Language: UR
جری اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکۃ الارآء کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت سے دفاع اسلام اور احیائے دین کی زبردست مہم کو مضبوط بنیاد فراہم ہوئی تو عرش سے فرش تک تہلکہ برپا کرنے دینے والی اس قطبی نے جہاں اپنوں کی ڈھارس بندھائی اور اہل اسلام کے سر فخر سے بلندکردیئےوہاں مخالفین اسلام کی کیمپ میں بھی کھلبلی مچادی۔ کتاب کا مسودہ و متن مکمل کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کی اشاعت اور پریس کے بھاری مصارف کے لئے بعض سرکردہ اور نامی مسلمان رؤساء و والیان ریاست کو مالی اعانت کے لئے بھی لکھا تھا تا ان کو بھی تبلیغ اسلام کی مہم میں شامل کرکے ثواب کا موقع نصیب ہو۔ چند رؤوساکی طرف سے اعانت کا وعدہ ہوا، بعض نے اعانت بھی کی، لیکن اکثر نے بے حسی اور بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ مالی اعانت کرنے والوں میں مولوی چراچ علی صاحب معتمد مدارالمہام دولت آصفیہ حیدر آباد بھی شامل تھے۔ جن کی مالی اعانت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عظیم الشان اور نابغہ روزگار خدمات اسلامیہ کا ایک ادنیٰ سا اعتراف تھا۔ یاد رہے کہ قطبی ستارہ جیسی عظمت و شہرت کی حامل اس کتاب کے حاسدین کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور برا ہو تعصب کا، جو اس کتاب لاجواب کے بارہ میں یہ نکتہ چینی کرنے لگے کہ اس کتاب کے لئے حضور نے حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحب ، سر سید احمد خان صاحب او رمولوی سید چراغ علی صاحب سے بطور علمی اعانت بھی مضامین میں مدد لی تھی۔ اس قسم کا اعتراض مولوی عبدالحق صاحب بابائے اردو نے بھی اٹھایا ہے۔ انہوں نے مولوی چراغ علی صاحب کی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ‘‘ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام’’ کے نام سے کیا تو اس کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض خطوط کو قطع و برید کرکے یہ نتیجہ نکالاکہ مولوی چراغ علی صاحب سے مرزا صاحب نے بعض مضامین براہین احمدیہ کے لئے مدد لی۔ یہ ایک بے بنیاد اور بلا ثبوت اعتراض تھا ، جس کا مدلل و کافی و شافی جواب مصنف کتاب ہذا نے زیر نظر کتاب میں دے کر بلاشبہ ایک علمی و دینی خدمت انجام دی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ تحقیق کے طالب علموں اور اعتراضات کے جوابات دینے والوں کے لئے نہایت مفید ہے۔
براهين احمديه اور مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ “ عظم الكلام...از قلم عاصم جمالی وو
نام کتاب مصنف ناشر پرنٹر مطبع سال اشاعت.تعداد براہین احمدیہ اور مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام عاصم جمالی عبد المنان کو نر طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ ضیاء الاسلام پر میں ربوہ ( چناب نگر) $2013 1000 تسنیم حفیظ سرورق
انتساب مخدوم و مکرم والد صاحب چوہدری محمد عبد الغنی مرحوم و مغفور اور والدہ محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ مرحومہ کے نام کہ اس کتاب میں ان کی میرے حق میں دعاؤں کے آسمان پر چھوڑے گئے خزانے کا بھی حصہ فراواں ہے.قارئین سے مرحومین کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی درخواست دعا کے ساتھ اور اپنے بیٹوں ڈاکٹر محمد عبد النور، انجینئر محمد عبدالحی اور اہلیہ محترمہ امتہ المتین صاحبہ اسی طرح میری بیٹیوں محترمہ عائشہ سلیمان صاحبہ اور محترمہ مریم نعمان صاحبہ ، بہوؤں ضاحکہ نور اور مزنہ جی اور نواسیوں ماہا، نیجا، ملیحہ اور انوشے کے نام کہ جن کا تعاون اس تصنیف میں میرے شامل حال رہا.ناچیز عاصم جمالی 8 مارچ 2013ء
Barahin-e- Ahmadiyah And Preface of Maulvi Abdul Haq to Book entitled "Reforms under Muslim Rule" (Azam ul Kalam Fi Irtiqa el Islam) By: Asim Jamali
سم الله الرحمن الرحيم دیباچه آخری زمانہ کے امام مسیح و مہدی کے متعلق رسول اللہ علے کی پیشگوئی تھی وہ مال لٹائے گا اور کوئی اسے قبول نہ کرے گا.اس سے مراد دراصل وہ مخفی روحانی خزانے تھے جو اسلام کی شان و شوکت اور عظمت قائم کرنے کے لئے اس نے دنیا میں عام کرنے تھے.حضرت بانی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے انیسویں صدی کے پر آشوب دور میں اس وقت کھڑا کیا جب ہندوستان کے عیسائی اپنی حکومت کے بل بوتے اسلام پر حملہ آور تھے.آپ نے دفاع اسلام واحیائے دین کا فریضہ ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح ادا کر کے دکھایا.آپ کی پہلی معرکہ آراء کتاب براہین احمدیہ نے ہی فرش سے عرش تک ایک تہلکہ بر پا کر دیا.عرش الہی پر اس کا نام قطبی رکھا گیا.جو ظاہر کرتا تھا کہ یہ کتاب اپنے دلائل و براہین اور انوار برکات لے لحاظ سے قطب ستارے کی مانند افق پر طلوع ہو کر دنیا کی رہنمائی کا موجب بنے گی.پھر واقعی ایسا ہی ہوا.1880 ء میں اس کتاب کا پہلا حصہ شائع ہوا.تو اس میں آپ نے مذاہب عالم کو دس ہزار روپے کا انعامی چیلنج دیتے ہوئے یہ پر شوکت اعلان فرمایا کہ وہ دلائل جو حقیقت فرقان مجید اور صداقت رسالت حضرت خاتم النبین ﷺ کے لئے آپ نے پیش فرمائے ہیں، کوئی شخص اپنی الہامی کتاب سے آدھا یا تہائی یا چوتھائی یا پانچواں حصہ ہی نکال کر دکھلائے یا آپ کے دلائل کو ہی توڑ دے.تو آپ اسے بلا تامل دس ہزار روپے کی اپنی جائیداد پیش کر دیں گے.اس کتاب کے آتے ہی جہاں اسلامیان ہند کے سر فخر سے بلند ہو گئے وہاں مخالفین اسلام کے کیمپ میں ایک کھلبلی مچ گئی.دراصل حضرت بانی جماعت احمدیہ نے کفر و الحاد کے سیلاب کے آگے ایک بند باندھ دیا تھا اور کا سر صلیب نے عیسائیت کا قلعہ پاش پاش کر کے رکھ دیا.براہین احمدیہ کی تصنیف پر اہل علم طبقہ کی طرف سے اس کو غیر معمولی خراج تحسین پیش ہوئی.اہل حدیث لیڈر مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں لکھا:.”ہمارے رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت
66 میں ایسا ثابت قدم نکلا جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم ہی پائی گئی.“ اخبار منشور محمدی بنگلور کے مدیر شہیر جناب مولوی محمد شریف صاحب بنگلوری نے یوں تبصرہ کیا:.سبحان اللہ کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ سے ثبوت ہورہا ہے.ہر ایک لفظ سے حقیقت قرآن و نبوت ظاہر ہو رہی ہے.کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن و نبوت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا ثانی نہیں...مسلمانوں کے لئے تقویت کتاب الجلیل ہے.ام الکتاب کا ثبوت ہے.بے دین حیران ہے مبہوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کی اشاعت کے لئے بعض سرکردہ اور نامی مسلمان رؤساء و والیان ریاست کو مالی اعانت کے لئے بھی لکھا تھا تا ان کو بھی تبلیغ اسلام کی مہم میں شامل کر کے ثواب کا موقع نصیب ہو.چند رؤسا کی طرف سے اعانت کا وعدہ ہوا بعض نے اعانت بھی کی لیکن اکثر نے بے حسی کا مظاہرہ کیا.اعانت کرنے والوں میں مولوی چراغ علی صاحب معتمد مدارالمہام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن بھی شامل تھے.جن کی مالی اعانت اس عظیم الشان خدمت کا ایک ادنی اعتراف تھا.قطبی ستارہ جیسی عظمت و شہرت کی حامل اس کتاب کے حاسد بھی پیدا ہوئے.برا ہو تعصب کا جواس کتاب لاجواب کے بارہ میں یہ نکتہ چینی کرنے لگے کہ اس کتاب کے لئے حضور نے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب، سرسید احمد خاں صاحب اور مولوی سید چراغ علی صاحب سے بطور علمی اعانت بھی بعض مضامین میں مدد لی تھی.اس قسم کا اعتراض مولوی عبدالحق صاحب بابائے اُردو نے بھی اُٹھایا ہے.انہوں نے مولوی چراغ علی صاحب کی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام کے نام سے کیا تو اس کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض خطوط کو قطع و برید سے پیش کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ مولوی چراغ علی صاحب سے مرزا صاحب نے بعض مضامین براہین احمدیہ کے لئے مدد لی.یہ ایک بے بنیاد اور بلا ثبوت اعتراض تھا جس کا مدلل اور کافی وشافی جواب عاصم جمالی صاحب نے زیر نظر مطالعہ میں دے کر بلاشبہ ایک علمی خدمت انجام دی ہے.خاکسار نے مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ کی خدمت میں یہ کتاب بغرض تبصرہ بھجوائی تو انہوں نے تحریر فر مایا کہ عاصم جمالی صاحب نے اس مقالہ میں تحقیق کا حق ادا کر دیا اور اس قابل ہے کہ شائع ہو، قبل ازیں جناب ثاقب زیر وی مرحوم نے خدمت سلسلہ کے لئے کی گئی اس محنت اور عرق ریزی پر مصنف کو مبارک باد دی تھی اور جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی مرحوم نے اسے علمی مشقت کا آئینہ قرار دیتے ہوئے مصنف کے وسیع مطالعہ کی داددی.
امر واقعہ بھی یہی ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب نے براہین احمدیہ کی مالی اعانت تو کی جس کا ذکر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے.لیکن علمی اعانت کا الزام سراسر بے سروپا ہے.حقیقت یہ ہے کہ براہین احمدیہ کی اشاعت (1884-1880 ء) سے لے کر آج تک اس خدمت کا سہرا...حضرت بانی جماعت احمدیہ کے نام ہے اور رہے گا.کبھی کسی دوسرے نے یہ دعوی نہیں کیا اور اگر مرزا صاحب کی وفات کے بعد کسی نے یہ نقطہ چینی کی ہے تو اس کی کوئی حقیقت نہیں.مؤلف کتاب نے اس دیرہ بینہ اعتراض کے جواب میں پہلی دفعہ اتنی شرح وبسط باریک بینی اور تحقیق سے جواب لکھ کر معترضین کو ہمیشہ کے لئے ساکت وصامت کر دیا ہے.مؤلف موصوف حضرت سلطان القلم کے قلم کاروں میں سے ہیں.’313 اصحاب صدق وصفا“ کے لئے بھی گرانقدر علمی معاونت کر چکے ہیں اور متعدد تحقیقی مضامین تحریر کر چکے ہیں.یہ کتاب یقیناً جماعتی لٹریچر میں ایک مفید اضافہ ہوگی.اللہ تعالیٰ مؤلف کتاب کی تحقیق کو پذیرائی عطا فرمائے اور اہل علم احباب کے لئے اسے مفید نتائج کا حامل بنائے.اس کتاب کی اشاعت میں معاونت کرنے والے اور کتاب کی بہتری کے لئے مفید مشوروں سے معاونت کرنے والوں کا خاکسار شکریہ ادا کرتا ہے.قائد اشاعت و نائب قائد اشاعت اور اشاعت کمیٹی انصار اللہ پاکستان کے فاضل ممبران بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ جن کی کوشش اور توجہ سے یہ کتاب احباب جماعت کے فائدہ کے لئے شائع ہو رہی ہے.فجز اہم اللہ احسن الجزاء.والسلام خاکسار حافظ مظفر احمد صدر مجلس انصار اللہ پاکستان
i براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام پیش لفظ براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ “عظم الكلام..مندرجات باب اول: براہین احمدیہ اور مصنف براہین احمدیہ تعارف و مشاہدات 1-1.براہین احمدیہ اور مصنف براہین احمدیہ کا تعارف 1-2.براہین احمدیہ کے مخالفین اور معاندین 1-3.براہین احمدیہ کی تصنیف کے متعلق ایک معترض 1-4.براہین احمدیہ اور مولوی عبد الحق کا مقدمہ اعظم الکلام 1-5- براہین احمدیہ میں مولوی چراغ علی کی مالی معاونت تھی نہ کہ علمی امداد 1-6 سبر این احمدیہ میں مولوی چراغ علی کی مالی معاونت کا تذکرہ 1-7.مصنف براہین احمدیہ کا کسی امداد یا معاونت کے بارے میں کیا خیال تھا 1-8- براہین احمدیہ کے مضامین کی اجمالی تفصیل 1-9-حضرت مرزا صاحب کا سرسید تحریک پر تبصرہ وو V 1 1 5 5 6 7 8 8 8 9 1-10-حضرت مرزا صاحب کا شردھے پر کاش دیو جی بر ہمو اور پادری ٹامس بول کی کتابوں سے موید اقتباس کا اپنی کتب میں اندراج پر اظہار ممنونیت 1-11.براہین احمدیہ کی تصنیف اور بعد کے زمانے کے خادم جناب میر عباس علی صاحب حوالہ جات باب دوم :مولوی عبد الحق صاحب المعروف بابائے اردو تعارف تبصرہ و تنقید 2-1-مولوی عبدالحق کے سوانحی کوائف 2-2-مولوی عبد الحق صاحب کے مذہبی عقائد 2-3- مولوی عبد الحق صاحب کا کوئی مذہب نہ تھا اور مذہب کے بارے میں علم جہل سے بد تر تھا.-2-4- مولوی عبد الحق اور ڈاکٹر سید عابد علی عابد کی مقدمہ نگاری 2-5-مولوی عبد الحق صاحب کی دیانت تصنیف و تالیف 2-6- “ عظم الكلام..مصنفہ مولوی چراغ علی کے ترجمے میں مولوی عبدالحق کی تحریف 2-7- فقرہ مشہور اور پر زور کتاب براہین احمدیہ بیان کردہ مولوی عبد الحق صاحب کا محاکمہ 2-8-مولوی عبدالحق کے تتبع میں بعد میں آنے والوں کا براہین احمدیہ کے بارے میں بلادلیل رویہ 10 11 11 13 13 13 13 15 15 22 24 36
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 2-9- جناب شیخ یعقوب علی عرفانی کے نام مولوی عبد الحق کے دو خطوط: حوالہ جات باب سوم : نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب تعارف و تنقیدی تبصره 3-1.نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی مرحوم (1845-1895) 38 39 43 43 44 3-2 ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ کی رائے : مولوی چراغ علی عیسائیوں کے مقابل پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی اتباع کرتے تھے -3-3- اسپر نگر کی رائے دربارہ ا عظم الکلام..." " عیسائی مذہب کی حمایت میں لکھی جانے والی کتابوں میں افضل کتاب 45 3-4-مولوی چراغ علی صاحب کا خلاف منشاء مصنف حجة اللہ بالغہ حضرت شاہ ولی اللہ مجد د دہلوی کا حوالہ 3-5.کیا اسلام اصلاً بہت سخت ہے اور تبدیلی پذیر نہیں ہے ؟ اور مذہب اسلام مانع ترقی ہے ؟ 3-6.مولوی چراغ علی کے افکار و نظریات کے بارے میں ڈاکٹر عبید اللہ خان اور ٹینٹل کالج لاہور کی رائے حوالہ جات باب چہارم: حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے خطوط بنام مولوی چراغ علی صاحب مندرجہ اعظم الکلام.تبصرہ و تنقید 4-1-حضرت مرزا صاحب کے نقل کردہ خطوط کے حصول کی کوششیں 4-2-زیر بحث خطوط حضرت مرزا صاحب اور مشفق خواجہ 4-3-خطوط حضرت مرزا صاحب اور مولوی چراغ علی کے افراد خانہ 4-4- خطوط کے حصول کی آخری ممکنہ جاری کوشش 4-5-حضرت مرزا صاحب کے خطوط کو نقل کرنے والے مصنفین ڈاکٹر سید عبد اللہ ، قاضی جاوید وغیرہ سے رابطہ -4-6- حضرت مرزا صاحب کے پیش کردہ خطوط کے مندرجات کا جائزہ 4-7-حضرت مرزا صاحب کا دوران تصنیف اعتراضات و دیگر امور کو کتابوں کے حاشیہ پر درج کرنے کا طریق 4-8 - مکتوبات کے نفس مضمون میں حضرت مرزا صاحب کے علم کلام کے بے بدل اصول: 4-9- چند واقعات مندرجہ براہین احمدیہ بقید تاریخ برائے تغلیط رائے مولوی عبدالحق 46 49 51 51 53 53 53 53 53 54 54 55 56 57 58 4-10- خطوط حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مندرجہ مقدمہ اعظم الکلام میں بیان کردہ مضامین پر ایک نظر اور مولوی عبد الحق صاحب کی دو خطوط کو چار بنا کر من مانے نتائج نکالنے کی جعل سازی 4-11- خطوط سے مولوی عبد الحق صاحب کا اخذ کردہ نتیجہ اور اس پر تبصرہ 62 64 412.مقدمہ اعظم الکلام میں حضرت مرزا صاحب کے نقل کردہ الفاظ کتاب (براہین احمدیہ ) ڈیڑھ سوجز ہے ”مولوی عبدالحق کے دام تزویر کا ایک اور توڑ حوالہ جات 70 74
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام باب پنجم : حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریرات اور مولوی چراغ علی صاحب.عمومی موازنہ 79 5-1-حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور سرسید اور ان کے رفقاء کے نظریات / عقائد 5-2- مولوی چراغ علی کی نظر میں قرآن سنت اور حدیث کا مقام ایک تقابلی مطالعہ 5-3-مولوی چراغ علی کی نظر میں پیش گوئیاں، معجزات، عصمت انبیاء اور وحی و الہام ایک تقابلی مطالعہ -5-4- مولوی چراغ علی صاحب کی کتاب " تعلیقات " ایک تقابلی مطالعہ 79 79 83 94 5-5-مولوی چراغ علی کی آیت کریمہ مذکورہ سورۃ بنی اسرائیل، وما منعتنا ان تُرسل کے بارے میں خاموشی اور حضرت مرزا صاحب کی لطیف تفسیر به ثبوت معجزات محمدیه E: 5-6- معجزات محمدیہ مندرجہ قرآن کریم 5-7 - حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور پادری عماد الدین 95 98 99 5-8-حضرت مرزا صاحب کے چیلنج مذکورہ "نورالحق ”عربی دانی: ثبوت فصاحت و بلاغت قرآن کریم کے مقابلہ پر تمام پادری بشمول پادری عماد الدین سامنے نہ آئے 5-9-مولوی چراغ علی صاحب کی پادریوں بشمول پادری عماد الدین کی شکست پر خاموشی -5-10-مولوی چراغ علی صاحب فقہ یا شریعت کو مبنی بر قرآن نہیں سمجھتے 5-11-کیا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مولوی چراغ علی پر کوئی اثرات مترتب ہوئے تھے ؟ حوالہ جات 100 102 102 104 107 باب ششم : مکتوبات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مندرجہ مقدمہ اعظم الکلام میں درج مضامین اور مولوی چراغ علی صاحب کی تحریرات: خصوصی موازنہ 6-1.ایک خصوصی تقابلی جائزہ 6-2- اثبات نبوت محمدیہ صلی ا لم 3.الجواب: چھٹی صدی کے اقی دلیل اثبات نبوت محمدیہ 6-4.اور اگر آنحضرت اُمّی نہ ہوتے " 6-5.حضرت محمد مصطفی کا مقام 112 112 112 115 117 121 6-6- اثبات نبوت محمدیہ صلی ال ہم میں اس جہاں میں حضرت محمد مصطفی صلی للی نم کی برکتوں سے کچی اور حقیقی نجات کا نمونہ 122 67- حقیت قرآن شریف و اثبات حقانیت فرقان مجید 6-8- حقانیت قرآن شریف میں حضرت مرزا صاحب کا زندہ نظام اور مولوی چراغ علی 6-9.فرقان مجید کے الہامی / کلام الہی ہونے کا ثبوت 10 - حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور وحی و الہام کی تعریف 123 129 131 139
iv 150 163 175 181 181 181 182 183 184 184 185 185 187 192 192 193 193 196 197 200 200 200 201 204 204 206 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 6-11.کلام الہی 12 6.ہنود پر اعتراضات / وید پر اعتراضات حوالہ جات باب ہفتم: مصنف براہین احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا مقام 7-1-مامور من اللہ مصنف براہین احمدیہ کا مقام 7-2- حضرت مرزا صاحب اسلام کے فتح نصیب جرنیل 7-3 - براہین احمدیہ کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی رائے 7-4 - مقالہ نگار تاریخ ادبیات پنجاب یونیورسٹی لاہور اور مولوی ابو الحسن ندوی کی آراء 7-5 بر این احمدیہ میں مندرجہ وحی و الہام اور تاریخ ادب اردو ” مصنفہ ڈاکٹر جمیل جالبی 7-6 براہین احمدیہ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی کی تصدیق براہین احمدیہ -7-7- تحریرات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب آراء سید وقار عظیم، اور مولانا ابو الکلام آزاد 7-8- قبول احمدیت اور اہالیان حیدر آباد دکن (فرودگاه مولوی چراغ علی صاحب) به ثبوت صداقت بر این احمدیہ 7-9- حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود اور ترکی حکومت 7-10-براہین احمدیہ کی تصنیف پر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کار یویو 11 -7 سبر این احمدیہ کے بعد حضرت مرزا صاحب کی تصنیف "سرمہ چشم آریہ " پر مولوی محمد حسین بٹالوی کا تبصرہ 7-12-حضرت مرزا صاحب کے بارے میں پروفیسر نصیر حبیب کی رائے 7-13- اختتامیه 7-14- نتیجه کلام حوالہ جات باب ہشتم: حرف آخر 8-1-حرف آخر 8-2-انجمن ترقی اُردو پاکستان کراچی اور مجلس ترقی ادب لاہور اسی طرح دیگر حضرات سے ایک مطالبہ 8-3- جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کا ایک محاکمہ نما مکتوب بابت کتاب ہذا پروفیسر معین الدین عقیل کا تصنیف ہذا کو خراج تحسین....قابل مطالعہ اور قابل غور کتاب حوالہ جات کتابیات
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام پیش لفظ V بابائے اردو مولوی عبدالحق نے جب 1910ء میں مولوی چراغ علی کی ایک انگریزی کتاب پروپوزڈ پولیٹیکل لیگل اینڈ سوشیل ریفارمز انڈر مسلم رول کا اردو ترجمہ " اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام " کے نام سے شائع کیا تو اس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود کے دو خطوط (جو مولوی چراغ علی کے بلا طلب دس روپے کے نوٹ برائے اشاعت براہین احمدیہ بھجوائے گئے تھے ) کو چار خطوط بنا کے کتاب کے مقدمہ میں عبارتوں کو آگے پیچھے کر کے چھاپ دیئے اور نتیجہ نکالا کہ حضرت مرز اصاحب نے مولوی چراغ علی سے جیسے تصنیف کتاب براہین احمدیہ میں کوئی علمی مدد لی ہو.مولوی عبدالحق نے نہ صرف اعظم الکلام " کے ترجمے میں تحریف و تدلیس کی تھی بلکہ اس جعل سازی میں بھی باوجود غیر جانبدار اور بے تعصب مشہور ہو کر حسب عادت مولوی چراغ علی کی شخصیت کو اجاگر کرنے کیلئے بد دیانتی اور کردار کشی کا ثبوت دیا ہے.مولوی عبدالحق صاحب کو خود تسلیم تھا کہ ان کا مذہب کے بارے میں علم جہل سے بدتر ہے " ( ملاحظہ ہو کتاب ہذا میں پیرا نمبر (3-2) تو پھر بھی آپ کا مذہب سے متعلق امور کے بارے میں اڑنگے مارنا نہایت غیر مناسب بات ہے.جو مولوی عبد الحق ایسی شخصیت کو بہر کیف زیب نہیں دیتی تھی.مولوی عبدالحق کی اس ترجمے میں تحریف و تدلیس، اسی طرح خطوط کے درج کرنے میں اور ان سے نتائج کے استخراج میں بلا ثبوت بد دیانتی کو زیر نظر کتاب میں طشت از بام کیا گیا ہے.علاوہ متعدد ناقلین مولوی عبدالحق کے ، پروفیسر معین الدین عقیل صاحب مصنف کتاب "تحریک پاکستان میں اردو کا حصہ " میں بھی آپ نے اس اعتراض کا ذکر کیا ہے.موصوف نے ناچیز کے نام اپنے مکتوب مورخہ 12 مارچ2012ء میں کتاب زیر نظر کے مسودہ کو دیکھنے کے بعد تحریر کیا ہے:.“...اس طرح ایک غلط فہمی اور کذب بیانی کی تردید ہو جاتی ہے..." فهو المطلوب(ملاحظہ ہو کتاب ہذا میں پیر انمبر 3-8) جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے کہ محولہ بالا مقدمہ کے براہین احمدیہ سے متعلق اندراجات کو ہی زیر بحث لایا گیا ہے.یہاں اس امر کو شروع ہی میں واضح کر دیناضروری ہے کہ اس ہیچمدان کو مولوی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام vi عبد الحق صاحب مرحوم سے قطعاً کوئی رقابت یا پر خاش نہیں ہے.بلکہ میں موصوف کی اردو زبان کے لئے خدمات کا دل سے اعتراف کر تا ہوں.ناچیز کی اس کتاب سے قبل "حیات احمد " کے فاضل مصنف جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اس اعتراض کی تردید میں کتاب مذکور میں مناسب جواب دیا ہے اور مولوی عبد الحق صاحب سے خط و کتابت بھی کی تھی (ملاحظہ ہو کتاب ہذا کا مقام پیر انمبر 3-1 اور 9-2) لیکن عرفانی صاحب نے اس پر کوئی موازنہ قائم نہ کیا تھا، جو ان کی کتاب کے منشاء کے خلاف تھا.لیکن اس پیچ مدان نے علاوہ دیگر امور کے ایک عمومی اور ایک خصوصی موازنہ بمع نتیجہ کلام بھی پیش کیا ہے ( ملاحظہ ہو بالخصوص باب پنجم و ششم) تا کہ اس اعتراض کا مکمل جواب سامنے آجائے.قارئین کرام کے ہاتھوں میں جو کتاب ہے اس کے لکھنے کا پہلے پہل خیال مجھے 1970ء کی دہائی کے ابتداء میں آیا جب میں سنٹرل لائبریری بہاولپور میں محمد یحی تنہا کی کتاب "سیر المصنفین " کو دیکھ رہا تھا.جس میں اس اعتراض کو مولوی عبدالحق کے مقدمہ " اعظم الکلام " کے حوالے سے نقل کیا گیا تھا.انہی دنوں میں میری نظر سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثانی) کی تقاریر کا مجموعہ "فضائل القرآن "گزرا جس میں اس اعتراض کا ایک اصولی جواب موجود تھا.اس کی روشنی میں میں نے اس موضوع پر مطالعہ اور تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا.لیکن بڑے شہروں سے دوری کے بسبب متعلقہ کتب میسر نہ آسکیں اسی طرح چند در چند اسباب کی وجہ سے کتاب معرض تعویق میں رہی.1980ء کی دہائی کا ہی کوئی سال تھا کہ بفضلہ تعالیٰ اس احقر العباد نے حضرت اقدس مسیح موعود کو خواب میں اپنے گھر میں صوفے پر تشریف فرما دیکھا کہ میں آپ کی خدمت میں پیش ہوں.ابھی میں نے کوئی کتاب لکھنی شروع نہیں کی تھی البتہ ایسا ارادہ رکھتا تھا اور اس بارے میں سوچتا رہتا تھا.لیکن حضرت اقدس مجھ سے میری لکھی جانے والی کتاب یا مضمون کے بارے میں کچھ پوچھتے رہے جو اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے لیکن صرف یہی یاد ہے کہ حضرت نے بڑے تلطف سے لکھی جانے والی کتاب یا مضمون کے بارے میں مختصر باتیں کیں تھیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس زیارت میں کتاب لکھے جانے کی بشارت شامل تھی سو الحمد اللہ کہ کتاب لکھی گئی ہے.جس کے بارے میں ناچیز نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ ماہ نامہ "انصار اللہ ربوہ براہین احمدیہ نمبر (فروری 1998ء) صفحہ 105 پر الگ کتابی شکل میں شائع کروانے کا عندیہ ظاہر
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام کیا تھا.vii 1990ء کی دہائی کے نصف اواخر پر میں نیشنل بنک آف پاکستان ربوہ میں بطور منیجر تعینات تھا.انہی دنوں ابتداء میں نے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا.تقریباً کوئی ستر (70) صفحات لکھ کر مسودہ جناب سید عبد الحئی شاہ صاحب ناظر اشاعت کی خدمت میں پیش کیا تو شاہ صاحب کی طرف سے جواب موصول ہوا: " نظارت کو اس کی اشاعت پر اصولی طور پر کوئی اعتراض نہیں".(20 اپریل 1998ء) اس سے قبل یہ مسودہ استاذی المکرم جناب ثاقب زیر وی صاحب کی خدمت میں بھجوا چکا تھا اور موصوف کی طرف سے جواب موصول ہوا: " آپ نے ماشاء اللہ بڑی محنت کی ہے.عرق ریزی سے کام لیا ہے...اس خدمت سلسلہ کے لئے مبارکباد وصول فرمائیے.اللهم زد فزد (21 اگست 1997ء) لیکن اس وقت تک لکھے گئے مواد میں مزید اضافے کی خواہش تھی.جسے اضافے کے بعد گرامی قدر مکرم مسعود احمد خان دہلوی کی خدمت میں ایک نظر دیکھنے کیلئے پیش کیا گیا تو موصوف نے لکھا: " بہت وسیع مطالعہ اور علمی مشقت کا آئینہ دار آپ کا ضخیم مقالہ...میں نے اول سے آخر تک پڑھا.آپ کے وسیع مطالعہ کی داد دیئے بغیر نہ رہا..." ( نا چیز کے 27 مارچ 2011ء کے عریضے کے جواب میں) اس اجازت اور ستائش کے باوصف اس وقت بھی کتاب کے نفس مضمون میں، میں کمی محسوس کر رہا تھا.جسے ایک حد تک پورا کر کے موجود شکل میں کتاب پیش خدمت ہے.قیام ربوہ کے دور سے تا ایں دم مشفقی سید مبشر احمد ایاز صاحب اور ان کے فاضل عملہ کمپوزنگ کا بھر پور تعاون میرے شامل حال رہا ہے.آخری کمپوزنگ کے مراحل میں عزیز مکرم عامر سہیل اختر صاحب، پر وفیسر نصیر حبیب صاحب لندن برائے اہم حوالہ جات اور سر ورق کے لئے عزیزہ محترمہ تسنیم حفیظ صاحبہ کا ، اسی طرح مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب سے بھی گاہے ماہے موضوع زیر بحث کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت ہوتی رہی ہے.ناچیز ان احباب کی معاونت کا از حد شکر گزار ہے." اعظم الکلام " کے انگریزی متن کی عکسی نقول ناچیز کو مشفقی حنیف محمود صاحب نے مہیا کی ہیں اور " تحقیق الجہاد" کے انگریزی متن کی عکسی نقول میرے بیٹے ڈاکٹر محمد عبد النور نے بہم پہنچائی ہیں.خدا بخش اور نشیئل لائبریری پٹنہ انڈیا کے ڈائریکٹر جناب امتیاز احمد صاحب کا بھی یہ احقر شکر گزار ہے کہ انہوں نے مولوی چراغ علی کی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام viii کتاب "تعلیقات "تبادلے میں بہم پہنچائی جو پاکستان میں کہیں نہ مل سکی.اسی طرح موصوف نے ڈاکٹر منور حسین کی "مولوی چراغ علی کی علمی خدمات "تحفۃ عنایت کی اور سنٹرل لائبریری بہاولپور کے جناب اقبال صاحب " بگھی خانہ والے " اور خلافت لائبریری ربوہ کے لائبریرین جناب محمد صادق صاحب اور حبیب الرحمن زیر وی صاحب بھی کتب مہیا کرنے کے لئے میرے شکریے کے مستحق ہیں.علاوہ ازیں جن دیگر کرم فرماؤں نے تعاون کیا ہے ان کا کتاب کے متعلقہ مقامات پر شکریہ ادا کر دیا گیا ہے.اگر کسی دوست کا گیا شکریہ ادا کرنے سے رہ گیا ہو تو ان سے میں معذرت خواہ ہوں.اور اگر مخدومی حافظ مظفر احمد صاحب (صدر مجلس انصار اللہ پاکستان ) اور ان کے رفقاء کا شکریہ ادانہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی.اسی طرح سب سے آخر پر مخدوم و مکرم مشفقی جناب مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ میرے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے کتاب زیر نظر کو مؤثر ومربوط بنانے میں اپنے اوقات عزیز سے مسودہ کے تنقیدی مطالعے کا وقت نکالا اور اپنی قیمتی آراء سے آگاہ کیا.جن سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے.جزاهم الله احسن الجزاء.ان تمام معروضات کے باوجود میں اس بات کا اظہار ضروری سمجھتاہوں کہ اس ناچیز نے کتاب براہین احمدیہ کے مضامین کو ان کے موقع و محل کے مطابق لکھنے کی کوشش کی ہے.اگر مجھ سے کہیں بیان کرنے میں کو تاہی ہوئی ہے تو اس بارے میں براہین احمدیہ کا بیان ہی فوقیت رکھے گا.یہ احقر کسی ممکنہ فرو گذاشت کی ابھی سے معذرت کرتا ہے.(جس میں معنوی اور کتابت (کمپوزنگ) کی غلطیاں بھی شامل.ہیں).استغفر الله ربي من كل ذنب واتوب اليه میں نے کتاب کے آخر پر انجمن ترقی اردو کراچی اور مجلس ترقی ادب لاہور اسی طرح دیگر حضرات سے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ جب بھی اس موضوع پر کوئی کتاب شائع کریں یا بالخصوص اس بارے میں لکھا جائے تو یکطرفہ ڈگری دینے سے قبل میری معروضات کا بھی ذکر کر دیا جائے کہ تا دونوں پہلو قاری کے پیش نظر رہیں اور میری رائے میں تو اب اس غلط فہمی اور کذب بیانی کو دوہرائے جانا رک جانا چاہئے.خدا کرے کہ ایسا ہو سکے.آمین.دعاؤں کا از حد محتاج ناچیز عاصم جمالی مورخہ 8 مارچ 2013
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام باب اول: براہین احمدیہ اور مصنف براہین احمدیہ تعارف و مشاہدات 1 ریاست حیدر آباد دکن میں لفظ مولوی گزیٹڈ آفیسر کے لیے استعمال ہوتا تھا.اور مقدمہ سے مراد کوئی عدالتی مقدمہ نہیں بلکہ کسی متن یا تصنیف یا تالیف (یا کتاب) کے موضوع، نفس مضمون اور اس کے متعلقہ پہلوؤں کا تعارف ، نوعیت، تحقیق تنقید ، پس منظر ، جواز وغیرہ پر مشتمل تحریر جو مصنف یا مولف یا مرتب یا مدبرون (بمعنی : مدون: تدوین کرنے والا.ناقل ) تحریر کے آغاز میں شامل کرے.” 1 ہمارے پیش نظر ایک ایسے ہی مولوی صاحب کے لکھے ہوئے ایک مقدمے میں براہین احمدیہ کے ذکر سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی براہین احمدیہ میں اس لفظ کو استعمال فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں: یہ کتاب مرتب ہے ایک اشتہار اور ایک مقدمہ اور چار فصل اور ایک خا تمہ پر 2 دو 1-1.براہین احمدیہ اور مصنف براہین احمدیہ کا تعارف براہین احمدیہ ، حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (1908-1835ء) کی پہلی تصنیف ہے.جس کا پورا نام “ براہین احمدیہ ملقب به البراهين الاحمدیہ علی حقیت کتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیہ ” ہے.اس کتاب کو حضرت مرزا صاحب نے ملہم اور مامور ہو کر....تالیف کیا تھا.اس تالیف کی غرض “ اصلاح و تجدید دین ” تھی.آپ کی ماموریت مسجد دوقت...روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں...”اگرچہ اس ماموریت اور مشابہت میں المسیح الموعود اور الامام المہدی ہو نا مضمر تھا لیکن ان امور کا آپ پر تدریجاً انکشاف ہوا.اس ماموریت کی بشارت کو آپ کے سوانح نگار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.یکا یک آپ پر ایک قسم کی ربودگی اور غنودگی طاری ہوئی ( یہ بڑی مسجد کا واقعہ ہے ) تھوڑی دیر کے بعد یہ حالت جاتی رہی.تو آپ الحمد للہ کہہ کر ہوش میں آئے اور کہا کہ مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ ایک باغ لگایا جارہا ہے اور میں اس کا مالی مقرر کیا گیا ہوں."3 حضرت مرزا صاحب نے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا.جس میں بیان فرمایا کہ آپ کی اصلاح و تجدید دین کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ : دنیا میں منجانب اللہ اور سچا مذ ہب جس کے ذریعے سے انسان خد اتعالیٰ کو ہر ایک عیب اور نقص سے بری سمجھ کر اس کی تمام پاک اور کامل صفتوں پر دلی یقین سے ایمان لاتا ہے وہ فقط اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذہب ایسے بدیہی البطلان ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے اُن کے اصول صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں اور نہ ان پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و قبولیت الہی مل سکتی ہے بلکہ ان کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کا کور باطن اور سیہ دل ہو جاتا ہے جس کی شقاوت پر اسی جہان میں نشانیاں پید اہو جاتی ہیں.14 براہین احمدیہ ایسی کتاب ہے جس کو دوست دشمن سب نے پڑھا.اس کا نسخہ مکہ ، مدینہ ، بخارا تک پہنچا.گورنمنٹ کے پاس اس کی کاپی بھیجی گئی.ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، برہمنوں نے اسے پڑھا اور وہ کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ شہرت یافتہ کتاب ہے.کوئی پڑھا
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 2 لکھا آدمی جو مذ ہبی مذاق رکھتا ہو اس سے بے خبر نہیں.براہین احمدیہ تمام ملک بلکہ بلاد عرب اور فارس تک شائع ہو چکی ہے.4 ہنوز حضرت مرزا صاب اپنی عمر کے پہلے حصہ میں تحصیل علم میں مشغول تھے یا ابھی تعلیمی سلسلہ سے تازہ ہی فارغ ہوئے تھے اور یہ بٹالہ یا سیالکوٹ کا ذکر ہے جو 1864ء یا 1865ء کا زمانہ تھا.جب آپ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی نیلم کو خواب میں بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست پہلوان کی طرح گرسی پر جلوس فرما دیکھا.اس وقت حضرت مرزا صاحب کے ہاتھ میں ایک اپنی کتاب تھی جو خود آپ کی تالیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ نام کے پوچھنے پر کہ تو نے اس کا کیا نام رکھا ہے تو حضرت مرزا صاحب نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے”.یہ بشارت ان ایام اور ان حالات میں دی گئی جب کہ کسی کتاب کی تالیف و تصنیف کا وہم و گمان بھی نہیں تھا.2 اس خواب کا تفصیلی تذکرہ آگے آئے گا لیکن یہاں حضرت مرزا صاحب کے والد حضرت مرزا غلام مر تضی صاحب کی ایک رویاء کو درج کیا جاتا ہے جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے متعلق ہے:.جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اسی رویاء کے متعلق لکھتے ہیں:.....ناظرین کو اس رویاء کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو حضرت مرزا غلام مر تضی صاحب آپ کے والد ماجد نے دیکھی تھی.کہ آنحضرت صلی اللہ ہم آپ کے مکان کی طرف بڑی شان سے آرہے ہیں.یہ گویا آنحضرت صلی اللہ علم کی بعثت ثانیہ کا نقشہ تھا.جو انہیں دکھایا گیا."8 حضرت مرزا صاحب کی ایک رویا بھی اس کی تصدیق کرتی ہے:.تھوڑے دن گزرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا.اور اس نے ظاہر کیا کہ میر انام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ یہ دین محمد ہے.جو مجسم ہو کر نظر آیا ہے.اور میں نے اس کو تسلی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پائے گا.2 1857ء کے غدر کے زمانے کے قریب حضرت مرزا صاحب کو بٹالہ میں تعلیم کے لئے بھیجا گیا.آپ کے ہم مکتبوں میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور لالہ بھیم سین بھی وہیں آپ کے ساتھ پڑھتے تھے.آپ ہمیشہ خلوت کو پسند کرتے اور اپنی تعلیم میں مصروف رہتے تھے اور فارغ اوقات میں ان کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے جو مخالفین اسلام نے لکھی ہیں یا ان کے جواب میں مسلمانوں نے تحریر کی ہیں.اس عمر میں آپ تہجد اور نوافل پڑھنے کے با قاعدہ عادی تھے اور دعاؤں میں مصروف رہتے تھے.آپ کا قیام اپنی حویلی میں ہوا کرتا تھا جو ایک بڑا عالی شان مکان تھا.آپ کی فطرت میں اعلائے کلمۃ الاسلام کا جوش و دیعت کیا گیا تھا.آپ کی رات اگر دعاؤں اور عبادت میں گزرتی تھی تو دن اسی غور و فکر میں گزرتا تھا کہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کر کے دکھایا جاوے اور اس مقصد کے لئے آپ دوسرے مذاہب کی کتابوں کو اور اسلام پر کئے گئے اعتراضات کو ہمیشہ پڑھتے رہتے تھے.نہ صرف پڑھتے رہتے بلکہ آپ نے ان کو جمع بھی کیا تھا.مگر وہ مجموعہ طاعون کے ایام میں جل گیا.اگر چہ اکثر بڑے بڑے اعتراضات کے جوابات آپ کی تصانیف میں آگئے ہیں.آپ نے ایک جگہ رقم فرمایا کہ ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ ایک طرفۃ العین کے لئے بھی ان اعتراضوں نے آپ کے دل کو مذبذب یا متاثر نہیں کیا.آپ جوں جوں ان اعتراضوں کو پڑھتے جاتے اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت آپ کے دل میں سماتی جاتی تھی.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اور رسول اللہ صلی اللی علم کی عظمت اور محبت سے دل عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا.الله سة آپ نے یہ بھی غور کیا ہے کہ رسول اللہ صلی علیم کے جس پاک فعل یا قرآن شریف کی جس آیت پر مخالفوں نے اعتراض کیا ہے.وہاں ہی حقائق اور حکمت کا ایک خزانہ نظر آیا ہے.جو کہ ان بد باطن اور خبیث طینت مخالفون کو عیب نظر آیا ہے.آپ کے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا بیان ہے کہ :.عیسائی مذہب کے خلاف حضرت (مرزا صاحب) کو اس قدر جوش تھا کہ اگر ساری دنیا کا جوش ایک پلڑے میں اور حضرت کا جوش ایک پلڑے میں ہو تو آپ کا پلڑابھاری ہو گا.” عیسائیوں کے ساتھ مذہبی بات چیت کا سلسلہ تو ان ایام میں شروع ہوا جب آپ سیالکوٹ میں مقیم تھے.لیکن جب وہاں سے واپس تشریف لائے اور قادیان مقیم ہوئے تو علی العموم بٹالہ جانے کا اتفاق ہو تا تھا.اور وہاں عیسائی مشن قائم ہو چکا تھا.اندر ہی اندر بعض مسلمانوں میں ارتداد کا سلسلہ بھی جاری ہو چکا تھا.حضرت صاحب کے پاس مرزا پور کی چھپی ہوئی بائبل تھی اور آپ نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا تھا.بعض اوقات خود بائبل پر نشان کرتے تھے.عیسائیوں کے پرچہ نور افشاں کو آپ باقاعدہ منگواتے اور اس میں کئے گئے اعتراضات کے جوابات کبھی اپنے نام سے اور کبھی دوسروں سے بھی لکھوا دیتے تھے.اس غرض کے لئے آپ کبھی شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام سے بھی چھپوا دیتے تھے.منشی نبی بخش پٹواری کو عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات سکھاتے جو بٹالہ میں پادریوں سے مباحثات کرتے جن میں پادری صاحبان نہایت خفیف ہوتے تھے.قادیان میں بعض عیسائی مشنری پادری بیٹ مین وغیرہ آجایا کرتے تھے.مگر ان میں سے کبھی کوئی حضرت مرزا صاحب سے مذہبی گفتگو نہیں کرتا تھا.بلکہ بازار میں وعظ وغیرہ کہہ کر اور آپ سے ملاقات کر کے واپس چلے جاتے تھے.حضرت مرزا صاحب کی توجہ براہین احمدیہ کے کام کے آغاز کے قریب قریب آریہ سماج اور بر امھ سماج کی طرف بے حد تھی.اور آپ اس فتنہ کی سختی کو خصوصیت سے محسوس کر رہے تھے.اس کے کئی اسباب تھے.ایک یہ کہ تعلیم یافتہ طبقہ کو ان جدید خیالات کی طرف زور سے توجہ ہو رہی تھی.بنگال میں بر محو ازم ترقی کر رہا تھا اور بمبئی کی طرف آریہ سماج بڑھ رہا تھا.اور اب یہ تحریکیں بنگال اور بمبئی سے نکل کر پنجاب میں آچکی تھیں اور زور و شور سے اس کا اثر پھیل رہا تھا.دوسری وجہ یہ تھی کہ سب سے ضروری اور اصل چیز مذہب میں خدا کی وحی اور سلسلہ نبوت ہے.اور اس کے خلاف بر امھ سماج نے خطرناک حملہ کیا تھا.اور آریہ سماج بھی اس کا موید تھا.عیسائی وحی اور نبوت کے قائل تو تھے.اس لئے آپ نے آریہ سماج اور بر امھ سماج پر پوری قوت اور طاقت سے نہ صرف منقولی رنگ میں حملہ کیا بلکہ آپ نے حالی رنگ پید اکر کے اس فتنہ کا مقابلہ کیا.چونکہ اسلام پر ان لوگوں کا طریق عیسائیوں کے مقابلہ میں جدا گانہ تھا.آپ نے آریہ سماج اور بر امھ سماج کے لیڈروں اور بانیوں کو مقابلہ کے لئے بلایا.خود آریہ سماج کے بانی اور اس کے دست و بازو سر گرم لیڈر ان پر اتمام حجت کیا اور اب وقت آگیا تھا کہ آپ دنیا میں خدا کی قدرت اول کا مظہر ہوں اور منہاج نبوۃ پر اتمام حجت کریں.اس کا ظہور براہین احمدیہ کی تصنیف سے ہوتا ہے.کیونکہ پنڈت دیانند نے سر نکالتے ہیں اسلام پر زبان کھولی اور اپنی کتاب ستیار تھے پر کاش میں آنحضرت صلی ایم کی بہت بے ادبی کی اور قرآن شریف کا بہت توہین کے ساتھ ذکر کیا.” 10 علاوہ ازیں ملاحظہ ہو را قم الحروف کا مضمون براہین احمدیہ اور پنڈت دیانند سرسوتی ” مطبوعہ ماہنامہ “ انصار اللہ ربوہ بر این احمد یہ نمبر دسمبر 1997ء وو
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 4 مرزا اسماعیل بیگ 1877ء یا 1878ء کے قریب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی خدمت میں آئے تھے.جو بیگ صاحب کے کھیلنے کودنے کے دن تھے.کوئی نو دس سال کی عمر تھی.آپ کا کام یہ مقرر ہوا کہ وہ آپ کے گھر سے روٹی لے کر آیا کریں اور حضرت کے پاس کھالیا کریں اور نماز آپ کے ساتھ پڑھنے جایا کرے.موصوف کا بیان ہے کہ ان ایام میں حضرت صاحب کوئی مسودہ لکھا کرتے یہی وہ زمانہ ہے جبکہ براہین احمدیہ کی تصنیف کا کام شروع ہو رہا تھا.حضرت مرزا غلام مرتضیٰ ( والد ماجد حضرت مرزا غلام احمد قادیانی) مرزا اسماعیل بیگ کو کبھی کبھی بلا لیتے.آپ چار پائی پر پڑے رہتے پاس دو کرسیاں پڑی رہتی تھیں.مرزا اسماعیل بیگ کو کرسی پر بیٹھ جانے کے لئے فرماتے اور دریافت کرتے کہ : سنا تیر امر زا کیا کرتا ہے؟ تو میں (مرزا اسماعیل بیگ) کہتا کہ قرآن دیکھتے ہیں (حضرت مر زاصاحب نے قرآن مجید کو بے انتہا مر تبہ پڑھا ہے.آپ کے پاس ایک حمائل تھی.جسے بقول آپ کے صاحبزادے خان بہادر مر زا سلطان احمد شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو.مصنف حیات احمد نے خود اسے دیکھا تھا) اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے (مطلب یہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت سے فارغ بھی ہوتا ہے.مصنف حیات احمد ) پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے ؟ میں جو اب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں.اس پر مرزا صاحب ( والد ماجد حضرت مرزا غلام احمد قادیانی) کہتے کہ اس نے سارے تعلقات چھوڑ دیئے ہیں.میں اوروں سے کام لیتا ہوں.دوسرا بھائی کیسالا ئق ہے وہ معذور ہے.حضرت اقدس ( مرزا غلام احمد قادیانی صاحب) جب والد صاحب کی خدمت میں جاتے تو نظر نیچے ڈال کر چٹائی پر بیٹھ جاتے تھے آپ (حضرت والد ماجد صاحب) کے سامنے کرسی پر نہیں بیٹھتے تھے.یہ ان ایام میں آپ کی شبانہ روز زندگی کا ایک انتہائی مختصر خاکہ ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک ایسے گاؤں قادیان (ضلع گورداسپور / انڈیا) میں رہتے تھے جہاں عام واقفیت اور علمی معلومات کے بڑھانے کا کوئی موقعہ نہیں تھا.لیکن آپ ان تمام حالات سے واقفیت رکھتے تھے جو مذ ہی دنیا میں پیداہورہے تھے اور ہر مذہبی تحریک کا اس نظر سے مطالعہ کرتے تھے کہ وہ کس حد تک اسلام سے تصادم کرنے والی ہے.اور جہاں آپ کو معلوم ہوتا کہ کوئی تحریک اسلامی عقیدہ یا تعلیم سے فکر کھاتی ہے.آپ فوراً اصول اسلام کی صیانت کے لئے شمشیر قلم ہاتھ میں لے کر میدان میں نکل آتے اور اس طرح پر اخبارات کے ذریعہ ان اعتراضات اور ان کے جوابات دینے میں مصروف نظر آتے ہیں.نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اسلام پر چاروں طرف سے حملے شروع ہو گئے تھے.عیسائی اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ حملے کر رہے تھے.آریوں کے جدید فرقہ نے ان کو مدد دی.جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے.ان حملوں کی ذرا بھی پرواہ نہ ہوتی اگر مسلمانوں کی اندرونی حالت درست ہوتی مگر وہ دن بدن قابل افسوس ہو رہی تھی.سرسید کی تحریک مذہبی نقطہ خیال سے مضر اثر پیدا کر رہی تھی.یہ بھی براہین احمدیہ کی تالیف کی ابتدائی تحریک میں سے ایک وجہ تھی.کچھ شک نہیں کہ براہین احمدیہ کی تصنیف کے خارجی محرکات یہی مباحثات تھے.مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ مباحثات بھی ربانی تحریک کے نتیجے میں تھے.اس وقت کے اسلامی مذہبی لیڈروں میں حضرت مرزا صاحب کا نام تک بھی نہ آتا تھا کہ یکا یک ایسی ہوا چلی کہ ان مضامین نے مذہبی میدان میں ایک نئی حرکت پیدا کر دی اور تمام لوگوں کی توجہ کو بدل دیا اور جب پنڈت دیانند جی اور دوسرے آریہ مناظر اس میدان میں نہ ٹھہر سکے تو حضرت مرزا صاحب کی شخصیت غیر معمولی نظر آنے لگی اور ادھر حضرت نے اسلام پر حملوں کی کثرت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ اسلام کی صداقت کے اظہار و اعلان کو زندگی اور موت کا سوال بنادیا جاوے.چنانچہ آپ نے براہین احمدیہ کی اشاعت کا ارادہ اس نہج پر کیا کہ اس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کے انعام کا اعلان کیا
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 5 جاوے جو اس شخص کا حق ہو گا جو دلائل مندرجہ براہین کے پانچویں حصہ تک توڑ کر دکھاوے یا پانچویں حصہ کے برابر اسی قسم کے دلائل اپنی کتاب سے پیش کرے.1-2.براہین احمدیہ کے مخالفین اور معاندین یہ کتاب حقیقت اسلام اور صداقت محمدیہ کے لئے لکھی جارہی تھی مگر پھر بھی بد قسمتی سے مسلمانوں کے بعض کو ارٹر ز میں مخالفت کا ہلکا سادھواں اٹھتاد کھائی دیا اور جوں جوں کتاب کی جلدیں شائع ہونے لگیں مخالفت کے دائرہ میں وسعت ہوتی گئی.1882-81ء میں اندرونی مخالفین میں شورش پید اہوئی اس لئے کہ حصہ سوم میں آپ نے یہ دعوی کھلے الفاظ میں کر دیا تھا کہ جس کو الہام میں شک ہو ہم اس کو مشاہدہ کر ا دیتے ہیں 11 یہ مخالفت امر تسر اور لدھیانہ میں ابھری جو تقریر کے دائرہ سے نکل کر تحریر کے دائرہ میں آنے لگی.بیر ونی مخالفین کا اظہار اخبار سفیر ہند امر تسر ، نور افشاں لدھیانہ اور رسالہ و دیا پر کاشک امر تسر میں ہو تا تھا.نور افشاں اور سفیر ہند میں تو پادری صاحبان نے اور ودیا پر کا شک میں آریوں نے طوفان بے تمیزی برپا کیا.ان مخالفین کا حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ دوم میں ذکر کیا.آپ کو اپنی کامیابی اور مخالفین کے ناکام رہنے کا اس قدر بصیرت افروز یقین تھا کہ انہیں خطاب کر کے کہا.سچ سچ کہو اگر نہ پھر بھی جواب بنا تم ނ کچھ یا نہیں جہاں کو دکھاؤ گے منه بیرونی مخالفین میں پادری بی ایل ٹھاکر داس، بر ہموؤں میں سے پنڈت سیتانند اگنی ہوتری نے براہین پر ریویو نگاری کے رنگ میں اعتراضات کئے اور آریوں میں سے مقتول لیکھ رام نے تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی.لیکن ان میں سے کسی کو یہ جرات اور حوصلہ نہ ہوا کہ وہ میدان مقابلہ میں آکر براہین کے اعلان کے موافق فیصلہ کرتے.-1-3- براہین احمدیہ کی تصنیف کے متعلق ایک معترض براہین احمدیہ اپنے مضامین کی قوت اور اسلوب بیان کی ندرت کے لحاظ سے بے نظیر اور لاجواب تصنیف ہے.مخالفین نے اس کے متعلق جو کچھ چاہا لکھا مگر کسی شخص کو یہ لکھنے کی کبھی جرات نہ ہوئی کہ اس کتاب کی تصنیف میں کسی اور کا کچھ بھی دخل تھا.لیکن مولوی عبد الحق نے مولوی چراغ علی کی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ “ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ” کے نام سے کیا تو اس کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی) کے بعض مکتوبات کا خلاصہ دے کر جو نتیجہ نکالا ہے وہ مکتوبات کی اندرونی شہادت پر غور کرنے سے بخوبی عیاں ہے لیکن مولوی صاحب اور ان کی اندھا دھند تقلید میں ایک صدی سے زائد عرصہ سے کسی مثال اور مقام کی نشاندہی کے بغیر کچھ لوگ حضرت مرزا صاحب کے بارے میں ایک غلط اور بے بنیاد بات کی بلا ثبوت اور بغیر سوچے سمجھے نقل در نقل کرتے چلے آرہے ہیں اور یہی ہمارے زیر نظر مقالے کا موضوع ہے.اس سلسلے میں اگر چہ “ حیات احمد ” کے فاضل مصنف شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنی کتاب کے منشاء کے خلاف کوئی موازنہ قائم نہیں کیا لیکن بہت سے دلائل اس کی تردید میں تحریر کئے ہیں.جن سے ناچیز راقم الحروف نے اس مضمون میں جابجا بھر پور استفادہ کیا ہے.اور شیخ صاحب موصوف کے دلائل کی توسیع میں راقم السطور ایک موازنہ بھی پیش کر رہا ہے.لیکن اس سے قبل مولوی عبد الحق
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام ( معترض) اور مولوی چراغ علی (جن کی آڑ میں مولوی عبد الحق صاحب نے براہین احمدیہ پر اعتراض کیا ہے ) کے: 6 سوانحی کوائف، مذہبی عقائد ، دیانت فکر و نظر، مولوی چراغ علی سے ربط و ضبط اور مولوی عبد الحق کی دیانت تصنیف و تالیف پر باب دوم اور سوم میں نظر ڈالی گئی ہے کہ تا مولوی عبد الحق صاحب کا اس علمی بد دیانتی پر مقام متعین کیا جا سکے اور پھر اس اعتراض کا بھانڈا پھوڑنے کے لئے خود مولوی عبد الحق اور ان کے ممدوح مولوی چراغ علی کا علمی و دینی مقام کا بھی تعین کیا جاسکے.ایک موازنہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریروں سے کر کے اس قصے کو تمام کیا گیا ہے.1-4.براہین احمدیہ اور مولوی عبد الحق کا مقدمہ اعظم الکلام مولوی عبد الحق کی شخصیت پر غور کیا جائے تو ہمیں دو ایک ایسی باتوں کا سراغ ملتا ہے جن سے آشنا ہوئے بغیر ہم اس دور کے مزاج کا پتہ نہیں چلا سکتے.یہ صحیح ہے کہ مولوی صاحب نے تقریب ستر سال علم و ادب سے براہ راست تعلق رکھنے کے باوجو د ایک بھی ایسی مستقل کتاب نہیں چھوڑی ہے جو ادب میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھ سکے.یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے شعر و شاعری پر کوئی ایسی تحریر نہیں چھوڑی جسے ان کے ادبی و شعری نظریات کا حامل قرار دیا جاسکے یا ان کے مقدموں اور تبصروں میں جو شعراء پر لکھے گئے ہیں ان سے شعری مذاق یا اس کے افہام و تفہم کا اتنا اندازہ بھی نہیں ہو تا جتنا یاد گار غالب ” سے ہوتا ہے.اور یہ بھی خیال کوئی زیادہ غلط نہیں کہ انہوں نے زیادہ تر مقدموں میں جس تحقیقی زاویہ نظر کو پیش کیا ہے.وہ اپنی ساری افادیت کے باوجو د ایسے نہیں، جن سے اکثر کی تردید ہو چکی ہے یا ایسے انکشافات پر مبنی ہیں جن کی چھان پھنک جتنی چاہئے تھی نہیں کی گئی یا ان کی بعض جگہ تکرار کی گئی ہے.لیکن یہ اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ مولوی صاحب کا اصل تحقیقی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کی عمر کئی سو سال بڑھا دی.خواہ یہ اتفاق ہو مگر مولوی صاحب اگر اردو کو اپنا دین و ایمان نہ بنالیتے تو یہ کارنامہ پتہ نہیں اور کتنے عرصہ تک پر دہ اخفا میں رہتا.12 شمیم احمد کی یہ رائے کہ مولوی عبد الحق کے مقدمات میں جس تحقیقی زاویہ نظر کو پیش کیا گیا ہے اُن میں سے اکثر کی تردید ہو چکی ہے یا ایسے انکشافات پر مبنی ہیں جن کی جتنی چھان پھٹک چاہئے تھی نہیں کی گئی ایک صائب رائے ہے.انہیں مقدمات میں سے مولوی عبد الحق کا ایک مقدمہ مولوی چراغ علی کی انگریزی کتاب Proposed Political, Legal and social Reforms under 'Muslim Rule کے ترجمہ جو “ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام" کے نام سے کیا گیا ہے.مولوی عبد الحق نے یہ ترجمہ 1910ء میں مطبع مفید عام آگرہ سے شائع کیا اور وہی ایڈیشن ہمارے پیش نظر ہے.مولوی عبد الحق صاحب اس کتاب کو نہایت پر زور مدلل اور جامع کتاب " 13 قرار دیتے ہیں.اس فقرہ میں مولوی عبد الحق، چراغ علی کی کتاب کو پُر زور قرار دے رہے ہیں جبکہ اسی مقدمہ کے چند صفحات پہلے موصوف مولوی چراغ علی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “ ان کی تحریر میں گرمی نہیں، اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سردمہر منطقی ایک ایسے مبحث پر جس سے اُسے دلچسپی ہے بحث کر رہا ہے.اور واقعات اور دلائل براہین پیش کر کے بال کی کھال نکال رہا ہے.حالانکہ مذہب کو منطق و استدلال سے تعلق نہیں جتنا کہ انسان کے جذبات لطیفہ یا وجد ان قلب سے ہے.اس لئے مذہب پر بحث کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان رسمی قیود سے باہر نکل کر نظر ڈالے اور اس میں وہ جوش و حرارت ہو جو ایک سردمہر منطقی یا ایک کائیاں دنیادار میں نہیں ہو سکتی."14 مولوی عبد الحق کو مولوی چراغ علی کے بیشتر خیالات سے اتفاق ہے.مولوی صاحب نے مقدمے میں اس کتاب پر تنقید نہیں کی ہے بلکہ اس کا خلاصہ پیش کر دیا گیا اور اس انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مولوی چراغ علی کے خیالات سے متفق ہیں.15
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 7 مولوی عبد الحق کے ایک قریبی رفیق کے بقول مولوی چراغ علی کی اِس کتاب کا نام زیادہ تر مولوی عبد الحق کے اردو ترجمے (اور مقدمے کی بدولت باقی رہ سکا ہے.12 مولوی عبد الحق صاحب کے مقدمہ زیر نظر میں وہ مندرجات جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتاب براہین احمدیہ کے بارے میں ایسے ہیں کہ جن کا مناسب محاکمہ از بس ضروری ہے.کیونکہ ان میں بھی مولوی عبد الحق صاحب کو جتنی چھان پھٹک کی ضرورت تھی اسے استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے ممدوح مولوی چراغ علی کو اُن کے مقام سے عمد أضرورت سے زیادہ بلند کرنے کی کوشش کی گئی ہے.یہ الگ بات ہے کہ اس امر کی تردید خود مولوی عبد الحق کے مقدمہ ہی سے ہوتی ہے.جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ مولوی عبد الحق کچھ صفحات پہلے پر مولوی چراغ علی کی تحریر کو ایک سردمہر منطقی اور ایک دنیا دار کی جوش و حرارت سے عاری تحریر قرار دیتے ہیں.مگر چند ہی صفحات بعد اسے ایک نہایت پر زور مدلل اور جامع کتاب قرار دیتے ہیں.مولوی عبد الحق صاحب کا یہ تناقض بدیہی بطلان ہے.ان امور کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبد الحق کو جوشِ عقیدت میں (جو ان کو مولوی چراغ علی سے تھا) کچھ باتیں زیب داستاں کے طور پر بھی موصوف سے معنون کر دینا چاہتے ہیں.اور اس رائے کے قائم کرنے میں بھی مولوی صاحب کو جتنی چھان پھٹک کی ضرورت تھی اسے بوجوہ چند در چند بالائے طاق رکھ کر جو لکھا ہے وہ مولوی عبد الحق کی ثقاہت کو پایہ اعتبار سے گرا دیتا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ :.“ اس موقع پر یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جس وقت ہم مولوی صاحب مرحوم (مولوی چراغ علی) کے حالات کی جستجو میں تھے تو ہمیں مولوی صاحب کے کاغذات میں سے چند خطوط مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم کے بھی ملے ، جو انہوں نے مولوی صاحب ( چراغ علی ) کو لکھے تھے اور اپنی مشہور اور پر زور کتاب“ براہین احمدیہ کی تالیف میں مدد طلب کی تھی.17 1-5 - براہین احمدیہ میں مولوی چراغ علی کی مالی معاونت تھی نہ کہ علمی امداد اس کے بعد مولوی عبد الحق صاحب نے جناب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے خطوط سے مفید مطلب اقتباسات دینے کے بعد جو رائے لکھی ہے وہ ملاحظہ ہو !! ان تحریروں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب مرحوم ( مولوی چراغ علی ) نے مرزا صاحب مرحوم کو براہین احمدیہ کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی ہے.دوسرے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب مرحوم کو حمایت و حفاظت اسلام کا کس قدر خیال تھا.یعنی خود تو وہ یہ کام کرتے ہی تھے مگر دوسروں کو بھی اس میں مدد دینے سے دریغ نہ کرتے تھے.چنانچہ جب مولوی احمد حسن صاحب امروہی نے اپنی کتاب تاویل القرآن شائع کی تو مولوی صاحب نے بطور امداد کے سو روپیہ مصنف کی خدمت میں بھیجے.اسی طرح جو لوگ حمایت اسلام میں کتابیں شائع کرتے تھے ان کی کسی نہ کسی طرح امداد کرتے تھے اور اکثر متعد د جلدیں ان کتابوں کی خرید فرماتے تھے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کی کتاب پیغام محمدی کی کئی سو جلد میں خرید کر دکن میں تقسیم کر دیں." 18 بعینہ یہی طریق مولوی چراغ علی نے حضرت مرزا صاحب کے متعلق بھی اختیار کیا.جس کا تذکرہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک اشتہار میں کیا جو تصنیف کتاب براہین احمدیہ بہت اطلاع جمیع عاشقان صدق و انتظام سرمایہ ء طبع کتاب میں جو اخبار سفیر ہند امر تسر اور “منشور محمدی بنگلور 5 جمادی الاولی 1296ھ (1879) میں چھپا تھا.اشتہار کے آخر پر اپنا اتا پتا دینے کے بعد لکھا:“ مکرر بڑی شکر گذاری سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مولوی چراغ علی خاں صاحب نائب معتمد مدار المهام دولت آصفیه حیدر آباد دکن نے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنے کرم ذاتی و ہمت اور حمایت و حمیت اسلامیہ سے بوجہ چندہ اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے." 1999
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 1-6 - براہین احمدیہ میں مولوی چراغ علی کی مالی معاونت کا تذکرہ 8 درج ذیل مقامات پر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے مولوی چراغ علی صاحب کا نام براہین احمدیہ میں بطور اعانت طبع کتاب درج کیا ہے.بر این احمد یہ حصہ اول صفحہ 3 اور 11 محض بطور اعانت طبع کتاب عطر (یعنی دس روپے.ناقل ) ہے.1-7.مصنف براہین احمدیہ کا کسی امداد یا معاونت کے بارے میں کیا خیال تھا آپ کے امداد / مد دیا اعانت کے بارے میں کیا خیالات ہیں.آپ لکھتے ہیں کہ : “ اس خداوند عالم کا کیا کیا شکر ادا کیا جائے کہ جس نے اول مجھ ناچیز کو محض اپنے فضل اور کرم اور عنایت غیبی سے اس کتاب کی تالیف اور تصنیف کی توفیق بخشی اور پھر اس تصنیف کے شائع کرنے اور پھیلانے اور چھپوانے کے لئے اسلام کے عمائد اور بزرگوں اور اکابر اور امیروں اور دیگر بھائیوں اور مومنوں اور مسلمانوں کو شائق اور راغب اور متوجہ کر دیا.پس اس جگہ ان تمام حضرات معاونین کا شکر کرنا بھی واجبات سے ہے کہ جن کی کریمانہ توجہات سے میرے مقاصد دینی ضائع ہونے سے سلامت رہے اور میری محنتیں برباد جانے سے بچ رہیں.میں ان صاحبوں کی اعانتوں ایسا ممنون ہوں کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں اُن کا شکر ادا کر سکوں بالخصوص جب میں دیکھتا ہوں کہ بعض صاحبوں نے اس کار خیر کی تائید میں بڑھ بڑھ کے قدم رکھے ہیں اور بعض نے زائد اعانتوں کے لئے اور بھی مواعید فرمائے ہیں تو یہ میری ممنونی اور احسان مندی اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے.20 پھر آپ کتاب کے اواخر میں بھی لکھتے ہیں کہ “ اس جگہ ان نیک دل ایمانداروں کا شکر لازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے سے آج تک مدد دی ہے خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے”.21 فی الواقعہ طباعت کتاب براہین احمدیہ میں جن لوگوں نے اعانت کی وہ ہی مدد تھی جو حضرت مرزا صاحب نے بصد ، تشکر و امتنان لی وگرنہ دیگر سب امور اتہام و بد گمانیاں ہیں.آپ کتاب کے اواخر پر بعنوان ہم اور ہماری کتاب رقم فرماتے ہیں.“ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی.پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی.یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے انی انا ربک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتم ظاہر او باطنا حضرت رب العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے نہم اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک اسرار حقیقت اسلام کے لئے ظاہر کئے ہیں اتمام حجت کے لئے کافی ہیں."22 1-8- براہین احمدیہ کے مضامین کی اجمالی تفصیل حقیقت کچھ یوں محسوس ہوتی ہے کہ اعتراض کرنے والے نے براہین احمدیہ کا جیسے بالاستیعاب ( Inquire into all details) مطالعہ ہی نہ کیا ہو.یہ کتاب اپنے بنیادی اور اصولی محکم دلائل کی بنیاد پر اسلام کی حقانیت اور صداقت پر آپ کی باقی تمام کتب کے لئے متن کے طور پر اور باقی سب اس کی شرح ہیں.23 ذیل میں مختصر ابراہین احمدیہ کے چند مضامین کی تفصیل دی جاتی ہے اس غرض سے کہ سرسید اور مولوی چراغ علی صاحبان کی تحریرات میں بھی کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے بیان کردہ منظوم سینکڑوں اردو، فارسی اشعار، کشوف، الہامات اور دیگر مضامین اُسی قطعیت اور شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں جو آپ نے ایک ایسے مصور کی طرح لکھے ہیں جو اپنے فن میں ید طولیٰ رکھتا ہو وگرنہ دیگر اصحاب نے اگر ان مضامین کو چھوا ہے تو ایک طفل مکتب سے زیادہ ان میں کوئی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام بات نہیں پائی جاتی.حضرت مرزا صاحب نے کسی نئی بات کا دعوی ہی نہیں کیا بلکہ لکھا ہے:.وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار آپ کی باتیں وہی ہیں جو قرون اولیٰ میں جلوہ فگن تھیں مگر مرورِ زمانہ سے ذہنوں سے محو ہو گئیں گویا دفن ہو گئیں اور حضرت مرزا صاحب نے ان تمام امور کو نئی جلاء بخش کر پیش کر دیا.جس کی زمانہ کو ضرورت تھی اور اب ان کی شان پہلے سے بڑھ کر ہے.ایک اجمالی تفصیل پیش خدمت ہے:.آیات قرآنیہ جن سے آپ نے قرآن اور صدق رسول کریم صلی للی کم پر استدلال کیا ہے ان کی تعداد 104ء آیات قرآنیہ کی تفسیر مکمل سورتوں کی تفسیر صداقت اسلام کے بارے میں تمہیدات عدد 11 عدد 3 عدد 8 عدد اسلام کے مخالفین کے وساوس کے جوابات منکرین اسلام کے اوہام کا ازالہ الہام اور قرآن کریم اور رسول کریم صلی الہ وسلم کی مدح میں منظوم کلام جو سینکڑوں اردو، فارسی اشعار پر مشتمل ہے وہ بھی دلائل ہی ہیں آپ نے جو رویاء بیان کئے آپ نے جو کشوف بیان فرمائے اس کتاب کے اصل متن پر حاشیوں کی تعداد 14 عدد 6 عدد 21 عدد 10 عدد 7 عدد 11 عدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر جو الہامات حضرت رسول کریم صلی للی نیم کی کامل متابعت کے نتیجے میں نازل ہوئے ان کی تعداد 24, *297 الله ان مندرجات پر نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ واقعات جو بطور قصہ کہانی کے تھے اور دنیا میں کوئی انقلاب نہیں لا سکتے تھے حضرت مرزا صاحب نے ثابت کر دکھایا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور حضرت رسول کریم صلی علیم ایک زندہ نبی ہیں آپ کی متابعت کے تازہ ثمرات تازہ بتازہ ہر زمانے کے کامل اور بچے متبعین کے ذریعے ظاہر ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ان کا قطعی ثبوت آپ کے مکالمات و مخاطبات ہیں.کیا یہ بھی مولوی چراغ علی صاحب و غیر ہم کے بتائے ہوئے ہیں ؟ تو پھر انہوں نے خود ایسی کسی بات کو اپنی کتابوں میں کیوں درج نہیں کیا بلکہ وہ تو بر ہمو سماج کی ہی ایک شاخ بن گئے بجائے اسلام کی خدمت کرنے کے الٹا نقصان کا باعث بنے.1-9 - حضرت مرزا صاحب کا سرسید تحریک پر تبصرہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام ” میں مولوی چراغ علی کے رہنما سر سید احمد خان کی پیر 11-1 میں بیان کردہ روش کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام.25", 10 “شاید آپ (یعنی سرسید - ناقل) کے دل میں یہ عذر بھی مخفی ہو کہ اس نئے فلسفہ کے طوفان کے وقت اسلام کی کشتی خطرناک حالت میں تھی.اور گو وہ کشتی جواہرات اور نفیس مال و متاع سے بھری ہوئی تھی مگر چونکہ وہ تہلکہ انگیز طوفان کے نیچے آگئی تھی اس لئے اس ناگہانی بلا کے وقت یہی مصلحت تھی اور اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ کسی قدر وہ جواہرات اور نفیس مال کی گٹھڑیاں دریا میں پھینک دی جائیں اور جہاز کو ذرا ہلکا کر کے جانوں کو بچا لیا جائے لیکن اگر آپ نے اس خیال سے ایسا کیا تو یہ بھی خودروی کی ایک گستاخانہ حرکت ہے.جس کے آپ مجاز نہیں تھے.اس کشتی کا ناخدا خدا وند تعالیٰ ہے نہ آپ.وہ بار بار وعدہ کر چکا ہے کہ ایسے خطرات میں یہ کشتی قیامت تک نہیں پڑے گی اور وہ ہمیشہ اس کو طوفان اور باد مخالف سے آپ بچاتا رہے گا.جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الجرع 1) یعنی ہم نے ہی اس کلام کو اتارا اور ہم ہی اس کو بچاتے رہیں گے.سو آپ کو چاہیئے تھا کہ آپ اس ناخدا کی غیبی ہدایت کی انتظار کرتے اور دلی یقین سے سمجھتے کہ اگر طوفان آگیا ہے تو اب اس ناخدا کی مدد بھی نزدیک ہے جس کا نام خدا ہے جو مالک جہاز بھی ہے اور ناخدا بھی.پس ایسی بے رحمی اور جرات نہ کرتے اور آپ ہی خود مختار بن کر بے بہا جواہرات کے صندوق اور زر خالص کی تھیلیاں اور نفیس اور قیمتی پارچات کی گٹھڑیاں دریا میں نہ پھینکتے.خیر ہرچہ گذشت گذشت.اب میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں اور بشارت پہنچاتا ہوں کہ اس ناخدا نے جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.زمین کے طوفان زدوں کی فریاد سن لی اور جیسا کہ اس نے اپنی پاک کلام میں طوفان کے وقت اپنے جہاز کو بچانے کا وعدہ کیا ہوا تھا وہ وعدہ پورا کیا.اور اپنے ایک بندہ کو یعنی اس عاجز کو جو بول رہا ہے اپنی طرف سے مامور کر کے وہ تدبیریں سمجھا دیں جو طوفان پر غالب آویں اور مال و متاع کے صندوقوں کو دریا میں پھینکنے کی حاجت نہ پڑے." 1-10 - حضرت مرزا صاحب کا شردھے پر کاش دیوجی برہمو اور پادری ٹامس باول کی کتابوں سے موید اقتباس کا اپنی کتب میں اندراج پر اظہار ممنونیت اگر براہین کی تصنیف میں کسی شخص کی قلم اور دماغ نے کچھ بھی مدددی ہوتی آپ نہایت فراخدلی سے اس کا اعتراف کرتے یہ آپ کی سیرت ( کیریکٹر ) کا ایک بہت ہی نمایاں پہلو ہے کہ آپ نے جب بہ حیثیت مصنف کسی دوسرے اہل قلم کی تحقیقات اور کوشش سے استفادہ کیا یا اپنے بیان اور تحقیقات کی تائید میں بطور موید پیش کیا تو اس کے نام کا شرح صدر سے اظہار کیا اور اس کی محنت کی داد دی اور ایسے وقت میں جب آپ کے لاکھوں مرید تھے طبعی طور پر انسان ایسے حالات میں جبکہ اس کے ارد گرد عقید تمندوں کی بہت بڑی جماعت ہو اپنی وضعداری کے خلاف سمجھتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی تصنیف و تالیف سے کچھ لے اور اس کا اقرار کرنے کی جرات کرے.یہ اخلاقی کمزوری ہے جو خود غرض مصنفین میں پائی جاتی ہے لیکن جو خدا کی طرف سے کھڑے ہوتے ہیں وہ اس عیب سے پاک ہوتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے جب کتاب چشمہ معرفت ” لکھی اور یہ 1908ء کا واقعہ ہے.یہ آپ کی وفات سے تقریباً دو ہفتہ پیشتر شائع ہوئی آپ نے “چشمہ معرفت ” میں شردھے پر کاش دیوجی برہمو کی کتاب “ سوانح عمری حضرت محمد صاحب مصلی ام) سے کچھ اقتباس لیا.اور نہایت مسرت کے جذبات کے ساتھ اس کا اعتراف کیا اور کتاب کے لئے جماعت کو سپارش بھی فرمائی.20 اسی طرح ایک دفعہ آپ نے ہندو اور آریہ کی بحث کے سلسلہ میں پادری ٹامس ہاول ( جو اسلام کا بہت ہی خطرناک دشمن تھا) کے ایک مضمون کو اپنی ایک تصنیف کے حاشیہ میں دیا اور اس کا اعتراف کیا.ان حالات میں حضرت مرزا صاحب کے طریق عمل کے بھی یہ خلاف تھا کہ اگر آپ کسی سے کوئی مدد لیتے تو اس کا اعتراف نہ کرتے اس لئے یہ تو صریح غلطی اور خلاف واقعات ہے کہ آپ نے مولوی چراغ علی صاحب سے کوئی امداد لی.البتہ ان مکتوبات سے ایک امر پر ضرور روشنی پڑتی ہے کہ آپ کو آنحضرت صلی علیم کی عظمت و جلال اور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 11 قرآن مجید کی حقانیت کے اظہار و اعلان میں کس قدر جوش تھا کہ اگر کسی بھی شخص نے اس مقصد کے لئے ذرا بھی آگے بڑھنا چاہا تو آپ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے اور اس طرح پر آپ مسلمانوں میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ وہ ناموس نبوت کی صیانت کے لئے اپنے وقت اور فکر کی قربانی کرنا سیکھیں.27 1-11.براہین احمدیہ کی تصنیف اور بعد کے زمانے کے خادم جناب میر عباس علی صاحب میر عباس علی زمانہ تصنیف براہین احمدیہ میں ایک مخلص مددگار کے طور پر حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں رہا کرتے تھے بعد میں آپ کے دعوی کے زمانہ میں آپ کا مخالف ہو گئے اور ایک اشتہار بھی شائع کیا، مگر موصوف نے بھی براہین احمدیہ کی تصنیف میں کسی قلمی مدد دینے والے کا ذکر نہیں کیا.اگر انہیں ذرا سا شائبہ بھی گزرتا تو وہ تو حضرت مرزا صاحب کے بھیدی تھے اور مضامین کی مدد (اگر کوئی ہوتی ) کو ضرور طشت از بام کرتے.جناب مرزا صاحب زمانہ تصنیف براہین احمدیہ میں میر عباس علی کو اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:“ چونکہ یہ کام خالصاً خدا کے لئے اور حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے.اس لئے آپ اس کی خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید و فروخت پر نظر ہو.بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں انہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے....غرض آن مخدوم اسی سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکل کر کے صادق الارادت لوگوں سے مدد لیں اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے.ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں اور وہ جو قادر مطلق ہے.وہ جب چاہے گا تو اسباب کا ملہ خود بخود میسر کر دے گا.کونسی بات ہے جو اس کے آگے آسان نہ ہوتی ہو." 28 حوالہ جات 1-1 1 - پروفیسر معین الدین عقیل، رسمیات مقالہ نگاری پاکستان اسٹڈی سنٹر جامعہ کراچی صفحہ 60.2009ء 2 - براہین احمدیہ صفحہ 24 3 - “ حیات احمد “ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 245 4 - مجموعہ اشتہارات “حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی جلد اول صفحہ 27 مطبوعه نظارت اشاعت ربوه تاریخ ندارد 5 - لیلچر لدھیانہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب صفحہ 252-255 مشمولہ روحانی خزائن جلد نمبر 20 6 - “سراج منیر صفحہ 59.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 7 - “حیات احمد “ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 275 276 حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 8 - “ حیات احمد " مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 87 و - ازالہ اوہام صفحہ 206 حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 10 - چشمه معرفت حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 5 1-2 11 - براہین احمدیہ ، حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی حاشیہ نمبر 11 صفحہ 216-215
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 1-4 12 - مولوی عبدالحق کے علمی وادبی کارناموں پر مجموعی نظر، مضمون بعنوان “مولوی عبد الحق سے بابائے اردو تک مصنفہ شمیم احمد مطبوعہ روزنامہ " امروز، لاہور مورخہ 17 اگست 1975ء - 13 - اعظم الکلام فی ارتقاء الا سلام حصہ دوم صفحہ 45 یہ حصہ 1911ء میں رفاہ عام اسٹیم پر میں لاہور.-14 اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم صفحہ 39 15 - سہ ماہی رسالہ اردو بابائے اردو نمبر 1962ء صفحہ 175 176 مضمون بعنوان " مقدمات عبد الحق مصنفہ ڈاکٹر عبادت بریلوی 16 - اردو دائرہ معارف اسلامیہ “ جلد نمبر ۱۲ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور مقالہ نویس سید ہاشمی فرید آبادی 17 - مقدمہ اعظم الکلام.....صفحہ 23 جلد دوم 1-5 18 - مقدمہ اعظم الکلام جلد دوم صفحہ 25 تا 26 19 - (ملاحظہ ہو مجموعہ اشتہارات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود مهدی معہود علیہ السلام - جلد اول صفحہ 24 مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ تاریخ ندارد) اور حیات احمد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 353 20 براہین احمدیہ مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صفحہ 5 1-7.6 21 - ایضاً صفحہ 673 22 - ايضاً صفحہ 673 1-8 23 - ولائل قاطعه ماخوذ از براہین احمدیہ مرتبہ عبد الرحمن مبشر ڈیرہ غازی خان مطبوعہ دسمبر 1983ء 24 ولائل قاطعہ صفحہ 20-21 مرتبہ عبد الرحمان مبشر.رحمانیہ منزل بلاک جی ڈیرہ غازی خان مطبوعہ دسمبر 1983ء) 1-9 25 حاشیہ مقدمہ حقیقت اسلام، مندرجہ “ آئینہ کمالات اسلام “مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 259 تا 261 مطبوعہ فروری 1893ء 1-10 26-چشمہ معرفت صفحہ 45 مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب 27 - “ حیات احمد “ جلد اول صفحہ 380-381 مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی 28 - مکتوبات احمد یہ جلد اول مکتوب مورخہ 28 اکتوبر 1882ء 1-11 12
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام باب دوم: مولوی عبد الحق صاحب المعروف بابائے اردو تعارف، تبصرہ و تنقید 2-1- مولوی عبد الحق کے سوانحی کوائف 13 میرٹھ ضلع (صوبہ اتر پردیش کے ایک قصبہ ہاپوڑ کے محلہ “ قانون گویان ”میں پتھر والے کنوئیں کے سامنے ایک بڑی عمارت جو بیسویں صدی کے دوسرے دہاکے میں مٹی گارے کے ایک کچے مکان کو توڑ کر از سر نو تعمیر کی گئی تھی اُس میں ایک صاحب شیخ علی حسین مقیم تھے.آپ کے آباؤ اجداد ہندوؤں کی کا سکستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے.شاہجہان کے عہد میں اسلام قبول کیا اور عہد مغلیہ میں محکمہ مال کی قانون گوئی کی خدمات پر مامور ہوئے.20 اگست 1870ء کو شیخ صاحب کے گھر ایک بچہ ہاپوڑ سے ملحق گاؤں سر اوہ میں پید اہوا.جس کا نام خاندانی ناموں حسن ” حسین " کی بجائے " حق کی اضافت کے ساتھ موصوف کے پیرومرشد کے فرمان کے مطابق رکھا گیا اور یہی عبد الحق ہیں جو بعد میں بوجہ رواج زمانہ بی.اے کرنے پر مولوی عبد الحق کہلائے.اپنی علمی خدمات کے پیش نظر آپ کو الہ آباد یونیورسٹی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دیں.اور سب سے پائیدار اعزاز بابائے اردو ”جو قوم نے انہیں دیا.1 لفظ مولوی ” کی نسبت سے یہاں جوش ملیح آبادی کے مولوی عبدالحق صاحب کے بارے میں انٹرویو میں سے بطور ریکارڈ یہ الفاظ دہرائے جاتے ہیں : مولوی صاحب (مولوی عبد الحق) پہلے تو یہ سمجھئے کہ وہ مولوی ہر گز نہ تھے بلکہ مذہب سے اکثر بیزاری کا اظہار کرتے تھے.مولوی در اصل حیدر آباد دکن میں گزیٹڈ آفیسر کے ساتھ بطور احترام استعمال ہو تا تھ.لہذا “مولویت ” کے مولوی صاحب ہر گز متحمل نہیں ہو سکتے تھے.2 2-2 - مولوی عبدالحق صاحب کے مذہبی عقائد بابائے اُردو کے برادر خور دشیخ احمد حسن لکھتے ہیں کہ والدہ صاحبہ خود بے حد عبادت گزار تھیں اور پابند صوم و صلوۃ تھیں.ظاہری حالت کچھ بھی ہو لیکن بھائی عبد الحق صاحب مرحوم کے دل میں خدا اور مذہب کا بے حد احترام تھا.23 سرسید احمد خان مولوی عبدالحق سے کس قسم کی توقعات رکھتے تھے.مولوی صاحب کے قلم سے ملاحظہ ہو :.ایک دن میں اور خواجہ غلام الثقلین مسجد رویہ کے ایک کمرے کی بنیاد پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے.اتنے میں سرسید تام جھام میں آتے ہوئے نظر آئے.مسجد کی سیڑھیوں کے پاس اتر گئے.ہمیں جو دیکھا تو پلٹ کر مجھے فرمایا اس کے ساتھ مت پھر ا کرو تم کو شیعہ کرلے گا.میں نے کہا حضرت اب تو لوگ شیعہ رہے نہ سنی ” میرا اشارہ اس مذہب کی طرف تھا جسے عام لوگ نیچری کہتے اور ان سے منسوب کرتے تھے.فرمانے لگے “ اسے ایسا بنا لو تو جانوں 4 -2-3- مولوی عبدالحق صاحب کا کوئی مذہب نہ تھا اور مذہب کے بارے میں علم جہل سے بد تر تھا.یہ شاید نیچریت کا ہی اثر تھا کہ مولوی عبد الحق باوجود مذہبی تحریریں لکھنے کے ، ان کے بارے میں عام خیال ان کی ایسی تحریروں سے مختلف تھا جو ان کی اٹھان میں کار فرما تھا.چنانچہ مشہور محقق قاضی عبد الودو د پٹنہ سے اپنے ایک خط بنام سید انیس شاہ جیلانی محرره 9 مئی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 1964ء میں لکھتے ہیں:.14 “میں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر عبد الحق کا کوئی مذہب نہ تھا.مگر یہ محض سماعی بات ہے ، یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا.ڈاکٹر عابد حسین (جامعہ ملیہ ) مجھ سے کہتے تھے کہ انہوں نے عبد الحلیم شرر کے ایک پوتے کا نام یزید تجویز کیا تھا.اگر آپ اس اطلاع سے کام لینا چاہیں تو اس کی ڈاکٹر عابد حسین صاحب سے تصدیق کر لیں ممکن ہے کہ وہ اس کی اشاعت نہ چاہیں." خود مولوی عبد الحق صاحب کی اپنی مذہبی معلومات کے بارے میں جو رائے تھی وہ ان کے ڈاکٹر محمد داؤ در ہبر کے 15 نومبر 1955ء (کراچی) کے خط سے عیاں ہے:.میں نے جو مقالہ سرسید پر لکھا تھا اور جو چند ہم عصر ” میں چھپ گیا.اس میں، میں نے ان کے مذہب اور سیاست کو نہیں چھیڑ ا.سیاست کا ذکر سرسری ہے.مذہب کے متعلق اس لئے کچھ نہیں لکھ سکا کہ اس بارے میں میر اعلم جہل سے بدتر ہے." مولوی عبد الحق کے مذہب کے بارے میں عملی کام اور ان کی اپنے بارے میں رائے کہ ان کا علم مذہب کے بارے میں جہل سے بد تر ہے، تضاد کا شکار ہے بسا ممکن ہے کہ وہ اپنی عملی حالت پر نظر کر کے کہتے ہوں کہ میر اعلم جہل سے بدتر ہے لیکن آپ کی تحریریں اور دیگر مطبوعہ کام مذہبی معاملات سے مملو ہے لہذا آپ کا صرف یہ کہہ دینا کہ آپ کا کوئی مذہب نہ تھا صرف ایک ایسی بات ہے ، جو پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی، بلکہ کوئی مذہب نہ ہونا بھی تو ایک مذہب ہی ہے، گویا وہ ایک نئے مذہب پر قدم مارتے رہے.فی الواقعہ یہ سرسید اور مولوی چراغ علی کے زیر اثر ہے کہ زندگی کے ایک دور میں وہ انگریز حکام کو خوش کرنے کے لئے مذہب بیزاری کا مسلک یا غیر مذہبی ہونا ثابت کرتے رہے، مگر ان کی مطبوعہ تحریریں مذہب سے ہی وابستہ تھیں یہ الگ بات ہے کہ عملی طور پر وہ مذہب کے ظاہری احکام کی پابندی سے بالعموم کوسوں دور تھے اور یہی حال مولوی عبد الحق کا بھی ہے.اردو ادب کے ایک مولف مولوی عبدالحق کی تصنیف و تالیف کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے اصل مقام کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : بابائے اردو کو صرف ایک مصنف مولف یا اہل قلم کی حیثیت سے جانچنا ان کے مرتبہ کو گھٹانا یا انکی قدر و قیمت کو گرانا ہی نہیں ان کے مرتبہ اور قدر وقیمت سے ناواقفیت کا ثبوت بھی دینا ہے.انہیں سب سے زیادہ ایک عظیم الشان ثقافتی تحریک کے علمبر دار ، ایک بڑے قومی کار کن ، اردو زبان کے ایک زبر دست خدمت گزار، محقق، مبلغ، محافظ اور شہتیر کی حیثیت سے جانچنا چاہئے.جس نے اردو پر جو ہندوستانی مسلمانوں میں ایک علیحدہ قومیت کا احساس پیدا کر انے کا سب سے پہلا اور بہت بڑا سبب بنی ہر وار اپنے سینے پر لیا.ہر موقع پر اسے آگے بڑھایا، اُسے آگے بڑھانے کے مواقع نکالے اور ان مواقع سے اسے فائدہ پہنچایا.7 سید عابد علی عابد کا انداز اظہار رائے ایک نرالی شان رکھتا تھا.آپ مولوی عبد الحق کے بارے میں درج کرتے ہیں کہ مولوی عبد الحق اردو کے اولین معماروں میں سے تھے اور ان کا کارنامہ اردو کی عمارت کی تعمیر تھا.ان کو ادب کے معیار پر پرکھ کر فیصلہ کرنا دیانت داری نہیں ہے.8 7" مولوی عبد الحق اردو کے بلاشبہ ایک زبر دست خدمتگذار بلکہ اولین معماروں میں سے تھے.اس حقیقت سے انکار کی زیادہ گنجائش نہیں مگر اس تعمیر میں اگر کوئی صورت مضمر خرابی کی روز روشن کی طرح عیاں ہو اور اس کا محاکمہ نہ کیا جائے تو یہ چشم پوشی بھی دیانت داری کے مترادف نہیں ہے اور یہاں تجاہل عارفانہ سے بھی کام نہیں چل سکتا بلکہ اس کی نشاندہی مولوی صاحب کے اُردو زبان کی خدمت پر پانی نہیں پھیرتی بلکہ ریکارڈ کی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام درستی کے لئے اشد ضروری ہے.کیونکہ.اول معمار ج ثریا می رود دیوار سج 15 سید عابد علی عابد نے اپنی رائے کو آگے بڑھاتے ہوئے جو مثال دی ہے وہ بھی معمار ہی کی ہے فرماتے ہیں.“ مکان معمار بناتا ہے اور مکین اپنی رہائش اپنے طور پر اختیار کرتے ہیں.اس کی تزئین کرتے ہیں.اس کو سلیقے سے رہن سہن کے قابل بناتے ہیں.اگر کوئی مکان کی تعمیر کا اطلاق مکینوں پر کرنے لگے تو یہ نادانی ہو گی.مولوی صاحب نے یہ مکان تعمیر کرنے میں جو جہد و جہد کی وہ ہماری تاریخ کا ایک حصہ ہے اور ہم مکینوں کو یہ احسان فراموش کر کے خود کو خانہ بدوش ثابت نہیں کرنا چاہئے.” ہم جناب عابد علی عابد صاحب کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں اور اس مکان کی تعمیر میں مولوی عبد الحق کے کردار کو نظر انداز نہیں کرتے البتہ تزئین کا حق تو موصوف نے مکینوں کے لئے کھلا چھوڑا ہے اور مکینوں نے تعمیر شدہ عمارت کو قائم رکھ کر ہی تزئین نہیں کی بلکہ اس عمارت کے بنیادی ڈھانچے کو قائم رکھتے ہوئے پرانے تعمیر شدہ حصوں کو کہیں کہیں سے گرادیا ہے اور جزوی تعمیر و تزئین بھی کی ہے.مولوی عبد الحق صاحب کی دیانت تصنیف و تالیف کی بابت ناچیز کا ایک مضمون بعنوان "مولوی عبد الحق: اعظم الکلام کے ترجمے میں تحریف و تدلیس " مطبوعہ رسالہ " جریدہ " 33 کراچی یونیورسٹی ملاحظہ ہو.2-4 - مولوی عبد الحق اور ڈاکٹر سید عابد علی عابد کی مقدمہ نگاری مولوی عبد الحق مسلمہ طور پر بڑے مشہور “ مقدمہ باز ” تھے.مگر واقعہ یہ ہے کہ عابد صاحب (سید عابد علی عابد صاحب) بھی اس حیثیت میں اُن سے کم نہیں ہیں.اس کا موازنہ دونوں کے لکھے ہوئے مقدمات کو سامنے رکھ کر بآسانی ہو سکتا ہے.مگر یہ قسمت کی بات ہے کہ عابد صاحب کے مقدمے مجلس ترقی ادب تک محدود ہو کر رہ گئے اور مولوی عبد الحق “ مقدمہ بازی ” میں سارے پاک و ہند میں مشہور ہو گئے.اکبر کہتا ہے:.میرے حواس عشق میں کیا کچھ کم ہیں منشتر مجنوں کا نام ہو گیا قسمت کی بات ہے 10 2-5- مولوی عبد الحق صاحب کی دیانت تصنیف و تالیف بقول مولوی عبد الحق صاحب اردو کی حفاظت اور حمایت میں ایک انجمن قائم کی گئی جس کا جلسہ لکھنو میں ہوا.نواب محسن الملک نے زبر دست تقریر کی.لفٹیننٹ گورنر سر انٹونی میکڈانل نے انہیں کچھ ایسی دھمکی دی کہ نواب صاحب کو اس سے دستبر دار ہونا پڑا.مولوی عبد الحق صاحب کے اس بیان میں اصابت رائے سے قطع نظر بیان واقعات کی بہت سی غلطیاں ہیں.11 مولوی عبد الحق صاحب کی مقدمے بازی اور ان کی اصابت رائے کے پس منظر میں جب ہم موصوف کے تصنیف و تالیف کے کام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے چند اور حقائق آتے ہیں جن سے مولوی عبد الحق صاحب کی علمی ثقاہت داغدار ہوتی ہے.مولوی صاحب کی تحریرات کا ایک خاص و صف ان کا زیب داستان کے لئے اپنے مدوح کے سر وہ کلاہ پہنا دینا ہے جو بادی النظر میں ہی فٹ نہ
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 16 بیٹھے.مولوی صاحب کے اس غیر متوازن جوش و خروش کی نشان دہی آغا محمد باقر صاحب نے بھی کی ہے.آپ لکھتے ہیں:.نیچر کی شاعری کے اصل موجود مولانا آزاد تھے.مولانا حالی نے مقدمہ دیوان حالی کی ابتدا میں ایک مضمون حالی کی کہانی حالی کی زبانی ” تحریر کیا ہے.اس میں انہوں نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ نیچر کی شاعری کا مشاعرہ مولانا آزاد نے شروع کیا تھا لیکن ابنائے زمانہ نے ایجاد کا سہر امولانا حالی کے سر باندھ دیا.ہمارے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق صاحب مسدس حالی صدی ایڈیشن یہ مضمون مقالات عبد الحق میں بھی موجود ہے) میں مولانا کی انکساری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نیچر کی شاعری کے موجد اصل میں مولانا حالی تھے.لیکن انکساری اور فروتنی کا یہ عالم تھا کہ اس کا سہر امولانا آزاد کے سر ہمیشہ کے لئے باندھ گئے ” مجھے مولانا حالی جیسے قابل احترام بزرگ کی خاکساری اور فروتنی سے تو کسی صورت بھی انکار کی جسارت نہیں ہو سکتی لیکن مولوی صاحب کی زبر دستی کی تردید اور وہ بھی کمال ادب سے کرنی پڑی.یہ جسارت علمی اور تاریخی معاملات میں قال عفو ہے.اور اہل علم کے غیر متوازن جوش و خروش کے علی الرغم مؤدبانہ احتجاج کوئی گناہ نہیں....الخ " 12 مولوی عبد الحق صاحب کے بارے میں عام طور پر یہی رائے مشہور ہے کہ موصوف بے تعصب تھے مگر اس کا اطلاق آپ کے تمام کام پر نہیں کیا جاسکتا.آپ کے بارے میں ایک مصنف رقمطراز ہیں کہ مولوی عبد الحق سرسید کے کالج کے ابتدائی گروپ کے طالب علم رہے تھے وہ دبستان حالی کے خوشہ چیں بھی تھے.اس لئے شبلی کے بارے میں ان کا رویہ معاندانہ رہا.ان کو یہ بات بہت ناگوار گزری کہ شبلی نے “ حیات جاوید کو کتاب المناقب اور مدلل مداحی ” کہا.حافظ محمود شیرانی کی شعر الجسم پر تنقید رسالہ “ اردو ” (اور نگ آباد) کی کئی قسطوں میں شائع ہوئی.جس کے ایڈیٹر مولوی عبد الحق تھے.“ معارف ” (اعظم گڑھ ) میں تنقید کا جواب دیا گیا تور سالہ "اردو" کے اگلے شمارے میں اس کے جواب میں ایک مضمون چھپا جس پر مولوی عبد الحق نے سرخی لگائی “ کھسیانی بلی کھمبا نوچے ” ایک خالص علمی بحث میں اس طرح کے غیر متین الفاظ کا استعمال کیا جانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ سید صاحب سے کہیں پر خاش رکھتے تھے.شیخ محمد اکرام کا بیان ہے کہ مشہور محقق اور مصنف ڈاکٹر سید عبد اللہ 1930 ء سے 1940 ء تک مولوی عبد الحق سے صرف اس لئے قطع تعلق کئے رہے کہ وہ (عبد الحق ان کے ہیر و شبلی) کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے.خود شیخ محمد اکرام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مولوی عبد الحق کا دل شبلی کی طرف سے صاف معلوم نہیں ہوتا ہے.“حیات جاوید ” کے متعلق شبلی کے خیالات انہیں ضرور ناگوار گزرے ہوں گے.”13 1930ء میں مولانا الطاف حالی کے فرزند سجاد حسین حالی، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی کو حیدر آباد دکن لے گئے وہاں آپ کی ملاقات مولوی عبد الحق سے ہوئی.مولوی عبد الحق صاحب نے شیخ صاحب سے آپ کا مرتب کردہ مولانا حالی کے مضامین کا مجموعہ جو آپ نے 14 برس کی محنت کے بعد ترتیب دیا تھا بڑے اصرار سے اشاعت کے لئے لے لیا.مگر جب وہ مجموعہ شائع ہوا تو سر ورق سے آپ کا نام بحیثیت مرتب غائب تھا.اور اندر دیباچہ میں مولوی عبد الحق صاحب نے لکھ دیا کہ یہ مضامین کچھ میرے کچھ محمد اسماعیل کے مرتب کئے ہوئے ہیں.بقول شیخ صاحب“حالانکہ ان مضامین کی ایک سطر بھی مولوی صاحب کی مہیا کی ہوئی نہیں تھی.یہ سب سے پہلی بد معاملگی تھی جو کسی پبلشر نے میرے ساتھ کی.14 اور یہ کتاب آج بھی مولوی عبد الحق کے نام سے بطور مرتب مقالات حالی مشہور ہے.جبکہ مولوی عبد الحق صاحب کی طرف سے اس کتاب کے علاوہ کوئی اس پائے کی مرتبہ کتاب موجود نہیں.مگر شیخ محمد اسماعیل پانی پتی مرحوم کی حالی پر مرتبہ کتابوں کا ذکر ہی کیا وہ تو
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 15" 17 اس موضوع پر سند (اتھارٹی) تسلیم کئے جاتے ہیں.مولوی عبد الحق صاحب نے کتاب مذکور کے دیباچہ میں محولہ بالا امر یوں لکھا“ بعض مضامین جو انہیں نہیں ملے تھے وہ میں نے دوسرے ذرائع سے بہم پہنچائے.ان مضامین کے حاشیے بھی شیخ صاحب ہی کے لکھے ہوئے ہیں.میں نے نظر ثانی کرتے وقت حسب ضرورت کہیں کہیں کمی بیشی کر دی ہے.ورنہ یہ سب کام انہیں کا کیا ہوا ہے.” ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر مرحوم نے ایک زمانے میں مولوی عبد الحق صاحب کی مرتب کردہ انگلش ڈکشنری کا تیا پانچا کیا تھا اور مضمون کے صفحوں کے صفحے رد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مولوی صاحب کو انگریزی زبان کی شد بد تو خیر ہے ہی نہیں اردو پر بھی عبور نہیں.یہ مضمون تاثیر کی کتاب نثر تاثیر میں موجود ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ تاثیر مرحوم انگریزی کے فاضل اور اردو زبان کے صاحب طرز شاعر اور دانشور تھے.یہ ڈکشنری دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری کے نام سے مشہور ہے.اس کے متعلق تاثیر لکھتے ہیں کہ :.میں نے اس لغت کا بہت سرسری مطالعہ کیا ہے.ادھر اُدھر سے دیکھا ہے.لیکن جہاں کہیں نظر پڑی ہے بے احتیاطی اور کم نظری کا ثبوت ملا ہے.حیدر آباد کے اتنے بڑے ادارے سے یہ غیر متوقع تھا.اردو میں ایسی تالیفات روز روز شائع نہیں ہو سکتیں اور لغت میں جو غلطیاں رہ جائین ان کا اثر بہت دور رس ہوتا ہے.میں نے محض اس لئے ان اغلاط کی طرف اہل علم کی توجہ دلائی ہے.شاید کوئی تلافی کی صورت نکل آئے.یقینی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا.لیکن قیاس ہے کہ شاید ہی کوئی صفحہ ہو جس میں اس قسم کی لغزشیں نہ ہوں.یہ استقرائی قیاس ہے جو اس بناء پر قائم کیا گیا ہے کہ میں نے جو صفحہ بھی دیکھا اس میں غلطیاں پائی ہیں اور یہ ورق گردانی بے قاعدہ طور پر کی گئی.غلطیاں پکڑنے کی نیت سے نہیں.اس لئے خیال ہے کہ باقی صفحات کا بھی یہی حال ہو گا.مولوی عبد الحق صاحب نے اپنے دیباچے میں یہ تو غالباً سچ کہا کہ ایسی جامع لغت ہندی وغیرہ میں نہیں لیکن ان کا یہ ارشاد کہ بعض بعض جگہ خامیاں رہ گئی ہیں.مگر وہ ایسی خفیف ہیں کہ پڑھنے والے کو فوراً معلوم ہو جائیں بحث طلب ہے.یہ خامیاں ہی نہیں ” بعض بعض جگہ اور ایسی خفیف بھی نہیں.میں مولوی عبد الحق صاحب کا بڑا مداح ہوں لیکن یہ لغت کا کام ایسا نہیں کہ اس میں شخصیت پر ستی روار کھی جائے.میری رائے میں اور اس سے میری ارادت ظاہر ہوتی ہے ) یہ لغت انجمن ترقی اردو کی شان کے شایان نہیں یہ کسی تجارتی ادارہ کا کام ہوتا تو مجھے اتنی مایوس نہ ہوتی." 16 قطع نظر انگریزی لغت کے اس تبصرہ کے مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے رفقاء کار کو بھی اپنی ذاتی انا کو تسکین دینے کے لئے نہیں بخشا کرتے تھے.اختر حسین رائے پوری کی بیگم محترمہ حمیدہ اختر رائے پوری اپنی یادداشتوں میں لکھتی ہیں “ ایک دن ڈاک کے خطوں کے ساتھ ایک موٹی سی پارسل بھی تھی.سمجھ گئی ضرور یہ “ اردو انگریزی ڈکشنری ”جو انجمن ترقی اُردو نے تیار کی ہے وہ ہے.اختر نے بڑی خوشی خوشی شوق کے ساتھ کھولی اور پیش لفظ پڑھنے لگے.میں بھی گر سی سے اٹھ کر ان کی پشت پر کھڑی ہو گئی اور پیش لفظ خو د بھی جھک کر پڑھنے لگی.مولوی صاحب نے ہر اس شخص کا جس نے کسی بھی حیثیت سے کام کیا تھا بڑی فراخدلی سے ذکر فرمایا.سوائے ایک اختر کے.جس نے تن من لگا کر رات دن ایک کر کے ہر ہر لفظ کی چھان پھٹک کی تھی.میں نے دیکھا پہلے اختر نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بڑی مضبوطی سے ڈکشنری کو دونوں طرف سے دبا کر پکڑے رکھا.پھر جیسے ان کے ہاتھ کانپ سے گئے.گرفت ڈھیلی پڑی اور ڈکشنری ان کے قدموں کے قریب جاگری.میں گھبرا کے سامنے کے رُخ آکھڑی ہوئی چہرہ زرد ہونٹ بھینچے ہوئے، منہ سے ایک لفظ نہ بولے، مگر ان کے صدمے کی پوری کیفیت مجھ پر عیاں ہو رہی تھی میری اپنی خود عجیب حالت تھی یقین نہیں آتا تھا کہ ہمارے اپنے مولوی صاحب جیسے عظیم اور شفیق انسان کے قلم نے یہ ظلم کیسے کیا اور کیوں کیا؟ " 17 یہی یادداشت بعد میں مکتبہ دانیال وکٹوریہ چیمبرز
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 18 کراچی سے ستمبر 1995ء میں “ ہم سفر ” کے نام سے شائع ہوئی اور اس کے صفحہ نمبر 232 پر یہ حوالہ درج ہے.اس کا پیش لفظ بعنوان “ یہ کتاب ” جناب مشفق خواجہ نے لکھا اور اس پر نظر ثانی مضمون کے لکھے جانے کے دوران جمیل جالبی کرتے رہے ".مشفق خواجہ سے راقم الحروف کی خط و کتابت کا ذکر زیر نظر کتاب کے باب چہارم میں 2-4 پر کیا گیا ہے.موصوف مولوی عبد الحق کے بہت قریبی معاونین ورفقاء میں سے تھے.روزنامہ “ امروز ” لاہور میں مطبوعہ اظہر جاوید کے کالم محفل محفل ” 18 کی طرف جب شان الحق حقی صاحب کو توجہ دلائی گئی جس میں اظہر جاوید نے لکھا تھا کہ اردو لغت پر آج تک جتنا ٹھوس اور واضح کام ہو ا ہے وہ ان کے والد مرحوم نے کیا ہے جس پر مولوی عبد الحق نے خواہ مخواہ اپنا لیبل لگایا.حقی صاحب نے اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کئے تھے.تو شان الحق حقی صاحب نے لکھا کہ “ انہوں نے یہ بات صحیح نہیں لکھی کہ میں نے حضرت مولوی عبد الحق صاحب مرحوم کی بابت سخت الفاظ استعمال کئے تھے.میں نے مولوی صاحب موصوف کا احترام ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے.کوئی الزام تراشی نہیں کی.البتہ حقائق جو روشن تھے ضرور بیان کئے تھے.ان میں الزام دہی کا پہلو نہیں تھا کیونکہ میں اپنے والد صاحب کی حیات اور اپنے بچپن کے زمانے سے مولوی صاحب کا بہت ادب کر تا تھا.” آپ کی خدمت میں گلدستہ نگارش کا ایک نسخہ ارسال ہے جس میں اس لغت کا تذکرہ ہے.یہ میری بیوی کی تالیف ہے.والد صاحب مرحوم ناداں دہلوی کی بابت مفصل معلومات اور ان کی لغت نگاری کا حال میری کتاب نکتہ راز ” میں درج ہے.19 نکتہ راز ” میں موصوف نے صرف اتنا لکھنے پر اکتفا کیا کہ “ دونوں بزرگ اب وہاں ہیں جہاں انہیں اس معاملہ سے ذرا بھی سروکار نہیں.اور لکھا کہ مضمون “ ناداں دہلوی مطبوعہ “ ساقی ” فروری 1946ء حضرت مولوی عبدالحق صاحب کی نظر سے گذر چکا تھا جو ان دنوں دہلی ہی میں تھے اور انہوں نے مجھے سے یا شاہد صاحب ( شاہد احمد دہلوی) سے اس کی بابت کوئی شکایت نہیں کی تھی.20 مذکورہ بالا کتاب “گلدستہ نگارش ” میں اس عنوان کے تحت مولوی احتشام الدین مرحوم اور انجمن ترقی اردو کی لغت ”شاہد احمد دہلوی مدیر ساقی کا ایک اداریہ شامل ہے.جس میں شاہد صاحب نے مولوی احتشام الدین کی سالہا سال کی دیدہ ریزی کا بچشم خود دیکھا ہوا تذکرہ کیا جو آپ نے اردو لغت کے لئے کی.اداریہ مذکور کے آخر پر موصوف نے لکھا کہ :.“مولوی صاحب (احتشام الدین ) اپنے شاندار کارنامے کو اپنی نگرانی میں شائع نہ کر اسکے.ان کے انتقال کو اب دو مہینے ہوتے ہیں اور لغت کی پہلی جلد کاغذ پر بھی نمودار ہونے والی ہے.انجمن ترقی اردو کے پندرہ روزہ اخبار " ہماری زبان ” اور انگریزی اخبار ڈان ” میں یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہانہ رہی کہ لغت کے اعلان اشاعت کے ساتھ مولوی صاحب مرحوم ( مولوی احتشام الدین کا ) کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا.ہمیں نہیں معلوم کہ اس خبر کے مصنف کون صاحب ہیں؟ لیکن اس کا ہمیں پورا یقین ہے کہ ڈاکٹر عبد الحق مولوی صاحب مرحوم (ڈاکٹر عبد الحق سے مراد، بابائے اردو مولوی عبد الحق ہے اور مولوی صاحب سے مراد مولوی احتشام الدین والد شان الحق حقی ہیں.راقم الحروف) کو ان کے حق سے محروم نہیں کریں گے.لغت کے سلسلے میں مولوی صاحب کا تذکرہ نہ کرنا ایک حیرتناک بوالعجی اور شرمناک فرو گذاشت ہے.ڈاکٹر عبد الحق صاحب سے ہماری درخواست ہے کہ جب لغت شائع ہو تو انجمن کے ان حق ناشناس کارکنوں کے اہلہانہ مشوروں پر عمل نہ کریں جو مولوی صاحب مرحوم کے اس زندہ جاوید کارنامہ کے سرورق سے ان کا نام حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتے ہیں.لغت پر مولوی احتشام الدین کا نام مرتب کی حیثیت سے اور ڈاکٹر عبد الحق کا نگر ان کی حیثیت سے شائع ہونا چاہئے.اس حقیقت کے ہزاروں گواہ ہیں اور اس کے استخفاف سے ناگوار نتائج پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 19 مولوی صاحب مرحوم کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے اور انجمن کے ان کارکنوں کو تنبیہ فرمائیں گے جو اس قسم کی جھوٹی خبریں شائع کرا کے مقتدر انجمن اور خود ڈاکٹر صاحب کی ذات گرامی صفات کو بد نام کرنا چاہتے ہیں.” 21 اس کے بعد محترمہ سلمی حقی صاحبہ نے شاہد احمد دہلوی کے اداریہ کی تائید میں متعدد اہل قلم و علم حضرات کی آراء اس امر کی تائید میں درج کیں ہیں.جن میں مولو نا عبد الماجد دریابادی لکھنو، ملا واحدی، خواجہ محمد شفیع اور اخلاق احمد دہلوی شامل ہیں جن سے لغت کبیر کی ترتیب کا مسئلہ بالکل آئینہ ہو جاتا ہے.پھر مولوی عبد الحق صاحب کے پندرہ خطوط دیئے ہیں جن سے بھی لغت کبیر کا کریڈٹ مولوی احتشام الدین کے حق میں ثابت ہے اور آخر میں مولوی عبد الحق صاحب کے دو خطوط کے چربے دیئے ہیں جو انہوں نے مولوی احتشام الدین کو اور تنگ آباد دکن اور دریا گنج دہلی سے لکھے تھے.جن سے مولوی احتشام الدین کی اردو لغت کبیر کی ترتیب مزید پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے.مولوی عبد الحق صاحب نہ صرف دوسروں کی کتابیں اپنے نام سے شائع کر لیتے تھے بلکہ دوسروں کے انگریزی مضامین کا اُردو ترجمہ کر کے لکھنے والے کا ذکر تک نہیں کرتے تھے.اُس کی ایک مثال سید ابوالخیر کشفی کے مضمون: ڈاکٹر مولوی عبد الحق پرنسپل میتھور تھے ویسٹ " جو شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جامعہ کراچی کے رسالہ “ جریدہ ” کے شمارہ نمبر 27 اشاعت 2004ء میں نکلا ہے.اس کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے (جریدہ کے اسی شمارہ میں مشفقی خالد جامعی صاحب نے ممتاز الافاضل کا ایک مضمون حضرت مرزا صاحب کے خلاف درج کیا ہے جو حسن مثنیٰ ندوی نے اپنے نام اپنا لیا ہے (پھر سرقہ کس کانام ہوتا ہے؟) جو افسانوی قصوں مقامات حریری اور ہمدانی کے حوالے وغیرہ سے درج ہے.بھلا افسانوی قصوں اور قرآنی حقائق و معارف کا کیا جوڑ ہے ؟ بازار میں بہت سے قصے کہانیاں بکتی ہیں ان سے اب بھی معترضین تفسیر قرآن بالمقابل حضرت مرزا صاحب بنالیں جو پہلے بھی نہیں بنا سکے.بہر کیف اس کا جواب ایک الگ مضمون میں دیا جائے گا.انشاء اللہ مشفقی موصوف اس ناچیز کو بلا استحقاق اپنی مطبوعات بھجواتے ہیں.یہ آپ کی ہی عنایت تھی میرا مضمون جریدہ 33 میں شائع کیا گیا جو یونس جاوید صاحب اور احمد ندیم قاسمی صاحب کی چچ کی وجہ سے “صحیفہ ” میں نہ چھپ سکا.سویرا کے محمد سلیم الرحمن صرف اتنا کہہ کے رہ گئے کہ کس تحقیقی رسالے میں زیادہ موزوں ہو گا.اسی طرح ڈاکٹر مبارک علی صاحب سہ ماہی تاریخ میں اس لئے نہ چھاپ سکے کہ ان کی مجبوریاں ہیں لیکن اس کے چھپنے پر اتفاق کرتے تھے.):.“ اس وقت نظروں کے سامنے چند ہم عصر کا دوسرا ایڈیشن ہے جو 1942ء میں دہلی سے شائع ہوا تھا.مرزا حیرت دہلوی پر مولوی صاحب کے اس مضمون کے پہلے ہی پیراگراف کے آخر میں یہ الفاظ درج ہیں: “ایسے ہی لوگوں میں مرزا حیرت پر وفیسر انفسمٹن کالج بمبئی تھے جن کے مختصر حالات ہم اس وقت لکھنا چاہتے ہیں." ان الفاظ سے یہ ظاہر ہے کہ مولوی صاحب نے اس مضمون کو طبع زاد قرار دیا ہے.حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے.یہ مضمون انگریزی زبان سے لفظاً لفظاً ترجمہ ہے ، پہلا پیرا گراف اور آخر میں چند جملے اور اشعار ضرور مولوی صاحب نے بڑھائے ہیں.مگر بعد کے ایڈیشنوں میں بھی مولوی صاحب نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ یہ مضمون ان کا نہیں کسی اور کا ہے.انفسٹن کالج بمبئی کے پرنسپل، پروفیسر مرزا حیرت کے زمانے میں ایک انگریز ہتھور تھ ویٹ Hathoruth Waite تھا، وہ علم واہل علم
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 20 کا قدر دان تھا اس نے مرزا حیرت کے حالات جمع کئے تھے.اور وہ مضمون بمبئی کے ڈائریکٹر محکمہ تعلیمات کی رپورٹ برائے (1899ء 1898ء) میں ضمیمے کی صورت میں شائع کیا گیا تھا.پھر 1935ء میں پروفیسر شیخ عبد القادر نے مرزا حیرت کی زندگی پر انگریزی اور فارسی میں ایک مختصر سی کتاب شائع کی تو اس میں بھی اس مضمون کو شامل کیا اور اس چھوٹی سی کتاب کا انگریزی نام : A short History of Late Professor Mirza Hairat رکھا اور فارسی میں مختصری از حالات پروفیسر مرزا حیرت طاب ثراہ یہ چھوٹی سی کتاب بمبئی کے “المبطبئہ القیمہ ” نے چھاپی تھی اور وہی اس وقت ہمارے سامنے ہے.مولوی صاحب نے پر نسپل ہتھور تھ ویٹ کے مضمون سے صرف مرزا حیرت کے حالات ہی نہیں لئے بلکہ پورا مضمون اُردو میں منتقل کر کے اپنا لیا اور کہیں اس کا تذکرہ نہیں کیا.عبارت مولوی عبد الحق صاحب وہ صحیح النسب سید تھے مگر تعجب ہے کہ وہ ہمیشہ اسے چھپاتے رہے.وہ 1837ء میں پیدا ہوئے ( یعنی جس سال ملکہ معظمہ وکٹوریہ تخت نشین ہوئیں) ان کا خاندان ایران میں بہت شریف اور نامور تھا.شاہان صفویہ کے زمانے میں سیاسی ( پولیٹکل انقلابات کچھ ایسے واقع ہوئے کہ اس خاندان کے دو حصے ہو گئے ایک تو اصفہان میں جا بسا.اس خاندان میں کئی شخص علم و فضل اور تدبیر سلطنت میں بہت نامور گزرے ہیں چنانچہ مرزا حیرت کے پردادا مرزا جعفر کریم خان بانی خاند ان شاہانِ زند کے وزیر اعظم تھے.اور ان کے ایک اور بزرگ عبد الباقی شاعر اور طبیب گزرے ہیں.اس زمانے کے مشہور و معروف شاعر معتمد الدولہ ا المتخلص بہ نشاط ، ماں کی طرف سے ان کے عزیز ہوتے ہیں.وہ فتح علی شاہ کے زمانے میں وزیر امور خارجہ تھے.22 He was a lincal descendent of the prophet, a fact which he always endeavoured to conceal, and was born in 1837, his family was noble and enjoyed great consideration in Persia.In the time of Safawian dynasty political vicssitudes divided the family into two parts, one of which settled in Isfahan while the other migrated to Tehran.It produced several persons renowned for learning being Mirza Jaafar, Professor Hairat's great grand father (Sic: ground falha) who was prime minister of Karim Khan, the founder of his Zand family of Persian KINGS, which a remote ancester was Abd-ul-Baqi, a poet and physician and the well-known poet, Mu,tamad-ud-Doala, known also and better by his takhallus ( non de plume) of nashat, was related
21 براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام to Professor Hairat on his mother side and was Persian minister of foreign affairs in the time of Fath Ali Shah.23 اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب اُردو کے اچھے مترجم بھی ہیں، وہ اپنی زبان کے محاورے اور روز مرہ کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے.آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو حالات زندگی ہیں اور اس میں ادبی سرقے کی کیا بات ہے.مگر حالات زندگی کے اخذ کرنے میں بھی حوالے کی ضرورت ہے.لیجئے دو اقتباسات اور ملاحظہ کیجئے جن میں حالات نہیں بلکہ تبصرہ ہے جو اصل مضمون نگار کے اپنے تاثرات ہیں.مولوی عبد الحق صاحب ان کا علم اس قدر وسیع اور ان کا حافظہ اس قدر قوی تھا کہ اگر حافظ اور سعدی کی تصانیف دنیا سے مٹ جائیں تو وہ صرف اپنے حافظے کے زور سے بلا کم و کاست پھر پیدا کر سکتے تھے.ان کو اساتذہ کے ہزار ہا عربی اور فارسی اشعار یاد تھے اور موقع پر بلا تامل سینکڑوں اشعار پڑھتے چلے جاتے تھے.عربی و فارسی انشا پردازی میں وہ عدیم النظیر تھے.24 ہتھور تھ ویٹ His knowledge was so great and memory so accurate and retentive that, if the whole work of Hafiz and Sa,di had been lost, he could at once have recovered them and written them down fault lessly from recollection and he could repeat many thousands of lines of all classical poet of Arabia and Persia without mistake and without any apparent effort, while his power as a writer of classical Arabic or Persian was Said to be unrivalled.25 دونوں مضامین کو مکمل طور پر یوں پیش کرنا کہ دونوں آمنے سامنے رکھے ہوں ہمارے لئے ممکن نہیں.تاہم ایک اور اقتباس آپ کی نذر ہے.ان چند کلیوں سے گلستان کا اندازہ کر لیجئے.مولوی عبد الحق صاحب مرزا حیرت کی ایک ایک چیز اعلیٰ درجے کی تھی.ان کا دماغ، ان کا حافظہ ، ان کی قوت مشاہدہ، ان کی فیاضی سب کچھ غیر معمولی تھی.ان کی نظروں میں روپے کی حقیقت خاک دھول کے برابر تھی.سوائے اس حالت کے کہ وہ کسی بیکس مظلوم کی امداد میں خرچ کرتے انہیں اپنے فرائض منصبی کا بہت بڑا خیال تھا اور اپنے فرض کے ادا کرنے میں اپنی صحت تک کی بھی پروانہ کرتے تھے.وہ ہر ایک چیز سے در گزر کر سکتے تھے مگر جھوٹ، ریا اور دنائت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے.وہ ایک بڑے فلاسفر اور
22 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام انسانی فطرت کو غائر نظر سے دیکھنے والے تھے.26 ہتھور تھ ویٹ Every thing about Professor Hairat was a grand scale, his mind, his of observation, his generosity were all of an power his memory, uncommon order, Money was to him as worthless as dust, and he valued it only as a means of helping others and releiving suffering.He had a lofty ideal of duty and never spared himself when duty demanded exertion of or sacrifice.He was tolerant of every thing except falsehood, hypocrasy and meanness and was at the same time an ideal philosopher and shrewd observer of human nature.27 یہ صرف ایک مضمون ہے اور بہت چھوٹا سا مضمون ہے.کوئی بڑی کتاب نہیں ہے، مگر اقدام بہت بڑا ہے.اور بہت برا ہے.مولوی عبد الحق صاحب کی سطور بالا میں درج علمی بد دیانتی کے چند نمونے دیکھ کر مولوی عبد الحق صاحب کی بات ویسے ہی پایہ اعتبار سے گر جاتی ہے اور جس شخصیت کو مولوی عبد الحق صاحب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے بالمقابل پیش کرتے ہیں وہ بھی کب اس معیار کی ہے کہ اس کو موصوف کے سامنے رکھا جائے.مولوی چراغ علی صاحب کے بارے میں زیر نظر کتاب کے باب سوم اور بہت سارے مقامات پر تبصرہ جو ان پر اہل علم نے کیا ہے درج کر دیا گیا ہے جس سے ان کا مقام بھی نظروں سے گر جاتا ہے جس پر مولوی عبد الحق صاحب انہیں فائز کرنا چاہتے ہیں.وو 2-6- “ اعظم الکلام.." مصنفہ مولوی چراغ علی کے ترجمے میں مولوی عبد الحق کی تحریف مولوی چراغ علی نے اپنی کتاب 'The proposed Political, legal and social Reforms' کے صفحہ 128 پر لکھ لکھا:.'105.The Koranic injunctions about this is found in sura iv-3 and 128 (vide Paras 93 and103) But the final and effectual step taken by Muhammad towards the abolition of this leading vice of the Arab community was his declaring in the Koran that no body could fulfil the condition of dealing equitably with more than one woman, though he 'fain would do so'.متر جم چراغ علی، مولوی عبد الحق صاحب اس عبارت کا ترجمہ یوں درج کرتے ہیں:.105.قرآن میں اس کی تاکید ( النساء 4.آیت 3 اور 128) میں پائی جاتی ہے لیکن آخری اور قطعی تدبیر جو آنحضرت صلعم نے اہل عرب کی سب سے بڑی رسم کو اٹھا دینے کے متعلق اختیار کی وہ قرآن کا یہ ارشاد تھا کہ خواہ انسان کتنا ہی چاہے وہ ایک سے زیادہ بیبیوں میں عدل نہیں کر سکتا.(النساء 4.آیت 128) (صفحہ 23-24)
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 23 اس ترجمے میں مولوی عبد الحق صاحب نے وہ طریقہ اختیار کیا ہے جس سے مولوی چراغ علی کے انتہاء پسند انہ خیالات کو چھپایا جا سکے اور بڑے ہی نرم الفاظ میں ترجمہ کر کے مولوی چراغ علی کے اس کڑوے کسیلے رویے کو اردو قارئین تک نہیں پہنچنے دیا جسے ایک علمی بد دیانتی سے کم تر کیا قرار دیا جائے یا مولوی عبد الحق صاحب کے اپنے ممدوح کے بارے میں خواہ مخواہ کی تعمیر شدہ عمارت کے تحفظ سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے.بہر کیف اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب عزیز احمد صاحب پروفیسر اسلامک سٹڈیز یونیورسٹی آف ٹورنٹو اپنی کتاب مطبوعہ 1967ء آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (لندن، بمبئی، کراچی) زیر عنوان Islamic Moderanism in India and ' 1857-1964 Pakistan کے صفحہ 59 پر لکھتے ہیں کہ:.This unrestrained enthusiasm for pseudo- historical exegetical trend had serious dangers.For example, at least in one place Chiragh Ali has quite unconsciously regarded the Quran not as the divine word but the work of Muhammad.'But the final and effectual step taken by Muhammad towards the abolition of this leading vice (polygamy) of the Arab community was his declaring in the Koran that nobody could fulfil the condition of dealing equitably with more than one woman.……...(The proposed Political, legal and social Reforms in the Ottomon Empire ( 1883) مولوی عبد الحق صاحب نے ترجمہ ہی دوسرے انداز سے کیا اور عزیز احمد اسے اگر چہ طشت از بام لاتے ہیں مگر نام دیتے ہیں غیر ارادی عمل کا کہ ان کے نزدیک (یعنی مولوی چراغ علی کے نزدیک قرآن کلام الہی نہیں بلکہ حضرت محمد صلی علیم کا ہی کام ہے.بہر حال ان خیالات کے حامل شخص مولوی چراغ علی کو ، مولوی عبدالحق، حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے بالمقابل پیش کرنا چاہتے تھے.غالب زیر بحث خطوط سے استخراج نتائج مولوی عبد الحق صاحب کی شعوری کوشش ہے جیسے کہ پہلے لکھا جا چکا ہے.یہ مولوی عبد الحق صاحب کی علمی بد دیانتی کی ایک بدترین مثال ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب جان بوجھ کے مولوی چراغ علی کے متشد دانہ خیالات پر پر دوڈالنا چاہتے ہیں کہ تاجس بلند کردار کی منظر کشی انہوں نے اپنے مقدمے “اعظم الكلام..” میں مولوی چراغ علی کے بارے میں کی ہے وہ قائم رہے !!! مولوی عبد الحق صاحب غلط ترجمہ کرنے کی بجائے اور راہ بھی اختیار کر سکتے تھے یعنی درست ترجمے کے ساتھ ایک فٹ نوٹ دے دیتے کہ اگرچہ ترجمہ تو اس کا وہی ہے جو درج کیا گیا مگر یہ ان کی ایک غیر ارادی غلطی ہے.اس انصاف پسندانہ اقدام سے گریز کر کے مولوی عبد الحق صاحب نے اپنے دامن پر جو داغ لگایا ہے اس سے ان کا علمی و اخلاقی مرتبہ ثقاہت کے معیار سے گر گیا ہے.شاید مولوی عبد الحق صاحب نے ایسا اس لئے کیا ہو کہ بقول سرسید احمد خان “میری رائے میں اس کا اردو میں چھپنا مناسب نہیں ہے.لوگ اس کا مطلب اور مقصد سمجھنے کے نہیں اور الٹے اور مخالف معنے لگا دیں گے.28 اسی لئے مولوی عبد الحق صاحب نے یہاں صحیح ترجمے کو چھپا دیا ہے جو کسی صورت میں قابل ستائش نہیں ہے.علاوہ ازیں مولوی عبد الحق صاحب المعروف بابائے اردو کی کتاب “ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام " ( ریفارمز انڈر مسلم رول) مصنفہ مولوی چراغ علی صاحب کے ترجمے میں مولوی عبد الحق صاحب کی تحریف و تدلیس کے نمونے ملاحظہ ہوں.راقم الحروف کے مضمون مطبوعہ "جریدہ" 2005-33ء کراچی یونیورسٹی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 2-7 - فقرہ مشہور اور پر زور کتاب براہین احمدیہ بیان کردہ مولوی عبد الحق صاحب کا محاکمہ مولوی عبد الحق صاحب مقدمہ “ اعظم الكلام في ارتقاء الاسلام ” (حصہ دوم) میں لکھتے ہیں: جس وقت ہم مولوی صاحب مرحوم مولوی چراغ علی) کے حالات کی جستجو میں تھے تو ہمیں مولوی صاحب کے کاغذات میں سے چند خطوط مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم کے بھی ملے جو انہوں نے مولوی صاحب کو لکھے تھے اور اپنی مشہور اور پر زور کتاب براہین احمدیہ کی تالیف میں مدد طلب کی تھی." 29 خطوط کا اندراج کرنے کے بعد مولوی عبد الحق صاحب لکھتے ہیں:.ان تحریروں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب مرحوم نے مرزا صاحب مرحوم کو براہین احمدیہ کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی ہے." 30 24 ، بعض مضامین جن کا اندراج مولوی عبدالحق صاحب کے مقدمے میں درج کئے گئے خطوط میں ہوا ہے اُن کا موضوع وار تفصیلی جائزہ زیر نظر کتاب کے باب ششم میں ملاحظہ ہو.جس سے مولوی عبد الحق صاحب کا استنباط نتائج کا صریحاً غلط اور بلا دلیل ہونا ثابت کیا گیا ہے.براہین احمدیہ میں مولوی چراغ علی صاحب کے خیالات کا شائبہ تک نہیں ہے.مولوی عبد الحق صاحب ایسے گھاگ آدمی سے اس بات کی قطعا توقع نہیں کی جاسکتی کہ پہلے وہ یہ درج کریں کہ : خطوط (سے) اپنی مشہور اور پر زور تالیف میں مدد طلب کی تھی." اور آخر پر لکھ دیا کہ: “ ان تحریروں (یعنی مخطوط ) سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے.تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی ہے." اس بات سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ مولوی عبد الحق صاحب نے صرف خطوط کے الٹ پھیر پر اکتفا کیا ہے لیکن کتاب براہین احمدیہ کے مضامین کو دیکھنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کی ہے.جس کا ثبوت او پر درج کیے گئے موضوعات سے دیا جا چکا ہے.لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب کو براہین احمدیہ کے پر زور ہونے کا علم کیونکر ہو گیا ؟ ایسے لگتا ہے کہ یہ امر مولوی صاحب موصوف کو تالیف مذکور کے مشہور ہونے کی وجہ سے ہی ہو ا ہو گا.نہ کہ مطالعے سے ! اگر مطالعہ کرتے تو موصوف خطوط کے ساتھ تالیف براہین احمدیہ کے متعلقہ مقامات کی جن سے موصوف اپنے سوچے گئے نتائج نکالنا چاہتے تھے اُن کا حوالہ ضرور درج کرتے جیسا کہ مولوی عبد الحق صاحب مقدمہ باغ و بہار ” میں اس کے ماخذ نوطرز مرضع ” کو ثابت کرتے ہیں.مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں: فارسی اور “نوطرز مرضع " کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ “باغ و بہار ” فارسی کتاب کا ترجمہ نہیں بلکہ اس کا مآخذ “نوطرز مرضع ” ہے.تعجب اس بات کا ہے کہ میر امن نے فارسی کتاب اور اس کے ترجمے کا تو ذکر کیا مگر نو طر زمر ضع کا ذکر صاف اُڑاگئے (نوٹ از راقم الحروف: جیسے کہ خود مولوی عبدالحق صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے خطوط کا تو ذکر کیا ہے لیکن خطوط میں محولہ مقامات کا تقابل مولوی چراغ علی کی تحریرات سے درج کر ناصاف اُڑا گئے ہیں !!؟ ) اسی تسلسل میں مولوی عبد الحق صاحب مزید تحریر کرتے ہیں: “ اب میں تینوں کتابوں سے بعض مقامات کا مقابلہ کر کے دکھاتا ہوں جس سے میرے بیان کی پوری تصدیق ہو گی (نوٹ از را قم الحروف: لیکن مولوی عبدالحق کے حضرت مرزا صاحب کے بارے میں بیان کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کیونکہ کتمان حق کیلئے موصوف
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام نے دو ہر امعیار قائم کیا ہے !) اس کے بعد مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں: 25 اصل یہ ہے کہ ترجمہ ان دو میں سے کوئی بھی نہیں فارسی قصے کو اپنی اپنی زبان مین بیان کر دیا ہے.لیکن جہاں کہیں نو طر ز مرضع، اور فارسی کتاب میں اختلاف ہے “باغ و بہار ” میں نو طر ز مر ضع کا اتباع کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”باغ و بہار جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے ، فارسی میں قصے کا ترجمہ نہیں بلکہ اس کا اخذ نو طر ز مرضع ” ہے.بعض مقامات پر تو الفاظ اور جملے کے جملے وہی دیئے ہیں، جو نوطرز مرضع ” میں ہیں.اب چند مقامات ملاحظہ ہوں: بادشاد آزاد بخت راتوں کو قبور کی زیارت کرنے جاتا تھا ایک روز اس سیر میں اس کی چار درویشوں سے مڈ بھیڑ ہو جاتی ہے.اس کا ذکر فارسی کتاب میں اس طرح ہے کہ “ دور سے روشنی دکھائی دی.بادشاہ نے دل میں کہا کہ کوئی آوارہ وطن غریب یا ستم رسیدہ بے کس یا صاحب دل درویش ہو گاور نہ ایسے مکان میں بسر کرنا دوسرے کا کام نہیں.اصل فارسی عبارت یہ ہے : تا در میان قبرستان نظرش چار طاقے افتاد که روشنی چراغ دور می نمود.بادشاه با خود گفت که البته دراں مکان غریبے از وطن آوارہ یا بے کسی ستم رسیده یا بچاره از حادثات فلکی به جان آمده یا درو بیش از خلق کنار گرفته یا صاحب ولی به ارواح اہل قبور کسے یافتہ خواہد بود والا در چنین مکان بسر بردن کار دیگرے نیست." اب “نو طر ز مرضع ” کا یہی مقام ملاحظہ کیجئے: “ اس عرصہ میں فرخندہ سیر کے تئیں دور سے بہ فاصلہ فرسنگ کے ، ایک چراغ نظر آیا.لیکن باوصف استبداد بادِ صر صر کے زنہارِ استعالہ چراغ کے تئیں سر موحرکت نہ تھی.بادشاہ نے اول خیال کیا کہ طلسم شیشہ نمائی کا ہو گا یعنی اگر پھٹکری کو گر دفتیلہ چراغ کے چھڑک دیجئے تو کیسی ہی ہوا چلے چراغ گل نہ ہو." میر امن اسی مقام کو یوں لکھتے ہیں: ایک بارگی بادشاہ کو دور سے ایک شعلہ سا نظر آیا کہ مانند صبح کے ستارے کے روشن ہے.دل میں اپنے خیال کیا کہ اس آندھی اور اندھیرے میں یہ روشنی خالی از حکمت نہیں.یا یہ طلسم ہے کہ اگر پھٹکری اور گندھک کو چراغ میں بتی کے آس پاس چھڑک دیجئے تو کیسی ہو اچھلے چراغ گل نہ ہو گا." ان تینوں عبارتوں کا مقابلہ کیجیے ، فارسی اور اردو، میں خاصا اختلاف ہے، لیکن نو طر ز مرضع ” اور “باغ و بہار " کی عبارتیں کس طرح ملتی جلتی ہیں.دونوں کی آخری سطر میں دیکھئے ، ایک ہی بات اور ایک ہی لفظ ہیں.گویا ایک نے دوسرے کی کتاب سامنے رکھ کر لکھی ہے." 31 لیکن یہ طرز عمل مولوی عبد الحق صاحب نے براہین احمدیہ کے سلسلہ میں نہیں اپنایا.کیونکہ بقول رشید حسن خان شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی.انڈیا ( موصوف ادبی تحقیق کے سلسلے میں لکھتے ہیں ): ان کا (مولوی عبد الحق صاحب کا) بیش تر وقت انجمن کے تنظیمی کاموں میں اور اُردو کے سلسلے میں مدافعت و مقابلے میں صرف ہوا کرتا تھا.اُس زمانے کے ہنگامے جو اُردو ہندی کے نام سے برپا ہوتے رہتے تھے، اُن پر نظر
براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 26 ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ مولوی صاحب کا کتنا وقت اُن کی نذر ہوا کرتا تھا.اُنہوں نے تحقیق کی طرف بھی توجہ کی اور تدوین کا کام بھی کیا.لیکن بات وہی ہے کہ تحقیق، شرک کو گوارا نہیں کرتی...اس کے لیے جس انہماک ، یک سوئی اور ڈوب جانے کی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے ، ہنگامہ آلو د زندگی اُس کے منافی ہے...مولوی صاحب کے پاس اتنا وقت تھا ہی نہیں کہ وہ چھان بین کا حق ادا کر سکتے.یہ بھی سنا گیا ہے کہ وہ اکثر دوسروں سے بھی اپنے کام میں مد دلیا کرتے تھے ، لیکن کتابوں پر نام انہیں کا ہوتا تھا.جن متنوں پر اُن کا نام بہ حیثیت مدون درج ہے ، اُن میں آداب تدوین کی پابندی بہت کم نظر آتی ہے.یہی حال تحقیقی مقالات کا ہے.32 مولوی عبد الحق صاحب نے براہین احمدیہ کے معاملے میں بھی چھان بین کا حق ادا نہیں کیا اور دوسروں سے مدد لینے اور اپنے نام سے کتابیں شائع کروانے کا معاملہ تو خو د موصوف پر ثابت ہوتا ہے.علاوہ محولہ اقتباس کے زیر نظر مضمون کے دیگر مقامات پر بھی مولوی عبد الحق صاحب کی اس پختہ عادت کے بارے میں اندراج کیا گیا ہے.زیر نظر معاملہ میں موصوف کا تدلیس و تغلب تمام حدود کو پھلانگ گیا ہے.بظاہر یہی لگتا ہے کہ موصوف بڑی شرافت سے بات کر رہے ہیں لیکن اس کے مضمرات کی قلعی خصوصی و عمومی تقابلی مطالعہ میں بتفصیل کھول دی گئی ہے.او پر درج کیے گئے عنوان کے تحت ذکر ہو رہا تھا براہین احمدیہ کے پر زور ہونے کا.اور مولوی عبد الحق صاحب کو اس کا کیسے علم ہوا.جو اُن کی علمی اور عملی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے سماعی ہی کہی جاسکتی ہے ورنہ موصوف اپنی بات کے ثبوت میں خود براہین احمدیہ سے اس کے ثبوت تلاش کر کے پیش کرتے.لیکن وہ ایسانہ کر سکے اگر انہوں نے یہ بات علی وجہ البصیرت لکھی ہے تو انہیں اس کا ثبوت بھی دینا چاہیے تھا.بہر کیف جو کچھ موصوف نے لکھا ہے اُس کے بارے میں ذیل میں لکھا جاتا ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنے سے پہلے علماء اور فضلاء کے متعلق بھی یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں: اکثر لوگ دلائل حقیقت اسلام سے بے خبر ہیں بڑے بڑے شرفاء کے بیٹے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں جو باعث بے خبری دینی کے اصطباغ پائے ہوئے گر جاگھروں میں بیٹھے ہیں.اگر فضل عظیم پروردگار کاناصر اور حامی اسلام نہ ہوتا اور وہ بذریعہ پر زور تقریرات اور تحریرات علماء اور فضلاء کے اپنے اس سچے دین کی نگہداشت نہ کرتا تو " 33 “ وہ کتا بیں خاص خاص فرقوں کے مقابلہ پر بنائی گئی ہیں اور اُن کی وجوہات اور دلائل وہاں تک ہی محدود ہیں جو اُس فرقہ خاص کے ملزم کیلئے کفایت کرتی ہیں.لیکن یہ کتاب (یعنی براہین احمدیہ ) تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقیقت اسلام اور سچائی عقائد اسلام کی ثابت کرتی ہے اور عام تحقیقات سے حقانیت فرقان مجید کو بپایہ ثبوت پہنچاتی ہے..34 یہاں بے جانہ ہو گا کہ مولوی عبد الحق صاحب کی تحریرات میں سے بھی کچھ لفظ پر زور کے بارے میں جان لئے جائیں.موصوف اعظم الکلام...کے مقدمہ میں ہی مولوی چراغ علی کے متعلق لکھتے ہیں:
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام “ان کی تحریر میں گر می نہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سرد مہر منطقی ایک ایسے مبحث پر جس سے اُسے دلچسپی ہے بحث کر رہا ہے اور واقعات اور دلائل و براہین پیش کر کے بال کی کھال نکال رہا ہے.حال آں کہ مذہب کو منطق و استدلال سے اتنا تعلق نہیں جتنا کہ انسان کے جذبات لطیفہ یا وجد ان قلب سے ہے اس لیے مذہب پر بحث کے لیے ضروری ہے کہ انسان رسمی قیود سے بالکل باہر نکل کر نظر ڈالے اور اس میں وہ جوش اور حرارت ہو جو ایک سرد مہر منطقی یا ایک کائیاں دنیا دار میں نہیں ہو سکتی.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب مرحوم کو نہ تو مذہب کے اس حصے سے بحث تھی اور نہ وہ غالباً اس بحث کے اہل تھے بلکہ ان کا مقصد مذہب کے صرف اس حصہ سے تھا جس کا تعلق امور دنیا سے ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مذہب اسلام کس طرح انسان کی دنیاوی ترقی کا حارج نہیں بلکہ اُس کا ممد و معاون ہے جو لوگ اس کے مخالف ہیں وہ غلطی پر ہیں اور کچھ شک نہیں کہ اس میں مولوی صاحب کو پوری کام یابی حاصل ہوئی ہے." 35 27 نامعلوم مولوی عبد الحق صاحب نے یہ کہاں سے معلوم کر لیا کہ مذہب کو منطق و استدلال سے اتنا تعلق نہیں ” پھر کتنا تعلق ہے ؟ اتنے " کی کوئی حدوبست تو قائم کی ہوتی.اوپر لکھتے ہیں کہ جتنا کہ انسان کے جذبات لطیفہ یا وجدانِ قلب سے ہے.گویا مذ ہب غیر منطقی یا غیر مدلل ہے؟ یہاں گویا جذبات لطیفہ یا وجد ان قلب کو فوقیت دے رہے ہیں اور منطق و استدلال جو مذہب سے متعلق ہے اُسے کمزور بنا رہے ہیں.جبکہ منطق ایک نہایت اہم علم ہے.جس کو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود نے اپنے مخالفین کے خلاف براہین احمدیہ میں استعمال فرمایا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم بھی منطقی استدلال فرماتا ہے.یہاں نمو متہ درج کیا جاتا ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جو دلیل دی ہے اس کو منطق کی اصطلاح میں REDUCTION ABSORDUM کہتے ہیں...b وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرِي عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعِي إِلَي الْإِسْلَامِ وَ اللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْظُّلِمِيْنَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ اللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَوْ كَرِةَ الْكَافِرُونَ ترجمہ : اور اُس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے اور اللہ ظالموں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا.وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کر کے چھوڑے گا خواہ کا فر (لوگ) کتنا ہی نا پسند کریں.یعنی ایک ایسے مفروضے سے جو غلط یاABSURD ہو ، جب نتیجہ نکالا جائے تو وہ لازماً غلط ہو گا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مفروضہ سے نتیجہ نکالا جا رہا ہے وہ غلط ہے.اس کا غلط ہونا بھی ثابت ہے.دلیل یہ ہے کہ PREMISES 1 کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باند ھے.2 اور وہ ایسا شخص ہو جس کو یہ دعوت دی جاتی ہو کہ وہ جھوٹ چھوڑ کر اسلام قبول کر لے.3 حضرت مرزا صاحب نے نعوذ باللہ خدا پر جھوٹ باندھا کہ مجھے وحی ہوئی.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام غلط (FALSE) ہے.CONCLUSION 28 لہذا اوپر کی دلیل REDUCTION ABSORDUM ہونے کی وجہ سے غلط ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُو...الخ یعنی وہ دشمن مسیح موعود چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ اپنے نور کو آپ کے ذریعہ سے مکمل کرے گا خواہ کا فرنا پسند ہی کریں.یعنی فرمایا کہ اے معترض اگر تمہارے دعوے بچے ہیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت مرزا صاحب کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہو.حالانکہ امر واقعی یہ ہے کہ خدا کی تائید آپ کو حاصل ہے.نہ صرف یہ بلکہ حضرت مرزا صاحب کا وجود وہ وجو د ہے جس کے ذریعہ اللہ عزوجل کی آنحضرت صلی لی ایم کے حق میں یہ پیشگوئی پوری ہو نا خدا کو منظور ہوا کہ آپ کے ذریعہ سے دین حق کو تمام دنیا پر غالب کر دے.36 لیکن ایک دوسرے مقام پر مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں: جسم کے افعال کو عقل و جذبات کے زیر حکومت رکھنا مذ ہب کا کام ہے." 37" یہاں پر عقل اور جذبات دونوں کو مذہب کے زیر حکومت لے آئے ہیں جبکہ پہلے اقتباس میں جذبات اور وجد ان قلب کو فوقیت دیتے ہیں پھر ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: مذہب کا حق یہ ہے کہ وہ عقل و جذبات کو ساتھ ساتھ اور برابر بڑھائے باہم اعتدال قائم رکھے اور قوتِ حیوانی کو دماغی اور احساسی حصہ جسم کی پرورش نشو و نما میں یکساں صرف کرے.38 3999 اس موقعہ پر مولوی عبد الحق صاحب عقل و جذبات کو حد اعتدال میں اور یکساں نشو و نما چڑھانا چاہتے ہیں.پھر ایک مقام پر لکھتے ہیں: “ جہاں عقل اور جذبات میں اتحاد و اعتدال نہیں رکھا گیا وہ مذہب نہیں بلکہ ایک قسم کا فلسفہ یا کچھ اور ہے." اب تھوڑا سا حال “جذبات لطیفہ یا وجدان قلب " کا بھی خود مولوی عبد الحق کے اپنے الفاظ مرتب مقدمات عبادت بریلوی کے نام خط میں ملاحظہ ہوں: آپ عطیہ بیگم کے خطوط سے متر در نہ ہوں.اس سے مولانا شبلی کی منقصت نہیں ہوتی.لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ نرے خشک ملا یا مولوی نہ تھے.بلکہ لطیف انسانی جذبات بھی رکھتے تھے.وہ شاعر تھے اور عاشق مزاج بھی تھے اور یہ ان کے لیے عیب نہیں بلکہ خوبی ہے.اس سے ان کی وقعت اور بڑھنی چاہیے.لوگوں کے سمجھنے اور بد گمانی کرنے سے کچھ نہیں ہوتا.یہ رائیں فوری ہوتی ہیں.صحیح فیصلہ زمانے کے ہاتھ ہے." 40 جب ایسے جذبات لطیفہ یا وجد ان قلب کو فوقیت دی جائے گی اور اسے عیب کی بجائے خوبی گردانا جائے گا اور ان کو منطق و استدلال پر ترجیح دی جائے گی تو جو نتیجہ نکلے گاوہ یہ ہو گا: “ ایسے لوگ جو عبادت کا تعلق صرف قلب کے متعلق سمجھ کر یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف دل کی عبادت کافی ہے کچھ دنوں کے بعد دلی عبادت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی روح کی تازگی جاتی رہتی ہے اور سستی اس پر غالب آجاتی ہے اور اس طرح مرجھائی جاتی ہے.جس طرح قشر سے الگ کیا ہو امغز...ایسے لوگوں کا رفتہ رفتہ قلب بھی سیاہ ہو جاتا ہے کیونکہ جسم روح کے ساتھ وہی تعلق رکھتا ہے جو کہ ایک میوہ کا قشر
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اس کے مغز سے ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ قشر خود مطلوب نہیں لیکن قشر کو جب مغز سے جد اکر دو گے تو وہ فور یا کچھ دیر کے بعد بالکل بر باد ہو جائے گا.اسی طرح اگر عبادات میں جسم کو بھی شامل نہ کیا جائے تو ایسی عبادات جلد فنا ہو جاتی ہیں."41 29 “ قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہ ذکر الہی کرتے ہوئے غشی آجاتی اور بیہوشی طاری ہو جاتی ہے.یاسننے والے سر مارنا اور اچھلنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ ذکر الہی سے الانفال: 3، الزمر : 24 اور مریم : 59 سے ثابت ہے کہ ذکر کرنے والوں کی یہ حالتیں ہوتی ہیں ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور ان میں خوف پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا رب بڑی شان والا اور شوکت والا ہے.۲.خوف سے ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں.۳.ان کے بدن ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں.۴.وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں یعنی عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں.۵.رونے لگ جاتے ہیں...اگر نا چنا کو دنا بے ہوش ہونا اور زور زور سے چیچنا بھی ہو تا تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی بیان کرتا...لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ان میں سے کوئی ایک بات بھی بیان نہیں فرمائی.اس سے معلوم ہوا کہ ان کا ذکر الہی سے کوئی تعلق نہیں." 42 اور یہی جذبات لطیفہ یا وجد ان قلب ہے نہ کہ مولوی عبد الحق صاحب کے خود ساختہ خیالات، جن کی وضاحت مولوی عبد الحق صاحب نے کی ہے اور انہیں اوپر درج کر دیا گیا ہے.در اصل یہ مقدمات اُن کا خاص میدان نہیں ہیں جیسا کہ مرتب مقدمات عبد الحق عبادت بریلوی نے لکھا ہے کہ : “ادبی و لسانی موضوعات کے ساتھ ساتھ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب کے بعض مقدمات ایسے موضوعات پر ہیں جو اُن کا خاص میدان نہیں ہے.مثلاً انہوں نے ایسی کتابوں پر بھی مقدمے لکھے ہیں جن کا موضوع اسلام اور اس کے مختلف معاملات و مسائل ہیں.ان مقدمات میں مقدمہ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ، مقدمہ تحقیق الجہاد اور معرکہ مذہب و سائنس بہت اہم ہیں.ان مقدمات میں جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اُس سے دینی و دنیاوی پہلوؤں کے متعلق ان کے خیالات و نظریات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے." 43 مذکورہ تینوں مقدمات سے ہی اس مضمون میں حوالے دیئے گئے ہیں.مقدمہ “ معر کہ مذہب و سائنس ” کے متعلق مولوی عبد الحق صاحب، مرتب مقدمات عبادت بریلوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: میں نہیں چاہتا تھا اور کئی عنوان سے آپ سے عرض بھی کیا تھا کہ آپ معر کہ مذہب و سائنس کو اس مجموعے میں داخل نہ فرمائیں لیکن آپ نہ مانے.تعجب ہے کہ یہ مقدمہ آپ کو پسند ہے.اصل یہ ہے کہ یہ میرے نوٹ تھے جو میں نے مقدمے کے لئے تیار کیے تھے.ظفر علی خان صاحب کو آپ جانتے ہیں.اُن کی طبیعت میں جلد بازی ہے.وہ آئے اور لے کر چل دیئے.اس کے بعد دفعتاً اُن کا یہاں سے جانا ہوا میں نے بہت لکھا کہ اسے واپس کر دو تو میں اصل مقد مہ جو لکھنا چاہتا ہوں لکھ دوں مگر اُنہوں نے کاغذات واپس نہ کیے اور یہ خیال کہ شاید میں نہ لکھوں کاغذات تلف کر دوں اور آخر یہی چھپ گئے.مجھے یہ مقدمہ اس لیے پسند نہیں کہ اگر میں اب لکھتا تو وہ کچھ اور ہوتا.یہ وجوہ تھے کہ میں چاہتا تھا کہ مقدمہ اس مجموعے میں شائع نہ ہو." 44
براہین احمدیہ مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 30 لکھنے والے کو تو یہ مقدمہ پسند ” نہیں.لیکن مولوی محمد حبیب الرحمن خان صاحب شروانی مقدمہ اعظم الکلام کا ذکر کر کے لکھتے ہیں: جن اصحاب کو مولوی صاحب کے خیالات بالا سے غصہ آئے ( یعنی مقدمہ اعظم الکلام سے.ناقل ) وہ ان کو ملحد بنانے میں جلدی نہ کریں اور میرے اوپر کرم فرما کر معرکہ مذہب و سائنس کا مقدمہ غور سے حرف بہ حرف پڑھ لیں " 45 لیں" (نوٹ: یعنی بقول شیر وانی صاحب مقدمہ اعظم الکلام ملحدانہ خیالات سے مملو ہے) شروانی صاحب خود بیان کرتے ہیں کہ مولوی نذیر احمد خان صاحب مرحوم کے رسالہ امہات الامہ جلائے جانے کے واقعہ میں : “رسالے جلائے گئے.مٹی کا تیل لاکر دو بجے رات کو جس نے رسالوں پر ڈالا وہ میں ہی تھا.اتفاق یہ کہ جلانے کے بعد آندھی نے خاکستر اُڑا دی، بارش نے جگہ صاف کر دی.اس طرح " ہلاس " سونگھنے کا موقع کسی کو نہ مل سکا 46 ان ہی صاحب کے متعلق مولوی عبد الحق صاحب“ حیات النذیر ” کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: بیکری موقوف کرادی تھی.(کتابیں) منگوائیں اور اپنے سامنے ان کتابوں کا ڈھیر لگوایا اور ان میں سے ایک مولوی نے زیادہ تر ثواب کمانے کے لیے آگے بڑھ کر مٹی کا تیل چھڑ کا اور بسم اللہ کہہ کر آگ لگا دی.اُس کے شعلوں کی روشنی مولویوں کے مقدس چہروں پر پڑرہی تھی اور اُن کی آنکھوں کی چمک اور چہروں کی بشاشت سے اس خوف ناک دلی مسرت اور باطنی اطمینان کا اظہار ہو رہا تھا جو ایک خوں خوار درندے یاسنگ دل انسان کی صورت سے انتقام لیتے وقت ظاہر ہوتا ہے.اگر حکومت کا ڈر نہ ہو تاتو مولانائے مرحوم بھی اس آگ میں جھونک دیئے جاتے.یہ منظر قابل دید تھا، مولویوں کا یہ حلقہ زمانہ وسطی کے اُن پادریوں کی یاد دلاتا تھا جنہوں نے کتابیں تو کتا بیں ہزاروں بے گناہ انسان زندہ دہکتی آگ میں جھونک دیئے ، کڑ کڑاتے تیل کے کڑا ہوں میں ڈال دیے، گلوں میں پتھر باندھ کر بہتے دریاؤں میں ڈبو دیئے ، کتوں سے پھڑ وادیئے اور طرح طرح کے عذاب دے دے کر اور عجیب و غریب شکنجوں میں کس کس کر سکا سکا کر مار ڈالے.اُن کے سامنے راکھ کا ڈھیر ایک تو وہ عبرت تھا جو بیسویں صدی عیسوی کے روشن زمانے کی ایک عجیب یاد گار تھا، یہ راکھ اس قابل تھی کہ اس کی ایک ایک چٹکی بہ طور ایک یاد گار کے شیشوں میں بند کر کے رکھ لی جاتی تا آئندہ نسلیں اسے سامنے رکھ کر ان علمائے کرام و مصلحان ملک و ملت کی ارواح پاک پر فاتحہ دلاتیں اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتیں.اس رات گویا مولویوں نے شب برات منائی اور اس آگ سے اپنے نفوس مطمئنہ کو ٹھنڈا کیا اور اپنے اعمال ناموں میں ایک ایسی بڑی نیکی کا اضافہ کیا جو غالباً ان کی نجات اخروی کا باعث ہو گی.یہ اُن بزرگوں کا کام ہے جنہوں نے چشم بد دور مسلمانوں کی دینی و دنیوی اصلاح و فلاح کا بیڑا اٹھایا ہے.47 ایک مقام پر مولوی عبد الحق صاحب لکھتے ہیں: “سید محفوظ علی نے مدرستہ العلوم مسلمانان ایم.اے او کالج علی گڑھ میں تعلیم پائی.بی.اے میں سید صاحب، ظفر علی خان، حافظ ولایت اللہ اور راقم الحروف (مولوی عبد الحق ) سب ساتھ.1895ء میں تعلیم سے فارغ ہو کر
براہین احمدیہ مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام اپنے وطن چلے گئے."48 31 یہ ہم مکتب ہونے کی بے تکلفی تھی جس کے باعث ظفر علی خان، مولوی عبد الحق صاحب کا لکھا ہوا مقدمہ “معرکہ مذہب و سائنس " لے اُڑے تھے.اگر چہ مولوی عبد الحق صاحب کو یہ پسند نہ تھا.چاہئے تو یہ تھا کہ مولوی ظفر علی خان اس مقدمے میں دیئے گئے خیالات پر اپنی بھی رائے درج کرتے لیکن انہوں نے جیسے اسے درج کر کے اس سے اتفاق کیا ہو مثلاً اس مقدمے کے چوتھے پیرے میں مولوی عبد الحق صاحب“ خدا کے خیال کی اصل ” کی بابت لکھتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان ہی ہے کہ جس نے خدا کو دریافت کیا ہے ! ملاحظہ ہو: “ انسان معلوم سے غیر معلوم کو دریافت کرتا ہے.اس لیے اس نے اس قوت کو جو نیچر میں پائی جاتی ہے اپنی قوتِ ارادہ کے مثل سمجھا تو اُس کا ایسا سمجھنا جائز ہے.جب اس نے ایسے معلومات دیکھے جن کی علل کو وہ نہیں بتا سکا تو انہیں ایک ایسی قوت مختار سے منسوب کرنا جو مادے کے اندر اور باہر ہے بالکل جائز ہے.یہی خدا کے خیال کی اصل ہے.اب خواہ خدا بہت سے ہوں اور درختوں ، دریاؤں ، پہاڑوں، بادلوں اور ہو اؤں میں ہوں خواہ ایک علت اعلیٰ جو کائنات کا خالق اور قائم رکھنے والا ہے.اس مسئلے میں بنی نوع انسان کے عام اتفاق کو گزشتہ زمانے کے الہام کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے.لیکن اصل یہ ہے کہ اکثر اقوام ایک ہی صغری کبری سے ایک ہی نتیجے پر پہنچی ہیں.الہام انسان کی ذات اور اصولِ علت معلوم کی صداقت کے یقین میں ہے یہ الہام ہر ذی عقل پر ہو تا ہے.49 گویا مولوی عبدالحق صاحب کے نزدیک خدا کی اصل مادہ ہے اور اس میں خالق اور قائم رکھنے والے کا اضافہ کر کے مولوی صاحب موصوف نے خدا تعالیٰ کی ذات والا صفات کا کھوج لگا لیا اور اُس کے الہام کو ہر ذی عقل کے اپنے خیالات پر محمول کر کے کلام الہی کا انکار کر دیا.ہم نے ان جیسے امور سے ہی اندازہ لگایا ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب نے براہین احمدیہ کا مطالعہ کرنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کی ہے.اگر مولوی صاحب حضرت مرزا صاحب کی کتاب براہین احمدیہ کا مطالعہ کرتے تو جو خیال مرضی ہے رکھا کریں لیکن اس کا ذکر کرنا اُن پر لازم تھا کہ :.یہ وسوسہ کہ جس قدر نبی آئے وہ بلاشبہ کلام الہی کے نازل ہونے سے پہلے خدا پر یقین رکھتے تھے.پس اس سے ثابت ہے کہ وہ یقین انہیں کی فطرت اور عقل سے ان کو حاصل ہو ا تھا.لیکن واضح ہو کہ یہ وسوسہ محض قلت تدبر سے ناشی ہے کیونکہ اس یقین کا باعث کسی طور سے مجرد عقل اور فطرت نہیں ہو سکتے.انبیاء کسی جنگل میں اکیلے پیدا نہیں ہوئے تھے تا یہ کہا جائے کہ انہوں نے الہام پانے سے پہلے بذریعہ سلسلہ سماعی بھی جس کی الہام الہی سے بنیاد چلی آتی ہے.خدا کا نام نہیں سنا تھا اور صرف اپنی فطرت اور عقل سے خدا کے وجود پر یقین رکھتے تھے بلکہ بہ بداہت ثابت ہے کہ خدا کے وجود کی شہرت اس کلام الہی کے ذریعہ سے دنیا میں ہوئی ہے کہ جو ابتدا زمانہ میں حضرت آدم پر نازل ہوا تھا.پھر بعد حضرت آدم کے جس قدر انبیا وقتا فوقتا زمانہ کی اصلاح کے لئے آتے رہے.ان کو قبل از وحی خدا کے وجود سے یاد دلانے والی وہی سماعی شہرت تھی جس کی بنیاد حضرت آدم کے صحیفہ سے پڑی تھی.پس وہی سماعی شہرت تھی جس کو نبیوں کی مستعد اور پر جوش فطرت نے فی الفور قبول کر لیا تھا.اور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام پھر خدا نے بذریعہ اپنے خاص کلام کے مراتب اعلیٰ یقین اور معرفت تک ان کو پہنچا دیا تھا اور اس نقصان اور قصور کو پورا کر دیا تھا کہ جو محض سماعی شہرت کی پیروی سے عائد حال تھا.ابتداء میں خداوند قادر مطلق کی ہستی کا پتہ اسی شے کے ذریعہ سے لگا ہے کہ جس میں اب بھی پتہ لگانے کی قدرت 32 مستقلہ حاصل ہے سو وہ قدرت مستقلہ صرف کلام الہی میں پائی جاتی ہے.50 اس اقتباس کی روشنی میں اس سے پہلے دیئے گئے اقتباس میں مولوی عبد الحق صاحب بندوں کا احسان خدا تعالیٰ پر کرنا چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کا پتہ لگایا.اور ان ہی امور کو سراہتے ہوئے مولانا مولوی محمد حبیب الرحمن خاں صاحب شروانی صدر یار جنگ بہادر سابق صدر الصدور سلطنت آصفیہ حیدر آباد دکن لکھتے ہیں مولوی صاحب (مولوی عبد الحق) کے دل میں مذہب کا کتنا گہر اعقیدہ اور ادب ہے...” 51 اگر چہ اصل کتاب تو سامنے نہیں لیکن یہ مقدمہ یقین مولوی عبد الحق صاحب اور مولوی ظفر علی خان کے 1895ء میں تعلیم سے فارغ ہونے اور 1931ء کے درمیانی عرصے کا ہے جس سے مذکورہ تینوں اشخاص کی مذہب سے واقفیت کا علم ہو جاتا کیونکہ اس سے مذہب اسلام کے بارے میں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصحاب ہندوؤں کی طرح مادے کو ہی خدا سمجھتے ہیں.جیسے کہ مولوی صاحب عبد الحق نے لکھا “ جب اس نے (یعنی انسان نے ) ایسے معلومات دیکھے جن کی علل کو وہ نہیں بتا سکا تو انہیں ایک ایسی قوت مختار سے منسوب کرنا جو مادے کے اندر اور باہر ہے بالکل جائز ہے.یہی خدا کے خیال کی اصل ہے.“ اور اسی طرح ہر دو مولوی ظفر علی خان اور مولوی حبیب الرحمن شروانی نے اس پر صاد کیا ہے ! اور پھر الزام دیتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے براہین احمدیہ کی تصنیف میں مولوی چراغ علی صاحب سے مددلی تھی جو سراسر دروغ بے فروغ ہے.دراصل یہ لوگ صرف اسمی ور سمی مسلمان تھے 52" اس عنوان کو اگرچہ ہم نے مولوی چراغ علی صاحب کی تحریرات جو “ جوش اور حرارت سے عاری ہیں جیسے ایک سرد مہر منطقی کائیاں دنیا دار ہیں.“ کو درج کر کے کیا تھا لیکن مولوی چراغ علی صاحب کی کتاب اعظم الکلام کے بارے میں آگے چل کر اس بیان کے خلاف مولوی عبد الحق صاحب لکھتے ہیں کہ : “ مولوی چراغ علی مرحوم نے یہ کتاب لکھی اور در حقیقت نہایت پر زور مدلل اور جامع کتاب لکھی.کہیں اور کسی جگہ مولوی عبدالحق صاحب جس زور کو واضح کرنا چاہتے ہیں انہیں ڈرامے میں نظر آتا ہے.چنانچہ لکھتے ہیں: “وہ تلواروں کا مقابلہ زبان سے اور نیزوں کا مقابلہ قلم سے کرتا ہے.اور اپنے زور سے جدھر چاہتا ہے دنیا کو کھینچ لے جاتا ہے.لیکن اسمیں بھی قسمیں ہیں اور درجے.نظم ہے ، نثر ہے اور ان کی بھی بیسیوں قسمیں اور اس پر اپنی اپنی طبیعت اور اپنا اپنا دماغ.لیکن ان سب میں موئثر اور کار گر اگر کوئی ہے تو ڈراما ہے.جو دنیا کی مختلف حالتوں اور انسانوں کی مختلف کیفیتوں کو اس خوبی سے دکھاتا ہے کہ نقل میں اصل کا مزہ آجاتا ہے.” 53 اسی طرح مزید لکھتے ہیں: “ جن باتوں کو ہم اپنی زبان یا صرف قلم اور فصاحت کے زور سے بار بار جتانا چاہتے ہیں وہ سب مر حلے ڈرامے کے ایک ایکٹ میں طے ہو جاتے ہیں.54
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 33 کوئی واعظ ، کوئی فصیح مقر یا لیکچر ار اپنے کلام اور فصاحت سے اتنا اثر نہیں ڈال سکتا جتنا ڈرامے کے چند ایکٹ خصوصاً جب واقعات ایسے حیرت افزا اور جوش انگیز ہوں جن سے قوموں کی قوموں میں انقلاب پید اہو گیا ہو، خیالات کی ترتیب بدل گئی ہو.دلوں میں اُمنگ اور اُمنگوں میں ایچ پید اہو گئی ہو.اور سونے میں سہا گہ کہ ان واقعات کا لکھنے والا ایسا ہو جس کے قلم میں زور اور تاثیر ہے اور جسے نظم و نثر میں یکساں کمال ہے.یہی زور جو مولوی عبدالحق صاحب کو ڈرامے میں نظر آتا ہے اسی کو ایک اور مقام پر خطوط پر منطبق کرتے ہیں اور جادو کا نام دیتے ہیں.ڈرامے کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: 55 “ ادب میں سینکڑوں دل کشیاں ہیں ، اس کی بے شمار راہیں اور ان گنت گھاتیں ہیں.لیکن خطوں میں جو جادو ہے ( بہ شرطے کہ خط لکھنا آتا ہو ) وہ اس کی کسی ادا میں نہیں، نظم ہو ، ناول ہو ، ڈراما یا کوئی مضمون ہو غرض ادب کی تمام اصناف میں صنعت گری کرنی پڑتی ہے اور صنعت گری کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے.بناوٹ کی باتیں بہت جلد پرانی اور بوسیدہ ہو جاتی ہیں.صرف سادگی ہی ایسا حسن ہے جسے کسی حال اور کسی زمانے میں زوال نہیں.بہ شرطے کہ اس میں صداقت ہو.56 اسی پر زور کو..مولانا الطاف حسین حالی، مولوی عبدالحق کے یہاں بھی دیکھتے ہیں.ایک مقدمہ میں خود مولوی عبد الحق صاحب حالی کے خط کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میرا ایک مضمون عالم اسلامی ” کے نام سے باقساط نکلا جو چار سو صفحات تک پہنچ گیا تھا.اس کو دیکھ کر مولانا حالی نے مجھے ایک خط لکھا تھا: “اسلام نمبر میں آپ کا مضمون پڑھ کر بہت لطف آیا، نہایت پر زور مضمون لکھا ہے.57 پھر ایک مقام پر مولوی عبد الحق صاحب رسالہ “ معارف ” کی بابت لکھتے ہیں: “معارف، اگر چہ ناقدر دانی کی وجہ سے بند ہو گیا، لیکن اس کے پر زور مضامین اور ادبی خوبیوں کی وجہ سے سارے ملک میں غلغلہ پڑ گیا." 58 رای طرح ایک مقام پر سادگی، خلوص، جوش اور صداقت کو پُر زور ہونے پر ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں: پیغمبر اسلام (صلی الم) کی نعت میں ہمارے شعراء نے بڑے بڑے زور مارے ہیں اور حق یہ ہے کہ نئے نئے اسلوب سے بڑی پُر زور اور بے مثل نظمیں لکھی ہیں ، لیکن مسدس حالی کے چند بند جو بعثت خاتم النبیین پر ہیں پڑھیے.ان میں جو سادگی، خلوص، جوش اور صداقت ہے اس کا کہیں جو اب نہیں 59 اس کے علاوہ اور بیسیوں مقامات پر مولوی عبد الحق صاحب نے کئی مصنفین کے بارے میں پر زور کے الفاظ استعمال کیے ہیں.خو د حالی نے مولوی عبدالحق کے بارے پر زور کے الفاظ استعمال کیے ہیں.ان الفاظ کو ڈاکٹر سید عبد اللہ نے سر سید کے بارے میں بھی لکھا ہے جیسا کہ: سر سید اپنے استدلال کے ذریعے بیان میں زور اور قوت پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر شبلی ایک مدرس کی طرح اپنے
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام دعویٰ کو واضح، صاف اور روشن کرنا چاہتے ہیں.سرسید کی مذہبی تحریریں پر زور تو ہیں مگر شبلی کی تحریروں کی طرح واضح نہیں.60 شمس الرحمن فاروقی اپنے رسالہ میں ابو الکلام آزاد کے بارے میں لکھتے ہیں: “ ابو الکلام آزاد نے ان چیزوں ( تشبیہ ، استعارہ ، ضائع بدائع ، قافیہ اور ترصیع وغیرہ) کو مقصود کے طور پر نہیں بلکہ تزئین کے طور پر استعمال کیا.لہذا ان کی نثر اپنے تمام بناؤ سنگھار کے باوجود اپنے منصب سے اتر گئی.وہ صاحب طر ز تو ہیں، پر زور بھی ہیں لیکن ان کی نثر اردو کے اسلوب کے لئے نمونے کا کام نہیں کر سکتی.61 34 ان نمونوں کے علاوہ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف اس بارے میں کیا فرماتا ہے.سورۃ نوح کے مختصر تفسیری نوٹس میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں جو سورۃ نوح کی آیت 6 تا 10 کے مضامین پر مشتمل ہے: محض پیغام دینا کافی نہیں ہوا کر تا بلکہ اس پیغام کو سمجھانے کے لیے ایک نبی کو اپنی جان گو یا ہلاک کرنی پڑتی ہے.کوئی ذریعہ وہ ایسا نہیں چھوڑ تا جس سے قوم کے بڑوں اور چھوٹوں کو سمجھایا جا سکتا ہو.• کبھی گریہ وزاری کے ساتھ اور کبھی چھپ چھپ کر تا قوم کے متکبر لوگ ، عوام الناس کے سامنے صداقت کو تسلیم کر کے شر مندگی نہ محسوس کریں.کبھی اعلان عام کے ساتھ تاکہ عوام الناس کو بھی براہ راست نبی سے پیغام پہنچے ورنہ ان کے سردار تو اس پیغام کو محرف کر کے پیش کریں گے پھر کبھی انہیں طمع دلاتا ہے کہ دیکھو! اگر تم ایمان لے آؤ گے تو آسمان تم پر بکثرت رحمتوں کی بارش نازل فرمائے گا اور کبھی خوف دلاتا ہے کہ اگر ایمان نہیں لاؤ گے تو آسمان سے رحمت کی بارش کی بجائے انتہائی ہلاکت خیز بارش ہو گی اور زمین بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکے گی بلکہ زمین سے بھی ہلاکت کے سوتے پھوٹیں گے.تب اس اتمام حجت کے بعد اسی کا نام اتمام حجت ہے ، آخر ان کی صف لپیٹ دی گئی." 62 حضرت مرزا صاحب کی زیر بحث کتاب براہین احمدیہ کے چند مقامات پر جہاں لفظ پر زور استعمال ہوا ہے ملاحظہ ہوں: 1.حضرات آریا سماج والے انصافاً ہم کو بتلاویں کہ رگوید نے ان شرتیوں میں اپنا منشا ظاہر کرنے میں کون سی بلاغت دکھلائی ہے.اور آپ ہی بولیں کہ کیا اس کی تقریر فصیح تقریروں کی طرح پر زور اور مدلل ہے یا پوچ 63 اور لچر ہے.2 انتہائی معرفت بجز اس کے عند العقل ممکن نہیں کہ مالک حقیقی کا جمال بطور حق الیقین مشہور ہو یعنی ظہور اور بروز تمام ہو جس پر زور بیان پایا جاتا ہے اور کس کی عبارت طرح طرح کے شکوک اور شبہات میں ڈالتی ہے اور فضول اور طول طویل ہے.64
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اور کیونکر مدلل اور موجز عبارت میں تمام ضروریات توحید کا ثبوت دے کر طالبین حق پر معرفت الہی کا دروازہ کھول دیا ہے اور کیونکر ہر یک آیت اپنے پر زور بیان سے مستعد دلوں پر پورا پورا اثر ڈال رہی ہے.اور اند رونی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ درجہ کی روشنی دکھلا رہی ہے.65.4 یہ پنڈت صاحب کا خوش عقیدہ تھا جس کو پر زور دلائل دے کر رڈ کر کے پنڈت صاحب پر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ 66 35 خدائے تعالیٰ ہر گز ادھورا اور ناقص نہیں بلکہ مبداء ہے تمام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا...گمان غالب یہی ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب براہین احمدیہ کو مشہور اور پر زور تالیف لکھنا ایک سُنی سنائی بات لگتی ہے اگر موصوف کے مطالعے کا نتیجہ ہوتی تو اس کا کچھ عکس تو اُن کی تحریروں میں موجود ہوتا.مولوی صاحب تو فقط خطوط کی عبارتوں کو الٹ پھیر کر من مانا نتیجہ نکالتے ہیں.بہر کیف پر زور کی کیفیت اور انبیاء کی بات حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی 9 ستمبر 1933ء کی ایک مجلس عرفان سے یہاں نقل کی جاتی ہے جس میں حضرت مسیح موعود کی ابتدائی زمانہ کی اور آخری زمانہ کی کتابوں میں نمایاں فرق کی بابت بیان کیا گیا ہے کہ اُن میں زیادہ زور زیادہ وضاحت اور خدا تعالیٰ کے جلال کا زیادہ اظہار پایا جاتا ہے.جبکہ براہین احمدیہ حضرت اقدس مرزا صاحب کی پہلی کتاب ہے اور اس کے بعد 81 اکیاسی 82 بیاسی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے 23 کتابیں تو صرف عربی زبان میں ہیں: ذکر ہوا اب گاندھی جی میں وہ جوش و خروش نہیں رہا جو پہلے تھا.فرمایا:.نبیوں اور ریفار مروں میں یہ بھی فرق ہو تا ہے کہ نبی کی عمر جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اس کا زیادہ زور کے ساتھ اظہار ہوتا جاتا ہے.لیکن دنیاوی لیڈ رجوں جوں بوڑھے اور کمزور ہوتے جاتے ہیں ان کی سر گرمیوں اور کوششوں میں بھی کمزوری آتی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود کی اگر ابتدائی زمانہ کی کتابوں اور پھر آخری زمانہ کی کتابوں کو دیکھا جائے تو ان میں نمایاں فرق نظر آتا ہے.بعد کی تحریروں میں زیادہ زور زیادہ وضاحت اور خدا تعالیٰ کے جلال کا زیادہ اظہار پایا جاتا ہے.67" حضرت مرزا صاحب کے نزدیک پُر زور ہونا کیا ہے؟ حضرت مرزا صاحب کی بطور نمونہ درج کی گئی تحریرات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ : 1.حضرت مرزا صاحب کے نزدیک پُر زور ہو نا فصاحت کا لازمہ ہے جس میں استدلال ہوتا ہے اور وہ پوچ اور لچر نہیں ہو تا.گویا پر زور ہو نا فصاحت کا ایک جز ہے نہ کہ کل.اسی طرح پر زور بیان میں شکوک و شبہات نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ فضول اور طول طویل ہو تا ہے.3 پھر اس کی مدلل اور موجز عبارت اپنے اندر ثبوت رکھتی ہے بلکہ معرفت کا دروازہ کھول دیتی ہے.اور یہ پر زور بیان مستعد دلوں پر پورا پورا اثر ڈالتا ہے اور اندرونی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ درجہ کی روشنی دکھلاتی ہے.4 علاوہ اوپر بیان کردہ امور کے پر زور عبارت کوئی بات ثابت کر دیتی ہے جیسے کہ آپ نے ثابت کر دکھایا کہ :.خدا تعالیٰ ہر گز ادھورا اور ناقص نہیں.بلکہ مبدء ہے تمام فیضوں کا اور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام • جامع ہے تمام خوبیوں کا 36 لیکن اس کے بر عکس او پر درج کی گئی مثالیں اُن امور پر زور دے رہی ہیں جو عام تحریروں کالازمی جزو تو ہیں لیکن پر زور کے معانی نہیں کھولتیں اور نہ ہی اُس کوچہ میں داخل ہوتی ہیں بلکہ خود اپنے تصنع کلام کے اقراری ہیں کبھی کسی صنف کو اعلیٰ قرار دیتے ہیں اور کبھی کسی دوسری کو.جبکہ پر زور تو فی ذاتہ فصاحت و بلاغت کا ہی ایک جز ہے نہ کہ پوری بات ہے جسے حضرت مرزا صاحب نے اپنی تحریروں کے ساتھ کھول کر بیان کر دیا ہے.جنہیں براہین احمدیہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے بطور مثال درج کرنے کے لیے نقل کیا گیا ہے.اشتہار حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود نے اتمام حجت کے لیے ایک اشتہار براہین احمدیہ کی ابتداء میں درج فرمایا.جو بر امین احمدیہ کے پر زور ہونے پر دال ہے.اس اشتہار کا ایک حصہ بطور شہادت مبحث درج ذیل ہے: اشتہار انعامی دس ہزار روپیہ ان سب لوگوں کے لئے جو مشارکت اپنی کتاب کے فرقان مجید سے ان دلائل اور براہین حقانیہ میں جو فرقان مجید سے ہم نے لکھیں ہیں ثابت کر دکھائیں یا اگر کتاب الہامی اُن کی اُن دلائل کے پیش کرنے سے قطع عاجز ہو تو اس عاجز ہونے کا اپنی کتاب میں اقرار کر کے ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار توڑ دیں.68" میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں اتمام اللجہ شائع کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے اُن سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے درباره حقیت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اُسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے تحریر کیں ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کر کے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کر سکے تو نصف ان سے یا ثلث ان سے یاربع ان سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشر طیکہ تین منصف مقبولہ فریقین بالا تفاق یہ رائے ظاہر کر دیں کہ ایفاء شرط جیسا کہ چاہئے تھا ظہور میں آگیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے وحیلتے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا.مگر واضح رہے کہ 2-8 - مولوی عبدالحق کے تتبع میں بعد میں آنے والوں کا براہین احمدیہ کے بارے میں بلا دلیل رویہ مولوی چراغ علی(1845-1895) سرسید کے پیر و خاص تھے 12 بعد میں آنے والوں نے مولوی چراغ علی کے ساتھ سر سید کا تعاون بھی براہین احمدیہ کی تصنیف میں شامل کر لیا 70 حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (1835-1908) کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کو بھی جناب مرزا صاحب کی تصنیف میں مدد دینے والا کہنا شروع کر دیا جبکہ بقول مرزا حیرت دہلوی، حکیم نور الدین مرزا صاحب کے مقابلہ میں چند سطریں بھی اردو کی نہیں لکھ سکتے تھے.21 براہین کی تصنیف میں مدد دیئے جانے اور اس کے براہونے کا ایک اصولی جواب اخبار وکیل کے ایڈیٹر ابو الکلام آزاد نے لکھا کہ بزرگان اسلام اب براہین احمدیہ کے بُرا ہونے کا فیصلہ دے دیں محض اس وجہ سے کہ اس میں مرزا صاحب نے اپنی نسبت بہت کی پیشگوئیاں کی تھیں اور بطور حفظ ما تقدم اپنے آئندہ دعاوی کے متعلق بہت کچھ مصالحہ فراہم کر لیا تھا.لیکن اس کے بہترین فیصلہ کا وقت 1880ء تھا جبکہ وہ کتاب شائع ہوئی.مگر اس وقت مسلمان بالاتفاق مرزا صاحب کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے 2 اور اس وقت (یعنی کتاب کی اشاعت کے وقت 1880ء.,69
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 37 1884ء)مولوی چراغ علی، سرسید ، حکیم مولوی نور الدین حیات تھے.انہوں نے یہ کریڈٹ جناب مرزا صاحب کو تن تنہا کیوں لینے دیا، اپنی شراکت کا ادعاء ہی کر دیا ہوتا؟ اور اب بھی وقت نہیں گیا دونوں تحریریں موجود ہیں موازنہ خود حقیقت کھول دینے کے لئے کافی ہے.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید قریشی، سید عبد اللہ کی کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ہمارا ادب سرسید کی یکطرفه تصویر پیش کرتے کرتے اہم شخصیتوں کو نظر انداز کرنے لگا تھا جن میں اکبر کا نام بڑی اہمیت رکھتا ہے ) اس کے علاوہ ہمارے ادب کی تاریخوں میں یہ کوتاہی بھی پیدا ہو گئی کہ اس کے سر گرم نقیبوں نے ادب کی ہر نئی تحریک سرسید کا ضمیمہ بنانے کی کوشش کی پھر تحریک کو سر سید کے تھیلے سے بر آمد کرنے کا نتیجہ یہ تھا کہ اپنی تاریخ کے ہر دور میں ہم نے کچھ بندھے ٹکے فارمولے بنالئے اور ہماری تاریخیں انہیں فارمولوں کو کمی بیشی سے دہراتی چلی گئیں.73 یہی کوشش حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور ان کی کتاب براہین احمدیہ کے بارے میں بھی کی گئی ہے.جس کا جائزہ زیر نظر کتاب میں مولوی عبد الحق صاحب کے مقدمہ اعظم الکلام....کے حوالے سے کیا گیا ہے.سر دست ہم سر سید کی امداد والے معاملے میں سر سید ہی کی ایک تحریر اور اس پر تبصرہ نقل کر کے مقدمہ زیر نظر پر بات کرتے ہیں.سرسید نے ایک موقعہ پر لا پر لکھا “ ہم نے نامی یورپ کے عالموں ایڈیسن اور سٹیل کے مضامین کو بھی اپنی طرز اور اپنی زبان میں لکھا ہے.جہاں کہ ہم نے اپنے نام کے ساتھ اے.ڈی اور ایس ڈی کا اشارہ کیا ہے اور اپنی قوم کو دکھایا ہے کہ مضمون لکھنے کا کیا طرز ہے؟ اور ہماری زبان میں ان خیالات کو ادا کرنے کی کیا طاقت ہے....” اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سید صاحب نے انگریزی زبان کے ان نامور مضمون نگاروں کے طرز کی تقلید کی کوشش کی چنانچہ کچھ مضامین ایسے بھی لکھے جن کو انگریزی کا ترجمہ یا چر بہ سمجھنا چاہئے.74 جو شخص کسی دوسرے کے مضامین کاچر بہ اڑالے اسے کسی دوسرے کو مضامین کی مدد دینے کی اہلیت اور ضرورت ہی کیا ہے.یہ محض ایک دعویٰ ہے جو بلا دلیل ہے.محمد بیجی تنہا نے مولوی عبد الحق صاحب کے مقدمہ اعظم الکلام....سے حضرت مرزا صاحب کے خطوط نقل کرنے کے بعد ایک عبارت اور نقل کی ہے جو مولوی عبد الحق صاحب کے مجموعی تبصرہ سے ملتی جلتی ہے مگر الفاظ میں قدرے فرق ہے اور ایک زائد بات بھی درج کی گئی ہے.مولوی عبد الحق صاحب کی عبارت ہم نے اوپر مقدمہ اعظم الکلام....کے صفحہ 25-26 کے حوالے سے لکھی ہے.اب تنہا صاحب کی نقل کر دہ عبارت بھی ملاحظہ ہو....“ خطوط مندرجہ بالا کے اقتباسات سے یہ امر بخوبی ثابت ہو تا ہے کہ مولوی صاحب نے مرزا صاحب کو براہین احمدیہ کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو حمایت و حفاظت اسلام کا کس قدر خیال تھا یعنی خود تو وہ کام کرتے ہی تھے مگر دوسروں کو بھی اس میں مدد دینے سے دریغ نہ کرتے تھے.نیز مولوی صاحب کسی بلند درجہ کے محقق تھے کہ مرزا غلام احمد صاحب جیسے زبر دست عالم بھی ان کی امداد کے متمنی تھے."75 حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے بارے میں زبر دست عالم کے الفاظ محمد یحییٰ تنہا کی کتاب میں موجود ہیں اگر چہ مولوی عبد الحق صاحب کے مقدمہ میں یہ الفاظ نہیں لکھے ہوئے ملتے.یادر ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا اپنی نسبت کسی قسم کے عالم ہونے کا دعویٰ نہیں ہے.چنانچہ آپ اپنی کتاب بزبان عربی "نور الحق " حصہ دوم میں تحریر فرماتے ہیں: "واللہ انی لست العلماء ولا من اھل الفضل والدهاء و كلما اقول من انواع حسن البيان او من تفسیر القرآن فهو من الله الرحمن " یعنی خدا کی قسم نہ میں کوئی عالم ہوں اور نہ کسی فضیلت اور عظمندی کا مجھے دعویٰ ہے.عمدہ کلام یا قرآن مجید کی تفسیر جو کچھ بھی میں کہتا ہوں وہ سب خدائے رحمن کی طرف سے ہو تا ہے.(اسی کے عطا کر دہ علم کا نتیجہ ہے )".
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 38 تنہا صاحب کی کتاب میں مواد بہم پہنچانے والوں میں مولوی عبد الحق کا نام بھی شامل ہے.محمد بیٹی تنہا صاحب کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں.“سب سے زیادہ لائق تحسین و تشکر شیخ محمد اسماعیل صاحب احمدی پانی پتی ہیں جنہوں نے تیسرے دور کے اکثر مصنفین کے حالات زندگی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کا بہت سامواد مجھے بہم پہنچایا.مولوی عبد الحق صاحب بی.اے سیکر ٹری انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، مولوی ظفر الملک ایڈیٹر الناظر لکھنو، مولوی بشیر الدین احمد دہلوی اور بابو رام دیال صاحب فنانشل سیکرٹری ریاست جادرہ بھی میرے دلی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے مجھے کتابیں بہم پہنچائیں یا ان کے دستیاب ہونے کے وسائل بتائے یاضروری مضامین نقل کروا کر روانہ کئے 76 مولوی عبد الحق صاحب اپنے ایک خط بنام عبادت بریلوی لکھتے ہیں : اس مرتبہ جو میں نے اپنے مقدمات پڑھے تو یہ میری نظر سے گر گئے میری رائے میں ان کا شائع کرنا کچھ مفید نہ ہو گا.آپ اس پر غور کر لیجئے.ان پر محنت، وقت اور روپیہ صرف کرنا بے سود تونہ ہو گا.آپ بے رو رعایت اپنی رائے لکھئے.بعض مقدمے فضول اور بہت طویل ہیں.اگر آپ کی قطعی رائے شائع کرنے کی ہو تو بعض کو مختصر کرنا ہو گا اور بعض بالکل خارج کر دیئے جائیں.البتہ مقالات میں اکثر ایسے ہیں جو قابل اشاعت ہیں.77 ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں نے ان خیالات کو ان کی شخصیت کی عظمت کا نتیجہ سمجھا.اس سے نہ تو طویل مقدمات کو مختصر کیا اور نہ ہی ان میں سے بعض خارج کئے.جس صورت میں یہ لکھے گئے تھے.بالکل اسی صورت میں اس وقت بھی شائع کئے جار ہے ہیں.(ایضاً) مولوی عبد الحق صاحب نے جو خطوط حضرت مرزا صاحب کے نقل کئے ہیں.ان خطوط کی اندرونی شہادت ہی اس ادعا کو جھٹلارہی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مولوی چراغ علی کی کسی قسم کی مدد اپنی تصنیف براہین احمدیہ میں شامل کی ہو اور حوالہ ہی نہ دیا ہو تا ہم مولوی عبد الحق صاحب نے مذکورہ خطوط کے ذکر کرنے کے فوری بعد مولوی چراغ علی کے دیگر علماء کی کتابوں میں جس قسم کی مدد دینے کا ذکر کیا ہے وہ مالی اعانت ہے نہ کہ قلمی (سطور بالا میں مقدمہ اعظم الکلام صفحہ 25-26 کے حوالے سے اس کا ذکر کیا جا چکا ہے) اور اس قسم کی مالی استمداد کا تذکرہ براہین احمدیہ کے مالی معاونین و خریداروں کے اندراج میں ہمیں کتاب مذکور میں مولوی چراغ علی کے نام سے ملتا ہے.2-9- جناب شیخ یعقوب علی عرفانی کے نام مولوی عبد الحق کے دو خطوط: جب مولوی عبد الحق صاحب اور نگ آباد میں تھے تو مصنف “ حیات احمد ” نے 1930ء میں اس بارے میں آپ سے (مولوی عبد الحق صاحب سے رابطہ کیا تو موصوف نے جواب میں لکھا کہ میرے پاس وہ مکتوبات نہیں ہیں.میں حیدر آباد جاؤں گا تو کوشش کروں گا.مصنف مذکور کی یاددہانی پر مولوی عبد الحق صاحب نے پنجارہ روڈ حیدر آباد دکن سے جو خط لکھا اس سے عیاں ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب کی طرف سے یہ نکتہ چینی بہ عجلت اور عدم تدبر سے کی گئی کیونکہ بعد میں موصوف نے اس سے کچھ سروکار نہ رکھا.مذکورہ خط میں مولوی صاحب نے لکھا کہ “ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.جن صاحب کے پاس وہ خطوط تھے ان کا انتقال ہو گیا.اب ان خطوط کا ملنا محال ہے.مولوی چراغ علی مرحوم کے بیٹوں میں کسی کو اس کا ذوق نہیں بہر حال ان خطوط کے ملنے کی کوئی توقع نہیں.آپ نے براہین احمدیہ کے سلسلے کے متعلق دریافت فرمایا ہے.مجھے مطلق یاد نہیں اور نہ مجھے اب ان چیزوں سے کچھ سروکار ہے.مجھے افسوس ہے کہ ان امور میں میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.78
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 39 یہی وجہ ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی کوئٹہ کی ملاقاتوں میں اس بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہے.(ملاحظہ ہو "مکاتیب عبد الحق "صفحہ 299 مرتبہ جلیل قدوائی).بات اگر مولوی عبد الحق صاحب کی عدم دلچپسی تک ہی محدود ہو تو اس امر پر مزید کرید کی ضرورت نہیں تھی مگر مولوی عبد الحق صاحب کی یہ یہ عجلت نکتہ چینی تاریخ اردو ادب میں راہ پاگئی ہے.جب کوئی اس عہد پر قلم اٹھاتا ہے تو مولوی عبد الحق صاحب کے حوالے سے مولوی چراغ علی صاحب کی “براہین احمدیہ ” کے بارے میں مولوی عبد الحق صاحب کے عدم تدبر کے نتیجے میں مستخرجہ من مانے نتائج جو آپ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے خطوط سے اخذ کئے ہیں کا تذکرہ مزید حاشیہ آرائی کے ساتھ ضرور کرتا ہے.اس تناظر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ خطوط پر کا پر بھی ایک تبصرہ کیا جائے اور مولوی عبد الحق صاحب کی اصابت رائے کو بھی جانچا جائے.اگر چہ مضمون زیر نظر میں پہلے چند اشارے کئے بھی جاچکے ہیں تاہم ہنوز تجزیہ کے لئے ملاحظہ ہو کتاب زیر نظر باب چہارم کا جس میں خطوط کے بارے میں بالتفصیل لکھا گیا ہے.حوالہ جات 2-1 1 ذکر عبد الحق مصنفہ ڈاکٹر سید معین الرحمان مطبوعه سنگ میل پبلی کیشنز چوک اُردو بازار لاہور صفحہ 3 و23،24،25 اور 42 “بابائے اردو مولوی عبدالحق.حیات اور علمی خدمات “مصنفہ شہاب الدین ثاقب مطبوعہ انجمن ترقی اردو پاکستان، بابائے اردو روڈ کراچی صفحہ 13-15 2 - مضمون جوش ملیح آبادی از شمیم احمد - ماه نامہ قومی زبان کراچی 1966ءصفحہ 267 2-2 266 3 ذكر عبد الحق صفحہ 25 4 - ذكر عبد الحق صفحہ 36-37 2-3 5 - مضمون محقق اعظم بنام سید انیس شاہ جیلانی “ مطبوعہ ماہ نامہ “ افکار “، کراچی اگست 1990ء صفحہ 30 - مکاتیب عبد الحق مرتبہ جلیل قدوائی صفحہ 337 7 - مکاتیب عبد الحق مقدمہ صفحہ 9 مرتبہ جلیل قدوائی مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ کراچی 8 - مضمون غلام رسول مہر مطبوعہ سہ ماہی صحیفہ لا ہور 1971ء صفحہ ۴ شائع کردہ مجلس ترقی ادب لاہور 9 مضمون غلام رسول مہر مطبوعہ سہ ماہی صحیفہ “ لاہور 1971ء صفحہ ۴ شائع کردہ مجلس ترقی ادب لاہور 2-4 10 - “ سہ ماہی صحیفہ صفحہ 227-228 عابد نمبر مضمون مصنفہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی.جولائی 1971ء
40 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام مجلس ترقی ادب لاہور 2-5 11 - “موج کوثر صفحہ 115-116 مصنفہ شیخ محمد اکرام مطبوعہ فیروز سنز لا ہور (نویں بار 1970ء) 12 - “ مقالات محمد حسین آزاد صفحہ 32-33 جلد اول شائع کردہ مجلس ترقی ادب لاہور فروری 1966ء 13 - شبلی معاندانہ تنقید کی روشنی میں صفحہ 129 تا 130 سید شہاب الدین دسنوی شائع کردہ مجلس نشریات اسلام کراچی.1989ء 14 - سہ ماہی“ نقوش لاہور آپ بیتی نمبر جون 1964ء 15 - مقالات حالی حصہ اول بار اول 1934ء 16 - “ نثر تاثیر “صفحہ 149-150 مر تبہ فیض احمد فیض شائع کردہ اردو اکادمی بہاولپور بار اول 1963ء 17 - ماہنامہ “ افکار “ کراچی اکتوبر 1994ء صفحہ 27 18 - روز نامہ امروز لاہور 27 اگست 1975ء 19 - مکتوب جناب شان الحق حقی صاحب بنام راقم الحروف مورخہ 6 نومبر 1975ء 20 - نکته راز صفحه 404 مصنفہ شان الحق حقی مطبوعہ عصری کتب کراچی فروری 1972ء 21 - ماہنامہ ساقی دیلی اگست 1945ء بحوالہ گلدسته نگارش مرتبه محترمه سلمی حقی صاحبہ ناشر : عصری کتب خانہ کراچی صفحہ 93 22- چند ہم عصر صفحہ 9-10 Report Director Educaton 1898-1899 Bombay P.3-4 -23 24 - چند ہم عصر صفحہ 12-13 Report Director Educaton 1898-1899 Bombay P.10-25 26 -چند ہم عصر صفحہ 14-15 Report Director Educaton 1898-1899 Bombay P.12 -27 2-6 28 - صفحہ 63 مقدمه اعظم الکلام از مولوی عبدالحق 29 - مقدمات عبد الحق صفحہ 23 30 - ایضاً صفحہ 26 2-7 31 - مقدمات عبد الحق صفحہ 317 مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی، اردو مرکز لاہور.1964ء
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 32 - ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ صفحہ 112-113 الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور.1989ء 33 - براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ 7-8 34 - ايضاً 35 - مقدمات عبد الحق صفحہ 661 36 ماہنامہ تحریک جدید ربوہ ستمبر 2011 صفحہ 25-24 مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب 37 - مقدمات عبد الحق صفحہ 661 38 - مقدمات عبد الحق صفحہ 551 39 - مقدمات عبد الحق صفحہ 551 40 - مقدمات عبد الحق صفحہ 569 پیش لفظ مرتب“ مقدمات عبد الحق عبادت بریلوی 41 - اسلام و دیگر مذاہب مشمولہ انوار العلوم صفحہ 257 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفتہ البیع الثانی رضی اللہ تعالی عنہ 42 - ایضاً صفحہ 497-498 43 - مقدمہ مرتب.“مقدمات عبد الحق“ 44 پیش لفظ مرتب“ مقدمات عبد الحق 45 - مقدمہ حبیب الرحمن خان شروانی “مقدمات عبد الحق“ 46 - ايضاً 47 - مقدمات عبد الحق صفحہ 348-349 48 - مقدمات عبد الحق صفحہ 762 49 - مقدمہ معرکہ مذہب و سائنس“ مقدمات عبد الحق صفحہ 565-566 50 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 390-391 ح درح نمبر 11 51 - مقدمہ حبیب الرحمن شروانی 19 اکتوبر 1931ء.مندرجہ “مقدمات عبد الحق“ 52 - مقدمات عبد الحق صفحہ 668 53 - مقدمه جنگ روس و جاپان“.مقدمات عبد الحق صفحہ 709 54 - ایضاً صفحہ 710 55 - ایضاً صفحه 710 56 - مقدمہ مکتوبات حالی صفحہ 368 مقدمات عبد الحق 57 - مقدمہ مضامین محفوظ علی مقدمات عبد الحق صفحہ 767 41
42 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 58 - متقدمہ رسالہ اُردو.مقدمات عبد الحق صفحہ 789 59 - مقدمہ مسدس حالی.مقدمات عبد الحق صفحہ 251 60 - سر سید احمد خان اور اُن کے نامور رفقاء کی نثر صفحہ 54 از ڈاکٹر سید عبد اللہ مکتبہ کاروان کچہری روڈ لاہور 1965ء 61 - مضمون “ جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر “.شمس الرحمن فاروقی.ماہنامہ “شب خون “نمبر 249 اکتوبر 2001 ء رانی منڈی اللہ آباد انڈیا 62 - قرآن کریم.اردو ترجمہ سورتوں کے تعارف اور مختصر تشریحی نوٹس کے ساتھ صفحہ 1077 63 - براہین احمدیہ صفحہ 508 64 - براہین احمدیہ صفحہ 510-511 65 - براہین احمدیہ صفحہ 525-526 66 - براہین احمدیہ صفحہ 638 67 - روزنامہ الفضل.ربوہ.8 اپریل 2011ء 68 - براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ 24-28 69 - اردو ادب صفحہ 40 مصنفہ ڈاکٹر سید عبد اللہ 2-8 -70 تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند صفحہ 599 تا 601 شائع کردہ یونیورسٹی آف پنجاب لاہور 71 - اخبار کر زن گزٹ یکم جون 1908ء 72 - اخبار وکیل 30 مئی 1908ء 73 - اردو ادب 1857ء تا1966ء “ از قلم سید عبد اللہ -74 - سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی نثر کا فکری وفنی جائزہ صفحہ 43 مصنفہ سید عبد اللہ 75 - “سیر المصنفین صفحہ 121-122 مولوی محمد یحی تنہا.شائع کردہ: مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی 1928ء 76 - “سیر المصنفین محمد یحی تنہا صفحہ 8 جس تیسرے دور کا تنہا صاحب نے ذکر کیا ہے وہ 1858ء سے شروع ہو کر 1900ء پر ختم ہوتا ہے.صفحہ 3 دیباچہ مذکور 77 - مقدمات عبد الحق ، پیش لفظ مر تبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی شائع کردہ اردو مرکز لاہور 1963ء 2-9 78 - حیات احمد “جلد اول صفحہ 378-379 مر تبہ شیخ یعقوب علی عرفانی مطبوعه راست گفتار پر بیس بال بازار امر تسر
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام باب سوم: نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب تعارف و تنقیدی تبصره 43 3-1.نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی مرحوم (1845-1895) مولوی چراغ علی کے والد کا نام مولوی محمد بخش تھا.اُن کے آباؤ اجداد سرینگر کشمیر کے رہنے والے تھے.مولوی محمد بخش کلکٹر سہارنپور کے ہیڈ کلرک تھے.پنجاب کے مختلف اضلاع ملتان، ڈیرہ غازی خان، بنوں، شاہ پور اور سیالکوٹ میں محکمہ بندوبست کے مختلف عہدوں پر رہے.انگریزی دان تھے اور انگریزی لباس پہنتے تھے.اس لیے محمد بخش کرانی کے نام سے مشہور تھے.اکرانی کا لفظ اس زمانے میں انگریزی کلرکوں کے لئے بجائے بابو کے استعمال ہو تا تھا موصوف کے اس عہدے پر تعیناتی کو مولوی عبدالحق قابلیت اور لیاقت کی شہادت متصور کرتے ہیں جو کسی طرح ڈپٹی کمشنر یا کلکٹر کے عہدے سے کم نہیں.لیکن مولوی صاحب نے محمد بخش کی تعلیمی قابلیت اور انگریزی دانی 4 کے حصول کی کوششوں پر کوئی روشنی نہیں ڈالی ! یہ مانا کہ محمد بخش ایسے ہی قابل اور انگریزی دان ہوں گے.کہ حکومتِ وقت نے انہیں ایسے عہدے پر سر فراز کیا.مگر اُن کی اس قابلیت کے ارتقاء پر بھی کوئی مددگار حوالہ ہونا چاہیے تھا جو مولوی عبد الحق صاحب نے نہیں دیا ہے.مولوی چراغ علی کے دادا ( جن کا نام مولوی عبد الحق صاحب نے درج نہیں کیا) ایک مدت تک پنجاب میں ملازم رہے.کیا ملازمت کرتے رہے اس کا بھی اندراج نہیں کیا اور وہاں سے میر ٹھ آئے اور وہیں آباد ہو گئے.مولوی چراغ علی کے والد میر ٹھ میں ملازم ہوئے.بعد ازاں اُن کا تبادلہ سہارنپور ہو گیا.5 1849ء میں جب انگریزوں نے پنجاب کا الحاق کیا تو موصوف کا انتخاب محکمہ بندوبست میں ہوا.اور رفتہ رفتہ مہتمم بندوبست کے عہدے پر پہنچے.1856ء میں جبکہ موصوف کی عمر پینتیس برس تھی.سیالکوٹ میں انتقال ہو گیا.7 اور شمولوی محمد بخش مر حوم کا مقبرہ میرٹھ میں موجود ہے.یہ بہ دوران تصنیف مقدمہ اعظم الکلام 1910ء کے زمانہ کی باتیں ہیں اب اس مقبرے کی نشاند ہی کوئی کر سکتا ہے یا نہیں ؟ مولوی عبد الحق صاحب نے یہ معلومات مولوی زکریا سہارنپوری (وظیفہ یاب حسن خدمت سر کار نظام) سے حاصل کیں تھی جو مولوی محمد بخش اور اُن کے خاندان کو اس وقت سے جانتے تھے جب کہ مولوی محمد بخش سہارن پور میں ملازم تھے.10 مصنف “ تاریخ اقوام کشمیر ” (مولوی محمد الدین فوق) نے اپنے والد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اُن کے دادار جب علی ڈار 1849ء میں بندوبست کا کام سیکھتے تھے.ان کے افسر اعلیٰ کا نام مولوی محمد بخش تھا.وہ کشمیری تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ رجب علی بھی کشمیری ہیں تو وہ بڑے خوش ہوئے.اور جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ ان کی ذات ڈار ہے.تو انہوں نے اور بھی شفقت کا اظہار کیا اور انہی کے طفیل وہ سیالکوٹ میں پٹواری ہو گئے.میاں رجب علی کا بیان ہے کہ ان کے مہتمم بندوبست مولوی محمد بخش بھی ذات کے ڈار ہی تھے.1 مولوی محمد بخش مرحوم کے چار بچے تھے.جن کے نام چراغ علی ، ولایت علی، عنایت علی اور منصب علی تھا.چراغ علی بھائیوں میں سب سے بڑے تھے.مولوی محمد بخش کے انتقال کے وقت چراغ علی کی عمر بارہ برس سال سے زائد نہ تھی.چراغ علی اپنے باپ کے انتقال کی
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 44 وجہ سے امتحان پاس نہ کر سکے.محل مولوی محمد بخش کے انتقال کے بعد ان کے سب اہل و عیال ان کی والدہ، بیوی اور بچے میر مجھے واپس آگئے.مولوی چراغ علی نے اپنی دادی اور والدہ کے زیر سایہ میر ٹھ میں تعلیم پائی.لیکن یہ تعلیم بالکل معمولی تھی اور سوائے معمولی اُردو، فارسی اور انگریزی کے نہ کسی علم کی تحصیل کی اور نہ کوئی امتحان پاس کر پائے.اس زمانے میں کمشنری گورکھ پور میں ضلع بستی نیا نیا قائم ہو ا تھا.وہاں کے خزانے کے منشی گری پر ہیں روپیہ تنخواہ پر مولوی چراغ علی کا تقرر ہوا.12 13 مولوی محمد زکریا جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اس زمانے میں سہارن پور سے ضلع بستی میں محکمہ انجینئری میں مقرر ہو کر آئے.قدیمی خاندانی تعلقات کی بنیاد پر دونوں ایک ہی جگہ رہنے لگے.کچھ دنوں بعد محمد زکریا بستی کی خدمت سے مستعفی ہو کر لکھنو چلے گئے.وہاں اُن کا تقرر ایک اچھی جگہ ہو گیا.موصوف نے لکھنو سے مولوی چراغ علی کو اطلاع دی کہ آپ کے والد (مولوی محمد بخش) کے ایک محسن مسٹر گورا سلی لکھنو میں جوڈیشل کمشنر ہیں.غالباً 1872ء یا 1873ء میں مولوی چراغ علی لکھنو گئے اور مسٹر گورا سلی سے ملے.اتفاق سے اس وقت جو ڈیشل کمشنری میں عارضی طور پر ڈپٹی منصر می کی جگہ خالی تھی لہذا اس وقت اُن کا تقرر اسی خدمت پر بمشاہرہ (اسی روپیہ.80 ناقل) ہو گیا.کچھ دنوں کے لئے بطور قائم مقام رہے بعد میں مستقل ہو گئے.تھوڑے عرصے کے بعد سیتاپور میں تبادلہ ہو گیا.سر کاری کام کے بعد باقی تمام وقت مولوی چراغ علی لکھنے پڑھنے میں صرف کرتے تھے.پادری عماد الدین کی کتاب “ تاریخ محمدی ” کے جواب میں آپ کا رسالہ تعلیقات ”اسی زمانہ کا لکھا ہوا ہے.علاوہ ازیں“ منشور محمدی ”مخبر صادق، لکھنو، تہذیب الاخلاق میں آپ کے بعض مضامین شائع ہو نا شروع ہو گئے.وحدت ذوق سرسید سے اُن کے تعارف کا باعث ہوئی.اگر چہ اب تک ملاقات کی نوبت نہیں آئی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ خط و کتابت شروع ہو گئی تھی.اور تہذیب الاخلاق ” میں بھی مضامین لکھا کرتے تھے.چنانچہ جب سرسید لکھنو تشریف لائے تو مولوی صاحب مرحوم اُن سے ملنے کے لیے سیتا پور سے لکھنو گئے.کچھ عرصہ بعد جب ریاست حیدر آباد سے کچھ کام ترجمہ وغیرہ کا سرسید کے پاس آیا تو انہوں نے مولوی چراغ علی کو اس کام کے سر انجام دینے کے لیے منتخب کیا.اس بناء پر 1876ء میں مولوی چراغ رخصت لے کر علی گڑھ تشریف لے گئے اور کئی ماہ سر سید کے پاس رہ کر اس کام کو بکمال خوبی انجام دیا.جس کا معاوضہ بھی ریاست سے اُن کو ملا.اس کے ایک سال بعد 1877ء میں نواب سر سالار جنگ اعظم نے بتوسط مولوی مہدی علی (نواب محسن الملک) سرسید سے ایک لائق شخص طلب کیا.سرسید نے مولوی چراغ علی کو منتخب کیا اور وہ حیدر آباد چلے گئے.جہاں آپ عہدہ اسسٹنٹ ریونیو سیکرٹری ( مددگار معتمد مالگزاری) پر بمشاہرہ چار سو روپیہ پر مامور ہو گئے.14 نواب محسن الملک کے بعد مولوی چراغ علی کا تقرر معتمدی مالگزاری پر ہوا.عہد وزارت سر آسماں جاہ بہادر مولوی چراغ علی صو به داری در نگل پر مامور ہوئے.پھر صوبہ داری گلبرگہ میں تبادلہ ہو گیا.دو سال بعد معتمد مال و فینانس مقرر ہوئے مطالعہ میں بے حد شغف تھا.3-2- ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ کی رائے : مولوی چراغ علی عیسائیوں کے مقابل پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی اتباع کرتے تھے ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ کے مطابق صورت حال مولوی عبد الحق صاحب کے بیان سے مختلف ہے.بلکہ بقول ولفریڈ سمتھ مولوی چراغ علی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 45 صاحب تو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف اپنا جھکاؤر کھتے تھے.اسی روش و جھکاؤ کے بارے میں W.C.Smithنے لکھا کن "Chiragh Ali, whose pen had much controversial force.He was a government servant who had begun in a Petty position and rose gradually and steadily.He had been disturbed by the missionaries criticism of his religion.For a time before meeting Sir Sayyid, he was attracted to Mirza Ghulam Ahmad of Qadian and his method of countering those criticism.When he came in contact with the Aligarh movement, he transferred to it his enthusiastic support."15 ترجمہ : “ چراغ علی کی تحریرات میں بہت اختلافی قوت تھی.موصوف ایک سرکاری اہلکار تھے.جنہوں نے ملازمت کا آغاز ایک معمولی حیثیت سے کیا اور اس میں بڑی باقاعدگی سے آہستہ آہستہ ترقی کر کے بڑا مقام پایا.انہیں عیسائی مشنریوں کے اُن کے مذہب پر حملوں نے پریشان کر دیا تھا.سرسید سے ملاقات سے قبل (چراغ علی ) ان حملوں کا دفاع کرنے کے لئے مرزا غلام احمد آف قادیان کے طریق دفاع کی طرف جھکے.جب علی گڑھ تحریک سے روابط بڑھے تو موصوف نے اس جوش و خروش کو علی گڑھ تحریک کو منتقل کر دیا.” اس اقتباس میں تو مستشرق موصوف نے یہ بیان کیا ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب کو جب عیسائی مشنریوں کے اعتراضات نے پریشان کیا تو موصوف حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف ان کے عیسائی مشنریوں کے طریق دفاع کی طرف لپکے لیکن مولوی عبد الحق صاحب اس کے بر عکس ثابت کرنا چاہتے تھے جو بالبداہت درست نہیں ہے.بعد میں آنے والوں نے مولوی عبد الحق صاحب کا حوالہ دیئے بغیر ہی یہاں تک لکھا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے کتاب موسومہ “ براہین احمدیہ ” میں انہوں (مولوی چراغ علی ) نے بیش قیمت مدد پہنچائی.کے اب اس مدد کا احوال نہ تو مولوی عبد الحق صاحب کے پاس ہے اور نہ ہی علامہ اقبال کی معلومات کا ثبوت کہیں چھپا ہے.بعد میں مولوی چراغ علی کے روابط سرسید کے ساتھ استوار ہو گئے جنہوں نے برہمو سماج کے انداز میں علی گڑھ تحریک چلائی.17 بر ہمو سماج وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفت تکلم کے منکر ہیں.18 کیونکہ سرسید کی تحریک کا اند از برہمو سماج جیسا تھا.یہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کی صفت تکلم کے منکر تھے.غالباً اسی کے اتباع میں سر سید نے جو تفسیر القرآن میں بعض آیات کی تشریح ایسی کی ہے جس کو مولانا حالی جیسے سرسید کے مداح بھی نا مناسب اور غیر مصلحت آمیز سمجھتے تھے.12 اور اسی قسم کی تفسیر و تاویل مولوی چراغ علی صاحب کی ہے جس کا احوال اس مضمون کے تقابلی حصے میں درج کیا گیا ہے.اور جہاں تک سمتھ کی رائے مولوی چراغ علی صاحب پر اثرات کا تعلق ہے اس سلسلہ میں ملاحظ ہو زیر نظر کتاب کا حصہ 11 -5- 3-3- اسپر نگر کی رائے دربارہ “ ا عظم الکلام...عیسائی مذہب کی حمایت میں لکھی جانے والی کتابوں میں افضل کتاب ”.میں حیران ہوں کہ مولوی عبد الحق صاحب کے اس بہ عجلت اخذ کردہ نتیجہ کے بارے میں کیا رائے دی جائے.جبکہ کوئی بھی وجہ امتیاز مولوی چراغ علی کی تحریرات میں نظر نہیں آتی بلکہ انکی تحریرات سے الٹا نقصان پہنچا معلوم ہوتا ہے.مشہور مستشرق ڈاکٹر اسپر نگر نے مولوی چراغ علی کو ان کی کتاب کے بارے میں لکھا:.جس قدر کتا ہیں کہ عیسائی مذہب کی حمایت میں لکھی گئی ہیں یہ کتاب اگر ان سے افضل نہیں تو ان کے برابر ضرور ہے.20
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 46 مولوی چراغ علی صاحب کی کاوش سے فائدہ عیسائی مذہب کو پہنچ رہا ہو اور پھر بھی ان کی تحریرات کو حضرت مرزا صاحب کے مقابل پر رکھا جائے تو سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے جس میں مولوی عبدالحق صاحب کے ذہنی جھکاؤ کا بھی اثر ہے جو مولوی چراغ علی کو آئیڈیل تسلیم کئے ہوئے ہیں.خواہ فائدہ عیسائی مذہب کو ہی پہنچے.حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے بارے میں کتاب “ حیات احمد ” کے مصنف جناب یعقوب علی عرفانی صاحب لکھتے ہیں:.“ اس عہد کے بڑے بڑے مصنفین کی تصنیفات کو جو انہوں نے تائید اسلام کے لئے معترضین اسلام کے رد میں لکھیں دیکھا تو معلوم ہو این زمین را آسمانی دیگر است گیا مولوی چراغ علی نے جو کتابیں لکھی ہیں.ان کے مطالعہ سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے اسلوب بیان اور طریق استدلال کو بھی حضرت کے اسلوب اور طریق استدلال سے کوئی نسبت نہیں.میں اس وقت کوئی موازنہ قائم کرنا نہیں چاہتا اور نہ اس کتاب کا یہ منشا ہے....21 " بہر کیف ایک عمومی موازنہ باب پنجم میں اور ایک خصوصی تقابلی مطالعہ باب ششم میں پیش کیا جاتا ہے.جسے “حیات احمد ” کے فاضل مصنف نے بوجوہ بیان کر دہ چھوڑ دیا ہے ، اس خدمت کو ناچیز احقر العباد ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے.وباللہ التوفیق.3-4-مولوی چراغ علی صاحب کا خلاف منشاء مصنف حجۃ اللہ بالغہ حضرت شاہ ولی اللہ مجد د دہلوی کا حوالہ ایک موقعہ پر فقہ کی تیسری اور چوتھی صدی میں بہ زعم خود غیر مطمئن ”حالت کے بارے میں مولوی چراغ علی صاحب تحریر کرتے ہیں: کوئی تحریری مجموعہ قانون باضابطہ نہ تھا.اور نہ اون امامون کی ذاتی رائے کی نسبت کچھ ذکر تھا، جو اپنی خوشی سے مسائل فقہ کی تحقیق کرتے تھے کہ آیا اون کی رائیں عام طور پر گورنمنٹ یا افراد پر ماننا فرض ہیں یا نہیں.دوسری صدی کے آخر تک یہی حالت رہی.تیسری اور چوتھی صدی ہجری بھی یوں ہی گزر گئی، اور اس وقت تک فقہ کے متعلق کوئی ضابطہ یا قانون جاری نہ ہوا.22 اس کے متعلق فٹ نوٹ میں درج کیا ہے حجة اللہ البالغہ ” مصنفہ شاہ ولی اللہ باب 4 صفحہ 158 مطبوعہ بریلی اس کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا تحریر سے ظاہر ہے کہ ریورنڈ مسٹر میکال کا یہ کہنا محض غلط ہے کہ “دیوانی، مذہبی قوانین میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا.مسلمانوں کا فقہ مسلمانون کی سوسائٹی کا ایک غیر تحریری قانون ہے.جو بہت آخری زمانے میں مرتب کیا گیا.اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل ممکن نہیں اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل عرب کے سوائے اون پر اس کی پیروی لازم ہے.کیونکہ وہ اون ہی کے (عربوں کے رسم و رواج روایات پر حاوی اور مبنی ہے.اسلامی فقہ کو اسلام کے ملہم قانون (احکام قرآن ) سے مخلوط نہیں کرنا چاہئے.اسلامی فقہ ایک غیر تحریری قانون ہے، جو قرآن کی چند آیات اور عرب کے رسم و رواج سے جمع کیا گیا ہے ، اور اوس کی تائید متضاد احادیث سے کی گئی ہے.اس کی بنیاد اجماع یا متحد الرائے لوگوں کی رضامندی پر رکھی گئی ہے.ابتدائی قوانین کی اصلیت کا سراغ لگانا ناممکن ہے.کیونکہ وہ خاص کر چند مفروضہ اور مسلمہ اجتہادات کے دلائل پر مبنی ہیں، اور اس سے یہ کہنا واقعیت کے خلاف ہے کہ ان فیصلوں اور قواعد میں مطلق تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں."23
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 47 مولوی چراغ علی صاحب اول تو اس میں پادری میلکم میکال کو خوش کرنا چاہتے ہیں.انہیں اپنی تحریروں میں پادریوں کے اعتراضوں سے بچنے کی بڑی فکر ہوتی ہے.جیسے کہ موصوف ایک جگہ مولوی محمد حسین بٹالوی صااحب ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کے ایک مضمون پر جرح کرتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں:.گو وہ مخالفین کے اعتراضوں کا جواب دینا چاہتے ہیں مگر طر زوانداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ اعتراض ہی کو نہیں سمجھتے یا سمجھتے ہیں تو جواب نہیں دے سکتے.کیونکہ اس مبحث پر انہوں نے تیس صفحے سیاہ کیے اور محض لا حاصل و بے سود ہے.میرا خیال ہے کہ لاہور ، پشاور، لدھیانہ ، امر تسر کے مشنری صاحبوں اور دیگر پادری صاحبوں نے اس مضمون کو پڑھ کر قہقہ لگایا ہو گا.یہ بات توخود مولوی چراغ علی صاحب پر صادق آتی ہے جیسا کہ آگے بیان کیا گیا ہے.مولوی صاحب کو شماتت اعداء کا خیال تو ہے لیکن عقائد اسلامیہ کے دفاع میں عقائد اسلامیہ کی قربانی دے دیتے ہیں لیکن مولوی عبد الحق صاحب کو اُن کا مر تبہ بلند کرنے کی فکر دامنگیر ہے خواہ بہتان تراشی سے کام چل جائے ! 24, دوسرے مولوی چراغ علی صاحب محولہ عبارت صفحہ 43 پر استشہاد لاتے ہیں تو وہ بھی حجۃ اللہ البالغہ مصنفہ شاہ ولی اللہ باب4 سے جو موصوف کی کتاب ریفارمز انڈر مسلم رول” کے انگریزی متن میں زیادہ واضح ہے یعنی حاشیہ میں درج کرتے ہیں:.Shah Valiullah's Hojjatl Baligha chapter iv of the supplement page 158 (Reforms under Muslim Rules p.7) راقم الحروف کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی حجۃ اللہ البالغہ اردو ترجمہ کی جلد اول دوم متر جمہ مولانا عبد الرحیم سابق پروفیسر عربی و پشتو وناظم مکتبہ علوم شرقیہ اسلامیہ کالج پشاور ہے.جسے الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور نے اگست 2006ء میں شائع کیا ہے.مذکورہ کتاب کے تتمہ (supplement) باب 4 chapter میں حضرت شاہ ولی اللہ تحریر فرماتے ہیں:.چوتھی صدی سے پہلے لوگوں میں یہ خیال اور عقیدہ شائع و ذائع نہیں تھا کہ کسی معین مذہب کی جملہ مسائل میں تقلید کرناضروری ہے.25", حضرت شاہ ولی اللہ صاحب بات کر رہے ہیں کسی معین مذہب کی جملہ مسائل میں تقلید ” کے بارے میں لیکن مولوی چراغ علی صاحب اس کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں: "6.Yet there was no book of written law or codes, nor was any mention made of the private opinions of several Imams who had voluntarily prosecuted the cause of jurisprudence as binding on the people or the government in general.This was the case up to the end of
48 براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام second century.The third and fourth centuries of the Muhammaden era passed on, and still no standard common code of jurisprudence was in force."" 26 یہاں پر مولوی چراغ علی صاحب خلاف منشاء مصنف حجۃ اللہ البالغہ (حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مجدد) فقہ کی تحریری کتاب کی بابت بات کر کے اپنے صفحہ نمبر 43 کا استنباط کرتے ہیں جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے.مولوی عبد الحق صاحب اس عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے فقہ کی تحریری کتاب Book of written law میں سے کتاب کا ذکر حذف کر کے “ تحریری مجموعہ قانون ” تحریر کرتے ہیں جو مولوی چراغ علی کے منشاء کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتا.بہر کیف ترجمہ ملاحظہ ہو:.تاہم کوئی تحریری مجموعہ قانون باضابطہ نہ تھا.اور نہ اون امامون کی ذاتی رائے کی نسبت کچھ ذکر تھا.جو اپنی خوشی سے مسائل فقہ کی تحقیق کرتے تھے کہ آیا اون کی رائیں عام طور پر گورنمنٹ یا افراد پر مانا فرض ہیں یا نہیں.دوسری صدی کے آخر تک یہی حالت رہی.تیسری اور چوتھی صدی ہجری بھی یوں ہی گزر گئی اور اس وقت تک فقہ کے متعلق کوئی ضابطہ یا قانون جاری نہ ہوا."27 اب ملاحظہ ہو حضرت مجددشاہ ولی اللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وہ عبارت جس کا حوالہ مولوی چراغ علی بطور فقہ کی تحریری کتاب کے دیتے ہیں لیکن شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کسی معین مذہب کی جملہ مسائل میں تقلید ” کے متعلق بات کرتے ہیں اس باب کا عنوان بھی حضرت شاہ ولی اللہ مجد د دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے چوتھی صدی ہجری سے پہلے اجتہاد اور تقلید کا کیا حال تھا؟’رکھا ہے.اس حوالے کی بنیاد پر مولوی چراغ علی صاحب نے اپنی عبارت صفحہ 42 کی عمارت استوار کی ہے.لیکن وہ خلافِ منشاء مصنف ہے لہذا اُن کی دلیل بے بنیاد ہے.اس طرح کی بے بنیاد باتوں پر مولوی چراغ علی صاحب اپنی شتر بے مہار بننے کی بناء ڈالتے ہیں.اور “ عظم الكلام.کی عمارت استوار کرتے ہیں.حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ملاحظہ ہو اسے موصوف کی اوپر درج کی گئی عبارت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے جسے سہولت کی خاطر دوبارہ درج کیا جاتا ہے : چوتھی صدی سے پہلے لوگوں میں یہ خیال اور عقیدہ شائع و ذائع نہیں تھا کہ کسی معین مذہب کی جملہ مسائل میں تقلید کرنا ضروری ہے.ابو طالب مکی (جو ایک مشہور صوفی بزرگ ہیں) اپنی معرکۃ الآراء تصنیف قوت القلوب میں لکھتے ہیں.یہ تصنیفات اور یہ مجموعے قرون اولی کے بعد کی پیداوار ہیں، قرن اول اور قرن شانی میں یہ باتیں مطلق نہیں تھیں کہ فلاں کا قول یہ ہے اور فلاں یہ کہتا ہے یا یہ کہ ہمیشہ کسی ایک عالم مجتہد کے مذہب پر فتویٰ دیا جائے ہر ایک مسئلہ میں اسی کے قول کو سند مانا جائے اور اسی کا حوالہ دیا جائے اور جو عالم بننا چاہے وہ صرف کسی ایک عالم مجتہد کے مذہب میں تجر حاصل کرے.“ میں کہتا ہوں (حضرت شاہ صاحب کہتے ہیں ) دوسرے قرن کے بعد فی الجملہ ان میں تخریج نے پنپنا شروع کیا.چوتھی صدی ہجری تک یہ کیفیت تھی کہ لوگ بالخصوص کسی ایک مذہب کی تقلید کرنا اور صرف اس کا علم حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے.جیسے کہ واقف حال علماء سے مخفی نہیں...28 * - Compare with Valiullah's Hujjatul Baligha chapter iv of the supplement, page 158
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 3-5- کیا اسلام اصلاً بہت سخت ہے اور تبدیلی پذیر نہیں ہے ؟ اور مذ ہب اسلام مانع ترقی ہے ؟ 66 49 وہ خیالات جو پادری میکم میکال نے رسالہ کنٹمپور یر ی ریویو” “ Contemporary Review” اگست 1881ء میں لکھے تھے.جن کے جواب میں مولوی چراغ علی صاحب نے دسمبر 1882ء میں ریفارمز انڈر مسلم رُول 22 کتاب لکھی.جس میں ان خیالات کا جواب دیتے ہوئے موصوف نے اسلام کے بنیادی عقائد ہی سے انحراف کر دیا.ان میں سے چند ایک کے بارے میں زیر نظر کتاب میں ایک تقابلی مقابلہ درج کیا گیا ہے.یہ خیالات پادریوں سے لے کر ہندوستان میں برہمو سماجیوں نے زبان و بیان کو بدل کر اسلام کے خلاف پیش کر دیئے.کیونکہ اسلام کی بنیاد الہامی / الہام پر مبنی ہے اور اسے بہت سخت اور نا قابل تبدیلی اور مانع ترقی کے پیش کیا.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے برہمو سماجیوں کے ان خیالات کو بطور ایک وسوسہ قرار دے کر اس کا جواب براہین احمدیہ میں بطور ہر ہمو سماجیوں کے وسوسہ دہم کے تحریر فرمایا.آپ اس وسوسہ کو یوں درج کرتے ہیں: “...اور تقریر اس اعتراض کی یوں کرتے ہیں کہ الہام خیالات کی ترقی کو روکتا ہے اور تحقیقات کے سلسلہ کو آگے چلنے سے بند کر تا ہے.کیونکہ الہام کے پابند ہونے کی حالت میں ہر ایک بات میں یہی جواب کافی سمجھا جاتا ہے کہ یہ امر ہماری الہامی کتاب میں جائز یا ناجائز لکھا ہے.اور قومی عقلیہ کو ایسا معطل اور بیکار چھوڑ دیتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو وہ قو تیں عطاہی نہیں کیں.سو بالآخر عدم استعمال کے باعث سے وہ تمام قوتیں رفتہ رفتہ ضعیف بلکہ قریب قریب مفقود کے ہو جاتی ہیں...معرفت کاملہ کے حصول سے الہامی کتابیں سدِ راہ ہو جاتی ہیں." 30 اس کے بعد حضرت مرزا صاحب اس کا جواب تحریر فرماتے ہیں.ملاحظہ ہو اس جواب کا خلاصہ : یہ بر ہمولوگوں کی کمال درجہ بد فہمی، بد اندیشی اور ہٹ دھرمی ہے.(راقم الحروف اس میں عیسائی پادریوں کو بھی شامل کرتا ہے ).اس عجیب و ہم کی عجیب طرح کی ترکیب ہے.جس کے اجزاء جھوٹ، تعصب، جہالت ہے.جھوٹ یہ کہ باوصف اس بات کے کہ ان کو بخوبی معلوم ہے کہ حقانی صداقتوں کی ترقی ہمیشہ انہیں لوگوں کے ذریعے ہوتی ہے کہ جو الہام کے پابند ہوتے ہیں اور وحدانیت کے اسرار دنیا میں پھیلانے والے وہی بر گزیدہ لوگ ہیں جو خدا کی کلام پر ایمان لائے.مگر عمد ااس واقعہ کے خلاف بیان کیا ہے.تعصب یہ کہ اپنی بات کو خوانخواہ سر سبز کرنے کے لئے اس بدیہی صداقت کو چھپایا ہے کہ الہیات میں مجرد عقل مرتبہ یقین کامل تک پہنچا سکتی ہے.جہالت یہ کہ الہام اور عقل کو دو امر متناقض سمجھ لیا ہے.حالانکہ سچے الہام کا تابع عقلی تحقیقات سے رُک نہیں سکتا.بلکہ حقائق اشیاء کو معقولی طور پر دیکھنے کے لئے الہام سے مدد پاتا ہے.الہام کی حمایت اور اس کی روشنی کی برکت سے عقلی وجوہ میں کوئی دھو کہ اس کو پیش نہیں آتا اور نہ خطا کار عاقلوں کی طرح بے جا دلائل کے بنانے کی حاجت پڑتی ہے اور نہ کچھ تکلف کرنا پڑتا ہے بلکہ : جو ٹھیک ٹھیک عقلمندی کی راہ ہے وہی اُس کو نظر آجاتا ہے.جو حقیقی سچائی ہے اسی پر اس کی نگاہ جا ٹھہرتی ہے.عقل کا کام یہ ہے کہ الہام کے واقعات کو قیاسی طور پر جلوہ دیتی ہے.الہام کا کام یہ کہ وہ عقل کو طرح طرح کی سرگردانی سے بچاتا ہے.نتیجہ اس صورت میں عقل اور الہام میں کوئی جھگڑا نہیں.(کیونکہ) الهام حقیقی یعنی قرآن شریف عقلی ترقیات کے لئے سنگ راہ ہے بلکہ عقل کو روشنی بخشنے والا اور اُس کا بزرگ معاون اور مددگار اور مربی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 50 ہے.آفتاب کا قدر آنکھ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور روزِ روشن کے فوائد اہل بصارت پر ہی ظاہر ہوتے ہیں.اسی طرح خدا کی کلام کا کامل طور پر انہیں کو قدر ہوتا ہے کہ جو اہل عقل ہیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آپ فرمایا: وَ تِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ، وَ مَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُوْنَ 31 یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں پر ان کو معقول طور پر وہی سمجھتے ہیں جو صاحب علم اور دانشمند ہیں.علی ہذا القیاس جس طرح آنکھ کے نور کے فوائد صرف آفتاب ہی سے کھلتے ہیں اگر وہ نہ ہو تو پھر بینائی اور نابینائی میں کچھ فرق باقی نہیں رہتا.اسی طرح بصیرت عقلی کی خوبیاں بھی الہام ہی سے کھلتی ہیں.کیونکہ وہ عقل کو ہزارہا طور کی سرگردانی سے بچا کر فکر کرنے کے لئے نزدیک کا راستہ بتلا دیتا ہے.الہام کے تابعین نہ صرف اپنے خیال سے عقل کے عمدہ جو ہر کو پسند کرتے ہیں بلکہ خود الہام ہی اُن کو عقل کے پختہ کرنے کے لئے تاکید کرتا ہے.پس اُن کو عقلی ترقیات کے لئے دوہری کشش بھینچتی ہے.ایک فطرتی جوش جس سے بالطبع انسان ہر ایک چیز کی ماہیت اور حقیقت کو مدلل اور عقلی طور پر جاننا چاہتا ہے.دوسری الہامی تاکیدیں کہ جو آتش شوق کو دو بالا کر دیتی ہیں.کلام مقدس میں فکر و نظر کی مشق کے لئے بڑی بڑی تاکید میں ہیں.یہانتک کہ مومنوں کی علامت ہی یہی ٹھہرا دی کہ وہ ہمیشہ زمین اور آسمان کے عجائبات میں فکر کرتے رہتے ہیں اور قانون حکمتِ الہیہ کو سوچتے رہتے ہیں.جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں فرمایا: اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ النل...22 جبکہ دوسری الہامی کتابیں جو کہ محرف اور مبدل ہیں ان میں نامعقول اور محال باتوں پر جمے رہنے کی تاکید پائی جاتی ہے جیسی کہ عیسائیوں کی انجیل شریف مگر یہ الہام کا قصور نہیں یہ بھی عقل ناقص کا ہی قصور ہے.غرض خد اکا سچا اور کامل الہام عقل کا دشمن نہیں بلکہ عقل ناقص نیم عاقلوں کی آپ دشمن ہے.نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا یا الہی تیر افرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا 33 حضرت مرزا صاحب کا پیش کردہ اسلام کا موقف نہ سخت اور تبدیلی پذیر نہیں اور نہ ہی مذہب اسلام مانع ترقی ہے.فھو المراد.براہین احمدیہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نہ تو مولوی چراغ علی صاحب نے اس کا مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی مولوی عبد الحق صاحب نے اسے پڑھنے کی تکلیف کی ہے.وگرنہ ایسی بے راہ روی کا مظاہرہ پادریوں کے جواب میں نہ مولوی چراغ علی صاحب کرتے اور نہ ہی مولوی عبد الحق صاحب ایسی الزام تراشی کرتے.میں اگر بد گمانی نہیں کر رہا تو یہ سرسید گروپ کے نیچریوں کا تکبر ہی تھا جس نے انہیں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ہمعصر ہونے کے باوجود آپ کی کتاب براہین احمدیہ کی مالی اعانت میں دس روپیہ کا نوٹ بھجوانے کے باوجو د جب اُن کے پاس کتاب گئی ہو گی اور یقین گئی ہو گی اس براہین احمدیہ کے مطالعہ سے حیدر آباد کے لوگوں نے احمدیت قبول کی جن کا اس مضمون کے پیر انمبر 8-7 میں ذکر بھی کیا گیا ہے.لیکن وہ سرسید ، مولوی چراغ علی، مولوی عبد الحق وغیرہ) اپنے نیچر یانہ تکبر کے باعث اسے پڑھنے سے محروم رہے اور پادریوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلام کے دفاع کی کوششوں میں اُلٹا اسلام کے موقف کے نقصان کا باعث بنے.خواہ مولوی چراغ علی صاحب کو حضرت مجد د شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی حجۃ اللہ البالغہ سے خلاف منشاء مصنف اقتباس لینا پڑا انہوں نے بجائے اسلام کو فائدہ پہنچانے کے نقصان پہنچایا.جس کا انہیں اختیار نہیں تھا.اسی طرح مولوی عبد الحق صاحب المعروف بابائے اردو نے بھی بغیر براہین احمدیہ کے مطالعے کے حضرت مرزا صاحب کے خطوط مندرجہ مقدمہ اعظم الكلام فی الارتقاء سے غلط نتائج کا استخراج کیا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے احوال و آثار (life and works) سے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 51 پھر کہیں نہیں مل سکا کہ حضرت اقدس نے مولوی چراغ علی کو کبھی مخاطب کیا یا مولوی صاحب کا کہیں ذکر کیا.ایسے لگتا ہے کہ حضور نے انہیں بھی سرسید کے ساتھ ہی منسلک (بریکٹ) کر دیا جنہیں حضور نے دعوت دی لیکن باوجود ہمعصر ہونے کے حضور کے پاس آنے سے محروم ہی گزر گئے.ایسے لگتا ہے کہ مولوی چراغ علی کی اس بد نصیبی کا باعث سرسید احمد خان بنے ہوں گے ! واللہ اعلم 3-6.مولوی چراغ علی کے افکار و نظریات کے بارے میں ڈاکٹر عبید اللہ خان اور کینٹل کالج لاہور کی رائے ڈاکٹر عبید اللہ خان صاحب ایم.اے.پی.ایچ.ڈی، استاد شعبہ اردو یونیورسٹی اور مینٹل کالج لاہور جو عبد الحمید رضوانی کے مقالہ “مولوی چراغ علی” (1971ء) کے نگران تھے چراغ علی کے بارے میں اس مقالہ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:.“مولوی چراغ علی کے افکار و نظریات کو پرکھنا خود مسئلہ تھا.کیونکہ ایک طرف اسلام کا تحفظ، دین کی پاسداری، غیروں کے اعتراضات کے جواب کا خیال ، اپنوں کی کوتاہ نظری کا احساس اور دوسری طرف حدیث سے بے اعتنائی، فقہ پر نظر عتاب اور تفسیر سے عدم اعتماد.یہ مولوی صاحب کی شخصیت اور افکار کے تضاد کو ظاہر کرتا تھا.اس لئے اس وادی پُر خار سے اپنے دامن کو بچائے ہوئے نکلنا بہت مشکل کام تھا.(صفحہ ب، ج) 15 - حوالہ جات 3-1 1 - تواریخ اقوام کشمیر ، محمد الدین فوق صفحہ 391، نگارشات پبلشر زمرنگ روڈ لاہور 2003ء 2 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام.مولوی چراغ علی.مقدمہ مولوی عبد الحق حصہ اول صفحہ 2 3 - // صفحه 4 4 - // صفحه 2 | | صفحہ 2 -5 61-6 -7 8 - // صفحه 6 - | | صفحہ 4-5 - تواریخ اقوام کشمیر ، محمد الدین فوق.صفحہ 391 9 - مقدمه اعظم الكلام...صفحه 5 10 - // صفحه 2 11 - تواریخ اقوام کشمیر - صفحہ 391 12 - // صفحہ392 13 - مقدمہ اعظم الكلام...صفحہ 5 30-15-14-13-2-9-7-6-5 // - - 14 3-2 Modern Islam in India.A Social Analysis by Wilfred Cantwell Smith, p.23 Minerva
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 52 Book Shop, Lahore 1943.16 - “احمدیت اور اسلام صفحہ 10 علامہ محمد اقبال مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام کراچی 1952ء 17 - اردوادب کی تحریکیں صفحہ 315 مصنفہ ڈاکٹر انور سدید شائع کردہ انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، اشاعت دوم 1991ء 18 - براہین احمدیہ صفحہ 329 (ح) مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 19 - “ مقالات سرسید مر تبہ مولانا محمد اسماعیل پانی پتی شائع کردہ مجلس ترقی ادب لاہور طبع دوم 1984ء 3-3 20 - مقدمہ مولوی عبد الحق در اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام دوسراحصہ مصنفہ مولوی چراغ علی صفحہ 67 21 - “ حیات احمد صفحہ 380 22 - اعظم الكلام...صفحہ 42 23 - ایضاً صفحہ 43 3-4 24 صفحہ 264 رسالہ چہارم تحقیق مسئله تعدد زوجات مصنفہ نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی مرحوم.مطبع اختر دکن واقع افضل گنج حیدر آباد 25 - صفحہ 500 ایضاً جلد اول 26 Reforms under Muslim Rule.P-7 27 -حجۃ اللہ البالغہ مصنفہ شاہ ولی اللہ باب 4، صفحہ 158، مطبوعہ بریلی.اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام صفحہ 42 28 – صفحہ 500حجۃ اللہ البالغہ 3-5 29 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام 30 - براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 293-295 31 - العنكبوت الجزو نمبر 44: 20 32 ال عمران 191 - 192 33 - کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مندرجہ (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 293-306)
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام باب چہارم: حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے خطوط بنام مولوی چراغ علی صاحب مندرجہ اعظم الکلام.تبصرہ و تنقید 53 4-1- حضرت مرزا صاحب کے نقل کردہ خطوط کے حصول کی کوششیں مولوی عبد الحق صاحب کو مولوی چراغ علی کے حالات موصوف کے پرانے دوست مولوی محمد زکریا سہارنپوری سے معلوم ہوئے اور زمانہ حیدر آباد کے اکثر حالات اور خطوط مولوی چراغ علی کے بھتیجے مولوی انوار الحق جو مرحوم کے پاس بچپن سے تھے سے معلوم ہوئے.1 مولوی چراغ علی صاحب کے کچھ حالات مولوی عبد الحق صاحب کو مولوی چراغ علی کے فرزند مسٹر محبوب علی سپر نٹنڈنٹ مدرسہ حرفت و صنعت اور نگ آباد سے بھی ملے.اور راقم الحروف نے حضرت مرزا صاحب کے خطوط کے حصول کیلئے جو مساعی کی ہے وہ درج ذیل ہے.4-2- زیر بحث خطوط حضرت مرزا صاحب اور مشفق خواجہ مولوی عبد الحق صاحب نے مولوی چراغ علی کے بارے میں صرف ان کی مطبوعہ کتب دیکھ کر ہی اپنی آراء قائم نہیں کیں تھیں بلکہ ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مسودے بھی دیکھے تھے.اس سلسلے میں مولوی عبد الحق صاحب کا رابطہ مولوی چراغ علی مرحوم کے بھتیجے مولوی محمد علی صاحب سے بھی تھا جو نیک سیرتی اور سادگی میں اپنے والد مرحوم اور چچاؤں کی سچی یاد گار تھے.ان شخصی و تحریری مآخذ کے علاوہ مولوی عبدالحق صاحب کا رابطہ مولوی چراغ علی کے فرزند سوم مسٹر محمود علی صاحب سے بھی تھا جنہوں نے مولوی چراغ علی صاحب کو لکھا ہوا ایک خط ڈاکٹر اسپر نگر کا دیا تھا.تے ان قرائن کے باوجو د مولوی عبد الحق صاحب کے مقدمہ میں جو خطوط نقل کئے گئے ہیں وہ من و عن نہیں ہیں.بہر کیف اس کی مزید کرید کی گئی تو معلوم ہوا کہ مولوی عبد الحق کے متعلق مشفق خواجہ سے زیادہ کسی کے پاس معلومات نہیں ہیں.جب موصوف سے رابطہ کیا گیا تو آپ نے ناچیز کے استفسار کے جواب میں لکھا:.“مولوی عبد الحق مرحوم نے جب اعظم الکلام کا مقدمہ لکھا تھا تو مولوی چراغ علی مرحوم کے ذاتی کاغذات انہیں مرحوم کے بھتیجے سے ملے تھے.جو بعد استفادہ انہوں نے واپس کر دئے تھے.....میں نے خود مولوی عبد الحق سے اس بارے میں ایک مرتبہ پوچھا تھا انہوں نے یہی بتایا تھا کہ یہ کاغذات مرحوم کے بھتیجے کی تحویل میں تھے.اور اگر مولوی صاحب کے پاس ہوتے بھی تو ان کا کراچی آنا ممکن نہ تھا کیونکہ انجمن کا دفتر دہلی میں لٹ گیا تھا.....انجمن میں مولوی صاحب سے متعلق جو کاغذات ہیں ان کی با قاعدہ فہرست موجود ہے اور یہ سب کاغذات میری نظر سے گزرے ہیں ان میں مرزا صاحب موصوف کا کوئی خط نہیں ہے.7 4-3- خطوط حضرت مرزا صاحب اور مولوی چراغ علی کے افراد خانہ اس ممکنہ ذریعہ کے نہ ملنے پر مولوی چراغ علی صاحب کے بھتیجے کی تلاش شروع ہوئی تو مرزا ظفر الحسن غالب لائبریری کراچی نے لکھا کہ “ میں چراغ علی کے افراد خاندان سے ذاتی طور پر واقف ہوں ضرورت ہوئی تو ان کے نام لکھ بھیجوں گا.نشر گاہ حیدر آباد کے بانی / مولوی چراغ علی کے فرزند تھے." 8
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 54 مرزا ظفر الحسن صاحب اپنے ایک اور عنایت نامہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ “مولوی چراغ علی کی ایک بہو بیگم عزیز علی کراچی میں کہیں مقیم ہیں.مولوی صاحب کے ایک پوتے سید معراج علی پیر الہی بخش کالونی میں رہتے ہیں.نشر گاہ حیدر آباد کے بانی سید محبوب علی صاحب تھے اور کئی برس پہلے ان کا انتقال ہو گیا....بیگم عزیز اور معراج علی....نے مولوی چراغ علی کو دیکھا تک نہیں.میر امولوی محبوب علی صاحب کے گھر بہت آنا جانا تھا کیونکہ نشر گاہ اُس گھر میں تھی، محبوب علی صاحب اس کے ناظم اور میں اس نشر گاہ میں جز وقتی کار کن تھا.اس گھر میں میں نے کبھی مولوی چراغ علی کا نام تک نہیں سنا.اس گھر میں علم وادب کا کوئی چر چانہ تھا اس لئے مولوی چراغ علی کے سارے اثاثے مٹ چکے تھے.” 9" مولوی چراغ علی صاحب کے پوتے معراج علی کے بارے میں مرزا ظفر الحسن صاحب نے لکھا کہ: "معراج علی کا پتہ درج کر رہا ہوں مگر ان کی طرف سے کسی حوصلہ افزاء جواب کی توقع نہ رکھئے گا.سید معراج علی (1108) پیر الہی بخش کالونی کراچی.10 اور جب سید معراج علی صاحب سے بذریعہ خط رابطہ کیا گیا تو مرزا ظفر الحسن کی توقعات کے مطابق کوئی جواب نہ ملا.لیکن را قم الحروف نے لمبے لمبے و قفوں سے خط و کتابت کے ذریعہ تلاش جاری رکھی بالآخر فروری 2011ء میں عزیزہ مکرمہ مقصودہ صہبا(سلام ) دختر جناب صہبا لکھنوی مرحوم (مدیر ماہنامہ "افکار") کے توسط سے مولوی چراغ علی کے پڑ پوتے علی آصف سے رابطہ ہو گیا.موصوف مولوی چراغ علی کے سب سے بڑے بیٹے سراج علی (1948-1876) کے پوتے ہیں.ان کے والد کا نام معراج علی ولد سراج علی تھا.علی آصف سے صرف اس سلسلہ نسب کی تصاویر میسر آسکی ہیں.اور مولوی چراغ علی کے بیٹے محبوب علی کی دستخط شدہ کتاب (1945 حیدر آباد) چند ہم عصر " نوشته مولوی عبدالحق مرتبه شیخ چاند مرحوم کے مولوی چراغ علی سے متعلق صفحات کی عکسی نقول ملی ہیں.علاوہ ازیں اُن کے پاس خطوط وغیرہ کسی قسم کا سراغ نہیں ملا ہے.اور نہ ہی اُن کے پاس مولوی چراغ علی کے کسی قسم کے کاغذات ہیں.اللہ تعالی دختر موصوف اور جناب علی آصف صاحب (پڑپوتا مولوی چراغ علی مرحوم) کو اس مدد کی جزائے خیر عطا کرے.(آمین) 4-4- خطوط کے حصول کی آخری ممکنہ جاری کوشش ماضی قریب میں ڈاکٹر منور حسین، لیکچرر شعبہ اُردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی کتاب موسومہ "مولوی چراغ علی کی علمی خدمات "شائع کردہ خدا بخش اور مینٹل پبلک لائبریری پٹنہ (انڈیا) مطبوعہ 1997ء سے مولوی چراغ علی کے مخطوطات کا علم ہوا ہے.متعلقہ مقامات سے رابطہ کیا گیا شاید وہاں سے یہ خطوط مل سکیں.اور خطوط کا مکمل متن سامنے آسکے.لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ ملا.البتہ حیدر آباد دکن میں مقیم ایک بزرگ دوست جناب سید جہانگیر علی صاحب مد ظلہ کے توسط سے یہ تلاش اب بھی جاری ہے.4-5- حضرت مرزا صاحب کے خطوط کو نقل کرنے والے مصنفین ڈاکٹر سید عبد اللہ ، قاضی جاوید وغیرہ سے رابطہ خطوط زیر بحث کا مکمل متن کہیں سے دستیاب نہ ہوا تو ان خطوط کو اپنی تحریروں میں استعمال کرنے والے مصنفین سے رابطہ کیا گیا ان میں سے ڈاکٹر سید عبد اللہ صاحب نے ایبٹ آباد سے لکھا فرض کیجئے کہ براہین احمدیہ میں مولوی چراغ علی نے کچھ تعاون بھی کیا ہو تو اس میں کیا خاص قباحت ہے.دنیا میں بڑے سے بڑے مصنف ایک دوسرے سے استفادہ کرتے ہیں اگر چراغ علی نے کچھ تعاون کر دیا تو اس میں مضائقہ کیا ہے.بہر حال میں لاہور پہنچ کر 8 / اگست کے بعد اپنی کتاب کو دوبارہ دیکھ کر کچھ عرض کر سکوں گافی الحال میں کوئی قطعی رائے دینے سے قاصر ہوں.” 11 جس عمومی امر کا ذکر ڈاکٹر سید عبد اللہ نے کیا ہے اس سے ہمیں اختلاف نہیں ہے.مگر جب ان سے ان کی اپنی ہی تحریروں کے حوالے سے دریافت کیا گیا کہ بقول ان کے مولوی چراغ علی کی کتابیں غیر مقبول اور قابل ذکر نہیں وو
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 55 ہیں.جبکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتاب بقول مولوی عبد الحق ایک پر زور اور مشہور کتاب ہے.( اور مولوی چراغ علی کی تحریر میں گرمی نہیں سردمہر منطقی یا کائیاں دنیا دار ہیں لیکن ساتھ ساتھ کتاب کو پر زور دلائل اور جامع کتاب بھی بتاتے ہیں !)12اس تناظر میں مدد دینے والا معاملہ بعید از قیاس ہے.اور ان مقامات کی نشان دہی کی جائے جن سے مدد لینا ثابت کیا جا سکے تو ڈاکٹر سید عبد اللہ صاحب کی طرف سے باوجو د یاد دہانی کے کوئی جواب نہ ملا.اسی مفہوم کو قاضی جاوید صاحب نے ڈاکٹر سید عبد اللہ سے لے کر اپنی کتاب میں نقل کیا ہے.12 مر اسلاقی رابطے پر جب ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہو ا تو ذاتی طور پر قاضی جاوید صاحب سے ملاقات کی گئی تو موصوف نے کہا کہ پہلے میرے یہی خیالات تھے مگر اب نہیں ہیں.یہ تو زبانی معاملہ ہوا ان کی طرف سے تحریری طور پر ایسا کوئی مضمون نظر سے نہیں گزرا اور ان کے قارئین کے ذہن میں اُن کی اسی تحریر کا تاثر موجود رہے گا تاوقتیکہ ان کی طرف سے ایسے ہی کسی مضمون سے تردید نہ ہو.4-6- حضرت مرزا صاحب کے پیش کردہ خطوط کے مندرجات کا جائزہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مکمل خطوط پیش نظر نہ ہونے کے باعث تحریر کے سیاق و سباق کا پتہ نہیں چل سکتا.جو خطوط سے اقتباس دیئے گئے ہیں وہ اس نیت سے دیئے گئے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کا براہین احمدیہ میں مد دلینا ثابت کیا جائے.اس لئے ان خطوط کے اقتباسات پر کچھ بھروسہ نہیں پھر بھی ہم ان خطوط کو مولوی عبد الحق صاحب کے بقول درست سمجھتے ہوئے تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں تو پہلے ہی اقتباس میں اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کتاب کے لئے مدد طلب نہیں کی کیونکہ حضرت مرزا صاحب تو لکھ رہے کہ ہیں کہ “ آپ کا افتخار نامہ محبت آمود....عزور و دلایا.” الخ 14 یعنی مولوی چراغ علی صاحب کا خط حضرت مرزا صاحب کو پہنچا جس میں مولوی چراغ علی صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو بعض امور کی جانب توجہ دلائی.نہ کہ حضرت مرزا صاحب نے مدد طلب کی.اس بات سے ہی مولوی عبد الحق صاحب کا قیاس نہ صرف غلط ثابت ہوتا ہے بلکہ قیاس مع الفارق ٹھہرتا ہے.بلکہ حضرت مرزا صاحب کی فوقیت ثابت ہوتی ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب آپ کو اس بارے میں اپنے عجز کو فی الواقعہ ظاہر کرتے ہوئے آپ کو اس پر لکھنے کی توجہ دلاتے ہیں اور جہاں آپ نے مولوی صاحب کو لکھنے کو کہا ہے وہ فقط مولوی چراغ علی صاحب کی دلداری ہی کہی جاسکتی ہے جبکہ آپ کے اس خط کے الفاظ کے مطابق “ اگر چہ پہلے سے مجھے بہ نیت الزام خصم اجتماع بر این قطعیہ اثبات نبوت و حقیت قرآن شریف میں ایک عرصہ سے سر گرمی تھی مگر جناب کا ارشاد موجب گرم جوشی و باعث اشتعال شعله حمیت اسلام علی صاحبہ السلام ہوا اور موجب از یاد تقویت و توسیع حوصلہ خیال کیا گیا.جب آپ سا اولو العزم صاحب فضیلت دینی و دنیوی ته دل سے حامی ہو ، اور تائید دین حق میں دل گرمی کا اظہار فرمادے تو بلا شائبہ ریب اس کو تائید غیبی خیال کرنا چاہئے.جزاکم اللہ نعم الجزاء.15 اس فقرہ کے بعد مولوی صاحب نے چند ڈیش ڈال کر اگلے فقرے کو شروع کیا ہے.افسوس ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب نے مکتوبات کو تمام و کمال درج نہیں کیا ورنہ ان امور پر کافی روشنی پڑ سکتی تھی.جس قدر اقتباس دیا ہے اس سے بھی یہ بات بخوبی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف میں کوئی علمی امداد مولوی چراغ علی صاحب نے نہیں دی بلکہ مولوی چراغ علی صاحب نے براہین احمدیہ کی تصنیف کے بارے میں خط لکھا اور اس میں اعانت کتاب کا وعدہ کیا ہے حضرت مرزا صاحب نے اس کے جواب میں جو خط لکھا اس میں دلائل یا مضامین وغیرہ کے بھیجنے کا بھی ذکر کیا یعنی ماسوائے اس کے اگر اب تک کچھ دلائل یا مضامین آپ نے نتائج
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام طبع عالی سے جمع فرمائے ہوں تو وہ بھی مرحمت ہوں ” کے یہ فقرہ بھی ہماری ما قبل دلیل کا مؤید ہے.56 مولوی عبد الحق صاحب نے جو دو سر اخط حضرت مرزا صاحب کا نقل کیا ہے وہ ان الفاظ سے شروع ہو تا ہے “ آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی، پر اب تک نہ کوئی عنایت نامہ پہنچانہ مضمون پہنچا، اس لئے آج مکرر تکلیف دیتا ہوں کہ براہ عنایت بزرگانہ بہت جلد مضمون اثبات حقانیت فرقان مجید طیار کر کے میرے پاس بھیج دیں، اور میں نے بھی ایک کتاب جو دس حصے پر مشتمل ہے تصنیف کی ہے اور نام اس کا براہین احمدیہ علی حقانیة کتاب اللہ القرآن و النبوة المحمدیہ رکھا ہے اور صلاح یہ ہے کہ آپ کے فوائد جرائد بھی اُس میں درج کروں اور اپنے محقر کلام سے ان کو زیب و زینت بخشوں.سو اس امر میں آپ توقف نہ فرماویں اور جہاں تک جلد ہو سکے مجھ کو مضمون مبارک اپنے سے ممنون فرماویں." 17 ( اس خط پر اور پہلے خط پر مولوی عبد الحق صاحب نے تاریخ تحریر کا اندراج نہیں کیا) اس سے ظاہر ہے کہ وہ مضمون یا اس خط کا جواب تک بھی مولوی چراغ علی صاحب نے نہیں دیا جیسا کہ صاف لکھا ہے کہ “ آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی، پر اب تک نہ کوئی عنایت نامہ نہ مضمون پہنچا.پھر یہ فقرہ تو خصوصی طور پر توجہ طلب ہے اس میں کتاب براہین احمدیہ کی تالیف کا ذکر ہے اور مولوی صاحب اگر کوئی مضمون لکھیں تو اس کے درج کرنے کا وعدہ کیا.لیکن اس طرح “صلاح یہ ہے کہ آپ کے فوائد جرائد بھی اس میں درج کروں اور اپنے محقر کلام سے ان کو زیب و زینت بخشوں." اس کا مطلب صاف ہے کہ میں بطور حاشیہ کے اس پر خود لکھوں گا پھر اگلے خط میں اس کی قطعی صراحت موجود ہے کہ : “ اس تحقیقات اور آپ کے مضمون کو بطور حاشیہ کے کتاب کے اندر درج کر دوں گا.” 18 اس خط پر مولوی عبد الحق صاحب نے تاریخ کا اندراج نہیں کیا.اگلے خط میں حضرت مرزا صاحب نے ان امور کو مولوی چراغ علی صاحب کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے “ بہر صورت میں اس دن بہت خوش ہوں گاجب میری نظر آپ کے مضمون پر پڑے گی آپ بمقتضا اس کے کہ الكَرِیمُ إِذَا وَعَدَ وَفَا مضمون تحریر فرماویں.19 اور آخری خط محررہ 10 مئی 1879ء میں ان امور کی مزید صراحت کر دی گئی ہے: کتاب (براہین احمدیہ ) ڈیڑھ سو جز ہے جس کی لاگت تخمینانو سو چالیس روپیہ ہے ، اور آپ کی تحریر محققانہ ملحق ہو کر اور بھی زیادہ ضخامت ہو جائے گی.20 یہاں بھی مولوی چراغ علی کی تحریر کو ملحق کرنے کی بابت لکھا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ بطور حاشیہ کے ہو گی جیسا کہ اس کی حضرت مرزا صاحب کے محولہ بالا خط سے بھی صراحت پائی جاتی ہے.4-7- حضرت مرزا صاحب کا دوران تصنیف اعتراضات و دیگر امور کو کتابوں کے حاشیہ پر درج کرنے کا طریق: علاوہ ازیں حضرت مرزا صاحب کا طریق اس قسم کے مضامین کو اپنی کتابوں کے حاشیہ میں درج کرنے کا تھا.جیسے کہ اسی کتاب اس براہین احمدیہ کے حصہ سوم میں آپ تحریر فرماتے ہیں: “ قرآن شریف کیو نکر تمام حقائق الہبیہ پر حاوی ہے.تو اس بات کا ہم ہی ذمہ اٹھاتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب طالب حق بن کر یعنی اسلام قبول کرنے کا تحریری وعدہ کر کے کسی کتاب عبرانی، یونانی، لاطینی، انگریزی، سنسکرت وغیرہ سے کسی قدر دینی صداقتیں نکال کر پیش کریں یا اپنی ہی عقل کے زور سے کوئی الہیات کا نہایت بار یک دقیقہ پیدا کر کے دکھلاویں تو ہم اُسکو قرآن شریف میں سے نکال دیں گے.بشر طیکہ اسی کتاب کی اثناء طبع میں ہمارے پاس بھیج دیں تا کہ وہ اس کے کسی مقام مناسب میں بطور حاشیہ مندرج ہو کر شائع ہو
براہین احمدیہ مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام جائے.." 21" 57 اصل حقیقت یہ ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب کو اس خط و کتابت کی بناء پر کچھ لکھنے کی توفیق ہی نہیں ملی.خود ان مکتوبات کے اندرونی شواہد ایسے زبردست ہیں کہ کسی محقق کے لئے انکار کی گنجائش نہیں.مولوی چراغ علی صاحب اگر کوئی مضمون لکھتے تو حضرت مرزا صاحب اسے حاشیہ میں ضرور درج کر دیتے یا بطور ضمیمہ وہ اصل کتاب کا جزو قرار دے کر اسے شائع نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ حضرت مرزا صاحب کے مکتوبات سے ظاہر ہے.ایک خط میں حضرت مرزا صاحب مولوی چراغ علی صاحب کو تحریر کرتے ہیں کہ “آپ کی اگر مرضی ہو تو وجوہات صداقت قرآن جو آپ کے دل پر القا ہوں میرے پاس بھیج دیں، تا اُسے رسالہ میں حسب موقعہ اندراج پا جائے یا سفیر ہند میں...." 22 یہ عام قاعدہ ہے کہ مصنفین اپنی تصنیف یا تحقیق کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لئے معاصرین و متاخرین کی تحقیقات کو بھی دیکھتے ہیں کہ تا بات کو آگے بڑھایا جا سکے حضرت مرزا صاحب نے اس خیال کے پیش نظر مولوی چراغ علی صاحب کے توجہ دلانے پر ان کے مضمون کو بھجوانے یا اخبار “ سفیر ہند ” میں چھپوانے کو لکھاتا کہ مولوی صاحب کی تحقیقات بھی سامنے آجائیں.اخبار “سفیر ہند کا تذکرہ آیا ہے تو یہاں بے جانہ ہو گا کہ اس بات کا دوبارہ تذکرہ کر دیا جائے.جیسا کہ مضمون زیر نظر میں درج کیا جا چکا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اسی اخبار “سفیر ہند ” میں مولوی چراغ علی کے دس روپے کا نوٹ حیدر آباد دکن سے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنے کرم ذاتی و ہمت اور حمایت اسلامیہ سے بوجہ چندہ کے اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے.گمان غالب ہے کہ یہ تحریک ان احباب کی طرف سے کی گئی ہو جنہوں نے بعد میں سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کا شرف پایا تھا.اُن میں سے چند ایک کا ذکر اس مضمون کے پیر 8-7 پر کیا گیا ہے.مگر مولوی عبد الحق صاحب ادھورے اقتباسات بطور شہادت پیش کر کے کتاب میں مدد لینے کے ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے بعد کے لوگ اس پر تحدی سے قائم ہیں.اندریں صورت صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے کہ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں مولوی چراغ علی صاحب کی کتابوں کو رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی نسبت ہے.مولوی چراغ علی صاحب اگر کچھ بھی لکھتے تو حضرت اقدس کی شکور فطرت اس کے اظہار سے مضائقہ نہ کرتی.نواب اعظم یار جنگ (مولوی چراغ علی صاحب) کی نہایت حقیر امداد کا جو انہوں نے کتاب کی خریداری کی صورت میں کی شکریہ ادا کیا ہے.بلکہ مولوی چراغ علی صاحب کا تذکرہ نہ صرف براہین احمدیہ میں کیا بلکہ ان کے دس روپے کا نوٹ بھجوانے کا ذکر اخبار “ سفیر ہند ” کے ایک اعلان کے آخر پر بالخصوص بڑی ممنونیت سے کیا ہے.جس کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے.وہ تو ایک بڑے آدمی تھے آپ نے ان لوگوں کا بھی نام بنام شکر یہ ادا کیا ہے جنہوں نے کچھ آنے (ایک روپے کے سولہ آنے ہوتے تھے اور ایک آنے میں چار پیسے ) کتاب کی امداد میں دیئے تھے.غرض یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ براہین احمدیہ ” کی تصنیف میں کسی شخص کی علمی یا دماغی قوت کا دخل نہیں.4-8 - مکتوبات کے نفس مضمون میں حضرت مرزا صاحب کے علم کلام کے بے بدل اصول: حضرت مرزا صاحب کے ان مکتوبات سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے علم کلام میں وہ رنگ پیدا کر دیا کہ اس سے پہلے کسی دوسرے کو وہ بات نصیب نہیں ہوئی مثلاً آپ نے تحریر کیا کہ “ جو براہین (جیسے معجزات وغیرہ) زمانہ گذشتہ سے تعلق رکھتے ہوں ان کا تحریر کرناضروری نہیں کہ منقولات مخالف پر حجت قویہ نہیں آسکتیں جو نفس الامر میں خوبی اور عمد گی کتاب اللہ میں پائی جائے یا جو عند العقل اس کی ضرورت ہو وہ دکھلانی چاہئے." 23
براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 58 یہ ایک عظیم الشان اور مسکت طریق استدلال ہے جس کے مقابلہ میں کوئی مذہب ٹھہر نہیں سکتا.24 سب سے بڑی اور نمایاں بات جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے علم الکلام میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ الہامی کتاب خود ہی دعویٰ کرے اور آپ ہی اس دعوے کی تائید کے دلائل دے.نیز آپ منکرین و معترضین اسلام کے حملوں کے جواب میں پہلے جس چیز کو لیتے وہ کتاب اللہ کی ذاتی خوبیوں اور تعلیم کے کمالات کا اظہار اور معقولی رنگ میں اس کا قابل قبول ہونا تھا.آپ صرف معترضین کا منہ بند کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ صداقت اور حق کو ایسے رنگ میں پیش کرنا چاہتے تھے کہ لوگ اسے قبول کریں اور اس کے بعد الزامی جواب دینا بھی کر ہا چاہتے تھے کہ دروغ گورا تا بخانه اش باید رسانید.25 آپ کے وقت میں مولوی ابو منصور صاحب دہلوی عیسائیوں کے رد میں کتابیں لکھنے میں مشہور تھے مگر انہوں نے ہمیشہ الزامی جوابات کی طرف زیادہ توجہ کی یہی حال دوسرے مسلمان مناظرین اور واعظین کا تھا.مگر حضرت مرزا صاحب نے برخلاف اس وقت کی روش کے حقیقی جوابات کو مقدم کیا آپ نے ایک اصل پیش کیا کہ قرآن کریم کی کسی تعلیم و ہدایت پر یا آنحضرت صلی ایم کے کسی فعل پر جہاں اعتراض کیا گیا ہے اسی جگہ حقائق و معارف کا ایک خزانہ مخفی ہے اور معترضین کے تمام بڑے بڑے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے آپ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا.اس عہد کے بڑے بڑے مصنفین کی تصنیفات جو انہوں نے تائید اسلام کے لئے معترضین اسلام کے رد میں لکھیں تو دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ این زمین را آسمانے دیگر است 24 جب کبھی کوئی ایسا اعتراض یا مسئلہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی خدمت میں پیش ہوتا.یا کسی کی تحریر کے ذریعہ حضور (حضرت مرزا صاحب) کو پہونچتا کہ جس کا جواب دینا ضروری ہوتا.تو عام طور پر حضرت صاحب (حضرت مرزا صاحب ) اس اعتراض یا مسئلہ کے متعلق مجلس میں اپنے دوستوں کے سامنے پیش کر کے فرماتے کہ اس معترض کے اعتراض میں فلاں فلاں پہلو فرو گذاشت کئے گئے ہیں.یا اس کی طبیعت کو وہاں تک رسائی نہیں ہوئی.یا یہ اعتراض کسی سے سن سنا کر اپنی عادت یا فطرت کے خبث کا ثبوت دیا ہے.پھر حضور (حضرت مرزا صاحب ) اس اعتراض کو مکمل کرتے اور فرمایا کرتے کہ اگر اعتراض ناقص ہے تو اس کا جواب بھی ناقص ہی رہتا ہے.اس لئے ہماری یہی عادت ہے کہ جب کبھی مخالف کی طرف سے کوئی اعتراض اسلام کے کسی مسئلہ پر پیش آتا ہے تو ہم اس اعتراض پر غور کر کے اس کی خامی اور کمی کو خود پورا کر کے اس کو مضبوط کرتے ہیں اور پھر جواب کی طرف توجہ کرتے ہیں اور یہی طریق حق کو غالب کرنے کا ہے.27 26 49 چند واقعات مندرجہ براہین احمدیہ بقید تاریخ برائے تخلیط رائے مولوی عبد الحق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے جن خطوط کا تذکرہ مولوی عبد الحق صاحب نے مقدمہ اعظم الکلام....میں کیا ہے ان پر مندرجہ تواریخ 19 فروری 1879ء اور 10 مئی 1879ء ہیں جبکہ کتاب (براہین احمدیہ ) جو بعد میں چھپ کر شائع ہوئی اس کی اندرونی شہادتیں یہ بتارہی ہیں کہ مکمل طور پر یہ وہ کتاب نہیں جو 1879ء میں لکھی جاچکی تھی.اس سلسلہ میں ایک روایت جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے نقل کی وہ موجودہ کتاب کی تصنیف کے بارے میں روشنی ڈالتی ہے:.“ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام (مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے 1879ء میں براہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تو اس وقت آپ براہین احمدیہ تصنیف فرما چکے تھے اور کتاب کا حجم قریباً دو ڈھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کئے تھے کہ جن کے متعلق آپکا دعویٰ تھا کہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہر ہو جائے گی اور آپ کا پکا ارادہ تھا کہ جب اس کے شائع ہونے کا انتظام ہو تو کتاب
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 59 کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اسکے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں.چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ بھی نا مکمل طور پر.ان چار حصوں کے طبع ہو نے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدا کے تصرف کے ماتحت رک گئی اور عنا جاتا ہے کہ بعد میں اس ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہو گئے." 28 مولوی عبد الحق صاحب کے خطوط سے مستخرجہ نتائج اس طور بھی غلط ثابت ہوتے ہیں.اس کے ثبوت میں براہین احمدیہ میں درج شدہ چند واقعات جو تاریخ کے ساتھ درج ہیں پیش کئے جاتے ہیں :.اول: حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی براہین احمدیہ حصہ سوم کے صفحہ 238 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 1 میں لکھتے ہیں کہ اس الہام کی مثالیں ہمارے پاس بہت ہیں لیکن وہ جو ابھی اس حاشیہ کی تحریر کے وقت یعنی مارچ 1882ء میں ہوا ہے.جس میں یہ امر غیبی بطور پیشگوئی ظاہر کیا گیا ہے اس اشتہاری کتاب کے ذریعہ سے اور اس کے مضامین پر مطلع ہونے سے انجام کار مخالفین کو شکست فاش آئے گی..الآخر یہ حاشیہ در حاشیہ صفحہ 217 سے صفحہ 267 تک چلا گیا ہے کم از کم اس مقام کی تحریر کی تاریخ مہینے کے لحاظ سے مارچ 1882ء ہے.دوم: حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 میں اس حصہ کے صفحہ 268 پر پرچہ نور افشاں ” 3 مارچ 1882ء کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ بہر حال یہ تحریر 3 مارچ 1882ء کے یقیناً بعد کی ہے یہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 صفحہ 306 تک چلا گیا ہے.سوم: صفحہ 349 حاشیہ نمبر 11 میں پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری کے اخبار “ دہرم جیون ” جنوری 1883ء میں شائع کردہ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور یہ حاشیہ نمبر 11 حصہ سوم کے شروع سے شروع ہو جاتا ہے (صفحہ 141 حصہ سوم ) اور حصہ چہارم کے اخیر تک برابر چلا جاتا ہے.یہ بات ضرور اس سے پتہ چلتی ہے کہ یہ صفحہ 349 جنوری 1883ء کے بعد لکھا گیا ہے.چهارم: حاشیه در حاشیہ نمبر 2 صفحہ 475 پر یکم اپریل 1883ء کا ایک واقعہ درج ہے.غرض اس طرح پر متعدد مقامات پر بعض تاریخوں کے حوالے آتے ہیں ان سب سے بہ حیثیت مجموعی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1879ء میں یہ سب مسودہ تیار نہ تھا.29 لہذا یہ امر ثابت ہو گیا کہ مولوی عبد الحق صاحب کے خطوط مندرجہ اعظم الکلام سے نکالے گئے نتائج، واقعاتی شہادتوں سے غلط ثابت ہوتے ہیں.جن مقامات کو اوپر درج کیا گیا ہے یہ بطور مثال وہ مقامات ہیں جہاں کسی واقعہ کو تاریخ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے.جن کو اس تاریخ سے پہلے نہیں لکھا گیا تھا.جبکہ حواشی تصنیف کے وقت ہی لکھے گئے تھے.کیونکہ حواشی کا مضمون اس قدر مسلسل اور مربوط اور طویل ہے کہ وہ بجائے خود ایک مستقل تصنیف / مضمون ہے.اس لئے متن (بمع حواشی ) جب آپ نے لکھ لیا تو جب مسودہ (Manuscript) مبینہ (clean copy) به الفاظ دیگر (opposite of Manuscript 20 ہو کر کاتب کے سپرد کیا جانے لگا تو حواشی کا اضافہ کیا گیا جن میں سنین درج ہیں.اس کی صراحت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب (مصنف قائدہ پیسر نا القرآن ) جو حضرت اقدس کے سالہا سال
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 60 تک خوشنویس رہے) نے نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ منشی کرم علی صاحب کاتب کی تصدیق سے بتایا کہ حضرت اقدس ( یعنی حضرت مرزا صاحب کا یہ طریق ہر گز نہ تھا کہ وہ کتاب کا مسودہ تیار کر کے رکھیں بلکہ ساتھ ساتھ تحریر فرمایا کرتے تھے.یہ بیان فاضل مصنف “حیاتِ احمد ” ( یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی حیات مبارکہ پر تصنیف) جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا ہے.جو آپ نے مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 372-374 پر بیان کیا ہے.اس تناظر میں اگر “سیرت المہدی ” کی روایت کو دیکھا جائے تو بظاہر اختلاف نظر آتا ہے.یعنی “ 1879ء میں..براہین احمدیہ کا حجم تقریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا..علاوہ ازیں اشتہار حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بابت براہین احمدیہ مورخہ مئی 1879ء 31 میں کتاب کے ڈیڑھ سو جز بتائے گئے ہیں.جنہیں جناب اے.آر.درد صاحب نے (Life of Ahmad) صفحہ نمبر 70 پر محولہ اشتہار کے حوالے سے تقریباً 2500 صفحات بتایا ہے.اور حیات احمد کے ہی صفحہ نمبر 371 پر درج ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی) کے آخری ایام میں بعض کتب زیر تصنیف تھیں اور وہ حضور کی وفات کے بعد شائع ہوئیں تھیں وہ بدستور نا مکمل شائع کی گئی ہیں.اگر آپ کا طریق عمل کل مسودہ کتاب کو پہلے سے تیار کر لینا ہوتا تو کچھ شک نہیں یہ کتابیں نا مکمل شائع نہ کی جاتیں.ناچیز کی رائے میں یہ بظاہر اختلاف حضرت مرزا صاحب کی تصنیف کے ابتدائی ایام اور وفات کے قریب ایام کے طریق تصنیف یا ابتدائی اور بعد کے طریق تصنیف کا فرق ہے.جبکہ براہین احمدیہ کی تصنیف کے حوالے سے ابتدائی تصنیف بمع حواشی 1879ء میں تصنیف ہو چکے تھے جب کتاب مسودہ سے مبیضہ ہو کر کاتب کے پاس جانے لگتی تھی تو آپ نے درج بالا امور کو اصل حواشی میں جو بجائے خود ایک مستقل مضمون ہیں، میں بقید تاریخ درج فرماتے تھے یعنی مسودہ سے مبیضہ ہونے کی حالت میں.اس کا ثبوت اس کتاب “حیاتِ احمد صفحہ 385 پر ملتا ہے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا اپنا خط اپنی حیثیت میں بہت پختہ اور ایک خاص شان رکھتا تھا لیکن آپ اس لحاظ سے کہ مبادا کاتب کو کاپی لکھتے وقت وقت ہو یا غلطیاں زیادہ ہوں.میاں شمس الدین کو صاف کرنے کے لئے دے دیتے تھے.اور میاں شمس الدین خوشخط لکھ کر لے آتے تھے.اور پھر وہ مسودہ صاف شدہ کاتب کے پاس جاتا تھا.اس طرح براہین احمد یہ تصنیف ہو رہی تھی.مزید برآں مثلاً براہین احمدیہ صفحہ نمبر 112 پر حاشیہ نمبر 10 میں درج فرمایا فرقان مجید کے کئی مقامات کہ جن کو انشاء اللہ فصل اول میں ذکر ہو گا".صفحہ 273 پر آپ حاشیہ نمبر 11 میں تحریر فرماتے ہیں “بارہا ہم نے اسی حاشیہ میں لکھ دیا ہے..”اور “ حاشیہ در حاشیہ صورت دوم میں اسی کی طرف ہم نے صریح اشارہ کیا ہے.” ان سے ثابت ہے کہ حاشیے اپنے مقام کے لحاظ بھی اول مسودے کے ساتھ تھے.کیونکہ حضرت مرزا صاحب براہین احمدیہ کے مقدمہ (مشمولہ براہین احمدیہ حصہ دوم صفحہ 130) میں درج فرماتے ہیں تقریباً باراں سیپارہ قرآن شریف کے اس کتاب میں اندراج پائے ہیں.” جبکہ زیر نظر مضمون میں ہی کسی دوسرے مقام پر لکھا گیا ہے کہ کل 104 آیات قرآنیہ سے اثبات نبوت محمدیہ و قرآن کریم استدلال کیا ہے.11 آیات قرآنیہ کی تفسیر کی ہے اور 3 مکمل سورتوں کی تفسیر ہے جو بہر کیف باراں سیپارہ سے بہت کم بنتی ہے.لہذا یہ کہنا درست ہے کہ براہین احمدیہ مکمل حالت میں لکھی جاچکی تھی جو حاشیوں سمیت تھی جو کہ اس کے مستقل مضامین ہیں.ایک اور مقام پر حضرت مرزا صاحب اپنے مسلسل مضمون میں جو پہلی فصل کا ہے براہین احمدیہ کی جلد چہارم میں درج فرماتے ہیں:...اب بھی خدا تعالیٰ بذریعہ اپنے الہام کے مختلف بولیوں کو اپنے بندہ پر القا کرتا ہے اور ایسی زبانوں میں الہام کر سکتا ہے جن زبانوں کا ان بندوں کو کچھ بھی علم حاصل نہیں جیسا کہ ہم حاشیہ در حاشیہ نمبر 1
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام میں اس کا ثبوت دے چکے ہیں.32 اسی طرح حواشی کے مضمون کی طرف اشارہ کیے بغیر فرماتے ہیں جو فی الواقعہ مضمون حواشی میں درج ہے لیکن ایسے لوگ جو ضرورتِ کتب الہیہ سے منکر ہیں جیسے برہمو سماج والے سو ان کے ملزم کرنے لیے اگر چہ بہت کچھ ہم لکھ چکے ہیں." 33 اور یہ سب کچھ حواشی میں ہے.لہذا متن کی طرح حواشی بھی مستقل مضمون ہیں.61 اس طرح تصنیف براہین احمدیہ اور حواشی کی صورت جو بنتی ہے وہ یہ ہے یعنی براہین احمدیہ کا ابتدائی مسودہ بمع حواشی.پھر.مبیضہ اور اسی دوران حواشی میں مزید اضافہ جن پر تاریخیں موجود ہیں.اور پھر کاتب.کاتب سے اگلے مراحل کی تفصیل شیخ نور احمد مالک ریاض ہند پر یس کی زبانی ملاحظہ ہو: شیخ نور احمد صاحب مطبع ریاض ہند امر تسر بیان کرتے ہیں کہ انہیں پادری رجب علی کے مطبع سفیر ہند امر تسر سے لے کر چھاپنے کے لئے دی گئی تو : دو وو مجھے جب کتاب دی گئی تو قادیان بلا کر دی گئی تھی.میں نے دیکھا کہ میاں شمس الدین اس کتاب سے مسودہ نقل کرتے تھے.ان کا خط اچھا تھا.جس قدر نقل ہو چکی تھی.وہ مجھے حضرت نے دے دی.اور باقی کے لئے فرمایا کہ جس قدر نقل ہوتی جائے گی.ہم بذریعہ ڈاک یادستی بھیجتے رہیں گے.آپ کا تاکیدی حکم تھا کہ کاپیاں اور پروف رجسٹری کرا کر بھیجنا کہ کہیں گم نہ ہو جاوے.میں کاپیاں اور اصل مضمون تو رجسٹری کرادیتا لیکن پروف بغیر رجسٹری صرف ٹکٹ لگا کر بھیج دیتا.مگر آپ بار بار یہی فرماتے کہ پروف بھی رجسٹری کر اکر روانہ کرو کہ اس میں احتیاط ہے.اور آپ بھی جب پروف بھیجتے تو رجسٹری کراتے تھے." 34 کا پیاں امر تسر کبھی آپ خود لے جاتے یا بذریعہ ڈاک بصیغہ رجسٹری بھیجتے اور کبھی لالہ ملاوامل وغیرہ کو بھیج دیتے اور یہی طریق پروف بھیجنے کے متعلق تھا.عام طور پر خود جانا پسند فرماتے تھے.اور شیخ نور احمد کو تو عام ہدایت تھی کہ کبھی پروف بلار جسٹری نہ بھیجے جاویں...قادیان محض ایک گاؤں تھا اور امر تسر تک یکہ پر جانا پڑتا تھا." 35 پہلے جن مراحل کا ذکر ہوا ہے.اُن میں اگلا مرحلہ پروف کا تھا.اور دوران پروف ریڈنگ عبارت اور حواشی وغیرہ میں یقیناً کمی بیشی ہوتی ہو گی.ذرا اس کا حال بھی ملاحظہ ہو:.خود مضمون لکھتے پھر صاف شدہ مسودہ کو پڑھتے.پھر کاتب کو دیتے اور کاپیوں کی اصلاح فرماتے.اور پھر خود ان کو لے کر امر تسر جاتے.اور کاپیاں مطبع میں دے کر بعض اوقات آجاتے.اور جب کا پیاں پتھر پر لگ جانے کی اطلاع ملتی تو خود امر تسر تشریف لے جاتے اور ان کا پیوں کے پروف پڑھتے.ان ایام میں اس موقعہ کے لئے آپ کو کئی کئی مرتبہ جانا پڑتا (یادر ہے کہ امر تسر ، قادیان سے 36 میل کے فاصلے پر ہے.ملاحظہ ہو لائف آف احمد " صفحہ 77 مصنفہ جناب اے.آر درد صاحب) اور کئی کئی دن تک امر تسر میں قیام کرنے کی ضرورت پیش آتی 36 مولوی عبد الحق صاحب کو چاہئے تھا کہ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل خود براہین احمدیہ کا مطالعہ کرتے اور مولوی چراغ علی مرحوم کی براہین احمدیہ سے قبل کی کسی تصنیف سے کوئی متعین مقام قائم کر کے رائے لکھتے.لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے بلا خوف ایک رائے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام لکھ دی جو انہیں زیب نہیں دیتی تھی ! 62 4-10- خطوط حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مندرجہ مقدمہ اعظم الکلام میں بیان کردہ مضامین پر ایک نظر اور مولوی عبد الحق صاحب کی دو خطوط کو چار بنا کر من مانے نتائج نکالنے کی جعل سازی زیر نظر مضمون کے حصہ 7-4 میں حضرت مرزا صاحب کے خطوط کا جائزہ لیتے ہوئے مقابلہ وموازنہ کی آخری صورت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ : “...صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے کہ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں مولوی چراغ علی صاحب کی کتابوں کو رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی نسبت ہے." اس سلسلے میں اس مضمون کے درج ذیل مقامات پر تفصیلی بحث کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب کے مضامین کو حضرت مرزا صاحب کے بیان کردہ معارف سے کوئی نسبت ہی نہیں.بلکہ مولوی چراغ علی صاحب کے مضامین میں دفاع اسلام کی بجائے اسلامی عقائد و نظریات کو نقصان پہنچایا گیا ہے.وہ مقامات باب سوم و پنجم میں ملاحظہ ہوں.یہ عمومی عقائد و نظریات اسلام ہیں.یہاں پر ان عقائد و نظریات یا مضامین کا بھی ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے.جن کے بارے میں مقدمہ اعظم الکلام..میں درج حضرت مرزا صاحب کے خطوط میں ذکر ہے اور وہ درج ذیل ہیں جیسا کہ حضرت مرزا صاحب قرآن اور وید کے موازنہ کے ضمن میں فرماتے ہیں: “ بلاغت کے آزمانے کے لئے یہی سہل طریق ہے کہ جن دو کلاموں کا موازنہ و مقابلہ منظور ہو.ان کی قوت بیانی کو دیکھا جائے کہ کس مرتبہ تک ہے اور اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے کے لئے کیسی کیسی موشگافی و دقیقہ رسی انہوں نے کی ہے اور کہاں تک اپنے مدلل و موجز بیان سے جہل کی تاریکی کو اٹھانے کے لئے علم کی روشنی دکھلائی ہے اور وحدانیت الہی کی خوبیاں اور شرک کی قباحتیں ظاہر کی ہیں." 37 (i) اجتماع بر این قطعیه اثبات نبوت و (ii) حقیت قرآن شریف (iii) اثبات نبوت (iv) اثبات حقانیت فرقان مجید 38 پہلاخط یہاں پر واضح طور پر حضرت مرزا صاحب نے ایک خط میں تحریر فرمایا ہے کہ “....اور میں نے بھی ایک کتاب جو دس حصے پر مشتمل ہے تصنیف کی ہے اور نام اس کا براہین احمدیہ علی حقانية كتاب الله القرآن و النبوة المحمدیہ رکھا ہے...گویا حضرت مرزا صاحب ان موضوعات پر براہین احمدیہ میں مضامین تحریر فرما چکے تھے ) (v) ہنود پر اعتراضات (vi) وید پر اعتراضات دو سر اخط
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 63 ( اس خط میں جس کے بارے میں مولوی عبد الحق صاحب نے لکھا ہے کہ “ ایک دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں.39 حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ علاوہ اثبات نبوت حضرت پیغمبر علی تعلیم کے ہنود کے دید اور ان کے دین پر سخت سخت اعتراض کئے جائیں کیونکہ اکثر جاہل ایسے بھی ہیں کہ جب تک اپنی کتاب کا ناچیز اور باطل اور خلاف حق ہونا اُن کے ذہن نشین نہ ہو تب تک گو کیسی ہی خوبیاں اور دلائل حقانیت قرآن مجید کے اُن پر ثابت کئے جائیں.اپنے دین کی طرفداری سے باز نہیں آتے...تیر اخط 40", اس خط کا حوالہ دینے سے قبل مولوی عبد الحق صاحب تحریر کرتے ہیں : “ ایک اور خط مورخہ 19 / فروری ۱۸۷۹ء / 1879ء میں تحریر فرماتے 41 پہلے دونوں خطوط پر مولوی عبد الحق صاحب نے تاریخ کا اندراج نہیں کیا ہے.) (vii) فرقان مجید کے الہامی اور (viii) کلام الہی ہونے کا ثبوت یہاں پر حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: میں نے بھی اسی بارے میں ایک چھوٹا سا رسالہ تالیف کرنا شروع کیا ہے.اور خدا کے فضل سے یقین کرتا ہوں کہ عنقریب چھپ کر شائع ہو جائے گا 12 پھر فرماتے ہیں کہ آپ کی اگر مرضی ہو تو وجوہات صداقت قرآن جو آپ کے دل پر القاہوں میرے پاس بھیج دیں، تا اُسے رسالہ میں حسب موقع اندراج پا جائے یا سفیر ہند میں...13 ایسے لگتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے یہاں جس چھوٹے سے رسالے کی تالیف شروع کرنے کا ذکر کیا ہے.وہ براہین احمدیہ میں ہی ضم ہو گیا ہو گا اور حضرت مرزا صاحب نے اس امر کو مولوی چراغ علی صاحب کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے چاہے وہ آپ کے پاس بھجوادیں یا اخبار “سفیر ہند امر تسر میں چھپوا دیں اور اگلے فقرات کو مولوی عبد الحق صاحب نے نقطے لگا کر چھوڑ دیا.اس کے بعد اس خط میں حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: میں اُس دن بہت خوش ہوں گا جب میری نظر آپ کے مضمون پر پڑے گی”.گویا اس وقت تک مولوی چراغ علی صاحب نے مطلوبہ مضمون نہیں بھجوایا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ بعد میں اخبار “سفیر ہند امر تسر میں بھی بھجوایا / چھپوایا گیا یا نہیں؟ اسی خط میں حضرت مرزا صاحب نے مولوی چراغ علی صاحب پر واضح کیا ہے کہ آپ کا مدد کرنا باعث ممنونی ہے نہ کہ موجب ناگواری 44 جس کے بارے میں حضرت مرزا صاحب نے اس خط میں تحریر فرمایا ہے کہ میں اُس دن بہت خوش ہوں گا جب میری نظر آپ کے مضمون پر پڑے گی”.چوتھا خط اس خط کا حوالہ دینے سے قبل مولوی عبد الحق صاحب تحریر کرتے ہیں “ اس کے بعد ایک دوسرے خط مورخہ 10 / مئی ۱۸۷۹ء / (1879ء) میں تحریر فرماتے ہیں ".15 اور اس کے بعد مولوی عبد الحق صاحب جس خط کا اندراج کرتے ہیں وہ پورے دو / اڑھائی سطر بھی نہیں بنتے.جو درج ذیل ہے: کتاب (براہین احمدیہ) ڈیڑھ سو جز ہے جس کی لاگت تخمیناً نو سو چالیس روپیہ ہے ، اور آپ کی تحریر محققانہ ملحق ہو کر اور بھی زیادہ ضخامت ہو جائے گی."46
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 4-11- خطوط سے مولوی عبد الحق صاحب کا اخذ کردہ نتیجہ اور اس پر تبصرہ 1.مولوی عبد الحق صاحب نے ان چار خطوط کو درج کرنے سے قبل جو عبارت لکھی وہ یہ ہے: 64 “ اس موقعہ پر یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جس وقت ہم مولوی صاحب مرحوم مولوی چراغ علی) کے حالات کی جستجو میں تھے تو ہمیں مولوی صاحب کے کاغذات میں سے چند خطوط مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم کے بھی ملے جو انہوں نے مولوی صاحب کو لکھے تھے اور اپنی مشہور اور پر زور کتاب براہین احمدیہ کی تالیف میں مدد طلب کی تھی.47 جس میں مدد طلب کرنے کا تاکثر دیا ہے لیکن ان خطوط کے آخر پر لکھتے ہیں : “ ان تحریروں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب مرحوم ( یعنی مولوی چراغ علی.ناقل ) نے مرزا صاحب مرحوم کو براہین احمدیہ کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی ہے.48 یعنی مدد طلب کرنے سے بات کو شروع کیا ہے اور مدد دینے پر ختم کیا ہے.دد 2.پہلے دو خطوط میں خطوط کی تاریخ تحریر کا اندراج نہیں کیا لیکن تیسرے اور چوتھے خط میں 19 / فروری 1879ء اور 10/ مئی 1879ء کا اندراج کیا ہے.مولوی عبد الحق صاحب جیسے مرتب متون کو یہاں خط پر تاریخ ندار دلکھنا چاہئے تھا.3.پہلے خط کے شروع میں مولوی عبد الحق صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے متعلق لکھا: چنانچہ مرزا صاحب اپنے ایک خط میں کہتے ہیں 49 دوسرے خط کے شروع میں لکھا.“ ایک دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں " تیرے خط کے شروع میں لکھا: 50, “ ایک اور خط مورخہ 19 / فروری 1879ء میں تحریر فرماتے ہیں "51 اور چوتھے خط کے شروع میں لکھا ہے: اس کے بعد ایک دوسرے خط مورخہ 10 / مئی 1879ء میں تحریر فرماتے ہیں 52 4.حضرت مرزا صاحب کے خطوط درج کر کے جو نتائج مولوی عبد الحق صاحب نے نکالے ہیں اُن میں سے ایک کا اندراج عنوان زیر نظر کے نمبر 1 میں درج کیا گیا ہے جبکہ دوسری بات جو موصوف ثابت کرنا چاہتے ہیں ملاحظہ ہو: مولوی عبدالحق صاحب کی ابتدائی عبارت کو درج کیا جاتا ہے جبکہ آگے کی عبارت کو اوپر درج کر دیا گیا ہے یعنی “ ان تحریروں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب مرحوم...دوسرے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب مرحوم کو حمایت و حفاظت اسلام کا کس قدر خیال تھا.یعنے خود تو وہ یہ کام کرتے ہی تھے مگر دوسروں کو بھی اس میں مدد دینے سے دریغ نہ کرتے تھے.چنانچہ جب مولوی احمد حسن صاحب امروہی نے اپنی کتاب تاویل القرآن شائع کی تو مولوی صاحب مرحوم نے بطور امداد کے سو روپیہ مصنف کی خدمت میں بھیجے.اس طرح جو لوگ حمایت اسلام میں کتابیں شائع کرتے تھے ان کی کسی نہ کسی طرح امداد کرتے تھے اور اکثر متعد د جلدیں ان کتابوں کی خرید فرماتے تھے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کی کتاب پیغام محمدی کی کئی سو جلدیں خرید کر دکن میں تقسیم کر دیں."53
براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام محولہ بالا چاروں خطوط کو ایک بار پھر پڑھ جائے اُن میں کیا کہیں 1.مولوی احمد حسن امر وہی کی کتاب تاویل القرآن کی اشاعت کے لئے بطور امداد سو روپیہ دینے کا 65 2 مولوی محمد علی صاحب کی پیغام محمدی کی کئی سو جلدوں کو خرید کر دکن میں تقسیم کرنے کا ذکر ہے ؟!! نہیں ! قطعاً نہیں !! تو مولوی عبد الحق صاحب ایسے محقق سے یہ نتائج کے استخراج میں بد حواسی کیوں سر زد ہوئی ہے؟ بات تو کر رہے ہیں حضرت مرزا صاحب کے متعلق اور اس میں مولوی احمد حسن امر و ہی اور مولوی محمد علی کی مالی امداد کا ذکر لے بیٹھے ہیں.در اصل مولوی چراغ علی نے جیسی امداد حضرت مرزا صاحب کو دی وہ صرف دس روپے کا نوٹ تھاویسی ہی امداد دوسرے حضرات کو امداد بھیجوائی ہے جو مالی ہی ہے نہ کہ علمی ہے.5.مولوی عبدالحق صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے پہلے خط کا آغاز یوں درج کیا ہے: “ آپ کا افتخار نامه محبت آمود عزور و دلایا."54 مولوی عبد الحق صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے دوسرے خط کا آغاز یوں درج کیا ہے: آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی، پر اب تک نہ کوئی عنایت نامہ نہ مضمون پہنچا، اس لئے مکرر تکلیف دیتا ہوں...55,, لیکن مولوی عبد الحق صاحب نے تیسرے خط کا آغاز یوں درج کیا ہے:.“فرقان مجید کے الہامی اور کلام الہی ہونے کے ثبوت میں...56 اور حضرت مرزا صاحب کے چوتھے خط کا اندراج مولوی عبدالحق صاحب نے یوں کیا ہے : کتاب ( براہین احمدیہ ڈیڑھ سو جز ہے..." 57" کیا پہلے اور دوسرے خط میں آغاز کے الفاظ کا درج کرنا ضروری تھا؟ اور تیسرے اور چوتھے خط میں آغاز کے الفاظ کا حذف کرنا کیوں ضروری تھا ؟! راقم الحروف کی رائے میں دراصل یہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دو خطوط لکھے گئے ہیں جن کو من مانے نتائج نکالنے کی خاطر مولوی عبد الحق صاحب نے نمبر 3 پر درج کردہ شرافت کی زبان استعمال کر کے اعتبار جما کر دھو کہ دیا ہے.اگر پہلے خط کے ساتھ تیسرے کو شامل کر دیا جائے اور دوسرے کو چوتھے خط کے پہلے لگا دیا جائے تو نہ تو تسلسل مضمون و عبارت میں فرق پڑتا ہے اور نہ ہی آغاز کے الفاظ اور تاریخ مخطوط ( نشان دہی پیر انمبر 2، اسی طرح مدد طلب کرنا اور مدد دینا ” نشاندہی نمبر 1) کا مسئلہ اٹھتا ہے.اس لئے مولوی عبد الحق صاحب کی اس دھوکہ دہی کو اُردو ادب کے حوالے سے جانچا جائے تو اسے جعل سازی کے زمرے میں شامل کیا جائے گا.جیسے کہ ماہرین لکھتے ہیں: اگر جان بوجھ کر کسی خاص مقصد سے کسی اور کے نام سے کوئی تحریر لکھی جائے تو اسے جعل سازی کہا جائے گا."58 کیونکہ مولوی عبد الحق صاحب نے سوچے سمجھے چالا کی کے اقدام سے (جسے انگریزی میں Manoeuvering کہتے ہیں.) دو خطوط کی عبارت کو من مانے نتائج اخذ کرنے کے لئے دھو کہ دہی سے چار خطوط میں بدل دیا ہے.مولوی عبد الحق صاحب جو تدوین متن میں دسیوں کتابوں پر حاشیے چڑھا چکے ہیں اور اُن کی تغلیط بھی ہو گئی جن کا اِس مضمون میں ایک مقام پر ذکر بھی کیا گیا ہے.ہندی کی چندی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 66 نکالتے نکالتے خود اپنے دام میں ایک بار پھر پھنس گئے ہیں.خد اتعالیٰ نے اُن سے اس عمد أجسارت دھو کہ دہی، جعل سازی کا کیا سلوک کرتا ہے ؟ اس بارے میں ہم موصوف کے حق میں کوئی اچھی رائے قائم نہ کر سکنے پر مجبور ہیں.6 مولوی عبد الحق زیر نظر خطوط کا رابطہ قائم کرنے کی خاطر ایک جگہ لکھتے ہیں ایک دوسرے خط میں فرماتے ہیں 59 اور دوسری جگہ تحریر لکھتے ہیں “ اس کے بعد ایک دوسرے خط مورخہ 10/ مئی 1879ء میں تحریر فرماتے ہیں ”مولوی صاحب نے خطوط چار درج کئے ہیں لیکن دو مقامات پر لکھتے ہیں کہ “ دوسرے ”خط میں، جبکہ موصوف کو پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے میں لکھنا چاہئے تھا.لیکن آپ نے ایسے نہیں کیا جس سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ آپ نے دو خطوط کو چار خطوط بنا دیا ہے.زیر نظر مضمون کے نمبر 2-4 میں بعنوان “زیر بحث خطوط حضرت مرزا صاحب اور مشفق خواجہ صاحب کے راقم الحروف کے نام مذکورہ خط میں موصوف نے بتایا تھا کہ انہوں نے خود مولوی عبد الحق سے ایک مرتبہ پوچھا تھا.انہوں نے یہی بتایا تھا کہ یہ کاغذات مرحوم (مولوی چراغ علی.ناقل) کے بھتیجے کی تحویل میں تھے.وغیرہ وغیرہ.مولوی عبد الحق صاحب کے بارے میں محولہ بالا نتائج کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے.وہی قاتل 6 6 وہی منصف ٹھہرے وہی شاہد اقربا میرے کریں خون کا دعوی کس لیکن مولوی عبد الحق صاحب کی دھوکہ دہی کے دلائل خود ان ہی کے بنائے ہوئے فریب میں موجود ہیں جن کی نشان دہی اوپر کی گئی ہے.علاوہ ازیں تصنیف و تالیف میں بھی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے تھے جس کی مثالیں بھی اس مضمون میں بتفصیل دی گئی ہیں.ویسی ہی مثالوں میں زیر نظر مثال کا بھی اضافہ کر لیا جائے.7.اب اگر نمبر 4 پر دیئے گئے دلائل کی بناء پر خطوط کو دوبارہ ترتیب دیا جائے تو خطوط کی عبارت مقدمہ اعظم الکلام میں درج شدہ خطوط کے مطابق یوں بنے گی.(واللہ اعلم): پہلا مکتوب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (بمطابق مقدمہ اعظم الکلام...صفحہ 23 اور 25 جلد دوم) مورخہ 19 / فروری 1879ء بنام مولوی چراغ علی صاحب “ آپ کا افتخار نامہ محبت آمود...عز ورو د لایا.اگر چہ پہلے سے مجھ کو بہ نیت الزام خصم اجتماع براہین قطعیہ اثبات نبوت و حقیت قرآن شریف میں ایک عرصہ سے سر گرمی تھی مگر جناب کا ارشاد موجب گرم جوشی و باعث اشتعال شعلہ حمیت اسلام علی صاحبہ السلام ہوا اور موجب از یاد تقویت و توسیع حوصلہ خیال کیا گیا کہ جب آپ سا اولو العزم صاحب فضیلت دینی و دنیوی کا نہ دل سے حامی ہو، اور تائید دین حق میں دل گرمی کا اظہار فرمادے تو بلا شائبہ ریب اس کو تائید غیبی خیال کرنا چاہئے جزاکم اللہ نعم الجزاء...ماسوائے اس کے اگر اب تک کچھ دلائل یا مضامین آپ نے نتائج طبع عالی سے جمع فرمائے ہوں تو وہ بھی مرحمت ہوں.فرقان مجید کے الہامی اور کلام الہی ہونے کے ثبوت میں آپ کا مدد کرنا باعث ممنونی ہے نہ موجب ناگواری.میں نے بھی اس بارے میں ایک چھوٹا سا رسالہ تالیف کرنا شروع کیا ہے اور خدا کے فضل سے یقین کرتا ہوں کہ عنقریب چھپ کر شائع ہو جائے گا.آپ کی مرضی ہو تو وجوہات صداقت قرآن جو آپ کے دل پر القا ہوں میرے پاس بھیج دیں، تا اُسے رسالہ میں حسب موقع اندراج پا جائے یا
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 67 سفیر ہند میں....لیکن جو براہین ( جیسے معجزات وغیرہ) زمانہ گذشتہ سے تعلق رکھتے ہوں اُن کا تحریر کرناضروری نہیں، کہ منقولات مخالف پر حجت قویہ نہیں آسکتیں.جو نفس الامر میں خوبی اور عمدگی کتاب اللہ میں پائی جائے یا جو عند العقل اُس کی ضرورت ہو وہ دکھلانی چاہئے.بہر صورت میں اُس دن بہت خوش ہوں گا کہ جب میری نظر آپ کے مضمون پر پڑے گی.آپ بمقتضا اس کے کہ انگریمُ اِذَا وَعَدَ وفا مضمون تحریر فرماویں.لیکن کوشش کریں کہ کیف ما اتفق مجھ کو اس سے اطلاع ہو جائے.اور آخر میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا ہم کو اور آپ کو جلد تر توفیق بخشے کہ منکر کتاب الہی کو دندان شکن جو اب سے ملزم اور نادم کریں، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ " دوسرا مکتوب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (بمطابق مقدمہ اعظم الکلام - صفحہ 23,24,25 جلد دوم) مورخہ 10 / مئی 1879ء بنام مولوی چراغ علی صاحب آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی، پر اب تک نہ کوئی عنایت نامہ نہ مضمون پہنچا، اس لئے آج مکرر تکلیف دیتا ہوں کہ براہ عنایت بزرگانہ بہت جلد مضمون اثبات حقانیت فرقان مجید طیار کر کے میرے پاس بھیج دیں، اور میں نے بھی ایک کتاب جو دس حصے پر مشتمل ہے تصنیف کی ہے اور نام اس کا براہین احمدیہ علی حقانیة کتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیۃ رکھا ہے ، اور صلاح یہ ہے کہ آپ کے فوائد جرائد بھی اُس میں درج کروں اور اپنے مختصر کلام سے اُن کو زیب و زینت بخشوں.سو اس امر میں آپ توقف نہ فرماویں اور جہاں تک جلد ہو سکے مجھ کو مضمون مبارک اپنے سے ممنون فرماویں.” یہ فقرات مولوی عبد الحق صاحب کے ہیں یعنی “ اس کے بعد پنجاب میں آریوں کے شور و شغب اور عداوت اسلام کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ ”) “ دوسری گذارش یہ ہے کہ اگرچہ میں نے ایک جگہ سے وید کا انگریزی ترجمہ بھی طلب کیا ہے اور امید کہ عنقریب آ جائے گا اور پنڈت دیانند کی وید بھاش کی کئی جلدیں بھی میرے پاس ہیں ، اور ان کا ستیارتھ پر کاش بھی موجود ہے ، لیکن تاہم آپ کو بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ کو جو اپنی ذاتی تحقیقات سے اعتراض ہنود پر معلوم ہوئے ہوں یا جو وید پر اعتراض ہوتے ہوں، ان اعتراضوں کو ضرور ہمراہ دوسرے مضمون اپنے کے بھیج دیں.لیکن یہ خیال رہے کہ کتب مسلمہ آریہ سماج کی صرف دید اور منو سمرت ہے، اور دوسری کتابوں کو مستند نہیں سمجھتے بلکہ پرانوں وغیرہ کو محض جھوٹی کتابیں سمجھتے ہیں.میں اس جستجو میں بھی ہوں کہ علاوہ اثبات نبوت حضرت پیغمبر علی ایم کے ہنود کے وید اور اُن کے دین پر بھی سخت سخت اعتراض کئے جائیں کیونکہ اکثر جاہل ایسے بھی ہیں کہ جب تک اپنی کتاب کاناچیز اور باطل اور خلاف حق ہونا ان کے ذہن نشین نہ ہو تب تک گو کیسی ہی خوبیان اور دلائل حقانیت قرآن مجید کے اُن پر ثابت کئے جائیں.اپنے دین کی طرفداری سے باز نہیں آتے اور یہی دل میں کہتے ہیں کہ ہم اس میں گزارہ کر لیں گے.سو میرا ارادہ ہے کہ اس تحقیقات اور آپ کے مضمون کو بطور حاشیہ کے کتاب کے اندر درج کر دوں گا.” “ کتاب ( براہین احمدیہ ) ڈیڑھ سو جز ہے جس کی لاگت تخمینا نو سو چالیس روپیہ ہے، اور آپ کی تحریر محققانہ ملحق ہو کر اور بھی زیادہ ضخامت ہو جائے گی." نوٹ بابت مکتوبات جناب یعقوب علی عرفانی صاحب نے مولوی عبد الحق صاحب کے خطوط کی ترتیب کے مطابق جو تاثرات “حیات احمد صفحہ 377 اور 378 پر دیئے ہیں اُن ہی کو یہاں کم و بیش دو ہرایا جاتا ہے.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 68 افسوس کہ مولوی عبد الحق صاحب نے ان مکتوبات کو تمام و کمال درج نہیں کیا ورنہ من میں تھی کہ ان کے اوپر کافی روشنی پڑتی.جس قدر اقتباس مولوی صاحب نے دیا ہے اس سے بھی یہ بات بخوبی پایہ ثبوت کو پہونچ جاتی ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف میں کوئی علمی امداد مولوی چراغ علی صاحب نے نہیں دی مکتوب اول کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے براہین احمدیہ ایسی کتاب کی تصنیف کے متعلق حضرت کو کوئی خط لکھا ہو اور اس میں اعانت کتاب کا وعدہ کیا ہے حضرت نے اس کے جواب میں جو خط لکھا اس میں دلائل یا مضامین وغیرہ کے بھیجنے کا ذکر بھی کیا.لیکن وہ مضمون یا اس خط کا جواب تک بھی مولوی صاحب نے نہیں دیا جیسا کہ صاف لکھا ہے: “آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی پر اب تک نہ کوئی عنایت نامہ نہ مضمون پہونچا.یہ فقرہ توجہ طلب ہے اس میں کتاب براہین کی تالیف کا ذکر ہے اور مولوی صاحب اگر کوئی مضمون لکھیں تو اس کے درج کرنے کا وعدہ کیا لیکن کس طرح: صلاح یہ ہے کہ آپ کے فوائد جرائد بھی اس میں درج کروں اور اپنے محقر کلام سے ان کو زیب وزینت بخشون." اس کا مطلب صاف ہے کہ میں بطور حاشیہ کے اس پر خود بھی کچھ لکھوں گا.چنانچہ اس کی صراحت اس فقرہ میں ہے کہ : “ اس تحقیقات اور آپ کے مضمون کو بطور حاشیہ کے کتاب کے اندر درج کر دوں گا.اور اسے بھی مولوی چراغ علی صاحب کی مرضی پر چھوڑا ہے یعنی “ آپ کی مرضی ہو تو...میرے پاس بھیج دیں." اور اصلی حقیقت یہ ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب کو اس خط و کتابت کی بناء پر کچھ لکھنے کی توفیق نہیں ملی.خود ان مکتوبات کے اندرونی شواہد ایسے زبر دست ہیں کہ کسی محقق کے لئے انکار کی گنجائش نہیں.مولوی چراغ علی صاحب اگر کوئی مضمون لکھتے تو حضرت اسے حاشیہ میں ضرور درج کر دیتے یا بطور ضمیمہ وہ اصل کتاب کا جزو قرار دے کر اسے شائع نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ آپ کے مکتوبات سے ظاہر ہے.مولوی چراغ علی صاحب اگر کچھ بھی لکھتے تو حضرت اقدس کی شکور فطرت اس کے اظہار سے مضائقہ نہ کرتی.نواب اعظم یار جنگ کی نہایت حقیر امداد کا جو انہوں نے کتاب کی اعانت (بوجہ چندہ اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا) کتاب کی خریداری کی صورت میں کی شکر یہ ادا کیا ہے.وہ تو ایک بڑے آدمی تھے آپ نے ان لوگوں کا بھی نام بنام شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے کچھ آنے کتاب کی امداد میں دیئے تھے.غرض یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف میں کسی شخص کی علمی یا دماغی قوت کا دخل نہیں.اس سلسلہ میں راقم الحروف خطوط کی ترتیب نو درج بالا کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ پہلے خط میں ذکر ہے “اجتماع بر این قطعیہ اثبات نبوت حقیقت قرآن شریف کا اور دوسرے خط میں اسی کا ذکر ہے یعنی “ آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی”.اور یہی دو خطوط ہیں جن کو مولوی عبد الحق صاحب نے توڑ مروڑ کر چار بنا کر من مانے نتائج نکالے ہیں.8.کتاب براہین احمدیہ کے مضامین و ضخامت کا صرف حضرت مرزا صاحب کے خطوط منقولہ مقدمہ اعظم الکلام...میں ہی ذکر نہیں بلکہ اس کا ذکر حضرت اقدس کے اشتہارات جو 1879ء میں اخبار “ منشور محمدی ” (بنگلور.میسور) سے شائع ہوتا تھا میں بھی ہے.ملاحظہ ہوں حضرت مرزا صاحب کے وہ اشتہارات اور خطوط کے متعلقہ مقامات: مجموعہ اشتہارات
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 69 (1) “ ایک کتاب جامع دلائل معقوله درباره اثبات حقانیت قرآن شریف صدق نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم جس میں ثبوت کامل منجانب کلام اللہ ہو نے قرآن شریف اور سچا ہو نے حضرت خاتم انبیاء کا اس قطعی فیصلہ سے گیا ہے.کہ ساتھ اس کتاب کے ایک اشتہار بھی بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ کے اس مراد سے منسلک ہے کہ اگر کوئی صاحب جو حقانیت اور افضلیت فرقان شریف سے منکر ہے ، براہین مندرجہ اس کتاب کو توڑ دے یا اپنی الہامی کتاب میں اسی قدر دلائل یا نصف اس سے یا ثلث اس سے یاربع اس سے یا شمس اس سے ثابت کر کے دکھلا دے جس کو تین منصف مقبولہ فریقین تسلیم کر لیں تو مشتہر اس کو بلا عذر اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض ودخل دے دیگا.بوجہ منکرانہ اصرار پنڈت دیانند صاحب اور ان کے بعض سیکرٹریوں کی تصنیف ہوئی ہے اور نام اس کتاب کا مندرجہ حاشیہ میں رکھا گیا ہے: (حاشیہ میں درج ہے.ناقل ) بر ابين الاحمدیہ علی حقانیت کتاب اللہ الفرقان والنبوة المحمدیہ اخبار منشور محمدی (بنگلور میسور ) مورخه ۵ / جمادی الاولیٰ ۱۲۹۶ھ و مطابق ( 16 مئی 1879ء) مجموعه اشتہارات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک اشتہار میں پنڈت دیا نند اور اُن کی اتباع کرنے والے ایک صاحب کا ذکر کر کے تحریر فرماتے ہیں: (2) “ ایک صاحب نے ان میں سے اخبار سفیر ہند میں بطلب ثبوت حقانیت فرقان مجید کئی دفعہ ہمارے نام اشتہار بھی جاری کیا ہے.اب ہم نے اس کتاب میں ان کا اور ان کے اشتہاروں کا کام تمام کر دیا ہے اور صداقت قرآن و نبوت کو بخوبی ثابت کیا.پہلے ہم نے اپنی کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا.بغرض تحمیل تمام ضروری امروں کے نو حصے زیادہ کر دیئے.جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑھ سو جز ہو گئی ہے.ہر ایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے ، تو چورانوے روپیہ صرف ہوتے ہیں.پس کل حصص کتاب نو سو چالس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے."62 (3)...اس غرض سے کتاب براہین احمد یہ تالیف پائی ہے.جس کی 37 بجز چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور اس کا خلاصہ مطلب ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے..." “...اصلی مدعا خط جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں.یہ ہے دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے.اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشین گوئیوں کی شہادت بھی پائی جاتی ہے...63 (4) “....یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے کہ جو منجملہ تین سو جزو کے قریب ۳۷ جزو کے چھپ چکی ہے 64" 63", (5) “بعالی خدمت تمام معزز اور بزرگ خریداران کتاب براہین احمدیہ کے گذارش کی جاتی ہے کہ کتاب ہذ ابڑی مبسوط کتاب ہے.یہاں تک کہ جس کی ضخامت سو جز سے کچھ زیادہ ہو گی.اور تا اختتام طبع وقتا فوقتا حواشی لکھنے سے اور بھی بڑھ جائے گی...65,9
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام مخطوط حضرت مرزا صاحب محولہ مقدمہ اعظم الکلام.....70 (1) کتاب براہین احمدیہ ڈیڑھ سو جز جس کی لاگت تخمینا نو سو چالیس روپیہ ہے اور آپ کی تحریر محققانہ ملحق ہو کر اور بھی زیادہ ضخامت ہو جائے گی."66 (2) بہت جلد مضمون اثبات حقانیت فرقان مجید طیار کر کے میرے پاس بھیج دیں، اور میں نے بھی ایک کتاب جو دس حصے پر مشتمل ہے تصنیف کی ہے اور نام اس کا براہین احمدیہ علی حقانیة کتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیہ رکھا ہے اور صلاح یہ ہے کہ آپ کے فوائد جرائد بھی اُس میں درج کروں اور اپنے محقر کلام سے اُن کو زیب و زینت بخشوں...67 1879ء ہی میں حضرت مرزا صاحب نے صداقت و حقانیت قرآن مجید اور نبوت محمدیہ وغیرہ امور کو براہین احمدیہ میں درج کر لیا تھا جن کا ذکر حضرت اقدس نے اشتہارات میں ذکر فرمایا ہے اور اُن کی ایک جھلک خطوط مذکورہ اعظم الکلام ” میں بھی پائی جاتی ہے جن کی ضخامت ڈیڑھ سو جز ہو گئی تھی اور اسی کا ذکر خطوط مذکورہ مقدمہ اعظم الکلام میں بھی ہے.ان اجزاء کے صفحات کی تعداد 2500 پچیس سو صفحات ہے.ان کا شمار فاضل مصنف ( بزبان انگریزی) جناب اے.آر.درد صاحب نے’Life of Ahmad ، پارٹ 1 (1948ء) مطبوعہ تبشیر پبلیکیشنز میں ان الفاظ سے کیا ہے: A portion of the book (probably 2500 pages) seems to have been completed by May, 1879, when a notice concerning it was published in the Zameea Ishaat-us- Sunna...'” (page: 70) (ترجمہ) “ اس کتاب (یعنی براہین احمدیہ ) کا ایک حصہ مئی 1879ء میں مکمل ہو چکا تھا.جس کے تقریباً 2500 صفحات تھے.جب ایک اشتہار اس کی (یعنی براہین احمدیہ کی اشاعت کی بابت ضمیمہ “ اشاعۃ السنہ میں شائع ہوا تھا...” ہمارے ہاتھوں میں جو شائع شدہ حصہ براہین احمدیہ ہے وہ صرف 673 صفحات پر مشتمل ہے اور باقی کے صفحات کسی طرح جل گئے تھے جس کا ذکر باب زیر نظر 9-4 میں آچکا ہے.اور جو حصہ ہمارے سامنے ہے اُس کا موازنہ مضمون زیر نظر میں بتفصیل کر دیا گیا ہے.جس سے اظہر من الشمس ثابت ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب کے یہ عجلت نکالے گئے نتائج فقط بد دیانتی پر مشتمل ہیں اور ان کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے.4-12- مقدمہ اعظم الکلام میں حضرت مرزا صاحب کے نقل کردہ الفاظ کتاب (براہین احمدیہ ) ڈیڑھ سو جز ہے ”مولوی عبدالحق کے دام تزویر کا ایک اور توڑ مولوی عبد الحق صاحب نے مقدمہ اعظم الکلام میں مولوی چراغ علی کے نام حضرت مرزا صاحب کے جن خطوط کا اندراج کیا ہے ان پر درج ذیل تاریخیں ہیں.1 19 فروری 1879 اور 68 1879 10 2 1 حضرت مرزا صاحب نے مولوی چراغ علی کا پہلا ذکر ایک اشتہار مطبوعہ سفیر ہند امر تسر اور منشور محمدی” بنگلور 16 / مئی 1879 ء میں کیا.اسی اشتہار کے بارے میں شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی "حیات احمد " جلد دوم نمبر اول مطبوعہ
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 71 1931ء کے صفحہ 14 پر لکھتے ہیں " براہین احمدیہ کے عملی اور مستقل کام کا آغاز 1878ء کے آخر اور 1879ء کے اوائل میں ہوا کو (کذا.کہ ) اس کے اشتہارات 1877ء کے آخر میں ہونے لگے تھے جیسا کہ اس اشتہار سے ( جو میں نے حاشیہ میں اخبار منشور محمدی مورخہ 5 جمادی الاولی 1296ھ سے لیکر درج کیا ہے ) ظاہر ہوتا ہے.لیکن با قاعدہ کام 1879ء میں ہونے لگا لہند انا چیز کی رائے میں یہ اشتہار ان خطوط سے قبل کے زمانے کا ہے اگر چہ تاریخ اشاعت بعد کی ہے.اس کا ذ کر اشتہار کے فٹ نوٹ میں کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: مکرر بڑی شکر گزاری سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مولوی چراغ علی خاں صاحب معتمد مدار المهام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن نے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنے کرم ذاتی و ہمت اور حمایت و حمیت اسلامیہ سے بوجہ چندہ اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے.69 " 2 دوسر اذکر حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک اشتہار بصورت اعلان 3 دسمبر 1879ء (مطبوعہ اخبار سفیر ہند 20دسمبر 1879ء ) میں مولوی چراغ علی صاحب کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے.میں اس اعلان میں مندرجہ حاشیہ صاحبان کا بدل مشکور ہوں کہ جنہوں نے سب سے پہلے اس کتاب کی اعانت کے لیے بنیاد ڈالی اور خریداری کتب کا وعدہ فرمایا.ود 70 اور اعلان کے متن میں ایک چوکھٹ بنا کر گیارہ نام درج کیے ہیں جن میں مولوی چراغ علی صاحب کا نام اس طرح درج ہے: 3 : جناب مولوی محمد چراغ علی خان صاحب نائب معتمد مدار المهام دولت آصفیه حیدر آباد دکن 71 -4 نمبر 2 پر درج 20 دسمبر 1879ء والے اشتہار میں حضرت مرزا صاحب نے تحریر فرمایا تھا کہ : “ یہ کتاب جنوری 1880 میں زیر طبع ہو کر اس کی اجراء اسی مہینہ یا فروری میں شائع اور تقسیم ہونی شروع ہو جائے گی." وو 72 اور اس کے بعد اشتہار ٹائیٹل براہین احمدیہ جلد اول 1880ء مطبوعہ سفیر ہند امر تسر میں درج فرمایا کہ: بذریعہ اس اعلان کے بخدمت ان عالی مراتب خریداروں کے جن کے نام نامی حاشیہ میں بڑے فخر سے درج ہیں...73" اور پچھلے اعلان کی طرح اس اعلان میں بھی حضرت اقدس نے چوکھٹا بنا کر مولوی چراغ علی صاحب کا نام اس طرح درج کیا ہے: اور پھر : : جناب مولوی محمد چراغ علیحان صاحب نائب معتمد مدار المهام دولت آصفیه حیدر آباد دکن ) 74" براہین احمدیہ حصہ اول مطبوعہ سفیر ہند پر لیں امر تسر 1880ء میں “ التماس ضروری از مولف کتاب " کے عنوان سے کچھ احوال کتاب و غیره درج کر کے چوتھے صفحے پر درج فرمایا: فہرست معاونین کی کہ جنہوں نے ہمدردی دینی سے اشاعت کتاب براہین احمدیہ میں اعانت کی اور خریداری کتابوں سے ممنون اور مشکور فرمایا.” اور تیسرے نمبر پر مولوی چراغ علی صاحب کا نام اس طرح درج کیا ہے :
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام (۳) جناب مولوی محمد چراغ علیخاں صاحب بہادر نائب معتمد مدار المهام.حیدر حیدر آباد دکن عه محض بطور اعانت کتاب 75 72 پہلے ہی اشتہاری تذکرہ 16 مئی 1879ء میں حضرت مرزا صاحب نے لکھا کہ بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنے کرم ذاتی اور حمایت و حمیت اسلامیہ سے بوجہ چندہ اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے ” دوسرے اشتہار 3 دسمبر 1879ء میں خریداری کتب کا وعدہ کا ذکر ہے.تیسرے اشتہار 1880ء (جنوری فروری میں مولوی چراغ علی صاحب کا نام “عالی مراتب خریداروں کے جن کے نام نامی حاشیہ میں بڑے فخر سے درج ہیں اور چوتھے موقعہ پر موصوف کا نام شاید جنوری / فروری 1880 تک "عر محض بطور اعانت طبع کتاب ” عطر دس روپیہ کی علامت ہے.ملاحظہ ہو مضمون بر صغیر ہند و پاک میں نصف صدی قبل ر قوم لکھنے کی قدیم طرز مکرم ملک جمیل الرحمن رفیق صاحب وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ ، روز نامہ الفضل، 7 فروری 2002ء) گویا بات مولوی چراغ کے دس روپیہ کے نوٹ بوجہ چندہ سے شروع ہوتی ہے اور دس روپیہ کی اعانت برائے طبع کتاب پر ختم ہوتی ہے.درمیان میں خریداری کتب کے وعدے اور خریداروں کے نام کے ساتھ بات آتی ہے لیکن آخر تک رقم دس روپیہ کے نوٹ پر ہی رہتی ہے.لیکن خطوط فروری / مئی 1879ء یا اشتہار ، اس کا باعث معلوم نہیں ہوتے کیونکہ جیسا کہ لکھا ہے :.(مولوی چراغ علی صاحب نے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنے کرم ذاتی و ہمت.دس روپے کا نوٹ بھیجوایا ہے.اگر یہ خطوط جو ان اشتہارون اور اعلانات سے قبل کے ہیں لیکن ایک اشتہار ان دونوں خطوط ( یعنی 19 فروری 1879ء اور 10 مئی 1879ء) سے بھی قبل کا ہے جس میں حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے براہین احمدیہ کا ذکر فرماتے ہوئے تحریر فرمایا: پہلے ہم نے اس کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا.بغرض تکمیل ضروری امور کے نو حصے اور زیادہ کر دیئے جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑھ سو جزو ہو گئی.ہر ایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے تو چورانوے روپیہ صرف ہوتے ہیں.پس کل حصص کتاب نو سو چالیس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے.76 یہ اشتہار مذکورہ مجموعہ میں مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے رسالہ / اخبار “ اشاعۃ السنة ” بابت اپریل 1879ء میں سے ہے جو مئی 1879ء میں چھپا تھا.اسی طرح مولوی عبدالحق صاحب نے 10 مئی 1879ء کے جس خط (محررہ 10 مئی 1879ء) کا اقتباس دیا ہے جو بغیر کسی Salutation) اظہار خلوص یا تعلق خاطر کے طور پر بولے یا لکھے جانے والے الفاظ، تسلیم، نیاز، آداب) کے بعد کتر بیونت درج کیا گیا ہے.جبکہ سب سے پہلے خط میں ایسے الفاظ موجود ہیں جیسے کہ مولوی عبد الحق صاحب نے درج کیا ہے.(خط حضرت مرزا صاحب بنام مولوی چراغ علی صاحب): آپ کا افتخار نامه محبت آمود عزور و دلایا 77 لیکن 10 مئی کے خط میں نہ تو تعلق خاطر کا اظہار ہے اور نہ ہی تاریخ کا اندراج ہے اور خط کی کل عبارت بغیر کسی نشان کمی بیشی کے یہ ہے:
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام کتاب ( براہین احمدیہ ) ڈیڑھ سو جز ہے جس کی لاگت تخمیناً نو سو چالیس روپیہ ہے ، اور آپ کی تحریر محققانہ ملحق ہو کر اور بھی زیادہ ضخامت ہو جائے گی." 78 ڈیڑھ سو جزو ” اور “نو سو چالیس روپے ” کی حد تک تو مذ کورہ بالا اشتہار اور خط میں مطابقت پائی جاتی ہے.73 لیکن جیسا کہ ہمارا خیال ہے مولوی عبدالحق صاحب نے نتائج کا استخراج بہ عجلت کیا ہے.نہ تو انہوں نے براہین احمدیہ کو دیکھا ہے جس کے چاروں حصوں کے صفحات بمع اشتہارات وغیرہ 673 ہیں.اور نہ ہی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا کی ہے کہ ڈیڑھ سو جز ہوتے کتنے ہیں؟ ایک دوسرے مقام پر حضرت مرزا صاحب ایک اشتہار میں درج فرماتے ہیں: یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے جو کہ منجملہ تین سو جز کے قریب 37 جز کے چھپ وو چکی ہے، ظاہر ہوتے ہیں.79 شاید ابھی تک “ تین سو جز کے قریب 37 جزو کے چھپ چکی ہے " کی بات واضح نہ ہوئی ہو تو حضرت مرزا صاحب کے اسی اشتہار کے انگریزی ترجمے سے اس بات کو واضح کیا جاتا ہے جو اس اشتہار کی پشت پر چھپا تھا اور اسی مجموعہ اشتہارات میں شامل ہے جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے.حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اس کا انگریزی ترجمہ درج فرماتے ہیں جس کی ابتدا یوں درج کی گئی ہے : ON NOTICE VERNACULAR THE OF TRANSLATION REVERSE اور واوین میں درج کی گئی عبارت کا ترجمہ ہے: "...ALL THESE EVIDENCES WILL BE FOUND BY PERUSAL OF THE BOOK WHICH WILL CONSIST OF NEARLY 4800 PAGES OF WHICH ABOUT 592 PAGES HAVE BEEN PUBLISHED.1180 اب اس تحریر سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ : 37 جز بر ابر ہے 592 صفحات کے اسی طرح: 300 جز بر ابر ہیں 4800 صفحات کے.اور پھر براہین احمدیہ جو ہمارے ہاتھوں میں ہمارے سامنے ہے اُس کے گل صفحات 673 ہیں یعنی 37 جز بمع اشتہارات وغیرہ ( یعنی ایک جز برابر ہے 16 صفحات) اور جس خط کا حوالہ دے کر مولوی عبد الحق صاحب من مانے نتیجے نکالتے ہیں اُس میں تو یہ لکھا ہے: کتاب ( براہین احمدیہ ) ڈیڑھ سو جز ہے." جو اس لحاظ سے 150 جزو x 16 صفحات = 2400 صفحات ہوئے لیکن ہمارے سامنے جو کتاب ہے اُس کے کل صفحات 673 ہیں.مولوی عبد الحق صاحب اگر زندہ ہوتے تو اپنی اس بے دلیل بات کی وضاحت کرتے جو واقعات کے قطعی طور پر بر خلاف ہے.کم از کم موصوف براہین احمدیہ کے 2400-673 = 1727 صفحات کی وضاحت کرتے اور پھر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مدد لینے کا افسانہ تراشنے کا کوئی جواز گھڑتے اور وہ بھی 1727 صفحات سے متجاوز صفحات میں جن کے ساتھ مولوی چراغ علی کی تحریرات بھی دی جاتیں تو کوئی بات ہوتی.بلاریب حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی علیہ السلام نے کیا ہی سچ فرمایا تھاجو “ بر اہین احمدیہ کے مخالفوں کی جلدی ” کے بارے میں ہے اور مولوی عبد الحق صاحب نے بھی اپنی جلد بازی سے اپنے آپ کو براہین احمدیہ کے مخالفوں میں اپنی نادانی سے اس کو چہ سے نابلد محض ہونے کے باوجو د شامل کر لیا ہے.اور حضرت مرزا صاحب کی اس عبارت کے مصداق بن گئے ہیں.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 74 آپ فرماتے ہیں: خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں.افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتار دھار میں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے الہہ باطلہ.جب تک اس کتاب کا جواب نہ دیں تب تک بازاروں میں عوام کالانعام کے سامنے (چونکہ یہاں پر چھوڑے گئے الفاظ مولوی عبدالحق صاحب پر صادق نہیں آتے اس لیے انہیں چھوڑا جاتا ہے باقی کی تمام بات کے وہ مصداق ہیں.اور حضرت اقدس مرزا صاحب کی عبارت میں اضافہ کر کے لکھا جاتا ہے براہین احمدیہ میں مولوی چراغ علی سے مدد لینے کے دروغ بے فروغ کو ) بیان کرنا صفت حیا اور شرم سے دور سمجھیں.سچ سچ کہو اگر نہ منہ جہاں کو دکھاؤ گے یا نہیں ؟81 پھر بھی بنا تم ނ کچھ جواب حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ دوم میں تحریر " عرض ضروری بحالت مجبوری بھی درج کی ہے جو ہم بھی حضرت مرزا صاحب کی اتباع میں بحالت مجبوری درج کرتے ہیں کیونکہ مولوی عبد الحق صاحب مولوی چراغ علی پر فدا ہوئے جاتے ہیں اور اُنہیں وہ مقام دیتے ہیں جس کے وہ مستحق نہیں، لہذا اب یہ عبارت موصوف اور اُن کے متبعین کے لیے درج ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: ناچار اس اندیشہ سے کہ مبادا کوئی شخص ان کی واہیات باتوں سے دھوکا نہ کھاوے پھر کھول کر بیان کیا جاتا ہے کہ کتاب براہین احمدیہ بغیر اشد ضرورت کے نہیں لکھی گئی.جس مقصد اور مطلب کے انجام دینے کے لئے ہم نے اس کتاب کو تالیف کیا ہے اگر وہ مقصد کسی پہلی کتاب سے حاصل ہو سکتا تو ہم اسی کتاب کو کافی سمجھتے اور اسی کی اشاعت کے لئے بدل و جان مصروف ہو جاتے اور کچھ ضرور نہ تھا جو ہم سالہا سال اپنی جان کو محنت شدید میں ڈال کر اور اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ خرچ کر کے پھر آخر کار ایسا کام کرتے جو محض تحصیل حاصل تھا لیکن جہاں تک ہم نے نظر کی ہم کو کوئی کتاب ایسی نہ ملی جو جامع ان تمام دلائل اور براہین کی ہوتی کہ جن کو ہم نے اس کتاب میں جمع کیا ہے اور جن کا شائع کرنا بغرض اثبات حقیقت دین اسلام کے اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے تو نا چار واجب دیکھ کر ہم نے یہ تالیف کی اگر کسی کو ہمارے اس بیان میں شبہ ہو تو ایسی کتاب کہیں سے نکال کر ہم کو دکھا دے تا ہم بھی جانیں ور نہ بیہودہ بکو اس کرنا اور ناحق بندگان خدا کو ایک چشمہ فیض سے رو کنا بڑا عیب ہے." 2.اور اسی عیب کے مولوی عبد الحق صاحب مر تکب ہوئے ہیں اور اُن کے ناقلین علامہ اقبال، مولوی ابو الحسن ندوی، ڈاکٹر سید عبد اللہ ، قاضی جاوید و غیر ھم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں.حوالہ جات وو 82 1 - مقدمہ اعظم الکلام....“از مولوی عبد الحق صفحہ ۲ حاشیہ 2 - ایضاً صفحہ 14 4-1
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 4-2 3 - ایضاً صفحہ 17 4 - ایضاً صفحه 21 5 - ایضاً صفحہ 65 حاشیہ 6 - اقبال اور عبد الحق صفحہ 8 مرتبہ ڈاکٹر ممتاز حسن.شائع کردہ مجلس ترقی ادب کلب روڈلاہور طبع اول دسمبر 1973ء 7 - مکتوب جناب مشفق خواجہ صاحب بنام راقم الحروف مورخہ 18 جنوری 1975ء 4-3 8 مکتوب مرزا ظفر الحسن بنام راقم الحروف مورخہ 13 دسمبر 1982ء 9 مکتوب مرزا ظفر الحسن بنام را قم الحروف مورخہ 2 مارچ 1983ء 10 - مکتوب مرزا ظفر الحسن بنام راقم الحروف مورخہ 18 / اپریل 1983ء 4-4 11 - مکتوب ڈاکٹر سید عبد اللہ بنام راقم الحروف مورخہ 5 / اگست 1975ء 12- مقدمہ اعظم الکلام 13 - “سر سید سے اقبال تک صفحہ 57 مصنفہ قاضی جاوید مطبوعه نگارشات میاں چیمبر ز 3 ٹیمپل روڈ لاہور 14 - مقدمہ اعظم الکلام...صفحہ 23 حصہ دوم 15 - ایضاً صفحہ 23 4-6 16 - ایضاً صفحہ 23 17 - مقدمہ اعظم الکلام صفحہ 23-24 حصہ دوم “..18 - ایضاً صفحه 25 "24-23 19 - ( ایضا صفحہ 25).(مکتوب مورخہ 19 / فروری 1879) 20 - ايضاً صفحه 25 21 - براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 278-272 22 - مقدمہ اعظم الکلام...صفحہ 25 23 - مقدمہ اعظم الکلام....صفحہ 25 4-7 4-8 75
76 براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 24 - حیات احمد جلد اول صفحه 381 مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی مطبوعه راست گفتار پر یس ہال بازار امر تسر 25 ایضاً صفحہ 382 26 - ایضاً صفحہ 379-380 27- سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 288 مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (35) 28 - سیرت المہدی صفحہ 93 مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 29 - حیات احمد جلد دوم صفحه 23-24 مطبوعہ شیخ غلام حیدر پر نظر امر تسر 1931ء 30 - اصطلاحات تدوین متن ، ڈاکٹر محمد خان اشرف و عظمت رباب، سنگ میل پبلیکیشن.لاہور 2011ء صفحہ 149-148 وضاحت کیلئے متعلقہ عبارت درج ہے "...پہلی تحریر کو "مسودہ " کہا جاتا ہے.معنی "سیاہ کیا ہو ا " اس کے بعد وہ (مصنف) اس پر کئی دفعہ نظر ثانی کرتے ہیں اور آخر اپنی تحریر کو اس شکل میں لاتے ہیں جس میں وہ پیش کرنا چاہتے ہیں.مسودہ کی ضروری تصحیح و ترمیم ، اصلاح و اضافے کے بعد اس کی صاف نقل تیار ہوتی ہے.اس کو " مبیضہ " کہتے ہیں یعنی "سفید کیا ہوا".-31 مجموعہ اشتہارات “ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 16 32 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 404-406 33 - براہین احمدیہ جلد چہارم صفحہ 666-667 34 – “حیات احمد “صفحہ 391 35 - “حیات احمد صفحہ 392 36 - صفحہ 394-395 “ حیات احمد “ 37 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 484-485 38 - مقدمہ اعظم الکلام...جلد 2 صفحہ 23 39 - مقدمہ اعظم الکلام...جلد 2 صفحہ 23 40 - مقدمہ اعظم الکلام..جلد 2 صفحہ 24-25 41 - مقدمہ اعظم الکلام..جلد 2 صفحہ 25 42 - ایضاً صفحه 25 43 - ایضا صفحہ 25 44 - ايضاً صفحه 25 4-10
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 45 - ایضاً صفحه 25 46 - ايضاً صفحه 25 -47 مقدمہ اعظم الکلام جلد دوم صفحہ 23 48 - ایضاً صفحه 26 49 - ايضاً صفحہ 23 50 - ايضاً صفحہ 23 51 - ایضاً صفحه 25 52 - ایضاً صفحہ 25 53 - ایضا صفحہ 26 54 - ایضاً صفحہ 23 4-11 55 - اليضا صفحہ 23-24 56 - ایضا صفحہ 25 57 - ایضاً صفحہ 25 58 ملاحظہ ہو کتاب متنی تنقید مصنفہ خلیق انجم صفحہ 198 شائع کردہ انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 2006ء 59 - ایضاً صفحہ 23 آخری سطر 60 - ایضاً صفحہ 25 سطر نمبر 17 61 - مجموعہ اشتہارات.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 23-24و “حیات احمد “ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 358 تا 360 62 - مطبوعہ “ اشاعۃ السنہ “.مولوی محمد حسین بٹالوی.اپریل 1879ء مطبوعہ مئی 1879ء (بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب صفحہ 16-17 63 - ایضاً صفحه 25 64 - ایضاً صفحه 28 65 - اشتہار براہین احمدیہ جلد اول 1880ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات صفحہ 31 66 - مقدمہ “اعظم الکلام “ جلد 2 صفحہ 25 67 - مقدمہ “ اعظم الکلام “ جلد 2 صفحہ 24 4-12 77
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 68.مقدمہ اعظم الکلام صفحہ 25 78 69.مجموعہ اشتہارات - حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب صفحہ 24 - اور - “ حیات احمد جلد اول مر تبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 360 70.مجموعہ اشتہارات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 19 71.ایضاً صفحہ 18 72- ایضاً صفحہ 19 73.ایضا صفحہ 31 74.ایضا صفحہ 32 75.ایضاً صفحہ 37-38 76.مجموعہ اشتہارات.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 16-17 77.مقدمہ اعظم الكلام...صفحہ 23 78.ایضاً صفحہ 25 79.مجموعہ اشتہارات.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 28 80.مجموعہ اشتہارات.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ نمبر 30 81.براہین احمدیہ.حصہ دوم صفحہ 56-57 82.براہین احمدیہ.حصہ دوم.صفحہ 64-65
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام باب پنجم : حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریرات اور مولوی چراغ علی صاحب.عمومی موازنه 79 5-1-حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور سرسید اور ان کے رفقاء کے نظریات / عقائد مولوی عبد الحق صاحب اردو زبان کے ذریعے سے سرسید کے معنوی جانشین تھے.1 مسلمانوں کا روحانی مر تبہ بلند کرنے کے پہلو علی گڑھ تحریک سے یکسر غائب تھا.اور یہی حال سرسید کے دیگر رفقاء کا تھا جن میں مولوی چراغ علی صاحب بھی شامل تھے.جب مولوی عبد الحق صاحب مولوی چراغ علی کی بابت لکھیں گے تو نتائج اظہر من الشمس ہیں.سرسید اور ان کے رفقاء کے نظریات اور حضرت مرزا صاحب کی تحریرات میں بنیادی طور پر فرق زمین اور آسمان کا ہے اور مولوی عبد الحق صاحب کا حضرت مرزا صاحب کے متعلق مد دوالا نظریہ ایک بودا اور نا قابل قبول بے بنیاد بات ہے.مثلاً جب سر سید احمد خان صاحب نے اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ دعا محض ایک عبادت ہے.ورنہ اس کی وجہ سے خدا اپنی قضا و قدر کو نہیں بدلتا.جو بہر حال اپنے مقررہ رستہ پر چلتی ہے تو اس پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ایک رسالہ “برکات الدعاء تصنیف کر کے شائع کیا اور اس میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ دعا محض عبادت ہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں خدا اپنی قضاء قدر کو بدل بھی دیتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اور اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسلامی تعلیم کے ماتحت ثابت کیا کہ اس بارے میں سرسید کا عقیدہ درست نہیں ہے.جب یہ کتاب چھپ کر تیار ہو گئی تو آپ نے اس کا ایک نسخہ سر سید کو بھی بھجوایا ، جس پر سرسید نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں معذرت کے طریق پر لکھا کہ “ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں اس لئے مجھ سے غلطی ہوئی اور جو کچھ آپ نے تحریر کیا ہے وہی درست ہو گا.3 کتاب مذکور میں جناب مرزا صاحب نے اپنی ایک دعائے مستجاب کا ذکر سر سید احمد خان صاحب کو مخاطب کر کے کیا ہے.جس کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ایک جگہ تحریر کرتے ہیں کہ میں نے سید احمد خان کو مخاطب کر کے اپنی کتاب “برکات الدعاء ” میں لکھا تھا کہ لیکھرام کی موت کے لئے میں نے دعا کی اور وہ دعا قبول ہو گئی ہے.سو آپ کے لئے جو قبولیت دعا کے منکر ہیں یہ نمونہ دعائے مستجاب کافی ہے مگر میری اس تحریر پر ہنسی کی گئی کیونکہ لیکھرام ابھی زندہ اور ہر طرح تندرست اور توہین اسلام میں سخت سر گرم تھا.بعد میں شخص مذکور 6 مارچ 1897ء کو پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہلاک ہو گیا.پنڈت لیکھرام وہی شخص ہے جس نے براہین احمدیہ کے جواب میں درج ذیل کتابیں لکھیں.1.تکذیب براہین احمدیہ جلد اول.2.تکذیب براہین احمدیہ جلد دوم.3.نسخہ خبط احمد یہ.4.ابطال بشارات احمدیہ.5 5-2- مولوی چراغ علی کی نظر میں قرآن سنت اور حدیث کا مقام ایک تقابلی مطالعہ مولوی چراغ علی قرآن سے استخراج نتائج اور قرآن کی تفسیر کے متعلق دیباچہ “ عظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ” میں لکھتے ہیں:.“ چھ ہزار آیات قرآنی میں سے صرف دو سو آیتیں دیوانی، فوجداری، مال، سیاست، عبادت اور رسوم مذہبی کے متعلق ہیں.ان معدودے چند آیات احکام سے بھی قانون کے ماخذ اولین ( قرآن ) کا تیسواں حصہ ایسا ہے جس کا قطعی النص ہو نا یقینی نہیں ہے.یہ کوئی
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 80 با قاعدہ اور مکمل قواعد نہیں ہیں.میرے خیال میں ان میں سے تین چوتھائی سے زیادہ صرف حروف واحد الفاظ اور ادھورے فقرے ہیں جن سے خلاف قیاس خیالی نتائج پید اکئے گئے ہیں اور جس کی کوئی صحیح تعبیر قانونی جائز نہیں رکھی جاسکتی." مولوی صاحب مزید اسی تسلسل میں لکھتے ہیں کہ :.“ یہ دو سو آیات قرآنی سول لاء کے متعلق کوئی خاص تعلیم یا محکم قواعد نہیں ہیں.ان میں سے بہت سے نتائج اٹکل پچو معلوم ہوتے ہیں...اور نہ اس نے (یعنی قرآن نے) سول لاء کے متعلق کوئی خاص قواعد وضع کئے ہیں..." 6 لیکن مولوی چراغ علی نے ان بہت سے " اٹکل پچو " نتائج میں سے کسی کا بھی حوالہ دے کر ثابت نہیں کیا ہے تاکہ ان کے اس ادعاء کا جائزہ ہی لیا جا سکے.مولوی چراغ علی کی اس متشکلک تحریر سے تو زیادہ سے زیادہ قرآن کا نعوذ باللہ بلا ضرورت ہونا ثابت ہو تا ہے !چہ جائیکہ اکمل کتاب کا ثابت ہونا.اس کے برعکس حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنی کتاب براہین احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :.“ قرآن شریف کی فصاحت بلاغت جن لوازم اور خصائص سے مخصوص ہے وہ ایک ایسا امر ہے جس کو دانشمند انسان سوچتے ہی یہ یقین دل سمجھ سکتا ہے کہ وہ پاک کلام انسانی طاقتوں کے احاطہ سے خارج ہے....قرآن شریف نے اپنی فصاحت اور بلاغت کو حریری اور فیضی وغیرہ انشا پر دازوں کی طرح فضول بیان کے پیرایہ میں ادا نہیں کیا.اور نہ کسی قسم کے لغو اور ہنرل یا کذب کو اس پاک کلام میں دخل ہے.بلکہ فرقان مجید نے اپنی فصاحت اور بلاغت کو صداقت اور حکمت اور ضرورت حقہ کے التزام سے ادا کیا ہے اور کمال ایجاز سے تمام دینی صداقتوں پر احاطہ کر کے دکھایا ہے.چنانچہ اس میں ہر یک مخالف اور منکر کے ساکت کرنے کے لئے براہین ساطعہ بھری پڑی ہیں اور مومنین کی تکمیل یقین کے لئے ہزار ہاد قائق حقائق کا ایک دریائے عمیق و شفاف اس میں بہتا نظر آرہا ہے.جن امور میں فساد دیکھتا ہے.انہیں کی اصلاح کے لئے زور مارا ہے.جس شدت سے کسی کو افراط یا تفریط کا غلبہ پایا ہے اس شدت سے اس کی مدافعت بھی کی ہے.جن انواع اقسام کی بیماریاں پھیلی ہوئی دیکھی ہیں.ان سب کا علاج لکھا ہے.مذاہب باطلہ کے ہر ایک وہم کو مٹایا ہے.ہر ایک اعتراض کا جواب دیا ہے کوئی صداقت نہیں جس کو بیان نہیں کیا.کوئی فرقہ ضالہ نہیں جس کار د نہیں لکھا.اور پھر کمال یہ کہ کوئی کلمہ نہیں کہ بلا ضرورت لکھا ہو.اور کوئی بات نہیں کہ بے موقع بیان کی ہو.اور کوئی لفظ نہیں کہ لغو طور پر تحریر پایا ہو".(نوٹ راقم الحروف: لیکن مولوی چراغ علی صاحب نے ان میں سے "بہت سے " کے بارے میں " اٹکل پچو " ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں اور مولوی عبدالحق صاحب ان کی تعریف میں رطب السان نظر آتے ہیں ! ) اور پھر باوصف التزام ان سب امور کے فصاحت کا وہ مرتبہ کامل دکھلایا جس سے زیادہ متصور نہیں اور بلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ کمال حسن ترتیب اور موجز اور مدلل بیان سے علم اولین اور آخرین ایک چھوٹی سی کتاب میں بھر دیا.تا کہ انسان جس کی عمر تھوڑی اور کام بہت ہیں بے شمار در دسر سے چھوٹ جائے اور تا اسلام کو اس بلاغت سے اشاعت مسائل میں مدد پہنچے اور حفظ کرنا اور یا د رکھنا آسان ہو." 7" مولوی چراغ علی صاحب قرآن کریم کی تعلیم کو جو سول لاء سے متعلق ہے اس کو کوئی محکم تعلیم نہیں سمجھتے بلکہ ان سے استخراج نتائج کو بھی اٹکل پچو قرار دیتے ہیں اس کے بر خلاف حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنی ایک اور کتاب میں رقم کرتے ہیں کہ :.قرآن شریف میں ایسے احکام جو دیوانی اور فوجداری اور مال کے متعلق ہیں دو قسم کے ہیں.ایک وہ جن میں سزا یاطریق انصاف کی تفصیل
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 81 ہے.دوسرے وہ جن میں ان امور کو صرف قواعد کلیہ کے طور پر لکھا ہے یا کسی خاص طریق کی تعین نہیں کی.اور وہ احکام اس غرض سے ہیں کہ تا اگر کوئی نئی صورت پید ا ہو تو مجتہد کو کام آویں...." آپ اس قرآنی تعلیم کا توریت اور انجیل سے یوں موازنہ کرتے ہیں:.افسوس کہ یہ ترغیب اور طرز تعلیم توریت میں نہیں پائی جاتی اور انجیل تو اس کامل تعلیم سے بالکل محروم ہے.اور انجیل میں صرف چند اخلاق بیان کئے گئے ہیں اور وہ بھی کسی ضابطہ اور قانون کے سلسلہ میں منسلک نہیں ہیں.اور یا در ہے کہ عیسائیوں کا یہ بیان کہ انجیل نے قوانین کی باتوں کو انسانوں کی سمجھ پر چھوڑ دیا ہے جائے فخر نہیں ہے بلکہ جائے انفعال اور ندامت ہے کیونکہ ہر ایک امر جو قانونِ کلی اور قواعد مرتبہ منتظمہ کے رنگ میں بیان نہ کیا جائے وہ امر کیسا ہی اپنے مفہوم کی رو سے نیک ہو بد استعمال کی رو سے نہایت بد اور مکر وہ ہو جاتا ہے.” 8" مولوی چراغ علی قرآنی تعلیم کو با قاعدہ اور مکمل قوائد نہیں سمجھتے مگر جناب مرزا صاحب کس زور اور تحدی سے رقمطراز ہیں:.اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے کہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو تیار ہیں." 2 اور یہ اس کتاب " براہین احمدیہ " کا حوالہ ہے جس کی موجب تخفیف کے طور پر مولوی عبد الحق اور موصوف کے اندھا دھند مقلدین نے ایک کچی بات کو لے کر رائی کا پہاڑ بنا دیا اور حضرت مرزا صاحب کو مولوی چراغ علی سے براہین احمدیہ کی تصنیف میں مضامین سے مدد لینے کی بات لکھ دی لیکن:.....مولوی چراغ علی نے اس مکتب کی بنیاد رکھی جس کو قانونی جدیدیت Legal Modernism کا نام دیا جاتا ہے.(تفصیلات کے لئے دیکھئے - 1883) The proposed legal political and social Reforms in the Ottomon Empire 1808) or Traditions of Islam, Guillaume, Oxford 1924) اگر انسانی موقف تبدیلی پذیر ہے اور واقعی تبدیل ہوتارہتا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ تشریعی اور قانونی عمل بھی اس تبدیلی سے متاثر ہوں.اس پہلو کے بارے میں مزید تفصیل ملاحظہ ہو راقم الحروف کے مضمون مطبوعہ جریدہ نمبر 33 (2005ء) کراچی یونیورسٹی لیکن....اس تحریک کا یہ عصر..ایک مستقل روایت نہ بن سکا...شاید اس کا ایک سبب یہ تھا کہ قریبی ماضی کے آثار ابھی طاقتور تھے اور ذہنی تبدیلی کے ساتھ سماجی تبدیلیوں کی رفتار سست تر تھی.10 یادر ہے یہ وہی مولوی چراغ علی ہیں جو قرآن پاک کے قوانین کو الکل بیچو بتاتے ہیں.(نعوذ باللہ ) مولوی چراغ علی اس روش میں سرسید کے پیر و خاص تھے اور سرسید انگریز کی تہذ یہی لڑائی میں انگریز کے کمانڈر تھے.سرسید کے اس رویے کے بارے میں سجاد باقر رضوی اپنے ایک مضمون“ سرسید، اکبر اور ہمارے تہذ یہی تقاضے ” میں لکھتے ہیں:.وہ خود ( یعنی سرسید ) انگریزی طرز زندگی اور انگریزی تہذیب سے اتنا متاثر ہوئے کہ انگریزوں کے کتوں کو ہندوستانیوں سے بر تر سمجھنے لگے.انگریزوں کی تہذ یہی فتح صرف اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ سیاسی فاتح تھے.سیاسی فاتح اکثر تہذ یہی غلام بن جاتے ہیں یوں کہئے کہ سیاسی طور پر مکمل فتح پانے کے بعد انگریز تہذ یہی لڑائی لڑے اور سرسید اس جنگ میں انگریزی فوج کے کمانڈر تھے.11 مولوی چراغ علی سنت اور حدیث میں کوئی مابہ الامتیاز امر نہیں دیکھتے.ان کے نزدیک عقیدۂ احادیث کی پیروی لازمی نہیں ہے.اس
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام موقف پر مولوی چراغ علی یہ دلیل دیتے ہیں:.82 جن محققین نے احادیث کو جمع کیا اور ان کی چھان بین کی ہے ان کا یہ قول ہے، کہ عموماً کیسی ہی مضبوط اور محکم اسناد کیوں نہ ہوں، احادیث پر اعتبار نہیں ہو سکتا، اور جو شے اس میں بیان کی گئی ہے ، اس کا یقینی علم اس سے حاصل ہو سکتا ہے.اس قول پر اگر خیال کیا جائے تو احادیث کے لئے معیار صداقت اور اصولِ عقلی کے قائم کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی، کیونکہ وہ بذات خود بالکل نا قابل اعتبار ہیں." 12 مولوی چراغ علی نے مذکورہ کتاب کے صفحہ 19 پر لکھا ہے کہ فرد فرد چند بزرگوں کو احادیث کے اس بڑے انبار کی چھان بین کا خیال پیدا ہوا.گویا یہ لوگ محقق ہوئے اور ان کے اسماء حاشیہ میں یہ درج ہیں محمد بن اسماعیل بخاری.مسلم بن الحجاج نیشاپوری، ابو داؤد السجستانی، ابو عیسی محمد ترمذی، ابو عبد الرحمان نسائی ، ابن ماجہ القزوینی.ان کو موصوف نے صحاح ستہ کے نام سے لکھا ہے.اس لفظ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ منطقی طور پر تو مولوی چراغ علی نے ان چھ افراد کے مرتبہ مجموعہ احادیث کو درست تو تسلیم کر لیا مگر ان کی طرف لفظ عموما کا استعمال کر کے اپنے ناقابل اعتبار ہونے کے فیصلے کو مشکوک کر دیا اور قول جس کا مولوی چراغ علی نے حوالہ دیا ہے معین نہیں ہے اور نہ ہی کسی کتاب کی طرف اشارہ ہے جس سے یہ اخذ کیا گیا ہے.اسے مولوی صاحب کی حد سے بڑھی ہوئی اسلامی بیزاری کا نام دیا جا سکتا ہے.اس کے بر عکس حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب سنت کو مقدم رکھتے ہیں اور حدیث کو ثانوی درجے پر.آپ اپنی کتاب "شہادت القرآن " میں بیان کرتے ہیں کہ :.در حقیقت یہی ایک بھاری غلطی ہے جس نے اس زمانہ کے نیچریوں کو صداقتِ اسلام سے بہت ہی ڈور ڈالدیا.وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا اسلام کی وہ تمام سنن اور رسوم اور عبادات اور سوانح اور تواریخ جن پر حدیثوں کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ صرف چند حدیثوں کی بنا پر ہی قائم ہیں حالانکہ یہ اُن کی فاش غلطی ہے بلکہ جس تعامل کے سلسلہ کو ہمارے نبی صلعم نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا تھا وہ ایسا کروڑہا انسانوں میں پھیل گیا تھا کہ اگر محدثین کا دُنیا میں نام ونشان بھی نہ ہوتا تب بھی اس کو کچھ نقصان نہ تھا.یہ بات ہر ایک کو ماننی پڑتی ہے کہ اس مقدس معلم اور مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی باتوں کو ایسا محدود نہیں رکھا تھا کہ صرف دو چار آدمیوں کو سکھلائی جائیں اور باقی سب اس سے بے خبر ہوں اگر ایسا ہوتا تو پھر اسلام ایسا بگڑتا کہ کسی مُحدّث وغیرہ کے ہاتھ سے ہرگز درست نہیں ہو سکتا تھا." اپنی ایک اور کتاب میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب لکھتے ہیں کہ :.“ ان حدیثوں کا دنیا میں اگر وجو د بھی نہ ہو تاجو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصل تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا.کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے ان ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا.تاہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا.گویا اسلام نور علی نور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اس نور کوز.اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں." 13 تعدد ازدواج کے بارے میں مولوی چراغ علی لکھتے ہیں کہ یہ رواج عرب اور دوسرے مشرقی ممالک میں اس طرح رگ و پے میں سرایت کر گیا کہ آنحضرت صلعم اس کے موقوف کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے تھے کہ قرآن میں اس کے خلاف حکم دیا جاۓ.14 ملاحظہ فرمائیں کہ مولوی چراغ علی صاحب قرآن اور آنحضرت کے بارے میں کس قسم کی رائے رکھتے ہیں یعنی یہ کہ وو
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 83 آنحضرت تعدد ازدواج کے موقوف کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے تھے گویا کہ مولوی چراغ علی کے مطابق قرآن آنحضرت کی تصنیف ہے جس میں آپ احکام درج فرما سکتے تھے اس سے تو قرآن کی الہامی حیثیت مشتبہ ہو جاتی ہے.لیکن اس مضمون کو حضرت مرزا صاحب اس مضمون کی شان کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ “اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کسی افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتاؤ ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر احسان کیا کہ ان بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا."کے اس طریق پر مضمون کو بیان کرنا عین شان قرآن کے موافق ہے جبکہ مولوی چراغ علی صاحب کی تحریر تو خفت کا موجب ہے.اسی کے متعلق حضرت مرزا صاحب اپنے ان اشعار میں ( سر سید کو مخاطب کر کے) تحریر کرتے ہیں.اے اسیر عقل خود بر هستی خود کم نباز کیں سپہر بو العجائب چوں تو بسیار آورد غیر را ہرگز نمی باشد گذر در کوئے حق هر که آید ز آسمان او راز آن یار آورد خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است ہر که از خود آورد او نجس و مردار آورد 16 ترجمہ : اے اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لا یا کرتا ہے.خدا کے کوچہ میں غیر کو ہر گز دخل نہیں ہوتا جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے.آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے اپنے پاس سے اس کا مطلب پیش کرتا ہے وہ گندگی اور مر دار ہی پیش کرتا ہے.17 جو فی الواقعہ یہ سرسید احمد خان کی تفسیر القرآن کے بارے میں اشعار ہیں اور ان سے مولوی چراغ علی جو سرسید کے پیرو خاص ہیں اس سے باہر نہیں ہیں.5-3-مولوی چراغ علی کی نظر میں پیش گوئیاں، معجزات، عصمت انبیاء اور وحی و الہام ایک تقابلی مطالعہ مولوی چراغ علی صاحب کی ایک انگریزی تصنیف 'A Critical Exposition of the Popular Jihad 1884ءجو حیدر آباد میں لکھی گئی اور 1885ء میں تھیکر اسپنک اینڈ کمپنی کے پریس میں چھاپی گئی.اس کے اردو ترجمے کا پہلا ایڈیشن 1912ء میں رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے مولوی عبد الحق صاحب کے اہتمام سے شائع ہوا.یہ ترجمہ مولوی خواجہ غلام المحسنین صاحب نے “ تحقیق الجہاد" کے نام سے کیا تھا.اس کتاب کے تعارف (Introduction) کا ترجمہ ، مترجم نے مقدمہ تحقیق الجہاد کے نام سے کیا ہے.مولوی چراغ علی اس تعارف کے پیر Paral نمبر 34 میں لکھتے ہیں جس کا عنوان ہے: Muhammad's unwavering belief in his own mission and his success show him to be a True Prophet.جس کا ترجمہ آنحضرت کا مستحکم یقین اپنی نبوت پر آپ کی کامیابی آپ کو سچا پیغمبر ثابت کرتی ہے " کرتے ہیں.ی تسلسل میں، اس پیرا کے آخر پر بلا ضرورت پیش گوئیوں، معجزات، عصمت انبیاء، اور وحی و الہام کے بارے میں مولوی چراغ علی لکھتے ہیں:.
84 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 'It is neither a part of the prophet to predict future events, not to show supernatural miracles.And further, a prophet is neither immaculate nor infalliable.The Revelation is a natural product of human faculties.A prophet feels that his mind is illuminated by God, and the thoughts which are expressed by him and spoken or written under this influence are to be regarded as the words of God.(Introduction.ix viii) اور ان الفاظ کا ترجمہ خواجہ غلام المحسنین نے یہ کیا ہے: آئندہ واقعات کی پیشین گوئی کرنا یا فوق العادت معجزات کا دکھانا بھی پیغمبر کا کام نہیں ہے.علاوہ بریں پیغمبر نہ تو بے عیب ہوتا ہے اور نہ معصوم.وحی والہام قوائے انسانی کا قدرتی نتیجہ ہیں.پیغمبر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے منور کر دیا ہے اور جو خیالات وہ ظاہر کرتا ہے اور جن کو اس اثر سے متاثر ہو کر تقریر یا تحریر میں لاتا ہے وہ ” خدا کے الفاظ “ سمجھے جاتے ہیں..." 18 اس متن پر متر جم نے ایک نوٹ دیا ہے.موصوف لکھتے ہیں:.جس قدر معجزات دیگر انبیاء علیہم السلام کو عطا کئے گئے تھے وہ سب آنحضرت کو عطا کئے گئے ، مگر چونکہ وہ معجزات فانی تھے اور آنحضرت پر سلسلہ نبوت کا ختم کرنا مشیت الہی میں تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علاوہ ان معجزات کے ایک معجزہ دائمی عطا فرمایا جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے.میری مراد قرآن مجید سے ہے.جس کا معارضہ آج تک کوئی نہ کر سکا اور نہ آئندہ کر سکے گا.19 جب مترجم مصنف کے ادعاء “ فوق العادت معجزات کا دکھانا بھی پیغمبر کا کام نہیں ہے ” کا دفاع کرتے ہیں تو آنحضرت صلعم کے دائمی معجزہ قرآن مجید کا حوالہ کیوں دیتے ہیں؟ یا تو پیغمبر کے معجزات کے دکھانے کا انکار کریں یا یہ مثال نہ دیں! اس کے بعد مترجم اس حاشیہ میں لکھتے ہیں:.عصمت انبیاء کی بابت مصنف نے جو خیال ظاہر کیا ہے وہ حسب مذاق عیسائیان ہے اور دلیل کی خاطر بطور تنزل اس کو تسلیم کر کے جواب دیا ہے.کیونکہ اہل اسلام کے نزدیک کل انبیاء یقینا معصوم ہیں.اور عیسائی ان کو غیر معصوم اور ہر قسم کے فسق و فجور اور گنابان کبیرہ کا مر تکب مانتے ہیں."20 بقول مترجم، مصنف (مولوی چراغ علی ) نے “ حسب مذاق عیسائیان...دلیل کی خاطر بطور تنزل اس کو تسلیم کر کے جواب دیا ہے." گویا عصمت انبیاء سے انکار (نعوذ باللہ ) اتنی ارزاں چیز ہے کہ “ حسب مذاق عیسائیان ” اسے جہاں چاہے “بطور تنزل” تسلیم کر لیا جائے.یہ بات تو اسلام کے بنیادی عقائد کے ہی خلاف ہے.“مذاق عیسائیان یا دیگر کی بھینٹ اسے کیونکر چڑھا دیا جائے؟! دراصل مترجم، مصنف کا غیر واجب دفاع کر رہا ہے.خواہ اسلامی عقائد کا خون ہوتا ہے ہوا کرے! اسی لئے تو اسپر نگر نے مولوی چراغ علی کی تحریر کو عیسائیت کی حمایت میں لکھی گئی تحریر ” قرار دیا ہے.21 پھر موصوف مصنف اور مترجم اسلام کا کہاں دفاع کر رہے ہیں؟ بلکہ ہتھیار ڈال کے معذرت کر رہے ہیں! اس کے باوجو د بقول مولوی عبد الحق صاحب “مولوی چراغ علی کی کتابیں پیاسے کے لئے آپ حیات، مریض کے لئے نوشدارو اور مارگزیدہ کے لئے تریاق کا کام دیں گے " 22 قرار دیا اور لکھا کہ : “ ان کی (مولوی چراغ علی کی ) تصانیف تعلیم و تحقیق دین اسلام کا ایک ایسا بے بہا مجموعہ ہیں کہ ان کو غور سے پڑھنے کے بعد حقیت و
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 85 حقانیت دین اسلام پر اس قدر عبور ہو جاتا ہے کہ سالہا سال کی محنت اور صدہا کتب کے مطالعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا.23 اس“مذاق عیسائیان دلیل کی خاطر بطور تنزل عصمت انبیاء سے انکار کو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ آئندہ اسلام پر جو کچھ کہا جائے گاوہ زیادہ تر مرحوم کی خوشہ چینی ہوگی.24 کیا یہی دفاع اسلام ہے کہ انبیاء کی پیش گوئیوں، معجزات، عصمت انبیاء اور وحی الہام سے انکار کر دیا جائے ؟ الامان والحفیظ (نوٹ: او پر جو حوالے تحقیق الجہاد مترجمہ خواجہ غلام الحسنین کے دیئے گئے ہیں وہ مکتبہ دانش مزنگ لاہور کی مطبوعہ ہے اور اس کا انگریزی متن (Karim sons, Jamshed Road, 3 Karachi 5 Pakistan) کا شائع کر دہ ہے.معجزات مولوی چراغ علی لکھتے ہیں..فوق العادت معجزات کا دکھانا بھی پیغمبر کا کام نہیں ہے." اس کے بر عکس حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایک امر خارق عادت یا ایک امر خیال و گمان سے باہر اور امید سے بڑھ کر ایک اپنے رسول کی عزت اور صداقت ظاہر کرنے کے لئے اور اس کے مخالفین کی عجز اور مغلوبیت جتلانے کی غرض سے اپنے ارادہ خاص سے یا اس رسول کی دعا اور درخواست سے آپ ظاہر فرماتا ہے مگر ایسے طور پر سے جو اس کی صفات وحدانیت و تقدس و کمال کے منافی و مغائر نہ ہو اور کسی دوسرے کی وکالت یا کار سازی کا اس میں کچھ دخل نہ ہو." 25 معجزات کو مولوی چراغ علی صاحب تو پیغبر کے کام میں شامل نہیں کرتے لیکن حضرت مرزا صاحب، معجزہ کو.خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں جو • خدا کے رسول کی عزت اور صداقت ظاہر کرنے ، اسی طرح مخالفین کی عجز اور مغلوبیت جتلانے کے لئے.خدا تعالیٰ اپنے ارادہ خاص سے یا رسول کی دعا اور درخواست سے.خدا تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے خداتعالی مگر کس طور سے کہ: جو خدا تعالی کے تقدس و کمال کے منافی و مغائر نہ ہو کسی دوسرے کی وکالت یا کار سازی کا اس میں دخل نہ ہو کیا مولوی چراغ علی کے نظریات انبیاء کی عزت و صداقت کو ظاہر کرتے ہیں ؟ ہر گز نہیں بلکہ مخالفین انبیاء کا ساتھ دیتے ہیں.مولوی چراغ علی کو بڑے نرم الفاظ میں انبیاء کا نادان دوست ہی کہا جاسکتا ہے ! حضرت مرزا صاحب معجزات کو کوئی قدیم قصہ نہیں بتاتے بلکہ ایک جاری و ساری نشان بنادیتے ہیں.جیسا کہ فرمایا: “جو امر خارق عادت کسی ولی سے صادر ہوتا ہے وہ حقیقت میں اس متبوع کا معجزہ ہے جس کی وہ امت ہے...جو کچھ انوار و آثار متابعت کامل کے مترتب ہوں گے وہ حقیقت میں اس نبی متبوع کے فیوض ہیں...سو اس جہت سے اگر ولی سے کوئی امر خارق عادت ظاہر ہو تو
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اس نبی متبوع کا معجزہ ہو گا...26,9 پیشین گوئیاں 86 جیسا کہ او پر حوالہ دیا گیا ہے کہ مولوی چراغ علی پیشین گوئیوں کو پیغمبر کا کام نہیں بتاتے.لیکن حضرت مرزا صاحب معجزات کے اسی تسلسل میں فرماتے ہیں:.گو وہ سچے ہوں تب بھی محجوب الحقیقت ہیں اور ان کے ثبوت کے بارے میں بڑی بڑی دقتیں ہیں...جس طرح محجوب الحقیقت معجزات عقلی، معجزات سے برابری نہیں کر سکتے.ایسا ہی پیشین گوئیاں....جو محض اخبار نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ قدرت الوہیت بھی شامل ہے.کیونکہ دنیا میں بجز انبیاء کے اور بھی ایسے لوگ بہت نظر آتے ہیں..پس ان شبہات کو مٹانے کے لئے وہ پیشین گوئیاں اور اخبار غیبیہ زبر دست اور کامل متصور ہوں گے جن کے ساتھ ایسے نشانات قدرت الہیہ کے ہوں جن میں رمالوں اور خواب بینوں اور نجومیوں وغیرہ کا شریک ہونا ممتنع اور محال ہو یعنی اُن میں خداوند تعالیٰ کے کامل جلال کا جوش اور اس کی تائیدات کا ایسا بزرگ چمکا را نظر آتا ہو.جو بدیہی طور پر اس کی توجہات خاصہ پر دلالت کرتا ہو اور نیز وہ ایک ایسی نصرت کی خبر پر مشتمل ہوں جس میں اپنی فتح اور مخالف کی شکست اور اپنی عزت اور مخالف کی ذلت اور اپنا اقبال اور مخالف کا زوال یہ تفصیل تمام ظاہر کیا گیا ہو..."27 مولوی چراغ علی پیشین گوئیوں کو پیغمبر کا کام نہیں بتاتے لیکن جناب حضرت مرزا صاحب پیشین گوئیوں کے ساتھ : نشانات قدرت الہیہ یا ظہور بتاتے ہیں جن میں خداوند تعالیٰ کے کامل جلال کا جوش اور اس کی تائیدات کا بزرگ چمکا را نظر آتا ہو جو اس کی تو جہات خاصہ پر دلالت کرتا ہو اور.ایسی نصرت کی خبریر مشتمل ہو جو اپنی فتح اور مخالف کی شکست، اپنی عزت اور مخالف کی ذلت، اپنا اقبال اور مخالف کے زوال پر خبر دیتی ہیں.کیا مولوی چراغ علی کے کلام کو حضرت مرزا صاحب کے موید من اللہ کلام سے کچھ بھی نسبت ہے؟ این زمین را آسمان دیگر است حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.پس تائیدات اصل ہیں اور پیشگوئیاں ان کی فرع اور تائیدات قرص آفتاب کی طرح ہیں اور پیشگوئیاں اس آفتاب کی شعاعیں اور کرنیں ہیں 28 حضرت مرزا صاحب نے پیش گوئیوں کی ذیل میں بہت سی پیش گوئیاں درج فرمائی ہیں.ایک جگہ درج فرماتے ہیں:.“ ایک ہندو صاحب کو جو....حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا اور اس کا پادریوں کی طرح شدت عناد سے یہ خیال تھا کہ یہ سب پیشگوئیاں مسلمانوں نے آپ بنالی ہیں.ورنہ آنحضرت پر خدا نے کوئی امر غیب ظاہر نہیں کیا اور ان میں یہ علامت نبوت موجود ہی نہیں تھی.مگر سبحان اللہ کیا فضل خدا کا اپنے نبی پر ہے اور کیا بلند شان اس معصوم اور مقدس نبی کی ہے کہ جس کی صداقت کی شعائیں اب بھی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 87 ایسی ہی چمکتی ہیں کہ جیسی قدیم سے چمکتی آئی ہیں.کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اس ہندو صاحب کا ایک عزیز کسی ناگہانی پہنچ میں آکر قید ہو گیا اور اس کے ہمراہ ایک اور ہندو بھی قید ہوا.اور ان دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گزرا.اس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اس آریہ صاحب نے مجھے سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلا سکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے....وہ شخص اس بات پر اصراری ہو گیا کہ اگر اسلام کے متبعین کو دوسری قوموں پر ترجیح ہے تو اسی موقع پر اس ترجیح کو دکھلانا چاہیئے.اس کے جواب میں ہر چند کہا گیا کہ اس میں خدا کا اختیار ہے انسان کا اس پر حکم نہیں مگر اس آریہ نے اپنے انکار پر بہت اصرار کیا.غرض جب میں نے دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور دین اسلام کی عظمتوں سے سخت منکر ہے.تب میرے دل میں خدا کی طرف سے بھی جوش ڈالا گیا کہ خدا اس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے.اور میں نے دعا کی....تب خدا نے جو اپنے سچے دین اسلام کا حامی ہے اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت چاہتا ہے.رات کے وقت رؤیا میں کل حقیقت کھول دی اور ظاہر کیا کہ تقدیر الہی میں یوں مقدر ہے کہ اس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ماتحت میں پھر واپس آئے گی اور پھر اس عدالت میں نصف قید اس کی تخفیف ہو جائے گی مگر بری نہیں ہو گا.اور جو دو سر ارفیق ہے وہ پوری قید بھگت کر خلاصی پائے گا اور بری وہ بھی نہیں ہو گا....اسی وقت میں نے یہ رویا ایک جماعت کثیر کو سنا دیا اور اس ہند و صاحب کو بھی اسی دن خبر کر دی.” 29 اب ایک اور پیش گوئی یہاں درج کی جاتی ہے جو خاص حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتی ہے جہاں پر مولوی چراغ علی بھی مقیم تھے اور یہ ان کے ایک رفیق جو ریاست حیدر آباد دکن میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے سے متعلق ہے اس بات کی یقینا مشہوری براہین احمدیہ (سنہ اشاعت 1880ء تا 1884ء) کے چھپنے پر حیدر آباد دکن میں بھی ہوئی ہو گی تو مولوی چراغ علی کے لئے اس کی تردید کرنا بڑی آسان بات تھی.لیکن کہیں سے بھی اس کے بر خلاف آواز نہ اٹھی لیکن مولوی چراغ علی اپنی غلط روش پر قائم رہے اور تحقیق الجہاد (سنہ اشاعت 1885ء) میں انبیاء کی پیش گوئیوں سے منکر رہے.بہر کیف حیدر آباد دکن سے متعلق وہ پیش گوئی ملاحظہ ہو.لیکن اس سے قبل اس کی ذراسی تمہید حضرت اقدس کے ہی قلم مبارک سے جو اس سے ہی متعلق ہے ملاحظہ ہو:.“ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا بطور روزنامہ نویس کے نوکر رکھا ہوا تھا اور بعض امور غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے وہ ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے اور پھر شام لال مذکور کے اس پر دستخط کرائے جاتے تھے...“خواب میں دیکھا تھا کہ حیدر آباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ لکھا ہے یہ خواب بھی بدستور روز نامہ مذکورہ بالا میں اسی ہندو کے ہاتھ سے لکھائی گئی اور کئی آریوں کو اطلاع دی گئی.پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدر آباد دکن سے خط آگیا اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا.فالحمد للہ علی ذالک.30 مولوی چراغ علی اپنی انگریزی تصنیف A Critical Exposition of Popular Jihad ( تحقیق الجہاد) جو 1884ء میں لکھی گئی اور 1885ء میں چھپی.اس میں پیش گوئی کرنا پیغمبر کا کام نہیں بتاتے اور اسی 1884ء میں براہین احمد یہ چھپ کر شائع ہو جاتی ہے.کیا بقول مولوی عبد الحق، مولوی چراغ علی، حضرت مرزا صاحب کو براہین احمدیہ میں پیغمبروں کا کام پیش گوئیاں کرنا بتا رہے ہیں ؟!!! اور اپنی انگریزی تالیف میں پیغمبروں کے پیشگوئیوں کے کرنے سے انکار کر رہے اور وہ بھی انگریزی زبان میں جبکہ حضرت مرزا
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 88 صاحب انگریزی خواندہ نہیں تھے اور مولوی چراغ علی سے سینکڑوں کوس دور ایک دور دراز دیہات قادیان میں مقیم تھے جہاں سے ریل کا رابطہ بھی نہ تھا اور قادیان سے پہلے بٹالہ پیدل جا کر پھر بٹالہ سے یکہ پر امر تسر جانا پڑتا تھا.مولوی عبد الحق صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے خطوط سے ایک نہایت غلط نتیجہ اور من مانا نتیجہ اخذ کیا ہے.میں مجبور ہوں کہ یہ چه نسبت ناک رابه عالم پاک لکھوں.نوٹ: پیشگوئی اول میں جس ہندو کا ذکر کیا گیا ہے.اس سے مراد لالہ شہر مپت رائے ہے....اور جس کے متعلق پیشگوئی تھی وہ ان کے بھائی لالہ بشمبر داس تھے...مصنف حیات احمد ، نواب سر وقار الامراء اقبال الدولہ حیدر آباد کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نواب صاحب ممدوح کی اس اعانت کو قبول فرمایا اور ان کے وجود کو ایک آیت اللہ کارنگ دے دیا.علاوہ بریں دنیا میں ان کے خاندان کی خدمت کا موقع بعض اشد ضرورتوں کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ادنی خادم (عرفانی) کو موقعہ ملاجو ہمیشہ یہی یقین کرتا ہے کہ یہ موقعہ نواب صاحب کی اسی اعانت کی قبولیت کے ثمرہ میں ملا ہے."31 پیشگوئیوں ہی کے ضمن میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنی شہرہ آفاق کتاب براہین احمدیہ میں مکالمات اور مخاطبات بہیمین متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی الم کا ذکر فرماتے ہوئے درج کرتے ہیں : اب وہ واعظان انجیل اور پادریان گم کردہ سبیل کہاں اور کدھر ہیں کہ جو پرلے درجہ کی ہٹ دھرمی کو اختیار کر کے محض کینہ اور عناد اور شیطانی سیرت کی راہ سے عوام کالا نعام کو یہ کہہ کر بہکاتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی سواب منصفان حق پسند خود سوچ سکتے ہیں کہ جس حالت میں حضرت خاتم الانبیاء کے ادنیٰ خادموں اور کمترین چاکروں سے ہزار ہا پیشگوئیاں ظہور میں آتی ہیں اور خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں تو پھر کس قدر بے حیائی اور بے شرمی ہے کہ کوئی کور باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے انکار کرے اور پادریوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے بارہ میں اس وجہ سے فکر پڑی کہ توریت کتاب استثناء باب ہثر دهم آیت بست و دوم ۲۲ میں بچے نبی کی یہ نشانی لکھی ہے کہ اس کی پیشگوئی پوری ہو جائے.سو جب پادریوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزار ہا خبریں قبل از وقوع بطور پیشگوئی فرمائی ہیں اور اکثر پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھی بھر اہوا ہے اور وہ سب پیشگوئیاں اپنے وقتوں پر پوری بھی ہو گئیں تو ان کے دل کو یہ دھڑ کا شروع ہوا کہ ان پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدیہی طور پر ثابت ہوتی ہے اور یا یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ توریت یعنی کتاب استثنا ۱۸ باب ۲۱ و ۲۲ آیت میں سچے نبی کی نشانی لکھی ہے وہ نشانی صحیح نہیں ہے سو اس پیچ میں آکر نہایت ہٹ دھرمی سے ان کو یہ کہنا پڑا کہ وہ پیشگوئیاں اصل میں فراستیں ہیں کہ اتفاقا پوری ہو گئی ہیں لیکن چونکہ جس درخت کی بیخ مضبوط اور طاقتیں قائم ہیں وہ ہمیشہ پھل لاتا ہے.اس جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اور دیگر خوارق صرف اسی زمانہ تک محدود نہیں تھے بلکہ اب بھی ان کا برابر سلسلہ جاری ہے.اگر کسی پادری وغیرہ کو شک و شبہ ہو تو اس پر لازم و فرض ہے کہ وہ صدق اور ارادت سے اس طرف توجہ کرے پھر
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں کس قدر اب تک بارش کی طرح برس رہی ہیں لیکن اس زمانہ کے متعصب پادری اگر خود کشی کا ارادہ کریں تو کریں مگر یہ امید اُن پر بہت ہی کم ہے کہ وہ طالب صادق بن کر کمال ارادت اور صدق سے اس نشان کے جو یاں ہوں.بہر حال دوسرے لوگوں پر یہ بات واضح رہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اب بھی آفتاب کی طرح روشن ہیں اور دوسرے کسی نبی کی برکات کا نشان نہیں ملتا.تو اس صورت میں لازم ہے کہ اگر ایسے متعصب اور دنیا پرست پادری کسی بازار یا کسی شہر یا گاؤں میں کسی کو بر خلاف اس حق الا مر کے بہکاتے نظر آدیں تو یہی موقعہ اس کتاب کا ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاوے.کیونکہ یہ کتاب دس ہزار روپیہ کے اشتہار پر تالیف کی گئی ہے اور اس سے معارضہ کرنے والا دس ہزار روپیہ پاسکتا ہے.پس شرم اور حیا سے نہایت بعید ہے کہ جو لوگ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں وہ پنڈت ہوں یا پادری آریہ ہوں یا برہموں وہ صرف زبان سے طریق فضول گوئی کا اختیار رکھیں اور جو دلائل قطعیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت پر ناطق ہو رہی ہیں ان کے جواب کا کچھ فکر نہ کریں یہ عاجز خواہ نخواہ ان کو دین اسلام کے قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتا لیکن اگر مقابلہ و معارضہ سے عاجز رہیں اور جو کچھ آسمانی نشان اور عقلی دلائل حقیت اسلام پر دلالت کر رہے ہیں اُن کی نظیر اپنے مذہب میں پیش نہ کر سکیں تو پھر یہی لازم ہے کہ جھوٹ کو چھوڑ کر سچے مذہب کو قبول کر لیں.32 عصمت انبیاء 89 مولوی چراغ علی لکھتے ہیں پیغمبر نہ تو بے عیب ہوتا ہے اور نہ معصوم.” (نعوذ باللہ ) جس کا اوپر حوالہ دیا جا چکا ہے.مولوی چراغ علی صاحب نے “ تحقیق الجہاد ” 1884ء میں لکھی تھی اور 1885ء میں شائع ہوئی تھی.جبکہ حضرت مرزا صاحب کی کتاب “براہین احمدیہ ملقب به بر ابين الاحمدیہ علی حقیت کتاب اللہ القرآن و النبوۃ الحمدیہ حصہ سوم 1882ء میں چھپ چکی تھی اور یہ کتاب یقینا مولوی چراغ علی کو بھی بھجوائی گئی ہو گی کیونکہ موصوف اس کے مالی معاونین میں شامل تھے.حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ اول میں مولوی چراغ علی کی مالی امداد کا ذکر بھی کیا ہے.لیکن ایسے لگتا ہے کہ مولوی عبد الحق کی طرح مولوی چراغ علی نے براہین احمدیہ حصہ سوم کا جیسے مطالعہ ہی نہ کیا ہو جس میں حضرت مرزا صاحب نے برہمو سماج کے اس خیال فاسد کو بکلی در ہم برہم کر دیا ہے کہ : اگر تحمیل معرفت الہامی کتاب پر ہی موقوف ہے تو اس صورت میں بہتر تھا کہ تمام بنی آدم کو الہام ہوتا.."33 اور اس وسوسہ کے جواب میں علاوہ دیگر امور کے حضرت مرزا صاحب نے صفحہ نمبر 181 تا 198 میں مولوی چراغ علی کے خیال کے بر عکس پیغمبروں کا بے عیب و معصوم ہونا بہ دلائل عقلیہ و نقلیہ ثابت کیا ہے.یہاں ہم حضرت مرزا صاحب کے جواب میں سے عصمت انبیاء سے متعلق کچھ عبارتیں درج کرتے ہیں:.منجملہ اہل کتاب عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ انبیاء کے لئے جو وحی اللہ کے منزل علیہ ہیں تقدس اور تنزہ اور عصمت اور کمال محبت الہیہ حاصل نہیں.کیونکہ عیسائی لوگ اصول حقہ کو کھو بیٹھے ہیں اور ساری صداقتیں صرف اس خیال پر قربان کر دی ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح خدا بن جائیں اور کفارہ کا مسئلہ جم جائے.سو چونکہ نبیوں کا معصوم اور مقدس ہونا
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 90 ان کی اس عمارت کو گراتا ہے جو وہ بنارہے ہیں اس لئے ایک جھوٹ کی خاطر سے دوسرا جھوٹ بھی انہیں گھڑنا پڑا اور ایک آنکھ کے مفقود ہونے سے دوسری بھی پھوڑنی پڑی.پس ناچار انہوں نے باطل سے پیار کر کے حق کو چھوڑ دیا.نبیوں کی اہانت روا رکھی.پاکوں کو ناپاک بنایا.اور ان دلوں کو جو مہبط وحی تھے کثیف اور مکدر قرار دیا تاکہ ان کے مصنوعی خدا کی کچھ عظمت نہ گھٹ جائے یا منصوبہ کفارہ میں کچھ فرق نہ آجائے.اسی خود غرضی کے جوش سے انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس سے فقط نبیوں کی توہین نہیں ہوتی بلکہ خدا کی قدوسی پر بھی حرف آتا ہے.کیونکہ جس نے نعوذ باللہ ناپاکوں سے ربط ارتباط اور میل ملاپ رکھا وہ آپ بھی کا ہے کا پاک ہوا....وحی اللہ پانے کے لئے نقدسِ کامل شرط ہونا کچھ ایسا امر نہیں جس کے ثبوت کے دلائل کمزور ہوں یا جس کا سمجھنا سلیم العقل آدمی پر کچھ مشکل ہو.بلکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس کی شہادت تمام زمین و آسمان میں پائی جاتی ہے جس کی تصدیق عالم کا ذرہ ذرہ کرتا ہے جس پر نظام تمام دنیا قائم ہے.قرآن شریف میں اس مسئلہ کو ایک عمدہ مثال میں بیان کیا گیا ہے..." 35 حضرت مرزا صاحب سورۃ النور آیت 36 کی لطیف تحقیقات جو اس کی تفسیر سے متعلق اور بحث ہذا کی تکمیل کے لئے ضروری 36 اس کا ایک حصہ ہم چندر بیمار کس کے بعد درج کرتے ہیں.ہم یہاں مترجم تحقیق الجہاد ”غلام المحسنین کی توجیہ “ حسب مذاق عیسائیاں بطور تنزل ” کی طرف قارئین کرام کی توجہ دلاتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ :.36", 34,, “ اس خود غرضی کے جوش سے انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس سے فقط نبیوں کی توہین نہیں ہوتی.بلکہ خدا کی قدوسی پر بھی حرف آتا ہے.کیونکہ جس نے ناپاکوں سے ربط ارتباط اور میل ملاپ رکھا وہ آپ بھی کا ہے کا پاک ہو ا.” 37 مولوی چراغ علی کے معتقدات اور ان کے مترجم و تبصرہ نگار کے اعتقادات کا ذرا تصور کریں کہ ان سے کیا نتائج مترتب ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضرت مرزا صاحب نے واضح کیا ہے.لیکن مولوی عبد الحق براہین احمدیہ کا مطالعہ کئے بغیر حضرت مرزا صاحب کے خطوط جو آپ نے مولوی چراغ علی کو موصوف کے خطوط کے جواب میں لکھے ہیں سے کیا نتائج نکالتے ہیں ! جو حقیقت کے بالکل بر عکس ہیں.حضرت مرزا صاحب اس کے متعلق مزید تحریر فرماتے ہیں:.“.عیسائی لوگ بھی نور کے فیضان کے لئے فطرتی نور کا شرط ہونا نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ جس دل پر نور وحی نازل ہو.اس کے لئے اپنی کسی خاصہ اندرونی میں نورانیت کی حالت ضروری نہیں (نوٹ: جیسا کہ مولوی چراغ علی نے لکھا ہے کہ پیغمبر نہ تو بے عیب ہوتا ہے نہ معصوم (نعوذ باللہ) بلکہ اگر کوئی بجائے عقل سلیم کے کمال درجہ کا نادان اور سفیہ ہو اور بجائے صفت شجاعت کے کمال درجہ کا بزدل اور بجائے صفت سخاوت کے کمال درجہ کا بخیل اور بجائے صفت حمیت کے کمال درجہ کا بے غیرت اور بجائے صفت محبت الہیہ کے کمال درجہ کا محب دنیا اور بجائے صفت زہد و ورع و امانت کے بڑا بھارا چور اور ڈاکو اور بجائے صفت عفت و حیا کے کمال درجہ کا بے شرم اور شہوت پرست اور بجائے صفت قناعت کے کمال درجے کا حریص اور لالچی.تو ایسا شخص بھی بقول حضرات عیسائیاں باوصف ایسی حالت خراب کے خدا کا نبی اور مقرب ہو سکتا ہے.بلکہ ایک مسیح کو باہر نکال کر دوسرے تمام انبیاء جن کی نبوت کو بھی وہ مانتے ہیں اور ان کی الہامی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 91 کتابوں کو بھی مقدس مقدس کرکے پکارتے ہیں وہ نعوذ باللہ بقول ان کے ایسے ہی تھے اور کمالات قدسیہ سے جو مستلزم عصمت و پاک دلی ہیں محروم تھے.عیسائیوں کی عقل اور خداشناسی پر بھی ہزار آفرین.کیا اچھا نور وحی کے نازل ہونے کا فلسفہ بیان کیا مگر ایسے فلسفہ کے تابع ہونے والے اور اس کو پسند کرنے والے وہی لوگ ہیں جو سخت ظلمت اور کور باطنی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں.ورنہ نور کے فیض کے لئے نور کا ضروری ہونا ایسی بدیہی صداقت ہے کہ کوئی ضعیف العقل بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا.مگر ان کا کیا علاج جن کو عقل سے کچھ بھی سروکار نہیں اور جو کہ روشنی سے بغض اور اندھیرے سے پیار کرتے ہیں اور چمگادڑ کی طرح رات میں ان کی آنکھیں خوب کھلتی ہیں لیکن روز روشن میں وہ اندھے ہو جاتے ہیں."38 مولوی چراغ علی اور ان کے مترجم و تبصرہ نگار جو موصوف کے انتہائی بد عقائد کو “ حسب مذاق عیسائیاں بطور تنزل ” کی حاشیہ آرائی میں لیٹتے ہیں اور ان کے بعد میں آنے والے بشمول علامہ اقبال، ابو الحسن ندوی و غیر ہم براہین احمدیہ کے بارے میں اتہامات لگانے سے باز نہیں آتے انہیں براہین کی ان عبارتوں پر ایک نظر ڈال کر بہ نظر انصاف مولوی چراغ علی کی مزعومہ مدد کے ادعاء سے رک جانا چاہئے بہر کیف اس شق کے آخر پر ہم سورۃ النور آیت نمبر 36 کی تفسیر کا خلاصہ حضرت مرزا صاحب کے ہی الفاظ میں پیش کر کے ختم کرتے ہیں.آیت شریفہ “ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ..الخ “خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام کے دل کو شیشہ مصفی سے تشبیہ دی جس میں کسی نوع کی کدورت نہیں.یہ نور قلب ہے.پھر آنحضرت کے فہم و ادراک و عقل سلیم اور جمیع اخلاق فاضلہ جبلی و فطرتی کو ایک لطیف تیل سے تشبیہ دی جس میں بہت سی چمک ہے اور جو ذریعہ روشنی چراغ ہے یہ نور عقل ہے کیونکہ منبع و منشاء جمیع لطائف اندرونی کا قوت عقلیہ ہے.پھر ان تمام نوروں پر ایک نور آسمانی کا جو وحی ہے.نازل ہونا بیان فرمایا.یہ نور وحی ہے.اور انوار ثلاثہ مل کر لوگوں کی ہدایت کا موجب ٹھہرے.یہی حقانی اصول ہے جو وحی کے بارہ میں قدوس قدیم کی طرف سے قانون قدیم ہے اور اس کی ذات پاک کے مناسب.پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ جب تک نور قلب و نور عقل کسی انسان میں کامل درجہ پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نور وحی ہرگز نہیں پاتا اور پہلے اس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کمال عقل اور کمال نورانیت قلب صرف بعض افرادِ بشریہ میں ہوتا ہے گل میں نہیں ہوتا.اب ان دونوں ثبوتوں کے ملانے سے یہ امر بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ وحی اور رسالت فقط بعض افرادِ کاملہ کو ملتی ہے نہ ہر یک فرد بشر کو 39 مولوی چراغ علی “ تحقیق الجہاد میں لکھتے ہیں: وحی و الهام The Revelation is a natural product of human faculties.....' ترجمہ : “ وحی و الہام قوائے انسانی کا قدرتی نتیجہ ہیں." ایک طرف تو مولوی چراغ علی دفاع اسلام میں دلائل لاتے ہیں اور ان کے مترجم و مبصر اس پر بلا سوچے سمجھے داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں (اسے ایک ایسے شخص کی طرف سے شاباش قرار دیا جا سکتا ہے جسے کچھ واقفیت نہ ہو ) لیکن مولوی چراغ علی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 92 اسلامی عقائد کے بر خلاف سرسید اور عیسائی حکام کی حمایت اور ہاں میں ہاں ملانے کے لئے معتقدات اسلامی کو روندتے چلے جاتے ہیں.مولوی چراغ علی بات اسلام کے جہاد کے بارے میں کر رہے ہیں لیکن ساتھ کے ساتھ معجزات، پیش گوئیوں، عصمت انبیاء اور وحی و الہام سے دستبردار ہوتے جارہے ہیں.مولوی چراغ علی کی مذکورہ بالا عبارت ہندو مذہب کے ایک نئے فرقے برہمو سماج کی بھی حمایت ہے.ایک برہمو سماجی کا وحی والہام کے بارہ میں خیال ملاحظہ ہو :.ہمارا تمام دماغی علم بھی الہام ہے.اسے ہم پر ماتم کا الہام بھی کہیں گے.40 “ہم مادی دنیا کو جیسا یہ ہمارے حواسوں پر ظاہر ہوتی ہے.لیتے ہیں اور قدرت اور اس کے قوانین کے علم کو مناسب طریقے پر اپنے دلوں میں الہام تصور کرتے ہیں." 41 “ بے خود ہو کر محو ہو جانے یکسو دل اور دل ایک طرف لگانے کی حالت میں انسانی روح میں الہام ہو تا ہے.اس وقت آتما خاص طور پر پر ماتما کے ماتحت ہو جاتا ہے اور روحانیت کے علم کی طرف بڑھتا ہے." 42 43" “ پر ماتما کا الہام انسان کو اس کی قدرتی طاقتوں کے ذریعے ہوتا ہے.” مولوی چراغ علی وحی و الہام کو قوائے انسانی کا قدرتی نتیجہ قرار دیتے ہیں اور برہمو سماجی بھی الہام کو انسان کی قدرتی طاقتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور انسان کے دماغی علم کو الہام قرار دیتے ہیں.گویا دونوں صاحبان اس بارے میں یک زبان ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں:.“ یہ خیال کرنا جو جو دقائق فکر اور نظر کے استعمال سے لوگوں پر کھلتے ہیں وہی الہام ہیں.بجز ان کے اور کوئی الہام نہیں.یہ بھی ایک ایسا وہم ہے جس کا موجب صرف کو رباطنی اور بے خبری ہے.اگر انسانی خیالات ہی خدا کا الہام ہوتے تو انسان بھی خدا کی طرح بذریعہ اپنے فکر اور نظر کے امور غیبیہ کو معلوم کر سکتا...خدا کے کام اور کلام میں خدائی کے تجلیات کا ہوناضروری ہے...انسان کو اس عالم اسباب میں طرح طرح کی قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ پیدا کر کے ان کی فطرت کو ایک ایسے قانون فطرت پر مبنی کر دیا ہے.یعنے اُن کی پیدائش میں کچھ اس قسم کی خاصیت رکھ دی ہے کہ جب وہ کسی بھلے یا برے کام میں اپنی فکر کو متحرک کریں.تو اسی کے مناسب ان کو تدبیریں سوجھ جایا کریں.جیسے ظاہری قوتوں اور حواسوں میں انسان کے لئے یہ قانون قدرت رکھا گیا ہے کہ جب وہ اپنی آنکھ کھولے تو کچھ نہ کچھ دیکھ لیتا ہے اور جب اپنے کانوں کو کسی آواز کی طرف لگاوے تو کچھ نہ کچھ سن لیتا ہے.اسی طرح جب وہ کسی نیک یا بد کام میں کوئی کامیابی کا راستہ سوچتا ہے تو کوئی نہ کوئی تدبیر سوجھ ہی جاتی ہے.صالح آدمی نیک راہ میں فکر کر کے نیک باتیں نکالتا ہے اور چور نقب زنی کے باب میں فکر کرکے کر کے کوئی عمدہ طریق نقب زنی کا ایجاد کرتا ہے.غرض جس طرح بدی کے بارے میں انسان کو بڑے بڑے عمیق اور نازک بدی کے خیال سوجھ جاتے ہیں.علی ہذا القیاس اسی قوت کو جب انسان نیک راہ میں استعمال کرتا ہے تو نیکی کے عمدہ خیال بھی سوجھ جاتے ہیں اور جس طرح بد خیالات کو کیسے ہی عمیق اور دقیق اور جادو اثر کیوں نہ ہوں خدا کا کلام ہے نہیں ہوسکتے ایسا ہی انسان کے خود تراشیدہ خیالات جن کو وہ اپنے زعم میں نیک سمجھتا ہے.کلام الہی نہیں ہیں...خدا کا پاک کلام وہ کلام ہے کہ جو انسانی قومی سے بکلی برتر و اعلیٰ ہے اور کمالیت اور قدرت اور تقدس سے بھرا ہوا ہے جس کے ظہور و بروز کے لئے اول شرط یہی ہے کہ بشری قوتیں بکلی معطل اور بیکار ہوں نہ فکر ہو نہ نظر ہو.بلکہ انسان
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 93 مثل میت کے ہو.اور سب اسباب منقطع ہوں اور خدا جس کا وجود واقعی اور حقیقی ہے آپ اپنے کلام کو اپنے خاص ارادہ سے کسی کے دل پر نازل کرے.پس سمجھنا چاہیئے کہ جس طرح آفتاب کی روشنی صرف آسمان سے آتی ہے آنکھ کے اندر سے پیدا نہیں ہوسکتی.اسی طرح نور الہام کا بھی خاص خدا کی طرف سے اور اس کے ارادہ سے نازل ہوتا ہے.یونہی اندر سے جوش نہیں مارتا.جبکہ خدا فی الواقع موجود ہے اور فی الواقع وہ دیکھتا سنتا جانتا کلام کرتا ہے تو پھر اس کا کلام اسی حی و قیوم کی طرف سے نازل ہونا چاہیئے نہ یہ کہ انسان کے اپنے ہی خیالات خدا کا کلام بن جائیں.ہمارے اندر سے وہی خیالات بھلے یا برے جوش مارتے ہیں کہ جو ہمارے اندازہ فطرت کے مطابق ہمارے اندر سمائے ہوئے ہیں.مگر خدا کے بے انتہا علم اور بے شمار حکمتیں ہمارے دل میں کیونکر سما سکیں.اس سے زیادہ تر اور کیا کفر ہو گا.کہ انسان ایسا خیال کرے کہ جس قدر خدا کے پاس خزائن علم و حکمت و اسرار غیب ہیں.وہ سب ہمارے ہی دل میں موجود ہیں اور ہمارے ہی دل سے جوش مارتے ہیں.پس دوسرے لفظوں میں اس کا خلاصہ تو یہی ہوا کہ حقیقت میں ہم ہی خدا ہیں اور بجز ہمارے اور کوئی ذات قائم بنفسہ اور متصف بصفاتہ موجود نہیں جس کو خدا کہا جائے.کیونکہ اگر فی الواقعہ خدا موجود ہے اور اس کے علوم غیر متناہی اسی سے خاص ہیں.جن کا پیمانہ ہمارا دل نہیں ہو سکتا.تو اس صورت میں کس قدر یہ قول غلط اور بیہودہ ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم ہمارے ہی دل میں بھرے پڑے ہیں اور خدا کے تمام خزائن حکمت ہمارے ہی قلب میں سمارہے ہیں.گویا خدا کا علم اس قدر ہے جس قدر ہمارے دل میں موجود ہے.پس خیال کرو کہ اگر یہ خدائی کا دعویٰ نہیں تو اور کیا ہے.لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کا دل خدا کے جمیع کمالات کا جامع ہو جائے؟ کیا یہ جائز ہے کہ ایک ذرہ امکان آفتاب وجوب بن جائے.ہر گز نہیں ہر گز نہیں...الوہیت کے خواص جیسے :.علم غیب اور دقائق حکمیہ اور دوسرے قدرتی نشان انسان سے ہر گز ظہور پذیر نہیں ہو سکتے.اور خد اکا کلام وہ ہے: جس میں خدا کی عظمت خدا کی قدرت خدا کی برکت خدا کی حکمت خدا کی بے نظیری پائی جاوے...دوسروں کو یہ الہام یعنی یہو دیوں، عیسائیوں، آریوں برہمیوں وغیرہ کو ہر گز نہیں ہو تا بلکہ ہمیشہ قرآن شریف کے کامل تابعین کو ہو تا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہو گا...44 بھلا مولوی چراغ علی کے خود تراشیدہ خیالات کو حضرت مرزا صاحب کے مامور من اللہ ہو کر لکھی گئی اصل حقیقت سے کچھ نسبت ہے.چه نسبت حاک را باعالم پاک اس پر مستزاد مولوی عبد الحق کی بلا تحقیق مدح سرائی.ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مولوی چراغ علی نے کبھی بھی حضرت مرزا صاحب کی کتابوں مثلاً براہین احمدیہ کو پڑھا ہو.مولوی چراغ بے شک اسلام سے ہمدردی رکھتے تھے لیکن دفاع اسلام میں اُن کی حیثیت ایک نادان دوست سے بڑھ کر نہیں اور ان کا براہین احمدیہ کے مالی معاونین میں شامل ہونا بھی عام ہمدردی کے جذبے سے ہے نہ کہ کسی مخصوص نقطہ نظر سے ! اگر کبھی مولوی چراغ علی حاشیہ میں اندراج کے لئے مضمون بھجواتے تو حضرت مرزا صاحب ان کو بھی برہمو سماجیوں میں ہی شمار کرتے جیسے کہ حضرت مرزا صاحب اپنے مکتوب مورخہ 8 / نومبر 1882ء بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی تحریر فرماتے ہیں:.
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 94 برہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقل ناتمام کی وجہ سے کتب الہامیہ سے منکر ہے.چونکہ انسان کا خاصہ ہے کہ معقولات سے زیادہ اور جلد تر متاثر ہوتا ہے.اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نو تعلیم یافتہ ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہو گئے اور سید احمد خان بھی انہیں کی ایک شاخ ہے اور انہیں کی صحبتوں سے متاثر ہے.پس ان کے زہر ناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضروری تھا.45.(نوٹ: حکماء کا ایک گروہ جن کے اصولوں کی بنیاد و ہم پر ہے اور حقائق سے منکر ہیں.ناقل ) حضرت مرزا صاحب مدارس کے بہت سے تو تعلیم یافتہ اور سر سید احمد خان کو بر ہمو سماج کی ہی ایک شاخ قرار دیتے ہیں اور برہمو سماج کی صحبتوں سے متاثر گردانتے ہیں.اس لئے مولوی چراغ علی صحبت سرسید اور گذشتہ صفحات میں درج خیالات کی وجہ سے برہمو سماجیوں سے استثناء نہیں رکھتے ہیں.سرسید گروپ کی قومی خدمات کا ایک الگ مقام ہے لیکن دین میں ان کی دخل اندازی کے بارے میں حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک مکتوب مورخہ 2 / جون 1883ء بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی میں لکھا:.نیچریوں کا جو آپ نے حال لکھا ہے یہ لوگ حقیقت میں دشمن دین ہیں.46 اس سلسلے میں راقم السطور کا ایک مضمون بعنوان سرسید احمد خان اور علی گڑھ تحریک پر تبصرہ ”مطبوعہ ماہ نامہ “ انصار اللہ ربوہ بابت ماہ ستمبر اکتوبر نومبر، دسمبر 2007ء اور جنوری 2008ء بھی ملاحظہ ہو.وو 5-4- مولوی چراغ علی صاحب کی کتاب “تعلیقات ” ایک تقابلی مطالعہ مولوی چراغ علی صاحب نے پادری عماد الدین صاحب کی کتاب تواریخ محمدی " کے بارے میں 1871ء میں دورانِ قیام لکھنو ایک کتاب تعلیقات ” کے نام سے لکھی تھی.یہ کتاب 1872ء میں مطبع منشی اصغر علی صاحب مالک اخبار مخبر صادق لکھنو میں طبع ہوئی تھی.اس کتاب میں مولوی چراغ علی صاحب نے پادری عماد الدین صاحب (9/ اگست 1830ء - 1900ء) ( جس نے امر تسر میں پادری رابرٹ کلارک سے 1866ء میں بپتسمہ لیا تھا.پادری عماد الدین لاہر اس سے قبل ایک مسلمان مولوی تھا اور مولوی عماد الدین لا ہنر نام تھا) کی کتاب تواریخ محمدی " جو 244 صفحات پر مشتمل تھی کا جواب 85 صفحات میں دیا تھا.پادری عماد الدین نے اس کتاب میں ایک عنوان باندھا:.“ اس بیان میں کہ احادیث کا خاص مضمون جو معجزات کی نسبت ہے قابل اعتبار نہیں 47 اور اس کے بعد چھ دلیلیں دیں.مولوی چراغ علی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا:.چنانچه منجملہ معجزات محمدیہ غایت درجہ شہرت اور تواتر کے وہ ہوں گے جو مشاہدین ماجرا کے دست و قلم اور ہمعصر لوگوں کے ہاتھ سے نکلے گی اور وہ نوشتے اسی زمانہ سے اکناف عالم و آفاق میں مشہور و منتشر ہوتے گئے یعنی جن معجزات کا ذکر اور حوالہ اور اجمالی بیان قرآن و مصحف عظیم میں ہے." 48", اس فقرہ کے آخر پر نشان لگا کر حاشیہ میں 13 آیات قرآنیہ درج کیں ہیں.جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں.ان کے ساتھ مولوی چراغ علی صاحب نے ترجمہ نہیں لکھا.راقم الحروف وضاحت کی خاطر ترجمہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ کے اردو ترجمہ
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام قرآن کریم سے درج کر رہا ہے.1 - وَإِذَا رَأَوْا أَيَةً يَسْتَسْخِرُوْنَ - وَ قَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ (الصُّفت) ترجمہ : اور جب بھی وہ کوئی نشان دیکھیں تو مذاق اڑانے لگتے ہیں.اور کہتے ہیں یہ تو محض ایک کھلا کھلا جادو ہے.(16-15: 37) 2 - وَاِنْ يَّرَوْا أَيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ- (القمر) ترجمہ: اور اگر وہ کوئی نشان دیکھیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیشہ کی طرح کیا جانے والا جادو ہے.(3 : 54) 3- قَدْ بَيَّنَّا الْآيَتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (البقرة) ترجمہ : ہم آیات کو یقین لانے والی قوم کے لئے خوب کھول کر بیان کر چکے ہیں.( 119 : 2) 4ـ...اِلَّا الْفُسِقُونَ (البقرة) مولوی چراغ علی صاحب نے بہت اختصار سے کام لیا ہے لیکن وضاحت کی خاطر ہم پوری آیت کا ترجمہ درج کرتے ہیں.ترجمہ : اور بے شک ہم نے تیری طرف کھلی کھلی آیات اتاری ہیں اور فاسقوں کے سوا کوئی ان کا انکار نہیں کرتا.(100 : 2) 5 -...قَالَ الكَفِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسجِرٌ مُّبِينٌ (يونس) 95 مولوی چراغ علی صاحب نے پوری آیت درج نہیں کی ہے جس سے ان کا موقف واضح نہیں ہو تا لیکن راقم الحروف وضاحت کی خاطر پوری آیت کا ترجمہ درج کرتا ہے.ترجمہ : کیالوگوں کے لئے تعجب انگیز ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نازل کی (اس حکم کے ساتھ ) کہ لو گوں کو ڈرا اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں خوشخبری دے کہ ان کا قدم ان کے رب کے نزدیک سچائی پر ہے.کافروں نے کہا کہ یقینا یہ تو ایک کھلا کھلا جادو گر ہے.(3 : 10) 6- هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَي عَبْدِهِ أَيْتٍ بَيِّنَتٍ (الحديد) مولوی چراغ علی صاحب نے جتنی آیت کا ٹکڑا دیا ہے اس کا ترجمہ درج ذیل ہے: ترجمہ : وہی ہے جو اپنے بندے پر روشن آیات اتارتا ہے (10: 57) -5-5- مولوی چراغ علی کی آیت کریمہ مذکورہ سورۃ بنی اسرائیل، وَ مَا مَنَعَنَا اَنْ نُرْسِل کے بارے میں خاموشی اور حضرت مرزا صاحب کی لطیف تفسیر بہ ثبوت معجزات محمدیہ مضمون مذکورہ 4-5 حاشیے میں مولوی چراغ علی صاحب مذکورہ بالا اور اس قسم کی آیات سے جو نتیجہ نکالتے ہیں ملاحظہ ہو: “ ان آیات میں وہی الفاظ اور قرینہ از قسم نزول و آیات و بینات ہیں جو ان آیتوں میں ہیں جیسے (کذا.جن سے ) عیسائیوں نے نفی معجزات کی دلیل نکالی ہے.پس جیسا ان لفظوں سے دلالت اور سیاق کلام سے ان مقامات میں معجزات ہے اور خوارق عادات مراد لئے جاتے ہیں وہی ان آیتوں میں بھی ضرور مرا دیجائیں اور اگر ان دلالت اور ظاہری معنی میں عیسائی گفتگو کریں گے تو ویسی ہی توجیہ ان الفاظ معانی میں بھی ہو گی جو ان سے اک خاص نفی معجزات سند لائی جاتی ہیں کیونکہ طرز کلام اور الفاظ اور ان کا سیاق اور قرینہ تو سب جگہ ایک ہی ہے (فتد بر)".49 مولوی چراغ علی صاحب نے عیسائیوں کے بارے میں جن آیتوں سے نفی معجزات کی دلیل نکالی ہے ” ان کا حوالہ نہیں دیا اور لکھا ہے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 96 کہ پیش کردہ آیات میں “وہی قرینہ از قسم نزول و آیات بینات ہیں.مولوی چراغ علی صاحب کی اس بات سے عیسائیوں کی بات واضح نہیں ہوتی جس کا انہوں نے نفی آیات کے لئے حوالہ دیا ہے.چونکہ بات پادری عماد الدین صاحب کی کتاب تواریخ محمدی ” کی ہو رہی ہے اس لئے ان ہی کا حوالہ دیا جانا چاہئے تھا.لیکن مولوی چراغ علی صاحب نے نہ معلوم کن مصالح کی بناء پر ایسا نہیں کیا لیکن را قم الحروف پادری صاحب کی مذکورہ کتاب سے پادری صاحب کے اعتراض کو درج کرتا ہے: پہلی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں محمد صاحب کا کوئی معجزہ مذکور نہیں ہے.اگر ان کے ہاتھ سے بقدرت الہی معجزات ظاہر ہوئے تو قرآن میں ان کا ذکر کچھ تو ملتا...قرآن معجزات محمدیہ کی نسبت نہ صرف سکوت رکھتا ہے بلکہ صرف اقرار کرتا ہے کہ محمد صاحب کو خدا نے معجزے دے کر دنیا میں نہیں بھیجا تھا.سورہ بنی اسرائیل کے 6 رکوع میں وَ مَا مَنَعَنَا أَنْ تُرْسِلَ بِالْايَتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ (60 :17 ) یعنی محمد کو ہم نے اس لئے معجزات دے کر نہیں بھیجا کہ اگلے پیغمبروں کے معجزات کی تکذیب دنیا میں ہو چکی ہے...پس قرآن معجزات کا صاف انکار کرتا ہے البتہ حدیثیں اقرار کرتی ہیں جو قرآن سے کم مرتبہ اور بے سند باتیں ہیں.50 پادری عماد الدین صاحب نے درج بالا عبارت میں دو باتیں کیں ہیں ایک یہ کہ قرآن کریم میں حضرت محمد صلی اللہ نام کا کوئی معجزہ مذکور نہیں دوسرا یہ کہ ہم بعض ان گذشتہ قہری نشانوں کو (جو عذاب کی صورت میں پہلی امتوں پر نازل ہو چکے ہیں ) اس لئے نہیں بھیجتے جو پہلی امت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں.اور اس کا نتیجہ یہ نکالا ہے کہ “ قرآن معجزات کا انکار کرتا ہے”.ہم پہلے دوسری بات کے متعلق بیان کر کے پھر پہلی کی طرف توجہ دیں گے.اس آیت کریمہ کی تفسیر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب اپنی ایک کتاب میں درج فرماتے ہیں: اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں:.1 نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں، نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کر سکتے ہیں.تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اور نافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدائے تعالی کی قہری اور جلالی ہیبت اُن کے دلوں پر طاری ہو اور تبشیر کے نشان ان حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کے لئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار ہیں..سو مومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے....تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے...محبت اور عشق میں بھی دن بدن بڑھتا رہتا ہے...سالک کو معرفت کا ملہ اور محبت ذاتیہ کی اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہی المقامات ہے.قرآن شریف...نے ان نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ فرماتا ہے لَهُمُ الْبُشْري فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ ذُلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمِ (65: 10) یعنی ایمان دار دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں نا پید اکنار ترقیاں کرتے جائیں گے.اگر خدا تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف کی b
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام غرض سے بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں.97 اب چونکہ اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کے دو قسموں میں سے صرف تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسر ا امر تنقیہ طلب باقی رہ گیا کہ اس آیت کے (جو مَا مَنَعَنا الخ ہے) یہ معنے سمجھنے چاہیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی ای کرم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا....( یہ ) معنی کسی طرح درست نہیں کیونکہ...ظاہر یہ ہے پہلی امتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے....حالانکہ نادیدہ نشانوں میں ایسے اعلیٰ درجے کے نشان بھی تحت قدرت باری تعالیٰ ہیں جس کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گرد نہیں اس کی طرف جھک جائیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشانہائے قدرت باری غیر محدود اور غیر متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیو نکر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہو گئی.وقت محدود میں تو وہی چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہو گی....بہر حال اس آیت کے یہی معنے صحیح ہوں گے جو بعض نشانات پہلے کفار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے ان کا دوبارہ بھیجنا عبث سمجھا گیا جیسا کہ قرینہ بھی انہی معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ خمود کا خدائے تعالیٰ نے ذکر کیا وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گذشتہ رد کر دہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے...( اور اس کے معنے ) یہ قابل اعتبار ہیں کہ دو نو قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی علیم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہے ہیں بجز ان خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کو پہلی امتوں نے دیکھ کر جھٹلایا تھا اور ان کو معجزہ نہیں سمجھا تھا.ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے ان پر ظاہر ہو گا کہ آیت وَ مَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآيَتِ الخ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے.کیونکہ الایات کے لفظ پر الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دو صورتوں سے خالی نہیں یا کل کے معنے دے گا یا خاص کے.اگر کل کے معنی دے گا تو یہ معنی کیے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہو مگر اگلوں کا اُن کو جھٹلانا اور اگر خاص کے معنی دے گا تو یہ معنی ہوں گے کہ ہمیں ان خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں ) کوئی امر مانع نہیں ہوا.مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا بہر حال ان دونوں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اگر یہ معنی ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب امم گذشتہ نہیں بھیجیں تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہو تا ہے جیسے مثلاً کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے.اور اگر یہ معنے لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے...اس جگہ نفی کا حرف صرف نشانوں کے ایک قسم خاص کی نفی کے لئے آیا ہے جس کا دوسرے اقسام پر کچھ اثر نہیں بلکہ اُس سے اُن کا متحقق الوجود ہونا ثابت ہو رہا ہے.اور ان آیات میں نہایت صفائی سے اللہ جل شانہ بتلارہا ہے کہ اس وقت تخویفی نشان جن کو یہ لوگ درخواست کرتے ہیں صرف اسی وجہ سے نہیں بھیجے گئے کہ پہلی امتیں ان کی تکذیب کر چکی ہیں.سو جو نشان پہلے رد کئے گئے اب بار بار انہی کو نازل کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور غیر محدود قدرتوں والے کی شان سے بعید.پس ان آیات میں یہ صاف اشارہ ہے کہ عذاب کے نشان ضرور نازل ہوں گے مگر اور رنگوں میں.یہ کیا ضرورت ہے کہ وہی نشان حضرت موسیٰ کے یا وہی نشان حضرت نوح اور قوم لوط اور عاد اور محمود کے ظاہر کئے جائیں.51 لیکن مولوی چراغ علی مرحوم نے اپنے عجز بیان سے زیر بحث بات کا سرے سے جواب ہی نہیں دیا بلکہ ٹال دیا.اور ان کا بحیثیت مجموعی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 98 ذکر (5,4,3) کر دیا یا ان پر لکھنا (یعنی دلائل پادری عماد الدین (6,2,1 ) کو حماقت قرار دیا ہے.52 لیکن کیا اس طرح اعتراض دور ہو تا ہے؟ یقینا نہیں بلکہ اس بات پر پادری عماد الدین صاحب کو اور دلیری ہوئی ہو گی.اس لئے پادری نے جواب الجواب میں نقلیت التعلیقات "لکھی.("Taqliat'l Taliqat A Reply to Munshi Chiragh-ud-Din') (ملاحظہ ہو ای.ایم.وہیری) پادری “ویری ” صاحب لدھیانہ کے امریکن مشنری ” تھے.ملاحظہ ہو مولوی چراغ علی کی کتاب تحقیق مسئله تعدد زوجات مطبع اختر دکن واقع افضل گنج حیدر آباد دکن صفحه 259) (E.M.Wherry) کی کتاب The 'Muslim Controversy شائع کردہ 1905.The Christian Literature Society Madras صفحہ نمبر 15 زیر باب 1900–1830 The writings of the Rev.Imad-ud-Din, Lahiz.D.D پادری و ہیری کی کتاب کی عکسی نقل را قم الحروف کو سمندری ضلع فیصل آباد کے جناب ظفر چوہدری صاحب اور ڈاکٹر ساجد اسد اللہ نے بہم پہنچائی ہے جس کیلئے ہر دو صاحبان کا شکر گزار ہے ) اور Islam and Christianity in India and far East مصنفہ Rev.E.M.Wherry مطبوعه (Fleming.H.Revell company London 5-6- معجزات محمدیہ مندرجہ قرآن کریم چونکہ ہمارے سامنے پادری عماد الدین صاحب کی مذکورہ بالا کتاب نہیں ہے اور نہ ہی پادری ای ایم و ہیری نے اس کی کچھ تفصیل دی ہے.اس لئے اس کے بارے میں یہاں مزید نہیں لکھا جا سکتا.البتہ پادری عماد الدین صاحب کے اوپر ذکر کئے گئے دعوی کے ایک حصہ کہ “ قرآن کریم میں حضرت محمد مصطفی صلی علیم کا کوئی معجزہ مذکور نہیں ” کے متعلق کیا حقیقت ہے درج کی جاتی ہے.جس کے بارے میں مولوی چراغ علی نے اپنی تیرہ چودہ سال بعد لکھی گئی کتاب تحقیق الجہاد میں یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ : فوق العادت معجزات کا دکھانا بھی پیغمبر کا کام نہیں." 53 اور اس کی ابتداء باوجود تعلیقات (مصنفہ مولوی چراغ علی) میں حضرت محمد مصطفی صلی الی یوم کے قرآن کریم میں مندرج معجزات کی کہیں مثال نہ دے کر اس سے باوجود دفاع کے روگردانی بھی کی تھی.جیسے کہ موصوف نے سورۃ القمر کی آیت نمبر 3 : 54 کا اندراج تو کیا لیکن اس سے قبل آیت کریمہ نمبر 1 اقتربت الساعة وانشق القمر کا حوالہ آنحضرت صلی للی نیلم کے معجزہ شق القمر میں نہیں دیا.راقم الحروف کی رائے میں انکار منجزات انبیاء علیہم السلام کا مرض 1871ء میں ( یہ دوران تالیف تعلیقات ) بھی موجود تھا.پھر کیا فرماتے ہیں مولوی عبد الحق صاحب اور ان کے بعد میں آنے والے حضرات جو بغیر کسی قسم کی تحقیق کے حضرت مرزا صاحب پر ، مولوی چراغ علی سے براہین احمدیہ میں مدد لینے کی بہتان تراشی کرتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی پر معارف تحریر ملاحظہ ہو جو قرآن کریم سے حقیقت معجزات اور معجزات محمدیہ کے ثبوت میں درج کی جاتی ہے: لقا کا مر تبہ تب سالک کے لئے کامل طور پر متحقق ہوتا ہے کہ جب ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متوازی اور پوشیدہ کر دیوے.جس طرح آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ نظر ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا...اس مناسبت سے کہ وہ لوگ صفات الہی کے کنار عاطفت میں بکلی جا پڑے ہیں....ان کو بھی ظلی طور پر بوجہ تخلق
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام باخلاق اللہ خدا تعالیٰ کی صفات جمیلہ سے کچھ مناسبت پیدا ہو گئی ہے.99...اور اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی علیم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر ہوا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جلشانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.وَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رمي ( الانفال: 18) یعنی جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا وہ تونے نہیں پھینکا بلکہ خد اتعالیٰ نے پھینکا.یعنی در پر دہ الہی طاقت کام کر گئی.انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا.اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو شق القمر ہے اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا.اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی.کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو ۲ چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا.اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا.اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا.ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الہی مخلوط تھی.54 5-7- حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور پادری عماد الدین یہ حصہ مضمون جو بہت طول کھینچ گیا ہے.لیکن یہاں یہ ذکر کر دینا بے جانہ ہو گا کہ پادری ای ایم وہیری نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ 57 پر پادری عماد الدین صاحب کی ایک کتاب تو زین الا قوال " The Tauzin ul Aqwal جو نہایت دل آزار اور اشتعال انگیز ہے کا تعارف کروایا ہے.جو براہین احمدیہ حصہ چہارم (1884ء) کی تصنیف کے نو (9) سال بعد 1893ء میں لکھی گئی تھی.یہ کتاب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے خلاف ہے.موصوف نے براہین احمدیہ کا اس کتاب کے پہلے باب میں ذکر تو کیا ہے اور حسب سابق اپنی بد باطنی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اسے یہ کہہ کر جواب کے قابل قرار نہیں دیا کہ 'incapable of a reply...(ملاحظہ ہو مذکورہ بالا کتاب پادری و ہیری صفحہ 58).کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس کتاب میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے براہین احمدیہ میں مذکورہ چیلنج کا جواب بھی دے دیتا جو پادری عماد الدین صاحب ہی سے متعلق تھا.پادری عماد الدین جس نے اپنی کتاب “ ہدایت المسلمین میں قرآن کریم میں بسم اللہ کی بلاغت پر اعتراض کیا اور حضرت اقدس نے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام اس کا براہین احمدیہ میں بھی جواب دیا اور ساتھ اس کی عربی دانی کی بابت لکھا:.100 “بھلا عماد الدین پادری کسی عربی آدمی کے مقابلہ پر کسی دینی یا دنیوی معاملہ میں ذرا ایک آدھ گھنٹہ تک ہم کو بول کر تو دکھاوے تا اول یہی لوگوں پر کھلے کہ اس کو سیدھی سادھی اور بامحاورہ اہل عرب کے مذاق پر بات چیت کرنی آتی ہے یا نہیں.کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ اس کو ہر گز نہیں آتی اور ہم یہ یقین تمام جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی عربی آدمی کو اس کے سامنے بولنے کے لئے پیش کریں تو وہ عربوں کی طرح اور ان کے مذاق پر ایک چھوٹا سا قصہ بھی بیان نہ کر سکے اور جہالت کے کیچڑ میں پھنسا رہ جائے اور اگر شک ہے تو اس کو قسم ہے کہ آزما کر دیکھ لے.اور ہم خود اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اگر پادری عماد الدین صاحب ہم سے درخواست کریں تو ہم کوئی عربی آدمی بہم پہنچا کر کسی مقررہ تاریخ پر ایک جلسہ کریں گے جس میں چند لائق ہندو ہوں گے اور چند مولوی مسلمان بھی ہوں گے اور عماد الدین صاحب پر لازم ہو گا کہ وہ بھی چند عیسائی بھائی اپنے ساتھ لے آویں اور پھر سب حاضرین کے روبرو اول عماد الدین صاحب ب کوئی قصہ جو اسی وقت ان کو بتلایا جائے گا عربی زبان میں بیان کریں.اور پھر وہی قصہ وہ عربی صاحب کہ جو مقابل پر حاضر ہوں گے اپنی زبان میں بیان فرماویں.پھر اگر منصفوں نے یہ رائے دے دی کہ عماد الدین صاحب نے ٹھیک ٹھیک عربوں کے مذاق پر عمدہ اور لطیف تقریر کی ہے تو ہم تسلیم کرلیں گے کہ ان کا اہل زبان پر نکتہ چینی کرنا کچھ جائے تعجب نہیں بلکہ اسی وقت پچاس روپیه نقد بطور انعام ان کو دیئے جائیں گے لیکن اگر اس وقت عماد الدین صاحب بجائے فصیح اور بلیغ تقریر کے اپنے ژولیدہ اور غلط بیان کی بدبو پھیلانے لگے یا اپنی رسوائی اور نالیاقتی سے ڈر کر کسی اخبار کے ذریعہ سے یہ اطلاع بھی نہ دی کہ میں ایسے مقابلہ کے لئے حاضر ہوں تو پھر ہم بجز اس کے کہ لعنت اللہ علی الکاذین کہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر عماد الدین صاحب تولد ثانی بھی پاویں تب بھی وہ کسی اہل زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے پھر جس حالت میں وہ عربوں کے سامنے بھی بول نہیں سکتے اور فی الفور گونگا بننے کے لئے طیار ہیں.تو پھر ان عیسائیوں اور آریوں کی ایسی سمجھ پر ہزار حیف اور دو ہزار لعنت ہے کہ جو ایسے نادان کی تالیف پر اعتماد کر کے اس بے مثل کتاب کی بلاغت پر اعتراض کرتے ہیں کہ جس نے سید العرب پر نازل ہوکر عرب کے تمام فصیحوں اور بلیغیوں سے اپنی عظمت شان کا اقرار کرایا...” 5-8- حضرت مرزا صاحب کے چیلنج مذکورہ نور الحق ”عربی دانی: ثبوت فصاحت و بلاغت قرآن کریم کے مقابلہ پر تمام پادری بشمول پادری عماد الدین سامنے نہ آئے 55 " امر تسر میں اہل اسلام اور عیسائیوں کے مابین 22 مئی 1893 ء سے لے کر 5 جون 1893 ء تک ایک مباحثہ ہوا.جس میں اہل اسلام کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( مرزا غلام احمد صاحب قادیانی) اور عیسائیوں کی طرف سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم مناظر تھے.جب حضرت مرزا صاحب کے ممبر ان سفارت پادری عماد الدین کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے پہنچے کہ کیا آپ اس مناظرہ میں بطور مناظر پیش ہوں گے تو انہوں نے کہا میں تو ایسے مناظروں کو فضول سمجھتا ہوں.” بہر کیف مذکورہ مناظرہ ہوا اور عیسائی فریق کو شکست فاش ہوئی اس سے نہ صرف ہندوستانی پادری بو کھلا اٹھے بلکہ یورپین مشنری
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 101 سوسائیٹیز جو ہندوستان میں مشنری بھیجتی تھیں اس سے فکر مند ہوئیں کہ آئندہ اسلام کا مقابلہ کیونکر ہو گا.اس شکست کی خفت مٹانے کے لیے مرتدین از اسلام پادریوں میں سے پادری عماد الدین نے ایک نہایت دل آزار کتاب (توزین الا قوال ) لکھی جس کا اوپر ذکر آچکا ہے.اس کے بارے میں ہندو اخبارات “رائے ہند اور “ پر کاش امر تسر اسی طرح آفتاب پنجاب اور عیسائی پرچہ شمس الاخبار ” لکھنو نے اس کے متعلق لکھا کہ “ یہ حد درجہ اشتعال انگیز اور شرر خیز ہے.اور 1857ء کے مانند اگر پھر غدر ہوا تو اس شخص کی بد زبانیوں اور بے ہودگیوں سے ہو گا." مذکورہ کتاب میں اس نے قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر اعتراضات کئے اور لکھا کہ وہ فصیح و بلیغ نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر نہایت رکیک اور بو دے اور شرمناک حملے کئے اور حضرت مرزا صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو اکسایا اور لکھا کہ یہ شخص (یعنی حضرت مرزا صاحب) ایک مفسد آدمی اور گورنمنٹ کا دشمن ہے.وغیرہ وغیرہ جب یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچی تو آپ نے اس کے جواب میں ایک کتاب “نور الحق حصہ اول اور “نور الحق ” حصہ دوم بزبان عربی لکھیں.اور پادری مذکور کے جملہ اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات دیئے.اس کتاب کے عربی زبان میں لکھنے کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ یہ مرتدین اسلام پادری لوگ اپنا مولوی اور علماء اسلام میں سے ہو نا مشہور کرتے تھے.حضرت مرزا صاحب نے ان کو چیلنج دیا کہ اگر وہ اپنے اس دعویٰ میں بچے ہیں کہ وہ عالم اور عربی زبان جانتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں عربی زبان میں ایسی ہی کتاب لکھیں اور ان پادریوں کے نام بھی اس کتاب میں درج کر دیئے.تحریر فرمایا: ثم بعد ذلك نخاطب كل متنصر ملقب بالمولوي، الذي كتبنا اسمه في الهامش، وندعو كلهم للمقابلة ولهم خمسة آلاف إنعاما منّا إذا أتوا بكتاب كمثل هذا الكتاب، كما كتبنا من قبل في هذا الباب والمهلة منا ثلاثة أشهر للمعارضين، فإن لم يبارزوا ، ولن يبارزوا ، فاعلموا أنهم كانوا من الكاذبين." ترجمہ: پھر اس کے بعد ہم ہر ایک کرشتان کو جو اپنے تئیں مولوی کے نام سے موسوم کرتا ہے اور مخاطب کرتے ہیں اور اُن سب کے نام ہم نے حاشیہ میں لکھ دیئے ہیں اور ان سب کو مقابلہ کے لیے بلاتے ہیں اگر وہ ایسی کتاب بنادیں تو ہماری طرف سے اُن کو پانچ ہزار روپیہ انعام ہے جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں اور بالمقابل کتاب تالیف کرنے والوں کیلئے ہماری طرف سے تین مہینہ ہے اور اگر مقابل پر نہ آویں اور ہر گز نہ آویں گے پس یقیناً جانو کہ وہ جھوٹے ہیں.56 مولوي كرم الدين، مولوي نظام الدين، مولوي إلهي ،بخش مولوي حميد الله خان، مولوي نور الدين، مولوي سيد علي، مولوي عبد الله ،بیگ مولوي حسام الدين ،بمبئي،مولوي حسام الدين، مولوي نظام الدين مولوي قاضي صفدر علی مولوي عبد الرحمن، مولوي حسن على وغيره وغيره.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام مگر ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب نے یہ بھی اعلان فرما دیا کہ : واني الهمتُ من ربّي أنك لا تقدر علي هذا النضال، ويبدي الله عجزك ويُخزيك ويثبتُ أنك أسير في الجهل والضلال، ولو اجتمعت قومك معك علي هذا الخيال، فترجعون مغلوبين" ترجمہ : اور مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ تو ( یعنی پادری عماد الدین جس کی کتاب "توزین الا قوال ” ہے.ناقل ) اس مقابلہ پر قادر نہیں ہو گا اور خدا تعالیٰ تیر اعجز ظاہر کر دے گا.تجھے رسوا کر دے گا اور ثابت کرے گا کہ تو گمراہی میں اسیر ہے اور اگر چہ تیری قوم اس خیالی مقابلہ میں تجھ سے متفق ہو جائے مگر آخر تم مغلوب ہو جاؤ گے.27 57 102 اور تمام دنیا پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ لوگ عربی زبان سے بالکل جاہل ہیں اور ان کے عالم اور عربی دان ہونے کا دعویٰ غلط ہے.اور ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس شخص کو جو عربی زبان سے بالکل جاہل ہو قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں.5-9- مولوی چراغ علی صاحب کی پادریوں بشمول پادری عماد الدین کی شکست پر خاموشی نہ مولوی چراغ علی صاحب نے تو پادری عماد الدین کے مقابلہ پر 1871ء میں کتاب تعلیقات ”لکھی تھی.جس کا مضمون زیر نظر کتاب میں بتفصیل ذکر کیا گیا ہے.اور مولوی چراغ علی صاحب کی 1895ء میں وفات ہوئی تھی.اُن دنوں یعنی 1894ء میں یہ دوران اشاعت کتاب “نور الحق ” مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مولوی چراغ علی صاحب بقید حیات تھے.لیکن انہیں اس بارے میں تائید و تردید کرنے کی جرات نہ ہوئی! مولوی چراغ علی صاحب سرسید کے اس قدر زیر اثر تھے کہ اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی جبکہ یہ تو اُن کا خاص موضوع تھا جس پر اُن کی محولہ بالا تصنیف بھی موجود تھی.لیکن مولوی چراغ علی صاحب اس موقعہ سے بھی محروم رہے ! 5-10-مولوی چراغ علی صاحب فقہ یا شریعت کو مبنی بر قرآن نہیں سمجھتے مولوی چراغ علی صاحب لکھتے ہیں : Those writers are greatly mistaken who either confound the Koran, the Mohammaden Revealed law with the Fiquah or cheriat (cheri) the Mohammaden common law or civil law; or think that the Koran contains the entire code of Islam; or that the Mohammaden law, by which is invariably meant the Mohammaden common law, is infalliable and unaltered.....58 اس کا ترجمہ مولوی عبد الحق صاحب نے یہ کیا ہے: 8.وہ مصنفین بڑی غلطی پر ہیں جو قرآن اور فقہ یا شریعت کو خلط ملط کر دیتے ہیں، یا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن میں اسلام کا پورا قانون درج ہے یا یہ کہ اسلامی قانون جس سے ہمیشہ اسلامی فقہ مراد ہے اس قدر بے عیب اور کامل ہے کہ اوس میں مطلق چون و چرا
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام اور تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں.....59 103 مولوی چراغ علی صاحب نے خلاف منشاء مصنف حجۃ اللہ البالغہ محولہ بالا حوالہ تو درج کر دیا لیکن فقہ / شریعت کو مبنی بر قرآن نہیں مانتے ! کیا انہیں حضرت مجد دشاہ ولی اللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اسی حجۃ اللہ البالغہ کی یہ عبارت نظر نہیں آئی تھی جو مولوی چراغ علی کے غلط عقیدے کی تردید میں بلا تبصرہ درج ہے: حدود کی اصلیت متوارث چلی آتی ہے.اسلام نے فقط ان کی اصلاح اور ترمیم کی ”.“ ہم سے پہلے جو شریعتیں تھیں ان کا حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص قتل کا مر تکب ہو تو اس کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے.زنا کی سزا رجم مقرر تھی (رجم سنگسار کرنا، پتھر مار مار کر ہلاک کر دینا) چوری کے ارتکاب پر مجرم کا ہاتھ کاٹا جاتا، یہ تینوں سزائیں انبیاء علیہ السلام کی شریعتوں میں متوارث چلی آتی تھیں.جملہ انبیاء سابقین کی شریعتوں میں ان جرائم کے لئے یہی سزائیں مقرر تھیں اور ان کی امتوں میں انہی احکام پر عملدرآمد تھا.یہ حدود اور شرائع اس قابل تھے کہ شریعت محمدیہ میں بھی انہی کو بر قرار رکھا جائے.اتنی بات ضرور ہے کہ شریعت ہذا نے ان کی مناسب اصلاح کی چنانچہ....60 لیکن مولوی چراغ علی کو چار صدیوں تک یہ باضابطہ طور پر تحریری حالت میں مدون نہیں ملتی.یہاں بے جانہ ہو گا کہ فقہ / شریعت کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جائے: “فقہ سے مراد وہ الہی قوانین ہیں جن کا تعلق انسانی افعال سے ان معنوں میں ہے کہ ایک عاقل بالغ سمجھدار انسان کیا کرے اور کیا نہ کرے یا اس نے جو کچھ کیا ہے اس کی قدر و قیمت کیا ہے.اسی کو شریعت کہتے ہیں...فقہ کا پہلا سر چشمہ...وحی الہی ہے یعنی وہ کلام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے مظہر بندے حضرت خاتم الانبیاء علی الی تم پر نازل کیا جس کا اعلیٰ ترین حصہ قرآن پاک ہے.اس وحی کا دوسرا حصہ سنت و حدیث ہے یعنی آنحضرت صلی للی نم کی وہ فعلی روش ہے جس کو امت نے آپ کے ارشاد کے مطابق اپنایا یا آپ کے وہ اقوال و فرامین ہیں جو قرآن پاک کے علاوہ آپ نے گاہے بگاہے موقع محل کے مطابق بیان فرمائے...ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ قوانین اور اس کی مرضی معلوم کرنے کے چند اور ذریعے بھی ہیں.مثلاً اجماع، قیاس، استحسان، مصالحہ مرسلہ، پہلی شریعتیں ، تعامل امت، معروف رواج.پہلے سے رائج چلے آنے والے ملکی قوانین وغیرہ.یعنی ہم مقررہ اور قرآن سنت کے بتائے ہوئے قواعد سے کام لے کر ان ذرائع سے بھی یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کسی امر کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے اور اس نے اس کے متعلق کیا حکم دیا ہے 61", اس سلسلے میں حضرت مرزا صاحب کے ارشادات زیر نظر مضمون کے حصہ 2-5 میں ملاحظہ ہوں.چه نسبت حناک را با عالم پاک شریعت کے بارے میں یہاں بھی حضرت مرزا صاحب کا ایک اقتباس دیا جاتا ہے جو اس مسئلہ کی بکلی وضاحت کرتا ہے:.“خدا تعالی کی حقانی شریعت اور تعلیم کا نازل ہو نا ضرورت حقہ سے وابستہ ہے.پس جس جگہ ضرورات حقہ پیدا ہو گئیں اور زمانہ کی اصلاح کے لئے واجب معلوم ہوا کہ کلام الہی نازل ہو اس زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے جو حکیم مطلق ہے اپنے کلام کو نازل کیا اور کسی دوسرے زمانہ میں گولاکھوں آدمی تقویٰ اور طہارت کی صفت سے متصف ہوں اور گو کیسی ہی تقدس اور پاک باطنی رکھتے ہوں ان پر خدا کا وہ کامل کلام ہر گز نازل نہیں ہوتا کہ جو شریعت حقانی پر مشتمل ہو....
براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 104 کتب آسمانی کے نزول کا اصل موجب ضرورت حقہ ہے یعنے وہ ظلمت اور تاریکی کہ جو دنیا پر طاری ہو کر ایک آسمانی نور کو چاہتی ہے کہ تا وہ نور نازل ہو کر اس تاریکی کو دور کرے......اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت صلی یم کی بعثت کے وقت اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان نور کے نزول کو چاہتی تھی 62, قانون شریعت کا بنانے والا کون ہو سکتا ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت مرزا صاحب کا براہین احمدیہ میں ہی یہ ارشاد بھی ملاحظہ ہو: “ انسان جو انواع اقسام کے جذبات نفسانی میں گرفتار ہے اور ہر یک لحظہ حرص اور ہوا کی طرف جھکا جاتا ہے وہ آپ ہی قانونِ شریعت کا واضع اور بنانے والا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ پاک قانون اسی کی طرف سے صادر ہو سکتا ہے کہ جو اپنی ذات میں ہر یک جذ بہ نفسانی اور سہو وخطا سے پاک ہے..63 اس کے بارے میں حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کی ابتداء میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں اپنے منظوم کلام بہ زبان فارسی کیا خوب فرمایا ہے.آن خداوندش بداد آں شرع و دیں.کاں نگر در تا ابد متغیرے 64 ترجمہ : اس خدا نے اسے وہ شریعت اور دین عطا کیا جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہو گا.5-11 - کیا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مولوی چراغ علی پر کوئی اثرات مترتب ہوئے تھے ؟ براہین احمدیہ کی تصنیف کے دوران جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں عام مسلمانوں کے رسمی عقیدہ کے مطابق تھا کہ آپ (حضرت عیسی علیہ السلام ):- انجیل کو ناقص کی ناقص چھوڑ کر آسمان پر جابیٹھے " 65" لیکن اس کے بعد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے 1890ء کے آخر میں جب رسالہ “ فتح اسلام ”لکھا جو 1891ء کے اوائل میں چھپ کر شائع ہوا، اس میں آپ نے اعلان فرمایا کہ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو.اور فرمایا:.مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَ كَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولًا.67" عیسائیوں کے بارے میں اپنی کتاب ازالہ اوہام میں آپ نے لکھا کہ :.“ ان کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.اس ستون کو پاش پاش کر دو.پھر نظر اٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے چونکہ خدا تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یورپ اور ایشیا میں توحید کی ہو اچلا دے.اس لئے اس نے مجھے بھیجا ہے اور میرے پر اپنا خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے.68 مولوی چراغ علی صاحب کی نیچری خیالات کے پیش نظر خوش قسمتی ہے کہ وہ ابتلاء سے بچ گئے.1876ء میں سر سید کے رسالہ تہذیب الاخلاق ” کے ایک مضمون “ حضرت عیسی ابن مریم رسول اللہ اور صلیب ” میں یہ لکھا کہ حضرت عیسی بجسده العفری آسمان پر زندہ نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی صلیب پر مر کر فوت ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے طبعی طور پر وفات پائی.چنانچہ سورہ نساء ع 22 آیت 156 سے استدلال کرتے ہوئے لکھا:
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 105 حضرت عیسیٰ نہ تو تلوار یا پتھروں سے مار ڈالے گئے اور نہ صلیب پر مارے گئے لیکن اُن کے قتل کرنے والوں کو دھوکا ہو گیا یا اُن سے اصل بات پوشیدہ ہو گئی یا ان کو حضرت عیسی کی موت کا تشابہ ہو گیا حالانکہ وہ یقینا مرے تھے البتہ تین گھنٹہ تک صلیب پر اذیت سے لٹکتے رہے اور پھر اتار لئے گئے.صلیب پر مصلوب ہونے سے جلدی کوئی شخص نہیں مر جاتا.بلکہ کئی روز تک لٹکنے سے دھوپ کی تپش اور بھوک کی شدت اور زخموں کی تکلیف سے البتہ مر جاتا ہے.یہ معاملہ حضرت عیسی کے ساتھ نہیں ہوا.اور جب وہ اتار کر قبر میں رکھے گئے تو ان کو کہ وہ ابھی غشی میں تھے بعض مخلص مومنین شب کو مقبرہ سے نکال کر گھر میں کہیں پوشیدہ لے گئے اور پھر حضرت عیسی، بعض حواریوں کو زندہ نظر آئے مگر یہود کی عداوت اور رومیوں کے اندیشہ سے کہیں دیہات میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ رہتے تھے پھر خدا نے ان کو اٹھالیا یعنی اپنی طبعی موت سے مر گئے اور خدا کے پاس چلے گئے اور اس کے داہنے ہاتھ جگہ پائی.یہ دونوں باتیں مجازاً اور فضیلت کہی جاتی ہیں.جو لوگ سمجھتے تھے کہ ہم نے اُن کو مار ڈالا.قرآن مجید اُن کو جھٹلاتا ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اُن کی صورت کا ایک دوسرا آدمی پکڑ اگیا اُن کو بھی قرآن مجید جھٹلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اُن کو علم قطعی نہیں ہے.انکل پر چلتے ہیں اور پھر اصلی حقیقت بتلاتا ہے کہ اصل بات ایسی چھپ گئی یا پوشیدہ کی گئی." مولوی چراغ علی کے اس خیال کے بارے میں قاضی جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ “ ان ہی ایام میں مولوی چراغ علی نے پادری عماد الدین کی تاریخ محمد می ”میں پیش کئے گئے اعتراضات کے رد میں ایک رسالہ تعلیقات " کے عنوان سے لکھا.جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ حضرت عیسی کے حالات زندگی انتہائی ناقابل اعتبار ہیں اور عیسائیوں کی مذہبی کتب بھی مصدقہ نہیں.تعلیقات کے علاوہ انہوں نے چند دیگر رسائل اور مضامین بھی ایسے ہی موضوعات پر رقم کئے تھے (بحوالہ.عبدالحمید رضوانی، مولوی چراغ علی، مقالہ برائے امتحان ایم.اے (اُردو) پنجاب یونیورسٹی 1971ء ص 3).ان میں مرزا غلام احمد کے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں.10 69,9 ان مسائل میں مولوی چراغ علی کا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب سے اثر قبول کرنا خود معترض بیان کر رہے ہیں لیکن یادر ہے کہ یہ بات انہوں نے بلا معین حوالہ کے لکھی ہے جبکہ براہین احمدیہ میں تو اس کے الٹ لکھا ہوا ہے پھر مدد کیسی؟! چہ جائیکہ وہ کوئی مدد دیتے.مولوی چراغ علی مذکورہ مضمون کے آخر میں حضرت عیسی اور ان کی والدہ حضرت مریم کے بارے میں اپنی عدم واقفیت کا یوں اظہار کرتے ہیں:.“أن ( یعنی حضرت عیسی) کی وفات کی خبر بہت صاف ہے.مگر یہ بات کہ وہ کب مرے اور کہاں مرے معلوم نہیں جیسے کہ حضرت مریم کا حال پھر کچھ نہ معلوم ہوا حالا نکہ حضرت عیسی نے ان کو یو حنا حواری کے سپرد کیا تھا اور یوحنا حواری صاحب تصنیفات بھی تھے پھر بھی کچھ حال ان کا نہیں لکھا اور حضرت مسیح تو دشمنوں سے پوشیدہ دور کے دیہات میں چلے گئے تھے.71 اس کے بر عکس حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتاب " مسیح ہندوستان میں ” میں ملاحظہ ہو جس میں حضرت عیسی کے احوال سے متعلق تمام امور بتفصیل درج ہیں.مولوی چراغ علی سرسید گروپ کے پُر جوش مبلغ تھے.مولوی صاحب کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ تھے جو سر سید کے ہمنوا تھے مگر حضرت مرزا صاحب کے علم کلام سے واقفیت کے بعد بہت سے اہل علم حضرت مرزا صاحب کے ساتھ آشامل ہوئے ان میں سے ایک صاحب مولوی عبد الکریم سیالکوٹی بھی تھے آپ اپنے سرسید اور حضرت مرزا صاحب کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 106 میں نے تئیس برس تک سید صاحب کی تصانیف کو پڑھا اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ سید صاحب کے ہم آواز ہونے کے ایام میں میں منافق یا مقلد نہ تھا.میرے احباب خوب جانتے ہیں کہ اخلاص و سرگرمی سے ان خیالات کی تائید کرتا.اور عالم السر والعلن گواہ ہے کہ اس وقت بھی نیک نیت اور رضائے حق مطلوب تھی.مارچ 1889ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شرف بیعت حاصل کیا.1891ء میں آپ کی پاک صحبت میں علوم و حقائق مجھ پر منکشف ہوئے کہ میرے سینے کو لوث اغیار سے صاف دھو ڈالا میں اپنے ذاتی تجربہ اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ سید صاحب مرحوم کے مذہبی خیالات خدائے ذو العجائب کے پانے کی راہ میں خطرناک روک ہیں.کاش وہ جو اس زہر سے ناواقف ہیں اور شیر شیریں کی طرح مزے لے لے کر پی رہے ہیں ایک تجربہ کار کی سنیں.میں نے دونوں راہیں خوب دیکھی ہیں اس لئے مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں ایک ناصح شفیق ہادی کی صورت میں ناواقفوں کو آگاہ کروں کہ ضلالت سے بیچ جائیں."72 حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی کے نزدیک حضرت مرزا صاحب نے وفات مسیح کے بارے میں کیا کام کیا وہ درج ذیل ہے :.کتاب حکیم نے حضرت عیسی کی توفی کی بحث چھیڑی ہے اور اس توفی عیسی کی توضیح و تائید کے لئے اس لفظ تو فی کو متعدد مقامات میں کتاب کے ذکر کیا ہے اور ان میں موت کے ایک ہی معنے کر کے حضرت عیسی کی موت پر ابدی مہر لگا دی ہے.غرض اس باطل کے استیصال کے طریقوں میں اس طریق کی کمی اور بڑی بھاری کمی تھی جسے حضرت مامور (یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی) نے پورا کیا.73 جبکہ سرسید تحریک کے متکلمین میں یہ امر موجود نہیں ہے اس کے علاوہ سرسید تحریک اور حضرت مرزا صاحب میں وفات مسیح پر جو فرق ہے ملاحظہ ہو.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی بیان فرماتے ہیں:.بعض لوگ اس دھوکے میں ہیں کہ اس سے پیشتر سر سید نے ہی وفات مسیح کے متعلق اپنی رائے ظاہر کی اور مضمون لکھا مگر واضح ہو کہ سرسید سے پہلے بہت سے حکمائے یورپ بھی یہی رائے ظاہر کر چکے ہیں.فضلائے یورپ کی کتابیں اس بارہ میں موجو د ہیں اور ہر ایک آزاد خیال اور نیچر میں غور کرنے والا بلالحاظ کسی کتاب کے گواہی کے بالبداہت اس کی کجھیل و تحمیق پر آمادہ ہو جاتا ہے جو کسی شخص کی ایسی انوکھی زندگی کا قائل ہو.جناب سید بھی طبعاً اس بات سے گھبر اجاتے ہیں جس سے یورپ کے فلسفی گھبر اتے ہیں اور بیزار ہوتے ہیں.ضرور تھا کہ عاد تأسید صاحب بھی اس پر سرسری کچھ کہتے.74 مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی مزید لکھتے ہیں کہ : اصل یہ ہے کہ سرسید اور آپ کے ہمخیالوں کا یہ شائع شدہ اصول ہے کہ مذہبی جھگڑوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں اس سے قوموں میں بغض کینے اور فساد پید اہوتے ہیں.چونکہ سرسید میں الہی جوش نہ تھا اور نہ مامور من اللہ تھے اور صرف معمولی تحریکات کے نیچے آکر مذہب کے متعلق بحث کیا کرتے تھے اس لئے فطرتاً ان کو ایسی ہمدردی اور ایسا جوش اسلام کے ساتھ نہیں ہو سکتا تھا.جو ایک مامور من اللہ اور سچے مجد د کے دل میں پید اہوتا ہے."15 سرسید کا مسئلہ توفی کی نسبت بحث کرنا چونکہ دینی سچی غیرت اور نبیوں اور صالحوں کے سے عزم اور ظلم عظیم کی بیخ کنی کے لئے پورے عقد ہمت اور اسلام کو دین باطل پر غالب کرنے کی بیقرار کر دینے والی غیرت کے تقاضا پر مبنی نہ تھا لہذا انہوں نے عام حکیمانہ رنگ میں اور بالکل سرسری طور پر اس مسئلہ کو عام قانون قدرت کے ساتھ موافق کرنے کے لئے معمولی بحث کر دی سید صاحب نے اس مسئلہ پر قائم رہنے کے لئے کوئی استقلال نہیں دکھایا.اور نہ اس کی اشاعت کی دھت انہیں لگی اور نہ انہوں نے بجز تفسیر کے محدود دائرہ کے کسی اور وسیع تحریر کے ذریعہ اس کو شائع کیا.انہوں نے اس مسئلہ پر اتنا بھی بلکہ عشر عشیر بھی زور نہیں دیا جتنا ناخلف بیٹے کی خلافت پر زور دیا اور خوارج کے مقابل شدتِ طیش سے فرمایا کہ وہ ان سے فرانس میں جا کر ڈویل لڑنے کو تیار ہیں.اور یہ ایک بھاری اور نا قابل عفو نقص ہے جس کی وجہ سے سرسید کو ذرا بھی اس اصلاح کا حق نہیں دیا جا سکتا جو ایک خدا کا بندہ خدا میں ہو کر کرتا ہے.76 اس کے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام بارے میں حضرت مرزا صاحب بیان فرماتے ہیں: 107 قرآن شریف سے جب مسیح ناصری کی وفات ثابت ہے تو ضرور ہے کہ آنے والا اسی اُمت میں سے کوئی ہو...وہ لوگ جو نیچری ہیں ان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ابتلاء سے بچ گئے کیونکہ وفات مسیح کے تو وہ قائل ہی ہیں اور مسیح موعود کا ذکر اس قدر تو اتر رکھتا ہے...اس لئے ایک عظمند اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسیح آئے گا.77 اگر مولوی چراغ علی کی مدد کا معاملہ ہوتا تو شروع ہی سے براہین احمدیہ میں وفات مسیح کا مسئلہ ہو تا.اس بات کا نہ موجود ہونا اس بات پر پکی دلالت کرتا ہے کہ مولوی عبد الحق نے حضرت مرزا صاحب پر بہتان تراشا ہے کیونکہ مولوی چراغ علی صاحب کا مضمون “حضرت عیسی مسیح ابن مریم رسول اللہ اور صلیب ” جمادی الاولی 1293ھ (1876ء) میں سرسید کے رسالے “تہذیب الاخلاق ” میں شائع ہو چکا تھا جبکہ محولہ خطوط 1879ء کے ہیں اور براہین احمدیہ 1880-1884ء کی ہے.فتد بریا اولی الابصار.اگر براہین احمدیہ کی تصنیف میں کسی علمی مدد کا معاملہ ہو تا تو وفات مسیح کی بات وہیں سے شروع ہو چکی ہوتی جو اس کے بر عکس ہے جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے.یہ سن اشاعت ڈاکٹر منور حسین نے اپنی کتاب “مولوی چراغ علی کی علمی خدمات مطبوعہ خدا بخش اور کینٹل پبلک لائبریری پٹنہ انڈیا مطبوعہ 1997ء کے صفحہ 64 پر بھی درج کیا ہے.چونکہ مولوی چراغ علی اور سرسید میں الہی جوش نہیں تھا.انہوں نے عام حکیمانہ رنگ میں اور بالکل سرسری طور پر اس مسئلہ کو عام قانون قدرت کے ساتھ موافق کرنے کے لیے معمولی بحث کر دی ہے.اُن کی اس بحث سے کیا کوئی عیسائی مسلمان ہوا ہے ؟ اُن کو اس اصلاح کا حق نہیں دیا جا سکتا جو ایک خدا کا بندہ خدا میں ہو کر کرتا ہے.کیونکہ اس کام کے لیے ایک بہادر کے دست و بازو کی احتیاج ہے جو ایک نبی کی صفت ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں ایک طرف کی دھار مؤمنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے.مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لیے ایک بہادر کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب...(آل عمران : 165) پس قرآن سے جو تزکیہ حاصل ہوتا ہے اُس کو اکیلا بیان نہیں کیا.بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے کبھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جو ہر شناس ہے." 78 لہذا اس مسئلہ کا حل بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہوا ہے جو دوسروں کی سرسری باتوں سے بالا تر ہے.چونکہ آپ ہی اصل جو ہر شناس ہیں.حوالہ جات 5-1 1 اردو ادب کی تحریکیں صفحہ 351ڈاکٹر انور سدید شائع کردہ: انجمن ترقی اردو پاکستان کر اچھی طبع دوم 1991ء 2 - ايضاً صفحه 358 3 -سیرت المہدی صفحہ 233 جلد سوم مصنفہ جناب مرزا بشیر احمد صاحب 4 - حقیقۃ الوحی صفحہ 298 مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 5 کلیات آریہ مسافر مصنفه شریمان بیر پنڈت لیکھ رام جی مطبوعہ مہاشے کشیب دیو مینجر ستیہ دھرم پر چارک
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام پریس ہر دوار ضلع سہارن پورہ 1904ء 5-2 6 صفحہ 16-17، اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام مطبوعہ مطبع مفید عام آگرہ.بار اول 1910ء 7 - صفحہ 455 تا 456 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 براہین احمدیہ حصہ چہارم مطبوعہ ضیاء الا لسام پر میں ربوہ 8 - کتاب البریہ ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی یا صفحہ 87-88 9- براہین احمدیہ صفحہ 288 حاشیہ نمبر 2 10 - مضمون سرسید سے اقبال تک ذہنی سفر “ از عالم خوند میری صفحه 51 مطبوعہ ماہ نامہ “المعارف “نومبر دسمبر 1992 ء ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ لاہور 11 - صفحہ 89 تہذیب و تخلیق مکتبہ ادب جدید لاہور 12 - صفحہ 20 مقدمہ اعظم الکلام فی ارتقاء الا سلام تحریر کر وہ مولوی چراغ علی 13 - ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی 14 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم صفحة 24-25 مولفہ مولوی چراغ علی 15 - آریہ دھرم صفحہ 39 مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 16 - بركات الدعا مطبوعہ 1892ء مصنفہ جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 17 - در ثمین فارسی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی متر جمہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب 18 - مقدمہ تحقیق الجہاد صفحہ 76-77 19 -حاشیہ مقدمہ تحقیق الجہاد صفحہ 77 20 - حاشیہ مقدمہ تحقیق الجہاد صفحہ 77 21 - اعظم الکلام...حصہ دوم صفحہ 67 5-3 22 - تبصرہ.تحقیق الجہاد.مولوی عبد الحق مشمولہ تحقیق الجہاد صفحہ 6 23 - ایضاً صفحہ 7 24 ایضاً صفحہ 8 25 - ازالہ اوہام صفحہ 261 مشمولہ روحانی خزائن جلد نمبر 3 26 “ براہین احمدیہ جلد چہارم صفحہ نمبر 593 تا 610 مشمولہ روحانی خزائن جلد نمبر 1 27 - براہین احمدیہ جلد چہارم صفحہ نمبر 557 تا 560 مشموله روحانی خزائن جلد اول 28 - ایضا صفحہ 553 108
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 29- براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه در حاشیہ نمبر 1 صفحه 277 تا 279 30 - براہین احمدیہ.حصہ چہارم حاشیه در حاشیہ نمبر 3 صفحہ 567 تا569 31 - حیات احمد.مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 406،113 32 - براہین احمدیہ.حصہ چہارم.صفحہ 646-650 حاشیه در حاشیہ نمبر 11 33 وسوسه چهارم بر ہمو سماج مندرجہ براہین احمدیہ جلد سوم صفحہ 181 34 - براہین احمدیہ.حصہ سوم صفحہ 190 تا191 35 - ایضاً صفحه 191 36 - ایضاً صفحه 191 37 - براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 191 38 - براہین احمدیہ.حصہ سوم صفحہ 196 تا 197 39 - براہین احمدیہ.حصہ سوم.صفحہ 197-198 40 - “ بر امھ دھرم کے بنیادی اصول و عقائد مہر شی دیویندر ناتھ ٹھاکر جی.1915ء صفحہ 132 41 - ایضاً صفحہ 125 42 - ایضاً صفحہ 135 43 - ایضا صفحہ 139 44 - براہین احمدیہ جلد سوم حاشیہ نمبر 11 صفحہ 234 تا 238 45 - مکتوبات احمد “ جلد اول صفحہ 509 مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ.2008ء 46 - ايضًا صفحہ 532 47 تواریخ محمد ی پادری عماد الدین صفحہ 11 4-5 48 - تعلیقات “مولوی چراغ علی صاحب صفحہ 23 49 - “ تعلیقات “مولوی چراغ علی صاحب صفحہ 23 حاشیہ 50 - تواریخ محمدی پادری عماد الدین صاحب صفحہ 11-12 5-5 51 - “ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات “صفحہ 13-18 مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب بحوالہ تفسیر سورۃ یونس تا سورۃ کہف.52 - “تعلیقات “مولوی چراغ علی صاحب صفحہ 24-25 53 - تحقیق الجہاد مولوی چراغ علی صاحب صفحہ 76 5-6 109
58 110 - براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 54 - آئینہ کمالات اسلام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی المعہود.صفحہ 64-66 5-7 55 - براہین احمدیہ حصہ چہارم حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی حاشیہ نمبر 11 صفحہ 432-435 5-8 56 - نور الحق حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 157-158 57 - نور الحق حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی صفحہ 153 59 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام صفحہ 43 60 - حجۃ اللہ البالغہ حصہ دوم صفحہ 489 5-10 Reforms under Muslim Rule p.8 61 - “اصول فقہ کا مختصر تعارف مکرم ملک سیف الرحمان صاحب صفحہ 30-31 مجلة الجامعہ جنوری.مارچ 1964ء 62 - براہین احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی حصہ چہارم صفحہ 416تا418 63 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 356 حاشیہ نمبر 11 5-11 64 - براہین احمدیہ حصہ اوّل صفحہ 19 65 - براہین احمدیہ صفحہ 431 حاشیه در حاشیه 66 - “فتح اسلام “حاشیہ صفحہ 15 67 - ازالہ اوہام صفحہ 402 مطبوعہ 1891ء 68 - ایضاً صفحہ 452 69 - تہذیب الاخلاق.مولوی محمد چراغ علی کے مضامین کا مجموعہ جلد سوم از 1287ھ مرتبہ ملک فضل الدین...بازار کشمیری لاہور صفحہ 175-176 70 صفحہ 57 سمر سید سے اقبال تک“ شائع کردہ نگارشات میاں چیمبر (۳.ٹمپل روڈ لاہور.اشاعت 1986ء 71 - حضرت عیسی اور صلیب صفحہ 17 مطبوعہ نولکشور سٹیم پریس لاہور 1910ء -72 لیکچر حضرت اقدس امام زمان مسیح موعود جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی صفحہ 64-65-13 / نومبر 1898ء، مطبوعہ: مطبع انوار احمد یہ قادیان دار الامان جولائی 1900ء 73 - صفحہ 93 لیکچر ايضاً
111 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 74 - صفحہ 94 لیکچر ايضاً 75 – صفحہ 94-95لیکچر ايضاً 76 - صفحہ 108 لیکچر ایضاً 77 ملفوظات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی جلد اول صفحہ 46-47 78 - حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود نزول المسیح ص 93-92
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 112 باب ششم: مکتوبات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مندرجہ مقدمہ اعظم الکلام میں درج مضامین اور مولوی چراغ علی صاحب کی تحریرات: خصوصی موازنہ 6-1.ایک خصوصی تقابلی جائزہ حضرت مرزا صاحب کے خطوط میں درج مضامین کو نمبر viiti پیرا نمبر 10-4 میں لکھا گیا ہے.ان مضامین کے ہم معنی عنوانات کو اگر اکٹھا کیا جائے تو مضامین کی تفصیل یوں بنے گی:.1.اجتماع براہین قطیعہ نبوت (i) اور اثبات نبوت (iii) -2- حقیت قرآن شریف (ii) اثبات حقانیت فرقان مجید 3 - فرقان مجید کے الہامی (vii) اور کلام الہی ہونے کا ثبوت (viii) 4 ہنود پر اعتراضات (v) وید پر اعتراضات (vi) اول تو حضرت مرزا صاحب کے خطوط میں درج موضوعات پر مولوی چراغ علی پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں.اگر کہیں مجبوراً قلم اٹھاتے بھی ہیں تو سر سری باتوں سے آگے بڑھ نہیں پاتے.چہ جائیکہ کوئی نادر علمی بات جو برہان قاطع کا درجہ رکھتی ہو پیش نہیں کر پاتے.اب ذیل میں انہی موضوعات پر ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے:.-6-2- اثبات نبوت محمدیہ صلى الله ولم مولوی چراغ علی صاحب “ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ” کے حصہ دوم ( ترجمہ مطبوعہ ۱۹۱۱ء) میں تحریر کرتے ہیں:..اب میں اُن کے (یعنی پادری میلکم میکال کے ) ان دلائل کو پر کھنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے وہ موجودہ اہل اسلام میں کسی اصلاح یا ترقی پانے سے بالکل مایوس ہیں.پادری صاحب نے اندھا دھند یہ رائے ظاہر فرمائی ہے:.علاوہ اس برتاؤ کے جو اسلام میں غیر مسلم رعایا کے ساتھ روار کھا گیا ہے.اسلام میں تین ایسے لا علاج عیب موجود ہیں جو اس مذہب کا جز ولا یجزی ہو گئے ہیں.اور ہر قسم کی اصلاح و ترقی کے مانع ہیں.اور وہ یہ ہیں: اول: عورتوں کی ذلت اور غلامی کا رواج دوم سوم: اور مرتد کی سزائے موت - 1 انسانی عقل کو چھٹی صدی کے ایک نا قابل و ناتربیت یافتہ بڈو کے علم کے تنگ دائرہ میں محدود کر دینا.اب میں (بقول ریورنڈ موصوف) مذہب اسلام کے ان تین لا علاج عیوب پر نظر ڈالوں گا.(ملاحظہ ہو صفحہ نمبر ۱تا۲) ۱ پادری میکم میکال(Malcolm Maccoll) کے اصل الفاظ درج ذیل ہیں: "Apart from its attitude towards subject races, Mohammadanism carries in its bosom three incurable vices which being of the essence of the system, bar for ever all possibility of
113 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام reform.These are the degradation of women and the institution of Slavery; the imprisonment of the human Intellect within the narrow circle of knowledge possessed by an able and uncultivated Bedouin of the sixth century; the inevitable penalty of death for forsaking Islam."2 (The proposed politiced, legal, and social Reforms in the ottoman Empire and other Mohammadam states By Moulavi Charagh Ali - Bombay Printed at the Education Society's Press Byculla — 1883) پادری کین میلکم میکال نے اپنے مضمون میں “ Three incredible Vices ” کو اسلام کے عیوب میں شمار کیا ہے اور اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرنے کے لیے ولیم میور کا حوالہ دیا ہے اور اُس کی عبارت کے ایک ٹکڑے کو اپنی بات کے ساتھ جوڑ دیا ہے جو لکھتے ہیں: " Three Radical evils ” اور نتیجہ ولیم میور کی ہی عبارت کو جوڑ کر درج کیا ہے یعنی: "These Three radical evils"...flow from the faith in all ages and in every country and must continue to flow so long as the Koran is standard of belief.3 یعنی یہ تینوں عیوب اُس وقت تک ظاہر ہوتے رہیں گے جب تک ایمان کا معیار قرآن ہے." لیکن مولوی چراغ علی صاحب نے تین عیوب تو درج کر دیئے ہیں مگر جو بات میلکم میکال نے کی ہے اُس کا ذکر نہیں کرتے جو اس کی تمہید باندھنے کا مقصد ہے.اگر چہ مولوی چراغ علی صاحب ان تین لا علاج امراض کے تعارفی پیرا میں معترض کو قرآن کی پاک تعلیم ” 4 The Hallowed texts of the Koran سے “بالکل ناواقف ” wholly ignorant” قرار دیتے ہیں.لیکن آخر پر نتیجہ درج کرتے ہوئے قرآن کریم میں تعلیمات سکھانے کا محمد عربی (صلعم) کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں.جیسے لکھا ہے: "Pure Islam thaught by the Arabian Prophet, Mohammad in the Koran" وہ پاک اور ٹھینٹ اسلام جو پیغمبر عرب محمد صلی اللہ ہم نے ہمیں قرآن میں بتایا.اول: مولوی چراغ علی صاحب نے اعتراض کو پورا درج نہیں کیا.ود6 دوم اعتراض پر ایک اور اعتراض کو پیدا کر دیا کہ یہ تعلیم حضرت محمد صلعم نے قرآن میں درج کی ہے ! علاوہ ازیں حضرت محمد صلی علیم کے ذکر میں جو الفاظ پادری میلکم میکال نے استعمال کئے ہیں وہ able and uncultivated Bedouin کے ہیں.جن کا ترجمہ کرنے میں مصنف کے الفاظ Able کو نظر انداز کر کے مولوی عبد الحق صاحب نے “نا قابل و نا تربیت یافتہ بدو ” کے کئے ہیں able کا ترجمہ اہل، قابل، لائق ، فاضل کے ہوتے ہیں.مولوی عبدالحق صاحب نے قابل اور فاضل کو
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 114 نا قابل ” میں کیونکر بدل دیا؟ اسی طرح لفظ uncultivated جو عموماً اراضی کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کا ترجمہ “ غیر مزروعہ ، ناکاشتہ اور غیر آباد کیا جا سکتا ہے اور جب انسانوں کے لئے استعمال کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اس کا ترجمہ “ غیر تعلیم یافتہ ” کیا جا سکتا ہے.لیکن “نا تربیت یافتہ کا ترجمہ مولوی عبدالحق صاحب کی “مولوی اور مسلمان کہلا کر ایک مذموم جسارت ہے.جس کے لیے مولوی عبد الحق صاحب کو ہزاروں مرتبہ سوچنا چاہئے تھا.موصوف کی اُردو زبان کی ترقی و ترویج میں خدمات کا اپنا ایک مقام سہی لیکن اُن کا یہ غیر محتاط رویہ کسی طور قابل ستائش نہیں بلکہ لائق صد نفریں ہے.اسی طرح Bedouin خانہ بدوشی کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ آنحضرت علی علیم مکہ و مدینہ کی شہری زندگی گزارتے تھے نہ کہ خانہ بدوش اور بدوی زندگی.آپ بنو ہاشم میں سے تھے جو کسی صورت میں بدوی قبائل میں سے نہ تھا.لیکن مولوی عبد الحق نے ترجمہ کرتے ہوئے ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا.اور پادری سے بڑھ کر دریدہ دہنی کی ہے.بلکہ مولوی عبد الحق صاحب نے اس ترجمے میں اس قسم کے الفاظ آنحضرت صلی للی یکم کے بارے میں لکھ دیئے ہیں جو پادری میکال اور اس کے ہم نوا مصنفین نے نہیں لکھتے ہیں.مولوی عبد الحق صاحب کے اس کتاب کے مقدمے کے ان الفاظ میں اور موصوف کے ترجمے میں کیا فرق رہ جاتا ہے.لکھتے ہیں: " میکال اور ان کے بعض ہم نوایور پین مصنفین کا یہ کہنا کہ اسلام اپنے پیروؤں کو چھٹی صدی کے بدوؤں سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا اور مسلمان کبھی ترقی نہیں کر سکتے جب تک وہ مذہب اسلام کو ترک نہ کر دیں." 1" اس پر مستزاد مولوی چراغ علی صاحب کا یہ عندیہ کہ: “اب میں (بقول ریورنڈ موصوف ) مذہب اسلام کے ان تین لا علاج عیوب پر نظر ڈالوں گا.” اور کتاب میں اس وعدہ اور منصوبہ کے باوصف نہ تو مصنف (مولوی چراغ علی ) مترجم (مولوی عبد الحق) اور نہ ہی مشتہر (مولوی عبد اللہ خان حیدرآباد دکن کتب خانہ آصفیہ ) متنبہ ہوتے ہیں اور توجہ دیتے ہیں کہ بقول پادری میلکم میکال “اسلام کے تین لا علاج عیوب ” میں سے اول کا جواب مولوی چراغ علی نے دے دیا اور مولوی عبد الحق نے ترجمہ کر دیا لیکن عیب دوم کو چھواتک نہیں گیا.البتہ عیب سوم ” کے بارے میں مشتہر مولوی عبد اللہ خان نے نوٹ دیا ہے کہ : دو مر تد کی سزائے موت پر حصہ اول میں بحث ہو چکی ہے.عبد اللہ 8 عیب اول ” کا ذکر اسی کتاب کے صفحہ 2 سے 84 تک ممتد ہے.جس میں عورتوں کی حالت ” کے تحت تعدد زوجات ”، “طلاق”، “ غلامی ”اور “ تسری ” کے عناوین قائم کر کے جواب لکھا گیا ہے.اور آخری صفحہ نمبر 84 پر “ خاتمہ ” کے تحت مولوی چراغ علی نے ان ہی خرابیوں کی طرف نشاندہی کی ہے لیکن “ عیب دوم کا ذکر نہیں کیا.جس کا انہوں نے میلکم میکال کے اقتباس کو درج کر کے نظر ڈالنے کا وعدہ کیا تھا.پس مولوی چراغ علی صاحب اثبات نبوت محمدیہ کیونکر ثابت کر سکتے ہیں جو صرف آنحضرت پر اعتراض تو درج کرتے ہیں لیکن اُس کا جواب دینے کا وعدہ کر کے جواب نہیں دیتے ! البتہ اس اعتراض کے مترجم اِسے اور گھمبیر صورت میں درج کرتے ہیں.جیسے کہ حوالہ نمبر 2-6 میں درج کیا گیا ہے جس کے آخر میں مولوی عبدالحق کی اسلامی حمیت کچھ جاگتی بھی ہے اور لکھتے ہیں: " کیا مسٹر میکال اور ان کے دوست بھول گئے ہیں کہ موجودہ ترقی اور تمدن کی بنیاد اہل اسلام ہی کی ڈالی ہوئی ہے...2 لیکن اپنے ممدوح مولوی چراغ علی کے باوجو د وعدہ " اب میں (بقول ریورنڈ موصوف ) مذہب اسلام کے ان تین لاعلاج عیوب پر نظر ڈالوں گا".11 کو نظر انداز کر کے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 115 مقدمے میں داد و تحسین نچھاور کرتے ہیں.اس عدم ایفائے عہد کا ذکر تک نہیں کرتے ہیں.حضرت محمد مصطفی صلی ال نیم کے شایان شان Able Uncultivated کا ترجمہ کرنا جو مناسب و حسب حال ہے وہ یوں کرنا چاہیے تھا: “اگر چہ آنحضرت علی الم تربیت یافتہ نہیں تھے لیکن سخت ذہین و فطین تھے." 6-3- الجواب: چھٹی صدی کے اتنی دلیل اثبات نبوت محمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود مہدی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ کی تمہید ہفتم میں حضرت محمد رسول کریم صلی الی یوم کے اُمی ہونے کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: قرآن شریف میں جس قدر باریک صداقتیں علم دین کی اور علوم دقیقہ الہیات کے اور براہین قاطعہ اُصولِ حقہ کے معہ دیگر اسرار اور معارف کے مُندرج ہیں اگر چہ وہ تمام فی حد ذاتہا ایسے ہیں کہ قوی بشریہ اُن کو بہ ہیئت مجموعی دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور کسی عاقل کی عقل ان کے دریافت کرنے کے لئے بطور خود سبقت نہیں کر سکتی کیونکہ پہلے زمانوں پر نظر استقراری ڈالنے سے ثابت ہو گیا ہے کہ کوئی حکیم یا فیلسوف اُن علوم و معارف کا دریافت کرنے والا نہیں گزرا.لیکن اس جگہ عجیب بر عجیب اور بات ہے یعنے یہ کہ وہ علوم اور معارف ایک ایسے اقی کو عطا کی گئی کہ جو لکھنے پڑھنے سے نا آشنا محض تھا جس نے عمر بھر کسی مکتب کی شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ کسی کتاب کا کوئی حرف پڑھا تھا اور نہ کسی اہل علم یا حکیم کی صحبت میسر آئی تھی بلکہ تمام عمر جنگلیوں اور وحشیوں میں سکونت رہی اُنہیں میں پرورش پائی اور انہیں میں سے پید اہوئے اور انہیں کے ساتھ اختلاط رہا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی اور ان پڑھ ہونا ایک ایسا بد یہی امر ہے کہ کوئی تاریخ دان اسلام کا اُس سے بے خبر نہیں "11 اس تمہید میں آگے رقم فرماتے ہیں:.“...جو عیسائیوں اور یہودیوں میں اہل علم اور صاحب انصاف تھے کہ جب وہ ایک طرف آنحضرت کی حالت پر نظر ڈال کر دیکھتے تھے کہ محض اُقی ہیں کہ تربیت اور تعلیم کا ایک نقطہ بھی نہیں سیکھا اور نہ کسی مہذب قوم میں بود و باش رہی اور نہ مجالس علمیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا.اور دوسری طرف وہ قرآن شریف میں صرف پہلی کتابوں کے قصے نہیں بلکہ صدہا بار یک صداقتیں دیکھتے تھے جو پہلی کتابوں کی مکمل اور متمم تھیں تو آنحضرت کی حالت اُمیّت کو سوچنے سے اور پھر اس تاریکی کے زمانہ میں ان کمالات علمیہ کو دیکھنے سے نیز انوار ظاہری و باطنی کے مشاہدہ سے نبوت آنحضرت کی ان کو اظہر من الشمس معلوم ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ اگر اُن مسیحی فاضلوں کو آنحضرت کے اقی اور موید من اللہ ہونے پر یقین کامل نہ ہو تا تو ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے دین سے جس کی حمایت میں ایک بڑی سلطنت قیصر روم کی قائم تھی اور جو نہ صرف ایشیا میں بلکہ بعض حصوں یورپ میں بھی پھیل چکا تھا اور بوجہ اپنی مشرکانہ تعلیم کے دنیا پرستوں کو عزیز اور پیارا معلوم ہو تا تھا صرف شک اور شبہ کی حالت میں الگ ہو کر ایسے مذہب کو قبول کر لیتے جو بباعث تعلیم توحید کے تمام مشرکین کو برا معلوم ہو تا تھا اور اُس کے قبول کرنے والے ہر وقت چاروں طرف سے معرض ہلاکت اور بلا میں تھے پس جس چیز نے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر اوہ یہی بات تھی جو انہوں نے آنحضرت کو محض اُمّی اور سراپا موید من اللہ پایا اور قرآن شریف کو بشری طاقتوں سے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام بالا تر دیکھا اور پہلی کتابوں میں اس آخری نبی کے آنے کے لئے خود بشارتیں پڑھتے تھے سو خدا نے ان کے سینوں کو ایمان لانے کے لئے کھول دیا.اور ایسے ایماندار نکلے جو خدا کی راہ میں اپنے خونوں کو بہایا اور جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور بد باطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی یہ یقین کامل آنحضرت کو امی جانتے تھے "12 116 اس تمہید کی عبارتوں کو اگر تمہید دوم کے ساتھ ملایا جائے تو آنحضرت صلی علیم کی اہمیت ایک اور شان کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں: امور غیبیہ سے وہ اُمور مراد ہیں جو ایک ایسے شخص کی زبان سے نکلیں جس کی نسبت یہ یقین کیا جائے کہ ان امور کا بیان کرنا من کل الوجوہ اس کی طاقت سے باہر ہے یعنی ان امور پر نظر کرنے اور اس شخص کے حال پر نظر کرنے سے یہ بات بہ بداہت واضح ہو کہ نہ وہ امور اس کے لئے حکم بدیہی اور مشہودہ کارکھتے ہیں اور نہ بذریعہ نظر اور فکر کے اس کو حاصل ہو سکتے ہیں اور نہ اس کی نسبت عند العقل یہ گمان جائز ہے کہ اس نے بذریعہ کسی دوسرے واقف کار کے ان امور کو حاصل کر لیا ہو گا.گو وہی امور کسی دوسرے شخص کی طاقت سے باہر نہ ہوں یعنے ایسے امور ہیں کہ جب بعض خاص اشخاص کی طرف ان کو نسبت دی جاتی ہے تو اس قابل ہو جاتے ہیں کہ امور غیبیہ ہونے کا ان پر اطلاق ہو.اور پھر جب وہی امور بعض دیگر کی طرف منسوب کئے جائیں تو یہ قابلیت ان میں متحقق نہیں ہوتی." اس تمہید کے آخر پر حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: “ اگر کسی قوم کی یہ رائے ہو کہ ان کی الہامی کتابوں میں بار یک صداقتیں بھی ہیں جن پر احاطہ کرنا بجز ان اعلیٰ درجے کے اہل علم لوگوں کے جن کی عمریں انہیں میں تدبر تفکر کرتے کرتے فرسودہ ہو گئی ہیں اور جن میں ایسی صداقتیں بھی ہیں جن کی تہ اور مغز تک وہی لوگ پہنچتے ہیں جو نہایت درجہ کے زیرک اور عمیق الفکر اور راسخ فی العلم ہیں تو اس جواب سے خود ہمارا مطلب ثابت ہے.کیونکہ اگر ایک اُمّی اور ناخواندہ آدمی ان حقائق دقیقہ کو اُن کی کتابوں میں سے بیان کرے جن کو با قرار ان کے عوام اہل علم بھی بیان نہیں کر سکتے.صرف خواص کا کام ہے.تو بلا شبہ بیان اس اُقی کا بعد ثبوت اس بات کے کہ وہ آتی ہے امور غیبیہ میں داخل ہو گا.اور..اُمور غیبیہ کو منجانب اللہ ہونے پر دلالت کامل ہے.کیونکہ یہ بات بہ بداہت عقل ثابت ہے کہ غیب کا دریافت اور 13", کرنا مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہے.اور جو امر مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہو وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے.3 خدا کی طرف سے ہونا حضرت محمد مصطفی صلی للی نام کی اثبات نبوت پر دلیل کامل ہے.فھو المراد.قارئین کرام ! ذرا ملاحظہ کریں مولوی عبد الحق صاحب کے براہین احمدیہ کے بارے میں الزام کو اور خو د مولوی چراغ علی کی خاموشی کو ! اگر چه مولوی چراغ علی صاحب نے کہیں اور بھی اس بارے میں لکھا ہے تو وہ انبیاء کے بارے میں یہی کچھ ہے.فی الحقیقت اعتراضات کے بارے میں حضرت مرزا صاحب کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ : جس امر کو مخالف ناقص الفہم نے جائے اعتراض سمجھا ہے وہ حقیقت میں ایک ایسا امر ہے کہ جس سے تعلیم
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام قرآنی کی دوسری کتابوں پر فضیلت اور ترجیح ثابت ہوتی ہے نہ کہ جائے اعتراض اور پھر وہ فضیلت بھی ایسی دلائل 117 واضح سے ثابت کی گئی ہے کہ جس سے معترض خود معترض الیہ ٹھہر گیا ہے."14 مولوی چراغ علی اور مولوی عبد الحق تو پادری میلکم میکال کا یہ اعتراض کہ اسلام نے “ انسانی عقل کو چھٹی صدی کے ایک نا قابل و نا تربیت یافتہ بدو کے علم کے تنگ دائرہ میں محدود کر دیا ہے ) نقل کر کے گنگ ہو گئے ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحب اپنی اسی کتاب میں آنحضرت صلی علیم کے اُمی ہونے کے بارے میں اور خدا تعالیٰ کے مقاصد عالیہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں جن سے نہ صرف اثبات نبوت محمد یہ ہوتی ہے بلکہ اس اعتراض کا کامل جواب بھی ملتا ہے.جسے براہین احمدیہ کے وسیع جواب میں سے مشتے نمونہ از خروارے نقل کیا گیا ہے.جیسے فرمایا: “ وہ ( یعنی آنحضرت صلی ا لم ) کس مکتب میں پڑھے تھے اور کس سکول کا پاس حاصل کیا تھا اور کب انہوں نے عیسائیوں اور یہودیوں اور آریہ لوگوں وغیرہ دنیا کے فرقوں کی مقدس کتابیں مطالعہ کی تھیں.پس اگر قرآن شریف کا نازل کرنے والا خدا نہیں ہے تو کیونکر اس میں تمام دنیا کے علوم حقہ الہیہ لکھے گئے اور وہ تمام ادلہ کاملہ علم الہیات کی کہ جن کے باستیفا اور بصحت لکھنے سے سارے منطقی اور معقولی اور فلسفی عاجز رہے اور ہمیشہ غلطیوں میں ہی ڈوبتے ڈوبتے مر گئے.وہ کس فلاسفر بے مثل و مانند نے قرآن شریف میں درج کر دیں اور کیونکر وہ اعلیٰ درجہ کی مدلل تقریریں کہ جن کی پاک اور روشن دلائل کو دیکھ کر مغرور حکیم یونان اور ہند کے اگر کچھ شرم ہو تو جیتے جی ہی مر جائیں ایک غریب اُمّی کے ہونٹوں سے نکلیں اس قدر دلائل صدق کی پہلے نبیوں میں کہاں موجود ہیں.آج دنیا میں وہ کون سی کتاب ہے جو ان سب باتوں میں قرآن شریف کا مقابلہ کر سکتی ہے کسی نبی پر وہ سب واقعات جو ہم نے بیان کئے مثل آں حضرت کے گزرے.15 حضرت مرزا صاحب ایک اور مقام پر براہین احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں: “ دیکھو ایک غریب اور تنہا اور مسکین نے اپنے دین کے پھیلنے کے اور اپنے مذہب کی جڑھ پکڑنے کی اس وقت خبر دی کہ جب اُس کے پاس بجز چند بے سامان درویشوں کے اور کچھ نہ تھا اور تمام مسلمان صرف اس قدر تھے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں سما سکتے تھے اور انگلیوں پر نام بنام گنے جاسکتے جن کو ایک گاؤں کے چند آدمی ہلاک کر سکتے تھے.جن کا مقابلہ اُن لوگوں سے پڑا تھا کہ جو دنیا کے بادشاہ اور حکمران تھے اور جن کو اُن قوموں کے ساتھ سامنا پیش آیا تھا کہ جو باوجود کروڑوں مخلوقات ہونے کے اُن کے ہلاک کرنے اور نیست و نابود کرنے پر متفق تھے.مگر اب دنیا کے کناروں تک نظر ڈال کے دیکھو کہ کیونکر خدا نے انہیں ناتوان اور قدر قلیل لوگوں کو دنیا میں پھیلا دیا.اور کیونکر اُن کو طاقت اور دولت اور بادشاہت بخش دی اور کیونکر ہزار ہا سال کی تخت نشینیوں کے تاج اور تخت اُن کے سپر د کئے گئے.ایک دن وہ تھا کہ وہ جماعت اتنی بھی نہیں تھی کہ جس قدر ایک گھر کے آدمی ہوتے ہیں اور اب وہی لوگ کئی کروڑ دنیا میں نظر آتے ہیں." 16 64.اور اگر آنحضرت اُمّی نہ ہوتے " حضرت مرزا صاحب بر این احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام مخالفین اسلام بالخصوص یہودی اور عیسائی جن کو علاوہ اعتقادی مخالفت کے یہ بھی حسد اور بغض دامنگیر تھا کہ بنی اسرائیل میں سے رسول نہیں آیا بلکہ ان کے بھائیوں میں سے جو بنی اسماعیل ہیں آیا وہ کیونکر ایک صریح امر خلاف واقعہ پا کر خاموش رہتے بلا شبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہو چکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت کے مونہہ سے نکلتا ہے وہ کسی اُمی اور ناخواندہ کا کام نہیں اور نہ دس میں آدمیوں کا کام ہے تب ہی تو وہ اپنی جہالت سے آعانه عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ 17 کہتے تھے اور جو اُن میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کر چکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے اور اُن پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا تھا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ 18 یعنی اس نبی کو ایسا شناخت کرتے ہیں کہ جیسا اپنے بیٹوں کو شناخت کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ دروازہ یقین اور معرفت کا کچھ ان کے لئے ہی نہیں کھلا بلکہ اس زمانہ میں بھی سب کے لئے کھلا ہے کیونکہ 19" اس کیونکہ " کے جواب کو ہم حقانیت فرقان مجید کے عنوان کے تحت نقل کریں گے.ڈاکٹر منور حسین لیکچر ر شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اپنی کتاب “مولوی چراغ علی کی علمی خدمات " میں مولوی چراغ علی کی چند غیر مطبوعہ تصانیف کے بارے میں ایک مقام پر لکھتے ہیں: 118 “ اپنی کتاب ”تعلیقات میں پروفیسر رام چندر جی کی کتاب ”اعجاز قرآن پر ریویو لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا.معلوم نہیں یہ ارادے عمل کا جامہ بھی پہن سکے یا نہیں 20 اس بارے میں مولوی چراغ علی لکھتے ہیں: میں نے اس بحث کو رسالہ اعجاز قرآن مؤلفہ پروفیسر رامچندر مسیحی پر اپنی ریویو لکھنے کے لئے مخصوص کیا ہے مگر یہاں بھی مناسب مقام سے چند امور ذکر کرتے ہیں.21 ( یہاں یادر ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب اعجاز قرآن پر کیا لکھتے ! موصوف تو قرآنی تعلیمات کو " اٹکل پچو" قرار دیتے تھے.ملاحظہ ہو ا عظم الکلام) یہ ریویو تو اب تک کی تحقیق سے سامنے نہیں آیا البتہ مذکور تصنیف میں جن چند امور کا ذکر ”مولوی چراغ علی صاحب نے کیا ہے اُن کو ہی موصوف کا موقف مانتے ہوئے انہیں ذیل میں خلاصہ درج کرتے ہیں ، جو اس بات سے متعلق ہیں کہ “ حضرت محمد امی تھے اور عیسوی مذہب سے (نہ) استفاضہ اور استمطار کیا ( تھا)." 22 ان امور کو پادری عماد الدین صاحب نے “ تعلیم محمدی ” میں یوں لکھا: انہوں نے ( یعنی حضرت محمدصلی ) خدا کی کلام سے بعض عمدہ باتیں بھی نصرانی غلاموں کے وسیلہ سے معلوم کر کے قرآن میں بولی ہیں " 23 لیکن مولوی چراغ علی صاحب نے اس بات کو میزان الحق پادری فنڈر، ڈاکٹر ویل کی سیرت محمدی، واشنگٹن ارونگ، ڈاکٹر اسپر نگر، پروفیسر رامچندر، ریورنڈ راڈویل کے حوالہ سے لکھا ہے.24 اگر چہ موصوف جواب پادری عماد الدین کا دے رہے ہیں ! مولوی چراغ علی صاحب نے اس اعتراض کے جواب میں تعلیقات " کے پیرانمبر 15 میں 10 دلائل دیئے ہیں جن کو خلاصہ درج کیا جاتا ہے:
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اولاً: دوم ثالثا: رابعاً: 119 سفر وسیاحت اور آمد ورفت میں ایسے افضل و اعلیٰ مضامین قرآنی اور حقائق ربانی کا اخذ اور حاصل کرناو ہی بحث ہے جس کا ابطال بصراحت عقل پہلے کیا گیا...شام کے دو سفروں میں جن میں یہ عجلت واپس آنا پڑا اس لائق نہیں ہو سکتے کہ اہل مکہ میں ایسے علوم الہی اور تہذیب دین اور اصلاح مذہب کے لئے کافی ہوں.شام کاسفر قطعا غیر صحیح ہے.حضرت خدیجہ کا فارسی، عبرانی، یونانی اور لاطینی جاننا ثابت نہیں.خامساً ورقہ بن نوفل کا کتب یہود، نصاری کو عربی میں ترجمہ کرنا اور اس کار سول خدا کو تعلیم دینا محض بے اصل ہے سادساً ورقہ قبل دعوت مر چکا تھا.قرآنی مضامین جو فی البدیہہ حسب موقع و مناسب مقام ہوئے تھے اُن میں ورقہ کی شرکت کسی طرح ممکن نہیں.قرآن کے مطالب متوافرہ و مضامین کثیرہ کی تعلیم اور تحصیل کے لیے نہایت غیر کافی تھی.( نوٹ راقم الحروف: مولوی چراغ علی صاحب تو قرآنی تعلیمات کو " اٹکل پچو " قرار دے کر قرآن کے مطالب متوافرہ و مضامین کثیرہ کی تعلیم کے بارہ میں لکھنے کا حق ہی نہیں پہنچتا ) سابعاً: سر جیں راہب مسیحی سے قلیل عرصہ کی ملاقات ہے.ثامناً: سلمان فارسی سے آنحضرت کی ملاقات بہت کم اور وہ بھی آخر میں رہی.حکایات بہشت و دوزخ سلمان فارسی کے مسلمان ہونے سے پہلے کی سورتوں میں ہیں.قرآن کے مضامین عالیہ و مطالب جلیلہ، فہم دلائل وجود باری تعالی و براہین توحید و بطلان شرکت بت پرستی و ثبوت بعث و نشر و معارف الہی اور صفات او تعالیٰ اور اس کے عالی مرتبہ کی فصاحت و غایت درجہ کی بلاغت خیال کیجئے.نوٹ راقم الحروف: ان تمام امور پر مولوی چراغ علی صاحب نے قرآنی تعلیمات کو " اٹکل پچو " قرار دے کر پانی پھیر دیا ہے! موصوف قرآن کریم کی 200 آیات کو سول لاء کے متعلق محکم تعلیم تسلیم ہی نہیں کرتے.ملاحظہ ہو اعظم الکلام متاسعا: صفحہ 17) دین مسیحی سے استفاضہ کرنا بھی بالکل باطل اور رکیک سند ہے.کیونکہ اُس زمانہ کی مسیحیت عرب کی بُت پرستی اور دیگر ادیان باطلہ سے کم نہ تھی.عاشراً: مضامین فرقانیہ کے اسلوب اور تنظیم اور فحوی و ترتیب سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں اول سے آخر تک اس کے مقاصد اور مارب میں باہم توفیق اور منطوق و مفہوم میں باہم تطبیق سے ذکر جلائل و نعوت الہیہ و بیان فضائل و محامد ربانیه با هم متلائم اور براهین اثبات توحید و ابطال عبادت اوثان باہم متماثل اور ذکر وعد و عید و انذار و تبشیر باہم متشاکل اور حقائق و معارف ربانی اور مکارم اخلاق و نظام امور و مصالح عباد و احکام معاش با هم متماثل اور اس کے موضوع و منشاء عام ایسے با ہم متقارب ہیں.(نوٹ راقم الحروف: ایک ایسے شخص کو جو قرآنی تعلیمات کو " اٹکل پچو " سمجھے اسے ان باتوں کے لکھنے کا حق ہی نہیں پہنچتا.اس نے یہ امور کہیں سے محض برائے جواب نقل کئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں)
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 120 کہ ایک ہی صاحب رائے صائب و پختہ کار باوقار و سلیم القلب و غیر متزلزل کے رشحات قلم و نتائج فہم معلوم ہوتی ہیں حالانکہ ضروری اور بلزوم عقلی ثابت ہے کہ جس امر کی ترکیب میں اشخاص متعدد و وجود متکثر و اصحاب آراء متنوعه و ارباب طبائع مختلفه شریک و سہیم ہونگے ان کے منشات و مناظر و آراء و مدارک میں ضرور تخالف و تناقض ہو گا اور اس میں وحدت خیالات اور یگانگت منشاء نہ پائی جاوے گی "25 اب ذرا ملاحظہ ہو اثبات نبوت محمدیہ صلی الظلم به لحاظ امیت.چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی براہین احمدیہ میں کس شان و شوکت سے اس بارے میں درج فرماتے ہیں جس کے “ مقابلہ ” میں مولوی چراغ علی صاحب کے دلائل کی وہی مثال ہے جس طرح کسی شخص کو کسی چیز کا ایک دھندلا سا خیال آئے اور ایک شخص پر اس کی حقیقت کھل جائے.(یہ مثال شبلی نعمانی نے سوانح مولانا روم میں کسی اور حوالے سے استعمال کی ہے جو اپنی پوری شان سے یہاں صادق آتی ہے: 26 “ جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور بد باطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی یہ یقین کامل آنحضرت کو اُمّی جانتے تھے اور اسی لئے جب وہ بائیبل کے بعض قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور امتحان نبوت پوچھ کر ان کا ٹھیک ٹھیک جواب پاتے تھے تو یہ بات ان کو زبان پر لانے کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت کچھ پڑھے لکھے ہیں.آپ ہی کتابوں کو دیکھ کر جو اب بتلا دیتے ہیں بلکہ جیسے کوئی لاجواب رہ کر اور کھسیانا بن کر کچے عذر پیش کرتا ہے ایسا ہی نہایت ندامت سے یہ کہتے تھے که شاید در پردہ کسی عیسائی یا یہودی عالم بائیبل نے یہ قصے بتلا دیئے ہوں گے.پس ظاہر ہے اگر آنحضرت کا اُمّی ہونا ان کے دلوں میں یہ یقین کامل متمکن نہ ہوتا تو اسی بات کے ثابت کرنے کے لئے نہایت کوشش کرتے کہ آنحضرت اُمّی نہیں ہیں فلاں مکتب یا مدرسہ میں انہوں نے تعلیم پائی ہے.واہیات باتیں کرنا جن سے اُن کی حماقت ثابت ہوتی تھی کیا ضرور تھا.کیونکہ یہ الزام لگانا کہ بعض عالم یہودی اور عیسائی در پردہ آنحضرت کے رفیق اور معاون ہیں بدیہی البطلان تھا.اس وجہ سے کہ قرآن تو جابجا اہل کتاب کی وحی کو ناقص اور اُن کی کتابوں کو محریف اور مبدل اور ان کے عقائد کو فاسد اور باطل اور خود ان کو بشر طیکہ بے ایمان مریں ملعون اور جہنمی بتلاتا ہے.اور اُن کے اصولِ مصنوعہ کو دلائل قونیہ سے توڑتا ہے تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ وہ لوگ قرآن شریف سے اپنے مذہب کی آپ ہی مذ مت کرواتے.اور اپنی کتابوں کا آپ ہی رد لکھاتے اور اپنے مذہب کی بیخ کنی کے آپ ہی موجب بن جاتے پس یہ ست اور نادرست باتیں اس لئے دنیا پر ستوں کو بکنی پڑیں کہ اُن کو عاقلانہ طور پر قدم مارنے کا کسی طرف راستہ نظر نہیں آتا تھا اور آفتاب صداقت کا ایسی پر زور روشنی سے اپنی کر نیں چاروں طرف چھوڑ رہا تھا کہ وہ اُس سے چمگادڑ کی طرح چھپتے پھرتے تھے اور کسی ایک بات پر ان کو ہر گز ثبات و قیام نہ تھا بلکہ تعصب اور شدت عناد نے ان کو سودائیوں اور پاگلوں کی طرح بنارکھا تھا.پہلے تو قرآن کے قصوں کو سن کر جن میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر تھا اس وہم میں پڑے کہ شاید ایک شخص اہل کتاب میں سے پوشیدہ طور پر یہ قصے سکھاتا ہو گا جیسا اُن کا یہ مقولہ قرآن شریف میں درج ہے.اِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ سورۃ النحل الجزو نمبر ۱۴.اور پھر جب دیکھا کہ قرآن شریف میں صرف قصے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے حقائق ہیں تو پھر یہ دوسری رائے ظاہر کی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام وَ آعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ أَخَرُوْنَ سورة الفرقان الجز و نمبر ۱۸.یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہو کر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک آدمی کا کام نہیں.پھر جب قرآن شریف میں ان کو یہ جواب دیا گیا کہ اگر قرآن کو کسی جماعت علماء فضلاء اور شعر انے اکٹھے ہو کر بنایا ہے تو تم بھی کسی ایسی جماعت سے مدد لے کر قرآن کی نظیر بنا کر دکھلاؤ تا تمہارا سچا ہونا ثابت ہو.تو پھر لاجواب ہو کر اس رائے کو بھی جانے دیا اور ایک تیسری رائے ظاہر کی اور وہ یہ کہ قرآن کو جنات کی مدد سے بنایا ہے یہ آدمی کا کام نہیں پھر خدا نے اس کا جواب بھی ایسا دیا کہ جس کے سامنے وہ چون و چرا کرنے سے عاجز ہو گئے جیسا فرمایا ہے.وَمَا هُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ـ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ...سورة بنی اسرائیل الجز و نمبر ۱۵.یعنی قرآن ہر یک قسم کے امور غیبیہ پر مشتمل ہے اور اس قدر بتلانا جنات کا کام نہیں.ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن متفق ہو جائیں اور ساتھ ہی بنی آدم بھی اتفاق کر لیں اور سب مل کر یہ چاہیں کہ مثل اس قرآن کے کوئی اور قرآن بنادیں تو ان کے لئے ہر گز ممکن نہیں ہو گا اگر چہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں.پھر جب ان بد بختوں پر اپنے تمام خیالات کا جھوٹ ہونا کھل گیا اور کوئی بات بنتی نظر نہ آئی تو آخر کار کمال بے حیائی سے کمینہ لوگوں کی طرح اس بات پر آگئے کہ ہر طرح پر اس تعلیم کو شائع ہونے سے روکنا چاہئے جیسا اس کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا ہے:.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ 27 یعنی کافروں نے یہ کہا کہ اس قرآن کو مت سنو.اور جب تمہارے سامنے پڑھا جاوے تو تم شور ڈال دیا کرو.تا شاید اسی طرح غالب آجاؤ.اور بعضوں نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ کہا کہ یوں کرو کہ اول صبح کے وقت جا کر قرآن پر ایمان لے آؤ.پھر شام کو اپنا ہی دین اختیار کرلو.تا شاید اس طور سے لوگ شک میں پڑ جائیں اور دین اسلام کو چھوڑ دیں.أَلَمْ تَرَ إِلَي الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُوْنَ...سورة النساء الجزو نمبر ۵ - 28 کیا تو نے دیکھا نہیں کہ یہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے انجیل اور تورات کو کچھ ادھورا سا پڑھ لیا ہے ایمان ان کا دیو توں اور بتوں پر ہے اور مشرکوں کو کہتے ہیں کہ ان کا مذہب جو بت پرستی ہے وہ بہت اچھا ہے اور توحید کا مذہب جو مسلمان رکھتے ہیں یہ کچھ نہیں یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خد العنت کرے اس کے 2999 لئے کوئی مددگار نہیں." 19 6-5.حضرت محمد مصطفی کا مقام حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: “ اب آسمان کے نیچے ایک ہی نبی ہے اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد صلی ا یکم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے: ● خدا تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اٹھتے ہیں اور 121
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.30", 122 6-6- اثبات نبوت محمدیہ صلی علیم میں اس جہاں میں حضرت محمد مصطفی ملی لی ایم کی برکتوں سے سچی اور حقیقی نجات کا نمونہ مقام حضرت محمد مصطفی صلی ا م کی اتباع میں ملنے والی برکتوں، کچی اور حقیقی نجات کے اپنی ذات میں نمونے کے بارے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی فرماتے ہیں: سوائے بھائیو انہیں پنڈت صاحب کے حال سے نصیحت پکڑو اور اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو سچی نجات کو ڈھونڈو تا اس جہان میں اس کی برکتیں پاؤ.سچی اور حقیقی نجات وہی ہے جس کی اس جہان میں برکتیں ظاہر ہوتی ہیں اور قادر قوی کا وہی پاک کلام ہے کہ جو اسی جگہ طالبوں پر آسمانی راہ کھولتا ہے سو اپنے آپ کو دھو کا مت دو اور جس دین کی حقیت اسی دنیا میں نظر آرہی ہے اس پاک دین سے رو گردان ہو کر اپنے دل پر تاریکی کا دھبہ مت لگاؤ ہاں اگر مقابلہ اور معارضہ کرنے کی طاقت ہے تو اسی سورہ فاتحہ کے کمالات کے مساوی کوئی دوسراکلام پیش کرو اور جو کچھ سورۂ فاتحہ کے خواص روحانی کی بابت اس عاجز نے لکھا ہے وہ کوئی سماعی بات نہیں ہے بلکہ یہ عاجز اپنے ذاتی تجربہ سے بیان کرتا ہے کہ فی الحقیقت سورۂ فاتحہ مظہر انوار الہی ہے اس قدر عجائبات اس سورۃ کے پڑھنے کے وقت دیکھے گئے ہیں کہ جن سے خدا کے پاک کلام کا قدر و منزلت معلوم ہوتا ہے اس سورہ مبارکہ کی برکت سے اور اس کے تلاوت کے التزام سے کشف مغیبات اس درجہ تک پہنچ گیا کہ صدہا اخبار غیبیہ قبل از وقوع منکشف ہوئیں اور ہر یک مشکل کے وقت اس کے پڑھنے کی حالت میں عجیب طور پر رفع حجاب کیا گیا اور قریب تین ہزار کے کشف صحیح اور رویا صادقہ یاد ہے کہ جواب تک اس عاجز سے ظہور میں آچکے اور صبح صادق کے کھلنے کی طرح پوری بھی ہو چکی ہیں.اور دو سو جگہ سے زیادہ قبولیت دعا کے آثار نمایاں ایسے نازک موقعوں پر دیکھے گئے جن میں بظاہر کوئی صورت مشکل کشائی کی نظر نہیں آتی تھی اور اسی طرح کشف قبور اور دوسرے انواع اقسام کے عجائبات اسی سورہ کے التزام ورد سے ایسے ظہور پکڑتے گئے کہ اگر ایک ادنی پر توہ اُن کا کسی پادری یا پنڈت کے دل پر پڑ جائے تو یک دفعہ حُب دنیا سے قطع تعلق کر کے اسلام کے قبول کرنے کے لئے مرنے پر آمادہ ہو جائے.اسی طرح بذریعہ الہامات صادقہ کے جو پیشگوئیاں اس عاجز پر ظاہر ہوتی رہی ہیں جن میں سے بعض پیشگوئیاں مخالفوں کے سامنے پوری ہو گئی ہیں اور پوری ہوتی جاتی ہیں اس قدر ہیں کہ اس عاجز کے خیال میں دو انجیلوں کی ضخامت سے کم نہیں اور یہ عاجز بطفیل متابعت حضرت رسولِ کریم مخاطبات حضرت احدیت میں اس قدر عنایات پاتا ہے کہ جس کا کچھ تھوڑا سا نمونہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ کے عربی الہامات وغیرہ میں لکھا گیا ہے.خداوند کریم نے اُسی رسول مقبول کی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علوم لدنیہ سے سر فراز فرمایا ہے.اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پر کر دیا ہے اور بار ہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفضلات اور احسانات اور یہ سب تلقفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جمال ہم نشین ور اثر کرد وگرنه ہماں خاکم ہستم "31 123 چونکہ یہ مباحث مولوی چراغ علی صاحب کی ایک تحریر کو پیش نظر رکھ کر درج کئے گئے ہیں اس لئے مبادا کہ حضرت مرزا صاحب کے دلائل اثبات نبوت و حقیت فرقان مجید کو بیان نہ کیا جا سکا ہو اس لئے قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ آنحضرت صلی یکم کی صداقت پر اندرونی و ذاتی شہادت اسی طرح ایسی دلائل جو خارجی واقعات پر مشتمل ہیں کیلئے ملاحظہ کریں براہین احمدیہ کے مقامات: قیام توحید کی خاطر پیش کر وہ قربانیاں کیلئے ملاحظہ ہو براہین احمدیہ صفحہ 112،111،110 و تائید ایزدی کیلئے صفحہ 119، 120، اخلاق فاضلہ میں بے نظیری صفحہ 282 تا 285 286 287، اعتدال و توازن صفحه 193 194 وغیرہ وغیرہ 6-7.حقیت قرآن شریف و اثبات حقانیت فرقان مجید مولوی چراغ علی کی تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ تصنیفات پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر نظر موضوع مولوی چراغ علی کے موضوعات میں شامل ہی نہیں ہے.لہذا قرآن کریم کے بارے میں مولوی چراغ علی صاحب کے ملتے جلتے موضوعات کو زیر بحث لا کر اس موضوع کے بارے میں بحث کو آگے بڑھانا ہو گا.لیکن اس سے قبل کہ مولوی چراغ علی صاحب کے خیالات کو یہاں درج کیا جائے.ہم حضرت مرزا صاحب کے رشحات قلم حقیت قرآن کے بارے میں درج کرتے ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں: حضرت مرزا صاحب کے نزدیک حقیت قرآن باوجود اس قدر ایجاز کلام کے کہ اگر اس کو متوسط قلم سے لکھیں تو پانچ چار جز میں آسکتا ہے.پھر تمام دینی صداقتوں پر کہ جو بطور متفرق پہلی کتابوں میں اور انبیاء سلف کے صحیفوں میں پراگندہ اور منتشر تھیں مشتمل ہے.اور نیز اس میں یہ کمال ہے کہ جس قدر انسان محنت اور کوشش اور جانفشانی کر کے علم دین کے متعلق اپنے فکر اور ادراک سے کچھ صداقتیں نکالے یا کوئی بار یک دقیقہ پیدا کرے یا اُسی علم کے متعلق کسی قسم کے اور حقائق اور معارف یا کسی نوع کے دلائل اور براہین اپنی قوت عقلیہ سے پیدا کر کے دکھلاوے یا ایسا ہی کوئی نہایت دقیق صداقت جس کو حکمائے سابقین نے مدت دراز کی محنت اور جانفشانی سے نکالا ہو معرض مقابلہ میں لاوے.یا جس قدر مفاسد باطنی اور امراض روحانی ہیں جن میں اکثر افراد مبتلا ہوتے ہیں.ان میں سے کسی کا ذکر یا علاج قرآن شریف سے دریافت کرنا چاہے.تو وہ جس طور سے اور جس باب میں آزمائش کرنا چاہتا ہے آزما کر دیکھ لے کہ ہر یک دینی صداقت اور حکمت کے بیان میں قرآن شریف ایک دائرہ کی طرح محیط ہے جس سے کوئی صداقت
124 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام دینی باہر نہیں.بلکہ جن صداقتوں کو حکیموں نے باعث نقصان علم و عقل غلط طور پر بیان کیا ہے.قرآن شریف ان کی تکمیل و اصلاح فرماتا ہے اور جن دقائق کا بیان کرنا کسی حکیم و فلاسفر کو میسر نہیں آیا.اور کوئی ذہن ان کی طرف سبقت نہیں لے گیا.اُن کو قرآن شریف بکمال صحت و راستی بیان اور ظاہر فرماتا ہے اور ان دقائق علم الہی کو کہ جو صد ہا دفتروں اور طول طویل کتابوں میں لکھے گئے تھے اور پھر بھی ناقص اور نا تمام تھے.باستیفا تمام لکھتا ہے اور آئندہ کسی عاقل کیلئے کسی نئے دقیقہ کے پیدا کرنے کی جگہ نہیں چھوڑتا.حالانکہ وہ اسقدر قلیل الحجم کتاب ہے کہ جو بہ تحریر میانہ چالیس ورق سے زیادہ نہیں.یہ انسان کا کا کام نہیں اور کسی مخلوق کی حد قدرت میں داخل ا نہیں.قرآن شریف باوجود اس ایجاز اور اس احاطہ حق اور حکمت کے...عبارت میں اس قدر فصاحت اور موزونیت اور لطافت اور نرمی اور آب و تاب رکھتا ہے کہ اگر کسی سر گرم نکتہ چین اور سخت مخالف اسلام کو کہ جو عربی کی املاء انشاء میں کامل دستگاہ رکھتا ہو.حاکم با اختیار کی طرف سے یہ پر تہدید محکم سنایا جائے کہ اگر تم مثلاً ہیں برس کے عرصے میں کہ گویا ایک عمر کی میعاد ہے.اس طور پر قرآن کی نظیر پیش کر کے نہ دکھلاؤ کہ قرآن کے کسی مقام میں سے صرف دو چار سطر کا کوئی مضمون لے کر اسی کے برابر یا اس سے بہتر کوئی نئی عبارت بنالاؤ.جس میں وہ سب مضمون معہ اپنے تمام دقائق حقائق کے آجائے اور عبارت بھی ایسی بلیغ اور فصیح ہو جیسی قرآن کی تو تم کو اس عجز کی وجہ سے سزائے موت دی جاوے گی تو پھر بھی باوجو د سخت عناد اور اندیشہ رسوائی اور خوف موت کی نظیر بنانے پر ہر گز قادر نہیں ہو سکتا اگر چہ دنیا کے صدہا زبان دانوں اور انشا پر دازوں کو اپنے مددگار بنالے.یہ مثال متذکرہ بالا کوئی خیالی اور فرضی بات نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ حقہ ہے جس کا قرآن شریف ہی کے وقت میں امتحان ہو چکا ہے اور جس کی سچائی ابتداء سے ہر یک طالب حق پر آج تک ثابت ہوتی چلی آئی ہے اور اب بھی اگر کوئی طالب حق اس معجزہ قرآنی کو بچشم خود دیکھنا چاہتا ہے تو اس بات کا بھی ہم ہی ذمہ اٹھاتے ہیں کہ یہ معجزہ بھی نہایت آسانی سے اس پر ثابت کر دیں گے...صرف طالب حق پر یہ لازم ہے کہ اپنی حسب مرضی قرآن شریف کے کسی مقام میں سے کوئی مضمون لیکر کسی عربی دان کو کہ جو آج کل اس ملک میں لاکھوں نظر آتے ہیں اس فہمائش سے دیوے کہ وہ اس مضمون کو معہ جمیع لطائف اور نکات اسکے کے اپنی عبارت میں بنادے.پس جب ایسا مضمون بن کر طیار ہو جائے تو وہ ہمارے پاس بھیج دینا چاہئے اور ہم اس عبارت کا کمالات قرآنی سے محروم اور بے نصیب ہونا ایسی واضح تقریر سے بیان کر دیں گے جس بیان کو ہر یک اردو خوان بخوبی سمجھ سکے گا......دلائل عقلیہ بھی خدا کا اپنی ذات اور جمیع صفات اور افعال میں واحد لاشریک ہونا ضروری اور واجب ٹھہراتے ہیں.اور اس کی الوہیت کے تحقق کو انہیں خواص کے تحقق سے مشروط قرار دیتے ہیں..جس ذات کو علمی اور قدرتی طاقتوں میں سب سے زیادہ اور بے مثل و مانند تسلیم کرتے ہیں ان طاقتوں کے آثار کو بھی بے مثل و مانند مانا چاہئے کیونکہ.کلام کی عظمت و شوکت متکلم کی علمی طاقتوں کے تابع ہے جو کوئی علمی طاقتوں میں زیادہ تر ہے اس کی تقریر کی عظمت و شوکت بھی زیادہ تر ہے...انسان کی علمی طاقتیں خدا تعالیٰ کی علمی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام طاقتوں سے ہر گز برابر نہیں ہو سکتیں 32...125 حضرت مرزا صاحب حقیت قرآن شریف بیان فرماتے ہوئے جس بات کو باوجود قرآن شریف کے ایجاز کو اعجاز قرآن بتفصیل بیان فرماتے ہیں مولوی چراغ علی صاحب اُسے یہ نظر استخفاف دیکھتے ہیں اور اس پر مستشرقین کی سند لاتے ہیں اور دعوئی ہے دفاع اسلام و قرآن شریف کا ! مولوی چراغ علی کے نزدیک حقیت قرآن کا احوال مولوی چراغ علی صاحب“ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ” کے مقدمہ میں لکھتے ہیں.جس کا اُردو ترجمہ مولوی عبد الحق صاحب نے کیا ہے: Deductions From the Koran "The more important civil and political instituitions of the Mohammadan common law based on the Koran are base inferences and deductions from a single word or an isolated sentence.Slavish adherence to the letter and taking not the least notice of the spirit of the Koran is the sad characteristic of the Koranic interpretations and deductions of the Mohammadan doctors." It has been said there are about two hundred out of six thousand verses of the Koran on the civil, criminal, fiscal, political, devotional, and ceremonial (Canon or ecclesiastical) law.Even in this insignificant number of the Ayat Ahkam (Law Verses), a thirtieth part of the first source of the law, is not to be depended upon.These are no specific rules, and more than three fourth of them I believe, are mere letters, single words, or mutilated sentences from which fanciful deductions repugnant to reason, and not The Mohammadan revelation is much more recent and through any one reading the Koran for the first time would hardly suppose that it was so intended, it has nevertheless been adopted by Mohammadans nations as the basis of their social and political institutions; but the most important of these are rather inferences from its spirit, than exact applications of any specific rule to be found therein.Wherever specific rules are found, and there are few as regards minor matters, they have been for the most part observed with scrupulous exactness." (Elements of Law: By William Markby, M.A, Second Edition, page 37)
126 براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام allow able by any law of sound interpretations are drawn.(The Proposed political, legal, and social reforms in the Ottoman Empire and other Mohammadan states.) $33 مولوی عبد الحق صاحب نے ان عبارتوں کا جو ترجمہ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ” میں کیا ہے وہ درج ذیل ہے: قرآن سے استخراج نتائج 22 : “ اسلامی شریعت کے نہایت ضروری سول اور پولیٹکل مسائل جو قرآن پر مبنی ہیں، وہ محض ایک لفظ واحد یا ایک ہی جملہ سے مستخرج و مستنتج ہیں.بیجا لفظی تقلید کی پابندی، اور قرآن کے صحیح مطالب کی طرف سے بے توجہی، تفاسیر قرآن اور ہمارے فقہا کے استدلال کا ایک خاصہ ہو گیا ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ چھ ہزار آیات قرآنی میں سے صرف دو سو آیتیں دیوانی، فوجداری، مال، سیاست، عبادت اور رسوم مذ ہبی کے متعلق ہیں.ان معدودے چند احکام سے بھی قانون کے ماخذ اولین (قرآن) کا تیسواں حصہ ایسا ہے جس کا قطعی النص ہو نایقین نہیں ہے.یہ کوئی باقاعدہ اور مکمل قواعد نہیں ہیں.میرے خیال میں ان میں سے تین چوتھائی سے زیادہ صرف حروف واحد، الفاظ اور ادھورے فقرے ہیں ، جن سے خلاف قیاس خیالی نتائج پیدا کئے گئے ہیں، اور جس کی کوئی صحیح تعبیر قانونی جائز نہیں رکھ (کذ ا ر کھی جا سکتی.پھر اس کے بعد پیر انمبر 23 میں لکھتے ہیں:.23.احکام اخلاق تاریخی امور و قصص اور پیش گوئیوں کے علاوہ قرآن کے قانونی اور عدالتی اصول کی تشریح کے لئے الفاظ اور جملے - Some of the Mohammadan doctors have exerted themselves, in picking out the law, as they are called and in compiling separate treatises in which they have made an abstract of all such verses of the Koran.They have applied them to the different heads of the....of the various branches of the Canon and civil law giving their fanciful process of reasoning and the deductives system of jurisprudence.اسلامی الہام کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے ، جو شخص پہلی بار قرآن کو پڑھے گاوہ مشکل سے یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس کا یہ منشاء جو مسلمان اقوام نے دے رکھا ہے ، یعنی انہوں نے اپنے تمدن اور سیاسی معاملات کی بنیاد اس پر قائم کی ہے.لیکن سب سے زیادہ اہم وہ نتائج ہیں جو اس کے معانی سے پیدا کئے گئے ہیں.حال ان کہ کوئی قطعی قاعدہ اس میں ایسا نہیں پایا جاتا کہ جس کا صحیح اطلاق کیا جاسکے جہاں کہیں قطعی قواعد پائے جاتے ہیں (اور وہ چھوٹے چھوٹے معاملات کی نسبت صرف چند ہی ہیں تو ان کی پابندی بڑی سختی کے ساتھ کی جاتی ہے.الی منٹس آف لا مصنفہ ولیم مارکسی ایم.اے.سیکنڈ ایڈیشن صفحہ 37).بعض مسلمان فقہاء نے قانونی آیات کی تلاش کرنے میں بہت کوشش کی ہے.اور الگ کتابیں لکھی ہیں.جن میں ان آیات قرآنی کا خلاصہ درج کیا ہے.اور ان کو ملکی قانون کے مختلف اقسام پر عائد کیا ہے.اور فقہ کے طرز استنباطی اور خیالی طریقہ استدلال کو خوب کام میں لائے ہیں.“ (صفحہ 15-16 دیا چی)
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 127 اور اُون کے طرق استعمال مفصلہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں (1) الفاظ ( خاص، عام ، مشتر کہ ماؤل) (2) جملے ظاہر (ظاہر، نص، مفسر، محکم) خفی (مخفی، مشکل، مجمل، منشابه ) (3) لفظوں اور جملوں کا استعمال (حقیقت، مجاز، صریح، کنایة (4) طرق استدلال و عبارت، اشارات ، دلالت، اقتضا) اس سے ظاہر ہو گا کہ یہ دو سو آیات قرآنی سول لا کے متعلق کوئی خاص تعلیم یا محکم قواعد نہیں ہیں.ان میں سے بہت سے نتائج اٹکل پکو معلوم ہوتے ہیں." 34 ذرا ملاحظہ فرمائیں یہ ہے قرآن شریف کی حقیت مولوی چراغ علی صاحب کے نزدیک یعنی: قرآن شریف کی چھ ہزار آیات قرآنی میں سے صرف دو سو آیتیں دیوانی، فوجداری، مال، سیاست، عبادت، رسوم مذہبی سے متعلق ہیں.جن کا: :: :: قطعی النص ہونا یقینی نہیں یہ کوئی با قاعدہ اور مکمل قواعد نہیں کیو نکہ مولوی چراغ علی صاحب کے خیال میں ): تین چوتھائی سے زیادہ صرف حروف واحد الفاظ اور ادھورے فقرے ہیں.خلاف قیاس خیالی نتائج پید اکیسے گئے ہیں جس کی کوئی صحیح تعبیر قانونی جائز نہیں رکھی جاسکتی یہ دوسو آیات قرآنی سول لاء کے متعلق کوئی خاص تعلیم یا محکم قواعد نہیں ہیں.ان میں سے بہت سے نتائج اٹکل پچو معلوم ہوتے ہیں.یہ سب امور مولوی چراغ علی صاحب نے ایک مستشرق ولیم مار کمی سے اخذ کیے ہیں جس کا انہوں نے حوالہ متن میں دے کر حاشیہ میں اصل عبارت کو بطور سند درج کیا ہے اور اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرنے کی خاطر بلکہ اعتبار جمانے کی خاطر یہ لکھ دیا ہے کہ بعض مسلمان فقہا نے قانونی آیات تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ہے اور فقہ کے طرز استنباطی اور خیالی طریقہ استدلال کو خوب کام میں لائے ہیں." لیکن نہ تو مولوی چراغ علی صاحب نے “ مسلمان فقہا کا نام لیا ہے اور نہ ہی مستشرق ولیم مارکسی نے کسی مثال کا حوالہ دیا ہے لیکن مولوی چراغ علی صاحب “مولوی کہلا کر مستشرقین کے حوالے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں گویا ایسے لگتا ہے کہ جس بد نیتی سے مستشرقین نے قرآن شریف کو دیکھا ہے اُس قاعدہ کلیہ پر مولوی چراغ علی صاحب قرآن شریف کو فٹ کرنا چاہتے ہیں بلکہ اُن کے پیش نظر اول مستشرقین ہیں اور بعدہ قرآن شریف ہے.بھلا اس موقعہ پر اس مجہول الکنہ پادری ولیم مار کبھی کے حوالے کا کوئی ٹک بھی بنتا ہے ؟ صرف اُنہیں یہ بات نظر آتی ہے کہ پادری مار کبھی نے ایسا لکھا ہے تو اس نے قرآن شریف پر بڑا عبور حاصل کر لیا ہو گا تو لکھا ہو گا کیوں نہ اُسے اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا جائے اور ایک اچھی معذرت " بغیر معذرت کے الفاظ سے جس کے پیچھے ایک پادری کے بد
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 128 ارادے ہوتے ہیں تو ہو ا کریں ایک دوسرے پادری کا جواب ہے اور اُن کی انگریزی کتاب ہے تو اُن کے انگریز ساتھیوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اُس کا حوالہ کیوں نہ دیا جائے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ خواہ اس سے قرآن شریف کی ہتک ہی کیوں نہ ہو.اُن کا مطلب تو نکلتا ہے.اور اس پر مترجم مولوی چراغ علی، مولوی عبد الحق ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ مولوی چراغ علی کی اس جسارت پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے تعریف کے ڈونگرے برساتے ہیں اور لکھتے ہیں:.ان کی کتابیں (یعنی مولوی چراغ علی کی کتابیں ) معلومات علمی سے لبریز ہیں.واقعات کی تنقید و تنقیح، صحیح نتائج کے استخراج میں انہیں کمال حاصل ہے.وہ کبھی اپنی بحث سے الگ نہیں ہوتے ، کبھی کوئی غیر متعلق بات نہیں کہتے اور نہ کبھی الزامی جواب دیتے ہیں.بلکہ امر زیر بحث کو ہمیشہ مد نظر رکھتے اور اس کے مالہ وماعلیہ پر ایک وسیع نظر ڈالتے ہیں.تمام واقعات متعلقہ کو جمع کر کے اُن کی تنقید کرتے اور حتی الامکان قرآن مجید سے استدلال کرتے اور نہایت صحیح اور عجیب نتائج استنباط کرتے ہیں اور اس ضمن میں وہ بڑے بڑے مستند لوگوں کی رایوں کو پیش کرتے ہیں یا ان کی غلطیوں پر نظر ڈالتے جاتے ہیں."35 چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ مولوی چراغ علی صاحب نے زیر بحث معاملہ میں ایک رائے پیش کی ہے.اسے مولوی عبد الحق از خود مستند بناتے پھرتے ہیں اور پھر اس“ استناد ” کے پر دے میں قرآن شریف پر حملے ہو رہے ہیں تو بھاڑ میں جائے اس مجہول الکنہ پادری کالا یعنی استناد.مولوی عبد الحق تو کہتے ہیں مولوی چراغ علی صاحب قرآن مجید سے استدلال کرتے ہیں.”کہاں ہے قرآن مجید سے استناد ؟ جن سے مولوی چراغ علی نے قرآن مجید کے احکام کو صرف حروف واحد ، الفاظ اور ادھورے فقرے بنا دیا ہے جن سے خلاف قیاس نتائج پیدا کئے گئے ہیں جن کی کوئی صحیح قانونی تعبیر جائز نہیں.چراغ علی کے بقول دوسو آیات قرآنی سول لا کے متعلق کوئی خاص تعلیم یا محکم قواعد نہیں ہیں اور ان میں سے بہت سے نتائج انہیں انکل کچھ معلوم ہوتے ہیں؟ لیکن تعلیقات ” میں چراغ علی صاحب کا اس کے بر عکس رویہ ہے جسے اوپر درج کیا گیا ہے.یہ صورت حال مولوی چراغ علی کی حقیت قرآن سے محض لاعلمی ہے لیکن دعوئی دفاع اسلام کا ہے گویا یہ اسلام کے نادان دوست بلکہ دین اسلام کے در پر دہ دشمن ہیں.مولوی چراغ علی تو قرآن شریف کے اختصار پر فی الواقعہ اعتراض کر رہے ہیں نہ کہ قرآن شریف کا دفاع کرتے ہیں.اب ذرا اس مضمون کے شروع میں دیئے گئے حضرت مرزا صاحب کے براہین احمدیہ میں سے لیے گئے اقتباس کو ملاحظہ کریں جس میں قرآن شریف کے اس اختصار کا ذکر ہے اور اس اختصار میں کیا حکمتیں مضمر ہیں کے چند نکات کو یہاں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے.ایجاز قرآن شریف اور حضرت مرزا صاحب ایجاز کلام ( قرآن شریف) کو اگر متوسط قلم سے لکھیں تو پانچ چار جز میں آسکتا ہے.• • تمام دینی صداقتوں پر سچی کتابوں (وغیرہ) میں تھیں پر مشتمل ہے.اس میں یہ کمال ہے کہ جس قدر انسان کوئی بار یک دقیقہ اپنی قوت عقلیہ پیدا کرے یا حکماء سابقین نے نکالا ہو اُسے معرض مقابلہ میں لائے.تمام مفاسد باطنی اور امراض روحانی کا علاج اور ہر دینی صداقت اور حکمت کے بیان میں قرآن شریف ایک دائرہ کی طرح محیط
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام ہے.اس سے کوئی صداقت دینی باہر نہیں.آئندہ کسی عاقل کے لیے کسی نئے دقیقہ کے پیدا کرنے کی جگہ نہیں چھوڑتا.حالانکہ یہ اس قدر قلیل الحجم کتاب ہے جو یہ تحریر میانہ چالیس ورق سے زیادہ نہیں..اس کی کوئی شخص دو چار سطر بنانے پر قادر نہیں ہو سکتا.خواہ دنیا کے صدر باز باند انوں اور انشا پر دازوں کو اپنامدد گار بنالے.اور یہ معجزہ اب بھی ثابت ہو سکتا ہے 129 کیونکہ کلام کی عظمت و شوکت متکلم کی علمی طاقتوں کے تابع ہے.انسان کی علمی طاقتیں خدا تعالیٰ کی علمی طاقتوں سے ہر گز برابر نہیں ہو سکتیں.اثبات حقانیت فرقان مجید اثبات نبوت محمدیہ کے نوٹ کے آخر پر جو عبارت براہین احمدیہ سے نقل کی گئی تھی.اُس کا ایک حصہ یہاں بھی دہرایا جاتا ہے یعنی: (کیونکہ قرآن شریف باطنی طور پر طالب صادق کا مطلوب حقیقی سے پیوند کر ادیتا ہے اور پھر وہ طالب خدائے تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہو کر اس کی طرف سے الہام پاتا ہے جس الہام میں عنایات حضرت احدیت اس کے حال پر مبذول ہوتی ہیں اور مقبولین میں شمار کیا جاتا ہے اور اس الہام کا صدق ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اس میں ہوتی ہیں اور حقیقت میں یہی پیوند جو اوپر لکھا گیا ہے حیات ابدی کی حقیقت ہے.کیونکہ زندہ سے پیوند زندگی کا موجب ہے.اور جس کتاب کی متابعت سے اس پیوند کے آثار ظاہر ہو جائیں.اس کتاب کی سچائی ظاہر بلکہ اظہر من الشمس ہے.کیونکہ اس میں صرف باتیں ہی باتیں نہیں بلکہ اس نے مطلب تک یہ پنچا دیا ہے."36 (کیونکہ قرآن شریف کی حقانیت معلوم کرنے کے لئے اب بھی وہی معجزات قرآنیہ اور وہی تاثیرات فرقانیہ اور وہی تائیدات غیبی اور وہی آیات لار یہی موجود ہیں جو اُس زمانہ میں موجود تھی خدا نے اس دین قویم کو قائم رکھنا تھا اس لئے اس کی سب برکات اور سب آیات قائم رکھیں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کے ادیان محرفہ اور باطلہ اور ناقصہ کا استیصال منظور تھا اس جہت سے انکے ہاتھ صرف قصے ہی قصے رہ گئے اور برکت حقانیت اور تائیدات سماویہ کا نام و نشان نہ رہا.ان کی کتابیں ایسے نشان بتلا رہی ہیں جن کے ثبوت کا ایک ذرانشان اُن کے ہاتھ میں نہیں صرف گزشتہ قصوں کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر قرآنِ شریف ایسے نشان پیش کرتا ہے جن کو ہر یک شخص دیکھ سکتا ہے."37 6-8.حقانیت قرآن شریف میں حضرت مرزا صاحب کا زندہ نظام اور مولوی چراغ علی مولوی چراغ علی صاحب حقانیت قرآن پر کیا دلائل دیں گے.مولوی صاحب اس موضوع سے کوسوں دور تھے.آپ کے نزدیک توسول لاء پر قرآنی تعلیمات Fortuitous( اٹکل پچو یعنی خیالی، قیاسی ، اوٹ پٹانگ، بے قرینہ ) تھیں.جیسا کہ موصوف لکھتے ہیں:."This will show that the two hundred verses are not specific rules or particulatr teachings
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 130 of the Koran on the civil law, most of the deductions being fortuitous interpretations." (Introduction xvii) (The Proposed Political, legal and social reforms.By Maulavi Cheeragh Ali.) اس کا ترجمہ مولوی چراغ علی کے مترجم مولوی عبدالحق صاحب یوں کرتے ہیں: “اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دو سو آیات قرآنی سول لا کے متعلق کوئی خاص تعلیم یا محکم قواعد نہیں ہیں، ان میں سے بہت سے نتائج اٹکل پچو معلوم ہوتے ہیں."38 مولوی چراغ علی کی وفات پر ہاتھ ملنے والے موصوف کے مضمون “العلوم الجديدة والا سلام ”جو سر سید کے رسالہ تہذیب الاخلاق میں شائع ہونا شروع ہوا تھا ، کی عدم تکمیل پر مولوی چراغ علی صاحب کے آخری خط کو جس میں چراغ علی صاحب نے اس مضمون کی پانچویں قسط کے بعد لکھے جانے والے خط میں لکھا جو سرسید نے “تہذیب الاخلاق یکم ذی الحج سنہ 1312 ہجری / 1895ء میں صفحہ 56 پر شائع کیا تھا.مولوی چراغ علی لکھتے ہیں : ان سب کے بعد اب اصل بحث آتی ہے کہ علم کلام و عقاید کی روسے کون کو نسا مسئلہ حکماء فلسفہ کے خلاف ہے.اور انہیں مسائل کے متعلق علوم جدیدہ میں ان کی تائید ہوتی ہے یا مخالفت اور بتلایا گیا ہے کہ علوم جدیدہ ان مسائل اختلافیہ میں علم کلام کی تائید میں ہیں.اور علم کلام کے ذکر کے قبل یہ میں لکھنا بھول گیا ہوں کہ علوم دینیہ کیا کیا ہیں اور وہ کہاں تک فلسفہ و حکمت کے اعتراضات کی تردید کر سکتے ہیں.فقہ و تفسیر وحدیث حکما کے مقابلہ میں کچھ کار آمد نہیں ہیں.اور اس غرض سے علم کلام ایجاد کیا گیا تھا.مگر اب وہ بھی مفید وکار آمد نہیں رہا.اخیر پر اس سوال کا جواب ہے جو اس مضمون کی ابتداء میں تھا.اس کے بعد میں کچھ اس کا ذکر ہو گا کہ اب تک اس قسم کی کتابیں جن میں تطبیق بین الحکمت والا سلام ہوتی ہے کیا کیا تصنیف ہوئیں اور آئندہ کسی قسم کی کتابیں تصنیف ہونی چاہئیں.نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی) مولوی چراغ علی صاحب کا قطعی فیصله در باره فقه ، تفسیر وحدیث کے کار آمد نہ ہونے کا تو اس آخری خط سے عیاں راچہ بیاں ہے.لیکن اُن کی تحقیق کہ وہ اب تک اس قسم کی کتابیں جن میں تطبیق بین الحکمت والا سلام ہوتی ہے.بظاہر پر دہ خمول میں چلا گیا لگتا ہے کیونکہ موصوف کے خط کے بعد اُن کی وفات ہو گئی تھی.لیکن مولوی چراغ علی صاحب نے اس کی وضاحت و نشاند ہی اپنے ایک طول طویل مضمون “اسلام کی دنیوی برکتیں ” "For Obvious reforms which Islam has produced upon the welfare of mankind" میں کر دی تھی.جو بالا قساط سرسید کے رسالہ “ تہذیب الاخلاق ” میں ہی شائع ہو تا رہا تھا.اسے جلد سوم “تہذیب الاخلاق ” کے مضامین کے نام سے ملک فضل الدین ملک چنن الدین ملک تاج الدین ککے زئی تاجران کتب قومی کوچه سگکے زئیاں منزل نفق بازار کشمیری لاہور ( تاریخ ندارد) سے شائع کیا گیا.اس کے صفحہ نمبر ۸۷ پر مولوی چراغ علی صاحب نقشنمندی Modern writers attempted to imitate European forms of thoughts and sentiments.کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں : “ اس زمانہ میں بعض دور اندیش درد مند اور مستعد مسلمانوں نے یورپ کے علوم جدیدہ کا اکتساب اور علوم اسلامی سے اُس کی تطبیق دینی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام وو 131 چاہی ہے اور طرز معاشرت اور شائستگی عادات و طرز تحریر اور طریق تعلیم میں یورپ کا تنتبع اختیار کیا ہے چنانچہ " اس کے بعد چند شام، قاہرہ، بیروت اور تیونس کی مطبوعات کا ذکر کر کے لکھتے ہیں: “ اور مولوی کرامت علی صاحب جونپوری متولی امام باڑہ محسنیہ ہو گی صاحب ماخذ العلوم معہ ضمیمہ عمدہ مصنفین ہیں اور مولوی مہدی علی صاحب کی فرزانہ اور دردمندانہ تقریریں مسلمانوں کی درد انگیز حالت پر نہایت مرتبہ پُر تاثیر ہوتی ہیں خصوصاً جناب مولوی سید احمد خان بہادر کی کوششیں جو مختلف طور سے بانحاوشتی مسلمانوں کی خراب حالت اور نکبت و فلاکت اصلاح و درستی اور علوم جدیدہ کی اشاعت اور حمایت اسلام میں بروئے کار آرہی ہیں اُنہوں نے اکثر مخالف اور موالف کے پژمردہ بلکہ مردہ دلوں میں تحریک پیدا کر دی اور ہندیوں کے تنگ و تاریک خیالات کو حقیقی نور کی آبیاری سے ترو تازہ کرنے کا سامان کیا اور بالتخصیص مدرستہ المسلمین کی بنیاد ہمارے دین کی آرایش اور آسائیش کا سر چشمہ ہے." گو یا کرامت علی جونپوری (1800-1873) مولوی چراغ علی کے پسندیدہ مصنفین میں سے ہیں جنہیں ہندوستان میں جدیدیت کے بانی کہا جاتا ہے.ان کے ساتھ سر سید احمد خان (1817-1898) بھی شامل ہیں اور ان ہی میں مولوی چراغ علی بھی شامل ہیں جو سر سید احمد خان کے پیر و خاص تھے.یہاں پر اس جدیدیت کی بحث میں اُلجھے بغیر اور اُن کی مساعی و نتائج کی بحث میں بھی پڑے بغیر اپنے موضوع کی مناسبت سے مولوی چراغ علی صاحب کی ایک حسرت کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کی حقانیت فرقان مجید کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے.مولوی چراغ علی کی حسرت یہ ہے کہ : جر من اور فریج یا اطالیہ اور انگلینڈ میں مسلمانوں کی طرف سے واعظ اور وفود ( مشنری) اور معلم کبھی نہیں بھیجے گئے کہ انہوں نے ان ملکوں میں برسوں قرآن کا وعظ کیا ہو.اور اس کے محاسن اخلاق اور معرفت اور حقیقت کی باتوں کو مشہور کیا ہو.بلکہ قرآن نے خود ہی اپنی الہی تاثیر سے اُن ملکوں میں جہاں سب اس کے منکر یا اس سے ناواقف تھے اپنی تجلی کی.اور اپنے مضامین حقیقت آگیں اور زبان معجز بیان سے وہاں کے اہل دل اور قلب سلیم والوں میں ایک تحریک پیدا کی اور ان لوگوں نے اس سے اقتباس کر کے اپنے خیالات کو بھی منور کیا اور نیز علم معانی و بیان کی نظر سے اس کو اپنا متقنڈ اٹھہرایا."39 قرآن شریف کی حقیت جو مولوی چراغ علی صاحب کے نزدیک ہے موصوف کیا اُس کی یورپ میں اشاعت چاہتے تھے ؟ تو بجائے فائدے کے اُلٹا اسلام کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے البتہ مستشرقین کی ہاں میں ہاں ملا کر اعجاز قرآن کے اثر میں روک بنتے.اس کے بر عکس حضرت مرزا صاحب کی مساعی جمیلہ کے شیریں ثمرات کے نتیجہ میں حقانیت قرآن اس طرح ظاہر ہورہی ہے کہ آپ کے قائم کردہ نظام کے تحت دنیا میں ۱۰۰ از بانوں میں قرآن پاک کا ترجمہ ہو چکا ہے اور ۲۰۰ ممالک میں (جن میں مولوی چراغ علی صاحب کے نشان زدہ ممالک شامل ہیں ) حضرت مرزا صاحب کے قائم کردہ نظام کے مشنری موجود ہیں.اس صورت حال میں مولوی عبد الحق کے الزام کی قلعی اور کھل جاتی ہے.6-9 - فرقان مجید کے الہامی / کلام الہی ہونے کا ثبوت محضرت علی ایم کے اپنی نبوت پر مستحکم یقین اور آپ کی کامیابی کو آپ کی سچائی ثابت کرنے کے عنوان سے مولوی چراغ علی صاحب نے ایک کتاب مارچ 1884ء میں لکھی جو 1885ء میں تھیکر اسپنک اینڈ کمپنی کے پریس میں چھپی جس کا نام ہے: A CRITICAL EXPOSITION OF THE POPULAR “JIHAD”
132 براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اس کے تعارف(INTRODUCTION) میں لکھا: "The revelation is a natural product of human faculties.A prophet feels that his mind is illuminated by God, and the thoughts which are expressed by him and spoken or written under this influence are to be regarded as the words of God.This illumination of mind or the effect of the Divine influence differ in any prophet according to the capacity of the receipient, or according to the circumstances physical moral, and religious in which he is placed." "40 یہ ہیں وہ خیالات جو مولوی چراغ علی صاحب کے وحی و الہام یعنی کلام الہی کے بارے میں تھے اور ان ہی کو مولوی چراغ علی کے نزدیک فرقان مجید کے الہامی ہونے / کلام الہی ہونے پر پیش کیا جا سکتا ہے.! اس کا ترجمہ مولوی چراغ علی صاحب کے مترجم جیسا کہ اس کتاب کے تبصرہ (نوشتہ مولانا عبد الحق صاحب بی.اے علیگ 1912ء) صفحہ نمبر 8 پر درج ہے مولوی خواجہ غلام المحسنین صاحب ( مترجم فلسفہ تعلیم ہر برٹ اسپنسر) نے کیا ہے.موصوف نے اس عبارت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ درج ذیل ہے: وحی والہام قوائے انسانی کا قدرتی نتیجہ ہیں.پیغمبر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے منور کر دیا ہے اور جو خیالات وہ ظاہر کرتا ہے اور جن کو اس اثر سے متاثر ہو کر تقریر یا تحریر میں لاتا ہے ، وہ “ خدا کے الفاظ ” سمجھے جاتے ہیں.یہ “نور ”جو پیغمبر کے نفس کو روشن کرتا ہے یعنی فیضانِ الہی کا اثر متاثر ہونے والی کی حیثیت کے لحاظ سے یا اُن جسمانی و اخلاقی و مذہبی حالات کے اعتبار سے جو اس کے گردو پیش ہوتے ہیں، مختلف ہوتا ہے.41 یہ ہیں وہ خیالات جن کے بارے میں تبصرہ نگار مذکورہ لکھتے ہیں کہ : وہ (مولوی چراغ علی صاحب ) ایک ایسی عظیم الشان خدمت اپنے دین وملت کی ادا کر رہے تھے کہ اس کی مثال اُن کے بعد پھر نہ نظر آئی.بعض مدعیان حمایت دین وملت کی آنکھیں اب کھلی ہیں.اور دن ڈھلے پر ایک جدید علم کلام کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں اور اس کے متعلق مشورے اور کمیٹیاں ہو رہی ہیں، لیکن انہیں خبر نہیں کہ مدت ہوئی اس کی بنیاد سرسید ڈال چکے اور مولوی چراغ علی مرحوم اس کی تکمیل بھی کر چکے." آگے چل کر اس پر تبصرہ میں لکھتے ہیں : “آئندہ اسلام پر جو کچھ کہا جائے گاوہ زیادہ تر مرحوم ( یعنی مولوی چراغ علی صاحب) کی خوشہ چینی ہو گی." 42 واہ خوب! اس عظیم الشان خدمت ”! کے اور خوشہ چینی کی بھی خوب کہی !! گویا مولوی عبدالحق صاحب نے مولوی چراغ علی کی شان میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور عقائد اسلامیہ کو (نعوذ باللہ ) خاک میں ملا دیا ہے !!! لیکن حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتاب براہین احمدیہ کے بارے میں جس زیر بحث اتہام کو لکھا ہے وہ اس موضوع پر اسی براہین احمدیہ میں نظر ڈالنے سے یکسر مختلف نظر آتا ہے.1912ء میں جب کہ مولوی عبد الحق صاحب نے یہ تبصرہ لکھا تھا تو دونوں کتابیں براہین احمدیہ (حصہ اول تا حصہ چہارم مطبوعہ 1884-1880) اور تحقیق الجہاد مطبوعہ 1885ء مولوی صاحب موصوف کے سامنے تھیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ نے براہین احمدیہ کو کبھی کھول کر دیکھنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کی تھی مگر اپنی حاشیہ آرئیوں کی بیساکھیوں کے ساتھ مولوی چراغ ،،
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام علی پر فدا ہوئے جاتے تھے ! 133 مولوی چراغ علی صاحب کی زندگی میں ہی موصوف کی اس تحریر کو پیش نظر رکھ کر لندن کے اس ماہنامہ “ Contemporary Review” کے ایک مضمون نگار ایڈورڈ سنیل Edward Snell نے اگست 1893ء میں ایک مضمون لکھا.جس کا عنوان تھا“ The New Islam".اس میں موصوف نے مولوی چراغ علی صاحب (حکومت نظام کے ایک افسر) اور سید امیر علی صاحب (بنگال کی ہائی کورٹ کے ایک حج) کی کتب کو “ ایک نیا اسلام ” قرار دیا.ایڈورڈ سنیل مولوی چراغ علی کے بارے میں لکھتے ہیں: "It speaks well for the moral courage of the men of the New Islam that they do not hesitate even in so serious a matter as this to discard the theory of Wahi, and to adopt that of Ilham alone.Maulvi Charagh Ali says: " A Prophet in immaculate nor is falliable......" This leaves room for a much liberal system of interpretation, but whether such a statement will ever be accepted such by any considerable number of Muslim theologians is a matter of grave doubt.It entirely does away with the dogma of the eternity of the Quran, and in this respect brings the modern movement into accord with that of the earlier Mutazalas.43 اس عبارت کے درمیان میں دی گئی عبارت کے ترجمہ یعنی پیغمبر نہ تو بے عیب ہوتا ہے اور نہ معصوم.” کے متعلق کتاب زیر نظر کے پیر انمبر 3-5 میں تفصیلی روشنی ڈالی جاچکی ہے.دیگر عبارت کا ترجمہ زیر حوالہ (18)3-5 دیا گیا ہے.باقی کی عبارت کا ترجمہ درج ذیل ہے: نئے اسلام کے ( پر چاکوں ) کی اخلاقی جرات قابل تعریف ہے کہ وہ ایسے سنجیدہ معاملے میں بھی، چکچاتے نہیں ہیں، جس میں وحی کے نظریے کو ترک کیا جاتا ہے اور صرف الہام کو چن لیا جاتا ہے.مولوی چراغ علی لکھتے ہیں: (نوٹ: اس سے آگے حوالہ نمبر (18)3-5 میں دی گئی عبارت ہے.جس کا ترجمہ اور متن او پر درج کیا گیا ہے.) اس میں نرم تشریح و تعبیر کی بہت سی گنجائش موجود ہے.لیکن کیا اسے علماء اسلام کی ایک بڑی تعداد کبھی قبول کرے گی.یہ ایک شدید شک وشبہ کا معاملہ ہے.اس سے یہ عقیدہ یکسر منسوخ ہو جاتا ہے کہ قرآن کو بقائے دوام حاصل ہے.اس معاملے میں یہ جدید تحریک ابتدائی معتزلہ سے موافقت رکھتی ہے." یہ ہے مولوی چراغ علی صاحب کی مذکورہ عبارت کا نتیجہ جو ایڈورڈ سنیل نے نکالا ہے.جس کے تحت قرآن کریم کے بقائے دوام سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں.اور اس کا نشانہ ہے وحی و الہام جسے الگ الگ بیان کر کے الہام کو چن لیا گیا ہے.جس سے مذکورہ عقیدے کی بنیاد کھڑی کی گئی ہے:
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام جیسے ایڈورڈ سنیل لکھتے ہیں کہ : 134 "Wahi is the term given to the inspiration of the Quran, and it means that the very words of God." "Ilham: it is the inspiration of a saint or of a prophet whom, though rightly guided as to the matter of his communication, he puts it in his own words."144 جبکہ وحی و الہام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.چنانچہ حضرت مرزا صاحب مولوی ابو عبد اللہ قصوری کے ایک رسالے کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: حضرت موسیٰ کی والدہ سے بطورِ الہام خدا کا کلام کرنا مریم سے بطور الہام خدا کا کلام کرنا.حواریوں سے بطورِ الہام خدا کا کلام کرنا خود قرآن شریف میں مندرج اور مرقوم ہے.حالانکہ ان سب میں سے نہ کوئی نبی تھا اور نہ کوئی رسول تھا.اور اگر مولوی صاحب یہ جواب دیں کہ ہم اولیاء اللہ کے ملہم من اللہ ہونے کے قائل تو ہیں مگر اس کا نام الہام نہیں رکھتے بلکہ وحی رکھتے ہیں.اور الہام ہمارے نزدیک صرف دل کے خیال کا نام ہے جس میں کافر اور مومن اور فاسق اور صالح مساوی ہیں اور کسی کی خصوصیت نہیں تو یہ صرف نزاع لفظی ہے اور اس میں بھی مولوی صاحب غلطی پر ہیں.کیونکہ لفظ الہام کہ جو اکثر جگہ عام طور پر وحی کے معنوں پر اطلاق پاتا ہے.وہ باعتبار لغوی معنوں کے اطلاق نہیں پاتا.بلکہ اطلاق اس کا باعتبار عرف علماء اسلام ہے.کیونکہ قدیم سے علماء کی ایسی ہی عادت جاری ہو گئی ہے کہ وہ ہمیشہ وحی کو خواہ وحی رسالت ہو یا کسی دوسرے مومن پر وحی اعلام نازل ہو.الہام سے تعبیر کرتے ہیں.اس عرف کو وہی شخص نہیں جانتا ہو گا جس کو حق کے قبول کرنے سے کوئی خاص غرض سد راہ ہے.ورنہ قرآن شریف کی صدبا تفسیروں میں سے اور کئی ہزار کتب دین میں سے کسی ایک تالیف کو بھی کوئی پیش نہیں کر سکتا جس میں اس اطلاق سے انکار کیا گیا ہو.بلکہ جابجا مفسروں نے وحی کے لفظ کو الہام ہی سے تعبیر کیا ہے.کئی احادیث میں بھی یہی معنے ملتے ہیں جس سے مولوی صاحب بے خبر نہیں ہیں.پھر نہ معلوم کہ مولوی صاحب نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ لفظ الہام کے کتب دین میں وہی معنے کرنے چاہئیں کہ جو کتب لغت میں مندرج ہیں.جب کہ سواد اعظم علماء کا الہام کو وحی کا مترادف قرار دینے میں متفق ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو استعمال کیا ہے.تو پھر اس سے انحراف کر نا صریح تخم ہے."45 اس بحث اور وضاحت سے وحی و الہام کو الگ الگ قرار دینے کی بحث ہی ختم ہو جاتی ہے.اور قرآن پاک کے بقائے دوام پر بھی کوئی حرف نہیں آتا.جبکہ مولوی چراغ علی صاحب تو اپنی حین حیات میں ایڈورڈ سنیل کی اس تھپکی سے بہت محظوظ ہوئے ہوں گے! فی الواقعہ مولوی چراغ علی کی مذہبی سوچ (Religious Thought) ایک ناکام سوچ تھی جو مستشرقین کے اعتراضات سے بچنے کے لئے ان کے ہی دام میں پھنسنے کا اور پھنستے ہی چلے جانے کا اقدام تھا.اس دُھن میں مولوی صاحب موصوف اشتعال انگیزیوں سے کام لیتے تھے جن کے ساتھ کسی قسم کی خدائی ہتھیاروں کی تائید شامل نہ تھی اور نہ ہی موصوف ان پر یقین رکھتے تھے.جبکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود موید من اللہ تھے.آپ کا چیلنج اللہ تعالیٰ کا سکھلایا ہو اتھا.جس کے مقابلے پر کوئی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 135 نہ سامنے آسکا اور جس نے کوشش کی وہ ناکام رہا.اس بات کی ایک جھلک مونٹریال انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز مک گرل یونیورسٹی (کینیڈا) میں لکھے جانے والے ایک مقالے سے عیاں ہے.مقالہ نگار لکھتے ہیں: "The technical religions controvercies of Chiragh Ali and of other Aligarh reforms might have seem to be mere pinpricks in contrast with the fundamental challenge of Ghulam Ahmad." 46 “ (حضرت مرزا غلام احمد (صاحب قادیانی) کی دعوت (مبارزت.چینج) کے مقابلہ پر مولوی چراغ علی اور علی گڑھ کے دوسرے مصلحین کی مذہبی موشگافیاں محض معمولی اشتعال انگیزیاں معلوم ہوتی ہیں جبکہ (حضرت مرزا صاحب) کی دعوت مقابلہ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے." فی الواقعہ یہ حضرت مرزا صاحب کی خود دریافت کردہ نہ تھی بلکہ بطور مامور من اللہ کے تھی جس کا تسلسل آج بھی اور تا قیامت بصورت خلافت علی منہاج نبوت جاری ہے.جسے مولوی چراغ علی صاحب، مستشرقین یوبی سنی اور میکم میکال آنحضرت صلی للی کم پر فیضان نبوت محمدیہ (نعوذ باللہ ختم ہونا قرار دیتے ہیں.جیسے کہ میکال نے لکھا ہے کہ : 47"There is no hint for spiritual succession in the Koran." ترجمه : قرآن (کریم) میں روحانی نیابت کا اشارہ تک نہیں ہے جو قرآنی آیت استخلاف، سلسلہ مسجد دین مسیح مہدی کی آمد و خلافت کے بر عکس ہے.یہ اعتراضات 1866ء اور 1904ء کے درمیان برطانوی اخبارات میں نکلتے رہے تھے.جن کے استیلاء و غلبہ کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے مامور حضرت مرزا صاحب کے ہاتھوں قرار واقعی جوابات براہین احمدیہ اور آپ کی دیگر تصانیف میں درج کروا دیئے تھے.ان ہی اعترضات کو لے کر پادری میلکم میکال لے کر اٹھے تھے.ان اعتراضوں کا ذکر کرتے ہوئے کے.کے.عزیز لکھتے ہیں: "Between 1866 and 1904 dozens of articles appeared in all influential journals, generely condemnatory of Turkey, Islam and Muslim Indian interest in the ottoman Khalifa.......The Rev.Malcolm Maccoll Cannon of Ripon, wrote several articles in the contemporary Review and other journals severely critical, at times unseemly vulgar, of Islam and everything that is stood for........Cannon Maccol continued his crusade against everything Islamic in the contemporary review of April 1888 and feb and october 1897.' 148 ترجمہ: 1866ء اور 1904ء کے عرصے کے درمیان برطانیہ کے تمام اثر ورسوخ رکھنے والے معاصر جرائد میں ترکی ، اسلام اور ہندوستانی مسلمانوں کے عثمانیہ خلافت کے مفاد کے خلاف مضامین شائع ہوتے رہے.رین (برطانیہ) کے پادری میکم میکال نے کنٹمپریری ریویو ” اور دیگر رسائل میں بہت سے مضامین لکھے جو اسلام اور کچھ بھی اسلام
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 136 سے متعلق ہو کے خلاف بہت ناشائستہ اور بازاری ہوتے تھے.کینن میکال نے اس (به زعم خود) جنگ (جہاد) کو کن ٹم پوریری ریویو کے صفحات پر اپریل 1888 اور فروری اور اکتوبر 1899 تک جاری رکھا." شاید کے کے عزیز صاحب سے میکال کا اگست 1881 ء کا مضمون نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے.اسی لئے موصوف نے دیگر امور کا ذکر کیا ہے اور میکال کے ضمن میں 1881 کی بجائے 1888 لکھ گئے ہیں.تاہم ان تمام مضامین پر اگر نظر ڈالی جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اصولی طور پر ان تمام کار د حالی و قالی طور پر به تائید ایزدی براہین احمدیہ میں کر دیا ہے جس کے ایک پہلو کو مذکورہ مضمون کے حوالے سے براہین احمدیہ پر اعتراض کئے جانے پر کھولا گیا ہے.اللہ تعالیٰ مولوی چراغ علی کے متبعین کی ان حقائق سے آگہی کے سامان کرے تا کہ کنویں کے باسیوں کو باہر کا بھی کچھ معلوم ہو سکے اور وہ اسے قبول بھی کریں.(آمین یا ارحم الراحمین) مولوی چراغ علی صاحب کے سوانح نگار ڈاکٹر منور حسین، مولوی صاحب کے مضمون “ یورپ اور قرآن” کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں : “ اس میں کل اکیس فقرے ہیں اور قرآن مجید کے جمع و ترتیب اور اس کے کلام الہی ہونے کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے...49", لیکن مولوی چراغ علی صاحب اس مضمون کے پہلے ہی فقرہ میں لکھتے ہیں: مندرجہ ذیل فہرست سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بارہویں صدی عیسوی سے اس زمانہ تک...ہر طبقہ کے عالموں نے قرآن مجید کے ترجمے کرنے اور اس سے اقتباس نور یا احقاق حق میں ہمیشہ کوشش بلیغ کی ہے."50 جو قرآن مجید کے تراجم یا اقتباس نور یا Acquiring Knowlege یا احقاق حق To administer Justice کی بابت ہے لیکن ڈاکٹر صاحب موصوف اسے جمع و ترتیب سے منسوب کرتے ہیں.اسی طرح مذکورہ مضمون میں ہی مولوی چراغ علی صاحب کے فقرہ نمبر 18 میں حفظ و کتابت کا ذکر چل رہا ہے.لیکن مولوی صاحب بلا ضرورت و بے محل حسب عادت مستشرق سرولیم میور کا ایک فقرہ بلا تبصرہ نقل کرتے ہیں جو دراصل وان ہیمر (Von) (Hammer کے الفاظ ہیں "That we hold the Koran to be a surely Mahomet's word as the Mohamdans hold it to be word of God...” جس کا ترجمہ مولوی چراغ علی صاحب درج کرتے ہیں “جیسا کہ وان ہیمر نے کہا ہے یہ کہتے ہیں کہ قرآن کو ہم بالیقین ایسا ہی محمد کا کلام سمجھتے ہیں جیسا کہ مسلمان اُس کو کلام الہی سمجھتے ہیں." (صفحہ 126-127) اس حوالہ سے تو قرآن شریف کے کلام الہی ہونے کی بحث کب نکلتی ہے؟ یہ تو صرف ایک الزام ہے کہ وان ہیمر اور ولیم میور قرآن شریف کو کلام الہی نہیں سمجھتے مسلمان سمجھتے ہیں تو ان کا اعتقاد ہے.لیکن مولوی چراغ علی نہ معلوم اس بلا محل و بے ضرورت حو الے کو بلا تبصرہ یہاں کیوں درج کرتے ہیں؟ غالباً اپنے مزعومہ خیالات کی ہو اباند ھنا چاہتے ہیں ! مولوی چراغ علی صاحب اپنی کتاب “ تعلیقات ” میں لکھتے ہیں“ قرآن کی وحدت مضمون اس پر دال ہے کہ ایک ہی شخص کا لکھا ہوا ہے ( حاشیے پر درج شدہ عبارت ) اور متن میں درج کرتے ہیں: اس کے موضوع و منشاء عام ایسے باہم متقارب ہیں کہ ایک ہی صاحب رائے صائب و پختہ کار با و قار و سلیم القلب و غیر متزلزل کے
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام رشحات قلم و نتائج فہم معلوم ہوتے ہیں."51 وو 137 اس پر دلیل لاتے ہیں جی ایم راڈول کی یعنی : آیات قرآنی میں ایسی وحدت خیال...جسے (کذا.جس سے ) ثابت ہو تا ہے کہ آیات قرآن قلم واحد کے رشحات ہیں.” 52 دونوں مقامات پر قرآن شریف کو شخص واحد کی طرف منسوب کرتے ہیں اور قرآن شریف کا کلام الہی ہونا ظاہر نہیں کرتے اور ثبوت میں حوالہ مستشرق راڈول کا دیتے ہیں جس کے مورث اعلیٰ وان ہیمر اور میور قرآن شریف کو کلام الہی یقین نہیں کرتے اور اُن کے خیالات پر ذرا بھی نہیں چونکتے بلکہ اپنی وسعت معلومات وافرہ کو ظاہر کرنے کے لیے مستشرقین کے ہی بد خیالات کا سہار الیتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اور اسلام کے دفاع میں پادریوں کے جوابات دیتے ہیں.لیکن اُن کی ہی عدم واقفیت سے تردید کی بجائے تائید کرتے چلے جاتے ہیں.مولوی چراغ علی اپنے آخری دور کی کتاب "ریفارمز انڈر مسلم رول" میں واضح طور پر لکھتے ہیں جسے موصوف Conclusion کا نام دیتے ہیں اور ان کے مترجم اسے " خاتمہ " کا نام دیتے ہیں.چنانچہ لکھتے ہیں: On the Contrary Islam, by which I mean that pure Islam taught by the Arabian Prophet, Muhammad in the Koran has much checked..."(Page-183) ترجمه مترجم : بلکہ بر خلاف اس کے اسلام نے جس سے میری مراد وہ پاک اور ٹھینٹ اسلام ہے جو پیغمبر عرب محمد صلی الم نے ہمیں قرآن میں بتایا ہے...(صفحہ ۱۸۴ عظم الکلام حصہ دوم) گویا مصنف اور مترجم کے نزدیک قرآن میں بتانا آنحضرت صلی ای کم کا کام ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا ! وحی و الہام کے بارے میں مولوی چراغ علی صاحب کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے.موصوف کی غیر مطبوعہ تصانیف میں انیس 19 صفحات کا ایک مضمون “رؤیا الانبیاء وحی یونیورسٹی آف حیدر آباد آندھراپردیش انڈیا کے مسودات میں شامل ہے جس کے ابتدائی پیراگراف میں مولوی چراغ علی صاحب لکھتے ہیں: نبیوں کے خواب سب بچے ہوتے ہیں اور وہ در حقیقت وحی ہوتے ہیں."53 اسی خیال کی وضاحت میں ڈاکٹر منور حسین لکھتے ہیں: “مصنف کے خیال میں ”وحی“ بھی ہمیشہ خوابوں ہی میں آتی تھی.کبھی دل میں بات ڈالی جاتی ، کبھی خواب میں آواز سنتے یا کبھی خواب میں فرشتوں کے ذریعہ پیغام پہنچتا، بس یہی تین طریقے تھے ، اپنی اس بات کی تائید کے لئے سورۃ المزمل، المد شر اور ان میں قرآن کے الفاظ ناشئة الليل ، ان لك في النهار وغیرہ کو قرینہ قرار دیا ہے.54 مذکورہ آیات سے وحی کے تینوں طریقوں کا کس طرح قرینہ مولوی چراغ علی صاحب نے نکالا ہے اس کی وضاحت ڈاکٹر صاحب موصوف نے نہیں کی ہے.البتہ مولوی چراغ علی صاحب کی یہ تحریر کرامت علی جونپوری اور سر سید احمد خان کے زیر اثر آنے سے قبل ابتدائی دور کی معلوم ہوتی ہے.کیونکہ جس کتاب کی تعریف میں مولوی عبد الحق نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں وہاں مولوی چراغ علی صاحب انبیاء کے وحی و الہام کو : قوائے انسانی کا قدرتی نتیجہ ” “پیغمبر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے منور کر دیا ہے.” “ اس سے متاثر ہو کر
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام (یعنی) جو خیالات ظاہر کرتا ہے...وہ خدا کے الفاظ سمجھے جاتے ہیں " 55 وو 138 ملاحظہ ہو مولوی چراغ علی صاحب کس طرح وحی و الہام کو خواب ” سے قوائے انسانی کا قدرتی نتیجہ ” قرار دینے کے خیال پر منتقل ہو الله جاتے ہیں.لیکن انبیائے کرام کے حوالہ سے جو باتیں آنحضرت صلی للہ یکم اور اسلام میں ثابت ہیں وہ “ صحیح بخاری ” کی حدیث نمبر 3320 تا 77 3 3 ( باب 24) زیر عنوان “ علامات النبوۃ فی الاسلام میں مذکور ہیں وہ درج ذیل ہیں: 1.رؤیا صادقہ ( جسے مولوی چراغ علی صاحب نے رویاء اور خواب درج کیا ہے) 2 مکاشفات 3 وحی و القاء.4 مكالمه البيه 5 ملائکتہ اللہ کا مشاہدہ 6 بشارت و انذار پر 7 استجابت دعا.8 ایفاضه و استفاضه بیماروں کی شفایابی مشتمل خبریں 10.دعا و توجہ سے کھانے پینے کی اشیاء اور پھلوں میں برکت 11.نظر ثاق 56 یہاں پر مولوی چراغ علی صاحب کے لفظ رویاء کو خواب پر محمول کرنے کے خیال کی وضاحت کرنی ضروری معلوم ہوتی ہے.اس سلسلے میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: اصل بات یہ ہے کہ مختلف زبانوں میں الگ الگ محاورات رائج ہوتے ہیں.عربی زبان میں ایسے نظاروں کے لئے رویاء کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.جس کے معنی دیکھنے کے ہیں.گو محاورہ میں ایسے نظارہ کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو نیند کی حالت میں دیکھا جائے.لیکن فارسی نے اس کے لئے خواب کا لفظ تجویز کیا ہے جس کے معنی نیند کے ہیں.یہ بھی ایک فرق ہے جو عربی کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے.قرآن کریم نے ہر جگہ رؤیا کا لفظ ہی خواب کے معنوں میں استعمال کیا ہے.جس میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ در حقیقت وہی حالت اصل بیداری کی ہوتی ہے جس میں انسان خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہو گو ظاہری طور پر اُس پر نیند یار بودگی کی کیفیت طاری ہو.لیکن ایرانی لوگ چونکہ ماہر نہیں تھے انہوں نے خواب کا لفظ ایجاد کر لیا حالانکہ خواب کے معنے محض نیند کے ہیں.پس رسول کریم صلی الم نے اگر کسی جگہ یہ فرمایا ہے کہ میں نیند سے بیدار ہو گیا اور دوسری جگہ آپ نے صرف اتنا فرمایا ہے کہ میں نے ایسا نظارہ دیکھا تو اس میں اختلاف کی کوئی بات نہیں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے جب یہ ذکر کیا کہ میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج کو سجدہ کرتے دیکھا ہے تو اس میں خواب کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا گیا مگر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس نظارہ کے متعلق رویاء کا لفظ استعمال کر دیا جو محاورہ میں نیند کی حالت میں
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام دیکھے ہوئے لفظ کے متعلق بولا جاتا ہے...یورپین مصنفین کی طرف سے جو اختلاف پیش کیا جاتا ہے وہ در حقیقت اختلاف نہیں بلکہ محاورہ زبان کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے.اگر یہ رویاء ہی تھی جو رسول کریم ملی ایم نے دیکھی تو بہر حال جیسا کہ ہمیں یقین اور وثوق ہے یہ رویاء اُس قسم کی نہیں تھی جس میں انسان پر کامل نیند طاری ہوتی ہے...غار حراء میں آپ مئی ہم کو جو نظارہ دکھایا گیا وہ گہری نیند والا نہ تھا.بلکہ کشفی نیند والا تھا.آپ صلی الی یوم کے ان الفاظ کا کہ پھر میں جاگ اُٹھا صرف اتنا مفہوم ہے کہ پھر میری کشفی حالت جاتی رہی.57 6-10.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیائی اور وحی و الہام کی تعریف 139 قطع نظر مولوی چراغ علی صاحب کے وحی والہام کے بارے میں “خواب ” اور “ قوائے انسانی کے قدرتی نتیجہ ” کے حضرت مرزا صاحب جس صورت کا ذکر فرماتے ہیں وہ براہین احمدیہ ہی کے حصہ سوم (مطبوعہ 1882) میں ملاحظہ ہو ( جبکہ مولوی چراغ علی کے قطعی خیالات مطبوعہ تحقیق الجہاد " 1885ء کے ہیں).حضرت مرزا صاحب کے یہ افاضات مذکورہ بالا علامات نبوت میں سے وحی و الہام کے بارے میں وحی و الہام، مکالمہ الہیہ اور ملائکتہ اللہ کے مشاہدہ سے تعلق رکھتے ہیں.حضور فرماتے ہیں جس کا خواب ” “ قوائے انسانی یا قلب سے کچھ تعلق نہیں بلکہ خارج سے آواز آتی ہے : صورت..الہام کی وہ ہے جس کا تعلق انسان کے قلب سے کچھ تعلق نہیں بلکہ ایک خارج سے آواز آتی ہے اور یہ آواز ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے سے کوئی آدمی بولتا ہے.مگر یہ آواز نہایت لذیذ اور شگفتہ اور کسی قدر سرعت کے ساتھ ہوتی ہے اور دل کو اس سے ایک لذت پہنچتی ہے.انسان کسی قدر استغراق میں ہو تا ہے کہ یکد فعہ یہ آواز آجاتی ہے اور آواز سن کر وہ حیران رہ جاتا ہے کہ کہاں سے یہ آواز آئی اور کس نے مجھ سے کلام کی.اور حیرت زدہ کی طرح آگے پیچھے دیکھتا ہے پھر سمجھ جاتا ہے کہ کسی فرشتہ نے یہ آواز دی.اور یہ آواز خارجی اکثر اس حالت میں بطور بشارت آتی ہے کہ جب انسان کسی معاملہ میں نہایت منتظر اور مغموم ہوتا ہے یا کسی بد خبری کے سننے سے کہ جو اصل میں محض دروغ تھی.کوئی سخت اندیشہ اس کو دامنگیر ہو جاتا ہے..ایک ہی دفعہ اسی وقت کہ جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے.کوئی فرشتہ غیب سے ناگہانی طور پر آواز کرتا ہے.خواہ سومر تبہ دعا اور سوال کرنے کا اتفاق ہو.اُس کا جواب سو مر تبہ ہی حضرت فیاض مطلق کی طرف سے صادر ہو سکتا ہے.جیسا کہ متواتر تجربہ خود اس خاکسار کا اس بات کا شاہد ہے.الہام ایک واقعی اور یقینی صداقت ہے جس کا مقدس اور پاک چشمہ دین اسلام ہے.اور خداجو قدیم سے صادقوں کا رفیق ہے دوسروں پر یہ نورانی دروازہ ہر گز نہیں کھولتا 58 اس عبارت سے یہ ثابت ہوا کہ وحی و الہام :.جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے..ایک خارج سے آواز آتی ہے جس کا انسان کے قلب سے کچھ تعلق نہیں.یہ آواز نہایت لذیذ، شگفتہ، کسی قدر سرعت کے ساتھ اور دل کو لذت پہنچانے والی ہوتی ہے.جیسے ایک پردہ کے پیچھے سے کوئی آدمی بولتا ہے ، پھر سمجھ جاتا ہے کہ کسی فرشتہ نے یہ آواز دی.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام متواتر تجربه خود اس خاکسار (یعنی حضرت مرزا صاحب) کا اس بات کا شاہد ہے.یہاں مناسب ہو گا کہ کچھ مزید روشنی بھی اس بارے میں ڈالی جائے جو حضرت مرزا صاحب کے ہی الفاظ میں درج ہے کہ : الہام " خدا کا پاک کلام اس کی آواز اس کی وحی ہے." خیالی الہام سراسر غلط اور جھوٹ ہے.اگر چہ انسانی خیالات کا علت العلل بھی خدا ہے.اور خدا ہی دلوں میں ڈالتا ہے اور عقلوں کو راہ دکھاتا ہے.لیکن وہ الہام کو جو حقیقت میں خدا کا پاک کلام ہے اور اس کا آواز اور اس کی وحی ہے.وہ انسان کے فطرتی خیالات سے برتر و اعلیٰ ہے.وہ حضرت خدا تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے ارادہ سے کاملوں کے دلوں پر نازل ہوتا اور خدا کا کلام ہونے کی وجہ سے خدا کی برکتوں کو اپنی ہمراہ رکھتا ہے.خدا کی قدرتوں کو اپنی ہمراہ رکھتا ہے.خدا کی پاک سچائیوں کو اپنی ہمراہ رکھتا ہے.لاریب فیہ ہونا اس میں ایک ذاتی خاصیت ہے.اور جس طرح خوشبو عطر کے وجود پر دلالت کرتی ہے.اسی طرح وہ خدا کی ذات اور صفات کے وجود پر قطعی اور یقینی دلالت کرتا ہے.لیکن انسان کے اپنے ہی خیالات یہ مرتبہ حاصل نہیں کر سکتے.کیونکہ جس طرح انسان پر ضعف مخلوقیت ہے اسی طرح انسانی خیالات پر وہ ضعف غالب ہے.جو کچھ قادر مطلق کے چشمہ سے نکلتا ہے وہ اور چیز ہے اور جو کچھ انسانی طبیعت سے پید اہوتا ہے وہ اور ہے.59 140 یہ تمام او پر درج کی گئی تمہید فرقان مجید کے الہام / کلام الہی ہونے کے ثبوت کو ایک آئینے کی طرح واضح کرنے کے لئے پیش کی گئی ہے.اور حضرت مرزا صاحب کے افاضات مندرجہ براہین احمدیہ سے لے کر دی گئی ہے اور اس سے قبل مولوی چراغ علی صاحب کے خیالات بھی پیش کیے گئے ہیں جن کے قبول کرنے سے تعلیمات اسلامیہ کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے اور برہمو سماج کے خیالات دربارہ الہام کو قبول کرنا پڑتا ہے ! مولوی چراغ علی صاحب کو جس مقام پر ان خیالات کے اظہار کی ضرورت تھی وہاں پر موصوف ، موضوع سے ہٹ کر بات کرتے رہے اور اصل موضوع پر اظہار خیال سرے سے کیا ہی نہیں ! جیسا کہ موصوف کی مصنفہ کتاب تعلیقات ” میں یہ طریق کار اپنایا گیا ہے.جس کی پیشانی پر آپ لکھتے ہیں پادری عماد الدین صاحب کی کتاب تاریخ محمدی کی وضع تالیف اور کیفیت مآخذ پر نظر دقیق ”اگر اس کو ہی مولوی صاحب موصوف نظر دقیق ” کہتے ہیں تو نا معلوم غیر ذمہ دارانہ نظر کے کہا جائے ؟ کیونکہ موصوف نے دعویٰ کیا پادری صاحب کی کتاب پر نظر دقیق ڈالنے کا، لیکن جن معاملات پر اُن کی مرضی ہوئی ہے نظر ڈالی ہے اور جہاں دل نہیں چاہا انہیں ذکر کیے بغیر ہی چھوڑ دیا ہے.در اصل ان امور سے مولوی چراغ علی صاحب نابلد محض تھے.اس لیے ان پر خامہ فرسائی نہیں کی اور پھر کہیں جا کر کسی دوسری جگہ سرسری طور پر کچھ لکھا بھی ہے تو وہ اسلام کو بجائے فائدے کے نقصان دہ ہے.شروع شروع میں اسلامی عقائد میں اپنی اپج پیدا کرتے رہے پھر جب کرامت علی جونپوری اور سرسید ( اور اسی طرح برہمو سماجیوں) کے زیر اثر آئے تو اور کھل گئے جن سے موصوف عین مستشرقین کے مزاج کے موافق لکھنے لگے بلکہ مستشرقین ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہو گئے.پادری عماد الدین کی کتاب تواریخ محمدی ” کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں تاریخ محمدی پر پادری صاحب نے بات کی ہے اور دوسرے میں تعلیم محمدی پر اپنی سمجھ کے مطابق بتفصیل لکھا ہے.مولوی چراغ علی صاحب کے حوالے سے اُن کی کتاب “تعلیقات ”جو زیر نظر
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 141 کتاب کے بارے میں ہے پر لکھا جا چکا ہے.دوسرے حصہ کے بارے میں جس سے پہلا حصہ مستثنیٰ نہیں ہے مولوی چراغ علی صاحب لکھتے ہیں جو کتاب کے آخری صفحات پر درج ہے: خصائص کا ذکر سیرت کی کتابوں میں غیر منضبط طریق سے ہوتا ہے.وجہ اس کی یہ ہے کہ خصائص کا شمار یا استقراء داخل عقائد ایمانیہ نہیں اور نہ کسی مقام پر قرآن شریف میں کہیں ان کو جمع کیا اور نہ کسی حدیث میں اس کا استیعاب ہوا.مگر روایتوں کے جمع کرنے والوں نے اقوال صحابہ و تابعین 60 اس داخل عقائد ایمانیہ والی بات کے قطع نظر اس امر کے کہ مولوی صاحب کے مطابق اس سے آنحضرت صلی کمی کی ذات گرامی پر نعوذ باللہ حرف آتا ہے لیکن اُن باتوں میں جن کو مولوی چراغ علی صاحب عقائد ایمانیہ تسلیم کرتے ہیں ان پر کیے گئے اعتراضات کا جواب تو دے دیتے لیکن اُن کے بارے میں لکھنے سے مولوی صاحب موصوف نے پہلو تہی کی ہے ! کیوں ؟ جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے یہ مولوی چراغ علی صاحب کا میدان ہی نہیں تھا اور نہ ہی موصوف کے مقتداؤں کرامت علی جونپوری اور سرسید کا یہ میدان تھا! ہم زیر نظر موضوع “ فرقان مجید کے الہامی / کلام الہی ہونے کے ثبوت کے بارے میں پچھلے مضمون کے تسلسل میں حضرت مرزا صاحب کی تحریروں ہی کے حوالے سے اُن امور کے بارے میں بات کریں گے جنہیں پادری صاحب نے اپنی کتاب کے حصہ دوم تعلیم محمدی ” کے دیباچے اور مقدمہ میں اٹھایا ہے اور مولوی چراغ علی صاحب نے اپنی کتاب تعلیقات ” میں انہیں زیر بحث نہیں لایا.اس سلسلے میں ہم اُن امور کو اُن کے متعلقہ مقامات پر زیر بحث لائیں گے جو ہمارے خصوصی تقابلی مطالعے کے تحت لائے جاسکتے ہیں.پادری عماد الدین صاحب لکھتے ہیں: قرآن شریف اور انجیل کا موازنہ “صرف بائیبل ہی خدا کا کلام ہے ”اور “ تعلیم محمدی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ” 61 حضرت مرزا صاحب پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری کے پرچہ دھرم جیون ” کے جنوری 1883ء کے شمارہ کا ذکر کرتے ہوئے حاشیہ نمبر 11 کی عبارت پر ایک حاشیہ کا اضافہ فرماتے ہیں جس میں مذکورہ بالا عنوان کا بہ تمام و کمال جواب آگیا ہے.اس جواب کا ایک حصہ اس سلسلہ میں نقل کیا جاتا ہے.حضرت مرزا صاحب اسی براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں تحریر فرماتے ہیں: “ اس بات پر عیسائیوں کو بھی نہایت توجہ سے غور کرنی چاہئے کہ خدائے بے مثل و مانند اور کامل کے کلام میں کن کن نشانیوں کا ہونا ضروری ہے.کیونکہ ان کی انجیل بوجہ محترف اور مبدل ہو جانے کے ان نشانیوں سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے بلکہ الہی نشان تو یک طرف رہے معمولی راستے اور صداقت بھی کہ جو ایک منصف اور دانشمند متکلم کے کلام میں ہونی چاہئے انجیل کو نصیب نہیں.کم بخت مخلوق پرستوں نے خدا کی کلام کو، خدا کی ہدایت کو، خدا کے نور کو اپنے ظلمانی خیالات سے ایسا ملا دیا کہ اب وہ کتاب بجائے رہبری کے رہزنی کا ایک پکاذریعہ ہے.ایک عالم کو کس نے توحید سے برگشتہ کیا؟ اسی مصنوعی انجیل نے.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام.ایک دنیا کا کس نے خون کیا؟ انہیں تالیفات اربعہ نے جن اعتقادوں کی طرف مخلوق پرستوں کا نفس امارہ جھلکتا گیا اُسی طرف ترجمہ کرنے کے وقت ان کے الفاظ بھی جھکتے گئے.کیونکہ انسان کے الفاظ ہمیشہ اس کے خیالات کے تابع ہوتے ہیں.غرض انجیل کی ہمیشہ کا یا پلٹ کرتے رہنے سے اب وہ کچھ اور ہی چیز ہے اور خدا بھی اس کی تعلیم موجودہ کے رُو سے وہ اصلی خدا نہیں کہ جو ہمیشہ حدوث اور تولد اور تجسم اور موت سے پاک تھا.بلکہ انجیل کی تعلیم کی رُو سے عیسائیوں کا خدا ایک نیا خدا ہے یا وہی خدا ہے کہ جس پر بد قسمتی سے بہت سی مصیبتیں آئیں اور آخری حال اُس کا پہلے حال سے کہ جو از لی اور قدیم تھا بالکل بدل گیا.اور ہمیشہ قیوم اور غیر متبدل رہ کر آخر کار تمام قیومی اس کی خاک میں مل گئی.62", 142 ماسوائے اس کے عیسائیوں کے محققین کو خود اقرار ہے کہ ساری انجیل الہامی طور پر نہیں لکھی گئی بلکہ متی وغیرہ نے بہت سی باتیں اُس کی لوگوں سے سن سنا کر لکھی ہیں اور لوقا کی انجیل میں تو خو د لو قا اقرار کرتا ہے کہ جن لوگوں نے مسیح کو دیکھا تھا ان سے دریافت کر کے میں نے لکھا ہے.پس اس تقریر میں خو د لو قا اقراری ہے کہ اس کی انجیل الہامی نہیں.کیونکہ الہام کے بعد لوگوں سے پوچھنے کی کیا حاجت تھی.پھر اسی طرح مرقس کا مسیح کے شاگردوں میں سے ہونا ثابت نہیں.پھر وہ نبی کیونکر ہوا.بہر حال چاروں انجیلیں نہ اپنی صحت پر قائم ہیں اور نہ اپنے سب بیان کے رو سے الہامی ہیں اور اسی وجہ سے انجیلوں کے واقعات میں طرح طرح کی غلطیاں پڑ گئیں اور کچھ کا کچھ لکھا گیا.غرض اس بات پر عیسائیوں کے کامل محققین کا اتفاق ہو چکا ہے کہ انجیل خالص خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ پتے داری گاؤں کی طرح کچھ خدا کا کچھ انسان کا ہے...اس کے بعد حضرت مرزا صاحب نے انجیل کی تعلیم دربارہ عفو، در گذر، نیکی اور احسان پر نظر ڈال کر ثابت کیا ہے کہ یہ تعلیم انسانی طاقتوں سے برتر تعلیم ہے جو صفحہ 396 سے 424 تک ہے اور اس کے مقابلہ پر آیات قرآنیہ ووَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَوة يا أُولِي الألباب......(البقرة: 180) مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا (المائدة: 33) سے خدا کے حکم کہ تم عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ اپنے اپنے محل پر کرو، کو تحریر فرمایا ہے: “سو جانا چاہئے کہ انجیل کی تعلیم اس کمال کے مرتبہ سے جس سے نظام عالم مربوط و مضبوط ہے منتنزل و فروتر ہے.اور اس تعلیم کو کامل خیال کرنا بھی بھاری غلطی ہے ایسی تعلیم ہر گز کامل نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ان ایام کی تدبیر ہے کہ جب قوم بنی اسرائیل کا اندرونی رحم بہت کم ہو گیا تھا اور بے رحمی اور بے مروتی اور سنگدلی اور قساوت قلبی اور کینہ کشی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی اور خدا کو منظور تھا کہ جیساوہ لوگ مبالغہ سے کینہ کشی کی طرف مائل تھے.ایسا ہی بمبالغہ تمام رحم اور در گزر کی طرف مائل کیا جاوے لیکن یہ رحم اور در گذر کی تعلیم ایسی تعلیم نہ تھی کہ جو ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی.کیونکہ حقیقی مرکز پر اس کی بنیاد نہ تھی بلکہ اُسی قانون کی طرح جو مختص المقام ہوتا ہے صرف سرکش یہودیوں کی اصلاح کے لئے ایک خاص مصلحت تھی اور صرف چند روزہ انتظام تھا.اور مسیح کو خوب معلوم تھا کہ خدا جلد تر اس عارضی تعلیم کو نیست و نابود کر کے اس کامل کتاب کو دنیا کی تعلیم کے لئے بھیجے گا کہ جو حقیقی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام نیکی کی طرف تمام دنیا کو بلائے گی.اور بندگان خدا پر حق اور حکمت کا دروازہ کھول دے گی.اس لئے کہ اس کو کہنا پڑا کہ ابھی بہت سی باتیں قابل تعلیم باقی ہیں جن کی تم ہنوز برداشت نہیں کر سکتے.مگر میرے بعد ایک دوسرا آنے والا ہے وہ سب باتیں کھول دے گا اور علم دین کو بمر تبہ کمال پہنچائے گا.63,9 143 (حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کے صفحہ نمبر 300 پر حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 میں اس کا حوالہ انجیل یوحنا باب 16 آیت 12،13،14 لکھ کر دیا ہے.ناقل) اس کے بعد حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:...ایک عرصہ تک وہی ناقص کتاب لوگوں کے ہاتھ میں رہی اور پھر اس نبی معصوم کی پیشین گوئی کے بموجب قرآن شریف کو خدا نے نازل کیا اور ایسی جامع شریعت عطا فرمائی جس میں نہ توریت کی طرح خواہ نخواہ ہر جگہ اور ہر محل میں دانت کے عوض دانت نکالنا ضروری لکھا اور نہ انجیل کی طرح یہ حکم دیا کہ ہمیشہ اور ہر حالت میں دست در از لوگوں کے طمانچے کھانے چاہئیے.بلکہ وہ کامل کلام عارضی خیالات سے ہٹا کر حقیقی نیکی کی طرف ترغیب دیتا ہے اور جس بات میں واقعی طور پر بھلائی پیدا ہو خواہ وہ بات درشت ہو خواہ نرم.اسی کے کرنے کے لئے تاکید فرماتا ہے.جیسا فرمایا ہے..وَجَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ، فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ 4 الجزو نمبر ۲۵ یعنے بدی کی پاداش میں اصول انصاف تو یہی ہے کہ بد گن آدمی اسی قدر بدی کا سزاوار ہے جس قدر اس نے بدی کی ہے پر جو شخص عفو کر کے کوئی اصلاح کا کام بجالائے یعنے ایسا عفونہ ہو جس کا نتیجہ کوئی خرابی ہو.سو اُس کا اجر خدا پر ہے اور ایسا ہی جامعیت اور کمال شریعت کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ فرمایا.الْيَوْمَ الْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي یعنے آج میں نے علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچایا اور اپنی نعمت کو امت محمدیہ پر پورا کیا.اب اس تمام تحقیقات سے ظاہر ہے کہ انجیل کی تعلیم کامل بھی نہیں چہ جائیکہ اس کو بے نظیر اور لاثانی کہا جائے.ہاں اگر انجیل لفظا و معناخد ا کاکلام ہوتا اور اس میں ایسی خوبیاں پائی جاتیں جن کا انسان کے کلام میں پائے جانا ممتنع اور محال ہے.تب وہ بلاشبہ بے نظیر ٹھہرتی مگر وہ خوبیاں تو انجیل میں سے اسی زمانہ میں رخصت ہو گئیں جب حضرات عیسائیوں نے نفسانیت سے اس میں تصرف کرنا شروع کیا.نہ وہ الفاظ رہے نہ وہ معانی رہے نہ وہ حکمت اور نہ وہ معرفت.سو اب اے حضرات آپ لوگ ذرا ہوش سنبھال کر جواب دیں کہ جب ایک طرف تکمیل ایمان بے مثل کتاب پر موقوف ہے.اور دوسری طرف آپ لوگوں کا یہ حال کہ نہ قرآن شریف کو مانیں اور نہ ایسی کوئی دوسری کتاب نکال کر دکھلاویں جو بے مثل ہو.تو پھر آپ لوگ کمال ایمان ویقین کے درجہ تک کیو نکر پہنچ سکتے ہیں اور کیوں بے فکر بیٹھے ہیں.کیا کسی اور کتاب کے نازل ہونے کی انتظار ہے." 66 اب ان مذکورہ بالا عبارتوں کو پڑھ کر مولوی عبد الحق صاحب کے ناقلین کو غور کرنی چاہئے کہ وہ کیوں نا حق مولوی چراغ علی صاحب کو براہین احمدیہ ( جسے حضرت مرزا صاحب نے من جانب اللہ مامور ہو کر لکھا) کے معارضہ و مناقشہ کے طور پر سامنے لاتے ہیں.اُنہیں
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اب اس شرارت سے رُک جانا چاہیے.144 وہ معترضین بھی ان امور کر پڑھ کر تسلیم کر لیں کہ بائبل موجودہ شکل میں خدا کا کلام نہیں رہی ہے.اور تعلیم محمدی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور بائبل والے پیغمبر حضرت مسیح علیہ السلام جیسے خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے بلکہ اُن سے بڑھ کر حضرت رسول کریم محمد مصطفی صلی ا لکم من جانب اللہ پیغمبر ہیں.بالله قرآن شریف کی روحانی تاثیریں اور انجیل پادری عماد الدین صاحب نے “ تعلیم محمدی صلی مرد کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ : “صرف بائبل مقدس کی ہی تعلیم روحانی ہے.” اس امر کے جواب میں مولوی چراغ علی صاحب اپنی تعلیقات میں خامہ فرسائی سے قاصر ہیں.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ سوم میں برہمو سماج کے کتاب الہی اور الہام کے متعلق وساوس کا ذکر فرماتے ہوئے اُن کے وسوسہ دہم کا جواب دیتے ہوئے ایک مقام پر اپنے حاشیہ نمبر 11 میں ایک نئے مضمون کو حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 میں درج فرماتے ہیں : 67", “الہام کامل اور حقیقی کہ جو برہمو سماج والوں اور دوسرے مذاہب باطلہ کے ہر ایک قسم کے وساوس کو بکلی دور کرتا ہے.اور طالب حق کو مر تبہ یقین کامل تک پہنچاتا ہے وہ فقط قرآن شریف ہے اور بجز اس کے دُنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں کہ جو تمام فرقوں کے اوہام باطلہ دور کر سکے اور انسان کو حق الیقین کے درجہ تک پہنچا سکے.پھر اس کے بعد اس اندھی اور بے تمیز دنیا کے تعصب مذہبی اور قومی اور دنیوی لالچوں سے الگ ہو کر قرآن شریف کی روشن صداقت کے قبول نہ کرنے کا ذکر فرماتے ہیں: بلکہ قبول کرنا تو در کنار ہمارے مخالفوں میں اس قدر شرم بھی باقی نہیں رہی کہ قرآن شریف کی بدیہی عظمتوں اور صداقتوں کو دیکھ کر اور اپنے مذہب کے فسادوں اور ضلالتوں پر مطلع ہو کر بد گوئی اور بد زبانی سے باز رہیں اور با وجود چور ہونے کے پھر چترائی نہ دکھلاویں.مثلاً خیال کرنا چاہئے کہ عیسائیوں کے عقائد کا باطل ہونا کس قدر بدیہی ہے کہ خواہ نخواہ منہ زوری سے ایک عاجز مخلوق کو رب العالمین بنا رکھا ہے.ایک پادری صاحب نے 3 مارچ 1882ء کے پرچہ نور افشاں میں یہ سوال پیش کر دیا..ایسا ہی ایک عربی رساله موسوم به رساله عبد المسیح ابن اسحاق الکندی...اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے جو قرآنی تعلیم کے بر خلاف ہو.اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو طیار ہیں.68 اس حاشیے میں ایک مقام پر حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: ہم حضرات عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کی انجیلی تعلیم راست اور درست اور خدا کی طرف سے ہے تو بمقابلہ قرآن شریف کی روحانی تاثیروں کے انجیل کی روحانی تاثیریں بھی دکھلائیے اور جو کچھ خدا نے مسلمانوں پر به برکت متابعت قرآن شریف اور بہ یمن اتباع حضرت محمد مصطفی افضل الرسل و خاتم الرسل صلی اللہ علیہ
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام وسلم کے امور غیبیہ و برکات سماویہ ظاہر کئے اور کرتا ہے.وہ آپ بھی پیش کیجئے.69 اس مضمون کے شروع میں آپ درج فرماتے ہیں: 145 “ حضرات !! آپ خوب یادرکھیں کہ انجیل اور توریت کا کام نہیں کہ کمالات فرقانیہ کا مقابلہ کر سکیں.اس کتاب میں فضائل فرقانیہ میں سے بیان ہو چکے ہیں مقابلہ کر کے دیکھ لیں یعنے : اول: وہ امر...که فرقان مجید تمام الہی صداقتوں کا جامع ہے.اور کوئی محقق کوئی ایسا بار یک دقیقہ الہیات کا پیش نہیں کر سکتا کہ جو قرآن شریف میں موجود نہ ہو.سو آپ کی انجیل اگر کچھ حقیقت رکھتی ہے.تو آپ پر لازم ہے کہ کسی مخالف فریق کے دلائل اور عقائد کو مثلاً بر ہمو سماج والوں یا آریا سماج والوں یا دہریہ کے شبہات کو انجیل کے ذریعہ سے عقلی طور پر رڈ کر کے دکھلاؤ.اور جو جو خیالات ان لوگوں نے ملک میں پھیلا رکھے ہیں ان کو اپنی انجیل کے معقولی بیان سے دور کر کے پیش کرو.اور پھر قرآن شریف سے انجیل کا مقابلہ کر کے دیکھ لو اور کسی ثالث سے پوچھ لو کہ محققانہ طور پر انجیل تسلی کرتی ہے یا قرآن شریف تسلی کرتا ہے.دوسرے یہ کہ قرآن شریف باطنی طور پر طالب صادق کا مطلوب حقیقی سے پیوند کر ادیتا ہے اور پھر وہ طالب خدائے تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہو کر اس کی طرف سے الہام پاتا ہے جس الہام میں عنایات حضرت احدیت اس کے حال پر مبذول ہوتی ہیں اور مقبولین میں شمار کیا جاتا ہے اور اس الہام کا صدق ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اس میں ہوتی ہیں اور حقیقت میں یہی پیوند جو اوپر لکھا گیا ہے حیات ابدی کی حقیقت ہے.کیونکہ زندہ سے پیوند زندگی کا موجب ہے.اور جس کتاب کی متابعت سے اس پیوند کے آثار ظاہر ہو جائیں.اس کتاب کی سچائی ظاہر بلکہ اظہر من الشمس ہے.کیونکہ اس میں صرف باتیں ہی باتیں نہیں بلکہ اس نے مطلب تک پہنچا دیا ہے.حضرت مرزا صاحب بیان فرماتے ہیں کہ : اول: 70, فرقان مجید تمام الہی صداقتوں کا جامع ہے.اس کے مقابلہ میں کسی مخالف فریق کے دلائل و عقائد کو انجیل سے معقولی طور پر دور کر کے پیش کرو.اور کسی ثالث سے پوچھ لو کہ محققانہ طور پر انجیل تسلی کرتی ہے یا قرآن تسلی کرتا ہے.قرآن شریف باطنی طور پر طالب صادق کا مطلوب حقیقی سے پیوند کرا دیتا ہے ( وہ شخص ) اُس کی طرف سے الہام پاتا ہے اور اس الہام کا صدق ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے سے ثابت ہوتا ہے جو اس میں (یعنی الہام میں ) ہوتی ہیں.اب کیا فرماتے ہیں پادری حضرات اور عیسائی صاحبان جن کو الہام ہوتا ہے اور اُس میں پیشین گوئیوں سے اُن کے الہام کی صداقت ثابت ہوتی ہے.تاکہ بائبل مقدس کی ہی تعلیم کو روحانی ” کہا جا سکے.جبکہ اسلام میں الہام کامل اور حقیقی کے پانے والے بے شمار
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 146 لوگ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں اور ہمیشہ ہوتے چلے جائیں گے جو تمام فرقوں کے اوہام باطلہ کو دور کر کے حق الیقین کے درجے تک پہنچا سکتے ہیں." اب پادری حضرات اور عیسائی بتائیں کہ بائبل کی تعلیم کی روحانی تاثیریں ہیں یا قرآن شریف ان روحانی تاثیر وں کا حامل ہے ؟ یقیناً قرآن شریف ہی روحانی تا شیروں کا حامل ہے اور بائبل ان سے کوسوں دور ہے.حضرت مرزا صاحب اس سلسلے میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: “ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدرجہ غایت کمالیت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ جس چراغ سے دوسر ا چراغ روشن ہو سکتا ہے اور ہمیشہ روشن ہوتا ہے.وہ ایسے چراغ سے بہتر ہے جس سے دوسر اچراغ روشن نہ ہو سکے.دوسرے اس امت کی کمالیت اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت اس افاضہ دائمی سے ثابت ہوتی ہے اور حقیت دین اسلام کا ثبوت ہمیشہ ترو تازہ ہو تا رہتا ہے.صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ گذشتہ زمانہ پر حوالہ دیا جائے.اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس سے قرآن شریف کی حقانیت کے انوار آفتاب کی طرح ظاہر ہو جاتے ہیں اور دین اسلام کے مخالفوں پر حجت اسلام پوری ہوتی ہے اور معاندین اسلام کی ذلت اور رسوائی اور روسیا ہی کامل طور پر کھل جاتی ہے کیونکہ وہ اسلام میں وہ برکتیں اور وہ نور دیکھتے ہیں جن کی نظیر کو وہ اپنی قوم کے پادریوں اور پنڈ توں وغیرہ میں ثابت نہیں کر سکتے.فتدبّر ايها الصادق في الطلب ايدك الله في طلبك کیا اس وقت اور آج کے پادری صاحبان اپنے وجود میں وہ برکتیں اور نور دیکھتے ہیں جن کو وہ روحانی تاثیر وں کا نام دیتے ہیں لیکن اُن کے ثبوت میں کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے اور نہ کر سکیں گے.حضرت مرزا صاحب اس سلسلے میں آگے ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: “الہام ایک واقعی اور یقینی صداقت ہے جس کا مقدس اور پاک چشمہ دین اسلام ہے اور خد اجو قدیم سے صادق کا 71", 72" رفیق ہے دوسروں پر یہ نورانی دروازہ ہر گز نہیں کھولتا اور اپنی خاص نعمت غیر کو ہر گز نہیں دیتا.اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: “ہم ہر وقت طالب صادق کو اس بات کا ثبوت دینے کے لئے موجود ہیں کہ وہ روحانی اور حقیقی اور سچی برکتیں کہ جو تابعین حضرت خیر الرسل میں پائی جاتی ہیں کسی دوسرے فرقہ میں ہر گز موجود نہیں.جب ہم عیسائیوں اور آریوں اور دوسری غیر قوموں کی ظلمانی اور مجوب حالت پر نظر کرتے ہیں اور ان کے تمام پنڈتوں اور جو گیوں اور راہبوں اور پادریوں اور مشنریوں کو آسمانی نوروں سے بکلی محروم اور بے نصیب پاتے ہیں.اور اس طرف اُمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں آسمانی نوروں اور روحانی برکتوں کا ایک دریا بہتا ہوا دیکھتے ہیں اور انوار البیہ کو بارش کی طرح برستے ہوئے مشاہدہ کرتے ہیں.تو پھر جس ماجراکو ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں اور جس کی شہادتیں ہماری تار اور پود اور رگ اور ریشہ میں بھری ہوئی ہیں اور جس پر ہمارا ایک ایک قطرہ خون کا گواہ رویت ہے کیونکر اس سے منکر ہو جائیں.کیا ہم امر معلوم کو نا معلوم فرض کر لیں یا مرکی اور مشہود کو غیر مرکی اور غیر مشہود قرار دے دیں کیا کریں.ہم سچ سچ کہتے ہیں اور سچ کہنے سے کسی حالت میں رک نہیں سکتے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے نہ ہوتے
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام اور قرآن شریف جس کی تاثیریں ہمارے ائمہ اور اکا بر قدیم سے دیکھتے آئے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں ، نازل نہ ہوا ہو تا.تو ہمارے لئے یہ امر بڑا ہی مشکل ہوتا.کہ جو ہم فقط بائبل کے دیکھنے سے یقینی طور پر شناخت کر سکتے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور دوسرے گزشتہ نبی فی الحقیقت اسی پاک اور مقدس جماعت میں سے ہیں جن کو خدا نے اپنے لطف خاص سے اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے.یہ ہم کو فرقان مجید کا احسان ماننا چاہئے جس نے اپنی روشنی ہر زمانہ میں آپ دکھلائی اور پھر اس کامل روشنی سے گزشتہ نبیوں کی صداقتیں بھی ہم پر ظاہر کر دیں.73 امر زیر بحث کے لیے خط کشیدہ الفاظ کو “روحانی تا شیروں ” کے ثبوت کے لیے بغور دیکھا جانا چاہئے.پادری عماد الدین صاحب لکھتے ہیں: قرآن شریف انجیلی تعلیم پر کیا فوقیت رکھتا ہے؟ “ ہم محمد صاحب کی تعلیم کو عمدہ نہیں پاتے."74 147 لیکن مولوی چراغ علی صاحب کی تعلیقات ” اس کے جواب سے خالی ہے ! لیکن چونکہ ان امور کے بارے میں حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کے نام میں ہی ان امور کو سمو دیا ہے اور یہ آپ کا ہی کام تھا کہ مامور و مؤید من اللہ ہو کر ان کو ثابت کرتے.لہذا براہین احمدیہ سے ہی قرآن شریف کی انجیلی تعلیمات پر کیا فوقیت ہے ، یہاں نقل کی جاتی ہے جو دراصل گذشتہ موضوع تاثیراتِ روحانی ہی کا تسلسل ہے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب رقم فرماتے ہیں:.انجیل وغیرہ گزشتہ کتا بیں بعلت فساد اور تحریف کے اپنی ذات اور صفات میں کسی معجزہ اور تاثیر روحانی کا مظہر نہ ہو سکیں اور صرف بطور کتھا اور قصہ کے پرانے معجزات پر مدار رہالیکن کیونکر ممکن تھا کہ ایسے لوگ جنہوں نے حضرت موسیٰ کے عصا کو بچشم خود سانپ بنتے نہیں دیکھا اور نہ حضرت عیسی کے ہاتھ سے کوئی مردہ قبر سے اٹھتا مشاہدہ کیا وہ صرف بے اصل قصوں کے سننے سے یقین کامل تک پہنچ جاتے.ناچار یہودی و عیسائی رُو بدنیا ہو گئے اور عالم آخرت پر ان کو کچھ اعتماد نہ رہا.کیونکہ اپنی آنکھ سے تو انہوں نے کچھ بھی نہ دیکھا اور کسی قسم کی برکت مشاہدہ نہ کی.غرض جس کا ایمان عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کی طرح صرف قصوں اور کہانیوں کے سہارے پر موجود ہو.اسکے ایمان کا کچھ بھی ٹھکانا نہیں اور آخر اس کیلئے وہی ضلالت در پیش ہے جس ضلالت میں یہ بد نصیب قوم عیسائیوں وغیرہ کی مبتلا ہو گئی جن کی کل جائداد فقط وہی دیرینہ کہانیاں اور ہنر اروں برسوں کے خستہ شکستہ قصے ہیں.لیکن ایسے شخصوں کے ایمان کا کچھ بھی قیام نہیں اور اُن کو کسی طرح پتہ نہیں مل سکتا کہ وہ پورانا خدا جو پہلے انکے بزرگوں کے ساتھ تھا اب کہاں اور کدھر ہے اور موجود ہے یا نہیں.75 اسی حاشیے میں ایک اور مقام پر حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: وہ لوگ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں ان کے ہاتھ میں بھی بجز باتوں ہی باتوں کے اور خاک بھی نہیں.حضرت موسیٰ کے پیرو یہ کہتے ہیں کہ جب سے حضرت موسیٰ اس دنیا سے کوچ کر گئے تو ساتھ ہی ان کا عصا بھی کوچ کر گیا کہ جو سانپ بنا کر تا تھا اور جو لوگ حضرت عیسی کے اتباع کے مدعی ہیں.ان کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے تو ساتھ ہی ان کے وہ برکت بھی اٹھائی گئی جس سے حضرت ممدوح مردوں کو زندہ کیا کرتے
148 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام تھے.ہاں عیسائی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کے باراں حواری بھی کچھ کچھ روحانی برکتوں کو ظاہر کیا کرتے تھے.لیکن ان کا یہ بھی تو قول ہے کہ وہی عیسائی مذہب کے باراں امام آسمانی نوروں اور الہاموں کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے بعد آسمان کے دروازوں پر پکے قفل لگ گئے اور پھر کسی عیسائی پر وہ کبوتر نازل نہ ہوا کہ جو اول حضرت مسیح پر نازل ہو کر پھر آگ کے شعلوں کا بہروپ بدل کر حواریوں پر نازل ہو ا تھا.گویا ایمان کا وہ نورانی دانہ کہ جس کے شوق میں وہ آسمانی کبوتر اترا کرتا تھا انہیں کے ہاتھ میں تھا اور پھر بجائے اس دانہ کے عیسائیوں کے ہاتھ میں دنیا کمانے کی بھائی رہ گئی جس کو دیکھ کر وہ کبوتر آسمان کی طرف اڑ گیا.غرض بجز قرآن شریف کے اور کوئی ذریعہ آسمانی نوروں کی تحصیل کا موجود نہیں.76 حضرت مرزا صاحب انجیل کی تعلیم کے متعلق براہین احمدیہ کے ایک دوسرے حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 میں تحریر فرماتے ہیں : انجیل کی تعلیم کو کامل خیال کرناسر اسر نقصان عقل اور کم فہمی ہے.خود حضرت مسیح نے انجیل کی تعلیم کو مبرا عن النقصان نہیں سمجھا جیسا کہ انہوں نے آپ فرمایا ہے کہ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں.پر تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنے روح الحق آوے گا.تو وہ تمہیں تمام صداقت کا راستہ بتلادے گا.انجیل یوحنا باب 16.آیت 12،13،14.اب فرمائیے کیا یہی انجیل ہے کہ جو تمام دینی صداقتوں پر حاوی ہے جس کے ہوتے ہوئے قرآن شریف کی ضرورت نہیں.اے حضرات !! جس حالت میں آپ لوگ حضرت مسیح کی وصیت کے موافق انجیل کو کامل اور تمام صداقتوں کی جامع کہنے کے مجاز ہی نہیں.تو پھر آپ کا ایمان بھی عجب ایمان ہے کہ اپنے استاد اور رسول کے بر خلاف قدم چلا رہے ہیں.اور جس کتاب کو حضرت مسیح ناقص کہہ چکے ہیں اس کو کامل کہے جاتے ہیں.کیا آپ کی سمجھ مسیح کی سمجھ سے کچھ زیادہ ہے یا مسیح کا کہنا قابل اعتبار نہیں.اور اگر آپ یہ کہیں کہ اگر چہ انجیل مسیح کے زمانہ میں ناقص تھی.مگر مسیح نے یہ بھی بطور پیشگوئی کے کہہ دیا تھا کہ جو باتیں میرے بیان کرنے سے رہ گئی ہیں.ان کو تسلی دہندہ آکر بیان کر دے گا تو بہت خوب.لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ تسلی دہندہ جس کے آنے کی مسیح نے انجیل میں بشارت دی ہے اور جس کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دینی صداقتوں کو مرتبہ کمال تک پہنچائے گا اور آئندہ کے حالات یعنے قیامت کی خبریں انجیل کی نسبت بہت مفصل بیان کرے گا.آپ کے خیال میں بجز حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن شریف نازل ہوا کہ جو سب کتب سابقہ کی نسبت کامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا ثبوت دیتا ہے.کوئی اور شخص ہے جس نے حضرت مسیح کے بعد ظہور کر کے دینی صداقتوں کو کمال کے مر تبہ تک پہنچایا.اور آئندہ کی خبریں مسیح کی نسبت زیادہ بتلائیں تو اس کا نام بتلانا چاہئے اور ایسی کتاب کو پیش کرنا چاہئے کہ جو مسیح کے بعد عیسائیوں کو خدا کی طرف سے ملی جس نے وہ اپنی صداقتیں پیش کیں کہ جو مسیح کی فرمودہ ہیں موجود نہ تھیں اور آخری حالات اور آئندہ کی خبریں بتلائیں جن کے بتلانے سے مسیح قاصر رہا.تا اُسی کتاب کو قرآن شریف کے مقابلہ پر وزن کیا جائے.مگر یہ تو زیبا نہیں کہ آپ لوگ مسیح کے پیرو کہلا کر پھر اس چیز کو کامل قرار دیں جس کو آپ سے اٹھارہ سو بیاسی برس پہلے مسیح ناقص قرار دے چکا ہے اور اگر آپ کا مسیح کے قول پر ایمان ہی
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 149 نہیں.اور بذات خود چاہتے ہیں کہ انجیل کا قرآن شریف سے مقابلہ کریں تو بسم اللہ آئے اور انجیل میں سے وہ کمالات نکال کر دکھلائیے کہ جو ہم نے اسی کتاب میں قرآن شریف کی نسبت ثابت کئے ہیں تا منصف لوگ آپ ہی دیکھ لیں کہ معرفت الہی کا سامان قرآن شریف میں موجود ہے یا انجیل میں.جس حالت میں ہم نے اسی فیصلہ کے لئے کہ تا انجیل اور قرآن شریف کی نسبت فرق معلوم ہو جائے دس ہزار روپیہ کا اشتہار بھی اپنی کتاب کے ساتھ شامل کر دیا ہے تو پھر آپ جب تک راست بازوں کی طرح اب ہماری کتاب کے مقابلہ پر اپنی انجیل کے فضائل نہ دکھلا دیں تب تک کوئی دانشمند عیسائی بھی آپ کی کلام کو اپنے دل میں صحیح نہیں سمجھے گا.گو زبان سے ہاں ہاں کر تار ہے."77 قرآن شریف کی تعلیم کے بارے میں زبان درازی محض پادری صاحب کی فضول گوئی تھی.اس کے بارے میں حضرت مرزا صاحب اپنی ایک طویل نظم میں جو “ آؤ عیسائیو! ادھر آؤ.نور حق دیکھو.راہ حق پاؤ” کے شعر سے شروع ہوتی ہے.اس کے شروع کرنے سے قبل حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: اب منصفو!! نظر کرو.اور خدا کے واسطے ذرہ دل کو صاف کر کے سوچو کہ ہمارے مخالفوں کی ایمانداری اور خداترسی کس قسم کی ہے کہ باوجو د لا جواب رہنے کے پھر بھی فضول گوئی سے باز نہیں آتے.78 مذکورہ نظم کے چند اشعار بطور نمونہ یہاں درج کیے جاتے ہیں: ہے فرقاں میں اک عجیب اثر بناتا عاشق دلبر جس قادر اکبر اس کی سے ل کوئے دلبر لاتا ہے پھر تو کیا کیا نشان دکھاتا ہے دل میں وقت نور ہر بھرتا ہے کو سینہ خوب صاف کرتا ہے اس کے اوصاف کیا کروں میں بیاں وہ تو جاں کو اور اک جاں نیر اکبر وہ اس انکار ہو سکے کیونکر وہ دلستاں تلک لایا اس کے پانے پایا بحر حل وہ کلام تمام
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام عشق حق ہے بات اس کی یاد آتی دل ساری خلق جاتی ہے سینہ نقش حق جھاتی ہے دل ل خدا اٹھاتی ہے درد مندوں کی روا وہی خدا ނ خدا ú وہی مخور بدی وہی ہم نے ها ہے دار با وہی 5555 ایک ایک ایک ایک اس کے جو بات یونہی اک واہیات بات ہو کہ میرے پاس آویں v v go go g9555 ہیں ہیں میرے مجھ ނ وہ بات کہہ جاویں کا حال سنیں مجھ آنکھ و جمال سنیں خیر کان سہی یوں ہی امتحان سہی 79 150 6-11.کلام الہی سہی پھوٹی وہ تو دلستاں صورت خورشید (سورج ) کا مخفف ہے.ناقل 82 81", مولوی چراغ علی صاحب اپنی کتاب “ تعلیقات ”بجو اب پادری عماد الدین کے پیر انمبر 13 میں لکھتے ہیں : صریحاً ثابت ہو تا ہے کہ وہ ( حضرت محمد صلی یک داعیہ الہی کے بیان اور دعوی ثبوت میں سچے تھے." 80 اسے موصوف کسی “سبق ظن اور عصبیت thinking before or prejudice پر محمول نہیں کرتے بلکہ اسے “صریحی واقعات اور درایات کی بحث " 22 قرار دیتے ہیں.اس کے ثبوت میں حسب عادت مستشرق واشنگٹن ارونگ کا حوالہ ان تحفظات (reservations) کے ساتھ درج کرتے ہیں:.ایسے واقعی اور صریحی امر راست کے جواب میں مخالفین نہ تو ایسے روشن اور صاف امر حق کی تکذیب کر سکتے ہیں اور نہ اپنی عصبیت یا سوء منہجی سے اس کی حقیقت کا اقرار چنانچہ ارونگ متصل لکھتا ہے.” 83 آگے جو عبارت درج کی ہے اُس کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے: ان یعنی آنحضرت صلی ا لم - ناقل) گوشہ نشینی اور روزہ داری و نماز و تفکر سے انکا غلو اور قوت متخیلہ درجہ درجہ متز اند ہوتی گئی اور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 151 اسی کیفیت میں ایک مرض جسمانی یعنی صرع دوری سے اور یہی اسعال (کذا.غالباً یہاں لفظ اشتعال استعمال ہوا ہے.ناقل ) ہوا جس میں انہیں ایسا تصور ہوا کہ مجھے خدا سے وحی آتی ہے اور علی الا علی کا مین نبی ہو گیا ہوں.پس اب ہم کو یہی تصور کرنا چاہئے کہ انکو اغترار (+ کا نشان لگا کہ بالمقابل حاشیہ میں لکھا ہے دھوکے میں پڑ جانا 84 اور ڈکشنری میں لکھا ہے being deceived ناقل) ہو گیا تھا اور انہوں نے اپنے رویا یا خیال کو حقیقت میں یقین باور کر لیا تھا.ایک مرتبہ رسالت الہیہ کا حکم بدعوت ایمانیہ متخیل ہو چکا تو اور سب بعد کے احلام و تصورات اسی محل پر حمل کیے جاتے تھے.ان سب کو یہ سمجھ لیا ہو گا کہ مشیت الہی کے اخبار ہیں جو نبوت کی حیثیت کے بانحاء مختلفہ وحی کئے جاتے ہیں.جوش اور تحریک کی حالت میں ہم ان کو بالتخصیص وجد اور غشی میں پاتے ہیں.یہان پر انہوں نے اپنے آپ کو معرض مکالمت الہبیہ میں گمان کر لیا ہو گا." 85 مولوی چراغ علی صاحب اس اقتباس کی تمہید میں اس کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ “ ایسے روشن اور صاف امر حق (یعنی صداقت محمدیہ.ناقل ) کی تکذیب کر سکتے ہیں اور نہ اپنی عصبیت یا سوء منہمی سے اس کی حقیقت کا اقرار" لیکن مولوی چراغ علی صاحب کو ارونگ واشنگٹن کی عصبیت یا سوء فہمی کا احساس ہی نہیں ہو تاجب موصوف لکھتے ہیں کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی ا یکی کو اغترار ” ( دھوکے میں پڑے) ہوا اور ثم نعوذ باللہ آپ نے اپنے آپ کو معرض مکالمت الہیہ گمان کر لیا گویا یہ سب دھوکا تھا لیکن مولوی چراغ علی صاحب کو اس سے عصبیت اور سوء فہمی کی بجائے کیا محسوس ہو تا ہے لکھتے ہیں: اس تقریر سے ہماری دلیل کی قوت اور جناب نبوی کے دعوی کی صداقت بخوبی ہوتی ہے اور ایسے ہی مخالفین کے جواب کا ضعف اور توجیہ کا لا طائل ہونا بھی کالنور علی شابق الطور ظاہر ہے کیونکہ یہ بات تو مسفم ہو چکی کہ یہ دعویٰ آنحضرت کا نہ تو جھوٹ تھا اور نہ اس سے کوئی دنیوی غرض مراد تھی.86 گویا نعوذ باللہ مولوی چراغ علی صاحب نے آنحضرت کی وحی / مکالمت الہیہ کو ثم نعوذ باللہ اغترار ( دھو کہ مان لیا.اور مولوی چراغ علی اس سے “ جناب نبوی کے دعوی کی صداقت ثابت کر رہے ہیں !!؟ تو پھر مخالفت کیا ہوتی ہے !!؟ اس کے بعد مولوی چراغ علی صاحب نے چار امور جو ارونگ نے اٹھائے ہیں اُن پر بحث کی ہے یعنی: 1- مرض صرع -2 غشی کی کیفیت رویاء حقیقی اور مکاشفات الہیہ میں واہمہ کادخل 4 کیفیت توجہ و براهیختگی اور اس کے جوش اور بہیجان میں اپنے کو مشرف بمکالمت تصور کر لینا.و دوسرے امر کی بابت مولوی چراغ علی صاحب لکھتے ہیں : وہ غشی کی کیفیت جو اگر اس کا تکرار اور استمرار ثابت ہو سکے تو ممکن ہے کہ از قبیل اثر الہی ہو جو کہ احساس وحی اور مشاہدہ ملائکہ اور استشعار تنزیل مین ہوتی ہو جیسے موسیٰ کی حالت کوہ طور پر مساءلت رویت الہی اور پولوس کی کیفیت مسیح کی جلوہ گری پر ہوئی تھی.پس ایسے احساس اور ادراک صحیح کی باتیں قوی العقل اور صاحب جودت قریحہ کو دھو کہ میں نہیں ڈال سکتیں." 87 جسے ارونگ غشی قرار دیتا ہے اُس پر بھی مولوی چراغ علی صاحب کو یقین نہیں بلکہ لکھتے ہیں“اگر اس کا تکرار (بار بار ہونا) اور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام دو 152 استمرار ( جاری رہنا) ثابت ہو سکے.یعنی اس کیفیت و واردات کا مولوی چراغ علی صاحب کو یقین ہی نہیں.ابھی انہیں گمان ہے کہ اگر ثابت ہو سکے اور اس پر بس نہیں بلکہ لکھتے ہیں کہ “اگر ثابت ہو سکے تو ممکن ہے از قبیل اثر الہی ہو ، یعنی مولوی چراغ علی صاحب پر وحی کی کیفیات کا بار بار ہونا اور جاری رہنا اول تو ثابت ہی نہیں دوم اگر ثابت ہو تو پھر بھی ممکن ” کے “اگر مگر ” میں رکھ کر امکان قرار دیتے ہیں اور اُس پر دلیل لاتے ہیں کہ یہ دھو کہ نہیں.خود مولوی چراغ علی صاحب دھوکے میں مبتلا ہیں اور کسی کا یعنی ارونگ کا دھو کہ کیونکر دور کر سکیں گے؟ پھر اسی ڈھل مل یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں چوتھے امر کے بارے میں مولوی چراغ علی صاحب لکھتے ہیں: کیفیت توجد و بر انگیختگی اور اس کے جوش اور ہیجان میں اپنے مشرف بمکالمت الہی تصور کر لینا خیالات خام اور تصورات نافرجام از قبیل اضغاث احلام ہیں حالانکہ جناب نبوی کی تیزی عقل اور حدث شعور اور ذہن ثاقب اور فکر صائب مخالفین میں بھی مسلم ہے.تو کیسے ہو سکتا ہے اس کا اثر با اینہمہ موانع و معارضات مرتے دم تک رہے.اور کیا وجہ کہ اگر ایک مر تبہ کہ ایک وہم یا دھو کہ ہو جائے تو باوجو د سلامت عقل اور صحت ادراک ہم اسی پر مستمر اور مصر رہیں.نمبر دو امر کہ Ifs اور Buts کے بعد یہاں بھی مولوی چراغ علی صاحب کی کیفیات وحی کا بیان مستشرق کی اتباع میں توجد strong emotion اور برانگیختگی instigation کے تصورات پر ہی مرکوز ہے.88", بلکہ مشرف بمکالمت الہی ہونے کو مولوی چراغ علی صاحب کیا لکھتے ہیں.ایک بار پھر ملاحظہ ہو: خیالات خام تصورات نافرجام a foolish unmeaning speech از قبیل اضغاث و احلام confused dreams which can not be interpreted اور یہاں پر تو نمبر دو کے دھوکے کے امکان کا بھی انکار کرتے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی کم کی تیزی عقل، حدت شعور اور فکر صائب مخالفین میں بھی مسلم ہے اور ایک مرتبہ کے وہم یاد ھو کہ باوجو د سلامت عقل اور صحت ادراک پر ہم مستمر ( جاری رہیں) اور مصر (اصرار کریں) رہیں.یعنی مولوی چراغ علی صاحب کے نزدیک اس استمرار و اصرار جسے وہ وہم یا دھو کہ قرار دیتے ہیں اُس سے انکار کر دینا چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی الم کی تیزی عقل ، حدث شعور اور فکر صائب جو مخالفین میں بھی مسلم ہے اُس کا یہ تقاضا ہے !؟ گویا مولوی چراغ علی صاحب نے دوسرے لفظوں میں مشرف بمکالمت الہی ہونے سے صاف صاف لفظوں میں انکار کر دیا باوجو د حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نمبر دو میں مثال بھی دی لیکن اُسے بھی پس پشت ڈال دیا ! اور اس پیرا کے آخر پر لکھ دیا کہ: کسی صاحب عقل کو ایک منٹ کے لیے بھی شبہ نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی لی ہم اپنے آپ کو رسول الہی بیان کرنا اور مشاہدہ ملائکہ اور تنزیل وحی کا احساس دھوکا اور وہم تھا( حاشیہ میں لکھ دیا انہیں تو سب کارو بار عالم یک لخت ( یہ الفاظ پڑھے نہیں گئے.ناقل ) ہم لوگ سوفسطائی بن جائیں گے.82
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 153 اس کے بعد سورۃ نجم کی 2 تا 11 آیات بلا استدلال درج کر دیں ہیں.آغاز گفتگو پیر انمبر 13 میں مولوی چراغ علی صاحب نے آنحضرت علی علیم کی سچائی درج کر دی اور درمیان میں اسے دھو کہ دو ہم قرار دیا بلکہ تصورات نافرجام اور از قبیل اضغاث و احلام لکھا لیکن آخر میں دھو کہ اور وہم سے انکار کر دیا اور آیات قرآنیہ کا بلا استدلال و تبصرہ اندراج کر کے آگے پیرے نمبر 14 پر جا نکلے اور اسے پادری عماد الدین کا جواب قرار دیا جاتا ہے.جبکہ پادری صاحب صرف بائبل ہی کو خدا کا کلام 20 قرار دیتے ہیں ! نہایت افسوس ہے مولوی چراغ علی صاحب ایسے شخص کی نسبت جن کے درج بالا خیالات ہیں.ان کو مولوی عبد الحق صاحب دھو کہ دہی سے حضرت مرزا صاحب کے براہین احمدیہ میں مدد دینے والا لکھتے ہیں ! ہم ان باتوں کی تردید یہاں درج کریں گے لیکن اس اندراج سے پیشتر براہین احمدیہ میں سے ہی مولوی چراغ علی صاحب ایسے اسمی و رسمی موافقین کے بارے میں جو بظاہر مسلمان ہیں اور ایسے خیالات رکھتے ہیں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی یہ تحریر درج کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:..یہ احقر ہر یک طالب حق کی تسلی کرانے کو طیار ہے اور نہ صرف مخالفین کو بلکہ اسمی اور رسمی موافقین کو بھی کہ جو بظاہر مسلمان ہیں مگر محجوب مسلمان اور قالب بے جان ہیں جن کو اس پر ظلمت زمانہ میں آیات سماویہ پر یقین نہیں رہا اور الہامات حضرت احدیت کو محال خیال کرتے ہیں اور از قبیل اوہام اور وساوس قرار دیتے ہیں جنہوں نے انسان کی ترقیات کانہایت تنگ اور منقبض دائرہ بنارکھا ہے کہ جو صرف عقلی اٹکلوں اور قیاسی ڈھکوسلوں پر ختم ہوتا ہے اور دوسری طرف خدائے تعالیٰ کو بھی نہایت درجہ کا کمزور اور ضعیف سا خیال کر رہے ہیں.سو یہ عاجزان سب صاحبوں کی خدمت میں بادب تمام عرض کرتا ہے کہ اگر اب تک تاثیرات قرآنی سے انکار ہے اور اپنے جہل قدیم پر اصرار ہے تو اب نہایت نیک موقعہ ہے کہ یہ احقر خادمین اپنے ذاتی تجارب سے ہر یک منکر کی پوری پوری اطمینان کر سکتا ہے اس لئے مناسب ہے کہ طالب حق بن کر اس احقر کی طرف رجوع کریں اور جو جو خواص کلام الہی کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کو بچشم خود دیکھ لیں اور تاریکی اور ظلمت میں سے نکل کر نور حقیقی میں داخل ہو جائیں.اب تک تو یہ عاجز زندہ ہے مگر وجود خا کی کی کیا بنیاد اور جسم فانی کا کیا اعتماد.پس مناسب ہے کہ اس عام اعلان کو سنتے ہی احقاق حق اور ابطال باطل کی طرف توجہ کریں.تا اگر دعویٰ اس احقر کا بہ پایہ ثبوت نہ پہنچ سکے تو منکر اور رو گردان رہنے کے لئے ایک وجہ موجہ پیدا ہو جائے.لیکن اگر اس عاجز کے قول کی صداقت جیسا کہ چاہئے یہ پایہ ثبوت پہنچ جائے تو خدا سے ڈر کر اپنے باطل خیالات سے باز آئیں اور طریقہ حقہ اسلام پر قدم جمادیں تا اس جہان میں ذلت اور رسوائی سے اور دوسرے جہان میں عذاب اور عقوبت سے نجات پاویں.سو دیکھو اے بھائیو اے عزیز و اے فلاسفر و اے پنڈ تو اے پادریو اے آر یو اے نیچر یو اے براہم دھرم والو کہ میں اس وقت صاف صاف اور علانیہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی کو شک ہو اور خاصہ مذکورہ بالا کے ماننے میں کچھ تامل ہو تو وہ بلا توقف اس عاجز کی طرف رجوع کریں اور صبوری اور صدق دلی سے کچھ عرصہ تک صحبت میں رہ کر بیانات مذکورہ بالا کی حقیت کو بچشم خود دیکھ لے ایسا نہ ہو کہ اس ناچیز کے گذرنے کے بعد کوئی نامنصف کہے کہ کب مجھ کو کھول کر کہا گیا کہ تا میں اس جستجو میں پڑتا.کب کسی نے اپنی ذمہ داری سے دعوی کیا تا میں ایسے دعویٰ کا ثبوت اس سے مانگتا."21
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 154 مولوی چراغ علی صاحب جو براہین احمدیہ کی اشاعت میں مالی اعانت کرنے والوں میں سے تھے اُن تک براہین احمد یہ یقیناً پہنچی ہوگی لیکن مولوی چراغ علی صاحب اس نعمت عظمی سے محروم رہے اور مستشرقین اور سرسید وغیرہ کی ہم نوائی میں اپنے پیچھے جو تصانیف چھوڑیں وہ مستشرقین اور سرسید کو تو ضرور خوش کرتی ہوں گی لیکن اُن سے اسلام کے دفاع کے ادعاء کے باوصف اسلام دوستی کی بجائے اسلام دشمنی کی بُو آتی ہے جو زیر نظر مضمون سے عیاں ہے.جنہیں “ مجوب اور قالب بے جان مسلمان ” ہی قرار دیا جاسکتا ہے.کیونکہ موصوف مولوی چراغ علی صاحب:..الہامات حضرت احدیت کو محال خیال کرتے ہیں اور از قبیل اوہام اور وساوس قرار دیتے ہیں جنہوں نے انسان کی ترقیات کا نہایت تنگ اور منقبض دائرہ بنارکھا ہے کہ جو صرف عقلی انکلوں اور قیاسی ڈھکوسلوں پر ختم ہو تا ہے..” مولوی چراغ علی صاحب کو پادری عماد الدین کے مقابلہ میں قرآن کریم کو کلام الہی ثابت کرنا چاہیے تھا لیکن مولوی صاحب موصوف وحی و الہام کو اوہام بلکہ تصورات نافرجام قرار دیتے ہیں اور کہیں کہیں اس کے بر عکس بھی لکھ دیتے ہیں ! ڈاکٹر سید عبد اللہ ، مولوی چراغ علی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:..مولوی چراغ علی کو سید صاحب ( سرسید - ناقل) سے جو اتفاق رائے تھا وہ شاید کسی اور کو نہ تھا.مولوی چراغ علی کا موضوع تحقیق بھی تقریباو ہی تھا.جس پر سید صاحب نے اپنا سارازور قلم صرف کیا...92 اور سر سید کے مکالمہ الہی کے بارے میں کیا خیالات تھے ؟ اور یہی خیالات مولوی چراغ علی کے بھی ہیں.ان پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا صاحب ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں: “ مجھے آپ کے کلمات سے بو آتی ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں کہ آپ اس امت کو مرتبہ مکالمات الہیہ سے تہید ست خیال کرتے ہیں بلکہ وو آپ کسی نبی کیلئے بھی یہ مرتبہ تجویز نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ کا زندہ اور خدا کی قدرتوں سے بھر اہو اکلام اُس پر کبھی نازل ہو اہو " 23 اسی طرح مولوی چراغ صاحب نے بھی حضرت موسیٰ کی مکالمت الہی کی بابت لکھا کہ ثابت ہو سکے تو ممکن ہے ”یعنی ابھی تک اُن پر اس کا ثابت ہونا ہی نہیں کھلا اور اگر کھل بھی جائے تو پھر بھی ممکن ہے کا تحفظ بر قرار ہے.حضرت مرزا صاحب نے کیا ہی حسب حال سرسید کے بارے میں تحریر فرمایا تھا جو مولوی چراغ علی پر بھی صادق آتا ہے یعنی: میں متعجب ہوں کہ آپ نے کس سے اور کہاں سے سن لیا اور کیونکر سمجھ لیا کہ جو باتیں اس زمانہ کے فلسفہ اور سائنس نے پیدا کی ہیں وہ اسلام پر غالب ہیں.حضرت خوب یا درکھو کہ اس فلسفہ کے پاس تو صرف عقلی استدلال کا ایک ادھورا سا ہتھیار ہے اور اسلام کے پاس یہ بھی کامل طور پر اور دوسرے کئی آسمانی ہتھیار ہیں.پھر اسلام کو اس کے حملہ سے کیا خوف.پھر نہ معلوم آپ اس فلسفہ سے کیوں ڈرتے ہیں اور کیوں اس کے قدموں کے نیچے گرے جاتے ہیں اور کیوں آیات قرآنی کو تاویلات کے شکنجہ پر چڑھارہے ہیں.افسوس کہ جن باتوں میں سے ایک بات کو بھی مانا اس امر کو مستلزم ہے کہ اسلام کے سارے عقائد سے انکار کیا جائے ان باتوں کا ایک ذخیرہ کثیرہ آپ نے مان لیا ہے اور طر فہ یہ کہ باوجو دانکار معجزات انکار ملائک انکار اخبار غیبیہ
براہین احمدیہ مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام انکار وحی انکار اجابت دعا وغیرہ انکارات کے آپ جابجایہ بھی مانتے گئے ہیں کہ : قرآن بر حق رسول برحق اسلام بر حق اور مخالف اس کے سب باطل.155.ان متضاد خیالات کے جمع ہونے کی وجہ سے آپ کی تالیفات اُس عجیب حیوان کی مانند ہو گئیں کہ جو ایسا فرض کیا جائے کہ جس کا منہ آدمی کا اور ڈم بندر کی اور کھال بکرے کی اور پنجے بھیڑیے کے اور دانت ہاتھی کے کھانے کے اور ، اور دکھانے کے اور...چنانچہ اپنی بعض رایوں کے بیان کرنے میں آپ ایک ایسی زوالوجوہ بات بیان کر جاتے ہیں جس کا کچھ ما حصل معلوم نہیں ہو تا اور شتر مرغ کی طرح آپ کا کلام دونوں صورتوں کی گنجائش رکھتا ہے.نشتر کی بھی اور مرغ کی بھی " 94 اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مصنف بر این احمدیہ کے نزدیک کلام الہی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں: اگر کوئی کلام ان تمام چیزوں میں سے کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر اور اُس کے دست قدرت کی صنعت میں کسی چیز سے مشابہت کھلی رکھتا ہو.یعنی اس میں عجائبات ظاہری و باطنی ایسے طور پر جمع ہوں کہ جو مصنوعات الہیہ میں سے کسی شے میں جمع ہیں.تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ وہ کلام ایسے مر تبہ پر واقع ہے کہ جس کی مثل بنانے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں.کیونکہ جس چیز کی نسبت بے نظیر اور صادر من اللہ ہونا عند الخواص والعوام ایک مسلم اور مقبول امر ہے جس میں کسی کو اختلاف و نزاع نہیں اُس کی بے نظیر ی میں کسی شے کی شراکت تامه ثابت ہونا بلا شبہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ شے بھی بے نظیر ہی ہے.مثلاً اگر کوئی چیز اس چیز سے بکلی مطابق آجائے جو اپنے مقدار میں دس گز ہے.تو اس کی نسبت بھی یہ علم صحیح قطعی یقین جازم حاصل ہو گا کہ وہ بھی دس گز ہے." گلاب کے پھول کی مثال اب ہم ان مصنوعات الہیہ میں سے ایک لطیف مصنوع کو مثلا گلاب کے پھول کو بطور مثال قرار دے کر اس کے وہ عجائبات ظاہری و باطنی لکھتے ہیں جن کی رو سے وہ ایسی اعلیٰ حالت پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کی نظیر بنانے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں.اور پھر اس بات کو ثابت کر کے دکھلائیں گے کہ ان سب عجائبات سے سورۃ فاتحہ کے عجائبات اور کمالات ہموزن ہیں بلکہ ان عجائبات کا پلہ بھاری گلاب کے پھول کے عجائبات جو خوبیاں گلاب کے پھول میں ظاہر او باطناً پائی جاتی ہیں جن کے رُو سے اُس کی نظیر بنانا عاد تا محال سمجھا گیا ہے.اسی طور پر اور اُس سے بہتر خوبیاں سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں.
156 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام گلاب کے پھول کی دو طور کی خوبیاں گلاب کا پھول بھی مثل اور مصنوعات الہیہ کے ایسی عمدہ خوبیاں اپنی ذات میں جمع رکھتا ہے جن کی مثل بنانے پر انسان قادر نہیں اور وہ دو طور کی خوبیاں ہیں: جو اس کی ظاہری صورت میں پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کا رنگ نہایت خوشنما اور خوب ہے اور اس کی خوشبو نہایت دلآرام اور دلکش ہے اور اس کے ظاہر بدن میں نہایت درجہ کی ملائمت اور ترو تازگی اور نرمی اور نزاکت اور صفائی ہے...وہ خوبیاں جو باطنی طور پر گلاب کے پھول میں ہیں یعنی وہ خواص جو باطنی طور پر حکیم مطلق نے اس میں ڈال رکھی ہیں یعنی وہ خواص کہ جو اُس کے جوہر میں پوشیدہ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ :.وہ مفرح اور مقوی قلب اور مسکن صفرا ہے اور.تمام قومی اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور صفرا اور بلغم رقیق کا مسہل بھی ہے اور اسی طرح معدہ و جگر اور گردہ اور امعا اور رحم اور پھیپھڑے کو بھی قوت بخشتا ہے اور.خفقان حار اور غشی اور ضعف قلب کے لیے نہایت مفید ہے اور.اس طرح کئی امراض بدنی فائدہ مند ہے کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی طرف سے ایسا پھول بنادے وہ ایسے مرتبہ کمال پر واقع ہے کہ ہر گز کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسا پھول بناوے کہ جو اس پھول کی طرح رنگ میں خوشنما اور خوشبو میں دلکش اور بدن میں نہایت ترو تازہ اور نرم اور نازک اور مصفا ہو.اور باوجود اس کے باطنی طور پر تمام وہ خواص بھی رکھتا ہو جو گلاب کے پھول میں پائے جاتے ہیں.کیوں گلاب کے پھول بنانے سے انسانی قوتیں عاجز ہیں کہ اُس کی نظیر بنا سکیں؟ ایسا پھول بنانا عا دتا ممتنع ہے اور آج تک کوئی حکیم اور فیلسوف کسی ایسی ترکیب سے کسی قسم کی ادویہ کو ہم نہیں پہنچا سکا کہ جن کے باہم مخلوط اور ممزوج کرنے سے ظاہر و باطن میں گلاب کے پھول کی سی صورت اور سیرت پیدا ہو جائے.یہی وجوہ بے نظیری سورۃ فاتحہ میں بلکہ قرآن شریف کے ہر یک حصہ اقل قلیل میں کہ جو چار آیت سے بھی کم ہو پائی جاتی ہے.پہلے ظاہری صورت پر نظر ڈال کر دیکھو کہ کیسی رنگینی عبارت اور سورۃ فاتحہ کی ظاہری صورت
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام خوش بیانی اور.جودت الفاظ اور.کلام میں کمال سلاست اور نرمی اور روانگی اور آب و تاب اور • لطافت و غیره لوازم حسن کلام اپنا کامل جلوہ دکھا رہے ہیں.ایسا جلوہ کہ جس پر زیادت متصور نہیں اور وحشت کلمات اور تعقید ترکیبات سے بکلی سالم اور بری ہے..هر یک فقرہ اس کا نہایت فصیح اور بلیغ ہے اور • • 157 ہر یک ترکیب اس کی اپنے اپنے موقعہ پر واقعہ ہے اور ہر یک قسم کا التزام جس سے حسن کلام بڑھتا ہے اور لطافت عبارت کھلتی ہے سب اس میں پایا جاتا ہے اور.جس قدر حسن تقریر کے لئے بلاغت اور خوش بیانی کا اعلیٰ سے درجہ ذہن میں آسکتا ہے وہ کامل طور پر اس میں موجود اور مشہور ہے اور.جس قدر مطلب کے دل نشین کرنے کے لئے حسن بیان در کار ہے وہ سب اس میں مہیا اور موجود ہے اور باوجود اس بلاغت معانی اور التزام کمالیت حسن بیان کے صدق اور راستی کی خوشبو سے بھرا ہوا ہے کوئی مبالغہ ایسا نہیں جس میں جھوٹ کی ذرا آمیزش ہو کوئی رنگینی عبارت اس قسم کی نہیں جس میں شاعروں کی طرح جھوٹ اور ہنرل اور فضول گوئی کی نجاست اور بد بو سے مد دلی گئی ہو.یہ کلام صداقت اور راستی کی لطیف خوشبو سے بھرا ہوا ہے اور پھر اس خوشبو کے ساتھ خوش بیانی اور جودت الفاظ اور رنگینی اور صفائی عبارت کو ایسا جمع کیا گیا ہے کہ جیسے گلاب کے پھول میں خوشبو کے ساتھ اس کی خوش رنگی اور صفائی بھی جمع ہوتی ہے.باعتبار باطن کے سورۃ فاتحہ کے خواص.وہ بڑی بڑی امراض روحانی کے علاج پر مشتمل ہے اور • تحمیل قوت علمی اور عملی کے لئے بہت سا سامان اس میں موجود ہے اور بڑے بڑے بگاڑوں کی اصلاح کرتی ہے اور.بڑے بڑے معارف اور دقائق اور لطائف کہ جو حکیموں اور فلسفیوں کی نظر سے چھپے رہے اس میں مذکور ہیں.• • سالک کے دل کو اس کے پڑھنے سے یقینی قوت بڑھتی ہے اور شک اور شبہ اور ضلالت کی بیماری سے شفا حاصل ہوتی ہے اور.بہت سی اعلیٰ درجہ کی صداقتیں اور نہایت باریک حقیقتیں کہ جو تکمیل نفس ناطقہ کے لئے ضروری ہیں.اس کے مبارک مضمون میں بھری ہوئی ہیں.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام کیونکہ : یعنے: ہ یہ کمالات بھی ایسے ہیں کہ گلاب کے پھول کے کمالات کی طرح ان میں بھی عاد تا ممتنع معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انسان کے کلام میں مجتمع ہو سکیں اور یہ امتناع نہ نظری بلکہ بدیہی ہے.158 جن دقائق و معارف عالیہ کو خدائے تعالیٰ نے مین ضرورت حقہ کے وقت اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں بیان فرما کر ظاہری اور باطنی خوبی کا کمال دکھلایا ہے اور بڑی نازک شرطوں کے ساتھ دونوں پہلوؤں ظاہر و باطن کو کمالیت کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچایا ہے.اول تو ایسے معارف عالیہ ضرور یہ لکھے ہیں کہ جن کے آثار پہلی تعلیموں سے مندرس اور محو ہو گئے تھے اور کسی حکیم یا فیلسوف نے بھی ان معارف عالیہ پر قدم نہیں مارا تھا اور پھر ان معارف کو غیر ضروری اور فضول طور پر نہیں لکھا بلکہ ٹھیک ٹھیک اس وقت اور اس زمانہ میں ان کو بیان فرمایا جس وقت حالت موجودہ زمانہ کی اصلاح کے لئے ان کا بیان کرنا از بس ضروری تھا اور بغیر ان کے بیان کرنے کے زمانہ کی ہلاکت اور تباہی متصور تھی اور پھر وہ معارف عالیہ ناقص اور نا تمام طور پر نہیں لکھے گئے بلکہ کم و کیفا کامل درجہ پر واقعہ ہیں اور کسی عاقل کی عقل کوئی ایسی دینی صداقت پیش نہیں کر سکتی جو ان سے باہر رہ گئی ہو اور.کسی باطل پرست کا کوئی ایسا وسوسہ نہیں جس کا ازالہ اس کلام میں موجود نہ ہو.ان تمام حقائق و دقائق کے التزام سے کہ جو دوسری طرف ضرورات حقہ کے التزام کے ساتھ وابستہ ہیں فصاحت بلاغت کے ان اعلیٰ کمالات کو ادا کرنا جن پر زیادت متصور نہ ہو.یہ تو نہایت بڑا کام ہے کہ جو بشری طاقتوں سے بہ بداہت نظر بلند تر ہے...انسانی فصاحتوں کا یہی حال ہے کہ بجز فضول اور غیر ضروری اور واہیات باتوں کے قدم ہی نہیں اٹھ سکتا.اور بغیر جھوٹ اور ہنرل کے اختیار کرنے کے کچھ بول ہی نہیں سکتے.اور اگر کچھ بولے بھی تو ادھورا.ناک ہے تو کان نہیں.کان ہیں تو آنکھ ندارد.سچ بولے تو فصاحت گئی.فصاحت کے پیچھے پڑے تو جھوٹ اور فضول گوئی کے انبار کے انبار جمع کر لئے.پیاز کی طرح سب پوست ہی پوست اور پیچ میں کچھ بھی نہیں.پس جس صورت میں عقل سلیم صریح حکم دیتی ہے کہ ناکارہ اور خفیف معاملات اور سیدھے سادھے واقعات کو بھی ضرورت حقہ اور راستی کے التزام سے رنگین اور بلیغ عبارت میں ادا کرنا ممکن نہیں تو پھر اس بات کا سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ معارف عالیہ کو ضرورتِ حقہ کے التزام کے ساتھ نہایت رنگین اور فصیح عبارت میں جس سے اعلیٰ اور اصفی امتصور نہ ہو بیان کرنا بالکل خارق عادت اور بشری طاقتوں سے بعید ہے.اور جیسا کہ گلاب کے پھول کی طرح کوئی پھول جو کہ ظاہر و باطن میں اس سے مشابہ ہو بنانا عاد تا محال ہے.ایسا ہی یہ بھی محال ہے.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں ایک اور خاصہ بزرگ پایا جاتا ہے کہ جو اسی کلام پاک سے خاص ہے علاوہ سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف کے گلاب کے پھول کی وجوہ بے نظیر کی اور بکلی مطابقت کے ) اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پر دوں کو اٹھاتا ہے اور.سینے کو منشرح کرتا ہے اور • 159 طالب حق کو حضرت احدیت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقربان حضرت احدیت میں ہونی چاہئے.اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہر گز حاصل نہیں کر سکتا.اور اس روحانی تاثیر کا ثبوت بھی ہم اس کتاب میں دے چکے ہیں اور اگر کوئی طالب حق ہو تو بالمواجہ ہم اس کی تسلی کر سکتے ہیں اور ہر وقت تازہ بتازہ ثبوت دینے کو طیار ہیں.قرآن شریف کی کسی اقل قلیل سورۃ کی نظیر اور مخالفین ہر ایک باخبر آدمی پر ظاہر ہے کہ مخالفین باوجو دسخت حرص اور شدت عناد اور پرلے درجہ کی مخالفت اور عداوت کے مقابلہ اور معارضہ سے قدیم سے عاجز رہے ہیں اور اب بھی عاجز ہیں اور کسی کو دم مارنے کی جگہ نہیں.اور باوجود اس بات کے کہ اس مقابلہ سے ان کا عاجز رہنا.ان کو ذلیل بناتا ہے..جہنمی ٹھہراتا ہے..کافر اور بے ایمان کا ان کو لقب دیتا ہے..بے حیا اور بے شرم ان کا نام رکھتا ہے..مگر مردہ کی طرح ان کے مونہہ سے کوئی آواز نہیں نکلتی.پس لا جواب رہنے کی ساری ذلتوں کو قبول کرنا اور تمام ذلیل ناموں کو اپنے لئے روار کھنا اور تمام قسم کی بے حیائی اور بے شرمی کی خس و خاشاک کو اپنے سر پر اٹھا لینا اس بات پر نہایت روشن دلیل ہے کہ ان ذلیل چمگادڑوں کی اس آفتاب حقیقت کے آگے کچھ پیش نہیں جاتی...پاک کلام کا انسانی طاقتوں سے بلند تر ہونا جس حالت میں انسان میں یہ قدرت نہیں پائی جاتی کہ ایک گلاب کے پھول کی جو صرف ایک ساعت تر و تازہ اور خوشنما نظر آتا ہے اور.دوسری ساعت میں نہایت افسردہ اور پژمردہ اور بد نما ہو جاتا ہے اور.اس کا وہ لطیف رنگ اڑ جاتا ہے اور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اس کے پات ایک دوسرے سے الگ ہو کر گر پڑتے ہیں نظیر بنا سکے تو پھر ایسے حقیقی پھول کا مقابلہ کیونکر ہو سکے :.جس کے لئے مالک ازلی نے بہار جاوداں رکھی ہے اور.جس کو ہمیشہ باد خزاں کے صدمات سے محفوظ رکھا ہے اور.جس کی طراوت اور ملائمت اور حسن اور نزاکت میں کبھی فرق نہیں آتا اور کبھی افسردگی اور پژمردگی اس کی ذات بابرکات میں راہ نہیں پاتی • بلکہ جس قدر پر انا ہوتا جاتا ہے.اُسی قدر اس کی تازگی اور طراوت زیادہ سے زیادہ کی.اس کے عجائبات زیادہ سے زیادہ منکشف ہوتے جاتے ہیں اور • اس کے حقائق دقائق لوگوں پر بکثرت ظاہر ہوتے جاتے ہیں.دہ کھلتی جاتی ہے اور.تو پھر ایسے حقیقی پھول کے اعلی درجہ کے فضائل اور مراتب سے انکار کرنا پرلے درجہ کی کور باطنی ہے یا نہیں 95 160 حضرت مرزا صاحب غلام احمد قادیانی نے جس شان سے قرآن شریف کا کلام الہی ہو نا ثابت فرمایا ہے وہ درج بالا عبارت سے ظاہر ہے اور اس کی مثال آپ نے سورۃ فاتحہ کی چند آیات کا حوالہ دے کر ایک تمثیل کے ذریعے واضح فرمائی ہے.اسی طرح حضرت مرزا صاحب قرآن شریف کے ہر اک لفظ کو سچا قرار دیتے ہیں.جیسے کہ فرمایا پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو اک لفظ 96 ہر مسیحا نکلا درج بالا اندراجات سے فرقان مجید کے الہامی / کلام الہی ہونے کا ثبوت حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریرات سے ثابت کر دیا گیا ہے جن سے مقابلے میں مولوی چراغ علی صاحب کی جملہ تصانیف خالی پڑی ہیں بلکہ موصوف تو مشرف بہ مکالمت الہیہ ہونے کے مخالف و منکر ہیں.یہاں بے جانہ ہو گا کہ مولوی چراغ علی صاحب جس امر کو تسلیم کرتے ہیں وہ: “موسیٰ کی حالت کوہ طور پر مساولت رویت الہی ہے جو کہ “اگر اسکا تکرار اور استمرار ثابت ہو سکے تو ممکن ہے ” 8لا کی شرائط کے ساتھ ہے.97,9 جب ہم حضرت موسیٰ ، حضرت عیسی اور آنحضرت صلی اللہ کریم کی کیفیات وحی پر نظر ڈالتے ہیں تو جو تصویر سامنے آتی وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے قلم سے ملاحظہ ہو: “ بنی اسرائیل میں سے سب سے بڑے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں اُن کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ وہ اپنے خسر شیر کے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے کہ انہوں نے خواب پہاڑ پر ایک درخت آگ میں روشن دیکھا.
161 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے کہ یہ عجیب بات ہے کہ درخت کے ارد گرد آگ بھی ہے اور وہ جلتا بھی نہیں.چنانچہ وہ اس نظارہ کو دیکھنے کے لیے آگے بڑھے تب: خدا نے اسی بوٹے کے اندر سے پکارا اور کہا کہ اے موسیٰ اے موسیٰ ! وہ بولا میں یہاں ہوں.تب اُس نے کہا یہاں نزدیک مت آ اپنے پاؤں سے جوتا اتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے.پھر اُس نے کہا میں تیرے باپ کا خدا اور ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں.موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر ڈالنے سے ڈرتا تھا.99 اب دیکھو رسول کریم صلی کم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدروحی میں کتنا فرق ہے.رسول کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا تو...دَنَا فَتَدَلي (النجم:9) محمد رسول اللہ صلی اہل علم خدا تعالیٰ کی طرف دوڑے اور خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی یم کی طرف دوڑا اور یہی عشق کامل کی علامت ہوتی ہے..مگر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا واقعہ ہو اجب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو خدا تعالیٰ نے اُن سے کہا " یہاں نزدیک مت آ پھر ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ “ اپنے پاؤں سے جو تا اُتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی الی یم کو جو تا اتارنے کا حکم نہیں دیا گیا...چونکہ موسیٰ کا مقام وہ نہیں تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللی علم کا تھا.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اُس وقت جو کچھ کہا گیاوہ یہ ہے کہ “میں تیرے باپ کا خدا اور ابراہام کا خدا اور اسحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں.اس میں کو نسا معرفت کا نکتہ بیان ہے یا کونسا کمال ہے جو اس کلام میں پایا جاتا ہے ؟ ایک موٹی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے.وہیری اور اُس کے ساتھی تو اعتراض کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی للی کم پر وحی نازل ہوئی تو وہ ڈر گئے اور اُن کے کندھے کانپنے لگ گئے.مگر وہ م الله یہ نہیں دیکھتے کہ یہاں صاف لکھا ہے کہ موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر ڈالنے سے ڈرتا تھا.” بڑا آدمی اگر کسی بات سے گھبراتا ہے تو اس کے کندھے کانپنے لگ جاتے ہیں لیکن بچے جب کسی بات سے ڈرتے ہیں تو اپنا منہ چھپا لیتے ہیں یہ کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بڑ آدمی ڈرے تو وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لے لیکن بچوں کو تم روزانہ دیکھو گے کہ جب وہ ڈرتے ہیں فوراً اپنا منہ چھپا لیتے ہیں.یہی بچوں والی حرکت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی کہ خدا تعالیٰ کو دیکھا تو ڈر کر اپنا منہ چھپا لیا.لیکن محمد رسول اللہ صلی می کنم چونکہ روحانی لحاظ سے ایک جوان اور مضبوط آدمی کی حیثیت رکھتے تھے اس لیے آپ نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں صرف گھبراہٹ سے آپ کے کندھے ملنے شروع ہو گئے...ہم حضرت مسیح علیہ السلام کی بدروحی کے واقعات دیکھتے ہیں.متی باب 3 میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام یوحنا کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ مجھے پتسمہ دو.پہلے تو انہوں نے انکار کیا مگر آخر مان لیا اور حضرت مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ پایا.اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے متعلق انجیل کہتی ہے: “ اور یسوع بپتسمہ پا کے وہیں پانی سے نکل کے اوپر آیا اور دیکھو کہ اُس کے لیے آسمان کھل گیا اور اُس نے خدا کی روح کو کبوتر کی مانند اتر تے دیکھا.اور دیکھو کہ آسمان سے ایک آواز یہ کہتی آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام خوش ہوں." 100"..محمد رسول اللہ صلی الم کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام فرشتہ کے ذریعہ بھیجا اور مسیح پر ایک کبوتر کی شکل میں روح القدس نازل ہوا.کبوتر سے انہوں نے کیا ڈرنا تھا کبوتر تو وہ جانور ہے جس کی ہڈیاں بھی انسان چبا جاتا ہے.یہی عیسوی اور محمدی بجلی کا فرق ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآنی تعلیم کو شرک سے محفوظ رکھا لیکن عیسائیت پر شیطان غالب آگیا کیونکہ عیسائی مذہب پر روح القدس ایک نہایت ہی کمزور شکل پر نازل ہوا تھا..غرض انجیل کی آیات سے یہ امر ظاہر ہے کہ یسوع کو ایک کبوتری کے نظارہ میں پہلا جلوہ ہوا جبکہ رسول کریم صلی ملک کو ایک کامل القویٰ انسان کی شکل میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگ کی صورت میں.پھر موسیٰ کا شک اور خوف بھی ثابت ہے اور مسیح کا بھی.کیونکہ شیطان کا چلنا اور مسیح کا اُس کے پیچھے جانا تر در اور شک پر ہی دلالت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُنکے دل میں اُس وقت انہی کلام پر وہ یقین اور وثوق پیدا نہیں ہو اجو بعد میں جاکر پید ا ہوا....رسول کریم صلی ای کم اور سابق انبیاء کی بد روحی کے واقعات کا جب آپس میں مقابلہ کیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ رسول کریم صلی ایم کی وحی باقی انبیاء کی وحیوں میں ایک ممتاز مقام رکھ رکھتی ہے....101 " بالله اعجاز اثر کلام قرآن حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: اعجاز کلام قرآن کے بیان پر تو یہ ساری کتاب مشتمل ہے.102" اعجاز اثر کلام قرآن کی نسبت ہم یہ ثبوت رکھتے ہیں کہ آج تک کوئی ایسی صدی نہیں گزری جس میں خدائے تعالیٰ نے مستعد اور طالب حق لوگوں کو قرآن شریف کی پوری پوری پیروی کرنے سے کامل روشنی تک نہیں پہنچایا.اور اب بھی طالبوں کے لئے اس روشنی کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے...وہی برکتیں اب بھی جو ئیندوں کے لئے مشہور ہو سکتی ہیں جس کا جی چاہے صدق قدم سے رجوع کرے اور دیکھے اور اپنی عاقبت کو درست کر لے.انشاء اللہ تعالیٰ ہر یک طالب صادق اپنے مطلب کو پائے گا اور ہر یک صاحب بصارت اس دین کی عظمت کو دیکھے گا.مگر کون ہمارے سامنے آکر اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ آسمانی نور ہمارے کسی مخالف میں بھی موجود ہے.اور جس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور افضلیت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کیا ہے.وہ بھی کوئی روحانی برکت اور آسمانی تائید اپنی شامل حال رکھتا ہے.کیا کوئی زمین کے اُس سرے سے اس سرے تک ایسا منفس ہے کہ قرآن شریف کے ان چپکتے ہوئے نوروں کا مقابلہ کر سکے.کوئی نہیں ایک بھی نہیں.بلکہ وہ لوگ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں ان کے ہاتھ میں بھی بجز باتوں ہی باتوں کے اور خاک بھی نہیں.حضرت موسیٰ کے پیرو یہ کہتے ہیں کہ جب سے حضرت موسیٰ اس دنیا سے کوچ کر گئے تو ساتھ ہی ان کا عصا بھی کوچ کر گیا کہ جو سانپ بنا کرتا تھا.اور جو لوگ حضرت عیسی کے اتباع کے مدعی ہیں.ان کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عیسی 162
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 163 آسمان پر اٹھائے گئے تو ساتھ ہی ان کے وہ برکت بھی اٹھائی گئی جس سے حضرت ممدوح مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے.ہاں عیسائی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کے باراں حواری بھی کچھ کچھ روحانی برکتوں کو ظاہر کیا کرتے تھے.لیکن ان کا یہ بھی تو قول ہے کہ وہی عیسائی مذہب کے باراں امام آسمانی نوروں اور الہاموں کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے بعد آسمان کے دروازوں پر پکے قفل لگ گئے اور پھر کسی عیسائی پر وہ کبوتر نازل نہ ہوا کہ جو اول حضرت مسیح پر نازل ہو کر پھر آگ کے شعلوں کا بہروپ بدل کر حواریوں پر نازل ہوا تھا.گویا ایمان کا وہ نورانی دانہ کہ جس کے شوق میں وہ آسانی کبوتر اتر کر تا تھا انہیں کے ہاتھ میں تھا اور پھر بجائے اس دانہ کے عیسائیوں کے ہاتھ میں دنیا کمانے کی پھائی رہ گئی جس کو دیکھ کر وہ کبوتر آسمان کی طرف اُڑ گیا.غرض بجز قرآن شریف کے اور کوئی ذریعہ آسمانی نوروں کی تحصیل کا موجود نہیں.اور خدا نے اس غرض سے کہ حق اور باطل میں ہمیشہ کے لئے مابہ الامتیاز قائم رہے.اور کسی زمانہ میں جھوٹ سچ کا مقابلہ نہ کر سکے.اُمت محمدیہ کو انتہاء زمانہ تک یہ دو معجزے یعنے اعجاز کلام قرآن اور اعجاز اثر کلام قرآن عطا فرمائے ہیں جن کے مقابلہ سے مذاہب باطلہ ابتداء سے عاجز چلے آتے ہیں.اور اگر صرف اعجاز کلام قرآن کا معجزہ ہوتا اور اعجاز اثر قرآن کا معجزہ نہ ہو تا تو امت مرحومہ محمدیہ کو آثار اور انوار ایمان میں کیا زیادتی ہوتی.کیونکہ مجر دزہد اور عفت اعجاز کی حد تک نہیں پہنچ سکتا.103 اور یہی فرقان مجید کے الہامی / کلام الہی ہونے کا ثبوت بہ صورت اعجاز اثر قرآن ہے جس سے مولوی چراغ علی محروم محض ہیں.اسی طرح مولوی چراغ علی صاحب کے غالی پر چارک مولوی عبد الحق صاحب اپنے نتائج کے استخراج میں بے بصر ہیں.6-12.ہنود پر اعتراضات / دید پر اعتراضات جن تحریروں سے مولوی عبد الحق صاحب ، براہین احمدیہ میں حضرت مرزا صاحب کو مولوی چراغ علی صاحب سے مدد لینا ثابت کرنا چاہتے ہیں اُن میں سے ایک تحریر درج بالا مضمون کے بارے میں ہے.حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: “ میں اس جستجو میں بھی ہوں...ہنود کے دید اور اُن کے دین پر سخت سخت اعتراض کئے جائیں کیونکہ اکثر جاہل ایسے بھی ہیں کہ جب تک اپنی کتاب کا نا چیز اور باطل اور خلاف حق ہونا ان کے ذہن نشین نہ ہو تب تک گو کیسی ہی خوبیاں اور دلائل حقانیت قرآن مجید کے اُن پر ثابت کئے جائیں ، اپنے دین کی طرفداری سے باز نہیں آتے اور یہی دل میں کہتے ہیں کہ ہم اسی میں گزارہ کر لیں گے.سو میرا ارادہ ہے کہ اس تحقیقات اور آپ کے مضمون کو بطور حاشیہ کے کتاب کے اندر درج کر دوں گا.104 مولوی چراغ علی صاحب نے اگر کوئی مضمون حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں بھجوایا تھا تو آپ یقیناً اس کو بطور حاشیہ کے کتاب کے اندر درج کر دیتے.لیکن جب مولوی چراغ علی صاحب نے کوئی مضمون بھیجوایا ہی نہ ہو اور نہ ہی مولوی صاحب موصوف نے اس موضوع سے متعلق کچھ لکھا ہو تو مقابلہ و موازنہ کس طرح کیا جائے؟ جبکہ موازنے کے متعلق حضرت مرزا صاحب براہین احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں.اسے یہاں دوبارہ درج کیا جاتا ہے.(اگرچہ اس کا اندراج اسی کتاب میں پہلے بھی کیا جا چکا ہے ) : بلاغت کے آزمانے کے لیے یہی سہل طریق ہے کہ جن دو کلاموں کا موازنہ و مقابلہ منظور ہو اُن کی قوتِ بیانی کو دیکھا جائے کہ کس مرتبہ تک ہے اور اپنے فرضِ منصبی کے ادا کرنے کیلئے کیسی کیسی موشگافی و دقیقہ رسی انہوں
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 164 نے کی ہے اور کہاں تک اپنے مدلل و موجز بیان سے جہل کی تاریکی کو اٹھانے کے لیے علم کی روشنی دکھلائی ہے اور وحدانیت الہی کی خوبیاں اور شرک کی قباحتیں ظاہر کی ہیں.105 لیکن مولوی چراغ علی صاحب کے سرمایہ تحریر میں اس موضوع سے متعلق ہماری نظر سے کوئی تحریر نہیں گزری جس سے کوئی مقابلہ و موازنہ قائم کیا جا سکے.البتہ مولوی چراغ علی صاحب کی کتاب تحقیق الجہاد میں ایک نوٹ ہے جو آنریبل راجہ شیو پرشاد کی لیجسلیٹو کونسل میں البرٹ بل سے متعلق 9 مارچ 1883ء کو امیر خسرو کی تاریخ طلائی سے نقل کر دہ ہندوؤں سے متعلق ایک عبارت کے بارے میں ہے.جس پر مولوی چراغ علی صاحب لکھتے ہیں کہ :.یہ احکام جو بیان کیے گئے ہیں سراسر اتہام ہیں.آنحضرت صلی الی یوم کے ایسے احکام نہ تو ذمیوں کی بابت کہیں موجود ہیں اور نہ ہنود کی بابت."106 اس دو حرفی تردید سے کیا مقابلہ وموازنہ کا باب کھولا جائے.؟ لیکن مولوی عبد الحق صاحب کے من مانے نتائج کے پیش نظر براہین احمدیہ میں سے ہنود کے مذہب اور وید کی تردید میں کچھ عبارت نقل کی جاتی ہے جس سے مقصد صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے جو کتاب یہ تائید الہی تحریر فرمائی تھی اس میں اس بارے میں کس شان سے دلائل پیش کیے گئے جن کو مولوی چراغ علی صاحب کی تحریرات میں کیا اُس دور کے دیگر مصنفین اور اسی طرح بعد کے مصنفین میں عشر عشیر بھی نہیں ہے.لیکن مولوی عبد الحق صاحب نے براہین احمدیہ کا مطالعہ کیے بغیر ہی نا واجب حکم لگا دیا جو انہیں زیب نہیں دیتا تھا.بہر کیف وہ تحریر خلاصہ درج ذیل ہے.حضرت مرزا صاحب نے یہ شرتیاں رگوید سنتھا اسنک اول سکت سے 115 سکت تک بطور نمونہ منتخب کر کے لکھی ہیں اور ان سے پہلے اور بعد میں ان پر تبصرہ فرما کر آیات قرآنیہ درج کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ قرآن شریف کی عبارت میں کس قدر لطافت اور اعجاز اور زور بیان پایا جاتا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ قرآن شریف یا وید کس کی عبارت میں طرح طرح کے شکوک اور شبہات پائے جاتے ہیں اور کون سی عبارت فضول اور طول طویل ہے.حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں: آریا سماج والے جو خدا کے الہام اور کلام کو دید پر ختم کئے بیٹھے ہیں وہ بھی عیسائیوں کی طرح قرآن شریف کی بے نظیری سے انکار کر کے اپنے وید کی نسبت فصاحت بلاغت کا دعویٰ کرتے ہیں.سمجھنا چاہیئے کہ قرآن شریف کی بلاغت ایک پاک اور مقدس بلاغت ہے.جس کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ حکمت اور راستی کی روشنی کو فصیح کلام میں بیان کر کے تمام حقائق اور دقائق علم دین ایک موجز اور مدلل عبارت میں بھر دیئے جائیں.اور جہاں تفصیل کی اشد ضرورت ہو.وہاں تفصیل ہو.اور جہاں اجمال کافی ہو.وہاں اجمال ہو اور کوئی صداقت دینی ایسی نہ ہو جس کا مفصلاً یا مجملاً ذکر نہ کیا جائے اور باوصف اس کے ضرورت حقہ کے تقاضا سے ذکر ہو نہ غیر ضروری طور پر اور پھر.کلام بھی ایسا فصیح اور سلیس اور متین ہو کہ جس سے بہتر بنانا ہر گز کسی کے لئے ممکن نہ ہو.اور پھر وہ کلام روحانی برکات بھی اپنے ہمراہ رکھتا ہو.یہی قرآن شریف کا دعوی ہے جس کو اس نے آپ ثابت کر دیا ہے.اور اور جابجا فرما بھی دیا ہے کہ کسی مخلوق کے لئے ممکن نہیں کہ اس کی نظیر بنا سکے.
165 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام اب جو شخص منصفانہ طور پر بحث کرنا چاہتا ہے.اس پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ قرآن شریف کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے ایسی کتاب کا پیش کرناضروری ہے جس میں وہی خوبیاں پائی جائیں جو اس میں پائی جاتی ہیں.سچ ہے کہ وید میں شاعرانہ تلازمات پائے جاتے ہیں اور شاعروں کی طرح انواع اقسام کے استعارات بھی موجود ہیں.مثلا رگ وید میں ایک جگہ آگ کو ایک دولتمند فرض کر لیا ہے جس کے پاس بہت سے جو اہرات ہیں اور اس کی روشنی کو جو ہر تاباں سے تشبیہ دی ہے.بعض جگہ اس کو ایک سپہ سالار مقرر کیا ہے جس کی کالی جھنڈی ہے.اور دھوئیں کو جو آگ پر اٹھتا ہے ایک علم سیہ ٹھہر الیا ہے.ایک جگہ اس حرارت کو جو بخارات مائی کو اُٹھاتی ہے چور مقرر کیا ہے اور اس کا نام بلحاظ قوت ماسکہ ور ترار کھا ہے اور بخارات کو گوئین ٹھہرایا ہے اور اندر جس سے وید میں آسمان کا فضا اور خاص کر کے گرو زمہریر مراد ہے.اس کو اس مثال میں قصاب سے تشبیہ دی ہے.اور لکھا ہے کہ جس طرح قصاب گائے کے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے.اسی طرح اندر نے ور ترا کے سر پر ایسا ہجر مارا جو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور پانی قطرہ قطرہ ہو کر بہ نکلا لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے تلازمات کو قرآن شریف سے کچھ بھی نسبت نہیں صرف شاعرانہ خیالات ہیں اور پھر بھی ایسے قابل تعریف و باوقعت نہیں بلکہ اکثر مقامات سخت نکتہ چینی کے لائق ہیں.مثلاً استعارہ مذکورہ بالا جس میں اندر کو ایک بوچڑ سے تشبیہ دی ہے.جس کا کام گائے کا گوشت فروخت کرنا ہے.یہ ایک ایسا مضمون ہے کہ جو لطیف طبع شاعروں کے کلام میں ہر گز نہیں آسکتا.کیونکہ شاعر کو یہ بھی خیال کر لینا لازم ہے کہ میرے اس مضمون سے عام لوگ کراہت تو نہیں کریں گے.مگر اس شرقی میں یہ خیال نظر انداز ہو گیا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ہندو لوگ جو دید کے مخاطب ہیں وہ گائے کے گوشت کا نام سننے سے متنفر ہیں اور ان کی طبیعتوں پر ایسا ذ کر سخت گراں گذرتا ہے.اور پھر اندر کو جو وید میں ایک بزرگ دیو تا مقرر ہو چکا ہے بوچڑ سے تشبیہ دینا اور بعد بزرگ قرار دینے کے پھر اس کی ہجو ملیح کر ناشائستگی کلام سے بعید اور ایک طرح کی بے ادبی ہے.ماسوا اس کے اس تشبیہ میں ایک اور بھی نقص ہے.وہ یہ ہے کہ تشبہ اُس امر میں چاہئے کہ مشہور اور معروف ہو.پس یہ کہنا کہ اندر نے ور ترا کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.جیسے بوچڑ گائے کے گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے.یہ تشبیہ فن بلاغت کے رو سے تب درست بیٹھتی ہے کہ جب یہ ثابت ہو کہ وید کے زمانہ میں عام طور پر گائے کا گوشت بازاروں میں بکتا تھا اور بو چڑلوگ ٹکڑے ٹکڑے کر کے وہ گوشت آریا لوگوں کو دیتے تھے مگر حال کے آریا لوگ ہر گز اس کے قائل نہیں.اب ظاہر ہے کہ کلام میں ایسی تشبیہ بیان کرنا جس کا خارج میں وجو د ہی نہیں بلکہ جس سے لوگ متنفر ہیں دائرہ فصاحت بلاغت سے بالکل خارج ہے.اگر ایک لڑکا بھی اپنے کلام میں ایسی تشبیہ بیان کرے تو وہ دانشمندوں کے نزدیک قابل ملامت اور سادہ لوح ٹھہرتا ہے.کیونکہ تشبیہ کا لطف تب ہی ظاہر ہوتا ہے کہ جب مشابہت ایسی ظاہر ہو کہ جس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے سامعین اس سے بخوبی واقفیت رکھتے ہوں اور ان کی نظر میں وہ چیز بدیہی الظہور اور مسلم الوجود ہو.اور نیز ان کی طبیعتیں بھی اس کے ذکر سے کراہت نہ کرتی ہوں لیکن کون ثابت کر سکتا ہے کہ وید کے زمانہ میں ہندوؤں میں گائے کا گوشت بیچنا اور خرید نا اور کھانا ایک عام رواج تھا جس سے آریا قوم کو نفرت نہ تھی.اور اگر یہ بھی خیال کیا جائے
166 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام که خود وید کا ہی ذکر کرنا اس رواج پر ثبوت ہے تو ایسا خیال کرنے سے بھی بکلی اعتراض مرتفع نہیں ہو سکتا.کیونکہ گائے کے لہو اور گوشت سے پانی کو عمدہ مشابہت حاصل نہیں.ہاں گائے کے دودھ کو مصفا پانی سے مشابہت حاصل ہے.سو اگر مثلا رگ وید سنتھا اشتک اول سکت ۶۱ کی یہ شرقی جس میں یہ لکھا ہے اے اند رور تر اپر اپنا بجر چلا اور اسے ایسا ٹکڑے ٹکڑے کر جیسے بوچڑ گائے کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے.اس طرح پر ہوتے کہ جب اندر نے اپنے بجر سے ور ترا کو دبایا.تو اس میں سے اس طرح پر پانی بہہ نکلا جیسے شیر دار گائے کا پستان دبانے سے دودھ بہ نکلتا ہے.تو وہ تلازم جس کا بیان کرنا مقصود تھا وہ بھی قائم رہتا اور تشبیہ بھی نہایت مطابق آجاتی.ماسوا اس کے کسی طبیعت کو اس تشبیہ سے نفرت بھی نہیں کیونکہ ہندو لوگ بھی بلا دغدغہ گائے کا دودھ پی لیتے ہیں.قطع نظر ان سب باتوں کے ایسے شاعرانہ تلازمات میں ہماری بحث ہی نہیں اور قرآن شریف کے سامنے ان لغویات کا ذکر کرنا ایک بیہودہ حرکت اور ناحق کی دردسر ہے.جس بلاغت حقیقی کو قرآن شریف پیش کرتا ہے وہ تو ایک دوسرا ہی عالم ہے جس سے لغو اور جھوٹ اور بیہودہ باتوں کو کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ حکمت اور معرفت کے بے انتہا دریا کو اقل اور اول عبارت میں بالتزام فصاحت و بلاغت بیان کیا ہے اور جمیع دقائق الہیات پر احاطہ کر کے ایسا کمال دکھلایا ہے جس سے انسانی قوتیں عاجز ہیں.لیکن وید کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لاویں جس میں بجائے حقائق و معارف کے طرح طرح کے گمراہ کرنے والے مضمون موجود ہیں.• کر وڑ ہا بندگان خدا کو مخلوق پرستی کی طرف کس نے جھکایا؟ وید نے.آریوں کو صد با دیوتاؤں کا پرستار کس نے بنایا؟ وید نے.کیا اس میں کوئی ایسی شرقی بھی ہے جو کہ صاف صاف اور واشگاف طور پر مخلوق پرستی سے منع کرے، اور سورج چاند و غیرہ کی پرستش سے روکے اور ان تمام شرتیوں کو جو مخلوق پرستی کی تعلیم پر مشتمل ہیں محل اعتراض ٹھہر اوے.کوئی بھی نہیں.پھر وہ بلاغت جو حق اور حکمت کی روشنی دکھلانے پر منحصر ہے کیو نکر اس کو نصیب ہو سکتی ہے.کیا ہم ایسے کلام کو بلیغ کہہ سکتے ہیں جس کی نسبت دعویٰ تو یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصود اصلی شرک کا مٹانا اور توحید کا قائم کرنا ہے.لیکن وہ گونگوں کی طرح اس دعویٰ کو بہ پایۂ صداقت پہنچانے سے عاجز رہا ہے.ہر ایک عاقل جانتا ہے کہ وجوہ بلاغت میں سے نہایت ضروری ایک یہ وجہ ہے کہ جس بات کا ظاہر کرنا اور کھولنا مقصود ہو اس کو اس طرح کھول کر بتلایا جاوے کہ طالب حق کی تسلی کے لئے کافی ہو اور سب کو معلوم ہے کہ وہی شخص فصیح کہلا تا ہے جو کہ اپنے مطلب کو ایسے عمدہ طور پر ادا کرے کہ گویا اپنے مافی الضمیر کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دے.اب اگر آریا صاحبوں کا دعویٰ یہ ہو تا کہ وید کا اصلی مطلب مخلوق پرستی کی تعلیم ہے.تو شاید اس کی نسبت گمان ہو سکتا کہ وہ بلاغت کے درجہ سے بکلی ساقط نہیں.کیونکہ گو وید نے حقیقی بلاغت کے مذاق پر مخلوق پرستی پر کوئی دلیل بیان نہیں کی اور اس کو ثابت کر کے نہیں دکھلایا.مگر تاہم واضح کلام سے کہ بلاغت کی ایک جز ہے اپنا منشاء دیوتاؤں کی پوجا کی نسبت کھول کر بیان کر دیا اور اگنی اور وایو اور اندر وغیرہ کی تعریف میں صدہا منتر جنتر بناڈالے.اور ان
167 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام چیزوں سے گوئیں اور گھوڑے اور بہت سا مال بھی مانگا.لیکن اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ وید نے اپنی قوت بیانی اور کمال بلاغت سے توحید کے بیان کرنے میں زور لگایا ہے اور مشرکین کے اوہام اور وساوس کو دلائل واضحہ سے مٹایا ہے اور جو جو براہین اقامت توحید اور ازالہ شرک کے لئے ضروری ہیں.وہ سب بیان کئے ہیں اور وحدانیت انہی کو ثابت کر کے دکھلایا ہے.اور آگ وغیرہ کی پرستش سے منع کیا ہے تو یہ دعویٰ کسی طرح سر سبز نہیں ہو سکتا.کون اس بات کو نہیں جانتا کہ وید کے مضمون اسی کی طرف جھکے ہوئے ہیں کہ تم آگ کی پرستش کرو.اندر کے بھیجن گاؤ.سورج کے آگے ہاتھ جوڑو.اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں بقول تمہارے وید کا یہ منشاء تھا کہ توحید کو بیان کرے اور سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے روکے اور مشرکوں کو توحید کے درجہ تک پہنچاوے اور بگڑے ہوئے لوگوں کو اصلاح پر لاوے اور مخلوق پرستوں کو خدا پرست بناوے اور اہل شرک کے تمام وساوس مٹاوے.لیکن بجائے اس کے کہ وہ اپنے اس منشاء کو پورا کرتا.جابجا اس کے بیان سے مخلوق پرستی کی تعلیم جمتی گئی، جس تعلیم نے کروڑوں کی کشتی کو ڈبویا.لاکھوں کو ورطہ شرک و کفر میں غرق کیا.ایک جگہ بھی مونہہ کھول کر وید نے بیان نہ کیا کہ مخلوق پرستی سے باز آجاؤ.آگ وغیرہ کی پوجامت کرو.بجز خدا کے اور کسی چیز سے مرادیں مت مانگو.خدا کو بے مثل و مانند سمجھو.اس صورت میں ہر یک عاقل آپ ہی انصاف کرے کہ کیا فصیح کلام کی یہی نشانیاں ہوا کرتی ہیں کہ مافی الضمیر کچھ ہے اور مونہہ سے کچھ اور ہی نکلتا جاتا ہے.اس قدر لغو بیانی تو مجانین اور مسلوب الحواسوں کے کلام میں بھی نہیں ہوتی.وہ بھی اس قدر قوت بیانی رکھتے ہیں کہ اپنا دلی منشاء ظاہر کر دیتے ہیں.جب پانی کی خواہش ہو آگ نہیں مانگتے اور اگر روٹی کی طلب ہو تو پتھر نہیں طلب کرتے.مگر میں حیران ہوں کہ وید کی بلاغت کس قسم کی بلاغت ہے جس کا منشاء تو توحید تھا مگر بر خلاف اس کے صد ہادیو تاؤں کا جھگڑ اشروع کر دیا جو کلام اپنا منشاء ظاہر کرنے سے بھی عاجز ہے خدا نہ کرے کہ وہ فصیح و بلیغ ہو...خالص ویدوں میں سے جن کو آر یہ لوگ اپنے پر میشر کا کلام اور ست و دیانوں کا پستک سمجھ رہے ہیں.کسی قدر شرتیاں بطور نمونہ بیان کرنا قرین مصلحت ہے...(حضرت مرزا صاحب رگوید کی سنتھا استک اول سکت سے 115 سکت تک منتخب شرتیوں کو درج کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: اب ناظرین اس کتاب کے خود خیال فرما دیں کہ اس قدر شرتیوں سے جن کا ایک ذخیرہ کلاں یہاں لکھ کر کئی صفحے ہم نے سیاہ کئے ہیں کیا کچھ خدا کا بھی پتہ مل سکتا ہے.اور حضرات آریا سماج والے انصافا ہم کو بتلاویں کہ رگوید نے ان شرتیوں میں اپنا منشا ظاہر کرنے میں کون سی بلاغت دکھلائی ہے.اور آپ ہی بولیں کہ کیا اس کی تقریر فصیح تقریروں کی طرح پر زور اور مدلل ہے یا پوچ اور لچر ہے.منصفین پر پوشیدہ نہیں کہ ان شرتیوں میں بجائے اس کے کہ حق الا مر کو اپنی خوش بیانی کے ذریعہ سے ظاہر کیا جاتا اور راستی کے پھیلانے کے لئے کوشش کی جاتی.خود مضمون شرتیوں کا ایسا بے سروپا اور مہمل ہے جس سے سامع اس کا ایک ڈبدہا میں پڑ جاتا ہے.کبھی ایک چیز کو خالق ٹھہراتا ہے اور اس سے مرادیں مانگتا ہے.کبھی اُسی کو مخلوق بناتا ہے اور دوسرے کی محتاج قرار دیتا ہے.کبھی کسی کے لئے خدا کی صفتیں قائم کرتا ہے.اور پھر اسی کی طرف فانی چیزوں کی صفتیں منسوب کرتا ہے.اور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام ظاہر ہے کہ جس نے اس قدر کلام کو طول دیا.اور پھر ما حصل اس کا خاک بھی نہیں.نہ توحید کا مدعی ہو کر توحید کو بیان کیا ہے.نہ مخلوق پرستی کا مدعی ہو کر مخلوق پرستی کو بہ پایہ ثبوت پہنچایا ہے.بلکہ سراسیمہ اور مخبط الحواس آدمی کی طرح ایسی تقریر بے بنیاد اور متناقض کی ہے کہ جس سے ہندو مذہب میں عجب طرح کی گڑ بڑ پڑ گئی ہے.اور کوئی کسی دیو تا کا پر جاری اور کوئی کسی دیوتا کا بیجن گارہا ہے.کیا ایسی تقریر سراپا فضول و مہمل اس لائق ہو سکتی ہے کہ کوئی دانا اس کو بلیغ و فصیح کہے.شاید بعض ہند و صاحب جنہوں نے فقط وید کا نام سن رکھا ہے اور کبھی اس مقدس کتاب کا درشن نہیں کیا.وہ دل میں یہ وسوسہ کریں کہ یہ شرتیاں جور گوید میں سے لکھی گئی ہیں وہ صحیح طور پر نہیں لکھی گئیں یا شاید ان سے بہتر وید مذکور میں اور شرتیاں ہوں گی.جن میں وید نے وحدانیت الہی کے بیان کرنے میں داد فصاحت دی ہوگی یا مخلوق پرستی کو فصیح اور مدلل تقریر میں جو لازمہ فصاحت و بلاغت ہے عطا کیا ہو گا سو ایسے وسواسی آدمیوں کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ تمام شرتیاں رگوید سنتھا استک اول سکت سے ۱۱۵ سکت تک بطور نمونہ منتخب کر کے لکھی ہیں....ہم نے بڑی غور اور تدبر سے وید پر نظر کر کے اس کو طریقہ شائستہ بیانی سے بالکل دور اور مہجور پایا ہے.قرآن شریف کی چند آیات پر نظر ڈالیں کہ کس لطافت و ایجاز سے مسائل کثیر ہ وحدانیت کو قل ودل عبارت میں بیان کرتا ہے اور کس جہد و کوشش سے مسئلہ توحید کو دل میں بٹھاتا ہے اور کیسی فصیح اور مدل تقریر سے توحید الہی کو قلوب صافیہ میں منقش کرتا ہے.اگر اس کی مانند وید مذکور میں شرتیاں موجود ہوں تو پیش کرنی چاہئیں ورنہ بیہودہ بک بک کرنا اور لاجواب رہ کر پھر خبث اور شر سے باز نہ آنا ان لوگوں کا کام ہے جن لوگوں کو خدا اور ایمانداری سے کچھ بھی غرض نہیں اور نہ حیا اور شرم سے کچھ سروکار ہے.اب یہاں ہم بطور نمونہ بمقابلہ وید کی شرتیوں کے کسی قدر آیات قرآن شریف جو وحدانیت الہی کو بیان کرتے ہیں لکھتے ہیں تاہر ایک کو معلوم ہو جائے کہ وید اور قرآن شریف میں سے کس کی عبارت میں لطافت اور ایجاز اور زور بیان پایا جاتا ہے اور کس کی عبارت طرح طرح کے شکوک اور شبہات میں ڈالتی ہے اور فضول اور طول طویل ہے.168 (اس کے بعد حضرت مرزا صاحب نے مختلف قرآنی سورتوں کی آیات مبارکہ درج کیں ہیں جو چار صفحات پر ممتد ہیں.سورتوں کے اندراج کے بعد حضرت مرزا صاحب جو استدلال درج فرماتے ہیں اُس کا ایک حصہ درج ذیل ہے ) اللہ جو جامع صفات کاملہ اور مستحق عبادت ہے اس کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ جی بالذات اور قائم بالذات ہے بجز اس کے کوئی چیز حتی بالذات اور قائم بالذات نہیں یعنی اس کے بغیر کسی چیز میں یہ صفت پائی نہیں جاتی کہ بغیر کسی علت موجدہ کے آپ ہی موجود اور قائم رہ سکے یا کہ اس عالم کی جو کمال حکمت اور ترتیب محکم اور موزون سے بنایا گیا ہے علتِ موجبہ ہو سکے اور یہ امر اس صانع عالم جامع صفات کا ملہ کی ہستی کو ثابت کرنے والا ہے.تفصیل اس استدلال لطیف کی یہ ہے کہ جو چیزیں نہ ضروری الوجود ہیں نہ ضروری القیام بلکہ ان کا کبھی نہ کبھی بگڑ جانا ان کے باقی رہنے سے زیادہ تر قرین قیاس ہے ان پر کبھی زوال نہ آنا اور احسن طور پر بہ ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ ان کا وجود اور قیام پا یا جانا اور کروڑہا
169 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام ضروریات عالم میں سے کبھی کسی چیز کا مفقود نہ ہو نا صریح اس بات پر نشان ہے کہ ان سب کے لئے ایک میمی اور محافظ اور قیوم ہے جو جامع صفات کا ملہ یعنی مدبر اور حکیم اور رحمان اور رحیم اور اپنی ذات میں ازلی ابدی اور ہر یک نقصان سے پاک ہے جس پر کبھی موت اور فناطاری نہیں ہوتی بلکہ اونگھ اور نیند سے بھی جو فی الجملہ موت سے مشابہ ہے پاک ہے سو وہی ذات جامع صفات کا ملہ ہے جس نے اس عالم امکانی کو برعایت کمال حکمت و موزونیت وجود عطا کی اور ہستی کو نیستی پر ترجیح بخشی اور وہی بوجہ اپنی کمالیت اور خالقیت اور ربوبیت اور قیومیت کے مستحق عبادت ہے.یہاں تک تو ترجمہ اس آیت کا ہوا الله لا إله إلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَ لَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ.اب بنظر انصاف دیکھنا چاہئے کہ کس بلاغت اور لطافت اور متانت اور حکمت سے اس آیت میں وجود صانع عالم پر دلیل بیان فرمائی ہے اور کس قدر تھوڑے لفظوں میں معانی کثیرہ اور لطائف حکمیہ کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے اور مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ کے لئے ایسی محکم دلیل سے وجو د ایک خالق کامل الصفات کا ثابت کر دکھایا ہے جس کے کامل اور محیط بیان کے برابر کسی حکیم نے آج تک کوئی تقریر بیان نہیں کی بلکہ حکماء نا قص الفہم نے ارواح اور اجسام کو حادث بھی نہیں سمجھا اور اس رازِ دقیق سے بے خبر رہے کہ حیات حقیقی اور ہستی حقیقی اور قیام حقیقی صرف خدا ہی کے لئے مسلم ہے یہ عمیق معرفت اسی آیت سے انسان کو حاصل ہوتی ہے جس میں خدا نے فرمایا کہ حقیقی طور پر زندگی اور بقاء زندگی صرف اللہ کے لئے حاصل ہے جو جامع صفات کاملہ ہے اس کے بغیر کسی دوسری چیز کو وجود حقیقی اور قیام حقیقی حاصل نہیں اور اسی بات کو صانع عالم کی ضرورت کے لئے دلیل ٹھہرایا اور فرمایا لَه مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ یعنی جبکہ عالم کے لئے نہ حیات حقیقی حاصل ہے نہ قیام حقیقی تو بالضرور اس کو ایک علت موجبہ کی حاجت ہے جس کے ذریعہ سے اس کو حیات اور قیام حاصل ہوا.اور ضرور ہے کہ ایسی علت موجبہ جامع صفات کا ملہ اور مدبر بالا رادہ اور حکیم اور عالم الغیب ہو.سو وہی اللہ ہے.کیونکہ اللہ بموجب اصطلاح قرآن شریف کے اس ذات کا نام ہے جو مستجمع کمالات تامہ ہے اس وجہ سے قرآن شریف میں اللہ کے اسم کو جمیع صفات کاملہ کا موصوف ٹھہر آیا ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ اللہ وہ ہے جو کہ رب العالمین ہے رحمان ہے رحیم ہے مدبر بالا رادہ ہے حکیم ہے.عالم الغیب ہے قادر مطلق ہے ازلی ابدی ہے وغیرہ وغیرہ.سو یہ قرآنِ شریف کی ایک اصطلاح ٹھہر گئی کہ اللہ ایک ذات جامع جمیع صفات کا ملہ کا نام ہے اسی جہت سے اس آیت کے سر پر بھی اللہ کا اسم لائے اور فرمایا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ القَيُّومُ یعنی اس عالم بے ثبات کا قیوم ذات جامع الکمالات ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ عالم جس ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ سے موجو د اور مترتب ہے اس کے لئے یہ گمان کرنا باطل ہے کہ انہیں چیزوں میں سے بعض چیزیں بعض کے لئے علت موجبہ ہو سکتی ہیں بلکہ اس حکیمانہ کام کے لئے جو سر اسر حکمت سے بھر اہوا ہے ایک ایسے صانع کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں مدبر بالا رادہ اور حکیم اور علیم اور رحیم اور غیر فانی اور تمام صفات کا ملہ سے متصف ہو.سو وہی اللہ ہے جس کو اپنی ذات میں کمال تام حاصل ہے.پھر بعد ثبوت وجود صانع عالم کے طالب حق کو اس بات کا
170 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام سمجھانا ضروری تھا کہ وہ صانع ہر ایک طور کی شرکت سے پاک ہے سو اس کی طرف اشارہ فرما یا قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللهُ الصَّمَدُ الخ اس اقل عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہر یک قسم کی شراکت سے وجود حضرت باری کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ..ہ یہ چند آیات قرآن شریف ہیں جن کور گوید کی طول طویل شرتیوں کے مقابلہ پر ہم نے اس جگہ بیان کیا ہے اب وید کی شرتیوں میں جس قدر بے فائدہ طوالت اور فضول تقریر اور بے سروپا اور دھوکا دینے والا مضمون اور غیر معقول باتیں ہیں بمقابلہ اس کے دیکھنا چاہئے کہ کیونکر قرآن شریف کی آیات میں بکمال ایجاز و لطافت توحید کے ایک عظیم الشان دریا کو معہ دلائل حکمیه و بر این فلسفیه اقل قلیل الفاظ میں بھر دیا ہے اور کیونکر مدلل اور موجز عبارت میں تمام ضروریات توحید کا ثبوت دے کر طالبین حق پر معرفت الہی کا دروازہ کھول دیا ہے اور کیونکر ہر یک آیت اپنے پر زور بیان سے مستعد دلوں پر پورا پورا اثر ڈال رہی ہے اور اندرونی تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے اعلیٰ درجہ کی روشنی دکھلا رہی ہے اسی جگہ سے دانا انسان سمجھ سکتا ہے کہ کس کتاب میں بلاغت اور خوش بیانی اور زور تقریر پایا جاتا ہے اور کون سی کتاب کلام بلیغ اور فصیح سے محروم ہے......وید کا کلام ایک اور ضروری نشانی سے جو کلام الہی کے لئے لا بدی ولازمی ہے خالی ہے اور وہ یہ ہے کہ وید میں پیشگوئیوں کا نام و نشان نہیں اور وید ہر گز اخبار غیبیہ پر مشتمل نہیں ہے حالانکہ جو کتاب خدا کا کلام کہلاتی ہے اس کے لئے یہ ضروری بات ہے کہ خدا کے انوار اس میں ظاہر ہوں یعنی جیسے خدائے تعالیٰ عالم الغیب اور قادر مطلق بے مثل و بے ہمتا ہے ویسا ہی لازم ہے کہ اس کا کلام جو اس کی صفات کا ملہ کا آئینہ ہے صفات مذکورہ کو اپنی صورت حالی میں ثابت کرتا ہو ظاہر ہے کہ خدا کے کلام سے یہی علت غائی ہے کہ تا اس کے ذریعہ سے کامل طور پر خدا کی ذات اور صفات کا علم حاصل ہو اور تا انسان وجوہات قیاسی سے ترقی کر کے عین الیقین بلکہ حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جائے اور ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ علمی تب ہی حاصل ہو سکتا ہے کہ جب خدا کا کلام طالب حقیقت کو صرف عقل کے حوالہ نہ کرے بلکہ اپنی ذاتی تجلیات سے ہر یک عقیدہ (کذا.عقدہ ) کو کھول دے مثلاً بہت سی پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ بیان کر کے اور پھر ان کا پورا ہو نا کھلا کر صفت عالم الغیبی کی جو خدائے تعالیٰ میں پائی جاتی ہے طالب حق پر ثابت کرے....پھر یہ بھی جانا چاہئے کہ جن روحانی تاثیرات پر فرقان مجید مشتمل ہے ان سے بھی وید بکلی محروم اور تہیدست ہے.تفصیل اس کی یہ ہے کہ فرقان مجید با وجود ان تمام کمالات بلاغت و فصاحت و احاطہ حکمت و معرفت ایک روحانی تاثیر اپنی ذات بابرکات میں ایسی رکھتا ہے کہ اس کا سچا اتباع انسان کو مستقیم الحال اور منور الباطن اور منشرح الصدر اور مقبولِ الہی اور قابل خطاب حضرت عزت بنا دیتا ہے اور اس میں وہ انوار پیدا کرتا ہے اور وہ فیوض غیبی اور تائیدات لار یہی اس کے شامل حال کر دیتا ہے کہ جو اغیار میں ہر گز پائی نہیں جاتیں اور حضرت احدیت کی طرف سے وہ لذیذ اور دل آرام کلام اس پر نازل ہوتا ہے جس سے اس پر دمبدم کھلتا جاتا ہے کہ وہ فرقان مجید کی سچی متابعت سے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی سے ان مقامات تک پہنچایا گیا ہے کہ جو
171 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام محبوبان الہی کے لئے خاص ہیں اور ان ربانی خوشنودیوں اور مہربانیوں سے بہرہ یاب ہو گیا ہے جن سے وہ کامل ایماندار بہرہ یاب تھے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور نہ صرف مقال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر بھی ان تمام محبتوں کا ایک صافی چشمہ اپنے پر صدق دل میں بہتا ہوا دیکھتا ہے.یہ تاثیرات فرقان مجید کی سلسلہ وار چلی آتی ہیں اور جب سے آفتاب صداقت ذات بابرکت آنحضرت صلی علیکم دنیا میں آیا اُسی دم سے آج تک ہزار ہانفوس جو استعد اد اور قابلیت رکھتے تھے متابعت کلام الہی اور اتباع رسول مقبول سے مدارج عالیہ مذکورہ بالا تک پہنچ چکے ہیں اور پہنچتے جاتے ہیں....اگر نبیوں کے تابعین کو ان کے کمالات اور علوم اور معارف میں علی وجہ التبعیت شرکت نہ ہو تو باب وراثت کا بکلی مسدود ہو جاتا ہے یا بہت ہی تنگ اور منقبض رہ جاتا ہے کیونکہ یہ معنے بکلی منافی وراثت ہے کہ جو کچھ فیوض حضرت مبدء فیاض سے اس کے رسولوں اور نبیوں کو ملتے ہیں اور جس نورانیت یقین اور معرفت تک ان مقدسوں کو پہنچایا جاتا ہے اس شربت سے ان کے تابعین کے حلق محض نا آشنار ہیں اور صرف خشک اور ظاہری باتوں سے ہی ان کے آنسو پونچھے جائیں.ایسی تجویز سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرت فیاض مطلق کی ذات میں بھی ایک قسم کا بخل ہو.اور نیز اس سے کلام الہی اور رسول مقبول کی عظمت اور بزرگی کی کسر شان لازم آتی ہے کیونکہ کلام الہی کی اعلیٰ تاثیریں اور نبی معصوم کی قوت قدسیہ کے کمالات اس میں ہیں کہ انوار دائمہ کلام الہی کے ہمیشہ قلوب صافیہ اور مستعدہ کو روشن کرتے رہیں نہ یہ کہ تاثیر ان کی بکلی معطل ہو یا صرف معدودے چند تک ہو کر پھر ہمیشہ کے لئے باطل ہو جائے اور زائل القوت دوا کی طرح فقط نام ہی تاثیر کا باقی رہ جائے....جب تک درخت قائم ہو اس کو پھل بھی لگتے رہیں.ہاں جو درخت خشک ہو جائے یا جڑ سے کاٹا جائے اس کے پچھلوں کی توقع رکھنا محض نادانی ہے پس جس حالت میں فرقان مجید وہ عظیم الشان و سر سبز و شاداب درخت ہے جس کی جڑھیں زمین کے نیچے تک اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں تو پھر ایسے شجرہ طیبہ کے پھلوں سے کیونکر انکار ہو سکتا ہے.اس کے پھل بدیہی الظہور ہیں جن کو ہمیشہ لوگ کھاتے رہے ہیں اور اب بھی کھاتے ہیں اور آئندہ بھی کھائیں گے.اب چند کشوف اور الہامات نو واردہ بغرض افادہ طالبین حق لکھے جاتے ہیں.یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جن کا ثبوت دینے سے یہ خاکسار عاجز ہو یا جن کے ثبوت میں اپنے ہی ہم مذہبوں کو پیش کیا جائے بلکہ یہ وہ بدیہی الصدق باتیں ہیں جن کی صداقت پر مخالف المذہب لوگ گواہ ہیں اور جن کی سچائی پر وہ لوگ شہادت دے سکتے ہیں جو ہمارے دینی دشمن ہیں اور یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ تا اُن پر بکمال انکشاف ظاہر ہو جائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور تاجو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب عالیہ سے انکار کر کے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پر محبت کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور باعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بے ایمانی کے اس بات سے بے خبر ہو رہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا.اور نیز ان کشوف اور الہامات کے لکھنے کا یہ بھی ایک باعث ہے کہ تا اس سے مومنوں کی قوتِ ایمانی بڑھے اور اُن کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو.اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اٹھتے ہیں اور اس جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں.کیونکہ ان الہامات میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جن کا ظہور آئندہ زمانوں پر موقوف ہے پس جب یہ زمانہ گزر جائے گا اور ایک نئی دنیا نقاب پوشیدگی سے اپنا چہرہ دکھائے گی اور ان باتوں کی صداقت کو جو اس کتاب میں درج ہے بچشم خود دیکھے گی تو ان کی تقویت ایمان کے لئے یہ پیشین گوئیاں بہت فائدہ دیں گی انشاء اللہ تعالی...( ان الہامات مندرجہ براہین احمدیہ میں سے حسب ذوق راقم الحروف صرف بطور نمونہ چند ایک درج ذیل ہیں) (1) 172 اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيْلِ اللهِ رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ شَكَرَ اللَّهُ سَعْيَهُ جن لوگوں نے گفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے اُن کا ایک مرد فارسی الاصل نے رد لکھا ہے.اُس کی سعی کا خد اشاکر ہے.(2) كِتَابُ الْوَلِي ذُوالْفِقَارِ عَلِيَّ ولی کی کتاب علی کی تلوار کی طرح ہے یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی جیسے علی کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کار دکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی اور یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ جو کتاب کی تاثیرات عظیمہ اور برکات عمیمہ پر دلالت کرتی ہے.(3) پھر بعد اس کے فرمایا وَ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَاله اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہو تا یعنی زمین سے بالکل اُٹھ جاتا تب بھی شخص مقدم الذکر اُس کو پالیتا.(4) پھر بعد اس کے فرمایا اَنْزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِنَ الْقَادِيَانِ وَ بِالْحَقِّ انْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَ كَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولاً.یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور بضرورت حقہ اترا ہے.خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھاوہ ہونا ہی تھا.یہ آخری فقرات اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حدیث متذکرہ بالا میں اشارہ فرما چکے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اشارہ فرما چکا ہے چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہو چکا ہے.اور فرقانی اشارہ اس آیت میں ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوله بِالْهُدَي وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَي الدِّينِ
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 173 كله 107 یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے.اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا.اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جميع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رُو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی مقتا بہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اُس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے.اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.سوچونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے یعنی حضرت مسیح پیشگوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اُس کا محل اور مورد ہے یعنی روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے.گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو اور اگر چہ دین اسلام اپنے دلائل حقہ کے رُو سے قدیم سے غالب چلا آیا ہے اور ابتدا سے اس کے مخالف رُسوا اور ذلیل ہوتے چلے آئے ہیں.لیکن اس غلبہ کا مختلف فرقوں اور قوموں پر ظاہر ہونا ایک ایسے زمانہ کے آنے پر موقوف تھا کہ...نیز آیت والله متم نورہ کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے اور خدائے تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اُن سب باتوں کو جو اس عاجز کے مخالفوں کیلئے لکھے ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور اُن کا عاجز اور لاجواب اور مغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کر کے مفہوم آیت متذکرہ بالا کا پورا کر دے گا.(5) آج اس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصیح کا پی کو دیکھ رہا تھا.بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے.اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے.پھر ایک نے مسکر اکر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری.جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رُعبناک جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں حجت اللہ القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا.اور یہ سوموار کا روز انیسویں ذوالحجہ 1300ھ مطابق 22 / اکتوبر 83(18) اور ششم کا تک سمنہ 1940 بکرم ہے.بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد (6) پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار (7) (8) خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام (9) دی ڈیز شکل کم و ہن گاڈ شیل ہیلپ یو گلوری بی ٹو دس لارڈ گوڈ میکر اوف ارتھ اینڈ ہیون وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا.108 (10) 174 مولوی چراغ علی صاحب نہ تو پیشگوئیوں اور معجزات اسی طرح کلام اللہ کے قائل ہیں جیسا کہ دیگر موضوعات میں تفصیلاً لکھا گیا ہے لیکن حضرت مرزا صاحب ان کا زندہ ثبوت اپنے وجود میں پیش کرتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق صاحب اندھا دھند من مانیاں کرتے جاتے ہیں اور اُن کے ناقلین بلا سوچے سمجھے اور اصل کتاب براہین احمدیہ کو دیکھے بغیر مولوی عبد الحق صاحب کو نقل کرتے جاتے ہیں.خدا تعالی ایسا سامان پید ا کرے کہ میری یہ تحریر ہی متذکرہ بالا ناقلین کی نظر سے گذرے اور وہ ہوش کے ناخن لیں خواہ مخواہ کی الزام تراشی سے اب بھی رُک جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(آمین) مولوی چراغ علی صاحب کلام الہی کی اعلی تاثیروں اور نبی معصوم کی قوت قدسیہ کے کمالات کو بکلی معطل سمجھتے ہیں جیسا کہ موصوف لکھتے ہیں: “ یوبی سنی نے سچ کہا ہے کہ “اسلام کی روحانی قوت پیغمبر اسلام سے شروع ہوئی اور اون پر ختم ہو گئی ” ( Spiritual powers in ”.Islam” says Ubicini truly, “begins and ends with Mohamed ) مجھے ( یعنی مولوی چراغ علی صاحب کو.ناقل ) مسٹر میکال کے ان الفاظ سے اتفاق ہے کہ قرآن میں روحانی جانشینی کا کوئی اشارہ نہیں ہے.اور جب خود پیغمبر اسلام سے جانشین مقرر کرنے کی نسبت سوال کیا گیا تو آپ نے اس قسم کے خیال کو روک دیا " " 109 لیکن حضرت مرزا صاحب اسلام اور کلام الہی کی اعلیٰ تا شیروں اور نبی معصوم کی قوت قدسیہ کے کمالات کو اپنی ذاتِ اقدس میں جاری ثابت کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے جاری مانتے ہیں.اسی طرح آیت استخلاف کی رُو سے پیغمبر اسلام کی جانشینی بھی تا قیامت جاری ہے.مگر مولوی چراغ علی صاحب مستشرقین کی ہم نوائی میں ان امور سے انکار کرتے ہیں اور مولوی عبدالحق صاحب براہین احمدیہ میں مولوی چراغ علی کی مدد دینے کا بلا ثبوت افسانہ تراشتے ہیں ! لیکن خلافت ترکی کا دفاع کرتے ہیں.جو مولوی چراغ علی صاحب کی مستشرق یوبی سنی UBICINI کی ہمنوائی میں اُن کی شخصیت کا متضاد پہلو ہے.جب موصوف اسلام کی روحانی قوت کو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع کر کے آپ پر ختم سمجھتے ہیں تو مولوی چراغ علی صاحب خلافت ترکی کا دفاع کس برتے پر کرتے ہیں.اس بارے میں زیر نظر مضمون کے اگلے حصے میں تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے.یوبی سنی اور میکال نے تو یہ بات بطور اعتراض کے لکھی ہے لیکن مولوی چراغ علی اسے بخوشی قبول کر لیتے ہیں ! چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے اس ضمن میں چند ارشادات ملاحظہ ہوں جو اسلام کی روحانی قوت کے جاری رہنے کے بارے میں ہیں جبکہ مولوی چراغ علی تو چاروں شانے چت ہو کر مسٹر یوبی سنی اور میکال سے اتفاق کئے بیٹھے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: کیا ان کا یہ خیال ہے کہ آدم سے لے کر آنحضرت صلی کم تک خدا تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ اپنی پاک وحی کے ذریعہ سے حق کے طالبوں کو سر چشمہ یقین تک پہنچا دے مگر پھر بعد اس کے اس کے فیضان پر قادر نہ رہا.یا قادر تو تھا مگر دانستہ اس امت
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 175 مرحومہ کے ساتھ بخل کیا اور اس دعا کو بھول گیا جو آپ ہی سکھلائی تھی اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت وو 110 علیهم (الفاتحہ : 6-7).پھر حضرت مرزا صاحب اس کی مثالیں دے کر واضح فرماتے ہیں: جس دل پر در حقیقت آفتاب وحی الہی تجلی فرماتا ہے اس کے ساتھ ظن اور شک کی تاریکی ہر گز نہیں رہتی.کیا خالص نور کے ساتھ ظلمت رہ سکتی ہے.پھر جس حالت میں موسیٰ کی ماں کو بھی یقینی الہام ہو ا جس پر پورا یقین رکھ کر اس نے اپنے بچہ کو معرض ہلاکت میں ڈال دیا اور خدا تعالیٰ کے نزدیک بجرم اقدام قتل مجرم نہ ہوئی تو کیا یہ امت اسرائیل کے خاندان کی عورتوں سے بھی گئی گذری ہے اور پھر اسی طرح مریم کو بھی یقینی الہام ہو اجس پر بھروسہ کر کے اس نے قوم کی کچھ پرواہ نہیں کی توحیف ہے اس امت مخذول پر جو ان عورتوں سے بھی کم تر ہے.پس اس صورت میں یہ امت خیر الامم کا ہے کو ہوئی بلکہ شر الامم اور اجہل الامم ہوئی.اسی طرح خضر جو نبی نہیں تھا اور اسے علم لدنی دیا گیا تو کیا اگر اس کا الہام ظنی تھا یقینی نہیں تھا تو کیوں اس نے ناحق ایک بچہ کو قتل کر دیا.اور اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ الہام کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینا چاہئے یقینی اور قطعی نہ تھاتو کیوں انہوں نے اس پر عمل کیا.پس اگر ایک شخص اپنی نابینائی سے میری وحی سے منکر ہے تاہم اگر وہ مسلمان کہلاتا ہے اور پوشیدہ دہریہ نہیں تو اس کے ایمان میں یہ بات داخل ہونی چاہئے کہ یقینی قطعی مکالمہ الہیہ ہو سکتا ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کی وحی یقینی پہلی امتوں میں اکثر مر دوں اور عورتوں کو ہوتی رہی ہے اور وہ نبی بھی نہ تھے اس امت میں بھی اس یقینی اور قطعی وحی کا وجو د ضروری ہے.تا یہ امت بجائے افضل الا م ہونے کے احقر الامم نہ ٹھہر جائے.سو خدا نے آخری زمانہ میں اکمل اور اتم طور پر یہ نمونہ دکھایا.اس طرح براہین احمدیہ میں یوپی سنی Ubicni اور کینن میلکم میکال Cannon Malcom(1831-1907)112 کے اگست 1881 کے کن ٹم پریری ریویو (لندن) 1881 Contemparary Review Aug کے صفحہ 268 پر تحریر کردہ خیال Spiritual power of Islam, Begins and ends with Mohammad” کی تردید 1880-1884 میں شائع ہونے والی کتاب میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ہاتھوں یہ تائید ایزدی ساتھ کے ساتھ کر دی گئی اگر چہ یہ امور حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں ان لوگوں کے حوالے سے پیش نہیں ہوئے تھے.لیکن چونکہ پادریوں، پنڈتوں، برہموؤں وغیرہ کی نوک زبان یہ باتیں اور ان ہی کے رد میں اور ان اعتراضوں کو کامل شکل میں پیش نظر رکھ کر حضرت مرزا صاحب نے موقف اسلام بحیثیت مامور من اللہ پیش فرمایا.جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ تقابلی موازنہ عام و خصوصی میں کر دیا گیا ہے.اس کی ایک جھلک کتاب زیر نظر میں پیرا نمبر 11-6 کے تحت اعجاز قرآن ” اور “ اعجاز اثر قرآن ملاحظہ ہوں.حوالہ جات و 111 113 6-2.1 1 - کن ٹم پوریری ریویو بابت ماہ اگست ۱۸۸۱ء صفحه ۲۷۸ 2- The August Contemporary Review page 278...1881
براہین احمدیہ مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 176 3 - Canon Malcolm Maccoll "Are Reforms possible under Mussulman Rule", The contemporary Review (Monthly) Aug1881 Straham and Company Limited, 34- Paternoster Row London (U.K) Page:278 111 :Maulvi Chiragh Ali, Reform under Muslim Rule, Page.4 - Maulvi Chiragh Ali, Reform under Muslim Rule, Page: 183 6.مولوی چراغ علی اعظم الکلام فی ارتقاء الا سلام ، حصہ دوم، ص 84 7 - اعظم الکلام.حصہ دوم ، مولوی عبد الحق صفحہ 59 8.اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ سوم صفحہ نمبر 1 و - مقدمہ اعظم الکلام.حصہ دوم، مولوی عبد الحق صفحہ 59 10 - ايضاً 11 - براہین احمدیہ.حصہ چہارم صفحہ 561-563 12 - براہین احمدیہ.حصہ چہارم صفحہ 578-581 13 - براہین احمدیہ.حصہ سوم صفحہ 144-149 14 - براہین احمدیہ.حصہ سوم صفحہ 129-130 15 - براہین احمدیہ.حصہ دوم صفحہ 120-121 16 - براہین احمدیہ.حصہ سوم.صفحہ 267-269 17 - الفرقان: 5 18 - البقرة: 147 19 - براہین احمدیہ حصہ چہارم م صفحہ 588-591 20.مولوی چراغ علی کی علمی خدمات صفحہ 83 21 - تعلیقات صفحہ 64-65 22 - تعلیقات صفحہ 64 23 - مقدمہ “ تعلیم محمدی “پادری عماد الدین 24 - صفحہ نمبر 64 تعلیقات 25 - صفحہ 64-77 “ تعلیقات مولوی چراغ علی 6-3 6-4 5
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 26 - سوانح مولاناروم صفحہ 87.2010ء نگارشات پبلشر زلاہور 27 ال عمران: 73 28 - النساء: 52-53 29 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 580-586 30 - براہین احمدیہ.حصہ چہارم صفحہ 557-558 6-5 6-6 31 - براہین احمدیہ حصہ چہارم.صفحہ 642-646 حاشیه در حاشیہ نمبر 11 32 - براہین احمدیہ.حصہ سوم، چہارم صفحہ 258-353 6-7 177 - - By Maoulavi Cheragh Ali Bombay: printed at the Education society's press Byculla.33 1883.Page xiv, xv (introduction 34 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام صفحہ 16-17 35 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم مقدمہ مولوی عبد الحق حصہ دوم مشتمل بر تصنیفات مذہبی صفحہ 39 36 - براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 302-303 37 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 590-592 6-8 38 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام مولوی چراغ علی جلد اول صفحہ 17 39 مضمون یورپ اور قرآن مصنفہ مولوی چراغ علی مشمولہ مجموعہ مضامین تہذیب الاخلاق صفحہ 106-107 6-9 page ixvii - ixix Published by Karimsons, Jamshed Road, 3 Karachi 5 Pakistan 41 - تحقيق الجهاد صفحہ 76-77 42 - صفحہ نمبر 6 اور 8 ایضاً 40 43 Muslim India in British Journals, Compiled by: K.K.Aziz iii Vol in I.Page: 246-247, Sangemeel Publications, Lahore, 2011 44 Muslim India in British Journals, Compiled by: K.K.Aziz iii Vol in I.Page: 246, Sangemeel
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 45.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 242-245 178 Publications, Lahore, 2011 46 - A.N.M.Wahidur Rahman, "The Religious Thoughts of Maulvi Chiragh Ali: Page:202, Jan 21,1982, Deptt.Institute of Islamic Studies (Unpublished) 47 - Canon Malcolm Maccoll "Are Reforms possible under Mussulman Rule?" Contemporary Review (Monthly) London U.K.Aug 1881, Page: 268 48- K.K Aziz, Muslim India in British Journals, Page: 2 (Introduction) Sangemeel Publications, 2011 49 - مولوی چراغ علی کی علمی خدمات صفحہ 58 شائع کردہ خدا بخش اور نٹیل پبلک لائبریری پٹنہ.انڈیا 50 - قرآن اور یورپ، تہذیب الاخلاق کے مضامین، جلد سوم ، صفحہ 106، 51 - تعليقات، مولوی چراغ علی صفحہ 76 52 - ایضا صفحہ 77 53 - مولوی چراغ علی کی علمی خدمات صفحہ 78.از ڈاکٹر منور حسین 54 - ایضاً صفحه 78 55 - تحقيق الجهاد صفحہ 76-77 56 - جامع صحیح مسند بخاری.ترجمہ و شرح سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ ضلع جھنگ صفحہ 105-1974ء 57 - صفحہ 229-230 تفسیر کبیر مصنفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب“ جز چہارم.6-10 58 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 287-288 حاشیه در حاشیہ نمبر 1 59 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 385 60 - تعليقات، مولوی چراغ علی صفحه 78 61 - دیباچہ تعلیم محمد ی پادری عمادالدین 62 - ایضا حاشیه در حاشیہ نمبر 3 صفحہ 393-395 63 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 426-431 حاشیه در حاشیہ نمبر 3 64 - الشوری: 41 65 - المائدة:4 66 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 431-439 حاشیه در حاشیہ نمبر 3
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 67 - براہین احمدیہ صفحہ نمبر 293-294 حاشیه در حاشیہ نمبر 2 68 - ایضاً صفحہ 295-298 حاشیه در حاشیہ نمبر 2 69 - ایضاً صفحہ 303 70 - براہین احمدیہ - حصہ سوم.- صفحہ 302-303 حح-2 71 - براہین احمدیہ - حصہ سوم..صفحہ 269-270 72 - ایضاً صفحہ 288 73 - ایضاً صفحہ 289-290 74 - مقدمہ تعلیم محمدی 75 - براہین احمدیہ.حصہ سوم.صفحہ 296-297 ح درح نمبر 1 76 - ایضا صفحہ نمبر 292 77 - براہین احمدیہ.حصہ سوم.صفحہ 300-302 ح در ح نمبر 2 78 - ايضاً صفحہ 298 79 - ایضاً صفحہ 299-300 80 - تعلیقات صفحہ 40 81 - تعلیقات صفحہ 40 82 - تعلیقات صفحہ 40 83 - تعلیقات صفحہ 46 84 - تعلیقات صفحہ 47 6-11 85 - تعلیقات صفحہ 46-47 86 - صفحه 47-48 87 - صفحه 49 88 - تعلیقات صفحہ 50 89 - تعلیقات صفحہ 57-58 90 - دیباچہ“ تعلیم محمدی“ پادری عماد الدین 91 - براہین احمدیہ.حصہ چہارم صفحہ 629-634 ح درح نمبر 11 92 - صفحہ 70 سر سید احمد خان اور اُن کے نامور رفقاء کی نشر ڈاکٹر سید عبد اللہ 1965ء مکتبہ کاروان 179
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام کچہری روڈ لاہور 93 - صفحہ 233 آئینہ کمالات اسلام، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی 1892ء 94 - صفحہ 256-257 “آئینہ کمالات اسلام “مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 95 - براہین احمدیہ حصہ چہارم.صفحہ 394-414 ح درح نمبر 11 96 - براہین احمدیہ حصہ سوم.صفحہ 305 حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 97 - تعلیقات صفحہ 49 98 - تعلیقات صفحہ 49 99 - خروج باب 3 آیت 4 تا 7 100 - متی باب 3 آیت 14 101 - تفسیر کبیر جلد نمبر 6 صفحہ 242-248 جز چہارم حصہ دوم 102 - براہین احمدیہ حصوسوم صفحہ 291.ح درح نمبر 1 103 - براہین احمدیہ حصوم سوم صفحہ 291-293 ح در ح نمبر 1 6-12 104 - مقدمہ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم صفحہ 24-25 ( مشتمل بر حالات مصنف حصہ اول) 105 - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 484-485 ح در ح نمبر 3 106 - تحقيق الجهاد صفحہ 124 107 الصف: 10 108 - براہین احمدیہ.جلد چہارم مقتبس صفحه 475-623 ح در ح نمبر 3 109 - اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام صفحہ 46-47 مولوی چراغ علی صاحب 110.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود نزول المسیح صفحہ 91-92 111.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود نزول المسیح صفحہ 91-92 http://en.wikipedia.org/wiki/Malcolm_MacColl-112 180 113.مذکورہ رسالے کا یہ شمارہ مشفقی پروفیسر نصیر حبیب صاحب (لندن) کے بہم پہنچانے پر راقم الحروف موصوف کا از حد شکر گزار ہے.جزاک اللہ احسن الجزاء
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام باب ہفتم : مصنف براہین احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا مقام 181 7-1- مامور من اللہ مصنف براہین احمدیہ کا مقام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا مرتبہ عام مصنفین کی ذیل میں نہیں رکھا جا سکتا.اور نہ آپ کی طرف اس قسم کی استمداد کو درست سمجھا جا سکتا ہے.کیونکہ آپ براہین احمدیہ میں ہی اپنے رابطہ ربانی کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ جس کے آپ مخاطب ہیں یعنی تجھ کو تیرے وقت کے عالموں پر فضیلت دی ہے.اس جگہ جانا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے یعنی جو شخص حضرت خاتم الانبیاء صلی للی نمک کی کامل طور پر متابعت کرتا ہے اس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اس کے تمام ہمعصروں سے برتر اور اعلیٰ ہے.” 1 حضرت مرزا صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ جو ان کے اپنے بارے میں ہے چونکہ اُس اترنے والے کے لئے یہ موقعہ نہ ملا کہ وہ کچھ روشنی زمین والوں سے حاصل کرتا یا کسی کی بیعت یا شاگردی سے فیضیاب ہو تا بلکہ اس نے جو کچھ پایا آسمان کے خدا سے پایا.اسی وجہ سے اس کے حق میں نبی معصوم کی پیشگوئی میں یہ الفاظ آئے کہ وہ آسمان سے اترے گا یعنی آسمان سے پائے گاز مین سے کچھ نہیں پائے گا.2 ان ہر دو اقتباسات سے یہ امر عیاں ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا ادعاء اپنے وقت کے جملہ عالموں پر نہ صرف فضیلت کا دعویٰ ہے بلکہ کسی زمینی شخص سے روشنی یا فیض نہ حاصل کرنے کا بھی دعویٰ ہے.اندریں صورت یہ امر لازم ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب نے خطوط کو درج کرنے کے بعد جن نتائج کا استخراج کیا ہے اسے تنقیدی نظر سے دیکھا جائے اور حضرت مرزا صاحب اپنے بارے میں جن امور کو درج کرتے ہیں ان کو جانچا جائے.بصورت دیگر مولوی عبد الحق صاحب کے مستخرجہ نتائج گو ان کی کیسی ہی بے تعصبی پر کیوں نہ مبنی ہوں وہ تاثر اس قسم کا دے رہے ہیں کہ جیسے مولوی چراغ علی صاحب کوئی ایک بہت بڑے مصنف ہیں اور ان کے ہم پلہ حضرت مر زاصاحب ہیں مگر موصوف جب مدد لیتے ہیں تو مولوی چراغ علی سے لیتے ہیں.حضرت مرزا صاب کی یہ تحریر ات جب منظر عام پر آئیں اس وقت مخالفت کا ایک طوفان برپا تھا مگر ایسا اعتراض کسی نے نہیں کیا جبکہ وہ لوگ بھی زندہ موجود تھے جن کے نام کے سہارے یہ موجب استخفاف امور منسوب کئے جارہے ہیں.ان تحریروں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ معترضین نے جیسے براہین احمدیہ کا سرے سے مطالعہ ہی نہ کیا ہو.7-2- حضرت مرزا صاحب اسلام کے فتح نصیب جرنیل حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیا گیا.3 مولانا آزاد کے اخبار وکیل ” کے دورِ ادارت کے بارے میں ڈا کٹر ابو سلمان صاحب لکھتے ہیں: وکیل میں رہ کر مولانا کا ذہن پوری طرح کھل چکا تھا اور وقت کے مسائل میں مولانا کے شعور نے پختگی حاصل کر لی تھی.4 اس کے بالمقابل سرسید اور مولوی چراغ علی صاحب کا اسلام کے دفاع میں انداز معذرت خواہانہ تھا اس صورت حال میں مدد کا افسانہ محض زیب داستان ہی کہا جا سکتا ہے.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام -7-3 - براہین احمدیہ کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی رائے 182 اہل علم و معرفت کے نزدیک براہین احمدیہ ” کی اور ہی شان ہے انہیں میں سے ایک بہت بڑے صاحب کشف و الہام مصنف (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) تحریر کرتے ہیں کہ “براہین احمد یہ خاص فیضان الہی کے ماتحت لکھی گئی اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے.5 یہاں بے جانہ ہو گا کہ مصنف مذکور کا اس قضیے کے بارے میں ایک مختصر مگر بھر پور اور اصولی تبصرہ اندراج پا جائے.آپ اپنی ایک سلسلہ وار تقریر میں بیان فرماتے ہیں :.“ آج کل تو “ زمیندار ” اور “احسان وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے.جب تک ان کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہو گئی.گو یہ سمجھ میں نہیں آتا که مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہو گیا کہ انہیں جو اچھا نکتہ سوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (اس سے یہاں مراد جناب مرزا غلام احمد قادیانی صاحب ہیں.ناقل ) کو لکھ کر بھیج دیتے اور ادھر ادھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے.آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنف ہیں براہین احمدیہ " کے مقابلہ میں ان کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے.جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی.پس اول تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے تو عمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے.جیسے ذوق کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے.مگر دیوان ذوق اور دیوانِ ظفر آج کل دونوں پائے جاتے ہیں.انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے.وہ ظفر کے کلام میں نہیں.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے.اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے.حالانکہ ظفر بادشاہ تھا.غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ معرفت کے عمدہ عمدہ نکلتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھ کر بھیجے.مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں بھی.انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے.انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سوسال میں کسی مسلمان کو نہیں سو مجھے.اور ان معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کتابوں میں نہیں.یا یہاں پر بائبل کی بجائے مستشرقین کے حوالے مراد ہیں.بقول مجی محمد رضا بسمل (کراچی) خلف الرشید فردوسی دوراں حضرت حکیم عبید اللہ بسمل ایسے لگتا ہے کہ اس دور میں عیساءیوں کے اعتراضات کو بائبل کے حوالے سے ہی کہا جاتا تھا اور پادریوں وغیرہ کو ابھی مستشرقین کہنا شروع نہیں کیا گیا تھا اس لئے حضرت صاحبزادہ صاحب نے بائبل کے حوالے سے لکھا ہے.جن سے مراد پادریوں کے اعتراضات ہیں.جو مولوی چراغ علی صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہیں جن سے وہ اپنی باتوں کی جا و بے جاسند ڈھونڈتے ہیں اس کی طرف موج کوثر " کے مصنف شیخ محمد اکرام اس کتاب کے نویں ایڈیشن (1970) میں صفحہ 166 مطبوعہ فیروز سنز لاہور میں لکھتے ہیں:
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 183 “ہندوستان میں بیٹھ کر مولوی صاحب کو مغربی لٹریچر اور مغربی رسائل پر اتنا عبور کس طرح حاصل ہو گیا.انہوں نے اپنے دعوے کی تائید میں غالباً کوئی مفید بات نہیں چھوڑی." راقم الحروف کے خیال میں مولوی چراغ علی صاحب نے اپنا کوئی موقف بنایا ہی نہیں بلکہ متن میں مغربی مصنفین کے حوالے دے کر یا حاشیے میں حوالے دے کر اُن کے ہی خیالات کو اسلام پر تھوپ دیا ہے.جس پر اس مضمون میں بھی بحث کی گئی ہے.علاوہ ازیں "مولوی چراغ علی " مغرب سے شدید متاثر تھے اور اسلام کی تمام تعلیمات کو مغربی تناظر میں مغرب کی منشاء کے مطابق ڈھالنے کا عزم صمیم رکھتے تھے." -7-4- مقالہ نگار تاریخ ادبیات پنجاب یونیورسٹی لاہور اور مولوی ابوالحسن ندوی کی آراء ایک مبصر لکھتے ہیں کہ بظاہر یہ کتاب عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کے مقابلے میں ایک کامیاب کوشش معلوم ہوتی ہے لیکن بقول ابو الحسن ندوی اس ضخیم دفتر میں کوئی نادر علمی تحقیقی اور مسیحیت کے ماخذ اور اس کی قدیم کتابوں اور اس کے اسرار و حقائق سے اس طرح واقفیت نہیں نظر آتی جو " اظہار الحق ازالۃ الاوہام " کے مصنف رحمت اللہ کیرانوی یا مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ہاں موجود ہے.بہر حال اس کتاب کی اشاعت نے مرزا صاحب کو دفعتاً قادیان کے گوشتہ گمنامی سے نکال کر شہرت کے منظر عام پر کھڑا کر دیا.8 موصوف کا کسی دوسرے مصنف سے اخذ کردہ یہ بیان اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ موصوف نے جتنی آگہی براہین احمدیہ ” کے مضامین سے حاصل کی ہے اس کے مطابق براہین احمدیہ ایک کامیاب کوشش ہے جو مرزا صاحب کو گوشہ گمنامی سے نکال کر شہرت کے منظر عام پر لاتی ہے.مگر اپنی بات پر نہ معلوم انہیں بھر وسہ کیوں نہیں ہے.اس کو دوسر ارنگ دینے کے لئے سند لاتے ہیں تو ابو الحسن ندوی سے اور موصوف ایسی بات کو اٹھاتے ہیں جس کا براہین احمدیہ کے دائرہ کار سے براہ راست کوئی تعلق نہیں مثلاً مسیحیت کے مآخذ اور اس کے قدیم مآخذ سے واقفیت بلکہ براہین احمدیہ تو قرآن مجید کا کلام الہی اور مکمل کتاب اور بے نظیر ہونا اور آنحضرت صلی للی کم کا اپنے دعویٰ نبوت ورسالت میں صادق ہونا ہے جبکہ ایک بات کتاب سے لا تعلق ہے اس کا مطالبہ بھی اس سے کر کے اُسے پایہ اسناد سے گرا کر رحمت اللہ کیرانوی ایسے مصنف کو مقابلے پر لاتے ہیں.(مولوی رحمت اللہ کیرانوی مرحوم کے بارے میں ایک الگ مضمون میں اندراج کیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.موصوف مولوی رحمت اللہ کیرانوی مرحوم حیات مسیح کے قائل تھے اور مسیح و مہدی کی آمد ثانی کے قائل تھے.ملاحظہ ہو آپ کی کتاب “ اظہار الحق ” وغیرہ جبکہ حضرت مرزا صاحب کو خود دعوی مسیحیت و مهدویت تھا) مولوی ابو الحسن ندوی صاحب تو مسیحیت کے قدیم ماخذ کی بھول بھلیوں میں گم ہیں کیا حضرت مسیح علیہ السلام سے بڑھ کر بھی کوئی اور مآخذ ہو سکتا ہے.جن کے بارے میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی تحریر کرتے ہیں.اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے.گویا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے.مولوی ابو الحسن ندوی صاحب کو جو عناد حضرت مرزا صاحب سے ہے اس کا جابجاذ کر کرتے ہیں.موصوف براہین احمدیہ کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ملک کے دوسرے اہل علم اور اہل نظر حضرات اور مصنفین سے ہی کتاب کے موضوع کے سلسلہ میں خط و کتابت کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے خیالات اور مضامین بھیجیں جن سے اس کتاب کی تصنیف میں مدد لی جائے.جن لوگوں نے ان کی اس دعوت کو قبول کیا ان میں مولوی چراغ علی صاحب بھی تھے.جو سرسید کی بزم علمی کے ایک اہم رکن تھے.مرزا
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام صاحب نے ان کے مضامین و تحقیقات کو بھی شامل کتاب کیا.10 184 اگر چہ یہ دعوی بلا دلیل ہے مگر مولوی ابو الحسن ندوی صاحب کی اس تحریر کو اگر درست سمجھا جائے کہ حضرت مرزا صاحب نے مولوی چراغ علی کے مضامین و تحقیقات کو بھی شامل کیا تو ابو الحسن صاحب ندوی کے حوالے سے لکھی گئی پہلی تحریر کا بطلان ہو جاتا ہے.ندوی صاحب تو جناب مرزا صاحب کی تحریر کی شان کو تو گرانا چاہتے ہیں مگر مولوی چراغ علی صاحب کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس طرح تو مولوی ندوی صاحب اپنی باتوں میں تناقض کا شکار ہو جاتے ہیں.چلئے کہیں تو کوئی تقابلی مقابلہ ہی درج کر دیا ہو تا کہ لو صاحب ! یہ وہ مقام ہے جس سے مدد لینا ثابت ہے جو مولوی چراغ علی کا اسلوب ہے اور ان کی فلاں کتاب میں درج ہے.مگر ایسا آج تک کسی کو ثابت کرنے کی توفیق ہی نہیں ملی مگر مولوی ابو الحسن ندوی صاحب نے اس کا دائرہ صرف مولوی چراغ علی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ بہت سے اہل علم حضرات و مصنفین کو بھی شریک کر دیا مگر کہیں بھی کوئی ثبوت نہیں دیا.یہ فقط الزام تراشی ہے جو بلادلیل ہے ! 7-5 - براہین احمدیہ میں مندرجہ وحی و الہام اور " تاریخ ادب اردو ” مصنفہ ڈاکٹر جمیل جالبی “ یہ دلچسپ بات ہے کہ مہدوی عقیدے کے پیروکاروں نے کم و بیش سارے بر عظیم میں خواہ وہ راجستھان میں دائرہ کے مہدوی ” ہوں یا گجرات، دکن، کرناٹک اور مدر اس کے مہدوی ہوں.اردو زبان ہی کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے.یہی عمل بیسویں صدی کے نئے مذہبی فرقے احمدی (قادیانی) کے ہاں بھی ملتا ہے.جس کے بانی پر وحی اردو زبان میں نازل ہوتی تھی 11 جمیل جالبی صاحب کی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے بارے میں یہ بات درست تو ہے مگر ادھوری آپ کو وحی و الہام صرف اردو میں ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ فارسی، عربی اور انگریزی میں بھی ہوتے تھے.یہاں تک کہ چند ایک الہامات ایسے بھی آپ کی کتب میں مرقوم ہیں جو ان زبانوں کے الفاظ ہی نہیں بلکہ خود مرزا صاحب نے لکھ دیا کہ اس الہام کی سمجھ نہیں لگی.مثلاً اردو الہام “بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 12 فارسی الهام بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد انگریزی الہام آئی شیل گویو اے لارج پارٹی آف اسلام 14 اس کے علاوہ عبرانی الہام بھی ہیں مثلاً “ ایلی ایلی لما سبقتانی 15 اس الہامی حصہ کے اندراج کا صرف یہ مقصد ہے جو کہ جمیل جالبی صاحب کے تاریخ اردو کے حوالہ سے درج کیا گیا ہے کہ جناب مرزا صاحب نے یہ کتاب فیضانِ الہی کے ماتحت لکھی بلکہ جہاں آپ کو فیضانِ الہی کی فوری سمجھ نہ لگ سکی اسکے بارے میں لکھ دیا کہ اس کے معنے سمجھ نہیں آئے مثلاً اپنے موعود بیٹے کی پیدائش کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں....“ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم ہو گا اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گاوہ تین کو چار کرنے والا ہو گا اس کے بعد لکھا کہ اس کے معنے سمجھ نہیں آئے.یہ ہینڈ رائٹنگ سائنس کی روشنی میں فطرتی طور پر اصل یعنی Genuine ہونے کی زبر دست دلیل ہے اور بناوٹ کے اصول کے خلاف ہے اس سے قدرتی طور پر نتیجہ نکلتا ہے کہ اس پیشگوئی کے الفاظ الہامی طور پر جس حالت میں خدائے تعالیٰ نے بتائے عین اُسی حالت میں تحریر ہوئے اور صداقت اور سچائی کا یہ ایک ثبوت ہے.16 7-6- براہین احمدیہ : حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی کی تصدیق براہین احمدیہ پیرا 1-5 میں مذکور کتابوں کے جواب میں حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے تصدیق براہین احمدیہ جلد اول اور دوم لکھیں.مصنف مذکور کے بارے میں اوپر ذکر آچکا ہے کہ کچھ لوگوں نے آپ کے بارے میں یہاں تک لکھ دیا کہ آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف میں مدد دی تھی.جو اور جھوٹ کی طرح ایک خود تراشیدہ افسانہ ہے وگرنہ حقیقت سے اس کا دور کا تعلق بھی نہیں
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 185 ہے.اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے ایک اور مرید مولوی ابور حمت حسن نے مطبع المطابع شہر میرٹھ سے تکذیب براہین احمدیہ کے رد میں دو کتابیں لکھیں جن کے نام ہیں.کرد تکذیب براہین احمدیہ عرف دید و قرآن کا مقابلہ ” اور تہذیب الکذبین جو 1900ء اور 1895ء میں چھپیں.کتب مذکورہ کے مضامین کے مقابلہ و موازنہ کا یہ موقعہ نہیں.بہر کیف براہین احمدیہ کی تصنیف سے متعلق ہونے کی وجہ سے بطور ریکارڈ لکھ دیا گیا ہے.7-7- تحریرات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب: آراء سید وقار عظیم ، اور مولانا ابو الکلام آزاد حضرت مرزا صاحب کی تحریرات مندرجہ “کشتی نوح ” سے متاثر ہو کر اردو ادب کے ایک بہت بڑے نقاد جناب و قار عظیم نے ایک روز کلاس روم میں کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر کسی ہم عصر سے کم نہیں لیکن ہم تعصب کی وجہ سے اس کو نظر انداز کرتے ہیں.وہ وقت قریب ہے کہ ادب میں سے تعصب نکال کر ادبی تصنیفات کا جائزہ لیا جائے گا.17 مولانا ابوالکلام آزاد، حضرت مرزا صاحب سے اس قدر متاثر تھے کہ آپ کی وفات پر لاہور سے بٹالہ تک آپ کے جنازہ کے ساتھ احتراما ساتھ آئے.اور آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیتے تھے.7-8- قبول احمدیت اور اہالیان حیدر آباد دکن ( فرودگاه مولوی چراغ علی صاحب) به ثبوت صداقت براہین احمدیہ یہ کتاب یقینا مولوی چراغ علی کے پاس حیدر آباد دکن بھی بحیثیت مالی معاون ( اور اس کا براہین احمدیہ میں اندراج بھی ہے.جس کا اوپر ذکر آچکا ہے) پہنچی ہو گی کیونکہ آپ اس کے خریداروں میں سے تھے اور حیدر آباد دکن کے لوگوں میں سے آپ کے ابتدائی قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعد د شامل تھی.مثلاً حضرت مولوی ابو الحمید صاحب جو حیدر آباد کی ہائی کورٹ کے وکیل تھے اور سرکار حیدر آباد کے وظیفہ یاب بھی تھے.آپ کے پاس جب براہین احمدیہ کی اشاعت کا اشتہار پہنچا تو آپ کو اور آپ کے دوستوں میں تحریک پید اہوئی کہ اس کتاب کو شائع کرنا چاہئے.مرزا صادق علی بیگ صاحب استاد ملازم نواب سر و قار الامراء بہادر مدار المهام سر کار عالی ریاست حیدر آباد نے براہین احمدیہ کی اشاعت کا تذکرہ نواب صاحب سے کیا.نواب صاحب نے براہین احمدیہ کی اشاعت کے لئے ایک سو روپیہ دیا تھا.(براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ ۳ پر پانچویں نمبر پر عالی مراتب خریداروں میں ایک نام جناب نواب مکرم الدولہ بہادر حیدر آباد کا بھی ہے ) جب براہین احمدیہ چھپ کر آئی تو اس کے پڑھنے سے آپ بے حد متاثر ہوئے.اس کے بعد “ فتح اسلام اور توضیح مرام ” پڑھی تو آپ کے احباب میں سے مولوی مردان علی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ( مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ) کو لکھا کہ میں نے اپنی عمر کے پانچ سال کاٹ کر آپ کے نام لگا دیئے اور مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی غضنفر علی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مالی معاونت کی.حضرت منشی نصیر الدین صاحب لونی.آپ ریاست حیدر آباد کے ریونیو بورڈ کے پیشکار تھے (اس ریاست میں مولوی چراغ علی فنانشل سیکرٹری حیدر آباد دکن تھے) مولوی صفدر حسین صاحب ریاست حیدر آباد دکن میں مہتم تعمیرات تھے.جب حیدر آباد دکن کے افسر امور مذہبی امور مولوی انوار اللہ خان صاحب نے حضرت مرزا صاحب کی کتاب “ ازالہ اوہام ” کے بارے میں ایک کتاب “ انوار الحق " لکھی تو مولوی صفدر حسین صاحب نے اس پر تنقیدی نظر ڈالی وغیرہ وغیرہ 18
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 186 مولوی صفدر حسین صاحب کے حالات میں حضرت مرزا صاحب کی ایک کتاب پر حیدر آباد دکن کے افسر امور مذہبی کی کتاب کا بھی ذکر ہے تو یہ ایک اچھا موقع تھا کہ مولوی عبدالحق صاحب کے اعتراض کو اٹھایا جاتا اور مولوی چراغ علی کے نام خطوط کو بطور ثبوت پیش کیا جاتا لیکن کوئی صاحب ثبوت کے ساتھ یہ اعتراض پیش نہ کر سکے.اول تو یہ بات سرے سے موجود ہی نہ تھی اور اگر کوئی شائبہ بھی گزر تا تو یہ صاحبان اس موقعہ کو خالی نہ جانے دیتے.لیکن مولوی عبد الحق صاحب نے اسے بعد میں خواہ مخواہ تھوپنے کی ناکام کوشش کی ہے.لیکن مولوی چراغ علی یا کسی دیگر شخص نے اس قسم کے الزامات آپ کے بارے میں نہیں لگائے تھے.اور نہ ہی مولوی چراغ علی نے کسی سے کسی قسم کی براہین احمدیہ کی تصنیف میں مدد کا ذکر کیا جبکہ مولوی چراغ علی اس کتاب کی حصہ اول تا چہارم اشاعت 1880ء- 1884ء کے بعد 1895 ء تک پندرہ سال تک زندہ رہے.اور اُن (مولوی چراغ علی ) کے پاس حضرت مرزا صاحب کا وہ خط بھی موجود تھا جس میں آپ نے مولوی چراغ علی کو لکھا تھا کہ “سو میرا ارادہ ہے کہ اس تحقیقات اور آپ کے مضمون کو بطور حاشیہ کتاب کے اندر درج کر دوں گا.واضح رہے کہ براہین احمدیہ ہر چہار حصص کے گیارہ حاشیے ہیں.مولوی چراغ علی کو کونسی مشکل در پیش تھی کہ موصوف نے حضرت مرزا صاحب کے ان گیارہ حاشیوں میں سے اپنے بھجوائے گئے مضمون کی نشاند ہی نہ کی ! جبکہ ایک ایسا موقعہ پیدا بھی ہو ا جب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے والے حیدر آباد دکن کی ہائی کورٹ کے ایک وکیل مولوی سید محمد رضوی صاحب نے جو نظام حیدر آباد د کی پھوپھی صاحبہ کی جائیداد کے منصرم تھے..حضور نظام کی پھوپھی زاد ہمشیرہ نے اپنی والدہ کی تحریک پر سید رضوی صاحب سے نکاح کر لیا.جب حضور نظام کو اس کا علم ہوا.تو انہوں نے اس کو سخت نا پسند کیا اور نواب سید رضوی صاحب کو حیدر آباد سے نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ سید رضوی صاحب بمبئی چلے آئے...اور پریوی کو نسل (لندن) میں مقدمہ دائر کر کے رضوی صاحب کی بیوی کو اس کی والدہ کی جائیداد اور ملکیت کاورثہ دلانے کا دعویٰ کیا گیا...20 اس موقعہ پر مولوی چراغ علی / چراغ علی کی اولاد / حضور نظام کے دیگر کارندے حضرت مرزا صاحب کے مذکورہ بالا خط کو سامنے لا کر اور اُن مقامات کی نشان دہی کر کے اس موقعہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے جو اگرچہ از روئے شرع کوئی ایسی بات نہ تھی لیکن حضور نظام کی ناپسندیدگی کی وجہ سے حضور نظام کی حمایت کا ایک موقعہ تھا.لیکن کوئی بھی سامنے نہ آسکا اس کی وجہ ثبوت کی عدم دستیابی ہی ہو سکتی ہے وگرنہ حضور نظام کی خوشنودی کے لئے ان لوگوں کے لئے ایک بہت عمدہ موقعہ میسر تھا.اور بعد میں آنے والوں نے لکھی پر مکھی مارتے ہوئے بلا سوچے سمجھے اُس غلط اور بے بنیاد بات کو دو ہر ادیا جو اُن کی بھی دیانت وصیانت پر ایک داغ ہے.دراصل بات صرف مالی معاونت کی ہے جس کا ذکر اس مضمون میں پہلے بھی کیا جا چکا ہے.مولوی چراغ علی کے علاوہ بھی بہت سے مالی معاونین تھے.تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم السطور کا مضمون “ تذکرہ براہین احمدیہ کے مالی معاونین کا ” مطبوعہ ماہ نامہ “ انصار اللہ ”ربوہ، فروری 1998ء.ان ہی مالی معاونین کی بابت حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں فرمایا کہ : “ جب تک صفحہ روز گار میں نقش افادہ اور افاضہ اس کتاب کا باقی رہے گا ہر یک مستفیض کہ جس کا اس کتاب سے وقت خوش ہو مجھ کو اور میرے معاونین کو دعائے خیر سے یاد کرے." محولہ بالا مضمون براہین کے مالی معاونین کے سلسلے میں راقم السطور کا ایک اور خصوصی مضمون ملاحظہ ہو “ براہین احمدیہ اور نواب صدیق حسن خان ” مطبوعہ ہفت روزہ “سیر روحانی ”جولائی اگست 2000ء اور ماہ نامہ “خالد ”ربوہ ستمبر 2000ء.
187 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 7-9- حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود اور ترکی حکومت مولوی چراغ علی صاحب نے اپنی کتاب "The Proposed political, legal and social Roforms, in the ottoman Empire and other Mohammadan States" کا اردو ترجمہ “ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ” پروپوزڈ پولیٹکل، لیگل اینڈ سوشل ریفارمز انڈر مسلم رول ” کیا.جبکہ مولوی عبد الحق صاحب نے اس کتاب کے مقدمے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ “ ایک ایسے عالم شخص کے قلم سے ایسے مضامین کا نکلنا ایک تعجب خیز امر ہے.خاص کر دولت عثمانیہ کے خلاف پادری صاحب نے بہت کچھ زہر اگلا ہے اور وہ ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ اس کا وجو د یورپ میں باقی رہے.21 اور اصلاحات کے لفظ سے...مولوی صاحب مرحوم کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ اسلام ترقی اور اصلاح کا مانع نہیں ہے اور خلیفہ وقت بلحاظ اقتضائے زمانہ پولیٹکل ور سوشل امور میں جدید اصلاحات کے جاری کرنے کا مجاز ہے 22.وہ کون سے ذرائع ہیں جو ان کی ترقی کا باعث ہو سکتے ہیں اس کتاب کے موضوع اور مولوی صاحب کے مقصد سے خارج ہے.23 لیکن عنوان میں مجوزہ اصلاحات Proposed Reforms کاوعدہ کیا گیا ہے لیکن مولوی عبد الحق صاحب بجائے اس کا ذکر کرنے کے اُلٹا اسے چراغ علی صاحب کے مقصد سے خارج قرار دیتے ہیں !؟ ” “.اور مصنف کی رائے میں یہ حق اجتہاد سلطان روم کو بہ حیثیت خلیفہ حاصل ہے.بہ حیثیت خلیفہ کے سلطان روم کسی مذہب فقہ کے مقلد نہیں ہیں.خلفائے راشدین ان مذاہب فقہ سے پہلے گزرے ہیں اور بعد کے خلفاء زمانے میں مختلف ممالک اسلامیہ میں مختلف فقہی تغیر و تبدل ہوتے رہے ہیں اور اس لیے سلطان روم بہ حیثیت خلیفہ کے موجودہ ضروریات و حالات کے مطابق ضروری تبدیلیاں کر سکتے ہیں.اور غالباً اسی خیال کی بنا پر مصنف نے اپنی کتاب کو سلطان عبد الحمید خان کے نام سے معنون کیا تھا." 24 لیکن مولوی عبد الحق صاحب نے یہ انتساب ترجمے میں درج نہیں کیا! یہ ترجمہ انگریزی عبارت کے لحاظ سے سلطنت ترکی اور دیگر مسلمان ریاستوں میں مجوزہ سیاسی، قانونی اور معاشرتی اصلاحات بنتا ہے.نا معلوم اس ترجمے میں کس بات کی پردہ داری کی گئی ہے اور ترکی سلطنت کے الفاظ کو حذف کر دیا گیا ہے !؟ جبکہ اس کا انتساب انگریزی متن میں جو اصل کتاب ہے اس طرح درج کیا گیا ہے: Dedicated to His Imperial Majesty The Sultan-us-Salatin; and Khaqan-ul- Khawaqin; Malih-ul-Bahrain; and Baki-ul-Barrain; Imam-ul-Muslimeen; and Ameer-ul-Mumineen; Khalifa and Sultan Abu-ul-Hameed Khan; The sultan of Turchey and its dependencies.لیکن اس انتساب کو بھی اُردو ترجمے کا حصہ نہیں بنایا گیا! یہ بات تو واضح ہے مولوی چراغ علی صاحب سلطنت ترکی سے حد درجہ وابستگی کا اظہار کرتے ہیں.لیکن ترکی سلطنت کے متعلق حضرت مرزا صاحب کے کیا خیالات تھے اُن کے بارے میں بھی چند سطور لکھی جاتی ہیں تا کہ اس پہلو سے بھی حضرت مرزا صاحب اور مولوی چراغ علی صاحب کے خیالات کا مقابلہ ہو سکے.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 188 پہلے ہم صرف عناوین کی حد تک زیر نظر کتاب میں سے مولوی چراغ علی صاحب کے تحریر کردہ ترکی حکومت سے متعلق امور پر نظر ڈالتے ہیں.مثلاً نمبر فقره 24 مجلا ” یا ٹرکش سول کوڈ مجریہ 1197ھ صفحہ نمبر 66 ٹر کی عدالتوں میں مسئلہ شہادت غیر مسلم کی بحث صفحہ 67 25 29 30 33 34 35 36 37 38 39 49 50 54 55 22 66 67 68 70 74 78 81 گر جامیں گھنٹے بجانے کی ممانعت صفحہ 74 فقہ اسلامی اور گر جاؤں کی تعمیر صفحہ 76 تنقیح احادیث درباره گر جا صفحه 77 قرآن میں گر جاؤں کی تعمیر کے خلاف کوئی حکم نہیں صفحہ 79 عیسائی عہدوں سے بھی محروم نہیں رکھے گئے صفحہ 79 ترکوں کی قابل تقلید مسامحت صفحہ 80 تر کی مسامحت کی چند مثالیں صفحہ 81 ترکی ترقی پذیر تہذیب و شائستگی صفحہ 82 یورپ میں روس کے مقابلہ میں ترک زیادہ پسند کیے جاتے ہیں صفحہ 84 گور نمنٹ ٹرکی کی مذہبی آزادی پر سائرس ہملن کی رائے صفحہ 94 ٹر کی سلاطین نے سزائے ارتداد کو موقوف کر دیا صفحہ 95 وہ قلیل ٹکس جو عیسائی رعایا ٹر کی سلطنت کو دیتی ہے صفحہ 101 فوجی خدمت سے عیسائیوں کا مستثنا ( کذا.مستثنیٰ ) ہونا اور اس سے گورنمنٹ لڑکی کو نقصانات صفحہ 101 پروفیسر پور ٹر کی رائے ترکی مسالمت پر صفحہ 123 چارلس ولیمس کی رائے ترکی مسالمت پر صفحہ 127 پروفیسر جیمز کی رائے ارض روم کے قبضہ کے متعلق صفحہ 127 ترکی میں غیر ملکی مداخلت صفحہ 129 آرمینی ترکی کو روس پر ترجیح دیتے ہیں صفحہ 132 ترکوں اور آرمینیوں میں منافرت صفحہ 137 ترکی میں غیر مسلم رعایا کے حقوق کی غیر مساوات بذریعہ فرامین موقوف کر دی گئی ہے صفحہ 161 وغیرہ وغیرہ ان امور کی افادیت سے انکار نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو ترکی سلطنت کے متعلق کچھ اور ہی منظور تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود و مہدی آخر الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنی ایک کتاب 1892ء میں درج فرماتے ہیں:
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 189 “ اور حدیثوں کی رُو سے بھی ثابت ہو تا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت ترکی سلطنت کچھ ضعیف ہو جائے گی اور عرب کے بعض حصوں میں نئی سلطنت کے لیے کچھ تدبیریں کرتے ہونگے اور ترکی سلطنت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوں گے.سو یہ علامات مہدی موعود اور مسیح موعود کی ہیں جس نے سوچنا ہو سوچے."25 نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی بعض احادیث سے استنباط کر کے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی نے جو پیشگوئی بیان فرمائی تھی اس کا ظہور بھی بفضل خد احرف بحرف پورا ہو گیا ہے.جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.اس بارے میں حضرت مولوی شیر علی صاحب بی.اے مترجم قرآن شریف به زبان انگریزی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: “یہ 1892ء کا واقعہ ہے کہ آپ نے اس پیشگوئی کو شائع فرمایا.اور موجودہ جنگ کے دوران اس کی صداقت پایہ ثبوت کو پہنچ گئی.اس طرح کہ سر زمین حجاز میں حکمت الہی سے نئی حکومت قائم ہو گئی.مکہ معظمہ اس کا دارالخلافہ قرار پایا اور شریف مکہ اس جدید سلطنت کا تاجدار "26 وہ پیشگوئیاں جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ترکی سلطنت کے متعلق فرمائیں اور جو پوری بھی ہو چکی ہیں.چنانچہ از انجملہ آپ نے حسب ذیل پیشگوئی 4 جنوری 1904ء کو شائع کی تھی جو ریویو آف ریلیجنز جنوری 1904 نیز اخبار الحکم و بدر میں چھپی تھی: غُلِبَتِ الرُّوْهُ فِي آذَنِّي الْأَرْضِ وَ هُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيُغْلَبُوْنَ “.ترجمہ : رومی سلطنت والے ایک قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو جائیں گے مگر اپنی شکست کے بعد جلد ہی غالب آجائینگے.اسی کے ٹھیک چار سال بعد احمد علیہ السلام نے ایک اور پیشگوئی بتاریخ 2 جنوری 1908ء شائع فرمائی جو حسب ذیل تھی: وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيُغْلَبُونَ ترجمہ : اور وہ غلبہ پانے کے بعد جلد ہی مغلوب ہو جائیں گے.یہ پیشگوئی نہایت صفائی کے ساتھ لفظ بلفظ پوری ہو گئی ہے.اس کا پہلا حصہ تو جنگ بلقان میں پورا ہوا جبکہ ترکوں کو تھر میں میں ٹھیک ٹھیک الفاظ پیشگوئی کے مطابق بلغاریوں کے ہاتھ سے شکست فاش پہنچی.تھریس کی سر زمین ترکی دارالخلافہ کے قریب ہی واقع ہے اور یہی پیشگوئی میں مذکور تھا کہ وہ (ترک) ادنی الارض ” میں مغلوب ہو جائیں گے.اب پہلی پیشگوئی کا دوسرا حصہ پورا ہونا ہنوز باقی تھا یعنی یہ کہ “لیکن اپنی شکست کے بعد پھر جلدی ہی انہیں غلبہ بھی حاصل ہو جائے گا.” وہ اس طرح پورا ہو گیا کہ جولائی 1913ء میں ترک اڈریا نوپل اور بعض دیگر مقامات پر از سر نو قابض ہو گئے.دوسری پیشگوئی: دسمبر 1915ء میں دول متحدہ کی افواج گیلی پولی سے واپس ہوئیں پھر آخر اپریل کوت کی قلعہ نشین سپاہ نے ترکوں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے.یہ وہ واقعات ہیں جن کی شکل میں دوسری پیشگوئی کا حصہ اول پورا ہوا.جو ترکوں کی فتح پر مشتمل تھا.اس دوسرے حصہ میں جن واقعات کی قبل از ظہور خبر دی گئی تھی وہ کس طرح وقوع میں آئے اور پیشگوئی کی سچائی کا ثبوت ہوئے.اول تو مارچ 1917 میں تسخیر بغداد نے پیشگوئی کے اس حصہ کو نہایت وضاحت سے پورا کیا.پھر دسمبر 1917ء میں بیت المقدس کی تسخیر نے.گویا جیسا ترکوں کو دو نعمتیں اور کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں اسی طرح ضروری تھا کہ ان کو شکستیں بھی دو نصیب ہوں تا کہ یشگوئی بالکل صفائی سے پوری ہو.(2)
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 190 مئی 1897ء میں حسین کامی نام ایک ترکی سفیر حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود سے شرف ملاقات حاصل کرنے قادیان آیا.آپ نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور سفیر مذکور کو ان مصائب و آفات سے مطلع و متنبہ فرمایا جو گورنمنٹ لڑکی کے واسطے مقدر تھیں.آپ نے حسین کامی کو بتلایا کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہو ا ہے کہ سلطان روم کے ارکان سلطنت کی حالت اچھی نہیں اور موجودہ حالات میں انجام اچھا نہیں ہو سکتا.حضرت کی اس صاف گوئی سے سفیر مذکور چڑ گیا اور ایسا بگڑا کہ قادیان سے لوٹ کر لاہور کے ایک اخبار میں اس نے ایک مضمون آپ کے خلاف چھپوایا جس میں حضرت مسیح موعود کے خلاف بد گوئی اور دل آزار کلمات سے خوب ہی دل کا بخار نکالا تھا.اس پر حضرت اقدس نے ایک اشتہار شائع فرمایا.اس کے چند مقامات کا اقتباس یہاں بے محل نہ ہو گا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: “ اس ترکی سفیر کے سامنے جو قادیان آیا تھا.میں نے کئی اشارات سے اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا سچی تقویٰ اور طہارت اور نوع انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالتِ موجودہ بربادی کو چاہتی ہے.تو بہ کرو تانیک پھل پاؤ.مگر میں اُس کے دل کی طرف خیال کر رہا تھا کہ وہ ان باتوں کو بہت ہی بر امانتا تھا.اور یہ ایک صریح دلیل اس بات پر ہے کہ روم کے اچھے دن نہیں ہیں اور پھر اس کا بد گوئی کے ساتھ واپس جانا یہ اور دلیل ہے کہ زوال کے علامات موجود ہیں.میں نے یہ بھی اُس کو کہا کہ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ.اور میں خیال کر تا تھا کہ یہ تمام باتیں تیر کی طرح اس کو لگتی تھیں اور میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ خدا نے الہام کے ذریعہ فرمایا تھا وہی کہا تھا." اسی اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام الہی کی بنا پر اپنے کچھ خیالات ظاہر فرمائے تھے جو حسب ذیل ہیں: “سلطان روم کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں." ایک اور مقام پر حضرت اقدس فرماتے ہیں: “بادشاہ اور خلیفہ المسلمین اور امیر المومنین کہلا کر بھی خدا کی طرف سے بے پروائی اچھی بات نہیں.مخلوق سے اتناڈر نا کہ گویا خدا کو قادر ہی نہیں سمجھنا.یہ اک قسم کی سخت کمزوری ہے لوگ کہتے ہیں کہ وہ حافظ الحرمین ہے مگر ہم کہتے ہیں: حرمین اس کی حافظ ہے حرمین کی برکت اور طفیل سے اب تک وہ بچا ہوا ہے.جو مذ ہبی آزادی اس ملک میں ہمیں نصیب ہے ، وہ مسلمان ممالک میں خود مسلمانوں کو بھی نصیب نہیں." یہ امر قابل غور ہے کہ جب سے مکہ معظمہ ترکوں کے ہاتھ سے نکلا ہے تب ہی سے ان کا زوال شروع ہوا ہے.جس کا ایک عبرت خیز نتیجہ تو یہی دیکھ لیجئے کہ وہ بغد اد اور یروشلم جیسے اہم مقامات بھی کھو بیٹھے ہیں.پھر آپ نے ( یعنی حضرت مرزا صاحب مسیح موعود) اپنی کتاب الهدی مطبوعہ 1902ء کے صفحہ 29 پر تحریر فرمایا کہ :
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام ترجمہ عربی عبارت: اور جو خدمت اُن کے سپرد ہوئی تھی اس کا کوئی حق ادا نہیں کیا.کیا تم دعویٰ کرتے ہو کہ وہ اسلام کے خلیفے ہیں.ایسا نہیں بلکہ وہ زمین کی طرف جھک گئے ہیں اور پوری تقویٰ سے انہیں کہاں حصہ ملا ہے.اس لئے ہر ایک سے جو اُن کی مخالفت کیلئے اُٹھ کھڑا ہو شکست کھاتے ہیں اور باوجو د کثرت لشکروں اور دولت اور شوکت کے بھاگ نکلتے ہیں.اور یہ سب اثر اسی لعنت کا جو آسمان سے ان پر برستی ہے." آگے چل کر ان کے بُرے حال اور بد انجام کی نسبت فرماتے ہیں کہ : ترجمہ عربی عبارت: اور ایسی خیانت اور گمراہی کے ہوتے انہیں کیونکر خدا سے مد د ملے.اس لئے کہ خدا اپنی دائمی سنت کو تبدیل نہیں کرتا اور اس کی سنت ہے کہ کا فر کو تو مدد دیتا ہے پر فاجر کو ہر گز مدد نہیں دیتا.یہی وجہ ہے کہ نصرانی بادشاہوں کو مدد مل رہی ہے اور وہ ان کے حدوں اور مملکتوں پر قابض ہورہے ہیں اور ہر ایک ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں." حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل انذاری اعلان بھی جو انہی ترکوں کے متعلق ہے قابل غور ولا ئق توجہ ہے: ترجہ عربی عبارت: کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ حرمین شریفین کے خادم اور محافظ ہیں ایسا نہیں بلکہ حرم انہیں بچارہا ہے اس لئے کہ وہ اسلام اور رسولِ خدا کی محبت کے مدعی ہیں اور اگر وہ سچی توبہ نہ کریں تو سز اسر پر کھڑی ہے.27 191 نوٹ: (ترکوں سے متعلق درج بالا مضمون حضرت مولوی شیر علی صاحب کے محولہ بالا مضمون سے خلاصہ درج کیا گیا ہے ) سو یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام (مرزا غلام احمد صاحب قادیانی) کی ترکی سلطنت کی نسبت تحریرات جن کے بالمقابل مولوی چراغ علی کے خیالات بھی درج کر دیئے گئے ہیں.ان میں سے اکثر مولوی چراغ علی صاحب کی زندگی میں ہی سامنے آگئے تھے لیکن موصوف نے اُن کے بارے میں کبھی بھی زبان نہ کھولی تھی.بلکہ خود مصنف و مترجم (مولوی چراغ علی اور مولوی عبد الحق ) کو تسلیم ہے کہ پہلے چار یا پانچ خلفائے راشدین کہلاتے ہیں اور اُن کے بعد کے خلفائے جور ، یا ملک عضوض ” تھے.28 تو پھر ترکی سلطنت کے خلیفہ “ملک عضوض ” کے دائرے سے باہر کیسے رہ سکتے تھے ؟ آنحضرت صلی الم کی پیشگوئیوں کے مطابق ترکی سلطنت کے “ملک عضوض ” کو مہدی موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی بعثت پر ترکی سلطنت کو ضعیف ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا جیسا کہ او پر باتہ التفصيل بیان کیا گیا ہے.حضرت مرزا غلام صاحب کی ترکی سلطنت کے بارے میں تحریرات خدائی منصوبے کا حصہ ہیں جبکہ مولوی چراغ علی صاحب کے خیالات دنیاوی ہیں جنہیں اس کوچے کی ذرا بھی خبر نہیں ہے پھر اُن سے تقابل کیونکر ممکن ہے ؟ یہ تو فقط مولوی عبد الحق صاحب کی دراز نفسی (استاد نے والی تحریر Pritis i) ہے وبس ! کہاں براہین احمدیہ اور کہاں مولوی چراغ علی صاحب کا کل مبلغ علم این زمین را آسمانی دیگر است مولوی عبد الحق صاحب کے “ اعظم الکلام (مولوی چراغ علی صاحب) کے انتساب ترکی کو ترجمہ میں نظر انداز کرنے کا سبب “ایک نئے دور کا آغاز ” بیان کیا ہے.اسی لیے موصوف نے “ عمد ا اس مقدمے میں سلطنت ترکی سے بحث نہیں کی ” جبکہ گذشتہ زمانے میں جو سلطان عبد الحمید خان کا زمانہ تھا اُس میں مسیحی دول نے “ جو چاہا دباؤ ڈال کر لکھوالیا اور جس طرح چاہا سلطنت کو نقصان پہنچا کر اپنے لیے رعایتیں حاصل کر لیں لیکن اب اُن کا زور نہیں چل سکتا " اس سے سلطنت ترکی کے بمطابق پیشگوئی ضعیف ہو جانے کا واضح ثبوت بھی ملتا جو مولوی عبدالحق صاحب کے قلم سے ہے.ملاحظہ ہو
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام مذکورہ امور : “ہم نے عمد ا اس مقدمے میں سلطنت ترکی سے بحث نہیں کی.اس لیے کہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور ہمیں دیکھنا ہے کہ یورپین دول اب ینگ ٹرکش کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ہیں ، اور ایک اسلامی دولت کی ترقی میں حائل ہوتی ہیں جیسا کہ اب تک ہوا یا اس میں سہولتیں پیدا کرتی ہیں.یورپ میں ترکی سلطنت مسیحی دول کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور اگر آپس کی رقابت ان کی سد راہ نہ ہوتی تو کبھی کی اُن کا شکار ہو چکی تھی.اس نئے دور کا خیر مقدم اگر چہ بڑی خوشی سے کیا گیا ہے لیکن اُن کا دل جانتا ہے کہ اب اُن کا وہ زور نہیں چل سکتا جو سلطان عبد الحمید خان کے زمانے میں انہیں حاصل تھا کہ جو چاہاد باؤڈال کر لکھوالیا اور جس طرح چاہا سلطنت کو نقصان پہنچا کر اپنے لیے رعایتیں حاصل کر لیں.29 7-10 - براہین احمدیہ کی تصنیف پر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کار یویو 192 اس کتاب کی طباعت پر جو خراج عقیدت معاصرین نے پیش کیا وہ کسی بناوٹ پر مبنی نہ تھا بلکہ اظہار حقیقت تھا.اور یہ ہی وقت تھا کہ جب مرزا صاحب واضح طور پر تحریر فرمارہے تھے کہ یہ کتاب تائید غیبی سے رقم کی گئی ہے آئندہ اس کا سلسلہ کس مقد ار تک پہنچنا ہے وہ رب العالمین کے علم میں ہے جو اس کا متولی ہے.ایسے وقت میں جب مولوی چراغ علی، سرسید وغیرہ حیات تھے انہیں لکھنا چاہئے تھا کہ دراصل یہ ہماری مدد سے لکھی گئی اب ہم نے مدد موقوف کر دی لہذا کتاب معرض التواء میں پڑ گئی.مگر جن مضامین کو براہین احمدیہ میں بیان کیا گیا اُن سے مولوی چراغ علی اور سرسید کا مسلک ہی جدا تھا چہ جائیکہ وہ مدد دیتے.اس کتاب کی اشاعت پر جو ریویو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب جو اہلحدیثوں کے بہت بڑے لیڈر تھے، نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 6 تا 11 میں لکھا وہ دیکھنے کے لائق ہے.باوجود اس امر کے کہ بعد میں ان کی طرف سے اشد مخالفت کی گئی مگر موصوف نے اپنی تمام زندگی میں اس ریویو کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا اور تادم آخر خاموشی سے تصدیق کر دی کہ اُن کی وہ رائے اور ریویو بالکل صحیح تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں کہ “ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.اور آئندہ کی خبر نہیں لَعَلَّ الله يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ آمرا.اور اس کا مولف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے " 30 ایک طرف حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تصنیف کے بارے میں آپ کے ایک شدید مخالف کی یہ رائے ہے جو انہوں نے باوجود مخالفت کے تمام عمر نہیں بدلی.دوسری طرف مولوی چراغ علی صاحب کی کتب کے بارے میں اردو ادب کے ایک نقاد لکھتے ہیں.“سید صاحب کے (سرسید ) عزیز ترین دوستوں میں نواب محسن الملک اور مولوی چراغ علی بھی تھے.جنہوں نے اگر چہ کوئی اہم اور قابل ذکر تصنیف نہیں کی تاہم دونوں ان کی تحریک کے زبر دست اور پُر جوش مبلغ تھے.اس صورت حال میں مولوی چراغ علی صاحب کو حضرت (مرزا صاحب کے بالمقابل رکھنا انصاف کا تقاضا نہیں ہو سکتا.31", 7-11 - براہین احمدیہ کے بعد حضرت مرزا صاحب کی تصنیف " سرمہ چشم آریہ " پر مولوی محمد حسین بٹالوی کا تبصرہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے نہ صرف براہین احمدیہ پر ریویو لکھا بلکہ جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتاب “سرمہ چشم
" براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام آریہ " پر بھی تبصرہ کیا.اس تبصرہ کا ایک حصہ درج ذیل ہے:.193 یہ کتاب لاجواب مؤلف براہین احمدیہ میرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کی تصنیف ہے.جو بغرض تحریر ریویو مصنف عالی ہمت نے ہمارے پاس بھجوائی ہے.اس میں جناب مصنف کا ایک ممبر آریہ سماج سے مباحثہ شائع ہو ا ہے جو معجزہ شق القمر اور تعلیم وید پر بمقام ہوشیار پور ہوا تھا.اس مباحثہ میں جناب مصنف نے تاریخی واقعات اور عقلی وجو ہات سے معجزہ شق القمر ثابت کیا ہے.اور اس کے مقابلہ میں آریہ سماج کی کتاب (وید اور اس کی تعلیمات و عقائد تناسخ وغیرہ) کا کافی دلائل سے ابطال کیا ہے.ہم بجائے تحریر ریویو اس کتاب کے بعض مطالب به نقل اصل عبارت بدیہ ناظرین کرتے ہیں.وہ مطالب بحکم مشک آنست که خود ببوید نه که عطار بگوید "خود شہادت دیں گے کہ وہ کتاب کیسی ہے اور ہمارے ریویو لکھنے کی حاجت باقی نہ رہنے دیں گے."32 7-12- حضرت مرزا صاحب کے بارے میں پروفیسر نصیر حبیب کی رائے مولوی چراغ علی کی اس طرح حدیث سے بے اعتنائی، فقہ پر نظر عتاب اور تفسیر سے عدم اعتماد جس کا ذکر 5-3 میں کیا گیا ہے ، کے مقابل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی روش کو خراج پیش کرتے ہوئے ایک فاضل مقالہ نگار جناب نصیر حبیب صاحب اپنے مقالہ “چند جدید تحریکیں.ایک جائزہ ” میں لکھتے ہیں:.“اس دور کا منظر یوں لگتا ہے جیسے....تیز آندھی میں بکھرتے ہوئے پتے ہر کھڑ کی ہر دریچہ سے پناہ مانگتے ہیں اس طرح کہ جیسے سامنے کوئی پل صراط ہو اسے پار کرنا ہو اور اسے پار کرنے کی جرآت دل میں نہ پاتا ہو.کسی نے اسے پار کرنے سے انکار کر دیا ہو اور کسی نے پار کرتے ہوئے کبھی قرآن کو چھوڑا ہو اور کبھی سنت کو ، کبھی حدیث کو ترک کیا ہو کبھی اجماع کو.....اچانک یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وقت اپنے بے رحم ہاتھوں سے اس امت کی تقدیر کا فیصلہ لکھ دے گا.قادیان کے گمنام گوشے سے ایک شخص باہر نکلا اور پکار کر کہا سنو ! قرآن کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہو گا اور وہ آگے بڑھا اس پل کو اس طرح پار کیا کہ نہ قرآن کو ہاتھ سے چھوڑا، نہ حدیث کو ،نہ سنت کو ترک کیا نہ اجماع کو ، نہ ہی رسول اللہ صلی علیم کی ذات باجود کی مرکزیت پر کوئی زد آنے دی.وہ اپنے کارواں کو لے کر یوں پار نکلا کہ تاریکیاں سمٹ کر راستہ دینے لگیں اور نگاہوں کے سامنے صراطِ مستقیم روشن ہو گئی."33 7-13- انتظامیہ اس تناظر میں مولوی عبد الحق صاحب کا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مولوی چراغ علی کے نام خطوط سے براہین احمدیہ میں مدد لینے کا استنباط نہ خطوط کی اندرونی شہادت سے ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی براہین احمدیہ میں درج واقعاتی شہادتیں مولوی عبد الحق صاحب کے استدلال کو سہارا دیتی ہیں اور اس پر مستزاد سرسید اور چراغ علی کا برہمو سماجی میلان تو جناب مرزا صاحب کے طرز عمل اور سرسید ، چراغ علی بشمول مولوی عبد الحق حد فارق ہے جبکہ وہاں خشک عقلیت پسندی جو اندھے فلسفے پر مبنی ہے اور حضرت مرزا صاحب کے یہاں باخد ابلکہ خدانماروحانیت پر زور ہے جو مذہب کو قدیم قصے کہانیوں کے نرغے سے نکال کر مذ ہی حقائق کو عقل و نقل سے روز روشن کی طرح ثابت کرتے ہیں اور سرسید گروپ کے معذرت خواہانہ رویے کی بجائے بطور ایک فتح نصیب جرنیل کے سامنے آتے ہیں جو سر سید اور ان کے رفقاء بشمول چراغ علی وغیرہ کے ہاں مفقود ہے.لہذا مولوی عبدالحق صاحب کا حضرت مرزا صاحب کے خطوط سے نتیجہ ہر لحاظ سے غلط ہے.اسے صرف مولوی عبد الحق صاحب موصوف کی عجلت پر مبنی ایک عمد أنا درست اور غلط وبے بنیاد رائے قرار دیا جاسکتا ہے جو مولوی صاحب کے دیگر اکثر مقدمات کی طرح جن کی تردید ہو چکی ہے اور مولوی صاحب کی تحقیق کو نا پختہ اور تعصب
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 34", 194 پر مبنی ثابت کرتی ہے وبس جبکہ حقیقت حال سطور بالا سے عیاں ہے البتہ اس امر کا اندراج از بس ضروری ہے کہ حضرت مرزا صاحب اپنی تصنیفات میں پوشیدہ امداد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ملاحظہ ہو ! “ اس خیال میں میرے مخالف سر اسر بیچ پر ہیں کہ یہ اس شخص کا کام نہیں کوئی اور پوشیدہ طور پر اس کو مدد دیتا ہے سو میں گواہی دیتا ہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہ قادر و توانا ہے جس کے آستانہ پر میر اسر ہے." نجف کے ایک فاضل عبد الحی نام اپنے رشتہ دار عبد اللہ عرب کی تلاش میں غالباً 1897ء میں پہلی دفعہ قادیان آئے تھے.اور حضرت مر زا صاحب کے ساتھ مباحثات کرتے رہے.ان کو یہ شبہ تھا کہ عربی کتابیں جو حضرت مرزا صاحب نے لکھی ہیں وہ ان کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی نہیں ہیں.چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے حضرت مرزا صاحب سے عرض کی کہ یہ قلم دوات اور کاغذ ہے.آپ میرے سامنے عربی لکھیں.حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ میں بغیر اذنِ الہی کے اس طرح لکھنا شروع کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے.میر ا ہاتھ یہیں شل ہو جائے یا مجھے سب علم ہی بھول جائیں.اس کے چند روز بعد عرب صاحب ایک سوال عربی زبان میں لکھ کر مسجد میں لے کر گئے اور بعد نماز مغرب جناب مرزا صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور قلم دوات بھی جواب لکھنے کے واسطے حاضر کی.حضرت صاحب نے اسی وقت اس کا جواب نہایت فصیح اور بلیغ عربی میں تحریر کر دیا.ایسا ہی چند روز کے بعد عرب صاحب پھر ایک سوال لکھ کر لے گئے اور حضرت صاحب نے اس کا جواب بھی وہیں بیٹھے ہوئے نہایت فصاحت کے ساتھ مفصل لکھ دیا.تھوڑے تھوڑے دنوں کے وقفوں کے بعد اس طرح کئی ایک سوالات کے جوابات عربی زبان میں اپنے سامنے تحریر کرا کے عرب صاحب نے تشفی پائی کہ بے شک جناب حضرت مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ نے فصیح اور بلیغ عربی لکھنے کی طاقت عطا فرمائی ہے.اور اس کے بعد وہ بیعت کر کے داخل سلسلہ حقہ ہوئے اور سلسلہ کی تائید میں کئی کتا بیں اور رسالے تالیف کئے ان کی ایک قابل قدر تالیف لغات القرآن بھی ہے.35 براہین احمدیہ کی تصنیف کی تحریک بظاہر تو آریہ سماج کے ساتھ قلمی جنگ سے ہوئی جو آپ نے مامور ہو کو تصنیف فرمائی تھی جس کے تقریباً 2500 صفحات مئی 1879ء میں مکمل ہو چکے تھے.جب آپ نے ضمیمہ “ اشاعۃ السنۃ نمبر 4 جلد دوئم مئی 1879ء (زیر ادارت مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی) میں اشتہار دیا کہ “ باعث تصنیف اس کتاب کے پنڈت دیانند اور ان کے اتباع ہیں جو اپنی اُمت کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کر رہے ہیں اور بجز اپنے وید کے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی مسیح اور حضرت محمد مصطفی علیہم السلام کی تکذیب کرتے ہیں اور نعوذ باللہ توریت زبور، انجیل کو محض افتراء سمجھتے ہیں اور ان مقدس نبیوں کے حق میں توہین کے کلمات بولتے ہیں 36 کہ ہم نہیں سن سکتے...26 اور پھر خد اتعالیٰ نے اس کام کو آپ کے خیال اور ارادہ سے بالا کر دیا اس طرح ایک پیشگوئی پوری ہو گئی جس کا اس سے پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو کبھی خیال بھی نہ آیا تھا.واقعات اور حالات کے اس طرح جمع ہو جانے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خدائی کا روبار تھا جس میں انسانی عقل اور ہاتھ کا کوئی دخل نہ تھا اس کا اندازہ آپ کے درج ذیل رویاء سے کیا جا سکتا ہے جو آپ نے ایام طالب علمی میں دیکھی تھی:.یہ عاجز اپنے بعض خوابوں میں سے جن کی اطلاع اکثر مخالفین اسلام کو انہیں دنوں میں دی گئی تھی کہ جب وہ خواہیں آئی تھیں اور جن کی سچائی بھی انہیں کے روبرو ظاہر ہو گئی بطور نمونہ بیان کرتا ہے.منجملہ ان کے ایک وہ خواب ہے جس میں اس عاجز کو جناب خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی.اور بطور مختصر بیان اس کا یہ
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 195 ہے کہ اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء عیسوی میں یعنے اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا.اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے.جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے.غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی.اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا.آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا.آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی.تب اُسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَي ذَالِكَ یہ وہ خواب ہے کہ تقریباً دو سو آدمی کو انہیں دنوں میں سنائی گئی تھی جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر ان میں سے ابھی تک صحیح و سلامت ہیں اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام و نشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بنا کر اس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لئے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جائے.لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کسی قدر پوری ہو گئیں اور جس قطبیت کے اسم سے اُس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا تھا.اسی قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلے پر بوعدہ انعام کثیر پیش کر کے مُحبتِ اسلام اُن پر پوری کی گئی ہے.اور جس قدر اجزا اس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے اُن کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں.37 مولوی عبد الحق صاحب کے ادعاء کی تردید اس خواب سے بخوبی ہو جاتی ہے جو کسی انسانی منصوبہ کا کام نہیں ہے.لیکن یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جو نہیں اس کتاب کے 1884ء میں چار حصے مکمل ہو گئے تو حضرت مرزا صاحب نے اس کتاب کو بذریعہ رجسٹرڈ پوسٹ ہندوستان، برطانیہ اور دوسرے ممالک کے مشہور عیسائی مشنریوں اور برہمو سماجیوں، آریہ سماجیوں، نیچریوں، حکمران نوابوں شہزادوں، پیروں اور مسلمان مولویوں کو بھیجوایا.اس کے ساتھ بھجوائے گئے خط میں بیان کیا گیا کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 196 کئے گئے ہیں تاکہ انسانیت کا عاجزی اور خاکساری سے احیاء نو کیا جائے اُس طریق پر جیسا کہ حضرت عیسی نے دعوت دی تھی.اور انہیں بتایا کہ اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام مکمل مذہب ہے، قرآن کریم فی الواقعہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہے.اس سچائی کو جو کوئی پر کھنا چاہے وہ قادیان تشریف لائے اور ایک سال تک سچائی کی تلاش میں آپ کے ساتھ ٹھہرے.اُسے دو سو روپیہ ماہانہ کے حساب سے دیا جائے گا اگر اُسے کوئی نشان نہ دکھایا گیا...38 7-14- نتیجه کلام مامور من اللہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تصنیف براہین احمدیہ سے آپ کی زمانہ طالب علمی کی خواب سے فی الواقعہ :.1 آنحضرت صلعم بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوہ افروز ہو گئے.حضرت مرزا صاحب آنحضرت صلی ا یلم کی شان میں فرماتے ہیں: پہلوان حضرت جلیل رب یکطرف حیران از و شاہان وقت بر میان بسته ز شوکت خنجری شسته در 2 آنحضرت صلعم کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہو گئی زور ہر متکبری جیسے آفتاب کی کر نہیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکتی چلی جاتی ہے اور 4 دین اسلام کی تازگی اور ترقی کے دن آگئے ہیں.ایک مدت سے کفر تھا اسلام کو کھا تارہا اب یقیں سمجھو کہ آئے اسلام کے کفر کو کھانے کے دن اور براہین احمدیہ کے وجود سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے حق میں درج بالا پیش گوئی پوری ہو گئی.جسے نمونہ موازنہ کلام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور مولوی چراغ علی صاحب میں بھی پیش کیا گیا ہے.جس سے مولوی عبد الحق صاحب کے بد دیانتی سے اخذ کردہ نتائج درباره علمی مدد بر این احمد یہ غلط ثابت ہوتے ہیں.نواب صدیق حسن خان کو لوگوں نے مجدد کا نام دیا اور مولوی عبد الحق صاحب نے سرسید کو عام وقت کا نام دیا لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں جو مجد داور امام وقت تھا اُس کی طرف اتقیاء امت کی نظریوں اُٹھی جو الامام المہدی اور مسیح موعود تھا.سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیج بنو خدا کے لئے آخر میں ہم حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا منظوم فارسی کلام جو آنحضرت صلعم کی محبت سے بھر اہو اکلام ہے درج کرتے ہیں وھو ہزا:.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است 197 دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جمال محمد است یک قطره ز بحر کمال محمد است ایں چشمہ رواں که بخلق خدا دہم ایس آتشم ز آتش مهر محمدی است ویں آپ من ز آب زلال محمد است 39 ترجمہ : میرے جان و دل محمد کے جمال پر فدا ہیں.اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا ہر جگہ محمد کے حسن کا شہرہ ہے.معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.یہ میری آگ محمد کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میر اپانی محمد کے مصفا پانی میں سے لیا ہوا ہے.40 حوالہ جات 7-1 1 -بر اہین احمدیہ صفحہ 622 مصنفہ جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 2 آئینہ کمالات اسلام صفحہ 268 مولفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 7-2 3 - مولانا ابو الکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل، امر تسر مئی 1908ء 4 - ابو سلمان شاہ جہان پوری، ڈاکٹر ، مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافت، کراچی ادارہ تصنیف و تحقیق پاکستان 1989ء صفحہ 99 حوالہ کتاب مولانا آزاد کی ادبی صحافت مصنفہ ڈاکٹر انوار احمد مطبوعہ خدا بخش اور نٹیل لائبریری پٹنہ.انڈیا صفحہ 74-2006ء 7-3 ملائکۃ اللہ صفحہ 192 مصنفہ جناب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب 6 - “فضائل القرآن صفحہ 368-369 مصنفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.تقریر بمقام قادیان دار الامان 28 / دسمبر 1934ء 7 " مغربی فکر و فلسفے و تہذیب کا مطالعہ کیسے کیا جائے ؟ " (سید خالد جامعی / عمر حمید ہاشمی / حفصہ صدیقی) " جریده "37 شعبه تصنیف و تالیف و ترجمہ جامعہ کراچی، صفحه 863 7-4 8 تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند صفحہ 614 نویں جلد اردو ادب چہارم 1857-1914
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام زیر عنوان“ مناظراتی ادب“ 9 - براہین احمدیہ صفحہ 593 حاشیه در حاشیہ مصنفہ جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 10 - قادیانیت صفحہ 4746 مصنفہ سید ابوالحسن ندوی بار اول 1959ء، شائع کردہ مکتبہ دینیات شاہ عالم مارکیٹ لاہور 7-5 11 - تاریخ ادب اردو صفحہ 369 جلد اول مصنفہ ڈاکٹر جمیل جالبی شائع کردہ مجلس ترقی ادب لاہور 12 - براہین احمدیہ صفحہ 622 مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 13 - ایضاً صفحہ 623 14 - ایضاً صفحہ 624 15 - ایضاً صفحہ 612 16 - غیر مطبوعہ مضمون جناب ذکاء.اے ملک ، ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ لاہور 7-7 17 - حضرت سلطان القلم اور اردو ادب گاہ نامہ انصار اللہ مارچ 1973ء از مسعود احمد خان دہلوی 7-8 18 - ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ۳۱۳.اصحاب صدق وصفا’ صفحہ 269،205،187،51،50) 19 - صفحه ۳۵ مقدمه اعظم الکلام ( از مترجم ) حصہ اول مشتمل بر حالات مصنف ) 20 - “ حیات قدسی صفحہ 51-52 جلد چہارم حضرت مولانا غلام رسول قدسی فاضل راجیکی.1951ء) 7-9 21 - “ مقدمات عبد الحق صفحہ 668 مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی) مقدمہ اعظم الکلام.22 - ایضاً صفحہ 669 23 - ایضاً صفحہ 669 24 ایضاً صفحه 671-672 25 - نشان آسمانی صفحه 3 مشمولہ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 360 26 - رساله ریویو آف ریلیجنز قادیان ضلع گورداسپور.اگست 1918ء 27 - الہدی صفحہ 56 28 - مقدمات عبد الحق صفحہ 673 29 - مقدمات عبد الحق صفحہ 679 198
199 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 7-10 30 - رسالہ اشاعۃ السنہ جون تا اگست 1884ء مولوی محمد حسین بٹالوی.علاوہ ازیں ملاحظہ ہو راقم الحروف کا مضمون “مولوی محمد حسین بٹالوی کا براہین احمدیہ پر ریویو کے چند اہم پہلو مطبوعہ ماہ نامہ “انصار اللہ “ ربوہ جون 1998ء 31 - 'سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء کی نثر کا فکری جائزہ ، صفحہ 66 مصنفہ ڈاکٹر سید عبد اللہ 7-11 32 - اشاعة السنة جلد 9 نمبر 5-6 صفحه 145 منقول از ماه نامه ریویو آف ریلیجنز قادیان جون 1941ء 33 - صفحہ 34 ماہ نامہ انصار اللہ ربوہ اپریل 1991ء 7-12 7-13 34 - “ اعجاز المسیح صفحہ 2 مصنفہ جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 35 - “ذکر حبیب صفحہ 47-48 جلد اول مؤلفہ مفتی محمد صادق صاحب 36 - مجموعہ اشتہارات.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام جلد اول صفحہ 16-17، شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 37 - براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 274 تا 276 مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی) مرزا غلام 70-81 pp.38 - Life of Ahmad part 1 by A.R.Dard.Tabshir Publication.1948 39 - اخبار ریاض ہند امر تسر مورخہ یکم مارچ 1884ء 40 -ور در ثمین فارسی صفحہ 129-130 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی.متر جمہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل مطبوعہ لاہور آرٹ پر میں انار کلی لاہور
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق (بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام باب ہشتم: حرف آخر 200 8-1-حرف آخر ان حقائق کی روشنی میں ، راقم الحروف ایک بار پھر مصنف براہین احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے اُن الفاظ کو جو آپ نے اپنی اس کتاب کے مالی معاونین کی بابت اسی کتاب میں رقم فرمائے تھے دوبارہ نقل کرتا ہے یعنی: “جب تک صفحه روزگار میں نفس افادہ اور افاضہ اس کتاب کا باقی رہے گا ہر یک مستفیض کہ جس کا اس کتاب سے وقت خوش ہو مجھ کو اور میرے معاونین کو دعائے خیر سے یاد کرے." سوراقم الحروف مولوی چراغ علی صاحب مرحوم کے لیے اُن کی دس روپے کے نوٹ سے کی گئی مالی امداد کے لیے دعائے خیر کرتا ہے.موصوف کے بارے میں ناچیز کا قطعا کوئی تنقید لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا.یہ تو مولوی عبد الحق المعروف بابائے اُردو بانی انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی کا مولوی چراغ علی مرحوم کی کتاب اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ” میں براہین احمدیہ سے متعلق بہ عجلت اخذ کردہ ایک نتیجہ تھا اس مقصد سے کہ مولوی صاحب (چراغ علی ) کو اس سنگھاسن پر بٹھا دیا جائے جس کے لیے اُن کا حق نہیں بنا تھا.مولوی عبد الحق مرحوم ہزار بار ایسا کرتے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہ ہوتا لیکن جب مولوی عبد الحق صاحب کی بد نیتی و بد دیانتی، کر دار کشی اور جعل سازی کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے تو قلم کو روک رکھنا بس کی بات ہی نہیں رہ جاتی.پس اسی وجہ سے یہ تردید از بس ضروری ہو گئی اور زیب قرطاس کی گئی ہے.اس کے ساتھ انجمن ترقی اُردو پاکستان سے ایک مطالبہ بھی پیش کیا جاتا ہے: 8-2- انجمن ترقی اُردو پاکستان کراچی اور مجلس ترقی ادب لاہور اسی طرح دیگر حضرات سے ایک مطالبہ اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرنی چاہتا ہوں.انجمن ترقی اُردو پاکستان کراچی نے خلیق انجم کی ایک کتاب متنی تنقید سن 2006ء میں شائع کی ہے.اس کے باب 3 میں خلیق انجم صاحب نے ایک الگ عنوان “سرقہ ” کا لگایا ہے.موصوف نے اس ضمن میں پبلشر کی غلطی کے ضمن میں لکھتے ہیں جو مولوی عبد الحق صاحب سے ہی متعلق ہے:.“ وہ کسی کبھی پبلشر کی غلطی سے بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مصنف کی کتاب پر کسی دوسرے مصنف کا نام آجاتا ہے.ہمارے زمانے میں اس کی مثالیں “ کہانی رانی کیتکی کی ” اور خطوط غالب ہیں.پہلی کتاب کے بارے میں اکبر علی خان صاحب لکھتے ہیں.“ یہ انشا کی مشہور کتاب کا دوسر اڈیشن ہے.جسے مولانا عرشی نے کتاب خانہ رضا رامپور کے دو خطی نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا.یہ کتاب انجمن ترقی ار دو ( پاکستان ) کی طرف سے شائع ہوئی ہے اور اس پر غلطی سے مرتب کی جگہ مولوی عبد الحق کا نام چھپ گیا.میں نے مولانا امتیاز علی خان عرشی سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اکبر علی خان کا بیان بالکل درست ہے..اس سلسلے میں میری گزارش ہے کہ مولوی عبد الحق اور مالک رام صاحب کا مر تبہ ایسا تھا کہ ان کا خاموش رہنا اچھا نہیں لگا.یہ دونوں حضرات کتابیں چھینے کے بعد دوسراٹائیٹل چھپوا کر اصل مرتبین کے نام دے سکتے تھے.2
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 201 اگر اب تک 2006ء سے 2011ء تک انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی یہ درستی نہیں کر سکی تو لگے ہاتھوں جب بھی کہانی رانی کیتکی کی انجمن چھاپے تو اس سے بطور مرتب مولوی عبدالحق کا نام حذف کر کے مولانا امتیاز علی عرشی کا نام درج کرے اور اسی طرح انجمن جب بھی مولوی عبد الحق کی کتاب “ چند ہم عصر چھاپے جس میں مولوی چراغ علی سے متعلق مولوی عبد الحق صاحب کے مقدمہ کا مواد ہی درج ہو تا ہے جس میں حضرت مرزا صاحب کے مولوی چراغ علی صاحب کے نام خطوط کا ذکر ہوتا ہے.تو وہیں مضمون زیر نظر کا حوالہ بھی حاشیہ میں دیا جانا چاہیے.تاکہ اصل حقیقت قارئین کے سامنے آسکے.جیسے انجمن نے مولانا سید امتیاز علی عرشی سے متعلق اصل حقیقت کو خلیق انجم کی کتاب میں چھاپ دیا ہے.جو انجمن ترقی اُردو پاکستان کراچی ہی کے زیر اہتمام چھپی ہے.اسی طرح اُسے ان حقائق کو جہاں کہیں بھی یہ متنازعہ مواد چھپے وہاں ایک دو سطروں میں اس مضمون کا حوالہ بھی دے دینا چاہئے جو دیانت داری کا تقاضہ ہے.اسی طرح مجلس ترقی ادب لاہور کی شائع کردہ کتاب “تحریک آزادی میں اُردو کا حصہ “.2008ء مصنفہ ڈاکٹر معین الدین عقیل کے صفحہ 218 و غیرہ پر اسی ناواجب اعتراض کا ذکر ہے جس کے ساتھ اس مضمون کا حوالہ بھی دیا جانا اخلاقی تقاضا ہے.اس امر کا خصوصی طور پر نام لے کر اعادہ کیا جاتا ہے کہ محولہ بالا کتاب کو 1976 ء سے انجمن ترقی اُردو پاکستان کراچی کے مدارالمہام جناب جمیل الدین عالی صاحب اور 2008ء سے اور مجلس ترقی ادب لاہور کے ڈائریکٹر جناب شہزاد احمد صاحب (ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے توسط سے ) شائع کر رہے ہیں.جب کہ اس کتاب کے پیش لفظ اشاعت اول میں عقیل صاحب کے اپنے ہی الفاظ جو زیر عنوان معروضات لکھے گئے یہاں دوہرائے جاتے ہیں.: علمی تحقیق کے اِس دور میں کسی مطالعہ کو بھی حرف آخر کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی.آج علم کے نئے نئے گوشے اُجاگر ہو رہے ہیں اور متعد د حقائق منظر عام پر آرہے ہیں، چنانچہ کوئی بھی تحقیق اس لحاظ سے جامعیت کی دعوے دار نہیں ہو سکتی.اس موضوع پر جو نقطہ نظر میں نے اپنایا ہے اسے دستیاب شہادتوں اور مثالوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے."3 مذکورہ ہر دو اداروں اور مصنف مذکور کی خدمت میں اور دیگر قارئین کی خدمت میں اس کتاب / مضمون میں درج کی گئیں شہادتیں بھی نہایت ادب سے پیش کی جاتی ہیں جیسے کہ مصنف مذکور درج بالا اقتباس کے آگے لکھتے ہیں: “میں اپنے اِن پیش کردہ خیالات کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور اس مقالے کو پورے عجز و انکسار سے اہل نظر کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.“ 4 امید کی جاتی ہے زیر حوالہ وقیع ادارے اور فاضل مصنف “ پوری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ناچیز کے اس مقالہ کو بھی حسب دلخواہ پذیرائی بخشیں گے جو اُسی طرح پورے عجز و انکسار سے اہل نظر کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے کیونکہ انھیں کے الفاظ میں کسی مطالعہ کو بھی حرف آخر کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی “ تو اس بلا جو از اعتراض کو بھی حرف آخر کے حیثیت نہیں حاصل ہو سکتی.دوستو! اک نظر خدا کے لئے سید الخلق مصطفے کے لئے 8-3 - جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کا ایک محاکمہ نما مکتوب بابت کتاب ہذا جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی خدمت میں زیر نظر کتاب کا مسودہ پہلے سے ٹیلی فون پر اجازت لیکر برائے محاکمہ ارسال کیا گیا تھا لیکن پروفیسر صاحب موصوف نے ایک نوازش نامہ بھجوایا جس میں درج کیا کہ: “ میں ان پر اپنی جانب سے کسی محاکمے کی ضرورت، آپ کی خواہش کے باوجو د نہیں سمجھ رہا.پھر میرے پاس اس موضوع
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 202 پر مزید مطالعے اور تحقیق کیلئے نہ اب وقت ہے اور نہ میں اسے ضروری سمجھ رہا ہوں.اس لئے مسودہ کسی تاخیر کے بغیر واپس ارسال ہے.بے حد شر مندہ ہوں کہ اپنی مجبوریوں کے باعث تعمیل ارشاد نہ کر سکا.واجبات و احترامات کے ساتھ ، والسلام معین الدین عقیل (دستخط) 5 ہم مان لیتے ہیں کہ مکرم و محترم پروفیسر عقیل صاحب کے پاس" اب اس موضوع پر مزید مطالعے و تحقیق کیلئے وقت نہیں " اور نہ موصوف " اسے ضروری سمجھتے ہیں".جبکہ پروفیسر صاحب نے اس امر کا اندراج جب اپنی زیر حوالہ کتاب میں کیا تھا تو اس کے بارے میں اسی مکتوب میں لکھتے ہیں: " آپ نے میری جس کتاب کا حوالہ دیا ہے اور اس میں مولوی عبدالحق کے حوالے سے میری نقل کر وہ بات کی طرف اشارہ کیا ہے میں نے اس کی اصل اور حقیقت کی کوئی خاص تنقیح نہیں کی اور شاید اسے ضروری بھی نہ سمجھا." یعنی کتاب کی تصنیف کے وقت اندراج مولوی عبد الحق کے حوالے سے کر دیا اور : اصل اور حقیقت کی کوئی خاص تنقیح نہیں کی (لیکن کچھ تنقیح تو کی ہے ) اور "شاید اسے ضروری بھی نہ سمجھا".6" پھر اب: مزید مطالعے اور تحقیق کیلئے وقت نہیں اور اب بھی اسے "ضروری نہیں سمجھتے." اس کے باوصف ر قم طراز ہیں: ہاں میں اس بات کا قائل ہوں کہ تحقیق میں کسی طرح کی معلومات جو عام ہوں انہیں بغیر سند یا حوالہ استعمال نہیں کرنا چاہئے.اس کے لئے چاہے کوئی ضمنی ماخذ ہی کیوں نہ ہو اسکا حوالہ ضروری ہے.یہی میں نے کیا.7 گویا آپ نے حوالہ تو دیا تھا لیکن خاص تنقیح کی زحمت گوارا نہ کی تھی اور اب بھی اس پر مزید مطالعے اور تحقیق کیلئے وقت نہیں پاتے اور نہ ضروری سمجھتے ہیں.اس کے باوجود سمجھتے ہیں کہ : " اب یہ اچھا ہے کہ آپ کی اس کتاب کے آنے سے بہت سی معلومات، متعلقہ اسناد و حوالوں کے ساتھ ، یکجا صورت میں سامنے آئیں گی اور لوگ ان کے مطابق فیصلہ کر سکیں گے." 8 8" اس ناچیز راقم الحروف کی محنت کا جو محرک پروفیسر صاحب کو نظر آیا ہے اس کی بابت لکھتے ہیں: " اس سارے کام کا جو بنیادی محرک مجھے نظر آیا ہے وہ مولوی عبد الحق کا وہ بیان ہے جو " براہین احمدیہ " میں مولوی چراغ علی کی علمی معاونت کی طرف قاری کا ذہن منعطف کرتا ہے." جس کے بارے میں پروفیسر صاحب اسی مکتوب میں لکھتے ہیں: انگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتنی شاید سنجیدہ بات نہ تھی کہ آپ اس کی تردید پر ایک طویل عرصہ صرف کر دیتے.اس طرح کے متعدد بیانات تاریخ میں ہر حوالے سے موجود ہیں اور جن کی وجہ سے کوئی بڑا انقلاب نہیں آیا، اگر ہم ان کی تردید کیلئے مخصوص ہو جائیں تو دیگر بڑے کام جو ہم شاید کر سکتے ہیں نہ ہو سکیں." 10
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام 203 اس طرح کے متعد د بیانات ہیں تو ہو ا کریں لیکن یادر ہے کہ یہ بات اس کتاب کے متعلق ہے جو اس دور کے لحاظ سے ایک خطیر رقم کے چیلنج کے ساتھ شائع کی گئی تھی جس کے بارے میں بلا سوچے سمجھے اور بلا ثبوت بات کر نانہایت غیر مناسب بات تھی جس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جانا نہایت ضروری ہے.علاوہ ازیں ملاحظہ ہو کتاب ہذا کا پیر انمبر 5-4 جس میں ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم کی اسی قسم کی بات کا جواب دیا گیا ہے.جہاں تک انقلاب کا تعلق ہے وہ مضمون زیر نظر کے دائرہ سے باہر ہی سہی لیکن براہین احمدیہ جس زندہ خدا، زندہ کتاب اور زندہ رسول اکرم صلی ی کمی کی طرف بلاتی ہے اس پر مولوی عبد الحق / مولوی چراغ علی کی باتوں سے پردہ ڈالنے کی کوشش ترک کر دی جائے جو اس کتاب کا مطلوب و مقصود ہے.اسی بارے میں اس کتاب کے پیرا8-1 میں بھی بات کی گئی ہے.الله سل اگر یہ اتنی سنجیدہ بات نہ تھی تو پر و فیسر صاحب نے: اسے مولوی چراغ علی کی تفضیل میں بیان ہی کیوں کیا؟ "خاص تنقیح" نہ کرتے ہوئے بھی "ردعیسائیت میں "مولوی چراغ علی کو " اپنے معاصرین میں تحقیق و استدلال کے اعتبار سے نمایاں حیثیت."11 دیتے ہیں.اور وہ بھی: حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود مہدی معہوڑ کے مقابلہ میں جن کے بارہ میں سرور کائنات صلی الیم فرماتے ہیں کہ اس کا کام ہی " یکسر الصلیب و یقتل الخنزیر " ہے جبکہ پروفیسر صاحب کو یہ جاننا ضروری تھا کہ کسر صلیب سے مراد لکڑی یا لوہے وغیرہ کی مادی صلیبوں سے نہیں ہے بلکہ صلیبی، تشکیشی عقیدہ کے پاش پاش کرنے سے ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ پروفیسر صاحب اس تنقیح سے قبل رد عیسائیت یا کسر صلیب کے بارے میں علم حاصل کرتے پھر تحقیق و استدلال کی بات کرتے.اور اب بھی موصوف اس بارے میں مطالعہ / تحقیق کو ضروری نہیں سمجھتے اور نہ وقت نکال سکتے ہیں ! پروفیسر صاحب کا اصرار ہے کہ " کوئی بڑا انقلاب نہیں آیا ٹھیک ہے کہ مولوی عبد الحق صاحب کی کذب بیانی سے کوئی بڑا انقلاب نہیں آیا.راستی کے سامنے جھوٹ پھل سکتا ہے کب قدر کیا پتھر کی بھلا لعل بے بہا کے سامنے 12" لیکن اس سب کچھ کے باوجود پر و فیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کو یہ تسلیم ہے کہ : یہ ٹھیک ہے کہ اس طرح ایک غلط فہمی اور کذب بیانی کی تردید ہو جاتی ہے اور اس طرح کچھ ضمنی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں لیکن یہ عمل کسی بڑے علمی یا کسی طرح کے انقلاب کا پیش خیمہ شاید نہیں بن سکتا." جب پروفیسر صاحب، مولوی عبدالحق صاحب کی پیدا کر دہ غلط فہمی اور کذب بیانی کی تردید کو تسلیم کرتے ہیں تو ہمارے کام کے بنیادی محرک کا نتیجہ تو ہمارے حق میں ہی نکل آیا اور اسی کے اندراج کا پروفیسر صاحب اور دیگر حضرات کی کتب میں ایک نوٹ کی صورت میں ہم بصد ادب و احترام مطالبہ کیا جاتا ہے.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ
براہین احمدیہ : مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 204 پروفیسر معین الدین عقیل کا تصنیف ہذا کو خراج تحسین....قابل مطالعہ اور قابل غور کتاب اسی خط میں پروفیسر عقیل صاحب نے ناچیز کی تصنیف کو علاوہ دیگر امور کے خراج تحسین بھی پیش کیا ہے جس کے لئے نا چیز موصوف کا شکر گزار ہے.اور وہ درج ذیل ہے: " آپ کا مکتوب مورخہ 6 مارچ 2012ء، پیش نظر ہے.یہ مع مسودہ براہین احمدیہ: مولوی عبد الحق کا مقدمہ اعظم الکلام "چند دن قبل موصول ہوئے تھے.اس عرصہ میں ، میں مسودہ دیکھتارہا اور آپ کی محنت و جاں فشانی اور تلاش و کاوش پر داد دیتا رہا.آپ نے بڑی دقت نظر سے مفید مطلب مواد و ماخذ کی نہ صرف جستجو کی ہے بلکہ بغائر نظر ان کا مطالعہ و تجزیہ بھی کیا ہے اور اپنے نتائج اخذ کئے ہیں.اندازہ ہوا کہ آپ نے برسوں کی محنت کے بعد مسودے کو یہ صورت دی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اب اسے جلد شائع ہو جانا چاہئے.مجھے یہ یقین ہے کہ اس کی اشاعت سے یا اس کے عام ہونے سے بہت سے موضوعات پر نئی معلومات کے سامنے آنے کے ساتھ ساتھ متعدد نئے مآخذ بھی عام افراد کے علم میں آئیں گے.یوں وہ ساری تحقیقات جن کیلئے آپ نے محنت و جستجو کی ہے چاہے وہ کسی کیلئے قابل قبول ہوں یا نہ ہوں یا ان پر کسی کو تحفظات ہوں مگر قابل مطالعہ اور قابل غور نکات تو اہل علم کے سامنے ہوں گے اور اگر وہ چاہیں تو انہیں مزید مطالعہ اور تحقیق پر آمادہ کر سکیں گے.13" حوالہ جات 8-2 1 اکبر علی خان، نگارشات عرشی صفحه 41 بحوالہ "متنی تنقید "، خلیق انجم، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی 2.صفحہ 192، 230 محولہ بالا کتاب 3.تحریک آزادی میں اُردو کا حصہ ، ڈاکٹر معین الدین عقیل، صفحہ ۹، مجلس ترقی ادب لاہور.4 ايضاً 8-3 5.مکتوب جناب پروفیسر معین الدین عقیل صاحب بنام راقم الحروف مورخہ 12 مارچ 2012ء سخن گسترانہ بات سہی لیکن یہ کاوش ایک خلاف واقعہ بات کی تردید اور جواب میں کی گئی ہے اس کے جو “ خلاف مطلب “ / واقعہ بات سامنے آئے گی اس کی تردید مفید مطلب بات سے تو کرنی پڑے گی.تاہم خلاف مطلب کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے.لیکن قاری کو اگر ایسی کوئی بات کھٹکے تو سامنے لائی جائے تو اس پر بات ہو سکتی ہے.(راقم الحروف عاصم جمالی)
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام 6- ايضاً 7- ايضا 8 - ايضاً و ايضاً 10 - ايضاً 11 - تحریک آزادی میں اردو کا حصہ ،ڈاکٹر معین الدین عقیل صفحہ 218 12.مکتوب جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب بنام راقم الحروف مورخہ 12 مارچ 2012ء 13.مکتوب جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب بنام راقم الحروف مورخہ 12 مارچ 2012ء 205
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام قرآن کریم کتب حدیث جامع صحیح مسند بخاری دیگر کتب مقدسه انجیل، بائبل کتب تفسیر کتابیات تفسیر کبیر.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی ترجمہ تفسیری نوٹس کے ساتھ.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع كتب / ملفوضات / مکتوبات حضرت مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود ايضاً ايضاً ايضاً ايضاً ايضاً ايضاً ايضاً ايضاً فن فن فن فن فن فن فن فن فن فن فن فن فن فن فن فن براہین احمدیہ جلد اول تا چهارم مجموعه اشتہارات ايضاً لیکچر لدھیانہ ايضاً سراج منیر ايضاً ازالہ اوہام چشمه معرفت مکتوبات احمد آئینہ کمالات اسلام حقیقة الوحی ايضاً کتاب البریہ ايضاً ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی آریہ دھرم بركات الدعاء در ثمین فارسی ايضاً ایک عیسائی کے تین سوال اور انکے جواب ايضاً نور الحق ايضاً فتح اسلام 206
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود ايضاً ايضاً ايضاً حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ثانی ايضاً ايضاً ملفوظات اعجاز المسیح نشان آسمانی الهدى نزول المسیح کتب خلفاء سلسلہ ملائکہ اللہ فضائل القرآن اسلام و دیگر مذاہب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع قرآن کریم کا ترجمہ مع تفسیری نوٹس انصار اللہ ربوہ مجلة الجامعه، ربوہ جماعت احمدیہ کے اخبارات و رسائل خالد.ربوہ ریویو آف ریجنز، قادیان تحریک جدید ، ربوه الفضل، ربوه ہفت روزہ سیر روحانی، ربوه قومی زبان کراچی افکار ، کراچی دیگر اخبارات و رسائل اشاعت السنتہ.مولوی محمد حسین بٹالوی جریدہ، کراچی یونیورسٹی صحیفہ ، لاہور نقوش،لاہور روزنامه امروز، لاہور ساقی، دہلی سہ ماہی اردو، کراچی معارف، لاہور اخبار کرزن گزٹ دیلی اخبار ریاض ہند، امر تسر اخبار وکیل امر تسر شب خون ، الہ آباد انڈیا دیگر کتب پروفیسر معین الدین عقیل ا.رسمیات مقالہ نگاری ۲.تحریک آزای میں اردو کا حصہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیات احمد 207
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام ڈاکٹر سید معین الرحمن ذكر عبد الحق شہاب الدین ثاقب عبد الحق، حیات اور علمی خدمات جلیل قدوائی مکاتیب عبد الحق محمد الدین فوق تواریخ اقوام کشمیر 208 مولوی چراغ علی / ترجمہ.مولوی عبدالحق اعظم الكلام في ارتقاء الاسلام / تحقيق الجهاد / تعليقات / تحقیق مسئله تعداد زوجات تہذیب الاخلاق میں شائع شدہ مضامین / حضرت عیسی اور صلیب سید ہاشمی فرید آباد (مقاله) ، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 12 - ڈاکٹر سید عبد اللہ...(۱) اردو ادب / (۲) سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقاء کی نثر کا فکری وفنی جائزہ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند مولوی محمد یکی انتہا، سیر المصنفین ڈاکٹر عبادت بریلوی (مرتب) مقدمات عبد الحق ڈاکٹر ممتاز حسن قاضی جاوید سید ابوالحسن علی ندوی اقبال اور عبد الحق سرسید سے اقبال تک قادیانیت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سیرت المہدی علامہ محمد اقبال ڈاکٹر انور سدید مولانا محمد اسماعیل پانی پتی ابو سلمان شاہ جہان پوری عبد الرحمن مبشر احمدیت اور اسلام اردو ادب کی تحریکیں مقالات سرسید مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافت دلائل قاطعه ماخوذ از براہین احمدیہ شیخ محمد اکرام محمد حسین آزاد موج کوثر مقالات محمد حسین آزاد سید شہاب الدین دسنوی شبلی معاندانہ تنقید کی روشنی میں شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ) / مقالات حالی مولوی عبد الحق فیض احمد فیض نثر تاثیر شان الحق حقی نکته راز سلمی حقی گلدسته نگارش
209 براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام مولوی عبد الحق چند ہم عصر تاریخ ادب اردو ڈاکٹر جمیل جالبی ڈاکٹر محمد اشرف عظمت رباب اصطلاحات تدوین متن شریمان بیر پنڈت لیکھ رام جی کلیات آریہ مسافر جیلانی کامران تہذیب و تخلیق مہر شی دیونید رناتھ ٹھا کر جی بر امھ دھرم کے بنیادی اصول و عقائد پادری عماد الدین تواریخ محمدی / تعلیم محمدی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجت اللہ البالغہ حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوئی لیکچر حضرت اقدس امام زمان مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ذکر حبیب عاصم جمالی / نصر اللہ خان ناصر 313 اصحاب صدق وصفا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی حیات قدسی ڈاکٹر منور حسین مولوی چراغ علی کی علمی خدمات علامہ شبلی نعمانی سوانح مولاناروم رشید حسن خان ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ خلیق انجم متنی تنقید کتب مغربی مصنفین 1.Wilfred Cantwell Smith - Modern Islam in India 2.Contemporary Review - August 1881 انگریزی کتب 1.Moulavi Chirag Ali - Reforms under Muslim Rule A Critical exposition of popular jihad 2.A.R.Dard - Life of Ahmad 3.K.K.Aziz- Muslim India in British Journals.رپورٹس 1.Report Director Education 1898-1899 Bombay
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو) کا مقدمہ اعظم الکلام رسائل 1.Contemporary Review (London, U.K) غیر مطبوعہ مضامین / مقالہ جات ذکاءاے ملک ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ عبد الحمید رضوانی.مولوی چراغ علی ( مقالہ ایم اے اردو )1971ء پنجاب یونیورسٹی لاہور.210 A.NM.Wahidur Rehman- The relegious thought of Maulvi Chiragh Ali- Montereal, Canada.مکتوبات مشمولہ مقالہ ہذا مشفق خواجه مرزا ظفر الحسن بنام راقم الحروف ايضاً ڈاکٹر سید عبد اللہ ايضاً شان الحق حقی ايضاً پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل ايضاً سید عبدالمی شاہ صاحب ايضا ثاقب زیروی صاحب ايضاً مسعود احمد خان صاحب دہلوی ايضاً ن آن ن ن ن ن آن مکتوبات غیر مشمولہ مقالہ ہذا میرے فاضل ریفری Referee مشفقی مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ کی رائے تھی کہ " استدلال کو موثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اضافی اور ضمنی مباحث کو الگ رکھا جائے".سر تسلیم خم ہے لیکن چونکہ میں ان کا ذکر صاحب موصوف سے کر چکا تھا اس لئے صرف نام کی حد تک ذکر کیا جاتا ہے اور دوسرے صاحب کا ذکر بطور تبرک ہے جو یہ ہیں.پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب مرحوم و مغفور.اس معاملہ میں موصوف نے اپنے مکتوب مورخہ 7 ستمبر 1981ء میں تحریر فرمایا تھا کہ "یہ کچی بات ہے جو بادی النظر Seriously لینے کے قابل نہیں ہے".برادرم پر و فیسر ڈاکٹر محمد عبد الخالق صاحب مد ظلہ آپ کے توسط سے ڈاکٹر داؤد راہبر صاحب بوسٹن امریکہ پر مقیم امریکہ سے ان کی مولوی عبد الحق صاحب کے ساتھ خط و کتابت مشمولہ " مکاتیب عبد الحق " مرتبہ جلیل قدوائی کے بارے میں رابطہ کیا گیا تھا جس کا برادرم نے اپنے مکتوب محررہ 12 اپریل 1987ء میں بتایا تھا.
براہین احمدیہ : مولوی عبد الحق ( بابائے اردو ) کا مقدمہ اعظم الکلام مصنف کا علمی اور ادبی تعارف میرے دوست عاصم جمالی صاحب کا اصل نام چوہدری محمد عبد المالک ہے.آپ 8 دسمبر 1949ء کو چوہدری محمد عبد الغنی صاحب جھنگ کے ہاں پید اہوئے.آپ کے والد صاحب محکمہ مال میں ملازم تھے.آپ نے اپنی تعلیم جھنگ، سرگودھا اور لاہور سے حاصل کی.1970ء میں بی کام (آنرز) کیا.1972ء میں نیشنل بنک آف پاکستان کی ملازمت اختیار کی.تعلیم کے دوران ہی آپ پڑھنے لکھنے کے شوقین رہے.آپ کا پہلا افسانچہ " چنبیلی "1968ء میں ہفت روزہ "لاہور " میں شائع ہوا.آپ ہفت روزہ "لاہور " کے با قاعدہ لکھنے والوں میں شامل رہے ہیں اور روز نامہ "الفضل " میں 1972ء میں پہلا مضمون محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی تمغہ حسن کارکر دگی کی وفات پر شائع ہوا.1996ء میں خدا بخش اور نٹیئل پبلک لائبریری پٹنہ انڈیا کے جرنل کے شمارہ 106 میں آپ کا ایک مضمون سوامی شنگن چندر کے جلسہ و مذاہب کے بارے میں شائع ہو ا جو دراصل حضرت مسیح موعود کی کتاب " اسلامی اصول کی فلاسفی " کا تعارف ہے.1997ء میں مجلس ترقی ادب لاہور کے رسالہ "صحیفہ " میں "غالب کی شاعرانہ عظمت اور آزاد " شائع ہوا.211 آپ کی ایک مطبوعہ کتاب " 313 اصحاب صدق وصفا " جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں ایک مفید اضافہ ہے.جامعہ کراچی کے تحقیقی رسالہ " جریدہ " 33 میں مولوی عبد الحق بابائے اُردو کے ترجمہ Reforms under Muslim“ Rule (اعظم الکلام فی ارتقاء اسلام میں تحریف و تدلیس کے بارے میں رسالہ مذکور کی زینت بنا.ایک تحقیقی مقاله زیر عنوان جناب ماسٹر امیر عالم سامانوی مرحوم کا خطبات اقبال پر تبصرہ مرتب کیا جو ابھی غیر مطبوعہ ہے.علاوہ ازیں کرٹ برنا (Kurt Berna) کی کتاب Christ did not perish on the cross کا اردو ترجمہ کیا جو تاحال غیر مطبوعہ ہے.گذشتہ چالیس سالہ تحقیقات کا نتیجہ " براہین احمدیہ اور مولوی عبد الحق بابائے اُردو کا مقدمہ اعظم الکلام " کی صورت میں آپ کے سامنے ہے.اس کتاب میں مصنف مذکور نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے.کتاب میں کئے گئے وعدہ کے مطابق ایک اور کتاب براہین احمدیہ اور مولوی رحمت اللہ کیرانوی کی اظہار الحق وغیرہ زیر تصنیف ہیں..اللہ کرے زور قلم اور زیادہ مرزا خلیل احمد قمر 15-08-2012
Barahin-e- Ahmadiyah And Preface of Maulvi Abdul Haq to Book entitled "Reforms under Muslim Rule" (Azam ul Kalam Fi Irtiqa el Islam) By: Asim Jamali