Begum Sarwar Shah

Begum Sarwar Shah

بیگمات حضرت سیّد محمد سرور شاہ صاحب

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

زوجه اول زوجہ ثانی حضرت محمد سرور شاہ صاحب

Page 2

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 3

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 1 زوجه اول بیگم حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب پیارے بچو! جب ہم اپنے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کے زمانے کے حالات پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کس طرح مرد ، عورتیں اور بچے ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتے تھے.تو ہمارے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی اس زمانے میں پیدا ہوتے اور ان کی طرح دین کی ترقی میں حصہ لیتے.ہم سب کے دلوں کی اس خواہش کو اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق اس طرح پورا کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کے لوگ بھی اس مرتے کو یا ئیں گے جو اولین دور کے صحابہ کرام کے تھے.پندرہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رخصت ہوئے بھی سو سال ہو گئے ہیں.جب ہم باغ احمد کی سیر کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے

Page 4

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 2 بہترین خدمات سرانجام دینے اور ہر اس کام میں مدد کرنے والے تھے جو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے سپرد کیا تھا.غرض وہ امام وقت کے بہترین مدد گار اور معاون ثابت ہوئے.باغ احمد کے ان گھنے اور سایہ دار درختوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے پانی نے سیراب کیا ، یہی وجہ ہے کہ اُن کو شیریں پھل لگے ، جن سے قوم کو بے حد فائدہ ہوا.اسی طرح ہماری تاریخ میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جن کو خدا تعالیٰ نے خوابوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی خوشخبری دی تھی.جب ہم کسی بزرگ کے حالات پڑھتے ہیں تو ذہن میں پہلا سوال یہی آتا ہے کہ انہوں نے احمدیت کیسے قبول کی ؟ اس طرح زندگی کے اُس حصہ سے بات شروع ہوتی ہے جب ابھی ان کا احمدیت سے تعارف نہ تھا.ایسے ہی ایک بزرگ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب بھی تھے.جن کی بیگمات کا ہم ذکر کر نے جارہے ہیں.حضرت مولوی صاحب حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں.آپ کے والد کا نام سید محمد حسن شاہ تھا.احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے آپ کے والد نے سید محمد سرور شاہ صاحب کی شدید مخالفت کی بلکہ وہ آپ کے خون کے پیاسے ہو گئے مگر اللہ تعالی نے

Page 5

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 3 انہیں بھی حق کو پہنچانے کی توفیق دی اور بالآخر آپ کے والد نے بھی 25 اپریل 1908 کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت پائی.10) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش پر حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب اپنے آبائی وطن ہزارہ کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے قادیان آکر آباد ہو گئے اس کے بعد حضور علیہ السلام کی خواہش پر ہی اپنی زندگی وقف کی.حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کے وقف پر فرمایا:.آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں‘ (2).آپ عاشق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، عاشق سلسلہ احمد یہ تھے.آپ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ معلم اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے.سلسلہ کے بہت سے علماء اور مبلغین کے استاد رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی استادی کا شرف بھی حاصل رہا.حضور علیہ السلام کی غیر حاضری میں بیت مبارک میں آپ نمازیں پڑھاتے.(3) آپ کا پہلا نکاح سید محمد اشرف صاحب سکنہ دانہ ضلع ہزارہ کی بیٹی سے ہوا.سید صاحب احمدیت کے زمانہ سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.تاریخ میں آپ کی بیگم کا نام محفوظ نہیں.اس کی ایک وجہ خود حضرت مولوی صاحب نے یہ بیان کی ہے کہ ” ہمارے خاندان میں خواتین کے نام پکارنے کا رواج نہ تھا.اس لئے بسا اوقات ان کا نام یاد

Page 6

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 4 ہی نہیں ہوتا.چنانچہ مجھے اپنی والدہ صاحبہ اور اہلیہ مرحومہ کا نام معلوم نہیں.“ اپنی بیگم کی بیعت کے بارے میں حضرت مولوی صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے وفات سے تین ماہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا.حضور نے فرمایا:.میں تو چلتے چلتے تھک بھی گیا ہوں.اور پھر دریافت فرمایا کہ کیا تم مجھے جانتی ہو؟ اور ساتھ ہی فرمایا کہ بلند آواز سے کہو کہ میں مسیح موعود (علیہ السلام ) ہوں ! اسی دوران خواب میں ہی بیعت بھی کی، بلند آواز کے ارشاد پر میری اہلیہ نے اتنی بلند آواز سے کہا کہ وہ خود بھی اور میں بھی بیدار ہو گیا.چنانچہ اس خواب کی بنا پر انہوں نے بذریعہ خط بیعت کر لی.بیماری کے آخر میں اہلیہ صاحبہ کی خواہش کے مطابق حضرت مولوی صاحب انہیں ان کی والدہ کے پاس دانہ چھوڑ آئے.جہاں دس ماہ کی ایک چھوٹی بچی کو چھوڑ کر وفات پاگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (4)

Page 7

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 5 زوجہ ثانی مہتاب بیگم صاحبہ بیگم حضرت سیدمحمدسرورشاہ صاحب حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کا دوسرا نکاح مہتاب بیگم صاحبہ سے ہوا یہ رشتہ بھی الہی تقدیر کا عظیم الشان نمونہ ہے.ہجرت کے بعد جب سید محمد سرور شاہ صاحب قادیان آگر آباد ہوئے تو ایک دفعہ طاعون کے دنوں میں آپ کو دارا مسیح میں ٹھہرایا گیا.قدرت اللہ صاحب ڈیوڑھی بان مع اہل وعیال اور آپ ایک ہی حصہ میں رہتے تھے.حضرت اُم المؤمنین چاہتی تھیں کہ مولوی صاحب کا رشتہ قدرت اللہ خان صاحب کے ہاں ہو جائے.چونکہ مولوی صاحب کی رائے تھی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بغیر پوچھے از خود ہی ارشاد فرمائیں تو مجھے کوئی عذر نہ ہوگا.اس لئے یہاں رشتہ نہ ہوا.ایک روز عرب صاحب کے لئے رشتہ کا ذکر ہو رہا تھا.حضور علیہ السلام نے بعض رشتے نا منظور کئے اور فرمایا ایسا رشتہ ہونا چاہئیے جو ظاہری شکل و شباہت میں بھی اچھا ہو.مثلاً میاں جیون بٹ صاحب امرتسری کے ہاں.مولوی صاحب میاں جیون بٹ صاحب سے واقف نہ تھے بلکہ ان کو

Page 8

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 6 دیکھا ہوا بھی نہ تھا.رمضان میں ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسری آکر قادیان میں اعتکاف بیٹھے.مولوی صاحب کے دریافت کرنے پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عید کے لئے ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن میں نے میاں جیون بٹ صاحب کا پیغام حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پہنچانا ہے، اس لئے ٹھہر نا پڑے گا.ان کا پیغام یہ ہے کہ میں نے دو سال سے لڑکی کے رشتہ کے لئے لکھا ہوا ہے، اس کا خیال رکھیں.سید محمد سرور شاہ صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ دوسروں کا پیغام تو پہنچاتے ہیں.لیکن میرا پیغام کسی کو بھی نہیں دیتے.میری شادی کا کسی جگہ انتظام کیا جائے.مولوی صاحب کے خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ کی شادی کے لئے حضرت مولوی صاحب سے ذکر کیا جائے گا.ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی.اے ( سابق مہر سنگھ ) ان دنوں حضرت مولوی صاحب کے پاس رہتے تھے اور طالب علم تھے.انہوں نے مولوی سرورشاہ صاحب کو مبارک باد دی اور دریافت کرنے پر بتایا کہ حضرت مولوی صاحب نے میاں جیون صاحب کو خط لکھا ہے کہ آپ کی لڑکی کے لئے مولوی سرور شاہ صاحب کا رشتہ پیش کرتا ہوں اگر آپ کو یہ رشتہ منظور نہ ہو، تو مجھ سے بالکل نا امید ہو جائیں.میں پھر آپ کی لڑکی کے لئے کوئی رشتہ تجویز نہیں کر سکتا.اگر آپ کو یہ رشتہ منظور ہو،

Page 9

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب تو جمعرات کے روز آجائیں.7 بابا جیون بٹ صاحب، میاں غلام رسول حجام سکنہ امرتسر (صحابی) کے ہمراہ جمعرات کو قادیان آگئے.میاں غلام رسول بہت مخلص تھے.اُن کی باباجی نے یتیمی کی حالت میں پرورش کی تھی.ظہر کی نماز کے وقت حضرت مولوی صاحب نے حضور علیہ السلام سے مشورہ مانگا.اور حضور علیہ السلام نے اس رشتہ کی اجازت عنایت کی.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے حضور علیہ السلام کی موجودگی میں نکاح پڑھا اور بغیر ہو اتھے دو سو روپیہ مہر مقرر کیا.حضور علیہ السلام بھی دعا میں شریک ہوئے.نکاح کے بعد حضرت سید سرور شاہ صاحب نے دریافت کیا کہ رختانہ پر کیا لا نا چاہیے.بابا جی نے کہا ”ہم سب کچھ دیں گے ! آپ کچھ بھی نہ لائیں اور پندرہ دن میں رخصتانہ کر دیں گے ! یہ وہ زمانہ تھا جب اس پاک بستی کے رہنے والے ایک ہی کنبہ کی طرح رہتے تھے.حضرت شاہ صاحب کے پاس رخصتانہ پر خرچ کرنے کے لئے ایک پیسہ بھی نہ تھا.حضرت حکیم فضل الدین صاحب جو مہمان خانہ کے چوبارہ میں رہائش رکھتے تھے ، نیچے تشریف لائے.اور آپ کو دیکھ کر کہا معلوم ہوتا ہے کہ آپ رخصتانہ کے لئے جارہے ہیں اور دس روپے دیئے ( اس وقت کے دس روپے آج کے ہزاروں کے برابر ہیں )

Page 10

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 8 حضرت مولانا نورالدین صاحب سے آپ ملے تو انہوں نے فرمایا کہ بارات میں یہاں سے کسی کو ساتھ نہ لے جائیں.آج تیرہ دوست مجھے سے مل کر امرتسر گئے ہیں اور میں نے انہیں کہا ہے کہ وہ امرتسر سٹیشن پر ٹھہریں اور آپ کی بارات میں شامل ہو جا ئیں.چنانچہ یہ لوگ اسٹیشن پر موجود تھے.آپ ان کے ہمراہ ڈاکٹر عباد اللہ صاحب کے مکان پر گئے.کچھ اور دوست بھی شامل ہو گئے اور یہ بارات جیون بٹ صاحب کے ہاں پہنچی.اس طرح حضرت مولوی سرورشاہ صاحب ، حضرت مہتاب بیگم صاحبہ کو بیس سال کی عمر میں بیاہ کر قادیان لائے.حضرت مہتاب بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب کے رشتہ طے کرنے پر ہمارے تمام رشتہ دار مخالف ہو گئے تھے.اسی لئے کسی نے بھی شادی میں شرکت نہ کی.رہائش کے لئے مولوی صاحب نے سکھوں کی گلی میں ایک مکان لیا.جس میں دو کمرے اور کنال بھر کا صحن تھا اس کا کرایہ چھ آنے تھا پھر کچھ عرصہ کے بعد آپ کو مدرسہ احمدیہ کا سپرنٹنڈنٹ بنایا گیا تو آپ مدرسہ احمدیہ والے مکان میں آگئے.اس وقت آپ کی تنخواہ پندرہ روپے تھی آپ قادیان کی اس پاک بستی میں آنے سے پہلے، دوسو روپے کی تنخواہ چھوڑ کر

Page 11

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 9 آئے تھے، آپ اپنے اخلاص کی وجہ سے کبھی تنگی محسوس نہ کرتے تھے.آپ کے نکاح کے وقت ڈائری حضرت مسیح موعود علیہ السلام 16 مارچ 1903 میں لکھا ہے:.ایک نکاح امرتسر میں ایک احمدی بھائی کی بیٹی کےساتھ پڑھایا گیا.جس پر حکیم نورالدین صاحب نے خطبہ نکاح پڑھایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تقویٰ اختیار کرو، متقی کا ہر ایک عمل قبول ہوتا ہے، متقی ہر ایک تنگی سے بچایا جاتا ہے.متلی کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے جہاں سے اس کو پتہ نہ ہو.(5) آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ حضور علیہ السلام ہمارا بہت خیال رکھتے.جب بھی کوئی پھل آتا تو ہمارے گھر بھی بھیج دیا کرتے.بلکہ کئی بار کپڑے بھی بھجواتے.1906 ء میں ہماری پہلی بیٹی حلیمہ بیگم کی پیدائش اس گھر میں ہوئی جو سکھوں کا محلہ تھا ، بچی تین ماہ کی تھی.طاعون کی وجہ سے ان کے ہمسایہ میں اموات ہونے لگیں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از خود ہمیں بلوایا اور دار امسیح کے نچلے حصہ کا مغربی کمرہ ہمیں دے دیا.ہم دو ماہ وہاں ٹھہرے.ان ایام میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب مع اہل وعیال اور مشرقی ڈیوڑھی کے دربان اکبر خان صاحب اور مغربی

Page 12

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 10 ڈیوڑھی کے دربان قدرت اللہ خان بھی بمعہ اہل عیال دار اسی میں مقیم ایک بہت بڑی سعادت جو مہتاب بیگم صاحبہ کو نصیب ہوئی.اُس کا ذکر یوں فرماتی ہیں.”میری صحت بہت اچھی تھی ، حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی گود میں ان کا پہلا بچہ نصیر احمد مرحوم تھا.ان کی طبیعت خراب تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے فرمایا آپ کی صحت بہت اچھی ہے ، آپ نصیر احمد کو دودھ پلایا کریں.چنانچہ ایک ماہ میں نے دودھ پلایا.“ ایک اور واقعہ بیان فرماتی ہیں:.ایک مرتبہ حضرت اقدس علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے جانے لگے تو حضرت اماں جان نے حضور علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی بیوی کو بھی ساتھ لے چلیں.فرمایا ہاں ان کو بھی لے چلو.سیالکوٹ آٹھ دن کے قیام میں حضور علیہ السلام کھانے پر سب کے متعلق دریافت فرماتے کہ سب کو کھا نا مل گیا ؟ میرے متعلق آپ علیہ السلام کو علم تھا کہ میں سبز چائے پیتی ہوں.حضور علیہ السلام نے میرے لئے دودھ ، سبز چائے اور انگیٹھی کا انتظام کروا دیا.تا کہ مجھے چائے کی تکلیف نہ ہو.یہ تھا آپ علیہ السلام کی مہمان نوازی کا اعلیٰ ترین معیار اپنے

Page 13

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب غلاموں سے !‘ (6) 11 آپ خدا کے فضل سے موصیہ تھیں حسب توفیق مالی تحریکات میں حصہ لیتی رہیں.اپنے زیور اور حق مہر پر چندہ وصیت ادا کیا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے بیت برلن کی تحریک آئی تو آپ نے تمہیں روپے ادا کئے.اس چندو کی تحریک کے متعلق حضور فرماتے ہیں:.کہ دوسروں کی بیت تو اس لئے تعمیر ہوتی ہیں کہ جو ایمان لے آئے ہیں وہ اس میں نماز پڑھیں.لیکن ہماری بہیت کی تحریکوں کی وجہ سے لوگ ایمان لے آتے ہیں.کیونکہ اس بیت کے لئے میری طرف سے پابندی تھی کہ صرف احمدی عورتیں چندہ دے سکتی ہیں.اس لئے گیارہ خواتین نے صرف اس لئے احمدیت قبول کر لی کہ وہ چندہ میں شرکت 66 کر سکیں اور ثواب سے محروم نہ ر ہیں یہ پہلا پھل ہے جو ہمیں ملا.1925 ء میں ایک لاکھ روپیہ چندہ خاص کی تحریک ہوئی.اس میں حضرت مولوی صاحب نے ایک ماہ کی تنخواہ دی اور حضرت مہتاب بیگم نے چھ روپے دیئے.(7) 1930 میں جب لجنہ کی ابتدائی ممبرات کی تعداد 49 ہوئی تو اس میں آپ بھی شامل تھیں.(2) مرد کی زندگی میں عورت کا اہم کردار ہوتا ہے.ذہنی ہم آہنگی ہو

Page 14

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 12 تو گھر جنت بن جاتے ہیں.مکرم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب فاضل ربوہ بتاتے ہیں :.ہمارے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ تعلقات کچھ اس قسم کے تھے کہ آپ کے سُسر حضرت بابا جیون بٹ صاحب امرتسر کے رہنے والے تھے.میری والدہ صاحبہ بھی وہاں ان کے گھر کے قریب ہی رہتی تھیں.حضرت بابا جی ان کو اپنی بیٹی خیال کرنے لگے.اس طرح میری والد و اور اہلیہ حضرت مولوی صاحب گویا بہنیں بن گئیں.اور میں ان کو اہلیہ گویا.اور خالہ کہتا تھا اور اکثر و بیشتر اُن کے گھر آنا جانا رہتا تھا.آپ حضرت سید سرور شاہ صاحب کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں.آپ جب گھر میں ہوتے تو کبھی ادھر ادھر نہ جاتی تھیں.نہ اُن کے مطالعہ میں بچوں کو جانے دیتیں.آپ چونکہ علمی مطالعہ بہت کرتے اور بوڑھے بھی ہو گئے تھے.بادام کا حریرہ استعمال کرتے یعنی بادام ، الا بچی ہیں کر اور گرم تھی میں دودھ ملا کر عصر کے بعد پابندی سے پیتے اور خالہ جان اس کو باقاعدگی سے بنا کر دیتیں.آپ جب بازارسودا سلف خرید نے جاتے تو آپ کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے خالہ جان اپنے نواسے کمال یوسف کو یا بڑے بیٹے سید ناصر احمد کے لڑکے کو پیچھے بھیج دیتی تھیں کہ جب سودا خرید لیں تو دھیان رکھنا کہیں آپ ہوا جیب

Page 15

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 13 میں ڈالنے کی بجائے رستہ میں ہی گرا نہ دیں یا دکان پر ہی چھوڑ نہ آئیں.محترمہ خالہ صاحبہ کی یہ احتیاط بے جانہ ہوتی تھی کیونکہ بسا اوقات ایسا ہو جاتا تھا کہ بٹواہ جیب میں ڈالنے کی بجائے گریبان میں ڈال دیتے اور وہ نیچے گر جاتا یا دکان پر ہی چھوڑ آتے تو یہ بچے وہاں سے اٹھا کر لے آتے.سید سرور شاہ صاحب نہایت متوکل مزاج تھے تنخواہ بہت کم تھی ، گھر کے اخراجات بہت زیادہ تھے.مہتاب بیگم کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیاں اور دو بیٹوں سے نوازا.آپ کے بڑے بیٹے ناصر احمد صاحب ایک دفتر میں برائے نام کام کرتے تھے.وہ اور ان کی بیوی بچے آپ کے ذمہ تھے.چھوٹے بیٹے سید مبارک احمد بھی کوئی کام نہ کرتے تھے.اُن کی فیملی بھی آپ کے ساتھ تھی.بڑی بیٹی اہلیہ ( سیٹھ محمد سعید صاحب ) فوت ہو چکی تھیں.ان کے دونوں بیٹے کمال یوسف اور جمال یوسف بھی آپ کے پاس تھے.چھوٹی بیٹی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کثیر اخراجات کا انتظام ہو جاتا تھا اور اس معاملہ میں محترمہ خالہ جان کے حسن تدبر کا بھی بہت دخل تھا.کیونکہ آپ کا نظم و ضبط گھر میں بڑا مؤثر اور نگرانی بڑی کڑی ہوتی تھی.جس کی وجہ سے

Page 16

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 14 گھر کا کوئی فردان کی مرضی کے خلاف نہیں چل سکتا تھا.(9) دو آپ کے نواسے کمال یوسف صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں:.1933 ء سے 1947 ء تک کا وقت اپنی والدہ کی وفات کے بعد آپ کے زیر سایہ گزرا.میں آپ کو اماں جی کہتا...حضرت مولوی صاحب کے خدمات سلسلہ میں ہمہ وقت مصروف العمل رہنے کی وجہ سے گھر کے متعلق ہر کام آپ سگھڑ اور معتدل انداز اور سلیقہ سے چلاتی تھیں.گھر کے دس بارہ افراد کے علاوہ دو چار کشمیری طلباء یتیم بچے بچیاں ، جز وقتی ملازم ، ان کی دیکھ بھال اور عیال داری آپ خود بڑے ذوق سے اور ایک ڈھنگ سے کرتی چلی آئیں.قادیان عالمی مرکز احمدیت ہونے کی وجہ سے ہر گھر میں مہمانوں کا آنا جانا اور پڑوسیوں کا آنا مزید گھر کی رونق بڑھانا.تعلیم واجبی تھی ، اردو لکھ لیتی تھیں.سلسلہ کے لٹریچر کے علاوہ حضرت قاضی اکمل صاحب کا گھر آپ کے گھر کے نزدیک تھا.ان کے گھر ہندوستان بھر سے آنے والے رسائل آپ کے مطالعہ میں رہتے.اماں جی گھر سے باہر کم نکلتیں ، آخر عمر تک باپردہ گھر سے جائیں ، اگر جانا ہوتا تو ٹوپی والا برقعہ پہن کر جاتیں صحت ماشاء اللہ آخر وقت تک ایسی رہی جیسے بڑھا پا انتظار میں تھک گیا ہو، بڑی عمر میں سر کے بالوں میں

Page 17

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 15 چاندی اترنے کی بجائے سیا ہی لوٹ آئی.83 سال عمر پائی لیکن حافظہ ہمیشہ بہت اچھا رہا.اصحاب احمد سیرت سرور میں بہت سی روایات آپ کے حوالہ سے ملتی ہیں آپ بے حد دعا گو اور ملنسار خاتون تھیں.وفات کے وقت اپنے بیٹے سید مبارک احمد سرور کے پاس ربوہ میں رہائش پذیر تھیں.ستمبر 1963ء میں آپ نے وفات پائی.نماز جنازہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے پڑھائی ، موصیبہ ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.اہلیہ اول سے حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک بیٹی فاطمہ بیگم تھیں، جو ابھی صرف تین ماہ کی تھی.جب اُن کی امی بہت بیمار ہوئیں اور اس بیماری سے فوت ہو گئیں.ان کی وفات کے وقت فاطمہ نے دس سال تک اپنے ننھیال مقام داتہ میں پرورش پائی.پھر اُن کے ابا جان حضرت سرور سید محمد شاہ صاحب اپنے پاس قادیان لے آئے.جب آپ کا رشتہ حضرت خلیلہ اسح الاول کے صاحبزادے عبدالحی صاحب سے طے پایا تو آپ کی امی مہتاب بیگم نے بہت محبت اور فراخدلی سے آپ کا جہیز تیار کیا.اور حضور نے بیٹے کے لئے نکاح کے بعد مکان بنوانا شروع کیا.

Page 18

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 16 21 جون 1913 کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے خطبہ نکاح پڑھا اور دو ہزار روپے حق مہر کا اعلان ہوا...مکان تیار ہو جانے کے بعد رخصتا نہ ہو گیا.حضور نے اپنے بیٹے اور بہو کو دو قرآن مجید ، دو صحیح بخاری اور ان کے لئے رحل اور حزب المقبول ، فتح الغیب اور براہین احمدیہ ، ایک الماری ، تہجد کے لئے لالٹین اور لوٹا دیئے.(10) لیکن ابھی صرف دو سال ہی گزرے تھے کہ صاحبزادہ عبد الحی صاحب صرف ہیں دن بیمار رہ کر 11 نومبر 1915ء میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کچھ عرصہ کے بعد فاطمہ بیگم کی شادی سید محمود اللہ شاہ صاحب ابن حضرت ڈاکٹر عبدالستار صاحب کے ساتھ ہوئی.ڈاکٹر عبدالستار صاحب حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے نانا ہیں.آپ کی نانی اور نانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق کرتے تھے.جس کا اندازہ آپ حضرت نواب مبارک کہ بیگم صاحبہ کی اس تحریر سے لگا سکتے ہیں.آپ فرماتی ہیں:.وو حضرت سیدہ اُمّم طاہر کی والدہ محترمہ بہت نیک اور مخلص خاتون تھیں.کئی بار تڑپ سے میرے پاس یہ خواہش ظاہر کی کہ میری بچیوں کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں ہو، یا پھر حضرت اماں جان

Page 19

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 66 17 کے بھائیوں کے لڑکوں سے ہو.‘ (11) 1907 ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش پر آپ علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے مبارک احمد کا نکاح ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی بیٹی مریم بیگم سے ہوا.گو مبارک احمد کی زندگی نے وفا نہ کی مگر ڈاکٹر صاحب اور ان کی اہلیہ کے اخلاص کو خدا تعالی نے قبول فرمایا اور حضرت مریم بیگم صاحبہ حضرت مصلح موعود کے عقد میں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوبارہ بہو بنیں.نیز خدا تعالیٰ کے فضل نے انہیں ایک خلیفہ کی ماں بنایا یعنی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع آپ کے اکلوتے فرزند تھے.(12) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سادات میں نکاح کرنے کو خدا کا فضل سمجھا ہے.اور اپنی تصانیف میں اس کا ذکر کیا ہے.حضرت مولوی صاحب نے سلسلہ کی ترقی کے لئے دعاؤں کے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعائیں کیں اور بالخصوص اپنی بیٹی فاطمہ بیگم جو خوش قسمتی سے حضرت سیدہ اُمّم طاہر کی بھا بھی تھیں.شادی کے بعد ان کا نام محمودہ بیگم رکھا گیا.ان کو خدا تعالیٰ نے دو بیٹے دیئے.1 سید مسعود مبارک شاہ صاحب 2 سید داؤ د مظفر شاہ صاحب

Page 20

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 18 ابھی چھوٹے ہی تھے کہ 25 برس کی عمر میں محمودہ بیگم صاحبہ وفات پا گئیں.آپ موصیہ تھیں ، تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.حضرت سیدہ بیگم صاحب اہلیہ ڈاکٹر عبد الستار صاحب نے رویا میں حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام کی بیعت کی طرف راہنمائی ہونے پر احمدیت قبول کی.آپ بچپن سے ہی پارسا‘ کے لقب سے مشہور تھیں.دن رات ان تھک دعائیں کرنے والی تہجد گزار خاتون تھیں.ان کی تحریک سے خواتین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے سلسلہ وعظ و تلقین کا جاری ہوا.ایک دفعہ ان کے دانت میں شدید درد تھی.دواؤں سے فائدہ نہ ہوا.حضرت ام المؤمنین نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی.حضور نے دار اسیح میں بلوا کر ان کی موجودگی میں دو نوفل ادا کئے.انہیں یوں محسوس ہوا کہ اس دانت کے نیچے سے قدرے دھویں والا شعلہ نکل کر آسمان کی طرف جا رہا ہے چنانچہ تھوڑی دیر میں آرام آگیا.اور بھی بہت قبولیت دعا کی شہادتیں آپ سے مروی ہیں.حضرت سیدہ بیگم صاحب کے اصرار پر جب ڈاکٹر صاحب رخصت لے کر بمع اہل وعیال قادیان آئے.تو حضور علیہ السلام کو کمال خوشی ہوئی.اور اپنے قریب مکان میں جگہ دی.آپ علیہ السلام ان کی بہت عزت

Page 21

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 19 کرتے تھے اور خاص محبت و شفقت اور خاطر تواضع سے پیش آتے تھے.حضور علیہ السلام نے اپنے گھر کے متعلق انہیں فرمایا کہ یہ آپ کا گھر ہے.آپ کو جو ضرورت ہو بغیر تکلف مجھے اطلاع دیں اور تعلقات کا ذکر کیا.ایک یہ کہ آپ ہمارے مرید ہیں دوسرے آپ سادات ہیں، تیسرا ایک اور تعلق جس کے متعلق حضور علیہ السلام نے خاموشی اختیار کی.جو بعد میں سیدہ ام طاہر صاحبہ کی ولادت اور پھر قرابت کے بعد ظاہر ہو گیا.آپ تقویٰ اور طہارت کا بہترین اسوہ تھیں.آپ سے قرابت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جاری وساری رکھا.وہ یوں کے آپ کی نواسی حضرت سید و امته الحکیم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود أم طاہر کی شادی آپ کے پوتے سید داؤ د مظفر شاہ صاحب ابن سید محمود اللہ شاہ صاحب و سید محمود و بیگم بنت حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب سے ہوئی دوسری نواسی صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ (جن کو ہم سب بی بی با چھی کے نام سے جانتے ہیں ) کی شادی حضرت میر داؤد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحاق احمد صاحب سے ہوئی.اس طرح آپ کی وہ تمنا بھی پوری ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کے بھائیوں کے گھروں میں رشتے ہوں.ان رشتوں سے خواتین مبارکہ کا تسلسل بھی اگلی نسل میں بہت ہی

Page 22

بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب 20 20 حسین انداز میں منتقل ہوا.اس کے نتیجے میں اب ہم سب نے خدا تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھا کہ اب ہمارے موجودہ امام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے پوتے ہیں اور آپ کی اہلیہ حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی کی نواسی صاحبزادی امتہ السبوح بیگم صاحبہ بنت سید داؤ د مظفر شاہ صاحب ہیں.اس طرح ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سادات سے تیسرے تعلق پر خاموشی کا جواب وقت نے بار بار کس خوبصورت انداز میں دیا.اب ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ، حضور علیہ السلام کے عظیم مشن کو لے کر زمین کے کناروں تک جا رہے ہیں اور ہم گھر بیٹھے اس الہام کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں کہ " میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا خدا کرے کہ ہم بھی اپنے بزرگوں کی خلافت کی روح کی گہرائیوں سے قدر کرنے والے ہوں تا کہ ہم اور ہماری نسلیں امام وقت کی باتوں پر عمل کر کے حضرت اقدس علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنیں.آمین

Page 23

21 بیگم سید محمد سرور شاہ صاحب حوالہ جات سيرة صحابہ جلد سوم حصہ اول ( صفحه 6) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول ( صفحہ 114) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم ( صفحہ 173) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول(صفحه 71-72) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم ( صفحہ 21-24) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم (صفحہ 32) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم (صفحہ 35 ) تاریخ لجنہ جلد اول ( صفحه 76) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم ( صفحہ 138-140 ) اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم ( صفحہ 37) تابعین اصحاب احمد سیرت اُم طاہر (صفحہ 5) تابعین اصحاب احمد سیرت اُم طاہر (صفحہ 14 تا 18 ) 1 2 3 5 6 7 8 10 11 12

Page 24

بیگمات حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب (Begamat Hadhrat Sayyad Muhammad Sarwar Shah Sahib) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 24