Language: UR
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا یہ خطاب نظارت نشر و اشاعت قادیان نے شائع کیا جو حضور رحمہ اللہ نے 28 دسمبر 1982ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات سے فرمایا تھا۔ اس میں آپ نے بتایا کہ اسلامی پردہ کیاہے؟ اسے اختیار نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں ؟ اس موضوع پر تفصیلی ہدایات ارشاد فرماکر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بے پردگی کے عالمی رجحان کے متعلق سخت انتباہ فرمایا۔ یہ خطاب اولاً اخبار الفضل میں 28فروری 1983کے شمارہ میں شائع شدہ تھا جسے ٹائپ کرواکر شائع کیا گیا ہے۔
بے پردگی کے خلاف جہاد...ناشر....نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب خطاب بے پردگی کے خلاف جہاد حضرت مرزا طاہراحمد خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ طبع اول مئی 2007ء طبع ثانی نومبر 2011ء حالیہ طباعت : ستمبر 2013ء تعداد 1000: مطبع ناشر فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان ، ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا.143516 ISBN: 978-81-7912-337-9 Be Pardgi ke khilaf Jihad By: Hadhrat Mirza Tahir Ahmad Khalifatul Masih IV
پیش لفظ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کو فحشاء سے بچانے کے لیے نغض بصر کا حکم دیا ہے اور عورتوں کو خاص طور پر پردے کا حکم دیا ہے.قرآن مجید کی تعلیم ایسی حسین ہے جو ہر قسم کی برائی کا قلع قمع کرتے ہوئے فطری تقاضوں کو پورا کرتی ہے اور ہر ایسی برائی کو جڑ سے ہی ختم کر دیتی ہے جو کسی وقت اور کسی زمانے میں بھی نقصان پہنچانے والی ہو.موجودہ زمانہ میں بے پردگی کی وجہ سے عریانیت اور حد سے زیادہ نگ ظاہر کرنے سے اتنا نخش پھیل گیا ہے کہ شریف انسانوں کی نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں اور نا قابل بیان برائیاں پیدا ہوگئی ہیں.پس ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی روح کو سمجھتے ہوئے حقیقی رنگ میں پردہ اختیار کیا جائے.یہی وہ حصار ہے جس میں پناہ لیکر ہم اپنی نسلوں کو زمانے کی برائیوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 28 دسمبر 1982ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات سے جو خطاب فرمایا اس میں آپ نے اسلامی پردہ کیا ہے، اسے اختیار نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں ، کی وضاحت کرتے ہوئے احمدی مستورات کو سخت انتباہ فرمایا.پس احمدی مستورات کو چاہئے کہ اسکو غور سے پڑھیں اور اسکے مطابق اپنی زندگیاں گزار ہیں.نظارت نشر واشاعت اس خطاب کو شائع کر رہی ہے.حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان
بسم الله الرحمن الرحيم حمل ونصلى على رسول الكي يمين وعلى عبادة المسيح الموعود جلسه سالاندر بود۱۹۸۲ء کے موقعہ پرسیدنا حضرت خلیفۃ السیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا احمدی مستورات سے خطاب احمدی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلان کریں! احمدی عورتیں اپنے مقام کو سمجھیں.اگر آپ نے ہی پیٹھ پھیر لی تو پھر کون دین کی قدروں کی حفاظت کرے گا فرموده ۲۷ فتح ۱۳۶۱ احش بمطابق ۲۷ دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام جلسه گاه مستورات ربوه سیدنا حضرت خلیفہ اسمع الزوابع رحمہ اللہ تعالٰی نے جلسہ سالانہ کے موقع پر مورخہ ۲۷ / فتح ۱۳۶۱ ہش ۱۲۷ دسمبر ۱۹۸۲ء کو احمدی خواتین سے جو خطاب فرمایا وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ النور کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:- قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ ، إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ o وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَتِ
يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِيْنَتَهُنَّ إِلَّا مَاظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوْبِهِنَّ ، وَلَا يُبْدِينَ زيْنَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّبِعِيْنَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ مِن وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ، وَ تُوْبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيْعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ) (النور: ۳۱، ۳۲) ترجمہ: تو مومنوں سے کہدے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی فروج کی حفاظت کیا کریں.یہ ان کے لئے بہت پاکیزگی کا موجب ہوگا.جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح باخبر ہے.اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی فروج کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی بے اختیار ظاہر ہوتی ہو.اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اور اس کو ڈھانک کر پہنا کریں.اور وہ صرف اپنے خاوندوں یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی (ہم کفو ) عورتوں یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے ہیں یا ایسے ماتحت مردوں پر جو ابھی جوان نہیں ہوئے یا ایسے بچوں پر جن کو ابھی عورتوں کے 2
خاص تعلقات کا علم حاصل نہیں ہوا.اپنی زینت ظاہر کریں.ان کے سوا کسی پر نہ ظاہر کریں.اور اپنے پاؤں ( زور سے زمین پر ) اس لئے نہ مارا کریں کہ وہ چیز ظاہر ہو جائے جس کو وہ اپنی زینت میں سے چھپا رہی ہیں.اور اے مومنو! سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.پھر فرمایا:- یہ وہ آیات ہیں جن میں پردے کے تفصیلی حکم کا ذکر ہے.مجھے ان آیات کی تلاوت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں کچھ عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ اسلام پر جو بلائیں ٹوٹ رہی ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی بلا بے پردگی ہے.مختلف جہتوں سے مختلف شکلوں اور مختلف بہانوں سے یہ بلا مسلمان عورتوں پر ٹوٹ رہی ہے اور دُنیا کے اکثر ممالک میں مسلمان عورت پردے سے باہر آگئی ہے.یہاں تک کہ بعض مسلمان ممالک میں تو یہ فتویٰ بھی دیا جانے لگا ہے کہ پردہ حرام ہے.چنانچہ ابھی چند دن ہوئے لیبیا میں یہ فتویٰ شائع کیا گیا کہ اسلام میں پردہ نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ حرام ہے.اور اب کوئی عورت پردہ نہیں کرے گی اور جو کرے گی وہ قانون شکن ہو گی.بہر حال وہ مسلمان ممالک جو اسلام کے پاسبان سمجھے جاتے تھے خودان ممالک میں بھی یہ وبا اس شدت کے ساتھ پھیل رہی ہے کہ قرآن کریم کے احکام کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ انکو بالکل الٹایا جارہا ہے.صرف احمدی عورت ایسی عورت تھی جس سے یہ توقع تھی کہ وہ اس میدان میں جہاد کا بہترین نمونہ دکھائے گی اور بھاگنے والوں کے قدم روکے گی اور بازی جیت کر دکھائے گی.لیکن بڑی حسرت اور بڑے دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ خود احمدی خواتین نے بھی اس میدان میں کمزوری دکھانی شروع کر دی.رفتہ رفتہ بے پردگی کی یہ 3
و با پھیلتی رہی پہلے یہ بڑے شہروں سے شروع ہوئی اور پھر چھوٹے قصبات میں بھی جا پہنچی اور یہ محسوس ہونے لگا کہ گویا اس میدانِ جہاد میں ہم بازی ہارر ہے ہیں.اس لئے میں نے یہ محسوس کیا ہے اور بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے کہ احمدی مستورات کا اعلان کریں.کیونکہ اگر آپ نے بھی یہ میدان چھوڑ دیا تو پھر دُنیا میں اور کون سی عورتیں ہوں گی جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی.بے پردگی کے جواز میں مختلف بہانے اور عذرات تراشے جاتے ہیں.ان کی داستان لمبی ہے.لیکن میں نے یہ دیکھا کہ اب سب سے زیادہ جس چور دروازے سے بے پردگی نے حملہ کیا ہے وہ چادر ہے.چادر جس کا مقصد قرآن کریم کی رُو سے پردہ ہے بالکل بر عکس مقصد کے لئے استعمال ہونے لگی ہے.اس سے انکار نہیں کہ چادر کا پردہ اسلامی پردہ ہو سکتا ہے لیکن کن حالات میں اور کس حد تک یہ پردہ، پردہ رہتا ہے اسکی وضاحت کی ضرورت ہے.چنانچہ قرآن کریم میں پردے کے جو احکامات ہیں انکے متعلق تفصیلی جائزہ لیا گیا.یہ معاملہ میں نے مجلس افتاء کے سپرد کیا.اور گذشتہ چھ ماہ سے یہ معاملہ تفصیلاً زیر غور ہے.پردہ سے متعلق تمام آیات قرآنی کو اکٹھا کرنے اور ان پر غور کرنے کے علاوہ تمام متعلقہ احادیث کا مطالعہ کیا گیا.اسلامی تاریخ میں مختلف وقتوں میں پردے نے جو شکلیں اختیار کیں ان کو بھی زیر نظر رکھا گیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ اقتباسات پر بھی غور کیا گیا اور خلفائے سلسلہ احمدیہ مثلاً حضرت خلیفتہ مسیح الا ول رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پردے کے متعلق جن خیالات کا اظہار 4
فرمایا ان کو بھی زیر غور لایا گیا.ان تمام باتوں پر غور کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ اسلام مختلف سوسائیٹیوں اور ان کی ترقی کی مختلف حالتوں کے پیش نظر اور پھر انسانی ضروریات اور کسی سوسائٹی کے عمومی حالات اور کردار کے پیش نظر مختلف قسم کے پردوں کی توقع رکھتا ہے.یہ ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے جو پردے کی ہر امکانی ضرورت کو مد نظر رکھتا ہے اور کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جو دُنیا کی کسی قوم پر وارد ہوا ہو اور اس کا جواب قرآن کریم اور سنت نبوی میں نہ ملتا ہو.مثلاً ہمارے دیہات میں چادر کا پردہ رائج ہے.اس میں گھونگھٹ ہے اور جہاں تک ممکن ہو دائیں بائیں سے چادر کو لپیٹ کر چہرے کو ڈھانپا جاتا ہے.اس قسم کے پردے میں شرم و حیا سے چلنے والی عورتیں ہیں جو خاوندوں کو روٹی پہنچانے کے لئے کھیتوں میں جاتی ہیں.پانی بھر نے باہر نکلتی ہیں.اسلام کے نزدیک یہ استثناء نہیں ہے.بلکہ اسلامی پردے کے بنیادی تخیل کا حصہ ہے.اور قرآن کریم اس کے متعلق وضاحت سے بیان کرتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مضمون خوب کھول کر بیان فرمایا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان آیات کی روشنی میں جو میں نے شروع میں پڑھی تھیں، بیان فرمایا کہ ایک پردہ یہ ہے کہ اپنے چہرے کو دائیں بائیں سے ٹھوڑی تک پوری طرح ڈھانک لیا جائے اور ماتھے کو بھی پوری طرح ڈھانک لیا جائے.کوئی ایسا سنگھار نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں خواہ مخواہ بدلوگوں کی نظروں میں انگیخت پیدا ہو.جو عورتیں ان سوسائیٹیوں میں وقار اور تحمل کے ساتھ بغیر کسی سنگھار کے انسانی ضروریات کی خاطر باہر نکلتی ہیں وہ اسلامی پردہ کر رہی ہیں.وہ پردہ کے قانون کے اندر داخل ہیں.استثناء تو وہ ہوتا ہے جو قانون کے خلاف ہو.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس تشریح کے ساتھ بیان فرمایا کہ یہ وہ پردہ ہے 5
جو اہل یورپ کے لئے بھی بار نہیں اور ان پر شاق نہیں گزرسکتا.کیونکہ ان کی سوسائٹی میں عورت نے اقتصادیات میں بہت زیادہ آگے قدم بڑھالیا ہے.اور وہ اقتصادیات کا ایک حصہ بن چکی ہے.اس لئے اس کو باہر نکلنا پڑتا ہے.اگر وہاں کی عورت اسی قسم کا پردہ کر لے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے ماحول میں عین اسلامی پردہ کر رہی ہے.اس کے بعد ایک اور پردہ ہے اور وہ چہرے کا پردہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وضاحتوں کی روشنی میں جب حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اس مضمون پر قلم اُٹھایا تو بڑی وضاحت کے ساتھ ، بغیر کسی استثناء کے یہ بات بیان فرمائی کہ چہرے کا پردہ بھی اسلامی پر دہ ہے اور اس کی بنیادوں میں داخل ہے.مگر یہ پردہ کس سوسائٹی کے لئے ہے؟ اس کی وضاحت کے لئے جب آپ حضرت مصلح موعودؓ کی تفاسیر پڑھتی ہیں اور اس موضوع پر جو کچھ آپنے بیان فرمایا اس پر غور کرتی ہیں تو آپ کے سامنے یہ بات کھل کر آجائے گی کہ سوسائٹی کا وہ حصہ جو متمول ہے اور عام اصطلاح میں Advanced یعنی ترقی یافتہ کہلاتا ہے.ان کو ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں، گھروں میں کام کرنے والے اور خدمت گار ہیں، ہر قسم کے آرام اور آسائش کے سامان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں، بنگلے ہیں، کوٹھیاں ہیں اور بظاہر زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ تسکین قلب کے لئے اپنے پیسے خرچ کرنے کی راہیں ڈھونڈیں یعنی یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ ہم زندہ کس طرح رہیں، بلکہ یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پیسہ ہمیں عطا فرمایا ہے ہم اس کو کس طرح خرچ کریں تا کہ لذت یابی کے اور زیادہ سامان مہیا ہوں.یہ وہ سوسائٹی ہے جسکے لئے حکم ہے کہ جہاں تک ہو سکے 6
اسکی عورتیں اپنے چہرے کو ڈھا نہیں اور سنگھار وغیرہ کر کے باہر نہ نکلیں.اگر وہ بے مقصد اور بے ضرورت باہر نکلیں گی تو اس سے سوسائٹی کو شدید نقصان پہنچے گا.اور آج کل جب کہ ہر طرف گندگی پھیل رہی ہے اور گھروں کا امن اُٹھ رہا ہے.زیادہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی عورتیں پورا پردہ کریں.جہاں تک بُرقع کا تعلق ہے یہ ٹھیک ہے کہ وہ معین طور پر اسلامی پردہ نہیں.لیکن حالات اور موقع کے مطابق خلفاء کا یہ کام رہا ہے اور یہ فرض ہے کہ وہ اس معاملہ میں انتظامی فیصلہ کریں.اگر ایک سوسائٹی میں برقع رائج ہے اور چادر اس کی جگہ لے رہی ہے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس طرح اسلامی پردے کی رُوح کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا نہیں.اگر اس سے نقصان نہیں پہنچتا تو اسکا فیصلہ یہی ہوگا کہ چادر لینے میں کوئی حرج نہیں.لیکن اگر واضح طور پر اور یقینی طور پر قدم ضلالت اور گمراہی کی طرف اُٹھ رہے ہوں اور یہ خطرہ ہو کہ رفتہ رفتہ پردہ بھی اٹھ جائے گا صرف بُرقع نہیں اُٹھے گا.اس وقت خلیفہ اگر قدم نہیں اُٹھاتا تو وہ مجرم ہو گا اور خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا.پس میرا فرض ہے کہ ان تمام حالات پر غور کرنے کے بعد کوئی انتظامی فیصلہ کروں.بُرقع کے حالات بعض سوسائیٹیوں میں بہت اہمیت اختیار کر چکے ہیں.دیکھنا یہ ہے کہ برقع سے باہر آنے والا رخ کیا ہے اور بُرقع کے اندر داخل ہونے والا رخ کیا ہے؟ یہ دو مختلف اور متضاد شکلیں ہیں جو میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنی چاہتا ہوں.بعض سوسائیٹیوں میں نسلاً بعد نسل بُرقع رائج رہا ہے.مثلاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ہے.ہم نے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا اور آپکی اولاد کو دیکھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولا د کو دیکھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی اولاد، 7
خاندان کے دوسرے افراد جو پارٹیشن سے پہلے تک قادیان میں پیدا ہوئے اور اس مبارک ماحول میں انہوں نے پرورش پائی.ان کو دیکھا ان کی ساری عورتیں برقعوں میں ملبوس ہوتی تھیں.دُنیا کی دلچسپیوں میں آزادی سے حصہ لینے سے ان کو نہیں روکا گیا.وہ شکار پر بھی جاتی تھیں.کھیل کود اور سیر و تفریح میں بھی حصہ لیا کرتی تھیں.تعلیم بھی اعلیٰ سے اعلیٰ حاصل کرتی تھیں.یہ سارے کام وہ برقع کی پابندی کے ساتھ کرتی تھیں.اگر ان کے بچے اور بچیاں اس دور میں یہ دیکھیں کہ ان کی ماؤں نے چادریں لے لی ہیں اور چادروں کی شکل یہ بن گئی ہے کہ اپنوں کے سامنے وہ زیادہ شدت کے ساتھ لپیٹی جاتی ہیں اور غیروں میں جا کر چادر میں ڈھلک جاتی ہیں اور کندھوں پر جا پڑتی ہیں، تو یہ نہ سمجھیں کہ یہ اسلامی پردہ ہے.کون اسے اسلامی پردہ کہہ سکتا ہے.تقویٰ سے کام لینا چاہئے.آپ اعتراض کی زبانیں بے شک کھولیں.مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.لیکن میں اس مقام پر فائز کیا گیا ہوں کہ آپ کی نگرانی کروں.اس لئے میں آپ پر خوب کھول کر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم فرماتا ہے:- بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيْرَةٌ وَّلَوْ الْقَى مَعَاذِيْرَهُ (القيمة: ۱۵، ۱۶) تم لاکھ بہانے تراشو اور لاکھ غذر پیش کرو کہ ہم اسلامی پردے میں زیادہ شدت اختیار کر رہی ہیں اور یہ کہ اسلامی پردہ چادر ہی ہے، لیکن میں جانتا ہوں اور میرانفس جانتا ہے اور آپ کا نفس بھی جانتا ہے کہ وہ چادر جو آج بے پردگی کے لئے استعمال کی جا رہی ہے بہر حال اسلامی نہیں ہے.اسلامی قدریں تو ڑی جارہی ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی نسلوں کا کیا حال ہوگا ؟ ان کو پتہ نہیں کہ وہ ناچ گانوں میں مبتلا ہو جائیں 8
گی اور بے حیائی میں ایسے قدم آگے بڑھائیں گی کہ نہیں روکی جاسکیں گی.اس کے برعکس بعض ایسی سوسائیٹیاں ہیں جہاں بے حیائی عام ہے اور جہاں ننگ کا تصور ہی مختلف ہے.ننگے بازو، ننگے چہرے بلکہ بدن کے ایسے اعضا ننگے کر کے پھرتی ہیں کہ انسان کی نظر پڑ جائے تو حیران ہوتا ہے کہ عورت یہاں تک پہنچ گئی ہے.ایسے ماحول میں جب عورتیں احمدیت میں داخل ہونے کے بعد اسلامی قدروں کو اختیار کرتی ہیں تو گو وہ اپنے چہروں کو نہ بھی ڈھانپ رہی ہوں پھر بھی وہ چادر کے ساتھ ایسا پردہ کرتی ہیں کہ ان کی شرافت اور نجابت ساری سوسائٹی کو نظر آ رہی ہوتی ہے.اس سوسائٹی میں وہ بعینم اسلامی پردہ ہے.وہ استثناء نہیں ہے.اس لئے مختلف حالات میں مختلف پس منظر کو دیکھ کر فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اسلام نے ان سب چیزوں کی گنجائش رکھی ہے.پھر ایک اور پر وہ ہے جو اہلِ بیت کا پردہ ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اہل بیت کا خدا اور تھا اور عام عورتوں کا خدا اور ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ خدا جانتا تھا کہ بعض خاندانوں پر زائد ذمہ داریاں عائد ہوا کرتی ہیں.اگر وہ گناہ کی طرف ایک قدم اٹھائیں گی تو دوسری عورتیں ان کی وجہ سے دس قدم اٹھائیں گی اور اگر وہ نیکی کی طرف ایک قدم اٹھا ئیں گی تو دوسری عورتیں بھی ان کی اتباع میں قدم نیکی کی طرف اٹھائیں گی.اسی بنیادی فلسفے کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے جو خالق کا ئنات ہے اور جس نے انسانی فطرت کو پیدا کیا اہلِ بیت کے لئے خاص پردے کا حکم دیا اور یہ کم نا انصافی پر بنی نہیں تھا بلکہ فطرت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھا کہ جہاں تک ہو سکے تم گھروں کے اندر ٹھہری رہو اور بے ضرورت باہر نہ نکلو.اور اگر نکلنا پڑے تو اپنے آپ کو پوری طرح 9
ڈھانپ کر نکلو اور کسی کو ہرگز یہ موقع نہ دو کہ وہ تمہارے پاک چہروں کو دیکھے اور بدنظر سے انکے تقدس کو مجروح کرنے کی کوشش کرے.یہ پردے کی تیسری قسم ہے.پس یہ تینوں قسم کے پردے اسلامی پردے ہیں.اور مختلف حالات میں نافذ ہوں گے.لیکن افراد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ نظم وضبط کو توڑ دیں اور جدھر چاہیں منہ اُٹھا کر پھریں اور آہستہ آہستہ سوسائٹی سے اسلامی پردے کا تصور ہی اُٹھ جائے.جماعت احمد یہ ایک منظم جماعت ہے اور اس میں وحدت کا تصور ہے اور وحدت نظم وضبط کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی.پس یہ وہ وجوہات ہیں جن کے پیش نظر میں نے نظارت اصلاح وارشاد کو اور اسی طرح لجنہ اماءاللہ کو یہ ہدایت دی کہ سب سے پہلے آپ جلسہ سالانہ کے سٹیج پر اسکی پابندی کریں اور خصوصیت کے ساتھ خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مستورات پر سختی کریں.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان پر جو احکامات عائد ہوتے ہیں انکی اتباع میں ویسے ہی احکامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان پر بھی عائد ہوتے ہیں.اگر ان سے یہ سلوک ہو کہ چاہے وہ پردے کا احترام کریں یا نہ کریں ان کو سٹیج کے ٹکٹ مل رہے ہوں اور لجنہ کی خدمت کرنے والی مستورات پر دے میں رہ کر اسلام کے لئے سب کچھ پیش کرنے والی مستورات اور دین کی راہ میں ہاتھوں سے زیور تک اتار کر دینے والی مستورات نیچے زمین پر بیٹھی ہوئی ہوں تو یہ سخت نا انصافی اور تقویٰ کے خلاف بات ہوگی.یہ تصور کہ گو یا اعلیٰ اور ماڈرن سوسائٹی کا حق ہے کہ وہ سٹیج کا ٹکٹ لے اور غریب احمدی عورتوں کا کام ہے کہ وہ سامنے زمین پر بیٹھیں.یہ بالکل غلط تصور ہے.اگر کسی کے دماغ میں یہ کیڑا ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے اسے نکال 10
دے.ہرگز ایسا نہیں ہوگا.صرف تقویٰ معیار ہے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:- إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ.(الحجرات : ۱۴) ہم نے تمہیں شعوب اور قبائل بنایا اور مختلف تقسیمیں کیں.لیکن خبر دار ! جو تم نے ان چیزوں کو ذریعہ عزت بنایا.اللہ تعالیٰ کے نزدیک متقی کے سوا کوئی عزت کے لائق نہیں ہے.پس اگر جماعت تقویٰ کے معیار کی حفاظت نہیں کرے گی تو کسی بھی قدر کی حفاظت نہیں ہو سکے گی.تقویٰ تو مومن کی بنیاد ہے.یہ تو اسلام کی جڑ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے * اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے یہ بہار جو اسلام کے چہرے پر آتی ہے یہ تقویٰ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.یہ تقویٰ کی جڑیں ہیں جو زمین میں پھوٹتی ہیں اور پھر آسمانی کیفیتوں میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہیں.اس لئے تقویٰ کا پہلو یہ ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے.ایسے مواقع پر کچھ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں.مثلاً بعض ایسے علاقے ہیں جہاں برقع رائج نہیں ہے بلکہ چادر رائج ہے.اور بعض ایسی مستورات ہیں جو چادر کی نسبت برقع سے اپنی زیادہ حفاظت کر لیتی ہیں.تو یہ جماعت کا کام ہے کہ وہ ان باتوں کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ وہ کون سے علاقے ہیں اور معلوم کیا جائے کہ جو عورتیں چادر لے رہی ہیں ان کا طریق کار کیا ہے؟ کیا وہ فیشن کی غلام ہیں یا واقعہ ضرورت کے ماتحت ایسا کر رہی ہیں اور مجبور ہیں اور پوری طرح اپنی حفاظت کرتی ہیں.پھر اگر وہ چادر لیتی ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے.ایسی مستورات کے متعلق اگر جماعت کا نظام فیصلہ 11
کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے لئے زیادہ مصیبت مول لیتی ہیں.اگر کوئی عورت واقعہ پوری طرح پردہ کرنا چاہے تو چادر کی نسبت برقع کا استعمال آسان ہے.چادر تو ڈھلکتی ہے اس کو سنبھالنا پڑتا ہے.گھونگھٹ کھینچنا پڑتا ہے اور کئی قسم کی وقتیں ساتھ لگی ہوئی ہیں.الغرض چادر کے ساتھ عورت بڑی مشکل سے اپنے پردے کی حفاظت کرتی ہے.برقع تو ایک آسان طریق تھا.پس اگر ماڈرن سوسائٹی کے اثرات یا اسکی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر بعض علاقوں کی عورتیں اپنے رواج کے پیش نظر چادر کا پردہ کرتی ہیں تو جماعت کا کام ہے کہ اس چیز کی نگرانی کرے.ہم انشاء اللہ تعالی تحقیق کریں گے اور جماعتی نظام کے تابع ان کو اجازت دی جائے.لیکن اسی حد تک جس حد تک ان کا پردہ اسلامی ہے.اگر خطرہ محسوس ہوا کہ وہی چادر میں ان کی بچیاں غلط طور پر استعمال کرنے لگی ہیں اور نئی سوسائٹی میں آکر اس کے بداثرات ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں تو اس کے استعمال سے بھی روک دیا جائے گا.جہاں تک سٹیج ٹکٹ کا تعلق ہے ممکن ہے بعض ایسی عورتوں کو بھی یہ نہ ملا ہو جو اس کا حق رکھتی ہیں اور ان کے دلوں میں شکوہ پیدا ہوا ہو.جہاں تک اس کے رد عمل کا تعلق ہے اس سلسلے میں بڑی دلچسپ رپورٹیں آئی ہیں.وہ میں آپ کو سُنانا چاہتا ہوں.ایک ہماری باجی جان ہیں.پردے کے معاملے میں شروع سے ہی انکار جهان سختی کی طرف رہا ہے.کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تربیت میں جو پہلی نسل آئی یہ ان میں سے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جو پردہ کراتے دیکھا اور جس طرح اپنی بچیوں کو پردے کی پابندی کے ساتھ باہر بھیجتے دیکھا، وہ ان کی فطرت میں ایسا رچ چکا ہے کہ اس عادت سے وہ ہٹ ہی نہیں سکتیں.ان کے متعلق ہماری بعض بچیوں کا خیال 12
ہے کہ یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں.انہیں کچھ نہ کہو.ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں لیکن اگلے وقت کون سے تھے ؟ میں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہیں.اس لئے اگر اُن کے وقت کو اگلے اور پرانے وقت سمجھ کر کسی نے کچھ کہنا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے.وہ جانے اور اس کا خدا جانے.یہ انکا اپنا معاملہ ہے.بہر حال میری یہ بہن واقعہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے پردے کے معاملہ میں سختی کرتی ہیں.چنانچہ اس دفعہ سٹیج کے ٹکٹوں خصوصاً ایک حلقہ کے ٹکٹوں کی ذمہ داری ان پر عائد کی گئی.نظارت اصلاح وارشاد نے جہاں اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا اور میں نے اس کی جواب طلبی کی ہے.وہاں انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا اور ٹکٹ جاری ہو جانے کے با وجود روک دیئے.نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو ہر طرف سے طعن و تشنیع کے فون آنے شروع ہوئے.ان پر سختی کی گئی بعض والدین نے بُرا بھلا بھی کہا اور بعض بچیوں نے فون کئے کہ آپنے یہ کیا قصہ چلایا ہوا ہے چنانچہ میری بیوی کے پاس اسی قسم کی ایک بچی آئی اور کہنے لگی کہ یہ معاملہ چلے گا نہیں چلا کر دیکھ لیں.پھر ہماری ایک بچی کے پاس چند لڑکیاں آئیں اور اسی سلسلے میں گفتگو ہونے لگی انہوں نے کہا تم تو پردہ بھی کرتی ہو اور گھر سے باہر بھی نہیں نکلتی اس لئے تمہیں سٹیج کا نہیں صدارت کا ٹکٹ ملنا چاہئے.غرضیکہ اپنے دل کے جتنے بھی دُکھ تھے جس طرح بھی بس چلا وہ انہوں نے دوسروں کے دلوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی.جب عورت چر کہ لگاتی ہے تو یہی مطلب ہوتا ہے کہ میرے دل کا دُکھ میرے دل میں کیوں رہے.میں اپنے دل کا دُکھ تمہارے دل میں منتقل کرتی ہوں اور خود چھٹی کر جاتی ہوں.اب تم جانو اور جو مرضی چاہے کرو.جب یہ ساری باتیں مجھ تک پہنچیں تو میں نے اپنی باجی جان سے کہا کہ آپ کیوں 13
غمگین ہوتی ہیں یہ فیصلہ تو میرا ہے.یہ غم آپ کے دل میں بھی نہیں رہنے چاہئیں.یہ تو میرے دل میں منتقل ہونے کا حق رکھتے ہیں.آپ مجھے دے دیں.میں جانوں اور میرا خدا جانے آپ ہرگز خشمگین نہ ہوں.اور بے فکر ہو کر ان باتوں کی قبیل کریں.ذمہ دار میں ہوں.آپ پر ان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.اس وقت مجھے خیال آیا کہ آغاز اسلام میں بھی تو یہی ہوتا تھا.میں کیا اور میری بساط کیا.میں تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کا غلام ہوں.گنہگار اور کمزور انسان ہوں نہیں جانتا کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس منصب پر فائز فرمایا.لیکن جیسا بھی میں تھا اور جیسا بھی میں ہوں.اس منصب کی ذمہ داریاں لازماً ادا کرنے کی کوشش کروں گا.مجھے دُنیا کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں.میں اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ مرنے کے بعد خدا کے حضور جواب دہ بنوں.اس لئے دُنیا کی باتیں تو میں برداشت کرلوں گا لیکن خدا کے حضور جواب دہ بننا مجھے قبول نہیں ہے.پس میں نے اپنی باجی جان سے کہا کہ آپ بے فکر رہیں.اس سے پہلے باتیں کرنے والوں کی زبانوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں چھوڑا تو ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں.مختلف فیصلے مختلف نیتوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں اور مختلف نیتیں ان کی طرف منسوب کر دی جاتی ہیں.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد اور دوسرے غزوات سے فارغ ہو کر واپس مدینہ جانے لگے تو اس سے پہلے ایک واقعہ ہوا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مہاجرین کو جو واپس مکہ میں اپنے گھروں میں آباد ہورہے تھے مال غنیمت میں سے بہت کچھ دیا اور وہ انصار جو مدینہ سے آپ کے ساتھ آئے تھے وہ قریباً خالی ہاتھ کوٹ رہے تھے.اس وقت ایک بدقسمت انصاری نے یہ اعتراض اٹھایا کہ 14
یہ عجیب رسول ہے جو لوگوں کو تو عدل پر قائم کرتا ہے لیکن اپنا یہ حال ہے کہ اموال غنیمت اپنے رشتہ داروں اور اقرباء کو دے دیئے ہیں حالانکہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے.یہ سُن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت رنجیدہ خاطر ہوئے.لیکن آپ اس قسم کی باتوں کے عادی تھے اس لئے اس کی بات کی کوئی پرواہ نہ کی.آپ نے انصار اور مہاجرین کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے جب انصار نے یہ بات سنی تو وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور کہا یا رسول اللہ! اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں.ہم میں سے ایک جاہل نے یہ بات کہی ہے.آپ نے فرمایا سنو تو سہی.اس نے یہ دیکھا اور اس کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہوا.میر افرض ہے کہ میں بتاؤں میری کیا نیت تھی.آپ نے فرمایا میرا یہ فیصلہ تھا کہ اب میں اس وطن یعنی مکہ میں نہیں ٹھہروں گا جہاں سے نکالا گیا تھا.بلکہ میں ان انصار بھائیوں میں واپس چلا جاؤں گا جنہوں نے ہجرت کے وقت میری مدد کی تھی.اس لئے میں نے سوچا کہ مال غنیمت اور دُنیا کی چیزیں ان لوگوں کو دے جاؤں اور خدا کا رسول تمہارے ساتھ چلا جائے.پس تم یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ مہاجرین مال مویشی ہانک کر لوٹ رہے ہیں اور ہم محمد رسول اللہ کو ساتھ لے کر جارہے ہیں.جن کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا ہے.الغرض ایک رد عمل ایسا بھی ہوتا ہے.ایک بچی کے والد نے مجھے خط لکھا کہ میں نے ۵۲ سال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ زندگی کا وقت گزارا.آپ بڑے ہی محسن تھے.بڑا ہی احسان کا سلوک فرمایا کرتے تھے.پھر سترہ سال میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے ساتھ وقت گزرا.آپ بھی بڑے محسن تھے اور بہت ہی احسان اور شفقت کا سلوک فرمایا کرتے تھے.اس کے بعد یہ خطا ختم ہو گیا.مجھے اللہ تعالیٰ نے بصیرت عطا فرمائی ہے اور میں خاموش زبان کو 15
بھی پڑھ سکتا ہوں.اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ خطا ختم نہیں جاری تھا.اور میں اسے پڑھتا رہا.جہاں یہ خط ختم ہوا اس کے بعد یہ مضمون مضمر تھا کہ مجھے آج یہ نخوست کا دن بھی دیکھنا پڑا کہ جب تمہاری خلافت کی بیعت کرنی پڑی جو ظالم ہو اور انصاف کے خلاف فیصلے کرتے ہو.یہ خط پڑھ کر پہلے مجھے خیال آیا کہ ان کو جواب دوں.پھر میرے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ جب خلیفہ وقت کے خلاف اس قسم کے اعتراض پیدا ہوں تو اس میں کسی بحث کا سوال نہیں رہا کرتا.وہ معاملہ آسمانی عدالت میں چلا جاتا ہے.پس میں ان کو کوئی جواب نہیں دُوں گا.کیونکہ ان کے اور میرے درمیان فیصلہ قیامت کے دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو فیصلہ کرے گا کیونکہ وہی میرے دل کا حال جانتا ہے.جب سختیاں کی جاتی ہیں تو کیوں اور کس طرح کی جاتی ہیں؟ وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں.حقیقت یہ ہے اور مجھے نظر آرہا ہے کہ اگلی نسلیں انتہائی خطرناک دور میں داخل ہونے والی ہیں.ہر طرف بے حیائی کا دور دورہ ہے.ہر طرف ایسے حالات پیدا ہور ہے ہیں کہ اگر آپ نے پردے کی خاص حفاظت نہ کی تو اتنے خطرناک حالات سے آپ کی اگلی نسلیں دو چار ہوں گی کہ آپ حسرت سے دیکھیں گی اور ان کو واپس نہیں لاسکیں گی.آپ زندگی کے فیشن سے جس کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں ذکر ہے، دُور جارہی ہیں.اور جب آپ کو آپ کے فائدے کی خاطر روکا جاتا ہے تو جواب میں زخم لگا کر ، چر کے لگا کر اپنے دُکھ دوسروں میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.میں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ قرآن کریم فرماتا ہے:- إِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.(النور: ٢٠) 16
یعنی یقیناوہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے اس دُنیا میں بھی درد ناک عذاب مقدر ہے.صرف آخرت کا عذاب ہی نہیں ہے.وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے کہ ان حالات سے کیا بد نتائج پیدا ہونے والے ہیں.پھر فرماتا ہے:- وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَازَكَى مِنْكُمْ مِنْ اَحَدٍ اَبَدًا لَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَّشَآءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيْمٌ.b (النور : ۲۲) کہ پردے کی ساری کوششیں اور انسانی قدروں کی حفاظت اور اسلامی معاشرے کی حفاظت کی ساری کوششیں صرف تمہیں پاک کرنے کی خاطر کی جاتی ہیں اور یا درکھو کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم تمہارے شامل حال نہ ہو تو تم میں سے کبھی بھی کوئی پاکباز نہیں ہو سکتا.وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاءُ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.یہ وہ آیات قرآنی ہیں جو مجھے مجبور کر رہی ہیں کہ پردے کی سختی سے پابندی کرائی جائے کیونکہ میں جانتا ہوں اور ایسی مثالیں میرے سامنے ہیں کہ بے پردگی کے نتیجہ میں معاشرے کو خطرناک حالات سے دو چار ہونا پڑا.چنانچہ باہر کی دنیا میں پاکستانی عورتوں نے وہاں کے معاشرے سے متاثر ہو کر بے پردگی شروع کر دی.چونکہ وہ برقع سے باہر نکلی تھیں اس لئے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی کہ ان کی بچیوں نے سمجھا کہ اب پردہ اُٹھ گیا ہے.اور ان کو اس بے احتیاطی کی سزائیں ملیں.چنانچہ ان میں سے بہت سی ایسی تھیں 17
جو واپس برقعوں میں آئیں.بلکہ امریکہ کی سوسائٹی کا تو یہ حال ہے کہ وہاں احمدی عورتوں نے چادر ہی نہیں، برقع پہنا شروع کر دیا ہے وہ کہتی ہیں کہ اگر ہم بُرقع نہ پہنیں تو ہم پوری طرح اپنی اقدار کی حفاظت نہیں کر سکیں گی.لیکن جب وہ واپس آئیں تو جو حال ہو چکا تھا وہ بڑا ہی درد ناک ہے.بعض ایسی بچیاں بھی ہیں جنہوں نے ماں باپ سے آنکھیں پھیریں اور غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ آوارہ ہو گئیں.اس قسم کے شائد دو واقعات ہیں مگر نائور کی طرح دُکھ دینے والے واقعات ہیں.یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میرا دل بے قرار اور بے چین ہے کہ میں آپ کو بار بار توجہ دلاؤں کہ اسلامی قدروں کی حفاظت کی طرف واپس آؤ.یہ ایسا وقت ہے کہ جس میں عام اجازتوں سے بھی بعض دفعہ انسان روک دیا جاتا ہے.جو چیزیں جائز ہیں وہ بھی بعض دفعہ خدا کی خاطر چھوڑنی پڑتی ہیں اور جو کام فرض نہیں ہیں وہ بھی کرنے پڑتے ہیں.ایسے حالات بھی آجایا کرتے ہیں کہ تحریک جدید کا سارا دور آپ میں سے پہلی نسل کے سامنے ہے.قرآن کریم میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ دوکھانے منع ہیں یا تین کھانے حرام ہیں یا چار کھانے حرام ہیں.کہاں لکھا ہوا ہے کہ عورتیں گوٹہ کناری استعمال نہ کریں.لیکن جب وقت کی ضرورت تھی اور خلیفہ وقت نے حکم دیا تو عورتوں نے اپنے ہاتھوں کے کنگن اُتار دیئے.بڑے بڑے امراء جن کو تنظم کی زندگی کی عادت تھی وہ ایک کھانے پر آگئے اور شادی بیاہ میں گوٹہ کناری سے بھی احتراز ہونے لگا.احمدی عورت کا ایک کردار تھا وہ اپنے عہد کی سچی تھی.وہ پورے خلوص دل کے ساتھ خلافت کی بیعت کرتی تھی.اور اس کے بعد پھر یہ نہیں کہا کرتی تھی کہ یہ حکم کیوں دیا جارہا ہے اور کیوں ہم پر زیادتی کی جارہی ہے.احمدیت نے اللہ کے فضل سے ایسی عظیم 18
الشان مائیں پیدا کی ہیں کہ ان کی عظمت کو دیکھتے ہوئے عام انسان دنگ رہ جاتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان واقعات کو مختلف اوقات میں مختلف رنگوں میں بیان فرمایا ہے.لیکن افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ لجنہ ان کو مرتب کر چکی ہے بہت سی ایسی عورتیں ہیں جن کو یہ باتیں پڑھنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا.سوسائٹی کی زندگی ہے اس کے تقاضے ہیں.ملاقاتیں ہیں.ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ہے.اتنی زیادہ مصروفیات کے بعد کسی کو کہاں وقت مل سکتا ہے کہ وہ دینی مطالعہ کرے.حالانکہ عنقریب ایسی ضرورتیں پیش آنے والی ہیں کہ آپ کو بھی بڑی بڑی قربانیوں کے لئے تیار ہونا پڑے گا.بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف وقتوں میں جو مختلف احکامات جاری فرمائے ان کا مذہب سے بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا.براہ راست وہ احکام مذہب سے متعلق نہیں تھے لیکن اُن احکام کی بجا آوری میں احمدی مستورات نے ایسی شاندار قربانیاں دی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک عام حکم جاری کیا کہ جس کے لئے بھی ممکن ہے وہ ضرور ووٹ دینے کے لئے جائے.اب یہ واضح بات ہے کہ ووٹ دینا کوئی ایسا فرض تو نہیں ہے جس کے چھوڑنے سے کسی اسلامی حکم کو ٹالا جاتا ہو.اور پھر جو مجبور ہو، بیمار ہوا سکوتو ویسے بھی اجازت ہے کہ بے شک ووٹ دینے نہ جائے.لیکن ایک عورت مچل گئی.چند دن پہلے اس کے بچہ ہوا تھا.اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے اُسے سمجھایا کہ بی بی نہ جاؤ.بیماری کا خطرہ ہے.اس نے کہا خطرہ اپنی جگہ ہے لیکن میرے کانوں میں تو امام وقت کی آواز پہنچی ہے کہ تم نے مسلم لیگ کو ووٹ دینا ہے اور 19
اسے جتانا ہے.اس لئے ووٹ دینے ضرور جاؤں گی.انہوں نے کہا اچھا پھر بہتر یہی ہے کہ ہم باہر تالا لگا دیتے ہیں اور تمہیں گھر میں بند کر جاتے ہیں.چنانچہ تالا لگا کر سارے گھر والے چلے گئے.ان کے جانے کے بعد وہ عورت اٹھی اور اس نے واویلا شروع کر دیا.کسی ہمسائے کے کان میں آواز پڑی وہ آیا اور اُس نے تالا توڑا.اس عورت نے کہا کہ اور تو کوئی بات نہیں مجھے تھوڑی دیر کے لئے باہر جانا ہے.یہ کہہ کر وہ وہاں سے روانہ ہوئی.جب قافلہ ووٹ دے کر واپس آرہا تھا تو اس نے ایک جھاڑی سے خون بہتا دیکھا.پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو انکے گھر کی ہی بچی تھی جسے وہ اندر بند کر آئے تھے اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ چل سکے.چنانچہ رستے میں اس کا اتنا خون بہا اور اتنی Bleeding ہوئی کہ وہ مجبوراً جھاڑی میں چُھپ کر لیٹ گئی اور وہیں بے ہوش ہو گئی چنانچہ یہ لوگ اس کو اُٹھا کر واپس گھر لائے.پس وہ لوگ اس طرح بیعتیں کیا کرتے تھے.اس طرح اطاعت کے تقاضے پورے کیا کرتے تھے وہ اپنے ایمان میں خالص تھے.ان کے اندر جھوٹ کی کوئی ملونی نہیں تھی.ایسی ایسی مائیں تھیں جنہوں نے اسلام کی خاطر اور بیعت کا حق ادا کرنے کے لئے قربانی کے حیرت انگیز مظاہرے کئے.....حضرت مصلح موعودؓ نے جماعتوں میں پیغام بھجوانے شروع کئے کہ آج قوم اور ملک کو ایک خاص ضرورت ہے.اس لئے جو بھی فوج میں بھرتی ہو سکتا ہے اسے چاہئے کہ وہ بھرتی ہو.ایک جگہ آپ کے آدمی گئے اور وہاں اس بھرتی کے لئے اعلان کیا.بہت بڑا احمدی گاؤں تھا.لیکن کوئی بھی تیار نہ ہوا.انہوں نے پھر اعلان کیا مگر کوئی نہ 20
اُٹھا.ایک بڑی عمر کی بیوہ عورت جس کا ایک ہی بچہ تھا، اپنے گھر سے یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.اس کو اس قدر جوش آیا کہ اس نے اپنے بیٹے کا نام لے کر پکارا کہ اے میرے بیٹے ! تو جواب کیوں نہیں دیتا.کیا تیرے کان میں خلیفہ وقت کی آواز نہیں پڑی ؟ چنانچہ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کہا میں حاضر ہوں.جس طرح بارش کا ایک قطرہ پہلے گرتا ہے اور پھر موسلا دھار بارش برسنے لگتی ہے اس طرح جتنے بھی نو جوان وہاں موجود تھے، وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہم بھی حاضر ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب مجھ تک یہ اطلاع پہنچی تو میں نے اپنے خدا کے حضور ایک دُعا کی.میں نے کہا اے میرے اللہ ! اس بیوہ عورت نے میری آواز پر اپنا اکلوتا بیٹا پیش کر دیا ہے اور حال یہ ہے کہ وہ شادی کی عمر سے بھی گزر چکی ہے اور پھر اولاد کی کوئی توقع نہیں ہے.میں تیری عظمت اور جلال کی دُہائی دیتا ہوں کہ اگر قربانی لینی ہے تو میرے بیٹوں کی لے.وہ بے شک ذبح ہو جائیں.لیکن اس کا بیٹا ضرور بچایا جائے.تو یہ ہیں وہ احمدی خواتین اور مستورات جو عہدِ بیعت کو نبھانے والی ہیں.پس اگر ہماری کچھ بیٹیاں ان شدتوں اور سختیوں کی وجہ سے رُوٹھ کر اور منہ پھیر کر باہر جاتی ہیں تو مجھے ان کے جانے کا غم تو ضرور ہوگا.لیکن دین کی غیرت مجھے بتاتی ہے کہ خدا کے دین کو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اگر مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بیٹی جائے گی تو خدا ایسی سینکڑوں بیٹیاں عطا فرمائے گا جو زیادہ وفادار ہوں گی، زیادہ حیادار ہوں گی ، دین کی خاطر زیادہ قربانیاں کرنے والی ہوں گی.قانتات ہوں گی ، حافظات ہوں گی اور مرتے دم تک اپنے عہد بیعت کو نبھانے والی ہوں گی.ہاں میرے دل کے غم اپنی جگہ ہوں گے.کیونکہ میں یہ بھی تو برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک بچی بھی ضائع ہو جب 21
فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وقت آ گیا ہے فلاں کو جماعت سے نکالا جائے تو کیا آپ کا خیال ہے کہ خلیفہ وقت کو اس کی تکلیف نہیں پہنچتی ؟ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ تمام مومن ایک بدن کی طرح ہیں.ایک مومن کو دُکھ پہنچے تو سارے مومنوں کو تکلیف پہنچتی ہے.تو کیا خلیفہ وقت کو آپ ایمان کے اس ادنی معیار سے بھی نیچے بجھتی ہیں.جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب وہ ایسا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا دل خون ہو جاتا ہے.وہ دُعائیں کرتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور گریہ وزاری کرتا ہے کہ اے خدا! اس شخص کو بچالے اور مجھے ایسا وقت نہ دیکھنا پڑے کہ میرے ہاتھ سے کوئی احمدی بچی یا احمدی بھائی ضائع ہو.ہاں اس کے باوجود اگر کوئی ضائع ہوتا ہے تو پھر ایمانی غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی پرواہ نہ کی جائے اور میں آپکو کھول کر بتا دیتا ہوں کہ پھر ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی.جو زندگی انہوں نے اپنے لئے پسند کی ہے اس کا نقشہ میں نے آپ کے سامنے کھینچا ہے.اس دُنیا میں بھی عذاب الیم کے سوا ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا.میری کوئی بھی ذاتی حیثیت نہ سہی ، مگر میں اس منصب پر فائز ہوں جس کے لئے خدا ہمیشہ غیرت دکھاتا رہا اور ہمیشہ غیرت دکھائے گا.ایک دن بھی خلافت کا ایسا نہیں آئے گا کہ خدا اپنے خلیفہ کے لئے غیرت نہ دکھا رہا ہو.گوئیں ایک عاجز اور حقیر انسان ہوں مگر منصب خلافت عاجز اور حقیر نہیں ہے.اگر آپ اپنے عہد بیعت میں صادق اور بچی ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر رحمتیں نازل فرمائیں گے اور ہمیشہ آپ کو آپ کی نسلوں کی خوشیاں دکھاتے چلے جائیں گے.پس آپ اپنے مقام کو پہچانیں اور سمجھیں کہ آپ کن لوگوں کی اولادیں ہیں اور کس 22
عظیم دین اور اس کی قدروں کی پاسبان آپ بنائی گئی ہیں.اگر آپ نے ہی پیٹھ پھیر لی تو پھر کون ان اقدار کی حفاظت کرے گا ؟ ابتدائے اسلام میں ایسی ایسی خواتین تھیں جو پو را پر دو کرتی تھیں باوجود اس کے کہ جب سوسائٹی پاک ہو گئی تو اجازت تھی کہ چہرے کا سامنے کا حصہ کھلا رکھ لیا جائے.جب سوسائٹی میں گند تھا تو پردے میں زیادہ سختی تھی.جیسا کہ آجکل پسماندہ ممالک میں گند ہے.نظریں اتنی گندی ہو چکی ہیں اور ایسی بُری عادت پڑ چکی ہے کہ یوں لگتا ہے نقاب پھاڑ کر بھی پہنچنے کی کوشش ہو رہی ہے.یہاں وہی ابتدائے اسلام والا پردہ کام کرے گا اور جہاں سوسائیٹیوں میں ایسی حالت نہیں ہے وہاں پر دے کا دوسرا حکم اطلاق پائے گا.ابتدائے اسلام میں امہات المومنین اور دوسری بہت سی خواتین تھیں جو پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے جنگوں میں بھی حصہ لیتی رہیں.جنگِ اُحد میں شامل ہوئیں.اسی طرح دوسری جنگوں میں حصہ لیا اور بڑی بڑی خدمات سرانجام دیں.حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ آپنے سُنا ہوا ہے.حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ رومیوں کے ساتھ ایک معرکہ درپیش تھا جس میں رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ خطرہ تھا مسلمانوں کے پاؤں نہ اُکھڑ جائیں.لڑائی کے دوران مسلمانوں نے ایک نقاب پوش زرہ بکتر بند سوار کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پلٹ پلٹ کر دشمن کی فوج پر حملہ کر رہا ہے اور جدھر جاتا ہے گشتوں کے پشتے لگا دیتا ہے.صفوں کو چیرتا ہوا کبھی اُدھر نکل جاتا ہے اور کبھی ادھر آ جاتا ہے.اس کو دیکھ کر مسلمان لشکر نے آپس میں باتیں شروع کیں کہ یہ تو ہمارے سردار حضرت خالد بن ولید کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا.23
وو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کے سوا کس کی طاقت ہے کہ اس شان کے حملے کرے.اتنے میں انہوں نے حضرت خالد بن ولید کو آتے دیکھا.بڑے متعجب ہوئے اور اُن سے کہا اے سردار! یہ سوار کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے بھی اس کا پتہ نہیں.میں تو اس قسم کے جری اور بہادر سوار کو پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں.اسی اثنا میں وہ سوار اس حال میں واپس لوٹا کہ خون سے لت پت تھا اور اسکا گھوڑا بھی پسینے میں شرابور اور دم توڑنے کے قریب تھا.وہ گھوڑے سے اترا تو خالد بن ولید آگے بڑھے اور کہا اے اسلام کے مجاہد ! بتا تو کون ہے؟ ہماری نظریں تجھے دیکھنے کو ترس رہی ہیں.اپنے چہرے سے نقاب اتار لیکن اس نے کوئی توجہ نہ کی.نہ زرہ اتاری، نہ پردہ اتارا.خالد بن ولید حیران ہوئے کہ اتنا بڑا مجاہد اور اطاعت کا یہ حال ہے؟ انہوں نے پھر کہا کہ اے جوان ! ہم تجھے دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں.اپنے چہرے سے پردہ اتار.اِس پر اُس سوار نے کہا اے آقا! میں نافرمان نہیں ہوں.مگر مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ تو نے پردہ نہیں اُتارنا.میں ایک عورت ہوں اور میرا نام خولہ ہے.بہر حال انہوں نے پردہ نہیں اُتارا.فیوض الاسلام، ترجمه فتوح الشام صفحه : ۹۸ تا ۱۰۱) بعض عورتیں کہتی ہیں کہ گرمی بہت ہے.ہم کس طرح برقع میں باہر نکل سکتی ہیں.مردوں کو کیا فرق پڑتا ہے.جس طرح چاہیں باہر نکل جائیں.حالانکہ یہ بات نہیں ہے.مجھے اپنا تجربہ ہے کہ گرمیوں میں جبکہ شدید گرمی پڑ رہی ہوتی ہے.ہمیں باہر جانا پڑتا ہے.خصوصاً دیہاتی علاقوں میں جہاں چھوٹی دیواروں اور نیچی چھت والی مسجد میں ہوتی ہیں.اچکن کے بٹن اور پر تک بند کرنے پڑتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ آدمی بھاپ کے اندر پکایا جارہا ہے.عادت نہیں ہے لیکن پھر بھی ایسا کرنا پڑتا ہے.مجبوریاں ہیں.24
پس یہ بات تو نہیں ہے کہ مردوں کو کبھی ایسی تکلیفوں کا سامنانہیں کرنا پڑتا.وہ بھی اس قسم کی تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں.اب میں آپ کو پُرانے زمانے یعنی ابتدائے اسلام کی ایک اور مسلمان خاتون کا واقعہ بھی سُنا تا ہوں.آپ کو تو برقع میں بھی گرمی لگتی ہے.لیکن ان کا حال سنیئے.حضرت سمیہ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں تو انکو اس جرم کی سزا میں اور ارتداد پر مجبور کرنے کے لئے پورا زرہ بکتر پہنا کر دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر کھڑا کر دیا جاتا تھا.(یہاں تو درجہ حرارت ۱۲۰ تک ہی پہنچتا ہے.عرب میں ۱۴۰ تک بھی پہنچ جاتا ہے ) اسکی وجہ سے ان کے حواس مختل ہو جایا کرتے تھے.روایتوں میں آتا ہے کہ اس حال میں جب ان سے کچھ پوچھا جاتا تھا تو ان کو بات ہی سمجھ نہیں آتی تھی یعنی هدت گرمی اور تکلیف سے وہ اس قدر حواس باختہ ہو چکی ہوتی تھیں.پھر ایذا دینے والے اوپر کی طرف اُنگلی اٹھاتے تھے.تب وہ سمجھتیں کہ یہ کہتے ہیں خدا کا انکار کر دو.بات کرنے کی تو ان میں طاقت نہیں ہوتی تھی.اس لئے سر ہلا دیا کرتی تھیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا.ایسی بھی پردہ دار مستورات اسلام میں گزری ہیں.اسی طرح حضرت ام عمار (ام عمار کا نام حضرت سمیہ تھا جن کا واقعہ او پر گزر چکا ہے ) ہی کے متعلق آتا ہے کہ آپ کے ساتھ دشمن یہ سلوک کیا کرتے تھے.ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا.اس وقت انہیں تکلیف دی جارہی تھی اور حالت ی تھی کہ انکا بیٹا بھی یہ نظارہ کر رہا تھا اور ان کا خاوند بھی اس کیفیت کو دیکھ رہا تھا.لیکن کچھ پیش نہیں جاتی تھی.آنحضور نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا اے عمار صبر کرو.اَے اُمّ عمار صبر کرو.اور اے ام عمار کے خاوند تم بھی صبر کرو.کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے اجر کو کبھی 25
ضائع نہیں کرتا.پس جو آپ سے کہا جارہا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں ہے.ابھی تو آپنے اسلام اور احمدیت کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دینی ہیں.میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کے قافلے کی رفتار تیز سے تیز تر ہونے والی ہے اور تمام دنیا میں کاموں کے بے شمار بوجھ آپ پر ڈالے جانے والے ہیں.ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرا کر آپ کو یہ توفیق کیسے ہوگی کہ عظیم خدمت کے کام کر سکیں.پس دُعا کریں اور استغفار سے کام لیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے آپ پیش پیش ہوں اور کبھی نہ بھولیں کہ یہ میدان جو بظاہر ہم ہار رہے ہیں اس کو ہم نے بہر حال جیتنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اور وہ بچی جس نے کہا تھا کہ یہ بات نہیں چلے گی.میں اس کو بتا دیتا ہوں کہ : یہ بات چلے گی.یہ خدا کی بات ہے اور لازما چلے گی.تم ساتھ نہیں چلو گی تو الگ ہو جاؤ.اسلام کے قافلے میں ایسے لوگوں کو شامل ہونے کا کوئی حق نہیں.مگر اسلام کا قافلہ بہر حال چلے گا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی بات بھی لازما چلے گی اور ہمیشہ چلتی رہے گی ، خواہ ہمیں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بھی کیوں نہ بہانا پڑے.اب دُعا کریں.الفضل ۲۸ فروری ۱۹۸۳ء) 26