Language: UR
جماعت احمدیہ کی دشمنی میں مخالفین نے روز اول سے حربہ استعمال کیا ہے اور جس میں عقوبت دارین سے بے نیاز ہوکر وقت بے وقت جھوٹ کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ مولانا موصوف نے اپنے اس تحقیقی مقالہ میں مخالفین کے جماعت احمدیہ کے آغاز کے متعلق ایک بالکل بے بنیاد الزام کی قلعی کھولی ہے کہ کس طرح سادہ لوح اور بے علم لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ ایک خاص برطانوی منصوبے کے تحت عالم اسلام میں تخریب پیدا کرنے کے لئے مرز ا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا گیا تھا۔ جدید سائنٹفک بنیادوں پر اپنی تحقیق کو استوار کرتے ہوئے مولانا موصوف نے بتایا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ماتحت مسلمان دستوں نے سکھوں کے خلاف معرکے کئے تھے اور جب پنجاب برطانوی عملداری میں آیا تو مسلمانوں کی انگریزوں سے کیسی وفاداری تھی، اور الحاق پنجاب کے بعد کس طرح صوبے کا زریں ترقیات کاشاندار دور آیا تھا۔ پھر غدر کے معرکوں میں مسلمان سپاہ کا کیا طرز عمل تھا۔ برطانیہ کے زیر انتظام اور سرپرستی میں پشتو انگریزی ڈکشنری کی تیاری میں کس کس نے مدد کی تھی۔ اور اس جیسے دیگر امور کی تاریخی اصولوں پر حقیقت افشاں کی ہے اور جماعت احمدیہ پر انگریز کے پروردہ ہونےکے الزام کا مدلل رد کیا ہے۔ نیز وکٹوریہ عہد کے بارہ میں اکابر مسلم رہنماؤں کی نظم و نثر میں مدح سرائی اور قصیدہ گوئی کا بھی انتخاب پیش کیا ہے اور عصر جدید کے نام نہاد مؤرخین کے مغالطوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔ یوں ختم نبوت کی حفاظت کا نعرہ لگا کر اسلام دشمنی کے علمبرداروں کی حقیقت واضح کی گئی ہے اور جماعت احمدیہ کی خدمت اسلام کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔
برطانوی پیلان اور ایک فرضی کهانی دوست راحت اگر ما به موتوری تربیت
: www.mmmm (صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ) انیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ انگریز اور مسلم عسکری کردار برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی جدید سائنٹفک تحقیق کی روشنی میں) 窕 دوست محمد شاہد مورخ احمد بیت
سمسم CHOUDHRY M.M TAHIR & AZHAR 1470 - BLOOR STE 507 MISSISSAUGA ONT LUX IR6 CANADA سس wwwwwwwwww فصل 1 וי www L برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی ایسٹ انڈیا کمپنی کی مسلمان افواج کے سکھوں سے مثالی معر کے ۱۸۰۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب (۱۳ نومبر ۱۷۸۰ء.۲۷ / جون ۱۸۳۹ء) نے حکمران ہوتے ہی انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر کے نہایت گہرے دوستانہ تعلقات و روابط قائم کر لئے.انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے سکھوں کی منتشر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک متحدہ سلطنت کی شکل دے دی پھر اپنی بہترین حکمت عملی سے ملتان ، کشمیر ++ اور افغانستان حکومت سے جنگ کر کے ۶ رمئی ۱۸۳۴ء کو پشاور پر بھی قبضہ کر لیا.یہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ولادت سے چند ماہ قبل کی بات ہے.مہاراجہ نے پشاور پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد نہ صرف پورے صوبہ سرحد بلکہ افغانستان کے شہر قندھار تک کو بھی زیر نگیں کر لیا.مہاراجہ کے حسن سلوک نے مسلم و غیر مسلم رعایا دونوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور پنجاب دسرحد کی سرزمین امن کا گہوارہ اور ماڈی طور پر بہشت بریں کا منظر پیش کرنے لگی.مہاراجہ صاحب کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور مسلمانوں کے خلاف متعدد حاذ کھول دئے اور دہشتناک لڑائیوں کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع کر دیا جس سے دونوں صوبوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت ابتری اور دہشت پھیل گئی جس پر انگریزوں اور مسلم سپاہ نے سکھ گردی کا ہر میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تین چار سال کی مسلسل جانفشانیوں اور قربانیوں سے سکھ حکومت کے پرخچے اڑا دئے.اس سلسلہ میں پہلا اہم معرکہ ۱۸۳۵ء میں فیروز پور سے میں میل جنوب مشرق کی جانب مد کے مقام پر ہوا جس میں انگریزی اور مسلم سپاہیوں نے سکھوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے ۲۸ جنوری ۱۸۴۶ء کو / انگریزوں سے صلح کا معاہدہ کر لیا.محمد
، برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی دوسری اہم جنگ اپریل ۱۸۴۸ء میں ڈیرہ غازیخان میں ہوئی جہاں بنوں کے لیفٹنٹ (بعد ازاں سر ) ہر بر ہرٹ ایڈورڈ مسلمانوں کا لشکر جرار لے کر میدانِ جنگ میں نہایت کمتر وفر کے ساتھ پہنچ گئے.اس جنگ میں جو ام مئی ۱۸۴۶ ء کو سکھوں کی شکست پر منتج ہوئی ، ڈیرہ غازیخان کی مقتدر سماجی، فوجی و سیاسی شخصیت تمندار اور کھوسہ قبیلہ کے بہادر لیڈ رکوڑا خاں اور اس کے بہادر سپاہیوں نے شجاعت کے ایسے مثالی کارنامے دکھلائے کہ انگریز نی سلطنت نے ان کو زبر دست کوزبر خراج تحسین ادا کیا خصوصا رئیس اعظم کوڑا خاں تمندار اور ان کے بہادر فرزند کو عالی جاہ کے بہترین خطاب سے نوازا اسی پر بس نہیں وائسرائے ہند لارڈ ڈلہوزی نے خاں صاحب کو ان کے آبائی وطن میں نہ صرف ایک باغ بھی انعام کے طور پر عطا کیا بلکہ ان کی جاگیروں کی توثیق کر کے ان کے جذ بہ پہ گری اور انگریزوں سے بے مثال وفاداری کے ثبوت کے لئے اپنی قدردانی کا اظہار کیا.یہ " تاریخ پنجاب اردو تر جمه صفحه ۱۰۲۳ از عالی جناب خان بہادر شمس العلماء سید محمد لطیف صاحب ٹیٹو پنجاب یونیورسٹی ممبر ایشیاٹک سوسائیٹی آف بنگال.ناشر تخلیقات لاہور نومبر ۱۹۹۴ء) تیسری خونریز جنگ دریائے چناب کے کنارے واقع کنیری کے مقام پر ۱۸ رجون ۱۸۴۸ء کوٹڑی گئی.اس موقع پر عالیجناب نواب بہاولپور صاحب نے جذبہ جہاؤ کی فروانی کا نیاریکارڈ قائم کیا انہوں نے انگریز جرنیل عزت مآب لیفٹینٹ ایڈورڈ کو پانچ ہزار سپاہیوں کی ایک زبر دست فوج سرحدی مسلمانوں کی پیش فرمائی.اسی طرح سبحان خان کی ایک پُر شکوہ پیادہ فوج کی پلٹن نے اپنے محبوب انگریزوں کے لئے اپنے مقدس خون کے نذرانے پیش کئے.ساڑھے تین بجے ایڈورٹم کے حکم پر سبحان خان کی جانباز رجمنٹ نے سکھ باقی فوجوں پر ہلہ بول دیا اور دست بدست لڑائی کے بعد سنگین کی نوک پر سکھوں کی توپ پر قبضہ کر لیا جس کے بعد سکھ سپاہی شکست کھا کر بھاگ نکلے.انگریز اور مسلمان مجاہد برق رفتاری سے چناب سے چار کوس کے فاصلہ پر نمبر کے مقام پر پہنچ گئے اور سکھوں کا پڑاؤ ان کا تمام آتشیں اسلحہ اور خیمے کے ذخائر فاتحین کے ہاتھ لگے.اس طرح سندھ اور چناب کے درمیان اور چناب اور ستلج کے درمیان کا پورا علاقہ مکمل طور ㄓ کام برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی イギ پر جہادیوں کی یورش سے سکھوں کے ہاتھوں سے نکل گیا.(تاریخ پنجاب صفحہ ۱۰۲۴) ” چوتھی اور آخری مگر طویل لڑائی ملتان کے قریب کیم جولائی ۱۸۴۸ سے شروع ہوئی اور بالآخر جنوری ۱۸۴۹ء کو ملتان فتح ہو گیا.یہ لڑائی انگریز اور مسلمان سپاہیوں نے اپنی بے مثال جرات و بسالت سے جیتی.اس میں سبحان خان کی رجمنٹ اور شیخ امام الدین کے چار ہزار سپاہیوں نے بھی حصہ لیا اور نواب بہاولپور کے لشکر جرار نے بھی ” میدانِ جہاؤ میں خوب داد شجاعت دی.مورخ پنجاب خان بہادر شمس العلماء سید محمد لطیف فیلو پنجاب یونیورسٹی و ممبر اشیاٹک سوسائیٹی آف بنگال نے اپنی شہرہ آفاق کتاب THE HISTORY OF PUNJAB میں بڑی شرح وبسط سے لکھا ہے کہ اس لڑائی میں ملک فتح خاں ٹوانہ نے نہایت بہادری سے لڑتے لڑتے جان دے دی نیز بتایا ہے کہ لارڈ ڈلہوزی اپنے پورے وسائل کے ساتھ انگریزوں کی مدد کرنے کے صلہ میں غازی اعظم نواب بہاول خان کو ایک لاکھ روپیہ سالانہ وظیفہ عطا فر مایا نیز ہر ماہ اپنی فوج کو میدان میں رکھنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ کے عطیہ کی منظوری بھی مرحمت فرمائی.( ترجمه از تاریخ پنجاب صفحه ۱۰۳۴۰.ناشر تخلیقات لا ہور نومبر ۱۹۹۴) نامور مورخ آگے چل کر رقمطراز ہیں: نواب بہاول خاں نے ۴۸ - ۱۸۴۷ میں ملتان کے محاصرہ کے دوران حکومت برطانیہ کو نہایت شاندار خدمات بہم پہنچا ئیں لہذا اسے سبنرل کوٹ اور بھونگ کے اضلاع کے علاوہ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا تا حیات وظیفہ بھی عطا کیا گیا.وہ انگریزوں کا سچا دوست تھا اور کافی عرصہ پہلے اسی حکومت کے ساتھ اس نے اتحاد قائم کر لیا تھا جس کی رو سے اپنی خود مختاری حاصل ہونے کے باوجود ) اس نے حکومت برطانیہ کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا 11- ( ایضا ترجمه صفحه (۱۱۶) ریاست بہاولپور تقسیم ہند تک برطانوی حکومت کی وفاداری میں ضرب المثل رہی }
برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی کیونکہ ہر موقع پر اس نے انگریزی اقتدار کو متحکم کرنے کے لئے پوری تو نہیں صرف کر دیں اس بناء پر اس کے حکمران فرزند برطانیہ کے قابل فخر خطاب سے یاد کئے جاتے رہے.جناب سید لطیف نے یہ بھی لکھا ہے: افغان مہم ۸۰-۱۸۷۸ کے دوران نواب نے اپنی ریاست کے تمام رسائل برطانیہ کی مرضی پر چھوڑ دئے اور سپاہیوں کا ایک دستہ فراہم کیا جس نے رسل در سائل کو کھلا رکھنے کے لئے ڈیرہ غازی خان کی سرحد پر گراں قدر خدمات سرانجام دیں پنجاب برطانوی عملداری میں ( ترجمه صفحه ۱۱۷۲) ان چار سالہ زبردست معرکوں میں کامیابی کے بعد عزت مآب گورنر جنرل ہند کی طرف سے ۲۹ / مارچ ۱۸۴۹ء کو لاہور میں دربار عام منعقد کیا گیا جس میں انہوں نے اعلان فرمایا کہ ۲۱ بر مارچ ۱۸۴۹ سے پنجاب بھی انگریزی حکومت کی عملداری میں وي شامل ہو چکا ہے." جناب سید لطیف تحریر فرماتے ہیں: پنجاب کی فتح انگریزوں کے لئے بہت بڑی عسکری کا میابی تھی.انگریز قوم کی طرف سے اس وسیع و عریض صوبہ کے حصول کے باعث ہندوستان کی.the فتح مکمل ہو گئی اور ہندوستان کی سلطنت کو اس کی قدرتی سرحدوں کے اندر یعنی ہندوستان کی تاریخی سرحد ممنوعہ دریا سندھ بلند و بالا ہمالیہ پہاڑوں اور عظیم بحیرہ ہند کے اندر لایا گیا" مزید تفصیل کے لئے ہر محقق کو ” پنجاب چیفس (سرلیپل گریفن و جنرل گریسی ) ضرور پڑھ لینی چاہیئے.( ترجمه صفحه ۱۰۳۷) علي الد حکومت برطانیہ سے والٹی افغانستان کا معاہدہ € برطانوی پلان اور ایک فرنسی کہانی الحاق پنجاب کے چند سال بعد جنوری ۱۸۵۷ء کے اوائل میں والٹی افغانستان دوست محمد خاں نے بھی انگریزی سلطنت سے معاہدہ کر کے ایشیا میں امن کی وسیع بنیاد قائم کر دی.مؤلف " تاریخ پنجاب نے اس تاریخی واقعہ کا تذکرہ درج ذیل الفاظ میں کیا ہے: " جنوری ۱۸۵۷ء کے اوائل میں سر جان لارنس نے پشاور کے قریب جمرود کے مقام پر کابل کے امیر دوست محمد خاں کے ساتھ مذاکرات کئے.دوست محمد خاں اپنی سفید براق متبرک داڑھی کے ساتھ اونٹ کے موٹے بالوں سے تیار کردہ لباس میں ملبوس اپنے دو بیٹوں اور انتہائی قابل اعتماد سرداروں کے ہمراہ درباری خیمہ میں داخل ہوا.اس اجلاس میں امیر کو ضمانت مہیا کی گئی کہ جب تک ایران کے ساتھ جنگ جاری رہے گی ، اسے بارہ لاکھ روپے سالانہ کی امدادی رقم مہیا کی جائے گی.چاہے یہ ملتوی ہو یا قائم رہے.حکومت برطانیہ کو اس امداد کو جاری رکھنے کی خوشی ہوگی.اس وعدے کے ساتھ چار ہزار بندوقوں کا تحفہ بھی دیا گیا.جب امیر کے خیمہ میں معاہدے کے کاغذات پر دستخط کر کے مہر لگا دی گئی تو امیر دوست محمد خاں پکارا اللہ اور اس کا رسول گواہ رہیں کہ میں نے حکومت برطانیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا ہے.آگے جو بھی ہو، میں اب اسے اپنی موت تک تھامے رکھوں گا لہذاوہ اپنے الفاظ پر قائم رہا.کیونکہ اس کے انتقال کے دن بھی حکومت برطانیہ کے ساتھ اس کا عہد و پیمان قائم تھا.شاہ ایران ، افغانستان کے حکمران کے رویہ کو اور انگریزوں کے ساتھ اس کے از سر نو اتحاد کو دیکھتے ہوئے ہرات کے لیے اپنے دعوئی سے دستبردار ہو گیا اور افغانستان سے اپنی فوج کو واپس بلالی.لہذا اس کے بعد جنگ تیزی سے ختم ہوتی چلی گئی.میدان 1 جنگ میں ایرانیوں کے ساتھ افغان فوج کے تصادم سے احتراز برتا گیا.دریں اثناء $
A برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی فصل پنجاب انگریز سیاستدانوں کی تر قیاتی نگرانی میں خوب خوشحال ہو گیا ، جن کے ذمہ مہ اس کے نظم و نسق کا خوشگوار مگر کٹھن فرض سونپا گیا تھا.(ایضاً صفر ۱۰۵۳٬۱۰۵۲) " برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی امیر افغانستان دوست محمد خاں کا ۹ جون ۱۸۶۲ کو ہرات میں انتقال ہو گیا اور ان کا بیٹا الحاق پنجاب کے بعد صوبہ کی شاندار ترقی کا زریں دور.شیر علی جانشین بنا جسے انہوں نے اپنی زندگی ہی میں ولی عہد مقرر کر دیا تھا مگر افسوس امیر دوست محمد خان کے آنکھیں بند کرتے ہی افغانستان میں بھائیوں میں اقتدار کے لئے رسہ کشی شروع ہوگئی اور ہر طرف خوفناک خانہ جنگی کے شعلے بلند ہونے لگے.شیر علی نے ایک حرکت یہ کی کہ اس نے اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف اپنے باپ کے انگریزوں سے کئے ہوئے معاہدے کو پارہ پارہ کر کے روس سے تعلقات و روابط قائم کر لئے نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی اور مسلمان سپاہ نے نومبر ۱۸۷۸ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا اس جنگ میں بھی مسلمانوں نے برطانوی افواج کے دوش بدوش داد شجاعت دی.چنانچہ بالآخر اپریل ۱۸۸۰ء میں انگریز پورے افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے.بایں ہمہ انگریزوں نے امیر دوست محمد خان سے کئے گئے.معاہدہ کی بہترین اخلاق اور کمال جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورا احترام کیا اور سیاسی تاریخ میں ایک انوکھی مثال قائم کی چنانچہ " مورخ پنجاب نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ: چونکہ حکومت اس ملک کو برطانوی علاقہ کے طور پر اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی تھی ، لہذا دوست محمد خاں کے خاندان کے زندہ بچ جانے والے سب سے بڑے فرد عبد الرحمن خان کو امیر مقرر کر دیا گیا.ستمبر ۱۸۸۰ء میں برطانوی...فوج...درہ خیبر کے راستے واپس ہندوستان آگئیں.وقتی طور پر قلعہ کی حفاظتی افواج کو لنڈی کو تل اور علی مسجد میں رکھا گیا لیکن آخر کار انہیں بھی واپس بلا لیا گیا.جیسے ہی امیر عبدالرحمن خان نے جنوبی افغانستان پر اپنی بالا دستی قائم کرلی برطانوی فوج نے قندھار کو خالی کر دیا ترجمه تاریخ پنجاب صفحه ۱۰۷۳ نظر اور : [ < مجھے 449 الا مورخ پنجاب اور پاکستان کے معروف سکالر جناب ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صاحب تحریر فرماتے ہیں: الحاق پنجاب ( مارچ ۱۸۴۹ء) سے اس خطے میں سیاسی ، انتظامی اور معاشی تبدیلیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا.۱۸۵۷ء کا انقلاب برصغیر کی سیاسی و تمدنی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا لیکن پنجاب میں نئے دور کا آغاز آٹھ سال قبل ۱۸۴۹ء سے ہو چکا تھا.ہمارے نزدیک برّصغیر اور پنجاب میں اس فرق کے کچھ معقول اسباب ہیں جنہیں سمجھے بغیر نہ اس تبدیلی کو پوری طرح محسوس کیا جا سکتا ہے اور نہ پنجاب کے آئندہ حالات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ واقعات کے سلسلہ میں چند اہم تبدیلیوں کا یہاں ذکر کر دیا جائے.پنجاب ۱۷۵۶ء تک مغلیہ سلطنت کا ایک حصہ تھا اور یہاں کا صوبیدار ، بادشاہ دہلی کی طرف سے نظم ونسق کا ذمہ دار تھا.دہلی پر احمد شاہ ابدالی کی یلغار (۱۷۵۶ء) کے بعد پنجاب ابدالی کی سلطنت کا حصہ بن گیا اور یہاں کے صوبیدار کا تقرر شاہ کا بل کی طرف سے ہونے لگا.چنانچه ای سال لاہور کا پہلا افغان گورنر احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تیمور خان مقرر ہوا.لیکن تیمور خاں اور بعد کے افغان گورنر ( بلند خاں، کابلی مل وغیرہ) سکھوں کو دبانے ، امن و امان قائم رکھنے اور نظم ونسق بحال کرنے میں ناکام رہے.حتی کہ احمد شاہ ابدالی نے ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کی طاقت کو کچل دیا اور اس سے اگلے برس تلج پار کر کے لدھیانہ کے قریب کوٹ راہیرہ کے مقام پر سکھوں کو تباہ کن شکست دی.لیکن نہ تو پانی پت کی فیصلہ کن جنگ کے بعد اُس نے دہلی کو اپنی حکومت کا مستقر بنایا اور برصغیر کے سیاسی و انتظامی خلا کو دور کرنے کی www الريان
کوشش کی اور نہ کوٹ راہیرہ ہی میں سکھوں کو عبرتناک شکست دینے کے بعد پنجاب کے نظم ونسق کو بہتر بنانے کی فکر کی.حریفوں کو خاک و خون میں ملانے اور مال غنیمت سمیٹنے کے بعد ہر بار اس نے کابل کا رخ کیا اور اسی روایت پر اس کے جانشین عمل پیرا ر ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب پر عملاً جنگجو اور تند خو سکھوں کا قبضہ ہو گیا اور ان کی مختلف مثلوں نے پنجاب کے مختلف حصوں پر اپنی اپنی بالا دستی قائم کر کے لوٹ مار کا بازار گرم کیا.پنجاب کے عام مسلمان خصوصاً ان کے ظلم و انتقام کا نشانہ بنے.ان مظلوموں کے تحفظ کی ذمے دار نہ دہلی کی حکومت تھی اور نہ کابل کی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکی.مغلیہ عہد کا خوشحال پنجاب اس دور میں ایسا بد حال ہوا کہ اس پر آنسو بہانے والا بھی کوئی نہ رہا.۱۷۹۸ء میں شاہ زمان والی کابل آخری بار خراج وصول کرنے لاہور آیا اور واپسی پر دریائے جہلم سے بھاری تو ہیں گزارنے کے صلے میں لاہور کی حکومت کا پروانہ رنجیت سنگھ کو دے گیا جس نے ۱۷۹۹ء میں لاہور پر قبضہ کر کے ستلج اور اٹک کے درمیان اپنی حکومت قائم کر لی اور ۱۸۰۹ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاہدہ امرتسر کر کے پنجاب اور سرحد پر ایک خود مختار حکمران کے طور پر اپنی وفات (۱۸۳۹ء) تک حکومت کرتا رہا.رنجیت سنگھ کے جانشینوں کی باہمی کشمکش اور خالصہ فوج کی خود سری کی وجہ سے دس سال کے اندر سکھ راج کا خاتمہ ہوا اور پنجاب کا الحاق ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات سے ہو گیا جو پلاسی (۱۷۵۷ء) اور بکسر (۱۷۶۴ء) کی جنگوں کے بعد، جنوب میں ٹیپو سلطان اور وسطی ہند میں مرہٹوں وغیرہ کی قوت مزاحمت کو ختم کر کے بتدریج شمال میں ستلج یک پھیل چکے تھے.ان واقعات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ سب سے آخر میں ہوا اور اس قبضے کی روداد برصغیر کے دوسرے علاقوں پر قبضے سے خاصی مختلف تھی.پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی.۱۷۵۶ء سے ۱۷۹۹ء تک پنجاب بظاہر کابل کے ماتحت ایک صوبہ تھا لیکن عملاً یہاں بھی سکھ گردی کے تحت خوف و دہشت کی فضا چھائی ہوئی تھی.۱۷۹۹ء سے ۱۸۴۹ء تک پچاس سال یہاں رنجیت سنگھ اور اس کے جانشین حکمران رہے.پنجاب اور سرحد کے لئے یہ سکھا شاہی اگر چہ سکھ گردی کے مقابلے میں نسبتاً عافیت کا دور تھا، تاہم یہاں کے مسلمانوں کے لئے پہلی اذیت (سکھ گردی) کے مقابلے میں یہ عافیت (سکھا شاہی ) بھی جبر و استبداد ہی کی قدرے معتدل صورت تھی، کیونکہ اس میں نہ کوئی قانون تھا نہ ضابطہ نہ داد تھی نہ فریاد، بس ایک مسلح مذہبی گروہ کا راج تھا جو دوسروں کو عزت آبرو سے جینے کا حق دینے کو تیار نہ تھا."Every sikh enjoyed all the privileges of khalsa citizenship_ exemption from taxation,liberty to oppress, and opportunity to live like a freelooter.His (Ranjit Singh's) rule was a tyranny of force.He had no system, no conception of duty to his subjects: he and his people gloried in their ignorance: in his time there were no law courts, no schools, no jails in the Punjab:the only punishment known were fines for the rich, and mutilation-- the lopping off of arm or leg-for the poor; until well into the sixties maimed specimens of his inhumanity were seen in every town and large village of the Punjab."(S.S.Thorburn: The Punjab in Peace and War, Page23) ان حالات میں جب کہ مسلمان ایک صدی سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے تھے اور رنجیت سنگھ کے بعد کی لاقانونیت نے تو ہندو اور سکھ عوام کے لئے بھی مصائب پیدا کر دیئے تھے ، پنجاب میں انگریزی حکومت کا قیام ایک طویل عرصہ کی جھلسا دینے والی گرم ٹو کے بعد برکھارت آنے کے برابر تھا.اس تبدیلی پر یہاں کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا اور زندگی کی تعمیر نو میں مصروف ہو گئے.انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں نظم ونسق کے قیام اور امن و امان کی بحالی پر خصوصی توجہ مبذول کی اور یہی اس وقت اس خطے کی سب سے بڑی ضرورت تھی ، ان قلعوں اور گڑھیوں کو مسمار کر دیا گیا جو سکھوں نے جگہ جگہ اپنی کمین گاہوں کے طور پر بنا رکھی j
....اره دور مووی به بیانی را نہیں.صرف وہ قلعے باقی رہنے دیئے گئے جو دفاعی لحاظ سے کمپنی کی سپاہ کے لئے ضروری تھے.لوگوں سے ہتھیار لے لئے گئے اور آئیندہ اسلحہ رکھنے کے لئے اجازت نامہ ( لائسنس) ضروری قرار دیا گیا.گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی نے پنجاب کے نظم ونسق پر خاص توجہ دی.ایک انتظامی بورڈ قائم کیا گیا جس میں سول سروس کے تین لائق انگریز افسروں ( ہنری لارنس ، جان لارنس چارلس مینسل ) کو شامل کیا گیا اور ان کے ذمے علی الترتیب ، سیاسی ، مالی اور عدالتی ، امور کئے گئے.بورڈ کے تحت پنجاب و سرحد کو سات کمشنریوں اور ستائیس اضلاع میں تقسیم کر کے یہاں انگریز کمشنر اور ڈپٹی کمشنر مقرر کئے گئے جن کے ماتحت یورپین اسسٹنٹ کمشنر اور اور دیتی ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر مقرر کئے گئے.پھر اضلاع کو تحصیلوں اور ذیلوں میں تقسیم کر کے مالیہ کی فراہمی اور اراضی کا بندوبست کیا گیا.نیز پولیس کے حلقے (تھانے ) قائم کر کے جرائم کے انسداد پر توجہ کی گئی.تین سال کے قلیل عرصہ میں ان اصلاحات کے خاطر خواہ نتائج برامد ہوئے اور اس خطے کی زندگی معمول پر آگئی.مارچ ۱۸۵۲ء میں انتظامی بورڈ نے لارڈ ڈلہوزی کو رپورٹ بھیجتے ہوئے عام صورت حال کے بارے میں لکھا: + All violant crimes have been repressed, all gangs of murderers and robbers have been broken up, and the ringleaders brought to justice.In no part of India is there now more perfect peace than in the territories lately annexed." : پنجاب کی اس وقت کی صورت حال کا یہ نقشہ بالکل صحیح ہے.۱۸۵۳ء میں انتظامی بورڈ موقوف کر دیا اور پنجاب میں چیف کمشتری قائم کر کے سر جان لارنس کو یہاں کا پہلا چیف کمشنر مقرر کیا گیا.اس کے ماتحت ایک فنانشل کمشنر اور ایک جوڈیشل کمشنر مقرر ہوئے.سات آٹھ سال کے عرصہ میں پنجاب میں نظم ونسق قائم کرنے کے علاوہ تعمیر و ترقی کے بہت سے A wwwwwwwwwww...سسيلسسلسيه کاموں کا آغاز و انصرام ہوا.مغل دور کی قدیم نہر بنسلی ( جو سکھ دور میں معدوم ہو گئی تھی ) کے نقش قدم پر دریائے راوی سے مادھو پور کے مقام سے نہر باری دوآب کی کھدائی کا کام ۱۸۵۱ء میں شروع ہوا ، اور اس نہر میں ۱۸۵۹ء میں پانی چھوڑا گیا.۱۸۵۹ ء ہی میں لاہور اور امرتسر کے درمیان اولین ریلوے لائن بھی بچھائی گئی.شاہراہوں کی تعمیر کا سلسلہ بھی اسی زمانے میں شروع ہوا.سب سے پہلے قدیم جرنیلی سڑک کے نقش قدم پر پشاور سے لاہور تک سڑک بنائی لا گئی اور پھر اسے دوسرے حصوں سے ملا دیا گیا.صوبے کے مختلف شہروں اور قصبوں میں مدرسے ، شفا خانے ، ڈاک خانے قائم کئے گئے.جرائم کے انسداد کے لئے پولیس اور ملٹری پولیس (فرسٹر فورس ) قائم کی گئیں.مال گزاری کا بندوبست کرنے کے علاوہ پنجاب کے رسم ورواج اور مختلف مذاہب کے مطابق مجموعہ قوانین دیوانی منضبط کیا گیا.ان تعمیری کاموں کی وجہ سے پنجاب کے شہری و دیہاتی زندگی میں طویل عرصہ کی بد انتظامی اور انتشار کے بعد سکون و اطمینان پیدا ہوا.نہ صرف مسلمانوں کو سکھوں کے جور و استبداد سے نجات ملی بلکہ خود ہندوؤں اور سکھوں کو بھی پُر امن حالات میں اپنے اپنے پیشوں میں کام کرنے کا موقعہ ملا.اس ! امر کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہ سکھ قوم جو چند برس پہلے پنجاب کی مالک و مختار تھی اور صرف دو تین سال قبل چیلیانوالہ اور گجرات کے خونریز معرکوں میں انگریزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے خاک و خون میں لوئی تھی ، نئے نظام سے اتنی مانوس و مطمئن ہو گئی کہ الحاق کے تین سال بعد (۱۸۵۲ء میں برما کی دوسری لڑائی میں اور پھر ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے دوش بدوش جنگ آزادی کے سپاہیوں کے خلاف معرکہ آرا ہوئی.خصوصاً ۱۸۵۷ء کے معرکہء انقلاب میں تو پنجاب انگریزوں کے لئے نہ صرف ایک محفوظ قلعہ ثابت ہوا بلکہ اس نازک موقع پر ان کے جنگی اقدامات کے لئے محد و معاون بنا....3 کی سمجھ ) پنجاب تحقیق کی روشنی میں از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صفحه ۲۶۵ تا۲۷۰ پبلشر سنگ میل پبلی کیشنز لا ہور اشاعت 1991ء ) i
فصل wwwwwww نا غدر اور مسلمان سپاہیوں کے مجاہدانہ کارنامے کچھ ۱۵ وسطی ہند کی محافظ رجمنٹ.مرہٹہ ہارس رجمنٹ کا حصہ دار بنا دیا گیا.ملک صاحب خاں نے ۱۸۶۲ء میں فوجی ملازمت کے اختتام پر ڈپٹی کمشنر مکتاب کی سرپرستی سے کئی ذاتی نہریں کھدوانے کا اہتمام کیا جن سے ٹوانوں کی نیم جاگیردارانہ قوت میں نمایاں اضافہ ہوا اور جس کی بدولت ٹوانہ ریاست تقسیم ہند تک پنجاب کے سیاسی افق پر چھائی رہی.اب رنجیت سنگھ اور انگریزوں کی وفادار اور جانثار فوج کے مجاہدانہ کارناموں کا مختصر سا (تلخیص کتاب خضر حیات ٹوانہ ترجمہ صفحہ ۴۹ تا ۶ مترجم طاہر کامران، ناشر فکشن ہاؤس ۱۸، مزرنگ روڈ لا ہور ) ٹوانہ خاندان نے برطانوی حکومت کے استحکام اور اقتدار کو بڑھانے کے لئے جو ذکر کیا جاتا ہے.کتاب خضر حیات ٹوانہ" کے مولف این ٹالبوٹ کی تحقیق یہ ہے کہ سکھوں کی آخری جنگ اور غدر ۱۸۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بھر پور امداد نے برطانوی راج میں ٹوانہ خاندان کو مالا مال کر دیا کیونکہ انگریزوں نے ان کے جہاد آزادی پر انہیں نقد رقوم ، زرعی زمینوں اور خطابات سے نوازا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ فوج میں پنجابی سپاہیوں میں ان کا کردار نمایاں رہے جس کی بدولت بے شمار ٹو انے انگریزی فوج میں بھرتی ہوئے.ٹوانے غرز ۱۸۵۷ء کے دوران ملک صاحب خاں مٹھہ ٹوانہ نے انگریز ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں ساڑھے تین سوگھوڑ سوار مع ان کی خوراک اور اسلحہ دینے کی پیشکش دنی جس کے بعد جہلم اور اجنالہ کے باغیوں کو گرفتار کیا گیا.جان نکلسن کی سرکردگی میں دہلی فتح کرنے والی ٹوانہ فوج کے گھوڑ سواروں کی تعداد ایک ہزار تھی.صاحب خان کے بھائیوں اور بھتیجوں کا لشکر جرار اس کے علاوہ تھا.ٹوانہ افواج نے دہلی کے باغیوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور بوڑھا مغل بادشاہ بہادر شا والفقر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا.غدر کے بعد ”جہاد آزادی کیا ، یہ اس کی ایک ادنی سی جھلک ہے.اس کتاب میں مندرجہ ذیل فوجی خدمات کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے.جان لارنس کے ایماء پر ایڈورڈ صاحب بہادر کے ماتحت ۱۸۴۹۸ء میں ۴۰۰ سواروں سے امدادی غدر کے دوران جرنیل وان کورٹ لینڈٹ کی سرکردگی میں ٹوانہ رجمنٹ کی سرفروشیوں کی روداد.جنرل جیرالڈ کے ماتحت نارنول ضلع گاڑگاؤں کے باغیوں کا صفایا جس نے ملک فتح شیر خاں کو انگریز سلطنت کا ” جانباز سپاہی اور نمک حلال‘ ثابت کیا اس کے صلہ میں خان بہادر کا خطاب دو ہزار کی دوائی جاگیر اور ۵۰۰سو کی مین حیات پنشن انگریز سے عطا ہوئی اور انگریز مملکت کے درباریوں میں ہمیشہ ممتاز رہے.ملک صاحب خاں نے مسٹر کو پر صاحب بہادر کے ماتحت ملٹن نمبر ۲۶ کے باغیوں سے اجنالہ کے باغیوں کو گرفتار کیا.- ملک شیر محمد خاں کے ۱۸۵۸ء میں کمانڈر انچیف کے ماتحت اودھ کی لڑائیوں میں کار فتح دہلی کے بعد صاحب خان اور اس کے بھائیوں کی افواج نے انگریزوں کے ساتھ کئی ہائے نمایاں.اور مہمات میں بھی اپنی بہادری اور جہاد کے ایسے ایسے مصر کے سر کئے کہ ٹوانہ کے سپاہیوں کو تذکرہ روسائے پنجاب ( ترجمه ) جلد دوم صفحه ۲۹۰ تا ۲۹۵ متر جم نوازش علی ناشر سنگ میل پبلی کیشنز لا ہور۱۹۹۲ء) J
1 زبردست انتیاه 17 فصل سلام 12 ملحوظ خاطر رہے کہ غذر ۱۸۵۷ء میں باغیوں کو کچلنے میں پنجاب کے ہزاروں مسلمان برطانوی حکومت کی سرپرستی میں پشتو انگلش ڈکشنری کی اشاعت سپاہیوں نے حصہ لیا اور فتح دہلی کے بعد انگریزی حکومت ایک فولادی قلعہ کی طرح پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی جو پہلی جنگ عظیم تک عروج وارتقاء کی آخری منازل تک پہنچ گئی اور اس کے لئے پنجاب کے ہزاروں مسلمان سپاہیوں اور ان کے مسلم کمانڈروں نے بیش بہا قربانیاں پیش کیں اور ان میں کوئی احمدی شامل نہیں تھا کیونکہ جماعت کی بنیاد ہی برسوں بعد مارچ ۱۸۸۹ء ہم افغانستان کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے ۱۸۸۰ تک امیر عبدالرحمن کی حکومت تک آگئے تھے (جس کے زمانہ میں شیخ عجم حضرت مولانا شہزادہ سید عبد اللطیف کی دردناک شہادت کا خونی واقعہ رونما ہوا) لیکن اب ہم ۶۲ ۱۸ء کی طرف واپس آتے ہوئے عرض ! میں رکھی گئی اور نہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اس میں ذرہ برابر کوئی عمل دخل تھا کیونکہ آپ پرداز میں کہ امیر دوست محمد خان کی زندگی کے آخری ایام میں برطانوی حکومت نے ایشیا میں اسوقت قادیان کی گمنام بستی میں گوشہ نشین تھے اور آپ کے قیام سیا لکوٹ کا زمانہ تو مسلمہ طور پر پائیدار امن اور مذہبی آزادی میں فروغ اور برٹش انڈیا کی مادی ترقیات کے لئے اپنی گزشتہ ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۷ ء تک کا ہے.اور اگر ایرانی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک نئی سکیم تیار کی جس کا انکشاف ہیٹی کی رجمنٹ نمبر ۳ کے کیپٹن ایچ جی ریورٹی (CAPTAIN H.G.RAVERTY) کی کتاب ڈکشنری آف دی پختو پشتو ( DICTIONRY OF THE PUKHTO PUSHTO) سے ہوتا ہے جو برطانوی حکومت کی سرپرستی میں کئی سال میں تیار ہوئی اور جس کے مرتب کرنے میں برطانیہ اور ہندوستان کے تمام مشہور اداروں اور لائبریریوں اور عیسائی مشنوں نے بھر پور حصہ لیا جن میں ہندوستان کے مسلم رہنما نواب سالار جنگ، ہز ہائی نس نظام دکن میراکبر علی کینال آفیسر نہز مهد و پور ضلع گورداسپور بھی تھے.یوں تو بنگال، مدراس ہمبئی اور پنجاب کے برطانوی افسر اس ، میں شامل ہوئے مگر پشاور، ہزارہ، مردان، کوہاٹ ، ڈیرہ اسماعیل خان نے سرگرم حصہ لیا.لغت کی تیاری میں وسط افغانستان کے غلزئی قبیلہ کے ایک عالم دین نے جن کے والد کسی وقت قاضی قندھار رہے تھے، بھر پور حصہ لیا اسی طرح ضلع پشاور میں آباد محمد زئی قبیلہ کے ایک قدیم اخوند زادہ اور پشتو زبان میں یکتائے روزگار بزرگ نے بھی اپنی شب و روز کی مساعی اس کی تکمیل کے لئے وقف کر دیں.اس طرح انگریز مؤلف اور ان فاضل علماء دین کی مساعی سے
IA مع بسبببسة یہ کتاب مکمل ہو کر ۱۸۶۲ء کے دوران بیک وقت ہندوستان اور ایڈنبرا ( سکاٹ لینڈ) سے شائع کر دی گئی جو عیسائیت کا گڑھ اور جس کے سپاہیوں ہی نے سلطنت خداداد میسور کے سلطان ٹیپو کو شہید کر کے ہندوستان میں انگریزی اقتدار کا رستہ ہموار کیا تھا.یہ کتاب سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا اور انڈین کونسل کے پریذیڈنٹ رائٹ آنر بیل سر چارلس وڈ بارٹ جی سی بی (SIR CHARLES WOOD BART G.C.B) کے نام پر معنون کی گئی جس سے کتاب کے بر طانوی پالیسی کے ترجمان ہونے پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے.برطانوی پلان (۱۸۶۲ء) مؤلف کتاب کیپٹن ایچ جی ریورٹی نے اپنے اکتیس صفحات کے دیباچہ میں ہندوستان میں انگریزی حکومت کے ملک گیر ہونے اور عظمت و شوکت کا ذکر جن الفاظ میں کیا ہے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں وقتی طور پر ایک زلزلہ سا ضرور بر پا کر دیا مگر ملکہ وکٹوریہ نے انڈیا کا اقتدار براہ راست اپنے ہاتھ میں لینے سے پانچ سال کے اندر اندر ملک کی کایا پلٹ دی اور انگریزی مملکت تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگئی.چنانچہ مصنف لکھتا ہے."As a means of present intercommunication and as a preparation for the future, it should be insisted upon by the British Government-- a monarchy of many kings, whose sceptre sways over the entire length and breadth of India, and the aegis of whose power casts its broad shadow over the whole East." مريلة یہ حقیقت نمایاں کرنے کے بعد برطانوی ڈپلومیسی ، پالی ٹکس اور انٹیلی جیٹھیا کے ماہر انگریز مصنف نے دیا چہ میں بڑے واضح اور کھلے الفاظ میں مستقبل سے متعلق اس برطانوی پلان کا ذکر کیا جس کا خلاصہ مختصر الفاظ میں یہ تھا کہ: 19 اول پنجاب اور سرحد کے مسلمان سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ بغاوت کو فرو کرنے میں انگریز فوجوں کی طرح ان کا بھی مثالی کردار رہا ہے.اسی طرح ہندو مسلم انتہا پسندوں کی روک تھام کے لئے افغانیوں کے علاوہ سکھوں اور گورکھوں کو بھرتی کیا جانا چاہیے.دوم افغانستان سے مراسم و روابط کو مزید تقویت دی جائے باوجود یکہ ایک حصہ میں فرنگی سے نفرت ہے.مگر ہمیں افغانستان سے کوئی خطرہ نہیں.افغانستان کے باشندے فارس کے قریب آبادشیعوں سے شدید نفرت رکھتے ہیں.میر دوست محمد خاں کے بعد خونریزی کے خطرات کو دور کرنے کے لئے ہمیں اسی طرح مداخلت کرنا پڑے گی جس طرح سکھ عہد میں کی گئی تھی.سوم افغانستان تیزی سے روسی اثرات کی لپیٹ میں آرہا ہے.روس واحد ملک ہے جہاں سینٹ پیٹرس برگ میں دوسری زبانوں کے ساتھ سرکاری سطح پر پشتو بھی سکھلائی جاتی ہے اس لئے ہمیں ضروری ہے کہ پشتو زبان کی طرف فوری توجہ دی جائے.چهارم آخری مگر سب سے اہم نکتہ یہ پیش کیا گیا کہ افغانستان کے باشندے اسرائیل کے گمشد و قبائل کا حصہ ہیں اور ان کی زبان میں انجیل کا ترجمہ شائع کرنا ضروری ہے.بالفاظ دیگر سرحد اور افغانستان کو عیسائیت کی آغوش میں لانے کے لئے پشتو زبان کی لغت کی اشاعت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے.برٹش انڈیا میں عیسائی مشنوں کا جال برطانوی پالیسی کے مطابق ۱۸۶۲ء کے پہلے تین نکات پر کتاب منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر کے سول اور فوجی حلقوں میں پہلے سے زیادہ توجہ دی جانے لگی اور مسلمانان ہنڈ کے جہادی جذبات میں جو تلاطم برپا تھا وہ روز بروز بڑھنے لگا.جہاں تک برطانوی پلان کے نکتہ چہارم کا تعلق ہے اس پر برطانوی حکومت نے الحاق پنجاب ( مارچ ۱۸۴۹ء) کے معأبعد زور شور سے عمل شروع کر دیا تھا اور برصغیر کے طول و عرض میں صلیبی مشنوں کا جال بچھا کر کلمہ گو مسلمانوں کو عیسائیت کے آغوش میں لانے کے تباہ کن منصوبوں پر عمل اور بھی تیز تر کر یا ۱۸۲۲ یعنی پشتو اگر محمد......
: ڈکشنری کی اشاعت کے ساتھ ہی انگلستان کے وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن اور وزیر ہند سر چارلس وڈ سے آرچ بشپ آف کنٹر بری کی قیادت میں ایک وفد نے ملاقات کی.وفد میں ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے ممبر بھی شامل تھے.وزیر ہند نے اس وفد سے مخاطب ہو کر فرمایا: ” میرا ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا ہے انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کا موجب بنتا ہے“ ("THE MISSION" BY R.CLARK LONDON : P 234) اس موقعہ پر وزیر اعظم نے انگریزی سلطنت کی مستقبل کی پالیسی کا ان الفاظ میں نمایاں ذکر کیا: دو میں سمجھتا ہوں ہم سب ( یعنی پادری اور انگریزی حکومت کی انتظامیہ.ناقل ) اپنے مقصد میں متحد ہیں ( یہ ہمارا فرض ہی نہیں بلکہ ہمارا مفاد بھی اسی میں وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک ہو سکے، فروغ دیں اور ہندوستان عمر ہے 66 = (ایضاً) کے کونے کونے میں اسے پھیلا دیں اسی طرح کیمبرج شارٹر ہسٹری آف انڈیا مطبوعہ کیمبرج پریس کے صفحہ ۱۶،۷۱۵ے میں لکھا ہے: خدا تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت ہندوستان کو برطانیہ کے ہاتھ میں اس لئے دیا ہے کہ لوگوں کو عیسائی بنایا جا سکے لارڈ لارنس (۱۸۶۹۱۸۹۳) نے واضح طور پر اعلان کیا.کوئی چیز بھی ہماری سلطنت کے استحکام کا اس سے زیادہ موجب نہیں ہو سکتی کہ ہم عیسائیت کو ہندوستان میں پھیلا دیں ( ترجمہ ) " (LORD LAWRENS, LIFE VOL 2 P:313) مشقوں کی تاریخ سے ثابت ہے کہ سیالکوٹ کا سکاچ مشن خاص طور پر جنگی مقاصد کی 16 تحمیل کے لئے قائم کیا گیا.خدا کی مصلحت خاص سے کا سر صلیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام M کوخلوت گزینی سے فطری نفرت کے باوجود اپنے والد ماجد کے حکم پر ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۷ء تک سیالکوٹ کچہری میں ملازمت کرنا پڑی جس کے دوران آپ نے عیسائی مشنریوں کے چھکے چھڑا دئے اور ان کا ناطقہ بند کر دیا جس کا اعتراف سراقبال کے استاد اور سکاچ مشن کے پروفیسر مولانا حافظ سید میر حسن شاہ سیالکوٹی (ولادت ۱۸ را پریل ۱۸۴۴ء وفات ۲۵ / ستمبر ۱۹۲۹ء) نے اپنے خود نوشت اور چشم دید بیان میں بھی کیا جو پہلی بارا کتوبر ۱۹۱۵ء میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ”حیاۃ النبی جلد اوّل صفحہ ۵۹-۶۲ میں شائع کیا.دوسری مرتبہ ۱۹۲۳ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ان سے رابطہ کر کے پورا بیان ان کے قلم سے لکھا ہوا دوبارہ حاصل کیا اور اسے سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۵۴ پر زیب اشاعت فرمایا.یہ تو کا سر صلیب کے عیسائیت کے خلاف جہاد کا نقطہ آغاز تھا.جس کے بعد اگرچہ یز افسروں اور پادریوں نے آپ کے خلاف مخالفت کے شدید طوفان اٹھائے حتی کہ اقدام قتل کے مقدمے بھی دائر کئے گئے مگر آپ دیوانہ وار آخری دم تک رد عیسائیت اور دفاع اسلام کے جہاد میں سرگرم عمل رہے.یہ مدافعت کس فاتحانہ شان کی تھی ؟ اس کا زبردست اعتراف کرتے ہوئے مولانا نور محمد صاحب نقشبندی چشتی مالک اصبح المطابع دہلی نے لکھا: ولایت کے انگریزوں نے روپے کی بہت بڑی مدد کی اور آئندہ کی مدد لیکر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم بر پا کیا...مسلسل وعدوں کا اقرا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور پادری اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسی جس کا تم نام لیتے ہو، دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو چکا ہے اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.....اس ترکیب سے اس نے نصرانیوں کو اتنا تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا.اور اس ترکیب سے اس نے سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی." (دیباچه قرآن صفحه ۳۰ بر ترجمه مولوی اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ دہلی ) ہندوستان........
نسسسنس فصل ۵ سن شنسس نسس اسلام سلام بنا لیا بلکہ اس فراڈ اعظم کو تحفظ ختم نبوت کا نام دے کر ہر تحریر ، ہر اجلاس ، ہر خطبہ اور ہر کانفرنس ا میں اس کو اس درجہ عام کر دیا ہے کہ انہیں گوئبلز کی طرح دنیا کو یہ باور کرانے میں کوئی شرم وحیا حائل نہیں کہ بانی سلسلہ در حقیقت برطانوی ایجنٹ تھے اور جماعت احمد یہ انگریزوں کی جاسوس دلچسپ فرضی کہانی ان حقائق کے باوجود ۱۹۲۳ء میں "حزب الوطنی مصری کی طرف سے مسجد احمد یہ برلن کی بنیاد کے موقع پر جرمن پریس میں یہ شر انگیز پراپیگینڈہ کیا گیا کہ بانی جماعت احمدیہ معاذ اللہ دراصل برٹش امپریلزم کے ایجنٹ تھے اور یہ مسجد انگریزوں کی مدد سے تعمیر ہو رہی ہے.خدا کی قدرت دیکھئے ان بیانات کے بعد پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے باعث جرمنی خوفناک معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا اور جرمن سکہ کی قیمت نا قابل یقین حد تک گر گئی جس پر سید نا حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر نہ صرف مسجد کی تعمیر بالکل رک گئی بلکہ جرمنی کا احمدیہ مشن بھی فوراً بند کر دینا پڑا اور احمدی خواتین نے مسجد کے لئے جو چندہ جمع کیا تھا وہ سید نامحمود کے حکم پر مسجد فضل لندن کے اخراجات میں منتقل کر دیا گیا.ازاں بعد ۸۵ سال بعد سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ یہ نے خدا کے فضلوں کا منادی بن کر ۱۹ را کتوبر ۲۰۰۸ء کو مسجد خدیجہ کا افتتاح فرمایا.یہ عالیشان اور تاریخی مسجد حضرت مصلح موعود کی خواہش کے مطابق خالص احمدی مستورات کی بے مثال مالی قربانیوں سے تعمیر ہوئی اور اس کو ڈیزائن بھی فرنکفورٹ کی ایک خاتون مکرمہ مبشرہ الیاس صاحبہ نے کیا جو مکرم محمود احمد اختر صاحب کی صاحبزادی اور راقم الحروف کے برادر نسبتی محمد ستی زاہد صاحب ( این شاعر احمدیت مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب شاد) مقیم فرنکفورٹ کی نسبتی بہن ہیں.وذالک فضل الله يؤتيه من يشاء اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ حزب الوطنی مصری نے تو ۱۹۲۳ء میں وقتی طور پر مفتر یا نہ بیان جاری کیا تھا مگر آل انڈیا کانگرس کے اجلاس راوی ( دسمبر ۱۹۲۹ء) میں قائم ہونے والی کانگرس کی خود کاشتہ اور اس کی ایجنٹ پارٹی مجلس احرار نے ۱۹۳۴ء میں نہ صرف اسے باقاعدہ اپنا نعرہ عدة المسالة مجد جماعت ہے.مضحکہ خیز تفصیل معتبر نائی کا کمال اور چابکدستی ملا حظہ ہو کہ اس نے اپنے ثبوت میں ایک سراسر جھوٹی کہانی بھی وضع کرلی ہے.یہ کہانی دجل وافترا کا شاہکار ہے جس نے مذہب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں خدا کے پاک سلسلوں کے خلاف خود ساختہ واقعات اور مفتریات کے سارے ریکارڈ بات کر دئے ہیں.ایک رسوائے عالم احراری ملا طارق محمود فیصل آبادی کی زبانی اس کہانی کی ضحکہ خیز تفصیل سنئے.ارشاد ہوتا ہے: " برٹش پارلیمنٹ اور چرچ آف انگلینڈ کے اراکین نے ایک کا نفرنس بلائی ، جس میں ہندوستان کے نمائندہ مشنریوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی.برطانوی کمشن اور مشنریوں کی طرف سے ہندوستان میں مذہبی تخریب کاری کے پروگرام کی دو الگ الگ رپوٹیں تیار ہوئیں ، جن کو یکجا کر کے ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا ورود (The Arrival of British Empire in India) کے نام سے مرتب ہوئی جدہ اسی میں علاوہ دیگر امور کے سامراجی ضروریات کی تکمیل لے لئے ایک ایسی مذہبی نبوت کی ضرورت بیان کی گئی تھی جو مسلمانوں میں اٹھ کر پروان چڑ ھے اور ان کی ہدایات پر کام کرے.رپورٹ کو مد نظر رکھ کر تاج برطانیہ کے حکم پر ایسے موزوں اور با اعتبار www سسسس
شخص کی تلاش شروع ہوئی ، جو برطانوی حکومت کے استحکام اور عملداری کے تحفظات میں الہامات کا ڈھونگ رچا سکے، جس کے نزدیک تاج برطانیہ کے مراسلات وحی کا درجہ رکھتے ہوں ، جو ملکہ معظمہ کے لئے رطب اللسان ہو.برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی جس کی نبوت کا دیباچہ ہو.برطانوی شد دماغوں نے ہندوستان میں ایسے شخص کے انتخاب کے لئے ہدایات جاری کیں.پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ لگائی ، چنانچہ برطانوی معیار کے مطابق نبی کی تلاش کا کام شروع ہوا.آخر کار قرعہ فال منشی غلام احمد قادیانی کے نام نکلا.برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا.ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کے لیے نامزد کیے گئے." کادیانیت کا سیاسی تجزیہ جلد اول صفحه ۱۴۷ ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان.اکتوبر ۱۹۹۳ء) نوٹ : جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مرکز کا نام قادیان ہے البتہ کرنال میں ایک لیستی " کادیان" ہے جس کا تحریک احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ( ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا مترجم " یاسر جواد - صفحه ۲۹۹ ناشریک ہوم لاہور.اشاعت ۲۰۰۳ء ) ملا صرف کنوئیں کا مینڈک ہے لہذا اس کی بے بصیرتی اور تعصب و عناد پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے.تنقیدی زاویہ نگاہ سے ایک نظر ہے کہ: اس افتراء عظیم کی قلعی ان صاحب نے اس کتاب میں یہ اعتراف کر کے خود ہی کھول دی محمد " برطانوی وفد ایک سال یعنی ۱۸۶۹ء میں ناقل ) رہا اور حالات کا ۲۵ جائزہ لیا اور ۱۸۷ء میں وائٹ ہاؤس میں اس وفد کا اجلاس ہوا....اس وفد نے 'THE ARRIVAL OF BRITISH EMPIRE IN INDIA “ کے - نام سے دور پورٹیں لکھیں.“ (صفحه ۱۴۲) اب کیا کوئی صاحب عقل یہ باور کرنے کے لیئے تیار ہو سکتا ہے کہ برطانوی وفد کی ۱۸۷۰ء کی رپورٹ پر ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو انگریزی نبی اور برطانوی ایجنٹ کے طور پر نامزد کیا جبکہ حضرت اقدس ۱۸۶۷ء میں ملازمت ترک کر کے مستقل طور پر قادیان میں خلوت نشین ہو چکے تھے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود مسلمانوں کی عظیم ریاستیں اور بیشمار مسلمان سپاہی انگریزی فوج کے دوش بدوش ملک کے دفاع اور قائم شدہ حکومت کے استحکام کیلئے مدتوں سے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے.ایک شاعر نے ملا کی ذہنیت کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں کھینچا ہے اور ملت اسلامیہ کی خوب تر جمانی کی ہے.امن وسلام و عفو کی شرح مبین اور ہے قبل وفساد و ظلم کی خونیں مشین اور ہے.یوں تو فقیہہ شہر بھی ذکر میں طاق ہے مگر وہم و گمان اور ہے صدق و یقین اور ہے و حق یہ ہے کہ ۱۸۶۹ء میں اس نوع کا نہ کوئی سیاسی وفد برٹش انڈیا میں آیا اور نہ کسی ایسی b-b رپورٹ کا آج تک کوئی نام و نشان مل سکا ہے جس کا مدتوں سے منبر و محراب سے حوالہ دیا جا رہا ہے.یہ محض ایک من گھڑت کہانی اور دجل و تلبیس کی بدترین مثال ہے.عرصہ ہوا خاکسار کی کتاب ”مذہب کے نام پر فسانہ " کے ذریعہ اصل حقائق منظر عام پر آچکے ہیں.مگر بقبول ساحر لدھیانوی نئے لباس میں ہے رہزنی کا جلوس اکاذیب کا نیا دفتر ۱۹۸۹ ء میں دنیا بھر کے احمدیوں نے قیام جماعت کا صد سالہ جشن تشکر پوری A
j شان و شوکت سے منایا جس نے حضرت مسیح موعود کی حقانیت پر دن چڑھا دیا کیونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو بھی مسلم ہے ” نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کہ کا ذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جا تا ہے...خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سر سبزی نہیں دکھائی.(تفسیر ثانی صفحہ ۷ مع حاشیه مطبوعہ امرتسر ۱۳۱۳ھ مطابق ۱۸۹۶ء) خدائی عدالت کے اس فیصلہ اور اس کی نصرت کے اس آسمانی نشان سے احراری بوکھلا اٹھے اور دروغ گوئی کا نیا دفتر کھول لیا چنانچہ ایک تو یہ مفتر یا نہ پراپیگنڈا کیا کہ: " جرمنی اور برطانیہ میں قادیانیوں کے سالانہ اجتماعات کے تمام اخراجات جو کروڑوں ڈالر میں ہوتے ہیں ، وہ غیر مسلم ادا کرتے ہیں این جی اوز صفحه ۱۶۰ از انور ہاشمی پیاشرفیکٹ پبلیکیشنز لاہور ) اس شر انگیز پراپیگنڈا کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ نام نہاد محافظین ختم نبوت“ اور فرقہ پرست جماعتوں کی دہشت گردی پر کسی طرح پردہ ڈالا جا سکے.ملک کے ممتاز محقق اور نامور مفکر جناب موسیٰ خان جلال زئی نے اپنی کتاب این جی اوز میں سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ: تا کی پی او این جی اوز کی طرح آر این جی اوز بھی ہیں جو نہ ہی تنظیمیں اور اسوقت پاکستان کی جو سیاسی صورتحال ہے اور جو عدم استحکام ملکی صورتحال میں پایا جاتا ہے اس میں زیادہ تر حصہ ان مذہبی تنظیموں کا جن کی سیاست ملک کے نام پر چمک رہی ہے لیکن اصل میں وہ غیر ملکی اداروں سے فنڈ ز لیتی ہیں اور پھر ملک میں موجود نہ ہی گروپوں اور تنظیموں افسوس صد افسوس اس تفسیر کے پاکستانی ایڈیشن سے یہ پوری عبارت مع اس کے حاشیہ کے خارج کردی گئی ہے.یہ ایڈیشن میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی نے چھپوایا ہے....بر طانوی پلان اور ایک فرضی کہانی کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتی ہیں...اس سے دن بدن ملک کی جڑیں کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جارہی ہیں“ صفحه ۷ ا ناشر فیروز سنز لاہور اشاعت ۲۰۰۰ ء ) گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشتہ پنہاں ہاتھ میں خنجر کھلا (غالب) دوسرے یہ خالص گپ ایجاد کی کہ ۱۸۵۷ء میں انگریز جنرل نکلسن نے مرزا غلام احمد کو وفاداری کے صلے میں قادیان کے حقوق ملکیت دئے“ اہم واقعات صفحه ۱۵ از امتیاز خورشید شائع کردہ فیروز سنز طبع اول ۱۹۹۸ء) ۱۸۵۷ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عمر مبارک صرف بائیس سال تھی اور آپ ان دنوں اپنے گھر میں خلوت نشین تھے اور ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے تھے.لہذا آپ کا جنرل نکلسن کی کمان میں فوجی کارروائی میں حصہ لینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مستند برطانوی مورخ C.E.DUCKLAD نے جنرل نکلسن کی سوانح میں لکھا ہے کہ بغاوت فرو کرنے کے لئے ہے ا ر ا گست ۱۸۵۷ء کو دہلی پہنچا اور ۲۳ / ستمبر ۱۸۵۷ء کو مارا گیا.(DICTIONARY OF INDIAN BIOGRAPHY صفحه ۵۱۳ مطبوعہ لندن یکم نومبر ۱۹۰۵ء) و پھر یہ بھی سوال ہے کہ جنرل نکلسن فوجی افسر تھا.اسے حقوق مالکانہ دینے کے حقوق حاصل نہیں تھے بایں ہمہ اگر اس نے دہلی میں چند ہفتے کی لڑائی کے دوران ایسی حرکت کی ہے تو اس کی دستاویز کہاں ہے؟ کیا احرار کے مرکزی دفتر میں ہے یا اسے ”امیر شریعت کے ساتھ ہی ملتان میں دفن کر دیا گیا ہے.2.دوستو ایک نظر خدا کے لئے سید الخلق مصطفی کے لئے
٣٨ حدیث نبوی کے مطابق دجالوں کا ظہور حضرت خاتم النبین ﷺ کے مبارک الفاظ یہ ہیں : يكون في آخر الزمان دجالون كذابون ياتونكم من يضلونكم ولا يفتنونكم کا الاحاديث مالم تسمعوا انتم ولا أباء كم فاياكم واياهم لا ( راوی ابوھریرہ مسلم جلد اصفحہ ۷ ) اول المکفرین مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ جلد ۱۳ صفحه ۱۷۴ ۱۷۵ میں یہ حدیث درج کر کے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے.آخری زمانہ ایسے دنبال کذاب پیدا ہوں گے جو تم کو ایسی باتیں سنائیں گے جن کو تم نے نہ سنا ہو گا اور نہ تمہارے باپوں نے.ان سے بچتے رہنا.وہ تم کو گمراہ نہ کر دیں اور کسی بلا میں نہ ڈال دیں ، امام نووی نے شرح ! صحیح مسلم میں فرمایا ہے کہ سب نے کہا کہ جو جھوٹا ہے وہ دقبال ہے.بعض نے کہا ہے دجال وہ ہے جو باطل پر حق کا ملمع چڑھاوے یا حق کو باطل.ڈھانک دے؟ گیا تحریک احمدیت کی بنیاد سے ایک سال پیشتر برصغیر کے ایک بزرگ عالم سید ابو بکر شاہ آبادی نے مطبع مفید عام آگرہ سے ”کشف اللثام عن غربت اسلام کتاب شائع کی جس میں یہی حدیث نبوی درج کر کے لکھا: اس تیرہ صدی سے گویا تمام دنیا میں اب یہی ایک کام باقی رہ گیا ہے یعنی نام کے مسلمانوں میں خواہ مولوی صاحب ہوں...سوا اباطیل عقائد وفساد احکام ومحو شعائر اسلام کے کوئی شغل دوسرا کسی شخص کو نہیں ہے.“ (صفحہ ۱۷۱) ين ۲۹ تاریخ میں دجل و تلیس کے خوفناک اثرات مورخ پاکستان جناب ڈاکٹر مبارک علی صاحب تحریر فرماتے ہیں : ایک دفعہ جب تاریخ کو مسخ کر دیا جائے تو پھر اسے اس کے اصلی رنگ وروپ میں لانے کے لئے کئی نسلوں کی ضرورت ہوتی ہے جو تاریخ کو سمجھ کر غلط فہمیوں کو دور کر کے اور مفروضوں کو پاش پاش کر کے تاریخ کو نئے سرے سے تعمیر وتشکیل کریں.تاریخ میں مسلسل جھوٹ کو جب ذرائع ابلاغ عامہ اور نصابی کتابوں کے ذریعہ پھیلایا جاتا ہے تو یہ طالب علموں اور عوام کے ذہن و دماغ میں بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کو صحیح تسلیم کر کے اس سے جذباتی لگاؤ پیدا کر لیتے Int ہیں.اس لئے جب تاریخ سے جھوٹ نکال کر بیچ پیش کیا جاتا ہے تو ان کے ذہن اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس عمل میں مورخوں کو اور ایسے مورخوں کو جو اس ماحول میں رہتے ہوئے سچ کو پیش کرنے کی جرات کریں، ایک تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس جھوٹے کو قوم کی اجتماعی یاداشت سے نکالنے کے لئے جرات و ہمت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے.کیونکہ مسخ تاریخ نسلوں کو تباہ کر دیتی ہے.اس کے نتیجہ میں نفرت و تعصب پروان چڑھتا ہے، دینی ارتقاء رک جاتا ہے اور زندگی کے بارے میں محدود نقطہ نظر پیدا ہو جاتا ہے، فرقہ واریت چھوٹی قومیت اور فاشزم کی طاقتیں معاشرے میں پھیل جاتی ہیں اور عوام ان تضادات کے درمیان اس طرح گھر جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصلی اور بنیادی مسائل کو بھول جاتے ہیں.“ المیه تاریخ صفحه ۲۵۸ ۲۵۹ - ناشر فکشن ہاؤس ۱۸ مزرنگ روڈ لا ہور (۱۹۹۹ ء ) <<-0 3 چا 3
فصل سيت سچ ہے وہ وارث زمیں کے ہوں گے جو ہوں گے حلیم حالم سے اپنے ملی آفاق میں مکنت تجھے وہ تسلی پائیں گے دنیا میں جو جھیلیں گے غم چکے غم بس تسلی دے گی اب راحت تجھے ہو fore report font faut وکٹوریہ کا زریں عہد حکومت اور برٹش انڈیا کے مسلم مبصرین تو مبارک تھی کہ تجھ کو صلح تھی دل سے پسند دے گا فرزندی کا اب اپنی خدا خلعت تجھے ملکہ وکٹوریہ (۱۸۱۹ء.۱۹۰۱) کے امن پرور اور زرین دور اقتدار کو اس زمانہ کے مسلم تو مبارک تھی کہ تھا پہلو میں تیرے پاک دل ہو مبارک خلد میں دیدار کی نعمت تجھے ملک میں اک نور تھی تو جیسے ڈیوٹ پر چراغ دیکھ کر ہوتا تھا روشن ملک اور ملت تجھے ++ مبصرین نے زبر دست خراج تحسین ادا کیا جو برٹش انڈیا کی تاریخ کا سنہری باب ہے.چند فردتھی اقبال میں تو بے نظیر اخلاق میں تیرے مرنے سے ہی سناٹا سا اک آفاق میں نابغہ روزگار شخصیات کے شعری افکار و نظریات زیب قرطاس کرتا ہوں.علامہ الطاف حسین حالی (۱۸۳۷ء ۱۹۱۴ء) ہو گیا برٹن تو تیرے عہد دولت میں نہاں ہم پہ بھی کچھ کم نہیں برسا ترا ابر نوال شکر بندوں کا خدا کے جو نہیں کرتے ادا وہ نہیں لاتے بجا شکر خدائے ذوالجلال ہند نے پایا ترے دور حکومت میں وہ امن او اگلے دوروں میں نہ تھا جس کا کبھی خواب و خیال لی گئی قحط اور دیا میں ملک کی جو یاں خبر تھا زمانہ تیرا اُس میں آپ ہی اپنی مثال شکر آزادی کا تیرے عہد کے ممکن نہیں سب کا اس احسان میں جکڑا ہوا ہے بال بال الغرض اس سے سوا خوبی نہ تھی امکان میں کر گئی تو راج جس خوبی سے ہندوستان میں ۱ واقعات دار الحکومت دہلی ، صفحہ ۷۸۱ تا ۷۸۲ مصنفہ بشیر الدین احمد ۱۹۱۹ء) ہے تری نیکی سے امید اے زمیں کے بادشا آسمانی بادشاہت میں خدا دے تجھ کو جا کر لیئے تھے سب یگانوں اور بیگانوں کے دل نیکیوں سے تو نے اپنی فتح اے وکٹوریہ ہے دلیل اس کے لیے کافی فقط تیری مثال مرد پر عورت فضیلت کا کرے گر ادعا کیجیے اقبال مندی پر اگر تیری نظر سامنے تیرے نہیں جیتا کوئی کشور کشا قوم کو واں تک ترے اقبال نے پونچا دیا مرتبہ ہے جو کہ سرحد تصویر سے پرے کی تجارت نے ترقی عہد میں یہاں تک ترے سلطنت ہے اُس کے آگے پیچ بے چون و چرا مولانا سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی ۱۸۴۶ - ۱۹۲۱ء جس قدر علمی فتوحات اس زمانے میں ہوئیں.دہر کی تاریخ میں ملتا نہیں اُن کا نتیا علم میں روز ازل سے تھی جو اک طاقت نہاں صاحبی میں تیری یہ راز آشکار ہو گیا ہو گئے ہر براعظم میں ترے برپا علم تیرے بیٹے اور جہازوں سے سمندر پٹ گیا شاعروں کے جس قدر مدح سلف میں تھے غلو حق میں تیرے وہ حقائق بن گئے سرتا پا تھی خبر کس کو ہو اک خردل کا پیڑا تنا بڑا جس کی شاخوں پر کریں بسرام مرغان ہوا دست قدرت نے بنایا گو کہ تھا عورت تجھے پر جواں مردوں یہ تھی عالم کے وقت تجھے قصیده مبارک باد جشن جو بلی ملکہ وکٹوریہ قیصرہ ہند حسب ایما مسٹر ہاول صاحب حج ۱۸۷۷ء زمانے میں خوشی کا دور ہے ، عشرت کا ساماں ہے برنگ گل، ہر اک باغ جہاں میں آج خنداں ہے کوئن وکٹوریہ کی جوبلی کی دھوم ہے ہر ادھر ہے نغمہ عشرت ، ادھر نور چراغاں ہے PALAU P سسسل wwwwwwwwwwwwwwwwwwww.w--al B
-L جدھر M دیکھو، کھلی پڑتی ہیں کلیاں صحن گلشن میں بھرا جوششِ مُسرت ہے ہر اک مرغ خوش الحاں ہے بسانِ بوئے گل ہر اک ہے باہر اپنے جانے سے نسیم گلشنِ عیش چمک کر ہو گیا، زبیر فلک رشک قمر ہر گھر مستر عطر افشاں ہے یہی شب ہے کہ جس کا نور رشک مہر تاباں ہے فروغ اپنا جو دکھلاتی ہیں آتش بازیاں ہر سو کواکب کہیں ہے رقص کی محفل ، کہیں ہے مضمحل ہیں ، دیدہ افلاک حیراں ہے جلسه دعوت کہیں تصویر بنتی ہے ، کہیں سرو چراغاں ہے کہیں خیرات خانے جاری ہوتے ہیں ، کہیں بکتب کہیں تقسیم کپڑوں کی پئے فصل زمستاں ہے اثر جوش مسرت کا ہے ہر ادنی و اعلیٰ کوئی ہے کوئی فرماں روا ہے کوئی کم مایہ دہقاں ہے ہے محو آسائش ، کوئی مصروف آرائش شگفتہ مثل گل چہرہ ہے ، دل شاداں فرحاں ہے تعجب کیا اگر ایسی خوشی ہے اہل عالم کو حیرت کیا جو قیصر کا ہر اک دل سے ثنا خواں ہے سریر آرائی پنجاه سالہ خیر خوبی محفل مصري لطف نباری ہے ، مقام شکر یزداں ہے PP یہی ہندوستاں کہتے ہیں جنت نشاں جس کو کوئن وکٹوریہ کے عہد میں رشک گلستاں ہے رئيس امن و اماں سے ناظر حال ریاست ہیں ہری کھیتی زمینداروں کی ہے ، سرسبز دہقاں ہے کمی بدلی کرے گر قطره افشانی میں کیا پروا کہ فیض نهر امان زمین پر گوھر افشاں ہے سلطان کی ہے خاص تعلیم رعایا پر اشاعت علم کی یہ ہے کہ ہزاروں مدرسے قائم ہوا ہوئے ہیں ، سینکڑوں کالج.عقل حیراں ہے جہاں فکر ارسطو بھی بس اک طفلِ دبستاں ہے جہاں چلتا نہ تھا کچھ زور ، واں اب ریل چلتی ہے متیسر خاکساروں کو بھی اب تخت سلیماں ہے نہ کچھ کھٹکا ہے چوروں کا ، نہ قزاقوں کی ہے دہشت رواں بے زحمت و خوف و خطر ہر سمت انساں ہے تجارت کی بھی ایسی ہو رہی ہے گرم بازاری که سامان معیشت جنس دل سے بھی ارزاں ہے جبيل طلسم تازہ دیکھا کارخانہ تار برقی کا زبان تار پر وہ بات ہے جو دل میں پنہاں ہے شب تیرہ میں بھی وہ نور ہے اقبال قیصر کا & ہر ذرہ نگاہ درد میں مہر درخشان ہے نسي ست.
FF رعایا کے حقوق اب ہر طرح محفوظ رہتے ہیں ادھر قانون حامی ہے ، ادھر حاکم نگہباں ہے محبت بڑھ رہی ہے فاتح و مفتوح میں باہم گرہ جو دل میں تھی ، وہ اب مثالِ دُرّ غلطان ہے پریس کو بھی ہے عہد امپرش میں کامل آزادی زبانِ خامہ مضمون نگاران سیف بُتاں ہے توجہ ہے مفید عام کاموں کی طرف سب کی * کوئی ہے علم کا طالب ، ہنر کا کوئی خواہاں شفا خانوں نے ثابت کر دیا ہے اس مقولے کو ہے لئے ہر رنج راحت ہے ؟ لیے ہر درد درماں ہے ہے خلوص و صدق دل سے ہے دعا ہندو مسلماں کی کہ یا رب جب تلک یہ گردش گردون گرداں فروغ مہر ومہ سے جب تلک مرکز جمنا کا ہے ہوائے آرزو جب تک محیط قلب انساں ہے خدا کے نام کی عزت ہے جب تک اہل دانش میں مجتبی علم کی جب تک چراغ راه عرفاں ہے ہماری حضرت قیصر رہیں اقبال و صحت سے شستند کہ جن کا آفتاب عدل اس کشور پر تاباں ہے (کلیات اکبر حصہ اول) * ۳۵ شاعر مشرق سر محمد اقبال (۱۸۷۷ء ۱۹۳۸ء ) جناب محمد عبد اللہ قریشی تحریر فرماتے ہیں: اشک خُون دس بند یا ایک سو دس شعر کا یہ ترکیب بند اس ماتمی جلسے میں پڑھا گیا جو ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر لاہور میں منعقد ہوا تھا.ملکہ کا انتقال ۲۲ / جنوری ۱۹۰۱ ء کو ہوا.اتفاق سے اس روز عید الفطر تھی.پہلے دو بندوں میں اسی طرف اشارہ ہے.یہ مرثیہ مطبع خادم التعلیم میں چھاپ یہ کرسکتا بچے کی شکل میں شائع کیا گیا تھا.میت اُٹھی ہے شاہ کی تعظیم کے لئے اقبال اڑ کے خاک سر رہ گزار ہو مدت کے بعد تجھ کو ملے میں غم فراق ہم تجھ پر صدقے جائیں تو ہم پر ناز ہو چلتے رہ حیات ، مگر گھات میں خوشی کونے لگی ہوئی نہ سر راہ گزار ہو آئی ادھر نشاط ، ادھر غم بھی آگیا کل عید تھی تو آج محترم بھی آگیا شاہی یہ ہے کہ آنکھ میں آنسو ہوں اور کے چلائے ئے کوئی درد کسی کے جگر میں ہو جو بات ہو صدا ہو لب جبرئیل کی تقدیر کی مُراد دل داد گر میں ہو چشم معدلت کے ستارے کی روشنی مانگے اماں عدو تو مروت نظر میں ہو اقلیم دل کی آہ شہنشاہ چل بسی ماتم کدہ بنا ہے دلِ داغدار آج تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاو دل رخصت ہوئی جہان سے وہ تاجدار آج فرماں نہ ہو دلوں پہ تو شانِ شہی نہیں سونے کا تاج کوئی نشان شہی نہیں شہرت کے آسمان پہ روشن ہو اس طرح ہو مہر میں وہ نور ، نہ وہ فو قمر میں فرمان ہوں دلوں کی ولایت میں اس طرح جس طرح نور رشتہ تارِ نظر میں ہو اے ہند تیری چاہنے والی گزر گئی غم میں ترے کراہنے والی گزر گئی
کے سام اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا اک غم گسار تیرے مکینوں کی تھی گئی برطانیہ تو آج گلے مل کے ہم سے رو سامان بحر ریزی طوفاں کیسے ہوئے اُٹھا وہ ابر گوشئہ مغرب سے شعلہ ریز مشرق سے بڑھ کے ہند پر آکر برس گیا دو ضرب غم لگی ہے کہ ٹوٹا ہے بند بند کیا مرغ روح توڑ کے اپنا قفس گیا باقیات اقبال صفحہ ۷۲ تا ۷ ۸ کا انتخاب.مرتبہ سید عبد الواحد معینی ایم اے ( آکسن ) ناشر آئینہ ادب.چوک مینار انارکلی.لاہور طبع دوم ۱۹۶۶ء) شمس العلماء علامہ سید علی الحائری سر کار شریعتمدار مجتهد اعلی کچھ ولادت ۱۸۷۲ ء وفات ۱۹۴۱ء) قبلہ وکعبہ نے ۲۸ جون ۱۹۲۳ء کو خطاب عام میں مسلمان خصوصاً شیعہ حضرات سے ارشاد فرمایا: اس مذہبی آزادی کے قیام و دوام کے لیے صدق دل سے آمین کہیں کیوں کہ فی الحقیقت آپ بہت ہی ناشکر گزار ہوں گے اگر آپ اس کا اعتراف نہ کریں کہ ہم کو ایسی سلطنت کے زیر سایہ ہونے کا فخر حاصل ہے جس کی عدالت اور انصاف پسندی کی مثال اور نظیر دنیا کی کسی اور سلطنت میں نہیں مل سکتی.فی الواقع بادشاہ وقت کے حقوق میں ایک اہم حق یہ ہے کہ رعایا اپنے بادشاہ کے عدل و انصاف کے شکر گزاری میں ہمیشہ رطب اللسان رہے.اس میں بھی حضور پیغمبر اسلام علیہ وآلہ السلام کی تاسی مسلمانوں کو لازم ہے کہ آپ نے بھی نوشیرواں عادل کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر مدح اور فخر کے رنگ میں بیان کیا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ حضور کی تاسی میں مسلمان اس مبارک مہربان منصف اور عدل گستر برطانیہ عظمیٰ کی دعا گوئی اور ثنا جوئی کریں اور اس کے احسانوں کے شکر گزار ر ہیں.غور کرو! کہ تم اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے کیوں کر بے خوف وخطر پوری آزادی کے ساتھ آج سر میدان تقریریں اور وعظ کر رہے ہو اور کس طرح ریل، ڈاک ، تار اور دیگر ہر قسم کے سامان جس سے تبلیغ کی مشکلات میں بہت کچھ آسانیاں حاصل ہوئیں.اس مبارک اور مسعود عہد میں ہمیں میسر آئے ہیں.جو پہلے کبھی کسی حکومت میں موجود نہ ہوتے تھے.اسی ہندوستان میں گذشتہ غیر مسلم سلطنتوں کے عہد میں یہ حالت تھی کہ مسلمان اپنی مسجدوں میں اذان تک نہیں کہہ سکتے تھے.اور باتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے.اور حلال چیزوں کے کھانے سے روکا جاتا تھا.کوئی با قائد و تحقیقات نہ ہوتی تھیں.مگر یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم ہندوستان میں ایسی مبارک مہربان سلطنت کے تحت عدالت و انصاف ہیں کہ وہ ان تمام عیوب اور خود غرضیوں سے پاک ہے.جس کو مذاہب کے اختلاف سے کوئی بھی اعتراض نہیں ہے اور جس کا قانون ہے کہ سب مذاہب آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض کو ادا کریں.لہذا اس سلطنت ( برطانیہ عظمیٰ) کے وجود و بقا اور قیام و دوام کے لیے تمام احباب دعا کریں اور اس کے ایثار کا جو وہ اہل اسلام اور خاص کر شیعوں کی تربیت میں بے دریغ مرعی رکھتی ہے ، ہمیشہ صدق دل سے شکر گزار ہوں اور اس کے ساتھ دل سے وفادار رہنا اپنا شعار بنالیں اور ان کے خلاف جلسوں اور مظاہروں میں شریک اور معین ہونے سے قطعاً احتراز کریں.المقرر على الحائری (۲۸) جنوری ۱۹۲۳ء) : d
فصل L.......سبعينيس FA برطانونی پلان اور ایک فرضی کہانی محاوروں اور طنزیہ اشاروں کنایوں کو ٹکسالی سمجھتے اور اپنا سرمایہ حیات یقین کرتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ عوام بے شمار تاریخی مغالطوں میں الجھ چکے ہیں اور برصغیر کی پچھلی دوصدیوں کی حقیقی تاریخ دبیزی پردوں میں چھپادی گئی ہے مثلاً عرصہ دراز سے ہندو کانگرس کے پرستار اور کمیونسٹ نواز حلقوں کی طرف سے یہ زور دار پراپیگینڈ نظم و نثر میں جاری ہے کہ انگریز جہانگیر نام نہاد مورخوں کے تاریخی مغالطے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے پاکستان کے مایہ ناز محقق و مبقر اور غیر جانبدار تاریخ دان جناب ڈاکٹر مبارک علی تاریخ ایک سائنس ہے.ممتاز تاریخ ان علامہ کا نیمی (۱۴۷۵ء) کے نزدیک تاریخ کے زمانہ میں تاجروں کے بھیس میں آئے اور فریب کاری اور مکاری سے معصوم ، امن پسند اور زمانہ کے احوال اور ان کے متعلقات کی یقینی تلاش کا نام ہے.( الحصر فی علم التاریخ) محبت و اخوت کے دیوتا ہندوستانیوں کی سلطنت پر جبر اقبضہ کر لیا مگر حقائق کیا ہیں؟ پندرہویں صدی عیسوی کے ماہر فن تاریخ حضرت سخاوی کا نظریہ بھی اس کے مماثل ہے.فلسفہ تاریخ کے شہرہ آفاق موجد حضرت ابن خلدون کا شہرہ یورپ و امریکہ میں بھی پھیل چکا ہے.ڈاکٹر مبارک علی صاحب کا حقیقت افروز بیان پروفیسر ٹائن بی کے مطابق عیسائی دنیا اسکی نظیر نہیں پیش کر سکتی کٹی کہ افلاطون، ارسطو، سینٹ آگسٹائن بھی اس کے ہم پلہ نہ تھے.ابن خلدون کی تحقیق کے مطابق ماضی حال اور مستقبل ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں اور اس حقیقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے مورخ اپنی رائے اور عقیدوں کے موافق یک دم خبروں کی قبول نہ کرے ورنہ جانب داری اور پاسداری کی پٹی اس کی چشم بصیرت پر بندھ جاتی ہے اور ناقلین در ادیان اخبار پر جرح قدح نہیں ہو سکتی اور جھوٹ تاریخ میں مستقل جگہ پالیتا ہے..28 تاریخ میں کانگرسیوں اور کیمونسٹوں کی اندھی تقلید سٹڈی آف ہسٹری جلد ۳ صفحه ۳۴۲) صاحب تحریر فرماتے ہیں: بالکل یہی صورتحال پاکستان پر مسلط ہے جہاں فاہیان جیسے غیر ملکی سیاحوں کے سفرنامے قیمتی معلومات سے مرضع ہیں وہاں بد قسمتی سے ہمارے یہاں بعض نام نہاد موزغ اکسٹھ سالہ آزادی کے باوجود ابھی تک جنوبی ایشیا کے متعصب کا نگری ہندوؤں اور دہر یہ کمیونسٹوں کو اپنا اتنام و پیشوا بنائے ہوئے ہیں.انہی کی زبان استعمال کرتے اور انہی کی مخصوص سیاسی اصطلاحوں، ”ہندوستان میں انگریزوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بحیثیت تاجر آئے اور اپنی شاطرانہ چالوں دھوکہ وفریب اور چالا کی سے ہندوستان پر قبضہ کر لیا.جس معصومانہ انداز میں یہ دلیل دی جاتی ہے اس سادگی سے اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے اور ذہن تاریخ کی ان پیچیدگیوں میں نہیں الجھتا کہ جس کے نتیجے میں یہ تغیر و تبدل ہوا اور ایک معاشرے نے دوسرے معاشرے اور ایک تہذیب نے دوسری تہذیب سے شکست کھائی.انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ اتنا آسان نہیں تھا کہ محض چالا کی اور دھوکے سے وہ اقتدار حاصل کر لیتے ہندوستان کی شکست اور انگریزوں کی کامیابی میں دونوں معاشروں کی ذہنی اور فکری رجحانات تھے.E جب ہندوستان میں مغل اقتدار رو بہ زوال تھا اور اپنی عظمت کے بوجھ d
: VIEW SA سعبين تلے اس کی کمر ٹوٹ رہی تھی تو اسی وقت یورپ میں پہنی وفکری تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں.جغرافیائی معلومات بحری راستوں کی دریافت ، نئی سرزمینوں کی تلاش اور نئی تجارتی منڈیوں کے حصول نے یورپی معاشرے کو دور جاگیر داری سے نکال کر دور سرمایہ داری میں داخل کر دیا.تاجر طبقہ اپنی تجارت کو بڑھانے کی خواہش میں نئی سائنسی وقتی ایجادات میں دلچسپی لے رہا تھا جس کی وجہ سے صنعت و حرفت میں انقلابی تبدیلیاں آرہی تھیں بادشاہ و امراء کے اقتدار میں تاجر طبقہ بھی شریک ہو گیا تھا اور سیاست کا دائرہ کار وسیع ہو گیا تھا.جب کہ اسی وقت ہندوستان میں مغل حکمران کی مرکزی طاقت وقوت کے خاتمہ کے بعد جگہ جگہ خود مختار گورنر اور حکمران وجود میں آرہے تھے.قومی بنیادوں پر اٹھنے والی مرہٹہ سکھ اور جاٹ تحریکیں لوٹ مار اور جنگ و جدل کے ذریعے سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھیں.ہندوستان معاشرے کی تمام صلاحیتیں جنگ و جدل اور تحفظ کی تتلاش میں صرف ہو رہی تھیں.ہندوستانی معاشرو اسی طرح جاگیر دارانہ روایات میں مقید یورپ کی فکری تبدیلوں سے بے خبر تھا جب کہ مغلوں کے عہد سے یورپی سیاح ہندوستان آرہے تھے اور اہل یورپ کو ہندوستان کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے.جو معاشرہ دنیا سے کٹ جاتا ہے وہ تاریخ کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتا.ہندوستانی معاشرہ بھی دنیا میں ہونے والی ترقی کی رفتار سے علیحدہ ہو کر پیچھے رہ گیا اس لئے جب انگریز یہاں آئے اور انہوں نے اپنے اقتدار کی راہیں ہموار کیں تو انہیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہوئی کہ یہ ملک ہندوستانیوں نے فتح کر کے انگریزوں کے حوالے کیا کیونکہ انگریزوں کی فوج میں اکثریت ہند وستانی سپاہیوں کی تھی.= ۴۱ یہ غلط فہمی بھی بڑی عام ہے کہ انگریزوں نے حکومت واقتدار اور طاقت مسلمانوں سے چھینی اور ان کی سلطنت پر قابض ہوئے.جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اور نگ زیب کے بعد سے مسلمان سلطنت تیزی سے زوال پذیر ہوگئی تھی اور جگہ جگہ آزاد اور خود مختار ریاستیں و سلطنتیں وجود میں آگئی تھیں.اس دور انتشار میں مرہٹہ طاقت انتہائی مضبوط بن کر ابھری اور انہوں نے دکن اور شمالی ہندوستان میں اپنا اقتدار قائم کر لیا یہاں تک کہ مغل بادشاہ عالم ثانی برائے نام حکمران تھا اور مرہٹہ فوج جنرل پیرون کی سربراہی میں حکومت کر رہی تھی.جب ۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک نے دہلی کو فتح کیا تو اس نے مغلوں کو نہیں بلکہ مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کیا اور مغل بادشاہ مرہٹوں کی قید سے نکل کر انگریزوں کی غلامی میں آگیا." المیہ تاریخ صفحه ۱۳۴، ۱۳۵ ناشر فکشن ہاؤس مزنگ روڈ لا ہور اشاعت ۱۹۹۹ء) اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے نو آبادیاتی دور اور علماء کے عقیدہ اور طرز عمل کو اپنی تحقیق کا خاص موضوع بنایا ہے اور اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے کہ : ہندوستان میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت مضبوط ہو گئی اور اس نے سیاسی اقتدار حاصل کر لیا ، تو اس کے ساتھ ہی ہندوستان کا سیاسی ڈھانچہ بھی تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور مسلمان حکمران اور امراء کمزور ہو کر بے بس ہو گئے.لہذا ان حالات میں ان کے لئے یہ لازمی تھا کہ وہ ہندوؤں اور انگریزوں سے اپنے تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کر دیں لیکن اس مرحلہ پر یہ سوال بھی تھا کہ ان کی راہنمائی کون کرے؟ کیونکہ بادشاہتی ادارے کے کمزور ہونے کے ساتھ ہی اس کے تمام ماختی ادارے بھی زوال پذیر ہو چکے تھے لہذا لوگوں نے علماء کی جانب رجوع کیا.کہ وہ ان کی راہنمائی کریں....مسسس
سننببننبسسسسنننة طانوی پلان اور ایک فرضی کہانی بہر حال ایک چیز تو واضح تھی اور وہ یہ کہ تمام مسلمانوں کیلئے ناممکن تھا کہ وہ ہجرت کر کے کسی دوسرے ملک چلے جائیں.ان پر یہ بات بھی واضح تھی کہ انگریزوں کی فوجی طاقت اس قدر زیادہ ہے کہ ان سے لڑ کر انہیں یہاں سے نکالنا بھی اب ناممکن ہو گیا تھا.مغل سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد ان کے لئے ملازمتوں کا حصول بھی مشکل ہو گیا تھا لہذا اب ملازمتوں کی تلاش میں ہندو اور مسلمان دونوں کمپنی اور مقامی ریاستوں کی جانب رجوع کر رہے تھے.اس سارے عمل میں مذہبی شناخت انتہائی کمزور ہو گئی تھی کیونکہ مسلمان فوجیوں کو اگر ہندو راجہ کے ملازمت ملتی تو وہ اختیار کرنے پر مجبور تھے اور اگر اسے ہم مذہبوں سے جنگ بھی کرنا پڑے تو اس کے لئے اس میں کوئی جھجک نہیں رہی تھی." وو " علماء کیلئے یہ صورتحال ضرور تشویش ناک تھی کہ اگر معاشرے میں اس طرح سے اشتراک ہو جائے گا تو مسلمانوں کی علیحدہ سے کوئی مذہبی شناخت نہیں رہے گی.ان حالات میں شاہ عبد العزیز دہلوی نے کئی فتوے جاری کئے.مثلاً انہوں نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ کافروں کی ملازمت کریں مگر بحیثیت فوجی کے نہیں تا کہ انہیں مسلمانوں سے جنگ نہ کرنی پڑے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسرے عہدوں اور حیثیتوں میں ان کی ملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایک مرتبہ جب ملازمت کر لیں تو پھر ان کی وفاداری بھی لازم ہے.لیکن انہیں اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے کافروں کے ساتھ سماجی اور ثقافتی تعلقات نہ ہوں گے شاہ عبد العزیز نے اس بات کی بھی اجازت دے دی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کو اختیار کر لیا جائے ، بلکہ انہوں نے اپنے بھتیجے عبدالئی کو کمپنی کی ملازمت کرنے دی.اگر چہ سلام سلام برطانومی پلان اور ایک فرضی کہانی اس خبر کو سن کر اس وقت کے مشہور صوفی شاہ غلام علی نے سخت افسوس کا اظہار کیا تھا.اس پر شاہ عبدالعزیز نے انہیں ایک خط میں اپنے فیصلہ کو صحیح ثابت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس قسم کی ملازمت میں نہ تو اس بات کا خطرہ ہے کہ کافروں کے ساتھ تعلقات بڑھیں گے ، نہ ہی ان کی خوشامد کرنا ہو گی.نہ جھوٹ بولنا پڑے گا اور نہ ہی اسلام کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جائے گا.“ جناب سید ہاشمی فرید آبادی کی فکر انگیز تحریر علماء اور سیاست ، صفحہ ۷۹ تا ۸۱) مورخ پاکستان جناب سید ہاشمی فرید آبادی نے ہندی مسلمانوں کی انگریزوں سے دوستی اور وفاداری کا سب سے بڑا سبب یہ قرار دیا ہے کہ: کرزن کے جانشین لارڈ منٹو (۱۹۰۵ء تا ۱۹۱۰ء ) بہت عنایت سے پیش آئے.معروضات کی معقولیت ، مسلمانوں کی خصوصی اہمیت کو تسلیم کیا.وفد کا سب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ شہری اور ملکی مجالس میں مسلمان ارکان کا انتخاب مسلمانوں کی رائے سے ہو اور ان کے لئے جدا گانہ حلقہ انتخاب بنائے جائیں.وزیر ہند (مورلے ) کے سیاسی عقائد اس مطالبے سے موافقت نہ رکھتے تھے مگر وائسرائے کے اصرار پر وہ بھی مان گیا.اخبار لنڈن ٹائمز نے ایک مبسوط مقالہ شائع کیا ( یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء ) کہ مختلف مذاہب واقوام کے ایسے مجموعے میں جیسا کہ ہندوستان ہے، جمہوری ادارے تعمیر کرنے کے لئے مسلمانوں کی نادر تجویز نہایت مناسب ہے.تجویز تو شائد کسی انگریز سکرٹری کے دماغ کی کاشتہ تھی لیکن بے شبہ ہند و تعصبات کے ظہور اور مسلمانوں کے ملی محسوسات نے اس کی آبیاری کی نئی سیاسی تجاویز مجھے کے مجھے wwwwwwwwww.wwwwwwwwwwww اسيس سنس :
2.سلام سلام i (منٹو مور لے اصلاحات (۱۹۰۹ ء ) میں جداگانہ انتخاب کا اصول قبول اور عملاً نافذ کر دیا گیا." آگے لکھتے ہیں : قیام لیگ سے پانچ سال تک سلطنت برطانیہ کی وفاداری مسلمانوں کی سیاسی شریعت کا کلمہ طیبہ بن گئی تھی.پہلے سکرٹری ، مولوی مشتاق حسین نواب وقار الملک) جیسے متشرع بزرگ صاف صاف کہتے تھے کہ ہندوستان میں ہماری تعداد صرف ایک شمس ہے.خدانخواستہ انگریزی حکومت نہ رہے تو ہمیں ہندوؤں کا محکوم ہو کر رہنا پڑے گا اور ہماری جان ، ہمارا مال ، ہماری آبرو، ہمارا مذہب سب خطرے میں ہوگا اور کوئی تدبیران خطروں سے محفوظ رہنے کی ہندوستان کے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے تو وہ یہی ہے کہ انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم رہے.“ تها " تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت صفحه ۵۲۹۲۵۲۷ ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی اشاعت دوم ۱۹۸۸ء) نواب وقار الملک جیسے متشرع بزرگ برٹش انڈیا کے مسلم لیڈر کی دور بینی ، فراست اور معاملہ نہی پر ۱۹۴۷ء کے خونچکاں واقعات نے مہر تصدیق ثبت کر دی جبکہ نہرو گورنمنٹ کی سر پرستی میں لاکھوں مسلمان شہید اور لاتعداد بے خانماں ہو کر ہجرت پاکستان پر مجبور ہو گئے.فرزندان اسلام کے اس قتل عام کو نہ ۱۸۵۷ء کے غدر سے کوئی نسبت ہے نہ مسلم پین کے سقوط کو ۱۹۴۷ء میں خونِ مسلم کی ارزانی کے دردناک واقعات سے کوئی نسبت ہے.بلا مبالغہ تقسیم ملک کے چند ماہ میں کلمہ گو مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں نے جتنی تعداد میں جام شہادت نوش کیا انگریزی عہد حکومت میں اس کا عشر عشیر بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتا.انگریزی اقتدار کے خاتمہ البلاد کے ساتھ ہی اگر مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں نہ آتی تو پورا بر صغیر اسی طرح مسلمانوں • رس سے خالی ہو جاتا جس طرح ۲ فروری ۱۴۹۲ء کے بعد غرناطہ پر بد بخت اور ظالم عیسائی بادشاہ فرڈینینڈ کے تسلط کے نتیجہ میں ہوا.: پہلے پہل پہل اترا جہاں اسلامیوں کا کارواں اسلام کا اس ملک أف مٹ گیا نام و نشاں زمین قرطبه تہذیب مغرب چھا گئی اسپین کی سلطنت تثلیث دل برما گئی باطل کے قابو آ گئی اے زمین قرطبہ ( سید احسن اسماعیل گوجرہ)
ما السلام ۴۷ فصل ۸ A میں نظام نے کرناٹک کی دیوانی سات لاکھ روپے سالانہ کے عوض انگریزوں کو دے دی جنہوں نے عہد کیا کہ وہ اس کے لئے فوج مہیا کریں گے جس کا خرچ ریاست برداشت کرے گی مگر برطانوی استعمار کی پاسبان اور محافظ ختم نبوت، مسلم ریاستیں ریاست اسے انگریزوں کے دوستوں کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گی.۱۷۹۸ء میں نظام کے خرچ پر انگریزوں کی امدادی فوج (SUBSIDIARY FORCE) مستقل کر دی گئی اور فوج اس مرحلہ پر تاریخ کا ایک طالب علم یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ انگریزی سلطنت تو الحاق اور حیدرآباد کے کارخانوں کا تیار شدہ مہلک اسلحہ مدتوں ایسٹ انڈیا کمپنی نے شیر اسلام ٹیپو پنجاب ۱۸۴۹ء کے نتیجہ میں ۱۸۶۲ ء تک پورے برصغیر کے طول و عرض میں پوری شان وشوکت سلطان کے خلاف استعمال کیا.سلطان شہید کر دئے گئے اور میسور کی مفتوحہ ریاست کمپنی اور سے مستحکم ہو چکی تھی جیسا کہ ڈکشنری آف پشتو کے انگریز مؤلف نے دنیا چہ میں لکھا.اس نظام نے ہتھیا لی.اس بندر بانٹ کے بعد دونوں میں ایک اور معاہدہ طے پایا جس کے مطابق.صورت میں انگریز جو اپنے مدبر دماغ میں صدیوں سے شہرت رکھتے ہیں، ۱۸۶۹ء میں کسی نظام نے میسور کا اکثر علاقہ کمپنی کے حضور تحفہ پیش کر دیا اور عہد کیا کہ وہ کمپنی کی اجازت کے خلوت نشین درویش اور گمنام شخص کو نبی بنانے کے لئے کھڑا کرنے کی حماقت کیسے کر سکتے تھے بغیر کسی دوسری طاقت سے کوئی تعلقات قائم نہیں کریں گے.۱۸۵۳ء میں نظام نے برار، عثمان خصوصاً جبکہ وہ خوب جانتے تھے کہ مسلمان تیرہ سو سال سے ہر مدعی نبوت کا سرقلم کرتے آرہے آباد ، نورنگ اور را نخور دو آب بھی برطانیہ کے حوالے کر دئے تا انگریزی پانچ ہزار پیادہ ، ہیں اور نبی کا لفظ ہی اُن کے لئے ہمیشہ نا قابل برداشت رہا ہے حالانکہ خود آنحضرت ﷺ نے دو ہزار گھوڑ سوار اور توپ خانے کے چار دستوں پر مشتمل زبر دست فوج حیدرآباد میں رکھ سکیں یہ فوج براہ راست کمپنی کے ماتحت تھی اور کمپنی انگریز ریذیڈنٹ کے اشاروں پر چلتی تھی.مسیح محمدی کو ایک بار نہیں چار بار نبی کے نام سے موسوم کیا ہے ) سب سے بڑھ کر یہ کہ ہندوستان میں انگریزوں کی وسیع مملکت کو اپنے اقتدار میں اضافہ ندر ۱۸۵۷ء کے فرو کرنے میں نظام حیدر آباد نے ایسی شاندار اور مجاہدانہ خدمات کے لئے یقینا ان مسلم ریاستوں کی ضرورت تھی جو ہر وقت اپنے جانباز سپاہیوں، گرانقدر انجام دیں کہ اس کے صلہ میں عثمان آباد اور را بجور دو آب کے اضلاع واپس نظام کو عطا خزانوں اور ہر نوع کی خدمات بجالانے کے لئے ہر لمحہ وقف رہیں.چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ حیدر آباد دکن اور بہاولپور جیسی دو کٹھ پتلی مسلم ریاستیں غدر ۱۸۵۷ء سے مدتوں قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانثار خادم کی حیثیت سے شہرت پا چکی تھیں اور انگریزوں کے ہاتھ میں کھلونا بنی ہوئی ثر قمر کردئے گئے کچھ کچھ : (ہندوستان کے قدیم شہروں کی تاریخ ، صفحہ ۱۳۳ تا ۱۳۷ تلخیص تالیف جناب وسیم احمد سعید.پبلشر فیکٹ تھیں اور خود کاشتہ پودا ہونے کا یہ اعزاز انہوں نے تقسیم ہند ( ۱۹۴۷ء ) تک برابر قائم رکھا.ریاست بہاولپور حیدر آباد دکن پبلیکیشنز لاہور.تاریخ اشاعت درج نہیں ) پنجاب میں مسلمانوں کی اس سب سے بڑی ریاست کے انگریز سے گہرے روابط کا حیدر آباد دکن نے ایسٹ انغمہ یا کمپنی کے ساتھ ۱۷۶۶ء میں باقاعدہ معاہد ہ کیا.۱۷۶۸ء آغاز ۱۸۰۸ء میں برطانوی سفیر کابل آنریبل مان اسٹوارٹ انفسٹن کے ذریعہ ہوا.۱۸۲۵ء.س }
MA سسسسسسبتبسبسسبسبب میں ریاست کے والی نواب محمد بہاول خاں ثالث نے اپنے معتمد خاص سید غلام مصطفی شاہ کے ذریعہ گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بیٹنگ سے بہاولپور کی پدرانہ شفقت کے ساتھ سر پرستی کی عاجزانه درخواست کی جس پر گورنر جنرل نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بہاولپور سٹیٹ کے خلاف مزید دست درازی سے روک دیا.اس سال گورنمنٹ انگلشیہ اور ریاست کا معاہدہ دوستی کے طے مه وم حمایت میں ریاستی فوج بھی حرکت میں آگئی اور ان تمام افراد کے خلاف جو بلا واسطہ یا بالواسطہ غدر سے ہمدردی رکھتے تھے ، ریاست کی طرف سے کارروائی کرنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا.5 ریاست بہاولپور کے یہ سب حالات جناب مسعود حسن شہاب کی کتاب ”بہاولپور کی سیاسی تاریخ " سے صفحہ ۲۱ تا ۲۸ سے ماخوذ ہیں.یہ کتاب پہلی بارے۱۹۷۷ء میں مکتبہ الہام انکشاف بھی کیا ہے کہ: پایا یہ معاہدہ ۱۶ دفعات پر مشتمل تھا.گورنمنٹ انگلشیہ کی نمائندگی لدھیانہ کے پولیٹیکل افسر بہاولپور نے شائع کی تھی.مؤلف کتاب جناب مسعود حسن شہاب نے کتاب صفحہ ۲۷.۲۸ پر یہ کیپٹن سی ایم ویڈ نے کی.معاہدہ کی پہلی دفعہ یہ تھی کہ ” دوستی و اتحاد ہمیشہ کے لئے فیما بین آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی ونواب محمد بہاول خان اور اس کے ورثاء جانشینوں کے قائم رہے گا.“ یہ معاہدہ بہاولپور شہر میں ۲۲ فروری ۱۸۳۳ء کو قرار پایا اور اس پر ڈبلیوسی بٹنگ نے دستخط کئے اس دائی معاہدہ کے بعد ریاست بہاولپور نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے اکتو بر ۱۸۳۳ء میں ایک اور معاہدہ کیا جس میں فریقین نے اقرار کیا کہ ہر ایک کے دوست دشمن دوسرے فریق کے دوست دشمن تصور کئے جائیں گے.سرکار انگریزی ریاست کی محافظ ہوگی اور نواب بہاول خاب اور اس کے جانشین ہمیشہ سرکار انگریزی کے تابع رہیں گے اور کسی اور رئیس یا حکومت سے تعلق نہیں رکھیں گے.سرکار بہاولپور بوقت ضرورت سرکار انگریزی کی مدد کرتی رہے گی.اس دوسرے عہد نامہ پر لیفٹنٹ میکسن نے سرکار انگریز کی جانب سے اور منشی چوکس رائے نے سرکار بہاولپور کی طرف سے دستخط کئے.مارچ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب انگریزی عملداری میں شامل ہوا تو نواب بہاولپور نے مولانا امام بخش بہاولپوری...مولانا غلام رسول چنڑ کے عمزاد تھے انہیں یہ بھی دکھ تھا کہ ریاست میں مجاہدین آزادی کو ناحق کچلا جا رہا ہے چنانچہ انہوں نے اس صورت حال کے خلاف نواب صاحب کو کئی خط لکھے اور ان کی نگریز پرستی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ وہ انگریز کے خلاف قدم اٹھانے میں مجاہدین اسلام کا ساتھ دیں.نواب صاحب کو مولا نا امام بخش کی جرات ناگوار گزری اور انہوں نے کسی سپاہی کو بھیج کر انہیں شہید کر دیا.۲۲ دسمبر ۱۸۵۷ء کو جب انقلابی تحریک ناکام ہوئی اور انگریزی حکومت دہلی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس خوشی میں ریاست کے صدر مقامات پر چراغاں کیا گیا.بہر حال انگریز پرستی کا یہ مظاہرہ نواب صاحب کی سیاسی ضرورت کے تابع تھا اور وہ اُسی کے لئے مجبور تھے" فرزند برطانیہ کا عملی ثبوت دیتے ہوئے پوری ریاست میں مثالی جشن چراغاں کیا.فروری دونوں مسلم ریاستوں کی شان تحفظ ختم نبوت" ۱۸۴۴ء میں ریاست بہاولپور کی مشرقی سرحد کی حد بندی ہوئی تو نواب صاحب نے سرکار انگریزی کی خواہش پر علاقہ وٹو ان جس سے ریاست کو مالیہ کی صورت میں ۲۵ ہزار سالانہ آمدنی ہوتی تھی ، کمال فراخدلی سے حکومت انگلشیہ کی خدمت میں بلا معاوضہ پیش فرما دیا.غدر ۱۸۵۷ء میں نواب بہاولپور نے سرکار انگریزی کی نہ صرف مالی امداد کی بلکہ انگریزوں کی یہاں یہ بتانا دلچسپی میں اضافہ کا موجب ہو گا کہ ریاست حیدر آباد اور ریاست بہاولپور“ دونوں نے ہمیشہ نہ صرف انگریزوں کی کاسہ لیسی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر انگریز پرستی کا مظاہرہ کرتی رہیں بلکہ احراری ملا کی اصطلاح کے مطابق انہوں نے ہمیشہ ایک
وو ۵۰ دوسرے سے بڑھ کر تحفظ ختم نبوت کے کارنامے بھی انجام دیے.چنانچہ اوّل الذکر نے مناظر ۵۱ اس شخص نے اپنے فیصلہ میں قرآنی آیت و من يطع الله والرسول کا یہ کہ کر کھلا اور احسن گیلانی اور دوسرے دیوبندی مولویوں کو بڑے بڑے اعلیٰ مراتب بخشے اور الیاس برنی سے بھونڈا مذاق اُڑایا کہ اس سے لازم آئے گا کہ نبوت کسی چیز ہے جو اتباع سنت اور ریاضت قادیانی مذہب کے نام پر کتاب شائع کرائی جسے مخالفین احمدیت انسائیکلو پیڈیا کا درجہ دیتے سے حاصل ہو سکتی ہے (فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۶۶-۲۷ ) کیا اس بدسگال اور دریدہ دہن ہیں اور اس کی خوشہ چینی ہی ہر مکفر ملا کی معلومات کا سرمایہ ہے.گستاخ قرآن و رسول کو کتاب اللہ کا یہ فرمان معلوم نہ تھا کہ بیٹے اور بیٹی کی پیدائش خالص ثانی الذکر (ریاست بہاولپور ) کا یہ سیاہ کارنامہ ہمیشہ اس کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بنا خدا کی موهبت ہے (الشوری: ۵۰) مگر کیا شادی کئے بغیر مل سکتی ہے؟ حق یہ ہے کہ بقول رہے گا کہ اس کی نام نہاد اسلامی عدالت نے لاکھوں کروڑوں احمدیوں کو مرتد قرار دیا.رب خاتم النبین کی معجز نمائی یہ بھی رب خاتم انہین کی معجز نمائی کا عبرت انگیز کرشمہ ہے کہ مقدمہ بہاولپور کی کارروائی کی اکتوبر ۱۹۸۸ء میں دیوبندی اسلامیہ فاؤنڈیشن ا.ڈیوس روڈ لاہور نے شائع کی اور اس کا دیا چہ اس کے رکن میر عبد الماجد صاحب سید نے ۳ محرم ۱۴۰۹ ء مطابق ۱۷ راگست ۱۹۸۸ء کو لکھا جس میں انہوں نے آمر مطلق ضیاء الحق کو اس کے بدنام زمانہ اینٹی احمد یہ آرڈینینس پر زبر دست تحسین ادا کیا اور اسے مرد مجاہد اور محب رسول کے خطاب سے نوازا اور یہاں تک لکھا کہ اس کا یہ کارنامہ تکفیر ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا لیکن اسی دن ابھی اس دیباچہ کی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہو گی کہ فرعون وقت اپنے بہت سے جرنیلوں سمیت فضائی حادثہ میں ہلاک ہو کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا.> } اک نشاں کافی ہے گرول میں ہو خوف کردگار اور حیرت انگیز تصرفت الہی یہ بھی ہوا کہ یہ قہری تجلی سرزمین بہاولپور میں ظاہر ہوئی جہاں ۵۳ سال قبل سے فروری ۱۹۳۵ء کو ڈسٹرکٹ جج بہاولپور محمد اکبر خاں بی اے ایل ایل بی نے احمدیوں کے ارتداد کا فیصلہ صادر کیا تھا اور اسکی بنیاد منکر حدیث اور محمد زمان اور زندیق دوراں غلام احمد پرویز کی کتاب میکانکی اسلام پر رکھی.(مقدمہ بہاولپور جلد اول صفحه ۵۴) اليوم f جنرل ضیاء فاسق و فاجر اور زانی و شرابی ارکانِ اسمبلی ۱۹۷۴ء کی طرح ۱۹۳۵ء میں بہاولپور کی کرسی پر بیٹھنے والا ڈسٹرکٹ جج اپنے غیر اسلامی عقائد کی رو سے عملاً فریق مقدمہ دیو بند یہ تھا جواز رُوئے اخلاق و قانون احمدیت کے خلاف کیس سنے کا ہرگز مجاز نہیں تھا.سید نا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: مفت میں ملزم خدا کے مت بنو اے منکرو A خدا کا ہے ، نہ ہے یہ مفتری کا کاروبار یہ فتوحات نمایاں یہ تواتر کے نشاں کیا یہ ممکن ہے بشر سے کیا یہ مکاروں کے کاروبار منس.** سسة....
:: E فصل ٩ ۵۴ : کتاب اللہ کی مستند آفاقی تاریخ اور جماعت احمدیہ سیکھا Or دوسرا اس میں کچھ غلطی کرے....جوشخص اسلام کے عقائد کے منافی.اسلام کی تائید کیا کرے گا ،، ہے وہ البدر ۳ ر ا پریل ۱۹۰۳ ، صفحه ۸۵) قرآن مجید کے تاریخی اصول کو مشعل راہ بنانے کے بعد اب دور حاضر کے مسلم زعماء اور ے.ائی منکرین، مغربی صحافت کی جماعت احمدیہ کی نسبت آراء کا مطالعہ کریں.”ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان آباد ہیں کیا ان کی طرف سے ایک بھی قابل ذکر تبلیغی مشن مغربی ممالک میں کام کر رہا ہے.گھر بیٹھ کر احمد یوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء، دیوبندی ، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ واشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں.کیا ہندوستان میں ایسے متمول مسلمان نہیں جو چا ہیں تو با دقت ایک ایک کوئی عاشق رسولِ عربی ایک لمحہ کے لئے بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ تاریخ عالم ظفر الملت والدین مولانا ظفر علی خاں کا مستند ترین ماخذ قرآن عظیم ہے جس کا نقطہ شعشہ تک ہمیشہ کیلئے محفوظ ہے اور قیامت تک کے تمام علوم و اکتشافات کا بحر بیکراں ہے.خود آنحضرت ﷺ کی شرمندی میں یہ ارشاد موجود ہے کہ اولین و آخرین کے واقعات اس میں موجود ہیں اس لئے مستقبل میں مسلمانوں کو اس کی طرف رجوع کرنا ہو گا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے انیسویں صدی کے آٹھویں عشرہ میں جبکہ آپ کو بیعت لینے اور جماعت بنانے کا کوئی حکم نہ تھا، اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ چہارم (مطبوعہ ۱۸۸۴ء) میں تاریخ کے اس راہ نما اصول کی طرف دنیا بھر کے وقائع نگاروں کو توجہ دلائی کہ: اس عالم کا مورخ اور واقعہ نگار بجز خدا کی کلام کے اور کوئی نہیں ہو سکتا جس کے مضامین صرف قیاسی انکلوں میں محدود نہیں بلکہ وہ عقلی دلائل کے ساتھ بہ حیثیت ایک مورخ صادق عالم ثانی کی خبر دیتا ہے اور چشم دید ماجرا بیان و (صفحه ۳۸۹) کرتا ہے.“ ہمارا فرض ہے کہ قرآن عظیم ہی کے دربار سے یہ معلوم کریں کہ عہد حاضر میں کون سی جماعت مقبول درگاہ الہی ہے اور کون ہے جو غیروں کا ایجنٹ اور کلمہ گوؤں سے کھلا مذاق کر رہا ہے.اللہ جل شانہ کا فیصلہ یہ ہے کہ انما يتقبل الله من المتقين (مائده : ۲۸) یعنی مشن کا خرچ اپنی گرو سے دے سکتے ہیں.یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس عزیمت کا فقدان ہے.فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا آجکل مسلمانوں کا شعار ہے.اللہ تعالیٰ اس بے راہ قوم پر رحم کرے اخبار زمیندار دسمبر ۱۹۲۶ء بحواله زجاجه صفحه ۱۶۰ مولفه سید محمد طفیل شاه صاحبه اشاعت اپریل ۱۹۲۹ء) درگاہ الہی میں متقیوں کے اعمال اور انکی خدمات ہی کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے.خود حضرت مفکر احرار چوہدری افضل حق بانی سلسلہ احمدیہ کو ۱۹۰۳ء میں بذریعہ رویا خبر دی گئی: اسلامی خدمات کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ لینا ہی نہیں چاہتا.شاید 35 کیا آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا...مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ www...........• www wwwwwwwww بسس wwwwwwwwwww
۵۴ سنسسبسمس هند ہوسکی.ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا.ایک مختصرسی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا.اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا تا ہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کیلئے نمونہ ہے.“ یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں صفحه ۴۶ تا ۶۰ تالیف مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب گڑھ شنکر مطبوعہ کو اپر سٹوسٹیم پر لیس وطن بلڈنگز لاہور ) یادر ہے جناب چوہدری افضل حق صاحب کا یہ حقیقت افروز بیان ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا جس کے چار سال بعد دسمبر ۱۹۲۹ء میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم پر مجلس احرار نے جنم لیا جبکہ یہ لوگ تحریک عدم موالات اور تحریک ہجرت و خلافت میں مسلمانان ہند کو تباہ کن ناکامی سے دو چار کرنے کے بعد اس شعر کے مصداق بنے ہوئے تھے.بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں گو گرد راہ ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں یورپ کی روحانی فتح کا آغاز (اکبر الہ آبادی) بيت الفضل لندن کے افتتاح (اکتوبر ۱۹۲۶ء) کے موقعہ پر اخبار ٹائمنر لنڈن نے ۲ اکتوبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت کے لیڈنگ آرٹیکل میں لکھا: یہ موقع مسیحیت کے علاوہ دیگر مذاہب کی تاریخ میں ایک بڑا اہم واقعہ -2-0- محمد ہے کیونکہ یہ لنڈن میں سب سے پہلی مسجد ہے“.برسٹل ایوننگ نیوز“ مورخہ ۲۴ / تمبر ۱۹۲۶ء نے اس موقع پر جماعت احمدیہ کو زبر دست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے ریمارکس دئے: یہ مسجد فرقہ احمدیہ نے بنائی ہے جو مذہبی بردباری کی حامی ہے اور تشدد اور مذہبی لڑائیوں کا مخالف ہے.اس کا ایمان ہے کہ آسمانی علوم کا چشم قرآن شریف میں ہے، سوکھ نہیں گیا بلکہ اب بھی جاری ہے ( ترجمہ ) انگلستان کے متعصب مسیحیوں کے ترجمان بلٹیٹ ٹائمز (BULL TIPPET TIMES) نے لکھا کہ:.س مسجد کی تعمیر کو ایک چیلنج سمجھنا چاہیے.مغرب اب تک مشرق کو مذھبا اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا رہا ہے مگر افسوس کہ اس نے اپنی طاقت کو اپنے گھر میں ہی کرور کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مشرق بھی مغرب کی طرف دیکھنے لگا ہے.اب مسلمانوں کی اذان کا نعرہ اس سرزمین میں سنایا جانے والا ہے.بلٹیسٹ ٹائمنز نے ان پادریوں پر بھی بھر پور تنقید کی جو خانہ خدا کی تقریب افتتاح میں شامل ہوئے اور انہیں متنبہ کیا کہ اگر عیسائیت کا کوئی حقیقی دشمن - کوئی حقیقی دشمن ہے تو وہ اسلام ہے.(ترجمہ) (بحوالہ تاریخ مسجد فضل لندن مرتبہ حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اسٹنٹ سرجن اشاعت دسمبر ۱۹۲۷ء قادیان) مورخ پاکستان مولانا سید رئیس احمد جعفری نے جماعت احمدیہ کی عظیم الشان اور عدیم النظیر خدمات کا تذکرہ اپنی ایک مشہور تصنیف ”حیات قائد اعظم کے آخر پر ایک شعر میں زیب قرطاس کیا ہے.میں بھی یہ تاریخی مقالہ اسی شعر پر ختم کرتا ہوں.کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی کچھ کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے