Language: UR
یہ مجموعہ احمدی بچوں کی تربیت اور ان میں اعلیٰ اخلاق کی ترویج کے لئے بہت ہی مفید کاوش ہے۔ جماعتی لٹریچر سےماخوذ معانی اور گہرائی سے بھرے پاکیزہ اشعار یاد رکھنے، اور پھر اگلے مراحل میں شعر گوئی جیسے لطیف ملکہ سے آشنا کرنے کے لئے یہ کتاب عمدہ کوشش ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ 28 اکتوبر 1988ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں: ’’معاشرے کا مذاق بعض مطالبے کرتا ہے، اگر آپ نے مذاق کی اصلاح نہ کی اور مطالبوں کی راہ میں کھڑے ہوگئے تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ مذاق بلند کریں۔ اور مذاق کے مطالبات پورے کریں۔ ۔ ۔ بہتر مذاق پیدا کرنا نہایت اہم ہے۔ ۔ ۔‘‘
بیت بازی
بیت بازی کے اشاعتی پروگرام کی چودھویں کتاب ہے جو 1991ء میں پہلی دفعہ شائع ہوئی تھی.حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے کتاب کی پسندیدگی اور دعاؤں پر مشتمل حیات بخش مکتوب ارسال فرمایا.آپؐ نے تحریر فرمایا " د, کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب اصحاب فیل“ اور بیت بازی موصول ہوئیں.جزاکم اللہ واحسن الجزاء.بیت بازی والا آئیڈیا تو بہت اچھا ہے.اللہ تعالیٰ ان کتب کی اشاعت کو احمدی بچوں کی تربیت اور ان میں اعلیٰ اخلاق کی ترویج کے لئے بہت ہی مفید نائے اور آپ کی مساعی ہر لحاظ سے بابرکت نتائج کی حامل ثابت ہو.ان کتب کی تیاری میں شریک ہونے والی بہنوں کو میری طرف سے محبت بھرا سلام اور دعائیہ پیغام پہنچا دیں.اللہ ان سب سے ہمیشہ راضی رہے.اللہ آپ کے ساتھ ہو.“ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کتاب بہت مقبول ہوئی اب اس کا تازہ ایڈیشن پیش خدمت ہے جس میں کلام طاہر سے اشعار بھی شامل ہیں.دعا ہے کہ حضور کی دعائیں ہمارے ساتھ رہیں اور خدمت دین کی توفیق پائیں.
بیت بازی در همین، کلام محمد کلام طاہر ، در عدن اور بخار دل سے منتخب اشعار
بیت بازی
و الله الرحمن الرحيم پیش لفظ صد سالہ سال تشکر کے موقع پر لجنہ اماءوا کا شعبہ اشاعت یہ کتاب بیت بازی کے نام سے شائع کر رہا ہے.اس میں ورمین اسلام محمود کلام عامر در بدن اور بخار دو سے منتخب اشعار لئے گئے ہیں.حروف تہجی کی ترتیب سے تیار کی گئی ہے.اس کی تیاری میں محترمہ نزہت آرا حفیظ صاحبہ کی کاوش شامل ہے.حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.معاشرے کا مذاق بعض مطالبے کرتا ہے.اگر آپ نے مذاق کی اصلاح نہ کی.اور مطالبوں کی راہ میں کھڑے ہو گئے.تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.مذاق بلند کریں.اور مذاق کے مطالبات پورے کریں.یہ دو چیزیں کٹھی ہونا ضروری ہیں.بہت مذاق پیدا کرنا نہایت اہم ہے اگر دینی ذوق ہی نہیں.تو آپ اس کو دوسری طرف اس قسم کی چیز میں منقل نہں کر سکتے جن کو شعرو شاعری کا شوق ہے.دہی پھر آخر اعلی درجے کے کلام سے لذت یا بی کی صلاحیت رکھتے ہیں (خطبہ جمعہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۸ء بیت الفضل لنڈن)
الف نے در شمین اگر ر اقرار ہے تم کو خدا کی ذات واحد کا تو پھر کیوں اس قدر دلم میں تولے شرکت نہیں ہے تمہارے اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا! مجھ کو سب قدرت ہے اے رب انوری اور دنیوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم.آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے تو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ ولایا تم نے اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لا جرم غیروں سے دل اپنا چھڑا یا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے کلام محمود اپنا چہرہ نہیں دکھلائے وہ رب العزت مدتوں سے ہے یہی دل میں تمنا ہم کو آدمی کیا ہے تواضع کی عادت ہو جسے سخت لگتا ہے بُرار کبر کا پہلا ہم کو نہ اک دفعہ دیکھ چکے موسیٰ تو پردہ کیسا ان سے کہہ دو کہ اب چہرے کو عریاں آنکھوں میں رسی نہ جب بصارت دیدار رخ نگار کیوں ہو ! احمدی لوگ ہیں دنیا کی نگاہوں میں ڈیل ان کی عزت کو بڑھائیں انہیں اونچا کر دیں اپنی اس عمر کو اک نعمت عظمیٰ سمجھو بعد میں تاکہ تمہیں شکوہ ایام نہ ہو كلام طاهر اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر مشکل ظلمات پر دار آئی آنکھ اپنی ہی ترے عشق میں مہکاتی ہے دہ ہو جس کا کوئی مول نہیں.آج کی رات اک میں ہی تو ہوں یارب جدید تر دام اس کا دل کام ہے گن اس کے لب بنتے ہیں تاہم اس کا ا شاه مکی و مدنی سید انورای مجھا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے بر سے ہے شرق و غرب پر یکساں ترا گرینم
در عدن آج ہر ذرہ بہر طور نظر آتا ہے جس طرف دیکھو دی نور نظر آتا ہے السلام اے ہادی راہ ہدی جان جہاں والصلوۃ اے خیر مطلق اے شہ کون ومکاں آپ چل کر تو نے دکھلا دی رہ وصل حبیب تو نے بتلایا کہ یوں ملتا ہے یار بے نشاں ایک ہی زمینہ ہے اب بام مرار وصل کا ہے ملے تیرے ملے ممکن نہیں وہ داستان اہے بخارول اسے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے وہی دست عاشق ہے دہی یار کا درماں ہے وہی آتش عشق و محبت کا دہی زور ہے پھر قلب بریاں ہے وہی دیده گریاں ہے وہی اس وسیلہ کے سوا وصل کی صورت ہی نہ تھی قاصد بارگہ حضرت ذیشاں ہے وہی در ثمین باغ میں تیری نعمت کے عجب دیکھے ہیں پھل ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار بے خدا ہے زہد و تقویٰ بے دیانت ابے صفا بن ہے یہ دنیائے دوں طاعوں کرے اس میں شکار بستر راحت کہاں ان فکر کے ایام میں غم سے ہر دن ہو رہا ہے بدتر از شب ہائے تار بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے بس یہی اک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار بد گمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ کر دیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار بے خدا کوئی چیز کیوں کر ہو! یه سراسر خطا ہے دیدوں کا بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میر بوستان میں بنائی تو نے پیارے میری ہر بات دکھائے تو نے احساں اپنے دن رات کلام محمود بُرائی دشمنوں کی بھی نہ چاہیں ! ہمیشہ خیر ہی دیکھیں نگاہیں نہیں ابلیس نافرماں کے قاتل ہوائے احمدیت کے ہوں حامل
بڑھیں اور دنیا کو بڑھائیں پڑھیں اور ایک عالم کو پڑھائیں بھنور میں پھنس رہی ہے کشتی دیں تلاطم بھر ہستی میں بیا بے سر و ساماں ہوں اس دنیا میں اسے میرے خدا اپنی جنت میں بنا دیں آپ میرا ایک گھر كلام طاهر بن بیٹھے خدا بندے.دیکھا نہ مقام اس کا طاغوت کے چیلوں نے ہتھیا لیا نام اس کا بس دعائیں کرو یہ دُعا ہی تو تھی جس نے توڑا تھا سر کبر نمرود کا ہے ازل سے یہ تقدیر نم رو دیت آپ کی آگ میں اپنی قبل جائے گی بچے بھو کے گریاں ترساں.ایک کی کو لرزاں لرزاں کٹیا میں افلاس کے بھوت کا نا چا سا یہ ساری رات بساط دنیا الٹ رہی ہے حسین اور پائیدار نقشے جہات کو کے اُبھر رہے ہیں.بدل رہا ہے نظام کہنا بند شکیب توڑ کر آنسو برس پڑے اپنوں یہ بھی نہیں ہے مجھے اختیار دیکھے در عدن احمد احمد بخدا بے عدیل ہے احمد شان رب جلیل ہے عزو فخر خلیل ہے بن کے ابر کرم جو تو آیا باعت تازه حضرت آدم بھر رحمت نے جوش فرمایا بخاردل بہت تھوڑی پونجی ہے ایمان کی اور اس پر بھی نیت ہے شیطان کی بارگاه احدیت کو پکاروں کیوں کہ ایک درویش کہاں قاضی حاجات کہاں نجد و بر کے ہر سفر میں آپ کے خضر راہ ہوں حضرت خیر الانام در ثمین پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا پھولوں کو چاکے دیکھو اسی سے وہ آب ہے چھکے اُسی کا نور پسر و آفتاب میں مہ پھر دوبارہ آگئی اخبار میں رسم ہود پھر سیسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ بجبہ دار
پاک دل پر بد گمانی ہے یہ شقوت کا نشان اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار پیشہ ہے رونا ہمارا پیش رب ذوالفین یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے یار پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی پر ان سید دلوں کا شیوہ سدا ہی ہے پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب لگائے دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا ہی ہے پہلوں سے خوب تو بے خوبی میں اک تمر ہے اس پر ہر اک نظر ہے بدرالد بنی یہی ہے پھر بہار دیں کو دکھلائے میرے پیارے قدیر کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن کلام محمود پاکس ہو مال تو دو اس سے زکوۃ و صدقہ فکر مسکین رہے تم کو غمر ایام نہ ہو پل بھر میں میل سینکڑوں برسوں کی دھل گئی صدیوں کے مجرے ایک نظر میں کدھر گئے پُر کر گئے فلاح سے جھوٹی مراد کی دامان آرزو کو سعادت سے بھر گئے پر تری پشت پر وہ ہے جسے کہتے ہیں خدا جس کے آگے ہے مالک کا بھی ہوتا سرخیم چھوئے تو اگر مجھ کو تو میں اتنی ہوں ساتی رہوں تا حشر قدموں پر تیرے میں سرنگوں ساقی پر مسلمان راستہ پر محو حیرت ہے کھڑا کہہ رہا ہے اس کو مالی اک قدم آگے چل كلام طاهر پھر بانغ مصطفے کا دھیان یا دامن کو سینچا پھر انسوں سے احد نے اس چھین کو پیار کے پھول دل میں سجائے ہوئے اور ایماں کی شمعیں اُٹھائے ہوئے قابلے دور ولیوں سے آئے ہوئے غمزدہ اک بولیں آشیاں کے لے پھول تم پر فرشتے نچھا دور کریں ، اور کشادہ ترقی کی راہیں کریں نہ آرزو میں مری جو دعائیں کریں ، رنگ لائیں میرے مہماں کے لئے پشاور سے انہی راہوں پر کسنگستان کابل کو میرا شہزادہ لے کر جان کا نذرانہ آتا ہے پورب سے چلی چلی پر تم پر غم باد روح و ریحان وطن دي عدن اڑتے اڑتے پہنچے بچم نداشتند ر مرفان وطن پر شاہ دو عالم کے پیرو کو مین کے وارث بنتے ہیں موجود ہے جو مقصود ہے جو دونوں ہی حاصل ہوتے ہیں پیشوائی کے لئے نکلیں گھروں سے مرد و زن یہ خبر سن کر کے آئے پیشوائے قادیاں
بخار دل پاک تیرا نام ہے میں کہ خدا رحم تیرا کام ہے میرے خدا پیشگوئی ہو جس سے اک پوری سب میں سچی وہی روایت ہے پاک کن از گناه پنهانم مین آقا بہت ندامت ہے در شمین تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم و رحمان یہ روز کر مبارک سُبحان من تیرانی تیرا یہ سب کرم ہے تو رحمت اتم ہے کیونکر ہو حمد تیری کب طاقت قلم ہے تیرا ہوں میں ہمیشہ جب تک کہ دم میں دم ہے یہ روز کر مبارک سُبحان من شیرانی تو ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہمہر یہ روز کر مبارک سُجان من یرانی تم تو ہو آرام میں پر اپنا قصہ کیا کہیں پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے بخت گھرانے کے دن تیری در گہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب شرط رہ پر صبر ہے اور ترک نام اضطرار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر انداز و نہ ہو نا شکست اس میں زینہار تا دکھا کے منکروں کو دیں کی ذاتی خوبیاں جن سے ہوں شرمندہ جو اسلام پر کرتے ہیں وار كلام محمود تری عقل کو قوم کیا ہو گیا ہے ! اُسی کی ہے بدخواہ جو راہنما ہے تاج اقبال کا سر پر ہے مزین تیرے نصرت وفتح کا اڑتا ہے ہوا میں پرچم تری رو میں بجھائے بیٹھے ہیں دل مدتوں سے ہم سواری دیکھئے اب دلربا کب تیری آتی ہے تری محبت میں مرے پہائے مر کی بہت تعلیم کے ہم گرز چھوڑیں گے تجھ کو ہرگز ر تیرے در پر سے جائینگے ہم ہراک اٹھائینگے تری محبت کے جرم میں ہا جو ہیں بھی ڈالے جائینگے ہم تو اس کو جانیں گے میں بات نہ دل میں کچھ الا اینگے تم مرتبہ ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہوا ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہو تو بارگاہ حسن ہے میں ہوں گدائے حسن مانگوں گا بار بار میں تو بار بار دے
کلام طاهر تاریکی پر تاریخی ، گمراہی پر گمراہی اہمیں نے کی اپنے شکر کی صف آرائی آمرے دل کی شش جہات بنے ایک نئی میری کائنات بنے تیرا غلام کر ہوں ترا ہی اسیر عشق تو میرا بھی جیب سے محبوب کبریا تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ نظریں اُٹھا خدا کے لئے ایک بار دیکھ توڑ دیتیں ڈالیاں، آتا نہ کچھ ان کو خیال آپ تو داڑھی منڈا کر جاگ گئے ہیں بال بال در عدن تجھ کو اللہ نے نوازا ہے ستجھ کو بخشا ہے اُس نے قرب وجوار تجھ پر اس نے کیا ہے فضل و کرم تجھ پر کی ہے نگاہ لطف و پیر بخار دل تم ساکسی میں حسن گلو سوز ہے کہاں عالم کی ساری گرمی بازار ہو تمہیں تم سے نہ گر کہوں تو کہوں کس سے جاکے اور اچھا ہوں یا کیا میری سرکار ہو تمہی توجہ ہو تضرع ہو تذیل ہو تیل ہو نماز عشق ان ارکان سے ہوتی مکمل ہے در ثمین ٹوٹے کاموں کو بنا دے جب نگاہ فضل ہو پھر بنا کر توڑ دے اک دم میں کردے تارتار کلام محمود ٹوٹ جائیں کس طرح سے عہد کے مضبوط رشتے مل جائے جو بھی آئے مصیبت خدا کرے پہنچے نہ تم کو کوئی اذیت خدا کرے ٹیڑھے استہ پر چلے جاتے ہیں تیرے بندے پھیر لائیں انہیں اور راہ کو سیدھا کریں ٹوٹی ہوئی کمر کا اللہ ہی ہے سہارا اللہ ہی ہمارا اللہ ہی ہو تمھارا کلام طاهر ٹھہریں تو ذرا دیکھیں خفا ہی تو نہ ہو جائیں جاتا ہے تو کچھ درس تو دیں صبر و رضا کے
" در ثمین ثمر ہے دور کا کب غیر کھا دے چلو اوپر کو وہ نیچے نہ آوے کلام محمود ثمار عشق ہیں کیسے کبھی تو چکھ کر دیکھ یہ بیج باغ میں اپنے کبھی لگا تو سہی تمریا سے یہ پھر ایمان لائیں یہ پھر واپس تیرا قرآن لائیں بخار دل ثابت نہیں اگر یہ تیرا اختیار و ترک دعوے کو بندگی کے اُٹھا اپنے منہ پر مار ثنا کیا ہو سکے اس پیشوا کی کہ پیرو جس کا محبوب خدا ہو درعين ج جمال وحسن قرآن اور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے جب کھل گئی ، سچائی پھر اس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راو جیا ہی ہے یاں بھی ہے ان پہ قربان گردل سے ہو دیں صافی پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گلا یہی ہے جب ہو گئے ہیں ملزم اُترے ہیں گالیوں پر ہاتھوں میں جاہلوں کے رنگ جفا ہی ہے جلد آریا سے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی دے شربت تلاقی حرص و ہوا ہی ہے جو راز دیں تھے بھارے اس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرمانروا یہی ہے جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے مند مت چھپا پیارے میری دوا ہی ہے جسم کو کل کل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں دل کو جو دھو دے رہی ہے پاک نزد کردگار جیفہ دنیا پر کمیسر گر گئے دنیا کے لوگ زندگی کیا خاک ان کی جو کہ میں مردار خوار کلام محمود جلوہ یار ہے کچھ کھیل نہیں ہے لوگو احمدیت کا بھلا نقش مٹا دیکھو تو جلوہ دکھلا مجھے او چہرہ چھپانے والے رحم کو مجھ پر او منہ پھیر کے جانے والے
" جب نظر میری پڑی ماضی پر دل خون ہوا جان بھی تن سے مری نکلی پسینہ ہو کر جن پر ہر ایک حقیقت مخفی تھی منکشف ده واقفان راز وہ فرزا نے کیا ہوئے جن باتوں کو سمجھے تھے بنیاد ترقی کی جب غور سے دیکھا تو ٹھتے ہوئے سائے تھے جن پر پڑیں فرشتوں کی رشک سے نگاہیں اے ایسے محسن ایسے انسان مجھ کو دے دے كلام طاهر جہاں اہلِ جفا اہل وفا پر وار کرتے ہیں سیر دار اُن کو ہر منصور کو لٹکانا آتا ہے جہاں شیطان مومین پر رکھی کرتے ہیں وہ راہیں جہاں پتھر سے مرد حق کو سر کرانا آتا ہے جا کہ اب قرب سے تیرے مجھے دُکھ ہوتا ہے اب شب غم کے سویرے مجھے دُکھ ہوتا ہے جسم اس کا ہے سب انداز مگر غیر کے ہیں آنکھ اس کی ہے پر اطوار نظر فیر کے ہیں جن پہ گوری ہے وہی جانتے ہیں.غیروں کو کیسے بتلائیں کہ تھی کتنی حسین آج کی رات در عدن جاری سب کا ڈبار جہاں پر دل میں خیال پار نہاں دن کاموں میں کٹ جاتا ہے راتوںکو اٹھ کر روتے ہیں جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خون جوش میں آنے گیا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی ہوں ماں تیری گھبراتی تھی بخار حل ہو جب تلک باطن نہ تیرا پاک کام کیا آئیں گی ظاہر داریاں جیتے جی جتنا کوئی چاہیے نے بعد مرون ختم ہیں عیاریاں جاہ اور اولاد عزت جان ومال توڑ دے اُن سے تعلق داریاں در ثمين چ چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیوں کہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا چھو کے دامن تیرا ہر دام سے ملتی ہے نجات لاجرم در پہ تیرے سر کو جھکایا ہم نے یا
۱۲ چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی سرجھکا لبس مالک ارض و سما کے سامنے چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیھٹے قبول ہے آج چھٹ گئے شیطان سے جو تھے تیری الفت کے اسیر جو ہوئے تیرے لئے بے برگ و بر پائی بہار کلام محمود چاروں اطراف میں مجنوں ہی نظر آتے ہیں نہ ہوا ہو وہ کہیں جلوہ نما دیکھو تو چادر فضل و عنایت میں چھپالے پیارے غرق ہوں بحر معاصی میں بچالے پیارے چھوڑ دو حرص کرد زهد و قناعت پیدا زر نه محبوب بنے سیم دل آرام نہ ہو چھوڑ دو غیبت کی عادت بھی کہ یہ اک زہر ہے روح انسانی کو ڈس جاتی ہے یہ مانند مار چھوڑتے ہیں غیر سے مل کر تجھے یا الہی اس میں کیا اسرار ہے چلتے کاموں میں مڑ دینے کو سب حاضر ہیں جب بگڑ جائیں فقط ایک خدا کرتا ہے چشمه انوار میکے دل میں جاری کیجئے پھر دکھا دیجھے مجھے عنوان روئے آفتاب کلام طاهر چھین لے ان سے زمانے کی جہاں ٹانک وقت بنے پھرتے ہیں کم اوقات زمانے والے چشم گردوں نے کبھی پھر نہیں دیکھے وہ لوگ آئے پہلے بھی تو تھے آکے نہ جانے والے ایم میں آتا ہو کیوں پھر دید کامسکن چشم خریں میں آتو کیسے ہو میرے حبیب کیوں پھر بھی میری دید کا مسکن اُداس ہے.بام و در جن کے اُجالے میں دو گھر غیر کے ہیں چکا پھر آسمان مشرق پر نام احمد مغرب میں جگمگایا ماہ تمام احمد در عدن چن لیا اک عاشق خیر الرسل شیدائے دیں جس کی رگ رگ میں بھرا تھا عشق اپنے یار کا متقاعشق چیر کر لینے پہاڑوں کے قدم اس کے بڑھے سینہ کوبی پر ہوئے مجبور اعدائے نہیں
۱۳ بخار دل چاہتا ہے قرب گیر قربان ہو تاکہ تو حیوان سے انسان ہو چل رہی ہیں زندگی پر آریاں ہو رہی ہیں موت کی تیاریاں چھوڑنا چاہتے ہیں کمبل کو پر نہیں چھوڑتا یہ کمبل ہے در ثمین ح حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشیر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے حمد وثت اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کر د خوف خدا کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار حرف وفا نہ چھوڑوں اس عہد کو نہ توڑوں اس دلبر ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے حشر جس کو کہتے ہیں اک دم میں برپا ہو گیا ہر طرف میں مرگ کی آواز تھی اور اضطرار حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا حسرتوں سے مرا دل پر ہے کہ کیوں حکم ہو تم یہ گھٹا اب جھوم جھوم آتی ہے دل پر بار بار حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا کلام محمود ہیں مجبور حی پر ہم ہیں یا کہ یہ حاد میں جھگڑا ہے کیا فیصلہ اس بات کا روز جزا ہو جائے گا حق یہ یا حق کے پیاسوں کے لئے آب بقا ہو جاؤ خشک کھیتوں کے لئے کالی گھٹا ہو جاؤ حقیقت کھول دی ان پر ہماری مگر تاریکی دل حسن اس کا نہیں کھلتا تمہیں یہ یاد ہے دوش مسلم پہ اگر چاور احرام نہ ہو حُسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے دانہ سمجھے ہو جسے تم وہ کہیں دام نہ حلال کھا کہ ہے رزق حلال میں برکت زکوۃ دے کہ بڑھے تیرے مال میں برکت
۱۴ كلام طاهر حیا سے عاری ہسیہ سخت نیش زن مردود یہ واہ واہ کسی کربلا سے اُٹھی ہے حُسن کی چاندنی سے تابندہ پھول چہرہ کھلا کھلا سا تھا حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں میں افضل و کرم صلی اللہ علیہ وسلم حال دل خراب تو کوئی نہ پا سکا چین جبیں سے اہل جہاں بدگماں ہوئے معدن حکم فرمایا قلم تھامے ہوئے میدان میں آ صفحہ قرطاس سے رد کر عدو کے وار کا حسرت میں نظروں میں لے کر صور میں سب کی سوال اب کہاں تسکین ڈھونڈیں بے سجائے دل حزیں حسن رقم پہ ناز ہے مضمون نگار کو پھر کاتبوں کو حسن کتابت پہ ناز ہے بخار دل حشر میں پرسش ہے لیس اعمال کی کام آئیں گی نہ رشتہ داریاں حرف آنے نہ دیا صدق و وفا پر اپنے جور اعداد کا سہا فرم و خنداں ہو کر حتی بھی مٹتا ہے تعدی سے کہیں اے ظالم خود ہی مٹ جائے گا تو دست و گریباں ہو کر خ ୯.در ثمین خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو یہ عالم کو اک عالم دکھاتی ہے آتی ہے پیٹ خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برا بر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے خدا سے غیر کو ہمتا بنانا سخت کفرواں ہے ندا سے کچھ ڈرو یارو یہ کیسا کذب دکہتاں ہے ندا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پہ نثار خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں سُرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار خدا کے لئے ہو گیا دردمند تنغم کی راہیں نہ آئیں پسند خدا پر خدا سے یقین آتا ہے وہ باتوں سے ذات اپنی سمجھانا ہے
خدا کے جو ہیں وہ یہی کرتے ہیں ده لعنت سے لوگوں کی کب ڈرتے ہیں خدا نے جو لکھا وہ کب ہو خطا وہی ہے خدا کا کلام صفا ! خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزمانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يماني کلام محمود خیر اندیشی احباب رہے مد نظر عیب چینی نہ کرو مفسد و تمام نہ ہو خود پلائی مجھے اس نے مئے عرفان خاص معترض نازاں ہوں میں اس پر کہ مے خواروں میں ہوں خوف اگر ہے تو یہ ہے تجھ کو نہ پاؤں ناراض جان جانے کا تو اسے جان جہاں ڈر ہی نہیں خواہش وصل کروں بھی تو کروں کیوں کر میں کیا کہوں ان سے کہ مجھ میں کوئی جو ہر ہی نہیں كلام طاهر خیرات ہو مجھ کو بھی.ایک جلوہ عام اس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پہ الہام کلام اس کا ختم ہوئے جب گل نبیوں کے دور نبوت کے افسانے بند ہوئے عرفان کے چشمے، فیض کے ٹوٹ گئے پیمانے خاک آلودہ، پراگندہ زبوں حالوں کو کھینچ کر قدموں سے زائو پر بٹھانے والے خوشیوں میں کھٹکنے لگی کشک دل کی اک ایسی ٹھوک دلِ بے نوا سے اٹھی ہے خیرات کہ اب ان کی رہائی مرے آقا کشکول میں بھر دے جو میرے دل میں بھرا ہے د عدن دیار مہدی آخر زماں میں رہتے ہو خوش نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو خدا نے بخشی ہے انکار کی نگہبانی اسی کے حفظ اُس کی اماں میں بہتے ہو خالق الخلق ربي الاعلى حي و قيوم محي فى الموتى بخار دل خاتمہ بالخیر کر دے اے خدا راستہ سیدھا تو حاصل ہو گیا خدمتِ اسلام میں خود کو لگا چھوڑ دے للہ اب بیکاریاں خادم دین متیں ضائع نہ ہو الیسی خدمت سے ملیں سرداریاں
14 در همين دلبرا مجھے کو قسم ہے تری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں پھلایا ہم نے دیکھ کو وہ ساری باتیں کیسی پوری ہوگئیں جن کا ہونا تھا بعید از عقل و فہم دانتکار دل جو خالی ہو گذاز عشق سے وہ دل ہے کیا دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلیر یکتا قرار دیں کودے کہ ہاتھ سے دنیا بھی آخر جاتی ہے کوئی آسودہ نہیں بین عاشق و شیدائے یار دل نکل جاتا ہے قابو سے پی شکل سوچ کو اے میری جاں کی پنہ فورج ملائک کو اتار دو کر منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ جس سے اک محشر کا عالم تھا بصد شور و پکار دیکھتے ہر گز نہیں قدرت کو اس شمار کی گوسنا دیں ان کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار دیئے دیریں دھو اپنے دل سے وہ سارے صحبت نہیں کے رنگ پھول بن کر ایک مدت تک ہوئے آخر کو خوار دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّدَانِي اگر صدق ہے جلد دوڑو ادھر ے چکے دل اب تن خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی خدا دکھاؤ خدا آج اس کا اثر دے كلام مود دل پھٹا جاتا ہے مثل ماہی بے آب کیوں ہو رہا ہوں کس کے پیچھے اس قدر بیتاب کیوں دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تمر میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو دل چاہتا ہے طور کا وہ لالہ زار ہو اور آسماں پہ جلوہ کناں میرا یار ہو در د الفت میں مزا آتا ہے ایسا ہم کو کهہ شفایابی کی خواہش نہیں اصلا ہم کو كلام طاهر دن رات دید وائس پر ہر ادنی غلام اس کا پڑھتا ہے بصد منت بنتے ہوئے نام اس کا دل اس کی محبت میں ہر لحظہ تھارام اس کا اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق نام اس کا دیکھ اس درجہ غیم ، ہجر میں روتے روتے مر نہ جائیں تیرے دیوانے کہیں آج کی رات دیں مجھ کو اجازت کہ کبھی کہیں بھی تو روٹھوں تلف آپ بھی لیں رُوٹھے کاموں کو منا کے دن آج کب ڈھلے گا.کب ہو گا ظہور شب ہم کب کریں گے چاک گریباں حضور شب
16 د عدن درد میں ڈوبی ہوئی تقریر سن سن کر جسے لوگ روتے تھے ملائک کہہ رہے تھے آفریس دشمنوں کے دار چھاتی پر لئے مردانہ وار پشت پر ڈتے رہے ہر وقت بار استین بخار دل دعا مانگو دعا مانگو ہمیشہ یہ دعا مانگو کہ دنیا میں نہ ہو ذلت کہ عقبی میں نہ ہو خواری دوائے دل شفائے دل جلائے دل صفائے دل وفائے دل سخائے دل ہدائے دلی فضائے دل دل نمازی کا گرفت بر گنہ کیونکہ ہو جب اس میں ہر دم یاد مولا کی رچاتی ہے نماز در مشمین ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناندا آگیا اس قوم پر وقت خزاں اندر بہار ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا آگئے اس باغ پر اے یار مرجھانے کے دن ڈگلس پر سارا حال بریت کا کھل گیا عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بری ہوا ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے اگر سوچو یہی دارا لیتا ہے! ڈھونڈو وہ راہ میں سے دل وسینہ پاک ہو نفس کنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو علام محمود ڈرتا ہوں وہ مجھے نہ کہے بازبان حال جاؤں کبھی دعا کو جو اس کے مزار پر ڈھونڈتی ہیں مگر آنکھیں نہیں پائیں ان کو ہیں کہاں وہ مجھے روتے کو ہنسانے والے ڈوبا ہوں بھر عشق الہی میں شادی میں کیا دے گا خاک قائدہ آب بقا مجھے ڈھونڈتی ہے جلوۂ جاناں کو آنکھ چاند سا چہرہ ہمیں دکھلائے کون ڈھونڈتا پھرتا ہے کونہ کونہ میں گھر گھریں کیوں اس طرف آئیں پتہ دوں تجھ کو تیرے یار کا شروع میں آپ شاد تخلص کرتے تھے
A ڈلہوزی دشملہ کی تو ہے یاد ہوئی محمو ہے خواہش کشمیر جو مٹتے نہیں ملتی ڈھانچتے رہتے ہیں ہر دم دوسروں کے عیب کو میں چھپاتے رہتے وہ دنیا جہاں کے عیب کو ڈوئی قصوری دہلوی لیکھو و سومراج ساروں کو ایک وار میں اُس نے گرا دیا ڈالتا جا نظر مہر بھی اس غمگین پر نظر قہر سے مٹی میں لانے والے ڈھونڈتے ہیں تجھی کو کیوں سارے جہاں کے ابتلا پیتی ہے تجھی کو ہاں گردش آسمان کیوں ڈھونڈتی پھرتی تھی شمع نور کو محفل کبھی اب تو ہے خود شمع کو دنیا میں محفل کی تلاش ڈر کا اثر ہو ان پر نہ لالچ کا ہو اثر ہوش آئیں جن کو ایسے یہ مخمور ہی نہیں كلام طاهر ڈاکٹرز نے تو تھا یہ ڈی یا منورہ اور نیب کا بچہ ہوا بھی تو معذور ہی ہو گا.پر یہ بھول نہ نکل سچا ڈوب جاتا اسی خونا بہ میں افسانہ عشق آنکھ کھلتی تو بس ایک خواب سا دیکھا ہوتا در تمرين ہوتا ز ذلت ہیں چاہتے یہاں اکرام ہوتا ہے کیا مفتری کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے ذرا سوچو سکھو یہ کیا چیز یہ اس مرد کے تن کا تعویز ہے ذرا دیکھو انگہ کی تحریر کو تر رکھتا ہے اس ساری تقریر کو کا ذرا حینم ساکھی کو پڑھ اے جواں کہ انگر نے لکھا ہے اس میں عیاں ذرا سوچھ یارو گر انصاف ہے یہ سب کشمکش اس گھڑی صاف ہے كلام محمود ذرا آنکھیں تو کھولو سونے والو تمھارے سر پہ سورج آگیا ہے ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا اس سے بڑھ کر کیا ذریعہ چاہیئے اظہار کا ذره ذرہ ہے جہاں کا تابع فرمان حق تم ترقی چاہتے ہو تو بنو اس کے اسیر
19 ذلیل و خوار د رسوا ہو جہاں میں جو جامد ہو عدد ہو بدگماں ہو ذلت و نکمیت و خواری ہوئی مسلم کے نصیب دیکھیے اور ابھی رہتا ہے کیا کیا ہو کر ذرا دل تھام لو اپنا کہ اک دیوانہ آتا ہے کلام طاهر شرار حسن کا جلتا ہوا پروانہ آتا ہے ذکر سے بھر گئی بادہ کی زمیں آج کی رات اتر آیا ہے خدا وند نہیں آج کی رات در عدن ذرا آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا وہ خود بھنے کو بڑھتا آرہا ہے دات باری کی رضا ہر دم رہی پیش نظر خلق کی پروانہ کی خاصت سے منہ موڑا نہیں بخار دل ذکر کی جس کو مل گئی لذت ضور عرفان آگئی گویا ذره ذره خلق کا تجھے پر فنا یک انساں سب سے بڑھ کر ہے خدا ذکر و شکر اللہ کا ہے مومن کا ہے معراج یہ پنج وقتہ وصل کے ساغر پلاتی ہے نماز در شهرين ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے رات جو رکھتے تھے پوشاکیں بزنگ یاسمن صبح کردے گی انہی مثل درختان چنار رکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی ان کا تو شغل دیشہ صبح و مسا ہی ہے رنگ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار روشنی میں مہر تالیاں کی بھلا کیا فرق ہو گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگ بار
کلام محمود رہ گیا سایہ سے محروم ہوا بے برکت سرو نے کیا لیا احباب سے اُونچا ہو کر رہ چکے پاؤں نہیں جسم میں باقی طاقت رحم کر گود میں اب مجھ کو اٹھا ہے پیارے رعب حسن شہ خوباں کو ذرا دیکھو تو ہاتھ با معے میں کھڑے شاہ و گدا دیکھو تو باندھے راز داں اس کی شکایت ہو اُسی کے آگے اس کی تصویر کو آنکھوں سے ہٹا لوں تو کہوں راہ مولا میں جو مرتے ہیں وہی جیتے ہیں موت کے آنے سے پہلے ہی فنا ہو جاؤ رنگ بھی روپ بھی ہوشن بھی ہو لیکن پھر فائدہ کیا ہے اگر سیرت انسان نہ ہو راتوں کو آکے دیتا ہے مجھ کو تسلیاں مردہ خدا کو کیا کروں میرا خدا یہ ہے رونق مکاں کی ہوتی ہے اُس کے مکین سے اس دلبریا کو دل میں بسانا ہی چاہیے کلام طاهر رات بھر چھیڑے گی احساس کے دکھے ہوئے تار ایک اک تار سے اُٹھے گی نوائے غم و حرین بارے اٹھے تو غم و چون رات سجدوں میں اپنے رب کے حضور اُن کے غم میں بھی آپ روتے ہیں راہ گیروں کے کسیروں میں ٹھکانا کر کے بے ٹھکانوں کو بنا ڈالا ٹھکانے والے روتے روتے سینے پر مر یکہ کہ ہوگئی ان کی یاد کون پیا تھا ؟ کون پری و بعید نہ پایا ساری است رات خدا سے پیار کی پینگیں صبح بہتوں سے یارانے کچھ لوگ گنوا بیٹھے دن کو جو یار کیا یا ساری رات در عدن رکھے پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دُنیا میں تو آتی تھی راحت ہی میں نے تم سے بہر طور پائی ہے تم کو بھی دو جہان میں راحت نصیب ہو روح حیس کے لئے تڑپتی تھی انی کا جلوہ دکھایا تو نے راہ حق میں جب قدم آگے بڑھائے ایک بار سر بھی کٹ جائے نہ پھر پیچھے بنائے قادیاں بخار دل راو وصال یار نہیں ملی صراط ہے ہر اک قدم یہاں پر خدا را سنبھال کے روح کو کر نصیب تقویٰ ہو زیر فرمان آگئی گویا رات ساری کئی دعا کرتے ان سے یہ عرض و التجا کرتے
ز در ثمین زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب میں مقبول بن کے اس کے عزیز وطبیب ہیں زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے زندگی ایسوں کی کیا خاک سے اس دنیا میں جن کا اس نور کے جوتے بھی دل اٹلی نکلا ند سے پیار کرتے ہیں اور دل لگاتے ہیں ہوتے ہیں زر کے ایسے کہ بس مرسی جاتے ہیں زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمین زیر و زیر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت وفنا بدگمانی زہر ہے اس سے بچھو اے دیں شعار زمین قادیاں اب محترم ہے بیجوم خلق سے ارض حرم ہے کلام محمود زمیں سے ظلمت شرک ایک دم میں ہوگی دور ہوا جو جلوہ نما لا اله الا الله ند خالص سے بڑھ کر صاف ہونا چاہیے دل کو ذرا بھی کھوٹ ہو جس میں مسلماں ہو نہیں سکتا زلزلوں سے ہماری سہستی کی : ہل گئی سر سے پا تلک بنیاد زباں نے اس کو پڑھ کر پائی برکت ہوئیں آنکھیں بھی اسی سے نور آگیں زباں مرہم بنے پیاروں کے حق میں گر اعداد کو کاٹے مثل شمشیر زندگی اُس کی ہے دن اُسکے ہیں انہیں اُس کی وہ جو محبوب کی صحبت میں رہا کرتا ہے زمانہ کو حاصل ہو نور نبوت جو سیکھے قوانین و دستور ہم سے كلام طاهر زیر دئم میں دلوں کی دھڑکن کے موخبرن ہو خدا کا نام.چلو زنده باد غلام احمد ، پڑ گیا جس کا دشمن جھوٹا - جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ نَمُومًا زندگی اِس طرح تمام نہ ہو کام رہ جائیں نا تمام چلو
۲۲ معدن احمد زندگی میری کہئے گی خدمت اسلام میں وقف کر دوں گا خدا کے نام پر جان حزبیں زندگی بخش جام احمد ہے چشمہ سبیل ہے زغم جیگر کو مرہم وصلت لے گا کب ٹوٹے ہوئے دلوں کے سہارے کب کہیں گے بخار دل زکو تو مال سے گر تزکیہ حاصل نہ ہو دل کا تو گویا دے کے سونے کو لیا بدلے میں نہیں ہے زنده عشق ہوئے داخل زنداں ہو کر قرب دلدار ملا یار پہ قرباں ہو کر زمزمہ اپنا ہے تبلیغ حق باعث رشک عنادل ہو گیا در تمين س سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف میں نے دیکھا بستان مرا ہی ہے سب دیں ہیں اک فسانہ مشرکوں کا آشیانہ اس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما ہی ہے سوسونشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بلا کر مجھ کو جو اس نے بھیجا بس مدعا یہی سر زمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھے کو دی جیسے ہوئے برقی کا اک دم میں ہر جا انتشار سنو ذاتِ الہی ہے عجب ذات رحیمانہ یہ قرآن کریم اس کا ہے انعام کریمانہ سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اُسی کو یارو بتوں میں وفا نہیں سو چھ دعائے فاتحہ کو پڑھ کے باربار کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار سب پر یہ اک جا ہے کہ وحدت نہیں رہی اک پھوٹ پڑ رہی ہے کہ مودت نہیں رہی كلام محمود سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برق خضب دل میں کینہ نہ ہو لب پر کبھی دستنام نہ ہو ساتھ ہی چھوڑ دیا سب نے شب ظلمت میں ایک آنسو ہیں لگی دل کی سمجھانے والے سر ہے پر فکر نہیں دل ہے پر امید نہیں اب میں بیس شہر کے باقی رہی ویرانے دو
۲۳ سرنگوں ہو جائیں گے دُشمن تمہارے سامنے ملیتی ہوں گے برائے عفو وہ با حال زار سچ ہے کہ فرق دوزخ و جنت میں ہے خفیف پائی نجات دام سے ایک دانہ چھوڑ کر ساتھی بڑھیں گے تب کہ بڑھاؤ گے دوستی دل غیر کا بھی تم کو کلبھاتا ہی چاہیئے کلام طاهر سازندہ تھا یہ ، اس کے سب ساتھی تھے میت اس کے دھن اس کی تھی گیت اس کے لب اس کے پیام اس کا سب جو تیرا ہے لاکھ ہو میرا تو جو میرا ہے تو بات بنے سادہ باتوں کا بھی ملا نہ جواب سب سوالات منظمات بنے سریندی کر دی پریم کی آشاؤں کو دھیرے دھیرے مدد بھرے کریں مدھر گیت سنانے والے سُن رہا ہوں قدم مایک تقدیر کی چاپ آرہے ہیں میری بگڑی کے بنانے والے حية عدن سب سے افضل تھے مگر اصحاب ختم المرسلیں خلق میں کامل نمونہ عشق کے کردار کا سامان معیشت بھی کرنا پھر جیتے جی اس پر کرنا حق نفس کا بھی کرتے ہیں ادا بیج الفت کے بھی ہوتے ہیں بخار دل سالک راہ محبت سے یہ ممکن ہی نہیں جان دینے سے ڈرے عاشق جاناں ہو کر نگ ساری نے کیا حُسن دو بالا تیرا خوب تر ہو گئی یہ زلف پریشاں ہو کر سرخ رو دونوں جہانوں میں ہوئے تم دالله داخل میکدہ بزم شہیداں ہو کر 3
۲۴ در ثمين ش شان حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اُس ذات کو بابا ہم نے پایا ہم شکر اللہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھری ہے بتا ہے یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَرَانِي یه که شریروں پر پڑے ان کے شرارے نہ اُن سے رُک کے مقصد ہمارے شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں ان کی ہرگز وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا رہی ہے شکر خدائے رحماں میں نے دیا ہے قرآن نیچے تھے سارے پہلے اب گل کھلا نہیں ہے شادابی و لطافت اس دیں کی کیا کہوں میں سب خشک ہو گئے ہیں پھولا پھلا یہی ہے شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو شاید وہ آزمائش رب غفور ہو شرط تقومی تھی کہ وہ کرتے نظر اس وقت پر شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو جاں پُر زنور رکھیو دل پرسرور رکھیں شریف احمد کو بھی یہ پھل کھلایا کہ ان کو تو نے خود فرقاں سکھایا كلام محمود شکوہ کا کیا سوال ہے اُن کا عتاب بھی ہے ہر منہ سے میں داد خواہ تھا دل میں میں شرمسار تھا شاگرد نے جو پایا اُستاد کی دولت ہے احمد کو محمد سے تم کیسے جُدا مجھے شیطاں ہے ایک عرصہ سے دنیا پر حکمران اٹھو اور اُٹھ کے خاک میں اس کو نہاں کرو شیطاں سے جنگ کرتے ہیں جاں تک لڑاؤں گا یہ عہد ذات باری سے اب کرچکا ہوں میں شان و شوکت کو تری دیکھ کے حاد و شریر خون دل پیتے ہیں اور کھاتے ہیں وہ غصہ و غم کلام طاهر شهر جنت کے ملا کرتے تھے طعنے جس کو بن گیا واقعت خلد بریں آج کی رات شیریں بول ، انفاس مظہر نیک خصائل و پاک شمائل حاصل فرقان - عالم و عامل علم وعمل دونوں میں کامل شام غم ، دل پر شفق رنگ ، دکھی زخموں کے تم نے جو پھول کھلائے مجھے پیارے ہیں وہی
در عدن شان تیری گمان سے بڑھ کر حُسن و احسان میں نظیر عدیم بخار دل شکر تیری نعمتوں کا کیوں کہ ہو ہو گئی اس بوجھ سے کمر دوسری شرک اسباب ترک کر اے یار سب سے مخفی ہی نجاست ہے شکل کو دیکھ کر نہ بننا تم وہ تو اللہ میاں کی صنعت ہے در ثمین صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشان کافی ہے مگر دل میں ہے خوف کردگار صبر کی طاقت ہوتی مجھ میں دہ پائیے اب نہیں میرے دلبر اب دکھا اس دل کے بہلانے کے دن صف دشمن کو کیا ہم نے بجت پامال سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے صد بہاریں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر ہو گئے شیطان کے چیلے گردن دیں پر سوار صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي کلام محمود صحبت عیش و طرب اس کو نہیں ہوتی نصیب درد د غم رنج والم یاس ونطق سے ہے دو چار صفحہ دل سے مٹایا کیوں مجھے احباب نے کیوں مرے دشمن ہوئے کیوں مجھ سے ہے کین و نقار صبر کر اے ناقه راه بدی ہمت نہ ہار دور کر دے گی اندھیروں کو ضیائے قادیاں صبح کو خوف کہ ہو آج کا کیسا انجام رات دن کاٹتے اس طرح سے تھے وہ ناکام کلام طاهر صبح صادق پر صدیقوں کا ایسان نہیں ڈولا اندھی رات کے گھپ اندھیروں نے بہی کی ساری رات مبر کا درس ہو چکا.اب ذرا حال دل سنا کہتے ہیں تجھ کو نا ھیجا.چین نہ ایک پل پڑے
صحن گلشن میں وہی پھول کھلا کرتے ہیں چاند راتیں ہیں وہی ، چاند ستارے ہیں وہی میلوں کے مردوں کا بھی تسل علینہ کیف سخنی موت کے چنگل سے انسان کو دلوانے آزادی آیا صبر کی کرتا ہے تلقین وہ اوروں کو مگر کاش اُس کو بھی تو اس غم سے قرار آجائے در عدن صد کوه مصائب کی بھی پروا نہیں کرتا وہ سر کہ اٹھا جس نے لیا بار محبت بخار دل صفائے ظاہر و باطن حکومت و حکمت اگر ہو قال میں عظمت تو حال میں برکت صدق اور اخلاص اور ہر دم دعا ہے نشان مومنان قادیاں کلام محمود ض ضیاء مہر ہے ادنی سی اک جھلک اُس کی نہ جس کو دیکھ سکا میں وہ آفتاب نہ تھا کلام طاهر ضرور مہدی دوراں کا ہو چکا ہے ظہور ذرا سا نور فراست نکھار کر دیکھو در عدن قسط کی شان کچھ اس طرح نمایاں ہو جائے آپ سے آپ ہی دشمن بھی ہراساں ہو جائے بخار دل ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی
b در شمین طالبو تم کو مبارک ہو کہ اب نزدیک ہیں اس مرے محبوب کے چہرے کے دکھلانے کے دن طلب گار ہو جائیں اس کے تباہ! وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راه ده طلب میں چلا ہے خود و بے حواس! خدا کی عنایات کی کر کے اس طرفہ کیفیت ہے ان لوگوں کی جو منکر ہوئے یوں تو ہر دم مشغلہ ہے گالیاں لیل و نہار کلام محمود طوفان کے بعد اُٹھتے چلے آتے ہیں طوفاں گھنے نہیں آتی ہے میری کشتی کنارے طالب دنیا نہیں ہوں طالب دیدار ہوں تب جگہ ٹھنڈا ہو جائے لکھوں سرخ تابان یار طالبان دریخ جاناں کو دکھاؤ دلبر عاشقوں کے لئے تم قبلہ نما ہو جاؤ طعنے دیتا ہے مجھے بات تو تب سے واعظ اس کو تو دیکھ کے انگشت بدنداں نہ ہو پر جلوہ کناں ہے ذرا دیکھو تو حن کا باب کھلا ہے ذرا دیکھو تو طوطے اڑ جائیں گے ہاتھوں کے تمہارے قافلو اس خدائے مقدر کے چہرہ دکھلانے کے دن اڑجائیں طریق عشق میں اے دل سیادت کیا غلامی کیا محبت خادم و آقا کو اک حلقہ میں لاتی ہے کلام طاهر طوفانِ مفاسد میں فرق ہو گئے بحر و بر ایرانی و خارانی - رومی و بخارائی در عدن طریق شرع نہیں اُسوہ رسول نہیں مقام شرم ہیں یہ غول القیا کے لئے طاقت وقوت کے مالک اُن کا منہ کراتے ہیں بند بخار دل دین کی گدی کے وارث پھینکتے ہیں اُن پر گند طالب کشف سے کہدو کہ بنے طالب یار وصل دلدار کہاں کشف و اشارات کہاں طائر دہم بھی تھکتا ہے یہ وہ دوری ہے ہم کہاں ، یار کہاں رسم ملاقات کہاں
T دشمین ظ ظہور عون و نصرت دم بہ دم ہے حد سے دشمنوں کی پشت خم ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں ظاہر ہے یہ کہ قصوں میں ان کا اثر نہیں افسانہ کو کو راہ خدا کی خبر نہیں کلام محمود ظاہر میں سب ابرار میں باطن میں سب اترا ہیں مصلح ہیں پر بد کار میں ہی ڈاکٹر ہر زار میں ظلمتیں کافور ہو جائیں گی اک دن دیکھنا میں بھی اک نورانی چہرہ کے پرستاروں میں ہوں ظاہری دکھ ہو تو لاکھوں میں خدائی موجود دل کے کانٹوں کو مگر کون نکالے پیارے ظلمت و تاریکی و ضد و تعصب مٹ چکے آگئے ہیں اب خدا کے چہرہ دکھلانے کے دن ظلم کرتے ہیں جو کہتے ہیں شفق پھولی ہے تم نے عاشق کا ہے یہ خونِ تمنا دیکھا ظہور مہدی آخر زماں ہے سنبھل جاؤ کہ وقت امتحان ہے ظلمتوں نے گھیر رکھا ہے مجھے پر غم نہیں دور اُفق میں جگمگاتا چہر مہتاب ہے رنج و غم و درد سے محفوظ رہو مہر انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو ظاہر میں چپ تھے لیکن دل خون ہو رہا تھا افسردہ ہو رہا تھا مخرون ہو رہا تھا ظلم وستم وجود بڑھے جاتے ہیں حد سے ان لوگوں کو اب تو ہی سنوارے تو سنوارے فلمیں آپ کو سمجھتی نہیں میرے پیارے پردے سب چاک کریں چہرہ کو ننگا کر دیں کلام طاهر ظاہر ہوا وہ جلوہ جب اس سے نگہ پلٹی خود حُسنِ نظر اپنا سوچند نکھار آئی ظالم بد بخت کا نام نہ لے لیں مظلوموں کی باتیں کر حاکم کا ذکر نہ چھیڑ اندوہ محکوموں کی باتیں کر ظالم مت بھولیں بالآخر منظوم کی باری آئے گی مکالموں پر نماز کی ہر بازی کٹائی جائے گی تعلیم ہوں گے رسوائے جہاں مظلوم بنیں گے آن وطن اے میں سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن
۲۹ در عدن ظاہر میں اُسے غیر کو میں سونپ رہا ہوں کرتا ہوں حقیقت میں مگر تیرے حوالے بخار دل میں فرق ہے معنوں میں پر بے انتہا ظاہری سے ہے ا گئی اپنی ہی زندگی اُسے جنجال ہوگئی ظلم وستم سے دہر کے پامال ہوگئی ع در همين عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ عیاں کر اُن کی پیشانی پر اقبال ! نہ آوے اُن کے گھر تک رعب دبال عدد جب بڑھ گیا شورد فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں : عزت و ذلت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور باد بہار عقل پر پردے پڑے سو سو نشان کو دیکھ کر زور سے ہو کر انگ چاہا کہ میں اہل نار! عاشقی کی ہے علامت گرید و دامان دشت کیا مبارک گھی تیرے لئے ہو اشکبار عشق ہے جس سے ہوں لے یہ سارے پاگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکائے زیر تیغ آبدار یہ عمر دے رزق دے اور عافیت و صحت بھی سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا عقل رکھتے ہو آپ بھی سوچو کیوں بھروسہ کیا ہے دیدوں کا اس جہاں کو بقا نہیں پیارو میش دنیا سدا نہیں پیارو را نہیں پیارو اِس جہاں کلام محمود عقیدہ ثنویت ہو یا کہ ہو تثلیث ہے کذب بحث و خطا لا الہ الا الله عطا کر ان کو اپنے فضل سے صحت بھی اسے مولا ہمیشہ ان پر برسا ابر اپنے فضل درحمت کا تم سے بتاؤ کام ہے کیا اس جوان کا میٹی تو تھا خلیفہ موسیٰ او جاہلو
٣٠ حمد شکنی نہ کرو اہل دن ہو جاؤ اہل شیطاں نہ نبو اہلِ خدا ہو جاؤ عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ خون کی اِس رہ میں ارزانی تو دیکھ عمر گزرے گی میری کیا یونہی اُن کی یاد میں کیا نہ رکھیں گے قدم وہ اس دل ناشاد میں کلام طاهر حاکم جنگ ویو کے گل بوٹے خواب ٹھہرے، تو ہمات بنے عالم غیرتی کے مندر میں کبھی ثبت مظہر صفات بنے عالم بے ثبات میں شب و روز آج کی جیت کل کی بات بنے صارف کو عرفان سکھانے مشینوں کو راہ دکھانے جس کے گیت ریکور نے گائے دو سر دوشادی آیا ب سنتی ہے یاد یار نے بین کو برستی ہے سرائے دل میں ہر محبوب دل رندانہ آتا ہے در عدن علم و توفیق بلاغ دین ہو ان کو عطا قادیاں والوں کا ناصر ہو خدائے قادیاں بخار دل عشق کے کوچے کا ہے پہلا سوال ائیے ناموس و عزت جان و مال عشق و تقویٰ کا نہ تھا باقی نشان لائے ان کو احمد آخر زمان عنایت کی نظر ہو کچھ کہ اپنی ہے حقیقت کیا تمہاری خاک یا ہم ہیں ہماری کیمیا تم ہو
غ ہے در همين غل قل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجال ہے پاک کو ناپاک دیکھے ہو گئے مردار خوار تعریقوں کو کرے ایک دم میں تو پار جو ہو نومید تجھ سے ہے وہ مردار غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخَذَى أَلا عَادِي عرض بوش الفت سے مجذوب دار یہ نانک نے چولہ بنایا شعار ! غور کر کے اسے پڑھو پیارو یہ خدا کے لئے نصیحت غیر کیا جانے کہ دیر سے ہیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اُس کے ہوئے ہم جانثار غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مرسل پر اس زماں میں لوگو نوحہ نیا نہیں ہے غرض اس نے پہنا وہ فرخ لباس رکھنا تھا مخلوق سے کچھ ہراس غرض یہ تھی تا یار خورسند ہو خطا دور ہو پختہ پیوند ہو! غیروں سے کرنا الفت کب چاہے اسکی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَراني غیر ممکن ہے کہ تدبیر سے پاؤں یہ مراد بات جب بنتی ہے جب سارا ہو ساماں تیرا غیر ہو کر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار کلام محمود غیر کیوں آگاہ ہو راز محبت سے مرے دشمنوں کو کیا بستہ ہو میرے تیرے پیار کا غیر کی نصرت و تائید سے ہو مستغنی اور پھر صاحب اجناد و کتائب بھی ہو تم غیر بھی بیٹھے ہیں اپنے بھی ہیں گھیرا ڈالے مجھ میں اور تجھے میں وہ خلوت ہے کہ جاتی ہی نہیں غضب ہے کر یوں شرک دنیا میں پھیلے مرا سینہ جاتا ہے دل پھینک رہا ہے غضب ہے شاہ بلائے غلام منہ موڑے تم ہے چپ رہے یہ وہ کہے مجیب ہوں میں کلام طاهر غیر تسلیم کیے کہتے ہیں.اُسے دکھلائے ایک اک سالکین ربوہ کی جبیں آج کی رات م فرقت میں کبھی اتنا رلانے والے کبھی دل داری کے مجھولوں میں جھلانے والے
۳۲ خنا نے اس کی جو عرفان بندگی بخشا نہیں تھا وہ کسی بود و عطا سے کم اعجاز غم دے کے کیسے فکر مریض شب غم ہے یہ کون ہے جو ہند میں رس گھول رہا ہے بخار دل غفلتوں اور گناہوں کی عمارت مہر روز ہم بناتے تھے مگر آپ گرا دیتے تھے: فريق بحر محبت تھا پر ہزار افسوس ہوا سراب جہاں میں خراب و آواره غرض یہ ہیں اجابت کے طریقے قبولیت کے ہیں سب کارخانے در شمين ن فضل سے اپنے بچا مجھ کو ہر اک ایسے صدق سے ہم نے لیا ہاتھ میں داماں تیرا فکروں سے دل ترین ہے جہاں دور سے ترین ہے جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے فطرت ہر اک بشر کی کرتی ہے اس سے نفرت پھر آریوں کے دل میں کیونکر بسا ہی ہے فطرت کے ہیں درندے مردار ہیں نہ زندے ہر دم زباں کے گندے قہر خدا ہی ہے فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم بر قرار فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جانکنی ہے عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا ہی ہے فضل کے ہاتھوں سے اب اس وقت کہ میری مدد کسی اسلام نا ہو جائے اس طوفاں سے پار تا کلام محمود فراق جاناں نے دل کو دوزخ بنا دیا ہے جلا جلا کر یہ آگ بجھتی نہیں ہے مجھ سے میں تھک گیا ہوں کچھا کچھ کہ بجھا کر خدا سمجھ پر مسیحا میری جاں ہے! کہ تو ہم بے کسوں کا پاسباں ہے فتح تیرے لئے مقدر ہے تیری تائید میں ہے رب عباد
۲۲ فضل سے تیرے جماعت تو ہوئی ہے تیار حزب شیطاں کہیں رخنہ نہ ڈالے پیارے فرش سے جا کر لیا دم عرش پر مصطفے کی سیر روحانی تو دیکھ فلسفہ بھی راز قدرت بھی روز عشق بھی کیا نرالا ڈھنگ ہے پیارے تیری گفتار کا كلام طاهر فطرت میں نہیں تیری غلامی کے سوا کچھ نوکر ہیں ازل سے تیرے چاکر ہیں سدا کے فاتحہ کے لئے ہم جائیں تو یہ نہ ہو کہیں ہم سے شکوہ کریں وہ قبریں کے اب کیوں آئے در عدن فانی تمام ناز ہیں باقی ہے اس کا ناز جس کو بقا پر ناز ہے وحدت پہ ناز ہے فرش سے عرش پہ پہنچی ہیں صدائیں میری مید اللہ نے سن لی ہیں دُعائیں میری فضا ہے جس کی معطر نفوس عیسی اُسی مقام فلک آستاں میں رہتے ہو فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری یہ کہ ہم اس سے دور ہیں تم اس مکان میں رہتے ہو به بخار دل فردوس کی غیرت ہے خداوند کو اپنی دنیا میں ہی پس جائے گا جو نقل کرے گا فراق کو چہ جاناں نے کر دیا افسوس جلا جلا کے میرے دل کو ایک انگارا فراق یار کے ان دل جلوں کو وصال یار بن کیونکر ہو سکیں
۳۴ در ثمين ق قرآن خدا نما ہے خدا کا کلام ہے ہے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے قوم کے لوگو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب وادی ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک کا ہے ایشر کیا دین حق کے آگے زور آزما ہی ہے قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے چھا رہا ہے ابر یاس اور رات ہے تاریک تار قصوں سے کب سنجات ملے ہے گناہ سے ممکن نہیں وصال خدا ایسی راہ سے قصوں سے پاک ہونا کبھی کیا مجال ہے سچ جانو یہ طریق سراسر محال ہے قصوں کا یہ اثر ہے کہ دل پُر فساد ہے ایماں زباں پسینہ میں حق سے عناد ہے قرباں ہیں تجھ پہ سارے جو ہیں مرے پیارے احساں ہیں تیرے بھلے گن گن کے ہم تو ہارے کلام محمود قطب کا کام کرو تم ظلمت و تاریکی میں بھولے بھٹکوں کے لئے راہ نما بن جاؤ! قلوب صافیہ ہوتے ہیں مہبطِ انوار کبھی بھی دیکھی ہے رنج و ملال میں برکت قیامت ہے کہ وصال یار میں بھی رنج فرقت ہے میں اس کے پاس رہ کر بھی ہمیشہ دور رہتا ہوں قید و بند حرص میں گردن پھنسائی آپ نے اس حماقت پر ہے دعوی فاعل مختار کا قید کافی ہے فقط اُس حسن عالمگیر کی تیرے عاشق کو بھلا حاجت ہی کیا زنجیر کی كلام طاهر قبل بھی تو ہے قبلہ نما بھی تیرا وجود شان خدا ہے تیری اداؤں میں جلوہ گر قسمت کو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی جا کنند حلوہ قریب دہن ہی آیا تھا ، گر گیا قریہ قریہ فساد ہوئے تب فتنہ کہ آزاد ہوئے سب احمدیوں کو بستی بستی پکڑ دھکڑا ، مارا ٹوٹا قافلے درد کے پا جاتے ہیں منزل کا سراغ اک لرزتی ہوئی کو دیکھ کے دریانوں میں قفس کے شیروں سے کرتے ہو روز دو دو ہاتھ دو آنکھیں بن کے بہر سے بھی چار کہ دیکھو
۳۵ دي عدن قابل رشک ہے اس خاک کے پتلے کا نصیب جس کی قسمت میں ہو خاک در جاناں ہوتا قوم احمد جاگ تو بھی جاگ اس کے واسطے ان گنت راتیں جو تیرے درد سے سویا نہیں قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں حرم تم اس زمین کرامت نشاں میں رہتے ہو بخار دل قطره اشک کے بدلے مئے جام الفت واہ کیا کہنے کہ کیا لیتے تھے کیا دیتے تھے قوت نہیں یہ روح کے انوار کی طاقت ہے سب انسان کے اعصاب کی قدم قدم پہ ترقی ہو رب زدنی میں علوم و معرفت بے مثال میں برکت در ثمين کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و پاس وہ زباں لاؤں کہاں سے میں سے ہو یہ کاروبار کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف وکرم ہے بار بار کیا کروں کیونکر کروں میں اپنی جاں زیر وزیر کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نظار کیا وہ سارے مرحلے طے کر چکے تھے علم کے کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار کچھ خبر لے تیرے کوچے میں یہ کس کا شور ہے خاک میں ہوگا یہ سر گر تو نہ آیا بن کے یار کیا سلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مراد یہ تو تیرے پر نہیں امیداے میرے حصار کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کہ مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا مہرومہ کی آنکھ نم سے ہو گئی تاریک و تار غم کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سوگئے کس قدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار
I کلام محمود کریں کیونکہ نہ تیرا شکر یار کہ تو نے لے لیا ہے ہم کو اماں میں کچھ نہیں فکر لگائی ہے خدا سے جب کو کو سمجھتا ہے برا اپنا پرایا ہم کو کسی کی چشم فسوں ساز نے کیا جادو تو ماں سے نکلی صدا لا الہ الا اللہ کیا فائدہ اس در پہ سمجھے جانے کا اے دل دامن کو جو اشکوں سے بھگونا نہیں آتا رو نے اسلام کا نچوڑ ہیں ہم کفر کی طاقتوں کا توڑ ہیں ہم کلام طاهـ کبھی مخلوق ہو گئی ہمہ اوست آتش و آب مین ذات بنے کتنے منصور چڑھ کے سید دار کہتے نعرے تعلیات بنے کانٹوں میں ہائے کیوں مری ہستی اُلجھ گئی وہ مجھ پہ کھیل کھیلا اُٹھا ہے لالہ زار دیکھ کیسی کیسی شرم تھی ، کیا کیا حیا تھی پردہ دار پیار جب معصوم تھا اور وجہ رسوائی نہ تھا کافر و ملید و دنبال بلا سے ہوں مگر تیرے عشاق کوئی نہیں تو ہمیں آج کی رات در عدن پیچ کیا تیری قدر قیمت تھی کچھ سوچ تیری کیا عزت تھی تھا موت سے بہتر وہ جینا قسمت سے اگر یک جاتی تھی جبکہ نور جمیل ہے احمد کیوں نہ ہو پھر جمال میں کامل بخار دل کر لیا کرنا کبھی ہم کو بھی یاد ہیں پرانے ہم بھی اس دور کے غلام کامیابی ہر جگہ ہو ہم ترین عافیت سے ہو سفر کا اختتام کر دیا اللہ کے تم کو سپڑا ہو رہی حافظ تمہارا والسلام
18 درحمين گلشن احمد بنا ہے مسکن باد صبا جس کی تحریکوں سے ملتا ہے بشر گفتار یاد مگر کرکے معجز نمائی ایک دم میں نرم ہو وہ دل لگیں جو ہوئے مثل سنگ کو ہسار گر حیا ہو سوچ کر دیکھیں کہ یہ کیا راز ہے وہ مری ذلت کو چاہیں پا رہا ہوں میں وقار گر یہی دین ہے جو ہے انکی خصال سے عیاں میں تو اک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں بہادر گوہر وحی خدا کیوں تھڑتا ہے پوش کر تک ہی دیں کے لئے ہے جائے عزو افتخار گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت ہی ہے فضل پر تیرے ہے سب جہد و عمل کا انحصار گر یہی اسلام ہے میں جو گئی اُمت پلاک کس طرح رو مل سکے جب ایک ہی ہو تیک یک تیکر ہو گالیاں سن کر دعا دو یا کے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار گردنوں پر اُن کی ہے سب عام لوگوں کا گناہ جن کے وفظوں سے جہاں سے آگیا دل میں نجد گر گمان صحت کا ہو پھر قابل تاویل ہیں کیا حدیثوں کے لئے فرقاں پہ کر سکتے ہو دار دل ہوتا كلام محمود گیدڑ کی طرح وہ ناک میں ہوں بیٹوں کے شکار پر جانے کی اور بیٹے خوابیں دیکھتے ہوں وہ ان کا جھوٹا کھانے کی گر تیری ہمت جھوٹی ہے گر تیرے ارادے مرد ہیں گر تیری امنگیں کو تہ ہیں گر تیرے خیال فسٹر ہیں گاتے ہیں جب فرشتے کوئی نغمہ جدید ہاتھوں میں تھام لیتے ہیں فوراً ہی ساز ہم کو بارہا دیکھا نہیں لیکن وہ لذت اور تھی دل سے کوئی پوچھے ذرا لطف نگاہ اولیں گزری ہے عمر ساری گناہوں میں اے خدا کیا پیشکش کیا پیشکش حضور میں یہ شرمسار دے گلشن عالم کی رونق ہے فقط انسان سے گل بنانے ہوں اگر تو نے تو کر گل کی تلاش گالیاں کھائیں ہٹے خوب ہی رسوا بھی ہوئے عشق کی ایسی حلاوت ہے کہ جاتی ہی نہیں کلام طاهر عمل بوٹوں ، گلیوں ، پتوں سے کانٹوں سے خوشبو آنے لگی اک عنبر بار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا ہے
۳۸ گو ا جدائی ہے کٹھن دور بہت ہے منزل پر مرا آقا بنا لے گا مجھے بھی اپنے ماں گھٹا گرام کی ہجوم بلا سے اُٹھی ہے گرامت اک دل درد آشنا سے اٹھی ہے گم گشته اسیران ره مولا کی خاطر مدت سے فقیر ایک دُعا مانگ رہا ہے گھبر ائیں گھنگھور گٹ میں جھوم اٹھیں محشور ہوائیں جھک گیا ابر رحمت باری آب حیات کو برسانے ب دة عدن گوشہ نشیں کو ناز ہے یہ بے ریا ہوں میں جو نامور ہوئے انہیں شہرت پہ ناز ہے گلشن حضرت احمد میں چلی باد بہار ابر رحمت سے برسنے لگے پیہم انوار گویا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا ضیات نہ تھے تو میں وہ اپنی یاد تو کر ترکہ میں بانٹی جاتی تھی این تو در ثمین ل در لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا سب سے بڑھ کر مقام احمد ہے فعل میں بھی دیکھے در عدن بھی دیکھے سب جو ہر وں کو دیکھا دل میں جچا ہی ہے لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ور نہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ لوگو سنو که زنده خدا وہ خدا نہیں جس میں ہمیشہ عادت قدرت نما نہیں رہے ہیں خدائے یکتا باز آتے نہیں ہیں خونما سے لگی سینے میں اس کے آگ غم کی نہیں اس کو خیر کچھ دیچ و خم کی لیکھو کی بدزبانی کا رد ہوئی تھی اس پر پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا ہی ہے كلام محمود لاکھوں انسان ہوئے دین سے پے دیں مہیات آج اسلام کا گھر گھر میں پڑا ہے تم : لوگوں کو غفلت کی تو ترغیب دیتا ہے مگر بھول جائے گا یہ سب کچھ اس سزا پانے کے دن :
۳۹ لاله و گل کو دیکھے کہ محمود یاد مجھ کو وہ گلعذار آیا لا دوں جان و مال و آبرد سب جو میکے گھر کبھی تو آن نکلے میں جائزہ عشق میرے عشق سے عاشق دل کو مرے عشاق کا پیمانہ بنادے لعنت کو پکڑ بیٹھے انعام سمجھ کر تم حق نے جو پروا بھیجی تم اس کو کر دی مجھے کلام طاهر لو تم ہائے درود نہاں تم بھی کچھ مشنور دیکھو نا میرے دل کی بھی راگن اور اس ہے لگا ڈسٹڑھی اُتارو دلوں کے آنگن میں نشار جاؤ.نظر دار دار کر دیکھو لیکن یہ سب کے نصیب کہاں ہر ایک میں کب یہ طاقت ہے کہ پیار کی پیاس بجھانے کو وہ سات سمندر پار آئے لیکن آہ جو رستہ تکتے جان سے گزرے تجھ کو ترستے کاش وہ زندہ ہوتے جن پر.ہجر کا اک اک پل دو بھر تھا کو ڈھلک گیا وہ آنسو کہ جھلک رہا تھا جس میں تیری شمع رفع کا پر تو تیرا عکس پیارا پیارا در عدن نے کے آب حیات تو آیا مر رہے تھے جلا دیا تو نے لاثانی اسوہ احمد کا یہ سیدھی راہ دکھاتا ہے بے دنیا چھوٹے مسلم کو دنیا میں خدا مل جاتا ہے کو جاؤ تم کو سایہ رحمت نصیب ہو بڑھتی ہوئی خدا کی عنایت نصیب ہو بخار دل ایک مرضی حق کی جب دیکھی ہی کر لیا ہم نے بھی پتھر کا جگر ! لاکھ خوشیاں ہوں مگر خاک میں ہے میل نگار ان کے ری لذت طاعت میں رہتا ہو مجھو قرب حاصل ہے جسے فرقم و شاداں ہے وہی یار این اک لحظہ مشکل ہو گیا
در شمین م محمد وہ نبیوں کا سردار ہے کہ جس کا عدد مثل مردار ہے مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی دیں بھی ہے اک قشر حقیقت نہیں رہی مارتا ہے اس کو فرقاں سر نہر اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر مولوی صاحب ہی توحید ہے سچ کہو کسی دیو کی تقلید ہے مومنوں پر کفر کا کرنا گماں ہے یہ کیا ایمان داروں کا نشاں مجھ سے اس دستاں کا حال نہیں مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں مجھ کو ہو کیوں ستاتے سو افترا بناتے بہتر تھا باز آتے دور از ملا یہی ہے مجھ پر وہ لطف کئے تونے جو ہر تریز خیال ذات برتر ہے تری پاک ہے ایواں تیرا ر میری اولاد کو تو ایسی ہی کردے پیارے دیکھ میں آنکھ سے وہ چہرہ تاباں تیرا تو ہے غفار ہی کہتا ہے قرآن تیرا میرے پیارے مجھے ہر درد و مصیبت سے بچا كلام محمود مسلمانی ہے پر اسلام سے نا آشنائی ہے نہیں ایمان کیسی ، باپ دادوں کی کمائی ہے میں نے مانا میرے دلبر تیری تصویر نہیں تیرے دیدار کی کیا کوئی بھی تدبیر نہیں مرے مولا مری بگڑی کے بنانے والے میرے پیارے مجھے فتنوں سے بچانے والے میں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں چین دل آرام جاں پاؤں کہاں مری یہ آنکھیں کجا روشت دلدار کجا حالت خواب میں ہوں میں کہ یہ بیداری ہے كلام طاهر مجبوبی و رعنائی کرتی ہیں طواف اُس کا قدموں پر نشار اس کے حبشیدی و دارائی میرے اس دنیا میں لاکھوں ہیں مگر کوئی نہیں میرا تنہائیوں میں ساتھ نبھانے کے لئے میری ہر ایک راہ تیری سمت ہے رواں تیرے حضور اُٹھ رہا ہے میرا ہر قدم مجھ سے بڑھ کر میری بخشش کے بہانوں کی تلاش کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے میرے بھائی آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں شعلہ جوالہ میں آفت کی ہیں پر کالیاں
در عدن ماہر ہے سرجری میں تو ہے ڈاکٹر کو ناز مازق ہے گر طبیب طبابت پہ ناز ہے مانا کہ انکار بھی داخل ہے خلق میں پر کچھ نہ کچھ خلیق کو سیرت پہ ناز ہے بخار دل معرفت دل کو طے روح کو نور ایماں ذرے ذرے میں مرے عشق رجائے اپنا مذہب عشق کی دنیا سے نرالی ہیں رسوم.زندگی ملتی ہے اس راہ میں بے جان ہو کر مال اور املاک وقف دیں ہوئے شوق جاہ و مال زائل ہو گیا C درحمين نام اس کا نیم دعوت ہے: آریوں کے لئے یہ رحمت ہے نہ کیا ہے ذکر کے پیدا نہ سوچ لو یہ خدا ہے ویدوں کا نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دنیا کتوں سے کھونا منہ تنظیم فن ہی ہے نہ چھوڑیں وہ تیرا یہ آستانہ مرے مولا انہیں ہر دم بچانا نجات ان کو عطا کر گندگی سے برأت ان کو عطا کر بندگی سے نہ دیکھیں وہ زمانہ ہے کسی کا مصیبت کا اہم کا بے بسی کا علام محمود نہ چھیڑ دشمن ناداں نہ چھیڑ کہتا ہوں چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ نہ تیرے ظلم سے ٹوٹے کا رشتہ الفت گار ن حرص مجھ کو بنائے گی اس سے بیگانہ نہیں ہیں مرے قلب پہ کوئی نئی تجلیاں حرا میں تھا جو جلوہ گر مرا خدا وہی تو ہے نظر مقی جس پہ رحم کی جو خوشہ چین فضل تھا دلی نظام جاں نثار آپ کا وہی تو ہے نہیں ہے میں کے ہاتھ میں کوئی بھی لے رہی تو ہوں جو بے تقدیر خیر و شر مرا خدا وہی تو ہے ہے نونهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو
را کلام طاهر نیوں نے سجائی تھی جو بریم مہ و انجم والله اس کی تھی سب انجمن آرائی نبیوں کا امام آیا، اللہ امام اس کا سب تختوں سے اونچا ہے تخت عالی متظام اس کا ناگاه تیری یاد نے یوں دل کو بھر دیا گویا سمٹ گیا اُسی کوزہ میں نور شب نحیف ہونٹوں سے اُٹھی ندائے استغفار نوائے تو یہ تھی اللہ کی قسم اعجاز نام محمد کام مکرم صلی اللہ علیہ وسلم - بادی کامل زہیر اعظم صل اللہ علیہ وسلم در عدن نه روک راہ میں مولا شتاب جانے دے کھلا تو ہے تیری جنت کا باب جانے دے نہ کیوں دلوں کو سکون وسرور ہو حاصل که قرب خطہ رشک جناں میں رہتے ہو نازاں ہے اس پر جن کو فصاحت عطا ہوئی جادر بیاں کو اپنی طلاقت پہ ناز ہے بخار دل نالہ نیم شبی اتنا موثر تھا مرا آپ بھی سُن کے کبھی سر کو ملادیتے تھے نہ وہ زمیں ہی رہی پھر نہ آسماں وہ رہا بس اک خیال رہا یہ کہ خواب تھا سارا نکل کے خلد سے دیکھا تھا جو کہ آدم نے دکھا دیا وہی قسمت نے ہم کو نظرا نام لکھوا کہ مسلمانوں میں تو خوش ہے عزیز پر میں سچ کہتا ہوں میں یہ خون دل کھانے کے دن نام تک اس کا مٹا دینے میں ہے تو کوشاں اس کا ہر بار حمر آگے ہی پڑتا ہے قدم درتمين وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا ہی ہے وہ یار لا مکانی وہ دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہنما ہی ہے وہ آج شاہ دین ہے وہ تاج مرسلیس سے وہ طیب دا میں ہے.اس کی ثنا ہی ہے دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب خانہ سچ بے خطا ہی ہے
۴۳ وہ 13.، تو چکا ہے نیز اکبر اس سے انکار ہو سکے کیوں کہ وہ بنتی ہے ہوا اور سرخس رہ کو اڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے وہی اس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں رہ اس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو ، نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی وہ عزم مقبلات وہ ہمت نہیں رہی وہ علم دہ صلاح وہ عفت نہیں رہی وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی وہ وه کلام محمود وہ اگر خالق ہے میں ناچیز سی مخلوق ہوں ہر گھڑی محتاج ہوں اس کا وہ ہے پر ور دگار نصیبہ ہے ترا اے میرے پیارے عیسی فر سمجھیں تری تقلید کو ابن مریم وہ شمع رو کہ جسے دیکھ کر ہزاروں شمع بھڑک اُٹھی تھیں کبسوز ہزار پروانہ وہ آئے اور عشق کا اظہار کر دیا پڑھتے رہے اندھیرے میں چھپ کر نماز ہم وہ دل مجھے عطا کر جو ہو نثار جاناں جو ہو فدائے دلبر وہ جان مجھ کو دے کلام طاهر وہ پاک معتمد ہے ہم سب کا حبیب آقا انوار رسالت ہیں جس کی چمن آرائی را در گرید ، گشا دیده و دل ، لب آزاد کیس مزے میں ہیں ترے خاک نشیں آج کی رات وہ ماہ تمام اُس کا مہدی تھا علامہ اس کا روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اس کا دو میں کی رحمت کے سائے یکساں ہر کا کم بچھائے وہ میں کو اللہ نے خود اپنی رحمت کی برداری کایا دور احسان کا افسوں ٹھنوں کا موہ لیا دل اپنے کنڈ کا کب دیکھا تھا پہلے کسی نے حسن کا پیکہ اس خوبو کا در عدن وہ رحمت عالم آتا ہے تیر ور رحمت امام یا اس سے تیرا ہو جاتا ہے تو بھی انسان کہلاتی ہے سب حق تیرے دلاتا ہے والی بنو امصار علوم دو جہاں کے اے یوسف کنعاں خدا حافظ و ناصر بخار دل ده نظیر حضرت احمد بنی ، وہ ہے علم کلام کا رہبر شاہد گلفام ہے میرے خدا اور مقابل میں جو ہے اجہل ہے وہی ماموں کی قربانی پر ہوسکتے ہیں آمادہ ہیں جن کی ہمتیں عالی ہے جن کی زندگی سادہ
در شمین ہے عام اُس کی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہمیں اس کی صفت اس سے کر و محبت ہے عجب میرے خدا میرے یہ احسان تیرا کسی طرح نیت کر کمروں اے میرے سلطاں تیرا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا ہیں تری پیاری نگا ہیں دلیرا ایک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا ہم تو ر تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دلی سے ہیں خدام ختم المرسلین ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد ا نہ پایا ہم نے انه ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسیل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چکا ہے کہ صدا نیز بیضا نکلا حمود کفر سے زور آزما احمدی کی روح ایمانی تو دیکھ ہے ہے امن کا داروغہ بنایا جنہیں تو نے خود کر رہے ہیں فتنوں کو آنکھوں سے اشارے ہمت نہ ہار اس کے کرم پر نگاہ رکھ مایوسیوں کو چھوڑ وہ رب غفور ہو جائیں جس سے ڈھیلی سب فلسفہ کی چولیں میسر حکیم ایسا بریان مجھ کو دے دے ہے خواہش میری الفت کی تو اپنی نگاہیں اونچی کہ تدبیر کے جالوں میں مت پھنس کر قبضہ جا کے مقدر پر ہے چیز تو چھوٹی سی مگر کام کی ہے چیز دل کو بھی میرے اپنی اداؤں سے لبھائیں ہے زندگی میں دخل نہ کچھ موت پر ہے زور تو چیز کیا ہے ایک سر پر مغرور ہے کلام طاهر ہیں جان وسیم ، سو تری گلیوں پر ہیں بشار اولاد ہے، سو وہ ترے قدموں پہ ہے خدا ہو اجازت تو تیر سے پاؤں پہ سر رکھ کے کہوں کیا ہوئے دن تیری غیرت کے لکھنے والے تیرے ہم نہ ہوں گے تو میں کیا؟ کوئی ہم کیا دیکھے آج دکھلا جو کھاتا ہے دکھانے والے محل ہم نے تو مہر و توکل سے گزاری باری ہاں باب مگر تم یہ بہت ہوگئی یہ بھاری باری ہر موج خون گل کا گریباں ہے چاک چاک پر ملی بدن کا پیر ئن من اُداس ہے
در عدن ہو وفا کو ناز جس پر جب سے ایسا مطالع کیوں نہ ہو مشہور عالم پھر وفائے قادیاں نہ ہم نے ہر فضل کے پردے میں اُسی کو پایا وہی جلوہ ہمیں مستور نظر آتا ہے ہے کشادہ آپ کا باب سخا سب کے لئے پیر احسان کیوں نہ ہوں پھر مردوزن پیر و جواں پیر ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری ہر کچھ و هر آن خدا حافظ و ناصر ہر آن تیرا حکم تو چل سکتا ہے مولا وقت آ بھی گیا ہو تو وہ مل سکتا ہے مولا درتمان ی ہیں اکت ہے یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا یارب ہے تیرا احساس میں تیرے در پر قربان تو نے دیا ہے ایجاں تو ہر زماں نگہاں یہ کیسے پڑگئے دل پر تمہارے جہل کے بڑے خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوف یزداں ہے نہیں آئینہ خالق نما ہے ! جوہر سیف دعا ہے یہی اک فخرستان اولیاء ہے بجا تقوی زیادت اُن میں کیا یا الہی فضل کو اسلام پر اور خود نیچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن سے پکار یہ کہاں سے سن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرد عصیاں ہزار یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں یہ وہ خوشبو ہے کہ قربان اس پر ہو مشک نثار یہ تو رہنے کی جا نہیں پیار کوئی اس میں رہا نہیں پیار یہ ہے خیال اُن کا پربت بنایا تنکا پر کیا کہیں جب ان کا فہم دڈ کا ہی ہے كلام محمود ہے یہ ہے دوسری بات مانو نہ مانو مگر حق تو یہ ہے کہ وہ آگیا ہے یونہی کہو نہ ہمیں لوگو کافر و مرتد ہمارے دل کی خبر تم پر آشکار نہیں یہ رعب اور شان بھلا اس میں تھی کہاں یہ دبدبہ تھا قیصر روما کو کب ملا یہ بھی اُسی کے دم سے ہے نعمت نہیں ملی ہاسٹ کر جان و دل سے خدا کا کرد ادا
یاں عالم ان کو کہتے ہیں جو دین سے کوئے ہوتے ہیں جب دیکھو بھیڑیا نکلے گا جو بھیٹروں کا رکھوالی ہے الا یا بزم طرب کے خواب نہ تو دکھانا اپنے دیوانے کو یا جامی کو حرکت دے لیلی اور چکر دے پیمانے کو کلام طاهر یه شب و روز ماه و سال تمام کیسے پیمانہ صفات بنے ! یہ نہ ہو روتے ہی رہ جائیں تیرے در کے فقیر اور مہنس ہنس کے روانہ ہوں رُلانے والے یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ، ساحروں کے مقابل بنا اندھا آج بھی دیکھنا مرد حق کی دُعا سحر کی ناگنوں کو نکل جائے گی یاد آئی جب اُن کی گھٹا کی طرح ، ذکر اُن کا چلا تختم ہوا کی طرح بجلیاں دل پہ کڑکیں بلا کی طرح ارت بینی خوب آہ و فغاں کے لئے دل یہ بات نہیں وعدوں کے لیے لکھوں کی تم دیکھو گے ہم نہیں کئے جھوٹی پہلے گی.لاف خدا نا ترسوں کی در عدن یه راحت جاں نور نظر تیرے حوالے یارب مرے گلشن کا شجر تیرے حوالے بخار دل یار کے کوچے کی ہو جا ناک راہ اس کی چوکھٹ پر ہوئی آہ وزاریان تیمی سے شہنشا ہی پہ پہنچا مگر پھر بھی دیہی عجزو دعا ہے یارب ہمارا آفتاب صل علیہ بے حساب مجلس میں تھے جو باریاب تھے بامراد وکامیاب 67 - "ريو" منظوم کلام 170..68- سیرت و سوانح حضرت محمد مصلی می دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ "سیرت النبی پر بچوں کیلئے گیار ہوں کتاب 40 جوئے شیریں " منتخب نظموں کا مجموعہ.70 - "سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی سب و سطر طائف "سیرت النبی پر بچوں کیلئے بارہویں کہتا.104.40...80.............328..216..88.530.................32.........720 560...............144.71 "سفر آخرت " آداب و مسائل 72 - "در مشین" مع فرهنگ 73 ہجر 74 ہجر تو بینہ والد ینے میں آمد " سیرت النبی پر بچوں کیلئے تیر ہو یں کتاب.75 " مرز انجام قادر احمد " خاندان حضرت مسیح موعود کا پہلا شهید مع تصاویر.76 " یروشلم " _ T - حضرت میر محمد اسمعیل صاحب" (جلد اول) 78 " " حضرت میر محمد اسمعیل صاحب " ( جلد دوئم ).79 " جماعت احمدیہ کی مختصہ تاریخ" (احمدی بچوں کے لئے).
_1 _2 -4 _5 _6 -7 _8 _9 فہرست کتب اخلاق حسنه " حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا خطبہ 25 مارچ 1988ء بمقام لندن.." مقدس ورنہ " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی پہلی کتاب.سبز اشتہار اور لیکچر سیالکوٹ " حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں.کونپل " پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب..."چشم زمزم" بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی دوسری کتاب.نچہ " سات سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب اس میں تصویروں کے ساتھ وضو کر نے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ہے.صفحات 28 20 × 2 3 2 3 3:2 16 20 76..............40..............................40 ضرورة الامام اور لیکچر لدھیانہ " حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں THE NAZARENE KASHMIRI CHRIST" دنیا پور کی مجلس عرفان...قوارير قوامون " اصلاح معاشرہ پر کتاب.-10 "نگل" دس سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب مکمل نماز با ترجمعہ 11.ایک بابرکت انسان کی سرگزشت" حضرت عیسی کی زندگی کے حالات - 12- " اوانسات ملفوظات " حضرت مسیح موعود کے ملفوظات سے اقتباسات.13 - "اصحاب فیل " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی تیسری کتاب 14 - " " در نشین، کلام محمود، در عدن اور بخار دل سے منتخب اشعار "پانچی بنیادی اخلاق" حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطبہ 24 نومبر 1989 16 - "تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح " حضرت بانی سلسلہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں.17." حضرت رسول کریم ﷺ اور بچے ".18 - " صد سالہ تاریخ احمدیت " بطر ز سوال و جواب 19 - "فتوحات" حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی انداری پیشگوئیاں.88.104..................68...212.24......................48.24.........................58..92..480..............72..........N 20 " بے پردگی کے خلاف جہاد" جلسہ سالانہ 1982ء خواتین سے سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا خطاب 28 21 " آراسب حیات" قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں 22 " مجالس عرفان " حضرت خلیلہ اسیح کی مجالس سوال و جواب.23 واقفین نو کے والدین کی راہنمائی کے لئے ".224...144...24.2 "بركات الدعاء اور سیح ہند دوستان میں " حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں 48 25 " بدرگاہِ زیشان " منتخب نعتوں کا مجموعہ 26 الحر اب صد سالہ جشن تشکر نمبر 1989ء لحر اب " سوواں جلسہ سالانہ نمبر 1991 F 28." پیاری مخلوق" بچوں کے لئے سیرت نبوی کے ساملہ کی چوتھی کتاب.29 دعوت الی اللہ " دعوت الی اللہ کے طریق.-30 "SAYYEDNA BILAL" بچوں کے لئے انگریزی میں حضرت سید تا بلال کی زندگی کے حالات.31 - "خطبه لقاء" سیدنا حضرت خلیفہ ایسیح الرابع کا خطبہ 23 مارچ 1990 ء - " حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ" خطابات حضرت خلیفة امسیح الرابع.14........................204...252 40% 60..28.....30.......................48..160...
332 - "میرے بچپن کے دن " حضرت مولوی شیر علی کے حالات زندگی.34 - "ری الانبیاء" انبیائے کرام کے مستند حالا تو زندگی 35 - " عہد یدار ان کے لئے نصائح " سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا 31 اگست 1991 ء کا خطاب 36 " گلدسته " تیرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب._ 28..152..20..22 128..290....................162..37- "سيرة : سوانح حضرت محمد ب ر ز سوال و جواب).مل ) بطر 18 دعائے مستجاب" دُعا کا طریق اور حضرت مصلح موعود کے قبولیت دعا کے واقعات.39."ہماری کہانی" محترم حاجی عبد الستار آف کلکتہ کے حالات.ت.............40 " کلام طاہر " سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا شیریں کلام معہ فرمنگ.41 - انبیاء کا موعود" سیرت النبی پر بچوں کے لئے سلسلے کی پانچویں کتاب..اسیح 120..160..72..42 " حضرت مرزا ناصر احمد خلیفه ای الثالث " حضرت طاہرہ صدیقہ صاحبہ کی مرتب کردہ کتاب زندگی 172 43 - "ترکیبیں" آسان کم خرچ خالص اشیاء بنانے کی ترکیبیں.44 " قندیلیں " سبق آموز واقعات 45 " جماعت احمدیہ کا تعارف " دعوت الی اللہ کے لئے ضروری معلومات.་་ 46."سیرت حضرت محمد الله ولاوت سے نبوت تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب -47 "نماز" با ترجمه با تصویر.....48 گلشن احمد " پندرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب.49 - "عاجزانہ راہیں " حضرت اقدس بانی سلسلہ کے ارشادات کی روشنی میں 50- " اچھی کہانیاں " بچوں کے لئے سبق آموز کہانیاں.51- " قوارير قوامون" حصہ اول 52.دلچسپ سبق آموز واقعات" از تقاریر حضرت مصلح موعود 53 - "سیرت حضرت محمد عنہ نبوت سے ہجرت تک "بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب.54 " بچے احمد کی کی ماں زندہ باد".احمدی باد 55 " کتاب تعلیم".56 - " تجلیات البیہ کا معظم محمد 57." احمد بیت کا فضائی دور " 58 - " امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ " سیرت النبی پر بچوں کے لئے چھٹی کتاب.59 " بیعت عقبی اولی تا عالمی بیعت" 60 " سیرت حضرت محمد مصطفے سے ہجرت سے وصال تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب.61." انسانی جواہرات کا خزینہ " سیرت النبی پر بچوں کے لئے ساتویں کتاب..........54..................192.252.88..64....168...............280..32........28..100..80....20..160..496..160..32...358..144..64..32..28................144..62." حضرت محمد مصطفے کا بچپن " سیرت النبی پر بچوں کے لئے آٹھویں کتاب " 63 " مشاغل تجارت و حضرت خدیجہ سے شادی" سیرت النبی پر بچوں کے لئے نویں کتاب.64 - " جنت کا دروازہ " والدین کی خدمت اور اطاعت، پا کیز تعلیم اور دلکش نمونے 65- "سیرت و سوانح حضرت محمد مصطف می آغاز رسالت " سیرت النبی پر بچوں کے لئے دسویں کتاب 24 66 - " کو نیل ( سندھی پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی اور تربیتی نصار 24..
اظہار تشکر انتہائی شکر گزار ہے کا جن کے مالی تعاون سے یہ کتاب شائع ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص ، اموال اور نفوس میں برکت ڈالتا چلا جائے اور نسلاً بعد نسل رضا کی راہیں عطا فرما تا چلا جائے.آمین اللھم آمین
وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں سورج پر غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اُس یار سا نہیں واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اسی میں کہ اُس سے لگاؤ دِل ڈھونڈو اُسی کو یارو! بُتوں میں وفا نہیں اس جائے پُر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں ( درشین)