 11) 120

Page 187

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کے نصف میں جو وَلْيَتَلَطَّف کا لفظ آیا ہے، اس لفظ کے قرآن کریم کے درمیان میں آنے میں کچھ خاص حکمت ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 12 فروری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آیات اور سورتوں کی شکل میں نازل فرمایا اور آنحضور اللیم نے خدا تعالیٰ سے رہنمائی پاکر اس کی موجودہ ترتیب کو قائم فرمایا ہے.آنحضور امیم کے بعد مختلف وقتوں میں کئی طرح سے جو قرآن کریم کی تقسیم کی گئی ہے، یہ ذوقی باتیں ہیں.اس سے قرآن کریم میں پائی جانے والی دائمی تعلیمات اور اس کے عمیق در عمیق روحانی معارف پر کوئی فرق نہیں پڑتا.قرآنی تعلیمات کا بنیادی مقصد خدا تعالیٰ کی توحید کا پرچار ہے.اس اعتبار سے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کے مضمون کو بیان کیا گیا اور قرآن کریم کا اختتام بھی اسی توحید باری تعالیٰ کے مضمون پر ہو رہا ہے اور قرآن کریم کے درمیان میں جو سورۃ آئی ہے یعنی سورۃ الکہف وہ بھی خاص طور پر توحید کے ہی مضمون پر مشتمل ہے اور پھر خود اس سورۃ کا آغاز اور اختتام بھی توحید ا ہی کے مضمون پر ہوتا ہے.پس قرآن کریم کی اس ترتیب میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ توحید کی تعلیم کو بیان فرما کر انسان کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اس عارضی زندگی کو گزارے تا کہ اُخروی اور دائمی زندگی میں وہ خدا تعالیٰ کے لا متناہی فضلوں کا وارث بن سکے.(قسط نمبر 32 الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل 2022ء صفحہ 11) 121

Page 188

سوال: ایک خاتون سورۃ النور کی ایک آیت کی خود تشریح کر کے اسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے اس بارہ میں رہنمائی چاہی نیز پوچھا کہ کیا ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی: جواب: آپ نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے، اچھی ہے.اور آپ کی تشریح میں بیان تقریباً ساری باتیں جماعتی لٹریچر میں بھی موجود ہیں.ایک آدھ بات آپ نے زائد بیان کی ہے.مثلاً یہ کہ زیتون کا تیل 550 ڈگری پر جلتا ہے اس لئے اس کے دیئے کے گرنے سے آگ نہیں بھڑ کتی.شاید یہ بھی جماعتی لٹریچر میں کسی جگہ بیان ہوئی ہے لیکن میری نظر سے نہیں گزری.باقی جہاں تک قرآن کریم کی تفسیر کرنے کی بات ہے تو اس کے لئے بنیادی طور پر قرآن کریم میں بیان تعلیمات، آنحضور ﷺ کی سنت، احادیث نبویہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا وسیع اور گہر اعلم ہونا ضروری ہے.اس کے بعد انسان قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے کا اہل ہو سکتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر القرآن کے جو اصول بیان فرمائے ہیں، انہیں مختصر آمیں آپ کے استفادہ کے لئے یہاں درج کر رہا ہوں.حضور نے ایک رؤیا کی بناء پر قرآن کریم کی تفسیر کے تین اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا جب تم میں کسی آیت کے مفہوم کے متعلق اختلاف پیدا ہو جائے تو تم قرآن کریم کی دوسری آیتوں غور کیا کرو کہ وہ کن معنوں کی تائید کرتی ہیں.اگر آیات نہ ملیں تو احادیث نبوی میں اس کا مفہوم تلاش کرو.اور اگر احادیث نبوی سے بھی تمہیں اس کے معنی نہ ملیں تو کسی ملہم کے کلام اور اس کی تشریحات کی طرف دیکھو.کیونکہ خدا تعالیٰ سے تازہ روشنی اور الہام پانے کی وجہ سے اس کا ذہن منور ہو جاتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 28، خطبہ ارشاد فرمودہ مؤرخہ 21 نومبر 1947ء) حضور اپنی تصنیف ”حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے “ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ اصول تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے.قرآن کریم پر غور کرے اور اس بات کو مد نظر رکھے کہ اس کا ہر ایک لفظ ترتیب سے رکھا گیا ہے.اس کا کوئی لفظ بے مقصد نہیں ہے.اس کا کوئی لفظ بے معنی نہیں ہے.قرآن کریم اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود بیان کرتا 122

Page 189

ہے.قرآن کریم اپنی تفسیر آپ کرتا ہے.قرآن کریم میں تکرار نہیں ہے.قرآن کریم میں محض قصے نہیں ہیں.قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے.خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کی سنت میں اختلاف نہیں ہو سکتا.عربی زبان کے الفاظ مترادف نہیں ہوتے بلکہ اس کے حروف بھی اپنے اندر مطالب رکھتے ہیں.قرآن کریم کی سورتیں بمنزلہ اعضاء انسانی ہیں جو ایک دوسرے سے مل کر اور ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے کمال ظاہر کرتی ہیں.(ملخص از حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 157 تا 159) یہ زریں اصول مد نظر رکھ کر آپ اگر سمجھتی ہیں کہ آپ قرآن کریم کی تشریح کا حق ادا کر سکتی ہیں تو ضرور لکھا کریں اور لکھ کر بے شک مجھے بھیج دیا کریں.اور ویسے بھی قرآن کریم کسی ایک طبقہ کی ملکیت اور میراث نہیں ہے بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا سر چشمہ ہے اور ہر طبقہ اور ہر درجہ کا انسان اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس سے فیضیاب ہو سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے والے علوم قرآن کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پانچواں اصولی علم جو آپ کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ قرآن ذوالمعانی ہے اس کے کئی بطون ہیں.اس کو جس عقل اور جس فہم کے آدمی پڑھیں اس میں ان کی سمجھ اور ان کی استعداد کے مطابق سچی تعلیم موجود ہے گویا الفاظ ایک ہیں لیکن مطالب متعدد ہیں اگر معمولی عقل کا آدمی پڑھے تو وہ اس میں ایسی موٹی موٹی تعلیم دیکھے گا جس کا ماننا اور سمجھنا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہ ہو گا اور اگر متوسط درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں مضمون پائے گا اور اگر اعلیٰ درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں علم پائے گا.غرض یہ نہ ہو گا کہ کم علم لوگ اس کتاب کا سمجھنا اپنی عقل سے بالا پائیں یا اعلیٰ درجہ کے علم کے لوگ اس کو ایک سادہ کتاب پائیں اور اس میں اپنی دلچسپی اور علمی ترقی کا سامان نہ دیکھیں.کاسامان نرود ( دعوۃ الامیر ، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 513) (قسط نمبر 34، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2022ء صفحہ 11) 123

Page 190

سوال: ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کی آیت وَ الْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ میں کون سی عورتیں مراد ہیں اور کیا ان کے خاوندوں کے ہوتے ہوئے بھی ان سے شادی ہو سکتی ہے ، یا یہ آیت مخصوص زمانہ کے لئے تھی اور کیا اب یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 22 جولائی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل اصولی ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ مرتی بھی ہیں اور آپ کو یہ بھی علم نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہو سکتی.آپ کے سوال سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا اور نہ ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے.اور نہ ہی آپ خلفاء احمدیت کے خطبات و خطابات سنتے ہیں، بلکہ آپ کو تو جماعت کے بنیادی عقائد کا بھی علم نہیں جو آپ یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا قرآن کریم کی یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے ؟ کیونکہ جماعت احمدیہ کا بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا ایسا کلام ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا تعالیٰ نے لے رکھی ہے اور اس کی بسم اللہ کی ”ب“ سے والناس کی ”س“ تک ساری عبارت خدا تعالیٰ کے اذن کے تحت محفوظ اور غیر مبدل ہے اور اس کا ایک نقطہ بلکہ ایک شعشہ بھی قابل منسوخ نہیں اور جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم قابل عمل تھا، اب بھی اسی طرح قابل عمل ہے اور انشاء اللہ قیامت تک اسی طرح قابل عمل رہے گا.ہاں یہ بات درست ہے کہ قرآن کریم کے بعض احکام بعض مخصوص حالات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.آنحضور الم کے زمانہ میں جب وہ حالات تھے تو یہ احکام ان پر لاگو ہوتے تھے، آئندہ کسی زمانہ میں اگر ویسے ہی حالات دوبارہ پیدا ہوتے ہیں تو پھر ان احکامات کا ان حالات پر نفاذ ہو گا.اس آیت میں بیان لونڈیوں کے متعلق احکامات بھی اسی قسم کے حالات کے ساتھ مخصوص ہیں.ایک مربی کا صرف یہ کام نہیں کہ وہ صرف سوال کر کے اپنے مسائل حل کر لے.یا کوئی بات معلوم کرنے کے لئے صرف Google Search کا سہارا لے.بلکہ ایک مربی کو خود تحقیق کر کے اپنے علم میں اضافہ کرنے کی عادت ہونی چاہیئے اور اس کا علم پختہ اور گہر اہونا چاہیئے.اس 124

Page 191

کی علمی اور جماعتی کتب کے مطالعہ پر گہری نظر ہونی چاہیئے، اسے سوچنے اور غور کر کے نئے نئے علمی نکات نکالنے کی عادت ہونی چاہیئے.باقی جہاں تک مذکورہ بالا آیت میں بیان عورتوں سے متعلق سوال ہے تو اس سے مراد وہ عور تیں ہیں جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمنان اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے.چنانچہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوري: 41) کی قرآنی تعلیم کے مطابق دشمن اسلام کی ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کے قید کر لی جاتی تھیں.اور پھر دشمن کی یہ عورتیں تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے جب آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو چونکہ اس زمانہ میں ایسے جنگی قیدیوں کو رکھنے کے لئے کوئی شاہی جیل خانے وغیرہ نہیں ہوتے تھے.اس لئے انہیں مجاہدین لشکر میں تقسیم کر دیا جاتا تھا.اور یہ مجاہدین جب اپنے حصہ میں آنے والی ایسی لونڈیوں کی جہاں رہائش، خوراک اور لباس وغیرہ کی ضروریات پورا کرتے تھے تو بدلے میں اس زمانہ کے دستور کے مطابق ان مجاہدین کو ان عورتوں سے فائدہ اٹھانے کا بھی پورا پورا حق ہو تا تھا جس میں ان کے ساتھ جسمانی تعلق استوار کرنا بھی شامل تھا.پس اس آیت میں دشمن کی اسی قسم کی عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر وہ مذکورہ بالا حالات میں مسلمانوں کے قبضہ میں آتی ہیں تو قطع نظر اس کے کہ وہ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ لونڈی کی حیثیت میں ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہے.یہاں پر میں یہ بھی واضح کر دوں کہ قرآن کریم ، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ ا کے ارشادات کی روشنی میں میرا موقف ہے کہ ایسی عورتوں سے ایک قسم کے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے.لیکن اس نکاح کے لئے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی.اور نہ ہی اس نکاح کے لئے اسلامی دستور کے مطابق ولی کی رضامندی ضروری ہوتی تھی، بلکہ جس طرح بہت سے قبائل اور معاشروں میں یہ طریق رائج رہا اور اب بھی بعض ممالک میں یہ طریق موجود ہے کہ معاشرہ میں صرف یہ بتا دیا جاتا ہے کہ ہم میاں بیوی ہیں اور 125 السلام

Page 192

یہی ایک قسم کا اعلان نکاح ہوتا ہے، اسی طرح مذکورہ بالا قسم کی لونڈیوں کا جنگ کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں کسی مجاہد کے حصہ میں آنا ان دونوں کا ایک طرح کا اعلان نکاح ہی ہوتا تھا.ایسی لونڈی سے اس قسم کے نکاح کے نتیجہ میں مرد کے لئے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا تھا.البتہ اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ اُتم الولد کے طور پر آزاد ہو جاتی تھی.(قسط نمبر 38، الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2022ء صفحہ 10) 126

Page 193

سوال: جرمنی سے ایک دوست نے قرآن کریم کی آیات و هُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَ هَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَ جَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ۖ وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَ صِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا (الفرقان: 54، 55) میں بیان نمکین اور میٹھے پانی کے دو سمندروں، نیز انسانی تخلیق کے پانی سے ہونے سے مراد انسانی جسم کے Intracellular اور Extracellular سسٹم کو قرار دے کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اس بارہ میں رہنمائی چاہی.نیز سوال کرنے والے نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ Cells بھی میٹھے اور نمکین پانی پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان ایک روک حائل ہوتی ہے.نیز ہر انسانی جسم اسی قسم کے Cells پر مشتمل ہوتا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19 اکتوبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کا یہ نقطہ ذوقی حد تک تو ٹھیک ہے اور ان آیات کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے.لیکن ان آیات سے صرف یہی پہلو مراد لینا قرآن کریم کے وسیع مضمون کو محدود کرنے والی بات ہو گی.کیونکہ قرآن کریم کی ان آیات کے کئی پہلو ہیں جنہیں پرانے مفسرین بھی اپنے اپنے وقتوں میں بیان کرتے آئے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے بھی ان آیات کے کئی نئے پہلو بیان فرمائے ہیں، جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کتب اور تفاسیر میں دیکھا جا سکتا ہے.مثال کے طور پر سمندر کا پانی جو شدید کڑوا ہوتا ہے اسی سے بادل بن کر جب بارش برستی ہے تو وہ پانی بہت میٹھا ہوتا ہے اور ان دونوں قسم کے پانیوں کے درمیان ایک ایسی روک حائل ہوتی ہے جو انہیں کبھی ملنے نہیں دیتی.اسی طرح ظاہری طور پر ان سے سمندروں اور دریاؤں کے پانی بھی مراد ہو سکتے ہیں.سمندروں کا پانی نمکین ہوتا ہے اور دریاؤں کا پانی میٹھا ہوتا ہے.پھر روحانی تعلیم جو میٹھے پانی سے مشابہ ہوتی ہے اور کفر کی تعلیم جو نمکین پانی سے مشابہت رکھتی ہے، اس سے مراد ہو سکتی ہے.یعنی جو تعلیمات براہ راست خدا کی طرف سے آتی ہیں وہ میٹھی ہوتی ہیں اور جو تعلیمیں دیر سے دنیا میں موجود ہیں اور براہ راست الہام سے محروم ہیں وہ کڑوی ہوتی ہیں.127

Page 194

اسی طرح انسان اور ہر زندہ چیز کے پانی سے پیدا ہونے کی بھی کئی تشریحات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے بیان فرمائی ہیں.جن میں سے یہ بھی ہے کہ ہر چیز پانی سے ہی زندہ ہے.چنانچہ آسمان سے بارش برستی ہے تو زمین میں فصلیں اگتی ہیں جو زندگی کا سبب بنتی ہیں.اسی طرح روحانی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے کہ آسمان سے روحانی پانی اتر تار ہے.اسی طرح میٹھے اور نمکین پانی کے جو ذخائر ہیں یعنی سمندر اور دریا، ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف اقسام کی مچھلیوں اور آبی مخلوقات کی صورت میں انسانوں اور دیگر جانوروں کے لئے خوراک کی صورت میں زندگی کے سامان پیدا کئے ہیں.پس ان آیات قرآنیہ میں بیان وسیع مضامین کو صرف ایک پہلو تک محدود رکھنا درست نہیں.ہاں ان سے ایسے مختلف معانی نکالنا جو قرآن کریم اور آنحضور الم کی تعلیمات نیز حضور ا م کے غلام صادق اور اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفاسیر و تشریحات کے مطابق ہوں، جائز ہے.(قسط نمبر 46، الفضل انٹر نیشنل 23 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 128

Page 195

سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے قرآنی آیت وَإِذَا تَوَلَّي سَعْيِ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَ اللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ.یعنی جب وہ صاحب اختیار ہو جائے تو زمین میں دوڑا پھر تا ہے تاکہ اس میں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا.(البقرة: 206 ) سے حرث و نسل کی تباہی سے مراد DNA اور RNA میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے نتیجہ میں انسانوں میں ہونے والی جسمانی، ذہنی اور ایمانی تبدیلی کی کوشش کے معانی اخذ کر کے اس بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ لعزیز سے رہنمائی چاہی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 نومبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق قرآن کریم قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے نازل کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَإِنْ مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُةٌ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (سورة الحجر:22) یعنی ہمارے پاس ہر چیز کے (غیر محدود) خزانے ہیں.لیکن ہم اسے (ہر زمانہ میں اس کی ضرورت کے مطابق ایک معین اندازہ کے مطابق نازل کرتے ہیں.سائنسی نقطہ نظر سے آپ نے اس آیت کے جو معانی بیان کئے ہیں، وہ ٹھیک ہیں.ان میں کوئی حرج کی بات نہیں.DNA میں چھیڑ چھاڑ کے نتیجہ میں انسانی تباہی کے مضمون کو حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی بعض مواقع پر بیان فرمایا ہے.چنانچہ حضور رحمہ اللہ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ”الہام، عقل، علم اور سچائی “ میں بھی جینیاتی انجنیئر نگ کے عنوان کے تحت انسانی تخلیق میں اس قسم کی منفی چھیڑ چھاڑ کی کوشش کے بارہ میں دنیا کے سائنسدانوں اور حکومتوں کو انتباہ فرمایا ہے.اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الاؤل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے اپنے وقتوں میں اس آیت کی جو نہایت 129

Page 196

بصیرت افروز تفاسیر فرمائی ہوئی ہیں، ان میں بھی اس قسم کی منفی انسانی تدابیر اختیار کرنے کے بارہ میں انذار فرمایا گیا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رعایا اور ملک کی خدمت کریں بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے، قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور ملک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کی تمدنی اور اخلاقی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں.حرث کے لغوی معنے تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حرث کا لفظ استعارہ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی تمدنی حالت کو بہتر بنانے والے ہوتے ہیں ان ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدن تباہ ہو.اقتصاد برباد ہو.مالی حالت میں ترقی نہ ہو.اس طرح وہ نسل انسانی کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں.اور ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتی ہیں.اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں ان سے محروم ہو جاتی ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 453،454) اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے خطبات جمعہ مؤرخہ 28 جولائی 1972ء اور 11 اگست 1972ء میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 206 کی تشریح میں انسان کو عطا ہونے والی خداداد استعدادوں اور طاقتوں کے غلط اور مفسدانہ استعمال کو نوع انسانی کے لئے مضر 130

Page 197

قرار دیتے ہوئے اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بنی نوع انسان کو متنبہ فرمایا ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ دونوں خطبات ”خطبات ناصر “ جلد چہارم میں شائع ہو چکے ہیں.آپ وہاں سے ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں.(قسط نمبر 48، الفضل انٹر نیشنل 3 فروری 2023ء صفحہ 12) 131

Page 198

تقدير سوال: اسی Virtual ملاقات مؤرخہ 29 نومبر 2020ء میں ایک اور طفل نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ جب ہماری تقدیر لکھ دیتا ہے تو پھر ہم دعا کیوں کرتے ہیں، ہمیں دعا کی کیا ضرورت ہوتی ہے ؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: بعض تقدیریں ایسی ہیں جو ٹل نہیں سکتیں اور بعض تقدیریں ایسی ہیں جو ٹل جاتی ہیں.اس لئے ہم دعا کرتے ہیں.مثلاً موت ہے.ہر ایک نے مرنا ہے، یہ تو ثابت شدہ ہے.کوئی انسان ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.لیکن ایک شخص بیمار ہوتا ہے.اور ایسی حالت میں وہ پہنچ جاتا ہے جہاں ڈاکٹر جواب دیدیتے ہیں کہ مرنے کے قریب پہنچ گیا.لیکن ہم دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دعا قبول کر لیتا ہے اور اس کو اس موت کے منہ سے واپس لے آتا ہے ، زندہ کر دیتا ہے.تو یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی تقدیر ہے جو دعا سے مل گئی.Ultimately اس نے ایک لمبی عمر ستر سال ، اسی سال نوے سال پاکے مرنا ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے سوسال بھی کوئی زندہ رہے گا آخر کو مرنا ہی ہے.لیکن ایک ایسی عمر ہے مثلاً جوانی میں اگر کسی کی اس وقت ایسی مرنے کی حالت ہو جاتی ہے اور ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو ٹال دیتا اور اس کو عمر لمبی دیدیتا ہے.اور کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں.لوگ مجھے بھی دعا کے لئے لکھتے ہیں.میں ان کو جواب دیتا ہوں.اور اللہ کے فضل سے وہ دعا قبول بھی ہو جاتی ہے.لوگ بھی اپنی دعا کے واقعات لکھتے ہیں.انہوں نے بھی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے دعا سے وہ نقصان جو ان کو ہونا تھا اس سے وہ ٹال دیا.تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہی یہ کام ہو رہا ہے.لیکن اگر ہم دعا نہیں کریں گے ، کوشش نہیں کریں گے تو پھر جو اس تقدیر کا نتیجہ نکلنا ہے وہ نکلے گا.اس لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جو تقدیریں ملنے والی ہیں وہ ٹل جائیں اور ان کے بہتر نتائج پیدا ہو جائیں.اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں رکھی ہیں.ایک فائدہ والی، ایک نقصان والی.اب اگر ہم اللہ تعالیٰ کی بات ما 132

Page 199

ن لیتے ہیں تو ہمیں فائدہ والی تقدیر فائدہ دیدے گی.تو کوشش بھی کرتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں.اور اگر اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانتے.اور اس کے بارہ میں صحیح کام بھی نہیں کرتے اور دعا بھی نہیں کرتے تو اس تقدیر کا جو منفی پہلو ہے وہ ظاہر ہو جائے گا.تو دو تقدیریں ہوتی ہیں ایک ٹلنے والی تقدیر اور ایک نہ ٹلنے والی تقدیر نہ ٹلنے والی تقدیر اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں کہ یہ ہونا ہی ہونا ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ دعا نہیں سنتا اور وہ تقدیر نہیں ملتی.اور جو ٹلنے والی تقدیر ہے اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ دعاؤں سے، انسان کی کوشش سے اس کو ٹال دیتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم دعا کرو تو تمہارا میرے سے تعلق بھی پیدا ہو گا، تمہارا مجھ پہ ایمان بھی زیادہ ہو گا اور پھر اس کے نتیجہ میں تم مزید ایمان میں اور روحانیت میں بڑھو گے اور اس سے پھر تمہیں فائدہ ہو گا.ٹھیک ہے؟ (قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 133

Page 200

تلاوت قرآن کریم سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں قرآن کریم کی تلاوت کے بعد ”صَدَقَ اللهُ الْعَظیم“ کے الفاظ پڑھنے کے بارہ میں اپنی رائے کا اظہار کر کے رہنمائی چاہی ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11 جون 2019ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: میں نے اس بارہ میں تحقیق کروائی ہے.علماء میں دونوں قسم کے نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں.جو اس کے جواز کے قائل ہیں انہوں نے بعض قرآنی آیت اور احادیث سے استدلال کر کے اس کے جواز کی راہ نکالی ہے.میرے نزدیک بھی اگر کوئی تلاوت کرنے کے بعد یہ الفاظ پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.کیونکہ اس میں کوئی برائی تو بہر حال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے سچا ہونے کی تصدیق کی جارہی ہے.لیکن ان الفاظ کا مطلب جانے بغیر صرف ایک رسم کے طور پر انہیں دہرا دینا ایک بے معنی فعل شمار ہو گا.(قسط نمبر 11، الفضل انٹر نیشنل 12 مارچ 2021ء صفحہ 11) 134

Page 201

تناسخ سوال: آسٹریا کی ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ مختلف ثقافتوں کے لوگوں، مسلمان علماء، بعض اسلامی فرقوں نیز کئی دوسرے مذاہب نے تناسخ کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ عدل قائم کرنے کی غرض سے انسان کو دوبارہ دنیا میں لاتا ہے، تاکہ وہ مختلف تجارب جیسے غربت و امارت اور بیماری و صحت وغیرہ سے گزر سکے.کیونکہ یہ عدل نہیں ہے کہ انسان کی روح صرف ایک ہی تجربہ سے گزرے.اس بارہ میں جماعت احمدیہ کا موقف کیا ہے اور کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کسی خلیفہ نے اس بارہ میں کچھ فرمایا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 06 ستمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: تناسخ کا عقیدہ دراصل آخرت کی زندگی جو کہ دائمی زندگی ہے اس کو نہ سمجھنے اور نہ ماننے ، نیز خدا تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات خصوصاً صفت خالقیت، مالکیت اور اللہ تعالیٰ کے رحم سے متعلق مختلف عادات از قسم اس کا کرم، عفو، در گزر اور رحم وغیرہ سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے.کیونکہ تناسخ کے عقیدہ کی رُو سے خدا تعالیٰ مجبور ہے کہ وہ کسی انسان کو ہمیشہ کے لئے نجات دے.وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اگر ایک شخص اپنی آوارگی اور بد چلنی کے زمانہ سے تائب ہو کر اپنے اسی پہلے جنم میں نجات پانا چاہے تو اُس کو اس کی توبہ اور پاک تبدیلی کی وجہ سے نجات عنایت کر سکے بلکہ اُس کے لئے تناسخ کے اصول کی رُو سے کسی دوسری جون میں پڑ کر دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے خواہ وہ انسانی بون کو چھوڑ کر کتا بنے یا بندر بنے یا سور بنے.اسی طرح اس باطل عقیدہ کی رو سے کسی انسان کا پاکیزگی کی راہوں پر چلنا بھی ناممکن ہے، کیونکہ اس عقیدہ کو ماننے کے نتیجہ میں کیا معلوم کہ دوبارہ ہونے والے تناسخی جنم میں جس عورت سے اس کی شادی ہوئی ہے، وہ پہلے جنم میں اس کی ماں یا بہن یا دادی ہو.علاوہ ازیں اس عقیدہ کے اور بھی کئی لغو اور بیہودہ پہلو ہیں.ا سید نا حضرت اقد سمسیح موعود علیہ السلام نے تناسخ کے غیر اسلامی اور خدا تعالیٰ کی ذات وصفات 135

Page 202

کے سراسر خلاف عقیدہ کے رڈ میں اپنی متعدد تصانیف ( جن میں اسلامی اصول کی فلاسفی، چشمہ معرفت، آریہ دھرم، قادیان کے آریہ اور ہم، شحنہ حق، لیکچر لاہور، لیکچر سیالکوٹ وغیرہ شامل ہیں) میں بہت تفصیل کے ساتھ مدلل بحث فرمائی ہے.حضور علیہ السلام کی ان تصانیف میں سے اسلامی اصول کی فلاسفی، چشمہ معرفت، قادیان کے آریہ اور ہم، لیکچر لاہور اور لیکچر سیالکوٹ کا عربی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ کتب عربی ترجمہ کے ساتھ آن لائن بھی میسر ہیں، وہاں سے آپ تناسخ کے عقیدہ کارڈ بیان فرمودہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھ سکتی ہیں.بطور نمونہ حضور علیہ السلام کا ایک ارشاد درج ذیل ہے.حضور فرماتے ہیں: ” دوسرا پہلو جو آریہ مت مخلوق کے متعلق پیش کرتا ہے.اُن میں سے ایک تو تناسخ ہے.یعنی بار بار رُوحوں کا طرح طرح کی نجونوں میں پڑ کر دنیا میں آنا.اس عقیدہ میں سب سے پہلے یہ امر عجیب اور حیرت انگیز ہے که باوجود دعوی عقل کے یہ خیال کیا گیا ہے کہ پر میشر اس قدر سخت دل ہے کہ ایک گناہ کے عوض میں کروڑ ہا برس تک بلکہ کروڑہا اربوں تک سزا دیئے جاتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ اُس کے پیدا کر دہ نہیں ہیں اور اُن پر اس کا کوئی بھی حق نہیں ہے بجز اس کے کہ بار بار مجونوں کے چکر میں ڈال کر دُکھ میں ڈالے.پھر کیوں انسانی گورنمنٹ کی طرح صرف چند سال کی سزا نہیں دیتا؟ ظاہر ہے کہ لمبی سزا کے لئے یہ شرط ہے کہ سزا یافتوں پر کوئی لمبا حق بھی ہو مگر جس حالت میں تمام ذرات اور ارواح خود بخود ہیں کچھ بھی اُس کا اُن پر احسان نہیں بجز اس کے کہ سزا کی غرض سے طرح طرح کی بجونوں میں اُن کو ڈالے.پھر وہ کس حق پر لمبی سزا دیتا ہے.دیکھو اسلام میں باوجودیکہ خدا فرماتا ہے کہ ہر ایک ذرہ اور ہر یک رُوح کا میں ہی خالق ہوں اور تمام قوتیں ان کی میرے ہی فیض سے ہیں اور میرے ہی ہاتھ سے پیدا ہوئے ہیں اور میرے ہی سہارے سے جیتے ہیں.پھر بھی وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَقَالُ لِمَا يُرِيْدُ (هود: 108) یعنی دوزخی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے 136

Page 203

لیکن نہ وہ ہمیشگی جو خدا کو ہے بلکہ دور دراز مدت کے لحاظ سے.پھر خدا کی رحمت دستگیر ہو گی کیونکہ وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور اس آیت کی تصریح میں ہمارے سید و مولی نبی کریم ایم کی ایک حدیث بھی ہے.اور وہ یہ ہے يأتي علي جهنّم زمان ليس فيها احد ونسيم الصبا تحرك ابوابھا.یعنی جہنم پر ایک وہ زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہ ہو گا.اور نسیم صبااُس کے کواڑوں کو ہلائے گی.لیکن افسوس کہ یہ قومیں خدا تعالیٰ کو ایک ایسا چڑ چڑا اور کینہ ور قرار دیتی ہیں کہ کبھی بھی اُس کا غصہ فرو نہیں ہوتا اور بیشمار اربوں تک جو نوں میں ڈال کر پھر بھی گناہ معاف نہیں کرتا...دوسرا پہلو تناسخ کے بطلان کا یہ ہے کہ وہ حقیقی پاکیزگی کے برخلاف ہے.کیونکہ جب ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ کسی کی ماں فوت ہو جاتی ہے اور کسی کی ہمشیرہ اور کسی کی پوتی.تو پھر اس پر کیا دلیل ہے کہ اس عقیدہ کے قائل اس غلطی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ ایسی جگہ نکاح کر لیں جہاں نکاح کرنا وید کی رو سے حرام ہے.ہاں اگر ہر ایک بچہ کے ساتھ اُس کے پیدا ہونے کے وقت میں ایک لکھی ہوئی فہرست بھی ہمراہ ہو جس میں بیان کیا گیا ہو کہ وہ پہلی جون میں فلاں شخص کا بچہ تھا تو اس صورت میں ناجائز نکاح سے بچ سکتے تھے.مگر پر میشر نے ایسانہ کیا.گویا ناجائز طریق کو خود پھیلانا چاہا.پھر ماسوا اس کے ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ اس قدر جونوں کے چکر میں ڈالنے سے فائدہ کیا ہے.اور جب کہ تمام مدار نجات اور مکتی کا گیان یعنی معرفت الہی پر ہے تو یوں چاہیئے تھا کہ ہر ایک بچہ جو دوبارہ جنم لیتا پہلا ذخیرہ اس کے گیان اور معرفت کا ضائع نہ ہوتا.لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک بچہ جو پیدا ہوتا ہے خالی کا خالی دنیا میں آجاتا ہے اور ایک آوارہ اور فضول خرچ انسان کی طرح تمام پہلا اندوختہ برباد کر کے مفلس نادار کی طرح منہ دکھاتا ہے.اور گو ہزار مرتبہ اس نے وید مقدس کو پڑھا ہو ایک ورق بھی وید کا یاد نہیں رہتا.پس اس 137

Page 204

صورت میں بجونوں کے چکر کے رُو سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ ذخیرہ گیان اور علم کا جو ہزار مصیبت سے ہر ایک بجون سے جمع کیا جاتا ہے وہ ساتھ ساتھ برباد ہوتارہتا ہے نہ کبھی محفوظ رہے گا اور نہ نجات ہو گی.اوّل تو حضرات آریہ کے اصولوں کے رُو سے نجات ہی ایک محدود میعاد تھی.پھر اس پر یہ مصیبت کہ سرمایہ نجات کا یعنی گیان جمع ہونے نہیں پاتا.یہ بد قسمتی روحوں کی نہیں تو اور کیا؟“ لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 170 تا172) (قسط نمبر 43، الفضل انٹر نیشنل 18 نومبر 2022ء صفحہ 11) 138

Page 205

تجد سوال: ایک مرتبی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے شروع میں نماز تہجد کا ذکر فرمایا ہے.سردیوں میں تو انسان آسانی سے تہجد کے لئے اٹھ سکتا ہے لیکن مستقل طور پر اور ان ممالک میں گرمیوں میں اس کی عادت ڈالنے کا بہترین ذریعہ کیا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: یہ تو Depend کرتا ہے کہ کتنا اللہ تعالیٰ سے آپ کا تعلق ہے.کتنی اللہ سے محبت ہے.باقی کاموں کے لئے وقت نکال لیتے ہیں ناں ؟ اگر جرمنی میں رہتے ہوئے رات کو دس بجے عشاء کی نماز ہوتی ہے یا ساڑھے دس بجے ہوتی ہے اور صبح ڈھائی بجے، پونے تین بجے یا تین بجے ہوتی ہے.( یہاں بلکہ یو کے میں اس سے جلدی سحری ہو جاتی ہے.وہاں پھر ایک گھنٹہ لیٹ سحری ہوتی ہے.آدھا پونا گھنٹے کا فرق ہوتا ہے.تو دو گھنٹے سوئیں، ڈیڑھ گھنٹہ سوئیں.پھر اٹھ کے نماز پڑھیں.اس کے بعد نماز فجر کے بعد پھر ایک دو گھنٹے سو جائیں.یہ تو اپنا پروگرام خود بنانا پڑتا ہے.اگر کسی کام کے کرنے کی دل میں تڑپ ہو تو سب رستے نکل آتے ہیں.جب جامعہ میں آپ کے امتحان ہو رہے ہوتے تھے اور پڑھنے کا شوق ہوتا تھا تو رات کو اٹھ کے پڑھتے تھے ناں؟ یا کوئی فکر پیدا ہوئی ہو تو تہجد پڑھتے ہیں ناں؟ یہ تو سوچ کی بات ہے.اگر آپ سوچ کو اس طرح ڈھال لیں گے کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے.تو لوگ تو رات کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سوتے ہیں.اس کے بعد اٹھ کے تہجد پڑھ لیتے ہیں.پھر صبح نماز فجر کے بعد جب باقی وقت ہوا سو گئے.یہ تو وقت نکالنا پڑتا ہے.اس کے بعد سارا دن بھی تو آپ کو مل جاتا ہے.دو پہر کو نیند پوری کرنے کے لئے ایک گھنٹہ سولیا کریں.یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے.جوانی میں ہی عبادت ہوتی ہے جو ہوتی ہے.آپ تو نوجوان لوگ ہیں آپ لوگوں کا ہی وقت ہے.یہی وقت ہے اس وقت سے فائدہ اٹھا لیں.اور عبادات کا جتنا حق ادا کر سکتے ہیں کرنے کی کوشش کریں.در جوانی تو به کردن شیوه پیغمبری وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیز گار (قسط نمبر 20 ، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 139

Page 206

تیسری جنگ عظیم سوال: اسی ملاقات مؤرخہ 07 نومبر 2020ء میں ایک اور ممبر عاملہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور انور نے گزشتہ روز کے خطبہ جمعہ میں تیسری جنگ عظیم کا ذکر فرمایا تھا.اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو کیا جماعت احمدیہ کے افراد بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: مثال تو یہ ہے ناں کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پتا ہے.ہم گھن تو نہیں ہیں لیکن جب دنیا پر اثرات ہوں گے تو احمدی بھی اس کی زد میں آئیں گے لیکن ان کی بہت معمولی تعداد ہو گی.اسلام کی فتوحات کے لئے جو جنگیں ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کی تھی کہ جنگیں تم جیتو گے اور آنحضرت الیم کے زمانہ میں جنگیں جیتتے رہے لیکن کیا صحابہ شہید نہیں ہوتے رہے ؟ اب بیماریاں آتی ہیں.ان بیماریوں کے لئے نشانات آ رہے ہیں، زلزلے آ رہے ہیں، طوفان آ رہے ہیں.ان میں بعض دفعہ بعض احمدیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے.اگر ہم اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق پیدا کئے رکھیں گے تو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تعلیم آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق صحیح ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے، اس عمل کرنے والے ہوں گے ، اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارے نقصانوں کو بہت کم کر دے گا.اور ہمیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بچالے گا، اور دنیا کو پھر سبق ملے گا.لیکن اس سے پہلے اگر ہم یہ حق ادا کر رہے ہیں تو ہمیں دنیا کو بتانا ہو گا کہ ان آفات کی وجہ اور جنگ کی وجہ خدا سے دوری ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادانہ کرنے ہیں.اس لئے تم لوگ سنبھل جاؤ.جب جنگ عظیم ختم ہو گی تو لوگوں کو پتہ ہو گا کہ ہاں ایک 140

Page 207

طبقہ ، ایک قوم، مسلمانوں کا ایک فرقہ ، ایک جماعت ہمیں یہ تلقین کیا کرتی تھی، تب ان کا خدا تعالیٰ کی طرف رجوع پیدا ہو گا.اس وقت وہ آپ کی طرف آئیں گے.پس اگر تو ہم اپنے حق ادا کر رہے ہیں تو آئندہ جنگ عظیم کے بعد جو جماعت کی ترقی کے نشانات ہیں وہ ہم دیکھیں گے.اور اگر ہم حق ادا نہیں کر رہے اور ہمارا بھی دنیا داروں کی طرح حال ہے، دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں، پانچ وقت کی نمازوں کو بھول گئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کو بھول گئے ہیں، لوگوں کے حق ادا کرنے کو بھول گئے ہیں تو پھر ہم بھی اس جنگ کے اثرات کی زد میں) چلے جائیں گے.ہماری کوئی گارنٹی تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہوئی ہے کہ تم نے بیعت کر لی ہے تو تم بچ جاؤ گے.بیعت کے ساتھ شرائط ہیں، وہ ہم پوری کریں گے تو بچ جائیں گے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ آگ سے وہ بچائے جائیں گے جب تم شرائط پوری کرو گے.اللہ تعالیٰ سے پیار کا اظہار صرف زبانی نہیں ہو گا بلکہ عملی اظہار ہو گا.تب تم بچائے جاؤ گے.(قسط نمبر 6 ، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 141

Page 208

سوال: لندن سے ایک خاتون نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کی روشنی میں تیسری جنگ عظیم کے متعلق بیان تنبیہ کے حوالہ سے اس جنگ کے بارہ میں مزید شواہد دریافت کئے.نیز لکھا کہ غیر از جماعت لوگ جنوں بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں، انہیں جنوں کی حقیقیت کیسے سمجھائی جا سکتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 17 دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مختلف رؤیاء و کشوف اور الہامات کے ذریعہ دنیا پر آنے والی جن بڑی بڑی آفات اور زلزلوں کی خبر دی ہے ان میں پانچ ہولناک تباہیوں کا خاص طور پر ذکر ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا تعالیٰ کی پیشگوئی جس کے الفاظ یہ ہیں 'چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشاں کی پنج بار.اس وحی الہی کا یہ مطلب ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے اور محض اس غرض سے کہ تالوگ سمجھ لیں کہ میں اس کی طرف سے ہوں پانچ دہشت ناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں اُن میں سے ایک ایسی چمک ہو گی کہ اس کے دیکھنے سے خدا یاد آجائے گا اور دلوں پر ایک اُن کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدت اور نقصان رسانی میں غیر معمولی ہوں گے جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے.“ (تجلیات الہیہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 395) ان آفات کی ہولناکی اور شدت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور 142

Page 209

بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہو گی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی...کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو ؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 269،268) ان انذاری پیشگوئیوں میں زلزلہ کے الفاظ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ آفات صرف زلزلہ کی صورت میں ہی دنیا پر نازل ہوں گی.بلکہ ان سے مراد زلزلوں ہی کی طرح تباہی پھیلانے والی کوئی اور آفات بھی ہو سکتی ہیں.چنانچہ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کے کلام میں استعارات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمُي فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمي (بنی اسرائیل:73) لہذا ممکن تھا کہ زلزلہ سے مراد اور کوئی عظیم الشان آفت ہوتی جو پورے طور پر زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی.مگر ظاہر عبارت بہ نسبت تاویل کے زیادہ حق رکھتی ہے.پس دراصل اس پیشگوئی کا حلقہ وسیع تھا لیکن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کا منہ کالا کرنے کے لئے ظاہر الفاظ کی رُو سے بھی اس کو پورا کر دیا.اور ممکن ہے کہ بعد اس کے بعض حصے اس پیشگوئی کے 143

Page 210

کسی اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں لیکن بہر حال وہ امر خارق عادت ہو گا جس کی نسبت یہ پیشگوئی ہے...پس یہ پیشگوئی بلا شبہ اول درجہ کی خارق عادت امر کی خبر دیتی ہے.اور ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی کچھ ایسے حوادث مختلف اسباب طبعیہ سے ظاہر ہوں جو ایسی تباہیوں کے موجب ہو جائیں جو خارقِ عادت ہوں.پس اگر اس پیشگوئی کے کسی حصہ میں زلزلہ کا ذکر بھی نہ ہو تا تب بھی یہ عظیم الشان نشان تھا کیونکہ مقصود تو اس پیشگوئی میں ایک خارقِ عادت تباہی مکانوں اور جگہوں کی ہے جو بے مثل ہے.زلزلہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 161) اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ السلام کو بتائی جانے والی ان غیب کی خبروں کے عین مطابق دنیا دو عالمی جنگوں، طاعون کی وبا اور دنیا کے اکثر حصوں میں آنے والے غیر معمولی زلزلوں کی صورت میں چار نشانوں کے پورا ہونے کا ایک مرتبہ مشاہدہ کر چکی ہے، جن میں انسانی اور حیوانی جانوں، چرند پرند اور عمارتوں کا غیر معمولی نقصان ہوا.اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو خاص طور پر پانچ نشانوں کے ظاہر ہونے کی خبر دی تھی.اللہ بہتر جانتا ہے کہ پانچواں نشان کس صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کسی غیر معمولی زلزلہ کی شکل میں یا کسی عالمی وبا کی صورت میں یا تیسری عالمی جنگ کے طور پر دنیا پر تباہی لے کر آتا ہے.لیکن یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر دنیا نے عقل نہ کی اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع نہ کیا تو جس طرح پہلے چار نشان پورے ہوئے ہیں، یہ پانچواں نشان بھی پورا ہو گا اور اس کے بعد جیسا کہ ان پیشگوئیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام کو انشاء اللہ غیر معمولی غلبہ نصیب ہو گا.اسی مضمون کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے 1967ء کے دورہ کیورپ کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی کی روشنی میں بیان فرمایا تھا، جس کا آپ نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا: "حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اسلام کی صداقت کے ثبوت کے طور پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں نشانات دنیا کے سامنے پیش کئے جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر پانچ عظیم تباہیوں کے بارے 144

Page 211

میں پیشگوئی فرمائی.دو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں عظیم الشان طور پر پوری ہوئیں.تیسری ہولناک تباہی کے مہیب آثار آسمان پر ہویدا ہیں جس کے اثرات نہایت ہی خوفناک اور تباہ کن ہوں گے.اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر بھی دی کہ اس تیسری تباہی کے ساتھ غلبہ اسلام کا زمانہ بھی وابستہ ہے.اس تباہی سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان سچے راستے کو اختیار کرے اور وہ راستہ اسلام ہے.اللہ تعالیٰ کا قہر عنقریب اس دنیا پر نازل ہونے والا ہے.تباہی کی آگ بھڑک اٹھی ہے.آؤ! اور استغفار کے آنسوؤں سے اس آگ کے لپکتے ہوئے شعلوں کو سر د کرو.آؤ! اور محمد رسول اللہ لیلم کے رحم و کرم کے ٹھنڈے سائے تلے پناہ اصل کر لو.اُٹھو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کرو.آؤ! اگر تم اس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا 66 چاہتے ہو.“ (خطبه جمعه ارشاد فرمودہ 11 اگست 1967 ء.خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ 808) (قسط نمبر 50، الفضل انٹر نیشنل 10 مارچ 2023ء صفحہ 12) 145

Page 212

ٹیٹو (Tattoo) بنوانا سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ جسم کے جس حصہ پر ٹیٹو بنوائے گئے ہوں، اس حصہ پر پانی جلد تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ٹیٹو بنوانے والے شخص کے وضو اور غسل جنابت کی تکمیل کے بارہ رہنمائی کی درخواست ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 مئی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل اصولی ہدایات فرمائیں: جواب: پہلی بات یہ ہے کہ ٹیٹو بنانا اور بنوانا تو ویسے ہی جائز نہیں ہے.احادیث میں بھی اس کی ممانعت آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطر جسموں کو گو دھنے والیوں اور گدھوانے والیوں پر لعنت کی ہے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں.(صحيح بخاري كتاب اللباس) آنحضور ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا میں اور خاص طور پر جزیرۂ عرب میں قسم قسم کے شرک کا زہر ہر طرف پھیلا ہوا تھا اور مختلف قسم کی بے راہ رویوں نے انسانیت کو اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا تھا اور عور تیں اور مر د مختلف قسم کی مشرکانہ رسومات اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے.جس میں مشرکانہ طور پر برکت کے حصول کے لئے جسم، چہرہ اور بازووغیرہ پر کسی دیوی، بت یا جانور کی شکلیں گندھوائی جاتی تھیں.یا معاشرتی بے راہ روی اور فحاشی کو فروغ دینے کی خاطر حسن کے حصول کے لئے ایسا کیا جاتا تھا.جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کا اپنی خوبصورتی کے لئے کوئی جائز طریق اختیار کرنا منع نہیں.لیکن جس حسن کے حصول پر حضور ام نے لعنت کا انذار فرمایا ہے، اس کا یقیناً کچھ اور مطلب ہے.اس لئے ان چیزوں کی ممانعت میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ ان کے نتیجہ میں اگر شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس کی طرف میلان پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا ان امور کو اس لئے اپنایا جائے کہ اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے تو یہ سب افعال ناجائز اور قابل مؤاخذہ قرار پائیں گے.جہاں تک ٹیٹو بنوانے کا تعلق ہے تو مرد ہو یا عورت اس کے پیچھے صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے 146

Page 213

کہ اس کی نمائش ہو اور اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے.اسی لئے لوگ عموماً ٹیٹو جسم کے ایسے حصوں پر بنواتے ہیں جنہیں وہ عام لوگوں میں کھلا رکھ کر اس کی نمائش کر سکیں.لیکن اگر کوئی ٹیٹو جسم کے ستر والے حصہ پر بنواتا ہے تو اوّل تو اس کے بنواتے وقت وہ بے پردگی جیسی بے حیائی کا ارتکاب کرتا ہے جو خلاف تعلیم اسلام ہے.نیز اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ تابُرائی اور افعال بد کے ارتکاب کے وقت اپنی مخالف جنس کے سامنے ان پوشیدہ اعضاء پر بنے ٹیٹو کی نمائش کی جا سکے.یہ تمام طریق ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں.علاوہ ازیں ٹیٹو کے کئی ظاہری اور میڈیکل نقصانات بھی ہیں.چنانچہ جسم کے جن حصوں پر ٹیٹو بنوایا جاتا ہے، اس جگہ جلد کے نیچے پسینہ لانے والے گلینڈ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹیٹو بنوانے کے بعد جسم کے ان حصوں پر پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے، جو طبی لحاظ سے نقصان دہ ہے.اسی طرح بعض اوقات ٹیٹو چونکہ مستقل طور پر جسم کا حصہ بن جاتا ہے، اس لئے جسم کے بڑھنے یا سکٹرنے کے ساتھ ٹیٹو کی شکل میں بھی تبدیلی آجاتی ہے، جس سے ٹیوبظاہر خوبصورت لگنے کی بجائے بد صورت لگنے لگتا ہے اور کئی لوگ پھر اسے وبال جان سمجھنے لگتے ہیں لیکن اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے.لہذا ان وجوہ کی بنا پر بھی ٹیٹو بنوانا ایک لغو کام ہے.پس ایک مومن مرد اور عورت کے لئے اپنے جسم پر ٹیٹو بنوانا جائز نہیں.البتہ اگر کسی شخص نے احمدی ہونے سے پہلے اپنے جسم پر ٹیٹو بنوایا ہے اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی سچی راہ دکھاتے ہوئے احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی ہے تو اس کا یہ فعل إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (یعنی سوائے اس کے جو پہلے گزر چکا) کے زمرہ میں آئے گا.نیز پہلے سے بنے ہوئے ٹیٹو سے اس کے وضو اور غسل جنابت کی تعمیل میں کوئی فرق نہیں پڑتا.جس طرح خواتین کے نیل پالش لگانے سے ان کے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نیل پالش لگے ہونے کے باوجود ان کا وضو ہو جاتا ہے اسی طرح اس شخص کا بھی ٹیٹو کے ساتھ وضو اور غسل جنابت ہو جائے گا.(قسط نمبر 35، الفضل انٹر نیشنل 03 جون 2022ء صفحہ 10) 147

Page 214

سوال: ایک عرب خاتون نے حضور انور کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کسی خاتون نے اس سے پوچھا ہے کہ کیا اس کے لئے عورتوں کی بھنوؤں اور جسم پر ٹیٹو بنانے کا کاروبار کرنا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 27 اپریل 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں: جواب: ٹیٹو بنانا اور بنوانا تو جائز نہیں ہے.احادیث میں بھی اس کی ممانعت آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطر جسموں کو گودنے والیوں، گدھوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے والیوں، سامنے کے دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں اور بالوں میں پیوند لگانے اور لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں.(صحيح بخاري كتاب اللباس) اسلام کا ہر حکم اپنے اندر کوئی نہ کوئی حکمت رکھتا ہے.اسی طرح بعض اسلامی احکامات کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے، اگر اس پس منظر سے ہٹ کر ان احکامات کو دیکھا جائے تو حکم کی شکل بدل جاتی ہے.آنحضور الم کی جب بعثت ہوئی تو دنیا میں اور خاص طور پر جزیرۂ عرب میں جہاں مختلف قسم کے شرک کا زہر ہر طرف پھیلا ہوا تھا وہاں مختلف قسم کی بے راہ رویوں نے بھی انسانیت کو اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا تھا اور عور تیں اور مرد مختلف قسم کی مشرکانہ رسوم اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے.مذکورہ بالا امور کی ممانعت پر مبنی احادیث میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے.ایک یہ کہ ان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی مقصود ہو اور دوسر احسن کا حصول پیش نظر ہو.ان دونوں باتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پہلی بات یعنی خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی جہاں معاشرتی برائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے وہاں مشرکانہ افعال کی بھی عکاسی کرتی ہے چنانچہ بالوں میں لمبی گوتیں لگا کر سر پر بالوں کی پگڑی بنا کر اسے بزرگی کی علامت سمجھنا، کسی پیر اور گرو کی نذر کے طور پر بالوں کی لٹیں بنانا یا بودی رکھ لینا، چار حصوں میں بال کر کے درمیان سے استرے سے منڈوا دینا اور اسے باعث برکت سمجھنا.اسی طرح برکت کے لئے جسم ، چہرہ اور بازو وغیرہ پر کسی دیوی ، بت یا جانور کی شکل گندھوانا.یہ سب مشرکانہ طریق تھے اور ان کے پیچھے مذہبی تو ہمات کار فرما تھے.148

Page 215

دوسری بات یعنی حسن کے حصول کی خاطر ایسا کرنا، بعض اعتبار سے معاشرتی بے راہ روی اور فحاشی کو ظاہر کرتی ہے.جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کا اپنی خوبصورتی کے لئے کوئی جائز طریق اختیار کرنا منع نہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے اچھا لگتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے کپڑے اچھے ہوں، میری جوتی اچھی ہو، تو کیا یہ تکبر میں شامل ہے ؟ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا یہ تکبر نہیں ہے.تکبر تو حق کا انکار کرنے اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام ہے.اور اس کے ساتھ حضور الم نے یہ بھی فرمایا إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَال یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.(صحیح مسلم كتاب الايمان باب تخرِیمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ) اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ بچیوں کی جب شادی ہوتی تھی تو انہیں بھی اس زمانہ کے طریق کے مطابق بناؤ سنگھار کر کے تیار کیا جاتا اور خوبصورت بنایا جاتا تھا.(صحيح بخاري كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابِ الْإِسْتِعَارَةِ لِلْعَرُوسِ عِنْدَ الْبِنَاءِ، فَتْحُ الْبَارِي شرح صحيح بخاري كتاب النكاح بَاب اسْتِعَارَةِ الشَّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا) پس جس حسن کے حصول پر حضور ام نے لعنت کا اندار فرمایا ہے، اس کا یقیناً کچھ اور مطلب ہے.چنانچہ جب ہم اس حوالہ سے ان احادیث پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ ان باتوں کی ممانعت کے ساتھ حضور الم نے یہ بھی فرمایا کہ بنی اسرائیل اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی عورتوں نے اس قسم کے کام شروع کئے.حضور ام کی بعثت کے وقت یہود میں فحاشی عام تھی اور مدینہ میں فحاشی کے کئی اڈے موجود تھے ، جن میں ملوث خواتین، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں، اس لئے رسول خد الله نے ان کاموں کی شناعت بیان فرما کر مومن عورتوں کو اس وقت اس سے منع فرما دیا.پس ان چیزوں کی ممانعت میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ ان کے نتیجہ میں اگر انسان کی جسمانی وضع قطع میں اس طرح کی مصنوعی تبدیلی واقع ہو جائے کہ مرد و عورت کی تمیز جو خدا تعالیٰ نے انسانوں میں پیدا کی ہے وہ ختم ہو جائے، یا اس قسم کے فعل سے شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس کی طرف میلان پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا ان امور کو اس لئے بجالایا 149

Page 216

جائے کہ اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے تو یہ سب افعال ناجائز اور قابل مؤاخذہ قرار پائیں گے.پس جہاں تک ٹیٹو بنوانے کا تعلق ہے تو مرد ہو یا عورت اس کے پیچھے صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے کہ اس کی نمائش ہو اور اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے.اسی لئے لوگ عموماً ٹیٹو جسم کے ایسے حصوں پر بنواتے ہیں جنہیں وہ عام لوگوں میں کھلا رکھ کر اس کی نمائش کر سکیں.لیکن اگر کوئی ٹیٹو جسم کے ستر والے حصہ پر بنواتا ہے تو اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ تابُرائی اور افعال بد کے ارتکاب کے وقت اپنی مخالف جنس کے سامنے ان پوشیدہ اعضاء پر بنے ٹیٹو کی نمائش کی جاسکے.یہ دونوں طریق ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں.علاوہ ازیں ٹیٹو کے کئی ظاہری اور میڈیکل نقصانات بھی ہیں.چنانچہ جسم کے جن حصوں پر ٹیٹو بنوایا جاتا ہے، اس جگہ جلد کے نیچے پسینہ لانے والے گلینڈ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹیٹو بنوانے کے بعد جسم کے ان حصوں پر پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے، جو طبی لحاظ سے نقصان دہ ہے.اسی طرح بعض قسم کے ٹیٹو چونکہ مستقل طور پر جسم کا حصہ بن جاتے ہیں، اس لئے جسم کے بڑھنے یا سکٹرنے کے ساتھ ٹیٹو کی شکل میں بھی تبدیلی آجاتی ہے، جس سے ٹیٹو بظاہر اچھا لگنے کی بجائے بد صورت لگنے لگتا ہے اور کئی لوگ پھر اسے وبال جان سمجھنے لگتے ہیں لیکن اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے.لہذا ان وجوہ کی بناء پر بھی ٹیٹو بنوانا ایک لغو کام ہے.باقی جہاں تک عورتوں کے اپنی جائز اور اسلامی حدود میں رہتے ہوئے خوبصورتی کے لئے بھنویں بنوانے کا تعلق ہے تو حضور ام نے ان برائیوں کے پس منظر میں جہاں اُس وقت مومن عورتوں کو ان کاموں سے منع فرمایا وہاں تکلیف یا بیماری کی بناء پر اس کا استثناء بھی فرمایا.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ النَّامِصَةِ وَالْوَاشِرَةِ وَالْوَاصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ إِلَّا مِنْ دَاءٍ (مسند احمد بن حنبل) 150

Page 217

یعنی میں نے حضور الم کو عورتوں کو موچنے سے بال نوچنے، دانتوں کو باریک کرنے ، مصنوعی بال لگوانے اور جسم کو گودنے سے منع فرماتے ہوئے سنا.ہاں کوئی بیماری ہو تو اس کی اجازت ہے.اسلام نے اعمال کا دار مدار نیتوں پر رکھا ہے.لہذا اس زمانہ میں پردہ کے اسلامی حکم کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت جائز طریق پر اور جائز مقصد کی خاطر ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن اگر ان افعال کے نتیجہ میں کسی برائی کی طرف میلان پیدا ہویا کسی مشرکانہ رسم کا اظہار ہو یا اسلام کے کسی واضح حکم کی نافرمانی ہو، مثلاً اس زمانہ میں بھی خواتین اپنی صفائی یا ویکسنگ (Waxing) وغیرہ کرواتے وقت اگر پردہ کا التزام نہ کریں اور دوسری خواتین کے سامنے ان کے ستر کی بے پردگی ہوتی ہو تو پھر یہ کام حضور ﷺ کے اسی انذار کے تحت ہی شمار ہو گا.اور اس کی اجازت نہیں ہے.پھر اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے فتنہ اور فساد کو قتل سے بھی بڑا گناہ قرار دے کر فساد کو روکنے کا حکم دیا ہے.اور بعض ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ رشتے اس لئے ختم کر دیئے گئے یا شادی کے بعد طلاقیں ہوئیں کہ مرد کو بعد میں پتہ چلا کہ عورت کے چہرے پر بال ہیں.اگر چند بالوں کو صاف نہ کیا جائے یا کھنچوایا نہ جائے تو اس سے مزید گھروں کی بربادی ہو گی.ناپسندیدگیوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جائے گا.اور آنحضور الم کا اس حکم سے یہ مقصود بہر حال نہیں ہو سکتا کہ معاشرے میں ایسی صور تحال پیدا ہو کہ جس کے نتیجہ میں گھروں میں فساد پھیلے.ایسے سخت الفاظ کہنے میں جو حکمت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ باتیں چونکہ دیوی دیوتاؤں وغیرہ کی خاطر اختیار کی جاتی تھیں یا ان کے نتیجہ میں فحاشی کو عام کیا جاتا تھا، اس لئے آپ نے سخت ترین الفاظ میں اس سے کراہت کا اظہار فرمایا ہے اور اس طرح مشرکانہ رسوم و عادات اور فحاشی کی بیخ کنی فرمائی ہے.(نوٹ از مرتب: مذکورہ بالا جواب کے کچھ حصہ قبل ازیں بھی مختلف اقساط میں بعض سوالات کے جواب میں شائع ہو چکے ہیں.لیکن یہاں پر مکمل اور یکجا صورت میں اس جواب کو جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ بالا سوال کے جواب میں عطا فرمایا قارئین کے استفادہ کے لئے درج کیا جارہا ہے.(قسط نمبر 36، الفضل انٹر نیشنل 17 جون 2022ء صفحہ 11) 151

Page 218

Piercings جسم کے مختلف حصوں پر Piercings کروانا سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے لڑکوں اور لڑکیوں کا اپنے جسموں کے مختلف حصوں پر P کر وانے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مسئلہ دریافت کیا ہے.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 اگست 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اسلام نے چیزوں کی حلت و حرمت کے احکامات کے علاوہ بعض اشیاء کے طیب و غیر طیب ہونے اور بعض کاموں کے لغو ہونے کے بارہ میں بھی تعلیمات دی ہیں.زیور پہننے کے لئے لڑکیوں کے کان اور ناک کی حد تک Piercings کروانے کا رواج شروع سے چلا آتا ہے اور اس میں کسی قسم کی قباحت اور ممانعت نہیں پائی جاتی.لیکن لڑکوں کے لئے تو کان اور ناک وغیرہ چھدوانا بھی ناپسندیدہ اور لغو کام ہے.ہر کام کی ایک حد ہوتی ہے، جب اس حد سے تجاویز کیا جائے تو ایک جائز کام بھی بعض اوقات ناجائز یا لغو کے زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے.جس میں پڑنے سے ایک مومن کو منع کیا گیا ہے.(سورۃ المومنون:4) نپلز (Nipples) اور جسم کے ایسے حصوں پر Piercings کروانا جنہیں اسلام نے پردہ میں رکھنے کا حکم دیا ہے ان پر ایسا کام کروانا تو ویسے ہی بے حیائی اور خلاف شریعت فعل ہے.باقی زبان پر اور ہو نٹوں کے اندر اور باہر Piercings کروانا کئی قسم کی بیماریوں اور انفیکشن کا باعث ہو سکتا ہے.اس لئے میرے نزدیک تو لڑکیوں کے لئے بھی پردہ میں رہتے ہوئے صرف ناک اور کان میں زیور کے استعمال کے لئے Piercings کروانے کی اجازت ہے اور اس سے زیادہ ان کے لئے بھی یہ کام لغو اور ناجائز کے زمرہ میں آئے گا.( قسط نمبر 42، الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2022ء صفحہ 10) 152

Page 219

جسمانی وضع قطع میں مصنوعی تبدیلی سوال: عورتوں کے اپنے چہرہ پر پلنگ (Plucking) اور تھریڈنگ (Threading) وغیرہ کرنے نیز جسم پر تصاویر گندھوانے کے بارہ میں سوال پیش ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 02 فروری 2019ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: احادیث میں مومن عورتوں کو اپنے جسموں پر مختلف تصاویر گندھوانے، چہرے کے بال نوچنے ، خوبصورتی اور جو ان نظر آنے کے لئے سامنے کے دانتوں میں خلا پیدا کرنے، منصوعی بالوں کے لگانے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے وغیرہ امور سے منع فرمایا گیا ہے، اس کی مختلف وجوہات ہیں.اگر ان باتوں سے انسان کے جسمانی وضع قطع میں اس طرح کی مصنوعی تبدیلی واقع ہو جائے کہ مرد و عورت کی تمیز جو خدا تعالیٰ نے انسانوں میں رکھی ہے وہ ختم ہو جائے.یا اس قسم کے فعل سے شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس کی طرف میلان پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس سے منع فرمایا گیا.پھر احادیث میں جہاں ان امور سے منع کیا گیا وہاں حضور لم نے یہ بھی اندار فرمایا کہ بنی اسرائیل اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی عورتوں نے اس قسم کے کام شروع کئے.پس اس سے استدلال ہو سکتا ہے کہ یہود جن کے ہاں زنا کاری پھیل چکی تھی اور فحاشی کے اڈے قائم ہو گئے تھے ، اس کام میں ملوث خواتین، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہوں، اس لئے رسول خد اللیم نے ان کاموں کی شناعت بیان فرما کر مومن عورتوں کو اس سے منع فرمایا.علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ حضور الم کا یہ ارشاد اُس وقت کے حالات کے پیش نظر وقتی ہو ، بالکل اسی طرح جس طرح حضور لم نے ایک علاقہ کے اسلام قبول کرنے والے لوگوں کو اس علاقہ میں شراب بنانے کے لئے استعمال ہونے والے برتنوں کے عام استعمال سے منع فرما دیا تھا.لیکن جب ان لوگوں میں اسلامی تعلیم اچھی طرح رچ بس گئی تو پھر حضور الم نے انہیں ان برتنوں کے عام استعمال کی اجازت دیدی.153

Page 220

اسلام نے اعمال کا دار مدار نیتوں پر رکھا ہے.پس اس زمانہ میں بھی اگر ان افعال کے نتیجہ میں کسی برائی کی طرف میلان پیدا ہو یا اسلام کے کسی واضح حکم کی نافرمانی ہوتی ہو تو یہ کام حضور الم کے اس انذار کے تحت ہی شمار ہو گا.جیسا کہ اس زمانہ میں بھی خواتین اپنی صفائی یا ویکسنگ (Waxing) وغیرہ کرواتے وقت اگر پردہ کا التزام نہ کریں اور دوسری خواتین کے سامنے ان کے ستر کی بے پردگی ہوتی ہو تو یہ بے حیائی ہے جس کی اجازت نہیں ہے اور شاید یہ خواتین اسی اندار کے نیچے آتی ہوں.لیکن پردہ کے اسلامی حکم کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں.(قسط نمبر 10، الفضل انٹر نیشنل 05 مارچ 2021ء صفحہ 11) 154

Page 221

جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والے کی وفات پر تعزیت کے لئے جانا سوال: صدقات کی رقم مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے نیز جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والے کی وفات پر تعزیت کے لئے جانے کے بارہ میں ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بغرض رہنمائی عریضہ تحریر کیا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ان امور کے بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور نے فرمایا: جواب: آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جو شخص جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والا تھا اس کی وفات پر تعزیت کے لئے جانے کی ضرورت کیا ہے ؟ ہاں اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی توفیق تو نہیں ملی لیکن اس نے اپنی زندگی میں کبھی جماعت کی مخالفت نہیں کی تو ایسے شخص کی وفات پر اس کے عزیزوں سے تعزیت کرنے میں کوئی حرج نہیں.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 155

Page 222

جماعتی نظام سوال: Virtual ملاقات مؤرخہ 15 نومبر 2020ء میں ایک مربی صاحب نے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ بعض دوسری قومیں جو جماعت میں شامل ہو رہی ہیں ، وہ جماعت کے علم الکلام سے تو بہت متاثر ہوتی ہیں لیکن جماعتی نظام اور خصوصاً مالی قربانی میں وہ پوری طرح شامل نہیں ہو پاتیں اور مقامی جماعت کے ساتھ بھی ان کے مستحکم رابطے نہیں ہو پاتے ، اس بارہ میں حضور انور کی خدمت میں رہنمائی کی درخواست ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: بات یہ ہے کہ جماعتی نظام کو بھی ان کے لئے اتنا مشکل نہ کریں.اسی لئے حضرت خلیفة المسیح الرابع نے شروع میں یہی کہا تھا، اور ان سے پہلے بھی خلفاء یہی کہتے رہے اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو نئے آنے والے نو مبائعین ہیں وہ جب آتے ہیں اور آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تو ان کو پہلے تین سال کے عرصہ میں سمجھائیں کہ سسٹم کیا ہے.نہ کہ ان سے اس طرح سلوک کریں کہ وہ کوئی ولی اللہ ہیں یا صحابہ کی اولاد میں سے ہیں یا پیدائشی احمدی ہیں.پیدائشی احمدی تو بلکہ کم جانتے ہیں وہ جو نئے آنے والے ہیں وہ دینی علم بھی آپ سے زیادہ جانتے ہیں.اکثر میں نے دیکھا ہے جو صحیح طرح سوچ سمجھ کے جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والا زیادہ ہوتا ہے ، وہ استغفار کرنے والا بھی ہوتا ہے ، وہ تہجد پڑھنے والا بھی ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو سمجھنے کی کوشش بھی کرنے والا ہو تا ہے.تو بہر حال ہمارا یہ کام نہیں کہ جو بھی شامل ہوتا ہے اس کو پہلے دن سے ہی ( تمام چیزوں کا پابند) کریں.اسی لئے تین سال کے لئے ان کے اوپر چندہ کا نظام لاگو نہیں کیا جاتا ہے.تین سال کا عرصہ ان کی ٹریننگ کا ہوتا ہے تاکہ اس میں تربیت ہو جائے.ان کو بتائیں کہ یہ جماعت کا نظام ہے لیکن تم ابھی نئے ہو تم اس کو پہلے غور سے دیکھو ، سمجھو.لیکن پھر مثلا مالی قربانی ہے ، اللہ تعالیٰ نے کیونکہ مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی ہے تو تم وقف جدید اور تحریک جدید کا چندہ جو ہے اس میں جتنا تمہاری حیثیت ہے تم دے سکتے ہو چاہے سال کا ایک یورو(Euro) دو تاکہ تمہیں احساس پیدا ہو کہ جماعت سے تمہاری کوئی Attachment ہے.اسی طرح نمازوں کے 156

Page 223

بارہ میں ان کو بتائیں کہ نماز سیکھو.اب جب غیر مسلموں سے ایک مسلمان ہوتا ہے ، احمدی مسلمان ہو تا ہے.اس کو سورۃ فاتحہ سکھانی شروع کریں.جب اس کو سورۃ فاتحہ آ جائے، یاد ہو جائے.تو جب نماز اس نے پڑھنی ہے تو نماز کے فرائض اس کو بتائیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے نماز فرض کی ہے.پہلی بنیادی چیز تو نماز ہے ناں؟ تو نماز اللہ تعالیٰ نے جب فرض کی ہے تو اس میں آنحضور لم نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے.نماز کی جو بنیادی چیز ہے وہ سورۃ فاتحہ ہے.اور سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس لئے اس کو پہلے سورۃ فاتحہ یاد کرائیں.پھر اس کو کہیں کہ اچھا تم ترجمہ یاد کرو.یا اسے کہہ دیں کہ تم ترجمہ یاد کر لو تا کہ جو بالجہر نمازیں ہیں ان میں جب امام سورۃ فاتحہ پڑھ رہا ہے تو ساتھ ساتھ تمہیں دل میں پتہ لگتا رہے کہ امام کیا پڑھ رہا ہے.پھر اس کو خود شوق پیدا ہو گا کہ سورۃ فاتحہ یاد کرلے.یہاں کئی انگریز احمدی ہوئے ہیں میں نے ان کو دیکھا ہے کہ انہوں نے بڑے شوق سے اسے یاد کیا.یا کسی بھی ملک کے میرے سے جو کوئی بھی ملتے ہیں ان کو جب میں کہتا ہوں تو وہ سورۃ فاتحہ یاد کرتے ہیں اور بڑی اچھی طرح اللہ کے فضل سے یاد کر لیتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں.تو تین سال کا عرصہ ان کو ایک ٹرینگ دینے کا عرصہ کا ہے.جب ان کی تین سال میں وہ ٹریننگ ہو جائے گی تو پھر ان کو جماعت کے سسٹم میں Integrate ہونا مشکل نہیں لگے گا.اگر آپ پہلے دن سے ان سے توقع رکھیں کہ وہ ولی اللہ بن جائیں تو وہ نہیں ہو سکتا.( یہ توقع رکھنا) پھر آپ لوگوں کا قصور ہے.تین سال کا عرصہ رکھا ہی اس لئے گیا ہے کہ نہ ان سے چندہ لینا ہے، نہ ان کو زیادہ زور دینا ہے.ان کی صرف تربیت کرنی ہے کہ جماعت کا نظام کیا ہے.اور نہ ان کی Harshly تربیت کرنی ہے بلکہ پیار سے، محبت سے سمجھانا ہے کہ نماز کیا چیز ہے؟ نماز کیوں فرض ہے؟ نماز پڑھو.تم ایک نماز پڑھو گے ، دو پڑھو گے، تین پڑھو گے چار پڑھو گے.جو پکا مومن ہے اس پر پانچ نمازیں فرض ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ نماز جب پڑھتے ہیں اس کی حکمت کیا ہے؟ تو علم الکلام سے جو متاثر ہوتے ہیں ان کو پھر نماز کی حکمت سمجھائیں.اگر اس میں اتنی عقل ہے کہ اس کو علم الکلام کی باتیں پتہ لگ گئیں.فلسفہ پتہ لگ گیا.گہرائی پتہ لگ گئی.تو پھر اس کو یہ کہنا کہ نماز نہیں پڑھو گے تو جہنم میں چلے جاؤ گے.یہ نہیں کہنا اس کو.157

Page 224

اس کو پیار سے یہ کہیں کہ نماز کی حکمت کیا ہے.پانچ نمازیں کیوں فرض کی گئی ہیں.جب اس کو حکمت سمجھ آجائے گی تو آپ سے زیادہ نمازیں پڑھنے لگ جائے گا.میں نے تو تجربہ کر کے یہی دیکھا ہے.اسی طرح چندہ ہے.چندہ کی حکمت کیا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کی حکمت کیا ہے ؟ تو صرف علم الکلام سے متاثر ہونا بات نہیں ہے اس علم الکلام کو ہی لے کے آگے اس کو حکمت سمجھائیں.جس علم الکلام سے وہ متاثر ہوئے ہیں اسی علم الکلام کو ذریعہ بنائیں.مثلاً اسلامی اصول کی فلاسفی ہے.لوگ متاثر ہو کر اسے پڑھتے ہیں.اب اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہی اللہ تعالیٰ کے وجود کا پتہ لگ جاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہی عبادت کی حقیقت پتہ لگ جاتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہی قربانی کا معیار پتہ لگ جاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہی جنت اور دوزخ کا نظریہ پتہ لگ جاتا ہے.تو یہ ساری چیزیں جب ان کے علم الکلام سے ہی ان کو سمجھائیں گے تو ان کو سمجھ آجائے گی.تو آپ جو بات کر رہے ہیں اس کی دلیل تو آپ کے پاس خود موجود ہے اسی دلیل کو استعمال کریں.(قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 158

Page 225

جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ میں بیان جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے وقت کے بارہ میں حضور انور کے ارشاد، اسی طرح جلسہ سالانہ یوکے کے آخری دن کے خطاب میں نماز تراویح میں پورا سپارہ پڑھنے کی بجائے چھوٹی سورتیں پڑھنے کے بارہ میں حضور انور کے ارشاد کے بارہ میں مزید وضاحت چاہی ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں ان دونوں امور کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جواب: میں نے اپنے خطبہ جمعہ میں جمعہ کے روز آنے والی قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے بارہ میں احادیث اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ ایک تو یہ بہت مختصر گھڑی ہوتی ہے اور دوسرا اس کے مختلف وقت بیان ہوئے ہیں.علمائے حدیث اور فقہاء نے بھی اس گھڑی کا وقت زوال آفتاب سے لیکر سورج غروب ہونے تک مختلف وقتوں میں بیان کیا ہے.میرے نزدیک اس گھڑی کے مختلف وقت بیان ہونے میں حکمت یہ ہے کہ جمعہ کا سارا دن ہی بہت برکت والا ہے اس لئے یہ سارا دن ہی انسان کو دعاؤں میں گزارنا چاہیئے.(قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 159

Page 226

جن سوال: ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ ایک واقعہ کہ آنحضور الم نے حضرت قتادہ بن نعمان کو ایک چھڑی عطا فرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے اپنے گھر میں موجود جن کو مار کر بھگا دینا“ کے بارہ میں ایک خاتون نے حضور انور کی خدمت اقدس میں اس واقعہ کی مزید وضاحت کی درخواست کی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29 اگست 2019ء میں اس واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: حضور علم کی یہ حدیث اور ایسی دوسری احادیث جن میں حضور علم یا آپ کے صحابہ کے لئے روشنی کے نمودار ہونے کے واقعات کا ذکر ہے، دراصل حضور الم کے معجزات پر مشتمل ہیں.اور اس قسم کے معجزات اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے انبیاء کی صداقت کے لئے دکھاتا رہا ہے.چنانچہ آنحضور لام سے پہلے کے انبیاء کی زندگیوں میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں اور حضور ام کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے کئی واقعات کو ظاہر فرمایا.جہاں تک اس حدیث میں جن یا شیطان کو چھڑی سے مارنے کا تعلق ہے تو اس سے یہ استدلال کرنا کہ جن انسانوں کے جسم میں گھس جاتے ہیں اور انہیں اس طرح مارنے سے انسانوں کے جسموں سے نکلا جا سکتا ہے، بالکل لغو بات ہے.اس حدیث میں جن سے مراد کوئی چور یا نقصان پہنچانے والا کوئی جانور مراد ہے جو رات کے اند ھیرے کا فائدہ اٹھا کر حضرت قتادہ بن نعمان کے گھر گھس گیا تھا.اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کو غیر معمولی طور پر علم غیب سے نوازتا ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضور ا کو پہلے سے خبر دیدی تھی کہ حضرت قتادہ بن نعمان کے گھر کوئی چور یا نقصان دینے والا جانور چھپا ہوا ہے ، اس لئے حضور ا لم نے حضرت قتادہ بن نعمان کو اس خطرہ سے آگاہ فرماتے ہوئے انہیں نصیحت کی کہ جب وہ گھر پہنچیں تو اس چھڑی کے ساتھ اس چور یا اس جانور کو مار کر بھگا دیں.چنانچہ بعض دوسری کتب میں اس واقعہ کی تشریح میں یہ بات بھی بیان ہوئی 160

Page 227

ہے کہ جب حضرت قتادہ بن نعمان گھر پہنچے تو ان کے گھر والے سب سوئے ہوئے تھے اور گھر کے ایک کونہ میں ایک سیہی (Hedgehog) چھپا ہوا تھا جسے انہوں نے اس چھڑی سے مار کر بھگا دیا.(قسط نمبر 3، الفضل انٹر نیشنل 04دسمبر 2020ء صفحہ 12) 161

Page 228

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ طارق میگزین “ میں شائع ہونے والے ایک انٹریو میں جنوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انٹرویو دینے والے نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا بظاہر یہ موقف بیان کیا ہے کہ جنات کا وجود موجود ہے، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے موقف کے برعکس ہے.اس پر مخالفین اعتراض کرتے ہیں.اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 18 مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم اور حدیث میں جن کا لفظ کثرت کے ساتھ استعمال ہوا ہے.جس کے معنی مخفی رہنے والی چیز کے ہیں.جو خواہ اپنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا اپنی عادات کے طور پر مخفی ہو.اور یہ لفظ مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ان سب معنوں میں مخفی اور پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے.چنانچہ جن والے مادہ سے بننے والے مختلف الفاظ مثلاً جن سایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے ، جنین ماں کے پیٹ میں مخفی بچہ ، جنون وہ مرض جو عقل کو ڈھانک دے، جنان سینہ کے اندر چھپا دل، جنت باغ جس کے درختوں کے گھنے سائے زمین کو ڈھانپ دیں، مجنہ ڈھال جس کے پیچھے لڑنے والا اپنے آپ کو چھپالے، جان سانپ جو زمین میں چھپ کر رہتا ہو ، بجنن قبر جو مردے کو اپنے اندر چھپالے اور جبہ اوڑھنی جو سر اور بدن کو ڈھانپ لے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں.پھر جن کا لفظ با پردہ عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.نیز ایسے بڑے بڑے رؤسا اور اکابر لوگوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے.نیز ایسی قوموں کے لوگوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے دُور دراز کے علاقوں میں رہتے اور دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں.اسی طرح تاریکی میں رہنے والے جانوروں اور بہت باریک کیڑوں مکوڑوں اور جراثیم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.اسی لئے حضور ا نے رات کو اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے کا ارشاد فرمایا اور ہڈیوں سے استنجا سے منع فرمایا اور اسے جنوں یعنی چیونٹیوں، 162

Page 229

دیمک اور دیگر جراثیم کی خوراک قرار دیا.علاوہ ازیں جن کا لفظ مخفی ارواح خبیثہ یعنی شیطان اور مخفی ارواح طیبہ یعنی ملائکہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.جیسا کہ فرمایا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ (سورة الجن : 12) جماعتی لٹریچر بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تحریر و تقاریر میں جن کا لفظ عموماً اسی مفہوم میں بیان ہوا ہے.اور اس سارے کلام میں عوام الناس کے ذہنوں میں پائے جانے والے جنات کے بارہ میں ہر ایسے تصور اور مفہوم کی نفی کی گئی ہے جو انسانوں پر قبضہ کر لیں ، عورتوں کو چمٹ جائیں، لوگوں کو ستائیں یا ان کے قابو میں آجائیں اور انہیں ان کی من پسند کی چیزیں لالا کر دیں.ایسے جن و ہمی لوگوں کے دماغوں کی تخلیق ہے، جنہیں اسلامی تعلیم تسلیم نہیں کرتی.چنانچہ جنات کے وجود کی بابت ایک سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: اس پر ہمارا ایمان ہے مگر عرفان نہیں.نیز جنات کی ہمیں اپنی عبادت، معاشرت، تمدن اور سیاست وغیرہ امور میں ضرورت ہی کیا ہے.رسول اللہ ا م نے کیا عمدہ فرمایا ہے.مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ.انسانی عمر بہت تھوڑی ہے سفر بڑا کڑا اور لمبا ہے اس واسطے زادراہ لینے کی تیاری کرنی چاہیئے.ان بیہودہ محض اور لغو کاموں میں پڑے رہنا مومن کی شان سے بعید ہے.خدا کے ساتھ ہی صلح کرو اور اسی پر بھروسہ کرو اس سے بڑھ کر کوئی قادر نہیں.طاقتور نہیں.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 403 مطبوعہ 2016ء) حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ ان تصوراتی جنوں کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”یہاں ایک لڑکا رہتا تھا.اس کا نام عبد العلی تھا.اس کے باپ کو جنات کے حاضر کرنے کا بڑا دعویٰ تھا.وہ میرے ساتھ اکثر رہا.لیکن کبھی بھی 163

Page 230

میرے سامنے تو وہ جنات کو حاضر نہ کر سکا.“ ( مرقاة اليقين في حياة نورالدین صفحہ 249، مطبوعہ فروری 2002ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی مختلف تصانیف ، خطبات اور خطابات میں جنوں کے مسئلہ کو مختلف پیرایوں میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور قرآن کریم اور احادیث نبویہ الله فیلم میں بیان تعلیمات کی روشنی میں اس قسم کے جنوں کے وجود کا کلیۂ رڈ فرمایا جو عوام کے ذہنوں میں موجود ہے کہ وہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں یا بعض لوگوں کے قبضہ میں آجاتے ہیں جو پھر ان جنوں سے اپنی حسب منشاء کام کرواتے ہیں.چنانچہ جنوں کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضور نے لکھوایا: میں جنات کی ہستی کا قائل ہوں مگر اس امر کا قائل نہیں کہ وہ کسی کے سر پر چڑھتے ہیں یا میوہ لا کر دیتے ہیں.جیسے فرشتے کسی کے سر پر نہیں چڑھتے ، جنات بھی نہیں.جس طرح فرشتے انسانوں سے ملاقات کرتے ہیں اسی طرح جنات بھی ملاقات کرتے ہیں.لیکن جس طرح ان کا وجود ان کو اجازت دیتا ہے.رسول کریم کی تعلیم کی نسبت میں سمجھتا ہوں کہ انسان اور جن سب کے لئے ہے اور آپ پر ایمان لانا جنات کے لئے بھی ضروری ہے.آپ کی وحی پر عمل کرنا بھی.مگر میرا یہی عقیدہ اس بات کا بھی باعث ہوا ہے کہ میں یہ اعتقاد بھی رکھوں کہ وہ نہ کسی کے سر پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی میوہ لا کر دے سکتے ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ آنحضرت پر ایمان لانے والوں کا فرض تھا کہ وہ آپ کی مدد اور نصرت کریں.اگر جنات میں طاقت ہوتی کہ انسان کی مدد کر سکتے یا نصرت کر سکتے تو کیوں وہ ابو جہل وغیرہ کے سر پر نہ چڑھے.ان کو کوئی قربانی بھی نہ کرنی پڑتی تھی.لوگ کہتے ہیں کہ جن مٹھائی لا کر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ.پر میں ایسے جنوں کا قائل نہیں ہو سکتا جو زید و بکر کو تو مٹھائی لا لا کر کھلاتے ہیں.لیکن وہ شخص جس پر ایمان لانا ضروری اور فرض تھا اور بعض جن آپ پر ایمان بھی لائے تھے تین تین دن تک 164

Page 231

فاقہ کرتا رہتا ہے اور اس کو روٹی بھی لا کر نہیں دیتے.اگر محمد رسول اللہ م پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری نہ ہوتا تو شبہ ہو تا کہ وہ انسان کو ضرر پہنچا سکتے ہیں یا نہیں.لیکن اب یقینی ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے.باقی رہا یہ کہ عورتوں کے سر پر جن چڑھتے ہیں یہ سب بیماریاں ہیں یا وہم ہیں یا سائنس کے نتائج ہوتے ہیں.جیسے فاسفورس رات کو چمکتی ہے یہ اکثر قبرستانوں میں دکھلائی دیتی ہے.کیونکہ ہڈیوں سے فاسفورس نکلتی ہے اور وہ چمکتی ہے اور عوام اس کو جنوں کی طرف منسوب کرتے ہیں.اخبار ال الفضل قادیان دالامان نمبر 82 جلد 8.مورخہ 2 مئی 1921ء صفحہ 7) اسی طرح فضائل القرآن کے نام پر طبع ہونے والے اپنے ایک خطاب میں حضور جنوں کے بارہ میں ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ جن غیر از انسان وجود ہیں جو رسول کریم م ، حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان پر ایمان لائے تھے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے.اگر یہ ایک استعارہ ہے تو یقیناً قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہو گا اور استعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دو آیتیں باہم ٹکرا جائیں گی اور اس طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا.پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس کو استعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا استعارہ تسلیم کر کے.جو لوگ استعارہ نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتا ہے.جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے علیحدہ ہے اسی طرح جن بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے.حالانکہ وَإِذَا خَلَوْا إِلَي شَيَاطِينِهِمْ میں مفسرین بالا تفاق لکھتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے سے مراد یہودی اور ان کے بڑے بڑے سردار ہیں.پس اگر انسان شیطان بن سکتا ہے تو انسان جن کیوں نہیں بن سکتا؟ 165

Page 232

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيَّ عَدُوًّا شَيَاطِيْنَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِي بَعْضُهُمْ إِلَي بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا یعنی ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میں سے بھی اور جنوں میں سے بھی جو لوگوں کو مخالفت پر اکساتے اور انہیں نبی اور اس کی جماعت کے خلاف بر انگیختہ کرتے رہتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں.پس اگر شیاطین الانس ہو سکتے ہیں تو جن الانس کیوں نہیں ہو سکتے.یعنی جس طرح انسانوں میں سے شیطان کہلانے والے پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح ان میں سے جن کہلانے والے بھی پیدا ہو سکتے ہیں.پس قرآن سے ہی پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جن نہیں تھے بلکہ حضرت موسی اور رسول کریم الم پر بھی جن ایمان لائے تھے.“ (فضائل القرآن نمبر 6 صفحہ 388،387) اسی طرح تفسیر کبیر میں جنوں کے بارہ میں سیر حاصل بحث فرمانے کے بعد اس بحث کا خلاصہ تحریر فرماتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم میں جن کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے.(1) جن وہ تمام مخفی مخلوق جو غیر مرئی شیطان کی قسم سے ہے یہ مخلوق اسی طرح بدی کی تحریک کرتی ہے جس طرح ملائکہ نیک تحریکات کرتے ہیں.ہاں یہ فرق ہے کہ ملائکہ کی تحریک وسیع ہوتی ہے اور ان کی تحریک محدود ہوتی ہے.یعنی ان کو زور انہی پر حاصل ہوتا ہے جو خود اپنی مرضی سے بد خیالات کی طرف جھک جائیں.انہیں شیاطین بھی کہتے ہیں.(2) جن سے مراد قرآن کریم میں CaveMen بھی ہے.یعنی انسان کے قابل الہام ہونے سے پہلے جو بشر زیر زمین رہا کرتے تھے اور کسی نظام کے پابند نہ تھے.ہاں آئندہ کے لئے قرآن کریم نے یہ اصطلاح 166

Page 233

قرار دے لی کہ جولوگ اطاعت کا مادہ رکھتے ہیں ان کا نام انسان رکھا اور جو لوگ ناری طبیعت کے ہیں اور اطاعت سے گریز کرتے ہیں ان کا نام جن رکھا.(3) شمالی علاقوں کے وہ لوگ یعنی یورپ وغیرہ کے جو ایشیاء کے لوگوں سے میل ملاپ نہ رکھتے تھے اور جن کے لئے آخر زمانہ میں حیرت انگیز دنیوی ترقی اور مذہب سے بغاوت مقدر تھی.ان کا ذکر سورۂ رحمٰن میں کیا ہے.(4) غیر مذہب کے لوگوں کو اور اجنبیوں کو جنہیں بعض اقوام جیسے ہندو اور یہود کوئی نئی مخلوق سمجھتے تھے.ان کو عام محاورہ کے طور پر جن کے نام سے موسوم کیا ہے.جیسے حضرت سلیمان کے جن یارسول کریم اللام پر ایمان لانے والے لوگ.میرے نزدیک دوزخ میں جانے والے جن جنات کا ذکر آتا ہے ان سے مراد یا تو وہی ناری طبیعت والے لوگ ہیں جو اطاعت سے باہر رہتے ہیں.اور کسی مذہب یا تعلیم کو قبول نہیں کرتے.اور انسان دوزخیوں سے مراد وہ کفار ہیں جو کسی نہ کسی مذہب سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں.یا پھر اقوام شمال مغرب کو جن قرار دیا ہے.اور جنوبی دنیا اور مشرق کے لوگوں کو انس قرار دیا ہے.جیسا کہ عرف عام میں یہ لوگ ان ناموں سے مشہور تھے.یہ تعلیق ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی بتا دینا چاہتاہوں کہ کئی پرانے بزرگ کم سے کم اس خیال میں میرے ساتھ شریک ہیں کہ وہ جن کوئی نہیں ہوتے جو انسانوں سے آکر ملیں اور اس پر سوار ہو جائیں اور ان سے مختلف کام لیں...اگر کہا جائے کہ بعض بزرگوں نے جنات کا ذکر کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روحانی نظارے ہیں.اور عالم مثال میں ایسی 167

Page 234

باتیں نظر آجاتی ہیں.انہوں نے کشف سے بعض امور دیکھے اور چونکہ عوام میں جنات کا عقیدہ تھا اور قرآن کریم میں بھی لفظ جن کا استعمال ہوا ہے انہوں نے ان مثالی وجو دوں کو اصلی وجود سمجھ لیا.میرا اپنا ذاتی تجربہ اس بارہ میں یہ ہے کہ کئی مختلف وقتوں میں لوگوں نے مجھے ایسے خطوط لکھے ہیں کہ جنات ان کے گھر میں آتے اور فساد کرتے ہیں.میں نے ہمیشہ اپنے خرچ پر اس مکان کا تجربہ کرنا چاہا لیکن ہمیشہ ہی یا تو یہ جواب ملا کہ اب ان کی آمد بند ہو گئی ہے.یا یہ کہ آپ کے خط آنے یا آپ کا آدمی آنے کی برکت سے وہ بھاگ گئے ہیں.میرا اپنا خیال ہے کہ جو کچھ ان لوگوں نے دیکھا ایک اعصابی کرشمہ تھا.میرے خط یا پیغامبر سے چونکہ انہیں تسلی ہوئی وہ حالت بدل گئی.اگر اس تفسیر کے پڑھنے والوں میں سے کسی صاحب کو اس مخلوق کا تجربہ ہو.اور وہ مجھے لکھیں تو میں اپنے خرچ پر اب بھی تجربہ کرانے تو کو تیار ہوں.ورنہ جو کچھ میں متعدد قرآنی دلائل سے سمجھا ہوں یہی ہے کہ عوام الناس میں جو جن مشہور ہیں اور جن کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتے اور ان کو چیزیں لا کر دیتے ہیں.یہ محض خیال اور وہم ہے.یا مداریوں کے تماشے ہیں جن کے اندرونی بھید کے نہ جاننے کی وجہ سے لوگوں نے ان کو جنات کی طرف منسوب کر دیا ہے.اس علم کا بھی میں نے مطالعہ کیا ہے.اور بہت سی باتیں ان ہتھکنڈے کرنے والوں کی جانتا ہوں.“ 66 ( تفسیر کبیر جلد چہارم ، سورت الحجر زیر آیت 26، صفحہ 70،69) علاوہ ازیں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے اپنی مجالس عرفان اور مجالس سوال و جواب میں جنوں کے متعلق ہونے والے سوالات کے جواب میں ہمیشہ یہی موقف بیان فرمایا کہ قرآن و حدیث میں ایسے جنوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا جو مولویوں کے دماغوں کے جن ہیں اور جو ان کے کہنے پر راتوں رات کسی شخص کو اٹھا کر ان کے سامنے حاضر کر دیں.چنانچہ حضور اپنی معرکۃ الآراء 168

Page 235

تصنیف "الهام، عقل، علم اور سچائی“ میں فرماتے ہیں: اب ہم سائنسی تناظر میں از منہ قدیم کے قصے کہانیوں میں مذکور جن کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں...جن کا لفظ کسی پوشیدہ، غیر مرئی، الگ تھلگ اور دُور کی چیز پر دلالت کرتا ہے.اس میں گہرے اور گھنے سائے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے جَنَّةٌ کے لفظ کو (جو اسی مادہ سے نکلا ہے ) جنت کے لئے استعمال کیا ہے جو ایسے گھنے باغات پر مشتمل ہے جن کے سائے بہت ہی گہرے ہیں.جن کے لفظ کا اطلاق سانیوں پر بھی ہوتا ہے جو فطرتاً پوشیدہ اور چھپ کر رہنا پسند کرتے ہیں جس کے لئے وہ الگ تھلگ بلوں اور چٹانوں میں موجو د سوراخوں کا انتخاب کرتے ہیں.جن کا لفظ با پردہ عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے سرداروں اور بڑے لوگوں کے لئے بھی جو عوام سے دُور رہنا پسند کرتے ہیں.اسی طرح دور دراز اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بسنے والے لوگوں پر بھی جن کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے.المختصر عام انسانی نگاہ سے اوجھل اور پوشیدہ ہر چیز پر جن کا لفظ اطلاق پاتا ہے.جن کے لفظ کا مذکورہ بالا مفہوم آنحضرت ام کی اس حدیث کے عین مطابق ہے جس میں آپ اسلم نے لوگوں کو خشک گوبر اور ہڈیوں سے استنجا کرنے سے اس لئے منع فرمایا ہے کہ یہ جنوں کی خوراک ہے.جس طرح آج کل صفائی کے لئے ٹائلٹ پیپر استعمال کئے جاتے ہیں اسی طرح پرانے زمانہ میں لوگ صفائی کے لئے مٹی کے خشک ڈھیلے، پتھر یا قریب پڑی کوئی اور خشک چیز استعمال کیا کرتے تھے.پس ہم بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ آنحضرت ام نے اس حدیث میں جس جن کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد کوئی غیر مرئی مخلوق ہی ہے جس کا گزارہ ہڈیوں اور فضلہ وغیرہ پر ہوتا ہے.یاد رہے کہ اس وقت دنیا میں بیکٹیریا اور وائرس کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور کوئی شخص اس قسم کی غیر مرئی اور 169

Page 236

خورد بینی مخلوق کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس مخلوق کی طرف آنحضرت الیم نے اشارہ فرمایا ہے ، عربی زبان میں اس کے لئے جن سے بہتر اور کوئی لفظ نہیں ہے.الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 311،312) اس سوال پر کہ جنات کے متعلق اسلام کا کیا تصور ہے، قرآن میں یا حدیث میں سے اس کا کیا ثبوت ملتا ہے یا آنحضرت ام کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے ثابت ہو کے جنات کا بھی وجود ہے یا جس طرح آج کل کے لوگوں میں تصورات ہیں کہ جن چمڑ جاتے ہیں کیا یہ درست ہے ؟ حضور نے فرمایا: میں تو جنوں پہ بہت بول چکا ہوں.جن تو ایسی بلا ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی.جس مجلس میں جاؤ، جس ملک میں جاؤ جن ضرور آجاتے ہیں.یعنی جن کا سوال آ جاتا ہے.بہت دفعہ بتا چکا ہوں، خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں میں بھی جن آیا کرتا تھا.انصار اللہ میں بھی اس نے پیچھا نہیں چھوڑا.ابھی بھی جہاں کراچی جاؤ وہاں سوال ہو جاتا ہے.پنڈی جاؤ وہاں سوال ہو جاتا ہے.انگلستان میں یورپ میں ہر جگہ پاکستانیوں کو جن کے ساتھ بڑی دلچسپی ہے.جن کا لفظ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف رنگ میں آیا ہے.مختصر آ جن سے مراد عربی زبان میں مخفی چیزیں ہیں.یعنی عربی میں جن لفظ ان چیزوں پر اطلاق پاتا ہے جو کسی پہلو سے بھی مخفی ہوں.اور سانپ کو بھی اسی لئے جن یا جان کہا جاتا ہے اور عورتوں کو بھی جن کہا جاتا ہے جو پردہ دار ہوں.بڑے لوگ جو عوام الناس سے الگ رہیں، چھپ کے رہیں ان کو بھی جن کہا جاتا ہے.پہاڑی قومیں جو عموماً Plain میں بسنے والے لوگوں سے، عام زمین پہ بسنے والے لوگوں سے بے تعلق رہتی ہیں، مخفی رہتی ہیں ان کو بھی جن کہا جاتا ہے.غاروں کے بسنے والے لوگوں کو بھی جن کہا جاتا ہے.Hardy، جفاکش اُس کے لئے بھی جن کا 170

Page 237

لفظ استعمال ہوتا ہے.Bacteria کے لئے بھی جن کا لفظ استعمال ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم اسلم نے ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا کہ یہ جن کی خوراک ہے.اس زمانہ میں تو Bacteria کا کوئی تصور نہیں تھا نہ یہ پتہ تھا کہ کسی چیز کی خوراک ہے.مگر بعد کے زمانوں میں تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ واقعی ہڈی کے ساتھ Bacteria چھٹے ہوتے ہیں اور وہ مُمضر ہیں اور اس سے استنجاء نہیں کرنا چاہیئے.تو جن کا ایک معنی تو ہے مخفی.ان معنوں میں جن کے سارے معنی ہیں.ایک اور معنی ہے آگ سے پیدا ہوا ہوا.جس میں ناری صفات پائی جاتی ہوں، جس میں بغاوت کی روح پائی جاتی ہو.تو ہر وہ قوم جو آتشیں مزاج رکھتی ہو ، جو Volatile ہو، غصہ جلدی آتا ہو اور لڑاکا اور فسادی، بغاوت کرنے والی ان سب کو جن کہا جاتا ہے.حضرت سلیمان اور حضرت داؤد کے جو غلام بنائے گئے تھے جن وہ ایسی قومیں تھیں جن پر فتح ہوئی اور ان میں جفا کشی بھی ساتھ تھی اور بغاوت کا مادہ بھی تھا.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے ان کو زنجیروں میں جکڑا گیا تھا اور ان سے ForcedLabour لی جاتی تھی.اگر وہ اس قسم کے جن ہوں جیسے مولویوں کے دماغ میں پید اہوتے ہیں وہ زنجیروں میں تو نہیں جکڑے جاسکتے.صاف پتہ چل گیا کہ وہ جن جو ہیں وہ کوئی مادی مخلوق ہے.چنانچہ بڑے لوگوں اور Capitalist System کے لئے بھی قرآن کریم نے جن کا لفظ استعمال کیا ہے.چوٹی کے لوگ خواہ وه Capitalist ہوں خواہ وہ عوامی حکومتوں کے نمائندے ہوں، ان کو سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے يُمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَنٍ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبُنِ - معشر الجن ! اے جنوں میں سے چوٹی کے لوگو.والانس اور اے عوام الناس میں سے چوٹی کے لوگو.یہ مراد ہے وہاں پہ.تو جن کا لفظ ان 171

Page 238

ساری جگہوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے.بڑا وسیع لفظ ہے.آنحضرت م سے بھی پہاڑی علاقہ کے کچھ لوگ، جفاکش قوموں کے نمائندے ملنے کے لئے آئے اور آپ نے ان کے ساتھ ، وہ چاہتے تھے کہ علیحدہ گفتگو ہو.چنانچہ حضور اکرم ا ہم نے باہر ان سے وقت مقرر کیا جہاں ڈیرا ڈالا تھا، وہاں ان سے ملنے گئے اور گفتگو ہوئی.قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے اور سورۃ جن میں اس کا ذکر آتا ہے.اور اس کے بعد وہ ایمان بھی لے آئے.اور ساتھ ہی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں جب صحابہ وہاں گئے تو دیکھا کہ وہاں ان کے چولہوں کے نشان تھے جہاں کھانا پکایا جاتا تھا.تو جنوں کی خوراک اگر وہ جن تھے جو مولوی سمجھتے ہیں تو وہ تو آگ پہ کھانا نہیں پکایا کرتے ان کی تو خوراک ہی اور چیزیں ہیں وہ تو آتشیں مادہ ہے یا ہوائی سا وجو د ہے.تو صاف پتہ چلا کہ جو جن رسول اکرم الم سے ملنے آئے تھے وہ انسانوں میں سے تھے.پھر انبیاء کا تصور وہاں پایا جاتا ہے وہ کہتے ہیں ہم لوگ بڑے جاہل ہوتے تھے.ہم سمجھتے تھے کہ خدا اب کبھی کسی نبی کو نہیں بھیجے گا.لیکن دیکھ لو پھر نبی آگیا.تو انبیاء تو انسانوں کے لئے آتے ہیں.قرآن کریم میں رسول کریم م کو ہمیشہ انسانوں کو مخاطب کر کے پیغام پہنچانے کے لئے فرمایا ہے، جنوں کو مخاطب کر کے کہیں نہیں فرمایا.تو اس لئے وہ جو ایمان لائے ذکر کرتے ہیں کہ ہم نبیوں کا انکار کر گئے تھے کہ آئندہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ انسانوں میں سے کچھ لوگ تھے.تو قرآن کریم نے ان معنوں میں، ان سے ملتے جلتے معنوں میں جو میں نے بیان کئے ہیں کئی جگہ جنوں کا ذکر کیا ہے.لیکن ایسے جن کا ذکر نہیں کیا جو مولوی صاحب کو لوگوں کے مرغے چرا کے لا کے دے.یا آپ کی خواہش ہو کہ فلاں آدمی کو پکڑ کے لے آئے تو جن رات ورات پکڑ کے لے آئے.ایسا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں ملتا یار سول کریم ایم کی 172

Page 239

زندگی میں بھی نہیں ملتا.“ مجلس سوال جواب مؤرخہ 29 دسمبر 1984ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی جنوں کے متعلق نہایت عمدہ مضامین تحریر فرمائے ہیں.چنانچہ ایک جگہ آپ لکھتے ہیں: ” جن کے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن بہر حال یہ بالکل درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جن بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو لو گوں کے لئے خود کھلونا بنتے ہیں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہیں یا بعض انسانوں کے دوست بن کر انہیں اچھی اچھی چیزیں لا کر دیتے ہیں اور بعض کے دشمن بن کر تنگ کرتے ہیں یا بعض لوگوں کے سر پر سوار ہو کر جنون اور بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور بعض کے لئے صحت اور خوشحالی کا رستہ کھول دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ سب کمزور دماغ لوگوں کے تو ہمات ہیں جن کی اسلام میں کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پر ہیز کرنا چاہیئے.ہاں لغوی معنے کے لحاظ سے (نہ کہ اصطلاحی طور پر ) فرشتے بھی مخفی مخلوق ہونے کی وجہ سے جن کہلا سکتے ہیں اور یہ بات اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ فرشتے مومنوں کے علم میں اضافہ کرنے اور ان کی قوتِ علیہ کو ترقی دینے اور انہیں کافروں کے مقابلہ پر غالب کرنے میں بڑا ہاتھ رکھتے ہیں جیسا کہ بدر کے میدان میں ہوا.جب کہ تین سو تیرہ (313) بے سر و سامان مسلمانوں نے ایک ہزار سازو سامان سے آراستہ جنگجو کفار کو خدائی حکم کے ماتحت دیکھتے دیکھتے خاک میں ملا دیا تھا.(صحیح بخاري) پس اگر سوال کرنے والے دوست کو مخفی روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ کھلونا بننے والے یا کھلونا بنانے والے جنوں کا خیال چھوڑ دیں اور فرشتوں کی دوستی کی طرف توجہ دیں جن کا تعلق خدا کے 173

Page 240

فضل سے انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے.“ (مطبوعہ الفضل 13 جون 1950ء) اسی طرح حیات قدسی میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے بارہ میں بیان شدہ بعض اس قسم کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: ”جہاں تک کسی کے آسیب زدہ ہونے کا سوال ہے، میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی ہسٹیریا کی بیماری ہے.جس میں بیمار شخص اپنے غیر شعوری یعنی سب کا نشنس خیال کے تحت اپنے آپ کو بیمار یا کسی غیر مرئی روح سے متاثر خیال کرتا ہے اور اس تاثر میں اس شخص کی سابقہ زندگی کے حالات اور اس کی خواہشات اور اس کے خطرات غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں.یہ بھی ایک قسم کی بیماری ہے مگر یہ احساس بیماری ہے حقیقی بیماری نہیں.اسلام ملائکہ اور جنات کے وجود کا تو قائل ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نظام عالم کو چلاتے اور لوگوں کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے اور بدیوں کے خلاف احساس پیدا کرتے ہیں.لیکن یہ درست نہیں اور نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ملتا ہے کہ جنات لوگوں کو چمٹ کر اور ان کے دل و دماغ پر سوار ہو کر لوگوں سے مختلف قسم کی حرکات کرواتے ہیں.یہ نظریہ اسلام کی تعلیم اور انسان کی آزادی ضمیر کے سراسر خلاف ہے.اس کے علاوہ اسلام نے جنات کا مفہوم ایسا وسیع بیان کیا ہے کہ اس میں بعض خاص مخفی ارواح کے علاوہ نہ نظر آنے والے حشرات اور جراثیم بھی شامل ہیں.چنانچہ حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ ان میں جنات داخل ہو جائیں گے.اس سے یہی مراد ہے کہ بیماریوں کے جراثیم سے اپنی خورد و نوش کی چیزوں کو محفوظ رکھو.174

Page 241

بہر حال جنات کا وجود تو ثابت ہے اور خدا تعالیٰ کے نظام میں حقیقت تو ضرور ہے مگر کھیل نہیں.اس لئے میں اس بات کو نہیں مانتا خواہ اس کے خلاف بظاہر غلط فہمی پیدا کرنے والی اور دھوکا دینے والی باتیں موجود ہوں کہ کوئی جنات ایسے بھی ہیں جو انسانوں کو اپنے کھیل تماشے کا نشانہ بناتے ہیں.لہذا میرے نزدیک جو چیز آسیب کہلاتی ہے وہ ہسٹیریا کی بیماری ہے.اور جو چیز آسیب کے تعلق میں معمول کہلاتی ہے وہ خود نام نہاد آسیب زدہ شخص کا اپنے ہی وجود کا دوسرا پہلو ہے جو غیر شعوری طور ر آسیب زدہ شخص کی زبان سے بول رہا ہوتا ہے اور چونکہ آسیب زدہ خص لازما کمزور دل کا مالک ہوتا ہے.اس لئے جب کوئی زیادہ مضبوط دل کا انسان یا زیادہ روحانی اس پر اپنی توجہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی قلبی اور دماغی یا روحانی طاقت کے ذریعہ آسیب کے طلسم کو توڑ دیتا ہے.مادی لوگ تو محض قلبی توجہ سے یہ تغیر پیدا کرتے ہیں لیکن روحانی لوگوں کے عمل میں روح کی توجہ اور دعا کا اثر بھی شامل ہوتا ہے اور توجہ کا علم بہر حال حق ہے.“ (حیات قدسی مصنفہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی صفحہ 617،618) باقی طارق میگزین میں شائع ہونے والے انٹرویو میں بیان باتیں ایک سنے ہوئے واقعہ پر مبنی ہیں، جس میں سننے والے کو بھی غلطی لگ سکتی ہے، کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضور ” نے یہ کہیں بیان نہیں فرمایا کہ آپ نے کسی جن کو بلیڈ لگاتے ہوئے دیکھا تھا بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگلی صبح دیکھا تو بلیڈ لگا کے رکھا ہوا تھا.پھر حضور نے اس سلسلہ میں اس رات کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی کشفی نظارہ ہو.کیونکہ حضور کا اپنی تحریرات اور دیگر مجالس عرفان میں جنات کے بارہ میں بیان موقف اس قسم کے جنات کے وجود کے خلاف ہے.پس جن کے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جن بھی پائے جاتے ہیں جو لوگوں کے لئے کھلونا بنتے ہوں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہوں.یا وہ کچھ لوگوں کے دوست بن کر انہیں میوے اور مٹھائیاں لا کر دیتے ہوں اور 175

Page 242

بعض کے دشمن بن کر ان کے سروں پر چڑھ کر اور انہیں چمٹ کر انہیں تنگ کرتے ہوں.اس قسم کے خیالات مولویوں کی ایجادات ہیں جو کمزور دماغ اور وہمی خیال لوگوں کو اپنے ہتھکنڈوں سے شکار کر کے ان سے فائدے اٹھاتے ہیں.اسلام میں اس قسم کے جنات کی کوئی سند نہیں ملتی اور بچے مسلمانوں کو اس قسم کے تو ہمات سے پر ہیز کرنا چاہیئے.ایسے کوئی جن ہوتے تو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی للہ علم وہ وجو د باجود تھے جن کی ان جنات کو لازما مدد اور آپ کے دشمنوں کے سروں پر چڑھ کر انہیں تباہ و برباد کرنے کی سعی کرنی چاہیے تھی، خصوصاً جبکہ قرآن و حدیث میں آپ ا تم پر ایک قسم کے جنوں کے ایمان لانے کا ذکر بھی موجود ہے.پس عملاً ایسا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ان تصوراتی جنوں کا اس دنیا میں کوئی وجو د نہیں.(قسط نمبر 17، الفضل انٹر نیشنل 25 جون 2021ء صفحہ 11) 176

Page 243

سوال: اردن سے ایک دوست نے سورۃ الرحمن کی آیت لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جان کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ یہاں جن سے کیا مراد ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 18 اکتوبر 2021ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم اور احادیث نبویہ الم میں جن کا لفظ کثرت کے ساتھ اور مختلف معنوں میں بیان ہوا ہے.اور ہر جگہ سیاق و سباق کے اعتبار سے اس لفظ کے معانی ہوں گے.جن کے بنیادی معنی مخفی رہنے والی چیز کے ہیں.جو خواہ اپنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا اپنی عادات کے ر مخفی ہو اور یہ لفظ مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ان سب معنوں میں مخفی اور پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے.طور پر چنانچہ جن والے مادہ سے بننے والے مختلف الفاظ مثلاً جن سایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے، جنین ماں کے پیٹ میں مخفی بچہ ، جنون وہ مرض جو عقل کو ڈھانک دے، جنان سینہ کے اندر چھپادل، جَنَّة باغ جس کے درختوں کے گھنے سائے زمین کو ڈھانپ دیں، مَجنَّة ڈھال جس کے پیچھے لڑنے والا اپنے آپ کو چھپالے، جان سانپ جو زمین میں چھپ کر رہتا ہو، جنن قبر جو مردے کو اپنے اندر چھپالے اور جُنَّة اوڑھنی جو سر اور بدن کو ڈھانپ لے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں.پھر جن کا لفظ با پر وہ عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.نیز ایسے بڑے بڑے رؤسا اور اکابر لوگوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے.نیز ایسی قوموں کے لوگوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے دور دراز کے علاقوں میں رہتے اور دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں.اسی طرح تاریکی میں رہنے والے جانوروں اور بہت باریک کیڑوں مکوڑوں اور جراثیم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.اسی لئے حضور ام نے رات کو اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو 177

Page 244

ڈھانپ کر رکھنے کا ارشاد فرمایا (صحيح مسلم كتاب الاشربة باب الْأَمْرِ بِتَغْطِيَةِ الْإِنَاءِ وَإِيكَاءِ السَّقَاءِ وَاغُلَاقِ الْأَبْوَابِ) اور ہڈیوں سے استنجا سے منع فرمایا اور اسے جنوں یعنی چیونٹیوں، دیمک اور دیگر جراثیم کی خوراک قرار دیا.(صحیح بخاري كتاب المناقب باب ذكر الجن) علاوہ ازیں جن کا لفظ مخفی ارواح خبیثہ یعنی شیطان اور مخفی ارواح طیبہ یعنی ملائکہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.جیسا کہ فرمایا: مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ (سورة الجن:12) پس جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ہر جگہ سیاق و سباق کے اعتبار سے اس لفظ کے معانی ہوں گے.آپ کے سوال میں بیان سورة الرحمن کی آیت لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌ میں جن جو کہ انس کے مقابل پر استعمال ہوا ہے.اس سے مراد خواص، بڑے رتبہ اور مقام والے، امیر لوگ اور بڑے بڑے رؤسا اور اکابر مراد ہیں.اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن میں ان نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی نعماء ہوں گی جو خالصتاً صرف اُن جنتیوں کے لئے ہوں گی اور ان سے پہلے یہ نعمتیں ہر قسم کے عوام و خواص کی دسترس سے پاک ہوں گی.(قسط نمبر 46، الفضل انٹر نیشنل 23 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 178

Page 245

سوال: لندن سے ایک خاتون نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کی روشنی میں تیسری جنگ عظیم کے متعلق بیان تنبیہ کے حوالہ سے اس جنگ کے بارہ میں مزید شواہد دریافت کئے.نیز لکھا کہ غیر از جماعت لوگ جنوں بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں، انہیں جنوں کی حقیقت کیسے سمجھائی جاسکتی ہے؟ حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 17 دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب باقی جہاں تک جنوں اور بھوتوں کے تصور کی بات ہے تو غیر از جماعت لوگوں میں جنوں اور بھوتوں کے بارہ میں جو تصور پایا جاتا ہے، قرآن کریم اور احادیث نبویہ ای ایم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.البتہ قرآن کریم اور احادیث میں جن کا لفظ کثرت کے ساتھ اور مختلف معنوں میں آیا ہے.اور ہر جگہ سیاق و سباق کے مطابق اس لفظ کے معانی ہوں گے.جن کے بنیادی معنی مخفی رہنے والی چیز کے ہیں.جو خواہ اپنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا اپنی عادات کے طور پر مخفی ہو اور یہ لفظ مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ان سب معنوں میں مخفی اور پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے.چنانچہ جن والے مادہ سے بننے والے مختلف الفاظ مثلاً جن سایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے، جنین ماں کے پیٹ میں مخفی بچہ، جنون وہ مرض جو عقل کو ڈھانک دے، جنان سینہ کے اندر چھپا دل، جنَّة باغ جس کے درختوں کے گھنے سائے زمین کو ڈھانپ دیں، مَجَنَّة ڈھال جس کے پیچھے لڑنے والا اپنے آپ کو چھپالے، جان سانپ جو زمین میں چھپ کر رہتا ہو ، جنن قبر جو مردے کو اپنے اندر چھپالے اور جُنَّة اوڑھنی جو سر اور بدن کو ڈھانپ لے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں.پھر جن کا لفظ با پر وہ عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.نیز ایسے بڑے بڑے رؤسا اور اکابر لوگوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے.نیز ایسی قوموں کے 179

Page 246

لوگوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے دور دراز کے علاقوں میں رہتے اور دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں.اسی طرح تاریکی میں رہنے والے جانوروں اور بہت باریک کیڑوں مکوڑوں اور جراثیم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.اسی لئے حضور ا م نے رات کو اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے کا ارشاد فرمایا اور ہڈیوں سے استنجا سے منع فرمایا اور اسے جنوں یعنی چونٹیوں، دیمک اور دیگر جراثیم کی خوراک قرار دیا.علاوہ ازیں جن کا لفظ مخفی ارواح خبیثہ یعنی شیطان اور مخفی ارواح طیبہ یعنی ملائکہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.جیسا کہ فرمایا: مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ یعنی ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس کے خلاف بھی ہیں.(سورة الجن:12) پس جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ہر جگہ سیاق و سباق کے اعتبار سے اس لفظ کے معانی ہوں گے.جنوں کے متعلق میرا ایک تفصیلی جواب الفضل انٹر نیشنل 25 جون 2021ء میں اردو میں اور الحکم 02 جولائی 2021ء میں انگریزی زبان میں شائع ہو چکا ہے، وہاں سے بھی اس بارہ میں استفادہ کیا جا سکتا ہے.(قسط نمبر 50، الفضل انٹر نیشنل 10 مارچ 2023ء صفحہ 12) 180

Page 247

سوال: اردن سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں یہ استفسار بھجوائے کہ کیا نظروں سے اوجھل ہر چیز جن ہوتی ہے اور کیا ابلیس اور فرشتے بھی جن ہو سکتے ہیں ؟ کیا احمدی عفریت کے وجود پر یقین رکھتے ہیں ؟ ہم نے پڑھا ہے کہ آنے والے مهدی آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے ، کیا ہم واقعی آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں ؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی یا حضرت محمدام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قسم کھا سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 فروری 2022ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: اکتوبر 2021ء میں میں نے آپ کے خط کے جواب میں جنوں کے بارہ میں جو جواب بھجوایا تھا، اس میں آپ کے ان پہلے دونوں سوالوں کا جواب بھی موجود ہے، وہاں سے پڑھ لیں.( حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ جواب اسی ” “ کی قسط نمبر 46 کے تحت الفضل اور الحکم میں شائع ہو چکا ہے.ناقل ) باقی عفریت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا وہی عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث نے ہمیں بتایا ہے.چنانچہ سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِ أنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ (سورة النمل: 40) یعنی ( پہاڑی قوموں میں سے ایک سرکش سردار نے کہا.آپ کے (اس) مقام سے جانے سے پہلے میں وہ (عرش) لے آؤں گا اور میں اس بات پر بڑی قدرت رکھنے والا (اور ) امانت دار ہوں.جن کا لفظ جیسا کہ میں نے اپنے پہلے خط میں وضاحت کی تھی کہ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اس انسان کو بھی جن کہہ دیا جاتا ہے جس میں ناری صفات اور بغاوت کی روح پائی جاتی ہو.جو آتشیں مزاج رکھتا ہو، جسے جلدی غصہ آتا ہو.پس لڑاکے ، فسادی ، بغاوت کرنے والے اور سرکش قسم کے لوگوں کو بھی جن کہا جاتا ہے.حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام 181

Page 248

نے جن اقوام پر فتح پائی تھی ان میں سے بعض نہایت محنتی اور جفاکش اقوام تھیں لیکن اس کے ساتھ ان میں اسی قسم کی ناری صفات اور بغاوت و سرکشی کا مادہ بھی پایا جاتا تھا.اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہا السلام نے اپنی خداداد حکمت اور دانائی کے ساتھ ان اقوام کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنالیا تھا.اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی مملکت کے مختلف کاموں کو سر انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی اقوام کو آپ کے تابع فرمان کر دیا تھا جن کے لئے قرآن کریم نے مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں.چنانچہ سورۃ سبا کی آیت 13 تا 15 میں ایسے لوگوں کے لئے جن کا لفظ آیا ہے.جبکہ سورۃ ص آیات 38 ، 39 اور سورۃ الانبیاء آیت 83 میں ان کے لئے شیاطین کا لفظ استعمال ہوا ہے.اور اصل میں ان سے مراد وہ شریر اور مفسد اقوام تھیں جنہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی بدولت مغلوب کر کے اپنی سلطنت کے مختلف کاموں کو سر انجام دینے کے لئے مامور کر دیا تھا.عفریت بھی اسی قسم کی ایک قوم کے سرداروں میں سے تھا، جسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں بھی اعلیٰ رتبہ حاصل تھا.حدیث میں بھی عفریت کا لفظ آیا ہے.چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور ا ہم نے فرمایا کہ گزشتہ رات جنوں میں سے ایک عفریت (یعنی گھناؤنی شکل کا جنگلی وحشی آدمی) مجھ پر ٹوٹ پڑا تاکہ میری نماز کو توڑ دے.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دید یا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور میں نے ارادہ کیا کہ میں اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون سے باندھ دوں تا کہ تم سب اسے دیکھو.پھر مجھے میرے بھائی سلیمان کا قول یاد آیا کہ اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو میرے بعد کسی کو بھی سزاوار نہ ہو.پس میں نے اسے دھتکار کر بھگا دیا.امام بخاری کہتے ہیں کہ عفریت کے معنی سرکش کے ہیں خواہ انسان ہو یا جن.(صحیح بخاري كتاب احاديث الانبياء بَاب قَوْلِ اللهِ تَعَالَي وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَيْمَانٍ...) یہ واقعہ بخاری میں بعض اور جگہوں پر بھی بیان ہوا ہے.کتاب الصلاۃ کی روایت میں حضور کی نماز میں خلل پیدا کرنے والے اس شخص کے لئے عفریت ہی کا لفظ آیا لیکن کتاب الجمعـه بَاب مَا يَجُوزُ مِنَ الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ میں بیان روایت میں حضور اللی تم نے اس 182

Page 249

کے لئے شیطان کا لفظ استعمال فرمایا ہے.واقعہ ایک کشفی نظارہ بھی ہو سکتا ہے جس کا تعلق مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے تھا کہ ناری صفات، باغیانہ سوچ کے شریر اور مفسد شیطان خصلت انسان حضور ا کو آپ کے فرض منصبی سے روکنے کے لئے جنگ کی صورت میں عداوت کی آگ بھڑ کانے کی کوشش کریں گے اور سرکش اور اُجڈ قبائل کو آپ کے خلاف اکسائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ ان شریروں کو آپ کے قابو میں دیدے گا اور وہ اپنے اس حملہ سے ذلیل و خوار ہو کر نامراد لوٹیں گے.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حضور ام کی زندگی میں ہی آپ کو فتح و نصرت سے سرفراز فرماتے ہوئے ان عفریت خصلت دشمنوں پر آپ کو پورا پورا تسلّط عطا فرمایا.حضرت سلیمان علیہ السلام نے الہی مشیئت کے تحت مغلوب اقوام کو غلام بنایا جو آخر دم تک حضرت سلیمان کی غلامی میں رہیں.لیکن حضور الم کی ذات بابرکات جو بنی نوع انسان کے لئے سر ا پار حمت و شفقت تھی اور جیسا کہ اس واقعہ کے آخری حصہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے، آپ نے غلاموں کے آزاد کرنے کی تعلیم دی اور پھر آپ اور آپ کے صحابہ نے لاکھوں غلاموں کو آزاد کیا.اگر اس واقعہ کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک گھناؤنی اور مکر وہ شکل کے خبیث، جنگلی اور وحشی خصلت شخص یا جانور نے رات کے وقت حضور ا م پر حملہ کیا جبکہ آپ نماز ادا کر رہے تھے، جس سے آپ کی نماز میں خلل پیدا ہوا.چنانچہ آپ نے اس انسان یا جانور کو قابو کر لیا اور اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ کیا لیکن پھر آپ نے اپنی فطری اور جبلی رحمت و شفقت کے تحت اسے آزاد کر دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ النمل کی تفسیر میں لفظ عفریت کی لغوی بحث میں لکھتے ہیں.عفریت کے معنے ہیں کسی کام کو کر گزرنے والا.بُرا اور ناپسندیدہ (اقرب).پھر اس آیت کی تفسیر میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے عفریت کے بارہ میں لکھتے ہیں: ”حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ ہدہد کے اس لائے ہوئے تحفہ سے تو کچھ نہیں بنتا.کوئی اور چیز منگواؤ.اور فرمایا.اے میرے سر دارو 183

Page 250

پیشتر اس کے کہ وہ لوگ میرے پاس فرمانبر دار ہو کر آئیں ملکہ کا تخت کون میرے پاس لائے گا.وہ لوگ جو خاص باڈی گارڈ تھے ان کا ایک سردار بولا کہ آپ کے چڑھائی کرنے سے پہلے میں وہ تخت لے آؤں گا.چونکہ وہ سر دار لشکر تھا.اس کو پتہ تھا کہ اس لشکر کا یہاں کتنے عرصہ تک پڑاؤ ہو گا.اس لئے اس نے اندازہ کر لیا کہ اتنے دنوں میں ملکہ کو مرعوب کر کے وہ تخت لایا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ میں ایک طاقتور سردار ہوں اور اس چھوٹے سے ملک کی فوج میر امقابلہ نہیں کر سکتی.اور میں آپ کا مطیع بھی ہوں.اس مال کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے نہیں ہو گی.( تفسیر کبیر جلد ہفتم، زیز سورۃ النمل آیت 17 ، صفحہ 394) (قسط نمبر 52، الفضل انٹر نیشنل 8 اپریل 2023ء صفحہ 4) 184

Page 251

جنت سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ : 1 اللہ تعالیٰ کو طاق نمبر کیوں پسند ہے؟ 2.اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے قرآن مجید میں مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے ؟ 3.کیا یہ بات درست ہے کہ جنت میں اعلیٰ مقام والے لوگ اپنے سے کم مقام والوں کو تو مل سکیں گے، لیکن کم درجہ والے اعلیٰ درجہ والوں سے نہیں مل سکیں گے؟ 4.ایک دہر یہ کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر انسانوں کو معاف کر کے جنت میں لے جانا ہے؟ جواب:3.قرآن کریم میں اہل جنت اور اہل جہنم کا جہاں ذکر کیا گیا ہے ، وہاں ان دونوں کے درمیان ایک روک کے حائل ہونے کا ذکر بھی کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنتی اور جہنمی ایک دوسرے سے نہیں مل سکیں گے لیکن اسی جگہ پر ان کے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے کا ذکر آیا ہے.جس کا بظاہر یہ مقصد نظر آتا ہے کہ تا جنتی جہنمیوں کو دیکھ کر اپنے ربّ کے احسانات کے شکر گزار ہوں جس نے انہیں راہِ راست پر قائم رکھا اور جنت کی ان نعمتوں کا وارث بنایا.اور جہنمی جنتیوں کو ملنے والی نعماء کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر دنیا میں کئے گئے اپنے بُرے اعمال پر کف افسوس ملیں.چنانچہ سورۃ الاعراف آیت 41 تا 51 میں اِس مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے.لیکن جہاں تک مختلف درجات والے جنتیوں کے آپس میں ملنے جلنے کا معاملہ قرآن و حدیث میں جنت کے مختلف مقام اور مدارج کا تو ذکر ہوا ہے لیکن جنت کے ان مختلف مقام اور مدارج میں رہنے والوں کے آپس میں ملنے جلنے میں کسی روک ٹوک کا کوئی ذکر نہیں آیا.بلکہ اس کے بر عکس اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے معاملہ میں ان کے پیچھے چلی ہے ہم اعلیٰ جنتوں میں ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دیں گے اور ان کے باپ دادوں کے عملوں میں بھی کوئی کمی نہیں کریں گے.(سورۃ الطور :22) تو ہے اسی طرح احادیث میں بھی آیا ہے کہ جن لوگوں کے تین چھوٹے بچے فوت ہو جائیں اللہ تعالیٰ 185

Page 252

ان بچوں پر رحم کرتے ہوئے ان کے والدین کو بھی ان بچوں کے ساتھ جنت میں داخل فرمادے گا.(صحيح بخاري كتاب الجنائز باب فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ) علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنت میں مختلف مدارج پانے والے جنتیوں کی مستقل رہائش کا الگ الگ ہونا اور بات ہے اور ان مختلف مدارج والوں کا آپس میں ملنا جلنا الگ چیز ہے، جس کے بارہ میں قرآن و حدیث میں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک بیان نہیں ہوئی بلکہ قرآن کریم نے تو جنتیوں کے متعلق ایک حقیقت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ : لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاءُونَ یعنی ان کے لئے ان میں وہی کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے.پھر فرمایا: لَهُمْ مَّا يَشَاءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ (النحل:32) (الزمر:35) یعنی وہ جو کچھ چاہیں گے ان کو اپنے رب کے ہاں مل جائے گا.پھر فرمایا: وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ.(حم سجدہ:32) یعنی اس (جنت) میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے تم کو ملے گا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ بھی تم کو اس میں ملے گا.پس ان آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مختلف درجات رکھنے والے جنتی اگر اپنے کسی پیارے سے ملنا چاہیں گے تو ان کی یہ خواہش بھی جنت میں پوری ہو گی.4.ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو اس کی کسی غلطی پر سزا دی جائے تو وہ سزا دائمی نہیں ہوتی بلکہ ایک وقت پر وہ سزا بھی ختم ہو جاتی ہے.جب ہم انسانوں اور ہمارے بنائے ہوئے قوانین کا یہ حال ہے تو خدا تعالیٰ جو تمام صفاتِ حسنہ اور محامدہ طیبہ کا جامع ، سب سے بر تر اور تقدس کے اعلیٰ ترین مقام پر جلوہ گر ہے اور جس کا اپنی ذات کے متعلق وعدہ ہے کہ اِن 186

Page 253

رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي ( بخاري كتاب بدء الخلق بَاب مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَي وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ) یعنی یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے.اور جو ایک مہربان ماں سے بھی بہت بڑھ کر اپنے بندوں سے محبت اور پیار کرتا ہے.اس کے متعلق ہم کیسے یہ سوچ بھی سکتے ہیں کہ وہ انسانوں کو ان کی غلطیوں اور گناہوں کی پاداش میں ہمیشہ کے لئے جہنم کے عذاب میں مبتلا رکھے گا.دوزخ تو ایک ہسپتال ہے جہاں بیماروں کا علاج کر کے ان کے شفا پاجانے کے بعد انہیں ڈسچارج کر دیا جائے گا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہنم کے متعلق اتم یعنی ماں کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے.جیسا کہ فرمایا: فَامُّهُ هَاوِيَةٌ (القارعه: 10) یعنی اس کی ماں باو یہ ہو گی.اور ماں کے پیٹ میں انسان ہمیشہ کے لئے نہیں رہتا.بلکہ جب جنین مکمل ہو جاتا ہے تو وہاں سے دنیا میں آجاتا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”هَا دِیے کو آخر کہنے میں یہ مطلب ہے کہ جب تک تربیت یافتہ نہ ہو ماں سے تعلق رہتا ہے.بعد تربیت پالینے کے ماں سے علیحدگی ہو جاتی ہے.اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد طول مکث کے دوزخی دوزخ سے نکال دیئے جائیں گے.“ ( حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 446) اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے کہ جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی آدم زاد باقی نہیں رہے گا اور ہوا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی.(کنز العمال جلد 14 حدیث نمبر 39506) پھر حضرت ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ حضور ا م نے دوزخ سے نکالے جانے والے آخری انسان کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا جو آدمی سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا وہ گرتا پڑتا اور گھسٹتا ہوا دوزخ سے اس حال میں نکلے گا کہ دوزخ کی آگ اسے جلا رہی ہو گی.پھر جب دوزخ سے نکل جائے گا تو دوزخ کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور دوزخ سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ 187

Page 254

نعمت عطا فرمائی ہے کہ اولین و آخرین میں سے کسی کو بھی وہ نعمت عطا نہیں فرمائی.پھر اس کے لئے ایک درخت بلند کیا جائے گا.وہ آدمی کہے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب کر دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کے پھلوں سے پانی پیوں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم اگر میں تجھے یہ دے دوں تو پھر تو اس کے علاوہ بھی مجھ سے مانگے گا.وہ عرض کرے گا کہ نہیں اے میرے پروردگار.چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے علاوہ اور کچھ نہ مانگنے کا معاہدہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرمائے گا کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر اسے صبر نہ ہو گا.پس اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا.وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور اس کے پھلوں کے پانی سے پیاس بجھائے گا.پھر اس کے لئے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا جو پہلے درخت سے نہیں زیادہ خوبصورت ہو گا.وہ آدمی عرض کرے گا اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پانی پیوں، اور اس کے بعد میں اور کوئی سوال نہیں کروں گا.اللہ فرمائے گا اے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے معاہدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے اور کوئی سوال نہیں کرے گا اور اب اگر تجھے اس درخت کے قریب پہنچا دیا تو پھر تو اور سوال کرے گا.اللہ تعالیٰ پھر اس سے اس بات کا وعدہ لے گا کہ وہ اور کوئی سوال نہیں کرے گا، تاہم اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ معذور ہو گا کیونکہ وہ ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہ کر سکے گا.پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے قریب کر دے گا.وہ اس کے سایہ میں آرام کرے گا اور اس کا پانی پیئے گا.پھر اسے جنت کے دروازے پر ایک درخت دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا.پس وہ آدمی کہے گا اے میرے رب مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ میں آرام کروں اور پھر اس کا پانی پیوں اور اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا.پھر اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا اے ابن آدم ! کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے بعد اور کوئی سوال نہیں کرے گا.وہ عرض کرے گا ہاں اے میرے پروردگار اب میں اس کے بعد اس کے علاوہ اور ہ اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ نہیں کر سکے گا.پھر اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا.جب وہ اس درخت 188

Page 255

کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا تو وہ پھر عرض کرے گا اے میرے ربّ مجھے اس میں داخل کر دے.اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم ! تیرے سوال کو کون سی چیز روک سکتی ہے کیا تو اس پر راضی ہے کہ تجھے دنیا اور اس کے ساتھ دنیا کے برابر اور دے دیا جائے ؟ وہ شخص کہے گا اے میرے رب کیا تو مجھ سے مذاق کر رہا ہے جبکہ تو تو رب العالمین ہے؟ اس پر اس حدیث کے راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود ہنس پڑے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھے سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا ہوں.لوگوں نے کہا کہ آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ حضور اللی بھی اسی طرح ہنسے تھے اور صحابہ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ آپ کسی وجہ سے ہنسے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے.جب وہ آدمی کہے گا کہ تو رب العالمین ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کر رہے ہو تو اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا مگر جو چاہوں کرنے پر قادر ہوں.(صحیح مسلم کتاب الايمان باب آخرِ (قسط نمبر 40، الفضل انٹر نیشنل 23 ستمبر 2022ء صفحہ 11) أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا) 189

Page 256

جنت و دوزخ سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر جنت اور دوزخ کا ظاہری تصور درست نہیں ہے تو پھر جنت اور دوزخ کیا ہے ؟ اور جب قیامت آئے گی تو جنت اور دوزخ کیسی لگیں گی؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: جنت اور دوزخ کے بارہ میں جس طرح دوسرے مذاہب میں طرح طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں مسلمانوں نے بھی قرآن کریم اور احادیث میں بیان جنت و دوزخ کے بارہ میں بیان امور کو نہ سمجھنے اور انہیں ظاہر پر محمول کر دینے کی وجہ سے غلط قسم کے خیالات اپنے ذہنوں میں پیدا کر لئے ہیں.حالانکہ قرآن و حدیث نے انسان کو سمجھانے کے لئے جنت و دوزخ کے بارہ میں یہ تمثیلی نقشہ بیان فرمایا ہے.اور ان کے بارہ میں یہ الفاظ بطور استعارہ استعمال فرمائے ہیں اور ان کے پیچھے ایک اور حقیقت مخفی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس تمثیلی نقشہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(السجدة : 18) یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں.اسی طرح حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جنت کی نعماء ایسی ہیں: مَا لا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنْ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَي قَلْبٍ بَشَرٍ.(صحیح ملسم كتاب كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها ) کہ انہیں نہ کبھی کسی انسانی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی انسانی کان نے ان کا حال سنا اور 190

Page 257

نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کے بارہ میں کوئی تصور گزرا.دراصل جنت اور دوزخ اسی دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظل ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور اسی کے ایمان اور اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں.اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں.لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے.اسی لئے قرآن کریم جنتیوں کے بارہ میں فرماتا ہے: كَلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوْا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوْا بِهِ مُتَشَابِهَا.(البقرة : 26) کہ جب بھی وہ اُن (باغات) میں سے کوئی پھل بطور رزق دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا جا چکا ہے.حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس محض اس سے ملتا جلتا (رزق) لایا گیا تھا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنت و دوزخ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن شریف کی رُو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں.کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے.یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے.ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں در حقیقت گندھک کے پتھر ہیں.بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 413) (قسط نمبر 18، الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 11) 191

Page 258

سوال: ایک طفل نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں، اور اگر وہ جانتا ہے تو پھر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس پر جواب: دیکھو ایک اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور ایک ہمارا عمل ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فلاں شخص دوزخ میں جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ ہر شخص کو رستہ بتاتا ہے کہ تم یہ نیک کام کرو گے تو جنت میں جاؤ گے.یہ بُرے کام ہیں، یہ کرو گے تو دوزخ میں جاؤ گے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے انجام بخیر ہونے کی دعامانگنی چاہیے کہ جب ہمارا مرنے کا وقت آئے تو اس وقت ہم اللہ کی باتوں پر ایمان لانے والے ہوں تاکہ ہم جنت میں جائیں.یا ہماری ایسی کوشش ہو.قرآن شریف نے بھی ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ ہم اس وقت مریں جب اللہ تعالیٰ ہمارے سے راضی ہو.تو مقصد یہی ہے کہ ہم اُس وقت جنت میں جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں.باقی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے وہ کسی کو بخش بھی دیتی ہے.ایک شخص کے بارہ میں روایت میں آتا ہے کہ وہ بہت گناہ گار تھا، اس نے بے شمار قتل کئے ہوئے تھے ، نانوے قتل کئے ہوئے تھے.اس کو خیال آیا کہ میں بڑا برا آدمی ہوں، میں اپنی اصلاح کرلوں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے اور میں جنت میں چلا جاؤں.وہ ایک مولوی کے پاس گیا.اس نے اس سے پوچھا کہ میں نے اتنے قتل کئے ہیں، بہت گناہ گار ہوں.کیا میں جنت میں جا سکتا ہوں؟ اس نے کہہ دیا کہ نہیں تم جنت میں نہیں جاسکتے.تم دوزخ میں جاؤ گے ہی جاؤ گے.اس پہ اس نے اس کو بھی قتل کر دیا کہ جہاں ننانوے قتل کئے ہیں ایک اور قتل کرو تا کہ سوپورے ہو جائیں.سو قتل کرنے کے بعد پھر اس نے کسی اور سے پوچھا کہ بھئی کوئی ایسا رستہ ہے جہاں میں اللہ کو راضی کر سکوں؟ اس شخص نے کہا ہاں فلاں شہر میں ایک شخص بیٹھا ہے وہ تمہیں صحیح رستہ بتا سکتا ہے، اس کے پاس جاؤ.جب وہ وہاں جا رہا تھا تو وہ راستے میں مر گیا، اس کو موت آگئی.جب وہ فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو جس سے وہ قتل کر کے نکلا تھا اس سے دور کر دیا اور جس طرف وہ جارہا تھا اس کو اس کے قریب کر دیا.اللہ تعالیٰ نے ایک تمثیلی زبان استعمال کی.اور پھر فرشتوں کو 192

Page 259

کہا کہ جاؤ اور بتاؤ اس کے متعلق کیا فیصلہ ہے.دونوں فرشتے آئے ایک دوزخ میں لے جانے والا اور ایک جنت میں لے جانے والا.اب دونوں لے جانے والوں میں جھگڑا ہو گیا.جو دوزخ میں لے جانے والا فرشتہ تھا وہ کہتا تھا کہ اس نے سو قتل کئے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ سے کہہ کر اس کو دوزخ میں ڈلوا دینا ہے.جو جنت میں لے جانے والا تھا وہ کہتا تھا کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے کہ جا کر اس کا راستہ ناپو.اس نے کہا اچھا.پھر فیصلہ یہ ہوا کہ ہم فاصلہ ناپتے ہیں اگر تو یہ اس شہر کے قریب ہوا جہاں یہ اپنے گناہ بخشوانے کے لئے جا رہا تھا تو یہ جنت میں چلا جائے گا اور اگر یہ اس شہر کے قریب ہوا جہاں سے یہ قتل کر کے نکل رہا تھا تو دوزخ میں جائے گا.پھر جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے وہ فاصلہ کم کر دیا اور جب فاصلہ نا پا گیا تو اس شہر کے وہ زیادہ قریب ہو گیا جہاں وہ گناہ بخشوانے کے لئے جا رہا تھا.اور صرف ایک بالشت کا فاصلہ تھا، ایک ہاتھ کا، (اس موقعہ پر حضور انور نے اپنے ہاتھ کی بالشت بنا کر اطفال کو دکھاتے ہوئے فرمایا) صرف اتنا فاصلہ اس طرف کم تھا اور دوسری طرف زیادہ تھا.اور اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا اور جنت میں لے گیا.تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے.اور ایک دوسری روایت بھی ہے کہ ایک شخص نے کسی کو کہا کہ کیا میں بخشا جاؤں گا؟ اس نے کہا نہیں، تم بہت گناہ گار آدمی ہو، تم نہیں بخشے جاسکتے.تو اللہ تعالیٰ نے وہ جو نیک آدمی تھا، بڑی نمازیں پڑھنے والا تھا، اپنے آپ کو بڑا نیک سمجھتا تھا، اس کو کہا کہ تم کون ہوتے ہو فیصلہ کرنے والے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں جائے گا.پھر قسمت سے دونوں ایک ہی وقت میں اکٹھے مر گئے.اور پھر جب اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس نیک آدمی کو جس نے گناہ گار آدمی کو کہا تھا کہ تم دوزخ میں جاؤ گے اور میں جنت میں جانے والا ہوں، میری گارنٹی ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا تمہاری گارنٹی کہاں سے آگئی ؟ چلو تمہیں میں دوزخ میں ڈالتا ہوں اور جس کو تم کہہ رہے تھے کہ دوزخ میں جاؤ گے اور جنت میں نہیں جاؤ گے اس کو میں جنت میں ڈالتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت تو یہ ہے.اس لئے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ کا علم بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز پہ قادر بھی ہے.اللہ تعالیٰ رحمن بھی ہے، اس کی رحمانیت بھی ہے.اور اللہ تعالیٰ 193

Page 260

غفور بھی ہے، بخشنے والا بھی ہے.تو آخر میں آکر اللہ تعالیٰ اپنے فیصلہ کو بدل کے تقدیر بدل بھی سکتا ہے.جب اس میں ہر قدرت ہے تو اس کو یہ قدرت بھی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بدل دے.اس لئے اگر تم نے یہ کہہ دیا کہ جی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم نے دوزخ میں جانا ہے تو چلو گناہ کرتے رہو کوئی بات نہیں.فلاں کام کرتے رہو، حرام چیزیں کھاتے رہو اور سور کھاتے رہو اور شراب پیتے رہو اور گناہ کرتے رہو تو کچھ نہیں ہو گا.اب اتنا کچھ کر لیا ہے ، اللہ نے ہمیں کہاں بخشتا ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے نہیں، کوشش کرو، کوشش کرو میں آخر میں بھی تمہیں بخش سکتا ہوں.اس لئے کوشش یہ کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ شروع میں ہی بخش دے اور پھر انسان یہ دعامانگے کہ میرا انجام بخیر ہو اور میں آخر تک نیکیاں ہی کر تار ہوں.اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے ناں؟ اللہ تعالیٰ مالک ہے اس کو ہر چیز کا اختیار ہے.وہ آخر میں آکے تمہیں بخش بھی سکتا ہے.تم نے کہہ دینا ہے کہ میری تقدیر کا فیصلہ ہو گیا میں تو گناہ گار ہوں.اللہ تعالیٰ نے کہا اگر میں سو قتل کرنے والے کو بخش سکتا ہوں تو تمہیں بھی بخش سکتا ہوں.(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 194

Page 261

جنت یا جہنم کا فیصلہ سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا کسی کی موت کا انجام اس کے مذہبی عقائد پر منحصر ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ انبیاء کو اس لئے مبعوث کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور لوگ اس دنیا کی عارضی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق گزار کر اُخروی زندگی کے دائمی انعامات کے وارث بنیں اور شیطانی راستوں کو ترک کر کے اُخروی عذاب سے بچیں.لہذا اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیوں پر ایمان لانا ضروری ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے.لیکن کسی کے جنت یا دوزخ میں جانے کے فیصلہ کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.کیونکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے.اور وہ فرماتا ہے کہ میں شرک کے سوا تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہوں.پس کسی عام انسان کو اختیار نہیں کہ وہ دوسروں کے جنت یا دوزخ میں جانے کا فتویٰ دے.البتہ خدا کے نبی اور فرستادے چونکہ خدا سے غیب کا علم پاتے ہیں اس لئے جب کوئی نبی یا فرستادہ کسی کے بارہ میں کوئی بات کہتا ہے تو وہ بات دراصل خدا تعالیٰ کے ہی علم پر مبنی اور عین صداقت ہوتی ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ام کے پاس سے ایک جنازہ گزرا لوگوں نے مرنے والے کا ذکر خیر کیا تو آپ نے فرمایا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی.پھر ایک دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے مرنے والے کی برائیوں کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اس کے لئے جہنم واجب ہو گئی.اور پھر فرمایا کہ مومن لوگ زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں.پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے.وہ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا بھی اجر ضرور اسے دیتا ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے حضور الم کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے کفر کی حالت میں محض خدا تعالیٰ کے خوش کرنے کے لئے بہت کچھ مال مساکین کو دیا تھا.کیا اس کا ثواب بھی مجھے ملے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات ہیں جو تجھے اسلام کی طرف کھینچ لائے ہیں.195

Page 262

پس کسی کی موت پر اس کے مذہبی عقائد کی بناء پر اس کے لئے جنت یا جہنم کا فیصلہ کرنا کسی عام انسان کے اختیار میں نہیں ہے.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے یا اس کی نیابت میں اس کے نبیوں اور فرستادوں کا ہے.(قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 196

Page 263

جنگ جمل سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جنگ جمل کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ اور اس کی حقیقت دریافت کی.نیز لکھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بے رحمی سے ہاتھ اٹھایا تھا، جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ کا حمل ضائع ہو گیا.ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 نومبر 2019ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: ، جواب: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر لگایا جانے والا الزام بالکل لغو ، ناحق اور واقعات اور حقائق کے برخلاف ہے.حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضور لیم کی وفات کے بعد چند ماہ تک زندہ رہیں اور یہ عرصہ بھی زیادہ تر ان کی بیماری کی حالت میں ہی گزرا.پھر حضرت فاطمہ تو حضور ا کی حقیقی اولاد تھیں.ان کے ساتھ حضرت عمر کا ایسا سفاکانہ رویہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ حضرت عمر حضور ای ایم سے تعلق رکھنے والے غیر لوگوں سے بھی بے انتہا محبت کرتے تھے.چنانچہ ایک موقعہ پر جب حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت عبد اللہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے مجھے اُسامہ بن زید سے کم وظیفہ کیوں دیا ہے؟ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اُسامہ رسول اللہ لی تم کو تم سے زیادہ پیارا تھا اور اُس کا باپ (یعنی حضرت زید بن حارثہ ) رسول اللہ تم کو تمہارے باپ (یعنی حضرت عمر سے زیادہ پیارا تھا، اس لئے میں نے اسے تم سے زیادہ وظیفہ دیا ہے.پس وہ شخص جو حضور ﷺ کے ایک غلام کے بیٹے کو اپنے حقیقی بیٹے پر اس قدر ترجیح دیتا ہو، اس ه پر یہ الزام لگانا کہ اس نے حضور الم کی حقیقی اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا، کسی طرح بھی درست نہیں.اور یہ معاندین حضرت عمرؓ کی طرف سے حضرت عمرؓ پر سراسر جھوٹا الزام ہے.جہاں تک جنگ جمل کی حقیقت ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ دو مسلمان گروہوں حضرت علی اور حضرت عائشہ کے لشکروں کے درمیان ہوئی اور ایسی خونریز جنگ ہوئی کہ 197

Page 264

مسلمانوں میں کوئی لڑائی ایسی خونریز نہیں ہوئی اور بہت سے مسلمان اور بڑے بڑے جرنیل اور بہادر اس جنگ میں مارے گئے.لیکن اس ساری کارروائی کے پیچھے اُنہیں مفسدوں اور شریر لوگوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کرنے کے بعد مدینہ پر قبضہ کر لیا تھا.اور یہ جنگ بھی انہیں مفسدوں نے دو مسلمان گروہوں میں غلط فہمیاں پیدا کر کے اور کئی شرارتوں کو خود شروع کر کے بھڑکائی تھی.اس موضوع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ”واقعات خلافت علوی“ میں نہایت سیر حاصل بحث فرمائی ہے.اسے بھی پڑھیں.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 09 اپریل 2021ء صفحہ 11) 198

Page 265

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جنگ جمل میں شہید ہونے والوں کے مقام کے بارہ میں ، عورت کی آدھی گواہی تصور کر کے حضرت عائشہؓ سے مروی احادیث کے مقام کے بارہ میں، نیز محنت کی وراثت اور گواہی کے بارہ میں مسائل دریافت کئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: جنگ جمل کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی ساری کارروائی کے پیچھے ان مفسدوں اور شریر لوگوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کرنے کے بعد مدینہ پر قبضہ کر لیا تھا.اور یہ جنگ بھی انہیں مفسدوں نے دو مسلمان گروہوں میں غلط فہمیاں پیدا کر کے اور کئی شرارتوں کو خود شروع کر کے بھڑکائی تھی.اُس زمانہ کی تاریخ اور ہمارے اس زمانہ کے درمیان صدیوں کے پر دے، بہت سی مشتبہ باتیں اور روایتیں حائل ہیں نیز کئی قسم کے شبہات جان بوجھ کر بھی اس میں داخل کئے گئے ہیں.لیکن دائمی حقیقت وہی ہے جسے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ رسول ﷺ اور حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں کے بارہ میں رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ جیسے قابل رشک الفاظ استعمال فرمائے ہیں.اور بعد میں آنے والوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارہ میں یہ دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا (الحشر: 11) یعنی اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کوئی کینہ نہ رہنے دے.پس ان شواہد کی موجودگی میں ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس جنگ میں منافقین کے شر اور دھو کہ کا شکار ہو کر دونوں طرف سے شہید ہونے والے یقیناً معصوم لوگ تھے.جن کے بارہ میں ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم حکم بن کر ان کے بارہ میں کوئی فتویٰ جاری کریں کہ ان کا کیا مقام ہے.عورت کی گواہی کے متعلق یہ تصور درست نہیں کہ اس کی گواہی آدھی ہے.ایسے امور جن کا 199

Page 266

روز مرہ کے معاملات میں عورتوں سے تعلق نہیں ہوتا اگر ان میں مجبوراً عورت کی گواہی لینی پڑ جائے تو قرآن کریم نے ہدایت فرمائی ہے کہ گواہی دینے والی عورت کے ساتھ ایک دوسری عورت کو بھی شامل کر لیا جائے (چونکہ ان معاملات کا تعلق عورتوں سے نہیں ہے لہذا) اگر گواہی دینے والی عورت کسی وجہ سے بات بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد کروا دے.ورنہ گواہی اس اکیلی عورت ہی کی شمار ہو گی.اور جو معاملات خاص طور پر عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں ایک اکیلی عورت کی گواہی پر حضور ا نے پورے معاملہ کا فیصلہ فرمایا.چنانچہ صحیح بخاری میں یہ روایت مروی ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث نے ایک خاتون سے شادی کی.اس پر ایک عام عورت نے آکر کہا کہ اس نے اس شادی میں بندھنے والے میاں بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے.خاوند کے اس عورت سے ودھ پینے سے لاعلمی کے اظہار کے باوجود حضور اللیم نے ان میاں بیوی میں علیحد گی کروادی.جہاں تک مخنث کے حصّہ وراثت کا تعلق ہے تو جس طرف کی علامتیں اس میں غالب ہوں گی، اسی کے مطابق اسے وراثت میں سے حصہ ملے گا.اگر اس میں مرد کی علامتیں غالب ہیں تو مردوں والا حصہ اسے ملے گا اور اگر اس میں عورت کی علامات غالب ہوں تو اسے عورت تصور کر کے اس کے مطابق حصہ دیا جائے گا.اگر دونوں قسم کی علامتیں برابر ہوں تو حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے کہ دونوں حصوں میں سے چھوٹا حصہ اسے ملے گا.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 200

Page 267

جوا سوال: موبائل فونز کی مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر پیسہ جیتنے کے کھیل میں شامل ہونے نیز چھوٹے بچوں کی سالگرہ منانے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے متعلق سوالات پر مبنی محترم ناظم صاحب دارالقضاء قادیان کے خط کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: ان دونوں سوالوں کا قضاء کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں ہے.لیکن آپ کے علم کے لئے جواب دے رہا ہوں کہ کسی بھی صورت میں اس طرح پیسہ لگا کر کھیلنا جس میں ہارنے کی صورت میں اپنا پیسہ ضائع ہو جائے اور جیتنے کی صورت میں کچھ زائد ملے جوا کہلاتا ہے جسے اسلام نے کلیۂ حرام قرار دیا ہے.یہ کھیل چاہے آمنے سامنے بیٹھ کر کھیلا جائے ، یا لاٹری کی شکل میں کھیلا جائے یا مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر کھیلا جائے ، تمام صورتوں میں جوا ہی کہلاتا ہے جو منع ہے.(قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 201

Page 268

جھوٹ سوال: ایک دوست نے ان احادیث کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں رہنمائی کی درخواست کی جن احادیث میں جنگ کے دوران، عام لوگوں کے جھگڑوں اور میاں بیوی کے مابین صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 جنوری 2019ء میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم اور مستند احادیث میں جھوٹ کو أَكْبَرُ الكَبَائِرِ ( یعنی بڑے بڑے گناہوں میں سے بڑا گناہ) قرار دیا گیا ہے.اور آنحضور ﷺ نے اس سے اجتناب کی بار بار نصیحت فرمائی ہے.جہاں تک آپ کے خط میں مذکور روایت کا تعلق ہے تو ایسی ایک روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ام کلثوم بنت عقبہ سے مروی ہے اور اس روایت کے الفاظ محتاط اور قابل تاویل ہیں.چنانچہ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں لَيْسَ الكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَ يَنْمِي خَيْرًا.یعنی جو شخص لوگوں میں صلح کروانے کے لئے نیک بات کرے اور اچھی بات آگے پہنچائے وہ جھوٹا نہیں ہے.اس کی مثال ایسے ہے کہ صلح کروانے والا شخص ایک فریق کی دوسرے فریق کے بارہ میں کہی ہوئی باتوں میں سے اچھی اور نیک باتیں دوسرے فریق تک پہنچا دے اور اس فریق کے خلاف کہی جانے والی باتوں کے بارہ میں خاموشی اختیار کرے تو ایسا صلح کر وانے والا جھوٹا نہیں کہلا سکتا ہے.سنن ترمذی نے حضرت اسماء بنت یزید سے اس روایت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے لا يَحِلُّ الكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثَ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ یعنی تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں.خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات 202

Page 269

کہے.لڑائی کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے پر جھوٹ بولنا.پہلی بات یہ ہے کہ سنن ترمذی میں بیان یہ روایت قرآن کریم کے واضح حکم اور احادیث صحیحہ میں مروی دیگر روایات کے خلاف ہونے کی بناء پر قابل قبول نہیں.اور دوسری بات یہ کہ اسلام نے جھوٹ کو کسی موقعہ پر بھی جائز قرار نہیں دیا.بلکہ اس کے بر عکس یہ تعلیم دی کہ جان بھی جاتی ہو تو جانے دو لیکن سچ کو ہاتھ سے مت جانے دو.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس بارہ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام اپنی تصنیف لطیف نور القرآن نمبر 2 میں ایک عیسائی کے اسی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بُت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ...اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ اِنْ قُتِلْتَ وَ أُخْرِقْتَ...پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہو گی کیونکہ ہم لوگ اسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیث صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو.ہاں بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.اور اُسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے کیونکہ وہ اس قطعی فیصلہ سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے مگر توریہ جو در حقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہے اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا جو از حدیث میں پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں جو توریہ سے بھی پرہیز کریں...مگر باوصف اس 203

Page 270

کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نورِیہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے برخلاف ہے اور بہر حال کھلی کھلی سچائی بہتر ہے اگر چہ اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے.( نور القرآن نمبر 2، در حانی خزائن جلد 9 صفحہ 403 تا 405) پس یہ بات کسی طرح بھی ماننے کے لائق نہیں کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے.اس لئے اگر ان احادیث کی کوئی تطبیق ہو سکتی ہو جو قرآن و سنت کے مطابق ٹھہرے تو اس تطبیق کے ساتھ ہم ان احادیث کو قبول کریں گے، ورنہ قرآن کریم اور رسول اللہ م کی واضح تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم ان احادیث قابل قبول نہیں ٹھہراتے.(قسط نمبر 10، الفضل انٹر نیشنل 05 مارچ 2021ء صفحہ 11) 204

Page 271

سوال: ایک طالبہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آپ کے والدین کی کون سی نصیحت آپ کے لئے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے ؟ اس پر حضور انور نے فرمایا: جواب: یہی کہ کبھی جھوٹ نہیں بولنا.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 205

Page 272

چالیس کا عدد سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار کیا کہ کیا ں استفسار کیا کہ مذہب کی دنیا میں چالیس کے عدد کی کوئی خاص اہمیت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جسمانی پختگی اور روحانی تحمیل کے ساتھ چالیس کے عدد کو ایک خاص مناسبت ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِيْنَ سَنَةٌ یعنی جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ وَعَدْنَا مُوسَى ثَلْثِيْنَ لَيْلَةً وَ أَتْمَمْنْهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبَّةٍ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ممل یعنی ہم نے موسیٰ کے ساتھ تھیں راتوں کا وعدہ کیا اور انہیں دس ( مزید راتوں) کے ساتھ کیا.پس اُس کے رب کی مقررہ مدت چالیس راتوں میں تکمیل کو پہنچی.ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی تم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت کے مقام پر سرفراز فرمایا گیا.حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ انسان اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی صورت میں ، چالیس دن تک علقہ کی صورت میں اور چالیس دن تک مضغہ کی صورت میں رہتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیج کر اس میں روح پھونکتا ہے.اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص چالیس دن تک باجماعت نماز اس طرح پڑھے کہ تکبیر تحریمہ میں شامل ہو تو اس کے لئے آگ اور نفاق سے براءت لکھ دی جاتی ہے.206

Page 273

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہوشیار پور میں چالیس دن کا چلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو دینِ اسلام کے شرف اور آنحضرت ام کی صداقت و عظمت کے اظہار کے لئے ایک موعود بیٹے کی عظیم الشان بشارت سے نوازا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو کوئی میرے پاس چالیس دن تک رہے گا وہ ضرور کچھ اللہ تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ کر لے گا.پھر چالیس سال کی عمر پختگی کی عمر کہلاتی ہے.اسی لئے جماعت میں انصار اللہ کی تنظیم چالیس سال کی عمر والوں سے شروع کی جاتی ہے.پس ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ چالیس کا عدد دنیوی لحاظ سے پختگی کے لئے اور روحانی دنیا میں تکمیل کے لئے استعمال ہوتا ہے.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 207

Page 274

چاند گرہن کے اثرات سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر میں سے حاملہ عورتوں پر چاند گرہن کے اثرات کے بارہ میں ایک اقتباس بھجوا کر دریافت کیا کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت حاملہ عورت نہ سوئے اور نہ ہی کوئی چھری چاقو و غیرہ استعمال کرے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے حکم سے چاند ، سورج، سیاروں اور ستاروں کو انسان کی خدمت پر مقرر فرمایا ہے.اس لئے ان اجرام فلکی سے نکلنے والی شعائیں اور ذرات مختلف انداز سے زمین اور زمین پر موجود اشیاء پر کئی طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں.عام زندگی میں سورج کی طرف دیکھنے سے ہماری بینائی پر کوئی بہت زیادہ بُرا اثر نہیں پڑتا لیکن سورج گرہن کے وقت بعض صورتوں میں سورج کی طرف دیکھنا انسانی بینائی کے ضائع کرنے کا باعث ہو جاتا ہے.اسی طرح ہمارے مشاہدہ میں یہ بات بھی ہے کہ سورج کی روشنی کئی قسم کی زمینی بیماریوں کو دور کرنے کا موجب ہوتی ہے اور پھل، پھول، سبزیوں اور فصلوں پر مختلف طور پر اثر انداز ہوتی ہے.نیز چاند کی روشنی بھی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے اور کئی قسم کی سبزیوں اور پھل پھولوں پر اثر ڈالتی ہے.اگر چہ سائنس کی اب تک کی تحقیق چاند گرہن کے حاملہ عورتوں پر اثر انداز ہونے کی نفی کرتی ہے لیکن سائنسدان اس بات کے بہر حال قائل ہیں کہ چاند کی روشنی انسانی نیند پر اثر انداز ہوتی ہے، اسی طرح سورج سے نکلنے والے خاص قسم کے Neutrinosنامی لاکھوں ذرات انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اور جسم میں موجود ایٹم ان ذرات کو جذب کرنے کی وجہ سے ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں.لیکن اس تغیر کا کوئی بد اثر انسانی جسم پر یا حاملہ عورت کے جنین پر نہیں ہوتا ہے.208

Page 275

انسانی علم اور سائنسی تحقیقات اللہ تعالیٰ کے لا محدود علم کے مقابلہ پر بہت ہی معمولی حیثیت رکھتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خود سائنسی تحقیقات بھی مختلف زمانوں میں بدلتی رہی ہیں اور اب بھی ان میں رد و بدل ہو تا رہتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: گورات اور دن ان اجرام فلکی کی تاثیرات کے ظہور کا نام ہیں.لیکن ان کے علاوہ بھی سورج اور چاند اور ستاروں کے اثرات ہیں اور ان سے ایسی تاثیرات بھی دنیا پر پڑتی ہیں جو آنکھوں سے نظر آنے والی شعاعوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں.جیسے برقی یا مقناطیسی اثرات.اور ان کے سوا اور کئی قسم کی تاثیرات ہیں جو سائنس.روز بروز دریافت کر رہی ہے.اور کئی وہ شاید کبھی بھی دریافت نہ کر سکے.،، ( تفسیر کبیر جلد چہار صفحہ 138) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی مختلف تصانیف میں قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کی زمین اور اہل زمین پر تاثیرات کے مضامین کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے.چنانچہ تحفہ گولڑویہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں.جیسا کہ آیت وَ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ و حفظا سے ، یعنی حفظ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے.یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں.یہ چیزیں بجز اذن الہی کچھ نہیں کر سکتیں.ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے.لہذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلو فر اور تربد اور سقمونیا اور خیار شنبر کی تاثیرات 209

Page 276

کا تو قائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اول درجہ پر تجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظا کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں.نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے تو اب بتلاؤ کہ سماء الدنیا کو لاکھوں ستاروں سے پُر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے ؟ اور خدا کا یہ کہنا کہ یہ سب چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں.جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے.“ (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 282،283 حاشیہ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یاد رہے کہ سائنس کی موجودہ تحقیق نے سپکٹرم(Spectrum) کے ذریعہ سے جو ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ سے روشنی کی شعاعوں کو پھاڑ کر الگ الگ کر لیا جاتا ہے.یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ فلاں ستارے میں فلاں قسم کی دھاتیں ہیں اور فلاں میں فلاں قسم کی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف روشنی ہی نہیں بلکہ روشنی کے ساتھ مختلف دھاتوں کی تاثیرات بھی دنیا پر اترتی رہتی ہیں اور ان سے اہل دنیا کے دماغ اور قویٰ پر مختلف اثرات نازل ہوتے رہتے ہیں.چاند کی شعاعوں کی تاثیرات تو کئی رنگ میں دنیا پر ظاہر ہوتی رہتی ہیں.عام طور پر ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ چاند گرہن جب مکمل ہو تو حاملہ عورتوں پر اس کا برا اثر پڑتا ہے.چنانچہ ایسے وقت میں حاملہ عورتیں کمروں سے باہر نہیں 210

Page 277

نکلتیں.گو عام طور پر اسے وہم سمجھا جاتا ہے.مگر میں نے اس سوال پر خاص طور پر غور کیا ہے اور معلوم کیا ہے کہ جب چاند گرہن مکمل ہو تو اس کے بعد بہت سی عورتوں کی زچگی سخت تکلیف دہ ہوتی ہے.اور ان میں بکثرت موتیں ہوتی ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ تکلیف اٹھانے والی عور تیں وہ ہوتی ہیں جو ایسے وقت میں چاند کو دیکھتی ہیں.یا اس کے بغیر بھی ان پر یہ تاثیر عمل کرتی ہے.مگر بہر حال میں نے کئی دفعہ اس کا تجربہ کیا ہے اور دوسروں کو بھی بتایا ہے.جنہوں نے اپنے تجربہ سے اس کی تصدیق کی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 139،138) پس چاند، سورج اور دیگر سیاروں اور ستاروں کی تاثیرات کا زمین اور اہل زمین پر اثر انداز ہونا تو ثابت ہے لیکن گرہن کے وقت حاملہ عورت کے چاقو چھری وغیرہ استعمال کرنے یا اس کے اس وقت میں سونے یا نہ سونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یہ محض تو ہمات ہیں.(قسط نمبر 33، الفضل انٹر نیشنل 06 مئی 2022ء صفحہ 9) 211

Page 278

چا کا بیٹا سوال: ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضور لم نے حضرت فاطمہ سے حضرت علیؓ کے متعلق دریافت فرمایا کہ تمہارے چا کا بیٹا کہاں ہے.اسی طرح حضور ﷺ نے حضرت عباس اور حضرت ابو طالب کے لئے بھی چا کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور حضرت علی نے حضرت خدیجہ کے لئے بچی کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اس لفظ کی کچھ وضاحت فرما دیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: ہر معاشرہ کے کچھ رسم و رواج اور روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والے محاورے ہوتے ہیں، جو اسی معاشرہ کو سامنے رکھ کر سمجھے جا سکتے ہیں.چنانچہ بعض خاندانوں میں والد کا کسی شخص سے جو ر شتہ ہوتا ہے خاندانی رسم و رواج یا محاورہ کے تحت وہی رشتہ اولاد کے لئے بھی استعمال ہو جاتا ہے.حضرت علی " چونکہ حضور اہل علم کے چچا کے بیٹے تھے ، لہذا اسی معاشرتی رواج کے تحت حضور اسلام نے اپنی بیٹی سے دریافت کیا کہ تمہارے چچا کا بیٹا کہاں ہے.پھر عرب میں يَا ابْنَ عَمِّ اور يَا ابْنَ أَخِي یعنی اے میرے چچا کے بیٹے اور اے میرے بھتیجے وغیرہ الفاظ کے استعمال کا عام عام رواج تھا اور اب تک ہے.چنانچہ بڑی عمر کا شخص اپنے سے چھوٹی عمر کے شخص کو مخاطب کرنے کے لئے يا ابن أخي یعنی اے میرے بھتیجے کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اسی طرح بیوی اپنے خاوند کا نام لینے کی بجائے یا ابن عم یعنی اے میرے چچا کے بیٹے کے الفاظ استعمال کرتی ہے.جہاں تک حضرت علی کے حضرت خدیجہ کے لئے بچی کے الفاظ استعمال کرنے کا تعلق ہے تو عربی میں پھوپھی اور چی دونوں کے لئے عمتي کا لفظ استعمال ہوتا ہے.لگتا ہے آپ نے کسی جگہ عمتي کا لفظ پڑھ کر اس کا ترجمہ بچی سمجھ لیا ہے جبکہ حضرت خدیجہ اور حضرت علی کے حوالہ سے اس لفظ کا ترجمہ پھوپھی بنے گا.کیونکہ حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب کا نسب پانچویں رض 212

Page 279

جہ پر قصی بن کلاب پر آپس میں ملتا ہے اور اس لحاظ سے حضرت خدیجہ رشتہ میں حضرت علی درجہ پر کی پھوپھی لگتی تھیں.(قسط نمبر 29، الفضل انٹر نیشنل 25 فروری 2022ء صفحہ 10) 213

Page 280

چور اور زانی کی سزا سوال: ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کہ “ قرآن کریم میں چور کے ہاتھ کاٹنے اور زانی کو رحم کرنے کا واضح حکم آیا ہے “ کے حوالہ سے تحریر کیا کہ قرآن کریم میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا تو ذکر موجود ہے لیکن زانی کو رجم کرنے کا کسی آیت میں ذکر نہیں ؟ اس بارہ میں رہنمائی کی درخواست ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15 اکتوبر 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اسلامی سزاؤں کے عموماً دو پہلو ہیں ایک انتہائی سزا اور ایک نسبتا کم سزا.اور ان سزاؤں کا بنیادی مقصد بُرائی کی روک تھام اور دوسروں کے لئے عبرت کا سامان کرنا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضور الم اور خلفائے راشدین کے عہد مبارک میں ہر قسم کے چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی گئی مثلاً کھانے پینے کی اشیاء کی چوری پر کبھی ہاتھ نہیں کاٹا گیا.لیکن اگر کوئی چور کسی عورت کا زیور چھینتے ہوئے اس کے ہاتھ کان زخمی کر دیتا ہے یا اس کے کسی Organ کو ایسا نقصان پہنچا دیتا ہے کہ وہ کسی معذوری کا شکار ہو جاتی ہے تو ایسے چور کو پھر اس کے جرم کے مطابق سزا دی جاتی ہے جس میں ہاتھ کاٹنے کی بھی سزا شامل ہے.اسی طرح جو زنا باہمی رضامندی سے ہوا ہو اگر وہ اسلامی طریقہ شہادت کے ساتھ ثابت ہو جائے تو فریقین کو سو کوڑوں کی سزا کا حکم ہے.لیکن جس زنا میں زبر دستی کی جائے اور اس میں نہایت وحشیانہ مظالم کا جذبہ پایا جاتا ہو.یا کوئی زانی چھوٹے بچوں کو اپنے ظلموں کا نشانہ بناتے ہوئے اس گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوا ہو تو ایسے زانی کی سزا صرف سو کوڑے تو نہیں ہو سکتی.ایسے زانی کو پھر قرآن کریم کی سورۃ المائدہ آیت 34 اور سورۃ الاحزاب کی آیت 61 تا 63 میں بیان تعلیم کی رو سے قتل اور سنگساری جیسی انتہائی سزا بھی دی جاسکتی ہے.لیکن اس سزا کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکومت وقت کو دیا گیا ہے اور اس تعلیم کے ذریعہ عمومی طور پر حکومت وقت کے لئے ایک راستہ کھول دیا گیا.214

Page 281

چنانچہ انہیں آیات قرآنیہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی قسم کے زانی کے لئے سنگساری کی سزا کے قرآن کریم میں بیان ہونے کا ذکر فرمایا ہے.(قسط نمبر 7، الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 12) 215

Page 282

حُبُّ الْوَطْنِ سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حدیث رسول اللهم حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کے بارہ میں بعض غیر احمدی علماء بحث کرتے ہیں لہ یہ حضور الم کا قول نہیں اور اس کا حوالہ مانگتے ہیں.میں نے حوالہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے نہیں ملا.ہمیں ان غیر احمدی علماء کو اس کا کیا جواب دینا چاہیئے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 اپریل 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ارشاد فرمایا: جواب: حضرت اقدس محمد مصطفی ایم کی یہ حدیث مبارکہ مختلف کتب میں روایت ہوئی ہے.مثلاً علامہ ملا علی قاری نے اپنی تصنیف الموضوعات الكبري میں، حافظ شمس الدین ابی الخیر محمد بن عبد الرحمن السخاوی نے اپنی کتاب المقاصد الحسنة في بيان كثيرٍ من الاحاديث المُشتِهِرِةِ عَلَي الْأَلْسِنَةِ میں اور علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تاليف الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة میں اسے درج کیا ہے.حضور الم کی اس حدیث کے بارہ میں بعض علماء سلف نے فضول بحثیں کر کے اور عجیب و غریب دلائل دے کر اس کے قول رسول الی یتیم ہونے سے انکار کیا ہے اور اسے بعض سلف کا کلام قرار دیا ہے.جبکہ علماء کی یہ تمام بخشیں اور دلائل دوسری احادیث کی روشنی میں اور قرآن کریم میں بیان فرمودہ تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے قابل رڈ ٹھہرتی ہیں.لہذا علماء کی ان دلیلیوں کی بناء پر اس حدیث کے حضور الم کا قول ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا.علماء کی دلیل یہ ہے کہ وطن کی محبت اور ایمان کے درمیان کوئی تعلق نہیں.کیونکہ وطن سے محبت تو کفار اور منافقین بھی کرتے تھے ، حالانکہ ان کا ایمان سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں تھا.پھر وطن کی محبت کو ایمان کا حصہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ علماء سلف کی یہ دلیل اس لئے قابل قبول نہیں کہ احادیث کی مستند کتب میں مروی حضور لیلی لیلی 216

Page 283

کی کئی ایسی حدیثیں ہیں جن کا مضمون اس مذکورہ بالا حدیث کے مضمون کی طرح مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار اور منافقین پر بھی اطلاق پاتا ہے.جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک سے مروی یہ حدیث کہ حضور الم نے فرمایا: لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّي يُحِبُّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ (صحيح بخاري كتاب الايمان یعنی تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے.اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَي رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنْ الْإِيْمَانِ (بخاري كتاب الايمان) یعنی حضور ایم ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے بارہ میں نصیحت کر رہا تھا، تو رسول اللہ العلیم نے فرمایا اسے (حیا کے بارہ میں نصیحت کرنا) چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے.اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرنا جو انسان اپنے لئے پسند کرتا ہے یا حیا کی صفت کو اپنانا صرف مومنوں کے لئے ہے اور کفار اور منافقین ایسا نہیں کر سکتے ؟ یعنی اگر کوئی کا فریا منافق اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے یا کوئی کا فریا منافق حیا کرنے والا ہو تو کیا اس بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ ان باتوں میں کافر اور منافق بھی شامل ہو سکتے ہیں، اس لئے یہ احادیث نعوذ باللہ حضور ﷺ کے اقوال نہیں ہو سکتے.پھر قرآن و حدیث میں عہدوں کو پورا کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور اسے ایک اچھی صفت گردانا گیا ہے.اب اگر کوئی کافر یا منافق بھی اپنے عہد کو پورا کر دے تو کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ عہدوں کو پورا کرنے کی تاکید قرآنی حکم نہیں ہے یا حضور الم کا قول نہیں ہے کیونکہ کفار اور منافقین بھی اس پر عمل کر رہے ہیں.217

Page 284

پس علماء سلف کے ان دلائل کی بناء پر ہم ہر گز یہ ماننے کو تیار نہیں کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِـن الْإِيْمَانِ کے نہایت پر حکمت الفاظ پر مبنی حدیث حضور الم کا قول نہیں.یہ یقیناً حضور ام کے دہن مبارک سے ہی بیان ہونے والے الفاظ ہیں جنہیں مذکورہ بالا کتب نے بیان کیا اور ان کتب کے مکمل حوالہ جات آپ کے ازدیاد علم کے لئے میں یہاں درج کر رہا ہوں.1ـ المقاصد الحسنة في بيان كثيرٍ مِنَ الاحاديثِ المُشتِهِرِةِ عَلَي الْأَلْسِنَةِ، تاليف الامام الحافظ الناقد المورخ شمس الدين ابي الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي المتوفي 902 هجري كتاب الايمان 2- الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة ، تاليف علامه جلال الدين سيوطي، حرف الحاء.(جزء ۱ صفحه 9) 3-الموضوعات الكبير تاليف مُلا علي القاري صفحه 193 تا 197 (ناشر قرآن محل، اردو بازار، کراچی) (قسط نمبر 35، الفضل انٹر نیشنل 03 جون 2022ء صفحہ 10) 218

Page 285

حج اور عمرہ کے موقع پر صفا ومروہ کے درمیان سعی سوال: ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کے دوران جہاں ہم مرد دوڑتے ہیں، عورتیں کیوں نہیں دوڑ تیں حالانکہ حضرت ہاجرہ اس جگہ دوڑی تھیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 22 نومبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: حج اور عمرہ کے موقعہ پر صفا و مروہ کے درمیان سعی جہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی قربانی کی یاد میں کی جاتی ہے، وہاں کتب احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور الم نے عمرہ قضاء کے موقعہ پر کفار مکہ پر مسلمانوں کی قوت کے اظہار کے لئے اپنے صحابہ کو طواف بیت اللہ کے پہلے تین چکروں اور صفا و مروہ کی سعی کے دوران دوڑنے اور سینہ تان کر تیز چلنے کا ارشاد فرمایا تھا اور خود بھی یہی عمل فرمایا، کیونکہ کفار مکہ کا خیال تھا کہ مدینہ سے آنے والے مسلمانوں کو وہاں کے بخار نے بہت کمزور کر دیا ہے.(صحیح مسلم کتاب الحج) پس حضور ام کے اس ارشاد اور فعل کے تحت حج اور عمرہ کرنے والے مر دوں (جو اس کی طاقت رکھتے ہوں) کے لئے طواف بیت اللہ کے پہلے تین چکروں اور سعی بین الصفا والمروہ میں دوڑ نا سنت رسول اللہ تم ٹھہرا.لیکن جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے لئے دوڑ نا ضروری نہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے (جبکہ وہ اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے سعی میں دوڑنے کی بجائے چل رہے تھے ) کسی شخص کے اعتراض کرنے پر فرمایا کہ میں جو سعی کے دوران دوڑا ہوں تو میں نے حضور ا کو سعی کے دوران دوڑتے دیکھا ہے اور اب جبکہ میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اور سعی کے دوران چل رہا ہوں تو میں نے حضور الم کو سعی کے دوران چلتے بھی دیکھا ہے.(سنن ترمذي كتاب الحج) فقہاء کے نزدیک طواف بیت اللہ اور سعی کے دوران دوڑنا مر دوں کے لئے سنت ہے، عورتوں کے لئے نہیں.کیونکہ عورتوں کے لئے ستر یعنی پردہ ضروری ہے جس کا حکم عورتوں کے دوڑنے سے قائم نہیں رہ سکتا.219

Page 286

جہاں تک حضرت ہاجرہ کے پانی کی تلاش میں دوڑنے کی بات ہے تو وہ ایک اضطراری کیفیت تھی جس میں حضرت اسماعیل شدت پیاس کی وجہ سے جان گئنی کی حالت کو پہنچے ہوئے تھے.نیز روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ بعض جگہ وہ تیز تیز چلتی تھیں، بعض جگہ دوڑتی تھیں جس طرح کوئی بے چینی سے بعض دفعہ کسی خاص جگہ جلدی پہنچنے کے لئے تیز تیز قدم بھی اٹھاتا ہے اور دوڑ بھی پڑتا ہے.جبکہ حج اور عمرہ کے موقعہ پر عورتوں کے لئے ایسی کوئی اضطراری کیفیت نہیں ہوتی نیز حج اور عمرہ کے موقعہ پر عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہیں، اس لئے عورتوں کا اس موقعہ پر مناسب رفتار سے تیز چلنا ہی کافی سمجھا گیا ہے، تا کہ اس طرح وہ حضرت ہاجرہ کی سنت کی پیروی بھی کر لیں اور ان کے پردہ کا حکم بھی قائم رہے.(قسط نمبر 28، الفضل انٹر نیشنل 04 فروری 2022ء صفحہ 11) 220

Page 287

حج کے موقع پر عورتوں اور مردوں کا اکٹھے نماز پڑھنا سوال: امریکہ سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ انسان کو کس حد تک اسلام، قرآن کریم اور جماعت کے بارہ میں سوال اٹھانے کی اجازت ہے.مزید یہ کہ میں نے اپنے مربی صاحب سے اسلام سے قبل سود کی حرمت کے بارہ میں، نیز حج کے موقعہ پر عورتوں اور مردوں کے اکٹھے نماز پڑھنے کے بارہ میں سوال کیا لیکن مربی صاحب نے ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دیا.اسی طرح اس دوست نے لجنہ کی حضور انور کے ساتھ ایک ملاقات میں ایک سوال پر حضور انور کے جواب کہ ”مذہب کے معاملہ میں کیوں اور کس لئے کا سوال نہیں ہے.کا بھی ذکر کر کے اس بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 نومبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل تفصیلی ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: خانہ کعبہ میں عورتوں اور مردوں کی نماز کے لئے الگ الگ جگہ مقرر ہوتی ہے.اوائل اسلام میں حضور ﷺ کے عہد مبارک میں بھی عورتیں مردوں سے الگ اس طرح نماز پڑھتی تھیں کہ ان کی صفیں مسجد میں سب سے آخر پر ہوتی تھیں ، ان کے آگے بچوں کی صف ہوتی اور پھر بچوں کے آگے مردوں کی صفیں ہوتی تھیں.اسی طرح خانہ کعبہ کے طواف کے وقت بھی اگر چہ مرد وخواتین طواف اکٹھا ہی کرتے تھے.لیکن عورتیں مردوں سے الگ رہتی تھیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب ابن ہشام (گورنر مکہ) نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کیا تو عطاء بن ابی رباح نے اس سے کہا کہ تم انہیں کیسے روک سکتے ہو جب کہ نبی کریم اللہ وسلم کی ازواج نے مردوں کے ساتھ طواف کیا.(ابن جریج کہتے ہیں) میں نے (عطاء سے) پوچھا، یہ بات پر دہ کی آیت نازل ہونے کے بعد کی ہے یا پہلے کی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہاں مجھے اپنے عقیدہ کی قسم ، میں نے پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد ان کو اس طرح طواف کرتے دیکھا ہے.(ابن جریج کہتے ہیں) میں نے کہا عورتیں مردوں سے کیسے مل جل جاتی تھیں ؟ انہوں نے کہا عور تیں ملتی جلتی نہ تھیں.221

Page 288

حضرت عائشہ لوگوں سے ایک طرف جدا طواف کرتیں، ان سے ملا جلا نہیں کرتی تھیں.ایک عورت نے ان سے کہا، اُم المومنین چلیں حجر اسود کو بوسہ دیں.انہوں نے کہا تم جاؤ اور انکار کر دیا.عور تیں رات کو اس طرح باہر نکلتیں کہ پہچانی نہ جاتیں اور مردوں کے ساتھ طواف کرتیں.البتہ جب بیت اللہ میں داخل ہونے لگتیں تو باہر ٹھہر جاتیں اور مردوں کو باہر کر دیا جاتا تو وہ اندر جاتیں.(صحيح بخاري كتاب الحج بَاب طَوافِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ) علاوہ ازیں ابتدا میں شریعت نے حج اور عمرہ وغیرہ میں عورت کے ساتھ اس کے محرم کے ہونے کی جو شرط رکھی تھی، اس میں ایک حکمت یہ بھی نظر آتی ہے کہ حج اور عمرہ کے موقعہ پر جبکہ لوگوں کا بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے تو اس ہجوم میں عورت کا محرم اس کا ہاتھ وغیرہ پکڑ کر اسے دوسرے لوگوں سے اپنی پناہ میں رکھ سکتا ہے.(قسط نمبر 48، الفضل انٹر نیشنل 3 فروری 2023ء صفحہ 12) 222

Page 289

حدیث سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام اپنے خط میں حضرت ثوبان سے مروی ایک حدیث کہ رسول اللہ الم نے فرمایا تمہارے ایک خزانہ کی خاطر تین شخص قتال کریں گے (اور مارے جائیں گے ) تینوں خلیفوں (حکمران) کے بیٹے ہوں گے لیکن وہ خزانہ ان میں.یں سے کسی کو بھی نہ ملے گا.پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمو دار ہوں گے وہ تمہیں ایسا قتل کریں گے کہ اس سے قبل کسی نے ایسا قتل نہ کیا ہو گا.اس کے بعد آپ نے کچھ اور باتیں بھی ذکر فرمائیں جو مجھے یاد نہیں، پھر فرمایا جب تم ان (مہدی) کو دیکھو تو ان کی بیعت کرو اگر چہ تمہیں برف پر گھٹنوں کے بل گھسٹ کر جانا پڑے.کیونکہ وہ خلیفتہ اللہ المہدی ہیں.“درج کر کے اس کے ایک حصہ کی تشریح کر کے اس بارہ میں حضور کی رائے دریافت کی.نیز حدیث کے ایک حصہ کے بارہ میں مزید وضاحت چاہی ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مئی 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آپ نے اس حدیث کا حوالہ الْبَحْرُ الزخار سے درج کیا ہے جبکہ یہ حدیث صحاح ستہ میں سے سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی میں بھی روایت ہوئی ہے.حدیث میں بیان کنز اور خلیفوں کے بیٹوں کے بارہ میں آپ کی بیان کردہ تشریح ایک ذوقی تشریح ہے.میرے خیال میں اس حدیث میں آنحضور لم نے امت مسلمہ میں آئندہ زمانہ میں نمودار ہونے والے مختلف واقعات کی خبر دی ہے.جن میں بعض واقعات دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض روحانی امور سے متعلق ہیں.خزانہ سے مراد اگرچہ بہت سے علماء نے خانہ کعبہ کا خزانہ مراد لیا ہے، مگر وہ خزانہ تو بہت سے حکمرانوں کے ہاتھ لگا بھی ہے.اس لئے حدیث میں مذکور خزانہ سے مراد خانہ کعبہ کا خزانہ مراد نہیں ہو سکتا.کیونکہ حدیث میں حضور ام فرمار ہے ہیں کہ وہ خزانہ ان میں سے کسی کو نہیں ملے گا.لہذا اس سے مراد وہ روحانی خزانہ ہے جس کی آنحضور لم نے اپنے بعد خلافت علي منهاج 223

Page 290

النبوۃ کے اجراء کی صورت میں بشارت عطا فرمائی تھی.اور چونکہ اس خزانہ کو پانے کے لئے قرآن کریم نے سب سے اول شرط ایمان اور عمل صالح قرار دی ہے، جو ان دنیاوی حکمرانوں میں مفقود ہو چکی تھی، اس لئے انہوں نے اس کے حصول کے لئے قتال یعنی جنگیں تو بہت کیں لیکن کسی کے ہاتھ وہ روحانی خزانہ نہ آیا.اسی لئے اس حدیث میں آنحضور لم نے خزانہ کے لئے قتال کرنے والوں کے لئے صرف ”ابن خلیفہ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.یعنی وہ خلیفہ بمعنی جانشین ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ خلیفہ یا نبوت کی بناء پر ملنے والی خلافت کے تابع خلیفہ نہیں ہوں گے.جبکہ اسی حدیث میں حضور الم نے اس شخص کے لئے جسے یہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا روحانی خزانہ ملنا تھا ” خلیفۃ اللہ المہدی“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.اس حدیث میں مسلمانوں کے قتل و غارت کا جو ذکر ہے، آپ نے اس کے بارہ میں اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مہدی کے ذریعہ ہو گا.جو میرے نزدیک درست نہیں ہے.اگر اس سے مراد ظاہری قتل و غارت اور خونریزی لی جائے تو یہ مہدی کے ذریعہ ہر گز نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے مراد حضور ایم کی ایک دوسری حدیث (مندرج مشكوة المصابيح) میں ”مُلْكًا عَاضَّا“ اور ”مُلكًا جَنرِيَّةٌ “ کے الفاظ میں بیان پیشگوئی کے مطابق ، ان ہر دو ادوار میں مسلمانوں کی آپس کی جنگوں میں ہونے والی خونریزی اور کشت وخون ہے.نیز تیرھویں صدی میں منگولوں کے ہاتھوں ہونے والی مسلمانوں کی قتل و غارت مراد ہے.خلیفۃ اللہ المہدی کے ذریعہ اس قتل و غارت کے وقوع پذیر نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضور ام نے آنے والے مہدی کی ایک نشانی" يَضَعُ الحزب “ یعنی وہ جنگ و جدال اور کشت و خون کا خاتمہ کر دے گا ( صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ) بیان فرمائی ہے.پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو حضور ام آنے والے مہدی کو امن و آشتی کا علمبر دار قرار دے رہے ہوں اور دوسری طرف اسی کے ذریعہ امت محمدیہ کے افراد کی ایسی خونریزی کی اطلاع دے رہے ہوں جیسی خونریزی پہلے زمانوں میں کبھی کسی نہ کی ہو ؟ 224

Page 291

پھر اس حدیث میں راوی کا یہ بیان کہ ”اس کے بعد حضور الم نے کچھ اور باتیں بھی فرمائیں جو مجھے یاد نہیں.خاص توجہ کا حامل ہے.اور بہت ممکن ہے کہ وہ امور دجال کے ظہور کے بارہ میں ہوں کیونکہ متعدد ایسی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں حضور اللم نے دجال کے فتنہ کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا اور اس کے مقابلہ کے لئے اپنی امت کو مسیح موعود کی آمد کی خوشخبری عطاء فرمائی.راوی کے مطابق ان باتوں کے بعد حضور الم نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا ذکر فرمایا اور ان کی بیعت کو لازمی قرار دیتے ہوئے تاکیداً فرمایا کہ اگر تمہیں برف کی سلوں سے گھٹنوں کے بل گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو ضرور اس کی بیعت کرنا، کیونکہ وہ خلیفۃ اللہ المہدی ہے.پس حضور ا نے اس حدیث میں تین الگ الگ زمانوں کا ذکر فرمایا ہے.ایک وہ زمانہ جب حضور ﷺ اور خلافت راشدہ کا مبارک دور حسب منشاء الہی اختتام پذیر ہو جائے گا.اور اس کے بعد مسلمان آپس میں جنگ و جدال کریں گے اور اپنے ہی لوگوں کو تہہ تیغ کر کے ان کا خون بہائیں گے، اس وقت وہ روحانی خزانہ سے محروم ہو جائیں گے.دوسرا وہ زمانہ جب مسلمانوں کے دنیاوی لحاظ سے بھی کمزور ہو جانے کی وجہ سے ان کے غیر مسلم مخالفین انہیں خونریزی کا نانہ بنائیں گے.اور پھر تیسر اوہ زمانہ جب آنحضور الم کی بشارتوں کے مطابق امام مہدی اور مسیح محمدی کی بعثت ہو گی اور امت محمدیہ کا وہ حصہ جو حضور الم کے اس غلام صادق اور اور روحانی فرزند کی بیعت کر کے اس کی آغوش میں آجائے گا، اس کے لئے ایک مرتبہ پھر اسی تر و تازگی کا زمانہ آئے گا جس کا مشاہدہ اُمت محمدیہ نے اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفی ایم کے عہد مبارک میں کیا تھا اور اِس وقت پھر ” صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا“ کی نوید ان خوش نصیبوں کے لئے پوری ہو گی.حدیث میں مندرج قتل و غارت کو اگر استعارہ کیا جائے تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس طرح صحیح بخاری میں يَضَعُ الحزب" والی حدیث میں مذکوره فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ کا حقیقی مطلب صلیب توڑنا اور سؤر مارنا نہیں.بلکہ اس سے مراد عیسائیت کی طرف سے اسلام پر 225

Page 292

ہونے والے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دینا مراد ہے، اسی طرح امام مہدی کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل سے مراد اُن میں راہ پا جانے والے غلط عقائد کا قلع قمع کرنا اور دین کی تجدید کر کے اسے آنحضور الم کی تعلیمات کے عین مطابق دنیا میں رائج کرنا ہو گا.پس میرے خیال میں اگر اس حدیث کو اس طرح لیا جائے تو زیادہ بہتر تشریح بنتی ہے اور قتل کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے.(قسط نمبر 24، الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 226

Page 293

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ میں نے سنا ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ پہلا سپاہی جس نے قسطنطنیہ میں قدم رکھا جنت میں جائے گا، کیا یہ درست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 دسمبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے آنحضور الم کو امن و آشتی اور پیار محبت کی تعلیم کے ساتھ دنیا میں مبعوث فرمایا.لیکن جب مخالفین اسلام اپنی مخالفت میں حد سے گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی جو ابا جہاد کی اجازت دی.(سورۃ الحج: 40) جس کے تحت مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی بدولت جہاں مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا وہاں مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایسے علاقوں اور ممالک پر بھی چڑھائی کی جن میں مسلمانوں کی پر امن جماعت کو ملیا میٹ کرنے کے لئے سازشیں تیار کی جاتیں اور دوسرے قبائل اور علاقوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جاتا تھا.اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آنحضور ﷺ نے ظلم و بربریت کے خلاف لڑی جانے والے ان جنگوں میں مسلمانوں کی فتح و ظفر کے ساتھ کامیابیوں کی کئی پیشگوئیاں فرمائی ہیں.ان میں سے ایک پیشگوئی بھی تھی کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ( اس زمانہ کی دو بڑی طاقتوں قیصر اور کسریٰ میں سے) قیصر ( کی عیسائی حکومت) کے شہر کے خلاف میری اُمت کے جو لوگ جنگ کے لئے نکلیں گے وہ جنتی ہوں گے.(بخاري كتاب الجهاد و السير) اسی طرح ایک اور جگہ حضور الم نے فرمایا کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والا لشکر اور اس کا امیر کیا ہی اچھا لشکر اور کیا ہی اچھا امیر ہو گا.(مسند احمد بن حنبل ، حدیث نمبر 18189) ان دونوں احادیث میں مذکورہ پیشگوئی بھی آنحضور الم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی دیگر الہی پیش خبریوں کی طرح اپنے وقت پر پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی.(قسط نمبر 29، الفضل انٹر نیشنل 25 فروری 2022ء صفحہ 10) 227

Page 294

سوال: ایک خاتون نے حدیث نبوی ال " لا عدوي وَ لا طِيَرَةً، إِنَّمَا القُوْمُ فِي ثلاثٍ فِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ “ کے پہلے حصہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تشریح کا ذکر کر کے اس حدیث کے دوسرے حصہ یعنی گھوڑے، عورت اور گھر میں نحوست کے ہونے کے بارہ میں کئے جانے والے اعتراض کے ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس حدیث کی وضاحت چاہی ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29 مئی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل رہنمائی عطا فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: شارحین حدیث نے اس حدیث کی مختلف تشریحات بیان کی ہیں.چنانچہ ابن عربی کہتے ہیں کہ حدیث میں ان چیزوں کا محوست کے ساتھ جو حصر کیا گیا ہے وہ ان کی تخلیق کے لحاظ سے نہیں بلکہ ان کی صفت کے لحاظ سے ہے.پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہو سکتی ہے تو وہ ان تین چیزوں میں ہو سکتی ہے.اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس عورت کے ہاں اولاد نہ ہو اور جو گھوڑا جنگ میں استعمال نہ ہو اور جس مکان کا ہمسایہ بُرا ہو تو یہ ان چیزوں کی نحوست ہے.ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ نحوست کا اعتقاد رکھتے تھے ، چنانچہ حضور ا ہم نے انہیں اس سے منع فرمایا اور انہیں بتایا کہ نحوست کوئی چیز نہیں.اس کے باوجود ان تین چیزوں کی نحوست کے وہ قائل رہے.(فتح الباري شرح صحيح بخاري كتاب الجهاد و السير باب مَا يُذْكَرُ مِنْ شُؤْمِ الْفَرَسِ) اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں حضور تم نے اپنا موقف بیان نہیں فرمایا بلکہ اس زمانہ کے لوگوں کا اعتقاد بیان فرمایا ہے.چنانچہ اس نظریہ کی تائید حضرت عائشہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں حضرت عائشہ سے ذکر کیا گیا کہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ حضور ا نے فرمایا کہ گھوڑے، عورت اور گھر میں نحوست ہوتی ہے.اس پر ایک روایت 228

Page 295

کے مطابق حضرت عائشہ شدید ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ حضور الم نے ہر گز ایسا نہیں فرمایا بلکہ حضور اللم نے فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ ان تین چیزوں کو نحوست کا باعث خیال کرتے تھے.(مسند احمد بن حنبل کتاب باقي مسند الانصار باب باقي المسند السابق، حدیث نمبر 24841) اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ نے حضرت ابو ہریرہ کی اس بات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہ نے حضور ﷺ کی بات کا صرف آخری حصہ سنا، پہلا حصہ نہیں سنا.اصل میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے جو کہتے ہیں کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ہے.(مسند ابي داؤد الطيالسي كتاب احاديث النساء باب علقمة بن قيس عن عائشة) ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ اصل میں اس حدیث میں زمانہ جاہلیت کے نحوست کے بارہ میں غلط عقیدہ کا بطلان کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ اگر کسی کا گھر ایسا ہو جس میں وہ رہنانا پسند کرے، یا کسی کی بیوی ایسی ہو جس کی صحبت اسے ناپسند ہو یا کسی کا گھوڑا ایسا ہو جس کی سواری اسے پسند نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ان چیزوں سے الگ ہو جائے.اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ مارنے والا گھوڑا، اپنے خاوند سے بے وفائی کرنے والی بیوی اور مسجد سے دور ایسا گھر جہاں اذان کی آواز نہ پہنچے نحوست کا باعث ہیں.(فتح الباري شرح صحيح بخاري كتاب الجهاد والسير باب مَا يُذْكَرُ مِنْ شُوْمِ الْفَرَسِ) بہر حال یہ مختلف تشریحات ہیں جو شارحین نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کی ہیں.لیکن اگر اس حدیث پر غور کیا جائے اور قرآن و حدیث میں بیان تعلیمات کو سامنے رکھا جائے تو اس حدیث کے مطلق یہ معانی کہ عورت، گھوڑا اور گھر نحوست کا باعث ہیں درست نہیں ٹھہرتے.کیونکہ آنحضور شیم نے ان تینوں چیزوں کو پسند فرمایا اور ان کی تعریف فرمائی.گھر اور گھوڑا حضور لیلی لیلی کے زیر استعمال رہے جبکہ عورتوں سے حضور اللہ تم کا بطور والدہ، بیوی اور بیٹی بہت گہرا تعلق رہا.چنانچہ آنحضور ا نے عورت کے متعلق بطور ماں کے فرمایا کہ جنت اس کے قدموں تلے ہے.(سنن نسائي كتاب الجهاد باب الرُّخْصَةُ فِي التَّخَلُّفِ لِمَنْ لَهُ وَالِدَةٌ) نیک بیوی کو 229

Page 296

دنیا کی سب سے بہترین متاع قرار دیا.(صحیح مسلم کتاب الرضاع بـاب خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَـا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ) بیٹی کی اچھی تربیت کو جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ قرار دیا.(صحیح مسلم كِتَاب الْبِرِّ وَالصَّلَةِ وَالآدَابِ بَاب فَضْلِ الْاِحْسَانِ إِلَي الْبَنَاتِ) بیوی سے حسن سلوک کرنے والے خاوند کو بہترین انسان قرار دیا.(سنن ترمذي كتـاب الـرضـاع بـاب مَا جَاءَ فِي حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَي زَوْجِهَا) اور دنیا کی چیزوں میں سے خواتین اور خوشبو کو اپنی محبوب متاع قرار دیا.(سنن نسائي كتاب عشرة النساء باب حُبِّ النِّسَاءِ) اسی طرح قرآن کریم نے گھوڑوں کو انسان کے لئے زینت کا باعث قرار دیا.(سورۃ النحل:9) حضرت سلیمان کے گھوڑوں سے غیر معمولی محبت کے اظہار کو یاد الہی کا موجب قرار دیا.(سورة ص:23 تا34) نیز آنحضور الم نے گھوڑوں کی غیر معمولی اہمیت کے حوالہ سے فرمایا کہ قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر و برکت رکھ دی گئی ہے.(صحيح بخاري کتاب الجهاد والسير بَاب الْخَيْلُ مَعْقُودُ فِي نَوَاصِيْهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ) گھروں کی بابت آنحضور الللم نے انصار کے گھروں میں سے بنو نجار، بنو عبد الا ستھل، بنو حارث اور بنو ساعدہ کے گھروں کو بہترین گھر قرار دیا.(صحيح بخاري كتاب المناقب باب فَضْلِ دُورِ الْأَنصارِ) پھر حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ نیا گھر لینے ، نئی سواری خرید نے اور نئی بیوی کے آنے پر صدقہ بھی دو.تو یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے بد اثرات سے محفوظ رکھے اور ان ذرائع سے برکات حاصل ہوں.پس قرآن کریم اور آنحضور ا کا ان چیزوں کو اس طرح قابل تعریف قرار دینا ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کے وہ معانی بہر حال نہیں ہو سکتے جن کی وجہ سے یہ حدیث قابل اعتراض ٹھہرتی ہو.علاوہ ان تمام امور کے اس حدیث کو سمجھنے کے لئے بنیادی بات وہی ہے جو اس زمانہ کے حکم و عدل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حدیث کے پہلے حصہ کی تاویل کرتے ہوئے اپنی تصنیف نور الحق میں بیان فرمائی ہے (اور آپ نے بھی اپنے خط میں اس کا ذکر کیا ہے کہ : تمام تاثیریں عدوی وغیرہ کی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور بجز اس کے 230

Page 297

حکم اور ارادہ اور مشیت کے اس عالم کون اور فساد میں کوئی مؤثر نہیں.“ (نورالحق، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 15) یعنی دنیا کی ہر چیز کی اچھی اور بُری تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی ہیں اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت کے بغیر اپنے اچھے یا برے اثرات دوسرے پر نہیں ڈال سکتی.پس حضور علیہ السلام کی بیان فرمودہ اس تشریح کے مطابق مذکورہ بالا حدیث کے اگلے حصہ کا بھی یہی مطلب بنے گا کہ عورت ہو یا انسان کی سواری ہو یا اس کا گھر ہو، ان تمام چیزوں کے اچھے یا بُرے اثرات خدا تعالیٰ کے اذن سے ہی دوسرے شخص پر پڑ سکتے ہیں.اور بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان اپنی بیوی سے یا اپنی سواری سے یا اپنے گھر سے خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہی فائدہ یا نقصان اٹھاتا ہے.البتہ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہیے کہ کسی چیز کے اچھے یا برے اثرات پیدا ہونے میں انسان کا کچھ بھی دخل نہیں اور جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے.کیونکہ قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں خوب کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ انسان کے جیسے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ان کے نتائج بھی مرتب فرماتا ہے.چنانچہ سورۃ التغابن میں مومنوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہارے ازواج میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو.(سورة التغابن: (16،15) اور سورۃ النور میں فرمایا کہ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد نا پاک عورتوں کے لئے ہیں.اور پاکیزہ عور تیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں.(سورۃ النور :27) پھر ایک حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ صالحہ بیوی، اچھا گھر اور اچھی سواری انسان کے لئے سعادت کا موجب ہے اور بد عورت، بر اگھر اور بُری سواری انسان کے لئے بد بختی کا باعث ہیں.(مسند احمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشِّرِينَ بِالْجَنَّةِ مُسْنَدُ أَبِي إِسْحَاقَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، حدیث نمبر 1368) 231

Page 298

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: ”جب انسان سے کوئی فعل صادر ہو تا ہے تو اسی کے مطابق خدا بھی اپنی طرف سے ایک فعل صادر کرتا ہے مثلاً انسان جس وقت اپنی کو ٹھڑی کے تمام دروازوں کو بند کر دے تو انسان کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ وہ اس کو ٹھڑی میں اندھیرا پیدا کر دے گا.کیونکہ جو امور خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں ہمارے کاموں کے لئے بطور ایک نتیجہ لازمی کے مقدر ہو چکے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے فعل ہیں.وجہ یہ کہ وہی علت العلل ہے.ایسا ہی اگر مثلاً کوئی شخص زہر قاتل کھالے تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل صادر ہو گا کہ اسے ہلاک کر دے گا.ایسا ہی اگر کوئی ایسا بیجا فعل کرے جو کسی متعدی بیماری کا موجب ہو تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ وہ متعدی بیماری اس کو پکڑلے گی.پس جس طرح ہماری دنیوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے.ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتا ہے.الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:70) فَلَمَّا زَاغُوْا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (الصف:6) یعنی جو لوگ اس فعل کو بجالائے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل کے لئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہو گا کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھاویں گے اور جن لوگوں نے کبھی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنا نہ چاہا تو ہمارا فعل اس کی نسبت یہ ہو گا کہ ہم ان کے دلوں کو حج کر دیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 389،388) (قسط نمبر 37، الفضل انٹر نیشنل 08 جولائی 2022ء صفحہ 10) 232

Page 299

حدیث قلين سوال: ایک دوست نے حضور انور کی خدمت اقدس میں حدیث ثقلین کی ثقاہت کے بارہ میں کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست کی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29 جون 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل بصیرت افروز جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اس بارہ میں دو قسم کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں.ایک میں كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةٌ نبيه کے الفاظ آئے ہیں اور دوسری میں كِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ آئے ہیں.كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّـهِ والی روایات ثقہ اور مستند ہیں.قرآن کریم دراصل خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور حضور ا کی سنت اس کلام کی عملی تفسیر ہے، جو دونوں لازم و ملزوم اور ہر قسم کے ظن سے پاک ہیں.اور یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کو مضبوطی سے تھامنے (یعنی ان کے احکامات پر عمل کرنے) والے کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے.حضرت انس بن مالک نے اپنی موطا میں اسے درج کیا ہے.جبکہ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي والی روایات کو اگر چہ صحاح ستہ میں سے بعض کتب نے روایت کیا ہے لیکن امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں درج نہیں کیا.علمائے حدیث نے ان روایات پر روایتیاً اور درایتاً بہت کلام کیا ہے.نیز اسماء الرجال کی کتب میں ان روایات کے راویوں پر بہت زیادہ جرح کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کی اسناد میں ضرور کوئی نہ کوئی ایسا راوی ہے جس کی ہمدردیاں اہل تشیع کے ساتھ تھیں.ان روایات کے ایک راوی حضرت زید بن ارقم کا اپنا بیان قابل غور ہے کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بہت کچھ جو میں نے حضور ای علم سے سنا تھا بھول چکا ہوں.ان روایات کے ایک راوی حضرت جابر بن عبد اللہ ہیں.ان سے مروی ایک مختصر روایت جو صحیح مسلم اور سنن ترمذی نے درج کی ہے اس میں کتاب اللهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ بيان ہوئے ہیں لیکن حضرت جابر بن عبد اللہ سے یہی روایت جب تفصیل کے ساتھ بیع مسلم ، سنن ابن ماجہ نے درج کی تو ان میں کہیں دَعِتْرَتِي أَهْلَ بَنيتي کے الفاظ درج نہیں کئے بلکہ صرف 233

Page 300

كِتَاب اللہ کے الفاظ روایت کئے ہیں.پس موطا امام مالک، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ کی صرف وہ روایات قابل اعتماد اور روایا اور درایتاً قابل قبول ہیں جن میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا ذکر ہے یا کتاب اللہ اور حضور الم کی سنت پر چلنے کا ذکر کیا گیا ہے.اور باقی سب ایسی روایات جن میں كتاب اللہ کے ساتھ أَهْلَ بَيْتِي يا وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ آئے ہیں، وہ جیسا کہ علمائے حدیث اور ماہرین اسماء الرجال نے بیان کیا ہے، قابل قبول نہیں ہیں.(قسط نمبر 6 ، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 234

Page 301

حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سوال: اسی ملاقات مؤرخہ 31 اکتوبر 2020ء میں ایک طالبعلم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور جب طالبعلم تھے اور آپ کے سامنے کوئی مشکل آجاتی تھی تو اس وقت آپ کونسی دعائیں کیا کرتے تھے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا: جواب: کوئی خاص دعا نہیں ہوتی تھی، بس میں تو سجدہ میں پڑ جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے کہتا تھا کہ مسئلہ حل کر دے.بس نماز اور سجدہ.نماز میں سجدہ میں اپنی زبان میں دعائیں کریں جو بھی دعائیں کرنی ہیں.انسان اپنی زبان میں جو دعا کرتا ہے اس میں زیادہ رفت پیدا ہوتی ہے.اس لئے باقی دعائیں تو ٹھیک ہے کرنی چاہئیں، درود شریف بھی پڑھنا چاہیے، استغفار بھی پڑھنا چاہیے ، لاحول بھی پڑھنا چاہیے، استغفار ر کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے معافی بھی مانگنی چاہیے.لیکن سب سے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ نماز میں سجدہ میں دعائیں کرو.نفل پڑھو اور نفلوں میں، سنتوں میں، فرض میں اللہ تعالیٰ کے آگے رو کر سجدہ میں اپنی زبان میں دعا کرو.اپنی زبان میں جو دعا ہوتی ہے اس میں زیادہ رقت پیدا ہوتی ہے اور اس سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں.(قسط نمبر 5، الفضل انٹر نیشنل 01 جنوری 2021ء صفحہ 18) 235

Page 302

سوال: ایک اور مرتبی صاحب نے اس ملاقات میں حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا حضور کو اسیر راہِ مولیٰ ہونے کا موقعہ ملا ہے، اس اسیری کے متعلق اگر حضور کچھ فرمائیں تو نوازش ہو گی ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا: جواب: کیا فرماؤں ؟ مجھے تو اسیر راہِ مولیٰ کے طور پر پتہ ہی نہیں لگا کہ میری اسیری کے دن کس طرح گزر گئے ؟ اللہ کے فضلوں کو ہی دیکھتا رہا.گرمی کے دن تھے، اللہ تعالی گرمی کو ٹھنڈ میں بدل دیتا تھا.بڑے آرام سے جیل میں بیٹھے رہتے تھے.اور سلاخوں کے پیچھے رہتے تھے، کوئی فکر و فاقہ نہیں تھا.دل میں یہ خیال تھا کہ جو دفعہ مجھ پر لگی ہوئی ہے اس کی سزا یا عمر قید ہے یا پھانسی ہے، ان دونوں میں سے کچھ تو مجھے ملنا ہے.اس لئے میں نے کہا کہ اللہ تعالی سے ہی مانگو اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرو.باقی جماعت کی خاطر اگر سزاملنی ہے تو یہ تو بڑی برکت کی بات ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.اللہ تعالیٰ نے دسویں، گیارھویں، بارھویں دن مجھے جیل سے باہر نکال دیا.تو اس سے زیادہ میں کیا کہوں.میں نے کوئی بڑا تیر مارا؟ میں نے تو وہاں کچھ بھی نہیں کیا.(قسط نمبر 7، الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 12) 236

Page 303

سوال: اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آپ بے حد مصروف رہتے ہیں.کیا آپ کی ہفتہ وار چھٹی کا کوئی انتظام ہے اور آپ اپنے دوستوں اور اہل و عیال کے لئے کس طرح وقت نکالتے ہیں؟ اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: بس اسی طرح گزار لیتے ہیں.اس وقت بھی میں آپ کے ساتھ میٹنگ کر کے ہفتہ وار چھٹی منا رہا ہوں.یہ میری ہفتہ وار چھٹی ہے.(قسط نمبر 18، الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 11) 237

Page 304

سوال: ایک ممبر لجنہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور جب خلافت سے پہلے افریقہ تشریف لے گئے تب کے حالات اب جیسے نہیں تھے اس وقت آپ کو کام کرتے ہوئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا.حضور سے درخواست ہے کہ اس وقت کا کوئی تجربہ ہمیں بتائیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: بات یہ ہے کہ مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے.اور اس وقت بڑے مشکل حالات تھے ، اب تو بڑے اچھے حالات ہیں.تو یہی تھا کہ جس کام کے لئے ہم آئے ہیں اس کام کو کرنا ہے اور اس مقصد کو پورا کرنا ہے.مشکلات تو کام کے رستہ میں سامنے آتی ہیں لیکن دین کے کام میں مشکلات روک نہیں بننی چاہئیں.اس لئے ہماری ، میری بھی اور میری بیوی کی بھی اُس وقت یہی کوشش ہوتی تھی کہ ہمارے جو کام ہیں وہ چلتے رہیں اور کوئی روک نہ ہمیں بنے.اور ایسے حالات میں، مشکل حالات میں عورتوں کو بھی خاوندوں کا ساتھ دینا چاہیئے اور خاوندوں کو بھی عورتوں کا خیال رکھنا چاہیئے.اور جو دینی کام ہیں وہ چلتے رہنے چاہئیں.باقی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے جب آپ کام کرتے ہیں تو چاہے مشکل حالات بھی ہوں اللہ تعالیٰ ان کے حل کا کوئی نہ کوئی ذریعہ نکال دیتا ہے.اور اسی طرح کام کرنے کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہنا چاہیئے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ڈال دیتا ہے.بس یہی تھا کہ محنت کرو اور دعا کرو تو اللہ تعالیٰ حل کر دیتا ہے.کسی بات سے گھبرانا نہیں چاہیئے.(قسط نمبر 18، الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 11) 238

Page 305

سوال: اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے عرض کیا کہ حضور اتنے سارے کام اکٹھے کس طرح کر لیتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: ایک یہ کہ جب وقت ملے اپنا روز کا کام روز کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے.دوسرا یہ کہ بعض دو دو کام ایک وقت میں بھی ہو جاتے ہیں.اب میں کسی کی باتیں سن رہا ہوں اور ساتھ کوئی خط بھی پڑھ لوں تو دو کام ایک وقت میں کر سکتا ہوں.اس طرح پھر تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جاتا ہے.پھر یہ کہ انسان کا ارادہ ہو کہ میں نے اپنا کام ختم کرنا ہے.جب کام ختم کرنے کا ارادہ ہو تو پھر انسان توجہ سے کام کرتا ہے تو کام ختم ہو جاتا ہے.تم لوگ بھی محنت کرو گے تو تمہارا کام بھی ختم ہو جایا کرے گا.اگر تم محنت کی عادت ڈال لو تو تم بھی اسی طرح کر لو گے ، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے.(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 239

Page 306

حضرت عائشہ کی شادی کے وقت عمر سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خاکسار کی ملاقات مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں آنحضور الم کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف روایات پر غور و خوض فرمانے اور اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ملاحظہ فرمانے کے بعد اس مسئلہ پر رہنمائی فرماتے ہوئے درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: آنحضور الم کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے وقت حضرت عائشہ کے عمر کے بارہ میں تاریخ و سیرت اور تفسیر و حدیث کی کتب میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے.چنانچہ حضور ام کے ساتھ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر 6 سال سے لے کر 16 سال اور رخصتی کے وقت 9 سال سے 19 سال تک لکھی گئی ہے.اگر چہ صحاح ستہ کی روایات میں جن میں صحیح بخاری کی روایات بھی شامل ہیں، حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت چھ سال اور شادی کے وقت نو سال بیان ہوئی ہے.لیکن اگر ان روایات کو درایت و روایت کے اصولوں پر پر کھا جائے تو حضرت عائشہ کی عمر کے بارہ میں مروی یہ روایات ثقاہت کے معیار سے نیچی ٹھہرتی ہیں.اس حوالہ سے صحاح ستہ میں بیان 21 روایات میں سے 14 روایات ہشام بن عروہ سے مروی ہیں اور باقی روایات ابو عبیدہ، ابو سلمہ اور اسود سے مروی ہیں.تعجب کی بات ہے کہ تاریخ وسیرت کے اس نہایت مشہور اور اہم واقعہ کو کسی جلیل القدر صحابی نے بیان نہیں کیا.حضرت عائشہ کی کم عمری میں شادی سے متعلق روایت پہلی بار 185 ہجری میں منظر عام پر آئی جبکہ اس مضمون کی اکثر روایات کے روای ہشام اور عروہ کو وفات پائے ایک عرصہ گزر چکا تھا.مزید یہ کہ ہشام اور عروہ جن کی زندگی کا زیادہ عرصہ مدینہ میں گزرا، اور مدینہ کے نامور محدث، امام مالک ان ( ہشام بن عروہ) کے ایک مایہ ناز شاگر د تھے ، اس کے باوجود آپ کی تالیف کردہ کتاب موطا امام مالک میں اس روایت کا کوئی ذکر نہیں.اپنی عمر کے آخری حصہ میں ہشام بن 240

Page 307

عروہ جبکہ نابینا ہو چکے تھے ، حافظہ کمزور ہو گیا تھا، ( جرح و تعدیل کے ماہرین کے مطابق) انہیں و ہم اور نسیان کے امراض لاحق ہو چکے تھے اس وقت جب وہ کو نہ چلے گئے تو وہاں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ روایت بیان کی اور جس شخص سے روایت بیان کی اس نے بھی ان کی وفات کے بعد قریباً چالیس سال کا مزید انتظار کیا اور پھر اس روایت کو بیان کیا تا کہ کسی قسم کی تائید و تردید کا سوال ہی نہ اٹھ سکے.پس مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام کا یہ روایت بیان نہ کرنا اور ان کی وفات کے کئی سال بعد تالیف ہونے والی کتاب میں اس کا بیان اس روایت کے بارہ میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے.یہ امکان ہے کہ خاندان اہل بیت اور خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہ کے کردار کو نشانہ بنانے کی خاطر یہ روایت گھڑی گئی ہو.تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ وہ زوجہ مطہرہ جس کے بارہ میں حضور الم کا فرمان تھا کہ اس سے دین سیکھو، اس کی حضور ایل سے کم عمری میں شادی جبکہ وہ ابھی سہیلیوں اور گڑیوں سے کھیلتی تھی نیز ابھی وہ اپنے بچپن میں ہی تھی کہ حضور الم کی وفات ہو گئی، اس سے کیا دین سیکھا جا سکتا ہے؟ پھر صحیح بخاری جس میں یہ روایات بیان ہوئی ہیں، خود اس کے اندر حضرت عائشہ کے نکاح کے بارہ میں روایات میں تضاد پایا جاتا ہے.چنانچہ ایک روایت میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ حضرت خدیجہ کی وفات کے تین سال بعد حضور ایم نے مجھ سے شادی کی.جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ حضور ا کے مدینہ جانے سے تین سال پہلے فوت ہوئیں.پھر حضور ام دو برس یا اس کے قریب قریب ٹھہرے اور پھر حضرت عائشہ سے نکاح کیا.پس باوجود اس کے کہ احادیث جمع کرنے والوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیا ہے لیکن پھر بھی اس میں غلطی اور ظن کا پہلو بہر حال موجود ہے کیونکہ یہ کام حضور الم کی وفات کے قریباً ڈیڑھ دو سو سال بعد شروع ہوا جبکہ مسلمانوں کے کئی فرقے بن چکے تھے اور کئی قسم کے اختلافات ان میں پیدا ہو چکے تھے.چنانچہ اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیگر معاملات کی اصلاح کی طرح اس مسئلہ کا بھی نہایت احسن انداز میں حل فرمایا.حضور فرماتے ہیں: گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں لیکن جو حدیث قرآن کریم 241

Page 308

کے بر خلاف، آنحضرت الله لم کی عصمت کے برخلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں.اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا.گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے.وہ جمع کرنے کا وقت تھا لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے.“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 472،471 ایڈیشن 1984ء) حضرت عائشہ کی عمر کے مسئلہ کا جب ہم ایک دوسرے زاویہ سے جائزہ لیتے ہیں تو تاریخ و سیرت کی کتب میں ہمیں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کی چاروں اولاد ( حضرت عبد اللہ ، حضرت اسماء، حضرت عبد الرحمن اور حضرت عائشہ ) حضور الم کی بعثت سے قبل پیدا ہو چکے تھے اور سیرت نگاروں کی مرتب کردہ ابتدائی مسلمانوں کی فہرست میں حضرت عائشہ کا نام بھی شامل ہے، اگر حضرت عائشہ کی پیدائش نبوت کے پانچویں سال میں ہوئی تھی تو آپ کا نام ابتدائی مسلمانوں کی فہرست میں کیسے شامل ہو گیا؟ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماء حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں اور ہجرت کے وقت حضرت اسماء کی عمر 27 سال تھی.اس حساب سے بھی حضرت عائشہ کا سن پیدائش 4 قبل نبوت بنتا ہے.اور اگر آپ کا نکاح ہجرت سے تین سال قبل ہوا تھا تو اس وقت آپ کی عمر 14 سال بنتی ہے.غزوہ احد جو کہ 2 ہجری میں ہوئی اس کے بارہ میں صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت اُم سلیم پانی کی مشکیں اپنی پیٹھوں پر لاد کر لاتیں اور لوگوں کو پانی پلاتی تھیں.اگر حضرت عائشہ کی عمر اتنی ہی چھوٹی تھی کہ وہ ایک کم سن بچی تھیں تو وہ اپنی پیٹھ پر پانی سے بھری مشکیں لاد کر کس طرح دوڑ دوڑ کر میدان جنگ میں زخمیوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی سر انجام دے سکتی ہیں.پس اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ 2 ہجری میں آپ کی عمر اتنی بہر حال تھی کہ آپ میدان جنگ میں اس قسم کا بھاری کام کر سکتی تھیں.تاریخ کی کتب میں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ حضرت عائشہ کی آنحضور ام سے شادی سے پہلے جبیر بن مطعم سے منگنی ہوئی تھی.اس وقت میں آپ کی منگنی کا ہو نا بتاتا ہے کہ آپ کی عمر چھ سال نہیں تھی، خصوصاً اس لئے بھی کہ جب حضور الم کی طرف سے حضرت ابو بکر صدیق 242

Page 309

کو حضرت عائشہ کے لئے رشتہ کا پیغام ملا تو حضرت ابو بکر صدیق نے جبیر بن مطعم سے حضرت عائشہ کی رخصتی لینے کے بارہ میں دریافت کیا.اس طرف سے انکار پر وہ رشتہ ختم ہو گیا اور پھر حضور ام سے حضرت عائشہ کا نکاح عمل میں آیا.حضرت ابو بکر صدیق کا جبیر بن مطعم سے رخصتی کا کہنا ثابت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر اس وقت چھ سال ہر گز نہیں تھی بلکہ آپ اس وقت بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے محققانہ انداز کے مطابق حضرت عائشہ کی عمر کے بارہ میں مروی روایات کا بنظر غور جائزہ لینے کے بعد جو نتیجہ نکالا ہے اس کے مطابق آپ نے شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر تیرہ چودہ سال قرار دی ہے اور یہی درست عمر ہے.اس لحاظ سے آنحضور اتم کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر اکیس بائیس سال بنتی ہے جو دینی علم کے حصول کی تکمیل اور آگے لوگوں کو تعلیم دینے کی بہترین عمر بنتی ہے.اس زمانہ کے حکم و عدل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عائشہ کی آنحضور ای لیلی کے ساتھ شادی کے وقت آپ کی نو برس عمر کے متعلق روایات کو کلیۂ رڈ فرمایا ہے.چنانچہ ایک معاند اسلام پادری فتح مسیح کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے.اوّل تو نو برس کا ذکر آنحضرت ام کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے.صرف ایک راوی سے منقول ہے.“ (نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 377) اسی طرح ایک اور جگہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”حضرت عائشہ گا نو سالہ ہونا تو صرف بے سر و پا اقوال میں آیا ہے.کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں.“ آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 64) پس خلاصہ کلام یہ کہ ایسی تمام روایات جن میں شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر نو سال 243

Page 310

بیان ہوئی ہے محل نظر ہیں.ان روایات میں یا تو راویوں کو سہو ہوا ہے یا بعد میں آنے والے رایوں نے اپنی طرف سے ان میں اضافہ کر دیا ہے.تاریخ و سیرت کی کتب پر غور کرنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کی شادی کے وقت ایک معقول عمر تھی، جس عمر میں قریش عموماً اپنی بچیوں کی شادیاں کیا کرتے تھے.یہ شادی اس وقت عرب کے ماحول میں نہ تو کوئی خاص قابل ذکر استثناء لئے ہوئے تھی اور نہ ہی ایسی قابل اعتراض کیفیت اس میں تھی کہ منافقین و کفار اس پر اعتراض یا طعن و تشنیع یا حیرت و استعجاب کی انگلی اٹھاتے.( قسط نمبر 8، الفضل انٹر نیشنل 05 فروری 2021ء صفحہ 12) 244

Page 311

حضرت عیسی علیہ السلام سوال: ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں حضرت عیسی علیہ السلام پر بننے والی ڈاکومینٹری Bloodline Of Christ کا ذکر کر کے اس میں بیان کہانی کی حقیقت دریافت کی.حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 نومبر 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اس سے پہلے بھی اس موضوع پر کئی فلمیں بن چکی ہیں اور کتابیں بھی لکھی جا چکی ہے.اس ڈاکومینٹری میں بیان حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت کرنے کی بات تو ٹھیک ہے لیکن ان کے فرانس کی طرف ہجرت کرنے والی بات درست نہیں کیونکہ اس زمانہ میں فرانس میں ان کے پیروکاروں کی کوئی جماعت نہیں تھی.بلکہ ان کے قبائل تو کشمیر کے علاقہ میں تھے.چنانچہ اسی طرف انہوں نے ہجرت کی تھی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امر کو اپنی تصنیف ” مسیح ہندوستان میں مختلف شواہد کے ساتھ ثابت فرمایا ہے.(قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 245

Page 312

حضرت موسیٰ علیہ السلام سوال: تیونس سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ قرآن کریم اور بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی آنحضور الم کی طرح حجاز کے علاقہ مکہ اور مدینہ میں ہی بعثت ہوئی تھی.اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 نومبر 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ نے اپنے موقف کے حق میں قرآن کریم کی بعض آیات سے جو استدلال کرنے کی کوشش کی ہے وہ آپ کی ذوقی باتیں ہیں اور ان کا تاریخ سے اس طرح ثبوت نہیں ملتا.نیز آپ نے بعض تاریخی واقعات کو آپس میں ملا جلا دیا ہے.وادی کے لفظ سے آپ کو کنفیوژن پیدا ہوئی ہے اور آپ نے اس سے مراد صرف مکہ اور حدیبیہ کی وادی ہی لیا ہے اور سورۃ القصص میں مذکور من شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ میں بھی آپ کے نزدیک مکہ کی وادی ہی مراد ہے.حالانکہ قرآن کریم میں یہ لفظ کئی اور مقامات کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.اور سورۃ القصص کی آیت مِن شَاطِي الْوَادِ الْأَيْمَنِ میں مذکور مقام کا تعلق حضرت موسیٰ کے اُس واقعہ سے ہے جب آپ اپنے سر سے کئے گئے معاہدہ کی تکمیل کے بعد اپنے اہل کے ساتھ مدین سے کسی دوسری جگہ تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے ہمکلام ہو کر آپ کو رسالت کے مقام پر فائز فرمایا اور آپ کو فرعون کی طرف مصر جانے کا حکم دیا.پھر صلح حدیبیہ کے واقعہ سے آپ نے جو استدلال کیا ہے، وہ بھی درست نہیں کیونکہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر تو حضور الام مکہ میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے.بلکہ کفار مکہ سے ہونے والے معاہدہ کے مطابق حضور العلم حدیبیہ سے ہی واپس مدینہ آگئے تھے.اور حسب معاہدہ اس سے اگلے سال آپ ایم عمرہ کے لئے مکہ تشریف لے گئے تھے.ہاں یہ بات درست ہے کہ اس سفر میں فتح مکہ کی بنیاد پڑ گئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے بعد واپسی کے سفر میں حضور اتم کو 246

Page 313

سورۃ الفتح کے نزول کے ساتھ مکہ کی فتح کی بشارت عطا فرمائی تھی اور صلح حدیبیہ کو فتح مبین بھی قرار دیا تھا.پھر وادی کنعان اور وادی مگہ ایک کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ وادی کنعان کو بھی قرآن کریم نے ارض مقدسہ ہی کہا ہے.لیکن یہاں تو حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر اس قوم کو چالیس سال تک اس ارض مقدسہ سے محروم کر دیا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اپنے متبعین کی نافرمانی کی وجہ سے اس نعمت سے محروم رہے.لیکن اس کے مقابلہ پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی اللی تم کو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف بخار اور دیگر وبائی بیماریوں والی بستی یثرب کو مدینتہ الرسول کے نام سے نئے نظم و نسق کے ساتھ آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضور ام کی آمد کی برکت سے اس کی بخار اور وبائی بیماریوں والی مسموم فضا کو خوش گوار آب و ہوا میں تبدیل فرما دیا.اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دس ہزار جانثار اور نہایت فرمانبر دار قد وسیوں کے جلو میں ایک عظیم فاتح کے طور پر مکہ کی ارض مقدس میں داخل فرمایا.پس ان غیر معمولی برکات و فیوض الہیہ سے معمور ارض مقدسہ المکۃ المکرمہ کا کنعان کی بستی سے کیا موازنہ ہو سکتا ہے.اور ہم ان دونوں مقامات کو ایک کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ آپ نے اپنے خط میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے وادی کنعان میں داخل ہونے سے انکار کرنے اور صحابہ کرسول الم کے حضور کی خدمت میں عرض کرنے کہ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تو اور تیرارب جا کے لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں.بلکہ ہم آپ کے ساتھ ہو کر لڑیں گے ، کے واقعہ کو صلح حدیبیہ کے موقعہ کا لکھا ہے جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے.پس جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ یہ سب آپ کی ذوقی باتیں ہیں، جن میں سے اکثر کی تاریخی لحاظ سے کوئی مطابقت نہیں ٹھہرتی.ہمیشہ یاد رکھیں کہ قرآن کریم کی ایسی تفسیر اور تشریح نہیں کرنی چاہیے جو خود قرآنی تعلیم، قرآن کریم میں بیان تاریخی شواہد ، سنت رسول الیتیم اور احادیث نبویہ میں بیان تعلیمات کے خلاف ہو.(قسط نمبر 49، الفضل انٹر نیشنل 24 فروری 2023ء صفحہ 11) 247

Page 314

حضرت ہارون علیہ السلام سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام حقیقی بھائی تھے.نیز یہ کہ جب فرعون بنی اسرائیل کے سب لڑکوں کو قتل کروا دیتا تھا تو حضرت ہارون علیہ السلام کیسے زندہ بچ گئے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13 جون 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: بائبل کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام حقیقی بھائی تھے.چنانچہ لکھا ہے: اور عمرام نے اپنے باپ کی بہن یو کبد سے بیاہ کیا جس سے اس کے بیٹے ہارون اور موسیٰ پیدا ہوئے.اور عمرام ایک سو سینتیس برس زندہ رہا...اور یہ وہی ہارون اور موسیٰ ہیں جنہیں خداوند نے فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل کو ان کے جتھوں کے مطابق مصر سے نکال لے جاؤ.یہ وہ ہیں جنہوں نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جانے کے لئے فرعون شاہ مصر سے بات کی تھی.“ خروج باب 6 آیت 20 اور 27،26) بائبل کے مطابق حضرت ہارون حضرت موسی سے بڑے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ : موسیٰ اسی برس کا اور ہارون تراسی برس کا تھا جب وہ فرعون سے ہمکلام ہوئے.66 ( خروج باب 7 آیت 7) فرعون نے حضرت موسی کی پیدائش کے وقت اپنے خواب کی وجہ سے نجومیوں اور جو تشیوں کے مشورہ پر عبرانیوں کے لڑکوں کے قتل کا حکم دیا تھا.حضرت ہارون چونکہ پہلے پیدا ہو چکے تھے اس لئے وہ زندہ بچ گئے.حضرت ہارون کے زندہ بچنے کی ایک وجہ بائبل میں یہ بھی لکھی ہے کہ حضرت یعقوب اور 248

Page 315

حضرت یوسف کا زمانہ گزر جانے کے بہت عرصہ بعد جب بنی اسرائیل کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ ملک ان سے بھر گیا تو اس وقت کے بادشاہ نے ان کی تعداد سے خوف کھا کے ان پر طرح طرح کی سختیاں شروع کر دیں.لیکن وہ جس قدر ستائے گئے اسی قدر ان کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا.چنانچہ شاہ مصر نے دائیوں کو حکم دیا کہ اگر اسرائیلی عورتوں کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اسے مار دینا اور اگر لڑکی پیدا ہو تو اسے زندہ رہنے دینا.لیکن دائیوں نے بادشاہ کے حکم پر عمل نہ کیا.(ماخوذ از خروج باب 1 آیت 7 تا 17) علاوہ ازیں تفاسیر میں بھی لکھا ہے کہ مصری چونکہ بنی اسرائیل سے بیگار کا کام لیتے تھے اس لئے ایک سال اسرائیلیوں کے لڑکوں کو زندہ رکھتے تھے اور ایک سال قتل کروا دیتے تھے تاکہ بنی اسرائیل کی تعداد زیادہ نہ بڑھ سکے لیکن مصریوں کو محنت مزدوی کے لئے لیبر ملتی رہے.چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام کی پیدائش اس سال ہوئی جس سال بنی اسرائیل کے لڑکوں کو زندہ رکھا گیا تھا.(معالم التنزيل ( تفسير البغوي مؤلفه ابو محمد لحسين بن مسعود.زیر آیت نمبر 50 از سورة البقرة) پس حضرت ہارون علیہ السلام کے زندہ رہنے کی یہ مختلف وجوہات ہیں جو بائبل اور تفاسیر کی کتب میں بیان ہوئی ہیں.(قسط نمبر 38، الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2022ء صفحہ 10) 249

Page 316

حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کا قتل سوال: ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کو قتل کیا گیا تھا یا قتل سے مراد ان کے پیغام کا قتل ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارہ میں اپنے مکتوب مؤرخہ 11 اگست 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کے قتل کے بارہ میں جس طرح تاریخ وسیرت کی کتب میں اور علمائے سلف کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے، اسی طرح جماعت میں بھی اس بارہ میں قرآنی آیات سے استدلال اور احادیث کی تشریح کی روشنی میں خلفائے احمدیت کی آراء مختلف ہیں.میری رائے اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق ہے اور میں قرآن کریم، احادیث نبوی لیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اسی موقف پر قائم ہوں کہ کسی بھی سلسلہ کا پہلا اور آخری نبی یا وہ نبی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہو کہ وہ اسے انسانوں کی دسترس سے بچائے گا، قتل نہیں ہو سکتے.ان کے علاوہ باقی انبیاء کے لئے قتل نفس کوئی معیوب بات نہیں اور اس سے نبی کی شان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا کیونکہ قتل بھی شہادت ہوتی ہے.مگر ہاں ناکام قتل ہو جانا انبیاء کی شان میں سے نہیں ہے.پس جب ایک نبی اپنا کام پورا کر چکے تو پھر وہ طبعی طور پر فوت ہو یا کسی کے ہاتھ سے شہید ہو جائے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.کیونکہ کامیابی کی موت پر نہ کسی کو تعجب ہوتا ہے اور نہ دشمن کو خوشی ہوتی ہے.پس حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام بھی کسی سلسلہ کے پہلے اور آخری نبی نہیں تھے اور نہ ہی ان کے بارہ میں خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا وعدہ مذکور ہے کہ وہ انہیں دشمن کے ہاتھ سے ضرور محفوظ رکھے گا.اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ جب ان انبیاء کی شہادت ہوئی تو یقیناً وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر چکے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد فرمائی تھیں.(قسط نمبر 26، الفضل انٹر نیشنل 07 جنوری 2022ء صفحہ 11) 250

Page 317

حضور الم کو زہر دینے والی عورت سوال: ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ حضور ا کو زہر دینے والی عورت کے بارہ میں حضور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا حضور الله لم نے اسے معاف کر دیا تھا جبکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور ا نے اسے قتل کروا دیا تھا، اس بارہ میں مزید رہنمائی کی درخواست ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں اس بارہ میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جواب: اس مسئلہ میں علماء حدیث میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے.لیکن زیادہ مستند اور ثقہ کتب احادیث میں بیان احادیث کے مطابق یہی مسلک درست ہے کہ اس عورت کے حضور اللہ یتیم کے قتل کی کھلی کھلی سازش کرنے کے باوجو د حضور الم نے اسے معاف فرما دیا تھا.اور باوجود اس کے کہ اس زہر کی کاٹ آخری عمر تک آپ کے گلے میں محسوس ہوتی رہی لیکن آپ اللی نیم نے اپنی خاطر اس عورت کو کوئی سزا نہیں دی.جبکہ دنیا میں زمانہ قدیم میں بھی اور آج کے ترقی یافتہ زمانہ میں بھی کسی بادشاہ یا سر براہ حکومت کے قتل کی صرف منصوبہ بندی پر موت کی سزائیں دی جاتی ہیں.بعض محدثین نے اس اختلاف کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضور لم نے پہلے اس عورت کو کوئی سزا نہیں دی تھی لیکن جب حضرت بشر بن براء کی اس زہر آلودہ گوشت کے کھانے سے وفات ہو گئی تو آپ ایم نے قصاص کے طور پر اس عورت کو قتل کر وا دیا.اگر یہ توجیہہ درست بھی ہو تو حضور الم کی سیرت کا یہ پہلو جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا ہے کہ حضور العلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، اس واقعہ میں بھی بہت نمایاں طور پر سامنے آتا ہے.(قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 251

Page 318

حلال و حرام سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار کیا کہ اسلام میں مختلف جانوروں کا گوشت کس بناء پر حلال اور حرام قرار دیا جاتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11 اپریل 2016ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارہ میں دین اسلام کا اصول یہ ہے کہ ہر وہ امر جس سے شریعت منع نہ کرے، جائز ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اصل اشیاء میں حلّت ہے.خرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 474) قرآن کریم نے مردار، بہتا ہوا خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور حرام قرار دیا ہے.(سورۃ الانعام : 146) قرآن کریم کی بیان کردہ ان چار اشیاء کو حرام کہا جاتا ہے.جبکہ بعض اشیاء کے کھانے سے آنحضرت ام نے منع فرمایا ہے ان کو ممنوع کہا جاتا ہے.جیسے جو جانور شکاری ہے وہ ممنوع ہے.اس میں درندے، شکاری پرندے وغیرہ سب داخل ہیں.ان اشیاء کی ممانعت احادیث پر مبنی ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے: نَهَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابِ مِنَ السَّبَاعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ.(صحيح مسلم كتاب الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَمَا يُؤْكَلُ مِنْ الْحَيَوَانِ باب تَحْرِيمِ أَكُل كُلُّ ذِي نَابٍ...) یعنی رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کا کھانا ممنوع قرار دیا ہے.اسی طرح حدیث میں آیا ہے: عَن ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهِي يَوْمَ خَيْبَرَ 252

Page 319

عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ (صحيح بخاري كتاب المغازي باب غَزْوَةِ خَيْبَرَ) یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول الله لم نے غزوہ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا.حرام اور ممنوع کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گیا ہے وہ دو قسم کی ہیں.اول حرام، دوم ممنوع.لغتہ تو حرام کا لفظ دونوں قسموں پر حاوی ہے.لیکن قرآن کریم نے اس آیت (یعنی بقرة :174) میں صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا ہے.یعنی مردار، خون، سور کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دیا گیا ہو.ان کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے.لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی، قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہوں گی...یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں.کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض فرض ہیں ، بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں.اسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے.ایک نہی محرمہ ہے اور ایک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے.پس حرام چار اشیاء ہیں باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہے یعنی بہتر ہے کہ انسان ان سے بچے.حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے.پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرت الیم نے منع کیا ہے وہ حرمت میں ان سے نسبتاً کم ہیں.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے احکام میں ان کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے.حرام تو بمنزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے.جس طرح فرض اور واجب 253

Page 320

میں فرق ان کی سزاؤں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے اگر انسان اُن کو استعمال کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سخت ہو گی.اور جن سے آنحضرت ام نے منع فرمایا ہے ان کے استعمال سے اس سے کم درجہ کی سزا ملے گی لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے.حرام فعل کا ارتکاب کرنے سے انسان کے ایمان پر اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً بدی ہوتی ہے.لیکن دوسری چیزوں کے استعمال کا نتیجہ لاز مابدی اور بے ایمانی کے رنگ میں نہیں نکلتا.چنانچہ دیکھ لو.مسلمانوں میں سے بعض ایسے فرقے جو ان اشیاء کو مختلف تاویلات کے ذریعے جائز سمجھتے اور انہیں کھالیتے ہیں جیسے مالکی، ان کا اثر ان کے ایمان پر نہیں پڑتا.اور ان میں بے ایمانی اور بدی پیدا نہیں ہوتی.بلکہ گزشتہ دور میں تو ان میں اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں.لیکن خنزیر کا گوشت یا مردار کھانے والا کوئی شخص ولی اللہ نظر نہیں آئے گا.پس حُرمت کے بھی مدارج ہیں اور ان چاروں حرام چیزوں کے سوا باقی تمام ممنوعات ہیں جن کو عام اصطلاح میں حرام کہا جاتا ہے ورنہ قرآنی اصطلاح میں وہ حرام نہیں ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه : 340) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ حلال و حرام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن میں آیا ہے.لَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوْا عَلَى اللهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ.یہ خدا پر افتراء باندھنا ہے کہ یہ حلال ہے یا حرام.خدا نے فرمایا ہے حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ الله - حدیث شریف میں رسول کریم ایم نے فرمایا.کہ جو جانور شکاری ہے وہ حرام ہے.اس میں درندے ، شکاری پرند وغیرہ سب داخل ہیں.اب اس سے زیادہ کوئی مجاز نہیں کہ کسی کو حلال اور حرام کہے.مگر دنیا 254

Page 321

میں چونکہ ہزار ہا جانور ہیں پھر یہ دقت ہوئی کہ اب کسے کھاویں اور کیسے نہ کھاویں.اس مشکل کو اللہ تعالیٰ نے نہایت آسانی سے حل کر دیا ہے.فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلَالًا طَيْبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.یعنی حلال طیب کھاؤ.اب گویا یہ بتادیا کہ جو چیز طیب ہو وہ کھاؤ چنانچہ ہر جگہ ہر قوم میں جو چیزیں عمدہ اور پاک ہوں اور شرفاء اور مہذب لوگ کھاتے ہوں وہ کھالو.اس میں وہ استثناء جو پہلے بیان ہو چکے ان کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے.طوطا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا ہے.مگر میں نہیں کھایا کرتا کیونکہ ہمارے ملک کے شرفاء نہیں کھاتے.ایک دفعہ ایک صاحب میرے سامنے گوہ (ضب) پکا کر لائے کہ کھائیے.میں نے کہا آپ بڑی خوشی سے میرے دستر خوان پر کھائے مگر میں نہ کھاؤں گا کیونکہ شرفاء اسے نہیں کھاتے.“ ( اخبار بدر نمبر 19 جلد 10 مؤرخہ 09 مارچ 1911ء صفحہ 1) (قسط نمبر 2، الفضل انٹر نیشنل 13 نومبر 2020ء صفحہ 12) 255

Page 322

حُور سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کیا کہ قرآن کریم میں حوروں کا جو ذکر ہے، غیر از جماعت لوگ اس کا غلط مطلب نکالتے ہیں.ان خوروں سے اصل میں کیا مراد ہے؟ اسی طرح انہوں نے پوچھا کہ شادی کے بعد عورت کے لئے خاوند کا نام اپنا نا ضروری ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: جنت کی نعماء کے بارہ میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ الم میں جو امور بیان ہوئے ہیں وہ سب تمثیلی کلام ہے اور صرف ہمیں سمجھانے کے لئے ان چیزوں کی دنیاوی اشیاء کے ساتھ مماثلت بیان کی گئی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ یعنی اس جنت کی مثال جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے ( یہ ہے).پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: (الرعد:36) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ عَيْنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ.(السجده:18) یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیز میں چھپا کر رکھی گئی ہیں.اسی طرح حضور ال سلم نے فرمایا: يَقُولُ الله تَعَالَي أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَي قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًا مِنْ بَلْـهِ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ (صحيح بخاري كتاب التفسير یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ 256

Page 323

نے دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے.وہ نعمتیں ایسا ذخیرہ ہیں کہ ان کے مقابل پر جو نعمتیں تمہیں معلوم ہیں ان کا کیا ذکر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: ”خدا نے بہشت کی خوبیاں اس پیرایہ میں بیان کی ہیں جو عرب کے لوگوں کو چیزیں دل پسند تھیں وہی بیان کر دی ہیں تا اس طرح پر ان کے دل اس طرف مائل ہو جائیں.اور دراصل وہ چیزیں اور ہیں یہی چیزیں 66 نہیں.مگر ضرور تھا کہ ایسا بیان کیا جاتا تا کہ دل مائل کئے جائیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 424) سورۃ السجدۃ کی مذکورہ بالا آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں.سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں.سو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور اُن کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے.پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 398،397) ان نعمتوں کے مخفی رکھنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”خدا کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہوتی ہے اور خدا کا چھپانا ایسا ہے جیسے کہ جنت کی نسبت فرمایا فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قَرَّةٍ آغین ( کہ کوئی جی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی قرّة آغین ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے) در اصل چھپانے میں بھی ایک قسم کی عزت ہوتی ہے جیسے کھانا لا یا جاتا ہے تو اس پر دستر خوان وغیرہ ہو تا ہے تو یہ ایک عزت کی علامت ہوتی ہے.“ (البدر نمبر 1، جلد 1، مؤرخہ 9 جنوری 1903ء صفحہ 86) 257

Page 324

جنت کی خوروں کا معاملہ بھی تمثیلی کلام پر مبنی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے چار جگہوں پر حوروں کا ذکر فرمایا ہے.پہلی دو جگہ (سورۃ الدخان اور سورۃ الطور ) میں فرمایا کہ ہم جنتیوں کو بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی حوروں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھ دیں گے.اور باقی دو جگہ (سورۃ الرحمن اور سورۃ الواقعہ میں ان خوروں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ خیموں میں محفوظ یاقوت و مرجان موتیوں کی طرح ہوں گی.یعنی شرم و حیا سے معمور، نیک، پاکباز، خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی.پس قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خوروں سے مراد نیک اور پاک جوڑے ہیں جو جنت میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں بندھے ہوں گے اور انہیں بطور انعام ملیں گے.ان جوڑے کی کیفیت کیا ہو گی ؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.انسان کو اس کا علم اُسی وقت ہو گا جب وہ جنت میں جائے گا.باقی جہاں تک اس بارہ میں قرآنی تفاسیر کا تعلق ہے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ البقرۃ کی آیت وَ لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجُ مُطَهَّرَةُ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جنتیوں کو وہاں پاک ساتھی یعنی پاک بیویاں اور پاک خاوند ملیں گے جو ایک دوسرے کی روحانی ترقی میں مدد کرنے والے ہوں گے.اس لئے اس دنیا کے میاں بیوی اگر اگلے جہان میں بھی اکٹھا رہنا چاہتے ہیں تو مرد کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیئے اور عورت کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنے خاوند کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیئے اور دونوں کو ایک دوسرے کو نیک بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے تا کہ ایسا نہ ہو کہ میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں ہو اور میاں دوزخ میں ہو.(ملخص از تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 252) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سورۃ الدخان کی آیت وَ زَوَّجْنُهُمْ بِحُوْرِ عِيْنٍ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم ان کی ازواج کو حور بنا دیں گے اور انہیں ازدواجی رشتہ میں باندھیں گے.پھر اس سے اگلی آیت میں فرمایا کہ ہم ان کے ساتھ جنت میں ان کی اولاد کو بھی جمع کر دیں گے.اس جگہ بیوی کا ذکر اس لئے چھوڑ دیا کہ زَوَّجْنَهُمْ بِحُورٍ عِيْنِ پہلی آیت میں آچکا ہے.حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک بڑھیا سے کہا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تو اس نے 258

Page 325

رونا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ میں کہاں مروں کھیوں گی؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم نہیں جاؤ گی.میں نے یہ کہا ہے کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تم جو ان ہونے کی حیثیت میں وہاں جاؤ گی.تو جب بوڑھی وہاں جو ان ہونے کی حیثیت میں جائے گی تو بد صورت وہاں خوبصورت حیثیت میں جائے گی.جو لنگڑی لولی یہاں سے گئی ہے وہاں صحت مند اعضا، بھر پور نشو و نما کے ساتھ جائے گی.تو زَوَّجْنَهُمْ بِحُورٍ عِین کہ ان کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھا جائے گا بڑھیا سے نہیں، جس حالت میں اس نے اس دنیا میں اپنی بیوی چھوڑی بلکہ حُورِ عین کے ساتھ جو جوان بھی ہو گی، خوبصورت بھی ہو گی، نیک بھی ہو گی.بہر حال یہاں خور کا لفظ زوج کی حیثیت سے آیا ہے.(مشخص از خطبہ جمعہ مورخہ 19 فروری 1982، خطبات ناصر جلد نہم صفحہ 387،386) (قسط نمبر 50، الفضل انٹر نیشنل 10 مارچ 2023ء صفحہ 12) 259

Page 326

حیض ( ایام مخصوصہ) سوال: عورتوں کے مخصوص ایام میں قرآن کریم کے تحریری نسخہ کو پکڑنے اور پڑھنے نیز کمپیوٹر یا آئی پیڈ وغیرہ سے تلاوت قرآن کرنے کے بارہ میں ایک شخص نے مختلف علماء و فقہاء کے حوالہ جات پر مبنی ایک تحقیق حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کر کے اس مسئلہ کے بارہ میں حضورانور سے رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 05 اکتوبر 2018ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: اس مسئلہ پر علماء و فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے اور بزرگان دین نے بھی اپنی قرآن فہمی کے مطابق اس بارہ میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے.قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا اس بارہ میں موقف ہے کہ ایام حیض میں عورت کو قرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو ، وہ اسے ایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہراسکتی ہے.نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کے لئے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی.اسی طرح ان ایام میں عورت کو کمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا با قاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کے لئے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کے لئے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے.اس میں کوئی حرج نہیں.(قسط نمبر 1، الفضل انٹر نیشنل 27 اکتوبر تا02 نومبر 2020ء صفحہ 29) 260

Page 327

سوال: ایک خاتون نے عورتوں کے مخصوص ایام میں ان کے مسجد میں آنے کے بارہ میں مختلف احادیث نیز موجودہ دور میں خواتین کو ان ایام میں اپنی صفائی وغیرہ کے لئے میسر جدید ساز وسامان کے ذکر پر مبنی ایک نوٹ حضورِ انور کی خدمت اقدس میں پیش کر کے مساجد میں ہونے والی جماعتی میٹنگز اور اجلاسات وغیرہ میں ایسی عورتوں کی شمولیت اور ایسی غیر مسلم خواتین کو مسجد کا وزٹ (Visit) وغیرہ کروانے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی طلب کی.جس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 مئی 2020ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: ایام حیض والی خواتین کے مسجد میں سے کوئی چیز لانے یا مسجد میں چھوڑ کر آنے نیز مسجد میں جا کر بیٹھنے کے بارہ میں الگ الگ احکامات بڑی وضاحت سے حضور اہل علم نے ہمیں سمجھا دیئے ہیں.چنانچہ جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں بھی ذکر فرمایا ہے کہ حضور ام اپنی ازواج کو اس حالت میں چٹائی وغیرہ بچھانے کے لئے مسجد میں جانے کی اجازت فرمایا کرتے تھے.لیکن جہاں تک اس حالت میں مسجد میں جا کر بیٹھنے کا تعلق ہے تو اس بارہ میں بھی حضور لیلی کی ممانعت بڑی صراحت کے ساتھ احادیث میں مذکور ہے.چنانچہ حضور ام نے عیدین کے موقعہ پر کنواری لڑکیوں، جوان و پردہ دار اور حائضہ تمام قسم کی عورتوں کو عید کے لئے جانے کی تاکید اہدایت فرمائی یہاں تک کہ ایسی خاتون جس کے پاس اوڑھنی نہ ہو اسے بھی فرمایا کہ وہ اپنی کسی بہن سے عاریہ اوڑھنی لے کر جائے.لیکن اس کے ساتھ ایام حیض والی خواتین کے لئے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں.اسی طرح حجتہ الوداع کے موقعہ پر جب حج سے پہلے دیگر مسلمان عمرہ کر رہے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے مخصوص ایام میں تھیں.چنانچہ حضور ای ایم نے انہیں عمرہ کی اجازت نہ دی کیونکہ طواف کرنے کے لئے مسجد میں زیادہ دیر تک رہنا پڑتا ہے.پھر جب وہ ان ایام سے فارغ ہو گئیں تو حج کے بعد انہیں الگ عمرہ کے لئے بھجوایا.پس احادیث میں اس قدر صراحت کے بیان کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کریں.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پہلے زمانہ میں عورتوں کو اپنی صفائی کے لئے ایسے ذرائع میسر نہیں 261

Page 328

تھے جیسے اب ہیں.ٹھیک ہے ایسے جدید ذرائع میسر نہیں تھے لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ اپنی صفائی کا خیال ہی نہیں رکھ سکتی تھیں اور ان کے حیض کے خون اِدھر اُدھر گرتے پڑتے تھے.انسان نے ہر زمانہ میں اپنی ضروریات کے لئے بہتر سے بہتر انتظام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے.پس پہلے زمانہ میں بھی عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کے لئے بہترین انتظام کیا کرتی تھیں.پھر اس جدید دور کے ذرائع صفائی ستھرائی میں بھی بہر حال سقم موجود ہیں.ایسی خواتین جن کو بہت زیادہ خون آتا ہے بعض اوقات ان کا پیڈ Leak کر جانے کی وجہ سے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں.پس اسلام کی جو تعلیمات دائگی اور ہر زمانہ کے لئے یکساں ہیں، ان پر ہر زمانہ میں اسی طرح عمل ہو گا جس طرح آنحضور الم کے زمانہ میں ہو تا تھا.اگر کسی جگہ مجبوری ہے اور نماز کے کمرہ کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں تو اسی کمرہ کے آخر پر دروازہ کے قریب ایک ایسی جگہ مخصوص کی جا سکتی ہے جہاں نماز نہ پڑھی جائے اور ایسی عورتیں وہاں بیٹھ جایا کریں، یا مسجد کے آخر حصہ میں ایسی عورتوں کے لئے کرسیاں رکھ کر ان کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا جائے، تاکہ نماز پڑھنے کی جگہ کے گندہ ہونے کا ہلکا سا بھی شبہ باقی نہ رہے.جہاں تک غیر مسلم عورتوں کے مساجد کا وزٹ کرنے کی بات ہے تو اول تو وزٹ (Visit) کے دوران انہیں مساجد میں کہ بٹھایا نہیں جاتا بلکہ صرف مساجد کا وزٹ (Visit) کروایا جاتا ہے.جس کا دورانیہ تقریباً اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ مسجد سے چٹائی لانے یا بچھا کر آنے کا دورانیہ ہو تا ہے.لیکن اگر کہیں انہیں مسجد میں بٹھانے کی ضرورت پڑے تو نیچے صفوں پر نماز پڑھنے کی جگہ بٹھانے کی بجائے مسجد کے آخر پر کرسیوں پر انہیں بٹھائیں.(اس سوال کے جواب میں کہ ایام حیض والی خواتین کے عید کے موقعہ پر دعا میں شامل ہونے کے لئے حضور ایلم کی تاکید ہدایت کا جو اوپر ذکر ہوا ہے.اس حوالہ سے خطبہ عید کے سننے کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حدیث نبویہ الم کی روشنی میں جو جواب عطا فرمایا اسے بھی احباب کے استفادہ کے لئے یہاں درج کیا جا رہا ہے.مرتب) حضور انور نے فرمایا: جہاں تک خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث کا تعلق ہے تو یہ 262

Page 329

حدیث جسے آپ نے دار قطنی کے حوالہ سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے.یہ بات درست ہے کہ حضور ا لم نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے.اسی بناء پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے.لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ حضور ا نے عید کے لئے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریہ اوڑھنی لے کر عید کے لئے جائے.اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں.(قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) قسط نمبر 1، الفضل انٹر نیشنل 27 اکتوبر تا02 نومبر 2020ء صفحہ 29) 263

Page 330

سوال: عورتوں کے ایام حیض میں مسجد میں آکر بیٹھنے نیز ان ایام میں تلاوت قرآن کریم کرنے کے بارہ میں ایک خاتون کی ایک تجویز پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 مارچ 2019ء میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: مذکورہ بالا دونوں امور کے بارہ میں علماء و فقہاء کی آراء مختلف رہی ہیں اور بزرگان دین نے بھی اپنی قرآن فہمی اور حدیث نہی کے مطابق اس بارہ میں مختلف جوابات دیئے ہیں.اسی طرح جماعتی لٹریچر میں بھی خلفائے احمدیت کے حوالہ سے نیز جماعتی علماء کی طرف سے مختلف جوابات موجود ہیں.قرآن کریم، احادیث نبویہ الم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں، خواتین کے ایام حیض میں قرآن کریم پڑھنے کے متعلق میرا موقف ہے کہ ایام حیض میں عورت کو قرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو ، وہ اسے ایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہراسکتی ہے.نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کے لئے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے قرآن کریم کا کوئی حصّہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی.اسی طرح ان ایام میں عورت کو کمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا با قاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کے لئے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کے لئے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے.اس میں کوئی حرج نہیں.ان ایام میں عورت مسجد سے کوئی چیز لانے کے لئے یا مسجد میں کوئی چیز رکھنے کے لئے تو مسجد میں جاسکتی ہے لیکن وہاں جا کر بیٹھ نہیں سکتی.اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضور ام عید میں شامل ہونے والی ایسی خواتین کے لئے کیوں یہ ہدایت فرماتے کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں.پس اس حالت میں عورتوں کو مسجد میں بیٹھنے کی اجازت نہیں.اگر کوئی خاتون اس حالت میں مسجد میں آتی ہے یا کوئی بچی ایسی حالت میں اپنی والدہ کے ساتھ مسجد آئی ہے یا اچانک کسی کی یہ حالت شروع ہو گئی ہے تو ان تمام صورتوں میں ایسی خواتین اور 264

Page 331

بچیاں مسجد کی نماز پڑھنے والی جگہوں میں نہیں بیٹھ سکتیں.بلکہ کسی نماز نہ پڑھنے والی جگہ پر ان کے بیٹھنے کا انتظام کیا جائے.(قسط نمبر 10، الفضل انٹر نیشنل 05 مارچ 2021ء صفحہ 11) 265

Page 332

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عورتوں کے مخصوص ایام میں موبائل فون پر قرآن کریم پڑھنے کے بارہ میں مسئلہ دریافت کیا ہے.نیز پوچھا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت مریم کے لئے ”اضطِفَاء“ کا لفظ استعمال کیوں کیا گیا ہے جبکہ وہ عورت تھیں اور نبی نہیں تھیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: عورت کو قرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو ، وہ اسے ایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہر اسکتی ہے.نیز بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن با قاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی.اسی طرح ان ایام میں عورت کو کمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا با قاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کے لئے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کے لئے کمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے.اس میں کوئی حرج نہیں.جہاں تک قرآن کریم میں حضرت مریم کے لئے اضطفاء“ کے لفظ کے استعمال کی بات ہے تو قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ صرف انبیاء کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ کسی بھی غیر معمولی اور اہم کام کے لئے کسی کو منتخب کرنے کے لئے اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام کے اپنے بچوں کو یہ بتانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس غیر معمولی دین کو چن لیا ہے، اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا: يُبَنِي انَّ اللهَ اصْطَفي لكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (البقره: 133) یعنی اے میرے بیٹو! اللہ نے یقیناً اس دین کو تمہارے لئے چن لیا ہے.پس ہر گز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم (اللہ کے) پورے فرمانبر دار ہو.پھر آل ابراہیم اور آل عمران کی اُس زمانہ کے لوگوں پر فضیلت بیان کرنے کے لئے قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے.جیسا کہ فرمایا انَّ اللهَ اصْطَفْي أدَمَ وَ نُوْحًا وَ آلَ إِبْرَهِيْمَ وَآلَ عِمْرَنَ 266

Page 333

عَلَى الْعَلَمِينَ (آل عمران : 34) یعنی اللہ نے آدم اور نوح (کو) اور ابراہیم کے خاندان اور عمران کے خاندان کو یقیناً سب جہانوں پر فضیلت دی تھی.اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون ساذ کر سب سے زیادہ پسند ہے تو آپ نے فرمایا: مَا اصْطَفَاهُ اللهُ لِمَلَائِكَتِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ (سنن ترمذي كتاب الدعوات) یعنی جو ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند کیا ہے اور وہ ہے سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ - پس ”اصطفاء“ کے معنی اختیار کرنے، پسند کرنے اور چن لینے کے ہیں.یعنی کسی کی نہایت اعلیٰ صفات کی بناء پر اسے قریب کرنے یا اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اسے اپنے قرب میں جگہ دینے کے ہیں.حضرت مریم اگر چہ خدا تعالیٰ کی نبی تو نہیں تھیں لیکن اللہ تعالٰی نے انہیں ایسی اعلیٰ صفات سے متصف فرمایا تھا کہ اُن کی انہیں صفات کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کے ایک نبی حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں ان جیسی اولاد کے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی اور پھر حضرت زکریا کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صورت میں ایک نبی بیٹے سے نوازا.بنی اسرائیل کی خدا تعالیٰ کے انبیاء کی مسلسل نافرمانی کرنے ، ان کے ساتھ استہزاء کرنے اور ان کی تکذیب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے بطن سے ایک نبی بیٹے حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کیا.اور اس بچہ کی پیدائش میں بنی اسرائیل میں سے کسی مرد کا کوئی حصہ نہیں ہے.اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے نبوت جیسی عظیم نعمت ہمیشہ کے لئے چھین لی گئی.پس ان غیر معمولی صفات کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے لئے قرآن کریم میں اصطفاء“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 267

Page 334

سوال: اس سوال پر کہ روزہ کے دوران اگر کسی خاتون کے ایام حیض شروع ہو جائیں تو اسے روزہ کھول لینا چاہیے یا اس روزہ کو مکمل کر لینا چاہیئے.نیز جب یہ انیام ختم ہوں تو سحری کے بعد پاک صاف ہو سکتے ہیں یا سحری سے پہلے پاک ہونا ضروری ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 اپریل 2020ء اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: عورت کی اس فطرتی حالت کو قرآن کریم نے ”أذي“ یعنی تکلیف کی حالت قرار دیا ہے.اور اسلام نے اس کیفیت میں عورت کو ہر قسم کی عبادات کے بجالانے سے رخصت دی ہے.اس لئے جس وقت ایام حیض شروع ہو جائیں اسی وقت روزہ ختم ہو جاتا ہے.اور ان ایام کے پوری طرح ختم ہونے پر اور مکمل طور پر پاک ہونے کے بعد ہی روزے رکھے جاسکتے ہیں.نیز جو روزے ان ایام میں (بشمول آغاز اور اختتام والے دن کے ) چھوٹ جائیں ، ان روزوں کو رمضان کے بعد کسی وقت بھی پورا کیا جاسکتا ہے.(قسط نمبر 24، الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 268

Page 335

سوال: جرمنی سے ایک مرتبی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا ایک عورت اپنے مخصوص ایام میں کسی عورت کی میت کو غسل دے سکتی ہے؟ نیز یہ کہ جس شخص کو صدقہ دیا جائے کیا اسے بتانا ضروری ہے کہ یہ صدقہ کی رقم ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15 ستمبر 2021ء میں بارہ میں درج ذیل ہدایات عطاء فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم یا احادیث میں بظاہر کوئی ایسی ممانعت نہیں آئی کہ حائضہ یا جنبی کسی میت کو غسل نہیں دے سکتے.البتہ صحابہ و تابعین نیز فقہاء میں اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.کچھ اس کے جواز کے قائل ہیں اور ان کی دلیل آنحضور الم کا یہ فرمان ہے کہ: إِنَّ الْمُسْلِمَ لَيْسَ بِنَجْسٍ (السنن الكبري للبيهيقي كتاب الجنائز باب من لم ير الغسل من غسل الميت) یعنی مسلمان ناپاک نہیں ہو تا.لہذا ان کے نزدیک کسی جنبی یا حائضہ کے میت کو غسل دینے میں کوئی حرج نہیں.جبکہ ایک گروہ کے نزدیک حائضہ اور جنبی کا میت کو غسل دینا مکروہ ہے.اور ایک تیسری رائے یہ ہے کہ اگر مجبوری ہو اور حائضہ اور جبنی کے علاوہ کوئی اور میت کو غسل دینے والا موجود نہ ہو تو اس مجبوری کی صورت میں حائضہ اور جنبی میت کو غسل دے سکتے ہیں لیکن عام حالات میں انہیں میت کو غسل نہیں دینا چاہیئے.میرے نزدیک بھی عام حالات میں حائضہ اور جنسی کو میت کو غسل نہیں دینا چاہیے لیکن اگر کوئی دوسرا موجود نہ ہو تو مجبوری کی حالت میں حائضہ یا جنبی کے میت کو غسل دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں.(قسط نمبر 42، الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2022ء صفحہ 10) 269

Page 336

حیوانات، جانوروں کے مرنے کے بعد ان کی ارواح کا باقی رہنا سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حیوانات کے مرنے کے بعد ان کی ارواح کے باقی رہنے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوا کر لکھا ہے کہ آپ نے وقف نو کی ایک کلاس میں فرمایا تھا کہ جانوروں کے مرنے کے بعد ان کی روح باقی نہیں رہتی اور ان کی زندگی دنیا میں ہی ختم ہو جاتی ہے.اور دریافت کیا ہے کہ ان دونوں باتوں میں مطابقت کیسے ہو سکتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19 اکتوبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ نے اپنے خط میں جس مکالمہ کے حوالہ سے سوال کیا ہے، یہ مکالمہ 1908ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور انگلستان کے پروفیسر ریگ صاحب کے مابین لاہور میں دو نشستوں میں سوال و جواب کی صورت میں ہوا تھا.جس میں پروفیسر صاحب نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کی ذات، انبیاء کرام کی بعثت، کائنات، نیکی اور بدی کی تحریکات، شیطان، دنیوی اور اُخروی زندگی، انسانوں کا ارواح سے تعلق، ادنی کا اعلیٰ کے لئے قربان ہونا، حیوانات اور ان کی ارواح اور مسئلہ ارتقاء وغیرہ مختلف موضوعات پر ایک تسلسل میں سوالات پیش کئے.اور حضور علیہ السلام نے ان سوالات کے نہایت بصیرت افروز جوابات عطاء فرماتے ہوئے جہاں ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی وہاں حضور علیہ السلام نے انسانوں اور حیوانات کے عقل و شعور، تکالیف، احساسات اور ان کے اس دنیا کے اعمال وافعال نیز اُخروی زندگی میں ملنے والے اجر کے باہمی فرق کو بھی واضح فرمایا.چنانچہ ایک سوال کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا: یہ عالم ایک مختصر عالم ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ایک وسیع عالم رکھا ہے جس میں اس نے ارادہ اور وعدہ کیا ہے کہ سچی اور ابدی خوشحالی 270

Page 337

دی جاوے گی.ہر دکھ جو اس جہان میں ہے اس کا تدارک اور تلافی دوسرے عالم میں کر دی جاوے گی.جو کمی اس جہان میں پائی جاتی ہے وہ آئندہ عالم میں پوری کر دی جاوے گی.باقی رہا دکھ، درد، تکلیف، رنج و محن، یہ تو ادنیٰ و اعلیٰ کو یکساں برداشت کرنا پڑتا ہے اور یہ اس نظام عالم کے قیام کے واسطے لازمی اور ضروری تھے.اگر وسیع نظر سے دیکھا جاوے تو کوئی بھی دکھ سے خالی نہیں.ہر مخلوق کو علی قدر مراتب اس میں سے حصہ لینا ہی پڑتا ہے.البتہ کسی کو کسی رنگ میں ہے اور کسی کو کسی رنگ میں...دوسری بات جو قابل غور ہے یہ ہے کہ چونکہ تکالیف انسانی، تکالیف حیوانی سے بڑھی ہوئی ہیں.(اسی واسطے انسانی اجر بھی حیوانی اجر سے بڑھا ہوا ہو گا).تکالیف انسانی دو قسم کی ہیں.ایک تکالیف شرعیہ.دوسری تکالیف قضا و قدر تکالیف قضا و قدر میں انسان و حیوان مشترک اور قریباً برابر ہیں...باقی تکالیف شرعیہ میں انسان کے ساتھ حیوانات کا کوائی اشتراک نہیں ہے.احکام شرعیہ بھی ایک قسم کی چُھری ہے جو انسانی گردن پر چلتی.مگر حیوان اس سے بری الذمہ ہیں.امور شرعیہ بھی ایک موت ہیں جو انسان کو اپنے اوپر وارد کرنی پڑتی ہے.پس اس طرح سے ان باتوں کو یکجائی طور سے دیکھنے سے صاف معلوم ہو گا کہ تکالیف انسانی تکالیف حیوانی سے بہت بڑھی ہوئی ہیں.ہے.تیسری بات جو قابل یاد ہے یہ ہے کہ انسانی حواس میں بہت تیزی ہے.انسان میں قوت احساس زیادہ پائی جاتی ہے.حیوانات یا نباتات اس کے مقابل میں بہت کم احساس رکھتے ہیں...پس حیوانات ان تکالیف کا بہت کم احساس کرتے ہیں اور ممکن ہے کہ بعض اوقات بالکل ہی نہ کرتے ہوں.271

Page 338

66 ب جائے غور ہے کہ دنیا میں ان تکالیف کا بوجھ کس پر زیادہ ہے.آیا انسان پر یا حیوان پر ؟ صاف ظاہر ہے کہ انسان ہی کو ان مشکلات دنیوی میں بہ نسبت حیوانات کے زیادہ حصہ لینا پڑتا ہے.اسی تسلسل میں پروفیسر صاحب کے اگلے سوال کہ حیوانات کو بھی آئندہ عالم میں کوئی بدلہ دیا جاوے گا؟ کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں ہم مانتے ہیں کہ علی قدر مراتب سب کو ان کی تکالیف دنیوی کا بدلہ دیا جاوے گا اور ان کے دکھوں اور تکالیف کی تلافی کی جاوے گی.“ نیز پروفیسر صاحب کے سوال کہ تو پھر اس کا یہ لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ حیوانات جن کو ہم مارتے ہیں ان کو مردہ نہیں بلکہ زندہ یقین کر حضور علیہ السلام نے فرمایا:.”ہاں یہ ضروری بات ہے وہ فنا نہیں ہوئے ان کی روح باقی ہے.وہ نہیں مرے بلکہ وہ بھی زندہ ہیں.“ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 429 تا432 ایڈیشن 1984ء) اس مکالمہ میں حضور علیہ السلام نے احکام شرعیہ کے حوالہ سے انسانوں اور جانوروں کے مکلف ہونے اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کا جو باہمی امتیاز بیان فرمایا ہے، وقف نو کی کلاس میں میں نے بھی کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے جانوروں کی زندگی کے اسی دنیا میں خاتمہ کا کہا تھا.جس سے میری مراد یہ تھی کہ جانور چونکہ احکام شرعیہ کے پابند نہیں ہیں، اس لئے اگلے جہان میں ان کے ساتھ انسانوں والی جزاء سزاء کا معاملہ نہیں ہو گا.البتہ جس طرح احادیث میں بھی آتا ہے کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ دلوایا جائے گا.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والاداب قیامت کے دن ان کے درمیان صرف آپس کے بدلہ کے لین دین کا معاملہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوپر مذکور ارشاد کے آخری الفاظ بھی جانوروں کی روح کی اسی قسم کی بقا کو بیان فرمارہے ہیں.272

Page 339

جبکہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اور جس کو احکام شرعیہ کا مکلف بنایا گیا ہے اس کی جزا سزا کا فیصلہ ان احکام شرعیہ کی روشنی میں ہو گا اور اس کے لئے اس کے اعمال کے مطابق جنت و دوزخ کا بھی فیصلہ کیا جائے گا.شرعی لحاظ سے مکلف ہونے اور اپنے اعمال کے لحاظ سے جزاء سزا پانے کی بابت انسانوں اور حیوانات کی ارواح کے فرق کے بارہ میں حضور علیہ السلام کے ملفوظات میں بیان مذکورہ بالا ارشاد کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعض تصانیف میں بھی انسانوں اور حیوانوں کی ارواح کے فرق کو بیان فرمایا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کہ ہم نے فلاں قوم کر مارا اور پھر زندہ کر دیا، ایک نبی کو سو برس مارا اور پھر زندہ کر دیا.حضرت ابراہیم کی معرفت جانور زندہ کئے گئے وغیرہ استعارات کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: وو یہ ہر گز سچ نہیں ہے کہ ان تمام مقامات میں جہاں مردہ زندہ ہونا لکھا ہے واقعی اور حقیقی موت کے بعد زندہ ہونا لکھا گیا ہے بلکہ لعنت کی رُو سے موت کے معنے نیند اور ہر قسم کی بے ہوشی بھی ہے.پس کیوں آیات کو خواہ مخواہ کسی تعارض میں ڈالا جائے اور اگر فرض کے طور پر چار جانور مرنے کے بعد زندہ ہو گئے ہوں تو وہ اعادہ رُوح میں داخل نہیں ہو گا.کیونکہ بجز انسان کے اور کسی حیوان اور کیڑے مکوڑے کی روح کو بقا نہیں ہے.اگر زندہ ہو جائے تو وہ ایک نئی مخلوق ہو گی.چنانچہ بعض رسائل عجائب المخلوقات میں لکھا ہے کہ اگر بہت سے بچھو کوٹ کر ایک ترکیب خاص سے کسی برتن میں بند کئے جائیں تو اس خمیر سے جس قدر جانور پیدا ہوں گے وہ سب بچھو ہی ہوں گے.تو اب کیا کوئی دانا خیال کر سکتا ہے کہ وہی بچھو دوبارہ زندہ ہو کر آگئے جو مر گئے تھے بلکہ مذہب صحیح جو جو قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے یہی ہے کہ مخلوقات ارضی میں سے بجز جن اور انس کے اور کسی چیز کو ابدی روح نہیں دیا گیا.“ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 221،220) آریہ مذہب کے عقائد کے بالمقابل اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے انسانی روح کے بقا کی حقیقت 273

Page 340

بیان ن کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ مسلمان بھی انسانی ارواح کو ابدی قرار دیتے ہیں کیونکہ قرآن شریف یہ نہیں سکھلاتا کہ انسانی ارواح اپنی ذات کے تقاضا سے ابدی ہیں بلکہ وہ یہ سکھلاتا ہے کہ یہ ابدیت انسانی روح کے لئے محض عطیہ الہی ہے ورنہ انسانی روح بھی دوسرے حیوانات کی روحوں کی طرح قابل فنا ہے.66 (نسیم دعوت، روحانی خرئن جلد 19 صفحہ 382 حاشیہ) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور وقف نو کلاس میں میری طرف سے کہی گئی بات میں میرے خیال میں کوئی تضاد نہیں.اگر پہلے بات واضح نہیں تھی تو اب واضح ہو کہ جانوروں کا معاملہ صرف ایک دوسرے سے بدلہ لینے تک محدود ہے اور ان پر شرعی احکامات کا نفاذ نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کا جزا سزا کے ساتھ کوئی تعلق ہو گا.جبکہ انسان کا معاملہ شرعی احکامات کے تابع دیکھا جائے گا اور انسان کے اعمال اور اس کے شرعی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے مطابق ہی اس کی جزاء سزا کا فیصلہ ہو گا.(قسط نمبر 46، الفضل انٹر نیشنل 23 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 274

Page 341

خاتم النبيين سوال: ایک دوست نے آنحضور الم کے ارشاد کہ ”میں اُس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب حضرت آدم ابھی اپنی پیدائش کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھے “ کی ایک تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر کے اس بارہ میں رہنمائی چاہی نیز اس مضمون کے حوالہ سے اس دوست نے دو حدیثوں کا حوالہ بھی حضور سے دریافت کیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے: جواب: آنحضور الم کے خاتم النبیین ہونے کے غیر معمولی اور بلند مرتبہ مقام کے حوالہ سے حضور الم کے ارشاد " إِنِّي عِنْدَ اللهِ مَكْتُوبُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ (مشكوة المصابيح كتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلین ) کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) ابھی اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے ہوئے تھے.نیز حدیث قدسی لَوْ لاكَ لَمَا خَلَقْتُ الأفلاك (روح المعاني از علامه آلوسي جزو اول صفحه 70 تفسير سورة الفاتحه داراحياء التراث العربي بيروت ایڈیشن 1999ء) کہ اے محمد () اگر تو نہ ہو تا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا، کی تشریح میں آپ نے جو نکتہ بیان کیا ہے کہ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھی حضور اہل علم کے مقام خاتم النبیین کے بعد آئے اور زمین و آسمان بھی اللہ تعالیٰ نے حضور الم کو اس مقام پر فائز کرنے کے بعد بنائے، ہے.جس کا پرانے علماء نے بھی ذکر کیا ہے اور یہ جماعتی لٹریچر میں بھی بیان ہوا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بانی دیوبند حضرت محمد قاسم نانوتوی کا ایک حوالہ کہ: ”اول معنی خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو.سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ الل علم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں.مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تأخر زمانی بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں وَلَكِن رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ 275

Page 342

فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارانہ ہوگی...اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ بیان کر کے اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ”یہی ہمارا عقیدہ ہے.حضرت اقدس محمد ام تو اس وقت بھی خاتم تھے کہ جبکہ انسان کا ابھی Blue Print تھا.ابھی وہ تخلیق کے تشکیلی مراحل سے گزر رہا تھا.تخلیق کو تشکیل دی جارہی تھی.حضرت محمد مصطفى الالم فرماتے ہیں میں اُس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم ابھی اپنی تخلیق کی مٹی میں لت پت تھا.کتنا عظیم الشان مضمون ہے.خاتمیت زمانہ سے بالا ہے.زمانہ کے ماتحت نہیں ہے.خاتم سے پہلے بھی کوئی نبی اس کی نبوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا، نہ بعد میں کوئی نبی ایسا آسکتا ہے جو اس کے مقابل پر ہو.لیکن بعد میں ایک لازم شرط ہے کہ مطیع ہو گا تو ہو گا ورنہ بالکل نہیں ہو گا.غلام آسکتا ہے.غیر غلام نہیں آسکتا.اور پہلے بھی وہی نبی ہیں جن پر آپ کی مُہر تصدیق ہے.اس مضمون کو سمجھنے کی لوگ کوشش نہیں کرتے، بہت عظیم الشان مضمون ہے.آنحضرت ام کو مسلمان خاتم کہہ دیتے ہیں.کہتے ہیں بہت عظیم الشان ایک منفر د مر تبہ ہے جو کسی نبی کو حاصل نہیں.پوچھو کہ ثبوت کیا ہے؟ تو ان علماء سے پوچھ کے دیکھ لیجئے، کچھ ثبوت ان کے ہاتھ میں نہیں ہے.کیسے پتہ چلا، کیسے دنیا پہ ثابت کر سکتے ہو ؟ یہاں جب مغربی دنیا میں مجالس میں لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگوں کے پاس کیا ثبوت ہے ؟ میں کہتا ہوں میں تمہیں ثبوت دکھاتا ہوں.اس کا جواب نکال کے دکھاؤ.ساری دنیا میں جتنے انبیاء آئے ہیں ایک بھی نبی ایسا نہیں جس نے اپنے سلسلہ کے علاوہ 276

Page 343

دنیا کے دوسرے نبیوں کی تصدیق کی ہو.چراغ لے کے ڈھونڈو، تلاش کر کے مجھے دکھاؤ.ایک بھی نہیں.آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ میں تمام انبیاء پر اور سب رسولوں پر جو ایمان کو لازم قرار دیا ہے وہ ایک ہی تو ہے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی الی.تو تصدیق کی مہر کس کے ہاتھ میں ہے.حضرت اقدس کے سوا کوئی ہاتھ دکھاؤ تو سہی.یہ خاتمیت ہے.اس خاتمیت کے اعلیٰ اور ارفع مضمون کو چھوئے بغیر تم زمانی ختم کے اوپر آپڑے ہو اور کچھ پتہ نہیں کہ باتیں کیا کر رہے ہو.زمانی ختم مقام مدح میں نہیں ہے.مگر یہ ختم جو قرآن بیان فرما رہا ہے یہ ایسی مدح ہے کہ جس کی کوئی مثال دنیا میں دکھائی نہیں جاسکتی.تجربہ کر کے دیکھ لیجئے.میں تو سب دنیا کو بتا رہا ہوں.کسی دنیا کے مذہب کو چیلنج دے دیں آپ کہ تمہارا اگر نبی ، کوئی بھی نبی صاحب خاتم تھا تو اس کی دوسرے نبیوں پہ تصدیق تو دکھاؤ.محمد رسول الله الی تعلیم کے سوا ایک بھی نہیں جو خاتم النبیین ہو.تمام نبیوں کا مصدق ہو.پس آئندہ بھی اگر کوئی آئے تو آپ کی تصدیق کے بغیر نہیں آسکتا.اسی لئے ہم حقیقت میں جب کہتے ہیں کہ اُمتی نبی تو مراد امام مہدی اور وہ مسیح موعود ہیں جن کی پیشگوئی کی گئی ہے، اس کے سوا ہماری کوئی مراد نہیں ہوتی.اس لئے کہ اس پر مہر تصدیق ثبت ہے.امام مہدی کے سوا ہم نے کب کسی کو نبی کہا ہے.پس وہی امام مہدی ہے اُسی کو ہم اُمتی نبی کہتے ہیں.“ ملاقات پروگرام مؤرخہ 31 جنوری 1994ء) باقی جو آپ نے حدیثوں کے حوالے پوچھے ہیں تو مشکوۃ میں درج حدیث اور اس کا حوالہ اس طرح ہے: عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِنِّي عِنْدَ اللهِ مَكْتُوبٌ : خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَ إِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَ سَأخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ أَمْرِي دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةُ عِيسَى وَرُؤْيَا أُمِّيَ الَّتِي 277

Page 344

رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْنِي وَقَدْ خَرَجَ لَهَا نُوْرٌ أَضَاءَ لَهَا مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ (مشكوة المصابيح كتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلين علم) یعنی حضرت عرباض ابن ساریہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے.اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میرا امر (یعنی میری پیدائش کے معاملہ کی ابتدا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ، حضرت عیسی (علیہ السلام) کی بشارت اور میری والدہ کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ میری والدہ کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے شام کے محلات کو اُن پر روشن کر دیا تھا.اور حدیث قدسی لَو لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفَلَاكَ کو علامہ آلوسی اور علامہ اسماعیل حقی نے اپنی تفاسیر میں درج کیا ہے.جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے اِنِّي مَعَ الْإِكْرَامِ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کے الفاظ میں اسے الہام فرمایا.نیز حضور علیہ السلام نے اس کا اپنی کتب میں بھی ذکر فرمایا ہے.تفاسیر اور حضور علیہ السلام کی ان کتب کے حوالے حسب ذیل ہیں: 1- (روح المعاني از علامه آلوسي جزو 29 صفحه 306 تفسير سورة النبأزيـر آیت 38 - داراحياء التراث العربي بيروت ایڈیشن 1999ء) 2 روح البیان از علامه حقي بروسوي جلد 6 صفحه 24 تفسير سورة النور زیر آیت 36 - دار الكتب العلمية بيروت ایڈیشن 2004 ء 3.(تذکرہ صفحہ 583 ایڈیشن مطبوعہ 2023) 4 (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102) (قسط نمبر 33، الفضل انٹر نیشنل 06 مئی 2022ء صفحہ 9) 278

Page 345

خادم سوال: ہالینڈ کے خدام کی 30 اگست 2020ء کی Virtual ملاقات میں ایک خادم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ایک خادم کو کون سے کام کم از کم روزانہ کرنے چاہئیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا: جواب: ایک خادم کو کم از کم روزانہ پانچ نمازیں وقت پر پڑھ لینی چاہئیں.فجر کی نماز فجر کے وقت اٹھ کے پڑھو اور اگر نماز سینٹر یا مسجد قریب ہے تو وہاں جاکے باجماعت پڑھو.اور کام کے بعد مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی نماز سینٹر میں پڑھیں.اور کام پہ ظہر عصر کی نمازیں بھی پڑھیں.اپنی پانچ نمازوں کی پابندی کر لیں کیونکہ یہ بنیادی حکم ہے.یہ تو روزانہ کا کام ہے ، یہ کام کر لیں.ٹکریں نہیں مارنی.اس لئے نماز پڑھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور میں نے اس لئے نماز پڑھنی ہے تو پھر جو باقی اخلاق ہیں وہ بھی پیدا ہو جائیں گے.جب آپ نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کریں گے تو یہ دعا جب دل سے نکلے گی تو وہ یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو روحانی معاملہ میں بھی صراط مستقیم پر چلائے، صحیح گائیڈ کر تار ہے اور آپ صحیح رستہ سے ادھر اُدھر Deviate نہ کریں.اور جو اخلاقیات اللہ تعالیٰ نے بتائے ہوئے ہیں، جو اللہ کی تعلیم ہے اس کے اوپر بھی صحیح چلتے رہیں.اور جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کہیں گے تو ظاہر ہے کہیں گے کہ اے اللہ تعالیٰ ہم تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں، ہماری مدد کر ، ہمیں ان لوگوں سے بچالے جن کو تُو نے سزا دی جو صحیح رستے سے پھر گئے.تو اس کی رحمانیت مانگیں، اس کی رحیمیت مانگیں.اور پھر جب سنجیدگی سے نماز پڑھ رہے ہوں گے تو صرف دنیا ہی کی باتیں نہ مانگیں، اگلے جہان کی بھی باتیں مانگیں.ایک خادم جب سنجیدگی سے نماز پڑھ لے گا تو سمجھ لیں کہ اس نے سب کچھ کر لیا.(قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 279

Page 346

خالق اور مخلوق سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے.اگر ہم اچھے کام کریں گے تو جنت کا وعدہ ہے اور اگر بُرے کام کریں گے تو جہنم میں جانا پڑے گا.اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: بنیادی طور پر یہ سوال ہی درست نہیں ہے.کیونکہ اسلام کی ہر گز یہ تعلیم نہیں کہ انسان جنت کی لالچ سے نیکیاں بجالائے یا جہنم کے خوف سے بُرائیوں سے بچے.ایسا ایمان جو کسی لالچ یا کسی خوف سے ہو وہ کمزور ایمان ہوتا ہے.مخلوق کا اپنے خالق سے ایسا مضبوط تعلق ہونا چاہیے جو بہشت کی طمع یا دوزخ کے خوف سے پاک ہو.بلکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی انسان اپنے رب کی عبادت میں ، اس کی محبت اور اطاعت میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنے دے.اسی لئے قرآن وحدیث میں خالق اور مخلوق کے تعلق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو اختیار کر کے اس کا حقیقی عبد بنے اور اس کے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول پیش نظر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون کو کئی جگہوں پر بیان فرمایا ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اُس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اُس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 21) پس اللہ اور بندے کا تعلق ، عاشق اور معشوق والا تعلق ہے.کوئی عاشق اپنے معشوق سے یہ نہیں کہتا کہ میں تجھ پر اس لئے عاشق ہوں کہ تو مجھے اتناروپیہ یا فلاں فلاں شے دیدے.ہر گز نہیں.280

Page 347

اس کا عشق تو ہر قسم کے طمع اور لالچ سے پاک ہوتا ہے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان باتوں سے اللہ تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ہر قسم کے فائدہ یا نقصان سے پاک ذات ہے.اس نے انسان کو یہ تعلیم انسان ہی کے فائدہ کے لئے دی ہے.اسی لئے وہ فرماتا ہے کہ: ”جو شخص شکر کرتا ہے اس کے شکر کا فائدہ اُسی کی جان کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو یقینا اللہ بے نیاز ہے ( اور ) بہت صاحب تعریف ہے.“ (سورة لقمان: 13) یہ سوال ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ ایک ماں کے اپنے بچہ کو دودھ پلانے اور بچہ کے بیمار ہونے پر اسے کڑوی دوائی پلانے میں اس ماں کا کیا فائدہ ہے ؟ یا ایک استاد کے پڑھائی کرنے والے شاگر د کو پاس کرنے اور پڑھائی نہ کرنے والے شاگرد کو فیل کرنے میں اس استاد کا کیا فائدہ ہے ؟ پس جس طرح ان امور میں ماں اور استاد کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ اس بچہ اور شاگرد کا فائدہ اور نقصان ہے اسی طرح اللہ اور بندہ کے معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ الہی احکامات کی بجا آوری میں انسان کا فائدہ اور ان احکامات کی حکم عدولی میں انسان ہی کا نقصان ہے.(قسط نمبر 19 ، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 281

Page 348

خطبات جمعہ سوال: اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے عرض کیا کہ حضور اپنے خطبات جمعہ کی تیاری کس طرح کرتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: بعض ریسرچ والے مضامین ہوتے ہیں.مثلاً آج کل میں صحابہ کی ہسٹری بیان کر رہا ہوں.اس میں جو ریسر چ والی ٹیم میرے ساتھ ہے وہ حوالے وغیرہ نکال کے مجھے دیتے ہیں.لیکن بعض ایسے خطبات جو عموماً تحریک جدید پہ ، وقف جدید پہ یا تربیت پہ میں دیتا ہوں اس کے لئے میں خود کوئی نہ کوئی قرآنی آیت لے کے اور پھر اس کی تشریح اور تفسیر کرنے کے لئے میں خود اپنے ہاتھ سے سارے حوالے تیار کر لیتا ہوں.اس میں بھی اگر کوئی حوالے لینے ہوں تو یہ ریسرچ ٹیم میری مدد کر دیتی ہے.بعض دفعہ میں خود ہی سارے حوالے نکال لیتا ہوں اور بعض دفعہ میں اپنی ٹیم سے کہتا ہوں کہ مجھے فلاں فلاں ریفرنس نکال کے دیدو.پھر میں خطبہ جمعہ تیار کر لیتا ہوں.(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 282

Page 349

خطبہ جمعہ کے آخر پر امام کا نیچے بیٹھنا سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ خطبہ جمعہ کے آخر پر امام نیچے بیٹھتا ہے اور پھر اٹھ کر خطبہ ثانیہ پڑھتا ہے، وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 فروری 2020ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: یہ آنحضور ﷺ کی سنت ہے.چنانچہ کتب احادیث میں حضور الم کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کا یہ طریق بیان ہوا ہے کہ آپ پہلے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے اور جب وعظ و نصیحت وغیرہ سے فارغ ہوتے تو چند لمحوں کے لئے خاموشی سے نیچے بیٹھ جاتے اور پھر اٹھ کر خطبہ ثانیہ ارشاد فرماتے.اس کی وجہ جیسا کہ بعض علماء نے لکھا ہے شاید یہ ہے کہ اس کے ذریعہ دونوں خطبوں میں فرق واضح کیا جاسکے.لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یادر کھنی چاہیے کہ اگر کوئی امام کسی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ نہ سکے تو وہ پہلا خطبہ دے کر چند لمحے خاموشی سے کھڑے رہ کر خطبہ ثانیہ پڑھ سکتا ہے.جیسا کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کیا کرتے تھے، جب آپ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے نیچے بیٹھ نہیں سکتے تھے.اس وقت آپ پہلا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد چند لمحوں کے لئے خاموشی سے کھڑے رہتے اور پھر خطبہ ثانیہ پڑھا کرتے تھے.اسی طرح جب میر اپتے کا آپریشن ہوا تھا تو اس کے بعد جو پہلا جمعہ آیا تھا اس کے خطبہ کے دوران میں نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا کہ چند لمحے خاموشی سے کھڑے رہ کر خطبہ ثانیہ پڑھا تھا.(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 283

Page 350

خلیفہ وقت کے سلطان نصیر سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مربیان سلسلہ جرمنی کی Virtual ملاقات مؤرخہ 15 نومبر 2020ء میں اس سوال پر کہ ہم کس طرح حضور انور کے سلطان نصیر بن سکتے ہیں ؟ حضور انور نے فرمایا: جواب: خلیفہ وقت کا اگر سلطان نصیر بنا ہے تو دعاؤں کے بغیر نہیں بنا جا سکتا.اور دعاؤں کے لئے ، سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا تقرب پانے کے لئے نفل ہیں.فرائض تو آپ لوگ ادا کرتے ہی ہیں.اگر نہیں ادا کریں گے تو پھر ایک مسلمان کی جو ایک بنیادی Category ہے اس میں بھی نہیں آتے.لیکن فرائض ادا کرنے کے بعد جو نوافل ہیں وہ اصل چیز ہیں جو آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب بھی دلائیں گے.اور خدمت کے موقعے بھی زیادہ میسر آئیں گے.اور ان میں برکت بھی پڑے گی.اور خلیفہ وقت کے سلطان نصیر بننے کی بھی توفیق ملے گی.اس لئے ہر مرتی کا فرض ہے کے کم از کم ایک گھنٹہ تہجد پڑھے) آج کل تو ویسے بھی ایک گھنٹہ تہجد پڑھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے.آجکل تو دو گھنٹے بھی پڑھی جا سکتی ہے.لیکن عام حالات میں بھی ہر ایک کو کم از کم ایک گھنٹہ تو تہجد پڑھنی چاہیئے.سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو، کوئی بیمار ہے، کوئی بوڑھا ہو گیا ہے اس کی تو اور بات ہے ناں.باقی تو اس کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے.اس طرف خاص توجہ دیں.ذکر الہی کی طرف بھی زیادہ توجہ ہونی چاہیے.بجائے اس کے کہ یہ سوچتے رہیں کہ آج ہم نے فلاں سٹور میں جانا ہے، فلاں جگہ فلاں اچھی چیز آئی ہوئی ہے.یا میں نے فلاں دنیاوی کام کرنا ہے.یا فلاں جگہ مجلس جمی ہوئی ہے وہاں بیٹھنا ہے.اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی روحانیت کو بڑھانے کی طرف توجہ دیں.اور یہ بڑھے گی تو تبھی آپ انقلاب لا سکتے ہیں.نرے ترانے پڑھنے سے اور نعرے لگانے سے کبھی دنیا میں انقلاب نہیں آیا کرتے اور نہ آپ کے کاموں میں برکت پڑ سکتی ہے.اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی روحانی حالت کو بہتر بنائیں.اور آپ لوگ جو مربیان ہیں اپنی جماعت کے افراد کے لئے نمونہ بننے کی کوشش کریں اور ایک Role-model ہوں.ہر ایک 284

Page 351

آپ کو دیکھ کر کہہ سکے کہ ہاں واقعی مربی صاحب کا تعلق باللہ بھی ہے، اور توجہ بھی ہے، اور ہمدردی خلق بھی ہے، اور افراد جماعت سے پیار اور محبت کا سلوک بھی ہے.یہ چیزیں پیدا کریں گے تو تبھی آپ لوگوں کو کامیابیاں ملیں گی.اپنے لوگوں کی تربیت کر لیں تو آپ کو جماعت میں ایسے ایسے کام کرنے والے مل جائیں گے جو آپ کے مدد گار ہوں گے ، معاون ہوں گے اور پھر آپ کے کام میں آسانیاں پیدا ہوں گی.(قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 285

Page 352

خواتین کا جنازہ کے ساتھ قبرستان جانا سوال: ایک خاتون نے جنازہ کے ساتھ خواتین کے قبرستان جانے، تدفین کے وقت ان کے مردوں کے پیچھے کھڑے ہونے یا گاڑیوں میں بیٹھے رہنے کے بارہ میں حضور انور سے مسئلہ دریافت کیا.اس کا جواب دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 09 جون 2018ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا، حضور انور نے فرمایا: جواب: مستند احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور لم نے عموماًخواتین کو جنازہ کے ساتھ قبرستان جانے سے منع فرمایا ہے لیکن اس بارہ میں خواتین پر بہت زیادہ سختی بھی نہیں کی گئی اور اگر کسی خاص وجہ سے کوئی عورت جنازہ کے ساتھ دیکھی گئی تو اس سے آنحضور لم نے در گذر فرمایا.زمانہ جاہلیت میں میت پر نوحہ کا بہت زیادہ رواج تھا اور زیادہ تر نوجہ عورتیں ہی کیا کرتی تھی.اسلام نے نوحہ کو حرام قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی عورتوں کو بھی عموماً میت کے ساتھ قبرستان جانے سے منع کر دیا گیا تا کہ ان میں سے کوئی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے تدفین کے وقت واویلے کی صورت پیدا نہ کر دے.علماء سلف اور فقہاء نے بھی خواتین کے جنازہ کے ساتھ جانے کو نا پسندیدہ قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک اور آپ کے بعد خلفائے احمدیت کے زمانہ میں عموماً یہی طریق رہا ہے کہ جنازہ پڑھتے وقت عورتوں کو الگ انتظام کے ساتھ نماز جنازہ میں تو شامل ہونے دیا جاتا ہے لیکن تدفین کے وقت عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی جاتی.پس کسی خاص وجہ کے علاوہ عورتوں کو جنازہ کے ساتھ قبرستان نہیں جانا چاہیئے، لیکن اگر کسی مجبوری کے تحت خواتین کو جنازہ کے ساتھ قبرستان جانا پڑ جائے تو جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے انہیں تدفین کے وقت اپنی گاڑیوں میں ہی بیٹھے رہنا چاہیئے اور قبر تیار ہونے پر مردوں کے وہاں سے ہٹ جانے کے بعد اگر وہ چاہیں تو قبر پر دعا کر سکتی ہیں.(قسط نمبر 6، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 286

Page 353

و جال سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جلسہ جرمنی میں ایک تقریر میں دجال کو ایک شخص کی بجائے استعارہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن گزشتہ دنوں ایک ویڈیو میں صحیح مسلم کی ایک حدیث کا ذکر تھا جس میں دجال کو ایک مجسم انسان قرار دیا گیا ہے.کیا یہ حدیث Authentic ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: دراصل آخری زمانہ میں اسلام نے جن مصائب اور فتنوں سے دوچار ہونا تھا، ان میں دجال اور یا جوج ماجوج کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں مختلف پیرایوں میں ان فتنوں کا ذکر موجود ہے اور آنحضور الم نے بھی مختلف انداز میں ان فتنوں سے اپنی اُمت کو آگاہ فرمایا ہے، جس کا ذکر کئی احادیث میں بیان ہوا ہے.انہیں میں سے ایک حدیث صحیح مسلم کی بھی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا ہے.یہ حدیث بھی اس مضمون سے تعلق رکھنے والی دیگر احادیث کی طرح کشفی نظارہ اور استعارات پر مشتمل ہے.اگر اس حدیث میں بیان امور حقیقت پر مبنی ہوتے تو اس راوی کے علاوہ بھی کئی اور لوگوں نے اس حدیث میں بیان اس جساسہ اور دیو ہیکل دنجال کو ظاہری آنکھوں سے دیکھا ہوتا.پس کسی اور کا اس حدیث میں بیان امور کے بارہ میں اپنا ظاہری مشاہدہ بیان نہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا.باقی جہاں تک دجال اور یا جوج ماجوج کی حقیقت کا تعلق ہے تو یہ ایک ہی فتنہ کے مختلف مظاہر ہیں.دجال اس فتنہ کے مذہبی پہلو کا نام ہے.جس کا مطلب ہے کہ یہ گروہ آخری زمانہ میں لوگوں کے مذہبی عقائد اور مذہبی خیالات میں فساد پیدا کرے گا.اور اس زمانہ میں جو گروہ سیاسی حالات کو خراب کرے گا اور سیاسی امن و امان کو تباہ و برباد کرے گا اس کو یاجوج ماجوج کا نام دیا گیا ہے.اور ہر دو سے مراد مغربی عیسائی اقوام کی دنیوی طاقت اور ان کا مذہبی پہلو ہے.لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی اللی علم کے ذریعہ ہمیں یہ خبر دی کہ جب دجال اور یا جوج ماجوج کے فتنے برپا ہوں گے اور اسلام کمزور ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اسلام کی حفاظت 287

Page 354

کے لئے مسیح موعود کو مبعوث فرمائے گا.اس وقت مسلمانوں کے پاس مادی طاقت نہ ہو گی لیکن مسیح موعود کی جماعت دعاؤں اور تبلیغ کے ساتھ کام کرتی چلی جائے گی.جس کی بدولت اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو خود ہلاک کر دے گا.(قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 288

Page 355

دعا سوال: ملاقات مؤرخہ 08 نومبر 2020ء کے آخر پر محترم امیر صاحب بنگلہ دیش نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے حضور بنگلہ دیش کے لئے کوئی ایسی دعا کر دیں جس سے ہماری کایا پلٹ جائے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا: جواب: ساری دنیا کے لئے کیوں نہ کروں؟ صرف بنگلہ دیش کے لئے کیوں کروں؟ مجھے محدود کیوں کر رہے ہیں؟ میں تو ساری دنیا کے لئے دعا کرتا ہوں.اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک وقت رکھا ہوتا ہے، جب وہ وقت آئے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ کا یا بھی پلٹ جائے گی.آنحضرت ام کو کسی نے کہا کہ میرے لئے دعا کریں کہ میرا فلاں کام ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ اچھا میں دعا کروں گا.پھر آپ ایم نے اسے واپس بلایا اور اسے فرمایا کہ تم بھی دعا کرو اور اپنی دعاؤں سے میری دعا کی مدد کرو.تو یہ آپ لوگوں کا بھی کام ہے کہ جس طرح میں نے ابھی کہا ہے کہ راتوں کو اٹھیں.ہر مرتی اور معلم جو ہے لازمی قرار دے کہ اس نے تہجد پڑھنی ہے اور بے نفس ہو کے کام کرنا ہے.خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرنا ہے اور اس کے بندوں کے حق بھی ادا کرنے ہیں.اپنی خدمت دین کو اک فضل الہی سمجھنا ہے اور اس کے لئے کسی Reward کی اور کسی تعریف کی امید نہیں رکھنی چاہیئے.اگر اس طرح کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی بے شمار بارش برسائے گا.اور بڑی جلدی برسائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگوں کو اپنے اپنے میدان میں کامیاب فرمائے.آمین (قسط نمبر 7، الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 12) 289

Page 356

سوال: ایک دوست نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں گستاخ رسول کی سزا، قرآن و حدیث کو حفظ کرنے ، درود شریف اور دیگر ذکر و اذکار، مختلف دعاؤں اور قرآنی سورتوں کو گن کر پڑھنے کی بابت بعض استفسارات بھجوا کر ان کے بارہ میں رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 دسمبر 2019ء میں ان سوالوں کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم اور احادیث کو حفظ کرنے کا بہترین طریق انہیں توجہ اور کثرت کے ساتھ پڑھنا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت ابوھریرہ کی اسی قسم کی شکایتوں پر حضور ا نے انہیں، ان امور کی طرف توجہ کرنے اور انہیں مسلسل اور کثرت سے پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی.درود شریف میں انہماک پیدا کرنے کا بھی یہی طریق ہے کہ محبت اور لگن کے ساتھ اس کا کثرت سے ورد کیا جائے.جس طرح ہم اپنے دوسرے کاموں میں دلچسپی لیتے اور ان کی طرف توجہ کرتے ہیں، اگر ان نیک کاموں میں بھی یہی محبت اور دلچسپی پیدا کریں تو انشاء اللہ ضرور مقصود حاصل ہو گا.درود شریف کا کثرت سے ورد یقیناً بہت بابرکت ہے اور انسان کی ہر دعا حضور ام پر درود کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ کے حضور رسائی پاتی ہے جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے.اگر صرف درود شریف ہی پڑھنا ہر انسان کے لئے کافی ہوتا اور یہ چیز اسے باقی دعاؤں سے مستغنی کر دیتی تو مختلف مواقع پر حضور ام خود درود شریف کے علاوہ دیگر دعائیں کیوں پڑھتے ؟ اور دیگر صحابہ و صحابیات کو مختلف قسم کی دعائیں کیوں سکھاتے ؟ چنانچہ احادیث میں بہت سی ایسی دعاؤں کا ذکر ملتا ہے، جو حضور ا م نے خود بھی کیں اور صحابہ اور صحابیات کو بھی سکھائیں.اور یہی طریق آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے.آنحضور الم کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی بناء پر اگر کوئی شخص اس نیت سے کہ د بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کے لئے ایک وسیلہ ہے، اس حُسنِ ظنی سے اپنی تمام مناجات آنحضور ام پر درود بھیجنا ہی بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی اس نیت اور حُسنِ ظنی کے درود 290

Page 357

مطابق اس سے سلوک کرے گا، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا عِنْدَ ظَنِ عَبْدِي بِي احادیث میں مختلف درود بیان ہوئے ہیں اور علماء امت میں بھی مختلف قسم کے درود رائج رہے ہیں، اور انہوں نے ان کے مختلف نام بھی رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے بعض تفصیلی درود ہیں اور بعض مختصر ہیں.زیادہ برکت کا باعث اور مبارک درود تو یقیناً وہی ہے جو آنحضور ا کی زبان مبارک سے نکلا اور آپ نے اپنے صحابہ کو سکھایا.ان امور میں اصل چیز تو انسان کی نیت، محبت اور توجہ ہے کہ کس طور پر وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنا چاہتا ہے.پس جس نیست، محبت اور توجہ سے وہ ان امور کو سر انجام دے گا اللہ تعالیٰ تک اس کی یہ نیت اور خلوص یقیناً پہنچ جاتا ہے.احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور الم نے بعض احکامات سائل کی نفسیات کو سامنے رکھ کر بیان فرمائے ہیں، اسی لئے ایک ہی قسم کے سوال پر آپ کی طرف سے مختلف جواب بھی بیان ہوئے ہیں.حضور ام نے جس شخص میں جیسی کمی محسوس کی اس کی اسی کے مطابق رہنمائی فرمائی.اس لئے بعض دعاؤں اور ذکر و اذکار کو گن کر کرنے کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے.جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کم از کم اس قدر تو ضرور ان دعاؤں اور ذکر و اذکار کو بجالاؤ.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امر کو خوب کھول کھول کر بیان فرمایا ہے کہ دعاؤں اور ذکر و اذکار کو صرف طوطے کی طرح پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو پانے کے لئے ان دعاؤں اور ذکر و اذکار میں بیان اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا، ان کے مطابق عمل کرنا اور دیگر نیکیاں بجالانا بھی لازمی ہے.سورۃ الفاتحہ کو کثرت سے پڑھنے والا جب تک اس سورۃ میں بیان الہی صفات میں رنگین ہونے کی کوشش نہیں کرے گا اور قرآنی ہدایت صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ الله صِبْغَةً اور حدیث رسول الله تَخَلَّقَوْا بِأَخْلَاقِ اللہ کا جامہ زیب تن نہیں کرے گا، صرف زبانی ذکر و اذکار سے وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.علم لدنی کے حصول کا بھی یہی ذریعہ ہے کیونکہ اسی طریق پر انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے پیار کو جذب کر سکتا ہے.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 109 اپریل 2021ء صفحہ 11) 291

Page 358

سوال: ایک خاتون نے محمد بن عبد الجبار النفری کی کتاب ”المواقف “ کی عبارت ”اُدْعُنِي فِي رُؤيَتِي وَلَا تَسْتَالْنِي، وَ سَلْنِي فِي غَيْبَتِي وَلَا تَدْعُنِي“ (یعنی میرے دیکھنے کی حالت ہوتے ہوئے مجھ سے دعا کرو مگر مجھ سے مانگو نہیں اور میرے غائب ہونے کی حالت میں مجھ سے مانگو اور مجھ سے دعا نہ کرو) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے دریافت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے مانگنے میں کیا فرق ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 02 جولائی 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: تصوف کی مذکورہ بالا کتاب میں بیان یہ عبارت نہ تو قرآن کریم کا کوئی حکم ہے اور نہ ہی کسی حدیث پر مبنی اصول ہے.یہ اس کتاب کے مصنف کی بیان کردہ ایک عبارت ہے.قرآن کریم اور احادیث میں دعا کرنے اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.اس میں اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری دعا کسی سوال پر مبنی نہیں ہونی چاہیئے.پھر ایک حدیث قدسی میں حضور الم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں نچلے آسمان پر اترتا ہے اور اعلان کرتا ہے مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيْب لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ ایک ہی موقع پر دعا کرنے اور سوال کرنے دونوں کا حکم فرما رہا ہے.پھر حدیث میں ہی حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لئے اس موقع پر کثرت سے دعا کیا کرو.اس میں بھی حضور ا ہم نے ایسی کوئی ممانعت نہیں فرمائی کہ تمہاری یہ دعا کسی سوال پر مبنی نہیں ہونی چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے کلام میں ہمیں یہی نصیحت فرمائی ہے کہ ہمیں اپنی دینی و دنیوی تمام ضرورتیں اللہ تعالیٰ کے حضور ہی عرض کرنی چاہئیں.چنانچہ اپنے ایک شعر میں آپ فرماتے ہیں: حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے پھر مذکورہ بالا کتاب میں درج عبارت کے حوالہ سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ کب 292

Page 359

سامنے نہیں ہوتا؟ وہ تو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے.پس میرے نزدیک اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے سوال کرنے میں کوئی فرق نہیں.علمی حد تک زیادہ سے زیادہ اس فقرہ کی یہ تشریح ہو سکتی ہے کہ چونکہ انسان کو جب کسی کے موجو د ہونے کا ڈر ہو تو وہ برائی کرنے سے احتراز کرتا ہے، چنانچہ موجودہ دور میں سی سی ٹی وی (CCTV) کیمروں کی مثال اس کی ایک بین دلیل ہے.اس لئے جب کبھی انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا اور شیطان اسے کسی برائی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے تو اسی وقت اسے اپنے ایمان کے بارہ میں فکر مند ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے اسی کے در کا سوالی بن کر اس کے سامنے جھک جانا چاہیئے.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 293

Page 360

دعائے قنوت سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ بچے اکثر سوال کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے تو خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی ہم پر کیوں لازم ہے؟ نیز لکھا کہ دعائے قنوت میں جو یہ فقرہ ہے کہ ”ہم چھوڑتے ہیں تیرے نافرمان کو “ تو کیا اس سے مراد نافرمان اولاد اور افراد جماعت بھی ہو سکتے ہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں ان سوالات کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: جہاں تک دعائے قنوت کے فقرہ کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ فاسق و فاجر کفار ہیں جنہوں نے منافقت اور دھو کہ کے ساتھ مسلمانوں کا قتل و غارت کیا اور انہیں طرح طرح کے نقصان پہنچائے.چنانچہ بئر معونہ اور رجیع جیسے واقعات کے بعد ہی حضور الم نے قنوت فرمایا.پس والدین کی نافرمان اولا د یا نظام جماعت سے انتظامی سزا پانے والے افراد جماعت اس سے مراد نہیں ہو سکتے.البتہ انتظامی سزا پانے والے ایسے افراد جماعت جن پر ان سزاؤں کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہوتا، ان کی جھوٹی اناؤں نے انہیں اپنے قبضہ میں لیا ہوتا ہے اور وہ بھول جاتے ہیں کہ نظام جماعت کی اطاعت کرنی ہے.ایسے لوگوں کو اس سزا کا احساس دلانے کے لئے باقی افراد جماعت کا فرض بنتا ہے کہ ان کے ساتھ مجلسوں میں نہ بیٹھیں، انہیں اپنی دعوتوں میں نہ بلائیں اور نہ انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں.کیونکہ جماعتی تعزیر ایک معاشرتی دباؤ کے لئے دی جاتی ہے.تاہم بیوی بچوں اور والدین کو ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی اس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ وہ انہیں سمجھائیں اور نظام جماعت کا مطیع و فرمانبردار اور صحت مند فرد بنانے کی کوشش کریں.(قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 294

Page 361

ول سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ہم جب مذہبی اور روحانی لحاظ سے ”دل“ کی بات کرتے ہیں تو کیا اس سے مراد وہی عضو ہوتا ہے جو خون کی گردش کا کام کرتا ہے یا پھر اس سے مراد روح اور دماغ ہوتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19 فروری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا: جواب: عربی زبان میں عام طور پر دل کے لئے قلب اور فواد کے الفاظ آتے ہیں اور یہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں ظاہری معنوں میں بھی استعمال ہوئے ہیں اور استعارہ کے رنگ میں بھی آئے ہیں.مثلاً دل پر پردہ پڑ جانا، دل میں ٹیڑھا پن ہونا، دل کا سخت ہو جانا، دل کا ایمان نہ لانا، دل میں مرض پیدا ہو جانا، دل پر مہر لگ جانا، دل پر زنگ لگ جانا، دل کا انکار کرنا، دل میں غیظ کا ہونا، دل کا شک کرنا، دل کا اندھا ہو نا، دل کا گلے تک آ جانا، دل کا پھر جانا، دل کا نہ سمجھنا، دل کا نیکی اور برائی کمانا، دل کا اللہ کے ذکر سے غافل ہونا، دل کا پاک ہونا، دل کا اطمینان پانا، دل میں تقویٰ ہونا، دل کا مضبوط ہونا، دل کا ارادہ کرنا ، دل میں ایمان کا داخل ہونا، دل پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہو نا، دل کا فکر سے فارغ ہونا اور دل کا دیکھنا وغیرہ.اسی طرح احادیث میں بھی دل کو ظاہری معنوں کے علاوہ استعارہ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے.پس قرآن و حدیث میں اس لفظ کے مختلف معانی کا استعمال بتاتا ہے کہ مذہبی اور روحانی زبان میں دل سے مراد صرف ایک جسمانی عضو نہیں ہے جو خون کی گردش کا کام کرتا ہے بلکہ مذہبی اور روحانی زبان میں اس لفظ کو استعارہ کے طور پر بھی کئی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے.اور اس سے مراد روح، علم ، فہم، عقل، نیت، طبیعت، شجاعت اور فطرت وغیرہ کئی مطالب ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قلب اور فواد کی لغوی تحقیق کے ضمن میں فرماتے ہیں: قلب...کے معنے ہیں الفُؤَادُ دل...اور کبھی قلب کا لفظ عقل پر بھی بولا جاتا ہے...اور لفظ قلب کے ذریعہ ان کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے جو روح، علم اور شجاعت وغیرہ اقسام کی اس کے ساتھ مخصوص ہیں...قلب 295

Page 362

کے معنے سوچنے اور تدبر کے ہیں.66 ( تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 153) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دل میں ایمان کے لکھنے سے یہ مطلب ہے کہ ایمان فطرتی اور طبعی ارادوں میں داخل ہو گیا اور بجز و طبیعت بن گیا اور کوئی تکلف اور تصنع در میان نہ رہا.اور یہ مر تبہ کہ ایمان دل کے رگ و ریشہ میں داخل ہو جائے اُس وقت انسان کو ملتا ہے کہ جب انسان روح القدس سے مؤید ہو کر ایک نئی زندگی پاوے اور جس طرح جان ہر وقت جسم کی محافظت کے لئے جسم کے اندر رہتی ہے اور روشنی اُس پر ڈالتی رہتی ہے اسی طرح اس نئی زندگی کی روح القدس بھی اندر آباد ہو جائے اور دل پر ہر وقت اور ہر لحظہ اپنی روشنی ڈالتی رہے اور جیسے جسم جان کے ساتھ ہر وقت زندہ ہے دل اور تمام روحانی قوی روح القدس کے ساتھ زندہ ہوں.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے بعد بیان کرنے اس بات کے کہ ہم نے اُن کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا یہ بھی بیان فرمایا کہ روح القدس سے ہم نے ان کو تائید دی کیونکہ جبکہ ایمان دلوں میں لکھا گیا اور فطرتی حروف میں داخل ہو گیا تو ایک نئی پیدائش انسان کو حاصل ہو گئی اور یہ نئی پیدائش بجز تائید روح القدس کے ہر گز نہیں مل سکتی.رُوح القدس کا نام اسی لئے روح القدس ہے کہ اُس کے داخل ہونے سے ایک پاک روح انسان کو مل جاتی ہے.قرآن کریم روحانی حیات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور جابجا کامل مومنوں کا نام احیاء یعنی زندے اور کفار کا نام اموات یعنی مردے رکھتا ہے.یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل مومنوں کو روح القدس کے دخول سے ایک جان مل جاتی ہے اور کفار گوجسمانی طور پر حیات رکھتے ہیں مگر اُس حیات سے بے نصیب ہیں جو دل اور دماغ کو ایمانی زندگی بخشتی ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 100 تا102) 296

Page 363

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف میں جو خَتَمَ اللهُ عَلي قُلُوبِهِمْ آیا ہے اس میں خدا کے مُہر لگانے کے یہی معنی ہیں کہ جب انسان بدی کرتا ہے تو بدی کا نتیجہ اثر کے طور پر اس کے دل پر اور منہ پر خدا تعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ یعنی جب کہ وہ حق سے پھر گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کے دل کو حق کی مناسبت سے ڈور ڈال دیا اور آخر کو معاندانہ جوش کے اثروں سے ایک عجیب کا یا پلٹ ان میں ظہور میں آئی اور ایسے بگڑے کہ گویا وہ وہ نہ رہے اور رفتہ رفتہ نفسانی مخالفت کے زہر نے ان کے انوار فطرت کو دبا لیا.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 48،47) أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ کے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اس کے عام معنی تو یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور فلسفہ یہ ہے کہ جب انسان نیچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اس سے اُس کے دل پر ایک خوف عظمت الہی کا پیدا ہوتا ہے وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور وہ اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے اُس وقت وہ اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء الورا طاقتوں کو مشاہدہ کرتا ہے.پھر اس کے دل پر کوئی ہم و غم نہیں آسکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے.“ (الحکم جلد 9 نمبر 32 مؤرخہ 10 ستمبر 1905ء صفحہ 8) فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کا فطرت صحیحہ کے مطابق کام نہ کرنا 297

Page 364

بتاتا ہے کہ ان کے دل مریض ہیں کیونکہ اگر دل میں مرض نہ ہوتا تو کم سے کم یہ ان باتوں کو تو محسوس کرتے جو فطرت صحیحہ سے پیدا ہوتی ہیں.جس طرح صفراء کی زیادتی سے زبان کا مزہ خراب ہو جاتا ہے اور میٹھا بھی کڑوا معلوم دیتا ہے اسی طرح جن کے دل مریض ہوں وہ اپنی فطرت کی آواز کو صحیح طور پر نہیں سن سکتے.“ (تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 173) پس قرآن و حدیث اور مذکورہ بالا ارشادات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہبی اور روحانی طور پر دل سے مراد صرف ایک جسمانی عضو نہیں ہے بلکہ اس لفظ کو استعارہ کے طور پر بھی کئی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے.(قسط نمبر 32، الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل 2022ء صفحہ 11) 298

Page 365

دَم کرنا سوال: میر پور آزاد کشمیر سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ لاعلاج مریضوں پر پڑھ کر دم کرنے والی ایک دعا يَا مَنْ اِسْمُهُ دَوَاءٌ وَ ذِكْرُهُ شفاء ہے اس دعا کا حوالہ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 09 اپریل 2022ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: میرے علم میں تو ایسی کوئی دعا نہیں ہے جو آپ نے اپنے خط میں تحریر کی ہے.البتہ احادیث میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضور ایلم خود بھی اور صحابہ رسول الله الالم سورۃ فاتحہ ، معوذتین (یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) اور بعض اور دعاؤں کے ذریعہ بخار ، مختلف بیماریوں اور سانپ اور بچھو وغیرہ کے کاٹنے پر دم کر لیا کرتے تھے.چنانچہ احادیث میں یہ واقعہ آتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت کسی سفر پر روانہ ہوئی اور یہ لوگ ایک قبیلہ کے پاس آکر ٹھہرے اور ان سے کچھ کھانے کے لئے طلب کیا لیکن قبیلہ والوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا.پھر اس قبیلہ کے سردار کو سانپ یا بچھونے کاٹ لیا اور قبیلہ والوں نے اس کے علاج کی پوری کوشش کی لیکن سردار کو کوئی افاقہ نہ ہوا.کسی نے مشورہ دیا کہ جو باہر سے لوگ ہمارے پاس آکر ٹھہرے ہیں ان سے بھی پوچھا جائے، شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی دوا ہو.صحابہ سے پوچھنے پر ایک صحابی نے کہا کہ ہاں میں ایک دم جانتا ہوں لیکن چونکہ تم لوگوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی، اس لئے اب میں تمہارے سر دار پر دم نہیں کروں گا.چنانچہ اس قبیلہ والوں نے بکریوں کا ایک ریوڑ صحابہ کو دینے کا وعدہ کیا، جس پر اس صحابی نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر قبیلہ کے سردار پر دم کیا تو وہ سورۃ الفاتحہ کی برکت سے ٹھیک ہو کر اس طرح چلنے پھرنے لگا کہ گویا اس کو کسی چیز نے کاٹا ہی نہ ہو.صحابہ نے قبیلہ والوں سے بکریاں لے لیں.ایک شخص نے کہا کہ ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، لیکن جس صحابی نے دم کیا تھا انہوں نے مشورہ دیا کہ جب تک ہم حضور لم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان نہ کر لیں اور معلوم نہ کر لیں کہ حضور ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، اس وقت تک ہمیں ایسا نہیں کرنا - 299

Page 366

چاہیئے.پھر یہ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور الی یکم نے فرمایا تمہیں کس طرح علم ہوا کہ سورۃ فاتحہ دم کرنے والی سورۃ ہے.تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے، ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور میرا بھی ایک حصہ مقرر کرو.اور یہ فرما کر حضور ال وام مسکرا دیے.(بخاري كتاب الطب بَاب النَّفْثِ فِي الرُّقْيَةِ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور الم أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ بِيَدِكَ الشَّفَاءُ لَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا أَنْتَ ( یعنی اے لوگوں کے رب تو اس تکلیف کو دور فرما دے، شفا تیرے ہی ہاتھ میں ہے، تیرے سوا کوئی اس تکلیف کو دُور نہیں کر سکتا) کی دعا پڑھ کر دم کیا کرتے تھے.(صحیح مسلم کتاب السلام بَابِ اسْتِحْبَابِ رُقْيَةِ الْمَرِيضِ ) اسی طرح احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضور ام دم کرتے وقت پھونک بھی مارا کرتے تھے.(سنن ابن ماجه كتاب الطب بَاب النَّفْتِ فِي الرُّقْيَةِ) یہی طریق ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کا بھی ملتا حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ یہ عاجز رائم لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور جماعت لاہور کے چند اور اصحاب بھی ساتھ تھے.صوفی احمد دین صاحب مرحوم نے مجھ سے خواہش کی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سفارش کر کے صوفی صاحب کے سینہ پر دم کر ا دوں.چنانچہ حضرت صاحب کوچہ بندی میں سے اندرون خانہ جا رہے تھے جبکہ میں نے آگے بڑھ کر صوفی صاحب کو پیش کیا اور ان کی درخواست عرض کی.حضور نے کچھ پڑھ کر صوفی صاحب کے سینے پر دم کر دیا.(پھونک مارا) اور پھر اندر تشریف لے گئے.(ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب، صفحہ 137، مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ) اسی طرح حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی بیان فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں سرساوہ سے چل کر قادیان شریف ہے.چنانچہ 300

Page 367

حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا مر شد نانورالدین صاحب خلیفتہ المسیح علیہ السلام بھی آئے ہوئے تھے اور صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام بھی تشریف رکھتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ پیر صاحب بہت سے پیر دیکھے کہ وہ عملیات اور تعویذ کرتے ہیں کوئی عمل آپ کو بھی یاد ہے جس کو دیکھ کر ہمیں بھی یقین آجائے کہ عمل ہوتا ہے.میں نے عرض کیا کہ ہاں یاد ہے.فرمایا دکھاؤ اور میں نے عرض کی کہ ہاں وقت آنے دیجئے.دکھلا دوں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ضرور صاحبزادہ صاحب کو یاد ہو گا ان کے بزرگوں سے عمل چلے آتے ہیں.کوئی دو گھنٹہ کے بعد ایک شخص آیا جس کو ذات الجنب یعنی پسلی کا درد شدت سے تھا میں نے عرض کی کہ دیکھئے اس پر عمل کرتا ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ ہاں عمل کرو.حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ہاں عمل کرو.میں نے اسی شخص پر دم کیا اس کو درد سے بالکل خدا تعالیٰ نے آرام کر دیا اور شفا دی.جب اس کو آرام ہو گیا تو حضرت خلیفتہ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ مسمیریزم ہے.میں نے اس زمانہ میں مسمیریزم کا نام بھی نہیں سنا تھا.اور نہ میں جانتا تھا کہ مسمیریزم کیا چیز ہوتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا صاحبزادہ صاحب تم نے کیا پڑھا تھا میں نے عرض کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد” میں نے الحمد شریف پڑھی تھی.“ (تذکرۃ المہدی صفحہ 186، مطبوعہ 1914ء، ٹائیٹل ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) پس آنحضور ا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام علیہم السلام سے دم کرنا ثابت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے، ان قرآنی سورتوں اور ان پاکیزہ اذکار کی برکت اور بزرگوں کی دعا کے نتیجہ میں مریض کو شفا عطا فرما دیتا ہے.(قسط نمبر 55، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2023ء صفحہ 6) 301

Page 368

دہریہ سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمد یہ گھانا کی Virtual نشست مؤرخہ 05 دسمبر 2020ء میں ایک طالبعلم کے اس سوال پر کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے ان کو سمجھانے کے لئے سب سے مضبوط دلیل کونسی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ بات سننا بھی نہیں چاہتے.خدا تعالیٰ کی ذات کی مضبوط دلیلیں تو اپنا ذاتی تجربہ ہے.آپ ان کو کہیں کہ تم کہتے ہو خدا نہیں ہے.میں کہتا ہوں خدا ہے.میں نے خدا سے مانگا، اس نے مجھے دیدیا.آپ کی کوئی دعا قبول ہوئی ناں؟ آپ نے کبھی دعا کی، آپ کی دعا قبول ہوئی کہ نہیں ہوئی؟ (طالبعلم نے عرض کیا کہ جی، جی قبول ہوئی.بس تو جو خدا کو نہیں مانتے ان سے کہو کہ تم کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے.میں نے تو اللہ تعالیٰ سے مانگا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے دیا.میرا تو اللہ تعالیٰ کی ذات میں ذاتی تجربہ ہے.میں کس طرح کہہ دوں کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے.ہاں تم بھی اگر کوشش کرو گے تو پھر تمہیں بھی اللہ مل جائے گا.لیکن یہ لوگ جو خدا کو نہیں مانتے یہ لوگ بڑے ڈھیٹ لوگ ہوتے ہیں.یہاں بھی ایک Atheist ہے جس کا نام Richard Dawkins ہے.وہ بھی خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا.اور اس نے خدا تعالیٰ کے خلاف کتاب بھی لکھی ہے.میں نے اس کو Five Volume Commentary بھی بھجوائی اور اسلامی اصول کی فلاسفی اور دوسری کتابیں بھی بھجوائیں.اور میں نے کہا یہ پڑھو پھر ہم سے بات کرو، تمہیں پتہ لگے کہ خدا کیا ہے اور خدا کا کیا تصور ہے.اس نے کہا میں نے کچھ نہیں پڑھنا.صرف تم میری کتاب پڑھو، میں نے تمہاری کتابیں کوئی نہیں پڑھنی.تو یہ لوگ ڈھیٹ ہوتے ہیں، اور جو ڈھیٹ ہو جائیں انہوں نے کسی طرح نہیں ماننا.ہاں جن کے اندر تھوڑی سی نیک فطرت ہوتی ہے ان سے ذاتی تعلق رکھو اور ان کو پھر اپنے ذاتی تعلق کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے قریب لے کے آؤ.بعض دفعہ جو اپنا قرب ہے وہ بھی اثر ڈالتا ہے اور دوسرے انسان کے لئے تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے.تو ذاتی تجربہ جو ہے وہ سب سے مؤثر چیز ہے.یہاں میرے پاس بھی کئی دفعہ ملاقاتیں کرنے والے، پریس والے بعض لوگ آتے ہیں.302

Page 369

بعض نے بعد میں اظہار کیا کہ ہم خدا کو تو نہیں مانتے لیکن اگر کبھی خدا کو مانا تو ہم تمہارے خلیفہ کی وجہ سے مانیں گے کہ اس نے ہمیں خدا تعالیٰ کی صحیح طرح بات بتائی ہے.پھر دلوں کو نرم کرنے کے لئے دعا ہونی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو نرم بھی کرے.اس لئے اپنا ذاتی نمونہ جو ہے وہ بہت ضروری ہے وہ پیش کریں اور قبولیت دعا کے لئے اپنے تجربات بیان کریں.سب زیادہ تو یہ ہے کہ میرے ساتھ اللہ کا کیا سلوک ہے.جب اپنے ساتھ اللہ کا سلوک بتائیں گے تو وہ جو First Hand Experience ہے اس سے لوگ پھر زیادہ Impressed ہوتے ہیں.باقی دلیلیں تو بے شمار ہیں.” ہمارا خدا ہے “، ”ہستی باری تعالیٰ کے دس دلائل ہیں“، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتاب“ ہستی باری تعالی ہے.یہ ساری کتابیں اردو میں بھی اور انگلش میں بھی آگئی ہیں.یہ پڑھو اور ان کو بھی یہ پڑھنے کے لئے دو.اسی طرح اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی ہے اور وہ پڑھنا جانتا ہے تو اس کو ایک تو اسلامی اصول کی فلاسفی“ پہلے دینی چاہیئے ، پھر ہستی باری تعالیٰ کے دس دلائل ہیں وہ دینی چاہیئے.یہ چھوٹی چھوٹی کتابیں ہیں.پھر حضرت خلیفہ رابع ” کی کتا."Revelation,Rationality,Knowledge and Truth“ ہے اس کا ایک Chapter جو خدا تعالیٰ کی ذات پہ ہے وہ بھی بعضوں کو متاثر کر دیتا ہے.”ہمارا خدا کی بھی انگلش ٹرانسلیشن ہو چکی ہے وہ دینی چاہیئے کہ پڑھو.اب پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی نہیں مانتا تو ہمارا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے ، کسی کی ہدایت کے لئے ہم گارنٹی نہیں دے سکتے.ہدایت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے سپر دلی ہے.ہمارے سپر د صرف تبلیغ کی ذمہ داری ڈالی ہے کہ ہم تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کے رستہ کی طرف لے کے آئیں.(قسط نمبر 24، الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 303

Page 370

دہشت گردی سوال: گلشن وقف نولجنه و ناصرات سڈنی آسٹریلیا مؤرخہ 07 اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضو انور سے دریافت کیا کہ لوگ اسلام اور Terrorism کو کیوں ملاتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اس لئے کہ آجکل جتنے Terrorist گروپ ہیں القاعدہ، طالبان، بو کو حرام اور دوسرے یہاں جو نئے نئے روزانہ نکل رہے ہیں ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے.تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام اور Terrorism ایک ہی چیز ہے.اسی غلط فہمی کو ہم نے Remove کرنا ہے.اسی لئے یہاں بک سٹال پر ایک کتاب "Pathway to Peace“ پڑی ہوئی ہے.میرے مختلف لیکچرز ہیں، جو میں مختلف لوگوں کو جا کر دیتا رہتا ہوں کہ اسلام اور Terrorism کو نہ ملاؤ.یہ مختلف چیزیں ہیں.وہ ان کے Vested Interest ہیں جن کو وہ کر رہے ہیں.وہ کتاب خرید و (حضور نے اس کتاب کی قیمت کے بارہ میں ضمناً فرمایا کہ ویسے یہاں مہنگی بیچ رہے ہیں، ان کو دو ڈالر میں بیچنی چاہیئے، پانچ ڈالر میں سنا ہے بیچ رہے ہیں، واقف نو کو تو بہر حال دو ڈالر میں دینی چاہیئے ) تو وہ خریدو اور پڑھو.اس میں تمہیں میرے سارے لکھے ہوئے مختلف جواب مل جائیں گے کہ یہ تصور غلط ہے.اسلام تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے.اسلام نے تو جنگوں میں کبھی پہل کی نہیں.نہ کبھی Terrorism کیا ہے.جب مکہ بھی فتح ہوا تو آنحضرت ا نے سب کو معاف کر دیا.اپنے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا.قرآن کریم نے ظلم کرنے سے منع کیا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی کو بلا وجہ قتل نہ کرو.اگر ایک کو قتل کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ تم نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا.اور یہ مسلمان جو ہیں وہ کس کو مار رہے ہیں ؟ عیسائیوں کو تو نہیں مارتے زیادہ.زیادہ تر تو مسلمان، مسلمانوں کو مار رہے ہیں.پاکستان میں روز جو حملے ہوتے ہیں یا عراق میں شیعوں کو مارتے ہیں یا شیعہ سنیوں کو مار دیتے ہیں.یا جو ہر جگہ Suicide Bombing ہو رہی ہے، وہ مسلمان ہی مر رہے ہیں.چرچ پر تو اب حملہ ہوا ہے جس میں سو دو سو عیسائی چرچ میں مر گئے.لیکن باقی تو مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں.ہم احمدیوں کو مارتے ہیں.یا باقی جگہ جو 304

Page 371

بم پھٹتے رہتے ہیں.تو یہ سب Terrorist ہیں، خود ہی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں.جس کی کہیں بھی اجازت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے پر بہت زیادہ رحم کرو.اور یہ مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں.اور ایک مسلمان کو بلا وجہ مارنا جو ہے، اللہ تعالی کہتا ہے کہ جہنم میں ڈالوں گا.تو یہ سارے جہنم میں جارہے ہیں.پس اسلام کا اور Terrorism کا کوئی جوڑ نہیں ہے.کسی لفظ سے دیکھ لو، اسلام کا مطلب Peace ہے.تم لوگ اگر ایم ٹی اے سنتے ہو اور کم از کم واقفین نو کو تو ضرور سننا چاہیئے.یو کے کے جلسہ کی جو میری آخری تقریر تھی وہ یہی تھی کہ اسلام کیا چیز ہے اور مسلمان کیا چیز ہے.اور پھر یہ کتاب لے کر پڑھو، یہ تو انگلش میں ہے، تم پڑھ لو گی.(قسط نمبر 3، الفضل انٹر نیشنل 04 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 305

Page 372

دوسروں کو ٹریننگ دینا سوال: اسی Virtual ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک سوال کے جواب میں ٹیم ممبر کے طور پر کام کرنے اور دوسروں کو ٹریننگ دینے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جواب: خود کام کرنا اور اچھا کام کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے.یہ آپ کی ایک Personal کوالٹی ہے، جو ٹھیک ہے.خود کام کر لیا ، اچھا کام کر لیا ، اچھی رپورٹیں دیدیں، بہت اچھا کیا.لیکن اس کے ساتھ اگر آپ نے اپنی ٹیم نہیں بنائی.اپنی سیکنڈ لائن نہیں بنائی جو آپ کے کام کو بعد میں سنبھال سکے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کیا.خود کام کرنا اصل کام نہیں ہے، اصل کام یہ ہے کہ اس کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنی ایک ٹیم بنانا اور ایک سیکنڈ لائن کا تیار کرنا تا کہ جب آپ کی عمر بڑی ہو جائے ( میں نہیں کہتا کہ آپ عمر کی بڑی ہو چکی ہیں) لیکن جب آپ کی عمر بڑی ہو جائے تو پھر کم از کم دوسری کام کرنے والیاں آپ کو مل سکیں.تو ہر لجنہ سیکرٹری جو یہاں بیٹھی ہے اس کا کام ہے.یہ نہ دیکھے کہ میری عمر چالیس سال ہے یا پینتالیس سال ہے یا پینتیس سال ہے یا پچاس سال ہے.آپ نے پھر بھی اپنی ایک سیکنڈ لائن تیار کرنی ہے.ٹھیک ہے؟ اور یہی احساس صدر صاحبہ کو ساری مجالس میں جو آپ کے ملک میں ہیں، ان کے اندر پیدا کرنا چاہیئے.اور ان کی سیکر ٹریان کو اور صدرات کو بھی کہنا چاہیئے تا کہ آئندہ آپ کو کام سنبھالنے والیاں ملتی چلی جائیں جن کو سسٹم کا بھی پتہ ہو.جب کام سر پہ پڑتا ہے تو آدمی سنبھال ہی لیتا ہے یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے.آپ کے پاس لائحہ عمل ہے، آپ کے پاس دستور اساسی ہے، آپ کام کر لیں گی لیکن اگر آپ پہلے سے سسٹم میں Involve ہیں تو جب آپ پر نئی ذمہ داری پڑے گی تو آپ اس کام کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں گی.(قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 306

Page 373

دیوالی سوال: ایک خاتون نے دریافت کیا کہ دیوالی پر ہندوؤں کی طرف سے جو کھانے آتے ہیں، کچھ لوگ تو یہ بتا کر جاتے ہیں کہ وہ پوجا سے الگ رکھ کر یہ کھانا دے رہے ہیں اور بعض کچھ بتائے بغیر ڈبہ پکڑا کر چلے جاتے ہیں.کیا ہم یہ کھانا کھا سکتے ہیں ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایت فرمائی: جواب: جو کھانا حلال اشیاء سے صاف ستھرے برتنوں میں حفظان صحت کے اصولوں پر تیار ہوا ہو اور اس میں شرک کی کوئی ملونی نہ ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں.ایسے معاملات میں زیادہ باریکیوں میں پڑنا بھی پسندیدہ بات نہیں.البتہ ایسا کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لی جائے تا کہ اگر اس کھانے میں کوئی کمی بیشی ہو تو اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے اس کا مداوا ہو جائے.صرف و ہم کی بناء پر بلا وجہ کسی کی دل شکنی سے بھی اسلام نے منع فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوؤں کے ہاں سے آنے والا کھانا کھا لیا کرتے تھے اور ان کے ہاں سے تحفہ کے طور پر آنے والی شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے اور کھا بھی لیتے تھے.چنانچہ ایک شخص کے سوال پر کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے ؟ آپ نے فرمایا: ” شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے.ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَلَّھا پر زور دیا ہے.آنحضرت ام آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گزارہ بھی تو نہیں ہو تا.“ (الحکم نمبر 19 جلد 8، مؤرخہ 10 جون 1904 صفحہ 3) (قسط نمبر 28، الفضل انٹر نیشنل 04 فروری 2022ء صفحہ 11) 307

Page 374

رحم سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں حال ہی میں کسی ملک میں رجم کی سزا کے نفاذ کا ذکر کر کے دریافت کیا ہے کہ کیا اس زمانہ میں بھی رجم کی سزا کا نفاذ کیا جاسکتا ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 مارچ 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اسلام کی تعلیمات جس میں سزائیں بھی شامل ہیں، کسی زمانہ یا ملک کے ساتھ مختص نہیں بلکہ عالمگیر اور دائمی ہیں.لیکن اسلامی سزاؤں کے بارہ میں یہ بات ہمیشہ مد نظر رہنی چاہیئے کہ ان کے عموماً دو پہلو ہیں.ایک انتہائی سزا اور ایک نسبتاً کم سزا اور ان سزاؤں کا بنیادی مقصد برائی کی روک تھام اور دوسروں کے لئے عبرت کا سامان کرنا ہے.پس اگر زنا فریقین کی باہمی رضامندی سے ہو اور وہ اسلامی طریقہ شہادت کے ساتھ ثابت ہو جائے تو فریقین کو سو کوڑوں کی سزا کا حکم ہے.لیکن جس زنا میں زبر دستی کی جائے اور اس میں نہایت وحشیانہ مظالم کا جذبہ پایا جاتا ہو.یا کوئی زانی چھوٹے بچوں کو اپنے ظلموں کا نشانہ بناتے ہوئے اس گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوا ہو تو ایسے زانی کی سزا صرف سو کوڑے تو نہیں ہو سکتی.ایسے زانی کو پھر قرآن کریم کی سورۃ المائدہ آیت 34 اور سورۃ الاحزاب کی آیت 61 تا 63 میں بیان تعلیم کی رُو سے قتل اور سنگساری جیسی انتہائی سزا بھی دی جاسکتی ہے.لیکن اس سزا کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکومت وقت کو دیا گیا ہے اور اس تعلیم کے ذریعہ عمومی طور پر حکومت وقت کے لئے ایک راستہ کھول دیا گیا.(قسط نمبر 11، الفضل انٹر نیشنل 12 مارچ 2021ء صفحہ 11) 308

Page 375

رضاعت سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی تیس سال پہلے دودھ پلایا تھا.اب میرے بڑے بھائی کے بیٹے کے ساتھ میری بیٹی کا رشتہ تجویز ہوا ہے.کیا یہ رشتہ ہو سکتا ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 دسمبر 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: رضاعت کے بارہ میں آنحضور الم کا ارشاد ہے کہ جو رشتے نصب کی بناء پر حرام ہیں اگر رضاعت کی بناء پر قائم ہو جائیں تو رضاعت کی وجہ سے ان رشتوں کی بھی حرمت قائم ہو جاتی ہے.(صحيح بخاري كتاب الشهادات) لیکن شرط یہ ہے کہ بچہ نے اپنی دودھ پینے کی عمر میں پانچ مرتبہ سیر ہو کر دودھ پیا ہو.(صحیح مسلم کتاب الرضاع) اس کے ساتھ یہ بات بھی مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ رضاعت کی حرمت صرف دودھ پینے والے بچہ اور آگے اس کی نسل کے ساتھ قائم ہوتی ہے، اس دودھ پینے والے بچہ کے دوسرے بہن بھائیوں پر اس رضاعت کا کوئی اثر نہیں ہوتا.پس اس لحاظ سے آپ کی بیٹی کا رشتہ آپ کے اُس بھائی کے بیٹے سے جس نے آپ کا دودھ نہیں پیا ہوا، ہونے میں کوئی حرج نہیں.اللہ تعالیٰ دونوں خاندانوں کے لئے یہ رشتہ بہت مبارک فرمائے، بچوں کی طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے اور ہمیشہ آپ کو اپنے فضلوں سے نوازتا رہے.آمین (قسط نمبر 29، الفضل انٹر نیشنل 25 فروری 2022ء صفحہ 10) 309

Page 376

رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت سوال: ڈنمارک سے ایک مرتبی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں سے کس کی فضیلت زیادہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 اگست 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: قرآن کریم اور احادیث نبویہ الم میں ان دونوں مہینوں کی فضیلت کا کوئی باہمی تقابلی جائزہ تو بیان نہیں ہوا.بلکہ دونوں مہینوں اور ان میں ہونے والی عبادات کے کثرت سے فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں.یہ فضائل عمومی رنگ میں بھی بیان ہوئے ہیں اور بعض اوقات حضور لم نے کسی سوال پوچھنے والے کے حالات کے پیش نظر اور بعض اوقات موقعہ محل کے لحاظ سے بھی انہیں بیان فرمایا ہے.قرآن کریم اور حدیث میں بیان ہونے والی ان فضیلتوں کی بناء پر بعض اعتبار سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور اس میں کی جانے والی عبادتیں اور اس میں نازل ہونے والے احکام بظاہر زیادہ افضل قرار پاتے ہیں اور بعض لحاظ سے ذوالحجہ کا پہلا عشرہ اور اس کی عبادات بظاہر زیادہ افضل ٹھہرتے ہیں.چنانچہ حضور لم نے ایک موقعہ پر فرمایا: سَيِّدُ الشُّهُورِ شَهْرُ رَمَضَانَ وَأَعْظَمُهَا حُرْمَةً ذُو الْحِجَّةِ (شعب الايمان للبيهقي، فصل تخصيص ايام العشر من ذي الحجة، حديث نمبر 3597) یعنی تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور ان میں سے حرمت کے اعتبار سے سب سے عظیم ذوالحجہ کا مہینہ ہے.( قسط نمبر 42، الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2022ء صفحہ 10) 310

Page 377

رمضان میں گھروں کو سجانا اور رمضان کیلنڈر بناکر عید تک دنوں کی گنتی کرنا سوال: محترم ناظم صاحب دار الافتاء ربوہ نے ایک استفتاء بابت کرسمس کی طرز پر رمضان میں گھروں کو سجانے اور رمضان کیلنڈر بنا کر عید تک دنوں کی گنتی کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مئی 2022ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اصل بات یہ ہے کہ اس امر میں بھی ہمیں آنحضور الم کے ارشادِ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنیات کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیئے.اگر تو رمضان میں گھروں کو سجانے اور رمضان کیلنڈر بنانے میں نیت یہ ہو کہ اہل خانہ اور بچوں کو رمضان کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی جائے، گھر میں ایسا ماحول بنا کر گھر والوں اور خاص طور پر بچوں کو رمضان کی عبادات اور دعاؤں کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ سحری اور افطاری کے وقت وہ اس ماحول کو دیکھ کر دعا اور عبادات میں مشغول ہو سکیں.اور اس طرح رمضان کے ہر دن کا ایک جوش اور ولولہ کے ساتھ وہ استقبال کر کے اس میں نازل ہونے والی برکتوں سے استفادہ کر سکیں تو اس نیت کے ساتھ ایسا کرنے میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں.لیکن اگر صرف دکھاوا مطلوب ہو اور یہ سارے پاپڑ صرف ریا اور نمود و نمائش کے لئے بیلے جائیں اور ایک ایک دن اس سوچ کے ساتھ گزارا جائے کہ چلو اچھا ہوا اتنے دن گزر گئے ، جن سے جان چھوٹ گئی ، باقی دن بھی جلد گزر جائیں گے اور پھر عید منائیں گے اور عید میں بھی حقیقی خوشیاں تلاش کرنے کی بجائے صرف ظاہری خوشیوں کا خیال رکھا جائے تو اس نیت کے ساتھ گھروں کو سجانا اور رمضان کیلنڈر بنانے ہر گز جائز نہیں.پس خلاصہ کلام یہ کہ اگر اس کام سے اہل خانہ میں کوئی پاک تبدیلی پیدا ہو رہی ہو اور انہیں رمضان کی برکات کی طرف توجہ پیدا ہو کر اس سے استفادہ کرنے کا موقعہ ملے تو یہ سجاوٹ اور 311

Page 378

کیلنڈر بنانا جائز ہے.لیکن اگر صرف دکھاوا کرنا اور رمضان کو ایک چپٹی سمجھ کر گزارنا مقصود ہو تو یہ سجاوٹ کرنا اور ایسے کیلنڈر بنانا نا جائز ہے اور بدعت شمار ہو گا.(قسط نمبر 55، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2023ء صفحہ 7) 312

Page 379

روح سوال: ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ کیا نفس اور روح ایک ہی چیز ہے؟ نیز خطبہ عید کے حوالہ سے دار ، دار قطنی میں مندرج ایک حدیث کہ حضور ایم نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے ، جو چاہے سننے کے لئے بیٹھا ر ہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، تحریر کر کے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات تحریر فرمائے: جواب: قرآن کریم میں روح اور نفس کے الفاظ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں آئے ہیں.روح کا لفظ کلام الہی، فرشتوں، حضرت جبرائیل، انبیاء اور اس روح کے معانی میں بیان ہوا ہے جو بحکم الہی ایک خاص وقت پر انسانی قالب میں نمودار ہوتی ہے.جبکہ نفس کا لفظ جان،سانس، شخص، ذی روح چیز ، دل، ہستی اور شعور وغیرہ کے لئے استعمال ہوا ہے.لغوی اعتبار سے روح کا لفظ اس چیز کے لئے بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ نفوس زندہ رہتے ہیں.یعنی زندگی.اسی طرح روح کا لفظ پھونک، وحی و الہام، جبرائیل، امر نبوت، خدا تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.نیز جسم کے مقابل پر ایک چیز جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کرتی اور انسان کو باقی حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے اور جو انسان کو باخدا بنا دیتی ہے اسے بھی روح کہا جاتا ہے.جبکہ نفس کا لفظ لغوی اعتبار سے جسم، شخص، روح، جسم اور روح کا مجموعہ انسان، عظمت، عزت، ہمت، ارادہ، ، خود وہی چیز اور رائے وغیرہ کے لئے بولا جاتا ہے.قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نفس اور روح میں ایک فرق یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نفس پر قابو پانے، اس کی اصلاح کرنے اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ایک حد تک قدرت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے.اسی لئے قرآن کریم نے نفس کی تین حالتیں ( انارہ، لوامہ اور مطمئنہ بیان فرمائی ہیں.نیز حدیث میں آتا ہے کہ بہادر وہ نہیں جو کشتی میں مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابورکھے.جبکہ روح کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے 313

Page 380

اپنے اختیار میں رکھا ہے اور انسان کو اس پر قدرت نہیں دی.جیسا کہ فرمایا: قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلًا.(سورة بني اسرائيل: 86 یعنی تو کہہ دے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے.اسی طرح اسلام نے روح کے بارہ میں سوالات کرنے کو بھی پسند نہیں فرمایا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف ”نور الحق“ میں سورۃ النبا کی آیت يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صوابا.(آیت 39) کی تفسیر میں روح کے معانی بیان فرماتے ہوئے ساتھ نفس کا ذکر بھی فرمایا ہے.جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، نیز حضور علیہ السلام کے اس ارشاد سے دونوں کا فرق بھی بخوبی واضح ہو جاتا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں...اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا یعنی ایسے لفظ سے جو انقطاع من الجسم پر دلالت کرتا ہے.یہ اس لئے کیا کہ تاوہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ مظہر لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اپنے تمام قوتوں کی رُو سے مرضات الہی میں فنا ہو گئے تھے اور اپنے نفسوں سے ایسے باہر آگئے تھے جیسے کہ روح بدن سے باہر آتی ہے اور نہ ان کا نفس اور نہ اس نفس کی خواہشیں باقی رہی تھیں اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے تھے ، نہ اپنی خواہش سے اور گویا وہ روح القدس ہی ہو گئے تھے جس کے ساتھ نفس کی آمیزش نہیں.پھر جان کہ انبیاء ایک ہی جان کی طرح ہیں....وہ اپنے نفس اور اپنے جنبش اور اپنے سکون اور اپنی خواہشوں اور اپنے جذبات سے بکلی فنا ہو گئے اور ان میں بجز روح القدس کے کچھ باقی نہ رہا اور سب چیزوں سے توڑ کے اور قطع تعلق کر کے خدا کو جاملے.314

Page 381

پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس آیت میں ان کے تجرد اور تقدس کے مقام کو ظاہر کرے اور بیان کرے کہ وہ جسم اور نفس کے میلوں سے کیسے دور ہیں.پس ان کا نام اس نے روح یعنی روح القدس رکھا تا کہ اس لفظ سے ان کی شان کی بزرگی اور ان کے دل کی پاکیزگی کھل جائے اور وہ عنقریب قیامت کو اس لقب سے پکارے جائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں پر ان کا مقام انقطاع ظاہر کرے اور تاکہ خبیثوں اور طیبوں میں فرق کر کے دکھلا دے اور بخدا یہی بات حق ہے.66 (نور الحق حصہ اوّل صفحہ 74،73 ایڈیشن اوّل) (قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 315

Page 382

سوال: انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ خدا تعالیٰ کون ہے اور کیا ہے؟ Big Bang سے کائنات کا آغاز ہوا اور اس وقت سے کائنات خود بخود چل رہی ہے تو پوری کائنات ہی خدا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد ہم خدا تعالیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں، یہ کس طرح ہوتا ہے ؟ روح کی حقیقت کیا ہے اور جب جنت اور جہنم کائنات کے مختلف حصے ہیں تو کیا روح ان کے درمیان سفر کر سکتی ہے یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10 مارچ 2022ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: 3.باقی کسی روح کا جنت اور جہنم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا جہاں تک سوال ہے تو اس بارہ میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ روح بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم کے تابع ہے، اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتی.چنانچہ یہود نے روح کے بارہ میں جب حضور ا م سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضور الم کو فرمایا قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي یعنی انہیں کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے.(سورة بني اسرائيل: 86) دوسرا قرآن کریم میں اُخروی زندگی میں مومنوں اور کافروں کے اعمال ناموں کے لئے دو الفاظ سجين اور عین آئے ہیں.ان الفاظ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وو سچین کا لفظ جو کفار کے لئے استعمال ہوا تھا مفرد تھا.مگر علتین کا لفظ جو مومنوں کے لئے استعمال ہوا ہے وہ جمع کا لفظ ہے.اس فرق سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کافر کی سزا کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا نہیں مگر مومن کے انعام کو بڑھاتا چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے کافر تو ایک ہی قید خانہ میں پڑا رہتا ہے لیکن مومن گھر بدلتا جاتا ہے.ایک گھر کے بعد اس 316

Page 383

سے اعلیٰ گھر اُسے ملتا ہے اور اس کے بعد اُس سے اعلیٰ گھر.اسی طرح خدا تعالیٰ اسے کئی دنیاؤں کی سیر کرا دیتا ہے اس لئے مومن کے گھر کئی ہوں گے اور کافر کا گھر ایک.( تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 312،311) پھر قرآن کریم میں اہل جنت اور اہل جہنم کا جہاں ذکر کیا گیا ہے، وہاں ان دونوں کے درمیان ایک روک کے حائل ہونے کا بھی ذکر کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنتی اور جہنمی ایک دوسرے سے نہیں مل سکیں گے.(سورۃ الاعراف:47) لیکن جہاں تک مختلف درجات والے جنتیوں کے آپس میں ملنے جلنے کا معاملہ ہے تو قرآن وحدیث میں جنت کے مختلف مقام اور مدارج کا تو ذکر ہوا ہے لیکن جنت کے ان مختلف مقام اور مدارج میں رہنے والوں کے آپس میں ملنے جلنے میں کسی روک ٹوک کا کوئی ذکر نہیں آیا.بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے معاملہ میں ان کے پیچھے چلی ہے ہم اعلیٰ جنتوں میں ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دیں گے اور ان کے باپ دادوں کے عملوں میں بھی کوئی کمی نہیں کریں گے.(سورۃ الطور:22) پس قرآن کریم کے ان مضامین سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نیک روحیں اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکیں گی اور ایک دوسرے سے میل ملاقات کر سکیں گی.لیکن بد روحیں جو جہنم میں اپنی سزا بھگت رہی ہوں گی وہ اپنی سزا پوری ہونے تک اسی قید خانہ میں مقید رہیں گے اور جب ان کی سزا پوری ہو جائے گی تو اللہ تعالی کی رحمت کی بدولت وہ بھی جنت میں چلی جائیں گے.(قسط نمبر 53، الفضل انٹر نیشنل 29 اپریل 2023ء صفحہ 4) 317

Page 384

روزه سوال: آسٹریلیا کے واقفات نو کے اسی پروگرام گلشن وقف نو مؤرخہ 12 اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضور انور کی خدمت اقدس میں سوال کیا کہ ہم رمضان کے روزے کس عمر میں رکھنا شروع کریں؟ اس استفسار کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: روزے تم پر اس وقت فرض ہوتے ہیں جب تم لوگ پوری طرح Mature ہو جاؤ.اگر تم سٹوڈنٹ ہو اور تمہارے امتحان ہو رہے ہیں تو ان دنوں میں اگر تمہاری عمر تیرہ، چودہ، پندرہ سال ہے تو تم روزے نہ رکھو.اگر تم برداشت کر سکتی ہو تو پندرہ سولہ سال کی عمر میں روزے ٹھیک ہیں.لیکن عموما فرض روزے جو ہیں وہ سترہ، اٹھارہ سال کی عمر سے فرض ہوتے ہیں، اس کے بعد بہر حال رکھنے چاہئیں.باقی شوقیہ ایک ، دو، تین ، چار روزے اگر تم نے رکھنے ہیں تو آٹھ دس سال کی عمر میں رکھ لو، فرض کوئی نہیں ہیں.تمہارے پہ فرض ہوں گے جب تم بڑی ہو جاؤ گی، جب روزوں کو برداشت کر سکتی ہو.یہاں (آسٹریلیا میں.مرتب) مختلف موسموں میں کتنا فرق ہوتا ہے ؟ Day Light کتنے گھنٹے کی ہوتی ہے ؟ سحری اور افطاری میں کتنا فرق ہوتا ہے ؟ بارہ گھنٹے ؟ اور Summer میں کتنا ہوتا ہے؟ انیس گھنٹے کا ہوتا ہے؟ ہاں تو بس انہیں گھنٹے تم بھوکی نہیں رہ سکتی.یو کے میں بھی آجکل، جو پیچھے گرمیاں گزری ہیں، ان میں تمہارے روزے چھوٹے تھے اور وہاں لمبے روزے تھے.ساڑھے اٹھارہ گھنٹے کے روزے تھے.تو سویڈن وغیرہ میں بائیس گھنٹے کے روزے ہوتے ہیں.تو وہاں تو بہر حال وقت کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے.کیونکہ اتنا لمبا روزہ بھی نہیں رکھا جا سکتا.لیکن برداشت اس وقت ہوتی ہے جب تم جوان ہو جاتی ہو، کم از کم سترہ اٹھارہ سال کی ہو جاؤ تو پھر ٹھیک ہے.پھر روزے رکھو.سمجھ آئی ؟ تمہارے اتاں اتنا کیا کہتے ہیں؟ دس سال کی عمر میں تم پر روزہ فرض ہو گیا ہے ؟ لیکن عادت ڈالا کرو.چھوٹے بچوں کو بھی دو تین روزے ہر رمضان میں رکھ لینے چاہئیں تاکہ پتہ لگے کہ رمضان آ رہا ہے.لیکن روزے نہ بھی رکھنے ہوں تو صبح اٹھو اور 318

Page 385

اتاں اتبا کے ساتھ سحری کھاؤ، نفل پڑھو، نمازیں با قاعدہ پڑھو.تم لوگوں کا ،سٹوڈنٹس کا اور بچیوں کا رمضان یہی ہے کہ رمضان میں اٹھیں ضرور اور سحری کھائیں، اہتمام کریں اور اس سے پہلے دو یا چار نفل پڑھ لیں.پھر نمازیں باقاعدہ پڑھیں.قرآن شریف با قاعدہ پڑھیں.قسط نمبر 1، الفضل انٹر نیشنل 27 اکتوبر تا02 نومبر 2020ء صفحہ 29) 319

Page 386

سوال: ایک دوست نے مسافر کے لئے رمضان کے روزوں کی رخصت کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعض ارشادات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے ان کی باہم تطبیق کی بابت رہنمائی چاہی ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11 جون 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کے خط میں بیان دونوں قسم کے ارشادات میں کوئی تضاد نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ دونوں ہی کا قرآن کریم کے واضح حکم کی روشنی میں یہی ارشاد ہے کہ مسافر اور مریض کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے.اور اگر کوئی شخص بیماری میں یا سفر کی حالت میں روزہ رکھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے واضح حکم کی نافرمانی کرتا ہے.66 جہاں تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد ”روزہ میں سفر ہے.سفر میں روزہ نہیں، کا تعلق ہے تو اگر اس سارے خطبہ کو غور سے پڑھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور دراصل اس میں مختلف مثالیں بیان فرما کر سمجھا رہے ہیں کہ ایسا سفر جو باقاعدہ تیاری کے ساتھ ، سامان سفر باندھ کر سفر کی نیت سے کیا جائے وہ سفر خواہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اس میں شریعت روزہ رکھنے سے منع کرتی ہے.لیکن ایسا سفر جو سیر کی غرض سے یا کسی Trip اور Enjoyment کے لئے کیا جائے ، وہ روزہ کے لحاظ سے سفر شمار نہیں ہو گا اور اس میں روزہ رکھا جائے گا.چنانچہ سفر میں روزہ رکھنے کے بارہ میں آپ کے دیگر ارشادات بھی آپ کے اسی نظریہ کی تائید کرتے ہیں.(قسط نمبر 11، الفضل انٹر نیشنل 12 مارچ 2021ء صفحہ 11) 320

Page 387

سوال: روزہ کے دوران کو رونا ویکسین کا انجیکشن لگوانے کے جواز کی بابت ایک غیر از جماعت ادارہ کے فتویٰ کی الفضل انٹر نیشنل میں اشاعت پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 اپریل 2021ء میں اس شرعی مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: ایسی خبریں اور فتوے الفضل میں شائع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.اور اگر کسی وجہ سے اسے شائع کرنا ناگزیر تھا تو ساتھ ہی جماعتی مسلک بھی شائع کرنا چاہیے تھا کہ یہ فلاں ادارہ کا فتویٰ ہے.جبکہ جماعتی مسلک اس کے بر عکس ہے.تا کہ آپ کا یہ خبر نامہ پڑھ کر کسی کو غلطی نہ لگتی.بہر حال فوری طور پر اب اس کی تردید شائع کریں اور اس میں صاف صاف جماعتی مسلک درج ا کریں کہ روزہ کی حالت میں ہر قسم کا انجیکشن خواہ وہ Intramuscular ہو یا Intravenous ہو لگوانا منع ہے.اور اگر کسی احمدی کو کو رونا ویکسین کی Appointment رمضان میں ملتی ہے تو اسلام نے جو رخصت دی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انجیکشن والے دن روزہ نہ رکھے.اور رمضان کے بعد اس روزہ کو پورا کر لے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو احادیث نبویہ الم سے استدلال فرماتے ہوئے روزہ کی حالت میں آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بھی اجازت نہیں دی.اور آپ الفضل میں اس فتویٰ کے مطابق انجیکشن کو بھی جائز قرار دے رہے ہیں.(قسط نمبر 34، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2022ء صفحہ 11) 321

Page 388

سوال: یو کے سے ایک ڈاکٹر صاحبہ نے Hormone Patches Contraceptive Implant Hormone Depot Injection Painkiller Gel Deep Freeze Deep Heat جیسے طریق علاج کے روزہ کی حالت میں اختیار کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 مارچ 2022ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: روزہ کی حالت میں کسی بھی طریق علاج کے استعمال کے سلسلہ میں چند اصولی باتیں یاد رکھنا بہت ضروری ہیں.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر کے متعلق حکم دیا ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھیں اور مرض دور ہونے اور سفر ختم ہونے پر ہی ان روزوں کی تکمیل کریں.اور جو شخص کسی دائمی مرض میں مبتلا ہو اور اسے کبھی بھی اپنے تندرست ہونے کی امید نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ طاقت رکھتا ہے تو فدیہ دیدے.(سورۃ البقرۃ: 185) لیکن اگر کسی شخص کو کوئی ایسی تکلیف ہو جس میں ڈاکٹروں کے نزدیک روزہ رکھنا اس انسان کی صحت کے لئے نقصان دہ نہیں تو وہ شخص اس بیماری میں روزہ رکھ سکتا ہے.ایسی بیماری میں اگر کسی قسم کی دوائی کے استعمال کی ضرورت ہو تو وہ دوائی صرف روزہ رکھنے سے پہلے یا روزہ کھولنے کے بعد ہی استعمال کی جاسکتی ہے.روزہ کے دوران ایسی کوئی بھی دوائی استعمال نہیں کی جاسکتی جو جسم کے اندر جاتی ہو.البتہ اگر اس دوائی کا اثر صرف جلد پر ہو اور اس دوائی کا کوئی حصہ جسم کے اندر داخل نہ ہو تو روزہ کی حالت میں ایسی دوائی کے استعمال میں کوئی حرج کی 322

Page 389

بات نہیں.مثلاً کسی تیل، کریم ،Gel یا سپرے وغیرہ کی جلد پر مالش یا سپرے کرنا.ایسی دوائی جسے آپریشن یا انجیکشن کے ذریعہ جسم کے اندر رکھا یا ڈالا جاتا ہے اور وہ دوائی جسم کے اندر آہستہ آہستہ Release ہوتی رہتی ہے تو ایسی دوائی بھی عام دوائیوں یا کھانے پینے کی اشیاء کی طرح روزہ رکھنے سے پہلے یا روزہ کھولنے کے بعد ہی جسم میں Inject کی جاسکتی ہے ، روزہ کے دوران اسے جسم میں Inject کرنا جائز نہیں.(قسط نمبر 53، الفضل انٹر نیشنل 29 اپریل 2023ء صفحہ 4 تا5 ) 323

Page 390

زراعت سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہالینڈ کے خدام کی Virtual ملاقات مؤرخہ 30 اگست 2020ء میں ایک خادم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ دنیا کے موجودہ حالات میں ہمیں Farming کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس پر فرمایا: جواب سوال یہ ہے کہ پہلے جب یورپین یونین اکٹھی ہوئی ہے، انہوں نے ہر ملک میں اپنا اپنا علاقہ بانٹ لیا ہوا ہے کہ تم فروٹ اُگاؤ گے ، تم Crops اُگاؤ گے، تم فلاں چیز اُگاؤ گے، تم فلاں چیز آگاؤ گے.تو جب تک یورپین یونین قائم ہے، اس وقت تک تو بڑی اچھی بات ہے یہ کرتے رہیں.اب ہالینڈ کے ذمہ انہوں نے لگایا ہوا ہے، ان کے ہاں Dairy Products ہیں یا Fruits ہیں.اور Fruits بھی خاص قسم کے ہیں.Pears وغیرہ اور Something like that.یو کے Brexit کے ذریعہ نکل گیا ہے، تھوڑی دیر بعد جب یہ پوری طرح نکل جائیں گے تو انہیں پھل منگوانے کے لئے بھی مشکل پیش آئے گی.اور Wheat Crisis بھی آجائے گا.تو ان کو مشکلات پیش آئیں گی، اس لئے یو کے کے لئے تو ضروری ہے کہ Agriculture پر Focus کریں.اور اس کو زیادہ Develop کرنے کی کوشش کریں.اور اپنی Agriculture میں Self-sufficient بنیں، Grains میں بھی اور Vegetables میں بھی اور Fruits میں بھی.جہاں تک یورپ کا سوال ہے تو یورپ کا جو Grains ہے ، اس میں تقریباً وہ -Self sufficient ہی ہیں.بلکہ Export بھی کرتے ہیں.اسی طرح پھل وغیرہ ہیں.کچھ سبزیاں ہیں جو Tropical علاقوں سے یہ لاتے ہیں.وہ یہاں ہو نہیں سکتیں سوائے اس کے کہ Greenhouses بنا کے وہ لگائی جائیں.اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے ملکوں کی پیداوار کے لحاظ سے وہ کریں.اگر یورپ ایک رہے گا تو ٹھیک ہے.لیکن کل کو کوئی اور بھی ملک یورپین یونین سے نکلتا ہے تو پھر اس کو مشکل پڑے گی جس طرح انگلستان کو مشکل پڑ رہی ہے.پھر رشیا جب اکٹھا تھا تو اس وقت انہوں نے بنایا ہوا تھا کہ فلاں State میں گندم اُگے گی، فلاں میں کاٹن اُگے 324

Page 391

گی، فلاں میں فلاں Crop ہو گی.اور جب وہ ٹوٹ گئے تو پھر ان کی States کو بھی مسائل پیدا ہوئے.اس لئے کوشش یہ کرنی چاہئیے کہ اکٹھے رہیں اور اگر کہیں Chances پیدا ہونے کا امکان ہے تو جو ہمارے Politicians ہیں ان کو یہ سوچنے سے پہلے کہ ہم نے علیحدہ ہونا ہے، اپنے لوگوں کی جو StapleFood ہے اس کو مہیا کرنے کے لئے بھی پہلے سوچنا چاہیئے کہ کس طرح ہم یہ مہیا کریں گے اور اس کے لئے پلاننگ ہونی چاہیئے.بغیر پلاننگ کے چھوڑ دیں تو پھر وہ حال ہو تا ہے جو اب یو کے کا ہونے والا ہے.تو سارے یورپین یونین کے ملکوں کو دیکھنا چاہیئے، بیٹھنا چاہیئے، غور کرنا چاہیے کہ ہمارے سارے یورپ کی، جو ہماری یورپین یونین میں چھپیں ستائیس ملک شامل ہیں ان کی Requirement کیا ہے.اور اس Requirement کے حساب سے ہماری مختلف Grains کی ہر سال کی Produce کیا ہے.اور اس Produce کو ہم نے کس طرح مزید بہتر کرنا ہے.تو اس لحاظ سے ٹھیک ہے آپ کی بات ، کوشش کرنی چاہیئے.لیکن اگر اس کے بعد پھر Crisis آتا ہے اور Crisis کے بعد جنگ ہوتی ہے تو اس میں پتہ نہیں اگر کہیں کسی نے پاگل پن میں ایٹم بم استعمال کر دیا تو نہ وہاں Agriculture رہنی ہے اور نہ وہاں کچھ اور چیز رہنی ہے.تو اس لئے اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے.(قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 325

Page 392

سالگرہ سوال: موبائل فونز کی مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر پیسہ جیتنے کے کھیل میں شامل ہونے نیز چھوٹے بچوں کی سالگرہ منانے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے متعلق سوالات پر مبنی محترم ناظم صاحب دارالقضاء قادیان کے خط کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: گھر پر چھوٹے بچوں کی گھر والوں کے ساتھ اس طرح سالگرہ منانا اور کیک وغیرہ کاٹ لینا جس میں کسی قسم کی بدعت شامل نہ ہو ، فضول خرچی نہ ہو اور کوئی غیر اسلامی حرکت نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ صدقہ بھی دینا چاہیئے اور بچوں کو یہ بھی تلقین کرنی چاہیے کہ وہ اس روز خاص طور پر نوافل ادا کر کے اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں صحت والی زندگی عطا فرمائی اور آئندہ زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگیں.(قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 326

Page 393

سوسال پورے ہونے پر شکر کا طریق سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کی 31اکتوبر 2020ء کو ہونے والی Virtual ملاقات میں ایک طالب علم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشئن جماعت کو قائم ہوئے.2025ء میں سو سال پورے ہو جائیں گے ، ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیئے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا: جواب: سو سال پورے ہونے پر آپ یہ ٹارگٹ رکھیں کہ پانچ سال میں آپ نے کم از کم ایک لاکھ بیعتیں کروانی ہیں.اور ہر جو احمدی ہے اس کو آپ نے باجماعت نمازی بنانا ہے.ہر احمدی کو با قاعدہ قرآن کریم پڑھنے والا بنانا ہے.ہر احمدی کو خلافت سے تعلق رکھنے والا بنانا ہے.ہر احمدی کو آنحضرت الی پر درود بھیجنے والا بنانا ہے.ٹھیک ہے ؟ بس یہ کام کر لیں تو بہت کچھ آپ نے کر لیا ہے.(قسط نمبر 5، الفضل انٹر نیشنل 01 جنوری 2021ء صفحہ 18) 327

Page 394

سوال کرنا سوال: امریکہ سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ انسان کو کس حد تک اسلام، قرآن کریم اور جماعت کے بارہ میں سوال اٹھانے کی اجازت ہے.مزید یہ کہ میں نے اپنے مربی صاحب سے اسلام سے قبل سود کی حرمت کے بارہ میں ، نیز حج کے موقعہ پر عورتوں اور مردوں کے اکٹھے نماز پڑھنے کے بارہ میں سوال کیا لیکن مربی صاحب نے ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دیا.اسی طرح اس دوست نے لجنہ کی حضور انور کے ساتھ ایک ملاقات میں ایک سوال پر حضور انور کے جواب کہ ”مذہب کے معاملہ میں کیوں اور کس لئے کا سوال نہیں ہے.“ کا بھی ذکر کر کے اس بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 نومبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل تفصیلی ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: اسلام نے زیادتی معلم کے لئے سوال کرنے کی اجازت دی ہے.جیسا کہ فرمایا: فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ - یعنی اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو.(النحل: 44) لیکن کج بحثی کی خاطر لغو ، بیہودہ اور بے ادبی والے سوال کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْتَلُوْا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ.(المائدة: 102) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو وہ تمہیں تکلیف میں ڈال دیں.اسی طرح فرمایا : آمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْئَلُوا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسَي مِنْ قَبْلُ.(البقره: 109) 328

Page 395

یعنی کیا تم اپنے رسول سے اسی طرح سوال کرنا چاہتے ہو جس طرح (اس سے) پہلے موسیٰ سے سوال کئے گئے تھے.چنانچہ صحابہ کرسول الله ما سوال کرنے کے بارہ میں بہت زیادہ محتاط تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم خود سوال نہ کرتے بلکہ انتظار کرتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور حضور ام سے سوال پوچھے تا کہ ہم وہ باتیں سن کر اپنا علم بڑھا لیں.پھر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کی اس علمی تشنگی کو اس طرح دور فرما دیتا کہ بعض اوقات حضرت جبرائیل کو انسان کی شکل میں بھیجتا اور وہ حضور سے سوال کرتے اور حضور ا ہم ان سوالوں کے جواب دیتے.جس سے صحابہ اپنی علمی پیاس بجھا لیتے.(صحيح بخاري كتاب تفسير القرآن بَابِ قَوْلِهِ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سوال کرنے کے بارہ میں فرماتے ہیں: بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو نکالتے نہیں اور پوچھتے نہیں.جس سے وہ اندر ہی اندر نشو و نما پاتا رہتا ہے اور پھر اپنے شکوک اور شبہات کے انڈے بچے دے دیتا ہے اور روح کو تباہ کر دیتا ہے.ایسی کمزوری نفاق تک پہنچا دیتی ہے کہ جب کوئی امر سمجھ میں نہ آوے تو اسے پوچھا نہ جاوے اور خود ہی ایک رائے قائم کر لی جاوے.میں اس کو داخلِ ادب نہیں کرتا کہ انسان اپنی روح کو ہلاک کر لے.ہاں یہ سچ ہے کہ ذرا ذراسی بات پر سوال کرنا بھی مناسب نہیں، اس سے منع فرمایا گیا ہے.“ (الحکم جلد 7، نمبر 13، مؤرخہ 10 اپریل 1903ء صفحہ 1) پس سوال کرنا تو منع نہیں اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو ضرور پوچھنی چاہیے لیکن ہر بات میں بحث اور تکرار کے لئے سوال در سوال کی عادت بنالینا بھی ٹھیک نہیں.پھر یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہیئے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی طرف سے نازل ہونے والی تعلیمات پر مبنی کتاب ہے.اور یہ حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی حکمتوں اور اس کی گہرائیوں کو سمجھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں انسانی 329

Page 396

کوششوں سے روز بروز نئی نئی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تعلیمات اور اس کے احکامات کے نئے نئے پہلو اور حکمتیں بھی ہر زمانہ میں کھلتی رہتی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (سورة الحجر: 22) یعنی ہمارے پاس ہر چیز کے (غیر محدود) خزانے ہیں.لیکن ہم اسے (ہر زمانہ میں اس کی ضرورت کے مطابق ایک معین اندازہ کے مطابق نازل کرتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بات بھی سمجھا دی کہ قرآن کریم چونکہ ایک دائمی کلام ہے اور اس میں قیامت تک کے لئے انسانوں کی فلاح، ہدایت اور رہنمائی کے لئے تعلیمات موجود ہیں، جن کا ہر زمانہ میں حسب ضرورت استخراج ہو تا رہے گا.اس لئے ضروری نہیں کہ ایک وقت میں اس کی ساری باتیں کسی انسان کو سمجھ آجائیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک کامل کتاب ہے جو نوع انسانی کو دی گئی ہے اور ہمیشہ کے لئے ان کی رہنمائی کرے گی.کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ انہیں قرآن کے علاوہ کسی اور ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت پیش آئے.قرآن کریم نے آئندہ کی خبریں دی ہیں اور ہر صدی کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں جو اپنے وقتوں پر ظاہر ہوتی ہیں...اس کامل کتاب کے نزول پر اب قریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں.اس کا ماضی بھی عملاً یہ بتاتا ہے کہ مستقبل میں بھی خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ سے انسان کے ساتھ یہی سلوک کرے گا کہ نئی سے نئی باتیں قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق ظہور میں آئیں گی اور پیشگوئیاں پوری ہوں گی، جب نئے مسائل پیدا ہوں گے قرآن کریم کی نئی تفسیر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو سکھائے گا، اپنے مقربین اور اپنے محبوب بندوں کو اور پھر وہ 330

Page 397

ان مسائل کو حل کریں گے.(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 1977ء، خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ 113) قرآن کریم ایک اور مقام پر اس بارہ میں اس طرح ہماری رہنمائی فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيْتٌ مُّحْكَمَتٌ هُنَّ أَمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشْبِهُتٌ فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَةَ إِلَّا اللهُ وَالرَّسِحُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ أَمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا وَ مَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ (آل عمران: 8) یعنی وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُسی میں سے محکم آیات بھی ہیں، وہ کتاب کی ماں ہیں.اور کچھ دوسری متشابہ (آیات) ہیں.پس وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ چاہتے ہوئے اور اس کی تاویل کی خاطر اُس میں سے اس کی پیروی کرتے ہیں جو باہم مشابہ ہے حالانکہ اللہ کے سوا اور اُن کے سوا جو علم میں پختہ ہیں کوئی اُس کی تاویل نہیں جانتا.وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لے آئے ، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے.اور عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت نہیں پکڑتا.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک ہر شخص کے لئے کوئی حصہ کسی متکلم کے کلام کا محکم ہوتا ہے یعنی جو خوب طور سے سمجھ آ جاتا ہے اور کوئی حصہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے معنے سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہیں اور بوجہ اس کے مجمل رکھنے کے کئی معنے ہو سکتے ہیں.ہر شخص پر یہ حالت گزرتی ہے.اللہ نے اس کے متعلق یہ راہ دکھائی ہے کہ جو آیات ایسی ہیں کہ جن کی خوب سمجھ آ جائے اور تجربہ و عقل و مشاہدہ اس کے خلاف نہ ہو وہ تو محکم سمجھ لو.پھر وہ آیات جن کے معنے سمجھ میں نہیں آئے ان کے معنے ایسے نہ کرے جو ان محکم آیات کے خلاف ہوں...خلاصہ یہ ہے کہ بعض آیات خوب سمجھ میں آجاتی ہیں اور بعض کے معنے جلد نہیں کھلتے.اس 331

Page 398

کے لئے ایک گر بتایا ہے...فرماتا ہے جن کو یہ خواہش ہے کہ وہ راسخ فی العلم ہو جاویں وہ محکموں کو معا مان لیتے اور متشابہ کا انکار نہیں کرتے بلکہ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا کہتے ہیں.یعنی دونوں پروردگار کی طرف سے مانتے ہیں.پس وہ متشابہ کے ایسے معنی نہیں کرتے جو محکم کے خلاف ہوں بلکہ ہر جگہ کُل من عِنْدِ رَبَّنَا کا اصول پیش نظر رکھتے ہیں.کوئی آیت ہو اس کے خواہ کتنے معنے ہوں مگر ایسے معنے نہ کرنے چاہئیں جو محکم کے خلاف ہوں.دوسرا طریق دعا کا ہے وہ یوں بتایا که رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا یعنی اے ہمارے رب ہمیں کبھی سے بچالے.یعنی قرآن کے معنے اپنی خواہشوں کے مطابق نہ کریں.“ حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 447،448) حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " قرآن عظیم میں متشبهت بھی ہیں جو تاویل کی محتاج ہیں.ان متشبھت کی بہت سی باتیں بعض استعارات کے پردہ میں مجوب ہیں اور اپنے اپنے وقت پر آکر کھلتی ہیں اور جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا یہ قرآن کریم کی عظمت ہے، بہت بڑی عظمت کہ وہ ایک ایسا کلام ہے جس نے قیامت تک کے لئے انسان کی بہتری کے سامان کر دیئے.ہر صدی کا، ہر زمانہ کا ، ہر علاقہ کا، ہر ملک کا انسان قرآن کریم کا محتاج اور اس کی احتیاج سے وہ کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتا.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 1977ء ، خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ 114،115) پس مذکورہ بالا ارشادات سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ دینی معاملات میں سے اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے اور کسی دوسرے کے جواب سے بھی تسلی نہ ملے تو ایسی صورت میں ایک تو قرآن و حدیث کی محکم صداقتوں پر خود غور و تدبر کر کے ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور دوسرا اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرتے ہوئے اور اس کے آگے جھکتے ہوئے ان 332

Page 399

مسائل کے بارہ میں اسی سے رہنمائی طلب کرنی چاہیئے.باقی جہاں تک آپ کے سوالات کا تعلق ہے تو لجنہ اماءاللہ جرمنی کے ساتھ ملاقات میں جو میں نے سیکرٹری صاحبہ ناصرات کو ناصرات کی تربیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ”مذہب کے معاملہ میں کیوں اور کس لئے کا سوال نہیں ہے.ایمان بالغیب بچپن میں ہی ان کے ذہنوں میں ڈالنا چاہیئے.“ اس کا بھی یہی مطلب تھا کہ مذہب کے معاملہ میں بعض امور بڑے واضح ہوتے ہیں جو آسانی سے سمجھ آ جاتے ہیں لیکن بعض امور کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لا محدود علم کی بناء پر ایمان بالغیب کے پردہ میں رکھا ہے، جن کی حقیقت کو سمجھنا یا ان کا احاطہ کرنا انسان کے بہت ہی محدود علم کے بس کی بات نہیں.لہذا مذ ہبی احکامات کے معاملہ میں جس طرح ہم آسانی سے سمجھ آجانے والے احکامات کی پابندی کرتے اور ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے ہیں، اسی طرح ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ان احکامات کی بھی اسی طرح اطاعت کریں جن کا ایمان بالغیب کے ساتھ تعلق ہے اور ان کے بارہ میں بلا وجہ اپنے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جگہ نہ دیں.(قسط نمبر 48، الفضل انٹر نیشنل 3 فروری 2023ء صفحہ (12) 333

Page 400

سود سوال: ایک دوست نے لونڈیوں سے جسمانی فائدہ اٹھانے نیز سود کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب کے موقف کا ذکر کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اس بارہ میں رہنمائی چاہی.جس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15 فروری 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: باقی جہاں تک سود کا مسئلہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں ہر زمانہ میں خلیفہ وقت کی نگرانی میں علماء جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کے بارہ میں غور کے بعد اپنا موقف بیان کرتی رہی ہے.اور اس وقت بھی سود سے تعلق رکھنے والے کئی امور پر جماعت غور کر رہی ہے.(قسط نمبر 32، الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل 2022ء صفحہ 11) 334

Page 401

سوال: سیریا کے ایک دوست نے شیئرز اور سٹاک مارکیٹ وغیرہ کے کاروبار میں سودی عناصر کے پائے جانے اور اس بارہ میں اپنی ریسرچ پیش کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدمت میں تحریر کیا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 ستمبر 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: علمی تحقیق کرنا تو بہت اچھی بات ہے ، آپ ضرور اس بارہ میں تحقیق کر کے اپنی رپور مجھے بھجوائیں.باقی جہاں تک موجودہ زمانہ میں مختلف قسم کے کاروباروں میں سودی عناصر کے پائے جانے کا تعلق ہے تو اس بات کو سمجھنے کے لئے اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسب ذیل ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اب اس ملک میں اکثر مسائل زیر وزبر ہو گئے ہیں.گل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے.اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.66 (البدر نمبر 41 و42، جلد 3، مؤرخہ یکم و 8 نومبر 1904ء صفحہ 8) (ملفوظات، جلد چہارم، ایڈیشن 2023، صفحہ 313) پھر ایک جگہ سود کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے.یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا.لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے.چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں.اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے.وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے.پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادا ئیگی وقت اُسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ) دے دیا ہو.یہ 335

Page 402

خیال رہنا چاہیے کہ اپنی خواہش نہ ہو.خواہش کے بر خلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ شود میں داخل نہیں ہے.“ 66 (البدر نمبر 10، جلد 2، مؤرخہ 27 مارچ 1903ء صفحہ 75) (ملفوظات، جلد چہارم، ایڈیشن 2023، صفحہ 313) پس اسلام نے جس سود سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی کو اس نیت کے ساتھ قرض دے کہ اسے اس قرض میں دی جانے والی رقم پر زائد رقم ملے.لیکن اگر قرض لینے والا اپنی طرف سے کچھ زائد دے تو وہ سود میں شامل نہیں ہے.علاوہ ازیں موجو د زمانہ میں بینکنگ سسٹم تقریباً ہر دنیاوی کاروبار کا لازمی جزو ہے اور دنیا کے اکثر بینکوں کے نظام میں کسی نہ کسی طرح سود کا عنصر موجود ہوتا ہے ، جو ان کاروباروں کا بھی حصہ بنتا ہے.اسی لئے حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے.اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.ان حالات میں اگر انسان بہت زیادہ وہم میں پڑا رہے تو اس کا زندگی گزار ناہی دُوبھر ہو جائے گا.کیونکہ عام زندگی میں جو لباس ہم پہنتے ہیں، ان کپڑوں کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں بھی کہیں نہ کہیں سودی پیسہ لگا ہو گا.جو بریڈ ہم کھاتے ہیں، اس کے کاروبار میں بھی کہیں نہ کہیں سودی پیسہ کی آمیزش ہو گی.اگر انسان ان تمام دنیاوی ضرورتوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہے جو بظاہر ناممکن ہے پھر بھی وہ مکان جس اینٹ، ریت اور سیمنٹ سے بنا ہے، ان چیزوں کو بنانے والی کمپنیوں کے کاروبار میں بھی کہیں نہ کہیں سودی کاروبار یا سود کے پیسہ کی ملونی ہو گی.پس بہت زیادہ مین میخ نکال کر اور وہم میں پڑ کر اپنے لئے بلا وجہ مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں.حدیث میں بھی آتا ہے ، حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں: أَنَّ قَوْمًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَنَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمُّوا اللَّهَ عَلَيْهِ وَكُلُوهُ - 336 (صحيح بخاري كتاب البيوع)

Page 403

یعنی کچھ لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ایک جماعت ہمارے پاس گوشت لے کر آتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے (اسے ذبح کرتے وقت) اس پر اللہ کا نام لیا ہوتا ہے یا نہیں.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس گوشت پر اللہ کا نام (بسم اللہ ) پڑھ لیا کر و اور اسے کھالیا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا: شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے.ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَلَّھا پر زور دیا ہے.آنحضرت ام آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گزارہ بھی تو نہیں ہوتا.“ (الحکم نمبر 19، جلد 8 ، مؤرخہ 10 جون 1904 صفحہ 3) اسی طرح حضرت منشی محمد حسین صاحب کلرک دفتر سرکاری وکیل لاہور کے نام اپنے ایک مکتوب مؤرخہ 25 نومبر 1903ء میں حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا: آپ اپنے گھر میں سمجھا دیں کہ اس طرح شک و شبہ میں پڑنا بہت.منع ہے.شیطان کا کام ہے، جو ایسے وسوسے ڈالتا ہے.ہر گز وسوسہ میں نہیں پڑنا چاہیے گناہ ہے.اور یاد رہے کہ شک کے ساتھ غسل واجب نہیں ہو تا.اور نہ صرف شک سے کوئی چیز پلید ہو سکتی ہے.ایسی حالت میں بیشک نماز پڑھنا چاہیئے.اور میں انشاء اللہ دعا بھی کروں گا.آنحضرت ام اور آپ کے اصحاب وہمیوں کی طرح ہر وقت کپڑا صاف نہیں کرتے تھے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اگر کپڑا پر منی گرتی تھی تو ہم اس منی خشک شدہ کو صرف جھاڑ دیتے تھے.کپڑا نہیں دھوتے تھے.اور ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لئے پڑتے تھے.ظاہری پاکیزگی سے معمولی حالت پر کفایت کرتے تھے.عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے.اصول یہ تھا کہ جب تک یقین نہ ہو ہر یک چیز پاک ہے.ے.محض 337

Page 404

شک سے کوئی چیز پلید نہیں ہوتی.“ (اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر 66 ، جلد 11، مورخہ 22 فروری 1924ء صفحہ 9) پس انسان کو وہموں اور شک و شبہ میں مبتلا ہوئے بغیر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنے معاملات اور دنیاوی امور کو بجالانے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور جہاں براہ راست کسی ممنوع کام میں پڑنے کا امکان ہو یا کسی چیز کی حرمت واضح طور پر نظر آتی ہو اس سے بہر صورت اجتناب کرنا چاہیئے.چنانچہ اس بارہ میں حضور الم کی ایک اور حدیث ہماری بہترین رہنمائی کرتی ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مَا خُيْرَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَأْثَمْ فَإِذَا كَانَ الْإِثْمُ كَانَ أَبْعَدَهُمَا مِنْهُ وَاللَّهِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَي إِلَيْهِ قَطُّ حَتَّي تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللهِ فَيَنْتَقِمُ لِله (صحيح بخاري كتاب الحدود) یعنی نبی کریم اللی علم کو جب بھی دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان صورت کو اختیار کیا جب تک کہ وہ گناہ کی بات نہ ہو.اگر وہ گناہ کی بات ہوتی تو آپ اس سے بہت زیادہ دور رہتے.اللہ کی قسم آپ نے کبھی اپنے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا، جب تک محرمات الہیہ کی خلاف ورزی نہ ہو اور جب اس کی خلاف ورزی کی ہو تو آپ اللہ کے لئے انتقام لیتے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بھی آتا ہے کہ ایک موقعہ پر امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہوا.اسی میں یہ ذکر بھی آیا کہ دودھ اور شور با وغیرہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور ستھر اہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا.دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے.اس پر حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال و حرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سور کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا 338

Page 405

نام ہر گز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں.اس لئے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سور کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو.اس لئے ہمارے نزدیک ولایتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شور بے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں.جس حالت میں کہ سور کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ طیار کر کے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نہ ہوتا ہو.اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا.وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا.جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سور کی چربی بھی اس کارخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے.دریافت پر کار خانہ والوں نے بتایا کہ ہم اُسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہو تیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے.اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا.لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز أمصار و بلاد میں اب تک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے اس لئے اُن کو بھی مد نظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا.اور نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ 339

Page 406

لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں.اس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ : ہمارے نزدیک نصاری کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید کے وہ حرام نہ ہو.ورنہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا طیار کر دہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے.اسی لئے ہم گھر میں ولایتی بسکٹ استعمال نہیں کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں.عیسائیوں کی نسبت ہندوؤں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہیں کی دُکانیں ہوتی ہیں.اگر مسلمانوں کی دُکانیں موجود ہوں.اور سب شئے وہاں ہی سے مل جاوے تو پھر البتہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں.“ البدر نمبر 27 ، جلد 3، مؤرخہ 16 جولائی 1904ء صفحہ 3) پس خلاصہ کلام یہ کہ انسان کو نہ تو بہت زیادہ وہموں میں پڑ کر جائز اشیاء کے استعمال سے بلاوجہ کنارہ کشی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی غیر محتاط انداز اختیار کر کے ہر جائز و ناجائز چیز کو استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ ایک مناسب اور محتاط حد تک معاملات کی تحقیق کر کے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیئے.(قسط نمبر 44، الفضل انٹر نیشنل 2 دسمبر 2022ء صفحہ 10) 340

Page 407

سوال: امریکہ سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ انسان کو کس حد تک اسلام، قرآن کریم اور جماعت کے بارہ میں سوال اٹھانے کی اجازت ہے.مزید یہ کہ میں نے اپنے مربی صاحب سے اسلام سے قبل سود کی حرمت کے بارہ میں ، نیز حج کے موقعہ پر عورتوں اور مردوں کے اکٹھے نماز پڑھنے کے بارہ میں سوال کیا لیکن مربی صاحب نے ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دیا.اسی طرح اس دوست نے لجنہ کی حضور انور کے ساتھ ایک ملاقات میں ایک سوال پر حضور انور کے جواب کہ ”مذہب کے معاملہ میں کیوں اور کس لئے کا سوال نہیں ہے.کا بھی ذکر کر کے اس بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 نومبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل تفصیلی ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: اسلام سے قبل سود کی حرمت نیز حج کے موقعہ پر مر دوں اور عورتوں کا اکٹھے نماز وغیرہ پڑھنے کے بارہ میں آپ کے سوالات کا جواب یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اسلام سے پہلے یہود میں بھی سود کی ممانعت تھی.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے یہود کے سود لینے کی وجہ سے جس سے انہیں روکا گیا تھا، ان پر وہ پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دیں جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال کی گئی تھیں.(سورۃ النسآء: 162) عہد نامہ قدیم کی بہت سی کتابوں میں بھی سود کی ممانعت بیان ہوئی ہے.لیکن استثناء میں غیر اسرائیلی اور پر دیسیوں سے سود لینے کی اجازت بھی دی گئی ہے.چنانچہ لکھا کہ : ”تم اپنے بھائی سے سود وصول نہ کرنا خواہ وہ روپوں پر ، اناج پر یا کسی ایسی شے پر ہو جس پر سود لیا جاتا ہو.تم چاہو تو پر دیسیوں سے سود وصول کرنا لیکن کسی اسرائیکی بھائی سے نہیں.66 (استثناء20/23-21) قرآن کریم کے بیان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود پر بھی سود کو حرام قرار دیا تھا لیکن انہوں نے بعد میں جس طرح خدا تعالیٰ کے دیگر احکامات میں اپنی مرضی سے تحریف کی اس حکم میں بھی تحریف کرتے ہوئے غیر یہود سے سود لینے کا سلسلہ شروع کر دیا.جس کی وجہ 341

Page 408

سے وہ عذاب الہی کے مورد ہوئے.اس کے مقابل پر اسلام میں جس طرح دیگر برائیوں کی بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ ممانعت فرمائی گئی ہے، سود کے بارہ میں بھی قرآن کریم نے کھول کھول کر اس کی حرمت بیان فرمائی اور سودی لین دین کی قباحتوں کو ہر پہلو سے بیان کرتے ہوئے اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا اور مسلمانوں کو اس سے کلیتہ اجتناب کرنے کی ہدایت فرمائی.پھر آنحضور الم نے بھی مختلف مواقعہ پر سود کی شناعت بیان فرمائی اور سود کھانے والے، کھلانے والے ، اس کی دستاویزات تیار کرنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت کی.(صحیح مسلم كتاب المساقاة بَاب لَعْنِ آكِلِ الرِّبَا وَمُؤْ كِلِهِ) نیز اپنے معرکة الآراء خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر سود کی حرمت بیان کرتے ہوئے پرانے تمام سودی لین دین کے خاتمہ کا اعلان فرمایا.(سنن ابي داؤد كتاب البيوع بَاب فِي وَضْعِ الرِّبَا) اسی طرح آپ ایم کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سودی لین دین کے گناہ کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سور کا کھانا بحالت اضطرار جائز رکھا ہے مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے.(اخبار بدر قادیان نمبر 5، جلد 7 مؤرخہ 6 فروری 1908ء صفحہ 6) (قسط نمبر 48، الفضل انٹر نیشنل 3 فروری 2023ء صفحہ 12) 342

Page 409

سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ سود لینا اور دینا حرام ہے، مغربی دنیا میں جب کوئی اپنا مکان خریدنا چاہتا ہے تو اسے اس پر بھی سود دینا پڑتا ہے.تو کیا ایک مسلمان ان ممالک میں اپنا گھر نہیں خرید سکتا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مئی 2022ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: مغربی دنیا میں مار گیج کے ذریعہ جو مکان خریدے جاتے ہیں، ان میں عموماً بینک یا کسی مالیاتی ادارہ سے قرض حاصل کیا جاتا ہے، اور جب تک یہ قرض واپس نہ ہو جائے ایسا مکان قرض دینے والے بینک یا اس مالیاتی ادارہ ہی کی ملکیت رہتا ہے.اور بینک یا مالیاتی ادارہ اپنے اس قرض پر کچھ زائد رقم بھی وصول کرتا ہے.جس کی وجہ وہ پیسہ کی Devaluation بتاتے ہیں.چونکہ ان ممالک میں ہر انسان اپنے رہنے کے لئے بھی مکان آسانی سے نہیں خرید سکتا، اس لئے یا تو اسے ساری زندگی کرایہ کے مکان میں رہنا پڑتا ہے، جس میں اسے زندگی بھر ادا کئے گئے کرایہ کا اس مکان میں رہنے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ کی اتنی بڑی رقم ادا کرنے کے باوجود یہ مکان کبھی بھی اس کی ملکیت نہیں ہوتا.یا پھر وہ ان مجبوری کے حالات میں مار گیج کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنی رہائش کے لئے ایک گھر خرید لیتا ہے.جس پر اسے تقریباً اتنی ہی مار گیج کی قسط ادا کرنی پڑتی ہے جس قدر وہ مکان کا کرایہ دے رہا ہو تا ہے ، لیکن مار گیج میں اسے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان اقساط کی ادائیگی کے بعد یہ مکان اس کی ملکیت ہو جاتا ہے.پس مار گیج کے ذریعہ مکان خریدنا ایک مجبوری اور اضطرار کی کیفیت ہے، جس سے صرف اپنی رہائش کے لئے ایک مکان کی خرید تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.لیکن مار گیج کے اس طریق کار کے ذریعہ کاروبار کے طور پر مکان در مکان خرید تے چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں اور جماعت اس امر کی ہر گز حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اس سے منع کرتی ہے.(قسط نمبر 55، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2023 صفحہ 7) 343

Page 410

سوگ سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے بھائی کی وفات کا ذکر کر کے بیوہ کے سوگ نیز باقی لوگوں کے سوگ خصوصا بھائی کی وفات پر بہن کے سوگ کے بارہ میں اسلامی احکامات دریافت کئے ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: ا جواب: اسلام نے اپنے متبعین کی خوشی و غمی کے ہر معاملہ میں رہنمائی فرمائی ہے.چنانچہ کسی پیارے کی وفات پر صبر کرنے کی تلقین کے ساتھ اس کی جدائی کے غم کے اظہار کی بھی اجازت دی اور تمام عزیزوں کو جن میں وفات پانے والے کے والدین، بہن بھائی اور اولا د وغیرہ سب شامل ہیں، زیادہ سے زیادہ تین دن تک سوگ کی اجازت دی ہے.جبکہ بیوی کو اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ کی ہدایت فرمائی ہے، جس کا قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ میں ذکر ہے.نیز احادیث میں بھی حضور لم نے مختلف مواقع پر اس کا ارشاد فرمایا ہے.چنانچہ حضرت زینب بنت ابی سلمہ (جو حضور ام کی ربیبہ تھیں) سے روایت ہے کہ میں حضور ایم کی زوجہ محترمہ حضرت ام حبیبہ کے پاس گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ہم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی ایسی عورت کے لئے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کی وفات کے کہ اس پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی.(راویہ کہتی ہیں) پھر جب حضرت زینب بنت جحش کے بھائی کی وفات ہوئی تو میں ان کے پاس گئی.(اور جب ان کے بھائی کی وفات پر تین دن گزر گئے تو انہوں نے خوشبو منگوائی اور اسے اپنے پر لگایا اور پھر کہا کہ مجھے خوشبو کی حاجت نہیں تھی مگر میں نے رسول اللہ ایم کو منبر پر فرماتے ہوئے خود یہ سنا ہے کہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگ کرے.سوائے اپنے شوہر کی وفات پر، کہ اس پر وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی.(بخاري كتاب الجنائز باب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَي غَيْرِ زَوْجِهَا) ، 344

Page 411

پس بیوہ کے علاوہ باقی تمام عزیزوں کے لئے خواہ وہ والدین ہوں، اولاد ہو یا بہن بھائی ہوں، سب کو صرف تین دن تک سوگ کی اجازت ہے ، اس سے زیادہ نہیں.جہاں تک بیوہ کے (چار ماہ دس دن کے) سوگ کی حدود کا تعلق ہے تو اسلام نے اس میں نہ تو کسی قسم کا کوئی استثناء رکھا اور نہ ہی اس حکم میں عمر کی کوئی رعایت رکھی ہے.پس بیوہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ عدت کا یہ عرصہ حتی الوسع اپنے گھر میں گزارے.اس دوران اسے بناؤ سنگھار کرنے، سوشل پروگراموں میں حصہ لینے اور بغیر ضرورت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں.عدت کے عرصہ کے دوران بیوہ اپنے خاوند کی قبر پر دعا کے لئے جاسکتی ہے بشر طیکہ وہ قبر اسی شہر میں ہو جس شہر میں بیوہ کی رہائش ہے.نیز اگر اسے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے تو یہ بھی مجبوری کے تحت آتا ہے.اسی طرح اگر کسی بیوہ کے خاندان کا گزارا اس کی نوکری پر ہے جہاں سے اسے رخصت ملنا ممکن نہیں، یا بچوں کو سکول لانے لے جانے اور خریداری کے لئے اس کا کوئی اور انتظام نہیں تو یہ سب امور مجبوری کے تحت آئیں گے.ایسی صورت میں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیدھی کام پر جائے اور کام مکمل کر کے واپس گھر آکر بیٹھے.مجبوری اور ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی بس اتنی ہی حد ہے.کسی قسم کی سوشل مجالس یا پروگراموں میں شرکت کی اسے اجازت نہیں.(قسط نمبر 20 ، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 345

Page 412

شادی بیاه سوال: لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی 22 اگست 2020 ء کی Virtual ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ستار ہے.اور بچوں کے رشتے کرتے وقت جب ہم لڑکا لڑکی یا ان کے خاندان کے بارہ میں تحقیق کرواتے ہیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا: جواب : اللہ تعالیٰ ستار تو ہے اور اللہ تعالیٰ ستاری کو پسند کرتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عیب اگر کسی کو پتہ لگ جائیں تو وہ لوگوں کو بتانے نہیں چاہئیں اور پردہ پوشی کرنی چاہیئے.لیکن رشتہ کے بارہ میں قرآن کریم کا یہ بھی حکم ہے کہ قول سدید سے کام لو.جو بھی رشتہ ہے، لڑکے اور لڑکی میں جو بھی نقص ہیں، باتیں ہیں ان کا ایک دوسرے کو پتہ لگنا چاہیئے.بالکل سچائی سے کام لو، کوئی ایسی پیچ نہ ہو تا کہ بعد میں رشتہ میں دراڑیں نہ پڑیں.اس لئے ہر بات کھل کے بتا دینی چاہیئے.رشتہ کا معاملہ بڑا Sensitive معاملہ ہے.بعد میں لڑائیاں ہوتی ہیں، باتیں ہوتی ہیں کہ ہمیں یہ نہیں بتایا، وہ نہیں بتایا.تو اس لئے بہتر ہے کہ رشتہ کرتے ہوئے یہ ساری باتیں بتاؤ اور قرآن کریم کی نکاح کی آیات جو ہیں ان میں اسی لئے قولِ سدید کے بارہ میں زور دیا گیا ہے.ستاری کا ایک حکم اپنی جگہ ہے وہ یہ ہے کہ تم نے کسی کے عیب ظاہر نہیں کرنے.تم جو رشتہ بتا رہے ہو تو یہ بتا دو کہ یہ رشتہ ہے.باقی اگر آپ کو اس کے بارہ میں کوئی کمزوری کا پتہ بھی ہے، جس کارشتہ تجویز کر رہے ہیں تو یہ بتا دیں کہ یہ رشتہ ہے تم لوگ خود ہی آپس میں بیٹھو، ملو، دیکھو، دعا کرو اور پھر فیصلہ کرو.اگر آپ نے ستاری کرنی ہے تو یہ ہے.نہ یہ ہے کہ رشتہ بتانے سے پہلے آپ اس کو یہ کہہ دیں کہ اس میں تو یہ نقص ہے، یہ نقص ہے، یہ نقص ہے اور اس کا رشتہ ہی نہ ہو.کہہ دیں یہ رشتہ ہے، تجویز ہے.اس میں اچھائیاں کیا ہیں، برائیاں کیا ہیں؟ یہ تم لوگ خود مل کے بیٹھ کے دیکھو اور اگر تم لوگوں کو پسند آتا ہے تو کر لو، پھر دعا کر کے فیصلہ کرو.اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے.اور غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے کہ کونسا رشتہ کس کے لئے بہتر ہے.اس لئے دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہیئے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے 346

Page 413

کہ استخارہ بھی کرنا چاہیے.استخارہ کا مطلب خیر مانگنا ہے.اللہ تعالیٰ سے خیر مانگنی چاہیئے کہ اس رشتہ میں خیر ہے تو میرے لئے بہتری ہو اور آسانی سے رستے کھل جائیں.اور اگر اس رشتہ میں خیر نہیں ہے تو اس رشتہ میں میرے لئے روک پڑ جائے.تو ستاری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ رشتہ کرتے ہوئے جو حقائق ہیں وہ بھی نہ بتائے جائیں.اگر آپس میں دونوں فریق مل بیٹھتے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ قول سدید سے کام لیتے ہوئے آپس میں جو بھی اچھائیاں برائیاں ہیں.ایک دوسرے کا پتہ لگنا چاہیئے.ہر ایک شخص Perfect نہیں ہوتا، ہر ایک میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں.یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ برائیوں کا اعلان کرتے پھرو.لیکن اگر کوئی ایسی بات ہے جس سے بعد میں رشتہ میں دراڑ پڑنے کا خطرہ ہو ، ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو بہتر ہے کہ وہ برائی یاوہ بات پہلے ہی بتا دو.کوئی کمزوری ہے، کوئی بیماری ہے، کسی لڑکی میں اگر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں یا کسی مرد میں کوئی کمزوری ہے تو وہ پہلے ہی ایک دوسرے کو پتہ لگ جانی چاہیئے تا کہ بعد میں مسائل پیدا نہ ہوں.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 09 اپریل 2021ء صفحہ 11) 347

Page 414

سوال: اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے حضور سے دریافت کیا کہ شادی کے معاملہ میں دین کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے.مگر آجکل لوگ خوبصورتی اور دوسری خصوصیات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے جماعت کی کافی نیک اور دینی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی، اس بارہ میں حضور سے رہنمائی کی درخواست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: جواب: دیکھیں ہم نے تو کوشش کرنی ہے اور میں تو کوشش کرتا رہتا ہوں.لڑکوں کو بھی سمجھاتا رہتا ہوں.یہ بالکل صحیح بات ہے کہ آنحضرت لال نے یہی فرمایا ہے کہ تم لوگ جو کسی سے شادی کرتے ہو تو اس کی خصوصیات کی بنا پر کرتے ہو یا اس کا خاندان دیکھتے ہو یا اس کی شکل دیکھتے ہو یا اس کی دولت دیکھتے ہو.لیکن ایک مومن جو ہے اس کو ہمیشہ عورت کا دین دیکھنا چاہیئے.اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر لڑکوں میں دین نہیں ہو گا تو وہ لڑکیوں کا دین کس طرح دیکھیں گے ؟ تو جو جماعتی نظام ہے اور خدام الاحمدیہ ہے، میں ان کو بھی کہتا ہوں کہ لڑکوں میں دینداری پیدا کرو.جب لڑکوں میں دینداری پیدا ہو گی تو پھر وہ یقیناً ایسی لڑکیوں سے شادی کرنے کی کوشش کریں گے جو دیندار ہوں.تو یہ تربیت کا معاملہ ہے اور اس طرف میں جماعت کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور انصار اللہ کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں.لیکن لجنہ کا کام یہی ہے کہ وہ خود بھی کوشش کریں، جو بڑی عمر کی لجنہ ممبرات ہیں ، مائیں ہیں وہ بھی اپنے بچوں اور لڑکوں کی تربیت کریں، ان کو توجہ دلائیں کہ تم نے نیک اور دیندار لڑکی سے شادی کرنی ہے.اگر مائیں اپنا کردار ادا کریں گی تو یقینا ان کے لڑکے بھی دیندار لڑکیوں سے شادی کریں گے.مسئلہ یہ ہے کہ جب لڑکے کی شادی کا معاملہ آتا ہے تو مائیں کہتی ہیں کہ ہمارا بچہ جو ہے ہم اس کی شادی اپنی مرضی سے کریں گے.اور جب لڑکیوں کی عمر گزر رہی ہوتی ہے اور لڑکیوں کے رشتے نہیں ملتے، جب وہ بڑی ہو جاتی ہیں، تو پھر مائیں اور باپ کہتے ہیں کہ جماعت ان کی شادی کروادے.حالانکہ دونوں کو جماعت کے سپرد کرنا چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ دیندار لڑکے اور دیندار لڑکیاں آپس میں مل کر شادیاں کریں تا کہ جماعت کے اندر ہی لڑکے اور لڑکیاں رہیں اور آئندہ بھی نیک اور دیندار نسل پیدا ہوتی رہے.تو یہ تو کوشش 348

Page 415

ہے، مردوں کی بھی اور عورتوں کی بھی مشترکہ کوشش ہے، جو مل کے کرنی چاہیئے.اس میں ماؤں کو بھی اپنا کر دار ادا کرنا چاہیئے اور باپوں کو بھی اپنا کر دار ادا کرنا چاہیئے.اس کے لئے میں کوشش بھی کرتا ہوں ، میں توجہ بھی دلاتا ہوں ، دعا بھی کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے.(قسط نمبر 19، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 349

Page 416

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ازھر یونیورسٹی کی ایک عہدیدار خاتون کے فتویٰ کہ ” قرآن کریم میں کوئی ایسی نص نہیں جو مسلمان لڑکی کو غیر مسلم کے ساتھ شادی سے منع کرتی ہو.“ کے بارہ میں رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 دسمبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرآن کریم کے علاوہ بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطف العلم کی سنت اور قرآن و سنت سے موافقت رکھنے والی احادیث نبویہ الم پر ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن کریم میں بیان احکامات کی پیروی کا مسلمانوں کو حکم دیا وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ : قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ قُلْ أَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران : 32،33) یعنی (اے محمد ا ) تو کہہ کہ (اے لوگو ) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو (اس صورت میں) وہ (بھی) تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.تو کہہ (کہ) تم اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرو (اس پر اگر وہ منہ پھیر لیں تو ( یاد رکھو کہ) اللہ کافروں سے ہر گز محبت نہیں کرتا.اسی طرح فرمایا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ مَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر: 8) کہ یہ رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ کا عذاب یقیناً بہت سخت ہوتا ہے..ان بنیادی اصولوں کو جاننے کے بعد جب ہم مسلمان عورت کی کسی غیر مسلم مرد سے شادی کے معاملہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک مسلمان عورت کی ہر مشرک، ہر کافر اور ہر اہلِ کتاب 350

Page 417

مرد سے شادی کی ممانعت کا واضح حکم قرآن کریم میں ملتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ آیت 222 میں حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں اپنی عورتیں نہ بیا ہو.اور سورۃ المائدہ کی آیت 6 میں جہاں مسلمانوں کے لئے اہل کتاب کا اور اہل کتاب کے لئے مسلمانوں کا کھانا جائز قرار دیا وہاں مسلمان مردوں کو اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی تو اجازت دی لیکن مسلمان عورتوں کے اہل کتاب مردوں سے نکاح کا ذکر نہ فرما کر اس امر کی ممانعت کو قائم فرمایا.اور سورۃ الممتحنہ کی آیت 11 میں ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کو کفار کی طرف نہ لوٹانے اور ان عورتوں کو کفار کے لئے اور کفار کو ان مسلمان عورتوں کے لئے جائز نہ ہونے کی ہدایت فرما کر کفار سے بھی مسلمان عورتوں کو بیاہنے کی ممانعت فرما دی.ان قرآنی احکامات کے علاوہ آنحضور الم کی سنت اور آپ کے ارشادات سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضور ا نے اپنی کسی عزیزہ کو کسی غیر مسلم سے بیاہا ہو.یا ان قرآنی احکامات کے نزول کے بعد صحابہ رسول اللهم نے خود یا حضور الم کے ارشاد پر اپنی کسی بچی کو کسی غیر مسلم سے بیابا ہو.بلکہ اس کے برعکس حضور ا م نے صحابہ کو عام نصیحت فرمائی کہ جب تمہارے زیر کفالت کسی مسلمان خاتون کا رشتہ کوئی ایسا شخص طلب کرے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس خاتون کو اس سے بیاہ دو، خواہ اس شخص میں کوئی نقص ہو.حضور ام نے ( دین اور اخلاق والے) اس فقرہ کو تین دفعہ دہرایا.(سنن ترمذي كتاب النکاح) اس زمانہ کے حکم و عدل اور حضرت اقدس محمد مصطفی ایم کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں اسی اسلامی تعلیم کے عین مطابق اپنے متبعین کو نصیحت فرمائی کہ: غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے.اپنی لڑکی کسی غیر احمدی کو نہ دینی چاہیئے.اگر 66 ملے تولے بیشک لو.لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 525 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) حضور علیہ السلام نے سورۃ المائدہ میں بیان نص قرآنی کے تحت ہی غیر احمدی مرد کو اپنی لڑکی 351

Page 418

دینا گناہ قرار دیا ہے کیونکہ اس آیت میں مسلمان مردوں کے لئے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے جواز کا تو ذکر کیا گیا ہے لیکن مسلمان عورتوں کو اہل کتاب مردوں سے بیاہنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا.( قسط نمبر 30، الفضل انٹر نیشنل 11مارچ 2022ء صفحہ 11) 352

Page 419

سوال: کویت سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ ہم مسلمانوں پر شادی کرنا کیوں فرض ہے.اور اگر کوئی بہت نیک ہو لیکن شادی نہ کرے تو کیا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15 اکتوبر 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: مسلمانوں کے لئے شادی کرنا اسلام کے بنیادی احکامات میں سے ایک حکم ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس کا ارشاد فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا: فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنِي وَ ثُلُثَ وَرُبَعَ.(سورة النساء:4) یعنی عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو.دو دو اور تین تین اور چار چار.اسی طرح شادی کرنا حضور الم کی سنت ہے اور حضور الم نے فرمایا ہے کہ حقیقی مسلمان وہی ہے جو میری سنت پر عمل کرتا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي وَتَزَوَّجُوْا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحَ وَمَنْ لَمْ يَجِدُ فَعَلَيْهِ بِالصَّيَامِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لهُ وِجَاءُ (سنن ابن ماجه كتاب النكاح بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ النِّكَاحِ) یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نکاح میری سنت ہے.پس جو میری سنت پر عمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.اور نکاح کیا کرو اس لئے کہ تمہاری کثرت پر میں امتوں کے سامنے فخر کروں گا.اور جس میں استطاعت ہو تو وہ نکاح کرے اور جس میں استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزہ اس کی شہوت کو توڑ دے گا.پس اگر اچھا رشتہ مل رہا ہو اور کفو بھی ہو تو شادی ضرور کرنی چاہیئے.لیکن یہ نہیں کہ کسی بھی کافر اور ملحد کے ساتھ شادی کر لی جائے بلکہ اس معاملہ بھی اسلامی تعلیمات اور انتظامی ہدایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے.(قسط نمبر 45، الفضل انٹر نیشنل 16 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 353

Page 420

شادی کے بعد عورت کے لئے خاوند کا نام اپنانا سوال: اسی ملاقات میں ایک ممبر لجنہ نے دریافت کیا کہ کئی دفعہ شادی کے بعد لڑکیاں اپنا نام بدل کر خاوند کے نام کے ساتھ ملا کر رکھ لیتی ہیں.اسلامی نظریہ کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے ؟ حضور انور اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: کوئی حرج نہیں ہے.رکھ لیتی ہیں تو کیا ہو گیا؟ اب ان کی جو پہچان ہے سرکاری کاغذوں میں ، تو مجبوری ہے.بعض دفعہ سرکاری کاغذوں میں ایک نام مثلاً عطیہ بابر کسی نے اپنے باپ کے نام سے نام رکھا ہوا ہے.تو جب اس کی شادی ہو جائے گی، اس کی رجسٹریشن ہو جائے گی تو رجسٹریشن میں، اس کے نکاح فارم یا سرکاری کاغذوں میں اس کا نام عطیہ مبشر کے نام سے اگر آجائے گا، بابر کی جگہ مبشر آجائے گا تو اس میں کیا حرج ہے؟ کوئی حرج نہیں اس میں.اسلام میں اس کی بالکل اجازت ہے کہ خاوند کے نام سے نام رکھ لیا جائے.اصل نام اس کا عطیہ ہے.دوسرا نام تو پہچان کے لئے رکھا ہوا ہے، پہلے باپ اس کی پہچان تھا اب شادی کے بعد خاوند اس کی پہچان ہو گیا.بلکہ اچھی بات ہے جو خاوند کی پہچان کے ساتھ نام رکھیں گے تو خاوند کو اپنی بیوی کی عزت کا خیال رہے گا اور بیوی کو اپنے خاوند کی عزت کا خیال رہے گا.اور دونوں میں اس سے پیار اور تعلق زیادہ قائم ہو گا.اس لئے خاوند کے نام سے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں.(قسط نمبر 19، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 354

Page 421

سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ قرآن کریم میں حوروں کا جو ذکر ہے، غیر از جماعت لوگ اس کا غلط مطلب نکالتے ہیں.ان حوروں سے اصل میں کیا مراد ہے؟ اسی طرح انہوں نے پوچھا کہ شادی کے بعد عورت کے لئے خاوند کا نام اپنا نا ضروری ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: شادی کے بعد بیوی کے لئے خاوند کا نام اپنانے کا سوال کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے جس کی پابندی ضروری ہو.اگر دل چاہے تو اپنا لیا جائے اور اگر دل نہ چاہے تو نہ اپنائے.اور اگر سر کاری کاغذات میں نام اپنانا لازمی ہو تو اپنا لینا چاہیئے ، اس میں کوئی حرج کی بات بھی نہیں.(قسط نمبر 50، الفضل انٹر نیشنل 10 مارچ 2023ء صفحہ 12) 355

Page 422

شارٹ سیلنگ (Short Selling) سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے Short Selling“ کے حلال و حرام ہونے کے بارہ میں رہنمائی چاہی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 مئی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اصل میں ”Short Selling“ جلد پیسہ کمانے کا ایک آسان راستہ سمجھا جاتا ہے، جس میں بعض لوگ Shares رکھنے والے Brokers سے کچھ Shares ادھار لے کر انہیں بازار میں مہنگے داموں بیچتے اور پھر ان Shares کے سستے ہونے پر انہیں بازار سے خرید کر Brokers کو واپس کر دیتے ہیں.جس کے نتیجہ میں منافع کا ایک حصہ یہ لوگ کماتے ہیں اور ایک حصہ بطور کمیشن Broker کو دیتے ہیں.اسلام نے جس طرح زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی رہنمائی فرمائی ہے، تجارت میں بھی صاف اور سیدھی راہ اختیار کرنے اور کھری اور دو ٹوک بات کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.چنانچہ آنحضور لم نے تجارت کے معاملہ میں اس حد تک ہدایت فرمائی کہ اگر تمہارے مال میں کوئی نقص ہو تو اسے مت چھپاؤ بلکہ واضح طور پر گاہک کو اس نقص سے آگاہ کرو.(صحیح مسلم کتاب الايمان باب مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا) ماپ تول کو پورا رکھو ، اس میں کسی قسم کی کمی نہ کرو.اور جب تک خریدا ہوا مال اپنے قبضہ میں نہ لے لو اسے آگے فروخت مت کرو.(صحيح بخاري كتاب البيوع باب الكيل علي البائع والمعطي) پس ہر کاروبار پوری طرح تحقیق کر کے کرنا چاہیئے تا کہ نہ انسان خود دھو کہ کھائے اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو دھو کہ دے.Short Selling “ کے کاروبار میں کمپنیوں کی سطح پر بھی اور " انفرادی طور پر بھی خریدار کو دھو کہ دیا جا رہا ہوتا ہے اور جن Shares کی قیمت گرنے والی ہوتی ہے انہیں اس نیت سے فروخت کیا جاتا ہے کہ چند دن بعد جب ان Shares کی قیمت گرے گی تو انہیں سستے داموں خرید کر اصل مالک کو Shares واپس کر دیئے جائیں گے.گویا اس بات کا 356

Page 423

دو علم ہونے کے باوجود کہ ان Shares کی چند دنوں میں قیمت گر جائے گی خریدار کو اندھیرے میں رکھ کر اسے یہ Shares فروخت کئے جاتے ہیں.علاوہ ازیں سٹاک مارکیٹ کے حوالہ سے ہونے والے مختلف کاروباروں میں سے Short Selling “ کا کاروبار ایک لحاظ سے جوا کی ہی صورت رکھتا ہے اس لئے بعض اوقات Short Sellers کو فائدہ ہونے کی بجائے بہت بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل Game Stop کے Shares کے معاملہ میں ہوا تھا.پس اسلام تعلیمات کی روشنی میں ایک مومن تاجر کی ذمہ داری ہے کہ نہ خود دھو کہ کھائے اور نہ دوسروں کو دھوکہ دے بلکہ صاف صاف تجارت کر کے مالی فائدہ اٹھائے اور اپنے رب کو راضی رکھے.(قسط نمبر 36، الفضل انٹر نیشنل 17 جون 2022ء صفحہ 11) 357

Page 424

شرائط بیعت سوال: ایک غیر از جماعت عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں نے ابھی بیعت نہیں کی کیونکہ ڈرتی ہوں کہ شاید شرائط بیعت کو پورانہ کر سکوں.لیکن کیا میں اپنی سہیلیوں کو تبلیغ کر سکتی ہوں؟ نیز آسمانی بروج کے بارہ میں رہنمائی چاہی اور پوچھا ہے کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ میرا فلاں برج ہے؟ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شمس و نجوم کی تاثیرات کا ذکر فرمایا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے: جواب: اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کے لئے مجاہدہ اور دعا لازمی شرط ہے.کسی نیکی کو پانے کے لئے صرف ارادہ کافی نہیں، عمل بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جب اپنی سچی راہ دکھا دی ہے تو اب آپ کا کام ہے کہ دعا اور مجاہدہ کے ساتھ اس کا قرب پانے کی کوشش کریں.جب ایسا کریں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اپنے فضل سے اور بھی آسانیاں پیدا فرما دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے.اسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا کی مرضی پر چلے.جو وہ چاہے وہ کرے.اپنی مرضی نہ کرے.بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہر گز نہ ہو گا.اس لئے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے.خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تاکید فرمائی ہے.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے اور جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا میں کوشش کی.جب تک تقویٰ نہ ہو گی اولیاء الرحمن میں ہر گز داخل نہ ہو گا اور جب تک یہ نہ ہو 358

Page 425

گا حقائق اور معارف ہر گز نہ کھلیں گے.“ (البدر جلد 3 نمبر 2 مؤرخہ 8 جنوری 1904ء صفحہ 3) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے انعامات کے شکرانہ کا ایک طریق یہ ہے کہ ان انعامات میں دوسروں کو بھی شریک کیا جائے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی جو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف رہنمائی فرمائی ہے.اب آپ بھی جس طرح بہتر سمجھیں اپنی سہیلیوں کو اس سچی راہ کی تبلیغ کر کے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کر سکتی ہیں.(قسط نمبر 34، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2022ء صفحہ 11) 359

Page 426

شہری اور دیہی علاقہ سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ بنگلہ دیش کے مربیان کی مؤرخہ 08 نومبر 2020ء کو ہونے والی Virtual ملاقات میں ایک مرتبی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ عموماً نوجوان طبقه کار و بار یا ملازمت کے سلسلہ میں شہر چلا جاتا ہے، جس سے دیہاتی جماعتوں میں کارکنان اور عہدیدار احباب کی کمی ہوتی جار ہی ہے، اس حالت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا: جواب: یہ تو دنیا کا قانون ہے ، ہر جگہ دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے کہ جو Rural Area ، دیہاتی ایریا ہے وہاں سے Urban Area میں Migration ہوتی ہے، شہری علاقہ میں Migration ہوتی ہے.اور جہاں قوموں نے ترقی کرنی ہوتی ہے یہ Natural چیز ہے.چھوٹے علاقے ہیں، قصبے ہیں، گاؤں ہیں ان کی آبادیاں تیزی سے بڑھ رہی ہوتی ہیں.اگر آبادیاں وہیں رہیں گی اور پڑھ لکھ کے شہر میں نہیں آئیں گی تو پھر ترقی نہیں ہو سکتی.یہ تو نشانی ہے اس بات کی کہ شہروں میں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں اور قوم ترقی کر رہی ہے.یا پڑھائی کے مواقع زیادہ ہیں اور وہ پڑھائی کر کے آگے بڑھ رہے ہیں.ہاں بنگلہ دیش میں آپ کی ایک Economist تھی اس نے Cottage Industry کا سسٹم روع کیا تھا کہ بجائے باہر جانے کے دیہاتوں میں اور چھوٹے قصبوں میں Cottage Industry ہو اور لوگ وہیں کام کریں اور وہیں ان کو Investment کرنے کے مواقع میسر آجائیں.اگر ویسے کوئی مواقع میسر آ جائیں تو بڑی اچھی بات ہے، جماعت کے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے اور پھر وہاں رہ کے کام کرنا چاہیے.لیکن جو بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں، جن کو تعلیم حاصل کر کے پھر آگے بڑھنے کے زیادہ مواقع میسر آ رہے ہیں، انہوں نے تو ظاہر ہے باہر جانا ہے.پھر اس کا یہی علاج ہے کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں وہ اپنا کام زیادہ سے زیادہ نبھانے کی کوشش کریں اور بیعتیں کرانے کی کوشش کریں، زیادہ تبلیغ کریں، 360

Page 427

لوگوں کو زیادہ جماعت کا تعارف کروائیں اور جو نوجوان نسل نیچے سے اٹھ رہی ہے ، اطفال میں سے خدام میں آرہے ہیں ان میں احساس ذمہ داری پیدا کریں کہ وہ زیادہ سے زیادہ جماعت کا کام کر سکیں.دیکھیں حصول معاش کے لئے انہوں نے باہر جانا ہی جانا ہے.اس کا طریقہ یہی ہے کہ ایک تو ان علاقوں میں بیعتیں کروائیں ، دوسرے جو نئی نوجوان نسل ہے اس کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ جماعت کو سنبھال سکیں.(قسط نمبر 6، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 361

Page 428

صدقات سوال: صدقات کی رقم کو مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے کے بارہ میں فقہی مسائل میں دیئے جانے والے ایک جواب کی درستی کرواتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب بنام محترم ناظم صاحب دار الافتاء مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ارشاد فرمایا: جواب: صدقات کی رقم کو مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے کے بارہ میں آپ کی طرف سے فقہی مسائل میں دیا جانے والا جواب مجھے کسی نے بھیجوایا ہے، جس میں آپ نے سورۃ التوبہ کی آیات نمبر 60 سے استدلال کرتے ہوئے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے.صدقہ کا لفظ قرآن و حدیث میں اسلام کے ایک فرض رُکن زکوۃ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے اور زکوۃ کے علاوہ اللہ کی رضا کی خاطر غربا و مساکین کی مدد اور اعانت کے لئے دیئے جانے والے دیگر صدقات کے لئے بھی یہ لفظ آیا ہے.اور ہر جگہ کا سیاق و سباق اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اُس جگہ استعمال ہونے والا لفظ اسلامی رُکن زکوۃ کے لئے آیا ہے یا دیگر صدقات کے لئے استعمال ہوا ہے.سورۃ التوبہ کی مذکورہ آیت میں بیان صدقات سے مراد اموال زکوۃ ہیں.لہذا اس آیت سے استدلال کر کے زکوۃ کے علاوہ دوسرے صدقات کی رقم کو مسجد فنڈ میں خرچ کرنے کا فتویٰ درست نہیں ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے زکوۃ اور دیگر صدقات میں فرق کیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صدقہ کے گوشت کو صرف غربا کا حق قرار دیا اور انہیں میں تقسیم کی ہدایت فرمائی.لیکن لنگر خانہ میں اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی حالانکہ لنگر خانہ میں عام طور پر مسافروں کے قیام و طعام کا انتظام ہو تا ہے اور آپ کے استدلال کے مطابق تو پھر فِي سَبِيلِ اللہ اور ابنَ السَّبِيْلِ کے تحت ان کے لئے بھی اس قسم کے صدقہ کے گوشت کی اجازت ہونی چاہیے تھی.في سَبِيلِ اللہ یا ابْنَ السَّبِیلِ سے اس قسم کا استدلال خاص حالات میں تو ہو سکتا ہے اور ایسی تشریح کرنا بھی خلیفہ وقت کا حق ہے.اگر ہر شخص اس قسم کے استدلال کر کے جواز کی راہیں نکالنا شروع کر دے تو مسائل میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا.362

Page 429

سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جہاں بینکوں سے ملنے والے سود کو اشاعت اسلام کی مد میں خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، اسے صرف اسلام کی غربت کی حالت میں اضطراری طور پر اور وقتی اجازت قرار دیا ہے.نیز صرف اشاعت اسلام کی مذ میں لٹریچر وغیرہ کی اشاعت میں اس کے خرچ کی اجازت دی ہے، مساجد وغیرہ کی تعمیر کے لئے اجازت نہیں دی.پس ان امور کی روشنی میں پہلے خلفائے احمدیت کی طرح میرا بھی یہی موقف ہے کہ صدقات کی رقم مساجد فنڈ میں نہیں دی جاسکتی.لہذا اسی کے مطابق آپ کا بھی فتویٰ ہونا چاہیئے.اس کے علاوہ آپ کے پاس اپنے موقف کے حق میں اگر کوئی اور دلائل ہیں تو علمی بحث کے طور پر بے شک مجھے اپنی رپورٹ بھجوا دیں.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 363

Page 430

سوال: صدقات کی رقم مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے نیز جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والے کی وفات پر تعزیت کے لئے جانے کے بارہ میں ایک مرتبی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بغرض رہنمائی عریضہ تحریر کیا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ان امور کے بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور نے فرمایا: جواب: مساجد فنڈ کے لئے صدقہ کی رقم کے بارہ میں آپ کا موقف بالکل درست ہے.صدقات کی رقم سے مساجد تعمیر نہیں کی جاتیں.مسجد بنانے کے لئے الگ سے ہدیہ دینا چاہیئے.اسی لئے جماعت میں بھی جہاں ضرورت ہو مساجد کی تعمیر کے لئے الگ مساجد فنڈ کی تحریک کی جاتی ہے.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 364

Page 431

سوال: جرمنی سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا ایک عورت اپنے مخصوص ایام میں کسی عورت کی میت کو غسل دے سکتی ہے؟ نیز یہ کہ جس شخص کو صدقہ دیا جائے کیا اسے بتاناضروری ہے کہ یہ صدقہ کی رقم ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15 ستمبر 2021ء میں بارہ میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ صدقہ بتا کر دینا چاہیے کیونکہ کئی لوگ صدقہ لینا پسند نہیں کرتے.پھر حدیث میں بھی آتا ہے کہ حضور ا کی خدمت میں اگر صدقہ کی کوئی چیز آتی تو آپ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے اسے استعمال نہ فرماتے بلکہ اہل صفہ کو بھجوا دیتے لیکن اگر کوئی ہدیہ پیش کرتا تو اس میں سے خود بھی کھاتے اور اہل صفہ کو بھی بھجواتے.اس سے تو بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی خدمت میں صدقات اور ہد یہ جات پیش کرنے والے بھی آپ کو بتایا کرتے تھے کہ یہ صدقہ ہے یا ہدیہ ہے.اسی لئے تو آپ اس کے استعمال میں بھی فرق فرمایا کرتے تھے.(صحيح بخاري كتاب الرقاق بَاب كَيْفَ كَانَ عَيْشُ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ وَ تَخَلَّيْهِمْ مِنَ الدُّنْيَا) (قسط نمبر 42، الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2022ء صفحہ 10) 365

Page 432

طاق نمبر سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ : 1- اللہ تعالیٰ کو طاق نمبر کیوں پسند ہے؟ 2.اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے قرآن مجید میں مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟ 3.کیا یہ بات درست ہے کہ جنت میں اعلیٰ مقام والے لوگ اپنے سے کم مقام والوں کو تو مل سکیں گے ، لیکن کم درجہ والے اعلیٰ درجہ والوں سے نہیں مل سکیں گے؟ 4.ایک دہر یہ کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر انسانوں کو معاف کر کے جنت میں لے جانا ہے؟ جواب: آپ کے پہلے سوال کا جواب تو حدیث میں بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ خود ایک ہے اور ایک کا ہندسہ طاق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو طاق پسند ہے.چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اﷺ نے فرمایا إِنَّ الله وثرٌ يُحِبُّ الْوِثر.یعنی اللہ تعالیٰ یقیناً وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے.(صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء والتوبه والاستغفارباب فــي أَسْمَاءِ اللهِ تَعَالَي وَفَضْلِ مَنْ أَحْصَاهَا) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون نظر آتا ہے کہ وہ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے.رسول کریم ام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے.وہ خود بھی ایک ہے اور دوسری اشیاء کے متعلق بھی وہ یہی پسند کرتا ہے کہ وہ طاق ہوں.چنانچہ یہ حکمت ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے.مگر یہ ایک الگ اور وسیع مضمون ہے جس کو اس وقت بیان نہیں کیا جا سکتا.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قانون قدرت میں اللہ تعالیٰ نے طاق کو قائم رکھا ہے اور اس کے ہر قانون پر طاق حاوی قرآن کریم کے محاوروں اور سول کریم الم کے محاوروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سات کے عدد کو تکمیل کے ساتھ خاص طور پر ہے.366

Page 433

نعلق ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کو سات دن میں بنایا.اسی طرح انسان کی روحانی ترقیات کے سات زمانے ہیں.پھر آسمانوں کے لئے بھی قرآن کریم میں سبع سموات کے الفاظ آتے ہیں اور یہ طاق کا عدد ہے.تو طاق کا عدد اللہ تعالیٰ کے حضور خاص حکمت رکھتا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم تمام قانون قدرت میں دیکھتے ہیں.“ (روز نامه الفضل قادیان دارالامان مؤرخہ 7 اپریل 1939ء صفحہ 5) (قسط نمبر 40 ، الفضل انٹر نیشنل 23 ستمبر 2022ء صفحہ 11) 367

Page 434

طلاق سوال: ایک دوست نے ایک وقت میں دی جانے والی تین طلاقوں، غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق اور طلاق کے لئے گواہی کے مسائل کی بابت بعض استفسار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جون 2019ء میں ان سوالات کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پورے ہوش و حواس سے طلاق دے تو طلاق خواہ زبانی ہو یا تحریری، ہر دو صورت میں مؤثر ہو گی.البتہ ایک نشست میں تین مرتبہ دی جانے والی طلاق صرف ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے.چنانچہ کتب احادیث میں حضرت رکانہ بن عبد یزید کا واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دیدیں.جس کا انہیں بعد میں افسوس ہوا.جب یہ معاملہ آنحضرت ا کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اس طرح ایک طلاق واقع ہوتی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو.چنانچہ انہوں نے اپنی طلاق سے رجوع کر لیا اور پھر اس بیوی کو حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں دوسری اور حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں تیسری طلاق دی.(سنن ابي داؤد کتاب الطلاق باب في البثة) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: طلاق ایک وقت میں کامل نہیں ہو سکتی.طلاق میں تین طہر ہونے ضروری ہیں.فقہاء نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائز رکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کر سکتی ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 17.ایڈیشن 2016ء) اسی طرح جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اس کی کسی نا قابل برداشت اور فضول حرکت پر ناراض ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے.بیوی سے خوش ہو کر تو کوئی انسان اپنی بیوی کو طلاق 368

Page 435

نہیں دیتا.اس لئے ایسے غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر ہو گی.البتہ اگر کوئی انسان ایسے طیش میں تھا کہ اس پر جنون کی کیفیت طاری تھی اور اس نے نتائج پر غور کئے بغیر جلد بازی میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس جنون کی کیفیت کے ختم ہونے پر نادم ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی قسم کی کیفیت کے لئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ: لا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (سورة البقرة:226) یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو (قسموں) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا.ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالا رادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بردبار ہے.جہاں تک طلاق کے لئے گواہی کا مسئلہ ہے تو یہ اس لئے ہے کہ تنازعہ کی صورت میں فیصلہ کرنے میں آسانی رہے.لیکن اگر میاں بیوی طلاق کے اجراء پر متفق ہوں اور ان میں کوئی اختلاف نہ ہو تو پھر گواہی کے بغیر بھی ایسی طلاق مؤثر شمار ہو گی.پس طلاق کے لئے گواہی کا ہونا مستحب ہے، لازمی نہیں.چنانچہ قرآن کریم نے طلاق اور رجوع کے سلسلہ میں جہاں گواہی کا ذکر کیا ہے وہاں اسے نصیحت قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا: فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوْعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا.(سورة الطلاق: 3) یعنی پھر جب عورتیں عدت کی آخری حد کو پہنچ جائیں تو انہیں مناسب طریق پر روک لو یا انہیں مناسب طریق پر فارغ کر دو.اور اپنے میں سے دو منصف گواہ مقرر کرو.اور خدا کے لئے سچی گواہی دو.تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے اس کو یہ نصیحت کی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا.چنانچہ فقہاء اربعہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص بغیر گواہوں کے طلاق دیدے یا 369

Page 436

رجوع کر لے تو اس کی طلاق یا رجوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.(قسط نمبر 11 ، الفضل انٹر نیشنل 12 مارچ 2021ء صفحہ 11) 370

Page 437

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر میاں بیوی میں ان کی شادی کے عرصہ میں تین دفعہ طلاق ہو جائے تو تیسری طلاق کے بعد صلح کی کیا صورت ہو گی ؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مورخہ 22 جولائی 2019ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم کا حکم الطَّلَاقُ مرتن بہت واضح ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایسی طلاق جس میں رجوع ہو سکے، صرف دو مر تبہ ہو سکتی ہے.اس کے بعد فرمایا: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ یعنی ایسی دو طلاقوں کے بعد اگر خاوند اپنی بیوی کو تیسری طلاق دیدے تو اس تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کا اس بیوی سے صلح کرنے کا حق باقی نہیں رہتا.نہ عرصہ عدت میں بغیر نکاح کے اور نہ ہی عدت کے ختم ہونے پر نکاح کے ساتھ وہ اس کے ساتھ خانہ آبادی کر سکتا ہے.جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے با قاعدہ نکاح نہ کرے اور وہ خاوند اس عورت کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے طلاق دیدے.پس آپ کی بیان کردہ صورت میں اب ان میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوئی گنجائش نہیں، جب تک کہ ان کے درمیان حَتَّي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ والی شرط پوری نہ ہو.(قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 371

Page 438

سوال: ایک شخص کے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد رجوع کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کے استفسار پر اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ارشاد فرمایا: جواب: طلاق کے اسلامی حکم، جس کے متعلق حضور الم کا فرمان ہے کہ : أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَي اللَّهِ تَعَالَي الطَّلَاقُ کو انہوں مذاق بنایا ہوا ہے اور ذرا ذراسی بات پر اپنی بیوی کو طلاق دیتے رہے ہیں.یہ کوئی طیش نہیں بلکہ سراسر جہالت ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک رخصت کی تضحیک ہے.صاف نظر آرہا ہے کہ ان کے دل میں بسا ہوا ہے کہ بیوی کو تنگ کرنے کے لئے طلاق ایک بہترین ہتھیار ہے.اور جب چاہیں بغیر سوچے سمجھے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے.ایسے لوگوں کی ہی تأدیب اور اصلاح کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک وقت میں دی جانے والی تین طلاقوں کو تین شمار فرمایا تھا.اس لئے میرے نزدیک تو یہ طلاق ہو گئی ہے اور اب رجوع نہیں ہو سکتا.لیکن پھر بھی مزید جائزہ لے لیں.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 372

Page 439

سوال: ایک خاتون نے نکاح اور طلاق کے بارہ میں بعض سوالات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھجوا کر ان کے بارہ میں رہنمائی چاہی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 17 اگست 2020ء میں ان سوالوں کا تفصیلی جواب عطا فرماتے ہوئے درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: 1.طلاق یا خلع کے لئے فریقین کا متفق ہونا یا اس کے لئے گواہوں کا ہونا ضروری نہیں.لیکن انعقاد نکاح کے لئے دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہے، جس کے لئے فریقین اور لڑکی کے ولی کی رضامندی اور گواہوں کی موجودگی ضروری ہے.نیز اس معاہدہ کے اعلان کا بھی حکم ہے.جبکہ نکاح کے معاہدہ کو ختم کرنے کا اختیار اسلام نے فریقین کو دیا ہے جسے اصطلاح میں خُلع اور طلاق کہا جاتا ہے.عورت جس طرح اپنا نکاح خود بخود نہیں کر سکتی بلکہ اپنے ولی کے ذریعہ کرتی ہے، اسی طرح خُلع کا استعمال بھی وہ بذریعہ قضاء یا حاکم وقت ہی کر سکتی ہے.تاکہ خلع کی صورت میں اس کے حقوق کی حفاظت ہو سکے.جبکہ مرد جس طرح اپنے نکاح کا انعقاد اپنی مرضی سے کرتا ہے.اسی طرح طلاق کا استعمال بھی وہ خود بخود کر سکتا ہے کیونکہ طلاق کی صورت میں عورت کے حقوق کی ادائیگی خاوند پر لازم ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خُلع اور طلاق کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دیدے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے.اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تو اسلامی اصطلاح میں اس کا نام خلع ہے.جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابل برداشت بد سلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں 373

Page 440

آباد رہنا نا گوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہیئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہو گا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کر دے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہو گا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے.اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہو خود بخود اپنا نکاح کسی سے کرلے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے." (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 289،288) خُلع کا انعقاد چونکہ بذریعہ قضاء ہوتا ہے، اس لئے اس میں خود بخود گواہی قائم ہو جاتی ہے.لیکن طلاق چونکہ اس طرح نہیں ہوتی اس لئے اگر میاں بیوی طلاق کے اجراء پر متفق ہوں اور ان میں کوئی اختلاف نہ ہو تو پھر گواہی کے بغیر بھی طلاق مؤثر ہوتی ہے.طلاق کے لئے گواہی کا ہونا مستحب ہے ، لازمی نہیں.چنانچہ قرآن کریم نے طلاق اور رجوع کے سلسلہ میں جہاں گواہی کا ذکر فرمایا ہے وہاں اسے نصیحت قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا: فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَأَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ به (سورة الطلاق: 3) یعنی پھر جب عور تیں عدت کی آخری حد کو پہنچ جائیں تو انہیں مناسب طریق پر روک لو یا انہیں 374

Page 441

مناسب طریق پر فارغ کر دو اور اپنے میں سے دو منصف گواہ مقرر کرو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو.تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے اس کو یہ نصیحت کی جاتی ہے.اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا.فقہاء بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص بغیر گواہوں کے طلاق دیدے یار جوع کر لے تو اس سے اس کی طلاق یار جوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.2.جہاں تک غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق کا معاملہ ہے تو جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ بیوی کی کسی ناقابل برداشت اور فضول حرکت پر ناراض ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے.بیوی سے خوش ہو کر تو کوئی انسان اسے طلاق نہیں دیتا.اس لئے ایسے غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر ہو گی.البتہ اگر کوئی انسان ایسے طیش میں ہو کہ اس پر جنون کی کیفیت طاری ہو اور اس نے نتائج پر غور کئے بغیر جلد بازی میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس جنون کی کیفیت کے ختم ہونے پر نادم ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی قسم کی کیفیت کے لئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ : لا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (البقرة:226) یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو (قسموں) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا.ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالا رادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بُردبار ہے.3.شر طی طلاق بھی مقررہ شرط کے پورا ہونے پر مؤثر ہو جاتی ہے.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے شاگر د اور آپ کے آزاد کردہ غلام نافع بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر وہ باہر نکلی تو اسے طلاق ہے.اس پر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فتویٰ دیا کہ اگر اس کی بیوی باہر نکلے گی تو اسے طلاق ہو جائے گی اور اگر وہ نہ نکلی تو اس پر کچھ نہیں.(صحيح بخاري كتاب الطلاق) 375

Page 442

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: ”اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہو جاتی ہے.جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہو جاتی ہے.(البدر نمبر 21 جلد 2 مؤرخہ 12 جون 1903ء صفحہ 162) 4.طلاق کے لئے پسندیدہ امر یہی ہے کہ خاوند ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو.لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور حمل کی حالت میں، حیض یا نفاس کے ایام میں طلاق دیتا ہے تو ایسی طلاق بھی مؤثر ہو گی.کیونکہ اگر صرف ایسے طہر میں دی جانے والی طلاق ہی مؤثر ہوتی جس میں خاوند نے تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو تو پھر قرآن کریم میں حمل والی عورت کی عدت طلاق کا بیان عبث ٹھہرتا ہے.پس قرآن کریم میں حمل والی عورتوں کی عدت طلاق کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ حمل کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر قرار پاتی ہے.اسی طرح حیض میں دی جانے والی طلاق کے بارہ میں کتب احادیث میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ ان کی طرف سے بیوی کو اس کے ایام حیض میں دی جانے والی طلاق ، ایک طلاق شمار کی گئی تھی.(صحیح مسلم کتاب الطلاق) 5.ایسی طلاق جس کے بعد بیوی پر عدت کا حکم لاگو ہوتا ہے، اس عدت کے بارہ میں قرآنی حکم ہے کہ اس دوران نہ خاوند بیوی کو گھر سے نکالے اور نہ بیوی اپنا گھر چھوڑ کر جائے، بلکہ عدت کا عرصہ وہ خاوند کے گھر میں ہی گزارے.چنانچہ فرمایا: لا تُخْرِجُهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ.(الطلاق:2) یعنی ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں.اسلام نے مطلقہ پر عدت کے دوران بناؤ سنگھار کرنے یا کام کاج اور دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے گھر سے باہر جانے کے حوالہ سے کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جیسی پابندیاں اس نے بیوہ پر اس کی عدت کے دوران لگائی ہیں.بلکہ احادیث میں مطلقہ کے لئے اس کے برعکس حکم 376

Page 443

ملتا ہے.چنانچہ حضور انم نے ایک خاتون کو طلاق کی عدت کے دوران نہ صرف باہر جانے کی اجازت دی بلکہ اس پر پسندیدگی کا بھی اظہار فرمایا.حضرت جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں: طلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتْ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَلِّي فَجُدِّي نَخْلَكِ فَإِنَّكِ عَلي أَنْ تَصَدِّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.(صحیح مسلم کتاب الطلاق یعنی میری خالہ کو طلاق ہوئی اور وہ اپنا کھجور کا باغ کاٹنے نکل کھڑی ہوئیں.راستہ میں ایک شخص نے انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ڈانٹا.اس پر وہ حضور الم کی خدمت میں حاضر ہوئیں.تو حضور الم نے انہیں فرمایا کہ تم بیشک اپنا کھجور کا باغ کاٹو.شاید اس طرح تمہیں صدقہ دینے یا نیکی کرنے کا موقعہ مل جائے.-6 خلع طلاق بائن کا حکم رکھتا ہے.یعنی اس کے بعد رجوع کے لئے تجدید نکاح لازمی ہے، اس کے بغیر رجوع نہیں ہو سکتا.(قسط نمبر 26، الفضل انٹر نیشنل 07 جنوری 2022ء صفحہ 11) 377

Page 444

سوال: شرطی طلاق کی بابت محترم ناظم صاحب دارلافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 ستمبر 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: میرے نزدیک تو شرطی طلاق کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات بہت واضح ہیں اور ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسی طلاق جس میں کوئی شرط رکھی گئی ہو، اس شرط کے پورا ہو جانے پر یہ طلاق مؤثر ہو جائے گی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جن ارشادات کا ذکر فرمایا ہے، وہ قارئین کے استفادہ کے لئے ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں.(مرتب) ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام شرطی طلاق اس پر فرمایا کہ اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہو جاتی ہے.جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہو جاتی ہے.“ (البدر نمبر 21 جلد 2 مؤرخہ 12 جون 1903ء صفحہ 162) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر فرماتے ہیں: ”حضرت اقدس علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب ( محمد حسین بٹالوی.ناقل ) کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے.ناظرین اسننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ لم کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا اور یہ کلام الہی تھا.اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت الیم کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں.اور وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں 378

Page 445

ہے ، کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی ہیں.اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلام الہی ہے اور جو یہ کلام الہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہو سکتا.اور جو حدیث کی نسبت قسم کھالے اور کہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ الم کے منہ سے نکلا ہے.اگر نہیں ہے تو میری جو رو پر طلاق ہے تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلاق پڑ جاوے گا.یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے.“ ( تذكرة المهدی، مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صفحہ 161 مطبوعہ جون 1915) ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر میں تمہیں اس مکان پر بلاؤں یا تم خود آؤ تو تم پر طلاق.اب وہ اپنی بیوی کو اس مکان پر بلانا چاہتے ہیں.جواب لکھا گیا کہ اس مکان میں آجانے پر ایک طلاق واقع ہو گا.جس سے اُسی وقت بلا نکاح رجوع ہو سکتا ہے.اگر مدت گزر جائے تو پھر بالنکاح رجوع ہو گا.اخبار الفضل قادیان دارلامان جلد 2 نمبر 113 مؤرخہ 14 مارچ 1915ء صفحہ 2) (قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 379

Page 446

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے تین طلاقوں کے بعد اسی بیوی کے ساتھ خانہ آبادی کی بابت مسئلہ دریافت کیا.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 08 جون 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل اصولی ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اس معاملہ پر میں آپ ہی کی بیان کردہ تین طلاقوں کے اجراء کی صور تحال کی ظاہری حالت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیم کی رو سے آپ کو جواب دے چکا ہوں.تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سورة البقرة کی الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (سورة البقرة: 230) والی آیت کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اسی کی روشنی میں آپ کو یہ جواب دیا گیا ہے اور اس کے مطابق تو آپ اپنی اہلیہ کو طلاق بتہ دے چکے ہیں.اس لئے اگر آپ کی سابقہ اہلیہ کے والدین اپنی بیٹی کے لئے نیا رشتہ تلاش کر رہے ہیں تو انہیں ایسا کرنے دیں.کیونکہ آپ اپنی طلاقوں کی جو بھی توجیہہ کریں، ان کے نزدیک تو ان کی بیٹی کو طلاق بتہ ہو چکی ہے.باقی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے دیوانگی کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاقیں دی ہیں اور اس وقت آپ اپنے ہوش میں نہیں تھے تو پھر آپ اپنے لئے جو بہتر سمجھتے ہیں فیصلہ کر لیں لیکن غلطی کی صورت میں پھر اس کا گناہ آپ ہی کے سر ہو گا.(قسط نمبر 37، الفضل انٹر نیشنل 08 جولائی 2022ء صفحہ 10) 380

Page 447

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے خاوند کی بعض جسمانی امراض اور اس کے بیوی کے ساتھ سلوک کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہے کیونکہ خاوند کا کہنا ہے کہ بیوی خاوند کو اس کی خالہ کی بیٹی سے بات نہیں کرنے دیتی.اسلام اس بارہ میں کیا کہتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22 جولائی 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کے خط سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ آپ کے خاوند ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہیں.اور جب ڈپریشن کے مریض پر اس مرض کا حملہ ہوتا ہے تو وہ ایسی حرکات کرتا ہے، جس کا آپ نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے.جس کا علاج دوا اور دعا ہے.علاوہ ازیں آپ کے خط سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنے خاوند کے خلاف صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنی خالہ کی بیٹی کے ساتھ باتیں کرتے ہیں، شکوک پیدا ہوتے ہیں.پس اس مرض کی موجودگی میں جب آپ مریض کے خلاف شکوک کا بھی اظہار کریں گی تو لازما مریض کی طبیعت اور بھی بگڑے گی.دو کزنز کے آپس میں باتیں کرنے میں تو شرعا کوئی حرج کی بات نہیں.لیکن اگر وہ علیحدگی میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور الگ ملتے ہیں تو یہ غیر شرعی طریق ہے، جس کی اسلام میں ہر گز اجازت نہیں ہے.(قسط نمبر 39، الفضل انٹر نیشنل 26 اگست 2022ء صفحہ 9) 381

Page 448

سوال: یمن سے ایک دوست نے بیوی کو دی جانے والی تین طلاقوں کی بابت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں رہنمائی کی درخواست کی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 اگست 2021ء میں اس جس پر مسئلہ پر درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: اصل میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو بیوی کی کسی نا قابل برداشت اور فضول حرکت پر ناراض ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے.بیوی سے خوش ہو کر تو کوئی انسان اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا.اس لئے ایسے غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی انسان ایسے طیش میں تھا کہ اس پر جنون کی سی کیفیت طاری تھی اور اس نے نتائج سے بے پرواہ ہو کر جلد بازی میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس جنون کی کیفیت کے ختم ہونے پر نادم ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی قسم کی کیفیت کے بارہ میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ: لا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ( البقرہ:226) یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو ( قسموں) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا.ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالا رادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بُردبار ہے.آپ کی بیان کردہ صورت سے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ آپ مختلف وقتوں میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے چکے ہیں اور قرآن کریم نے ایک مسلمان کو جو تین طلاق کے استعمال کا حق دیا ہے، آپ اسے استعمال کر چکے ہیں اور اب آپ اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتے.جب تک کہ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ والی شرط پوری نہ ہو.بہر حال ان امور کی روشنی میں آپ خود اپنا جائزہ لے کر اپنے متعلق فیصلہ کریں کہ آپ کی طلاق حقیقی رنگ میں تھی یا لغو طلاق کے زمرہ میں آتی ہے.(قسط نمبر 42، الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2022ء صفحہ 10) 382

Page 449

سوال: جرمنی سے ایک دوست نے ناظم صاحب قضاء جر منی کو لکھے جانے والے اپنے خط کی نقل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھی بھجوائی، جس میں انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد عدت میں بیوی سے تعلقات زوجیت قائم کر لینے اور پھر ان تعلقات کے بارہ میں قضاء سے غلط بیانی کرنے پر قضاء کے فیصلہ طلاق کی حیثیت دریافت کی.نیز دریافت کیا کہ قضاء کے اس فیصلہ طلاق سے ان کی طلاق ہو گئی ہے یا انہیں دوبارہ یہ سارا عمل کرنا پڑے گا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29 اکتوبر 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کی بیان کردہ صورت کے مطابق آپ کی وہ طلاق جس کی عدت کے دوران آپ میاں بیوی میں تعلقات زوجیت قائم ہو گئے تھے ، مؤثر نہیں ہوئی.اور اس کے متعلق قضاء کی طرف سے آپ میاں بیوی کے درمیان کیا جانے والا فیصلہ طلاق درست نہیں ہے.کیونکہ آپ نے قضاء سے غلط بیانی سے کام لیا تھا.البتہ اسلام میں خاوند کو ملنے والے طلاق کے تین مواقع میں سے ایک موقعہ آپ نے استعمال کر لیا ہے.نیز اس طلاق کی عدت کے دوران آپ میاں بیوی کے درمیان چونکہ تعلقات زوجیت قائم ہو گئے تھے ، اس لئے یہ آپ کا اس طلاق سے رجوع شمار ہو گا.اب اگر آپ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتے ہیں تو طلاق دینے کی صورت میں یہ آپ کی طرف سے دوسری طلاق شمار ہو گی.اور عدت تین حیض ہو گی.اور اگر حیض نہ آتے ہوں تو تین ماہ ہو گی اور اگر آپ کی بیوی حاملہ ہے تو عدت وضع حمل ہو گی.اس عدت کے گزرنے کے بعد بشر طیکہ آپ عدت میں رجوع نہیں کرتے تو پھر آپ میاں بیوی کے درمیان طلاق مؤثر ہو گی.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور آپ دونوں میاں بیوی کو اسلام کے تمام احکامات پر سچائی اور خوف خدا کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (قسط نمبر 46، الفضل انٹر نیشنل 23 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 383

Page 450

لیا عدت سوال: خُلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت کے بارہ میں مجلس افتاء کی سفارشات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسئلہ کے فقہی پہلو کی بابت اپنے مکتوب مؤرخہ 21 نومبر 2017ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: جہاں تک اس معاملہ کا فقہی پہلو ہے تو میرے نزدیک بھی طلاق اور خلع کی عدت مختلف ہے.اس بارہ میں مجلس افتاء کی رپورٹ میں بیان دلائل کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جس طرح طلاق اور خلع کی تفصیلات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے احکامات میں بھی فرق ہے.طلاق کا حق اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے اور جب مرد اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی طلاق کی عدت کا عرصہ شروع ہو جاتا ہے، جبکہ خُلع عورت کا حق ہے جو وہ قضاء کی معرفت استعمال کرتی ہے اور جب تک قضاء کا فیصلہ نہ ہو جائے اس کی عدت کا عرصہ شروع نہیں ہوتا اور قضاء کی کارروائی جس میں عورت کی طرف سے درخواست دینا، حکمین کی کارروائی، فریقین کی سماعت اور فیصلہ وغیرہ وہ امور ہیں جن پر عموماً دو تین ماہ لگ جاتے ہیں.پس خُلع کی عدت کے کم رکھنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خلع کے بعد عورت کو صرف اسی قدر پابند کیا گیا ہے جس سے اس کا حمل سے خالی ہونا ثابت ہو جائے.بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس افتاء کی رپورٹ سے متعلقہ مذکورہ بالا جواب کے علاوہ طلاق اور خلع کی عدت کے فرق پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے نیز بیوہ کی عدت کے بارہ میں فرمایا: طلاق کی عدت کے بارہ میں تفصیلی احکامات تو قرآن کریم میں مذکور ہیں کہ عام حالات میں عدت تین حیض ہو گی.جیسا کہ فرمایا: وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ (البقره:229) یعنی مطلقہ عورتوں کو تین حیض کی مدت تک اپنے آپ کو روکے رکھنا ہو گا.اور جن خواتین کو 384

Page 451

حیض نہیں آتا ان کے بارہ میں فرمایا: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ (سورة الطلاق: 5) کہ تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح ان کی بھی جن کو حیض نہیں آرہا.اور جو عور تیں حاملہ ہیں ان کی عدت کے متعلق فرمایا: وَأُوْلَاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق: 5) یعنی جن عورتوں کو حمل ہو ان کی عدت وضع حمل تک ہے.خُلع کی عدت کی نص احادیث نبوی م پر مبنی ہے.جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم الم کے زمانہ میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے خُلع وہر سے خلع لیا تو نبی کریم ا نے انہیں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا.(سنن اور ترمذي كتاب الطلاق باماجاء في الخُلع) پس قرآن کریم اور احادیث نبویہ الم کی مذکورہ بالا نصوص سے بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ طلاق اور خلع کی الگ الگ عدت ہے اور اس کی حکمتیں اور وجوہات بھی ہیں جو اوپر بیان کر دی گئی ہیں.جہاں تک بیوہ کی عدت کا تعلق ہے تو اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ : وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (البقرة: 235) یعنی اور تم میں سے جن (لوگوں) کی روح قبض کر لی جاتی ہے اور وہ (اپنے پیچھے) بیویاں چھوڑ جاتے ہیں (چاہیے کہ) وہ (بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینے (اور ) دس (دن) تک روک رکھیں پھر جب وہ اپنا مقرر وقت پورا کر لیں وہ اپنے متعلق مناسب طور پر جو کچھ (بھی) کریں اس کا تم پر 385

Page 452

کوئی گناہ نہیں اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے.بیوہ کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت کے بارہ میں صحابہ کے زمانہ سے ہی اختلاف چلا آ رہا ہے.چنانچہ بعض صحابہ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق: 5) کی روشنی میں یہ رائے رکھتے تھے کہ بیوہ کے حاملہ ہونے کے صورت میں اس کی عدت بھی وضع حمل ہی ہے خواہ وضع حمل خاوند کی وفات سے اگلے لمحہ میں ہو جائے جس کے لئے وہ حضرت سبیعہ اسلمی والے واقعہ سے دلیل لیتے ہیں.(جس میں آتا ہے کہ حضرت سبیعہ اسلمی حضرت سعد بن خولہ کے نکاح میں تھیں جو حجتہ الوداع کے موقعہ پر فوت ہو گئے جبکہ سبیعہ حاملہ تھیں.تھوڑے دنوں بعد ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا.جب وہ اپنے نفاس کے بعد اچھی ہو گئیں تو انہوں نے شادی کا پیغام بھیجنے والوں کے لئے زیب و زینت کی.قبیلہ عبدالدار کے ایک شخص ابو سنابل بن بتلک نے ان سے کہا کہ کیا تم نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کے لئے زیب و زینت کر کے بیٹھ گئی ہو اور نکاح کی امید کر رہی ہو ؟ بخدا تم ہر گز نکاح نہیں کر سکتی جب تک کہ تم پر چار ماہ اور دس دن نہ گزر جائیں.حضرت سبیعہ کہتی ہیں کہ اس پر میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس بارہ میں پوچھا تو آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ جب بچہ پیدا ہو گیا تو میں آزاد ہوں اور اگر میں مناسب سمجھوں تو نکاح کر لوں.جبکہ بعض دوسرے صحابہ جن میں حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ علیہم شامل ہیں کی رائے میں بیوہ کے حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو لمبی مدت ہو گی وہ بیوہ کی عدت ہے.حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل ہونے کے قائلین کے پاس حضرت سبیعہ اسلمی کے اس واقعہ کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے، قطع نظر اس کے کہ کتب احادیث میں اس واقعہ کے راویوں، حضرت سبیعہ اسلمی کے خاوند کے نام ، خاوند کے وقت وفات اور طریق وفات (طبعی موت اور قتل کے بارہ میں نیز حضرت سبیعہ اسلمی کے ہاں بچہ کی ولادت کے عرصہ کے بارہ میں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں.جن سے اس واقعہ کا ثقہ ہونا محل نظر ٹھہرتا ہے.علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضور ای ایم اور خلافت راشدہ کے زمانہ میں ہونے والی اسلامی جنگوں میں ہر عمر کے سینکڑوں صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور یقیناً ان میں سے کئی 386

Page 453

صحابہ ایسے بھی ہوں گے جن کی بیویاں ان کی شہادت کے وقت حاملہ ہوں گی لیکن ایسی کسی بیوہ کے وضع حمل کے فوراً بعد اس کے نکاح کا کوئی ایک بھی واقعہ تاریخ و سیرت کی کتب میں نہ ملنا اس موقف کو مبہم اور مشتبہ ٹھہراتا ہے.پس اس ایک واقعہ کی بناء پر قرآن کریم میں بیان چار ماہ دس دن کی عدت والے واضح موقف کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.علاوہ ازیں حدیث میں حضور ﷺ نے کسی کی وفات پر سوگ کے بارہ میں عمومی ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں سوائے بیوہ کو کہ اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی.(صحيح بخاري كتاب الجنائز باب وہ إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَي غَيْرِ زَوْجِهَا) اس حدیث میں بھی حضور ام نے حاملہ عورت کے لئے کوئی استثناء نہیں فرمایا کہ وہ وضع حمل تک سوگ کرے گی.اسی طرح قرآن کریم میں جہاں وضع حمل کے ساتھ عدت ختم کرنے کا ارشاد ہے وہاں صرف طلاق کی صورت کو بیان کیا گیا ہے، خاوند کی وفات کا وہاں کوئی ذکر نہیں کیا گیا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف آریہ دھرم میں آیت وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ کا جو ترجمہ بیان فرمایا ہے اس میں اس آیت کا طلاق کے ساتھ حصر کر کے ہماری رہنمائی فرما دی کہ قرآن کریم کا یہ حکم طلاق والی عورتوں کے لئے ہے، بیوہ کے لئے نہیں ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: " وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الجزء نمبر 28) یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع حمل تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں.اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ بھی ٹھہر جائے تو اس صورت میں نسب ضائع ہو گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں.66 آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 21) 387

Page 454

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی درس القرآن میں سورۃ الطلاق کی اس آیت کی تفسیر میں وضع حمل کی عدت کو تین ماہ کی عدت (جو کہ طلاق کی صورت میں مقرر ہے نہ کہ بیوگی کی صورت میں) گزارنے والی عورتوں کے ضمن میں بیان فرمایا ہے نہ کہ چار ماہ دس دن کی عدت گزارنے والی بیوہ عورتوں کے متعلق اس حکم کو بیان فرمایا ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: اور وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں(1) بوڑھی ہوں (2) جن کو حیض نہ آتا ہو یعنی سن بلوغت تک نہ پہنچی ہوں (3) وہ جو کہ بیمار ہوں یعنی استحاضہ والی.ان کے لئے تین ماہ کی عدت ہے اور حمل والیوں کی عدت ان کے ایام حمل ہی ہیں.جب بچہ جن چکیں تو عدت ختم ہو گئی.اس پر لوگوں نے بڑی بڑی بخشیں کی ہیں کہ اگر تین ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو کیا عدت ختم ہو جائے گی.بعض کہتے ہیں کہ کم سے کم تین ماہ ہوں گے.مگر آنحضرت اللی علم کے زمانہ میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ ایک عورت کو تین ماہ سے پہلے ہی وضع حمل ہو گیا تھا اور اسے آپ نے دوسری شادی کی اجازت دے دی تھی.اس لئے اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوا ہے." 66 اخبار الفضل قادیان دارالامان مؤرخہ 4 مئی 1914ء صفحہ 14) پس میرے نزدیک بیوہ ہونے کی صورت میں اگر حمل ہے اور وہ چار مہینے دس دن پورے ہونے کے بعد بھی چل رہا ہے تو وہ اس کی مدت کو پورا کرے گی اور اگر چار مہینے دس دن سے پہلے وضع حمل ہو رہا ہے تو تب بھی وہ چار مہینے دس دن کی مدت ہی پوری کرے گی.میرا یہ استنباط اس حدیث کی بناء پر ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں سوائے بیوہ کے جو کہ اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن کا سوگ کرے گی.(صحیح بخاري كتاب الجنائز باب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَي غَيْرِ زَوْجِهَا) - یہ حدیث اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ یہاں طلاق والی یا حمل والی شرط لاگو نہیں ہوتی.یہاں بیوگی کا جو عرصہ ہے وہ چار مہینے دس دن بیان فرمایا گیا ہے.اگر صرف یہ دیکھنا ہو تا کہ اس عرصہ میں حمل ظاہر ہو جائے تو یہاں بھی طلاق والی شرط ہی رکھی جاسکتی تھی لیکن چار مہینے دس دن کی 388

Page 455

مدت کو معین کرنے سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنے عرصہ میں حمل بھی ظاہر ہو جاتے ہیں اور اس کے علاوہ جو افسردگی کا عرصہ ہے وہ بھی گزر جاتا ہے.اس لئے طلاق کے لئے تو عدت کا عرصہ وضع حمل یا تین مہینے رکھا ہے لیکن بیوگی کی صورت میں چار مہینے دس دن کی شرط بہر حال پوری ہونی چاہیئے.اس لئے میرے نزدیک بیوگی کی صورت میں عدت کا عرصہ چار مہینے دس دن ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ حاملہ ہے کہ نہیں.اگر حاملہ ہے اور حمل چار مہینے دس دن سے پہلے وضع ہو جاتا ہے تو تب بھی اس کی عدت چار ماہ دس دن ہی ہو گی جو وہ پوری کرے گی.اور یہ آنحضور الم کے اس ارشاد کے مطابق ہے کہ عورت کے لئے جو سوگ ہے وہ چار مہینے دس دن کا ہے.اور یہی قرآن کریم کا بھی حکم ہے.(قسط نمبر 9، الفضل انٹر نیشنل 12 فروری 2021ء صفحہ 12) 389

Page 456

سوال: ایک خاتون نے بیوہ کے عدت کے دوران لجنہ کے پروگراموں میں شامل ہونے، نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے اور عزیزوں کے گھروں میں جانے کے بارہ میں مسائل دریافت کئے.نیز لکھا کہ بڑی عمر کی عورتوں کے لئے عدت کی پابندی نہیں ہونی چاہیئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 02 فروری 2019ء میں ان امور کے بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: بیوہ کی عدت کے احکامات میں تبدیلی کے حق میں آپ نے اپنے خط میں جو طلاق کے بعد اسی خاوند کے ساتھ نکاح والی دلیل ( کہ قرآن کریم کے مطابق طلاق کے بعد عدت پوری ہونے پر پہلے شوہر سے نکاح صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی دوسرے مرد سے شادی ہو اور پھر وہ طلاق دے.لیکن اب دوسرے مرد سے شادی کے بغیر بھی پہلے خاوند سے نکاح ہو جاتا ہے.پس جس طرح اس حکم میں نظر ثانی کی گئی ہے ، اسی طرح خاوند کی وفات کے بعد کی عدت میں بھی عورت کی عمر کے لحاظ سے نظر ثانی ہونی چاہیئے.) دی ہے وہ غلط ہے.نہ پہلے ایسا کوئی حکم تھا اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے.آپ نے اپنی کم علمی کی وجہ سے طلاق کے بارہ میں دو الگ الگ احکامات کو خلط ملط کر دیا ہے.اسی طرح بیوہ کی عدت کے بارہ میں بھی آپ اسلامی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں.اسلام نے عورت کو اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرنے کا حکم دیا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی استثناء نہیں رکھا اور نہ ہی اس حکم میں عمر کی کوئی رعایت رکھی ہے.پس بیوہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ عدت کا یہ عرصہ حتی الوسع اپنے گھر میں گزارے، اس دوران اسے بناؤ سنگھار کرنے، سوشل پروگراموں میں حصہ لینے اور بغیر ضرورت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں.عدت کے عرصہ کے دوران بیوہ اپنے خاوند کی قبر پر دعا کے لئے جاسکتی ہے بشر طیکہ وہ قبر اسی شہر میں ہو جس شہر میں بیوہ کی رہائش ہے.نیز اگر اسے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے تو یہ بھی مجبوری کے تحت آتا ہے.اسی طرح اگر کسی بیوہ کے خاندان کا گزارا اس کی نوکری پر ہے یا بچوں کو سکول لانے ، لے جانے اور خریداری کے لئے اس کا کوئی اور انتظام نہیں تو یہ سب امور مجبوری 390

Page 457

کے تحت آئیں گے.ایسی صورت میں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیدھی کام پر جائے اور کام مکمل کر کے واپس گھر آکر بیٹھے.مجبوری اور ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی بس اتنی ہی حد ہے.کسی قسم کی سوشل مجالس یا پروگراموں میں شرکت کی اسے اجازت نہیں.پس شریعت میں نئی نئی چیزیں داخل کرنے اور نئی نئی بدعتیں پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی گئی.(قسط نمبر 10، الفضل انٹر نیشنل 05 مارچ2021ء صفحہ 11) 391

Page 458

سوال: ایک عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ نکاح کے فوراً بعد قبل اس کے کہ خاوند بیوی کو چھوئے، رشتہ ختم ہو جانے کی صورت میں اس عورت پر کوئی عدت ہے؟ نیز ایسی صورت میں یہ عورت اپنے اس پہلے خاوند سے شادی کر سکتی ہے جس سے اسے طلاق بتہ ہو چکی ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 جولائی 2020ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: نکاح کے بعد اور میاں بیوی میں تعلقات قائم ہونے سے قبل ہونے والی طلاق میں عورت پر کوئی عدت نہیں جیسا کہ قرآن کریم اس بارہ میں واضح طور پر فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتَّعُوهُنَّ وَ سَرّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا.(سورة الاحزاب:50) یعنی اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے شادی کرو، پھر ان کو ان کے چھونے سے پہلے طلاق دید و تو تم کو کوئی حق نہیں کہ ان سے عدت کا مطالبہ کرو، پس (چاہیے کہ) ان کو کچھ دنیوی نفع پہنچا دو اور ان کو عمدگی کے ساتھ رخصت کر دو.ا آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ عورت اپنے پہلے خاوند سے جس سے اسے طلاق بتہ ہو چکی ہے رجوع نہیں کر سکتی، کیونکہ طلاق بتہ کی صورت میں دوسرے خاوند کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم ہونا ضروری ہیں.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک عورت جسے اپنے خاوند سے طلاق بتہ ہو چکی تھی اس نے کسی دوسرے شخص سے شادی کی اور شادی کے بعد حضور الم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس دوسرے خاوند کے تعلقات زوجیت قائم نہ کر سکنے کی شکایت کی.جس پر حضور ﷺ نے اس عورت کو فرمایا کہ شاید تم اپنے پہلے خاوند کے پاس لوٹنا چاہتی ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ یہ دوسرا خاوند تمہارے ساتھ تعلقات زوجیت قائم نہ کرلے.(صحيح بخاري كتاب الطلاق بَاب مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ) 392

Page 459

ایسی صورت میں یہ بات مد نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ طلاق بثہ کے بعد دوسرے شخص سے اس غرض سے شادی کرنا کہ اس سے طلاق لے کر پہلے خاوند کے ساتھ رجوع کیا جاسکے ، یا وہ مرد اس عورت سے اس غرض سے شادی کرے کہ شادی کے بعد وہ اسے طلاق دیدے گا تا کہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کی طرف لوٹ سکے ، تو اس قسم کی منصوبہ بندی کو شریعت نے نہایت ناپسند فرمایا ہے اور اس قسم کی شادی کرنے اور کروانے والے مرد و عورت پر آنحضور لم نے لعنت بھیجی ہے.(سنن ترمذي كتاب النكاح بَابِ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ) (قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 393

Page 460

سوال: دارالافتاء ربوہ کی طرف سے جاری ہونے والے فتاویٰ ملاحظہ فرمانے کے بعد ان میں سے بعض فتاوی دربارہ بیوہ کی عدت کے دوران اس کے بیٹے کی شادی، بیوہ / مطلقہ کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور فتاویٰ میں دیئے جانے والے حوالہ جات کے طریق کی بابت حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29 اکتوبر 2021ء میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: نظامت دار الافتاء کی طرف سے جاری کردہ فتاویٰ میں آپ نے ایک شخص کو اس کی والدہ کی عدت وفات کے دوران اس شخص کی شادی کے بارہ میں یہ فتویٰ دیا ہے.” سوگ اور بیٹے کی شادی کی خوشی کی تقریب میں شرکت دو متضاد چیزیں ہیں.آپ کی شادی کی تقریب کی صورت میں آپ کی والدہ اپنی عدت وفات سوگ کی حالت میں نہیں گزار سکتیں.لہذا آپ کو اپنی شادی کا پروگرام والدہ کی عدت کے اختتام پر رکھنا چاہیے.“ (فتوی زیر نمبر 11.09.2021/13) میرے نزدیک آپ کا یہ فتویٰ درست نہیں.احادیث میں تو صرف بیوہ کے لئے چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم ہے.لیکن آپ اپنے اس فتویٰ کے ذریعہ تو باقی لوگوں کو بھی پابند کر رہے ہیں کہ وہ بھی بیوہ کے ساتھ سوگ میں شامل ہوں اور اپنے ضروری کاموں کو عدت کے اختتام تک مؤخر کر دیں.میری بیٹی کی شادی بھی اُس وقت ہوئی تھی جب میری والدہ عدت میں تھیں.حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات کے بعد اُمّی نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں رہنمائی کے لئے لکھا تو حضور نے شادی مقررہ تاریخ پر ہی کرنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ عدت میں گھر سے باہر جانا منع ہے، گھر میں رہ کر سادگی کے ساتھ شادی کی تقریب میں شامل ہو نا منع نہیں.اسی لئے ہم نے خواتین کا انتظام گھر کے بر آمدہ اور صحن میں کیا تھا اور اُمّی حضور کی ہدایت کے مطابق سادگی کے ساتھ گھر میں اس تقریب میں شامل بھی ہوئی تھیں.پس اگر وہ لوگ اس شادی کے پروگرام کو اپنے طور پر ملتوی کر دیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے.لیکن آپ کا انہیں شادی سے منع کرنے کا فتویٰ دینا درست نہیں.2.اسی طرح بیوہ / مطلقہ کے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کے بارہ میں ایک استفتاء پر 394

Page 461

نے میرے خطبہ جمعہ مؤرخہ 24 دسمبر 2004ء کے حوالہ سے جو فتویٰ دیا ہے اس سے اگر آپ یہ استنباط کرنا چاہتے ہیں کہ بیوہ اور مطلقہ کو اپنے نکاح کے لئے ولی کی اجازت کی بالکل ضرورت نہیں تو یہ درست استنباط نہیں ہے.کیونکہ کنواری یا بیوہ / مطلقہ دونوں کو اپنے نکاح کے لئے ولی کی اجازت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور دونوں کے نکاح کے موقعہ پر ان کا ولی ہی ایجاب و قبول کرتا ہے.آنحضور الم کے ارشادات اور خلفائے راشدین کے تعامل سے ثابت ہو تا ہے کہ ہر عورت خواہ وہ کنواری ہو یا بیوہ / مطلقہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی رضامندی بھی ضروری ہے.اسی موقف کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ارشادات سے ہوتی ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہو خود بخود اپنا نکاح کسی سے کرلے.“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 289) مرقاة الیقین فی حیات نور الدین میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ کے بارہ میں اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان فرمایا ہے.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ آپ نے بعض علماء (میاں نذیر حسین دہلوی اور شیخ محمد حسین بٹالوی) کے فتویٰ کو قبول کر کے لا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِقٍ کی حدیث میں کلام خیال کرتے ہوئے ایک بیوہ سے اس کے ولی کی رضامندی کے بغیر شادی کا ارادہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو مرتبہ خواب میں آنحضور الم کی کچھ متغیر حالت دکھا کر آپ کو اس خواب کی یہ تفہیم سمجھائی کہ ان مفتیوں کے فتووں کی طرف توجہ نہ کرو.حضور فرماتے ہیں: تب میں نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس کو ضعیف کہے گا تب بھی میں اس حدیث کو صحیح سمجھوں گا.“ (مرقات الیقین فی حیات نور الدین صفحہ 158 تا 160) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول کریم ایم کی خدمت میں ایک عورت نکاح کرانے کے لئے آئی تو آپ نے اس کے لڑکے کو جس کی عمر غالباً دس یا گیارہ سال تھی ولی 395

Page 462

بنایا.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی مرد ہی ہوتے ہیں.اس عورت کا چونکہ اور کوئی مرد ولی نہیں تھا.اس لئے رسول کریم ان لم نے اس لڑکے سے دریافت کرنا ضروری سمجھا.“ (روزنامه الفضل قادیان دارالامان نمبر 143 ، جلد 26، مؤرخہ 25 جون 1938ء صفحہ 4) البتہ جیسا کہ میں نے اپنے اس خطبہ میں بھی ذکر کیا ہے بیوہ / مطلقہ عورت، کنوری لڑکی کی نسبت اپنے بارہ میں فیصلہ کرنے میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے.اس کا مطلب یہی ہے کہ بیوہ / مطلقہ عورت اگر کسی جگہ شادی کرنا چاہے تو ولی کو اس میں بلا وجہ روک نہیں بنا چاہیے بلکہ اس کی مرضی کا احترام کرتے ہوئے اس کا اس جگہ نکاح کر دینا چاہیئے.3.ایک فتویٰ زیر نمبر 27.09.2021/20 کے صفحہ 3 پر آپ نے الفضل 16 اگست 1948ء کا ایک حوالہ فقہ احمد یہ عبادات کے حوالہ سے دیا ہے.ایک تو یہ حوالہ غلط ہے.دوسرا اگر اصل ماخذ میسر ہو تو حوالہ اُس اصل ماخذ سے ہی دینا چاہیئے.میں نے یہ حوالہ یہاں تلاش کروایا ہے.آپ کے فتویٰ میں درج یہ اقتباس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 06 اگست 1948ء کا ہے.جو خطبہ روز نامہ الفضل ربوہ مؤرخہ 08 مارچ 1961ء کے صفحہ نمبر 2 تا 4 پر شائع ہوا تھا.فقہ احمدیہ میں اس قسم کی بہت سی غلطیاں ہیں، جن کی اصلاح کی ضرورت ہے.تدوین فقہ کمیٹی کو اس طرف توجہ دلائیں کہ اس کی نظر ثانی کا کام جلد مکمل کریں.(قسط نمبر 47، الفضل انٹر نیشنل 13 جنوری 2023ء صفحہ 11) 396

Page 463

علم کلام سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کی 31 اکتوبر 2020ء کو ہونے والی Virtual ملاقات میں ایک طالبعلم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں استہزاء کرتے ہیں، ہماری طرف سے ان کا جواب کس طرح ہونا چاہیئے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خود فرما دیا کہ: اِنِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ جو لوگ تیری اہانت کرتے ہیں، میں ان کی اہانت کروں گا.چاہے وہ ان کو اس دنیا میں ذلیل کرے یا مرنے کے بعد وہ ذلیل ہوں.یا ان کی اولادیں ذلیل ہوں.جو تو جان بوجھ کے مذاق کرتے ہیں، ان کو تو اللہ تعالیٰ آپ ہی نیٹے گا.لیکن ہماری Response اس میں یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے کہ تم نے صبر سے کام لینا ہے.اور کسی آدمی کی سختی کا جواب سختی سے نہیں دینا.تم نے لڑائی نہیں کرنی.بے شک میری محبت تم پہ بڑی غالب ہے لیکن تم نے لڑائی نہیں کرنی.دیکھو! آجکل ہمیں سب سے زیادہ پیارے تو آنحضرت ام ہیں ناں؟ ہمیں مسیح موعود علیہ السلام سے بھی زیادہ پیارے حضرت محمد رسول اللہ الم ہیں.اور آجکل دیکھو فرانس میں اور بعض یورپین ملکوں میں ان کے خاکے بنا کے مذاق اڑایا جاتا ہے.اس پہ ہماری Response کیا ہے ؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم الی الیم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجیں.اور جب ہم رسول کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو آلِ محمد پہ درود بھیجتے ہیں.آلِ محمد بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے.اور رسول کریم امی کی سب سے بڑی آل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.آپ وہ ہیں جو اُن کے سب سے زیادہ آل میں شمار ہو سکتے ہیں.اس لئے ہمارا کام یہ ہے کہ جب لوگ مذاق اڑاتے ہیں تو ہم درود پڑھیں.پہلی بات تو یہ ہے.چاہے وہ رسول کریم الم کا مذاق ہو یا آپ کے غلام مسیح موعود کا ہو.ہمیں چاہیے کہ درود پڑھا کریں.نمبر دو یہ کہ اپنے نمونے ایسے بنائیں کہ مذاق اڑانے والے خود بخود خاموش ہو 397

Page 464

جائیں.وہ دیکھیں کہ ہم مذاق اڑاتے ہیں لیکن یہ لوگ تو حقیقی اسلام کی تعلیم ہمیں بتاتے ہیں.یہ لوگ ہیں جو پیار اور محبت کو پھیلاتے ہیں.ہم ان سے نفرت کی بات کرتے ، یہ ہمارے سے پیار کی بات کرتے ہیں.قرآن شریف میں بھی یہی لکھا ہے کہ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِیمٌ.تم اگر صحیح طرح اخلاق سے پیش آؤ گے تو وہ جو تمہارے دشمن ہیں وہ تمہارے جانثار دوست بن جائیں گے.اس لئے ہماری Response یہی ہے کہ ہم خاموشی سے اپنے عمل ٹھیک کریں، اپنی حالتوں کو بہتر کریں، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حالتوں کو بہتر کر اور اگر اللہ کے نزدیک ان لوگوں کی حالت بہتر نہیں ہونی تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں سے نجات دے اور ان کے منہ بند کر دے تاکہ یہ ہمارے پیاروں کا مذاق نہ اڑائیں.نہ مسیح موعود کا اور اس سے بڑھ کر نہ رسول پاک ﷺ کا مذاق اڑائیں.اور ہم خوشیاں دیکھنے والے ہوں.اس دنیا میں جب رسول پاک الم کی عزت قائم ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے.جب مسیح موعود علیہ السلام جو رسول پاک ایم کے غلام ہیں، ان کی عزت قائم ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے.تو ہمیں دعا کرنی چاہیئے کہ ہم ان لوگوں کی عزت کو قائم ہوتا دیکھیں تا کہ ہمیں خوشی پہنچے.اللہ سے مانگنا ہے.ہم نے خود نہ ڈنڈا پکڑنا ہے، نہ رائفل پکڑنی ہے، نہ توپ پکڑنی ہے اور نہ چھرا پکڑنا ہے.کچھ نہیں کرنا.ہم نے اللہ کے آگے جھکنا ہے.اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہے اور درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنا ہے.(قسط نمبر 4، الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 398

Page 465

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ کیا ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرے کرنے بہتر ہیں یا ایک عمرہ کرنے کے بعد باقی وقت دیگر عبادات میں گزارا جائے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 02 فروری 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: آنحضور ا کی سنت سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک سفر میں ایک ہی عمرہ فرمایا.لیکن حضور الم نے کہیں اس کی ممانعت نہیں فرمائی کہ ایک سفر میں ایک سے زائد عمرے نہیں ہو سکتے.اس لئے اگر کوئی شخص حضور ﷺ کی سنت کے مطابق ایک سفر میں صرف ایک ہی عمرہ کرے اور باقی وقت دیگر عبادات میں گزارے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر وہ ایک سے زیادہ عمرے کرنا چاہے تو چونکہ عمرہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کا طواف، صفاء اور مروہ کے چکر ، ذکر و اذکار اور نوافل ہوتے ہیں، اس لئے اس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں.(قسط نمبر 10، الفضل انٹر نیشنل 05 مارچ 2021ء صفحہ 11) 399

Page 466

عورت سوال: ایک خاتون نے عورتوں کے بال کٹوانے اور ان بالوں کو کینسر کے کسی غیر مسلم مریض کو Donate کرنے کے بارہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا.حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 دسمبر 2019ء میں اس سوال کا حسب ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: بغرض ضرورت عورتوں کے بال کٹوانے میں کوئی حرج نہیں.چنانچہ حج اور عمرہ کی تکمیل پر عورتیں اپنے بال کاٹ کر ہی احرام کھولتی ہیں.احادیث میں آتا ہے کہ صحابیات بغرض ضرورت اپنے بال کٹوایا کرتی تھیں.البتہ عورتوں کو حلق یعنی سر منڈوانے کی اجازت نہیں.اسی طرح حضور اللی علیم نے مردوں کو عورتوں کی اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے.پس عورتوں کو مردوں کی طرز پر بال نہیں کٹوانے چاہئیں.لیکن اگر زینت کی خاطر مناسب حد تک بال کٹوائے جائیں جس میں مردوں سے مشابہت پیدا نہ ہوتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.کسی مریض کو بال Donate کرنا ثواب کا کام ہے.اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.کیونکہ جب علاج کے سلسلہ میں ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا خون اور دیگر اعضاء بطور عطیہ دے ہے تو بال کیوں نہیں دے سکتا.سکتا (قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 09 اپریل 2021ء صفحہ 11) 400

Page 467

سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا ہے کہ ”سچے مومن کو اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہیئے، کیونکہ حضرت آدم کو پہلا فتنہ بھی ایک عورت کی وجہ سے پیش آیا.“ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بائبل کا بیان ہے کہ حوا حضرت آدم کو گمراہی کی طرف لے کر گئیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آپ نے میرے جس خطبہ کا حوالہ دیا ہے، اس میں بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھا ہے.اس اقتباس میں حضور علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ توریت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ پر آنے والے بلعم کے ایمان کے ضائع ہونے کی وجہ بھی اس کی بیوی ہی تھی، جسے بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر لالچ دی اور اس نے بلغم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بد دعا کرنے پر اکسایا اور جس وجہ سے بلعم کا ایمان ضائع ہو گیا.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعض تصنیفات میں قرآن کریم کے حوالہ سے یہ مضمون بھی بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم نے عمد أمیرے حکم کو نہیں توڑا بلکہ اس کو یہ خیال گذرا کہ حوا نے جو یہ پھل کھایا اور مجھے دیا شائد اس کو خدا کی اجازت ہو گئی جو اُس نے ایسا کیا.یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں حوا کی بریت ظاہر نہیں فرمائی مگر آدم کی بریت ظاہر کی اور اس کی نسبت فرمایا لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما اور حوا کو سخت سزا دی.اسی طرح ایک جگہ حضور علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی بیان فرمایا ہے کہ جس طرح چھٹے روز کے آخری حصے میں آدم پیدا ہوا اسی طرح چھٹے ہزار کے آخری حصہ میں مسیح موعود کا پیدا ہونا مقدر کیا گیا اور جیسا کہ آدم نخاش کے ساتھ آزمایا گیا جس کو عربی میں خناس کہتے ہیں جس کا دوسرا نام دجال ہے ایسا ہی اس آخری آدم کے مقابل پر نحاش پیدا کیا گیا تاوہ زن مزاج لوگوں کو حیات ابدی کی طمع دے جیسا کہ حوا کو اس سانپ نے دی تھی جس کا نام توریت میں نخاش اور 401

Page 468

قرآن میں خناس ہے.یہ بات بائبل کے حوالہ سے بیان ہو یا قرآنی احکامات کی روشنی میں ، اصل میں اس میں مرد اور عورت دونوں کی بعض فطرتی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا.چنانچہ جہاں اس میں عورت کی یہ فطرتی کمزوری بیان کی گئی ہے کہ اس میں طمع ور لانچ کا مادہ پایا جاتا ہے وہاں اس میں اپنی ادا اور چالبازی کے ساتھ مرد کو ورغلانے اور اپنی بات منوانے کا گر بھی پایا جاتا ہے.اسی طرح جہاں مرد خود کو بہت ہوشیار اور عظمند سمجھتا ہے وہاں اس میں یہ کمزوری بھی ہے کہ وہ بہت جلد عورت کی باتوں میں آجاتا ہے.اور اس حقیقت کو آنحضور الم نے بھی بیان فرمایا ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور الم نے فرمایا: مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَّ دِيْنٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَا كُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ - (صحيح بخاري) یعنی اے عور تو کے گروہ! دین و عقل میں نسبتاً کم ہونے کے باوجود میں نے تم سے بڑھ کر کسی چیز کو نہیں دیکھا، جو بڑے، بڑے عقلمند اور مضبوط ارادہ والے مرد کی عقل مار دے.عورت کے اسی فطرتی نقص اور فطرتی ہنر سے جہاں ماضی کی بعض تنظیمیں اپنا مفاد حاصل کرتی رہی ہیں وہاں آج کے اس ترقی یافتہ زمانہ میں بھی بڑے بڑے ممالک کی اکثر جاسوسی تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی ہیں.چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان تنظیموں میں بہت سی عورتوں کو صرف اس لئے رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی اداؤں اور چالاکیوں سے کام لے کر مخالف تنظیموں یا اداروں کے مردوں سے ان کے راز نکلوائیں، اور اس میں انہیں کامیابی بھی ہوتی ہے.پس یہ وہ امور ہیں جن کا تعلق عورت اور مرد کی اس دنیوی زندگی کے ساتھ ہے لیکن اس کے ساتھ اسلام نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ حقوق و فرائض کے معاملہ میں نیز نیکیوں کے بجالانے ثواب کے ملنے میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں.پس جس طرح مرد کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اس کے کچھ حقوق اور کچھ ذمہ داریاں ہیں اسی طرح عورت کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اس کے بھی ایسے ہی کچھ حقوق اور کچھ ذمہ داریاں ہیں.ان حقوق و فرائض 402

Page 469

کے بارہ میں ان میں کوئی فرق نہیں.اسی طرح جہاں ایک مرد کسی نیکی کے بجالانے پر ثواب کا حق دار ہوتا ہے اسی طرح عورت بھی اس نیکی کے بجالانے پر اسی قدر اور بعض امور میں اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بناء پر نسبتا کم مشقت والی نیکی بجالانے پر مرد کے برابر اور بعض صورتوں میں اس سے زیادہ ثواب کی حق دار قرار پاتی ہے.اسلام کی یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی اور مذہب یا دنیا کی کوئی اور تعلیم ہر گز نہیں کر سکتی.(قسط نمبر 15 ، الفضل انٹر نیشنل 21 تا 31 مئی 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت) صفحہ 24) 403

Page 470

سوال: انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ انہیں Feminist خیال آتے ہیں جو اسلام کی تعلیم سے متضاد ہیں.نیز انہوں نے پوچھا ہے کہ عورت نکاح میں اپنا مہر خود کیوں مقرر نہیں کر سکتی.اس کی خاموشی اس کی رضامندی کیوں سمجھی جاتی ہے.عورت میں شرم اور خاموشی اتنی پسند کیوں کی جاتی ہے، جبکہ ہم ایک ایسے معاشرہ میں رہتے ہیں جہاں عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے.نیز نکاح کے وقت اگر عورت خود موجود ہی نہیں تو اس کی مرضی کے بارہ میں اس کا ولی غلط بیانی بھی تو کر سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 18 جون 2021ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطاء فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: کسی چیز کے بارہ میں خیالات کا آنا یا کسی چیز کے بارہ میں اعتراض پیدا ہونا عموماً عدم علم یا اس چیز کے بارہ میں پوری طرح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے.اور اعتراض کرنے والا انسان بعض اوقات صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اعتراض کر رہا ہوتا ہے.اس لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس چیز کے بارہ میں پوری طرح تحقیق کر لیا کرو.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنَّا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيُوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا.(النساء: 95) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو اور جو تم پر سلام بھیجے اس سے یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں ہے.تم دنیاوی زندگی کے اموال چاہتے ہو تو اللہ کے پاس غنیمت کے کثیر سامان ہیں.اس سے پہلے تم اسی طرح ہوا کرتے تھے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا.پس خوب چھان بین کر لیا کرو.یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو بہت باخبر ہے.404

Page 471

ایک اور جگہ فرمایا: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَةٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَي مَا فَعَلْتُمْ نَدِمِينَ (الحجرات :7) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے پاس اگر کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو (اس کی) چھان بین کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے.پس اسلام نے اپنے متبعین کو اپنے اور پرائے ہر ایک کے معاملہ میں پوری طرح چھان بین کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.اور یقین کے مقابلہ پر صرف گمان کرنے کو پسند نہیں فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئً.یقیناً ظن حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دیتا.(يونس: 37) اس کے ساتھ قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر اس مضمون کو بھی مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے منکرین کی مذہب کے معاملات میں کبھی کسی یقین پر بنیاد نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف ظنی اور خیالی باتیں کرتے ہیں.اس لئے قرآن کریم نے مومنوں کو ظن سے بچنے کی تلقین فرمائی اور بعض قسم کے ظن کو گناہ بھی قرار دیا.جیسا کہ فرمایا: يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (الحجرات:13) کہ اے مومنو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو.یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.آپ نے لکھا ہے کہ ہے کہ آپ کو ایسے خیالات آتے ہیں جو اسلام کی تعلیم سے متضاد ہیں.نیز آپ نے لکھا ہے کہ آپ اسلام کے احکامات کے بارہ میں ریسرچ کر رہی ہیں.ریسرچ کرنا بہت اچھی عادت ہے لیکن اس ضمن میں یہ بات مد نظر رکھنی بھی ضروری ہے کہ آپ کی ریسرچ کی بنیاد کن چیزوں پر ہے.قرآن کریم، سنت نبوی ام اور احادیث کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس 405

Page 472

- دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو حکم و عدل بنا کر دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اس کا یہی مقصد ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم جو زمین سے اٹھ کر ثریا پر جا چکی تھی، اسے آپ نے واپس لا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.اس لئے اپنی ریسرچ میں حضرت مسیح مود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کو مقدم رکھیں اور بار بار ان کا مطالعہ کریں.اس کے بعد خلفائے احمدیت کی کتب جن کی بنیاد بھی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہی عطاء فرمودہ علم الکلام پر ہے ان کا مطالعہ کریں تو انشاء اللہ آپ کے تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے.باقی جہاں تک آپ کے سوالات کا تعلق ہے تو یہ بھی غلط فہمی اور اسلام کی تعلیمات سے پوری طرح واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ہیں.اسلامی تعلیم کی رو سے لڑکی کے نکاح کے لئے لڑکی کی رضامندی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور کوئی نکاح اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتا.اور یہ کہنا کہ اس کی خاموشی کو اس کی رضامندی سمجھا جاتا ہے ، یہ بھی غلط بات ہے.نکاح کے لئے لڑکی سے نہ صرف اس کی باقاعدہ مرضی پوچھی جاتی ہے بلکہ نکاح فارم پر لڑکی کے دستخط ہے ہوتے ہیں اور اس کے دستخطوں کے ساتھ دو گواہوں کی اس بات پر گواہی ہونی ضروری کہ اس لڑکی نے ان دو گواہوں کے سامنے اپنی مرضی سے اس نکاح فارم پر دستخط کئے ہیں.خاموشی کو رضامندی سمجھنا یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے، بلکہ علاقائی اور روائتی رسم و رواج ہیں.ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ اسلام نے لڑکی کے نکاح کے لئے لڑکی کی مرضی کے علاوہ اس کے ولی جو اس کا بہت ہی قریبی رشتہ دار یعنی اس کا باپ یا بھائی وغیرہ ہوتا ہے، کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے.اس حکم میں ایک بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ چونکہ لڑکی بیاہ کر ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں جارہی ہوتی ہے.اس لئے اس کے نکاح میں اس کے ساتھ ولی کی شرط کو رکھ کر دوسرے خاندان پر واضح کیا گیا ہے کہ عورت جسے معاشرہ میں عموماً مردوں کی نسبت کمزور سمجھا جاتا ہے، اگر اس پر کسی قسم کا ظلم ہوا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کے ساتھ ہیں جو تم لوگوں سے اس بارہ میں باز پرس کر سکتے ہیں.لیکن ولی کی اس شرط میں بھی عورت کی مرضی کو اس طرح مقدم رکھا گیا کہ اگر چہ ولی عورت کا کوئی بہت قریبی رشتہ دار ہی ہوتا ہے جس کے متعلق یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس عورت 406

Page 473

کی یقیناً بھلائی ہی پیش نظر رکھے گا، اس کے باوجود اگر کسی لڑکی کو شکایت پیدا ہو کہ اس کا یہ ولی اس کی مرضی کے خلاف اس کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو آنحضور الم کی سنت کے عین مطابق خلیفۃ المسیح روحانی باپ ہونے کی حیثیت سے اس عورت کے اس جسمانی ولی کی ولایت کو منسوخ کر کے اپنی نمائندگی میں اس عورت کا وکیل مقرر کر کے اس عورت کی مرضی کے مطابق اس کا نکاح کروانے کا حق رکھتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں اسی پر عمل ہوتا ہے اور متعدد احمدی بچیوں نے خلیفۃ المسیح کے توسط سے اپنے اس حق کو حاصل کیا ہے.ایجاب و قبول کی مجلس چونکہ مردوں کی مجلس ہوتی ہے اور اسلام نے بہت سی حکمتوں کے پیش نظر غیر محرم مردوں اور عورتوں کے بر ملا ملنے جلنے کو پسند نہیں کیا.لہذا اسلام نے عورت کے وقار اور عزت کو مد نظر رکھتے ہوئے خود عورت کی بجائے اس کے ولی کو اس میں ایجاب و قبول کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.لیکن اس سے پہلے نکاح کے تمام تر معاملات طے کرنے میں عورت کی مرضی اور رضامندی کو پوری طرح مقدم رکھا ہے.چنانچہ آنحضور ا کے عہد مبارک میں حضور الم نے جب ایک صحابی کو رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کا ارشاد فرمایا، اور لڑکی کے باپ نے اپنی لڑکی غیر مرد کو دکھانے سے انکار کیا تو لڑ کی حضور ای تم کا ارشاد سن کر دروازہ سے باہر آگئی اور اس نے اس صحابی سے کہا کہ اگر حضور الم کا ارشاد ہے تو تم مجھے دیکھ سکتے ہو.(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب النَّظَرِ إِلَي الْمَرْأَةِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا) پس اسلام نے دیگر احکامات کی طرح نکاح اور شادی کے معاملات میں بھی جائز حدود میں رہتے ہوئے عورت کو پورا پورا اختیار دیا ہے.ہاں مذہب بعض امور میں جہاں عورتوں پر کچھ پابندیاں لگاتا ہے وہاں اس نے مردوں پر بھی کچھ پابندیاں لگائی ہیں.لیکن چونکہ شیطان ہر دور اور ہر زمانہ میں انسان کو بہکانے کے لئے طرح طرح کے راستے تلاش کرتا رہتا ہے اور یہ زمانہ جس میں دجالی قوتیں جو شیطان ہی کی نمائندہ ہیں پوری شدت کے ساتھ لوگوں کو خدا تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکانے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں ، وہ مختلف طریقوں سے لوگوں اور خصوصاً نوجوان نسل کے ذہنوں میں طرح طرح کے شبہات پیدا کر کے انہیں مذہب سے متنفر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں.407

Page 474

لہذا ہر احمدی مردو عورت کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرہ میں رہتے ہوئے معاشرہ کی برائیوں سے جہاں خود کو بچائے وہاں اسلامی اقدار کا بہترین نمونہ باقی لوگوں کے سامنے پیش کر کے انہیں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچائے اور معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کو رائج کرنے کی بھر پور کوشش کرے، نہ یہ کہ اندھا دھند ان معاشرتی برائیوں کا اسیر ہو کر اسلامی تعلیمات کو بھلا دے.پس اب آپ نے خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے حکموں کو مانتے ہوئے مذہب کے راستہ پر چل کر جو بہر حال کچھ مشکلات والا راستہ ہے ، اپنی دنیا اور آخرت کو حسین بنانا ہے یا شیطان اور ان دجالی قوتوں کی ملمع شدہ باتوں اور ان کے بظاہر چکا چوند کر دینے والے پرکشش راستوں پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرنے کے سامان کرنے ہیں.(قسط نمبر 39، الفضل انٹر نیشنل 26 اگست 2022ء صفحہ 9) 408

Page 475

سوال: جرمنی سے ایک دوست نے، قرض کا لین دین کرتے وقت گواہ ٹھہرانے کے بارہ میں سورۃ البقرۃ کی آیت کی روشنی میں عورت کی گواہی کے متعلق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی چاہی؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 ستمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: مخالفین اسلام کی طرف سے اسلامی تعلیم پر جو بڑے بڑے اعتراضات کئے جاتے ہیں، ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے مرد کے مقابلہ پر عورت کی گواہی کو آدھار کھ کر گویا عورت کو کمتر قرار دیا ہے.لیکن یہ اعتراض بھی دیگر اعتراضات کی طرح اسلامی تعلیمات کی حقیقت اور اس کی روح کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بلا وجہ گھڑا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ مرد کے مقابلہ پر عورت کی گواہی نصف ہے.بلکہ اگر قرآن کریم پر غور کیا جائے تو جن امور کا عورت سے براہ راست تعلق ہے، ان میں جس طرح مرد کی گواہی کو قبول کیا گیا ہے اسی طرح عورت کی گواہی کو بھی تسلیم کیا گیا ہے.چنانچہ سورۃ النور میں میاں بیوی کے درمیان لعان کی صورت میں جو گواہی کا طریق بیان کیا گیا ہے اس میں عورت اور مرد دونوں کی گواہی اور قسم میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا بلکہ دونوں کا بالکل ایک ہی نتیجہ نکالا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ الَّذِينَ يَرْمُونَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ لا فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهْدَتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصُّدِقِينَ وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَذِبِينَ وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهْدَتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَذِبِينَ - وَ الْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصُّدِقِينَ (سورة النور: 7 تا 10) ترجمہ: اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں اور ان کے پاس سوائے اپنے وجود کے اور کوئی گواہ نہیں ہو تا تو ان میں سے ہر شخص کو ایسی گواہی دینی چاہیے جو اللہ کی قسم کھا کر چار گواہیوں 409

Page 476

رض پر مشتمل ہو اور ( ہر گواہی میں) وہ یہ کہے کہ وہ راست بازوں میں سے ہے.اور پانچویں (گواہی) میں (کہے) کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو.اور اس بیوی سے (جس پر اس کا خاوند الزام لگائے ) اس کا اللہ کی قسم کھا کر چار گواہیاں دینا کہ وہ (خاوند) جھوٹا ہے عذاب دور کر دے گا.اور پانچویں (قسم) اس طرح (کھائے) کہ اللہ کا غضب اس (عورت) پر نازل ہو اگر وہ (الزام لگانے والا خاوند) سچا ہے.اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ نے صرف ایک عورت کی گواہی پر کہ اس نے ایک شادی شدہ جوڑے میں سے لڑکے اور لڑکی دونوں کو دودھ پلایا تھا، ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دی.چنانچہ حضرت عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا.اس کے بعد ایک عورت نے آکر بیان کیا کہ میں نے عقبہ کو اور اس عورت کو جس سے عقبہ نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے ( پس یہ دونوں رضائی بہن بھائی ہیں، ان میں نکاح درست نہیں) عقبہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تُو نے (اس سے) پہلے کبھی اس بات کی اطلاع دی ہے.پھر عقبہ سواری پر سوار ہو کر رسول الله الله یم کے پاس مدینہ گئے اور آپ سے ( یہ مسئلہ) پوچھا تو نبی الم نے فرمایا کہ اب جبکہ یہ بات کہہ دی گئی ہے تم کس طرح اسے اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو.پس عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا.اور اس نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا.(صحیح بخاري كتاب العلم بَاب الرَّحْلَةِ فِي الْمَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ وَتَعْلِيمِ أَهْلِهِ) جہاں تک قرض کے لین دین میں مرد اور عورت کی گواہی کا تعلق ہے تو عموماً ایسے معاملات کا چونکہ مردوں سے تعلق ہوتا ہے اور عورتوں سے براہ راست تعلق نہیں ہو تا، اس لئے ہدایت فرمائی کہ اگر ان معاملات میں گواہی کے لئے مقررہ مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو رکھا جائے کہ اگر گواہی دینے والی عورت اپنی گواہی بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے.گویا اس میں بھی گواہی ایک عورت کی ہی ہے، صرف اس کے ان معاملات سے عموماً تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھول جانے کے اندیشہ کے پیش نظر احتیاطاً دوسری عورت اس کی مدد کے لئے اور اسے بات یاد کرانے کے لئے رکھ دی گئی ہے.قرآن کریم کا منطوق بھی اسی مفہوم 410

Page 477

کی تائید فرما رہا ہے.چنانچہ فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّي.وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلُّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرِي (سورة البقرة: 283) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت تک کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو...اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرالیا کرو.اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (ایسے) گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو.(یہ) اس لئے (ہے) کہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے.پس قرض کے لین دین کے معاملات میں بھی عورت ہو یا مرد، دونوں کی گواہی کی حیثیت اور اہمیت برابر ہی ہے لیکن چونکہ مالی لین دین کے معاملات کا تعلق عموماً عورتوں سے نہیں ہوتا اس لئے گواہی دینے والی عورت کی مدد کے لئے کہ اگر وہ اس لین دین کی تفصیل بھول جائے تو اسے یہ معاملہ یاد کروانے کے لئے ایک دوسری عورت کو بھی ساتھ رکھنے کی تاکید فرما دی تاکہ کسی گواہ کے بھول جانے سے لین دین کرنے والے فریقین میں سے کسی کی حق تلفی نہ ہو سکے.(قسط نمبر 44، الفضل انٹر نیشنل 2 دسمبر 2022ء صفحہ 10) 411

Page 478

سوال: ایک دوست نے دریافت کیا کہ دار قطنی میں ایک حدیث ہے کہ حضور لم نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے، جو چاہے سننے کے لئے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، کیا یہ حدیث درست ہے ؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث جسے آپ نے دار قطنی کے حوالہ سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے.یہ بات درست ہے کہ حضور ﷺ نے خطبہ عید کے سنے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے.اسی بناء پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے.لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ حضور ام نے عید کے لئے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریہ اوڑھنی لے کر عید کے لئے جائے.اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں.(قسط نمبر 1، الفضل انٹر نیشنل 27 اکتوبر تا02 نومبر 2020ء صفحہ 29) 412

Page 479

سوال: ایک مرتبی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ عیدین کے مواقع پر بعض لوگ مساجد میں آکر عید سے پہلے یا بعد میں نوافل ادا کرتے ہیں.اس بارہ میں رہنمائی کی درخواست ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 اکتوبر 2017ء میں ان مرتبی صاحب کو جو جواب اور اس مسئلہ کے بارہ میں انتظامیہ کو جو ہدایت عطا فرمائی وہ حسب ذیل ہے.حضور انور نے فرمایا: جواب: نماز عید سے پہلے نوافل کی ادائیگی منع ہے جیسا کہ احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے، لیکن بعد میں اگر وقت ممنوعہ شروع نہ ہوا ہو تو گھر جا کر نوافل پڑھے جاسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں.میں نے جنرل سیکرٹری صاحب کو بھی ہدایت کر دی ہے کہ جو لوگ عید والے دن نماز عید سے قبل مساجد میں آکر نوافل ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں انہیں اس کی ممانعت کی بابت توجہ دلانے کے لئے نماز عید سے قبل مساجد میں باقاعدہ اعلان کروایا کریں.(قسط نمبر 4، الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 413

Page 480

سوال: ایک دوست نے عیدین کی نماز کے واجب ہونے نیز عید کی نماز میں امام کے کسی رکعت میں تکبیرات بھول جانے اور اس کے تدارک میں سجدہ سہو کرنے کے بارہ میں حضور انور کی خدمت اقدس میں رہنمائی فرمانے کی درخواست کی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب 21 نومبر 2017ء میں اس سوال کا جو جواب عطا فرمایا، وہ حسب ذیل ہے.حضور انور نے فرمایا: جواب: عیدین کی نماز سنت مؤکدہ ہے.حضور ایم نے ایسی خواتین جن پر ان کے خاص ایام ہونے کی وجہ سے نماز فرض نہیں، انہیں بھی عید گاہ میں آکر مسلمانوں کی دعا میں شامل ہونے کا پابند فرمایا ہے.اور جہاں تک امام کے تکبیرات بھول جانے کا سوال ہے تو ایسی صورت میں مقتدی اسے یاد کروا دیں، لیکن مقتدیوں کے یاد کروانے کے باوجود اگر امام کچھ تکبیرات نہ کہہ سکے تو مقتدی امام کی ہی اتباع کرتے ہوئے عید کی نماز ادا کریں.تکبیرات بھولنے کے نتیجہ میں امام کو سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے.(قسط نمبر 4، الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 414

Page 481

سوال: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانے پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد نماز جمعہ یا نماز ظہر پڑھنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دار الافتاء کی ایک رپورٹ کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 مئی 2021ء میں اس مسئلہ پر درج ذیل اصولی ہدایات عطا فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانے پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد اس روز نماز جمعہ اور نماز ظہر دونوں نہ پڑھنے کے بارہ میں تو صرف حضرت عبد اللہ بن زبیر کا ہی موقف اور عمل ملتا ہے اور وہ بھی ایک مقطوع روایت پر مبنی ہے، نیز اس روایت کے دوراویوں کے بیان میں بھی تضاد پایا جاتا ہے.جبکہ مستند اور قابل اعتماد روایات میں تو حضور العلم کی سنت اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کا یہی مسلک ملتا ہے کہ ان سب نے یا تو اس روز نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ بھی اپنے وقت پر ادا کیا ہے اور دُور کے علاقوں سے آنے والوں کو جمعہ سے رخصت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقوں میں ظہر کی نماز ادا کر لیں.اور بعض مواقع پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ ادا نہیں کیا لیکن ظہر کی نماز ضرور اپنے وقت پر ادا کی گئی.یہی موقف اور عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا بھی ملتا ہے.سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے ایک مرتبہ کے عمل کے کہ جب آپ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کی اسی مذکورہ بالا روایت پر عمل کرتے ہوئے عید پڑھانے کے بعد نہ جمعہ ادا کیا اور نہ ظہر کی نماز پڑھی.لیکن حضرت عبد اللہ بن زبیر کی یہ روایت آنحضور الم اور خلفائے راشدین کے کسی قول یا فعل پر مبنی نہیں ہے اس لئے صرف اس مقطوع روایت کی وجہ سے جس کے راویوں کے بیانات میں بھی تضاد موجود ہے فرض نماز کو ترک نہیں کیا جا سکتا.لہذا اس روایت پر مبنی حصہ کو فقہ احمدیہ سے حذف کر دیں.اور فقہ احمدیہ میں لکھیں کہ اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوتے ہیں تو نماز عید کی ادائیگی کے بعد اگر جمعہ نہ پڑھا جائے تو ظہر کی نماز اپنے وقت پر ضرور ادا کی جائے گی.(قسط نمبر 36، الفضل انٹر نیشنل 17 جون 2022ء صفحہ 11) 415

Page 482

سوال: عید الاضحیہ کی قربانی کتنے دنوں تک ہو سکتی ہے ؟ اس سوال کے بارہ میں دارالافتاء سے جاری ہونے والے ایک فتویٰ کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 مارچ 2022ء میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: عید الاضحیہ کی قربانی کتنے دنوں تک ہو سکتی ہے، اس بارہ میں تو آپ کا فتویٰ ٹھیک ہے اور میرا بھی یہی موقف ہے کہ عام حالات میں قربانی تین دن تک ہی ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی مجبوری ہو تو اس کے بعد بھی قربانی کی جاسکتی ہے.باقی مجھے تو آپ کے اس استدلال پر اعتراض تھا جو آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے کیا تھا.میرے نزدیک تو اس ارشاد میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ بھی یہی بیان فرما رہے ہیں کہ قربانی تین دنوں تک ہی ہو سکتی ہے اور حضور کا یہ ارشاد عمومی حالات کے لئے ہے.(نوٹ از مرتب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مذکورہ بالا مکتوب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے جس ارشاد کا ذکر فرمایا ہے ، وہ درج ذیل ہے: آنحضرت ام کا طریق یہ تھا کہ عید کا خطبہ زیادہ لمبا نہیں کیا کرتے تھے اور اس کے بعد جلد قربانی کے لئے گھر روانہ ہو جایا کرتے تھے.اس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آپ اس وقت تک روزہ رکھتے تھے جب تک خود اپنی قربانی کے گوشت سے وہ روزہ نہ کھولیں اور اس سنت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ دستور بنالیا ہے کہ عید کے دن ضرور روزہ رکھتے ہیں اور جب تک فارغ نہ ہوں وہ کچھ نہیں کھاتے لیکن مراد ہر گز نہیں ہے کہ کچھ پہلے کھانا حرام ہو جاتا ہے مگر سنت کا مضمون یہ ہے کہ جس نے قربانی کرنی ہو، جس دن قربانی کرنی ہو، اس دن وہ قربانی کے گوشت کے حاصل ہونے سے پہلے روزہ رکھے.قربانی تو تین دن چلتی ہے.تو اگر یہ غلط مضمون سمجھا گیا تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ بعض لوگ جنہوں نے چوتھے دن قربانی کرنی ہے وہ چار دن بھوکے رہیں.(خطبات طاہر ( عیدین) صفحہ 655، خطبہ عید الاضحیہ مؤرخہ 28 مارچ 1999ء) (قسط نمبر 49، الفضل انٹر نیشنل 24 فروری 2023ء صفحہ 11) 416

Page 483

غریب ملازمین کو ان کا پورا حق دینا سوال: ایک طالبہ نے کہا کہ آجکل سوشل میڈیا میں خبر پھیلی ہے کہ کپڑوں کے بڑے بڑے Brands کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں اپنے غریب ملازمین کو ان کا پورا حق نہیں دیتے.اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان Brands کا بائیکاٹ ہونا چاہیئے.حضور کا اس بارہ میں کیا ارشاد ہے؟ اس سوال پر حضور انور نے فرمایا: جواب سوال یہ ہے کہ یہاں کی یہ جو بڑی کمپنیاں ہیں وہ تو پیسے دیدیتی ہیں.کیونکہ یہ تو Direct اپنے Labours کے یا جو بھی ان کے ساتھ Workers ہیں ان کے پاس نہیں جاتے.وہاں کے کچھ لوگ ہیں جو Contract لیتے ہیں ، وہ آگے Contract پر کام کرواتے ہیں.یہ بڑی کمپنیاں ان کو Contract دیدیتی ہیں اور وہ آگے پھر LocalLabour سے کام لیتے ہیں.اور وہ اگر ان کو صحیح طرح لیبر نہیں دیتے تو وہ Exploit کرتے ہیں.تو وہ اس ملک کے رہنے والوں کا قصور ہے.یہاں کی کمپنیوں کا تو قصور اتنا نہیں.کیونکہ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ تو پیسے دیدیتے ہیں.سوائے اس کے کہ الا ماشاء اللہ شاید کوئی ہو جو نہ دیتی ہو.کیونکہ ان کے بڑے بزنس چل ہی اس لئے رہے ہیں کہ یہ Fair بزنس کرنے والے ہیں اور جو بھی لیبر مقرر ہو انصاف سے دیتے ہیں.یہ اور بات ہے کہ تھوڑی لیبر دیتے ہیں.اور یہ اور بات ہے کہ وہ کام بنگلہ دیش سے یا سری لنکا سے یا انڈیا سے یا پاکستان سے یا کسی بھی اور غریب ملک سے کرواتے ہی اس لئے ہیں کہ یہاں تھوڑی لیبر پہ کام ہو جائے گا.لیکن جو بھی لیبر ان کی مقرر ہوتی ہے وہ دیدیتے ہیں.آگے جو ان کے Sub-Contractors ہیں ، جنہوں نے آگے جن کو Contract دیا ہوتا ہے اور پھر آگے وہ Labour سے کام لیتے ہیں وہ اصل میں Cheat کر رہے ہوتے ہیں.تو بائیکاٹ کرنے سے کیا فائدہ ہے، جو تھوڑی بہت ان کی آمدنی ہے وہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہے گی.باقی وہاں کے ملک کا جو قانون ہے، بنگلہ دیش یا جس ملک میں بھی یہ غلط کام ہو رہا ہے وہاں کا 417

Page 484

قانون ہے، اُن کو چاہیئے کہ اپنی Labour کا خیال رکھیں اور جو بیچ میں ایسے لوگ ہیں ان سے صحیح ان کا حق دلوائیں.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 418

Page 485

غیر احمدی امام سوال: ایک دوست نے بعض احباب کی طرف سے پوچھے جانے والے اس سوال کی بابت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی چاہی کہ گھانا کے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں ایسے غیر احمدی امام بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کو سچا اور بہترین اسلام سمجھتے ہیں اور مخالفت بھی نہیں کرتے لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے قبول احمدیت کی توفیق نہیں پاتے ، تو کیا ایسے افراد یا اماموں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہو گا ؟ حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 22 جولائی 2019ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر احمدی امام کی اقتداء میں نماز نہ پڑھنے کے مسئلہ پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور جہاں آپ نے اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو ہمارے لئے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے وہاں آپ کے بیان کردہ مسئلہ پر بھی روشنی ڈالی ہے.چنانچہ ایک موقعہ پر ایسے لوگوں کی نسبت ذکر ہوا جو نہ ٹکفر ہیں نہ مکذب اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ دریافت کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ”اگر وہ منافقانہ رنگ میں ایسا نہیں کرتے جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ( با مسلماں اللہ اللہ بابر ہمن رام رام) تو وہ اشتہار دے دیں کہ ہم نہ ٹکذب ہیں نہ نکفر (بلکہ بزرگ نیک ولی اللہ سمجھتے ہیں) اور مکفرین کو اس لئے کہ وہ ایک مومن کو کافر کہتے ہیں، کافر جانتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو کہ وہ سچ کہتے ہیں ورنہ ہم ان کا کیسے اعتبار کر سکتے ہیں اور کیونکر ان کے پیچھے نماز کا حکم دے سکتے ہیں.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی.نرمی کے موقع پر نرمی اور سختی کے موقع پر سختی کرنی چاہیئے.فرعون میں ایک قسم کا رُشد تھا اور اسی رُشد کا نتیجہ تھا کہ اس کے مونہہ سے وہ کلمہ نکلا، جو صد ہا ڈوبنے والے کفار کے منہ سے نہ نکلا.یعنی آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ.اس کے ساتھ نرمی 419

Page 486

کا حکم ہوا.قُولَا لَهُ قَوْلًا لینا.اور دوسری طرف نبی کریم کو فرمایا واغْلُظْ عَلَيْهِمْ.معلوم ہوتا ہے ان لوگوں میں بالکل رُشد نہ تھا.پس ایسے معترضین کے ساتھ صاف صاف بات کرنی چاہیے تا کہ ان کے دل میں جو گند و محبت پوشیدہ ہے نکل آئے اور ننگ جماعت نہ ہوں.“ ( اخبار بدر نمبر 16 جلد 7 مؤرخہ 23 اپریل 1908ء صفحہ 4) (قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 420

Page 487

غیر احمدی سے شادی کرنا سوال: ایک جماعتی عہدیدار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں احمدی لڑکیوں کو غیر احمدی اور غیر مسلم مردوں سے شادی کی اجازت ملنے پر فکر مندی اور پریشانی کا اظہار کر کے اس بارہ میں رہنمائی چاہی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29 فروری 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات سے نوازا.حضور نے فرمایا: جواب: اسلام کے بعض احکامات انتظامی نوعیت کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے عامتہ المسلمین کو تو ان میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں دیا لیکن اپنے نبی اور اس کی نیابت میں خلفاء کو ان میں تبدیلی کرنے اور حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے.میرے نزدیک مسلمان مرد اور عورت کا غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کا معاملہ بھی اسی قسم کے انتظامی معاملات میں سے ہے.پس احمدی مرد ہو یا عورت اس کا کسی غیر احمدی یا غیر مسلم سے نکاح کی اجازت کا معاملہ خلیفہ وقت کی صوابدید پر ہے، کسی اور کے پاس اس کا اختیار نہیں.خلیفہ وقت ہر کیس میں حالات کے مطابق فیصلہ کرتا ہے.لہذا جب میرے سے اجازت کے لئے رابطہ کیا جاتا ہے تو آپ کا کام ہے کہ آپ اپنی رائے کے ساتھ مجھے رپورٹ بھجوائیں.آپ لوگوں کا اس سے زیادہ کام نہیں ہے.(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 421

Page 488

سوال: ایک غیر از جماعت خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنی اور اپنے بھائی کی بعض خوابیں لکھ کر ان کے بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی، نیز جماعت کے بارہ میں اپنے بعض سوالات کے جواب بھی حضور انور سے دریافت کئے.اسی طرح ایک احمدی لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت بھی مانگی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 اگست 2021ء میں اس خط کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اگر وہ لڑکا بھی آپ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے خود یہ بات پوچھنی چاہیئے.(قسط نمبر 41، الفضل انٹر نیشنل 21 اکتوبر 2022ء صفحہ 9) 422

Page 489

غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا سوال: ایک دوست نے حديث الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَ إِنْ عَمِلَ الكَبَائِرَ (سنن ابي داؤد کتاب الصلوة) کی روشنی میں دریافت کیا ہے کہ افراد جماعت کے لئے کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا کیوں درست نہیں ؟ اس سوال کا جواب عطاء فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 05 اکتوبر 2018ء میں فرمایا: جواب : یہ مکمل حدیث سنن ابي داؤد کتاب الجھاد میں اس طرح درج ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِهَادُ وَاجِبْ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيْرٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَ إِنْ عَمِلَ الكَبَائِرَ وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَي كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَ إِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ گویا اس میں صرف نماز پڑھنے کے بارہ میں ارشاد نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر امیر کی قیادت میں جہاد کرو اور ہر مسلمان کی نماز جنازہ ادا کرو.لیکن آنحضور الم کی اپنی سنت اس سے مختلف ہے کیونکہ حضور لم نے نہ مقروض کی، نہ خیانت کرنے والے کی اور نہ ہی خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ خود پڑھی.اسی لئے علمائے حدیث نے اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے اور اس روایت کی سند پر کئی اعتراضات اٹھائے ہیں.علاوہ ازیں کتب احادیث میں حضور الم کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ لَا يَؤُمَّنكُمْ ذُو جُزْأَةٍ في دين“ یعنی کوئی ایسا شخص جو اپنے دین میں بے باک ہو گیا ہو یا دینی احکامات کا خیال نہ رکھتا ہو وہ تمہاری امامت ہر گز نہ کروائے.امامت کے حوالہ سے سب سے بڑھ کر وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت ام نے آنے 423

Page 490

والے مسیح موعود کے بارہ میں فرمایا ہے کہ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.یعنی اس وقت تمہارا امام تم میں سے ہی ہو گا.اور یہ حدیث کتب احادیث کی سب سے مستند کتب بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہے.حضور ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ فاسق فاجر کے پیچھے نماز پڑھو، یہ نہیں فرمایا کہ مکفر اور مکذب کے پیچھے نماز پڑھو.پس اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ حضور اللی لیکن دراصل ہمیں ایک انتظامی امر کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ جب اپنے لوگوں میں سے کسی کو امام بنا دیا جائے تو اس کے اعمال میں تجسس کر کے اس کی خامیاں تلاش کرنے کی کوشش نہ کیا کرو بلکہ پوری اطاعت کے ساتھ اس کی اقتداء میں نماز ادا کر کے اس کی قبولیت کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرو.(قسط نمبر 6 ، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 424

Page 491

غیر احمدیوں کی نماز جنازہ پڑھنا سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک احمدی کے کسی غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے بارہ میں نیز بینک کے ساتھ مختلف معاملات لین دین کے بارہ میں مسائل دریافت کئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور نے فرمایا: نہیں.جواب: غیر احمدیوں کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا موقف ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح مکذب اور مکفر تھا اس کا جنازہ پڑھنا تو کسی طرح درست لیکن جو شخص حضور کے دعاوی کا انکاری نہیں تھا لیکن اس نے حضور کے دعاوی کی تصدیق بھی نہیں کی.ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنے والے اگر دوسرے لوگ موجود ہوں تو احمدیوں کو اس کی نماز جنازہ سے احتراز کرنا چاہیے.لیکن اگر کسی جگہ کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی موجود نہ ہو تو احمدی اپنے امام کی اقتداء میں اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے کیونکہ کوئی کلمہ گو بغیر نماز جنازہ کے دفن نہیں ہونا چاہیئے.(قسط نمبر 15، الفضل انٹر نیشنل 21 تا 31 مئی 2021 ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت) صفحہ 24) 425

Page 492

غیر حکومتی بینکوں یا مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک احمدی کے کسی غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے بارہ میں نیز بینک کے ساتھ مختلف معاملات لین دین کے بارہ میں مسائل دریافت کئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: غیر حکومتی بینکوں یا مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کے معاملات میں اگر سود شامل ہو تو یہ ناجائز ہے.لیکن اگر لین دین نفع نقصان کی شراکت کے طریق پر ہو تو جائز ہے.اسی طرح حکومتی بینکوں یا حکومتی مالیاتی اداروں میں جمع کروائی جانے والی رقوم پر ملنے والی زائد رقم سود شمار نہیں ہوتی.کیونکہ حکومتی بینک اور مالیاتی ادارے اپنے سرمایہ کو رفاہی کاموں پر لگاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملکی باشندوں کی سہولتوں کے لئے مختلف منصوبے بنائے جاتے ہیں، معیشت میں ترقی ہوتی ہے اور افراد ملک کے لئے روز گار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں.اس لئے ایسے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے.اس میں کوئی حرج نہیں.( قسط نمبر 15، الفضل انٹر نیشنل 21 تا 31 مئی 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت ) صفحہ 24) 426

Page 493

غیر مسلموں پر رحم کرنا اور ان کے لئے استغفار کرنا سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا غیر مسلموں پر رحم کرنا اور ان کے لئے استغفار کرنا جائز ہے.اور ان پر اتمام حجت ہونے یا نہ ہونے سے ان کے لئے رحم اور استغفار کرنے میں کوئی فرق پڑے گا؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 جولائی 2020ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: قرآن کریم کا علم رکھنے والے کی طرف سے اس قسم کا سوال کرنا قابل تعجب ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس طرح اپنے لئے رب العالمین کے الفاظ استعمال کر کے یہ مضمون بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں میں پائی جانے والی مخلوق کی رنگ و نسل اور مذہب و ملت کا فرق کئے بغیر ربوبیت کرنے والی ذات ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی اللی علم کی ذات بابرکات کے لئے رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَا رَحْمَةً لِلْمُسْلِمِيْنَ کی بجائے رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ (الانبیاء: 108) کے الفاظ استعمال فرما کر ہمیں بتا دیا کہ یہ رسول تمام جہانوں کے لئے بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت سراپا رحمت ہے.یہی تعلیم حضور الم نے اپنے متبعین کو بھی دی.چنانچہ آپ نے فرمایا لا يَرْحَمُ اللهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ (صحيح بخاري كتاب التوحید) یہاں پر بھی حضور اللہ تم نے يَرْحَمُ الْمُؤْمِنِيْنَ يا يَرْحَمُ الْمُسْلِمِيْنَ کی بجاۓ يَرْحَمُ النَّاس کے الفاظ استعمال کر کے ہمیں سمجھا دیا کہ ایک حقیقی مسلمان کا دل جب تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمت کے جذبہ سے لبریز ہو گا تب وہ اللہ تعالیٰ کے رحم کا مورد ہو سکے گا.جہاں تک کسی کے لئے استغفار کرنے کا تعلق ہے تو اس بارہ میں بھی قرآن و سنت نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ ایسا مشرک جس کے متعلق یہ واضح ہو جائے کہ وہ خدا کا دشمن اور یقیناً جہنمی ہے اس کے لئے استغفار نہ کیا جائے.اور کسی کے جہنمی ہونے کا علم یاتو اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے یا اس کے ان انبیاء اور برگزیدوں کو ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ خود کسی کے جہنمی ہونے 427

Page 494

کی خبر دیتا ہے.اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ان کے والد کے عَدُوُّ اللہ ہونے کی خبر دی تو آپ اس کے لئے استغفار سے دست بردار ہو گئے.(سورۃ التوبه: 114) مدینہ کے منافقین کی شرارتوں اور ان کی طرف سے آنحضور الم اور مسلمانوں کو دی جانے والی تکالیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے لئے سخت انذار فرمایا اور انہیں نافرمان قرار دیتے ہوئے جہنمی قرار دیا.لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آنحضور کو چونکہ اس وقت تک ان کے لئے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا تھا.اس لئے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کی وفات پر حضور ام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اس اختیار کی بناء پر اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے لئے استغفار کیا.اسلام کی عفو کی تعلیم اپنے اندر ایک ایسی گہری حکمت رکھتی ہے جس سے پہلے مذاہب کی تعلیمات عاری تھیں.لہذا اسلام اپنے ہر دشمن کے لئے جب تک کہ اس کے اصلاح پانے کی امید باقی ہو ، ہدایت کی دعا کرنے اور اس کی تربیت کے لئے کوشش کرنے کی تعلیم دیتا ہے.چنانچہ جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا اور حضور اللم بھی زخمی ہو گئے تو کسی نے حضور الم کی خدمت میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ الم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے خدا کا پیغام دینے والا اور رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے.اس کے بعد حضور ﷺ نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دیدے کیونکہ وہ (میرے مقام اور اسلام کی ) حقیقت سے نا آشنا ہیں.(شعب الایمان للبيهقي) اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اللام نے اللہ کے حضور یہ التجا کی کہ اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ (اسلام اور میرے مقام کی ) لاعلمی کی وجہ سے اسلام کی مخالفت کر رہی ہے.(المعجم الكبير للطبراني) پس اسلام اپنے متبعین کو تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل رحم کے جذبات سے پر ہوں اور سوائے ان مشرکوں اور خدا کے دشمنوں کے جن کے جہنمی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مُہر ثبت فرما دی ہو، ہر ایک کے لئے استغفار کرنے والے ہوں.428

Page 495

آپ کے سوال کا تعلق اگر کسی معین انسان کے ساتھ ہے تو ایسی صورت میں پھر مسلم اور غیر مسلم کا سوال نہیں اٹھتا بلکہ اس انسان کے پیدا کر دہ حالات، واقعات اور اس سے تعلق رکھنے والے حقائق کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیئے.(قسط نمبر 26، الفضل انٹر نیشنل 07 جنوری 2022ء صفحہ 11) 429

Page 496

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا میں اپنے کسی ایسے عیسائی، ہندو یا بدھ مت سے تعلق رکھنے والے دوست کی وفات پر اس کے لئے دعا کر سکتا ہوں جو جماعت احمدیہ کے لئے اچھے اور پیار کے جذبات رکھتا تھا؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15 فروری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا: جواب: جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ اسلام ہمیں کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتابلکہ صرف اس کے بُرے فعل سے بیزاری کی تعلیم دیتا ہے.اور جہاں تک کسی کے جنت یا جہنم میں جانے کا معاملہ ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور کسی دوسرے انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اس دنیا میں بیٹھ کر کسی انسان کی جنت یا جہنم کا فیصلہ کرے.ہاں یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے انبیاء اور فرستادوں کو کسی شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا علم دیدیتا ہے.لیکن اس شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: ”یقیناً جو لوگ ( محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی بن گئے اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے شرک کیا.اللہ یقیناً ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا.اللہ یقیناً ہر ایک چیز کا نگران ہے.“ (سورة الحج : 18) پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مضمون کو بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان کے نیک عمل ضائع نہیں کر تا خواہ وہ انسان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : ”جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں نیز نصاری اور صابی (ان میں سے) جو (فریق) بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر (کامل) ایمان لایا ہے اور اس نے نیک عمل کئے ہیں یقیناً ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا (مناسب) اجر ہے.“ 430 (سورة البقرة: 63)

Page 497

پس کسی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرنے ، إِنَّا لِلّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کی دعا پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا رحم مانگنے میں کوئی حرج نہیں.إِنَّا لِلّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے سے تو خود پڑھنے والے کے لئے بھی دعا ہو جاتی ہے.کیونکہ کسی تکلیف یا نقصان کے پہنچنے پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے.اور اس دعا سے غرض یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ تو اس تکلیف کو دور فرمادے یا اس نقصان کو پورا فرما دے.اور جب کسی کی وفات پر ہم یہ دعا کرتے ہیں تو اس سے ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اے اللہ اس انسان کے ساتھ جو میری توقعات وابستہ تھیں، اس کے مرنے کے بعد تو ان توقعات کو پورا فرما دے.اللہ تعالیٰ کا رحم بھی انسان کسی کے لئے بھی مانگ سکتا ہے، کیونکہ رحم کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس انسان پر کس وقت رحم کرنا ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں جہتم بالکل خالی ہو جائے گی.( تفسیر الطبری ، تفسیر سورۃ ھود آیت نمبر 108) (قسط نمبر 32، الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل 2022ء صفحہ 11) 431

Page 498

فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سوال : ایک دوست نے ”فتاوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام“ کے Revised ایڈیشن کے بارہ میں تحریر کیا کہ اس کتاب کے پبلشر فخر الدین ملتانی صاحب نے چونکہ ارتداد اختیار کر لیا تھا اس لئے ان کے نام اور ان کے تحریر کردہ دیباچہ کو اس ایڈیشن سے حذف کر دینا چاہیئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 نومبر 2018ء میں اس کا جماعتی اقدار و روایات کے مطابق نہایت خوبصورت درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: مذکورہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ پر مشتمل ہے اور فخر الدین ملتانی صاحب نے 1935ء میں اسے مرتب کیا تھا.یہ کتاب جماعتی لٹریچر میں کافی عرصہ استعمال ہوتی رہی ہے.لیکن اس میں کتابت اور حوالہ جات کی بہت زیادہ غلطیاں تھیں.چنانچہ کتابت اور حوالہ جات کی غلطیوں کو اس نئے ایڈیشن میں درست کر دیا گیا.لیکن چونکہ اس کتاب کے پبلشر اور مؤلف فخر الدین ملتانی صاحب تھے، اب اگر ہم ان کے نام اور ان کے تحریر کردہ دیباچہ کو اس نئے ایڈیشن میں سے حذف کر دیں تو یہ درست بات نہیں ہو گی.کیونکہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رفقاء جو حضور کی وفات کے بعد اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے جماعت سے الگ ہو گئے تھے لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں مختلف کاموں میں جماعت کی خدمت کی توفیق پائی اور ان کے نام تاریخ احمدیت میں شامل ہیں.آپ کی اس تجویز کے مطابق تو پھر ہمیں ان سب احباب کے نام اور ان کی خدمت کو بھی تاریخ احمدیت سے نکال دینا چاہیے.لیکن یہ بات جماعتی اخلاقیات اور روایات کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ پر مشتمل ”فقہ المسیح کے نام پر بھی ایک کتاب شائع ہو چکی ہے جس میں ”فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام “ سے بھی زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور فتاوی شامل کر دیئے گئے ہیں.(قسط نمبر 7، الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 12) 432

Page 499

فرشتے سوال : ایک خاتون نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ”توضیح مرام“ کے حوالہ سے فرشتوں کے چاند، سورج اور ستاروں پر اثر ڈالنے، ان اجسام کے انسانوں پر اثر ڈالنے ، اور فرشتوں کے جسمانی طور پر زمین پر اترنے کے بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22 جولائی 2019ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اس تصنیف لطیف میں فرشتوں کے کواکب پر اثر انداز ہونے، سورج، چاند، ستاروں کے ہماری زمین کے نباتات و جمادات اور حیوانات پر اثر ڈالنے اور فرشتوں کے انسانوں پر روحانی اثرات ہونے کے مضامین کو نہایت لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے.چنانچہ فرشتوں کے سورج، چاند، ستاروں پر اثر انداز ہونے کے آپ کے بیان کردہ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ملائکہ ان کو اکب پر خدا تعالیٰ کے اذن کے تحت مدبر و منظم ہیں اور ان اجرام فلکی پر ان کی تاثیرات بالذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکم سے ہوتی ہیں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اشارات قرآنیہ سے نہایت صفائی سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض وہ نفوس طیبہ جو ملائک سے موسوم ہیں ان کے تعلقات طبقات سماویہ سے الگ الگ ہیں.بعض اپنی تاثیرات خاصہ سے ہوا کے چلانے والے اور بعض مینہ کے برسانے والے اور بعض بعض اور تاثیرات کو زمین پر اتارنے والے ہیں.“ پھر حضور علیہ السلام نے ایک مضمون یہ بیان فرمایا ہے کہ ان اجرام فلکی یعنی سورج ، چاند اور ستاروں کا ہماری زمین کے نباتات، جمادات اور حیوانات پر دن رات اثر پڑتا رہتا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ چاند کی روشنی سے پھل موٹے ہوتے، سورج کی گرمی اور تپش سے پھل پکتے اور میٹھے ہوتے اور بعض ہوائیں بکثرت پھل لانے کا موجب ہوتی ہیں.433

Page 500

اس ضمن میں ایک مضمون حضور علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جس طرح فرشتے خدا تعالیٰ کے حکم سے اجرام فلکی پر اپنی تاثیرات ڈالتے اور اجرام فلکی کا ہماری زمین کی ظاہری چیزوں پر اثر ہوتا ہے اسی طرح ملائکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہمارے دل و دماغ پر اپنا روحانی اثر بھی ڈالتے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ” در حقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار گیر ہے اور یہ حکمت کا ملہ خداوند تعالیٰ زمین کی ہر یک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچانے کے لئے یہ روحانیات خدمت میں لگی ہوئی ہیں.ظاہری خدمات بھی بجالاتے ہیں اور باطنی بھی.جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں.جہاں تک فرشتوں کے زمین پر اترنے اور انسانوں سے میل جول کرنے کا سوال ہے تو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اہل علم اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ فرشتوں کا زمین پر نزول ان کے اصلی وجود کے ساتھ ہر گز نہیں ہو تا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ انسانوں کی شکل میں متمثل ہو کر اس کے نیک بندوں سے میل جول کرتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم اور احادیث میں ایسے کئی واقعات کا ذکر موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”یہی نفوس نورانیہ کامل بندوں پر بشکل جسمانی متشکل ہو کر ظاہر ہو جاتے ہیں اور بشری صورت سے متمثل ہو کر دکھائی دیتے ہیں.“ توضیح مرام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 68 تا72) (قسط نمبر 12، الفضل انٹر نیشنل 2 اپریل 2021ء صفحہ 11) 434

Page 501

سوال : ایک عرب دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں فقہ حنفی کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد پیش کر کے اپنے بارہ میں لکھا ہے کہ میں فقہ حنفی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ میں بھی قیاس کے خلاف ہوں.نیز دریافت کیا کہ کیا میں فقہ ظاہر یہ پر عمل کر سکتا ہوں، کیونکہ فقہ ظاہر یہ نے قرآن و حدیث کی نصوص کے ظاہر پر عمل کرنے کے بارہ میں بہت زبر دست نظریہ پیش کیا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 دسمبر 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں: جواب: آپ نے اپنے خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس میں اُس زمانہ کے دو فریقوں کے قرآن و حدیث کے بارہ میں افراط و تفریط پر مشتمل نظریات کارڈ فرما کر قرآن و حدیث کا حقیقی مقام بیان کرتے ہوئے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ حدیث خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی ہو جب تک وہ قرآن کریم اور سنت سے متصادم نہ ہو اسے انسانی فقہ پر ترجیح دی جائے گی.اور فقہ کی بنیاد قرآن کریم، سنت رسول الم اور حدیث نبوی ال پر ہونی چاہیئے.لیکن اگر کسی مسئلہ کا حل ان تینوں سے نہ مل سکے تو پھر فقہ حنفی کے مطابق عمل کر لیا جائے.اور اگر زمانی تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی سے بھی کوئی صحیح رہنمائی نہ ملے تو ایسی صورت میں احمدی علماء اس مسئلہ کے بارہ میں اجتہاد کریں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں.اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے 435

Page 502

فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اس حدیث کو چھوڑ دیں.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 212) اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان نصائح پر پوری طرح کاربند ہے اور جب بھی کسی مسئلہ میں اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے تو جماعت کے علماء خلافت احمدیہ کے زیر سایہ اس مسئلہ پر غور و خوض کر کے اجتہاد کے طریق کو اختیار کرتے ہیں.کسی احمدی کا قیاس کو نا پسند کرنا اور اس بناء پر فقہ حنفی کو بُرا خیال کرنا درست نہیں.اہل علم اور مجتہدین کا جائز حدود میں رہ کر قرآن و سنت اور حدیث سے استنباط کر کے قیاس کے طریق کو اپنانا منع نہیں کیونکہ قرآن کریم اور آنحضور ﷺ کے ارشادات میں قیاس کے حق میں کئی دلائل موجود ہیں.نیز خلفائے راشدین نے بھی اپنے عہد مبارک میں قیاس سے کام لیا اور کئی نئے پیش آمدہ مسائل کو آنحضور ا کے زمانہ کے کسی مسئلہ پر قیاس کر کے حل فرمایا.اسی طرح قیاس کے حوالہ سے جن لوگوں نے حضرت امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کہہ کر طعن کی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے پسند نہیں فرمایا.چنانچہ ایک موقعہ پر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی اسی قسم کی غلطی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں مخاطب کر کے حضرت امام ابو حنیفہ کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں.آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابو حنیفہ سے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہو تا تو آپ اس قدر سبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے.آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں.وہ ایک بحر اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں.اس کا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابو حنیفہ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں ید طولی تھا.خدا تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں 436

Page 503

نے مکتوب صفحہ 307 میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنے والے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے.“ الحق مباحثہ لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 101) جہاں تک فقہ ظاہر یہ کا تعلق ہے تو اس بارہ میں اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبوی لیم میں بیان کئی احکامات ایسے ہیں کہ اگر ان کے صرف ظاہری الفاظ کو اپنایا جائے تو اس حکم کی روح اور حکمت کو انسان پاہی نہیں سکتا.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اسی طریق کو اختیار کرے جس کی نشاندہی آنحضور لم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق مبعوث ہونے والے آپ کے غلام صادق اور اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاکر فرمائی ہے اور جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اوپر بر کر دیا گیا ہے.(قسط نمبر 30، الفضل انٹر نیشنل 11 مارچ 2022ء صفحہ 11) 437

Page 504

فیس پینٹ (Face Paint)، ٹیٹوز (Tattos) سوال: گلشن وقف نو ناصرات کینیڈا جولائی 2012ء میں ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ایک دفعہ میں نے مینا بازار میں دیکھا تھا کہ مہندی کے سٹال پر Signs تھے کہ وہ منہ پر Face Paint کرتے ہیں اور Tattoos بھی لگاتے ہیں.تو کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟ اس پر حضور انور نے ارشاد فرمایا: جواب: جو Tattoos لگاتے ہیں اور Face Paint کرتے ہیں، وہ غلط کرتے ہیں.مہندی کے سٹال پر صرف مہندی ہونی چاہیئے.اگر لجنہ کی صدر نے یہ اس طرح رکھا ہوا تھا تو بالکل غلط کیا ہوا تھا.منہ پہ بھی مہندی لگا دو، پاگل بنا دو، کارٹون بنا دو.اللہ تعالیٰ نے انسان بنایا ہے.تم اس کو جانور بنا دو.مہندی کا جو سٹال ہے، اس پہ مہندی صرف ہاتھ پہ لگالو (اس موقعہ پر حضور انور نے ہاتھ کی سیدھی اور الٹی طرف نیز کلائی تک اشارہ کر کے فرمایا کہ) یہاں تک لگالو، جو تم عورتوں کا سنگھار ہے، اس میں جائز ہے.لیکن منہ پہ مہندی لگانا یا Tattooing کروانا اسلام میں منع ہے.اس موقعہ پر حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ کینیڈا سے بھی جواب طلبی فرمائی کہ ایسا کیوں کیا ہوا تھا.اور پھر ان کے جواب پر حضور انور نے مزید فرمایا) Face Painting کس لئے رکھی تھی ؟ نہیں ہونی چاہیئے.یہاں وہ جو جن بھوت بناتے ہیں، وہ آپ نے بنانا تھا.(صدر صاحبہ کے عرض کرنے پر کہ تبلیغ کے لئے کیا تھا، حضور انور نے فرمایا) تبلیغ کے لئے کیا تھا، تو تبلیغ کے لئے صرف Face Painting ہی رہ گئی ہے.چہرے بگاڑنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا.اسلام نے اس کا بڑا واضح طور پہ حکم دیا ہوا ہے.نئی نئی رسمیں نہ پیدا کریں.رسمیں تو آپ لوگ پیدا کر رہے ہیں، بدعات تو آپ لوگ لجنہ والے پیدا کر رہے ہیں.تو اصلاح آپ نے کیا کرنی ہے؟ اسی طرح نیکی کے نام پر بدعات اندر گھستی ہیں.حضرت آدم کو جو شیطان نے بھٹکا یا تھا، یہ نہیں کہا تھا کہ تم یہ کرو تو اس سے بڑا لطف اٹھاؤ گے.پہلے اس نے نیکی کی بات کر کے کہا تھا کہ یہ کرو، یہ بڑی نیکی ہے اور تم ہمیشہ کے لئے نیک بن جاؤ گے.شیطان نے آدم کو اسی طرح بھٹکایا 438

Page 505

تھا ناں؟ ہمیشہ کے لئے نیک بنانے کے وعدہ پہ ، حالا نکہ وہ شیطانی وعدہ تھا.تو یہی شیطانی کام آپ لوگ کر رہے ہیں.یہ نئی نئی بدعات پیدا کر رہے ہیں.لجنہ اور عہدیداروں کا کام یہ ہے کہ خلیفہ وقت کے منہ کو دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے.اپنی اپنی بدعات نہ پیدا کریں، اپنی اپنی رسمیں نہ پیدا کریں.اور بچیو! تم لوگ میری جاسوس بنو اور صحیح صحیح باتیں بتایا کرو.(قسط نمبر 15، الفضل انٹر نیشنل 21 تا 31 مئی 2021 ، ( خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت) صفحہ 24) 439

Page 506

فیشن سوال : ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بعض احادیث جن میں مردوں کے لئے لوہے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت آئی تھی پیش کر کے اس مسئلہ کے بارہ میں حضور انور سے رہنمائی چاہی، اور اس ضمن میں نوجوان لڑکوں کے فیشن کے طور پر ہاتھوں میں کڑے وغیرہ پہنے کا بھی ذکر کیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 دسمبر 2016ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: میں نے اس بارہ میں تحقیق کروائی ہے.آپ کی ارسال کردہ احادیث سنن ابی داؤد میں بیان ہوئی ہیں.جبکہ صحیح بخاری میں بعض ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں ذکر ہے کہ حضور الایم نے ایک صحابی سے فرمایا کہ وہ لوہے کی انگوٹھی حق مہر کے طور پر دے کر عورت سے نکاح کر لے.اسی طرح سنن ابی داؤد میں یہ احادیث بھی موجود ہیں کہ حضور ام کی اپنی انگو ٹھی لو ہے کی تھی جس پر چاندی لپٹی ہوئی تھی.مذکورہ بالا احادیث کی تشریح میں علمائے احادیث نے یہ بھی لکھا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی کی کراہت والی حدیث ضعیف ہے ، نیز یہ کہ اگر لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہو تا تو جس طرح حضور ﷺ نے مرد کے لئے سونا پہننا منع فرمایا ہے، اسی طرح لوہے کے پہنے کی بھی واضح طور پر ممانعت بیان فرماتے.البتہ نوجوان لڑکوں کا ہاتھوں میں کڑے وغیرہ پہنا تو ویسے ہی ناپسندیدہ فعل ہے اس لئے آپ نے جو اس بارہ میں لڑکوں کو توجہ دلائی ہے بہت اچھا کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے.آمین (قسط نمبر 4، الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 440

Page 507

قبل از پیدائش وفات سوال : ایک خاتون نے اپنی بچی کی قبل از پیدائش وفات پر بعض سوالات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بغرض استفسار تحریر کئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: جو بچی پیدائش سے پہلے فوت ہو گئی ہے اس کی تصویر گھر میں لگا کر اپنے آپ کو مزید تکلیف دینے والی بات ہے.اور ویسے بھی چونکہ وہ بچی پیدا ہونے سے پہلے فوت ہو گئی تھی اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس کی تصویر اتنی صاف نہ ہو اور دوسرے بچوں کو خوفزدہ کرنے کا باعث ہو.اس لئے اس بچی کی تصویر گھر میں لگانے اور اپنے پاس رکھنے کی ضرورت نہیں.پیدائش سے پہلے فوت ہونے والے بچوں کو عموما نہ غسل دیا جاتا ہے اور نہ ان کا جنازہ ہوتا ہے لیکن اگر کوئی والدین اپنی دلی تسکین کے لئے ایسا کر لیں تو اس میں حرج بھی کوئی نہیں.جہاں تک روزانہ قبرستان جانے کی بات ہے تو اگر آپ بچی کی قبر پر جاکر صبر کر سکتی ہیں اور آپ کے روزانہ قبرستان جانے میں آپ اور باقی گھر والوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تو کچھ دن روزانہ قبرستان جا کر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں.لیکن اگر وہاں جانے سے آپ کی طبیعت پر برا اثر پڑتا ہو اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہو تو پھر روزانہ قبرستان جانے کی بجائے گھر میں ہی رہ کر دعا کریں.اور یاد رکھیں کہ یہ بچی دراصل آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے آپ کو اتنے ہی وقت کے لئے عطا فرمائی تھی اور جب یہ وقت ختم ہوا تو اس نے اپنی امانت واپس لے لی.لہذا اسے اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر آپ کو اس پر صبر کرنا چاہیئے..(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 441

Page 508

قرآن کریم سوال : حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ سویڈن کی Virtual ملاقات مورخہ 29 اگست 2020 ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس ملاقات سے ایک روز قبل اسلام مخالف گروپ کی طرف سے سویڈن میں قرآن کریم کے نسخہ کو جلانے کی مذمت، اس کی وجہ اور اس پر ایک احمدی مسلمان کے رد عمل کے بارہ میں رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: جواب: یہاں تو سنا ہے کہ کل رات فساد بھی ہوئے ہیں، اس کا اثر تو آپ کے شہر یا علاقہ میں نہیں ہے؟ محترم امیر صاحب سویڈن کے جواب پر کہ رات کو یہ فسادات ہوئے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات ٹھیک ہیں.حضور انور نے فرمایا:.اب یہ جو اسلام کے بارہ میں Misconceptions ہے، اس کو آپ نے ہی دُور کرنا ہے.یہ جو شخص کھڑا ہوا ہے کہ میں قرآن جلا دوں گا.اور اس کو ٹھیک ہے پولیس نے نہیں اجازت دی لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی کہہ دیا کہ اسے اپیل کرنے کا Right ہے، وہ اپیل کر سکتا ہے.اور بعض اس کے جو Followers تھے یا اس کے گروپ کے لوگ تھے، انہوں نے پارک میں جا کر کل رات کو قرآن کریم جلا بھی دیا.تو یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لئے کہ انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے، قرآن کریم کی تعلیم کیا ہے.اور اس لئے کہ مسلمانوں کے جو دہشت گرد عمل ہیں وہ ان کو یہی بتاتے ہیں کہ ہاں یہ شاید قرآن میں ہی ہو گا.وہ ایک آیت کو تو پکڑ لیتے ہیں کہ قتال کر دیا جنگ کرو.جو باقی دوسرے حکم ہیں کہ کن حالات میں کرو، اس کا ان لوگوں کو کوئی نہیں پتہ.تو یہ چیزیں ان لوگوں کو پتہ ہونی چاہئیں.اس لحاظ سے بھی آپ تبلیغ کاPlan کریں.(قسط نمبر 11، الفضل انٹر نیشنل 12 مارچ 2021ء صفحہ 11) 442

Page 509

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کے 30 پارے ہونے میں کیا خدائی حکمت ہو سکتی ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 جنوری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آیات اور سورتوں کی شکل میں نازل فرمایا اور آنحضور الم نے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی رہنمائی سے اس کی موجودہ ترتیب کو قائم فرمایا.جہاں تک قرآن کریم کو منازل، پاروں اور رکوعات میں تقسیم کرنے کا معاملہ ہے تو یہ بعد میں لوگوں نے قرآن کریم کو پڑھنے کی سہولت کے پیش نظر مختلف وقتوں میں ایسا کیا.اسی لئے قرآن کریم کے قدیم نسخہ جات میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں ہے.احادیث میں آتا ہے کہ بعض ایسے صحابہ جو اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے صرف نفلی عبادات میں ہی مشغول رہتے تھے ، ان کے بارہ میں اطلاع ملنے پر حضور ام نے انہیں جو نصائح فرمائیں ان میں سارے قرآن کریم کی تلاوت کے لئے بھی حضور ﷺ نے دنوں کی حد بندی فرمائی تھی.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے بارہ میں آتا ہے کہ حضور ام نے انہیں فرمایا کہ پورے مہینہ میں قرآن مجید ختم کیا کرو.انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ! میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا ہیں دنوں میں پڑھ لیا کرو.انہوں نے عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ دس دنوں میں ختم کر لیا کرو.انہوں نے عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا پھر سات دنوں میں مکمل کر لیا کرو اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں مت ڈالو کیونکہ تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے.(صحیح مسلم كتاب الصيام) بعض کا خیال ہے کہ حضور الم کے اس ارشاد کی روشنی میں بعد میں لوگوں نے اپنی سہولت کے لئے قرآن کریم کو تیس پاروں اور سات منازل میں تقسیم کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ ایک 443

Page 510

مہینہ میں اور کم سے کم سات دنوں میں قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرنے والے کے لئے آسانی پیدا ہو سکے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے طلباء اور اساتذہ کی سہولت کے لئے قرون وسطی میں قرآن کریم کو منازل اور پاروں میں تقسیم کیا گیا.اور یہ تقسیم کسی مضمون کے اعتبار سے نہیں بلکہ قرآن کریم کے حجم کے لحاظ سے کی گئی ہے.قرآن کریم کی رکوعات میں تقسیم کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ کام حجاج بن یوسف کے زمانہ میں ہوا اور بعض روایات کے مطابق یہ تقسیم حضرت عثمان نے فرمائی تھی.نیز یہ کہ نمازوں کی رکعات میں ایک خاص حصہ قرآن کی تلاوت کی سہولت پیدا کرنے کے لئے رکوعات کی یہ تقسیم کی گئی.بہر حال جو بھی ہو، یہ امر متحقق ہے کہ قرآن کریم کی یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ہی حضور ﷺ کی بیان فرمودہ ہے ، بلکہ بعد کے زمانوں کی تقسیم ہے، اسی لئے عرب اور غیر عرب دنیا کے مختلف علاقوں میں شائع ہونے والے قرآن کریم کے نسخہ جات میں بعض پاروں کی تقسیم میں فرق بھی پایا جاتا ہے.البتہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس تقسیم سے نہ تو قرآن کریم کے مطالب سمجھنے میں کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت پر کوئی حرف آتا ہے.(قسط نمبر 30، الفضل انٹر نیشنل 11مارچ 2022ء صفحہ 11) 444

Page 511

سوال : ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار کیا کہ بارہ بجے سے ایک بجے تک نیز جب سورج نکل رہا ہو تو قرآن کیوں نہیں پڑھنا چاہیئے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 مئی 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: آپ کے خط میں بیان اوقات میں قرآن کریم پڑھنے سے تو کہیں منع نہیں کیا گیا.البتہ دن کے تین اوقات میں (جب سورج طلوع ہو رہا ہو ، جب سورج غروب ہو رہا ہو اور دو پہر کے وقت جب سورج عین سر پر ہو) آنحضور ﷺ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور حضور ا نے اس ممانعت کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے.چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ السلمی روایت کرتے ہیں : قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُهُ أَخْبِرْنِي عَنِ الصَّلَاةِ قَالَ صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِيْنَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَي شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكَفَّارُ ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُوْرَةٌ حَتَّي يَسْتَقِل الظُّلُّ بِالرُّمْحِ ثُمَّ أَقْصِرُ عَنِ الصَّلَاةِ فَإِنَّ حِيْنَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْء فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُوْرَةٌ حَتَّي تُصَلِّيَ الْعَصْرَ ثُمَّ أَقْصِرُ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّي تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ (صحیح مسلم کتاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا باب اسلام عمرو بن عبسه) یعنی میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! مجھے اس بارہ میں بتائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اس سے بے خبر ہوں.مجھے نماز کے بارہ میں بتائیے.حضور الم نے فرمایا کہ صبح کی نماز پڑھو، پھر نماز سے رُکے رہو یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور بلند ہو جائے کیونکہ جب یہ طلوع ہو رہا ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں.پھر نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی گواہی دی جاتی ہے 445

Page 512

اور اس میں حاضر ہوا جاتا ہے یہاں تک کہ سایہ کم ہو کر نیزہ کے برابر ہو جائے.پھر نماز سے ڑ کے رہو یقیناً اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے.پھر جب سایہ ڈھل جائے تو نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی گواہی دی جاتی ہے اور اس میں حاضر ہوا جاتا ہے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو.پھر سورج کے غروب ہونے تک نماز سے رُکے رہو کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں.پس ان تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا.لیکن قرآن کریم پڑھنے کی کوئی ممانعت نہیں.اس لئے قرآن کریم آپ بے شک جس وقت چاہیں پڑھیں، اس میں کوئی روک نہیں ہے.(قسط نمبر 36، الفضل انٹر نیشنل 17 جون 2022ء صفحہ 11) 446

Page 513

سوال: قرآن کریم کی حافظہ ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا میرے والد صاحب میری اقتداء میں نماز تراویح ادا کر سکتے ہیں؟ اور اگر نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کا آغاز کرنا ہو تو کیا پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دوبارہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ البقرۃ کی قراءت شروع کی جائے گی؟ نیز یہ کہ جہری نمازوں میں سورتوں کی قراءت سے قبل بِسمِ اللہ بھی اونچی آواز میں پڑھنی چاہیئے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 جولائی 2021ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: اسلام نے نماز باجماعت کی فرضیت صرف مردوں پر عائد فرمائی ہے اور عورتوں کا باجماعت نماز ادا کرنا محض نفلی حیثیت قرار دیا ہے.اس لئے مردوں کی موجودگی میں کوئی عورت نماز باجماعت میں ان کی امام نہیں بن سکتی.آنحضور لا یتیم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے کبھی کسی عورت کو مردوں کا امام مقرر نہیں فرمایا.اسی طرح اس زمانہ کے حکم وعدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جب کبھی کسی علالت کی وجہ سے گھر پر نماز ادا فرماتے تو باوجو د علالت کے نماز کی امامت خود کراتے.پس نفل نماز ہو یا فرض، اگر کسی جگہ پر مرد اور عورتیں دونوں موجود ہوں تو نماز باجماعت کی صورت میں نماز کا امام مرد ہی ہو گا.2.نماز کے دوران قرآن کریم کی تلاوت آغاز سے شروع کرتے وقت بھی طریق یہی ہے کہ نماز میں پڑھی جانے والی سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ البقرۃ کی تلاوت شروع کی جائے گی ، دوبارہ سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی.البتہ فقہاء نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ قرآن کریم ختم کرنے کی صورت میں اگر کوئی شخص نماز میں سورۃ الناس کے بعد دوبارہ قرآن کریم کا کچھ ابتدائی حصہ پڑھنا چاہے تو وہ سورۃ فاتحہ سے آغاز کر سکتا ہے اور اس کے بعد سورۃ البقرۃ کا بھی کچھ حصہ پڑھ سکتا ہے، اس میں کچھ حرج کی بات نہیں لیکن ابتداء میں سورۃ فاتحہ کا تکرار بعض فقہاء کے نزدیک موجب سجدہ سہو ہے.447

Page 514

3.نماز میں سورۃ کی تلاوت شروع کرنے سے قبل بسم اللہ بلند آواز میں پڑھنا یا آہستہ پڑھنا ہر دو طریق درست اور رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں.چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ا ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان سب کے پیچھے نماز پڑھی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی میں نے بسم اللہ بالجہر پڑھتے نہیں سنا.(صحیح مسلم كتاب الصلاة باب حجة من قال لا يجهر بالبسملة) نعیم بن المجر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرۃ" کی امامت میں نماز پڑھی، انہوں نے بسم اللہ اونچی آواز میں تلاوت کی پھر سورۃ فاتحہ پڑھی.پھر جب غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پر پہنچے تو انہوں نے آمین کہی تو لوگوں نے بھی آمین کہی.جب آپ سجدہ میں جاتے تو اللهُ أَكْبَر کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو اللهُ أَكْبَرُ کہتے.پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو کہا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں نماز کے معاملہ میں تم میں سے سب زیادہ آنحضرت ا کی نماز سے مشابہ ہوں.(یعنی میری نماز حضور م کی نماز سے مشابہ ہے ) ( سنن نسائي كتاب الافتتاح باب قرأة بسم الله الرحمن الرحيم) حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ حضور ام بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جہر اپڑھا کرتے تھے.(المستدرك للحاكم كتاب الامامة وصلاة الجماعة باب التامين) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بسْمِ اللہ جہراً اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے.ہمارے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ( اللهم اغفره وارحمه) جو شیلی طبیعت رکھتے تھے.بِسمِ اللہ جہر آ پڑھا کرتے تھے.حضرت مرزا صاحب جہر اُنہ جہراًنہ پڑھتے تھے.ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں.صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو.ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے.بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھا تو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے.مجھے ہر دو طرح مزا آتا ہے.کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ 448

Page 515

" پڑھے.( بدر نمبر 32 جلد 11، 23 مئی 1912ء صفحہ 3) حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری روایت کرتے ہیں.میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بِسْمِ اللهِ بِالجہر پڑھتے سنا ہے.خاکسار (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.ناقل ) عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبد اللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا.بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے.بعض رفع یدین کرتے ہیں اکثر نہیں کرتے.بعض بسم اللہ بالجہر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت ا سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت ا نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحب کا عمل تھا.(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 147 148 روایت نمبر 154، مطبوعہ فروری 2008ء) (قسط نمبر 40 ، الفضل انٹر نیشنل 23 ستمبر 2022ء صفحہ 11) 449

Page 516

قرب الہی سوال : ایک طالبعلم نے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کیا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: اللہ کی عبادت کرو.اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ میں نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ.اور اپنی پیدائش کا جو حق ہے وہ ادا کرو.پہلی بات تو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ایمان بالغیب.ایمان بالغیب کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمايا يُقِيمُونَ الصَّلاةَ ، نمازیں قائم کرو.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے نماز قائم کرو، تو دوسری اہم چیز عبادت ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد نمازوں کی ادائیگی ہے.پھر آنحضرت الله اعلم نے فرمایا کہ نماز میں انسان جب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب ہوتا ہے.اس لئے سجدہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا قرب عطا کرے.جو تم سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہیں تو ہو.اللہ سے کہو جو دولت میں تجھ سے مانگ رہا ہوں وہ تم ہی ہو.مجھے پیسہ نہیں چاہیئے، مجھے دنیا نہیں چاہیے.مجھے تیرا قرب چاہیئے.اور جب تیرا قرب مل جائے گا تو دنیا کی دولت بھی میری لونڈی بن جائے گی ، میری غلام بن جائے گی اور دنیا کی سہولتیں بھی میری غلام بن جائیں گی.اور میری روحانیت بھی بڑھ جائے گی.تو پھر سجدہ میں دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا قرب عطا کرے.(قسط نمبر 24، الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 450

Page 517

سوال: اردن سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوائے کہ کیا نظروں سے اوجھل ہر چیز جن ہوتی ہے اور کیا ابلیس اور فرشتے بھی جن ہو سکتے ہیں ؟ کیا احمدی عفریت کے وجود پر یقین رکھتے ہیں ؟ ہم نے پڑھا ہے کہ آنے والے مهدی آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے، کیا ہم واقعی آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی یا حضرت محمدالم یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قسم کھا سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 فروری 2022ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: باقی جہاں تک قسم کھانے کا معاملہ ہے تو ایک تو بلا وجہ قسمیں نہیں کھانی چاہئیں.اور اگر ضرورت ہو اور قسم کھانے والا حق پر ہو تو وہ صرف خدا تعالیٰ کی قسم کھا سکتا ہے.کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کی قسم کھائے.حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور الل لم نے فرمایا: لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ وَلَا بِأُمَّهَاتِكُمْ وَ لَا بِالْأَنْدَادِ وَلَا تَحْلِفُوا إِلَّا بِاللهِ وَلَا تَحْلِفُوْا بِاللَّهِ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُونَ (سنن ابي داؤد کتاب الایمان والنذور) یعنی اپنے باپوں اور اپنی ماؤں اور بتوں کی قسم مت کھاؤ.بلکہ اللہ کے سوا کسی کی بھی قسم مت کھاؤ اور اللہ کی قسم بھی صرف اس صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو.(قسط نمبر 52، الفضل انٹر نیشنل 8 اپریل 2023ء صفحہ 4) 451

Page 518

قول صحابی رسول الله لم سوال : ایک دوست نے اصول فقہ کے قانون ” قول صحابی رسول اہم شرعی حکم کے استنباط کے لئے دلیل ہے“ کے بارہ میں حضور انور سے رہنمائی کی درخواست کی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 جولائی 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: اس امر میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ حضور ام کے تربیت یافتہ تھے ، انہوں نے حضور الم سے علم و عرفان حاصل کیا.اور وہ مقاصد شریعت کو زیادہ اچھی طرح جانتے تھے.لیکن اس کے باوجو د اصول فقہ والوں کا یہ قانون ایک hard and fast rule کے طور پر نہیں مانا جاسکتا.کیونکہ اقوال صحابہ بھی احادیث ہی کی طرح آنحضور لم اور صحابہ کا دور گزرنے کے بعد جمع کئے گئے.صحابہ رسول الم کے اقوال کا درجہ تو یقیناً احادیث نبوی لیم کے بعد آتا ہے.جبکہ بہت سی احادیث پر علماء و فقہاء نے جرح کر کے انہیں ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے.امام المحدثین حضرت امام بخاری کو چھ لاکھ کے قریب احادیث یاد تھیں جن میں سے انہوں نے سولہ سال کی محنت شاقہ کے بعد صرف تین ہزار کے قریب احادیث کو اپنی صحیح میں شامل فرمایا.دوسری صدی ہجری کے مؤرخ واقدی کی بیان کردہ متعدد احادیث ایسی ہیں جن کو علماء نے قابل استناد قرار نہیں دیا.پس اصل بات وہی ہے جو حضور الم کے غلام صادق اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مبعوث ہونے والے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے کہ : کون ایسا مومن ہے جو قرآن شریف کو حدیثوں کے لئے حکم مقرر نہ کرے؟ اور جب کہ وہ خود فرماتا ہے کہ یہ کلام حکم ہے اور قول فصل ہے اور حق اور باطل کی شناخت کے لئے فرقان ہے اور میزان ہے تو کیا یہ ایمانداری ہو گی کہ ہم خدا تعالیٰ کے ایسے فرمودہ پر ایمان نہ لاویں ؟ اور 452

Page 519

اگر ہم ایمان لاتے ہیں تو ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہیئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکوۃ وحی سے نور حاصل کرنے والے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں.“ الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 22) پس اس تعلیم کی روشنی میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کے وہ اقوال جو قرآن کریم، سنت نبویہ الم اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہیں، شرعی احکام کے استنباط کے لئے دلیل شمار ہوں گے.(قسط نمبر 26، الفضل انٹر نیشنل 07 جنوری 2022ء صفحہ 11) 453

Page 520

قوم لُوط سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ قوم لوط کے دو شہروں سدوم اور عمورہ کے لوگوں کو ان کے گناہوں زنا اور ہم جنس پرستی وغیرہ کی پاداش میں جلا دیا گیا تھا اور کیا یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 اپریل 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے: جواب: قرآن نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ حضرت لوط کی قوم کو جلایا گیا تھا بلکہ یہ بائبل کا بیان ہے.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ: " تب خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پر آسمان سے جلتی ہوئی گندھک برسائی.اس طرح اس نے ان شہروں کو اور سارے میدان کو ، ان شہروں کے باشندوں اور زمین کی ساری نباتات سمیت غارت کر دیا.لیکن لوط کی بیوی نے پیچے مڑ کر دیکھا اور وہ نمک کاستون بن گئی.“ پیدائش باب 19 آیت 24 تا 27) اسی طرح لکھا ہے کہ : ” اور یہ بھی دیکھیں گے کہ سارا ملک گویا گندھک اور نمک بنا پڑا ہے اور ایسا جل گیا ہے کہ اس میں نہ تو کچھ بویا جاتا نہ پیدا ہو تا اور نہ کسی قسم کی گھاس اُگتی ہے اور وہ سدوم اور عمورہ اور آدمہ اور ضبو ٹیم کی طرح اُجڑ گیا جن کو خُداوند نے اپنے غضب اور قہر میں تباہ کر ڈالا.“ (استثناء باب 29 آیت 23) گویا بائبل کے بیان کے مطابق ان لوگوں کو جلایا اور گندھک اور نمک بنا دیا گیا تھا.جبکہ اس کے مقابلہ پر قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم جن میں انبیاء کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا، انہیں بُرا بھلا کہنا، ان کا انکار کرنا، انہیں ان کے وطنوں سے نکال دینے کی 454

Page 521

دھمکی دینا، ان کے ساتھیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، راہگیروں کو لوٹنا، ہمسایوں اور مہمانوں کے ساتھ نہایت بُرا سلوک کرنا، کمزور لوگوں کو تنگ کرنا، بد فعلی اور ہم جنس پرستی میں مبتلا ہونا وغیرہ جیسے گناہ شامل تھے.انہیں ان گناہوں کی پاداش میں زلزلہ کے ذریعہ اس طرح تباہ کیا کہ ان کی بستیوں کو تہہ و بالا کر کے ان پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی.چنانچہ سورۃ الحجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ وَاتَّقُوا اللهَ وَلَا تُخْزُونِ قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِيْنَ قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِيْنَ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيْلِ.(سورة الحجر: 68 تا 75) یعنی اور اس شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے اس ( یعنی لوط) کے پاس آئے (اس خیال سے کہ اب اسے پکڑنے کا موقعہ مل گیا ہے) (جس پر اس نے (ان سے) کہا (کہ) یہ لوگ میرے مہمان ہیں.تم (انہیں ڈرا کر مجھے رسوا نہ کرو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور مجھے ذلیل نہ کرو.انہوں نے کہا ہم نے تمہیں ہر ایرے غیرے کو اپنے پاس ٹھہرانے سے روکا نہ تھا.اس نے کہا (کہ) اگر تم نے (میرے خلاف) کچھ کرنا (ہی) ہو تو یہ میری بیٹیاں (تم میں موجود ہی) ہیں (جو کافی ضمانت ہیں).(اے ہمارے نبی !) تیری زندگی کی قسم (کہ) یہ (تیرے مخالفین بھی) یقیناً (انہی کی طرح) اپنی بدمستی میں بہک رہے ہیں.اس پر اس (موعود) عذاب نے انہیں ( یعنی لوط کی قوم کو دن چڑھتے (ہی) پکڑ لیا.جس پر ہم نے اس بستی کی اوپر والی سطح کو اس کی نچلی سطح کر دیا اور ان پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت میں بیان ہونے عذاب کی حکمت بیان کرتے ہوئے اور سنگریزوں کی بارش کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لوط کی قوم نے چونکہ اعلیٰ اخلاق چھوڑ کر ادنی اخلاق اختیار کئے تھے.اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی ان کے شہر کے اوپر کے حصہ کو نیچے کر دیا اور 455

Page 522

کہا کہ جاؤ پھر نیچے ہی رہو.بعض لوگ کہتے ہیں پتھر کیونکر گرے.اس کا جواب یہ ہے کہ شدید زلزلہ سے بعض دفعہ زمین کا ٹکڑا اوپر اٹھ کر پھر نیچے گرتا ہے.ایسا ہی اس وقت ہوا.زمین جو پتھریلی تھی.اوپر اٹھی اور پھر دھنس گئی اور اس طرح وہ پتھروں کے نیچے آگئے.یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ان کے گھروں کی دیواریں ان پر آپڑیں.معلوم ہوتا ہے وہ لوگ پتھروں سے مکان بنایا کرتے تھے.سجیل کہتے بھی ہیں اس پتھر کو جو گارہ سے ملا ہوا ہو.پس یہ ایسی دیواروں پر خوب چسپاں ہوتا ہے جن میں پتھر گارہ سے لگائے گئے ہوں.“ 66 ( تفسیر کبیر جلد چہارم، سورۃ حجر : 66، صفحہ 99) ایک اور جگہ پتھروں کی بارش کی وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: یہ بارش دراصل پتھروں کی تھی جو ایک خطرناک زلزلہ کے نتیجہ میں ہوئی.یعنی زمین کا تختہ الٹ گیا اور مٹی سینکڑوں فٹ اوپر جا کر پھر نیچے گری اور اس طرح گویا مٹی اور پتھروں کی ان پر بارش ہوئی.“ پھر سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ( تفسیر کبیر جلد ہفتم ، سورۃ النمل: 22، صفحہ 408) كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُوْنَ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوْنِ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَي رَبِّ الْعَالَمِينَ أتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِيْنَ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُوْنَ قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا لُوْطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِيْنَ رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِيْنَ إِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغَابِرِيْنَ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِيْنَ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرينَ 456 (سورة الشعراء :161 تا 174)

Page 523

یعنی لوط کی قوم نے بھی رسولوں کا انکار کیا.جبکہ ان کے بھائی لوط نے کہا کہ کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے.میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں.پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو.اور میں اس (کام) کے بدلہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا.میرا اجر تو صرف رب العالمین کے ذمہ ہے.کیا تمام مخلوقات میں سے تم نے نروں کو اپنے لئے چنا ہے.اور تم ان کو چھوڑتے ہو جن کو تمہارے رب نے تمہاری بیویوں کی حیثیت سے پیدا کیا ہے (صرف یہی نہیں کہ تم ایسا فعل کرتے ہو) بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم ( انسانی فطرت کے) تقاضوں کو ہر طرح توڑنے والی قوم ہو.انہوں نے کہا، اے لوط ! اگر تو باز نہ آیا تو تو ملک بدر کئے جانے والوں میں شامل ہو جائے گا.(لوط نے ) کہا (بہر حال) میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں.اے میرے رب! مجھے اور میرے اہل کو ان کے اعمال سے نجات دے.پس ہم نے اس کو اور اس کے اہل کو سب ہی کو نجات دی.سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں شامل ہو گئی.پھر (لوط کو نجات دینے کے بعد سب دوسروں کو ہم نے ہلاک کر دیا.اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی.اور جن کو (خدا کی طرف سے ) ہوشیار کر دیا جاتا ہے (لیکن پھر بھی باز نہیں آتے) ان پر برسائی جانے والی بارش بہت بری ہوتی ہے.علاوہ ازیں سورۃ الاعراف سورة التوبه ، سورة هود، سورة النمل، سورۃ العنکبوت، سورۃ ق اور سورۃ القمر میں بھی اس قوم کے گناہوں اور ان پر نازل ہونے والے خدائی عذاب کا ذکر آیا ہے.پس ان تمام قرآنی آیات کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس قوم کو ان کے گناہوں کی پاداش میں زلزلہ اور مٹی و پتھروں کی طوفانی بارش کے ذریعہ ہلاک کیا گیا.آگ سے نہیں جلایا گیا تھا.(قسط نمبر 35، الفضل انٹر نیشنل 03 جون 2022ء صفحہ 10) 457

Page 524

کاروبار میں اشیاء کی قیمت کی قسطوں میں ادائیگی سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ عام ضرورت کی اشیاء کی فروخت کے کاروبار میں اشیاء کی قیمت قسطوں میں ادا کرنے والوں سے عام قیمت سے کچھ زیادہ لینا سود تو نہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مارچ 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آپ اپنے کاروبار میں چیز خریدنے والوں کو اگر پہلے بتا دیں کہ نقد کی صورت میں اس چیز کی اتنی قیمت ہو گی اور اگر وہ اُسی چیز کی قیمت قسطوں میں ادا کریں گے تو انہیں اتنے پیسے زیادہ دینے پڑیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ سود کے زمرہ میں نہیں آتا.کیونکہ اس صورت میں آپ کو قسطوں میں چیزیں خریدنے والوں کا باقاعدہ حساب رکھنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ انہیں ان کی قسطوں کی ادائیگی کے لئے یاد دہانیاں بھی کروانی پڑیں، جس پر بہر حال آپ کا وقت صرف ہو گا اور دنیاوی کاموں میں وقت کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے چنانچہ ملازمت پیشہ لوگ اپنے وقت ہی کی بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں.(قسط نمبر 23، الفضل انٹر نیشنل 19 نومبر 2021ء صفحہ 12) 458

Page 525

کاروباری کمپنی میں نفع و نقصان کی شراکت کی شرط کے ساتھ سرمایہ کاری سوال: کسی کاروباری کمپنی میں نفع و نقصان کی شراکت کی شرط کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دار الافتاء کی ایک رپورٹ کے بارہ میں رہنمائی فرماتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ارشاد فرمایا: جواب: دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی کئی قسم کے کاروبار کرتی ہیں.کچھ کاروبار انہوں نے ظاہر کئے ہوتے ہیں، جن میں کسی قسم کی شرعی یا قانونی خلاف ورزی نہیں ہوتی لیکن کچھ کاروبار انہوں نے سائیڈ بزنس کے طور پر اختیار کئے ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے Profile میں Highlight نہیں کرتیں.اور ایسے کاروباروں میں بعض اوقات دینی یا قانونی قواعد و ضوابط کا پوری طرح خیال نہیں رکھا گیا ہو تا.پس اگر کسی کمپنی کے کاروبار کی تفصیلات واضح ہوں یا آسانی سے ان کے کاروبار کی تفصیلات معلوم ہو سکیں اور ان میں کوئی غیر اسلامی یا غیر قانونی شق موجود ہو تو پھر ایسی کمپنی کے ساتھ نفع نقصان میں شراکت کی شرط کے ساتھ بھی کاروبار نہیں کرنا چاہیئے.ہاں یہ ٹھیک ہے کہ چونکہ آجکل اکثر مسائل زیر و زبر ہو گئے ہیں.لہذا کمپنی کے جو کاروبار نظر آ رہے ہوں ان میں اگر کوئی غیر اسلامی یا غیر قانونی شق نہ ہو تو پھر نفع و نقصان میں شراکت کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں.اگر اس کمپنی نے اپنے کاروبار کا کچھ حصہ سائیڈ بزنس کے طور پر رکھا ہوا ہے جس کے بارہ میں وہ اپنے شراکت داروں کو کچھ نہیں بتاتی تو پھر اس بارہ میں بلاوجہ وہم میں پڑنے یا خواہ مخواہ کرید کرنے کی ضرورت نہیں.لیکن اگر پتہ چل جائے کہ غیر قانونی ہے تو پھر اس سے علیحد گی کر لینی چاہیئے.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 459

Page 526

کتب حضرت مسیح موعود سوال : ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ غیر احمدی مسلمان جن میں میرے خاندان والے بھی شامل ہیں اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے کہ جس نے میری ساری کتب تین دفعہ نہیں پڑھیں اسے میرے دعوی کی سمجھ نہیں ہے.اور پھر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا سب احمدیوں نے یہ کتب تین دفعہ پڑھی ہیں؟ اس کا کیا جواب دیا جائے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ جس نے میری ساری کتب تین دفعہ نہیں پڑھیں اسے میرے دعویٰ کی سمجھ نہیں ہے.بلکہ حضور علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ : اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبیر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 403) حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کا مطلب ہے کہ جن لوگوں کی دنیاوی کتب اور علوم کی طرف توجہ رہتی ہے اور دینی کتب اور علوم کی طرف توجہ نہیں کرتے ان میں ایک طرح کا تکبر پایا جاتا ہے کیونکہ وہ دنیاوی علوم کو ہی کافی سمجھتے ہیں حالانکہ انسان کی نجات کے لئے دینی علوم کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے.اور دینی علوم دینی کتب کے پڑھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے.ایک جگہ حضور علیہ السلام نے اپنی تصنیف ”حقیقۃ الوحی“ کے بارہ میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ”ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ حقیقۃ الوحی کو اوّل سے آخر تک بغور پڑھیں بلکہ اس کو یاد کر لیں.کوئی مولوی ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکے 460

Page 527

گا کیونکہ ہر قسم کے ضروری امور کا اس میں بیان کیا گیا ہے اور اعتراضوں کے جواب دیئے گئے ہیں.“ ( ملفوظات جلد نہم ، صفحہ 192، ایڈیشن 2022ء) پس اگر یہ بات درست ہوتی کہ جو شخص حضور علیہ السلام کی تمام کتب کو تین تین مرتبہ نہیں پڑھتا اسے دعوی کی سمجھ نہیں آسکتی تو حضور علیہ السلام ”حقیقۃ الوحی“ کے بارہ میں ایک دفعہ غور سے پڑھنے کی تاکید نہ فرماتے بلکہ فرماتے کہ اسے بھی باقی کتب کی طرح تین تین دفعہ پڑھیں.حضور علیہ السلام نے خود ایسا کہیں نہیں تحریر فرمایا البتہ سیرت المہدی میں ایک روایت ہے کہ: ”حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے.“ سیرت المہدی جلد اول صفحہ 365 روایت نمبر (410) اور اس روایت کا بھی وہی مطلب ہے جو اوپر میں نے بیان کر دیا ہے کہ دینی کتب کو چھوڑ کر صرف دنیوی کتب پڑھنا اور دینی علوم کو چھوڑ کر صرف دنیوی علوم حاصل کرنا انسان میں کبر کے پائے جانے کی عکاسی کرتا ہے.پس ہر احمدی کو زیادہ سے زیادہ ان روحانی خزائن سے استفادہ (قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) کرنا چاہیئے.461

Page 528

کرایہ کے اپارٹمنٹ کے برتنوں کا استعمال کرنا سوال : یو کے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ہم عشاء کی نماز میں وتر کی آخری رکعت الگ پڑھتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز یہ کہ جب ہم Holidays پر جاتے ہیں اور اپارٹمنٹ بک کرتے ہیں تو کیا ہم وہاں کے Frying pans وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 12 اکتوبر 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: باقی جہاں تک Holidays کے دوران کرایہ کے اپارٹمنٹ کے برتنوں کے استعمال کا تعلق ہے تو ان برتنوں کو اچھی طرح دھو کر استعمال کر سکتے ہیں.اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.(قسط نمبر 45، الفضل انٹر نیشنل 16 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 462

Page 529

کرونا وائرس سوال: ایک طفل نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آجکل کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے، حضور کے لئے سفر کرنا کب Safe ہو گا اور حضور کب کینیڈا تشریف لائیں گے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: یہ تو میں نہیں جانتا کہ کرونا وائرس کب ختم ہو گا.تم آپ ہی کہتے ہو کہ کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے ، سفر نہیں ہو سکتا.تو پھر دعا کرو، جب کرونا وائرس ختم ہو جائے گا تو پھر کینیڈا کا سفر بھی ہو جائے گا.یہ تو تمہاری دعاؤں پہ Depend کرتا ہے کہ کتنی جلدی تم اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگتے ہو.اللہ تعالیٰ سے فضل مانگو گے تو جلدی یہ بیماری دور ہو جائے گی.پھر تمہارے ملک کی طرح کئی اور ملک بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ آئیں، پر نہیں جاسکتے.اب پتہ نہیں کینیڈا کی باری کب آتی ہے؟ چلو جب کرونا وائرس ختم ہو جائے گا، سفر کی اجازت ہو جائے گی، میں نہ آیا تو تم آ جانا، یہاں آ کے مل لینا.ٹھیک ہے.ویسے تو تمہاری مسجد وغیرہ دیکھ کے اس وقت مجھے لگ رہا ہے کہ میں کینیڈا میں ہی بیٹھا ہوا ہوں.جس طرح ہواؤں کے ذریعہ ہم نے کینیڈا کا نظارہ کر لیا ہے ، اس وقت ہم ساری چیزوں کا نظارہ کر رہے ہیں، تو یہی سارے نظارے اس پہلے والے طفل نے جو معراج کے متعلق سوال کیا تھا تو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بغیر سیٹلائیٹ کے آنحضرت م کو جنت کا ڈسٹینٹ ویو (Distant View) دکھا دیا تھا.جس طرح میں تمہاری مسجد دیکھ رہا ہوں اور مجھے یاد آگیا کہ فلاں جگہ بیٹھ کے میں نے تمہارے ایک جر نلسٹ کو انٹر ویو بھی دیا تھا.مسجد کے پچھلے حصہ میں وہ کو نہ بھی مجھے نظر آرہا ہے کہ کس جگہ تھا.تو اسی طرح نظارے کے پتہ لگ جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ فضل کرے، جب بھی کرونا وائرس ختم ہو گا تو پھر انشاء اللہ تعالی آئیں گے.جتنی زور سے تم لوگ دعائیں کرو گے اتنی جلد اللہ فضل کرے گا.(قسط نمبر 9، الفضل انٹر نیشنل 12 فروری 2021ء صفحہ 12) 463

Page 530

سوال : اس سوال پر کہ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی موجودہ صورتحال میں تبلیغ کا کام کس طرح کیا جائے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: جو آن لائن تبلیغ ہے وہ بہت زیادہ شروع ہو گئی ہے، واٹس ایپ پر، سوشل میڈیا پر.یہاں دیکھیں کہ لوگوں کے پاس کیا کیا سوال ہیں ؟ کیا کیا Issues اٹھتے ہیں؟ مختلف سائیٹس ہیں، ان میں جاکے ان کو بتائیں کہ ان حالات میں ہمیں اللہ تعالی کی طرف زیادہ جھکنا چاہیئے، اللہ تعالیٰ کی طرف آنا چاہیے، اس کو پہچانا چاہیے.نہ یہ کہ Atheist بن جائیں اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیں.یا یہ سمجھیں کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول نہیں کرتا یا خدا تعالیٰ نہیں ہے یا دنیا ہی سب کچھ ہے.اگر دنیا کو بچانا ہے تو یہ کرو.کیونکہ اس کے بعد پھر جو Crisis آئے گا، اس بیماری کے بعد دنیا کی Economy جب Shatter ہوتی جائے گی تو اگلا Crisis پھر یہ آئے گا کہ پھر ایک دوسرے کے مال پہ قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور جب مال پہ قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے تو جنگیں شروع ہو جائیں گی، جس کے لئے بلاک بنتے ہیں اور بلاک بننے شروع ہو چکے ہیں.تو اس سے بچنے کے لئے یہی طریقہ ہے کہ خدا کی طرف آؤ اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.لیکن جو بھی میڈیا ہے، آخر لوگوں کا دنیا سے رابطہ ہو ہی رہا ہے ناں ؟ اس میڈیا کو آپ بھی استعمال کریں، اور اس طریقہ کو آپ بھی استعمال کریں جو دنیا استعمال کر رہی ہے.میرا خیال ہے کہ آج جو باتیں ہو گئی ہیں انہی پہ آپ کام کر لیں، اور جو بعض ضروری باتیں تھیں وہ میں نے کہہ دی ہیں کہ ان (نیشنل عاملہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں.اور جو نیشنل عاملہ سے میں باتیں کر رہا ہوں تو جو متفرق مجالس ہیں ان کے متعلقہ سیکر ٹریان جو ہیں ، ان کے لئے بھی یہی باتیں ہیں، ان کو بھی یہ یاد رکھنی چاہئیں اور اس کے مطابق اپنی Policy بنانی چاہیئے اور عمل کروانا چاہیے.اگر Grassroots Level پر سارے کام ہونے شروع ہو جائیں، آپ کی مجالس کے ہر شعبہ کے جو متعلقہ سیکر ٹریان ہیں وہ اپنا اپنا کام کریں، ذمہ داری کو سمجھیں تو نیشنل عاملہ کا بھی کام آسان ہو جاتا ہے اور اس مقصد کو بھی آپ پورا کرنے والے بن جاتے ہیں جس کے 464

Page 531

لئے آپ کو عہدیدار بنایا گیا ہے اور اس طرح آپ خلیفہ وقت کے مدد گار بھی بن جاتے ہیں اور جماعت کی خدمت کا جو کام ہے اس کو بھی صحیح طرح سر انجام دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی پھر آپ کی خدمت جو ہے وہ مقبول ہوتی ہے.لیکن اگر صرف عہدہ رکھنا ہے اور عہدہ رکھ کے پھر کام نہیں کرنا اور اپنے غلط نمونے قائم کرنے ہیں، دعاؤں کی طرف توجہ نہیں دینی، آپس میں شعبوں میں تعاون نہیں کرنا، مرکزی شعبوں میں اور ذیلی تنظیموں کے شعبوں میں تعاون نہیں ہونا تو ایسے عہدوں کا کوئی فائدہ نہیں، ایسی تنظیم کو کوئی فائدہ نہیں.اور یہ آپ لوگ مجھے تو دھو کہ دے سکتے ہیں، یا نظام جماعت کو دھو کہ دے سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو دھو کہ نہیں دیا جا سکتا.اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں، ہر کام کرتے ہوئے ، ہر وقت یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ہر قول اور فعل کو دیکھتا اور سنتا ہے.اس لئے ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر کام کرنا ہے اور اس کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں، اپنی تمام Potentials کو استعمال میں لانا ہے تاکہ ہم جماعت کے صحیح فقال رُکن بھی بن سکیں اور جماعت کی صحیح رنگ میں خدمت بھی کر سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.(قسط نمبر 11 ، الفضل انٹر نیشنل 12 مارچ 2021ء صفحہ 11) 465

Page 532

سوال : حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اطفال الاحمدیہ جرمنی کی Virtual ملاقات مؤرخہ 29 نومبر 2020ء میں ایک طفل کے اس سوال پر کہ کرونا وائرس کے لئے جو آجکل ٹیکہ آیا ہوا ہے کیا وہ ہمیں لگوانا چاہیے یا نہیں ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا: جواب: اگر ثابت ہو جائے کہ وہ اچھا علاج ہے اور اگر گور نمنٹ کہتی ہے کہ لگواؤ تو لگوالو کوئی حرج نہیں ہے.لیکن پہلے اس کا لوگوں کو تجربہ تو ہو جائے کہ جن کو لگا ہے ان کو فائدہ بھی ہوتا ہے یا نہیں.صرف سوئی چبونے کے لئے نہ ٹیکہ لگوالو.اگر فائدہ ہوتا ہے تو ضرور لگوانا چاہیئے، کوئی حرج نہیں ہے.(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 466

Page 533

سوال : Virtual ملاقات مؤرخہ 29 نومبر 2020ء میں ایک طفل نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ کرونا وائرس کے ختم ہونے کے بعد دنیا پھر سے ویسے ہی نارمل ہو سکتی ہے جیسے پہلے تھی؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.نارمل ہو جائے گی لیکن کرونا وائرس کے بعد دنیا کے جو معاشی حالات، Economic حالات ہو گئے ہیں اس کا اثر دنیا پہ پڑے گا.اور اگر معاشی لحاظ سے کچھ نہ بھی ہو ، اگر جنگ نہ بھی ہو تب بھی معاشی حالات کو Stable ہوتے ہوتے کئی سال لگ جائیں گے.لیکن عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جب ایسے حالات ہوتے ہیں تو معاشی حالات بگڑتے ہیں اور پھر جنگوں کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے.اور آجکل جو دنیا کی حالت ہے وہ یہ ہے کہ جنگوں کے حالات پیدا ہو رہے ہیں.اور اگر کرونا وائرس کے بعد جنگ ہو جاتی ہے تو پھر اور بھی خطرناک حالات ہو جائیں گے.اور پھر اس کو نارمل ہوتے ہوتے بھی کئی سال لگ جائیں گے.اس لئے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور جو دنیا والے ہیں اس عرصہ میں دنیا کی طرف جھکنے اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق مارنے اور غصب کرنے کی بجائے عقل کریں، ان کے لیڈر عقل کریں اور امن اور سکون سے رہنے کی کوشش کریں اور آپس میں اکٹھے ہو کے ، دنیا کو ایک رکھ کے کوشش کریں تو جلدی دوبارہ نارمل حالات پیدا کرلیں گے.لیکن اگر انہوں نے یہ کوشش نہ کی تو پھر حالات نارمل نہیں ہوں گے.پھر حالات نارمل ہوتے ہوئے کئی سال لگیں گے اور بڑی خوفناک صورتحال پیدا ہو گی.ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ کرونا وائرس ختم ہونے کے بعد کہیں جنگوں کے حالات نہ شروع ہو جائیں.اور پھر حالات نارمل ہوتے ہوتے کئی سال لگ جائیں گے.اس لئے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ نہ کرے کہ جنگوں کے حالات ہوں اور جو دنیا کے لیڈر ہیں وہ عقل کریں اور یہ کوشش کریں کہ جلدی سے جلدی نارمل حالات قائم ہو جائیں.لیکن اس کے لئے یہی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا.اگر اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے تو پھر کوئی اور وہا، کوئی اور بلا، کوئی اور چیز ، 467

Page 534

ان پہ آئے گی اور پھر ان کو مار پڑے گی.تو جب تک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے، اللہ کے حقوق ادا نہیں کرتے اور اس کے بندوں کے حق ادا نہیں کرتے اس وقت تک حالات نارمل نہیں ہو سکتے.اس لئے ہم احمدیوں کو بھی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیئے، تبلیغ کرنی چاہیئے اور لوگوں کو بتانا چاہیے کہ دنیا کے حالات نارمل کرنے کے لئے ایک ہی علاج ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو، اللہ تعالیٰ کی طرف واپس آجاؤ، اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے بنو اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے بنو.(قسط نمبر 22، الفضل انٹر نیشنل 05 نومبر 2021ء صفحہ 11) 468

Page 535

سوال: محترم امیر صاحب جرمنی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں نماز باجماعت کے لئے باہم نمازیوں کے در میان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھنے کے بارہ میں رہنمائی چاہی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 اپریل 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات سے نوازا.حضور نے فرمایا: جواب: آنحضور ﷺ کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنیات کے تحت اسلام کے ہر حکم کی بناء نیت پر ہے.پس نماز باجماعت کے لئے جو نمازیوں کو آپس میں کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑے ہونے اور باہم درمیان میں فاصلہ نہ چھوڑنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، اس کی ایک حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر تم ظاہر ااپنے اندر ڈوری پیدا کر لو گے تو شیطان تمہارے درمیان اپنی جگہ بنا کر تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دے گا.اب جبکہ مجبوری ہے اور حکومتیں اپنے شہریوں کی بھلائی کے لئے ایسے اقدامات کر رہی ہیں تو جب ہم حکومتی قوانین کے مطابق اس طرح باہم فاصلہ کے ساتھ نماز میں کھڑے ہوں گے تو چونکہ ہماری نیت یہ نہیں کہ ہمارے درمیان پھوٹ پڑے یا ہمارے در میان شیطان اختلاف ڈال دے، بلکہ ہماری تو یہی نیت ہے کہ ہم متحد رہیں اور مل کر اس بیماری کا مقابلہ کریں اور عوام کی بھلائی کے لئے کئے جانے والے ان حکومتی اقدامات میں ان کے ساتھ تعاون کریں تو اس نیت کے ساتھ اضطراری حالت میں نماز باجماعت میں نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں.اور اس کا استنباط سفر میں بحالت مجبوری سواری پر نماز پڑھنے سے بھی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس وقت بھی کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملا ہوتا اور بعض اوقات نمازیوں کے درمیان باہم فاصلہ بھی ہوتا ہے.پس جس طرح سفر میں مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا آنحضور ﷺ کی سنت سے ثابت ہے تو اس بیماری کی مجبوری کی حالت میں بھی نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور جلد ان مشکل حالات کو ساری دنیا سے دور کر دے تا کہ اس کے 469

Page 536

عبادت گزار بندے پھر پوری شرائط اور احسن انداز میں اپنی عبادتوں کے نذرانے اپنے رب کے حضور پیش کرنے کی توفیق پائیں.آمین (قسط نمبر 23، الفضل انٹر نیشنل 19 نومبر 2021ء صفحہ 12) 470

Page 537

کلم سوال : ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کسی احمدی نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ خاتم ،رسول پاک ام کا نام ہے، اس لئے کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے میں کوئی حرج نہیں.احمد رسول اللہ بھی لکھا جا سکتا ہے اور مزئل اور مدثر بھی حضور ام کے نام ہیں وہ بھی لکھے جاسکتے ہیں.کیا یہ بات درست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں: جواب: آپ نے اپنے خط میں کسی احمدی کی طرف منسوب کر کے جو بات لکھی ہے اگر انہوں نے اسی طرح کہی ہے تو انہوں نے غلط کہا ہے.جماعت احمدیہ کا ہر گز یہ موقف نہیں کہ کلمہ طیبہ میں اس قسم کی تبدیلی ہو سکتی ہے.احادیث نبویہ الم میں جہاں پر بھی کلمہ طیبہ کے الفاظ آئے ہیں ہر جگہ حضور ﷺ کا ذاتی نام ہی آیا ہے.حضور ام یا صحابہ نے کسی جگہ بھی کلمہ میں حضور ﷺ کے ذاتی نام کی بجائے آپ کے کسی صفاتی نام کو استعمال نہیں کیا.پھر اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی تحریرات و ارشادات میں ہر جگہ اسی کلمہ طیبہ کو بیان فرمایا ہے اور ہر جگہ حضور ا کے صرف ذاتی نام کو کلمہ طیبہ میں تحریر فرمایا ہے.پس اس قسم کی تبدیلی جہاں مرکزیت کے خلاف ہے وہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بھی منافی ہے.اس لئے ہر احمدی کو اس قسم کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیئے.(قسط نمبر 28، الفضل انٹر نیشنل 04 فروری 2022ء صفحہ 11) 471

Page 538

سوال : ربوہ سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار بھجوایا کہ جماعت احمد یہ شرعی طور پر کتنے کلموں پر یقین رکھتی ہے ، جو کسی حدیث یا قرآن سے ثابت شدہ ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 مارچ 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: کلمہ تو ایک ہی ہے جسے کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت کہتے ہیں.کلمہ طیبہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضور ام کی رسالت کا سادہ الفاظ میں اقرار کیا جاتا ہے اور کلمہ شہادت میں ان دونوں باتوں (اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضور ﷺ کی رسالت کا شہادت یعنی گواہی کے ساتھ اقرار کیا جاتا ہے.اسلام کا پہلا بنیادی رکن بھی یہی کلمہ یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور ام کی رسالت کا اقرار ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ا لم نے فرمایا: بنِي الْإِسْلامُ عَلَي خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح بخاري كتاب الايمان) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے.اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد الیم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا.یہی وہ کلمہ ہے جس کا اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص.آنحضور اللام اقرار لینے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے.چنانچہ حضور ای ایم نے حضرت معاذ بن جبل کو جب یمن بھجوایا تو انہیں یہی نصیحت فرمائی: إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَي أَنْ يَشْهَدُوا أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللَّهِ - (صحيح بخاري كتاب الزكوة 472

Page 539

یعنی تم ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں جب ان کے پاس پہنچو تو انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں.اپنے آقا و مطاع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفی ایم کے نقش پا پر چلتے ہوئے آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام بھی بیعت لیتے وقت پہلے یہی کلمہ شہادت پڑھایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت لیتے وقت مجھے کلمہ شہادت پڑھایا.“ حیات قدسی مؤلفہ صفحہ 494) آنحضور لم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اسی سنت کی اتباع میں خلفائے احمدیت بھی بیعت لیتے وقت پہلے اسی کلمہ شہادت کا اقرار کرواتے ہیں.پس جماعت احمدیت کے ہر فرد کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کلمہ پر کامل ایمان ہے اور ہم اسے اسلام کے بنیادی ارکان میں سے پہلا رکن یقین کرتے ہیں.باقی جہاں تک مسلمانوں میں رائج مختلف ناموں کے ساتھ چھ کلموں کا تصور پایا جاتا ہے تو وہ چھ کلمے ، ان کے نام اور ان کی یہ ترتیب قرآن کریم یا احادیث نبوی ایم سے کہیں ثابت نہیں.بلکہ احادیث میں مذکور مختلف دعاؤں اور تسبیحات کو آنحضور یتیم اور خلافت راشدہ کے مبارک دور کے بہت بعد کے زمانہ میں جوڑ کر یہ کلمات بنائے گئے اور انہیں یہ نام دیئے گئے.پس ان کلمات کی اس ترتیب اور اس اہمیت و فرضیت (جو عام مسلمانوں میں رائج ہے) کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے.(قسط نمبر 54 ، الفضل انٹر نیشنل 6 مئی 2023ء صفحہ 4) 473

Page 540

گستاخ رسول کی سزا سوال : ایک دوست نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں گستاخ رسول کی سزا، قرآن و حدیث کو حفظ کرنے، درود شریف اور دیگر ذکر و اذکار، مختلف دعاؤں اور قرآنی سورتوں کو گن کر پڑھنے کی بابت بعض استفسارات بھجوا کر ان کے بارہ رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 دسمبر 2019ء میں ان سوالوں کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: قرآن و حدیث نے کسی گستاخ رسول کو اس دنیا میں سزا دینے کا کسی انسان کو اختیار نہیں دیا.خود آنحضرت ا نے بھی کسی گستاخ رسول کو سزا نہیں دی اور اگر کسی بد بخت کی ایسی گستاخی پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے محبت رسول نے اس شخص کو سزا دینے کی حضور ام سے اجازت مانگی تو حضور ام نے انہیں بھی اس کی اجازت نہیں دی.اپنے آقا و مطاع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی تعلیم بیان فرمائی ہے.اس کے ساتھ اسلام نے دنیا کے مختلف ادیان کے ارباب حل و عقد اور دیگر اولو الا مر کے لئے یہ رہنمائی بھی بیان فرمائی ہے کہ کسی کے مذہب اور ان کی قابل احترام شخصیات کا اس طرح ذکر نہ کیا جائے جو اس مذہب کے ماننے والوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو.پس ایک طرف اسلام نے اس دنیا میں کسی انسان کو کسی گستاخ رسول کو سزا دینے کی اجازت نہیں دی تو دوسری طرف یہ تعلیم بھی دی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے مذہب اور ان کے پیشواؤں کا نامناسب الفاظ میں ذکر نہ کرے.(قسط نمبر 13، الفضل انٹر نیشنل 09 اپریل 2021ء صفحہ 11) 474

Page 541

لونڈی سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لونڈیوں کے بارہ میں تفسیر کبیر میں بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا موقف تحریر کر کے اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالنے کی درخواست کی نیز لجنہ اماءاللہ پاکستان کی علمی ریلی کے موقعہ پر دکھائی جانے والی ایک دستاویزی فلم میں ایک ڈیڑھ منٹ تک میوزک بجنے کی شکایت بھی کی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان امور کا اپنے مکتوب مؤرخہ 21 فروری 2018ء درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: لونڈیوں سے نکاح کی بابت آپ کا موقف تفسیر کبیر میں بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر کے مطابق بالکل درست ہے.اور یہی موقف حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا بھی تھا کہ لونڈیوں سے نکاح ضروری ہے.قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا بھی یہی موقف ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے.چنانچہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کے قید کر لی جاتی تھیں.اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو ایسی عورتوں سے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے.لیکن اس نکاح کے لئے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی.اسی طرح ایسی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کے لئے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے نکاح کر سکتا تھا.لیکن اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ 475

Page 542

پیدا ہو جاتا تھا تو وہ اُتم الولد کے طور پر آزاد ہو جاتی تھی.دوسرا نکتہ نظر جس کے مطابق مسلمانوں پر حملہ کرنے والے دشمن کے لشکر میں شامل ایسی عورتیں جب اُس زمانہ کے رواج کے مطابق مسلمانوں کے قبضہ میں بطور لونڈی کے آتی تھیں تو ان سے ازدواجی تعلقات کے لئے رسما کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، بھی غلط نہیں ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بعض اور مواقع پر ایسی لونڈیوں کے بارہ میں جواب دیتے ہوئے اس موقف کو بھی بیان فرمایا ہے.اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی بعض مجالس عرفان میں اور درس القرآن میں لونڈیوں کے مسئلہ کی تفسیر کرتے ہوئے اسی موقف کو بیان فرمایا ہے کہ ان لونڈیوں سے ازدواجی تعلق استوار کرنے کے لئے رسماً کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی.یہاں پر میں اس امر کو بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایسے امور کی تفسیر جن کا از منہ ماضی سے تعلق ہو ، ان میں خلفاء کی آراء کا مختلف ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ یہ ہر خلیفہ کا اپنا اپنا فہم قرآن ہے اور خلفاء کا آپس میں ایسا اختلاف جائز ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ میرا موقف اس معاملہ پر یہی ہے کہ دشمن کی ایسی عورتوں سے ازدواجی تعلق کے لئے نکاح کی ضرورت ہوتی تھی اور میرے اس دور میں یہی جماعتی موقف متصور ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ آنے والا خلیفہ میرے اس موقف سے اختلاف کرے.اگر ایسا.ہوتا ہے تو اُس وقت وہی جماعتی موقف متصور ہو گا جو اُس وقت کے خلیفہ کا ہو گا.علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اس زمانہ میں کہیں کوئی ایسی جنگ نہیں ہو رہی جو اسلام کو مٹانے کے لئے لڑی جارہی ہو اور اس میں مسلمان عورتوں سے ایسا سلوک کیا جا رہا ہو کہ انہیں لونڈیاں بنایا جارہا ہو اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے بھی ایسا کرنانا جائز اور حرام ہے.آپ نے اپنے خط میں دوسری شکایت یہ لکھی ہے کہ لجنہ اماء اللہ کی علمی ریلی کے موقع پر ایک دستاویزی فلم کے شروع میں ایک ڈیڑھ منٹ کا میوزک چلایا گیا.جیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے کہ یہ ایک دستاویزی فلم تھی.چونکہ یہ دستاویزی فلم تھی جو ہم 476

Page 543

نے تیار نہیں کی بلکہ اس فلم کو بنانے والے نے اس میں میوزک شامل کیا تھا، ہم اسے کیسے اس فلم میں سے کاٹ سکتے ہیں، لہذا اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.دراصل یہ حدیث میں بیان حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق دجال کا وہ دھواں ہے جس سے بچنا نا ممکن ہے.جہاں تک ہمارے اپنے تیار کردہ پروگراموں یا ہمارے ایم ٹی اے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے بھی اور ہمارے تیار کردہ تمام پروگرام بھی میوزک سے بکلی پاک ہوتے ہیں اور ان میں ایسی کوئی غیر شرعی بات نہیں ہوتی.اور یہ وہ نمونہ ہے جسے دین حق کے طور پر پیش کیا جانا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی اسلامی نمونہ ایم ٹی اے کے تمام پروگراموں میں ہر جگہ پیش کیا جاتا ہے.(قسط نمبر 4، الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 477

Page 544

سوال : ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مجھے یہ معلوم کر کے شدید دھچکا لگا کہ اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے اور ان کو بیچنے کی اجازت دیتا ہے.یہ بات میرے لئے بہت حوصلہ شکن تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد مجھے امید تھی کہ آپ اس بات کی تردید فرمائیں گے اور اسلام کو اس نظریہ سے پاک قرار دیں گے لیکن میں نے ایسا نہیں پایا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 03 مارچ 2018ء میں اس سوال کا نہایت بصیرت افروز جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اصل بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کی اچھی طرح وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور ان غلط فہمیوں کی تردید حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں فرمائی ہے اور آپ کے خلفاء بھی حسب موقعہ و قتافوقتاً اس کی تردید کرتے رہے اور اصل تعلیم بیان فرماتے رہے ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ بر سر پریکار ہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جو بھی دشمن ہے ان کی عورتوں کو پکڑ لاؤ اور اپنی لونڈیاں بنالو.اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خونریز جنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرِي حَتَّي يُشْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللهُ يُرِيْدُ الْأَخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال: 68) کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کئے بغیر قیدی بنائے تم دنیا کی متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور ) بہت حکمت والا ہے.پس جب خونریز جنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کے لئے وہاں موجود ہوتی تھیں.اس لئے وہ صرف عور تیں نہیں 478

Page 545

ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طور پر وہاں آئی ہوتی تھیں.علاوہ ازیں جب اس وقت کے جنگی قوانین اور اس زمانہ کے رواج کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس زمانہ میں جب جنگ ہوتی تھی تو دونوں فریق ایک دوسرے کے افراد کو خواہ وہ مر دہوں یا بچے یا عور تیں قیدی کے طور پر غلام اور لونڈی بتا لیتے تھے.اس لئے وَ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری:41) کے تحت ان کے اپنے ہی قوانین کے تابع جو کہ فریقین کو تسلیم ہوتے تھے ، مسلمانوں کا ایسا کرنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں ٹھہرتا.خصوصاً جب اسے اس زمانہ، ماحول اور علاقہ کے قوانین کے تناظر میں دیکھا جائے.اس زمانہ میں برسر پیکار فریقین اس وقت کے مروجہ قواعد اور دستور کے مطابق ہی جنگ کر رہے ہوتے تھے.اور جنگ کے تمام قواعد فریقین پر مکمل طور پر چسپاں ہوتے تھے ، جس پر دوسرے فریق کو کوئی اعتراض نہ ہو تا تھا.یہ امور قابل اعتراض تب ہوتے جب مسلمان ان مسلمہ قواعد سے انحراف کر کے ایسا کرتے.اس کے باوجودہ قرآن کریم نے ایک اصولی تعلیم کے ساتھ ان تمام جنگی قواعد کو بھی باندھ دیا.فرمایا: فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَي عَلَيْكُمْ (البقرة: 195) یعنی جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر ویسی ہی زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر کی ہو.پھر فرمایا: فَمَنِ اعْتَدَي بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيْمٌ (المائدة:95) یعنی جو اس کے بعد حد سے تجاوز کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب ہو گا.یہ وہ اصولی تعلیم ہے جو سابقہ تمام مذاہب کی تعلیمات پر بھی امتیازی فضیلت رکھتی ہے.بائیبل اور دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ میں موجود جنگی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں دشمن کو تہس نہس کر کے رکھ دینے کی تعلیم ملتی ہے.مرد و عورت تو ایک طرف رہے ان کے بچوں، جانوروں اور گھروں تک کولوٹ لینے ، جلا دینے اور ختم کر دینے کے احکامات ان میں ملتے ہیں 479

Page 546

.لیکن قرآن کریم نے ان حالات میں بھی جبکہ فریقین کو اپنے جذبات پر کوئی قابو نہیں رہتا اور د ونوں ایک دوسرے کو مارنے کے درپے ہوتے ہیں اور جذبات اتنے مشتعل ہوتے ہیں کہ مارنے کے بعد بھی جذبات سرد نہیں پڑتے اور دشمن کی لاشوں کو پامال کر کے غصہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے، ایسی تعلیم دی کہ گویا مونہہ زور گھوڑوں کو لگام ڈالی ہو اور صحابہ نے اس پر ایسا خوبصورت عمل کر کے دکھایا کہ تاریخ ایسے سینکڑوں قابل رشک واقعات سے بھری پڑی ہے.اس زمانہ میں کفار مسلمان عورتوں کو قیدی بنالیتے اور ان سے بہت ہی نارواسلوک کرتے.قیدی تو الگ رہے وہ تو مسلمان مقتولوں کی نعشوں کا مثلہ کرتے ہوئے ان کے ناک کان کاٹ دیتے تھے.ہندہ کا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبانا کون بھول سکتا ہے.لیکن ایسے مواقع پر بھی مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ ہر چند کہ وہ میدان جنگ میں ہیں لیکن پھر بھی کسی عورت اور کسی بچے پر تلوار نہیں اٹھانی اور مثلہ سے مطلقاً منع فرما کر دشمنوں کی لاشوں کی بھی حرمت قائم فرمائی.جہاں تک لونڈیوں کا مسئلہ ہے تو اس بارہ میں اس امر کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے.چنانچہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کے قید کر لی جاتی تھیں.اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو ایسی عورتوں سے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے.لیکن اس نکاح کے لئے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی.اسی طرح ایسی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کے لئے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے نکاح کر سکتا تھا.لیکن اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ اُم الولد کے طور پر آزاد ہو جاتی تھی.480

Page 547

علاوہ ازیں اسلام نے لونڈیوں سے حسن سلوک کرنے، ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے اور انہیں آزاد کر دینے کو ثواب کا موجب قرار دیا.چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے: قَالَ النَّبِيُّ يا الله أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدْبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ (صحيح بخاري كتاب العتق بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةً رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيْدَهُ) یعنی نبی کریم یم نے فرمایا جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے نہایت اچھے آداب سکھائے اور پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کرلے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا.رو یفع بن ثابت انصاری روایت کرتے ہیں: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ لا يَقُوْلُ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَآءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَي وَلَا يَحِلُّ لِامْرِي يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَي امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّي يَسْتَبْرِئَهَا وَلَا يَحِلُّ لِامْرِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيعَ مَغْنَمًا حَتَّي يُقْسَمَ (سنن ابي داؤد كتاب النكاح باب فِي وَطْء السَّبَايَا) میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسین کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا پانی کسی اور کی کھیتی میں لگائے.یعنی حاملہ عورتوں سے ازدواجی تعلق قائم کرے.اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ قیدی عورت سے وہ صحبت کرے جب تک کہ استبرائے رحم نہ ہو جائے.اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت کرے.پس اصولی بات یہی ہے کہ اسلام انسانوں کو لونڈیاں اور غلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے.اسلام کے ابتدائی دور میں، اس وقت کے مخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی 481

Page 548

تھی لیکن اسلام نے اور آنحضرت الیم نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سے حسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکید فرمائی گئی.اور جو نہی یہ مخصوص حالات ختم ہو گئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیار کرلی جیسا کہ اب مروج ہے تو اس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانے کا جواز بھی ختم ہو گیا.اب اسلامی شریعت کی رُو سے لونڈی یا غلام رکھنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے.بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اب موجودہ حالات میں اس کو حرام قرار دیا ہے.(قسط نمبر 5، الفضل انٹر نیشنل 01 جنوری 2021ء صفحہ 18) 482

Page 549

سوال: ایک دوست نے لونڈیوں سے جسمانی فائدہ اٹھانے نیز سود کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب کے موقف کا ذکر کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اس بارہ میں رہنمائی چاہی.جس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15 فروری 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: اسلام کے ابتدائی دور میں دشمنان اسلام کی ظالمانہ کارروائیوں کے جواب میں اسلامی جنگوں کی اجازت کے نتیجہ میں جب دشمنوں کے دیگر اموال غنیمت کے ساتھ ان کی عورتیں بھی لونڈیوں کی صورت میں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں تو سورۃ النساء کی بعض آیات کی روشنی میں میرا موقف یہی ہے کہ ان لونڈیوں کے ساتھ نکاح کے ذریعہ ہی تعلقات زوجیت استوار ہو سکتے تھے ، اگر چہ اس نکاح کے لئے ان لونڈیوں کی رضامندی ضروری نہیں تھی اور نہ ہی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کے لئے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق پڑتا تھا.ایسی لونڈیوں کے مسئلہ پر آپ نے جو اپنے موقف کا ذکر کیا ہے تو جیسا کہ میں نے ا.جواب میں ( جو کی قسط نمبر 4 اور 5 میں شائع ہو چکا ہے ) لکھا ہے کہ اس مسئلہ پر مختلف آراء موجود ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی موقف تھا کہ ان لونڈیوں سے تعلقات کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے دونوں قسم کے موقف ثابت ہیں.بہر حال نکاح ہو تا تھا یا نہیں ہو تا تھا، طریق جو بھی تھا لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ اگر اس لونڈی کے ہاں اولاد ہو جاتی تھی تو مالک کی زندگی میں اسے اُتم الولد کا درجہ مل جاتا تھا، یعنی مالک نہ تو اس لونڈی کو فروخت کر سکتا تھا، نہ کسی اور کو ہبہ کر سکتا تھا اور مالک کی وفات کے بعد ایسی عورت کو آزادی کے پورے حقوق مل جاتے تھے اور وہ مکمل طور پر آزاد ہو جاتی تھی.(قسط نمبر 32، الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل 2022ء صفحہ 11) 483

Page 550

ماتمی جلوس سوال : اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے لئے خدمت خلق کے جذبہ کے تحت اہل جلوس کو پانی وغیرہ پیش کرنے کی بابت محترم ناظم صاحب دارلافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 22 نومبر 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: میرے نزدیک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات اس بارہ میں بڑے واضح ہیں کہ اس قسم کے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کرنا بدعت ہے.ہاں اگر کوئی احمدی خود یا کوئی جماعت سارا سال خدمت خلق کے جذبہ کے تحت لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہو اور مختلف مذاہب اور تنظیموں کے پر امن جلوسوں کے لئے سارا سال ہی خدمت خلق کے تحت اس قسم کے سٹال لگاتی ہو تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے لئے بھی اس قسم کا سٹال لگانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ کام صرف اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے لئے کیا جاتا ہے اور سارا سال ایسا کوئی سٹال نہیں لگایا جاتا تو پھر یقیناً یہ بدعت ہے.اور احمدیوں کو اس قسم کی بدعات سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے.نوٹ: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جن ارشادات کا ذکر فرمایا ہے ، وہ قارئین کے استفادہ کے لئے ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں.(مرتب) ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ اللہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ”ایسے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس سے پر ہیز کرنا چاہیے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتداء میں 484

Page 551

اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دُور نہیں ہوتے.“ ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 مارچ 1907ء صفحہ 6) ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک صاحب نے سوال کیا سٹی لوگ محرم کے دنوں میں خاص قسم کے کھانے وغیرہ پکاتے اور آپس میں تقسیم کرتے ہیں.ان کے متعلق کیا ارشاد ہے.فرمایا کہ: یہ بھی بدعت ہیں اور ان کا کھانا بھی درست نہیں اور اگر ان کا کھانا نہ چھوڑا جائے تو وہ پکانا کیوں چھوڑنے لگے.بارہ وفات کا کھانا بھی درست نہیں اور گیارھویں تو پورا شرک ہے.قرآن کریم میں آتا ہے وَ مَا أُهِلَّ به لِغَيْرِ الله ـ (سورة البقرة: 174) یہ بھی ان میں داخل ہے کیونکہ ایسے لوگ پیر صاحب کے نام پر جانور پالتے ہیں.“ اخبارا الفضل قادیان دارلامان جلد 10 نمبر 32 مؤرخہ 23 اکتوبر 1922 صفحہ 7،6) (قسط نمبر 28 ، الفضل انٹر نیشنل 04 فروری 2022ء صفحہ 11) 485

Page 552

مالی لین دین سوال: مالی لین دین کے ایک قضائی معاملہ میں ایک فریق کے محترم مفتی صاحب سے اس معاملہ کی بابت فتویٰ کی درخواست کرنے اور اس درخواست کی نقل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کرنے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درخواست دہندہ کو اپنے مکتوب مؤرخہ 25 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں اصولی ہدایت دیتے ہوئے درج ذیل ارشاد فرمایا: جواب: آپ نے اپنے تنازعہ کے بارہ میں فتویٰ کے حصول کے لئے جو تفصیلی خط محترم مفتی سلسلہ صاحب کو بھجوایا تھا اور اس کی ایک نقل مجھے بھی بھجوائی تھی.میں نے محترم مفتی صاحب کو آپ کے اس خط کا جواب دینے کی ہدایت دی تھی اور ساتھ انہیں لکھا تھا کہ وہ اس جواب کی ایک نقل مجھے بھی بھجوائیں.محترم مفتی صاحب کا فتویٰ نیز آپ کے تنازعہ سے متعلق دارالقضاء یو کے اور شعبہ امور عامہ یو کے میں موجود فائلز اسی طرح عدالت کے فیصلہ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو فیصلہ ہوا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے اور عدالت نے جو ( حرجانہ کی) زائد رقم آپ کے ذمہ ڈالی ہے وہ سود کے زمرہ میں ہر گز نہیں آتی.عدالت کی نظر میں وہ فریق ثانی کا حق ہے اور شرعی لحاظ سے بھی فریق ثانی کے اس رقم کے لینے میں کوئی امر مانع نہیں، وہ اس رقم کو وصول کر سکتے ہیں.(قسط نمبر 34، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2022ء صفحہ 11) 486

Page 553

ماں کی طرف سے اپنی مرضی سے بچہ دے کر واپسی کا مطالبہ سوال: کسی خاتون کا اپنی مرضی سے اپنا بچہ اپنی جیٹھانی کو دے کر ، کئی سال بعد دونوں خاندانوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جانے پر ماں کی طرف سے بچہ کی واپسی کے مطالبہ کے بارہ میں ایک خط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں موصول ہوا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 جون 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں.حضور نے فرمایا: جواب: عام دنیوی اشیاء کی لین دین میں جب انسان اپنی مرضی اور خوشی سے کسی کو اپنی چیز دیدیتا ہے تو پھر اس چیز کی واپسی کے مطالبہ کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا.اولا د اگر چہ اس قسم کی دنیوی اشیاء میں تو شمار نہیں ہوتی لیکن پھر بھی جب کوئی شخص اپنی مرضی اور خوشی سے کسی کو اپنا بچہ دیدے اور دوسرا شخص اسے اپنی اولاد کی طرح رکھے تو پھر اس کی واپسی کا مطالبہ بھی اخلاقاً پسندیدہ نہیں.اسی لئے جماعتی قضاء نے تمام حالات کا جائزہ لے کر یہی فیصلہ دیا ہے کہ حقیقی ماں کا اپنے بچہ کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں.میرے نزدیک اگر بچہ کی عمر نو سال سے زیادہ ہے تو اب فقہی اصول خیار التمیز کے تحت اس معاملہ کا فیصلہ ہونا چاہیے اور بچہ سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے، جہاں بچہ اپنی مرضی اور خوشی سے جانے کا عندیہ دے بچہ کو وہیں رکھا جائے.اللہ تعالیٰ آپ دونوں خاندانوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے، آپ خدا تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے محض اس کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کے لئے اپنے جائز حقوق چھوڑ کر ان جھگڑوں کو ختم کرنے والے ہوں.آمین (قسط نمبر 24، الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 487

Page 554

w سوال : مکرم انچارج صاحب بنگلہ ڈیسک نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ بنگلہ دیش میں قومی ہیروز کے مجسمے بنانے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے.کیا اسلام میں کسی ہیرو کا مجسمہ بنانا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں : جواب: قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے قبل انبیاء کے ادوار میں نیک مقصد کے لئے تصاویر اور مجسمہ سازی کا کام کیا جاتا تھا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ ایک فرقہ جن ان کے حسب منشاء ان کے لئے مجسمے بناتے تھے.(سورۃ سبا:14) اسی طرح احادیث میں بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت سے قبل اہل کتاب کے پاس مختلف انبیاء کی تصاویر تھیں، جن میں آنحضور الم کی تصویر بھی تھی.(التاريخ الكبير مؤلفه ابو عبدالله اسماعيل بن ابراهيم الجعفي القسم الاول من الجزء الاول صفحه 179) علاوہ ازیں بچوں کے کھیلنے کے لئے گڑیاں اور گڈے وغیرہ بھی ہوتے تھے ، جیسا کہ حضرت عائشہ کی بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بچپن میں ان کے پاس بھی کھلونوں میں گڑیاں اور پروں والے گھوڑے تھے، جنہیں حضور م نے بھی دیکھا اور آپ نے ان کے بارہ میں کسی قسم کی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا.(سنن ابي داؤد کتاب الادب باب في اللعب بالبنات) لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی بہت ضروری ہے کہ آنحضور ا کے عہد مبارک میں چونکہ شرک اور بت پرستی اپنے انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، اس لئے حضور لم نے ہر اس کام کو جس سے ہلکا سا بھی شرک اور بت پرستی کے طرف میلان ہو سکتا تھا، نہایت نا پسند فرمایا اور سختی سے اس کی حوصلہ شکنی فرمائی.چنانچہ گھر میں لٹکے ہوئے پر دہ یا بیٹھنے والے گدیلے پر تصاویر دیکھ کر حضور ایم نے سخت ناگواری کا اظہار فرمایا اور انہیں اتار نے اور پھاڑنے کا ارشاد فرمایا.(صحيح بخاري كتاب الادب باب ما يجوز من الغضب والشدة لامر الله، كتاب بدء الخلق 488

Page 555

باب اذا قال احدکم آمين والملائكة في السماء) اسی طرح حضور اللہ تم نے اس زمانہ کے مطابق مصوری کے ذریعہ بنائی جانے والی تصاویر کی سختی سے ممانعت فرمائی اور مصوری کے کام کو ناجائز اور مورد عذاب قرار دیا.(بخاري كتاب البيوع باب بيع التصاوير التي ليس فيها روح) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور حکم و عدل اپنے آقا و مطاع سیّد نا حضرت اقدس محمد مصطف الم کے نقش پا پر چلتے ہوئے حضور ﷺ کے نہایت پر حکمت ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنیات کی روشنی میں اس مسئلہ کا یہ حل پیش فرمایا کہ جو کام کسی نیک مقصد کے لئے کیا جائے وہ جائز ہے لیکن وہی کام بغیر کسی نیک مقصد کے ناجائز ہو گا.چنانچہ حضور علیہ السلام نے تبلیغ اور پیغام حق پہنچانے کی خاطر ایک طرف اپنی تصویر کی اشاعت کی اجازت دی، جس پر اس زمانہ کے نام نہاد ملاؤں نے اس نیک مقصد کی مخالفت کرتے ہوئے بُرے بُرے پیرایوں میں اسے بیان کیا اور اس کے خلاف دنیا کو بہکایا تو حضور علیہ السلام نے ان مخالفین کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ تصویر کو اتنا ہی بُرا سمجھتے ہیں تو پھر شاہی تصویر والا روپیہ اور دونیاں اور چونیاں اپنے گھروں اور جیبوں سے باہر کیوں نہیں پھینک دیتے اور اسی طرح اپنی آنکھیں بھی کیوں نکلوا نہیں دیتے کیونکہ ان میں بھی تو اشیاء کا انعکاس ہوتا ہے.تو دوسری طرف حضور علیہ السلام نے اسی کام کو کسی جائز مقصد کے بغیر کرنے پر نہایت نا پسند فرمایا اور اسے بدعت قرار دیتے ہوئے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا.اس مسئلہ کے ان دونوں پہلوؤں کو واضح کرتے ہوئے حضور اس پر علیہ السلام نے فرمایا: میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے.میں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہو گا.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آجکل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اول خواہشمند ہوتے ہیں کہ 489

Page 556

اُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے.اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کا ذب.اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہذا اس ملک کے اہل فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں.کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علم فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے.“ اسی طرح فرمایا: (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 366،365) وَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ اور میر امذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جن حضرت سلیمان کے لئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت ام کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت ام کو حضرت عائشہ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی.“ آپ مزید فرماتے ہیں: (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 365) افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کر کے مخالفوں کو اسلام پر ہنسی کا موقعہ دیتے ہیں.اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے مؤید ہیں حرام کئے ہیں، نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھیرتے اور اہل فراست کو ہدایت سے قریب کر دیتے ہیں.لیکن با ایں ہمہ میں ہر گز پسند نہیں کرتا کہ میر 490

Page 557

ہے.ی جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنالیں.کیونکہ اسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک پہنچتی ہیں اس لئے میں اپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو ایسے کاموں سے دست کش رہیں.بعض صاحبوں کے میں نے کارڈ دیکھے ہیں اور ان کی پشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی.میں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو.ایک صحیح اور مفید غرض کے لئے کام کرنا اور امر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریں جابجا درو دیوار پر نصب کرتے ہیں یہ اور بات ہے.ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر بشیر ک ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی خرابیاں ان سے پیدا ہوتی ہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 367) پس بنگلہ دیش میں بنائے جانے والے یہ مجسمے اگر کسی نیک مقصد کے لئے بنائے جا رہے ہیں جس سے علمی یا روحانی ترقی مقصود ہے تو پھر ان کے بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر صرف نمود و نمائش اور دکھاوے کے لئے بنائے جا رہے ہیں تو غلط اور ناجائز کام ہے.(قسط نمبر 29، الفضل انٹر نیشنل 25 فروری 2022ء صفحہ 10) 491

Page 558

مراقبہ سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مراقبہ اور اس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور طریق کے بارہ میں دریافت کیا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 جون 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا: جواب: مراقبہ کے معانی عام طور پر دھیان لگانے ، توجہ دینے اور اپنے اعمال پر غور و فکر کرنے کو کہتے ہیں.جس کی عادت انسانوں کے علاوہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے ، میں نے مراقبہ بلی سے سیکھا ہے.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 147 مطبوعہ 2016ء) مراقبہ کا عمل جہاں مسلمان اولیاء اور صوفیاء کا ایک خاص شغل رہا ہے ، اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی اپنے اپنے طریق کے مطابق اس کا ذکر ملتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ یہود کے اسینی فرقہ جنہیں فریسی بھی کہا جاتا تھا کے بارہ میں انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ یہ لوگ روزے رکھتے اور پاک زندگی بسر کرتے تھے اور غیب کی خبریں بتاتے تھے اور عبادت کے وقت مراقبہ کرتے تھے تا ان کی ارواح کا تعلق آسمانی باپ سے پیدا ہو جائے.( تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 384، کالم نمبر 2) اسلامی عبادات کی بڑی غرض یہی ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان گہرا تعلق پیدا ہو.چنانچہ حضور ا نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں احسان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ـ یعنی انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے لیکن اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو کم سے کم یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے.(صحیح بخاري كتاب الايمان باب سُؤال جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) ا 492

Page 559

عبادت کی یہ دونوں کیفیات مراقبہ کی ہی صورتیں ہیں.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” در حقیقت نماز میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ انسانی روح کے کمال کے لئے دوسرے کے ساتھ تعاون ، وعظ و تذکیر اور مراقبہ یہ تین چیزیں ضروری ہیں.مراقبہ کا قائم مقام خاموش نمازیں ہوتی ہیں جن میں انسان اپنے مطلب کے مطابق زور دیتا ہے.66 (روز نامه الفضل قادیان 5 ستمبر 1936ء صفحہ 4) مراقبہ کا طریق اور اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ہمارے ملک میں یہ کیفیت ہے کہ ہم ہر چیز کے متعلق اس طرح کودتے ہیں جس طرح بندر درخت پر کودتا ہے.ابھی ایک خیال ہوتا ہے پھر دوسرا خیال ہوتا ہے پھر تیسرا خیال ہوتا ہے پھر چوتھا خیال ہو تا ہے ایک جگہ پر ہم سکتے ہی نہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ قرآنی تعلیم اور حدیثی تعلیم ہمارے اندر جذب نہیں ہوتی کیونکہ ہم جھٹ اس سے کود کر آگے چلے جاتے ہیں.(رسول کریم ایم نے اس کا علاج مراقبہ بتایا ہے اور مختلف شکلوں میں صوفیائے کرام نے اس پر عمل کی تدابیر نکالی ہیں مگر اس مادی دور میں اس کو پوچھتا کون ہے)...ہمارے علماء نے وہ علاج اختیار نہیں کیا.اور وہ یہ تھا کہ قرآن کی تعلیم اور حدیث کی تعلیم جو ان امور کے متعلق ہے اس کو بار بار ذہن میں لایا جائے جسے مراقبہ کہتے ہیں.اور پھر بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے.مگر ہمارے ہاں تو بجائے یہ کہنے کے کہ اخلاق کی درستی ہونے چاہیے بس یہی ہوتا ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، یوں سجدہ کرو، یوں ڈھیلا استعمال کرو.کم سے کم سات دفعہ جب تک پتھر سے خاص خاص حرکات نہ کرو تمہارا ڈھیلے کا فعل درست ہی نہیں ہو سکتا.غرض یا قشر پر زور دیا جاتا ہے یا رسم پر زور دیا جاتا ہے اور جو اصل سبق ان احکام کے پیچھے ہے اسے 493

Page 560

بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے.(انوار العلوم جلد 24 صفحہ 515) احباب جماعت کو مراقبہ کی نصیحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: " تمہیں ہر روز کچھ وقت خاموشی کے ساتھ ذکر الہی یا مراقبے کے لئے خرچ کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیئے.ذکر الہی کا مطلب یہ ہے کہ علاوہ نمازوں وغیرہ کے روزانہ تھوڑا سا وقت خواہ وہ ابتداء میں پانچ منٹ ہی ہو اپنے لئے مقرر کر لیا جائے جبکہ تنہائی میں خاموش بیٹھ کر تسبیح و تحمید کی جائے.مثلاً سُبْحَانَ اللهِ ، اَلْحَمْدُ لله ، اللهُ اكْبَرُ اور اسی طرح دیگر صفات الہیہ کا ورد کیا جائے اور ان پر غور کیا جائے.مراقبے کے یہ معنے ہیں کہ روزانہ کچھ دیر خلوت میں بیٹھ کر انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس سے کون کونسی غلطیاں سرزد ہو گئی ہیں.آیا وہ انہیں دُور کر سکتا ہے یا نہیں.اگر کر سکتا ہے تو اب تک کیوں نہیں کیں.اگر دُور نہیں کر سکتا تو اس کی کیا وجوہ ہیں اور کیا علاج ہو سکتا ہے.پھر اس کے آگے وہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے عزیزوں اور ہمسایوں کی اصلاح کی کیا صورت ہے.تبلیغ کے کیا مؤثر ذرائع ہیں.کیا رکاوٹیں ہیں اور انہیں کس طرح دُور کیا جا سکتا ہے.اس قسم کے محاسبہ کا جو نتیجہ نکلے اسے ڈائری کے رنگ میں لکھ لیا جائے اور پھر اسی سلسلے کو وسیع کرنے کی کوشش کی جائے.اگر اس رنگ میں ذکر الہی اور مراقبہ کی عادت ڈالی جائے تو یقیناً اس سے روحانیت ترقی کرے گی، عقل تیز ہو گی اور امام وقت کی ہدایات و تقاریر پر زیادہ غور و تدبر کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مل جائے گی.ایسا شخص آہستہ آہستہ ایک حد تک دنیا کے لئے ایک روحانی ڈاکٹر اور مصلح بن جائے گا.“ انوار العلوم جلد 23 صفحہ 62،61) 494

Page 561

حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے متبعین کے لئے مراقبہ کا حقیقی طریق اور اس کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ اپنے سارے جسم و جان روح ورواں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہو جاویں.پھر خدا تعالیٰ خود بخود تم سب کا حافظ وناصر معین وکار ساز ہو جاوے گا.چاہیے کہ انسان کے تمام قوی آنکھ ، کان، دل، دماغ، دست و پا جملہ متمسک باللہ ہو جاویں.ان میں کسی قسم کا اختلاف نہ رہے اسی میں تمام کامیابیاں و نصرتیں ہیں یہی اصل مراقبہ ہے اسی سے حرارت قلبی وروحانیت پیدا ہوتی ہے اور اسی کی بدولت ایمان کامل نصیب ہو تا ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 320 ایڈیشن 2016ء) (قسط نمبر 38، الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2022ء صفحہ 10) 495

Page 562

مرتي سوال: ملاقات مؤرخہ 31 اکتوبر 2020ء میں ایک طالب علم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ہم انشاء اللہ میدان عمل میں جار ہے ہیں.وہاں پہنچ کر ایک مرتبی کا سب سے پہلا کام کیا ہونا چاہیئے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا: جواب: وہاں پہنچ کے پہلے تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس جگہ جہاں میری پوسٹنگ ہوئی ہے، مجھے صحیح طور پر ایمانداری سے ، اخلاص سے ، وفا سے کام کرنے کی توفیق دے.ٹھیک ہے، دعا کریں.اور سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق بڑھائیں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے کام دعاؤں سے ہوتے ہیں.اس لئے ہر مرتی اور مبلغ جب میدان عمل میں جاتا ہے تو اس کو چاہیے کہ یہ عہد کرے کہ آج کے بعد سے میں نے تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑنی، با قاعدہ پڑھوں گا.آپ کے بہت سارے مبلغین فوت ہوتے ہیں، ان کی تاریخ میں بیان کرتا ہوں ، تو میں کہتا ہوں کہ وہ تہجد با قاعدہ پڑھنے والے تھے.ہر مرتی کو کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ تہجد پڑھنی چاہیئے.اس میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت ڈالے.پھر پانچ نمازیں جو ہیں، جو آپ کا سینٹر ہے یا مسجد ہے اس میں اگر آپ وہاں موجود ہیں تو مسجد میں جائیں اور پانچ نمازیں با قاعدگی سے باجماعت ادا کروائیں.پھر ہر احمدی جو ہے اس سے اپنا ذاتی تعلق پیدا کریں.اگر احمدیوں میں آپس میں رنجشیں ہیں، ناراضگی ہے، کسی کی ناراضگی جو دوسرے کے ساتھ ہے ، اس کو آپ نے دور کرنا ہے.لوگوں کو سمجھائیں کہ ہم مومن ہیں اور مومن بھائی بھائی ہوتے ہیں.وہاں صلح اور صفائی سے ہر ایک احمدی کو رہنے کی طرف توجہ دلائیں.اور کسی قسم کی ناراضگی اگر ہے تو اس کو دور کر دیں.ہر ایک سے ذاتی تعلق ہو اور لوگ جو ہیں وہ آپ سے ذاتی تعلق رکھنے والے ہوں، آپ سے پیار کرنے والے ہوں اور آپ لوگوں سے پیار کرنے والے ہوں.اس طرح جب آپ کوئی بات ان کو کہیں تو وہ آپ کی بات مانیں.اسی طرح خلیفہ وقت سے با قاعدہ تعلق رکھیں.اپنی ماہانہ رپورٹ جو بھیجتے ہیں ، اس کے علاوہ ایک مہینہ میں ایک ذاتی خط مجھے لکھا 496

Page 563

کریں تاکہ پتہ لگے کہ مربی صاحب کیسا کام کر رہے ہیں.اور لوگوں میں بھی یہ چیز پیدا کریں کہ انہوں نے خلیفہ وقت سے تعلق رکھنا ہے.جب سے انڈو نیشن ڈیسک یہاں قائم ہوا ہے ، کافی تعداد میں لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، جو ترجمہ ہو کر آجاتے ہیں.تو لوگوں کو توجہ دلا یا کریں کہ وہ بھی خلافت سے تعلق رکھیں اور باقاعدگی سے ہر ہفتہ جو جمعہ کا خطبہ ہے وہ سنا کریں اور اس میں جو نصیحت کی بات ہوتی ہے، عمل کرنے والی باتیں ہوتی ہیں، ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.سب سے پہلے مرتی صاحب خود اور پھر لوگ.(قسط نمبر 4، الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 497

Page 564

مرد و عورت کے حقوق، برابری سوال: ایک خاتون نے اسلام میں مرد اور عورت میں برابری کے ضمن میں اپنی بعض الجھنوں کا ذکر کر کے اسلام کے مختلف حکموں کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں رہنمائی کی درخواست کی.جس کے جواب میں حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11 اپریل 2016ء میں ان امور کے بارہ میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آپ کے خط میں مذکور آپ کی الجھنیں اسلامی تعلیمات اور فطرت انسانی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں.اسلام نے یہ کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ مرد اور عورت ہر معاملہ میں برابر ہیں.اسلام کیا خود فطرت انسانی بھی اس بات کا انکار کرتی ہے کہ مرد اور عورت کو ہر لحاظ سے برابر قرار دیا جائے.ہاں اسلام نے یہ تعلیم ضرور دی ہے کہ نیکیوں کے بجالانے کے نتیجہ میں جس طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو انعامات اور اپنے فضلوں سے نوازتا ہے اسی طرح وہ عورتوں کو بھی اپنے انعامات اور فضلوں کا وارث بناتا ہے.چنانچہ فرمایا: فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِيْنَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيْلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ.(سورة آل عمران:196) ترجمہ : پس اُن کے رب نے اُن کی دعا قبول کرلی (اور کہا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہر گز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت.تم میں سے بعض، بعض سے نسبت رکھتے ہیں.پس وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری 498

Page 565

راہ میں دُکھ دیئے گئے اور انہوں نے قتال کیا اور وہ قتل کئے گئے ، میں ضرور اُن سے اُن کی بدیاں دُور کر دوں گا اور ضرور انہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.(یہ) اللہ کی جناب سے ثواب کے طور پر (ہے) اور اللہ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے.جہاں تک مرد اور عورت کی گواہی کا تعلق ہے تو ایسے معاملات جن کا مر دوں سے تعلق ہے اور عورتوں سے براہِ راست تعلق نہیں ان میں اگر گواہی کے لئے مقررہ مرد میشر نہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو اس لئے رکھا گیا ہے کہ چونکہ ان معاملات کا عورتوں سے براہِ راست تعلق نہیں لہذا اگر گواہی دینے والی عورت اپنی گواہی بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے.گویا اس میں بھی گواہی ایک عورت کی ہی ہے، صرف اس کے ایسے معاملات سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھول جانے کے اندیشہ کے پیش نظر احتیاطاً دوسری عورت اس کی مدد کے لئے اور اسے بات یاد کرانے کے لئے رکھ دی گئی ہے.قرآن کریم کا منطوق بھی اسی مفہوم کی تائید فرمارہا ہے.چنانچہ فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِنِّي أَجَلٍ مُّسَمًّي وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَ امْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلُّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكَّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرِي - (سورة البقرة: 283) ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت تک کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو...اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرالیا کرو.اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عور تیں (ایسے) گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو.( یہ ) اس لئے (ہے) کہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے.اور جہاں تک عورتوں سے براہ راست متعلقہ معاملات کا تعلق ہے تو حدیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے صرف ایک عورت کی گواہی پر کہ اس نے اس شادی شدہ جوڑے میں سے لڑ کے 499

Page 566

اور لڑکی دونوں کو دودھ پلایا تھا، علیحدگی کروا دی.چنانچہ حضرت عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ: انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا اس کے بعد ایک عورت نے آکر بیان کیا کہ میں نے عقبہ کو اور اس عورت کو جس سے عقبہ نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے (پس یہ دونوں رضائی بہن بھائی ہیں، ان میں نکاح درست نہیں) عقبہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے (اس سے) پہلے کبھی اس بات کی اطلاع دی ہے.پھر عقبہ سواری پر سوار ہو کر رسول اللہ یم کے پاس مدینہ گئے اور آپ سے ( یہ مسئلہ ) پوچھا تو نبی اللہ ہم نے فرمایا کہ اب جبکہ یہ بات کہہ دی گئی ہے تم کس طرح اسے اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو.پس عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا.اور اس نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا.“ (صحيح بخاري كتاب العلم باب الرّحْلَةِ فِي الْمَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ وَتَعْلِيمِ أَهْلِهِ) جہاں تک طلاق اور خلع کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی فرق نہیں.بلکہ یہ اسلام کا احسان ہے کہ اس نے مرد کو طلاق کا حق دینے کے ساتھ ساتھ عورت کو خُلع لینے کا حق دیا.اور اس میں بھی مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیئے گئے ہیں.جب مرد طلاق دیتا ہے تو اسے عورت کو ہر قسم کے مالی حقوق دینے پڑتے ہیں اور مزید یہ کہ جو کچھ وہ بیوی کو پہلے مالی مفادات پہنچا چکا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا.اسی طرح جب عورت اپنی مرضی سے خاوند کے کسی قصور کے بغیر خُلع لیتی ہے تو اسے بھی مرد کے بعض مالی حقوق از قسم حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر عورت کے خلع لینے میں مرد کی زیادتی ثابت ہو تو اس صورت میں عورت کو یہ زائد فائدہ دیا گیا ہے کہ اسے مہر کا بھی حقدار قرار دیا جاتا ہے.جس کا فیصلہ بہر حال قضاء تمام حالات دیکھ کر کرتی ہے.اہل کتاب سے شادی کرنے، ولی کی ضرورت اور مرد کے ایک سے زائد شادیاں کر سکنے کے معاملات میں دراصل عورت کی حفاظت، وقار اور عزت کو ملحوظ رکھا گیا ہے.عورت کو اللہ تعالیٰ 500

Page 567

نے مرد کی نسبت عموماً نازک بنایا اور اس کی فطرت میں اثر قبول کرنے کا مادہ رکھا ہے.پس ایک مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کرنے سے روک کر اس کے دین کی حفاظت کی گئی ہے.شادی کے معاملہ میں لڑکی کی رضامندی کے ساتھ اس کے ولی کی رضامندی رکھ کر دیگر بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ عورت کو ایک مدد گار اور محافظ مہیا کرنا بھی ہے کہ عورت کے بیا ہے جانے کے بعد اس کے سسرال والے اس بات سے باخبر رہیں کہ عورت اکیلی نہیں بلکہ اس کی خبر رکھنے والے موجود ہیں.عورت کو ایک وقت میں ایک ہی شادی کی اجازت دے کر اسلام نے اس کی عصمت کی حفاظت کی ہے اور انسانی غیرت اور انسانی جبلت کے عین مطابق یہ حکم دیا ہے.جس حدیث میں عورتوں کے جہنم میں زیادہ ہونے کا ذکر ہے، وہاں لوگوں نے اس حدیث کا ترجمہ سمجھنے میں غلطی کھائی ہے.اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جہنم میں عورتوں کی کثرت ہو گی.بلکہ حضور لم نے فرمایا: أُرِيْتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ یعنی مجھے جہنم دکھائی جہاں میں نے دیکھا کہ اس میں ایسی عورتوں کی کثرت ہے جو اپنے خاوندوں کی ناشکر گزار ہیں.یعنی جو عور تیں اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں موجود تھیں ان میں سے زیادہ وہ عور تیں تھیں جو اپنے خاوندوں کی ناشکر گزار تھیں.پس ایک تو اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جہنم میں عورتیں مردوں سے زیادہ ہوں گی.دوسرا یہاں ان عورتوں کے جہنم میں جانے کی وجہ بھی بتا دی کہ وہ ایسی عورتیں ہے جو بات بات پر خدا تعالیٰ کے ان احسانات کی ناشکری کرنے والی ہیں، جو ان کے خاوندوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے ہیں.پھر اس کے بالمقابل احادیث میں نیک اور پاکباز خواتین کے پاؤں کے نیچے جنت ہونے کی بھی تو نوید سنائی گئی ہے.جو کسی مرد کے بارہ میں بیان نہیں ہوئی.501

Page 568

علاوہ ازیں اسلام نے مردوں اور عورتوں کے بعض حقوق و فرائض ان کے طبائع کے مطابق الگ الگ بیان فرمائے ہیں.مرد کو پابند کیا کہ وہ محنت مزدوری کرے اور گھر کی تمام ضروریات پوری کرے اور عورت کو کہا کہ وہ گھر اور بچوں کی حفاظت اور تربیت کرے.گویا باہر کی دوڑ دھوپ کے لئے مرد کو اس کی صلاحیتوں کے پیش نظر منتخب کیا اور عورت کی فطرت کے مطابق اور اس کے وقار کے پیش نظر گھر کی سر براہی اس کے سپر د کر دی.آنحضور ﷺ کا ارشاد کہ عورت میں دین اور عقل کے لحاظ سے ایک طرح کی کمی ہے.اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ بھی عورت کی فطرت کے عین مطابق کہی گئی بات ہے.دین کی کمی تو آنحضور لم نے خود بیان فرما دی کہ اس کی عمر کے ایک بڑے عرصہ میں اس پر ہر ماہ کچھ ایسے ایام آتے ہیں جن میں اسے ہر قسم کی عبادات سے رخصت ہوتی ہے.اور دیکھا جائے تو یہ بھی ایک طرح سے اس پر خدا تعالیٰ کا احسان ہے.جبکہ عقل کی کمی کی بات میں بھی عورت کی تحقیر نہیں کی گئی بلکہ اس سے مراد عورت کی سادگی ہے، جس کا ثبوت آج کی دنیا میں عورت نے خود مہیا کر دیا ہے کہ وہ بہت سادہ ہے.کیونکہ مغربی دنیا کے مرد نے اسے آزادی کا جھانسہ دے کر جس طرح اپنے فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے وہ اصدقُ الصَّادِقین حضرت محمد مصطفی ایم کے اس قول کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے.مرد نے اپنی ہوس کی خاطر اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر باہر بازار میں لا کھڑا کیا ہے.اور اسلام نے روزی روٹی کی جو ذمہ داری مرد پر ڈالی تھی اس میں بھی مرد نے عورت کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی یہ ذمہ داری اسے بانٹ کر اسے اپنے فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے.جہاں اسے مردوں کی طرح محنت کے ساتھ ساتھ مختلف الانواع مردوں سے واسطہ پڑتا جو بسا اوقات اپنی نظروں کی ہوس پوری کرنے کے لئے مختلف زاویوں سے اس پر نظریں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پھر اگر غور کیا جائے تو مغربی دنیا کا عورت اور مرد کی برابری کا اعلان صرف ایک کھوکھلا دعویٰ ہی ہے.اسی مغربی دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جس کی حکومتی مشنری چلانے والے 502

Page 569

پارلیمانی نظام میں مردوں کے برابر عورتیں موجود ہوں.انہیں مغربی ممالک میں بیسیوں جگہوں پر کسی ملازمت کے لئے جو پیکیج ایک مرد کو دیا جاتا ہے وہ عموماً اسی ملازمت کے لئے عورت کو نہیں دیا جاتا.اور یہ ساری باتیں عورت کی سادگی کی شاہد ناطق ہیں.جہاں تک قرآن کریم کے مرد کو قوام قرار دینے کی بات ہے تو خود قرآن کریم نے اس کی وجوہات بھی بیان فرمائی ہیں.ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ گھر یلو نظام چلانے کے لئے ایک فریق کو دوسرے پر کسی قدر فضیلت دی گئی ہے اور دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے اموال عورت پر خرچ کرتا ہے.ایک فریق کو دوسرے پر فضیلت کی وجہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے کیونکہ اگر ہم دنیا کے نظام پر نظر ڈالیں تو ہر جگہ ایک فریق اوپر اور ایک نسبتا نیچے ہوتا ہے.اگر دنیا میں سب لوگ برابر ہوتے یا یوں کہیں کہ اگر سب لوگ بادشاہ بن جاتے تو دنیا ایک دن بھی نہ چل سکتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو بڑا اور کچھ کو چھوٹا، کچھ کو امیر اور کچھ کو غریب بنایا.ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر ملک میں نظام حکومت کو چلانے کے لئے ایک کابینہ ہوتی ہے اگر اس ملک کے سارے لوگ ہی کا بینہ کا حصہ بن جائیں تو وہ ملک چل ہی نہیں سکتا.بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گھریلو نظام کو چلانے کے لئے مرد کو نسبتاً زیادہ اختیارات دیئے لیکن جس طرح ایک سربراہ حکومت اور ملک کی کابینہ کے زائد اختیارات کے ساتھ ساتھ اسی نسبت سے زائد فرائض بھی ہوتے ہیں اسی طرح اسلام نے مرد پر عورت کی نسبت زائد ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں.پس مرد و عورت کے حقوق و فرائض کے اعتبار سے اسلامی نظام فطرت کے عین مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کا رخنہ نہیں.(قسط نمبر 2، الفضل انٹر نیشنل 13 نومبر 2020ء صفحہ 12) 503

Page 570

مر دوں کو زرد رنگ کا لباس پہننے کی مناہی سوال: ایک دوست نے حضور انور کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضور ﷺ کے حکم کے مطابق مردوں کو زر درنگ کا لباس پہننے کی مناہی ہے.لیکن حضرت عثمان کے بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اس رنگ کا لباس استعمال کرتے تھے.ہر دو باتوں کی تطبیق کس طرح ہو سکتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 مئی 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: کتب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضور اللم نے مردوں کے لئے معصفر ، ورس اور زعفران سے رنگے کپڑوں (جو عموماً زرد اور سرخ رنگ یا ان سے ملتے جلتے رنگ ہوتے تھے) نیز خالص ریشم یا قتی (ایک قسم کا ریشم کا لباس پہننے سے منع فرمایا ہے.(صحیح مسلم کتاب اللباس والزينة بَاب النَّهْيِ عَنْ لُبْسِ الرَّجُلِ الثَّوْبَ الْمُعَصْفَرَ ) (صحيح بخاري كتاب المرضي باب وُجُوبِ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ)(صحيح بخاري كتاب اللباس بَاب الثَّوْبِ الْمُزَعْفَرِ) جبکہ اصفر اور صفرہ (یہ بھی زرد رنگ ہی تھا) کا حضور ام نے خود بھی استعمال فرمایا اور خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ بھی یہ رنگ استعمال کیا کرتے تھے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضور ا ہم نے سرخ اور زرد رنگ کا جبہ (حلَّةٌ حَمْراء) پہنا.(صحيح بخاري كتاب اللباس باب الثَّوْبِ الأَحْمَرِ) حضرت عبد الله بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو زرد رنگ سے اپنے (بالوں اور داڑھی) کو رنگتے ہوئے دیکھا اس لئے میں بھی اپنے بالوں اور داڑھی) کو اس رنگ سے رنگتا ہوں.(صحيح بخاري كتاب الوضوء بَاب غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ فِي النَّعْلَيْنِ وَلَا يَمْسَحُ عَلَي النَّعْلَيْنِ) اسی طرح حضرت عبد الرحمن بن عوف پر حضور ﷺ نے زرد رنگ دیکھا تو حضور الم کے پوچھنے پر انہوں نے عرض کی کہ انہوں نے شادی کی ہے، اس لئے ان پر زرد رنگ لگا ہوا ہے.(سنن نسائي كتاب النكاح باب التَّزْوِيجُ عَلَي نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ) رنگوں کی کئی اقسام اور کئی Shades ہوتے ہیں.احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ا نے کسی خاص قسم کے زرد رنگ سے منع فرمایا تھا جسے یا تو اس زمانہ میں اس علاقہ میں 504

Page 571

عورتیں استعمال کرتی تھیں.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور ام نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو گلابی مائل زرد (بعضفُرٍ مُوَدَّد) کپڑا پہنے دیکھا تو اسے ناپسند فرمایا.جس پر حضرت عبد اللہ بن عمرو نے اس کپڑے کو جلا دیا.حضور تم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اسے جلانے کی بجائے اپنی کسی بیوی کو دیدیتے.(سنن ابي.تاب فِي الْحُمْرَةِ) يا پھر کفار اس زرد رنگ کو پہنتے تھے.لہذا حضور لم نے صحابہ کرام کو کفار سے مشابہت سے بچانے کے لئے اس رنگ کے استعمال سے انہیں وقتی طور پر منع فرمایا.(صحیح مسلم كتاب اللباس والزينة باب النَّهْيِ عَنْ لُبْسِ الرَّجُلِ الثَّوْبَ الْمُعَصْفَرَ) جس طرح حضور الم نے بعض ایسے برتنوں کے استعمال سے صحابہ کو وقتی طور پر منع فرمایا تھا جو اُن کے علاقہ میں شراب کشید کرنے کے لئے استعمال ہوتے تھے.(صحیح بخاري كتاب الايمان بَابِ أَدَاءُ الْخُمُسِ مِنَ الْإِيمَانِ) سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل کی گائے کے رنگ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بعض رنگ باہم مشابہ ہوتے ہیں اور مختلف نقطہ نگہ سے ان پر مختلف الفاظ بول لئے جاتے ہیں.گہرا زرد رنگ بھی ایسے ہی رنگوں میں سے ہے.کوئی دیکھنے والا اسے زرد قرار دیدیتا ہے اور کوئی سرخ جیسے زعفران ہے.زعفران اگر مختلف لوگوں کے سامنے رکھا جائے تو بعض لوگ اس کا رنگ سرخ بتائیں گے اور بعض اس کا زرد رنگ قرار دیں گے.“ ( تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 506،505) پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معصفر ، ورس اور زعفران سے رنگا جانے والا کپڑا زیادہ قیمتی ہو اور ریشم کے لباس کی طرح اس زمانہ میں تکبر اور فخر کی علامت سمجھا جاتا ہو.اس لئے حضور ا ہم نے اپنے صحابہ کی تربیت کے پیش نظر اور انہیں دنیوی آسائشوں کی بجائے اُخروی نعماء کی طرف مائل کرنے اور ان میں فخر و مباہات کی بجائے عاجزی اور انکساری پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے قیمتی لباس کے استعمال سے منع فرمایا ہو اور اس کے مقابلہ پر عام زرد رنگ کے استعمال یا عام 505

Page 572

زر درنگ کے لباس کے استعمال جس کے نتیجہ میں ان برائیوں اور ان دنیوی آسائشوں کی طرف میلان نہ پیدا ہو تا ہو ، اس کی اجازت دی ہو.یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام، تابعین اور بعد میں آنے والے علماء و فقہاء کا مر دوں کے لئے اس رنگ کے لباس کے استعمال میں اختلاف پایا جاتا ہے.اکثریت نے جن میں حضرت ابو حنیفہ ، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی شامل ہیں اس کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے.جبکہ بعض نے اسے مکروہ تنزیہی (جس کام کے ترک کرنے میں سختی نہ پائی جاتی ہو.یا جس کام کے نہ کرنے سے ثواب ہو اور کرنے سے سزا کی وعید نہ ہو) قرار دیا ہے.پس حضور الم نے جس خاص زرد رنگ یا خاص Shade کے استعمال سے مسلمانوں کو منع فرمایا تھا حضرت عثمان نے اس رنگ یا اس Shade کو ہر گز استعمال نہیں فرمایا بلکہ یہ وہ زرد رنگ تھا جو حضور یم نے بھی استعمال فرمایا اور دیگر صحابہ بھی استعمال کیا کرتے تھے.چنانچہ حضرت عثمان کے لباس کے رنگ کے لئے ان روایات میں اصفر اور صفرہ کے الفاظ آئے ہیں ، معصفر اور زعفران کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے.(قسط نمبر 37، الفضل انٹر نیشنل 08 جولائی 2022ء صفحہ 10) 506

Page 573

مسلمان سوال: ایک مرتبی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ میرے علاقہ میں لوگ خود کو مسلمان تو کہتے ہیں، لیکن اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، ان لوگوں کو کس طرح تبلیغ کی جائے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: ان کو بتائیں کہ تم لوگ مسلمان ہو.قطع نظر اس کے کہ تم جماعت احمدیہ کے پیغام کو قبول کرتے ہو یا نہیں کرتے لیکن تم اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہو تو اللہ اور رسول کا یہ حکم ہے کہ جو قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے، وہ تمہیں پڑھنا آنا چاہیئے، تمہیں پانچ وقت نماز پڑھنی آنی چاہیئے.ارکان اسلام ہیں ان پر یقین ہونا چاہیئے اور ان پر عمل بھی ہونا چاہیئے.تو ان کو آپ سمجھائیں کہ دیکھو تم مسلمان کہلاتے ہو تو اللہ کے رسول پہ تمہارا ایمان کامل اس وقت ہوتا ہے جب تم اس کی سنت پر عمل کرو.پھر جو شریعت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں اتاری ہے، تم اسے پڑھنا سیکھو.اور اگر تمہیں ضرورت ہے کہ تمہیں قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا اور تم نے سیکھنا ہے تو ہم تمہیں قرآن کریم پڑھانے کے لئے حاضر ہیں.اور پھر اللہ اور رسول کی باتیں انہیں بتائیں.قرآن کریم انہیں پڑھائیں.اور انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم احمدی ہو جاؤ کہ نہ ہو.جب وہ اس طرح اسلام کی تعلیم کے بارہ میں جانیں گے تو پھر وہ خود اگلا قدم اٹھائیں گے.وہ آپ سے پوچھیں گے کہ اچھا بھئی ہمارے مولوی تو ہمیں کچھ نہیں پڑھاتے تھے ، تم لوگ ہمیں یہ پڑھا رہے ہو، تم کون ہو؟ پھر آگے بات چلتی ہے، پھر تبلیغ کے رستے بھی کھل جائیں گے.دوسرا یہ کہ ان کے لئے دعا بھی کریں.مسلم اللہ کے لئے دعا بھی کریں.یہی تو زمانہ تھا جس زمانہ میں اسلام کا صرف نام ہونا تھا.رہا دین باقی نہ اسلام باقی فقط رہ گیا اسلام کا نام باقی تبھی تو مسیح موعود علیہ السلام نے آنا تھا.تبھی تو اس مہدی اور مسیح نے آنا تھا، جس نے لوگوں 507

Page 574

کو دوبارہ پھر خدا تعالیٰ کے قریب کرنا تھا.اور ان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی.تو یہ چیزیں لوگ بھول گئے ہیں.تبھی تو مسیح موعود آئے تھے.اور یہی مسیح موعود کا زمانہ تھا.یہی مسیح موعود کا کام ہے.یہی مسیح موعود کے ماننے والوں کا کام ہے.اور یہی ان لوگوں کا کام ہے جنہوں نے تفقہ فی الدین کر کے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے، وقف کرنے کے لئے، تبلیغ کرنے کے لئے، تربیت کرنے کے لئے پیش کیا ہے.وہ آپ لوگ ہیں.پس یہ باتیں پہنچائیں اور پیغام پہنچائیں.ان کو سمجھائیں کہ اصل دین کیا ہے.تو یہ تو آنحضرت ام کی پیشگوئی کے عین مطابق مسیح موعود کے آنے کے زمانہ کی علامت ہے کہ لوگ نام کے مسلمان ہیں، اور اسلام کو بالکل بھول چکے ہیں، ان کو کچھ پتہ ہی نہیں.صرف لا إِلهَ إِلَّا اللہ تو کہہ دیتے ہیں، لیکن پتہ نہیں کہ لَا إِلهَ إِلَّا الله کا مطلب کیا ہے؟ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ تو کہہ دیتے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں کہ محمد رسول اللہ کا اُسوہ کیا ہے ؟ تو ہم نے یہ چیزیں لوگوں کو بتانی ہیں.اس کے لئے کوشش کرنی ہو گی.ان کو بتانا ہو گا.پہلے ان کو اسلام کے بارہ میں بتائیں.پھر احمدیت کے بارہ میں خود بخود ان کو پتہ لگ جائے گا.یہ تو اللہ تعالیٰ کی اور اللہ کے رسول کی بات پوری ہو رہی ہے کہ ان کو دین کا نہیں پتہ اور اسلام کا صرف نام رہ گیا ہے.ٹائٹل رہ گیا ہے.اور جو مولوی کہتا ہے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں.توڑ پھوڑ کر دو.احمدیوں کا سر پھاڑ دو.احمدیوں کی ٹانگیں توڑ دو.احمدیوں کو قتل کر دو.احمدیوں کو شہید کر دو.احمدیوں کی مسجدیں گرادو.احمدیوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچادو.بس یہی باتیں رہ گئیں ہیں ناں ان کے پاس! اور کیارہ گیا ہے؟ اسی چیز سے ہم نے ان کو پیار اور محبت سے سمجھانا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ پیار سے ، محبت سے کام کرو گے تو یہ تمہارے بہترین دوست بن جائیں گے.ولی حَمِیم فرمایا ہے کہ تمہارے گہرے دوست بن جائیں گے ، جگری یار بن جائیں گے.(قسط نمبر 7، الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 12) ا 508

Page 575

سوال : حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اطفال الاحمد یہ جرمنی کی Virtual ملاقات مؤرخہ 29 نومبر 2020ء میں ایک طفل کے اس سوال پر کہ آجکل کے حالات کی وجہ سے غیر مسلم ، مسلمانوں سے ڈرتے ہیں.ہم انہیں کیسے تسلی دے سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جواب: ہم تو ہمیشہ سے ہی کوشش کر رہے ہیں، پچھلے کئی سالوں سے کوشش کر رہے ہیں.اسی لئے میں Peace Symposium بھی کرتا ہوں.تم لوگوں کو بھی کہتا ہوں کہ Peace Symposium کرو.Peace کے پمفلٹ تقسیم کرو.لوگوں کو بتاؤ کہ اسلام کی اصل تعلیم کیا ہے.اسلام کی اصل تعلیم تو پیار اور محبت کی تعلیم ہے.لوگوں کو بتاؤ گے تو ان کا ڈر دُور ہو گا.ہماری کوشش جتنی زیادہ ہوگی اتنی لوگوں میں Awareness زیادہ پیدا ہو گی، لوگوں کو اسلام کے بارہ میں صحیح حالات کا علم ہو گا.اس لئے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بتائیں ، اپنے دوستوں کو بتائیں.سکول میں تمہارے دوست ہوں گے.ان کو بتاؤ کہ اسلام کی اصل تعلیم کیا ہے.اصل تعلیم تو یہ ہے کہ پیار اور محبت.اور اسلام کسی قسم کی جنگ اور جہاد کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے جہاں جنگ کی اجازت دی ہے یا جہاد کی اجازت دی ہے، وہاں جب جہاد کرنے کا پہلا حکم اتر اتو اللہ میاں نے قرآن کریم میں لکھا کہ تمہیں جہاد کی اس لئے اجازت دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ تم پہ ظلم کر رہے ہیں اور اگر ان کے ظلم کو نہیں رو کو گے تو پھر نہ کوئی چرچ باقی رہے گا اور نہ کوئی یہودیوں کا Synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی ٹیمپل باقی رہے گا اور نہ کوئی مسجد باقی رہے گی.تو اسلام نے اگر جہاد کی اجازت دی ہے تو مذہب کو Secure کرنے کے لئے دی ہے، مذہب کو محفوظ کرنے کے لئے دی ہے.اسلام نے کہیں یہ اجازت نہیں دی کہ مذہب پھیلانے کے لئے تمہیں جہاد کرنے اور قتل کرنے کی اجازت ہے.اسلام تو کہتا ہے کہ اگر تم دیکھو کہ عیسائیوں کے چرچ پہ کوئی حملہ کر رہا ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ جائے اور عیسائیوں کے چرچ کو بچائے.اسلام کہتا ہے کہ اگر یہودیوں کے Synagogue پہ کوئی حملہ کر رہا ہے تو تم جاؤ اور یہودیوں کے Synagogue کو بچاؤ.اسلام کہتا ہے کہ ہندؤوں 509

Page 576

کے ٹیمپل پہ کوئی حملہ کر رہا ہے تو تم جاؤ اور اس کو بچاؤ اور اس طرح تم اپنی مسجد کو بھی بچاؤ.اسلام تو سب کی حفاظت کرتا ہے.اس لئے لوگوں کو یہ کھل کے بتانا پڑے گا، اپنے دوستوں کو بتاؤ کہ قرآن کریم میں یہ لکھا ہوا ہے.لوگوں کو یہ بتاؤ کہ یہ لوگ جو مسلمان بنے پھرتے ہیں ، جو Jihadist ہیں یا جو Extremists ہیں، یہ جو شدت پسند ہیں یہ غلط باتیں پھیلا رہے ہیں یہ اسلام کی تعلیم نہیں پھیلا رہے.جب تم بتاؤ گے تو لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ اسلام کتنا امن قائم کرنے والا اور پیار کرنے والا مذہب ہے.(قسط نمبر 21، الفضل انٹر نیشنل 01 اکتوبر 2021ء صفحہ 11) 510

Page 577

ملک یمین سوال: بلاد عرب سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ملک یمین سے کیا مراد ہے.نیز طلاق کی صحیح شرائط کیا ہیں اور ایک دفعہ زبانی طلاق کہنے سے طلاق واقع ہونے کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمنان اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے.چنانچہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق دشمن اسلام کی ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کے قید کر لی جاتی تھیں.اور پھر دشمن کی یہ عورتیں تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے جب آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو چونکہ اس زمانہ میں ایسے جنگی قیدیوں کو رکھنے کے لئے کوئی شاہی جیل خانے وغیرہ نہیں ہوتے تھے.اس لئے انہیں مجاہدین لشکر میں تقسیم کر دیا جاتا تھا.اسلامی اصطلاح میں ان عورتوں کو ملک یمین کہا جاتا ہے.علاوہ ازیں ملک یمین کے سلسلہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ بر سر پیکار ہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جو بھی دشمن ہے ان کی عورتوں کو پکڑ لاؤ اور اپنی لونڈیاں بنالو.بلکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خونریز جنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرِي حَتَّي يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللهُ يُرِيدُ الْأَخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال: 68) یعنی کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کئے بغیر قیدی بنائے تم دنیا کی متاع 511

Page 578

چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے.یہاں جب خونریز جنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کے لئے وہاں موجود ہوتی تھیں.اس لئے کہ وہ صرف عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طور پر وہاں آئی ہوتی تھیں.پس اسلام انسانوں کو لونڈیاں اور غلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے.اسلام کے ابتدائی دور میں اُس وقت کے مخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اور آنحضرت ا نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سے حسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکید فرمائی گئی.اور جو نہی یہ مخصوص حالات ختم ہو گئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیار کرلی جیسا کہ اب مروج ہے تو اس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانے کا جواز بھی ختم ہو گیا.اب اسلامی شریعت کی رُو سے لونڈی یا غلام رکھنے کا قطعا کوئی جواز نہیں ہے.بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اب موجودہ حالات میں اس کو حرام قرار دیا ہے.طلاق کی شرائط یہ ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پورے ہوش و حواس میں اپنی مرضی سے طلاق دے تو طلاق خواہ زبانی ہو یا تحریری، ہر دو صورت میں مؤثر ہو گی.اسی طرح ایک دفعہ زبانی کہی ہوئی طلاق بھی طلاق ہی شمار ہو گی البتہ عدت کے اندر خاوند کو رجوع کا حق ہے بشر طیکہ یہ تیسری طلاق نہ ہو.کیونکہ تیسری طلاق کے بعد نہ عدت میں رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی عدت کے بعد نیا نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کہ حَتَّي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ والی شرط پوری نہ ہو یعنی یہ بیوی کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور تعلقات زوجیت کے بعد وہاں سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے طلاق یا خلع کے ذریعہ علیحدگی ہو جائے یا اس خاوند کی وفات ہو جائے تو تب یہ عورت اس پہلے مرد سے نکاح کر سکتی ہے.البتہ ایک ہی وقت میں تین مرتبہ دی جانے والی طلاق صرف ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے.چنانچہ 512

Page 579

کتب احادیث میں حضرت رکانہ بن عبد یزید کا واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دیدیں، جس کا انہیں بعد میں افسوس ہوا.جب یہ معاملہ آنحضرت ام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اس طرح ایک طلاق واقع ہوتی ہے.اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو.چنانچہ انہوں نے اپنی طلاق سے رجوع کر لیا اور پھر اس بیوی کو حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں دوسری اور حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں تیسری طلاق دی.(مسند احمد بن حنبل، من مسند بني هاشم، بداية مسند عبد الله بن العباس.حدیث نمبر 2266) ( قسط نمبر 15، الفضل انٹر نیشنل 21 تا 31 مئی 2021ء ( خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت) صفحہ 24) 513

Page 580

منافع کی رقم سوال : حکومتی بینکوں میں رقم جمع کروانے اور اس رقم پر ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لانے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دار الافتاء ربوہ کے ایک استفسار پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 12 نومبر 2017ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اس مسئلہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں جو فیصلہ ہوا تھا، میرا موقف بھی اسی کے مطابق ہے.نوٹ از ناقل :.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں اس مسئلہ پر ہونے والا فیصلہ درج ذیل ہے: حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں صدر مدر انجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے اس مسئلہ پر درج ذیل سفارشات حضور کی خدمت اقدس میں پیش کی گئیں : صدر انجمن احمد یہ بینکوں میں جمع شدہ رقوم پر کسی قسم کا سود نہیں لے رہی.اور نہ ہی P.F کی رقم ایسے بینکوں میں جمع کرائی جارہی ہے جن کا کاروبار یا ذریعہ آمدنی سود پر مبنی ہو.بلکہ حکومت کی قومی بچت کی سکیموں کے تحت قومی ادارہ میں لگائی گئی ہیں.یہ ادارہ اپنے سرمایہ کو قومی رفاہی کاموں میں لگاتا ہے (نہ کہ سودی کاروبار پر) اس کے نتیجہ میں معیشت میں ترقی ہوتی ہے اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں.جو حکومت کے Revenue میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں.اس طرح حکومت اپنے Depositor کو بھی اپنے منافع میں شریک کر لیتی ہے، جسے حکومت منافع کا نام دیتی ہے.جب Depositor کو اپنی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ رقم واپس بھی لے لیتا ہے.بینک اور قومی بچت سکیموں کے اس فرق کی بناء پر ہی سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس قومی ادارہ میں P.F کی رقم لگائی گئی ہے.اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے بلال فنڈ اور تزکیہ اموال فنڈ کی رقوم بچت سکیموں میں لگائی گئی ہیں.514

Page 581

مفتی سلسلہ احمدیہ (حضرت ملک سیف الرحمن) کے نزدیک بھی حکومت نے جو بچت کی سکیمیں جاری کی ہوئی ہیں ان میں حصہ لیا جا سکتا ہے.جیسا کہ انہوں نے تحریر کیا ہے.اگر کوئی چاہے تو حکومت نے بچت کی جو اسکیمیں جاری کی ہوئی ہیں ان میں حصہ لے سکتا ہے اور ان میں جو منافع ملتا ہے اسے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے.“ علاوہ ازیں پاکستان میں اس وقت کوئی متبادل نظام یا محفوظ ادارے موجود نہیں.جن میں اطمینان کے ساتھ سرمایہ لگایا جاسکے.جہاں سرمایہ محفوظ ہو، نفع بخش ہو یا نفع بخش نہیں تو کم از کم وقت گزرنے کے ساتھ روپیہ کی قیمت میں آنے والی کمی سے سرمایہ متاثر نہ ہو.(اس لئے بینکوں میں روپیہ جمع کرانے کی بجائے جہاں روپیہ ہی کے لین دین کا واضح سودی کاروبار ہوتا ہے، ان سکیموں میں روپیہ لگایا گیا ہے، جن میں سرمایہ کو رفاہی تعمیری کاموں پر خرچ کرنے کی وجہ سے حکومت سود سے پاک قرار دیتی ہے.یا کم از کم وہ بینکوں کی نسبت یقینی سودی کاروبار نہیں کرتیں) ایک ممکنہ شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جماعت اپنے سرمایہ سے خود ایسے کاروباری منصوبے جاری کرے جو یقینی طور پر سود کی آلائش سے پاک ہوں.مگر ملک کی موجودہ فضا جس میں سے جماعت گزر رہی ہے ، ایسی سرمایہ کاری کے لئے سر دست موافق نہیں.اس طرح گویا قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری ایک اضطرار کا رنگ رکھتی ہے.جس کے برعکس کوئی متبادل نظام سرمایہ کاری کا ملک میں موجود نہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ان سفارشات کو 13 اگست 1987ء کو منظور کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.”ٹھیک ہے.“ (قسط نمبر 4، الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 515

Page 582

سوال : ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں پاکستان کے بینکوں میں جمع کرائی جانے والے رقم پر ملنے والے منافع کو اپنے ذاتی استعمال میں لانے کی بابت مسئلہ دریافت کیا ہے.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 نومبر 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: پاکستان کے بینک عموماً PLS یعنی نفع نقصان میں شراکت کے طریق کار کے تحت رقوم جمع کرتے ہیں.اس سسٹم کے تحت جمع کرائی جانے والی رقوم پر ملنے والی زائد رقم سود کے زمرہ میں نہیں آتی.اسی طرح حکومتی بینکوں میں جمع کروائی جانے والی رقوم پر ملنے والی زائد رقم بھی سود شمار نہیں ہوتی.کیونکہ حکومتی بینک اپنے سرمایہ کو رفاہی کاموں پر لگاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملکی باشندوں کی سہولتوں کے لئے مختلف منصوبے بنائے جاتے ہیں، معیشت میں ترقی ہوتی ہے اور افراد ملک کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں.اس لئے ایسے بینکوں سے ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے.جہاں تک سود کا تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ ایک شخص اپنے فائدہ کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے.یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلائے گا.اسلام نے جس سود سے منع فرمایا ہے اس میں غربا کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں قرض دیتے وقت اس پر پہلے سے سود کی ایک رقم معین کر لی جاتی تھی اور غریب اس سود در سود کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا تھا اور یہ قرض اور سود کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا.جبکہ موجودہ زمانہ میں اگر کوئی قرض کی ہوئی رقم واپس کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کا دیوالیہ نکل جائے تو Bankruptcy کے تحت وہ قرض ختم بھی ہو جاتا ہے.اسی لئے اس زمانہ کے حکم و عدل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ”اب اس ملک میں اکثر مسائل زیر و زبر ہو گئے ہیں.گل تجار توں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود 516

Page 583

ہے.اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.“ اور حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کی روشنی میں جماعت احمد یہ اس بارہ میں مختلف معاملات اور مسائل سامنے آنے پر تحقیق کرتی رہتی ہے.اور اب بھی اس پر مزید تحقیق ہو رہی ہے.(قسط نمبر 7، الفضل انٹر نیشنل 22 جنوری 2021ء صفحہ 12) 517

Page 584

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سرکاری اور غیر سرکاری بینکوں سے ملنے والے منافع کی بابت دریافت کیا کہ کیا یہ سود کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 اگست 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا: جواب: بینک یا کسی مالیاتی ادارہ میں اس شرط کے ساتھ رقم جمع کروانا کہ مجھے اس پر پہلے سے طے شدہ معین شرح کے ساتھ صرف منافع ملے.یہ صورت ناجائز ہے، کیونکہ یہ زائد رقم سود کے زمرہ میں آتی ہے.لیکن اگر بینک یا مالیاتی ادارہ میں نفع و نقصان میں شراکت کی شرط کے ساتھ رقم جمع کروائی جائے جیسا کہ ہمارے پاکستان میں PLS یعنی Profit and loss sharing اکاؤنٹس ہوتے ہیں، ایسے اکاؤنٹ سے ملنے والی زائد رقم سود میں شامل نہیں اور انسان اسے اپنے ذاتی مصرف میں لا سکتا ہے.علاوہ ازیں حکومتی بینک یا حکومتی مالیاتی ادارے چونکہ اپنے سرمایہ کو ملک بھر کے لئے رفاہی کاموں میں لگاتے ہیں اور ان رفاہی کاموں سے نہ صرف اس بینک یا مالیاتی ادارہ میں رقم جمع کروانے والا فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ اس ملک کے دوسرے عوام وخواص بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں.مزید یہ کہ ان حکومتی بینکوں اور مالیاتی اداروں کی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت میں ترقی ہوتی اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں جو حکومت کی آمدنی میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں.ایسی صورت میں یہ حکومتی بینک یا حکومتی مالیاتی ادارے جب اپنے پاس رقم جمع کروانے والے عوام و خواص کو اپنے منافع میں شریک کرتے ہیں اور اپنے منافع میں سے کچھ معین حصہ اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو بھی دیتے ہیں تو یہ جائز ہے اور یہ زائد ملنے والا منافع سود کے زمرہ میں نہیں آتا اور انسان اسے اپنے ذاتی مصرف میں لا سکتا ہے.(قسط نمبر 39، الفضل انٹر نیشنل 26 اگست 2022ء صفحہ 9) 518

Page 585

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ایک حدیث جس میں حضور ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ ”کوئی شخص موت کی تمنانہ کرے“ کی صحت کے بارہ میں دریافت کیا.نیز لکھا کہ یہ حدیث ہمارے جماعتی لٹریچر میں نہیں ملتی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 اپریل 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آپ نے اپنے خط میں جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ احادیث کی مختلف کتب میں روایت ہوئی ہے.حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم نے بھی اس حدیث کو اپنی کتب میں درج کیا ہے.اور اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍ أَصَابَهُ فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًّا فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِيْ (صحيح بخاري كتاب المرضي بَاب تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ) یعنی حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے جو اسے پہنچی ہو ، موت کی تمنا نہ کرے.اور اگر اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو پھر وہ یہ کہے کہ اے اللہ !جب تک میرازندہ رہنا میرے لئے بہتر ہے، اس وقت تک مجھے زندہ رکھ اور جب مر جانا میرے لئے بہتر ہو تو مجھے موت دیدے.جماعتی لٹریچر میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے صحیح بخاری کی جو شرح لکھی ہے اس میں بھی اس حدیث کا ذکر موجود ہے.اور میں نے بھی 17 اگست 2012ء کے خطبہ جمعہ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص موت کی خواہش نہ کرے.“ کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو نیکیوں میں بڑھے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو گا اور اگر بد ہے 519

Page 586

تو توبہ کی توفیق مل جائے گی.(قسط نمبر 18، الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 11) 520

Page 587

سوال : انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ خدا تعالیٰ کون ہے اور کیا ہے ؟ BigBang سے کائنات کا آغاز ہوا اور اس وقت سے کائنات خود بخود چل رہی ہے تو پوری کائنات ہی خدا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد ہم خدا تعالیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں، یہ کس طرح ہوتا ہے ؟ روح کی حقیقت کیا ہے اور جب جنت اور جہنم کائنات کے مختلف حصے ہیں تو کیا روح ان کے درمیان سفر کر سکتی ہے یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟ حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2022ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطاء فرمائے.حضور نے فرمایا: جواب: 2.آپ کا دوسرا سوال انسان کی موت کے بارہ میں ہے.تو موت کی حقیقت یہ ہے کہ پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ انسانی جسم میں جو روح ڈالتا ہے، وفات کے وقت وہ روح اس فانی جسم کو چھوڑ دیتی ہے.اور جسم اسی دنیا میں ہی رہ جاتا ہے.چاہے وہ انسان پانی میں ڈوب کر مرے، چاہے وفات کے بعد اس جسم کو زمین میں دفنا دیا جائے یا جلا دیا جائے یا در ندوں پر ندوں کو کھلا دیا جائے.اور انسانی روح دوسرے عالم میں جسے عالم برزخ کہا جاتا ہے چلی جاتی ہے، جہاں اسے اپنے دنیوی اعمال کے مطابق نور یا تاریکی کا ایک نیا جسم ملتا ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام روح اور جسم کے اس تعلق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب یہ ناپائیدار ترکیب انسانی تفرق پذیر ہو جاتی ہے اور روح الگ اور جسم الگ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ دیکھا گیا ہے جسم کسی گڑھے میں ڈال دیا جاتا ہے اور روح بھی ایک قسم کے گڑھے میں پڑ جاتی ہے...گو موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہو جاتا ہے مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے.وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہو تا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم تیار ہوتا ہے.گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں.ایسا ہی خدا کے کلام 521

Page 588

میں بار بار ذکر آیا ہے اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلمانی قرار دیئے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے طیار ہوتے ہیں.اگر چہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں...لیکن جن کو عالم مکاشفات میں سے کچھ حصہ ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے طیار ہوتا ہے تعجب اور استبعاد کی نگہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے.غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزاء کا موجب ہو جاتا ہے.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 403 اور 405) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اقتباس میں روح کے ایک قسم کے گڑھے میں پڑنے کا جو فرمایا ہے وہ دراصل سورۃ عبس کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَةُ (سورة عبس: 22) یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان پر موت وارد کرتا ہے اور پھر اسے قبر میں رکھتا ہے.اب ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو مٹی کے ڈھیر والی قبر میسر نہیں آتی کیونکہ کروڑوں مردے جلائے جاتے ہیں اور دفن نہیں کئے جاتے.لاکھوں انسان ڈوب کر مرتے ہیں.ہزاروں انسانوں کو جنگل کے درندے کھا کر ختم کر دیتے ہیں.تو پھر ہر انسان کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسے خدا قبر میں رکھتا ہے ؟ یہاں قبر سے مراد وہ روحانی قیام گاہ ہے جہاں مرنے کے بعد اور کامل حساب کتاب سے پہلے انسان کی روح رکھی جاتی ہے.(قسط نمبر 53، الفضل انٹر نیشنل 29 اپریل 2023ء صفحہ 4) 522

Page 589

مومن سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک مومن کے لئے ہمیشہ بھلائیاں ہی آتی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ یہ دنیا مومن کے لئے جہنم ہے.اس میں کونسی بات ٹھیک ہے.نیز یہ کہ کیا یہ درست ہے کہ اگر ایک نماز رہ جائے تو پچھلی چالیس سال کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: در حقیقت ایک سچے مومن کو دنیاوی چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، وہ انہیں اللہ کے حکم پر صرف عارضی سامان کے طور پر ضرورت کی حد تک استعمال کرتا ہے.اور ہر وقت اس کی نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی پر ہوتی ہے.پس ایک مومن چونکہ دنیوی چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگتا کہ وہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد کو محو نہ کر دیں اس لئے دنیاوی لحاظ سے اس پر بظاہر تنگی آتی ہے لیکن وہ اس سے تکلیف محسوس نہیں کرتابلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر وہ اس دنیاوی تنگی کو بھی خوشی سے برداشت کر لیتا ہے.جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے رب! قید خانہ مجھے ان دنیاوی آسائشوں اور آلائشوں سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ خواتین مجھے بلاتی ہیں.(سورۃ یوسف:34) اس کے مقابلہ پر ایک کافر چونکہ اس دنیا کو ہی اپنا سب کچھ خیال کرتا اور ہر وقت اسی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور دنیاوی سامانوں سے خوب حظ اٹھاتا اور وہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہوتے ہیں.پس اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے.(قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 523

Page 590

مومن دنیا میں تکلیف و مصائب کا شکار سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا خدا تعالیٰ کا نافرمان اس دنیا میں تکلیف و مصائب میں رہتا ہے یا مومن تکالیف کا شکار رہتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 اگست 2021ء میں بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ایم نے نہایت پر حکمت کلام کے ذریعہ یہ مضمون ہمیں سمجھا دیا ہے آپ فرماتے ہیں: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ (صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق باب نمبر (1) یعنی یہ دنیا مومن کی قید اور کافر کی جنت ہے.اس جامع و مانع کلام میں حضور الل ﷺ نے ہمیں یہ بات سمجھائی ہے کہ ایک مومن اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام اور ناپسندیدہ قرار دی جانے والی شہوات دنیا اسی کی خاطر چھوڑ دیتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر اور اس کی اطاعت میں مجاہدات کرتا اور مشکلات برداشت کرتا ہے ، اس لئے یہ دنیا بظاہر اس کے لئے ایک قید خانہ کی مانند ہو جاتی ہے.لیکن جب وہ فوت ہو تا ہے تو اس کی اس عارضی قربانی کے نتیجہ میں اُخروی اور دائمی زندگی میں اس کو ان مصائب و مشکلات سے استراحت نصیب ہوتی اور وہ ان دائمی انعامات کا وارث قرار پاتا ہے جن کا خدا تعالیٰ نے اس سے وعدہ کیا ہوتا ہے.جبکہ ایک کافر خدا تعالیٰ کے حکموں کو پس پشت ڈال کر اس عارضی دنیا کے ہر قسم کے حلال و حرام سامان زندگی سے فائدہ اٹھاتا اور اسی دنیا کو اپنے لئے جنت خیال کرتا ہے.لہذا جب وہ مرتا ہے تو اس دنیا میں کئے گئے اپنے کرموں کی وجہ سے اسے اُخروی اور دائمی زندگی میں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.پس ایک سچے مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کو اپنے پیش نظر رکھے کہ دنیوی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے اور اس کی تکالیف بھی عارضی ہیں.اور جن لوگوں 524

Page 591

کو اس عارضی زندگی میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں ایسے شخص کی اُخروی زندگی جو دراصل دائمی زندگی ہے، کی تکالیف دور فرما دیتا ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن کو اس دنیا میں جو بھی تکالیف پہنچی ہیں یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے جو کانٹا بھی چبھتا ہے اس کے بدلے میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اجر لکھ دیتا ہے یا اس کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے.(صحیح مسلم كتاب البر والصلة والاداب باب ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِيمَا يُصِيبُهُ مِنْ مَرَضٍ أَوْ حُزْنٍ...) اس دنیوی زندگی کے مصائب میں اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو سب سے زیادہ ڈالتا ہے.اسی لئے حضور لم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے انبیاء پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں پھر رتبہ کے مطابق درجہ بدرجہ باقی لوگوں پر آزمائش آتی ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو حضور ا سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا.(صحیح بخاري كتاب المرضي باب شدّةِ الْمَرْضِ) چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ا کے کئی بچے فوت ہوئے، حالانکہ صرف ایک بچہ کی وفات کا دکھ ہی بہت بڑا دکھ ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " قرآن کریم کے دوسرے مقام میں جو یہ آیت ہے.وَ اِنْ مِّنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيَّاد ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا و نَذَرُ الظَّلِمِينَ فِيْهَا جِثِيًّا (سورۃ مریم:73،72) یہ بھی در حقیقت صفت محمودہ ظلومیت کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اور ترجمہ آیت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نفس نہیں جو آگ میں وارد نہ ہو.یہ وہ وعدہ ہے جو تیرے رب نے اپنے پر امر لازم اور واجب الادا ٹھہرا رکھا ہے.پھر ہم اس آگ میں وارد ہونے کے بعد متقیوں کو نجات دیدیتے ہیں اور ظالموں کو یعنی ان کو جو مشرک اور سرکش ہیں جہنم میں زانو پر گرے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں...اس آیت میں بیان فرمایا کہ متقی بھی اس نار کی مس سے خالی نہیں ہیں.اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اسی دنیا میں جو دارالا بتلا ہے انواع اقسام کے پیرایہ میں بڑی مردانگی سے اس نار 525

Page 592

میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں اور طرح طرح کے آسمانی قضاء و قدر بھی نار کی شکل میں اُن پر وارد ہوتے ہیں.وہ ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کر سکتا اور حدیث صحیح میں ہے کہ تپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ نار جہنم میں سے ہے اور مومن بوجہ تپ اور دوسری تکالیف کے نار کا حصہ اسی عالم میں لے لیتا ہے.اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف شاقہ جہنم کی صورت میں اس کو نظر آتی ہیں.پس وہ بطیب خاطر اس جہنم میں وارد ہو جاتا ہے تو معاً اپنے تئیں بہشت میں پاتا ہے.66 (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 142 تا145) دنیوی تکالیف اور آزمائشوں میں بہت سی الہی حکمتیں مخفی ہوتی ہیں، جن تک بعض اوقات انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ہوتی.پس انسان کو صبر اور دعا کے ساتھ ان کو برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: بعض وقت مصلحت الہی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی.طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامر ادیاں لا حق حال ہوتی ہیں مگر ان سے گھبرانا نہ چاہیے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 23، ایڈیشن 2016ء) (قسط نمبر 42، الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2022ء صفحہ 10) 526

Page 593

میاں بیوی سوال : ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں کسی اخبار میں سے شائع ہونے والا ایک عورت کا واقعہ کہ اس نے اپنے خاوند کو اس کے شراب کے نشے میں دُھت ہونے کی وجہ سے ہمبستری سے انکار کر دیا، بیان کر کے دریافت کیا ہے کہ اگر میاں بیوی میں سے ایک فریق نشے میں ہو تو کیا باہم محبت کے جذبات قائم رہ سکتے ہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مارچ 2020ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: ایسی صورت میں سوال محبت کے جذبات قائم رہنے یا نہ رہنے کا نہیں بلکہ سلیم فطرت کی بات ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرعون کی بیوی کی اس دعا کو ہمارے لئے محفوظ کر کے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ رَبّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ یعنی اے خدا ! تُو اپنے پاس ایک گھر جنت میں میرے لئے بھی بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کی بد اعمالیوں سے بچالے.اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ فرعون کی بیوی فرعون سے علیحد گی لینے میں بہر حال مجبور تھی جو اس نے خدا کے حضور یہ التجا کی.پس اس قرآنی تعلیم سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی مومنہ عورت کے بڑے خاوند کی سمجھانے کے باوجود اصلاح نہ ہو رہی ہو اور عورت کو اس سے علیحدگی لینے میں کوئی مجبوری در پیش نہ ہو تو اس مومنہ عورت کو دعا کر کے ایسے بُرے خاوند سے علیحدگی لے لینی چاہیئے.(قسط نمبر 23، الفضل انٹر نیشنل 19 نومبر 2021ء صفحہ 12) 527

Page 594

سوال : ایک خاتون نے خاوند بیوی کے حقوق و فرائض کے سلسلہ میں دو احادیث حضور ایڈہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوا کر دریافت کیا کہ کیا ان احادیث کا اطلاق خاوند پر بھی ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22 نومبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: پہلی حدیث جس میں بیان ہوا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے انکار کر دے تو فرشتے اس بیوی پر ساری رات لعنت بھیجتے ہیں.یادرکھیں اس کا اطلاق صرف بیوی پر نہیں ہو تا بلکہ برعکس صورت میں خاوند پر بھی اس حدیث کا اطلاق ہو گا.اس حدیث سے اگر کوئی پہلو نکل سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ حضور الم نے مرد کی جنسی خواہش کے لئے بے صبری کی وجہ سے بیوی کو کسی جائز عذر کے بغیر انکار کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے.ورنہ جس طرح بیوی پر لازم ہے کہ وہ خاوند کے دیگر حقوق کے ساتھ اس کی جنسی ضرورت کو بھی پورا کرے اسی طرح خاوند کا فرض ہے کہ وہ بیوی کی دیگر ضروریات کے ساتھ اس کے جنسی حقوق بھی ادا کرے.لہذا اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کی خواہش پر بغیر کسی مجبوری کے اس کے جنسی حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح قابل گرفت ہو گا جس طرح ایک بیوی بغیر کسی جائز عذر کے اپنے خاوند کی جنسی خواہش کی تکمیل سے انکار کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی مستوجب ہوتی ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن مظعون کی بیوی حضور ﷺ کی ازواج کے پاس آئیں.ازواج مطہرات نے ان کی بُری حالت دیکھ کر ان سے دریافت کیا کہ انہیں کیا ہوا ہے کیونکہ قریش میں ان کے خاوند سے زیادہ امیر آدمی اور کوئی نہیں ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرے خاوند کا دن روزہ سے اور رات نماز پڑھتے گزرتی ہے.پھر جب حضور لم اپنی ازواج کے پاس تشریف لائے تو ازواج مطہرات نے اس بات کا ذکر حضور الم سے کیا.راوی کہتے ہیں کہ حضور ایلام 528

Page 595

حضرت عثمان بن مظعونؓ سے ملے اور ان سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری ذات اُسوہ نہیں ہے؟ اس پر حضرت عثمان بن مظعون نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.بات کیا ہے؟ جس پر حضور الم نے فرمایا کہ تم رات نماز پڑھتے ہوئے اور دن روزہ رکھ کر گزار دیتے ہو، جبکہ تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تم پر حق ہے.لہذا نماز پڑھا کرو لیکن سویا بھی کرو اور کبھی روزہ رکھو اور کبھی چھوڑ دیا کرو.راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد یہی عورت دوبارہ ازواج مطہرات کے پاس آئیں تو انہوں نے خوب خوشبو لگائی ہوئی تھی اور دلہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھیں.ازواج مطہرات نے انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واہ کیا بات ہے ! جس پر انہوں نے بتایا کہ اب ہمیں بھی وہ سب میٹر ہے جو باقی لوگوں کے پاس ہے.(مجمع الزوائد کتاب النکاح باب حق المرأة علي الزوج) پھر مذکورہ بالا زیر نظر حدیث کے حوالہ سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ جائز عذر یا مجبوری کی بناء پر اس فعل سے انکار کی صورت میں کوئی فریق اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہیں ہو گا.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور اللهم جب غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ایک صحابی جو سفر پر گئے ہوئے تھے ، اور حضور ام کے غزوہ کے لئے کوچ کر جانے کے بعد مدینہ واپس آئے.اور اپنی بیوی کی طرف پیار کرنے کے لئے بڑھے ، جس پر اس بیوی نے یہ کہتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ حضور ﷺ تو اس قدر گرمی میں دشمن سے جنگ کے لئے تشریف لے گئے ہیں اور تمہیں پیار کرنے کی اور میرے پاس آنے کی پڑی ہوئی ہے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 344،343 مطبوعہ 1948) پس اگر کوئی فریق کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ہو گا.لیکن اگر کوئی خاوند یا بیوی دوسرے فریق کے قریب آکر اس کے جذبات بھڑ کانے کے بعد اسے تنگ کرنے کی غرض سے اس سے دور ہو جاتا ہے تو یقینا ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد ہو گا.2.جہاں تک خاوند کے گھر میں موجود ہونے کی صورت میں اس کی اجازت سے بیوی کے 529

Page 596

نفلی روزہ رکھنے کی حدیث کا تعلق ہے تو اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ہر موقعہ پر خیال رکھا ہے.چنانچہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کی تقسیم میں گھر سے باہر کی تمام تر ذمہ داریوں کی ادائیگی اور بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی فراہمی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے سپرد کی ہے اور گھریلو ذمہ داریاں (جن میں گھر کے مال کی حفاظت، خاوند کی ضروریات کی فراہمی اور بچوں کی پرورش وغیرہ شامل ہیں) اللہ تعالیٰ نے بیوی کو سونپی ہیں.پس جب خاوند اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے گھر سے باہر جائے تو بیوی کو گھریلو فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نفلی عبادت بجالانے کی کھلی چھٹی ہے.لیکن خاوند کی موجودگی میں چونکہ اس کی ضروریات کی فراہمی بیوی کے فرائض میں شامل ہے.اس لئے فرمایا کہ خاوند کے حقوق کی ادا ئیگی میں سے اگر بیوی کچھ رخصت چاہتی ہو تو اسے خاوند کی اجازت سے ایسا کرنا چاہیئے.چنانچہ اس حکم کی حکمت حدیث میں بیان ایک واقعہ سے بخوبی معلوم ہو جاتی ہے.حضرت ابو سعید روایت کرتے ہیں کہ حضرت صفوان بن معطل (جو رات بھر کھیتوں پر کام کرتے تھے اور دن کے وقت گھر پر ہوتے تھے) کی بیوی نے حضور الم کی خدمت میں شکایت کی کہ جب میں نفلی روزہ رکھتی ہوں تو میرا خاوند میر اروزہ تڑوا دیتا ہے.حضور لم کے دریافت کرنے پر حضرت صفوان نے عرض کیا کہ جب یہ روزے رکھتی ہے تو رکھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ میں جوان آدمی ہوں اس لئے صبر نہیں کر سکتا.راوی کہتے ہیں کہ اس دن حضور الم نے فرمایا کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے.(سنن ابی داؤد کتاب الصوم) پس خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی تعلیمات میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے تمام حقوق جن میں جنسی تعلقات بھی شامل ہیں کی پوری دیانتداری کے ساتھ ادائیگی کی تلقین فرمائی گئی ہے اور کسی فریق کو یہ اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ عبادت کو وجہ بنا کر دوسرے کے ان حقوق کو تلف کرے.لہذا جو فریق کسی بھی رنگ میں دوسرے فریق کی حق تلفی کا مر تکب ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قصور وار متصور ہوگا.(قسط نمبر 28، الفضل انٹر نیشنل 04 فروری 2022ء صفحہ 11) 530

Page 597

میت کو چھونا سوال: گھانا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر کسی نے میت کو چھوا ہو تو کیا اس کے لئے غسل جنابت کرنا فرض ہے اور کیا وہ غسل جبابت کئے بغیر نماز جنازہ میں شامل ہو سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 اگست 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور ا نے فرمایا: لَيْسَ عَلَيْكُمْ فِي غَسْلِ مَيّتِكُمْ غُسْلٌ إِذَا غَسَلْتُمُوهُ فَإِنَّ مَيْتَكُمْ لَيْسَ بِنَجَسٍ فَحَسْبُكُمْ أَنْ تَغْسِلُوا أَيْدِيَكُمْ (المستدرك علي الصحيحين للحاكم كتاب الجنائز باب ليس عليكم في غسل ميتكم غسل) یعنی جب تم اپنے کسی مردہ کو غسل دو تو اس کے بعد تم پر غسل واجب نہیں.کیونکہ تمہارے مردے نجس نہیں ہیں.مُردہ کو غسل دینے کے بعد تمہارا ہاتھ دھو لینا کافی ہے.اسی طرح موطا امام مالک میں حضرت اسماء بنت عمیس کے بارہ میں آتا ہے کہ جب انہوں نے اپنے خاوند حضرت ابو بکر صدیق کی وفات پر انہیں غسل دیا تو غسل دینے کے بعد وہاں موجود مہاجرین سے پوچھا کہ کیا اب میرے لئے غسل کرنا ضروری ہے؟ تو اس کے جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ نہیں.(موطا امام مالك كتاب الجنائز بَابٍ غُسْلِ الْمَيِّت) حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ہم مردہ کو غسل دیا کرتے تھے.پھر ہم میں سے بعض خود غسل کر لیتے تھے اور بعض غسل نہیں کرتے تھے.(سنن دارقطني كتاب الجنائزباب التَّسْلِيمُ فِي الْجَنَازَةِ وَاحِدٌ وَالتَّكْبِيرُ أَرْبَعًا وَخَمْسًا) ان احادیث کے مقابل پر سنن ابی داؤد میں مروی حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت میں یہ ذکر آتا ہے کہ حضور اﷺ نے فرمایا کہ جو مردہ کو غسل دے اسے چاہیے کہ غسل کرے.اسی طرح 531

Page 598

حضرت عائشہ کی ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ چار چیزوں کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے ، جنابت کی وجہ سے، جمعہ کے روز ، سینگی لگوانے سے اور مردہ کو غسل دے کر.لیکن اس مضمون کی روایات کو علماء حدیث نے ضعیف اور منسوخ قرار دیا ہے.نیز کہا ہے کہ غنسل سے مراد صرف ہاتھوں کا دھونا ہے.فقہاء اربعہ کے نزدیک بھی میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا واجب نہیں، صرف مستحب ہے.تا کہ میت کو غسل دینے کی وجہ سے اگر انسان کو کوئی گندگی لگ گئی ہو یا گندے پانی کے چھینٹے انسان کے بدن پر پڑ گئے ہوں تو غسل کے نتیجہ میں اس کی صفائی ہو جائے.پس جب میت کو غسل دینے کی وجہ سے نہلانے والے پر غسل واجب نہیں ہوتا تو میت کو چھونے والے پر کس طرح غسل واجب ہو سکتا ہے.لہذا میت کو غسل دینے والا بغیر غسل کے نماز جنازہ میں شامل ہو سکتا ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں.ہاں فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ جس طرح باقی نمازوں کے لئے وضوء ضروری ہے اسی طرح نماز جنازہ کے لئے بھی وضوء کرنا ضروری ہے ، وہ اسے کرنا چاہیئے.(قسط نمبر 42، الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2022ء صفحہ 10) 532

Page 599

میٹنگز میں حاضری سوال : مؤرخہ 19 دسمبر 2020ء کی Virtual ملاقات میں ایک ممبر لجنہ اماءاللہ کے اس سوال کہ ہم اپنی میٹنگز میں حاضری کس طرح بڑھا سکتے ہیں ؟ کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: بس پیچھے پڑے رہیں ، پیار سے سمجھاتے رہیں.عہدیدار بن کے لوگوں کے پیچھے نہ پڑیں.بڑی بہن بن کے پڑیں یا چھوٹی بہن بن کے پڑیں ، اماں بن کے پیچھے پڑی رہیں تو لوگ آجائیں گے.ہمارا کام ہے مستقل کہتے رہنا.میٹنگز میں دلچسپی کے پروگرام بھی رکھا کریں.انہیں کو Improve کریں.جو نہیں آتیں، انہیں سے تقریر کروا دیا کریں تو آپ ہی آجائیں گی.(قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 533

Page 600

نبی یا مصلح کو دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث کرنا سوال: مصر کے ایک دوست نے قرآن کریم کی آیت سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا.(سورۃ الاحزاب: 63) اور آیت فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا (سورة فاطر: 44) سے استدلال کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ خدا تعالیٰ کے بعض قانون قطعی اور مستقل ہیں جن میں اس کا مستقل نبی یا تابع نبی بھیجنے کا قانون بھی شامل ہے.تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے 622 سال بعد حضرت موسی علیہ السلام یا آنحضرت ام کی طرح کوئی شرعی نبی اور اگر اسلام خاتم الادیان ہے تو کیا کوئی غیر شرعی نبی آسکتا ہے یا آپ کا کوئی خلیفہ آپ کی پیروی میں نبی بن سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 09 ستمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا: جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے قرآن کریم کی جن آیات سے خدا تعالیٰ کے کسی مستقل یا تابع نبی کے بھیجنے کی سنت کے قطعی اور دائمی ہونے کا استدلال کیا ہے وہ ان آیات سے نہیں ہوتا کیونکہ سورۃ الاحزاب کی آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے مقابلہ پر مخالفین اسلام خصوصاً منافقین کی ناکامی اور تباہی کے مضمون کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو پہلی الہی جماعتوں کے حق میں بھی جاری ہوئی اور اب بھی جاری ہو گی کہ مخالفین و منافقین اسلام ذلیل و رسوا ہوں گے اور اہل اسلام کو کامیابی عطاہو گی.اور سورۃ الفاطر کی آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ انبیاء کی بعثت سے قبل لوگ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس خدا کی طرف سے کوئی ڈرانے والا آیا تو وہ ضرور پہلے لوگوں سے زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے.لیکن جب خدا تعالیٰ اپنے کسی فرستادہ کو ان کے پاس بھجواتا ہے تو وہ اس کے خلاف کمربستہ ہو جاتے، تکبر کے ساتھ اسے دھتکارتے اور اس کے خلاف ہر طرح کی سازشیں کرتے ہیں.ایسی صورت میں پھر اللہ تعالیٰ بھی ان مخالفین کے خلاف اپنی پہلی سنت کو جاری کرتا ہے اور انہیں طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کر کے ناکام و نامراد کر دیتا ہے اور اپنے فرستادوں 534

Page 601

کو فتح و نصرت سے سرفراز فرماتا ہے.پس ان آیات سے آپ جو استدلال کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے.لیکن اس کے ساتھ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی ہدایت اور اصلاح کے لئے جب بھی کسی نبی یا مصلح کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ انسانیت پر رحم کرتے ہوئے کسی نہ کسی نبی یا مصلح کو ضرور دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث کرتا چلا آیا ہے اور اس کا یہ رحم آئندہ بھی جاری رہے گا لیکن اس کے اس رحم کا اظہار کس طرح ہو گا؟ یہ وہی بہتر جانتا ہے.جہاں تک قرآن کریم اور احادیث نبویہ اہل علم سے اس بارہ میں رہنمائی کے حصول کا تعلق ہے تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی الم نے اپنے بعد اپنی اُمت میں دو دفعہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی بشارت دی ہے.پہلی مرتبہ کے قیام کے بعد آپ نے اس نعمت کے اٹھائے جانے کا ذکر فرمایا ہے لیکن دوسری مرتبہ اس نعمت کے قیام کی خوشخبری دینے کے بعد آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، جس سے اس نعمت کے قیامت تک جاری رہنے کا استدلال ہو تا ہے.(مسند احمد بن حبنل جلد 6 صفحه 285، مسند النعمان بن بشير ) پھر آنحضور ﷺ کے غلام صادق اور اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر قرآن کریم کی مختلف آیات ، احادیث نبویہ الم اور دیگر مذاہب کی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے.آنحضور ایم کی بعثت پانچویں ہزار سال میں ہوئی اور اب ہم اس سلسلہ کے ساتویں ہزار سال میں سے گزر رہے ہیں.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہمارا عقیدہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے یہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے خالق ہے اگر چاہے تو کروڑوں مرتبہ زمین و آسمان کو فنا کر کے پھر ایسے ہی بنادے اور اُس نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ آدم جو پہلی امتوں کے بعد آیا جو ہم سب کا باپ تھا اس کے دنیا میں آنے کے وقت سے یہ سلسلہ انسانی شروع ہوا ہے.اور اس سلسلہ کی عمر کا پورا دور سات ہزار برس تک ہے.یہ سات ہزار خدا کے نزدیک ایسے ہیں جیسے انسانوں کے سات دن.یاد رہے کہ قانون الہی نے مقرر کیا ہے کہ ہر ایک اُمت 535

Page 602

کے لئے سات ہزار برس کا دور ہوتا ہے.اسی دور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانوں میں سات دن مقرر کئے گئے ہیں.غرض بنی آدم کی عمر کا دور سات ہزار برس مقرر ہے.اور اس میں سے ہمارے نبی الیم کے عہد میں پانچ ہزار برس کے قریب گزر چکا تھا.یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ خدا کے دنوں میں سے پانچ دن کے قریب گزر چکے تھے جیسا کہ سورۃ والعصر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت ام کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانہ پر اسی قدر مدت گزر چکی تھی جو سورہ موصوفہ کے عددوں سے ظاہر ہے.اس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں.قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مرسل جو آدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا.یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبر کرنے والے کے لئے کافی ہیں.اور ان سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رُو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلط کا زمانہ ہے اور پھر تیسر ا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سید و مولی ختمی پناہ حضرت محمد اللهم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیا ہے) اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلّط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہو تا اور چودھویں صدی کے سر پر ختم ہو جاتا ہے.اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر و برکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور 536

Page 603

توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے.اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں.اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں.اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے.کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفضل طور پر اور یہ تفصیل قرآن شریف میں موجود ہے جس سے مسیح موعود کی نسبت قرآن شریف میں سے صاف طور پر پیشگوئی نکلتی ہے.اور یہ عجیب بات ہے کہ تمام انبیاء اپنی کتابوں میں مسیح کے زمانہ کی کسی نہ کسی پیرایہ میں خبر دیتے ہیں اور نیز دجالی فتنہ کو بھی بیان کرتے ہیں.اور دنیا میں کوئی پیشگوئی اس قوت اور تواتر کی نہیں ہوگی جیسا کہ تمام نبیوں نے آخری مسیح کے بارہ میں کی ہے.“ لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 184 تا 186) ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں: ” تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دور مقرر کئے ہیں.یعنی ایک وہ دور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسر اوہ دور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں...پھر ہزار پنجم کا دور آیا جو ہدایت کا دور تھا.یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی اللی علم مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت ام کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا.پس آپ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبر دست دلیل ہے کہ آپ کا ظہور اُس سال کے اندر ہو ا جو روزِ ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور 537

Page 604

اسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہو تا ہے.کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے.اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت ا نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں.چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح.مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو.کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلا تا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی.اس بات میں نصاری اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے.اور خدا نے جو سورہ والعصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے.اور نبیوں کا اس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہو گا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہو گا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اول تھا.“ لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 207 تا208) پس یہ اس سلسلہ کا وہ آخری ہزار سال ہے جس میں خدا تعالیٰ نے آنحضور الم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خَاتَمُ الْخُلَفَاء کے طور پر مبعوث فرمایا.آنحضور لم کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ یہ آخری ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت احمد یہ حقہ اسلامیہ کا دور ہے.اس لئے اگر کسی وقت دنیا کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے متبعین میں سے کسی ایسے شخص کو دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کرے گا جو وقت کا خلیفہ ہو گا لیکن خلیفہ سے بڑھ کر مصلح کا مقام بھی اسے عطا ہو گا.جیسا 538

Page 605

کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس مقام پر فائز فرمایا تھا.چنانچہ آپ اس موعود خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے.الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے.ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں.یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی.گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سر خرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے.( رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء، خطابات شوری جلد دوم صفحہ 18) (قسط نمبر 43، الفضل انٹر نیشنل 18 نومبر 2022ء صفحہ 11) 539

Page 606

سوال: بلاد عرب میں کسی شخص کے نبوت اور مجددیت کا دعویٰ کرنے پر اس فعل کے رڈ میں ایک عرب احمدی کی طرف سے لکھے جانے والے مضمون اور اس مضمون پر ربوہ سے بعض علماء کی طرف سے موصول ہونے والے موقف کے بارہ میں انچارج صاحب عربک ڈیسک یو کے نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 06 نومبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: دنیا کی ہدایت اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی یا مصلح کا مبعوث ہونا اس کی ایک ایسی نعمت ہے، جس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں.اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے جب بھی کسی نبی یا مصلح کی ضرورت محسوس کی تو انسانیت پر رحم کرتے ہوئے اس نے کسی نبی یا مصلح کو ضرور دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا.اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور کسی انسان کو حق نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس سنت کو معطل قرار دے، کیونکہ قرآن و سنت میں ایسی کوئی نص موجود نہیں.تاہم آئندہ زمانوں میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا اظہار کس طریق پر ہو گا، یہ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.البتہ قرآن کریم، احادیث نبویہ الم اور انبیائے سابقہ کے صحیفوں میں آنحضور الم کے بعد ہمیں صرف ایک ہی جَرِيٌّ اللهِ فِي حُللِ الْأَنْبِيَاءِ کی بشارت ملتی ہے.پھر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی الم نے بھی اپنے بعد امت محمدیہ میں دو دفعہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی بشارت دی ہے.پہلی مرتبہ کے قیام کے بعد آپ نے اس نعمت کے اٹھائے جانے کا ذکر فرمایا ہے لیکن دوسری مرتبہ اس نعمت کے قیام کی خوشخبری دینے کے بعد آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، جس سے اس نعمت کے قیامت تک جاری رہنے کا استدلال ہو تا ہے.(مسند احمد بن حبنل جلد 6 صفحه 285، مسند النعمان بن بشير) آنحضور ام کے غلام صادق اور اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی بشارتوں کے تحت جہاں ایک طرف خود کو خاتم الخلفاء قرار دیا اور اپنے بعد کسی اور مسیح کے آنے کا انکار فرمایا وہاں دوسری طرف آپ نے اپنے بعد ہزاروں 540

Page 607

مثیل مسیح کی آمد کے امکان کا بھی ارشاد فرمایا.چنانچہ قرآن کریم کی مختلف آیات ، احادیث نبویہ الی یتیم اور دیگر مذاہب کی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے آپ نے انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہونے اور اس کے پانچویں ہزار سال میں آنحضور الم کے مبعوث ہونے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ”اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں.اس کے بعد کسی دوسرے میسیج کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں.“ آپ نے مزید فرمایا: (لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 186) چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح.مگر وہ جو اس کے لئے بطورِ ظل کے ہو.کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجد د صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی.“ (لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 208) حضور علیہ السلام مجدد الف آخر بھی ہیں.جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حضور الم کی بشارتوں کے تحت آپ کے ذریعہ جاری ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ میں آنے والے آپ کے خلفاء آپ کی پیروی اور اتباع کی برکت سے اپنے اپنے وقت کے مجدد بھی ہوں گے، اس لئے آپ کی پیروی اور اتباع سے باہر اب کسی مجدد کا آنا بھی محال ہے.حضور علیہ السلام اپنے بعد آنے والے مثیل مسیح کے آنے کے امکان کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اور بھی مسیح کا مشیل بن کر آوے کیونکہ نبیوں کے مثیل ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہتے ہیں بلکہ خدائے تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی 541

Page 608

میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذُریت سے ایک شخص پیدا ہو گا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہو گی وہ آسمان سے اترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا اور وہ اسیر وں کو رستگاری بخشے گا اور اُن کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 179،180) اس بارہ میں آپ نے مزید فرمایا: میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں ہاں اس زمانہ کے لئے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے اور یہ بھی ظاہر رہے کہ یہ کچھ میرا ہی خیال نہیں کہ مثیل مسیح بہت ہو سکتے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کا بھی یہی منشاء پایا جاتا ہے.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197) ایک اور جگہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ” اس عاجز کی طرف سے بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر ہی خاتمہ ہے اور آئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا بلکہ میں تو مانتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آسکتا ہے.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 251) فرمایا: عیسی ابن مریم نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو جاملا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر بیحی کا ہم نشین ہوا کیونکہ اس کے واقعہ اور بیٹی نبی کے واقعہ کو باہم مشابہت تھی.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نیک انسان تھا اور نبی تھا مگر اسے خدا کہنا کفر ہے.لاکھوں انسان دنیا میں ایسے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے.خدا کسی کے 542

Page 609

برگزیدہ کرنے میں کبھی نہیں تھکا اور نہ تھکے گا.“ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 29) پس یہ اس سلسلہ کا وہ آخری ہزار سال ہے جس میں خدا تعالیٰ نے آنحضور الم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خَاتَمُ الْخُلفاء کے طور پر مبعوث فرمایا.آنحضور یتیمی کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ یہ آخری ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت احمد یہ حقہ اسلامیہ کا دور ہے.اس لئے اگر کسی وقت دنیا کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے متبعین میں سے کسی ایسے شخص کو دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کرے گا جو وقت کا خلیفہ ہو گا لیکن خلیفہ سے بڑھ کر آپ کا مثیل اور مصلح ہونے کا مقام بھی اسے عطاء ہو گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جانے والی بشارتوں کے عین مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس مقام پر فائز فرمایا تھا.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس موعود خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے.الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے.ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں.یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی.گویا اس خلافت کا مقام 543

Page 610

ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور شمر خرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے.“ (رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء، خطابات شوری جلد دوم صفحہ 18) (قسط نمبر 47، الفضل انٹر نیشنل 13 جنوری 2023ء صفحہ 11) 544

Page 611

نطفہ میں Lactobacillus نامی بیکٹیریا سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ نطفہ میں جو Lactobacillus نامی بیکٹیر یا پایا جاتا ہے، جو ایک قسم کی بجلی یا روشنی بھی پیدا کر سکتا ہے تو کیا یہی وہ بجلی یا روشنی ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی پیدائش کے سلسلہ میں اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرمایا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 دسمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کی بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ Lactobacillus نامی بیکٹیر یا نطفہ میں موجود ہوتے ہیں ، جو Contaminant کے طور پر نطفہ میں پائے جاتے ہیں ، ان میں سے بعض میں بہت چھوٹے پیمانہ پر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے.لیکن یہ بیکٹیریا تو بہت سی اور چیزوں مثلاً دہی، وٹامنز ، Herbs وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں.اسی طرح جسم میں بہت سے اور بیکٹیریا بھی ہیں جن میں کسی حد تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جیسا کہ Probiotic micro organisms نامی پیٹ کے بیکٹیریا جو کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں.پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ بجلی بھی الیکٹرون کی Movement سے پیدا ہوتی ہے.جو کہ ایک مادی چیز ہے.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی پیدائش میں روح کے نمودار ہونے کا جہاں ذکر فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسانی تعلق کا مقصد اور فلسفہ بیان فرمایا ہے وہاں دراصل اس فطرت کو بیان فرمایا ہے جو انسانی جبلت میں مضمر ہوتی ہے اور جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فطرت اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا.(الروم:31) یعنی یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا، کے الفاظ میں اور آنحضور لم نے مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ (صحيح بخاري كتاب الجنائزبَاب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّي عَلَيْهِ) یعنی ہر بچہ فطرت صحیحہ پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں، کے الفاظ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے.چنانچہ 545

Page 612

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " جس طرح بیٹے میں باپ اور ماں کا کچھ کچھ حلیہ اور خوبو پائی جاتی ہے اسی طرح روحیں جو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلی ہیں اپنے صانع کی سیرت و خصلت سے اجمالی طور پر کچھ حصہ رکھتی ہیں اگر چہ مخلوقیت کی ظلمت و غفلت غالب ہو جانے کی وجہ سے بعض نفوس میں وہ رنگ الہی کچھ پھیکا سا ہو جاتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ہر یک روح کسی قدر وہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اور پھر بعض نفوس میں وہ رنگ بد استعمالی کی وجہ سے بد نما معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس رنگ کا قصور نہیں بلکہ طریقہ استعمال کا قصور ہے.سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 16 169) 169،168) روح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: روح ایک لطیف نور ہے جو اس جسم کے اندر ہی سے پیدا ہو جاتا ہے جو رحم میں پرورش پاتا ہے.پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ اول مخفی اور غیر محسوس ہوتا ہے پھر نمایاں ہو جاتا ہے اور ابتداء اس کا خمیر نطفہ میں موجود ہوتا ہے.بے شک وہ آسمانی خدا کے ارادہ سے اور اس کے اذن اور اس کی مشیت سے ایک مجہول الکنہ علاقہ کے ساتھ نطفہ سے سے تعلق رکھتا ہے اور نطفہ کا وہ ایک روشن اور نوار نی جو ہر ہے.نہیں کہہ سکتے کہ وہ نطفہ کی ایسی جز ہے جیسا کہ جسم جسم کی جز ہوتا ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر سے آتا ہے یا زمین پر گر کر نطفہ کے مادہ سے آمیزش پاتا ہے بلکہ وہ ایسا نطفہ میں مخفی ہوتا ہے جیسا کہ آگ پتھر کے اندر ہوتی ہے.خدا کی کتاب کا یہ منشا نہیں ہے کہ روح الگ طور پر آسمان سے نازل ہوتی ہے یا فضا سے زمین پر گرتی ہے اور پھر کسی اتفاق سے نطفہ کے ساتھ مل کر رحم کے اندر چلی جاتی ہے.بلکہ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہر سکتا.اگر ہم ایسا خیال کریں تو قانون قدرت ہمیں باطل پر ٹھہراتا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 323،322) 546

Page 613

وو روح اور جسم کا تعلق بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: روح اور جسم کا ایک ایسا تعلق ہے کہ اس راز کو کھولنا انسان کا کام نہیں.اس سے زیادہ اس تعلق کے ثبوت پر یہ دلیل ہے کہ غور سے معلوم ہوتا ہے کہ روح کی ماں جسم ہی ہے.حاملہ عورتوں کے پیٹ میں روح کبھی اوپر سے نہیں گرتی بلکہ وہ ایک نور ہے جو نطفہ میں ہی پوشیدہ طور پر مخفی ہوتا ہے اور جسم کی نشوو نما کے ساتھ چمکتا جاتا ہے.“ حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 321) ”خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطر تأخدا سے ایک تعلق پیدا ہو جاوے.،، ریویو آف ریلیجنز جلد 1 نمبر 5 ، مئی 1902ء صفحہ 178) انسان میں روحانی اور جسمانی طور پر روح کے ڈالے جانے کی بابت حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِيْنَ.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب ہم ایک پیدائش کو طیار کر چکے تو بعد اس کے ہم نے ایک اور پیدائش سے انسان کو پیدا کیا.اور کے لفظ سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ وہ ایسی فوق الفہم پیدائش ہے جس کا سمجھنا انسان کی عقل سے بالا تر ہے اور اُس کے فہم سے بہت دور یعنی روح جو قالب کی طیاری کے بعد جسم میں ڈالی جاتی ہے وہ ہم نے انسان میں روحانی اور جسمانی دونوں طور پر ڈال دی جو مجہول الکنہ ہے اور جس کی نسبت تمام فلسفی اور اس مادی دنیا کے تمام مقلد حیران ہیں کہ وہ کیا چیز ہے...پس اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ ”روح“ بھی خدا کی پیدائش ہے مگر دنیا کے فہم سے بالا تر ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 217،216) 547

Page 614

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ روح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اصل میں روح وہ چیز ہے جس کے ذریعہ کسی کو حیات ممتاز ملے.پس وہ روح جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کر رہی ہے اور وہ روح جس کے ساتھ انسان باقی حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے ان دونوں پر لفظ روح کا اطلاق ہوتا ہے.یاوہ روح جو انسان کو باخد ابنادیتی ہے.پس کلام الہی بھی ایک روح ہے جو انسان کو نئی زندگی بخشتا ہے.“ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 72) پس ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی جسمانی اور روحانی پیدائش کے وقت انسانی قالب کی تیاری پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی روح بالکل الگ چیز ہے اور مختلف بیکٹیریا میں پائی جانے والی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بالکل اور چیز ہے.(قسط نمبر 49، الفضل انٹر نیشنل 24 فروری 2023ء صفحہ 11) 548

Page 615

نظر لگنے یا مظلوم کی بد دعا کا اثر ہونا سوال : ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کی نظر لگ گئی یا مظلوم کی بد دعا سے کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچی ہے تو کیا یہ سوچ شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 07 مارچ 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب نظر لگنے یا مظلوم کی بد دعا کے اثر ہونے کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کیونکہ دونوں باتوں میں نتیجہ خدا تعالیٰ کی ذات نکالتی ہے نہ کہ نظر ڈالنے والا یا مظلوم خود کچھ کرتا ہے.نظر ڈالنے والے کی طرف سے تو صرف ایک غیر ارادی خواہش کا اظہار ہوتا ہے یا مظلوم کی درد سے ایک آہ اٹھتی ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کر کے نتیجہ مترتب فرماتا ہے، لہذاہر دو معاملات کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں خصوصاً جبکہ دونوں باتیں احادیث نبویہ الم سے ثابت ہیں.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضور لم نے نصیحت فرمائی کہ : اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ (صحيح بخاري كتاب المظالم والغصب یعنی مظلوم کی بد دعا سے ڈرو اس لئے کہ اس کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی.اسی طرح حضور الم نے فرمایا: الْعَيْنُ حَقٌّ وَنَهَى عَنِ الْوَشْمِ (صحیح بخاري كتاب الطب) یعنی حضور ا نے فرمایا کہ نظر کا لگ جانا حق ہے.نیز آپ لال نے جسم گدوانے سے منع فرمایا.( قسط نمبر 5، الفضل انٹر نیشنل 01 جنوری 2021ء صفحہ 18) 549

Page 616

نعماء جنّت سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمتِ اقدس میں لکھا کہ بعض آزاد خیال اور نام نہاد حقوق نسواں کی علم بردار خواتین کا اسلام کے خلاف ایک اعتراض یہ ہے کہ قرآن و احادیث میں مردوں کو جنت میں ملنے والی نعماء از قسم شراب، مختلف الانواع، کھانے اور عورتوں کے ملنے کا وعدہ ہے، جبکہ اس دنیا میں جو شخص ان چیزوں کو استعمال کرے وہ بُرا انسان کہلاتا ہے.اسی طرح یہ وعدے صرف مردوں کے لئے ہیں اور عور تیں اس دنیا میں جو کچھ بھی کر لیں ان کے لئے ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے.اس بارہ میں تفصیلی جواب کی درخواست ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22 مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراضات اسلام کی نہایت خوبصورت تعلیم سے کلیاً ناواقفیت کی وجہ سے پید اہوتے ہیں.ظاہر ہے اسلام مخالفین تو اسلام کی تعلیم کو نہ جاننے کی وجہ سے ایسے اعتراضات کرتے ہیں لیکن افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے لوگ بھی چونکہ صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں اور قرآن و حدیث میں بیان مذہبی تعلیم کا حصول ضروری نہیں سمجھتے اور مادی دنیا ان کے دل و دماغ پر اس طرح حاوی ہوتی ہے کہ اسی کی چمک دمک کے پیچھے اپنی ساری زندگی گنوا دیتے ہیں اور زندگی کے اصل مقصد اور مدعا عبودیت خداوندی کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں.اور اُخروی زندگی کی نہایت مصفیٰ اور پاکیزہ نعماء کو بھی اسی دنیوی زندگی کے میلے کچیلے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے پھر اس قسم کے اعتراضات ان کے دلوں میں جنم لیتے ہیں.قرآن کریم میں بیان جنت کی نعماء کو تمثیل کے رنگ میں جہاں اس دنیا کی مختلف اشیاء کے ناموں سے بیان کیا گیا ہے وہاں جنت کی ان نعماء کو ہر قسم کی آلائش اور بد اثر سے پاک بھی قرار دیا گیا.چنانچہ قرآن کریم نے جنت میں ملنے والی مختلف اقسام کی شراب ہائے طہور کو کئی ناموں اور کیفیتوں کے ساتھ بیان کیا ہے جو عقل ، نشاط اور عشق الہی پیدا کرتی ہیں.خوشبو دار ، معطر اور پاک ہیں.اور جو لوگ انہیں پیتے ہیں وہ نا قابل بیان روحانی نشہ سے مسرور ہو جاتے 550

Page 617

ہیں.چنانچہ سورۃ الصافات میں فرمایا: يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مِّنْ مَّعِينٍ - بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّرِية لا فِيْهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ.(الصافات: 46 تا 48) یعنی (چشموں کے) پانیوں سے بھرے ہوئے گلاس ان کے پاس لائے جائیں گے.نہایت شفاف، پینے والوں کے لئے سراسر لذت.ان (مشروبات) میں نہ کوئی نشہ ہو گا اور نہ وہ ان کے اثر سے عقل کھو بیٹھیں گے.سورۃ الواقعہ میں فرمایا: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ ـ بِالْوَابِ وَ آبَارِيْقَ ، وَ كَاسِ مِّن مَّعِينٍ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ (الواقعة: 18 تا 20) یعنی ان کے پاس خدمت کے لئے کثرت سے نو عمر لڑکے آئیں گے جو کہ ہمیشہ اپنی نیکی پر قائم رکھے جائیں گے.کٹورے اور صراحیاں اور شفاف پانی سے بھرے ہوئے پیالے لئے ہوئے.ا س کے اثر سے نہ وہ سر درد میں مبتلا کئے جائیں گے ، نہ بہکی بہکی باتیں کریں گے.سورۃ الدھر میں فرمایا: اِنَّ لأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا.(الدھر: 6) فرمایا: وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا - (الدھر: 18) پھر فرمایا: وَ سَقْهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا - (الدهر:22) یعنی خدا کے نیک بندے ایسے پیالے پیئں گے جن میں کافور کی خاصیت ملائی گئی ہو گی.اور (مومنوں) کو ان (جنتوں) میں ایسے گلاسوں سے پانی پلایا جائے گا جن میں سونٹھ ملی ہوئی ہو گی.551

Page 618

ان کا رب انہیں پاک کرنے والی شراب پلائے گا.سورۃ المطففین میں فرمایا: يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّختُومٍ خِتُمُهُ مِسْكَ وَفِي ذلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ.وَ مِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيْهِ - عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ.(المطففين: 26 تا 29) یعنی انہیں خالص سر بمہر شراب پلائی جائے گی.اس کے آخر میں مشک ہو گا.اور چاہیے کہ خواہش رکھنے والے (انسان) ایسی (ہی) چیز کی خواہش کریں.اور اس میں تسنیم کی آمیزش ہو گی.ہماری مراد اس) چشمہ (سے) ہے جس سے مقرب لوگ پیئیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنت کی شراب کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "شراب صافی کے پیالے جو آب زلال کی طرح مصفی ہوں گے بہشتیوں کو دیئے جائیں گے.وہ شراب ان سب عیبوں سے پاک ہو گی کہ دردسر پیدا کرے یا بیہوشی اور بدمستی اس سے طاری ہو.بہشت میں کوئی لغو اور بیہودہ بات سننے میں نہیں آئے گی اور نہ کوئی گناہ کی بات سنی جائے گی بلکہ ہر طرف سلام سلام جو رحمت اور محبت اور خوشی کی نشانی ہے سننے میں آئے گا...اب ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ وہ بہشتی شراب دنیا کی شرابوں سے کچھ مناسبت اور مشابہت نہیں رکھتی بلکہ وہ اپنی تمام صفات میں ان شرابوں سے مبائن اور مخالف ہے اور کسی جگہ قرآن شریف میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ وہ دنیوی شرابوں کی طرح انگور سے یا قند سیاہ اور کیکر کے چھلکوں سے یا ایسا ہی کسی اور دنیوی مادہ سے بنائی جائے گی بلکہ بار بار کلام الہی میں یہی بیان ہوا ہے کہ اصل تخم اس شراب کا محبت اور معرفت الہی ہے جس کو دنیا سے ہی بندہ مومن ساتھ لے جاتا ہے.اور یہ بات کہ وہ روحانی امر کیونکر شراب کے طور پر نظر آجائے گا.یہ خدائے تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں پر مکاشفات کے ذریعہ سے کھلتا ہے اور عقلمند لوگ دوسری علامات و آثار سے اس کی 552

Page 619

حقیقت تک پہنچتے ہیں.“ سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 157-156) اسی طرح جنت میں ملنے والے جوڑوں کی پاکیزگی کو بھی صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ وہ نہایت پاک اور نیک ساتھی ہوں گے جنہیں بیش قیمتی موتیوں کی طرح خیموں میں چھپا کر رکھا گیا ہو گا انہیں ان جنتیوں سے پہلے کسی جن و انس نے مس تک نہیں کیا ہو گا.اور سب سے اہم بات یہ فرمائی کہ : وَ زَوَّجُنُهُمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ.(سورة الطور:21) یعنی ہم جنتیوں کو ان نہایت خوبصورت ساتھیوں کے ساتھ بیاہ دیں گے.پس جنت صرف عیش و طرب کی جگہ نہیں بلکہ نہایت قابل قدر اور ایک روحانی مقام ہے.اگر چہ جنت کی نعمتوں کے نام دنیاوی چیزوں جیسے رکھے گئے ہیں لیکن ان سے مراد روحانی نعمتیں ہیں نہ کہ کوئی جسمانی اشیاء.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی دولتمند شخص کسی عالم سے کہے کہ میرے پاس مال ہے تو وہ عالم اپنے کتب خانہ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ میرے پاس تم سے بھی بڑھ کر خزانہ ہے.اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہ ہو گا کہ ان کتابوں میں روپیہ بھر اہوا ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جس چیز کو تم خزانہ کہتے ہو اس سے زیادہ فائدہ والی چیز میرے پاس موجود ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر میں اسی قسم کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: اول تو یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اگلے جہان کے انعامات کا سمجھنا انسانی عقل سے بالا ہے پس اس دنیا کی زندگی سے اُخروی زندگی کا قیاس کرنا درست نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(السجدہ : 18) یعنی کوئی انسان بھی اس کو نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے لئے اگلے جہان میں کیا کیا نعمتیں مخفی رکھی گئی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے بارہ میں جو کچھ قرآن 553

Page 620

کریم میں بیان ہوا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے اور اس سے وہ مفہوم نکالنا درست نہیں جو اس دنیا میں اسی قسم کے الفاظ سے نکالا جاتا ہے...جب قرآن کریم نے یہ کہا کہ مومنوں کو وہ جنتیں ملیں گی جن میں سایہ دار درخت اور نہریں اور نہ خراب ہونے والا دودھ اور نہ سڑنے والا پانی اور موم اور آلائش سے پاک شہد اور نشہ نہ دینے والی بلکہ دل کو پاک کرنے والی شراب ہو گی تو اس سے ان کے اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ جن چیزوں کو تم نعمت سمجھتے ہو وہ حقیقی مومنوں کو ملنے والے انعامات سے ادنی ہیں.جن نہروں کو تم نعمت سمجھتے ہو ان کا پانی تو سر جاتا ہے.مومنوں کو وہ نہریں ملیں گی جن کا پانی سڑنے والا نہ ہو گا.اور جن باغوں کو تم نعمت خیال کرتے ہو وہ اصل نعمت نہیں اصل نعمت تو وہ باغ ہیں جو کبھی برباد نہ ہوں گے اور وہ مومنوں کو ملیں گے.جس شراب کو تم نعمت سمجھتے ہو اس کی مومنوں کو ضرورت نہیں وہ شراب تو گندی اور ا پر پردہ ڈالنے والی شئے ہے.مومنوں کو تو خداوہ شراب دے گا جو عقل کو تیز کرنے والی اور پاکیزگی بڑھانے والی ہو گی.اور جس شہر پر تم کو ناز ہے اس میں تو آلائش ہوتی ہے خدا تعالیٰ مومنوں کو وہ شہد دے گا جو ہر آلائش سے پاک ہو گا.اور جن ساتھیوں پر تم کو ناز ہے وہ نعمت نہیں کیونکہ وہ گندے ہیں.مومنوں کو اللہ تعالیٰ وہ ساتھی دے گا جو پاک ہوں گے.جن پھلوں پر تم کو ناز ہے وہ تو ختم ہو جاتے ہیں مومنوں کو تو وہ پھل ملیں گے جو کبھی ختم نہ ہوں گے اور ہر وقت اور خواہش کے مطابق ملیں گے.یہ مضمون ایسا واضح ہے کہ ہر شخص جو تعصب سے خالی ہو کر غور کرے اس کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے اور اس کے لطیف اشارہ کو پاسکتا ہے مگر جو متعصب ہو یا جاہل.اس کا علاج تو کوئی ہے ہی نہیں...خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں جن باغوں اور نہروں اور پھلوں اور جس دودھ اور شہد اور شراب کا ذکر آتا ہے وہ اس دُنیا کے باغوں اور نہروں عقل : 554

Page 621

اور پھلوں سے بالکل مختلف ہیں اور وہاں کا دودھ اور شہد اور شراب اس دنیا کے دودھ اور شہد اور شراب سے بالکل مختلف ہے اور قرآن کریم نے ان امور کی خود ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے بعد اس امر میں شک کرنا محض تعصب کا اظہار ہے اور یہ محاورات چونکہ پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لئے ان آیات میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو.“ ( تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 241 تا 246) پھر اُخروی زندگی کی ان نعمتوں کو یہ دنیاوی نام بھی لوگوں کو سمجھانے اور ان کی طرف انہیں راغب کرنے کے لئے دیئے گئے ہیں.کیونکہ مذہب ہر قسم کے لوگوں کے لئے ہوتا ہے.اس لئے ایسی چیزوں کو جن کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو ضروری ہوتا ہے کہ انہیں ایسے الفاظ میں بیان کیا جائے کہ انہیں ہر سطح کے لوگ سمجھ جائیں اور ہر درجہ کے لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکیں.اس حکمت کو مد نظر رکھ کر قرآن کریم نے اُخروی زندگی کی نعماء کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو ہر قسم کے لوگوں کے لئے ان کی عقل اور درجہ کے مطابق تشفی کا موجب ہوں.پھر کفار چونکہ مسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ یہ لوگ خود بھی ہر قسم کی نعمتوں سے محروم ہیں اور ہم سے بھی یہ سب نعمتیں چھڑوانا چاہتے ہیں.لہذا اللہ تعالیٰ نے اُخروی زندگی کی نعمتوں کو ان کے ذہن کے قریب کرنے کے لئے ان دنیوی اشیاء کا نام دید یا جن کو وہ نعمت سمجھتے تھے اور انہی چیزوں کے نام لے کر بتایا کہ مومنوں کو یہ سب کچھ حاصل ہو گا.ورنہ قرآن و حدیث میں یہ مضمون خوب کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ جنت میں ایسی نعماء ہوں گی جنہیں پہلے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا، نہ کسی کان نے ان کے بارہ میں سنا ہو گا اور نہ کسی کے دل میں ان کے متعلق کبھی کوئی خیال گزرا ہو گا.ہاں صرف وہ نیک اور پارسا لوگ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے ان دنیوی آلائشوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے روحانی پروازیں کرنے والے ہوں گے انہیں اسی دنیا میں ان نعمتوں کا مزا چکھا دیا جائے گا اور ایسے لوگ جب جنت میں ان نعماء کو اپنی پوری کیفیت کے ساتھ پائیں گے تو برملا پکار اٹھیں گے کہ : هُذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ (البقرة: 26) 555

Page 622

یعنی یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں اس سے پہلے بھی دیا گیا تھا.سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام اُخروی زندگی کی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”خدا فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں.سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں.اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے.پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا.اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا.اس آیت کی شرح میں جو ابھی میں نے ذکر کی ہے ہمارے سید و مولیٰ نبیام فرماتے ہیں کہ بہشت اور اس کی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں کبھی گذریں.حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور کانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گزرتی ہیں.پس جبکہ خدا اور رسول اس کا ان چیزوں کو ایک نرالی چیزیں بتلاتا ہے تو ہم قرآن سے دور جا پڑتے ہیں اگر یہ گمان کریں کہ بہشت میں بھی دنیا کا ہی دودھ ہو گا جو گائیوں اور بھینسوں سے دوہا جاتا ہے.گویا دودھ دینے والے جانوروں کے وہاں ریوڑ کے ریوڑ موجود ہوں گے.اور درختوں پر شہد کی مکھیوں نے بہت سے چھتے لگائے ہوئے ہوں گے اور فرشتے تلاش کر کے وہ شہد نکالیں گے اور نہروں میں ڈالیں گے.کیا ایسے خیالات اس تعلیم سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں جس میں یہ آیتیں موجود ہیں کہ دنیا نے ان چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا اور وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت بڑھاتی ہیں اور روحانی غذائیں ہیں.گو ان غذاؤں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ ان کا ساپر 556

Page 623

سر چشمہ روح اور راستی ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 397-398) حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ”اسلامی بہشت کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظل ہے.وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور ہر ایک کی بہشت اسی کا ایمان اور اس کے اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں.اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں.لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے.خدا کی پاک تعلیم ہمیں یہی بتلاتی ہے کہ سچا اور پاک اور مستحکم اور کامل ایمان جو خدا اور اس کی ذات اور اس کی صفات اور اس کے ارادوں کے متعلق ہو وہ بہشت خوش نما اور بارور درخت ہے اور اعمال صالحہ اس بہشت کی نہریں ہیں.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 390) باقی جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصہ کا تعلق ہے کہ اُخروی زندگی میں صرف مردوں سے انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے عورتوں سے ایسا کوئی وعدہ نہیں.یہ سوال بھی اسلامی تعلیمات سے لاعلمی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں جگہ جگہ جہاں نیک اور صالح مر دوں کو ان اُخروی انعامات کا وارث قرار دیا گیا ہے وہاں نیک اور صالحہ خواتین کو بھی ان انعامات کا حقدار قرار دیا گیا ہے.چنانچہ فرمایا: وَ مَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا - (النساء:125) یعنی اور جو لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں مومن ہونے کی حالت میں نیک کام کریں گے تو وہ جنت میں داخل ہوں گے.اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر (بھی) ظلم نہیں کیا جائے گا.557

Page 624

اسی طرح فرمایا: مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَي إِلَّا مِثْلَهَا وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثي وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ.(المؤمن: 41) یعنی جو بُرا عمل کرے گا اس کو اسی کے مطابق نتیجہ ملے گا اور جو کوئی ایمان کے مطابق عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ وہ ایمان میں سچا ہو وہ اور اس کے ہم مشرب لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کو اس میں بغیر حساب کے انعام دیا جائے گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پہلی قوموں نے مردوں کے متعلق بے شک قوانین تجویز کئے تھے مگر عورتوں کے حقوق کا انہوں نے کہیں ذکر نہیں کیا تھا.رسول کریم ام وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے یہ تعلیم دی کہ جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ہیں.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، اسی طرح عورتوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں.پھر ہر شعبہ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے.اسے جائداد کا مالک قرار دیا.اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا.اس کی تعلیم کی نگہداشت کی.اس کی تربیت کا حکم دیا.اور پھر فیصلہ کر دیا کہ جس طرح جنت میں مرد کے لئے ترقیات کے غیر متناہی مراتب ہیں اسی طرح جنت میں عورتوں کے لئے بھی غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.(خطبہ جمعہ ارشاد فرموده مؤرخہ 26 نومبر 1937، مطبوعہ الفضل 4 دسمبر 1937ء صفحہ 5) ایک اور موقعہ پر حضور نے فرمایا: قرآن کریم کو شروع سے آخر تک پڑھ کر دیکھ لو تمام مسائل ،احکام اور انعامات میں عورت اور مرد دونوں کا ذکر ہے.مثلاً اگر یہ کہا جاتا ہے کہ نیک مرد تو ساتھ ہی کہا جاتا ہے نیک عور تیں.اگر کسی جگہ ذکر ہے کہ عبادت کرنے والے مرد تو ساتھ ہی یہ ذکر ہو گا کہ عبادت کرنے والی 558

Page 625

عور تیں.پھر اگر یہ ذکر ہے کہ جنت میں مرد جائیں گے تو ساتھ ہی یہ ذکر ہو گا کہ جنت میں عورتیں بھی جائیں گی.مرد کی اگر اعلیٰ درجہ کی نیکیاں ہیں اور وہ جنت میں ایک اعلیٰ مقام پر رکھا جاتا ہے تو اس کی بیوی جس کی نیکیاں اُس مقام کے مناسب حال نہیں اپنے خاوند کی وجہ سے اسی مقام میں رکھی جائیں گی.اسی طرح اگر عورت اعلیٰ نیکیوں کی مالک ہے اور ان کی وجہ سے وہ جنت میں اعلیٰ مقام پر رکھی جاتی ہے تو اس سے ادنی نیکیاں رکھنے والا خاوند بھی اس کی وجہ سے اُسی مقام پر رکھا جائے گا.“ (خطاب ارشاد فرموده مورخہ 31 جولائی 1950ء، مطبوعہ الفضل ربوہ 14 نومبر 1962ء صفحہ 4) اسلام کی رُو سے خواتین کی ذمہ داریاں اور ان کے اس دنیا میں حقوق اور اُخروی زندگی میں ملنے والے انعامات کے موضوع پر میں نے بھی مختلف جلسوں میں مستورات سے خطابات کئے ہیں.جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء میں بھی میں نے مستورات سے اسی موضوع پر خطاب کیا تھا، اسے بھی دیکھ لیں.(قسط نمبر 16 ، الفضل انٹر نیشنل 11 جون 2021ء صفحہ 11) 559

Page 626

سوال : یو کے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا کہ قرآن کریم میں جنتیوں کو نظریں جھکائیں رکھنے والی اور نیک خصال دوشیزائیں ملنے کا وعدہ دیا گیا ہے.ہماری زبان میں دوشیزہ کا مطلب عورت ہوتا ہے.اگر یہ عورتیں ہیں تو یہ انعام تو صرف مرد کو ہی ملا، مومن عورتوں کے لئے جنت میں کیا ہے؟ نیز کیا عورت صرف مرد کے لئے ہی پید ا کی گئی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 09 اپریل 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: : جواب: جنت کی نعماء کے بارہ میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ الم میں جو امور بیان ہوئے ہیں وہ سب تمثیلی کلام پر مبنی ہیں اور صرف ہمیں سمجھانے کے لئے ان چیزوں کی دنیاوی اشیاء کے ساتھ مماثلت بیان کی گئی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ یعنی اس جنت کی مثال جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے ( یہ ہے).پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: (الرعد:36) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّن قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجدہ:18) یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیز میں چھپا کر رکھی گئی ہیں.اسی طرح حضور اللم نے فرمایا: يَقُولُ اللهُ تَعَالَي أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْن رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَي قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًا مِنْ بَلْهِ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ 560 (صحيح بخاري كتاب التفسير)

Page 627

یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے.وہ نعمتیں ایسا ذخیرہ ہیں کہ ان کے مقابل پر جو نعمتیں تمہیں معلوم ہیں ان کا کیا ذکر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: ”خدا نے بہشت کی خوبیاں اس پیرایہ میں بیان کی ہیں جو عرب کے لوگوں کو چیزیں دل پسند تھیں وہی بیان کر دی ہیں تا اس طرح پر ان کے دل اس طرف مائل ہو جائیں.اور دراصل وہ چیزیں اور ہیں.یہی چیزیں نہیں.مگر ضرور تھا کہ ایسا بیان کیا جاتا تا کہ دل مائل کئے جائیں.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 424) سورة السجدۃ کی مذکورہ بالا آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں.سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں.سو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے.پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 398،397) ان نعمتوں کے مخفی رکھنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”خدا کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہوتی ہے اور خدا کا چھپانا ایسا ہے جیسے کہ جنت کی نسبت فرمایا فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قرة آغيُنٍ (کہ کوئی جی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی قُرَّةِ أَعْيُنٍ ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے) در اصل چھپانے میں بھی ایک قسم کی عزت ہوتی ہے جیسے کھانا لایا جاتا ہے تو اس پر دستر خوان وغیرہ ہوتا ہے تو یہ ایک 561

Page 628

عزت کی علامت ہوتی ہے.(البدر نمبر 11، جلد 1، مؤرخہ 9 جنوری 1903ء صفحہ 86) جنت کی حوروں کا معاملہ بھی تمثیلی کلام پر مبنی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے چار جگہوں پر حوروں کا ذکر فرمایا ہے.پہلی دو جگہ (سورۃ الدخان اور سورۃ الطور ) میں فرمایا: وَزَوَّجُنُهُمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ کہ ہم جنتیوں کو بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی حوروں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھ دیں گے.اور باقی دو جگہ (سورۃ الرحمن اور سورۃ الواقعہ ) میں ان حوروں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ خیموں میں محفوظ یا قوت و مرجان موتیوں کی طرح ہوں گی.یعنی شرم و حیا سے معمور ، نیک، پاکباز، خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی.لفظ ”زوج“ کے معانی جوڑے کے ہوتے ہیں.اس سے صرف مرد یا خاوند مراد لینا درست نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب نیک و پاک ساتھی اور جوڑا ہے.اس اعتبار سے ان آیات کا مطلب ہو گا کہ ہم جنت میں نیک عورتوں کو پاک مردوں اور نیک مردوں کو پاک عورتوں کا ساتھی بنا دیں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ البقرۃ کی آیت وَ لَهُم فِيهَا أَزْوَاج مطَهَّرَةٌ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ- انہیں وہاں پاک ساتھی یا پاک بیویاں یا پاک خاوند ملیں گے.پاک ساتھی کے معنوں کی صورت میں تو کسی کے لئے اعتراض کرنے کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ اس صورت میں اس کے یہ معنی ہونگے کہ جنت میں جس طرح غذا ایک دوسرے کی ممد ہو گی اس طرح اس کے سب مکین ایک دوسرے کی رُوحانی ترقی میں مدد کرنے والے ہونگے گویا اندرونی اور بیرونی ہر طرح کا امن اور تعاون حاصل ہو گا.اور اگر خاوند یا بیوی کے معنی کئے جائیں کیونکہ ازواج مرد اور عورت دونوں کے لئے بولا جاتا ہے عورت کا زوج اس کا خاوند ہے اور مرد کا زوج اس کی بیوی تو اس صورت میں اس کے ایک معنی یہ ہوں گے کہ ہر جنتی کے پاس اس کا وہ جوڑا ر کھا جائے گا جو نیک ہو گا.اس صورت میں بھی 562

Page 629

اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا بلکہ یہ تو تحریک ہے کہ مرد کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور عورت کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنے خاوند کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اگر وہ دنیوی زندگی کی طرح اگلے جہان میں بھی اکٹھا رہنا چاہتے ہیں تو چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو بھی نیک بنانے کی کوشش کرے تا ایسانہ ہو کہ میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں اور میاں دوزخ میں ہو.ان معنوں کے رُو سے یہ روحانی پاکیزگی کی ایک اعلیٰ تعلیم ہے جس پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کی خوبی کی داد دینی چاہیئے.باقی رہا یہ کہ اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہر شخص کو ایک پاک جوڑا دیا جائے گا تو ان معنوں کے رو سے بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہی معنی ہوں کہ ہر مرد کو ایک پاک بیوی دی جائے گی اور ہر عورت کو ایک پاک مرد دیا جائے گا تو اس پر کیا اعتراض ہے؟ اعتراض تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی ناپاک فعل کی طرف اشارہ کیا جائے جب قرآن شریف پاک کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ جنت میں وہی کچھ ہو گا جو جنت کے لحاظ سے پاک ہے پھر اس پر اعتراض کیسا.“ ( تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 252، 253) ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سورۃ الدخان کی آیت وَ زَوَّجْنُهُمْ بِحُوْرِ عِيْنٍ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم ان کی ازواج کو حور بنا دیں گے اور انہیں ازدواجی رشتہ میں باندھیں گے.پھر اس سے اگلی آیت میں فرمایا کہ ہم ان کے ساتھ جنت میں ان کی اولاد کو بھی جمع کر دیں گے.اس جگہ بیوی کا ذکر اس لئے چھوڑ دیا کہ زَوَّجْنُهُمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ پہلی آیت میں آچکا ہے.حضرت نبی کریم ا نے ایک بڑھیا سے کہا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تو اس نے رونا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ میں کہاں مروں کھپوں گی؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم نہیں جاؤ گی.میں نے یہ کہا ہے کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تم جوان 563

Page 630

ہونے کی حیثیت میں وہاں جاؤ گی.تو جب بوڑھی وہاں جوان ہونے کی حیثیت میں جائے گی تو بد صورت وہاں خوبصورت حیثیت میں جائے گی.جو لنگڑی لولی یہاں سے گئی ہے وہاں صحت مند اعضا، بھر پور نشوو نما کے ساتھ جائے گی.تو زَوَّجْنَهُمْ بِحُورٍ عِيْنٍ کہ ان کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھا جائے گا بڑھیا سے نہیں، جس حالت میں اس نے اس دنیا میں اپنی بیوی چھوڑی بلکہ خورٍ عِین کے ساتھ جو جوان بھی ہو گی، خوبصورت بھی ہو گی، نیک بھی ہو گی.بہر حال یہاں حور کا لفظ زوج کی حیثیت سے آیا ہے.(ملخص از خطبہ جمعہ مؤرخہ 19 فروری 1982، خطبات ناصر جلد نهم صفحہ 387،386) پس مذکورہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ حوروں سے مراد نیک اور پاک جوڑے ہیں جو جنت میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں بندھے ہوں گے اور انہیں بطور انعام ملیں گے.ان جوڑوں کی کیفیت کیا ہو گی؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.انسان کو اس کا علم اسی وقت ہو گا جب وہ جنت میں جائے گا.مذکورہ بالا تشریح سے آپ کے دوسرے سوال کا بھی جواب مل جاتا ہے کہ کیا عورت صرف مرد کے لئے پیدا کی گئی ہے؟ کیونکہ اسلام کے نزدیک مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اور عقلمند میاں بیوی اس حقیقت کو سمجھ کر اس دنیا کو بھی اپنے لئے جنت بنا لیتے ہیں اور جنت میں بھی ایک دوسرے کی روحانی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوں گے.(قسط نمبر 54 ، الفضل انٹر نیشنل 6 مئی 2023ء صفحہ 4) 564

Page 631

نفلی روزه سوال : جامعہ احمدیہ کینیڈا کے ایک طالب علم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ عموماً سوموار اور جمعرات کو نفلی روزے رکھنے میں کیا حکمت ہے، نیز ان دو ایام کے علاوہ اور دنوں میں بھی نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مئی 2022ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے کی مختلف وجوہات احادیث میں بیان ہوئی ہیں.چنانچہ حضور لم نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کے دن انسانوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال ایسی حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں.(سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ) اسی طرح ایک اور حدیث میں حضور اللی تم نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو بخش دیا جاتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو.(سنن ترمذي كتاب البر والصلة باب مَا جَاءَ فِي الْمُتَهَاجِرَيْنِ) پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ سوموار کے روزہ کی بابت حضور الم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس روز میں پیدا ہوا تھا اور اسی روز مجھ پر وحی کا نزول شروع ہوا تھا.(صحیح مسلم کتاب الصيام بابِ اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِن كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمٍ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ) سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنا حضور ﷺ کی عمومی سنت تھی.(سنن نسائي كتاب الصيام باب صَوْمُ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ في ذلك) اسی طرح ایام بیض یعنی ہر مہینہ میں چاند کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو بھی حضور ام بڑی باقاعدگی کے ساتھ روزہ رکھا کرتے تھے.(سنن نسائي كتاب الصيام صَوْمُ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ) علاوہ ازیں یوم عرفہ ( نو ذی الحجہ ) اور یوم عاشوراء (دس محرم) کے روزہ کی بھی حضور ا ہم نے بڑی فضلیت بیان فرمائی ہے.(صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ 565

Page 632

كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمٍ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ) البتہ جو شخص حج پر موجود ہو اس کے لئے یوم عرفہ کا روز رکھنا منع ہے.(سنن ابن ماجه کتاب الصيام بَاب صِيَامِ يَوْمِ عَرَفَةَ) پس دونوں عیدوں کے دنوں اور ایام تشریق ( گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ ) جو کہ اہل اسلام کے لئے عید اور کھانے پینے کے دن ہیں.(سنن ترمذي کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ في أَيَّامِ التَّشْرِيقِ) کے علاوہ انسان کسی بھی دن نفلی روزہ رکھ سکتا ہے.تاہم صرف جمعہ کا دن نفلی روزہ کے لئے خاص کرنا منع ہے.(سنن ترمذي كتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةٍ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَحْدَهُ) اور جو شخص حج پر ہو اور اس نے حج کے ساتھ عمرہ کا بھی فائدہ اٹھایا ہو اور اس میں قربانی کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ ایام تشریق کے تین روزے حج کے ایام میں رکھے گا.(صحیح بخاري كتاب الصوم بَاب صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ) نفلی روزوں کے بارہ میں حضور ﷺ کی ایک تفصیلی ہدایت کا ذکر حدیث میں یوں ملتا ہے.حضرت ابو قتادہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ الم سے صوم دہر ( یعنی ساری عمر کے روزہ) کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایسے شخص نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا( گویا ایسے روزہ کو آپ نے ناپسند فرمایا).راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ سے دو دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کون اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ سے ایک دن روزہ رکھنے اور دو دن افطار کرنے کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی طاقت عطا فرمائے.پھر آپ سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ روزے میرے بھائی حضرت داؤد علیہ السلام کے ہیں.راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ سے سوموار کے دن کے روزہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں مجھے پیدا کیا گیا، اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا اور اسی دن مجھ پر (قرآن) نازل کیا گیا.راوی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہر مہینہ میں تین روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا ساری عمر کے روزوں کے برابر ہے.راوی کہتے ہیں آپ سے عرفہ کے دن کے روزہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا گزرے ہوئے سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے.راوی کہتے ہیں کہ آپ سے عاشورہ کے دن کے روزہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ روزہ رکھنا گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن 566

Page 633

جاتا ہے.(صحیح مسلم کتاب الصيام بَاب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةً وَعَاشُورَاءَ وَالْاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ) (قسط نمبر 55، الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2023ء صفحہ 6) 567

Page 634

نکاح سوال: محترم سیکر ٹری صاحب امور عامہ جرمنی نے ایک احمدی کے ایک غیر از جماعت خاتون کے ساتھ اپنا نکاح خود پڑھنے اور بعد ازاں اس عورت کو طلاق دینے اور پھر اس عورت کے بیعت کرنے کے معاملات تحریر کر کے اس نکاح کی شرعی حیثیت کی بابت محترم مفتی صاحب سے مسئلہ دریافت کیا.یہ معاملہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہونے پر حضور انور نے محترم امیر صاحب جرمنی کو اپنے مکتوب مؤرخہ 25 جولائی 2022ء میں درج ذیل اصولی ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا: جواب: اس شخص نے یہ نکاح اگر لڑکی اور اس کے ولی کی رضامندی کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں پڑھا ہے، اور جماعتی نظام کے تحت اس نکاح کے لئے انہوں نے فارم بھی پڑ کر کے اس نکاح کو رجسٹر کروایا ہے اور جس جماعت میں یہ صاحب مقیم ہیں، اس حلقہ میں ان کے نکاح کا لوگوں کو علم ہوا ہے تو پھر یہ نکاح جائز اور درست ہے.لیکن اگر اس نکاح میں مذکورہ بالا امور کا خیال نہیں رکھا گیا اور چھپ چھپا کر نکاح پڑھ لیا گیا ہے اور نکاح کے بعد بھی اس کی اس طرح تشہیر نہیں ہوئی کہ فریقین کے حلقہ احباب کو اس کا علم ہوا ہو تو یہ خفیہ نکاح کے زمرہ میں آئے گا.لہذا اس بارہ میں ان صاحب کو جو تعزیری سزا ہوئی ہے وہ بالکل درست ہے.(قسط نمبر 39، الفضل انٹر نیشنل 26 اگست 2022ء صفحہ 9) 568

Page 635

نماز سوال : ایک دوست نے سوال کیا کہ نماز میں التحیات پڑھتے وقت جب ہم "السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِي کہتے ہیں تو کہیں ہم شرک کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہوتے کیونکہ یہ الفاظ تو زندہ انسانوں کے لئے بولے جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 06 جون 2018ء میں فرمایا: جواب: مستند احادیث سے ثابت ہے کہ تشہد میں پڑھی جانے والی یہ دعا آنحضور ا لم نے خود صحابہ کو سکھائی اور فرمایا کہ جب تم یہ دعا کرو گے تو تمہاری یہ مناجات زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک بندہ تک پہنچ جائیں گی.(صحيح بخاري كتاب الاذان) گویا حضور الم نے خود یہ وضاحت فرما دی کہ تمہاری یہ دعا زندہ لوگوں کو بھی پہنچ رہی ہے اور جو وفات پاچکے ہیں انہیں بھی تمہاری دعا کی برکتیں مل رہی ہیں.پس اس قسم کی دعاؤں میں جو مخاطب کا صیغہ یا حرف ندا و غیرہ استعمال ہوتا ہے، اس سے کسی قسم کے وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیئے کہ ہماری دعا کا مخاطب تو فوت ہو چکا ہے، اس لئے کہیں یہ شرک نہ شمار ہو.اس میں شرک والی کوئی بات نہیں، کیونکہ جس طرح اس دنیا میں ایک شخص کی آواز کو دوسرے شخص تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ذریعہ بنایا ہے، اسی طرح روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہماری مناجات کو فوت شدگان تک پہنچانے کے لئے اپنے فرشتوں کو ذریعہ بنایا ہے.چنانچہ جب ہم قبرستان جاتے ہیں تو وہاں پر جو دعا پڑھتے ہیں ، اس کی ابتداء بھی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ سے ہی ہوتی ہے، جس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان مردوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا وہ ہمارے سامنے موجو د ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ جو کہا جاتا ہے کیا اسے مردے سنتے ہیں؟ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”دیکھو ! وہ سلام کا جواب وعلیکم السلام تو نہیں دیتے، خدا تعالیٰ وہ سلام 569

Page 636

(جو ایک دعا ہے) ان کو پہنچا دیتا ہے.اب ہم جو آواز سنتے ہیں اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مردہ اور تمہارے درمیان نہیں.لیکن السَّلامُ عَلَيْكُمْ میں خدا تعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے.اسی طرح درود شریف ہے کہ ملائکہ آنحضرت ام کو پہنچا دیتے ہیں.“ اخبار بدر مؤرخہ 16 مارچ 1904ء) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فرط محبت یا فرط غم میں غائب کو ندا کی جاتی ہے اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ بجسد عنصری موجود ہو بلکہ اظہار محبت کا یہ ایک طریق ہے.“ الحکم مؤرخہ 10 فروری 1904ء) (قسط نمبر 6، الفضل انٹر نیشنل 15 جنوری 2021ء صفحہ 11) 570

Page 637

سوال : ایک اور مسئلہ کہ ” اگر امام کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو کس طرح نماز پڑھنی چاہیئے ؟ " کے بارہ میں بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: رض جواب: احادیث میں اس بارہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ حضور الم کے اسوہ کا پتہ چلتا ہے.چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ اور حضرت انسؓ سے مروی احادیث میں ذکر ہے کہ حضور لم اپنے اوائل زمانہ میں ایک مرتبہ گھوڑے سے گر گئے اور حضور لم نے نماز بیٹھ کر پڑھائی، صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو آپ الی ٹیم نے انہیں اشارہ سے بیٹھ جانے کا ارشاد فرمایا اور نماز کے بعد انہیں فرمایا کہ امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے.پس جس طرح وہ نماز پڑھے اسی طرح تم نماز پڑھو.لیکن حضور الم کی آخری بیماری میں جس میں آپ کا وصال ہوا، آپ نے حضرت ابو بکر کو نماز کی امامت کا ارشاد فرمایا اور پھر جب حضور ﷺ کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تو آپ نماز کے لئے تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر کے بائیں جانب بیٹھ کر نماز ادا فرمائی.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اس وقت حضرت ابو بکر اس نماز میں حضور لم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابو بکر کی اقتداء کر رہے تھے.دراصل لوگ بھی حضور الم کی ہی اقتداء کر رہے تھے.لیکن علالت کی وجہ سے حضور ا یہ تم چونکہ بلند آواز میں تکبیر وغیرہ نہیں کہہ پا رہے تھے، اس لئے حضرت ابو بکر مکبر کے طور پر حضور ا کی آواز آگے لوگوں تک پہنچارہے تھے.یہاں یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضور اہل علم کا حضرت ابو بکر کے بائیں طرف بیٹھنا بتاتا ہے کہ حضور ام اس نماز میں امام تھے ، کیونکہ امام بائیں طرف ہوتا ہے اور مقتدی دائیں طرف.چنانچہ اس بارہ میں بھی ہمیں حضور اسلم کی سنت ملتی ہے کہ ایک موقعہ پر جب کہ حضور اللام تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے تو حضرت ابن عباس بعد میں نماز میں شامل ہو کر آپ ای ی ی یکم کی بائیں طرف کھڑے ہو گئے تو حضور لم نے انہیں سر سے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کر لیا.حضرت امام بخاری نے اپنے استاد حمیدی کا اس بارہ میں قول درج کیا ہے کہ حضور الم کا پہلا ارشاد یہی تھا کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں.لیکن بعد میں 571

Page 638

حضور الم نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور آپ کی اقتداء میں صحابہ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور آپ نے انہیں بیٹھنے کا ارشاد نہیں فرمایا.اور چونکہ حضور ام کے آخری فعل سے سند لی جاتی ہے اور حضور الم کا آخری فعل یہی ہے کہ اگر امام اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں: چونکہ مجھے نقرس کا دورہ ہے.اس لئے میں خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر نہیں پڑھا سکتا.اسی طرح نماز بھی کھڑے ہو کر نہیں پڑھا سکتا.رسول کریم م کا ابتداء میں یہ حکم تھا کہ جب امام کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کریں لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت آپ نے اس حکم کو بدل دیا اور فرمایا کہ اگر امام کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی نہ بیٹھیں بلکہ وہ کھڑے ہو کر ہی نماز ادا کریں.پس چونکہ میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا اس لئے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا اور دوست کھڑے ہو کر نماز ادا کریں.“ (روز نامہ الفضل لاہور 03 جولائی 1951ء صفحہ 3) پس اگر امام اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے.( قسط نمبر 8، الفضل انٹر نیشنل 05 فروری 2021ء صفحہ 12) 572

Page 639

سوال: ایک دوست نے آنحضور ﷺ کے ارشاد کہ بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں سزا دو“ کے متعلق حضور کی خدمت اقدس رہنمائی کی درخواست کی.جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 02 فروری 2019ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اسلام کی تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعتدال پر مبنی تعلیم ہے.آنحضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی اپنے اندر اسی اعتدال کو سموئے ہوئے ہے کہ عبادت جو کہ ہر انسان کی پیدائش کا اولین مقصد ہے، بچپن سے ہی اس پر زور دیا جائے اور بچوں کو اپنے نمونہ کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی جائے.تین سال کی مسلسل تلقین اور نصائح کے بعد بھی اگر بچہ اس کی پابندی نہ کرے تو اسے ایک وقت تک مناسب سزا دینے کا حکم ہے.لیکن یہ سزا ایسی نہیں ہونی چاہیئے جس میں سزا دینے والے کی طرف سے اس بچہ کے ساتھ ایک دشمنی کا رنگ ہو یا انسان یہ تصور کرے کہ اس سزا کے نتیجہ میں وہ ضرور اس بچہ کو نماز کا عادی بنا سکتا ہے.بلکہ اس سزا میں بھی یہ امر ہی پیش نظر ہونا چاہیئے کہ تربیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتی ہے، جس کے حصول کا اصل ذریعہ دعا ہی ہے.اور جو سزا دینے کی راہ اختیار کی جا رہی ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے رسول کے حکم پر اختیار کی جارہی ہے تاکہ بچہ اس سے عبرت پکڑ کر نماز کی طرف راغب ہو جائے.پھر جب بچہ Mature ہو جائے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ کر اچھے بُرے کی سمجھ اس میں پیدا ہو جائے تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر د کر کے اس کے لئے صرف دعا اور وعظ و نصیحت کے طریق کو اپنانا چاہیئے.ایسی ہی سزا کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پرا متحتمل اور بردبار اور با سکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے.“ (قسط نمبر 9، الفضل انٹر نیشنل 12 فروری 2021ء صفحہ 12) 573

Page 640

سوال : حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بنگلہ دیش کی Virtual ملاقات مؤرخہ 14 نومبر 2020ء میں ایک ممبر لجنہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ چھوٹے بچوں والی ماؤں کو نماز کے وقت بچہ کو ساتھ لے کر یا گود میں اٹھا کر نماز پڑھنا پڑتی ہے.اس وقت فطرتاً نماز سے زیادہ بچہ کی طرف توجہ رہتی ہے.اس سے ہم نماز کی فضیلت سے محروم تو نہیں ہو رہی ہو تیں؟ حضور نے فرمایا: جواب نہیں محروم نہیں ہو رہی ہوتیں.لیکن آپ یہ کیا کریں کہ جب بچہ روتا ہے تو اس کو گود میں اٹھالیا اور نماز پڑھ لی اور پھر جب سجدہ میں گئے تو بچہ کو ایک سائید پر بٹھا دیا پھر نماز پڑھ لی.یہ تو اضطراری حالت ہے.اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے.کیونکہ آپ نیک نیتی سے نماز پڑھ رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دیتا ہے.لیکن نماز کا وقت آپ کے پاس کافی ہوتا ہے.فجر کے وقت تو بچے عموماً سوئے ہوئے ہوتے ہیں.یا فیڈر یا دودھ دے کے، یا فیڈ دے کے اس کو سُلا کے آپ آرام سے فجر کی نماز پڑھ سکتی ہیں.عام طور پر کوشش یہ کریں کہ بچہ کو سلانے کے بعد یا بچہ کو فیڈ دے دی ہے تو پھر اس کے بعد اس کو لٹا کے اگر وقفہ ہے تو پھر آرام سے نماز پڑھیں.اور اگر وقفہ تھوڑا ہے مثلاً سورج ڈوب رہا ہے یا فجر کی نماز پہ سورج نکل رہا ہے تو پھر مجبوری ہے کہ جلدی جلدی نماز پڑھ لینی ہے.یا آپ کی عصر کی نماز سورج ڈوبنے کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے تو جلدی سے پڑھ لیں.لیکن عموماً کوشش یہ کریں کہ بچہ سے فارغ ہونے کے بعد اس کو سُلا کے لٹا کے آپ اپنی نماز پڑھ لیں.لیکن اگر مجبوری میں آپ کو بچہ کو گود میں لے کے پڑھنی بھی پڑھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے.لیکن اس میں کوشش کریں کہ جتنی زیادہ توجہ آپ نماز کی طرف قائم کر سکتی ہیں قائم رکھیں، نماز کے جو الفاظ ہیں ان غور کرتی رہیں.اللہ تعالیٰ تو ثواب دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ رحمن رحیم ہے اور بخشش کرنے والا بھی ہے.تو اللہ تعالیٰ یہ ظلم نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کو ساری صورت حال پتا ہے.لیکن اگر ساری کوششوں کے باوجو د کسی عورت کے پاس وقت نہیں رہتا اور اس کو بچہ کو گود میں لے کے نماز پڑھنا مجبوری ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دینے والا ہے ، دیتا ہے.(قسط نمبر 19، الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2021ء صفحہ 11) 574

Page 641

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک مومن کے لئے ہمیشہ بھلائیاں ہی آتی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ یہ دنیا مومن کے لئے جہنم ہے.اس میں کونسی بات ٹھیک ہے.نیز یہ کہ کیا یہ درست ہے کہ اگر ایک نماز رہ جائے تو پچھلی چالیس سال کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب : نماز کے بارہ میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر بھول کر کوئی نماز رہ جائے تو حضور اللم نے فرمایا ہے کہ جب وہ نماز یاد آئے اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے یہی اس نماز کے بھولنے کا کفارہ ہے.لیکن اگر جان بوجھ کر کوئی نماز چھوڑ دی جائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی معافی توبہ استغفار اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کے عہد سے ہی ہو سکتی ہے.(قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 575

Page 642

سوال: مؤرخہ 05 دسمبر 2020ء کی جامعہ احمدیہ سے Virtual نشست میں ایک اور طالب علم نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ نماز میں لذت کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواب: لذت کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟ اس کا ایک سادہ سا طریقہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بتایا ہے کہ تم رونی شکل بنالو.جب انسان ظاہری طور پر اپنی شکل بناتا ہے تو جیسی حالت طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے دل کے جذبات بھی پھر ویسے ہونے شروع ہو جاتے ہیں.جب سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہو تو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو بار بار دہراؤ اور غور کرو اور رونی شکل بناتے جاؤ تو ایک وقت میں تمہیں رونا آجائے گا.جب تمہیں رونا آئے گا، جب دل پہ رفت طاری ہو گی، نرمی پیدا ہو گی تو پھر تمہیں اس میں ایک لذت آنی شروع ہو گی.پھر جب تم رکوع میں جاؤ گے، پھر تم دعا پڑھو گے پھر تمہیں لذت آئے گی.پھر سَمِعَ اللہ کہو گے تو پھر تمہیں لذت آئے گی.سجدہ میں جاؤ گے پھر بے چینی سے تڑپو گے، پھر تمہیں لذت آئے گی.تو اسی شکل کو اپنے آپ پہ طاری کرنا پڑے گا.ایک مجاہدہ ہے، ایک کوشش ہے، وہ کوشش کرو گے تو پھر لذت پیدا ہوتی جائے گی.اور جب ایک دفعہ لذت آجائے گی تو پھر تمہیں مزہ آتا رہے گا.ہر دفعہ ہی تم کوشش کرو گے کہ میں نماز میں اللہ کے حضور حاضر ہوں اور رؤوں تو مجھے مزہ آئے ، مجھے لطف آئے.اور جو اللہ کے آگے سجدہ میں رونے کا مزہ آتا ہے ناں وہ ہر مزہ سے بہت بڑھ کے ہوتا ہے.اور اللہ سے یہ دعا کرو کہ جس عہد کے ساتھ تم جامعہ احمدیہ میں آئے ہو اللہ تعالیٰ اس عہد کو پورا کرنے کی ، نبھانے کی توفیق دے.اور تم ایک اچھے مربی اور مبلغ بن کے نکلو اور اپنی قوم میں تبلیغ کر کے اس قوم کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکانے والے بنو.اور پھر ان میں سے بھی وہ لوگ پیدا ہوں جن کو عبادتوں میں لذت آئے.(قسط نمبر 24، الفضل انٹر نیشنل 03 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 576

Page 643

سوال : ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اگر گھر میں مردوں کے ہوتے ہوئے صرف عورت اس قابل ہو کہ نماز پڑھا سکے تو کیا وہ نماز پڑھا سکتی ہے.اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 جنوری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اسلامی تعلیم کی یہ خوبی ہے کہ اس میں مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض ان کے طبائع کے مطابق الگ الگ مقرر کئے گئے ہیں.چنانچہ نماز باجماعت بھی صرف مردوں پر فرض کی گئی اور عورتوں کو اس سے رخصت دی گئی اور عورتوں کا باجماعت نماز ادا کرنا محض نفلی حیثیت قرار دیا گیا ہے.اس لئے مردوں کی موجودگی میں کوئی عورت نماز باجماعت میں ان کی امام نہیں بن سکتی.آنحضور ﷺ اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے کبھی کسی عورت کو مردوں کی امامت کا منصب تفویض نہیں فرمایا.اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جب بعض اوقات کسی علالت کی وجہ سے گھر پر نماز ادا فرماتے تو نماز کی امامت خود کراتے اور حضور علیہ السلام کو چونکہ کھڑے ہونے سے چکر آجایا کرتا تھا اس لئے حضرت اناں جان کو پیچھے کھڑا کرنے کی بجائے مجبوراً اپنے ساتھ کھڑا کر لیتے تھے.پس اگر کسی جگہ پر مرد اور عور تیں دونوں ہوں تو نماز کا امام مرد ہی ہو گا کیونکہ جو مرد نماز پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کی اپنی نماز صحیح ہو جاتی ہے تو اس کی امامت میں دوسروں کی نماز بھی صحیح ہو گی.(قسط نمبر 30، الفضل انٹر نیشنل 11مارچ 2022ء صفحہ 11) 577

Page 644

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں اپنی جماعت میں امام الصلوۃ ہوں.جمعہ کی نماز میں قنوت پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ آجکل وبا کے دن ہیں اور احمدیوں پر بعض ممالک میں ظلم بھی ہو رہا ہے.لیکن بعض دوستوں کو اس پر اعتراض ہے.اس بارہ میں اجازت اور رہنمائی کی درخواست ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 12 فروری 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں: جواب: آنحضور ﷺ نے امام الصلوۃ کے لئے ایک نہایت ضروری نصیحت یہ فرمائی ہے کہ : إذَا صَلَّي أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفَ فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ والسَّقِيْمَ وَالْكَبِيرَ وَإِذَا صَلَّي أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوّلُ مَا شَاءَ (صحيح بخاري كتاب الاذان یعنی جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے ہلکی نماز پڑھانی چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں.اور جب تم میں سے کوئی اکیلا اپنی نماز پڑھے تو وہ جس قدر چاہے اسے لمبا کرے.جہاں تک نمازوں میں قنوت کرنے کا معاملہ ہے تو احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے مسلمانوں پر کسی مصیبت کے وارد ہونے پر بھی کچھ وقت کے لئے قنوت کے طریق کو اختیار فرمایا.چنانچہ رجیع اور بئر معونہ کے موقعہ پر دشمنان اسلام کی طرف سے بد عہدی اور دھو کہ دہی کے ساتھ صحابہ کی ایک بڑی جمعیت کی شہادت پر حضور الم نے ان مخالف قبائل کے خلاف تیس روز تک قنوت فرمایا اور ان قبائل کے خلاف بد دعا کی.(صحيح بخاري كتاب المغازي) نیز اس کے علاوہ حضور الم نے صحابہ کو وتر کی نماز میں قنوت کرنے کا بھی طریق سکھایا اور اس کے لئے مختلف دعائیں بھی صحابہ کو سکھائیں.(سنن ابي داؤد کتاب الصلاة بَاب الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ) پس قنوت کا ایک طریق وہ ہے جو نماز وتر میں اختیار کیا جاتا ہے اور ایک قنوت خاص حالات میں مثلاً دشمن کی طرف سے کسی تکلیف کے پہنچنے پر یا کسی وباوغیرہ کے پھیلنے پر اختیار کیا جاتا ہے.578

Page 645

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی پیش خبری کے مطابق جب پنجاب میں طاعون پھیلی تو حضور علیہ السلام نے آنحضور الم کی اسی سنت کی اتباع میں فرمایا کہ : نیز فرمایا کہ: آجکل چونکہ وبا کا زور ہے اس لئے نمازوں میں قنوت پڑھنا چاہیئے.“ ( البدر نمبر 15، جلد 2، مؤرخہ یکم مئی 1903ء صفحہ 115) چاہیے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملاویں.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 192.مطبوعہ 2016ء) علاوہ ازیں حضور علیہ السلام نے قنوت میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے متعلق بھی رہنمائی فرماتے ہوئے ہدایت دی کہ اس میں ادعیہ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آئی ہیں وہ ہی پڑھی جائیں.(اخبار بدر نمبر 31، جلد 6، مؤرخہ یکم اگست 1907ء صفحہ 12) قنوت کے بارہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک تو اسے مختلف نمازوں میں پڑھنا مسنون ہے، فرض نہیں.اس لئے اسے پڑھنا لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا.نیز احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں قنوت کے نمازوں میں پڑھنے کی روایات تو ملتی ہیں لیکن نماز جمعہ میں پڑھنے کی کوئی روایت کہیں نہیں ملتی.اس لئے ایسی نیکیوں کو جن میں دوسرے لوگ بھی شامل ہو رہے ہوں اسی حد تک بجالانا چاہیئے جس حد تک شریعت نے اس کی اجازت دی ہے.تاکہ کسی کو بھی تکلیف مالا يطاق کا سامنانہ کرنا پڑے.(قسط نمبر 32، الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل 2022ء صفحہ 11) 579

Page 646

سوال : سنت اور نفل نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعات میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنے کے بارہ میں ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رہنمائی چاہی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 مارچ 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی: جواب: احادیث میں جس طرح فرض نمازوں کی صرف پہلی دو رکعات میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنے کی بابت صراحت پائی جاتی ہے.اس طرح کتب احادیث خصوصاً صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کہیں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ سنت اور نفل نمازوں کی چاروں رکعات میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ قرآن کا کچھ حصہ ضرور پڑھا جائے.فقہاء کا بھی اس بارہ میں اختلاف ہے.چنانچہ مالکی اور حنبلی مسالک والے سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعات میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں جبکہ حنفی اور شافعی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کوئی حصہ نہیں پڑھتے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ آپ نے بھی اپنے خط میں ذکر کیا ہے اس معاملہ میں فرض اور سنت نماز میں کوئی فرق نہیں.جس طرح فرض نمازوں کی صرف پہلی دو رکعات میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا جاتا ہے اسی طرح سنت اور نفل نمازوں کی بھی صرف پہلی دورکعات میں ہی سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا جائے گا اور تیسری اور چوتھی رکعات میں صرف سورۃ فاتحہ پر ہی اکتفاء کیا جائے گا.اور یہی میرا موقف ہے.(قسط نمبر 33، الفضل انٹر نیشنل 06 مئی 2022ء صفحہ 9) 580

Page 647

نماز با جماعت سوال : ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے صحیح بخاری کی شرح میں عورتوں کے بھی مردوں کی طرح نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے کو فرض قرار دیا ہے.حضور بھی خواتین کو اس طرف توجہ دلائیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 نومبر 2018ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی اس شرح میں سورۃ الاحزاب کی آیت وَ أَقِمْنَ الصَّلاةَ سے عورتوں کے لئے مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرنے کا جو استدلال کیا ہے وہ ان کی ذوقی تشریح ہے جو اسلام کے چودہ سو سالہ تعامل، احادیث نبویہ الم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تشریحات کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قیام نماز کی مختلف تشریحات بیان فرمائی ہیں جن میں مسجد میں پانچ وقت حاضر ہو کر نماز باجماعت ادا کرنا بھی شامل ہے لیکن یہ تشریح صرف مردوں کے لئے ہے.عورتوں کے لئے قیام نماز کا مطلب اپنے گھروں میں وقت مقررہ پر پانچ نمازوں کو کامل شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے.لیکن اگر کوئی خاتون مسجد میں آکر ان نمازوں کی ادائیگی کرنا چاہے تو اسلام نے اسے منع بھی نہیں کیا جیسا کہ عہد نبوی الم میں خواتین مساجد میں آکر نمازیں ادا کیا کرتی تھیں.لیکن حضور اللہ تم نے خواتین کے لئے زیادہ یہی پسند فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ان نمازوں کی ادائیگی کریں.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ حضور لم نے فرمایا: صَلاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا.(سنن ابي داؤد كتاب الصلاة) 581

Page 648

یعنی عورت کی نماز اپنے کمرہ میں اپنے گھر سے بہتر ہے اور اپنی کو ٹھڑی میں اس کی نماز اپنے کمرہ میں نماز سے بہتر ہے.اسی طرح ایک اور روایت میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے: لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ - (صحيح بخاري كتاب الاذان) یعنی اگر نبی کریم ا م کے سامنے یہ صورتحال ہوتی جو عورتوں نے اب نئی پیدا کرلی ہے تو آپ ان کو مسجد آنے سے ضرور روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا.پس احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور افضل ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں بھی صحن یا کھلی جگہ جہاں پر لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے وہاں وہ نماز نہ پڑھے.گویا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے حجرے میں نماز پڑھے.کجایہ کہ اسے یہ کہا جائے کہ مسجد میں جاکے نماز پڑھو.اس لئے عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا بہر حال بہتر ہے اور اس کے لئے مسجد میں جانا ضروری نہیں ہے.اُس زمانہ میں چونکہ عورتیں مردوں کے پیچھے نماز پڑھتی تھیں.مرد آگے ہوتے تھے اور ان کے لئے آجکل کی طرح باقاعدہ کوئی Enclosure تو ہوتا نہیں تھا اس لئے ہو سکتا ہے کہ مرد آتے جاتے عورتوں کو دیکھ لیتے ہوں تو اس وجہ سے بھی انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی.اس صورت میں ایسی احادیث اگر چہ اُس زمانہ کے لحاظ سے تھیں لیکن آجکل بھی عور توں کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ مسجدوں میں جانے کی بجائے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں.کیونکہ پہلے بیان کردہ دو احادیث واضح طور پر اس کی تائید کرتی ہیں کہ عورتیں گھروں میں نماز پڑھیں.(قسط نمبر 8، الفضل انٹر نیشنل 05 فروری 2021ء صفحہ 12) 582

Page 649

نماز تسبیح (صلاة التسبیح) سوال: مکرم انچارج صاحب عربک ڈیسک یوکے کے ایک استفسار بابت صلاۃ التسبیح کے متعلق رہنمائی کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19 جولائی 2020ء میں ذیل ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: علمائے سلف میں صلاۃ التسبیح کے متعلق مروی احادیث پر دونوں قسم کی آراء موجودہ ہیں، کچھ نے ان احادیث کو قابل قبول قرار دیا ہے اور کچھ نے ان احادیث کی اسناد پر جرح کرتے ہوئے انہیں موضوع قرار دیا ہے.اسی طرح ائمہ اربعہ میں بھی اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.حضرت امام احمد بن حنبل اس نماز کو مستحب کا درجہ بھی نہیں دیتے جبکہ دیگر فقہاء اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کی فضیلت کے بھی قائل ہیں.صلاۃ التسبیح کی بابت مروی احادیث سے یہ بات تو قطبیعت کے ساتھ ثابت ہے کہ حضور ا ہم نے خود اس نماز کو کبھی ادا نہیں کیا اور نہ ہی خلفائے راشدین سے اس نماز کے پڑھنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے.اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مبعوث ہونے والے حضور الم کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس نماز کے پڑھنے کی کوئی روایت ہمیں نہیں ملتی.لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص یہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنا چاہیے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص ایک ایسے وقت میں نماز پڑھ رہا تھا جس وقت نماز پڑھنا جائز نہیں.اس کی شکایت حضرت علی کے پاس ہوئی تو آپ نے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا.أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهِي عَبْدًا إِذَا صَلَّی یعنی تُو نے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے.باقی جہاں تک فقہ احمدیہ کی عبارت کا تعلق ہے تو فقہ احمدیہ میں کئی ایسی باتیں شامل ہو گئی ہیں جن کی تصحیح کی ضرورت ہے.اسی لئے فقہ احمدیہ کی نظر ثانی کروائی جارہی ہے.جب فقہ احمد یہ کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع ہو گا تو انشاء اللہ اس عبارت کو بھی ٹھیک کر دیا جائے گا.(قسط نمبر 25، الفضل انٹر نیشنل 24 دسمبر 2021ء صفحہ 11) 583

Page 650

سوال : ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے نماز تسبیح پڑھنے کے طریق کے بارہ میں دریافت کیا ہے کہ اس نماز میں پڑھی جانے والی تسبیحات چار رکعات میں تین سو کی تعداد میں کس طرح مکمل ہو سکتی ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 جولائی 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا: جواب: نماز تسبیح کے بارہ میں مروی احادیث سے یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ حضور ا نے خود اس نماز کو کبھی ادا نہیں کیا اور نہ ہی خلفائے راشدین سے اس نماز کے پڑھنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے.اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مبعوث ہونے والے حضور ا کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس نماز کے پڑھنے کی کوئی روایت ہمیں نہیں ملتی.البتہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضور ام نے کچھ صحابہ کو یہ نماز سکھائی اور اس کے پڑھنے کی انہیں تلقین فرمائی.اسی لئے علمائے سلف میں نماز تسبیح کے متعلق مروی احادیث کے بارہ میں دونوں قسم کی آراء موجودہ ہیں، کچھ نے ان احادیث کو قابل قبول قرار دیا ہے اور کچھ نے ان احادیث کی اسناد پر جرح کرتے ہوئے انہیں موضوع قرار دیا ہے.اسی طرح ائمہ اربعہ میں بھی اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل اس نماز کو مستحب کا درجہ بھی نہیں دیتے جبکہ دیگر فقہاء اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کی فضیلت کے بھی قائل ہیں.میرے نزدیک اس نماز کا پڑھنا ضروری نہیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے طور پر یہ نماز پڑھے تو پھر ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنا چاہیے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص ایسے وقت میں نماز ادا کر رہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں.اس کی شکایت حضرت علی کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا.أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهِي عَبْدًا إِذَا صَلَّي.(سورۃ العلق: 8) یعنی تُو نے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے.(البدر نمبر 15، جلد 2، مؤرخہ یکم مئی 1903ء صفحہ 114)(مصنف عبد الرزاق کتاب صلاة العيدين باب الصلاة قبل خروج الامام وبعد - الجزء3 حدیث نمبر 5626) 584

Page 651

پس اگر کوئی یہ نماز اکیلا پڑھنا چاہے تو ہم اسے روکتے نہیں ہیں.لیکن اس نماز کو باجماعت ادا کرنا بدعت ہے اور منع ہے.جہاں تک اس نماز کے پڑھنے کا طریق ہے تو سنن ابی داؤد میں مروی ہے کہ حضور الم نے حضرت عباس سے فرمایا کہ آپ چار رکعات نماز اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کی قراءت سے فارغ ہو کر 15 مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ پڑھیں.پھر رکوع میں 10 مرتبہ.پھر رکوع سے اٹھ کر 10 مر تبہ.پھر سجدہ میں 10 مر تبہ.پھر دونوں سجدوں کے درمیانی قعدہ میں 10 مر تبہ.پھر دوسرے سجدہ میں 10 مر تبہ اور پھر دوسرے سجدہ سے اٹھ کر 10 مرتبہ یہ تسبیحات پڑھیں.اس طرح ہر رکعت میں 75 مرتبہ یہ تسبیحات ہوں گی.اور اگر آپ طاقت رکھتے ہوں تو روزانہ ایک مرتبہ یا ہر جمعہ کو ایک مرتبہ یا ہر مہینہ میں ایک مرتبہ یا ہر سال میں ایک مرتبہ یا اپنی پوری عمر میں ایک مرتبہ یہ نماز پڑھیں.(سنن ابي داؤد کتاب الصلاة باب صلاة التسبيح) (قسط نمبر 39، الفضل انٹر نیشنل 26 اگست 2022ء صفحہ 9) 585

Page 652

نماز جنازہ سوال : نارووال پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا نماز جنازہ نماز ہے یا اسے ایسے ہی نماز کا نام دیدیا گیا ہے کیونکہ اس کے لئے مکروہ اوقات کا خیال نہیں رکھا جاتا؟ نیز کیا ایک مسجد میں دو جمعے ہو سکتے ہیں ؟ ربوہ میں ڈیوٹی والے اسی مسجد میں علیحدہ خطبہ دے کر الگ جمعہ پڑھتے ہیں، جبکہ فقہ احمد یہ میں اس کی نفی کی گئی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 07 جنوری 2022ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: نماز جنازہ بھی ایک طرح کی نماز ہی ہے لیکن چونکہ اس میں نماز جنازہ ادا کرنے والوں کے سامنے مرنے والے کی نعش موجود ہوتی ہے اس لئے اس میں رکوع و سجود نہیں رکھے گئے تا کہ کسی بھی قسم کے شرک کا احتمال پیدا نہ ہو.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں جہاں مختلف نمازوں کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، وہاں نماز جنازہ کی بھی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ہے: ان نمازوں کے علاوہ ایک ضروری نماز جنازہ کی نماز ہے.یہ فرض کفایہ ہے...جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہو تا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں...اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں.امام قبلہ رُو کھڑ ا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے.اس نماز سے پہلے اقامہ نہیں کہی جاتی.“ (تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 115) نماز جنازہ کے لئے کوئی مکروہ اوقات نہیں ہیں.فقہاء میں اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.نماز فجر اور نماز عصر کے بعد جس طرح نفلی نماز ادا کرنے کی ممانعت ہے، نماز جنازہ کی ادائیگی کے 586

Page 653

لئے ایسی کوئی ممانعت نہیں.البتہ جب سورج طلوع ہو رہا یا سورج عین سر پر ہو یا سورج غروب ہو رہا ہو تو ان تین اوقات میں حنفی، مالکی، اور حنبلی فقہاء کے نزدیک بغیر کسی مجبوری یا عذر کے نماز جنازہ ادا کر نا پسندیدہ نہیں.جبکہ شافعیہ کے نزدیک کسی وقت میں بھی نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے.(قسط نمبر 51، الفضل انٹر نیشنل 25 مارچ 2023ء صفحہ 4) 587

Page 654

نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیئے سوال: پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا ہے؟ نیز یہ کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا وقت سورۃ البقرۃ کی تلاوت میں لگتا ہے اتنا وقت اذان اور اقامت کے درمیان ہونا چاہیئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 دسمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: میرے علم میں تو صحیح بخاری کی کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقفہ ہونا چاہیے جتنا وقت سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرنے میں لگتا ہے.آپ نے بخاری کی جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ مجھے پہلے بھجوائیں پھر اس بارہ میں کوئی وضاحت کی جاسکتی ہے.باقی ہم یہاں مسجد مبارک میں طلوع صبح صادق ( اذان فجر ) سے نماز تک موسم کے اعتبار سے مختلف وقتوں میں 25 سے 40 منٹ تک کا وقفہ رکھتے ہیں.اور فجر کی اذان کا وقت عموماً طلوع آفتاب سے ایک گھنٹہ میں منٹ سے ایک گھنٹہ تیس منٹ پہلے ہوتا ہے.اور ساری دنیا کے معتدل علاقوں میں عموماً یہی اصول چلتا ہے.اس زمانہ میں سائنس کی ترقی اور جدید آلات کی ایجاد کی وجہ سے طلوع فجر ، زوال آفتاب اور طلوع و غروب آفتاب کے بالکل معین اوقات کا علم ہو جاتا ہے جو پرانے زمانہ میں ممکن نہیں تھا.اسلام نے نمازوں کے لئے صرف ایک معین وقت کا Hard and fast اصول مقرر نہیں فرمایا بلکہ اپنے متبعین کی سہولت کے لئے تمام نمازوں کے لئے ایک دورانیہ مقرر فرما دیا کہ فلاں سے فلاں وقت تک یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے.تاکہ لوگ اپنی سہولت کے مطابق ان اوقات کے 588

Page 655

دوران نماز باجماعت کے وقت مقرر کر سکیں.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ لی لی مین نے فرمایا ہر نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت.ظہر کی نماز کا اوّل وقت سورج کا ڈھلنا ہے اور آخری وقت جب عصر کا وقت شروع ہو جائے.اور عصر کا اوّل وقت جب یہ وقت شروع ہو جائے اور آخری وقت جب سورج زرد ہو جائے.مغرب کا اول وقت غروب آفتاب پر ہے اور آخری وقت شفق کا غائب ہونا ہے.اور عشاء کا اول وقت شفق کے غائب ہونے پر اور آخری وقت آدھی رات تک ہے اور فجر کا اول وقت صبح صادق کے طلوع ہونے پر ہے اور آخری وقت سورج کا طلوع ہونا ہے.(سنن ترمذي كتاب الصلاة باب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ) اسی طرح سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ایم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ سے نمازوں کا وقت دریافت کیا.حضور اللہ ہم نے اسے فرمایا کہ تم دو دن ہمارے پاس رہو.پھر حضور اللہ ﷺ نے حضرت بلال کو حکم دیا اور انہوں نے طلوع فجر کے ساتھ تکبیر کہی اور حضور لم نے فجر کی نماز پڑھائی.پھر جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے حضرت بلال کو تکبیر کہنے کا حکم دیا اور پھر آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی.پھر ان کو اس وقت حکم دیا جس وقت سورج سفید تھا اور عصر کی نماز ادا فرمائی.پھر سورج غروب ہونے پر انہیں حکم دیا اور نماز مغرب ادا فرمائی.پھر جس وقت شفق غروب ہو گیا ان کو حکم دیا اور نماز عشاء ادا فرمائی.پھر دوسرے دن ان کو حکم دیا اور نماز فجر روشنی میں ادا فرمائی اور نماز ظہر خوب ٹھنڈے وقت میں ادا فرمائی.پھر آپ نے نماز عصر ادا فرمائی جبکہ سورج کی سفیدی موجود تھی لیکن پہلے روز سے تاخیر فرمائی.پھر شفق غروب ہونے سے قبل نماز مغرب ادا فرمائی.پھر جب رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا تو آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا تو انہوں نے نماز عشاء کی تکبیر کہی اور آپ نے نماز عشاء ادا فرمائی.اس کے بعد آپ نے نمازوں کا وقت دریافت کرنے والے کے بارہ میں پوچھا اور اسے فرمایا کہ تمہاری نمازوں کے وقت ان وقتوں کے درمیان کے ہیں جو تم نے دیکھے ہیں.(سنن نسائی کتاب المواقيت باب أَوَّلُ وَقْتِ الْمَغْرِبِ) نماز فجر کے وقت کے بارہ میں احادیث صحیحہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ام عموماً طلوع فجر کے اتنے وقت بعد فجر کی نماز پڑھاتے تھے جس وقت میں ایک انسان پچاس ساٹھ آیتیں پڑھ لیتا ہے.اور 589

Page 656

پھر حضور ام نماز فجر میں عموماً ساٹھ سے سو آیتوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور جب نماز سے فارغ ہوتے تو ابھی اتنا اندھیرا ہوتا تھا کہ قریب موجود انسان تو پہچانا جاتا تھا لیکن ڈور کا انسان نہیں پہچانا جاتا تھا.(صحيح بخاري کتاب مواقيت الصلاۃ باب وقت العصر.باب وَقْتِ الْفَجْرِ) (قسط نمبر 49، الفضل انٹر نیشنل 24 فروری 2023ء صفحہ 11) 590

Page 657

نماز فجر کے فوراً بعد جب کہ درس قرآن ہو رہا ہو فجر کی سنتیں پڑھنا سوال : نارووال پاکستان سے ایک معلم صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ پلاسٹک وغیرہ کی ٹوپیاں مساجد میں رکھنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا بدعت اور ناپسندیدہ عمل ہے یا نہیں؟ نیز نماز فجر کے فوراً بعد جب کہ درس قرآن ہو رہا ہو فجر کی سنتیں پڑھنا درست ہے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب قرآن کریم پڑھا جارہا ہو تو اسے توجہ اور خاموشی سے سننا چاہیئے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 مارچ 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: باقی جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے تو درس کے دوران سنتیں پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے.احادیث میں آتا ہے کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے ذکر ، نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لئے ہیں.(صحیح مسلم کتاب الطهارة بَابِ وُجُوبِ غَسْلِ الْبَوْلِ وَغَيْرِهِ مِنَ النَّجَاسَاتِ إِذَا حَصَلَتْ فِي الْمَسْجِدِ) پس مساجد میں یہ تمام کام ایک وقت میں بھی ہو سکتے ہیں اس طرح کہ کوئی شخص نوافل ادا کر رہا ہو ، کچھ لوگ تلاوت کر رہے ہوں اور کچھ لوگ ذکر الہی کر رہے ہوں.لیکن ایسی صورت میں حضور الم نے نصیحت فرمائی کہ مسجد میں موجود لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر اونچی آواز میں تلاوت نہ کریں.(موطا امام مالك كتاب النداء للصلاة بَاب الْعَمَلِ فِي الْقِرَاءَةِ) علاوہ ازیں احادیث میں حضور الم کی یہ سنت بھی بیان ہوئی ہے کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد حضور ام عموماً اپنا چہرہ مبارک صحابہ کی طرف کر لیا کرتے تھے.اس موقعہ پر بعض اوقات آپ صحابہ کو کوئی نصیحت بھی فرماتے.نماز فجر کے بعد آپ لوگوں سے یہ بھی فرماتے کہ اگر 591

Page 658

کسی نے گزشتہ رات کوئی خواب دیکھا ہو تو وہ اسے بیان کرے.(صحيح بخاري كتاب الاذان بَاب يَسْتَقْبِلُ الْإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ، كتاب الجنائز باب مَا قِيلَ فِي أَوْلَادِ الْمُشْرِكِينَ.سنن ابن ماجه المقدمه باب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ) پھر حدیث میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ تم میں سے جمعہ کے دن جو کوئی ایسے وقت میں مسجد آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیئے کہ پہلے دو رکعات اختصار کے ساتھ ادا کرے اور پھر خطبہ سننے کے لئے بیٹھے.(مسلم کتاب الجمعة باب التحية والامام يخطب) ان تمام احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ کسی شخص کے سنتیں پڑھنے کے وقت اگر امام درس شروع کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ اگر یہ درست نہ ہو تا تو آنحضرت ام جمعہ کے لئے دیر سے آنے والے شخص کو یہ حکم نہ دیتے کہ تم خطبہ کے دوران دو رکعات نماز پڑھ لو.اسی طرح درس کے دوران اگر کوئی شخص سنتیں ادا کرتا ہے تو یہ بھی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ نماز کے فوراً بعد سنتیں پڑھنا ضروری ہے، درس سننا ضروری نہیں.خصوصاً نماز فجر کے بعد جبکہ وقت کم ہو اور سورج نکلنے کا اندیشہ ہو تو فوری طور پر سنتیں ادا کرنی چاہئیں.باقی جہاں تک اس معاملہ کا انتظامی پہلو ہے تو میرے نزدیک اگر درس ایسی نماز کے ساتھ ہو جس کے بعد بھی سنتوں کی ادائیگی مسنون ہو جیسے نماز ظہر ، مغرب یا عشاء تو پھر سنتوں کی ادائیگی کے بعد درس دینا چاہیے لیکن اگر نماز کے بعد سنتیں نہ ہوں تو پھر نماز کے معابعد درس شروع کیا جا سکتا ہے.اس صورت میں اگر کوئی شخص نماز فجر کی پہلے کی دو سنتیں فرض نماز کے بعد ادا کرتا ہے تو وہ درس کے دوران بھی ان سنتوں کی ادائیگی کر سکتا ہے.(قسط نمبر 53، الفضل انٹر نیشنل 29 اپریل 2023ء صفحہ 5) 592

Page 659

نوجوان نسل سوال: اسی ملاقات میں ایک مربی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نوجوان نسل کا زیادہ وقت باہر کے معاشرہ کے زیر اثر گزرتا ہے، انہیں ہم جماعت کے قریب کیسے لا سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: تو ٹھیک ہے نوجوان مربیان جو ہیں یہ ان کا کام ہے.آپ لوگ یہیں پہلے ہیں، یہیں بڑھتے ہیں، یہیں آپ نے گریجویشن کی ہے یا جو بھی تعلیم حاصل کی ہے، سیکنڈری سکول کی جو تعلیم حاصل کی ہے یا Abitur کیا یا جو بھی کیا تو آپ لوگوں کو اس ماحول کا پتہ ہے.آپ بھی یہاں رہتے ہیں.اس کے مطابق دیکھیں کہ کس طرح ان لوگوں کی تربیت کر سکتے ہیں.اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دوستیاں بنائیں، اسی لئے ذیلی تنظیمیں بھی ہیں.ذیلی تنظیموں کا بھی کام ہے کہ اپنے لڑکوں کو اپنے ساتھ Involve کریں.اور نوجوان مربیان جتنے بھی ہیں ان کا کام ہے کہ ان کی مدد کریں.اس طرح کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیک ہو جائے گا.یہ تو کوشش ہے، ٹھیک ہے ماحول یہ ہے.ماحول ہی تو ہمارے لئے چیلنج ہے.اس ماحول میں ہی ہم نے ان کے حالات کے مطابق کوشش کرنی ہے.کوئی نئی چیز تو نہیں ہے، کوئی نیا فارمولا تو نہیں ایسا بن جائے گا کہ آپ اس کو اپلائی کریں گے تو سارے لوگوں کی اصلاح ہو جائے گی اور وہ ولی اللہ بن جائیں گے، کوئی نہیں بنے گا.نہ ایک دن میں آپ لوگ اپنے سارے ٹارگٹ Achieve کر سکتے ہیں.یہ تو ایک مسلسل کوشش ہے تاکہ ان کا جماعت کے افراد کے ساتھ تعلق قائم رہے اور ان کو یہ احساس ہو تا رہے کہ ہاں ہماری ایک اور ذمہ داری بھی ہے کہ جو ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے اس کو بھی ہم نے پورا کرنا ہے.یہ احساس آہستہ آہستہ دلاتے رہیں.آپ کی تنظیموں کا افراد جماعت سے یا ذیلی تنظیموں کے ممبران جو ہیں ، خدام سے ، لجنہ سے، انصار سے، ان کا جتنا رابطہ ہو گا، اتنازیادہ اثر ہو گا.مربیان ان سے تعلق رکھنے کا اپنے آپ کو جتنا زیادہ وقت دیں گے اتنا زیادہ اثر ہو گا.یہ تو ایک مسلسل کوشش ہے اور یہ جاری رکھنی ہے.اس کے لئے کوئی Hard and fast فارمولا نہیں بنایا جا سکتا.ہر ایک کے حالات کے 593

Page 660

مطابق، ہر ایک شخص کی نفسیات کے مطابق یہ فیصلے کرنے ہوں گے.اور آپ نوجوان مرتبیان پہ یہی Trust کیا گیا ہے کہ آپ لوگ جو وہاں کے پڑھے لکھے ہیں وہ زیادہ بہتر طور پہ یہ تربیت کا کام کر سکتے ہیں.اگر آپ کی اپنی تربیت صحیح ہو جائے گی اور جیسا کہ میں نے شروع میں کہہ دیا تھا کہ تعلق باللہ پیدا ہو جائے گا تو پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ لوگ انقلاب لانے والے بھی بن جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ نوجوان مرتبیان اگر ایک عزم سے اٹھیں گے تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے.کیونکہ آپ لوگ یہاں کے ماحول میں پلے بڑھے ہیں.پہلے تو ہو تا تھا کہ کوئی پاکستان سے آیا، کوئی باہر سے مربیان آئے، ان کو صحیح طرح سے پتہ نہیں تھا، زبان پہ پوری طرح گرفت نہیں تھی.آپ کو تو زبان پہ بھی پوری طرح Grasp ہے، Comprehension ہے اور اس کو آپ اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں.یہاں کے ماحول میں رہے ہوئے ہیں ، ماحول کا بھی پتہ ہے.اسی طرح آپ لوگ خود نئے نئے راستے Explore کریں کہ کس طرح ہم نے ان کی تربیت کرنی ہے، کس طرح ان کو Attach کرنا ہے، کس طرح ہم نے نئی نسل کو ضائع ہونے سے بچانا ہے.(قسط نمبر 20، الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 2021ء صفحہ 11) 594

Page 661

ہم جنس پرستی سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ غیر مسلموں کے سامنے ہم جنس پرستی کو کیسے غلط ثابت کیا جائے.نیز یہ کہ خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ کائنات کا بنانے والا کوئی تو ہو گا کیونکہ کوئی چیز خود سے نہیں بن سکتی.پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو کس نے بنایا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے.حضور انور نے فرمایا: جواب: اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو کسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے.اسی لئے فرمایا: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا - یعنی اے ہمارے رب !تو نے کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا.(آل عمران: 192) پس شادی کے بعد مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کا بھی ایک مقصد ہے ، جو عفت و پاکدامنی، حفظان صحت ، بقائے نسل انسانی اور حصول مودت و سکینت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں جسمانی اعضاء بھی ایک خاص مقصد کے لئے عطا فرمائے ہیں.کھانا کھانے کے لئے منہ بنایا ہے اب اگر کوئی اس منہ کے ذریعہ گند بلا اور ریت مٹی کھانے لگ جائے تو اسے عظمند تو نہیں کہا جا سکتا.ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ہوائی جہاز وغیرہ اڑانے کے لئے ایوی ایشن کے اصول و ضوابط بنے ہوئے ہیں اور گاڑی چلانے کے لئے ٹریفک کے قوانین موجود ہیں.اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص سوچے سمجھے بغیر اور کسی قانون کی پابندی کئے بغیر جہاز اڑانے کی کوشش کرے یا اسے سڑکوں پر دوڑانا شروع کر دے.اسی طرح کوئی ٹریفک کے قوانین کی پابندی کئے بغیر گاڑی سڑک پر لے آئے.پھر دنیا کے سب ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں آنے جانے کے 595

Page 662

لئے Immigration کے قوانین بنائے ہوئے ہیں.کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص ان قوانین کی پابندی کئے بغیر کسی بھی ملک میں داخل ہو جائے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کو زندگی گزارنے کے لئے کچھ قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنایا ہے.اگر انسان ان قوانین کو توڑے گا تو وہ یقیناً خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گا.ہم جنس پرستی چونکہ قانون قدرت کی خلاف ورزی ہے، اس لئے پھر اس کے نتیجہ میں برائیاں اور بیماریاں پھیلتی ہیں اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ہم جنس پرست لوگ ایڈز وغیرہ کی بیماری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ جانور بھی اپنی بقائے نسل کے لئے اپنے جوڑے کے ساتھ ہی جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں.اس کے مقابل پر انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کہہ کر ساری دنیا کی مخلوق پر ایک فضیلت عطا فرمائی ہے اگر وہ کسی ایسے طریق پر اپنے جنسی جذبات کا اظہار کرے جس کا کوئی مقصد نہ ہو اور جو فعل اس کی بقائے نسل کا بھی موجب نہ ہو تو پھر وہ اشرف المخلوقات تو کیا ایک عام انسان بلکہ جانوروں سے بھی نچلے درجہ پر چلا جاتا ہے.انسان اگر عقل سے کام لے تو اسے سمجھ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے جنسی اعضاء بھی خاص مقصد کے لئے بنائے ہیں.لیکن ہم جنس پرستی کے شکار لوگ صرف شہوت کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں.پھر ایک طرف وہ اس برائی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بھی ہو، جس کے لئے پھر وہ دوسروں کے بچوں کو Adopt کرتے ہیں.اصل میں تو یہ سب دجالی چالیں ہیں جن کے ذریعہ دجال انسان کو اس کی پیدائش کے اصل مقصد سے دور ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ ان شیطانی کاموں سے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت انسان کو خدا اور مذہب سے دُور کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طریقہ سے انسان کا خدا تعالیٰ پر اعتماد ختم ہو جائے.ہم جنس پرستی نہ کوئی جسمانی بیماری ہے اور نہ ہی یہ پیدائشی طور پر کسی انسان میں ودیعت کی گئی ہے.اس برائی کے شکار لوگوں میں سے اکثر کو بچپن میں غلط قسم کی فلمیں وغیرہ دیکھ کر یہ گندی عادت پڑ جاتی ہے اور کچھ معاشرہ بھی انہیں خراب کر رہا ہوتا ہے.اسی طرح جب سکولوں میں 596

Page 663

ایسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں تو اس سے بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ Frustration پیدا ہوتی ہے اور بعض بچے اور نوجوان اس برائی میں پڑ جاتے ہیں.ہم ایسے لوگوں کو برا انہیں سمجھتے لیکن یہ فعل جس کو اللہ تعالیٰ نے بُرا کہا ہے وہ بہر حال بُرا ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو سزا بھی دی.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے کئی ہزار سال پہلے ایک قوم کو اس برائی کی وجہ سے سزا دی ہو لیکن آجکل لوگ وہی برائی کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو سزا نہ دے.اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مختلف طریقے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس معاملہ میں سزا بھی دی تھی.اب بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ ایسے لوگوں کا کیا کرنا ہے.لیکن ہماری ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو ان بُرے کاموں میں پڑنے سے بچائیں کیونکہ ہم مذہبی لحاظ سے اس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں.(قسط نمبر 51، الفضل انٹر نیشنل 25 مارچ 2023ء صفحہ 4) 597

Page 664

والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا سوال : والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا ہر دو کی قبولیت پر مبنی احادیث کے بارہ میں نظارت اصلاح و ارشاد مرکز یہ ربوہ کے ایک استفسار کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 نومبر 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی: جواب: کتب احادیث میں مروی دونوں قسم کی احادیث اپنی اپنی جگہ پر درست اور ہماری رہنمائی کر رہی ہیں.دونوں قسم کی احادیث کو سامنے رکھیں تو مضمون یہ بنے گا کہ جس شخص کی دعا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اس کی بد دعا بھی قبول ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا تو قبول کروں گا اور بد دعا قبول نہیں کروں گا.والد کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہے اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور بد دعا بھی سنتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے متعلق خاص طور پر فرمایا ہے کہ: وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفِّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ۖ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا - (سورة بني اسرائيل (25-24 یعنی تیرے رب نے (اس بات کا) تاکیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور نیز یہ کہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرو.اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آجائے تو انہیں (ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) اُف تک نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے (ہمیشہ) نرمی سے بات کر.اور رحم کے جذبہ کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور ان کے لئے دعا کرتے وقت) کہا کر (کہ اے) میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.598

Page 665

پس ان احادیث میں حضور اسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ والد کی دعاؤں سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کی بد دعا سے بچو.(قسط نمبر 28، الفضل انٹر نیشنل 04 فروری 2022ء صفحہ 11) 599

Page 666

والدہ کی وفات کے بعد انہیں غسل دینا سوال: قادیان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میری والدہ نے وفات سے قبل مجھے کہا تھا کہ ان کی وفات کے بعد میں انہیں غسل دوں.لیکن میری والدہ کی وفات کرونا سے ہوئی اس لئے انہیں غسل نہیں دیا جا سکا.جس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف ہے.اس بارہ میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں نے درست کیا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19 ستمبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: اصل بات یہ ہے کہ عام حالات میں عورت کی میت کو عورتیں اور مرد کی میت کو مرد ہی غسل دیتے ہیں.سوائے میاں بیوی کے کہ وہ ایک دوسرے کی میت کو غسل دے سکتے ہیں.اس لئے آپ نے بہت اچھا کیا کہ اپنی والدہ کی میت کو غسل نہیں دیا.اور ویسے بھی جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ ان کی وفات کرونا وائرس کی وجہ سے ہوئی تھی اس لئے طبی طور پر بھی آپ کو انہیں غسل دینے کی اجازت نہیں ملنی تھی.اس لئے آپ کو اس وجہ سے کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ کے ساتھ رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، آپ سب لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی نیکیوں اور دعاؤں کا وارث بنائے.آمین (قسط نمبر 44، الفضل انٹر نیشنل 2 دسمبر 2022ء صفحہ 10) 600

Page 667

والدین سوال : نظارت اصلاح و ارشاد مرکز یہ ربوہ نے کتب احادیث میں مروی والد کی اپنی اولاد کے حق میں دعا اور اولاد کے خلاف بد دعا دونوں کے قبول ہونے کے متعلق روایات اور ان کے عربی الفاظ کی مختلف لغات سے تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے رہنمائی چاہی کہ ان میں سے کونسی روایت اور کس ترجمہ کو اختیار کیا جائے؟ حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 فروری 2015ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: اگر والد کی اپنی اولاد کے لئے دعا ترجمہ کر دیا جائے تو حدیث کا ترجمہ واضح ہو جاتا ہے.لیکن کتب احادیث میں مروی دونوں قسم کی احادیث اپنی اپنی جگہ پر درست اور ہماری رہنمائی کر رہی ہیں.دونوں احادیث کو سامنے رکھیں تو مضمون یہ بنے گا کہ جس شخص کی دعا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اس کی بد دعا بھی قبول ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا تو قبول کروں گا اور بد دعا قبول نہیں کروں گا.والد کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہے اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور بد دعا بھی سنتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے متعلق خاص طور پر فرمایا ہے کہ: وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أُفٌ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ۖ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.(سورة بني اسرائيل: 24-25 یعنی تیرے رب نے (اس بات کا) تاکیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (نیز یہ کہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرو.اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آجائے تو انہیں (ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) 601

Page 668

اُف تک نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے (ہمیشہ) نرمی سے بات کر.اور رحم کے جذبہ کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور (ان کے لئے دعا کرتے وقت) کہا کر (کہ اے) میرے رب ! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.پس ان احادیث میں حضور ا نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ والد کی دعاؤں سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کی بد دعا سے بچو.(قسط نمبر 3، الفضل انٹر نیشنل 04 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 602

Page 669

سوال: یو کے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ہم عشاء کی نماز میں وتر کی آخری رکعت الگ پڑھتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز یہ کہ جب ہم Holidays پر جاتے ہیں اور اپارٹمنٹ ٹک کرتے ہیں تو کیا ہم وہاں کے Frying pans وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 12 اکتوبر 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: علمائے حدیث و فقہ نے وتر پڑھنے کے کئی طریق بیان کئے ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے موقف کے حق میں مختلف دلائل بھی دیئے ہیں.ان میں زیادہ معروف دو طریق ہیں ایک یہ کہ دو رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور پھر تیسری رکعت الگ پڑھی جائے.اور دوسرا طریق یہ ہے کہ تینوں رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائیں اور درمیان میں دو رکعات کے بعد تشہد بیٹھا جائے.چنانچہ ایک شخص کے سوال پر کہ وتر کس طرح پڑھنے چاہئیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: خواہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو.خواہ تینوں ایک ہی سلام سے در میان میں التحیات بیٹھ کر پڑھ لو.“ (الحکم نمبر 13، جلد 7، مؤرخہ 10 اپریل 1903ء صفحہ 14) احادیث میں آتا ہے کہ حضور اللهم عموماً وتروں کی تین رکعات کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کیا کرتے تھے.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْصِلُ بَيْنَ الْوَتْرِ وَالشَّفْعِ بِتَسْلِيْمَةٍ وَيُسْمِعُنَاهَا.(مسنداحم مسند احمد بن حنبل، مسند عبد الله.بن عمر بن خطاب حديث نمبر 5204) یعنی رسول اللہ علیم وتر اور اس کے قبل کی دورکعتوں کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کر لیا کرتے تھے اور یہ سلام ہمیں سنایا کرتے تھے.603

Page 670

اسی طرح حضرت عائشہؓ سے مروی ہے: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْحُجْرَةِ وَ أَنَا فِي الْبَيْتِ فَيَفْصِلُ بَيْنَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ بِتَسْلِيْمٍ يُسْمِعُنَاهُ (مسند احمد بن حنبل، حديث السَّيِّدَة عَائِشَةُ حديث نمبر 23398) یعنی رسول اللہ الی یا حجرہ میں نماز پڑھتے تھے اور میں گھر میں ہوتی ، آپ وتر اور پہلی دو رکعتوں میں سلام کے ساتھ فاصلہ کرتے تھے اور اپنا سلام ہمیں سناتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وتر پڑھنے کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضرت صاحب وتر دو پڑھ کر سلام پھیرتے تھے یا تین پڑھ کر ؟ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: عموٹا دو پڑھ کر.مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہا.جس قدر واقف لوگوں سے اور روایتیں سُنی ہیں.ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیرتے تھے پھر ایک پڑھتے.“ (الفضل قادیان دار الامان نمبر 97، جلد 9 مورخہ 12 جون 1922ء صفحہ 7) پس اگر چہ فقہاء نے تینوں وتر اکٹھے ایک ہی سلام کے ساتھ درمیان میں تشہد بیٹھ کر پڑھنے کے طریق کو بھی درست اور مسنون قرار دیا ہے لیکن ہمارے آقا و مطاع آنحضور لم اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمومی سنت یہی تھی کہ آپ وتر کی دورکعات پڑھنے کے بعد سلام پھیر کر پھر تیسری رکعت الگ پڑھا کرتے تھے.(قسط نمبر 45، الفضل انٹر نیشنل 16 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 604

Page 671

وضو سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ اگر ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جائے تو کیا نماز کے لئے دوبارہ وضو کرنے سے پہلے استنجا کرنا ضروری ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 22 جولائی 2021ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا: جواب: حضور ایلم کے اسوہ سے یا جہاں حضور اللم نے وضو کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، ان میں کہیں پر بھی وضو سے پہلے استنجا کرنے کا ذکر نہیں ہے.اس لئے صرف ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹنے پر نماز کے لئے دوبارہ وضو کرتے وقت وضو سے پہلے استنجا کرنے کی ضرورت نہیں.البتہ اگر اخراج ریح کے ساتھ غلاظت یا پیشاب بھی نکل جائے تو پھر وضو سے پہلے استنجا کرنا ضروری ہے تا کہ اخراج ریح کے ساتھ جو کندگی نکلی ہے پہلے اسے دھویا جاسکے.ورنہ ایک دفعہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر استنجا کر کے جب وضو کر لیا جائے تو اس کے بعد صرف ہوا کے خارج ہونے پر وضو تازہ کرتے وقت استنجا کرناضروری نہیں.(قسط نمبر 38، الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2022ء صفحہ 10) 605

Page 672

وفات سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں خط لکھا کہ بعض دوستوں کی طرف سے اس کے کزن کی وفات پر نامناسب رویہ کا اظہار کیا گیا ہے، جس پر اسے شدید دکھ ہے.نیز اس دوست نے حضور انور سے دریافت کیا کہ کیا اسلام کی مخالفت پر فوت ہونے والے کسی عزیز کے لئے دعا کرنے سے قرآن کریم ہمیں منع فرماتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی: جواب: آپ کے کزن کی وفات پر اگر کسی احمدی نے کسی نامناسب رویہ کا اظہار کیا ہے تو یقیناً اس احمدی نے غلط کیا ہے.ہر انسان کی وفات کے بعد اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے، وہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے کسی دوسرے شخص کو اس بارہ میں کوئی رائے قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ سے الگ الگ حساب ہے.سوہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلاح اور جانچ پڑتال کرنی چاہیئے.دوسروں کی موت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا باعث ہونی چاہیے نہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کر کے اور بھی خدا تعالیٰ سے غافل ہو جاؤ.66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 217) باقی جیسا کہ آپ نے عابد خان صاحب کی ڈائری کے حوالہ سے اپنے خط میں لکھا ہے ، میر اجواب تو آپ نے پڑھ ہی لیا ہے کہ ہم اسے کسی قسم کا کوئی خدائی نشان قرار نہیں دے سکتے کیونکہ آپ کے کزن کا نہ تو جماعت احمدیہ کے ساتھ کوئی مقابلہ چل رہا تھا اور نہ ہی اس نے جماعت کو کوئی ایسا چیلنج دیا تھا جس سے مقابلہ سمجھا جائے.اسلام کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ اس کے فعل سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام اپنے مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ میں 606

Page 673

تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں.(سورۃ الشعراء: 169) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ہدایت فرمائی کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے استہزاء ہو تا سنو تو ان ہنسی کرنے والوں کے ساتھ اس وقت نہ بیٹھو.(سورۃ النساء: 141) گویا انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ ان کے عمل سے بیزاری کے اظہار کی تعلیم دی گئی ہے..پس اسلام کی تعلیم ہر معاملہ میں مکمل اور نہایت خوبصورت ہے.اسلام تو سخت ترین معاند کی موت پر بھی خوش ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کی موت پر بھی ایک سچے مومن کو اس لئے دکھ ہوتا ہے کہ کاش یہ شخص ہدایت پا جاتا.احمدیت کے سخت ترین دشمن اور ہمارے آقا و مطاع سید نا حضرت اقدس محمد مصطفی لی ایم کی ذاتِ اطہر کے بارہ میں بد زبانی کرنے والے معاند اسلام پنڈت لیکھرام کی الہی پیشگوئیوں کے مطابق جب ہلاکت ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی ہلاکت پر بھی اس کی قوم کے لوگوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا: ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں.کیوں خوش ہیں ؟ صرف قوموں کی بھلائی کے لئے.کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے.ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے.درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بد زبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا.اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا.“ (سراج منیر ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 28) باقی جہاں تک اسلام کی مخالفت پر مرنے والے کسی شخص کے لئے دعا کرنے کی بات ہے تو اسلام نے صرف مشرک جو خدا تعالیٰ سے کھلی کھلی دشمنی کا اظہار کرے، اس کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے باقی کسی کے لئے دعا کرنے سے نہیں روکا.(سورۃ التوبۃ:114) (قسط نمبر 29، الفضل انٹر نیشنل 25 فروری 2022ء صفحہ 10) 607

Page 674

وفات شدگان سوال: ایک عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں تو اس کے بچے اس کی طرف سے یہ روزے رکھ سکتے ہیں، اس بارہ میں جماعت کا کیا موقف ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 24 مئی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: جواب: نماز اور روزہ بدنی عبادات ہیں، اس لئے ان کا ثواب اسی شخص کو پہنچتا ہے جو اُن عبادات کو بجالا تا ہے.اس لئے ہمارے نزدیک میت کی طرف سے نماز اور روزے رکھنا مرنے والے کی اولاد کی ذمہ داری نہیں ہے.فقہاء کی اکثریت جن میں حضرت امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی شامل ہیں، ان روزوں کے رکھنے کو درست نہیں سمجھتے اور ان کی بھی یہی دلیل ہے کہ روزہ ایک بدنی عبادت ہے جو اصول شرع سے واجب ہوتی ہے اور زندگی اور موت کے بعد اس میں نیابت نہیں چلتی.(الفقہ الاسلامي و ادلته کتاب الصوم، از ڈاکثر وهبة الزحيلي باقی جہاں تک کتب احادیث میں اس قسم کی روایات کے بیان ہونے کا تعلق ہے تو علماء حدیث اور شارحین نے ان روایات کی تشریح میں اس سے مختلف روایات کا بھی ذکر کیا ہے مثلاً میت کی طرف سے اس کے اولاد کے روزہ رکھنے والی روایات حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس سے مروی ہیں، لیکن کتب احادیث میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس کی طرف سے یہ روایت بھی موجود ہے کہ وفات یافتہ کی طرف سے روزے نہ رکھو بلکہ اس کی طرف سے کھانا کھلاؤ.(فتح الباري شرح صحيح بخاري كتاب الصوم بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْم) اسی طرح حضرت ابن عباس سے مروی اس قسم کی روایات میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں.چنانچہ ایک جگہ سوال پوچھنے والا مرد ہے اور دوسری جگہ عورت.اسی طرح روزوں کے بارہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے تھے یا نذر کے روزے تھے.نیز ایک جگہ روزوں کی بابت پوچھا جارہا ہے اور دوسری جگہ حج کی بابت پوچھا ہے.(شرح بخاري از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، 608

Page 675

جلد سوم صفحہ 630 کتاب الصوم) پس اس قسم کے اختلافات کی وجہ سے محدثین میں بھی میت کی طرف سے روزے رکھنے کے بارہ میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں.لیکن کسی نے بھی اسے واجب قرار نہیں دیا.البتہ میت کی طرف سے کوئی ایسا کام کرنا جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا ہو تو وہ ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے.(قسط نمبر 36، الفضل انٹر نیشنل 17 جون 2022ء صفحہ 11) 609

Page 676

سوال : انڈونیشیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا عید الاضحیہ کے موقعہ پر وفات شدگان کے نام پر جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 08 جون 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب: وفات شدگان کی طرف سے قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو حضور ایم کی سنت ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضور ایام عید الاضحیہ کے موقعہ پر ایک قربانی اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے دیا کرتے تھے اور ایک قربانی اپنی امت کی طرف سے کیا کرتے تھے.اور آپ کی امت میں بہت سے ایسے صحابہ بھی شامل تھے جو حضور ام کی حیات مبارکہ میں شہید ہو چکے تھے اور وہ بھی حضور کی طرف سے کی جانے والی اس قربانی میں شامل ہوتے تھے.(صحیح مسلم کتاب الاضاحي مسند احمد بن حنبل، مسند الانصار مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ حَدِيثُ أبي رافع - حديث نمبر 25937) علاوہ ازیں حدیث میں یہ بھی روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو جانوروں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو اس کا سبب پوچھا.جس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ حضور م نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور ا کی طرف سے قربانی کیا کروں.اس لئے میں ایک جانور آپ کی طرف سے قربان کرتا ہوں.(سنن ابي داؤد كتاب الضحايا بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ) "حضرت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا جو مقام اور مرتبہ اور آپ کے لئے جو محبت تھی، اس کا اظہار کرتے ہوئے ایک موقعہ پر آپ فرماتے ہیں: ت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات پر 42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقعہ پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں...پھر جب میں حج پر گیا تو اس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک ہر عید کے موقعہ پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں.“ انوار العلوم جلد 25 صفحہ 468) 610

Page 677

پس وفات شدگان عزیزوں اور پیاروں کی طرف سے عید الاضحیہ کے موقعہ پر قربانی کرنا عین سنت رسول اللہ کم ہے.(قسط نمبر 38، الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2022ء صفحہ 10) 611

Page 678

وقف أو سوال : گلشن وقف نولجنه و ناصرات میلبرن آسٹریلیا مؤرخہ 12 اکتوبر 2013ء میں ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے حضور انور سے دریافت کیا کہ واقفات نولجنہ کی جب شادی ہوتی ہے اور ہمارے اوپر گھر کی، فیملی کی اور بچوں کی ذمہ داری آتی ہے تو اس وقت ہم اپنے وقف نو ہونے کا Role صحیح طریقہ سے کیسے ادا کر سکتی ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جواب درج ذیل الفاظ میں عطا فرمایا.حضور انور نے فرمایا: جواب: وقف نو ہونے کا Role صحیح طریقہ سے ادا کرنے کے لئے پہلے تو جو پانچ نمازیں فرض ہیں ان کو اچھی طرح پڑھو.اگر تہجد پڑھ سکتی ہو تو وہ پڑھو.قرآن شریف پڑھو اور اس کا ترجمہ پڑھو.اگر لجنہ کا کوئی کام تمہارے سپرد ہوتا ہے تو وہ جس حد تک ہوتا ہے وہ کرو.پھر سب سے بڑی ذمہ واری یہ ہے کہ جو بچے ہیں ان کی ایسی تربیت کرو کہ ان کا اللہ سے تعلق پیدا ہو جائے.خاوند کو یہ Realise کرواؤ کہ میں وقف تو ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ اپنی بھی تربیت کرنا اور اپنے گھر کی بھی تربیت کرنا، اپنے بچوں کی تربیت کرنا.اس لئے تم بھی اس میں میر اساتھ دو.کیونکہ اگر باپ اپنا Role Play نہ کر رہا ہو تو پھر بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہوتی.تو سب سے بڑی ذمہ داری گھر کی ہے.اور تم لوگوں کے لئے یہی بڑا ثواب ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت آنحضرت ام کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ ہمارے جو خاوند ہیں جہاد پر بھی جاتے ہیں اور کماتے ہیں اور چندے بھی دیتے ہیں اور مرد باہر بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو ہم عورتیں گھروں میں نہیں کر سکتیں.تو ہمیں جو جہاد کا اور چندے دینے کا یہ ثواب ہے ، یہ سارا ہمیں بھی ملے گا؟ آنحضرت لم نے فرمایا کہ ہاں کیونکہ تم ان کے گھر کی اچھی طرح نگرانی کرتی ہو ، ان کے بچوں کی تربیت کرتی ہو ، ان کے پیچھے ان کے گھروں کو Look after کرتی ہو.اور پھر جو اس وجہ سے نیک نسل پیدا ہو رہی ہے، تمہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا.اور پھر یہ بھی برداشت کرتی ہو کہ اپنے خاوندوں کو بھیجتی ہو کہ جاؤ دینی خدمت کرو.اگر تمہارا خاوند دنیا کی خدمت بھی کر رہا ہے ، دین کی نہیں بھی کر رہا تو یہ بھی حدیث میں ہے کہ عورت جو ہے وہ اپنے 612

Page 679

گھر کی نگران ہے.تو وقف نو کی جو ذمہ داری ہے وہ یہ ہے کہ اپنی نئی نسل کو احمدیت پہ قائم کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق جوڑو.(قسط نمبر 3، الفضل انٹر نیشنل 04 دسمبر 2020ء صفحہ 12) 613

Page 680

ولی سوال: نکاح کے ایک معاملہ میں دلہن کے والد کی وفات کی صورت میں دلہن کی طرف سے اس کے تایازاد بھائی کے ولی مقرر ہونے پر شعبہ رشتہ ناطہ کی طرف سے اعتراض اٹھانے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایت عطا فرمائی.حضور نے فرمایا: جواب: محترم امیر صاحب کینیڈا نے نکاح کی رجسٹریشن کا ایک معاملہ مجھے بھجوایا ہے جس میں لڑکی کے والد فوت ہو چکے ہیں اور اس کا کوئی بھائی بھی نہیں ہے.اور لڑکی نے اپنے نکاح کے لئے اپنے تایازاد بھائی کو ولی مقرر کیا ہے.لیکن آپ نے یہ کہتے ہوئے کہ تایازاد بھائی ولی نکاح نہیں ہو سکتا، اس نکاح کی رجسٹریشن کرنے سے انکار کر دیا ہے.مجھے بتائیں کہ آپ نے کسی فقہ کے مطابق تایا زاد بھائی کے ولی نکاح بننے پر اس نکاح کی رجسٹریشن کرنے سے منع کیا ہے، جبکہ اس بچی کے نہ والد زندہ ہیں اور نہ کوئی بھائی فقہ احمدیہ کے مطابق تو والد کے بعد بچی کے عصبی رشتہ داروں میں سے جو قریبی رشتہ دار موجود ہو وہ لڑکی کا ولی بن سکتا ہے اور تایازاد بھائی کا شمار عصبی رشتہ داروں میں ہوتا ہے اور وہ لڑکی کا ولی بن سکتا ہے بشر طیکہ اس سے پہلے عصبی رشتہ داروں میں سے کوئی رشتہ دار زندہ نہ ہو.لہذا اس نکاح کو رجسٹر کر لیں.ہے.(قسط نمبر 18، الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2021ء صفحہ 11) 614

Page 681

سوال : نکاح میں لڑکی کی طرف سے اس کے بہنوئی کے بطور ولی نکاح تقرر کی بابت نظارت اصلاح ارشاد رشتہ ناطہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے ایک سوال پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 اگست 2020ء میں درج ذیل ہدایات فرمائیں: جواب: لڑکی کے نکاح کے لئے اس کے والد یا بھائی کے موجود نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے عصبی رشتہ داروں میں سے جو درجہ کے لحاظ سے اس کے زیادہ قریب ہو گا وہی اس کا ولی ہو گا، بشر طیکہ وہ لڑکی کے مفاد کو ہر اعتبار سے پیش نظر رکھنے والا ہو جیسا کہ خود لفظ ولی اس امر کا تقاضا کرتا ہے.لیکن اگر لڑکی کا کوئی عصبی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں پھر خلیفتہ المسیح اس کے ولی ہیں، اور ایسی بچی کے نکاح کے لئے وکیل کا تقرر نظام جماعت کے ذریعہ ہو گا اور یہی جماعت احمدیہ کا دستور ہے.(قسط نمبر 27، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء صفحہ 11) 615

Page 682

یا جوج ماجوج سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ یاجوج ماجوج کون ہیں؟ نیز یہ کہ کیا آنحضرت ام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تھا؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 جنوری 2020ء میں ان امور کا درج ذیل جواب عطا فرمایا.حضور نے فرمایا: جواب: آخری زمانہ میں اسلام نے جن مصائب اور فتنوں سے دوچار ہونا تھا، ان میں دجال اور یاجوج ماجوج کا خاص طور پر ذکر آتا ہے.اور دجال اور یا جوج ماجوج ایک ہی فتنہ کے مختلف مظاہر ہیں.دجال اس فتنہ کے مذہبی پہلو کا نام ہے.جس کا مطلب ہے کہ یہ گروہ آخری زمانہ میں لوگوں کے مذہبی عقائد اور مذہبی خیالات میں فساد پیدا کرے گا.اور اس زمانہ میں جو گروہ سیاسی حالات کو خراب کرے گا اور سیاسی امن و امان کو تباہ و برباد کرے گا اس کو یاجوج ماجوج کا نام دیا گیا ہے.اور ہر دو گروہوں سے مراد مغربی عیسائی اقوام کی دنیوی طاقت اور ان کا مذہبی پہلو ہے.لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ایم کے ذریعہ ہمیں یہ خبر بھی دی کہ جب دجال اور یاجوج ماجوج کے فتنے برپا ہوں گے اور اسلام کمزور ہو جائے گا تو اللہ تعالی اسلام کی حفاظت کے لئے مسیح موعود کو مبعوث فرمائے گا.اس وقت مسلمانوں کے پاس مادی طاقت نہ ہو گی لیکن مسیح موعود کی جماعت دعاؤں اور تبلیغ کے ساتھ کام کرتی چلی جائے گی جس کی بدولت اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو خود ہلاک کر دے گا.(قسط نمبر 14، الفضل انٹر نیشنل 07 مئی 2021ء صفحہ 11) 616

Page 683

یتیم بچوں کے لئے ماں کا دودھ مہیا کرنے کے لئے Milk Bank کا قیام سوال: قادیان سے ایک دوست نے Milk Bank جہاں سے یتیم بچوں کے لئے ماں کا دودھ مہیا کیا جاتا ہے کا ذکر کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اس طرح تو وہاں کا دودھ پینے والے بچے آپس میں رضاعی بہن بھائی بن جاتے ہوں گے لیکن یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کون کس کا رضاعی بھائی یا بہن ہے.کیا اسلام میں اس طرح کے Milk Bank قائم کرنے کی اجازت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 12 اکتوبر 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی.حضور انور نے فرمایا: جواب: اسلامی تعلیم کے مطابق ایک ماں کا دودھ پینے والے بچوں کا باہم رضاعت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسے بچوں اور بچیوں کی آپس میں شادی نہیں ہو سکتی جنہوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہو.لہذا اگر کسی جگہ ضرورت کے تحت یتیم بچوں کو ماں کے دودھ کی سہولت مہیا کی جائے تو اس کا انتظام کرنے والے ادارہ یا حکومت کو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑے گی اور اُس کے لئے لازمی ہو گا کہ وہ اس چیز کا بھی ریکارڈ رکھے کہ کس بچہ کو کس عورت کا دودھ پلایا گیا ہے.جو بظاہر ناممکن ہو گا.لہذا میرے نزدیک تو شریعت اسلامی کی رُو سے اس طرح کے Milk Bank کا اجراء درست نہیں کیونکہ اس سے کئی قسم کے ابہام اور مسائل پیدا ہو سکتے ہیں.اور ویسے بھی اس زمانہ میں اس طرز کے Milk Bank کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ مارکیٹ میں بیسیوں قسم کے Formula Milk دستیاب ہیں.اگر کسی ادارہ یا حکومت کو یتیم بچوں کی پرورش کا اتنا ہی احساس ہے تو وہ ایسے بچوں کے لئے اس Formula Milk کی سہولت مہیا کر سکتے ہیں.بہر حال میں اس بارہ میں مزید تحقیق کروا رہا ہوں لیکن فی الحال تو میرا یہی نظریہ ہے کہ آپ کے خط میں بیان MilkBank کے اجراء کا طریق اسلامی تعلیم کے مطابق درست نہیں ہے.617

Page 684

بعد ازاں حضور انور نے اس مسئلہ پر دارالافتاء ربوہ کے ذریعہ تحقیق کروا کر اپنے مکتوب مؤرخہ 17 اگست 2022ء میں سوال کرنے والے دوست کو مزید درج ذیل ہدایت سے بھی نوازا.حضور انور نے فرمایا: میں نے اس معاملہ پر دار الافتاء ربوہ کے ذریعہ تحقیق کروائی ہے.اس تحقیق کے مطابق اسلامی تعلیمات کی رو سے عورتوں کے دودھ کا Milk Bank قائم کرنا اور اس کے ذریعہ بچوں کو دودھ مہیا کرنا درست نہیں، کیونکہ اسلام نے رضاعت کی بناء پر قائم ہونے والے رشتوں کا اس حد تک تقدس قائم فرمایا ہے کہ ان رشتوں کی آپس میں شادی کی اُسی طرح ممانعت فرمائی، جس طرح نسب کی بناء پر محرم رشتوں کی باہم شادی کی ممانعت فرمائی ہے.جبکہ اس قسم کے Milk Bank سے ملنے والے دودھ کے بارہ میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ایک دودھ کے پیکٹ میں کتنی اور کن کن عورتوں کا دودھ ہے.اور اگر ان عورتوں کی اس پیکٹ پر تفصیل درج بھی کر دی جائے، تو اس دودھ کو پینے والے بچوں کے بے شمار رضائی بہن بھائی بن جائیں گے ، جن کا حساب رکھنا اور ان سے شادی کے معاملہ میں احتیاط برتنا بظاہر ناممکن ہو جائے گا.لہذا اگر کسی بچہ کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہو تو اس کے لئے جس طرح اسلام نے رضاعی ماں کے طریق کو جاری فرمایا ہے، اسی طریق کو اختیار کرنا چاہیئے.لیکن اگر کسی جگہ اس کی سہولت موجود نہ ہو تو پھر عورتوں کے دودھ کے MilkBank سے ملنے والے دودھ کے استعمال کا تکلف کر کے رشتوں کو مشتبہ بنانے کی بجائے عام گائے، بھینس یا مصنوعی دودھ کے پیکٹوں کے دودھ کو استعمال کرنا چاہیئے تاکہ اسلام نے جن رشتوں کے تقدس کو قائم فرمایا ہے اس کی پوری طرح پابندی ہو سکے.(قسط نمبر 45، الفضل انٹر نیشنل 16 دسمبر 2022ء صفحہ 11) 618

Page 684