Language: UR
حضرت یو زینب صاحبہ بیگم صاحبہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت یو زینب صاحبہ پیارے بچو! حضرت بو زینب صاحبہ بیگم حضرت مرزا شریف احمد صاحب آپ جانتے ہیں کہ حضرت بو زینب صاحبہ کون ہیں؟ ( بُو کا لفظ مالیر کوٹلہ میں بی بی کی جگہ معزز خاتون کے احترام کے لئے بولا جاتا تھا) آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی بہو تھیں.یعنی آپ کے بیٹوں میں سب سے چھوٹے بیٹے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی بیوی تھیں.آپ کا شمار خواتین مبارکہ میں ہوتا ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بے حد پیارے صحابی حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی صاحبزادی تھیں جن کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 313 صحابہ میں ہوتا ہے.شاید آپ جانتے ہوں کہ حضرت نواب صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے داماد بھی تھے یعنی آپ علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے شوہر.آپ کی والدہ کا نام بو مہر النساء تھا.جو نواب صاحب کی پہلی بیوی اور خالہ زاد بہن بھی تھیں.مالیر کوٹلہ میں اُس وقت بے حد پیری فقیری اور تعویز گنڈوں کا
حضرت یو زینب صاحبہ 2 رواج تھا.اُس کا اثر اُن پر بھی تھا.لیکن نواب صاحب ان باتوں کے بے حد مخالف تھے.اس لئے ان کی تربیت کے زیر اثر آپ نے بھی بد رسوم ترک کر دیں.اور تعویز گنڈہ جو اُن کی والدہ یعنی نواب صاحب کی خالہ کبھی دے جاتی تھیں ،ترک کر دیا تھا.اتفاق سے جب بھی کسی چلہ یا علالت کے موقع پر ایسی کوئی چیز گھر میں آئی ، باوجود نہایت درجہ پوشیدہ رکھنے کے حضرت نواب صاحب کو علم ہو جاتا آپ ایک لطیفہ بیان فرماتے تھے.ایک کپڑے کی باریک سیون میں ایک بار خالہ نے تعویز سی دیا.اُس پر میرا ہاتھ پڑا اور فوراً اُس سیون کے کرار پن سے شعبہ پیدا ہوا.اُسی وقت اُدھیڑ ڈالا دیکھا تو تعویز ! اس پر اُن کو ایک اعتقاد سا ہو گیا تھا کہ نواب صاحب کو ایسی چیز کا ضرور پتہ لگ جاتا ہے.کچھ ہر وقت کی صحبت اور نصیحت کا اثر پڑا اور آخر میں انہوں نے اپنے آپ کو بالکل نواب صاحب کی پسند اور مزاج کے مطابق بنالیا.گو آپ نے بیعت نہیں کی تھی اور قادیان جا کر رہنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے نتیجے میں آپ کی کا یہ پلٹ گئی.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور میاں محمد عبداللہ خان صاحب
حضرت کو زینب صاحبہ بیان کرتے ہیں مرحومہ نے عہد کیا تھا کہ میں احمدیت کو سچا جانتی ہوں اور اس طرح زچگی سے (یعنی بچے کی پیدائش کے بعد فراغت کے بعد بیعت کرلوں گی، لیکن اجل نے مہلت نہ دی اور عبدالرحیم خالد صاحب کی نومبر 1986 ء ولادت پر زچگی میں وفات پاگئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی.اس طرح آپ کا انجام بخیر ہوا.آپ کے اپنی والدہ سے تین چھوٹے بھائی تھے 1 2 نواب عبدالرحمن خان صاحب نواب عبداللہ خان صاحب نواب عبدالرحیم خالد صاحب نواب عبد اللہ خان صاحب کی شادی صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ہوئی جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں.اس طرح آپ کے خاندان کے تین افراد کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مجھو گیا.(یعنی خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے ساتھ باپ، بیٹا اور بیٹی تینوں کا رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُس مبشر اولا د سے ہوا جن سے حضرت اقدس علیہ السلام کی نسل الہی منشاء سے چلنی تھی.حضرت کو زینب صاحبہ ابھی بہت چھوٹی عمر کی تھیں جب آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور نواب صاحب نے آپ کی خالہ سے بچوں کی
حضرت کو زینب صاحبہ خاطر دوسری شادی کی اور آپ کی خالہ نے بڑی محبت سے آپ کی اور آپ کے بھائیوں کی پرورش کی آپ کو بھی اپنی خالہ (یعنی دوسری والدہ) سے بے حد محبت تھی جب بھی کوئی قادیان جاتا اسے تاکید کرتیں کہ دیکھو میری خالہ کی قبر پر جا کر ضرور دعا کرنا ان کا نام بُو امتہ الحمید بیگم تھا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت بھی کی تھی ، اور وفات کے بعد بہشتی مقبرہ قطعہ خاص میں اُن کی تدفین ہوئی آپ بہت دعا گو اور متقی خاتون تھیں.حضرت بو صاحبہ 19 مئی 1893ء میں ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست مالیر کوٹلہ میں پیدا ہوئیں.اصل میں اس ریاست کے اندر حضرت نواب صاحب کی اپنی جا گیر اور حویلی تھی جسے شیروانی کوٹ کہتے ہیں یہیں پر ٹو صاحبہ کی پیدائش ہوئی اور یہیں آپ کا بچپن گزرا، البتہ اپنے والد کے ساتھ قادیان آتی جاتی رہتی تھیں.آپ کو اپنے والد صاحب کے ساتھ یہ سعادت بھی حاصل رہی کہ بہت دفعہ آپ نے کافی لمبے عرصے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مهمان نوازی کے لطف اُٹھائے بعض دفعہ تو ایک ہی چھوٹے سے کمرے میں آپ سب بچے نیچے فرش پر سوتے اور ایک چار پائی کی جگہ ہوتی جو والد صاحب کے لئے ہوتی تھی، مگر یہ سب نوابی شان کے باوجود بے حد
حضرت یو زینب صاحبہ سادہ مزاج تھے.5 آپ، آپ کے بھائی ، آپ کی دوسری والد وسب خدا کے فضل سے انتہائی مخلص احمدی تھے ،اور آپ سب کا شمار صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوتا ہے.حضرت بو زینب صاحبہ کو اپنی والدہ بُو امتہ الحمید بیگم صاحبہ سے بے حد محبت تھی، لیکن ابھی آپ جوان بھی نہ ہوئی تھیں کہ آپ کی دوسری والدہ یعنی خالہ صاحب بھی وفات پا گئیں.نواب صاحب کی اکلوتی لاڈلی بیٹی ایک بار پھر تنہا رہ گئی.تو آپ کو ان کی فکر نے گھیر لیا کہ بچی جوان ہونے والی ہے.کیسے اکیلی رہے گی.اب انہیں یہ پریشانی تھی کہ جلد کوئی اچھا رشتہ ملے تو وہ ان کی شادی کر دیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ کا بہت خیال اور فکر تھا ، اور آپ نے دعا کر کے اپنے چھوٹے بیٹے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کیلئے ان کا رشتہ بھجوایا.جو نواب صاحب نے بہت خوش دلی سے قبول کیا.چنانچہ 27 رمضان 1324(15 نومبر 1906 ء) کو آپ کا نکاح ہو گیا.نکاح کی تقریب دار المسیح کے حصہ دار البرکات کے صحن میں منعقد ہوئی اور حضور علیہ السلام کی موجودگی میں حضرت خلیفہ اسبح الاول نے آپ کا نکاح پڑھایا.جہاں حضرت نواب صاحب اس رشتہ سے بہت خوش تھے وہاں
حضرت یو زینب صاحبہ آپ کے قریبی عزیزوں اور بھائیوں کو شدید غصہ اور صدمہ تھا.وہ اس رشتہ کو بالکل پسند نہ کرتے تھے، اس بارہ میں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں:.نواب صاحب کو یو زینب سے بہت محبت تھی اور اب تک چھوٹے بچوں میں سب سے زیادہ ان ہی کے بچپن کی باتیں بڑی محبت سے سنایا کرتے تھے.نواب صاحب کے تمام عزیز شادی یہاں کر دینے پر بے حد ناراض تھے، کہتے تھے ایسا کبھی نہ ہوا تھا ، اس نے غضب کر دیا.“ نواب صاحب فرماتے تھے کہ میرے بھائی نے کہا:.آپ نے کیا دیکھ کر لڑکی کو جھونک دیا ہے.“ وو میں نے کہا:.66 جو میں نے کیا وہ آپ کو نظر نہیں آسکتا.اتنا آپ سن لیں کہ اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہوتا اور دوسری جانب ایک 'بادشاہ' رشتے کا خواستگار ہوتا تو تب بھی میں شریف احمد کو ہی بیٹی دیتا.“ حضرت بو صاحبہ کے لئے اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ وہ وقت کے امام کی بہو بنیں ، اور اس شخص کی بیوی جس کے متعلق حضور علیہ السلام کو بہت سے الہام ہوئے اور جو آپ کی مبشر اولاد میں سے
حضرت یو زینب صاحبہ تھا.جس کے متعلق ایک الہام یہ بھی تھا وہ بادشاہ آیا ، سو بچو ! اس طرح عزیزوں کی مخالفت کے باوجود ہ مئی 1000 ء میں آپ کی شادی ہوگئی.جس کا قصہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ یوں سناتی ہیں:.یو زینب کا رخصتانہ نہایت سادگی سے ہمارے دار مسیح سے ملحق مکان سے عمل میں آیا.حضرت اماں جان نے سامان، کپڑا، زیور وغیرہ ہمارے ہاں بھجوا دیا تھا اور چونکہ نواب صاحب کا منشاء تھا کہ حضرت فاطمہ کی طرح رخصتا نہ ہو سو دلہن تیار ہوگئی تو نواب صاحب نے پاس بٹھا کر نصائح کیں، اور پھر مجھے کہا کہ حضرت اُم المومنین کی طرف چھوڑ آؤں.سیدہ ام ناصر والے صحن میں جو سیدہ ام وسیم صاحبہ کی طرف سے سیڑھیاں اترتی ہیں وہاں حضرت اماں جان نے استقبال کیا اور دلہن کو دارالبرکات میں لے گئیں.( یہ اب حضرت اُم طاہر صاحبہ کا مکان کہلا تا ہے.) یہاں آپ کو تاریخ سے آگاہ کرنے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے حضرت بو زینب کے رخصتانہ سے تھوڑا پہلے آپ کے والد کی شادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے ہو گئی تھی.اس شادی کو آپ نے اور آپ کے بھائیوں نے بڑی خوش دلی سے قبول کیا.اس بارہ میں حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں:.شادی کے بعد کچھ دن قادیان گزار کر گاڑی کے ذریعہ لاہور
حضرت یو زینب صاحبہ 8 پہنچے سٹیشن پر اترے تو اتفاقاً عبد الرحمن کی آواز سنی ،معلوم ہوا لڑ کے ئیکلوں پر سوار ہو کر لینے آئے ہیں، ان سعادت مند بچوں کی اس بات سے مجھے بہت خوشی ہوئی انہوں نے اپنی نئی ماں کا خوشی اور محبت سے استقبال کیا اور پھر کوٹھی پہنچ کر اور بھی طبیعت خوش ہوئی، کیونکہ زینب نے بھی نہایت عمد و طرح سے مبارکہ بیگم صاحبہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا، زینب اور بچوں نے خوب کو بھی سجائی تھی ، جس سے ان کی خوشی اور محبت کا اندازہ نے خوب کوٹھی سے ان کی خوشی اورمحبت اندازہ ہوتا تھا.“ یو زینب صاحبہ کو نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے بہت محبت اور عقیدت تھی، اور ان کی بے حد قدر کرتی تھیں، اکثر ان کا ذکر اور بے حد تعریف کیا کرتیں، اور کہا کرتی تھیں آپ بے حد محبت کرنے والی ماں ثابت ہوئیں، اپنی اس محترم والدہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں مزید پانچ بہن بھائی عطا کئے ، جن کے نام یہ ہیں:.-1 نوابزادہ محمد احمد خان صاحب مرحوم ( ان کی شادی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی بیٹی صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ سے ہوئی ) -2 سیده منصور و دیگم صاحبہ مرحومه ( حرم اول حضرت خلیفہ مسیح الثالث )
حضرت یو زینب صاحبہ -3 نوابزادہ مسعود احمد خان صاحب مرحوم ( ان کی شادی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل احمد صاحب کی دختر طیبہ بیگم سے ہوئی ) صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ مرحومہ ( بیگم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ابن حضرت خلیفہ المسیح الثانی) 5- صاحبزادی آصفه محمودہ بیگم صاحبہ ( بیگم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ابن صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ان سب بہن بھائیوں سے بھی آپ کو بے حد محبت تھی ، اور کبھی کسی کو یہ محسوس نہ ہوتا کہ یہ سوتیلے بہن بھائی ہیں.ہر ایک کی خوشی میں دل سے خوش ہوئیں، اور ہر ایک کی یکساں فکر بھی کرتیں ، چونکہ وہ خود بہت ، محبت کرنے والی اور خیال رکھنے والی خاتون تھیں ، اس لئے انہوں نے اپنے خاص انداز میں محبت بانٹی بھی اور پائی بھی ، سب بہن بھائی ان سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی بے حد عزت کرتے تھے.سب ہی ان سے بے تکلف تھے اور ان سے ہر بات کر لیتے کوئی حجاب نہیں ہوتا تھا.ان کی بیٹی امتہ الباری بیگم بتاتی ہیں آخری بیماری میں بے ہوشی کی حالت میں بھی منصورہ ( بیگم حضرت خلیفہ اصبح الثالث ) اپنے سے چھوٹی بہن کو آواز میں دیتیں.جب ان کی سب سے چھوٹی بہن صاحبزادی آصفہ بیگم کی شادی
حضرت کو زینب صاحبہ 10 ہوئی تو انہیں ایک بھاری ساڑھی ، ڈھائی تولے سونا اور جھومر جہیز میں رکھنے کو دیا کہ میاں (والد) کی سب سے چھوٹی اولاد ہے، اور آخری بچے کی شادی ہے، اس لئے حالانکہ ان کی شادی پارٹیشن کے تھوڑی دیر بعد ہی ہوئی تھی ، اور اس وقت کسی کے بھی مالی حالات اتنے اچھے نہ تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے بھی نوازا.آپ کے ہاں تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی انگلی نسل دیکھنے کی بھی توفیق دی.1.سب سے بڑے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب تھے ( جن کی شادی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی سب سے بڑی صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی ، آپ کے گھر پانچ بچے ہوئے ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں ، ان کے صاحبزادے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب اب جماعت احمد یہ کے پانچویں خلیفہ ہیں.) 2.صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب مرحوم ، (ان کی شادی صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی دختر زکیہ بیگم صاحبہ سے ہوئی، ان کی پانچ بیٹیاں ہیں) 3- صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب مرحوم، (مرزا عزیز احمد صاحب کی بڑی دختر نصیر و بیگم ان کی بیوی بنیں ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ) صاحبزادی امتہ الود و دصاحبہ ( جوانی میں وفات پاگئیں )
حضرت کو زینب صاحبہ 11 -5- صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ، ان کی شادی نوابزادہ عباس احمد خان ابن نواب عبد اللہ خان صاحب سے ہوئی ، چار بیٹے اور ایک بیٹی ) 6- صاحبزادی امتہ الوحید بیگم صاحبہ ( یہ صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ابنِ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب جو اب ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی ہیں کی بیگم ہیں، ان کے چھ بیٹے ہیں) اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے تیسری چوتھی نسل بھی دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی ، حضرت کو زینب صاحبہ نے بہت لمبی عمر پائی آپ کی وفات سے پہلے آپ کے قریب رہنے والی خواتین وفات پا چکی تھیں اس لئے ان کے بارے میں مزید معلومات نہیں لی جاسکیں.اکثر عزیز رشتہ داروں سے بات چیت کی.ان کا ذکر چھیڑ کر ان کی یادوں کو تازہ کیا سب کی یہی رائے تھی.آپ بہت ملنسار اور خوش خلق تھیں ، بہت مہمان نواز تھیں، ایک پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ سب کو خوش آمدید کہتیں ، خاطر تواضع کرتیں ، اگر کوئی اپنے ہاتھ سے کچھ پکا کر ان کیلئے لے جاتا تو بہت خوش ہوتیں، تعریف کرتیں اور دوسروں کو تعریف کر کے کھلواتیں.”دیکھو اس نے کیسا مزے کا بنایا ہے.“ ہر ایک کا دکھ سکھ منتیں کبھی کسی کا شکوہ نہ کرتیں.کبھی کوئی بات کہہ بھی دیتا تو خاموش رہتیں.ان کی چھوٹی بہن آصفہ بیگم کہتی ہیں.میں ان
حضرت کو زینب صاحبہ 12 کے متعلق کیا بتاؤں.وہ فرشتہ تھیں، بس اتنا ہی کہوں گی.آپ ایک انتہائی ملنسار ، محبت کرنے والی ، گہرا خیال رکھنے والی خاتون تھیں.غریبوں کا عام طور پر اور اپنے ملازمین کا خاص طور پر بے حد خیال رکھتیں.گو خاموش طبع تھیں.لیکن چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی قادیان میں اکثر خواتین آپ سے ملنے آتی رہتیں.آپ ہر ایک کی آؤ بھگت کرتیں.ان کے دکھ سکھ سنتیں اور کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ نہ لوٹا تیں.ایک عورت کسی گاؤں سے کبھی کبھی آپ کیلئے انڈے لے کر آئی ولاتی تو وہ چھند تھی لیکن آپ اپنی بیٹی سے کہتیں باری ! اس کو کچھ پیسے 66 دے دو، بے چاری اتنی دور سے آتی ہے ، غریب ہے.“ ربوہ آکر بھی یہی حال رہا، آپ سے ملنے ڈھیروں خواتین روزانہ آتی تھیں.لیکن پیشانی پر کبھی کوئی بل نہ آیا، بلکہ ہر ایک سے ، خواہ غریب ہو یا امیر بڑی خندہ پیشانی سے مائیں.مائی غوتاں جو اُن کی کھلائی تھی اور شادی کے وقت ساتھ ہی آئی تھی ، اس کا بے حد خیال رکھتیں اور وہ ان کا.جب وہ بیمار ہوئی تو اس کا بہت خیال رکھا، دوسروں کی تکلیف کا انہیں بہت احساس ہوتا تھا، استانی میمونہ صاحبہ جب بیوہ ہو گئیں ان کے پاس غالباً کوئی مکان نہیں تھا، تو آپ نے گھر کا ایک حصہ انہیں رہنے کیلئے دے دیا ، اور ان کے
حضرت کو زینب صاحبہ 13 بچوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھیں.ان میں خود نمائی بالکل بھی نہ تھی کہتے ہیں نا کہ نیکی کر دریا میں ڈال، اس طرح کسی کی مدد کرو کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو.وہ اس کی زندہ مثال تھیں.اس لئے شاید ان کی مالی قربانیوں کا ذکر تاریخ میں نہیں ملتا.سوائے ایک بار کے جب آپ نے مسجد برلن کیلئے 300 روپے چندہ دیا، کبھی اپنی کسی بھی قربانی کا کوئی ذکر نہیں کیا ، ایک بار بے حد یو چھنے پر واقعہ کے رنگ میں بتایا کہ:.” جب ہم قادیان آئے تو میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھی.جس میں نہ کوئی روشن دان تھا ، اور نہ ہی کھڑکی ، ایک دروازہ جو محن میں کھلتا تھا، اور پردے کی وجہ سے صحن میں بھی نہ جاسکتی تھی ، کمرے کے اندر ایک گھر بنا ہوا تھا، اس کی نالی میں منہ دے کر سانس لیا کرتی ، کیونکہ اس نالی کے چوڑے سوراخ سے ہی ہوا آتی تھی.حالانکہ وہ بے انتہا صفائی پسند تھیں، یعنی وہم کی حد تک ، کہتی تھیں پتہ نہیں پہلے یہ گھر اکس کس طرح سے استعمال ہوتا ہوگا پاک تھا بھی یا نہیں.آپ ایک بہت ہی نفاست پسند خاتون تھیں.صفائی کے معاملہ میں بے حد وہمی طبیعت پائی تھی ، پاکی ناپاکی کا بہت زیادہ خیال ہوتا تھا، وہم کی وجہ سے اپنے کھانے پینے کے برتن بھی
حضرت کو زینب صاحبہ 14 الگ رکھتیں ، اور کسی اور کے برتن میں پانی پی لیں ، ناممکن ! ان کے بھتیجے بھانجے انہیں اس معاملہ میں چھیڑتے بھی رہتے.لیکن وہ با وجود چڑنے کے تحمل سے مسکرا کر خاموش رہتیں ، ان کے بھتیجے مرزا منیر احمد صاحب انہیں چھیڑ نے کیلئے کہتے کہ یو اگر اگلے جہان میں جنت میں اللہ تعالی نے مجھ سے پوچھ لیا کہ اپنی خواہش بتاؤ تو میں کہوں گا میرے اللہ بس ایک بار بُو کو میرا جھوٹا پانی پلا دے.وہ ہنس کر خاموش ہو جاتیں.66 اپنے اس وہم کے بارہ میں ایک دن اپنی پوتی صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ بنت حضرت مرزا منصور احمد صاحب مرحوم کو بتایا کہ وہ ایک بار بیمار پڑگئیں کافی عرصہ بیمار ہیں.اور ڈاکٹروں کو شبہ تھا کہ یہ ٹی بی نہ ہو، کیونکہ آپ کے تفصیال میں یہ مرض تھا ، اور اس زمانہ میں ٹی بی کا کوئی خاص علاج بھی نہ نکلا تھا اس لئے انہوں نے اپنے برتن ہی الگ کر لئے تا کہ اگر واقعی ٹی بی ہے تو کسی اور کو برتنوں کی وجہ سے نہ لگے.کہنے لگیں ” میں نے سوچا کہ پہلے اس کے کہ لوگ اس بات کا وہم کریں میں خود ہی کیوں نہ اپنے برتن الگ کرلوں “ 66 پھر یہ ان کا طریق ہی ہو گیا کہ گھر ہو یا سفر وہ اپنے برتن الگ رکھتیں ، خودداری کا بھرم بھی قائم رہا اور کسی اور کو بیماری منتقل ہونے کا
حضرت کو زینب صاحبہ خوف بھی جاتا رہا.500 15 آپ بہت متکلم خاتون تھیں.کم آمدنی کے دنوں میں بھی گھر کو احسن طریق پر چلاتیں ، لین دین بھی رکھتیں ، گھر کی ، بچوں کی ، ملازمین کی ضروریات پوری کرتیں، ہجرت کے بعد خراب حالات میں بھی ان کے گھر میں ہمیشہ ایک رکھ رکھاؤ نظر آتا اور کبھی ان کے منہ سے حالات کی تنگی کا رونا نہیں سنا گیا ، ہمیشہ اپنا بھرم قائم رکھا ، اور وہ جو الہام ہے وہ با دشاہ آیا ، جہاں ان کے میاں حضرت مرزا شریف احمد صاحب د نیا داری سے بے نیاز ایک بادشاہ ٹھہرے وہاں ان کی بیگم ان کے گھر کی ملکہ تھیں.حضرت یو زینب کو ہاتھ سے کام کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی لیکن شوقیہ چند چیزیں وہ اپنے ہاتھ سے پکاتیں ، سب عزیز کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا چھو لیہ (ہرے چنے ) جیسا لاکھ کوشش پر بھی کبھی کوئی بنا ہی نہیں سکا.پھر دھوبی کو اپنی نگرانی میں کپڑے دیتیں، خود دیکھتیں کہ کتنے کپڑے گئے ہیں.خود وصول کرتیں اور اپنی اپنی جگہ پر رکھتیں ، بیماری کی حالت میں بھی پورے گھر پر ان کی کڑی نگاہ ہوتی.بات ان کے سلیقہ کی ہورہی تھی ، آپ کو پتہ ہے پھٹا ہوا کپڑا چونکہ کسی کو بھی پہنے کو نہیں دیا جاتا، لہذا اسے پھینٹنے کی بجائے اب اس سے کیا
حضرت کو زینب صاحبہ 16 کام لینا ہے؟ ایک بڑے گھر ، خاص طور پر ایک نواب گھرانے کی کسی لڑکی کو شاید ہی آتا ہو، بڑے لوگ تو پھٹی پرانی ٹوٹی پھوٹی چیزیں پھینک دیا کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ حال تھا کہ وہ اس سے ایک اور کار آمد چیز بنا لیتیں ، ایک بار ان کی بڑی ہوتی صاحبزادی امتہ الرؤف بیگم صاحبہ ان سے ملنے گئیں تو وہ بیٹھی کچھ ہاتھ سے سی رہی تھیں.ان کے پوچھنے پر بتایا! تیمیں پھٹ گئی تھی تو میں نے اس کو کاٹ کر چھوٹے چھوٹے جھاڑن بنا وو لئے ہیں، ان کی الہڑی کر رہی ہوں.“ انہیں سلحے ستارے کا کام گوٹا ٹانکنا سب آتا تھا.چنانچہ جب آپ کی چھوٹی بہن آصفہ بیگم صاحبہ کی لاہور میں شادی ہوئی.مالی حالات اچھے نہ تھے ، (Partition کے بعد ) تو آپ نے ان کی تعمیض اور دو پنے پر اپنے ہاتھ سے سلمے ستارے کا کام کیا ساتھ بہن کو بھی لگا لیتیں ، انہیں سکھائے بھی جاتیں ، اس طرح دونوں بہنوں نے مل کر ایک بھاری کام والا جوڑا تیار کر لیا، اور اس طرح بہت سارے پیسوں کی بچت کر لی.اچھا پہنا اوڑھنا انہیں پسند تھا، خواہ چند جوڑے ہی سہی لیکن نفیس کپڑے کا عمدہ لباس پہنتیں ، آپ تنگ پاجامہ کرتا پہنا کرتیں اور چار گز چنا ہوا دو پٹہ اوڑھتیں ، آپ کا لباس اچھا سلا ہوتا تھا.بے ڈھنگے سلے ہوئے کپڑے انہیں پسند نہیں تھے.کبھی بیماری کی حالت میں بھی انہیں
حضرت کو زینب صاحبہ 17 بے ترتیب حلیے میں نہیں پایا ، صاف ستھرے لباس میں صاف ستھرے بستر پر لیٹی تھیں ، ہمیشہ بالوں کا جوڑا بنا کر رکھتیں ، جو ایک ہی سٹائل کا ہوتا تھا.انہیں شادی شدہ لڑکیوں کا سجے سنورے رہنا پسند تھا ، خوشبوؤں میں بھی ، تنگی، سٹوری لڑکیوں پر انہیں بہت پیار آتا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی دوسری شادی ہوئی تو آپ سب سے پہلے آپا طاہر و صدیقہ کو ان سے ملوانے لے کر گئے اور ان سے کہا کہ سارا زیور پہن کر بڑی اچھی طرح تیار ہو کر جانا.انہیں سجی سنوری زیور سے آراستہ بہنیں بہت اچھی لگتی ہیں.نیز آپا طاہرہ کو بتا یا کہ جب ہم چھوٹے تھے تو چچی جان بُو کے گھر ہر جمعہ کو ہماری شکر پاروں کی دعوت ہوتی تھی اور ہم ہر جمعہ کو خوب ذوق شوق سے ان کے گھر جایا کرتے“.پھر آپا کہتی ہیں کہ : ” جب ان کے گھر آئے تو بے حد تپاک سے خیر مقدم کیا.حضور بے تکلفی سے جاکر ان کے پلنگ پر ان کے ساتھ بیٹھ گئے.انہوں نے خوب خاطر تواضع کی.آپا سے بے تکلفی سے سوال وغیرہ کرتی رہیں.حال چال پوچھتی ہیں.آپا کہتی ہیں اس کے بعد میں جب بھی ان سے ملنے گئی.ہمیشہ پیار سے ملیں اور آؤ بھگت کی.“ 66 خاندان میں شادی بیاہ کی تقریبات پر خود ( شاید طبیعت کی خرابی
حضرت بو زینب صاحبہ 18 کی وجہ سے ) جانا چھوڑ دیا تھا.اپنی بیٹیوں سے کہتیں کہ تیار ہو کر مجھے مل کہ جانا ، کہیں ایسا ویسا تیار ہو کر چلی جاؤ، پھر انہیں چیک کرتیں زیور پہنا ہے یا نہیں ، خوشبو لگائی ہے یا نہیں.جب یہ لوگ تقریب سے واپس آتے تو بڑے شوق سے اور پیار سے پوچھا کرتیں کہ دلہن کیسی لگ رہی تھی ؟ جوڑا کیسا تھا؟ کیا کیا زیور پہنا تھا ؟ دولہا کیسا لگ رہا تھا ؟ لیکن خبر گیری سب کی رکھتیں اور تحفے تحائف بھیجتیں.گھر بیٹھ کر ان کیلئے دعا گو رہتیں.ان کی سب سے بڑی پوت بہو عقیقہ فرزانہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا ادریس احمد صاحب بیان کرتی ہیں کہ میں اکثر یو زینب صاحبہ کے پاس جاکر ٹھہرا کرتی تو وہ میرا بہت خیال رکھتیں ہر وقت خاطریں کرتیں ، اسرار کر کے کھلاتیں پلاتیں اور اپنی طبیعت کی وجہ سے میرے پہنے ، اوڑھنے کا بھی خیال رہتا‘ا ایک باروہ اکیلی ہی اپنے میاں کے بغیر ربوہ آئی ہوئی تھیں ، کہتی ہیں کہ ” میں روزانہ خوب تیار ہو کر ان سے ملنے جاتی ، بہت خوش ہو کر ملتیں ، سراجتیں، ایک دن جب میرے میاں آنے والے تھے ، میں ملنے گئی تو سفید شلوار دو پٹہ اور پرنٹ قمیض پہنا ہوا تھا، انہیں معلوم تھا، اس دن ادریس نے آنا ہے مجھے دیکھ کر کہنے لگیں لو دیکھو ! " هورون چنگی ، تہواردن مندی یعنی آگے پیچھے تو ٹھیک تیار ہوتی ہو آج موقعہ ہے (یعنی میاں نے آنا ہے تو
حضرت بو زینب صاحبہ 19 سادہ حلیے میں آگئیں.) انہیں سفید شلوار دوپٹہ پسند نہ تھا اور بیاہی ہوئی لڑکیوں پر خوبصورت رنگدار لباس پسند کرتی تھیں." وہ مزید بیان کرتی ہیں ، میں اکثر ان سے سوال کرتی رہتی تھی ، پرانی باتیں پوچھتی رہتی ، بزرگوں کے بارہ میں، ان کو حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے بہت عقیدت اور محبت تھی ، ان کی بہت تعریف کرتیں ، انہیں بیگم صاحبہ کہتی تھیں.اکثر اس بات کا ذکر کرتیں :.بیگم صاحبہ بہت محبت کرنے والی اور بہت اچھی ہیں، میں بیمار ہوئی تو میاں ( ان کے والد نواب محمد علی خان صاحب) نے مجھے علاج معالجے کیلئے اپنے پاس بلا لیا.اس سارے عرصہ میں مجھے بیگم صاحبہ کی کبھی کوئی ایک بات بھی یاد نہیں جس سے مجھے تکلیف پہنچی ہو، جب بیا و کر ہمارے گھر آئیں ، تو بہت چھوٹی عمر تھی لیکن کبھی کوئی ایسی بات نہ کی جو بچوں کے لئے تکلیف دہ ہو، بلکہ بہت خیال رکھتی تھیں.“ انہیں صرف غریب لوگوں کا ہی خیال نہیں ہوتا تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بے زبان مخلوق کا بھی اتنا ہی خیال رکھتیں ، بلا ناغہ کوؤں اور چڑیوں کیلئے دانا اور روٹی کے ٹکڑے ڈالتیں ، ساتھ ساتھ فکر کئے جائیں کہ کوے معصوم چڑیوں کو کھانے نہیں دیتے.
حضرت کو زینب صاحبہ 20 20 آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو ہونے کا شرف عطا فر مایا ! تو آپ نے بھی اللہ تعالی کے فضل سے اس رشتہ کو احسن طریق پر نبھایا، اور بغیر جتائے یا اس کا اظہار کئے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرار ہیں اور آپ کی یہ کوشش رہی کہ آپ کے کسی عمل یا کسی بات سے کبھی حضرت اقدس علیہ السلام یا آپ کے بزرگ والد حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی تربیت پر کوئی حرف نہ آئے.آپ ایک متقی پرہیز گار خاتون تھیں.بہت دعا گو اور عبادت گزار تھیں.بچپن سے ہی آپ کو تہجد پڑھنے کا شوق تھا آپ کی بہن صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ بتا یا کرتیں کہ راتوں کو اٹھ کر بہت لمبی لمبی تہجد کی نماز پڑھا کرتیں ایک مرتبہ بہت بیمار ہوگئیں تو ڈاکٹر نے حضرت نواب صاحب کو منع کیا اتنی چھوٹی سی عمر میں راتوں کو اتنی دیر تک اُٹھنے نہ دیا کریں.والد صاحب نے پریشان ہو کر ایک بوڑھی دایا کو ان کے کمرے میں سلانا شروع کر دیا کہ نگرانی کرے کہ وہ آدھی رات کو اُٹھ کر عبادت نہ کریں مگر وہ اُٹھتیں ، اور دایا کو زور دیتیں ، وہ وضو کر نے جانے دے اور نماز پڑھنے دے جب وہ نہ مانتی تو اپنے بچپن کے انداز میں، زور ڈالتیں آخر اس نے تنگ آکر نواب صاحب کو شکایت کی وہ نہیں مانتیں اور اپنی بولی میں بولی ” نواب صاحب او تے چونڈیاں وڈ دی ائے“ (یعنی چٹکیاں
حضرت یو زینب صاحبہ 21 کاٹتی ہے) اکثر خواتین آپ کو دعا کا کہنے کیلئے آتی تھیں.آپ پردہ کی بھی بڑی سختی سے پابندی کرتیں.یہاں تک کہ اپنے دونوں بزرگ جیٹھوں سے بھی پردہ کرتی تھیں.فرض شریعت کے احکامات کی پابند تھیں.آپ بہت صاحب الرائے تھیں.حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو آپ کی رائے پر بہت بھر وسہ تھا ، ایک بار جماعت میں کسی بزرگ نے سوال اٹھایا ، رمضان المبارک میں اکیسویں کی صبح کو اعتکاف بیٹھنا چاہیے کیونکہ اس دن سے آخری عشرہ شروع ہوتا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی بھی یہی رائے تھی لیکن حضور رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! بُو صاحبہ سے پوچھ کر بتا ئیں.اور ان کو کہلایا ، مجھے چونکہ دھندلا سا یاد ہے، لیکن آپ بتائیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں کب اعتکاف بیٹھا جاتا تھا.بیسویں کی رات یا اکیسویں کی صبح ؟ تو ان کی حتمی طور پر یہ رائے تھی آپ کے زمانے میں بیسویں کی رات ہی بیٹھا جاتا تھا، ( کیونکہ بیسویں کی رات ہی اکیسویں کا چاند نکل آتا ہے، اور آخری عشرہ کی ابتداء شروع ہو جاتی ہے.تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ سن کر فیصلہ دے دیا کہ بیسویں کی رات کو اعتکاف بیٹھا جائے.
حضرت کو زینب صاحبہ 22 22 آپ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں ! اور مطالعہ کی بہت شوقین تھیں، الفضل اور دوسرے اخبار باقاعدگی سے پڑھیں ، سلسلہ کی کتابیں بھی پڑھتیں اور دیگر رسالے ، ناول، افسانے وغیرہ پڑھنے کا بہت شوق تھا.ہر وقت ان کے سرہانے کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ موجود ہوتا ، دونوں آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا پھر بھی باریک پرنٹ والی کتب اور رسائل پڑھ لیتیں، قرآن شریف با قاعدگی سے پڑھتیں اور ترجمہ بھی ساتھ ضرور پڑھتیں.بو صاحبہ سب عزیز رشتہ داروں سے محبت اور پیار کا سلوک کرتی تھیں.خصوصاً حضرت اماں جان سے بہت محبت تھی ، ان کے گھر آتی جاتیں اور بے حد احترم کرتی تھیں ، حضرت اماں جان بھی اکثر صبح صبح ان کے گھر جاتیں گرمیوں میں صحن میں گھنے جامن کے درخت کے نیچے سب چار پائیوں اور کرسیوں پر بیٹھ جاتے کو صاحبہ بہت تواضع کرتیں، حضرت اماں جان کے ساتھ آئی ہوئی مائیوں کی بھی خوب خاطر مدارت ہوتی تھی.خاندان کے سب بچوں سے بے حد محبت کرتیں اور ان کو اپنے گھر بلا کر خوب خاطر کرتیں، اپنے جیٹھوں کے بیٹوں سے جو اُن کے بیٹوں کے ہی ہم عمر تھے سے خاص طور پر بے حد پیار تھا، ان کے گھر کے قریب ہی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا فارم تھا، جہاں یہ لڑ کے چھٹی میں سیر کے
حضرت کو زینب صاحبہ 23 لئے اور کھیلنے کے لئے اکٹھے ہوتے ، جب یو صاحبہ کو پتہ چلتا، اپنی ملازمہ بھیج کر ان کو کہلواتیں ، کہ کھیل سے فارغ ہو کر سیدھے میرے آنا اور دو پہر کا کھانا کھا کر جانا.“ سب بچے بھی ان سے بہت بے تکلف تھے، بعض اوقات سارا سارا دن ان کے پاس گزارتے بے تکلفی سے کھاتے پیتے، کھیلتے کودتے ان سے باتیں کرتے ، چھیڑ خانیاں کرتے ، چونکہ سٹیشن آپ کے گھر کے ساتھ ہی تھا ، اس لئے سب بچے گاڑی سے اتر کر پہلے یو صاحبہ کے ہاں جاتے پھر تازہ دم ہو کر اپنے اپنے گھروں کو.ایک بار مرز امظفر احمد صاحب مرحوم ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کیا کیا کہ جب لاہور پڑھتے تھے تو ایک چھٹی پر قادیان آئے دس بجے گاڑی پہنچی اتر کر سیدھے کو صاحبہ کے بیٹوں کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے ،سارا دن وہاں رہے.اور شام 4 بجے گاڑی پر بیٹھ کر واپس لاہور ، جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو پتہ چلا تو آپ نے ان کو لکھا: " تمہارے چچا نیچی سے محبت اور تم کزنز کی آپس کی محبت دیکھ کر مجھے دلی خوشی ہوتی ہے لیکن بیٹے ! ماں باپ کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں.“ غرض وہ بہت خاطر داری کرنے والی بہت اچھی مہمان نواز تھیں.جب بھی کوئی ملنے جاتا ، خواہ ایک بچہ ہی کیوں نہ ہو ( کیونکہ خاندان
حضرت کو زینب صاحبہ 24 مسیح موعود علیہ السلام کے تیسری، چوتھی نسل کے بچے بھی آپ سے ملنے جاتے ) آپ بہت پیار سے ماتیں گرمیوں میں بچوں کو آئس کریم کھلائی جاتی ، جو گھر کی بنی ہوتی تھی، آپ دودھ میں الا بچی ڈال کر اسے اچھی طرح ابال کر پھر اس میں کیوڑہ اور زعفران وغیرہ ڈال کر جمالیتیں.سردیوں میں بچوں کو میٹھا چڑھے چنے یا گڑ والے گندم کے دانے.جوا کثر آپ کے سرہانے پڑے ہوتے کھلاتی تھیں اور پنیاں بھی کھلایا کرتیں.اکثر پنیاں آپ اپنے ہاتھ سے اس طرح بنا تھیں کہ جو کوئی روٹی بچتی اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس میں گھی یا مکھن اور شکر ملا کر انہیں اچھی طرح مسل کر ان کی چھوٹی پنیاں بنالیں.یہ تازہ بنی ہوئی پنیاں بچے بڑے شوق سے کھاتے.غرض یہ ان کا بچوں سے پیار اور شفقت کا سلوک تھا کہ سب بچے اکثر آپ کو سلام کرنے اور اپنے امتحانوں میں کامیاب ہونے وغیرہ کی دعا میں کروانے آپ کے پاس دعائیں جاتے رہتے.آپ ایک کھلے ظرف والی متقی خاتون تھیں.آپ کا دل خوف خدا سے پُر رہتا ، اور یہ کوشش رہتی کہ ان کے ہاتھ یا زبان یا کسی عمل سے کسی کو بھی خاص طور پر قریبی عزیزوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے.کبھی کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہ کیا کرتیں ، بھلے کوئی ان سے ملتا یا نہیں ! وہ خاموشی سے محبت کئے
حضرت کو زینب صاحبہ 25 جاتیں.غیبت، چغلی سے تو انہیں بہت چڑ تھی نہ خود کرتیں ، نہ سنتیں ،لڑائی سے سخت گھبرا تیں.ان کی صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ”امی کہتی تھیں کہ میرے سامنے محبت اور جھگڑے نہ کیا کرو ، اور مجھے تو اتنا ٹوکتیں کہ کوئی کچھ کہے تم نے نہیں بولنا.‘“ بھائی (حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب) چھیٹر تے کہ پوتسی باری دی زبان ہی کٹ دینی ائے ( آپ نے باری کی زبان ہی کاٹ دینی ہے.تو فوراً کہتیں کہ ہاں زبان ہی کاٹ دینی ہے.میری شادی ہوئی تو مجھے نصیحت کی دیکھو! باری میرے بھائی کو تم سے کوئی تکلیف نہ پہنچے " (صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ ان کے بھائی نواب عبداللہ خان صاحب کے بڑے بیٹے خانزادہ عباس احمد خان سے بیاہی گئی ہیں.) حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادی امتہ السبوح بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ :.حضرت بو زینب صاحبہ بے حد محبت کرنے والی دعا گو اور صابر و شاکر خاتون تھیں.کبھی بھی ان کے منہ سے کسی کا کوئی گلہ شکوہ نہیں ستا، جب یہ کہیں باہر جانے لگیں.ملنے گئیں اور دعا کیلئے کہا تو فرمایا: تم میرے مسرور کی بیوی ہو کیا تمہارے لئے دعا نہیں کروں گی.“
حضرت کو زینب صاحبہ 26 حضرت بو زینب صاحبہ کے صاحبزادے مرزا ظفر احمد صاحب مرحوم آپ کے بارہ میں اپنے مضمون میری والدہ ( روزنامه الفضل مورحمه 1 ستمبر 1984ء) میں لکھتے ہیں:.16 شادی کے بعد میری والدہ نے اپنے مالیر کوٹلہ والے رشتہ داروں سے تعلق بہت کم رکھا سوائے اپنی پھوپھی کے جو انہیں بہت چاہتی تھیں، لیکن اگر کوئی مالیر کوٹلہ سے جاتا تو اس کی بہت خاطر کر تھیں اس طرح اپنے بچوں سے بھی یہی امید رکھتیں کہ وہ بھی ان کے عزیزوں سے اچھی طرح ملیں گے.اگر مالیر کوٹلہ سے کوئی ایسی عورتیں آتیں یا ایسے مرد آتے جو آپ کے کسی عزیز کے کام کرتے تھے تو وہ انہیں خالی ہاتھ بھیجتیں بہت مہمان نواز تھیں جو بھی آتا اس کی خوب خاطر تواضع کرتیں.مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا، تو ایک بڑھا سکھ اپنے گاؤں جاتا ہوا ہمارے کنوئیں کے پاس ٹھہر جاتا اور کہتا اپنی امی کو میر اسلام کہہ دو.میری والدہ یہ سن کر چینی بھجوا دیتیں، مقصد یہ تھا کہ وہ شربت بنا کر پی لے، غالباً انہیں یہ خیال تھا کہ ہمارا بنایا ہوا شربت پینا شاید پسند نہ کرے.چینی آنے سے وہ کنوئیں سے ٹھنڈا پانی لے کر خود شربت بنا کر پی لیتا اور 66 پھر سلام کہہ کر چلا جاتا.“
حضرت کو زینب صاحبہ 27 غرباء کا بہت خیال رکھتیں ، ان کی ہر قسم کی مدد کرتیں، جس جس قسم کے وہ لوگ ہوتے ان کی اس طرح کی مدد کرتیں.نوکروں کو بھی نوکر خیال نہ کرتیں کبھی کسی نوکر کو کھانے پینے کی تنگی نہ ہوتی.یو صاحبہ نوکروں کو ڈانٹ بھی لیتی تھیں.مگر ان کی ڈانٹ اس قسم کی نہ تھی جس سے نوکروں کے دل میں گرہ بیٹھ جاوے یا اسے حقیقی دکھ ہو.بو صاحبہ کسی کی برائی نہ کرتیں ، کوئی برائی کرتا بھی تو چپ ہو جاتیں.میرے ماموں سے ان کو بہت پیار تھا.( جوان کی اپنی والدہ سے تھے ) اور ان کے علاوہ ہمارے اور بھی ماموں خالائیں ہماری بڑی پھوپھی جان حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کی اولاد سے ہیں.ان سے بھی بہت پیار تھا.نواب محمد احمد خان صاحب، نواب مسعود احمد خان صاحب ایک عرصہ تک ہمارے گھر میں رہے.مقصد ان کا تعلیم تھا.ان کا بھی ویسا ہی خیال رکھا.جیسا ہمارا کرتی تھیں.میاں محمد احمد خان صاحب کے جہاں اور لطیفے تھے ایک یہ بھی لطیفہ ہے ایک مرتبہ وہ دن کے وقت گھر میں آئے.اور کہنے لگئے تو فلاں گیس سے بہت بھوک لگتی ہے.کو صاحبہ نے کہا.گیس نہیں بلکہ آج تم نے کھانا ہی نہیں کھایا.تو کہنے لگے ، اچھا!‘ بُو صاحبہ نے فورا کھانا منگوایا اور انہوں نے بیٹھ کر کھایا.یو صاحبہ عمر اور میسر میں خوش رہتیں.کسی سے شکوہ نہیں کیا نہ
حضرت یو زینب صاحبہ 28 شکایت.جب خاکسار نے بی.اے پاس کیا.اس وقت ابا جان کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ میرے ولایت جانے کے اخراجات برداشت کر سکیں.اس سے پہلے میاں مظفر احمد صاحب کے ولایت جانے کا انتظام ہو گیا تھا.یو صاحبہ نے یہ نہ چاہا کہ میں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہوں.چنانچہ انہوں نے عمو صاحب (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نوراللہ مرقدہ ) کو کہلا بھیجا کہ میرے اخراجات کی وہ خود ذمہ دار ہوں گی.اور ان کو لکھ کر بھی دے دیا.چنانچہ میں ولایت چلا گیا.میرے علم میں ہے کہ ان کو اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب کوئی اللہ تعالیٰ پر تو کل کرتا ہے تو اللہ تعالی مدد بھی کرتا ہے.میری پڑھائی پوری ہوگئی اور میں واپس آکر ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو گیا.“ 66 حضرت کو صاحبہ ایک بے حد صابر و شاکر خاتون تھیں.بڑے سے بڑے صدمہ اور کڑی سے کڑی بات پر بھی کوئی واویلہ نہ کرتیں.ہر بات پر خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جاتیں.صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ بیان کرتی ہیں.کہ میں نے کبھی بھی کسی بے حد قریبی کی وفات پر بھی انہیں روتے نہیں دیکھا.بس سر جھکا کر خاموش ہو جاتیں.ایک چپ سی لگ جاتی تھی.ان کی جوان بیٹی امتہ الود ودر صاحبہ B.A کا امتحان دے کر فارغ ہوئی تھیں کہ دماغ کی رگ پھٹنے سے وفات پاگئیں.اس غم کی شدت کا
حضرت یو زینب صاحبہ 29 29 اندازہ تو ہر کوئی کر سکتا ہے لیکن آپ نے اُف تک نہ کی، کوئی واویلہ نہ کیا ایک چپ سی آپ کو لگ گئی.اس حادثہ کے بعد آپ بہت وہمی ہو گئی تھیں.ایک خوف سا آپ کے دل میں ایسا بیٹھا کہ آپ نے اپنی سب سے چھوٹی صاحبزادی کو B A نہ کرنے دیا.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ :.ہجرت ( پاکستان ) جماعت کے لئے اور افراد کے لئے ایک بڑا امتحان تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے وقت گزار ہی دیا.بُو صاحبہ نے مشکل سے مشکل زمانہ میں بھی کبھی شکایت نہیں کی.1962ء میں حضرت ابا جان کی وفات ہو گئی.اس پر بھی ایسا صبر کا نمونہ دکھایا کہ انسان حیران ہوتا ہے.“ ووو و صاحبہ صدقہ بہت دیتیں.بلکہ اپنے بچوں کو بھی کہتیں کہ فلاں غریب ہے، اسے کچھ دے دو.پھر جو اُن کی خدمت کرنے والے تھے، ان کا بھی خیال رکھتیں.ہمیں بھی کہتیں کہ ان کو کچھ دے دو خاص طور پر جب کسی بچے کی شادی ہو.میرے پر تو یہ ان کا احسان ہے کہ میں کسی سائل کو رد نہیں کرتا.میں نے تو ان سے یہی سیکھا کہ انسان کسی کو کچھ دے کر غریب نہیں ہوتا.“ حضرت کو صاحبہ بہت متقی اور پر ہیز گار تھیں آپ کی اضافی خوبیوں
حضرت کو زینب صاحبہ 30 میں ایک خوبی یہ تھی کہ آپ کا خلافت احمدیہ پر بڑا پختہ ایمان تھا.آپ نے چار خلافتوں کے دور دیکھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع تو آپ سے عمر اور رشتہ دونوں میں چھوٹے تھے.لیکن آپ نے ہمیشہ انہیں اپنا روحانی آقا مانا اور ان کے ساتھ تا دم آخر اخلاص و وفا اور اطاعت کے رشتہ سے بندھی رہیں.حضرت بُو صاحبہ نے اپنی اولاد کی تربیت بھی بھر پور انداز میں کرنے کی کوشش کی اور تربیت کا اصل پہلو آپ کا اپنا عملی نمونہ اور کردار تھا.آپ کے ایثار، قربانیوں ،محبتوں اور تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے اس طرح نوازا کہ آپ کی ساری اولا د آپ کی بے حد عزت اور احترام بھی کرتی اور خدمت بھی.خاص طور پر آپ کے بڑے صاحبزادے، صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی لندن ہجرت کے بعد تاحیات امیر مقامی اور ناظر اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے.حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے خاص دوست اور مصاحب تھے.اور خود ایک متقی بزرگ تھے.ان کے دل میں بوصاحبہ کی خدمت کا جذ بہ بہت نمایاں تھا.اس کی چھوٹی سی مثال سے ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کا طریق تھا کہ جب بھی باہر سے آتے.وہ دفتر ہو یا اور کوئی کام.آپ گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اپنی والدہ کے حصہ میں جا کر
حضرت یو زینب صاحبہ 31 انہیں سلام کرتے حال چال، کام وغیرہ پوچھتے.کچھ دیر بیٹھ کر پھر بعد میں اپنے حصہ میں اپنے اہلِ خانہ کے پاس جاتے.اپنی نمازوں کی حفاظت کا ہردم خیال رہتا یہاں تک کہ آخری بیماری میں جب ہسپتال داخل تھیں.اور نیم بے ہوشی کی سی کیفیت تھی.جب بھی ڈاکٹر دیکھنے آتے اور آپ سکون میں ہو تیں تو وہ دیکھتے کہ ہاتھ اپنے سر تک لے جاتی ہیں.انہوں نے حیرت سے ان کی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا کرتی ہیں.تو انہوں نے بتایا کہ جب ذرا ہوش آتی ہے تو نماز شروع کر دیتی ہیں.اس پر ڈاکٹر صاحب بہت حیران ہوئے کہ اس حالت میں بھی نماز کا خیال ہے.مئی 1984 ء میں آپ شدید بیمار ہوگئیں.لاہور لے جا کر آپ کو زینب میموریل ہسپتال میں داخل کروایا گیا.ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق آپ کو انتریوں کا کینسر تھا.مکرم ڈاکٹر وسیم احمد صاحب نے جون میں آپ کا آپریشن کیا.لیکن اس کے باوجود آپ کی طبیعت نہ سنبھلی اور دو ماہ کی لیبی تکلیف اٹھا کر 24 اگست 1984ء بروز : 1ء بروز ہفتہ قبل از نماز مغرب آپ کی وفات ہو گئی.اسی رات آپ کو ر بوو لے جایا گیا.اگلے دن شام ساڑھے پانچ بجے محترم صوفی غلام احمد صاحب نے بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد بہشتی مقبرہ کی اندرون چار دیواری میں
حضرت یو زینب صاحبہ 32 آپ کے جسد خاکی کو سپردخاک کر دیا گیا.قبر تیار ہونے پر محترم صوفی غلام محمد ناظر اعلیٰ ثانی نے دعا کروائی.کیونکہ آپ کی وفات سے صرف چار ماہ پہلے حضرت خلیفہ مسیح الرابع لندن ہجرت فرما چکے تھے.آپ نے لندن میں ہی حضرت بو صاحبہ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.آپ موصیہ تھیں اور آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد پر وصیت ادا کر دی تھی.پھر اپنی بیماری کے دوران ہی ایک لاکھ روپیہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی خدمت میں بھجوایا کہ یہ رقم بیت المہدی آسٹریلیا کے لئے حضور قبول کرلیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اور آنحضور ﷺ کے قدموں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر پیاروں کے درمیان انہیں جگہ عطا فرمائے.آمین
حضرت بُو زینب (Hadrat Bu Zainab ) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.