Language: UR
برگ سبز لیست تخفه درویش عبد الباسط شاید
نام کتاب مصنف برگ سبز عبدالباسط شاہد - لندن سال اشاعت : $2017 سرورق ڈیزائن : عطیہ واسع اہتمام اشاعت : محی الدین عباسی سینئر صحافی و تجزیہ نگار رابطہ : BARG-E-SABZ A Collection of Articles by Abdul Basit Shahid - London Abbasi Academy 24 Gresham Way SW19 8ED London - U.K Ph.: +44-794-007-7825 m.abbasi.uk@gmail.com
انتا برگ سبز خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت کا عظیم انعام جماعتی اتفاق و اتحاد کی ضامن مومنوں کے ایمان اور یقین کی شاہد خلافت کے نام 3
برگ سبز مکتوب مبارک حضرت اقدس خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واجعل لي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا انا قاعد لَكَ فَتْحًا لين تركم الله يبذر و نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمَ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ المَوْعُود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر امام جماعت احمدیہ لندن z-08/12/16 مکرم عبد الباسط شاہد صاحب السلام عليكم ورحمتہ اللہ و برکاته آپ کی کتاب ” قسمت کے شمار موصول ہوئی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اسے جستہ جستہ دیکھا ہے.ماشاء اللہ توجہ کھینچنے والے واقعات اور اقتباسات ہیں.اللہ تعالیٰ پڑھنے والوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.بہت سے علمی، تربیتی اور واقعاتی پہلوؤں پر مشتمل کتاب ہے.اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت مفید اور بابرکت فرمائے اور آپ کے علم و عرفان کو مزید بڑھاتا رہے.آمین والسلام خاکسار وزاسه خليفة المسيح الخامس 4
برگ سبز عرض حال فقیرانہ آئے..رحمتہ للعالمین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی نازک کشتی کو دنیا کے سمندر میں اُتارتے ہوئے جو پیش خبریاں عطافرمائی تھیں ان کے مطابق تمام بچکولوں اور طوفانوں کے باوجود تین سوسالوں کی کامیابیوں اور ہزار سالہ بچی اور گمراہی کے بعد بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑ دیا گیا: دوستو اس یار نے دیں کی مصیبت دیکھ لی آئیں گے اس باغ کے اب جلد لہرانے کے دن امام مہدی کا ان پیش خبریوں کے مطابق ظہور ہوا.انتظار اور بظاہر نا کامیوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی امت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی.کچھ خوش قسمت لوگوں نے امام مہدی سے وابستگی کو سعادت و خوش بختی سمجھا مگر دوسرے حصے نے مخالفت پر کمر باندھی.بظاہر اس حصہ کا شور اور طوفان تباہ کن نظر آتا تھا مگر الہی سنت و منشاء کے مطابق روئیدگی کی سبز کو نیل بہت کمزوری کی حالت میں نمودار ہوئی اور چاند کی خنکی اور چاندنی کی طرح آہستہ آہستہ پھیلنے لگی.امام مہدی کی آمد سے تبلیغ و تربیت اور رشد و اصلاح کا وسیع میدان کھل گیا یہ اتنا وسیع اور متنوع پروگرام تھا کہ انسانی وسعت و ہمت اس کے سامنے بے کار نظر آتی تھی تاہم خدائی تائید و نصرت کے نظارے دنیوی انداز وطریق پر غالب آتے رہے.ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 5
حقیقت ثابتہ کی طرح ظاہر ہوتی رہی.برگ سبز خاکسار کے اجداد کو امام مہدی سے وابستگی کی سعادت حاصل ہوئی.دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب اور نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب اصحاب مہدی زماں“ تھے.خاکسار کے والدین کو درویشی کی سعادت سے حصہ ملا اور مسابقت فی الخیرات کا موقع ملا.اس خاکسار کو بھی اس خدائی عالمی تحریک میں گمنام سپاہی کی طرح جہاد کی توفیق ملی.خلافت کی بہت سی برکات میں سے ایک برکت کے طور پر مضامین کا مجموعہ قسمت کے شمار پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.احباب واعزا نے بالعموم حوصلہ افزائی فرمائی تاہم حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی از راہ شفقت حوصلہ افزائی ایک نعمت غیر مترقب فقیر کی جھولی میں لعل بے بہا ثابت ہوئی جس سے حوصلہ پا کر مضامین کا دوسرا مجموعہ برگ سبز، پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں.میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے 60 خاکسار ادنی غلام عبدالباسط شاہد
برگ سبز حرف تعارف مکرم و محترم مولانا عطاء الجيب راشد صاحب مبلغ انچارج برطانیہ وامام مسجد فضل لندن) قارئین کو ” برگ سبز مبارک ہو کہ اس وقت ان کے ہاتھ میں ایک بہت دلچسپ ،مفید اور معلوماتی کتاب ہے.اس کے مؤلف محترم مولانا عبدالباسط شاہد صاحب ہیں جو ایک لمبے عرصہ تک مختلف جماعتی خدمات میں مصروف رہے ہیں.ان دنوں بالخصوص تصنیفی کام سرانجام دے رہے ہیں.اس کتاب میں فاضل مؤلف نے ان متفرق مضامین کو جمع کیا ہے جو آپ نے لکھے اور مختلف جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں.یہ مجموعہ مضامین بہت متنوع قسم کے معلوماتی مضامین پر مشتمل ہے.اس میں جماعت کی متعدد بزرگ شخصیات کا بھی ذکر ہے.مختلف ادبی کتب کا جامع تعارف بھی ہے.قادیان اور ربوہ کا دلچسپ احوال بھی ہے.مختلف تربیتی موضوعات پر مختصر مگر جامع مضامین بھی ہیں.فاضل مؤلف کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ میدان تبلیغ میں گزرا.اس حوالہ سے آپ نے مختلف تبلیغی واقعات کا ایمان افروز انداز میں ذکر فرمایا ہے.یہ حصہ داعیان الی اللہ کیلئے بیحد مفید ثابت ہو سکتا ہے.مؤلف نے اپنے دلچسپ حالات زندگی کا بھی تذکرہ کیا ہے.جماعتی تاریخ کے اہم واقعات کا ذکر بھی اس کتاب میں شامل ہے.الغرض یہ ایک ایسی کتاب ہے جو متفرق اور متنوع موضوعات کا ایک مفید مجموعہ ہے.فاضل مؤلف کو اللہ تعالیٰ نے سادہ اور رواں انداز میں اظہار خیال کا جو ملکہ عطا فرمایا ہے ، اس کا ایک حسین نمونہ اس کتاب میں نظر آتا ہے.7
برگ سبز میں نے اس کتاب کے مسودہ کو پڑھنا شروع کیا تو کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوئی کہ دیر تک پڑھتا چلا گیا اور پھر ایک دو بار کی نشستوں میں ساری کتاب مکمل کرنے کی توفیق مل گئی.امید کرتا ہوں کہ اس کتاب کے معزز قارئین کا تجربہ بھی کچھ اس قسم کا ہوگا.اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت بہت بابرکت فرمائے اور قارئین کرام کو بھی بھر پور استفادہ کی توفیق دے.آمین.اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کی اس تصنیفی کوشش کو قبول فرمائے اور جزائے خیر عطا فرمائے.خاکسار عطاء المجیب راشد *2017*27 8 00 مبلغ انچارج برطانیہ وامام مسجد فضل لندن
برگ سبز معرفت کا ذخیرہ.روحانیت کی قندیل مکرم ومحترم سر ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب-OBE & KBE) ہمارے مبلغین گلزار احمدیت کے خوبصورت پھول ہیں جن کی مہک دلوں کو معطر اور مطہر کرتی ہے.یہ ایسی شمعیں ہیں جو قریہ قریہ کفر کی ظلمتوں کو مٹا کر اسلام احمدیت کی روشنی پھیلا رہی ہیں.ان میں مولانا عبد الباسط شاہد صاحب جیسے مبلغ بھی ہیں جنہیں احمدیت کی بے شمار روحانی قندیلوں سے روشنی حاصل کرنے کے مواقع نصیب ہوئے اور اب اس سرمایہ حیات کو انہوں نے فیض عام کیلئے ” برگ سبز میں پیش کیا ہے.آپ کے قلمی جواہر اخبارات اور رسائل میں تو پڑھتے رہتے ہیں لیکن ” برگ سبز“ کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ انہوں نے کس قدر محنت سے اپنی زندگی کے خوبصورت پھولوں کو چن کر یہ برگ تیار کیا ہے.اس کے مضامین میں آپ کے عمیق مشاہدے، احساسات ، تجربات اور مطالعے کا دلنشیں نکھار نظر آتا ہے.اس میں انہوں نے بزرگانِ سلسلہ کے ساتھ اپنے تعلقات، مکالمات اور احساسات کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ بہت سے مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور ادبی مضامین کا بھی نہایت گہرائی کے ساتھ احاطہ کیا ہے جو قارئین کیلئے بیش بہا معلومات مہیا کرتا ہے.میں اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنے اس شاہکار پر تبصرے کی دعوت دی ہے اور اس طرح مجھے اس تاریخی خزانے سے مستفید ہونے کا موقع مل گیا ہے.اتنے اہم اور سبق آموز موضوعات کو یکجا کر کے اس قسم کی کتاب میں نے نہیں دیکھی 9
برگ سبز جس میں احمدیت کے نامور ستاروں کے بارہ میں معلومات کا ایک وسیع اور عمیق سمندر موجزن ہو.مولانا عبد الباسط صاحب یقیناً اس کیلئے مبارک باد کے مستحق ہیں.آپ ایک زود نویس قلم کار ہیں اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں مہارت رکھتے ہیں جو تعلیم و تربیت کی فضا کیلئے ایک خوشگوار جھونکے سے کم نہیں.مولانا عبد الباسط صاحب سے میری گزشتہ پچاس سال سے شناسائی ہے.مجھے اِن کے زیر تربیت جماعتی خدمات کا موقع بھی ملا ہے.نہایت مخلص محنتی ،شفیق اور نیک انسان ہیں.مبلغ اسلام اپنی ذات میں ایک کا ئنات ہوتا ہے اور کائنات کو اپنی ذات کی تجلیوں سے منور کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے.یہ ساری باتیں مولا نا عبدالباسط صاحب کی فطرت کا ایک لامتناہی پہلو ہیں.یہ کتاب واقعی معرفت کا ذخیرہ ہے بلکہ روحانیت کی قندیل ہے.خدا تعالیٰ مولانا موصوف کو صحت والی لمبی عمر دے تا کہ دنیا آپ کے علم و عمل سے مستفید ہوتی رہے.آمین.ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز - (کے بی ای ، اوبی ای) 13 رمضان المبارک 1438 سابق امیر جماعت احمدیہ برطانیہ 10
برگ سبز تبصره - برگ سبز مکرم و محترم مولانا منیر الدین شمس صاحب - ایڈیشنل وکیل الاتصنیف ،لندن) محترم مولانا عبد الباسط شاہد صاحب کے مفید و علمی مضامین کا دوسرا مجموعہ ” برگ سبز“ بھی ” قسمت کے شمار کی طرح متنوع و دلچسپ اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ہے.یہ مضامین مختلف اوقات میں الفضل ربوہ اور الفضل انٹر نیشنل کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں.مؤلف بفضل خدا جماعتی تاریخ ، روایات اور اقدار کا گہراعلم رکھتے ہیں.اور ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ نئی نسلوں کیلئے یہ عمدہ مضامین کتابی صورت میں شائع کر رہے ہیں.اس مجموعہ مضامین کا تنوع قاری کو مسلسل اپنی طرح کھینچے رکھتا ہے اور امید ہے کہ جماعت کی تاریخ، بزرگان سلسلہ کی سیرت کے واقعات اور دیگر متفرق تعلیمی وتربیتی عناوین پر لکھے گئے مضامین نہایت پر اثر اور مفید ثابت ہوں گے.کتاب کی ایک خصوصیت ان مضامین کا مختصر مگر جامع ہونا ہے.مؤلف کو غیر ضروری طول سے اجتناب کرتے ہوئے مؤثر اور ٹھوس کلام ضبط تحریر لانے کا ملکہ حاصل ہے.محترم مولانا عبد الباسط شاہد صاحب کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لمبے عرصہ سے سلسلہ کی خدمت کی سعادت مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی عمر وصحت میں برکت عطا فرمائے اور سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کا وارث بناتے ہوئے علم وعرفان میں ترقی سے نوازے.آمین.خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف لندن 11
صفحہ نمبر 3 4 5 7 11 17 22 22 27 48 52 52 56 برگ سبز بسم اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فہرست مضامین - برگ نمبر شمار مضامین انتساب مکتوب مبارک سید نا حضرت اقدس خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عرض حال - فقیرانہ آئے..حرف تعارف از محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب، امام مسجد فضل لندن الله معرفت کا ذخیرہ، روحانیت کی قندیل 2 3 از محترم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب، کے بی ای او بی ای تبصرہ محترم مولانا منیر الدین شمس صاحب، ایڈیشنل وکیل الاتصنیف لندن 1 اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما جنگ عظیم سے بڑا منصوبہ دلچسپ تبلیغی مواقع خط و کتابت.پرانی یادیں 5 دو بزرگ دو کتابیں 6 احمد یہ چوک قادیان 12
62 68 74 98 86 92 80 80 96 96 101 105 114 119 125 129 134 139 143 147 150 155 اخلاص و محبت کی پرانی یادیں دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو برگ سبز میرا قادیان بہائیت اور اسلام 7 8 9 10 11 12 13 حقیقت صلیب یسوع مسیح کی تین مزعومہ خصوصیات اور انجیل ” ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں“ تم ہمیں دیتے ہو کا فر کا خطاب.کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عقاب 14 " گر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے 15 رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز ! 16 مجھ پہ بے حد ہے کرم اے مرے جاناں تیرا 17 حیات فیض 18 19 حضرت شیخ نور احمد صاحب میرٹھی عظیم زندگی 20 ذكره 21 ایک مفید کتاب.جماعت احمدیہ کا تعارف 22 تبصرہ کتاب : گمنام و بے ہنر 23 24 کتاب الآداب آواز دوست 25 میری یادیں 13
160 166 169 173 176 180 183 190 196 199 203 210 215 219 222 228 232 236 26 انعامات خداوند کریم 27 التقوى 28 ملاقاتیں کیا کیا! 29 مضامین لطیفه برگ سبز 30 ایک مؤثر نصیحت.ایک بہترین لائحہ عمل 31 حضرت پیر صوفی احمد جان صاحب بیلی عنہ 32 محترم شیخ عمری عبیدی صاحب (سابق وزیر قانون تنزانیہ ) کا ذکر خیر 33 مکرم مولا نا محمد منور صاحب 34 حضرت چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی 35 وقف جدید - ایک اور بابرکت تحریک 36 | تحریک جدید اور جماعت کا اخلاص و قربانی 37 ایک بھیانک غلطی.ایک ضروری اصلاح 38 روئیداد جلسہ جو بلی 1939ء 39 جلسہ سالانہ - استقبال والوداع 40 السلام علیکم.راضی خوشی آئے.خیر وعافیت سے آئے“ ( قادیان واپسی سے متعلق حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات کا تذکرہ) پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں“ 14 رمضان قسمتیں سنوار نے والا مہینہ تعمیر مسجد 42 43
240 245 249 253 256 260 264 268 273 279 284 290 294 298 301 برگ سبز 44 جسمانی صحت 45 ہماری تاریخ 46 بے لوث خدمت و ایثار 47 حضرت اصلح الموعودؓ کا آہنی عزم وحوصلہ 48 تصویر کے دورخ 49 ایک اور دردناک شہادت 50 اندر کا دشمن 51 حفظان صحت 52 انتہا پسندی 53 حقیقی عید 54 الصلح خیر صلح ہی بہتر ہے 55 56 بہتر اخلاق.بہتر معاشرہ بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے 57 آپ نے کیا جلایا ؟ خادم دین ایک نظر میں 15
برگ سبز مبلغ کی صدائے دل مرے مولی رہ تبلیغ اک پر خار منزل ہے دلوں کے زنگ دھونے کا فریضہ سخت مشکل ہے سیاسی ظلمتوں کے بحر طوفاں خیز میں ہر سو نہ کشتی ہے نہ کشتی ہاں نہ علم سمت ساحل ہے ملک بیگانه اکیلا ہوں زباں نا آشنا ہے نہ میری معرفت کامل نہ میرا علم کامل ہے وطن بیگانہ مرشد سے جدا احباب سے دوری میرے رستے میں روکیں ہیں حجاب علم حائل ہے علوم ظاہری سے مغربی اقوام سرگشته سمجھتے ہیں کہ یہ ہندی ہے اس کا ملک جاہل دلوں میں ان کے گھر کرنا رہ اسلام پر لانا ہے ہے تسلی تو خدایا سخت مشکل ہے خدایا سخت مشکل اب اتنی ہے کہ تیرا بندہ عاجز دعائے مرشد و احباب میں ہر وقت شامل ہے بھروسہ تیری رحمت پر سہارا تیری نصرت کا تمنا یہی سرمایہ ہمت یہی تو قوت دل ہے ہے نہ بھولیں احمدی ہم کو دعاؤں میں اگر یہ بات حاصل ہے تو سب کچھ ہم کو حاصل ہے ( حضرت ذوالفقار علی گوہر صاحب) 16
برگ سبز ”اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت.اس پر ایمان وایقان اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا توکل و اعتماد دعا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.خدائی فضلوں اور احسانات کا مورد بننے کے لئے رحمتوں اور برکتوں کو جذب کرنے کیلئے دعا ہی مفید و کارآمد ہے.نیک مقاصد کا حصول بھی اس کے بغیر ممکن نہیں.دین کی اشاعت اور غلبہ کو اپنا بنیادی مقصد قرار دینے اور اس کے حصول کی خاطر دعا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: ”اے ہمارے رب تیرے بھولے بھٹکے بندوں کو ہم تیرے آستانہ پر لاسکیں.سب سے پہلے اپنے نفس کو.پھر اپنے اہل وعیال کو پھر دوستوں کو پھر ساری دنیا کے لوگوں کو جو صرف نام کے بندے ہیں تیرے حقیقی بندے بنا سکیں.جن کے دل سیاہ ہیں ان کے دل سفید کر دیں.تا کہ قیامت کے روزان کے چہرے کالے نہ ہوں.بلکہ بے عیب و روشن ہوں.تو ہم سے خوش ہو جائے کہ ہم تیرے گمراہ بندوں کو تیرے آستانہ پر لائے اور ہم تجھ سے خوش ہوں کہ تو 17
برگ سبز ہم سے راضی ہو گیا...میں دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کراسی طرح جس طرح میں نے ابھی کہا ہے دعا کریں.بے شک اپنے لئے بھی دعا کریں مگر دین کی اشاعت اور غلبہ کیلئے ضرور دعا کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو.“ (الفضل یکم جنوری 1942 ء ) اپنی اولا داور جماعت کیلئے ایک جامع دعا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں : ”اے میرے رب تو کتنا پیارا ہے.نہ معلوم میری موت کب آنے والی ہے اس لئے میں آج ہی اپنی ساری اولا د اور اپنے سارے عزیز واقارب اور احمدیہ جماعت تیرے سپر د کرتا ہوں.اے میرے رب تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہو جائیں.میری آنکھیں اور میری روح ان کی تکلیف نہ دیکھیں.یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کر دیں اور نیک نسلیں چھوڑ کر جوان سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں.“ (سیرت ام طاہر بنی انتہا.صفحہ 276) قبولیت دعا اور تائید الہی کا ایک نہایت لطیف واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ لمسیح الثانی فرماتے ہیں : اصل بات یہ ہے کہ دلیری بڑی چیز ہے تم موت کیلئے تیار ہو جاؤ موت تم سے بھاگنے لگے گی.جیل خانوں کیلئے تیار ہو جاؤ تو مارنے والے تم سے دور بھاگنے لگیں گے.پس دلیر بن جاؤ اور یقین رکھو کہ ہر چیز تمہاری خادم ہے اور تمہیں کوئی چیز گزند نہیں پہنچا سکتی.اسی کی طرف...اشارہ ہے کہ ” آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ نہ صرف ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ یعنی چونکہ 18
برگ سبز ہم آگ سے ڈرتے نہیں اس لئے آگ نہ صرف ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے.سچی بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ ہم نے کسی سے نہیں ڈرنا تو تمام قو میں اس سے ڈرنے لگتی ہیں پس اپنے دلوں سے بزدلی نکال دو اور یا درکھو کہ جس دن تم نے بزدلی دور کر دی اسی دن تمام قو میں تم سے ڈرنے لگیں گی.پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں بھی کرو.جب اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہوں اس وقت ایسے ایسے رنگ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ابھی چند دن پہلے کا واقعہ ہے مجھے ایک مشکل در پیش تھی اور میرے ذہن میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا.طبیعت میں ایک قسم کی گھبراہٹ تھی اور میں حیران تھا کہ کیا کروں.دل میں خیال آیا میں نے کاغذ اور قلم رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی میرے پاس اس مشکل کا کوئی حل نہیں اور میرے واہمہ میں بھی نہیں آتا کہ میں اس کا کیا حل نکالوں تو خود ہی اپنے فضل سے میری رہبری فرما.صرف ایک منٹ میں نے دعا کی ہوگی.پھر میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا.ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ مشکل جس کا حل میرے واہمہ میں بھی نہیں آتا تھا حل ہوگئی.یعنی پانچ منٹ کے اندر ہی میرے دروازے پر دستک ہوئی اور جس مشکل کی وجہ سے میں گھبرا رہا تھا اس کا حل حاصل ہو گیا.پس جو اللہ تعالیٰ کے حضور گرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اعانت کرتا ہے.صرف اللہ تعالیٰ کی مد کا پورا یقین ہونا چاہئے اور جس وقت یقین سے دعا کی جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سے رد نہیں کی جاتی بلکہ قبول ہو جاتی ہے.“ الفضل 11 جون 1931 ء ) 19
برگ سبز اپنے ایک خطاب کے آخر میں دعا کی تلقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: دوپس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عظمت اور اپنے جلال اور اپنی بے انتہا قدرتوں کا مظہر بنادے اور اس کی شان اور عظمت تمام دنیا اور اس کے ہر گوشہ میں ظاہر ہو.اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے لئے اور اس کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیں اور ہماری نسلوں کو بھی توفیق عطا فرمادے اور کوئی وسوسہ ہمیں اس سے جدا نہ کر سکے.وہ ہمارا ہو اور ہم اس کے ہو جا ئیں.آمین.“ ( الفضل 3 جنوری 1925 ء ) تقسیم ملک سے قبل قادیان کے آخری جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خدا تعالیٰ سے اس طرح التجا کی: ” ہمارا ذہن اور ہماری ذمہ داری ہمیں اس طرف بلاتی ہے کہ باوجود اس کے وعدوں کے ہم اپنی کمزوریوں اور بے بسیوں کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اس سے التجا کریں کہ اے ہمارے رب تو نے ہمیں ایک ایسے کام کیلئے کھڑا کیا ہے جس کے کرنے کی کروڑواں اور ار بواں حصہ بھی ہم میں طاقت نہیں.اے ہمارے رب تو نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم اپنے غلام سے کوئی ایسا کام لوجو اس کی طاقت سے باہر ہو تو خود اس کے ساتھ مل کر کام کرو ور نہ اس سے ایسا کام نہ لو.اے ہمارے رب تو نے جب اپنے بندوں کو جن کی طاقتیں محدود ہیں یہ حکم دیا ہے کہ کسی کے سپر دکوئی ایسا کام نہ کرو جو اس کی طاقت سے بالا ہو تو اے ہمارے رب تیری شان اور تیرے فضل اور تیری رحمت سے ہم کب یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ تو ایک ایسا کام ہمارے سپر د کرے گا جو ہماری 20
برگ سبز طاقت سے بالا ہو گا لیکن خود ہماری مدد کے لئے آسمان سے نہیں اترے گا.یقیناً اترے گا اور ہماری مدد کرے گا اور ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے فضلوں کو بڑھاتا جا.اپنی رحمتوں کو بڑھاتا جا.اپنی برکتوں کو بڑھاتا جا یہاں تک کہ ہماری ساری کمزوریوں کو تیرے فضل ڈھانپ لیں اور ہمارے سارے کام تیرے فضل سے اپنی تکمیل کو پہنچ جائیں تا کہ تیرے احسانوں میں سے ایک یہ بھی احسان ہو کہ جو کام تو نے ہمارے سپرد کیا تھا اسے تو نے خود ہی سرانجام دے.کام تیرا ہو اور نام ہمارا ہو.آؤ ہم اپنے رب سے یہ دعا کریں کہ خدا اپنی رحمتوں اور اپنے فضلوں اور اپنی برکتوں کے دروازے ہم پر کھول دے.“ (الفضل 1946-12-27) (روز نامہ الفضل ربوہ 15اپریل 1995ء) 21
برگ سبز جنگ عظیم سے بڑا منصوبہ تحریک جدید کے ذریعہ جس عظیم الشان تغیر و انقلاب کی داغ بیل ڈالی گئی تھی اس کی عظمت و اہمیت کے مطابق جانی و مالی قربانی پیش کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ جنگ عظیم کی مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو...جنگ عظیم میں دو کروڑ آدمی مارے گئے یا زخمی ہوئے.اربوں ارب روپیہ خرچ ہوا تھا.صرف انگریزوں کا 2 کروڑ روپیہ روزانہ صرف ہوتا تھا مگر ہمارے لئے اس سے بڑھ کر جنگ در پیش ہے کیونکہ ہمارا کام دلوں کو فتح کرنا اور انسانوں کی عادتوں اور اخلاق اور خیالات کو بدلنا ہے.ہم جب تک اپنے اوقات اور اپنے اموال کو ایک حد بندی کے اندر نہ لے آئیں اور اس کے بعد خدا ا تعالیٰ سے عرض نہ کریں کہ اے خدا تو نے ہمیں بلایا اور ہم تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں اس وقت تک سب دعوے باطل اور امنگیں اور خواہشیں بے سود ہیں اور کوئی چیز ہمیں فائدہ نہیں دے سکتی.خالی دعوئی تو پاگل بھی کرتا ہے لیکن اس کے دعووں کو کون وقعت دیتا ہے کیونکہ وہ جو کہتا ہے کرتا نہیں ہے اور عمل کے بغیر کوئی 22
ترقی نہیں ہو سکتی.برگ سبز ( میں ) اللہ تعالیٰ پر اس تحریک کی تکمیل کو چھوڑتا ہوں کہ یہ کام اسی کا ہے اور میں صرف ایک حقیر خادم ہوں.لفظ میرے ہیں مگر حکم اس کا ہے.وہ غیر محدود خزانوں والا ہے.اسے میرے دل کی تڑپ کا علم ہے اور اس کام کی اہمیت کو جو ہمارے سپرد ہے، وہ ہم سے بہتر سمجھتا ہے.پس میں اسی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے سینوں کو کھولے اور ان کے دلوں کے زنگ کو دور کرے تا وہ ایک مخلص اور باوفا عاشق کی طرح اس کے دین کی خدمت کیلئے آگے بڑھیں اور دیوانہ وار اپنی بڑی اور چھوٹی قربانی کو خدا تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالیں اور اپنے ایمان کا کھلا ثبوت دے کر دشمن کو شرمندہ کریں اور اس کی ہنسی کو رونے سے بدل دیں اور نہ صرف یہ مالی قربانی کریں بلکہ دوسرے مطالبات جو جانی اور وقتی قربانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ان میں دل کھول کر حصہ لیں.“ (الفضل 19 نومبر 1935ء) مقصد کی اہمیت، کام کی وسعت اور واقفین کی بکثرت ضرورت کے متعلق نہایت یقین و وثوق کے ساتھ وجدانی حالت و کیفیت کے ساتھ حضرت صاحب فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ کرنے کیلئے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے.جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتا ہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کیلئے مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں.کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں کہ اتنے مبلغوں سے کام نہیں بن سکتا.اس سے بھی زیادہ مبلغ چاہئیں.یہاں تک 23
برگ سبز کہ بعض دفعہ میں نہیں لاکھ تک مبلغوں کی تعداد پہنچا کر میں سو جایا کرتا ہوں.میرے اس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلی میں ہوں.مگر مجھے اپنے خیالات اور اندازوں میں اتنا مزا آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دور ہو جاتی ہے...اپنے ان مزے کی گھڑیوں میں میں نے ہیں ہیں لاکھ مبلغوں کو تجویز کیا ہے.دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے.مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے.لوگ بے شک شیخ چلی کہہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے ان خیالات کا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ فضا میں ریکارڈ ہوتا چلا جارہا ہے.اور وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے ان خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دے گا.آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سو سال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے ان ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلغ تیار کر دے گا ، پھر اللہ تعالیٰ کسی اور بندہ کو کھڑا کر دے گا جو مبلغوں کو دو لاکھ تک پہنچا دے گا.پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کو دیکھ کر مبلغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا.اس طرح قدم بہ قدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے 20 لاکھ مبلغ کام کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بے وقوفی ہوتی ہے.میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانے سے مٹ نہیں سکتے.آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ خیالات عملی 24
شکل اختیار کرنے والے ہیں.“ برگ سبز (الفضل 28 اگست 1959ء) جماعت میں صاحب حیثیت اور دنیوی طور پر معزز سمجھے جانے والے افراد کونصیحت و انتباہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: وو وہ اقوام جن کو اللہ تعالیٰ نے سیاسی عزت دی ہے اگر اپنے فرائض کو ادا کریں تو ان کی عزت قائم رہ سکتی ہے.اگر انکے اندر قربانی کا مادہ پیدا نہ ہوا تو ان کی عزت چھن جائے گی.اس وقت دنیا میں ایسے انقلابات اور تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر ان قوموں نے جو اس وقت سیاسی طور پر معزز سمجھی جاتی ہیں اپنا حصہ قربانیوں کا ادا نہ کیا تو وہ گر جائیں گی.اور وہ عزت پا جائیں گی جو اس وقت سیاسی طور پر معزز نہیں سمجھی جاتیں.قرآن مجید میں ایسی باتیں موجود ہیں جن میں پایا جاتا ہے کہ آخری زمانہ میں عزت والی قومیں گر جائیں گی اور ادنی سمجھی جانے والی معزز ہو جائیں گی.اسلام نے کسی قوم کو ذلیل قرار نہیں دیا اور قومی فرق کو تسلیم نہیں کیا.(اللہ تعالیٰ ) کے نزدیک ہر شخص اگر خدمت دین کرے تو وہ معزز اور سردار ہے مگر ان قوموں کیلئے جو سیاسی طور پر معزز سمجھی جاتی ہیں بہت شرم کی بات ہوگی.اگر وہ قربانیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے گر جائیں اور سیاسی طور پر ادنی سمجھی جانے والی قو میں آگے آجائیں.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ سیاسی طور پر معزز سمجھی جانے والی اقوام کے لوگ اپنی اولادوں کو دین کیلئے وقف کریں.وقت بہت تھوڑا ہے اور کام بہت زیادہ ہے.خدا تعالیٰ اب زیادہ انتظار نہیں کر سکتا اگر ہم سستی سے کام لیں گے تو خدا 25
برگ سبز تعالیٰ اپنے کام کیلئے کوئی اور انتظام کرے گا اور ہماری بدقسمتی پر مہر ہو جائے گی.کاش ہمارے دل اس فرض کو پورے طور پر محسوس کریں.اے عزیز و ! کاش ہمارے ایمان آج ہم کو شرمندگی سے بچا لیں.کاش ہمارے جسم ہماری روح کے تابع ہو کر ہمیں اپنا فرض ادا کرنے دیں.کاش ہمارے آج کے افعال قیامت کے دن ہم کو شرمساری اور روسیاہی سے بچا لیں...خطاب کے تسلسل میں حضرت صاحب فرماتے ہیں: فتح کا دن وہی دیکھ سکتا ہے جو جلدی چلنے کی کوشش کرے اور میرے قدم کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرے.اے میرے رب تو مجھے اور بھی زیادہ تیز چلنے کی اور جماعت کو میرے قدم سے قدم ملانے کی توفیق بخش.آمین.( الفضل 31 مارچ 1944 ء ) (روزنامه الفضل ربوه 5 دسمبر 1997ء) 26
برگ سبز دلچسپ تبلیغی مواقع قادیان میں گزرے بچپن کی خوشگوار یادوں میں ایک نمایاں امر یہ یاد آتا ہے کہ ہم بچوں میں بھی تبلیغ کا بہت شوق تھا.حضرت مصلح موعود کے خطبات وغیرہ تو اس زمانہ میں کم ہی سمجھ میں آتے ہوں گے، تاہم ان خطبات یا ماحول کے زیر اثر تبلیغی جذ بہ ضرور تھا.ہمارے محلہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو احمدیوں سے الگ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو احراری کہلانا پسند کرتے تھے.ہم احمدی بچوں کی ان کے بچوں سے باقاعدہ مجالس ہوتی تھیں.اختلافی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی.ہماری طرف سے بولنے والوں میں بڑے بھائی عبدالمجید نیاز صاحب (مرحوم) اور شیخ عبد المجید صاحب نمایاں ہوتے تھے.اس وقت کی باتیں تفصیلی طور پر تو اب یاد نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ مجلس ختم ہونے پر دوبارہ ملاقات کی تفصیل بھی زیر بحث آتی تھی اور اس طرح یہ مجالس چلتی رہتی تھیں.تبلیغ کے سلسلہ میں یہ بھی یاد آتا ہے کہ قادیان میں بڑے اہتمام سے یوم تبلیغ منا یا جاتا تھا.اس دن وفود قادیان کے نواحی دیہات میں اس غرض سے جاتے تھے اور بالعموم اس کی رپورٹ اخبار الفضل میں شائع ہوا کرتی تھی.یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 27
برگ سبز اس زمانے میں تبلیغ کی ممانعت یا زبان بندی کے کالے قوانین کا کوئی تصور نہیں تھا.تبلیغی واقعات لکھنے سے پہلے ایک اور یاد کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے.پاکستان کے ابتدائی دنوں میں جب جامعہ احمد یہ احد نگر میں ہوتا تھا تو خاکسارا ایک دفعہ لاہور سے احمد نگر جارہا تھا.سردیوں کے دن تھے.مسافر بالعموم کھیوں یا کمبلوں میں لیٹے ہوئے بیٹھے تھے.چنیوٹ سے بس آگے نکلی تو احمدیت کی بات شروع ہوگئی.بس مخالفوں سے بھری ہوئی تھی.طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں.ایک شخص نے مزاح کے رنگ میں کہا کہ انگریزوں کی نوکری کرنے والے بھی نبوت کا دعوی کرنے لگے.سب مسافر اس کی اس بات پر خوش ہو کر اسے داد دے رہے تھے.خاکساران کے سامنے ایک بچہ تھا جو اتنے مجمع میں بات کرنے سے بھی ہچکچا رہا تھا.تا ہم اس کی بات پر میں نے کہا کہ سورہ یوسف میں حضرت یوسف کی کسی بادشاہ کی نوکری کا ذکر آتا ہے.میری بات ماحول کے خلاف تھی ایک دم سناٹا اور خاموشی سی ہوگئی.پھر ایک معمرد یہاتی جو کھیس کی بُکل مارے ہوئے بیٹھا تھا، کہنے لگا: بھئی سچ ہی کہتے ہیں ڈانگ کی چوٹ تو سہی جاسکتی تھی مگر چھلتر کی درد نہیں سہی جاتی.یہ دیکھوا چھوٹا سا بچہ بھی اتنی بڑی بات کہ گیا ہے.“ چھتر پنجابی میں پھانس کو اور ڈانگ لاٹھی کو کہتے ہیں ) یہ باتیں اس لئے بیان کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایسا بچپن نصیب ہوا تھا.اسی ماحول میں جامعہ احمدیہ اور جامعتہ المبشرین کی تعلیم بھی میسر آ گئی اور آسمان احمدیت کے درخشندہ ستاروں سے کسب فیض کرنے کی سعادت ملی.خاکسار کی تعلیم کے بعد پہلی تقرری کراچی کی جماعت میں ہوئی.خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی کی جماعت کئی وجوہ سے منفر داور نمایاں جماعت تھی.کراچی کے امیر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے چھوٹے 28
برگ سبز بھائی حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحب تھے جو انتظامی امور کی مہارت کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی مہارت بھی رکھتے تھے.کراچی کے مربی حضرت مولانا عبد المالک خان صاحب تھے، جو اپنی غیر معمولی جماعتی خدمات اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتے تھے.کراچی میں ایسے کارکن جماعتی عہدوں پر مامور تھے جو بالعموم جس با قاعدگی سے اپنے دفتروں میں جاتے تھے اسی باقاعدگی سے جماعتی کاموں میں بھی برابر حصہ لیتے تھے.جماعت کراچی تعداد کے لحاظ سے ایک بڑی جماعت تھی اور بالعموم انصار ، خدام ، لجنہ اور اطفال کے علم انعامی اس کے حصے میں آتے تھے اور خوش قسمتی سے افراد جماعت کی مستعدی اور چوکسی کی وجہ سے خدمت کے مواقع بھی زیادہ ملتے تھے.خاکسار کیلئے ربوہ سے باہر رہنے کا یہ پہلا موقع تھا.اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے خاکسار نے غیر مسلموں میں تبلیغ کا پروگرام بنایا.کراچی میں یہودی بھی پائے جاتے ہیں مگر وہ تبلیغی لحاظ سے زیادہ کھلتے نہیں ہیں.ان کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کی کوشش میں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہ پر مسجد' لکھا ہوا ہے.اس بات پر حیرت ہوئی کہ ہم اپنی مساجد کو اس نام سے پکاریں تو ملاؤں کو بہت ناگوار گزرتا ہے ،مگر یہودیوں کی عبادت گاہ پر مسجد کا لکھا ہونا ان کی غیرت پر اثر انداز نہیں ہوتا.خاکسار مسجد بنی اسرائیل، پہنچا ، ان کے مربی سے ملاقات ہوئی وہ کسی گفتگو کیلئے تیار نہیں تھے.میرے اصرار پر انہوں نے مجھے اپنے پریذیڈنٹ کا پتہ دیا اور کہا کہ آپ ان سے ملکر بات چیت کر سکتے ہیں.انہوں نے جو پتہ دیا وہ ہمارے احمد یہ ہال کے قریب ہی تھا.میں ان کو ملنے گیا.پہلے تو وہ کچھ حیران سے ہوئے کہ یہ اجنبی کون اور کیوں آیا ہے.تاہم جب انہوں نے مجھے اپنی خوب سجی سنوری ہوئی بیٹھک میں بٹھایا تو وہاں میرے ایک پرانے 29
برگ سبز جاننے والے بھی بیٹھے تھے.میں نے اپنی آمد کا مقصد بتایا تو ان کی بجائے میرے جاننے والے نے قہقہ لگایا اور کہنے لگے کہ اسے میں بچپن سے جانتا ہوں، اسے مذہب کا کچھ پتہ نہیں ہے ایک اچھا اور امیر تاجر ہونے کی وجہ سے اسے عہد یدار بنالیا گیا ہے.اس یہودی نے اس بات کا کوئی برا نہ منایا بلکہ ایک طرح سے اس کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا اس سال کے آخر میں اسرائیل جانے کا ارادہ ہے وہاں سے معلومات حاصل کر کے آؤں گا پھر آپ اگر آئیں تو شاید میں آپ کے سوالوں کا جواب دے سکوں گا.اس کے بعد ان سے ملاقات کی نوبت نہ آئی کیونکہ انہیں تبلیغ سے بالکل کوئی دلچسپی نہ تھی.جیسا کہ سب جانتے ہیں عیسائیوں میں بہت سے فرقے ہیں.ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو توریت کی بجائے اپنی دوسری کتابوں کو ترجیح دیتے اور تبلیغی لحاظ سے ان سے مدد لیتے ہیں.ان کے بعض فرقے تبلیغی لحاظ سے بہت مستعد ہیں مگر عام عیسائی انہیں بدعتی اور غیر مسیحی سمجھتے ہیں جیسے یہوواہ وٹنسر میں عیسائی چرچوں میں جا کر گفتگو کرتا رہا.اس سلسلہ میں بہت سے مسیحیوں سے واقفیت بھی ہو گئی.اس زمانے میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے مارٹن روڈ میں ایک فری ڈسپنسری اور دارالمطالعہ بنایا.عام لوگ وہاں استفادہ کیلئے آتے تھے.میرا بھی وہاں آنا جانا رہتا تھا.ایک دن میں وہاں گیا تو ہمارے بعض خدام نے بتایا کہ آج یہاں ایک عیسائی آیا تھا.اس نے بہت اعتراض کئے اور ہم اس کو جواب نہیں دے سکے.انہوں نے بتایا کہ اس نے تو سورہ بقرہ کی پہلی آیت پر ہی بہت سے اعتراض کئے اور ہم عربی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اسے جواب نہیں دے سکتے تھے.بہر حال خاکسار نے کہا کہ اس سے ملاقات کی کوئی صورت نکالیں....اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے اسی طرح تیزی سے ایک کے بعد دوسرا 30
برگ سبز سوال کرنا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنی تیزی کو بھول کر نارمل ہو گئے.باتوں باتوں میں میں نے انہیں بتایا کہ میں چرچ کے فلاں فلاں بشپ کو مل چکا ہوں تو اس نے پوچھا کہ آپ فلاں بشپ کو بھی ملے ہیں.(اس نے جو نام لیا وہ اس وقت یاد نہیں آرہا) خاکسار نے جواب دیا کہ میں نے ان کی شہرت سنی ہے اور یہ بھی کہ وہ اسلام کے متعلق اچھی معلومات رکھتے ہیں اس لئے ان سے ملنے کی خواہش تو ہے مگر ابھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی.بعد میں پتہ چلا کہ یہ بھی اس کی ایک چال تھی کیونکہ اس نے اپنا نام لے کر ہی سوال کیا تھا اور اس کا مقصد تھا کہ اگر میں کہوں کہ ہاں میں اس سے بھی ملا ہوں تو وہ مجھے بآسانی غلط ثابت کر سکتا ہے.دراصل یہ صاحب مسلمانوں میں سے مرتد ہو کر اسلامی ملکوں میں رہ کر آئے تھے اور اس طرح اسلام اور عربی کے متعلق واقفیت تو رکھتے تھے مگر حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ثابت کرنا تو باقی عیسائیوں کی طرح ان کے لئے بھی ممکن نہ تھا.ایک پادری صاحب اکثر خاکسار سے ملتے رہتے تھے.ایک دفعہ مجلس کراچی نے ہاکس بے جانے کا پروگرام بنایا.پادری صاحب نے بھی خواہش کا اظہار کیا اور میرے ساتھ وہاں گئے.سمندر کے کنارے پر کراچی کے خوشحال اور آزاد منش لوگ کثرت سے گئے ہوئے تھے.پادری صاحب نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خیال میں یہ لوگ احمدی ہو جائیں گے.خاکسار نے انہیں کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ابتدائی ایمان لانے والے عام ماہی گیر تھے اگر ان سے یہ سوال کیا جاتا تو جوان کا جواب ہوتا وہی میرا جواب ہے.کراچی کے بے شمار واقعات ہیں مگر اختصار کی خاطر نظر انداز کرتے ہوئے ایک بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے.حلقہ مارٹن روڈ میں ایک مکان میں کچھ نوجوان کرایہ پر ایک جگہ 31
برگ سبز رہتے تھے.ان میں چند نوجوان احمدی بھی تھے.وہ مختلف مسائل کے متعلق خاکسار سے پوچھتے رہتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے ساتھی نوجوانوں نے کسی مولوی صاحب کو دعوت دی ہوئی ہے، اگر آپ بھی وہاں آسکیں تو ہمارے لئے مفید رہے گا.خاکسار کے ساتھ ایک نوجوان پادری صاحب بھی تھے.وہ مولوی صاحب کسی معروف جماعت سے نہیں تھے اور ان کا کہنا یہ تھا کہ آنحضرت مال ہی تم بھی دوسرے انبیاء کی طرح ایک نبی ہی تھے.ہم بلا وجہ انہیں افضل النبی مقرار دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت سالی سیستم کی فضیلت ثابت کی اور الحمد للہ سب موجودا افراد کیلئے بہت خوشی کی بات تھی.ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہوئی کہ غیر از جماعت نو جوانوں کو جب معلوم ہوا کہ میرے ہمراہ ایک پادری صاحب ہیں تو وہ ان کے سامنے اسلام کی فضیلت بیان کرنے لگے.باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس میں کبھی کوئی غلطی راہ نہیں پاسکتی.اگر اس میں کوئی زیر یا زبر کی غلطی ہو جائے تو وہ خود بخو دور ہو جاتی ہے.وہ پادری صاحب کہنے لگے کہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے.میں مسلمان نہیں ہوں.میں ایک دو جگہ زبر کی جگہ زیر کر دیتا ہوں پھر اس قرآن کو کسی محفوظ جگہ رکھ دیتے ہیں اور جو عرصہ آپ تجویز کریں اس کے بعد دیکھ لیں گے.اگر آپ کے کہنے کے مطابق وہ غلطی از خود درست ہو گئی ہوگی تو میں فوراً مسلمان ہو جاؤں گا...پادری صاحب کو موقع ملا اور وہ مسیحی مذہب کی سچائی اور فضیلت بیان کرنے لگے.وہ نوجوان لاجواب ہوکر شرمندہ سے ہو رہے تھے خاکسار نے گفتگو میں دخل دینا چاہا تو وہ پادری صاحب خود ہی کہنے لگے کہ آپ کی بات تو شروع ہی اس طرح ہوگی کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور میرا سارا استدلال و ہیں ختم ہو جائے گا.32
برگ سبز کراچی میں بہائیوں کا مرکز بھی تھا.خاکسار وہاں اکثر جاتا تھا.ان سے گفتگو کا موقع بھی ملتا تھا.اس وقت ان کے جوا کا بر تھے ان میں سے اکثر سے وہاں ملاقات ہوئی.مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی جن میں بالعموم یہ بات ضرور آجاتی تھی کہ آپ لوگ قرآن مجید کی بجائے جس شریعت پر عمل کرتے ہیں اسے پوشیدہ کیوں رکھتے ہیں.وہ حسب موقع کوئی جواب دیتے تھے مگر اس موضوع پر انہیں لا جواب ہی ہونا پڑتا تھا.ایک دفعہ بہت ہی زچ ہو کر ان میں سے ایک صاحب کہنے لگے کہ ٹھیک ہے میں اگلے ہفتہ آپ کو اقدس (ان کی شریعت کی کتاب) لا دوں گا.اگلے ہفتہ وہ ایک کتاب لے کر آئے اور اپنے ہاتھ میں لئے لئے دکھا کر کہنے لگے کہ یہ وہ کتاب ہے جس کے متعلق آپ اکثر سوال کیا کرتے ہیں.اب آپ نے یہ کتاب دیکھ لی ہے.امید ہے آئندہ آپ یہ سوال نہیں کریں گے.خاکسار نے عرض کیا کہ کتاب تو دیکھنے پڑھنے کیلئے ہوتی ہے.آپ کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر تو میں نہ اسے دیکھ سکتا ہوں نہ پڑھ سکتا ہوں.اس طرح تو دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہے اور میرا سوال اسی طرح ہے جس طرح پہلے ہوتا تھا.اس پر انہوں نے بادل نخواستہ یہ کہہ کر کتاب مجھے تھما دی کہ آپ یہاں بیٹھے بیٹھے اسے دیکھ سکتے ہیں.میں نے کتاب دیکھ کر انہیں بتایا کہ یہ تو بمبئی کی آپ کے مخالفوں کے ہاں سے چھپی ہوئی ہے.یہ تو آپ کی مصدقہ کتاب نہیں ہو سکتی.اور باتوں کے علاوہ انہوں نے پھر اپنی بات دہرائی کہ اب آپ یہ اعتراض تو نہیں کر سکتے کہ آپ کو کتاب دکھائی نہیں گئی.خاکسار نے عرض کیا کہ جناب اب تو میرا سوال پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے کیونکہ آپ کے با اختیار شارح اور لیڈ ر عبد العباس نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس کتاب کو شائع نہیں کرنا...آپ نے ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجھے یہ کتاب کیوں دی ہے اور کیوں شائع کی ہے.ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں 33
تھا.تاہم ان کی مسکراہٹ قابل دید تھی.برگ سبز کراچی کے بعد خاکسار کو ملتان میں خدمت بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی.کراچی میں جماعت کی مستعدی کی وجہ سے خدمت کے مواقع خوب ملتے تھے.ملتان کو یہاں کے مدرسوں کی وجہ سے خاص مقام حاصل ہے.قریباً تمام اسلامی کہلانے والی جماعتوں کے اہم مراکز اور مدارس وہاں ہیں، اس وجہ سے وہاں بھی خوب وقت گزرا.سب واقعات تو یاد بھی نہیں ہیں اور ویسے بھی بات لمبی ہو جاتی ہے.مختصر طور پر دلچپسی کے بعض امور درج ذیل ہیں: ملتان کے دیہات کے دورہ کے سلسلہ میں خاکسار ایک گاؤں میں گیا.پتہ چلا کہ وہاں ایک ہی برادری کے لوگ رہتے ہیں.آدھا گاؤں احمدی ہے اور باقی آدھا گاؤں احمدی نہیں ہے.پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہاں ایک بڑی مسجد ہے اور ایک مولوی صاحب بھی موجود ہیں اور اگر ان کو بلایا جائے تو وہ ضرور آجائیں گے.نماز سے قبل ان کو بلانے کیلئے آدمی بھیجا گیا.ہم نماز سے فارغ ہوئے تو وہ تشریف لے آئے.سردیوں کے دن تھے مولوی صاحب نے کھیں کی بُکل ماری ہوئی تھی.ہم نے ان کا استقبال کیا خاکسار نے کہا کہ آپ کو یہاں گاؤں میں بہت بڑا مقام حاصل ہے.گاؤں والوں کو جب بھی کوئی مشکل ہوتی ہے یا جب بھی کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے تو وہ آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ آپ کی بات کو اسلام کی تعلیم یا خدا اور رسول کی بات سمجھتے ہیں.مولوی صاحب ان باتوں پر خوب خوش نظر آتے تھے.خاکسار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک ہی برادری کے لوگ رہتے ہیں احمدی تو میری بات مانتے ہیں اور دوسرے لوگ آپ کی بات مانتے ہیں (اپنے آدمیوں سے خاکسار نے پوچھا تو انہوں نے بآواز بلند کہا کہ ہم آپ کی بات ضرور مانیں گے ) کیوں نہ ہم دونوں ایک معاہدہ کر لیں اور 34
برگ سبز آج جمعہ کی نماز اکٹھے ایک جگہ ادا کریں.مولوی صاحب نے اس پر بھی رضامندی ظاہر کی.خاکسار نے شرائط بیعت نکال لیں اور کہا کہ میں ایک ایک کر کے یہ شرائط پڑھتا جاؤں گا.آپ کو اگر کوئی اشکال یا اعتراض ہو تو مجھے ساتھ ساتھ بتائیں تا کہ میں وضاحت کرسکوں...خاکسار ایک ایک کر کے سب شرائط پڑھ چکا، مولوی صاحب نے کوئی اعتراض نہ کیا.میں نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہیں تو ہم دونوں اس پر دستخط کرتے ہیں...مولوی صاحب کو وہاں موجود افراد میں سے بعض نے اسی طرح مولا نا عبدالحکیم جوز ا ( مرحوم) نے بھی با اصرار کہا مگر انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی.آہستہ سے یہ بھی کہا کہ دو روٹیوں کا سوال ہے، آپ کیوں میری روٹیاں ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں.باہر سے کوئی آواز آئی اور مولوی صاحب یہ کہ کر اٹھ گئے کہ مجھے کوئی بلا رہا ہے.ملتان کے دیہات میں دورے کے سلسلہ میں خاکسار اپنے ساتھی مکرم عبد الحکیم جوزا صاحب کے ہمراہ میلسی نامی ایک قصبہ میں گیا.مکرم جوز اصاحب میرے ساتھی مربی تھے.انگریزی اور عربی زبان کے ماہر تھے.تاہم بہت ہی سادگی اور انکساری ان کا نمایاں وصف تھا.بہت عزت و احترام سے پیش آتے تھے.انہوں نے خود تو شائد کبھی نہیں بتایا تھا لیکن مجھے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بہت سادگی اور قناعت سے زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے معمولی وظیفہ میں سے بچت کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے اس کی مدد کرتے ہیں.ان کے احترام میں اور اضافہ ہوا.فجزاہ اللہ خیراً.میلسی میں ہمارے ایک دوست تھے ، اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو ان کا نام شار صاحب تھا.انہیں تبلیغ کا بہت شوق تھا.انہوں نے بتایا کہ یہاں سکول کے ہیڈ ماسٹر نے مجھے کہا تھا کہ جب آپ کے مربی صاحب یہاں آئیں تو ان سے ملاقات کروانا...ہم جب سکول میں ان 35
برگ سبز سے ملنے کیلئے گئے تو انہوں نے وہاں با قاعدہ مناظرہ کی مجلس بنائی ہوئی تھی.تمام اساتذہ اور شہر کے بعض اکابر بیٹھے تھے.معلوم ہوا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے متعلق قصبہ میں مشہور ہے کہ وہ احمدی ہیں.ہیڈ ماسٹر صاحب اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے تھے اور اسی غرض سے انہوں نے ہم سے گفتگو اور شہریوں کو بلانے کا اہتمام کیا ہوا تھا.ان سے مختلف مسائل پر بات ہوئی.وہاں بڑے اہتمام سے عربی کے استاد صاحب کو بھی بٹھایا گیا تھا.خاکسار نے دوران گفتگو عرض کیا کہ حضور صلی ایم کے ارشاد الا ان يكون نبیا“ سے معلوم ہوتا ہے کہ کان يكون تکوین میں اسی اُمت سے کسی کے پیدا ہونے اور آنے کا ذکر ہے.کسی غیر امتی یا پرانے نبی کے آنے کا ذکر نہیں ہے.عربی کے استاد فوراً بولے کہ قرانی محاورہ میں اللہ تعالیٰ کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوتا ہے.کیا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی پیدا ہوتا ہے.نعوذ باللہ.موقع کی نزاکت کے لحاظ سے خاکسار نے فوراً جواب دیتے ہوئے بڑی جرات سے کہا که مولوی صاحب آپ یہی عربی اپنے شاگردوں کو سکھاتے ہیں.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کان کی دو قسمیں ہوتی ہیں...خدا تعالیٰ کے فضل سے مولوی صاحب بلکہ اور حاضرین پر بھی کچھ ایسا اثر ہوا کہ بات چیت کا رنگ ہی بدل گیا اور مناظرہ کی بجائے ہیڈ ماسٹر صاحب ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے بعد سارا عرصہ مولوی صاحب بالکل خاموش بیٹھے رہے.ملتان چھاؤنی میں ہمارے ایک احمدی دوست دوکاندار تھے.سفید رنگت ، خوبصورت چہرہ ،سفید داڑھی اور پگڑی کے اہتمام اور تبلیغ کے شوق کی وجہ سے بہت پیارے اور اچھے لگتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے ہمارے علم کے بغیر اپنے ہاں گفتگو کا اہتمام کیا اور شرائط وغیرہ بھی 36
برگ سبز طے کر لیں.جب خاکسار کو پتہ چلا تو میں نے انہیں بتایا کہ اس قسم کے پروگرام کیلئے پہلے سے علم ہونا چاہئے بلکہ باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہوتی ہے.تاہم چونکہ اس پروگرام کی آپ کے ماحول میں تشہیر بھی ہو چکی ہے لہذا میں حاضر ہو جاؤں گا.شرائط میں یہ بات بھی موجود تھی کہ دونوں طرف سے 20-20 آدمی موجود ہوں گے.وفات مسیح علیہ السلام پر بحث ہوگی.بحث قرآن مجید کی روشنی میں ہوگی وغیرہ.جب وقت مقررہ پر سب لوگ ان کے ہاں پہنچ گئے تو نشست فرشی تھی، ہم بیٹھے ہی رہے تھے کہ ایک آواز آئی کہ پہلے دعا کر لینی چاہئے.خاکسار نے بیٹھتے ہی بلا توقف دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھا کر بآواز بلند درود شریف پڑھ کر دعا شروع کر دی.ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہماری اقتدا میں دعا کرنے لگے.خاکسار نے ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله (الانعام: ١٠٩ ) والی ۱۰۹ آیت پر ان سے پوچھا کہ یہاں غیر اللہ کو اللہ پکارنے کا ذکر ہے کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کر کے پکارا جاتا ہے؟ وہ صاحب اپنی باری پر اور باتوں کا ذکر تو کرتے رہے مگر اس سوال کے جواب سے گریز کر گئے.خاکسار نے دوسری اور پھر تیسری باری پر بھی اپنا سوال دہرایا اور باصرار ان سے جواب پوچھا تو ان کو یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو غلط طور پر اللہ پکارا جاتا ہے.اس کے بعد نتیجہ نکالنا کوئی مشکل نہیں تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.ہمارے میزبان ( ان کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہا ) بہت خوش تھے.وہ کہہ رہے تھے کہ جس طرح آپ نے دعا شروع کی تھی ، آدھا کام تو اس وقت ہی ہو گیا تھا اور یہ بھی آج پتہ چلا ہے کہ احمدی علم کلام سے لوگ کس طرح لا جواب ہونے پر مجبور ہوتے ہیں.غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت پر شکر ادا کرتے ہوئے یہ مجلس اختتام کو پہنچی.37
برگ سبز خاکسار کو جب ضلع ملتان میں خدمت کا موقع ملا ، تو اس وقت یہ ضلع بہت بڑا تھا اور بورے والا بھی اسی ضلع میں تھا.بورے والا اپنی منڈی اور گندم کا علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اچھا خوشحال علاقہ سمجھا جاتا ہے.خاکسار وہاں گیا تو ہمارے میزبان باتوں باتوں میں پوچھنے لگے کہ آپ کو شیعہ مذہب کے متعلق بھی کچھ واقفیت ہے.مجھے اس سوال سے کچھ تعجب ہوا مگر تفصیل کا علم ہونے پر پتہ چلا کہ وہاں بعض ایسے شیعہ اصحاب موجود ہیں جو گفتگو کے ماہر ہیں اور اپنی باتوں سے لا جواب کر دیتے ہیں.خاکسار کے کہنے پر ان کو پیغام بھیج کر بلوایا گیا.ان سے بہت خوشگوار ماحول میں بات شروع ہوئی لیکن ابھی گفتگو شروع ہی ہوئی تھی کہ ان کو اپنی کسی کمی کا احساس ہوا اور انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ آئندہ کسی مقررہ تاریخ پر گفتگو ہوگی اور ساری رات بات چیت ہوگی.ہم اس کے لئے تیاری کرلیں گے، آپ بھی تیاری سے آئیں.بہر حال ان سے تاریخ وغیرہ کا تعین ہو گیا.مقررہ تاریخ پر خاکسار اور مکرم مولا نا عبدالحکیم صاحب بورے والا پہنچ گئے.احباب ایک ایک کر کے آنے لگے.شیعہ احباب میں دو صاحب جو نمایاں تھے وہ ماموں بھانجا تھے.بھانجا صاحب پہلے آگئے اور شاید اپنی تیاری کی وجہ سے یا ہوشیاری کی وجہ سے انہوں نے ماموں کی آمد سے پہلے ہی گفتگو شروع کر دی اور کہنے لگے کہ ساتھی اور صحابی تو کوئی بھی ہو سکتا ہے مگر وصی اور خلیفہ تو کوئی قریبی ہی ہو سکتا ہے جیسے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت ہارون کا ذکر ہے.خاکسار نے جواباً ان کی تعریف کی کہ انہوں نے بات قرآن مجید کی روشنی میں کی ہے جبکہ عام طور پر روایات سے باتوں کو الجھا دیا جاتا ہے.میں نے کہا کہ آپ کی یہ دلیل بہت مضبوط اور قوی ہوتی اگر حضرت ہارون ہی حضرت موسی کے خلیفہ ہوتے حالانکہ حضرت ہارون تو حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے اور حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع 38
برگ سبز تھے...اس بات پر وہ کچھ حیر ان سے ہو گئے.اتنی دیر میں ان کے ماموں بھی آچکے تھے.وہ میری بات دوہرا کر کہنے لگے ماموں یہ تو ایسے کہتے ہیں.ماموں بھی اس بات سے بھانجے جتنے ہی واقف معلوم ہوتے تھے.وہ گفتگو جو ان کے کہنے کے مطابق رات بھر ہوئی تھی ، چند منٹوں میں ختم ہوگئی اور بورے والا کے مذہبی حلقوں میں بعد میں بھی اس کا چرچا ہوتا رہا.ملتان شہر میں ہماری مسجد کے قریب ہی ایک صاحب کی دکان تھی.ہم انہیں حیدری صاحب کے نام سے جانتے تھے.وہ ہمارے خادم سید عبد السبحان ناصر صدیقی کے دوست تھے کبھی کبھی گفتگو کیلئے ہماری مسجد میں بھی آجاتے تھے.یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کے ایک گمنام سپاہی یعنی سید عبد السبحان صاحب کا تھوڑا تعارف کروا دیا جائے.ناصر صاحب سہارنپور انڈیا کے رہنے والے تھے.بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے ان کی سنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی ، باوجود اس معذوری کے اچھی مذہبی معلومات رکھتے تھے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.بعض دفعہ اسی شوق کی وجہ سے ان کی پٹائی بھی ہوئی مگر وہ راضی برضا ر ہتے اور تبلیغ کرتے رہتے تھے.ہر وقت لٹریچر ساتھ رکھتے تھے.ان کا حلقہ واقفیت اسی وجہ سے خاصا وسیع تھا.بالعموم اپنے گلے میں ایک سلیٹ لٹکائے رکھتے تھے اور بات چیت میں اس سے مدد لیتے تھے.خاکسار نے اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ کوشش کی تھی کہ اگر ان کا علاج ممکن ہو یا کوئی آلہ ان کیلئے مفید ہو تو ان کی مدد کی جائے.اس سلسلہ میں خاکسار نے بعض احباب سے لندن میں رابطہ بھی کیا تھا.مگر افسوس کہ ان کا علاج نہ ہو سکا.خاکسار ملتان سے تبادلہ کے بعد مختلف جگہوں پر رہا.وہ ربوہ بھی ملنے آتے تھے.جوانی میں ہی بیمار ہو کر وفات پاگئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.خاکسار ان کی بیماری کے وقت ان کے پاس نہیں تھا اور نہ ہی کوئی خدمت کر سکا.جہاں تک مجھے معلوم 39
ہے ان کا کوئی نزدیکی رشتہ دار بھی نہیں تھا.برگ سبز اے خدا بر تربت اوا بر رحمت باببار مکرم حیدری صاحب بہت پکے شیعہ تھے.اپنے مذہب کی تائید میں کوئی بات سن یا پڑھ لیتے تو بڑے جوش سے ملنے کیلئے آتے مگر جب ان کو مُسکت جواب ملتا تو خاموش ہو جاتے.مگر ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور بہت غصے میں نظر آنے لگتے ، مگر یہ وقتی کیفیت ہوتی کیونکہ پھر پہلے کی طرح ان سے ملاقاتیں شروع ہو جاتیں.ایک دفعہ وہ آیت مباہلہ پر کچھ سوچ کر آئے ، کہنے لگے کہ اس سے تو صاف ظاہر ہے که پنجتن پاک ہی پکے مومن تھے اسی لئے حضور صلی پیہم نے اپنی چادر میں لیا.خاکسار نے موقع کے مطابق ان سے کہا کہ آپ نے جن کا ذکر کیا ہے وہ بہت محترم اور مکرم ومعزز ہستیاں ہیں، مگر آیت میں تو جمع کا لفظ استعمال ہوا ہے.بحث کو ختم کرنے کیلئے میں آپ کی تشریح کو تسلیم کرتا ہوں مگر خدا تعالیٰ نے تو کم از کم 3+3+3=9 آدمی لانے کا ذکر فر مایا تھا.پانچ کا آپ نے ذکر کر دیا ہے آپ کوئی بھی اور نام لے لیں تو میں تسلیم کرلوں گا.حیدری صاحب پریشان اور خاموش ہو گئے.ایک مرتبہ ان کا پیغام ملا کہ وہ کسی عالم دین کے ہمراہ آرہے ہیں.ہم نے ان کو خوش آمدید کہا.ان کے ہمراہ ایک نوجوان تھے جو غالباً نجف اشرف سے کوئی ڈگری اور ٹرینگ لیکر آئے تھے مگر انہیں کوئی تجربہ نہ تھا.چند منٹ کی گفتگو کے بعد خود حیدری صاحب نے بھی یہ بات محسوس کی اور کوشش کی کہ وہ خود ہی بات چیت کریں، جس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حسن اتفاق سے ایک عالم دین سے استفادہ کا موقع ملا ہے اس لئے آج تو آپ خاموش ہی رہیں.آپ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے.اس دن حیدری صاحب عام دنوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی 40
برگ سبز زچ نظر آئے.حیدری صاحب ایک دفعہ ملے تو بہت خوش نظر آ رہے تھے.میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ ہجرت کے وقت آنحضرت ملا لیا کہ تم نے حضرت علی کو اپنا قائم مقام بنایا ، ان کو امین سمجھا اور اپنے بستر پر سونے کی سعادت بخشی.خاکسار نے عرض کیا کہ یہ آپ نے کوئی نئی بات نہیں کی اور حضرت علی کی فضیلت کا میں قائل ہوں.آپ نے جو فضیلت بیان کی ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں ہے مگر قرآن مجید نے جس فضیلت کو قابل ذکر سمجھا وہ حضرت ابوبکر کی سفر ہجرت میں شمولیت تھی.ان سے کافی مفصل بات ہوئی.انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہجرت کی مشکلات دیکھ کر تو حضرت ابوبکر رونے لگ گئے تھے.ان کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی اور خاکسار نے عرض کیا کہ وہاں پر تو حضرت ابوبکر کو ایک بے مثال فضیلت حاصل ہوئی جس میں وہ ہر طرح منفرد تھے کیونکہ قرآن نے تو کہا کہ لا تحزن ان الله معنا غم نہیں کرو خدا تعالیٰ ہم دونوں کے ساتھ ہے.ایسی معیت کا اور کسی کیلئے قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے.مہاجروں کو ملنے والی قرآنی بشارتوں کا بھی ذکر آیا.حیدری صاحب کا ذکر کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے تاہم ایک اور دلچسپ بات یاد آ رہی ہے اسے بیان کرنا بھی ضروری ہے.ایک دفعہ ان کا پیغام آیا کہ میں فلاں وقت ملنے آؤں گا اور میرے ساتھ کوئی اور صاحب بھی ہوں گے.حسب معمول ان کو عزت و احترام سے بٹھایا گیا.جو صاحب ان کے ساتھ تھے ان کو دیکھ کر میں فوراً ہی انہیں پہچان گیا مگر وہ تو بالکل بھی نہیں جانتے تھے کہ میں ان کو پہچانتا ہوں.دراصل یہ صاحب قادیان میں رہ چکے تھے.ان کو اپنے نام کے ساتھ بعض اور احراری اکابرین کی طرح فاتح قادیان لکھنے کا شوق تھا.اس وقت وہ دیکھنے میں ایک کھدر پوش سادہ دیہاتی لگ رہے تھے مگر دراصل وہ احراریوں کے 41
برگ سبز ایک مشہور عالم اور مناظر محمد حیات صاحب تھے جو بے ریش تھے اور عام طور پر حیات کھودا‘ کے نام سے جانے جاتے تھے.وہ اپنا تعارف کراتے ہوئے بڑی ٹھیٹھ پنجابی بولنے لگے.میں نے ان سے کہا کہ حیدری صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ اثنا عشری خیالات کے ہیں.آپ بھی تو شیعہ ہوں گے.انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں میں سنی ہوں مگر ختم نبوت کے معاملہ میں ہم ایک ہیں.وہ اپنی چادر کے کونے میں تشخیز الاذہان کا ایک پرچہ اس طرح باندھ کر لائے ہوئے تھے جیسے چادر کے کونے میں گڑ یا شکر باندھی ہوئی ہو.وہ اس پرچہ سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو کوئی دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا.بعد میں لوگوں نے ان کی طرف یہ عقیدہ غلط طور سے منسوب کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس قسم کے تمام سوالوں اور اعتراضات کا مکمل جواب ”ایک غلطی کا ازالہ میں دے چکے ہیں.وہی جواب ان کو دیئے گئے.تاہم حیدری صاحب کی خوشی کی کوئی بات نہ ہو سکی.خاکسار کو ضلع جہلم میں خدمت کی سعادت حاصل ہوئی.تاریخ احمدیت میں جہلم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر جہلم، مقدمہ جہلم اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب کے اخلاص و محبت کے واقعات کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل ہے.جہلم کے خواجہ صاحبان اور سیٹھی صاحبان میں سے بعض افراد کو میں قادیان کے زمانہ سے جانتا تھا.سب احباب نے خوب تعاون بلکہ احترام کا سلوک کیا اور اس طرح وہاں کا قیام بھی یادگار بن گیا.یہاں صرف ایک بات کا ذکر کر دیتا ہوں.یہ بتانے کی تو شاید ضرورت نہیں کہ سفر جہلم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف مخلوق کا معجزانہ رجوع ہوا تھا.اسی وجہ سے وہاں مخالفت بھی بہت تھی.شہر کی ایک مرکزی جگہ پر ایک خوبصورت بڑی مسجد تھی.وہاں کے مولوی صاحب جماعت کی مخالفت میں نمایاں ہونے کی کوشش میں رہتے تھے اور کبھی کبھی 42
برگ سبز اپنے وعظوں اور درسوں میں جماعت کی مخالفت شروع کر دیتے تھے اور اپنے جھوٹے الزامات دہراتے رہتے تھے.خاکسار اپنے احباب اور عام لوگوں کی حقیقت حال سمجھانے کیلئے اپنی مسجد میں ان کے سوالوں کا جواب بیان کر دیا کرتا تھا.مولوی صاحب نے مخالفت کو آگے بڑھانے کیلئے ایک پمفلٹ کی شہر میں خوب اشاعت کی.ہماری طرف سے اظہار الحق کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا گیا جس میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا.اس کے بعد حسب ضرورت ایک اور ٹریکٹ اظہار الحق نمبر 2 بھی شائع کیا گیا.مولوی صاحب کو یہ بات کچھ عجیب لگی اس طرح برابر جواب ملنے کی غالباً وہ توقع بھی نہیں کر سکتے تھے.مولوی صاحب نے معزز لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے احتجاج کرنے کیلئے گئے.ڈپٹی کمشنر صاحب نے ہمیں بھی یاد کیا.خاکسار اور وہاں کے اس وقت کے امیر مولوی عبد الکریم صاحب لون ڈی سی صاحب کو ملنے گئے.وہاں ان کے میز پر اظہارالحق ٹریکٹ پڑے تھے اور اس میں کئی جگہ سرخ قلم سے نشان بھی لگے ہوئے تھے جو مولوی صاحب نے افسر مذکور کو دکھانے کیلئے نمایاں کئے ہوئے تھے.خاکسار نے اس ٹریکٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہر وہ شخص جو آنحضرت سی شما اینم کی تشریف آوری کے بعد بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد کا منتظر اور معتقد ہے وہ ختم نبوت کا منکر ہے.مولوی صاحب اس پر بہت برہم تھے کہ ہمیں منکر ختم نبوت کہا گیا.اس پر تھوڑی دیر بحث ہوئی مگر ڈی سی صاحب اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک ضلعی پولیس آفیسر نے کہا کہ ہمیں مذہبی معاملات کا زیادہ علم نہیں ہے.ہمیں تو قانون کی پابندی سے غرض ہے اور یہ بھی کہ علاقے میں امن و امان رہنا چاہئے.اسلئے آپ کے درس اور وعظ کی آواز مسجد سے باہر نہیں آنی چاہئے...مولوی صاحب نے اسے اپنی تو ہین سمجھا.بہت غصہ اور ناراضگی سے اپنے 43
برگ سبز ساتھیوں کو کہا کہ اٹھو اٹھو ہم واپس جارہے ہیں.ہم شکایت لیکر آئے تھے لیکن ہمیں مجرم سمجھا جارہا ہے...پولیس آفیسر اچھے سمجھدار لگتے تھے انہوں نے مولوی صاحب سے بڑی احترام سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں آرام سے تشریف رکھیں.ہم دونوں فریق کو برابر ایک ہی بات سمجھا رہے ہیں.جب مولوی صاحب ان کے کہنے پر بیٹھ گئے تو راجہ صاحب ( پولیس آفیسر ) کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ بہت غیرت مند اور بہادر آدمی لگتے ہیں.کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نہتے اور قانون پسند لوگوں کے سامنے تو بہت بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، مگر آپ کی غیرت اور بہادری اس وقت کہاں تھی جب ہندوؤں نے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں سے مسلمان عورتوں کو اغوا کر لیا گیا تھا اور مسلمانوں کا ہر لحاظ سے بہت نقصان ہوا تھا...مولوی صاحب اس بات کا کیا جواب دیتے.شکایت کرنے گئے مگر شرمندہ ہوکر واپس آئے.یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور تبلیغ سے روکنے اور شعار اسلامی کے استعمال سے منع کرنے کا بد نام زمانہ کالا قانون ابھی وجود میں نہیں آیا تھا.مخالفت تو ضرور ہوتی تھی مگر انصاف اور قانون کی پابندی نسبتا بہتر تھی.پنجاب اور دوسرے علاقوں میں تمام لوگ مل جل کر رہتے تھے.سینکڑوں دیہات ایسے تھے جہاں ایک ہی مسجد میں احمدی اور دوسرے لوگ باری باری نماز با جماعت ادا کرتے تھے.شادی، بیاہ ، رشتہ داریاں باہم برابر سطح پر تھیں اور یہ بات کبھی ناگوار نہیں ہوتی تھی.گاؤں کی کسی بچی کی شادی ہوتی تو سب لوگ اسے اپنی بچی سمجھ کر رخصت کرتے.ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ جب یہ کہا جاتا تھا کہ ہمیں احمدیوں کے عقائد سے اختلاف ضرور ہے مگر یہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں.ہر وہ دردمند مسلمان جو غیر مسلموں کو ان کے اسلام پر اعتراضات کا جواب دینا چاہتا تھا ، وہ احمدی علم کلام سے استفادہ کرتا تھا.ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ مسیحیوں یا ہندوؤں کے مناظرہ کیلئے قادیان 44
برگ سبز سے علماء کو بلایا جاتا اور اس طرح اسلام کے دفاع کا جہاد کیا جاتا اور احمدی مناظروں کی کامیابی اسلام اور مسلمانوں کی کامیابی سمجھی جاتی تھی.( خاکسار بیان تو کچھ اور کر رہا تھا مگر ضمنی طور پر یہ بات درمیان میں آگئی ہے) شیعہ احباب سے ملاقات کے بعض واقعات درج کر چکا ہوں.یہاں ایک اور بات یاد آ گئی جو مفید اور دلچسپ ہونے کی وجہ سے یہاں ذکر کر رہا ہوں.تنزانیہ (مشرقی افریقہ) میں مبورا ایک مشہور پرانا قصبہ ہے.حضرت شیخ مبارک احمد صاحب جو پہلے احمدی مبلغ تھے انہوں نے اسی جگہ کو اپنا پہلا مرکز بنا یا تھا.وہاں محرم کے دنوں میں ایک ذاکر صاحب تشریف لائے.خاکسار ان سے ملنے گیا ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہی.خاکسار نے ان کی ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت امام حسین علیہ السلام کے متعلق ارشادات بھی پڑھ کر سنائے.ایک دن خاکسار ان سے ملنے گیا ان کا ایک اور ملاقاتی وہاں بیٹھا تھا اور مولوی صاحب اپنے بعض کارناموں کا ذکر کر رہے تھے.”ہم کسی کے پیچھے نہیں پڑتے لیکن اگر کوئی جھوٹا ہمارے پیچھے پڑنے کی کوشش کرے تو اسے گھر تک چھوڑ کر آتے ہیں اپنی بعض تصانیف کا بھی ذکر کیا.ان کے اس موڈ کو دیکھ کر خاکسار نے عرض کیا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ ایک شیعہ عالم سے ملاقات کا موقع ملا ہے.میری بعض الجھنیں ہیں امید ہے آپ ان کو سلجھا سکیں گے.مولوی صاحب نے بڑی فراخ دلی اور بشاشت سے جواب دینے کا وعدہ کیا.خاکسار نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ حضرت امام حسین ” کوفہ کیوں تشریف لے گئے تھے؟ مولوی صاحب ذاکروں والی روایتی تقریر کرنے لگے.خاکسار نے معذرت کرتے ہوئے ان کی قطع کلامی کی اور کہا کہ یہ تقریریں تو میں بہت سن چکا ہوں لیکن میرے 45
برگ سبز ذہن میں تو حضرت امام حسین کے وہ الفاظ آرہے ہیں جو کربلا میں رو کے جانے پر آپ نے فرمائے تھے.آپ نے اپنے مخالفوں کو فرمایا تھا کہ : نمبر ا.مجھے یزید کے پاس جانے دو.نمبر ۲.مجھے واپس مکہ جانے دو.نمبر ۳.مجھے سرحد پر جانے دو میں وہاں جہاد میں شامل ہو جاؤں گا.یہ باتیں شیعہ اور سنی مسلمات میں سے ہیں.ان سے تو کہیں بھی یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ آپ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے گئے تھے.آج کل ہمیں ذاکر صاحبان جو باتیں بتاتے ہیں وہ تاریخی حقائق کے خلاف ہیں.دوسری الجھن خاکسار نے یہ پیش کی کہ شیعہ لٹریچر اور ذاکر صاحبان کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ سے حضرت امام حسین کو ہزاروں کی تعداد میں خطوط ملے تھے ، جن میں حضرت امام کو وہاں بلانے کی دعوت دی تھی اور ان کی تائید و تصدیق کا وعدہ کیا تھا.مولوی صاحب نے اس امر کو تسلیم کیا بلکہ زیادہ مدلل طریق پر بتایا کہ واقعی ہزاروں لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی.خاکسار کے پوچھنے پر انہوں نے کوفہ کے باسیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی.خاکسار نے عرض کیا کہ اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ کوفہ کے وہ شیعہ جنہوں نے حضرت امام معصوم و مظلوم کو دعوت دی تھی انہوں نے ہی آپ کا مقابلہ کیا.اور آپ کی اتنی مخالفت کی جو حضرت امام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر منتج ہوئی چونکہ وہ کوفیوں کی امداد ، کوفیوں کی تعداد کے متعلق اسی مجلس میں اقرار کر چکے تھے اس لئے انہیں اس بات کا جواب دینے میں کافی دقت ہورہی تھی اور بالآخر انہیں خاموشی سے یہ بات تسلیم کرنی پڑی.خاکسار نے ان سے یہ بھی دریافت کیا کہ میدان کربلا کے لرزہ خیر واقعات جو آج بھی 46
برگ سبز اس طرح بیان کئے جاتے ہیں جیسے کوئی آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو، ان واقعات کو بیان کرنے والا پہلا راوی کون ہے.مولوی صاحب نے فوراً حضرت زینب کا نام لیا، جس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت زینب ایک پردہ نشین خاتون تھیں اور وہ بہر حال اپنے خیمہ میں ہی موجود ہوں گی.دوسرا ممکن راوی امام زین العابدین تھے جو اپنی شدید بیماری کی وجہ سے میدان میں نہیں جا سکے تھے.ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی ان واقعات کی تفصیل بیان کرنے سے قاصر تھے اور ان حالات سے پتہ چلتا ہے کہ واقعات جو ہمارے سامنے بیان کئے جاتے ہیں وہ بعد میں بیان کئے گئے اور یقیناً مخالفین کے لشکر میں سے ہی کسی نے بیان کئے ہوں گے...جیسا کہ خاکسار بیان کر چکا ہے وہاں ایک صاحب پہلے سے بیٹھے تھے انہوں نے طبیو را کے مذہبی حلقوں میں یہ بات خوب مشہور کی کہ مرزائی کی کسی بات کا مولوی صاحب جواب نہ دے سکے یہاں یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت امام حسین کو جنت کے نوجوانوں کا سردار سمجھتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق حضرت امام کے موقف کو ہی صحیح اور درست سمجھتی ہے اور یزید اور اس کے ساتھیوں کو ظالم اور فسادی مانتی ہے.00 47
برگ سبز خط و کتابت.پرانی یادیں ہمارے بچپن کی بعض ایسی باتیں جواب آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں ان میں سے ایک خطوں کا باہم تبادلہ بھی تھا.رشتہ داروں اور قریبیوں میں ایک دوسرے کو اپنی خیریت کی اطلاع دینا اور ان کی خیریت معلوم کرنے کا عام طریق تھا اور اگر اس معاملہ میں کوئی سستی سے کام لیتا تو اس سے شکوہ بھی کیا جاتا تھا.خط و کتابت کے لئے عام ذریعہ پوسٹ کارڈ اور لفافہ ہوتا تھا.ہم نے تین پیسے کا کارڈ اور چھ پیسے کا لفافہ دیکھا ہوا ہے بلکہ اسے استعمال بھی کیا ہوا ہے.لفافے اور کارڈ کے ذکر کے ساتھ قلم دوات کا ذکر بھی لازمی ہے.کارڈ یا خط لکھنے کے لئے قلم اور دوات استعمال ہوتی تھی.بزرگوں کی تحریریں تو قلم اور دوات سے ہی لکھی ہوتی تھیں بلکہ بعض بزرگ جو تیزی سے اور زیادہ لکھتے تھے ان کے متعلق تو یہ بھی مشہور تھا کہ انہوں نے ایک سے زیادہ دوات (سیاہی کی شیشی یا برتن ) رکھی ہوتی تھی.قلم آہستہ آہستہ ہولڈر کی شکل اختیار کر گئی یعنی قلم میں لوہے کانب استعمال ہونے لگا مگر پرانے بزرگ یہی کہتے رہے کہ لکھنے کا مزہ اور خوبصورتی قلم کے ساتھ ہی تھی.ہولڈر کی لکھائی میں وہ خوبصورتی اور بات کہاں.ہولڈر کے بعد فونٹین پین کا زمانہ آ گیا.ہولڈر کا قد چھوٹا ہو گیا اور 48
برگ سبز سیاہی کے لئے الگ دوات کی ضرورت نہ رہی بلکہ ہولڈر میں ہی سیاہی بھر لی جاتی تھی.اس پین نے بھی ترقی کی کئی منزلیں دیکھیں.شروع میں اس میں سیاہی کے لئے ایک ٹیوب ہوتی تھی جس میں سیاہی بھرنے کے لئے ایک لیور سا لگا ہوتا تھا.بعد میں ٹیوب کے بغیر پین بھی دستیاب ہو گئے.تاہم ابتدائی طور پر یہی مشہور تھا کہ ہولڈر سے لکھائی بہتر ہوتی ہے اور پین میں وہ بات نہیں بنتی.مجھے یاد ہے ہمارے ایک بزرگ محترم کرنل محمد رمضان صاحب کہا کرتے تھے کہ میں بال پوائنٹ استعمال ہی نہیں کرتا.اس سے لکھائی صاف نہیں ہوتی.اس بات سے ایک اور پرانی بات بھی یاد آ گئی.ہمارے محلہ میں ایک ضعیفہ رہتی تھیں وہ معمر اور نا بینا تھیں.میں ان کے خط لکھا کرتا تھا اور اس مقصد کے لئے کاغذ ، ہولڈر وغیرہ ساتھ لیکر ان کے ہاں جایا کرتا تھا.یہ زمانہ میری چھٹی ، ساتویں کلاس کا ہوگا.میں ہمیشہ ہی یہ سوچتا ہوں کہ اس زمانہ میں میری تحریر کیسی ہوگی اور یہ بھی کہ میرے لکھے ہوئے خطوط مکتوب الیہ تک پہنچ بھی جاتے ہونگے تو وہ پڑھے بھی جا سکتے ہوں گے یا نہیں! وہ معمر خاتون میری اس بری بھلی خدمت کے لئے مجھے بہت دعائیں دیا کرتی تھیں.اس خاندان کے کئی افراد کے نام مجھے یاد ہیں.اس خاتون کا ایک پوتا جرمنی میں مجھے ملا بھی تھا تا ہم میں عمداً ان کے نام نہیں لکھ رہا.پرانی یادوں کے سلسلے میں یہ لکھنا بھی بے محل اور غیر مناسب نہ ہوگا کہ بعد میں مجھے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولا نا عبدالمالک خان صاحب کے خطوط اور مضامین لکھنے کا بھی اتفاق ہوا.ان مواقع کو یہ خاکسار اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھتا ہے اور ان بزرگوں سے بہت سی باتیں سیکھنے کوملتی ایک بات جس کا خط و کتابت سے تو بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے لیکن میں نے ہمیشہ اس سے 49
برگ سبز فائدہ اٹھایا اور شاید کسی پڑھنے والے کے لئے مفید ہو یہاں تحریر کر رہا ہوں.استاد مکرم مولنا ابوالعطاء صاحب نے یاد فرمایا اور کہنے لگے میرے پاس بہت سے خطوط اور سوالات جمع ہو گئے ہیں اگر آپ فلاں وقت آجائیں تو میں جلدی جلدی ان کے جواب لکھوا سکوں گا.خاکسار وقت مقررہ پر حاضر ہو گیا.کئی خطوط کے جواب لکھے.حضرت مولانا صاحب کوئی کتاب دیکھ رہے تھے ، سامنے ان کی شیروانی لٹک رہی تھی.اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اس میں سے رومال پکڑا دیں.میں نے دائیں جیب یا بائیں جیب کا خیال کئے بغیر باہر سے دونوں جیبیں ٹٹول کر دیکھیں.حضرت مولانا صاحب نے مجھے ایسے کرتے ہوئے دیکھ لیا، فرمانے لگے: رو مال بائیں جیب میں ہوتا ہے“ میہ ایک سرسری سی بات تھی لیکن میں نے ہمیشہ اس بات سے فائدہ اٹھایا کہ دائیں طرف کیا ہونا چاہئے اور بائیں طرف کیا! خط و کتابت کا ذکر ہو رہا تھا.خطوط صرف خیریت کی خبر ہی نہیں پہنچاتے تھے بلکہ اس زمانہ میں تمام ضروری باتیں بھی خطوں کے ذریعہ ہی ہوتی تھیں ؎ چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا سے بھی خطوط کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے.کسی عزیز کا خط ملتا تو اسے تکیہ کے نیچے رکھا جاتا.بار بار پڑھا جا تا اور لطف لیا جاتا یا اس کے برعکس بھی ہوتا تھا.ہمارے ایک بزرگ کا یہ لطیفہ بھی بہت دُہرایا جاتا تھا کہ میں مرکز سے آنے والی ڈاک رات کے وقت نہیں کھولتا.رات آرام سے سو کر صبح ڈاک پڑھتا ہوں.50
برگ سبز خاکسار جب ملک سے باہر ہوتا تھا تو یہ اہتمام کرتا تھا کہ اماں جی کو ہفتہ میں ایک خط ضرور لکھ دوں تا وہ میری خیریت سے باخبر رہیں اور میری سستی یا تاخیر کی وجہ سے پریشان نہ ہوں.خاکسار کو بخوبی یاد ہے کہ پردیس میں رہنے والے نوجوانوں کو با قاعدہ خط لکھنے کی طرف توجہ دلایا کرتا تھا بلکہ ان سے یہ بھی پوچھا کرتا تھا کہ انہوں نے گھر خط لکھ دیا ہے یا کب لکھا تھا.او پر پین کا ذکر ہو چکا ہے اس کے بعد تو بال پوائنٹ کا زمانہ آیا اور سیاہی پرانے زمانے کی بات ہو گئی اور اب تو تحریر میں ٹائپ رائٹر کا زمانہ بھی چلا گیا اور کمپوزنگ کی نت نئی شکلیں اور آسانیاں سامنے آگئی ہیں جن سے سہولت تو بہر حال زیادہ ہوگئی ہے مگر خطوں کا اپنا ہی مزہ تھا.غالب کے خطوط کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور کئی ادیبوں کے خطوط انکی ادبی خدمات میں نمایاں مقام رکھتے ہیں.اور تو اور ایک عزیز کے نام خط حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی ایک بہت اہم کتاب ہے.یعنی خط کتاب کی شکل اختیار کر گیا اور اس میں مذہب کی ضرورت و اہمیت کا مضمون بہت عمدہ پیرا یہ میں بیان ہو گیا.’وا ذالصحف نشرت“ کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا.کون جانے مستقبل میں کیا کیا ظاہر ہونے والا ہے.51
برگ سبز دو بزرگ دو کتابیں 1960ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے.استاد محترم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کراچی تشریف لائے.حضرت مولوی صاحب کی آمد سے ساری جماعت خوش ہوتی تھی.کئی جلسوں اور ملاقاتوں کا اہتمام ہوتا تھا اور خوب چہل پہل اور رونق رہتی تھی.حضرت مولوی صاحب سے ان کے ایک پرانے ملنے والے نے پرانی باتوں کی یاد دلاتے ہوئے با اصرار درخواست کی کہ وہ ان کے ہاں تشریف لا ئیں.حضرت مولوی صاحب اپنے اس پرانے جاننے والے کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ان کے ہاں جانے کو تیار ہو گئے.جیسا کہ احباب جانتے ہیں کراچی میں تانگے بہت کم چلتے تھے، تاہم اس محلے میں جہاں وہ صاحب رہتے تھے وہاں تانگوں کا رواج تھا.حضرت مولوی صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تانگے پر سوار جارہے تھے کہ اتفاق سے وہ تانگہ راستہ میں الٹ گیا.حضرت مولوی صاحب کو چوٹیں آئیں.ڈاکٹری معائنے اور ایکسرے وغیرہ سے پتہ چلا کہ حضرت مولوی صاحب کی تین چار پسلیاں ٹوٹ گئی ہیں اور ان کا علاج سیدھے لیٹے رہنا اور آرام کرنا ہے.خاکساران دنوں کراچی میں مربی تھا.حضرت مولوی صاحب سے ملنے گیا.مولوی صاحب اپنے 52
برگ سبز شاگردوں کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے تھے.خاکسار واپس آنے لگا تو حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب اور تو کوئی کام نہیں ہے لیٹے لیٹے مطالعہ ہی کیا جاسکتا ہے.آپ دوبارہ آئیں تو کوئی کتاب لیتے آئیں.خاکسار نے اس وقت تو بخوشی یہ ذمہ داری لے لی کیونکہ خاکسار کی رہائش دار المطالعہ بندر روڈ پر تھی.اس لئے یہ کام بہت آسان لگا تاہم جب میں کتاب کا انتخاب کرنے لگا تو مجھے اس کام کی مشکل کا احساس ہوا.اگر تفسیر یا حدیث کی کوئی کتاب لے جاؤں تو وہ حضرت مولوی صاحب نے متعدد مرتبہ پڑھی ہوئی ہوگی.اگر کوئی اور کتاب لے جاؤں گا تو خود میرے ذوق مطالعہ کا بھی خوب اندازہ ہو سکے گا.آخر سوچ سوچ کر نا قابل فراموش جو مشہور صحافی دیوان سنگھ مفتون کی ایک کتاب ہے لے گیا.حضرت مولوی صاحب نے اسے پسند فرمایا.بعض واقعات پڑھے، ان پر تبصرہ بھی ہوتا رہا.ایک دن خاکسار نے عرض کیا کہ یہ کتاب سردار صاحب موصوف کی ان یادوں پر مشتمل ہے جو وہ کبھی کبھار اپنے اخبار ”ریاست“ میں شائع کیا کرتے تھے.اگر آپ بھی اپنے ماہنامہ الفرقان میں اسطرح اپنی زندگی کے واقعات تحریر فرمائیں تو ہم جیسے آپ کے شاگردوں اور جماعت کے دوسرے افراد کیلئے بھی بہت دلچسپ اور مفید ہوں گے.خاکسار کی بات پر حضرت مولوی صاحب نے کچھ تامل کے بعد فرمایا کہ مجھے اور بھی کئی لوگوں نے کہا ہے اب آپ نے بھی توجہ دلائی ہے.دیکھیں خدا تعالیٰ کو کیا منظور ہے.....ہے...میری خوشگوار حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے کچھ عرصہ کے بعد رسالہ الفرقان میں ”حیات ابی العطاء کے عنوان سے حضرت مولوی صاحب کی زندگی کے واقعات پڑھے.یہ واقعات اب خالد احمدیت کتاب کی زینت ہیں اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب لمبا عرصہ کراچی میں مربی رہے.خاکسار کی 53
برگ سبز خوش قسمتی ہے کہ میری ابتدائی تقرری کراچی میں ہوئی.حضرت مولوی صاحب سے براہ راست استفادہ کا موقع ملا.کراچی سے حضرت مولوی صاحب غانا تشریف لے گئے خاکسار بھی کراچی کے بعد ملتان ، حیدر آباد وغیرہ مقامات پر رہا اور جب حضرت مولوی صاحب بطور ناظر اصلاح وارشاد مرکز یہ میں خدمات بجالا رہے تھے تو اس وقت بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا.الحمد للہ.ان دنوں خاکسار کی بطور مربی لاہور میں تقرری ہوئی.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب ہم لاہور میں آپ کے پاس ہی رہا کریں گے.خاکسار نے اپنے دل میں سوچا کہ حضرت مولوی صاحب کے لاہور میں ہزاروں جاننے والے ہیں، حضرت مولوی صاحب کے رشتہ دار بھی لاہور میں ہی موجود ہیں ، میرے جیسے درویش کو حضرت مولوی صاحب کی میزبانی کا شرف کہاں حاصل ہوگا.مگر کچھ عرصہ کے بعد آپ کا لا ہور آنے کا پروگرام بن گیا اور مجھے بھی اپنی اس خوش قسمتی کی اطلاع مل گئی کہ حضرت مولوی صاحب میرے پاس تشریف لائیں گے.لاہور کے احباب خوب جانتے ہیں دہلی دروازہ کی پرانی مسجد کے ساتھ مربی کی پرانی طرز کی رہائش گاہ ہوتی تھی.خاکسار مرکز سے جاتے ہوئے اپنا بستر ساتھ لے گیا تھا اور اس طرح وہاں میری کل کائنات ایک چار پائی اور چند کتابیں ہی تھیں.بہر حال جماعت نے حضرت مولوی صاحب کی رہائش کا انتظام کر دیا.برسبیل تذکرہ یہ بھی ذکر کر دوں کہ جب خاکسار نے حضرت مولوی صاحب سے ناشتہ کیلئے پوچھا تو انہوں نے سادہ نان، مکھن اور چائے کی فرمائش کی جس بات کا یہاں ذکر کرنا مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے دوپہر کے وقت کچھ مطالعہ کرنا چاہا اور میری کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھایا.وہاں جوش ملیح آبادی کی مشہور کتاب یادوں کی بارات رکھی تھی جو میرے ایک جانے والے یہ کہہ 54
برگ سبز کر مجھے دے گئے تھے کہ آج کل یہ نئی کتاب آئی ہے شاید آپ نے ابھی نہیں دیکھی ہوگی...یادوں کی بارات میں جوش صاحب نے بہت کھل کر اپنی آزاد روی کا ذکر کیا ہے.حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر مجھے کچھ گھبراہٹ ہوئی...ہم عصر کی نماز کیلئے مسجد میں گئے.حضرت مولوی صاحب نے نماز پڑھائی اور پھر ہم میں سے کسی کی درخواست پر نہایت عمدہ برجستہ نصائح فرمائیں.یہاں یہ بتانے یا لکھنے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ حضرت مولوی صاحب میدان خطابت کے شہسوار تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جن خوبیوں سے نوازا تھا ان میں قوت بیان کی خوبی بہت نمایاں تھی.حضرت مولوی صاحب نے ان نصائح کے درمیان فرمایا کہ ابھی میں جوش صاحب کی کتاب ”یادوں کی بارات دیکھ رہا تھا ( خاکسار تو کچھ اور دبک کر بیٹھ گیا کہ نجانے کیا ذکر ہونے لگا ہے ) اس میں جوش صاحب نے ایک بزرگ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ لوٹے اور مصلے کے آدمی تھے جبکہ میں جام و ساغر کا آدمی ہوں.وہ کوئی نماز چھوڑتے نہیں تھے اور میں ادھر کا رُخ بھی نہیں کرتا.وغیر ہ ، مگر اس بزرگ کا بہت اچھے رنگ میں ذکر کیا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے کہ جو بھی کسی احمدی کو ملے اور دیکھے وہ اس کی نیکی سے ضرور متاثر ہو.حضرت مولوی صاحب نے شہد کی مکھی کی طرح اس کتاب سے بھی اچھی اور اپنے مطلب کی بات حاصل کر لی.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی نیکیوں کو قائم رکھے.بہترین جزا سے نوازے اور ہمیں ان خوبیوں سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین.55
برگ سبز خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد احمد یہ چوک قادیان ایک مجلس میں دوران گفتگو احمد یہ چوک کا ذکر آیا تو ایسے لگا کہ اس موضوع کا حق ادا نہیں ہو ا.اس بات کو آگے چلانے سے پہلے بعض اور ضروری باتوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا اس خاکسار پر خاص فضل و احسان اور جلوہ رحمانیت اس طور پر ہؤا کہ ایسے والدین کے ہاں پیدائش ہوئی جو دونوں پیدائشی احمدی اور مسیح موعود کے صحابہ کی اولاد تھے.والدین مسابقت بالخیر کے جذبہ سے سرشار تھے اور ہمیشہ اس جستجو میں رہتے تھے کہ اور کونسی نیکی بجالانے کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے.اسطرح وہ اپنی اولاد کے لئے قابل رشک نمونہ تھے اور ان کی اولاد کے لئے اس وجہ سے بہتری اور بھلائی کے حصول کے مواقع بافراط مل سکتے تھے.بچپن میں متعدد رفقاء حضرت مسیح موعود کی زیارت کے مواقع حاصل ہوتے تھے.حضرت مصلح موعود کی زیارت کی بکثرت سعادت ملتی تھی.بچپن میں بہت سادہ ، نیک اور مخلص اساتذہ سے استفادہ کی نعمت بھی حاصل رہی.ان فضلوں میں ایک بہت ہی نمایاں فضل 56
برگ سبز یہ تھا کہ بچپن کا اکثر حصہ مسجد مبارک کے سائے میں بلکہ الدار کے ایک حصہ میں گزارنے کی سعادت ملی.اب احمد یہ چوک کا کچھ ذکر ہو جائے.قادیان کی پرانی آبادی میں دو بازار تھے.ایک بڑا بازار کہلاتا تھا ، دوسرا احمد یہ بازار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا.بڑے بازار میں بالعموم غیر مسلموں کی دکا نہیں تھیں.حکیم ملا وامل صاحب کی دکان اسی بازار میں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر اپنی کئی کتب میں فرمایا ہے.خدائی نصرت کے کئی نشانات کے گواہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنی شادی کے سلسلے میں دہلی تشریف لے گئے تو یہ صاحب بھی ہمراہ تھے یا یوں کہہ لیجئے کہ بارات میں شامل تھے.ذکر بڑے بازار کا تھا.یہ بازار مسجد اقصیٰ تک پہنچ کر چھوٹی چھوٹی گلیوں میں تقسیم ہو جاتا تھا.ایک گلی یا تنگ بازار پرانے اڈے کی طرف جاتا تھا.ایک گلی مسجد اقصیٰ کے عقب میں پرانی آبادی کی طرف چلی جاتی تھی.ایک گلی مسجد اقصی کے ساتھ ساتھ سے نکلتی ہوئی احمد یہ بازار کی طرف چلی جاتی تھی.اسی رستہ پر وہ بڑی عمارت تھی جو مسجد اقصیٰ سے متصل کسی ہندو کی تھی.وہ ہندو مسجد اقصیٰ میں احمدیوں کی عام آمد ورفت اور کبھی ان کی چھت کو استعمال کرنے کی وجہ سے اکثر ناراض رہتے تھے.مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود کے ارشاد کے مطابق یہ عمارت احمدیوں کے قبضہ میں آگئی اور اپنے بچپن میں ہم نے اس میں احمد یہ دفاتر دیکھے تھے.( غالباً اب یہ عمارت مسجد اقصیٰ میں شامل ہو چکی ہے ).مسجد اقصیٰ کے ساتھ ساتھ نکلنے والی اس گلی میں آگے چل کر الدائر شروع ہوجاتا تھا اور مسجد مبارک آجاتی تھی.مسجد مبارک سے ایک بازار یا سڑک نکلتی تھی جو احمد یہ بازار کہلاتی تھی.اس جگہ کو جہاں احمد یہ بازار اور مسجد اقصیٰ سے آنے والی گلی ختم ہوتی تھی ، احمد یہ چوک 57
برگ سبز کے نام سے یاد کیا جاتا تھا.مسجد مبارک سے متصل گول کمرہ تھا جو الدار کا ہی حصہ تھا اسکے ساتھ ساتھ آگے الدار یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش گاہ تھی.مسجد مبارک کے ساتھ ہی ایک اور عمارت تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان رشتے داروں کی ملکیت تھی جو حضور کی پیشگوئی کے مطابق لا ولد اور منقطع النسل ہو گئے.اس عمارت میں بھی سلسلہ کے دفاتر ہوتے تھے.مسجد اقصیٰ سے آنے والی گلی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھی.ایک حصہ اس عمارت کی طرف آنے کا راستہ تھا اور دوسرا مسجد مبارک کے نیچے سے ہوتا ہؤا احمد یہ چوک میں ختم ہوتا تھا.پرانی عمارت یا مسجد مبارک کے مغرب کی طرف تھوڑی سی کشادہ جگہ یا بڑا صحن تھا جس میں ایک کنواں بھی تھا.اس جگہ مرزا گل محمد صاحب حضور کے رشتہ داروں کی نسل میں سے بچنے والے واحد انسان تھے جو احمدیت سے تعلق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری پیشگوئی کا نشانہ بننے سے بچ گئے تھے.اس احاطہ سے احمد یہ چوک کی طرف جانے والے راستہ پر گلشن احمد لکھا ہوا تھا جو اس بات کی یاد دہانی کرواتا تھا کہ اس جگہ کے مالک حضرت مسیح موعود کی صداقت کے نشان کے طور پر ختم ہو گئے اور خدائی تائید و نصرت کی برکت سے گلشن احمد ہی سدا بہار ہے.مسجد اقصیٰ کی طرف سے آنے والی تنگ گلی جو بعض جگہ سے چھتی ہوئی تھی احمد یہ چوک میں ختم ہونے سے چند قدم پہلے مسجد مبارک میں جانے کے لئے تنگ سی سیڑھیوں کے پاس سے گزرتی تھی.ہم نے حضرت مصلح موعود کو مسجد اقصیٰ جاتے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے ان سیڑھیوں کو ہی استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے.احمد یہ چوک میں پہنچنے کی جلدی میں کئی نشانات اور قابل ذکر عمارتوں اور باتوں کا ذکر رہتا جا رہا ہے تاہم یہ ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ دیوار کا نشان ان سیڑھیوں کے قریب ظاہر ہو ا تھا.حضرت 58
برگ سبز اقدس علیہ السلام کے مخالف رشتہ داروں نے احمدیوں کو تنگ کرنے کے لئے یہاں دیوار بنا دی تھی تا کہ الدار اور مسجد کی طرف جانے والے احمدیوں کو لمبا چکر کاٹ کر آنا پڑے.حضور کی دعا سے یہ دیوار بنانے والوں کو گرانی پڑی.حضرت مسیح موعود نے اس نشان کے ظاہر ہونے اور احمدیوں کی مشکل آسان ہونے پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا.مسجد مبارک سے چند قدم پر احمد یہ چوک تھا.احمد یہ چوک کی ایک مرکزی جگہ پر محترم والد صاحب کی دکان تھی.اس دکان سے حاصل ہونے والی بے شمار برکات کا یہاں ذکر کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اس چوک کے ناقابل فراموش نظارے میرے بچپن کی انتہائی خوشگوار یادیں ہیں.اس جگہ سے خاکسار نے بے شمار مواقع پر دیکھا کہ مسجد کے ساتھ ایک قطار بن رہی ہے.یہ اس بات کی علامت تھی کہ حضرت مصلح موعود کہیں تشریف لے جار ہے ہیں.اس قطار میں کبھی دس ہیں آدمی ہوتے اور کبھی سو پچاس کیونکہ اس کا پہلے سے کوئی اعلان نہیں ہوتا تھا.ہم اس قطار کو دیکھتے ہی بچپن کی شوخی میں شروع میں جا کر کھڑے ہو جاتے اور حضور سے شرف مصافحہ حاصل کرتے بلکہ اکثر یہ بھی ہوتا کہ چند آدمیوں کے بعد پھر نمودار ہو کر مصافحہ کا شرف حاصل کرتے اور پھر اپنے ہم عمروں کو خوشی خوشی بتاتے کہ آج تو اتنی دفعہ مصافحہ کیا ہے.احمد یہ چوک ایسی جگہ تھی کہ جہاں مسجد اقصیٰ سے آنے والے مسجد مبارک سے آنے والے، بہشتی مقبرہ سے آنے والے، مدرسہ احمدیہ سے آنے والے ہنگر خانہ سے آنے والے ضرور ہی گزرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ خاکسار نے اس جگہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، 59
برگ سبز حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب ، حضرت میر محمد اسحق صاحب اور دوسرے کئی صحابہ رضی اللہ تعالی منظم اور بزرگوں کو دیکھا.آسمان احمدیت کے ان درخشندہ ستاروں کی زیارت آج بھی خوشی اور مسرت سے دل کو لبریز کر دیتی ہے.جلسہ سالانہ کے دنوں میں تو اس جگہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی.یوں لگتا تھا کہ جلسہ کے بعد جلسہ اس چوک میں آگیا ہے.احمدیوں کی باہم ملاقات کی یہ بہترین جگہ تھی.السلام علیکم کی گونج رہتی تھی اور پھر یہ بھی کہ ”بھائی جان ہم دس سال کے بعد پھر یہاں ہی مل رہے ہیں.”اچھا ہو گیا آپ سے ملنے کی خوشی حاصل ہوئی.”آپ یہاں کیسے.آپ تو ہماری مخالفت کرتے تھے اور ہمیں بھی قادیان آنے سے منع کیا کرتے تھے“.”احمدیت کی صداقت ہم پر ظاہر ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب مخالف نہیں بلکہ احمدی ہیں اور الحمد للہ آپ سے یہاں مل رہے ہیں اس چوک میں بعض بزرگ اپنے تبلیغی تجربات سنا کر لوگوں کے محظوظ کر رہے ہوتے.ایسے ایک بزرگ محمد یوسف صاحب پشاوری تھے ( یہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نہیں ہیں ) جو بخوشی بتایا کرتے تھے کہ کوئی بھی مخالف ہو میں اسے پانچ منٹ میں خاموش کر سکتا ہوں اور وہ ایسی بہت سی مثالیں بیان کیا کرتے تھے.ایک اور درویش صفت بزرگ ( غالباً ان کا نام علی محمد پر دیسی تھا) کندھے سے کپڑے کی ایک جھولی سی لٹکائے پنجابی زبان کے اشعار سنا رہے ہوتے لوگ بخوشی ان سے چھوٹی چھوٹی کتابیں (جو ان کی جھولی میں ہوتی تھیں) ایک آنے دو آنے قیمت پر لے رہے ہوتے تھے.مجھے یہ بزرگ اس لئے بھی یادرہ گئے ہیں کہ وہ میرے نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب کے اشعار بھی سنایا کرتے تھے.تجارتی لحاظ سے تو شاید یہ کوئی منافع بخش سلسلہ نہیں 60
برگ سبز تھا مگر تبلیغی لحاظ سے بہت ہی مفید سمجھا جاتا تھا.جلسے کے دنوں میں یہ چوک بلکہ آگے جا کر ایک طرف سے مدرسہ احمدیہ تک اور دوسری طرف سے دارالانوار جانے والے رستہ تک نمازیوں کی صفیں بن جاتی تھیں.خدا کے ان برگزیدہ بندوں کی دعائیں اس کے فضلوں کے حصول کا ذریعہ بن کر دنیا بھر کے عظیم الشان جلسہ ہائے سالانہ کے لئے بطور بیچ بن گئیں.وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار 61
برگ سبز اخلاص و محبت کی پرانی یادیں تاریخ احمدیت جلد سترہ کی اشاعت ہونے پر یہ مضمون لکھنے کی توفیق ملی.مرکز کی طرف سے تاریخ احمدیت جلد سترہ موصول ہوئی.اس گراں قدر اور قیمتی کتاب کو پا کر بہت خوشی ہوئی.یہ کہنا کسی طرح بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ پوری کتاب مسلسل پڑھ ڈالی اور جب کتاب ختم کی تو صبح قریباً پانچ بجے کا وقت تھا.اکثر واقعات چشم دید ہونے کی وجہ سے حضرت مصلح موعود کا زمانہ آنکھوں کے سامنے آ گیا.آپ کے پر شوکت خطاب روح آفریں تقاریر آپ کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتیں تبلیغ اسلام کی دھن اور لگن وغیرہ ان سطور کے لکھنے کا محرک حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گوہر مرحوم مغفور کا ایک فقرہ ہوا.آپ اپنی خود نوشت سوانح یا بیعت کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک پرانے احمدی دوست سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 1900 میں اکتوبر میں تار پر حکم پہنچنے پر بھون گاؤں تحصیل میں نائب تحصیلدار ہو کر تین ماہ کے لئے گیا.تحصیلدار مولوی تفضّل حسین صاحب تھے ( پرانے احمدی دوست)، ہم دونوں کو جو خوشی حاصل ہوئی وہ ہر احمدی اندازہ کر 62
برگ سبز سکتا؟.66 تاریخ احمدیت جلد سترہ - صفحہ 375 ) یہ سادہ سا فقرہ پڑھ کر میں ان کی خوشی کا اندازہ کرنے لگا اور عالم تصور میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی اس چھوٹی سی معمولی سی کچے پکے مکانوں اور ٹیڑھی میڑھی گلیوں والی بستی میں پہنچ گیا جسے دنیا قادیان کے نام سے جانتی ہے.یہ بستی جس سے انتہائی اخلاص اور پیار کی یادیں وابستہ ہیں.اس بستی کے گلی کوچوں کی مرمت کے رضا کارانہ کام میں حضرت مصلح موعود کو اپنے کندھوں پر مٹی ڈھونے کا نظارہ ابھی تک ذہن میں اس طرح تازہ ہے جیسے اسوقت بھی آنکھوں کے سامنے ہو.یہ بستی جس میں حضرت میر محمد اسمعیل صاحب جیسا صوفی منش درویش رہتا تھا، جہاں حضرت مولانا شیر علی جیسا فرشتہ صفت انسان دست با کاراور دل با یار کی مکمل تصویر بستا تھا.جہاں حضرت میر محمد اسحاق جیسا عاشق رسول، محدث ومفسر رہتا تھا ، وہ بستی جس میں علم معقول و منقول کا پہاڑ حضرت مولوی سرور شاہ رہتا تھا.وہ بستی جس میں دعا اور ذکر حبیب کا متوالا حضرت مفتی محمد صادق دھونی مارے ہوئے تھا ، ہاں وہی بستی جس میں کتنے ہی غریب طبع درویش ابو ہریرہ صفت رہتے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا عبادت ، دعا اور تبلیغ تھی.یہ فہرست تو بہت لمبی ہو جائے گی مختصر طور پر اس بستی کا تعارف اس طرح بھی کرایا جا سکتا ہے کہ جہاں مسیح پاک علیہ السلام کی برکت سے منتخب روزگار افراد ہندوستان کے ہر کونے بلکہ بیرون ہندوستان سے بھی آکر جمع ہو گئے تھے مگر وہ سب ایک دوسرے کے ” بھائی جی“ تھے.وہاں کوئی غیر نہیں تھا.ہر بزرگ بابا جی یا میاں جی تھا.جہاں ہر خاتون مجسم شرم و حیا اور زہدو تقا، ماسی جی یا خالہ جی تھی.وہاں کوئی اونچ نیچ نہیں تھی.وہاں عزت کا معیار علم اور تقویٰ 63
برگ سبز تھا.جہاں السلام علیکم کی گونج ہوتی تھی.جہاں تلاوت قرآن کی آواز ہر گھر سے آتی تھی.یہ مختصر تعارف بھی مفصل ہوتا جا رہا ہے.ایسے حالات میں ایک اجنبی اور نئی جگہ دو احمدی بھائیوں کی باہم اچانک ملاقات کس قدر خوشی کا باعث ہوتی ہوگی.اس کے لئے ایک واقعہ پیش خدمت ہے.ضلع جہلم میں ایک مشہور قصبہ دوالمیال کے نام سے مشہور ہے.اس کی شہرت کی وجہ وہاں کے وطن عزیز کی فوج کے جیالے ہیں.ہر گھر سے نوجوان بھرتی ہو کر بہادری اور جانبازی کی اعلی مثالیں قائم کرنے والے اور بلند ترین فوجی اعزازات حاصل کرنے والے.اس دور دراز علاقہ میں احمدیت حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچ چکی تھی اور کسی صاحب دل احمدی نے پہاڑ کی بلندی پر بہت ہی موزوں جگہ پر اچھی فراخ اور وسیع مسجد تعمیر کروائی ہوئی تھی.اس مسجد میں مینارة امسيح قادیان سے ملتا جلتا کسی قدر چھوٹا ایک مینار بھی ہے اور غالباً اسی وجہ سے علاقہ میں یہ قصبہ قادیان ثانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.اس مسجد میں بیٹھ کر ہمارے بزرگ حضرت قاضی عبد الرحمان صاحب دراز قد ، صحت مند ، فربہ جسم ہمسکرا تا ہوا چہرہ، نورانی داڑھی ،مخلص اور فدائی نے خاکسار کو اپنا ایک پرانا واقعہ سنایا.انہیں کی زبانی سنئے.جنگ عظیم میں جب ہمیں برما بھجوانے کے لئے ایک خستہ حال مال بردار قسم کے جہاز میں سوار کیا گیا اور میں نے جہاز میں جا کر دیکھا کہ مسافر تو بہت زیادہ ہیں مگر نہ تو کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ضروری سہولتیں میسر ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر مجھے یہ خیال ستانے لگا کہ میں غیر ملک میں جارہا ہوں.میرے ساتھ کوئی بھی احمدی نہ ہوگا گویا با جماعت نماز بھی میسر نہ ہوگی.درس قرآن وحدیث سننے کو نہ ملے گا.ذکر حبیب اور ملفوظات سے بھی محروم رہوں گا.ان خیالات نے اتنا غلبہ کیا کہ میں نے جہاز کے ایک کونے میں جا کر نماز شروع کر دی.نماز میں 64
برگ سبز خوب رقت طاری ہوئی اور میں نے رو رو کر دعا کی کہ اے خدا مجھے اکیلا نہ رہنے دینا.دعا کر کے دل میں سکون سا پیدا ہوا.کمرے سے باہر نکلا.ہجوم کا اس نظر سے جائزہ لیا کہ ان میں جو معقول صورت شریف آدمی نظر آئے ، اس سے دوستی کی جائے اسے تبلیغ کی جائے اور اس طرح جماعت سے محرومی کا ازالہ کیا جائے.کچھ دیر جائزہ لینے کے بعد میری نظر نے ایک صاحب کو منتخب کر لیا.میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں نے گفتگو کو مذہبی اور تبلیغی رنگ دے دیا.مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ وہ صاحب میری باتیں پوری توجہ اور دلچسپی سے سن رہے ہیں.کوئی گھنٹہ بھر باتیں ہوئی ہوں گی کہ وہ صاحب بڑے والہانہ انداز میں مجھ سے چمٹ گئے اور کہنے لگے کہ میں تو اللہ کے فضل سے احمدی ہوں آپ کی باتوں سے مزہ لے رہا تھا اس لئے فوراً ہی آپ کو نہیں بتا یا تھا.حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ پھر ہماری نمازیں با جماعت شروع ہوگئیں.سلسلہ کی کچھ کتب ان کے پاس تھیں کچھ میں بھی ساتھ لایا تھا.درس وغیرہ کا روح پرور اور ایمان افروز سلسلہ شروع ہو گیا.(خاکسار کو یاد نہیں آرہا کہ مکرم قاضی صاحب نے اپنے اس نو دریافت احمدی کا نام بتایا تھا یا نہیں.بہر حال ان کا نام خاکسار کو معلوم نہیں ہے ) اپنے اسی سفر کے سلسلے میں قاضی صاحب نے فرمایا کہ ہم اپنی روز مرہ کی خدمات اور ذمہ داریاں بجالا رہے تھے زندگی کافی حد تک ایک معمول پر آ گئی تھی.کچھ عرصہ کے بعد ہم نے سنا کہ ہمارے یونٹ میں ایک مسلمان ڈاکٹر آ رہے ہیں طبعاً سب مسلمانوں کو خوشی ہوئی کیونکہ اس زمانہ میں ڈاکٹر عام طور پر انگریز ہی ہوتے تھے یا پھر چند ہندو ڈاکٹر تھے، لہذا مسلمان ڈاکٹر کا بہت بے چینی سے انتظار ہونے لگا.خدا خدا کر کے ڈاکٹر صاحب آئے.ان کی شکل بالکل انگریزوں کی طرح تھی اور رعب و دبدبہ بھی بہت تھا.ایک روز ڈاکٹر صاحب 65
برگ سبز کے اردلی نے مجھے بتایا کہ قاضی صاحب یہ ڈاکٹر تو کوئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ کوئی ولی اللہ لگتا ہے.میں نے اسے رات تہجد میں اور دن کو تلاوت میں روتے ہوئے دیکھا ہے.حضرت قاضی صاحب فرماتے تھے کہ اسے سن کر مجھے فوراً ہی یہ خیال آیا کہ ایسا نیک شخص تو احمدی ہونا چاہئے اور اگر یہ احمدی نہیں ہے تو اسے احمدی کرنا چاہئے.مگر فوجی ضوابط اور ڈاکٹر صاحب کے رعب کی وجہ سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کس اعتقاد کے حامل ہیں.تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک صورت پیدا فرمائی.فوجیوں کی عام حاضری اور ڈیوٹی کی تقسیم کے وقت ایک فوجی نے بیماری کا عذر پیش کیا.ضابطہ کے مطابق ضروری تھا کہ اسے فوری طور پر ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش کیا جائے.اگر وہ اس کی بیماری کی تصدیق کریں تو اسے ڈیوٹی سے مستنی سمجھا جائے ورنہ بہانے بنانے کی سزا دی جائے.اس غرض کیلئے میں نے مطبوعہ فارم پر کر کے اپنے دستخطوں کے بعد نمایاں طور پر AHMADI لکھ دیا اور اس سپاہی کو ایک دوسرے سپاہی کے ہمراہ ڈاکٹری معائنہ کے لئے بھجوا دیا.ان کو بھیج کر میں پوری وردی پہن کر ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے کے لئے تیار ہوکر بیٹھ گیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اگر ڈاکٹر صاحب احمدی ہیں تو باہم محبت کی وجہ سے اور اگر احمدی نہیں ہیں تو مخالفت کی وجہ سے بہر حال مجھے ضرور طلب کریں گے.حضرت قاضی صاحب فرماتے تھے کہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہی سپاہی بھاگتا ہو ا بہت گھبراہٹ کے عالم میں آیا اور کہنے لگا کہ قاضی صاحب نہ معلوم آپ نے اس فارم میں کیا لکھ دیا تھا صاحب کو دیکھتے ہی غصہ آگیا اور اس نے آپ کو فوری طور پر طلب کیا ہے میں نے مسکراتے ہوئے اسے کہا کہ کوئی بات نہیں میں تو پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کی ملاقات کے لئے تیار بیٹھا ہوں جب میں ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا تو وہ اپنے بنگلے میں آرام کر رہے تھے.66
برگ سبز چار پائی پر مچھر دانی لگی ہوئی تھی.وہاں لیٹے لیٹے بظاہر بڑے غصہ سے پوچھنے لگے کہ یہ فارم کس نے پر کیا تھا؟ اس فارم پر کس کے دستخط ہیں؟ وغیرہ میرے یہ بتانے پر کہ یہ اس خاکسار کا ہی کام ہے.ڈاکٹر صاحب مچھر دانی کو ایک طرف کرتے ہوئے اٹھے اور مجھ سے معانقہ کر لیا.یہ قابل فخر ڈاکٹر حضرت میجر حبیب اللہ شاہ (بقول حضرت مسیح پاک علیہ السلام جنتی خاندان کے ایک فرد) تھے.روزوں کے دن تھے.ہماری نماز تراویح بھی ہونے لگی اور درس بھی باقاعدگی سے ہونے لگا.خاکسار حضرت ذوالفقار علی خان گو ہر مرحوم کے فقرہ پر ہی ان متفرق یادوں کو ختم کرتا ہے کہ اس غیر متوقع اچانک ملاقات پر حضرت قاضی صاحب اور حضرت شاہ صاحب کو جو خوشی حاصل ہوئی ہوگی اس کا اندازہ ہر احمدی کر سکتا ہے.90 67 00
برگ سبز دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو 2017 کا پہلا دن ہے.پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ خاکسار کے لئے سیکھنے کے جو مواقع تھے وہ کم ہی لوگوں کو میسر آتے ہیں.بچپن قادیان میں گزرا محلہ میں متعدد صحابہ کرام نیم موجود تھے جن کی بزرگی اور شفقت کی یاد آج بھی خوشی کی لہر پیدا کر دیتی ہے.حضرت مولوی شیر علی صاحب جیسا فرشتہ انسان ہمارے گھر سے چند قدم پر رہتا تھا.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب بھی وہاں پر ہی رہتے تھے.ان دونوں بزرگوں کی خوبیوں پر تو کئی صفحات لکھے جاسکتے ہیں لیکن پھر میں اپنے مضمون یا دعا کی درخواست سے دور نکل جاؤں گا.ہمارے محلہ کے صدر صاحب بھی تو ایک صحابی حضرت چوہدری سر بلند خان صاحب تھے جو ہمارے ایک بہت کامیاب مربی مکرم محمد اجمل صاحب کے والد بزرگوار تھے.ہمارے محلے دار الفتوح کی صدر صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کی بیٹی محترمہ خدیجہ صاحبہ تھیں.ان سے پہلے ایک اور بزرگ خاتون صدر لجنہ تھیں.سارا محلہ انہیں پھوپھی جی کہتا تھا وہ مشہور صحابی قاضی محمد عبد اللہ صاحب ، قاضی عبدالرحمان صاحب کی ہمشیرہ تھیں.میری بڑی بہن امتہ اللطیف صاحبہ بہت چھوٹی عمر سے لجنہ کے کام کرنے لگی تھیں اور 68
برگ سبز مذکورہ دونوں بزرگ خواتین کی سیکرٹری تھیں.اس لئے اس خاکسار کو بھی ان بزرگوں کے ہاں آنے جانے کے بہت مواقع ملتے تھے.خاکسار نے کلام پاک پڑھنا شروع کیا تو حضرت مصلح موعودؓ سے بسم اللہ کروانے کی درخواست کی گئی جو الحمد للہ منظور ہوئی اس طرح اس جاہل کی تعلیم میں حضرت مصلح موعود جیسی عظیم شخصیت بھی شامل ہوگئی گو بعد میں تو کلام محمود اور آپ کی شاندار علمی تصانیف سے بہت کچھ پڑھا اور سیکھا.قرآن مجید تو ہم سب بہن بھائیوں کو ہماری والدہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ نے پڑھایا اور اس پیار سے پڑھایا کہ ہمیشہ کے لئے پڑھنے کی لگن لگ گئی.تعلیم الاسلام پرائمری سکول میں داخلہ ملا.ابتدائی اساتذہ ماسٹر شاہ محمد صاحب ، ماسٹر نواب دین صاحب، ماسٹر عبدالعزیز صاحب، ماسٹر حسن محمد صاحب، ماسٹر اللہ بخش صاحب تھے.ابتدائی تین اساتذہ تو سائیکلوں پر قریبی گاؤں تلونڈی سے پڑھانے آتے تھے.پانچویں جماعت کے بعد چھٹی جماعت میں جانے کی خوشی میں یہ امر بھی شامل تھا کہ اب ہم تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عظیم الشان عمارت میں جایا کریں گے.ہماری یہ خوشی چند روزہ ہی ثابت ہوئی کیونکہ انہیں دنوں تعلیم الاسلام کالج شروع ہو گیا اور اس عالی شان عمارت میں کالج کی تعمیر شروع ہو گئی اور ہم واپس اسی سکول میں آگئے جسے پہلے پرائمری سکول کہا جاتا تھا اور بعد میں کچھ نئی عمارت کی تعمیر کے بعد وہی عمارت ہائی سکول میں تبدیل ہو گئی.ہائی سکول میں اس زمانہ میں ایسے مشاہیر اساتذہ تھے کہ جو قادیان یا سکول ہی نہیں بلکہ علمی دنیا میں بھی کمال کو پہنچے ہوئے تھے.سب اساتذہ کے نام تو شاید یاد نہ آئیں مگر ماسٹر چراغ محمد صاحب، ماسٹر رحمانی صاحب، چوہدری عبدالرحمان صاحب، چوہدری اللہ بخش صاحب، المعروف زراعتی صاحب اور مرزا احمد شفیع صاحب کے اسماء گرامی فوری طور پر ذہن میں آ 69
برگ سبز جاتے ہیں.ان کی شفقتوں کا ذکر بھی تفصیل کا تقاضا کرتا ہے، تاہم دعا کی درخواست کے لئے تو اس سے زیادہ لکھنا شاید مناسب بھی نہ ہو کیونکہ یہ نام اتنے معروف اور ان کی خوبیاں اتنی عام ہیں کہ ان کے شاگردوں کے سامنے ان سب بزرگوں کی تصویریں اور خوبیاں ایک رنگین فلم کی طرح آتی چلی جائیں گی.ہائی سکول کے اساتذہ میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کا ذکر بھی نمایاں ہے.خاکسار ان سے براہ راست کسب فیض اور استفادہ نہیں کر سکا تاہم ان کا نظم و ضبط ، خوش خلقی اور صفائی و نفاست بے مثال تھی.ان سے پہلے اس منصب پر پر حضرت سید سمیع اللہ شاہ صاحب تھے جو اپنی بزرگی اور نیکی کی وجہ سے بہت بلند مقام رکھتے تھے.خاکسار نے آٹھویں جماعت تک تو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد مدرسہ احمدیہ میں پڑھنے یا زندگی وقف کرنے کی توفیق ملی.اس مدرسہ کے پہلے ہیڈ ماسٹر حضرت مصلح موعودؓ تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قمرالانبیاء سے بھی اس درسگاہ نے استفادہ کیا.حضرت میر محمد الحق صاحب بھی اس مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر رہے.خاکسار نے حضرت مولوی عبدالرحمان جٹ صاحب کو بھی اس مدرسہ کا ہیڈ ماسٹر دیکھا.جٹ صاحب درویشی کے زمانہ میں ناظر اعلیٰ صدر انجمن قادیان اور امیر جماعتہائے ہندوستان کے بلند منصب پر فائز ہوئے.خاکسار کے والد بزرگوار عبدالرحیم صاحب دیانت بھی درویشی کی سعادت سے بہرہ ور تھے اس لئے خاکسار کو بکثرت قادیان جانے اور حضرت مولوی جٹ صاحب کی شفقت سے حصہ لینے کا موقع ملتا رہا.مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ میں مولوی محمود خلیل صاحب ( غالباً بعد میں وہ اپنا نام محمود سکندر لکھنے لگے تھے ) مرحوم جوانی کی عمر میں ہی اچانک راہی ملک عدم ہو گئے 70
برگ سبز تھے.مکرم مولوی محمد شریف امینی صاحب.مکرم مولوی محمد حفیظ بقا پوری صاحب.مکرم ماسٹر غلام حیدر صاحب کے نام نمایاں تھے.خاکسار کے زمانہ تعلیم میں مدرسہ احمدیہ میں چار سال کا نصاب تھا.پھر جامعہ احمدیہ میں چار سال کی تعلیم تھی.ربوہ میں کچھ عرصہ جامعتہ المبشرین کے نام سے الگ درسگاہ بھی شروع ہوئی تھی.آجکل جامعہ احمدیہ جونیئر اور جامعہ احمدیہ سینیئر کے نام سے یہ درسگاہیں مشہور ہیں اور ان کی شاخیں دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں.جامعہ احمدیہ میں ہمارے بزرگ اساتذہ میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارہ،حضرت قاضی محمد نذیر صاحب، حضرت قریشی محمد نذیر صاحب ، حضرت مولوی عطاء الرحمان صاحب، حضرت مولنا ابوالحسن قدسی صاحب، حضرت ماسٹر غلام حیدر صاحب،حضرت مولوی شہزادہ خان صاحب شامل تھے.حضرت مولنا ابو العطاء صاحب جامعہ کے پرنسپل تھے.جامعتہ المبشرین کے ادارہ میں پہلے کوئی پرنسپل نہیں تھے.حضرت مصلح موعود مختلف اسا تذہ کو تین ماہ کے لئے سیکرٹری جامعہ کے نام سے مقرر فرماتے تھے جو پرنسپل کے فرائض سرانجام دیتے تھے.جامعہ المبشرین کے پہلے با قاعدہ پرنسپل حضرت مولٰنا ابوالعطا صاحب مقرر ہوئے تھے اور اتفاق سے یہ وہی سال تھا جب خاکسار مولوی فاضل کرنے اور جامعہ احمدیہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ المبشرین میں داخل ہوا.گو یا خاکسار جامعہ احمدیہ میں تھا تو وہاں استاد محترم مولنا ابوالعطا صاحب پرنسپل تھے اور جب جامعہ المبشرین میں داخل ہوا تو وہاں بھی استاد مرحوم کی محبت ، شفقت اور تربیت سے استفادہ کا موقع ملا.الحمد للہ.خاکساران فضلوں کو یاد کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات خاکسار کو حاصل 71
برگ سبز ہوئے تھے تو اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض ان صحابہ کا ذکر ہو جن کی بکثرت زیارت ہوتی تھی.یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہو گا کہ خاکسار کے والد محترم کی دکان مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے چند قدم کے فاصلہ پر اس مرکزی جگہ پر تھی جسے احمد یہ چوک کہا جاتا ہے.اس طرح وہاں پر سلسلہ کے اکابرین اور نمازیوں کا قریباً ہر وقت ہجوم رہتا تھا.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب با قاعدہ وہاں سے مسجد مبارک جاتے ہوئے نظر آتے.بالکل سامنے حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب ہوتے تھے.ان کے مکان کے پہلو سے جوگی نکلتی تھی اس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ہوتے تھے.بالکل پڑوس میں ایک طرف حضرت مرزا مہتاب بیگ صاحب کا درزی خانہ تھا.حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب کی رہائش بھی وہاں پاس ہی تھی.بالکل نزدیک ہی حضرت مولوی قطب الدین صاحب کا دواخانہ تھا.غالباً یہی وہ مطب تھا جہاں حضرت مولنا نور الدین پریکٹس کیا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب کے مکان بھی اس کے پہلو میں تھے.ہماری دکان کے ساتھ ایک بہت بزرگ انسان حضرت مولوی غلام رسول افغان صاحب کی دکان تھی.ان کی دودھ دہی کی دکان تھی مگر وہ ہمہ وقت بڑے سائز کا قرآن مجید کھولے ہوئے تلاوت میں مصروف نظر آتے تھے.بھائی شیر محمد صاحب ، حضرت احمد دین صاحب ڈنگوی" بھی وہاں پاس پاس ہی تھے.مولوی محمد یامین صاحب تاجر کتب کی دکان بھی اسی چوک میں تھی.حضرت پیر منظور احمد صاحب موجد قاعدہ میسر نالقرآن بھی اسی جگہ رہتے تھے.حضرت پیر سراج الحق صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب کی زیارت تو خاکسار کو یاد نہیں مگر ان کی رہائش بھی تو اسی چوک میں تھی.خاکسار جس دکان کا ذکر کر رہا ہے، یہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی شہر والی رہائش گاہ کا ایک حصہ 72
تھی اور ” الدار سے ملی ہوئی تھی.برگ سبز جلسہ سالانہ کے دنوں میں یہ چوک مسجد مبارک کا حصہ بن جایا کرتی تھی اور نمازیوں کی صفیں اس چوک سے نکل کر دور دور تک چلی جایا کرتی تھیں اور جلسہ کے درمیانی وقفوں کے دوران اور صبح اور شام تو یوں لگتا تھا کہ جلسہ یہاں ہو رہا ہے.اس جگہ رونق تو قابل ذکر تھی مگر احمدی بھائیوں اور بزرگوں کی باہم ملاقاتیں ایک اور ہی دنیا میں لے جاتی تھیں.یہ یادیں تو ایسا لگتا ہے کہ لا متناہی اور ختم نہ ہونے والی ہیں ؎ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو اے کاش! ان بزرگوں سے اور بہت کچھ سیکھ لیا جاتا.اے کاش ان مقدس مقامات سے کچھ نیکی اور بزرگی حاصل کر لی ہوتی.اب تو حضرت عمر کی دعا: اللهم لا لی ولا علی ہی یاد آتی ہے (اے اللہ حساب برابر کر کے بخشش کا سلوک فرما) آمین.یہ بزرگ اساتذہ اور کرم فرما بھی جنت الفردوس میں حضرت امام مہدی اور آنحضرت صلی ایتم کی معیت و قرب سے سرفراز ہوں.آمین.73
برگ سبز میرا قادیان برادرم پرویز پروازی صاحب کا ایک مضمون ” قادیان میں بزرگوں اور رفقاء مسیح موعود کی کہکشاں“ کے نام سے شائع ہوا ہے (الفضل ربوه 4.07.15) محترم پروازی صاحب خوب لکھتے ہیں اور جب ان کی تحریر میں قادیان کی پرانی یادوں کا ذکر ہو تو دلچسپی اور افادیت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے.مذکورہ مضمون کے شروع میں مجیب الرحمان صاحب (ایڈووکیٹ ) کی حیرت کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ہم قادیان کے محلہ دار ہیں اور عمروں میں بھی ایک دو برس کا تفادت ہے مگر یہ عجیب بات ہے کہ تمہیں قادیان کے جن بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے اور متمتع ہونے کا موقع ملا مجھے وہ نصیب نہیں ہوا.“ یہ مضمون پڑھتے ہوئے خاکسار کو بھی ایک ایسا ہی پرانا واقعہ یاد آیا.بہت سالوں کی بات ہے قادیان کے ایک جلسہ سالانہ پر حسن اتفاق سے بزرگ استاد حضرت مولنا محمد احمد جلیل صاحب محترم پروازی صاحب کے خسر) کی رفاقت میسر آئی.مولنا صاحب 74
برگ سبز اپنے تجر علمی اور سلسلہ کی خدمات کے علاوہ عمر میں بھی بہت سینیئر تھے.قادیان کی گلیوں میں گھومتے ہوئے میں اپنی معلومات کے مطابق ان کو ساتھ ساتھ بتاتا جارہا تھا کہ یہ فلاں صاحب کا گھر ہوتا تھا، یہ راستہ کدھر جاتا ہے وغیرہ.تھوڑی دیر تو محترم مجھے برداشت کرتے رہے پھر ایک جگہ رک کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگے کہ: جمعہ جمعہ آٹھ دن تمہاری عمر ہے اور تم مجھے قادیان کی ایسی باتیں بتارہے ہو جو مجھے بھی معلوم نہیں....“ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کی وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ آپ باہر محلے میں رہتے تھے اور مجھے شہر کے مرکز میں رہنے کا موقع ملا.اسی طرح یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ محترم والد صاحب کو درویشی کی سعادت حاصل ہوئی اور خاکسار پاکستان سے متعدد دفعہ یہاں آنے کی توفیق پارہا ہے.اس ضمن میں ایک اور دلچسپ یاد پیش کرتا ہوں.خاکسار قادیان گیا ہو ا تھا.ایک عزیز کے ہمراہ تعلیم الاسلام کالج مسجد نور وغیرہ سے آگے حضرت نواب محمد علی صاحب کا بنگلہ دیکھ کر واپس آرہا تھا.ہائی سکول کے قریب پیچھے سے ایک تانگہ ہمارے پاس آکر رک گیا.اس میں محترم مولنا جلیل صاحب کے چھوٹے بھائی لطیف صاحب اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے.وہ پوچھنے لگے کہ آپ اپنا مکان اور دکانیں دیکھ آئے ہیں ؟ ہم اس جگہ کے قریب ہی تھے.میں نے انہیں واپس جا کر ان کی مطلوبہ جگہ دکھائی تو وہ کہنے لگے کہ میں اپنے گھر والوں کو اپنا مکان دکھانا چاہتا تھا مگر میں اسے تلاش نہیں کر سکا ، تا ہم آپ کے ہاں سے مجھے اپنے گھر کا راستہ بخوبی یاد ہے اور اب یہاں سے میں بآسانی اپنے گھر پہنچ سکوں گا.ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آ گیا.قادیان کے بہشتی مقبرہ سے دعا کر کے صبح کے وقت مسجد 75
برگ سبز مبارک کی طرف آرہے تھے.پیچھے سے ایک محترمہ کی آواز آرہی تھی جو غالباً اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کسی قدر بلند آواز سے اپنے خاوند کو بتا رہی تھیں کہ اور سب ملاقاتیں اور زیارتیں تو ہو گئی ہیں، محترم فرزند علی خان صاحب کا مکان نہیں ملا، وہاں بھی جانا تھا.پوچھنے پر پتہ چلا کہ محترمہ حضرت خان صاحب کی نواسی ہیں.خاکسار نے ان کو بھی وہ گھر دکھایا.خوبصورت کہکشاں کے جن ستاروں کا محترم پروازی صاحب نے ذکر کیا ہے.اس خاکسار کو بھی ان کی زیارت کا شرف حاصل ہے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے مکان پہلو بہ پہلو تھے.حضرت میر صاحب کے زیر علاج رہنے کی وجہ سے ان کے پیار سے خوب حصہ لیا.حضرت مولوی صاحب کی ایک بیٹی ہمارے محلہ کی لجنہ کی صدر تھیں اس لئے ان کے ہاں اکثر جانے کا موقع ملتا تھا.حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھ کر ان کے ہاں کی لسی پینے کا بھی موقع ملتا رہا.ابا جان کی دکان مسجد مبارک کے نیچے احمد یہ چوک کے ایک نکڑ پر تھی.اسطرح مسجد کے نمازیوں، مدرسہ احمدیہ کے طلباء، دار الشیوخ کے لڑکوں ، مرکزی دفاتر کے ناظر صاحبان اور کارکنوں کو روزانہ ہی دیکھنے اور ملنے کی سعادت حاصل ہوتی.جن دو بزرگوں کا ذکر کیا ہے ہے وہ تو ابا جان پر بہت شفقت فرماتے تھے اور جاتے آتے ایک آدھ مزے کا فقرہ کہتے ہوئے گزر جاتے.حضرت مولوی شیر علی صاحب بہت کم گو تھے وہ آہستہ آواز میں کچھ لفظ بولتے اور کچھ اشارہ کرتے ہوئے گزر جاتے.ابا جان بتاتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کھاری بوتل برف میں لگانے کے لئے کہہ کر گئے ہیں.کھاری بوتل سوڈا واٹر کی وہ بوتل ہوتی تھی جس میں میٹھا اور ایسنس نہیں ہوتا تھا اور جو ہاضمہ کے لئے اچھی سمجھی جاتی تھی.حضرت مولوی صاحب اس میں برف ڈال کر پینا پسند نہیں کرتے تھے.اس لئے ان کے لئے بوتل 76
برگ سبز برف کے ساتھ رکھ دی جاتی تھی جو وہ نماز کے بعد واپسی پر پیتے تھے.ابا جان کی دکان حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان کا ایک حصہ تھی.اس دکان کے پیچھے جو مکان تھا اس میں صدر انجمن احمدیہ کے سٹور تھے اور بالا خانے میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی رہائش تھی.یہ ایک طرح سے ”الدار‘ کا حصہ ہی تھا.حضرت ڈاکٹر صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے ذاتی معالج تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت لمبا عرصہ حضور اور خاندان کی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی.ہماری دکان کے پہلو میں حضرت حکیم قطب الدین صاحب کا مطلب تھا.حکیم صاحب چٹائی پر بیٹھتے تھے.ان کی شہرت بہت اچھی تھی.دور دور سے لوگ علاج کے لئے آتے تھے مگر ہم بچوں پر کاسٹک ٹچ کی جو مصیبت ٹوٹتی تھی ، وہ آج تک بھلائی نہیں جاسکی.ایک دوسری دکان غلام رسول افغان صاحب کی تھی.یہ بزرگ قادیان کے ایک نواحی گاؤں سے دو بڑی بڑی بالٹیوں میں خالص دودھ لیکر آتے تھے.دن بھر گا ہک آتے اور دودھ لے جاتے تھے مگر خان صاحب کا طریق یہ تھا کہ میز پر ایک بڑے سائز کا قرآن مجید رکھا تھا.گاہک کو سودا دینے کے بعد ادھر ادھر کی کوئی زائد بات نہیں کرتے تھے.تلاوت میں مصروف ہو جاتے تھے اور دست به کار و دل بہ یار کی تصویر بنے رہتے تھے.چند سو گز کے فاصلہ پر وہ چوک آجاتا تھا جس سے ایک گلی قادیان کی پرانی آبادی اور مسجد اقصیٰ کی طرف چلی جاتی تھی اور دوسری طرف قادیان کے نئے آباد ہونے والے محلہ دار الانوار کی طرف نکل جاتی تھی.اسی گلی میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کا مکان تھا.حضرت مولوی صاحب پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ادا کرتے تھے اور اس طرح ہم انہیں روزانہ وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تھے.حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ میں ایک 77
برگ سبز لمبا عصا ہوتا تھا.ان کے ساتھ بالعموم ہمارے کمال یوسف صاحب اور رشید یوسف صاحب ( حضرت مولوی صاحب کے نواسے بھی نماز کے لئے جاتے ہوئے نظر آتے تھے.خاکسار کے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب اور نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب اسی طرح میرے تایا جان حضرت مولوی عبد الغفور صاحب صحابہ کرام میں شامل تھے.ہماری دکان کے سامنے شمال کی طرف حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب کا مکان تھا.ان کے پہلو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی رہائش تھی.یہ کوئی چند سوگز کی گلی تھی مگر ہم روزانہ وہاں پر ان دو بزرگ صحابہ کے علاوہ حضرت بھائی شیر محمد صاحب کو دیکھتے تھے جن کی وہاں دکان تھی.حضرت میر محمد الحق صاحب کو مدرسہ احمدیہ یا دارالشیوخ سے مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے تھے.اسی گلی میں ایک عمارت درزی خانہ کہلاتی تھی.حضرت مرزا مہتاب بیگ صاحب صحابی وہاں رونق افروز ہوتے تھے.درزی خانہ کے ساتھ ایک تنگ گلی بہشتی مقبرہ کی طرف جاتی تھی اس گلی میں حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کا مکان تھا.حضرت قاضی صاحب اپنے گھر سے کم ہی باہر آتے تھے.تاہم ان سے استفادہ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا.اسی گلی سے آگے جا کر حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب کا مکان تھا.یہ بزرگ جماعت کے پرانے خادم تھے.حضرت مصلح موعودؓ ان کے کام کی اکثر تعریف فرماتے.جماعت کے مالی نظام کا ابتدائی ڈھانچہ انہوں نے تیار کیا تھا اور لمبا عرصہ بطور ناظر بیت المال خدمت بجالاتے رہے.آپ کو لندن میں بطور امام مسجد لندن خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کمیٹی کے زمانہ میں قیام پاکستان اور آزادی کشمیر کے لئے کام کرنے کی بھی توفیق ملی.اور کئی نام ذہن میں آرہے ہیں.کئی نام بھول چکے ہو نگے تاہم یہ چھوٹی سی سڑک دن 78
برگ سبز بھر حضرت مسیح موعود کے صحابہ اور دوسرے بزرگوں کی گزرگاہ بنی رہتی.مدرسہ احمدیہ اور حضرت مسیح موعود کا لنگر بھی اسی جگہ پر تھا.مسجد مبارک کے نیچے اور مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والی گلی میں جماعت کے دفاتر تھے اور خدا کی حفاظت کے وعدوں کا چمکتا ہوا نشان الدار بھی تو اسی جگہ پر ہے.مخالفت کی آندھیوں اور تقسیم ملک کے اندوہناک حادثہ کے باوجود آج بھی وہاں سے اعلاء کلمہ اسلام کا عظیم جہاد برابر جاری اور روز افزوں ہے.یہ یادیں ہمیشہ تازہ رہتی ہیں جن کا کماحقہ احاطہ کرناممکن نہیں ہے.سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے 79
برگ سبز بہائیت اور اسلام تیرھویں صدی ہجری میں ایران میں ایک عجیب و غریب تحریک پیدا ہوئی جس کی بنیاد محض او بام باطلہ پر تھی نہ کسی الہامی کتاب پر.اس جدید خیال کے متبعین کو بابی یا بہائی کے نام سے پکارا جاتا ہے چونکہ اس جدید خیال کو پیش کرنے والے مسلمانوں کے فرقہ شیعہ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے عوام الناس اس تحریک کو مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ سمجھتے رہے.بہائیت کو اسلام سے دور کی بھی نسبت نہیں.حالانکہ اسلام میں ایک وراء الوری لطیف ہستی کو خدا اور معبود سمجھا جاتا ہے جو اس کا رخانہ عالم کا خالق ہے.اور جس کی قدرتیں اور طاقتیں غیر محدود ہیں.جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.غرض کہ مسلمانوں کا خدا وہ عظیم الشان ہستی ہے جو جمیع صفات کاملہ سے متصف ہے.لیکن بہائیوں کے نزدیک ایک ضعیف اور کمزور انسان میرزاحسین علی الملقب به بهاء الله جس کو تمام بشری کمزوریاں لاحق تھیں خدا تھا.چنانچہ رسالہ ”طرازات میں مرزا حسین علی نے خود اپنی نسبت لکھا ہے.اننى انا الله لا اله الا اناالمهیمین القیوم اس ایک امر سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ بہائیت کو اسلام سے کوئی نسبت نہیں.اس کے علاوہ اور بھی 80
برگ سبز کئی امور سے بہائیت کا اسلام سے قطعی جدا ہونا ثابت ہوتا ہے.مثال کے طور پر بہائیوں کے نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج کو لیجئے.بہائیوں کی نماز قرآن مجید میں حکم ہے فول وجهك شطر المسجد الحرام کہ بوقت نماز مسجد حرام کی طرف منہ کیا جائے لیکن اس کے بالکل برعکس بہائیوں کی شرعی کتاب اقدس میں حکم ہے: از اردتم الصلوة فولو اوجوهكم منظرى الاقدس مقام القدس.یعنی جب تم نماز کا ارادہ کرو تو میری جانب رُخ کرو.( یعنی مرزا حسین علی کی طرف) اور اپنے مرنے کے بعد اپنی قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے.چنانچہ لکھا ہے قبله ما اہل بہا روضه مبارک است در مدینه نکا که در وقت نماز خواندنی باندرو 66 بروضہ مبارک باسیم.“ دروس الدیانت درس صفحہ 19) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ قبلہ اہل بہا مرزا حسین علی کی قبر ہے.اور اس میں صریح غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے کہ مذکورہ قبر شہر کا میں ہے.(حالانکہ یہ قیر عکہ نامی ایک قصبہ میں ہے) نماز کے متعلق بہائیوں کو حکم ہے کہ قد کتب علیکم الصلوۃ تسع رکعات کہ تم پر صرف 9 رکعت نماز فرض ہے.جو اسلام حکم کے سراسر خلاف ہے.بہا اللہ نے شریعت اسلامی کے خلاف شرعی احکام ایجاد کیئے.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی نماز میں اسلامی نماز کے ارکان و الفاظ کی بجائے بہاء اللہ کے بیان کردہ طریق اور دُعائیں ہیں.81
بہائیوں کے روزے برگ سبز روزوں کے متعلق بھی بہاء اللہ نے سراسر خلاف اسلام احکام جاری کئے ہیں.چنانچہ بجائے ماہ رمضان کے 29 یا 30 دن روزہ رکھنے کے بہائی شریعت کی رو سے صرف ماہ علاء ( تقویم بھائی) کے 19 روزے ہیں.جیسا کہ دربارہ احکام میں لکھا ہے کہ: " قد كتبنا عليكم الصوم تسعة عشر يوما " مندرجہ بالا تبدیلی کے علاوہ ایک اور زبر دست اختلاف درباره احکام روزہ یہ ہے کہ بجائے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک روزہ رکھنے کے طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھا جائے چنانچہ اقدس میں ہے کہ: ،، " كفرا انفسكم عن الى الغروب من الطلوع الى الاقول “ روزوں کے احکام میں بھی نماز کی طرح مریض مسافر حائضہ کو روزے بالکل معاف ہو جاتے ہیں (حالانکہ اسلامی حکم عذر دور ہونے پر فوت شدہ روزے پورے کرنے کا ہے) کتاب ” اقدس میں احکامات روزہ کے ضمن میں ہے کہ "ليس على المسافر والمریض روزوں کے متعلق مندرجہ بالا بہائی احکامات سے بدرجہ اتم معلوم ہو جاتا ہے کہ شریعت بہائیہ شریعت اسلامیہ کے بالکل خلاف ہے." 66 بہائیوں کا حج کعبہ بہائیوں کو حج کعبہ کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اس کے برعکس علی محمد باب اور میرزاحسین علی کے مکانات کا طواف ہی حج ہے.اس امر کے ثبوت کیلئے بہائیوں کے کتب میں متعدد حوالہ 82
جات ملتے ہیں جن میں ایک یہ ہے: برگ سبز محل طواف و حج اہل بہا یکے بیت نقطہ اولیٰ (علی محمد باب ناقل) در شیراز است و ثانی این بیت جمال الہی (میرزا حسین علی ناقل) در بغداد است.66 ( الكواكب ماثر البہائیہ صفحہ 358) حج کے احکامات میں بھی عورتوں سے بلا وجہ غیر معمولی نرمی برتی گئی ہے.اور ان کو مندرجہ بالا مقامات کا حج وطواف معاف ہے.چنانچہ لکھا ہے: " قد حكم الله لمن استطاع منكم حج البيت دون النساء عفاء الله عنھن." (اقدس) بہائیوں کی زکوۃ زکوۃ کے متعلق بہائیوں کے مبہم اور غیر واضح احکام ملتے ہیں.بہاء اللہ نے زکوۃ کو فرض تو قرار دیا ہے اور اس کی ادائیگی کا بھی حکم دیا ہے لیکن اس کا کوئی نصاب مقرر نہیں کیا.ہاں اقدس میں بہاء اللہ کا دعوی ہے کہ وہ زکوۃ کا نصاب کسی جگہ بیان کرے گا.نامعلوم بہاء اللہ کس وقت اور کس موقع کی انتظار میں تھا اور اس کو نصاب زکوۃ بیان کرنے میں کیا چیز مانع ہوئی بہر حال بہاء اللہ نے نصاب مقرر کرنے کا وعدہ کسی جگہ ایفا نہیں کیا.زکوۃ کے متعلق بہاء اللہ کا حکم مندرجہ ذیل ہے: كتب عليكم تزكية الاقوات وما دونها بالزكوة هذا ماحكم به منزل 83
برگ سبز الايات فى هذا الرق المنيع سوف ننصل لكم نصابھا.“ (اقدس) ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میرزا حسین علی کی زندگی میں زکوۃ کی وصولی کا حق ان کو حاصل تھا اور اس کے بعد اس کی اولاد کو لیکن اگر ان کی اولا دنہ ہو تو زکوۃ ” بیت العدل“ کو ادا کی جائے.بیت العدل“ کے وصولی زکوۃ کے علاوہ اور بھی بہت سے کام بیان کئے گئے ہیں لیکن آج تک بیت العدل‘ قائم نہیں ہو سکا.مسلمانوں کے لئے ان کے فریب سے بچنے میں سب سے بڑا اشکال یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی رسوم کے نام اسلامی عبادات کے اسماء سے لئے ہیں.حالانکہ ان ناموں کو اسلامی عبادات سے دور کا بھی تعلق نہیں.جیسا کہ مندرجہ بالا چند مثالوں سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے.ایک اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ بہائیوں نے اپنی شرعی کتب کو کسی جگہ بھی مشتہر اور عام نہیں کیا.اس لئے بہائی بہاء اللہ کے حکم علیکم بالتقية’ کہ بہائیوں پر تقیہ واجب ہے، سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور بہائیوں کے مبلغ و داعی جس قسم کے لوگوں میں جاتے ہیں اپنے آپ کو ویساہی ظاہر کرتے ہیں.مسلمانوں میں یہ لوگ مسلمان بن کر رہتے ہیں لیکن عیسائیوں میں عیسائی اور یہودیوں میں یہودی بن جانا ان کے لئے معمولی امر ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کسی ایسے بہائی کی کتاب کا مطالعہ کریں جو اپنی بدقسمتی سے مسلمانوں میں سے بہائی ہوا ہو تو یوں معلوم ہوگا کہ بہائیت اسلام کا چربہ ہے.لیکن اگر کسی ایسے بہائی کی کتاب پڑھی جائے جو عیسائیوں میں 84
برگ سبز سے بہائی ہوا ہو تو بہائیت دین عیسوی کا چہ بہ اور نقل معلوم ہوتی ہے.مسیحیوں کے تثلیث و کفارہ قسم کے مسائل آپ کو ان کتابوں سے مل سکیں گے.اور جوشان مسیحی عیسی علیہ السلام کی قرار دیتے ہیں وہی شان مرزا حسین علی کی بیان کی گئی ہوگی.وعلی ھذا القیاس.اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو جو کسی وجہ سے ان کے قریب آجا ئیں حقیقت حال سے آگاہ نہیں کیا جا تا بلکہ اس کو تقیہ کی آڑ میں رکھتے ہوئے دامِ بہائیت میں پھنسا لیا جاتا ہے ورنہ تہذیب و تمدن کے اس دور میں کون ایسے عقائد مان سکتا ہے جس میں ایک شخص ( جس کو تمام بشری کمزوریاں لاحق تھیں ) کو سجدہ کرنا بھی شامل ہو.روزنامه الفضل-14 فروری 1955) 85
برگ سبز حقیقت صلیب یسوع مسیح کی تین مزعومہ خصوصیات اور انجیل رسالہ مسیحی خادم تمبر 1963ء میں ”حقیقت صلیب“ کے عنوان سے ایک مشہور مسیحی عالم کا مضمون شائع ہوا ہے جس کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے.انجیل مقدس میں ہمارے خداوند یسوع مسیح کی تین امتیازی خصوصیات کا الہامی بیان پایا جاتا ہے یعنی: 1.آپ کی اعجازی پیدائش 2 صلیبی موت 3 اور آپ کا موت پر صبح پا کر تیسرے دن مردوں میں سے ہی اٹھنا کلمتہ اللہ کے تجسم حقیقی کا مقصد صلیبی موت تھا اور آپ کا مردوں میں سے جی اٹھنا اس مقصد کی تکمیل تھا.“ پہلی امتیازی الہامی خصوصیت بائبل کے بیان کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کا ہی امتیاز نہیں ہے بلکہ اس خصوصیت میں حضرت آدم علیہ السلام مسیح علیہ السلام کے برابر کے شریک بلکہ بے ماں اور بے باپ ہونے کی وجہ سے زیادہ نمایاں اور امتیازی شان رکھتے ہیں.مقالہ نگار کو آدم علیہ السلام کے متعلق بائبل کی اس تعلیم اور خصوصیت کا بہر حال علم 86
برگ سبز ہوگا.کیونکہ ایسے مشہور امر کا ان کی نگاہ سے اوجھل رہنا ناممکن ہے.مزید برآں انجیل تو ہمیں ایک اور ایسے شخص کا پتہ دیتی ہے جو مسیح علیہ السلام کی طرح صرف بے باپ ہی نہیں تھا بلکہ بے ماں بے باپ اور بے نسب نامہ تھا چنانچہ لکھا ہے کہ : یہ ملک صدق سالم کا بادشاہ خدا تعالیٰ کا کا ہن ہمیشہ کا ہن رہتا ہے جب ابراہام بادشاہوں کو قتل کر کے واپس آتا تھا تو اس نے اس کا استقبال کیا اور اس کے لئے برکت چاہی...یہ بے باپ اور بے ماں بے نسب نامہ ہے.نہ اس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخر بلکہ خدا کے بیٹے کا مشابہ ٹھہرا.“ (عبرانیوں:3/7-1) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام کو اگر بے باپ پیدا ہونے کی وجہ سے ہی کوئی نمایاں امتیازی مقام مل سکتا ہے تو ملک صدق اس سے زیادہ مقام کا مالک اور افضل ہوگا کیونکہ وہ نہ صرف بے باپ بلکہ بے ماں بے نسب نامہ ہے، اور خود انجیل کے مطابق خدا کے بیٹے کے مشابہ بھی.پس پادری صاحب کی بیان کردہ اس الہامی امتیازی خصوصیت میں مسیح علیہ السلام کے علاوہ اور افراد بھی شامل ہیں.اس لئے بہر صورت یہ مسیح کا کوئی امتیاز نہ رہا.اس جگہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کیا محض بے باپ پیدا ہونا کوئی فضیلت اور فخر کی بات ہے.کیا بائبل میں کوئی ایسی واضح اور غیر مبہم تعلیم موجود ہے کہ بے باپ کے بیٹے کو ” ابن اللہ اور اور اقنوم ثانی تسلیم کیا جائے.بائبل میں محترمہ کنواری کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کا ذکر تو ضرور ہے لیکن اس کی کوئی غیر معمولی صفات بیان نہیں کی گئیں.پھر اس مخصوص کنواری کے بیٹے کی علامت تو یہ تھی کہ اس کا نام ” عمانوایل رکھے گی اور ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام کا نام آپ کی والدہ محترمہ نے عمانوایل نہیں رکھا تھا پھر اس جگہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس پیشگوئی 87
برگ سبز میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ کنواری کیا گیا ہے اسی لفظ کا ترجمہ دوسرے مقامات پر نوجوان عورت کیا گیا ہے.اس لحاظ سے بھی یہ پیشگوئی مہم اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے.اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں کسی ایسی کنواری کے بیٹے کا کوئی وجود نہیں جس کا نام اس نے عمانوایل “ رکھا ہو.دوسری الہامی خصوصیت اور امتیاز حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت بیان کی گئی ہے.لیکن مذکورہ مضمون میں اس امر کو ثابت کرنے کی کوشش تک نہیں کی گئی کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعی صلیب پر فوت ہوئے تھے.جہاں تک محض اس مخصوص نوعیت کی مدت کا تعلق ہے یہ امتیاز تو ان دو چوروں کو بھی حاصل ہے.جو مسیح" کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے جن کی صلیبی موت بہر حال مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے زیادہ یقینی اور واضح طور پر انجیل میں بیان ہوئی ہے.پھر یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام میں موجود بھی ہو تو خود بائبل کی تعلیم کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے تمام دعاوی باطل ( نعوذ باللہ ) ٹھہرتے ہیں کیونکہ اس قسم کی موت کو جھوٹوں اور ملعونوں کی خصوصیت بتائی گئی ہے نا کہ خدا تعالیٰ کے راست باز بندوں کی.جیسا کہ استثناء3 / 23 میں لکھا ہے: " جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے.بائبل کے مندرجہ بالا بیان کے مطابق یہ کوئی ایسی خصوصیت نہیں جسے فخر سے پیش کیا جائے.اسے بیان کرنے اور ظاہر کرنے سے تو اس کا چھپا نا زیادہ بہتر ہے.“ مقالہ نگار نے بائبل سے ناواقفی کا ثبوت بہم پہنچاتے ہوئے لکھا ہے کہ: صلیب دینے والے اور بھی حاکم تھے نہ کہ یہود صلیبی موت سے متعلقہ بیانات تو پادری صاحبان کو دکھائی دیتے ہیں تعجب ہے کہ 88
برگ سبز انہیں یہ کیوں نہ یادر ہا کہ انجیل تو یہ بتاتی ہے کہ رومی حاکم پیلاطوس ہر موقع پر حضرت مسیح علیہ السلام کی جان بچانے کی کوشش کرتا رہا تھا لیکن یہودی فریسی اور کا ہن اس کی کوئی پیش نہ جانے دیتے تھے جس پر بالآخر تنگ آکر اس نے اس کو ان کے حوالہ کیا تا کہ مصلوب کیا جائے.پھر لکھا ہے: (يوحنا 19 / 16) مگر وہ یہودی چلا چلا کر سر ہوتے رہے کہ اسے صلیب دی جائے اور ان کا چلانا کارگر ہوا (لوقا : 24/23) اس مقام پر بھی یہودیوں کو ہی واقعہ صلیب کا محرک اور سبب قرار دیا گیا ہے.اس کے علاوہ متی 24-27125 میں لکھا ہے کہ : ” جب پیلاطوس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا ہے اور الٹا بلوہ ہوتا جاتا ہے تو پانی لیکر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا کہ میں اس راستباز کے خون سے بری ہوں.تم جانو.سب لوگوں نے جواب میں کہا اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر اس جگہ یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب دیئے جانے کی ساری ذمہ داری اور گناہ اپنے سر لے رہے ہیں لیکن پادری صاحب محض قرآن مجید کی مخالفت اور حق پوشی کی غرض سے یہودیوں کے وکیل بن کر ان کے سر سے گناہ کی ذمہ داری کو دور کرنے کے درپے ہیں.یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اگر واقعی طور پر یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب دینے سے بری الذمہ تھے تو صدیوں سے یہود دشمنی کی وجہ کیا ہے.89
برگ سبز جہاں تک حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کا تعلق ہے اور اسے الہامی امتیاز بتا یا گیا ہے اس سلسلہ میں یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ یہ بھی کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے بلکہ خود انجیل سے یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام صلیب سے زندہ اُتار لئے گئے تھے ورنہ کیا وجہ ہے کہ: 1 - حضرت مسیح علیہ السلام کی ہڈیاں نہ توڑی گئیں جبکہ دونوں چوروں کی ہڈیاں توڑی گئیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ہی صلیب پر لٹکائے گئے تھے.2 خود حاکم نے اتنی جلدی مرنے کی خبر پر تعجب اور حیرانی کا اظہار کیا.3 - حضرت مسیح علیہ السلام کے جسد مبارک سے واقعہ صلیب کے بعد خون بہہ نکلا.4 - حضرت مسیح علیہ السلام نے مختلف لوگوں سے ملاقات کی اور یہ شک ہونے پر کہ آپ جسمانی طور پر زندہ نہیں ہیں اپنے زخموں کے نشان دکھائے اور کھانا کھا یا.اور ان امور کو پوشیدہ رکھنے کی ہدایت کی.یہ اور اس قسم کے متعدد دوسرے انجیلی اور تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ صلیب سے اُترنے کے وقت حضرت مسیح علیہ السلام زندہ تھے.اور بعد میں لوگوں سے ملاقات کرتے اور اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہے.جب یہ دوسرا مزعومہ الہامی امتیاز ہی آپ میں ثابت اور متحقق نہیں ہے تو تیسرے امتیاز کو ثابت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی اصلیت اور حقیقت بیان کر کے مسیحی ایمان کی بنیاد پر کاری ضرب لگائی ہے اس لئے پادری صاحبان نے جو اپنے بعض شکوک اور عبارتوں کے بظاہر اختلاف درج کئے ہیں.ان کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد بہت کافی ہے کہ : 90
برگ سبز ” خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اور مخالفوں کو ذلیل کرنے کیلئے اور اس راقم کی سچائی ظاہر کرنے کیلئے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جو سری نگر محلہ خانیار میں یوز آسف کے نام سے قبر موجود ہے وہ درحقیقت بلا شک و شبہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.“ (راز حقیقت روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۷۵) اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ واقعہ صلیب کے متعلق انجیل نویس انتہائی تذبذب اور شک وشبہ کے عالم میں پڑے ہوئے تھے.یہی وجہ ہے کہ کوئی دو انجیل نویس بھی مسیح علیہ السلام کے صلیب پر چڑھائے جانے صلیب پر رہنے اور پھر زیرزمین رہنے کے تفصیلی بیان میں آپس میں متفق نہیں ہیں.اور اس اضطراب اور شک کی وجہ سے انجیل نویسوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے اکلوتے موعود نشان یعنی یونس نبی کی طرح زندہ زمین میں تین دن اور تین رات رہنے اور پھر زندہ ہی باہر آنے کو مشکوک کر دیا ہے.وما قتلوہ وما صلبوہ ایک ناقابل تردید صداقت اور اصل حقیقت ہے جس کی خود انجیل موید ومصدق ہے.اس حقیقت سے اگر مسیحی ایمان پر کاری ضرب بقول پادری صاحب لگتی ہے تو اسے برداشت کرنا ہی پڑے گا.کیونکہ حقائق خواہ کتنے ہی تلخ ہوں ان کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اور سعادتمندی و برکت ان کے ماننے میں ہی ہوتی ہے.روزنامه الفضل - 28 ستمبر 1963 ) 91
برگ سبز ”ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں“ انسانی پیدائش کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کا حصول ہے.سلسلہ احمدیہ کے قیام کی بھی یہی غرض ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کیلئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع انسان کی 66 ہمدردی کو پھیلا دے.“ (روحانی خزائن جلد 3 - ازالہ اوہام صفحہ 562) سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہونے کے شرائط میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ : ” ہر حال رنج و راحت اور عسر اور میسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کیلئے اس کی راہ میں تیار رہے گا.“ اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء) 92
برگ سبز حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد علی انہ ایک دوست کو جو اپنی فطری سعادت کی وجہ سے جماعت میں شمولیت کی سعادت حاصل کر رہے تھے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تقویٰ اللہ کو اپنا شعار بنا ئیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کی محبت سب دکھوں اور تکلیفوں اور جسمانی وروحانی بیماریوں کا علاج ہے.“ اس بنیادی مقصد کے حصول کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کے مطابق حضرت مسیح موعود علایکا نے ایک جماعت قائم کی.خدا کے بندوں کو اس کی طرف بلا یا اور جمع کیا تاوہ اللہ تعالیٰ کے خدمت گزار بندے بن جائیں.ہم لوگ بھی اس کی جماعت میں اسی لئے داخل ہوئے ہیں کہ ہم خدا کے خدمت گزار بندوں میں شامل ہوں.لیکن اس خدمت گزاری کیلئے کچھ شرائط ہیں.اگر وہ شرائط پوری نہ کی جائیں اور ان پر نہ چلا جائے تو پھر صرف خدمت گزار کہلانے سے تو کچھ فائدہ نہیں حاصل ہوگا.جب تک ان شرائط کو پورا نہ کیا جائے تب تک ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.دیکھو سکول میں داخل ہونے سے ایک شخص طالب علم تو کہلا سکے گا لیکن اگر وہ داخل ہونے کی غرض کو مدنظر نہ رکھے گا اور علم کے حصول کی کوشش نہ کرے گا تو اسے صرف طالب علم کہلانے سے اور سکول میں داخل ہو جانے سے علم نہیں حاصل ہو جائے گا اور نہ وہ عالم کہلائے گا.بہت سے لڑکے ہوتے ہیں جو کہلاتے تو طالب علم ہیں لیکن سارا وقت بجائے علم کے حصول کے جہالت کے حصول میں خرچ کر دیتے ہیں.کیا وہ صرف طالب علم کہلانے یا سکول میں داخل ہونے سے عالم کہلانے کے امیدوار ہو سکتے ہیں.اسی طرح ہم بھی ایک مدرسہ میں داخل 93
برگ سبز ہوئے ہیں جس میں داخل ہونے کی غرض محض یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خدمت گزار غلام بن جائیں اور اس کا قرب حاصل ہو.مگر صرف اس مدرسہ میں ہمارا داخل ہونا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.جب تک ہماری کوششیں اس غرض کے حصول کیلئے انتہائی نقطہ پر نہ پہنچ جائیں اور جب تک ہم پورے طور پر جد و جہد نہ کریں تب تک ہم سچے طور پر خدا کے غلام کہلانے کے مستحق نہیں ہو سکتے.“ ( الفضل 22 فروری 1927 ء ) خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے فوائد و ثمرات بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنے اندر روحانی دروازے اور کھڑکیاں کھولنی چاہئیں تا ان کے ظاہر کے ساتھ باطن مل جائے اور جب یہ حالت پیدا ہو جائے تو ایسا انسان ہر چیز پر غالب آجاتا ہے اور کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا کفیل ہو جاتا ہے اور یہی وہ اصل روحانی مقام ہے جس کیلئے ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے اور جب تک یہ حالت پیدا نہ ہوا ایمان کامل نہیں ہوتا.ہمیں اپنے آپ کو احمدیت کا عمدہ پھل بنانا چاہئے.“ (الفضل 17 جون 1946 ء ) جماعت کی روحانی ترقی کیلئے محبت الہی کے حصول کی طرف نہایت دردمندی سے توجہ دلاتے ہوئے آپ بنی یہ فرماتے ہیں: دو مجھے تمہاری حالتوں کو دیکھ کر جنون کی سی حالت ہو جاتی ہے.ایک چھوٹا بچہ جنگل میں اپنی ماں سے جدا نہیں ہوتا.میں بھی تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس خدا سے جو ماں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے تم جدا نہ ہو.میں نے آدھی دنیا کا 94
برگ سبز سفر کیا ہے اور پھر دیکھا ہے کہ ہر جگہ تمہاری مخالفت ہورہی ہے.نہ کسی ملک میں تمہاری جانیں محفوظ ہیں نہ تمہارے مال محفوظ ہیں.کوئی چیز تمہاری حفاظت اور پناہ کا موجب نہیں ہوسکتی.صرف ایک ہی دروازہ ہے جہاں تم کو پناہ مل سکتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی گود ہے جو ماں باپ سے بھی زیادہ حفاظت کی جگہ ہے.میں اپنے جسم کو طاقتوں سے خالی پاتا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر تم میری اس نصیحت کو مانو گے تو ہر ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا.لڑائیوں، جھگڑوں کو چھوڑ دو.اپنے معاملات کو درست کرو.دنیا کی کسی چیز کو اپنا خدا نہ بناؤ.آج دنیا میں کسی جگہ بھی حقیقی پرستش خدا تعالیٰ کی نہیں ہو رہی.پس تم بھی اپنی ستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس کے عذابوں کا مستحق نہ بناؤ.جس خدمت کو تم نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے اس کو پوری توجہ سے سرانجام دو.“ ( الفضل 20 دسمبر 1922ء) راضی رہو خدا کی قضا ہمیش تم لب پر نہ آئے حرف شکایت خدا کرے ہو خدا کے ساتھ، خدا ہو تمہارے ساتھ ہوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کرے الفضل انٹرنیشنل 28مئی 2004ء) 95
برگ سبز تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عقاب" پاکستان میں ظلم وستم کی تاریخ میں ایک بھیانک باب کا اضافہ کرتے ہوئے مسلم کی معروف و مستند تعریف کو نظر انداز کرتے ہوئے ، خودساختہ تعریف ومعیار بناتے ہوئے اور احمدیوں کی طرف غلط عقائد منسوب کرتے ہوئے ، ایک خالصہ مذہبی مسئلہ کو مذہبی طریق پر حل کرنے کی بجائے ایک سیاسی طریق اختیار کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے سامنے پیش کر کے جو کسی طرح بھی فتویٰ دینے کے اہل نہیں تھے، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا.اس ظالمانہ کارروائی میں احمدیوں کو نقصان تو ضرور پہنچا ان کی جانیں تلف کی گئیں ، ان کے اموال تباہ کئے گئے ، ان کی تجارتوں اور ملازمتوں کو نقصان پہنچا، ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر کے ان سے دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کے شہریوں کا سا سلوک کیا گیا اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے.ہم احمدی یہ معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے اور ان مظالم کو سہتے ہوئے دنیا بھر میں تبلیغ واشاعت اسلام کے فریضہ کی ادائیگی میں لگے رہے.مگر پاکستان عمل اور رد عمل کے قدرتی چکر میں ظلم و ستم کے شیطانی عمل میں پھنس گیا.امن و امان اور انصاف و 96
برگ سبز سکون نام کی ہر چیز رو بہ انحطاط ہوتی چلی گئی.مسجدیں اور امام بارگا ہیں نمازیوں کے خون سے رنگین ہونے لگیں.بین الاقوامی سطح پر پاکستان دہشت گردی کے لئے مشہور و بدنام ہو گیا اور ہر بدنام زمانہ مفرور ” دہشت گرد پاکستان سے ملنے لگا.روز نامہ جنگ کی مندرجہ ذیل خبر اس لحاظ سے بہت اہم ہے اس میں غیر ذمہ دار مفتیوں اور غلط فتووں کے نقصان کا ذکر ہے اور اسی طرح مسلمان کی وہ سادہ مر مکمل تعریف بھی موجود ہے جو خود بانی اسلام حضرت محمد مصطفی سلایا کہ تم نے بیان فرمائی ہے.ظلم وستم کی نحوست سے نجات پانے کے لئے صحیح سمت کی طرف یہ پہلا قدم ہے.خدا کرے غیر ذمہ دارمفتیوں کے سراسر غلط فتاویٰ اور ان کے نتیجہ میں پاکستان کو پہنچنے والے نا قابل تلافی نقصان کو کم کرنے کی کوشش میں کامیابی ہو اور پاکستان کامیابی و ترقی کے راستہ پر گامزن ہو: اتحاد العلماء کے زیر اہتمام گزشتہ روز برمنگھم کی مرکزی مسجد میں جہاد، بنیاد پرستی اور فتاوی کے حوالے سے ایک اہم اجلاس ہوا.اجلاس میں جمیعت اہلحدیث برطانیہ، یوکے اسلامک مشن ، جمیعت علماء برطانیہ، کنفیڈریشن آف سنی مساجد، دعوة الاسلام ، نارتھ انگلینڈ مساجد کونسل مسلم کونسل آف برٹن، ریجنٹ پارک لندن، مجلس ختم نبوت ، معارف امام شیعہ کمیونٹی ،مسلم یونائٹیڈ ، برسٹل کے نمائندہ اور نامور علماء نے بھر پور شرکت کی.اجلاس کی صدارت معروف عالم دین مولا نا عبدالہادی العمری نے کی.اجلاس میں مسلمانوں کے اندر بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات سمیت بعض عناصر کی جانب سے کافر اور مرتد کے فتووں پر تفصیلی غور کیا گیا.اجلاس میں کہا گیا کہ اس وقت دنیا بھر میں اور خصوصاً مغربی ممالک میں مسلمان انتہائی نازک دور میں 97
برگ سبز سے گزر رہے ہیں.جس کی مختلف وجوہات ہیں.اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بعض اصطلاحات کا ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں غلط استعمال کیا جا رہا ہے جیسے جہاد، شہادت اور اسلامی دہشت پسندی وغیرہ حالانکہ جہاد ایک مقدس اصطلاح ہے.نیز جہاد کا بنیادی مقصد ظلم و ستم کا خاتمہ اور عدل و انصاف کا نظام نافذ کرنا ہے جبکہ دہشت گردی ظلم و ستم کو پروان چڑھاتی ہے.اجلاس میں حکومتی ذمہ داران کی وضاحت کی تعریف کی گئی جس میں انہوں نے ان اصطلاحات کی تدارک کا وعدہ کیا ہے آئندہ مسلم دہشت پسند “ یا ”مسلم بنیاد پرستی“ وغیرہ کلمات سے احتیاط برتی جائے گی.اجلاس میں مسلم کمیونٹی کے بعض افراد میں انتہاء پسندی اور شدت پسندی کے رجحانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس کی وجوہات علم دین کی کمی سمیت معاشرہ میں ظلم کے نظام اور احساس محرومی کو ٹھہرایا گیا.فتویٰ کے حوالے سے اجلاس میں کہا گیا فتویٰ دینا ایک اہم ذمہ داری ہے جس کا ہر شخص مجاز نہیں ہوسکتا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب ہزاروں صحابہ کرام موجود تھے صرف چند ہی صحابہ کو ختص کیا گیا تھا کہ یہی حضرات فتویٰ دینے کے مجاز ہوں گے.مفتی کے لئے سخت شرائط ہیں.اجلاس میں کہا گیا کہ غیر مجاز افراد کے فتویٰ کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں.اس کے لئے اہل مسلم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا.کسی بھی شخص کو جو خود کو مسلمان کہتا ہو اور شعائر اسلامی کا حتی الامکان پابند ہو کافر کہنا غلط ہے.98
برگ سبز حضور اکرم صلی الیتیم کا ارشاد ہے: " اپنے کسی بھائی کو کا فرکہنا اس کو قتل کرنے کی طرح ہے اور مومن پر لعنت بھیجنا بھی اس کو قتل کرنے کے برابر ہے.(صحیح بخاری) اور فرمایا: ” کوئی مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرار دے اور وہ واقعی کافر ہو تو ٹھیک ورنہ وہ خود ہی کافر ہو گا.(ابوداؤد) امام غزالی نے فرمایا: کسی کو کافر بنانے سے حتی الامکان پر ہیز کرنا چاہئے.کیونکہ توحید کا اقرار کرنے والے مسلمان کا خون سخت گناہ ہے.اور ایک ہزار کافروں کو چھوڑ دینا آسان ہے بہ نسبت ایک مسلمان کا خون ناحق بہانے سے.(فتح الباری) اگر کوئی شخص ایمان کا احترام کرے اور پھر شعائر کی پابندی کرے تو وہ شخص مسلمان ہے.حضوراکرم نے فرمایا: ” جو ہماری طرح نماز ادا کرے اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے اور اس کا ذمہ اللہ اور اس کے رسول پر ہے.“ (بخاری) آخر میں اجلاس میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ رد عمل کی کیفیت اور ایسے بیانات اور تبصروں سے اجتناب کریں جس کو بنیاد بنا کر مختلف ادارے اپنے مخفی ایجنڈا کی تکمیل کر سکتے ہیں.اگر کسی مسئلے میں کوئی نصیحت یا اصلاح کی ضرورت محسوس کی جائے تو اسلامی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نصیحت اور اصلاح کا کام سر انجام دیا جا سکتا ہے.جس سے اصلاح کا مقصد بھی حاصل 99
برگ سبز ہو جائے اور منفی اثرات سے بھی بچا جاسکے.مسلمان مقامی مسائل میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی ترقی میں بڑھ کر حصہ لیں.“ (روز نامہ جنگ لندن - 18 مئی 2004ء) احمدیوں کو اپنے ایمان و اسلام کی تائید و تصدیق کے لئے نہ تو کسی فتوی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی پر واہ.خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اور تائید ونصرت ہی ہمارے لئے کافی ہے.ہم تو رکھتے مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلین الفضل انٹرنیشنل 25 جون (2004) 00 100
برگ سبز گر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے کامیاب دورہ مغربی افریقہ میں ارض بلال کے خوش قسمت احمدیوں کو نصیحت فرمائی کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ کروڑوں لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ نے انہیں آنحضرت صلی ایتم کی پیش خبریوں کو سمجھ کر ان پیشگوئیوں کے مصداق امام مہدی علیہ السلام کو شناخت کرنے اور اس پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی جو یقیناً ان کی طبعی سعادت و شرافت اور معاملہ فہمی کا ثبوت ہے.جبکہ لاکھوں مسلمان اس انتظار و خواہش میں ہی اس دنیا سے گزر گئے کہ وہ امام مہدی کی زیارت و شناخت کر سکیں اور لاکھوں افراد امام مہدی کی شناخت سے محروم رہ جانے کی وجہ سے حق وصداقت پر ایمان لانے کی بجائے تمسخر و استہزاء کی اندھی وادیوں میں جاگرے.اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ نے انہیں یہ یاد دہانی بھی کروائی کہ حق وصداقت کو جاننے اور ماننے یا اس عظیم انعام سے حصہ پانے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ہر احمدی میں ایک تبدیلی نظر آئے.ہر احمدی نیکی ، تقوی ، خدا ترسی اور راستبازی کی وجہ سے اپنے اعمال وکردار میں عام لوگوں سے مختلف نظر آئے.اسے دیکھنے والے، اس سے ملنے والے اس سے معاملہ کرنے 101
برگ سبز والے یہ محسوس کریں کہ ہم کسی عام آدمی سے معاملہ نہیں کر رہے بلکہ یہ تو کسی اور دنیا کا انسان ہے یہ تو کوئی اللہ والا انسان ہے جس کا دن خوف خدا سے بسر ہوتا ہے، جس کی راتیں تقویٰ سے گزرتی ہیں.جس کے تمام اعضاء وجوارح بلکہ حواس پر بھی خدا تعالیٰ کے منشاء ومشیت کی مہر ہوتی ہے اور وہ وہی کچھ دیکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ دیکھے اور وہ وہی کچھ سنتا ہے جو اللہ تعالیٰ اسے سنانا چاہتا ہے.غرضیکہ اس کا وجود خدا نما وجود بن جاتا ہے اور وہ عملی تفسیر بن جاتا ہے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.(الانعام: ١٦٢) یعنی کہہ دو میری نمازیں ، میری عبادتیں ، میری زندگی اور میری موت سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی یہ نہایت قیمتی مفید اور موثر نصیحت صرف خوش قسمت افریقن احمدیوں سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ اس کا تعلق ہر احمدی سے ہے وہ دنیا کے کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتا ہو وہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتا ہو وہ کیسے بھی حالات میں سے گزر رہا ہو اس کی پہلی ترجیح لازما یہی ہونی چاہیے کہ وہ احمدیت کے نور سے، احمدیت کی برکت سے،احمدیت کے انعام سے احمدیت کی صداقت سے پورا پورا فائدہ اٹھائے.اس نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق پانے والا ایک پرکشش کردار کا مالک ہونے کی وجہ سے ایسا داعی الی اللہ بن جائے گا جس کی دعوت و تبلیغ از خود لوگوں کو صداقت و حسن کردار کی طرف مائل کرے گی.اسے اپنی بات منوانے اور سمجھانے کے لئے کسی بحث و گفتگو کی کم ہی ضرورت پیش آئے گی.کیونکہ اس کا مثالی کردار اسلام کی سچائی پر ، احمدیت کی حقانیت پر قرآن مجید کی برتری پر آنحضرت سلائی کی ستم کی عظمت پر منہ بولتا نشان اور ثبوت ہوگا.102
ہیں: برگ سبز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان ، کان ، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے.تقویٰ کا نوراس کے اندر اور باہر ہو.اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو.اور بیجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو.میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے.تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں.ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے.ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے.چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے.جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے.پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں.خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو.اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 127 ، 128 - ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) 103
برگ سبز دل جو ہو خالی گداز عشق سے وہ دل ہے کیا دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلبر یکتا قرار فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود پس کرو اس نفس کو زیر و زبر از بهر یار الفضل انٹرنیشنل 30 اپریل 2004ء ) 104
برگ سبز رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز ! حضرت عبداللہ خفیف رحمہ اللہ علیہ بزرگ اولیاء اللہ میں سے تھے.آپ کے متعلق تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ کے مریدوں میں دو افراد کا نام احمد تھا لہذا دونوں میں امتیاز کی غرض سے ایک کو احمد کہ (چھوٹا احمد ) اور دوسرے کو احمد مہ (بڑا احمد ) کے نام سے پکارا جاتا تھا.لیکن آپ کو احمد کہ سے زیادہ رغبت تھی.جب کہ احمد مہ عبادت وریاضت میں احمد کہ سے کہیں زیادہ تھے.اور یہ بات تمام مریدین کو ناگوار خاطر بھی تھی کہ آپ زیادہ عابد وزاہد سے محبت کیوں نہیں کرتے.چنانچہ آپ نے مریدین کے احساسات کو محسوس کرتے ہوئے ایک اجتماع عام میں احمد کہ سے فرمایا کہ جا کر اونٹ کو چھت سے باندھ دو.لیکن اس نے عرض کیا کہ چھت پر اونٹ کیسے چڑھ سکتا ہے.پھر جب آپ نے احمد مہ کو حکم دیا تو وہ آمادہ ہو گیا اور اونٹ کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی لیکن اونٹ میں حرکت تک نہ ہو سکی.یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا ظاہر و باطن میں یہی فرق ہوتا ہے.احمد کہ قلب سے میری اطاعت کرتا ہے اور احمد مہ صرف ظاہری عبادت پر نازاں ہے.امر واقع یہ ہے کہ جب تک انسان کا ظاہر و باطن ایک نہ ہواور وہ پوری بصیرت کے 105
برگ سبز ساتھ اور کچی معرفت کے ساتھ شعائر اسلام کو بجا نہیں لاتا اس وقت تک اس کا عمل محض ایک نقالی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ : إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا (الفرقان (74) جب انہیں ان کے رب کے احکامات یاد دلائے جائیں تو ان پر وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے.یعنی احکامات الہیہ کی اندھی تقلید عبادالرحمن کا شیوہ نہیں.وہ کسی حکم الہی کو محض رسم اور عادت کے طور پر انجام نہیں دیتے.چنانچہ دوسری جگہ آنحضرت سالی ایم کی زبان مبارک سے یہ اعلان کروایا گیا کہ میں اور میرے بچے حقیقی متبعین بصیرت پر قائم ہیں.نماز، روزہ اور حج وغیرہ عبادات کو ہی لیجئے.لاکھوں کروڑوں مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں ، ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہیں اور حج بیت اللہ کی تو فیق پاتے ہیں لیکن اس کے باوجود مسلم معاشرہ میں ان عبادات کی برکات و تاثیرات دکھائی نہیں دیتیں.سچائی وراستی، امانت و دیانت، پاکیزگی و اخلاق حسنہ وغیرہ امور میں ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے.اس کا کیا سبب ہے؟ کیا نعوذ باللہ خدا اندھا اور بہرہ ہے وہ کروڑ با مسلمانوں کی عبادتوں سے غافل ہے اور ان کی پکار کو نہیں سنتا.یا نعوذ باللہ نماز، روزہ اور حج وغیرہ عبادات ہی ایسی بیکار و بے اثر چیزیں ہیں جو انسان کو مشکلات و مصائب اور ذلت و نامرادی سے نکال کر دینی و دنیوی حسنات وترقیات تک پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں.یا پھر عبادت کا دعویٰ کرنے والوں کی عبادتیں ہی حقیقت سے خالی ہیں محض کھو کھلی اور چند ظاہری وجسمانی حرکات کی حد 106
برگ سبز تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں.ما مورز مانه حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر نہایت بلیغ اور پر معرفت انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں: کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہیں اور مسجدیں بھی بھری ہوئی نظر آتی ہیں.مگر کوئی برکت اور ظہور اُن مسجدوں کے بھرے ہوئے ہونے سے نظر نہیں آتا.اس لئے یہ سب کچھ جو کیا جاتا ہے محض رسوم اور عادات کے طور پر کیا جاتا ہے.وہ سچا اخلاص اور وفا جو ایمان کے حقیقی لوازم ہیں اُن کے ساتھ پائے نہیں جاتے.سب عمل ریا کاری اور نفاق کے پردوں کے اندر مخفی ہو گئے ہیں.جوں جوں انسان اُن کے حالات سے واقف ہوتا جاتا ہے اندر سے گند اور خبث نکلتا آتا ہے.مسجد سے نکل کر گھر کی تفتیش کرو تو یہ نگ اسلام نظر آئیں گے.مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک کوٹھا ہزار من گندم سے بھرا ہوا خالی ہو گیا.اگر چو ہے اُس کو نہیں کھا گئے تو وہ کہاں گیا.پس اسی طرح پر پچاس برس کی نمازوں کی جب برکت نہیں ہوئی ، اگر ریا اور نفاق نے ان کو باطل اور حبط نہیں کیا تو وہ کہاں گئیں.خدا کے نیک بندوں کے آثار اُن میں پائے نہیں جاتے.ایک طبیب جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے اگر وہ نسخہ اس کے لئے مفید اور کارگر نہ ہو تو چند روز کے تجربہ کے بعد اُس کو بدل دیتا ہے اور پھر تشخیص کرتا ہے.لیکن ان مریضوں پر تو وہ نسخہ استعمال کیا گیا ہے جو ہمیشہ مفید اور زوداثر ثابت ہوا ہے.تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نسخہ کے استعمال میں غلطی اور بد پرہیزی کی ہے.یہ تو ہم کہ نہیں سکتے کہ ارکان اسلام میں غلطی تھی.اور نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ 107
برگ سبز مؤثر علاج نہ تھا.کیونکہ اس نسخہ نے ان مریضوں کو اچھا کیا جن کی نسبت لا علاج ہونے کا فتویٰ دیا گیا تھا.“ دو ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 87-88 - ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) حضور نے عام طور پر مسلمانوں کی نمازوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا: یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں.گو یاوہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے.اس لئے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے جس میں کراہت پائی جاتی ہے.حالانکہ نماز ایسی ھی ہے جس سے ایک ذوق ،انس اور سرور بڑھتا ہے.مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے...عام طور پر یہ حالت ہورہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لئے کرتے ہیں اور دیر تک دُعا مانگتے رہتے ہیں.کیا وجہ ہے بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں پھر کورے کے کورے ہی رہتے.کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا.اس کا یہی سبب ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے.ایسی نمازوں کے لئے ونیل آیا ہے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 443.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) فرمایا: ”نماز ایسی بھی ہے کہ ستیات کو دور کر دیتی ہے.جیسے فرمایا.اِن الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (هود 115) نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے.108
برگ سبز حسنات سے مراد نماز ہے.مگر آج کل یہ حالت ہورہی ہے عام طور پر نمازی کو مکار سمجھا جاتا ہے.کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے.کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجه مترتب نہیں ہوتا.نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا.آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے.دیکھو ایک مریض طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے.پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہود نہیں ہوتا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کوسنوار کر پڑھیں تو تنو یر قلب ہو جاتی ہے مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور و بدنیا اور سفلی زندگی میں نگونسار اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے.اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے...زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں.اب دیکھ لومثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے.یادرکھورسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز.صلوۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں.یہ قرب کی کنجی ہے.اسی سے کشوف ہوتے ہیں.اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں.یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے.لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند 109
برگ سبز ہے اور اس سے پیار کرتا ہے جیسے ہند و گنگا سے پیار کرتے ہیں.“ اسی طرح فرمایا: ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 445-446.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں.ان کی روح مردہ ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 164 - ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) نماز کے ظاہری ارکان کو سنوار کر ادا کرنا اور ادعیہ ماثورہ کو سوچ سمجھ کر صحیح طور پر پڑھنا بھی نہایت ضروری ہے.لیکن نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے.ان تمام جسمانی حرکات کے ساتھ ضروری ہے کہ انسان کے دل میں وہ حقیقی کیفیت بھی پیدا ہو جو ان ارکان نماز کا اصل مقصود ہے.کیونکہ: کوئی جسمانی بات جس کے ساتھ کیفیت نہ ہو فائدہ مند نہیں ہوسکتی..اللہ تعالیٰ کیفیت کو چاہتا ہے اور ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی عزت اور عظمت کے لئے جوش رکھتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 395 ایڈیشن 2003 مطبوعہ لندن) اور لوگ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور تقدیس کے لئے جوش نہیں رکھتے ان کی نمازیں جھوٹی ہیں اور ان کے سجدے بیکار ہیں“.” یا درکھو کہ کوئی عبادت اور صدقہ قبول نہیں ہوتا جب تک اللہ تعالیٰ کے لئے ذاتی جوش نہ ہو جس 110
برگ سبز کے ساتھ کوئی ملونی ذاتی فوائد اور منافع کی نہ ہو.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 395 396 ایڈیشن 2003 مطبوعہ لندن) اگر کوئی یہ خیال کرے کہ جب اصل نماز ، روزہ روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے.تو یہ خیال بھی درست نہیں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں اُن کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جواصل مقصد ہے.اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں، روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں.اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں.روح اور جسم کا با ہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے.نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے.اور جس قدر جسم میں نیازمندی کی حالت دکھاتا ہے اُسی قدر روح میں پیدا ہوتی ہے.اگر چہ خدا نرے سجدہ کو قبول نہیں کرتا مگر سجدہ کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے.اس لئے نماز میں آخری مقام سجدہ کا ہے.جب انسان نیازمندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے.....اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ خاص تعلق ہے.ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہو جاتا ہے.“ پھر فرمایا: ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 421- ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) ارکان نماز دراصل روحانی نشست و برخاست ہیں.انسان کو خدا تعالیٰ 111
برگ سبز کے رو بروکھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمتگاران میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کوکس قدر گردن جھکاتا ہے.اور سجدہ کمال آداب اور کمال تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طریق خدا تعالیٰ نے بطور یادداشت کے مقرر کر دیئے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے.علاوہ از میں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں (اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے ) صرف قال کی طرح نقلیں اُتاری جاویں اور اُسے ایک بار گراں سمجھ کر اتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتاؤ کہ اُس میں کیا لذت اور حظ آسکتا ہے.اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے اُس کی حقیقت کیونکر متحقق ہوگی.اور یہ اُس وقت ہوگا جبکہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہوکر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے.اس وقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 164 - 165 - ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) چنانچہ آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی: نماز کو جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو.بلکہ اس کے معانی اور حقیقت سے معرفت حاصل کرو.“ ( ملفوظات 9 جلد صفحہ 40-41- ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) لیکن ایسی نماز کا پڑھنا جس سے دین اور دنیا دونوں سنور جاتے ہیں اور مومن کی معراج ہے.جس کے پڑھنے والے ہر قسم کی بدیوں اور بے حیائیوں سے بچائے جاتے ہیں.اور 112
برگ سبز جنہیں خدا دونوں جہان کی حسنات و ترقیات سے نوازتا ہے اور جن کے لئے اس کی قدرت اور رحمت کے زبر دست نشان ظاہر ہوتے ہیں.یہ کوئی آسان کام نہیں.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی.یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگار ہے اس طرح کا خشوع خضوع پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو.“ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 67- ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ لندن) دعائیں کرو، بس دعائیں کرو در یار پر ہی صدائیں کرو اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہوجائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر تجھے راضی کرلیں.113 الفضل انٹرنیشنل 28 جنوری 2004ء )
برگ سبز مجھے پہ بے حد ہے کرم اے مرے جاناں تیرا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ کینیڈا(2005 ء) میں ایک خطبہ جمعہ میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کے بے شمار احسانات و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہر نعمت کے بعد شکر، ہر شکر کے بعد نعمت یہ سادہ اور مختصر فقرہ جماعت احمدیہ کی سوسال سے زائد کی تاریخ کا عنوان بن سکتا ہے.اسی فضل اور احسان کے موضوع پر حضور نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے بعد بھی ایک روح پرور خطبہ ارشاد فرمایا.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی منفرد اور نرالی شان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَ نَّكُمْ (ابراهيم: 8) اگر تم شکر کرتے رہو گے تو میں ضرور اور بھی اضافہ کرتا چلا جاؤں گا.حضور کا یہ مذکورہ فقرہ بھی اس قرآنی حقیقت کی ہی نشاندہی اور ترجمانی کرتا ہے.قرآن مجید اور آنحضرت سلائی یہ تم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی بعثت ثانیہ یا امام مہدی کی آمد ایسی عظیم الشان خبر تھی کہ اولیاء 114
برگ سبز امت اس کے پورا ہونے کی دعائیں کرتے اور اس کے مظہر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے، اس کی تصدیق کرنے ، اسے آنحضرت صلی ستم کا سلام پہنچانے کی شدید تمنا اور خواہش رکھتے تھے.یہ پیشگوئیاں سنت اللہ کے مطابق پوری ہوئیں اور گزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہ ایک نرم و نازک سبز کونپل کی طرح پھوٹیں.حقیقت بین اور چشم بصیرت رکھنے والوں نے ان معمولی سی چھوٹی سی کمزوری کو نپلوں کو پھوٹتے دیکھا تو خدا تعالیٰ کے شکر کے جذبات سے پُر ہو گئے.دن رات اس خوش خبری کو دنیا میں پھیلانے لگے.اس شکر پر کتنی برکتیں نازل ہوئیں ،کیسی ترقیاں ملیں.کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار ابتداء میں مہمان خانہ حضرت مسیح موعود علیہ) کا اپنا رہائشی گھر تھا.لنگر خانہ آپ کا ہی باورچی خانہ تھا لنگر کا منتظم ومہتم کوئی اور نہیں خود حضرت مسیح موعود علیشا) تھے.گھر میں جو کچھ پکتا مہمان آنے پر ان کے سامنے رکھ دیا جاتا.ان خوش قسمت مہمانوں پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے حق وصداقت کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے قادیان پہنچ کر اپنی پیشوائی اور استقبال کے لئے مامور زمانہ کو سامنے موجود پایا.وہ غلام احمد ان مہمانوں کی شکل میں قرآنی صداقت اور آنحضرت ملالا یتیم کے بیانات کی تکمیل کی جھلک دیکھ کر شکر کے جذبات سے اپنے دست مبارک سے مہمانوں کی خدمت کرتے.ہر وہ صحابی جسے اس زمانہ میں قادیان جانے کی سعادت حاصل ہوئی وہ دوسری باتوں کے علاوہ یہ ضرور بیان کرتے اور اس پر خوش ہوتے تھے کہ حضرت مسیح موعود عالیشام اکرام ضیف کی بہترین مثال تھے.مہمانوں سے ان کی ضروریات اور عادات کا علم حاصل کرنا.ایسی چیزیں جو قادیان میں نہ مل سکتی ہوں وہ 115
برگ سبز امرتسر یا گورداسپور سے منگوا کر مہمان کے سامنے پیش کرنا.مہمانوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنے کی تاکید کرنا اس شکر پر نعمتوں کے جو باب وا ہوئے آج ان کی فہرست مرتب کرنا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے.اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات وکرم جن کا مشکل ہے کہ تاروز قیامت ہو شمار ابتداء میں حضرت مسیح موعود عالی 16 اپنے احباب کو اپنے دست مبارک سے خط لکھتے تھے.جب تعداد زیادہ ہوگئی تو بعض مہمان بھی اس کام میں آپ کا ہاتھ بٹانے لگے.تاہم کام بڑھتا چلا گیا اور ضروری معلوم ہوا کہ اعلانات و اشتہارات طبع کروا کے عام تقسیم کئے جائیں.حضور اپنی کتب و اشتہارات کے مسودات اپنے دست مبارک سے لکھتے.اس مقصد کے لئے حوالے بھی خود ہی تلاش کرتے.اس زمانے میں قادیان میں کوئی کا تب کوئی مطبع نہ تھا.کتابت امرتسر میں ہوتی ، پروف واپس قادیان آتے.حضور خود ہی پروف لے کر آتے.انہیں دیکھتے تھیج کرتے.اس کام کا تجربہ رکھنے والے ہی یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کتنا مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ کا تب مسودات پر لگے ہوئے نشانات کے مطابق پوری طرح تصحیح کرتے ہوئے کوئی اور غلطی نہ کرے.لہذا تصحیح کے بعد بھی اس کی چیکنگ لازمی ہوتی ہے.پھر اس زمانہ کے پریس میں کاتب کے لکھے ہوئے بعض الفاظ یا تو بالکل نہیں چھپتے تھے یا اتنے مدھم چھپتے تھے کہ ان کو مشین مین کی مدد سے دوبارہ درست کروانا پڑتا تھا.مشین مین کا کام اپنی جگہ بڑی مہارت و مشق کا تقاضا کرتا تھا کیونکہ اسے الٹا لکھنا پڑتا تھا تاکہ نقش صحیح اور سیدھا آئے.غرضیکہ یہ ایسی مصروفیت تھی کہ اس پر بہت زیادہ وقت خرچ ہو جاتا تھا خاص طور پر جبکہ یہ کام قادیان میں نہیں ہوتے تھے اور پھر اس زمانہ میں آمدورفت کے 116
برگ سبز ذرائع بہت محدود اور سست رفتار ہونے کی وجہ سے بھی وقت بہت زیادہ لگتا ہوگا.حضور نے یہ سارے کام کس شکر گزاری کے جذبے کے تحت کئے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش شروع ہوگئی اور طباعت کی آسانیاں پیدا ہونی شروع ہوگئیں اور آج کل تو پلک جھپکتے میں پیغام ساری دنیا میں پہنچ جاتا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کسی مسئلہ کی وضاحت یا کسی حوالہ کی ضرورت کا اپنے خطبه یا درس میں ذکر فرماتے ہیں اور اس خطبہ اور درس کے ختم ہونے سے قبل پاکستان بلکہ دنیا بھر سے پیغامات وصول ہو چکے ہوتے ہیں.کسی نئی مالی تحریک پر اس خطبہ کے ختم ہونے سے پہلے مخلصین لبیک کہتے ہوئے اپنے وعدے بھیج چکے ہوتے ہیں بلکہ اگر کسی تحریک کو عالمی سطح پر پھیلا کر نہ کیا جائے تو قربانی کے ہر میدان میں مسابقت کی روح سے سرشار عشاق یہ درخواست بھی کر چکے ہوتے ہیں کہ ہمیں ثواب کے اس موقع سے محروم نہ کیا جائے اور ہمیں بھی نیکی کے اس کام میں شرکت کی اجازت دی جائے.حضرت مسیح موعود علیشا کے زمانہ میں تو یہ حال تھا کہ مہمانوں کی سہولت کے لئے ایک کنواں تیار کروانے کی ضرورت پیش آئی.اس مقصد کے لئے قریباً تین صد روپے کی ضرورت تھی.حضور کو اس معمولی رقم کے لئے الگ تحریک کرنی پڑی اور اس طرح کنواں تیار ہوا.یہ تو بالکل ابتدائی زمانہ کی بات ہے.حضرت مصلح موعود بنی عنہ نے رسالہ تشحیذ الاذہان کے لئے بڑی پر زور تحریک فرمائی اور چندہ بمشکل چند روپے جمع ہو سکا.خلافت ثانیہ میں ہی جب لاؤڈ سپیکر شروع ہوا اور حضرت مصلح موعودؓ کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے جماعت کو اس کی افادیت و ضرورت پر آگاہ کرنے کے بعد الگ سے اس مقصد کے لئے چندے کی تحریک کی جبکہ یہ بھی کوئی بہت بڑا خرچ نہیں تھا.پھر لاؤڈ سپیکر لگ جانے کے بعد حضور نے خدا تعالیٰ 117
برگ سبز کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہ وقت بھی آسکتا ہے جب ایک آدمی کسی ایک جگہ بیٹھے ہوئے ساری دنیا کو قرآن مجید پڑھا سکے گا.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آج MTA کے ذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور شکر کے نتیجہ میں کامیابیوں اور فتوحات کے نئے نئے افق ظاہر ہوتے چلے جارہے ہیں.اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر الفضل انٹرنیشنل 26 اگست 2005 ء 00 118
برگ سبز مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب ایک لمبا عرصہ ایڈیٹر افضل کی خدمات بجا لاتے رہے.ان کی خواہش کے مطابق بعض نایاب پرانی کتب کے تعارف گاہے گاہے الفضل میں پیش کئے.انکا بجا طور پر یہ خیال تھا کہ ہمارے بزرگوں کے علمی خزانے لائبریریوں میں محفوظ ہیں جن کا تعارف جماعت تک پہنچنا چاہئے تا کہ مزید پڑھنے کی تحریص ہو.خاکسار مکرم نیم سیفی صاحب کے درجات کی بلندی کیلئے دعا گو ہے.اللہ تعالیٰ اس قلم کے مجاہد کو اپنے قرب کی جنت سے نوازے.آمین.حیات فیض حضرت مولوی محمد فیض الدین صاحب سیالکوٹی کے سوانح پر مشتمل کتابچہ حیات فیض کے نام سے شائع ہوا.اس کی تدوین ہمارے بزرگ مربی حضرت مولوی عبد المالک خان صاحب نے کی.عرض حال کے عنوان کے تحت آپ لکھتے ہیں : اخویم محترم ڈاکٹر عبد الرحمن آف کامٹی نے مجھے حضرت مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹی کے کچھ حالات جو صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف روایات کے ماتحت مکرم ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی نے جمع فرمائے تھے دیئے اور کچھ حالات انہوں نے اور ان کی اہلیہ محترمہ نے بیان فرمائے ، انہی بیانات کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب کی ہدایات کے ماتحت یہ کتاب مرتب کی گئی ہے.میں اس کو فضل الہی سمجھتا ہوں کہ ان کلمات کے طفیل میں بھی حضرت خلیفۃ 119
برگ سبز المسیح اور احباب جماعت کی ان دعاؤں میں شامل ہو جاؤں گا جو اس بزرگ وجود کے لئے کی جائیں گی...66 نذر عقیدت کے عنوان کے تحت حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحب ( جو بے شمار جماعتی خدمات میں سے ایک خدمت امیر جماعت کراچی کی وجہ سے خاص شہرت و مقام کے حامل ہیں) نے بھی حضرت مولوی صاحب کے متعلق اظہار خیال کیا ہے آپ فرماتے ہیں : حضرت مولوی صاحب کو (جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ) میں نے پہلی دفعہ احمدیہ مسجد جو کبوتراں والی کے نام سے مشہور تھی میں دیکھا جبکہ مجھے ان کی خدمت میں قرآن کریم پڑھنے کیلئے لے جایا گیا.ہم چاروں بھائیوں اور ہمارے خالہ زاد بھائی چوہدری سلطان علی صاحب نے قران کریم حضرت مولوی صاحب سے پڑھا آپ کا چہرہ بہت وجیہہ، بارعب اور خوبصورت تھا.آواز بہت صاف واضح اور بلند تھی.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ( آپ تفصیلی طبیعت کے تھے.مگر میرا تجر بہ شاہد ہے کہ آپ کی طبیعت میں غصہ نہیں تھا ہاں غیرت بہت تھی...ایام شاگردی سے شروع کر کے آپ کی وفات تک مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا کثرت سے شرف حاصل ہوا اور ہمیشہ نہایت محبت سے ملے.بالکل ایسے ہی جیسے ایک شفیق و مہربان باپ اپنی اولاد سے ملتا ہے.دینی غیرت اتنی تھی کہ کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے.حق و صداقت کی حمایت میں ایک ننگی تلوار تھے تبلیغ کا بہت شوق تھا اور ہمیشہ کوشاں رہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہے اس کی شناخت دوسرے بھی کریں اور قبول کر کے پھر اوروں تک بھی اس نعمت کو 120
برگ سبز پہنچائیں.بحیثیت استاد ہر شاگرد کے ساتھ حقیقی ہمدردی و محبت رکھتے تھے.کسی غلطی کو رفع کرنے کیلئے خواہ کئی کئی دن شاگرد سے محنت کرنی پڑے.گھبراتے نہیں تھے...زیر زبر کی غلطی کے علاوہ اگر تلفظ اور لہجہ میں بھی فرق نظر آتا تو آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک درست نہ کروالیں اور پھر ہمیشہ دوبارہ اسی دن اور دوسرے تیسرے دن بھی سنتے تھے کہ کہیں وہی غلطی تو نہیں ہورہی...مجھے خطبات جمعہ سننے کا بہت موقع ملا اور باوجود بچپن کا زمانہ ہونے کے آپ کے ارشادات کی طرف توجہ پیدا ہوتی تھی اور کبھی طبیعت اکتائی نہیں تھی میں کئی دفعہ دعا کیلئے بھی (آپ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ہمیشہ شفقت سے پیش آئے اور دعا فرمانے کا وعدہ کرتے.میرا بہت بچپن سے دعا پر ایمان ہے اور میرا قیاس ہے کہ اس میں بہت حد تک دخل (آپ) کی نصائح کا تھا کہ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع لازمی ہے اور وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور پایہ قبولیت بخشتا ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت مخلص اور فرمانبردار خادم تھے اور جماعت سیالکوٹ کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو حضرت مولوی فیض الدین جیسا واعظ اور امام ملا تھا.جنہوں نے تمام عمر جماعت کی تربیت اور دعوت کیلئے صرف کر دی.اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمادے.آپ کی دو صاحبزادیاں میرے دو محسنوں جناب ماسٹر علی محمد صاحب المعروف بی ٹی صاحب ) اور ڈاکٹر عبد الرحمان صاحب احمدی (المعروف کامٹی صاحب) سے بیاہی گئیں اور دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ بہت مخلص اور احمدیت کا درد رکھنے والے دوست ہیں.موخر الذکر ڈاکٹر عبد الرحمن 121
برگ سبز صاحب سے مجھے دیرینہ دوستی کا فخر ہے.آپ آج کل ( یہ تحریر 1955 ء کی ہے.ناقل ) جماعت کراچی کے نہایت مخلص رکن ہیں اور ان کی سلسلہ سے وابستگی اور محبت دیکھ کر مجھے رشک پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اخلاص و محبت میں ترقی عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو اپنے نیک والد اور نہایت بزرگ و عاشق احمدیت نانا جان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور دینی و دنیوی نعماء سے سرفراز و مالا مال فرما دے.“ اس کتاب کے تعارف کے طور پر مذکورہ بالا تحریروں کے بعد کچھ اور لکھنے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی.یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ حضرت مولوی عبد المالک خان صاحب اور حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحب دونوں فن خطابت کے شہسوار تھے.مگران کی تحریریں بہت کم ہیں.اس لحاظ سے اس کتاب میں ان کی یہ تحریریں کئی لحاظ سے بہت قابل قدر ہیں.حضرت مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹ کی مشہور ” مسجد کبوتراں والی میں امام و خطیب تھے.آپ کی نیکی تقویٰ اور قرب الہی کی دورونزدیک شہرت تھی.آپ بچوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحب اور ایک روایت کے مطابق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بھی بچپن میں آپ سے قرآن مجید پڑھا تھا.قبول احمدیت کی سعادت کے حصول پر آپ کو بہت مخالفت و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا گیا کہ آپ نے مسجد کی دریاں اور سائبان بیچ کر کھالئے ہیں.سارے شہر میں اس مقدمہ کا چرچا تھا.مجسٹریٹ کے روبرو بے شمار گواہ ایک جھوٹ کی تائید میں اس شخص کے خلاف پیش کئے جارہے تھے ، جو کل تک ان کے 122
برگ سبز نزدیک اللہ والا تھا.پیر تھا ، نیک بزرگ تھا.آج وہ سائبان بیچ کر کھا جانے والا کہلا رہا تھا.یکے بعد دیگرے گواہ جاتے اور حاکم ان سے حلف اٹھوا کر گواہی لیتا، جرح کرتا.ادھر مولوی صاحب کا یہ حال تھا کہ نہایت الحاح وزاری سے عدالت کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے دعا میں مصروف اس انتظار میں کھڑے تھے کہ حاکم کب بلاتا ہے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ کو بلانے کی نوبت ہی نہ آئی اور حاکم نے مقدمہ خارج کر دیا.تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ خدا کی نصرت اس رنگ میں نازل ہوئی کہ ان گواہوں میں ایک شخص حیات تمبا کو والا تھا.حسب معمول حاکم نے اس سے بھی حلف اٹھوا کر دریافت کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ مولوی فیض الدین نے مسجد کا سائبان بیچا ہے.گواہ نے حلف اٹھا کر جواب میں میز پر دو روپے رکھ دیئے اور کہا کہ مجھے تو سامان بیچنے کا علم نہیں البتہ مجھے ان دو روپوں کے عوض یہاں لا یا گیا ہے.اس واقعہ سے عدالت میں سناٹا چھا گیا اور مجسٹریٹ نے ان تمام جھوٹی شہادتوں کے طومار کو پھینک دیا اور مقدمہ خارج کر دیا.حضرت مولوی صاحب کی متعدد نمایاں خوبیوں کے ذکر میں جذبہ خدمت کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ: وو...حضرت مولوی صاحب موصوف ساری زندگی...شب و روز جماعت کے مردوں اور عورتوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہتے.اسی طرح اور بھی جو خدمت سلسلہ کا موقع ملتا تو آپ اسے پوری تندہی سے سرانجام دیتے اور آپ نے اس کے بدلہ کی کبھی تمنانہ کی بلکہ کبھی آپ کے سامنے اس قسم کا اظہار بھی کسی نے کیا تو آپ نے ناپسند فرمایا.چنانچہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جماعت سیالکوٹ کے بعض سرکردہ احباب نے باہم مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا 123
برگ سبز که مولوی صاحب ہمارے امام اور خطیب ہیں اور ہمیشہ دینی کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے سوا ان کا کوئی اور کاروبار نہیں ہے.اس لئے جماعت کی طرف سے مبلغ ساٹھ روپے ماہوار مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کئے جایا کریں.منشی محمد عبد اللہ صاحب ریڈ رسیشن جج سیالکوٹ جو مولوی صاحب کے بے تکلف دوست تھے اس کام پر مامور کئے گئے کہ وہ مولوی صاحب کی خدمت میں یہ پیشکش کریں چنانچہ انہوں نے مولوی صاحب موصوف کو جماعت کے اس فیصلہ سے آگاہ کیا.یہ سن کر مولوی صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں اس امر کا تذکرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار فرمایا کہ چند سکوں کی صورت میں جماعت نے ان کی دینی خدمات کا صلہ دینا چاہا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت نے ان کی امامت کی قدر و قیمت کو نہیں پہچانا.آپ مجھے...صلہ میں یہ چند سکے دینا چاہتے ہیں حالانکہ امامت کا صلہ تو خدا کا وصال ہے...مجھے خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے اور وہی میرا رازق ہے.تم لوگ میرے رازق بننے کی کوشش نہ کرو.غرض آپ کو اس بات سے ناراضگی پیدا ہوئی اور جب تک آپ سیالکوٹ میں رہے خالصہ بوجہ للہ سلسلہ کی خدمات سرانجام دیتے رہے.“ کتاب کے آخر میں حضرت ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی اور حضرت ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کا مٹی ( جو حضرت مولوی فیض الدین صاحب کے داماد تھے ) کا مختصر تعارف اور حضرت مولوی صاحب کا شجرہ نسب اور ان کی اولا د کا بھی ذکر ہے.(روز نامہ الفضل 2 جولائی 1996 ء ) 124
برگ سبز حضرت شیخ نور احمد صاحب میرٹھی حضرت شیخ نور احمد صاحب میرٹھی کو اللہ تعالیٰ نے بہت ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام میں شمولیت کی سعادت عطا فرمائی اور براہین احمدیہ کی اشاعت اور پادری مارٹن کلارک اور پادری آتھم والے مشہور مناظرہ میں بعض نمایاں خدمات سرانجام دینے کی توفیق مرحمت فرمائی.آپ نے ایک مختصر رسالہ میں یہ انتہائی مفید کار ہائے نمایاں بہت ہی دلچسپ انداز میں بیان فرمائے ہیں.اس رسالہ کا نام ”نوراحمد“ ہے.حضرت شیخ صاحب اپنا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کے فضل سے جب سے میں نے ہوش سنبھالا میں ہمیشہ مذہبی آدمی رہا اور علماء کی صحبت اور فقرا کی مجالس میں بیٹھتا تھا اور واعظوں کے وعظ سننے کا مجھے بہت شوق تھا.منجملہ اور پندو نصائح کے علماء سے سنا کرتا تھا کہ حضرت امام مہدی آخری زمانے میں پیدا ہوں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہو کر امام مہدی کے ساتھ مل کر کافروں سے جہاد کریں گے...ایام بلوغت کا زمانہ میرا شہر میرٹھ میں گزرا.ایک صاحب سید جمیل الدین اخبار نویس 125
برگ سبز نے مجھے پریس مینی کا کام سکھایا کہ پریس مین بہت پریشان کرتے ہیں...سید صاحب کے ایک دوست مراد آباد سے اخبار نکالتے تھے...انہوں نے سید صاحب کو لکھا کہ ہمارا اخبارا اچھا نہیں چھپتا.پریس مین کام خراب کرتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں.آپ ایک پریس مین میرے پاس بھیج دیں.پس سید صاحب نے مجھے بھیج دیا اور کہا اگر اور کسی پریس مین کو ہم بھیجیں تو وہ کرایہ کے روپے بھی کھا جائے گا اور جس بات کی انہوں نے شکایت کی ہے وہ بھی رفع نہ ہوگی اس لئے میں آپ کو بھیجتا ہوں چند روز کام کر کے چلے آنا...کاپی لکھنے کی سیاہی بنائی.وہاں کوئی نہ جانتا تھا، میں بنانے لگا اور اشتہار شائع کروائے.لدھیانہ، لاہور، امرتسر، دہلی وغیرہ سے لوگ میری سیاہی منگوانے لگے.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس سیاہی کے ذریعہ سے امرتسر میں ایک اخبار وکیل ہندوستان پادریوں کا چھپتا تھا اس کے منیجر پادری رجب علی تھے، انہوں نے مجھے مراد آباد سے امرتسر بلوایا...چونکہ مجھے امرتسر دیکھنے کا شوق تھا میں امرتسر آگیا...اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے ایسا ہوا کہ 1878ء میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے پادری رجب علی کے مطبع سفیر ہند میں براہین احمدیہ کے چھپوانے کا انتظام کیا.ان کے پریس مین میرے سپر د تھے اور میرے ہی اہتمام سے سب کام ہوتے تھے اور خاص کر کتاب براہین احمدیہ پادری صاحب نے چھاپنے کے لئے میرے سپرد کی اور میں نے اس کا اول حصہ اسی مطبع میں چھاپا پھر میں نے اپنا پر میں علیحدہ لگا لیا چونکہ چھپائی کا کام میرے ہاتھ سے صفائی سے ہوتا تھا اس لئے رجب علی صاحب نے دوسرا حصہ میرے ہی پریس میں چھپوایا 126
برگ سبز اور تیسرا حصہ بھی.تیسرا حصہ میرے پریس میں چھپ رہا تھا تو پادری صاحب مذکور نے حضرت صاحب کو بڑے تقاضے کے خط لکھے.میں نے اپنا پریس ہال بازار میں ہی کھڑا کیا تھا.ان کا مطبع ہال بازار سے ایک طرف کو تھا اور میر امطبع بازار میں لب سڑک تھا.حضرت صاحب روپیہ لیکر قادیان سے امرتسر جب رجب علی کو دینے کیلئے تشریف لائے اور آپ نے ہال بازار میں چھاپہ خانہ دریافت کیا تو بتانے والے نے میرے مطبع کا پتہ بتا دیا تو حضرت صاحب میرے مطبع میں تشریف لے آئے.یہاں تیسرا حصہ براہین احمدیہ کا چھپ رہا تھا.حضرت صاحب نے سمجھا رجب علی کا یہی پر لیس ہوگا.میں گھر پر تھا میرے ملازموں سے آپ نے فرمایا پادری رجب علی صاحب کہاں ہیں.انہیں بلاؤ.جب مجھے اطلاع ہوئی.گھر قریب ہی تھا میں جلد آیا اور مصافحہ کیا.حضرت صاحب رجب علی کو تو جانتے تھے اور مجھ سے واقف نہ تھے.مجھے دیکھ کر متعجب سے ہوئے اور فرمایا یہ پریس رجب علی صاحب کا ہے؟ میں نے ادب سے عرض کیا کہ آپ ہی کا ہے.پھر فرمایا کہ رجب علی صاحب کا پر یس کہاں ہے اور یہ ہماری کتاب جو چھپ رہی ہے اس مطبع میں کیسے آئی؟ میں نے عرض کیا کہ یہ ساری کتاب میں نے اپنے مطبع ریاض ہند میں چھاپی ہے...حضرت صاحب نے فرمایا کہ رجب علی صاحب ہمیں تنگ کرتے ہیں.پیشگی روپیہ لے لیتے ہیں اور وقت پر کام نہیں دیتے.“ یہاں یہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ حضرت شیخ نور احمد صاحب نے باقی کتاب اپنے مطبع میں چھاپنے کو اپنی سعادت و خوش بختی سمجھا اور یہ بھی کہ حضرت شیخ صاحب 127
برگ سبز کو قادیان میں پہلا پریس لگانے کا شرف حاصل ہوا.” نور احمد صرف اڑتالیس صفحات کی ایک چھوٹی سی کتاب ہے مگر اپنی افادیت اور دلچسپی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے بعض پہلو اور واقعات بیان کرنے میں منفرد اور اصل ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے.اس کتاب کو دوبارہ شائع کرانے کی سعادت جناب حکیم عبد اللطیف شاہد گجراتی کو حاصل ہوئی.حکیم صاحب بہت ہی سادہ طبع علم دوست بزرگ تھے.ان کے اہتمام میں بہت سی نادر علمی کتب شائع ہوئیں.اللہ تعالیٰ جزائے خیر سے نوازے.آمین.128
برگ سبز عظیم زندگی انگریزی فوج کا ایک افسر جو اپنی مختلف اہم ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ہندوستان آیا.وہ جو کسی بھی فوجی جوان کی طرح سگریٹ اور شراب بلا تکلف استعمال کرتا تھا، اپنی فطری سعادت کی وجہ سے قادیان پہنچ گیا اور صرف یہی نہیں کہ احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی بلکہ ایک پاک اور قابل رشک نیک تبدیلی کی وجہ سے علم و معرفت میں جلد جلد ترقی کرتے ہوئے پہلے احمدی انگریز واقف زندگی مربی کا اعزاز حاصل کیا اور آج بھی وہ سرزمین انگلستان میں گراں قدر خدمات بجالا رہے ہیں.آپ کی زیر نظر کتاب Life Supreme کا اردو ترجمہ عظیم زندگی ہمارے اس فدائی احمدی جناب بشیر احمد صاحب آرچرڈ کی علوم روحانی پر گہری نظر اور وسعت معلومات کی ایک عمدہ موثر مثال ہے.اردو تر جمہ محمد ذکر یا ورک صاحب کی کاوش ہے ( یہ کتاب لندن اور اونٹاریو کینیڈا سے مل سکتی ہے ) مکرم آرچرڈ صاحب اپنی فوجی خدمات کے سلسلہ میں جنگ عظیم دوم میں فرانس اور پیجم وغیرہ میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ہندوستان میں ڈوگرہ فوج کے ساتھ کام کرتے رہے.آپ کو آسام اور برما میں بھی کام کرنے کا موقع حاصل ہوا.اسی ملازمت کے دوران آپ کی یونٹ کے احمدی حوالدار دو 129
برگ سبز کلرک عبد الرحمن صاحب دہلوی سے ملاقات ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ کیا.قادیان گئے اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے ملاقات ہوئی.واپس بر ما چلے گئے اور کافی مطالعہ، سوچ بچار، غور وفکر اور دعاؤں کے بعد احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی.اپنے اس اقدام کے متعلق آپ لکھتے ہیں: ”بے شک یہ ایک بہت بڑا قدم تھا جو میں نے اٹھایا لیکن اب مجھے احمدیت قبول کئے چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے.میں نے اس عرصہ میں اپنے رب کے بے شمار فضلوں اور احسانوں کا مشاہدہ کیا ہے.شراب نوشی کے علاوہ مجھے قمار بازی کی لت بھی تھی.میں گھوڑ دوڑ پر.کتوں کی دوڑ پر یا تاش کی بازی پر جوا کھیلا کرتا تھا.مجھے خوب یاد ہے.ایک دفعہ جب میں امپھال میں تھا میں نے اپنی مہینے بھر کی پوری تنخواہ دوسرے افسروں کے ساتھ جوا کھیلنے میں لٹا دی تھی.خدا کا شکر کہ....اس بد عادت سے نجات بھی ملی اور اس کے برعکس کتنی ہی اچھی عادتیں ودیعت ہوئیں مثلاً احمدیت قبول کرنے سے پیشتر میں نے کبھی ایک پیسہ بھی خیرات وسخاوت میں نہیں دیا تھا.اسلام نے مجھے اللہ کی راہ میں مال کی قربانی کا فلسفہ سمجھایا اور میں بخوشی اس کی راہ میں مال دینے لگا.شروع شروع میں اپنی آمد کا 1/16 ادا کرتا رہا اور بعد میں اس کو بڑھا کر 1/10 کر دیا.1967ء میں میں نے اپنی آمد کے 1/3 حصہ کا نذرانہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دیا اور بفضلہ تعالیٰ تادم تحریر اپنے اس عہد پر قائم ہوں.اگر چہ میری 130
برگ سبز آمدنی بہت قلیل ہے تاہم اس لازمی چندہ کے علاوہ دیگر تحریکات کے چندے بھی با قاعدہ ادا کرنے کی توفیق مل رہی ہے.“ آپ نے احمدیت کی اور متعدد برکات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بعض مبشر خواہیں بھی بیان کی ہیں.اس کتاب کے بعض ذیلی عنوانات درج ذیل ہیں.ان سے کتاب کی افادیت اور دلچسپی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے: داستان میری اخلاقی اقدار کا نمونہ.جنت ارضی - روح - چند خیالات.سکھی روح - ضبط نفس.عداوت - حصول تقویٰ اور روحانی ترقی کے چھ دشمن.ناکامی کے ذریعہ کامیابی.شہد کے دریا ہماری موہوم دنیا.حیات ابدی کائنات میں خدائی صداقتوں کا ظہور.ہماری اندرونی کائنات.عبادت کی عادت.احمدی کارول.اخلاق فاضلہ کے متعلق آپ بیان کرتے ہیں: اخلاق اپنے اندر متعدد خواص پیدا کرنے کا نام ہے.ان میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں: عزت نفس.دوسروں کا احترام.خلوص رحم دلی.ذہانت.عفو و درگزر.سادگی.صفائی نرم مزاجی.جرات.بھلائی.نیکی.صبر استقامت.رحم انصاف.ضبط نفس - قناعت.خوش مزاجی.مہمان نوازی.صدقہ و خیرات بے غرضی.محبت اور احسان مندی وغیرہ.اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں جواس فہرست میں شامل ہوسکتی ہیں.131
برگ سبز مذکورہ بالا اخلاق فاضلہ میں سے سادگی کے متعلق مکرم آرچرڈ صاحب بیان کرتے ہیں : سادگی نیک زندگی کا ایک خاص جو ہر ہے.ہمیں تعیش کی زندگی گزار نے سے منع فرمایا گیا ہے.تعیش کی زندگی سے خبردار رہو کیونکہ خدا کے بندے ایسی زندگی نہیں گزارا کرتے.خدا کے رستہ میں سادہ زندگی گزارنے سے روح میں چمک آتی ہے.انسان ایک حد تک دنیوی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے اور کبھی اس چیز کی خواہش نہیں کرتا.تعیش کی زندگی گزارنے والے کبھی اطمینان قلب حاصل نہیں کر پاتے.حقیقت تو یہ ہے کہ وہی دنیا میں سب سے زیادہ مالدار ہے جسے کسی چیز کی ضرورت نہیں اور قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تقویٰ اس دنیا کی بہترین چیزوں سے بھی بہتر ہے.نیک انسان تھوڑے سے بھی مطمئن ہو جاتا ہے اور پرتعیش زندگی سے دلچسپی نہیں رکھتا...خدا کے انبیاء کا طریق سادہ زندگی ہی رہا ہے.حضرت نبی کریم صلی ا کہ تم اگر چاہتے تو آسائش کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن آپ نے ہمیشہ انتہائی سادہ زندگی کو ترجیح دی.آپ کی عادات سادہ.آپ کی غذا سادہ کپڑے نہایت سادہ اور آپ کا گھر اور اس کا سامان بالکل سادہ تھا.آپ گھر درے بستر پر سویا کرتے تھے اور کھجور کی چٹائی پر آرام فرمایا کرتے تھے جس کے نشان آپ کی کمر مبارک پر پڑ جایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ گھر دری چٹائی پر کیوں سوتے ہیں.آپ نے فرمایا میرے لئے یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں.انہوں نے اس دنیا کو چنا ہے اور میں نے بھی آنے والی زندگی کو چنا ہے.132
برگ سبز اسی باب میں مکرم آرچرڈ صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں : اخلاق حسنہ کا پیدا کرنا ایک عملی فلاسفی ہے کوئی خشک وعظ نہیں اس پر عمل ضروری ہے یہ ایسا موضوع ہے جس پر کتا میں لکھی جاسکتی ہیں.میں نے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور مقصد صرف اس موضوع سے دلچسپی پیدا کرنے کی طرف توجہ دلانا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ میں نے جو بیج بوئے ہیں وہ زرخیز زمین پر گریں، پھلیں پھولیں اور بارآور ہوں.“ (روزنامه الفضل ربوہ 17 اپریل 1996ء) 00 133
برگ سبز ذكر حبيب حضرت مفتی محمد صادق صاحب اپنی نہایت پیاری کتاب ”ذکر حبیب کے آغاز میں دعا کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”..اے میرے پاک پروردگار تو مجھے ایسے کلام اور ایسی تحریر کی قوت عطا فرما جس میں ریب نہ ہو.جو حق ہو اور اس میں کچھ باطل نہ ہو اور جو مخلوق کے واسطے موجب ہدایت ہو اور سب زبانوں اور قوموں میں اس کی صحیح اشاعت اور اس پر پاک عمل درآمد ہو.جو میرے لئے اور پڑھنے والوں کیلئے اور سننے والوں کیلئے اور چھاپنے اور چھپوانے والوں کیلئے اور شائع کرنے اور خرید نے والوں کیلئے.تیری پاک رضامندیوں کے حصول اور دین و دنیا میں حسنات پانے کا ذریعہ ہو جو تیری مخلوقات کے واسطے راہنمائی کا باعث اور تیرے ساتھ اتحاد کا موجب ہو.ہاں اے میرے بخشنہار..تو میرے گناہوں کو بخش اور میری پردہ پوشی فرما.یار بی.یا ربی.تو میرے خیال میں میری زبان میں اور میرے قلم میں رحمت.برکت قوت راحت عطا فرما اور وہ سب جن کے ساتھ میری محبت کا 134
برگ سبز تعلق ہو ان کی بخشش کر اور انہیں ایمان.صحت تقویٰ اور اقبال مرحمت فرما.اے میرے ربّ، اے میرے ہادی، اے میرے مالک، اے میرے آقا تو میرے کلام کو مستحکم فرما اور ایسے الفاظ مجھے عطا فرما جو تیری مخلوق کی ترقی ، بہبودی، بھلائی حقیقی، راحت اور خوشحالی کا ذریعہ ہوں...( محمد صادق) حضرت مفتی صاحب کی اس کتاب میں احمد یہ تاریخ و سوانح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مستند اور اہم ریکارڈ ہے جسے کئی لحاظ سے ماخذ اول ہونے کا درجہ حاصل ہے.حضرت مفتی صاحب کا انداز بیان نہایت سادہ شیریں اور موثر ہوتا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت کا مخلصانہ تعلق اس انداز بیان کے تاثر میں اضافہ کا باعث ہوتا یہی وجہ ہے کہ جماعت میں ایک لمبے عرصہ تک ” ذکر حبیب اور حضرت مفتی صاحب لازم و ملزوم سمجھے جاتے تھے.زیر نظر کتاب میں اپنی بیعت و زیارت کے ابتدائی حالات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عام حالات، عادات اور مجالس اذکار، حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو ضرب الامثال بکثرت استعمال فرماتے.حضرت مفتی صاحب کی پرانی نوٹ بکوں کے حوالے.ڈائریاں، روایات ، حضرت مفتی صاحب پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت کے نمونے ،خطوط امام بنام غلام ، فوٹو کب لئے گئے اور کہاں لئے گئے، بعض مسائل وفتاوی ، بعض نادر تحریریں، یورپین معزز افراد کو دعوت الی الحق اور بیعت کے بعد کی نصائح وغیرہ ایسا مواد موجود ہے جو ہر اس شخص کیلئے جو تزکیہ نفس اور قرب الہی کا طالب و متلاشی ہو مفید ثابت ہوسکتا ہے..135
برگ سبز ہیں: حضرت مفتی صاحب میں قادیان میں کہاں ٹھہرتا تھا“ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ” جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا جو کہ غالباً دسمبر 1890 ء کے آخر میں تھا.اس وقت میں اس کمرہ میں ٹھہرایا گیا جسے گول کمرہ کہتے ہیں.اس کے آگے وہ تین دیواری نہ تھی جواب ہے.اس وقت یہی مہمان خانہ تھا اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ یہیں بیٹھ کر مہمانوں سے ملتے تھے یا اس کے دروازے پر میدان میں چار پائیوں پر بیٹھا کرتے تھے اس کے بعد بھی دو تین سال تک وہی مہمان خانہ رہا.اس کے بعد شہر کی فصیل جب فروخت ہوئی تو اس کو صاف کر کے اس پر مکانات بننے کا سلسلہ جاری ہوا اور وہ جگہ بنائی گئی جہاں حضرت مولانا نورالدین کا مطب اور موٹر خانہ ہے اور اس کے بعد وہ مکان بنایا گیا جہاں اب مہمان خانہ ہے...پھر جب مولوی محمد علی صاحب کے واسطے مسجد مبارک کے متصل اپنے مکان کی تیسری منزل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کمرہ بنوایا تو جب تک مولوی محمد علی صاحب کی شادی نہیں ہوئی مجھے بھی اسی کمرے میں حضرت صاحب ٹھہرایا کرتے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اس کمرہ میں ٹھہرایا.جو مسجد مبارک اور حضرت صاحب کے قیام گاہ کے درمیان شمالی جانب ہے اور جس میں سے مسجد مبارک کی طرف ایک کھڑ کی کھلتی ہے.یہی بیت الذکر ہے.میں بی اے کے امتحان کی تیاری کے واسطے چند روز کی رخصت لیکر قادیان آیا ہوا تھا.“ 136
برگ سبز حضرت مفتی صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات لکھ لیا کرتے تھے.اس میں آپ کے شوق کے علاوہ ایک اور محرک بھی تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: پہلی دفعہ جب 1890 ء کے اخیر میں قادیان آیا اور بیعت کر کے واپس اپنی ملازمت پر جموں پہنچا تو حضرت استاذی المکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اسیح الاوّل نے مجھ سے قادیان کے تمام حالات دریافت کئے.حضرت صاحب کیا کرتے تھے، کتنی دفعہ سیر کو گئے؟ راستہ میں کیا فرما یا وغیرہ؟ حضرت مولانا صاحب کی اس دلچسپی کے باعث مجھے شوق ہوا کہ جب کبھی میں قادیان آتا، تمام حالات لکھ کر حضرت مولوی صاحب اور دوسروں کو بھیجتا رہتا.اس طرح مجھے ایسے حالات لکھتے رہنے کی عادت ہوگئی اور بہت سی پرانی نوٹ 66 بکیں اب تک میرے پاس موجود ہیں...“ اسی طرح آپ لکھتے ہیں:..محمد افضل خان صاحب ایڈیٹر اخبار البدر کی وفات پر جب اُس اخبار کی ایڈیٹری کا کام عاجز راقم کے سپر دہوا.اور ہائی سکول کی مدرسی سے فراغت حاصل کر کے عاجز صرف اس کام پر لگ گیا تو مجھے وقت کا زیادہ حصہ حضرت صاحب...کی صحبت میں بیٹھنے اور آپ کے کلام کو لکھنے کیلئے ملنے لگا اور ان حالات کو میں 66 اپنے اخبار میں ڈائری اور القول الطیب کے عنوان کے ماتحت درج کرتا رہا..؟ حضرت مفتی صاحب کی اس یادگار خدمت پر حضرت مولانا نورالدین نے فرمایا: آپ نے ایسا خط لکھا ہے کہ گویا مجھے حضرت صاحب کی مجلس میں بٹھا دیا ہے.“ 137
برگ سبز حضرت مفتی صاحب لاہور میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے کئی دفعہ زندگی وقف کر کے قادیان آنے کا ارادہ کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدا منع فرما یا مگر بعد میں اجازت ملنے پر حضرت مفتی صاحب قادیان میں رہائش پذیر ہو گئے.اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور حضرت مفتی صاحب کے عاشقانہ رنگ کا اظہار کرتے ہوئے حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب فرماتے ہیں: " معزز ناظرین! یہ وہ وقت ہے جب ہمارا صادق عثمانی دوست (حضرت مفتی صاحب ) اپنے محبوب کے عشق میں سرگرداں تھا.وہ اس پروانہ کی مانند تھا، جو شمع کے گرد بڑی بے تابی سے اِدھر اُدھر پھرتا اور آخر اس میں گر کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے اور وہ اس بچہ کی مانند تھا جو بدر کامل کو دیکھ کر ہمک ہمک کر او پر اٹھتا اور اس تک پہنچنے میں مقدور بھر کوشش کرتا ہے.یہ ابتدائی زمانہ بھی کیا ہی لذت کا زمانہ تھا جب ہمارا کوئی دوست موقع پا تا تو دیوانہ وار اٹھ دوڑتا.نہ رات دیکھتا نہ دن.آخر عشق صادق نے اپنا رنگ دکھایا اور وہ قطرہ سمندر میں آکر مل گیا یا یوں کہئے کہ جس لڑی کا موتی تھا، اس میں پرو دیا گیا.“ ذکر حبیب“ پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے حضرت مفتی صاحب کسی کو یہ کہہ رہے ہوں کہ ؎ بس تنگ نہ کر ناصح ناداں مجھے اتنا یا چل کے دکھا دے دہن ایسا کمر ایسی 138 روزنامه الفضل ربوہ 28 جولا ئی 1996ء)
برگ سبز ایک مفید کتاب.جماعت احمدیہ کا تعارف ہمارے نوجوان مربی مکرم مبشر احمد صاحب خالد نے ” جماعت کا تعارف“ کے نام سے احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کیلئے قریباً 350 صفحات پر مشتمل ایک دلچسپ کتاب مرتب کی ہے اور لجنہ کراچی کے شعبہ اشاعت کی مطبوعات کی فہرست میں یہ ایک بہت مفید اضافہ ہے.اس کتاب کے افتتاحیہ میں مکرم ناظر صاحب اصلاح وارشاد تحریر فرماتے ہیں : اس کتاب میں موصوف نے جماعت احمدیہ کے قیام کے پس منظر سے لے کر جماعت کے مستقبل تک بڑے عمدہ انداز میں اور ضروری تفصیل کے ساتھ جماعت کا تعارف پیش کیا ہے اور جماعت سے متعلق تمام ضروری تعارفی معلومات جمع کر دی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب جہاں نئے احمدی بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت زیادہ مفید ہوگی وہاں پر پر انے احمدیوں کے علم میں بھی گراں قدر اضافہ کرنے کا موجب ہوگی.خصوصیت سے عزیز نو جوانوں اور طلباء کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی...اس موقعہ پر لجنہ اماءاللہ کراچی کا ذکر بھی ضروری ہے.لجنہ اماءاللہ کراچی نے 139
برگ سبز اس دور میں علم کی اشاعت کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور جماعتی لٹریچر میں مفید لٹریچر کا اضافہ کیا ہے.زیر نظر کتاب بھی لجنہ اماءاللہ کراچی کی تحریک پر ہی مکرم مبشر احمد صاحب خالد نے مرتب کی ہے.“ محترمہ سلیمہ میر صاحبہ صدر لجنہ کراچی نے اس کتاب کے پیش لفظ میں کتاب کے مختلف موضوعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: وو.قدرت ثانیہ کے دور میں جماعت احمد یہ عالمگیر کے بابرکت نظام کا مکمل ڈھانچہ سامنے رکھ دیا ہے.اس عظیم الشان دور کی عظیم الشان عمارت میں داخل کر کے گلشن احمد کی ہر کیاری.ہر روش تر و تازہ پھولوں کی خوشبو سے معطر ہے.اللہ تعالیٰ اس گلشن باغ و بہار کے نظام نو کو رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھے اور ہمیشہ ہمیش اپنی رحمتوں اور فضلوں کے ٹھنڈے سایوں میں رکھے...ہماری درخواست پر مکرم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد نے بھی اس پر خوبصورت افتتاحیہ لکھا ہے اور اس کتاب کو تعریفی کلمات سے نوازا ہے.میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ہر دو مربیان اور باقی مہربان احباب کو جو اس کی تیاری میں معاون ہوئے ہیں جزا ہائے خیر سے نوازے...لجنہ کراچی کے شعبہ اشاعت کی ٹیم امتہ الباری ناصر، همسر برکت ناصر، شہناز نعیم اور دیگر ممبرات دعا کی مستحق ہیں...میرے خیال میں یہ کتاب ہر فرد جماعت احمدیہ کی ضرورت ہے.خدا کرے ہم ہر ایک ممبر تک پہنچاسکیں.یہ ہماری شناخت ہے.اللہ تعالیٰ سب کو استفادہ کرنے کی با عمل تو فیق فرمائے.“ 140
برگ سبز جماعت احمدیہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح کے عنوان کے تحت آپ نے متعدد حوالہ جات پیش کئے ہیں ان میں سے پہلا اقتباس درج ذیل ہے: ”اے میرے دوستو ! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو.خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے.آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے.ہر ایک طرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھو کر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر ایک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ.سو تم اس وقت سن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو ، یا گالی کے مقابل پر گالی دو کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے.سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کرلو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.“ روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 547) اس مفید کتاب کے آخر میں ” جماعت احمدیہ کا مستقبل“ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت ایمان افروز اور امید افزا اقتباسات پیش کئے گئے ہیں.ان میں سے ایک اقتباس درج ذیل ہے: 141
برگ سبز یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے...مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے...وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.(روحانی خزائن جلد 9 رسالہ الوصیت ص 309) روزنامه الفضل ربوہ 12 مئی 1997ء) 142
برگ سبز گمنام و بے ہنر (مصنف : محمد سعید احمد -- ناشر : خالد احمد سعید ) گمنام و بے ہنر سلسلہ کے ایک پرانے خادم کے حالات یا ان انعامات کا ذکر ہے جو مصنف کو والدہ کی دعاؤں اور احمدیت کو ایک انعام سمجھتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنے کی برکت سے حاصل ہوئے.ایک مخلص محنتی خادم سلسلہ کی زندگی کے حالات کا نام ” گمنام و بے ہنر نہایت پر حکمت اور مصنف کی طبع رسا، نکتہ دانی اور حسن انتخاب کا ثبوت ہے.پاکستان میں احمدیوں پر بے جا ظالمانہ قوانین کی وجہ سے بہت سی پابندیاں عائد ہیں.طالبعلموں کو تعلیمی اداروں میں ، ملازمین کو ملازمت میں اور کاروباری حضرات کو اپنے کاروبار میں دوسرے شہریوں کی طرح ترقی کے مواقع برابر نہیں ملتے.تاہم اللہ تعالیٰ نے مصنف کو زندگی کے مختلف ادوار میں یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ احمدیت کا ہر مجلس میں برملا ذکر ہی نہیں حسب موقع تبلیغ بھی کرتے رہے.اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی ترقی کے دروازے بند نہ کئے جاسکے.مصنف کو قادیان ، ربوہ اور لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے.143
برگ سبز زمانہ طالبعلمی سے ہی آپ کو اہم جماعتی خدمات کی تو فیق ملتی رہی.اس کے بعد کم و بیش نصف صدی تک لاہور، سرگودھا، کراچی، پشاور، چکلالہ، راولپنڈی وغیرہ میں ملازمت کے ساتھ نہایت مفید و نتیجہ خیر خدمات کی توفیق ملتی رہی.سوانح عمریوں میں متحدیث نعمت کا رنگ غالب ہوتا ہے اس لئے بالعموم سوانح نگار اپنی غلطیوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں یا ایسے رنگ میں ذکر کرتے ہیں جس میں تعریف و توصیف کا رنگ پیدا ہو جائے مگر مصنف نے اپنی خدا داد قوت مشاہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف و تذکرہ کرتے ہوئے ان سے سبق اور نصیحت حاصل کرنے کا ذکر " بہت سادہ اور مؤثر انداز میں کیا ہے.صرف دو واقعات ملاحظہ ہوں.آپ لکھتے ہیں: 54-1952ء میں خاکسار پہلے احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کا سیکرٹری مال، پھر جنرل سیکرٹری اور پھر صدر تھا.خاکسار واحد شخص ہے جس کو بیک وقت پریذیڈنٹ احمدیہ کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور اور قائد مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور شہر وضلع کے عہدے بذریعہ انتخاب ملے.تعلیم الاسلام کالج لاہور میں ہونے کی وجہ سے لاہور کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم احمدی طلباء کی تعداد قریباً چار صد تھی.ایک دن خاکسار کو بطور صد راحمد یہ کالجیٹ ایسوسی ایشن محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ نے ارشاد فرمایا کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے چند مبلغین کے اعزاز میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن چائے کی پارٹی دے اور شرکاء کی تعداد قریبا دوصد ہو.مالی تنگی کا زمانہ تھا.پھر طلباء کے پاس فالتو رقم بھی نہیں ہوتی تھی جس کی وجہ سے 50 روپے کم پڑ گئے.میں نے سوچا کہ یہ تقریب دراصل تو جماعت کی ہے یہ کمی جماعت کے فنڈ سے پوری کر لیتے 144
برگ سبز ہیں.خاکسار ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو مرکز سے آئے ہوئے اور چند ایک مقامی بزرگان سلسلہ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور کوئی اہم مشورہ ہو رہا تھا.خاکسارا جازت لے کر ایک طرف بیٹھ گیا تو امیر صاحب نے آمد کا مقصد پوچھا.خاکسار کو دوسرے بزرگوں کے سامنے سوال کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہوئی تو امیر صاحب نے فرمایا کہ یہ سب مخلص احمدی ہیں تمہارا راز افشاء نہیں کریں گے.میں نے مدعا بیان کیا تو کہنے لگے بس اتنی سی بات تھی.کہنے لگے لکھ دو.میں نے رسید لکھ کر دی تو انہوں نے واپس کر دی اور کہا کہ مجھے رسید نہیں چاہئے.تمہاری تحریر چاہئے کہ امیر جماعت احمد یہ لاہور نے ایک دینی خدمت میرے سپرد کی تھی جو میں اپنی نالائقی کی وجہ سے نہیں کر سکا اور میری اتنی مدد کی جائے.میں نے کہا کہ یہ تو میں نہیں لکھوں گا.انہوں نے فرمایا کہ اتنے غیرتمند ہو تو پھر میرے پاس کیوں آئے ہو، جاؤ جا کر کام مکمل کرو.اس واقعہ کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ پھر سلسلہ کا کام کرتے ہوئے مجھے کوئی ایسی دشواری نہیں ہوئی.جو خدمت میرے سپر د ہوئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام مکمل کر دیا.محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ نوجوانوں سے کام لینا خوب جانتے تھے.ان کی نفسیات کو سمجھتے تھے.نوجوانوں سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں.وہ ناراض ہوتے تھے تو بس اتنا کہتے : "There are very few people wise in this world, mostly they are otherwise" یہ فقرہ غلطی کرنے والے نو جوانوں کے لئے کافی تازیانہ ہوتا تھا.“ (صفحہ 49-48) 145
برگ سبز ایک اور سبق آموز واقعہ کا ذکر آپ یوں کرتے ہیں: دو میں انجینئر نگ کالج میں تھا.ہمارے پرنسپل کی ایک یہ عادت تھی کہ کسی کلاس میں پیریڈ شروع ہونے کے دس پندرہ منٹ بعد خاموشی سے داخل ہوتے.پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتے.استاد اور طلباء کا بغور جائزہ لیتے.باری باری وہ روزانہ مختلف کلاسوں میں جاتے.ہمارے ایک جرمن پروفیسر تھے.کئی کتب کے مصنف تھے اور اپنے مضمون میں بہت شہرت رکھتے تھے.وہ لیکچر کے دوران کوئی مداخلت پسند نہ کرتے تھے اس لئے کلاس میں داخل ہونے کے بعد تمام دروازے بند کر وا دیتے اور اندر سے چھٹی چڑھا دیتے.ایک دن پرنسپل صاحب ان کی کلاس میں آئے.دیکھا تو دروازہ اندر سے بند تھا.انہوں نے کھٹکھٹایا تو پروفیسر کریمر نے پوچھا کہ کون ہے تو پرنسپل نے اپنا نام بتایا.پروفیسر صاحب نے پوچھا کہ کیا کام ہے تو پرنسپل نے کہا میں تمہاری کلاس میں کچھ دیر بیٹھنا چاہتا ہوں.پروفیسر نے کہا کہ کل کلاس شروع ہونے سے پانچ منٹ قبل آجائیں مگر دروازہ نہ کھولا.پرنسپل نے دوسرے روز ایسا ہی کیا.اس واقعہ کا دونوں کے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہ پڑا.ہم پاکستانی طلباء کے لئے ان یوروپین اساتذہ کا یہ انداز حیران کن تھا.“ آپ کی خدمات کی فہرست کافی طویل ہے تاہم ابتدا میں مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور کی قیادت اور خدمت خلق کے یادگار کارنامے اور پھر آخر میں سیکرٹری وقف نو جماعت احمدیہ لاہور کی حیثیت میں آپ کو تاریخی خدمات کی سعادت حاصل ہوئی.الفضل انٹرنیشنل 25اگست 2006ءصفحه (13) 146
برگ سبز کتاب الآداب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں: الحمد للهثم الحمد للہ اللہ تعالی نے محض اپنے فضل و رحم سے مجھے اس عمر میں، جبکہ میری عمر 80 سال ہو رہی ہے ، توفیق دی کہ جو قلم میں نے مسلسل 1897ء سے خدمت سلسلہ کے مقصد نیک سے ہاتھ میں لیا تھا اس وقت تک کسی نہ کسی رنگ میں چل رہا ہے.میں اس کے فضل و رحم سے امید رکھتا ہوں کہ وہ آخری وقت تک توفیق دے گا.“ حضرت عرفانی صاحب کا اس سے بہتر تعارف اور کیا ہوگا.سلسلہ کی خدمت کے نیک مقصد میں آپ کا قلم مسلسل حرکت میں رہا اور بہت سی مفید و موثر علمی تربیتی اور تاریخی کتب کی تخلیق کا باعث بنا.آپ اپنی نہایت مفید تصنیف "کتاب الآداب“ کے تعارف کے طور پر تحریر فرماتے ہیں: چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا میں نے تہذیب کے نام سے ایک مختصر سا رسالہ سلسلہ آداب و اخلاق میں شائع کیا تھا.جس میں بشری اور طبعی ضرورتوں کے آداب کو احادیث کی روشنی میں پیش کیا تھا.ارادہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے 147
برگ سبز رسائل کی صورت میں اس کی تکمیل کروں مگر علم الہی میں اس کے لئے وہ وقت نہ تھا.اس لئے ایک رسالہ کے بعد میں کچھ نہ لکھ سکا.بعض دوستوں نے مضحکہ بھی اُڑایا کہ وہ کسی مضمون پر لکھنے کا اعلان کرتا ہے اور پھر خاموش ہو جاتا ہے.مجھے ایسے معترضین پر ہمیشہ رحم آیا کہ وہ خود کچھ نہیں کر سکتے اور اس کو چہ سے ناواقف ہیں.بہر حال اب اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عمر میں جبکہ محنت کی طاقت ختم ہو رہی ہے توفیق بخشی کہ اس خواہش کے پورا کرنے کیلئے قلم اٹھاؤں اور میں اس رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اس موضوع پر آغاز تحریر کرتا ہوں اور اس ابتدائی بیان میں اس امر کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ آداب و اخلاق دو جداگانہ اعمال ہیں...اس بحث کے بعد میں عملی زندگی کے آداب پر بحث کرنے کی اپنے علم و فہم کے مطابق کوشش کروں گا.اسے مفید و با برکت بنا نا اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم پر موقوف ہے.“ اس کتاب کے بعض ذیلی عنوان درج ذیل ہیں : آداب یا ایٹی کیٹ.فطری و طبعی ضرورتوں کے آداب.کھانے پینے کے آداب.دوسری فطری ضروریات کے آداب طہارت وغیرہ).تیسری طبعی ضرورت کے آداب ( نیند ) - تمدنی ضروریات کے آداب.آداب مجلس - آداب ملاقات - آداب الکلام.شہریت کے آداب - متفرق آداب.مذکورہ بالا عنوانوں سے ظاہر ہے کہ روز مرہ سے تعلق رکھنے والے ارشادات کا یہ ایک حسین مرقع ومجموعہ ہے.یہ پیاری کتاب جو قریباً اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ہے ہر صفحہ پر ایسی ہدایات اور رہنمائی پیش کرتی ہے جو انسان کی بہتر زندگی گزارنے کی ضمانت اور خدا تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کے حصول کا باعث ہے.مغربی اقوام اور کلام الہی کا معیار لباس کے عنوان 148
برگ سبز کے تحت حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: مغربی اقوام نے جنہیں اپنی تہذیب و تمدن پر ناز ہے.لباس کو محض فیشن یا زینت کا ذریعہ بنایا.کلام اللہ اس کی زینت کے پہلو نظر انداز نہیں کرتا مگر وہ اس زینت کی اجازت نہیں دیتا جو ستر پوشی اور تقویٰ کی باریک سے بار یک رعایتوں سے عاری ہو.اسے خوب یاد رکھو کہ کلام الہی محض ستر پوشی یا زینت مقصد قرار نہیں دیتا بلکہ وہ کہتا ہے ( تقویٰ کا لباس بہتر ہے ) زینت اور ستر پوشی اس کے جسمانی پہلو ہیں اس کی اصل غرض تقویٰ اللہ ہے اس لئے جس لباس سے یہ مقصد حاصل نہ ہو خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا ہو اور کیسا ہی خوبصورت ہو وہ نگاہ تقویٰ میں عریانی ہے.یہاں کلام الہی نے فلسفہ لباس کے متعلق ایک اصل تعلیم فرمایا.ایک دوسرے مقام پر اس کی نہایت لطیف صراحت فرماتا ہے چنانچہ عورت کے متعلق فرماتا ہے...عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو.غور کروکس لطیف پیرایہ میں عفت اور احسان کی تعلیم دی ہے اور لباس کے مقصد تقویٰ کی طرف متوجہ کیا ہے.میں اس کتاب کو لکھ رہا ہوں اور ہر مرحلہ پر میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں.کلام الہی کے حقائق ومعارف کا ایک بے پایاں سمندر میرے سامنے ہوتا ہے اور میں اس میں سے ایک چلو کے برابر بھی نہیں لے سکتا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک قطرہ سے بھی کم.149 (روزنامه الفضل ربوہ 18 جولائی 1995ء)
برگ سبز آواز دوست سرکاری ملازمت میں نیک نامی اور ادبی حلقوں میں اچھی شہرت، کم خوش نصیبوں کے حصہ میں آتی ہے.تاہم آواز دوست کے مصنف مختار مسعود نے ان سے حصہ وافر پایا.کوئی میں سال قبل جب ان کی زیر نظر کتاب شائع ہوئی تو اسے بہت شہرت حاصل ہوئی اور ایسی مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم کتابوں کو ملتی ہے.آواز دوست میں سے تین اقتباس بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں.اس سے کتاب کے انداز اور مصنف کے رجحان کا بخوبی پتہ چل سکتا ہے اور یہ بھی کہ احمدیت کے معاندین کا انجام کیسا ہوا.ظفر علی خان کا زمیندار اخبار میں نے بہت کم پڑھا ہے.جب اس کا شہرہ تھا میں اس وقت اتنی مسافت پر رہتا تھا کہ یہ اخبار وہاں دوسرے یا تیسرے روز پہنچتا تھا.روزے آپ قضا کر سکتے ہیں مگر روزنامے کی قضا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور ہو بھی تو کیونکر ہو جب روز نامہ پہلے دن اخبار کہلاتا ہے اور دوسرے دن سے ردی شمار ہوتا ہے.ہمارا واسطہ البتہ برسوں ایسے اخبارات سے بھی رہا جو روز اشاعت سے ہی دوسرے دن کا اخبار معلوم ہوتے ہیں کچھ یہی 150
برگ سبز حال اس وقت زمیندار کا ہو چکا تھا جب میں اسے روز کے روز پڑھنے لگا.یہ بات قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کی ہے جو زمیندار کے آخری ایام تھے.کتابت ناقص اور اخبار بد زیب تھا مصلحت کا یہ عالم تھا کہ اخبار کا مسلک ہر روز تبدیل ہو جاتا اور جس کسی سے دام ملنے کی امید نظر آتی اخبار اس کا بندہ بے دام بن جاتا.خبروں کی صحت کا یہ کمال تھا کہ ایک دن کسی کا جنازہ نکال دیتے اور اگلے روز اسی کے حق میں مسیحائی فرما دیتے...ایک رات میں زمیندار کے دفتر میں داخل ہوا.مجھے ایک خبر کی تفصیل در کار تھی جس کا ریڈیو پر اعلان ہو چکا تھا.دفتر کی حالت دیکھ کر دکھ ہوا.ان دنوں دفاتر کے بارہ میں میر اعلم اور تجربہ بڑا محدود تھا میں نے دہلی میں وائسرائے کا دفتر اور کلکتہ میں اخبار سٹیٹسمین کا دفتر باہر سے دیکھ رکھا تھا.اب جو اردو کے مشہور روزنامے کے دفتر میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا.ایک کمرے میں مدہم سا بلب جل رہا تھا.اور ایک کا تب اکٹروں بیٹھا ہوا تھا.ایک لکڑی کا تخت اور دو چار کرسیاں خالی پڑی تھیں.درودیوار پر حسرت برستی تھی.اگلے کمرے کی حالت بھی ایسی تھی.میز اور ڈیسک کچھ ایسے بے ترتیب اور خاک سے اٹے ہوئے تھے جیسے مدت سے ان کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئی ہو.کمرے کے وسط میں دو آدمی کھڑے باتیں کر رہے تھے میں نے کام بتایا جواب ملا کہ اس وقت دفتر میں کوئی نہیں.ویسے وہ فہرست جو آپ کو درکار ہے وہ ہمارے دفتر میں ابھی تک نہیں پہنچی.جب میں واپس مڑا تو وہ دونوں بھی کمرے کی بتی بند کر کے باہر نکل آئے.اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ زمیندار کا چراغ گل ہو گیا.زمیندار اخبار کا بڑا سا بورڈ اتار کر دفتر کی پیشانی پر زمیندار ہوٹل کا بورڈ لگا دیا گیا.میں نے پہلی بار نیا بورڈ دیکھا تو مجھے زمیندار اخبار کے ادارتی عملے کے بہت سے نام یاد آنے لگے.علامہ نیاز فتحپوری ، مولوی وحید سلیم پانی پتی، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، عبداللہ العمادی اور چراغ حسن حسرت.ان لوگوں کی جگہ اب 151
برگ سبز ہوٹل کے بیروں اور خانساموں نے لے لی تھی.شاید یہ کوئی ایسا غیر متوقع سانحہ بھی نہ تھا کیونکہ مولانا ظفر علی خاں کی جگہ بھی تو آخر مولانا اختر علی خاں کے حصہ میں آئی تھی.وقت کا سیلاب کسی نسل کیلئے تھم جاتا ہے اور کسی کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے.مولانا ظفر علی خاں کو میں نے آخری بار مری میں دیکھا تھا.کمشنر ہاؤس کے نزدیک ایک پھاٹک پر ان کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی بوڑھے اور علیل ظفر علی خاں کا بس نام ہی رہ گیا تھا.کام ان کا پورا ہوچکا تھا اور اس کے تمام ہونے میں زیادہ دیر نہ تھی.میں جب بھی ان کے گھر کے سامنے سے گزرا تو پھاٹک سے ڈھلوان پر نیچے اترتی ہوئی پہاڑی پگڈنڈی کو ہمیشہ گھورتا تا کہ شاید ظفر علی خاں نظر آجائیں.ایک دن وہ نظر آگئے.رکشا پر بیٹھے ہوئے تھے جسے دوقلی آگے ہانک رہے تھے.اور دو پیچھے سے تھامے ہوئے تھے.مولانا نحیف و نزار تھے.نظر کمزور.سماعت ثقیل ، زبان خاموش ، سر ہلتا تھا اور آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں.جوانی میں میانہ قامت ہوا کرتے تھے اب بڑھاپے میں پستہ قامت نظر آئے.رکشا کے قلی بے خبر تھے کہ ان کی سواری کو مولانا حالی نے نازش قوم اور فخر اقران کہا تھا اور ایک قصیدے میں اسے شیر دل اے ظفر علی خاں کہہ کر مخاطب کیا تھا.رکشا تیزی سے ڈھلوان پر اتر گیا اور میں آہستہ آہستہ چڑھائی کی طرف روانہ ہوا.“ سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے اپنی عقیدت ومحبت اور ان کی خطابت کو اپنے مخصوص رنگ میں خراج تحسین پیش کرنے کے بعد شاہ جی سے ایک ملاقات کی تفصیل تحریر کی ہے.اس کا آخری حصہ درج ذیل ہے: میں نے شاہ جی سے جو سوال کئے وہ سب سود و زیاں کے بارہ میں تھے.پہلا سوال یہ تھا کہ گزشتہ چالیس برس میں جو آپ کی عوامی زندگی پر محیط ہیں آپ 152
برگ سبز نے برعظیم کے مسلمانوں کو اسلام کے قریب آتے ہوئے دیکھا ہے یا دور جاتے ہوئے پایا ہے.جواب ملا کہ مسلمانوں میں دو طبقے پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں ایک مذہب سے قریب دوسرا اس سے کچھ دور.ان دونوں طبقوں کا درمیانی فاصلہ اس چالیس سال میں بہت بڑھ گیا ہے.یہی نہیں بلکہ جو لوگ مذہب سے بے گانہ ہیں ان کی تعدا د اور قوت میں بھی اضافہ ہوا ہے.میں نے دوسراسوال پوچھا.برصغیر کی گزشتہ چالیس سال کی تاریخ میں زندگی کے کتنے ہی شعبوں میں ایسے نامور مسلمان ایک ہی وقت میں جمع ہو گئے جس کی مثال نہیں ملتی.اگر ان سب کی موجودگی میں اسلام سے بے گانہ ہو جانے والوں کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے مستقبل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس کے مسائل آپ کے عہد سے زیادہ الجھے ہوئے اور رہنما آپ کے معیار سے کم مایہ ہوں گے.کیا یہ بات قابل افسوس نہیں کہ جولی سرمایہ آپ کو اسلاف سے ملا تھا.اس سے آپ کا ترکہ کم تر ہوگا.شاہ جی نے فرمایا کہ ہمیں اپنے مقصد میں اس لئے کامیابی نہ ہوسکی کہ دوسو برس کے عرصہ میں فرنگی کی تعلیم اور تہذیب نے اپنا پورا تسلط جما لیا تھا.آسودہ حال لوگ علی گڑھ کی طرف چلے گئے اور ناکارہ آدمی دینی مدارس کے حصے میں آئے.جنگ آزادی کی ہما ہمی میں سیاست دین پر اور منافقت دنیا پر غالب آئی.ساری توجہ اور توانائی نئی تعلیم اور نئی سیاست کی نذر ہو گئی جو لوگ باقی رہے ان میں سے کچھ ہند و تمدن کے زیر اثر رہ کر گمراہ ہو گئے.صرف بچے کھچے اور لٹے پٹے لوگ ہی دین کے قافلہ میں شامل ہوئے.ہمارا سرمایہ خوب تھا مگر نسل ناخوب تھی.نتیجہ ظاہر ہے.آبائی ورثہ بھی 153
برگ سبز کھویا.اپنی کمائی بھی گنوائی اور مستقبل کو بھی مخدوش بنادیا.میں نے آخری سوال کی اجازت چاہی اور اسے دو طرح سے پوچھا.ایک شکل یہ تھی کہ اگر قیامت کے دن آپ سے پوچھا گیا کہ اے وہ شخص جسے بیان و کلام میں چالیس کروڑ افراد پر فوقیت دی گئی تھی ، اس خطابت کا حساب پیش کرو تو آپ نا کام تحریکوں کے علاوہ اور کیا پیش کریں گے.اس سوال کی دوسری شکل یہ تھی کہ آپ نے اپنی جد و جہد کا انجام دیکھ لیا.اب اگر زمانہ چالیس برس پیچھے لوٹ جائے تو آپ اپنی خطابت اور طلاقت کا دوبارہ وہی استعمال کریں گے یا آپ کی زندگی بالکل نئی ہوگی.شاہ جی یکا یک خاموش ہو گئے.ان کی خاموشی میں آزردگی بھی شامل تھی.میں نے موضوع بدل دیا اور اپنی آٹو گراف البم ان کے سامنے کر دی.شاہ جی نے اسے پہلو پر رکھا اور لکھا وہ اٹھتا ہوا اک دھواں اول اول بجھتی کی چنگاریاں آخر آخر وہ قیامت کا طوفان صحرا میں اول غبار ره کارواں آخر آخر چمن میں عنادل کا مسجود اول گیاه ره گلر خاں آخر آخر روزنامه الفضل ربوہ یکم جنوری 1997ء) 154
برگ سبز میری یادیں مکرم ملک محمد عبد اللہ صاحب ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنہیں بڑے اخلاص اور لگن کے ساتھ ایک لمبا عرصہ جو نصف صدی سے بھی زیادہ بنتا ہے سلسلہ کی اہم خدمات بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی.اس لمبے عرصہ میں آپ کی خوش بختی نے آپ کے لئے یہ مواقع بہم پہنچائے کہ آپ کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، حضرت مولانا شیر علی صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ جیسی عظیم ہستیوں کے ساتھ کام کرنے اور ان سے فیض اٹھانے کے زریں مواقع حاصل ہوئے.مکرم ملک صاحب نے اپنے احباب واعزہ کے اصرار پر اپنی خوشگوار یادیں ” میری یادیں“ کے عنوان سے مرتب کی ہیں.اس کتابچہ میں مذکورہ بالا نابغہ روز گار ہستیوں کے حسنِ اخلاق اور حسنِ سلوک کی جھلکیاں نظر آتی ہیں.کتاب میں مندرج تمام واقعات ایک سے ایک بڑھ کر دلچسپ بھی ہیں اور ایمان افروز بھی.جن میں سے کسی ایک یا دو کا انتخاب بہت مشکل ہے.155
برگ سبز مسجد فضل، فیصل آباد کے افتتاح کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے محترم ملک صاحب تحریر کرتے ہیں : 1934ء میں فیصل آباد ” مسجد فضل“ کی افتتاحی تقریب تھی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس بابرکت تقریب کے موقع پر تشریف لا رہے تھے.قادیان سے معلمین کلاس کے طلبہ اس موقع پر ایک ہفتہ قبل فیصل آباد بھجوا دیئے گئے تھے تا کہ اردگرد کی احمدی جماعتوں کو اس تقریب میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کی تحریک کی جائے.خاکسار بھی ان طلبہ میں شامل تھا.دن بھر اردگرد کی جماعتوں میں دورہ کر کے ہم سب مغرب کے وقت مسجد میں جمع ہو جاتے اور رات گئے تک دینی اور روحانی مجلس قائم ہوتی.جماعت کے دیگر احباب بھی اس میں شامل ہوتے چونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی تشریف آوری کا پروگرام تھا اس لئے احباب جماعت میں بڑا جوش و خروش تھا اور تمام احباب انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے.تاریخ مقررہ پر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے قادیان سے تشریف لا کر بڑی رقت آمیز اور پرسوز دعاؤں کے ساتھ افتتاح فرمایا.جس دن حضور کا علی اصح واپسی کا پروگرام تھا رات عشاء کے وقت محترم ڈاکٹرمحمد شفیع صاحب....میرے پاس تشریف لائے آپ ان دنوں جڑانوالہ میں شفاخانہ حیوانات کے انچارج ڈاکٹر تھے اور چند دنوں سے ہسپتال کے بعد روزانہ مسجد کی افتتاحی تقریب کی وجہ سے فیصل آباد آ جاتے تھے.جڑانوالہ سے فیصل آباد قریباً بیس میل کا فاصلہ ہے.آپ نے کہا کہ حضرت صاحب کل فجر کی نماز کے بعد قادیان واپس تشریف 156
برگ سبز لے جارہے ہیں (آپ) کی خدمت میں یہ درخواست کرنی ہے کہ راستہ میں پندرہ منٹ جڑانوالہ قیام فرما کر چائے کی دعوت قبول فرمائیں.یہ درخواست کرنے کے لئے آپ بھی میرے ہمراہ چلیں...حضرت صاحب نے فرمایا دیر ہو جائے گی اور میرا تجربہ ہے کہ یہ پندرہ منٹ کئی گنا زیادہ ہو جاتے ہیں.ڈاکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ وقت کی پابندی کریں گے.بہر حال حضرت صاحب نے اس کی منظوری عطا فرمائی جس پر ڈاکٹر صاحب کی خوشی کی انتہانہ رہی.اس وقت ڈاکٹر صاحب نے میرے متعلق بھی عرض کی کہ...میرے ساتھ ملک عبد اللہ صاحب کو بھی جڑانوالہ جانے کی اجازت عطا فرما دیں حضرت صاحب نے اسے بھی منظور فرما دیا.محترم ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت ایک گاڑی کا انتظام کیا اور ہم جڑانوالہ پہنچ گئے....تیزی سے انتظامات شروع کر دیئے دو تین گھنٹوں میں قریباً یکصد آدمیوں کو چائے پلانے کا انتظام مکمل ہو گیا.شفاخانہ کے وسیع صحن میں خوبصورت شامیانہ اور قناتیں لگ گئیں.اس انتظام کے ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب نے شہر کے متعدد معززین کو بھی مدعو کر لیا.اگر چہ علی الصبح کا وقت تھا لیکن کئی غیر از جماعت احباب حضرت امام جماعت احمدیہ کی ملاقات کے شوق میں دعوت میں تشریف لے آئے.جماعت کے احمدی دوست اپنے آقا کی آمد کی خوشی میں ساری رات وہاں موجود رہے اور انتظامات میں مدد کرتے رہے.فجر کی نماز کے تھوڑی دیر بعد حضرت صاحب اپنے مصاحبین کے ہمراہ تشریف لے آئے.حضرت صاحب نے اتنا بڑا انتظام دیکھ کر تعجب اور خوشی کا اظہار فرمایا.محترم ڈاکٹر 157
برگ سبز صاحب نے تو اپنا پندرہ منٹ کا وعدہ پورا کر دکھایا ، مگر دعوت میں موجود غیر از جماعت معززین کے شوق کو دیکھ کر حضرت صاحب نے یہ ملاقات اور گفتگو نصف گھنٹہ تک جاری رکھی.ازاں بعد دعا کی گئی اور حضرت صاحب احباب کی دلی دعاؤں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے.اس واقعہ کو یہاں پیش کرنے کا ایک یہ مقصد بھی ہے کہ اس کے پس منظر میں ایک اور بہت ہی ایمان افروز مثال ملتی ہے جو درج ذیل ہے : جڑانوالہ کے احباب کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت صاحب لائلپور (فیصل آباد ) تشریف لا رہے ہیں تو ہر احمدی اس سفر کی تیاری کرنے لگا.جڑانوالہ کی ایک ضعیف و بیمار معمر خاتون نے اپنے بیٹے کو بالحاح و اصرار کہا کہ مجھے بھی اس مبارک سفر پر ساتھ لے جاؤ میں بھی حضرت صاحب کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو روشن کرنا چاہتی ہوں.مگر کسی مجبوری اور مشکل کی وجہ سے اس بزرگ خاتون کا بیٹا اپنی مادر محترم کی اس خواہش کو پورا نہ کر سکا اور باوجود والدہ کے اصرار بلکہ منت سماجت کے وہ انکار پر ہی قائم رہا.جب اپنی والدہ کو پیچھے چھوڑ کر سفر پر جانے لگا تو اس خاتون نے بڑے مان اور اعتماد سے کہا کہ بیٹا تم تو مجھے پیچھے چھوڑے جارہے ہو مگر میں نے سجدہ میں سر رکھ دینا ہے اور اس وقت تک سجدہ سے سر نہیں اٹھانا جب تک میرا خدا میرے آقا کو یہاں جڑانوالہ لانے اور مجھے زیارت کرانے کا وعدہ نہیں کر لیتا.“ اس متوکل اور پر اعتماد خاتون کی خواہش کس طرح پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے غیر معمولی حالات میں حضرت صاحب" کو جڑانوالہ جانے 158
برگ سبز پر آمادہ فرمایا اور اس خاتون کے جذبہ اور خواہش کا علم ہونے پر اس کے گھر جا کر اس کی خواہش کو پورا کرنے کا انعام فرمایا.اس کی تفصیل اور پس منظر محترم ملک صاحب کی یادوں میں مذکور ہے.محترم ملک صاحب نے مربی سلسلہ، اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ، ایڈیٹر مصباح، ایڈیٹر ریویو آف ریلیجز، اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات بجالانے کی سعادت پائی.آپ متعدد مفید کتب کے مصنف بھی ہیں.ان کی زیر نظر کتاب میں جو بہت اچھے کاغذ پر طبع ہوئی ہے اگر کوئی کمی نظر آتی ہے تو وہ یہ ہے کہ واقعات بہت مختصر اور کتاب بہت چھوٹی ہے.محترم ملک صاحب کے پاس یقیناً ایسی یادوں کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے.(روز نامہ الفضل 12 پریل 1995 ء ) 159
برگ سبز انعامات خداوند کریم حضرت پیر افتخار الحق صاحب جو مشہور سجادہ نشین حضرت پیر صوفی احمد جان لدھیانوی کے فرزند اور حضرت پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ میسر نا القرآن کے بھائی تھے اپنی کتاب انعامات خداوند کریم “ یا ” افتخار الحق میں ” کچھ اپنا حال“ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بغیر میرے کسی حق کے محض اپنے فضل اور رحم سے وجودِ خلقت عطا فرمایا اور بہت بہت مہربانیاں فرمائیں.میرا نام افتخار احمد ہے.پیر کا لفظ اس لئے ہے کہ میرے والد صاحب پیری مریدی کرتے تھے.منظور محمد صاحب میرے حقیقی بھائی ہیں.میرا کچھ حال یہ ہے بمقام لدھیانہ 14 شعبان 1282ھ بروز سه شنبه جس دن میری والدہ نے روزہ رکھا ہوا تھا ، پیدا ہوا.میری والدہ بہت نیک اور نیکوں کی اولاد تھیں.ان کی قبر بہشتی مقبرہ قادیان میں ہے.میرے والد صاحب کا نام احمد جان ہے ، جن کا ذکر حضرت صاحب نے ازالہ اوہام میں کیا ہے.“ 160
برگ سبز اس مفید و موثر کتاب کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے میرے دل میں یہ نیت آئی کہ کچھ ایسی باتیں لکھی جائیں جو خلق اللہ کو نفع دیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو میرے لئے عمل وثواب جاریہ بنادے.اس کا نام انعامات خداوند کریم ہو.عبارت عام فہم اور آسان اردو میں اور پیرایہ ایسا ہوجیسے کوئی کسی سے زبانی با تیں کرتا ہے...مسجد مبارک ( قادیان ) میں دورکعت پڑھ کر اس کی ابتدائی چھ باتیں لکھیں.پھر جب اور جہاں موقع ملا لکھا اور کم و بیش بھی کرتا رہا.اللہ تعالیٰ میری خطاؤں اور گناہوں کو بخشے میری ستاری فرمائے.مجھے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے...اور اپنے فضل رحمت اور مغفرت سے قبول فرما کر اس کتاب کو اپنے بندوں کیلئے دنیا عقبی میں نافع بنائے...66 کتابی سائز کی 500 سے زائد صفحات کی یہ کتاب انمول و بیش قیمت نصائح اور تجربات پر مشتمل ہے.حضرت پیر صاحب نے الگ الگ عنوانوں پر چھوٹے چھوٹے نوٹ یا شذرات تحریر کئے ہیں بعض عنوان ایک سے زائد مرتبہ بھی نظر آتے ہیں مگر کتاب میں تکرار محسوس نہیں ہوتی کیونکہ بہت ہی ناصحانہ رنگ میں بہت ہی پیار و محبت سے اس طرح باتیں کی ہیں کہ پڑھنے والا ان سے ضرور متاثر ہوتا ہے.مثلاً معاملہ کی صفائی کے عنوان کے تحت حضرت پیر صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”اگر معاملہ تمہارا اچھا ہے اور وعدہ تمہارا سچا ہے تو تم بڑے ساہوکار ہو.جس سے وعدہ کرو پورا کرو اور جو بات کہو سچی کہو.جو شخص کسی سے قرض لیتا ہے اور وعدہ پر نہیں دیتا خواہ اس کی شکل کیسی اچھی ہو اس کو آئندہ کوئی قرض نہیں دیتا.161
برگ سبز اس کا اعتبار اٹھ جاتا ہے.تجارت سچ سے ترقی کرتی ہے اور جھوٹ ، دغا اور دھوکا بازیوں سے تباہ برباد ہو جاتی ہے.“ محبت برادرانہ کے عنوان کے تحت حضرت پیر صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”اے میرے پیارے بھائیو! دنیا کی چیزوں کے لئے آپس میں تنازع اور خصومت چھوڑ دو.دینی دنیوی زندگی کو تلخ نہ کرو، خواہ تھوڑا بہت نقصان برداشت کرنا پڑے کیونکہ کسی دنیوی چیز کے نقصان سے دینی بھائیوں کا آپس میں جھگڑا کرنے کا نقصان بدرجہا زیادہ ہے.یہ تنازع تم کو بڑے اور اعلیٰ کاموں سے روک دے گا.اس مسافر خانہ کو ایک پیالہ یار کابی کی طرح سمجھو، جس کے گرد بیٹھ کر ہم سب بھائی کھانا کھارہے ہیں.اگر کسی نے بڑا نوالہ لیا تو کیا ہوا؟ اللہ اپنے فضل سے سب کو ر جادے گا.مروت اور یگانگت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے آگے سے بھی دوسرے کی طرف سر کا دے اور اس بات کا تو کیا کہنا کہ دوسرے کو پتہ بھی نہ لگے.حت دنیا کے متعلق حضرت پیر صاحب فرماتے ہیں: دنیا کی محبت سب خطاؤں کا ستر ہے.یہ حدیث شریف کا ترجمہ ہے دنیا کیا ہے؟ جو خدا سے غافل کرے.آخرت کو بھلائے.اس کا علاج موت کو یاد رکھنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اے وہ لوگو جو خواہشات میں حدود اللہ سے آگے نکل گئے ہو موت کو بہت یاد کیا کرو جو لذات کو ملیا میٹ کرنے والی ہے.162
برگ سبز بھلا اگر کسی کو شام کے وقت سو اشرفیاں دی جائیں کہ صبح تم سے لے لی جائیں گی تو کیا وہ شخص ان اشرفیوں سے محبت کرے گا.خوش ہوگا اور دل لگائے گا ؟ کیا منی آرڈر تقسیم کرنے والے کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ مجھے آج بہت روپیہ ملا ہے؟ آداب زوجین کے سلسلہ میں حضرت پیر صاحب تحریر فرماتے ہیں: نیک خاوند اور نیک بیوی کو چاہئے کہ آپس میں محبت سے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا جوڑا بنایا ہے اور دونوں مل کر خدا کی یاد اور دنیا کی خدمت کریں جو بیاہ شادی کا اصل مقصد ہے.گھر کی نا اتفاقی ایک عذاب ہے اور دین و دنیا کی بہتری سے روکتی ہے...اے بھائیو ! اصل خوبصورتی روح کی خوبصورتی ہے در حقیقت حسین وہ ہے جس کی روح حسین ہے.روح کا حسن یہ ہے کہ تقویٰ، عفت ، پاکیزگی، حیا، وفا، محبت، ہمدردی، صبر، شکر، سخاوت، شجاعت، ایثار نیکی اور نیکوکاری سے مزین ہو.جس کا پر تو اور جلوہ ظاہری جسم کو بھی خوبصورت بنا دیتا ہے.مگر اس حسن کو وہی معلوم کرتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس حسن کے ساتھ حسین بنا دیا ہے.قدر زر زرگر بداند قدر جو ہر جو ہری.غیر کو کیا خبر کہ یہ حسن کیسا ہے وہ تو عطر کو چھوڑ کر اس پسماندہ کا دلدادہ ہے جو عرق گلاب نکالنے کے بعد رہ جاتا ہے.“ وو صبر ورضا کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت پیر صاحب لکھتے ہیں: دنیا میں تکلیف دکھ اور بیماریاں آتی ہیں ان سے بالکل نہ گھبراؤ.دل تنگ نہ ہو.تکلیف خوشیوں کے لئے آئینہ کی طرح ہوتی ہیں.جب ان میں دیکھتے ہو 163
برگ سبز تو تمہیں اپنی خوشیاں نظر آتی ہیں.تکلیفیں اور دکھ خوشیوں کیلئے ایک سبب، ذریعہ اور آلہ کی طرح ہیں.تکلیفوں کا علم اور معرفت نہ ہوتی تو خوشیوں ، آرام اور سکھ کا پتہ بھی نہ لگتا.دن کا نور رات کے اندھیرے کے بعد کیسا بھلا لگتا ہے.رات حالانکہ ظلمت ہے اور سوجانا غفلت ہے لیکن دن کے نورانی اوقات میں کام کرنے سے تھک جانے کے بعد کس قدر آرام دہ ہے.بیماری کے بعد صحت کیسی لذیذ اور بیماری میں خدا کی یاد کیسی خوش نما اور دل کی راحت ہے.اسی طرح بھوک پیاس کے بعد کھانا پینا.خوف کے بعد امن.محنت کے بعد آرام.اُس پر سب تکلیفوں کا قیاس کر لو.پس ہر وقت اور ہر حال میں خوش اور اللہ سے راضی رہو اور شکر گزار رہو.اللہ کے فضل سے صابرین اور شاکرین کیلئے تکالیف ان پھولوں کی طرح ہیں جو پھلدار درختوں میں لگتے ہیں.پھول جھڑ جاتے ہیں اور پھل رہ جاتے ہیں.66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے اپنے بھائی حضرت پیر منظور محمد صاحب پر ہونے والے الہی انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت اقدس نے میرے بھائی منظور محمد صاحب کو یہ دعا دی ہے.پڑھایا جس نے اس پر بھی کرم کر جزا دے دین اور دنیا میں بہتر اس دعا سے پہلے میرے بھائی صاحب انجمن سے وظیفہ لیتے تھے.حضرت صاحب کی اس دُعانے قبولیت کا رنگ دکھایا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس قدر کشائش وسعت اور برکت بخشی کہ جس قدر وظیفہ کی رقم انجمن سے لی تھی.پیسہ پیسہ کا حساب کر کے سب یکمشت 164
برگ سبز انجمن کو واپس کر دی.اللہ تعالیٰ نے خوب آسودگی دی.اب دین کی جزاء کا بھی حال سنیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے کام یہ دیا ہے کہ کلام اللہ کی خدمت نصیب ہوئی.حضرت پیر صاحب انتہائی فروتنی اور انکسار سے اپنی طرز تحریر کے متعلق فرماتے ہیں: ”اے میرے بزرگ ناظرین میری اس کتاب کی طرز تحریر سے یہ خیال نہ کرنا جیسے بڑے چھوٹوں کو نصیحت کرتے ہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ چھوٹوں کو کوئی بات سمجھ میں آتی ہے تو بڑوں کی خدمت میں عرض کر دیتے ہیں.میرے اس پیرا یہ بیان سے کوئی بڑائی کا خیال نہ فرمائے.میں تو اپنے آپ کو شاگردوں سے بھی کم سمجھتا ہوں.میری دلی خیر خواہی کے اظہار اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر معروف کا حکم دو اور برائی سے روکو کے اتباع کیلئے کوئی دوسرا طریق میرے ذہن میں نہیں آیا ، اس لئے یہ پیرایہ اور طریق اختیار کیا گیا.اگرچہ میں نے یہ کرو اور یہ نہ کرو کہتے ہوئے ادب کا لحاظ رکھا ہے مگر پھر بھی میری کمزوری اور کو تاہی کے سبب سے میری عبارت آپ کو پسند نہ آئے یا میرا طرز اچھا نہ لگے یا غلطی سے کوئی بے ادبی کا لفظ منہ سے نکل گیا ہو تو میں معافی کا خواستگار ہوں.میری ادبی کمزوری اور غلطیوں کی طرف نہ جائیں بلکہ اصل مطلب کی طرف نظر کر کے یہ خیال فرمائیں کہ میں نے کس محبت بھرے دل سے لکھا ہے.آپ معاف فرما ئیں.اللہ تعالیٰ سے میں اپنے قصوروں کی معافی مانگتا ہوں.“ (روزنامه الفضل ربوہ 8 مئی 1995 165
برگ سبز القومى جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام ٹلفورڈ اسلام آباد برطانیہ سے شائع ہونے والا عربی مجلہ ” التقویٰ اپنی تمام ظاہری اور معنوی خوبیوں کے ساتھ عربی جاننے والوں کی خدمت میں نہایت ضروری اور مفید امور پر مشتمل مواد پیش کر رہا ہے.اس وقت اپریل 1997 ء کا شمارہ زیر نظر ہے.اس شمارہ میں بھی تمام مستقل عناوین پری یر علمی وتحقیقی مضامین شامل اشاعت ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ امسیح الثانی کے درس کے عربی ترجمہ میں علاوہ اور علمی و تربیتی مباحث کے عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نبوت و صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.اس مضمون میں صحابہ کرام رضوان اللہ یھم اجمعین کی قربانیوں کے ذکر میں حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ مقام غور ہے کہ کیا صحابہ کرام اور ان کی بیویوں پر اولاد اور اموال و تجارت وغیرہ کی دنیوی ذمہ داریاں نہیں تھیں.مگر اس کے باوجود انہوں نے وقف کی روح سے دین کی خدمت کی اور ان کی غیر معمولی خدمات اور قربانیوں کے نتیجہ میں ہی اسلام ہم تک پہنچا ہے.مگر مقام افسوس ہے کہ بہت سے لوگ ان کی ان قربانیوں کی قدر نہیں کرتے اور اسلام کی خوبیوں سے کما حقہ استفادہ 166
برگ سبز نہیں کرتے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے آپ کو ہر طرح کی مشکلات کی آگ میں سے گزر کر.اپنی بیویوں کو بیوہ اور اولاد کو یتیم بنایا..تا کہ ہم اسلام کی نعمت و برکت سے فائدہ اٹھا ئیں اور دنیوی نقصانات اور خسارہ کے اندیشوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صحابہ کرام کے مبارک طریق پر چلنے کی کوشش کریں.كلمه التقوی ، یعنی ادار یہ بھی قربانی کی اہمیت و عظمت کے بارہ میں ہے اس اداریہ کے آخر میں محترم مدیر صاحب لکھتے ہیں : حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفۃ السیح الثانی نے قربانیوں کے سلسلہ میں ایک اہم نکتہ بیان فرمایا ہے کہ بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ قربانی کی یاد کا عظیم مظاہرہ حضرت ابراہیم کی اس قربانی کی یاد کے طور پر منایا جاتا ہے جو آپ نے اپنی ایک رؤیا کے مطابق ذبح کی صورت میں پیش فرمائی حالانکہ اگر یہی بات ہوتی تو اس قربانی کی یاد ملک شام میں منائی جاتی حالانکہ اس عظیم قربانی کی یاد مکہ میں منائی جاتی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ اس غیر معمولی قربانی کی یاد ہے جو آپ نے اپنی بیوی حضرت حاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل کو وادی غیر ذی زرع میں (جہاں زندگی کے قیام کے ظاہری ذرائع مفقود و معدوم تھے ) قربانی کی صورت میں پیش کر دیا تھا اور اس میں یہ سبق پنہاں تھا کہ خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے والے کبھی ضائع نہیں جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول فرماتے ہوئے انہیں دائمی عزت وغلبہ سے سرفراز فرماتا ہے.ہمیں بطور خاص یہ اہتمام کرنا چاہئے کہ ہم ، ہر وہ چیز جو ہمارے قبضہ و تصرف میں ہے، اسے خدا تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کے حصول کے لئے قربان کرنے 167
برگ سبز کیلئے تیار رہیں اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر بن کر ہر یا در کھنے والی اور پیاری چیز سے زیادہ خدا تعالیٰ کو یا درکھیں.ایسی قربانی اور خلوص سے ہی غلبہ دین کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے.“ 168 روزنامه الفضل ربوہ 9 جولائی 1997ء)
برگ سبز ملاقاتیں کیا کیا..! ایک نہایت دلچسپ اور معلومات افزا کتاب ملاقاتیں کیا کیا.اہم شخصیات کے جیتے جاگتے انٹرویوز پڑھنے کا اتفاق ہوا.اس کتاب کی دلچسپی اور افادیت تو اسی بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان کی ابتدائی زندگی کے قریباً تمام اکابرین کے حالات اور اہم واقعات کا ذکر الطاف حسن قریشی صاحب جیسے کہنہ مشق بلند پایہ اردو ادیب کے قلم سے ہوا ہے.انٹرویو کا تعلق اس شخصیت سے تو ضرور ہوتا ہے جس کا انٹرویو کیا جاتا ہے لیکن انٹرویو لینے والے کی شخصیت، انداز فکر اور ترجیحات کا بھی اس میں تاثر ضرور پیدا ہو جاتا ہے.اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن شخصیات اور اکابر کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے ان کے متعلق قریشی صاحب کے رجحانات اور تاثرات بھی نمایاں ہوتے ہیں اور اسطرح یوں لگتا ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کی یہ ایک معتبر تاریخ ہے.ایسی کتاب کا خلاصہ بنانا قریباً ناممکن ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہر سوال اہم ہوتا ہے اور ہر جواب اپنی جگہ ایک مستقل سوچ و بچار کا اظہار ہوتا ہے.انٹرویوز میں اس زمانے کے حالات اور واقعات تو موجود ہی ہیں تاہم قریشی صاحب 169
برگ سبز موصوف نے اس میں بعض ضروری حواشی دے کر اسے مستقل تاریخی ماخذ بنادیا ہے.مکرم قریشی صاحب نے اپنے مدوح مولنا مودودی صاحب کا تعارف کروانے کا حق ادا کرتے ہوئے ان کے علم و عمل کی اپنے رنگ میں خوب تصویر کشی کی ہے.اس انٹرویو کے حاشیے میں آپ جہاد کشمیر کے ذکر میں لکھتے ہیں :..درس قرآن کے اختتام پر ایک صاحب نے مولنا سے جہاد کشمیر کے بارے میں سوال کیا.وہ پہلے خاموش رہے.بار بار اصرار کے بعد فرمانے لگے کہ قرآن کریم کی رو سے صرف ریاست جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے، مسلح غیر ریاستی جتھے اپنے طور پر کسی ملک یا ریاست کے خلاف جہاد شروع نہیں کر سکتے " ایک اہم اسلامی رکن جہاد کے متعلق مولنا " خاموش کیوں رہے.اس موضوع پر وہ پہلے لکھ بھی چکے تھے اور متعد مواقع پر بول بھی چکے تھے.تاہم اگر انہوں نے احتیاط کے طور پر بھی خاموشی اختیار کی تو یہ کوئی بری یا غلط بات نہیں تھی.بار بار اصرار پر جو کچھ مولنا نے فرمایا وہ ان کی سوچی سمجھی رائے تھی.کوئی وقتی رد عمل یا دفع الوقتی نہیں تھی.اس زمانے میں قریباً تمام پاکستانیوں نے جن میں عام مسلمان اور علمائے کرام بھی شامل تھے.مولنا کے اس فتوی کو غلط سمجھا اور اس پر بہت برا منایا.جماعت اسلامی کے متعلق تو پہلے ہی یہ تأثر موجود تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور قائد اعظم کی کوششوں کو غلط اور بے کار سمجھتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد اس موقف کی وضاحت میں ان کو کافی مشکل پیش آرہی تھی.اس پر کشمیر کے جہاد کے متعلق ان کے فتوے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور انہیں اور ان کی جماعت کو بہت وضاحتیں دینی پڑیں.مکرم قریشی صاحب نے 170
بھی اپنے اسی حاشیہ میں لکھا ہے: برگ سبز چودھری صاحب کے متعلق یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ایک مشہور ومعروف احمدی تھے اور اس امر سے مولنا بھی بخوبی واقف تھے.ان کے خلاف نہایت زہریلا پروپیگینڈا کیا گیا جس کے باعث عوام کے اندر شدید رد عمل پیدا ہوا.اکثر علماء بھی اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے.جماعت اسلامی نے عام لوگوں تک مولانا کا صحیح موقف پیچانے کے لئے بڑے بڑے پوسٹر شائع کئے.مجھے یاد ہے کہ جب ہم چند نو جوان پوسٹر لگانے رات کے وقت نکلتے تب لوگ ہم پر پتھر پھینکتے اور شدید غصے کا اظہار کرتے " اس تحریر سے مخالفت کی جور و چلی تھی اس کا پوری طرح اندازہ ہوسکتا ہے کہ عام پاکستانی اگر رات کے وقت بھی نوجوانوں کو جماعت اسلامی کی حمایت یا جہاد کے متعلق ان کے فتوای کی وضاحت کرتے ہوئے کوشاں نظر آتے تو انہیں پتھر مارے جاتے تھے.اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولنا مودودی نے اپنا یہ فتوی مسلمان عوام اور علماء کے کہنے پر واپس نہیں لیا بلکہ یہ فتویٰ کیوں اور کب واپس لیا گیا.مکرم قریشی صاحب اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ” جب پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان صاحب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ اعلان کیا کہ ہماری فوجیں کشمیر میں لڑ رہی ہیں.تب مولنا نے اپنی جماعت کو جہاد کشمیر میں حصہ لینے کی تلقین فرمائی اور تمام مسلمانوں کو بھی اپنا فریضہ ادا کرنے کا احساس دلایا.“ ( ملاقاتیں کیا کیا.صفحہ 88 ) 171
برگ سبز گویا مسلمان عوام اور علماء کی مخالفت ، وقت کی نزاکت وضرورت ، اسلامی تعلیم وفقہ کے متعلق ایک اہم اسلامی رکن کو سمجھنے کے لئے انہیں چودھری ظفر اللہ خان کی وضاحت کی ضرورت تھی.172
برگ سبز مضامین لط من لطیفه حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری کے نہایت مفید علمی معارف و نکات پر مشتمل مضامین اخبار الفضل و رسالہ الفرقان میں شائع ہوتے تھے.ان میں سے بعض مضامین لطیفہ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے.کتاب کی اشاعت کے وقت سلسلہ کے بزرگ علماء نے ان پر جو تبصرہ کیا وہ اس کتاب اور صاحب کتاب کا بہت عمدہ تعارف ہے.مشہور ماہر تعلیم حضرت قاضی محمد اسلم پر نسل تعلیم الاسلام کالج.صدر شعبہ نفسیات پنجاب یونیورسٹی ) تحریر فرماتے ہیں: ” مضامین لطیفہ مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری سابق پروفیسر جامعه احمدیہ کے مضامین کا مجموعہ ہے.مولوی صاحب موصوف ہمارے نہایت ہی قابل احترام - خاموش.درویش طبیعت علم اور عمل اور قال و حال میں یکساں قسم کے سکالر ہیں...جماعت میں ٹھوس شہرت حاصل کر چکے ہیں ہمیشہ کسی نئے مضمون پر ہاتھ مارتے ہیں یا کسی پرانے مضمون کو نئے انداز سے بیان کرتے ہیں.اس مجموعہ مضامین کے شروع میں اپنے احمدی ہونے کی داستان درج 173
برگ سبز فرمائی ہے جو ان کے نفسیاتی اور روحانی تجارب اور خدا تعالیٰ کی دستگیری کا ایک عجیب بیان ہے.پھر چھوٹے بڑے مضامین درج ہیں جو پہلے سلسلہ کے رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں.ان مضامین کو پڑھ کر روحانی لذت حاصل ہوتی ہے.مضامین کیا ہیں؟....افاضات روحانی کی ایک زندہ اور چمکتی ہوئی دلیل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی لذیذ اور معطر تفصیل ہے کہ قرآن پاک صرف قصہ گو نہیں بلکہ اس کے ہر قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے.روحانیت کی تمثیلی سرحدوں میں داخل ہو کر ایک حقیقت شناس، بیدار عاشق اور عارف دور از قیاس اور دور از کار دعاوی اور قیاسات سے دامن بچاتے ہوئے اور حقیقت اور یقین کی حدود قائم رکھتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کا ابلاغ کر سکتا ہے.فاضل مصنف اس میں حیرت انگیز طور پر کامیاب رہے ہیں.ان کے لہجے کی متانت ، زبان و بیان کا اعتدال اور دھیما پن ہر قسم کی افراط و تفریط سے پاک ہے.متعد مقامات ایسے آئے جن سے گزرتے وقت مصنف کے لئے دل سے دعا نکلی.میری رائے میں یہ کتاب ہر احمدی کو پڑھنی چاہئے...66 متعدد اس مجموعہ میں حضرت مولوی صاحب کے پندرہ مضامین شامل ہیں.عنوانات میں تنوع ہے مگر ہر مضمون کلام اللہ کی شان ظاہر کرنے والا اور علم ومعرفت کا روحانی خزانہ ہے جس کا لطف پڑھنے بلکہ بار بار پڑھنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے.وو حضرت مولوی صاحب قبول احمدیت کی داستان میں تحریر فرماتے ہیں:...انہی دنوں میں مجھے مولانا عبید اللہ صاحب سندھی کے افاضات علمی سے بھی وہاں مستفید ہونے کا موقع ملا.آپ صوفی منش، روشن دماغ، وسیع 174
برگ سبز المشرب تھے.عام مولویوں کے برعکس آپ کی طبیعت تعصب مذہبی کے متعفنہ مواد سے پاک صاف تھی.آپ کھلے بندوں عموما کار بیان میں بھی جاتے تھے.خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کے درس میں شامل ہونے کا تو آپ نے کئی بارموقع پایا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی سے بھی آپ کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے کئی دفعہ مولانا موصوف کو تبادلہ خیالات کرنے کا موقع ملا.انہی تاثرات سے آپ کو بھی کلام الہی کے مطالعہ کا بہت شغف تھا.حالات حاضرہ کے مطابق کلام الہی کے خطابات کو نئے انداز میں پیش کرنے کا آپ کو اچھا خاصہ ملکہ تھا.احمد یہ جماعت سے متاثر ہو کر آپ اپنی مبلغین اسلام کی ایک جماعت قائم کرنا چاہتے تھے.اس لئے آپ فاضلان دیو بند اور علی گڑھ کالج کے گریجوائیوں کے امتزاج عناصر سے ایک حزب الانصار تیار کر رہے تھے.اس حزب کی تیاری کیلئے نظارت المعارف القرآنیہ نامی درسگاہ دہلی میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا.آپ کے درس کے نوٹوں کا قلمی مجموعہ مجھے وہاں مدرسہ دار الرشاد گوٹھ پیر جھنڈا میں دستیاب ہوا جس سے میں نے استفادہ کر کے احمدیت سے قبل ایک حد تک فہم قرآن کے لئے ذوق حاصل کیا.“ 175 (روزنامه الفضل ربوه 26 جولائی 1995ء)
برگ سبز ایک مؤثر نصیحت.ایک بہترین لائحہ عمل نہج البلاغہ ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشادات.خطبات اور مکتوبات جمع کئے گئے ہیں.ادب عربی میں اس کتاب کی اہمیت و افادیت بہت بلند و ارفع ہے.اسے چوتھی صدی کے آخر میں جناب سید رضی نے تالیف کیا.قطع نظر اس کے کہ بعض محققین کے نزدیک اس کتاب کا بہت سا مواد پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتا اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس میں یقینی طور پر جگہ بہ جگہ حضرت علی کی طلاقت و بلاغت ضرور نظر آتی ہے.حضرت علی نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر مقرر کرتے وقت ایک ہدایت نامہ عطا فر مایا تھا یہ ایک طویل مکتوب ہے مگر اس میں ایک حاکم اور امیر کیلئے ایسی نصائح اور رہنمائی موجود ہے جن پر عمل کرنا یقینی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے.اس اہم اور موثر مکتوب کے ایک حصہ کا ترجمہ درج ذیل ہے.یہ خدا کے بندے علی امیر المومنین نے مالک بن حارث کے نام اسے مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت.اس علاقہ کا محصول جمع کرنے ، اس کے دشمنوں سے لڑنے ، اس کے شہروں کی بہتری اور شہریوں کی بھلائی کے لئے حاکم مقرر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے.176
برگ سبز اسے تاکید کی جاتی ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتار ہے.قرآن کریم کے تمام احکام ونصائح کی پابندی کرے کہ اس کے بغیر کوئی نیکی اور بھلائی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی اپنے دل ہاتھ اور زبان سے نصرت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کرنا اپنی ذمہ داری قرار دی ہوئی ہے.جو اس کی مدد کرتا ہے.یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ جاہ طلبی اور حب دنیا سے کنارہ کش رہے کیونکہ انسانی دل اس طرح بدی کی طرف لے جاتا ہے سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ رحم کرے.اے مالک تمہیں اس علاقے پر حاکم بنا کر بھیجا جارہا ہے جہاں اس سے پہلے جابرانہ اور منصفانہ ہر طرح کی حکومتیں کام کر چکی ہیں.لوگ تمہارے کاموں کو بھی اسی طرح پر کھیں گے جس طرح تم اپنے حکام کو پرکھا کرتے تھے اور تم پر بھی اسی طرح تنقید کی جائے گی جس طرح تم تنقید کیا کرتے تھے.اچھا حاکم اپنی اس اچھی شہرت سے پہچانا جاتا ہے جو خدا تعالیٰ اس کیلئے لوگوں کے ذریعہ دنیا میں پھیلاتا ہے.تمہارا بہترین سرمایہ تمہارے اچھے کام ہیں.اپنے جذبات کو ہمیشہ قابو میں رکھو اور کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرو جو خلاف قانون ہو.اپنا محاسبہ کرتے رہنے سے انسان کئی برے کاموں سے بچ جاتا ہے.عوام سے محبت اور رحم کرنے کی عادت پیدا کرو اور ان سے درندوں کی طرح درشتی سے پیش نہ آؤ کیونکہ عوام یا تمہارے اسلامی بھائی ہیں اور اگر مسلمان نہیں ہیں تو تمہارے جیسے انسان تو ضرور ہیں.ان سے کمزوریاں ہو سکتی ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ غلطیوں کا ارتکاب کر سکتے ہیں، مگر پھر بھی ان سے اسی طرح رحم کا معاملہ کرو جس طرح تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحم کا سلوک فرما دے.کیونکہ اللہ تمہارا ہی نہیں اس کا بھی حاکم و مالک ہے جس نے تمہیں حاکم مقر رکیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ تم عوام سے کس طرح پیش آتے ہو خدا تعالیٰ کے مقابل آنے کی کبھی جسارت نہ کرنا کیونکہ نہ تو تم میں اس کی طاقت ہے 177
برگ سبز اور نہ ہی اس کے رحم و کرم کے بغیر تم کچھ کر سکتے ہو.معافی اور درگز ر پر کبھی نادم نہ ہو.غصہ اور جلد بازی میں کوئی کام نہ کرو.یہ نہ سمجھو کہ میں حاکم ہوں اور میری ہر بات ضرور مانی جاوے، اس طرح دلوں میں الجھن اور مذہب میں کمزوری آجاتی ہے اور انسان تباہی کے کنارے پہنچ جاتا ہے.اگر تمہارا اختیار وحکومت تم میں فخر و غرور پیدا کرے تو خدا تعالیٰ کی عظمت کی طرف نظر ڈالو جس کے اختیار کی کوئی حد نہیں ہے اور تمہیں تو اس طرح کا اختیار اپنی ذات پر بھی نہیں ہے یہ سوچنے سے تم اپنے غرور اور بد مزاجی پر قابو پا کر اعتدال اور عقل کی طرف واپس آسکو گے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرح بڑا یا اس کے برابر نہ سمجھو کیونکہ اللہ تعالیٰ مغرور و متکبر کوضرور ذلیل کرتا ہے.ان لوگوں سے بھی انصاف اور برابری کا معاملہ کرو جو تمہارے نزد یکی اور مقرب ہیں اور جن کو تم پسند کرتے ہو ، لوگوں کو بے جاد بانے اور ان پر ظلم کرنے والے کا خدا تعالیٰ دشمن ہو جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کا دشمن ہو جائے تو اس کی بیخ کنی کر دیتا اور اسے پامال کر کے چھوڑتا ہے.ظلم سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے محرومی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ مظلوم کی دعا سنتا ہے اور ظالم کا خود مقابلہ کرتا ہے.تمہارے لئے پسندیدہ طریق وہی ہے جو حق و انصاف پر مبنی ہو اور جسے عام لوگ پسند کریں کیونکہ مخصوص افراد کے دلائل عوام کی متفقہ پسند کے مقابل پر رد کئے جانے کے قابل ہوتے ہیں.ایک حاکم کے لئے وہ شخص دردسر بنارہتا ہے جو مشکل میں مددگار نہ ہو اور معقول طریق کو پسند نہ کرتا ہو.حسن سلوک پر شکر گزار نہ ہوتا ہو اور کوئی وجہ اور دلیل نہ سمجھتا ہو اور قوت برداشت کم رکھتا ہو اور بے جا مطالبات کرنے کا عادی ہو.کسی جماعت کے عام آدمی ہی مذہب کے ستون.قوم کی طاقت اور دشمنوں کے خلاف 178
برگ سبز دفاع کا ذریعہ ہوتے ہیں اس لئے تمہیں ہمیشہ ان کا خیال رکھنا چاہئے.تمہارے لئے سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ شخص ہونا چاہئے جو لوگوں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگا رہے کیونکہ لوگوں میں کمزوریاں تو ہوتی ہیں اور حاکم کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی پردہ پوشی کرے.تمہاری ذمہ داری تو صرف انہی امور کی اصلاح کی حد تک ہے جو سامنے اور ظاہر ہیں.پوشیدہ امور کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دووہ جیسے چاہے سلوک فرمادے.لوگوں سے درگزر کا معاملہ کرو اللہ تعالیٰ ان امور کے متعلق جو تم ظاہر نہیں کرنا چاہتے تمہاری پردہ پوشی فرمائے گا.نفرت اور دشمنی کی ہر گرہ کو کاٹ کر پھینک دو.جو بات پوری طرح واضح نہ ہو اس کے متعلق چشم پوشی کا طریق رکھو.کسی چغل خور کی بات ماننے میں جلدی نہ کرو کیونکہ چغل خور اگر چہ خیر خواہ نظر آتا ہے مگر وہ دھو کے باز ہے.کسی کنجوس کو اپنے مشیروں میں شامل نہ کرو.وہ تمہیں سخاوت سے محروم رکھے گا.نہ ہی کسی بز دل کو شیر رکھو کیونکہ وہ کوشش کرے گا کہ تم اپنے آپ کو کمزور ہی سمجھتے رہو.کوئی لالچی بھی تمہارا مشیر نہیں ہونا چاہئے وہ تمہیں نا جائز ذرائع سے مال جمع کرنے کی رغبت دلاتا رہے گا.کنجوس ، بزدلی اور لالچ اگر چہ تین مختلف برائیاں ہیں مگر ان تینوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے متعلق بدظنی پیدا ہوتی ہے.اچھا مشیر وہی ہوسکتا ہے جو تمہارے سامنے سچ بات کہنے کی جرات وصلاحیت رکھتا ہو اور وہ تمہارے رجحان کو دیکھ کر تمہارے ایسے کاموں کی تعریف نہ شروع کر دے.جو اولیاء اللہ کی شان سے بعید ہوں.ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جو خدا کا خوف رکھنے والے اور صداقت شعار ہوں اور انہیں یہ موقع نہ دو کہ وہ بلا وجہ تمہاری تعریف کرتے رہیں کیونکہ خوشامد تکبر پیدا کرتی اور راہ راست سے دور لے جاتی ہے....روزنامه الفضل ربوہ 9 مارچ 1996ء) 179
برگ سبز حضرت پیر صوفی احمد جان صاحب من الشمند حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد لدھیانوی صاحب نے اپنی تصنیف ” انعامات خداوند کریم میں جستہ جستہ اپنے والد بزرگوار کے حالات اور بعض واقعات لکھے ہیں.جو ان کی زبانی ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں: ”میرے والد صاحب کا نام احمد جان ہے جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں کیا ہے.ان کے ساتھ آخر میں میرا بھی ذکر کیا ہے اور علیحدہ بھی تحریر فرمایا ہے....براہین احمدیہ چھپی تو میرے والد صاحب کو حضرت صاحب کا تعارف ہوا.میرے والد صاحب کو حضرت صاحب سے بہت ارادت و اعتقاد تھا...والد صاحب اشاعت دین میں حضرت صاحب کی خدمت میں چندوں وغیرہ میں خوب حصہ لیتے تھے اور اپنے مریدوں اور دوستوں سے بھی اچھی طرح امداد کرواتے تھے.نیز حضرت صاحب کی تائید میں ایک طویل اشتہار بھی شائع کیا جس میں ایک شعر تھا.سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے 180
برگ سبز جب میں بیس سال کا ہوا تو والد صاحب حضرت صاحب سے اجازت لے کر مکہ کو تشریف لے گئے.حضرت صاحب نے ایک دعائیہ خط دیا کہ میری طرف سے...حرف حرف پڑھ لینا...بہت مرید بھی ساتھ گئے تھے جن میں شہزادہ عبدالمجید صاحب بھی تھے.جن کی وفات ایران میں ہوئی...ہم ہیں بائیس خدام پیچھے کھڑے تھے.والد صاحب نے فرمایا میں یہ خط بلند آواز سے پڑھتا ہوں...میرے والد صاحب واپس آکر 13 دن زندہ رہے اور 19 ربیع الاول 1303 ھ کو وفات پاگئے...میرے والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ معاملہ کی اچھائی اور صفائی آدھا دین ہے.یہ ٹھیک بات ہے کیونکہ انسان پر دو حق ہیں حق اللہ اور حق العباد.اس لئے جو بندوں کا حق اچھی طرح ادا کرتا ہے وہ آدھا دین بجالاتا ہے.“ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت پیر صاحب خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق حقوق العباد کی ادائیگی کو آدھادین قرار دیتے تھے.حضرت پیر صاحب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو ایک بہت بڑا خزانہ قرار دیتے تھے جیسا کہ اس بات سے ظاہر و عیاں ہے: میں نے اپنے والد صاحب سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد کوئی بڑا بھاری خزانہ اور بہت بڑی دولت رکھی ہے جس پر موت جیسا سخت ڈراؤنا پہریدار مقرر کیا ہے.“ اولاد کے حقوق کی ادائیگی اور خدمت خلق کے متعلق میرے والد صاحب 181
برگ سبز فرما یا کرتے تھے کہ کوئی شخص غریب ہوا اور اس کے پاس اتنا کپڑا نہ ہو کہ سردی کی رات میں اپنے بچہ کو پورا ڈھک سکے.جب اس کے سر پر کپڑا ڈھکے تو بچہ کے پیر ننگے ہو جائیں.پھر اس کو خیال آئے کہ اس کے پیروں کو سردی لگتی ہوگی.وہ کپڑے کو پیروں کی طرف سر کا وے.تھوڑی دیر بعد اس کو سردی کا فکر ہو وہ سر کو ڈھک دے.اس طرح وہ رات کو چند مرتبہ کرے تو اس کا اتنا اجر و ثواب ہے کہ گویا اس نے ساری رات عبادت کی.اُس سے ان کا یہ مطلب تھا کہ عیال کی خدمت اور خبر گیری کا بڑا ثواب ہے.“ حضرت پیر صاحب کے توکل اور یقین کے متعلق درج ذیل واقعہ بہت ایمان افروز ہے: ”ہمارے گھر میں خرچ نہ تھا.میرے والد صاحب نے میری والدہ صاحبہ سے پوچھا آتا ہے؟ کہا نہیں...دال ہے؟ جواب نفی میں ملا ایندھن ہے؟ وہی جواب تھا.جیب میں ہاتھ ڈالا دوروپے تھے.فرمانے لگے اس میں تو اتنی چیزیں پوری نہیں ہوسکتیں.میں ان دو روپوں کی تجارت کرتا ہوں.وہ دو روپے کسی غریب کو دے کر نماز پڑھنے چلے گئے.رستہ میں اللہ تعالیٰ نے دس روپے بھیج دیئے.فرمایا لو میں تجارت کر آیا ہوں.اب سب چیزیں منگوا لیں.اللہ کی راہ میں دینے سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے اور آخر میں ثواب جدا ملتا ہے.“ حضرت پیر صوفی احمد جان اپنی فطری سعادت کی وجہ سے رضا الہی کے حصول اور تعلق باللہ کے سلسلہ میں کوشاں رہتے تھے.آپ کے صاحبزادے تحریر فرماتے ہیں: طلب خدا کا شوق سب شوقوں سے افضل اور اعلیٰ ہے.“ 182
برگ سبز محترم شیخ عمری عبیدی صاحب کا ذکر خیر مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کو کام کے آغاز میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.مخالفین کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ جماعت کے پاؤں یہاں نہ جم سکیں.جھوٹے مقدمات کے علاوہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب اور دوسرے کئی دوستوں پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے.لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمارے مجاہدین نے خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے کام کو برابر جاری رکھا اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی چلی گئی.دعوت الی اللہ اور تعلیمی کوششوں کے ضمن میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ٹیو را سیکنڈری سکول کے مسلمان طالبعلموں کو دینیات پڑھایا کرتے تھے.ان ابتدائی طالب علموں میں ایک نو جوان جسے دینی تعلیم کا بہت شوق تھا شیخ عمری عبیدی تھے.سکول کی تعلیم کے دوران ہی آپ کو رسالہ سن رائز پڑھنے کا اتفاق ہوا.جس میں معراج کی حقیقت کے متعلق بھی ایک مضمون تھا اسے پڑھ کر عمری عبیدی صاحب کو بہت خوشی ہوئی.آپ اپنے ساتھی طالبعلموں کو اس مضمون کے مطابق معراج کی حقیقت سمجھانے لگے.آپ کے ساتھیوں میں سے ایک نے آپ سے پوچھا کہ معراج کے متعلق جو آیات آپ سنا رہے ہیں ان کا حوالہ بتا ئیں.اس پر عمری عبیدی صاحب نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مبارک احمد صاحب سے پوچھ کر اس سوال کا 183
برگ سبز جواب دے سکوں گا.لیکن اس گفتگو کے بعد اور محترم شیخ مبارک احمد صاحب سے ملاقات سے پہلے آپ کو خواب میں نظارہ دکھایا گیا کہ آپ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اردگرد کچھ لوگ کھڑے ہیں جو آپ سے معراج کے متعلق سوال کر رہے ہیں اور آپ انہیں قرآن مجید کی پندرھویں پارے کی آیات پڑھ کر جواب دے رہے ہیں.نیند سے آپ بیدار ہوئے.آپ نے قرآن مجید کا وہ مقام نکال کر دیکھا اور یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ خواب میں آپ کی بالکل صحیح رہنمائی کی گئی ہے.اگلے روز آپ نے زیادہ انشراح اور جوش کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو معراج کی حقیقت سمجھائی اور یہ بھی بتایا کہ قرآن مجید کا یہ حوالہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خواب میں بتایا گیا ہے.سکول کی تعلیم کے زمانہ سے ہی آپ کا مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے تعلق قائم ہوا اور ان سے آپ نے دینی تعلیم حاصل کی.اس دوران بعض کتب کے تراجم میں مدد کرنے اور بعض کتب کے مسودات کی نظر ثانی اور ان کے ٹائپ کرنے کا کام مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ان کے سپر د کر تے رہے اور خدمت دین کیلئے انہیں عملی ٹریننگ دیتے رہے.سکول کی تعلیم ختم کرنے پر آپ دار السلام میں پوشل سروس ٹریننگ کے ایک سکول میں داخل ہوئے.اس زمانہ میں بھی آپ کو دینی مطالعہ کا شوق رہا.جو بھی فارغ وقت ملتا رہا اس میں مطالعہ اور دعوت الی اللہ میں مصروف رہے.ٹرینگ کے دوران ہی مکرم شیخ صاحب کی خواہش کے مطابق آپ نے استعفیٰ دیکر اپنی زندگی دین کی خدمت کیلئے وقف کر دی.آپ نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے ہمراہ اور بعض اوقات الگ بھی قریباً سارے مشرقی افریقہ میں سفر کئے اور بڑے جذبہ اور ولولہ کے ساتھ احمدیت کی اشاعت میں مصروف ہوگئے.184
برگ سبز کسوموں کے ایک دینی سفر میں آپ کو ایک شخص نے غصہ میں آکر تھپڑ مار دیا جس سے آپ کی ٹوپی دور جا پڑی لیکن آپ پھر بھی بشاشت کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے.دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ شخص جس نے آپ کو تھپڑ مارا تھا بعد میں جلد ہی بینائی سے محروم ہو گیا.انہی ایام میں جبکہ آپ دینی خدمات میں ہمہ تن مصروف تھے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے خواب میں دیکھا کہ آپ مشرقی افریقہ کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں اور اس انتخاب کے ساتھ ہی افریقنوں کی ترقی کے مواقع پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.خود آپ نے بھی خواب میں خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھا اور ساتھ کچھ اور لوگ نظر آئے جن کے متعلق پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ متقیوں کا گروہ ہے.اس پر آپ نے بڑے الحاح سے درخواست کی کہ مجھے بھی اس گروہ میں وہاں سے واپسی پر شامل کر لیا جائے.خدا تعالیٰ نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ہدایت کی کہ تم متقی اور دعا گو لوگوں کے ساتھ رہا کرو.غالباً اسی زمانہ میں آپ نے اپنے آپ کو ایک اجنبی ملک میں پھرتے ہوئے دیکھا.مذکورہ ہر دو خوابوں کے ایک عرصہ بعد 1953ء میں جب قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ کی طباعت کا کام مکمل ہو چکا تو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے آپ کو پاکستان بھجوایا جہاں آپ کو سکیم کے مطابق مزید تعلیم کیلئے جامعہ احمدیہ میں داخل کروایا گیا.ان دنوں خاکسار بھی جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھا اور اس طرح کچھ عرصہ آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.میں نے آپ کو بہت محنتی اور دینی تعلیم کا بے حد شوق رکھنے والا پایا.پانچ نمازوں میں با قاعدگی کے ساتھ ساتھ نماز تہجد کی با قاعدگی بھی پورے اہتمام سے کرتے تھے.رات کو بہت کم سوتے اور لکھنے پڑھنے اور نماز ادا کرنے میں اپنا وقت صرف کرتے تھے....چونکہ آپ پہلے ہی 185
برگ سبز خواب میں نیک لوگوں کے ساتھ رہنے کی ہدایت پاچکے تھے اور اپنے آپ کو ایک اجنبی ملک میں سفر کرتے ہوئے بھی دیکھ چکے تھے اس لئے ربوہ میں قیام کے دوران بہت خوشی محسوس کرتے اور اپنے وقت کے ہر لمحہ کو بہتر رنگ میں صرف کرنے کیلئے کوشاں رہتے اور ہرلمحہ ایمان ویقین میں اضافہ محسوس کرتے.خود دعا کرنے کے علاوہ آپ بزرگان سلسلہ کی خدمت میں بھی بڑی عقیدت سے حاضر ہوتے اور دعا کی درخواست کرتے.ایسے ہی ایک موقع پر جب آپ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امتحان میں کامیابی کی درخواست کی تو حضرت مولانا نے اسی وقت ہاتھ اُٹھا کر دعا کی اور بعد میں بتایا کہ انہوں نے دعا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی ہے جبکہ حضرت صاحب نے اپنا ہاتھ شیخ عمری عبیدی کے کندھے پر رکھا ہوا تھا.پاکستان سے واپس آکر پہلے سے بھی زیادہ اپنے مذہب اور ملک وقوم کی خدمت کا موقعہ ملا.صوبہ دار السلام کے مشنری انچارج کے طور پر بھی آپ نے خدمات سرانجام دیں اور خاص طور پر تعلیمی ترقی کی طرف توجہ کی.چنانچہ اس زمانہ میں مشن ہاؤس میں متعدد کلاسیں جاری ہوگئیں.مشنری ٹرینگ کلاس کے علاوہ جو پہلے سے مشن نے جاری کی ہوئی تھیں عربی، انگریزی اور قرآن مجید پڑھنے کیلئے کثرت سے لوگ آتے اور آپ بڑے انہماک سے ان سب کو پڑھاتے رہے.آپ کو انگریزی، عربی اور اردو میں کافی مہارت تھی لیکن سواحیلی میں تو آپ اپنے وقت کے نابغہ تھے.آپ نے آزاد تنزانیہ کے پہلے صدر کی آزادی کی جدوجہد میں کی گئی تقاریر کا سواحیلی میں ترجمہ کیا.آپ کا اپنا دیوان بھی چھپا ہوا موجود ہے جس میں سواحیلی نظم کے متعلق ایک فنی مقالہ بھی 186
برگ سبز شامل ہے جو اس موضوع پر سند سمجھا جاتا ہے.سواحیلی زبان کے تین سب سے بڑے شعراء میں سے ایک آپ کو شمار کیا جاتا ہے.قرآن مجید کے سواحیلی ترجمہ کے سلسلہ میں نظر ثانی اور طباعت کے کام میں مکرم شیخ صاحب کی امداد کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا ترجمہ جہاں معانی و مضامین کے لحاظ سے لا جواب ہے وہاں زبان کے لحاظ سے بھی بہت بلند پایہ ہے.آپ اپنے ملک کی ترقی و بہبودی کے لئے ہمہ تن مصروف رہتے تھے.آپ کی ان کوششوں کو خدا تعالیٰ نے نواز ا اور غیر معمولی طور پر آپ کو ملک وقوم کی خدمت کے مواقع مہیا فرمائے.چنانچہ آپ کو دار السلام کے میئر ممبر پارلیمنٹ.سارے ایسٹ افریقہ کی قانون ساز اسمبلی میں وہپ، ریجنل کمشنر اور پھر وزیر قانون اور وزیر ثقافت کے طور پر نمایاں کام کرنے کا موقع ملا.اس غیر معمولی ترقی کیلئے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارات بھی ملی تھیں.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ موجودہ صدر مملکت ایک کرسی پر بیٹھے ہیں اور اس کرسی پر سے خود اٹھ کر عمری صاحب کو بٹھا دیا ہے.چنانچہ کونسل میں جس پارٹی کے لیڈر موجودہ صدر تھے انہوں نے خود کونسل کی پارٹی کا لیڈر اپنی جگہ آپ کو مقرر کیا.ایک اور احمدی نوجوان نے بھی کافی عرصہ قبل ایک خواب میں دیکھا تھا کہ آپ وزیر قانون مقرر ہوئے ہیں.تنزانیہ کے ہر دلعزیز صدر کو جو بابائے قوم کے لقب سے پکارے جاتے اور آزاد تنزانیہ کے بانی ہیں آپ پر بہت اعتماد تھا جس کا اظہار ان عہدوں سے ہوتا ہے جو آپ کے سپرد کئے گئے اور جن کا اوپر ذکر آچکا ہے.صدر تنزانیہ قریباً ہمیشہ ہی آپ کو اپنے غیر ممالک کے سفر میں ساتھ رکھتے تھے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ امریکہ، انگلستان ، روس ، مصر، تیونس، یوگوسلاویہ، سینیگال وغیرہ تشریف لے گئے.مزید برآں اقوام متحدہ میں آپ نے اپنے ملک کی نمائندگی 187
برگ سبز بھی کی جہاں آپ کی پر مغز تقاریر کو بہت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا.اقوام متحدہ میں اپنے ملک کی نمائندگی کے متعلق بھی آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا.آپ کو وفات سے قبل آپ کی آخری آرام گاہ یعنی جنت کی زیارت بھی کروائی گئی تھی.آپ نے اپنے آپ کو ایک بڑی پر فضا جگہ میں دیکھا اور وہاں ایک مور دیکھا جس سے آپ نے عربی زبان میں گفتگو کی اور پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں جنت کی مخلوق ہوں اور آپ کی خدمت کیلئے مقرر ہوں.اور آپ کی وفات کے متعلق کئی لوگوں نے خوابیں دیکھی تھیں.مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی مربی تنزانیہ نے بھی خواب میں دیکھا کہ آپ مغرب کی طرف دھوئیں میں غائب ہو گئے ہیں اور حقیقتا آپ کی وفات ایسی اچانک ہوئی کہ کوئی اس خبر کو ماننے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا.صدر تنزانیہ کے ہمراہ آپ ایک غیر ملکی سفر پر گئے ہوئے تھے وہاں واپسی پر بیمار ہو گئے.ہر ممکن کوشش کے باوجود آپ کے مرض کا علاج بلکہ تشخیص بھی یہاں نہ ہوسکی.پھر صدر مملکت نے ذاتی طور پر توجہ دیتے ہوئے آپ کو علاج کیلئے مغربی جرمنی بھجوا دیا لیکن آپ اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے اور نومبر 1964ء میں وہیں وفات پاگئے.آپ کی وصیت کے مطابق جنازہ دار السلام لایا گیا، یہیں آپ کی تدفین عمل میں آئی.آپ کے جنازہ میں اس کثرت سے لوگ شامل ہوئے کہ بلا مبالغہ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی آج تک کسی لیڈر کے جنازہ میں اس ملک میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شامل نہیں ہوئے.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مشرقی افریقہ کے تینوں ممالک یعنی کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ کے سربراہان مملکت آپ کی تدفین کے موقع پر ذاتی طور پر موجود تھے.آپ نے چالیس سال کی مختصر عمر پائی لیکن اس عمر میں ہی اپنی محنت ، مطالعہ اور احمدیت کی برکت اور دعاؤں کی 188
برگ سبز وجہ سے غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے.احمدیت کی ترقی میں آپ کی کوششوں کا بہت بڑا دخل ہے.آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے اور ان کی کمی کو بہت محسوس کرتے ہیں.خاکسار کو ایک دوست نے بڑے جذبہ اور محبت کے ساتھ بتایا کہ جب مکرم و محترم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تنزانیہ تشریف لائے تو ایک موقع پر جبکہ چودھری صاحب مسجد سے باہر تشریف لے جارہے تھے آپ نے آگے بڑھ کر آپ کو جوتا پہنا نا شروع کر دیا اور محترم چودھری صاحب کے روکنے پر کہنے لگے کہ میں آپ کی خدمت و عزت آپ کے کسی عہدہ یا دنیوی وجاہت کی وجہ سے نہیں کر رہا بلکہ میں عقیدت کے یہ جذبات محض اس لئے رکھتا ہوں کہ آپ کی آنکھوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، بانی سلسلہ احمدیہ کا چیر و مبارک دیکھا ہوا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے بھی آپ کے تعلق باللہ محنت اور علم کی تعریف فرمائی تھی.آپ کا وہ ذکر جو ہمیشہ ہوتا رہتا ہے ایمان والوں کی وہ جماعت جو بطور یادگار کے تنزانیہ میں قائم ہے بتاتی ہے کہ واقعی آپ ایک خدا رسیدہ بزرگ اور ولی اللہ تھے جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کر کے دین کو دنیا پر مقدم کر لیا تھا.خدا کرے کہ ایسے خدا رسیدہ وجود ہمیشہ - ہی ہماری جماعت میں بڑی کثرت سے پائے جاتے رہیں.( بشکریہ روزنامه الفضل ربوہ ، 18 جون 1994 ، صفحہ 4-5) 189 الفضل انٹر نیشنل 11 نومبر 1994 صفحہ 3)
برگ سبز مکرم مولا نا محمد منور صاحب 1968ء میں خاکسار کو تنزانیہ میں جماعتی خدمات کیلئے نامزد کیا گیا تو سب سے پہلے وہاں کی زبان ” سواحیلی، سیکھنے کا مرحلہ تھا.حسن اتفاق سے ان دنوں مکرم مولا نا محمد منور صاحب رخصت پر مرکز میں تشریف لائے ہوئے تھے.ان کی خدمت میں حاضری دی اور اس طرح ایک ایسے شخص سے تعارف حاصل ہوا جسے قدرت نے بہت سی غیر معمولی خوبیوں سے نوازا تھا.آپ کو اردو عربی کے علاوہ انگریزی.سواحیلی زبانوں پر اہل زبان کی طرح عبور تھا.ان زبانوں میں آپ نہایت عمدہ فصیح وبلیغ تقریر وتحریر کر سکتے تھے.صرف یہی نہیں بلکہ انہیں افریقہ کی بعض قبائلی زبانیں بھی بخوبی آتی تھیں ایک دفعہ دار السلام تنزانیہ میں ہم ایک بس سٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑے تھے.وہاں پر موجود افریقنوں میں سے ایک کے ساتھ مکرم مولانا صاحب نے کسی اجنبی زبان میں گفتگو شروع کر دی.بعد میں معلوم ہوا کہ آپ کو 1948ء میں کینیا کے Jaluo علاقہ میں جماعتی خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی تھی.وہاں آپ نے اس قبیلہ کی زبان سیکھی اور میں سال سے زائد عرصہ کے بعد اس قبیلہ کے 190
برگ سبز ایک فرد کو اس کی شکل اور خدو خال سے پہچان کر اس کی زبان میں بے تکلف گفتگو کی.یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ شخص اس غیر متوقع ملاقات سے بہت خوش ہوا اور بہت متاثر بھی.مکرم مولانا صاحب نے کسی کتاب کی مدد کے بغیر اپنی یادداشت سے اس طرح تدریجی طور پر سواحیلی زبان سکھائی کہ کسی کتاب کی مدد سے بھی اس طرح بآسانی قدم بہ قدم زبان سیکھنا ممکن نہ تھا.تنزانیہ میں قیام کے دوران بہترین سواحیلی جاننے والوں نے آپ کی زبان دانی اور مہارت کا اعتراف کیا.آپ کا ذخیرہ الفاظ گریمر کاعلم اور تلفظ عمدہ تھا.زبان دانی کے سلسلہ میں یہ عجیب بات بھی سامنے آئی کہ مکرم مولانا صاحب ہم سے بات کرتے ہوئے قادیان کے علاقہ کی پنجابی زبان اس طرح بولتے تھے کہ کبھی یہ شبہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ آپ کی مادری زبان سرائیکی ہے مگر جب سرائیکی بولنے لگتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہیں یہی زبان آتی ہے اور وہ ہمیشہ اسی زبان میں باتیں کرتے رہے ہیں.زبان دانی کے سلسلہ میں یہ لطیفہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایک دفعہ ہمارے بعض مربی صاحبان جنہیں مغربی افریقہ میں کام کرنے کا موقع حاصل ہوا تھا دفتر میں بیٹھے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کر رہے تھے دوران گفتگو یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ مغربی افریقہ کی زبانوں میں ہم میں سے کسی نے اس طرح مہارت حاصل نہیں کی جس طرح مشرقی افریقہ میں کام کرنے والوں نے وہاں کی زبان سیکھ لی ہے.باتوں باتوں میں کسی نے یہ بھی کہا کہ وہاں یہ یہ کام بہت مشکل تھا اور میرا خیال تو یہ ہے کہ اگر مولانا منور صاحب بھی وہاں جاتے تو زبان نہ پاتے.اتفاق سے اسی وقت مولانا صاحب تشریف لے آئے اور آخری بات خود اپنے کانوں سے سن لی اور مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ دنیا کی کسی زبان کا نام لیں میں تیس دن میں اس میں بولنے کی قابلیت حاصل کرلوں گا.کیونکہ میں زبان کتابوں سے نہیں بلکہ لوگوں 191
برگ سبز سے سیکھا کرتا ہوں میں اس زبان کی ڈکشنری ساتھ لے کر ایسے علاقے میں چلا جاؤں گا جہاں وہ زبان بولی جاتی ہو اور تیس دن میں اس زبان پر حاوی ہو جاؤں گا.اس ضمن میں اور بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں مگر...انہیں چھوڑتے ہوئے ایک اور بہت نمایاں خوبی آپ کی محنت کی عادت تھی.جتنا عرصہ آپ مشرقی افریقہ میں رہے انگریزی اور سواحیلی پریس میں اسلام کی مدافعت اور دعوت و اشاعت میں مصروف رہے.بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کسی اخبار میں کوئی قابل اعتراض بات شائع ہوئی.مولوی صاحب نے فوراً اس کے جواب کیلئے ضروری حوالہ جات جمع کئے اور اس کا نہایت مکمل و مدلل جواب تیار کر کے پریس کو بھجوا کر پھر کسی اور کام کی طرف توجہ کی.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک ضخیم سواحیلی کتاب مارکیٹ میں آئی اس میں جابج جماعت کا ذکر غیر مناسب اور غلط انداز میں کیا گیا تھا.مولوی صاحب نے بڑی کوشش سے نیروبی سے وہ کتاب منگوائی.آٹھ نو دن مسلسل اس کتاب کو پڑھتے رہے.اس پر نوٹ لکھے.مختلف مقامات کی عبارتوں پر نشانات لگائے.اس ساری محنت کے بعد آپ ٹائپ رائٹر لیکر بیٹھ گئے اور بارہ یا چودہ مفصل مضامین تیار کئے جو سال بھر ہمارے سواحیلی اخبار میں چھپتے رہے اور داد و تحسین حاصل کرتے رہے.مضمون لکھتے ہوئے ایک خاص بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ آپ نے کوئی مضمون رف نہیں کیا تھا بلکہ فی البدیہ ٹائپ کرتے اور چھپنے کیلئے بھجوا دیتے.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آپ باقاعدہ ٹائپسٹ نہیں تھے تاہم خدمت کے میدان میں ٹائپ کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس میں بھی مہارت حاصل کر لی اور اچھی خاصی رفتار سے ٹائپ کر لیا کرتے تھے.ایک اور نمایاں خوبی آپ کی قوت حافظہ اور یادداشت تھی.آپ بتایا کرتے تھے کہ 192
برگ سبز قادیان میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی مجلس عرفان میں با قاعدگی سے شامل ہوتے ہی مجلس بالعموم مغرب سے عشاء تک ہوتی تھی.آپ اگلے دن نماز فجر کے بعد مسجد میں جمع ہونے والوں کو مجلس کی تمام کا روائی یا حضرت صاحب کے ارشادات اسی ترتیب سے سنا دیتے جس ترتیب سے حضرت صاحب نے بیان فرمائے ہوتے.خاکسار کومرکز میں آپ سے سواحیلی زبان سیکھنے کا موقع ملا.پھر تنزانیہ اور کینیا میں آپ کے ساتھ مل کر خدمت کی توفیق حاصل ہوئی.آپ ایک بہت ہی سادہ طبیعت مشفق و مہربان اور ہمدرد ساتھی تھے.ایک مثالی واقف زندگی اور عالم باعمل تھے.آپ نے بعض خاندانی حالات اور مجبوریوں کی وجہ سے اپنے بزرگوں کے اصرار پر دوسری شادی کی.عام طور پر ہمارے ہاں دو شادیوں کے تصور سے ہی لڑائی جھگڑا اور حسد ورقابت کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے مگر آپ کے ہاں کبھی بھی یہ بات دیکھنے میں نہ آئی.آپ کی دونوں بیویاں سگی بہنوں کی طرح مل کر رہتیں اور کبھی کوئی بدمزگی دیکھنے یا سنے میں نہ آئی.آپ اپنی علمیت ، عبادت اور دعا کی قبولیت کے متعلق ذکر کرنے یا سننے کو پسند نہیں کرتے تھے تاہم ان کے ساتھ رہ کر ان کی خوبیوں کا پتہ چلتا تھا میں نے آپ کو ہمیشہ ایک عالم با عمل پایا.طبیعت میں لالچ نام کی کوئی چیز نہ تھی بلکہ غربت و قناعت کی متوازن قابل رشک کیفیت تھی.اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے جب آپ نے سمجھا کہ اب میں پوری طرح خدمت کا حق بجا نہیں لاسکتا تو دوستوں اور ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود گوشہ نشین ہو گئے.معلوم ہوا کہ آپ کو جو حق الخدمت ملتا تھا اس میں گزارا نہیں ہوتا تھا.آپ نے دفتر میں اپنی آمد اور خرچ کا اندازہ لکھ کر بھجوا دیا.یہ جاننے کی وجہ سے کہ مولوی صاحب نے اس بارے میں کوئی مبالغہ نہیں کیا ہو گا.دفتر کی طرف سے آپ کو ہر ماہ کچھ زائد رقم ملنے لگی.کچھ عرصہ کے بعد آپ نے دفتر کولکھ دیا کہ اب میری ذمہ 193
برگ سبز داریاں اور اخراجات پہلے سے کم ہو گئے ہیں لہذا اضافی رقم کی ضرورت نہیں ہے اور اس طرح از خوداضافی رقم حاصل کرنے سے انکار کر دیا.آپ کی شفقت و محبت کی بہت باتیں یاد آرہی ہیں.ایک آخری بات کہہ کر اس عرضداشت کو ختم کرتا ہوں.مشرقی افریقہ سے جب آپ کا تبادلہ شرق الاوسط میں ہو گیا تو بوجہ اس قلیمی تعلق کے جو آپ کو مشرقی افریقہ اور وہاں کے بہت مخلص اور پیار کرنے والے احمدی بھائیوں سے تھا، آپ ہمیشہ مشرقی افریقہ کو پیار سے یاد کرتے رہے اور وہاں کے احباب بھی بہت ہی محبت اور عقیدت سے آپ کو یاد کرتے تھے.شرق الاوسط سے آپ نے خاکسار کے نام ایک خط میں لکھا کہ جب تک مشرقی افریقہ میں جمیل ( مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب سیکرٹری حدیقہ المبشرین) اور باسط کام کر رہے ہیں ، میں سمجھوں گا کہ میں ہی وہاں کام کر رہا ہوں.(یہ فقرہ مکرم شیخ روشن دین تنویر ایڈیٹر الفضل نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد الفضل سے قلبی تعلق کا اظہار کرنے کیلئے لکھا تھا.جب تک مسعود اور خورشید الفضل میں کام کرتے ہیں میں سمجھوں گا کہ میں بھی وہاں کام کر رہا ہوں.یادر ہے کہ مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب آپ کے زمانہ میں نائب مدیر کی خدمات بجالاتے تھے.) یہ آپ کی محبت کا اظہار تھا.آپ سے جو تعلق 1968ء میں شاگردی اور استادی کا قائم ہوا تھا اسے آپ نے دوستی میں تبدیل کر دیا.جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی ایک سکون اور اطمینان حاصل ہوتا.آخری ملاقات میں جب میں جلسہ میں شمولیت اور حضرت صاحب کی ملاقات کی سعادت حاصل کر کے واپس آیا تو بہت ہی کمزور معلوم ہورہے تھے.ہسپتال میں ملاقات ہوئی.حضرت صاحب کی صحت کے متعلق دریافت کیا میری بیوی اور بچوں کے متعلق پوچھا اپنی کمزوری کے متعلق بتایا کہ پچھلے دنوں کئی دفعہ چل چلاؤ کا وقت آتا رہا.لگتا ہے کہ 194
برگ سبز آپ سے ملاقات کی اللہ تعالیٰ نے مہلت دی ہوئی تھی.بولنے میں دقت ہو رہی تھی ان کے کہنے پر میں نے چند قطرے پانی پلایا.تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمانے لگے آپ سے بہت باتیں کرنی تھیں مگر ہمت نہیں ہورہی.آپ کی باتیں اور یادیں ہمیشہ تازہ رہیں گی.خدا رحمت کندا ایں عاشقان پاک طینت را روزنامه الفضل ربوہ 2 دسمبر 1995ء) 195
برگ سبز حضرت چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک پرانے بزرگ مبلغ سلسلہ کا 11 دسمبر 2015ء کے خطبہ جمعہ میں ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ بھی ادا کی.حضرت چودھری عنایت اللہ صاحب احمدی فوجی ملازمت کے سلسلے میں مشرقی افریقہ میں تشریف لائے تھے.آپ کو کینیا، تنزانیہ اور یوگینڈا کے مختلف سٹیشنوں پر خدمات بجالانے کے مواقع ملے.اس طرح آپ کو افریقہ کے مختلف قبائل سے خوب واقفیت ہو گئی.آپ کے تبلیغی شوق اور تبلیغی معلومات کو دیکھتے ہوئے حضرت مولنا شیخ مبارک احمد صاحب نے انہیں زندگی وقف کرنے کی توجہ دلائی.فوجی خدمات سے با قاعدہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی اور مشرقی افریقہ میں لمبا عرصہ خدمت بجالانے کی سعادت حاصل کی.خاکسار نے بھی مشرقی وسطی افریقہ میں کم و بیش پندرہ سال خدمت کی توفیق پائی.کچھ عرصه مورو گور و تنزانیہ میں ہم دونوں کو اکٹھے رہنے کا موقع ملا.حضرت چودھری صاحب کا نام ذہن میں آتے ہی ان کی منکسر المزاجی ، دعاؤں میں شغف اور سچی خوابوں کی یاد آتی ہے.خاکسار کی پہلی تقرری طبورا ( تنزانیہ ) میں ہوئی تھی.یہ وہی جگہ ہے جہاں محترم شیخ 196
برگ سبز مبارک احمد صاحب نے ابتدا میں مشرقی افریقہ کا مرکزی مشن قائم کیا تھا.حضرت چودھری صاحب کو میرے پروگرام کا علم ہو اتو وہ مورو گورو کے ریلوے سٹیشن پر ملنے کے لئے تشریف لائے.کچھ دیر پلیٹ فارم پر گفتگو ہوئی اس کے بعد یہ پتہ چلنے پر کہ گاڑی یہاں پر کافی دیر رکتی ہے.خاکسار کو بڑے شوق اور پیار سے مشن ہاؤس بھی دکھایا.اس ابتدائی ملاقات میں چودھری صاحب کے خلوص و محبت کا جو تاثر قائم ہو اوہ ان کے حسن سلوک اور نیکی کی وجہ سے ہمیشہ بڑھتا ہی رہا.خاکسار کو یاد ہے کہ محترم چودھری صاحب نے اپنے تجربات کی روشنی میں بعض نصائح پلیٹ فارم پر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جس علاقے میں تم جار ہے ہو وہاں اڑنے والے سانپ بھی ہوتے ہیں جو بہت خطرناک ہوتے ہیں.ان کے زہر سے انسان اندھا بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی بتایا کہ اس زہر کا فوری تریاق دودھ ہے.کسی بھی جانور کا دودھ آنکھوں میں ڈالنے سے اندھے پن کا خطرہ ٹل جاتا ہے.ایک اور بات آپ نے یہ بتائی کہ ہم پنجاب میں پانی کے تالاب یا جو ہر میں نہانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے مگر یہاں یہ امر خطر ناک ہوسکتا ہے.پانی میں یا پانی کے اردگرد ایسے جانور یا حشرات ہوتے ہیں جو نقصان پہنچا سکتے ہیں.محترم چودھری صاحب بہت دعا گو تھے.ان کو دیکھ کر آنحضرت سلی تم کا یہ ارشاد مستحضر رہتا تھا کہ مومن کی زبان ہمیشہ ذکر الہی سے تر رہنی چاہئے.آپ کی قبولیت دعا کے بہت سے واقعات سننے میں آتے تھے.وہ بتایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہمیں پتہ چلا کہ ایک نو مبائع نوجوان کی علاقے میں بہت مخالفت ہورہی ہے اور یہ بھی کہ اس کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے.محترم چودھری صاحب اس کی عیادت کے لئے اس کے گاؤں گئے تو دور سے ہی افریقنوں کے رونے اور جزع و فزع کی آوازیں آنے لگیں اور نزدیک جا کر پتہ چلا کہ وہ 197
برگ سبز نوجوان تو اللہ کو پیارا ہو گیا ہے.محترم چودھری صاحب ان کے گھر گئے.سب لوگوں کو ایک طرف کر کے دعا میں مشغول ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نو جوان میں زندگی کے آثار پیدا ہونے لگے.محترم چودھری صاحب بتایا کرتے تھے کہ اس علاقے کے لوگ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ احمدی مبلغ نے اپنی دعا سے مردہ زندہ کر دیا.محترم چودھری صاحب کو باغبانی کا بھی خوب ملکہ تھا.جہاں بھی آپ رہے وہاں اپنی یادگار کے طور پر خوشنما باغیچہ چھوڑ جایا کرتے تھے.طمبورا اور موروگورو میں تو خاکسار نے ان کے لگائے ہوئے پودوں ، پھلوں، پھولوں سے استفادہ بھی کیا.محترم چودھری صاحب کو تبلیغ کا خوب شوق اور تجربہ تھا.آپ اپنے مخاطب سے کوئی نہ کوئی پرانی پہچان نکال کر بڑی اپنائیت سے بہت مؤثر رنگ میں بات چیت کرتے جس کا خوب اثر ہوتا.خاکسار کو میدان عمل میں محترم چودھری صاحب، مکرم مولنا محمد منور صاحب ، محترم عبدالکریم شر ما صاحب اور محترم بشیر اختر صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا.یہ ایسے قابل رشک بزرگ تھے جو اپنے نیک نمونے اور وقف کے جذبے سے سرشار ہمہ وقت خدمت میں مصروف رہتے.اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے بہترین جزا سے نوازے.منهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر 198
برگ سبز وقف جدید - ایک اور بابرکت تحریک جماعت کی مالی جہا اور قربانیوں کی تاریخ نہایت شاندار اور قابل رشک ہے.اس عظیم مثالی کارنامہ کے پیچھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ولولہ انگیز قیادت کا بہت بڑا دخل تھا.تحریک جدید کا اجراء 1934ء میں ہوا جبکہ حضرت صاحب کی جوانی کا زمانہ اور شدید طوفانی مخالفت کی وجہ سے جماعت کے اندر غیر معمولی جذ بہ وجوش کا زمانہ تھا.مگر 1958ء میں جبکہ حضرت صاحب ایک ایسے خوفناک قاتلانہ حملہ سے دو چار ہو چکے تھے جس میں نادان دشمن کا وار شہ رگ سے چھوتے ہوئے اور اپنے اثرات پیچھے چھوڑتے ہوئے نکل گیا تھا.اس کے نتیجہ میں حضرت صاحب ایک انتہائی تکلیف دہ اعصابی بیماری میں مبتلا ہو چکے تھے.مگر عمر کی زیادتی ، بیماری کی شدت ، ذمہ داریوں کے ہجوم میں ہمارا یہ خدا رسیدہ قائد ایک عجیب شان کے ساتھ جماعت کی روحانی ترقی اور تربیت کیلئے ایک نہایت وسیع پروگرام اس جماعت کے سامنے پیش کر رہا تھا.جو تقسیم وطن کے نتیجہ میں بہت بڑے دھکے کو برداشت کر کے نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مصروف ہے اور ایک دفعہ پھر دنیا پر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ خدائی تائید یافتہ اولیاء اللہ کی شان دنیوی لیڈروں اور خود ساختہ پیروں سے کتنی مختلف اور ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے.اس سکیم کی اہمیت وافادیت کا اندازہ حضرت صاحب 199
برگ سبز کے مندرجہ ذیل ارشاد سے ہوتا ہے: میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ تبلیغ کا کام کر سکیں.ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے.لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کیلئے وقف کریں...اور باہر جا کر نئے ربوے اور نئے قادیان بسائیں...وہ جا کر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسب ہدایت وہاں لوگوں کو تعلیم دیں.لوگوں کو قرآن کریم پڑھائیں اور اپنے شاگر د تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں.“ (الفضل 6 فروری 1958ء) اسی طرح حضرت صاحب فرماتے ہیں: یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہوکر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے.اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں.کپڑے بیچنے پڑیں میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.خدا تعالی....میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا.(الفضل 7 جنوری 1958ء) اس یقین اور وثوق اعتماد اور توکل علی اللہ سے جاری ہونے والی سکیم جس طرح قدم بقدم آگے بڑھی اور جس طرح شیر میں ثمرات کی حامل ہوئی اس کا ایمان افروز تذکرہ حضرت مرزا 200
برگ سبز طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح " ہماری دلی دعا ئیں آپ کیلئے ایک پرانے مضمون میں بیان ہوا ہے.حضرت صاحب کو بطور ناظم وقف جدید ایک لمبا عرصہ اس تحریک سے بہت قریبی تعلق رہا.حضرت صاحب" کا یہ حقیقت افروز مضمون ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.پس منظر وقف جدید کا ایک پس منظر وہ تربیتی کمزوری اور اخلاقی انحطاط ہے جس کی رفتار بالخصوص تقسیم ہند و پاک کے بعد کئی وجوہ سے خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خدا داد فراست سے اس خطرے کو بڑی شدت سے محسوس فرمایا جس کی اگر بر وقت روک تھام نہ کی جاتی تو یہ ایک ایسی مہیب شکل اختیار کرسکتا تھا جو قابو سے باہر ہو جاتی اور پیشتر اس کے کہ ہم اسلام کو غیر ملکوں اور غیر مذاہب میں پھیلانے میں کامیاب ہوتے.یہ خطرہ تھا کہ خدانخواستہ ہم خود از سر نو ہدایت کے محتاج ہو چکے ہوتے.ایسی صورت میں وہ لوگ جنہیں ہم ہدایت کی طرف بلانے جاتے ، ہمارے پیغام کو ٹھکرا کر بڑی حقارت سے ہمیں یہ کہہ سکتے تھے کہ اے طبیب خود اپنا علاج کر.دوسرا پس منظر اس فوری اور اشد ضرورت سے بہت قبل کا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواہش سے تعلق رکھتا ہے.حضرت صاحب کے مندرجہ ذیل الفاظ سے احباب پرخوب روشن ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وقف جدید ہی کی قسم کا کوئی نظام برصغیر ہند و پاک میں جاری فرمانا چاہتے تھے.چنانچہ حضرت صاحب علیہ السلام فرماتے ہیں: اس عاجز کا ارادہ ہے کہ اشاعت دینِ اسلام کے لئے کیلئے ایک احسن انتظام کیا جائے کہ ممالک ہند میں ہر جگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر 201
برگ سبز ہوں اور بندگان خدا کو دعوت حق کریں تا حجت اسلام روئے زمین پر پوری ہو لیکن اس ضعف اور قلت جماعت کی حالت میں ابھی یہ ارادہ کامل طور پر انجام پذیر نہیں ہو سکتا.(روحانی خزائن جلد 4 نشان آسمانی ص 408) اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وقف جدید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواہش کو پورا کرنے کی غرض سے جاری کی گئی.یہ کون نہیں جانتا کہ نبی کی خواہش ایک عام انسان کی خواہش کی طرح نہیں ہوتی بلکہ ان کے دل کے میلانات اور آرزوئیں اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور بار یک دربار یک حکمتوں پر مبنی ہوتی ہیں پس ایک طرف اس خواہش کا 80 برس قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں پیدا ہونا اور دوسری طرف ہماری آنکھوں کے سامنے وہ حالات پیدا ہو جانا جو بڑی شدت سے نظام وقف جدید کا تقاضا کر رہے تھے.اس تحریک کا پس منظر بتاتے ہیں اللہ تعالیٰ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة امسیح الثانی " پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام خواہشات آپ کے زمانہ میں یا پوری ہوئیں یا ان کی بنیاد میں رکھی گئیں.وقف جدید کی بنیاد بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق آپ ہی کے مبارک ہاتھوں رکھی جانی مقدر تھی.چنانچہ 1958ء میں آپ نے اس انجمن کے قیام کا اعلان کرتے وقت فرمایا: پشاور سے کراچی تک رشد و اصلاح کا جال پھیلایا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس آرزو پر جس کا ذکر اوپر گزرچکا ہے لبیک لبیک کہہ رہے ہوں.“ (روزنامه الفضل ربوہ 22 اگست 1995ء) 202
برگ سبز تحریک جدید اور جماعت کا اخلاص و قربانی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے تحریک جدید پیش کرتے ہوئے ان حالات کی وضاحت فرمائی جو اس وقت جماعت کو درپیش تھے.مختلف اطراف سے ہونے والی مخالفت کا ذکر کرنے کے بعد آپ نے بطور خلاصہ فرمایا: وو...آپ لوگوں کا کام ہے کہ ہتک کا بھی ازالہ کریں اور چیلنج کا بھی جواب دیں اور ان دونوں باتوں کیلئے جو بھی قربانیاں کرنی پڑیں کریں.“ (الفضل یکم نومبر 1934ء ) جماعت نے اس چیلنج کا جواب دیتے ہوئے بقول ایک احمدی شاعر ( مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی) کہا.خار ظلم ناروا سو بار سو بار الجھے غم نہیں ہم بھریں گے آخرش پھولوں سے اپنی جھولیاں کیا ہے گر کانٹے بچھے ہیں راہ میں دلدار کی ہم قدم رکھ دیں گے بڑھ کر دھار پر تلوار کی 203
برگ سبز یہ جماعتی رد عمل صرف شاعری یا زبانی جمع خرچ نہیں تھا بلکہ قربانی کے ہر میدان میں نئے ریکارڈ قائم ہونے لگے.حضرت صاحب نے ساڑھے ستائیس ہزار کا مطالبہ کیا تھا جماعت نے اس سے کئی گنا زیادہ پیش کر دیا.حضرت صاحب نے واقفین زندگی کا مطالبہ کیا تھا جماعت نے اپنے جگر گوشے پیش کر دیئے.احمدی ماؤں نے اپنے اکلوتے بچے اس اہم مقصد کی خاطر پیش کر دیئے.بعض مخلصین جن کے جذبات اخبار الفضل میں محفوظ ہو گئے، بطور مثال پیش خدمت ہیں: وو پچھلے سال اور اس سال میں سخت مالی مشکلات میں مبتلا رہا اور ہوں.پہلے ارادہ کیا تھا کہ اس سال ہیں روپے آپ کی خدمت میں پیش کر کے باقی کی اس شرط پر معافی چاہوں گا کہ اگر بقایا ادا کرسکا تو بہتر ورنہ آپ معافی دیدیں ،مگر حضرت صاحب کا خطبہ پڑھ کر اسی وقت سے میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اگر مجھے گھر کا تمام سامان فروخت کرنا پڑے تو کر دوں گا مگر آپ کے ارشاد کی تعمیل ضرور کروں گا.“ ایک اور فدائی نے لکھا: اب جو حضرت صاحب کے پاک کلمات پہنچے تو بدن میں آگ ہی لگ گئی.روح بے چین ہو گئی.پیارے آقا ! اس ماہ میں مقروض بھی ہوں تاہم اپنا وعدہ آپ کے قدموں میں ڈال رہا ہوں.اگر چہ یہ حقیر رقم ہے مگر قبولیت پر ممکن ہے میری عاقبت بخیر ہو.“ ایک اور پیشکش اس قابل رشک طریق پر پیش ہوئی: خاکسار نے حضرت صاحب سے مہلت کی درخواست کی جو منظور ہوچکی 204
ہے: برگ سبز ہے.مگر میرے دل نے کہا کہ آخری تاریخ سے پہلے ہی چندہ داخل کرنا ضروری ہے اس لئے میں نے زیور فروخت کر کے ادا کر دیا.“ اخلاص اور محبت کی ایک اور مثال اس طرح سامنے آئی کہ : ”خاکسار گزشتہ 6 سالوں میں کم و بیش حصہ لیتا رہا.یہ صرف حضرت صاحب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.ورنہ میرے جیسا انسان اور خصوصاً اُن حالات میں سے گزرنے والا جس کے پاس ایک پائی جمع نہ ہو بلکہ 2000 روپے کا مقروض ہو، جس کی ماہوار آمدنی بمشکل تمام گھر کے افراد کیلئے کافی ہو سکتی ہو وہ محض اللہ تعالیٰ کے رحم اور آپ کی دعاؤں کے طفیل ہی اس تحریک میں حصہ لے سکتا ہے.“ ایک معمر مخلص احمدی والہانہ انداز میں اپنے ایمان و یقین کا ان الفاظ میں اظہار کرتا سیدی! میں چندہ میں اضافہ کرتا ہوں.میرا مولیٰ میری آمدنی میں اضافہ کرتا ہے اور میرے مال و اولاد میں برکت بخشتا ہے...چندہ میں نہیں دیتا ، میرا مالک خالق مجھے دیتا ہے.میں نے قرض بھی دینا تھا ان سالوں میں وہ بھی اتر گیا.مکان کچے تھے پختہ ہو گئے.میں تو سمجھتا ہوں تحریک جدید کا چندہ اکسیر 66 ہے.کیمیا گری ہے.“ حضرت خلیفہ المسیح الثانی تحریک جدید میں شمولیت کی سعادت حاصل کرنے والے ایک فدائی کی مخلصانہ ادا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " آج ہی باہر سے ایک شخص کا خط آیا ہے...وہ شخص معمولی ملازم یعنی ڈاکیا ہے.اس نے لکھا ہے کہ تراجم قرآن کریم کی تحریک میں قرآن کریم کا ایک زبان 205
برگ سبز میں ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ اور کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ 28000 روپے دینے کی تو مجھے توفیق نہیں مگر خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ کچھ نہیں تو ہمت کر کے 28000 پائیاں اس مد میں ادا کر دوں...میں نے حساب کیا ہے 28000 پائیاں اس کی نو ماہ کی تنخواہ بنتی ہے.بہر حال دیکھو یہ بھی خدا کے حضور قبولیت حاصل کرنے کا ایک رنگ ہے کہ جس شخص کو 28000 روپیہ دینے کی توفیق نہیں تھی خدا تعالیٰ نے اس کے دل میں 28000 پائیاں ادا کر کے ثواب حاصل کرنے کا خیال ڈال دیا اور ایک رنگ فضیلت کا اسے دے دیا.یہ ایک مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو توفیق دے دی اور اس کے ذہن میں ایک خیال پیدا کر دیا کہ اس پر عمل کر کے میں ثواب حاصل کروں.“ الفضل 25 جون 1960 ء ) مالی قربانی کیلئے مسابقت کا جو جذبہ ان دنوں دیکھنے میں آیا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: دنیا میں تو یہ جھگڑے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے مجھے زیور بنوا دو اور میاں کہتا ہے میں کہاں سے زیور بنوا کر دوں میرے پاس تو روپیہ ہی نہیں.لیکن میں نے اپنی جماعت میں سینکڑوں جھگڑے اس قسم کے دیکھے ہیں کہ بیوی کہتی ہے میں اپناز یور خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتی ہوں مگر خاوند کہتا ہے کہ نہ دو کسی اور وقت کام آجائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسا اخلاص بخشا ہے کہ اور عورتیں تو زیور کے پیچھے پڑتی ہیں اور ہماری 206
برگ سبز عورتیں زیور لیکر ہمارے پیچھے پھرتی ہیں.میں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی.میں نے کہا میں نے سر دست تحریک کی ہے کچھ مانگا نہیں.اس نے کہا یہ درست ہے کہ آپ نے مانگا نہیں لیکن اگر کل ہی مجھے کوئی ضرورت پیش آگئی اور میں یہ زیور خرچ کر بیٹھی تو پھر میں کیا کروں گی.میں نہیں چاہتی کہ میں اس نیکی میں حصہ لینے سے محروم رہوں اگر آپ اس وقت لینا نہیں چاہتے تو بہر حال یہ زیور اپنے پاس بطور امانت رکھ لیں اور جب بھی دین کو ضرورت ہو خرچ کر لیا جائے.میں نے بہت اصرار کیا کہ اس وقت میں نے کچھ مانگا نہیں مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ میں نے تو یہ زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا ہے اب میں اسے واپس نہیں لے سکتی.یہ نظارے غرباء میں بھی نظر آتے ہیں اور امراء میں بھی لیکن امراء میں کم اور غرباء میں زیادہ.“ 66 الفضل 22 جون 1946 ء ) جماعت کی قربانیوں کو غیر معمولی اور قابل فخر قرار دیتے ہوئے حضرت صاحب نے فرمایا: 1934ء کے آخر میں جماعت میں جو بیداری ہوئی اس کے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے..تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام کیا اور ہم فخر کے ساتھ اسے پیش کر سکتے ہیں.مؤرخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں.حکومت کے اس عنصر کو جو ہمیں مٹانے کے درپے تھا متواتر ذلت ہوئی...اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب 207
برگ سبز دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے.“ (الفضل 15 نومبر 1938ء) ہمارے پیارے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع ” نے ابتدائی مخلصین کا ذکر خیر اپنے مخصوص دلنشین انداز میں کرتے ہوئے فرمایا:...اگر کسی دعویدار کو ایسے لوگ نصیب ہو جائیں جن کی خرچ کی ایسی ادائیں ہوں.جن کی یہ خصلتیں ہوں.جن کے ساتھ خدا کا یہ سلوک ہو کہ ان کے اعمال بھی ساتھ ہی سدھر رہے ہوں اور ان کے اموال بھی کم نہ ہورہے ہوں بلکہ بڑھ رہے ہوں، اس دنیا میں بھی ان کو پہلے سے بڑھ کر عطا ہو رہا ہو.ایسے لوگ دکھاؤ کہ غیروں میں بھی کہیں ملتے ہیں....جو تحریک حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ نے 1934 ء میں فرمائی تھی اس کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہی سلوک ہو رہا ہے.ایک اور رنگ میں اللہ تعالیٰ کا سلوک اضعافاً مضاعفہ ہوا کرتا ہے....تحریک جدید نے جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کیا ہر آئندہ سال اس سے بہت بڑھ کر خدا تعالیٰ نے پھر عطا کر دیا اور یہ سلسلہ حیرت انگیز طور پر مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا ہے...جتنے چندے بڑھتے ہیں یہ سب تحریک جدید کے چندے کے بچے ہیں.اگر ان غریب قادیان والوں نے اور ہندوستان کی جماعتوں نے بکریاں بیچ بیچ کر اور کپڑے بیچ بیچ کر اور مہینوں روپیہ روپیہ دو دو روپے اکٹھے کر کے تحریک جدید کے چندے نہ دیئے ہوتے تو آج کروڑوں تک بجٹ نہیں پہنچ سکتا تھا...جتنے چندے آپ کو اس وقت یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور دیگر جماعتوں میں نظر آرہے ہیں یہ سارے تحریک جدید کے ان چندوں کی برکتیں 208
برگ سبز ہیں جو آغاز میں دیئے گئے تھے اور بڑی خاص دعاؤں کے ساتھ دیئے گئے تھے.ان چندوں کے دینے والوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام شامل تھے...اس وقت تقویٰ اور نیکی کا عجیب ماحول تھا.جس رنگ میں وہاں چندے دیئے جاتے تھے وہ ایک ایسا منظر ہے کہ شاذ و نادر ہی تاریخ میں ایسے مناظر آیا کرتے ہیں.کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں انجمن کے غریب کا رکن دیا کرتے تھے.آج بھی یہ مناظر ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور احمدیت کی برکت سے بڑے حسین نقوش دنیا میں ظاہر ہورہے ہیں لیکن ان کا آغاز قادیان سے ہوا....اور تحریک جدید نے اس مالی قربانی کی رغبت پیدا کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے اسے ہم کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.“ ( الفضل 25اکتوبر 1985ء) خدا کرے کہ قربانی کا جذبہ ہم میں ہمیشہ موجود اور ترقی پذیر رہے اور اللہ تعالیٰ مقبول عبادات اور قربانیوں کی توفیق مرحمت فرمادے.ایس دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد الفضل ربوہ 21 نومبر 1997ء) 209
برگ سبز ایک بھیانک غلطی.ایک ضروری اصلاح ایک مشہور تجربہ کار پرانے صحافی نے روز نامہ جنگ میں اپنے کالم ” سویرے سویرے“ میں پاکستان کے مسائل و مشکلات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:...اگر آپ قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کو دیکھیں تو ان میں ایک بھی مذہبی لیڈر نظر نہیں آتا.مسلم لیگ کا کوئی عہد یدار مذہبی سیاست کے بل بوتے پر آگے نہیں آیا تھا.ملک کی پہلی کا بینہ جس کی منظوری خود قائد اعظم محمد علی جناح نے دی تھی اس میں کوئی مذہبی سیاستدان موجود نہیں تھا.تمام صوبائی گورنر اور وزرائے اعلیٰ موڈریٹ اور لبرل تھے اور ایک عرصے تک عملی اعتبار سے پاکستان کی حکومت سیکولر بنیادوں پر کام کرتی رہی یعنی حکومت مذہبی امور میں مداخلت نہیں کرتی تھی اور نہ ہی اس نے کبھی شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز برتا تھا.آئین میں بھی اسکی کوئی گنجائش نہیں تھی اور قوانین میں بھی.ہر شہری اپنی اہلیت کے مطابق سرکاری منصب حاصل کرنے کا حقدار تھا اور یہ حق اسے ملا بھی کرتا تھا.“ 210
برگ سبز اپنے اس مبنی بر حقیقت تجزیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں: یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت جس نے پورے برصغیر کے مذہبی سیاستدانوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان حاصل کیا آخر کیونکر اس نے خود ہی انہیں امور مملکت میں مداخلت کی دعوت دی ؟ اب اس راز سے پردے اٹھ چکے ہیں قرارداد مقاصد کا معاملہ مسلم لیگی حکومت کے ایماء پر اٹھایا گیا تھا...اور جب مذہبی سیاستدانوں نے یہ دیکھا کہ غیر نمائندہ اور کمزور حکمران ان کے محتاج ہیں تو انہوں نے مذہبی سیاست کا ہتھیار پوری قوت سے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ یقیناً کامیاب رہے.“ اس اقتباس میں مذہبی سیاست دان کی اصطلاح اور ان کی کامیابی کا اڈ عا قابل غور ہے.علماء اور مولوی صاحبان جب موجودہ سیاست جو دھوکے،فریب ، جھوٹ اور غلط بیانیوں سے بری طرح ملوث ہے، میں مصروف ہو جا ئیں تو انہیں مذہبی سیاست دان ہی کہنا چاہیئے وہ اپنے مذہب کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور ان کے سامنے مذہب کی خدمت کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ مذہب کو سیاسی مفاد اور مطلب برآری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.مذہبی سیاست دانوں کی کامیابی کا بھی یقیناً یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور بہتری کے لئے تو نہ انہوں نے کوئی کوشش کی اور نہ ہی یہ ان کے مقاصد میں شامل تھا.بلکہ وہ تو سرے سے قیام پاکستان کے ہی مخالف تھے اور اپنے اس موقف پر کسی ندامت کے اظہار کی انہوں نے کبھی ضرورت نہیں سمجھی.بلکہ ان کا یہ موقف بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کی غلطی میں شامل نہیں تھے.لہذا مذ ہبی سیاستدانوں کی کامیابی یہی ہوسکتی ہے کہ اپنے مفادات کے حصول میں وہ کامیاب رہے.قطع نظر اس کے کہ پاکستان اقتصادی ،معاشی بلکہ سیاسی لحاظ 211
برگ سبز سے بھی دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا اس کی عام شہرت اس قسم کی ہوگئی کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا کی ہر ایئر پورٹ پر شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا.دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا جاری کرنے کے لئے معمول سے زیادہ پابندیاں عائد ہوگئی ہیں.مذکورہ کالم کا مندرجہ ذیل تجزیہ بھی قابل توجہ ہے: ذوالفقار علی بھٹو مرحوم مذہبی سیاستدانوں کو شکست دے کر اقتدار میں آئے تھے لیکن انہوں نے بھی مسلم لیگ کی تاریخ دہرائی.جیسے مسلم لیگ نے مذہبی سیاست دانوں کو شکست دے کر پاکستان حاصل کیا تھا اسی طرح پیپلز پارٹی مذہبی سیاستدانوں کو کھلی شکست دے کر اقتدار میں آئی تھی مگر اقتدار میں آنے کے بعد دونوں نے مذہبی سیاستدانوں کو امور مملکت میں دخل اندازی کے مواقع دیئے اور خسارے میں رہے.“ مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی کامیاب قیادت میں مسلمانوں کو متحد کر کے حصول پاکستان کا مقصد حاصل کیا.اس وقت بھی بعض سیاسی طالع آزماؤں یا مذہبی سیاستدانوں نے احمدیوں کو مسلمانوں سے الگ کرنے کی تجویز پیش کی تو قائد اعظم نے اپنی فراست و تدبر سے کام لیتے ہوئے اور اس بحث کو فضول قرار دیتے ہوئے نظر انداز کر دیا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے.ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی سیاستدانوں سے مقابلہ کیا.اسی وجہ سے احمدیوں نے نہ صرف ان کو ووٹ دیئے بلکہ انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کو ان کی اپنی تو قعات اور اندازوں سے بھی بڑھ کر کامیابی ہوئی لیکن اس کے بعد مذہبی سیاستدانوں کے بلند بانگ دعووں اور جوش و خروش کو دیکھ کر جب بھٹو صاحب نے ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے غیر اسلامی ، غیر منصفانہ مطالبہ کوتسلیم کرتے 212
وو برگ سبز ہوئے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا فیصلہ کیا اور مذہبی سیاستدانوں کی یقین دہانیوں کی وجہ سے یہ سمجھ لیا کہ وہ پاکستان کے ہمیشہ کے لئے ہر دلعزیز حکمران بنے رہیں گے تو دنیا نے دیکھا کہ نہ صرف یہ کہ وہ ایک عبرتناک انجام سے دو چار ہوئے بلکہ ان کی پارٹی بھی کبھی وہ مقام حاصل نہ کر سکی جو اس فیصلہ سے پہلے اسے حاصل تھا.اس فیصلہ سے پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا.مذکورہ کالم میں ایک فوجی آمر کی سیاست و حکومت کا تجزیہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:...بر ملا تو اس کا کوئی بھی اظہار نہیں کرے گالیکن یہ واقعہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے بعد فوجی قیادت یا سیاسی حکومتیں سب کو مذہبی سیاستدانوں کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے ساتھ سمجھوتے کرنے پڑے.انہی سمجھوتوں کا نتیجہ ہے کہ نہ تو پاکستان میں جمہوریت آسکی اور نہ ہم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سماجی اور معاشی ترقی کے راستے پر چل سکتے ہیں..؟ اپنے کالم کے آخر میں انہوں نے موجودہ نیم فوجی حکومت کے متعلق لکھا ہے کہ: ” جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے آپ کو سیاست میں فطری اتحادیوں سے دور کر لیا ہے.مذہبی سیاستدانوں کے مطالبات مان کر وہ عالمی تائید وحمایت سے بھی محروم ہو جائیں گے....انتہاء پسندی کا زہر معاشرہ میں سرایت کر جائے تو پھر یہ بڑی مشکل سے نکلتا ہے.اعصابی نظام ہل کر رہ جاتا ہے.جسم کے رگ پٹھے جھنجلاتے اور ہڈیوں کا گودا پگھل جاتا ہے.مذہبی انتہاء پسندی کے شکنجے سے نکلتے ہوئے یورپ اس کیفیت سے گزر چکا ہے ہمیں گزرنا ہوگا.“ یورپ اس شکنجہ سے اس احساس کی وجہ سے نکلا ہوگا کہ اس کی موجودگی میں کسی ترقی و ،، 213
برگ سبز بہتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیا پاکستان کے برسراقتدارلوگوں میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے.افسوس ہے اس کا جواب نفی میں ہے!!! پاکستان کے ہر ہمدرد و خیر خواہ کی تمنا اور خواہش یہی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کر کے پاکستان اقوام عالم میں ایک قابل فخر مقام حاصل کرے.ہمارا یقین ہے کہ ایسا ضرور ہو گا مگر یہ کام کون کرے گا؟ اور کب ہوگا ؟ دیده باید.الفضل انٹرنیشنل 16 جولائی 2004ء) 214
برگ سبز روئیداد جلسہ جو بلی 1939ء حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی نہایت کامیاب رہنمائی و قیادت کے پچیس سال پورے ہونے پر خوشی وشکر کے جذبات کے اظہار کے لئے 1939ء کے جلسہ سالانہ کو جو بلی کا جلسہ قرار دیا گیا.مکرم مولا نا عبدالرحیم در دسیکرٹری کمیٹی جو بلی نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت تمام کوائف بیان کرنے کیلئے ایک کتاب شائع فرمائی.آپ لکھتے ہیں: 26 مارچ 1939ء کو جلسہ جو بلی کے پروگرام کی تکمیل کیلئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے صدر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مقرر کئے گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور ناظر صاحب (اصلاح و ارشاد ) کومبر مقرر کیا گیا اور خاکسار کو سیکرٹری.اس کمیٹی کی تجاویز مجلس مشاورت میں پیش ہوئیں اور مشاورت کی سفارش کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش ہوئیں اور آپ نے ان کے متعلق اپنا فیصلہ فرمایا.جملہ انتظامات کے لئے مندرجہ ذیل کمیٹی بنائی گئی: حضرت چودھری 215
برگ سبز سر محمد ظفر اللہ خان صاحب صدر، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ( ناظر اصلاح و ارشاد ) ، مکرم مولانا عبدالرحیم صاحب درد ( ناظر ضیافت سیکرٹری) اسی جو بلی کی تقریب کی مناسبت سے " لوائے احمدیت تیار ہوا اور اس جلسہ میں پہلی دفعہ اہرایا گیا.جھنڈے کے ڈیزائن وغیرہ کیلئے ایک کمیٹی مقرر ہوئی جو حضرت میر محمد اسحاق صاحب ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر مشتمل تھی.اس کمیٹی نے بہت محنت اور غور و فکر سے جھنڈے کے مختلف ڈیزائن حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کئے.حضرت صاحب کی منظوری کے بعد اس کی تیاری کا کام شروع ہوا.حضرت صاحب کی خواہش اور ہدایت کے مطابق اس مقصد کے لئے جو چندہ جمع کیا گیا وہ صحابہ کرام سے ہی لیا گیا.روئی بونے کا تن ، بننے کے تمام مراحل بھی ایسے خوش قسمت افراد کے ہاتھوں انجام پائے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی سعادت پائی تھی.18x9 فٹ کا جھنڈ 621 فٹ اونچے پائپ پر جلسہ سے قبل حضرت صاحب نے دعاؤں کے ساتھ اپنے مبارک ہاتھوں سے لہرایا.حضرت صاحب نے تمام حاضرین جلسہ سے بڑے موثر و پر جوش طریق پر عہد لیا....خوشی کے اس موقع پر قادیان کے مینار پر بہت خوبصورت روشنیوں سے چراغاں کیا گیا.حمد کے ترانے گاتے ہوئے مختلف جماعتوں کے احباب جلسہ گاہ میں پہنچے.حضرت صاحب کی خدمت میں ذیل جماعتوں کی طرف سے ایڈریس پیش کئے گئے : 1 - صدر انجمن احمدیہ -2 - جماعت ہائے ہندوستان 3- جماعت ہائے آسام، 4- جماعت ہائے بنگال،5 - جماعت ہائے بہار ، 6 - جماعت ہائے صوبہ سرحد، 7 - احمدی طلبہ علی گڑھ یونیورسٹی ، 8- آل انڈیا نیشنل لیگ ، 9 - خدام الاحمدیہ ، 10 - جماعت بلاد عر بیہ 216
برگ سبز 11 - جماعت ہائے مشرقی افریقہ - 12 - جماعت چینی ترکستان،13 - جماعت ہائے ملایا سنگاپور ،14 - جماعت ہائے شرق الہند حضرت صاحب نے ان ایڈریسز کے جواب میں ایک پر معارف خطاب فرمایا جس میں آپ نے متعدد اہم مسائل پر روشنی ڈالی.اپنی ذات پر ہونے والے خدا تعالیٰ کے غیر معمولی احسانات اور فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:...بظاہر میں نے دنیا میں کوئی علم حاصل نہیں کیا.حتی کہ اپنی زبان تک بھی صحیح نہیں سیکھی یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو قبول کر کے اس نے مجھے ایک ایسا گر بتا دیا کہ جس سے مجھے ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت حاصل ہو جاتی ہے.میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ہتھیار کی مانند ہوں....یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں ، اگر وہ نہ کرتا تو نہ مجھ میں طاقت تھی اور نہ آپ میں.نہ میرے علم نے کوئی کام کیا اور نہ آپ کی قربانی نے جو کچھ ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوا.“ اس کے بعد حضرت صاحب نے ایڈریس پیش کرنے والے احباب اور جماعتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان سب کو جزاك الله احسن الجزاء کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی کے جو دن باقی ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں اسلام کی خدمت و تائید اور اس کے غلبہ اور مضبوطی کے لئے صرف کرنے کی توفیق عطا فرمادے تا جب اس کے حضور پیش ہونے کا موقع ملے تو شرمندہ نہ ہوں اور کہہ سکوں کہ تو نے جو خدمت میرے سپرد کی تھی تیری ہی توفیق 217
برگ سبز سے میں نے اسے ادا کر لیا.پھر میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا فضل نازل کرے اور نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے جس کے دل میں بھی کوئی کمزوری ہوا سے دور کرے.اخلاص میں مضبوط کرے اور ہماری زندگیوں کو اپنے لئے وقف کر دے.ہماری زندگیوں کو بھی خوشگوار بنائے اور ہماری موتوں کو بھی.تا جب جنتی سنیں تو خوش ہوں کہ اور پاکیزہ روحیں ہمارے ساتھ شامل ہونے کیلئے آ رہی ہیں.“ ( تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحہ ۵۹۹) اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قریباً تین لاکھ روپے کی رقم جو حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کی گئی اور جو اس زمانہ کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی آپ اسے ذاتی استعمال میں نہ لائے بلکہ جماعت کے مختلف رفاہی کاموں میں خرچ فرمائی.اس سرمایہ سے چلنے والے افادہ عام کے کام آج بھی برابر جاری ہیں.218 الفضل ربوہ 15 جولائی 1996ء)
برگ سبز جلسہ سالانہ استقبال والوداع جماعت احمدیہ انگلستان کا اڑتیسواں کامیاب جلسہ سالانہ اپنی شاندار روایات کے ساتھ اسلام آباد میں منعقد ہوا.حضور انور ایدہ اللہ کی منظوری سے کئی ماہ پہلے جلسہ سالانہ کی تاریخوں کا اعلان ہوا تو منتظمین نے ایک جوش و ولولہ کے ساتھ انتظامات شروع کر دیئے.افسر جلسہ سالانہ اور افسر جلسہ گاہ سے لیکر ایک عام معاون تک اس جذبہ سے سرشار تھے کہ اس دفعہ ہمارے انتظامات پہلے سے ہر طرح بہتر ہوں.پرانے تجربات کی روشنی میں مہمانوں کی خدمت اور جسمانی و روحانی مائدہ پہلے سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی توفیق ملے.جلسہ سالانہ پر مختلف خدمات سرانجام دینے والے خوب جانتے ہیں کہ ڈیوٹی کا ایک نا قابل بیان سرور ولطف ہوتا ہے.وہ خوش قسمت جسے قادیان کے جلسہ سالانہ پر تنور سے اترتی ہوئی گرم گرم روٹیاں گن کر ان کی ڈھیریاں لگانے کی توفیق ملی ہو یاوہ بچہ جو خدمت کے شوق میں سخت سردی کے باوجود ڈیوٹی پر حاضر ہو کر گن گن کر آبخورے( پانی پینے کا مٹی کا برتن جو اس موقع پر خاص طور پر بنایا جا تا تھا) تقسیم کر رہا تھا وہ آج بھی اس لذت وکیفیت کو یاد کر کے عجیب خوشی و مسرت کا احساس پاتا ہے.اسی طرح کی کیفیت ہمارے ہر جلسہ میں نظر آتی ہے.219
برگ سبز اسلام آباد کے جلسہ میں جلسہ گاہ کی تیاری کرنے والے انگلستان کے نوجوان جنہیں ربوہ کی گرد کا کوئی اندازہ نہیں وہ بھی اس مشکل کام کو بخوشی ، اڑنے والی مٹی ، گرمی ، پسینہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دن رات انجام دے رہے ہیں.لنگر خانہ میں کھانا پکانے پر بھی جہاں چاروں طرف آگ کے چولہے ہوتے ہیں.یہی ذوق و شوق نظر آتا ہے.جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی آمد شروع ہونے پر ساری احتیاطوں کے باوجود دھول مٹی اڑنے لگتی ہے.ٹریفک کا انتظام کرنے والے نوجوان مٹی سے بچنے کی ناکام کوشش میں منہ پر ماسک رکھے اس خدمت کو بخوشی سرانجام دے رہے ہیں.کھانا پکانے والوں کا کام تو مشکل ہوتا ہی ہے مگر کھانا تقسیم کرنا بھی تو کوئی آسان کام نہیں ہوتا.ہزاروں افراد کو ایک مختصر معین وقت کے اندر اندر کھانا مہیا کرنا جبکہ مہمانوں میں بزرگ بوڑھے، معذور، عورتیں، بچے شامل ہوتے ہیں ان کی توقعات اور ضروریات مختلف ہوتی ہیں مگر ہر معاون اس جذبہ سے سرشار ہو کر کام کر رہا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو جو محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دور دراز کا سفر اختیار کر کے، راستہ کی طرح طرح کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں کسی طرح کوئی تکلیف نہ پہنچے اور انہیں کھانا اور ضرورت کی دوسری اشیاء بر وقت مہیا ہوتی چلی جائیں.صفائی کے شعبہ کا کام بھی اپنی جگہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے.اس مشکل میں اور اضافہ اس وجہ سے بھی ہو جاتا ہے کہ یہاں بیوت الخلاء کا سامان بنانے والوں کو صفائی کا جتنا بھی خیال اور اہتمام ہو پانی کے استعمال کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور ہم پانی کے استعمال کے بغیر صفائی کا تصور نہیں کر سکتے.اس رجحان اور طریق کے اختلاف کی وجہ سے عموماً اس انتظام کے متعلق شکوہ ہی رہتا ہے.تاہم اس شعبہ کے کارکن دن رات ہر ممکن طریق سے صفائی کے معیار کو بہتر 220
برگ سبز رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.ہمارے جلسوں کی جو روایات قائم ہو چکی ہیں اس کے مطابق ان جلسوں میں علم و معرفت کی ترقی بنیادی امر ہے.ہر شخص یہ بخوبی جانتا ہے کہ وہاں عام میلوں والی دلچسپیاں بالکل نہیں ملیں گی اس کے برعکس ایک سنجیدہ اور علمی وروحانی ماحول میں حضور ایدہ اللہ کے ارشادات اور بلند پایہ علمی تقاریر سنے کولیں گی.تبلیغ و اشاعت اسلام کے منصوبوں پر غور وعمل ہوگا.قرآنی معارف اور عظمت رسول صلی یتیم کے مضامین بیان ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد کے اجتماع کا نہایت احسن رنگ میں انتظام جماعت کو دنیا بھر میں ایک ممتاز ومنفرد مقام عطا فرماتا ہے.ایسا شائستہ پر وقار اجتماع باعث مسرت و افتخار ہے.انتظامات میں بہتری کی گنجائش تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے اور اس امر کے لئے اپنی اپنی جگہ کوشش بھی ہوتی رہتی ہے تاہم دنیا بھر میں ہر جگہ جلسہ میں شامل ہونے والے اور جلسہ کے انتظامات میں اخلاص سے حصہ لینے والے جماعت کی طرف سے مبارکباد اور دعاؤں کے مستحق ہیں.مہمانوں کی اکثریت واپس جاچکی ہے.باقی بھی جانے کی تیاری میں ہیں ایسے ہی ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا: مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی الفضل انٹرنیشنل 20 اگست 2004ء) 221
برگ سبز دم السلام علیکم.راضی خوشی آئے.خیر و عافیت سے آئے“ ( قادیان واپسی سے متعلق حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات کا تذکرہ ) حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ نے 1991ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر افتتاحی خطاب میں فرمایا: قادیان آنے سے متعلق یہ پہلا سفر ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ جب دوبارہ خدا مجھے یہاں لے کے آئے گا اور آئندہ خلفاء کو بھی لے کے آئے گا اللہ بہتر جانتا ہے ان آئندہ خلفاء کی راہ میری ہمیشہ کی آمد سے ہموار کر دی جائے گی یا یہ تو فیق کسی اور خلیفہ کو ملے گی لیکن یہ تو مجھے کامل یقین ہے کہ جس خدا نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان آخرین کا امام بنا کر بھیجا تھا وہ ضرور اپنے وعدے سچے کر دکھائے گا اور ضرور بالآخر خلافت احمد یہ اپنے اس دائمی مقام کو واپس لوٹے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو قادیان واپسی کے متعلق کثرت سے الہام بھی ہوئے اور رویا اور کشوف بھی دکھائے گئے.ایک دفعہ ایک غیر احمدی دوست میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے وقت تک میں احمدیت کی طرف بہت ہی مائل تھا بلکہ میں شوقیہ قادیان ان لوگوں میں بھی 222
برگ سبز حاضر ہوا جو آخری دنوں میں یہاں خدمت کر رہے تھے.لیکن بیعت نہیں کی تھی تقسیم ہند کے بعد میرا ایمان اٹھ گیا.کیونکہ مجھے حضرت مسیح موعود کے الہامات میں کہیں یہ ذکر نہیں ملا کہ آپ کو قادیان چھوڑنا پڑے گا.میں نے ان سے کہا کہ اگر داغ ہجرت سے آپ کو یہ پیغام نہیں بھی ملا اور آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے مراد شاید آخری رحلت ہو، دنیا سے عقبی کا سفر ہو.تو کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ قادیان سے جانے کا ذکر نہیں تو قادیان میں آنے کا کیوں اتناذ کر ملتا ہے اور اس رنگ میں ملتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی بستی میں پیدا ہوئے یہاں بڑھے، یہاں نشو و نما پائی ، یہی احمدیت کا مرکز بنا اور آپ کو الہام اللہ تعالیٰ ایسے کر رہا ہے جیسے آپ قادیان سے باہر ہیں اور وعدے کر رہا ہے کہ ضرور لے کر آئے گا.یہ حیرت انگیز مضمون ہے.تمام الہامات میں قادیان آنے کے الفاظ نہیں ملتے.قادیان جانے کےالفاظ ملتے ہیں.حالانکہ جو شخص قادیان بیٹھا رؤیا دیکھ رہا ہے اس کو یہ نظر آنا چاہئے تھا کہ میں باہر سے قادیان واپس آرہا ہوں.یعنی میرا مقام قادیان ہے اور میں واپس لوٹ رہا ہوں.یہ نظر آنا چاہئے.ایک بھی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح اس نقشے کو نہیں کھینچا بلکہ یہ اظہار فرمایا میں قادیان جارہا ہوں اور رستے میں روکیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے مختلف رنگ میں آپ کو آئندہ آنے والی خبریں عطا فرمائیں.ایک الہام تھا: ”مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ “.جس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ دو دو تین تین چار چار مرتبہ.لیکن اس کے ساتھ اُردو میں یہ الہام ہوا اب تو امن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور میں تجھے پھر بھی یہاں لاؤں گا.“ 223
برگ سبز پس میں یقین رکھتا ہوں ، ایک ذرہ بھی مجھے اس میں شک نہیں کہ اس جلسے پر میری اور دُور دُور سے قدوسیوں کی آمد اس الہام کی صداقت کی گواہ بن گئی.کیونکہ جو وعدہ حضرت مسیح موعود سے کیا گیا تھا وہ آج حضرت اقدس مسیح موعود کے اس انتہائی عاجز اور ادنی غلام کے حق میں پورا ہوا ہے.اور آپ سبھی خوش نصیب اس وعدے کو پورا کرنے میں مددگار اور شریک اور محد اور انصار بن کر یہاں پہنچے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے.اور خدا کا ہم کیسے شکریہ ادا کریں جس نے یہ سعادت بغیر کسی ظاہری حق کے ہمیں عطا فرمائی.کوئی مخفی حق اس کے علم میں ہے تو وہی جانتا ہے.میں تو جب اپنے حال پر نگاہ کرتا ہوں تو ہر گز اپنے آپ کو ان فضلوں کا مستحق نہیں پاتا اور خدا کی قسم اس میں کوئی جھوٹے عجز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں جانتا ہوں کہ میں کون ہوں.مجھے اپنی حیثیت کا علم ہے.ان فضلوں کو دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ اے خدا! میں کیا کروں تیرے لئے کس طرح ان کے شکر کا اظہار کروں.اظہار بھی میرے بس میں نہیں.شکر ادا کر نا تو بہت دُور کی بات ہے.دیکھیں اللہ تعالیٰ نے یہی وعدہ فرمایا تھا اب تو امن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور میں تجھے پھر بھی یہاں لاؤں گا.جس کا مطلب ہے کہ پہلی واپسی عارضی ہوئی تھی اور امن کے ماحول میں ہونی تھی.بعض احمدی باہر کے ملکوں میں پتہ نہیں کیسے ان خوابوں میں بسے رہے کہ گویا جس طرح فوج کشی ہوتی ہے اس طرح بڑے زور سے احمدیت کی فوج نَعُوذُ بِالله مِنْ ذالك قادیان پر حملہ آور ہوگی اور اس طرح فتح حاصل کرے گی اور وہ پرانی 224
برگ سبز تاریخ انہی لفظوں میں دہرائی جائے گی جیسے بعض دفعہ پہلے رونما ہوئی ہے.یہ سب فرضی باتیں ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی جانتا ہے کیا مقدر تھا اور وہ یہی مقدر تھا.فرمایا: ” تو امن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور میں تجھے پھر بھی یہاں لاؤں گا“.اب اس مضمون کو ”مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ“ کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پتہ چلتا ہے ایک بار نہیں.دودو.تین تین.چار چار بار آنا ہوگا اور بالآخر اللہ تعالیٰ کی وہ تقدیر ظاہر ہوگی کہ جب خلافت قادیان اپنی دائمی مرکز قادیان کو واپس پہنچے گی.26 جولائی 1904ء کو یہ رویا ہوا اور انبیاء کے رویا اور کشوف بھی وحی کا درجہ رکھتے ہیں.اس لئے اس رؤیا کی بڑی اہمیت ہے.آپ نے دیکھا کہ ”ہم قادیان گئے ہیں.اب دیکھیں عجیب بات ہے، قادیان رہتے ہیں اور دیکھا کہ قادیان گئے ہیں.میں نے سب الہامات کا مطالعہ کیا ہے ایک بھی جگہ یہ نہیں لکھا کہ قادیان آئے ہیں.بلکہ ہر جگہ گئے ہیں کا مضمون ہے.جس کا مطلب ہے بہت لمبے عرصے سے باہر رہ رہے ہیں، واپس آنے کی تمنا ہے پوری نہیں ہو رہی ، دعائیں کرتے ہیں.اندھیرے رستے میں حائل ہیں اور پھر خدا تو فیق عطا فر ما دیتا ہے قادیان گئے ہیں.فرمایا: ” اپنے دروازے کے سامنے کھڑے ہیں.ایک عورت نے کہا السلام علیکم اور پوچھا راضی خوشی آئے.خیر و عافیت سے آئے.“ جب میں یہاں آیا تو بعض اسی قسم کی کثرت سے آوازیں اٹھ رہی تھیں.السلام علیکم.خیریت سے پہنچے.راضی خوشی آئے.راضی خوشی کا لفظ 225
برگ سبز تو مجھے یاد نہیں لیکن خیریت سے پہنچے اس قسم کے کلمات خیر بار ہا عورتوں کی آواز میں میرے کان میں پہنچتے تھے.ہر دفعہ میری روح خدا کے حضور سجدے کرتی تھی کہ خدا نے ہمیں وہ دن دکھا یا جس کے وعدے حضرت اقدس مسیح موعود سے آج سے تقریباً نوے برس پہلے کئے گئے تھے.بہت سے ایسے الہامات ہیں میں ان کا ذکر چھوڑتے ہوئے چند ایک کا ذکر کر دیتا ہوں.میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں.ایک دو آدمی ساتھ ہیں.کسی نے کہا راستہ بند ہے.ایک بڑا بحر ز خار چل رہا ہے.میں نے دیکھا واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہوکر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے.ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے.“ یہ واقعہ بھی گزر چکا ہے اس سے پہلے صد سالہ جشن کے موقع پر بھی ہمیں یہی تمنا تھی.جائزے لئے گئے تو تمام طرف سے خود قادیان والوں نے بھی یہی لکھا کہ ابھی حالات سازگار نہیں اور حالات خطر ناک ہیں.پنجاب میں بھی امن نہیں ہے اس لئے آپ نہ تشریف لا ئیں.حالانکہ میری دلی خواہش یہ تھی کہ میں آؤں.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویا بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہو چکا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام فرمایا: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍجس خدا نے قرآن کریم پر عمل کرنا تیرے لئے فرض قرار دیا ہے وہ لازما تجھے اپنے 226
برگ سبز معاد کی طرف ، اس آخری مستقل قیام گاہ کی طرف واپس لے کر آئے گا.انِّی مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتِيْكَ بَغْتَةً - يَأْتِيْكَ نُصْرَتِيْ إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو المَجْدِ وَ العُلی پھر آپ کو الہام ہوا وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ اور کہا کہ اے میرے رب ! مجھے نیک طور پر دوبارہ مکہ میں ) داخل کر.یہ ترجمہ جو ہے چونکہ ) لکھنے والے نے تفسیر صغیر سے لیا ہے اس لئے یہاں لفظ ملکہ کا لکھا گیا ہے.قرآنی دعا میں نہ صرف یہ کہ مکہ کا ذکر نہیں بلکہ جس مقام کا ذکر ہے وہ کوئی ظاہری مقام نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہونا تھا.لیکن اس کی ذیل میں ظلی طور پر مکہ کا ذکر شامل ہے اس لئے ہرایسی دعا کرنے والا محض مکہ میں داخل ہونے کے لئے ایسی دعا نہیں کرتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں یہ التجا کرتا ہے کہ اے خدا تو نے جس طرح اپنے پاک محمدصالی ایم کو بار بار بلند سے بلند مقامات میں داخل فرمایا اور ہر بلند مقام سے ایک اور بلند مقام کی طرف نکلنے کی توفیق بخشی.ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرما.پس اسی ذیل میں قادیان بھی آتا ہے اور یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خطاب ہے اس میں ان معنوں میں قادیان واپسی کے لئے پیش گوئی تھی.“ 66 الفضل انٹرنیشنل 30 دسمبر 2005ء) 227
برگ سبز پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں قادیان میں گزرے ہوئے بچپن کی یادوں میں ایک بہت ہی نمایاں یاد جلسہ سالانہ کی ہے.نمازوں کے اوقات میں دور دور تک گلیوں اور بازاروں میں قطار اندر قطار، عبادت گزاروں کے آنسو اور سسکیاں ، جلسہ گاہ میں مختلف رنگ ونسل کے لوگوں کا پر اشتیاق ہجوم، سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے رات کے اندھیروں میں علم ومعرفت کے شائقین کا موم بتیوں کی روشنی میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی روح پرور تقاریر کے نوٹ لینا.سردی کی شدت میں معمر بزرگوں کا اپنی جسمانی حاجتوں اور ضرورتوں کو دبا کر ہر حال میں جلسہ کی کاروائی میں شامل رہنا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی آخری آرام گاہ پر دعاؤں کے رقت انگیز مناظر، ہزاروں مہمانوں کی میزبانی کیلئے قادیان کے چھوٹوں بڑوں کا اشتیاق اور مسلسل محنت مہمانوں کا یخ بستہ ہواؤں اور مہاوٹ (سردیوں کی بارش کے باوجود دیوانہ وار قادیان پہنچنا اس زمانہ میں جبکہ سفر کی سہولتیں بہت ہی کم تھیں.ملتان اور ڈیرہ غازی خاں کے بعض خوش قسمت احمدیوں کے بیان سے تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لوگ بعض اوقات پا پیادہ اس سفر پر چل پڑتے تھے اور اکثر اوقات راستہ میں جوتے اور چپل وغیرہ بھی جواب دے دیتے تو بزبان 228
حال برگ سبز دل خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر کہتے ہوئے سفر کو جاری رکھنا.یہاں اگر ایک لمحہ کیلئے رک کر اس عاشق صادق کے جذبات کو سمجھنے یا تصور میں لانے کی کوشش کی جائے تو خوب ہوگا، جو سردی کے باوجود غربت ناداری کے باوجود، مخالفوں کی گالیوں اور استہزاء کے باوجود جوتا ٹوٹ جانے کی صورت میں ننگے پاؤں ایک بلند مقصد کیلئے سفر کرتے ہوئے کیا لذت وسرور حاصل کرتا ہوگا.وہ بابرکت اجتماع جو جماعت کی علمی ترقی ، باہم محبت و یگانگت اور روحانی ترقی میں اپنی مثال آپ تھا.قادیان جیسی چھوٹی سی بستی میں منعقد ہوتا.قادیان کسی قدرتی رستے و دریا وغیرہ پر آباد نہیں تھا.وہاں تجارتی مرکز بھی کوئی نہیں تھا.وہاں کارخانے اور صنعتی ترقی اور ملازمت وغیرہ کی بھی کوئی صورت نہ تھی.تاہم اسلام کی خدمت کرنے والے ایک وجود نے اسلام کی خدمت کی غرض سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تو سعید روحیں کشاں کشاں وہاں پہنچے لگیں.قادیان خدائے واحد کی عبادت اور پیار و محبت کا ایک نشان بن گیا.وہ خوش قسمت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی زیارت وملاقات کیلئے وہاں جاتے ، انہیں دن رات خدمت دین کے جذبہ سے سرشار لوگوں کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملتا.آپ کی پر لطف صحبتوں میں وہ روحانی خزائن تقسیم ہوتے تھے جنہیں دنیا دار لوگ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے.مزید برآں انہیں حضرت مولانا نورالدین جیسے عظیم عاشق کلام الہی کی زبان سے حکمت و دانائی حاصل ہوتی.حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کی نہایت عمدہ اور بلند آواز اور موثر انداز میں کلام الہی کانوں میں رس گھولتا.حضرت مولانا محمد احسن اور حضرت مولانا 229
برگ سبز برہان الدین سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا جو چلتے پھرتے دینی مکتب تھے اور جہاں سے ہر وقت علوم دینی کا درس جاری رہتا.حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی کے عشق و محبت اور فدائیت کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا وفور شوق میں لاہور سے دیوانہ وار قادیان جا کر دیدار و زیارت سے فیضیاب ہونا اور پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دیار حبیب میں ہی دھونی رما کر بیٹھ جانا، حضرت مولاناسید محمد سرور شاہ صاحب منقولی علم اور خاص طور پر علم محود منطق میں مشہور مدرسہ دیو بند سے نمایاں کامیابی اور شہرت حاصل کرنے کے بعد وہاں کی 90 روپے ماہانہ کی ملازمت اور ترقی کے مواقع کی پرواہ نہ کرتے ہوئے 7 روپے ماہوار کی برائے نام آمد پر خدمت دین پر کمر بستہ ہو گئے اور اسی زہد و درویشی کی حالت میں ساری زندگی گزاردی.میں اپنے انہیں منتشر خیالات اور یادوں میں غلطاں و پیچاں لندن کی ایک سڑک پار کرنے لگا تھا.ان تمام یادوں میں لاشعور میں یہ امر برابر کھٹک رہا تھا کہ جلسہ کے دنوں میں ہم قادیان کے باسی جلسہ پر آنے والے خوش نصیب مہمانوں کے میزبان ہونے کی سعادت حاصل کرتے تھے.جبکہ اب ہمیں جلسہ میں شامل ہونے کی سعادت کا حصول بھی ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں.انگلستان جیسے دور دراز مقام پر جلسہ ہو تو میرے جیسے بے مایہ و بے وسیلہ کا وہاں پہنچنا عام حالات میں تو حد امکان سے بہت دور ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں پہنچنے کے بعد بھی اپنے آپ کو یہ یقین دلانے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے کہ وہاں واقعی جلسہ میں شمولیت کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.جی ہاں ایسے ہی خیالات کی رو میں لندن کی ایک سڑک پار کرنے لگا.لندن جو شہروں کا شہر کہلاتا ہے جس کی آبادی اور وسعت کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ دن کے وقت اس شہر 230
برگ سبز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانے کیلئے ایک تیر رفتار مشاق موٹر ڈرائیور بھی ایک گھنٹہ سے زیادہ میں ہی کامیاب ہو سکے گا.سڑک کو پار کرنے لگا تو دوسری طرف کالے برقعہ میں ملبوس تین خواتین نظر آئیں اور ابھی میں اپنی خوشگوار حیرت میں ہی تھا کہ دوسری طرف سے آواز آئی چچا جان سلام میں رہان صاحب کی بیٹی ہوں ، اتنی دیر میں خاکساران کے پاس پہنچ چکا تھا معلوم ہوا کہ برادر بزرگ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب رہان کی بیٹی اور بہو جرمنی سے جلسہ میں شرکت کیلئے آئی ہیں.اتنے بڑے شہر میں پاکستان اور جرمنی سے آئے ہوئے زائرین کی وہاں پہنچنے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر اس طرح اچانک ملاقات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ کے فروغ اور صداقت کی عجیب نا قابل بیان کیفیت پیدا کر دی.میری رہائش گاہ قریب ہی تھی.ان بچیوں کو میں اپنے ساتھ گھر لے گیا.وہ میری اہلیہ اور بیٹی سے مل کر اور برادرم رہان صاحب کے بھیجوائے ہوئے پیغام کو وصول کر کے بہت خوش ہوئیں.بات لمبی ہوتی جا رہی ہے اور ابھی جلسہ تو شروع بھی نہیں ہوا.اور ہمارا جلسہ نصرت تائید الہی کا ایسا با برکت ہجوم ہوتا ہے کہ اس کا بیان واحاطہ ایک مجلس میں ہو بھی نہیں سکتا.(روزنامه الفضل ربوہ 19 نومبر 1997ء) 231
برگ سبز رمضان قسمتیں سنوار نے والا مہینہ سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس ہے.آپ فرماتے ہیں: حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں.ایک وہ جس نے رمضان پایا پھر رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور گناہ بخشے نہ گئے.“ یہ جو دو قسم کے انسانوں کا ذکر ہے دراصل اللہ کے تعلق میں لازما یہی مضمون ہے جو رمضان کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہی مضمون ہے جو رمضان کے حوالے سے سمجھانا بہت ضروری تھا.اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی یا تم نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ والدین کو پایا اور گناہ بخشے نہ گئے اسی حالت میں رمضان گزر گیا یہ بہت ہی گہرا نکتہ ہے جس کا قرآنی تعلیم سے تعلق ہے.قرآن کریم فرماتا ہے: قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (الأنعام (152).تو کہہ دے کہ آؤ میں تمہیں وہ بات 232
برگ سبز بتاؤں جو خدا تعالیٰ نے حرام کر دی ہے تم پر.ایک یہ کہ خدا کا شریک نہیں ٹھہرانا.اپنی عبادت کو اسی کے لئے خالص کر لو.دوسرا یہ کہ ماں باپ سے لازماً احسان کا سلوک کرنا ہے اور ماں باپ کی نافرمانی کر کے خدا کی ناراضگی نہ کما بیٹھنا.تو شرک کا مضمون خدا تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا کہ میرا شرک کرو گے تو یہ بہت ہی بڑا گناہ ہوگا.حرام کر دیا ہے تم پر لیکن ماں باپ سے احسان کرو گے وہ میرا شریک بنانا نہیں ہے.شرک سے نیچے نیچے اگر کسی کی عظمت خدا تعالیٰ نے قائم فرمائی ہے تو وہ ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی ہی نہیں اس سے بڑھ کر ان سے حسن سلوک کرنا ہے.پس حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ رمضان شریف میں دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں جو نہ خدا کو پاسکیں ،نہ ماں باپ کا کچھ کرسکیں.رمضان گزر جائے اور ان دو پہلوؤں سے ان کے گناہ نہ بخشے گئے ہوں تو یہ دوالگ الگ چیزیں نہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ مربوط چیزیں ہیں.وجہ یہ ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے اور اس احسان میں اور کوئی شریک نہیں ہے.یعنی اس نے آپ کو پیدا کیا، اس نے سب کچھ بنایا اور ماں باپ بھی اس میں شریک ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ کو بھی اسی نے بنایا اور ماں باپ کو جو توفیق بخشی آپ کو پیدا کرنے کی وہ اسی نے پیدا کی ہے، اپنے طور پر تو کوئی کسی کو پیدا کر ہی نہیں سکتا اپنے زور سے.ایک معمولی سا خون کا لوتھڑا بھی انسان پیدا نہیں کر سکتا اگر خدا تعالیٰ نے اس کو ذرائع نہ بخشے ہوں.تو پہلا مضمون یہ ہے کہ اللہ خالق ہے اس لئے اس کا شریک ٹھہرانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے.اور سب سے بڑا ظلم ہے کہ خدا جس نے سب کچھ بنایا ہے اس کو 233
برگ سبز نظر انداز کر کے نعمتوں کے شکریے دوسروں کی طرف منسوب کر دئے جائیں.پھر اس تخلیق کا اعادہ ماں باپ کے ذریعے ہوتا ہے اور پھر ماں باپ کے ساتھ آپ کا وجود بنتا ہے.اگر ایک تخلیق کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ احسان کا سلوک کریں گے تو جو عظیم خالق ہے لازماً اس کے لئے بھی دل میں امتنان اور احسان کے جذبات زیادہ زور کے ساتھ پیدا ہونگے اور پرورش پائیں گے.پس یہ دو مضمون جڑے ہوئے ہیں.جو ماں باپ کے احسان کا خیال نہیں کرتا اور ان سے احسان کا سلوک نہیں کرتا، اس سے یہ توقع کر لینا کہ وہ اللہ کے احسان کا خیال کرے گا یہ بالکل دور کی کوڑی ہے.پس ماں باپ کا ایک تخلیقی تعلق ہے جسے اس مضمون میں ظاہر فرمایا گیا ہے اور رمضان مبارک میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مقصد خدا تعالیٰ کو پانا قرار دیا ہے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنا بنیادی مقصد بیان فرمایا ہے.پس اس تعلق سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سب سے زیادہ قرآن کا عرفان پلائے گئے آپ نے یہ مضمون ہمارے سامنے اکٹھا پیش کیا کہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے وقت ہر قسم کے محسنوں کا احسان اتارنے کی کوشش کرو.ماں باپ کا احسان تو تم اتار سکتے ہو ان معنوں میں کہ تم مسلسل ان سے احسان کا سلوک کرتے رہو، عمر بھر کرتے رہو.اگر احسان نہ بھی اترے تو کم سے کم تم ظالم اور بے حیا نہیں کہلاؤ گے.تمہارے اندر کچھ نہ کچھ یہ طمانیت پیدا ہوگی کہ ہم نے اتنے بڑے محسن اور محسنہ کی کچھ خدمت کر کے تو اپنی طرف سے کوشش کر لی ہے کہ جس حد تک ممکن تھا ہم احسان کا بدلہ اتاریں.اللہ تعالیٰ کے احسان کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا 234
برگ سبز اور ایک ہی طریق ہے کہ ہر چیز میں اپنی عبادت کو اسی کے لئے خالص کر لو، اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 17 / جنوری 1997ء - مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 7 / مارچ 1997ء) اسی طرح حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ماں باپ کے احسان کا بدلہ احسان سے دینا یہ مضمون تو کسی حد تک سمجھ میں آجاتا ہے مگر اللہ کا بدلہ احسان سے کیسے دو.یہ مضمون حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں سمجھا دیا اور یوں سمجھایا کہ نماز میں اس طرح نمازیں ادا کرو، اس طرح حضور اختیار کرو خدا کے سامنے گویا وہ تمہیں سامنے کھڑا ہوا دکھائی دے رہا ہے.اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اتنا ہی خیال رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.یہ جو احسان ہے یہ کامل توحید کا مظہر ہے.جب دوسرے سب خدامٹ جاتے ہیں، جب تمام تر توجہ خدا کی طرف ہوجاتی ہے اس وقت یہ احسان ہوتا ہے،اس کے بغیر ہو نہیں سکتا“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جنوری 1997ء - مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 14 / مارچ 1997ء) 235 الفضل انٹرنیشنل 29 ستمبر 2006ء)
برگ سبز تعمیر مسی حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی گزشتہ دنوں انگلستان کی بعض جماعتوں میں تشریف لے گئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس کامیاب دورہ میں ایک مسجد کا افتتاح فرمایا اور دو مساجد کی بنیاد رکھی.اس طرح خدا تعالیٰ نے ساری جماعت کو رمضان سے قبل ہی عید کی سی خوشی عطافرمائی.گو یا عام طور پر تو رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید کی خوشی ملا کرتی ہے مگر امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں رمضان سے قبل بھی ایک جماعتی خوشی حاصل ہوئی.یورپ میں مسجد کی تعمیر جماعتی تاریخ میں بجاطور پر ایک نمایاں کارنامے کی صورت رکھتی ہے.جماعت نے نہایت کمزوری اور غربت کے زمانہ میں کئی مشکلات اور تنگیوں میں سے گزرتے ہوئے تعمیر مساجد کی ذمہ داریاں پوری کی تھیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے.جہاں پہلے گنتی کے چند احمدی ہوتے تھے وہاں اب ہزاروں تک تعداد پہنچ چکی ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے.الحمد للہ.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ ادا کر کے برمنگھم کی مسجد کا افتتاح 236
برگ سبز فرمایا.جیسا کہ احباب جماعت جانتے ہیں کہ برمنگھم انگلستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور ملک کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے اس شہر کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے.اس شہر کے وسط میں ایک وسیع و شاندار مسجد کی تعمیر کی توفیق ملنے پر ہم میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کے شکر کے جذبات سے لبریز ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہارٹلے پول (Hartlepool) اور بریڈ فورڈ (Bradford ) میں اپنے دست مبارک سے پر سوز دعاؤں کے ساتھ سنگ بنیا د نصب فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ اپنے خطاب میں جماعت کو نہایت مؤثر رنگ میں تلقین فرمائی کہ مسجدوں کی تعمیر سے زیادہ مسجدوں کی آبادی ضروری ہے اور جماعت کو چاہئے وہ ان مساجد کو خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والوں سے آباد رکھیں.ان مساجد کی تعمیر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی ذیلی تنظیموں کو تحریک فرما کرنیکیوں میں مسابقت کا ایک نہایت عمدہ و بابرکت موقع مہیا فرمایا ہے.اُمید ہے کہ ذیلی تنظیمیں اپنی سابقہ روایات کے مطابق قربانی کی شاندار مثال پیش کریں گی.آنحضرت سلیم نے مسجد کو جنت کے میووں کے حصول کی جگہ فرمایا ہے یعنی مسجد میں جا کر عبادات ، دعاؤں ، ذکر الہی سے انسان خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتا ہے اور اپنے آپ کو جنت کی نعمتوں کا مستحق کر لیتا ہے.مسجد کی عظمت واہمیت سمجھاتے ہوئے حضور نے یہاں تک فرمایا کہ قیامت کے روز جب کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا اور کسی طرف کوئی سایہ اور آرام کی جگہ نہ ملے گی اس دن وہ خوش نصیب خدا تعالیٰ کے سایۂ رحمت میں ہوگا جس کا دل مسجد سے معلق رہتا ہے.وہ مسجد میں ایسا اطمینان وسکون محسوس کرتا ہے جیسا ایک مچھلی پانی میں محسوس کرتی ہے اور مسجد سے باہر بھی اس کو جانا تو پڑتا ہے مگر وہ ایسا مجبورا ہی کرتا ہے اور باہر 237
برگ سبز رہتے ہوئے بھی اس کا دل و دماغ جلد سے جلد اپنے کاموں سے فارغ ہو کر مسجد واپس جانے کے لئے مچلتا رہتا ہے.مسجد ایک مسلمان کی مذہبی ، روحانی و معاشرتی زندگی کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے مرکزی مقام رکھتی ہے.حضور صلی لا الہ سلم کے ارشاد کے مطابق اگر کوئی شخص وضو کر کے صرف عبادت کی غرض سے مسجد کی طرف جاتا ہے تو ہر قدم جو وہ اٹھاتا ہے اس سے اس کے درجات بلند ہوتے اور اس کی غلطیاں اور گناہ معاف کئے جاتے ہیں.رمضان کے مبارک ایام میں مساجد کی رونق میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے.نمازی لوگ بڑے شوق سے مساجد کی آبادی بڑھاتے ہیں.یہ نظارہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے اور یقیناً ہر اس شخص کے لئے جسے مسجد میں حاضر ہونے اور عبادت بجالانے کی توفیق ملتی ہے یہ امر باعث سکون و خوشی ہوتا ہے.اس لئے بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم رمضان کے ایام کی برکات کو زیادہ وسیع کرنے اور ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کے لئے یہ عہد کریں کہ ہماری مساجد رمضان گزرجانے کے بعد بھی اسی طرح آبادر ہیں گی اور ہم نماز با جماعت کا اس طرح اہتمام کریں گے کہ نہ صرف اپنی نمازوں کا خیال رکھیں گے بلکہ اپنے عزیز واقارب اور جاننے والوں کی نمازوں کا بھی خیال رکھیں گے اور پوری کوشش کریں گے کہ ہماری جماعت کا ہمیشہ ہی یہ امتیازی نشان اور پہچان ہو کہ ہم نمازی لوگ ہیں اور ہمارے دل مساجد سے بہت گہرا اور زندہ تعلق رکھتے ہیں.یہ ہمارا حقیقی اور عملی جواب ہوگا ان لوگوں کے لئے جو پاکستان میں ہمیں اپنی مساجد کو مسجد کہنے مسجد میں اذان دینے اور عبادت کرنے پر پابندیاں لگا کر اپنے اس ظلم پر خوش ہو رہے ہیں.ان کی پابندیاں ، ان کے مظالم ، ان کا حسد ہمیں ہماری روح کی غذا ، عبادت اور 238
برگ سبز مسجدوں سے دور نہیں رکھ سکتا.ہم تقویٰ اور خلوص سے مسجدیں بناتے اور ان کی آبادی کے لئے برابر کوشاں رہیں گے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فر ماوے.آمین الفضل انٹرنیشنل5 نومبر 2004ء) 239
برگ سبز جسمانی صحت دین فطرت اسلام انسان کے تمام طبعی تقاضوں اور ضروریات کی تکمیل کے لئے مکمل رہنمائی اور ہدایات فراہم کرتا ہے.حرام وحلال کے متعلق حکیمانہ رہنمائی بھی انسان کی جسمانی روحانی و اخلاقی بہتری کا مفید و مؤثر لائحہ عمل ہے.قرآن مجید یہ رہنما اصول بیان کرتا ہے کہ: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا کھاؤ، پیومگر اسراف نہ کرو (الأعراف 32) یعنی کسی قسم کی زیادتی نہ کرو بلکہ توازن و اعتدال کا طریق اختیار کرو.آنحضرت سلائی کی ستم نے اسی قرآنی حکمت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مومن کافر کے مقابلہ میں کم کھاتا ہے اور یہ بھی کہ کھانا کھاتے ہوئے اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ ابھی کسی قدر بھوک باقی ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا جائے.موجودہ زمانے کی اکثر بیماریوں کا باعث یہی ہے کہ کھانا زیادہ کھایا جاتا ہے اور توازن و اعتدال کا طریق اختیار نہیں کیا جاتا.اخبارات میں ذیا بیطس کے متعلق ایک رپورٹ شائع ہوئی.روز نامہ جنگ 16 نومبر 2004 ء کے حوالہ سے یہ رپورٹ درج ذیل ہے: 240
برگ سبز پوری دنیا میں بیماریوں کی جڑ ذیا بیطس کا 14 واں عالمی دن موٹاپے سے بچاؤ کے عنوان کے تحت منایا گیا.ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں خطوں کے ملکوں میں موٹاپے کے موذی مرض میں انتہائی خطرناک رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے.دنیا بھر میں ساڑھے 19 کروڑ افراد شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں جس کی ساٹھ فیصد وجہ موٹا پا ہے.پاکستان میں ذیا بیطس کے مریضوں کی تعداد 88لاکھ، جب کہ بھارت 3 کروڑ 55 لاکھ ، امریکہ میں ایک کروڑ 60لاکھ افراد ذیا بیطس کے موذی مرض میں مبتلا.16 ارب کی عالمی آبادی میں ایک ارب افراد کا وزن زیادہ ہے.2005 ء تک مریضوں کی تعداد میں 33 کروڑ سے زائد اضافہ ہو جائے گا.30 کروڑ افراد موٹاپے میں مبتلا ہے.روزانہ معمولی جسمانی سرگرمی ذیا بیطس کا خطرہ 60 فیصد کم کرتی ہے.جنگ کے ڈیویلوپمنٹ رپورٹنگ سیل نے عالمی دن کے حوالے سے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق 1995ء سے 2001 ء کے چھ سالوں میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں مزید 9.6 فیصد افراد اس مرض میں جکڑے گئے جبکہ مجموعی طور 1995ء سے 2003ء کے آٹھ برسوں کے دوران شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں 43.7 فیصد یعنی 5 کروڑ 90لاکھ مریضوں کا اضافہ ہوا.اس طرح مریضوں کی تعداد میں اوسط سالانہ اضافہ 5.4 فیصد جبکہ تعداد کے حوالے سے اوسط سالانہ 73 لاکھ 75 ہزار افراد ذیا بیطس کی عالمی تعداد کا حصہ بن رہے ہیں.انٹرنیشنل ڈائی بیٹک فیڈریشن کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد کا وزن ان کے مطلوبہ وزن سے زائد ہے جبکہ 30 کروڑ افراد موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہیں.ورلڈ واچ انسٹی 241
برگ سبز ٹیوٹ کے مطابق موٹاپا ٹائپ 2 ذیا بیطس کے مرض کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے.تحقیق کے مطابق 80 فیصد ٹائپ 2 ذیابیطس کے تشخیص کردہ افراد موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں اور ایسے افراد کی موٹاپے کے باعث موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باعث عمر آٹھ سال تک کم ہوسکتی ہے.ماہرین کے مطابق روزمرہ زندگی اور رہن سہن کے طور طریقوں بشمول خوراک کے استعمال میں تبدیلی اور روزانہ معمولی جسمانی سرگرمی سے ذیا بیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرہ کو 60 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے.جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن 2003 ء کے مطابق اس وقت دنیا بھر کی 60 فیصد آبادی مناسب جسمانی سرگرمیوں (Activity) سے محروم ہیں.یہ تمام اعداد و شمار اس بات کا واضح ثبوت ہے عالمی سطح پر موٹاپے کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے بلکہ ذیا بیطس کا باعث بھی بن رہا ہے.عالمی ذیا بیطس فیڈریشن کی رپورٹ 2004 ء کے مطابق دنیا بھر میں شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 19 کروڑ 40لاکھ ہوگئی ہے.WHO کی رپورٹ کے مطابق 1995ء میں ذیا بیطس کے مریضوں کی تعداد 13 کروڑ 50لاکھ تھی جو کہ 2001ء میں 17 کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ گئی جبکہ اب ایسے افراد کی تعداد 19 کروڑ 40 لاکھ ہے.ماہرین کے مطابق یہ مرض اس طرح بڑھتا رہا تو 2025ء تک اس مرض سے متاثر افراد کی تعداد 33 کروڑ 30 لاکھ تک عظ پہنچ جائے گی.اور آئندہ برسوں کے دوران سب سے زیادہ اضافہ برا افریقہ، مشرقی بحیرہ روم ، مشرق وسطی ، جنوب مشرقی ایشیا میں ہوگا جہاں ایسے افراد کی تعداد دوگنا ہو جائے گی جبکہ یورپ میں 20 فیصد، شمالی امریکہ میں 242
برگ سبز 50 فیصد، جنوبی وسطی امریکہ میں 25 اور مغربی بحر اوقیانوس میں 75 فیصد اضافہ ہوگا.جبکہ مجموعی طور پر 2025 ء تک ترقی پذیر ممالک میں ذیا بیطس کے کینسر کی تعداد میں 170 فیصد اور ترقی یافتہ ممالک میں 42 فیصد اضافہ ہوگا.ان ممالک میں اندھے پن کی سب سے بڑی وجہ بھی شوگر ہے.تحقیق کے مطابق شوگر کے مرض میں پندرہ سال تک مبتلا رہنے والے مریضوں میں سے 2 فیصد اندھے پن اور دس فیصد کمزوری کبصارت کا شکار ہو جاتے ہیں اور دنیا میں 52لاکھ سے زائد افراد ذیا بیطس کے باعث اندھے ہو چکے ہیں.ڈائی بیٹک فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں شوگر سے متأثر 20 سے 79 سال کے افراد کی تعداد 88لاکھ ہے.اس اعتبار سے پاکستانی شوگر کے مرض میں مبتلا دنیا کی پانچویں بڑی قوم ہے.دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کے تعداد کے لحاظ سے بھارت پہلے، چین دوسرے، امریکہ تیسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے.منسٹری آف انڈسٹریز پروڈکشن کے ایکسپرٹ ایڈوائزری سیل کے مطابق ملک میں چینی کا مختلف صورتوں میں فی کس استعمال 21 کلو سالانہ ہے جو کہ 1980 ء تک صرف 9.1 کلو سالانہ تھا.جو اس امر کی واضح نشاندہی ہے کہ ملک میں میٹھی چیزوں 66 سے لوگوں کی رغبت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے." اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری ذیلی تنظیموں لجنہ اماءاللہ ، خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ میں صحت جسمانی کا شعبہ پہلے سے موجود ہے اور مفید و مؤثر کام کر رہا ہے.اسی طرح ہمارے ماہر ڈاکٹر صاحبان کی تنظیمیں بھی موجود ہیں.اگر باہم مشورے اور تعاون سے ہر ملک میں صحت جسمانی کا شعبہ مندرجہ بالا رپورٹ کو ایک چیلنج سمجھتے ہوئے ان امراض کا مقابلہ اور 243
برگ سبز روک تھام کی جائے تو مسلسل و مربوط کوشش سے جماعت کے ہر مبر کو حفظان صحت کے اصولوں سے بخوبی واقف کر کے اور پرہیز و علاج کے سلسلہ میں رہنمائی کرتے ہوئے تھوڑے عرصہ میں ایک نمایاں تبدیلی لائی جاسکتی ہے.اور جس طرح ہماری جماعت باہم اتحاد و اتفاق ، جماعتی نظم و ضبط ، مالی قربانی اور نیکیوں میں سبقت وغیرہ میں بہت اچھی شہرت رکھتی ہے.( گو اس میں بھی اور ترقی اور اضافہ کی گنجائش موجود ہے ) اس طرح دنیا بھر میں.جماعت بہتر صحت جسمانی کے لحاظ سے بھی نمایاں مقام حاصل کر سکتی ہے.آنحضرت مصلی سیستم کا ارشاد ہے کہ: ایک صحت مند قوی مومن بیمار و کمزور مومن سے بہتر ہے.“ 244 الفضل انٹرنیشنل 3 دسمبر 2004ء)
برگ سبز ہماری تاریخ براہین احمدیہ کے مسودہ کو خوشخط نقل کرنے کیلئے آپ نے میاں شمس الدین صاحب (جو آپ کے استاد فضل الہی صاحب کے بیٹے تھے) کی خدمات حاصل کر لی تھیں.جب وہ مسودہ صاف اور شستہ خط میں نقل کر لیتے تو اسے منشی امام الدین صاحب کا تب امرتسری کو دے دیا جاتا.جو امرتسر سے قادیان آکر حضرت صاحب کی نگرانی میں کتابت کا کام کیا کرتے تھے.جب کا بیاں تیار ہو جائیں تو ان پر نظر ثانی فرماتے اور تصحیح کرنے کے بعد انہیں پریس تک پہنچانے کے لئے اکثر خود ہی امرتسر تشریف لے جاتے.بعد میں حضرت صاحب کو جب کا پیوں کو پتھر پر جمادینے کی اطلاع دی جاتی تو پھر بنفس نفیس تشریف لے جاتے اور پروف پڑھنے کیلئے کئی روز تک حکیم محمد شریف صاحب کلانوری وغیرہ کے یہاں قیام پذیر ہونا پڑتا.اس سفر میں آپ کے ساتھ کبھی کبھی لالہ ملاوامل اور لالہ شرمیت رائے ہوتے تھے.بعض اوقات لالہ ملاوامل صاحب ہی کو کاپیاں دیکر بھجوا دیا جاتا.حصہ چہارم کی طباعت کا زمانہ آیا تو پروف اور کا پیوں کو گاہے گاہے بذریعہ ڈاک بھی بھجوا دیتے تھے.لیکن اس میں خاص احتیاط کرنا پڑتی تھی.حضرت صاحب خود بھی رجسٹری کرتے اور پریس کے مہتم کو بھی یہ ہدایت تھی 245
برگ سبز کہ وہ کا پیاں اور پروف رجسٹری بھجوایا کرے.براہین احمدیہ کی طباعت کا انتظام شروع میں حضرت صاحب نے پادری رجب علی کے مطبع سفیر ہند میں فرمایا.کیونکہ اختلاف مذہب کے باوجود پادری موصوف کو دلی شغف تھا کہ کام کی عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے اور حضرت صاحب کا منشا مبارک بھی براہین احمدیہ کو کتابت و طباعت کے لحاظ سے معیاری اور دیدہ زیب بنانے کا تھا بلکہ ایسی بے جا کفایت شعاری کو جو کتاب کے ظاہری حسن کو ماند کر دے آپ شرک قرار دیا کرتے تھے.اس لئے مطبع کے گراں نرخ اور بھاری اخراجات کے باوجود آپ کی نظر انتخاب اسی پر پڑی.چنا نچہ کتاب کا حصہ اول اسی مطبع میں چھپا اور اس کے پہلے پر نٹر شیخ نور احمد صاحب بنے جوفن طباعت میں بہترین ماہر مانے جاتے تھے اور جنہیں کچھ عرصہ قبل پادری رجب علی صاحب نے مراد آباد سے خاص طور پر بلا کر ان کے سپر داپنے مطبع اہتمام کر رکھا تھا....حصہ اوّل کی اشاعت کے بعد چونکہ شیخ نور احمد صاحب نے مطبع سفیر ہند چھوڑ کر مطبع ریاض ہند کے نام سے قریب ہی اپنا ذاتی مطبع قائم کر لیا تھا.اس لئے پادری رجب علی صاحب نے کتاب کو گزشتہ معیار پر قائم رکھنے کیلئے شیخ نور احمد صاحب ہی کو کچھ اجرت پر اس کی طباعت کا کام دے دیا اور اس طرح اگلے دو حصہ (حصے دوم اور حصہ سوم ) عملاً تو ریاض ہند میں مطبع ہوئے مگر ان پر نام سفیر ہند کا درج کیا گیا.اسی رنگ میں کتاب کا حصہ سوم ریاض ہند میں چھپ رہا تھا کہ پادری صاحب نے حضرت صاحب سے روپے کا بار بار مطالبہ کرنا شروع کر د یا حالانکہ حضرت صاحب تو انہیں پیشگی روپیہ دے دیتے.مگر وہ کام کو معرض تاخیر میں ڈالتے جاتے تھے.جب ان کے تقاضوں نے سخت تنگ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کچھ رقم لیکر 246
برگ سبز قادیان سے امرتسر ہال بازار پہنچے جہاں چھاپہ خانہ دریافت کیا تو بتانے والے نے مطبع ریاض ہند کا پتہ بتادیا.چنانچہ حضرت صاحب اس مطبع میں داخل ہوئے یہاں براہین احمدیہ کا تیسرا حصہ چھپ رہا تھا.حضرت صاحب نے سمجھا کہ رجب علی کا یہی پر لیس ہوگا.ملازموں سے آپ نے فرمایا کہ پادری رجب علی صاحب کو بلاؤ.شیخ نور احمد صاحب ( مہتم مطبع ) کا گھر قریب ہی تھا.جب انہیں اطلاع ہوئی تو وہ جلد آ گئے اور السلام علیکم کہ کر مصافحہ کیا.حضرت صاحب رجب علی کو تو جانتے تھے.لیکن ان سے تعارف نہیں تھا.ان کو دیکھ کر متعجب سے ہوئے اور فرمایا یہ پریس رجب علی کا ہے.انہوں نے ادب سے عرض کیا کہ آپ ہی کا ہے.پھر فرمایا کہ رجب علی صاحب کا پر یس کہاں ہے اور یہ ہماری کتاب جو چھپ رہی ہے اس مطبع میں کیسے آئی.انہوں نے اصل واقعہ عرض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ساری کتاب میں نے اپنے مطبع میں چھاپی ہے.صرف پہلا حصہ پادری صاحب کے پریس میں چھپا ہے اور وہ بھی میں نے ہی چھاپا ہے.اب ان کا پریس بند ہے اور وہ فیروز الدین کی مسجد کے پیچھے رہتے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ رجب علی صاحب ہمیں تنگ کرتے ہیں پیشگی روپیہ لے لیتے ہیں اور وقت پر کام نہیں دیتے.اب ہم ان کو روپیہ دینے آئے ہیں اور کتاب ابھی چھپی نہیں.اگر پہلے سے ہمیں معلوم ہوتا تو آپ ہی سے چھپواتے.ہمیں اس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ ایک مسلمان کے مطبع میں کتاب چھپ رہی ہے.اور ہمارا یہ منشا ہے کہ جلد چہارم آپ ہی چھا ہیں اور چھپنے کے بعد جب کتاب مکمل ہو جائے تو ایک ماہ کے بعد بتدریج آپ کو روپیہ دیں.کیا آپ یہ انتظام کر سکتے ہیں؟ شیخ نور احمد صاحب نے عرض کیا مجھے منظور ہے.آپ ایک ماہ کے بعد روپیہ بتدریج عنایت فرمانا شروع کر دیں.247
برگ سبز حضرت صاحب نے اس پر اظہار خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ کاغذ بھی اپنے پاس سے لگائیں اور چھپائی اور ترتیب اور کٹائی اور سلائی سب کام تیار کر کے اور مکمل کر کے ہمیں دیں.نیز فرمایا کہ ہم کام عمدہ چاہتے ہیں.کوئی نرخ چھپائی یا کاغذ وغیرہ کا ان سے نہیں پوچھا.اس طرح آئندہ براہ راست ریاض ہند میں کتاب کی طباعت کا سلسلہ منتقل ہو گیا چنا نچہ کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے شیخ صاحب کو قادیان بلا یا اور انہیں جلد چہارم کا ابتدائی خوشخط لکھا ہوا مسودہ اشاعت کیلئے عنایت فرمایا.اور براہین حصہ چہارم چھپنا شروع ہو گئی.بعد میں حضرت صاحب نے آہستہ آہستہ دوسرا مضمون بھی دستی یا بذریعہ ڈاک بھجوا دیا.(روز نامه الفضل ربوہ یکم مارچ 1994ء) 248
برگ سبز بے لوث خدمت و ایثار بے لوث خدمت ایثار و ہمدردی کے جذبات سے ہی انسان حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے اور اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے.ویسے تو جانوروں بلکہ حشرات الارض میں بھی باہم محبت کی عجیب مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں.خاکسار کو اس سلسلہ میں ایک حیرت انگیز تجربہ ہوا.کراچی میں بالعموم گڑوں سے بڑے بڑے چوہے برآمد ہو کر اپنی خوراک کی تلاش میں گھومتے نظر آتے ہیں.بندر روڈ پر ہماری رہائش گاہ میں چوہوں کی مداخلت زیادہ ہوگئی تو ایک کڑ کی حاصل کر کے ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی.ایک رات کو ابھی میں لیٹا ہی تھا کہ اچانک ایک آواز پیدا ہوئی جس سے پتہ چلا کہ کوئی چوہا کیفر کردار کو پہنچ گیا ہے.نیند کے غلبہ اور ستی کی وجہ سے اس وقت اُٹھ کر اسے باہر پھینکنے کی بجائے یہ کام اگلے روز صبح تک یعنی چند گھنٹوں کے لئے ملتوی کر دیا گیا.رات بھر اندر کچھ آہٹ سی ہوتی رہی اور سکون کی نیند نہ آسکی.فجر سے پہلے اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ یہ کیسا چوہا ہے جو کڑ کی کی زد میں آکر بھی رات بھر حرکت کرتا رہا ہے مگر کچھ پتہ نہ چلا.کٹڑ کی اٹھا کر باہر لے جانے لگا تو یوں لگا جیسے کہ کوئی چیز نیچے گری ہے.پوری طرح روشنی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ پتہ نہ چل سکا کہ یہ 249
برگ سبز کیا ہوا ہے.باہر جا کر میں اس چوہے کو قید سے نجات دلانے کے لئے ایک چھڑی لیکر آیا تو دیکھا کہ مرے ہوئے چوہے یعنی اپنے ساتھی کو قید سے چھڑانے کے لئے ایک دوسرا چوہا وہاں موجود ہے.چھڑی سے پہلے اسے مار کر بعد میں دوسرے چوہے کو کٹڑ کی سے نکالا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا چوہا رات بھر اپنے ساتھی کی مدد کرنے کی اندھا دھند کوشش کرتا رہا اور اس مقصد کیلئے اس نے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی.خدا تعالیٰ نے اپنی صفت رحم کے سو حصوں میں سے صرف ایک حصہ کو ساری دنیا کو دیا ہے اور اس ایک حصہ کی وجہ سے ہی باہم محبت کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں یہاں تک کہ ایک بکری جس کا پاؤں بچے کے پاؤں پر آجائے وہ جلدی سے از راہ محبت اپنا پاؤں اٹھالیتی ہے کہ اس کے بچے کو تکلیف نہ ہو.اس خوبی اور جذبہ کو ابھارنے اور اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی تحریک کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : وو..وقت کی ضرورت کو سمجھو اور جیسے مومن کو عقل مند اور ہوشیار ہونا چاہئے ویسے ہی تم عقل مند اور ہوشیار بنو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں حوادث آتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان حوادث کی تکالیف کو کم کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے رسول کریم صلی ا یہ نیم کے زمانے میں ایک دفعہ جب ایسی ہی تکلیف ہو گئی تو آپ نے فرمایا جس کے پاس کچھ کھانے کو ہے وہ لے آئے جس کے پاس دوسیر جو تھے وہ دوسیر جو لے آیا اور جس کے پاس مٹھی بھر جو تھے وہ مٹھی بھر جو لے آیا اور پھر سب غلہ رسول کریم صلی ہی تم نے صحابہ میں تقسیم کر دیا.اب فرض کرو اس کے بعد کوئی اور غلہ نہ آتا تو یہ کتنی شاندار بات 250
برگ سبز ہوتی کہ لوگ کہتے کہ مسلمان زندہ رہے تو اکٹھے اور مرے ہیں تو اکٹھے.جو آدمی اس طرح قربانی کرتا ہوا جان دیتا ہے.اس کی نسلیں اس پر فخر کرتی ہیں اور وہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہو جاتا ہے.یوں مرجاؤ تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں لیکن اگر قحط کا زمانہ ہو اور تم سب مل کر یہ فیصلہ کر لو کہ ہم اکٹھے کھائیں گے اور اکٹھے مریں گے اور پھر اس فیصلہ کے مطابق عمل کرو تو قیامت تک لوگ تمہارے عمل کو یاد رکھیں گے اور وہ اس واقعہ کا ذکر کر کے فخر محسوس کریں گے کہ انہوں نے کہا کہ ہم اکٹھے کھائیں گے اور اکھٹے مریں گے چنانچہ انہوں نے اکٹھے ہی کھایا اور اکٹھے ہی ذخیرہ ختم ہونے پر مر گئے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے اعمال ان کے مطابق بناؤ اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جب کوئی قوم خدا تعالیٰ کی خاطر مرنے کیلئے تیار ہو جائے تو وہ نہیں مرا کرتی.جب میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم مصیبت کے دنوں میں اکٹھے کھاؤ اور ا کٹھے مروتو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا بھی تمہیں مرنے دے گااسےاگر ساری دنیا کو مارنا پڑے گا تو وہ مار دے گا مگر تمہیں نہیں مارے گا کیونکہ تم نے اس کے لئے مرنا قبول کر لیا اور جو شخص اس کیلئے مرنا قبول کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایسا تو کل کرے کہ وہ اپنی موت اور اپنی بیوی اور بچوں کی موت برداشت کرے مگر اس بات کو پسند نہ کرے کہ دوسرے لوگ ہلاک ہوں وہ کبھی بر باد نہیں ہوسکتا.فرض کرو اس کے پاس پانچ سیر غلہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس سے میں اور میرے بیوی بچے چند دن زندہ رہ سکیں گے مگر وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ سے پانچ سیر غلہ لے لو اور دوسرے لوگوں کو دے دو تو یہ 251
برگ سبز لازمی بات ہے کہ خدا ایسے آدمی کو مرنے نہیں دے گا اور اگر بالفرض بعض کمزور لوگ مر بھی جائیں تو ان کی موت ان کی ہمیشہ کی زندگی ہوگی اور وہ دنیا سے جاتے وقت اکیلے نہیں جائیں گے بلکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے عرش سے اُتر کر ان کو ملنے کیلئے آئیں گے اور جنت اس دن خوشیاں منائے گی کہ ایسے پاکیزہ آدمی میری طرف آرہے ہیں.پس اپنے اندر ان تکلیف کے دنوں میں قربانی کی وہ سچی روح پیدا کرو جو مومنوں میں ہونی چاہئے اور جس کے پیدا کرنے کے بعد خدا ہمیشہ کیلئے انسان سے خوش ہو جاتا ہے.“ 252 ( الفضل 29 مارچ 1942 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 30 نومبر 1996ء)
برگ سبز حضرت المصلح الموعود کا آہنی عزم وحوصلہ و کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے حصول کی جدو جہد ایک طویل داستان ہے.وہ لوگ جنہوں نے اس جہاد میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ شامل ہو کر حصہ لیا، وہ بتاتے ہیں کہ آپ نے اس کام کیلئے دن رات ایک کر دیا تھا اور جماعت کے ہر طبقہ کے لوگوں میں سے رضا کار آپ کی تفصیلی ہدایات کے مطابق ہندوستان اور کشمیر میں ہی نہیں بلکہ انگلستان اور دوسرے ممالک میں بھی سرگرم عمل ہو گئے تھے.اس سلسلہ میں سیالکوٹ کا ایک جلسہ حضرت صاحب کے آہنی عزم و ارادہ اور یقین و استقامت کا ایک نشان بن گیا.آپ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کیلئے سیالکوٹ تشریف لے گئے.اجلاس کے بعد کمیٹی کے بعض ممبروں نے آپ کی خدمت میں سیالکوٹ کے عوام کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان سے جلسہ عام میں خطاب فرما ئیں، جسے حضرت صاحب نے منظور فرمالیا.14 ستمبر 1931ء کو جلسہ ہونا قرار پایا.احمدیت کے حساد اور سچائی کے از لی مخالفوں کو حضرت صاحب کی یہ مقبولیت اور ہر دل عزیزی ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے مخالفانہ پراپیگنڈہ اور اشتعال انگیزی شروع کر دی.جسے دیکھتے ہوئے جلسہ کے منتظمین 253
برگ سبز نے آپ کی خدمت میں تمام حالات پیش کر کے اور متوقع خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے جلسہ میں شامل ہونے سے روکنا چاہا.مگر حضرت صاحب اپنے پروگرام پر فاذا عزمت فتوكل على الله (جب تو عزم کرلے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کر) کا مظاہرہ کرتے ہوئے پتھروں کی بارش میں سے ہوتے ہوئے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے.باوجود اس کے کہ احمدی فدائی حضرت صاحب کے ارد گرد پروانہ وار شار ہونے کیلئے ہر وقت موجود رہے.تین پتھر حضرت صاحب کو بھی لگے، جبکہ دوسرے متعدد افراد بھی زخمی ہوئے.اس فساد انگیزی اور ہنگامہ آرائی کے دوران حضرت صاحب نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں فرمایا: وو جوش کی باتیں عارضی ہوتی ہیں.دنیا میں جو شخص کام کرنے کیلئے کھڑا ہو ، آج جو اسے پتھر مارتے ہیں کل کو ضرور وہی اس پر پھول برسائیں گے.جون آف آرک ایک فرانسیسی عورت تھی جس نے اپنے ملک کو آزاد کرایا تھا، اس کو اپنے زمانہ میں اس قدر تکلیف دی گئی کہ خود اس کے ابنائے وطن نے اسے پکڑ کر انگریزوں کے حوالے کر دیا.جو لوگ دوسروں کی خاطر پتھر کھاتے ہیں ان پر ضرور پھول برستے ہیں.یہ جو پتھر آج پھینکے گئے ہیں یہ خدا تعالیٰ نے اس لئے پھینکوائے ہیں کہ کل کو پھول بن کر ہمیں لگیں.یہ پتھر بھی جن لوگوں نے مارے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ کشمیر کی طرف سے مارے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ریاست کے علاقے پر رعایا کوقبضہ دے دیا.واللہ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں وہ مظلوم جو سینکڑوں سال سے ظلم وستم کا شکار ہورہے ہیں ان کی آہیں اور سسکیاں آسمان پر جا پہنچیں اور خدا تعالیٰ نے ظالموں سے ظلم کی آخری اینٹیں پھینکوا ئیں تا اس ملک پر اپنا فضل نازل کرے.لیکن ہمارا قلب 254
برگ سبز وسیع ہے.ہم ان ہاتھوں کو جنہوں نے پتھر برسائے ، ان زبانوں پر جنہوں نے اس کیلئے تحریک کی اور اس کمی کو جو اس کا باعث ہوئی معاف کرتے ہیں کیونکہ جس کام کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے، اس کے مقابلہ میں یہ تکلیف جو ہمیں پہنچائی گئی ہے بالکل معمولی ہے.“ 255 ( الفضل 24 ستمبر 1931ء)
برگ سبز تصویر کے دورخ موجودہ زمانے کی ایجادات میں کمپیوٹر کو بہت نمایاں مقام حاصل ہے اس ایجاد نے باہم رابطے کی دنیا میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا ہے کہ چند برس پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات دنیا بھر میں ایک ہی وقت میں سنے اور دیکھے جاسکتے ہیں.احمدیت کا پیغام یعنی حقیقی اسلام کی سچائی وعظمت کا اظہار دن رات برابر ہر جگہ ہو رہا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ مغربی افریقہ کے دورے پر تشریف لے گئے مگر اس ایجاد کی برکت سے ہم وہاں سے بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات اور دوسری تقریبات میں برابر شامل ہوتے رہے.قادیان کے جلسہ سالانہ میں شریک ہونے والے خوش قسمت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اختتامی خطاب سے بھی محظوظ ہوئے.E-mail اور Fax بھی اس دور کے عجائبات میں شامل ہیں.دنیا کے دوسرے حصہ میں رہنے والے سے رابطہ اس طرح ہو جاتا ہے جیسے ایک جگہ بیٹھے ہوئے دو افراد آپس میں باتیں کر رہے ہوں.کمپیوٹر نے لائبریری کے مفہوم و تصور اور افادیت میں بھی انقلاب پیدا کر دیا ہے.نایاب اور قیمتی کتب ہر وقت مل سکتی ہیں.کسی موضوع پر تحقیق اور اس کے نتائج سے بھی 256
برگ سبز بہر وقت استفادہ کیا جاسکتا ہے.وہ کام جو افراد نہیں ادارے کیا کرتے تھے وہ کام جس پر بے شمار اخراجات اٹھتے تھے اور جس پر سالہا سال لگ جاتے تھے وہ محاورۃ نہیں واقعی چٹکی بجاتے میں ہو جاتے ہیں.دفتروں کے ریکارڈ.دفتروں کے حساب رکھنے میں غیر معمولی سہولت ہو گئی.اسی طرح اور بے شمار فوائد اس ایجاد سے حاصل ہورہے ہیں اور اس کے فوائد میں دن بدن اور اضافے ہوتے چلے جارہے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ اپنے متعد د خطبات و تقاریر میں اس ایجاد کے تاریک پہلوؤں اور مخرب اخلاق پہلوؤں سے بچنے کی تلقین فرماتے ہیں.اس انتہائی مفید ایجاد کے بعض بہت ہی بھیانک اور خوفناک استعمال بھی ہو سکتے ہیں جن سے پوری طرح بچنے اور بچانے کی ضرورت ہے.روز نامہ جنگ کے ایک کالم نگار ایک نہایت خوفناک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وو ” راولپنڈی شہر کی ایک مارکیٹ میں دو برس پہلے کسی صاحب نے نیٹ کیفے بنایا.انہوں نے چھوٹے چھوٹے کیبن بنائے ،ان میں کمپیوٹر رکھے اور کیبن کو دروازے لگا دئے.یہ دروزے اندر سے لاک ہو جاتے تھے، کیبنز کے او پر انہوں نے لائٹیں لگا ئیں اور ان لائٹس میں خفیہ کیمرے چھپا دیئے.کیفے کھلا تو چند ہی روز میں وہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آنا شروع ہو گئے.یہ نوجوان جوڑوں کی شکل میں آتے.کیبن میں جاتے اسے اندر سے بند کرتے کمپیوٹر پر گندی سائٹس دیکھتے.کیفے کی انتظامیہ نو جوانوں کی یہ حرکات ریکارڈ کر لیتی بعد ازاں ان جوڑوں کو یہ فلم دکھائی جاتی اور انہیں بلیک میل کر کے ان سے گھناؤنے کام لئے جاتے.یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ایسے 25 نوجوان 257
برگ سبز جوڑوں کی سی ڈی پاکستان سے دبئی گئی وہاں وہ دس لاکھ روپے میں بکی.اس کی کا پیاں ہوئیں یہ کا پیاں برطانیہ، امریکہ، فرانس اور جرمنی گئیں اور وہاں سے واپس پاکستان آئیں.شروع شروع میں یہ سی ڈی کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں چار پانچ ہزار میں فروخت ہوتی رہی.اسی ” آمد و رفت کے دوران یہ سی ڈی کسی گینگ کے ہتھے چڑھ گئی.اس گینگ نے ان 25 خاندانوں کا سراغ لگایا اور سی ڈی کی کاپیاں ان جوڑوں کے گھروں تک پہنچا دیں.بس اس حرکت کی دیر تھی تیل پر چنگاری آگری اور اس سکینڈل کی شکار تین لڑکیوں نے خود کشی کر لی.ایک کو والد نے قتل کر دیا، دوشادی شدہ خواتین کو طلاق ہوگئی جبکہ لڑکے گھروں سے بھاگ گئے.اس سی ڈی میں شامل چند نو جوانوں کا تعلق راولپنڈی کے انتہائی معزز گھرانوں سے تھا.یہ معزز گھرانے اس گینگ کا چارہ بن گئے اور اب مسلسل بلیک میل ہورہے ہیں.اسکینڈل میں پھنسے خاندانوں میں سے ایک خاندان کے بزرگ میرے پاس آئے.ان کی اکلوتی بیٹی نے خود کشی کر لی تھی.والد کی حالت انتہائی ابتر تھی وہ میز پر پڑا کپ تک نہیں اٹھا سکتے تھے.انہوں نے ساری کہانی سنائی اور آخر میں روتے ہوئے کہا ان ظالموں نے بے شمار خاندان تباہ کر دیئے.حکومت سے کہیں لوگوں پر کچھ رحم کرے اور ٹیکنالوجی کی آڑ میں ہونے والی یہ زیادتی بند کرائے.وہ بزرگ چلے گئے.مجھے نہیں معلوم وہ زندہ بھی ہیں یا اولاد کی موت اور بدنامی کے داغ انہیں قبر تک لے گئے ہیں لیکن ان کا مسئلہ انتہائی جینوئین ہے.اس وقت پورے ملک میں ہزاروں ” نیٹ کیفے ہیں ان میں کیبن بنے 258
برگ سبز ہیں ، نابالغ بچے اور بچیاں اسکول کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم ان کیبنوں میں جاتے ہیں، گندی سائنٹس کھولتے ہیں اور اس کے بعد برائی اور بداخلاقی کی اس راہ پر چل نکلتے ہیں جس پر بے شمار بلیک میلر بیٹھے ہیں.“ کمپیوٹر کے دوسرے رُخ کا یہ ایک نہایت بھیانک پہلو ہے اس میں اور بھی بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں.اخباروں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بے شمار لڑ کے اور لڑکیاں غلط روابط کی وجہ سے دھوکا کھا کر اپنی زندگیوں کو تباہ کر چکے ہیں اور جس طرح اس ایجاد کے فوائد میں اضافہ ہورہا ہے اسی طرح اس کے نقصانات اور تباہیوں کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جارہا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے اپنی اور اپنی اولاد کی زندگیوں کو صراط مستقیم پر چلانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(الفضل انٹر نیشنل 14 مئی 2004ء) 259
برگ سبز ایک اور دردناک شہادت قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو مختلف ابتلاؤں میں ڈالتا ہے.وہ ان کو کسی قدر بھوک اور خوف اور اموال و انفس اور ثمرات کے نقصان سے آزماتا ہے.ان امتحانوں کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ تا مومنوں کے ایمان کو خالص کرے اور ان کے صدق و وفا اور تسلیم ورضا کو دنیا پر ثابت کرے.ان ابتلاؤں میں مومنوں کا غیر معمولی صبر اور فوق الکرامت استقامت اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا موجب بنتی ہے.ان پر آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جو دنیا و آخرت میں ان کے ولی اور مددگار ہوتے ہیں.حضرت اقدس محمد رسول لله ال ای ایم اور آپ کے ساتھیوں کی جو علامات قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں.ان میں انجیل کے حوالہ سے یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ ان کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو اپنی روئیدگی کوزمین سے نکالتی ہے پھر وہ بڑھتے اور نشونما پاتے ہوئے مضبوط ہو کر اپنے تنے پر قائم ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں کفار کو سخت غصہ آتا ہے.وہ ان کی ترقیات سے جلتے ہیں اور انہیں نابود کرنے کی تدبیریں کرتے ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو جسے اس نے ایک عظیم الشان غرض سے پیدا کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ چاہتا ہے کہ ایک پاک تبدیلی دنیا میں 260
برگ سبز ظاہر کرے اسے دشمنوں کے ہاتھوں سے نابود ہونے دے.چنانچہ مومنین کی جماعت ہر قسم کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے شاہراہ ترقی پر آگے ہی قدم بڑھاتی چلی جاتی ہے.جماعت احمد یہ مسلمہ اس وقت خدا کے فضل کے ساتھ دین اسلام کی ترقی و استحکام کیلئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے مال و جان کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کے جس عالمی جہاد میں مصروف ہے اس میں اسے عظیم الشان کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں جنہیں دیکھ کر دشمن حسد سے جل رہا ہے اور چونکہ وہ دلیل سے عاری ہے اس لئے وہ ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے احمدیت کی مخالفت میں اختیار کر رہا ہے اور مختلف ممالک سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ احمدیت کی ترقی اور اس کے نفوذ کو دیکھ کر شر پسند ملاں جگہ جگہ فتنے اور دشمنی اور عداوت کی آگ بھڑکا رہے ہیں.احمدیوں پر حملے کئے جارہے ہیں اور انہیں مارا جاتا ہے.چنانچہ پاکستان سے یہ نہایت ہی دلدوز خبر ملی ہے کہ پشاور کے قریب شب قدر کے مقام پر شَر منْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ کے مصداق فتنہ پرور ملاؤں اور ان کے چیلے چانٹوں نے پتھروں سے حملہ کر کے جماعت احمد یہ پشاور کے ایک مخلص احمدی مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب کو شدید زخمی کر دیا.ان کا ایک باز و فریکچر ہے اور سینے اور چہرے پر شدید ضر میں آئی ہیں.جب کہ ان کے داماد مکرم ریاض خان صاحب موقع پر ہی شہید ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس واقعہ کی تفصیلات جواب تک موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل شب قدر کے مقام پر ایک نو مبائع احمدی کی مخالفت شروع ہوئی اور پولیس نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا.جب جماعت نے رابطہ کیا تو انتظامیہ نے بتایا کہ ان کی حفاظت کی خاطر انہیں سرکاری تحویل میں رکھا گیا ہے.مگر بعد میں نقص امن کی دفعہ 151/107 کے تحت ان کا چالان کر دیا گیا.ان کی ضمانت کے سلسلہ میں ضلع پشاور سے مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب، ان 261
برگ سبز کے داماد مکرم ریاض خان صاحب اور بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ شب قدر گئے.جب تینوں وہاں عدالت میں پہنچے تو مخالفین کا بڑا ہجوم جو پہلے سے وہاں جمع تھا انہوں نے ان تینوں دوستوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں مکرم ریاض خان صاحب موقع پر ہی شہید ہو گئے.اس سارے واقعہ میں ملاؤں اور ان کے ہم نواؤں کی درندگی بہت نمایاں ہے.اس کے ساتھ ساتھ پولیس اور سرکاری انتظامیہ کی ملی بھگت اور اس ظلم میں شراکت بھی واضح ہے.ایک معصوم احمدی کو سراسر نا جائز طور پر پہلے شر پسندوں سے حفاظت کے نام پر اپنی تحویل میں رکھا اور پھر الٹا اسی کے خلاف نقض امن کا مقدمہ دائر کر دیا اور پھر بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ عدالت کے احاطہ میں وحشی صفت ملاؤں نے حکومت کے اعلیٰ افسروں کے سامنے نہایت بہیمانہ طور پر پتھروں سے حملہ کر کے ضمانت کیلئے آنے والے تین افراد میں سے ایک کو شدید زخمی اور دوسرے کو موقع پر ہی شہید کر دیا اور انتظامیہ کچھ نہ کرسکی.جہاں تک شہید مرحوم کا تعلق ہے تو وہ تو راہ مولیٰ میں اپنی جان فدا کر کے عند اللہ جاودانی زندگی پاگئے اور ہمیں یقین ہے کہ ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا.خوں شہیدانِ امت کا اے کم نظر ، رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے، پھول پھل لائے گی پھول پھل جائے گی جہاں تک مخالفین احمدیت کا تعلق ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اس قسم کی ظالمانہ حرکتوں سے وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی کو روک سکیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے اس سے پہلے کب ان کی ایسی حرکتوں سے مرعوب ہو کر جماعت کی ترقی رکی ہے، جواب رکے گی.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضر ر نہیں پہنچ سکتا.262
برگ سبز کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا.خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا وے.اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رک نہیں سکتیں....اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو! اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھاؤ.ہر ایک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا.“ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 342) الفضل انٹرنیشنل 14 اپریل 1995ء) 263
برگ سبز اندر کا دشمن بری امام اسلام آباد پاکستان میں ایک مذہبی تقریب میں خود کش بم حملہ کے وحشیانہ اقدام سے کئی بے گناہ ہلاک وزخمی ہوئے.ایسے حملے جن میں غیر متعلق انسانی جانیں تلف ہو جاتی ہوں وہ ہر جگہ، ہر وقت اور ہر حال میں انتہائی قابل نفرت و قابل مذمت ہیں.مگر جب ایسے حملے مذہبی مقامات پر عبادت کیلئے جمع ہونے والوں پر کئے جائیں تو یہ اپنے نقصان اور اثرات میں اور زیادہ نفرت و تشویش کا باعث ہو جاتے ہیں.جیسا کہ سب جانتے ہیں پاکستان کے قیام میں مذہبی عنصر بہت نمایاں تھا اور یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس لحاظ سے ایسے ملک میں ایسی بہیمانہ کارروائی کی مذمت کیلئے تو الفاظ بھی نہیں ملتے.پاکستان کے صدر اور وزراء صاحبان نے اس حملہ کی سخت مذمت کی ہے اور اس سانحہ میں ہلاک و زخمی ہونے والوں سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے علاوہ اس اعلان کا بھی ایک دفعہ پھر اعادہ کیا ہے کہ ایسے لوگوں سے سختی سے نپٹا جائے گا.روز نامہ اوصاف کے ایک کالم نگار اس خونی حادثہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: پاکستان میں چودہ کروڑ لوگ بستے ہیں اور عوامی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی 264
برگ سبز کی مقامی فضا موجود ہے.محلوں کے محلے متضاد مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد سے آباد ہیں اور امن آشتی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں.کروڑوں پاکستانیوں کا نظریہ اس سنہرے اصول پر استوار ہے کہ اپنا مسلک نہ چھوڑو اور دوسرے کا مسلک نہ چھیڑو.مگر اس کے باوجود انہیں تقسیم کرنے کیلئے ہمارے اندر کا دشمن اپنی مذموم کوشش میں لگا رہتا ہے.وہ ایسا سکرپٹ لکھتا ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے.وہ پہلے پر دہلا مارتا ہے.کبھی ادھر کبھی اُدھر.تا کہ شیعہ سنی کے درمیان حد فاصل کھینچی جا سکے.دونوں کو ایک دوسرے کا بازو بننے سے روکنا اور بازو کاٹنے والا ثابت کیا جائے.ہمیں تقسیم کرنے کی یہ پرانی مہم درمیان میں دم تو ڑ گئی تھی لیکن اب جبکہ ہمیں متحد رہنے کی اشد ضرورت ہے ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کی جارہی ہے.باہر کا دشمن اندر کے دشمن کا لبادہ اوڑھ کر اس فتنے کو دوبارہ ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے جسے قوم اجتماعی طور پر مستر د کر چکی ہے.باہر کے دشمن تو ہمیں بالکل سامنے نظر آرہے ہیں مگر اندر کے دشمن ہمارے ارد گرد ہونے کے باوجود ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ، ضرورت انہیں تلاش کرنے اور ان پر نظر رکھنے کی ہے، اندر کا دشمن ہمیں ہوش و خرد سے بیگانہ کرنا چاہتا ہے تا کہ اپنے مکر وہ مقاصد حاصل کر سکے.ہمیں ہوش میں رہ کر ان جرائم کو ناکام بنانا ہے.“ (روز نامہ اوصاف.اسلام آباد کا سانحہ 28 مئی 2005ء) فاضل تبصرہ نگار کا یہ لکھنا کہ عوامی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مقامی فضا موجود ہے“ کچھ ایسا غلط نہیں ہے.پاکستان کے قیام کی مخالف طاقتوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اپنے 265
برگ سبز وجود کو قائم رکھنے کیلئے اور پاکستان کے قیام کی مخالفت اور ہندوؤں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اسلامی مقاصد و فوائد کے خلاف کارروائیوں کو چھپانے کیلئے جماعت احمدیہ کی وسیع پیمانے پر مخالفت شروع کی تو عوامی سطح پر ہم آہنگی کی مثالی فضا موجود تھی.پنجاب کے دیہات میں سینکڑوں ایسی مساجد تھیں جن میں احمدی اور دوسرے مسلمان باری باری نماز ادا کرتے تھے اور یہ امران کے اختلاف و افتراق یاد ثمنی و عناد کی بجائے باہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں اضافہ کا باعث بنتا تھا.حکومت پاکستان نے جب احمدی مخالف مہم کے دباؤ میں آکر بدنام زمانہ آرڈینینس پاس کیا تو قانون کی پابندی کرتے ہوئے جب ہماری مساجد سے اذان کی آوازیں آنی بند ہو گئیں تو بیبیوں جگہ معز ز غیر از جماعت لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ بے شک اذانیں دیتے رہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے.مقامی ہم آہنگی کی یہ فضا آج بھی جبکہ جھوٹے مخالفانہ پراپیگینڈا کی وجہ سے فضا بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے، قائم ہے.پنجاب میں کوئی بھی ایسا خاندان نہیں ہو گا جنکے بعض افراد احمدیت قبول نہ کر چکے ہوں.ایسے خاندانوں میں باہم تعلقات، ایک دوسرے کی غمی و خوشی میں شرکت برابر جاری رہتی تھی.ڈاکٹر علامہ اقبال جنہیں شاعر مشرق ، حکیم الامت اور تصور پاکستان کا خالق وغیرہ کے بڑے بڑے القاب و آداب سے یاد کیا جاتا ہے جب اپنی دوسری شادی کے سلسلہ میں کسی امر پر مترڈ دہوئے اور انہیں کسی عالم دین سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آئی تو باوجود اس کے کہ وہ پنجاب کے علمی مرکز لاہور میں رہتے تھے یہاں بڑے بڑے علماء پائے جاتے تھے انہوں نے علامہ نور الدین حضرت خلیفہ امسیح الاول کی خدمت میں قادیان آدمی بھجوایا اور صحیح اسلامی فتویٰ حاصل کیا.علامہ زندگی بھر اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب کے نیاز مند رہے جو احمدی تھے.اپنے بیٹے کو قادیان تعلیم کیلئے بھجوایا اور جب اپنے چھوٹے بچوں کی 266
برگ سبز کفالت کیلئے ایک ٹرسٹ قائم کیا تو اس میں اپنے تمام رشتہ داروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے اس بھتیجے کو شامل کیا جو احمدی تھے.مولانا عبدالمجید سالک ،مولانا غلام رسول مہر ، میاں محمد شفیع (مش) مشہور علمی و ادبی شخصیات باوجود جماعت میں شامل نہ ہونے کے احمدیوں کے ساتھ بہت قریبی دوستانہ تعلق رکھتے تھے.یہی وجہ ہے کہ ایسے معززین میں سے کسی نے بھی احمدیوں کو خارج از اسلام قرار دینے کی مہم میں کبھی حصہ نہ لیا.قارئین کیلئے یہ امر باعث حیرت ہوگا کہ ہمارے ارباب حل وعقد اور امن قائم رکھنے والی ایجنسیاں اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مقامی ہم آہنگی کو ختم کرنے اور لاقانونیت و دہشت گردی کی فضا پیدا کرنے والے کون لوگ ہیں.اسی علم کی وجہ سے حکومت جب امن وامان قائم رکھنے کا ارادہ کرتی ہے تو وہ بعض مشہور علماء کی نقل وحرکت پر پابندی لگا دیتی ہے.محرم کی آمد سے قبل بالعموم ایسی فہرستیں اخبارات میں شائع ہو جاتی ہیں اور اگر اس امر کی نگرانی کی جائے تو قیام امن کا مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے.اب بھی اگر حکومت واقعی اس مقصد میں مخلص ہے اور مذمت کے بیانات محض دفع الوقتی اور لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے نہیں ہیں تو یہی طریق کارآمد اور مفید ہو سکتا ہے.(الفضل انٹرنیشنل 10 جون 2005ء) 00 267
برگ سبز حفظانِ صحت (Tahir Heart Institute) حضرت امیر المومنین خلیفة المسح لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے انتہائی مفید اور کامیاب تربیتی وتبلیغی دورہ کینیڈا پر روانہ ہونے سے قبل مسجد بیت الفتوح لندن میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ”طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:...میں احمدی ڈاکٹروں سے خصوصاً کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر بڑا فضل فرمایا ہے...اگر آپ لوگ خدا کی رضا حاصل کرنے اور غریب انسانیت کی خدمت کے لئے اس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کو مکمل کرنے میں حصہ لیں تو یقینا آپ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن کو خدا بے انتہا نوازتا ہے اور ان کے اس فعل کا اجر اس کے وعدوں کے مطابق خدا کے پاس بے انتہا ہے.کوشش کریں کہ جو وعدے کریں انہیں جلدی پورا بھی کریں.اس ادارے کو مکمل کرنے کی میری بھی شدید خواہش ہے کیونکہ میرے وقت میں شروع ہوا اور انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ سے امید ہے وہ خواہش پوری کرے گا 268
برگ سبز جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ موقع دے رہا ہے کہ اس نیک کام میں ، اس کارخیر میں حصہ لیں...اور اس علاقے کے بیمار اور دکھی لوگوں کی دعائیں لیں.آج کل دل کی بیماریاں بھی زیادہ ہیں.ہر ایک کو علم ہے کہ ہر جگہ بے انتہا ہو گئی ہیں اور پھر علاج بھی اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی تو Afford کر ہی نہیں سکتا.پس غریبوں کی دعائیں لینے کا ایک بہترین موقع ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کو دے رہا ہے.اس سے فائدہ اٹھا ئیں.“ 66 الفضل انٹرنیشنل 17 جون 2005ء ) جماعت احمدیہ کی تاریخ میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے جو عظیم جلوے مسلسل دیکھنے میں آرہے ہیں ان کی وجہ سے اس امر میں شک کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک بھی ہر لحاظ سے کامیاب ہوگی اور صرف افراد جماعت ہی نہیں بلکہ اس علاقہ کے دوسرے لوگ بھی خدمت خلق کی اس سکیم سے فیض پائیں گے.علاج کی اس غیر معمولی سہولت کے حاصل ہونے پر یہ امر بھی قابل فکر ہے کہ اس کی بیماری اس قدر زیادہ کیوں ہوتی جارہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظانِ صحت اور پر ہیز کے متعلق ایسے عمدہ اور سنہری اصول بیان فرمائے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے انسان بہت حد تک بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.کم کھانے کے متعلق حضور کے ارشادات ذہن میں رہیں اور ان پر کما حقہ عمل کیا جائے تو آج کل کی ساری بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے.کیونکہ بسیار خوری کے نتیجہ میں ہی موٹا پا اور اس سے پیدا ہونے والی بے شمار خرابیاں اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں.سادہ زندگی گزار نے والا مسجد میں باقاعدگی اور کثرت سے جانے والا اور عبادات کا شوق وشغف رکھنے 269
برگ سبز والا مہلک بیماریوں کے اور بہت سے اسباب سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود عالیشاه با قاعدہ ورزش کرتے اور لمبی سیر فرماتے تھے.آپ ایک خاندانی طبیب تھے اور علاقہ بھر کے غریب لوگ اپنی مشکلات لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضور کے طبی مشوروں ،مفت دوائیوں اور دعاؤں سے استفادہ کرتے.حضرت خلیفہ المسیح الاول بیٹی وہ ایک بہت بلند پایہ طبیب تھے.حضرت خلیفہ اسی الثانی بنا نشتہ نے ذیلی تنظیموں کے قیام کے وقت جو لائحہ عمل ان کے لئے تجویز فرمایا اس میں شعبہ صحتِ جسمانی کو نمایاں مقام دیا گیا.حضور نے بڑی تفصیل سے مختلف کھیلوں کے بارہ میں اپنے تاثرات بیان فرمائے اور بعض مشہور کھیلوں کے نقصانات بتا کر بہتر کھیلوں کی طرف توجہ دلائی.حضرت خلیفہ مسیح الثالث لمبا عرصہ مجلس خدام الاحمدیہ کے صدرر ہے.آپ کے زمانے میں مجالس کے اجتماع اور کھیلوں کے مقابلوں کو خوب فروغ حاصل ہوا.آپ خود بھی بہت اچھے کھلاڑی تھے.کلائی پکڑنے میں آپ کو مہارت حاصل تھی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کبڈی اور فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے.آپ نے بھی کھیلوں کی ترویج و فروغ و سر پرستی فرمائی.ورزش کے زینے ، آپ کی ایک بہت ہی مفید کتاب ہے جس میں حفظان صحت اور صحتمند زندگی گزارنے کے بہت مفید طریق بیان کئے گئے تھے.”طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کی کامیابی کے لئے ہماری ذیلی تنظیمیں بھی بہت مفید کردارادا کر سکتی ہیں.اپنے اپنے علاقے کی بیماریوں اور ان کے اسباب کا جائزہ لے کر حفظان صحت اور پر ہیز کے طریقوں کو عام کر کے اور ان پر عمل پیرا ہونے کا اہتمام کر کے ہم افراد جماعت 270
برگ سبز کی عام صحت کے معیار کو اتنا بہتر بنا لیں کہ دوسرے لوگ جس طرح ہماری تنظیم ، ہماری مالی قربانی، ہمارے تعلیمی معیار پر رشک کرتے ہیں اسی طرح وہ ہماری صحت جسمانی پر بھی رشک کرنے لگیں.اور اس طرح بیماری کی نحوست سے ہمارے کام میں جو کمی آتی ہے، ہمارے اخراجات میں جو زیادتی ہوتی ہے، ہمارے گھروں میں جو پریشانیاں بڑھتی ہیں ان پر ممکن حد تک قابو پا کر ہم زیادہ مفید، زیادہ بہتر، زیادہ مؤثر ، زیادہ فعال زندگی گزار سکتے ہیں.حضرت مصلح موعود ورزش اور کھیلوں کی افادیت کے متعلق فرماتے ہیں: میں خدام الاحمدیہ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کے کھیل کود کے زمانہ کو.زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ کھیلیں ایسی ہوں کہ جو نہ صرف جسمانی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی بچہ ان سے فائدہ اٹھا سکے.ان میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے.ایک تو جسم کو فائدہ پہنچے.دوسرے ذہن کو فائدہ پہنچے.تیسرے وہ آئندہ زندگی میں ان کے کام آسکیں.جس کھیل میں یہ تینوں باتیں ہوں گی وہ کھیل کھیل ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم بھی ہوگی اور وہ طالب علم کے لئے ایسی ہی ضروری ہوں گی جیسی کتا ہیں.جب میں کہتا ہوں کہ کھیلیں ایسی ہوں جو ذہنی تربیت کے لئے مفید ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بچوں کی دلچسپی بھی قائم رہے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایک فلسفہ بن جائے اور بچوں کو زبردستی کھلانی پڑیں.ایسی کھیل ذہنی نشو نما کا موجب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جسم اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.میں نے بارہا اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کام نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے.اور ورزش کے شعبہ کو مفید ترین بنایا جا 271
برگ سبز سکتا ہے بشرطیکہ اس میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے.ایک تو یہ کہ وہ آئندہ زندگی میں بھی مفید ثابت ہونے والی ہوں.نہ صرف بچپن میں بلکہ بڑے ہوکر بھی فائدہ دینے والی ہوں.بچپن میں کھیل کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو.جسم بھی مضبوط ہو اور ذہن بھی ترقی کرے.بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں ان کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے.لیکن اگر کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے.“ ( مشعل راه جلد اول صفحه 171 ) الفضل انٹرنیشنل 15 جولائی 2005ء) 272
برگ سبز انتہا پسندی معاشرہ میں انتہا پسندی پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ”جنگ“ کے ایک کالم نویس اپنے فکر انگیز شذرہ میں لکھتے ہیں: ” مجھے اس مقدمے سے پورا اتفاق ہے کہ انتہا پسندی سے اس معاشرے کو شدید خطرات درپیش ہیں لیکن مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ یہ کسی ایک گروہ کا خاصہ(characteristic) ہے.یہاں صرف اہل مذہب ہی انتہا پسند نہیں ہیں ،مذہب بیزار بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں.کہیں انتہا پسندی مذہب کے نام پر ہو رہی ہے اور کہیں روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر.گوجرانوالہ کا واقعہ ان دونوں کی داستان ہے.سچ یہ ہے کہ فریقین نے مذہب کی کوئی خدمت کی ہے نہ روشن خیالی کی.پہلے ایک نظر روشن خیالی پر : مجھے حیرت ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر مخلوط دوڑ کی حمایت کرنے والے روشن خیال، جب قومی اسمبلی میں جاتے ہیں تو کاروکاری جیسے قبیح فعل کے خلاف پیش کئے جانے والے بل کی مخالفت کرتے ہیں.حکمران جماعت ہی کی ایک رکن قومی اسمبلی اس 273
برگ سبز معاشرتی نظام کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں جو روایت کے نام پر عورتوں کے قتل کو روا رکھتا ہے تو حکمران جماعت اس کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہے.یہی حکمران جماعت پنجاب میں مخلوط دوڑ کی وکیل ہے.روشن خیالی کے ساتھ وابستگی کے یہ دو متضاد مظاہرے بتارہے ہیں کہ اس کا ماخذ داخل میں یا فکر میں نہیں ، کہیں خارج میں ہے.اگر اس روشن خیالی کی اساس داخلی ضروریات سے اٹھی ہوتی تو پھر ترجیحات کا تعین اور طرح سے ہوتا.اس میں کس کو کلام ہے کہ اس معاشرے میں مذہب اور روایت کے نام پر خواتین کے بنیادی حقوق کی نفی کی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری ہے.یہاں عورت کو غیرت کے نام پر جینے کے حق سے محروم کیا گیا ، وراثت سمیت اس کے معاشی حقوق کا انکار کیا گیا.اس کے سیاسی و مذہبی حقوق پامال کئے گئے.ہمارے معاشرتی نظام نے اس کے انفرادی وجود کا ہر پہلو سے انکار کیا.سوال یہ ہے کہ ہم نے اس کے لئے کیا کیا.کیا یہاں عورت کا محض یہی ایک مسئلہ باقی ہے کہ اسے مردوں کے ساتھ سڑکوں پر دوڑنے کے حق سے محروم کیا گیا ہے.یہاں عورت لباس سے محروم ہے اور لوگوں کو اس کی زلف پریشاں کی فکر ہے.“ اس غیر ضروری، غیراہم بلکہ بے جواز اقدام پر حکومت کے موقف اور اس پر اصرار کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں : ”میرے نزدیک یہ کوئی دین وشریعت کا مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومت پنجاب کو اس پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ مطالبات ہمیشہ معاشرے کے اندر سے پھوٹتے ہیں ، انہیں کبھی اوپر سے نافذ نہیں کیا جا 274
برگ سبز سکتا.کیا یہ مطالبہ معاشرے کے اندر سے اٹھا ہے کہ عورتوں کومردوں کے ساتھ سڑکوں پر دوڑنے کی اجازت دی جائے ؟ کیا خواتین کے حقوق کی علمبر دار کسی تنظیم نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے؟ یہ تنظیمیں حدود قوانین سے لے کر مختاراں مائی کے مقدمے تک بے شمار مسائل پر آواز اٹھارہی ہیں.ان روشن خیالوں نے ان کے حل کے لئے آج تک کیا کیا ہے.آج خواتین کے حقوق سے متعلق جو مطالبات اس معاشرے کے اندر سے اٹھ رہے ہیں، یہ روشن خیال اس پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں لیکن جس بات کا تعلق نہ عورتوں کی ضرورت سے ہے نہ مطالبے سے ،اس کے لئے یہ سینہ سپر ہیں.اسی بنیاد پر میں یہ کہتا ہوں کہ اس روشن خیالی کا تعلق داخل سے نہیں خارج سے ہے.سچ یہ ہے کہ جو روشن خیالی معاشرے کے اندر سے پھوٹے گی اس کی ترتیب بالکل دوسری ہوگی.معاشرے کی تہذیبی ساخت سے متصادم کسی فعل پر اصرار روشن خیالی کے نام پر ایک انتہا پسندی ہے اور اس معاشرے کو اس سے شدید خطرات لاحق ہیں.“ اہلِ مذہب کی افسوسناک انتہا پسندی پر حقیقت افروز تبصرہ کرتے ہوئے فقہ حنفیہ کے حوالہ سے وہ لکھتے ہیں : ” دوسری نظر اہل مذہب کی انتہا پسندی پر.گوجرانوالہ میں مذہبی لوگوں نے جو کچھ کیا اور پھر جس طاقت سے دوسرے مقامات پر اس مخلوط دوڑ کی مزاحمت کا اعلان کیا، اس کا مذہب اور شریعت سے نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں بلکہ میں پورے اطمینان سے عرض کرتا ہوں کہ یہ رویہ دینی احکام سے متصادم ہے.یہ دین کا ایک غیر اختلافی مسئلہ ہے کہ کسی برائی کے خلاف عملی اقدام کا کوئی حق کسی 275
برگ سبز ایسے فرد یا گروہ کو حاصل نہیں جو اقتدار نہیں رکھتا.اگر کوئی گروہ طاقت کے ذریعے کسی برائی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ فعل فی نفسہ قابل تعزیر ہے.معاملے کی یہ نوعیت اس وقت ہے جب اقدام کسی واضح برائی کے خلاف ہو.اب اگر برائی کی تعریف ہی میں اختلاف ہے تو پھر طاقت کا استعمال سنگین تر جرم ہوگا.فقہ حنفی کی معروف کتاب ہدایہ کے حوالے سے مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس باب میں دین فطرت کا نقطہ نظر بہت خوبی سے بیان کر دیا ہے.انہوں نے لکھا ہے یہ ہدایہ کے متن کا مسئلہ ہے کہ “ الامر بالمعروف باليد الى الامراء باللسان الى غير هم " جس کا مطلب یہی ہے کہ جو اقتدار کھتے ہیں انہی سے اس حکم کا تعلق ہے کہ بزورلوگوں کو حق پر قائم کرنے اور باطل سے ہٹانے کی کوشش کریں لیکن ایک عام آدمی جو حکومت کے اقتدار سے محروم ہے اس پر صرف زبان سے معروف کا امر اور منکر کی نہی واجب ہے.یہاں تک کہ اس بنیاد پر امام ابوحنیفہ کا فتویٰ ہے کہ گانے بجانے کے آلات جو ممنوعات شریعہ میں سے ہیں ، اگر کسی مسلمان کے پاس ہوں اور دوسرا مسلمان ان کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے تو ڑ دے گا تو اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ان حدود میں تصرف کیا ہے جو اس کے فرائض کے دائرے سے خارج تھے.قریب قریب مختلف الفاظ میں مالکی اور شافعی علماء کی کتابوں میں بھی لکھا ہے.یعنی مارنے پیٹنے یا قتل وقتال پر آمادہ ہو جانا، یہ عام لوگوں کا کام نہیں.“ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی.صفحہ 259-260) 276
برگ سبز اس مسئلہ پر عقلی رنگ میں روشنی ڈالتے ہوئے اس کالم نگار نے لکھا: پھر عقلی اعتبار سے دیکھئے کہ اگر ہر گروہ کے اس حق کو تسلیم کر لیا جائے کہ وہ اپنے اجتہاد سے جس کام کو برائی سمجھے اسے طاقت کے ذریعے ختم کرنے پرنکل پڑے تو کیا اس کے بعد کوئی مہذب معاشرہ قائم رہ سکتا ہے؟ سچ یہ ہے کہ ایسا اقدام مذہب کی کوئی خدمت ہے اور نہ معاشرے کی.مذہب کے نام پر فساد کی ایک ایسی انتہا پسندی ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے.میرے نزدیک گوجرانوالہ کے واقعہ کو دو پہلوؤں سے الگ الگ دیکھنا چاہئے.ایک یہ کہ مسئلے کی اصل نوعیت کیا ہے اور مذہبی و تہذیبی اعتبار سے اس کی گنجائش کتنی ہے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت اور مذہبی جماعتوں نے جو رویہ اپنا یا ،کیا اس کے لئے کوئی جواز موجود ہے.میرا یہ تجزیہ دوسرے پہلو سے متعلق ہے.میرے خیال میں یہ فریقین کی طرف سے اس انتہا پسندی کا ایک مظاہرہ ہے جس سے اس معاشرے کو خطرہ لاحق ہے.روشن خیالوں اور اہل مذہب کے رویے کو ایک اور پہلو سے دیکھئے : ایک کی فکری معراج یہ ہے کہ روشن خیالی سڑکوں پر مردوزن کی مخلوط دوڑ کا نام ہے.دوسرے کی ذہنی پرواز اتنی ہے کہ پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی بحالی اور مخلوط دوڑ کے خاتمے سے معاشرہ اسلامی بن جائے گا.جس قوم کے قائدین کی ذہنی سطح کا عالم یہ ہو اس میں زندگی کے آثار کیسے پیدا ہوں گے؟“ جنگ لندن 12 را پریل 2005 ء ) 277
برگ سبز اس کالم میں گوجرانوالہ کے مذہبی حلقوں کا خاص طور پر ذکر آیا ہے یادر ہے کہ یہ وہی شہر ہے جہاں احمدیوں پر ظلم و بربریت کے وحشیانہ اقدامات کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے.پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا بھی اس کالم کے آخر میں ذکر کیا گیا ہے.قارئین الفضل کو یاد ہوگا کہ احمد یہ دشمنی کی وجہ سے سراسر بلا جواز پاکستانی پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا اضافہ کیا گیا تھا.دنیا بھر میں اس تنگ نظری اور تعصب پر پاکستان کا مذاق اڑایا جاتا رہا تو حکمرانوں نے اس شرمندگی اور خفت سے بچنے کیلئے اسکوختم کرنے کا اعلان کرا یا.مگر ضدّ و تعصب تو اپنی جگہ پر باقی ہے اسکی وجہ سے حکمرانوں کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا.یا یوں کہہ لیجئے کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف امریکہ کے سب سے بڑے حلیف نے مولویوں کی دہشت گردی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس طرح احمدی حج بیت اللہ سے محروم کر دئے جائیں گے تو تنگ نظر مذہبی سیاستدانوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ بات ان کے بس کی نہیں ہے.ہر احمدی کے دل میں اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت وعقیدت ہے وہ انہیں حج بیت اللہ سے دور نہیں رہنے دے گی.الفضل انٹرنیشنل 13 مئی 2005ء) 00 278
برگ سبز حقیقی عید سید نا حضرت مصلح موعود، خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عید ایک ایسی چیز ہے جس کو ساری قومیں مناتی ہیں.کوئی اس کا نام تہوار رکھ لیتا ہے، کوئی عید کہہ دیتا ہے، کوئی (Christmas Days) کرسمس ڈیز کے نام سے اسے یاد کر لیتا ہے.بہر حال دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں عید نہیں پائی جاتی.ہر قوم کسی نہ کسی طرح عید مناتی ہے.سینکڑوں اور ہزاروں سال تک بنی نوع انسان آپس میں جداجدار ہے.امریکہ والے دنیا کے دوسرے لوگوں سے اس وقت تک نہیں مل سکے جب تک کولمبس نے اسے دریافت نہ کر لیا.آسٹریلیا والے بھی ایک وقت تک دوسرے لوگوں سے نہ مل سکے مگر باوجود اس کے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پرانے باشندوں میں بھی عید کی رسم پائی جاتی تھی.اسی طرح افریقہ کے پرانے باشندوں میں بھی بعض تہوار پائے جاتے ہیں.غرض عید کے موجبات خواہ مختلف ہوں اس کا وجود ہر قوم اور ہر ملک میں پایا جاتا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کا تعلق فطرت کے ساتھ ہے.279
برگ سبز اسلام نے بھی سال میں دو عیدیں رکھی ہیں جن میں سے ایک کا نام عید الفطر ہے اور دوسری عید الاضحیہ.ان کے علاوہ رسول کریم صلی لا السلام نے جمعہ کے دن کو بھی مسلمانوں کے لئے عید کا دن قرار دیا ہے گویا اسلام دوسری قوموں اور مذاہب سے عید کے لحاظ سے بھی بڑھ کر ہے.مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عید کہتے کس کو ہیں؟ آخر کوئی وجہ بھی ہے جس کی وجہ سے ہر قوم اور مذہب میں عید رکھی گئی ہے.عید اس لئے رکھی گئی ہے کہ انسان اگر ہمیشہ رنج کی طرف ہی دیکھتا رہے تو اس کے قومی مفصل ہو جائیں.کبھی کبھی اس کی نظر اپنے اعلیٰ مقاصد اور کامیابیوں کی طرف بھی جانی چاہئے.اگر وہ اپنی کامیابیوں کو یاد کرتا رہے اور اپنے مقاصد کو سامنے رکھے تو اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جائے گا اور اس طرح قوم مرنے نہیں پائے گی...ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری عیدوں کے پیچھے حقیقی خوشی کی بنیاد پائی جاتی ہے یا نہیں.اگر ہماری عید کے پیچھے حقیقی خوشی کی بنیاد پائی جاتی ہے تو وہ ہمارے لئے موجب برکات ہے.اور اگر اس کے پیچھے حقیقی خوشی کی بنیاد نہیں پائی جاتی تو پھر ہر عید جو آئے گی ہمیں پہلے سال سے بھی زیادہ مردہ بنائے گی...قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدتین وجوہات کی بنا پر منائی جاتی ہے.اول انسان کو اس کا محبوب یعنی خدامل جائے.جب اسے خدامل جائے گا تو اس کی عید حقیقی معنوں میں عید ہوگی.لیکن اگر اسے خدا نہیں ملتا تو پھر عید کیسی ؟...اگر کوئی ایسی جماعت تھی جو اس بات کی دعویدار تھی کہ ہمیں خدا تعالیٰ مل گیا ہے تو وہ رسول کریم سالی اہم اور آپ کے صحابہ تھے.پس جس شخص کو اس کا محبوب مل 280
برگ سبز جائے اس کی عید بن جاتی ہے.غالب کہتا ہے کہ اصل خوشی اس شخص کی ہے جس کے بازو پر اس کے محبوب نے سر رکھ دیا ہو.پس اصل خوشی اسی شخص کی ہے جس نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہو اور اس سے باتیں کی ہوں...غرض ایک عید اس شخص کی ہوتی ہے جسے اس کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ مل جائے اور یہ حقیقی عید تھی جو صحابہ کو حاصل تھی.اسی طرح یہ عید خلفاء راشدین کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک چلی گئی...بہر حال ان وجوہات میں سے جن کی وجہ سے صحابہ عید منایا کرتے تھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں ان کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ مل گیا تھا.عید منانے کی دوسری وجہ جو قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فردی ترقی کے علاوہ قومی ترقیات بھی اس قدر مل رہی ہوں کہ جدھر بھی قوم منہ کرے کامیابیاں اور کامرانیاں اس کے قدم چومیں.صحابہ نے اتنی فتوحات حاصل کیں کہ جدھر بھی وہ منہ کرتے تھے فتح و نصرت ان کے ساتھ رہتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ جنات ہیں جدھر بھی منہ کرتے ہیں دنیا کو مطیع بناتے چلے جاتے ہیں.پہلی چیز روحانی اور فردی تھی اور یہ مادی اور قومی تھی جس کی وجہ سے صحابہ عید منانے کے مستحق تھے.تیسری وجہ عید منانے کی یہ ہوتی تھی کہ قومی اخلاق اس قدر بلند ہوں کہ لوگ کسی پر ظلم نہ کریں اور ہر شخص یہ سمجھے کہ اس کے حقوق محفوظ ہیں.صحابہ اخلاقی لحاظ سے اتنے کمال پر تھے کہ اس زمانہ میں ہر شخص کے حقوق محفوظ تھے اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے...بہر حال یہ تیسری وجہ تھی جس کی وجہ سے صحابہ عید 281
برگ سبز منانے کے حقدار تھے اور ان کی عید حقیقی عید تھی....یہ چیز ان لوگوں کی عید کا موجب تھی.جس قوم میں ایسے افراد پائے جاتے ہوں جن کو خدامل گیا ہو، جس قوم میں ایسے افراد پائے جاتے ہوں جنہوں نے نہ صرف انفرادی اور روحانی ترقیات حاصل کی ہوں بلکہ قومی ترقیات بھی حاصل کی ہوں اور جس طرف وہ منہ کرتے ہوں کامیابیاں اور فتوحات ان کے قدم چومتی ہوں.جس قوم میں ایسے بلند اخلاق پائے جاتے ہوں کہ ان کے زمانہ میں کسی کو اپنا حق مارے جانے کا خیال بھی پیدا نہ ہو.وہ قوم مستحق ہے حقیقی عید منانے کی.وہ قوم مستحق ہے حقیقی خوشیاں منانے کی.کیا دنیا میں اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا.محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم اس لئے عید مناتے تھے کہ آپ کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ آپ کو مل گیا.اور مسلمان اس لئے عید مناتے تھے کہ ان کے آقا کی جائیداد انہیں مل گئی اور اس کی حکومت دنیا میں قائم ہوگئی.لیکن سوال یہ ہے کہ آج ایک مسلمان کیوں عید مناتا ہے؟ کیا وہ اس لئے عید مناتا ہے کہ اس کے باپ دادا کی جائیداد ایک ایک کر کے اس کے ہاتھ سے نکل گئی.کیا وہ اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کی اپنی روحانی جائیدا دایک ایک کر کے اس کے ہاتھ سے نکل گئی.کیا وہ اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں باقی نہیں رہا.آخر وہ کونسی چیز ہے جس پر خوش ہوکر وہ عید مناتا ہے.کیا وہ نئے کپڑے بدلنے یا طرح طرح کے کھانے کھانے پر خوش ہوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ عید پہلے زمانہ میں انعام تھی.لیکن اب تازیانہ 282
برگ سبز ہے.اور ہر عید جو آتی ہے وہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ بولو تم عید کیوں منا رہے ہو.ہم بے شک ظاہر میں عید مناتے ہیں لیکن اس کےموجبات اور محرکات ہم میں موجود نہیں....اگر مسلمان یہ کام کر سکتے ہیں تو ان کی عید ، عید ہے.ورنہ ان کی عید کوئی عید نہیں.پھر ہم کس چیز کی عید منا رہے ہیں.یہ ایک سوال ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے نفس سے پوچھنا چاہئے.اگر واقعہ میں ہم میں جانی اور مالی قربانی کی روح پائی جاتی ہے.اگر ہم خدا تعالیٰ کے سامنے رو رو کر اس کی مدد طلب کرتے ہیں تو واقعی ہماری عید ، عید ہے.اور ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کریم الله السلام کے سامنے آنکھ اٹھانے کے قابل ہیں.ورنہ ہماری عید کچھ بھی نہیں بلکہ ہر عید ہمیں پہلے سے بھی زیادہ مردہ بنا دے گی.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جولائی 1949 بمقام پارک ہاؤس کوئٹہ ) ( خطبات محمود جلد اول صفحہ 301-309) الفضل انٹرنیشنل 14 جنوری 2005ء ) 283
برگ سبز الصلح خیر صلح ہی بہتر ہے اصلاح کی کوشش میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرماتا ہے.باہم مل کر رہنا انسانی فطرت ہے.باہم رشته داری، دوستی، محله داری، واقفیت، کاروباری یا ملازمت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملنا اور معاملات کرنا.آپس میں ملنے کی مختلف شکلیں اور وجوہات ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب کسی کو کسی وجہ سے اکیلے رہنا پڑے.تو وہ اس کو بری طرح محسوس کرتا ہے.اسی وجہ سے تنہائی اور علیحدگی کے متعلق ہر زبان میں بڑی کثرت سے لکھا گیا ہے.سب رشتوں اور تعلقات میں باہم ایڈ جسٹمنٹ یعنی ایک دوسرے کو سمجھنا اور اس کے مطابق حسب ضرورت اپنے آپ کو بدلنا ضروری ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اس کی ایک مثال دی ہے.آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ میرا ایک دوست ملنے کے لئے آ رہا ہے اس کی طبیعت کو سمجھنے کی وجہ سے میں نے گھر میں کہہ دیا کہ یہ صاحب چائے شوق سے پیتے ہیں، ان کے لئے چائے کا اہتمام کیا جائے.جب وہ صاحب تشریف لے آئے تو ادھر ادھر کی باتوں میں انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ آپ کے رجحان کے پیش نظر آپ کو دیکھتے ہی گھر میں چائے کا اہتمام کرنے کا کہہ دیا ہے.ظاہر ہے یہ بات ان کو خوش کرنے کے 284
برگ سبز لئے کہی گئی تھی مگر وہ صاحب یہ سنتے ہی ناراض ہو گئے اور یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے کہ آپ نے چائے جیسی معمولی چیز کا اس طرح احسان کے طور پر ذکر کیا ہے.یہاں خاکسار کو اپنا ایک ایسا ہی واقعہ یاد آ گیا.ایک دوست جن سے میرے 50 سال سے زیادہ کے تعلقات ہیں اور ہم برابر یہ لمبا عرصہ ایک دوسرے سے ملتے رہے.خاکساران کی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے ان کی قدر کرتا ہے.تاہم وہ ایک جگہ جہاں خاکسار بھی موجود تھا کسی سے کہہ رہے تھے کہ ان کی چائے تو میں چائے ہی نہیں سمجھتا ان کے ہاں بہت ہلکی چائے ہوتی ہے جبکہ میں تو کڑک چائے پیتا ہوں.( بات معمولی ہے مگر طبائع کے اختلاف کو ظاہر کرتی ہے) اس جگہ مختلف رشتہ داریوں اور تعلقات میں سے میاں بیوی کے تعلق کے متعلق بیان کرنا مقصود ہے.میاں بیوی کا رشتہ سب سے نزدیکی.قریبی بلکہ یکجان ہونے کا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس میں بعض دفعہ بعض وجوہ سے خرابی آجاتی ہے اور ایسے موقع پر ضروری ہوتا ہے کہ اختلاف کی وجہ معلوم کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کی جاوے.خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے.: ان يريدا اصلاحا يوفق الله بينهما.(النساء : ۳۶) ترجمہ: اگر وہ دونوں اصلاح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرماتا ہے.اسی طرح فرمایا: الصلح خیر صلح میں ہی بہتری ہے.اختلافات بالعموم چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہی شروع ہوتے ہیں.ایک بہت پرانا واقعہ پیش کرتا ہوں.پاکستان کی ایک جماعت کے متعلق پتہ چلا کہ وہاں آپس میں بہت اختلاف 285
برگ سبز اور جھگڑے ہیں.ان کے اختلاف سے جماعت کے کاموں میں نقصان کے علاوہ غیر از جماعت لوگوں کو بھی باتیں بنانے کا موقع مل رہا ہے.محترم امیر صاحب ضلع اور خاکسار مربی ضلع نے مل کر وہاں جانے اور اس معاملہ کو نمٹانے کا فیصلہ کیا.متعلقہ جماعت کو اطلاع کر دی گئی.ہم دونوں وہاں پہنچے ( خاکسار محترم امیر صاحب ضلع کا نام اس لئے نہیں لکھ رہا کہ وہ دنیوی اور دینی لحاظ سے اچھے سمجھدار اور با اثر انسان تھے.ان کا نام لکھنے سے جماعت کا بھی پتہ چل سکتا ہے ) ہم دونوں نے تمام احباب جماعت سے ایک ایک کر کے علیحدگی میں ملاقات کی پھر ان کے گلے شکوے معلوم کر کے ان کو دور کرنے کی ایک عام جلسہ میں بھی کوشش کی.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت معاملہ سدھر گیا.باہم مصافحے ، معانقے اور مٹھائی کھانے کھلانے کی نوبت بھی آئی.مگر اصل جھگڑا جہاں سے بات چلی تھی وہ بچوں کی لڑائی تھی اور بچوں کی لڑائی کے بعد صلح بھی ہو چکی تھی.گویا ایک معمولی بات نے اتنا طول کھینچا اور جماعت کو نقصان پہنچایا.ایسا ہی ایک اور واقعہ یاد آیا.خاکسار مبورا مشرقی افریقہ میں تھا.ایک دن سننے میں آیا کہ ایک احمدی خاتون جو کہ ایک معروف احمدی فیملی سے تعلق رکھتی تھیں گھر سے باہر کھڑی رو رہی ہیں.محترم عبدالرشید رازی مرحوم اور خاکسار ہم دونوں ان کے ہاں گئے.دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے.لڑائی جھگڑے اور اختلاف کی باتیں ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی تھیں.خاکسار کو لگا کہ ان دونوں کی طبائع میں باہم اختلاف تو ہے لیکن لڑائی جھگڑے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے.میں نے اس محترمہ سے کہا کہ باتیں بہت ہو چکی ہیں اور بات کہیں ختم ہونے میں نہیں آتی.آپ ذرا سوچ کر بتائیں کہ سب سے بڑی اور اصل وجہ اور خرابی کیا ہے.وہ کچھ دیر خاموش رہیں.پھر سوچ سوچ کر بولیں کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ فلاں قسم کے 286
برگ سبز BEDلے دیں.مگر انہوں نے لے کر نہیں دیئے.ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑی وجہ نہیں تھی.تاہم شوہر صاحب نے بتایا کہ یہ ٹھیک کہہ رہی ہیں.انہوں نے یہ فرمائش کی تھی مگر میں نے ان سے کہا کہ اس BED کے کنارے بہت تیز ہوتے ہیں.ہمارا بچہ چھوٹا ہے اس کو چوٹ لگ سکتی ہے.بچے کے بڑے ہونے پر ان کی فرمائش پوری کر دی جائے گی.اس سارے واقعے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ معمولی معمولی باتوں سے میاں بیوی کا مقدس رشتہ جو خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر قائم کیا گیا تھا، وہ متاثر ہو جاتا ہے.حالانکہ اگر ایک دوسرے کا احترام کیا جائے.ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے تو ایسے معمولی بلکہ بڑے معاملات بھی سلجھائے جا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ اصول بھی بیان فرمایا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لئے اچھا سمجھو مگر وہ اچھی نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو برا سمجھو مگر در حقیقت وہ بری نہ ہو.اگر ہم اپنے معاملات کو خدا تعالیٰ کے ارشادات اور آنحضرت صلی ایم کی احادیث کے مطابق حل کرنا چاہیں اور نیک نیت ہوں تو ہر خرابی دور ہو کر اسی دنیا میں جنتی زندگی حاصل ہو سکتی ہے.تنزانیہ کا ہی ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے.ایک پڑھے لکھے احمدی نوجوان جو اچھی شہرت کے حامل تھے ، ان کے متعلق اچانک سننے میں آیا کہ موصوف اپنی بیوی کو طلاق دے رہے ہیں.ان کی بیوی بھی ایک معروف احمدی خاندان سے تھی.اس وجہ سے یہ خبر بڑی عجیب اور بری لگی.مکرم مولنا محمد منور صاحب مرحوم ان دنوں وہاں ہوتے تھے.اتفاق سے انہوں نے اس احمدی نوجوان سے بات کی تو خاکسار بھی ان کے ساتھ تھا.ان سے مفصل گفتگو ہوئی.مجھے ان کا ایک فقرہ یاد ہے، جب ان سے طلاق کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ وہ میری بیوی تھی ہم اکٹھے رہے ہیں.بس میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ 287
برگ سبز میرے دل سے اتر گئی ہے میں اور کوئی الزام اس پر نہیں لگانا چاہتا.بظاہر یہ بہت خوبصورت اور سادہ سا فقرہ لگتا ہے.یہ بھی لگتا ہے کہ موصوف الزامات اور دوسری بری باتوں سے احتراز کر رہے ہیں.لیکن اگر غور کیا جائے تو نفرت تو اس فقرے کے ہر حرف سے نظر آتی ہے.آپ نے جب شادی کی تھی تو خوب غور وفکر کیا ہو گا.بہت ممکن ہے آپ کے بزرگوں نے بھی تحقیق کی ہو.آپ کو بہت سی خوبیاں معلوم ہوئی ہوں گی اگر اب بھی مزعومہ یا مفروضہ غلطیوں کو نظر انداز کر کے خوبیوں پر نظر رکھی جائے تو اختلاف کے بادل اترنے کی صورت پیدا ہی نہیں ہوگی.مسجد فضل میں ایک نکاح کے خطبہ میں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اس بات کو ہم میں سے ہر ایک کو یا د رکھنا چاہئے کہ اگر بجائے اس کے کہ دوسروں کی خرابیوں، کمزوریوں، کمیوں کی طرف توجہ دلائی جائے اور اس کو اصلاح کے لئے کہا جائے اگر اپنی نظر میں اپنے اندر کوئی برائیاں بھی نہیں ہیں تب بھی ان برائیوں کو اپنے سر لے لیں...جب ہر ایک بجائے دوسرے کو الزام دینے کے اپنے اوپر الزام لیتا جائے تو معاشرے کی اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے.جھگڑے اور فساد ختم ہو جاتے ہیں.آپس میں جو رنجشیں ہیں وہ دور ہو جاتی ہیں.“ اسی خطبہ نکاح میں آپ فرماتے ہیں: ہمیشہ یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ سے تو بہ اور استغفار کرتے رہو.اپنی برائیوں پر نظر رکھو.اپنے گناہوں کی معافی مانگو.اپنی اصلاح کرو.اپنے آپ کو نمونہ بناؤ تو آئندہ نسلیں بھی اس نمونے پر چلنے والی ہونگی اور اپنی اصلاح کرنے والی 288
ہونگی.“ آنحضرت صلی ہلم کا ارشاد ہے: برگ سبز (روز نامه الفضل ربوه ۲۲ جولائی ۲۰۱۶ء) خيركم خير كم لاهله و انا خیر کم لاهلی ( ترمذی 40 کتاب المناقب باب 46) تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے بہتر ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے بہتر ہوں.ہمارا معروف سلوگن ہے: ”محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“ مگر وہ لوگ جو باہم اختلاف کرتے یا بیوی اپنے میاں سے یا میاں اپنی بیوی سے نفرت کرتا ہو وہاں یہ سلوگن اس طرح ہو جائے گا کہ: محبت سب کے لئے نفرت صرف اپنوں کے لئے حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں: اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں“ ” سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو (روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه (12) یہ وہ سنہری اصول ہیں جو ہر ایک لڑائی جھگڑے اور نفرت کو ختم کر کے پر سکون جنتی زندگی گزارنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں.289
برگ سبز بہتر اخلاق.بہتر معاشرہ ہمارے آقا آنحضرت صلی شما ایتم نے دنیا کو اخلاق فاضلہ کا سبق دیا.اس سلسلہ میں آپ کے بیش قیمت ارشادات کے ساتھ ساتھ اپنا بے مثال نمونہ موجود تھا.آپ نے فرمایا: بعثت لاتمم مكارم الاخلاق (موطا امام مالک.باب فی حسن الخلق صفحہ 364 ) یعنی میں بہترین اخلاق کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لئے بھیجا گیا ہوں.یہ محض ایک ادعا نہیں تھا بلکہ آپ سے ملنے والا ہر خوش قسمت آپ کے بہترین اخلاق کی وجہ سے آپ کی طرف کھنچا چلا آتا.ہر خوش قسمت آپ کی خوش خلقی کی وجہ سے آپ کا دلدادہ اور فریفتہ ہو جاتا.آپ نے ارشاد فرمایا : خيركم خيركم لاهله (ترمذی ۴۰ کتاب المناقب باب (۴۶) تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل یعنی گھر والوں سے اچھا سلوک کرتا ہو.مگر یہ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ نے زندگی کے اس سنہرے اصول پر 290
برگ سبز بہترین رنگ میں عمل کرتے ہوئے فرمایا: انا خیر کم لاھلی میں نے جو بات کہی ہے وہ ایک اچھی بات تو ضرور ہے مگر میں نے اس پر عمل کیا ہے اور تم سب میں سے اپنے اہل کے ساتھ بہتر سلوک کرنے میں آگے اور نمایاں ہوں.یہی حض ایک مثال ہے، خلق عظیم کا ہر پہلو آپ " میں بدرجہ کمال موجود تھا اور اسی کی آپ نے تعلیم بھی دی.آپ نے فرمایا: اتقوا مواضع التهم ایسے مواقع اور اسباب سے بھی بچتے رہو جس میں کسی الزام یا تہمت لگنے کا اندیشہ ہو.یہ کیسا پر حکمت ارشاد ہے کہ بری باتوں سے اجتناب تو ضروری ہے.ایسی باتوں سے بھی اجتناب کرنا چاہئے جہاں کسی برائی کا الزام لگ سکے یا لوگوں کو الزام لگانے کا موقع مل سکے.اس بات کو ایک مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے.حضرت امام بخاری حدیث کے بہت بڑے عالم تھے.آپ کی مرتبہ حدیث کی کتاب جو آپ کے نام سے ہی مشہور ہے وہ حدیث کی سب سے زیادہ مستند اور سب سے زیادہ صحیح تسلیم کی جاتی ہے اور جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اصح الکتب بعد کتاب الله ( کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح کتاب ).حضرت امام بخاری کے متعلق مشہور ہے کہ ایک دفعہ وہ کسی سفر پر جا رہے تھے.ان کے کسی حاسد نے ان کے پاس کچھ رقم دیکھ لی اور شور مچادیا کہ میری اتنی رقم گم ہوگئی ہے.سب مسافروں کی تلاشی لی گئی تو الزام لگانے والا شخص بہت حیران اور نادم ہوا کہ وہ اپنی شرارت اور سازش میں ناکام ہو گیا ہے.اس نے حضرت امام صاحب سے علیحدگی میں پوچھا کہ میں نے تو آپ کے پاس خود اتنی رقم دیکھی تھی اور اسی لئے اس الزام کو شہرت دی تھی مگر آپ کے پاس وہ رقم نہیں ملی اور میری شرارت بے کار گئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ میرے 291
برگ سبز متعلق یہ بات کسی نے داشتہ مشہور کر دی ہے لیکن میں نے وہ رقم چپکے سے پانی میں پھینک دی تاکل کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ حدیث جمع کرنے والے اس شخص پر چوری کا الزام لگا تھا.گویا آپ نے اپنا نقصان صرف اس وجہ سے برداشت کر لیا کہ آپ ایک الزام اور تہمت سے محفوظ رہیں.یہ سب باتیں اس لئے ذہن میں آ رہی ہیں کہ ہمارے وطن پاکستان میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی وبا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے.ہم میں سے اکثر کو یہ امر اچھی طرح یاد ہوگا کہ اگر کبھی کسی پر رشوت لینے یا کسی اور بے ایمانی یا بدانتظامی کا الزام لگتا تو وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا اور معاشرے میں اسے عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا.اب یہ صورت ہے کہ ملک کا سب سے معزز عہدے پر فائز منتخب عہدیدار الزامات کی زد پر آتا ہے اور اسے جھوٹا، چور، خائن ، بے ایمان اور جو بھی گالی منہ میں آتی ہے، بک دی جاتی ہے اور اس طرح نوجوانوں کے اخلاق.عام لوگوں کی وضعداری کا جنازہ نکالا جا رہا ہے.ہمارا ملک بدانتظامی اور بد معاملگی کی مثال بن گیا ہے اور کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت تو شاید کبھی بہتر ہو جائے مگر جو اخلاقی دیوالیہ پن ہے اس کا ازالہ کب اور کیسے ہو سکے گا.آجکل ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بد معاملگی اور بد دیانتی کا ایک بہت بڑا مقدمہ چل رہا ہے.مقر ر جج صاحبان اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں مگر یوں نظر آتا ہے کہ عدالت سے باہر مقدمہ کا چر چا زیادہ ہے.ہرا اینکر پرسن ، ہر لال بجھکڑ اپنی اپنی رائے دے رہا ہے.فیصلے سے پہلے فیصلہ سنایا جا رہا ہے.عدالت کی کارروائی کو اپنے اپنے رنگ اور اپنے اپنے مفاد میں پیش کیا جاتا ہے.نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ ایک 292
برگ سبز معزز وکیل نے برسر عدالت کہا کہ اگر عدالت کمیشن مقرر کرے گی تو ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے! کیا کبھی وہ زمانہ واپس آسکے گا جہاں بزرگوں کی عزت ، آنکھوں کی شرم روایات کا احترام، دولت پر اخلاق و شرافت کی ترجیح، دنیوی مفاد اور ذاتی اغراض پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی ترجیح اور معلم اخلاق فاضلہ کی سنت کی متابعت و پیروی کی جائے گی.تشنہ بیٹھے ہو کنار آب شیریں حیف ہے 293
برگ سبز بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک حالیہ خطبہ جمعہ میں اور اس سے پہلے اپنے متعد د خطبات اور تقاریر میں جماعت کو رشتہ ناتا کے متعلق ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے.حضور نے اس سلسلہ میں پیش آنے والے واقعات اور معاملات کی مثالیں بیان فرما کر بہت سادہ مگر مؤثر انداز میں اس معاملہ میں بہتری کی طرف رہنمائی فرمائی ہے.ہماری جماعت میں وقف زندگی ایک بہت اچھا کام سمجھا جاتا ہے.اس لئے ایک واقف زندگی کے والدین جب بھی اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا بیٹی واقف زندگی ہے تو اس ذکر میں خوشی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اگر کسی نے اپنے بچے کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا ہے تو یہ اسی کے لئے خوشی کی بات ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ہر واقف زندگی اپنے والدین کے اخلاص و نیکی کا ثبوت ہے.اس زمانہ میں جبکہ دنیا کی کشش، دنیا کی زیب وزینت، دولت کی فراوانی اور کشائش سب کے سامنے ہے.ان سب باتوں پر غالب آتے ہوئے اور ان سب امور کو نظر انداز کرتے ہوئے دین کو دنیا پر ترجیح دینا 294
برگ سبز اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.والدین کو اس بات پر خوش ہوتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارا بچہ اپنے کاروبار میں بہت کامیاب ہے اور وہ اپنے کاروبار میں اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا ہے.اگر یہ امرجائز طریق پر حاصل کیا گیا ہو تو ان کی خوشی بالکل بجا اور درست ہوگی.خاکسار نے ایک ماں کوسنا وہ اپنے بیٹے کے متعلق یہ کہ کر خوش ہو رہی تھی کہ میرے بیٹے نے ایسی اچھی اور بڑی گاڑی خریدی ہے کہ وہ اس میں بیٹھا ہوا پوری طرح نظر بھی نہیں آتا.غرض یہ کہ بچوں کی کامیابی اس کے بزرگوں کی کامیابی سمجھی جاتی ہے اور جب وہ خوشی سے اس کا ذکر کرتے ہیں تو ضمناً اس میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ ہم نے اپنے بچے کی ایسی اچھی تربیت کی ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں کامیابی حاصل کر رہا ہے.پچھلے دنوں میں اپنے ایک پرانے واقف سے ملا.مجھے معلوم تھا کہ ان کی ایک ہی بیٹی ہے.میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ بڑے دکھی دل سے اس کے متعلق بتانے لگے جس سے پتہ چلا کہ وہ اپنے گھر میں خوش نہیں ہے.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بچے کی کامیابی میں والدین کی اچھی تربیت کا دخل ہوتا ہے تو بچے کی ناکامی میں بھی اس کی تربیت کی کسی خرابی، کمی یا نقص کا ضرور دخل ہوگا.رشتہ ناتا کے سلسلہ میں یہ امر بہت عام ہے کہ جب رشتہ مطلوب ہو تو ہر کوشش کی جاتی ہے کہ دوسرا فریق ہر لحاظ سے معقول اور معیاری ہو اور جب ہر ممکن ذریعہ سے یہ تسلی کر لی جاتی ہے کہ فریق ثانی کسی لحاظ سے کم اور غیر معیاری نہیں ہے تو رشتہ کیا جاتا ہے.وہ لوگ یقیناً خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں یہ توفیق ملتی ہے کہ وہ رسمی طور پر نہیں بلکہ واقعی طور پر دینداری کو ترجیح دے کر ایسا رشتہ حاصل کرتے ہیں جس میں دوسرے فریق کی دینداری مقدم ہوتی ہے اور اس 295
برگ سبز کے ساتھ ساتھ دعاؤں پر زور دیکر اور توکل علی اللہ کے نتیجہ میں ساری خوشیاں سمیٹ لی جاتی ہیں.کیونکہ یہ وہ طریق اور نصیحت ہے جو معلم اخلاق آنحضرت سلی شما یہ تم نے سکھائی ہے.آنحضرت سلیم نے فرمایا کہ رشتہ ڈھونڈتے ہوئے کبھی تو حسب نسب کا خیال کیا جاتا ہے.کبھی حسن و خوبصورتی کا خیال کیا جاتا ہے.کبھی مال و دولت کا لالچ ہوتا ہے مگر تمہارے.لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ دینداری کا خیال کرو اور اس کو باقی امور پر ترجیح دو.حضور سی ای ایم کا ہی وہ مشہور واقعہ ہے کہ جب آپ کی پیاری بیٹی نے بعض مالی مشکلات کا ذکر کر کے اپنے لئے کسی سہولت کا مطالبہ کیا تو آپ نے شکوہ و شکایات سے پھوٹنے والی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بیٹی کے مطالبہ کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس سے بھی بہتر اور برتر بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ذکر الہی کے نتیجہ میں تعلق باللہ کی طرف توجہ دلا دی اور اپنے نمونہ اور عمل سے یہ بتایا کہ سمجھانا ہے تو پہلے اپنی بیٹی کو سمجھاؤ.تربیت کے متعلق یہی سب سے مؤثر اور مفید ذریعہ ہے کہ جہاں بھی رشتہ نا تا میں کسی خرابی اور بگاڑ کا پتہ چلے تو ماں باپ کو سب سے پہلے دوسرے کی خرابی کو ڈھونڈنے اور اس کی اصلاح کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی کسی خرابی اور کمی کی تلاش کرنی چاہئے.والدین کی پہلی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہمارے بچے میں کوئی کمی یا خرابی رہ گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں ہماری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے ورنہ یہ خرابی پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی.میاں بیوی کے اختلاف میں ابتدا کسی بہت ہی چھوٹی سی بات سے ہوتی ہے.اگر اس چھوٹے سوراخ کو بند کرنے کی کوشش کی جاوے تو وہ بآسانی بند کیا جا سکتا ہے.بعد میں یہ سوراخ اور شگاف بڑھتا جائے گا اور اس کی اصلاح نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گی.اس تھوڑی خرابی کی اصلاح کے لئے بھی ضروری ہوگا کہ والدین اپنے بچے کو (اپنے بیٹے یا بیٹی کو ) سمجھا ئیں اگر خرابی کو نظر انداز کرنے ، اگر 296
برگ سبز کمزوری کو برداشت کرنے ، اگر ایک دوسرے کو سمجھنے کے طریق کو اختیار کیا جائے تو تمام معاملات پر بخوبی قابو پایا جاسکتا ہے.عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسی کسی خرابی کا پتہ لگنے پر اپنے بچے کی بات کو صحیح سمجھ کر دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہیں سے خرابی بڑھنی شروع ہو جائے گی.وہ رشتہ جو بڑی احتیاط سے تلاش کیا گیا تھا.وہ رشتہ جو ہر لحاظ سے بہت اچھا اور معیاری تھا اس میں ہر قسم کی خرابی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس طرح اصلاح کا امکان کم ہوتے ہوتے معدوم ہو جائے گا.خاکسار کور بوہ میں اور پھر یہاں لندن آکر ایک لمبا عرصہ دارالقضاء میں خدمت کا موقع ملا ہے.یہ لمبا تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی خرابی یا گڑ بڑ ہوتی ہے تو وہ رشتہ جو خود آپ نے پوری طرح ناپ تول کر اور بخوبی معیاری پا کر کیا تھا.اس میں کوئی خوبی باقی نہیں رہتی اور یا سو فیصد خرابی پر پہنچ جاتی ہے.حالانکہ حقیقت بہر حال یہ نہیں ہوتی بلکہ اگر وسعت حوصلہ سے کام لیا جائے اور مثبت انداز میں سوچا جائے کہ نقائص اور خرابیوں سے پاک صرف ایک ذات ہے اور باقی ہر جگہ کوئی نہ کوئی غلطی موجود ہوتی ہے تو اصلاح کی گنجائش ضرور نکل آئے گی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرما دیا ہے کہ : الصلحُ خیر صلح ہی میں بہتری ہے.اللہ تعالیٰ بہتری کی توفیق عطا فر ماوے.آمین.297
برگ سبز آپ نے کیا جلایا ؟ عید میلادالنبی سلام کی تقریب کی خبریں ہر پاکستانی TV چینل پر آ رہی تھیں جن میں بڑی تفصیل سے ذکر تھا کہ یہ دن بڑے جوش وجذبہ سے منایا جارہا ہے.ہر شہر کی بڑی عمارتوں اور ہر مسجد پر بہت خوبصورت چراغاں کیا گیا ہے.کھیر،حلوہ اور کیک بہت بڑے پیمانے پر بنائے گئے اور تقسیم کئے جارہے ہیں.بہت بڑے بڑے جلسے اور رنگ برنگ جلوس نکل رہے ہیں وغیرہ.ان خبروں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی خبر یہ سننے میں آئی کہ دوالمیال ضلع چکوال میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے جلوس کا راستہ بدل کر جلوس احمدیہ مسجد کی طرف آیا اور پھر میلاد منانے والوں نے از راہ ظلم احمدیہ مسجد پر قبضہ کر لیا.نمازیوں کو مسجد کے اندر محبوس کر دیا گیا، بعد میں سارے لٹریچر کو شحن میں پھینک کر لٹریچر اور مسجد کو آگ لگا دی گئی.مسجد سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے اور دھویں کے بادل سوشل میڈیا پر نظر آتے رہے.دوالمیال ضلع جہلم کا ایک بہت پرانا قصبہ ہے.آجکل غالباً ضلع چکوال بن چکا ہے اور یہ قصبہ ضلع چکوال میں آتا ہے.یہ فوجی علاقہ ہے.متعددمشہور فوجی افسروں کا تعلق اس تاریخی قصبہ سے ہے.قریباً آدھا گاؤں احمدی ہے.جس مسجد کا اوپر ذکر ہوا ہے اسے بنے ہوئے سو 298
برگ سبز سال سے زیادہ ہو چکے ہیں.اس قصبہ کا ہر شہری اور ہر باسی اور باشندہ احمدیوں کی مخالفت میں کچھ بھی کہے لیکن وہ یہ گواہی ضرور دے گا کہ اس نے اس مسجد سے اللہ کی بڑائی (اللہ اکبر ) کا اعلان ہوتا ہو اسنا ہے.وہ یہ ضرور بتائے گا کہ اس نے کلمہ شہادت اور حضور صلے یتیم کی رسالت کا ذکر بھی سنا ہے.100 سال سے زیادہ عرصہ سے اس مسجد نے عبادت اور اذان کی تعلیم دی ہے.وہ شخص جس نے اس مسجد کو آگ لگائی اس کا ہاتھ آگے لگانے سے پہلے کانپ کانپ نہیں گیا ہو گا کہ اس مسجد کی اینٹ اینٹ اس کے خلاف گواہی دے گی.وہ کتابیں جو مسجد کے صحن میں ڈھیر کی گئی تھیں ان میں سے سر فہرست تو قرآن مجید تھا.قرآن مجید کے متعلق اعتراض کر نیوالے یہ اعتراض تو غلط طور پر کرتے ہیں کہ ہم نے ترجمہ اور تفسیر میں کوئی تبدیلی کر دی ہے مگر قرآن مجید کا متن تو وہی ہے جو سب مسلمان مانتے اور پڑھتے ہیں.آگ لگانے والے کا دل یہ سوچ کر حلق میں نہ آ گیا ہوگا کہ وہ اللہ کے اس کلام کو آگ دکھانے لگا ہے جس کی تبلیغ اور تعلیم کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جو اس کے محبوب صلی ایتم نے دنیا کو بغرض اشاعت و تبلیغ دیا تھا.آگ لگانے والے نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو مدنظر رکھا؟ کلام اللہ کی شان کو ذہن میں رکھا؟ قرآن مجید کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حضور سال الیتیم کے ارشادات کی تعمیل کی یا ان کی نافرمانی اور گستاخی کا ارتکاب کیا؟ احمدیہ لٹریچر میں کیا ہوتا ہے.اس کی ہر سطر میں نہیں تو ہر صفحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام یا اسماء حسنٰی میں سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت یا نام کا ذکر ہوگا.قریباً ہر صفحہ پر حضرت محمل کا پیام لکھا ہو گا یعنی حضور کی عظمت ، حضور کی شان، حضور کا مقام ، حضور کی صداقت وغیرہ کا ذکر ہوگا.اس لٹریچر میں حضرت مرزا غلام احمد کا ذکر بھی ضرور ہوگا لیکن یہ ذکر جہاں بھی آئے گا وہاں غلامِ احمد کے طور پر ہی ہو گا.غلام کی جو بھی حالت ہوگی ، جو بھی مقام ہوگا وہ اس کی غلامی کی وجہ سے 299
برگ سبز اس کی مطاع و آقا حضرت محمد سالہ یہ تم کی عظمت و شان کو ظاہر کرے گا.محمد صلی یا پیہم کے کسی عاشق کو ایسی کسی چیز کو آگ لگانے کی جرات ہوسکتی ہے؟ مسجد سے اٹھنے والے شعلے اور دھواں دنیا کے ہر ملک میں بسنے والے احمدیوں کے دلوں کی آہیں تھیں جو وہ اس ظلم کی وجہ سے بلند کر رہے تھے اور کر رہے ہیں کہ ظالموں نے ایسے غیر اسلامی، غیر اخلاقی، غیر انسانی کام کرنے کے لئے اس عظیم وجود کا نام استعمال کیا جو رحمۃ للعالمین ، جس کے رحم ، محبت ، شفقت اور توجہ سے ہر انسان ہی نہیں کائنات کی ہر چیز حتی کہ جانور اور پرندے بھی باہر نہ تھے.جس کی تعلیم یہ تھی کہ دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے“ جس نے ہر منفی انداز فکر کی نفی کرتے ہوئے مثبت انداز فکر میں سوچنا اسلام کا نشان بنادیا اور السلام علیکم اسلام کا امتیاز بنا دیا.یہی وجہ ہے کہ احمدیوں نے ہمیشہ گالیاں سن کے دعا دو، پاکے دکھ آرام دو د کو اپنا لائحہ عمل بنایا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنے رنگ میں ” انما اشکو بثي وحزني الى اللہ “ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: چلائے کوئی جا کے مزار مسیح پر نصرت جہاں کی گود کے پالوں کو لے گئے ہر احمدی جو قرآن مجید وحدیث کے مصداق حضرت مسیح موعود کی تعلیم پر عمل کرتا ہے وہ الدار کا مقیم اور حضرت اماں جان نصرت جہاں کی گود کا پالا ہوا ہے.وہ شکور بھائی چشمے والا ہو یا کوئی اور کارکن اور واقف زندگی.پھیر دے اے میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار 300
برگ سبز پیدائش وقف زندگی حادم دین.ایک نظر میں جامعتہ المبشرین سے فارغ التحصیل نائب معتمد خدام الاحمد یہ ربوہ معتمد خدام الاحمد یہ ربوہ نائب قائد خدام الاحمد یہ ربوہ 16 اگست 1933 ( قادیان) $ 1944 $1956 $1955 : $1956 $ 1956 $ 1956-1957 : مہتمم اصلاح وارشا دمرکزیہ مدیر رساله خالد اکتوبر 1973ء درس ملفوظات درس قرآن مسجد مبارک ربوه : مربی کراچی مربی ملتان مربی جہلم مربی تنزانیہ مربی کینیا 301 جنوری 1973 تا $1958 * 1962** 1958 * 1965** 1962 * 1968** 1967 : * 1972** 1969 * 1974 1973
برگ سبز مربی حیدر آباد مربی زیمبیا، زمبابوے، ملاوی ممبر قضا بور ڈر بوہ وقف عارضی لیسٹر یو کے ناظم قضا بور ڈیو کے نائب مدير الفضل انٹرنیشنل درس حدیث مسجد فضل لندن : : * 1975 1974 1987-1979 * 1999** 1995 : $2001** 1999 2001 تا حال $2004 2004ء سے تا حال سب سے قبل زمبابوے میں دسمبر 1981ء میں تشریف لے گئے اور وہاں مشن ہاؤس کی عمارت خریدی.یکم جنوری 1982 ء کو یہ عمارت احمد یہ مسلم ایسوسی ایشن کے نام سے رجسٹر ڈ ہوئی اور باقاعدہ مشن کا آغاز ہوا.تصنیفات (بحوالہ افضل انٹر نیشنل 30 جون 1993ء) (1).سوانح فضل عمر -جلدسوم (2).سوانح فضل عمر.جلد چہارم (3) سوانح فضل عمر جلد پنجم (4).دعائے مستجاب (5).نہج الطالبین نصاب حدیث (6) - دلچسپ سبق آموز واقعات (7) - قدرت ثانیہ کا دور اوّل 302 (8).قسمت کے ثمار
عبدالباسط شاہد (مربی سلسلہ )