Language: UR
یہ کتاب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وہ تقریر ہے جو آپ ؓ نے 27 دسمبر 1914ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر فرمائی جس میں آپ ؓ نے خلافت کی اہمیت، خلافت کی برکات، خلافت سے متعلق ہونے والے اعتراضات کے مدلل جوابات بیان فرمائے اور اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کو سنبھالنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی قدیمی سنت کے مطابق خلافت کو استحکام بخش کر وہی طریق اپنا یا ہے جو اس نے آنحضورﷺ ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انتظام جاری فرمایا تھا۔ قریبا ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل اس کتاب کا موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان نے بڑے اہتمام سے طبع کروایا ہے۔
برکات خلافت ☆☆ ☆ تقرير سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ☆☆ ☆ شائع کرده نظارت نشر واشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان 143516 ضلع گورداسپورصوبہ پنجاب.بھارت
برکات خلافت (ماخوذ از انوارالعلوم جلد۲) نام کتاب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی تقریر سابقہ اشاعت حالیہ اشاعت تعداد $2008 $2016 1000 نظارت نشر واشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان شائع کردہ مطبع فضل عمر پرنٹنگ پرلیں.قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب 143516 ISBN 978-81-7912-142-9 Name of the Book : Barkat-e-Khilafat Author : Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmadra Previous Edition : 2008 Present Edition : 2016 Quantity : 1000 Publisher Printed at : Nazarat Nashr-o-lsha'at, Qadian : Fazl-e-Umar Printing Press Qadian, Dist-Gurdaspur, Punjab 143516
عرض ناشر کتاب ”برکات خلافت“ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر ہے جو آپ نے 27 دسمبر 1914 ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر فرمائی.جس میں آپ نے خلافت کی اہمیت ، خلافت کی برکات ، خلافت سے متعلق ہونے والے اعتراضات کے مدلل جوابات بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ” پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گرتی ہوئی جماعت کو صلى الله سنبھالنے کے لئے وہی طریق بتایا ہے.جو آنحضرت مہ ، حضرت موسیٰ“ اور حضرت عیسی کے بعد عمل میں آیا.یعنی خلفاء ہوئے.“ پس ظاہر ہے کہ اس دور میں اسلام کی زندگی کا انحصار خلافت پر ہے اللہ تعالی محض اپنے فضل سے ساری دنیا کے لوگوں کو خلافت کا مطیع بنائے تا دین اسلام اپنا موعود غلبہ حاصل کر سکے.آمین اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کو سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے افادہ عام کے لئے ایک بار پھر شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے استفادہ کی توفیق عطاء فرمائے اور خلافت کی برکات سے متمتع فرمائے.(آمین) ناظر نشر واشاعت قادیان
برکات خلافت بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم برکات خلافت تقریر حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی جو ۲۷ دسمبر ۱۹۱۴ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر ہوئی 1 أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ O إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ آمین میں نے کچھ ضروری باتیں آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنی ہیں.ان میں سے ایک وہ بات بھی ہے جو میرے خیال میں احمدیت کے لئے ہی نہیں بلکہ اسلام کے قیام کا واحد ذریعہ ہے اور جس کے بغیر کوئی انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی مسلمان مسلمان ہوسکتا ہے مگر کوئی انسان خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے بغیر اس کو حاصل بھی نہیں کر سکتا.اس کے علاوہ کچھ اور بھی ضروری باتیں ہیں.مگر اس سے کم درجہ پر ہیں.میں نے ارادہ کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور اس کی رحمت ممد اور معاون ہوئی تو انشاء اللہ وہ بات جو نہایت ضروری ہے اور جس کے پہنچانے کی مدت سے مجھے تڑپ تھی کل بیان کروں گا.آج ارادہ ہے کہ درمیانی باتیں جو اس سے
برکات خلافت 2 کم درجہ پر ہیں مگر ان کا پہنچانا بھی ضروری ہے وہ پہنچا دوں.اس ضروری بات کو کل پر رکھنے سے میری یہ بھی غرض ہے کہ جو نعمت آسانی سے مل جاتی ہے اور جس کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی اس کی قدر نہیں ہوتی.پس جولوگ کل تک یہاں اس بات کو سننے کے اشتیاق میں رہیں گے وہی اس کے سننے کے حقدار ہوں گے.چونکہ مجھے کھانسی کی وجہ سے تکلیف ہے اس لئے اگر میری آواز سب تک نہ پہنچے تو بھی سب لوگ صبر سے بیٹھے رہیں.اگر انہیں آواز نہ پہنچے گی تو ثواب تو ضرور ہی ہو جائے گا.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں.کہ کان میں پڑیں بھی تو اثر نہیں ہوتا مگر اس مقام کا اثر ہو جاتا ہے جہاں کوئی بیٹھا ہوتا ہے.باتیں تو اکثر لوگ سنتے ہیں مگر کیا سارے ہی پاک ہو جاتے ہیں؟ نہیں تو معلوم ہوا کہ نیک باتوں کے سننے والے کو ہدایت ہو جانا ضروری بات نہیں ہے.پھر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص کو کسی پاک مقام پر جانے کی وجہ سے بلا کسی دلیل کے ہدایت ہوگئی ہے.تو اگر بعض لوگوں تک آواز نہ پہنچے اور وہ بیٹھے رہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کی وجہ سے ہی بغیر باتیں سننے کے انہیں ہدایت دے دے گا.اب میں اپنی اصل بات کی طرف آنے سے پیشتر چند ایسی باتیں بیان کرتا ہوں جن کا آج کل چرچا ہورہا ہے اور جو نہایت ضروری ہیں.پہلی بات: میں کل یہاں آ رہا تھا.چند لوگوں نے جو کہ دیہاتی زمیندار معلوم ہوتے تھے مجھے اس طرح سلام کیا کہ یا رسول اللہ السلام علیکم.اس سے معلوم ہوا کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ رسول کیا ہوتا ہے.میری یہ عادت نہیں ہے کہ کسی آدمی کو خصوصیت سے اس کی غلطی جتلاؤں.اصل بات یہ ہے کہ مجھے شرم آجاتی ہے.ایک تو اس لئے کہ اس کو
برکات خلافت 3 اپنی غلطی پر شرمندگی اٹھانی پڑے گی.دوسرے خود مجھے دوسرے کو ملامت کرنے پر شرم محسوس ہوتی ہے اس لئے میں کسی کی غلطی کو عام طور پر بیان کر دیا کرتا ہوں اور کسی خاص آدمی کی طرف اشارہ نہیں کرتا سوائے ان خاص آدمیوں کے جن سے خاص تعلق ہوتا ہے.ایسے آدمیوں کو میں علیحدگی میں بتادیتا ہوں.سو یہ بات اچھی طرح یا درکھو کہ رسول رسول ہی ہوتا ہے ہر ایک شخص رسول نہیں ہو سکتا.ہاں ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ فخر بخشا ہے کہ ایک رسول کی خدمت کا شرف عطا کیا ہے.تو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کا جو درجہ ہوتا ہے وہ رسولوں کو دو اور دوسرے کسی کو ان کے درجہ میں شامل نہ کرو.اللہ کے رسولوں کے نام قرآن شریف میں درج ہیں اور جو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول بھیجا ہے اس کا نام بھی آپ لوگ جانتے ہیں باقی سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں.ہاں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے خلافت کا سلسلہ جاری کیا ہے اور جو انسان اس کام کے لئے چنا گیا ہے وہ درحقیقت تمہارا بھائی ہی ہے پس اس کو رسول کہنا ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے.دوسری بات : بعض لوگ گھٹنوں یا پاؤں کو ہاتھ لگاتے ہیں گو وہ یہ کام شرک کی نیت سے نہیں بلکہ محبت اور عقیدت کے جوش میں کرتے ہیں لیکن ایسے کاموں کا انجام ضرور شرک ہوتا ہے.اس وقت ایسا کرنے والوں کی نیت شرک کرنے کی نہیں ہوتی مگر نتیجہ شرک ہی ہوتا ہے.بخاری شریف میں آیا ہے.ابن عباس کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں حضرت نوح کی قوم کے جن بتوں کے نام آئے ہیں وہ دراصل مشرک اقوام کے بڑے بڑے آدمی تھے.ان کے مرنے پر پچھلوں نے ان کی یادگاریں قائم کرنی چاہیں
برکات خلافت 4 تا کہ ان کو دیکھ کر ان میں جو صفات تھیں ان کی تحریک ہوتی رہے.اس کے لئے انہوں نے سٹیچو ( مجسمہ ) بنا دیئے لیکن ان کے بعد آنے والے لوگوں نے جب دیکھا کہ ہمارے آباء واجداد ان مجسموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو انہوں نے ان کی اور عزت کرنی شروع کر دی پھر اسی طرح رفتہ رفتہ ان کی تعظیم بڑھتی گئی.بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے آگے سجدے کئے جانے لگے اور ان کی اصل حالت کو بھلا کر انہیں خدا کا شریک بنالیا گیا.تو بعض باتیں ابتداء میں چھوٹی اور بے ضرر معلوم ہوتی ہیں مگر ان کا نتیجہ ایسا خطرناک نکلتا ہے کہ پھر اس کی تلافی ناممکن ہو جاتی ہے.میری اپنی حالت اور فطرت کا تو یہ حال ہے کہ میں ہاتھ چومنا بھی نا پسند کرتا تھا.لوگ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ چومتے تھے اور وہ اس سے منع نہ فرماتے تھے جس سے میں سمجھتا تھا کہ یہ جائز ہے لیکن میرے پاس دلیل کوئی نہ تھی.پھر خلیفہ ایسے جن کی نسبت حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ میرے قدم بقدم چلتا ہے ان کے ہاتھوں کو لوگ چومتے.آپ میرے استاد بھی تھے اور دوسرے خلیفہ وقت.میں آپ کے فعل کو بھی حجت خیال کرتا تھا لیکن مجھے پوری تسلی جو دلائل کے ساتھ حاصل ہوتی ہے تب حاصل ہوئی جب میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھوں کو بھی صحابہ چومتے اور آنکھوں سے لگاتے تھے اس لئے میں ایسے لوگوں کو جو ہاتھ چومتے ہیں روکتا تو نہیں لیکن انہیں ایسا کرتے دیکھ کر مجھے شرم آ جاتی ہے اور میں صرف اس لئے انہیں منع نہیں کرتا کہ وہ یہ کام اپنی محبت اور عقیدت کے جوش میں کرتے ہیں.لیکن ان باتوں کو بڑھانا نہیں چاہئے تا کہ وہ شرک کی حد تک نہ پہنچ جائیں.
برکات خلافت پہلی اہم بات 5 اب میں ایک بات بیان کرنا شروع کرتا ہوں اور وہ خلافت کے متعلق ہے.شائد کوئی کہے کہ خلافت کے بڑے جھگڑے سنتے رہے ہیں اور یہاں بھی کل اور پرسوں سے سن رہے ہیں آخر یہ بات ختم بھی ہوگی یا نہیں.اصل بات یہ ہے کہ پہلے جو باتیں تم خلافت کے متعلق سن چکے ہو وہ تو تمہیں ان لوگوں نے سنائی ہیں جو رہرو کی طرح ایک واقعہ کو دیکھنے والے تھے.دیکھو! ایک بیمار کی حالت اس کا بیمار دار بھی بیان کرتا ہے مگر بیمار جو اپنی حالت بیان کرتا ہے وہ اور ہی ہوتی ہے.اسی طرح دوسرے لوگوں نے اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق تمہیں باتیں سنائی ہیں.مگر میں جو کچھ تمہیں سناؤں گا وہ آپ بیتی ہوگی جگ بیتی نہیں ہوگی.دوسرے کے درد اور تکلیف کو خواہ کوئی کتنا ہی بیان کرے لیکن اس حالت کا وہ کہاں اندازہ لگا سکتا ہے جو مریض خود جانتا ہے اس لئے جو کچھ مجھ پر گزرا ہے اسکو میں ہی اچھی طرح سے بیان کر سکتا ہوں.دیکھنے والوں کو تو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہوگی کہ کئی لاکھ کی جماعت پر حکومت مل گئی.مگر خدا را غور کرو کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے.کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے یا تم پر حکومت کرتا ہے یا تم سے ماتحتوں غلاموں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے.کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے.کوئی بھی فرق نہیں.لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در درکھنے والا تمہاری محبت رکھنے والا تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا تمہارے لئے خدا کے حضور
برکات خلافت 6 دعائیں کرنے والا ہے.مگر ان کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا.لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں.پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں.سنا جاتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے حکومت کی خواہش تھی اس لئے جماعت میں تفرقہ ڈال کر لوگوں سے بیعت لے لی ہے.لیکن بیعت لینے کے وقت کی حالت میں تمہیں بتاتا ہوں.جس وقت بیعت ہو چکی تو میرے قدم ڈگمگا گئے اور میں نے اپنے او پر ایک بہت بڑا بوجھ محسوس کیا.اس وقت مجھے خیال آیا کہ آیا اب کوئی ایسا طریق بھی ہے کہ میں اس بات سے لوٹ سکوں.میں نے بہت غور کی اور بہت سو چالیکن کوئی طرز مجھے معلوم نہ ہوئی.اسکے بعد بھی کئی دن میں اسی فکر میں رہا تو خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں بتایا کہ میں ایک پہاڑی پر چل رہا ہوں دشوار گزار راستہ دیکھ کر میں گھبرا گیا اور واپس لوٹنے کا ارادہ کیا جب میں نے لوٹنے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پچھلی طرف میں نے دیکھا کہ پہاڑ ایک دیوار کی طرح کھڑا ہے اور لوٹنے کی کوئی صورت نہیں اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب تم آگے ہی آگے چل سکتے ہو پیچھے نہیں ہٹ سکتے.نکتہ معرفت : میں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ نبی پر چالیس سال کے بعد نبوت
برکات خلافت 7 کیوں نازل ہوتی ہے؟ اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ چالیس سال کے بعد تھوڑے سال ہی انسان کی زندگی ہوتی ہے اس لئے ان میں مشکلات کو برداشت کر کے نبی گزارہ کر لیتا ہے.لیکن اگر جوانی میں ہی اسے نبوت مل جائے تو بہت مشکل پڑے اور اتنے سال زندگی کے بسر کرنے نہایت دشوار ہو جائیں کیونکہ یہ کام کوئی آسان نہیں ہے.خلافت کی اہمیت: دیکھنے میں آگ کا انگارہ بڑا خوشنما معلوم ہوتا ہے مگر اس کی حقیقت وہی جانتا ہے جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اسی طرح خلافت بھی دوسروں کو بڑی خوبصورت چیز معلوم ہوتی ہے اور نادان دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ خلیفہ بننے والے کو بڑا مزا ہو گیا ہے لیکن انہیں کیا معلوم ہے کہ جو چیز ان کی آنکھوں میں بڑی خوبصورت نظر آتی ہے دراصل ایک بہت بڑا بوجھ ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بغیر کسی کی طاقت ہی نہیں کہ اسے اٹھا سکے خلیفہ اس کو کہتے ہیں کہ جو ایک پہلے شخص کا کام کرے.اور خلیفہ جس کا قائم مقام ہوتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ“ (الم نشرح:۴۳) کہ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی تھی اتار دیا ہے.تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیٹھ اس بوجھ سے ٹوٹنے کے قریب تھی تو اور کون ہے جو یہ بار اٹھا کر سلامت رہ سکے لیکن وہی خدا جس نے آنحضرت ﷺ کے بوجھ کو ہلکا کیا تھا اور اس زمانہ میں بھی اپنے دین کی اشاعت کے لئے اسنے ایک شخص کو اس بوجھ کے اٹھانے کی توفیق دی وہی اس نبی کے بعد اس کے دین کو پھیلانے والوں کی کمریں وو
برکات خلافت 8 مضبوط کرتا ہے.میری طبیعت پہلے بھی بہار رہتی تھی مگر تم نے دیکھا کہ میں اس دن کے بعد کسی کسی دن ہی تندرست رہا ہوں.اور کم ہی دن مجھ پر صحت کے گزرے ہیں.اگر مجھے خلافت کے لینے کی خوشی تھی اور میں اس کی امید لگائے بیٹھا تھا تو چاہئے تھا کہ اس دن سے میں تندرست اور موٹا ہوتا جاتا.اگر منکران خلافت کے خیال کے مطابق چھ سال میں اسی کے حاصل کرنے کی کوشش میں رہا ہوں تو اب جبکہ یہ حاصل ہوگئی ہے تو مجھے خوشی سے موٹا ہونا چاہیئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا.بچپن میں کبھی والدہ صاحبہ مجھے پتلا دہلا دیکھ کر گھبراتیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے کہ جب اس کو خوشی حاصل ہوگی تو موٹا ہو جائے گا اور مثال کے طور پر خواجہ صاحب کا ذکر فرماتے کہ وکالت کے امتحان کے پاس کرنے سے پہلے یہ بھی دبلے ہوتے تھے جب سنا کہ وکالت پاس کر لی ہے تو چند دنوں میں ہی موٹے ہو گئے.تو اگر مجھے خلافت ایک حکومت مل گئی ہے اور اس کے لینے میں میری خوشی تھی تو چاہئے تھا کہ میں موٹا اور تندرست ہوتا جاتا لیکن میرے پاس بیٹھنے والے اور پاس رہنے والے جانتے ہیں کہ مجھ پر کیسے کیسے سخت دن آتے ہیں اور اپنی تکلیف کو میں ہی جانتا ہوں.مسئلہ خلافت : خلافت کا مسئلہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے.میں نے ۱۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء کو جو تقریر کی تھی ( یہ تقریر منصب خلافت کے نام سے چھپ چکی ہے ) اس میں قرآن شریف کی ایک آیت سے میں نے بتایا تھا کہ خلیفہ کا کیا کام ہوتا ہے.خلیفہ کے معنی ہیں کسی کے پیچھے آکر وہی کام کرنے والا جو اس سے پہلا کیا کرتا تھا.اس کی پہچان کے لئے جس کا کوئی خلیفہ ہوگا اسکے اصل کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا کام کرتا تھا.اللہ تعالیٰ
برکات خلافت 9 نے آنحضرت ﷺ کا کام یہ بتایا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايْتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (ال عمران (۱۶۵) یعنی یہ کہ (۱) خدا کی آیات لوگوں پر پڑھے.(۲) ان کا تزکیہ نفس کرے.(۳) انہی کتاب سکھائے.(۴) انکو حکمت سکھائے.میں نے یہ بھی اس تقریر میں بتایا تھا کہ یہ چاروں کام نبی کے دنیا کی کوئی انجمن نہیں کر سکتی.یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی کے بعد مقرر کیا جاتا ہے اور جسے خلیفہ کہا جاتا ہے.اس موقع پر یہ باتیں نہیں ذکر کی جاتیں.ہاں چند موٹے موٹے اعتراضات میں بیان کر کے ان کے جواب دیتا ہوں اور یہ بھی بتا تا ہوں کہ کیوں میں نے دلیری اور استقلال کو ہاتھ سے نہ دیا اور اپنی بات پر مضبوط جما رہا.بعض لوگ میری نسبت یہ کہتے ہیں کہ اس نے کیوں وسعت حوصلہ سے کام لے کر یہ نہ کہہ دیا کہ میں خلیفہ نہیں بنتا.ایسا کہنے والا سمجھتا ہے کہ خلافت بڑے آرام اور راحت کی چیز ہے مگر اس احمق کو یہ معلوم نہیں کہ خلافت میں جسمانی اور دنیاوی کسی قسم کا سکھ نہیں ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ کیوں میں نے جرات اور دلیری سے کام لے کر اس بار کو اٹھایا اور وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے قوم کے دوٹکڑے ہوتے دیکھ کر ایک جگہ پر قائم رہنے دیا اور وہ کون سا ہاتھ تھا جس نے مجھے ایک جگہ کھڑا کئے رکھا.اس وقت تو چاروں طرف کے لوگ موجود ہیں.لیکن ایک وہ وقت تھا کہ بہت قلیل حصہ جماعت کا بیعت میں شامل ہوا تھا.سوال یہ ہے کہ اس وقت جماعت کے اتحاد کی خاطر میں نے کیوں نہ اپنی بات چھوڑ دی؟ اور اتحاد قائم رکھا اس لئے آج میں اس بات کو بیان کروں گا جس نے مجھے مضبوط رکھا.لیکن اس سے پہلے میں چند اور باتیں بیان کرتا
برکات خلافت 10 ہوں.پہلا اعتراض اور اس کا جواب: ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ ہو یا ماً مور تم کون ہو.بادشاہ ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.مامور ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.پھر تم خلیفہ کس طرح ہو سکتے ہو خلیفہ کے لئے بادشاہ یاماً مور ہونا شرط ہے یہ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر ذرا بھی تدبر نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص درزی کی دکان پر جائے اور دیکھے کہ ایک لڑکا اپنے استاد کو کہتا ہے ” خلیفہ جی“ وہ وہاں سے آکر لوگوں کو کہنا شروع کر دے کہ خلیفہ تو درزی کو کہتے ہیں.اور کوئی شخص جو درزی کا کام نہیں کرتا وہ خلیفہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ اسی طرح ایک شخص مدرسہ میں جائے ( پہلے زمانہ میں مانیٹر کو خلیفہ کہتے تھے ) اور لڑکوں کو ایک لڑکے کو خلیفہ کہتے سنے اور باہر آ کر کہہ دے کہ خلیفہ تو اسے کہتے ہیں جولڑکوں کا مانیٹر ہوتا ہے.اس لئے وہ شخص جولڑکوں کا مانیٹر نہیں وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا خلیفہ کے لئے تو لڑکوں کا ہونا شرط ہے.اسی طرح ایک شخص دیکھے کہ آدم کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور انکے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو.وہ کہے کہ خلیفہ تو وہی ہوسکتا ہے جس کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کو ملے ورنہ نہیں ہوسکتا.اسی طرح ایک اور شخص آنحضرت ﷺ کے خلفاء کو دیکھے جن کے پاس سلطنت اور حکومت تھی.تو کہے کہ خلیفہ تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس سلطنت ہو اس کے سوا اور کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلیفہ کے لئے سلطنت کا ہونا شرط ہے.لیکن ایسا کہنے
برکات خلافت 11 والے اتنا نہیں سمجھتے کہ خلیفہ کے لفظ کے معنی کیا ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ جس کا کوئی خلیفہ کہلائے اس کا کام وہ کرنے والا ہو.اگر کوئی درزی کا کام کرتا ہے تو وہی کام کرنے والا اس کا خلیفہ ہے.اور اگر کوئی طالب علم کسی استاد کی غیر حاضری میں اس کا کام کرتا ہے تو وہ اس کا خلیفہ ہے.اسی طرح اگر کوئی کسی نبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے.اگر خدا نے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے.تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت ہونی چاہئے اور خدا خلیفہ کوضرور حکومت دے گا.اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ ہو تو خلیفہ کہاں سے لائے.آنحضرت ﷺ کو چونکہ خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ کے پاس بھی دونوں چیزیں تھیں.لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لڑتا پھرے کہ مجھے حکومت دو.ایسا اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا.اگر کوئی شخص یہاں بیٹھے ہوئے آدمیوں کی پگڑیوں ،ٹوپیوں اور کپڑوں کو دیکھ کر یہ لکھ لے کہ آدمی وہی ہوتے ہیں جن کی پگڑیاں، ٹوپیاں اور کپڑے ان کی طرح ہوتے ہیں اور باہر جا کر کسی شخص کو اُس اپنے مقرر کردہ لباس میں نہ دیکھے تو کہے کہ یہ تو آدمی ہی نہیں ہوسکتا تو کیا وہ بیوقوف نہیں ہے؟ ضرور ہے.اسی طرح اگر کوئی چند نبیوں کے خلیفوں کو دیکھ کر کہے کہ ایسے ہی خلیفے ہو سکتے ہیں.انکے علاوہ اور کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا تو کیا اس کی بات کسی عقلمند کے نزدیک ماننے کے قابل ہے؟ ہر گز نہیں.اس کو چاہئے کہ خلیفہ کے لفظ کو دیکھے اور اس پر غور کرے.اس وقت خلیفہ کے لفظ کے متعلق
برکات خلافت 12 عربی علم سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگوں کو غلطی لگی ہے.خلیفہ اس کو کہتے ہیں (۱) جو کسی کا قائم مقام ہو (۲) خلیفہ اس کو کہتے ہیں جس کا کوئی قائم مقام ہو(۳) خلیفہ وہ جو احکام و اوامر کو جاری کرتا اور ان کی تعمیل کراتا ہے.پھر خلیفے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو اصل کے مرنے کے بعد ہوتے ہیں.اور ایک اس کی موجودگی میں بھی ہوتے ہیں.مثلاً وائسرائے شہنشاہ کا خلیفہ ہوتا ہے.اب اگر کوئی وائسرائے کو کہے کہ چونکہ اسے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے یہ شہنشاہ کا خلیفہ نہیں ہوسکتا.تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ وہ جس بادشاہ کا نائب ہے اسکے پاس صرف حکومت ہی ہے اس لئے وائسرائے حکومت میں ہی اس کا خلیفہ ہے نہ کہ دین میں.تو یہ ایک موٹی بات ہے جس کو بعض لوگ نہیں سمجھے یا نہیں سمجھنا چاہتے.دوسرا اعتراض اور اس کا جواب: پھر یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود حضرت مسیح اسرائیلی کے مثیل تھے اس لئے ان کے خلفاء بھی ایسے ہی ہونے چاہئیں جیسے کہ مسیح اسرائیلی کے ہوئے لیکن چونکہ حضرت مسیح اسرائیلی کے بعد خلافت کا سلسلہ ثابت نہیں ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود کے بعد بھی کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے.اول تو یہ بات ہی بہت عجیب ہے.ہم تو یہ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے صلیب پر وفات نہیں پائی.اور صلیب کے واقعہ کے بعد اسی سال تک زندہ رہے ہیں.لیکن انجیل جس سے ان کے بعد کی خلافت کا سلسلہ نہیں نکلتا وہ تو ان کی صلیب کے واقعہ تک کے حالات زندگی کی تاریخ ہے.پس اس سے خلافت کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود کی کتاب براہین احمدیہ پیش کر کے کہے کہ اس میں تو
برکات خلافت 13 خلافت کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی کسی خلیفہ کا اس سے پتہ چلتا ہے اس لئے آپ کے بعد کوئی خلیفہ بھی نہیں ہوا.پس لوگ حضرت مسیح کا خلیفہ انجیل سے کس طرح پالیں.جبکہ وہ اس کی صرف ۳۳ سال کی زندگی کے حالات ہیں.حالانکہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی ہے.تو جب ۳۳ سال انجیلی زندگی کے بعد بھی حضرت مسیح زندہ رہے ہیں تو ان کے خلفاء کا پتہ انجیل سے کس طرح لگے اگر کوئی کہے کہ حضرت مسیح کے ایک سو بیس برس کی عمر میں مرنے کے بعد بھی تو کسی خلیفہ کا پتہ نہیں لگتا.اسکے لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر تم حضرت مسیح کی تمہیں سالہ زندگی کے بعد کے حالات ہمیں لا دو تو ہم ان کے خلیفے بھی نکال دیں گے.اور جب حضرت مسیح کی پچھلی زندگی کی کوئی تاریخ ہی موجود نہیں ہے تو ان کے خلفاء کے متعلق بحث کرنا ہی فضول اور لغو ہے.اور اگر یہ کہا جائے کہ صلیب پر لٹکنا اور ملک سے چلا جانا بھی موت ہی ہے.اور حضرت مسیح موعود نے بھی الوصیت میں لکھا ہے کہ ایسا ہی حضرت عیسی کے ساتھ معاملہ ہوا یعنی ان کے بعد بھی خلیفہ ہوا.اس لئے کوئی خلیفہ دکھاؤ.اچھا ہم اس کو مان لیتے ہیں لیکن اس اعتراض سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے انجیل پر بھی غور نہیں کیا.انجیل میں بعینہ وہی نقشہ درج ہے جو الوصیت میں حضرت مسیح موعود نے کھینچا ہے اور جس طرح الوصیت میں خلیفہ اور انجمن کا ذکر ہے اسی طرح انجیل میں ہے.حضرت مسیح" جب صلیب کے بعد اپنے حواریوں کے پاس آئے اور کشمیر جانے کا ارادہ کیا.تو اس کا ذکر یوحنا باب ۲۱ میں اس طرح پر ہے کہ اور جب کھانا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تو
برکات خلافت 14 ان سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اس نے اس ( مسیح) سے کہا.ہاں خداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں.اس نے اس سے کہا.تو میرے برے چرا.اس نے دوبارہ اس سے پھر کہا کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تو مجھ سے محبت رکھتا ہے.وہ بولا ہاں.خداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھ کو عزیز رکھتا ہوں.اس نے اس سے کہا.تو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر.اس نے تیسری بار اس سے کہا.کہ اے شمعون یوحنا کے بیٹے ! کیا تو مجھے عزیز رکھتا ہے.چونکہ اس نے تیسری بار اس سے کہا کیا تو مجھے عزیز رکھتا ہے.اس سبب سے پطرس نے دلگیر ہو کر اس سے کہا !اے خدا وند تو تو سب کچھ جانتا ہے تجھے معلوم ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں.یسوع نے اس سے کہا.کہ تو میری بھیڑیں چرا.“ ( آیت : ۱۵، ۱۶، ۱۷) تو حضرت مسیح نے اپنے بعد پطرس کو خلیفہ مقرر کیا.ایک جگہ لوقا باب 9 میں اس طرح حضرت مسیح کے متعلق لکھا ہے.” پھر اس نے ان بارہ (حواریوں ) کو بلا کر انہیں سب بدروحوں پر اور بیماریوں کو دور کرنے کے لئے قدرت اور اختیار بخشا اور انہیں خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے اور بیماروں کو اچھا کرنے کے لئے بھیج دیا.‘ ( آیت: ۲۱).پس وہ روانہ ہو کر گاؤں گاؤں خوشخبری سناتے اور ہر جگہ شفا دیتے پھرتے ( آیت: ۶).ان آیات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کے سپرد تبلیغ کا کام کیا ہے لیکن انہوں نے اپنی جماعت کو کسی جماعت کے سپرد نہیں کیا بلکہ صرف پطرس کو ہی کہا ہے کہ تو میرے برے چرا تو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر ” تو میری بھیڑیں چرا“ ہاں اپنے سلسلہ میں داخل کرنے کا حکم دیتے وقت سارے حواریوں کو ” خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے
برکات خلافت 15 اور بیماروں کو اچھا کرنے کے لئے بھیجا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے.اور جہاں آپ نے خلیفہ کا ذکر کیا ہے وہاں تو یہ لکھا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے.اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی ( مجادلہ: ۲۲) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اسکا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے.اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں انکو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو نسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشفیع کا موقع دے دیتا ہے.اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جنکے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں.اور کئی بد قسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر
برکات خلافت 16 دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے.اور صحابہ ” بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا.اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا.اور اس وعدہ کو پورا کیا.جو فرمایا تھا وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أمناً ( النور :۵۶) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسی مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچادیں فوت ہو گئے.اور بنی اسرائیل میں انکے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا.جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسٹی کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی کے ساتھ معاملہ ہوا.اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے.اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.“ ( الوصیت صفحہ ۶ ، ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴، ۳۰۵) پس حضرت مسیح موعود نے گرتی ہوئی جماعت کو سنبھالنے کے لئے وہی طریق بتایا ہے.جو آنحضرت ﷺ حضرت موسی اور حضرت عیسی کے بعد عمل میں آیا.یعنی خلفاء ہوئے.لیکن جہاں حضرت مسیح موعود نے تبلیغ کا حکم فرمایا ہے.وہاں یہ لکھا ہے.اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں.میرے نام پر میرے بعد
برکات خلافت 17 لوگوں سے بیعت لیں خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے.اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.“ ( الوصیت صفحه ۸ ۹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه (۳۰۷،۳۰۶ تو حضرت مسیح موعود نے جو کچھ اپنی جماعت کے متعلق فرمایا ہے.ویسا ہی حضرت مسیح نے بھی لکھا ہے.البتہ مسیح ناصری نے پطرس کا نام لے کر اس کے سپرد اپنی بھیڑوں (مریدوں ) کو کیا تھا.لیکن چونکہ مسیح محمدی کا ایمان اس سے زیادہ تھا.اس لئے اس نے کسی کا نام نہیں لیا.اور اللہ تعالیٰ کے سپر داس معاملہ کو کر دیا کہ وہ جس کو چاہے گا کھڑا کر دے گا ادھر ایک جماعت کو حکم دے دیا.کہ یہ میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.ہم کہتے ہیں کہ یہ سب احمدیوں کا فرض ہے.کہ وہ ایسا کریں.تو جس طرح حضرت عیسی نے اپنی جماعت کو پطرس کے حوالہ کیا.اسی طرح مسیح موعود نے اپنی جماعت کو ایک آدمی کے ماتحت رہنے کا حکم دیا اور جس طرح حضرت عیسی نے اپنے حواریوں کو تبلیغ کا حکم دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے نام پر بیعت لینے کا حکم دیا.اس کے بعد میں کچھ واقعات بیان کرتا ہوں.جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ غور سے سنیں اور جو نہیں بیٹھے ہوئے انہیں پہنچا دیں.جب حضرت خلیفہ امسیح الاول سخت بیمار ہو گئے
برکات خلافت 18 تو میں نے اپنے اختلاف پر غور کیا اور بہت غور کیا.جب میں نے یہ دیکھا کہ جماعت کا ایک حصہ عقائد میں ہم سے خلاف ہے تو میں نے کہا کہ یہ لوگ ہماری بات تو نہیں مانیں گے آؤ ہم ہی ان کی مان لیتے ہیں.میں نے بہت غور کر کے ایک شخص کی نسبت خیال کیا کہ اگر کوئی جھگڑا پیدا ہوا تو پہلے میں اسکی بیعت کرلوں گا پھر میرے ساتھ جو ہوں گے وہ بھی کر لیں گے اور اس طرح جماعت میں اتحاد اور اتفاق قائم رہ سکے گا.حضرت خلیفتہ امسیح کی وفات کے دن پچھلے پہر وہ شخص مجھے ملا اور میرے ساتھ سیر کو چل پڑا.اور اس نے مجھے کہا کہ ابھی خلیفہ کی بحث نہ کی جائے.جب باہر سے سب لوگ آجائیں گے تو اس مسئلہ کو طے کر لیا جائے گا.میں نے کہا دو دن تک لوگ آجائیں گے اس وقت اس بات کا فیصلہ ہو جائے.اس نے کہانہیں سات آٹھ ماہ تک یونہی کام چلے پھر دیکھا جائے گا اتنی جلدی اس کی ضرورت ہی کیا ہے.میں نے کہا کہ اگر اس معاملہ میں میری رائے پوچھتے ہو تو میں تو یہی کہوں گا کہ خلافت کا مسئلہ نہایت ضروری ہے اور جس قدر بھی جلدی ممکن ہو سکے اس کا تصفیہ ہو جانا چاہئے.میں نے کہا کہ کیا آپ کوئی ایسا خاص کام بتا سکتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں اگر آپ خلیفہ نہ ہوتے تو وہ رک جاتا اور جس کی وجہ سے فوراً ان کو خلیفہ بنانے کی حاجت پڑی.اگر اس وقت کوئی ایسا خاص کام نہ ہوتے ہوئے پھر بھی ان کی ضرورت تھی تو اب بھی ہر وقت ایک خلیفہ کی ضرورت ہے.خلیفہ کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ جماعت میں جب کوئی نقص پیدا ہو جائے تو وہ اسے دور کر دے نہ کہ وہ مشین ہوتی ہے جو ہر وقت کام ہی کرتی رہتی ہے.آپ کو کیا معلوم ہے کہ آج ہی جماعت میں کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو پھر
برکات خلافت 19 کون اس کا فیصلہ کرے گا.میں نے کہا کہ ہماری طرف سے خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا نہیں پیدا ہو سکتا آپ کوئی آدمی پیش کریں میں اس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.کچھ اور لوگوں کو بھی مجھ سے محبت ہے وہ بھی اس کی بیعت کر لیں گے اور کچھ لوگ آپ سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ بھی بیعت کر لیں گے اس طرح یہ معاملہ طے ہو جائے گا.پھر میں نے کہا کہ یہ بحث نہیں ہونی چاہئے کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو بلکہ اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کہ کون خلیفہ ہو.اس وقت پھر میں نے یہ کہا کہ آپ اپنے میں سے کوئی آدمی پیش کریں میں اس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر میں یہ کبھی بھی نہیں مان سکتا کہ کوئی خلیفہ نہ ہو.اگر تمام لوگ اس خیال کو چھوڑ دیں اور اس خیال کے صرف چند آدمی رہ جائیں تب بھی ہم کسی نہ کسی کی بیعت کرلیں گے اور ایک کو خلیفہ بنا ئیں گے.مگر ہم یہ کبھی نہ مانیں گے کہ خلیفہ نہ ہو.دوسرا آدمی خواہ کوئی ہو.غیر احمد یوں کو کافر کہے یا نہ کہے.ان کے پیچھے نماز جائز سمجھے یا نہ سمجھے.ان سے تعلقات رکھے یا نہ رکھے.ایک خلیفہ چاہئے تا کہ جماعت کا اتحاد قائم رہے اور ہم اس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں.یہ گفتگو بیچ میں ہی رہی اور کوئی فیصلہ نہ ہوا.اور تجویز ہوئی کہ اس پر مزید غور کے بعد پھر گفتگو ہوا اور دوسرے دوست بھی شامل کئے جائیں.دوسرے دن پانچ سات آدمی مشورہ کے لئے آئے اور اس بات پر بڑی بحث ہوئی کہ خلافت جائز ہے یا نہیں.بڑی بحث مباحثہ کے بعد جب وقت تنگ ہو گیا تو میں نے کہا اب صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ خلیفہ کی ضرورت سمجھتے ہیں وہ اپنا ایک خلیفہ بنا کر اس کی بیعت کر لیں.ہم ایسے لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے مشورہ پوچھتے ہیں.آپ
برکات خلافت 20 20 لوگ جو کہ خلیفہ ہونا ناجائز سمجھتے ہیں وہاں تشریف نہ لائیں تا کہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو.اس کے بعد ہم یہاں ( مسجد نور میں ) آگئے.وہ لوگ بھی یہیں آ پہنچے.پھر جو خدا کو منظور تھا وہ ہوا.اس وقت جو لوگ میرے پاس بیٹھے تھے وہ خوب جانتے ہیں کہ اس وقت میری کیا حالت تھی.اگر میں نے پہلے سے کوئی منصوبہ سازی کی ہوتی تو چاہئے تھا کہ پہلے سے ہی میں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے ہوتے.لیکن اس وقت ایک شخص مجھے بتلاتا گیا اور میں وہ الفاظ کہتا گیا.کیا ہی منصو بہ باز کا حال ہوتا ہے؟ تیسرا اعتراض اور اس کا جواب : پھر کہتے ہیں کہ اس وقت ایک شخص تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو اس کو کہا گیا کہ بیٹھ جاؤ.اس سے اس کی ہتک ہوئی ہے.میں کہتا ہوں کہ اس وقت اس کو اگر مار بھی پتی تو کوئی حرج نہ تھا کیونکہ ہیں تو لیفہ کی ضرورت تھی جس کا وہ انکار کرتا تھا.اس نے دیکھ لیا کہ نورالدین خلیفتہ امسیح نے ہی اس کی عزت سنبھالی ہوئی تھی اس کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ ذلیل ہو گیا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ کی فوراً ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سات آٹھ ماہ کے بعد جا کر اس کی حاجت پیش آتی ہے مگر مجھے اس معاملہ کے متعلق کچھ علم نہیں تھا کہ کون بولنے کے لئے کھڑا ہوا ہے اور کس نے منع کیا ہے.اس مسجد سے باہر جا کر مجھے ایک شخص نے سنایا کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ واقعی قادیان ہسپتال ہے اور اس میں رہنے والے سارے مریض ہیں.میں نے پوچھا یہ اس نے کیوں کہا.تو اس نے جواب دیا کہ وہ کہتا ہے کہ اس وقت مولوی محمد علی بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے انکو بولنے نہیں دیا گیا جس سے
برکات خلافت 21 ان کی ہتک ہوئی ہے اس وقت مجھے اس بات کا علم ہوا.اور اگر اسی وقت مجھے علم ہو جاتا تو میرا کیا حق تھا کہ میں کسی کو روک دیتا اور ایسا نہ کرنے دیتا.اور لوگوں کو مجھ سے اس وقت کون سا تعلق تھا؟ جس کی وجہ سے وہ میری بات ماننے کے لئے تیار ہو جاتے.اس وقت تک تو کوئی شخص جماعت کا امام مقرر نہ ہوا تھا.ایک اور واقعہ اسکے بعد ایک اور واقعہ ہوا.اور وہ یہ کہ میں نے سنا کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان کو چھوڑ کر جانے کی تیاری کر رہے ہیں.میں نے انہیں لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ یہاں سے جانا چاہتے ہیں.آپ ایسا کیوں کرتے ہیں آپ اپنی تکلیف مجھے لکھیں کہ آپ کو کیا تکلیف ہے میں نے لکھ کر ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو دیا کہ آپ ان کے پاس لے جائیں.میں نے کسی ملازم وغیرہ کے ہاتھ خط دے کر اس لئے نہ بھیجا تا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ کسی اور آدمی کے ہاتھ خط بھیجنے سے میری ہتک ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب کو میں نے یہ بھی کہا کہ آپ جا کر ان سے پوچھیں کہ آپ یہاں سے کیوں جاتے ہیں ؟ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں.اس کا جواب یہ دیا گیا کہ بھلا ہم قادیان کو چھوڑ کر کہیں جاسکتے ہیں؟ آپ کو معلوم ہی ہے کہ میں نے چھٹی لی ہوئی ہے اسے پورا کرنے کے لئے جاتا ہوں.جواب کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ میرے جانے کی یہ وجہ بھی ہے کہ آج کل چونکہ بعض طبائع میں جوش ہے اس لئے میں نے خیال کیا ہے کہ کچھ عرصہ باہر رہوں تا کہ جوش کم ہو جائے ایسا نہ ہو پٹھانوں میں سے کوئی جوش میں مجھ پر حملہ کر بیٹھے.لیکن اس خط میں زیادہ تر زور اس بات پر دیا گیا تھا کہ ہم قادیان چھوڑ کر کہاں جا سکتے ہیں؟ میں تو چھٹی کے ایام باہر
برکات خلافت 22 گزارنے کے لئے جاتا ہوں.اس کے بعد میں ان سے ملنے کے لئے ان کے گھر گیا.میرے ساتھ نواب صاحب بھی تھے.جب ہم ان کے پاس جا کر بیٹھے تو کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں.ترجمہ قرآن کے متعلق کچھ گفتگو ہوئی.پھر ڈاکٹر صاحب نے اصل مطلب کی طرف کلام کی رو پھیرنے کے لئے کہا کہ میاں صاحب آپ کے خط پر خود آپ کے پاس آئے ہیں.ابھی یہ بات انہوں نے کہی ہی تھی کہ مولوی صاحب نے ایک ایسی حرکت کی جس سے ہم نے سمجھا کہ یہ ہمیں ٹالنا چاہتے ہیں.ممکن ہے کہ ان کا مطلب یہ نہ ہو.اس وقت انہیں کم از کم یہ تو خیال کرنا چاہئے تھا کہ ہم گوا سے نہیں مانتے لیکن جماعت کے ایک حصہ نے اس کو امام تسلیم کیا ہے.ایک آدمی جس کا نام بگا ہے وہ کوٹھی کے باہر ان کو نظر آیا انہوں نے فوراً اس کو آواز دی کہ آمیاں بگا تو لاہور سے کب آیا کیا حال ہے اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں.یہ دیکھ کر ہم اٹھ کر چلے آئے.میں نے ان کی اس حرکت سے یہ نتیجہ نکالا کہ شاید وہ اس معاملہ کے متعلق گفتگو کرنی ہی نہیں چاہتے.واللہ اعلم.ان کی یہ منشاء تھی یا نہ لیکن میرے دوسرے ساتھیوں کا بھی ایسا ہی خیال تھا اس لئے ہم چلے آئے.اتحاد کی کوشش: ان باتوں کے علاوہ میں نے قوم کے اتحاد اور اتفاق کے قائم رکھنے کے لئے اور بھی تجویزیں کیں.جب حضرت خلیفہ امسیح کی حالت بہت نازک ہوگئی اور مجھے معلوم ہوا کہ بعض لوگ مجھے فتنہ گر کہتے ہیں.تو میں نے ارادہ کر لیا کہ میں قادیان سے چلا جاؤں اور جب اس بات کا فیصلہ ہو جائے تو پھر آجاؤں گا.میں نواب صاحب کی کوٹھی سے جہاں حضرت خلیفہ اسیح بستر علالت پر پڑے تھے گھر آیا اپنی
برکات خلافت 23 23 بیٹھک کے دروازے کھول کر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے مولی ! اگر میں فتنہ کا باعث ہوں.تو مجھے اس دنیا سے اٹھا لیجئے یا مجھے توفیق دیجئے کہ میں قادیان سے کچھ دنوں کے لئے چلا جاؤں.دعا کرنے کے بعد پھر میں نواب صاحب کی کوٹھی پر آیا.مگر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا کہ ہم ذمہ دار ہوں گے تم یہاں سے مت جاؤ.میں ایک دفعہ قسم کھا چکا ہوں اور پھر اسی ذات کی قسم کھا تا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے اور جو اس گھر ( مسجد ) کا مالک ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں جو آسمان اور زمین کا حاکم ہے اور جس کی جھوٹی قسم لعنت کا باعث ہوتی ہے اور جس کی لعنت سے کوئی جھوٹا بچ نہیں سکتا کہ میں نے کسی آدمی کو کبھی نہیں کہا کہ مجھے خلیفہ بنانے کے لئے کوشش کرو.اور نہ ہی کبھی خدا تعالیٰ کو میں نے یہ کہا کہ مجھے خلیفہ بنائیو.پس جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے خود اپنے فضل سے چن لیا ہے تو میں کس طرح اسے نا پسند کرتا؟ کیا اگر تمہارا کوئی دوست تمہیں کوئی نعمت دے اور تم اس کو لے کر نالی میں پھینک دو.تو تمہارا دوست خوش ہوگا ؟ اور تمہاری یہ حرکت درست ہوگی؟ ہر گز نہیں.تو اگر خدا تعالیٰ نعمت دے تو کون ہے جو اس کو ہٹا سکے.جب دنیا کے دوستوں کی نعمتوں کو کوئی رد نہیں کرتا بلکہ بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو میں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کو کس طرح رد کر دوں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو رد کرنے والوں کے بڑے خطرناک انجام ہوتے رہے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم کے لوگ طور پر گئے.خدا تعالیٰ نے ان کو فرمایا تھا کہ آؤ ہم تم سے کلام کریں.وہاں جب زلزلہ آیا تو وہ ڈر گئے اور کہنے لگے کہ ہم خدا کی باتوں کو نہیں سننا
برکات خلافت 24 چاہتے اور واپس چلے آئے.خدا تعالیٰ نے ان کو اس نعمت کی ناقدری میں یہ سزادی کہ فرمایا: اب تم سے کوئی شرعی نبی بر پا نہیں کیا جائے گا.بلکہ تمہارے بھائیوں میں سے کیا جائے گا.تو خدا تعالیٰ کی نعمت کو رد کرنے والوں کی نسبت جب میں یہ دیکھ چکا ہوں تو پھر خدا کی نعمت کو میں کس طرح رڈ کر دیتا.مجھے یقین تھا کہ وہ خدا جس نے مجھے اس کام کے لئے چنا ہے وہ خود میرے پاؤں کو مضبوط کر دے گا.اور مجھے استقامت اور استقلال بخشے گا.پس اگر مجھے خلیفہ ماننے والے بھی سب کے سب نہ ماننے والے ہو جاتے اور کوئی بھی مجھے نہ مانتا اور ساری دنیا میری دشمن اور جان کی پیاسی ہو جاتی جو کہ زیادہ سے زیادہ یہی کرتی کہ میری جان نکال لیتی تو بھی میں آخری دم تک اس بات پر قائم رہتا.اور کبھی خدا تعالیٰ کی نعمت کے رڈ کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہ آتا کیونکہ یہ غلطی بڑے بڑے خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے.امام حسن کا واقعہ: امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہی غلطی ہوئی تھی جس کا بہت خطر ناک نتیجہ نکلا.گو یہ غلطی ان سے ایک خاص اعتقاد کی بناء پر ہوئی اور وہ یہ کہ بیٹا باپ کے بعد خلیفہ نہیں ہوسکتا.جیسا کہ حضرت عمر کا اعتقاد تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے متعلق فرمایا کہ میرے بیٹے سے اس میں مشورہ لیا جائے لیکن اس کو خلیفہ بنے کا حق نہ ہوگا.حضرت علی نے اپنے بیٹے امام حسن کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا.ان کی نیت نیک تھی کیونکہ اور کوئی ایسا انسان نہ تھا جسے خلیفہ بنایا جا سکتا اور جو خلافت کا اہل ہوتا.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسن بھی حضرت عمر کا سا ہی خیال رکھتے تھے.یعنی یہ کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے اسلئے
برکات خلافت 25 25 انہوں نے بعد میں معاویہ سے صلح کر لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بعد امام حسین اور ان کا سب خاندان شہید ہو گیا.ایک دفعہ انہوں نے خدا کی نعمت کو چھوڑا.خدا تعالیٰ نے کہا اچھا اگر تم اس نعمت کو قبول نہیں کرتے تو پھر تم میں سے کسی کو یہ نہ دی جائے گی.چنانچہ پھر کوئی سید کبھی بادشاہ نہیں ہوا سوائے چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے سیدوں کو حقیقی بادشاہت اور خلافت کبھی نہیں ملی.امام حسن نے خدا کی دی ہوئی نعمت واپس کر دی.جس کا نتیجہ بہت تلخ نکلا.تو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو ر ڈ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.اس شخص کو خدا کی معرفت سے کوئی حصہ نہیں ملا.اور وہ خدا کی حکمتوں کے سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا جو مجھے کہتا ہے کہ آپ خلافت کو چھوڑ دیں.اس نادان کو کیا معلوم ہے کہ اس کے چھوڑنے کا کیا نتیجہ ہوگا.پس حضرت عثمان کی طرح میں نے بھی کہا کہ جو قبا مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے وہ میں کبھی نہیں اتاروں گا خواہ ساری دنیا اس کے چھینے کے درپے ہو جائے.پس میں اب آگے ہی آگے بڑھوں گا خواہ کوئی میرے ساتھ آئے یا نہ آئے.مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ابتلاء آئیں گے مگر انجام اچھا ہو گا.پس کوئی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے خواہ وہ کوئی ہو انشاء اللہ میں کامیاب رہوں گا اور مجھے کسی کے مقابلہ کی خدا کے فضل سے کچھ بھی پرواہ نہیں ہے.بعض باتیں ایسی ہیں جو کہ میں خود ہی سناسکتا ہوں کسی کو کیا معلوم ہے کہ مجھ پر کتنا بڑا بوجھ رکھا گیا ہے بعض دن تو مجھ پر ایسے آتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ شام تک میں زندہ نہیں رہوں گا.اس وقت میں یہی خیال کرتا ہوں کہ جتنی دیر زندہ ہوں اتنی دیر کام کئے
برکات خلافت 26 جاتا ہوں.جب میں نہ رہوں گا تو خدا تعالیٰ کسی اور کو اس کام کے لئے کھڑا کر دے گا مجھے اپنی زندگی تک اس کام کی فکر ہے.جو میرے سپر دخدا تعالیٰ نے کیا ہے بعد کی مجھے کوئی فکر نہیں ہے.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے ہی چلایا ہے اور وہی اس کا انتظام کرتا رہے گا.خلافت کیا گدی بن گئی ہے؟ : وہ نادان جو کہتا ہے کہ گدی بن گئی ہے اس کو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتا کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو.ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے مامور کر دے تو یہ الگ بات ہے اور حضرت عمرؓ کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہئے.پھر کہا جاتا ہے کہ وصیت کے قول کو دیکھو چھ سال کا عمل کیا چیز ہوتی ہے.ہم کہتے ہیں کہ چھ سال کیا ہوتے ہیں.ہم مان لیتے ہیں آنحضرت ﷺ کے بعد سے لے کر حضرت مسیح موعود تک کے بارہ سوسال کے زمانہ کا عمل بھی کوئی چیز نہیں ہوتا.اور چھ سال کیا بلکہ اس سارے زمانہ کے عمل کی قربانی کرنے کے لئے ہم تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ نمونہ کہیں سے نہیں ملتا کہ کسی نبی کی وفات کے بعد ہی اس کی جماعت نے گمراہی پر اجماع کیا ہو.لیکن حضرت مسیح موعود کی وفات کو ایک دن بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ جماعت احمدیہ نے خلافت پر اجماع کیا.کیا نعوذ باللہ یہ گمراہی پر اجماع تھا؟ ہرگز نہیں.ہمیں یہ سنایا جاتا ہے کہ کیا ہم منافق ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم سب کو منافق نہیں کہتے.ہاں جس کے دل میں صداقت کا نام بھی نہیں اور جو بول اٹھے کہ میں منافق ہوں اسے
برکات خلافت 27 ہم منافق کہتے ہیں.تو ہم کہتے ہیں کہ بقول ان کے مان لیا کہ اس وقت جماعت کے بیسویں حصہ نے بیعت کی ہے مگر اس وقت یعنی حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت تو ساری جماعت نے ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی.وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت جماعت نے گمراہی پر اجماع کیا تھا.لیکن یہ نظیر پہلے کہیں سے نہ ملے گی.حضرت مسیح کی وفات پر حضرت مسیح موعود بہت بڑی دلیل تو فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (سوره مائده : ۱۱۸) کی دیا کرتے تھے اور دوسری بڑی بھاری دلیل صحابہ کے اجماع کو بتلاتے تھے.مگر آج کہا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی وفات کے بعد چھ سال تک جماعت احمدیہ کا اجماع گمراہی پر رہا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کے بعد جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو دیکھا اور آپ کی صحبت سے فیض اٹھایا دوسرے لوگ کسی غلط مسئلہ پر اجماع کر لیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے صحابی ایسا کریں.اگر یہ لوگ ہی ایسا کریں تو حضرت مسیح موعود کے دنیا میں آنے کا فائدہ ہی کیا ہوا.اس میں شک نہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ کمزور بھی ہیں.لیکن کیا آنحضرت ﷺ کے وقت منافقوں کا گروہ نہیں تھا اور کیوں بعض اشخاص کو جو کہ آپ کے صحابہ کے گروہ میں شامل رہتے تھے اب رضی اللہ عنہ نہیں کہا جا تاحتی کہ ان کو صحابی بھی نہیں کہا جاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ منافق تھے.وہ زبان سے آنحضرت ﷺ کو مانتے تھے لیکن ان کا دل نہیں مانتا تھا.اسی طرح اب ہم کہتے ہیں کہ جو دل سے مسیح موعود کے احکام کو مانتے رہے اور مانتے ہیں ان کو ہم آپ کے صحابہ میں سے کہیں گے اور جو نہیں مانیں گے ان کو نہیں کہیں گے.کیا عبداللہ بن ابی آنحضرت ﷺ کے ساتھ نہیں رہتا تھا اور
برکات خلافت 28 آپ کے صحابہ میں شامل نہیں تھا مگر اس کو صحابہ میں اس لئے شامل نہیں کیا جا تا کہ وہ منافق تھا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود کے ساتھ رہنے والوں میں سے کوئی ٹھوکر کھائے.تو یہ اس کا اپنا قصور ہے نہ کہ اس کا حضرت مسیح موعود کی صحبت میں رہنا اس ٹھوکر کے نقصان سے اسے بچا سکتا ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ یہ ہمارا قیاس ہی قیاس نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ساری جماعت کو ٹھو کر نہیں لگی.بلکہ حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھا: سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را مسیح موعود اللہ تعالیٰ کو اپنا سرمایہ پیش کرتے ہیں.کیوں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے.اور یہ خدا تعالیٰ نے خود فر مایا کہ تم اپنی جماعت کو میرے سپرد کر دو.ہم اس کی حفاظت کریں گے.اب اگر منکرین خلافت کی بات مان لی جائے تو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کی جماعت کی اچھی حفاظت کی کہ اس کا پہلا اجماع ضلالت پر کروایا.مسیح موعود نے جماعت کو خدا کے سپرد کیا تھا.خدا نے اس جماعت کو نور الدین کے سپرد کر دیا.جس کی نسبت (نعوذ باللہ ) کہا جاتا ہے کہ گمراہی تھی کیا خدا تعالیٰ کو یہ طاقت نہ تھی کہ نورالدین سے جماعت کو چھڑا لیتا؟ اور گمراہ نہ ہونے دیتا.طاقت تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس سے ثابت ہوا کہ جماعت کا اجماع غلطی پر نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت تھا.یہی باتیں نہیں ہیں جنہوں نے مجھے اپنی بات پر قائم رکھا بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں
برکات خلافت 29 29 اور میں نے اپنے قیاس پر ہی اس بات کو نہیں چلایا بلکہ یقینی امور پر سمجھا ہے.اور وہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے میں اس سے ہٹ نہیں سکتا.اور وہ زمین کی گواہی نہیں ہے بلکہ آسمان کی گواہی ہے.وہ آدمیوں کی گواہی نہیں بلکہ خدا کی گواہی ہے.پس میں اس بات کو کس طرح چھوڑ سکتا ہوں.ساری دنیا بھی اگر مجھے کہے کہ یہ بات غلط ہے تو میں کہوں گا کہ تم جھوٹے ہو اور جو کچھ خدا تعالیٰ کہتا ہے وہی سچ ہے کیونکہ خدا ہی سب بچوں سے سچا ہے.صلح کیونکر ہو؟ : بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپس میں صلح ہو جانی چاہئے.کیا ان لوگوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے وہ اس کو چھوڑ دیں گے.یا ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ ہونا چاہیئے ہم اسے چھوڑ دیں گے.اگر نہیں چھوڑیں گے تو دو نہایت متضاد خیالات کے لوگوں کا اکٹھا کام کرنا اور ہر ایک کا یہ خیال کرنا کہ دوسرے فریق کے خیالات سلسلہ کے لئے سخت نقصان دہ ہیں اور زیادہ اختلاف کا باعث ہوگا یا امن کا ؟ میں تو صلح کے لئے تیار ہوں اور میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس کو صلح کا شہزادہ کہا گیا ہے.لیکن وہ صلح جو دین کی تباہی کا باعث ہوتی ہو وہ میں کبھی قبول نہیں کر سکتا.مگر وہ صلح جس میں راستی کو نہ چھوڑنا پڑے اس کے کرنے کے لئے مجھ سے زیادہ اور کوئی تیار نہیں ہے مجھے حضرت مسیح کی وہ تمثیل بہت ہی پسند ہے جو کہ لوقا باب ۱۵ میں لکھی ہے کہ کسی شخص کے دو بیٹے تھے.ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے.اس نے اپنا مال متاع انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک کو روانہ ہوا.اور وہاں اپنا مال
برکات خلافت 30 30 بدچلنی میں اڑا دیا.اور جب سب خرچ کر چکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور و محتاج ہونے لگا.پھر اس ملک کے ایک باشندہ کے ہاں جا پڑا.اس نے اسکو اپنے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا.اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سور کھاتے تھے انہیں سے اپنا پیٹ بھرے.مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا.پھر اس نے ہوش میں آکر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے ملتی ہے.اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں.میں اٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا.کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے.پس وہ اٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا.وہ ابھی دور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا.اور دوڑ کر اس کو گلے لگالیا اور بو سے لئے بیٹے نے اس سے کہا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں.باپ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جامہ جلد نکال کر اسے پہناؤ.اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ.اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھا کر خوشی منائیں.کیونکہ میرا یہ بیٹا مردہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا.اب ملا ہے پس وہ خوشی منانے لگے.لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا.جب وہ آکر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی.اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے.اس نے اس سے کہا تیرا بھائی آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا کچھڑ ا ذبح کرایا ہے.اس لئے کہ اسے بھلا چنگا پایا.وہ غصے ہوا اور اندر جانا نہ چاہا.مگر اس کا باپ باہر جا کے اسے منانے لگا.اس نے اپنے باپ سے
برکات خلافت 31 جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی.مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی منا تا.لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اڑا دیا.تو اس کے لئے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا.اس نے اس سے کہا بیٹا تو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے.لیکن خوشی منانی اور شادمان ہونا مناسب تھا.کیونکہ تیرا یہ بھائی مردہ تھا.اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.“ آیت: ۱۱ تا ۳۲ مطبوعہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی ۱۹۲۲ء انار کلی لاہور ) سو میں بہت وسعت حوصلہ رکھتا ہوں.اگر کوئی پچھتاتا ہوا آئے تو میں اس کی آمد پر بنسبت ان کے بہت خوش ہوں گا جنہوں نے پہلے دن بیعت کر لی تھی کیونکہ وہ گمراہ نہیں ہوئے اور یہ گمراہ ہو گیا تھا.وہ کھوئے نہیں گئے اور یہ کھویا گیا تھا لیکن پھر مل گیا ہے.باپ اپنے بیٹوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے.مگر اس باپ سے بیٹے کے دیکھنے کی خوشی پوچھو.جس کا بیٹا بیمار ہو کر تندرست ہو گیا ہو.میں نفاق کی صلح ہرگز پسند نہیں کرتا.ہاں جو صاف دل ہو کر اور اپنی غلطی کو چھوڑ کر صلح کے لئے آگے بڑھے میں اس سے زیادہ اسکی طرف بڑھوں گا.ایک ضروری بات: میں اب ایک اور بات بتا تا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو منافقت کی صلح کرنی چاہتے ہیں وہ یادرکھیں کہ یہ بھی نہیں ہو سکے گی کیونکہ پچھلے دنوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ منشاء الہی کے مطابق ہوا ہے.ہم میں شامل ہونے والے تو آئیں گے اور آتے ہی رہیں گے اور ان کو وہی رتبہ اور درجہ دیا جائے گا جو انکا پہلے تھا مگر جو ہونا تھا وہ ہو گیا
برکات خلافت 32 32 اس کو روکنا کسی انسان کی طاقت اور قدرت میں نہیں ہے.یہ جوفتنہ پڑا ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے قبل از وقت خبر دے دی تھی.کمزور دل کے لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا احمد یہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا.میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ سے سلسلہ ٹوٹتا نہیں بلکہ بنتا ہے مبارک ہے وہ انسان جو اس نکتہ کو سمجھے.اللہ تعالیٰ کے پیارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ انہیں ایک زخم لگاتا ہے تو ان کی جماعت اور بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.کیا تم نے کبھی باغبان کو دیکھا نہیں جب وہ کسی درخت کی شاخیں کاتا ہے تو اور زیادہ شاخیں اس کی نکل آتی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے جو اس سلسلہ احمدیہ کے درخت کی کچھ شاخیں کاٹی ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہ درخت سوکھ جائے بلکہ اس لئے کہ اور زیادہ بڑھے.سو یہ مت سمجھو کہ اس فتنہ کی وجہ سے لوگ سمجھیں گے کہ یہ سلسلہ جھوٹا ہے کیونکہ یہ تو اس کی صداقت کو ظاہر کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں.اگر کوئی نبی بیمار ہو جائے اور اس کے مخالفین خوش ہوں کہ یہ اب فوت ہو جائے گا لیکن وہ انہیں اپنا الہام نکال کر دکھا دے کہ میرا بیمار ہونا تو میری صداقت کی دلیل ہے کیونکہ مجھے پہلے بتایا گیا تھا کہ تو بیمار ہو گا تو اس بیماری سے اس نبی کی صداقت پر کوئی دھبہ نہیں لگتا بلکہ اس کی صداقت اور ثابت ہوتی ہے.اسی طرح جب اس فتنہ کے لئے پہلے خبر میں دی گئی تھیں تو یہ ہماری ترقی میں کوئی روک نہیں ہوسکتا بلکہ اور زیادہ ترقی کے لئے اس فتنہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دلائل و براہین کی تلوار میں دے دی ہیں تا کہ نہ ماننے والوں کو دلائل کے ساتھ قتل کرتے پھریں.فتنہ کا ہونا ضروری تھا: (۱) دیکھو حضرت مسیح موعود نے کے دسمبر ۱۸۹۲ء کو اپنا ایک رؤیا
برکات خلافت 33 بیان فرمایا کہ " کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں.یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں.اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے.یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے.تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس ہیں اور شفقت اور تو ڈر سے مجھے فرماتے ہیں کہ " يَا عَلِيٌّ دَعْهُمْ وَ أَنْصَارَهُمْ وَزِرَاعَتَهُمْ یعنی اے علی ان سے اور ان کے مددگاروں اور انکی کھیتی سے کنارہ کر.اور انکو چھوڑ دے اوران سے منہ پھیر لے اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت سے مجھے کوفر ماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترک خطاب بہتر ہے.“ ( تذکرہ صفحہ ۲۰۹) الله اس رویا میں حضرت مسیح موعود کو بتایا گیا کہ لوگ تمہاری خلافت کا انکار کریں گے اور فتنہ ڈالیں گے لیکن صبر کرنا ہوگا.آپ نے اس رویا کے معنی یہ بھی کئے ہیں کہ لوگ میرا انکار کریں گے.لیکن خدا تعالیٰ کی باتوں کے کئی معنے ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے الہام شَاتَانِ تُذْبَحَانِ کے پہلے اور معنے گئے تھے اور پھر اسے سید عبد اللطیف صاحب شہید اور مولوی عبد الرحمن صاحب پر چسپاں فرمایا اور دونوں ہی معنی درست تھے.تو اس رؤیا کے ایک معنے تو یہ بھی ہیں کہ لوگ حضرت مسیح موعود کا انکار کریں گے.لیکن اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے بعد جو
برکات خلافت =4 34 خلافت ہوگی اس کا انکار ایک جماعت کرے گی اور فتنہ ڈالے گی.پس اگر کوئی جماعت خلافت کی منکر نہ ہوتی تو یہ رویا کس طرح پوری ہوتی.(۲) لوگ کہتے ہیں کہ خلافت کا انکار کرنے والے بڑے آدمی ہیں.ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے لیکن حضرت مسیح موعود بڑے لوگوں کی نسبت ہی لکھتے ہیں کہ ”پس جو شخص در حقیقت اپنی جان اور مال اور آبرو کو اس راہ میں بیچتا نہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کے نزدیک بیعت میں داخل نہیں.بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں.اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلاء کے وقت ٹھو کر کھاتے ہیں.اور بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں.اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مردار کی طرف.پس میں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جا تا کہ انکو مطلع کروں کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقام خوف ہے“ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۴) اگر یہ بات جو روز ازل سے مقدر ہو چکی تھی اور جس کی خبر حضرت مسیح موعود کو وقتاً فوقتا دی جاتی تھی اس وقت اس طرح پوری نہ ہوتی کہ جو بڑے تھے وہ چھوٹے نہ کئے جاتے اور وہ جماعت جس کو دبایا جاتا تھا اس کو بڑھایا نہ جاتا تو کس طرح اس کی صداقت ثابت ہوتی.
برکات خلافت 35 55 (۳) پھر اگر جماعت احمدیہ کے دو گروہ نہ ہوتے تو حضرت مسیح موعود کا یہ الہام کس طرح پورا ہوتا کہ ” خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا.پس یہ پھوٹ کا ثمرہ ہے.‘ ( ۱۷ اپریل ۱۹۰۷ء تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۷۱۵ ) یعنی جماعت کے دو گروہ ہو جائیں گے.اور ان میں سے خدا ایک کے ہی ساتھ ہوگا.اگر کوئی کہے کہ اس سے مراد احمدی اور غیر احمدی ہیں اور اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ اس اختلاف میں احمدیوں کے ساتھ ہوگا تو ہم کہتے ہیں کہ اگر اس سے احمدی اور غیر احمدی مراد ہیں تو الہام اس طرح ہونا چاہیئے تھا کہ اللہ ایک کا ہے نہ کہ ایک کا ہوگا کیونکہ حضرت صاحب کا الہام ہے ” إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ وَ مَعَ كُلِّ مَنْ اَحَبَّكَ“.( ترجمہ ) میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.اور ان تمام کے ساتھ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں یا رکھیں گے.( ۹ جون ۱۹۰۵ء تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۴ ۵۵) یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت احمدیوں کے ساتھ ہے.مگر اس الہام کا لفظ ” ہوگا ثابت کرتا ہے کہ اللہ کسی آئندہ زمانہ میں ایک کا ہوگا.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس الہام میں احمدی جماعت کے دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے.پس اگر موجودہ فتنہ نہ ہوتا تو یہ الہام کس طرح پورا ہوتا ؟ (۴) پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود کے صحبت یافتہ اور آپ کے بڑے پیارے دوستوں میں سے ہیں ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے.ایک وقت آپ ایسے ہی تھے.لیکن کیا آپ کو حضرت مسیح موعود کا وہ الہام یاد نہیں ہے جو کہ شیخ رحمت اللہ صاحب کے دعا کے عرض کرنے پر صبح کو حضرت مسیح موعود نے سنایا تھا کہ میں نے آپ کے لئے دعا
برکات خلافت 36 کی تھی.اور مجھے یہ الہام ہوا ہے شَرُّ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.(ترجمہ) شرارت ان لوگوں کی جن پر انعام کیا تو نے.(۲۶ مئی ۱۹۰۵ء تذکره صفحه ۵۵۰ ایڈیشن چہارم) آج اگر اس فتنہ میں بعض وہ لوگ شامل نہ ہوتے جن پر حضرت صاحب انعام فرماتے تھے تو وہ الہام کیونکر پورا ہوتا خصوصاً وہ شخص کہ جس کو مخاطب کر کے آپ نے اپنا یہ الہام سنایا.(۵) ایک ۱۳ مارچ ۱۹۰۷ء کا الہام ہے ۱۳،مارچ کو ہی حضرت خلیفتہ المسح الاول فوت ہوئے.۱۳،مارچ کو ہی لاہور سے ٹریکٹ شائع ہوا.اگر یہ ٹریکٹ شائع نہ ہوتا تو یہ الہام کہ لاہور میں ایک بے شرم ہے کس طرح پورا ہوتا.( تذکرہ صفحه ۷۰۴ ایڈیشن چهارم) (1) کہتے ہیں پہلے ہمیں نیک کہا جاتا تھا اب کیوں برا بھلا کہا جاتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ انسان کی حالت بدلتی رہتی ہے.نیک بد اور بد نیک ہو جاتے ہیں مبارک انسان وہی ہے جس کا انجام بخیر ہو.پھر اگر اس فتنہ میں بعض لوگ شامل نہ ہوتے جنکو ہم پہلے صالح سمجھا کرتے تھے اور جن کے نیک ارادے ہوا کرتے تھے تو حضرت مسیح موعود کا یہ کشف کہ آپ نے مولوی محمد علی صاحب کو رویا میں کہا.آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ ( جون ۱۹۰۴ء البدر جلد ۳ نمبر (۲۹) کیونکر پورا ہوتا.(۷) پھر اگر کوئی لاہور میں ۱۹۰۹ء میں لاہور کی جماعت کو جمع کر کے ان سے اس بات کے لئے انگو ٹھ نہ لگواتا اور دستخط نہ کروا تا کہ خلیفہ مسیح کا کوئی دخل نہیں ہے.اصل
برکات خلافت 37 60 خلیفہ انجمن ہی ہے تو حضرت مسیح موعود کا یہ رویا کس طرح پورا ہوتا.کہ چھوٹی مسجد کے او پر تخت بچھا ہوا ہے اور میں اس پر بیٹھا ہوا ہوں.اور میرے ساتھ ہی مولوی نورالدین صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں ایک شخص ( اس کا نام ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ) دیوانہ وار ہم پر حملہ کرنے لگا.میں نے ایک آدمی کو کہا کہ اس کو پکڑ کر مسجد سے نکال دو.اور اس کو سیٹرھیوں سے نیچے اتار دیا ہے.وہ بھاگتا ہوا چلا گیا اور یادر ہے کہ مسجد سے مراد جماعت ہوتی ہے.(۸) پھر میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے دوران میں اگر حضرت مسیح موعود کے خاندان پر حملہ نہ کیا جاتا ( اور حضور کے ) اہل بیعت کے مقابلہ میں بدزبانی کی تلوار نہ کھینچی جاتی تو یہ الہام کہ اے میرے اہل بیت ! خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے“ ( ۲ مارچ ۱۹۰۷ء تذکرہ صفحہ ۷۰۰ ایڈیشن چہارم ) کس طرح پورا ہوتا.اگر کوئی شر کھڑا ہی نہیں ہونا تھا تو خدا تعالیٰ نے یہ کیوں کہا تھا ؟ (۹) پھر اگر ان کے چال چلن پر حملہ نہ کیا جاتا تو انَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا.اے اہل بیت خدا تعالیٰ نے تم سے ناپا کی دور کرنے کا ارادہ کیا ہے اور تم کو ایسا پاک کرے گا جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے.(۲ مارچ ۱۹۰۷ء تذکرہ صفحہ ۷۰ ایڈیشن چہارم) کس طرح سچا ثابت ہوتا؟ (۱۰) اگر بعض لوگ یہ نہ کہتے کہ حضرت ام المؤمنین خلافت کے لئے منصوبے باندھتی رہی ہیں اور عورتوں میں اس بات کو پھیلاتی رہی ہیں اور انہوں نے اپنی مرضی کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کو چھوڑ دیا ہے تو یہ خواب کیونکر پوری ہوتی جو آپ نے ۱۹ مارچ ۱۹۰۷ء
برکات خلافت 38 88 کو دیکھی اور فرمایا خواب میں میں نے دیکھا کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے کہ ”میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے اس پر میں نے ان کو جواب میں یہ کہا اسی سے تو تم پر حسن چڑھا ہے.( تذکرہ صفحہ ۷۰۷ ایڈیشن چہارم) (۱۱) ہاں اگر میری عداوت کی وجہ سے میرے ان چھوٹے بھائیوں پر حملے نہ کئے جاتے جو ابھی تک عملی میدان میں داخل ہی نہیں ہوئے اور ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو حضرت صاحب کی یہ خواب جو آپ نے ۲۱ ، اگست ۱۹۰۶ء کو سنائی تھی کس طرح پوری ہوتی فرمایا ”شب گزشتہ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ اس قدر زنبور ہیں کہ تمام سطح زمین ان سے پُر ہے اور ٹڈی دل سے زیادہ ان کی کثرت ہے.اس قدر ہیں کہ زمین کو قریباً ڈھانک دیا ہے اور تھوڑے ان میں سے پرواز بھی کر رہے ہیں جو نیش زنی کا ارادہ رکھتے ہیں.مگر نامرادر ہے اور میں اپنے لڑکوں شریف اور بشیر کو کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی یہ آیت پڑھو اور بدن پر پھونک لو کچھ نقصان نہیں کریں گے اور وہ آیت یہ ہے ” وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ.( تذکرہ صفحہ ۶۶۹ ایڈیشن چہارم) (۱۲) اگر قادیان کے رہنے والوں پر حملے نہ کئے جاتے تو خدا تعالیٰ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ وَلَا تَسْعَمُ مِنَ النَّاسِ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ وَمَا أَدْرَكَ مَا أَصْحَابُ الصُّفَةِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ ( تذکرہ صفحه ۴، ۴۱ ایڈیشن چہارم) (۱۳) اس وقت قادیان کو چھوڑ کر اگر لاہور کو مدینہ ایسی نہ بنایا جانا ہوتا تو حضرت مسیح موعود کو آج سے تھیں ۳۰ سال پہلے یہ کیوں دکھایا جاتا کہ قادیان کا نام قرآن شریف کے نصف میں لکھا ہوا ہے اور یہ دکھایا گیا کہ دنیا میں عزت والے تین گاؤں ہیں ایک جن سے مراد کمینہ دشمن ہیں.
برکات خلافت 39 99 مکه، دوسرامدینہ، اور تیسرا قادیان.جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے.پھر یہ الہام کیوں ہوتا؟ کہ خدا قادیان میں نازل ہوگا“ (ے نومبر ۱۹۰۲ البدر جلد نمبر ۲ صفحه ۱۱ ، تذکره صفحه ۷۶،۷۵ ایڈیشن چہارم).اگر لاہور کو قادیان کے مقابلہ میں نہ کھڑا کیا جانا ہوتا تو اس طرح خصوصیت سے قادیان کا کیوں ذکر ہوتا.(۱۴) اگر خاندان نبوت پر کوئی اعتراض کرنے والا نہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود الوصیت میں یہ کیوں تحریر فرماتے ” میری نسبت اور میرے اہل وعیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے.باقی ہر ایک مرد ہو یا عورت ان کو شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا.پس اس فتنہ کو کوئی روک نہیں سکتا تھا اور کیونکر کوئی روک سکتا جبکہ خدا نے مقدر کر رکھا تھا اس لئے ایسا ہونا ضروری تھا اور ہوا.مگر جس طرح کسی کا ہاتھ بیماری کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے تو وہ مجبوراً اسے کٹا دیتا ہے لیکن اس ہاتھ کٹانے پر وہ خوش نہیں ہوتا ہاں اس کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ ہاتھ کٹانے سے باقی جسم تو بچ گیا ہے اسی طرح ہمیں بھی اس بات کا درد تو ہے کہ ایک حصہ جماعت کا کٹ گیا ہے مگر خوشی بھی ہے کہ باقی جماعت تو اس کے مضر اثر سے بچ گئی ہے.اب میں وہ شہادتیں پیش کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے اس معاملہ کے متعلق دی ہیں.گو دل چاہتا تھا کہ یہ فتنہ نہ اٹھتا مگر ان الہامات اور رؤیا کی صداقت کیونکر ظاہر ہوتی جو حضرت مسیح موعود کو اس فتنہ کی نسبت قبل از وقت دکھلائی گئی تھیں اور میرے لئے تو ان تمام فسادات میں یہ الہامات ہی خضر راہ کا کام دینے کے لئے کافی تھے مگر میرے رب الوصیت صفحہ ۲۹.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۷
برکات خلافت 40 نے مجھے خود بھی آگاہ کرنا پسند فرمایا.اور یہ اس کا ایک ایسا احسان ہے جس کا شکر میں جس قدر بھی بجالا ؤں تھوڑا ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لئے جو صداقت کے قبول کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ان شہادتوں کو بیان کر دوں جو اللہ تعالیٰ نے ان تمام فتن کے متعلق جو حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ظاہر ہوئے میرے لئے ظاہر فرمائیں جن سے میرے دل کو تسلی اور تسکین ہوئی کہ جو راہ میں اختیار کر رہا ہوں وہی درست ہے اور بعض آئندہ کی خبریں ایسی بتائیں جن کے پورا ہونے سے میرا ایمان تازہ ہوا.خلافت کے جھگڑا کے متعلق آسمانی شہادت : خلافت کے متعلق جس قدر جھگڑے ہیں ان کی بنیاد اسی مسئلہ پر ہے کہ مسیح موعود کا خلیفہ ہونا چاہیئے یا نہیں.اگر یہ فیصلہ ہو جائے تو اصول مباحث سب طے ہو جاتے ہیں اور صرف ذاتیات کا پردہ رہ جاتا ہے.پس سب سے پہلے میں اسی کے متعلق ایک آسمانی شہادت پیش کرتا ہوں جس کے بعد میں نہیں خیال کرتا کہ کوئی سعید انسان خلافت کا انکار کرے.۸ مارچ ۱۹۰۷ ء کی بات ہے کہ رات کے وقت رویا میں مجھے ایک کاپی الہاموں کی دکھائی گئی اس کی نسبت کسی نے کہا کہ یہ حضرت صاحب کے الہاموں کی کاپی ہے اور اس میں موٹا لکھا ہوا ہے: عَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی کچھ بعید نہیں کہ تم ایک بات کو نا پسند کرو لیکن وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہو.اس کے بعد نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے برخلاف لوگوں نے ہنگامہ کیا ہے اور میں ہنگامہ کرنے والوں میں سے ایک شخص کے ساتھ باتیں کرتا
برکات خلافت 41 ہوں.باتیں کرتے کرتے اس سے بھاگ کر الگ ہو گیا ہوں اور یہ کہا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو مجھ سے شہزادہ خفا ہو جائے گا.اتنے میں ایک شخص سفید رنگ آیا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے تین درجے ہیں.ایک وہ جو صرف نماز پڑھ لیں.یہ لوگ بھی اچھے ہیں دوسرے وہ جو مسجد کی انجمن میں داخل ہو جائیں.تیسرا متولی.اس کے ساتھ ایک اور خواب بھی دیکھی لیکن اس کے یہاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.ان دونوں رویا پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود کی وفات سے بھی ایک سال اور چند ماہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس فتنہ خلافت کے متعلق خبر دے دی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب خلافت کا سوال ہی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا اور انجمن کا کاروبار بھی ابھی نہیں چلا تھا.بہت تھوڑی مدت اس کے قیام کو ہوئی تھی اور کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ نوزائیدہ انجمن مسیح موعود کی جانشین ہونے کا دعوی کرے گی بلکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ احمدیوں کے دماغ میں وہم کے طور پر بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ حضرت صاحب فوت ہوں گے بلکہ ہر ایک شخص با وجود اشاعت وصیت کے غالبا یہ خیال کرتا تھا کہ یہ واقعہ ہماری وفات کے بعد ہی ہوگا اور اس میں شک ہی کیا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کی موت کا وہم بھی نہیں کر سکتا اور یہی حال جماعت احمدیہ کا تھا.پس ایسے وقت میں خلافت کے جھگڑے کا اس وضاحت سے بتا دینا اور اس خبر کا حرف بہ حرف پورا ہونا ایک ایسا ز بر دست نشان ہے
برکات خلافت 42 کہ جس کے بعد متقی انسان کبھی بھی خلافت کا انکار نہیں کر سکتا کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے؟ کہ ایک واقعہ سے دو سال پہلے اس کی خبر دے اور ایسے حالات میں دے کہ جب کوئی سامان موجود نہ ہو اور وہ خبر دو سال بعد بالکل حرف بہ حرف پوری ہو اور خبر بھی ایسی ہو جو ایک قوم کے ساتھ تعلق رکھتی ہو.دیکھو ان دونوں رویا سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ ہو گا جو بظاہر خطرناک معلوم ہوگا لیکن درحقیقت نہایت نیک نتائج کا پیدا کرنے والا ہوگا چنانچہ خلافت کا جھگڑا جو ۱۹۰۹ء میں برپا ہوا گونہایت خطرناک معلوم ہوتا تھا مگر اس کا یہ عظیم الشان فائدہ ہوا کہ آئندہ کے لئے جماعت کو خلافت کی حقیقت معلوم ہوگئی اور حضرت خلیفہ المسیح کو اس بات کا علم ہو گیا کہ کچھ لوگ خلافت کے منکر ہیں اور آپ اپنی زندگی میں برابر اس امر پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور خلافت جماعت کے قیام کے لئے ضروری ہے اور ان نصائح سے گو بانیانِ فساد کو فائدہ نہ ہوا ہولیکن اس وقت سینکڑوں ایسے آدمی ہیں جن کو ان وعظوں سے فائدہ ہوا.اور وہ اس وقت ٹھوکر سے اس لئے بچ گئے کہ انہوں نے مختلف فیہا مسائل کے متعلق بہت کچھ خلیفہ اول سے سنا ہوا تھا.پھر دوسری رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے خلاف کچھ لوگوں نے بغاوت کی ہے.اب مسجد کی تعبیر جماعت لکھی ہے.پس اس رویا سے معلوم ہوا کہ ایک جماعت کا ایک متولی ہوگا.(متوتی اور خلیفہ بالکل ہم معنی الفاظ ہیں ) اور اسکے خلاف کچھ لوگ بغاوت کریں گے اور ان میں سے کوئی مجھے بھی ورغلانے کی کوشش
برکات خلافت 43 کرے گا مگر میں ان کے پھندے میں نہیں آؤں گا اور انکو صاف کہہ دوں گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو شہزادہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا اور جب ہم حضرت مسیح موعود کے الہامات دیکھتے ہیں تو آپ کا نام شہزادہ بھی رکھا گیا ہے.پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ جو لوگ ان باغیوں کے ساتھ شامل ہوں گے ان سے حضرت مسیح موعود ناراض ہوں گے ( یعنی ان کا یہ فعل مسیح موعود کی تعلیم کے خلاف ہوگا ) یہ تو اس فتنہ کی کیفیت ہے جو ہونے والا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ یہ فتنہ کون کرے گا.اور وہ اس طرح کہ اس امر سے کہ متولی کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے شہزادہ ناراض ہو جائے گا یہ بتایا گیا ہے کہ متولی حق پر ہے.اور باغی ناحق پر.اور پھر یہ بتا کر کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والے دوسرے دوگرو ہوں یعنی عام نمازیوں اور انجمن والوں میں سے عام نمازی اچھے ہیں بتا دیا کہ یہ فتنہ عام جماعت کی طرف سے نہ ہوگا.اب ایک ہی گروہ رہ گیا یعنی انجمن پس وہی باغی ہوئی.لیکن میری علیحدگی سے یہ بتا دیا کہ میں باوجود ممبرانجمن ہونے کے ان فتنہ پردازوں سے الگ رہوں گا.یہ رویا ایسی کھلی اور صاف ہے کہ جس قدر غور کرو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خلافت کی صداقت کا ثبوت ایسے کھلے طور پر ملتا ہے کہ کوئی شقی ہی انکار کرے تو کرے.اس رؤیا کے گواہ: شاید کوئی شخص کہہ دے کہ ہم نے مانا کہ یہ رویا نہایت واضح ہے لیکن اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ واقعہ میں آپ نے کوئی ایسی رؤیا دیکھی بھی ہے یا نہیں اور جب تک اس بات کا ثبوت نہ ملے تو اس رؤیا کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوسکتی.اور اس کا کہنا بالکل بجا ہو گا اس لئے میں اپنی صداقت کے لئے گواہ کے طور پر خود حضرت
برکات خلافت 44 مسیح موعود کو پیش کرتا ہوں.شاید بعض لوگوں کو تعجب ہو کہ حضرت مسیح موعود تو فوت ہو چکے ہیں آپ کیونکر اس دنیا میں واپس آکر میری صداقت کی گواہی دے سکتے ہیں تو میں ان کو بتا تا ہوں کہ گو حضرت مسیح موعود فوت ہو چکے ہیں.لیکن پھر بھی وہ اس بات کی شہادت دے دیں گے کہ واقعہ میں ۸ مارچ کو میں نے یہ رویا دیکھی تھی اور وہ اس طرح کہ جس رات کو میں نے یہ رویا دیکھی اسی صبح کو حضرت والد ماجد کو سنایا آپ سن کر نہایت متفکر ہوئے اور فرمایا کہ مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالفت کریں یہ رویا مجھے لکھوا دے.چنانچہ میں لکھواتا گیا اور آپ اپنی الہاموں کی کاپی میں لکھتے گئے پہلے تاریخ لکھی پھر یہ لکھا کہ محمود کی رؤیا پھر تینوں رو یا لکھیں.ان تینوں رویا کے ارد گرد اس سے پہلی اور پچھلی تاریخوں کے الہام حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے موجود ہیں.( کاپی لوگوں کو دکھائی گئی ) اور یہ کاپی اب تک میرے پاس ہے اور ہر ایک طالب حق کو دکھائی جاسکتی ہے جو لوگ حضرت مسیح موعود کے دستخط پہچانتے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ سب کا پی حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور کئی سال کے الہام اس میں درج ہیں اور یہ میری رویا بھی آپ ہی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اس میں موجود ہے.یہ ایک ایسی شہادت ہے کہ کوئی احمدی اس کا انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ایسے کھلے کھلے نشان کا جو شخص انکار کرے گا اسے ہر ایک صداقت کا انکار کرنا پڑے گا.اس رؤیا کے معلوم کر لینے کے بعد ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ کیوں مجھے خلافت کے مسئلہ میں اس قدر یقین اور تسلی ہے اور کیوں میں ہر ایک مقابلہ کی پرواہ نہ کر کے فتنہ
برکات خلافت 45 کے وقت خلافت کا ممد و معاون رہا ہوں.میں اس شک کو بھی دور کر دینا چاہتا ہوں کہ کیوں اس رؤیا کو شیطانی نہ خیال کیا جائے اور وہ اس طرح کہ اول تو اس رویا کو حضرت مسیح موعود نے قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور لکھ لیا.اور اپنے الہاموں کی کاپی میں لکھا پھر یہ رویا دو سال بعد حرف بہ حرف پوری ہوئی اور جو رؤیا اس شان کے ساتھ پوری ہو وہ شیطانی نہیں ہوسکتی کیونکہ پھر شیطان اور رحمن کے کلام میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور کیوں نہ لوگ ہر ایک الہام کو شیطانی کہہ دیں گے.مسئلہ خلافت کے متعلق دوسری آسمانی شہادت : ۱۹۰۹ء کی بات ہے ابھی مجھے خلافت کے متعلق کسی جھگڑے کا علم نہ تھا صرف ایک صاحب نے مجھ سے حضرت خلیفہ اسی خلیفہ اول کی خلافت کے قریباً پندرھویں دن کہا تھا کہ میاں صاحب اب خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کچھ غور کرنا چاہئے جس کے جواب میں میں نے ان سے کہا کہ یہ وقت وہ تھا کہ سلسلہ خلافت قائم نہ ہوا تھا جبکہ ہم نے بیعت کر لی تو اب خادم مخدوم کے اختیارات کیا مقرر کریں گے.جس کی بیعت کی اس کے اختیارات ہم کیونکر مقرر کر سکتے ہیں اس واقعہ کے بعد کبھی مجھ سے اس معاملہ کے متعلق کسی نے گفتگو نہ کی تھی اور میرے ذہن سے یہ واقعہ اتر چکا تھا کہ جنوری ۱۹۰۹ء میں میں نے یہ رویا دیکھی کہ ایک مکان ہے بڑا عالیشان سب تیار ہے لیکن اس کی چھت ابھی پڑنی باقی ہے کڑیاں پڑ چکی ہیں ان پر اینٹیں رکھ کر مٹی ڈال کر کوٹنی باقی ہے.ان کڑیوں پر کچھ پھونس پڑا ہے اور اسکے پاس میر محمد الحق صاحب کھڑے ہیں اور ان کے پاس میاں
برکات خلافت 46 بشیر احمد اور نثار احمد مرحوم ( جو پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی کا صاحبزادہ تھا) کھڑے ہیں.میر محمد الحق صاحب کے ہاتھ میں ایک ڈبیہ دیا سلائیوں کی ہے اور وہ اس پھونس کو آگ لگانی چاہتے ہیں.میں انہیں منع کرتا ہوں کہ ابھی آگ نہ لگائیں نہیں تو کڑیوں کو آگ لگنے کا خطرہ ہے.ایک دن اس پھونس کو جلایا تو جائے گا ہی لیکن ابھی وقت نہیں.بڑے زور سے منع کر کے اور اپنی تسلی کر کے میں وہاں سے لوٹا ہوں لیکن تھوڑی دور جا کر میں نے پیچھے سے کچھ آہٹ سنی اور منہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد الحق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں وہ نہیں جلتیں پھر اور نکال کر ایسا ہی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد اس پھونس کو آگ لگا دیں.میں اس بات کو دیکھ کر واپس بھا گا کہ ان کو روکوں لیکن میرے پہنچتے پہنچتے انہوں نے آگ لگا دی تھی میں اس آگ میں کود پڑا اور اسے میں نے بجھا دیا.لیکن تین کڑیوں کے سرے جل گئے یہ خواب میں نے اسی دن دو پہر کے وقت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنائی جو سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ یہ خواب تو پوری ہوگئی ہے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میرمحمد طلق صاحب نے چند سوالات لکھ کر حضرت خلیفہ اسی کو دیئے ہیں جن سے ایک شور پڑ گیا ہے.اس کے بعد میں نے حضرت خلیفہ اسیح کو یہ رؤیا لکھ کر دی اور آپ نے وہ رقعہ پڑھ کر فرمایا کہ خواب پوری ہوگئی ہے اور ایک کاغذ پر مفصل واقعہ لکھ کر مجھے دیا کہ پڑھ لو جب میں نے پڑھ لیا تو لے کر پھاڑ دیا.اس رویا کے گواہ مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے.چنانچہ یہ رویا حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ان سوالات کے جواب میں بعض آدمیوں کا نفاق ظاہر ہو
برکات خلافت 47 ނ گیا.اور ایک خطر ناک آگ لگنے والی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے فضل.بجھا دی.ہاں کچھ کڑیوں کے سرے جل گئے اور ان کے اندر ہی اندر یہ آگ دہکتی رہی.اس خواب میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ پھونس آخر جلا ہی دیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا.مسئلہ خلافت کے متعلق تیسری آسمانی شہادت: ابھی کسی جلسہ وغیرہ کی تجویز نہ تھی ہاں خلافت کے متعلق فتنہ ہو چکا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک جلسہ ہے اور اس میں حضرت خلیفہ اول کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور تقریر مسئلہ خلافت پر ہے اور جو لوگ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے کچھ مخالف بھی ہیں.میں آیا اور آپ کے دینے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ حضور کوئی فکر نہ کریں ہم لوگ پہلے مارے جائیں گے تو پھر کوئی شخص حضور تک پہنچ سکے گا ہم آپ کے خادم ہیں.چنانچہ یہ خواب حضرت خلیفہ اول گو سنائی جب جلسہ کی تجویز ہوئی اور احباب بیرون جات سے مسئلہ خلافت پر مشورہ کے لئے جمع ہوئے اور چھوٹی مسجد کے صحن میں حضرت خلیفہ اول کھڑے ہوئے کہ تقریر فرما ئیں تو میں آپ کے بائیں طرف بیٹھا تھا آپ نے اس رویا کی بناء پر مجھے وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف بیٹھنے کا حکم دیا اور اپنی تقریر کے بعد مجھے بھی کچھ بولنے کے لئے فرمایا اور میں نے ایک مضمون جس کا مطلب اس قسم کا تھا کہ ہم تو آپ کے بالکل فرمانبردار ہیں بیان کیا.مسئلہ خلافت پر چوتھی آسمانی شہادت: جب خلافت کا جھگڑا شروع ہوا.تو گو مجھے وہ رویا بھی ہو چکی تھی جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ لکھی
برکات خلافت 48 ہوئی موجود ہے اور وہ دوسری رؤیا بھی دیکھ چکا تھا جس میں میر محمد الحق صاحب کے سوالات سے منافقوں کے سر جلنے کا پتہ دیا گیا تھا.لیکن پھر بھی طبیعت پر ایک بوجھ تھا اور میں چاہتا تھا کہ زیادہ وضاحت سے مجھے اس مسئلہ کی نسبت کچھ بتایا جائے.اور میں نے اپنے رب کے حضور میں بار بار عرض کی کہ الہی مجھے حق کا پتہ دیا جائے اور صداقت مجھ پر کھول دی جائے اور جو بات سچ ہو وہ مجھے بتادی جائے کیونکہ مجھے کسی پارٹی سے تعلق نہیں بلکہ صرف حضور کی رضا حاصل کرنے کا شوق ہے.جس قدر دن جلسہ میں باقی تھے ان میں میں برابر یہ دعا کرتا رہا لیکن مجھے کچھ نہ بتایا گیا حتی کہ وہ رات آگئی جس دن صبح کو وہ جلسہ تھا جس میں یہ سوالات پیش ہونے تھے اور اس رات میرا کرب بڑھ گیا اور میرا دل دھڑکنے لگا اور میں گھبرا گیا کہ اب میں کیا کروں.اس رات میں بہت ہی گڑ گڑایا اور عرض کیا کہ الہی صبح کو یہ معاملہ پیش ہوگا حضور مجھے بتائیں کہ میں کس طرف ہوں.اس وقت تک تو میں خلافت کو حق سمجھتا ہوں لیکن مجھے حضور کی رضا مطلوب ہے کسی اپنے اعتقاد پر اصرار نہیں میں حضور سے ہی اس مسئلہ کا حل چاہتا ہوں تا میرے دل کو تسلی ہو.پس صبح کے وقت میری زبان پر یہ الفاظ جو قر آن کریم کی ایک آیت ہے جاری کئے گئے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے اسکے بعد مجھے تسلی ہوگئی اور میں نے خیال کیا کہ میں حق پر ہوں کیونکہ لفظ قلن نے بتا دیا ہے کہ میرا خیال درست ہے تبھی تو مجھے حکم ہوا کہ میں لوگوں کو حکم الہی سنادوں.اور اگر میرا عقیدہ غلط ہوتا تو یہ الفاظ ہوتے کہ مَا يَعْبُثُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ میں نے یہ الفاظ کئی لوگوں کو سنا دئیے تھے مگر اب یاد نہیں کہ کس کس کو سنائے تھے.
برکات خلافت 49 49 مسئلہ خلافت پر پانچویں آسمانی شہادت: میں نے حضرت خلیہ اسیح کی وفات سے تین سال پہلے ایک خواب دیکھا.جس کی تعبیر یہ تھی کہ آپ کی وصیت سے نواب صاحب کا بھی کچھ تعلق ہے.چنانچہ تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کو پورا کر کے دکھا دیا کہ وہ کیساز بر دست ہے.مسئلہ خلافت پر چھٹی آسمانی شہادت: ۱۹۱۳ء میں میں ستمبر کے مہینہ میں پاندون کے لئے شملہ گیا تھا.جب میں یہاں سے چلا ہوں تو حضرت خلیفہ اسیح کی طبیعت اچھی تھی لیکن وہاں پہنچ کر میں نے پہلی یا دوسری رات دیکھا کہ رات کا وقت ہے اور قریباً دو بجے ہیں میں اپنے کمرہ میں ( قادیان میں ) بیٹھا ہوں.مرزا عبد الغفور صاحب ( جو کلانور کے رہنے والے ہیں ) میرے پاس آئے اور نیچے سے آواز دی میں نے اٹھ کر ان سے پوچھا کہ کیا ہے.انہوں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اسیح کو سخت تکلیف ہے تپ کی شکایت ہے ایک سودو (۱۰۲) کےقریب تپ ہو گیا تھا آپ نے مجھے بھیجا ہے کہ میاں صاحب کو جا کر کہ دو کہ ہم نے اپنی وصیت شائع کر دی ہے مارچ کے مہینہ کے بدر میں دیکھ لیں.جب میں نے یہ رویا دیکھی تو سخت گھبرایا اور میرا دل چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں.لیکن میں نے مناسب خیال کیا کہ پہلے دریافت کرلوں کہ کیا آپ واقع میں بیمار ہیں.سو میں نے وہاں سے تار دیا کہ حضور کا کیا حال ہے جس کے جواب میں حضرت نے لکھا کہ اچھے ہیں.یہ رویا میں نے اسی وقت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو اور مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنا دی تھی اور غالبا نواب صاحب کے صاحبزادگان میاں عبد الرحمن خان صاحب، میاں عبداللہ خان صاحب،
برکات خلافت 50 میاں عبد الرحیم خان صاحب میں سے بھی کسی نے وہ رؤیا سنی ہوگی کیونکہ وہاں ایک مجلس میں میں نے اس رویا کو بیان کر دیا تھا.اب دیکھنا چاہئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے حضرت کی وفات کی خبر دی اور چار باتیں ایسی بتائیں کہ جنہیں کوئی شخص اپنے خیال اور اندازہ سے دریافت نہیں کرسکتا.اول تو یہ کہ حضور کی وفات تپ سے ہوگی.دوم یہ کہ آپ وفات سے پہلے وصیت کر جائیں گے.سوم یہ کہ وہ وصیت مارچ کے مہینہ میں شائع ہوگی.چہارم یہ کہ اس وصیت کا تعلق بدر کے ساتھ ہوگا.اگر ان چاروں باتوں کے ساتھ میں یہ پانچویں بات بھی شامل کر دوں تو نا مناسب نہ ہوگا کہ اس رؤیا سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وصیت کا تعلق مجھ سے بھی ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری طرف آدمی بھیج کر مجھے اطلاع دینے سے کیا مطلب ہوسکتا تھا.اور یہ ایک ایسی بات تھی کہ جسے قبل از وقت کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن جب واقعات اپنے اصل رنگ میں پورے ہو گئے تو اب یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس رویا میں میری خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا لیکن چونکہ یہ بات وہم و گمان میں بھی نہ تھی اس لئے اس وقت جبکہ یہ رویا دکھلائی گئی تھی اس طرف خیال بھی نہیں جاسکتا تھا.مندرجہ بالا پانچ نتائج جو اس رویا سے نکالے گئے ہیں ان سے چار تو صاف ہیں.یعنی
برکات خلافت 51 تپ سے وفات کا ہونا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وصیت کا کرنا وہ بھی صاف ہے کیونکہ آپ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کر دی تھی.تیسرے مارچ میں وصیت کا ہونا وہ بھی ایک بالکل واضح ہے کیونکہ آپ نے مارچ ہی میں وصیت کی اور مارچ ہی میں وہ شائع ہوئی.پانچواں امر بھی صاف ہے کہ اس وصیت کا مجھ سے بھی کچھ تعلق تھا چنانچہ ایسا ہی ظاہر ہوا.لیکن چوتھی بات کہ بدر میں دیکھ لیں.تشریح طلب ہے کیونکہ آپ کی وصیت جہاں الفضل ، الحکم، نور میں شائع ہوئی وہاں بدر میں شائع نہیں ہوئی کیونکہ وہ اس وقت بند تھا ، پس اس کے کیا معنی ہوئے کہ بدر میں دیکھ لیں.سواس امر کے سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ رویا اور کشوف کبھی بالکل اصل شکل میں پورے ہوتے ہیں اور کبھی وہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اور کبھی ان کا ایک حصہ تو اصل رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور ایک حصہ تعبیر طلب ہوتا ہے سو یہ خواب بھی اسی طرح کی ہے اور جہاں اس رویا میں سے چارا مور بالکل صاف اور واضح طور پر پورے ہوئے ایک امرتعبیر طلب بھی تھا لیکن رویا کی صداقت پر باقی چار امور نے مہر کر دی تھی.اور اس چوتھے امر کی تعبیر یہ تھی کہ بدر اصل میں پندرھویں رات کے چاند کو کہتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے رویا میں ایک قسم کا اخفاء رکھنے کے لئے مارچ کی چودھویں تاریخ کا نام چودھویں کی مشابہت کی وجہ سے بدر رکھا اور یہ بتایا کہ یہ واقعہ چودہ تاریخ کو ہوگا.چنانچہ وصیت با قاعدہ طور پر جو شائع ہوئی.یعنی اسکے امین نواب محمد علی خان صاحب نے پڑھ کر سنائی تو چودہ ۱۴ تاریخ کو ہی سنائی اور اسی تاریخ کو خلافت کا فیصلہ ہوا.مسئلہ خلافت کے متعلق ساتویں آسمانی شہادت: اس بات کو قریباً تین چار سال کا
برکات خلافت 52 عرصہ ہوا یا کچھ کم کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جارہی ہے کہ راستہ میں کسی نے مجھے حضرت خلیفہ مسیح کی وفات کی خبر دی تو میں نے گاڑی والے کو کہا کہ جلدی دوڑاؤ تا میں جلدی پہنچوں.یہ رویا بھی میں نے حضرت کی وفات سے پہلے ہی بہت سے دوستوں کو سنائی تھی (جن میں سے چند کے نام یاد ہیں ، نواب محمد علی خان صاحب ،مولوی سید سرور شاہ صاحب ، شیخ یعقوب علی صاحب ، حافظ روشن علی صاحب اور غالباً ماسٹر محمد شریف صاحب بی اے پلیڈر چیف کورٹ لاہور ) کہ مجھے ایک ضروری امر کے لئے حضرت کی بیماری میں لاہور جانے کی ضرورت ہوئی اور چونکہ حضرت کی حالت نازک تھی میں نے جانا مناسب نہ سمجھا اور دوستوں سے مشورہ کیا کہ میں کیا کروں؟ اور ان کو بتایا کہ میں جانے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ میں نے رویا میں گاڑی میں سواری کی حالت میں حضرت کی وفات دیکھی ہے.پس ایسا نہ ہو کہ یہ واقعہ ابھی ہو جائے پس میں نے یہ تجویز کی کہ ایک خاص آدمی بھیج کر اس ضرورت کو رفع کیا.لیکن منشائے الہی کو کون روک سکتا ہے؟ چونکہ حضرت نواب صاحب کے مکان پر رہتے تھے میں بھی وہیں رہتا تھا اور وہیں سے جمعہ کے لئے قادیان آتا تھا.جس دن حضور فوت ہوئے میں حسب معمول جمعہ پڑھانے قادیان آیا اور جیسا کہ میری عادت تھی نماز کے بعد بازار کے راستہ سے واپس جانے کے لئے تیار ہوا کہ اتنے میں نواب صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ احمدیہ محلہ میں میرے منتظر ہیں اور مجھے بلاتے ہیں کیونکہ انہوں نے مجھ سے کچھ بات کرنی ہے.میں وہاں گیا تو ان کی گاڑی تیار تھی اس میں وہ بھی بیٹھ گئے
برکات خلافت 53 53 اور میں بھی اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسٹنٹ سرجن بھی ہمارے ساتھ تھے.گاڑی آپ کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوئی اور جس وقت اس سڑک پر چڑھ گئی جو مدرسہ تعلیم الاسلام کی گراؤنڈ میں تیار کی گئی ہے تو آپ کا ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا کہ حضور فوت ہو گئے اس وقت میں بے اختیار ہو کر آگے بڑھا اور گاڑی والے کو کہا کہ گاڑی دوڑاؤ اور جلد پہنچاؤ.اسی وقت نواب صاحب کو وہ رؤیا یاد آگئی اور آپ نے کہا کہ وہ رو یا پوری ہوگئی.یہ رویا ہستی باری کا ایک ایسا زبردست ثبوت ہے کہ سوائے کسی ایسے انسان کے جو شقاوت کی وجہ سے صداقت نہ ماننے سے بالکل انکار کر دے.ایک حق پسند کے لئے نهایت رشد اور ہدایت کا موجب ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے بچنے کی لاکھ کوشش کرے تقدیر پوری ہو کر ہی رہتی ہے میں نے جس خوف سے لا ہور کا سفر ملتوی کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ امر قادیان میں ہی پورا ہوا.حضرت کی وفات اور میری خلافت کے متعلق آٹھویں آسمانی شہادت: قریباً تین چار سال کا عرصہ ہوا جو میں نے دیکھا کہ میں اور حافظ روشن علی صاحب ایک جگہ بیٹھے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے گورنمنٹ برطانیہ نے افواج کا کمانڈر ان چیف مقرر فرمایا ہے اور میں سر او مور کرے سابق کمانڈر ان چیف افواج ہند کے بعد مقرر ہوا ہوں اور ان کی طرف سے حافظ صاحب مجھے عہدہ کا چارج دے رہے ہیں.چارج لیتے لیتے ایک امر پر میں نے کہا کہ فلاں چیز میں تو نقص ہے میں چارج میں کیونکر لے لوں؟ میں نے یہ بات کہی ہی تھی کہ نیچے کی چھت پھٹی ( ہم چھت پر تھے ) اور حضرت
برکات خلافت 54 خلیفہ المسیح خلیفہ اول اس میں سے برآمد ہوئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ آپ سراومور کرے کمانڈر ان چیف افواج ہند ہیں آپ نے فرمایا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں بلکہ لارڈ کچز سے مجھے یہ چیز اسی طرح ملی تھی.اس رؤیا پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اور میں اپنے دوستوں کو سنا کر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا کہ اس خواب سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ واقعات کے ظہور پر معلوم ہوا کہ یہ رویا ایک نہایت ہی زبر دست شہادت تھی اس بات پر کہ حضرت خلیفہ مسیح کی وفات کے بعد جو فیصلہ ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اسکی رضا کے ماتحت ہوا ہے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی وفات پر میری طبیعت اس طرف گئی کہ یہ رویا تو ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی اور اس میں بتایا گیا تھا کہ مولوی صاحب کے بعد خلافت کا کام میرے سپر د ہوگا اور یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفہ المسیح مجھے بہ لباس سراومور کرے کے دکھائے گئے اور افواج کی کمانڈ سے مراد جماعت کی سرداری تھی.کیونکہ انبیاء کی جماعتیں بھی ایک فوج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین کو غلبہ دیتا ہے.اس رؤیا کی بناء پر یہ بھی امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی تبلیغ کا کام جماعت احمدیہ کے ہاتھ سے ہوگا اور غیر مبائعین احمدیوں کے ذریعہ نہ ہوگا.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ برکت مبائعین کے کام میں ہی ہوگی.اس رؤیا کا جب غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک ایسی زبردست شہادت معلوم ہوتی ہے کہ جس قد ر غور کریں اسی قدر عظمت الہی کا اظہار ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس رویا میں حضرت مسیح موعود کولا رڈ کچز کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے اور حضرت خلیفہ اول
برکات خلافت 55 55 کو سراومور کرے کے نام سے.اور جب ہم ان دونوں افسروں کے عہدہ کو دیکھتے ہیں تو جس سال حضرت مسیح موعود نے وفات پائی تھی اسی سال لارڈ کچھ ہندوستان سے رخصت ہوئے تھے اور سر اومور کرے کمانڈر مقرر ہوئے مگر یہ بات تو پچھلی تھی.عجیب بات یہ ہے کہ جس سال اور جس مہینہ میں سراومور کرے ہندوستان سے روانہ ہوئے ہیں اسی سال اور اسی مہینہ یعنی مارچ ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفتہ امسیح فوت ہوئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مقررفرمایا.کیا کوئی سعید الفطرت انسان کہ سکتا ہے کہ یہ رڈ یا شیطانی ہوسکتی تھی یا کوئی انسان اس طرح دو تین سال قبل از وقوع ایک بات اپنے دل سے بنا کر بتا سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن تھا؟ کہ میں دو سال پہلے یہ سب واقعات اپنے دل سے گھڑ کر لوگوں کو سنا دیتا اور پھر وہ صیح بھی ہو جاتے.یہ کون تھا جس نے مجھے یہ بتا دیا کہ حضرت مولوی صاحب مارچ میں فوت ہوں گے.۱۹۱۴ء میں ہوں گے اور آپ کے بعد آپ کا جانشین میں ہوں گا.کیا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی ایسا کر سکتا ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں.اس رویا میں یہ جو دکھایا گیا کہ چارج میں ایک نقص ہے اور میں اسکے لینے سے انکار کرتا ہوں تو وہ ان چند آدمیوں کی طرف اشارہ تھا کہ جنہوں نے اس وقت فساد کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس رویا کے ذریعہ سے حضرت مولوی صاحب پر سے یہ اعتراض دور کیا ہے جو بعض لوگ آپ پر کرتے ہیں کہ اگر حضرت مولوی صاحب اپنے زمانہ میں ان لوگوں کے اندرونہ سے لوگوں کو علی الاعلان آگاہ کر دیتے اور اشارات پر ہی بات نہ رکھتے یا جماعت سے خارج کر دیتے تو آج یہ فتنہ نہ ہوتا.اور مولوی صاحب کی طرف
برکات خلافت 56 99 سے قبل از وقت پر جواب دے دیا کہ یہ قتص میرے زمانہ کا نہیں بلکہ پہلے کا ہی ہے اور یہ لوگ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی بگڑ چکے تھے ان کے بگڑنے میں میرے کسی سلوک کا دخل نہیں مجھ سے پہلے ہی ایسے تھے.شاید کوئی شخص اعتراض کرے کہ یہ تعبیر تو اب بنائی جاتی ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ تعبیر کا علم واقعہ کے بعد ہی ہوتا ہے یہ خواب صاف ہے اور اس میں کوئی بیچ نہیں.ہر ایک شخص اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جو تعبیر میں نے کی ہے اس کے سوا کوئی درست تعبیر نہیں ہو سکتی.یہ خواب میں نے حافظ روشن علی صاحب کو قبل از وقت سنادی تھی اور دوستوں کو بھی سنائی ہے لیکن ان کے نام یاد نہیں.مسئلہ خلافت پر نویں آسمانی شہادت : جس طرح خلافت کے جھگڑے حضرت خلیفتہ امسیح کی وفات آپ کی وصیت میری جانشینی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے اطلاع دی تھی اسی طرح مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ میرے مقابلہ پر کون ہوگا جو سخت فتنہ برپا کرے گا لیکن ناکام رہے گا.اس بات کو قریباً سات سال ہو گئے.حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ۱۹۰۲ء کے اکتوبر یا نومبر میں میں نے رؤیا دیکھی کہ میں بورڈنگ کے ایک کمرہ میں ہوں یار یو یو آف یچز کے دفتر میں وہاں ایک بڑے صندوق پر مولوی محمد علی صاحب بیٹھے ہیں اور میں ذرا فاصلہ پر کھڑا ہوں اتنے میں ایک دروازہ سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر داخل ہوئے اور ہم دونوں کو دیکھ کر کہا کہ میاں صاحب آپ لمبے ہیں یا مولوی صاحب؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میں لمبا ہوں.میں نے کہا کہ میں لمبا ہوں شیخ صاحب نے
برکات خلافت 57 کہا آؤ دونوں کو نا ہیں.مولوی صاحب صندوق پر سے اترنا چاہتے ہیں لیکن جس طرح بچے اونچی چار پائی پر سے مشکل سے اترتے ہیں اس طرح بڑی مشکل سے اترتے ہیں اور جب شیخ صاحب نے مجھے اور ان کو پاس پاس کھڑا کیا تو وہ بے اختیار کہ اٹھے کہ ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ مولوی صاحب اونچے ہیں لیکن اونچے تو آپ نکلے.میں نے کہا ہاں میں ہی اونچا ہوں.اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا میں مولوی صاحب کو اٹھا کر آپ کے کندھوں کے برابر کرتا ہوں دیکھیں ان کے پیر کہاں آتے ہیں اور یہ کہہ کر انہوں نے مولوی صاحب کو اٹھا کر میرے کندھوں کے برابر کرنا چاہا.جتنا وہ اونچا کرتے جاتے اسی قدر میں اونچا ہوتا جاتا آخر بڑی دقت سے انہوں نے ان کے کندھے میرے کندھوں کے برابر کئے تو ان کی لاتیں میرے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچ سکیں.جس پر وہ سخت حیران ہوئے یہ خواب اس وقت کی ہے جب ان جھگڑوں کا وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا.سات سال کے بعد کے واقعات بتانا انسان کا کام نہیں میں نے یہ رویا اسی وقت سید سرور شاہ صاحب سید ولی اللہ شاہ صاحب کو جو اس وقت بیروت (شام) میں ہیں اور سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو جو میڈیکل کالج کی آخری کلاس میں پڑھتے ہیں سنا دی تھی اور ان سے گواہی لی جاسکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ان کو یہ رویا یا د ہوگی.ممکن ہے کہ اور دوستوں کو بھی سنائی ہو لیکن اور کسی کا نام یاد نہیں ہم اس وقت اس روڈ یا پر حیران ہوا کرتے تھے کہ یہ قدوں کا نا پنا کیا معنی رکھتا ہے نہ خلافت کا سوال تھا نہ خلیفہ کی بیعت کا حضرت مسیح موعود زندہ تھے کون سمجھ سکتا تھا کہ کبھی واقعات بدل کر اور کی اور صورت اختیار کرلیں گے مگر خدا کی باتیں پورے ہوئے بغیر نہیں رہتیں.مولوی محمد علی صاحب کے
برکات خلافت 58 دوستوں نے انہیں میرے مقابلہ پر کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت نا کام کیا.حتیٰ کہ انہوں نے اپنی ذلت کا خود اقرار کیا جس قدر بھی ان کے دوستوں نے زور مارا کہ ان کو اونچا کریں اسی قدر خدا تعالیٰ نے ان کو نیچا کیا اور قریباً ستانوے فی صدی احمدیوں کو میرے تابع کر دیا اور میرے ذریعہ جماعت کا اتحاد کر کے مجھے بلند کیا.اب میں آخر میں تمام راستی پسند انسانوں کو کہتا ہوں کہ اگر وہ اب تک خلافت کے مسئلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکے تو اب بھی فیصلہ کر لیں کیونکہ یہ کام خدا کی طرف سے ہوا ہے اور کسی انسان کا اس میں دخل نہیں.اگر آپ اس صداقت کا انکار کریں گے تو آپ کو حضرت مسیح موعود کی صداقت کا بھی انکار کرنا پڑے گا.پس حق کو قبول کریں اور جماعت میں تفرقہ نہ ڈالیں.میں کیا چیز ہوں؟ میں جماعت کا ایک خادم ہوں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو متحد کرنا چاہتا ہے ورنہ کام تو سب اللہ تعالیٰ کا ہے.مجھے خلافت کا نہ کوئی شوق تھا اور نہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کر دیا تو میں ہو گیا.میرا اس میں کوئی دخل نہیں.اور آپ ان باتوں کو سن کر یہ بھی اندازہ کر سکیں گے کہ جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خلافت کا جھگڑا ، خلیفہ کی صداقت ، خلیفہ اول کی وفات کا سن ، مہینہ، آپ کی وصیت، میرا گاڑی میں آپ کی وفات کی خبر سننا، آپ کی بیماری کا حال سب کچھ بتادیا تھا تو کیا ایک لمحہ کے لئے بھی میرا دل متر ڈ دہو سکتا تھا.اور جبکہ بعض دوسری رؤیا نے وقت پر پوری ہو کر بتا دیا کہ منشائے الہی یہی تھا کہ میں ہی دوسرا خلیفہ ہوں اور میری مخالفت بھی ہو اور کامیابی میرے لئے ہو تو کیا میں خلافت کے متعلق ان لوگوں کا مشورہ سن سکتا تھا جو مجھے مشورہ دیتے تھے کہ میں اب بھی اس کام
برکات خلافت 59 59 کو ترک کر دوں.کیا میں منشائے الہی کے خلاف کر سکتا ہوں.اگر میں ایسا کروں تو میں خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو رد کرنے والا ہوں گا.اور اللہ تعالیٰ مجھے اس حرکت سے محفوظ رکھے.خدا نے جو چاہا وہ ہو گیا اور جولوگوں نے چاہا وہ نہ ہوا.مگر مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے اور اس قدر آسمانی شہادتوں کے بعد ضد اور ہٹ سے کام نہ لے.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
برکات خلافت بقیہ تقریر حضرت خلیفه لمسیح الثانی جو ۲۷ دسمبر ۱۹۱۴ء کو سالانہ جلسہ پر بعد از نماز ظہر و عصر ہوئی) 60 60 اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين، آمين اللہ تعالیٰ کا کیا ہی احسان ہے مسلمانوں پر اور کیا ہی فضل ہے اپنے بندوں پر کہ ایک مسلمان دنیا میں کسی کے آگے کسی معاملہ میں شرمندہ نہیں ہوسکتا.دنیا میں ناجائز تعصب، ضد اور ہٹ ایسی چیزیں ہیں جو کہ بہت بری، ناپسندیدہ اور مکروہ ہیں مگر مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے بلند مرتبہ پر کھڑا کیا ہے کہ دنیا کا اور کوئی انسان اس منصب تک نہیں پہنچ سکتا.میں مضمون تو اور بیان کرنے لگا تھا.لیکن سورۃ فاتحہ کے پڑھنے سے ایک بات یاد آگئی ہے وہ بیان کئے دیتا ہوں.اور وہ یہ کہ انسان کسی بات کے متعلق فیصلہ کرنے میں بہت ٹھوکریں کھاتا ہے کیونکہ اس کی عقل محدود ہوتی ہے دیکھو ایک وہ زمانہ تھا جبکہ خیال کیا جاتا تھا کہ آسمان مختلف دھاتوں کے بنے ہوئے ہیں.پھر فلسفیوں نے کہا کہ نہیں آسمان منتہا ئے نظر ہے اور کوئی مادی چیز نہیں اور خبر نہیں کہ کل کیا اور پرسوں کیا ثابت ہو.یہی حال تمام علوم کا ہے.جو علوم آج سے سو
برکات خلافت 61 سال پہلے تھے وہ آج نہیں ہیں اور ہی ہیں.پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک سورج ہے اور باقی سارے ستارے اس سے متعلق ہیں لیکن آج کل معلوم ہوا ہے کہ کئی ستارے ایسے ہیں جو اتنی دور اور اتنے بڑے ہیں کہ اب جا کر ان کی روشنی ہم تک پہنچی ہے اور وہ سورج سے کئی گنا بڑے ہیں.کسی زمانہ میں خیال کیا جاتا تھا اور یہ مشہور مقولہ ہے کہ قطب نما کی سوئی ہمیشہ شمال کی طرف رہتی ہے.مگر تجربہ نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ مختلف عرصوں کے بعد اس کی سوئی مغرب کی طرف چلنا شروع ہو جاتی ہے اور ایک حد تک پہنچ کر پھر واپس لوٹنی شروع ہوتی ہے.غرض علوم میں بھی اتنی تبدیلی ہوتی جاتی ہے کہ آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہو جاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور فہم دیئے ہیں لیکن ایسی عقل نہیں دی جس کا فیصلہ کبھی نہ بدلے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے کہ چونکہ انسان ہر بات میں بہت ٹھوکر میں کھاتا ہے لہذا چاہئے کہ وہ یہ دعا نہ مانگا کرے کہ یہ چیز ہمیں مل جائے یا یہ کام ہو جائے.بلکہ یہ دعا کیا کرے کہ الہی جو بات آپ کے نزدیک ہمارے لئے مناسب ہے وہ ہو جائے اور جو چیز آپ کے نزدیک ہمارے لئے بہتر ہے وہ مل جائے.چونکہ اللہ تعالیٰ کو غلطی نہیں لگ سکتی اس لئے وہ جو فیصلہ کرتا ہے وہی درست اور صحیح ہوتا ہے اور یہ ہر ایک انسان کے لئے دنیا کے ہر ایک معاملہ میں فیصلہ کرنے کا آسان اور نہایت عمدہ طریق ہے.ہمارے لئے بھی یہی آسان طریق تھا.خلافت کا مسئلہ جس کسی کی سمجھ میں نہ آیا تھا اسے چاہئے تھا کہ دعائیں کرتا ، استخارہ کرنا شروع کر دیتا اور خدا تعالیٰ کے حضور کہتا کہ اے میرے اللہ ! اگر خلافت کا مسئلہ درست ہے تو مجھے سمجھادیجئے.اور
برکات خلافت 62 29 اگر نہیں تو مجھے جو سیدھی راہ ہے وہ دکھایئے اور صراط مستقیم سے دور ہونے سے بچا لیجئے مگر افسوس کہ کئی لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے.میں نے بہت سے دوستوں کو یہ تدبیر بتائی اور انہوں نے اس پر عمل کیا تو انہیں خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہدایت ہو گئی ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو کسی اور ذریعہ سے تسلی اور تشفی عطا فرما دی.اب بھی اگر کوئی شک اور تردد میں ہے تو ایسا ہی کرے خدا تعالیٰ اس کو ضرور ہدایت دے دے گا.پہلی تقریر میں میں نے ایک بات بیان کی ہے اور چودہ باتیں اور ہیں جو میں نے بیان کرنی ہیں.ان میں سے چار تو ایسی ہی ہیں کہ جتنا پہلی پر وقت لگا ہے اتنا ہی ان پر لگایا جائے.لیکن نہ مجھے اتنی طاقت ہے اور نہ ہی وقت ہے.پھر ایک نہایت ضروری اور اہم بات ہے جو کل بیان کرنی ہے.کھانسی سے اللہ کا فضل ہے کہ نسبتا آرام رہا ہے تاہم میرے سینہ میں درد ہو گیا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ کسی قد را ختصار سے باقی باتیں بیان کر دوں.اللہ تعالیٰ نے پھر کبھی توفیق دی تو مفصل بیان کر دوں گا.سیاست دوسرا امر جو میں نے بیان کرنا ہے وہ سیاست ہے.ہماری جماعت کو اس سے بڑا دھو کہ لگا ہے اور یہ مسئلہ بھی بڑے ابتلاء کا باعث ہوا ہے اور یہ بات کہ ہمیں سیاست میں کس قدر حصہ لینا چاہئے.آیا سیاست اچھی ہے یا بری اور اگر بری ہے تو کہاں تک؟ اچھی ہے تو کس حد تک؟ سخت اختلاف کا باعث ہو گئی ہے میں جب اس کشمکش کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود کی تعلیم پر غور کرتا ہوں اور ان لوگوں سے جو آپ کے
برکات خلافت 63 ساتھ رہنے والے تھے پوچھتا ہوں تو وہ یہ اظہار نہیں دے سکتے کہ حضرت صاحب نے ان کو کبھی سیاست کی طرف مائل کیا ہو یا کبھی ان کی توجہ کو اس طرف پھیرا ہو.مگر اس صورت میں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے اور یہ اعتراض صرف نو تعلیم یافتہ نو جوانوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ پرانے لوگوں کی طرف سے بھی پڑتا ہے کہ سیاست سے کیوں جماعت احمدیہ کو روکا جاتا ہے؟ ایک نادان اور کم عقل انسان کہہ سکتا ہے کہ چونکہ یہ لغو چیز ہے اس لئے اس سے روکا جاتا ہے مگر تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اور گزشتہ قوموں کے حالات کا جاننے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ دنیا کی حکومتوں اور سلطنتوں کا مدار ہی سیاست پر ہے.پھر قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے سیاست کے کچھ قواعد بیان فرمائے ہیں.یہ اچھی چیز تھی تب ہی تو قرآن کریم نے اس طرف توجہ فرمائی ورنہ کیوں فرماتا.ادھر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ سڑا ئیکوں سے نفع حاصل ہوتا ہے اور حقوق مل جاتے ہیں.پھر یہ بھی کہ جائز کمیٹیشن کو گورنمنٹ بھی نا پسند نہیں کرتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو سیاست سے روکا جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود نے کیوں روکا ہے.میرا عقیدہ فقط یہ نہیں ہے کہ سیاست سے کوئی فائدہ نہیں.ہاں میرے عقیدہ اور دوسروں کے عقیدہ میں یہ فرق ہے کہ وہ اور فوائد سمجھتے ہیں اور میں اور.چونکہ اس کی وجہ سے جماعت میں ابتلاء آنے کا ڈر ہے اس لئے میں اصل بات بتا نا چاہتا ہوں اس کا فیصلہ ہو جائے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو یہ فیصلہ ہمیشہ کے لئے ہو جائے.قرآن شریف ہمیں فیصلہ کی ایک آسان راہ بتا تا ہے کہ اگر ہم کسی بات کا فیصلہ کرنے لگیں تو
برکات خلافت 64 ہمیں اس کے فوائد اور اس کے نقصانات پر غور کرنا چاہئے.جوئے اور شراب کی نسبت اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْحَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا.(البقرہ:۲۲۰) شراب کے متعلق لوگ تم سے سوال کرتے ہیں اور تم سے پوچھتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا حرام.اور جوئے کے متعلق بھی پوچھتے ہیں.فرمایا ان کو اس کا یہ جواب دے دو ( اسلام کیا ہی پاک مذہب ہے کہ کسی کی نیکی اور اچھی صفت کو ضائع نہیں کرتا.کیا ہی عمدہ اور پاک جواب دیا) کہ ان میں کچھ بدیاں ہیں اور کچھ فوائد بھی.لیکن بدیاں فوائد کی نسبت زیادہ ہیں.یہ کیا ہی لطیف جواب دیا ہے.ان کے سوال پر انہیں منع نہیں کیا گیا کہ تم شراب نہ پیو.اور جو نہ کھیلو.بلکہ یہ فرما دیا ہے کہ ان میں منافع تھوڑے ہیں اور نقصان زیادہ.اب تم آپ ہی سمجھ لو کہ تمہیں کیا کرنا چاہیئے.تو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ قاعدہ کلیہ بیان فرما دیا کہ ہر ایک چیز میں دو باتیں ہوتی ہیں.یعنی نفع اور نقصان.پس اگر کسی چیز میں نفع زیادہ ہو اور نقصان تھوڑا.تو اس کو کر لیا کرو.اور اگر کسی چیز میں نقصان زیادہ ہو اور نفع تھوڑا تو اس کو اختیار نہ کیا کرو.دنیا کا تمام کارخانہ اسی قاعدہ پر چل رہا ہے.ہر ایک انسان جس چیز میں نفع زیادہ دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے اور جس میں نقصان زیادہ دیکھتا ہے اس کو چھوڑ دیتا ہے.اسی قاعدہ کے مطابق تم سیاست کو دیکھو.سیاست بالذات کوئی بری چیز نہیں ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ ایک ہی چیز ایک وقت میں حلال ہوتی ہے تو وہی دوسرے وقت میں حرام ہو جاتی ہے.مثلاً نماز ایک ایسی چیز ہے جس سے کہ قرب الہی حاصل ہوتا ہے مگر ایک وقت یہی نماز پڑھنے والا
برکات خلافت 65 شیطان ہو جاتا ہے یعنی سورج کے چڑھنے یا ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے والا بجائے قرب الہی حاصل کرنے کے شیطان بن جاتا ہے.اسی طرح روزہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ رکھنے والے کا میں (اللہ ) ہی اجر ہوں مگر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ عید کے دن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ شیطان ہیں.پس گو روزہ رکھنا ایک نہایت اعلیٰ عبادت تھی لیکن رسول کریم ﷺ نے عید کے دن روزہ رکھنے کو شیطانی فعل قرار دیا جس سے معلوم ہوا کہ ایک چیز ایک وقت میں اچھی ہوتی ہے تو دوسرے وقت وہی بری ہو جاتی ہے.مثلاً ایک شخص کی پیٹھ میں درد ہورہا ہو اور وہ کسی کو کہے کہ میری پیٹھ پر مکیاں مارو.میں تمہیں انعام دوں گا تو اس طرح مکیاں مارنے پر اس شخص کو انعام ملے گا.لیکن اگر کوئی مجلس میں بیٹھا باتیں کر رہا ہو اور اس کا نوکر پیچھے سے آکر اس کی پیٹھ پر مکیاں مارنی شروع کر دے تو جانتے ہو کہ اس سے کیا سلوک کیا جائے گا.اس کو سزادی جائے گی کیونکہ موقع کے مطابق ہر ایک بات ہوتی ہے.ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مقامی دارد.تو بعض اوقات ایک بات خراب ہوتی ہے اور بعض وقت وہی اچھی ہو جاتی ہے.سیاست سے جو مسیح موعود نے منع کیا ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا موقع اور محل نہیں ہے اور خواہ گورنمنٹ اس کی اجازت بھی دیتی ہے تاہم یہ ناجائز ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ گورنمنٹ ایک حد تک سیاسی امور کی طرف توجہ رکھنے کی اجازت دیتی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس کام کا انجام خراب ہوگا اس لئے میں اپنی جماعت کو اس کی اجازت نہیں دیتا.ایک دفعہ صوبہ کے ایک بڑے افسر سے حضرت صاحب ملنے
برکات خلافت 66 99 کے لئے تشریف لے گئے.یوں تو آپ کسی کے پاس نہ جایا کرتے تھے لیکن انہیں اپنا مہمان سمجھ کر چلے گئے.ان دنوں گورنمنٹ کا یہ خیال تھا کہ مسلم لیگ سے گورنمنٹ کو فائدہ پہنچے گا.ان افسر صاحب نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ آپ کا مسلم لیگ کے متعلق کیا خیال ہے.آپ نے فرمایا میں اسے نہیں جانتا.خواجہ صاحب چونکہ اس کے ممبر تھے انہوں نے اس کے حالات عجیب پیرایہ میں آپ کو بتائے فرمایا میں پسند نہیں کرتا کہ لوگ سیاست میں دخل دیں.صاحب بہادر نے کہا مرزا صاحب ! مسلم لیگ کوئی بری چیز نہیں بلکہ بہت مفید ہے.آپ نے فرمایا.بری کیوں نہیں.ایک دن یہ بھی بڑھتے بڑھتے بڑھ جائے گی.صاحب بہادر نے کہا مرزا صاحب ! شائد آپ نے کانگرس کا خیال کیا ہوگا.لیگ کا حال کانگرس کی طرح نہیں کیونکہ کسی کام کی جیسی بنیاد رکھی جاتی ہے ویسا ہی اس کا نتیجہ نکلتا ہے.کانگرس کی بنیاد چونکہ خراب رکھی گئی تھی اس لئے وہ مضر ثابت ہوئی لیکن مسلم لیگ کے تو ایسے قواعد بنائے گئے ہیں کہ اس میں باغیانہ عنصر پیدا ہی نہیں ہو سکتا.حضرت صاحب نے فرمایا.آج آپ کا یہ خیال ہے تھوڑے دنوں کے بعد لیگ بھی وہی کام کرے گی جو آج کانگرس کر رہی ہے.چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب مسلم لیگ بھی اس سیلف گورنمنٹ کے حصول کی طرف جھک رہی ہے جس کا کانگرس مدت سے مطالبہ کر رہی تھی گود کھاوے کے لئے لفظوں میں کچھ فرق رکھا ہو.غرض کہ گوصوبہ کے ایک بڑے اور ذمہ دار حاکم نے اس بات پر زور بھی دیا کہ مسلم لیگ سے نقصان نہیں ہو گا لیکن حضرت صاحب نے یہی جواب دیا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا.آخر ایسا ہی ہوا.پس خوب یاد رکھو کہ حضرت
برکات خلافت 67 20 صاحب نے جو اپنی جماعت کو جائز حد تک بھی سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے تو وہ اس لئے نہیں کہ سیاست بالذات بری ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اس میں حصہ لینا بجائے فوائد کے نقصان کا باعث ہے چنانچہ میں اس امر کی مزید تشریح کرتا ہوں.حدیث میں آتا ہے سَتَكُوْنُ آثَرَةٌ وَأُمُوْرٌ تُنْكِرُوْ نَهَا قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللَّهِ فَمَا تَأمُرُنَا قَالَ تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ وَتَسْأَلُوْنَ الله الَّذِى لَكُمْ ( بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام) یعنی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ ایسے حاکم ہو جائیں گے کہ جو اپنے لئے بھلائی چاہیں گے اور تمہارے آرام کی فکر نہ رکھیں گے اور ایسے امور ظاہر ہوں گے جو تم کو برے معلوم ہوں گے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسے وقت میں ہمیں کیا حکم ہے یعنی ہم اس وقت کیا کریں.کیا حکام کا مقابلہ کریں اور ان کو سیدھا کریں فرمایا جو حکام کے حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کو تم ادا کر دو.اور جو تمہارے حقوق ان کے ذمہ ہیں انہیں خود طلب نہ کرو.بلکہ اللہ تعالیٰ پر ڈال دو کہ وہ خود ان کا ذمہ دار ہو.اس کے مقابلہ میں حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ عِرْضِهِ وَمَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ جواپنی عزت اور مال کے بچانے کے لئے کوشش کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے.پس ایک طرف تو مال و عزت کی حفاظت میں مارے جانے والے کو آپ شہید فرماتے ہیں اور دوسری طرف ارشاد ہوتا ہے کہ حکام جو کچھ بھی ظلم کریں صبر کرنا.اور ان کے ظلم کے مقابلہ میں خود ہاتھ نہ اٹھانا.اپنے حقوق کا مطالبہ بھی ان سے نہ کرنا بلکہ اسے بھی اللہ پر ہی چھوڑنا.ان دونوں حکموں کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حکم مختلف اوقات کے بخاری کتاب المظالم باب من قُتِلَ دون ماله ( مفهومًا)
برکات خلافت 68 80 لئے ہیں.کسی زمانہ میں تو یہ حکم ہے کہ خوب اپنے حقوق طلب کرو اور کسی زمانہ میں یہ حکم ہے کہ جو کچھ ملتا ہے اسے خاموشی سے قبول کرو.مقابلہ تو الگ رہا حکام سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہ کرو.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک زمانہ حکومتوں پر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی حالت ایسی نازک ہو جاتی ہے کہ اگر وہ اپنی پہلی حالت پر چلی جائیں تو چلی جائیں لیکن اگر ان کی حالت میں ذرہ بھی تغیر آ جائے تو خواہ وہ بہتری کی طرف ہی ہو لیکن وہ مہلک ثابت ہوتا ہے کیونکہ کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے.ایسی حالت میں ملک کا حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اس کی تباہی کا یقینی باعث ہو جاتا ہے.پس ایسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکام سے حقوق طلب کرنے سے بھی روک دیا تا ایسا نہ ہو کہ حقوق طلب کرتے کرتے اپنی حکومت کو ہی تباہ نہ کر لیں.لیکن دوسرے اوقات میں جب یہ حالت نہ ہو تو خاص حدود کے اندر حقوق کا مطالبہ جائز رکھا حضرت مسیح موعود کا حکم بھی اسی طرح خاص مصالح کے ماتحت ہے.سیاست کیا چیز ہے؟ : ایک قصہ گولکھتا ہے کہ ایک دیوار تھی جو اس کے اوپر چڑھ کر اس میں جھانکتا پھر نہ لوٹ سکتا بلکہ ہنستا ہنستا اندر ہی کود پڑتا.یہ قصہ تو جھوٹ ہے کہ ایسی کوئی دیوار تھی کہ جو اسے دیکھتا تھا وہ اس کے اندر ہی غائب ہو جا تا تھا.لیکن اس پر غور کریں تو سیاست ایک ایسی ہی دیوار ہے.چونکہ انسان کی طبیعت عاجلہ کو پسند کرتی ہے اور جس کام کا فائدہ اسے جلد مل جائے وہ اسے بہت پسند کرتا ہے اور دیر کو پسند نہیں کرتا اس لئے لوگ ایسے کاموں کے در پے ہو جاتے ہیں جن کے کرنے سے فوری فوائد حاصل ہوں.اور سیاست بھی انہی چیزوں میں سے ہے جن کے فوائد جلد تر حاصل ہوتے ہیں.پس جب لوگ دیکھتے ہیں کہ سیاست کی وجہ سے جلدی دولت
برکات خلافت 69 حکومت اور رتبہ مل جاتا ہے تو اس کی طرف دوڑ نے لگ پڑتے ہیں.جس طرح کہا جاتا ہے کہ جب ایک دفعہ شیر کے منہ کو آدمی کا لہو لگ جاتا ہے تو پھر وہ ہر وقت انسان کے شکار کی تاک میں ہی رہتا ہے.اور پہلے اگر ایک دو آدمیوں سے بھاگ جاتا تھا تو پھر میں چالیس آدمیوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا.اسی طرح سیاست کا خون جس کسی کے منہ کو لگ جاتا ہے پھر وہ اسے نہیں چھوڑ سکتا اور اس کے اندر ہی اندر گھستا جاتا ہے.سیاسی معاملات میں پڑنے کا پہلا خطرناک نتیجہ: چونکہ ایک طرف تو سیاست ایک ایسی چیز ہے جو اور سب کچھ بھلا دیتی ہے حتی کہ جان تک کی بھی ہوش نہیں رہنے دیتی اور اپنی طرف ہی کھینچتی جاتی ہے.اور دوسری طرف آج کل اسلام پر جو نازک وقت آیا ہوا ہے اس سے پہلے اس پر کبھی نہیں آیا اس لئے اس وقت اسلام کو جتنے بھی ہاتھ کام کے لئے مل جائیں اور جس قدر بھی سپاہی اسلام کی حفاظت کے لئے مل جائیں اتنے ہی کم ہیں.اس لئے آج مسلمانوں کے لئے سیاست کی طرف متوجہ ہونا ایک ایسا زہر ہے جسے کھا کر ان کا بچنا محال بلکہ ناممکن ہے کیونکہ سیاست بہت بڑی توجہ کو چاہتی ہے اور جو شخص سیاست میں پڑتا ہے وہ بالکل سیاست ہی میں غرق ہو جاتا ہے.آج یورپ میں ایسی جنگ ہو رہی ہے کہ ہر ایک سلطنت کو جس قدر بھی سپاہی مہیا ہو سکتے ہیں اتنے ہی مہیا کرتی ہے اور عورتوں اور لڑکے لڑکیوں تک کولڑائی میں مدد دینے کے قواعد سکھائے جارہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی خطرناک جنگ ہے کہ تھوڑے سپاہیوں سے کام نہیں چل سکتا.مگر اسلام کو جو جنگ در پیش ہے وہ اس یورپین جنگ سے بہت بڑھ کر ہے اور ا کیلے اسلام کو کل دنیا سے مقابلہ ہے اور دشمن ایسا قوی ہے کہ اسلام کے
برکات خلافت 70 ایک ایک سپاہی کے مقابلہ میں ہزاروں سپاہی لاسکتا ہے.جو مسلمان ہیں وہ خود اسلام سے بیزار ہورہے ہیں اور صرف نام کے مسلمان ہیں ورنہ اسلام سے وہ ایسے ہی دور ہیں جیسے کہ غیر مذاہب کے لوگ.پس اس جنگ میں چند آدمی کا میاب نہیں ہو سکتے بلکہ ہر ایک مرد ، بچہ اور عورت کو اس میں حصہ لینے کے لئے کھڑا ہو جانا چاہیئے.اگر کسی مرکان کو آگ لگ جائے تو اس وقت یہ نہیں کہا جاتا کہ سقہ کو بلاؤ تا کہ وہ پانی لا کر آگ بجھائے کیونکہ وہ پانی مہیا کرنے پر مقرر ہے اور اس کام کی تنخواہ لیتا ہے اگر وہ آج کام نہیں آتا تو اسے نوکر کس لئے رکھا ہوا ہے بلکہ ہر ایک شخص دوڑتا اور بھاگتا ہوا جاتا ہے.تا کہ آگ پر پانی ڈالے اور اس کو بجھائے اور عورتیں اور بچے بھی اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں.اسی طرح اس وقت اسلام کے گھر کو دشمن نے آگ لگائی ہوئی ہے اور احمق ہے وہ جو اس انتظار میں بیٹھے کہ سقے اس آگ کو بجھائیں.اس عظیم الشان آگ کو جو اسلام کے مکان کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے ایک دو آدمی نہیں بجھا سکتے بلکہ ہر ایک شخص کا جو اپنے دل میں ذرہ بھی ایمان رکھتا ہے کام ہے کہ وہ اس آگ کو بجھانے میں لگ جائے اور تم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے خواہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، بچہ ہو یا نوجوان لڑکی ہو یا لڑکا کہ وہ اس آگ کو بجھانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو.اگر کوئی ایسے وقت میں بھی غفلت کرتا ہے تو وہ اسلام میں نہیں ہے.پس ایسے زمانہ میں جبکہ اسلام کی حالت یہاں تک نازک ہوگئی ہے اگر حضرت مسیح موعود لوگوں کو سیاسی معاملات میں حصہ لینے کی اجازت دے دیتے تو بہت سا حصہ جماعت کا اس میں لگ جاتا اور اسلام کی خدمت سے الگ ہو جاتا حالانکہ اسلام کو اس مدد کی سخت
برکات خلافت 71 احتیاج ہے.اور جبکہ اس کی فوج آگے ہی قلیل ہے تو وہ اس قلیل فوج میں سے کچھ فوج کو اور کام میں کیونکر لگا سکتا ہے.نادان ہے وہ انسان جو اس وقت سیاست کی کشمکش کو دیکھ کر اور پھر اسلام کی حالت کو معلوم کر کے سیاست کی طرف متوجہ ہوتا ہے کیونکہ اسے دین کے متعلق خدمت کرنے کی کب فرصت ملے گی.چونکہ سیاست میں پڑ کر انسان کو بہت جلد دنیا میں عزت و شہرت حاصل ہونے لگتی ہے اس لئے لوگ اس نزدیک کے فائدہ کی خاطر دین کو بھی چھوڑ دیتے ہیں.اور اس زمانہ میں تو دنیا کی کشش یوں بھی زیادہ ہے پس سیاست جس قدر بھی انسان کو اپنی طرف کھینچے تھوڑا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود نے یہ پسند نہ کیا کہ جو تھوڑے سے آدمی ان کے ساتھ شامل ہیں ان کو بھی آپ سیاست میں دخل دینے کی اجازت دے کر اپنے ہاتھ سے کھو دیں.اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں سیاست کے چھوڑنے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے، ہم تحصیلدار، ڈپٹی اور دیگر سرکاری عہدے حاصل نہیں کر سکے تو وہ سمجھ لے کہ اس کے چھوڑنے سے خدا ملتا ہے اور نہ چھوڑنے سے دنیا.پس اگر تمہیں خدا پیارا ہے تو سیاست کو چھوڑ دو.اور اگر نزدیک کی خوشی پسند کرتے ہو یعنی دنیا کی، تو پھر جو تمہاری مرضی ہے وہ کرو.اس صورت میں ہمارا تم پر کوئی ایسا اختیار نہیں ہے کہ مجبورا تمہیں روک دیں.سیاسی معاملات میں پڑنے کا دوسرا خطرناک نتیجہ: سیاست میں جتھے کی ضرورت ہوتی ہے اگر کچھ آدمی کھڑے ہو کر گورنمنٹ سے کسی بات کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ان کا مطالبہ پورا کرتی ہے.لیکن ہر ایک بات کے پورا کرنے میں وہ اس بات کا لحاظ رکھتی ہے کہ لوگوں کی کثرت کس طرف ہے.اگر آج لوگ گورنمنٹ سے کوئی مطالبہ کریں
برکات خلافت 72 گے تو گورنمنٹ انہی کے مطالبات پورے کرے گی جو زیادہ ہوں گے.لیکن تم اپنے حال پر غور کرو دوسروں کے مقابلہ میں تمہارا جتھا ہی کیا ہے کہ تم کچھ منواسکو؟ ہماری اپنی حالت تو یہ ہے کہ کوئی دشمن ہمیں تنگ کرتا ہے تکلیفیں دیتا ہے، دکھ پہنچاتا ہے تو ہم کو کہ گورنمنٹ کے سپاہی ہی اس سے بچاتے ہیں.تو سیاست کی وجہ سے ہمیشہ وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جس کا جتھا ہوتا ہے.اگر ایک سکول کے لڑکے سٹرائک کریں اور سٹرائک کرنے والوں کی تعداد سٹرائک نہ کرنے والوں سے کم ہو تو سٹرائک کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسی صورت میں افسر سٹرائک کرنے والے طلباء کو خارج کر دیں گے.لیکن اگر استقلال سے اکثر حصہ یا سب کے سب طلباء سٹرائک کریں گے تب ان کو کامیابی کی امید ہو سکے گی ورنہ سخت نا کام ہوں گے.لیکن تم بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کون سا جتھا اور کون سی جماعت ہے.سیاست میں پڑ کر چھوٹی قوم بڑی میں جذب ہو جاتی ہے، نیا ایک تجربہ شدہ بات ہے کہ جو چھوٹی جماعتیں سیاست کی طرف اپنا رخ کرتی ہیں انہیں اپنا جتھا بنانے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں بغیر جتھے کے کوئی قوم سیاسی امور میں کامیاب نہیں ہو سکتی اس لئے وہ دوسروں سے ملنا جلنا شروع کر دیتی ہیں.چونکہ وہ خود چھوٹی ہوتی ہیں اس لئے بجائے اس کے کہ اوروں کو اپنے ساتھ ملائیں خودان میں جذب ہو کر اپنی ہستی فنا کر لیتی ہیں.دیکھو آج جو ہماری جماعت کو نقصان پہنچا ہے وہ بھی اسی سیاست کی وجہ سے پہنچا ہے پہلے پہل تو ہماری جماعت کے چندلوگ سیاست کی طرف متوجہ ہوئے لیکن چونکہ سیاست ہمیشہ جتھا چاہتی ہے اسلئے ان کو دوسری
برکات خلافت 73 جماعتوں میں شامل ہونا پڑا اور ابتداء میں تو وہ یہ کہتے رہے کہ اس میل جول کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لائیں گے لیکن رفتہ رفتہ خودان میں جذب ہونے لگے.اول وہ انجمن حمایت اسلام کے ممبر بنے پھر اور زیادہ جو سیاست کی چاٹ لگی تو مسلم لیگ میں شامل ہو گئے پھر جب دیکھا کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے ان لوگوں میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے تو آہستہ آہستہ بڑی جماعت کو خوش کرنے اور خود عزت حاصل کرنے کے لئے اپنے عقائد کو قربان کرنا شروع کیا.جانتے ہو یہ ضرورت ان کو کیوں پیش آئی ؟ اس لئے کہ جتھا بنا ئیں مگر دین لیتے لیتے ان کی دنیا بھی گئی.جتھا بنانے کی مثال آریوں میں ہی دیکھ لو.ابتداء میں تو یہ فرقہ زیادہ تر مذہبی معاملات میں دخل دیتا تھا لیکن جب نئی تعلیم کی روشنی نے انہیں سیاست کے سبزہ زار میدانوں کی طرف ہدایت کی اور وہ اس طرف جھک گئے تو اب مذہب ان میں مل گیا.آج یہ بحث ہورہی ہے کہ آیا آریہ مذہب کوئی مذہب ہے یا صرف ایک سیاسی جماعت ہے اور اس وقت کی ان کی حالت یہی ظاہر کرتی ہے کہ وہ صرف ایک سیاسی جماعت ہے اور مذہب سے ان کو کچھ سروکار نہیں ان کی سب خصوصیتیں اب مٹ گئی ہیں اور یا تو یہ حال تھا کہ آریہ ہندو کہنے پر چڑتے تھے اور صاف کہا کرتے تھے کہ ہند و ہم نہیں ہم آر یہ ہیں اور اس نام کو نا پسند کرتے تھے لیکن سیاست میں پڑ کر آج وہ اپنے دوسرے بھائیوں کو (جو ہندو کہلاتے تھے اور پرانے خیال کے تھے ساتھ ملانے اور سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ) جتھا بنانے کی غرض سے بڑی خوشی سے اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں اور اگر ان سے پوچھو کہ آپ آر یہ ہیں یا ہندو تو بڑی سختی سے جواب دیتے ہیں کہ آریہ کیا
برکات خلافت 74 اور ہندو کیا سب ہندو ہیں اور انہی ہندوؤں کو جنہیں وہ پہلے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے آج ساتھ شامل کر رہے ہیں اور باہیں پھیلا پھیلا کر ان سے مل رہے ہیں تا کہ اپنا جتھا قائم کریں.لیکن ان کا جتھا بنانے کے لئے دوسروں سے ملنے کا نتیجہ وہی نکل رہا ہے جو حضرت مسیح موعود نے بذریعہ پیشگوئی بیان فرما دیا ہوا ہے.یعنی دن بدن مٹتے جاتے ہیں اور اپنا نام ونشان گم کرتے جاتے ہیں اور وہ دن آتے جاتے ہیں جب آریہ مذہب مٹ جائے گا کیونکہ یہ قوم سیاست میں پڑ چکی ہے اور سیاست کا کوئی مذہب نہیں اس لئے ان کی سیاست رہ جائے گی.لیکن مذہب مٹ جائے گا.غرض کہ جتھے کے بغیر سیاست نہیں چل سکتی.لیکن جب دوسروں کو ملا کر جتھا بنایا جائے گا تو اپنی خصوصیات چھوڑنی پڑیں گی.اور جب کوئی قوم اپنی خصوصیات چھوڑ دے گی تو وہ تباہ اور برباد ہو جائے گی.۱۹۰۷ ء میں جب پنجاب میں سخت شورش کے آثار پیدا ہوئے تھے اور بعض شریروں نے گورنمنٹ کے خلاف جوش پھیلا دیا تھا اس وقت دیکھا گیا کہ بعض بڑے بڑے وکلاء نے مسلمانوں کی دعوت کی اور ایک جگہ مل کر سب نے کھانا کھایا اور سب چھوت چھات کے خیالات کو ترک کر دیا یہ کیوں ہوا.جتھے کو وسیع کرنے کے لئے چنانچہ جو لوگ سیاست میں زیادہ پڑے ہوئے ہیں ان سے پوچھ کر دیکھو ان کا یہی مذہب ہے کہ ہم اول ہندوستانی ہیں اور پھر ہندو یا مسلمان ہیں.لیکن کیا اسلام اس بات کی اجازت دے سکتا ہے ہرگز نہیں.اسلام تو یہی بتا تا ہے کہ تم اول مسلمان ہو اور پھر کچھ اور ہو بلکہ پھر کچھ بھی نہیں ہو.
برکات خلافت 75 شائد کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ بعض لوگ سیاست میں بھی مشغول ہوتے ہیں اور پھر دین میں بھی مشغول ہوتے ہیں بلکہ دین کی خدمت میں اپنا بہت سا وقت صرف کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست میں مشغول ہو کر پھر بھی انسان دین کے کام کر سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں یہ تو ممکن ہے کہ بعض لوگ سیاست کے ساتھ دین سے بھی تعلق رکھیں.لیکن یہ ضرور ہے کہ چونکہ سیاست جتھا چاہتی ہے اور جو لوگ سیاست میں پڑتے ہیں وہ یا تو دین کو عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح دین کی اصل غرض فوت ہو جاتی ہے اور اس عمل سے بجائے دین کی ترقی ہونے کے اسے سخت صدمہ پہنچ جاتا ہے اور یا یہ لوگ کثیر جماعت کی خاطر اپنے عقائد میں تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح دوستی کے پردہ میں دشمنی کرتے ہیں اور غریب لوگ ان کی وجاہت اور انکے علم کے دھو کے میں ان کے شائع کردہ گندے اور بیہودہ عقائد کو ہی اصل اور سچے عقیدے خیال کر لیتے ہیں اور اس طرح دین کا مغز ضائع ہو جاتا ہے.پس گو بعض ایسے لوگ بھی ہوں جو سیاست کے ساتھ دین کی طرف بھی توجہ رکھیں لیکن اس وقت چونکہ صداقت کمزور ہے ایسے لوگ دین کے لئے سخت نقصان دہ ہیں.وو احسان کا بدلہ ہونا چاہئے : پھر ہم کہتے ہیں کہ احسان بھی تو دنیا میں کوئی چیز ہے حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ ”وہ تلخی اور مرارت جو سکھوں کے عہد میں ہم نے اٹھائی تھی.گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ آ کر ہم سب بھول گئے پھر آپ نے لکھا ہے کہ جب سکھ ظلم کرتے تھے تو وہ کون تھا جو ہمیں ان سے بچانے کے لئے آیا.کیا اس
برکات خلافت 76 76 وقت ہماری مدد کے لئے ترک آئے تھے نہیں انگریز ہی آئے.اس وقت لوگ اپنے مذہب کو چھپاتے تھے لیکن پھر بھی ڈرتے تھے.لیکن آج ہم علی الاعلان اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہیں مذہبی تکالیف جو کہ پیشتر تھیں ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے مسجدوں میں نماز پڑھنا تو الگ رہا گھروں میں بھی خدا کا نام لینا ایک جرم سمجھا جاتا تھا.لیکن گورنمنٹ انگلشیہ نے تو ایسی آزادی دے رکھی ہے کہ بعض جگہ اپنے مسلمان ملازموں کو دفاتر اور اسٹیشنوں کے احاطوں میں سرکاری زمین میں مساجد بنانے کی اجازت دے دی.گوافسوس ہے کہ مسلمانوں نے اپنی بے وقوفی سے اس انعام کو ضائع کر دیا.اور مساجد کی زمین کے وقف ہونے کے بے موقع سوال کو اٹھا کر آئندہ کے لئے گورنمنٹ کو مجبور کر دیا کہ وہ اس آزادی سے ان کو محروم کر دے اور اپنے دفاتر اور اسٹیشنوں کو مذہبی جھگڑوں کی آماجگاہ ہونے سے محفوظ رکھے.اگر مسلمان بے فائدہ شور نہ کرتے تو آئندہ ان آسانیوں میں اور ترقی ہونے کی امید تھی اور وہ دن دور نہ تھا کہ ہر دفتر کے مسلمان بڑی آسانی سے نماز باجماعت کے ثواب عظیم کو حاصل کر سکتے.غرض کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم پر بڑے احسان ہیں اور ہم بڑے آرام اور اطمینان سے زندگی بسر کرتے اور اپنے مقاصد کو پورا کرتے ہیں.ہمارا سب سے بڑا مقصد دین کو پھیلانا ہے اور اس مقصد کے پورا کرنے کی ہمیں ہر طرح سے آزادی ہے.ملک کے جس گوشہ میں چاہیں تبلیغ کر سکتے ہیں اور اگر دوسرے ممالک میں تبلیغ کے لئے جائیں تو وہاں بھی برٹش گورنمنٹ ہماری مدد کرتی ہے.ان فوائد کے مقابلہ میں اگر یہ مان بھی لیا جائے ( گو میرا یہ خیال نہیں ) کہ گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق دبائے
برکات خلافت 77 ہوئے ہیں تو پھر بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ چھوٹی چیز میں بڑی چیزوں پر قربان ہوا کرتی ہیں.جبکہ ہمیں اس قدر بڑے بڑے حقوق اور آرام اس گورنمنٹ کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں تو اگر بعض حقوق جو ہمارے خیال کے مطابق ہمیں حاصل ہونے چاہئیں تھے لیکن ابھی تک حاصل نہیں ہوئے تو بھی کوئی حرج کی بات نہ تھی.انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں پر اکثر جگہ سخت ظلم ہورہا تھا.انہوں نے آکر انہیں اس گری ہوئی حالت سے ابھارا.اب اگر انہوں نے کچھ فوائد حاصل کر بھی لئے تو مسلمانوں کو یہ خیال کر لینا چاہئے کہ ان کا سب کچھ جاتا رہا تھا انگریزوں نے آکر کچھ واپس دلا دیا.اگر کسی کا روپیہ گم ہو جائے اور کوئی شخص اسے ڈھونڈھ دے تو وہ تو خود اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ روپیہ اسے انعام کے طور پر دے دیتا ہے.مسلمانوں کی آزادی بھی گم شدہ تھی انگریزوں نے آکر انہیں واپس دی.اب اگر انہوں نے کچھ حقوق اپنے لئے رکھ لئے یا کچھ عہدے انگریزوں سے خاص بھی کر دیئے تو احسان کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ اس بات پر شور مچا کر ان کا مقابلہ کریں بلکہ شرافت چاہتی ہے کہ ان کے احسان کو یاد کر کے ان کا ہاتھ بٹائیں.اور اگر بعض حقوق انہوں نے ان کو نہیں بھی دیئے تو اس پر صبر کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ اس کے فضل سے انگریزوں کی معرفت ان کا بہت کچھ کھویا ہوا واپس ملا.ان کا دین بھی جا چکا تھا اور دنیا بھی.دونوں قسم کی آزادیاں اور دونوں قسم کے حقوق ضائع ہو چکے تھے.انگریزوں نے دین میں تو ان کو کامل طور سے آزاد کر دیا اور دنیا میں بھی ان کو بہت کچھ آزادی دی.پس ان کو تو چاہئے تھا کہ ان کے ممنون ہوتے نہ کہ نکتہ چین بنتے.جولوگ
برکات خلافت 78 دین کی قدر جانتے ہیں ان کے نزدیک تو انگریز مذہبی آزادی دے کر اگر دنیاوی عہدوں میں سے ایک چپڑاسی کا عہدہ بھی ہندوستانیوں کو نہ دیتے تو پھر بھی انہیں وجہ شکایت نہ ہوتی کیونکہ محسن ہر حال میں شکریہ کا مستحق ہوتا ہے اور انگریز ہمارے محسن ہیں.غلط خیال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس قدر ہمیں آزادی اور آرام میسر ہے ان کے دینے پر گورنمنٹ مجبور ہے کیونکہ ملک کی ترقی میں گورنمنٹ کا اپنا فائدہ ہے اس لئے اس کا ہم پر کوئی احسان نہیں.ہم کہتے ہیں یہ تو اسی طرح کی بات ہے جس طرح کوئی کہے کہ والدین کا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے انہوں نے اپنے جذبات کے پورا کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعلق پیدا کر لیا اور میں پیدا ہو گیا.کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ ہر گز نہیں.اسی طرح اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بے شک گورنمنٹ کا بھی اس میں فائدہ ہے کہ امن قائم رکھے مگر اس کے احسان کا بھی تو ہم انکار نہیں کر سکتے.چونکہ اس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہمیں یہ آرام و آسائش نصیب ہوا ہے.اس لئے ہم اس کے ممنون احسان ہیں اور بہر حال ہیں.قرب الہی کے حصول کا طریق: پس تم خوب یا درکھو کہ سیاست میں پڑنے اور اس کی طرف توجہ کرنے سے سلسلہ احمدیہ نہیں بڑھ سکتا اور ہم میں سے جو کوئی اوروں کے ساتھ مل کر سیاست میں پڑے گا وہ بھی کامیاب نہیں ہوگا.کیونکہ جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جاتا ہے اس کو وہ بھی نہیں ملتی.پس اگر تم خدا تعالیٰ کے قرب کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہو تو وہ دنیا طلبی میں تمہیں نہیں ملے گا بلکہ خدا طلبی میں ملے گا.خدا نے
برکات خلافت 10 79 ہمارے لئے اپنے فضلوں کے دروازے کھولے ہوئے ہیں اور وہ انسان جس کو آنحضرت ﷺ نے سلام بھیجا اور جس کے ملنے کی توقع کرتے کرتے کئی بڑے بڑے بزرگ گزر گئے وہ خدا نے ہم میں پیدا کیا پھر اس کے ماننے کی ہمیں توفیق دی پھر ماننے ہی کی توفیق نہیں دی بلکہ اس کے سلسلہ کی خدمت کرنے کی بھی توفیق دی ہے.پس تم خدا تعالیٰ کے دربار کے وائسرائے اور لیفٹنٹ گورنر ہو.تمہیں دنیا کے کسی درجہ کی ضرورت نہیں ہے.مسیح موعود کا خادم آنحضرت ﷺ کا خادم ہے اور آنحضرت ﷺ کا خادم خدا تعالیٰ کا خادم ہے اسلئے تمہارے نام خدا تعالیٰ کے خادموں میں لکھے گئے ہیں.اس سے بڑھ کر انسان کو اور کیا فخر مل سکتا ہے؟ ایک صحابی کو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ میں تمہیں سورہ فاتحہ یاد کراؤں اس نے عرض کی یا رسول اللہ کیا خدا تعالیٰ نے میرا نام لے کر آپ کو یہ فرمایا ہے.آپ نے کہا ہاں تمہارا نام لے کر فرمایا ہے.یہ سنتے ہی وہ زور سے رونے لگ گیا کہ کیا میری بھی اتنی حیثیت ہے کہ خدا تعالیٰ میرا نام لے.ہم پر خدا تعالیٰ کے کتنے احسانات اور اسکی کس قدر نعمتیں ہیں کہ ہمیں اس نے یاد کیا ہے.دنیا میں اگر کسی کو کوئی چھوٹا افسر بھی بلاتا ہے تو وہ پھولا نہیں سماتا.لیکن افسوس اور صد افسوس اس پر جس کو خدا تعالیٰ بلائے اور وہ اس بلانے کی قدر نہ کرے.تم کو خدا نے بلایا ہے دنیا کے بادشاہ اور افسر تمہیں وہ نہیں دے سکتے جو خدا تعالیٰ دے سکتا ہے اس لئے تم اس کے بلانے پر دوڑتے اور شکر بجالاتے ہوئے جاؤ.دنیا کے مال و متاع ، ناز و نعمت کے لحاظ سے اور لوگ تم سے زیادہ اور بہت زیادہ ہیں مگر دین کے خزانے صرف تمہارے ہی پاس ہیں ان کے پاس نہیں ہیں.تم اللہ
برکات خلافت 80 تعالیٰ کی خدمت کے نصیب ہوتے ہوئے اور کیا چاہتے ہو اسی میں لگے رہو اور دنیا کی ایجی ٹیشن دنیا کے کیڑوں کے حوالے کر دو اور تم شیطان کے مقابلہ پر اسکیٹیشن کرو.ایک ایڈیٹر سے آپ کا مکالمہ : ایک شادی کے موقع پر ایک دفعہ مجھے لاہور جانا پڑا جو لوگ شادی میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے ان میں لاہور کے ایک مشہور اخبار کے ایڈیٹر بھی تھے.ان دنوں ٹرکی اور آسٹریا کا آپس میں جھگڑا تھا اس لئے آسٹریا کے مال کو بائیکاٹ کرنے کے لئے اخباروں میں لکھا جارہا تھا.میں نے اس سے کچھ مدت پہلے ان ایڈیٹر صاحب کے خلاف ایک سخت مضمون لکھا تھا جو ان کے کسی بیہودہ مضمون کے جواب میں تھا جب ایڈیٹر صاحب کی اور میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا عمر ہے.میں نے کہا انہیں ۹ سال ہے.یہ سن کر وہ بڑے متعجب ہوئے اور کہا کہ آپ کی اتنی ہی عمر ہے.غالباً انہیں وہ مضمون یاد آ گیا پھر کہا کہ ٹرکی کے دو صوبے آسٹریا نے دبالئے ہیں اس لئے آپ کے خیال میں آسٹریا سے ہمیں کیا کرنا چاہئے.میں نے کہا ہمارے سپر د تو بہت بڑا کام ہے اس لئے ہم اور کسی طرف کس طرح توجہ کر سکتے ہیں؟ کہنے لگے ہمیں آسٹریا کے مال کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور اس کی کوئی چیز نہ خریدنی چاہئے.میں اس وقت ٹوپی پہنے ہوئے تھا جو کہ اتفاقاً اٹلی کی بنی ہوئی تھی.وہ ایڈیٹر صاحب کہنے لگے کہ آسٹریا کی بنی ہوئی ٹوپیاں ہمیں نہیں پہنی چاہئیں میں نے کہا کہ میں تو اس خیال میں آپ سے متفق نہیں لیکن میری یہ ٹوپی تو ائلی کی بنی ہوئی ہے.جس وقت کا یہ ذکر ہے اس وقت میں ٹوپی پہنا کرتا تھا لیکن حضرت مسیح موعود ٹوپی کو پسند نہیں فرمایا کرتے تھے مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن
برکات خلافت 81 میں نے ٹوپی پہنی تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا.ہیں !تم نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہوئی ہے.میں نے اسی وقت جا کر ٹوپی اتار دی اور پگڑی باندھ لی (اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے بالکل ٹوپی کا استعمال ترک کر دیا ) ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ نہیں ہمیں لڑکی کی مخالف سلطنتوں کی چیزوں کا ضرور بائیکاٹ کر دینا چاہئے.میں نے کہا ہم ایک کے بائیکاٹ سے فارغ ہو لیں گے تو پھر اور کسی کا بھی بائیکاٹ کر لیں گے.اس نے کہا کہ آپ کس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں.میں نے کہا شیطان کا.سارے ملکوں پر شیطان کی حکومت ہے اور یہ ہمارے حقوق دن بدن دبائے جا رہا ہے اور روز بروز ہمیں کمزور کر رہا ہے.کیا تمہیں اس کے بائیکاٹ کا فکر نہیں.ہم تو جب اس کا بائیکاٹ کر لیں گے تو پھر اوروں کا دیکھا جائے گا.آج کل اسلام پر سخت مصیبت کے دن آئے ہوئے ہیں.اور شیطان اس کو کمزور کر رہا ہے.مگر تمہیں اس کا تو کوئی فکر نہیں.لیکن آسٹریا کے مال کا بائیکاٹ کرنے میں لگے ہوئے ہو.یہ سن کر وہ شرمندہ سا ہو کر چپ ہو گیا.واقعہ میں جو دنیا چاہتا ہے وہ سیاست میں دخل دے اور سلطنتوں کے مالوں کا بائیکاٹ کرتا پھرے.لیکن جو اسلام سے محبت رکھتا ہے اسے شیطان سے بڑھ کر اور کس کے بائیکاٹ کا فکر ہوگا.پس اگر ہمارے بیوی ، بچے ، دوست، آشنا مال و دولت ، آرام و آسائش بلکہ سب کچھ بھی قربان ہو کر اسلام کو ترقی نصیب ہو تو یہ ہماری عین مراد اور دل کی خوشی ہے یہ جماعت احمد یہ اسلام کی ضرورت کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے.پھر اگر ہم پہ تھوڑے سے آدمی بھی سیاست میں لگ جائیں تو اور کون ہوگا جو اسلام کی خدمت کرے گا.ان لوگوں کو جانے دو جو سیاست میں پڑتے
برکات خلافت 82 88 ہیں.اور تم دین اسلام کی خدمت میں لگے رہو.کامیابی کا گر : قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے تمہاری کامیابی کا ایک گر بتایا ہے اور وه یه كمْ وَلَقَدْ آتَيْنَكَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِي وَ الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ - لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِةٍ أَزْوَاجاً مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ ( الحجر : ۸۸، ۸۹) آنحضرت میل کی حیثیت کے مطابق تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اے ہمارے رسول ! ہم نے تم کو سات آیتوں والی ایک سورۃ دی ہے جو کہ بار بار پڑھی جاتی ہے (اسی کی یہ دوسری صفت بیان فرمائی ہے کہ) یہ قرآن عظیم کا حصہ ہے.یا اس کے یہ معنی ہیں کہ سورہ فاتحہ اور قرآن عظیم دیا ہے.اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے کہ یہ نعمت چونکہ تمہیں ملی ہے اور تو بخیل نہیں ہے بلکہ بڑا سنی ہے اس لئے تیرا دل چاہتا ہے کہ اوروں کو بھی یہی ملے مگر وہ احمق اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کے لینے کی کوشش نہیں کرتے اور تجھے ان کی اس بات پر افسوس آتا ہے اور تو ان کی طرف حسرت سے دیکھتا ہے کہ یہ کیوں اس سے حصہ نہیں لیتے مگر تجھے چاہئے کہ ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھ اور جو پاک جماعت ہم نے تجھے دی ہے اس کی تربیت میں لگ جاؤ.ان کفار کی خبر ہم خود لیں گے.چنانچہ ایک دوسری جگہ آنحضرت ﷺ کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: " لَعَلَّكَ بَاسِعٌ نَّفْسَكَ إِلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنینَ.“ (الشعراء:۴۰) یعنی کیا تو اس غم میں کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوتے اپنے آپ کو ہلاک کرے گا.آنحضرت ﷺ کو جونعمت دی گئی تھی وہ تمام دنیا کو دینا چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ تمام دنیا اسے قبول کرے.اللہ تعالی انہیں فرماتا ہے کہ اگر لوگ گمراہ ہیں تو تم کیوں غمگین ہوتے ہو تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ
برکات خلافت 83 مومنوں کو پہنچاؤ.ان کفار کے لئے بھی ایک وقت آجائے گا جبکہ انہیں اپنے کئے کا پھل مل جائے گا.یہ تو آنحضرت ﷺ کی شان کے مطابق اس کے معنی ہوئے ہیں.ہماری نسبت سے یہ معنے ہیں کہ اے مسلمانو! ہم نے تم پر بڑے بڑے انعام نازل کئے ہیں اگر تم دنیا میں کسی کے پاس مال و دولت دیکھ تو یہ نہ کہو کہ وہ حاصل کر لیں.ان کو دیکھ کر تمہاری آنکھیں کھلی کی کھلی نہ رہ جائیں بلکہ تم پر جو کچھ تمہارے خدا نے نازل کیا ہے یہ بہت بڑا انعام ہے اور اس کو خدا کا فضل سمجھو اور جو کچھ دنیا داروں کو ملا ہے اس کی طرف نظر نہ کرو.پس تم لوگ بھی دنیا کو دنیا داروں کے لئے چھوڑ دو.خدا تعالیٰ نے تمہیں اپنے دربار میں بلایا ہے اس لئے تمہیں کسی اور جگہ نہ جانا چاہئے.ہاں دنیا میں اتنا کماؤ جو تمہارے لئے ضروری ہو کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.باقی جہاں تک ہو سکے اپنے وقت کو دین کی خدمت میں صرف کرو اور ایسے لوگوں سے الگ رہو جن سے مل کر تمہاری خصوصیات ملتی ہوں اور نہ ایسے کاموں میں پڑو جن کے لئے تمہیں اپنے عقائد میں تبدیلی پیدا کرنی پڑے.یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے صرف جماعت احمدیہ کی ضروریات کے مطابق اور صرف دینی نقطۂ خیال سے ہے.باقی رہا یہ کہ دوسرے لوگوں کو کون سا رویہ اختیار کرنا چاہئے یا جبکہ سیاست میں مشغول ہونے میں کچھ حرج نہ ہو تو کس حد تک اور کن قواعد کے ماتحت ہم سیاسی معاملات میں حصہ لے سکتے ہیں.یہ ایک الگ مضمون ہے اس وقت اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس وقت صرف اسی قدر کہنا کافی ہے کہ اسلام کی موجودہ ضروریات چاہتی ہیں کہ ہماری جماعت سیاسی معاملات سے ایسی الگ رہے کہ جس حد تک گورنمنٹ اپنی رعایا کو سیاسی معاملات میں دلچپسی رکھنے کی اجازت بھی دیتی ہے وہ
برکات خلافت 84 سیاست میں اس قدر بھی دخل نہ دے بلکہ خدا تعالیٰ کے سپر د کردہ کام کے پورا کرنے میں اپنا کل وقت خرچ کرے اور اپنی توجہ کو بٹنے نہ دے اور نہ سیاست میں پڑ کر اپنی خصوصیات کو ضائع کرے.احمدی غیر احمدی کا نکاح اور کفو کا سوال تیسرا اہم مسئلہ جس پر میں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ احمد یوں اور غیر احمد یوں میں نکاح کا سوال ہے اور اسی کے ضمن میں کفو کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے ہماری جماعت کے لوگوں کو شادیوں کے متعلق جو مشکلات پیش آتی ہیں مجھے پہلے بھی ان کا علم تھا لیکن اس 9 ماہ کے عرصہ میں تو بہت ہی مشکلات اور رکاوٹیں معلوم ہوئی ہیں اور لوگوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ہماری جماعت کو سخت تکلیف ہے.حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق یہ تجویز کی تھی کہ احمدی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام ایک رجسٹر میں لکھے جائیں اور آپ نے یہ رجسٹر کسی شخص کی تحریک پر کھلوایا تھا.اس نے عرض کیا تھا کہ حضور شادیوں میں سخت دقت ہوتی ہے آپ کہتے ہیں کہ غیروں سے تعلق نہ پیدا کرو.اپنی جماعت متفرق ہے اب کریں تو کیا کریں؟ ایک ایسار جسٹر ہوجس میں سب ناکتخدالڑکوں اور لڑکیوں کے نام ہوں تا رشتوں میں آسانی ہو حضور سے جب کوئی درخواست کرے تو اس رجسٹر سے معلوم کر کے اس کا رشتہ کروادیا کریں.کیونکہ کوئی ایسا احمدی نہیں ہے جو آپ کی بات نہ مانتا ہو.بعض لوگ اپنی کوئی غرض درمیان میں رکھ کر کوئی بات پیش کیا کرتے ہیں اور ایسے لوگ آخر میں ضرور بتلاء میں پڑتے ہیں اس شخص کی بھی نیت معلوم ہوتا ہے درست نہ تھی.انہیں دنوں میں ایک دوست کو جو نہایت مخلص اور نیک تھے شادی
برکات خلافت 85 کی ضرورت ہوئی.اسی شخص کی جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ رجسٹر بنایا جائے ایک لڑکی تھی.حضرت مسیح موعود نے اس دوست کو اس شخص کا نام بتایا کہ اس کے ہاں تحریک کرو لیکن اس نے نہایت غیر معقول عذر کر کے رشتہ سے انکار کر دیا اور لڑ کی کہیں غیر احمد یوں میں بیاہ دی.جب حضرت صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ آج سے میں شادیوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا.اور اس طرح یہ تجویز رہ گئی.لیکن اگر اس وقت یہ بات چل جاتی تو آج احمدیوں کو وہ تکلیف نہ ہوتی جواب ہورہی ہے.شادی ضروری ہے: ہر ایک قوم کے دنیا میں قائم رہنے اور ترقی کرنے کے لئے شادیوں کا ہونا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے کہ شادی کی جائے پھر آنحضرت ﷺ بھی فرماتے ہیں کہ ہر ایک مومن کو شادی میں رہنا چاہئے جو بغیر شادی کے مرتا ہے وہ بطال ہے.لیکن احمدیوں کے لئے اس ضروری مرحلہ کے طے کرنے کے لئے بہت سی وقتیں ہیں اور وہ اس لئے ہیں کہ غیر احمدی تو ناراض ہیں اس لئے وہ انہیں اپنی لڑکیاں نہیں دیتے.پھر ایک گاؤں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو خواہ وہ غریب ہی ہوں اپنی لڑکیاں دے دیا کرتے ہیں کہ لڑکی اپنے گھر میں ہی رہے گی لیکن احمدی ایک جگہ نہیں بلکہ کسی کسی گاؤں میں ہیں اور وہ بھی بہت تھوڑے اس لئے اگر احمدی احمد یوں کو ہی اپنی لڑکیاں دیں تو انہیں دور دراز دینی پڑتی ہیں اور دور رہنے والوں کے حالات اور عادات کو انہیں بہت تجس سے دیکھنا ہوتا ہے.لڑکے والے یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی ایسی ہوایسی ہوتب شادی کی جائے اور لڑکی والے کہتے ہیں کہ جب لڑکی دور بھیجنی ہے تو پہلے تو لڑکا بھی کوئی اچھی حیثیت کا ہونا چاہئے اس لئے اس دیر میں اور مشکل سے شادیاں ہوتی ہیں.پھر اگرلڑکی کو کوئی دیر تک
برکات خلافت 86 98 بٹھائے رکھے تو بدکاری کا خوف دامن گیر ہوتا ہے کیونکہ زمانہ بہت نازک ہے.پھر دوسرے لوگ اگر اس کی پرواہ نہ کریں تو نہ کریں ہمیں تو اس کا بہت خیال ہے کیونکہ ہم نے تو دنیا کی بدیاں دور کرنی ہیں.غرض کہ شادی کے معاملہ میں احمدیوں کو بہت سی تکالیف ہیں اور بعض کمزور طبائع کے لوگ ان تکالیف کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کی شادی غیر احمدیوں کے ہاں ہی کر دیتے ہیں.مجھے اس بات کا بڑا فکر رہتا ہے کیونکہ غیر احمد یوں کولڑ کی دینے سے بڑا نقصان پہنچتا ہے اور علاوہ اس کے کہ وہ نکاح جائز ہی نہیں.لڑکیاں چونکہ طبعاً کمزور ہوتی ہیں اور ان کی تربیت اعلیٰ پیمانہ پر نہیں ہوئی ہوتی اس لئے وہ جس گھرانے میں بیا ہی جاتی ہیں اسی کے خیالات و اعتقادات کو اختیار کر لیتی ہیں اور اس طرح اپنے دین کو برباد کر لیتی ہیں اور اگر وہ پختہ رہیں تو میاں بیوی میں ہمیشہ جنگ رہتی ہے کیونکہ اختلاف عقائد اس محبت کو تباہ کر دیتا ہے جو میاں اور بیوی میں ہونی چاہئے.اور اس طرح ان کے دل کا آرام اور چین جاتا رہتا ہے.بعض لوگ حضرت مسیح موعودؓ کے حکم کو پورا کرنے کے لئے یوں کر لیتے ہیں کہ جس لڑکے سے اپنی لڑکی کا نکاح منظور ہوتا ہے اس کی نسبت مشہور کر دیتے ہیں کہ وہ تو احمدی ہی ہے یا یہ کہ وہ احمدی تو ہو چکا ہے لیکن بیعت کرنی باقی ہے.بس قادیان جا کر بیعت کر لے گا.بعض اسے کہ کہلا کر بیعت کا خط بھی لکھوا دیتے ہیں یا وہ قادیان آکر بیعت بھی کر لیتا ہے یا بعض لڑکے شادی کی غرض سے لڑکی والوں کو اس طرح دھوکہ دے دیتے ہیں کہ لو ہم نے بیعت کا خط لکھ دیا ہے اب آپ اپنی لڑکی دے دیں لیکن ایسے نکاح بھی کبھی سکھ کا باعث نہیں ہوتے کیونکہ ان میں نیت درست نہیں ہوتی.اور جو شخص نکاح کی خاطر سلسلہ میں داخل ہوتا
برکات خلافت 87 80 ہے نہ تو خدا تعالیٰ کو اس کی ضرورت ہے اور نہ وہ اپنی بیعت پر قائم ہی رہتا ہے اور نہ اپنے چال چلن کی اصلاح کرتا ہے اور اگر بیعت پر قائم بھی رہے تو احمدیوں کے لئے ابتلاء کا موجب ہوتا ہے ایسے واقعات کئی ہوئے ہیں مگر ان کا نتیجہ ہمیشہ خراب ہی ہوتا ہے کبھی دین کے لحاظ سے کبھی دنیا کے لحاظ سے.الا ماشاء اللہ.اکثر نکاح کے بعد خاوند اپنی بیویوں کو دکھ دینے شروع کر دیتے ہیں اور اپنے عقائد کے چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے یا قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے بھی روکتے ہیں.چند سال ہوئے میں نے ایک شخص کی نسبت سنا کہ اس نے اپنی لڑکی کسی ایسے شخص سے بیاہ دی جو اس رشتہ کی خاطر بیعت میں داخل ہوا تھا.جب لڑکی اپنے سسرال میں گئی تو انہوں نے اسے طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کر دیا.اگر وہ نماز پڑھتی تو کہتے کہ یہ ٹونے کرتی ہے اور اگر قرآن پڑھتی تو کہتے کہ ہم پر جادو کرتی ہے.وہ بیچاری نہ نماز پڑھ سکے اور نہ قرآن.وہ شخص روتا پھرے کہ اب میں کیا کروں؟ مگر کوئی اسے کیا مدد دے سکتا تھا اپنے عمل کی سزا تھی جو اسے پہنچ رہی تھی.ایک اور نے لکھا کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک غیر احمدی سے کیا تھا اب وہ کہتا ہے کہ نہ میں اسے چھوڑتا ہوں اور نہ رکھتا ہوں یوں ہی تنگ کروں گا اور تمہیں دکھ پہنچاؤں گا.غرض کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینے والے کبھی سکھ اور آرام نہیں پاسکتے بلکہ اس طرح وہ اپنی لڑکی کے دین کو خراب کر دیتے ہیں جس کا وبال ضرور انہیں پر ہوگا.اور خود دکھ اور تکلیف میں جلتے رہتے ہیں پس جو شخص بھی دین دار ہو کر اپنی لڑکی دنیا دار کو دیتا ہے وہ کبھی آرام میں نہیں رہ سکتا.اور نہ ہی اس کی لڑکی آرام میں رہ سکتی ہے.اس کے مقابلہ میں اگر کوئی اپنی لڑکی کسی
برکات خلافت 88 88 غریب سے غریب احمدی کو بھی دے گا تو لڑکی کا دین تو ضائع نہیں ہوگا.پھر حضرت مسیح موعودؓ کا حکم اور زبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیر احمدی کو اپنی لڑکی نہ دے.اس کی تعمیل کرنا بھی ہر ایک احمدی کا فرض ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس پہلی تجویز پر عمل کیا جائے.لیکن جماعت کو بہت بڑے ایثار کی ضرورت ہے.احمدیوں کو چاہئے کہ جب کوئی دین دار اور متقی لڑکا دیکھ لیں تو اگر وہ کسی قدر غریب بھی ہو تو بھی اسے لڑکی دے دیں.کیا رشتہ دار اپنے سے نسبتاً غریب رشتہ داروں کو لڑکیاں نہیں دے دیا کرتے ؟ دیتے ہیں.تو میں کہتا ہوں کہ احمدیوں کا احمدیوں سے زیادہ قریبی اور کون رشتہ دار ہو سکتا ہے؟ یہ سب رشتوں اور قربوں سے بڑھ کر قرب ہے.پس تم پرانی رسموں کو ترک کر دو اور اس بات کی کوشش کرو کہ اگر تمہیں کوئی نیک اور سعید آدمی مل جائے تو قربانی کر کے بھی اس کولڑ کی دے دیا کرو.قومیت کی وقت : شادیوں کے معاملہ میں ایک بڑی روک قومیت کی ہے.میں کفو کا قائل ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کے متعلق زور دیا کرتے تھے.مگر ہر ایک چیز کی حد ہوتی ہے اور اسی حد کے اندر رہنا ہی مفید ہوتا ہے.کفو کے یہ معنی ہیں کہ اپنی حیثیت اپنے رنگ اپنی طرز کا آدمی ہو اور شریف اور متقی ہو.مثلاً ایک شخص بڑا مال دار ہو اور وہ ایک غریب اور فاقہ کش کولڑ کی دے دے تو یہ رشتہ دین کے لحاظ سے تو درست اور جائز ہوگا.مگر وہ لڑکی جس نے مال دار گھر میں پرورش پائی ہے.جب اس کے گھر جائے گی تو ان میں رنجش اور ناراضگی پیدا ہو جائے گی.کیونکہ اس کو اخراجات کی اپنی عادت کے مطابق سخت تکلیف ہوگی اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک لڑکی والا اپنی حیثیت کے
برکات خلافت 89 قریب قریب لڑکے کو دیکھ لے تا کہ بعد میں میاں بیوی میں لڑائی ہی نہ ہوتی رہے یا کم سے کم لڑکی اپنے آپ کو مظلوم اور دکھیانہ خیال کرتی رہے.لیکن اس احتیاط کے اس قدر پیچھے بھی نہیں پڑنا چاہئے کہ ہر شخص یہی چاہے کہ میری لڑکی کسی امیر الامراء کے ہاں ہی جائے کیونکہ اس طرح غرباء کی شادیاں تو پھر ناممکن ہو جائیں ہر شخص اپنی حیثیت کو دیکھ لیا کرے اور اگر تھوڑا سا فرق بھی ہو تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کیونکہ فساداسی رشتہ میں ہوتا ہے جس میں بہت بین فرق ہو.مثلاً ایک امیر کی لڑکی کسی ایسے لڑکے سے بیاہ دی جائے جسے اس قدر بھی مقدرت نہ ہو کہ اسے دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا سکے پس یہ بھی ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ ایک شخص مثلاً آپ تو غریب حیثیت کا ہے لیکن اپنی لڑکی کے رشتہ کے لئے اس کی یہی کوشش رہے کہ کوئی بڑا عہدہ دار ملے تو اس سے نکاح کروں.جیسا یہ خود ہے ویسے ہی کسی نیک آدمی سے لڑکی کا بیاہ کر دے.ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں.ایک شخص نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کو کہا کہ میری لڑکی یا بہن یاد نہیں کہ کیا رشتہ تھا) کے لئے کوئی رشتہ تلاش کروا دیں.آپ نے جب چند نام بتائے تو اس نے کہا کہ نہیں میری لڑکی اس قابل نہیں.اس کے لئے تو تحصیلدار یا اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر چاہئے یا کوئی اور ایسا ہی معزز عہدہ دار ہو.حالانکہ یہ شخص خود بالکل معمولی حیثیت کا تھا اس طریق کو اختیار کرنے سے غرباء کے لئے سخت ابتلاء کا خوف ہے غیر احمدی تو احمدی کو تب ہی لڑکی دیتا ہے جب اسے خاص طور سے اپنے سے زیادہ آسودہ پاتا ہے کیونکہ اگر دنیاوی فائدہ نہ ہو تو اسے کیا ضرورت ہے کہ اپنی لڑکی کسی احمدی کو دے؟ الا ماشاء اللہ.پس غرباء کو
برکات خلافت 90 90 غیروں سے رشتہ ملنا تو محال ہے.اب رہے اپنے ، وہ ایسے اعلیٰ درجہ کے خیالات رکھیں گے تو جماعت کا ایک حصہ سخت مصیبت میں پڑ جائے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ اگر کسی کو کوئی اچھا رشتہ ملے تو وہ اس سے انکار کر دے اور کہہ دے کہ میں تو کوئی غریب آدمی ہی تلاش کر کے اسے لڑکی دوں گا.اگر خدا تعالیٰ کسی پر فضل فرماتا ہے تو وہ اس فضل کو رد نہ کرے.لیکن میں اسے برا سمجھتا ہوں کہ لڑکیوں کو اس امید میں بٹھا رکھو کہ کسی مالدار آدمی سے ہی ان کا بیاہ کریں گے اگر کوئی آسودہ آدمی جو دین دار بھی ہو خواہش کرتا ہے تو بے شک اس سے رشتہ کر دو.لیکن اگر کوئی ایسا موقع نہیں ملا اور ایک تمہاری حیثیت جیسی حیثیت والا یا اس کے قریب قریب کی حیثیت کا آدمی بھی درخواست کرتا ہے اور اس میں کوئی دینی نقص نہیں تو اسے اس خیال سے ردمت کرو کہ یہ مالدار نہیں.اگر کسی کی اپنی تنخواہ سوروپیہ ماہوار ہو اور وہ کسی بڑے مالدار اور دولت مند کو تلاش کرے جو کہ بہت زیادہ دولتمند ہو تو یہ بات کبھی فتنہ کا موجب بھی ہو جاتی ہے کیونکہ ایسے تلاش کرنے والوں کو اکثر اوقات ایسے رشتے جب احمدیوں میں سے نہیں ملتے تو وہ اپنی لڑکی غیر احمد یوں کو دے دیتے ہیں.اس غلط اور بیہودہ طریق تلاش کو چھوڑ کر ہر ایک احمدی کو اپنی حیثیت کا آدمی تلاش کرنا چاہئے تا کہ نہ لڑکی کو تکلیف ہو اور نہ غیروں کے گھر وہ جائے.پچھلے زمانہ میں شریف لوگ اس طرح بھی کیا کرتے تھے کہ کسی غریب آدمی کو نیک بخت اور متقی دیکھ کر اپنی لڑکی دے دیا کرتے تھے اور ان دونوں کے اخراجات کے لئے خود کوئی سامان کر دیتے تھے.آج کل بھی اگر کوئی ایسا ہی کر سکے تو بہت عمدہ بات ہے.اور اگر نہیں کر سکتا تو اپنی حیثیت کے مطابق تلاش کرے.جیسا
برکات خلافت 91 کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے میں دنیوی حیثیت کو بھی کفو کے ماتحت ہی خیال کرتا ہوں.اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کی بھی ایک حد تک ضرورت تسلیم کرتا ہوں.دوسرا سوال کفو کے ماتحت قومیت کا آتا ہے.اور قوم کی پابندی بھی ایک حد تک ضروری ہے اور فطرتا اس کی پابندی کرنی پڑتی ہے.مثلاً اگر ایک اعلیٰ خاندان کا شخص اپنی لڑکی ایک ایسے شخص کو دے دے جو چوہڑے سے مسلمان ہوا ہو تو وہ لڑکی اپنے خاوند کو حقیر سمجھے گی.اور اس وجہ سے ان میں ہمیشہ جنگ رہے گی اور جو نکاح کی غرض ہے فوت ہو جائے گی یا اور کوئی ایسا نقص ہو جس کی وجہ سے بیوی خاوند کو یا خاوند بیوی کو حقیر خیال کرے تو ایسے جوڑ کا نتیجہ ہمیشہ خراب نکلے گا.اس لئے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے کہ کسی خاوند اور بیوی کے اخلاق و عادات تعلیم و تربیت اور تمدنی درجہ میں کوئی ایسا تین فرق نہ ہو جو ہمیشہ ان میں لڑائی کا باعث رہے اور قوموں کا اختلاف بھی دراصل انہی اختلافات کے باعث شروع ہوا ہے.لیکن ایسی قو میں جو شریف ہیں اور شرافت کے کاروبار کرتی ہیں ان کو لڑکی دے دی جائے تو کوئی حرج نہیں.دیکھو حضرت مسیح موعود نے اپنی لڑکی کہاں دی ہے.مغلوں میں نہیں دی.پھر ہم بھائیوں میں سے ایک کی شادی بھی مغلوں میں نہیں ہوئی.حتی کہ میں نے دوسری شادی کی ہے وہ بھی مغل نہیں ہیں.پس میں کہتا ہوں کہ شرافت کا لحاظ رکھو.کسی قوم میں جب دین داری اور شرافت ہوتو وہی اعلیٰ خاندان ہے.اور اگر کوئی سید بھی ہے اور دین سے بے بہرہ ہے تو بھی وہ شریف نہیں ہے.قرآن شریف نے ذاتوں کے متعلق کیا ہی خوب بیان فرمایا ہے کہ " يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ أَنْثَىٰ وَ جَعَلْنَكُمْ شُعُوباً وَّ قَبَائِلَ
برکات خلافت 280 92 92 لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ.“ ( الحجرات :۱۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک عورت اور مرد سے پیدا کیا ہے.(اگر اس سے حضرت آدم اور حوا مان لئے جائیں تو یہ معنے ہوئے کہ ) پھر تم کو ایک دوسرے پر فضیلت ہی کیا ہے جبکہ تم ایک ہی عورت اور مرد کی پیدائش سے ہو.پس تم کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے یا یہ معنے ہوئے کہ تم سارے کے سارے عورت کے پیٹ سے ہی پیدا ہوئے ہو جس طرح ایک پیدا ہوا ہے اسی طرح دوسرا ہوا ہے اور اسی طرح جس طرح ایک مرد کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے اسی طرح دوسرا بھی ہوا ہے.تو پھر تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت کس طرح ہوسکتی ہے.اس حصہ آیت میں خدا تعالیٰ نے ناواجب فضیلت کا رڈ کیا ہے کہ تم تو ایک ہی ہو.پھر ایک دوسرے پر فضیلت کیسی.پھر فرمایا وَ جَعَلْنَكُمْ شُعُوباً وَ قَبَائِلَ اور ہم نے تم کو مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے اس حصہ آیت میں یہ فرمایا ہے کہ تو میں اور قبائل بھی کوئی شے ہیں آگے چل کر فرمایا کہ لِتَعَارَفُوا یعنی ان قوموں اور قبائل کی تقسیم کی غرض یہ نہیں کہ تم ایک دوسرے پر فخر کر و یا دوسروں کو حقیر خیال کرو بلکہ اس کی غرض تو صرف اتنی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی شناخت اور تعارف ہو سکے.جیسے گورنمنٹ اپنی فوجوں اور محکموں میں تقسیم کر دیتی ہے.جو چیز کثرت سے ہو اس کے افراد کو شناخت کرنے کے لئے کوئی تدبیر ہونی چاہئے اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قوموں کا رواج شروع ہوا ہے.اور اللہ تعالیٰ بھی اسی حکمت کی طرف لوگوں کو متوجہ فرماتا ہے کہ شعوب و قبائل کی اصل غرض اسی قدر ہے.دیکھو گورنمنٹ کی فوج چونکہ وسیع ہوتی ہے اس لئے وہ پہلے
برکات خلافت 93 93 الگ الگ ڈویژن مقرر کرتی ہے پھر ڈویژنوں میں خصوصیت پیدا کرنے کے لئے ان کے نام لکھ دیتی ہے.پھر رجمنٹیں پھر پلٹنیں پھر کمپنیاں بناتی ہے اور یہ سب تقسیم کام میں سہولت اور تعارف کے لئے کی جاتی ہے.مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی گورنمنٹ کی فوج کا سپاہی ہے تو اس سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ کہاں رہتا ہے کس جگہ اس کی فوج ہے وغیرہ وغیرہ.لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ فلاں کمپنی فلاں پلٹن اور فلاں چھاؤنی کا سپاہی ہے تو فوراً اس کا پتہ لگ جاتا ہے.اسی طرح قوموں کے نام ہیں.پھر فرمایا کہ یہ بات بھی نہیں کہ سب لوگ ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں بعض لوگ زیادہ شریف بعض کم بعض اور کم ہوتے ہیں اور یہ فرق بھی ضرور ہے مگر شریف کون ہوتا ہے؟ اس کے لئے فرما یا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُم اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں اکرم وہی ہے جو اتقی ہو یعنی زیادہ نیک اور مقتی ہو.جس قدر کوئی شخص زیادہ خوف خدا کرتا ہے اسی قدر وہ زیادہ بزرگ اور نیک ہے اور اسی قدر زیادہ شریف ہے.اس سے ہمیں یہ پتہ لگ گیا کہ کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں اور کچھ شریف نہیں ہوتے.اور شریف وہ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک متقی اور پر ہیز گار ہوتے ہیں تو شریف اور وضیع کی شادی کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَ حُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ ( النور : ۴).که زانی مرد زانی عورت یا مشرکہ سے نکاح کرے.اور زانی عورت زانی مرد یا مشرک سے نکاح کرے یہ مومنوں کے لئے حرام کیا گیا ہے وہ کبھی ایسا نہیں کرتے.تو واقعی
برکات خلافت 94 ایک شریف اور وضیع کا گزارہ ہونا مشکل ہوتا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص اپنی عورت کو چھوڑ کر کچی کے پاس جایا کرتا تھا.اس عورت نے ایک دن ایک کچی کو بلا کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آتے ہیں.اس نے کہا ہم ناز و نخرے کرتی ہیں.پاس بیٹھتا ہے تو لاتیں مارتی ہیں اور طرح طرح کے مخول اور مذاق ہوتے ہیں اس طرح خبیث مردوں کو مزہ آتا ہے اور وہ اور زیادہ ہماری طرف میلان ظاہر کرتے ہیں.جب اسے یہ معلوم ہو گیا تو ایک دن جب اس کا خاوند گھر آیا اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی بیوی نے گالیاں دینی شروع کیں اور جب وہ ذرا قریب آیا تو ہاتھ سے بھی اس کی خبر لی.وہ اول تو حیران سا رہ گیا کہ یہ آج کیا معاملہ ہے میری بیوی تو نہایت مطیع و فرمانبردار تھی آگے بات نہ کر سکتی تھی یہ تغیر کیا ہو گیا مگر پھر سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ اب میں سمجھ گیا اس کی بیوی نے اسے بہت ملامت کی کہ تم اس گند کو پسند کرتے ہو اور فرمانبردار بیوی کی طرف راغب نہیں ہوتے.غرض کہ یہ پختہ بات ہے کہ خبیث آدمی کو خبیث عورت پسند آتی ہے اور خبیث عورت خبیث مرد کو پسند کرتی ہے.اسی طرح طیب عورت اور مرد طیب کو ہی پسند کرتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کا تعلق ہوتا ہے تب جا کر انکا گزارہ ہوسکتا ہے.کیونکہ کوئی دو چیزوں کا آپس میں اس وقت تک تعلق قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ ان کی آپس میں کچھ نسبت نہ ہو.حضرت محی الدین صاحب ابن عربی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک جگہ کو ا اور کبوتر ا کٹھے بیٹھے دیکھے مجھے تعجب ہوا کہ ان کی آپس میں کیا نسبت ہے کہ اکٹھے بیٹھے ہیں.میں اس بات کو معلوم کرنے کے لئے وہیں بیٹھ گیا.تھوڑی دیر کے
برکات خلافت 95 95 بعد جب وہ چلے تو معلوم ہوا کہ دونوں لنگڑے ہیں اور میں نے سمجھا کہ اس نسبت کی وجہ سے یہ ا کٹھے بیٹھ گئے تھے.تو ہر ایک مرد و عورت کے جوڑے میں کسی نسبت اور تعلق کا ہونا ضروری ہے کند ہم جنس باہم جنس پرواز تعلق تب ہی ہوسکتا ہے کہ مرد وعورت کی آپس میں نسبت ہو.اگر شریف کو وضیع سے جوڑ دیا جائے تو اس کا بہت بڑا نقصان ہوگا.اگر کسی بیچاری احمدی لڑکی کا ایسی جگہ رشتہ کر دیا جائے کہ اس کا خاوند دین سے محض ناواقف ہو نماز نہ پڑھتا ہو دوسرے شرعی احکام کی اسے خبر نہ ہو تو اس کے لئے کتنی مشکل ہوگی.کیا وہ بیچاری اپنی زندگی آرام سے بسر کر سکے گی ہرگز نہیں.حدیث میں آیا ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو صحبت کے لئے بلائے اور وہ نہ آئے تو ساری رات اس پر لعنت برستی رہتی ہے.ادھر خاوند کی اس قدر فرمانبرداری کا حکم ہے ادھر اس قدر اختلاف ہو تو ایسی عورت مصیبت میں پڑے گی یا نہ پڑے گی اور ایسے گھر میں امن کس طرح رہ سکتا ہے.نسب کے متعلق آنحضرت ﷺ کا فیصلہ : آنحضرت ﷺ کی طرز کلام بھی کیسی پیاری ہے کہ ہر ایک جو فطرت صحیحہ رکھتا ہے سن کر آپ پر قربان ہو جاتا ہے.اہل عرب میں حسب نسب کا بڑا رواج تھا اس لئے صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا.یا رسول اللہ سب سے شریف کون ہے اس سے ان کا یہ منشاء تھا کہ آپ چند قبیلوں کے نام لے دیں گے اور انہیں اچھا سمجھا جائے گا آپ نے فرمایا سب سے شریف وہی ہے جوسب سے زیادہ نیک اور متقی ہو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے سوال کا یہ مطلب نہ تھا.فرمایا تو پھر سب سے شریف یوسف تھا کیونکہ یوسف نبی تھا اس کا باپ نبی تھا اس
برکات خلافت 96 96 کے باپ کا باپ نبی تھا.سبحان اللہ کیا ہی لطیف طرز سے آپ ﷺ نے صحابہ کے سوال کا جواب دیا کہ ان کی بات کا جواب بھی آگیا اور ان کی دل شکنی بھی نہ ہوئی انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہمارا یہ مطلب بھی نہیں تھا.فرمایا اچھا تو تم لوگ قبائل عرب کے متعلق سوال کرتے ہو.ان میں سے جو جاہلیت میں شریف سمجھے جاتے تھے اسلام میں بھی وہی شریف ہیں مگر شرط یہ ہے کہ دین سے اچھی طرح واقف ہوں.حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ قَالَ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ - قَالُوْا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ قَالَ فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوْسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيْلِ اللَّهِ - قَالُوْالَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ ـ قَالَ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُوْنِي النَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُ هُمْ فِى الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا.“ (بخاری کتاب الانبیاء باب قول الله تعالى لقد كان في يوسف و اخوته ايت للسائلين ) یعنی حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ حضور لوگوں میں سے شریف کون ہے فرمایا جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ زیادہ کرتا ہے وہ زیادہ شریف ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کے متعلق ہمارا سوال نہیں.فرمایا پھر یوسف سب سے شریف ہے کہ وہ خود نبی تھا اس کا باپ نبی اس کا دادا نبی خلیل اللہ تھا.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا اس کے متعلق بھی سوال نہیں.آپ نے فرمایا تو کیا عرب کے قبائل واقوام کے متعلق تمہارا سوال ہے اچھا تو سنولوگ مختلف قبائل میں تقسیم ہیں (یا یہ کہ لوگ کانوں کی طرح ہیں ) ان میں سے جو لوگ جاہلیت میں اچھے اور شریف
برکات خلافت 97 40 سمجھے جاتے تھے وہی اسلام میں شریف سمجھے جائیں گے بشرطیکہ دین کے مغز سے اچھی طرح واقف ہوں.اس سوال و جواب میں رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ صحابہ کے سوال کا جواب دیا ہے لیکن غور سے دیکھ تو تینوں جواب اصل میں ایک ہی ہیں اور گو آپ صحابہ کی خواہش پر اپنے جواب کو بدلتے رہے ہیں.مگر مطلب سب جوابوں کا ایک ہی رہا ہے.پہلے جواب میں آپ نے فرمایا کہ متقی ہی سب سے زیادہ شریف ہے دوسرے میں یوسف کو شریف قرار دیا اور وجہ یہ بتائی کہ وہ نبی تھے اور ایک نبی کے بیٹے اور ایک کے پوتے تھے.گویا چونکہ وہ خود متقی تھے متقی کے بیٹے اور متقی کے پوتے تھے اس لئے وہ بڑے شریف تھے.اس جواب میں بھی شرافت کو تقوی کے ساتھ وابستہ فرمایا ہے تیسرے جواب میں پھر اسی بات کو مدنظر رکھا ہے اور فرمایا کہ جو جاہلیت میں شریف سمجھے جاتے تھے وہی اسلام میں شریف سمجھے جائیں گے بشرطیکہ دین میں تفقہ پیدا کر لیں اور تفقہ ایک ایسی چیز ہے جو نہایت اعلیٰ پایہ رکھتی ہے.دین سیکھنا اور چیز ہے اور فقاہت فی الدین بالکل اور شئے ہے فقاہت فی الدین سے یہ مراد ہے کہ اس کے مغز اور لب سے واقف ہو جائے.پس یہ شرط لگا کر آپ نے پھر اسی طرف اشارہ فرمایا کہ شریف وہی ہے جو دین دار ہو اور متقی ہو اور دین کے مغز سے واقف ہو.غرض تینوں جوابوں نے نہایت احسن پیرایہ میں اصل مطلب مسلمانوں پر روشن کر دیا تا کہ وہ صرف نسبی شرافت پر ہی نہ بھولے رہیں تقرب الی اللہ کے حصول کے لئے بھی کوشاں رہیں.ان جوابات سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ جو شخص نیک نہیں وہ خواہ کسی قوم کا ہو شریف نہیں کہلا
برکات خلافت 98 98 سکتا.شرافت کے لئے نیکی اور تقویٰ ضروری ہیں.اعلیٰ خاندان کا معیار: مذکورہ بالا آیہ کریمہ اور حدیث نبی کریم ﷺ میں اعلیٰ خاندان کا معیار اور شریف کہلانے والے خاندانوں کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے.دیکھوسید مسلمانوں میں سب سے زیادہ شریف قوم خیال کی جاتی ہے.اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ اتقی الناس یعنی آنحضرت ﷺ سے تعلق رکھتے ہیں.ہندوؤں میں برہمنوں کا درجہ کیوں اعلیٰ ہے اور ان کا خاندان کیوں معزز سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ وہ دوسروں کو دین سکھاتے اور خود دین پر عمل کرنے والے تھے اور یہ ان اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ کے ماتحت ہی اعلیٰ اور معزز خاندان ہوا.پھر دنیا میں جو لوگ ادنی درجہ کے کام کرتے ہیں ان کو رذیل سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کا تعلق ادنیٰ چیزوں سے ہوتا ہے جن کا اثر ان کے اخلاق اور عادات پر بھی پڑتا ہے اسی کے مطابق لوگوں نے قبیلوں اور خاندانوں کو اعلیٰ اور ادنیٰ قرار دیا ہے.مثلاً موچی ایک قوم ہے.ایک زمانہ تھا کہ اس پیشہ کوکوئی اہمیت حاصل نہ تھی اور ان کا تعلق اپنے پیشہ کے باعث ادفی لوگوں سے ہوتا تھا بڑے لوگ خود ان کی دکانوں پر نہ جاتے تھے نہ دنیا کے لحاظ سے یہ قوم بڑے سرمایہ سے کام کرتی تھی بلکہ چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں اس لئے یہ رذیل قوموں میں خیال کئے جانے لگے.کیونکہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں سے ہر وقت کے تعلق کا لازمی نتیجہ تھا کہ ان کے اخلاق پر اثر پڑتا.اب ولایت کے بوٹ بنانے والے بڑے سرمایوں سے کام کرتے اور شریف سے شریف لوگ ان سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کی حالت بدل گئی ہے اور وہ معزز خیال کئے جاتے ہیں کیونکہ حالات کے تغیر
برکات خلافت 99 99 ود سے ان کے اخلاق میں جن نقائص کا خوف کیا جاتا تھا وہ خوف اب جاتا رہا ہے اسی طرح بعض ایسے پیشے ہیں کہ جو خود بداثر ڈالنے والے ہیں.مثلاً موسیقی ہے یہ پیشہ بغیر گندے تعلقات کے خود ہی انسان کے دل پر برا اثر ڈالتا ہے اس لئے اس پیشہ سے تعلق رکھنے والے رذیل خیال کئے جائیں گے.پس شریف خاندانوں کی بنیاد بھی اصل میں نیکی تقوی اور اچھے اخلاق کی بناء پر ہی پڑی ہے.کوئی بڑی قوم کسی نیک انسان کے تعلق سے بڑی بن گئی.کوئی کسی بہادر کے تعلق سے، کوئی کسی سخی کے سبب سے کوئی کسی فاتح کے سبب سے اگر قوموں کی اصل پر غور کیا جائے تو ان کی شرافت کی بنیاد کسی نہ کسی زمانہ میں ان کے اخلاق حسنہ ہی ہوں گے اور چونکہ تعلقات کا اثر انسان کے اخلاق پر ضرور پڑتا ہے اس لئے شریف اقوام کا بھی لحاظ رکھنا ایک حد تک ضروری ہو جاتا ہے.اور یہ ضروری بات ہے کہ اچھے اور برے عادات اور اخلاق کے معلوم کرنے کے لئے اقوام کو دیکھا جائے تاکہ بعد میں رنجش پیدا نہ ہو.اخلاق اسی لئے دیکھے جاتے ہیں کہ نتیجہ نیک نکلے.اگر کسی کو اپنے اخلاق اور عادات کے مطابق کوئی لڑ کا مل جائے خواہ وہ کسی قوم سے ہو تو اس سے رشتہ کر دینا چاہئے.جو آج وضیع سمجھا جاتا ہے وہ کل شریف ہوسکتا ہے.ایک شخص اگر ادنیٰ حیثیت سے مثلاً چوڑھے سے مسلمان ہو تو میں اسی وقت اس کے ساتھ مل کر کھانا کھالوں گا اور میں اس کا جوٹھا کھا سکتا ہوں اور وہ میرا جوٹھا کھا سکتا ہے.کیونکہ جب اس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہا تو میرے اور اس میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا.اسلام کے لحاظ سے جو میرے حقوق ہیں وہی اس کے ہیں.اس میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں ہے.حضرت عمر
برکات خلافت 100 کے زمانہ میں ایک بادشاہ مسلمان ہو کر آیا تھا.کعبہ کا طواف کرتے وقت کسی صحابی کے پاؤں کے نیچے اس کا کپڑا آ کر گر گیا.اس نے اس کو تھپڑ مارا کسی نے اس سے کہا کہ حضرت عمرہ تجھ سے اس کا بدلہ لیں گے.اس نے کہا کیا مجھے غستان کے بادشاہ سے اس مفلس کے مارنے کا بدلہ لیں گے؟ اور کیا مجھے بھی نہیں چھوڑیں گے؟ اس نے کہا نہیں اس کو جو زیادہ شک ہوا تو جا کر حضرت عمرؓ کو کہنے لگا کہ کیا اگر کوئی بڑا آدمی کسی رذیل کو مارے تو آپ اس کا بدلہ تو نہیں لیں گے؟ انہوں نے کہا اوجلہ تو کسی کو مار تو نہیں بیٹھا اگر تم نے کسی کو مارا ہے تو خدا کی قسم میں ضرور تم سے اس کا بدلہ لوں گا یہ سن کر رات کو وہ بھاگ گیا اور اس کی تمام قوم عیسائی ہو گئی.حضرت عمرؓ نے فرمایا اس کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے.تو حقوق کے لحاظ سے سب مسلمان برابر ہیں مگر شادی میں صرف اسی بات کا خیال نہیں رکھنا بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ جن دو شخصوں کا پیوند ساری عمر کے لئے ہونے لگا ہے ان میں آپس میں اخلاق کا کوئی فرق تو نہیں اور بعض اقوام کے اخلاق گرے ہوئے ہوتے ہیں پس ان سے ضرور علیحدہ رہنا پڑے گا تا کہ ہمیشہ کا جھگڑا نہ پیدا ہو جائے لڑکے لڑکی کے امن اور آرام کی وجہ سے ایک حد تک کفو کا خیال بھی رکھنا پڑے گا.لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ہر ایک چیز کی حد ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ آنفكُمْ فرما کر یہ قاعدہ بتادیا ہے کہ اصل شرافت تقوی ہی ہے.پس تم کبھی اس بات پر دلیری نہ کرو کہ فلاں قوم کمینی ہے تم بے شک بعض قوموں سے اختلاف اخلاق و عادات کی وجہ سے رشتہ میں پر ہیز کرو لیکن کسی کو وضیع نہ کہو کیونکہ جو آج شریف ہوتا ہے وہ حالات کے بدلنے سے وضیع ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور سارے ایک جیسے ہیں.جس کے اخلاق
برکات خلافت 101 اور عادات اچھے ہیں وہی اعلیٰ ہے پس اگر ایسا ہو کہ مرد کے ایسے خیالات اور عادات ہیں جولڑکی کے خاندان کے خلاف ہیں تو ان کی شادی نہیں ہونی چاہئے.مگر ایسی شرط لگانا کہ مغل ہو اور مغل بھی برلاس ہو وغیرہ وغیرہ.یہ نہیں ہونا چاہئے تم نیکی اور تقوی کو شادی کے معاملہ میں اول دیکھو اور پھر کفو کو بھی اس حد تک دیکھو جہاں تک کہ اس کا اخلاق و عادات سے تعلق ہے اور خوب یاد رکھو کہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تمہیں بہت کچھ قربانیوں کی ضرورت ہے اور گواحمدی کو غیر احمدی کی لڑکی لینی جائز ہے.لیکن آج ہماری ضروریات چاہتی ہیں کہ جماعت اس تجویز پر عمل کرے کہ غیر احمد یوں کو نہ لڑکی دے اور نہ ان کی لڑکی لے.حضرت مسیح موعودؓ نے جو اعلان اس کے متعلق سب سے پہلے شائع فرمایا تھا اس میں یہی حکم تھا کہ احمدیوں کی شادی آپس میں ہی ہومگر پھر یہ اجازت فرما دی کہ غیر احمدی لڑکی سے احمدی شادی کر سکتا ہے مگر اب ضرورت مجبور کرتی ہے کہ کچھ مدت کے لئے پھر اسی حکم پر عمل کیا جائے یعنی نہ غیر احمد یوں کو لڑ کیاں دی جائیں اور نہ سوائے کسی اشد ضرورت کے ان کی لڑکیاں لی جائیں.کیونکہ اس وقت ہماری جماعت تھوڑی ہے اور یہ دقت پیش آرہی ہے کہ احمدی تو غیروں کی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں اور جو احمدی لڑکیاں ہیں وہ غیروں کے ہاں جانہیں سکتیں پس ان کے لئے رشتہ ملنے میں دقت ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض کمز ور احمدیوں کو ابتلاء آجاتا ہے اور وہ غیر احمد یوں کو اپنی لڑکیاں دے دیتے ہیں.مجھے بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ لڑکی جوان ہے آپ کہیں شادی کا انتظام کر دیں.میں اس کے لئے جب اپنی جماعت کے لڑکوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کی شادیاں غیروں
برکات خلافت 102 کے گھر ہوتی جاتی ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر احمدی لڑکوں کی شادیاں غیر احمدیوں کے ہاں کی جائیں تو احمدی لڑکیاں کہاں جائیں.کیا تم یہ پسند کرتے ہو؟ کہ وہ غیر احمد یوں کے ہاں جا کر ابتلاؤں میں پھنسیں.پس جماعت وہی قائم رہ سکتی ہے جو اپنے تمام افراد کا خیال رکھے.آج کل تم اس بات کا خیال کر کے غیروں کی لڑکیاں نہ لو اور اپنوں کو بتلاؤں سے بچاؤ تا کہ تمہاری جماعت مضبوط ہو.نماز با جماعت اس کے بعد ایک اور نقص ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.بعض نقص گو چھوٹے نظر آتے ہیں مگر بعد میں وہی بہت بڑھ جاتے ہیں.اور بڑے نقصان کا موجب ہو جاتے ہیں.ہماری جماعت میں ایک نقص ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ بہت حد تک مجبوری کی وجہ سے ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ ہر ایک احمدی کو خوب ہوشیار رہنا چاہئے.اگر اس نقص کے دور کرنے کی طرف ہماری جماعت نے توجہ اور غور نہ کیا تو تھوڑی مدت میں یہ ایک خطر ناک صورت اختیار کر لے گا اور سخت تباہی کا موجب ہو جائے گا.وہ نقص نماز با جماعت میں سستی کا ہے بے شک نماز با جماعت پڑھنے میں احمدیوں کو ایک دقت ہے اور وہ یہ کہ غیر احمدیوں کے پیچھے تو وہ نماز پڑھ نہیں سکتے اور بعض جگہ احمد ی صرف ایک ہی ہوتا ہے اس لئے اسے نماز باجماعت ادا کر نے کا موقع نہیں ملتا اور چونکہ نماز با جماعت ادا کرنے میں انسان کو وقت کی پابندی کرنی پڑتی ہے جب نماز با جماعت نہ ملے تو رفتہ رفتہ انسان ستی کرنی شروع کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے جماعت کے ساتھ تو نماز پڑھنی ہی نہیں جس وقت چاہوں گا
برکات خلافت 103 پڑھ لوں گا اس طرح وہ وقت کی پابندی نہیں کرتا اور آخر اول وقت نماز پڑھنے کی عادت جاتی رہتی ہے یا جمع کر کے نماز ادا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور نماز باجماعت ادا کرنے سے تو ایسا غافل ہو جاتا ہے کہ اگر کہیں باجماعت نماز پڑھنے کا موقع مل بھی جائے تو بھی سستی کر دیتا ہے.گو یہ عادت ایک مجبوری کی وجہ سے اسے پڑتی ہے لیکن احمدیوں میں ہرگز ہرگز سستی نہ ہونی چاہئے.جس وقت سستی پیدا ہوئی اسی وقت سے اس جماعت کی تباہی کا آغاز ہو جائے گا (نعوذ باللہ من ذلک ) پس جس گاؤں میں کوئی اکیلا احمدی ہے وہ کوشش کرے کہ دوسرا پیدا ہو جائے.مجھے امید ہے کہ اگر اس طرح کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ ضرور اس کا ساتھی پیدا کر دے گا.لیکن اگر دوسرا ساتھی نہ ہو تو دوسرے گاؤں میں جا کر جہاں کوئی احمدی ہو دوسرے تیسرے دن نماز باجماعت پڑھو اور ستی کی عادت نہ ڈالو.اگر تم اس کو بھولے تو یا درکھو کہ پھر تم ترقی نہیں کر سکو گے.وہ احمدی جو بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مکان تک ان کا جانا مشکل ہوتا ہے ان کے لئے یہ بات نہایت مشکل ہے کہ ہر نماز کے وقت ایک جگہ جمع ہو سکیں.لیکن ان کو چاہئے کہ اپنے محلہ کے احمدی مل کر باجماعت نماز پڑھا کریں اور کبھی کبھی سارے اکٹھے ہو کر بھی پڑھیں سستی ہرگز نہیں ہونی چاہئے.یہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اس کے نتائج بہت برے نکلتے ہیں مجھے قرآن شریف سے یہی معلوم ہوا ہے کہ جس کو نماز باجماعت پڑھنے کا موقع ملے اور وہ نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی.حضرت ابن عباس کا بھی یہی مذہب ہے.
برکات خلافت الله 104 آنحضرت ﷺ نے نماز با جماعت کے متعلق اتنی احتیاط فرمائی ہے کہ جس کا بیان ہی نہیں ہوسکتا.ایک دفعہ ایک اندھا آپ کے حضور حاضر ہوا.اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے مسجد میں آتے ہوئے سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.میرے پاس کوئی ایسا شخص نہیں جو میرا ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دے اگر مجھے اجازت ہو تو میں گھر میں ہی نماز پڑھ لیا کروں.آپ نے فرمایا بہت اچھا لیکن جب وہ لوٹ کر چلا تو پھر آپ نے اسے واپس بلا یا اور پوچھا کہ کیا تمہارے گھر تک آذان کی آواز پہنچتی ہے؟ اس نے کہا حضور پہنچتی ہے.آپ نے فرمایا جب آذان پہنچتی ہے تو مسجد میں حاضر ہوا کرو.رسول کریم ﷺ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء اور صبح کی نماز با جماعت پڑھنے کے لئے مسجد میں نہیں آتے.میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی جگہ کسی اور کونماز پڑھانے کے لئے کھڑا کر دوں اور اپنے ساتھ اور آدمیوں کو لے کر ان کے سر پر ایندھن رکھ کر سارے شہر میں سے ان لوگوں کو معلوم کروں جو نماز میں شامل نہیں ہوئے اور پھر آدمیوں سمیت ان کے گھر پھونک دوں.دیکھو ایسا رحیم و کریم انسان ایسا مشفق اور مہربان انسان فرماتا ہے کہ جو جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کو اور ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دوں.اس حدیث سے نماز باجماعت کی عظمت کا خوب پتہ لگ جاتا ہے.عشاء اور صبح کی نماز کی خصوصیت اس لئے فرمائی کہ یہ دونوں وقت سخت ہیں عشاء کے وقت لوگ نیند سے مجبور ہو کرستی کرتے ہیں اور صبح کے وقت آنکھ کھلنی مشکل ہوتی ہے جب ان دونوں وقتوں کے متعلق ایسے تشدد کا اظہار فرمایا تو دوسرے وقتوں کی نمازوں
برکات خلافت 105 کے باجماعت ادا کرنے کی تاکید آپ ثابت ہو گئی.سچی اور حق بات یہی ہے کہ نماز باجماعت پڑھنے کے سوا جماعت بن ہی نہیں سکتی.اس لئے تم جہاں تک کوشش اور سعی کرسکو کرو اور باجماعت نماز ادا کرنے کی پابندی کرو.اگر اور کوئی جماعت کے لئے نہ ملے تو گھر میں ہی خاوند بیوی بچوں کو پیچھے کھڑا کر کے نماز پڑھ لے.اس طرح کم از کم نماز باجماعت پڑھنے کی عادت تو رہے گی.پھر اللہ تعالیٰ جماعت بھی بنا دے گا خدا تعالیٰ تمہیں ایسا کرنے کی توفیق دے.زكوة پھر ایک بہت اہم مسئلہ زکوۃ کا ہے.لیکن لوگوں نے اس کو سمجھا نہیں خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد اس کا حکم دیا ہے.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں زکوۃ نہ دینے والوں سے وہی سلوک کروں گا جو آنحضرت ﷺ کفار سے کرتے تھے.ایسے لوگوں کے مرد غلام بنا لوں گا اور ان کی عورتیں لونڈیاں.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایسا ابتلاء آیا تھا کہ عرب کے تین شہروں مکہ ، مدینہ اور ایک اور شہر کے علاوہ سب علاقہ عرب کا مرتد ہو گیا تھا.حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر سے اس وقت عرض کیا کہ جو لشکر شام کو جانے والا ہے اس کو آپ روک لیں کیونکہ تمام ملک میں فساد برپا ہو گیا ہے لیکن حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ جس لشکر کو آنحضرت ﷺ نے روانہ کیا ہے میں اسے نہیں روک سکتا.پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اچھا جو لوگ زکوۃ کے منکر ہیں ان سے صلح کر لیں پہلے دوسرے مرتدین سے جنگ ہو جائے تو رفتہ رفتہ ان کی بھی اصلاح ہو جائے گی.اول ضرورت یہی ہے کہ جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جائے کیونکہ ان کا فتنہ سخت
برکات خلافت 106 ہے.حضرت ابوبکر نے کہا کہ اگر لوگ بکری کا بچہ یا اونٹ کے گھٹنہ باندھنے کی رشتی کے برابر بھی زکوۃ کے مال میں سے ادا نہ کریں گے جو آنحضرت ﷺ کو ادا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا اور اگر تم لوگ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور جنگل کے درندے بھی مرتدین کے ساتھ مل کر حملہ کریں گے تو میں ان سے اکیلا لڑوں گا.غرض زکوۃ کے حکم کو حضرت ابو بکر نے اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کے منکر سے کفار کا سا سلوک جائز رکھا ہے.مگر آج مسلمانوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس کی طرف توجہ کرتے ہیں.میں نے اندازہ کیا ہے کہ اگر ساری جماعت احمدیہ کی صرف زکوۃ ہی جمع کی جائے تو ایک لاکھ روپیہ کے قریب ہوتی ہے.کیونکہ کچھ نہ کچھ تو لوگوں کے پاس زیور ہوتا ہی ہے.ہاں وہ اشیاء جن پر گورنمنٹ ٹیکس وصول کرتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی نسبت فتویٰ دیا ہے کہ چونکہ گورنمنٹ ان پر ٹیکس وصول کر لیتی ہے اس لئے اب ان پر کوئی زکوۃ یا عشر نہیں لیکن میرے خیال میں بعض زمینوں پر گورنمنٹ جو مالیہ وصول کرتی ہے وہ شرعی عشر سے کم ہوتا ہے.اس لئے جہاں گورنمنٹ کا مالیہ یا ٹیکس کم ہو وہاں بقیہ روپیہ اس شخص کو جس کے ذمہ وہ واجب ہوا دا کرنا چاہئے.مثلاً ایک زمین پر گورنمنٹ مالیہ لیتی ہو اور اس کا عشر دس روپیہ ہوتا ہو تو پانچ روپیہ اس کے مالک کو عشر کے طور پر یہاں ادا کرنے چاہئیں.اس انتظام کے لئے ہر ایک گاؤں اور شہر کی احمدیہ انجمنوں کے سیکرٹریوں کو اور جہاں سیکرٹری نہیں وہاں کسی اور کو ہی رجسٹر بنا لینے چاہئیں.جس میں زیور اور دیگر زکوۃ والی چیزوں کو درج کیا جائے اور با قاعدہ زکوۃ وصول کی جائے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ پہننے والے زیوروں کے
برکات خلافت 107 لئے ضروری نہیں ہے کہ ان پر زکوۃ دی جائے لیکن اگر کوئی دے دے تو اچھا ہے.جو زیور نہیں پہنے جاتے ان کی زکوۃ ضرور دینی چاہئے.زکوۃ کے متعلق ایک مفصل رسالہ لکھنے کے لئے میں نے کہہ دیا ہے اس میں سب قواعد اور ہدایات دی جائیں گی اس کے مطابق عمل ہونا چاہئے.زکوۃ کے فوائد: زکوۃ کا حکم ایک بے نظیر حکم ہے اور اسلام کی بے انتہاء خوبیوں میں سے ایک روشن خوبی ہے اور بہت سی جماعتوں پر اس کے ذریعہ اسلام کی عظمت کی حجت قائم کی جاسکتی ہے.مثلاً یورپ میں آج کل دو گروہ ہیں.ایک کہتا ہے کہ جتنا کوئی کماتا ہے اسے کمانے دو اور اس کو اپنی محنت کا ثمرہ اٹھانے دو.دوسرا گر وہ کہتا ہے کہ سارے ملک کے لوگ کام کرتے ہیں تب ہی دولت آتی ہے اس لئے جو لوگ بہت مالدار ہیں ان سے چھین کر مفلس اور نادار لوگوں کو دینا چاہئے تا کہ وہ بھوکے نہ مریں اور ملک کے کاروبار میں خلل واقع نہ ہو.خدا تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کی باتوں کو رد کر کے ٹھیک اور درست بات بیان فرما دی ہے اور اسلام نے افراط اور تفریط دونوں کو چھوڑ کر عمدہ بات لے لی ہے.میرا یقین ہے کہ اگر صرف زکوٰۃ کا مسئلہ لے کر یورپ کے سامنے پیش کیا جائے تو کسی کی طاقت نہیں کہ اس کی صداقت اور عمدگی سے انکار کر سکے.بعض لوگ زکوۃ کو ایک چٹی خیال کرتے ہیں لیکن زکوۃ چھٹی نہیں ہے اس کے سمجھنے کے لئے میں تمہیں ایک موٹی بات بتا تا ہوں.گورنمنٹ رعایا سے ٹیکس لیتی ہے پھر اس ٹیکس سے ملک اور رعایا کی حفاظت کے لئے فوج اور پولیس تیار کرتی ہے.رعایا کے آرام کے لئے سڑکیں اور شفا خانے بناتی ہے اور طرح طرح کے آرام بہم پہنچاتی
برکات خلافت 108 ہے چونکہ گورنمنٹ رعایا کے آرام کے لئے ہی ٹیکس لیتی ہے اس لئے اس کے اس ٹیکس لینے کو کوئی چٹی خیال نہیں کرتا اسی طرح زکوۃ بھی چٹی نہیں بلکہ خود انسانوں کے بھلے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے جس طرح گورنمنٹ اپنی رعایا کی بہتری کے لئے ٹیکس وصول کرتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی زکوۃ مقرر فرمائی ہے اور اس کے بدلہ میں یہ وعدہ کیا ہے کہ تمہارے اموال میں برکت ہوگی اور وہ ہر ایک قسم کی ہلاکتوں سے محفوظ ہو جائیں گے.جیسا کہ فرمایا ” خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهِّرُ هُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ “ (التوبہ: ۱۰۳) ان لوگوں کے اموال میں سے صدقات کا مال لو اور اس ذریعہ سے ان کو ظاہری اور باطنی نقصوں سے پاک کر دو اور ان کے لئے دعائیں کرو کیونکہ تمہاری دعائیں ان کے لئے آرام اور راحت کا موجب ہیں.غرض کہ زکوۃ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا ٹیکس ہے جس کے بدلہ میں انسان پر رحمت اور اس کی ظاہری و باطنی پاکیزگی کا وعدہ ہے.جب سے مسلمانوں نے زکوۃ دینی چھوڑ دی ہے اس وقت سے ان کا مال کم ہی کم ہو رہا ہے.کہاں تو ایک وقت تھا کہ یہ دنیا کے بادشاہ تھے لیکن آج ذلیل وخوار ہو رہے ہیں.زکوۃ دینے والے کو اللہ تعالیٰ اسی طرح کامیابی اور پاکیزگی کا وعدہ دیتا ہے جس طرح گورنمنٹ ٹیکس لے کر حفاظت کا وعدہ کرتی ہے.لیکن افسوس کہ لوگ گورنمنٹ کے وعدہ کو تو سچا سمجھتے ہیں اور بڑی خوشی سے ٹیکس ادا کر دیتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے وعدہ کو سچا نہیں سمجھتے اسی لئے زکوۃ نہیں دیتے.زکوۃ کے ذریعہ سے انسان بہت سے دکھوں اور تکلیفوں سے بچ جاتا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا.
برکات خلافت 109 ایک تصوف کا لطیفہ: زکوۃ کے فوائد میں سے ایک اور عظیم الشان فائدہ ہے جس سے صوفیانہ مذاق کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان جب مال کماتا ہے تو خواہ وہ کتنی ہی کوشش کرے کہ حرام مال اس کے مال میں شامل نہ ہولیکن یہ بات بالکل ممکن ہے کہ غلطی سے ناجائز مال اس کے مال میں مل جائے.مثلاً ایک سوداگر کپڑا بیچتا ہے اسے نہیں معلوم ہوتا کہ اس میں سوراخ ہیں اور کپڑا نا کارہ ہو چکا ہے وہ خریدار کو دے کر قیمت لے لیتا ہے اور گو اس سے غلطی سے ہی یہ کام ہوا ہے لیکن جو رو پید اس کے پاس آیا ہے وہ اس کا حق نہیں اور وہ اس کا مالک نہیں گو بے علمی کی وجہ سے ہی اس پر اس نے قبضہ کیا ہے اس مال کو کھا کر اس انسان کے گوشت پوست میں کوئی برکت پیدا نہ ہوگی اور نہ اس کے دوسرے مال میں اس کے ذریعہ کوئی برکت ہوگی لیکن جب یہ شخص سال کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے مال میں سے ایک حصہ زکوۃ کا نکالتا رہے گا تو اس کا مال پاک ہوتا رہے گا.اور اگر کوئی حصہ مال کا غیر طیب تھا تو وہ اس کی جان پر یا اس کے نفس پر خرچ نہ ہوگا بلکہ زکوۃ کے ذریعہ سے حقیقی مالک یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس واپس چلا جائے گا اور اس کا مال طیب رہے گا.اور حلال مال کے کھانے اور استعمال کرنے سے اس کی ہر چیز میں برکت پیدا ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح ایک اور بات جس کی طرف ہماری جماعت کی توجہ کی ضرورت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے سوانح کی حفاظت ہے.ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سامان موجود ہے.قلم ، دوات، سیاہی، کاغذ مطبع وغیرہ لیکن اگر ہم اس
برکات خلافت 110 کام کو نہ کریں تو کیسے سخت افسوس کی بات ہے اور بعد میں آنے والے لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھیں گے.نئے نئے آنے والے لوگ کیا جانتے ہیں کہ مسیح موعود کیا تھے جب تک ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ ہو جس سے وہ ان کا حال بتمام معلوم کر سکیں.چند دن ہوئے یہاں دو عیسائی آئے تھے مجھ سے ان کی گفتگو ہوئی وہ ایک آدمی کو کہنے لگے کیا مرزا صاحب بھی ایسے ہی تھے.اس نے کیا ہی خوب جواب دیا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو ان سے ہی جا کر پوچھ لو وہ کیا کہتے ہیں وہ تو اپنے آپ کو حضرت مرزا صاحب کا غلام کہتے ہیں اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ حضرت مرزا صاحب کیسے تھے.پس ہمارے بہت بڑے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حالات اور آپ کے سوانح کو بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے محفوظ کر دیں.ہمارے لئے آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اور پھر ( آپ کے عاشق صادق ) حضرت مسیح موعود کا اسوہ حسنہ نہایت ضروری ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود کے سوانح لکھنے نہایت ضروری ہیں پس جس کسی کو آپ کا کوئی واقعہ کسی قسم کا یاد ہو وہ لکھ کر میرے نام بھیج دے.یہ ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے جس کو ہم نے کرنا ہے میں نے ایک آدمی کولوگوں سے حالات دریافت کر کے لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ لکھ رہا ہے تم میں سے بھی جس کو کوئی واقعہ یاد آئے وہ لکھ کر بھیج دے تا کہ کل واقعات ایک جگہ جمع کر کے چھاپ دیئے جائیں اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں.آج بہت سے لوگ حضرت مسیح موعود کے دیکھنے والے اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے موجود ہیں اور ان سے بہت سے واقعات معلوم ہو سکتے ہیں مگر جوں جوں یہ لوگ کم ہوتے جائیں گے
برکات خلافت 111 آپ کی زندگی کے حالات کا معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے بہت جلد اس کام کو پورا کرنا چاہئے.تنازعات کا فیصلہ: ایک اور ضروری امر ہے جس کی طرف تمہاری توجہ کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی اختلافی مسئلہ پیش ہو یا تنازع پیدا ہو تو جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ خود بخود ہی فیصلہ نہ کرنے بیٹھ جایا کریں.جب تم نے اتحاد کیا ہے اور ایک سلک میں منسلک ہو گئے ہو تو تمہیں چاہئے کہ جب کوئی جھگڑ اواقع ہو تو اس کے متعلق ہم کو کھو اور ہم سے فیصلہ کرواؤ.آپس کے جھگڑے یہاں بھیجو ہم تحقیقات کر کے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے فیصلہ کریں گے.پرائمری سکول : ایک اور امرجس کی طرف میں آج آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جماعت کی تعلیمی ترقی کے لئے میں نے تجویز کی ہے کہ ہر جگہ پرائمری سکول کھولے جائیں.چنانچہ میں نے یہ کام شروع کر وا دیا ہے اور اس وقت تک دس کے قریب سکول کھل چکے ہیں تمام احمد یہ انجمنیں اپنی اپنی جگہ کوشش کریں کہ وہاں سکول کھول دیئے جائیں اگر کسی جگہ پہلے سکول ہے بھی تو بھی ہمارے احمدی سکول کی ضرورت ہے کیونکہ دوسرے سکولوں میں قرآن شریف نہیں پڑھایا جاتا اس لئے ضروری ہے کہ اپنا مدرسہ کھولا جائے.پس سکولوں کے کھلوانے کی کوشش کرو.اس کے لئے انجمن ترقی اسلام کے ماتحت میں نے ایک سب کمیٹی بنادی ہے جو سکولوں کے کھلوانے کا انتظام کرتی ہے اس سے خط و کتابت کر کے سب انتظام ہوسکتا ہے.واعظوں کی ضرورت: ہماری جماعت کی ضروریات میں سے ایک ضرورت واعظوں
برکات خلافت 112 کی ہے خصوصاً بڑے بڑے شہروں میں تو واعظوں کی سخت ضرورت ہے.ہمارے پاس جو کچھ ہے قرآن کریم ہی ہے اور اس سے بڑھ کر اور ہو ہی کیا سکتا ہے.پس میرا ارادہ ہے کہ مختلف شہروں میں درس قرآن جاری کئے جائیں اور ہر ضلع کے لئے کم از کم ایک واعظ مقرر کیا جائے لیکن اس کام کو باہنے والے واعظوں کی ہماری جماعت میں کمی ہے اس لئے جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہوگا ہم نے ایک جماعت مبلغین بنائی ہے اس جماعت کے دولڑکوں نے کل یہاں وعظ کیا ہے.مجھے معلوم نہیں کہ کیا بولے ہیں مگر میری خواہش ہے کہ بہت جلد چندا ایسے آدمی تیار ہو جائیں جن کو ہم ضروری مقامات پر مقرر کر سکیں چنانچہ میں نے ایک ایسا کورس تیار کیا ہے کہ جس کے ذریعہ سے جماعت مبلغین کے دس لڑکوں کو ایسا تیار کیا جائے کہ اگلے سال تک وہ درس قرآن دینے کے قابل ہو جائیں.یہ لڑ کے امید ہے کہ جلد کام کے قابل ہو جائیں گے اور امید ہے کہ انشاء اللہ اگلے دسمبر میں ہم دس انجمنوں کو ایک ایک واعظ دے سکیں گے.قرآن با ترجمہ پڑھنا: میرا دل چاہتا ہے کہ ہماری جماعت کے سب افراد خواہ مرد ہوں یا عورتیں قرآن کریم سے واقف ہوں.یعنی نہ صرف یہ کہ قرآن کے الفاظ پڑھ سکتے ہوں بلکہ اس کے معانی اور ترجمہ سے بھی واقف ہوں کیونکہ جب قرآن کریم کے معانی سے ناواقفیت ہو تو اس کے الفاظ بار بار پڑھنے سے کیا لطف حاصل ہوسکتا ہے.مگر جب تک لوگ اس قابل نہ ہو جائیں کہ خود ترجمہ کر سکیں اول ان کی واقفیت کے لئے ایک ترجمہ قرآن کی ضرورت ہے جو اردو میں ہو اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ ان تمام غلطیوں سے پاک ہو جو اس وقت تک کے تراجم میں پائی جاتی ہیں.
برکات خلافت 113 دوسرے یہ کہ قرآن کریم کی جن آیات کے متعلق غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کے متعلق ایسے نوٹ دیئے جائیں جن سے وہ غلط فہمیاں دور ہوں اور دوسرے تمام مذاہب پر اسلام کی فضیلت ثابت ہو جائے.قرآن کریم پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کے جوابات دیئے جائیں اور مشکل مواقع کو حل کیا جائے.قرآن شریف ہر احمدی مرد، عورت اور لڑکے کے پاس ہونا ضروری ہے.ترجمہ شروع ہو گیا ہوا ہے اور پہلے سپارہ کا ترجمہ اور نوٹ تو مکمل بھی ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک مہینہ تک شائع بھی ہو جائے گا.میرا ارادہ ہے کہ سپارہ سپارہ کر کے شائع کریں تاکہ ساتھ کے ساتھ لوگوں کو پہنچتا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کو ہم نے آہستہ آہستہ اس لئے اتارا ہے کہ لوگوں کو یاد ہوتا جائے.اسی طرح ہم بھی تھوڑا تھوڑا شائع کرتے رہیں گے تا کہ لوگ پڑھتے اور یاد کرتے جائیں.اس کی کچھ کا پیاں لکھی ہوئی آچکی ہیں اور ترجمہ تو دوسرے پارہ کا بھی کسی قدر ہو چکا ہے.انجمن ترقی اسلام اس کو چھپوا رہی ہے.ہر فر دکو چاہئے کہ اپنا الگ اپنی بیوی کا الگ اپنے لڑکے لڑکیوں کا الگ الگ قرآن خریدے.مدرسہ خط و کتابت: جماعت کی علمی ترقی کے لئے ایک مدرسہ خط و کتابت کا کھولا جائے.کیونکہ بعض ایسے لوگ ہیں جو یہاں قادیان میں رہ کر قرآن شریف نہیں پڑھ سکتے ان کے لئے کچھ اسباق تیار کئے جائیں جو ان کو آہستہ آہستہ بھیج دیئے جایا کریں اور جب ان کو وہ یاد کر لیا کریں تو پھر اور کچھ پرچے بھیج دیئے جایا کریں.اور جو دقتیں لوگوں کو پیش آئیں انہیں خطوط کے ذریعے وہ حل کرالیں.اور اس طرح گھر بیٹھے وہ کچھ نہ کچھ واقفیت بہم پہنچالیں.
برکات خلافت 114 حضرت مسیح موعود کی کتابوں کا امتحان: حضرت مسیح موعودؓ کو اس بات کا شوق تھا کہ آپ کی کتب کا ایک کورس مقرر کیا جائے.لوگ اسے یاد کیا کریں اور پھر سالانہ جلسہ کے موقع پر ایک دن ان کے امتحان کا رکھا جائے اور ان سے سوالات پوچھے جایا کریں.میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی یہ خواہش بھی رائگاں نہ جائے.اور اس پر عمل ہونا شروع ہو جائے اور اگلے سال سے امتحان لینا شروع کر دیا جائے.کتاب ازالہ اوہام دونوں حصے غیر احمدیوں کے متعلق اور سرمہ چشم آریہ آریوں کے متعلق یہ دونوں کتابیں اس سال یاد کی جائیں.جتنے احباب چاہیں اس میں حصہ لیں اور آئندہ جلسہ میں جن کو خدا تعالیٰ زندگی دے آئیں اور پھر جن کو خدا تعالیٰ امتحان کی توفیق دے وہ ان کتابوں کا امتحان دیں تا کہ جو غلطیاں ہوں وہ ان کو بتائی جائیں.مختلف فیہا مسائل کا حل : میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ جماعت میں جو مختلف فیہا مسائل ہیں ان کو حل کیا جائے.میں اس کوشش میں ہوں کہ کچھ آدمی اس کام کے لئے مقرر کئے جائیں.احمدیوں کے جو اعتقادات ہیں ان کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے حوالہ سے لکھ دیں تا کہ آئندہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو.کیسے تعجب کی بات ہے کہ تمہیں سال کے بعد احمدی جماعت میں آج یہ جھگڑا پیدا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے یا نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس جھگڑے کے بانیوں نے حضرت مسیح موعود کی کتابوں کو نہیں پڑھا اور جب پڑھا تو یہ جان کر پڑھا کہ آپ نبی نہیں تھے جس طرح بعض عیسائی سارا قرآن شریف پڑھ جاتے ہیں تو انہیں کوئی بھی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی.اسی طرح ان کے ساتھ ہوا.اب میرا ارادہ کچھ آدمی مقرر کرنے کا ہے جو ایک مکمل رسالہ اس
برکات خلافت 115 مضمون لکھیں.: سلسلہ کی ضروریات : حضرت مسیح موعود کے زمانہ کی ایک بڑی چیز منارۃ المسیح ہے.آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ جب یہ کمل ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ کی بڑی برکتیں نازل ہوں گی.اس کی تعمیر کے لئے چندہ کی اپیل نہیں کی گئی میں نے کہا جب ہم اس کو بنا ئیں گے تو یہ خود اپنی اپیل کرے گا یعنی لوگ اسے دیکھ کر خود بخود چندہ دیں گے.قادیان کی جماعت نے مختلف طور پر پانچ سو روپیہ کے قریب اس کے لئے چندہ دیا ہے.میں نے کوئی اعلان نہیں کیا تھا مگر انہوں نے خود ہی یہ روپیہ فراہم کر دیا ہے اس پر دو ہزار کے قریب روپیہ خرچ ہوا ہے اس لئے باقی کے پندرہ سو کے پورا کرنے کے لئے تمہیں فکر کرنی چاہئے.اس کے علاوہ جو یہاں کام ہورہے ہیں ان کے لئے کسی اور نے تو چندہ دینا نہیں.غیروں کو ہم نے خود ہی چھوڑ دیا ہے اور کچھ اپنے بھی چھوڑ کر چلے گئے ہیں.ان کا موں کے لئے بھی تمہیں ہی فکر کرنی چاہئے.صدرانجمن کے ماتحت مختلف کام ہورہے ہیں.دو مدر سے ہیں ایک ہائی سکول اور ایک احمد یہ سکول جن میں تمہارے بچے پڑھتے ہیں.ایک لنگر ہے جو مہمان یہاں ٹھہرتے ہیں اس میں سے انہیں خوراک دی جاتی ہے.ان کے علاوہ اور بھی کئی کام ہیں ترقی اسلام کے، خرچ کا اندازہ آئندہ سال کے لئے ۲۴ ہزار روپیہ لگایا گیا ہے.جس کی تفصیل یہ ہے کہ ولایت کے لئے انگریزی ترجمہ قرآن شریف کا ہو رہا ہے جو چھپنا بھی شروع ہو گیا ہے اور سورہ فاتحہ کے پروف آچکے ہیں.پہلے سپارے کا ترجمہ ہو چکا ہے اس کے چھاپنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے
برکات خلافت 116.پھر ولایت میں تبلیغ شروع ہے اور کم از کم چھ سوروپیہ ماہوار خرچ کی ضرورت اس کے لئے ہوگی کیونکہ میرا ارادہ ایک اور آدمی بھی وہاں بھیجنے کا ہے اور انگریزی میں ٹریکٹ بھی شائع کئے جائیں گے.پھر ماریشس افریقہ کے پاس ایک جزیرہ ہے جہاں کے بہت سے انگریز قبیلے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں وہاں ایک آدمی بھیجا جائے گا خط وکتابت ہو رہی ہے.پھر ٹریکٹوں کا سلسلہ ہے.بنگال میں ایک ٹریکٹ شائع کیا گیا تھا کئی مہینے ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس کے متعلق سوالات پوچھنے والوں کے خطوط آرہے ہیں پھر صدر انجمن مقروض ہے اس کا قرضہ دور کرنا ہے اور آئندہ کے اخراجات کے لئے بھی اس کو روپیہ کی ضرورت ہے.یہ سب سلسلہ کی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا تمہارا فرض ہے اور مجھے امید ہے کہ تم اپنی طاقت کے مطابق کوشش سے دریغ نہ کرو گے.مگر اب بات جو دین کی خدمت کے متعلق قرآن کریم میں آئی ہے وہ تمہیں سنائے دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو! خبر دار اپنے کام میں کبھی ست نہ ہونا اور دینی کاموں میں تکلیف کا کبھی خیال مت کرنا کیونکہ " إِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُوْنَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُوْنَ كَمَا تَأْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ.“ ( النساء: ۱۰۵) اگر تم کو کوئی دکھ یا تکلیف پہنچتی ہے تو کفار کو بھی اسی طرح تکلیف پہنچتی ہے جس طرح تم کو پہنچتی ہے اور تم تو اللہ تعالیٰ سے ان انعامات کے امیدوار ہو جن کی انہیں امید نہیں پس تم بھی اس بات کو خوب یاد رکھو.بے شک ان آئے دن کے چندوں سے تم کو تکلیف ہوتی ہوگی مگر اسلام کے دشمن بھی اسی طرح اسلام کے برباد کرنے کے لئے اپنی جانیں اور اپنے مال
برکات خلافت 117 خرچ کر رہے ہیں.پس تکلیف میں تم اور وہ برابر ہو.ہاں تم جن انعامات کے امیدوار ہو وہ نہیں.پس کیسے افسوس کی بات ہوگی اگر تم باوجود اس قدر امیدوں کے تھک جاؤ اور دشمن باوجود ہر قسم کی مایوسی کے اپنی محنت نہ چھوڑے اور اپنے کام میں لگا رہے اور جھوٹ کے پھیلانے کے لئے ہر ایک قسم کی تکلیف برداشت کرے.تمہارے لئے خدا تعالیٰ کے انعاموں کا دروازہ کھلا ہے جس قدر حاصل کر سکتے ہو کر لو.اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ اپنے کام کو آپ ہی چلاتا ہے وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں مگر یہ ایک خدمت کا موقع ہے جو اس نے ہماری جماعت کو دیا ہے اور یہ اس کا فضل ہے ورنہ اس کے کام تو بہر حال چلیں گے.کچھ لوگ نکل گئے ہیں تو بھی کام چل رہا ہے.لیکن جو خدا کا کام کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے انصار میں داخل ہو جاتا ہے.پس جہاں تک تم سے ہو سکے اپنی طاقت بھر کام کرتے رہو.پچھلے سال ضلع گورداسپور کی جماعت نے چھ سات ہزار روپے دیئے تھے امید ہے کہ اس سال بھی علاوہ ماہوار چندوں کے وہ تین ہزار تو اور زیادہ دے گی.انشاء اللہ تعالیٰ باقی روپیہ کے لئے آپ کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کام کے پورا کرنے کی توفیق دے جس کے لئے اس نے سلسلہ احمدیہ کی بنیا د رکھی ہے.آمین
برکات خلافت 118 بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم حضرت فضل عمر کی دوسری تقریر (جو ۲۸ دسمبر ۱۹۱۴ء کو سالانہ جلسہ پر ہوئی) أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ.اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّحِيْمِ o بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَؤُدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.(البقره: ۲۵۶) میں نے کل آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا تھا کہ میں ایک ایسی بات بیان کرنا چاہتا ہوں جو ایسی ضروری ہے کہ اس کی ضرورت، اس کی عظمت اور اس کی قدر مجھ سے تو بیان نہیں ہوسکتی.ہر ایک انسان کی زندگی کا مقصد اور صرف ایک ہی مقصد کسی فرقہ یا قوم یا جماعت کی ترقی کا ذریعہ اور صرف واحد ذریعہ اور انسان کے انسان کہلانے کے ایک ہی ثبوت پر اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں اس وقت کچھ بیان کروں گا.کل تو اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل رہا کہ میں نے ساڑھے تین گھنٹے تقریر کی لیکن کوئی ایسی تکلیف نہ ہوئی مگر کل کے
برکات خلافت 119 بولنے سے آج تکلیف ہے اس لئے میں پوری طرح کھول کر اس بات کو نہ بیان کر سکوں گا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کبھی اسی پر بولوں گا.شاید کسی کے دل میں شبہ پیدا ہو کہ ایسی کون سی ضروری بات ہے جس پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر کوئی جماعت ترقی ہی نہیں کر سکتی.اس کے سوا کوئی انسان انسان ہی نہیں بن سکتا.اور اس کے بغیر انسانی زندگی کا مقصد ہی پورا نہیں ہوسکتا پھر اگر کوئی ایسی ہی بات ہے تو یہ کیونکر مکن ہے کہ وہ بات نہ حضرت مسیح موعود نے بتائی اور نہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے بیان کی.میں ایسا خیال کرنے والوں کو بتاتا ہوں کہ کسی چیز کی عظمت اس کے بار بار سننے سے کم نہیں ہو جاتی.میں کوئی ایسی بات نکال کر نہیں لایا جو پہلے دنیا میں کسی کو معلوم نہ ہو.بات تو وہی ہے جو میرے بیان کرنے سے پہلے آپ لوگوں نے کئی دفعہ سنی ہے مگر جب تک اس پر پورا پورا عملدرآمد نہ ہو جائے اور وہ اچھی طرح قائم نہ ہو جائے اس وقت تک اس کے بیان کرنے کی ضرورت مٹ نہیں سکتی.دیکھو کونین تپ کے لئے مفید ہے اور روزانہ سینکڑوں تپ کے مریضوں کو دی جاتی ہے مگر جب تک دنیا میں تپ قائم ہے کونین کی بھی ضرورت قائم ہے.اسی طرح پانی ہر ایک جاندار کی زندگی کے لئے ضروری چیز ہے اگر کوئی کسی سے پوچھے کہ مجھے زندگی کے قیام کے لئے جو ضروری چیزیں ہیں وہ بتاؤ اور وہ ان اشیاء میں سے ایک پانی بھی بتائے.تو پانی کا نام سن کر اگر وہ کہے کہ یہ تو ہم روز پیتے ہیں یہ کون سی ایسی ضروری چیز ہے تو یہ غلط ہوگا کیونکہ جب تک زندگی کا مدار پانی پر ہے اس وقت تک پانی ایک ضروری شئے ہے اور گو انسان دن میں اسے کئی دفعہ پیتا ہو پھر بھی اس کی ضرورت میں
برکات خلافت 120 کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا.ہوا کے لئے کوئی قیمت نہیں دینی پڑتی وہ خود بخود سانس کے ذریعہ سے اندر چلی جاتی ہے اور ہمیشہ سے یہی سلسلہ چلا آتا ہے مگر اس طرح اس کی ضرورت اور اہمیت میں کوئی فرق نہیں آتا اور وہ آج بھی ویسی ہی مفید اور ضروری ہے جیسی کسی پہلے زمانہ میں تھی.پس گو آپ لوگوں نے وہ بات جو میں بیان کروں گا پیشتر ازیں بھی سنی ہے مگر جب تک دنیا میں وہ بات قائم نہ ہو جائے اور تمام لوگ اس پر عمل کرنانہ شروع کر دیں اس وقت تک ہم اسے سنائے ہی جائیں گے.اور اس کی عظمت ہمیشہ ایک سی ہی رہے گی.اب میں وہ بات بیان کرتا ہوں کوئی دوست لکھ لیں تا کہ ان لوگوں کے لئے جو یہاں نہیں آئے محفوظ رہے.اور کسی کے فائدہ کا موجب ہو جائے.مگر میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ اس بات کو معمولی مت سمجھنا وہ در حقیقت ایک بہت بڑی بات ہے بہت سے انسانوں کی تباہی کا باعث یہ امر بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اہم امور کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اس طرح اپنے آپ کو تباہ کر دیتے ہیں لیکن دانا انسان وہ ہے جو ہر امر پر غور کرے اور گو وہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہو اس کے انجام پر غور کرے اور اس کی اصلیت پر نظر ڈالے میں اس امر کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال بتاتا ہوں.کہتے ہیں کوئی شخص تھا اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ ہم تمہیں کل کھانے کے بعد ایک ایسالڈو کھلائیں گے جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے وہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور سوچا کہ وہ لڈو جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے وہ تو بہت ہی بڑا ہوگا.دوسرے دن جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو ہر ایک کھانے میں سے ایک ایک دود ولقمہ کھا کر چھوڑ دیتے تو ایسا نہ ہو
برکات خلافت 121 کہ مختلف کھانوں سے پیٹ بھر جائے اور اس لڈو کا مزا پورے طور پر نہ لے سکیں.جب کھانے سے فارغ ہو چکے تو بھتیجوں نے کہا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ کل تمہیں ایسا لڈو کھلائیں گے جسے ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے اب اپنا وعدہ پورا کیجئے اس نے کہا مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اور یہ کہہ کر اسی طرح کا ایک لڈو جس طرح کے بازار میں بکتے ہیں نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا.اس لڈو کو دیکھ کرلڑکوں کو سخت مایوسی ہوئی اور کہا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ ایسا لڈو کھلائیں گے جو قریباً ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہوگا لیکن اب آپ نے ایک معمولی سالڈ و سامنے رکھ دیا ہے یہ کیا بات ہے.چچا نے کہا قلم لے کر لکھنا شروع کرو کہ اس لڈو کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہے.میں ثابت کر دوں گا کہ واقع میں اس لڈو کوکئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے.دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا ہے اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئی ہیں ان کو حلوائی نے کئی آدمیوں سے خریدا.پھر ان میں سے ہر ایک چیز کو ہزاروں آدمیوں نے بنایا ہے.مثلا شکر کو ہی لے لو اس کی تیاری پر کتنے ہزار آدمیوں کی محنت خرچ ہوئی ہے کوئی اس شکر کو ملنے والے ہیں ، کوئی رس نکالنے والے کوئی نیشکر کھیت سے لانے والے ، پھر ہل جو تنے والے، پانی دینے والے ، پھر ہل میں جولو ہا اور لکڑی خرچ ہوا اس لوہے کے نکالنے ،صاف کر نے اور بنانے والے لکڑی کے کاٹنے اور گھڑنے والے.غرض اسی طرح سب آدمیوں کا حساب لگاؤں تو کس قدر بنتے ہیں.پھر شکر کے سوا اس میں آٹا ہے اس کے بنانے والے جس قدر ہیں اس کا اندازہ لگاؤ اسی طرح اگر تم تمام چیزوں کے بنانے والوں کا شمار کرو، تو کیا کئی لاکھ بنتے ہیں یا نہیں؟ بھتیجوں نے یہ بات سن کر کہا ہاں ٹھیک ہے.
برکات خلافت 122 پس آپ لوگ بھی خوب یا درکھیں کہ کسی چیز کی اہمیت اس کے حجم یا قد پر نہیں ہوتی بلکہ اس کے انجام اور فوائد پر اہمیت کی بناء ہوتی ہے اور جو بات میں اس وقت بیان کروں گا وہ نہایت اہم ہے پس کوئی شخص اسے معمولی خیال نہ کرے اور ان بچوں کی طرح فوراً مایوس نہ ہو جائے اور یہ نہ کہہ اٹھے کہ معمولی بات ہے گو وہ بات نظر میں چھوٹی معلوم ہو لیکن فی الحقیقت بہت بڑی ہے.اگر تم اس کو سیکھ لو گے اور اس پر عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ ایسے انسان کو دین و دنیا میں معزز کر دے گا.اور مجھے اس وعدہ پر اتنا یقین ہے کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اس پر عامل ہو گے تو ضرور تم سے وہ وعدہ پورا ہوگا.قرب الہی کا ذریعہ : لوگ پوچھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا کیا ذریعہ ہے.تم خوب یادرکھو کہ اگر تم اس بات پر عمل کرو گے تو تمہیں اگلے جہاں میں ہی نہیں بلکہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے گا.اور مرنے کے بعد ہی خدا تعالیٰ تم سے کلام نہیں کرے گا بلکہ اسی دنیا میں کرے گا.مگر بہت غور سے کام لو.میں جانتا ہوں اور یہ ایک عام رواج ہے کہ جب لوگ کوئی عمدہ لیکچر سنتے ہیں تو بعد میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ خوب مزا آیا بڑی عمدہ تقریرتھی وغیرہ وغیرہ لیکن وہ اس درد کو محسوس نہیں کرتے جس سے کہنے والا انہیں کہتا ہے.لیکچر سنے کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہئے.بولنے والے نے تو اپنی جان کھپا دی لیکن سننے والوں نے صرف خوب مزا آیا میں بات اڑا دی.آپ لوگ یہاں مزے کے لئے نہیں آئے اور نہ ہنسی کے وعظ سننے کے لئے جمع ہوئے ہو.اگر کوئی اس غرض سے آیا ہے تو جو روپیہ اس کے آنے جانے پر صرف ہوا ہے اس
برکات خلافت 123 کے متعلق وہ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوگا.پس تم ہر ایک لیکچر کوغور سے سنو اور کان کھول کر سنو پھر اس کو یاد رکھو اور اس پر عمل کرو.میں اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے تو فیق چاہتا ہوں کہ اگر میں بستر مرگ پر بھی ہوؤں تو یہی میری آخری بات ہو اور اگر کوئی میری پہلی بات ہو تو وہ بھی یہی ہو.اس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری باتیں بیچ میں نعمتیں بے قدر ہیں مال و اموال نا کارہ ہیں اور آرام و آسائش کے سامان بے حقیقت ہیں.آج کل یہ ایک بہت بڑا نقص پیدا ہو گیا ہے کہ عام طور پر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ لیکچروں میں مزہ کیا آتا ہے.مگر میرے پیارو! تم روپیہ خرچ کر کے مزے یا تماشہ کے لئے یہاں نہیں آئے.تمہارے یہاں آنے کی کوئی اور ہی غرض تھی اور ہم نے جو تمہیں یہاں بلایا ہے ہماری بھی کوئی اور ہی غرض تھی.پس اگر کوئی اس غرض کو نہیں سمجھا تو وہ ہمارے لئے نہیں آیا بلکہ اپنے نفس کے خوش کرنے کے لئے آیا ہے اور جو کوئی مزہ لینے یا تماشہ دیکھنے کے لئے آیا ہے اس نے بہت بڑا گناہ کیا ہے اگر کسی کا ایسا خیال تھا تو وہ تو بہ اور استغفار کر لے.کیونکہ ایسا انسان جو وقت اور روپیہ ضائع کر کے وطن اور عزیزوں کو چھوڑ کر تماشہ کے لئے کہیں جاتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک ایک پیسہ اور ایک ایک لمحہ کے لئے جواب دہ ہونا پڑے گا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو کیوں اس طرح ضائع کر دیا.پس اپنے سینوں کو ٹولو اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.لیکچر مزے کی خاطر نہ سنو.لیکچر میں ہر قسم کی باتیں ہوتی ہیں.بعض ہنسی کی بھی ہوتی ہیں مگر تمہاری کبھی یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ وعظ میں ہنسی کی باتیں ہوں اور
برکات خلافت 124 ان کو تم اشتیاق سے سنو تم وعظ میں یہ نہ دیکھو کہ بنسی ہے یار ونا بلکہ یہ دیکھو کہ کہنے والا کہتا کیا ہے اور اگر کوئی بات تمہیں کڑوی لگے تو اس پر غور کرو اور اگر میٹھی لگے تو اس پر عمل کر کے دکھاؤ اور لطیفہ سننے کے لئے کسی لیکچر میں نہ بیٹھولیکچروں میں حاضر ہونے والوں میں ایک اور بھی نقص ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہر ایک سننے والا یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں پاک اور مطہر ہوں یہ جو وعظ ہو رہا ہے یہ میرے ارد گرد بیٹھنے والوں کے لئے ہے حالانکہ اس خیال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارے ہی خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں اور وعظ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا.پس آپ لوگوں میں سے ہر ایک شخص یہ سمجھ لے کہ میرے وعظ کا مخاطب سب سے پہلے وہی ہے اور یہ خیال کر لے جو کچھ کہا گیا ہے مجھے ہی کہا گیا ہے پس اگر کوئی ولی بیٹھا ہوتو وہ بھی میر امخاطب ہے اور اگر کوئی گندے سے گندہ انسان بیٹھا ہے تو وہ بھی.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نہیں بلکہ دوسرے مخاطب ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں.کسی بادشاہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس نے اپنے درباریوں کی اطاعت اور فرمانبرداری آزمانے کے لئے حکم دیا کہ کل رات تم سب فلاں تالاب میں ایک ایک لوٹا پانی کا ڈالنا.وہ جب اپنے اپنے گھر گئے تو ہر ایک نے یہ خیال کر لیا ہم کہاں پانی کا لوٹا اٹھائے ہوئے جائیں.وہ وزراء وامراء جن کو رومال اٹھانا دوبھر تھا بھلا وہ پانی کا لوٹا کس طرح اٹھا سکتے تھے ان میں سے ہر ایک نے یہ سمجھ لیا کہ میرے لوٹا ڈالنے سے تالاب تو بھر نہیں جائے گا اور ہزاروں آدمی لوٹے ڈالیں گے بادشاہ کو میرے لوٹے کا کیا پتہ لگے گا کہ اس نے ڈالا ہے یا نہیں چنانچہ ہر ایک ان میں سے یہی خیال کر کے گھر بیٹھ رہا اور کسی نے لوٹا نہ ڈالا تالاب بالکل خشک رہا بادشاہ نے جب تالاب کو دیکھا
برکات خلافت 125 تو خشک پڑا تھا.اس نے سب درباریوں کو ملامت کی اور کہا کہ شرم کرو کیا حکم کی تعمیل اسی طرح ہوا کرتی ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ شرمندہ اور نادم ہوتے ایک دوسرے کو کہنے لگے تم نے کیوں پانی کا لوٹا نہ ڈالا.میں تو یہ خیال کر کے بیٹھ رہا کہ باقی جو ڈالیں گے تو میرے ایک لوٹا نہ ڈالنے سے کیا نقصان ہو جائے گا تم لوگوں نے ستی کر کے میری بھی ذلت کرائی اور اس طرح ہر ایک نے اپنی سستی اور نالائقی کو دوسرے کے سر تھوپنا چاہا.اگر وعظوں کے سننے والے بھی اسی طرح اپنے دل میں خیال کریں کہ واعظ کے وعظ کے ہم مخاطب نہیں بلکہ اور لوگ ہیں تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ سب ہی کو رے رہ جائیں گے لیکن جب ہر ایک شخص یہ سمجھے کہ جو کچھ کہا گیا ہے مجھے ہی کہا گیا ہے اور مجھے ہی اس کی تعمیل کرنی ضروری ہے تو سب کے سب نفع اٹھاسکیں گے.پھر اگر کوئی ایسا بھی ہو جس کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے تو لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ کے ماتحت ہی خدا تعالیٰ اس پر بھی پردہ ڈال دے گا.کیونکہ دوسروں کی بزرگی اور تقویٰ کی وجہ سے غریبوں کے پردے بھی ڈھک جاتے ہیں.مثلاً اگر بادشاہ کے درباری اپنے اپنے لوٹے ڈال دیتے اور کوئی دو چار نہ بھی ڈالتے تو کیا پتہ لگنا تھا کہ انہوں نے نہیں ڈالے.پس جو کچھ کہا جائے اس کا مخاطب ہر ایک فرد ہے بڑے سے لے کر چھوٹے تک اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ میرا ساتھی مخاطب ہے تب جا کر نفع حاصل ہوگا.عظیم الشان بات : اب میں بتاتا ہوں کہ وہ کیا شئے ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو بلاتا ہوں اور وہ کون سا نکتہ ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں.سنو! وہ ایک لفظ ہے زیادہ نہیں صرف ایک ہی لفظ ہے اور وہ اللہ ہے اسی کی طرف میں
برکات خلافت 126 تم سب کو بلاتا ہوں اور اپنے نفس کو بھی اسی کی طرف بلاتا ہوں اسی کے لئے میری پکار ہے اور اسی کی طرف جانے کے لئے میں بگل بجاتا ہوں.پس جس کو خدا تعالیٰ تو فیق دے آئے اور جس کو خدا تعالیٰ ہدایت دے وہ اسے قبول کرے.سب سے زیادہ حسین : دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں.جو بڑی حسین اور بڑی خوبصورت ہیں.لیکن جو کوئی چیز بھی دنیا میں ممکن سے ممکن حسین ہوسکتی ہے وہ خدا تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے.خدا تعالیٰ نے ہی اس کو حسن اور خوبی دی ہے.اس لئے اس کے حسن کو کوئی نہیں پہنچ سکتی.مگر باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ حسین ہے.سب سے زیادہ پیارا ہے سب سے زیادہ خیر و برکت رکھنے والا ہے.مگر دنیا اور نا اہل دنیا اس کو حقارت اور ناقدری کی نظر سے دیکھتی ہے.وہ رب العلمین ہے اور اس کی عظمت اور دبدبہ کے سامنے سب چیزیں بیچ ہیں.مگر اس سے جو سلوک دنیا کر رہی ہے وہ بہت نفرت اور حقارت کے قابل ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول اپنے ایک استاد کا ذکر سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے بھوپال میں خواب میں دیکھا کہ میں شہر سے باہر ایک پل کے پاس کھڑا ہوں وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کوڑھی پڑا ہے جس کے تمام جسم میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں.اس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور سخت تکلیف کی حالت میں ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو.اس نے کہا میں اللہ میاں ہوں تمہارا خدا ہوں.میں نے کہا ہم نے تو قرآن شریف میں اپنے خدا کی بڑی تعریفیں پڑھی ہیں کہ وہ ایسا خوبصورت ہے کہ اور کوئی اس کی مانند ہے ہی نہیں یہ آپ کی کیا حالت ہے.اس نے آگے سے جواب دیا کہ تم یہ جو شکل میری دیکھ رہے ہو یہ میری اصل شکل نہیں ہے
برکات خلافت 127 بلکہ بھوپال کے لوگوں کی نظروں میں میری یہ شکل ہے.پس تم لوگ بھی اپنے دلوں کو ٹولو اپنے اعمال کو ، اپنی باتوں کو ، اپنے اقوال کو ، اپنی حرکات کو ، اپنی سکنات کو دیکھو کہ دنیا کی جو چیزیں تمہیں پیاری لگتی ہیں ان کے مقابلہ میں تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کی کیا شکل ہے.آیا بھو پال والا خدا تو نہیں ہے یا اس کے قریب قریب ہے.مگر خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب بدصورتیوں ، ساری بدیوں اور تمام برائیوں سے پاک اور منزہ ہے.آدم علیہ السلام کا قصہ: یہ دیکھ کر رونا آتا ہے کہ مسلمان آدم کا قصہ قرآن شریف میں پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیوں اس نے شیطان کا کہا مان کر ایک دانہ کے لالچ سے ہمیں ہمیشہ کی رہنے والی جنت سے نکال دیا.اگر ہم ہوتے تو کبھی شیطان کا کہنا نہ مانتے.مگر وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ آدم کو ہی شیطان نے جنت سے نہیں نکالا بلکہ ہمیں بھی نکال رہا ہے.وہ آدم کے ایک دفعہ دھوکا کھانے پر دل ہی دل میں برا کہتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں ہر روز شیطان دھوکا دے رہا ہے اور ان کی بغل میں بیٹھا ہے.وہ یہ تو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آدم نے کیوں دھوکا کھایا مگر یہ نہیں جانتے کہ شیطان ہمارے پاس ہی بیٹھا ہوا ہم سے بدکاریاں کرا رہا ہے ان کو چاہئے تھا کہ بجائے آدم پر اظہار افسوس اور رنج کرنے کے اپنے نفس پر کرتے.آدم لوگوں کو جنت سے کیا نکال سکتے تھے.ہر ایک انسان اپنے ہاتھ سے ہی جنت سے نکلتا ہے.آدم کی وجہ سے کوئی جنت سے نہیں نکالا جاتا.عیسائی کہتے ہیں کہ گناہ ہمیں آدم سے ورثہ میں ملا ہے اور اسی کے سبب ہم جنت سے نکالے گئے ہیں.لیکن قرآن شریف
برکات خلافت 128 میں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيْم (التين : ۵) ہم نے انسان کو اچھی سے اچھی حالت میں پیدا کیا ہے جب خدا نے انسان کو اچھی حالت میں پیدا کیا ہے.تو پھر جنت سے وہ کسی کے گناہ کے بدلہ اسے کہاں نکالتا ہے.ہر ایک بچہ جو پیدا ہوتا ہے اس کا مکان جنت میں ہوتا ہے لیکن پھر وہ اپنے ہاتھ سے جنت کے گھر کو گرا کر دوزخ میں بناتا ہے.پس تم اپنے دلوں میں یہ خیال مت کرو کہ کوئی اور آدم تھا جس کو شیطان نے جنت سے نکالا تھا بلکہ تم ہی ہو جن کے پیچھے شیطان لگارہتا ہے اور کئی لوگوں کو جنت سے نکال دیتا ہے.اگر کوئی شیطان کے قبضہ میں ہے تو وہ بھی اور اگر کوئی نہیں تو وہ بھی ہر وقت ہوشیار اور چوکس رہے تب ہی فائدہ ہوگا اگر ایک مجلس بیٹھی ہوئی ہو اور انہیں ایک آدمی آکر کہے کہ تم میں سے ایک آدمی کو پھانسی دی جائے گی.پھر اگر وہ یہ سن کر سب کے سب وہاں بیٹھے رہیں اور ہر ایک یہ خیال کرے کہ مجھے نہیں کسی دوسرے کو پھانسی ملے گی تو ان میں سے ایک نہ ایک ضرور ملے گا.لیکن اگر سب کے سب اس جگہ سے چلے جائیں تو گویا ہر ایک کی جان بچ گئی کیونکہ کون بتا سکتا کہ پھانسی پانے والا کون تھا.ہوشیار ہو جاؤ: میں تمہیں بڑے زور سے بتلاتا ہوں کہ دنیا میں لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہو گئے ہیں.حالانکہ اس سے بڑھ کر خوبصورت ، اس سے بڑھ کر محبت کرنے والا ، اس سے بڑھ کر پیارا اور کوئی نہیں ہے.تم لوگ اگر پیار کرو تو اس سے کرو.محبت لگاؤ تو اسی سے لگاؤ ، ڈرو تو اسی سے ڈرو، خوف کرو تو اسی سے کرو.اگر وہ تمہیں حاصل ہو جائے تو پھر تمہیں کسی چیز کی پرواہ نہیں رہ جاتی اور کوئی روک تمہارے سامنے نہیں ٹھہر
برکات خلافت 129 سکتی.پس تم اپنے نفسوں کو پگھلاؤ اور تبدیلی پیدا کرلو.اللہ تعالیٰ کیا ہے اور کیسا خوبصورت ہے اس کا بیان سورہ فاتحہ میں پڑھ لو.اگر تم اس کی خوبصورتی کا ایک جلوہ دیکھ لو.تو پھر کسی خوبصورتی کے دیکھنے کی تمہیں حاجت نہیں ہے.انسان دنیا کی کسی خوبصورت چیز کو دیکھ کر اس پر لٹو ہو جاتا ہے.لیکن اسے دل میں سوچنا چاہئے کہ جس ہستی نے اس خوبصورت چیز کو بنایا ہے وہ کس قدر خوبصورت ہوگی.اللہ تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے کے لئے کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے.ہر انسان کے دل میں خدا کا جلوہ ہے.اگر وہ غور کرے تو بہت جلدی اس تک پہنچ سکتا ہے.دنیا کی ہر ایک چیز اور ایک ایک ذرہ خدا تعالیٰ کے وجود پر شہادت دے رہا ہے.اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو پکار پکار کر خالق کون و مکان کی گواہی نہ دے رہی ہو.کاغذ قلم ، میز کرسی ، زمین جس پر تم بیٹھے ہو، کپڑے جو تم پہنے ہوئے ہو، تمہارے ہاتھ ، پاؤں، ناک،کان، ہر ایک خدا کی ہستی پر دلالت کر رہے ہیں.عمدہ کپڑے ، خوبصورت عورت ،اعلیٰ خوراک، مال و دولت کو لوگ پسند کرتے ہیں.لیکن ہم کہتے ہیں کہ ذرا تم اس بات پر تو غور کرو کہ جوان کو پیدا کرنے والا ہے وہ کس قدر خوبصورت ہوگا.پھر تم کیوں اس سے محبت نہیں کرتے اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِى الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَؤُدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.“ (البقره:۲۵۶)
برکات خلافت 130 یہ بڑی زبر دست آیات ہیں.ان میں نہایت عالیشان تعلیم ہے رسول کریم یا ہرانے کو سوتے وقت تین دفعہ ان آیات کو پڑھ کر اپنے بدن پر پھونکتے تھے.پس ہر ایک مسلمان پر آپ کی سنت پر عمل کرنا واجب ہے.ان آیات میں پہلی بات جس کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ہے یعنی اے انسان خدا کو دیکھ کہ صرف وہی تیرا معبود ہے.اور اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے.دنیا میں ہر ایک چیز کی قدر اسکی کمیابی اور بہتات کی وجہ سے ہوتی ہے مثلاً پانی ایک بہت ضروری چیز ہے مگر لوگ اسے سنبھال سنبھال کر نہیں رکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس وقت اس کی ضرورت پڑے گی اسی وقت مل جائے گا.ہوا صحت کے لئے کیسی ضروری چیز ہے مگر کوئی انسان اس کو سنبھالتا نہیں کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ جب اس کی ضرورت ہوگی تو وہ خود ہی ناک اور منہ کے راستہ اندر چلی جائے گی.لیکن یہی پانی جس کی عام طور پر قدرنہیں کی جاتی اور کوئی قیمتی چیز معلوم نہیں ہوتا ایک ایسے جنگل میں جہاں پانی کا نام ونشان نہ ہونہایت قیمتی ہو جاتا ہے.اور اگر اس وقت کسی کے پاس ایک گلاس پانی کا ہو تو وہ کروڑوں روپے پر بھی اسے نہیں دیتا.تو ہر ایک چیز کی قیمت اس کی ضرورت کے مطابق گھٹتی بڑھتی ہے.دیکھوغلہ جس وقت زیادہ ہوتا ہے اس وقت سستا ہوتا ہے اور جب کم ہوتا ہے تو مہنگا ہو جاتا ہے.اسی طرح اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ ایک نہ ملا تو نہ سہی اور مل جائے گامگر.اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ: صرف ایک ہی اللہ ہے.اگر کوئی کہے کہ اس کو چھوڑ کر اور کسی کی تلاش کرلوں گا تو ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے دو نہیں ، تین نہیں،
برکات خلافت 131 چار نہیں ، اور ہزاروں لاکھوں نہیں.جب ایک ہی اللہ ہے تو اس کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤ گے.پھر ہر وقت تمہیں اس کی ضرورت ہے اور ہرلمحہ تم اس کے محتاج ہو.دنیا میں لوگ بادشاہوں کو ناراض کر لیتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ کیا ہوا اگر یہ بادشاہ ناراض ہو گیا تو اس کے ملک کو چھوڑ کر دوسرے کے ملک میں چلے جائیں گے بات ہی کون سی ہے چین کا بادشاہ اگر ظالم ہے، تو ایران میں.ایران کا بادشاہ ظالم ہے تو انگلستان میں کوئی پناہ لے سکتا ہے.لیکن اللہ سے بھاگ کر کوئی کہاں جائے گا کیونکہ کوئی ایسی زمین نہیں ہے جو خدا کی نہ ہو اور کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جو خدا کے قبضہ میں نہ ہو.کوئی دوسرا خدا نہیں ہے کہ انسان اس کی مدد تلاش کرے.ہندوؤں کا خیال ہے کہ کئی خدا ہیں اور ان کے خداؤں میں جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں چنانچہ لکھا ہے کہ شو نے ایک آدمی پر ناراض ہو کر اسے مارڈالا لیکن وہ برہما خدا کا پیارا تھا اس نے کہا ہم پیدا کرنے والے ہیں ہم اس کو زندہ کر لیں گے برہما نے اسے زندہ کر دیا.غرض شو اسے مارتے جاتے اور برہما زندہ کرتے جاتے یہیں ان کا جھگڑا لگا رہا.یہ ہندوؤں کے خیالات ہیں مگر ہمارے ہاں تو ایسے خدا نہیں ہیں کہ ایک مارے تو دوسرا زندہ کرلے.ایک ناراض ہو تو دوسرا راضی ہو جائے.دیکھو ایک نوکر اپنے آقا کو جواب دے سکتا ہے کہ میں تمہاری نوکری نہیں کرتا کیونکہ نوکری اسے دوسری جگہ مل جاتی ہے.مگر ہم خدا تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ ایک ہی ہمارا آقا ہے اور اسکے سوا اور کوئی نہیں ہے.اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ : پھر آقا ایسا بھی ہوتا ہے جو مر جاتا ہے مگر ہمارا آقاوہ ہے جسے کبھی موت نہیں آسکتی.وہ الحی ہے اور ایسا آقا نہیں کہ اس سے کبھی قطع تعلق ہو جائے
برکات خلافت 132 پھر وہ القیوم ہے.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اب تو میرا یہ آتا ہے لیکن پہلے میں فلاں کے پاس ملازم رہ چکا ہوں اس لئے اس کا بھی مجھ پر احسان ہے اور مجھے اس کی قدر کرنی بھی ضروری ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تمہارا آج خدا نہیں بنا بلکہ ہمیشہ سے خدا ہوں تم پر کسی کا پچھلا احسان نہیں ہے.میں وہ خدا ہوں جو ہمیشہ سے قائم رہنے والا اور تمہیں قائم رکھنے والا ہوں.اس لئے تم پر میرا ہی احسان ہے.قیوم کے دو معنے ہیں (۱) ہمیشہ سے قائم رہنے والا (۲) سب کو قائم رکھنے والا.لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ: کوئی کہے کہ مان لیا خدا ایک ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے.وہ ہمیشہ زندہ ہے اور وہی ہمارا پہلے آقا تھا وہی اب ہے مگر کبھی ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ خدا کو نیند آئے اور وہ سو جائے تو اس وقت اس کی جگہ اس کے در باری کا روبار کریں اس لئے ہمیں انہیں بھی خوش رکھنا چاہئے اور ان کی خوشامد کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا وہ اللہ ہے کہ اسکو کبھی اونگھ اور نیند نہیں آتی.تم اس کو دنیاوی بادشاہوں اور حاکموں کی طرح نہ سمجھو جہاں کہ تمہیں درباریوں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے.تمہارا رب ایسا نہیں کہ کبھی اسے اونگھ آئے یا وہ سو جائے وہ ہر وقت جاگتا ہے اور ہر ایک بات کا خود نگران ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے کیا ہی لطیف بات بیان فرمائی ہے فرما یالا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ کہ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند.ترتیب کلام کا یہ قاعدہ ہے کہ پہلے چھوٹی باتوں کا ذکر ہوتا ہے اور پھر بڑی کا.اگر اس کے خلاف کیا جائے تو کلام غلط ہو جاتا ہے.مثلاً یہ تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سخت بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو تھوڑا بھی بیمار نہ تھا.لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص تھوڑا بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو زیادہ بھی نہ تھا تو فقرہ غلط ہو جاتا ہے اس لئے پہلے بڑا اور پھر چھوٹا درجہ کسی چیز کا بیان کیا جاتا
برکات خلافت 133 ہے مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند حالا نکہ جب اونگھ کی نفی کر دی گئی تھی تو نیند کی خود ہی نفی ہوگئی پھر نیند کی نفی کی کیا ضرورت تھی.لیکن خدا تعالیٰ کا کلام کبھی لغو نہیں ہوتا اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ سینہ اس کو کہتے ہیں کہ جب سخت نیند کی وجہ سے انسان کی آنکھیں بند ہو جائیں.چنانچہ جب انسان کو بہت زیادہ نیند آئی ہوتی ہے اسی وقت اونگھ آتی ہے اور جب تک نیند کا غلبہ نہ ہو اونگھ نہیں آتی.تو فرمایا کہ خدا کو کبھی اونگھ نہیں آئی کہ کام کرنے کی وجہ سے وہ تھک گیا ہو.اور اس پر نیند کا ایسا غلبہ ہوا ہو کہ اس کی آنکھیں بند ہو گئی ہوں اور نہ اسے معمولی نیند آتی ہے.لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَما فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ : خدا تعالیٰ فرماتا ہے اب بتاؤ کہ جب تمہارا ایسا آتا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ اسی کا ہے تو اس کے مقابلہ میں اور کسی کو تم کس طرح اپنا آقا بنا سکتے ہو.پھر لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے سوا اور کسی کو نہیں پوجتے.اور غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے ہیں البتہ اس لئے ان کی نیاز میں دیتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں اور وہ ہماری شفاعت خدا تعالیٰ کے حضور کریں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے حکم کے بغیر تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا.اس زمانہ میں مسیح موعود سے بڑھ کر کس نے بڑا انسان ہونا تھا.لیکن حضرت مسیح موعودؓ نے ایک دفعہ جب نواب صاحب کے لڑکے عبد الرحیم خان کے لئے جبکہ وہ بیمار تھا دعا کی تو الہام ہوا کہ یہ بچتا نہیں.آپ کو خیال آیا کہ نواب صاحب اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان آرہے ہیں ان کا لڑکا فوت ہو گیا تو انہیں ابتلاء نہ آجائے اس لئے
برکات خلافت 134 آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ الہی میں اس لڑکے کی صحت کے لئے شفاعت کرتا ہوں.الہام ہوا مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ تم کون ہو کہ میری اجازت کے بغیر شفاعت کرتے ہو.دیکھو مسیح موعود کتنا بڑا انسان تھا تیرہ سوسال سے اس کی دنیا کو انتظار تھی مگر وہ بھی جب سفارش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہوتے کون ہو کہ بلا اجازت سفارش کرو.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جس وقت مجھے یہ الہام ہوا تو میں گر پڑا اور بدن پر رعشہ شروع ہو گیا قریب تھا کہ میری جان نکل جاتی لیکن جب یہ حالت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا ہم شفاعت کی اجازت دیتے ہیں شفاعت کرو.چنانچہ آپ نے شفاعت کی اور عبدالرحیم خان اچھے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا مگر مسیح موعود جیسے انسان کو جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم کون ہو جو سفارش کرو تو اور جولوگ بڑے بنے پھرتے ہیں ان کی کیا حیثیت ہے کہ کسی کی سفارش کر سکیں.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کو آنحضرت ﷺ کو اذن ہو گا تب آپ سفارش کریں گے.پھر کیسا نادان ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ فلاں میری سفارش کر سکے گا.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ: پھر ایک اور بات رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ کوئی کہہ سکتا ہے.مانا کہ شفاعت بلا اجازت نہیں ہو سکتی لیکن بادشاہ کے جس طرح درباری ہوتے ہیں اور انکے ذریعے بادشاہ تک رسائی حاصل کر کے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اسی طرح اللہ کے بھی درباری ہونے چاہئیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان احمقوں کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ دنیا کے بادشاہ کیوں درباری رکھتے ہیں وہ تو اس لئے رکھتے ہیں کہ
برکات خلافت 135 انہیں ان سے حالات معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بادشاہ نہیں جانتا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے.مثلاً ہمارے بادشاہ کو انگلستان میں بیٹھے ہوئے خود بخود کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں کیا ہورہا ہے اس لئے حالات معلوم کرنے کے لئے وائسراے مقرر کیا گیا ہے.پھر وائسرائے کو خود بخود کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ سارے ہندوستان کے شمال و جنوب مشرق و مغرب میں کیا کچھ ہو رہا ہے اس لئے لیفٹنٹ گورنر مقرر کئے گئے.پھر لیفٹنٹ گورنروں کو سارے صوبہ کا کیا حال معلوم ہوسکتا ہے.اس لئے ڈپٹی کمشنر مقرر کئے گئے ہیں.اسی طرح ڈپٹی کمشنروں کو حالات معلوم کرانے کے لئے تحصیلدار ، نائب تحصیلدار نمبر دار ، پٹواری اور چوکیدار رکھے گئے ہیں.اور اس طرح تمام سلطنت کی خبریں اور راز بادشاہ تک پہنچتے ہیں ورنہ انہیں خود بخود معلوم نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ تو تمہاری اگلی پچھلی ساری باتیں جانتا ہے پھر اس کو در باری رکھنے کی کیا ضرورت ہے يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ کے دو معنی ہیں (۱) اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس کو جو آگے ہونا ہے اور جو کچھ تم پیچھے کر چکے ہو.(۲) اللہ جانتا ہے ان کو جو کام تم نے کئے ہیں اور جو نیک کام کرنے چاہئیں تھے لیکن انہیں ترک کر دیا ہے.پھر اس کو کیا ضرورت ہے کہ درباری رکھے.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ : اور اس کے علم کو کوئی کہاں پہنچ سکتا ہے.کسی کو اس کی حقیقت اپنی کوشش سے معلوم نہیں ہوسکتی ہاں جس کو وہ آپ ہی بتا دے اور جس قدر بتادے وہ اتنا جانتا ہے.وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ: اور تمام آسمانوں اور زمین پر اس
برکات خلافت کا علم حاوی ہے.136 وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا : پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چیزوں کا علم حاصل کرنے کے لئے اپنے درباری مقرر نہیں کئے ہوئے لیکن کام کرنے کے لئے ضرور کچھ مددگار مقرر کئے ہوں گے کیونکہ دنیا کے بادشاہ فوج اور پولیس حفاظت کے لئے اور کاروبار کے لئے رکھتے ہیں.فرمایا اللہ کو اس کی بھی ضرورت نہیں ہے.وہ سب کام خود کر رہا ہے اور اللہ کی طاقت ایسی وسیع ہے کہ کوئی چیز اس کے قبضہ سے باہر نہیں اور نہ کسی چیز کا انتظام اور حفاظت اس کو تھکا سکتا ہے.وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْم: اب ایک ہی اعتراض رہ جا تا تھا اور وہ یہ کہ مانا کہ خدا کو علم کے لئے اور مدد کے لئے کسی کی ضرورت نہیں مگر شان و شوکت بھی تو کوئی چیز ہے اس کےاظہار کے لئے ہی اس نے در باری مقرر کئے ہوں گے.اس اعتراض کو وَهُو الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ کہہ کر رد فرما دیا.یعنے وہ بہت بڑا ہے اور کوئی چیز نہیں ہے جو اس کے ساتھ مل کر اس کے رتبہ کو بڑھا سکے.جو چیز خدا کے ساتھ ملے گی اس کا اپنا ہی رتبہ بڑھے گا نہ کہ خدا کا.پس یہ خیال کرنا کہ اللہ نے شان و شوکت کے لئے در باری مقرر کئے ہوں گے ٹھیک نہیں ہے.وہ سب چیزوں پر غالب ہے اس لئے اس کی فرمانبرداری کرنے سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتی.یہ وہ خدا ہے جو واقعی خدا ہے اور ایسا کوئی اور نہیں ہے.اگر ایسے خدا کے ہوتے ہوئے کوئی کسی اور کی طرف جائے تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہے.اگر کسی شخص کو نہایت عمدہ کھانا ملے اور وہ اسے چھوڑ کر نجاست کی طرف دوڑے.اگر کسی شخص کو عمدہ کپڑا
برکات خلافت 137 ملے اور وہ اسے چھوڑ کر میلی کچیلی لنگوٹی باندھ لے تو بتاؤ وہ دانا اور عقلمند کہے جانے کے قابل ہے ہرگز نہیں.دانا وہی ہے جو بہتر چیز کو پسند کرے.پس اللہ تعالیٰ سے بہتر کوئی نہیں ہے.میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اللہ ہی ہر وقت تمہارے مدنظر ہو کیونکہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی تمام چیزیں بیچ ہیں اور کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.دیکھو چاند چمکتا ہے اور نہایت بھلا معلوم ہوتا ہے لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ چاند کا ذاتی فخر ہے نہیں ایسا نہیں.چاند در حقیقت سورج کی چمک کو ظاہر کرنے کا فخر رکھتا ہے لیکن کیا پھر سورج کی روشنی اس کی ذاتی روشنی ہے نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روشنی حاصل کرتا ہے پس چاند اگر چمکتا ہے اور سورج اگر روشن ہے اور یہ دونوں ہمیں خوبصورت اور مفید معلوم ہوتے ہیں تو ان کا خوبصورت ہونا اور مفید ہونا دراصل ہمیں اللہ تعالیٰ کے حسن اور اس کے رحیم کریم ہونے کی طرف متوجہ کر رہا ہے.اسی طرح دنیا میں جس قدر بھی خوبصورت چیزیں ہیں ہم انہیں خوبصورت کہتے ہیں مگر ان کو اللہ تعالیٰ سے ہی خوبصورتی ملی ہے اس لئے وہی سب خوبصورتیوں والا ہے.اسی لئے سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنِ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہی ہیں اور وں کے لئے اس لئے نہیں کہ خدا رب العلمین ہے.سب کو وہی پیدا کرنے والا اور سب کی وہی پرورش کرنے والا ہے.پس جب ساری چیزوں کی وہی ربوبیت کرتا ہے تو کیوں اسی کے لئے سب تعریفیں نہ ہوں.ماں باپ بچہ کی ربوبیت کرتے ہیں مگر جانتے ہو ان کے دل میں بچہ کی محبت کس نے ڈالی خدا نے ہی ڈالی ہے.اگر سائل کو کوئی ایک پیسہ دیتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس نے اچھا کام کیا ہے
برکات خلافت 138 مگر اس کام کے کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے ہی اس کے دل میں ڈالی ہے.اسی طرح جو نیک کام کوئی شخص کرتا ہے وہ اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب ہوتا ہے اس لئے اصل حمد کے لائق خدا تعالیٰ ہی ہے.مثلاً ایک آقا اپنے ملازم کو کہے کہ یہ روپیہ فقیروں میں تقسیم کر دو تو گو تقسیم تو وہ خادم ہی کرے گا لیکن تعریف آقا ہی کے لئے ہے.پس انسان جو کسی سے نیک سلوک کرتا ہے تو وہ آقا کے مال کو تقسیم کرنے کی طرح ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے کرتا ہے کیونکہ کوئی چیز اس کی نہیں بلکہ ہر ایک چیز خدا تعالیٰ کی ہے.تو جتنا کسی میں احسان مروت، حسن اور خوبصورتی ہے وہ اللہ ہی کی ہے کیونکہ تمام دنیا اس کی خادم ہے اور اس کے سوا اور کوئی آقا نہیں ہے.لوگوں کو دین میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.ماں باپ، بیوی بچوں، مال و دولت خویش، اقرباء کی وجہ سے.مگر یاد رکھو کہ اللہ اللہ ہی ہے اور بندے بندے ہی ہیں.تم ہر بات میں یہ تحقیق کر لیا کرو کہ خدا کی مرضی کیا ہے اور جب خدا تعالیٰ کی مرضی معلوم ہو جائے تو پھر خواہ کوئی چیز قربان کرنی پڑے تمہارے مدنظر خدا ہی کی رضا ہو.شرک سے بچو: اس سے بڑھ کر میں ایک اور بات بتا تا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انسان کو چاہئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اللہ ایک ہے.میں یقین کرتا ہوں کہ کوئی احمدی مشرک نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو موحد بنے کی توفیق دی ہے اس لئے مجھے یہ تو ڈر نہیں کہ کوئی احمدی بتوں کے آگے سجدہ کرے گا یا خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے گا.باقی دنیا نے تو دین کو چھوڑ دیا ہے مگر تم وہ جماعت ہو جس نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.پھر خدا تعالیٰ نے اس
برکات خلافت 139 جماعت سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اسے بڑھاؤں گا اور یہ ایک برگزیدہ جماعت ہے اس لئے اس جماعت کے متعلق صریح شرک کا احتمال نہیں کیا جاسکتا.مگر میں تمہیں اس بات سے آگاہ کرتا ہوں کہ بہت سادین ایسا ہوتا ہے کہ وہ دنیا ہو جاتا ہے اور ایسا دین اللہ تعالیٰ کے ایک انچ بھی قریب نہیں کر سکتا.میں تمہیں اس دین کی طرف بلاتا ہوں جس کی طرف بڑھنے سے ہر قدم خدا کی طرف بڑھتا ہے اور آج جو تم نمازیں پڑھتے اور دعائیں کرتے ہو اس طرف آنے سے ہزاروں درجہ زیادہ تمہاری دعائیں قبول ہوں گی.اور تم اپنے عملوں کے اپنی آنکھوں کے سامنے نتیجے نکلتے دیکھ لو گے.تم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے سیدھی راہ پر چل رہے ہو لیکن اب بھی سخت احتیاط اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.کیونکہ شیطان کا کام ہے کہ وہ کبھی دنیا کی راہ سے آکر اور کبھی دین کی راہ سے آکر دھوکا دیتا ہے اس لئے جس بات سے میں تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم جتنی بھی عبادتیں کرو وہ اس نیت سے کرو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتے ہیں.اس کے سوا اور کوئی تمہاری نیت نہیں ہونی چاہئے.تم اپنے نفسوں میں غور کر لیا کرو کہ اب جو ہم نماز پڑھنے لگے ہیں تو یہ خدا تعالیٰ کے خوش کرنے کے لئے ہے یا کسی اور نیت سے.جب تم چندہ دیتے ہو تو اس وقت خیال کر لیا کرو کہ کتنی دفعہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیا ہے یا چندہ مانگنے والے نے کہا کہ دو اور تم نے دے دیا اور تمہاری کوئی نیت نہ تھی.مانگنے والے نہیں جانتے کہ تم نے کس نیت سے دیا ہے لیکن تم دینے والے خوب جانتے ہو کہ دیتے وقت کیا نیت تھی.تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم نے دین کی خاطر اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے دیا ہے.پس اسی طرح تمہارے
برکات خلافت 140 ہر کام میں خدا تعالیٰ ہی مد نظر ہونا چاہئے اور تم اسی کے راضی کرنے کی نیت ہر کام میں کیا کرو.جب تمہاری ہر کام میں یہ نیت ہوگی تو تمہاری عبادتیں آج اور کل اور پرسوں اور ترسوں اور نتائج پیدا کریں گی اور تمہاری دن بدن ترقی ہی ہوتی جائے گی.دیکھو ایک کام ایک نیت سے اور اجر پیدا کرتا ہے.اور وہی کام دوسری نیت سے اور اجر.اگر کوئی شخص ایک آدمی پر زنبور یا چھو بیٹھا ہوا دیکھے تو وہ جانتا ہے کہ اگر میں نے زنبور یا بچھو کو آہستہ سے پکڑایا ہٹایا تو وہ ضرور کاٹے گا اس لئے وہ زور سے تھپڑ مار کر اسے مار دیتا ہے اور اس کا ایسا کرنا تھپڑ کھانے والے آدمی کے منہ سے کلمات شکر نکلوا تا ہے.لیکن اگر کوئی کسی کو دکھ دینے کے لئے تھپڑ مارے تو وہ سزا پائے گا.تو ایک ہی کام سے نیتوں کے فرق سے دو مختلف نتیجے نکل آتے ہیں.پس تم عادتاً کوئی عبادت اور نیک کام نہ کرو.بلکہ نیتنا کرو.کئی آدمی کہتے ہیں کہ قوم کے لئے روپیہ دو.قوم کے لئے چندہ جمع کرو.قوم کے لئے یہ کرو اور وہ کرو میں کہتا ہوں قوم کیا چیز ہے.تم قوم کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے سب چندے دو.اور کبھی یہ گناہ کے لفظ منہ سے نہ نکالو.کیا تم سے پہلے تو میں نہ تھیں؟ کیا تمہارے پہلے عزیز اور رشتہ دار نہیں تھے؟ جب تھے تو اس نئی جماعت کے بننے کی کیا ضرورت تھی ؟ جسے تم قوم قوم کہتے ہو تم خوب یا درکھو کہ قوم کوئی چیز نہیں ہے.خدا تعالیٰ ہی ایک چیز ہے.پس تمہارے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لئے ہی ہوں.تمہاری ایک ایک حرکت اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا سب کچھ خدا کے لئے ہی ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو یقیناً یقیناً تمہارے اعمال کے نتیجے بڑھ چڑھ کر نکلنے شروع ہو جائیں گے.
برکات خلافت 141 جو کر و سمجھ کر کرو: بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک کام کرتے ہیں مگر انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ کیوں کرتے ہیں.وہ عادتا اس کام کو کرتے ہیں جس کا انہیں کوئی نتیجہ نہیں ملتا.دیکھو ایک مسلمان بائیں ہاتھ سے روٹی نہیں کھا تا بلکہ دائیں سے کھاتا ہے.جانتے ہو وہ کیوں دائیں سے کھاتا ہے اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے حکم دیا ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ.مگر بتلاؤ کہ کتنی دفعہ کھانا کھاتے وقت تمہیں یہ خیال آیا ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں.اپنی زندگی کے پچھلے ایک سال دو سال تین سال یا چار سال پر غور کرو کہ کتنی دفعہ تمہیں یہ خیال آیا ہوگا.بہت سے مسلمان تو ایسے بھی ہوں گے جنہیں ساری عمر میں بھی کبھی یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ ہم دائیں ہاتھ سے کیوں کھاتے ہیں اور بائیں سے کیوں نہیں کھاتے.دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا نیکی کا کام ہے کیونکہ جو ایسا کرتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا حکم مانتا ہے لیکن جو دائیں ہاتھ سے اس لئے نہیں کھاتا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے بلکہ اس لئے کھاتا ہے کہ بچپن سے اسے اسی کا عادی کیا گیا ہے تو وہ کسی ثواب کا مستحق کس طرح ہو سکتا ہے.وہ ہر گز ثواب کا مستحق نہیں ہے.چھوٹے بچوں کو جب رات کے وقت پیشاب آتا ہے تو وہ اوندھے منہ اس طرح لیٹ جاتے ہیں جیسے سجدہ کرتے ہیں.مگر کیا وہ اس فعل سے کسی ثواب کے مستحق ہو جاتے ہیں ہرگز نہیں کیونکہ وہ تو پیشاب کی وجہ سے اس طرح ہوتے ہیں.پس بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو عادتاً کئے جاتے ہیں.اور یہ ایک ایسا نقص ہے جو بہت خراب کرتا ہے.گویا یہ زنگ ہے جو انسان کے دل پر جم جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ عادتاً کئے ہوئے کاموں کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا خاص طور پر ارادہ کر کے کام کرنے
برکات خلافت 142 سے ہوتا ہے.اسلام میں اس قدر خوبیاں ہیں کہ یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا کہ اگر اسلام کو کسی کے سامنے پیش کریں تو وہ اس کے ماننے سے انکار کر دے.میں نے اس بات پر بہت غور کیا ہے کہ جب اسلام اس خوبی کا مالک ہے تو پھر کیوں تمام کے تمام لوگ اسے مان نہیں لیتے.اس کی وجہ مجھے یہی معلوم ہوئی ہے کہ چونکہ غیر مسلم لوگوں کے کانوں میں بچپن سے اور باتیں پڑتی رہتی ہیں اور وہ اسلام کے خلاف باتیں سنتے رہتے ہیں اس لئے جب وہ اسلام کی تعلیم کو سنتے ہیں تو انکار کر دیتے ہیں.ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک ایم اے عیسائی تو اسلام کی خوبیاں نہ سمجھ سکے لیکن ایک مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے والا جاہل سے جاہل یہی کہے کہ اسلام سچا مذ ہب ہے اور باقی سب جھوٹے ہیں.یہ شخص تو اس لئے یہ بات کہتا ہے کہ اس کے ماں باپ مسلمان تھے جن کی وجہ سے شروع سے ہی اس کے کانوں میں اسلام کا سچا ہونا ہی پڑتا رہا ہے اور وہ ایم اے اس لئے نہیں سمجھتا کہ ابتداء سے اس کے کانوں نے اور باتوں کو سنا ہے اور وہی اس پر اثر رکھتی ہیں.اب وہ ان کے خلاف نہیں سن سکتا.ایک عیسائی سے میری گفتگو ہوئی وہ کہنے لگا کہ کفارہ کے متعلق میں نے بڑی تحقیقات کی ہوئی ہیں آپ اس کے متعلق گفتگو کریں میں نے اسی کی نسبت باتیں شروع کیں.تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ یہ مان گیا که واقعی کفارہ خلاف عقل اور خلاف نیچر ہے.اب میں اسے صرف اس لئے مانتا ہوں کہ عیسائیوں کے گھر پیدا ہوا ہوں.پس بہت سے دینی کام ایسے ہوتے ہیں جو عادتاً کئے جاتے ہیں.حنفی مسلمان عموماً کھانا کھانے کے بعد ہاتھ اٹھا کر کچھ پڑھتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ ادا کیا جائے تو بہت اچھی بات ہے لیکن ان میں سے اکثر
برکات خلافت 143 ایسے ہوتے ہیں جنہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کیوں ہم ایسا کرتے ہیں.بھلا ایسے لوگوں کو اس طرح ہاتھ اٹھانے سے وہ ثواب مل سکتا ہے جو شکریہ کی نیت سے ہاتھ اٹھانے والے کو ملتا ہے.ہرگز نہیں.کیونکہ ثواب تو سچے دل سے الحمد للہ کہنے سے ہوتا ہے.لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں.لیکن ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا.میں کہتا ہوں تم تو اپنی عادت پوری کرتے ہو پھر خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ تمہیں ان سے فائدہ پہنچائے.پس تم یہ باتیں سن کر یہ نہ خیال کرنا کہ یہ چھوٹا سالڈو ہے جو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے کیونکہ گو کام ایک ہی ہوتا ہے مگر نیتوں اور ارادوں کے فرق سے نتائج میں فرق ہو جاتا ہے.اگر تم یہ اہمیت سمجھ لو اور یہ معلوم کر لو کہ کس طرح انسان ایک کام کرتا ہے لیکن ایک نیت سے اسے اور اجر ملتا ہے اور دوسری نیت سے اور تو تم کامیاب ہو سکتے ہو.دیکھو مدینہ میں ایک وہ لوگ آئے تھے جو خدا تعالیٰ کے لئے آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہجرت کر کے آئے تھے گو اور لوگ بھی تو وہاں کا روبار کے لئے باہر سے آتے ہی ہوں گے.کیا ان کو بھی کوئی ثواب مل سکتا ہے؟ نہیں.ثواب کے مستحق تو وہی تھے جو خدا تعالیٰ کے لئے آئے تھے.کیونکہ مدینہ میں آنا کوئی ہستی نہیں رکھتا.صرف نیت کا اجر ہوتا ہے.نماز کا ثواب بھی اسی لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے اور اس کی رضا چاہنے کے لئے پڑھی جاتی ہے.روزہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے رکھا جاتا ہے زکوۃ کی بھی یہی غرض ہے.حج بھی اسی لئے کیا جاتا ہے.لیکن اب جبکہ لوگ ان باتوں کو عادت کے طور پر کرتے ہیں تو انہیں فائدہ کیونکر ہو.
برکات خلافت 144 بعض آدمیوں کو ہاتھ یا کندھا ہلانے کی عادت ہوتی ہے بعض عادتا الْحَمْدُ لِلَّهِ - اَلْحَمْدُ لِلہ اور سُبْحَانَ اللهِ.سُبْحَانَ اللهِ کہتے رہتے ہیں.لیکن انہیں کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کلمات ہم کیوں کہہ رہے ہیں.لیکن یہی الْحَمْدُ لِلَّهِ اگر کوئی نیت اور ارادہ کے ماتحت کہے تو ایک دن میں فرشتہ بن جاتا ہے.اور یہی سُبْحَانَ اللهِ اگر نیت اور ارادہ سے کہی جائے تو ایک دن میں انسان خدا رسیدہ ہو جاتا ہے.رسول کریم یہ فرماتے ہیں كَلِمَتَان خَفِيفَان على اللسان دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر تو بڑے ہلکے معلوم ہوتے ہیں ایک منٹ میں انسان کہہ جاتا ہے.لیکن تَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيزَان.جب خدا تعالیٰ انہیں ترازو میں رکھے گا تو بڑے بوجھل ہوں گے یعنی اعمال کا پلڑا ان کے بوجھ سے نیچے جھک جائے گا.حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمنِ دو کلمے اللہ کو بہت ہی محبوب ہیں.اللہ ان کو سن کر بہت خوش ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اب کئی آدمی ان کو پڑھتے رہتے ہیں مگر ان کے اعمال کی میزان کھڑی کی کھڑی ہی رہتی ہے.رسول اللہ تو فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ پڑھنے سے میزان ثقیل ہو جاتی ہے مگر یہاں ہزاروں دفعہ پڑھنے سے بھی اونچی ہی رہتی ہے کیوں؟ اس لئے کہ نیت نہیں ہوتی.زبان سے تو کہتے ہیں کہ خدا پاک ہے.لیکن ان کے دل میں اس کا خیال تک بھی نہیں آتا.وہ اس کی نعمتیں یاد کر کے شکر نہیں کرتے بلکہ صرف الفاظ رٹتے ہیں.تو کسی بات کی عادت بہت خراب کرتی ہے اور کچھ کا کچھ بنادیتی ہے.خواہ وہ کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو.اچھی عادت تو الگ رہی جب کسی خطر ناک بات کی عادت ہو جاتی ہے تو اس کا بھی ضر رمٹ جاتا ہے.بعض لوگ جن کو عادت ہوتی ہے تولہ تولہ سنکھیا کھا لیتے ہیں.لیکن دوسرا کوئی
برکات خلافت 145 تھوڑا سا بھی کھائے تو اس کی جان نکل جائے پس عادت نیکی اور بدی میں تمیز نہیں وه هم بد رہنے دیتی.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّمَا نَضِعَتْ جُلُودُ لنهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ - (النساء: ۵۷) کہ دوزخ میں رہنے والوں کی جب کھلا یاں پک جائیں گی تو ہم اور بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب محسوس کریں.اس سے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جس بات کی عادت ہو جاتی ہے پھر اس کا احساس نہیں رہتا اور نہ وہ پہلے کی طرح مفید رہتی ہے.سر درد ایک بہت بڑی تکلیف ہے لیکن جب کسی کو عادت ہو جائے تو وہ بہت کم تکلیف محسوس کرتا ہے.ایک قصہ: کسی شخص نے عادت سے احساسات کے کم ہو جانے کو ایک لطیف حکایت میں بیان کیا ہے.وہ لکھتا ہے خدا تعالیٰ نے لوگوں کو کہا کہ تم جو کہتے ہو کہ ہماری یہ تکلیف بہت زیادہ ہے اور دوسروں کی کم ہے.آؤ تمہیں اجازت دی جاتی ہے کہ جو مصیبت تمہیں زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتی ہے اس کا دوسری سے تبادلہ کر لو.اس پر انہوں نے اپنے اپنے عیب پھینک دیئے.اور ان کے تبادلہ میں اور لینے لگے ایک کے سر میں درد تھا اس نے وہ سر پھینک دیا اور اس کی بجائے ایک بیمارموٹا پاؤں لے لیا.ایک بہرہ تھا اس نے وہ کان پھینک کر اندھا ہونا پسند کیا.اسی طرح ہر ایک نے اپنی تکلیف کو دوسری اس تکلیف کے جو اس کے خیال میں کم تھی بدل لیا.جب اپنے اپنے گھروں کو چلے تو جس نے موٹا پاؤں لیا تھا وہ اس کو کھینچتا ہے لیکن وہ اٹھتا نہیں.وہ جس نے بہرہ پن کی بجائے اندھا پن لیا تھا وہ کہتا ہے کہ کان نہ سنتے تھے تو کیا تھا اب تو کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ.پھر انہوں نے اپنی پہلی تکلیفوں کو ہی ہلکا سمجھا اور انہیں
برکات خلافت 146 کے لینے کی خواہش کی.تو جس بات کی عادت ہو جائے اس کی تکلیف کم ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ جب دوزخیوں کی جلدیں پک جائیں گی تو ہم ان کی جلدیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کو محسوس کرتے رہیں.جولوگ عادتا نیکی کا کوئی کام کرتے ہیں ان کو کوئی اجر نہیں مل سکتا.اسی لئے کسی کو جو عذاب ہوتا ہے جب اس کو اس کی عادت ہو جاتی ہے تو اس کی تکلیف بھی کم ہو جاتی ہے گویا عادت ایک پٹی ہے جو کسی زخم کو ڈھانپ لیتی ہے حالانکہ اس کے اندر گند ہوتا ہے.تم خوب یادرکھو کہ عادت کی نماز نماز نہیں ہوتی.عادت کی زکوۃ زکوۃ نہیں ہوتی.عادت کا روزہ روزہ نہیں ہوتا اور عادت کا حج حج نہیں ہوتا.کیا مسیح موعود سے پہلے لوگ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے.زکوۃ نہیں دیا کرتے تھے روزہ نہیں رکھا کرتے تھے.حج نہیں کیا کرتے تھے.سب کچھ تھا مگر ان کی نیتیں نہ تھیں ریاء تھا اس لئے انہیں کچھ فائدہ نہ ہوتا تھا لیکن تمہارے سب کاموں میں ایک ہی چیز مد نظر ہونی چاہئے اور وہ اللہ ہے.اگر تم اس بات پر عمل کرو گے تو تم روحانیت میں فوری تبدیلی دیکھو گے پس تم کسی بات کو عادت کے طور پر نہ کرو بلکہ نیت سے کرو.اسلام کیا چاہتا ہے: اسلام یہی چاہتا ہے کہ وہ عادت کو مٹائے اور یہی اس کا بڑا کام ہے.اسلام عادت کا دشمن ہے کیونکہ عادت کی وجہ سے کوئی نیکی نیکی نہیں رہ سکتی.اسلام کہتا ہے کہ جو کام انسان کرے رضائے الہی کے لئے کرے.تب جو چیز وہ چاہتا ہے اس کو مل جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلَّا نُمِدُّ هُوَ لَاءِ وَهُوَ لَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُوراً (بنی اسرائیل: ۲۱) ہم تو ہر ایک کو مدد دیتے
برکات خلافت 147 ہیں.جو دنیا کے لئے کوشش کرتا ہے اس کو دنیا مل جاتی ہے اور جو اللہ کے لئے سعی کرتا ہے اسے اللہ مل جاتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کی اپنی بخشش ہے اور تیرے رب کی بخشش کسی سے بند نہیں کی گئی.پس تم اللہ کے لئے کوشش کرو تمہیں اللہ ضر ورمل جائے گا.انسان کی روحانی ترقی کے مدارج : اللہ تعالیٰ نے انسانی روح کی ترقی کے سات مدارج قائم کئے ہیں.ان درجوں میں جو تفاوت اور کمی ہوتی ہے وہ انسان کی عادت کے لحاظ سے ہوتی ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالی نماز کے متعلق فرماتا ہے لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَ انْتُمْ سُكرى حَتَّى تَعْلَمُوْا مَا تَقُولُونَ.(النساء:۴۴) کہ نماز کے قریب بھی مت جاؤ.جب تم نشے میں ہو.اب نشہ کے معنی یہی نہیں کہ شراب ہی سے کوئی مخمور ہو.شراب اس وقت بھی منع ہو گیا تھا اور اب بھی ہے تو جب اس کا پینا ہی منع ہے تو اس حکم کے کیا معنے ہوئے کہ کوئی پی کر مسجد میں نماز کے لئے نہ آئے.بے شک شرابی کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ اگر تم شراب پیتے ہو تو ہماری مسجد میں نہ آیا کرو.اور یہ اسی طرح کا حکم ہے جس طرح ایک باپ اپنے نالائق بیٹے کو کہے کہ تم میں جب تک فلاں بری عادت ہے ہمارے گھر نہ آیا کرو.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرابی ہماری مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہ آیا کرے.لیکن اس کے اور معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جس طرح نشہ والا نہیں جانتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کیا پڑھ رہا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اسی طرح تم عادت یا نشہ کے طور پر نماز نہ پڑھا کرو.اور تمہاری نماز نقل کے طور پر دوسروں کی دیکھا دیکھی نہ ہو بلکہ تم ہوش وخرد سے پڑھا کرو.تو عادت اور صرف نقل کے طور پر کوئی ایسا کام کرنا جس کی اصل غرض سے ناواقفیت ہو وہ بھی سکر ہی ہے.سکر
برکات خلافت 148 کے اصل معنی تو شراب کے نشہ کے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں.پس ایک طرف تو اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ شراب پینے والا نماز کے قریب بھی نہ جائے اور دوسری طرف یہ بتایا ہے کہ عادت کے طور پر اور اصل غرض اور غایت سے ناواقف رہ کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے.کیونکہ جس طرح ایک شرابی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایک غلیظ اور گندی نالی میں گرا ہوا ہے یا بڑے مکلف فرش پر بیٹھا ہوا ہے اسی طرح نماز کو عادت کے طور پر پڑھنے والا نہیں سمجھتا کہ وہ ایک عظیم الشان دربار میں کھڑا ہے یا کسی جنگل میں ہے.اسی لئے اس طرح نماز پڑھنے سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ قرآن شریف نے کس طرح روحانیت کے سات مدارج بتائے ہیں.ان مدارج میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح انسان ان کو چھوڑ کر تنزل کے گڑھے میں گرتا ہے.اور کس طرح ان کو طے کرنے کی وجہ سے اوپر ترقی کرتا جاتا ہے اور جتنی جتنی اسے سمجھ آتی جاتی ہے اتنے ہی زیادہ اسے نیک نتائج اور اپنے اعمال کا بدلہ ملتا جاتا ہے.روحانیت کا پہلا درجہ : انسان کا پہلا درجہ جمادات سے مشابہ ہوتا ہے اور یہ بدترین درجہ ہے.ایسے لوگوں کو بھلی بری بات کے پہچاننے کی حس ہی نہیں ہوتی.ان کے سامنے کوئی لا کھ شور مچائے ان کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا کیونکہ ان میں ترقی کرنے کا مادہ ہی نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کو خواب اور الہام بھی نہیں ہوتا.ان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَة وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ
برکات خلافت 149 الْأَنْهَرُ ۖ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّتَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ - (البقرہ: ۷۵) یعنی یہ لوگ ایسے بگڑے کہ پتھروں کی طرح ہو گئے اور ان کے اندر ترقی کرنے کا کوئی مادہ نہ رہا.ایک چھوٹا سا بیج بھی جب زمین میں پڑرہے اور اس کو پانی دیا جاتا ہے تو وہ بڑھ کر عظیم الشان درخت ہو جاتا ہے لیکن ایک پتھر سے کوئی لاکھ کوشش کرے.پھر بھی اس کو ذرا فائدہ نہیں پہنچ سکتا.تو انسانی روحانیت کا سب سے ادنیٰ درجہ وہ ہے کہ جس میں علم اور احساس ہی نہیں ہوتا.اسلام انسانوں میں ایسا احساس اور سمجھ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جو کام وہ کریں ان کو معلوم ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں لیکن اس درجہ کے انسان جو کہ میں نے بیان کیا ہے کچھ سمجھ نہیں رکھتے.زمانہ کے واقعات جس طرح الٹائے پلٹائے جاتے ہیں اسی طرح وہ بھی کرتے رہتے ہیں جب انہیں بھوک لگتی ہے پیٹ میں کچھ ڈال لیتے ہیں.نیند آتی ہے سور ہتے ہیں شہوت ہوتی ہے شہوت رانی کر لیتے ہیں.اس لئے یہ خدا تعالیٰ کے حضور کسی انعام کے مستحق نہیں ہوتے.روحانیت کا دوسرا درجہ : اس سے اوپر کا درجہ نباتات سے مشابہ ہے.اصل میں انسان کے جسم میں ساری چیزیں ہیں.بعض اجزاء جمادات کے ہیں بعض نباتات کے بعض حیوانات کے.چنانچہ انسان کی درست غذا ان تینوں چیزوں سے مرکب ہوتی ہے اور چونکہ غذا سے ہی جسم بنتا ہے اس لئے اس کے اعمال اور زندگی میں بھی ان کا اثر ہوتا ہے لیکن کبھی روحانی خیالات حیوانات کے تلے دب جاتے ہیں اور انسان حیوانوں کی طرح ہو جاتا ہے اور کبھی حیوانیت کے جذبات نباتی قوی کے تلے دب
برکات خلافت 150 جاتے ہیں اور وہ اور بھی گر جاتا ہے اور کبھی اس پر بھی جمادی رنگ اپنا اثر ڈال دیتا ہے اور انسان جمادات کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور سنگدل ہو جاتا ہے جس طرح پتھر کو کوئی جدھر چاہے پھینک دیتا ہے.اسی طرح دنیا کے واقعات اور حوادث اس کو لڑھکاتے رہتے ہیں اور ایسے انسان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا.اسی طرح جب انسان ترقی کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور اس جمادی حالت کو ترک کر دیتا ہے تو اس کے اندر نباتات کے مشابہ ایک نشو ونما کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے پس ایک تو وہ انسان ہوتے ہیں جو کہ پتھر کی طرح ہوتے ہیں اور ان میں احساس نہیں ہوتا.لیکن ایک نباتات کی طرح ہوتے ہیں جن میں کچھ احساس ہوتا ہے.اب بڑے تجربہ کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نباتات میں بھی روح ہوتی ہے گو حیوانی روح سے ادنی درجہ پر ہوتی ہے مگر ہوتی ضرور ہے.اس کے ثبوت کے لئے چھوٹی موٹی کی بوٹی جسے اردو میں لاجونتی کہتے ہیں پیش ہو سکتی ہے اس کے پتوں کو جب ہاتھ لگایا جائے تو وہ سکڑ جاتے ہیں.یہ پودا نباتات کے اس حصہ میں سے ہے جو اپنی قوت نشو و نما میں ترقی کر کے حیوانی درجہ کے قریب ہو گئے ہیں اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ درختوں میں بھی حس ہوتی ہے گو بعض درختوں میں زیادہ ہوتی ہے اور بعض میں کم.اس طرح بعض اور نباتات حیوانات سے ملتے ہیں جیسے اسپنج کہ اس کی غذا بھی حیوانات سے بنتی ہے اور بعض تو اسے حیوان ہی کہتے ہیں گو سچ تو یہی ہے کہ وہ ایک ترقی یافتہ پودا ہے جو حیوانیت کی سرحد کے بہت قریب ہو گیا ہے.غرض ان نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ نباتات میں بھی حس ہوتی ہے لیکن حیوانات اور نباتات میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ان میں حس تو ہوتی ہے لیکن کسی صدمہ
برکات خلافت 151 سے بچنے کی طاقت نہیں ہوتی.لاجونتی کے پتے ہاتھ لگانے سے سکڑ تو جاتے ہیں لیکن ان میں یہ طاقت نہیں کہ بھاگ کر اپنے آپ کو بچالیا کریں.اسی طرح ایک انسان اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس کی کچھ روحانی حس تو باقی ہوتی ہے مگر وہ کسی حملہ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا کیونکہ اس کی حس بہت خفیف سی ہوتی ہے.چنانچہ قرآن شریف میں ایسے لوگوں کی طرف اس آیت میں اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لَا يَسْمَعُوا وَ تَرْهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ.(الاعراف: ۱۹۹ ) یعنی یہ مخالف لوگ ایسے ہیں کہ ان کو تو ہدایت کی طرف بلاتا ہے لیکن وہ سنتے نہیں ہیں تجھے وہ دیکھتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے.سمع کے اصل معنے سننے کے ہیں مگر سننے کی غرض ماننا ہی ہوتی ہے اس لئے لا يَسْمَعُوا سے مراد یہی ہے کہ وہ مان نہیں سکتے اور ان میں ماننے کی طاقت ہی نہیں ہے.یہ وہی لوگ ہیں کہ ان میں حس تو ہے مگر بچنے کی طاقت نہیں رکھتے.ان کی آنکھیں ہوتی ہیں مگر یہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.تیسرا درجہ : اس سے اوپر اور درجہ ہے اور وہ حیوانی درجہ ہے اس میں انسان حیوان کی طرح ہوتا ہے یعنی نباتات سے زیادہ اس میں حس ہوتی ہے اس حالت میں اسے آواز سناؤ گے تو سن لے گا مگر مطلب نہیں سمجھے گا.اگر اسے دکھ دینے لگو گے تو بھاگ جائے گا مگر اپنے بچنے کے لئے ایسے ذرائع مہیا نہیں کر سکے گا جن کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اس قسم کے ڈر سے محفوظ ہو جائے جیسا کہ انسان کو اگر کوئی چیز معضلگتی ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے اس کے دور کرنے کے ذرائع سوچتا رہتا ہے.لیکن حیوان میں ایجاد اور ترقی کا مادہ
برکات خلافت 152 نہیں ہے اس قسم کے انسانوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا أُولَئِكَ ۚ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَفِلُونَ.(الاعراف:۱۸۰) ان کے دل ہیں مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان کو کام میں نہیں لاتے.ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے نفع نہیں اٹھاتے.یہ تو سب کچھ ان کے پاس ہے لیکن ان کے پاس عقل انسانی نہیں بلکہ حیوانی عقل ہے.یہ خوف سے بھاگ تو جاتے ہیں لیکن اپنے آئندہ کے بچاؤ کے لئے کوئی صورت نہیں نکال سکتے.یعنی یہ کسی خوف اور ڈر کے وقت تو خدا تعالیٰ کے حضور میں گر پڑتے ہیں اور اس دکھ سے محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کر سکتے بلکہ جب کبھی ان پر مصیبت پڑتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں.چوتھا درجہ : جب اس سے زیادہ احساس پیدا ہوتا ہے تو انسان ایک اور درجہ میں ہوتا ہے اور یہ درمیانی درجہ ہے کیونکہ تین درجے اس سے نیچے ہیں اور تین ہی اوپر ہیں.اس درجہ میں انسان کو ایک حد تک احساس پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سب کام سمجھ اور ہوش سے کرتا ہے مگر کبھی کبھی اس پر شیطان بھی غلبہ کر لیتا ہے.یعنی کبھی اسے بدی اپنی طرف کھینچ لے جاتی اور کبھی نیکی.ہاں بدی کا حملہ اس پر بہت کم کارگر ہوتا ہے.کیونکہ اس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے.آدمی کی ایسی حالت کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَئِفٌ مِّنَ الشَّيْطَنِ تَذَكَّرُوْا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ.(الاعراف:۲۰۲) کبھی کبھی ایسے لوگوں کو شیطان اپنی طرف بھی کھینچتا ہے
برکات خلافت 153 مگر وہ جھٹ ہوش میں آجاتے ہیں یہ ایسا انسانی درجہ ہے جس کے ساتھ نسیان لگا ہوا ہے اور دوسرے لفظوں میں اسے نفس لوامہ بھی کہہ سکتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کبھی ان پر شیطان حملہ کرتا ہے تو وہ فورا اللہ کی پناہ میں آ جاتے ہیں اور یہی متقیوں کا کام ہے.پانچواں درجہ : پھر انسان اور ترقی کرتا ہے اور ترقی کرتا کرتا ملک بن جاتا ہے پھر وہ ایسا ہوشیار ہو جاتا ہے کہ کبھی بھی شیطان اس پر غالب نہیں آسکتا.اس کی معرفت الہی ایسی ترقی کر جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر وہ عمل کرتا ہے اور جس طرح ملائکہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُوْنَ کے ماتحت کام کرتے ہیں اسی طرح یہ انسان بھی خدا تعالیٰ کے سب حکموں کو پورا کرتا ہے اور اس پر کبھی غفلت کی نیند نہیں آسکتی.اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ O الَّذِيْنَ يُؤْفُوْنَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيْثَاق O وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَا أَمَرَا اللَّهُ بِة أَنْ يُوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْءَ الْحِسَابِ وَ الَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً وَّيَـدْ رَءُ وْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّار جَنَّتُ عَدْنٍ يَدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَالْمَلئِكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلْمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ـ (الرعد:۲۰ تا ۲۵)
برکات خلافت 154 اے رسول وہ چیز جو تیرے اوپر اتری حق ہے جو اس بات کو جانتا ہے بھلا وہ کس طرح ایک اس اندھے کی طرح ہو سکتا ہے جو اس کو حق نہیں سمجھتا ہماری باتوں سے اصل فائدہ تو وہی اٹھاتے ہیں جو اولوالا لباب ہوتے ہیں یعنی جو عقل و دانائی سے بھر پور ہوتے ہیں.وہ اللہ کے عہدوں کو پورا کرتے ہیں ان کو توڑتے نہیں اور ان کو خدا تعالیٰ نے جو حکم دیئے ہوتے ہیں بجالاتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور یوم حساب کی برائی سے انہیں ڈر ہوتا ہے.اور وہ اپنے رب کی رضامندی چاہنے کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو کہ انہیں دیا گیا ہے پوشیدہ اور ظاہر طور پر.اور بدیوں کو نیکیوں کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیاں پھیلاتے ہیں.پس یہی وہ لوگ ہیں جن کو جنت میں عمدہ بدلے دیئے جائیں گے.اور وہ جنت میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے.پھر ان کا اتنا بڑا درجہ ہے کہ صرف انہیں کو درجے نہیں دیئے جائیں گے بلکہ ان کے رشتہ دار جنہوں نے تھوڑی نیکیاں کی ہوں گی ان کی وجہ سے ان کے درجے بھی بلند کئے جائیں گے.اور جہاں یہ ہوں گے وہاں ہی ان کے رشتہ دار بھی پہنچائے جائیں گے.یہ کیوں اس لئے کہ انہوں نے لوگوں کو نیک بنانے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو راہ ہدایت پر لانے میں کوشاں رہے.اس کے بدلہ میں خدا ان سے صرف یہی سلوک نہیں کرے گا کہ ان کے درجے بلند کر دے گا بلکہ ان کے رشتہ داروں کا بھی ان کی وجہ سے بلند مرتبہ کر دے گا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت میں جس درجہ میں میں ہوں گا اس میں علیؓ اور فاطمہ ہوں گے.تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح یہ لوگ دنیا میں ہماری
برکات خلافت 155 مخلوق کی خبر گیری کرتے رہے ہیں ہم اس کے بدلہ میں ان کے رشتہ داروں کو فائدہ پہنچادیں گے.خدا تعالیٰ نے آگے کیا لطیف بات بیان فرمائی.جنس کو جنس سے محبت ہوتی ہے فرمایا جب یہ لوگ جنت میں پہنچیں گے تو ملائکہ بھاگتے ہوئے ان کے پاس آئیں گے چونکہ یہ لوگ بھی ملکوتی صفات رکھنے والے ہوں گے اس لئے فرشتوں کو ان سے محبت ہوئی ضروری تھی پس فرشتے ایسے لوگوں کی طرف دوڑ پڑیں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو.اس سبب سے کہ تم نے صبر کیا.یہاں خدا تعالیٰ نے صاف طور پر ظاہر فرما دیا کہ یہ ملائکہ کے درجہ کے انسان ہوں گے ملائکہ کا درجہ کیا ہی اچھا ہے.چھٹا درجہ : پھر انسان اس سے بھی ترقی کرتا ہے اور جب اس میں احساس زیادہ پیدا ہوتا جاتا ہے تو وہ اور بلند ہوتا جاتا ہے پھر یہی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بدیوں سے بچاتا ہے بلکہ وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میں تو کچھ چیز ہی نہیں ہوں.پس وہ اللہ کے ہاتھ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے ایسی حالت کے متعلق صوفیاء نے کہا ہے کہ انسان میں صفات الہیہ آنی شروع ہو جاتی ہیں.اس کے لئے قرآن شریف کہتا ہے.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ.(البقره:۱۱۳) حضرت ابراہیم جو کہ خدا تعالیٰ کے نبی تھے انکو یہ درجہ حاصل ہو گیا تھا چنا نچہ ان کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ.(البقرہ:۱۳۲) جب اللہ تعالیٰ نے کہا اسلم تو حضرت ابراہیم نے کہا اسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ.پس ایک تو
برکات خلافت 156 انسان کا وہ درجہ تھا کہ ملائکہ میں تھا.اس درجہ میں وہ یہ سمجھتا تھا کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں مجھے حکم دو میں کروں گا.مگر یہ ایک ایسی حالت ہے کہ انسان کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں جس طرح آپ کی مرضی ہو اسی طرح مجھے چلائیے.اب جبکہ اس کو خدا چلائے گا تو جو کام اس سے ہوں گے وہ خدا تعالیٰ کے ہوں گے کیونکہ جس کے ہاتھ میں قلم ہوگی اسی کے نام سے چلے گی.لکھا ہے کہ ایک سپاہی اپنی تلوار کو اس زور سے مارتا تھا کہ گھوڑے کے چاروں پاؤں یک لخت کاٹ دیتا تھا.بادشاہ کے لڑکے نے جو اس کا یہ کام دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجئے.اس نے کچھ عذر کیا بادشاہ نے اس سپاہی کو کہہ کر وہ تلوار اس شہزادہ کو دلوادی.جب اس شہزادہ نے وہ تلوار چلائی تو کچھ بھی اثر نہ ہوا.اس پر اس سپاہی نے کہا کہ میں اس وجہ سے یہ تلوار نہیں دیتا تھا کہ اس تلوار میں کوئی خاص جو ہر تھا بلکہ یہ تو اس لئے گھوڑے کے چاروں پاؤں اڑا دیتی تھی کہ یہ میرے ہاتھ میں تھی.مجھے اب کوئی اور تلوار دے دی جائے تو اس سے بھی میں کاٹ دوں گا کیونکہ تلوار کی خصوصیت نہیں بلکہ میری ہے.یہی حال بندہ کا ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو اس کے تمام کام خدا تعالیٰ کے کام ہی ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ بعض احمق جو اس بات کو نہیں سمجھتے جب ان کاموں میں روک ڈالتے ہیں تو ایسے تباہ ہوتے ہیں کہ ان کا کچھ باقی نہیں رہتا.اس درجہ کو پہنچنے والے انسان کو ملائکہ کے واسطہ کی بھی ضرورت نہیں رہتی.حضرت ابراہیمؑ کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت جبرائیل انکے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہے تو مجھے کہو.انہوں نے کہا اگر مجھے ضرورت ہوگی تو میں خدا تعالیٰ کو کہوں گا
برکات خلافت 157 تمہیں کہنے کی کیا ضرورت ہے.انہوں نے کہا اچھا پھر آپ خدا سے دعا کریں.انہوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ مجھے نہیں دیکھ رہا کہ میں دعا کروں.وہ جبکہ خود میری ہر ایک بات جانتا اور دیکھتا ہے تو پھر میں کیوں کہوں کہ مجھے فلاں ضرورت ہے آپ اسے پورا کر دیں.غرض انسان ترقی کرتے کرتے ملکوتی صفات سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اور صفات الہیہ کو اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح کر دیتا ہے کہ خدا کے ہلائے سے ہلتا اور اس کے چلائے سے چلتا ہے ایسے انسان کا مقابلہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ ہوتا ہے اور یہ شخص اپنے ہر کام کواللہ تعالیٰ کی ہی رضا پر چھوڑ دیتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو انسان ترقی کر کے خدا تعالیٰ کا مقرب ہو جاتا ہے خدا اس کی آنکھیں اس کے کان اور اس کے ہاتھ پاؤں ہو جاتا ہے جو اس کا دشمن ہوتا ہے وہ خدا کا دشمن ہوتا ہے اور جو اس کا دوست ہوتا ہے وہ خدا کا دوست ہوتا ہے یہی وہ درجہ ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے فرمایا کہ جو تیری طرف توجہ نہیں کرتا وہ میری ( اللہ ) طرف توجہ نہیں کرتا کیونکہ تو تو میری صفات کا مظہر ہے اس لئے تیرا انکار میرا انکار ہے یہ وہ درجہ ہے کہ انسان بالکل خدا تعالیٰ کے قبضہ میں چلا جاتا ہے اس سے بڑھ کر ایک ہی اور درجہ ہے.ساتواں درجہ : اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقاً آخَرَ - (المؤمنون : ۱۵) پھر کیا پوچھتے ہو.وہ حالت تو بیان ہی نہیں ہوسکتی.اب بندہ کو ایک اور خلق میں بدل دیا جاتا ہے اور ایک دفعہ پھر اسے اس کی طاقتیں واپس کی جاتی ہیں اور اگر پہلے درجہ میں
برکات خلافت 158 خدا کے بلائے سے بولتا تھا تو اب اس کو وہ مقام دیا جاتا ہے اور اس کے نفس کے اندر ایسی طہارت پیدا ہو جاتی ہے کہ جو کچھ یہ کہتا ہے خدا تعالیٰ بھی اسی کے مطابق اپنے احکام جاری کر دیتا ہے.تو یہ درجہ محبوبیت کا درجہ ہے.چنانچہ ایسے لوگوں کی بہت باتیں جو وہ اپنے اجتہاد سے کہتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھی پورا کر دیتا ہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ - (ال عمران : ۳۲) اے رسول ان کو کہہ دے کہ میں خدا کا محبوب ہوں اگر تم بھی اس کے محبوب بننا چاہتے ہو تو مجھ سے محبت کرو یہ حالت ایسی نہیں ہوتی کہ انسان صرف خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے بلکہ ایسی روحانیت ترقی کر جاتی ہے کہ خدا کے سوا کسی اور سے کچھ بھی اس کا تعلق نہیں رہتا.اور جب تک کوئی انسان اس میں سے ہو کر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے نہیں پہنچ سکتا.غرض کہ یہ احساسات کی ترقی کے درجے ہیں جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائے ہیں ان میں جتنا کوئی انسان بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے.آنحضرت مہ کی نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ فرماتے ہیں تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبی - بخاری کتاب المناقب باب : كان النبي صلى الله عليه وسلم تَنَامُ عَيْنِهِ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ ) گو میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا.بعض دفعہ سو جاتے لیکن پھر اٹھ کر بلا وضوء نماز پڑھ لیتے کیونکہ آپ کو ایسی جلاء قلب عطا ہوئی تھی کہ سوتے ہوئے بھی آپ کے احساسات باطل نہ ہوتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ تو خراٹے لے رہے تھے پھر بغیر
برکات خلافت 159 وضوء کے آپ نے نماز شروع کر دی اس پر آپ نے مذکورہ بالا جواب دیا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا.رسول کریم ﷺ پر ایسی کشف کی حالت طاری رہتی کہ آپ اپنے پیچھے کھڑے ہوئے نمازیوں کی حالت معلوم کر لیتے تھے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے.غرض اس درجہ میں کبھی غفلت کا وقت نہیں آسکتا.اس درجہ کا ذکر خدا تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى.(النجم: ۴۵) جو ہمارا بندہ ہو جاتا ہے وہ جو باتیں کرتا ہے وہ ہماری ہی باتیں ہوتی ہیں وہ اور کچھ نہیں کہتا.یہ انسانیت کے کمال کا درجہ ہے.پس میں تمہیں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے اندر احساس پیدا کرنے کی کوشش کرو.احساس کے نہ ہونے کی وجہ سے گناہ پیدا ہوتا ہے.دیکھو کچنیاں بھی صدقہ دیتی ہیں، خیرات کرتی ہیں.لیکن کیا ان کو اجر مل جاتا ہے نہیں اس لئے نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں دیتیں.بلکہ وہ یہ بجھتی ہیں کہ اس طرح عذاب ٹل جایا کرتا ہے اس لئے وہ ایسا کرتی ہیں.اگر ان کے صدقے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت سے ہوں اور خدا سے ڈر کر وہ ایسا کریں تو وہ زنا ہی کیوں کریں.رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر کی نسبت فرمایا ہے کہ یہ نمازوں کی وجہ سے بڑا نہیں ہوا بلکہ اس کی وجہ سے ہوا ہے جو کہ اس کے دل میں ہے.نماز میں تو اور لوگ بھی پڑھتے تھے اب بھی غیر احمدی لوگ نمازیں پڑھتے ہیں لیکن کیا وہ صحابہ بلکہ ایک مومن کے درجہ کو بھی پہنچتے ہیں وہ تو کسی مومن کی جوتیوں کا تسمہ کھولنے کے بھی قابل نہیں ہیں بلکہ اکثر ان میں سے بدکار اور گندے ہیں.پس اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ نیک نہیں ہو سکتے.یہی
برکات خلافت 160 ہے کہ ان میں احساس نہیں ہے.تم اپنے اندر احساس پیدا کرو.تمہارا کوئی کام عادتاً اور رسما نہ ہو بلکہ سب کام خدا تعالیٰ کے لئے ہوں.اس کے متعلق جو تدابیر ہیں وہ بھی میں تمہیں بتائے دیتا ہوں تا کہ تمہیں آسانی ہو جائے لیکن اس سے پہلے میں یہ بتا دیتا ہوں کہ کئی لوگوں کو ایک دھوکا لگ جاتا ہے.غلط فہمی : اور وہ دھو کا یہ ہے کہ ادھر وہ بیعت کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور ادھر پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا ان سے اگر پوچھا جائے کہ ایک شخص ایم اے کی ڈگری کتنے سالوں کے بعد حاصل کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ کم از کم ۶ اسال کے بعد.تو ہم کہتے ہیں کہ جب دنیا کے علم کے لئے ۱۶ سال خرچ کرنے پڑے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا علم حاصل کرنے کے لئے ایک دن کے خرچ کرنے کے بعد ہی کیوں پوچھنے لگ جاتے ہو.پہلے دن ہی جو سکول جا کر کہے کہ میں ایم اے بن جاؤں تو وہ ہر گز نہیں بن سکتا.ایسے لوگ چند دن نماز پڑھتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ کیوں خدا تعالیٰ ہماری تائید نہیں کرتا.کیوں ہمارے دشمن ذلیل اور خوار نہیں ہو جاتے.لیکن کتنے تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ اتنی جلدی روحانیت میں کمال پیدا ہو جانے کی خواہش کی جاتی ہے.کھیت کے تیار ہونے کے لئے مہینوں انتظار کیا جاتا ہے.ایم اے بننے کے لئے ۱۶ سال محنت اور کوشش کی جاتی ہے.بچہ نو مہینے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور پھر کون سی ایسی چیز ہے جو بغیر محنت اور کوشش کے اور بغیر وقت کے میسر آسکتی ہے.ہر ایک بڑی نعمت کے ساتھ کچھ دکھ اور تکالیف بھی ہوتی ہیں.پس تم یا درکھو کہ جس طرح دنیا کے تمام کاموں میں محنتیں اور متواتر منتیں کرنی پڑتی ہیں اسی طرح دین کے کاموں
برکات خلافت 161 میں بھی ہوتا ہے اور جس حد تک کوئی زیادہ محنت کرتا ہے اسی حد تک وہ زیادہ ثمرات حاصل کرتا ہے.کوئی کہے کہ پھر اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کیا ہے جبکہ کامیابی انسان کی اپنی محنت اور کوشش پر ہے تو اس کو ہم بتاتے ہیں فرق یہ ہے کہ اگر ایک آدمی بٹالہ کی طرف جو سڑک جاتی ہے اس پر بٹالہ پہنچنے کے لئے چل پڑے تو خواہ وہ دو چار کو س چل کر تھک جائے پھر بھی پہنچ ہی جائے گا.لیکن اگر کوئی دوسری طرف چل پڑے تو خواہ ساری عمر ہی چلتا رہے پھر بھی کبھی بٹالہ نہیں پہنچ سکے گا.پس تم بھی اگر سید ھے راستہ پر جو کہ میں نے بتایا ہے چلو گے تو منزل مقصود تک پہنچو گے ورنہ نہیں پہنچ سکو گے.نیت کئے بغیر کبھی تمہیں خدا نہیں ملے گا.اور جو نیت کر لے گا اس کو رفتہ رفتہ مل ہی جائے گا.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْـنَـا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - (العنكبوت:٧٠) کہ وہ لوگ جو ہمارے رستہ میں ہمارے متعلق اپنے نفس سے ہر وقت جہاد اور لڑائی کرتے ہیں اور بدی سے لڑتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم اپنے تک پہنچنے والے راستوں پر پہنچائیں گے.اس جگہ ایک نکتہ یادر کھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ یہاں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے سُبُلَنَا یعنی ہمارے رستے لیکن ایک جگہ فرمایا ہے وَإِنَّ هَذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْماً (الانعام:۱۵۴) یعنی صرف یہی ایک راستہ ہے جو مجھ تک سیدھا پہنچتا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ بہت سے راستے جھوٹے ہوتے ہیں لیکن سُبُلَنا سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے بھی کئی راستے ہیں سو ان دونوں آیتوں میں یوں تطبیق ہوتی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا راستہ آجاتا ہے اور اس کے بعد تیسرا اور اس طرح بہت سے راستے بن جاتے ہیں ورنہ ایک
برکات خلافت 162 دوسرے کے مقابلہ میں بہت سے راستے نہیں ہیں.ہاں چونکہ ایک کے بعد دوسرا راستہ ہے اس لئے ان راستوں کے طے کرنے کے لئے سخت محنت کی بھی ضرورت ہو گی تب تم جا کر منزل مقصود پر پہنچو گے.پس اسی جہاد کرنے کی تمہیں ضرورت ہے.اس کے لئے قرآن نے جو طریق بتائے ہیں وہ میں بیان کرتا ہوں.(۱) نماز ہے.پانچ وقت جو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اگر اس کی ذرا بھی نیت نیک ہو تو خدا اس کو کیا سے کیا بنادیتا ہے.(۲) زکوۃ ہے جو شخص سال میں ایک دفعہ اپنے مال میں سے خدا کے حکم کے ماتحت کچھ نکالتا ہے اسکے اندر اس بات کا احساس رہتا ہے کہ وہ اپنا مال خداوند تعالیٰ کے لئے قربان کر سکتا ہے.(۳) روزہ ہے.اس میں اپنے اوپر تکلیف اٹھا کر خدا تعالیٰ کی مرضی کو مقدم کرنے کا سبق ملتا ہے.(۴) حج ہے.اس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مرضی کے لئے عزیزوں ، رشتہ داروں ، وطن ، مال و اسباب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنا پڑے تو انسان چھوڑ سکے.اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ اور علاج یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم لوگوں کو ظلمتوں سے نکالتا ہے غفلت اور ستی تاریکی میں زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ دن کو نیند کم آتی ہے.قرآن شریف کے مطالعہ سے ایک بیداری اور ہوشیاری پیدا ہو جاتی ہے.مگر اس کے مطالعہ کرنے میں بڑے غور اور تدبر کی بھی ضرورت ہے تا کہ ترجمہ کرنے میں انسان ٹھوکر نہ کھا جائے.تم قرآن شریف کا ترجمہ کرنے میں ان باتوں کو یاد رکھو.(۱) کسی آیت کے ایسے معنی نہ کرو جو دوسری آیتوں کے خلاف ہوں.متشابہ آیات کو محکم کے ماتحت لا کر معنی کرنے چاہئیں.(۲) کسی آیت کے ایسے معنی نہ کرو جو آنحضرت مے
برکات خلافت 163 کے بتائے ہوئے معنوں کے خلاف ہوں.(۳) جو معنی لغت عرب کے خلاف ہوں وہ بھی نہ کرو.(۴) جو معنی صرف ونحو کے خلاف ہوں وہ بھی نہ کرو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو صرف و نحو کی کیا پرواہ ہے وہ کسی کے بنائے ہوئے قاعدوں کا پابند نہیں ہے.لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ کو پرواہ نہیں ہے.لیکن ہم انسانوں کو تو ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی کلام ایسی نہیں ہے جو ہم سمجھ سکیں تو اسکا فائدہ کیا.قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ کے یہ معنے کہ اللہ منوا کر چھوڑ دو.منکر ان خلافت کے امیر مولوی محمد علی صاحب نے صرف ونحو کی لاعلمی سے ہی کئے ہیں اللہ پر پیش ہے.لیکن زبر سمجھ لی گئی اور یہ معنی کر دیئے گئے.(۵) حضرت مسیح موعود جو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم اور عدل ہو کر آئے تھے ان کے کئے ہوئے معنوں کے بھی خلاف نہیں ہونے چاہئیں.(۶) جن معنوں کی کوئی آیت تصدیق نہ کرتی ہو اور وہ عقل کے خلاف ہوں وہ بھی نہ کر وہاں اگر نص صریح بتا دے تو پھر اس میں عقل کو مت دخل دو.البتہ جو استدلال کیا جائے اس میں عقل کا دخل ہونا چاہئے.(۷) کوئی معنے ایسے نہ کرو جو خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں فرق ڈالنے والے ہوں.میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس پر مفصل تقریر کرتا کہ کس طرح قرآن شریف کے صحیح معنے کئے جا سکتے ہیں.لیکن نہ وقت ہے اور نہ ہی بوجہ حلق کی تکلیف کے طاقت ہے اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر سہی.پھر خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْراً كَثِيراً وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَأَصِيْلا O هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَ مَلْئِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّوْرِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ
برکات خلافت 164 رَحِيماً - (الاحزاب : ۴۲ ۴۴ ) یعنی اے مومنو اللہ کو بڑا یاد کرو.اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرو.وہی اللہ ہے جو تم پر رحمت کرتا ہے اور اسکے ملائکہ بھی تمہارے لئے دعا کرتے ہیں تا کہ تم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے اور اللہ مؤمنوں کے لئے بڑا رحیم ہے.رسول کریم ﷺ نے اس کے ماتحت کئی دعائیں مقررفرمائی ہیں.”سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ.اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي الَيْكَ وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجى مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِيْ أَنْزَلْتَ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.(بخاری کتاب الدعوات باب النوم على الشق الايمن ) اس دعا کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مؤمن رات کو پڑھ کر سور ہے اور اس کے بعد کوئی کلام نہ کرے.تمہیں ترقی کرنے کے لئے ان کو ضرور پڑھنا چاہئے.اب میں اس کے معنی بیان کرتا ہوں انسان کہتا ہے کہ الہی میں اپنا سب کچھ آپ کے سپرد کرتا ہوں اپنی جان بھی آپ کے ہی حوالہ کرتا ہوں اب میں سونے لگا ہوں معلوم نہیں زندہ اٹھوں گا یا نہیں اس لئے اپنے سارے کام آپ کے حوالہ کئے دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ ہی سے مجھے انعام ملے گا اور اگر میں اس کے خلاف کروں گا تو سزا ملے گی اور میرے لئے اور کوئی جگہ نہیں ہے کہ بھاگ کر تیری سزاؤں سے بچ سکوں سوائے اس کے میرا کوئی چارہ نہیں کہ تجھ ہی سے مارکھا کر تیرے ہی آگے گروں.خدا یا گواہ رہیو کہ جو کتاب آپ نے نازل کی ہے میں اس پر اور وہ نبی جو آپ نے بھیجا ہے اس پر ایمان لایا.
برکات خلافت 165 غرض رسول کریم ﷺ نے اس قسم کے بہت سے اذکار مقرر فرمائے ہیں.مگر ہماری جماعت کی اس طرف بہت کم توجہ ہے تم اس طرف توجہ کرو.مگر نیت اور ارادہ ساتھ ہو سب کام خدا تعالیٰ کو مد نظر رکھ کر کرو اللہ تعالیٰ ہماری ساری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ نیک اور متقی ہو جائے.دنیا سے غفلت دور ہواور لوگ پھر اس پیارے کا چہرہ دیکھ لیں جس کو دیکھ کر اور کسی کی طرف کوئی جانہیں سکتا.آمین