Bukhar-eDil

Bukhar-eDil

بُخارِ دل

شعری مجموعہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
منظوم کلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پلنے والے،خاندان میر درد کی شعری اور روحانی روایات کے پاسدار حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کو جہاں علم الادیان و علم الابدان پر دست قدرت نصیب تھی، وہاں اس فنافی اللہ وجود کا عارفانہ کلام بھی روح پرور اور وجد آفرین تھا کیونکہ قدرت نے آپ کو قوت تحریر و تقریر اور موزونی طبع بھی عطا فرمائی ہوئی تھی۔ محترم محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے نہایت محبت و عقیدت اور فنی مہارت سے حضرت میر صاحب کے کلام کو مرتب کیا ہے۔ بخار دل 1928 سے شروع ہوکر 1970 تک مختلف مراحل سے گزر کر مرتب ہوتی رہی۔ موجودہ دیدہ زیب ایڈیشن میں پیشکش کے معیار کو نہایت محنت و کوشش سے اعلیٰ ترین رکھا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

اردل

Page 2

(احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ) مُخارِ دِل حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب

Page 3

2 اظہار تشکر محترم مرزا محمد انور صاحب (سان فرانسکو.امریکہ ) نے اپنی والده محترمه خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مرز امحمد اسمعیل صاحب کی طرف سے اس کتاب کی اشاعت میں مالی معاونت کی ہے.ہم کے بھائی کی اس فراخ دلانہ پیشکش پر اُن کے شکر گزار ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی والدہ محترمہ کو صحت و طمانیت والی طویل زندگی سے نوازے اور اہلِ خاندان کو نسلاً بعد نسل اپنی رضا کی راہوں پر چلائے نیز کو نیک ، صحت مند، خادم دین اور قرۃ العین بنائے.آمین آٹھم آمین فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدارین خیراً

Page 4

3 پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ لجنہ صد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں کتب شائع کرنے کے منصوبے پر ثابت قدمی سے عمل کر رہی ہے بخار دل، جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا شعری مجموعہ ہے اس سلسلے کی تر اسی ویں (83) کتاب ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِک حضرت میر صاحب کی صاحبزادی آپا طیبہ صدیقہ صاحبہ مرحومه لجن کے اشاعتی پروگرام میں اس بیش بہا خزانہ کے اضافہ کا باعث بنیں (اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرما تا چلا جائے آمین ) آپ کی تحریک پر مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل دو ضخیم جلدوں میں شائع ہو چکی ہے.اب 'بخار دل، پیش خدمت ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد آپ بیتی ، کر نہ کر اور تواریخ بیت فضل لندن بھی شائع کرنے کا ارادہ ہے.اللہ تعالیٰ ہماری مساعی قبول فرمائے اور جماعت کے تقویٰ میں ترقی کا باعث بنائے.

Page 5

عرض حال حضرت سلطان القلم کے سایہ عاطفت میں، حضرت سیدہ نصرت جہاں کی آنکھوں میں، ذوق لطیف کے ہمالوں پر علم و عرفان کی نور بار فضاؤں میں پرورش پانے والے خانوادہ میر درد کی شعری روایات کے پاسدار حضرت میر ناصر نواب صاحب کے صاحبزادے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل جیسے فنا فی اللہ کا وجد آفریں روح پرور عارفانہ کلام شائع کرنے کی سعادت حاصل ہونا محض فضل واحسانِ خداوندی ہے.اگر ہر بال ہو جائے سخن تو پھر بھی شکر ور ہے امکاں سے باہر قبل ازیں 1200 صفحات پر مشتمل ” مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کے طویل کام میں جو عرصۂ حیات گز را اُس میں ہر لمحہ اس نابغہ روزگار کے نئے جو ہر گھلتے گئے.دست قدرت نے کمال فیاضی سے آپ کو علم الادیان اور علم الا بدان سے تو مالا مال کیا ہی تھا مستزاد یہ کہ قوت تحریر و تقریر اور موزونی مطبع پر بھی قدرت عطا فرمائی.نثر کے شاہکار یکجا پیش کرنے کے بعد یہ تمنا جاگی کہ حضرت میر صاحب کے شعری مجموعے بخار دل کو بھی اب کمیاب نہ رہنے دیا جائے.کام کا آغاز کیا تو اندازہ ہوا کہ اسے بہتر طریق پر پیش کرنے کی کافی گنجائش موجود ہے.

Page 6

5 اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے محترم محمد اسمعیل صاحب پانی پتی کو جنہوں نے نہایت محبت و عقیدت اور فنی مہارت سے حضرت میر صاحب کا کلام مرتب فرمایا.آپ نے یقیناً اُس اعتماد کا خوب حق ادا کیا ہے جو حضرت میر صاحب نے آپ کو اپنی بیاض تھماتے ہوئے کیا تھا.آپ نے بخار دل، تین مرحلوں میں شائع کی.حصہ اوّل 1928ء میں، اس میں حصہ دوم کے اضافے کے ساتھ 1945ء میں اور پھر وفات کے بعد ملنے والے کلام کو شامل کر کے مکمل بخارِ دل1970ء میں شائع کی.ابتدا میں آپ نے نظموں کو اوقات تصنیف کے مطابق ترتیب دیا.لیکن بعد میں یہ ترتیب قائم نہ رہی.تمہید میں لکھتے ہیں : - دو میں نے ان نظموں کی ترتیب اوقات تصنیف کے لحاظ سے رکھی ہے مگر کہیں کہیں تقدیم و تاخیر بھی ہوگئی ہے.اگر میری زندگی میں اس کی نوبت آئی تو کتاب کی دوسری اشاعت کے وقت انشاء اللہ نسبتاً بہتر ترتیب کے ساتھ یہ مجموعہ مرتب ہو سکے گا.“ بہتر ترتیب کی خواہش کی تکمیل کے لئے خاکسار نے اب یہ مجموعہ اوقاتِ اشاعت کے مطابق ترتیب دیا ہے.اور اس تبدیلی کی حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اجازت بھی لے لی ہے.علاوہ ازیں قطعات و رباعیات حصہ اول، حصہ دوم اور وفات کے بعد ملنے والے کلام سے لے کر یکجا کر دیے ہیں.اسی طرح آپ کی روایتی خوش طبعی اور مزاح کا رنگ لئے ہوئے نظمیں

Page 7

6 بھی ایک جگہ کر دی ہیں.طرز تحریر میں املاء اور سہو کتابت کی بعض اغلاط کو درست کر کے مشکل الفاظ پر اعراب لگا کر کھلا کھلا لکھوایا ہے.دراصل جب یہ مجموعہ ابتدا میں مرتب ہوا کاغذ گراں اور کمیاب تھا اس لئے تحریر بہت گنجان ہے.بعض جگہ نظموں کے عنوان پہلو میں لکھے ہوئے ہیں.جو نمایاں نہیں ہوتے.اب مناسب جگہ پر عنوانات لکھوائے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ بخار دل حسین تر ہو کر منظرِ عام پر آئے.اس کا ظاہری حسن اس کے معنوی حسن تک رسائی میں مددگار ہو اور قارئین خدا تعالیٰ کے قریب تر آجائیں آمین.خاکسار اُن سب مہربان ہستیوں کے لئے دعا گو ہے جن کی دعائیں اور حوصلہ افزائی شریک حال رہی.اللہ تعالیٰ بیش از پیش مقبول خدمات دینیہ کی تادمِ آخرتوفیق بڑھا تا چلا جائے آمین اللھم آمین

Page 8

7 بخار دل کا نام بخار دل رکھا ہے نام اس کا که آتشدان دل کا یہ دھواں ہے کسی کے عشق نے جب پھونک ڈالا تو نکلی مُنہ سے یہ آہ و فغاں ہے لگاتی آگ ہے لوگوں کے دل میں ہماری نظم بھی آتش فشاں ہے کہیں حکمت کے موتی ہیں بکھرے کہیں عشق و محبت کا بیاں ہے

Page 9

8 انتساب اے کہ تو ہے منعیم آلائے من میں تیرا بندہ ہوں اے آقائے من لطف کن بر من طفيل آنکه بود سَيّدِ مَن ، شيح من ، مرزائے مَن ہوں سقیم انحال اور معذور، گو اے طبیب جملہ علتہائے مَن عرض سُن لے مہربانی سے مِری اے سمیع نالۂ شبہائے مَن شعرخوش کرنے کو کہتا ہوں ترے مہرباں ہو، تا، کرم فرمائے من فائدہ بندوں کو بھی پہنچے ضرور ہے مرے مدنظر مولائے مَن ہوں یہ میرے باقیات الصالحات اے پناہ و مامن و مَلْجائے مَن لوگ کرتے ہیں عبادت رات دن میری یہ خدمت ہے اے ماوائے من نذر ہیں کچھ قطرہ ہائے خونِ دل اے بیادت ہی ہی و ہی ہائے من (الفضل 12 /نومبر 1943ء)

Page 10

9 66 تعارف شعر کی تعریف اس سے زیادہ نہیں کہ وہ باوزن ہو.اس کے الفاظ عمدہ اور مضمون لطیف ہو.میرے بزرگوں کو چونکہ شاعری سے مناسبت تھی اس لئے مجھ میں بھی کچھ حصہ اس ذوق کا فطرتی طور پر آیا ہے مگر اس طرح کہ دس دس بارہ بارہ سال کے عرصہ میں ایک شعر بھی نہیں کہتا پھر کچھ کہہ لیتا ہوں دوسرے یہ کہ میرے اشعار مطلب کے حامل ہوتے ہیں نہ کہ الفاظ کے.میں ایک مضمون ذہن میں رکھ کر شعر کہتا ہوں اور الفاظ اس مضمون کے پابند ہوتے ہیں نہ کہ مضمون الفاظ کا اس لئے بجائے تغزل کے یہ اشعار نظم کی صورت رکھتے ہیں اور بجائے آمد کے ہمیشہ آؤزد کا رنگ ان میں ہوتا ہے.میرا اُستاد کوئی نہیں.نہ تخلص ہے.شروع ( یعنی 1903ء) میں جب یہ شوق پیدا ہوا تو چند دفعہ آشنا کا تخلص استعمال کیا مگر پھر ترک کر دیا اور ہمیشہ بے تخلص ہی کے گزارا کیا.میرے کلام میں بیشتر اشعار بہ سبب مذہبی ماحول اور دینی تربیت کے متصوفانہ رنگ کے ہیں اور سلسلہ احمدیہ کے مقاصد سے تعلق رکھتے ہیں.میں کبھی کسی کا عمدہ مصرع یا شعر یا کسی غیر زبان کا لفظ اپنے شعر میں پیوند کر لینے سے نہیں ہچکچاتا تاہم سرقہ نہیں کرتا.بہت زیادہ حصہ ان نظموں کا ایسا ہے جو دراصل اپنے لئے کہی گئی ہیں نہ کہ اوروں کے لئے.میری دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان اشعار کو ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے لئے بھی مفید بنائے.میر محمد اسماعیل الصفہ - قادیان 10 جون 1945ء

Page 11

10 تمہید استاذی المحترم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے 1903ء سے شعر کہنے شروع کیے اور آخر وقت تک کچھ نہ کچھ کہتے رہے.44 برس کے اس طویل عرصہ میں آپ نے بہت تھوڑی نظمیں کہیں مگر جو کچھ کہا بالعموم دین کی تائید احمدیت کی حمایت، اسلامی قدروں کی اشاعت، اصحاب جماعت کی نصیحت، بچوں کی تربیت، نوجوانوں کی اصلاح، اخلاق و موعظت کی تبلیغ اور پند و نصائح کی ترویج کے لئے کہا.ان کی نظمیں خدا اور رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں.ان کا ناصحانہ اور صوفیانہ کلام بیحد ونشیں اور مؤثر ہوتا تھا اور جب وہ سلسلہ کے اخبارات میں چھپتا تھا تو احمدی احباب نہایت ذوق و شوق سے انہیں پڑھتے تھے.حضرت میر صاحب کے پر کیف کلام کی مقبولیت اور شہرت کو دیکھ کر میں نے بخار دل“ کے نام سے آپ کے کلام کا مجموعہ 1928ء میں پانی پت سے شائع کیا جس میں بعض ابتدائی نظموں کو چھوڑ کر اس وقت تک کا کلام جمع تھا، بعد میں حضرت میر صاحب نے اور بہت سی نظمیں کہیں جو احمدی اخباروں میں مسلسل چھپتی رہیں.اس عرصہ میں حضرت میر صاحب برابر مجھے لکھتے رہے کہ پانی پت چھوڑ کر قادیان آ جاؤ بالآ خر میں ان کے ارشادات کی تعمیل میں 1944ء میں مستقل طور پر قادیان آ گیا اور حضرت میر صاحب نے انتہائی شفقت کے ساتھ مجھے اپنے ساتھ اپنے مکان میں اپنے انتقال کے وقت تک رکھا اور اگر ہمیں قادیان سے

Page 12

11 نکلنا نہ پڑتا تو اب تک وہیں رہتا.قادیان آنے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اس عرصہ میں جس قدر نئی نظمیں حضرت میر صاحب نے لکھی تھیں سب فراہم کیں اور ان کو بخار دل حصہ دوم کے نام سے 1945 ء میں شائع کر دیا، مگر اس مجموعہ کی اشاعت کے بعد بھی حضرت میر صاحب کچھ نہ کچھ کہتے رہے اور بخار دل کے سادہ اوراق پر لکھتے رہے مگر وہ کلام کہیں شائع نہیں ہوا.اپنے انتقال (18 جولائی 1947 ء) سے پہلے حضرت میر صاحب نے وصیت کر دی تھی کہ میرے بعد یہ سارا کلام اسماعیل کے سپر د کر دیا جائے، چنانچہ حضرت ممانی جان (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اپنے محترم شوہر کی وفات، حسرت آیات کے تیسرے ہی دن یہ مسودہ میرے حوالے کر دیا جس کے فورا بعد ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.پاکستان آکر ممانی جان برابر مجھے اس مسودہ کی اشاعت کے متعلق لکھتی رہیں مگر مجھے بدقسمتی سے اس ضروری کام کے بجالانے کی توفیق نہ ملی.حضرت ممانی جان کی وفات کے بعد ان کی دختر نیک اختر حضرت اُمّم متین مریم صدیقہ ایم اے حرم محترم حضرت خلیفہ ثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اپنے باپ کے اس مقدس ورثہ کی اشاعت کی طرف مجھے توجہ دلائی.میرا وقت بھی اب آخر ہے اور میں بہت ہی سرعت کے ساتھ موت کی وادی کی طرف جارہا ہوں.اس لئے سوچا کہ مرتے مرتے اگر یہ کام ہو جائے تو میری عین سعادت ہے.اس لئے نہایت ضعف و ناتوانی اور اس بے حد کمزوری و ناطاقتی کے باوجود بیماریوں اور افکار کے نجوم میں جس طرح بھی بن سکا میں نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت میر صاحب کے پرکیف ، اثر انگیز اور پُر معارف کلام کا یہ مجموعہ میں آج حضرت مریم صدیقہ کی

Page 13

12 خدمت میں ان کے نہایت ہی محترم باپ کی یادگار کے طور پر پیش کر رہا ہوں.اللہ پاک میری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے.میں نے ان نظموں کی ترتیب اوقات تصنیف کے لحاظ سے رکھی ہے مگر کہیں کہیں تقدیم و تاخیر بھی ہوگئی ہے اگر میری زندگی میں اس کی نوبت آئی تو کتاب کی دوسری اشاعت کے وقت انشاء اللہ نسبتاً بہتر ترتیب کے ساتھ یہ مجموعہ مرتب ہو سکے گا.میں نے کتاب کے آخر میں حضرت میر صاحب کے وہ غیر مطبوعہ اشعار بھی شامل کر دیے ہیں جو بخار دل حصہ دوم کی اشاعت کے بعد آپ نے وقتا فوقتا کہے.اب یہ حضرت میر صاحب کے کلام کا ایک مکمل مجموعہ بن گیا ہے.اللہ تعالیٰ ناظرین کرام کو ان دلاویز نظموں سے پورے طور پر استفادہ کی تو فیق عطا فرمائے.آمین 18 اپریل 1970ء خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی 18 - رام گلی نمبر 3 - لاہور

Page 14

13 نظموں کی ترتیب نمبر شمار عنوان 1 جو راہ تجھے پسند ہے اُس پر چلا مجھے.2 یا رب کسی معشوق سے عاشق نہ جدا ہو آئے گی مرے بعد تمہیں میری وفا یاد.چشم بینا حسنِ فانی کی تماشائی نہیں منکر ان خلافت محمود.3 4 6 7 8 9 پیغامی لیڈروں سے خطاب.مرکز کفر میں خانہ خدا در فراق قادیاں.حالات قادیان دارالامان.10 ہم محو نالہ جرس کا رواں رہے.11 بخار دل 12 دُعائے وصل تودیع حضرت خلیفتہ امسیح الثانی بر موقع سفر یورپ 14 خلاصہ خطبہ عید الاضحی 15 منظور ہے گزارشِ احوال واقعی 16 نعمت اللہ نے دکھلا دیا قرباں ہو کر 17 مجھ کو کیا بیعت سے حاصل ہو گیا.صفحہ 24 27 22222 19 20 21 30..............31 32............37 41 51 _ 52............55 56.58..............60.

Page 15

63 64 67 70 72 _ 73 75 79 81 83 85 87 89 90.22222 92..........93 95.............98...100 101 106.....14 18 محبت کا ایک آنسو.19 عاقبت کی کچھ کرو تیار یہاں.20 خیر مقدم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی 21 ایک احمدی بچی کی دُعا.22 ندائے احمدیت.23 احمدی کی تعریف.24 نعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.25 میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا.26 نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے.27 قصہ ہجر.ایک مہجور کی زبان سے 28 اللہ میاں کا خط میرے نام 29 سلام بحضور سید الانام صلی اللہ علیہ والہ وسلم.30 دعا.........31 طیبہ کی آمین.32 آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری.33 دن مدتوں میں آئے ہیں پھر اہلِ حال کے 34 محمد مصطفی سے مجتبی ہے 35 کہ جتنے زنگ مخفی ہیں محبت سب کی صیقل.36 خدام احمدیت 37 رسول قادیانی.ہے.38 وصيت الرسول بر موقع حجۃ الوداع.

Page 16

107 15 108 110..........116.119.121 _ 122 125 128 130.131 131 _ 133 134.136.........137.141.149 152 154 162........39 کلمہ طیہ 40 دُعائے مغفرت 41 نرخ بالا گن که ارزانی ہنوز 42 نوائے تلخ 43 عمل الترب یعنی علم توجه یا مسمریزم 44 قرآن ، سُنَّت اور حدیث کے مدارج.45 46 ہمارا آفتاب.47 ناسخ و منسوخ.48 دُعائے سکھ 49 إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى 50 عاجزانہ دعا.51 اپنا رنگ.52 اُن کا رنگ.53 ہو نہیں سکتا 54 دُعائے من.55 احمدیت 56 عشق و مشک 57 خلیفہ کی شفقت اور نظام کی برکت خداداری چه غم داری.59 پنجاب

Page 17

163 166 167.......169.16 171 172 __ 174 175.180........183.185._ 186.................187 188 191.........194.196...............197.198.200 202.....60 درود بر مسیح موعود علیه السلام.61 فطرت.62 الله الله - 63 كتبه تربت 64 آئندہ زندگی 65 جنت دجال یا مغربی تمدن.66 قابل توجه خدام 67 میرے خدا 68 کچھ دُعا کے متعلق.69 دیباچه راہِ سلوک 70 مسخ کی حقیقت 71 نماز.72 پنج ارکانِ اسلام 73 معرفت الہی.74 ترک دنیا.75 وصل الى.76 مال کا منتر 77 خدائی جبر.78 اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں.79 قادیان میں راشن 80 تو کیا آئے

Page 18

204 205 207.208 208.209 210 210.211 211 212..............212 212 213.213 215.215.218._ 219 222 224........17 81 ہم ڈلہوزی سے بول رہے ہیں.82 اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے.83 حضرت مولوی برہان الدین جہلمی.84 محبت 85 عقل بغیر الہام کے یقین کے درجہ کو نہیں پہنچا سکتی.86 مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات.87 کھوٹے معاملات.88 قادیان کے آریہ.ابن آدم بھی آدم ہے 90 آگئی گویا.91 دنیاوی تعلقات 92 عارضی تکالیف میں بھی خدا نے لذت رکھی.93 طاعون کا شہید احمدی 94 روح بغیر جسم کے کسی جگہ بھی نہیں رہ سکتی.95 سُن لے میری دُعا خدا کے لئے.96 تہجد.97 احمدی کیوں ہراک سے افضل ہے.98 لاہور کی دعوتیں 99 لذت.100 کھجار 101 عام آدمیوں کی سادہ باتیں اور اہل علم کی اصطلاحیں

Page 19

225 227 229.230.231 232._ 233 234 236.........237 279.280.281 283.285.294.300.......18 102 مغرب زده.103 جمعہ کا دن.104 ہم قادیان سے بول رہے ہیں.105 فقر اور افلاس کی ایک حکمت 106 کیا دیکھا؟ 107 إِنَّما اَشْكُوا بَنِى وَحُزنِى إِلَى الله.108 یاد ہے تجھ کو مرا قصہ مری حالتِ زار.109 رنگ پررنگ.110 صورت اور سیرت.111 رباعیات وقطعات.112 ابیات 113 الہامی اشعار اور مصرعے.114 میرے اشعار میں دُعا ہائے مستجاب مزاحیہ کلام 115 دکھاوے کی محبتیں.116 ایک المناک حادثہ 117 واویلا.118 مرزا غالب اور اُن کے رار...

Page 20

19 جو راہ تجھے پسند ہے اس پر چلا مجھے (غالبا سب سے پہلی نظم) کیا فائدہ علاج کا بعد از فتا مجھے اے کاش! درد دل کی ملے اب دوا مجھے اہلِ جفا کے ظلم سے اتنا ہوا ہوں تنگ دوزخ کا اس جہان پر دھوکا ہوا مجھے عصیاں کی ئے کوپی کے ہوئی کیا نہ بیخودی بھولا ہے کہہ کے یار سے قول ملی مجھے بیزار زندگی سے ہوں آئی نہیں ہے اس اس تیرہ خاندان کی آب و ہوا مجھے لے چل صبا! تو دوست کے در پر کہ کر دیا اس آسیائے چرخ نے اب سرمہ سا مجھے اونچا ہو نہ فلک سے بھی پایہ وقار کا سمجھے دم خرام جو وہ خاک پا مجھے وہ کون؟ یعنی احمد مختار کا حبیب آتا ہے نام لینے میں جس کے مزا مجھے پابوسی ہو نصیب تو اکسیر میں بنوں پڑ جائے گر نظر تو کرے کیمیا مجھے چمک، وہ رخ نور بار کی مُصحف میں آ رہی ہے نظر و الضحی مجھے اے رحمت خدا! تو میری دستگیر ہو حرص و ہوا کے جال سے آکر چُھڑا مجھے یا رب ! تو اپنے فضل سے بیڑے کو پار کر کافی ہے میری کشتی کا تو ناخدا مجھے لطف و کرم سے بخش دے میرے گناہ تو شیطان کی گرفت سے کر دے رہا مجھے ہے تجھ سے آشنا کی الہی دُعا یہی الله جو رہ تجھے پسند ہے اُس ہے اُس پر چلا مجھے آمین (*1903) (1) یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 21

20 یارب کسی معشوق سے عاشق نہ جُدا ہو گشتوں پر اگر آن کے تو اپنے کھڑا ہو اک شور قیامت تیری آمد سے معشوق کا برتاؤ ہو عاشق سے تو کیا ہو؟ بپا ہو گہ لطف ہو، کہ ناز ہو، کہ جور و جفا ہو کیا جانیئے قسمت میں یہ کیا پھیر ہے اپنی ہم جس کیلئے جان دیں وہ ہم سے خفا ہو کیا تاب زباں کی کہ کرے ہجر کا مذکور یا ربّ کسی معشوق سے عاشق نہ جُدا ہو اے ابرو و مژگان صنم ! یہ تو بتاؤ؟ گر تم نہیں جلاد زمانے کے تو کیا ہو؟ گر قہر پہ ہو جائے کمر بستہ وہ جاناں غوغائے ستم شورش محشر سے سوا ہو (*1903)

Page 22

21 آئے گی مرے بعد تمہیں میری وفا یاد جس دن سے کیا دل نے میرے قول ملی یاد رہتا ہے مجھے دید بُتاں میں بھی خدا یاد جب تک رہے دوراں میں تیرا جور و جفا یاد تب تک رہے دُنیا میں مری مہر و وفا یاد کچھ شکوۂ بیداد مجھے تم سے نہیں ہے جو تم نے کیا مجھ سے.نہیں مجھ کو ذرا یاد.پھر پھڑ کے ہے کیوں ماہی بے آب کی مانند رکھتا نہیں گر دل میں تری قبلہ نما یاد اب گرچہ میرے دعوی اُلفت کو نہ مانو آئے گی میرے بعد تمہیں میری وفا یاد گو ہجر نے ہر نقش خوشی دل سے دیا دھو اب تک ہے ترے وصل کا پر مجھ کو مزا یاد کیوں رو کریں بیمار محبت کو اطبا کیا کوچه دلبر کی نہیں خاک شفا یاد؟ اس عالم غفلت میں جو لے بیٹھا غزل کو کیا جانئے آیا ہے مجھے آج یہ کیا یاد (1903)

Page 23

22 چشم بینا حسن فانی کی تماشائی نہیں ·(1)..دل لگاویں جو صنم سے ہم وہ شیدائی نہیں پشم بینا حسن فانی کی تماشائی نہیں! اک قدح پی کر نہ جس کا تا ابد رہوے خُمار اہلِ دل اس جامِ صہبا کے تمنائی نہیں! مرغ دل! بیچ کر تو رکھیو دام اُلفت سے قدم زُلف کے پھندے میں پھنسنا کارِ دانائی نہیں اس جہاں میں دوستوں سے کیا رکھے کوئی اُمید زیر گردوں پوچھتا بھائی کو یاں بھائی نہیں اپنی نظروں میں اگر کچھ مرد میداں ہیں تو وہ سچ کے کہہ دینے میں جن کو خوف رسوائی نہیں ! جوش ہے طاعت کا دل میں اور عبادت کیلئے وائے قسمت! پر میز گنج تھائی نہیں؟ اُشنا کچھ عشق کا دھندا خدارا چھیڑیئے صوفیانہ یہ ادا تیری ہمیں بھائی نہیں!

Page 24

23 ·(2).دردِ دل کی موت نے بھی کی مسیحائی نہیں جاں لبوں تک آ گئی لیکن قضا آئی نہیں شکوه بیدادِ جاناں کیا کریں جب ہم میں خود بار الفت کے اٹھانے کی توانائی نہیں چھیڑیئے مسجد میں جا کر حُرمتِ کے کا بیاں محفلِ رنداں میں زاہد ، تیری شنوائی نہیں تلخ کامی زندگی کی دیکھنا اے ہم نفسن ہم مریں جس پر اسے ہم سے شناسائی نہیں چھوڑ میخانہ، چلیں کیونکر حرم کو ہم، کہ واں ئے نہیں، ساقی نہیں اور بادہ پیمائی نہیں آ کے تربت پر مری کہنے لگا وہ شوخ یوں باز آیا اب تو مرنے سے؟ صدا آئی ”نہیں“ دیکھتا کیا ہے درخت عشق کہ ہیں یہ حمز دشت غربت میں بنوں کی آبلہ پائی نہیں باغ عالم میں حسیں دیکھے مگر تیری قسم تیری رنگت، تیرا جلوہ، تیری رعنائی نہیں (1) یعنی قادیان (2) یعنی محبت کرنا

Page 25

24 منکرانی خلافت محمود 1914ء میں حضرت خلیفہ اول کے وصال اور حضرت محمود کے سریر آرائے خلافت ہونے پر جماعت میں جو سخت تفرقہ رونما ہوا اس کے استیصال کے لئے میر قاسم علی صاحب کے اخبار ”الحق دہلی نے نہایت نمایاں خدمات انجام دیں.اس وقت حضرت میر صاحب نے بھی اخبار الحق میں کچھ نظمیں خلافت ثانیہ کی تائید میں لکھی تھیں جو ذیل میں نقل کی جاتی ہیں.(خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی ) منکران خلافت محمود کرر رہے ہو مخالفت بے سُود کیوں اطاعت سے پھیرتے ہوسر کیا نہیں یاد آدم منجود مان لو بات ثم ملک بن کر ہو نہ ابلیس رانده معبود - یا کہ وہ داؤد فير رُسُل مرا محمود ہر خلیفہ خدا بناتا ہے خواہ آدم ہو ہو وہ بو بکر یا کہ نورالدین یا ہو اتحاد جماعت احمد بس یہی ہے غرض یہی مقصود چاره بجز طاعت امام نہیں جب وہ ثابت ہے ہر طرح موعود منکر اس کا ہے منكر احمد دشمن اُس کا ہے فاسق اور مردود اُس کی تخریب کے جو ہیں در پے آپ ہو جائیں گے وہی نابود احمدیت ہی صرف ہے ہو گئی ہے نجات یاں محدود اک طریقہ یہی خدا تک ہے اور سب راہ ہو گئے مسدود

Page 26

25 نمود جو ہیں توحید خُشک کے قائل یا وہ برھمو ہیں یا مثیل یہود دوستو! حق کی راہ کو پکڑو نہ کرو اتباع نام و خرمن دین کو بچاؤ تم اُن کا ”اعلان“ ہے شعلہ بارود یاں مُصدَّق کا بڑھ رہا ہے یقیں وال مُكَذَّبُ لِرَبِّهِ لَكَنُود حق کی نصرت ہے اس طرف ظاہر کمپری ہے اُس طرف مشهود اب تو پیغام صلح میں ہر روز اک عقیدہ جدید ہے موجود تھے مسیح محمدگی نہ رسول اور نہ ایمان اُن پہ تھا مقصود ایک مصلح تھے مثل احمدیت تھے مثل سر سیّد اس سے بڑھ کر مُبالغہ بے سُود ہے تفرقہ کی جڑ مل کے ”چندے“ کرو تو ہے بہبود ہے منظر اسلام اصل میں وہ ہے جس میں زر کا ہو فائدہ اور سُود ہر طرف سے ملے غینمت مال فکر گنب معاش ہو مَفْقُود کل کا بچہ خلافت آرا ہو ہائے رہ جائیں ”مولوی“ مطرود مانیں کیونکر؟ کہ عمر میں کم ”ہم سے چھوٹا ہے مصلح موعود نه گرانڈیل ہے نہ تو ندل ہے اپنی نظروں میں کیا جچے خدمتیں بیشتر ہمیں نے کیں اور ہمیں نے کیا کفر بھی موجود (1) اعلان ضروری مولفہ مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ (1914) کی طرف اشارہ ہے.(2) یعنی انسان اپنے رب کا نا شکر گزار ہے.(3) لاہوری احمدیوں کا اخبار.(4) لاہوری احمدیوں نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود کو کفن ہم نے دیا.

Page 27

26 مدینہ نیا بنا لاہور ہجرتِ ثانیہ کی خاطر ނ مرکز قادیاں ہوا مَفْقُور ہجرت اولیں ہوئی مردود مقبرہ اک ضرار بنتا ہے دفن ہوں گے جہاں یہ سب موؤد پیڑ کیسی قسمت ہوئی نا مسعود ہے گئے پتھر ان کی عقلوں پر ہوئے آزاد ساری قیدوں سے مٹ گئیں دین کی تمام حدود اللہ اللہ کر لیا بس ہے محض توحید حق سے ہے مقصود انبیاء سراسر ہیں برابر یہاں پہ ہود و خمود دائره لا إِلهَ إِلَّا الله جس میں داخل ہیں مسلم اور یہود ہے جہنم بڑا نفیس مقام عارضی چونکہ ہے وہاں کا ورود کیا ہوا.گر رہیں وہاں احقاب دائی تو وہاں نہیں ہو مبارک تمہیں تمنا ہے خلود و مبارک تمہیں درود و خلود تو ہی بندوں کا ہے غفور و ودود الہی ہمیں بیچا اس سے یا حشر ہو ساتھ تیرے احمد کے صد سلام اس پر اور ہزار ورود رحمتیں اہل و آل پر اُس کی خاص کر جو کہ ہے پسر موعود آشنا بس قلم کو رکھ دے تو وقت ہے تنگ قافیے معدود مطبوعہ اخبار الحق دہلی مورخہ 22 مئی 1914 ء صفحہ 3)

Page 28

27 پیغامی لیڈروں سے خطاب..(1)..جھگڑا چلے کمال الدین آ کے مل جا گلے کمال الدین وا ہوا دامن خلافت حق آؤ اس کے تلے کمال الدین احمدی ہے تو احمدی بن جا تا کہ پھولے پھلے کمال الدین پہ ہیں قربان مال گندہ نہ لے کمال الدین پاک اموال تجھ جن کو تو جانتا ہے کانِ طلا خاک کے ہیں ڈلے کمال الدین تجھ کو غیروں کا دیکھ دشت نگر دل نہ کیونکر جلے کمال الدین اپنے آقا کے اہل پر حملہ ہو بہت منچلے ! کمال الدین احمدیت ہے روک چندے میں گفت، آرے ہلے، کمال الدین آدمی ہو بھلے کمال الدین بھی کر لو رجوع بہتر ہے ·(2)..ہائے افسوس! گر گیا ایم.اے اپنے مرشد سے پھر گیا ایم.اے ہو کے اپنوں کی جان کا دشمن دشمنوں کے گلے ملا ایم.اے خدمت تفرقہ بجا لا کر سید القوم بن گیا ایم.اے

Page 29

28 ہے حکومت کا دل سے یہ طالب لے کے ٹولی الگ ہوا ایم.اے تھے کبھی تم بھی نیک اور صالح میرے مُرشد نے سچ کہا ایم.اے اب تو حالت مگر خراب ہوئی کبر میں ہو کے مبتلا ایم.اے نکل گیا ایم.اے اپنی بدقسمتی کی شامت سے قادیاں ترجمہ اور کتابیں اور سامان لے کے چلتا بنا مرا ایم.اے اور مسیحا نیا بنا ایم.اے مدینہ نیا بنا لاہور اے جماعت! بتا خدا کے لئے گرچه امتحاں بڑا ایم.اے خلافت احمد ہے اولوالعزم کوئی یا ایم.اے؟ ہے (3) تیزیاں، خوب دکھلائے رنگ شاہ صاحب رہ گئے ہم تو دنگ شاہ صاحب بد زبانیاں، شوخی کس سے سیکھے یہ ڈھنگ شاہ صاحب حق کی تائید کا تو دم بھرنا اور حق سے ہی جنگ شاہ صاحب ایک دن بیچ اب لگے دینے ہم کو پیغام جنگ شاہ صاحب آ گئے چند ہی دنوں میں آپ احمدیت سے تنگ شاہ صاحب میخ پر پھینکے اہلِ بیت خوب تیر و تفنگ شاہ صاحب اس قدر تو غضب میں مت اُچھلو توڑ دو گے پلنگ شاہ صاحب چھوڑو جھگڑوں کو، اپنا کام کرو کٹ چکی ہے پتنگ شاہ صاحب (1) پیغام صلح اخبار کا نام حضرت خلیفہ اول نے پیغام جنگ رکھا تھا.

Page 30

29 ·(4)..کیسی ہے قال و قیل مرزا جی ہو گئے کیوں علیل مرزا جی احمدیت کی چھوڑ کر عزت بنتے ہو کیوں ذلیل مرزا جی آپ کہتے ہیں ”ہم خلیفہ ہیں“ لیک کیا ہے دلیل مرزا جی؟ کیا خدا بھی ملے صنم کے ساتھ ہے غلط سبیل مرزا جی فتنہ گر کے ہوئے ہو پیرو کیوں ثم تو تو خود تھے اصیل مرزا جی مردہ اسلام پہ گرے کیونکر باز سے بن کے چیل مرزا جی آلِ احمد کے ثم عدو ہو قدیم ہے یہ قصہ طویل مرزا جی حق تعالیٰ سے کچھ تو شرم کرو عمر ہے اب قلیل مرزا جی گر ہو محمود کے مخالف تم حق ہے اس کا کفیل مرزا جی (اخبار الحق دہلی 4 ستمبر 1914ء)

Page 31

30 مرکز گفر میں خانہ خدا شکر صد شکر کے لندن سے یہ آئی ہے تو ید مرکز کفر میں ( بیت) کی زمیں لی ہے خرید بالیقیں وقت یہی ہے کہ منور کر دے وادی ظلمت تثلیث کو نور توحید جب مؤذن کہے مینار پہ ”اللہ اکبر اُس گھڑی سمجھو کہ بر آئی ہماری اُمید بانی (بیت) لندن ہے مسیح موعود ثانی ( بیت ) اقصیٰ ہے یہ مغرب کی کلید ہم نشیں دیکھ ! ذرا پشم بصیرت وا کر کیا یہی تو نہیں مغرب سے طلوع خورشید؟ دقت ہے وقت کہ یورپ کو کرور شرک سے پاک اُٹھو اے جان شارانِ لِوَائے توحید جب تلک جان و تن و مال نہ قرباں کر دیں مابداں مقصد عالی نہ توانیم رسید احمدی! تجھ کو ہی سب بوجھ اٹھانا ہوگا آسماں بار امانت نتوانست کشید له الحمد ہر آن چیز که خاطر میخواست آخر آمد ز پس پرده تقدیر پدید نوٹ : یہ نظم اُس جلسے میں پڑھی گئی جو ڈلہوزی پہاڑ پر 9 ستمبر 1920ء کوحضرت خلیفہ امسیح ثانی کی زیر صدارت بر تقریب خرید زمین بیت لندن منعقد ہوا اور افضل 7 /اکتوبر 1920ء میں چھپی ہے.

Page 32

31 آه وہ در فراق قادیان دارالامان قادیاں قادیاں! جنت نشان قادیاں گھب گئی دل میں ہر اک اُس کی اُدا بس گئی آنکھوں میں شانِ قادیاں نعمت ایماں مئے عرفاں ملے عرش سے اُترا ہے خوانِ قادیاں چرخ چارم اور ٹریا کے رقیب ہیں زمین و آسمان قادیاں ہے جو بھی ہے پیر و جوان قادیاں عشق مولیٰ میں ہر اک رنگین توتیائے چشم ہے میرے لئے خاک پائے سارکنان قادیاں کر رہے ہیں جان و دل کو بے قرار نغمه ہائے بلبلان قادیاں جی کو تڑپاتی ہے اب میرے بہت یاد یار مهربان قادیاں پھر وہی رستہ مری آنکھوں میں ہے جس ہے نہر روان قادیاں ہوئے کوئے یار پھر آنے لگی مہکتا بوستان قادیاں یاد آتا ہے جمال رُوئے دوست ہے سروی خوبان و جانِ قادیاں وہ بھی دن ہوں گے کبھی مجھ کو نصیب میں ہوں اور ہو آستان قادیاں پھر میں دیکھوں کوچۂ دلدار کو پھر بنوں میں مہمان قادیاں یاد آتا ہے بہشتی مقبرہ سو رہے ہیں عاشقان قادیاں جاں فدا کر دوں مزار یار پر گوہر شب تاب کانِ قادیاں یعنی وہ جو چودھویں کے چاند تھے مهدی آخر زمان قادیان وارث تخت شہنشاہ رُسل مُورث نسل شہان قادیاں

Page 33

مرحبا! دارالامان 32 حالات قادیان دارالامان قادیاں مرحبا! جنت نشان قادیاں گھب گئی دِل میں ہر اک اُس کی ادا بس گئی آنکھوں میں شانِ قادیاں چرخ چارم اور ثریا کے رقیب ہیں زمین و آسمان قادیاں گلشن احمد میں آئی ہے بہار مہکتا بوستان قادیاں کوچه دلدار و دلبر ہے یہی آؤ اے گم گم گشتگانِ قادیاں تو تیائے چشم عالم بن گئی خاک پائے ساکنانِ قادیاں آفتاب حشر کی ہوگا پناہ روز محشر سائبان قادیاں دیکھنا چاہو جو دنیا میں بہشت دیکھ لو باغ جنان قادیاں طے کرا دیتی ہے سب راہِ سلوک پیر مغان قادیاں جائے ہجرت ہجرتیں کر کر کے جاتے ہیں وہاں عاشقاں و شائقان قادیاں بی.اے، ایم.اے اور فاضل مولوی بن گئے اب ساکنان قادیاں شور و شر سے دہر کے بھاگے وہاں بھا گیا امن و امان قادیاں جی نہیں لگتا کہیں اُس کا کبھی دیکھ لے جو آن بان قادیاں

Page 34

33 زخم دشمن سے ہی پوچھا چاہیے تیزی شیخ و سنان قادیاں آب حیواں کو کہاں چکھتے ہیں وہ جو کہ ہیں تشنہ لبان قادیاں اہل قادیاں دل کو کر دیتے ہیں محو یادِ حق نغمه ہائے بلبلان قادیاں جاں نثار دین احمد ہیں سبھی جتنے ہیں مرد و زنان قادیاں عشق مولا میں ہر اک رنگین ہے جو بھی ہے پیر و جوان قادیاں صدق اور اخلاص اور ہر دم دعا ہے نشانِ مومنان قادیاں دوستی اللہ پاؤ گے یہیں بے ریا ہیں مخلصان قادیاں مشتری کا فائدہ فائدہ مد نظر رکھتے ہیں سب تاجران قادیاں دیکھنا، یورپ میں جا گونجی کہاں واہ کیا کہنے اذان قادیاں مرحبا تغیر مغرب کے لئے بہشتی مقبرہ نکلے ہیں کچھ خالدان قادیاں کیا مبارک ہے بہشتی مقبرہ سو رہے ہیں عاشقان قادیاں جاں فدا کر دوں مزار یار پر گوہر شب تاب کان قادیاں یعنی وہ جو چودھویں کے چاند تھے مهدی آخر زمان قادیاں وارث تخت شہنشاہ رُسُل مُورث نسل شہان قادیاں کر گئے تسخیر عالم کے قلوب سرور خوباں و جان قادیاں

Page 35

34 لنگر اُن کے لنگر کا ذرا دیکھو مزا آسمانی ہے یہ نان قادیاں نعمت ایماں مئے عرفاں ملے عرش سے اترا ہے خوانِ قادیاں اخبارات آٹھ دس اخبار بھی جاری ہیں واں ہیں وہی تو ارمغانِ قادیاں ریویو، تفخيذ الفضل و حكم در حقیقت ہیں زبان قادیاں تور و فاروق و اتالیق و رفیق یہ بھی ہیں سب مخبرانِ قادیاں قابل دید مقامات بورڈنگ اور ہال اور ہائی سکول خوب دکھلاتے ہیں شان قادیاں ارِ فضل و رحمت و دار العلوم کہہ رہے ہیں داستان قادیاں دار (بيت) نُور و شفاخانه جدید اور ضعیفوں کا مکان قادیاں ہیں ثمر یہ اُن کی کوشش کے جنہیں کہتے ہیں سب ”نانا جان‘ قادیاں مدرسہ احمدیہ زیر تنظیم فاضلان قادیاں احمدیہ مدرسہ جو ہے وہاں قوم کے لڑکے ہیں اس میں سیکھتے علم و خُلق عارفان قادیاں ایک دن دنیا یہ زیر و زیر کر کے چھوڑیں گے یلان قادیاں (1) حضرت میر ناصر نواب سے مراد ہے.

Page 36

35 بیت مبارک یار کے کوچے کی (بیت) کی نہ پوچھ مرکز جائے امان قادیاں وو سب مبارک کام ہیں اس میں جو ہوں“ کہہ گئے شاہ جہان قادیاں جلسه سالانه جلسہ سالانہ پر آؤ ذرا اے گروہ دشمنان قادیاں رونق ارضِ حرم خود دیکھ لو اور خود سن لو بیان قادیاں آپ سے کہہ دے گی آتے ہی یہاں قادیاں خود داستان قادیاں منارة اسع دیکھ وہ مینار ہے اے راہرو! رہنمائے آستان قادیاں (بیت) اقصیٰ میں پہنچا دے گا یہ تا دکھائے بوستان قادیاں تا دکھائے درس قرآن حضرت خلیفة المسیح الثانی درس قرآں ہو رہا ہو گا وہاں جمع ہوں گے مخلصان قادیاں اک جوان کو پائے گا اُن میں کھڑا ہے وہی روح و روان قادیاں یادگار صاحب کسر صلیب نور چشم دلستان قادیاں مصلح موعود محبوب خدا خضر راہ سالکان قادیاں (1) یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفتہ المسیح الثانی

Page 37

36 جانشین حضرت احمد نبی نائب صاحبقران قادیاں عرض کرنا ان سے یوں بعد از سلام اے چراغ خاندان قادیاں آپ نے جس طرح قائم کر دیے عربت و نام و نشان قادیاں حق تعالیٰ بھی تمہیں دائم رکھے برسر وابستگان قادیاں اور کہیں آمین سب مل کر وہاں جتنے ہوں صاحبدلان قادیاں قادیان گائیڈ 113 مطبوعہ نومبر 1920ء الفضل 21 اکتوبر 1920ء کی اشاعت میں اس نظم میں درج ذیل اشعار بھی شامل ہیں.پھک رہا ہے ایک عاشق ہجر میں دل میں ہے حُبّ نہانِ قادیاں جی نہیں لگتا کہیں اس کا ذرا جب سے دیکھی آن بانِ قادیاں دعا فرمائیے لائے خدا جلد اس کو درمیان قادیاں یار کے قدموں میں نکلے اس کا دم اور بنے مدفن جنان قادیاں

Page 38

37 ہم محو نالہ جس کارواں رہے جماعت احمدیہ جب تک کہ اس جہاں میں مسیح زماں رہے زندہ خدا کے ہم کو دکھاتے نشاں رہے مُردوں میں جان ڈالتے اذنِ خدا سے تھے اور زندگی بھی ایسی کہ وہ جاوداں رہے تشنه لبان شربت دیدار یار کو دکھلاتے راہ کوچہ جانِ جہاں رہے بلبل کو روئے گل سے شناسا کیا کیسے جب تک کہ باغ دہر میں وہ باغباں رہے اخلاص وصدق و عشق کے اُن کے زمانہ میں مکتب بنے، علوم گھلے ، امتحاں رہے اہلِ وفا کی ایسی جماعت بنا گئے حق پر فدار ہیں گے وہ جب تک کہ جاں رہے خواص اے کامیاب عشق! سنو تو سہی ذرا ہم تم بھی ساتھ تھے کبھی اے مہرباں رہے تم نے تو اُڑ کے گوہر مقصود پا لیا ہم سُست گام اور وہی نیم جاں رہے پائستہ غفلتوں نے کیا ہم کو اس قدر عمریں گزرگئیں کہ جہاں کے تہاں رہے بے دید روئے یار مزا کیا ہے گر کوئی ملتے رہے، مدینے رہے، قادیاں رہے واحسرتا! کہ کس سے کہیں اپنا حالِ زار کس کو پڑی کہ شدتا مری داستاں رہے

Page 39

38 مل مل کے ہاتھ اپنے یہ کہتا ہوں بار بار منزل کہاں تھی اور پڑے ہم کہاں رہے یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم محجو نالہ جرس کارواں رہے 66 صد مجاہدین آفرین تم پہ گروہ مُجاہدیں! پیچھے سے آئے.پہنچے کہیں سے مگر کہیں وہ ٹور قادیان میں نازل ہوا تھا جو روشن کیا ہے اُس سے ہراک گوشئہ زمیں پہنچا ہے کوئی لندن و امریکہ کوئی مصر اور ماریشس میں جا کے ہوا کوئی جاگزیں مشعل کو لے کے نور ہدایت کی ہند میں پھرتی ہے شہر شہر میں فوج مبلغیں تیار ہو رہے ہیں ابھی اور عسکری چھوڑیں گے یہ جوان کسی ملک کو نہیں ہے اک طرف اگر چہ مسرت بھی بے حساب از بس کہ کامیاب ہیں یہ فاتحان دیں پر دوسری طرف ہے یہ حسرت بھی ساتھ ساتھ کہتا ہوں آہ بھر کے دل زار کے تئیں یاران تیز گام نے محمل کو جالیا ہم مجو نالہ جرس کارواں رہے عوام 66 اے عامی جماعت احمد زہے نصیب خاصانِ حق کی ذیل میں تیرا شمار ہے

Page 40

39 مُفْلس ہے یا امیر تجھے عذر کچھ نہیں گھلتی اگر یہ جیب تری بار بار ہے تو سلسلہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے یاد رکھ پڑتا ہے آ کے تجھ پہ ہی آخر جو بار ہے دنیا اگرچہ تجھ کو سمجھتی رہے حقیر پر آج تیرے پیسوں پر دیں کا مدار ہے چندے سے تیرے مدرسے اور مسجدیں بنیں اور تیری ہمتوں کا نتیجہ منار ہے جتنی ہیں شاخہائے نظارات و انجمن اور جتنا سلسلہ کا یہ سب کاروبار ہے فَضْلِ خدا سے تیری کمائی کے ہیں مز یہ خاص تجھ پہ پشم عِنایات یار ہے اولا دو مال و عزت و املاک دے دیے پھر بھی سمجھ رہے ہو کہ باقی اُدہار ہے پر کیف ہم سے کوئی بھی خدمت نہ ہوسکی اب صرف چشم پوشی پر اُس کی مدار ہے بہتیرا چاہتا ہوں کہ میں چپ رہوں مگر آتا زباں پہ شعر یہی بار بار ہے یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم مجو نالہ جرس کارواں رہے مرحومین 66 اے سارکنانِ مقبرہ تم پر ہو مرحبا مرکز بھی تم ہوئے نہ درِ یار سے جدا دے دے کے نقد جان خریدا یہ قرب خاص سودا - قسم خدا کی، یہ ستا بہت کیا جنت ملے گی ایک تو اللہ کے یہاں اور دوسری بہشت یہ پہلو ہے یار کا یاں کچھ خبر نہیں کہ جگہ بھی ہو یہ نصیب یا گر ملے تو حد سے زیادہ ہو فاصلہ

Page 41

40 خوش قسمتی پر آپ کی کرتے ہیں رشک ہم کہتے ہیں دل ہی دل میں یہ آنسو بہا بہا یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم مجھو نالہ جرس کارواں رہے 66 دعا اے آنکہ میرے واقف اسرار ہو تم ہی دلبر تم ہی نگار تم ہی یار ہو تم ہی کوئی نہیں جو رنج و الم سے کرے رہا یاں دل شکن بہت ہیں پہ دلدار ہو تم ہی دروازہ اور کوئی بھی آتا نہیں نظر جاؤں میں کس طرف کو جو بیزار ہو تم ہی تم ساکسی میں حُسنِ گلو سوز ہے کہاں عالم کی ساری گرمئی بازار ہو تم ہی لینے کا اس متاع کے کس کو ہے حوصلہ لے دے کے میرے دل کے خریدار ہو تم ہی اعمال ہیں نہ مال.نہ کوئی شفیع ہے اب بات تب بنے جو مددگار ہو تم ہی تم سے نہ گر کہوں تو کہوں کس سے جا کے اور اچھا ہوں یا بُرا.میری سرکار ہوتم ہی اب لاج میری آپ کے ہاتھوں میں ہے فقط ستار ہوتم ہی مرے، غفار ہو تم ہی درماندہ رہ گیا ہوں غضب تو یہی ہوا کیجیے مدد! کہ چارہ آزار ہو تم ہی یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا - ہم محجو نالہ جرس کارواں رہے 66 (الفضل 4/نومبر 1920ء)

Page 42

41 بخار دل ی نظم شعر و شاعری کے رنگ میں نہیں لکھی گئی بلکہ واقعی بخار دل ہے.جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے.اس نظم کے لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ احباب کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور پھر اس تعلق کو قائم رکھنے کی توجہ پیدا ہو.یادرکھنا چاہئے کہ اس نظم میں استعارہ کے طور پر جو بعض الفاظ آئے ہیں ان کو استعارہ ہی سمجھا جائے.مؤلف کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات کو نعوذ باللہ محدود یا مخلوق کی طرح مجسم خیال کرتا ہے بلکہ بعض الفاظ محض استعارہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں تا کہ ایک قسم کا مفہوم بیان کرنے والے کا ادا ہو جائے یا بعض الفاظ جوش محبت میں استعمال کئے جاتے ہیں دوسرے مقام پر وہ جائز نہیں ہوتے.پس موقع اور محل کے لحاظ سے معافی لینے کا خیال رکھنا چاہئے.حصہ اوّل- وصل یاد ایام کہ تم جلوہ دکھا دیتے تھے پردہ زُلف دوتا رخ سے ہٹا دیتے تھے آپ آجاتے تھے یا ہم کو بلا لیتے تھے یا لب بام ہی دیدار کرا دیتے تھے دن بہت گزرے نہیں جب کہ تھا آنا جانا حاضری آپ کی ہم صبح و مسا دیتے تھے روٹھ جاتے جو کبھی جان کے ہم تم سے ذرا گد گدی کر کے معا آپ ہنسا دیتے تھے

Page 43

42 نکتہ گیری تھی گہے نکتہ نوازی گا ہے دونوں اوصاف عجب مل کے مزا دیتے تھے غفلتوں اور گناہوں کی عمارت ہر روز ہم بناتے تھے مگر آپ گرا دیتے تھے ہاتھ خالی نہ پھرے در سے کبھی آپ کے ہم رَبَّنَا رَبَّنَا کہہ کر جو صدا دیتے تھے یہ تو عادت تھی قدیم آپ کی اے ابر کرم مانگتے جتنا تھے ہم اس سے ہوا دیتے تھے گر بھڑک اٹھتی کبھی آتشِ عصیاں اپنی آب رحمت سے لگی آگ بجھا دیتے تھے رہنمائی کو میری فوج ملائک آتی نفس و شیطان اگر راہ کھلا دیتے تھے قطره اشک کے بدلے مئے جامِ اُلفت واہ کیا کہنے کہ کیا لیتے تھے کیا دیتے تھے مکتب عشق میں جب درسِ وفا دیتے تم وعدہ ”قول بلی“ یاد کرا دیتے تھے دیکھ کر ترچھی نگاہوں سے مری حالت زار حوصلہ ہم سے غریبوں کا بڑھا دیتے تھے آرتش شوق کے بھڑ کانے کو گاہے گاہے پردہ غیب میں ذات اپنی چھپا دیتے تھے قبض اور بسط چلے جاتے تھے دونو پیہم ایک ہی حال میں فرصت نہ ذرا دیتے تھے دل کے جھلسانے کو کافی تھی فقط خاموشی سب سے بڑھ کر یہی طالب کو سزا دیتے تھے خود پھنساتے تھے بلا میں کہ تماشا دیکھیں خود ہی پھر بگڑی ہوئی بات بنا دیتے تھے تلخی و آہ و بکا، سوزش دل درد نہاں خوب بیمار محبت کو دوا دیتے تھے سورج اور چاند ستاروں کی خصوصیت کیا تم تو ذرے میں چمک اپنی دکھا دیتے تھے غیر ممکن ہے کہ تم بھی ہو.انائیت بھی اک اللہ سے ہی یہ سب قصہ چکا دیتے تھے 1 إِنِّي انا لله رَبُّ العَالَمِين - إِنِّي أَنَا رَبُّكَ

Page 44

43 د اُن دنوں سوز کا عالم تھا یہ اپنا کہ جدھر آہ کرتے تھے.اُدھر آگے لگا دیتے تھے نالہ نیم شمی اتنا مؤثر تھا میرا آپ بھی سُن کے کبھی سر کو ہلا دیتے تھے دوست تو دوست رقیبوں کو رُلاتے تھے ہم اک قیامت ترے کوچہ میں مچا دیتے تھے لطف تھا بھوک کا صد نعمت رضواں سے فزوں ماحضر اپنا مساکیں کو اٹھا دیتے تھے جب سے یہ سمجھے کہ مخلوق ہے گلن تیری عیان خدمت خلق میں سب وقت لگا دیتے تھے محبت کعبہ دل کو سجاتے تھے تصور سے تیرے اور محبت کا دیا اُس میں جلا دیتے تھے ماسوی اللہ کے خاشاک سے پھر کر کے صفا قلب صافی کو تیرا عرش بنا دیتے تھے صدقے کر دیتے تھے یہ جانِ حزیں قدموں پر ہر رگ وریشہ کو سجدے میں گرا دیتے تھے پھر خبر کچھ نہیں جاتے تھے کہاں عقل و شعور آپ آتے تھے کہ سب ہوش بھلا دیتے تھے اک تجتبی سے مرے ہوش اُڑا دیتے تھے رُخ دکھاتے تھے تو دیوانہ بنا دیتے تھے جب سمجھ میں نہ کبھی آپ کا آتا تھا کلام راستہ عقدہ کشائی کا سمجھا دیتے تھے گہ بڑھا دیتے تھے دلداری سے اُمید وصال ہجر وفرقت سے گہے مجھ کو ڈرا دیتے تھے سخت ڈبدے میں مری جان کو رکھتے تھے مدام اب میں سمجھا سبق خوف در جادیتے تھے فاش کر دے نہ کہیں راز امانت یہ جھول مُہر خاموشی مرے لب پہ لگا دیتے تھے

Page 45

44 کیا مزا آپ کو آتا تھا عبادت سے مری؟ کیوں مجھے پچھلے پہر آپ جگا دیتے تھے؟ کیوں مرے منہ سے سنا کرتے تھے اپنی تعریف کیوں مرے دل کو لگن اپنی لگا دیتے تھے؟ لطف کیا تھا کہ پھنساتے تھے مصائب میں اُدھر اور ادھر رغبتِ تسلیم و رضا دیتے تھے عرفان نور عرفاں سے میرا سینہ منور کر کے پتے پتے میں مجھے اپنا پتا دیتے تھے منعکس ہوتے تھے آئینہ عالم میں شمی بوئے گل میں بھی مہک اپنی سنگھا دیتے تھے سالک راہِ محبت کی تسلی کے لئے آپ ہر ساز میں آواز سنا دیتے تھے اس لئے تا کہ غبارِ رہ جاناں بن جائیں خاک میں اپنے تئیں ہم بھی ملا دیتے تھے آہ وزاری میں ہماری یہ کشش تھی پر زور آپ خود پینگ محبت کے بڑھا دیتے تھے چُھپ کہاں سکتا تھا چہرے سے ترے عشق کا نور لاکھ ہم اس کو رقیبوں سے چُھپا دیتے تھے یوٹی بڑھتے گئے میدانِ محبت میں قدم ہم چلے ایک تو دس آپ بڑھا دیتے تھے پھر ہوا وہ جو حریفوں سے سنا تھا ہم نے جس کی پہلے سے خبر اہل صفا دیتے تھے بند وہ روزن دیوار ہوا جس میں سے رُخ دکھا دیتے تھے آواز سنا دیتے تھے بے رخی یار نے کی.روتے ہو کیا قسمت کو چُھٹ گئے ہم سے جو قسمت کو بنا دیتے تھے تھا قصو ر ا پنا ہی سب ور نہ وہ جانِ جاناں طالبوں کو نہ کبھی اپنے دغا دیتے تھے

Page 46

45 اب تو دیوار حرم تک ہے پھٹکنا مشکل ایک وہ دن تھے مگیر پر ندا دیتے تھے حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم و بهار آخر شد حصہ دوم.ہجر قلب تاریک کہاں! لطف عبادات کہاں! حسرت وصل کہاں! شوق ملاقات کہاں! جب سے عصیان کے پھندے میں پھنسے اپنے قدم یار کی ہم سے رہی پھر وہ مدارات کہاں! بیقراری نے مجھے کر دیا اتنا مدہوش دن کدھر کرتا ہے معلوم نہیں رات کہاں کس طرح حُسن مجازی سے بجھاؤں یہ آگ قطرہ شبنم کا کہاں زور کی برسات کہاں درگه حضرت باری میں رسائی نہ رہی عرض حالات کہاں اور وہ مُناجات کہاں مورد قہر ہوئے آنکھ میں اُس یار کی ہم اب ہمیں غیروں پہ کچھ فخر و مباہات کہاں کھو دیا اپنے ہی ہاتھوں سے جوٹو ر باطن ایسے کافر پہ رہے پشم عنایات کہاں کیا گئے ہم سے.کہ لیتے گئے سب فہم وڈ کا اب وہ حالات کہاں اور وہ خیالات کہاں طائر و ہم بھی تھکتا ہے، یہ وہ دُوری ہے ہم کہاں ! یار کہاں! رسم ملاقات کہاں؟ اب تو دن رات بچھی رہتی ہے صف ماتم کی دن کہاں عید کے اور شب شب بارات کہاں مجھ سے کہتے ہیں یہ دربان کہ ” جاتے ہو کدھر راندہ در ہو شرف یاب ملاقات کہاں“ اُن کی آنکھوں سے گرے خلق نے آنکھیں پھیریں اب کسی سے ہمیں امید مراعات کہاں دوست ہی کہتے ہیں بلغم ہے نکالو اس کو جا کے اب دل کے نکالوں میں بخارات کہاں د و

Page 47

46 روز روشن میں نکالا جو گیا ہو.اس کو پھر شب تار کی وہ خفیہ ملاقات کہاں اُن کے جاتے ہی نہ معلوم کہ مجھ میں سے گئے حُسنِ اخلاق کہاں ؟ خوبی عادات کہاں؟؟ رہ گیا قشر فقط مغز ہوا سب برباد اپنے اعمال میں اخلاص کی وہ بات کہاں جب کہ خالق سے ہی مفرور ہوا بندہ تو پھر خدمت خلق کہاں صدقہ و خیرات کہاں سب تصنع کا یہ رونا ہے غزل میں اب تو نالہ عشق کہاں اور یہ خرافات کہاں وہ خلش دل کی کہاں ؟ سوزِ نہانی وہ کدھر وہ نمک پاشی لب ہائے جراحات کہاں؟ ہے یہ بے فائدہ سب آہ وفغاں - واویلا سنتے ہیں عالم بالا میں میری بات کہاں اتنا للہ بتا دو کہ ملیں گے مجھ کو اب وہ عرفان کہاں؟ لذت طاعات کہاں طالب گشت سے کہہ دو کہ بنے طالب یار وصل دلدار کہاں- کشف و اشارات کہاں جس سے مخمور رہا کرتے تھے دن رات کبھی ڈھونڈوں اُس کے کو بتا پیر خرابات ! کہاں؟ دست بیعت تو دیا تھا کہ وہ کھینچیں اوپر چھٹ گیا کیف لپ بام مرا بات کہاں اب وہ اعمال کہاں اور وہ نیاث کہاں دست نصرت وہ کسی کا نہ آفات کہاں ناخلف وہ ہوں کہ اسلاف کو بد نام کیا ورنہ ذلت یہ کہاں زمرہ سادات کہاں ق بارگاه احدیث کو پکاروں کیونکر ایک درویش کہاں! قاضی حاجات کہاں! اُن کی خدمت میں یہ کہنا ہے جول جائیں کبھی وقت پھر ایسا ملے گا مجھے ہیہات کہاں اپنے ہاں سے جو نکالا ہے تو دو یہ تو بتا جاؤں اس در سے بھلا قبلہ حاجات کہاں

Page 48

47 مجھ کو دعوی ہے کریمی پہ تمہاری ورنہ ذرہ خاک کہاں اور تری ذات کہاں! دوستاں حال دل زار نگفتن تا کے سوختم سوختم - ایں سوز نهفتن تا کے حصہ سوم-مناجات و دعا اب تمنا ہے یہی دل میں بُلا لے کوئی آرزو ہے کہ گلے اپنے لگا لے کوئی اب نہ ہے یار نہ دلدار، نہ غمخوار کوئی اتنی حسرت ہے کہ پھر پاس بٹھالے کوئی ہے کوئی صاحب دل میری شفاعت جو کرے میں جگر سوختہ ہوں.میری دعا لے کوئی در پہ آیا ہے یہ تو بہ کے لئے ایک فقیر دو گھڑی بیٹھ کے سُن لے میرے نالے کوئی ہوتی ہے کشتی ایماں کوئی دم میں غرقاب ورطہ بحر ضلالت سے بچا لے کوئی ہے نہ طاقت نہ سگت اور نہ ہمت باقی اب مناسب ہے یہی مجھ کو سنبھالے کوئی دفت فرقت میں بہت آبلہ پائی کر لی اب بھی شک ہو تو مرے دیکھ لے چھالے کوئی کھینچ کر مجھ کو لیے جاتا ہے نفس ظالم قید زنجیر معاصی سے چھڑا لے کوئی شرم سے گرچہ نظر اُٹھ نہیں سکتی میری پر تمنا ہے کہ آنکھوں میں بٹھالے کوئی رتبہ اپنا ہو ملائک سے کہیں بڑھ کے سوا دامن عفو کے نیچے جو چُھپا لے کوئی ہاتھ میں دل کو لئے پھرتا ہوں اپنے زخمی کاش کہ پھانس میرے دل کی نکالے کوئی صدقے ہو جاؤں اگر ہاتھ پکڑ کر میرے اپنے چرنوں میں مراسیس نوالے کوئی مہر سے اُس کی ، سیہ بختی ہو اپنی کافور زُلف کو گر رخ زیبا سے ہٹا لے کوئی میں بھی بیٹھا ہوں کسی در پر با امید قبول پھر غلام در جانانہ بنا لے کوئی

Page 49

48 جس طرح اپنی حضوری سے کیا تھا مہجور رحم فرما کے اسی طرح بُلا لے کوئی نبض کیوں دیکھ کے گھبرا گیا نادان طبیب دم نہیں نکلے گا جب تک کہ نہ آئے کوئی جتنا چاہے مجھے مٹی میں ملا دے کوئی پھر نہ کوچے سے مگر اپنے نکالے کوئی جو مخاطب ہیں مرے خود ہیں وہ علام غروب اب مُناسب نہیں کچھ منہ سے نکالے کوئی ہے دُعا اپنی یہ درگاہ خداوندی سے موت تب آئے کہ جب چہرہ دکھالے کوئی این دعا از من و از جملہ جہاں آ میں باد آید و لطفش ہماں آئیں باد یار باز آید حصہ چہارم - ملاقات اے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے وہی دست عاشق ہے وہی یار کا داماں ہے وہی دل کے آئینہ میں عکس ریخ جاناں ہے وہی مَردُم پشم میں نقش شبہ وہاں سے وہی ہو گئی دُور غم ہجر کی کلفت ساری شکر صد شکر کہ اللہ کا احساں ہے وہی مُرہ دہ اے جان و دلم ! پھر وہی ساقی آیا ئے وہی بزم وہی ساغر گرداں ہے وہی مل گئے طالب و مطلوب گلے آپس میں آپ محسن ہے وہی بند ہ احساں ہے وہی پھر وہی جنت فردوس ہے حاصل مجھ کو مشکل ایماں ہے وہی پخشمہر عرفاں ہے وہی ذرے ذرے میں مرے رچ گیا دلدار زن ذکر میں لب پر وہی فکر میں پنہاں ہے وہی آتش عشق و محبت کا وہی زور ہے پھر قلب پر یاں ہے وہی دیدۂ گریاں ہے وہی دیکھئے کیا ہو کہ اب ایک ہوئے ہیں دونوں چاک داماں ہے وہی چاک گریباں ہے وہی پھر اُسی تیغ نظر سے یہ جگر ہے گھائل طائرِ دل کے لئے ناوک مژگاں ہے وہی

Page 50

49 روئے تاباں کو میرے یار کے دیکھے تو کوئی مسکراہٹ ہے وہی چہرہ خنداں ہے وہی وسیلۂ درگاہ الہی دوستو امو دہ کہ اک خضر طریقت کے طفیل پھر مرے دل میں رواں پشمہ حیواں ہے وہی اس وسیلہ کے سوا وصل کی صورت ہی نہ تھی قاصد بارگہ حضرت ذیشاں ہے وہی میرا کیا منہ ہے کہ تعریف کروں اُس کی بیاں مہدی وقت ہے وہ عیسی دوراں ہے وہی گشته ملا اُس کے ملنے سے ہمیں شاہد گم آستانے کا شہ حُسن کے درباں ہے وہی حمد ذات باری تعالیٰ میرا محبوب ہے وہ جانِ جہانِ عشاق اُس سے جو دُور رہا قالب بے جاں ہے وہی عالم کون و مکاں نور سے اُس کے روشن نغمہ ساز وہی، بوئے گلستاں ہے وہی ذرے ذرے میں کشش عشق کی جس نے رکھی مالک جسم وہی روح کا سُلطاں ہے وہی رنگ سے اُس کے بہے نیرنگی عالم کا ظہور گرمی و رونق بازار حسیناں ہے وہی دل جو انساں کو دیا، دردِ محبت دل کو قبلہ دل ہے وہی درد کا درماں ہے وہی جس نے آواز سُنی - ہو گیا اُس کا فیدا دیکھ لے جلوہ تو سو جان سے قُرباں ہے وہی خود تو جو کچھ ہے سو ہے، نام بھی اُس کے پیارے تی و قیوم وصمد - ہادی و رحماں ہے وہی عشق میں جس کے رقابت نہیں وہ یار ہے یہ جس پہ بن دیکھے مریں لوگ یہ جاناں ہے وہی لاکھ خوشیاں ہوں مگر خاک ہیں بے وصل نگار قرب حاصل ہے جسے کم و شاداں ہے وہی

Page 51

50 حت دنیا بھی نہ ہو خواہش عظمی بھی نہ ہو جز خدا کچھ بھی نہ ہو طالب جاناں ہے وہی ٹھوکر سے بچو نفس امارہ جسے کہتے ہیں از باب نظر راہِ الفت میں بس اک خار مغیلاں ہے وہی جس سے یہ نبوان وسفاک بھی مغلوب نہ ہو یار کی راہ سے گم گشتہ و حیراں ہے وہی دعا اب تو دل میں ہے فقط ایک تمنا باقی آرزو صرف وہی خواہش وائز ماں ہے وہی درگہ قدس سے قائم رہے رشتہ اپنا لیکن اس کا بھی اگر ہے.تو نگہباں ہے وہی تقنہ جامِ محبت کی دُعا ہے اس سے ساقی میکدہ محفلِ منتاں ہے وہی ق آپ دیتے نہ تھکیں اور میں پیتے بچھکوں میرے شایاں ہے یہی آپ کے شایاں ہے وہی ہاتھ پکڑا ہے تو اب چھوڑ نہ دینا لله مدتوں دُور رہا جو یہ پشیماں ہے وہی سچ تو یہ ہے کہ سبھی میری خطا تھی ورنہ اپنے بندوں پہ کرم آپ کا ہر آں ہے وہی ہم تو کمزور ہیں پر آپ میں سب طاقت ہے جو بھی مشکل ہے نہیں آپ کو آساں ہے وہی لِلَّهِ الْحَمد ميان من و أو صلح فتاد حوریاں رقص کناں ساغر شکرانه زدند ( مطبوعہ رسالہ رفیق حیات جلد 4 نمبر 3 بابت مارچ 1921ء صفحہ 5 تا10) 1 كالذي استهوته الشيطين في الارض حيران

Page 52

51 دعائے وصل عرض یوں کرتا ہے محبوب اذن سے خاکسار اے شہنشاہِ زمین و آسمان و ہر دو وار جو بھی خوبی ہے جہاں میں سب تمہارا فیض ہے کان حسن و پشمہ احساں تم ہی ہواے نگار اک نظر فضل و کرم کی اس طرف بھی پھیر دو ٹکی باندھے کھڑا ہے در پہ اک اُمیدوار اے میرے سورج ! دکھا دو پھر اُسی انداز سے وہ چمک اور وہ دمک اور وہ جھمک اور وہ بہار پھر خرام ناز سے دیجے وہی جلوہ دکھا پھر اُسی لطف و ادا سے کیجئے دل کو شکار اُس شب تاریک پر صد مہر و مہ قرباں کروں جس کی ظلمت میں جھلک اپنی دکھا دے وہ نگار آئینہ حائل تھا مجھ میں اور رخ دلدار میں لے ورنہ کب کا راکھ ہو چکتا یہ تن پروانہ وار اے میرے دلبر مرے جاناں میرے دل کے سرور ایک ہے تم سے دُعا میری یہ باصد انکسار گشتیۂ حسن و ادا و ناز پر ہو اک نظر مدتوں سے یہ پڑا ہے بے کفن اور بے مزار زندگی میں تو ترستا رہ گیا آغوش کو مرگیا ہے.اب تو کر لیجے ذرا اس سے پیار چادر مبر ومروت میں اسے دیجے لپیٹ گوشئہ چشم محبت میں اسے لیجے اُتار ایک تفخ رُوح کر کے اُس کو پھر زندہ کریں اور بسر یہ زندگی ہو از پیئے رضوان یار وصل کی گھڑیاں میسر ہوں ہمیں ہر روز و شب دُور ہوں فضلوں سے تیرے ہجر کی شب ہائے تار آمین (1921) 1 ایک کشف کی طرف اشارہ ہے جو الفضل 3 نومبر 1936 ء میں شائع ہوا.

Page 53

52 تودیع حضرت خلیفہ مسیح ثانی برموقع سفر یورپ از جانب اهل قادیان دارالامان اے شہ کولاک کے لختِ جگر! اور ہماری آنکھ کے نور نظر اے کہ تم ہو جان و دل روح رواں چھوڑ کر ہم کو چلے ہو خود کدھر ہم نہیں واقف فراق یار سے ہجر کے دن کس طرح ہوں گے بسر دل پھٹے جاتے ہیں سب احباب کے دیکھ کر تیاری رختِ سفر حال اپنا کیا بتائیں آپ کو کیا دکھائیں کھول کر قلب و جگر کاش خاموشی ذرا ہوتی فصیح کاش رکھتیں کچھ اثر چشمان تر کاش سوز اندروں دیتا دھواں کاش دُودِ آہ آ سکتا نظر کاش آدم زاد ہوتا غیب داں کاش دل کو دل کی کچھ ہوتی خبر کاش ہوتے ہجر کے درد آشنا وصل میں جن کی کئی شام و سحر آہ کیا جانیں حال عاشقی وہ شان محبوبی میں جن کی ہو بسر ایک مرضی حق کی جب دیکھی یہی کر لیا ہم نے بھی پتھر کا جگر آپ کے دل پر بھی ہے فرمائیے کیا جدائی کا ہماری کچھ اثر ؟ سرو سیمینا! بدریا ئے روی نیک بے مہری! کہ بے مامی روی

Page 54

53 سلسلے کے پیشرو ، مرکز کی جاں جانشین مہدی آخر زماں جا رہے ہیں سوئے یورپ اس لئے تا کہ پورے ہوں مسیحا کے نشاں منير لندن یہ پکڑیں کچھ طیور اور منار مشرقی پر دیں اذاں و مغرب کو کر دیں متحد اسود و احمر کو کر دیں ایک جاں منضبط تبلیغ کا کر دیں نظام تا نہ ہو محنت ہماری رائیگاں مشرق کچھ کریں لینے کا ان کے بندوبست زار کا سونٹا - بخارا کی کماں کنواں حبَّذا اے اہلِ یورپ کہڑا میزباں آتا ہے بن کر میہماں تشنہ آتا ہے کوئیں کے پاس خود یاں پیاسے پاس جاتا ہے تیرے جذب حق سے اے فضل عمر ایک دنیا آ رہی ہے قادیاں اے تماشا گاہ عالم روئے تو تو کجا بیر تماشا ے روی فی امان اللہ اے پیارے امام کسبک اللہ اسے شہِ والا مقام تشنہ لب ہیں اہلِ مغرب دین کے معرفت کا جا پلاؤ اُن کو گا تم ہی سے ہو : جام انصرام اُٹھو اُٹھو اے بنی فارس! اٹھو کام گاڑ دو جا کر علم توحید کا قصر تنگیثی کا کر کے انہدام حق تعالیٰ کی حفاظت ساتھ ہو اور ملائک کا رہے سایہ مدام نصرتیں اللہ کی ہوں ہم رکاب اور زیادہ ہو عُروج و اخترام بحر و بر کے ہر سفر میں آپ کے خضر راہ ہوں حضرت خیر الانام

Page 55

54 ہو دعائیں احمد مرسل کی ساتھ استجابت کا جنہیں وعدہ تھا عام کامیابی ہر جگہ ہو ہم قریں عافیت سے ہو سفر کا اختتام دیا اللہ کے تم کو سپرد کر ہو وہی حافظ تمہارا والسلام سفر احباب پر ہوں رحمتیں دست و بازو ہیں جو شہ کے لاکلام لیا کرنا کبھی ہم کو بھی یاد ہیں پرانے ہم بھی اُس در کے غلام کچھ توجہ خاص ہو خدام پر اور دعا کا بھی رہے کچھ التزام اپنی حالت ہے دگرگوں آج کل ہے نجوم غم کا دل پر اثر دہام گو حیا سے منہ پر کچھ لائیں نہ ہم پر نہیں اس بات میں ذرہ کلام دیده عشاق و دل ہمراہ تُست تا نہ پنداری کہ تنہا کے روی سلر یورپ کی روانگی کے موقعہ پر 12 جولائی 1924 ء کو جبکہ بیت اصلی میں ایک کثر مجمع کے ساتھ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی اور آپ کے رفقائے سفر کا فوٹو لیا گیا.یہ نظم اُس وقت حضور کے رو بروسنائی گئی تھی.اور 15 جولائی 1924 ء کے الفضل میں شائع ہوئی.

Page 56

55 خلاصہ خطبہ عید الاضحی 1924ء میں جبکہ حضور خلیفہ المسح ولایت تشریف لئے گئے تھے تو قادیان میں عید الاضحیٰ کا خطبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پڑھا تھا.یہ اشعار اُس خطبے کے ہیں جو میر صاحب نے بطور خطبہ کے خلاصہ کے تحریر فرمائے تھے.ایکه داری عزم تائیدات دیں یاد رکھ اس بات کو تو بالیقیں کوئی قربانی بجز تقویٰ نہیں اور بلا قربانی کچھ ملتا نہیں بے محبت جملہ قربانی فضول منگنی کی صرف ہوتی ہے قبول انتخانِ عشق ہیں قُربانیاں پر وہی جن میں ہو تقویٰ کا نشاں متقی اللہ کا محبوب ہے اس کا تھوڑا بھی بہت مرغوب ہے ہر عمل میں اپنے اے جانِ پدر لَن يَّنالَ اللہ پر رکھیو نظر گوشت کا اور خون کا ہے کام کیا یاں تو بس تقویٰ سے حاصل ہو رضا تو وفا کو سیکھ ابراہیم جس نے بیٹا رکھ دیا خنجر تلے عشق کے کوچے کا ہے پہلا سوال ”لائیے ناموس و عزت جان و مال“ گر ذرا بھی ہو تأمل سے جواب مدعی کا ہو گیا خانہ خراب عشق و تقویٰ کا نہ تھا باقی نشاں لائے اُن کو احمد آخر زماں گر تجھے ہے چاشنی اس راہ کی داخل حزب خدا ہو جا چاہتا ہے قُرب گر، قربان ابھی ہو تا کہ تو حیوان سے انسان ہو

Page 57

56 چند چند از حکمت یونانیاں؟ حکمت ایمانیاں را هم بخواں (الفضل 31 / جولائی 1924ء) منظور سے گزارش احوال واقعی اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے جامِ جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر نام اور پتا بتانے کی حاجت نہیں مجھے میرے مرشد نے سر مجلس احباب اک دن میرے بارے میں کچھ اس طرح سے ارشاد کیا اس کی باتوں سے ٹپکتی ہے محبت ایسی ہم سمجھتے ہیں کہ ہے آدمی یہ بھی اچھا“ میں بھی سنتا تھا کہیں پاس کھڑا یہ تقریر کیا بتاؤں جو مرا حال ندامت سے ہوا دل کو دیکھا تو نہ تھی اس میں ذرا بھی گرمی ایک رتی بھی محبت جو ہو، حاشا کلا سارے خانے تھے بھرے کفر سے اور عصیاں سے کوئی تقویٰ نہ تھا اخلاص نہ تھا، نُور نہ تھا مجھ کو خود اپنے سے آنے لگی عار اور نفرت دیکھ کر ظاہر و باطن کو خراب اور گندا آہ! کرتا رہا میں کیسی ملمع سازی جنس کھوٹی تھی جسے کر کے دکھایا اچھا

Page 58

57 تجھ پر افسوس ہے اے نفس دنی و ظالم تو نے دو کا بھی کیا جائے تو مرشد سے کیا؟ ترا مکر، یہ تلبیس ، خدا خیر کرے نفس امارہ مرے تو نے یہ اچھا نہ کیا اب مناسب ہے کہ کر دے تو ابھی گوش گزار میرے آقا! مرے ظاہر پہ نہ جانا اصلا اپنی تاریکی باطن پہ ہوں میں آپ گواہ عالم الغیب ہے یا واقفِ اسرار مرا پاس پھنکیں نہ مرے دوست بھی گھن کے مارے گر حقیقت کا ذرا ان کو دکھا دوں چہرہ ربیت وخُلق وعمل اور یقین و ایماں منہ پہ لانے سے ان الفاظ کو آتی ہے حیا کاتب قول و عمل ہیں جو فرشتے ، وہ بھی کفر و شوخی کو مری دیکھ کے اُٹھے تھرا حسن ظنی کا لیا آپ نے لاریب ثواب لیکن اس دل پہ لگایا ہے یہ کیسا چر کا چین دن کو ہے مجھے اور نہ شب کو آرام تم نے سمجھا مجھے کیا اور میں نکلا کیسا ہے یہ آداب ارادت کے مخالف بالکل ایسی باتوں میں رہے آپ کا میرا پردہ سيدى انت حبیبی و طبیب قلبی سخت لاچار ہوں للہ مداوا میرا اے مرے مُرشد کامل ، اے مرے راہ نما آپ کو حق کی قسم، کیجئے حق سے یہ دُعا نیک ظنی کو میدن به حقیقت کر دے لاج رکھتا ہے پیاروں کے کہے کی مولا ماسوی اللہ سے کر دے مرا سینہ خالی حُبّ دنیا کو مرے نفس پہ کر دے ٹھنڈا معرفت دل کو ملے رُوح کو نورِ ایماں ذرے ذرے میں مرے عشق رچا دے اپنا کرم خاکی کو اگر چاہے تو انساں کر دے میرا مولیٰ مری بگڑی کا بنانے والا مستحق گرچہ نہ ہوں لطف و کرم کا، لیکن کچھ بھی ہوں، کوئی بھی ہوں، ہوں تو اُسی کا بندہ

Page 59

58 حشر میرا شہ خُوباں کی رفاقت میں ہو اور دائم رہے اس ہاتھ میں دامن اُن کا ما بدین مقصد عالی نتوا نیم رسید ہاں مگر لطف شما پیش نهد گامے چند مطبوعہ الفضل 14 اگست 1924ء) نعمت اللہ نے دکھلا دیا قرباں ہو کر بر موقعہ شہادت مولوی نعمت اللہ خان جو احمدی ہونے کی وجہ سے 31/ اگست 1924ء کو کابل میں سنگسار کئے گئے.زندہ عشق ہوئے داخل زنداں ہو کر قرب دلدار ملا یار پہ قرباں ہو کر سنگ ساری نے کیا حسن دوبالا تیرا خوب تر ہو گئی یہ زُلف پریشاں ہو کر رکشت اسلام کو سینچا ہے کہو سے اپنے تو نے مخمور کیم بادۂ عرفاں ہو کر دیکھنا! گفته محبوب چلا مشکل کو پابجولاں، بسر شوق خراماں ہو کر سنگ باری سے ترا نور بجھایا نہ گیا ذرہ ذرہ چمک اُٹھا خور تاباں لیے ہو کر حرف آنے نہ دیا صدق و وفا پر اپنے بور اغداء کا سہا خُرم و خنداں ہو کر مذہب عشق کی دنیا سے نرالی ہیں رسوم زندگی ملتی ہے اس راہ میں بے جاں ہو کر سر خرو دونو جہانوں میں ہوئے تم ، واللہ داخل میکدہ بزم شہیداں ہو کر لوگ کہتے تھے رہ قُرب الہی کیا ہے؟ نعمت اللہ نے بتلا دیا قرباں ہو کر 1 خور تاباں یعنی چمکتا ہوا سورج

Page 60

59 وائے برحال تو اے شاہِ امان اللہ خاں جس نے یہ رجم کیا تابع شیطاں ہو کر حق بھی مٹتا ہے تعدی سے کہیں اے ظالم خود ہی مٹ جائے گا تو دست وگر یہاں ہو کر تو نے کہلا کے مسلمان وہ غداری کی رہ گئے گبر بھی انگشت بدنداں ہو کر ہرگز اس حزب الہی سے نہ رکھنا اُمید ترک کر دیں گے یہ تبلیغ پر اساں ہو کر سالک راہ محبت سے یہ ممکن ہی نہیں جان دینے سے ڈرے، عاشق جاناں ہو کر آ رہی ہے یہ ہمیں خونِ شہیداں کی صدا آئے امدادِ خدا ہمت سے مرداں ہو کر وہ بھی دن آتے ہیں جب ڈھونڈیں گے شاہانِ جہاں برکتیں رخت مسیحا سے مسلماں ہو کرتے ( الفضل 28 ستمبر 1924ء) 1 ظلم کی سزا امان اللہ کو بہت سخت ملی.اُس کو سلطنت چھوڑ کر بحال تباہ افغانستان سے نکلنا پڑا.اور ایک لمبا عرصہ اٹلی میں گمنامی اور لاچاری و بے کسی کی حالت میں گزار کر 3 اپریل 1960ء کو مر گیا.(محمد اسمعیل پانی پتی ) 2 یعنی ہمارے قائم مقام رضا کار پیدا ہوں.3 حضرت مسیح موعود کی یہ پیش گوئی کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.نہایت شان سے پہلی مرتبہ اس وقت پوری ہوئی جب ہر ایسیلینسی ایف-ایم سنگھاٹے گورنر جنرل گمبیا مغربی افریقہ نے 1966ء میں حضرت خلیفہ اسیح ثالث کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ مجھے حضرت مسیح موعود کا کوئی کپڑا تبرکا مرحمت فرمائیں.حضرت صاحب نے یہ درخواست قبول فرمائی اور حضرت اقدس کے کپڑے کا ایک ٹکڑا انہیں بھیج دیا.مفصل حالات رسالہ تحریک جدید ربوہ ماہ نومبر 1969ء میں ملاحظہ فرمائیں.( محمد اسمعیل پانی پتی)

Page 61

60 مجھ کو کیا بیعت سے حاصل ہو گیا؟ جب سے میں بیعت میں داخل ہو گیا تارک جملہ رذائل ہو گیا اک سپاہی بن گیا اسلام کا گفر سے لڑنے کے قابل ہو گیا توڑ ڈالے بتکدے کے سب صنم جب سے اُن مرے گاں کا گھائل ہو گیا اک نظر ترچھی پڑی صیاد کی طائر دل نیم بسمل ہو گیا ہو گئی آنکھوں میں یہ دنیا ذلیل اور مقدم دینِ کامل ہو گیا مال اور املاک وَقُفِ دیں ہوئے شوق جاہ و مال زائل ہو گیا جہل کی تاریکیوں میں تھا اسیر احمدی ہوتے ہی فاضل ہو گیا گیا پہلے منکر دین کا تھا، اور اب قائل جملہ مسائل ہو ہر عمل میں روح تقویٰ مُستر ہر عقیده با دلائل ہو گیا کیا عجب اس سلسلہ کا حال ہے کل کا جاہل آج عاقل ہو گیا ڈر جاتا تھا ابجد خوان سے اب میں مولانا کے قابل ہو گیا تھا کبھی جو تارک فرض و سُکن وہ ہو گیا پابند نوافل ہو گفته لذات دنيا العجب نفس امارہ کا قاتل ہو گیا ہو گیا شیطان مجھ سے ناامید سیحر اس کافر کا باطل ہو گیا زمزمہ اپنا لئے تبلیغ حق باعث رشکِ عَنادِل ہو گیا

Page 62

61 جنگ ہے باطل سے میری ہر گھڑی اس قدر میں حق میں واصل ہو گیا ہو کے مخمور مئے حُسن ازل مجھ سا نالائق بھی قابل ہو گیا عادت و اخلاق دلکش ہو گئے جامع حسن و فضائل ہو گیا نور عرفاں ہو گیا مجھ کو نصیب کور دل تھا - صاحب دل ہو گیا طاعت و اخلاص و استغفار قلب مظلم شمع محفل ہو گیا ہو گیا مشہور جو مسموع تھا جب سے فیض شیخ کامل ہو گیا لذَتِ طاعات میں رہتا ہوں محو یار پن اک لحظہ مشکل ہو گیا اب دعا ئیں بھی لگیں ہونے قبول فضل ربی جب سے شامل ہو گیا حب قرآن عشق ختم المرسلين ہر رگ و ریشے میں داخل ہو گیا دوست سے باتیں بھی کچھ ہونے لگیں پردہ اُٹھا.گھر میں داخل ہو گیا رنگ مجھ پر چڑھ گیا دلدار کا کیا کہوں کیا مجھ کو حاصل ہو گیا مهبط انوار آئل کے ہو گیا مظہر اخلاق یزداں بن گیا دوستو! کیا کیا بتاؤں نعمتیں اب تو گننا ان کا مشکل ہو گیا ترقی ہر گھڑی انعام میں خُلد دنیا ہی میں حاصل ہو گیا اے عد و! تو بھی تو ان فضلوں کو دیکھ کیا ہوا کیوں حق سے بے دِل ہو گیا اب بھی کیا کچھ شک کی گنجائش رہی ظہور بدر کامل ہو گیا ہے (1) آئل بمعنی روح القدس- جبریل

Page 63

62 خاتمہ بالخیر کر دے اب خدا راستہ سیدھا تو حاصل ہو اے خدا! اے طالبان را ایکہ مہر پر حیات روح ره نما し رضائے خویش گن انجام ما تا برآید در رو آمین عائم کام ما (الفضل 11 اکتوبر 1924ء)

Page 64

63 محبت کا ایک آنسو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ قیامت کے دن سات قسم کے آدمی عرش کے سایہ میں ہوں گے.ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس کے متعلق آنحضور فرماتے ہیں.کہ رَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهِ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ “ یہ پر کیف نظم اسی تنہائی کے آنسو کی تعریف میں لکھی گئی ہے.66 ہزار علم و عمل سے ہے بالیقیں بہتر وہ ایک اشک محبت جو آنکھ سے ٹپکا خراج حسن میں ہر جنس سے گراں مایہ مڈور عشق میں کیا خوب گوہر یکتا خلاصہ ہمہ عالم ہے قلب مومن کا خلاصہ دل مومن یہ اشک کا قطرہ نہ انفعال، نہ حسرت، نہ خوف و غم باعث وہ ایک اور ہی منبع ہے جس سے یہ نکلا نہ اس کے راز کو دو کے سوا کوئی جانے نہ یہ کسی کو خبر کب بنا - کہاں ڈھلکا جو جھلکے آنکھ میں تو مست و بے خبر کر دے گرے تو لیو میں ملائک اُسے لپک کے اٹھا نہیں زمانہ میں اس سا کوئی فصیح و بلیغ جو دل کا حال ہو دلبر سے اس طرح کہتا عرق ہے خونِ دلِ عاشقاں کا یہ آنسو یہی ہے نارِ محبت سے جو کشید ہوا یہ تحفہ وہ ہے جو خالص خدا کی خاطر ہے نہیں ہے اس میں ریا اور نفاق کا شعبہ ہے ملے گا اشک کی برکت سے عرش کا سایہ پناه تیزی خورشید روز محشر جو عین جاریہ درکار ہے اے زاہد خشک تو عین جاریہ اپنی بھی کچھ بہا کے دکھا میں کیا سر شک محبت تیری کروں تعریف کہ ذات باری نے خود تجھ کو دوست فرمایا (الفضل 23 اکتوبر 1924ء)

Page 65

64 عاقبت کی کچھ کرو تیاریاں چل رہی ہیں زندگی پر آریاں ہو رہی ہیں موت کی تیاریاں اتقیا اور اشقیا چل بسے اپنی اپنی یاں بھگت کر باریاں خاتمہ کا فکر کر لے اے مریض پیشرو ہیں مرگ کی بیماریاں جب فرشتہ موت کا گھر میں گھسا ہو گئیں بے سود آہ و زاریاں زندگی تک کے ہیں یہ سب جاں نثار سانس چلنے تک کی ہیں سب یاریاں جیتے جی جتنا کوئی چاہے بنے بعد مزدن ختم ہیں عیاریاں کر میں پرسش ہے بس اعمال کی کام آئیں گی نہ رشتہ داریاں کس نشے میں جھومتا پھرتا ہے تو رنگ لائیں گی یہ سب کے خواریاں کھینچ کر لے جائیں گی سوئے سکر نفس امارہ کی بد کرداریاں طائرِ جاں جب قفس سے اُڑ گیا ساتھ ہی اُڑ جائیں گی طراریاں چاہیئے فکر حساب آخرت عاقبت کی کچھ کرو تیاریاں ہے یہ دنیا دشمن ایمان و دیں یاد ہیں اس کو بہت مکاریاں جب تلک باطن نہ تیرا پاک کام کیا آئیں گی ظاہر داریاں کچھ کما لے نیکیاں اے جانِ من تا نہ ہوں اگلے جہاں میں خواریاں ہو کچھ اُٹھا دے دل سے غفلت کے حجاب کچھ دکھا دے کر کے شب بیداریاں

Page 66

65 کاریاں کچھ عمل اخلاص کے درکار ہیں ہو چکیں بے حد مُلَمَّعْ تجھ کو مسلم پائے جب آئے اجل ہیں اسی میں جملہ برخورداریاں پر خاک میں ملنے سے پہلے خاک پہلے خاک ہو روکتی نیکی سے ہیں خود داریاں خدمت اسلام میں خود کو لگا چھوڑ دے للہ اب بریکاریاں خادم دینِ متیں ضائع نہ ہو ایسی خدمت سے ملیں سرداریاں کر توجہ عادت و و اخلاق ترک کر دے سختیاں، خونخواریاں رفق کو اپنا بنا لے تو رفیق چھوڑ دے خلقت کی دل آزاریاں روح کو کر دے مُبادا تو ہلاک کرتے کرتے تن کی خاطر داریاں ہم نشیں اُن کا نہ ہوگا نامراد صادقوں سے کچھ لگا لے یاریاں ہوں بدی سے پاک نیت اور عمل خود بخود صادِر ہوں نیکو کاریاں چاہتا ہے گر ابد کی زندگی کر فنا کے واسطے تیاریاں یار کے کوچے کی ہو جا خاک راہ ہو جا خاک راہ اُس کی چوکھٹ پر ہوں آہ و زاریاں کر قبول اپنے لئے دیوانہ پن چھوڑ کر چالاکیاں، ہشیاریاں دل سے راضی ہو ہر اک ذلت پہ تو ہوں نہ تجھ کو عار خدمت گاریاں سے تعلق داریاں جاہ اور اولاد و عزت - جان و مال توڑ دے ان سے آتش دوزخ ہوئی اُس پر حرام عشق کی جس دل میں ہوں چنگاریاں رنگ میں احمد کے ہو رنگیں تو اور دیکھا اُس قسم کی گلکاریاں

Page 67

66 تب کہیں جا کر وہ محبوب اذن خاکساروں کی کریں دلداریاں ہو جائے تیری زندگی جب وہی کرنے لگیں غم خواریاں جَنَّتى موت کا دن پھر بنے یوم التلاق اور جنازہ وصل کی تیاریاں خدا کارست خام بے عنایات اس سخن داند را والسلام ریویو آف ریلیجنز نومبر 1924ء) 1 يوم الثلاق وصل خداوندی کا دن

Page 68

67 خیر مقدم حضرت خلیفۃالمسیح الثانی بر موقع واپسی از سفر یورپ جب 24 دسمبر 1924ء دوشنبہ کے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سفر یورپ سے نہایت کامیابی کے ساتھ واپس قادیان میں تشریف لائے تو بعد نماز عصر ایک عظیم الشان مجمع کی موجودگی میں بیت اقصیٰ کے اندر اہلِ قادیان کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا گیا.یہ نظم اسی موقع کے لئے کہی گئی تھی.اور سید عبدالغفور ابن میر مہدی حسن صاحب نے ایڈریس کے پیش ہونے سے پہلے نہایت خوش الحانی کے ساتھ حاضرین کو پڑھ کر سنائی تھی.(محمد اسمعیل پانی پتی) شکر صد شکر! جماعت کا امام آتا ہے الله الحمد ! کہ بانیل مرام آتا ہے زیب دستار کیسے فتح و ظفر کا سہرا ولیم کنکر رہے اور فاتح شام آتا ہے مغرب الشمس کے ملکوں کو منور کر کے اپنے مرکز کی طرف ماہ تمام آتا ہے پاس مینارِ دشقی کے بصد جاہ و جلال ہو کے نازل یہ مسیحا کا غلام آتا ہے مرحبا! ہو گئی لندن میں وہ (بیت) تعمیر جس کی دیوار پر محمود کا نام آتا ہے سچ بتانا تم ہی اے مدعیانِ ایماں کون ہے آج جو اسلام کے کام آتا ہے 1 William Conqueror ولیم اوّل جس نے انگلستان کو فتح کیا تھا.1 غلام یعنی پسر

Page 69

68 عظمت سلسلہ قائم ہوئی اس کے دم سے خوب پہنچانا اُسے حق کا پیام آتا ہے آج سُورج نکل آیا یہ کدھر مغرب سے ہم سمجھتے تھے کہ مشرق سے مدام آتا ہے مودہ اے دل کہ مسیحا نفسی می آید که ز انفاس خوشش بوئے گسے می آید اے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے وہی دست عاشق ہے وہی یار کا داماں ہے وہی ہو گئی دُور غم ہجر کی کلفت ساری للہ الحمد کہ اللہ کا احساں ہے وہی پھر میرے بادہ گسارو! وہی ساقی آیا ہے وہی، جام وہی، محفل رنداں ہے وہی کار سر کا ر کیا خواب و خورش کر کے حرام دیکھ لو پھر بھی بہار رخ تاباں ہے وہی سامنے بیٹھے ہیں اس بزم کے میخوار قدیم بیعت دل ہے وہی قلب میں ایماں ہے وہی قادیاں! تجھ کو مبارک ہو ڈرود محمود دیکھ لے! دیکھ لے!شاہنشہ خوباں ہے وہی آج رونق ہے عجب کو چہ و برزن میں ترے بادہ خواروں کے لئے عیش کا ساماں ہے وہی رشک تجھ پر نہ کرے چرخ چہارم کیونکر طور سینا پہ ترے جلوہ فاراں ہے وہی آمد فیر رُسل له حضرت احمد کا نزول دونوں آئینوں میں عکس رخ جاناں ہے وہی ز آتش وادی ایمن نه منم خرم و بس موسیٰ این جا بامید قبے می آید پ وہ ہیں جنہیں سب راہ نما کہتے ہیں اہلِ دل کہتے ہیں اور اہلِ دعا کہتے ہیں آپ کو حق نے کہا ”سخت ذکی اور فہیم مظہر حق وعلی.ظلِ خدا کہتے ہیں (1) «فخر رسل، حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا الہامی نام ہے.

Page 70

69 رستگاری کا سبب آپ ہیں قوموں کیلئے ہر مصیبت کی تمہیں لوگ دوا کہتے ہیں آپ وہ ہیں کہ جنہیں فخر رسل کا ہے خطاب دیکھنے والے جب ہی صلِ علیٰ کہتے ہیں استجابت کے کرشمے ہوئے مشہور جہاں آپ کے دَر کو دَر فیض وعطا کہتے ہیں کوئی آتا ہے یہاں سائلِ دُنیا بن کر مطلب اپنا وہ زر و مال و غنا کہتے ہیں رزق اور عزت و اولاد کے گاہک ہیں کئی بخشوانے کو کوئی اپنی خطا کہتے ہیں کوئی دربار میں آتا ہے کہ مل جائیں علوم کوئی اپنے کو طلبگار شیفا کہتے ہیں نیک بنے کیلئے سینکڑوں در پر ہیں پڑے خود کو مشتاق رہ زُہد و ھی کہتے ہیں طالب بنت فردوس ہیں اکثر عاقل دار فانی کو فقط ایک سر “ کہتے ہیں میں بھی سائل ہوں طلبگار ہوں اک مطلب کا کوئے احمد کا مجھے لوگ گدا کہتے ہیں میری اک عرض ہے اور عرض بھی مشکل ہے بہت دیکھئے آپ بھی سُن کر اسے کیا کہتے ہیں جس کی فرقت میں تڑپتا ہوں، وہ کچھ رحم کرے یعنی مل جائے مجھے جس کو خدا کہتے ہیں یچکس نیست که در کوئے تو اش کارے نیست ہر کس ایں جا بامید ہو سے می آید (الفضل 25 /نومبر 1924ء)

Page 71

70 ایک احمدی بچی کی دُعا مریم صدیقہ حضرت میر صاحب کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں.دسمبر 1924 ء میں جبکہ ان کی عمر چھ برس کی تھی یہ بے نظیر دُعا حضرت میر صاحب نے انہیں لکھ کر دی تھی.اور اُنہوں نے مستورات کے سالانہ جلسہ منعقدہ قادیان میں پڑھ کر سنائی تھی.اس دلکش نظم میں دین سے محبت ، مذہب سے الفت آپس کی ہمدردی اور سب سے اخلاق و ادب سے پیش آنے کی جیسی اعلیٰ تعلیم سلیس اور دل نشین پیرا یہ میں دی گئی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ بچوں کے لئے لکھی ہوئی نظموں میں اس کی نظیر نہیں ملتی.(محمد اسمعیل پانی پتی) مجھے سیدھا رستہ دکھا مری زندگی پاک و طیب بنا دے مجھ دین و دنیا کی خُوبی عطا کر ہر اک درد اور دُکھ سے مجھ کو شفا دے زباں پر میری جھوٹ آئے نہ ہرگز کچھ ایسا سبق راستی کا پڑھا دے گناہوں سے نفرت، بدی سے عداوت ہمیشہ رہیں دل میں اچھے ارادے

Page 72

71 ہر اک کی کروں خدمت اور خیر خواہی جو دیکھے وہ خوش ہو کے مجھ کو دعا دے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں شفقت سراسر محبت کی پتلی بنا دے بنوں نیک اور دوسروں کو بناؤں مجھے دین کا علم اتنا سیکھا خوشی تیری ہو جائے مقصود میرا دے کچھ ایسی لگن دن میں اپنی لگادے جو بہنیں ہیں میری و یا ہیں سہیلی یہی رنگ نیکی کا سب پر چڑھا دے عنا دے ، سخا دے ، حیا دے ، وفا دے بدی دے، گھی دے ، لیقا دے، رضا دے میرا نام ابا نے رکھا خدایا ہے مریم تو صدیقہ مجھ کو بنا دے (الفضل 6 جنوری 1925ء)

Page 73

72 ندائے احمدیت - درکار ہیں کچھ ایسے جوانمرد، کہ جن کی فطرت میں ودیعت ہو محبت کا شرارا بے عشق نہیں حسن کے بازار میں رونق وہ اس کا طلبگار.تو یہ اُس کا سہارا آئیں وہ ادھر ، رکھ کہ مہتھیلی پہ سر اپنا ”لبیک! کہ دلبر نے ہے عاشق کو پکارا ہر ایک میں ہو عزم وہ ثابت قدمی کا چھی کا نہ ہو خطرے سے، نہ ہمت کبھی ہارا پروا نہ ہو ذرہ بھی محبت کے نشے میں شمشیر ہو گردن پر کہ ہو فرق پہ آرا اک آگ ہو سینے میں نہاں کام کی خاطر ہر رنگ نیا، بات کا ہر ڈھنگ نیارا فرہاد کے اور قیس کے قصوں کو بھلا دیں دکھلا کے بنوں اور محبت کا نظارا بے زز ہوں، پہ ہو جائیں وہ امریکہ روانہ بے پر ہوں تو پیدل ہی پہنچ جائیں بخارا سامان کے محتاج، نہ آفات سے خائف گر زاد نہ ہو.کرسکیں پچھوں پر گزارا برپا ہو قیامت جو وہ تبلیغ کو نکلیں عفت ہو جو بے داغ تو اخلاق دل آرا اموال کمائیں، تو کریں نذیر اشاعت املاک بنائیں تو کریں وقف خدارا بس ایک ہی دھن ہو کہ کریں خود کو تصدق راضی ہو کسی طرح سے محبوب ہمارا وہ دین جو محتاج ہے خدمت کا ہماری ہو جائے اگر ہو سکے.اس کا کوئی چارہ قربان ہو ہر چیز اسی بات کی خاطر اسلام کا اُونچا ہو زمانہ میں منارا اب عشق مجازی کی نمائش کو مٹا کر ہم عشق حقیقی کا دکھا ئیں گے نظارا عمر لیست که آوازه منصور کہن شد من از سر نو جلوه و هم صدق و وفا را تو (الفضل 10 جنوری 1925ء)

Page 74

73 احمدی کی تعریف ہوں اللہ کا بندہ ہے احمد سے بیعت میرا نام تو میں احمدی خدا کی عبادت قیام شریعت میرا کام محمد کی خلیفہ سے پوچھو ہوں طاعت رسولوں کی نصرت بدی کی اشاعت پوچھو تو میں احمدی ہوں زمانہ سے ان بن سبھی میرے دشمن مسلماں بر همن لہو کے ہیں پیاسے گر الزام پوچھو تو میں احمدی ہوں کار اشود کار احمر ریا تو مغضوب ابيض بدنام پوچھو تو میں احمدی ہوں دخال اصفر

Page 75

طلب میں خدا کی اک دین دیکھا ہر 74 بہت خاک چھانی ہر اک جا دُعا کی پھر انجام پوچھو تو میں احمدی ہوں وساوس، ر زائل ہوئے مجھ سے زائل یقیں میرا کامل ہوں جنت میں داخل بارام پوچھو تو میں احمدی ہوں ہیں اشمارِ ایماں نجات اور عرفاں مقامات مرداں ملاقات یزداں جو قسام پوچھو میں کعبہ ہوں سب کا عجم کا تو ماوی عرب کا تو میں احمدی حرم اپنے رب کا ہوں پوچھو تو میں احمدی ہوں (الفضل ورمئی 1925 ء)

Page 76

75 نعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صَلَّ عَلَى اِمَامِنَا صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلى حَبِيْنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلى شَفِيعِنَا صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّ عَلى مَسِيحِنَا صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلَى وَلِيْنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ اُس کی نگاہِ جانفزا، اُس کا نفس حیات زا اُس کا کلامِ بے بہا، اُس کی دُعا فلک رسا ختم نگین اولیا، ظن مبین انبیا ساری ادائیں دلربا، نور خدا خدا نما صَلِّ عَلى حَبِيبِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ مربع عام تخت گاه، منبع فیض بارگاه لشکرِ آخریں سپاہ، آل میں اس کی پادشاہ

Page 77

76 شهر صیام و مہر و ماہ ، صدق پہ اس کے ہیں گواہ دم سے ہوئے عدو تباہ، زور قلم پناہ پناہ صَلَّ عَلى مَسِيحِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ مهبط وحي ذُوالجلال ماحی دخیل پر ضلال قاتل خوک بد خصال، فاتح جنگ انتہال صلیب بے مثال، غلبہ دین لازوال خوب لٹائے گنج ومال، کر دیا خلق کو نہال صَلَّ عَلى مَسِيحِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلى اِمَامِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وصف ہوں اُس کے کیا رخم ،ٹوٹ گیا یہاں قائم امن و امان کا علم، عذل وحگم، شرِ علم کے آگے سر میں کمی میٹنگ ہوئے عرب نجم کثرتِ غیب دمبدم نصرتِ حق قدم قدم صَلِّ عَلَى اِمَامِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ آیا نذیر فتح یاب، لاکھوں نشاں ہیں ہمر کاب تیرہ ہیں مہر و ماہتاب، ارض وسما میں اضطراب

Page 78

77 قحط ومرض، وبا، عذاب، کشف زمین وسیل آب جنگ عظیم و انقلاب، سارا جہاں ہوا کباب صَلِّ عَلَى رَسُولِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلَى مَسِيحِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ دورِ جالِ سُيِّرَتُ، عَهدِ عِشَارِ عُطِّلَتُ زور نکارِ فُجَرَتْ، شورِ قورِ بُعْثِرَتْ نارِ تحیمِ سُعِرَتْ، بُوئے نسیمِ أُخْلِفَتْ وَصلِ نُفُوسِ زُوجَتْ، وقتِ ظُهورِ أُقْسَتْ و صَلِّ عَلَى رَسُولِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمّدٍ صَلِّ عَلَى مَسِيحِنَا صَلِّ عَلَى مُحمّدٍ جمال یوسفی، شان جلال موسوی نج مسیح ناصری، خلق و شیخ محمدی ماہم و نیز منطقی، عاشق و و نیز فلسفی رنگ کمال ہر نبی، سحر قلم ادا نئی صَلِّ عَلى حَبِيْبِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمّدٍ صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّ عَلَى مُحَمّدٍ جائے سلام اولیں، ماہ تمام آخریں پادشه مجددیں، شہنشہ مبلغیں

Page 79

78 خیر ائم ہیں ہمنشیں ، فخر رسل ہیں جانشیں روضہ پاک وعنبر میں، خُلدِ بریں - برایں زمیں صَلِّ عَلَى مَسِيحِنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمّدٍ (الفضل 4 جنوری 1927ء) یہ نعت سالانہ جلسہ دسمبر 1926ء کے موقع پر حاضرین جلسہ کو سنائی گئی.

Page 80

79 میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا اسی عہد پر اپنے قائم رہوں گا گروں گا پڑوں گا جیوں گا مروں گا مگر قول دے کر نہ ہر گز پھروں گا میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا ہے احوالِ دُنیائے فانی محبت زبانی، عداوت نہانی ہے ہر عیش اور زندگانی خوشی اس کی کوئی نہیں جاودانی مكدر میں دنیا دیں کو مقدم کروں گا بُرائی، نفاق اور جھوٹی ستائش غلاظت نَجاست کی زریں نُمائش دلوں میں جگن اور سینوں میں کاوش جہنم ہے دنیا کی یارو رہائش میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا اگر دین کو اپنے کر لوں میں قائم تو فضلوں کا وارث رہوں گا میں دائم نہ گزرے گی یہ عمر مِثلِ بہائم نہ مالک کی خفگی نہ کچھ کوم لائم میں دنیا دیں کو مقدم کروں گا یہ اہلِ جہاں، خاص ہوں یا کہ عامی زن و مال کی کر رہے ہیں غلامی حکومت کے عزت کے سب ہیں سلامی نہیں دین بے کس کا کوئی بھی حامی میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا خدا کا ادب اور خلقت پر شفقت خلوص و نصیحت نبی کی محبت

Page 81

80 تَخَلُق به اخلاق باری“ بغائت عزیزو یہی دین کی ہے میں دنیا دیں کو مقدم کروں گا مجھے زالِ دُنیا سے کیا ہو گا حاصل تمع اور حسد اور جُملہ رذائل مرا علم باطل مری عقل زائل خدا اور بندے میں پردہ ہو حائل میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا اسے کوئی مل ڈالے پیروں کے نیچے تو چلتی ہے پھر آپ یہ اُس کے پیچھے جو دب جائے چڑھتی ہے سر پر اُسی کے مگر میں چلوں گا کہے پر نبی کے میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا اُدھر مال و دولت ادھر علم و حکمت اُدھر بے لگامی ادھر حق سے بیعت وہاں حُبّ فرزند و زن - جاہ و حشمت یہاں معرفت مغفرت اور جنت میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا جو دنیا پہ دیں کو کروں گا مُقدم تو وہ میرا دلبر وہ جانانِ عالم مقصود و مطلوب آبنائے آدم اُٹھا دے گا چہرے سے پردہ اُسی دم میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا وہ مجھےنفس وشیطاں سے یا رب بچانا جو کمزور ہو.اُس کو کیا آزمانا - نہیں اپنا ورنہ کہیں بھی ٹھکانا - میرا عہد یہ.خود ہی پورا کرانا کہ ”میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا (الفضل 7 جنوری 1927ء)

Page 82

81 نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے جو شخص دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کر کے پھر بھی منزل مقصود کو نہ پہنچے تو اس سے زیادہ افسوسناک کس کی حالت ہوسکتی ہے.ذیل کے اشعار میں بعض وجوہ اس ناکامی کی درج کی گئی ہیں.مثلاً بعض گناہوں کا ترک نہ کرنا، یکسوئی کی کمی، استقلال کی کمی، دین کے ساتھ دنیا کی ملونی، فقر بانیوں کی کمی ، دُعا کی کمی وغیرہ وغیرہ.اللہ تعالیٰ ہمیں ان ٹھوکروں سے محفوظ رکھے آمین.فریاد مرا دل ہے کباب خدا کی قسم مرا حال کہے.نہیں تاب مجھے کھا گئی ہائے یہ آتش غم نہ خدا ہی ملا.نہ نہ وصال صنم - نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے گناه گیا اُس کی تلاش میں سُوئے حرم رہِ شوق میں سر کو بنا کے قدم میرے بارِ گنہ نے کیا یہ ستم نہ خدا ہی ملا - نہ نه وِصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے عدم یکسوئی میرا اپنا ہی پائے ثبات ہے تم کبھی ذوق دھرم، کبھی شوق درم کبھی عشق خدا، کبھی عشق صنم نہ خدا ہی ملا.نہ وصال صنم -

Page 83

82 ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ہم خدا خوا ہی و ہم دنیائے دوں نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے کبھی یہ بہم مگر ان کی تلاش تھی ایک ہی دم دھرے کشتیوں دو میں جو ہم نے قدم نہ خدا ہی ملا نه وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے ترک استقامت - رہے وہی ہوتا ہے مورد لطف و کرم جو نگار کے کوچے میں جاتا ہے جھم مرا صدق و وفا میرا عزم تھا کم نہ خدا ہی ملا ملا - نه وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے قربانی کی کمی نہ ہوا تھا کسی کے نثار قدم مراتن- مرامن- مرا دھن- مرادم ره وصل تھی راہ فتا و عدم نہ خدا ہی ملا.نہ وصال صنم - نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے دعا کی کمی مرے رب ! میرے رب کرو مجھ پر کرم میرے تم ہی خدا.میرے تم ہی صنم مددے! مددے !! چه کنم! چه گنم ! نہ پلاؤ گے شربت وصل.تو ہم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے - (الفضل 14 /جنوری 1927ء)

Page 84

83 قصہ ہجر.ایک مہجور کی زبان سے قادیان کی زندگی اور بیرونی دنیا کے حالات کا مقابلہ ( ایا م سکونت قادیان) فراق کوچہ جاناں نے کر دیا افسوس جلا جلا کے مرے دل کو ایک انگارا کبھی وہ دن تھے کہ ہم بھی شریک محفل تھے ادھر تھا جام - اُدھر ساقی جہاں آرا کہاں وہ مجلس عُشاق حسن لاثانی کدھر وہ صحبت بزم نگار مه پاره ہمائے اَوج سعادت بدامِ ما بوده شراب وصل و تلاقی نصیب شد ما را خیال تک بھی نہ آتا تھا دل میں فرقت کا چڑھا تھا اتنا خُمارِ جمالِ دل آرا گھڑی گھڑی میں ترقی تھی علم کو میرے قدم قدم پہ عمل بھر رہا تھا طرارا مجھے نصیب تھا وہ بعد نفس و شیطاں سے کہ جیسے دُور ہے دنیا سے قطب کا تارا نہ رگرد میرے گلے کے تھا طوق مکروہات نہ مجھ کو رنج ومحن نے کیا تھا نا کارہ گناہ پاس پھٹکتا نہ تھا مرے دل کے خدا کے رحم سے مَغْلُوب نفسِ امارہ سُرور صُحبت ابرار ہر زماں حاصل کلام پاک کا ہر چار سمت نقارا نہاں تھا گنج قناعت خزانہ دل میں تھے میرے سامنے مفلس سکندر و دارا مری خوشی کی کوئی انتہا بتائے تو میں پیارا اپنے خدا کا، خدا مرا پیارا

Page 85

84 جدائی پڑے تھے ہم یونہی سرشار بزمِ جاناں میں کہ پیر چرخ نے اک تیر تاک کر مارا نہ وہ زمیں ہی رہی پھر نہ آسماں وہ رہا بس اک خیال رہا یہ کہ خواب تھا سارا ہزار حیف کہ ایام کامرانی کے گئے اور ایسے اُڑے جیسے آگ سے پارا اُٹھا کے گردشِ ایام نے چمن میں سے بھنور میں قلم دنیا کے مجھ کو دے مارا نکل کے خُلد سے دیکھا تھا جو کہ آدم نے دکھا دیا وہی قسمت نے ہم کو نظارہ فريق بحرِ محبت تھا پر ہزار افسوس ہوا سراپ جہاں میں خراب و آوارہ نہ پوچھیں یا تو مرا حال قدسیان حرم جو پوچھتے ہیں تو یہ کچھ کریں چارہ کدھر گیا وہ زمانہ کہاں گئے وہ دن؟ بنا ہوا تھا دل زار عرش کا تارا نگاہیں ڈھونڈتی پھرتی ہیں بزم دوشینہ تڑپ ہے دل میں کہ دیکھے وہ لطف دوبارہ بجھی ہے آگ پڑی رہ گئی ہے خارکستر متاع کھو کے لٹا رہ گیا ہے بنجارا بیرونی دنیا کی حالت اے ساکنانِ حرم یعنی ! قادیاں والو سنو کہ رشک ارم ہے تمہارا گہوارہ تمہیں بھی علم ہے امن و امان کا اپنے؟ تمہیں خبر ہے کہ عالم کباب ہے سارا ہے چپہ چپہ اندھیرا - قدم قدم ٹھوکر مگر گھروں میں ہے روشن تمہارے مینار ہلاک ہو گئی دنیا پیاس کے مارے تمہارے باغ میں پر چل رہا ہے فوارہ

Page 86

85 مری زبان سے سنے کوئی اس مصیبت کو کہ تم سے ہو کہ جدا کس قدر ہوں دُکھیارا گناہ و نفس و شیاطین و صحبت بز نے درخت نیکی و تقویٰ پر رکھ دیا آرا نہ کوئی ناصح مشفق نہ خیر خواہ دلی ہمیشہ گھات میں دنیا کی زال مگارہ بندھا ہے قید مصائب میں بال بال مرا نہ تاب شور و فغاں ہے، نہ ضبط کا یارا تو اے کبوتر بام حرم چه میدانی طپیدن دل مرغان رشته بر پارا (الفضل 28/جنوری 1920ء) اللہ میاں کا خط میرے نام ایک چھوٹی بچی کے خیالات مریم صدیقہ کو حضرت میر صاحب محترم نے نظم بنا کر دی تو ان کی چھوٹی بہن امتہ اللہ نے بھی کہا کہ ابا میرے لئے بھی ایک نظم بنا دو.اس پر ڈاکٹر صاحب نے متہ اللہ کے لئے جونظم بنائی وہ ذیل میں درج کی جاتی ہے.یہ ظم 29 دسمبر 1924ء کو کہی گئی تھی.قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا قرآن دل کی قوت قرآن ہے سہارا اللہ میاں کا خط ہے جو میرے نام آیا

Page 87

86 اُستانی جی پڑھاؤ جلدی مجھے سپاره تو ناظرے سے آنکھیں کروں گی روشن پہلے تو ناظر پھر ترجمه سکھانا جب پڑھ چکوں میں سارا مطلب نہ آئے جب تک کیونکر عمل بے ترجمے کے ہر گز اینا ممکن ہے نہیں گزارا یا رب تو رحم کر کے ہم کو سکھا دے قرآں ہر دکھ کی دوا ہو ہر درد کا ہو چارہ دل میں ہو میرے ایماں سینے میں نور فرقاں بن جاؤں پھر تو سچ سچ میں آسماں کا تارا عیسی مسیح آئے ایمان ساتھ لائے قرآن گم شده بھی نازل ہوا دوباره اب وقت آ گیا ہے اسلام کا ہو علیہ تو کمی پسندی قضا را ( مصباح یکم را پریل 1927ء)

Page 88

87 سلام بحضور سید الانام صلی اللہ علیہ وسلم وزگاه ذی شان خیر الانام شفیع الوری، مربع خاص و عام يصد عجز و منت بصد احترام یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام کہ اے شاہِ کونین عالی مقام علیک الصلوة علیک السلام - حسینان عالم ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حُسن اور وہ ٹور جبیں پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے.آفریں زہے خلق کامل - زہے حُسن تام علیک الصلوة علیک السلام خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی جنوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دُنیا وہ چھا رہی کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے علیک الصلوة اُس کا قیام علیک السلام محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیان کر دیے سب حلال و حرام علیک الصلوة علیک السلام

Page 89

88 نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع ہیں آپ میں لامحال صفات جمال اور صفات جلال ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال لیا ظلم کا کا عقو ނ علیک الصلوة علیک انتقام السلام مقدس حیات اور مطہر مذاق اطاعت میں یکتا، عبادت میں طاق مُطَهَّرُ سوار جہانگیر یکراں بُراق که بگوشت از قصر نیلی رواق محمد ہی نام اور محمد ہی کام علیک الصلوة علیک السلام علمدار عشاق ذات یگاں سپیدار افواج قدوسیاں معارف کا اک قلم بیکراں افاضات میں زندہ جاوداں پلا ساقیا آپ کوثر کا جام علیک الصلوة علیک السلام (الفضل12 جون 1928ء)

Page 90

89 دعا دعا کیجئے کہ حق دے استقامت کہ سب برکت وفا پر مجهز ھر ہے بہت اچھا عمل ہے جو ہو اروم أَوْ وَمْ مگر بھی دعا پر ہے دُعا بھی وہ کہ ہو مقبول باری فضل خدا پر ہے تو اے دل چھوڑ دے حرص و تمنا کہ اب سب کچھ خدا پر مجھز ہے 1 یعنی وہ کام جو مسلسل کیا جائے اور اُس میں ناغہ نہ ہو.

Page 91

90 میری تیسری لڑکی طیبہ کی آمین اللہ کا بڑا احسان طیبہ جی نے پڑھ لیا قرآن اے خدا، اے رحیم، اے رحمان کس قدر ہیں تیرے کرم ہر آن تو نے توفیق اور ہمت دی اور پڑھنے کے سب دیے سامان قاعدے، پارے اور کلام مجید پیر جی نے بنا دیے آسان یا تو پڑھتی تھی کل الف، بے، تے یا سنا آج ختم ہے قرآن شکر کیونکر ادا کریں مولیٰ ان گئث ہو گئے تیرے احسان نعمتیں تیری دیکھ کر بے حد ہوش پڑاں ہیں عقل ہے حیران جس طرح تو نے لفظ سکھلا کر کر دیا ہم کو محرم و شادان بس سکھا دے اسی طرح یا ربّ ترجمہ اور مطالب فُرقان قلب میں طیبہ کے بھر دے تو نور قرآن حلاوت ایمان کھول دے اس کے بھائی بہنوں پر راه مهر و محبت و عرفان سے اپنے کر یہی احسان اور جماعت کے سارے بچوں پر فضل اے عزیزو! سنو کے بے قرآن حق کو ملتا نہیں کبھی انسان اس لئے شوق سے اسے سیکھو تا بنو تم مُقرب یزدان میرے پیارو پڑھو اسے ہر روز صبح دم اُٹھ کے بادل شادان

Page 92

91 حسن محض الفاظ میں بھی برگت ہے پر معافی سے آئے گا عرفان ترجمہ اور حقیقت اور مطلت دین اسلام کی یہی ہیں جان جب تلک آئیں گے نہ سب معنی مشکلیں ہوں گی کس طرح آسان کام کرنے کے اور نہ کرنے کے کیونکر معلوم ہوں گے میری جان ہے ملاقات نصف یہ مکتوب پورے کرتا ہے وصل کے ارمان و احسان حضرت باری آئینہ ان کا ہے فقط قرآن عشق ہو گا بھلا کہاں پیدا خوبیاں اس کی گر رہیں پنہان اپنے مالک کی یہ کتاب پڑھو اس کی مرضی کے ہو اگر جویان عقل آتی ہے اس کے پڑھنے سے علم بڑھتا ہے ہر گھڑی ہر آن پاک کرتی ہے سب گناہوں سے دور کرتی ہے کفر اور عصیان اس سے حیوان بن گئے انسان اور انسان با خدا انسان اس سے وابستہ ہے حجات و فلاح مخھر اس پہ جنت و رضوان یار جانی کے منہ کی باتیں ہیں بجر کے درد کا ہیں یہ درمان یا الہی بنا دے ہم سب کو فضل فیض ނ سے اپنے ماہر قرآن اپنے خاص کر ہم کو تا کہ ہم دوسروں کو دیں فیضان آمین (الفضل 13 دسمبر 1929ء)

Page 93

92 آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری شرق سے مغرب تلک آپ کی ہیبت طاری عزش سے فرش تلک آپ کا سکہ جاری سیر راه بدی، شافع روز محشر یاں ہے دنیا کو ہدایت، تو وہاں غمخواری ہاتھ کو جس کے کہیں حضرت حق اپنا ہاتھ جان کی جس کی قسم کھا ئیں حضور باری جس کے احسان کے بوجھوں سے دبے جاتے ہیں جن و حیوان و ملک ، آدمی ، نوری ، ناری جس کی پاکیزہ توجہ نے مٹا دی بالکل قوم کی قوم سے اک آن میں ہر بدکاری جس نے اخلاق کی تکمیل دکھا دی کر کے جملہ اڈیان تھے اتمام سے جس کے عاری جس کی اک جنبش لب نے وہ دکھایا اعجاز پشت ہا پشت کے رندوں کی چھٹی میخواری صحبتِ پاک کا ادنی سا کرشمہ یہ تھا بزم افلاک میں داخل ہیں سبھی درباری ہو گئی خلق خدا مدح سے اُس کی عاجز قاب قوسین کے درجہ سے بڑھی جب یاری ملک کا، قوم کا، رنگت کا قضیہ بیٹا آ گئی حلقہ تبلیغ میں دنیا ساری اس کے آنے سے ہوئیں شیخ شرائع پہلی آگے سورج کے چمکتی ہے کہاں چنگاری و عرفان حقائق کا وہ بحر ذخار ہر بن مو سے ہوا چشمہ حکمت جاری اُس کے صدقے میں وہ قرآن ملا جس سے مُدام رزم اور بزم میں اپنا رہا پلہ بھاری جس کے فیضان سے اُمت میں رہے گا دائم چشمه وحی و کرامات و نبوت جاری جذب و توحید و تو گلن ہو کہ ہو قلب سلیم عقل صافی ہو کہ اعجاز کی قدرت کار می وتوحید 1 یعنی اقتداری معجزات

Page 94

93 کامیابی ہو کہ ہو قوت قدسی کا ظہور رفع نقصان و ضرر رغبت نیکوکاری حسن و احسان و فتوحات و کمال تعلیم خدمت خلق ہو یا عشقِ جناب باری الغرض جو بھی ہوں معیار کمالات بشر میرے آقا کی مُسلَّم ہے وہاں سرداری تیری ایک ایک ادا صلِ علی صلِ علیٰ تیری ہر آن پہ سو جان سے جاؤں واری حسن يوسف دمِ عیسی ید بیضا داری وانچہ خوباں ہمہ دارند تو تنها داری (الفضل خاتم النبيين نمبر 1929ء) دن مدتوں میں آئے ہیں پھر اہلِ حال کے طالب ہیں مجھ سے بڑھ کے وہ میرے وصال کے شیدا میں اُن کے قال کا، وہ میرے حال کے کیا کہنے اُس نگار کے حسن و جمال کے ناز و ادا کے، آن کے شوخی کے، چال کے مہر و وفا کے رحم کے احسان ولطف کے شوکت کے عز وشان کئے جاہ وجلال کے برسوں سے زیر مشق اطبا ہے زخم دل ! وہ آئیں گے تو آئیں گے دن اند مال للہ کچھ تو بولئے یا رُخ کو کھولیے اک تو خموشی دوسرے یوں پر دہ ڈال کے بے درد و سوز و عشق اگر وصل ہو کوئی لے جاؤ ایسے وصل کو واپس سنبھال کے شوقِ دُعا و ذوقِ رضا جمع کر کہ یاں ملتا ہے کچھ سوال پہ کچھ بے سوال کے راه وصالِ یار نہیں پل صراط ہے ہر اک قدم یہاں پہ خدارا سنبھال کے

Page 95

94 بن جائے گا کبھی نہ کبھی خود بھی بے نظیر در پر پڑا رہے گا جو اُس بے مثال کے آگے بڑھے کہ پیچھے ہٹے کیا کرے غریب جلوے جو دیکھتا ہو جمال و جلال کے کیا پھونکنے کو آئے تھے تم آشیانِ دل چلتے بنے جو آگ محبت کی ڈال کے رندی کی اپنے منہ سے اُٹھا دوں اگر نقاب ابدال آئیں کھولنے تسمے نِعال کے تیغ نگاہِ یار نے بس کھیل کھیل میں ٹکڑے اُڑا دیے دل آشفتہ حال کے اب دیکھیں آکے عشق کی قربانیاں ذرا دکھلا چکے حسین تماشے جمال کے جی چاہتا ہے آپ کے قدموں میں ڈال دوں ہاتھوں سے اپنے اپنا کلیجہ نکال کے کہہ دو ان اہلِ قال سے دفتر پیٹ لیں دن مدتوں میں آئے ہیں پھر اہلِ حال کے پیرے کہ دم ز عشق زند بس غنیمت است دل تو جواں ہے خواہ یہ دن ہوں زوال کے اے شاہ محسن تم پر نہیں کیا زکوۃ حسن یا لطف آ رہا ہے فقیروں کو ٹال کے بس اتنی التجا تھی کہ تم بخش دو مجھے دامانِ مغفرت کو معاصی پر ڈال کے مل جائے ایک قبر جوار مسیح میں اور حشر اپنا ساتھ ہو احمد کی آل کے آمین (الفضل 25 /اکتوبر 1932ء)

Page 96

95 محمد مصطفیٰ ہے مجتبے ہے 6 نومبر 1932ء کو قادیان میں جلسہ سیرۃ النبی کے موقع پر ایک مشاعرہ ہوا.جس میں مصرع تھا محمد پر ہماری جاں فدا ہے وہاں ایک طالب علم نے نہایت خوش الحانی سے یہ نظم پڑھی.سامعین پر اس کا اس قدر اثر ہوا کہ بے ساختہ سب کی زبانوں پر درود شریف جاری ہو گیا اور بعض آبدیدہ ہو کر جھومنے لگے.محرم مصطفى ہے مجھے ہے محمد ہے دل رُبا ہے محمد جامع حسن شمائل محمد محسن ارض و سما ہے کمالات نبوت کا خزانہ اگر پوچھو تو ختم الانبیاء ہے شریعت اُس کی کامل اور مدل اور مدلل غذا ہے اور دُعا ہے اور شفا ہے مبارک ہے یہ آنحضرت کی امث ہ عالم اس کا مثلِ انبیاء ہے وہ سنگ گوشته قفر رسالت یہی تورات نے اس کو لکھا ہے گرا جس پر ہوا وہ چُورا چورا گرا جو اس یہ خود ٹکڑے ہوا ہے کہا ہے سچ مسیح ناصری نے نزول اس کا نزول کبریا ہے ہے نہیں دیکھا ہے ان آنکھوں نے اس کو مگر دیکھا مثیل مصطف میرے تو ظن سے ہی جب اُڑ گئے ہوش تو پھر اصلی خدا جانے کہ کیا ہے

Page 97

96 کروں کیا وصف اُس سمن ثمن الضحى کا کہ جس کا کا چاند چاند یہ بذرُ الدُّجى ہے دل محمد تیر راه بدلی ہے محمد شافع روز جزا ہے محمد فخر شان آدمیت مظهر ذات خدا ہے محمد باعث تکوین عالم جسے کولاک خالق نے کہا ہے محمد مالک مہر نبوت دنبی گر“ اس لئے کہنا روا ہے محمد پیکر عصمت سراسر کہ ہر بات اُس کی وحی بے خطا ہے محمد قاب قوسین محبت شفیع وصل انسان و خدا ہے محمد رحمة للعالمیں ہے عد و تک جس کے احساں سے دبا ہے محمد حامل توحید باری جو عالم کے لئے راز بقا ہے محمد صاحب اخلاق کامل جمالی اور جلالی ایک جا ہے ہر اک حالت سے گزرا جب کہ وہ خود تو ہر اک خُلق بھی دکھلا دیا ہے محمد راز دان علم یزداں کہ باطل جس سے بحر فلسفہ ہے قائم کوثر انعام اک نعمت جہاں بے انتہا ہے ثنا کیا ہو سکے اس پیشوا کی کہ پیر و جس کا محبوب خدا ہے 1 یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 98

97 ہدی اور دینِ حق کا لے کے ہتھیار ہر اک ملت پہ وہ غالب ہوا ہے علم بردار آئین مساوات بڑا احسان دنیا پر کیا ہے اُٹھایا خاک سے روندے ہوؤں کو ہر اک جانب سے شور مرحبا ہے ہوا قرآن اُس کے دل پہ نازل وہ دل کیا ہے کہ عرش کبریا ہے وہی زندہ نبی ہے تا قیامت کہ لنگر فیض کا جاری سدا ہے امام سالکان برق رفتار کہ سدرہ ایک شب کی منتہی درندے بن گئے انسان کامل اثر صحبت کا خود اک معجزہ ہے یتیمی شہنشاہی غرض سچ مچ محمد ہے پہنچا مگر پھر بھی وہی عجز و دُعا ہے جبھی تو چار سُو صَلّ على ہے الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ ہے اخبار فاروق14 /نومبر 1932ء

Page 99

98 کہ جتنے زنگ مخفی ہیں محبت سب کی منتقل ہیں کلیجہ ہے کہ آتش ہے یہ آنکھیں ہے کہ بادل ہے نہ اس پہلو مجھے کل ہے نہ اُس پہلو مجھے کل ہے گریباں چاک کر ڈالا اسی جوش محبت میں ہزاروں حرکتیں ایسی کہ گویا عقل مختل.طواف قصر جاناں میں کبھی کٹتی تھیں یہ راتیں ہے ہراک زینے پہ اک سجدہ کہ یہ دلبر کی ہیکل ہے ہنسا کرتے تھے سُن کر عشق کے رستے کی سختی ہم مگر جب خود چلے دیکھا کہ سر تاسر ہی دلدل ہے بجائے نیند برسوں سے مقدر میں ہے بے خوابی عجب بستر ہے کانٹوں کا بظاہر گرچہ مخمل ہے کسے دیکھیں ؟ کہاں دیکھیں ؟ جدھر دیکھا وہ ہی وہ ہے جو ظاہر ہے جو باطن ہے جو آخر ہے جو اوّل ہے ہم اُس سے ہیں ، وہ ہم میں ہے، جُدائی ہو نہیں سکتی 1 یعنی مسجد مبارک قادیان نظر آئی دُوئی جس کو، وہ خود نااہل و اخول ہے

Page 100

99 تخبارِ خاک پائے شہسوار عشق ہیں ہم بھی ہماری گرد کو بھی پا نہیں سکتا جو پیدل ہے یہ ہے پیغام مالک کا کوئی سالک کو پہنچا دے کے میرے غیر سے لذت تجھے زہر ہلاہل ہے کہاں تک درپئے راحت طلب کر منبع راحت کہ جس کو مل گیا وہ اُس کو جنگل میں ہی منگل ہے یہ جان و مال اور عزت اُنہی قدموں پہ جا ڈالو سوال وصلِ جاناں کا مرے پیارو! یہی حل ہے نہیں کچھ چند روزہ ہاؤ ہو کی قدر اُن کے ہاں پسند اُن کو وہ اُلفت ہے جو دائم ہے نہ ہو تو فیق کرنے کی تو دل میں تو ارادہ ہو مسلسل ؟ کہ نیت نیک مومن کی عمل سے اُس کے افضل ہے زبور عشق میں آیت عجب یہ اک نظر آئی کہ شب بھر سو کے لاف عشق جو مارے وہ پاگل ہے یعنی قرب الہی کے لئے تہجد پڑھنا ضروری ہے.(الفضل 3 جنوری 1933ء)

Page 101

100 خدام احمدیت خدام احمدیت نعرے لگا رہے ہیں اے سونے والو جا گو! طوفان آ رہے ہیں اُٹھو! نمازیں پڑھ لو اور کچھ دُعائیں کر لو ہم فائدے کی باتیں تم کو بتا رہے ہیں گسن لو کمر، اگر تم خادم ہو سلسلے کے یہ دن جوانیوں کے سر عث سے جا رہے ہیں فضل عمر ہیں رہبر، جو ٹور ہیں سراسر تاریکیوں میں ہم کو رستہ دکھا رہے ہیں خدمت ہو اور صداقت محنت ہو اور دیانت ان خصلتوں کو حضرت ہم میں رچا رہے ہیں پروردگار اکبر! اک لطف کی نظر کر ہم تیرے آستاں پر سر کو جھکا رہے ہیں ہر لب پہ یہ صدا ہو جب ہم گھروں سے نکلیں خدام احمدیت خدمت کو جا رہے ہیں (1938)

Page 102

101 رسول قادیانی مرے ہادی! رسول قادیانی تیری دعوت پیام زندگی ہے مرے مہدی! رسول قادیانی مرے میي رسول قادیانی جزاک الله فی الدارین خیرا میرے ساقی! رسول قادیانی بھٹکتوں کو خدا تک کھینچ لایا میرے دائی! رسول قادیانی یہی ہر دم دعا رہتی ہے لب پر مرے قدسی! رسول قادیانی تیرے کوچے میں گزرے زندگانی مرے جانی رسول قادیانی تیرے انوار سے روشن جہاں ہے ترا فیضان بحر بیکراں ہے تیری تعلیم کی حکمتِ عیاں ہے تری تبلیغ مشہورِ زماں ہے ترا روضہ ہے یا باغ جناں ہے تیرا مرکز ہے یا دار الاماں ہے تری اولاد رحمت کا نشاں ہے کوئی ساقی کوئی پیر مغاں ہے ترا مداح خلاق جہاں ہے کہ تو اسلام کی روح و رواں ہے ہر اک جانب یہی شور و فُغاں ہے خبر لے آے مسیحا تو کہاں ہے“ تجھے حق نے حق نے عطا کی کامرانی بنی جاتی ہے دنیا قادیانی 1 یعنی اقتداری معجزات

Page 103

102 اُٹھا لے کر محمد کے علم کو کلام اللہ کی شان اتم کو دلائل سے دعا سے معجزوں سے پہلا ڈالا عرب کو اور عجم کو قلم کر دیں حریفوں کی زبانیں چلایا تو نے جب سیف قلم کو اثر کیسا تھا تیرے نَبتَھل میں گئے دشمن سب ہی ملک عدم کو ہزاروں رحمتیں تجھ خدا کی نشاں کیا کیا دکھائے تو نے ہم کو تیرے صدقے امام آسمانی غلام احمد نبي قادیانی 66 صبا روضے رسول اللہ دے جائیں مرا احوال رو رو کے سنائیں خبر تم نے نہ لی ہم غمزدوں کی بھلا کیا ہے یہی اُلفت کا آئیں؟ وہ مکھڑا چاند سا آتا ہے جب یاد تڑیتے پھرتے ہیں تیرے مجانیں فراق یار کے ان دل جلوں کو وصال یار پن کیونکر ہو تسکیں بہت کم رہ گئے اب تو صحابی اُڑے جاتے ہیں دنیا سے یہ شاہیں ہوا کرتا تھا وہ بھی کیا زمانہ کہ آتے تھے تمہیں حق سے فرامیں تیرے عاشق تیری پیاری زُباں سُنا کرتے تھے اُلفت کے مضامیں لگا کرتیں مجالس پنجگانہ ہوا کرتیں دُعائیں اور آمیں اُترتا تھا کلام حق شب و روز نہ وہ باتیں کسی نے پھر سُنائیں کہاں وہ بزم ہائے بلبل و گل کہاں وہ حلقہ ہائے ماہ و پرویں 1 پنجابی

Page 104

103 کہاں وہ قصہ مجنوں و لیلی کہاں وہ نقشہ فرہاد و شیریں نشہ اُن کا ہے اب تک سرز میں باقی جو ہم نے حجتیں تیری اُٹھائیں یہ جان و مال سب قربان تجھ پر کہ راہیں تو نے مولا کی دکھائیں کہاں ملتا ہمیں وہ یار جانی! ہوتا گر رسول قادیانی! ترے قدموں میں اے بزرِ مُنوَّر جگہ تھوڑی سی آ جائے میر تمہارے پیر ہوں اور میرا سر ہو اگر قسمت ذرا ہو جائے یاور تری کرنوں سے ہو جاؤں میں روشن تیری خوشبو سے ہو جاؤں مُعَطَّرْ جمال ہم نشیں مجھ کو بنا دے مور اور مُطَيَّر اور معتبر سرور قُرب رُوحانی کے ہمراہ خدایا! قرب جسمانی عطا کر فرشتے بھی کہیں پھر ہو کے حیراں اُٹھوں میں قبر سے جب روز محشر و مسیحا کی شفاعت کی نشانی کھڑا ہے دیکھ لو قادیانی صدی گزری ہے فرقت میں تہائی بھلا اتنی بھی کیا لمبی جدائی میرے آقا میری ایک عرض سُن لو نہیں رکتی ہے منہ پر بات آئی ہوئے بدنام اُلفت میں تمہاری رکھایا نام اپنا میرزائی ہزاروں آفتیں اس راہ میں دیکھیں مگر لب پر شکایت تک نہ آئی یہی بدلہ تھا کیا مہر و وفا کا! کہ اتنی ہو گئی بے اعتنائی

Page 105

104 وہ صورت دیکھتے تھے جس کو ہر روز کچھ ایسی آپ نے ہم سے چھپائی کہ آنا خواب تک میں بھی قسم ہے نہ تھی گویا کبھی بھی آشنائی یر خم یا نبی اللہ! رحم دہائی یا رسول اللہ ! دُہائی درونم خون شد در یادِ جاناں زبانم سوخت از ذکر جدائی کہیں ہم کس درد نهانی ނ تیرے مسیح مسیحا معجزہ اپنا دکھا رو قادیانی دعا دو اور مریضوں کو شفا دو میرے دل کی لگی اب تو بجھا دو پس پردہ ہی اک جلوہ دکھا دول غم روز حساب و دردِ أمراض یہی اب رہ سفارش سے وَاِنْ تَغْفِرُ لَهُم کی گنه گئے ہیں میرے خدا سے 1 آشنا دو بخشوا دو کرو کچھ نفخ دَم رُوح القدس کا اور اک بگڑی ہوئی قسمت بنا دو ہے سنا کہ قُم باذن الله چلا دو تمہاری جنبش لب پر نظر کرو لله اتنی مہربانی میرے تحسین مسیح قادیانی 1 یہ نظم لکھ کر میں نے حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھا آپ نے مجھے ایک چھڑی دستی عطافرمائی اور کہا کہ تم ان کو یعنی حضرت ( اماں جان.ناقل ) کو آج سیر کرالا ؤ تین دن تک تو میں ان کے ساتھ سیر کو جاتارہا آج تم ساتھ جاؤ اور شاید یہ کہا کہ مجھے فرصت نہیں ہے.

Page 106

105 خدایا لطف کی ہم پر نظر کر خطاؤں سے ہماری درگزر کر ملائک بھیج نصرت کے الہی ہماری کوششوں کو باروز کر بہت کمزور ہم بندے ہیں تیرے ہماری سب مہمیں آپ ئز کر دلوں کی سب کدورت پاک کر کے ہمیں آپس میں تو شیر و شکر کر ہمارے دشمنوں کو دے ہدایت ہماری نسل کو ہم سے بھی بڑھ کر فتح نصیب دوستاں و ظفر کر فدائے ملت خیر البشر کر خلیفہ کی ہماری تو سیر ہو خلیفہ کو ہماری تو سپر کر اور اپنی مغفرت سے بہرہ ورکر الہی عاقبت محمود کر ملے طفل ہم کو کو نعیم جاودانی میرزائے آمین قادیانی (الفضل22 / مارچ1939ء)

Page 107

106 دد مسلمان وصیت الرسول "بر موقع حجۃ الوداع کا خون تم پر حرام اسی طرح جیسے کے عرفہ حرام مسلمان کا مال تم پر حرام ہے جیسے کہ حج کا مہینہ حرام مسلمان کی تم په عزت حرام اسی طرح جیسے کے مکہ حرام مسلمان کی عزت و جان و مال سدا اُن کا کرتے رہو اخترام امت کو حضرت نے کی کہ پہنچا کو رو یہ میرا پیام حقوق العباد اس میں سب آ گئے جو عامل ہوں اُن پر خدا کا سلام الفضل جنوری 1940ء)

Page 108

107 لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله نہیں کوئی محبوب تیرے سوا نہیں کوئی مطلوب تیرے سوا نہیں کوئی مقصود تیرے سوا نہیں کوئی معبود تیرے سوا پیارے ترا الله ہے خلائق کا تو ہی شہنشاہ ہے ہر اک عیب سے پاک ہے تیری ذات ستائش کے قابل ہیں جملہ صفات کریں تاکہ بندے سعادت حصول محمد کو بھیجا بنا کر رسول الفضل 17 / دسمبر 1942ء)

Page 109

108 دعائے مغفرت اے خدائے پاک، رب العالمیں العلمیں اے کہ تو میرا بھی رب ہے بالیقیں اے اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ہے تو ہی رزاق و ذُوالقوة متين جو بھی چاہے جس کو دے دے بے حساب کچھ کمی تیرے خزانوں میں نہیں ابن آدم کے مسترد کر دیے چاند اور سورج ستارے اور زمیں دودھ کو پستان میں پیدا کیا پیشتر اس سے کہ پیدا ہو جنہیں نعمتیں تیری گنے کیونکر بشر یاں تو عاجز ہیں خیار المرسلین میں بھی ڈر پر اک سوالی ہوں کھڑا ہاتھ خالی یاں سے دے بشارت عاقِبَتُ بالخَیر کی مُطْمَئِن ٹلنے کا نہیں ہو، تا مرا قلب حزیں خوف سے اور حزن سے آزاد کر خاکساروں کو نہ رکھ اند وہ گیں و ازل سے تا ابد قدوس ہے میں ہوں گندہ بلکہ ہوں گندہ تریں کیا شکایت غیر کی تجھ سے کروں نفس ہی اپنا ہے مارِ آستیں آتش دوزخ سے مل جائے اماں اُس کے سہنے کی مجھے طاقت نہیں ہو عذاب قبر، یا کثر و صراط سب مصائب سے بچا میرے تئیں میری ذلت اور تباہی دیکھ کر خوش نہ ہو کم بخت شیطان لعیں روح میری اے مرگی پاک کر چشم پوشی یا غَفُورَ الْمُڈ نہیں ور گزر نرمی بوقت احتساب از برائے رحمة للعالمین 1 خیار المرسلین کے معنی ہیں بڑے بڑے پیغمبر ، نہ کہ حضور اکرم حضرت محمد مص

Page 110

109 فضل سے اپنے وہ جنت کر عطا جس کو سب کہتے ہیں فردوسِ بریں ہو جوار حضرت احمد نصیب ہیں ہمارے تو وہی نعیم انگریں عبد الْحَقْنَا بِهِمُ کا پاس کر کچھ مزا اُن سے الگ رہ کر نہیں الْحَقْنَابِهِمُ پردہ پوشی دونوں عالم میں رہے تیری ستاری یہ رکھتا ہوں یقیں بے عمل اور طالب خُلدِ بریں آفریں اے جانِ مَن صد آفریں اور کیا دکھلاؤں گا اپنے عمل مانگنا تک تو مجھے آتا نہیں کیا کہوں اور کیا کروں میرے خدا آ گیا نزدیک وقت واپسیس خیر جو مرضی میں آئے کر سلوک چھوڑتا ہوں تجھ یہ سب دُنیا و دیں ہر کہ سر تا سر بود احسان و جود جز به نیکی هیچ ناید زاں حسیں تو تو خود واقف ہے میرے حال کا میرے مولا میں کسی قابل نہیں کیا نہ رحم آئے گا تیرا جوش میں؟ کیا پکاریں اپنی جائیں گی یونہیں مغفرت اے میرے مالک مغفِرت المدد! اے میرے خیر الناصریں میرے اِن الفاظ میں تاثیر ڈال اور اجابت سے انہیں کردے قریں یا الہی! اُس جو بھی مانگے دعا نازل کر قبولیت وہیں آمین (الفضل 23 دسمبر 1942ء) 1 حضرت میر صاحب کی یہ دعا قبول ہوگئی اور آپ 18 جولائی 1947 ء کو انتقال فرما کر جوار حضرت احمد میں دفن ہوئے.(محمد اسمعیل پانی پتی )

Page 111

110 وقت نرخ بالا کن کے ارزانی ہنوز..(1)..حسن لاثانی کا جلوہ دیکھ کر عشق فانی کی نہ کچھ عزت رہی لاکھ پردے ہوں، چُھپا سکتے نہیں اِس رُخ زیبا کی تیرے روشنی کیا ہوئے یہ جان و دل ہوش وحواس وائے تیری زُلف کی غارت گری وحی و الہام و گشوف و معرفت ہیں یہ سب رنگینیاں گفتار کی کس قدر محمور تو نے کر دیا! اے کلام یار کی افسوں گری پر، ہر قوم میں پیغامبر کتنی شفقت ہے مرے جاناں تری جس نے جو مانگا عطا اُس کو کیا کون ہے عالم میں تجھ جیسا سخی گنز مخفی تھیں تیری عالی صفات اُن کی عارف بر حقیقت کھول دی پر علم و دانش، اتقا، صبر و دُعا معرفت، محنت، تفکر ، عاجزی گھل گیا ان گنجوں سے جب وہ گنج فائدوں کی پھر نہ کوئی حد رہی کسے چوں مہربانی سے گنی از زمینی آسمانی مے تیرے احسانوں کا انداز و شُمار جانتا ہوں یا تو کچھ میں یا تو ہی قدر جوہر، قیمت لعل و گہر شاہ داند یا بداند جوہری پر کیا یہ سچ ہے یا فقط ہے دل لگی؟ ہر دو گنی عالم قیمت خود گفته نرخ بالا کن که ارزانی هنوز

Page 112

111 ·(2).یہ تری شوخی یہ انداز حرام یہ تیرے ناز و ادا یہ دھوم دھام اس قدر جُود و سخا لطف و کرم اس قدر عقل و خرد حکمت کے کام عرش سے تا فرش ظاہر ہیں تیرے دبدبه، صؤلث ، حکومت انتظام من اگر می داشتم بال و پرے می پریدم سوئے کوئے تو مدام علم کامل نکتے نکتے پر محیط ذرے ذرے پر ہے قدرت کی لگام اک طرف نعمت ، تو اک جانب علاج کس قدر انعام! کتنا انتقام حسن و خوبی، دلبری بر تو تمام صحبت بعد از لقائے تو حرام کہہ رہی ہے دلبری سے عاشقی ہر دو عالم قیمت خود گفته نرخ بالا گن بالا کن که ارزانی بوز ہنوز ذرہ ذرہ خلق کا تجھ پر (3).فنا لیک انساں سب سے بڑھ کر ہے فدا کر دیا اپنے وطن کو خیر باد عزیزوں کو خدا حافظ کہا تیری خاطر بیبیاں بھی ترک کیں اور بچوں تک کو قرباں کر دیا سلطنت پر لات ماری بے دھڑک دل میں تیرا عشق جب داخل ہوا دولت و املاک و عزت چھوڑ کر بن گئے در کے فقط تیرے گدا کوئی سمجھاتا تو فرماتے تھے یوں ما نمی خواهیم ننگ و نام را سر دیے لاکھوں نے تیرے نام پر کس خوشی سے جان تک کر دی فِدا

Page 113

112 تو نمک با ریختی در جان ما جانِ جانِ ماستی جانان ما مرحبا! حق کے شہیدو! مرحبا خود کو بھیڑوں کی طرح کٹوا دیا ذکر شان هم می دهد یاد از خدا صدق و رزان در جناب کبریا جدا شہزادہ عبداللطیف جس نے آئین وفا زندہ کیا ظالموں نے ہڈیاں بھی توڑ دیں لیکن آخر تک یہی کہتا رہا شاد باش اے عشق خوش سودائے ما اے طبیب جملہ علت ہائے ما نعمت اللہ، نُور علی، عبدالحلیم لے کر گئے حق محبت بس ادا عاشقان را صبر و آرام گیا توبه از روئے دلآرا ما کجا سے محفوظ تھے جو راستباز آفتیں اُن پر تھیں مرنے سے سوا زندگی گویا کہ قیمے کی مشین رات دن تلخی، مصیبت، ابتلا جرمِ اُلفت میں تیرے اے جانِ جاں ہر طرح کا دکھ شیاطیں نے دیا خونِ دل کھاتے تھے روٹی کی جگہ سیر بھی گر تھی تو پر یہ سب سہتے رہے تیرے لئے مرحبا صل علی صل علی قتل سیم کربلا گر قضا را عاشقی گردد اسیر بوسد آن زنجیر را کز آشنات 1 ان تینوں کو امان اللہ خان ، امیر کا بل نے سنگسار کیا تھا، بوجہ احمدیت کے.2 الہام حضرت مسیح موعود

Page 114

113 میں نے بھی دیکھا ہے اک ایسا عزیز بل تیری خاطر ہتھکڑی تھا چومتا سچ بتا دے جانِ من! کیا بات ہے؟ اس قدر کیوں وصل مشکل کر دیا؟ دیکھ کر عاشق کی عالی ہمتی عالم قیمت خود گفته ہر دو نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز ·(4)..يُوسُف کنعاں کی گاہک پیر زال اس سے بڑھ کر ہے عجب یاروں کا حال روئی کا گالا جو اک لائی تھی وہ کچھ تو اُس کے پاس تھا کہنے کو مال لیک ہم تو اپنے یوسف کے لئے ہاتھ خالی کر رہے ہیں قیل و قال ایک دِل بس كُلُّهُمْ اپنی متاغ اور ہے بدلے میں یوسف کا سوال ساتھ ہی یہ خبط بھی ہے موجزن ہم سے بڑھ کر کون ہے اہلِ منال وہ اگر ہے صاحب حسن و جمال ہم بھی اپنے گھر کے ہیں اہلِ کمال ہر دو عالم قیمت خود گفتم نقد دل دونوں سے ہے پر قیمتی نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز ·(5).کیا مبارک یہ زمیں اور یہ زماں آئے ان میں احمد والا نشاں شمار برکتیں ہمراہ لائے بے عاشقوں نے حسن کا پایا نشاں ہو گئی تیری رضا ارزاں بہت باغ اُلفت سے اُڑی ساری خزاں 1 شیخ عبدالرحمان مہر سنگھ

Page 115

114 عشر اپنے مال کا دے جو کوئی نیک نیت سے ہوں گر قُر بانیاں مردِ مسلماں، سادہ دل احمدی از مخلصان قادیاں اُن کو ملتا ہے بہشتی مقبرہ ہے فقط اتنا ہی یارو امتحاں منزل شاں برتر از عرش بریں بس نہاں اندر نہاں، اندر نہاں وعده وصل و رضا اُن سے ہوا از جناب حضرت ذی عزّ و شاں تیری قیمت چند درہم ! العیاذ عقل سے بالا ہیں یہ نیرنگیاں یا تو خود مطلوب طالب بن گیا یا ہے کوئی راز پھر اس میں نہاں ہر دو عالم قیمت خود گفته اس قدر پھر کیوں رعایت ہو ہو گئی نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز ·(6).اے میرے اللہ! اے میری سپر کون ہے جو تُجھ سے ہو گا خُوب تر ایکه میداری تو بر دلها نظر ایکه از تُو نیست چیزے مُسْتَتَرُ عالم کو تو ہی ہے پالتا فضل سے اپنے ہمیں کر بہرہ ور سارے.رحمتیں کثرت سے ہوں اور بار بار اے مرے مالک جزا دے بیشتر سب جہاں جگمگ تیرے انوار سے ٹور کے پرتو فگن شمس و قمر حسن سے تیرے ہے سب جوش و خروش عشق کا تیرے تمامی شور و شر ہیں تصرف میں ملائک جن و انس حکم پر آقا کے ہے سب کے نظر ماچساں بندیم از دلبر نظر ہمچو روئے تو کُجا روئے دگر

Page 116

115 تو ہے گر ، سب کچھ ہے ، ورنہ کچھ نہیں بات گل اتنی ہے قصہ مختصر خالق و باری مُصوّر تیری ذات ظاہر و باہر خفی و مُسْتَتَرُ سر اُٹھا سکتے نہیں اس بوجھ سے ہم پہ احساں ہیں مسلسل اس قدر : کی و قیوم و صمد بر و کریم با جلال و با جمال و با خبر بخش دے میرے گناہ میرے غفور ظاہری ہوں، خُفیہ ہوں یا خُفیہ تر عاقبت محمود از لطف و کرم جسم و جاں محفوظ از نارِ سفر تیرے احسانوں سے رہتے ہیں مُدام جان قُرباں، دل گداز اور چشم تر شکر تیری نعمتوں کے کیونکر ہوں ہوگئی اس بوجھ سے دُہری کمر کس طرح میں جان و دل قرباں کروں تا کہ پاؤں مہربانی کی نظر جلوہ گر کر آگ اپنے عشق کی جس سے پھک جائیں مرے قلب و جگر عاشقی آه سرد و رنگ زرد و چشم تر احمدیت عاشقی کم خور و کم گفتن و خلال حرام جان به یار ونفس دوں زیر و زیر احمدی جو حُسن کا ہر دو ہے جوہری کہہ رہا ہے برملا اور بے خطر عالم قیمت خود گفته جان من از قدر خود واقف نه؟ نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز (الفضل 30 دسمبر 1942ء)

Page 117

116 نوائے تلخ تبلیغ مبلغ میرے بھائی، میرے پیارے بات اک سُٹنا توجہ گر نہیں کرتی تیری تبلیغ پر دنیا نہ دل اپنا برا کرنا نہ کوشس اپنی کم کرنا کہے جانا کہے جانا لگے رہنا لگے رہنا مقدر ہے تیرے حق میں خدا کی نصرتیں پانا ہمیشہ ذہن میں اپنے مگر مضمون یہ رکھنا نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چومعمل را گراں بینی عبادات اگر قاری کو قرآں سے نہ ہوتی ہو کوئی رغبت نمازوں میں نہ وارد ہوئر ور و گیف کی حالت اگر طالب کو علم دین سے کچھ بھی نہ ہو نسبت تو جی چاہے نہ چاہے پر نہ چھوڑے مشق کی عادت علاج اس کا یہی ہے بس لگے رہنا بصد شدّت خدا چاہے ضرور آنے لگے گی ایک دن لذت

Page 118

117 نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چومحمل را گراں بینی دعا دعا مانگو ہر اک حاجت پہ اللہ سے دعا مانگو ضرورت ہو جو مشکل تر تو محنت سخت تر کر دو اگر مطلب بہت اعلیٰ ہے اونچے تم بھی ہو جاؤ غرض جتنا بڑا مقصد ہے اُتنی ہی دعا بھی ہو اگر ہوں راستے میں دیتیں، روکیں، نہ گھبراؤ یہی کہتے چلے جاؤ یہی کہتے بڑھے جاؤ نوارا تلخ ترمے زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی مالی خدمت کمی بیشی کی فکروں میں پڑے کیوں آدمی زاده 1 کبھی فیل ورخ وفر زمیں سے بڑھ جاتا ہے اک پیادہ لے وہی مالوں کی قربانی پر ہوسکتے ہیں آمادہ ہیں جن کی ہمتیں عالی ہے جن کی زندگی سادہ 1 فیل، رخ ، فرزین اور پیادہ شطرنج کے مہروں کے نام ہیں.

Page 119

118 مئے عشق و محبت کے ہوں جو احباب دِلدادہ اگر توفیق دیں کی ہو تو دے دیں ہیں 20 یا زیادہ نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی جدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں : توحید میرے اللہ، میرے آقا، مرے مالک، مرے رہبر نہ چھوڑیں گے ترا دامن کہ تجھ سے کون ہے بہتر فقط تجھ سے ہی مانگیں گے پڑے ہیں بس ترے در پر کہ دنیا میں گنہ کوئی نہیں ہے شرک سے بدتر میرے اُستاد نے ہم کو کرایا تھا یہی ازبر کہ شنوائی نہ ہو یاں گر تو چیخو اور بڑھ بڑھ کر نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چومحمل را گراں بینی الفضل 3 جنوری 1943ء)

Page 120

119 عمك الترب یعنی علم توجه یا مسمریزم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام اس عمل کی بابت ازالہ اوہام میں یہ موجود ہے کہ هَذَا هُوَ التِّرْبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُونَ اس الہام اور اس کے ساتھ جو مضمون ہے اس کی روشنی میں یہ نظم کہی گئی ہے.اس نظم کے وزن میں اگر کہیں ٹھوکر لگے تو یا د رکھیں کہ ہر مصرع کا وزن مُسْتَفْعِلُنْ مُسْتَفْعِلُنُ مُسْتَفْعِلنُ یا اُردو میں ”جادوگری، جادوگری، جادوگری‘ ہے.گدی نشیں، چشتی، نظامی، قادری صوفی، مشائخ پیر اور جوگی سبھی دیتے توجہ سے شفا تھے وہ کبھی ظاہر کبھی کرتے تھے کچھ جلوہ گری کہتے ہیں اس کو مسمریزم" مغربی یا طب روحانی“ ہمارے مشرقی الهام حد از کردگار بیچگوں هدَاهُوَ اليَرْبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُونَ قوت نہیں یہ رُوح کے انوار کی طاقت ہے سب انسان کے اعصاب کی روحانیت اس میں نہیں ہرگز کوئی ملتی نہیں کچھ وصلِ حق کی چاشنی بدھ، برہمو، ہریجن، مولوی ہندو، یہودی، دہریہ، سکھ، احمدی جو بھی کرے گا مشق بن کر محنتی اُس کو ملے گی کامیابی، برتری عیسائی، الهام شد از کردگار بیچگوں هدَاهُوَ الرُبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُون

Page 121

120 برکات ہیں اسلام کے کچھ اور ہی عرفان حق، عشق خدا، خلق نبی الهام غلبه استجابت یاوری عامل کی یاں مردود ہے سب ساحری ہو جیسے پیشہ علم و طاقت کا کوئی تقریر بازی پہلوانی زرگری ویسا ہی پیشہ یہ بھی ہے اک دنیوی جس میں نہیں کچھ رُوح کی پاکیزگی الهام شد از کردگار بیچوں هذَاهُوَ القِرُبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُون خیر القروں میں سحر کی بدعت نہ تھی پر فیج انھونج نے یہ گڑ بڑ ڈال دی بنتا نہیں اس رہ سے کوئی منگنی ہے یاں ٹھوست - ڈرپرستی تیرگی اُستاد بن سکتا ہے اک او باش بھی مذہب بُری اس سے، یہ مذہب سے بری حاصل نہ ہو جب آسمانی روشنی سفلی عمل پھر کیوں کرے مومن کوئی الہام شد از کردگار بیچوں هذَا هُوَ القِرُبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُون کہتے ہیں اس بارے میں یوں احمد نبی اسلام نے اس کی نہیں تائید کی حق نے ہمیں اک وحی کی ، اور ساتھ ہی دل میں مرے اس کی کراہت ڈال دی احمد کے آگے چل سکے کب ساحری قرآں کے آگے نبھ سکے کیا شاعری الهام حمد از کردگار بیچوں هذَا هُوَ التِّرُبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُون الفضل 27 جنوری 1943ء)

Page 122

121 قرآن، سنت اور حدیث کے مدارج اسلام کی بنیاد تین چیزیں ہیں قرآن ، سنت اور حدیث.حضرت مسیح موعود وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سنت کے اصلی معنی ظاہر کر کے اور اُسے حدیث پر فوقیت دے کر اُس کا نیا معیار قائم کیا ، ورنہ پہلے لوگ حدیث اور سنت کو ہم مطلب چیزیں ہی سمجھتے تھے.(دیکھور یو یو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی) اک سُناتا ہوں نکتہ حکمت جس سے احمد کی تجھ کو ہو عظمت جو خدا نے کہا ہے قرآں میں اس کو حاصل ہے سب پہ فوقیت دوسرا مرتبہ ہے سُنت کا فعل حضرت، تعامل أمت تیسرا درجہ ہے حدیثوں کا کہ حدیثیں ہیں قول آنحضرت تین ہیں یہ ستون مذہب کے جن پہ قائم ہے دین اور ملث ان مراتب کا گر رکھو گے خیال گمرہی سے نہ پاؤ گے زحمت حق تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور ملے تم کو علم اور حکمت تجدید حضرت مہدی ہے أن لاکھوں سلام اور رحمت الفضل 31 جنوری 1943ء)

Page 123

122 علاج دردِ دل تم ہو، ہمارے دلر با تم ہو تمہارا مدعا ہم ہیں، ہمارا مُدعا ثم.مری خوشبو، مرا نغمہ، مرے دل کی غذا تم ہو ہو مری لڈث ، مری راحت ، مری بحث ،شہائم ہو میرے دلبر، مرے دلدار، گنج بے بہا تم ہو صنم تو سب ہی ناقص ہیں فقط کامل خدائم ہو مرے ہر درد کی ، دُکھ کی ، مصیبت کی ، دوائم ہو ر جائم ہو، غنائم ہو، شفائم ہو، رضاتُم ہو بفا میں ہوں، وفاتم ہو، دُعا میں ہوں، عطا تم ہو طلب میں ہوں، سکائم ہو، غرض میرے پیا تم ہو جرا دن تم سے جگمگ ہے مری شب تم سے سے تھم تھم جرے شمس الہی تم ہو میرے ہا ر الہ ہے تم ہو سُجھائی کچھ نہیں دیتا، تمہارا گر نہ ہو جلوہ کہ دل کی روشنی کم ہو ، اور آنکھوں کی نیا تم ہو ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لا علمی وہ علامُ الْغُيُوبِ اور واقِفِ سِر وفا تُم ہو

Page 124

123 بہت صیقل کیا ہم نے جلا دیتے رہے ہر دم که تا اس دل کے آئینے میں میرے رُوٹھا تم ہو کہاں جائیں؟ کدھر دوڑیں کسے پوچھیں کہاں پہنچیں بھٹکتوں کو سنبھالو، ہادی راہِ ہدی تم ہو تم ہی مخفی ہو ہرئے میں تم ہی ظاہر ہو ہرئے میں ازن کی ابتدا تم ہو، ابد کی انتہا تم ہو اَلَسْتُ پُشتِ آدم میں کہا تھا جس کو وہ میں تھا سنا قول لکی جس نے وہ میرے ربنا تم ہو تباہی سے بچا کر گود میں اپنی مجھے لے لو که فانی ہے یہ سب دنیا، بس اک رُوحِ بقائم ہو میں شاکر گر ہوں نعمت کا ، تو صابر بھی مصیبت پر کہ الفت کی جزائم ہو، محبت کی سزائم ہو ہر اک خُوبی میری فیض خداوندی کا پرتو ہے ثر دحکمت، بصیرت، معرفت، ذہن رساتُم ہو میر ا ہر جا کہ مے بینم ، رخ جاناں نظر آید حیات جسم، نورِ رُوح، عالم کی ضیا تم ہو لگا یا عشق ہم سے خود تو پھر ہم بھی لگے مرنے تمہارے مُبتدا ہم تھے، ہمارے مُنتہا تم ہو

Page 125

124 عنایت کی نظر ہو کچھ کہ اپنی ہے حقیقت کیا تمہاری خاک پا ہم ہیں، ہماری کیمیائم ہو بھنور میں میری کشتی ہے بچا لوغز ق ہونے سے حوالے یہ خدا کے ہےاب اس کے ناخداتُم ہو شب تاریک و بیم موج و گردا بے چنیں ہائل“ مصائب خواہ کتنے ہوں ہمارا آسرا تم ہو ہر اک ذرے میں جلوہ دیکھ کر کہتی ہیں یہ آنکھیں تم ہی تم ہو م ہی تم ہو، خدا جانے کہ کیا تم ہو نی تیم اس ہاتھ کو چھوڑو، نہ ہم چھوڑیں گے یہ دامن غلامِ میرزا ہم ہیں، خدا ئے میرزا تم ہے الہی بخش دو میری خطائیں میری تقصیر میں کہ غفارُ الذُّنوب اور ماحی جرم و خطا تم ہو مناجاتیں تو لاکھوں تھیں مگر اک جنبش سر سے پسند اس کو کیا جس نے وہ میرے کبر یا تم ہو (الفضل 2فروری1943ء) 1 یہ مناجات بنا کر میں ایک دن آدھی رات کو اسے پڑھ رہا تھا جب اس شعر پر پہنچا تو مجھے انوار و برکات اور قبولیت کا بشدت احساس ہوا.اس پر میں نے اُسی وقت آخری شعر میں اس کا ذکر کر کے مناجات کو مکمل کر دیا اور اسے الفضل میں چھپنے کے لئے بھیج دیا.

Page 126

125 ہمارا آفتاب (26 مئی 1908 کی یاد میں ) اس نظم میں قرآن مجید کی ایک آیت حتَّى تَوَارَتْ بِالْحِجَــاب (ص:33) بار بار آتی ہے، اس کے معنی ہیں ” یہاں تک کہ وہ (سورج ) چھپ گیا.“ یہاں ہر بند میں یہ آیت حضرت مسیح موعود کے لئے استعمال کی گئی ہے.سوائے نمبر 7 اور نمبر 9 والے بند کے.جہاں یہ نفس اور دُنیا کے لئے ہے.آفتاب ( شمس ) اور نفس اور دنیا تینوں عربی زبان میں مؤنث استعمال ہوتے ہیں.افسوس! میرا آفتاب، وہ مہدی والا خطاب روشن کیا جس نے جہاں، باصد ہزاراں آب و تاب ہم عشق میں سمجھا گئے ، یا پڑ گئے دل پر حجاب زندہ رہے گا تا ابد، چمکے گا تا یوم انحساب دھوکا رہا آخر تلک - حتی توارث بالحجاب محسن وہ میرا آفتاب وہ عیسی عالی جناب ہر دم قلم اُس کا رہا مصروف تصنیف کتاب تجدید کی اسلام کی بتلا دیا جو تھا خراب عیسائی برہمو آریہ سب اُس کے آگے لاجواب - لڑتا رہا وہ پکولکھا.حتی توازت بانتخاب

Page 127

126 میرا پیارا آفتاب یا چودھویں کا ماہتاب اسلام کے دکھ درد سے ہوتا تھا دل جس کا کباب تبلیغ حق، عشق خدا - تعلیم کا لب لباب بنتے تھے پیکر نور کے صحبت میں جس کی شیخ وشاب فیضان تھے جاری یہ سب.حتی توارث پانجاب مشمس الصحي و و آفتاب " دو صاحب فضل انطلاب دکھلا گیا زندہ خدا زنده نبی زنده کتاب ذہنیتیں تبدیل کیں کر دی حقیقت بے نقاب سیراب سب کو کر گیا وہ خیر و برکت کا سحاب چلتا رہا یونہی حساب - حتی توارث پانحجاب نور نظر وہ آفتاب وہ طوطی حاضر جواب اک نغمه مسحور کن گویا ملائک کا رُباب خوشبو کی لپٹیں چار سُو جیسے کہ جنت کا گلاب ہم مست تھے اور بےخبر - ساقی تھا یا جام شراب پیتے گئے جس بے حساب حتی خوار ہے ہانکتاب روحانیت کا آفتاب دُنیا میں چمکا بے حجاب وہ حسن جس کے سامنے سارے حسیں تھے آب آب

Page 128

127 آئی اجل اتنی شتاب گویا کہ اک دیکھا تھا خواب ہم کو بھلا تھی کیا خبر ہیں وہ کھڑے پادر رکاب بے فکریوں میں ہم رہے.بھٹی کو از ہے پانجاب وہ آسمانی آفتاب وہ مظہر ختمی تاب جب آ گیا حکم قضا بس ہوگیا زیر خراب دنیائے فانی ہے سراب اور زندگی مثلِ حباب یاں آئے ہیں سب اس لئے تا کچھ کمالیں دیں، ثواب کچھ پاک کرلیں نفس کو حتی تو ارث بالحجاب یا ربّ ہمارا آفتاب صلِ علیہ بے حساب مجلس میں تھے جو باریاب تھے بامراد و کامیاب تقوی کی تھی منہ پر نقاب دل عشق میں تیرے کباب مخمور تھے مدہوش تھے.قر بانیاں تھیں لا جواب چلتا رہا دور شراب - حتی توارث پانحجاب احمد نبی تھا آفتاب کیسی دمک کیا آب و تاب اے دوستو ہمت کرو خدمت کرو لے لو ثواب نصرت کرو محمود کی برپا کرو اک انقلاب اسلام تا زندہ رہے روشن رہے یہ آفتاب دنیا کے آخر دن تلک -حتی توارث پانحجاب آمین (الفضل 6 فروری 1943ء)

Page 129

128 ناسخ و منسوخ جس قدر قرآن ہے ہاتھوں میں تیرے اے عزیز! وہ عمل کرنے کے قابل ہے ہمارے سب کا سب ہو احکام وقتی میں تو ہے جائز جناب لیکن ایسا تیخ فرقاں میں نہیں موجود اب جمله كتب، وہ آخری کامل کتاب اُس کو تو منسوخ کہہ دے! شرم کر کے بے ادب اور اگر پوچھو کہ قرآں میں کہاں ہے یوں لکھا پھر تو ہو جاتا ہے تو سنتے ہی مَغْلُوبُ الْغَضَبْ آیتیں مضحت کی رڈی ہیں اگر اے بے نصیب تب تو تو نے کر دیا اسلام کو ہی جاں بلب پانچ سو ہیں، تین سو ہیں، ہو ہیں یا ہیں پانچ سات کتنی گل منسوخ ہیں؟ یہ بات بھی ہے حل طلب کیا ہی برتے پہ ہو تم مذگی ایمان کے دین کو لہو و لعب ثم نے بنایا ہے عجب ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے بعد اس کے جو بھی ہے.ہے ظن غالب سب کا سب

Page 130

129 ہے اگر ہمت دکھا دے ایک ہی آیت فقط جس پہ ہو سکتا نہ ہو بالکل عمل.اے کو انعجب کچھ کلام اللہ کے حصہ کو سمجھا ہے تو لغو پھر وہی لوگوں کو ہے خود ہی سنا تا روز و شب پھر یہ مشکل ہے کہ اس کا بھی پتہ چلتا نہیں کون سی آیت ہے تاریخ کون سی منسوخ اب دو مخالف آیتوں میں کس کا تھا پہلے نُزُول کون سی پچھلی ہے؟ ہو سکتا ہے یہ معلوم کب؟ ایک شوشہ بھی نہیں منسوخ اس قرآن کا کہہ گئے دیں کے مُجدد مہدی و عیسی لَقَبْ حضرت احمد نبی نے خوب یہ تجدید کی ور نہ خود مشکوک ہو جاتا تھا مضحت سب کا سب مولوی صاحب! شکایت منکروں کی کیا کریں جب لگا دی آپ نے اسلام میں خود ہی نقب ان عقائد سے سراسر پاک تھے خیر القروں فيح اخونج نے ہمارے سر پہ یہ ڈھایا غضب گھر کا بھیدی ڈھائے لنکا.ہیں ہمارے یہ بزرگ دے ہدایت ان کو تو اور رحم کر اے میرے ربّ (الفضل 13 فروری 1943ء)

Page 131

130 دعائے سکھ دنیا میں دُکھ عظمی میں دُکھ، دنیا میں سکھ عظمی میں سکھ دنیا میں دُکھ عظمی میں سکھ ، دنیا میں سکھ عظمی میں دُکھ ہیں چار قسمیں خلق کی.تقسیم ہے تقدیر کی پر اصل دُکھ عظمی میں دُکھ اور اصل سکھ عظمی میں سکھ مخلوق ہے وہ بدترین، دُکھ میں جو ہو دونوں جگہ قسمت ہے ان کی خوش ترین، جن کو ہو دونوں جا میں سکھ اکثر مگر ایسے ہیں لوگ، جن کو ہے یاں دُکھ یا وہاں مومن کو کچھ دنیا میں دُکھ، کافرکو ہے عظمی میں دُکھ ایسے بھی ہیں جن کو ہے سکھ یا اس جگہ یا اُس جگہ کافر کو ہے دُنیا میں سکھ ، مومن کو ہے تحقی میں سکھ یا ربّ! ہر اک دُکھ سے بچا اور کر عطا ہر جا میں سکھ دُنیا میں اور عظمی میں سکھ ، امروز اور فردا میں سکھ کر فضل و احساں اس قدر دُکھ سے رہیں محفوظ ہم دے برزخ و محشر میں سکھ اور جنت الماویٰ میں سکھ آمین

Page 132

131 إنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمُ بأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّة قتل کیوں کرتے ہوڈ ز دیدہ نگاہوں سے مجھے حکم فرماؤ تو سرکاٹ کے رکھ دوں اپنا یا اجازت ہو تو خود اپنے ہی سینہ سے نکال دل ہی قدموں میں تمہارے جو گرا دوں اپنا لطف آ جائے ، اگر اس جیب کو خالی کر کے مال سرکار کے سر پر سے لٹا دوں اپنا عاجزانہ دُعا اے خدا، اے میرے رب، رب الوری میں ہوں بیکار اور تو ہے کبریا ظاہری حرفوں میں ہے گو اشتراک فرق ہے معنوں میں پر بے انتہا رہنا! کرتا ہوں مجھ سے ہی دُعا مُشترک ہونے کی عزت کو نبھا بیچا اپنے گھر جنت میں کر مجھ کو شریک اور جدائی کے جہنم گرچہ ہوں بیکار پر کر دے مجھے جیسے قالُوا کا الف موسیٰ کی ہے ہو بہشتی مقبرہ میں میری قبر قُرب پاؤں مہدی موعود کا ربنا رحمت طفیل از ނ حضرت بیڑا پار کر خیر الورى (الفضل 16 فروری 1943ء) 1 چند روز ہوئے میں سو رہا تھا کہ یکدم نیم خوابی اور نیم بیداری کی سی حالت طاری ہو

Page 133

132 گئی.اور میں نے معلوم کیا کہ میں یہ مصرع بار بار پڑھ رہا ہوں ع ” میں ہوں بیکار اور تُو ہے کبریا“.ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ بیکار اور کبریا میں بھلا کیا جوڑ ہے؟ اس سوال کا جواب بھی معادل میں آ گیا یعنی یہ کہ وہی ب، ی، ک، ا، ر پانچ حروف ہیں جن سے یہ دونوں لفظ بنے ہیں اس لئے یہ دونوں لفظ مشترک الحروف ہیں اگر چہ معنوں میں کس قدر بھاری اختلاف ہے.ایک ترکیب ان حروف کی انسان کی ادنی ترین حالت کا اظہار کرتی ہے اور دوسری ترکیب اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ ترین مقام کا، پھر میں نے اسی نیم خوابیدہ حالت میں سوال کیا کہ واقعی جب میں بریکار بے مصرف اور نالائق ہوں تو ایسے انسان کی نجات اور مغفرت کی کیا اُمید اور کیا سبیل ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب میں فوراً ایک دوسرا مصرع زبان پر بشدت جاری ہو گیا جیسے قالوا کا الف موسیٰ کی یا ( یعنی قالوا کا الف اور موسیٰ کی یا بھی تو بالکل بیکار ہیں اور بولنے میں نہیں آتے.مگر غور کر کے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ بغیر ان کے یہ لفظ صحیح لکھے بھی نہیں جاسکتے اور اگر لکھے جائیں تو غلط ہے پس اگر چہ یہ سچ ہے کہ تو واقعی بیکار اور بے مصرف وجود ہے مگر ہماری بادشاہت میں رحم اور مغفرت کے اظہار کے لئے تیرے جیسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے جن پر ہم بلا کسی عمل اور کام کے فضل کریں اور پنکھے بادشاہی احمدیوں کی طرح اُن کی شکم پروری کیا کریں اور انہیں دوسرے لائق ، کامی اور محنتی کارکنان کے ساتھ وابستہ کر کے محض اپنے فضل سے ہی نجات دیں) باقی حصہ نظم کا میں نے اٹھ کر اُسی وقت نظم کر دیا.

Page 134

133 - اپنا رنگ پہلے میرے کلام میں تھا عاشقانہ رنگ پر اب بدن کے ہو گیا کچھ ناصحانہ رنگ یعنی بنا شراب سے مکسچر کونین کا ساقی پہ یا چڑھا ہے نیا واعظانہ رنگ پیری کے اور شباب کے گل تو کھلا چکے جنت میں اے خدا! مجھے دے والہانہ رنگ صوفی وہ ہے کہ علم بھی ہو اور خر د بھی ساتھ کچھ زاہدانہ رنگ ہو کچھ عاقلانہ رنگ عادت تھی اک گناہ کی.دل ہو گیا سیاه صابونِ تو بہ خوب ملا پر گیا نہ رنگ اے نُورِ مَغْفِرَث ! ترے قُربان جائیے تو نے کیا وہ صاف جو ہم سے چھٹا نہ رنگ خنساء کا کچھ سنا تھا مگر وہ بھی دنگ ہو نصرت جہاں کا دیکھے اگر خواہرانہ رنگ جو ” معجزات سنتے ہو، قصوں کے رنگ میں زندہ یقیں کا اُن سے ہو پیدا ذرا نہ رنگ دُنیا کے ناچ رنگ تو سب رنگ میں ہیں بھنگ خوش رنگ سب میں رنگ ہے بس مومنانہ رنگ یک رنگ با صفا ہو مری جاں - کہ خوب تر قوس قزح کے رنگ سے ہے صوفیانہ رنگ بے رنگ و شکل جسم ومکاں تیری ذات تھی پر جلوہ صفات سے کیا کیا کھلا نہ رنگ جبروت سے تمہاری نکلتا ہے دم یونہی پھر کیوں مجھے دکھاتے ہو یہ قاہرانہ رنگ 1 خنساء حضرت عمر کے زمانہ کی ایک عرب خاتون تھیں جنہوں نے اپنے بھائیوں کے پُر اثر مر جھے لکھ کر اُن کو عربی بولنے والی قوموں میں زندہ جاوید بنادیا ہے لیکن حضرت اماں جان نصرت جہان کا تعلق اُن کے بھائیوں کے نام کو آئندہ زمانہ میں عرب اور عجم میں تاقیامت زندہ رکھے گا.(انشاء اللہ )

Page 135

134 رنگ خودی جو چھوڑا تو ہمرنگ حق بنے تیرا چڑھا ہے رنگ.جب اپنا رہا یہ رنگ بہتر ہے ہر ادا سے تیری رحم کی ادا ہر رنگ سے ہے خوب مرا عاجزانہ رنگ یہ جبر و اختیار کے جھگڑے فضول ہیں عالم پہ چھا رہا ہے تیرا مالکا نہ رنگ رنگت کو اپنی تجھ سے ملایا کئے مُدام افسوس تیرے رنگ سے پر مل سکا نہ رنگ یا رب ! دکھا دے فضل سے رنگینی جمال کچھ دلبرانہ حُسن.تو کچھ نخسینانہ رنگ نب دِل عطا کیا ہے تو کر رنگ بھی نصیب رچ جائے جان و دل میں مرے عارفانہ رنگ اُن کا رنگ دکھلایا قادیان نے جب معجزانہ رنگ لاہور نے بھی پیش کیا ساحرانہ رنگ صالح تھے اور نیک تھے جو بعض آشنا افسوس! ان پر چڑھ گیا اب باغیانہ رنگ پیدا ہوئے ہیں مصلح موعود کو کئی لیکن میاں“ کے آگے کسی کا جمانہ رنگ اے ہم نشیں! بتا وہ مُجدد تھا یا رسول دکھلاتا جو ہمیشہ رہا مرسلانہ رنگ برتر گمان و وہم سے احمد کی شان تھی اس کا تو اے عزیز! تھا شاہنشہا نہ رنگ الحاج خود کو کتنا ہی کہتا پھرے کوئی مجرم ہے پھر بھی اس میں ہوگر فاسقانہ رنگ کیونکر بناؤں پیر میں اپنا اُسے، کہ جو چلتا بنا دکھا کے ہمیں سارقانہ رنگ رکھ کر کتابیں سامنے تصنیفیں خوب کہیں اچھا ہے میرے دوست، تر امنشیا نہ رنگ

Page 136

135 غصہ تو ہم پہ گالیاں مُرشد کو اپنے دیں حیف، ایک احمدی کا ہو یہ سوقیانہ رنگ تو ، اور ہم کو پیر پرستی کا طعنہ دے! جا دیکھ اپنے بُت کا ذرا آمرانہ رنگ کہتے تھے ہم تو لاکھوں ہیں اب اُڑ گئے کہاں بگڑے کسی کا یوں تو ، مرےاے خدا، نہ رنگ غیروں سے جاملے کہ ملے عزت اور مال اگلا بھی رنگ کھویا نہ چندہ ملا نہ رنگ پوری ہوئیں مسیح کی سب پیشگوئیاں جو جو دکھا رہا ہے تمھیں اب زمانہ رنگ کب تک رہو گے ضد و تعصب میں ڈوبتے کب تک چلے گا آپ کا یہ حاسدانہ رنگ ”دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا محمود کا تو کافی ہے یہ معجزانہ رنگ پھر آ کے پاس بیٹھو ہمارے حبیب کے جس نے تمہیں دیا تھا کبھی صالحانہ رنگ (الفضل 24 فروری1943ء) 1 یعنی حضرت خلیفہ ثانی میاں بشیر الدین محمود احمد 2 وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ.

Page 137

136 ہو نہیں سکتا علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا تم اچھا کر نہیں سکتے ، میں اچھا ہو نہیں سکتا مرض پیدا کیا جس نے وہی اپنا معالج ہے نظر وہ لطف کی کر دے تو پھر کیا ہو نہیں سکتا؟ و نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا نہ کہہ سکتا ہے یہ کوئی کہ ایسا ہو نہیں سکتا خدا سے عشق کو مانگا کرو دائم کہ یہ نعمت سماوی نو ر ہے دُنیا میں پیدا ہو نہیں سکتا کرم فرماؤ.آ جاؤ تم ہی اس خانہ دل میں کہ قبل از مرگ واں آنا ہمارا ہو نہیں سکتا رقیبوں کی نہ ہو محفل تو جی اپنا نہیں لگتا کہ جو تیرا نہ ہو جاناں، وہ میرا ہو نہیں سکتا جو خود کو بد کہتا ہو فقط منہ سے وہ کا ذب ہے نہ ہو ر بان جو اُس پر وہ بندہ ہو نہیں سکتا عجب لذت ہے نیکی میں عجب شیر ینی تقوی میں کہ ان کا کوئی بھی پہلو ہو، پھیکا ہونہیں سکتا یہ مرضی اُس کی اپنی ہے.نظر گر مہر کی کردے کہ دلبر سے محبت کا تقاضا ہو نہیں سکتا ارے عیسائیو! آپ نے کی جگہ تم رب کہو اس کو نہ ہوا ماں کا جو شوہر وہ ابا ہو نہیں سکتا نشانوں کو بھی دیکھے پر نہ مانے احمدیت کو مخالف اس قدر کوئی بھی اندھا ہو نہیں سکتا بنی فارس کے آگے، آپ ہیں کس باغ کی مولی سوا محمود کے کوئی خلیفہ ہو نہیں سکتا شقی آر کی نہیں بنتا سعید اے دوست کوشش سے جو سہ شنبہ ہے وہ ہر گز دوشنبہ ہو نہیں سکتا 1 یہاں مسیحا سے مراد طبیب حاذق ہے یعنی جسمانی طبیب 2 آب بمعنی باپ.3 سہ شنبہ یعنی منگل کا دن، مراد منحوس آدمی اور وہ انسان جو مبارک دوشنبہ، یعنی مصلح موعود کا مقابلہ کرتا ہے.4 دوشنبہ یعنی ”مبارک دوشنبہ اس سے مصلح موعود مراد ہے یعنی حضرت خلیفہ المسح الثانی.

Page 138

137 66 نہیں جائز ، زباں کھولے تو گنہ ذات باری میں خدا کیسا ہے؟ کیا ہے؟ کیوں وہ ایسا ہو نہیں سکتا ؟ اما الموجو د سے اپنا پتہ دیتا ہے خود مولی خداوہ ہو نہیں سکتا، جو خود ہو نہیں سکتا ذراسی پھونک کر دیتی ہے میلا شیعہ دل کو پر استغفار دائم ہو، تو دھندلا ہو نہیں سکتا کر و تبلیغ ، دو چندے، دُعا ہو غلبہ دیں کی کہ احمد کا سپاہی تو نکتا ہو نہیں سکتا الہی! فضل کر، تا احمدیت کی ترقی ہو بغیر اس کے اندھیرا ہے، گزارا ہو نہیں سکتا دُعائے من (الفضل 9 مارچ1943ء) یہ دُعا صرف انفرادی ہی نہیں بلکہ جماعتی رنگ میں بھی مانگی گئی ہے.اس کا وزن بھی غیر معمولی ہے یعنی ہر مصرع کا وزن مفاعلن مفاعلن یا اردو میں ” کہاں گیا، کہاں گیا“.خدائے من خدائے من، دوائے من شفائے من قبائے من ردائے من ، رجائے من ضیائے من قبول گن دُعائے من، دُعائے من ندائے من ندائے من کو ائے من کو ائے من صدائے من میں بندہ ہوں ترا غریب، تُو ہے مرا خدا عجیب میں دُور ہوں تو ہے قریب ہمیں مانگتا ہوں اے مُجیب

Page 139

138 تو ہی دوا ، تو ہی طبیب، تو ہی مُحِبّ تُو ہی حبیب خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من زمین و آسماں کا نُور، مکاں ولا مکاں سے دُور ہمہ صفت ، ہمہ سُرور، خدائے ذوالجلال طور قبول کر دُعا ضرور، مرے خدا، میرے غفور خدائے من، خدائے من ، قبول گن دُعائے من معاف کر سزا مری، گناہ میرے جفا مری قبول کر دُعا مری، صدا و انتجا میری کہ بخشا نہیں کوئی، سوا ترے خطا مری خدائے من خدائے من، قبول گن دُعائے من ہماری تو پکار سُن، صدائے اشکبار سُن نوائے بیقرار سُن، ندائے اضطرار سُن دُعائے شرمسارسُن ، اے میرے غمگسارسُن خدائے من، خدائے من ، قبول گن دُعائے من گناہ سے ہم کو دُور رکھ ، دلوں کو پُر ز نور رکھ نشے میں اپنے چور رکھ، ہمیشہ پر سُرور رکھ نظر کرم کی ہم پہ تو ، ضرور رکھ، ضرور رکھ خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من پڑھیں کلام حق بشوق، عبادتوں میں آئے ذوق اُتار غفلتوں کے طوق ، اڑیں فضا میں فوق فوق

Page 140

139 یہ مسجدیں ہیں تیرے گھر ، ہم ان میں جائیں جوق جوق خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من ترقیاں مدام دے، مسرتوں کا جام دے نجات کا پیام دے، گشوف دے، کلام دے حیات دے، دوام دے، فلاح دے، مرام دے خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من ہدائتیں، کرامتیں، حکومتیں، خلافتیں شہادتیں، صداقتیں ہوتیں ولایتیں بصیرتیں، درایتیں، لیاقتیں، سعادتیں ملیں ہمیں خدائے من، قبول گن دُعائے من بلندیاں خیال کی، ترقیاں کمال کی تجلیاں جمال کی، فراخیاں ٹوال کی بڑھوتیاں عیال کی، شجاعتیں رجال کی بده به ما، خدائے من، قبول گن دُعائے من 1 دوائے دل شفائے دل، جلائے دِل، صفائے دل وفائے دل، سخائے دل ، ہدائے دل، ضیائے دل مرا بدہ، خدائے دل، مُراد و مد عائے دِل خدائے من خدائے من ، قبول گن دُعائے من 1 ہمیں دے.

Page 141

140 فنون دے، علوم دے، فتوح دے، رقوم دے جوئسنل بالعموم دے، وہ مہر و مہ نجوم دے نئے مبائعین کا، ہر ایک جا ہجوم دے خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من نوا، صدا، دعا، بُكا، حيا، وفا، غنا، سَخا عطاء جزا، بدلی، تقنی ، فنا، بقا، لِقا، رضا میرے خدا، میرے خدا، بده بما، بده بما خدائے من خدائے من ، قبول کن دُعائے من ترے وہ دیں کی خدمتیں، تری وہ خاص برکتیں تری عجیب نصرتیں، تری لذیذ نعمتیں تری لطیف جنتیں، غرض تیری محبتیں نصیب ہوں خدائے من ، قبول گن دُعائے من الى عفو ومغفرت، خدايا قُرب و معرفت مناسبت، مشابهت ، مكالمث، مخاطبت مطابقت، موانست ، ملیں ہمیں بعافیت خدائے من خدائے من، قبول گن دُعائے من یہ قلب پر امید ہے، مسرتیں ہیں، عید ہے بشارت و نوید ہے، کہ خاتمہ سعید ہے نہیں یہ کچھ عجب، کہ تو ، حمید ہے، مجید ہے خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من

Page 142

141 بیا بیا، نگار من، نگہ نگہ، بہارِ من پینه، حصار من، مدد مدد، اے یار من بہشتی مقبرہ، پنائے گن مَزارِ من خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من درود مصطفى سلام ہو، صلوة میرزا یہ ہو مقدا ہو، دُعا ہر آشنا ہو جو اپنا کارساز ہے، توکل اُس خدا پہ ہو خدائے من خدائے من، قبول گن دُعائے من آمین (الفضل 12 / مارچ 1943ء) احمدیت مل گئی جس کو احمدیت ہے اُس پہ حق کی کمال رحمت ہے دل میں تیری اگر محبت ہے ساتھ ہی رُعب کی بھی ہیت ہے ذات ہے ایک بے حساب صفات تیری وخدت میں رنگِ کثرت ہے اتنی مخلوق - سب میں تیرا نور یعنی کثرت میں شانِ وخدت ہے ہر طرف ہے تو ہی نظر آتا جلوہ حُسن کی وہ شِدّت ہے (1) پہلے ایڈیشن میں اس نظم کا عنوان تھا ” ہے مگر حضرت میر صاحب نے بعد میں اس عنوان کو بدل کر احمدیت“ رکھا تھا.

Page 143

142 خوان پر تیرے دوست اور دشمن کھا رہا ہر ہر طرح کی نعمت ہے كفر و عصیاں کی مجھ میں ہے علت عفو غفران تیری عادت ہے ساری خوشیاں ہیں وصل جاناں میں ورنہ دوزخ ہے اور حسرت ہے ہے ہدایت اُسی کی جانب سے ورنہ چاروں طرف ضلالت ہے گن کہا اور کیا ہوا عالم یہ ارادے کی اُس کی قدرت ہے ہے وجودِ حکیم یوں ثابت کہ نظام جہاں میں حکمت ہے ایسے معبود معبود سے خدا کی پناہ جس کا بیٹا ہے اور عورت ہے جب وہ مصروف عیش وعشرت ہو پھر ہمارے لئے قیامت ہے اُس کو کیونکر کہیں گے پر میشر خلق تک کی نہ جس میں طاقت ہے جان سے مار دیں جسے دشمن کیا خدائی کی یہ علامت ہے ہو جو مختاج روح و مادہ کا یہ بڑائی نہیں بڑائی نہیں ہے ذلت ہے جو نہ ہو اک کمہار بڑھ کر ایسے ایشر کی کیا ضرورت ہے حق تعالیٰ کی دوستی کا نشاں اُس کی تائید اور نفرت ہے ہمکلامی ہو اپنے مالک سے یہ غلامی کی اپنی غائت ہے ہو کے معشوق بات تک نہ کرے یہ تو بالکل خلاف فطرت ہے اُس کی کرسی کا، عرش کا مطلب علم ہے اُس کا اور حکومت ہے

Page 144

143 شرک اسباب ترک کر اے یار! سے مخفی یہی نجاست ہے جس کا کھانا اُسی پہ غرانا کفر سو لعنتوں کی لعنت ہے میں جو ہو جاؤں تجھ سے خود راضی یہ رضا کی تیری علامت ہے میری بدعملیوں میں سب سے بُری میرے محسن! تیری شکایت ہے مجھ کو کیا غذر واپسی میں ہے میری ہر شے تیری امانت ہے ہے زباں ایک.شکر ہو کیونکر چار سُو یاں نجوم نعمت ہے بے دعا کے ہیں کام سب پھیکے مانگنے میں عجب حلاوت ہے مانگنا جو اپنے رب سے ہے عزت مانگنا آدمی سے ذلت ہے اصل مذہب خدا شناسی ہے نہ کہ اخلاق اور مُرَوَّت ہے نہ تازہ نشان دکھلائے ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے ایسے ایمان کا خدا حافظ جس کی قصوں پر سب عمارت ہے عیش دنیائے دُوں کے چند است عیش عشمی ہی بے کدورت ہے دل رہے گرم عشق مولی رب بڑھ کر یہی ولایت ہے کا منوانا، وحی پہنچانا نام اس بات کا رسالت ہے کثرتِ غیب کثرتِ الهام بس یہی چیز تو نبوت ہے

Page 145

144 ورنہ انتظام تھوڑا بہت تو ہر انسان پاتا اس چاشنی کی لذت ہے جماعت نام اس کام کا خلافت ہے ہے آسمانی کرنٹ (CURRENT) مل جائے اس لئے فرض ہم پہ بیعت ہے رنگ میں مصطفے کے ہو رنگین تب ہی تو لائق شفاعت ہے کشتی نوح میں جو ہے تعلیم بس وہی مغز احمدیت ہے جو جماعت کہ ہو فنا فی الشیخ در حقیقت وہی جماعت" کیوں نہ مشتاق ہوں میں جنت کا وہ میرے باپ کی وراثت ہے آدمی کیوں کیا گیا پیدا اس کا مقصد فقط عبادت ہے شکل کو دیکھ کر نہ ہنسنا تم وہ تو اللہ میاں کی صنعت ہے رُوح کا حسن جس پہ ہے موقوف وہ حقیقت میں تیری سیرت ہے ابشِرُوا قبل مرگ جو نہ سُنے زندگی اُس کی سب اکارت ہے کیا مبارک وہ قلب ہے جس میں درد ہے، عشق ہے، محبت ہے آگے آگے بڑھے چلو پیارو! حرکت ہی میں ساری برگت ہے ہے معز وہی حقیقت میں آسمانوں یہ جس کی عزت ہے آدمی ہر طرح سے ہے کمزور شاہد ہماری فطرت ہے خاکساری بھی ہے جہات گو اس : طبعیت میں سخت مجلث ہے گرچه تقویٰ کی ہیں بہت شاخیں سے بڑھ کر جو عفت ہے وہ ہے

Page 146

145 جب مسئلہ ہے یہ اک شریعت کا جملہ اشیاء کی اصل حلث ہے ہو زیاں جس میں فائدے سے سوا اُس پہ فتوی اثم و حُرمت ہے کسی کا بُروز آ جائے جان لو یہ اُسی کی رجعت ہے ہے أَقِيمُو الصلواة کا مطلب که فریضہ یہ باجماعت ہے احمدیت کا اولین اُصول ترک دنیا ہے، دیں کی خدمت ہے جب مقدم ہو دین، دنیا پر پھر تو دنیا ہی بے حلاوت ہے مر گئی روح ایسی اُمت کی جس میں باقی نہیں نبوت ہے ہے جس میں فیضان یہ رہا جاری نام اُس کا ہی خیر امث“ رسم کو توڑ - رسم ہے باطل تیرا لیڈر فقط شریعت ہے رنج اور خوف سے ہوئے آزاد مومنوں کو یہاں بھی بحث بحث ہے ہے ساری قربانیاں ہیں ایماں سے اس میں مخفی عجیب جب ہے کہ ساتھ ہو نیث ورنہ وہ صرف رسم و عادت ہے نیکی دل کی سب حالتوں میں افضل ہے رقت قلب کی جو حالت ہے ایک سے ایک بڑھ کے ہیں اخلاق صدق کو سب پہ اک فر لغو گوئی اگر حماقت ہے خامشی بھی دلیل نخوت ہے

Page 147

146 خر شروئی بھی اک تگیز ہے مسکرانا بھی اک سخاوت ہے حد سے زیادہ جو ہووے سنجیدہ تو بیماری پیوست ہے جو کہے کچھ.مگر کرے کچھ اور یہ شقاوت کی اک علامت ہے بات سادہ ہو یہ فصاحت ہے دل میں گھس جائے یہ بلاغت ہے ہے کر مصیبت میں بھی خدا کا شکر گر تجھے حق سے کچھ محبت پہلے نیت درست کر اپنی کہ مُقدم عمل نیت ہے حق کے مجھ پر ہیں جس قدر انعام پر ہیں جس قدر انعام اُن کا کتنا بھی اک عبادت ہے اپنے ہر دُکھ کو تو سزا نہ سمجھ بعض زخمت ہے بعض رحمت ہے رُوح ہر جا ہے جسم کی محتاج یہ نہ ہو گر تو پھر وہ وہ میرث ہو، حشر ہو، کہ ہو جنت ہر جگہ جسم کی ضرورت ہے جسم کے ساتھ ہیں یہ جملہ حواس ورنہ پھر درد ہے، نہ راحت ہے میری فطرت ہے طالب لذت اس لئے میرا اجر جنت ہے بات سچ ہو مگر ہو دل آزار پیٹھ پیچھے کہو تو غیبت ہے قبر - وہ ہے تو بہتان اور تہمت ہے لوگ کہتے ہیں پر جسے غیبت جو منافق ہو، اُس کی باتوں سے آتی مومن کو اک عَفُونَت ہے ہوں ہزاروں کرامتیں بیشک سب سے مقبول استقامت ہے ہے مساوات مرد و زن دھوکا مرد کو ہر طرح فضیلت ہے کثرت ازدواج ہے لازم ورنہ پھر ووٹروں کی قلت ہے

Page 148

147 کیمیائے سعادت ار واح انبیاء اولیاء کی صحبت ہے ہر جماعت میں ہوتی ہے اک رُوح نام جس کا دلوں کی وحدت ہے جو نہی وحدت گئی، شکست آئی پھر نہ ہے رُعب اور نہ طاقت ہے پڑھ کے قرآن جو نہ روتا ہو اُس کے دل میں بہت قساوت ہے روح کی جان ہے خوشی دل کی جسم کی جان اُس کی صحت ہے پیٹ خالی ہو جس کا، وہ پاتا کشف و الہام کی حلاوت ہے پیشگوئی ہو جس سے اک پوری سب میں کچی وہی روایت ہے صرف لوگوں کے ڈر سے ترک گناہ دہریت کی یہ اک علامت ہے جیسے پیسے روپے کی ہے چوری ویسے ہی آنکھ کی خیانت ہے کار آمد ہیں علم دو ہی فقط ایک مذہب دوم طبابت ہے مهدی وقت و و سیسی دوراں اُس سے وابستہ اب ہدایت ہے چکی تھی خدا شناسی گرم مل گئی پھر، یہ اُس کی برکت ہے ہو جس حکومت کی ہو رعایا تو اُس کی لازم تجھے اطاعت ہے تیرا ورنہ ضائع تیری عبادت ہے اپنی لڑکی نہ غیر کو دیجو گر تجھے کچھ بھی دیں کی غیرت ہے احمدی ہی امام جو ہو جنازہ پڑھے مخالف کا اُس پہ افسوس اور حسرت ہے

Page 149

148 تیرے ایمان کا جو ہے معیار جانِ من! وہ تری وصیت ہے بعد مرنے کے گر نہ زندگی ساری ہے ہو فردوس ہے...ق.نو برس میں ضرور پیدا ہو خدا کی بتائی مُدَّت ہے تین صدیوں میں صبح موعود محمد علی کی جدت ہے مضل جنگ طاعون زلزلے دیکھے پھر بھی عبرت نہیں ہے غفلت ہے يغض احمد - عدوات جنگ یا بھوج حملہ محمود یا شرارت ہے، یا حماقت ہے ماجوج ایک برپا ہوئی قیامت ہے آگ، گو لگ رہی ہے دُنیا میں قادیاں میں نُزول رحمت ہے مر کے جو ہر گھلیں گے انساں کے موت کی اس لئے ضرورت ہے موت کا دن ہے یومِ قرب و وصال جیسے ہوتی عروس رُخصت ہے سارے جاڑے کمر میں ہے زنار یہ میرے کفر کی علامت ہے کیوں ابھی سے نہ حق کے ہو جائیں آخر اُس کی طرف ہی رحلت ہے 1 یعنی بہشتی مقبرہ کی وصیت - 1 میں جاڑے بھر ایک گرم جبہ پہنتا ہوں جس میں بجائے بٹنوں کے ایک رسی ہوتی ہے جس سے وہ بندھا رہتا ہے.اسے Night gown بھی کہتے ہیں.اس رسی کو میں نے زنار کہا ہے.

Page 150

149 اے خداوند من، گنا ہم بخش ورنہ اپنے لئے ہلاکت ہے سوئے درگاه خویش را هم بخش ترا فضل اور کرامت دلبروں کی یہی علامت ہے دلستانی و دلر بائی گن ہے نگا ہے گرہ کشائی کن لطف فرما - تیری عنایت ہے روشنی بخش در دل و جانم ورنہ اندھیر اور ظلمت ہے پاک گن از گناه پنهانم میرے آقا! بہت ندامت ہے عالم مرا عزیز ہوئی بس کہ احسان بے نہایت ہے در دو وانچه می خواهم از تو نیز توئی تاکہ جاری رہے.جو نعمت ہے رحم کر، رحم کر، میرے پیارے تو ہی جانی ہے، کو ہی جنت ہے عشق و مشک تحسین جو میرا خاص ہو اوروں کا بالعموم - پھر کیوں نہ اُس سے عشق کی پوری کروں رُسوم مشفق بھی تم، شفیق بھی تم، دگر با بھی تم قرباں میں پھر نہ کیوں ہوں ، تصدق سے گھوم گھوم کاٹیں اگر چُھری ری سے مرا بند بند آپ فُرْتُ وَ رَبِّ كَعْبَهِ کہوں، ہاتھ چوم چوم

Page 151

150 کرتا ہوں اک حسین کے ہاتھوں قبول موت خوشیوں سے شادشاد مُسرت سے جُھوم جُھوم ہر گز نہ میرد آنکه دلش زنده شد بعشق کو شد شہید - و کرد بجان جہاں لزوم زنده ست نام گنبد خضرا ز عشق یار نوبت زند به گنبد افراسیاب یوم واجب ہے آفتاب نبوت کا انتظار گرتے ہوں جب شہاب ممکڈ ز ہوں جب نجوم احمد جری“ نے جملہ مذاہب کے پہلوان اس طرح سے بھگائے کہ پسپا ہوا بجوم دیکھا یہ ہم نے بزم مسیحا میں عمر بھر آہ و بکا کا شور تھا یا ربنا کی دُھوم اک آگ سی لگا گیا بس رات رات میں اُس یار کا قدوم کہ تھا میمنت لزوم تو ہند میں بھی اُس کیلئے ہے دُعا میں سُست جس پر دُرُوڈ پڑھتے ہیں ابدال شام و رُوم 1 رات سے مراد حضرت مسیح موعود کی لیلۃ القدر یعنی آپ کا زمانہ.

Page 152

151 دوزخ ہے ہجر یار تو دنیا ہے بے ثبات جنت ہے کوئے یار - مری اصل زاد یوم قر بانیوں کے جوش میں تن کا نہیں ہے ہوش کہتا ہے کوئی ہم کو جھول اور کوئی ظلوم اغدا کی مسجدوں سے نکل آئے خود ہی ہم واں لغو کچھ رُسُوم تھیں، یا وقف کی رقوم ایمان و عشق دیکھ کہ ہیں جمع ایک جا وہ خلج قلب اگر ہے.تو یہ آتش سموم ساماں ہم اپنا لائے جو تکنے کو حشر میں کچھ ذکر وفکر عشق تھا.کچھ درد اور ہموم الفت کی برکتیں تھیں کہ صد گونہ بڑھ گئے زباد کے فنون ހނ عشاق کے علوم یا رب میری دُعائیں ہمیشہ قبول ہوں اور حشر میں نہ کیجیو شرمندہ اور مَلُوم آمین (الفضل 24 / مارچ 1943ء)

Page 153

152 خلیفہ کی شفقت اور نظام کی برکت اس نظم میں واوین والے مصرعے حافظ علیہ الرحمتہ کے ہیں.سوائے ایک کے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.1943ء میں دو ماہ تک پنجاب کے شہروں کی مسلسل ہڑتال اور اس کے بعد کنٹرول کے نتیجہ میں جن تکالیف اور مشکلات سے اہلِ ملک اور شہروں کے رہنے والوں کو سامنا ہوا ہے وہ خدا کے فضل سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی پیش بینی اور جد وجہد کی وجہ سے اہلِ قادیان کو پیش نہیں آئیں.فالحمد للہ 1 ہوئی تھی قحط کی صورت نہ قادیاں میں ابھی کہ یوسفم شکر و روغن و غذا آورد بپا تھے ملک میں جب کنٹرول اور ہڑتال ز هر مکان غرض مند التجا آورد نیا نظام تھا حیران ہو کے کہتے تھے که کیست حاتم و این گندم از کجا آورد ہر ایک گرسنہ سُنتا تھا یہ صدا ہر روز بر آر سر که طبیب آمد و دوا آورد یوسف حضرت علیہ اسیح الثانی کا نام ہے.کا نام

Page 154

153 مرید پیر مغانم زمن مرنج اے شیخ چرا که وعده تو کر دی و او بجا آورد تو شعر جوش سے کہتا ہے سوچ سوچ کے میں و میرست ترا آمد و مرا آورد اُسی کے شعر یہاں ہوسکیں گے اب مقبول که درمیان غزل قول آشنا آورد بر آن سرم کہ دل و جاں فدائے تو بکنم مستی است ندائم کے رُوبما آورد الہی ڈال دے دامانِ مَغْفِرَث اُس پر کہ التجا به در دولت شما آورد یہ کاک ٹیل جو چکھا تو بولا اک کے خوار که بود ساقی و این باده از کجا آورد! بكُفْتَمَش قَدَنی هست و میفروش اورا به قند حافظ و خوشبوئے میرزا آورد (الفضل 17 جولائی 1943ء) کاک ٹیل Cock Tail وہ شراب جو کئی طرح کی شرابوں کو ملا کر بنائی جاتی ہے جس طرح یہ نظم اُردو اور فارسی کے امتزاج اور حافظ علیہ الرحمۃ کے مصرعوں اور حضرت مسیح موعود کے کلام کی چاشنی سے مرکب ہے.

Page 155

154 خداداری چه غم داری اہل خانہ کو وصیت یہ وصیت اگر چہ بظاہر ایک ذاتی معاملہ نظر آتا ہے تاہم اس کا مرکزی نقطہ یعنی خدا تعالیٰ پر ہر مصیبت اور ہر حالت میں تو گل رکھنا، اس سے ہر شخص فائدہ اُٹھا سکتا ہے.اس کے لکھنے کی یہ وجہ پیش آئی کہ اس جاڑے میں میرے دمہ کی تکلیف غیر معمولی طور پر لمبی اور سخت تر ہو گئی تھی.یہاں تک کہ اس قدر ضعف قلب اُس کے سبب سے لاحق ہو گیا کہ کئی دفعہ فوری طور پر موت کا خطرہ محسوس ہوتا تھا اور بہت سی راتیں میں نے ساری کی ساری بیٹھ کر کاٹی ہیں.اسی شدت مرض کی حالت میں یہ نظم کہی گئی تھی.الحكمة ضالة المومن اخذها حيث وجدها نہ رونا میرے مرنے پر نہ کرنا آہ اور زاری پرند نہ ہوناصبر سے عاری مری بیگم میری پیاری جدائی عارضی ہے یہ ملیں گے اب تو جنت میں جدائی پھر نہیں ہو گی.نہ ٹوٹے گی کبھی یاری خدا سے لو لگی رکھنا کہ جس پر مہرباں وہ ہو اُسے کہتا ہے ”خوش ہو جا خداداری چه غم داری“

Page 156

155 میرے کمرے کو خالی دیکھ کر جی مت بُرا کرنا ندلب کا نہیں نہ دل دھڑ کے نہ آنسو ہوں بہت جاری نہ باتیں رنج کی نکلیں.نہ کھانا ترک ہو جائے نہ ٹانگیں لڑکھڑا جا ئیں.نہ ہو جائے غشی طاری کلیجے کو پکڑ لینا، خدا کو یاد کر لینا کہ کی فرما گیا کوئی " خدا داری چه غم داری" وہی رب ہے ہمیشہ سے وہی ہم سب کا مالک ہے وہی ہم سب کا محسن ہے وہی ہے خالق و یاری وہی تکیہ ہمارا ہے، وہی اپنا سہارا ہے نہ چھوڑیں گے قدم اُس کے چلے سر پر اگر آری جب ایسا دوست ہو اپنا تو پھر کیوں فکر ہو ہم کو کہ خود کہتا ہے وہ مجھ کو ”مرا داری چه غم داری“ نہ بھولیں گی کبھی ہرگز نہ بھولیں گی کبھی ہرگز تمہاری چاہتیں مخفی تمہاری خدمتیں بھاری تمہاری صبر و خاموشی تمہاری شکر و خود داری تمہاری محنتیں، قربانیاں، طاعات و غم خواری ہمیشہ یاد آؤ گی.کہیں ہم ہوں جہاں بھی ہوں یہی پیغام بھیجیں گے ”خدا داری چه غم داری“

Page 157

156 نہیں بندے میں یہ طاقت کہ نم کر دے کسی کا کم خدا ہی ہے کرے گا جو تمہارے دل کی دلداری کرو رُخصت خوشی سے تم خطائیں بخش کر میری بخشم ہو وفاداری - سراپا ہو نکو کاری جو ایسی نیک دل خود ہو، اُسے کہنے کی کیا حاجت مگر کہنا ہی پڑتا ہے ” خدا داری چه غم داری" وقار اپنا بنا رکھنا نہ ضائع جائے خودداری کوئی کہنے نہ یہ پائے کہ ہے آفت میں بیچاری خدا محفوظ ہی رکھے خوشامد سے لجاجت سے مطاعن سے مصائب سے، نہ آئے پیش دُشواری وہی دیتا ہے سب عزت اسی کے ہاتھ ہے ذلت مگر لیکوں کو کیا ڈر ہے " خدا داری چه غم داری" یہی مرضی ہے مولیٰ کی ، یہی اُس کا طریقہ ہے زمیں پر رہ چکے اتنا ہے اب زیر زمیں باری جنازہ جا رہا ہے ساتھ ہیں افسردہ دل بھائی یہی ہے ریت دُنیا کی ہمیشہ سے یونہی جاری زمینی ساری تکلیفیں پر پیشہ سے کمتر ہیں نوائے آسماں گر ہو ” خدا داری چه غم داری“

Page 158

157 کبھی خیرات کر دینا بڑھاتی ہے یہ درجوں کو کبھی صدقہ بھی دے دینا کہ صدقہ ہے بہت کاری ہمیشہ قبر پر آنا میری خاطر دعا کرنا کہ باقی رہ گئی ہے بس یہی خدمت یہی یاری بشارت تم مجھے دینا 'خدا دارم چه غم داری جواب اندر سے میں دوں گا خدا دارم چه غم داری اگر تقویٰ نہ چھوڑو گی فرشتے پیر دھوئیں گے کرے گا میرا آقا بھی تمہاری ناز برداری میرے اللہ کا وعدہ ہے تم کو رزق دینے کا نہ کرنا شک ذرا اس میں نہ کرنا اُس سے غداری مجھے کیا غم ہو مرنے کا تمہیں کیا غم بچھڑنے کا خدا دارم چه غم دارم خدا داری چه غم داری کسی کی موت پر دعوت ضرورت ہو تو جائز ہے اجازت ہے شریعت میں نہیں ہے فرض سرکاری دعائے مغفرت بس ہے عزیزوں کی عزا داری طعام پر تکلف سے نہ ہو میری دل آزاری نہ غم کے غذر سے زردے پلاؤ فرنیاں آئیں سبق مت بھولنا اپنا خدا داری چه غم داری

Page 159

158 یہاں مشرک یہ کہتے ہیں تکبر سے تبختر سے پدر دارم چه غم دارم، پسرداری چه غم داری غنا دارم چه غم درام، خرد داری چه غم داری، نم دارم، چه غم دارم درم داری، چه غم داری" مگر مومن یہ کہتے ہیں وہ جب ملتے ہیں آپس میں "خدا دارم چه غم دارم " " خدا داری چه نم داری" خداوندا عجب جلوہ ہے مجھ پر رحم و شفقت کا کہاں تک میں کروں سجدے کہاں تک جاؤں میں واری تمہارے لطف کا پرتو میری اماں میری آپا تمہاری مہر کی مظہر مری بیوی مری پیاری ”ندائے رحمت از درگاه باری بشوم ہر دم خدا داری چه غم داری خدا داری چه غم داری اجل آتی ہے دھو کے سے خدا جانے کہ کب آئے ہمیشہ آخرت کی اپنی رکھنا خوب تیاری دعا مانگو دعا مانگو ہمیشہ یہ دعا مانگو کہ دنیا میں نہ ہو ذگث ، کہ عظمی میں نہ ہو خواری ألو بيث، ربوبیت ، رحیمیت یہ کہتی ہیں خدا داری چه غم داری خدا داری چه غم داری

Page 160

159 دعائیں میرے بچوں کے لئے معمول کر لینا پناہ میں بس خدا کی ہو بسر یہ زندگی ساری نمازوں میں نہ ہو غفلت یہی تاکید تم رکھنا کہ یہ ہے بندگی نیچی یہی ہے اصل دیں داری جو بندہ اُس کا بن جائے وہ گھاٹے میں نہیں رہتا ملائک تک بھی کہتے ہیں "خداداری چه غم داری" بنا دے سادہ دِل مومن بلند اخلاق تُو اُن کو الہی تیری ستاری خدایا تیری غفاری ہمی خواهد نگار من تهیدستان عشرت را نمی خواهد از یارانش، تن آسانی دل آزاری دُعا کو ہاتھ اُٹھاتا ہوں تو کہتا ہے کوئی فوراً میں زندہ ہوں میں قادر ہوں ، مرا داری چہ غم داری خداوندا! بچانا تو مرے پیاروں کو ان سب سے زیاں کاری و ناداری و بیکاری و لاچاری کرم سے ڈال دے اُن کی طبعیت میں ہراک نیکی نکو کاری و غم خواری و بیداری و دین داری کبھی ضائع نہیں کرتا تو اپنے نیک بندوں کو جب ہی تو سب یہ کہتے ہیں " خداداری چه غم داری

Page 161

160 بیاہنا بیٹیوں کو اذن سے حضرت خلیفہ کے تمہاری دختریں چاروں ابھی چھوٹی ہیں جو کواری مقدم دین ہو سب سے شرافت ، علم و دانش پھر مؤخر ہو تجارت، نوکری، ٹھیکہ، زمینداری سپر د اللہ کے میں نے کیا سب کو بصد رقت یقیں اس بات پر رکھ کر ”خدا داری چه غم داری“ نصیحت گوش گن جاناں کہ فانی ہے یہ سب عائم بنو عقھی کی تم طالب ، رہے دنیا سے بیزاری حضوری گرہمی خواهی از وغافل مشو ہرگز خدا دل میں تمہارے ہو ہمیشہ اے مری پیاری سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل تو دل سے یہی نکلے ”خدا داری چه غم داری“ جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے بس کمر کس لو اُٹھاؤ دل کو لو رخصت کرو چلنے کی تیاری الہی روشنی ہو قبر میں سایہ ہو محشر میں ٹکے دوزخ ملے جنت بنیں نوری نہ ہوں ناری بشارت یہ خداوندی مجھے بھی ہو تمہیں بھی ہو خداداری چه غم داری خداداری چه غم داری

Page 162

161 وصیت کے ادا ہونے میں یارب کچھ نہ ہو دِقت نہ بعد جاں سپر دن ہو جنازے کی میرے خواری بہشتی مقبرے میں دفن ہونے کی اجازت ہو سرا پا گرچہ مجرم ہوں دکھا دے اپنی غفاری سہولت اپنے بندوں کو تو ہی دیتا ہے اے مولیٰ جب ہی تو ہم یہ کہتے ہیں ”خدا داری چہ غم داری تڑپتی روح ہے میری کہ جلدی ہو نصیب اپنے ملاقات شہ خوباں لقائے حضرت باری کھینچا جاتا ہے دل میرا بسوئے کوچہ جاناں سُرود عاشقاں سُن کر بھڑک اُٹھی ہے چنگاری یہ نغمہ ہے بزرگوں کا خدا دارم چه غم دارم فرشتے بھی یہ گاتے ہیں ” خداداری چه غم داری الہی! عاقبت نیک و جوارِ حضرتِ احمد شہ یثرب کی مہمانی - جوئے کوثر کی میخواری خدا جن کے صنم ہیں وہ بھی یاں پھرتے ہیں اتراتے تو پھر جن کے خدا تم ہوا نہیں ہو کس لئے خواری بنوشم سنگ پارس، کیمیا، ظل ہما جس کے کے وہ کیا سوا اس کے ”خدا داری چه غم داری" (الفضل 19اپریل 1943ء)

Page 163

162 پنجاب چہ پنجاب، انتخاب هفت کشور کہ ہے تہذیب یاں کی سب سے بہتر اگر صورت کی دیکھو شان و شوکت تو سب صوبوں سے حسن اس کا ہے خوشتر غریبوں تک کا کھانا گندم اور گھی ہر اک دہقاں کے گھر ہے شیر وشکر ز میں اچھی ہے اور نہروں کی کثرت غذا ملتی ہے سب کو پیٹ بھر کر سبھی یاں چارپائی پر ہیں سوتے نہ تختوں پر، نہ مٹی پر ہے بستر پہنتے جوتیاں، گرگابیاں ہیں برہنہ پا نہیں پھرتے زمیں پر جو ہیں روحانیت میں سب سے اعلیٰ تو جسمانی قویٰ میں سب سے بڑھ کر نہیں جامِد مقلد اولڈ فیشن ہر اک تحریک کو لیتے ہیں سر پر اگر باشندے اس کے زندہ والی میں تو خود یہ ہند کا سے دست کرنے خدا نے چن لیا پنجاب کو خود کہ دُنیا کی ہدایت کو ہو سنٹر مسیح پاک کو مبعوث کر کے بنایا اُس کو سب ملکوں کا لیڈر نبی کا تھا یہیں آنا مقدر 1 3 اکھاڑا ہے مذاہب کا یہی ملک 1 اولڈ فیشن : پرانی طرز کے.2 سرسید احمد خان نے یہاں کے لوگوں کو زندہ دلان پنجاب کا خطاب دیا تھا.3 دست منجر یعنی ہندوستان کا بازوئے شمشیر زن 4 سنٹر (Centre) یعنی مرکز.

Page 164

163 ہے را میٹریل لہ بھی خوب موجود مسلمانوں کی آبادی ہے اکثر ”یہ کیا احسان ہے تیرا بندہ پروز کریں کس منہ سے شکراے میرے داور اگر ہر بال ہو جائے سخن وز تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر مبارک ہو تجھے فَضْلِ رَبِّي زہے پنجاب تیرا بخت (الفضل 24 اپریل 1943ء) درود بر مسیح موعود الہی احمد مرسل کی آل میں برکت اور اُس کی نسل میں برکت عیال میں برکت حضور ختم رسل کا جلال بالا ہو بروز ختم رسل کے جمال میں برکت شفا و خَلْقِ طیور و دم مسیحائی مسیح وقت کے ہو ہر کمال میں برکت طفیل حضرت احمد رجال فارس کے روئیں روئیں میں ہو اور بال بال میں برکت 1 را میٹریل (Raw Material) یعنی خام مال

Page 165

164 مقام مہدی و عیسی پہ رحمتیں بے حد امان و رونق و مال و منال میں برکت خدایا! کوثر و تسنیم کی طرح کر دے ہمارے چشمہ آپ زُلال میں برکت بڑھے اور ایسی بڑھے شان احمدیت کی کہ بے نظیر ہو جاہ و جلال میں برکت و چنیں زمانہ، چنیں دور، اینچنیں برکات“ نہ کیوں ہو اصل ہی جیسی ظلال میں برکت تری رضا کی بشارت ہو نصرتوں کا نزول دعا قبول ہو اور اتکال میں برکت لقائے حضرت باری ہو زندگی کی مُراد ہماری موت میں لذت وصال میں برکت جیں یہ ثبت نقوش امام مہدی ہوں زبان پاک ہو اور چال ڈھال میں برکت قدم قدم پہ ترقی ترقی ہو ربّ زِڈنی میں علوم و معرفت بیمثال میں برکت بڑھے چلیں یہ محبت، یہ عشق، به انوار یہ ہو اپنے دردِ دل لازوال میں برکت 1 یعنی قادیان

Page 166

165 کچھ ایسے فضل ہوں ہم پر کہ اب تلک ایسی نہ ہو کسی کے بھی خواب و خیال میں برکت صفائے ظاہر و باطن حکومت و حکمت اگر ہو قال میں عظمت تو حال میں برکت عمل میں خلق میں خُلق و خصال میں قوت بنین و اہل و نساء و رجال میں برکت سلام وفضل وصلوۃ و فلاح و غفراں کی شبانہ روز ہو ہر ماہ و سال میں برکت چلا چلے یہ قیامت تلک تیرا جلوہ ہر ایک حال میں رحمت مال میں برکت الہی! شجرة احمد بڑھے، پھلے پھولے ہو پتا پتا میں اور ڈال ڈال میں برکت بحق آل محمد طفیل آل مسیح خدایا! بخش ہماری بھی آل میں برکت آمین (الفضل 16 مئی 1943ء)

Page 167

166 فطرت کسی نے ایک دن پوچھا عمر سے یوں کہ اے حضرت بھلا تھا جاہلیت میں جو غصہ کیا وہ اب بھی جوابا ہنس کے فرمایا کہیں فطرت بھی بدلی ہے؟ ہے؟ ازن سے جو ملا تھا خُلق کا حصہ وہ اب بھی ہے بدل ڈالا ہے رُخ اُس کا مگر اب کفر کی جانب جلالِ فطرتی ورنہ جو پہلے تھا وہ جو پہلے تھا وہ اب بھی ہے“

Page 168

167 الله - الله یہ نظم ایک عزیز دوست کا خط آنے پر لکھی گئی تھی.انہوں نے خواب میں ایک تحریر دیکھی جس کا آخری فقرہ یہ تھا ”یسر ہے فالحَمدُ لِله باقی تحریر ان کے ذہن سے محو ہو گئی تھی.میں نے اپنے اندازہ سے اُس کی تکمیل کر دی.الله الله، ربنا الله ڈال دِل میں خشیتہ اللہ نفس ہو یہ فانی فی اللہ روح ہو یہ باقی باللہ یا الہی! کسی اللہ فضل سے دے بجٹ اللہ ہے امید رحمت اللہ مانگتا ہوں نعمت اللہ میرے پیارے، میرے اللہ ٹھیک کر دے فطرت اللہ دل ہے پڑھتا قُلْ هُوَ الله شرک سے اعوذ بالله تو ہے خالق سب کا واللہ ثُمَّ بالله قسم بالله ربی اللہ ربی الله ! مومنوں سے حُبّ في الله دین ہو، الدِّينُ لِلَّه ! ابتلا صبر لله متقی کو بارک اللہ تنا الله ، حسبنا الله زندگی ہو سیر فی اللہ یہ بھی ہے اک سُنہ اللہ

Page 169

168 کا ذبوں پر لعنت الله گاندھی جی، المُلكُ لله کافروں سے بغض لله مونج جی! الارْضُ لِلَّهُ آ گیا جب داعی اللہ مان لو ثم دعوت الله دوستو! الْحُكْمُ لِله منكرو! الامر لله اے خدا، اے میرے اللہ رنگِ جاں ہو صبغةُ الله ہم ہیں تیرے اِنَّا لِله ہے اپنا، شكر لله تو وووو تھا، استغفر الله فالحَمدُ لله یسر ہے (7 مئی 1943ء)

Page 170

169 كتبه تربت بہشتی مقبرہ میں جا کر جھوم جذبات جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا“ جان و دل اور مال و زر سب کچھ تمہارا ہو گیا شكر الله مل گئی ہم کو جہنم سے نجات قبر کی کھڑکی سے جنت کا نظارہ ہو گیا فکر بس اتنی ہی تھی ، دل کو، نہ ہوں مہجور ہم تیرے صدقے جانِ من، اس کا تو چارہ ہو گیا کوئے جاناں نھیں رہیں گے اب مزے سے تا بہ حشر پار پھر بیڑا ہے جب تیرا اشارہ ہو گیا جو جوانی میں دبا رکھی تھی آرتش عشق کی وقت پیری وہ بھڑک کر اک شرارا ہو گیا ایک طوفانِ محبت تھا کہ جس کے زور میں راز میرا دوستو! سب آشکارا ہو گیا یوں نظر آتی ہے اب اپنی گزشتہ زندگی 1 یعنی بہشتی مقبرہ و جس طرح پانی کنوئیں کی تہ میں تارا ہو گیا“

Page 171

170 ہم نے دل کو جب بھرا نور کلام پاک سے بھر گیا، بھر کر پھٹا، پھٹ کر سپارہ ہو گیا شاذ و نادرخواب میں آتے تھے عزرائیل یاں اب تو معمولی اُن کا روزانہ نظارہ ہو گیا کاش اپنی موت ہی ہو جاذب غفرانِ یار کہتے ہیں مُردے کو سب حق کا پیارا ہو گیا ایک پل بھی اب گزر سکتا نہیں تیرے بغیر اب تلک تو ہو سکا جیسے گزارا ہو گیا بعد مُردن قبر کے کتبے پہ یہ لکھنا مرے آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا“ (یا اللہ ایسا ہی کر ) (الفضل 8 مئی 1943ء) 1 مطلب یہ ہے کہ اب اپنی موت کے خواب کثرت سے آتے ہیں.

Page 172

171 آسند و زندگی موت تو ہے نام بس نقل مکانِ رُوح کا قبر مٹی کی نہیں ، اک اور ہی ہے مُسْتَقرُ پل صراط حشر ہے یاں کی صراط مستقیم تاکہ ہو معلوم - راہ چلتا رہا کیسی بشر؟ جلوہ گاہِ لطف و احساں نام ہے فردوس کا اور تحلی گاہ اوصاف جلالی ہے سفر.میں تنکن سب پہ تیرے اپنے ہی افعال کے کر عمل اچھے، کہ تا مارا نہ جائے بے خبر جو کمی ہو، وہ دُعا سے پوری کرتا رہ مُدام اے خدا جنت عطا کر، اور سفر سے الحذر (الفضل ورمئی 1943ء)

Page 173

172 جنت دجال یا مغربی تمدن جنت جو ہے دجال نے دنیا میں بنائی شدّاد ممط اس کی ہی چوکھٹ پہ مرے گا یہ مغربی تہذیب و تمدن ہے وہ جنت تکمیل نہ پائے گی کہ خود کوچ کرے گا دہلیز میں اک پیر ہو اور دوسرا باہر یوں خلق کی عبرت کا وہ سامان بنے گا فردوس کی غیرت ہے خداوند کو اتنی دُنیا میں ہی پس جائے گا جو نقل کرے گا ہے جنت دجال فنا ہونے کو تیار اُڑ جائے گا سب ٹھاٹھ جونہی بمب پڑے گا اسلامی تمدن کو خدا کر دے گا غالب تب جا کے کہیں درد یہ دُنیا کا مٹے گا برگت ہے مسیحا کی کہ پلٹے گا زمانہ اور برف کی مانند یہ شیطان گلے گا 1 فردوس یعنی اصل جنت جو آخرت میں ملے گی.

Page 174

173 آثار تو ظاہر ہیں ابھی سے کہ زمیں پر عیسی ہی رہے گا نہ کہ دجال رہے گا ( الفضل 13 مئی 1943ء) نوٹ : مغربی تہذیب کا یہ مطلب ہے کہ مغربی اقوام اپنے لئے اسی دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کئے بغیر ایک ایسی جنت اور آرام کی جگہ بنا رہی ہیں جس میں عیش ہی عیش ہو.مال و دولت، گانا، ناچنا، عیاشی ،شراب، جوا، رزق وافر، ہر طرح کے آرام، غلبہ حکومت ، نعمتیں اور لذتیں حاصل ہوں اور اُن کے سوا دوسری اقوام گویا اس بہشت سے نکالی جا کر جہنمی زندگی بسر کرتی رہیں برخلاف اس کے اسلامی تمدن اور مساوات یعنی ہمہ یاراں در جنت کا سبق دیتا ہے اور عظمی میں ایک دائمی جنت اور غیر مکڈ رعیش کا وعدہ کرتا ہے بشرطیکہ بندہ دُنیا کی جنت میں منہمک نہ ہو اور خدا کی رضا حاصل کرلے اور رضا حال کر لینے کا مقام وہ ہے کہ وہ اعملوا ما ششتم والوں کے درجہ میں داخل ہو جائے.

Page 175

174 قابل توجه خدام تکلیف دہ چیزوں کا راستوں سے ہٹانا ایمان کی علامت ہے جب شہروں کے بازاروں میں خربوزوں کے چھلکے لازم بڑھوں کو گراتے ہوں تو بچوں کو ہنساتے تھا جوانوں کو دکھا کر ذرا ہمت اس دُکھ کو اذیت کو سڑک پر سے ہٹاتے ایمان کے اور خدمت مخلوق کے دعوے نگرانی سے اس کام کی سچے نظر آتے خربوزوں کے موسم میں مناسب تھا کہ خُدام ایک بیلچہ اور ٹوکری بازار میں لاتے الفضل 3 جون 1943ء)

Page 176

175 میرے خدا پاک تیرا نام ہے میرے خدا رحم تیرا کام ہے میرے خدا جو بُلاتا ہے تجھے شاہا! وہ خود عاجز و گمنام ہے، میرے خدا تیرے احساں دیکھ کر ہر عظمند بندہ بے دام ہے، میرے خدا رحمتیں دنیا تیری چھا گئیں فضل بر ہر گام ہے، میرے خدا چاشنی دی عشق کی انسان کو واہ کیا اکرام ہے، میرے خدا دحسن و خوبی، دلبری بر تو تمام یہ ترا الہام ہے میرے خدا صحته بعد از لقائے تو حرام ورنہ اُلفت خام ہے میرے خدا ایکہ تو ہے خالق ارواح و نیز مالک اجسام ہے، میرے خدا قادر و منعم غفور و ذوالجلال تیرا کیا کیا نام ہے، میرے خدا رُعب حُسنِ یار کی ہیبت نہ پوچھ نفس سرکش رام ہے میرے خدا آج تک بھی وہ اکسٹ وہ یکی قلب پر ارقام ہے، میرے خدا میری ہر خواہش کو پورا کر دیا واہ کیا انعام ہے، میرے خدا چاہیں ساتھ ہی دنیا کو بھی یہ خیال خام ہے، میرے خدا بے بقا، دنیائے فانی، بے وفا کس کے آتی کام ہے، میرے خدا در جهان و باز بیرون از جہاں یہ تبتن تام ہے، میرے خدا دل جو ہو لبریز اُلفت سے تیری مهبط الہام ہے، میرے خدا مانگنا پیشہ ہے اپنا.اے کریم بود تیرا کام ہے، میرے خدا تجھ کو

Page 177

176 کارفر و نبی اور خلیفہ اک نبی تو نے ہمیں دکھلا دیا کس قدر انعام ہے، میرے خدا پہلوان حضرت رب جلیل جس کا احمد نام ہے، میرے خدا ألف سالہ تیرگی کے بعد اب نکلا بدر تام ہے، میرے خدا دجال کو نفخ مسیح موت کا پیغام ہے، میرے خدا دم عیسی مسلماں کے لئے زندگی کا جام ہے، میرے خدا مُغانِ قادیاں مائی آنام ہے، میرے خدا وہ نظیر حضرت احمد نبی شاہد گلفام ہے، میرے خدا مصلح موعود بجز محمود کے مرغ بے ہنگام ہے، میرے خدا اور دم جو تیرا طالب ہو آئے قادیاں یہ صلائے عام ہے، میرے خدا احمدی نعمت خوانِ ہدی کا آج کل احمدی قسام ہے، میرے خدا بے سبب شکر ہے تیرا کہ اب اُس کے سپرد خدمت اسلام ہے، میرے خدا دشمن ہوا سارا جہاں مفت میں بدنام ہے، میرے خدا مومنوں پر کفر کا کرنا گماں قتل کا اقدام ہے، میرے خدا اپنا دیں ہر دین سے آسان ہے کس قدر آرام ہے، میرے خدا ما سوا کو چھوڑ کر پکڑا تجھے ہم پہ یہ الزام ہے، میرے خدا میرے دل کی لوح پر جتنے ہیں نام پہلے تیرا نام ہے، میرے خدا خدمت دیں کے لئے ہو عمر وقف سب سے اعلیٰ کام ہے، میرے خدا

Page 178

177 متفرقات جوہر انسانیت یا نور قلب عین و قاف و لام ہے، میرے خدا سرکشی اور معصیت جس دل میں ہو مورد آلام ہے، میرے خدا مجرم ہے تفریح اپنی رات دن عفو تیرا کام ہے، میرے خدا تیرا تقویٰ اور تو کل بے گماں رزق کا اسٹام ہے، میرے خدا تھوپنا تقدیر پر اپنا گناہ ظالموں کا کام ہے میرے خدا ایسی جنت جو کہ جسمانی نہ ہو داخل اوہام ہے، میرے خدا احمدیت نام ہے، میرے خدا جو حقیقی ہے اُسی سلطنت مقصد نہیں کا پر دین کا اس سے استحکام ہے، میرے خدا تو مشرک کا تھا بیکار ہی عقل بھی نیلام ہے، میرے خدا کثرت زر، قلت اشیائے رزق گردشِ ایام ہے، میرے خدا کشتیاں اتنی دنیا ہے ہمیں جائز، کہ جو دیں کے آتی کام ہے، میرے خدا چلتی ہیں تا ہوں گشتیاں کیا ہی سچ الہام ہے، میرے خدا تجھ پہ احساں کر کے کرنا نیکیاں کفر اس کا نام ہے میرے خدا قومیت پر فخر ہٹلر کی طرح لعنتِ اقوام ہے، میرے خدا حقیقت حال اے خدا منعم خدا، محسن خدا لطف تیرا عام ہے، میرے خدا تیرا اک بندہ ہے بداخلاق و بد اُس کا بدھو نام ہے ، میرے خدا بدلگام و بد مزاج و بد دماغ بس بدی ہی کام ہے ، میرے خدا

Page 179

178 بد تمیز و بدترین و بدعناں سیرت انعام ہے، میرے خدا بد خصال و بدلیاقت بد کلام موجب آلام ہے، میرے خدا بد عمل، بد نیت، و بد اعتقاد قابل الزام ہے، میرے خدا بدتر و بدخواه و بداند لیش ہے کیسا بد انجام ہے، میرے خدا بدمزه، بد رنگ، بد رو، بدمذاق کس قدر بدنام ہے، میرے خدا بدحواس و و بدشگون و بد شعار کیا ہی بے ہنگام ہے، میرے خدا بدطبیعت بدسگال و بدنما بدراه، بدکردار بددیانت، بدگماں مفید و تمام ہے، میرے خدا ہے عبد نافرجام ہے ، میرے خدا بد گن و بدحال و بد پرہیز ہے عقل اُس کی خام ہے، میرے خدا بد خبر بدعهد بدگو، بد زباں تیغ خوں آشام ہے ، میرے خدا بد شمائل بدیشیم مجمع الآثام ہے، میرے خدا بددل و بدزیب، و بداطوار ہے جاہل و ظلام ہے، میرے خدا ،بدروش ،بد شوق، بدظن بدلحاظ یعنی کا الانعام ہے، میرے خدا ظاہر و باطن بدی ہی اُس کا شغل صبح سے تا شام ہے، میرے خدا گرچہ کہتا ہے مسلماں آپ کو پر برائے نام ہے، میرے خدا العجب پھر بھی وہ ظالم مانگتا ہر گھڑی انعام ہے، میرے خدا دعا آہ! وہ بندہ ہوں میں خود اے کریم جس کا یہ اعلام ہے میرے خدا کرم کہ بُو دَم مرا کر دی بشر پھر بھی یہ اقدام ہے، میرے خدا

Page 180

179 کیا سناؤں کھول کر اپنے گناہ تو تو خود علا تو تو خود علام ہے، میرے خدا کس قدر بد بوئے عصیاں تیز ہے تن بدن تمام ہے ، میرے خدا غیر تو ہیں غیر، یاں مجھ سے نظور ہر اُولُو الارحام ہے، میرے خدا عمر آخر ہو گئی سب کفر میں یہ میرا اسلام ہے، میرے خدا جائے حیرت ہے کہ مجھ سا نابکار داخلِ خدام ہے، میرے خدا اب رہا غمخوار اس عاصی کا کون کون آتا کام ہے، میرے خدا تو ہی بتلا کیا کروں، میرے غفور تیرا ہادی نام ہے، میرے خدا قطع زنجیر معاصی کے لئے کون سی صمصام ہے، میرے خدا قعر ذلت میں پڑا ہوں منہ کے کیل آہ! کیا انجام ہے، میرے خدا میں تو چڑھ سکتا نہیں تو خود ہی ھیچ بس کہ اونچا بام ہے، میرے خدا اے خدا! اے بر و رحمان و رحیم رحم تیرا عام ہے، میرے خدا نااُمیدی تجھ سے کیوں ہو؟ جب ترا مغفرت ہی کام ہے، میرے خدا تجھ پہ قرباں، کاش تو کہہ دے مجھے تیرا نیک انجام ہے، میرے خدا ختم میری تو دعائیں ہو چکیں اب تو تیرا کام ہے، میرے خدا آمین (الفضل 9رجون1943ء)

Page 181

180 کچھ دُعا کے متعلق دُعا ئیں چھ (6) طرح قبول ہوتی ہیں اور اس طرح کوئی دُعا بھی ضائع نہیں جاتی (1) یا تو وہ لفظاً یہیں قبول ہو جاتی ہے (2) یا اُس کی جگہ آخرت کا درجہ اور نعمت مل جاتی ہے (3) یا اتنی ہی مقدار میں کوئی بُری تقدیر دور ہو جاتی ہے (4) یا بطور عبادت محسوب ہو جاتی ہے (5) یا دُنیا ہی میں ایک کی جگہ دوسری بہتر چیز مل جاتی ہے (6) یا اگر وہ دُعا بندہ کے لئے مضر ہو تو منسوخ کر دی جاتی ہے.یہ نامنظوری بھی اجابت اور رحمت کا رنگ رکھتی ہے یعنی بندہ ضرر اور تکلیف سے بچ جاتا ہے.ہمارا فرض ہے کرنا دُعا کا پھر آگے چاہے وہ مانے نہ مانے اگر مانے، گرم اُس کا ہے ورنہ وہ جانے اور اُس کا کام جانے خدا ہے غیب داں اور جانتا ہے کہ کیا ہیں نعمتیں کیا تازیانے مگر انسان که دارد علیم ناقص نمی دائد مفادش از زیانی اگر ہر اک دُعا لفظاً ہو مقبول لگیں پھر مدعی تو دندنانے ملے داعی کو گنجی خیر و شر کی خدائی سونپ دی گویا خدا نے بنے جت یہی دنیائے فانی لگیں دشمن، مخالف سب ٹھکانے جو احمق ہے سمجھتا ہے کہ واہ وا لگیں گے اب تو ہم موجیں اُڑانے

Page 182

181 وہ ملے گا جو بھی مانگیں گے، دعا سے یہ راہ عیش کھولی ہے قضا نے مگر ہر گز نہ ہو گا کامراں لگے گا جو خدا کو آزمانے دعا ئیں گو سب ہی ہوتی ہیں منظور یہ فرمایا حضور مصطفی نے مگر مل جائے جو مانگا ہے تو نے نہیں ٹھیکا لیا اس کا خدا نے کبھی ملتا ہے دنیا میں جو مانگو کبھی عظمی کے گھلتے ہیں خزانے کبھی کوئی مصیبت دور ہو کر بدل جاتے ہیں تلخی کے زمانے عبادت بن کے رہ جاتی ہیں اکثر خُدا اور اُس کے بندے کو ملانے - مثلاً بجائے زر - پسر بھیجا خدا نے کبھی مقصد بدل جاتا ہے فراخی کی جگہ ملتی ہے عزت خطابوں کی جگہ آتے ہیں دانے مکاں بنتا نہیں.پر عُمر بڑھ کر بھرے جاتے ہیں عملوں کے خزانے مگر نقصان دہ جو ہوں دعا ئیں گرم اُس کا ہے گر اُن کو نہ مانے نہیں محروم اُس درگاہ سے کوئی کہ بخشش کے ہزاروں ہیں بہانے غرض یہ ہیں اجابت کے طریقے قبولیت کے ہیں سب کارخانے نہیں آساں مگر کرنا دعا کا چنے لوہے کے پڑتے ہیں چہانے دعا کرنا ہے خونِ دل کا پینا زبانی لفظ تو ہیں بس بہانے نہ جب تک متقی بن جاؤ پورے قبولیت کے ہیں دعوے، فسانے عبادت، بلکہ ہے مغز عبادت دعا کی گر حقیقت کوئی جانے

Page 183

182 توجہ تضرع ہو، ہو، یقیں ہو کر ہو اور تہ دل کے ترانے دعائیں اگر لگ جائیں پے در پے نشانے قضا کو ٹال دیتی ہیں دُعائیں قبولیت کے قصے کیا سناؤں دکھائے تھے ہمیں جو میرزا نے مانگ لائی ایک محمود کیا یہ کام احمد کی دُعا نے خدا قسم ނ نشاں جتنے دکھائے اُس نے ہم کو وہ اکثر تھے دُعا کے شاخسانے حق کی نظر آیا وہ جلوہ کہ بس دکھلا دیا چہرہ خدا نے کروں تعریف میں کیونکر دُعا کی که هست او بر وجود حق نشانے اگر ہر موئے من گردد زُبانے بدو رانم ز هر یک داستانے خداوندا! میری بھی اک دُعا ہے کہ جس کو مانگتے گزرے زمانے رضا تیری ہمیں حاصل ہو دائم رضا ہی کے تو ہیں سب کارخانے حیات طیبہ دونوں جہاں میں خدا خوش ہو موافق ہوں زمانے آمین (الفضل18 جون 1943ء)

Page 184

183 دیباچه را وسلوک جو مانتا خدا کو نہ ہو اُس کو اے عزیز! عقلی دلیلیں ہستی باری کی دے سُنا اتنا وہ مان لے گا دلائل سے بالضرور عالم کے کارخانہ کا اک چاہئے خدا اگلا قدم یہ ہے کہ ہو ایمان بھی نصیب اس کے لئے کلام خدا کی مدد بُلا قرآں کی روشنی میں نظر آئے گا اُسے موجود ہے وہ ذات جو ہے سب کا مبتدا مخلوق بن گئی ہے وہ کہتا ہے خود بخود بے مثل جو کلام ہے.وہ کیونکر خود بنا انسان غیب دانی سے عاری ہے گر، تو پھر.صدیوں کے غیب کا اُسے کیونکر بیتہ لگا؟ تازه نشان حضرت مہدی کے پیش کر مومن کو معرفت کی ذرا چاشنی سارا جہاں ہو جس کا مُخالف وہ کس طرح؟ غالب ہر ایک جنگ میں ہوتا ہے بَرملا

Page 185

184 اب آگے ہے یقین کا درجہ، مرے عزیز ذاتی مشاہدہ سے خدا کا ملے پتا یعنی کہو یہ اُس سے کہ اب آ گیا ہے وقت گر وصل چاہتے ہو تو خود کو کرو فنا جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما (الفضل 25 جون 1943ء)

Page 186

185 مسخ کی حقیقت متع کی لعنت کے نیچے جو یہودی آ گیا اُن میں جو بندر بنا، مجلوق تھا، نقال تھا لائچی، لوطی، غلیظ، احمق جو تھے خنزیر تھے مشرک اور زانی و طافی عبد شیطاں بن گیا بندر اور خنزیر اور شیطاں کا بندہ ہو کے بھی پھر جو دیکھا اُس کو وہ انساں کا انساں ہی رہا ان قرائن سے یہی ثابت ہوا، اے مولوی مسخ روحانی ہی تھا وہ، مسخ جسمانی نہ تھا الفضل 3 جولائی 1943ء)

Page 187

186 نماز منکر و فحشا سے انساں کو بچاتی ہے نماز رحمتیں اور برکتیں ہمراہ لاتی ہے نماز ابتدا سے انتہا تک ہے سراسر یہ دُعا آدمی کو حق تعالیٰ سے ملاتی ہے نماز ذکر و شکر اللہ کا ہے.مومن کا ہے معراج یہ پنج وقتہ وصل کے سائر پلاتی ہے نماز قصر جاناں سے اذاں کی جو نہی آتی ہے بد عاشقوں کو یار کی چوکھٹ پہ لاتی ہے نماز جھک گئے ہیں دست بستہ ہیں، جبیں ہے خاک پر عاجوی کس کس طرح اُن سے کراتی ہے نماز ہے توجہ اور تفرغ اور تہن اور بخشوع رنگ کیا کیا طالب حق پر چڑھاتی ہے نماز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں محمود و ایاز یہ سلوک اور یہ مساواتیں سکھاتی ہے نماز پاکبازی اور طہارت وقت کی پابندیاں قدر دانوں کو سبق ایسے پڑھاتی ہے نماز ہے ذریعہ روز شب آپس میں ملنے کا عجیب اتحاد المسلمیں از یز کراتی میں ار بر کراتی ہے نماز امتیاز کافر و مسلم یہی اک چیز ہے کون نوری ؟ کون ناری؟ یہ بتاتی ہے نماز ہر عبادت ختم ہو جاتی ہے دنیا میں یہیں اہل جنت کے لئے پر واں بھی جاتی ہے نماز جو نمازوں میں دعا ہو.ہے اجابت کے قریب اُس دعا کو تو نشانہ پر بیٹھاتی ہے نماز دل نمازی کا گرفتار گنہ کیونکر ہو جب اُس میں ہر دم یا د مولیٰ کی رچاتی ہے نماز رقت دل چونکہ پنہاں اس کے از کانوں میں ہے کیسی کیسی گریہ و زاری کراتی ہے نماز حشر کے دن سب سے پہلے آئے گی میزان پر دیکھنا پھر کس طرح سے بخشواتی ہے نماز

Page 188

187 ہے صفائے جسم بھی اور جلائے رُوح بھی جان و تن کی میل ہر لحظہ چھٹاتی ہے نماز حضرت باری کو پہلے آسماں پر ہر سحر عرش سے وقت تہجد کھینچ لاتی ہے نماز روح جب ہوتی ہے حاضر پیش رب العا لمیں کیسی کیسی پھر مناجاتیں سکھاتی ہے نماز عید گاہ میں، عید کے دن، دل پہ غیر اقوام کے امپریشن نے اپنا کیا اچھا بٹھاتی ہے نماز زندگی ہے.خلِ ایماں کی یہی آپ حیات موت ہے، ضائع اگر کوئی بھی جاتی ہے نماز اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری ٹنل کو نعمتیں اور بخششیں جو جو بھی لاتی ہے نماز پنچ ارکانِ اسلام (الفضل 7 جولائی 1943ء) ائنٹ اور بکی کے دن ہوا تھا عہد جو باہم نہ ہو اعلان گر اُس کا تو ایماں نامکمل ہے توجہ ہو، تفرغ ہو، تدلن ہو، تبثل ہو نماز عشق ان ارکان سے ہوتی مکمل ہے زکوۃ مال سے گر تزکیہ حاصل نہ ہو دل کا تو گویا دے کے سونے کولیا بدلے میں پیتل ہے نہ دیں وہ داد روزے کی اگر ” الصوم لی کہہ کر تو انعامِ أَنَا أَجْزِئُ بِهِ “ امید مل ہے نہ جانا صرف ظاہر پر ادائے حج میں اے مسلم ! کہ راز عشق ہر ہر رکن میں اس کے مقفل ہے کبھی بھرتے ہیں کوچے میں کبھی چاروں طرف گھر کے ضامرہ پر چین ان کو نہ کھے میں انہیں کان ہے Impression 1

Page 189

188 یہاں کیا کام دیوانوں کا بستی سے نکل جائیں جو ہیں بیتاب مرنے کو ٹھکانا اُن کا جنگل ہے کفن احرام اور لبیک نعرہ ہے شہادت کا کرم لیلی کا عمل ہے، منی عاشق کا مشن ہے مبارکباد ے طالب ! کہ ظلمت گاہ عالم میں حبیب یار رہبر ہے، کلام یار مشکل ہے مشو مَعْمُوم از فکر صفائے باطن اے زاہد! کہ جتنے زنگ مخفی ہیں محبت سب کی صیقل معرفت الہی ہے 1 - خداشناسی اور معرفت کا حاصل کرنا ہر مومن کا فرض مُقدم ہے چھ سات سال کا ذکر ہے کہ ایک دن میں بیت الفکر میں لیٹا ہوا اُونگھ رہا تھا اور یہ نظارہ دیکھ رہا تھا کہ کوئی آدمی عہدوں کی بابت ذکر کر رہا ہے.اتنے میں کسی نے زور سے میری چار پائی ہلائی اور میں یہ الفاظ کہتا ہوا بیدار ہو گیا کہ ”میں تو ان باتوں کو نہ چاہوں نہ مانگوں ( یعنی عہدے ) اس پر میں نے یہ شعر لکھے ہیں.مد نظر یہ خیال ہے کہ معرفت الہی اور خدا شناسی ہر مومن کا پہلا فرض ہے.کیونکہ بغیر معرفت کے محبت اور تعلق پیدا نہیں ہو سکتے بلکہ ایسا خیال ہی لغو ہے.اور بغیر خدا شناسی کے آدمی کسی عہدے پر پہنچ بھی جائے تو وہ اُس کے لئے ابتلا ہے نہ کہ انعام اور مجھے تو اس دن سے اس لفظ سے ہی نفرت ہوگئی ہے.1 میدان عرفات

Page 190

189 میں تو عہد وں کو نہ مانگوں اور نہ چاہوں اے عزیز مجھ کو کیا عہدوں سے میرا کام ہے عرفانِ یار معرفت بنیاد ہے عشق و محبت کی مُدام اور محبت کھینچتی ہے نعمت رضوانِ یار جب رضا ہم کو ملی سمجھو کہ سب کچھ مل گیا قرب یار و وصلِ یار و لطفِ بے پایانِ یار 2 دنیا میں دیدار الہی آنکھوں سے نہیں بلکہ کسی قدر عقل سے اور زیادہ تر نشانات کے ذریعہ ہوتا ہے جس پر بے دیکھے مریں وہ آپ کی سرکار ہے آنکھ ہے لا چاڑیاں، گو عقل کچھ بیدار ہے عقل سے ممکن ہے ادراک صفات ڈوانحلال ورنہ ہر جس جسم انسانی کی یاں بیکار ہے انبیاء کے ہاتھ پر ہوتا ہے لیکن جو ظہور اس قدر پُر زور ہے.گویا کہ وہ دیدار ہے ذرے ذرے میں نظر آتا ہے وہ زندہ خدا نصرتوں اور غیب کی ہوتی عجب بھرمار ہے ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھا مسیح پاک کو یوں نشاں آتے تھے جیسے اک مسلسل دھار ہے

Page 191

190 الغرض ہوتا ہے آلہ حق شناسی کا رسول ٹور ہے مرسان تو مرسن مطلع الأنوار ہے 3 - دیدار الہی معرفت ہی کا دوسرا نام ہے تو جسم ہے وہ رُوح ہے.آئے گا نہ ہرگز آنکھوں سے نظر تجھ کو وہ سرکارِ الہی دنیا ہو کہ عظمی ہو صفات اُس کے ہیں ظاہر عرفان خدا ہی تو ہے دیدار الہی 4- میں نے خدا کو نشانوں سے پہچانا نہ کہ عقل سے 5 / نومبر 1936ء جمعرات صبح 5 بجے کا ذکر ہے کہ اوپر والا فقرہ میری زبان پر جاری ہوا.اتفاقاً آج ایک کاپی میں مجھے اس تاریخ کا یہ نوٹ مل گیا جس پر میں نے اس کا مضمون نظم کر دیا.کہہ دو یہ نکتہ طالب عرفان و وصل سے میلتی خدا شناسی ہے محض اُس کے فضل سے آتی ہے معرفت بھی نشانوں کی معرفت پاتا نہیں خدا کو کوئی صرف عقل سے 5- دعا برائے معرفت آنکھیں جو کھلیں دل کی، تو دیدار ہے ہر جا اور بند ہوں تو عرش کے آگے بھی ہے اندھا

Page 192

191 عرفان سے کر میرے خدا دل کو منور دُنیا میں اور عظمی میں ہے بے اس کے اندھیرا (الفضل 9 جولائی 1943ء) ترک دنیا نصیحت از الوصیت سننے والو! ذرا کان کھولو خدا تم سے کیا چاہتا ہے؟ یہ سُن لو یہی بس کہ اُس کے ہی ہو جاؤ بالکل نہ ہرگز شریک اُس کا جانو کسی کو بشارت از الوصیت سبھی دنیا پر ہیں مفتوں خدا گویا خیالی ہے کسی کو ڈر نہیں اک دن قیامت آنے والی ہے دکھا اے احمدی جو ہر کہ خاص انعام مل جائیں مبارک ہوا بھی تک قرب کا میدان خالی ہے دنیا متاع النگرور ہے کبھی اس کے بھتروں سے اے میرے یار نہ دھوکے میں پھنس جانا تم زینہار

Page 193

192 بھروسے کے قابل یہ دنیا نہیں کہ کا تک کی کتیا کا کیا اعتبار ترک دنیا کی تفصیل از الوصیت ترک ،مرضی، ترک عث، ترک جاں ترک زر اور ترک لذت بیگماں ترک اتنے ہوں تو ملتا ہے خدا ہیں یہ سب مُترادف ”ترک جہاں“ ترک دنیا کے معنی ترک فضول ہیں فضول کو ترک کر اے طائر ! کہ اڑ سکے تو پروں سے اپنے نہیں تو دنیا میں ہوں پھنسے گا، فلائی پچ پہ جیسے متھی حلال میں سے بھی صرف وہ لے جو فرض ہو تجھ پہ اور لازم حرام کر لے فضول گوئی ، فضول خوری، فضول خرچی دنیا ہے جائے فانی، دل سے اسے اُتار و ( درشین ) رشتہ اس دنیا سے اپنا اے مری جاں توڑ دے دل خدا سے جوڑ لے اور رُخ اُدھر کو موڑ دے (1) فلائی پیپر وہ کاغذ جس پر سریش کی وجہ سے کھی بیٹھتے ہی چپک کر رہ جاتی ہے.

Page 194

193 عقلمندی بھی یہی ہے.حکم بھی ایسا ہی ہے جو ہے آخر چھوڑنی، پہلے ہی اُس کو چھوڑ دے دنیا کا انجام تندرستی اور جوانی میں عجب اک جان تھی آن تھی اور بان تھی اور تان تھی اور شان تھی پھر گزر کر وہ زمانہ، ہو گیا جس دم ضعیف ”ہائے ہائے‘ رات دن اور موت کی گردان تھی چھوڑ کر سب کچھ ، چلا جب ہاتھ خالی اُس طرف گھر الگ ویران تھا، بیوی الگ حیران تھی کام سارے تھے ادھورے، بندھ گیا رختِ سفر دل بھی مصروف فغاں تھا، آنکھ بھی گریان تھی وائے حسرت، مالک ومحسن سے لا پروا رہا تب پتا اُس کو لگا، جب سامنے میزان تھی (28 جولائی 1943ء)

Page 195

194 مدو، وصل الہی دُنیا میں وصل الہی خدا کی جن پہ ہوتی ہیں عِنایات انہیں وہ بخشتا ہے.یہ کمالات نصرت، قبولیت دعا کی تسکی، پیشگوئی اور نشانات کشوف صادقه الهام و رویا جو ہیں روحانیت کے پاک شمرات عطا ہوتے ہیں اُس درگاہ سے اُن کو معارف اور حقائق اور فتوحات ا خدا کے عشق میں رہتے ہیں سر شار جب آتے ہیں مصائب اور آفات رہا کرتا ہے اُن کو خوف و غم سے فرشتے لاکے دیتے ہیں بشارات تعیش میں نہیں پڑتے وہ ہر گز اُسی کے ذکر میں پاتے ہیں لذات خدا کا اُن سے رہتا ہے بکثرت سُلوک معجزانہ یا کرامات درست اخلاق کر دیتا ہے اُن کے اور اپنے دین کی لیتا ہے خدمات انہیں ملتا ہے غلبہ دشمنوں پر احِبا ہوا کرتی ہیں برکات پر یہ ہیں دُنیا میں آثار ولایت یہی واصل کی ہیں یارو علامات عقمی میں وصل الہی اندھا کیا چاہے دو آنکھیں بھوکا کیا مانگے رو روٹی

Page 196

195 مومن کیا چاہے عقمی میں کھانا پینا بیوی باتیں گھاتیں اور دل لگیاں گوریں، نوکر باغ اور کوٹھی خالق خوش ہو مالک راضی کوئی نه ہووے تنگی ترشی جسم کے سارے عیش و تَنَعُمُ روح کی ساری طرب و گلوری جو بھی مانگے وہ ہو حاضر اور مل جائے جو چاہے جی عشق کی لہریں، علم کی نہریں ہر بُنِ مو سے اُس کے جاری غير مگر دل کی خوشیاں لذت دائم، جنت ابدی سامنے دلبر دلبر محسن نعمت ہر دن سے پچھلا بڑھ کر اور وصل خدا کا اس ނ چاہتے کیا ہو میرے ترقی ہو آگے رکھی زیادہ بھائی؟ اور ترقی (الفضل یکم اگست 1943ء) خوش و خرمی 2 شان، عظمت، رونق

Page 197

196 مال کا منتر نوٹ اور اشرفی تو کچھو ہیں ہاتھ ان پر نہ ڈال بڑھ بڑھ کر ہاں اگر سیکھ لے تو وہ مشتر یعنی زہر جس سے نہ چڑھ سکے تجھ حلال کا ہو ہو مال پر حق کے رستے میں خرچ ہو وہ زر تب نہیں ڈر کسی ہلاکت کا وہ ہے ورنہ پھر آخرت میں فضل رازق اکبر پھو پر ڈنک ماریں گے تیری رگ رگ (الفضل 6 اگست 1943 ء)

Page 198

197 اپنی پیدائش - خدائی جبر زمانہ اور نسب دلبر من! تیرے ہی ہاتھوں سے تھے اک عجب عالم نظر آیا یہاں قادیاں، دہلی سے جب ہم آ گئے زندگی اُستاد، ہم صحبت، عزیز دین و دنیا اور وطن سب تھے نئے سرگزشت ما از دست خود نوشت جو ہو خوش خط کس طرح بدخط لکھے مل گیا تقدیر سے خیر القرون اہلِ جنت سے علائق ہو گئے تھے مسیح وقت کے زیر نظر حضرت مہدی کے قدموں میں پکے عمر بھر دیکھا کئے حق کے نشاں اہل باطن کی مجالس میں رہے دو خلیفہ، جیسے سورج اور چاند یک نبی بہتر ز ماه و خاورے تربیت، تعلیم اور ماحول سب بے عمل، یہ فضل تو نے کر دیے از کرم این لطف کر دی، ورنہ من ہیچو خاکم، بلکہ زاں ہم کمترے حسن کی اپنے دکھا دی اک جھلک دل دواں ہر لحظہ در کوئے کئے“ طائر دل تیر مژگاں کا شکار سوختہ جانے زِ عشق دلبرے“ جود و احساں نے ترے گھائل کیا وصل کے آنے لگے پیہم مزے جس کو تو ہی خود نہ چھوڑے وہ بھلا تیرے قابو سے نکل کیونکر سکے جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار مو کشانم می برد زور آورے“ (الفضل 13 اگست 1943ء)

Page 199

198 اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچو‎ائی نہیں بُت پرست لوگ بچوں کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ یہ تو پر میشر کا رُوپ یعنی محبوب حقیقی کی تصویریں ہیں.ہم شرک نہیں کرتے بلکہ اُسی کو پوجتے ہیں صرف توجہ کے قیام کے لئے معشوق کی فرضی تصویر بنا کر سامنے رکھ لیتے ہیں.ان اشعار میں اُن کا رڈ ہے کہ ایسی نقلیں اور بُت کسی رنگ میں بھی معبود حقیقی کے قائم مقام نہیں ہو سکتے.بت پرستی دینِ احمد میں کہیں آئی نہیں وہ تو یکتا ہے مگر نفلوں میں یکتائی نہیں د عشق میخواہد کلام اور اس میں گویائی نہیں آشنائی، کبریائی، جلوہ آرائی نہیں اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں“ دل میں اور آنکھوں میں بستا ہے جمال رُوئے یار ہر جگہ ہر لحظ ہے عنبر فشاں خوشبوئے یار زندگی قائم ہے اپنی برسر نیروئے یار ہے کہاں تصویر میں وہ قوت بازوئے یار اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں“ قطرے قطرے پر ربوبیت نے پھیلایا ہے جال سکتے سکتے پر نوازش ہورہی ہے بے مثال ذرے ذرے پر ہے فیضانِ صفات ذوالجلال حاجت تصویر کیا ، حاصل ہے جب ہر دم وصال اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں“ حسن گو اظہر من الشمس اُس کا ہے با آب و تاب پھر بھی لاکھوں ہیں نقا میں اور ہزاروں ہیں حجاب رنگ و جسم و شکل سے ہے پاک وہ عالی جناب کس طرح فوٹوگرافر ہو سکے یاں کامیاب

Page 200

199 اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں خواب تک میں جب نہ دیکھا ہو تو کیا تعبیر ہو؟ جب نہ ہو بنیاد ہی کچھ پھر کہاں تعمیر ہو؟ متن ہی ہو عقل سے بالا تو کیا تفسیر ہو جو تصور میں نہ آئے.اُس کی کیا تصویر ہو اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں“ بُت پرستوں نے دکھائیں گو بہت عیاریاں پھر بھی قسمت میں رہیں ان کے سدا نا کامیاں وصل کے رشتے کی رہزن ہے ہر اک تصویر یاں اصل کی تو ایک بھی خوبی نہیں اس میں عیاں اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں“ محسن کہتے ہیں صفات حضرت باری کو ہی محسن جسمانی مراد اس سے نہیں ہرگز کبھی مضخف جاناں میں ہے تصویر جو معشوق کی کیسی اعلیٰ ہے’ ذرا گردن جھکائی دیکھ لی“ اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں حسن کے فیضان کو احسان کہتے ہیں سبھی لابدی ہے عشق جب احساں کی ہو جلوہ گری چھوڑ کر محسن کو جس نے کی صنم کی پیروی اُس پر شرک و کفر وظلم و فسق کی لعنت پڑی اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں“ اپنے جاناں سے تو کر لیتے ہیں عرضِ مدعا فانی تصویریں کریں گی کیا مری حاجت روا سامنے میرے ہے میرا قادر و زندہ خدا جو ازل سے تا ابد یکساں رہے گا اور رہا اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں“ (الفضل یکم ستمبر 1943ء) (1) یعنی قرآن شریف

Page 201

200 قادیان میں 1943ء کے رمضان میں ایک تولہ شکر کا راشن دودھ میں لسی میں اور چائے میں پڑتا ہے نمک ہے یہ روزوں کا مہینہ یا کہ خالی کی جھلک ان دنوں میں ایک تولہ راشن شکر جو ہو ڈر ہے آہ روزہ داراں پھونک ڈالے گی فلک روزہ میں گرمی کے مارے لگ رہی ہے ایک آگ کھانڈ ہے ڈیپو میں بند اور دل رہا ہے یاں پلک چار تو لے کھانڈ سے بنتا ہے شربت کا گلاس اور کئی ایسے ہوں تب تسکین پاتا ہے دلک اور سب شہروں میں ہے اک سیر سے راشن مزید اور یہاں رمضان میں ہے چھ چھٹکی یہ گرک صرف یہ کہنا کہ سرکاری یہی مقدار ہے کیسے مانیں ہم کہ ہر جا تو نہیں ہے یہ کھٹک ملک میں سارے یہی مقدار ہوتی تب تو خیر ڈیڑھ پا یاں ہوتو واں شہو پانچ پا یہ ہے کسک 1 خالی ،شوال کے بعد کا مہینہ 2 دل کی تصغیر 3 مثلاً فیروز پور

Page 202

201 ذائقہ کا اور تنظیم کا نہیں ہر گز سوال بلکہ لازم ہے شکر یوں جیسے پانی اور نمک شیشی پینے والے بچوں کے لئے تو اوسطاً پانچ تولہ روز ہو، دو سال کی مدت تلک زچہ اور لڑکوں مریضوں روزہ داروں کے لئے چاہئے ہے آدھ پاتک فالتو بے ریب و شک تاکہ راشن ہو زیادہ دُور ہو ساری کمی اہل حل و عقد کو لازم ہے کوشش بے دھڑک چاہئے کرنا ڈپو کا بھی تو احسن انتظام صبر کا پیالہ ہے جاتا اکثروں کا واں چھلک جبکہ کھلتی ہیں دُکانیں صبح سے تا شام سب پھر ڈپو کیوں خاص کر کھلتا ہے گھنٹے تین تک دیکھئے تلخی زدوں کی کون فریادیں سُنے؟ جو بھی ہو اُس کو دُعا ہم دیں گے اللهُ مَعَكُ: 66 (الفضل 16 ستمبر 1943ء)

Page 203

202 تو کیا آئے تم آئے اور گلے ملنے سے کترائے تو کیا آئے ہم آئیں اور تمہارا دل نہ گرمائے تو کیا آئے مزا آنے کا ہے تب ہی کہ ہنستے بولتے آؤ اگر چہرے پہ اپنے بے رُخی لائے تو کیا آئے نہیں ہے بے سبب بے رونقی مسجد کے مولانا تمہارے ہاں کے فتوے سُن کے جو جائے تو کیا آئے سبھی مذہب بلاتے ہیں ہمیں پھر نقد جنت کو بجز اسلام کے انساں نہ گر پائے تو کیا آئے مسیح ناصری کی آمد ثانی پہ کیا جھگڑا جو اپنی عمر پوری کر کے مر جائے تو کیا آئے؟ مصیبت قحط کی آئی تو کون آتا ہے کس کے ہاں نہ ہوشربت نہ ہو کھانا نہ ہو جائے تو کیا آئے جو صالح نیک کہلا کر بھی آقا کی کرے چوری بپاس شرم و غیرت پھر چلا جائے تو کیا آئے حقیقی حسن کا جلوہ تو احمد ہی ہے.اے صوفی ! تیرے دل میں مجازی نقش کچھ آئے تو کیا آئے

Page 204

203 بہشتی مقبرہ تو کہہ رہا ہے آؤ جنت میں“ وصیت ہی سے پر جو شخص گھبرائے تو کیا آئے.سر بالین بیمار محبت تھا تمہیں آنا سر بالین مرقد اب اگر آئے تو کیا آئے جو آ ئیں احمدیت میں وہ آئیں سر بکف ہو کر کریں ہر امتحاں پر ہائے اور وائے تو کیا آئے دمِ مُردن نہ انجکشن میرے بازو میں کرنا تم کہ مرتے وقت زیادہ سانس کچھ آئے تو کیا آئے (الفضل 5 اکتوبر 1943ء) 1 انجکشن ، وہ ٹیکہ جو طاقت کے لئے ڈاکٹر لوگ لگایا کرتے ہیں.

Page 205

204 ہم ڈلہوزی سے بول رہے ہیں THIS IS DALHOUSIE CALLING مردہ باد! اے ساکنِ أَرْضِ حَرم بر زمیت آسمان آید ہے خضر راہ سالکان آید ہے غم مخور، اے تشنہ آپ حیات خاک برسرگن غم ایام را کز سفر آں جانِ جاں آید ہے جام در دست و طراحی در بغل ساقی بادہ کشاں آمد ہے ما ایاز ستيم و این محمود ما جاں نثار خادمان آید ہے سرور خوباں و جانِ قادیاں باز سوئے قادیاں آید ہے ڈلہوزی چه می ماند بدو در نظر دارالامان آید ہے قافله سالار ما فضل عمر یعنی میر کارواں آید ہے برق وش بر توسن نیلو فرمی جانب مرکز دواں آمد ہے گلہ بیتاب ست در شوق حد شوق خدى گله را ساربان آید ہے بہر عید و جمعه و درس و دعا غمگسار دوستاں آید ہے عاشق بے صبر! چندے صبر کن تا به وے تاب و تواں آید ہے شور آمیں دعائے صحتش پر از کر و بیاں آید ہے (الفضل 22 ستمبر 1943ء) 1 یعنی ہے.2 حضور کی موٹر کار نیلے رنگ کی ہے.3 وہ گیت جس کوسن کر اونٹ تیز چلنے لگتے ہیں.

Page 206

205 اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے عمر رواں کے سال کہاں اور کدھر گئے کچھ بے عمل چلے گئے، کچھ بے مر گئے جوئن اُڑا، جوانی لٹی، بال و پر گئے کی تو بہ ہر خزاں میں مگر پھر مکر گئے اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے کچھ شعر و شاعری کا بجایا کئے رُباب کچھ دردسر نے اور دمہ نے کیا خراب بے خوابیوں میں کٹ گئیں شب ہائے بے حساب اعمال پھر بھی کرتے رہے ہائے ناصواب اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے غنچے کھلے ، خزاں گئی ، گل خندہ زن ہوئے گلشن بھرے، ہوا چلی ، تازہ چمن ہوئے نرگس، گلاب، یاسمن و نسترن ہوئے دل کی کلی مگر نہ کھلی.بے تجن ہوئے اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے تم نے تو ہر بہار میں پوری کی اپنی بات فرمایا جو زبان سے اُس کو دیا عبات گوسر پٹکتے ہم بھی رہے از پئے نجات پر گوہر مُراد نہ آیا ہمارے ہات اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے پچھلا حساب گرچہ نہ بیباق تھا ہوا امسال پھر بھی عہد یہ تھا ہم نے کر لیا بعد از خزاں یہ قرض کریں گے کبھی ادا افسوس پر، کہ بار یہ بڑھتا چلا گیا اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے 1 پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی ( الہام حضرت مسیح موعود )

Page 207

206 رنگ اس جنگ نے کیا ہے بغایت سبھی کو تنگ ہر موسم بہار میں کھلتا نیا ہے ہے انتظار لج بہار ، اب تو بے درنگ پر صلح کا نظر نہیں آیا کوئی بھی ڈھنگ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے کیا پوچھتے ہو حال دل پائمال کا دلبر نے ہم سے وعدہ کیا تھا وصال کا پر رعب حسن دیکھا جو اُس ڈوالجلال کا پھر حوصلہ ہی پڑ نہ سکا اس سوال کا اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے (الفضل 13 /اکتوبر 1943ء) 1 " پھر بہار آئی تو آئے شلج کے آنے کے دن (الہام حضرت مسیح موعود ) ثلج یعنی صلح، امن اور عافیت کے دن، چنانچہ 7 مئی 1945ء کو بہار کے ایام میں ہی جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے.

Page 208

207 حضرت مولوی بُرھان الدین جہلمی ایک تھے جہلم میں رہتے مولوی بر ہان دین جو حواری ابتدائی حضرت احمد کے تھے ایک دن جب سیر سے حضرت ہوئے واپس تو وہ احمد یہ چوک میں یوں آپ سے کہنے لگے اپنی حالت ہے عجب کمزور اے میرے حضور احمدی بن کر بھی ہم بھڑوں کے جھڑ ہی رہے کہہ کہ پنجابی میں یہ الفاظ پھر وہ رو دیے حضرت مہدی تسلی اُن کی گوکرتے رہے تھے اگر چہ سلسلہ کے سابقون لا ولون پر ہمیشہ وہ ترقی کے رہے پیچھے پڑے وجی محق نے اُن کو شہتیر جماعت تھا کہا پھر بھی اپنے حال پر نادم تھے اور حیران تھے ی جائے عبرت ہے کہ مجھ سا بے عمل اور نا بکار جو کہے کچھ اور کرے کچھ.مطمئن پھر بھی رہے اُن کو تھی ہر دم تڑپ ، قرب الہی کی لگی اور ہم بستر میں لیٹے کروٹیں ہیں لے رہے آگ تھی دل میں، نہ تھا اُن کو کہیں آرام و چین جان جائے حق کی راہ میں بس یہی تھے چاہتے ”اے خدا، بر تربت أو ابر رحمت باببار آنکه بود از جان و دل قربان رُوئے دلبرے مرحبا! کیسے تھے احمد کے یہ اصحاب کبار احمدیت کیلئے سب کچھ ہی قُرباں کر گئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مدارج ہوں نصیب حق تعالیٰ اُن سے خوش ہو، مغفرت اُن کی کرے (الفضل 17 اکتوبر 1943ء) 1 مولوی صاحب 1886ء سے بھی پہلے کے تعلق رکھنے والوں میں تھے.( تذکرہ صفحہ 137) 2 قریباً اصل الفاظ 3 دو شہتیروں کے ٹوٹنے کا الہام ان کے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے مشہور تھا.

Page 209

208 محبت مجھ پہ اے جان! چھا گئے ہو تم دل میں میرے سما گئے ہو تم پھرتے رہتے ہو میری آنکھوں میں جب سے جلوہ دکھا گئے ہو تم قلب ویراں میں مہماں رہ کر اُس کو کعبہ بنا گئے ہو تم کان ہیں جن سے اب تلک مسحور ایسے نغمے سنا گئے ہو پھول جھڑتے تھے منہ سے باتوں میں کیسی نکہت اڑا گئے ہو تم ہو کے فکر و خیال پر حاوی دین و دنیا پھلا گئے ہو تم ہو ذہن سے جو کبھی اُتر نہ سکے ایسا نقشہ جما گئے آب رحمت کے ایک چھینٹے سے میرا دوزخ بجھا گئے ہو تم نقش شرک و دوئی مرے دل سے اپنے ہاتھوں مٹا گئے عشق شاید اسی کو کہتے ہیں اک لگن جو لگا گئے ہو ڈال کر اک نظر محبت کی مجھ سا بگڑا بنا گئے ہو تم (الفضل 18 /نومبر 1943ء) عقل بغیر الہام کے یقین کے درجہ کو نہیں پہنچا سکتی فقط اتنا کہتی ہے عقلِ سلیم کہ دُنیا کا کوئی خدا چاہئے یہ کہ موجود ہے وہ ضرور سو اُس کو تو وحی خدا چاہئے مگر یقیں کے لئے عقل کافی نہیں یہاں تو کلامِ خُدا چاہئے الہام ہی نے تو ثابت کیا خدا ہے.نہ یہ کہ خُدا چاہئے (*1943)

Page 210

209 مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات میں رب نہیں ہوں کیا ترا؟ یعنی اگسٹ جب سنا قلنا یکی، قلنا یکی، قلنا بکی، قلنا یکی یعنی اکیلا ہی نہیں، مالک ہے تو سب خلق کا رَبُّ الوَرى رَبُّ الوَرَى ، رَبُّ الوَرَى ، رَبُّ الوَرى مُحسن حسیں ، دلدار من موہن، پیارا ہے تو ہی میرے خدا، میرے خدا، میرے خدا، میرے خدا گندے ہیں ہم بندے ترے، سر تا بہ پا غرق گناہ فَاغْفِرْ لَنَا، فَاغْفِرْ لَنَا، فَاغْفِرْ لَنَا، فَاغْفِرْ لَنَا اے رب ہمارے رحم کر، دُکھ دور کر ، مٹر ورکر آقائے ما، مولائے ما، ملجائے ما، ماوائے ما اسلام کو اکناف عالم میں ترقی ہو نصیب سُن لے دُعا سُن لے دُعا سُن لے دُعا سُن لے دُعا تیرے محمد پر درود اور تیرے احمد پر سلام صل على ، صَلِ على، صَلّ على، صَلّ على سجدے کروں گا شکر کے، سر کار فرمائیں گے جب راضی میں تجھ سے ہو گیا، بندے مرے جنت میں آ“ آمین

Page 211

210 کھوٹے معاملات قرض لے کر کیوں تو بنتا ہے یہود کیوں تجھے اُن کا چکن اچھا لگا؟ قسط ہو، یا نفع ہو، یا وعدہ ہو جس نے جو چاہا، وہ تُو نے لکھ دیا نام دینے کا مگر لیتا نہیں لے کے قرضہ، جیسے کوئی مر گیا وقت لینے کے مسلماں دیندار وقت دینے کے یہودی بن گیا خود بخود کرنا ادا گویا حرام إلا مَادُمُتَ عَلَيْهِ قَائِمَا إِلَّا عہد سارے فسخ ہوتے ہیں معا جب ادا کرنے کا وعدہ آ گیا کیا یہی ہے حکم اَوْفُوا بِالْعُقُود کیا یہی تعلیم فرقاں ہے تنگ کیوں کرتا ہے تو مخلوق کو تو مخلوق کو کچھ تو آخر چاہئے خوفِ خدا قادیان کے آریہ نہ کی تصدیق تم نے ، گونشانوں پر نشاں دیکھے نہ لوگوں کو ہدایت دی نہ خود ایمان ہی لائے رہے حق کو چھپاتے قادیاں کے یہ مہاشے جب تو پھر مجبور ہو کر اُن کو قسمیں دی مسیحا نے ملا وامن وغیرہ شرم پت چُپ رہ گئے سارے ہوئیں فق رنگتیں اُن کی رہے خاموش پھر ایسے خموشی معنی دارد که در گفتن نمی آید بھلا؟ (1943)

Page 212

211 ابنِ آدم بھی آدم ہی ہے پاک ہم پیدا ہوئے تھے پر تھا شیطاں تاک میں کب وہ دن ہو نکلے اس جنت سے یہ آدم کہیں آخر اک دن مجھ کو دھوکا دے دیا ملعون نے اپنی عصمت کا رہا باقی نہ وہ عالم کہیں ہم بھی جب جنت سے نکلے ہو گئے تم سے جُدا خاک ایسی زندگی پر خم کہیں اور ہم کہیں" کس قدر خوشیاں ہوں اے پیارے کہ پھر ہجراں کے بعد طالب و مطلوب مل جائیں گلے با ہم کو باہم کہیں آگئی گویا (1943) رُوح کو گر نصیب تقویٰ ہو زیر فرمان آ گئی گویا ترک دُنیا کو مان لے گر عقل قاد آسان گئی گویا ہو گھر میں دُکان آ گئی گویا تو کل ملا تو رزق آیا جب ذکر کی جس کو مل گئی لذت قَوْءِ عرفان آ گئی گویا علم وابسته روح فرقان آ گئی گویا ނ

Page 213

212 نفس کی خواہشوں مرگ شیطان آ گئی گویا قابو ہو احمدی کو ملے دلائل کیا بُرآن آ گئی گویا دنیاوی تعلقات منقطع اتنا ہوا پبلک سے میں مدتوں سے جو آیا نہ ہو لوگ یہ سمجھے کہ شاید مر گیا کیا لگے گا اُس کے مرنے کا پتا انقطاع خلق ہے از بس مُفيد جو پھنسا دنیا میں، دلدل میں دھنسا عارضی تکالیف میں بھی خدا نے لذت رکھی ہے ہجر میں ہے وصل سے بڑھ کر مزا لطف ہے رونے میں ہنسنے سے سوا جہل کی لذت کے آگے علم کیا! بُھوک کا سیری سے بڑھ کر ذائقہ شرط پر یہ ہے کہ ہوں سب عارضی طاعون کا شہید احمدی نہ سمجھو بُرا کیونکہ ہے وہ شہید جو ہو احمدی فوت، طاعوں کے ساتھ

Page 214

213 کہ جب بد بکثرت ہوں اور نیک کم تو وپس جاتا ہے گھن بھی گیہوں کے ساتھ مگر آخرت میں اُٹھیں گے الگ وہ قاروں کے ساتھ اور یہ ہاڑوں کے ساتھ روح بغیر جسم کے کسی جگہ بھی نہیں رہ سکتی روح تو بے جان ہے جب تک نہ ہو اُس پر لباس جسم سے ہے زندگی اور جسم پر ہے سب اساس علم اس کا جسم سے ہے لطف اُس کا جسم سے جسم میں ہیں آلہ ہائے جُملہ لذات وحواس خواب و برزخ - قبر و دوزخ - حشر و فردوس بریں ہر جگہ ہے لابدی اک جسم از روئے قیاس سُن لے مری دُعا خدا کے لئے لوگ لکھتے ہیں خط دُعا کے لئے اپنے تکمیل مدعا کے لئے میں یہ کہتا ہوں رو کئے اے مالک سُن لے میری دُعا خدا کے لئے ورنہ بندے تیرے کہیں گے یوں حشر جب ہو بپا جزا کے لئے " کیا یہی تو نہیں ہے وہ ظالم ! جس کو کہتے تھے ہم دُعا کے لئے

Page 215

214 اب ہوا آ کے یاں ہمیں معلوم اس کے سب کام تھے ریا کے لئے یہ جو صاحب ہیں خوب پھر تے تھے کپڑے مصنوعی اتقا کے لئے چاہئے کچھ سزا ضرور یہاں ایسے گمراہ خود نما کے لئے تو ہی بتلا کہ عذر کیا ہو گا؟ مجھ گنہگار ناسزا کے لئے کس سے جا کر کہوں میں تیرے سوا اپنے اس درد کی دوا کے لئے کون بنتا ہے بے کسوں کا رفیق؟ کون روتا ہے بے نوا کے لئے بس تو ہی ہے جو کام آتا ہے ہر جفا کار پُر خطا کے لئے بخش میرے گناہ اے غفار! سید الخلق مصطفے کے لئے“ دونوں عالم میں پردہ پوشی کر اپنے محبوب میرزا کے لئے ہائے افسوس! مجھ سے نبھا نہ سکے عہد تجھ.سے تھے جو وفا کے لئے مارے رقت کے لب نہیں گھلتے ہے زباں بند مدعا کے لئے بات منہ میں.نہ ذہن میں الفاظ کیا کروں عرض التجا کے لئے؟ ہاتھ بس رہ گئے ہیں اک باقی ہوں اُٹھاتا اُنہیں دُعا کے لئے (آمین) (الفضل 21 جنوری 1944ء)

Page 216

215 اُٹھ بھیا دو رکعت رکعت پڑھ لے اب رین چلی دن آوے گا پچھلے کو ہے دولت بیتی نیند کے ماتو، اُٹھو جلدی جو جو جاگے گا، خود ستیاں آن لٹاوے گا وقت گیا پھر ہاتھ نہ آوے گا سووے گا، سو کھووے گا پاوے گا (25/جنوری 1944ء) احمدی کیوں ہر اک سے افضل ہے؟ ہے ہے احمدی کیوں ہر اک سے افضل ہے؟ غیر ناقص ہے اور وہ اکمل ہے اس کی تفصیل اب میں کرتا ہوں کس لئے اور کیوں وہ انجمن مجھ میں ہے جوش اور یقیں اور صدق اُن میں جو کچھ ہے نامکمل دور میں اپنی آنکھ ہے لاریب چشم دشمن سراسر آخون ہے میرا ایمان صادقوں والا اُن کا دعوی تلک بھی مہمن ہے ہم ہیں لاریب کندن خالص اور عدو بے گمان پیتل ہے پھول اور پھل پہ ہے مرا قبضہ اُن کے ہاتھوں میں صرف ڈنٹھل ہے وا ہیں حقائق قرآں اُن پہ یہ راز سب مُقَفَّن مُقَفَّل ہے ہم

Page 217

216 وہ اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ہاتھ میں میرے حق کی مشعل ہے پر زنگ ہے اُن کی عقل پر دل شیشه دل پہ میرے متقن احمدی شہسوار راہِ ہدی غافل ہے ނ غیر اخراج ہے اور پیدل ہے غیر تبلیغ حق سے ہے ہے علم کلام کا رشتر وہ اپنے وہ ہے فعال بلکہ افعل اور مقابل میں جو ہے آنجہان ہے ہے بھی مولوی فاضل اُن کا فاضل بھی پست و زمین ہے اتحاد اپنا ظاہر , باہر اُن میں اُن میں ہر روز سر پھٹون ہے ہم تو ہیں مثلِ مہر و مہ روشن وہ ہے کر مُہرہ بلکہ خون ہے ہمیں اُن کا اتارہ اور بیکل ہے مل گیا نفس مطمئنہ ہمیں اپنی جولانیاں فلک پر ہیں اُن کے پیروں کے نیچے لدن ہے بڑھ رہا ہوں میں، ہٹ رہے ہیں وہ میں ذہین اُن کی عقل مُخْتَلُ ہے وہ تو ہیں ریت کے فقط تو دے احمدی بارشوں کا بادل ہے باغ تقویٰ میں رُوح ہے میری اُن کے ہاں خواہشوں کا جنگل ہے اپنی ہر رات ہے شب اول اُن کا ہر روز روز اول ہے اُن کا امروز ماتم دیروز آج سے خوب تر مرا کل ہے نہ تو رہبر، نہ کوئی ہے لیڈر نہ کوئی لائحہ مکمل ہے ہیں سیاست میں بے سُرے اتنے کہ نہ قائد کوئی، نہ جنرل ہے پا بہ گل خر ہیں عالمان بز پشت پر پنتکوں کا بنڈل ہے حق کے مامور کا جو ہو منکر بس سمجھ لو کہ عقل مُخْتَلُ ہے

Page 218

217 ہم مُصَدِّق امام مہدی کے وہ مکذب ہے کیونکہ انجمن مستغنی اُس کی سیدھی نہیں کوئی گن ہے ہے ہو امام الزمان سے اُن کے افعال قابل انزام قوت فیصلہ ہوئی شکل ہے نہ تو اخلاق ہیں کوئی دلکش نہ عقیدہ کوئی مدلل ہے قعر ذلت میں ہیں پڑے بے ہوش جیسے مدہوش کوئی پاگل ہے ہے شریعت فقط دکھانے کو ہر طرح سے رواج افضل ہے غیرت دین اڑ گئی بالکل عذر یہ ہے کہ ہم تو سوشل ہے“ چھوڑنا چاہتے ہیں کمبل کو نہیں چھوڑتا یہ کمبل ہے ہم کو تقویٰ نصیب اللہ کا ان کا سب کاروبار چھل بل ہے ہر قدم اپنا ہے دُعا سے تیز اُن کی جو چال ہے سو مزین ہے گم ہوئی سب حلاوتِ ایماں پر ہر ہے طرف تلخیاں ہیں وحی و الہام ہو گئے مسدود باپ رحمت پڑا مقفل ہے مُقَفَّن دین سے اُن کو کچھ نہیں ہے مسن روئے دلبر نظر سے اوجھل ہے ہو گئے حق کے سخت نافرمان اس لئے عقل بھی معطل ہے غیر قوموں نے پیس ڈالا ہے ہر قدم زندگی کا بوجھل ہے خوف اور خون دل پہ ہے طاری ہر گھڑی غم کی ایک ہل چل ہے ہے تھا خلافت کا جو عجیب نظام اُن کے نزدیک وہ بھی مہمان نشے ہیں حلال یاروں کو خواہ ہے وہ پرسن کہ بوتل ہے جھوٹ، چوری، دغا، جُوا دنگا قوم اُن کی ہی سب میں اون ہے

Page 219

218 ہے اُن کی گنڈی بھلا چڑھے گی خاک ہاتھ میں روز جن کے تگن الغرض پانچوں عیب ہیں شرعی پیپ سے بھر گیا یہ دنبل ہے ہے ہے یہ وجوہات ہیں مصیبت کے ایسے اعمال کا یہی پھل ہے جس کی تائید میں کھڑا ہو خدا اُس کی جانب ہی قول فیصل ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو احمد پاک اُس سے سے افضل ہم مُرید حضور احمد ہیں جو نبی ہے جری ہے مرسل ہے ٹور کا اس کے ہے یہ سب فیضان ورنہ یاں کس کو اس قدر بکن ہے گرچه خوردیم نسبتے ست بزرگ اس پہیلی کا بس یہی حل ہے لاہور کی دعوتیں دل پر تھا جو کہ پاریش برسوں سے قادیاں کا دو دن میں زنگ لایا لاہور کی فضا میں اب واپسی پہ آ کر معلوم یہ ہوا ہے کے ذکر میں ہے لذت کے لطف ہے دُعا میں اعلیٰ ترین کھانے ، مہمانیوں کے کھا کر تاریکیاں ہیں دل پر فرق آ گیا ضیا میں ماحول کی تھی برکت دار الاماں کی طلعت رہتے تھے ہم سما پر اُڑتے تھے ہم ہوا میں چکھا طعام شاہی مرغ و کباب ماہی یوں چڑھ گئی سیاہی مُجرم ہو جُوں سزا میں (*1944)

Page 220

219 لذت اس نظم میں حسب ذیل حقیقتیں واضح کی گئیں ہیں.(1) انسان کی فطرت طالب لذت جسمانی بنائی گئی ہے.(2) اس کی ساری کوششیں اسی مطلب کے لئے ہوتی ہیں.(3) بغیر مسلسل لذت حواس خمسہ کے اس کی زندگی تلخ رہتی ہے.(4) چونکہ وہ جسمانی لذت کا ہر وقت طالب ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے آخرت میں اُس کے لئے ایک لذت دائمی کا گھر تیار کیا ہے.(5) اس گھر کا نام جنت ہے کیونکہ اس کی فطرت اسی کی طالب تھی.(6) اس جنت کے ملنے کے لئے دو شرائط رکھی ہیں اور اُن ہی کو انسان کے لئے دین اور مجاہدات اور سلوک کا راستہ قرار دیا ہے.(7) پہلی شرط یہ ہے کہ اس دنیا کی لذتیں جو عارضی اور مکدر ہیں اُن کو اُسے حتی المقدور ترک کرنا پڑے گا کہ وہ صرف بقدر ضرورت اور بطور نمونہ ہیں.(8) دوسرے خدا تعالیٰ جو منعم حقیقی اور معطی کذات ہے اُس کی رضا حاصل کرنی پڑے گی اور شرک چھوڑ کر بکلی اُس کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا.(9) جب یہ دونوں باتیں حاصل ہو جائیں گی یعنی ترک دُنیا اور عشق الہی تو پھر اس کے لئے ابدی اور غیر مکڈ رجنت کا راستہ صاف ہے، جہاں رضائے الہی اور کلام الہی تمام نعمائے جسمانی کے ساتھ حسبِ خواہش ملیں گی اور انہی سب باتوں کا نام وصلِ الہی ہے.(10) یا درکھنا چاہئے کہ بغیر منعم کی محبت اور رضا کے اُس کی نعمتیں اُڑانا چوری ہے.(11) اسی طرح بغیر دائی جسمانی نعمتوں کے محض عشق الہی بھی

Page 221

220 بے معنی چیز ہے کیونکہ خدا سے محبت ہی کیونکر پیدا ہوسکتی ہے.جب تک نعمتوں کے احسانات انسان کو محبت کرنے پر مجبور نہ کر دیں.آدمی کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرتا ہے.اور کسی سے نہیں اور جہاں بھی محبت دیکھو گے.یہی پاؤ گے.کہ اس کی اصل وجہ کوئی نہ کوئی احسان ہے.(12) صرف روحانی جنت“ یعنی محض آنند میں رہنا ایک فرضی چیز ہے یا شاید موت اور مٹی ہو جانے کا دوسرا نام.سُن !غور سے اے جان تو افسانہ لذت مطلب ہے تیری زیست کا میخانہ لذت انسان حقیقت میں ہے دیوانہ لذت یا شمع تنعم کا ہے پروانہ لذت دنیا تو ہے بازیچہ طِفلانہ لذت فردوس ہی ہے اصل میں شمخانہ لذت لذات تو دنیا میں نمونہ کے لئے ہیں جنت کا بنے تاکہ تو مستانہ لذت اُس صوفی احمق کی ذرا عقل تو دیکھو مذہب کو بتاتا ہے جو بیگانہ لذت معشوق ہے انسان کا گو خالِقِ نعمت مقصود مگر اُس کا ہے میخانہ لذت فطرت میں ضمیر اس کے ہے لذت ہی کی خواہش جسمانی مزوں کا ہے یہ مستانہ لذت لذت کے سوا تلخ ہے سب زندگی اس کی مرجائے نہ گر پائے یہ نذرانہ لذت ہر وقت سرشت اس کی ہے مائل بہ لذائذ کوشش ہے بیٹے ساغر و پیمانہ لذت دنیا کے مگر لطف ہیں فانی و مکدر ہے عارضی اور سیخ یہ کاشانہ لذت لذات کو دنیا کی تو کر ترک اے طالب ! عقمی کا ملے تا تجھے کم خانہ لذت بھولے گا تو ساقی کو اگران میں پڑے گا گم ہو گی کلید در میخانہ لذت

Page 222

221 ہے خالق نعمات خداوند دو عالم مانگ اُس سے دُعا تا ملےکم خانہ لذت اس ترک سے مولیٰ کی رضا تجھ کو ملے گی دُنیا کا یہی ترک ہے، بیعانہ لذت ہم عاشق ساقی ہیں، وہ منعم ہے ہمارا محسن ہے مرا ساقی میخانہ لذت احسان کا مطلب ہے فراوانی نعمت نعمت ہی ہے گر سوچو تو پیمانہ لذت ہے دائگی اور غیر مگدر وہی بادہ پلوائے گا جو ساقی کم خانہ لذت جنت میں تو ہے یار بھی اور وصل و رضا بھی ہے خانہ دلدار ہی کاشانہ لذت اسے ساقی میخانه! خُدارا یہ کرم کر دے ہم کو سرافرازی شاہانہ لذت جنت ہے ترے فضل کی اک کانِ تنعم دوزخ ہے ترے قہر سے ویرانہ لذت ا مُنْعَم جاں بخش! عطا عشق ہو تیرا جنت میں ملے جلوۂ جانانہ لذت دنیا میں نہ ہو حرص سفیہا نہ مزوں کی عظمی کا ملے ذوق فقیہانہ لذت اسلام نے فردوس کی نعمت جو عطا کی آ، پیش کریں سب کو یہ شکرانہ لذت

Page 223

222 هجيار کھیار ڈلہوزی سے چند میل کے فاصلہ پر ریاست چنبہ میں ایک نہایت ہی پُر فضا میدان کا نام ہے جس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور اُس پر دیودار کے درخت آسمان سے باتیں کر رہے ہیں.میدان کے بیچ میں ایک چھوٹی سے جھیل بنی ہوئی ہے جس میں ایک چھوٹا سا جزیرہ تیرتا پھر رہا ہے.میدان کے کنارے پر دو تین ڈاک بنگلے مسافروں کے قیام کے لئے بنے ہوئے ہیں.ایک مندر اور ایک دُکان بھی ہے.کھجیار کا منظر ا تناولفریب،خوشنما اور دل لبھانے والا ہے کہ اُس کی تصویر قلم سے نہیں کھینچی جاسکتی.انسان دیکھ کر ہی اُس کا پورا لطف اُٹھا سکتا ہے.اسی قدرتی منظر سے متاثر ہو کر یہ نظم لکھی گئی ہے.نظم کا چوتھا شعر ایک دلچسپ قصہ سے متعلق ہے جو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک جوگی کھجیار میں آکر جھیل کے کنارے بیٹھا.یہ معلوم کرنے کے لئے کہ جھیل کتنی گہری ہے اُس نے رستی بٹ بٹ کر پانی میں ڈالنی شروع کی.بارہ برس تک وہ رسی بٹ بٹ کر جھیل میں ڈالتا رہا.مگر اُس کا تھاہ نہ ملی.آخر جوگی نے یہ کہہ کر واہ بے انت، جھیل میں چھلانگ لگائی اور اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا.بس گیا دل میں میرے ماہ لقائے کھجیار سامنے پھرتی ہے آنکھوں کے فضائے کھجیار وادی عشق کے افسر وہ دلوں سے کہہ دو روح پرور ہے عجب آب و ہوائے کبھیار آزمائیں جو کبھی اس کو اطبائے زماں سب دوا چھوڑ دیں جز خاک شفائے کھجیار حُسنِ بے آنت میں کیا جانے کشش کیسی تھی جوگی جی“ ہو گئے تن من سے فدائے کھجیار گوشئہ چشم میں عاشق کو جگہ دی اس نے سیکھ لے بزم حسیناں! یہ وفائے کھجیار

Page 224

223 3 مردم پشم جو ہلتی ہے ادھر اور اُدھر ناوک صید جگر ہے یہ ادائے کھجیار سرو آزاد ہوئے عشق میں اس کے پابند منہ سے خاموش ہیں پر سر میں ہوائے کھجیار واں تو وہ قحط رسڈ اور یہاں یہ افراط شاہ چنبہ سے تو بہتر ہے گدائے کھجیار شوخیاں وصل کی شب کی نہیں بھولیں اب تک یاد ہیں ہم کو وہ سب کو رو جفائے کھجیار ہم نے پہلے بھی دیا کو چہ میں اس کے پہرا آج پھر قید کردیا ہے سرائے کھیار چلبہ و کف گئے، ٹوپ بھی دیکھا کالا پر نہ پائے کہیں، یہ ناز و ادائے کھجیار زندگی اس کی بھی کیا خاک ہے اس دنیا میں جو کہ ہوتے ہوئے وسعت کے نہ آئے کھیار جس کی مخلوق میں یہ حسن و دلآویزی ہو کس قدر خود وہ حسیں ہو گا خدائے کھجیار (الفضل 3 جون 1943ء) 1 مردم چشم یعنی وہ چھوٹا سا جزیرہ جو جھیل میں تیرتا پھر رہا ہے.2 دیودار کے اُونچے اُونچے درخت جو میدان کے چاروں طرف کھڑے ہیں.3 اس زمانہ سخت قحط پڑا ہوا تھا چنبہ میں روپیہ کا تین سیر آتا ملتا تھا اور وہ بھی مکئی کا.اور بنتا بھی مشکل سے تھا.مگر کھجیار میں گیہوں کا آٹا حسب ضرورت مل گیا اور ہم نے خدا کا شکر ادا کیا.4 یہ نظم چنبہ سے واپسی پر جب دوبارہ کھجیار میں ٹھہرے اُس وقت لکھی گئی تھی.5 جب ہم ڈاک بنگلے میں جا کر ٹھہرے تو لوگوں نے کہا کہ ” یہاں رات کو کچھ نکلتا ہے ہوشیار سوئیں ہم حضرت صاحب کی حفاظت کے لئے باری باری ساری رات بندوق ہاتھ میں لئے پہرا دیتے رہے اور آگ روشن رکھی.اس شعر میں اسی کی طرف اشارہ ہے.کے ایک مرتبہ یہاں ہم چنبہ جاتے ہوئے ٹھہرے تھے.دوسری مرتبہ آتے ہوئے قیام کیا.7 سرائے کھجیا ر ڈاک بنگلہ

Page 225

224 عام آدمیوں کی سادہ باتیں اور اہل علم کی اصطلاحیں اہل علم نے اکثر مذہبی اصطلاحیں ایسی مشکل اور نا قابل فہم بنادی ہیں کہ محض الفاظ ہی کے ڈر اور رعب سے غیر عربی دان عوام الناس اُن کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ خوف کھاتے ہیں کہ خدا جانے یہ کیا مصیبت ہے جو ہمیں در پیش ہے.مثلاً عرفانِ الہی الہام خداوندی، محبت الہی ، وصل الہی ، تقویٰ اللہ ، ذکر و تسبیح ، انعامات خداوندی، نصرت اللہ اور تائید الہیہ وغیرہ وغیرہ.جب علمائے کرام اپنی تقریروں میں ایسے الفاظ کا ذکر کرتے ہیں تو بیچارے کم علم دیہاتی لوگ حسرت سے اُن کے منہ کو تکتے ہیں.اگر انہی الفاظ کو عوام کے لئے سادہ عبارت میں اُن کی اپنی زبان میں بیان کیا جائے تو دین کے متعلق لوگوں کی بعض مشکلات دُور ہو جائیں اور اُن کو مذہب کا شوق بھی پیدا ہو جائے.مندرجہ ذیل اشعار میں ہر شعر کے ایک مصرع میں مذہبی اصطلاح اور دوسرے مصرع میں اس کا عام فہم اُردو مفہوم بیان کیا گیا ہے.مطلب یہ ہے کہ لوگ ان اصطلاحات کی اضلیث سے کسی حد تک واقف ہو جائیں.جان پہچان تم سے ہو جائے معرفت سے بھلا ہمیں کیا کام بات سننے کو میں ترستا ہوں مجھ کو الہام چاہیے نہ کلام شم پہ مرتے ہیں اے میرے پیارے عشق کا دے رہے ہو کیا الزام یونہی چھپ چھپ کے ملتے رہنا ثم وصل کا تو خیال ہی ہے خام زاہدو! کیا کریں دعاؤں کو مانگنا بھیک ہے ہمارا کام مجھ سے تقویٰ کا کرتے ہو کیا ذکر ڈرتا رہتا ہوں جب میں تم سے مدام تعلق کیا اپنے دلبر کا چُپ رہے ہیں نام ذکر و تسبیح ނ واسطہ کیا مجھے عبادت سے ہوں تمہارا میں بندہ بے دام

Page 226

225 ہم تو تیرے ہیں خاک پا اے دوست تعجب اور کبر سے ہمیں کیا کام جس کی آنکھوں میں رات کٹتی ہو وہ تہجد میں کیا کرے گا قیام چیز کیا ہیں یہ نصرت و تائید تم ہی آؤ گے وقت پر کچھ کام ہم فقیروں کو دیجئے خیرات اور کچھ چاہتے نہیں انعام (الفضل 17/دسمبر 1944ء) مغرب زدہ صفائی مرحبا! یورپ زده، فیشن پرست خوب ہے تیری صفائی اے حسیں! داڑھی مونچھیں صبح دم ہوتی ہیں صاف اور بنا کرتی ہے زُلف عنبریں میل اور صابن کے اندر بیٹھ کر ایک ٹب میں غسل ہوتا ہے وہیں مُوئے زیر ناف اور مُوئے بغل بن گئے ہیں تیرے مارِ آستیں موتنا ہو کر کھڑے اس طرز سے جس سے بیل اور اونٹ تک ہوں شرمگیں پُرزہ لے کر رڈی اک اخبار کا بعد حاجت صاف کرتا ہے سر میں تیرے نائن پنجہ سنگ سے غلیظ ہے چھری کانٹے میں سب ایمان و دیں تازہ کھانا منع ہے تیرے لئے ہیں غذا ئیں امریکہ و یورپ کے ٹیں دانت تیرے میل سے ہر دم گھرے کھا کے گلی تک نہیں.صد آفریں! جوتیوں سے فرش پر پھرتا ہے یوں تو ہے گویا ساکن چرخ بریں پھر بھی تو کہتا ہے ”کالا لوگ“ کو ” کچھ صفائی آپ لوگوں میں نہیں“

Page 227

226 اہلِ مغرب کی تو فطرت میخ ہے ساری باتیں ”فطرتی گم ہو گئیں تیرے آبا کا عمل ان سب پہ تھا وائے حسرت! تو نے ساری چھوڑ دیں عقائد جو خدا مانے، وہ احمق ہے نرا اور اگر ہے وہ تو دکھلاؤ کہیں نام مذہب کا نہ لاؤ مُنہ پہ تم اس سے سب پیدا ہوئے ہیں بغض رکیں ہے تمیز حلت و حرمت فضول آدمی آزاد ہے قیدی نہیں مر کے مٹی میں سب ہی مل جائیں گے کیا کبھی مُردے بھی اُٹھے ہیں کہیں ہے قانون تعزیرات ہند کافی اس سے بڑھ کر لغو ہے قانونِ دیں زینت سرخی اور پوڈر ہے چہرے پر لگا مرد سے عورت بنا ہے نازنیں ناک سے اور منہ سے سگرٹ کا دھواں یوں ہے جیسے چل رہی ہو اک مشیں کٹ گئے ٹانسل اپنڈکس کی شوق میں پر ہے ختنہ پر ہمیشہ نکتہ چیں کچھ جو بچے ہیں وہ بابا لوگ ہیں ہندی کہلانے سے ہیں چیں بر جبیں میم صاحب محرم نا محرماں ناچنے گانے لگی مَحْمَل نہیں بجے تک جاگتے رہنا فضول سوتے رہنا نو بجے دن تک یونہیں چھوڑ ایسی زندگی کو اے عزیز دو تو ہے تہذیب دجال لعیں Appendix 2 Tonsil 1

Page 228

227 بنده تجھ کو مالک نے جو تھا پیدا کیا تاکہ بندہ اُس کا تو بن کر رہے پس تجھے کھانے کو جو دے.کھا اُسے اور جو پہنائے تجھ کو، پہن لے کام جو ذمے ہیں تیرے، کر انہیں تھک گیا جب.حکم ہے.آرام لے تو غلام ابن غلام ابن غلام کام کیا مرضی سے اپنی پھر تجھے؟ گر تو بندہ ہے تو بندہ بن کے رہ ورنہ دعوی بندگی کا چھوڑ دے نفع تیرا بھی اسی میں ہے کہ تو عبد بن کر فائدے حاصل کرے اس غلامی میں ہیں سب آزادیں سخت دُکھ میں ہے جو بھاگے قید سے الفضل 13 فروری 1944ء) جمعہ کا دن (28 ماه صلح 1323 ش) مصلح موعود نے دعوی کیا جمعہ کے دن اور جماعت نے بھی امنا کہا جمعہ کے دن تھا میں صلح کا تاریخ اٹھائیسویں (28) جب حریفوں کا سبھی جھگڑا مٹا جمعہ کے دن جن کے دل میں تھی ابھی باقی ذراسی بھی خلش شک وشبہ اُن کا سب جاتا رہا جمعہ کے دن سر مرا کھاتے تھے پیغامی کے دعوی ہے کہاں؟ اب تو اُن کاغذ ربھی جاتا رہا جمعہ کے دن 1 28 جنوری 1943ء 2 زمانہ حضرت مسیح موعود

Page 229

ود 228 وہ جو رکھتے تھے ارادہ نیک اور صالح بھی تھے پاس آ بیٹھیں ہمارے اب ذرا جمعہ کے دن دیکھ کر اپنا جھو اور اپنے مرشد کا عروج دل میں میں خوش تھا مگر روتا رہا جمعہ کے دن وہ کرے اصلاح دُنیا کی تو ہم اصلاح نفس تب کہیں پورا ہوا پنامۂ عا جمعہ کے دلی مفسر موعود کی سمجھو کہ شامت آگئی یونہی بے مطلب نہیں دعوئی ہوا جمعہ کے دن پھر سمندر پار جائے گا علم توحید کا اک سفر ہو گا نیا، اعلان تھا جمعہ کے دن یا مسیحُ الْخَلْقِ عَدُوانا کہیں گی دلہنیں جب یہ دیکھیں گی کہ دولہا آپ کا جمعہ کے دن میں تیری تبلیغ کو پہنچاؤں گا آفاق تک میرے کانوں نے تو یہ مضموں سُنا جمعہ کے دن گو خصوصیت رہی جمعوں کی اب کے سال بھر لیکن اب تو ہوگئی بس انتہا جمعہ کے دن مصلح موعود کہتے تھے جسے پہلے ہی سب شکر ہے وہ متفق ہم سے ہوا جمعہ کے دن الفضل 20 / مارچ 1944ء) 1 زمانہ حضرت مسیح موعود 2 دجال

Page 230

229 ہم قادیان سے بول رہے ہیں THIS IS QADIAN CALLING 1943ء میں حضرت خلیفہ اسیح ثانی بہت بیمار ہو گئے اور بیماری لیبی ہوگئی.پھر طبی مشورہ کے بعد چند ماہ کے لئے ڈلہوزی تشریف لے گئے.قادیان والوں کے لئے اتنی لمبی جدائی نہایت غیر معمولی تھی.چنانچہ جب عید اور رمضان کی آخری دُعا کا موقع آیا تو لوگ بہت بیتاب نظر آتے تھے.اُن احساسات کے ماتحت دونوں نظمیں لکھی گئی تھیں.پھر حضور عید اور دُعا کے موقع پر قادیان تشریف لے آئے اور لوگوں نے خوشی کی عید منائی.ہوئے سوز عاشقاں آید ہے دود آہ قادیاں آید ہے خاک پائے شہر یار دلبراں در دو چشم سرمہ سال آید ہے قادیاں جسم ست و محمودش رواں باز گے در تن رواں آید ہے.1 شهد ازکے د تهی از کے خُم بادہ کشاں تا ༩ گے پیر مغال آید ہے یار در گهسار و یاران در وطن عید رمضاں رائگاں آید ہے عید یاراں گے شُود در قادیاں تا نه ماہِ قادیاں آید ہے تا بکے اُمید آن روز وصال؟ جاں بہ تن یا تن بجاں آید ہے کز سخن بُوئے دُخاں آید ہے ز آتش فرقت جگر با سوختند (1) رُوح ہا

Page 231

230 کے شوز یا رب! کہ بینم رُوئے دوست گے بوڈ کاں دلستاں آید ہے بیر صحت یار شد در مرغزار تا به جسم و جاں، تو ان آید ہے اں اے صبا! از بلبلان مزوده بسیار کاں گلے در گلستاں آید ہے درد ما شعرم بخواں پیش شہم کیں فغاں از قادیاں آید ہے (الفضل 22 ستمبر 1945ء) 2 فقر اور افلاس کی ایک حکمت اگر سب غریبوں کو دے دو امارت تو دنیا کا کل آئمن کر دیں گے غارت اہلِ دَوَل اور یہ اہلِ حکومت نہ کرنا بلا وجہ ان کی حقارت کہ یہ اُن غریبوں سے بہتر ہیں بے شک نظر آ رہے ہیں جو اہلِ ولایت اگر ان مساکیں کو مل جاتی دولت تو دکھلاتے اُن سے بھی بڑھ کر شقاوت خدا نے مصائب میں ہے اُن کو جکڑا کے ظاہر نہ ہو اُن کی مخفی بغاوت غریبی بھی اُن کی خدا کا کرم ہے ہر اک کام میں اُس کی ہوتی ہے حکمت یہاں اُن کا ہمدرد سارا جہاں ہے وہاں جا کے مل جائے گی اُن کو جنت 1 طاقت 2 مولوی عبدالرحیم صاحب درد

Page 232

231 کیا دیکھا؟ ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا اک نبی دیکھا، اک خدا دیکھا باغ انگلوں نے جو لگائے تھے ہم نے سب کو ٹچا کھچا دیکھا باپ بیٹے کو بھائی بھائی کو ایک کو ایک ایک کو ایک سے جدا دیکھا آخرت کے ہیں یاں جو نمبردار جب بھی دیکھا، انہیں خفا دیکھ دین کے نام پر انہیں دائم پیٹ کے غم میں مبتلا دیکھا درد اپنے لا دوا دیکھا نظر لطف کے سوا تیرے سگ دنیا کو چیختے ہی سُنا خوش فقط مرد باخدا دیکھا عمل معلم کو معلم کو اک کتابوں لدا گدھا دیکھا عالم سید اسکندری تھی جسم خود ہی پھر اُس کو ٹوٹتا دیکھا ہارتے پایا اہل باطل کو راستبازوں کو جیتتا دیکھا نفس امارہ، تیرے در کو چھوڑ وقت پیری ہوا جو حافظہ گم در بدر بھیک مانگتا دیکھا برابر ہوا سُنا، دیکھا تاک میں ہے، مگر نہیں آتی ہر طرح موت کو بلا دیکھا گوشت خوروں کی تندیاں دیکھیں دال خوروں کا حافظہ دیکھا قادیاں کا جو ایک قصبہ ہے دین کا اُس کو مورچہ دیکھا

Page 233

232 و کل کے بچے کو آج دنیا نے مظہر الحق الغلا دیکھا اہل سائنس کا وہ سویر مین بھی سوچا، سوچا، تو مصطفی دیکھا ساری دنیا میں سب سے بے مصرف ہم نے تجھ کو، اے آشنا دیکھا إِنَّمَا أَشْكُوا بَنِي وَ حُزْنِي إِلَى الله دو مرے بازو تھے، دونو کٹ گئے ایک اُن میں بھائی میر اسحق تھے دوسرے تھے حضرت مرزا شفیع خسر ہو کر، کارکن تھے بن گئے چھوڑ کر اس عالم فانی کو، آہ! سال کے اندر ہی دونوں چل بسے ہو گیا بے دست و پا اُن کے بغیر کون میرے کام، اے مولا! کرے کوئی اُن جیسا نظر آتا نہیں ناز برداری جو میری کر سکے وہ تعاؤن اور وہ خدمت اب کہاں چل دیے جب سے یہ دو محسن میرے زندگانی کا مزا اُس کی ہے کیا؟ جس کے مخلص ہی نہ ہوں باقی رہے تھے وصی میرے وہ دونوں ایک حیف! میں تو جیتا رہ گیا، وہ مر گئے ہوں مدارج اُن بزرگوں کے بلند حق تعالیٰ مغفرت اُن کی کرے وہ تو آ سکتے نہیں دُنیا میں پھر اب تو مجھ کو ہی خدا واں لے چلے 1 ٹرسٹی

Page 234

233 نیز جب تک ہے حیات مستعار اک جماعت خیر خواہوں کی ملے اے خدا، اے چارہ آزار ما عرض ہے مجھ سے، اگر تو مان لے عمر پہلی کی، نہ کریو باز پرس عمر باقی، تیری طاعت میں کئے یاد ہے تجھ کو مرا قصہ ! میری حالت زار ؟ حضرت میر صاحب کی ذیل کی یہ غیر مطبوعہ نظم اُن کے فرزند سید محمد امین صاحب نے فروری 1960ء کے خالدر بوہ میں چھپوائی تھی.حضرت سیدہ مریم صدیقہ بنت حضرت میر صاحب حرم محترم حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے اسے خالد کے پرانے فائلوں میں سے تلاش کر کے اس مجموعہ میں شامل کرنے کے لئے مجھے ربوہ سے بھجوائی جس کے لئے میں محترمہ کا نہایت ممنون ہوں.(محمد اسماعیل پانی پتی) ساقیا! کس لئے رونق نہیں کے خانے میں کیا ابھی دیر ہے کے خواروں کے یاں آنے میں مہربانی سے میرے واسطے شیشہ وہ لا یعنی جو تیز ہو سب سے تیرے مے خانے میں اک خبر آج خوشی کی میں سناتا ہوں تجھے ڈال اس بادہ رنگین کو پیمانے میں یاد ہے تجھ کو میرا قصہ! میری حالتِ زار کچھ کسر باقی تھی بتلا میرے مر جانے میں

Page 235

234 کون سے دُکھ تھے وہ فرقت کے جو ہم نے نہ سہے کچھ تمیز اپنے میں باقی تھی نہ بیگانے میں عقل تھی اپنی کہاں، فہم کہاں، ہوش کہاں فرق تھا مجھ میں کہاں اور کسی دیوانے میں رنگ پر رنگ پیغام صلح میں ایک نظم چھپی تھی.مندرجہ ذیل نظم اُس کے جواب میں الفضل 18 / مارچ 1943 ء میں شائع ہوئی.ظاہر ہوا ہے آپ کا لاہور یا نہ رنگ کھیلا ہے خوب آپ نے یہ ہولیا نہ رنگ ناموں پر تم نہ جانا کہ دعوے تو هیچ ہیں صادق بھی بعض رکھتے ہیں کچھ کا زبانہ رنگ بے وزن تین شعر ہیں اس نظم میں جناب اچھا ہے میرے دوست تر اما عرانہ رنگ انیسواں، اٹھارواں اور آخری ہیں شعر واضح ہے جن میں آپ کا یہ قاتلانہ رنگ اللہ رے تیری شیخیاں اور کن ترانیاں پیری ہے اور پیری میں یہ مومنانہ رنگ چھ ماہ پہلے گالیاں، اب یوں خوشامد میں رنگت ہے یہ پولیس کی؟ یا تا ئبانہ رنگ ”صالح تو ہے درست مگر تھے پر غور کر کیوں ماضانہ رنگ بنا حالیانہ رنگ؟ منشی کو منشی گر کہا، کیا حرج ہو گیا ! جب معرفت کا اُس نے دکھایا ذرا نہ رنگ 1 ان ایام میں ہولی کا تہوار منایا جا رہا تھا جس میں ہندو ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں.

Page 236

235 تصنیفوں میں دکھاؤ حقائق اگر جدید تب بندہ مان لے گا، کہ ہے عارفانہ رنگ بتلاؤ تو بنائے نئے کتنے احمدی؟ یا بیچنا کتابیں ہے بس غازیانہ رنگ مذہب ہی یاں عداوت محمود جس کا ہو بھیڑوں کا اُس کی پھر نہ ہو کیوں بھیٹر یا نہ رنگ بہتان اور طعن ہے پیغامیت کی جڑ کچھ فاخرانہ رنگ ہے کچھ عامیانہ رنگ تم کو زہے نصیب پشپ کا قلم ملا جس میں ہوائے نفس نے کیا کیا بھرا نہ رنگ دجال کا ایجنٹ چلاتا ہے جس سے کام دکھلایا تم نے اُس سے وہی ساحرانہ رنگ مارا ہے حُبّ جاہ نے تیرے صنم کو بھی بچ جاتا گر وہ رکھتا ذرا عاشقانہ رنگ دشمن تھا اہل بیت کا، مشہور تھا یزید اس کا تو آ رہا تھا نظر کوفیانہ رنگ کچھ دوست بھی بلا لئے اور حاوی ہو گئے جتلانے انجمن یہ لگے مالکانہ رنگ پر قادیاں نے خوب نکالا یزید کو حق نے عطا کیا ہے جسے خیر جانہ رنگ بلوے کئے ، فساد کئے ، شورشیں بھی کیں دکھلاتے ”نور دیں“ کو رہے باغیانہ رنگ شرمندہ ہو کہ تو بہ بھی کی بیعتیں بھی کیں مخفی کیا نفاق کو لیکن گیا نہ رنگ آخر کو چودہ مارچ کو بھانڈا گیا وہ پھوٹ! اُس دن سے پھر نہ رُوپ ہی باقی رہا نہ رنگ $2 جس بزم میں ہو بیعت و جنت کا لین دین کیا حرج ہے کہ اُس کو کہیں تاجرانہ رنگ صدیوں تلک تو اونچے ہی اونچے اڑیں گے ہم بدلے گا اتنا جلد نہ ہر گز زمانہ رنگ

Page 237

236 آنکھوں کو کھول، دیکھ ذرا اے میرے عزیز اب تک ہے قادیاں کا وہی فاتحانہ رنگ باقی جو گالیاں ہیں، نہیں اُن کا کچھ جواب ہم پر تو یار! کھلتا نہیں سوقیانہ رنگ اے دل! تو نیز خاطر ایناں نگاه دار احمد کا چونکہ ان میں ہے کچھ ناقلانہ رنگ صورت اور سیرت حسن صورت ہے موجب شہوت حسن سیرت ہے باعث اُلفت اور خُلق میں ہے کتنا فرق ایک دوزخ ہے، دوسرا جنت خلق ایک فانی ہے، ایک ہے دائم ایک فتنہ ہے، ایک ہے رحمت اور جوانی کی مت دکھا نخوت ہو نہ تو نازاں حسن صورت نور ایماں، محاسن اخلاق بس یہی رو ہیں قابل عزت

Page 238

رض 237 قطعات، رباعیات دانت گرنا ہے آفت ریش ابیض، کرامت پیری پیری شاعروں کے لئے مگر اے دوست رباعی علامت پیری

Page 239

238 (1) کیسی ہے کریم اُس خدا کی درگاہ جس نے کیا ہم کو نیک بد سے آگاہ گر ہم کو سہارا ہے تو ہے اُس کا ہی لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله (2) نفس کی خاطر سے گر کرتا ہے تو عبادت، یہ طہارت، یہ وضو غیر کی خاطر بھی کچھ قربان کر لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا (3) فضل پر گو مخصر ہے سب عطا پر عمل ہیں جاذب فضل خدا اس لئے نیکی میں کوشش صرف کر لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى مقصد (4) اپنا اب والله کوئی نہیں جز الله ہے عشق چڑھا تب بولا دِل لَا إِلَهَ إِلَّا الـ (5) شرک کا علاج سورۃ اخلاص ہیں گنہ بے حد اور علاج اس و عد شرک ہے پر سب سے بد زہر کا قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدُ (6) تندرستی کا گر اگر تندرستی کی آرزو طبیبوں کی کرنا نہ تم جستجو ہے یہی ایک کافی ہے یارو عمل كُلُوا وَ شُرَبُوا لَیکَ لَا تُسْرِفُوا (7) تقوی تقویٰ کے معنی ہیں محض خدا کے خوف اور اُس کی عظمت کی وجہ سے گناہ سے

Page 240

239 بچنا.نہ کہ مخلوقات یا کسی بیماری یا نقصان وغیرہ کے ڈر سے.گشائش کی خاطر جو ہو مُضطرب رہے وہ وہ گنہ سے سدا مختب وَمَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (8) غض بَصَرْ محسن صنعت دیکھ کر پہلے ہی آنکھیں خیرہ تھیں سب سے آخر پیکر حوالے پر جم کر رہ گئیں جو شُمار حسن صانع سے تجھے غافل کرے ہے علاج اُس جلوہ صنعت کا قُلُ لِلْمُؤْمِنِين (9) ابدی جنت رُوحِ انسانی کی پاسکتا ہے کب وسعت کوئی کیا سمجھ سکتا ہے اس کی بھوک کی شدت کوئی ؟ مثل دوزخ نفس بھی ہے چیختا هل من مزید پیٹ اس کا بھر نہیں سکتا بجز جنت کوئی (10) نماز اور زکوۃ دلاتا ہے صدقہ بلا سے نجات دُعائیں پلاتی ہیں آپ حیات یہی دو ہیں مغز احکام دیں أَقِيمُو الصلوة واتو الزَّكوة (11) احمدیہ آئرن فیکٹریز کے متعلق پیشگوئی لوہے کے کارخانے کھلے ہیں کئی جدید اور قادیاں کے لوگ مناتے ہیں اس پر عید احمد کو بھی تو حضرت داؤد کی طرح الہام یہ ہواتھا النَّا لَكَ الحديد 1 وصوّر كم فاحسن صور كم 2 قل للمومنين يغضوا من ابصارهم یعنی ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم کر دیا اس وقت قادیان میں ایک درجن لوہے کی فیکٹریاں ہیں.

Page 241

240 (12) غیر مبائعیین کی تبدیلی عقیدہ دعوی احمد نے نبوت کا کیا ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُون بعد رحلت جب یہی ہم نے کہا ثُمَّ انْتُمُ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُون (13) غیر مبائعین سے اُن کی نمازوں کے متعلق کچھ عرض غیر ہیں سب ميتون کر نمازوں کا نہ خُون اقتدا اُن کی حرام فَا فَعَلُوا مَا تُؤْمَرُون (14) حشر کے دن ایک آریہ روح و مادہ کو مخاطب کر کے یوں کہے گا روح و ماده! تم تو ازلی تھے نہیں لیک ہم رکھتے تھے ایسا ہی یقیں آریہ بن کر بھی گمراہ ہی رہے إِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (15) اعمال نیت پر منحصر ہیں جیسی نیت ہوگی ویسی ہی بر آئیگی مُراد نیک نیت بامراد اور بد ارادہ نامراد ساری برکت فعل کی نیت سے وابستہ ہے جب إِنَّمَا الَا عُمَالُ بِالنِّيَّات رکھ ہر وقت یاد (16) فطرتی تو حید جو عقل سے حاصل ہو سکتی ہے مُكَلَّف ہے ہر رُوح توحید کی اگرچہ نہ دیکھا ہو اس نے نبی یہی دین فطرت ہے ہر عقل کا الستُ (17) ذکر اور دُعا یہ ہے وہ بلی بولتی کرتے تھے ذکر خوب بزرگانِ اولین لیکن دُعا ہے طُرہ وطغرائے آخرین کہتے تھے وہ بزرگ تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور آج کل کے کہتے ہیں إِيَّاكَ نَسْتَعِين یعنی جب ہم تمہیں خدا کے برابر سمجھتے تھے.

Page 242

241 (18) نشان نجات دعا از خدا، رحم بر کائنات ہمیں آمدہ بس نشان نجات ز مصحف بخواں مغز اعمال دیں اَقِيمُو الصَّلوةَ وَاتُو الزَّكوة (19) شرارتوں اور فسادوں سے دنیا میں ہی عذاب آجاتا ہے محسن عرب کے عادی تھے شیطان اور جن کہ سمجھانے کو آیا ایک فساد اور بت پرستی پر نہ چھوڑی اَلاَ بُعْدَ الْعَادٍ قَوْمٍ هُودٍ (20) اعمال کا اصل الاصول إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَائِ ذِي الْقُرُبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَ الْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (احل:91) ایک آیت ہے عجب اضك الأصول حفظ کر لو اُس کو تم اے دوستو عدل و احسان - اثر با پر رحم ہو منکر و فحشا منکر و فحشا - بغاوت سے بچو (21) وسیله وضل ہو جو ملنے کو یار کے بے تاب ڈھونڈتا ہے وسائل اور اسباب بسکہ تقویٰ خدا کو ہے محبوب فَاتَّقُو اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (22) انسان کلام حق مجھی سے ہے خلافت بھی مجھے بخشی مری خاطر بنی جنت بنایا ہے مجھے ابدی امانت بھی ملی ہے مجھے ظلوماً اور جمولاً کو خدا کی روح ہے مجھ میں نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحی (1) عاد عرب کی ایک قوم تھی.جس کی بداعمالیوں کے باعث حضرت ہود اس کی ہدایت لئے مبعوث ہوئے تھے.

Page 243

242 الہامات حضرت مسیح موعود (23) سلطنت ایران کی بابت پیشگوئی ہوا ملک فارس میں برپا فساد تو آیا مسیحا کا الہام یاد رضا شاه در بند قید فرنگ سی ایران در ایوان کسری فتاد (24) دُعا برائے حفاظت مرکز جنگ کی اب چل رہی ہے منجنیق کٹ رہا ہے، مر رہا ہے ہر فریق کر حفاظت مرکز اسلام کی یا حفیظ یا عزیز یا رفیق (25) احمدیت کی ترقی خدا کے ہاتھوں ہے نہ کہ انسان کے ، بے عمل انعام ہے اللہ اکبر مفت کا اکرام ہے اللہ اکبر سلسلہ کو کیا کوئی دے گا ترقی یہ خدا کا کام ہے اللہ اکبر وو (26) أَيْنَمَا تَوَلُّوْ فَثَمَّ وَجُهُ الله سخاوت کا شہرہ ترا کو بگو ہے ہر اک شے میں جاناں ترا رنگ و بو ہے وو بیاں کیا کروں جلوہ حُسن تیرا جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے“ (27) سلام بر مسیح موعود ہمارے دین پر جب آئی آفت تو کی احمد نے تجدید و حفاظت خدا اسلام کا خوش ہو کے بولا سلامت بر تو اے مردِ سلامت“

Page 244

243 (28) كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان نبی سب ہوئے موت کا جب شکار تو اوروں کا کیا ہے بھلا یاں شمار یہ ہے وحی اُن کی جو خود تھے مسیح مکن تکیہ (29) پھر بہار آئی دد بر عمر ناپائیدار ”پھر بہار آئی تو آئے خلیج کے آنے کے دن پھر بہار آئی تو آئے زلزلے آنے کے دن پھر بہار آئی.خدا کی بات پھر پوری ہوئی“ پھر بہار آئی تو آئے خود ترے آنے کے دن (30) دُنیا میں ایک نذیر آیا نذیر اک آیاد نیا میں نہ مانی اُس کو پر دُنیا خدا اُس کو قبولے گا قبولے گی نہ گر دُنیا سچائی اُس کی ظاہر ہوگی اُن پر زور حملوں سے کہ جن کی مار سے ہو جائے گی زیر و زبر دنیا (31) انگریزی الہام حضرت مسیح موعود ، گاؤ از کمنگ بائی ہر آرمی سے ہی از ود یوٹو رکل اپنی میے، آ گئیں فوجیں، اُڑ گئے دُشمن حق کی باتیں نکلیں سچی He is with you to kill enemy.2 God is coming by his army.1

Page 245

244 (32) راز و نیاز (پنجابی) چھڑ دُنیا نُوں بندیا سارا میرا ہو جے توں سچ سچ من کو یں بندہ میرا ہو وو بانہواں گل وچ پائیکے آکھاں تینوں میں ” جے توں میرا ہو ر ہیں سب جگ تیرا ہو (33) عزیزہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنتِ حضرت مسیح موعود نے اپنا ایک خواب بیان کیا کہ کسی نے دو شعر پڑھے ہیں جن میں سے صرف ایک مصرع یا درہا.جو یہ تھا.قبضہ میں جس کے قبضہ سیف خدا نہیں اور سبین خدا سے مراد دُعا معلوم ہوئی اس پر یہ دوشعر موزوں ہوئے.حاصل اُسے مراد نہیں مدعا نہیں قبضے میں جس کے قبضہ سیف خدا نہیں فطرت کے برخلاف ہے یہ بے تعلقی بندہ بھی ہے خدا بھی ہے لیکن دُعا نہیں (34) قادیاں والے صاحبزادی مبارکہ بیگم نے خواب دیکھا کہ گویا وہ لا ہو گئی ہیں.وہاں کے پرانے احمدیوں کے کچھ بچے جو اب غیر مبائع ہیں اُن کے پاس آئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں سے آئی ہیں.صاحبزادی صاحبہ نے جواب دیا کہ میں قادیان سے آئی ہوں.اس پر ان بچوں نے کہا کہ ”ہمارے ابا بھی کبھی قادیان والے ہوتے تھے

Page 246

245 اس پر صاحبزادی صاحبہ نے اُن کو مخاطب کر کے ایک شعر پڑھا جس کے متعلق انہوں نے خواب میں سمجھا کہ حضرت مسیح موعود کا شعر ہے اور حضور نے یہ شعر ان لڑکوں کے حق میں فرمایا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کو اب قادیان سے علیحدگی کی پاداش میں سزا ملے گی.اس قطعہ میں خواب والا شعر دوسرا ہے.پہلا شعر اس خاکسار نے لکھ کر اس کو قطعہ بنادیا ہے.کوئے جاناں سے جو بھاگے ہو کدھر جاؤ گے؟ حسن و احساں میں نظیر اُس کا کہاں پاؤ گے؟ آخری وقت میں تو بہ تو کرو گے لیکن اب کبھی قادیاں والے نہیں کہلاؤ گے (35) بہت تھوڑی پونچی ہے ایمان کی اور اُس پر بھی نیت ہے شیطان کی کوئی دم میں اُڑ جائے گا یہ بھی ٹور مدد گر نہ پہنچے گی رحمان کی (36) خطاب به پیغامیاں ’ پیراں نمی پرند تھے نااہل پیر جو ان کے مُرید ان کو اڑاتے تھے دوستو ! لیکن تمہارا پیر تو اُڑتا ہے مثل برق ایسے کے پر جو توڑو ، تو کیسے مُرید ہو! (37) انبیاء کے خاص معاندین نبیوں سے جنگ کرتا وہی چال باز ہے جس کو زنیم ہونے میں خاص امتیاز ہے مہلت بھی اس کو ملتی ہے پھر خوب ہی طویل سچ ہے کی رسی دراز ہے 1 یعنی نبوت کو بزور اُس سے الگ کرو 66

Page 247

246 (38) مولوی محمد حسین بٹالوی کا ریویو براہین احمدیہ اک ریویو میں لکھا ایسا شیخ بٹالہ نے تھا اپنے قالی حالی مالی جانی کی خدمت دیں کی مرزا نے پچھلی تیرہ صدیوں میں تم ایسا کوئی تو دکھلاؤ نصرت کی ہو حق کی جس نے دامے درمے قدمے سخنے (39) مامورین کے مُخالف خدائی عذاب کو خود بلاتے ہیں خدا جب بھیج دیتا ہے زمانے کے مجدد کو تو پھر سمجھو ملے گی اب سزا ملائے مفسد کو مگر ظالم نکل کر حملہ کر کے خود ہی مرتا ہے کہ موت آتی ہے گتے کی تو بھاگے ہے وہ مسجد کو (40) مولوی ثناء اللہ بھی سلسلہ احمدیہ کا ہی ایک مبلغ ہے یہ کہہ رہے تھے کھڑے ایک دن ذکاء اللہ کہ ماسٹر تو ہیں تبلیغ کے عطاء اللہ یہ سن کے میں نے کہا ” ہو معاف بے ادبی ہے سلسلہ کا مبلغ بڑا ثناء اللہ (41) ایک دشمن کے حق میں جو موسی مر زا کہہ کر تمسخر کیا کرتا تھا تو نے انہیں اے بے حیا! جب ” موسیو مرزا “ کہا یا منہ سیہ تیرا ہوا یا منہ سیا تیرا گیا یعنی زباں بندی ہوئی سرکار کے گھر سے تری یا گر بچا اس سے تو پبلک میں بہت رُسوا ہوا

Page 248

247 میری بعض دُعائیں (42) یا رب! نصیب رکھیو یہ برکتوں کے ساماں یہ مسجد مبارک یہ قادیاں کی گلیاں احمد کا آستانہ، محمود سا خلیفہ یہ مقبرہ بہشتی، یہ رحمتوں کی جھڑیاں بس (43) س مجھی کو تجھ سے ہوں میں مانگتا اور کچھ خواہش نہیں اس کے سوا عشق تیرا جلوہ گر اس دل میں ہو اور سدا حاصل رہے تیری رضا (44) اے مرے رزاق اے میرے کفیل دین و دنیا میں نہ رکھ مجھ کو ذلیل چون مرا با پیلباناں دوستی ست پس درم افراز چوں بالائے پیل (45) گن معنی اے میرے رحماں! ہر جگہ قبر و کشر و بسر و میزاں ہر جگہ خشی اللہ کسی اللہ میری جاں ہر گھڑی، ہر لحظہ، ہر آں، ہر جگہ (46) رات ساری کئی دُعا کرتے اُن سے سے یہ عرض و التجا کرتے کھول دے کان میرے اے شافی ہم بھی باتیں تیری سُنا کرتے (47) اسے محسن حقیقی ! جتنے ہیں میرے محسن سر فصل سب پر یکسر دے جو سب کو بہتر میری طرف سے بدلہ تو آپ اُن کو دیجو دُنیا میں ہوں مظفر عقمی میں ہوں مُنوَّر

Page 249

248 (48) الہی! دے ہمیں دنیا کی جنت رضا کی عشق کی آلا کی جنت بهشت برزخ و خیر عطا ہو خداوندا! ملے عشمی کی جنت (49) عشق سے تیرے یہ دل آباد ہو سب عزیزوں سے مرے تو شاد ہو مغفرت کر دے میرے ماں باپ کی خادم دین متیں اولاد (50) ہو اے خداوند! پھلے پھولے یہ تحریک جدید احمدیت کے لئے ہے یہ ترقی کی کلید آئے تنظیم میں شبان و شیوخ و اطفال ہوگی تبلیغ و زر و وقف سے دیں کی تائید (51) عمر بھر کرتا رہا ہوں میں گناہ مغفرت پر تیری تھی اپنی نگاہ پر میری اُمیدوں پہ اب پانی نہ پھیر ہوں میں عاجز اور تو شاہوں کا شاہ (52) تمہاری مغفرت پر خاتمہ اے کاش میرا ہو ہوستاری دو عالم میں کہ دل بشاش میرا ہو اگر ہو یار تم میرے تو پھر ہے عرض میری بھی ”حساب دوستاں در دل نہ پردہ فاش میرا ہو (53) مغفرت اور پردہ پوشی کر میرے آمر زگار تجھ پہ ہیں اعمال اور نیات میری آشکار لاف زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا ہے زباں میں سب شرف اور پیچ دل جیسے چھاڑ

Page 250

249 (54) شرم سے اُٹھتا نہیں دست دعا اب ہماری لاج تیرے ہاتھ ہے ہم کو کیا غم ہو سکے اے دستگیر جب تری رحمت ہمارے ساتھ ہے ضرب الامثال (55) عبادت اور معرفت کے لئے شکم سیری اور پُرخوری زہر ہے تعیش میں دل کو نہ اپنے لگا کہ آئے عبادت میں تجھ کو مزا بھرے پیٹ سے خوب آتی ہے نیند شکم بنده نادر پرستند خدا (56) خدا کا طالب کبھی نامراد نہیں رہتا تو یاس کو بڑھا کہ نہ کر اپنا عشق سرد خالی نہیں پھرے کبھی اس دن سے اہل درد تجھ پر نہیں تو ہوگا پھر وہ کس پہ مہر باں عاشق که شد ، که یار بحالش نظر نه گزد؟ (57) تزکیه نفس خداوند آشنائی کن کعبه قلب را صفائی گن نشنوی گر نصیحتم اے شوخ ”بے حیا باش و هر چه خواهی کن ہر (58) مضامین نئے نئے دنیا نئی ہے اور قوانیں نئے نئے تجدید دیں ہے اور برا ہیں نئے نئے سب کچھ نیا ہے جب تو ہمارے بھی ذہن میں آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں نئے نئے“

Page 251

250 (59) عشق کچھ علم ہو کچھ عشق ہو کچھ درد ہو کچھ سوز بیدار ہوں راتیں تری خاموش کٹے روز دیتے ہو مرے مولوی ! گو خوب اذاں تم ”اے مرغ سحر باعشق ز پروانه بیا موز (60) دنیا دار اہلِ وفا کب اہلِ ملامت سے ڈرتے ہیں قربان جان و مال وہ جاناں پہ کرتے ہیں دُنیا کے عاشقوں کی نشانی مگر یہ ہے نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں“ (61) مقناطیس قادیاں کشش یہاں کی ، ہزاروں کو کھینچ کر لائی کہ قادیان میں ایمان ہے فریائی جو آ گیا وہ یہیں کا ہی ہو رہا بالکل گجا روز مگس از کارگاه حلوائی (62) اعمالِ صالحہ کبھی تو چاہئے اے دوست، آخرت کا خیال کبھی تو عیش کو چھوڑ اور عمل کا وقت نکال نہ کام آئیں گے عظمی میں مال اور دولت که مال تا لب گورست و بعد ازاں اعمال (63) فضیلت مسیح موعود ہے ہوں مثیل مینی معینی نبی سے افضل جیسے مثیل موسی - موسی ہی سے انسان آتی مشن ہے صادق العود احمد کی نقاش نقش ثانی بهتر کشد ز اول“ (64) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ امتحاں میں سے گزرتا ہے یہاں ہر نیک و بد صبر واسترجاع لے سے تارحمتیں لے بے عدد ابتلائے خوف وجموع و نقص اموال ونفوس هر چه آید بر سر فرزند آدم بگزری 1 یعنی إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِليه راجعونَ

Page 252

251 (65) ہدایت کے معاملہ میں الہام کے بغیر عقلِ انسانی بریکار بلکہ نقصان دہ ہے بریکار ہیں یہ آنکھ کی سب طاقتیں مری جب تک کہ آفتاب نہ دے اُس کو روشنی الہام کی مدد کے سوا بھی اسی طرح ”اے روشنی مطبع تو بر من بلا هدی“ (66) خواب بہت سچے ہوتے ہیں نیکوں کے خواب پراگندہ ، بے معنی جھوٹوں کے خواب مگر شدت خواہش نفس ہو تو آتے ہیں یتی کو چھیچھڑوں کے خواب (67) متلاشی حق کو نصیحت تو کبھی تھا آریہ اور سیکھ کبھی پھر بنا تو پادری پھر مولوی احمدی لیکن ہے غالب سب پہ یار یار غالب شوکه تا غالب شوی“ (68) از خیر محض بجز خیر نمی آید ذات اُس کی ہے خیر محض اے دوست رحم ہے مغز اور سزا ہے پوست سکھ ہے نعمت تو دُکھ علاج تیرا هر چه از دوست میرسد نیکوست (69) بیعت ایک معیار ہے کس میں اعلیٰ جوہر ہے بیعت یہ اظہر ہے جو بندھ گیا موتی تھا جو رہ گیا پتھر ہے 66

Page 253

252 (70) لوگوں کی غلطی مسیحا تھے یہیں دار النعمان لے میں تلاش اُن کی تھی پر بُرج حمل سے میں میشن آتی ہے تم پر بھی یہ صادق ڈھنڈورا شہر میں لڑکا بغل میں“ (71) برآید در جہاں کارے زکارے میاں مسکیں کے ہاں پڑتے تھے فاقے کہ آ پکڑا محلے کو وبا نے میاں کا بھر گیا صدقوں سے کوٹھا کسی کا گھر جلے اور کوئی تاپے (72) اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رَسَالَتَهُ حسد سے نہ بن تو مسیحا کا دُشمن دلائل کو دیکھ اور نشانات روشن نہ کر سوکنوں کی طرح عیب چینی پیا جس کو چاہے وہی ہے سُہا گن“ وو (73) ذکر الہی اور اصلاح نفس رکھ زباں کو ذکر سے مولا کے تر تا زباں سے رُوح تک پہنچے اثر دل بھی سیدھا کر کہیں ایسا نہ ہو ”بر زباں تسبیح و در دل گاوخر (74) تعاون باہمی جسے گھسجلاتے ہیں آپس میں گدھے اک ایک کو یونہی دُنیا بھی تعاون سے ہے چلتی دوستو جملہ اخلاق و مروت کی یہی بنیاد ہے ”من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو (75) نئے مدعیان نبوت نبی اک جو دیکھا بصد آب و تاب تو کھانے لگے آپ بھی پیچ و تاب بنے چند رویا 1 دنیا 2 یعنی آسمان خود مدعی ر ہیں جھونپڑوں میں محلوں کے خواب“

Page 254

253 (76) اصلاح ہیں مگر ز حدودِ شرعی گو باقی تعزیروں میں محل دیکھو پہلو اصلاح کا رہے غالب ” ایک لاٹھی سے سب کو مت ہانکو (77) حکمت لے لو جہاں سے بھی ملے خُذ ما صفا سے دین کو ملتا کمال ہے دَع ماگدر سے نفسِ دَنی پائمال ہے حکمت تو مومنوں ہی کی گم کردہ چیز ہے مل جائے وہ جہاں سے بھی اُن کا ہی مال ہے (78) مجازی اور حقیقی معشوق میں فرق میرا معشوق مجازی یہ نہیں اور سہی وہ بھی مر جائے تو پھر عشق کہیں اور سہی کون کہہ سکتا ہے معشوق حقیقی کو مگر؟ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی“ (79) لوگ جو احمدیت میں داخل ہوتے جھجکتے ہیں اُس کا باعث بھی مولوی اور پیر لوگ ہی ہیں چکن صوفی اور مولوی کے جو دیکھے تو شیطاں سے بھی دو قدم آگے نکلے جھجکنے لگی قادیاں سے بھی خلقت حبلا دُودھ کا پھونک کر چھاچھ پیوے“ (80) کبیرہ گناہوں کی نسبت صغیرہ گناہوں کا ترک مشکل ہے وو ہے کبیرہ کا چھوڑنا آساں پر صغیرہ نہ پھٹ سکے گا کبھی و چور چوری سے جائے گا گوٹن ہیرا پھیرا مگر نہیں چھٹتی (81) جنگ عظیم 1943 عیسوی میدانِ جنگ گرم شده رو غنیمت ست بی اے کو ماہوار ملیں سو غنیمت ست امسال غلہ اتنا گراں ہے کہ بے گماں گندم اگر ہم نہ رسد جو غنیمت ست

Page 255

254 (82) بہت تنگی ہوئی ہے میرے مولی نہ چیزیں ہیں نہ نوکر ہیں نہ پیسا کرم کر اور سہولت دے الہی روپے دے کارکن دے اور اشیا (83) یا الہی! رحم فرما کیا کریں! ہائے ایندھن“ چیختے کب تک رہیں ٹھیکری کوئلوں پر مُبر اور مُہر میں گئیں لکڑیاں عنقا ہیں پیسہ (84) نوٹ لے لو اک روپے کا، دو کا، دس کا، پانچ کا ریز گاری کا مگر بالکل نہیں ملتا پتا تاجروں کو نوٹ دکھلاؤ تو وہ کہتے ہیں یوں یا تو پیسے لائیے یا کھائیے ٹھنڈی ہوا (85) جن کے گھر بجلی نہیں ہے اُن کی ہے حالت عجیب رات ساری کاٹتے ہیں وہ اندھیرے میں غریب تیل مٹی کا نہیں ملتا یہاں چھ ماہ سے سانپ نکلے، چور آئے، کیا کریں وہ بدنصیب (86) ہوا اسباب سب زیر و زبر ہے نہ بیوی کی، نہ بچوں کی خبر ہے چلے ہیں ریل کے باہر لٹکتے سفر کیا ہے کہ سچ سچ کا سکڑ ہے“ (87) ہوا ہے جنگ کا اتنا اثر اب نوجوانوں پر کہ مسجد میں بھی پانچوں وقت رہتا ہے یہی چرچا مساجد یہ خدا کی ہیں کہ قہوہ خانے لندن کے خدا کے ذکر سے زیادہ ہے ان میں ذکر ہٹلر کا

Page 256

255 (88) بانی ظلم وستم جو ہیں بڑئے ڈوبیں گے اپنے ہم جنسوں کو ہمراہ لیے ڈوبیں گے بولا اک روز امان اللہ مسولینی سے ہم تو ڈوبے تھے صنم تم کبھی لےڈو میں گیلے ، (89) انگریز تو واقف بھی ہیں اور قوم نہیں سخت جرمن ہیں مگر سخت وہ کر دیں گے ہمیں پست بالکل ہے غلط آپ کا کہنا یہ میرے دوست مارا چه ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت (90) یہ کل کی بات ہے پیسے میں نان گندم آتی تھی مگر اب ایک پیسے میں یہاں ملتی ہے اک پاتھی ہوئی ہے قدر گوبر کی جو تھی تو قیر آٹے کی کہ جو قیمت تھی روٹی کی وہ اب قیمت ہے اُپلے کی (91) الہام سے عالم کی زندگی وابستہ ہے الہام کا سلسلہ ہے دائم الہام سے جہاں ہیں قائم محروم نہیں ہے کوئی اس سے انساں ہو جمادی یا بہائم کے 1ے چنانچہ امان اللہ خان نے جن کا وطن آج کل اٹلی ہے.ایسا ہی کر دکھایا.2 فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوها 3 بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا 4 وَ أَوْ حَىٰ رَبَّكَ الى النحل

Page 257

256 (92) ابتلاء کا فائدہ جوہر خاک نہیں گھلتے کبھی اے خا کی سُرمہ ساں اس کو نہ کر دے کوئی دہقاں جب تک کس طرح ہوں گے عیاں تیرے بھی مخفی بو ہر ابتلا مجھ کوکر یں گے نہ پریشاں جب تک (93) شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے اور ہمارے لئے سودمند جو اوامر ہیں شریعت کے وہ ہیں سارے مفید جتنی باتیں ہیں نواہی کی وہ ہیں ساری پلید تیرے ہی سکھ کیلئے ہے دین ورنہ اے عزیز ہے ترے عملوں سے مستغنی خداوند حمید (94) اللہ اور پرمیشر جو پرمیشر ہے وہ نیکی بدی کا بدلہ دیتا ہے تناسخ کے لئے اک پاپ لیکن رکھ ہی لیتا ہے میرا اللہ سارا اجر دے کر پھر بھی اک نیکی چھپا رکھتا ہے اور بدلہ میں جنت دے ہی دیتا ہے (95) أنا الموجود خدا وہ ہے جو خود اپنا پتا دے کلام اور پیشگوئی اور نشاں سے نہ وہ ہے قعرِ گمنامی سے جس کو ہماری عقل ہی باہر نکالے (96) دل شکنی رستی جو ٹوٹ جائے تو ممکن ہے جوڑنا البتہ اس میں دیکھو گے تم اک عیاں گرہ ایسے ہی اک غریب کا جب توڑ دو گے دل گر جڑ بھی جائے گا، تو رہے گی نہاں گرہ

Page 258

257 (97) دِل نہ میرا توڑ یو اے دل شکن گھر ہے یہ اللہ کا میرا نہیں یاد کر لے قصہ اصحاب فیل اُس کے گھر کو توڑنا اچھا نہیں (98) وصیت کی اصلی وقعت حصہ آمد نہیں بلکہ حصہ جائداد ہے سولہویں اور دسویں حصہ کا کوئی جھگڑا نہیں ہیں وصیت کی مصیبت جائدادیں اور زمیں حصہ آمد تو کہتا ہے کہ چل جنت کو چل پر زمینیں اور مکاں کہتے ہیں نو نو اور نہیں (99) کفران نعمت عمر ساری تو کٹی پیٹ کو بھرتے بھرتے گھس گئے دانت مرے نعمتیں کرتے پھرتے شکر احساں کی جگہ حیف یہ ناشکر زباں نہ تھی پھر بھی شکایت تری کرتے کرتے (100) ایمان علی وجہ البصیرت قصوں کا چاہئے جو خدا مولوی سے پوچھ اور عقل کا ہوگاؤں تو پھر نیچری سے پوچھ لیکن مشاہدہ کا خدا - تجربہ کا گاؤ اے دوست ! یہ تو جا کے کسی احمدی سے پوچھ (101) بہشتی مقبره کس قد ر اللہ اکبر اس زمیں کی شان ہے چپہ چپہ پر وفا ہے عشق ہے ایمان ہے کیسی کیسی صورتیں تھیں، اس میں ہیں مدفون جو ہے بہشتی مقبرہ، یا حسن کی اک کان ہے و (102) توکل تو گل کے معنی ہیں بنگلی خدا کے دین کے کام کو اپنے ذمہ لے لینا اور اپنی God 2 No, no 1

Page 259

258 روزی کو خدا کے ذمہ ڈال دینا.مطلب یہ ہے کہ پورا اللہ کا نوکر ہوجانا مگر بعض لوگ ہر قسم کی روزی کا نام تو کل کا رزق رکھا دیتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے.کام کر اللہ کا.دے گا وہ رزق نام اس کا ہے تو گل“ اے سعید مخبری پیشہ، پولیس کی نوکری کر تو گل کی نہ یوں مٹی پلید (103) قرآنی مقطعات سورہ فاتحہ کے اجزا ہیں گر اصل فاتحہ، قرآن اس کی ہے تعبیر مقطعات ہیں پھر سورتوں پہ کیوں تحریر؟ سو یا د رکھ کہ یہ الحمد ہی کے ہیں ٹکڑے یہ سورتیں انہی اجزا کی کرتی ہیں تفسیر (104) کامل کتاب سوائے قرآن مجید کے اور کوئی نہیں مذہب کی کتابوں میں کہلائے گی وہ اعلیٰ جو خود ہی دلائل دے اور خود ہی کرے دعویٰ رکھے جو نہ یہ خوبی، رڈی کا پلندہ ہے ایس دفتر بے معنی.غرق مئے ناب اولی“ (105) نفس راضیہ ہی مرضیہ بن سکتا ہے منہ سے کیا جیتا ہے اللہ کی رضامل جائے بندہ خود اس سے ہوراضی تو رضا تب مانگے ہے حقیقت یہ دُعاؤں کی تری ، اے کا فر! وہ تو راضی بھی ہے، پر تو نہیں راضی اُس سے (106) شكر میرا سب کچھ ہے امانت آپ کی اور جو لے لو وہ بھی دولت آپ کی جو رہے باقی سو وہ بھی فضل ہے ہر طرح پر ہے عنایت آپ کی

Page 260

259 (107) کوثر معنی گوثر لغت میں آئے ہیں خیر کثیر اور یہی فرقان میں حکمت لے کے معنی ہیں لکھے حکمتیں پس سیکھ لے کچھ دین اور قرآن کی تو آخرت میں جام کوثر تاکہ حاصل کر سکے (108) مجازی اور حقیقی عاشق میں فرق مجازی اور حقیقی میں نہ ہو کس طرح ناچاقی کہ وہ شیدا ہے فانی کا تو یہ ہے طالب باقی 2 کسی فر باد و مجنوں کو بھلا ہم سے ہو کیا نسبت کہ وہ تھے عاشق ساغر تو ہم میں عاشق ساقی (109) سیاست نہ ہو گر سخت نگرانی ، جماعت رہ نہیں سکتی سزا ئیں گر نہ ملتی ہوں ریاست رہ نہیں سکتی شریروں سے رعایت ہو تو نیکوں کا خدا حافظ جماعت یار یاست بے سیاست رہ نہیں سکتی (110) نیچر کی شہادت وجود باری پر مسلسل ؟ وجو دحضرت باری پر شاہد ہے یہ سب عالم کہ اس میں از تقا ہے، یہ نظم ہے.نہیں آتی نظر اس کی بناوٹ میں کوئی خامی ہر اک جز بھی مکمل ہے یہ پورا بھی مکمل ہے (111) چراغ سحری وقت سر ہے یارو - آندھی بھی چل رہی ہے باقی نہیں ہے روغن بتی بھی جل چکی ہے بجھنے کو ہے دیا یہ تیار ہیں فرشتے جھونکے کی اک کسر ہے پھر ختم روشنی ہے ل وَ مَنْ يُوتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا.2 یعنی عاشق مجازی نعمت کا عاشق ہوتا ہے.اور عاشق حقیقی منعم یعنی خدا کا.3 یعنی روحانی جماعت.4 یعنی دنیا وی حکومت.

Page 261

260 (112) جمالی اور جلالی صفات الہی واعظ یہ کہ رہا تھا کہ ”مولیٰ کریم ہے بخشے گا سب گناہ غفور رحیم ہے“ سن کر کہا کسی نے ادھورا نہ کر بیاں اُس کا عذاب بھی تو عذاب الیم ہے“ (113) الہام کے بغیر خدا تعالی اور انسان کا سچا تعلق قائم نہیں رہ سکتا ہو خدا لیکن نہ ہو وہ بولتا ایسا ہونے سے نہ ہونا ہے بھلا دل کسی گونگے سے کیونکر لگ سکے عشق مے خواہد کلام یار را (114) تکمیل مدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت ہدایت ہوا آدم سے آغاز نبوت اور آنحضرت سے تکمیل مگر جب بن گئی دُنیا یہ اک شہر تو کی احمد نے تکمیل اشاعت (115) مذہب اور اخلاق یہ جو اخلاق ہیں، یہ دین نہیں اصل ہے دیں کی ”باخدا ہونا یعنی مذہب ”خدا شناسی“ ہے کہ لوگوں میں خوشنما ہونا (116) اخلاق خود مذہب نہیں مذہب کی گو بنیاد ہیں اُن کے بھی اچھے ہوتے ہیں مذہب سے جو آزاد ہیں ہے حق شناسی اصل دیں لیکن نہ ہوں جو باخدا گو صاحب اخلاق ہوں لقمی میں پھر بر باد ہیں

Page 262

261 (117) گاندھی جی کا برت گاندھی جی با علم و دانش زیر کی عز و وقار برت سے کرتے ہیں بر پاشورشیں یاں بار بار خود کشی کرنے سے ملتی ہیں کہیں آزادیاں؟ وائے بر علمے کہ عالم را کند بر باد و خوار (118) میرا نشیمن بیت مبارک میں اپنا جو ہے نشمین مسجد کی شہ نشیں ہے ہر مومن و مہاجر یاں میرا ہم نشیں تھی ہے منزل ہے برکتوں کی اللہ کا کرم یہ جاں مجو یاد جاناں ، دل یار سے قریں ہے (119) بُری عادتوں کو راسخ ہونے سے پہلے ترک کرو مقدر میں جو لکھا ہے وہ قسمت ٹل نہیں سکتی جبکن مل جائے گا لیکن جبلت ٹل نہیں سکتی ہمالہ تو ڑ نا آساں ہے عادت چھوڑ نا مشکل کہ ہو جاتی ہے جو راسخ و و علت ٹل نہیں سکتی (120) إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ نہیں معیار عزت کا حکومت حُسن یا لشکر نہ جاہ وقوم وطاقت ہے نہ اولا دوز رو گوہر خدا کے ہاں فقط پرسش ہے نیکی اور تقویٰ کی کہ جو تقوی میں ہوں برتر وہی عزت میں ہیں بڑھ کر 1 مسٹر گاندھی بار بار مرن برت کی دھمکیاں دے کر انگریزی حکومت کو مرعوب کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے.2 حضرت میر صاحب عرصہ دراز تک نماز مغرب کے بعد عشاء کے وقت تک بیت مبارک قادیان کے شہ نشین پر بیٹھ کر اپنی نہایت پر معارف باتوں سے محظوظ کیا کرتے تھے اور لوگ بڑے شوق سے اس روحانی محفل میں شریک ہوا کرتے تھے (اسماعیل پانی پتی)

Page 263

262 (121) أَلَا بِذِكرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ حقیقی چین دل کا ہے نہ دولت میں نہ شاہی میں نہ کھیلوں میں نہ نشوں میں نہ شوق مرغ و ماہی میں نه اطمینان قلبی مل سکے چاہت میں عورت کی تسلی دل کو ملتی ہے فقط یاد الہی میں (122) آج کل کے نوجوان کی حالت اور اُن کا سلوک ماؤں سے پیچ سب احسان ہیں شہوت سے ہے ساری غرض بن گیا معشوق وہ پہلو سے جس کے جالگے مشرکوں کی طرح ہے یہ ناخلف اولاد بھی پالا پوسا کس نے ؟ اور گھٹنے سے کس کے جالگے (123) تُراچه سید صاحب ! خود کچھ کر کے آپ بنومحمود ورنہ بڑوں کے عملوں پر تو شیخی ہے بے سود گیدڑ بھی تو شب بھر یونہی روتے پھرتے ہیں پدرم سلطان، پدرم سلطان ، پدرم سلطان بود (124) اشتیاق ملاقات جو آؤ تم میرے گھر میں تو پلکوں سے زمیں جھاڑوں اگر مہماں بنو دل میں تو اپنی جان تک واروں خدارا، اب زیادہ تو نہ تر ساؤ، نہ پھڑ کاؤ یہاں آ جاؤ خود ہی یا اجازت دو کہ میں آؤں (125) انسان کی حقیقت جو دو شرمگاہوں سے نکلے کوئی تو عزت بھلا اُس کی کیا رہ گئی؟

Page 264

263 غلاظت کا کیڑا جاست کی بونڈ کرے گا وہ کس منہ سے کمر ومنی ؟ (126) یقین مومن کی جو دُعا ہے وہ ہوتی قبول ہے لیکن دُعائیں مانگنے کا اک اصول ہے ہو تجھ کو یہ یقین کہ قادر ہے وہ خدا ورنہ یہ تیرا کام ہی سارا فضول ہے (127) در جہاں و باز بیروں از جہاں جب دل خدا سے لگ گیا دُنیا کا کیا ہے ڈر اولا د و مال و جاہ سے کچھ بھی نہیں خطر لیکن جگہ کسی کی نہ دل میں رہے تیرے کچھ بھی بجز حبیب کے آتا نہ ہو کر (128) عملی مساوات کا نقشہ دکھائی احمدیت نے مساوات مسلمانی کہ سب کی اصل آدم ہے اور اس کی خاک اور پانی نکل آئیں گے ایسے بعض جوڑے اس جماعت میں جولا ہی زوجہ سید، جولاہا زوج سیدانی (129) خدا کی معرفت کے سامنے انسان کے گناہوں کی کچھ بھی حیثیت نہیں گناہوں کو نہ رو ہر دم پڑا تو سجدہ گاہوں میں عمل صالح کیے جا اور سما جا اُن نگاہوں میں کوئی دیوانہ ہی ہو گا تقابل جو کرے گایاں خدا کی مغفرت میں اور انساں کے گناہوں میں (130) میری کثرت گناہ آپ خارج ہوا، اولا د رہی سب محروم اک عصیان نے آدم کے مچائی یہ دھوم جرم میرے تو ہیں لاکھوں گنا اس سے بڑھ کر کس لئے پھر نہ مرا دل ہو ملول و مغموم

Page 265

264 (131) ربَّ وَحْدَتُ الوجود تا ابد زندہ رہیں گے تب بھی اے میرے عزیز ہم تو بندے ہی رہیں گے اور رہے گا وہ خدا ناقص و محدود و عاجز اُس کی جو مخلوق ہو غور کر کے دیکھ لے کیونکر بنے گا وہ خدا (132) راز و نیاز میں تم کو رکھتا دوست ہوں یتیم کو بھی معلوم ہے اور تُم ہو میرے مہرباں یہ مجھ کو بھی معلوم ہے پھر اس قدر بیگانگت اور اس قدر اخفا ہے کیوں؟ اوروں سے پردہ کس لئے جب اُن کو بھی معلوم ہے (133) قناعت شکر کر حالت پہ اپنی اے حریص ! کیوں تیری آنکھوں سے بہتے اشک ہیں تو بھلا کیوں رشک غیروں پر کرے جبکہ لاکھوں تجھ پہ کرتے رشک ہیں (134) قبولیت دعا چاہتا ہو گر دُعاؤں کی قبولیت کوئی اُس کو یوں کہہ دو کہ پہلے تو بنے وہ احمدی بعد اس کے دو شرائط میں سے اک پوری کرے یا ہو پورا مضطرب اور یا ہو کامل متقی (135) عالم آخرت کی ضرورت سو خون کر کے پیر پگاڑی گزر گیا پھانسی ملی تب ایک کا بدلہ اتر گیا لیکن گر آخرت نہ ہو اور واں جزا نہ ہو ننانوے کا بولو، عوض پھر کدھر گیا؟ 1 افمن يجيب المضطر اذا دعاه 2 انما يتقبل الله من المتقين پیر پگاڑ وسندھ میں حروں کا پیر تھا.جسے گزشتہ دنوں بہت سے خونوں کے عوض پھانسی ملی.

Page 266

265 (136) أم الصفات گرچہ بے حد ہیں خداوندی صفات ہے مزین جن سے اُس کی پاک ذات سب کا تین کو سمجھو، مگر علم، قدرت، رحم ہیں ائم الصفات (137) اسم اعظم اسم اعظم حق تعالیٰ کا فقط اللہ ہے سارے اسمائے صفاتی کا یہ جلوہ گاہ ہے یعنی پاک ہر عیب سے ہے متصف ہر حسن سے سب سے برتر سب سے اعلیٰ سب سے عالی جاہ ہے (138) انسان کو صاحب حال ہونا چاہئے ” تھا قلم میرا جو اک دن چال مست یہ لگا کہنے کہ بن جا حال مست“ پھر نصیحت کی کہ ” مت ہونا کبھی قال مست و شان مست و مال مست " (139) ترک و اختیار چھوڑا خدا کے واسطے کیا تو نے میرے یار ؟ اور کیا کیا ہے اُس کے لئے تو نے اختیار؟ ثابت نہیں اگر یہ ترا اختیار و ترک دعوے کو بندگی کے اٹھا اپنے منہ پہ مار (140) شادی خاں کلمتہ اللہ خاں ” میرزا" کو کہا جو شادی خاں اس میں کیا راز ہے بھلا پنہاں غور کر تاکہ پائے تو اُس میں بعض اعلیٰ خصال افغاناں (141) جوانی میں انساں خود کو جیسا بنالے، پیری میں بھی ویسا ہی رہتا ہے عشق کا تیرے جوانی میں لگا تھا مجھے تیر وقت کچھ گزرے تو تکلیف بھی مٹ جاتی ہے لیکن اب آ کے وہی درد ہوا پھر ظاہر کہ بڑھاپے میں ہر اک چوٹ اُبھر آتی ہے

Page 267

266 (142) اَطِيْعُوا الله وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ و اولی الامر مِنْكُمُ اطاعت کرو جملہ احکام کی خدا کی، رسولوں کی، حکام کی بسر تاکہ ہو امن کی زندگی یہی تو فضیلت ہے اسلام کی (143) خلق الانسان ضعيفا کمزور کو ہر وقت ہے یاں خوف ہلاکت انساں بھی ہے کمزور کرے اپنی حفاظت چمٹا رہے اللہ کے دامن سے ہمیشہ اس ضعف سے مطلب نہیں، بدیوں کی اجازت (144) پیدا نہیں کیا گیا تو اس لئے ضعیف کرتا رہے گناہ کو سمجھے اُسے خفیف مطلب ہے اس کا چونکہ ہے کمز ور تو بہت آ جا قوی کی گود میں تا رہ سکے عفیف (145) انسان کے لئے جائز لذات اتنی موجود ہیں کہ اُسے حرام میں پڑنے کی ضرورت نہیں قدرت نے مجھ کو ایسا بنایا ہے باکمال جملہ حواس رہتے ہیں ہر دم مرے نہال ہر حرکت و سکون میں فرحت ہے اور مزا لذت سرورِ خواب سے تا لذتِ وصال (146) ظلل مسجد نبوی اور ظلّ روضۂ نبوی ہے اگر بیچ بیچ تجھے کچھ مسجد نبوی کا شوق پڑھ نمازیں ساری بیت الذکر میں بادرد و ذوق گنبد خضرا کے عاشق جا بہشتی مقبرے کر زیارت عشق کا ڈالے ہوئے گردن میں طوق

Page 268

267 (147) گردش ایام جان و دل اُن پر فدا کرتے تھے ہم اپنے حق میں خود بھلا کرتے تھے ہم اب تو اُن کے دل سے ہیں اترے ہوئے جن کی آنکھوں میں پھر ا کرتے تھے ہم (148) دُنیا کے کام کبھی ختم نہیں ہوتے کام دُنیا کے تو چلتے جائیں گے چار دن پہلے کرے تو کیا ہوا آج گو دس کام ہیں باقی تیرے بعد دس دن کے وہ ہوں گے پندرہ (149) جنت و دوزخ مر کرسب کچھ ظاہر ہو، حالت اچھی یا زبون جنت ہے یا دوزخ كلَّا سَوفَ تَعْلَمُون بندے اچھے جنت میں فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَہ گندے مندے دوزخ میں، تُصلى نَارًا حَامِيَه (150) احمدیوں کا عزم گر ہے تو خوش ہیں یار نہیں ہے تو غم نہیں احمد کے ہم غلام ہیں شاہوں سے کم نہیں دُنیا کے فتح کرنے کے دم غم دلوں میں ہیں گو دیکھنے کو ہاتھ میں دام و درم نہیں (151) بڑھاپا اور موت موم شمع تن کا میرا سب پکھل کر بہہ گیا جان بتی سے بندھی ، اب منتظر ہے حکم کی جب ندا آئے گی عزرائیل کی بھڑ کے گی کو جسم سے ہو کر الگ برزخ میں جائے گی چلی (152) امتحان نہ رہا عشق میں تیرے جاناں حال اپنا بیان کے قابل مجھ سے عاجز کا امتحاں ہے کیوں؟ میں نہیں امتحان کے قابل

Page 269

268 (153) خدا کا شکر ناممکن ہے رواں رواں جو کھڑا ہو کے مرا احمد کرے تو شکر تیرا نہ پھر بھی ادا ہواے جاناں! جو ایک پل کے بھی انعام گن نہ سکتا ہو وہ عمر بھر کے بھلا گن سکے کہاں احساں؟ (154) توحید اسلامی بے عیب حسین و بے نہایت محسن کوئی نہ ہوا، نہ ہے، نہ ہو گا تجھ بن کہتے ہیں اسی کو اہلِ دانش توحید عاشق ہے ترا اسی لئے ہر مومن (155) کبائر گر کبائر سے رہے گا تو بیچا پھر صغائر سے بچا لے گا خدا یاد کر لے نام اُن کے اے عزیز! شرک و سرقه - قتل و بهتان و زنا (156) عصمت ہر عمل میرا ہے دھوکا اور فریب خلق سے، خالق سے، اپنے آپ سے ما سوا نبیوں کے بیچ سکتا ہے کون؟ معصیت سے بُجرم سے اور پاپ (157) غیر مبائعیین کا آغاز اورانجام جب ہو گیا ظہور لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ پیغامیوں نے کر دیا رستے کو اپنے گم نکلے جو قادیاں سے پراگندہ ہو گئے الہام ٹھیک نکلا لَيُمَزَ قَنَّهُمْ 1 یہ الہام در اصل لَيُمَزَّ فَنَّهُمُ ہے مگر شعر کی روانی اور وزن کی خاطر ا سے لَيُمَةِ قَنَّهُمُ پڑھا جائے.(محمد اسمعیل)

Page 270

269 (158) نافع چیز ہی دُنیا میں دیر تک رہتی ہے مفید اشیاء ہی رہتی ہیں جہاں میں باقی اور مُمَند وَ اَمَامَا، فَيَمْكُتُ سے سمجھ لو فائدہ کی حد مگر جو شے ہے لا حاصل ، وہ ہے مہمان گھنٹوں کی اگر مائذ شبے مائذ ، شبے دیگر نمی مائذ (159) ریڈیو اور رمضان میں کئی سال سے بیماری کے باعث رمضان کے روزوں سے معذور ہوں اس لئے بعض احباب نے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ چونکہ وہ خود روزے رکھتے تھے اس لئے اپنا ریڈیو رمضان کی حرمت کی وجہ سے میرے ہاں رکھ دیتے تھے.ایک سال اتفاقاً کوئی ریڈیو میرے ہاں نہ پہنچا.اس پر میں نے یہ اشعار کہے.ماہ رمضاں میں مرا گھر مجلس شیطان ہے لوگ رکھ جاتے ہیں اپنے ریڈیو میرے یہاں تنگ گر کرتا ہوروزوں میں تمہیں بھی یہ شریر ہے مناسب پھر کہ اس کو بھیج دو میرے یہاں (160) قادیان کی محبت قبر کی وحشت ، فراق دوستاں، سکرات موت آگئے یہ سب مصائب سر پہ اپنے ایک دم وقت رخلت رُوح میری جسم سے کہنے لگی تیرے چھٹنے سے سوا ہے قادیاں چھٹنے کا غم (161) دُنیا میں پیسے کی عزت ہے جب آیا فقر میرے ہاں اُولُوا لأزحام تک کھسکے نہ میں اُن کا گفؤاب ہوں نہ وہ اب ہیں گفو میرے ہماری جیب تھی وزنی تو ہم بھی تھے ”بنو ہاشم" اور اب الْفَقْر و فَخْرِی ہے تو رشتے تک نہیں ملتے

Page 271

270 (162) انسان ہر جگہ اور ہر عالم میں آرام اور راحت کا طالب ہے اینٹ رکھنا سر کے نیچے قبر میں ورنہ مجھ کو نیند کیونکر آئے گی گو کفن کافی بستر کی جگہ ایک تکیہ ہو تو گلن پڑ جائے گی ہے (163) خدا اور بندوں میں فرق " میر استار تو کہتا ہے کہ تو ہے مرادوست دوست پر کہتے ہیں مجھ سے کہا ہے تو نفس پرست دونوں بچے ہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے ایک ہے زم تو ہیں دوسرے تنقید میں سخت (164) خودنمائی جو بیچتا ہے.بیچ - پر گندم نما نہ بن غالب بنے تو ڈر نہیں غالب کما نہ بن بہتر یہ ہے نمود و نمائش کو چھوڑ دے جو چاہے رُوپ دھارلے پر خود کما نہ بن (165) ہر چیز اپنی مناسب جگہ پر موزوں لگتی ہے جمالی نبی ہو وہ تلوار پہنے؟ مسلماں ہو یورپ کا شلوار پہنے؟ نہ ہو علم گر سبز پگڑی کے اندر تو کیا فائدہ یونہی بیکار پہنے ! (166) عشق حقیقی کی پہچان ہو گئے جو عشق مولیٰ میں فنا عیش دُنیا سے انہیں رغبت کہاں گشتگان نجر تسلیم کو وو رنگ و بُو میں غیر کے لذت کہاں (167) ”چاہئے“ اور ” ہے میں بہت فرق ہے کہتی ہے عقل یہ کہ کوئی چاہئے خدا لیکن کلام حق سے ہے ثابت کہ ” ہے خدا اتنا بڑا یہ فرق ہے جیسے کے اے عزیز! کوئی کہے کہ ہو گا خدا کوئی ”اے خدا

Page 272

271 (168) نورنبوت ڈاکٹر اقبال نے باتیں ہیں کچھ اچھی کہیں بوالکلام آزاد بھی لکھتے ہیں املا دلنشیں جس قدر سکتے ہیں دینی اُن کی تصنیفات میں فیض ہیں مرزا غلام احمد کا وہ سب بالیقیں (169) جوانی اور بڑھاپا کبھی بادام ثابت بتوڑتے تھے اپنے دانتوں سے ولے اب تو گری تک کا چہانا ہم سے مشکل ہے سنا ہے اگے لوگوں کو کہ تھے وہ ساٹھے اور پاٹھے مگر پچپن چھ سے پہلے ہی یہاں تو دانتا کلکل.(170) مرتے وقت شراب ہے بیمار کو گوٹھر بھی جائز ہے مرض میں پر نزع میں کیا فائدہ دینے کا برانڈی افلاک پر کیا کام کسی گندہ نے دہن کا کیوں خُلد میں راہ پائے اُبلتی ہوئی ہانڈی (171) غیر فانی محسن ہی ہمارا محبوب ہوسکتا ہے عشق ہر رنگ میں جنت ہے اگر یار ہو وہ ورنہ ہے آتش دوزخ یہ محبت میری کہ سواحق کے ہر اک چیز فنا کا ہے شکار پوری ہوتی نہیں فانی سے ضرورت میری مجھ کو درکار ہیں وہ حسن وہ احساں جن سے دائمی فیض کی مورڈ رہے فطرت میری (172) اسلام اس دین میں الہام ہے بُرہاں ہے نشاں ہے تنظیم نمازیں ہیں تو تبلیغ اذاں ہے اسلام کے اوصاف کو کیا گن سکے کوئی دلکش ہے ہر اک بات عیاں راچہ بیاں“ ہے 1 ساٹھ سال کے ہو کر بھی بیٹھے جوان تھے.2 یعنی پنشن کا وقت.3 شراب پینے والے کا.4 یعنی جس معدہ میں شراب ہو.

Page 273

272 (173) پانی کی اہمیت مرض الموت میں عزیزو - تم تنگ رکھنا نہ مجھ کو پانی سے بس یہی اک علاج ہے کافی کوچ ہو جب جہانِ فانی (174) کابل کے مظالم قتل دادا نے کیا اک احمدی باپ نے پھر دوسرے کی جان لی خونِ ناحق تین ہوتے نے کئے سلطنت یوں ظالموں سے چھن گئی (175) بڑھاپے میں تو بہ اور استغفار چند دن باقی ہے بابا! زندگی گر عمل ہوتا نہیں تو بہ سہی آخرت کا جب نہ ہو سامان کچھ ہے غنیمت پھر تو استغفار ہی (176) قانون اور مذہب قانون مجرموں کو دیتا فقط سزا ہے رو کے گنہ سے اُس میں طاقت کہاں بھلا ہے تقوی ہی روکتا ہے اقدام سے بدی کے مُجرم و گنہ کی جڑ کو مذہب ہی کاٹتا ہے (177) اصل اور نقل میں تو میری روح ہے اور جسم ہے اُس کا مکاں میرا فوٹو اس ”مکاں“ کی یکرخی تصویر ہے میں کو اور خالق کو میں کے، پوچھتا کوئی نہیں لیکن اس فوٹو کی میرے کس قدر تو قیر ہے (178) فتویٰ اور تقویٰ ذراسی چھینٹ کپڑے پر پڑی ناپاک پانی کی تو حضرت بوحنیفہ نے اُسے دجلے پہ جا دھویا کوئی بولا کہ فتویٰ آپ کا کہتا ہے پاک اس کو تو فرمانے لگے ہنس کر یہ تقویٰ ہے وہ فتویٰ تھا“

Page 274

273 (179) تناسخ کا چکر تناسخ مان کر اپنے تئیں کرتا ہے کیوں ہیں کہ کنوکشن کی خاطر چاہئے مضبوط ساڈینا بھلا غیرت تری ایسا عقیدہ کیونکر مانے گی؟ کبھی شوہر ہو تو ماں کا کبھی جوڑو کا ہو بیٹا (180) مُردہ اور زندہ خدا یورپ کا مرا ہوا خدا ہے مغرب کے سولی ٹنگا ہوا خدا ہے ہے یہ دیکھ کر عقائد غصے میں بھرا ہوا خدا (181) خالق کون و مکاں مکاں کو اور زماں کو حق تعالیٰ نے کیا پیدا مقید کر دیا مخلوق کو ان جیل خانوں میں سو ہم محدود ہیں، فانی ہیں اور بندے ہیں خالق کے اکیلا ہے وہی آزادان سب کارخانوں میں (182) لا تَذِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى کیا دائیں بائیں دیکھ رہے ہواے مہرباں یہ پل صراط ہے.نہیں قلیوں کا یہ مکاں کوئی نہیں اُٹھاتا کسی دوسرے کا بوجھ اپنی صلیب آپ اُٹھانی پڑے گی یاں (183) نیک میاں بیوی عورت جو نیکو کار ہو خاوند کی جو عزت کرے گھر میں بسے الفت کرے بچے بنے خدمت کرے شوہر جو صالح نیک ہو گل مہر دے نگراں بنے تعلیم دے نیکی کرے سب خرچ دے شفقت کرے 1 ہیٹا : ذلیل 2 کنوکشن Conviction: یقین وایمان 3 ڈیٹا Data : دلائل نبوت وجوہ

Page 275

274 (184) نافرمان اولاد جو اولاد ہو نیک و فرمان بر وہ ہیں نور چشم اور لخت جگر نہیں تو تری آستیں کے ہیں سانپ و یا بغلی گھونسے ہیں وہ بز گہر (185) ذکر الہی کا فائدہ کمزور ہو ایماں اگر تب ذکر کی تاکید کر ایمان میں جب جاں پڑے پھر قرب کی امید کر حق الیقیں گر چاہتا ہے اور اطمینانِ قلب تسبیح کر، تہلیل کر، تکبیر کر، تحمید کر (186) بولومگر اچھی بات نہ بولے اگر وہ تو حیوان ہے اگر لغو بولے تو شیطان ہے کرے نیک باتیں، رہے معتدل کہ حیوانِ ناطق یہ انسان ہے (187) اگر قلبی اسرار فاش ہو جائیں تو لوگوں کا ایک جگہ رہنا محال ہو جائے میرے دل کے گناہوں کو جو تم پڑھ لو تو کہہ دو گے کہ یا تو اس زمیں پر ہم رہیں گے یا ر ہو گے تم تمہارا دل بھی گر محشر میں میں پڑھ لوں تو کہہ دوں گا کہ اب جنت میں یا تو ہم رہیں گے یا رہو گے تم (188) زکوۃ حسن یعنی احسانات خداوندی 66 زکوۃ حسن لینے کو شہ خوباں کے ہاتھوں سے سراپا بن گیا ہوں دوستو کاسہ گدائی کا غریبی نے مری اُس کو کیا ہے مہرباں مجھ پر بھلا پھر کیوں مجھے شکوہ ہو اپنی بے نوائی کا

Page 276

275 (189) کانگریس کے نمائشی ممبر چار آنے کانگرس کے ٹکٹ کے کیسے ادا کھدر کی گاندھی کیپ کو سر پر لیا چڑھا ہندوستاں سے نکلو کا پھر نعرہ مار کر میں بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا (190) آج دنیا کو میں نے دے دی طلاق سب حساب اُس کا کر دیا بے باق اب نہ مانگوں گا اُس سے میں کچھ بھی مل گیا ہے مجھے میرا رزاق نہ (191) آج دے دی میں نے دُنیا کو طلاق عشق سب جاتا رہا اور اشتیاق اس قدر نفرت مجھے اس سے ہوئی کر دیا اولاد کو بھی اُس کی عاق (192) خ فانی مثل حیواں ہے پلید عقل گم اور علم ہے سب ناپدید اس سے بدتر شیخ زانی سے مگر کھیلتا ہے لڑکیوں سے وہ پلید (193) شیخ فانی گرچہ اک حیوان ہے پر وہ حیواں ہو کے بھی انسان ہے شیخ زانی، شیخ فانی سے بُرا ہو کے انساں پھر بھی وہ شیطان ہے (194) حکومت شریروں کی رہتی نہیں یہ دنیا تعدی کو سہتی نہیں وہ ہٹلر، وہ ڈوچے، وہ ٹوچو کہاں سیدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں

Page 277

276 (195) حَسَبٌ مال و دولت آدمی کا ہے حسب سیم و زر ہے قوم اُس کی اور نسب دین وعلم وخُلق سب بے کار ہیں رزق ہے دنیا میں عزت کا سبب (196) تقدیر معلق و مبرم تدبیر سے وابستہ ہو تقدیر جو کوئی تقدیر معلق اُسے کہتے ہیں خرد مند لیکن جو قضا ٹل ہی نہ سکتی ہو کبھی بھی مبرم ہے وہ تقدیر کہ رستے ہیں سب ہی بند (197) یورپ میں اک صلح ہوئی اور وہ بھی حق کیسی عجیب طرح ہوئی! اور وہ بھی حق لیکن دراصل مصلح موعود کے طفیل ”ہندوستاں کی فتح ہوئی، اور وہ بھی حق“ 2 جون 1945ء کو دن کے دس بجے میں آرام کرسی پر بیٹھا ہوا اُونگھ رہا تھا ، کہ میرے سامنے لیتھو کے پریس کی کاپی کا ایک صفحہ آیا.اس میں سب سے اوپر یہ مصرع لکھا تھا کہ ”ہندوستاں کی فتح ہوئی اور وہ بھی حق حق کا لفظ بہت موٹا لکھا تھا.ہندوستان میں جو آج کل نہایت کثرت کے ساتھ سیاسی گفتگوئیں ہو رہی ہیں بظاہر یہ تحریر انہی کے متعلق معلوم ہوتی ہے.واللہ اعلم ( محمد اسمعیل 30 جولائی 1945ء) ( یہ پیشگوئی جو 1945ء میں کی گئی تھی 1947ء میں نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہوگئی جب کہ ہندوستان کو آزادی کی فتح نصیب ہوئی اور حقدار کو اُس کا حق مل گیا.محمد اسمعیل پانی پتی) (198) التجا آغوش مادری میں مجھ کو جو تو لٹا دے قدموں میں میری جان کے مجھ کو سلا دے اے مقبرہ کے والی، دوں گا تجھے دُعا یہ پہلو میں اک نبی کے تجھ کو بھی جا خدا دے

Page 278

277 (199) 1945ء میں کپڑا نہایت نایاب اور مہنگا ہو گیا.اس موقع پر میر صاحب نے یہ شعر کہے.ساعت کسے معلوم ہے اپنی اجل کی جان من کپڑے کی تنگی ہے بہت ، بنوا کے رکھا اپنا کفن ایسا نہ ہو، بر وقت وہ بڑ از جو بدذات ہیں لٹھے کے کوٹے میں کریں چوری ، تغلب یا غبن اس لئے حضرت میر صاحب نے اپنا کفن پہلے بنوا کے رکھ لیا تھا (محمد اسمعیل) (200) قلمی آم کا اسمعیل پڈنگ لنگڑا نچوڑ کر تم ، بالائی اُس میں ڈالو کچھ کیوڑہ چھڑک کر ، قدرے شکر ملا لو آخر میں برف سے پھر ٹھنڈا کرو پیالہ اللہ کا نام لے کر ، چمچے سے اُس کو کھا لو (201) شاعر بنے ، عاشق بنے ، واعظ بنے ، عالم بنے پاپڑ سب ہی بیلے، مگر کندن نہ پھر بھی بن سکے آخر میں دروازے پہ تیرے آ پڑے صورت سوال فضلوں سے خا کی تا کہ بیناری سے نوری بن سکے (202) بال ہوتے گئے سفید مرے قلب ہوتا گیا سیہ میرا الٹی گنگا لگی یہ کیوں بہنے؟ حال کیوں ہو گیا تبہ میرا؟ (203) رضائے الہی خوشنودی عارضی پر مولا کی تم کرنا نہ کہیں غرور سے رستہ گم کیا فائدہ ٹمپریری ویلڈن کا ہے درجہ ہے رضا کا اِعْمَلُو مَا شِئْتُم Temporary Weldon 1

Page 279

278 (204) دعا ذلت نہ چکھائیو ہمیں تو خالق! صدقہ نہ کھلائیو ہمیں تو رازق مالک! نہ دکھائیو ہمیں تو دوزخ ہم تیرے ہی منہ کے ہیں فدائی عاشق (205) مثال حرم کعبہ دل یہ میرا خدا کا بھی گھر تھا، بنوں کا بھی گھر تھا بروز محمد نے بت نکالے نہیں تو جہنم ٹھکانا تھا اپنا (206) تاریخ طبع بخار دل حصہ دوم 1945ء کدعہ کے ہیں سخنور صابر شاکر، اکمل، گوہر ان کے آگے میرا نغمہ گھر کی مرغی دال برابر

Page 280

279 ابیات 1 کوئے جاناں کا پتا ملتا نہ تھا اک نبی آیا تو رستہ مل گیا 2 دُعا ہے خدا کے خزانوں کی کنجی ہر اک قفل کی ہے یہی ماسٹر کی لے دل سے نکال کر بخل کو اور خوف مرگ کو اس کے سوا مقام محبت عطا نہ ہو -4 ایک تھی دونوں کی منزل فرق پر رستوں کا تھا شیخ سیدھا، گبر دوزخ ہو کے پہنچ خُلد میں 5- سارا جہاں بہشت میں ہو تب بھی مجھ کو کیا جب تک کہ خود میں داخل خُلدِ بریں نہ ہوں جلوے کی تیرے دنیا قرنوں سے منتظر تھی چہرہ دکھا دے اب تو ، اے آسمان والے! -7 اے میرے دل کے مالک ! من کو درست رکھیو کر پاک روح میری تن تندرست رکھیو 8- کیا ٹھکانا ہے دل کی وسعت کا جس میں واسع بھی ہے سما جاتا و شیخ کامل سے فقط عشق مجازی چاہئے ورنہ امر و تو جہنم میں تجھے لے جائے گا 10 - بے دلائل، بے حوالہ ، بے سند درج سب باتیں ہیں، پر ہیں مستند 11- کعبہ دل میں میرے مثلِ حرم تین سو ساٹھ بت تھے اک خدا کے ساتھ 12 - انا الحق کہہ نہیں سکتا، سوا نبیوں کے کوئی بھی ذرا منصور بولا تھا کہ سُولی پہ گیا کھینچا 13 در پہ تیرے، اے شہ والا خصال ہر سوالی کا نیا ہے اک سوال Key 1

Page 281

280 1 الہامی اشعار اور مصرعے سُرخ پوش بلپ بام نظر می آید نه به زاری نه بزور و نه به زر می آید اُم طاہر کی بیماری میں یکم دسمبر 1943ء کو اُن کے لئے ما درون را بنگریم و دجال را 2 ما برون را ننگریم و قال را 3 اولیا را ہست طاقت از اله تیر جسته باز گرداند ز راه 4 حسن و خوبی و دلبری بر تو تمام بعد از لقائے تو حرام 5 میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں 6 7 8 9 10 یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں نہانی راز ہوں گے اُس پہ باہر ( یعنی روشن) (مبارکہ بیگم صاحبہ کے لئے) نہاں ہم ہو گئے یا ر نہاں میں میں ہوں بیکاراور تو ہے کبریا جیسے قالوا کا الف موسیٰ کی یا ہندوستان کی فتح ہوئی اور وہ بھی حق

Page 282

281 1 2 3 4 6 میرے اشعار میں دُعا ہائے مستجاب دعا فرمائیے، لائے خدا جلد اس کو درمیان قادیاں حق بھی مٹتا ہے تعدّی سے کہیں اے ظالم خود ہی مٹ جائے گا تو دست وگر یہاں ہو کر مال اور املاک وقف دیں ہوئے 1 شوق جاه و مال زائل ہو گیا تے مرا نام ابا نے رکھا ہے مریم خدایا! تو صدیقہ مجھ کو بنا دے 5 ع وصیت کے ادا ہونے میں یارب ! کچھ نہ ہو وقتی ،مریم امولا، طیبه بشری، نصیره، سیده اتنے نفر درکار ہیں 1 حضرت میر صاحب 1936ء میں ریٹائر ہونے کے بعد مستقل طور پر قادیان میں مقیم ہو گئے.2 امان اللہ خان امیر کا بل نہایت گمنامی کی حالت میں اٹلی میں مر گیا.3 حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی تحریک وقف مال و املاک پر حضرت میر صاحب نے بڑی خوشی سے لبیک کہا.4 حضرت مریم صدیقہ ( ام متین ) حرم محترم کے متعلق پورا ہوا.کے اپنی زندگی میں ہی حصہ وصیت ادا کر دیا تھا.

Page 283

282 یہ دُعا میں نے 1924ء میں مانگی تھی.سو آج 1945ء میں اپنی زندگی میں اسے پورا ہوتا دیکھتا ہوں.الحمد للہ.یہ دعا میری اور میر الحق صاحب کی لڑکیوں کی شادی کے متعلق تھی.جو اس وقت موجود تھیں.امتہ اللہ کو بچپن میں پیار سے امولا کہتے تھے.( میر محمد اسمعیل) -7 روپے دے، کارکن دے اور اشیاء سوخدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس کتاب (طبع اوّل) کے سارے انتظام 1945ء میں طلع اسمعیل پانی پی کو کارکن بن کر اور قادیان میں پریس کی سہولتیں مہیا کر کے اور کاغذ محض اپنے فضل سے عنایت کر کے بہم پہنچادئیے.(میر محمد اسمعیل) ( اس زمانہ میں کاغذ نہایت نایاب تھا اور پرمٹ پر بھی بہت مشکل سے ملتا تھا.) (محمد اسمعیل)

Page 284

283 مزاحیہ کلام دکھاوے کی محبتیں قاضی صاحب کی جب مری لونڈی شہر کا قاضی صاحب مگر مرے جس دن نظر آئی کہیں نہ محبت فقط دکھاوے کی ہے شہر کا شہر پوچھنے آیا اہل دنیا کا ہے یہی شیوہ نه بزم عزا قاضی صاحب کی ایک تھی بیٹی اپنی گڑیا کا اُس نے بیاہ کیا لڑکی والوں کے ہاں تھا آدھا شہر باقی آدھا براتیوں میں تھا آخر اک دن قضائے ربی قاضی صاحب کا انتقال ہوا ނ بعد کچھ دن کے اُن کی بیٹی کا آدمی ایک بھی ہے موجود کا ایک مفلس سے ہو گیا رشتہ کسمپرسی میں ایسا عقد ہوا محبت فقط دکھاوے کی اہل دنیا کا یہی شیوه قاضی صاحب کی ایک کتیا تھی پیر میں اُس کے چھ گیا کانٹا پھر تو بیمار پرس خلقت کا تین دن تک بندھا رہا تانتا چھن گیا عہدہ قضا، افسوس کچھ دنوں بعد قاضی صاحب کا اترا شحنہ کہا گیا اُن کو نام ”مردک" رکھا گیا اُن کا چھکڑے سے اتفاقاً پھر پاؤں چلا گیا بیچارے کا کچلا

Page 285

284 لاد کر لے گئے شفا خانے فرض اپنا کیا پولس نے ادا ماجرا اب وہاں کا بھی سنئے قاضی صاحب یہ حال جو گزرا پاس پیسہ نہ تھا جو دینے کو ناغہ ہوتی تھیں پتیاں اکثر کسی کا نہ کر سکے میٹھا نہ دوا تھی روئی اور کپڑا جاں بحق ہوگئے وہ گل سڑ کر قصہ یوں آپ کا تمام ہوا ہے فقط محبت دکھاوے کی اہلِ دنیا کا ہے یہی شیوہ قاضی صاحب کا ایک بیٹا تھا بن گیا وہ پولس کا داروغہ باپ کا بنا ڈالا ہو گیا وہ امیر رشوت سے مَقْبُره کروا دیے کئی قرآں اور فقیروں کو خوب کھلوایا جتنے ملا تھے شہر میں سب کو جوڑا اور نقد تحفہ بھیجا پھر بڑے اہتمام سے ہر سال قاضی صاحب کا عُرس ہونے لگا ٹوٹنے لگی خلقت پیر قاضی کا نام چل نکلا قبر پر بن گئے مفت میں وہ قطب اور غوث اور کرامت کا بج گیا ڈنکا قبر پچنے لگی بجوش و خروش بن گئے شہر کے خدا گویا نصف شب کو مگر مزار میں سے سنتے ہیں سب کہ کوئی ہے گاتا محبت فقط دکھاوے کی ہے اہل دنیا کا ہے یہی شیوہ (رہنمائے تعلیم نومبر 1943ء)

Page 286

285 المناک حادثہ مندرجہ ذیل سچا واقعہ میرے بچپن کے زمانہ کا ہے.ایک مہترانی جس کا نام نہائی تھا اور جو جوانی میں بیوہ ہوگئی تھی.ہمارے ہاں قادیان میں کمایا کرتی تھی.ایک دن ایک حلال خور نے جس کا نام پیڑا تھا عین دن کے وقت برسرراہ اُسے پکڑا اور زمین پر گرا کر اُس کی ناک دانتوں سے چبا ڈالی یہ المناک حادثہ 15 ستمبر 1903ء کو واقع ہوا تھا.مجھے اپنی مہترانی کی اس بدحالی کا بڑا رنج ہوا.اور میں نے سارے واقعہ کی ٹوہ لگانے کی بڑی کوشش کی اور جو واقعات معلوم ہوئے ان کو ایک مرثیہ کے طور پر نظم میں لکھا، اس نظم کا قادیان کے بیچوں میں بڑا چرچا ہوا.اور بچے قادیان کی گلیوں میں ان اشعار کو گاتے پھرے.مرثیہ ذیل میں لکھا جاتا ہے:.رنج و الم کا حیف میں کیا ماجرا لکھوں در دینہاں کو کیونکر میں اب بر ملا لکھوں سینہ قلم کا شق ہے یہ کہتی ہے کیا لکھوں اشک سیہ بہاؤں کے یہ سانحہ لکھوں ہوش و حواس پراگندہ سب کے ہیں آثار منہ پہ لوگوں کے رنج و تعب کے ہیں کیسی یہ نا گہانی مصیبت پڑی ہے ہائے کیونکر یہ جھیلی جائے کہ آفت کڑی ہے ہائے منحوس کیسی در دو الم کی گھڑی ہے ہائے ہر سمت اشک غم کی لگی اک جھڑی ہے ہائے آہ و فغاں کا چار طرف ایک شور ہے جوش وفور گریہ سے ہر چشم کور ہے

Page 287

286 اب کیا بتاؤں حالِ دلِ ناتوان و زار ہے جی میں یہ کہ کر دوں حقیقت کو آشکار وہ واقعہ کہ جس کے سبب جاں ہے بیقرار وہ سانحہ کہ سُن کے جسے سب ہیں سو گوار تفصیل اس کی ساری میں زیب رقم کروں جو کچھ ہوا ہے لکھ دوں نہ کچھ بیش و کم کروں تھی ایک مہترانی، نہالی تھا جس کا نام ٹٹی کا صاف کرنا ہمیشہ تھا اُس کا کام نازک تھی اتنی عطر سے ہوتا اُسے زُکام پر اپنے کام میں وہ لگی رہتی صبح و شام عورت تو تھی یہ ہمت مردانہ اُس میں تھی ظاہر میں کوئی حرکت بیجا نہ اُس میں تھی آرام ظاہری کسی صورت کا کم نہ تھا فکر معاش و پوشش و خور کا آئم نہ تھا کچھ فقر و مفلسی کا اسے رنج وغم نہ تھا اندیشہ نوشتہ لوح و قلم نہ تھا معلوم کیا تھا یہ کہ زمانہ ستائے گا یوں بیٹھے بیٹھے خون کے آنسو رُلائے گا مہتر تھی اک زمانہ میں سب مہتروں پر وہ عزت سے اس کے پاؤں کو رکھتے سروں پر وہ کرتی تھی چودھراہٹیں ان کے گھروں پر وہ پانی کبھی بھی پڑنے نہ دیتی پروں پر وہ پر حیف آج خود ہی مصائب میں غرق ہے سیلاب آفتوں کا ز پا تا پفرق ہے تھا ر شک پوستان ازم پہلے اُس کا گھر شوہر کا اپنے سر پہ وہ رکھتی تھی تاج سر گر ساس تھی تو ماں سے بھی کچھ مہربان تر شہر نے دی تھی دل سے بھلا شفقت پدر

Page 288

287 افلاس کی ہوا بھی کہیں سو نہ تھی چار اتنی گشادگی کہ کچھ آرزو نہ تھی کٹتی تھی زندگی اسی عیش و بہار سے سب بے خبر تھے ایک زمانے کے وار سے منہ موڑ اپنا ہستی ناپائیدار سے ساس اور سسرا چل دئے اس روز گار سے سر تاج جو کہ تھا سو وہ سر سے گزر گیا دائح فراق و صدمه غم دل پہ دھر گیا اوپر تلے کی موت سے بدحال ہو گئی آفت پڑی کہ بے پر و بے بال ہو گئی ظلم وستم سے دہر کے پامال ہو گئی اپنی ہی زندگی اُسے بنجال ہو گئی آنکھوں میں ایک قطرہ آنسو نہیں رہا سر کو گھوٹا اتنا کہ اک مو نہیں رہا آخر کو روتے روتے ذرا دل سنبھل گیا دُنیائے دُوں کے شغل میں کچھ کچھ بہل گیا سر پر جو تھا پہاڑ آئم کا سوٹن گیا دُور فغاں کی راہ سے سب غم نکل گیا پھر صبر آ گیا دل آشفتہ حال میں رنج و الم چلے گئے خواب و خیال میں بچوں کے ساتھ اپنے وہ رہتی اکیلی تھی ہمدرد و دوست کوئی، نہ کوئی سہیلی تھی آرام و عیش اُس کے لئے اک پہیلی تھی بخت رسا کے نقش سے خالی ہتھیلی تھی یہ گمپرس حال نہ آیا اُسے پسند بام نشاط پر لگی وہ ڈالنے کمند

Page 289

288 اک آدمی پہاڑ کا پیرو تھا جس کا نام نالی کا صاف کرنا تھا کام اُس کا صبح و شام پڑتا تھا چونکہ دونوں کو اک دوسرے سے کام ہونے لگا کلام کبھی کچھ کبھی سلام آخر کو ہوتے ہوتے ملاقات ہو گئی جس بات کی تھی آرزو وہ بات ہو گئی پیر و کی سر پرستی میں سب غم گئی وہ بھول پھر کھل گیا وہ دل کا جو مُرجھا گیا تھا پھول پھر راحتِ دل از سر کو ہوئی حصول اس نے اُسے اور اُس نے اِسے کر لیا قبول بیوی میاں کی طرح لگی ہونے پھر بسر اپنوں کا کچھ نہ خوف نہ غیروں سے کچھ خطر یہ اُس پہ شیفتہ تھی وہ تھا اس پہ مہرباں پیسے روپے سے اس کی مدد کرتا تھا نہاں بدلے میں یہ بھی اس کو کھلاتی میٹھائیاں ہر روز میٹھے ٹکڑوں کی لاتی رکابیاں بڑھنے لگے یہ پینگ محبت کے رات دن اُس کو نہ چین اس سوا اس کو نہ اُس کے بن پیر فلک نے یاں بھی نہ چھوڑا ہزار کیف عیش و خوشی کے بند کو توڑا ہزار حیف طاعوں سے سر کو پیرو کے پھوڑا ہزار کیف اٹکایا چلتی گاڑی میں روڑا ہزار حیف آنکھوں میں جائے اشک بھر آیا تھا لہو دیوانہ وار پھرتی تھی قصبہ میں کو بگو آہ وفغاں سے دل کا دھواں جب نکل پکا موقوف رفتہ رفتہ ہوا گریہ و بکا چشمان تر کو صبر کے دامن سے پھر سکا اپنے تئیں اک اور کے ہاتھوں دیا چُکا

Page 290

289 گئیں اگلی سی پھر وہ صحبتیں تیار ہو خوابیدہ خواہشیں جو تھیں بیدار ہو گئیں اب کے نصیب جس کے کھلے وہ تھا ایک چور پیڑا تھا اُس کا نام مگر تھا حلال خور تھا شورشوں سے اُس کی زمانہ میں ایک شور ٹکر کا اُس کی ملتا نہ تھا کوئی شاہ زور لاٹھی اُٹھا کے مارے تو بھینسا ہو ادھ مُوا دن رات یا شراب تھی، چوری تھی، یا جوا لالا کے اس نے خُوب ہی اس کو کھیلا یا مال پورا کیا ہر ایک جو اس نے کیا سوال پوشیدہ دل میں جتنے تھے از ماں دیے نکال آخر گزر گیا اسی حالت میں ایک سال افسوس پر کہ دہر کو آیا نہ خوش یہ طور کرنے لگا رقیبوں کی مانند ظلم و جور ایک روز کا سناؤں تمہیں میں یہ ماجرا پیڑے میاں کو ایک سفر پیش آ گیا جاتے ہوئے وہ مل کے نہالی سے کہہ گیا مجھ کو نہ اپنی یاد سے دیجو ذرا بھلا اور عہد لے لیا کہ میں واپس جب آؤں گا تیرے ہی ساتھ ان کے شادی رچاؤں گا القصہ وہ تو چھوڑ کے اس کو چلا گیا دل اس بیچاری غمزدہ کا یاں جلا کیا مدت تک نہ اس کا لگا کچھ بھی جب پتا آخر کو تنگ ہو، اُسے دل سے بھلا دیا چاہا کہ اور کوئی لگے ہاتھ اب شکار موچی ہو، نائی ہو، کہ وہ چوڑھا ہو یا چمار

Page 291

290 وہ اپنی دھن میں تھی کہ ادھر یہ غضب ہوا اک دن برادری نے بُلا کر اسے کہا کس طرح بیوگی یہ کٹے گی تیری بھلا؟ بہتر ہے تیرے واسطے گھر اپنا تو بسا دیور تیرا کماؤ ہے اور نوجوان ہے خاوند مردہ کا ترے وہ اک نشان ہے اصرار سے وہ کنبے کے مجبور ہو گئی تجویز اس بیاہ کی منظور ہو گئی جتنی برادری تھی وہ مسرور ہو گئی گلفتِ فراق پیڑے کی سب دُور ہوگئی شادی کا پھر تو ہونے لگا خوب اہتمام دلہن بھی خوش تھی اور تھا دولہا بھی شاد کام شادی میں ایک ماہ کا جب فاصلہ رہا سامان سب بیاہ کا تیار ہو چکا مشہور اس کا شہرہ ہوا جبکہ جا بجا اتنے میں آ کے غلہ یہ گریاں میں لگا لڈو ہے نہ تھے کہ میاں پیڑے آ گئے آتے ہی طور بدلے ہوئے یاں کے پا گئے گھر آ کے سب ہی بگڑے ہوئے دیکھے اُس نے ڈھنگ اس بیوفا نے پیچھے کھلائے تھے جو کہ رنگ ہونے کو ہے بیاہ یہاں ایک اور سنگ اس بے مروتی و بد عہدی سے ہو کے تنگ کھائی قسم کہ ہونے نہ دوں بیاہ تو سہی کی تو نے جیسی مجھ سے.کروں گا میں تجھ سے بھی اک دن اکیلا پا کے نہالی سے یوں کہا اے نیک بخت میری حقیقت کوئن ذرا رخصت میں تجھ سے ہو کے سفر پر تھا جب گیا جاتے ہی اک امیر کے ہاں سیندھ دی لگا

Page 292

291 افسوس پر کہ ہاتھ لگا کچھ نہ سیم و زر الٹا سپاہیوں نے لیا مجھ کو واں پہ دھر چھ ماہ تک میں بند رہا قید خانے میں اس واسطے مجھے ہوئی یاں دیر آنے میں ایک رتی بھر بھی جھوٹ نہیں اس فسانے میں پر تجھ سا بیوفا بھی نہ ہو گا زمانے میں جو عہد تو نے مجھ سے کیسے تھے گئی وہ بھول اک اور مرد پیچھے میرے کر لیا قبول پیڑے میاں کائن کے یہ افسوس اور ملال کہنے لگی غرور سے اپنے پھلا کے گال چل دُور ہو زبان کو اپنی ذرا سنبھال ایسے لگے ہیں کون سے تجھ کلمو ہے میں لال چور اور قیدیوں سے سے مجھے واسطہ نہیں ایسوں کی دوستی میں کوئی فائدہ نہیں سن کر یہ بات گر چہ وہاں سے گیا وہ ٹل جاتے ہوئے یہ کہہ گیا رہی ڈرا سنبھل دو چار دن میں سارا نکل جائے گا یہ بل تو بھی رکھے گی یاد کہ تھا کوئی پیرا مل کر دوں تجھے میں ایسا کہ سب شادی جائے پھول دیور تو کیا ہے، گتے نہ ہر گز کریں قبول“ پیڑا تو کہہ کے یہ کسی جانب کو چل دیا اور انتقام لینے کی تدبیر میں لگا اور یاں بیاہ شادی کا چرچا تھا جا بجا یاں تک کہ صرف ایک ہی دن باقی رہ گیا اور انتظار تھا کہ سر شام کل کی رات آئے گی گھر نہاتی کے اک دُھوم کی برات

Page 293

292 افسوس پر کہ شادی یہ تقدیر میں نہ تھی قسمت میں بدنصیبی تھی ایسی لکھی ہوئی دُنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی سچ پوچھئے تو جیتے ہی جی گویا مرگئی گزرا وہ اس کے ساتھ کہ تاب رقم نہیں صدمہ ہے دل کو ایسا کہ اب دم میں دم نہیں اُس شام کو کہ شادی میں اک دن تھا درمیاں سر پر تھا اُس کے ٹوکرا جھولی میں روٹیاں بھولی ہوئی تھی دُنیا کا سب سود اور زیاں تھی دل میں خوش کہ کل کو ملے گا مجھے.میاں گھر کی طرف قدم کو بڑھائے وہ جاتی تھی بد قسمتی بھی آگے سے ملنے کو آتی تھی تنہا وہ گھر کو جاتی تھی بے خوف و بے خطر سکھوں کے کوچہ میں سے لگی کرنے جب گزر دو مرد آ کھڑے ہوئے رستے کو روک کر گھبرا کے منہ کو دونوں کے دیکھا جو غور کر چہرے یہ اُڑنے لگ گئیں ڈر سے ہوائیاں سر پر سے ٹوکرا گرا، جھولی سے روٹیاں دہشت کے مارے دونوں کے وہ پینے کوتھی پیڑے اور اس کے بھائی نے فرصت مگر نہ دی دھکے سے اُن کے دھم سے زمیں پر وہ آپڑی چھاتی پہ پھر وہ چڑھ گیا اور اُس کا بھائی بھی.ظلم اُس کے ساتھ کیا اُس پلید نے وہ جتنا کیا نہ تھا کبھی شمر و یزید نے دانوں سے اُس کی ناک پکڑ کر جھنجھوڑ دی دائیں طرف کبھی، کبھی بائیں مروڑ دی آخر بزور کھینچ کے وہ جڑ سے توڑ دی کیا کائی اُس کی ناک کہ قسمت ہی پھوڑ دی

Page 294

293 پھر یہ غضب کیا کہ اسے وہ چبا گیا کیا جانے کیا مزا تھا کہ کچی ہی کھا گیا وو کالے تھا ناک اور وہ کہتا تھا اس سے یوں لے جتنے چاہے اُتنے کم اب میں تجھ کو دُوں تو نے میری اُمید کا جیسے کیا تھا نوں ویسے ہی عمر بھر نہ کراؤں جو غاؤں غوں؟ تو جانیو کہ باپ کا اپنے نہیں میں پوت کو ماریو اُٹھا کے میرے سر پہ اپنے جوت یہ کہہ کے وہ اور اس کا برادر چلے گئے پر عمر بھر کے واسطے اک تحفہ دے گئے نتھنوں سے اُس کے خون کے نالے بہے گئے لوگوں کو جب خبر ہوئی تب گھر کو لے گئے بیهوش ساری رات وہاں وہ پڑی رہی جب دن چڑھا تو ساری حقیقت بیان کی افسوس رنج و غم کی کوئی انتہا نہیں ہمدرد ہائے کوئی بھی اپنا رہا نہیں منہ کو چھپائے ایسی کوئی ملتی جا نہیں اب چارہ سوزِ دل کا سوائے فنا نہیں محروم ایسی عمر میں ہو جائے ناک سے ہے ہے، ملے جوانی بیچاری کی خاک سے نوٹ: اس نئے جرم کی سزا میں پیڑے کو دو سال قید با مشقت کی سزا ہوئی جب وہ قید سے واپس آیا تو فقیر بن گیا.پہلے تو عشق مجازی کے زور میں نہائی کا نام جپتا پھرا.پھر عشق حقیقی کا مدعی بن بیٹھا.چند سال کے بعد اُس نے ایک باغیچہ اور تکیہ بنا کر اُس میں درویشانہ زندگی بسر کرنی شروع کی.اور حلال خوروں کا پیر بن

Page 295

294 گیا.کئی سال ہوئے وہ فوت ہو چکا ہے اُس کا جانشین اُس کی قبر پر گدی نشین ہے.مگر نہاتی زندہ ہے.اس کی عمر ستر (70) سال سے متجاوز ہے.نابینا ہوگئی ہے اور چراغ سحری ہے.(30 دسمبر 1944ء) (2) واویلا 1905ء کا واقعہ ہے.میں میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا تھا.اور موری دروازہ کے اندرا کیلا ایک مکان میں رہتا تھا.میرے پاس باغ نام ایک جولا ہے کا لڑکا کھانا پکانے پر نو کر تھا.وہ اتفاق بیمار ہو کر اپنے گھر چلا گیا.میں نے اگر چہ اس کے ہاتھ قادیان نہایت تاکیدی خط لکھ دیا تھا کہ کسی اور ملازم کو اُس کی جگہ بھیج دیں.مگر تین دن تک کوئی نہ پہنچا.21 جنوری 1905ء کی تاریخ تھی.اور سخت سردی کا موسم تھا.بارش ہو رہی تھی کہ میں نے یہ شکایت نامہ لکھ کر اپنے ایک عزیز محترم “ کے نام ڈاک میں روانہ کیا.اور آج چالیس سال کے بعد 1944ء میں اسے شائع کرنے کی نوبت آئی.لیجئے سنیے :- لے یہ عزیز محترم صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد تھے جو بعد میں ”خلیفہ المسیح الثانی کے نام سے تمام دنیا میں مشہور ہوئے.بچپن میں دونوں آپس میں نہایت ہی گہرے دوست تھے اور یہ الفت و محبت آخر تک قائم رہی.(محمد اسمعیل پانی پتی )

Page 296

295 تم ہے مجھے دوستو کیا سناؤں اپنا حال سہہ رہا ہوں میں کیسا رنج و ملال باغ جب سے اُجڑ گیا میرا بس مصیبت نے مجھ کو آ گھیرا ایک نوکر کے یاں نہ ہونے سے کتنی تکلیف ہو رہی ہے گرچہ تاکیدی ایک خط لکھا تھا اُس کی تم نے مگر نہ کی پروا سے اب رکھے کیا کوئی اُمید ہم ہیں روزے سے تم مناؤ عید کیا سناؤں کہ کیا گزرتی زندگی مرتے جیتے کٹتی ہے جس گھڑی سے ہوا ہے 'باغ، رواں گل کھلا ہے عجب طرح کا یاں! دن شام کو جو آیا گھر فاقہ مستی کی کچھ نہیں تھی خبر سیدھا پہنچا میں ایک دوست کے ہاں تاکہ روٹی کا کچھ بنے ساماں جب تلک آدمی کوئی آوے کھانا تب تک مجھے وہ پہنچاوے اُن کے ہاں جا کے یہ ہوا معلوم کہ یہاں بھی امید ہے موہوم گھر میں اُن کے ہے سخت بیماری اس سبب سے انہیں ہے لاچاری تمام الغرض واں سے جب پھرا ناکام ضعف سے ہو رہا تھا کام دل نے آخر کہا کہ ہو ہشیار گھر میں سامان تو ہے سب تیار فائدہ کیا کہ یوں پھرے گھر گھر خود پکا لے تو اس سے کیا بہتر اُٹھ کے ہمت سے پھر گیا بازار انڈے لایا میں دے کے پیسے چارے 1 عجب زمانہ تھا، اُس وقت ایک پیسہ کا انڈہ آیا کرتا تھا.آج 31 پیسے کا ایک آتا ہے.( محمد اسمعیل پانی پتی)

Page 297

296 لوہے کی ایک انگیٹھی گھر میں تھی اور قدرے پڑا ہوا تھا گھی کوئلوں کا لگا ہوا تھا ڈھیر اور چاول بھی رکھے تھے دو سیر آدھی بوتل جو تیل کی پھونکی تب کہیں گھنٹہ بھر میں آگ جلی بھر گیا گھر دھوئیں سے سر تا سر ہو گیا آنسوؤں سے چہرہ تر آنکھ تھی سُرخ ناک تھی جاری تیل کی بُو نے عقل تھی ماری جس گھڑی مانجھنے پڑے برتن آ گئیں یاد مادر شفین ہاتھ منہ کپڑے سب ہوئے کالے جیسے ہوتے ہیں کوئلے والے دو گھڑوں کا لنڈھا دیا پانی تب ہوئی صاف جا کے اک ہانڈی چاولوں الغرض کو بعد جو میں لگا دھونے دھوتے دھوتے میں بہہ گئے آدھے قصه بسیار کر دیا دیچی کو چولہے سوار! گزرے ہوں گے ابھی نہ پانچ منٹ کہ لگی ہونے دَر پہ گھٹ گھٹ گھٹ ایک صاحب یکا یک آ دھمکے اور آتے ہی کان کھانے لگے ظاہر اگر چہ اُن سے تھیں باتیں دل مگر لگ رہا تھا ہانڈی میں سے انہیں کیا رخصت پر نہ پوچھو برنج کی حالت نیچے گھر چن کی بن گئی پیڑی اوپر اوپر کے بن گئی لیٹی بعد اُس کے جو انڈے رکھے تھے اک رکابی میں لے کے بھون لئے حق نے جو کچھ دیا لیا میں نے کھا کے شکر خدا کیا میں نے مشکلوں

Page 298

297 باقی چاول بچے بچے سو رکھ چھوڑے صبح کو دُودھ سے وہ کھائے گئے کو پھر وہی تھا فکر طعام لیک ہمت نہ تھی کہ کرتا کام انتڑیاں پڑھ رہی تھیں یا حق ہو اور اندھیرا بھی چھا گیا ہر سُو شام اوڑھ چادر گیا انارکلی لے کے پہلو میں کاسئہ خالی شور با چربی دار اور پھلکے سب سے چُھپ کے چھپا کے مول لئے نصف سالن رکھا برائے سحر نصف باقی سے کی وہ رات بسر کے لئے فجر کو خمیری نان کو خمیری نان اور دن بھر کا یوں کیا سامان شام کو پانچ جب بجے ٹن ٹن چڑھ کے ٹمٹم پر پہنچا اسٹیشن ایک خریدا پلیٹ فارم ٹکٹ اور ہوٹل میں جا گھسا جھٹ پٹ اتنا کھایا کہ اشتہا نہ رہی اشتہا کیا کہ اشتہا نہ رہی آج تو خوب مینہ برستا ہے دانت سے دانت میرا بجتا ہے گیا ہے درد کوئی نہیں جو لائے دوا یا کہ دے سینکنے کو آگ جلا لا کے کھائی کچوریاں ہیں سرد قم پاس معدہ میں ہو کوئی تکلیف رات کو ہو اگر کوئی ایسا نہیں جو لیوے خبر ہو کا عالم ہے آج کا دن رات ایک میں ہوں یا خدا کی ذات میں تو آیا یہاں تھا پڑھنے کو نہ کہ کھانے کا فکر کرنے کو ایسی تعلیم چولہے میں جائے جبکہ چولہے کا فکر سر کھائے

Page 299

298 حلوہ سوہن بھی کل سے ختم ہوا ورنہ اُس کا بھی کچھ سہارا تھا تیل مٹی کا لینے جائے کون؟ کپڑے دھوبی کے ہاں سے لائے کون؟ کون کوڑے کو گھر سے صاف کرے؟ کون تہہ بستر و لحاف کرے؟ کون گھر کی کرے نگہبانی؟ کون تازہ وضو کو دے پانی؟ کون بازار جا کے سودا لائے ڈاک میں خط کو کون ڈال آئے؟ بس خدا کے لئے کرو جلدی باغ ہو یا چراغ یا سندھی آدمی ہو وہ یا کہ ہو حیوان لیک رکھتا ہو صورت انسان ہاتھ رکھتا ہو وہ پکانے آنکھ منہ پر کو پیر رکھتا ہو آنے جانے کو پر ہو دیکھنے کے لئے کان ہوں تاکہ بات سُن لیوے عقل کچھ ہو، تو اور بھی اچھا گونگا بیشک ہو کچھ نہیں پروا منہ میں ہوں دانت سب یا کچھ کم اس سے مطلب نہیں ہیں رکھتے ہم گنجا ہو ہو یا ہوں سر پر بال خواہ آنکھوں میں ہو پڑے پڑبال سر غالباً سے خواہ نائی ہو ڈوم، یا گوجر ہو چلاہا تو اور بھی بہتر ہے کہ باغ بافندہ ہو گیا ہو گا اب تلک اچھا بھیج دو اُس کو ڈاک کے رستے سیدھا یاں آن کر کے وہ دم لے یہ مصیبت جو لکھ کے ہے بھیجی اس پہ ہر گز کرے نہ کوئی ہنسی ہے اُس کو سب کچھ ہی کرنا پڑتا ہے بے وطن آدمی جو ہوتا

Page 300

299 اس لئے ہی تو یہ مثل ہے بنی آدھی گھر کی نہ ساری باہر کی“ مطلب اتنا ہے اس کہانی سے ہوں بہت تنگ دانے پانی آشنا کی خبر نہ لے محمد پھر تو یہ مرثیہ گیا بے سُود اس خط کے قادیان پہنچنے کی دیر تھی کہ تیسرے دن آدمی آ گیا.ނ 1 شروع شروع میں ،میں نے اپنا تخلص آشنا رکھا تھا مگر بعد میں اُسے کبھی استعمال میں سے بھی استمال نہیں کیا.( میر محمد اسمعیل) (2) محمود سے مراد یہاں حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد ہیں جو بعد میں خلیفہ المسح الثانی ہوئے جن کو حضرت میر صاحب نے یہ مزاحیہ نظم لاہور سے لکھ کر قادیان بھیجی تھی.افسوس! آج دونوں مقدس اور محترم وجود ہم میں نہیں ہیں.اللہ پاک قادیان اور ربوہ میں اُن دونوں کی تر بتوں پر شب وروز نور کی بارش برسائے.آمین (اسمعیل پانی پتی)

Page 301

300 مرزا غالب اور اُن کے طرفدار ایک غزل غالب کے رنگ میں ) مرزا غالب مشکل گوشاعر بھی تھے اور فلاسفر بھی لیکن جب جام دو آتشہ کے نشہ میں شعر کہتے تھے.تو کبھی کبھی کوئی لفظ یا فقرہ شعر میں سے محذوف بھی ہو جاتا تھا.اگر چہ کھینچ تان کر اُس شعر کے معنی تو نکل سکتے تھے مگر اس کھینچا تانی کے لئے بھی ماڈرن دماغ ہی چاہئے تھا.شاعر پرستی بھی ایک فیشن ہے.اس موجودہ زمانے میں جب غالب بے حد ہر دلعزیز ہو گئے ہیں تو ہر شخص خواہ لائق ہو یا نالائق اُن کی تائید کرنے لگا ہے.بے معنی اشعار کے معنی نکلنے لگے ہیں اور ٹٹ پونچیئے بھی ”غالب دان“ بن گئے ہیں جو باتیں مومن ، ذوق ، اور دیگر آئمۃ الشعراء کی سمجھ میں نہ آئی تھیں وہ آج کل کے سینما بین نوجوانوں کو نظر آنے لگی ہیں.اُس زمانہ کے ایک مشاعرہ میں ایک بڑے قادر الکلام شاعر نے خود مرزا غالب کو مجلس میں مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ کلام میر سمجھے اور کلام میرزا سمجھے مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے اور غالب آپ بھی اپنے اس نقص کے معترف تھے کہ میرے بعض اشعار بے معنی ہوتے ہیں، چنانچہ خود اُن کا ہی کلام ہے کہ نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی

Page 302

301 میرا یہ مطلب نہیں کہ غالب معمولی شاعر تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گووہ نہایت اعلیٰ اور فلسفیانہ اشعار کہتے تھے مگر بعض اشعار اُن کے مشکل اور دقیق اور بعض واقعی بے معنی ہوا کرتے تھے ، اور سب اہل الرائے ادیبوں اور شاعروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مگر آج کل ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو اُن کو نا واجب طور پر آسمان پر چڑھا رہا ہے.انہی میں سے ہمارے ایک دوست محمد جی صاحب بھی تھے وہ کہا کرتے تھے واہ غالب، ظالم غالب تیرا کلام کیسا عجیب ہے.میرے نزدیک تو تیرا ایک شعر بھی بے معنی نہیں ہے! ایک بندش بھی بغیر خوبی کے نہیں ہے! وہ لوگ بد تمیز، بے علم اور احمق ہیں جو تیرے اشعار کو مشکل یا بے معنی کہتے ہیں! مجھ سے پوچھیں تو میں اُن کو تیرے اشعار آبدار کی تفسیر کر کے بتاؤں وغیرہ وغیرہ.جولائی 1906 ء کا زمانہ تھا کہ اک دن جب میں ایسے فقرے سنتے سنتے تھک گیا تو اُن سے عرض کیا کہ ”بھائی محمد جی صاحب ! ہمارے پاس بھی آپ کے مکرم محترم غالب کی ایک غیر مطبوعہ غزل ہے.جب جا نہیں تم اس کے صحیح معنی کر دو.ورنہ شیخی بگھارنا تو کوئی خوبی نہیں کہنے لگے ”ابھی لائے، ابھی میں نے عرض کیا ”کل پیش کروں گا“ چنانچہ رات کو ہماری پارٹی نے ”غالب“ بن کر اُن کی طرز کی ایک غزل بنائی.اس سازش میں تین چار آدمی شریک تھے.دوسرے دن جب محمد جی صاحب تشریف لائے تو ہم نے وہ غزل پیش کی.پہلے تو دیر تک اُسے پڑھتے رہے، پھر فرمانے لگے ”بے شک ہے تو یہ غالب ہی کی ، پھر جھومنے لگے ”واہ کیا کلام ہے! کیا باریک نکات ہیں، کیا الفاظ کی بندش ہے، کیا گہرائیاں ہیں.کیا معنی ہیں.بس قربان ہونے کو جی چاہتا ہے

Page 303

302 یہ کہہ کر انہوں نے ایک ایک شعر کی باریکیاں اور معنی بیان کرنے شروع کئے جب آخری شعر کی تفسیر سے فارغ ہوئے تو حاضرین نے ایک قہقہہ لگایا، پھر تالیاں پیٹیں اور آخر میں تین دفعہ آپ آپ بُرے کا نعرہ بلند کیا.محمد جی بیچارے پریشان سے ہو گئے کہنے لگے ” کیا بات ہے؟ آخر جب اصل بات معلوم ہوئی تو شرمندگی کے مارے اُن کی یہ حالت ہوگئی کہ جیسے گھڑوں پانی سر پر پڑ گیا ہو.بار بار پوچھتے کہ ”سچ بتاؤ ، واقعی یہ غزل غالب کی نہیں ہے؟ کہیں مجھے بنا تو نہیں رہے؟“ مگر جب اُنہیں یقین آ گیا تو پھر ایسے ففرو ہوئے کے مدتوں تک اُن کی زیارت نصیب نہ ہوئی.اس کے بعد جب بھی ملے تو اُکھڑے اُکھڑے اور اس واقعہ کے بعد تو انہوں نے غالب کا نام ہی لینے کی گویا تم کھالی.ناظرین کے تفتن طبع کے لئے وہ غزل درج ذیل ہے.واضح ہو کہ اس واقعہ سے غالب مرحوم کے کمال اور اُن کی شاعری کی سبکی یا تو ہین ہرگز مقصود نہیں بلکہ موجودہ زمانے کے بعض ”غالب شناسوں“ کی حالت کا دکھانا مقصود ہے.محمد اسمعیل) سوزش دل تو کہاں اس حال میں جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں کیوں نہیں آفت مجھے آتی نظر غیر ہے گر اُس سے قیل و قال میں خاطر بت خاطر حسرت بنے گر صنم کو چھوڑ دوں اس حال میں قبض خاطر آسماں بھی کیا کرے فائدہ ہرگز نہ ہو اسہال میں چشم دل کیوں ابنِ آدم بن گئی دانه گندم کہاں اس کال میں موت کی ساعت کہ شاید آ گئی طنطنہ خنجر کا ہے گھڑیال میں

Page 304

303 ہوں سبک سریاں تلک میں اے قضا بال سر پر اور سر ہے بال میں کوہ گن شیریں ادا میں محو تھا ناگہاں غلہ لگا کر یال میں غلط چشم بینا چشمه منقار ہے دقت افعال ہے اقوال میں مشت پر اور تیرگی انداز کی شاہدانِ نُور کے اک بال میں پہلے تھا ہمدم سے مل کر نیشکر تلخ دارو ہے مگر امسال میں دشت غربت! ہم سفر کیونکر چلے اس صنم کی ظالمانہ چال میں جانب ادبار کیوں قسمت چلی ہے تلاطم آج کل اقبال میں چاشنی اس تیر مژگاں کی نہ پوچھ خنده دل ہو گیا سو فال میں قیس کو مجنوں سمجھنا ہے عقل گل ہے عشق کے افعال میں ہ غم گر نہ بولے بے صدا آتش غم نقرئی مہنال میں کا عالم پری ہو یا کہ حُور ہے صفائی سیم تن کی کھال میں گردش پیر فلک صد حیف ہے پھینکنا تھا کیا ہمیں پاتال میں خال رُخ ہے مرغ دل سے یوں نہاں آ گیا رمضان ہے شوال میں نحس بختی کو نجومی دیکھ کر مشتری رکھتا ہے میری فال میں تن برہنہ نجد میں مجنوں پھرے ناقه لیلا نہ ہو گر شال میں خمی! آسائش دل کیا ہوئی نقص ہے گرحُسن کے اکمال میں ہم نفس کہتا غلط ہے گاؤ میش روغن گل بیضہ گھڑیال میں بیروں سیاه میں غالب تیره درول زلف مشکیں پنچہ خلخال

Page 305

304 نام کتاب بخار دل ( کلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) مرتبہ امۃ الباری ناصر لجنہ اماء الہ ضلع کراچی شمارہ نمبر طبع..83.Jl.تعداد................1000 کمپوزنگ وحید منظور میر پرنٹ گرافکس ڈیزائنز اینڈ پرنٹرز ) ٹائٹل ڈیزائننگ......محترم ہادی علی صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ کینیڈا ایاز خان طالب علم جامعہ احمدیہ کینیڈا گرافکس پرنٹر......وائی آئی پریس کراچی "BUKHAR-E-DIL" By Hadhrat Dr.Meer Muhammad Isma'eel Published by Lajna Ima'illah Karachi Composed by: Waheed Manzoor Meer Print Graphics Karachi Printed by Y.I.Press Karachi

Page 305