Language: UR
ر گناہ کی ظاہری صو صورت ے بھی کچھ اور اس کے باطل سے بھی کچھ خطبہ جمعہ حضرت خلیفة اسبح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزیز فرمودہ 5 فروری 2010ء تجسّس ، بدظنی اور غیبت سے اجتناب کریں نظارت اصلاح وارشاد مرکز به
گناہوں کی بخشش کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا "اے میرے محسن اور میرے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں.تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سو اب بھی مجھے نالائق اور پر گناہ پر رحم کر اور میری بیبا کی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے ) نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں.آمین ثم آمین.( مکتوبات احمدیہ جلد 2 مکتوب 2)
گناہوں سے دُوری کی دعا اللَّهُمَّ بَاعِدُ بَينِي وَ بَيْنَ خَطَايَايَ اے اللہ ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری ڈال دے كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ جس طرح تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری ڈال دی ہے.اَللّهُمَّ نَقِنِى مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى اے اللہ ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف کر دے جس طرح الشَّوبُ الاَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِل ، سفید کپڑا (دھو کر ) گندگی سے صاف کیا جاتا ہے.اے اللہ ! خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولوں سے دھودے ( بخارى كتاب الأذان )
پیش لفظ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مورخہ 5 فروری 2010ء کے خطبہ جمعہ میں ہماری توجہ عام معاشرتی برائیوں کی طرف دلائی ہے.آغاز میں حضور انور نے ظاہری گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ ایسے مخفی گناہوں سے بچنے کی بھی تلقین کی ہے جو اپنی ذات میں برائی دکھائی نہ بھی دیں لیکن ان کے نتائج رفتہ رفتہ برائی کی طرف لیجانے والے ہوں.حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں:.”جہاں شبہات کا امکان ہے وہاں اچھی طرح چھان پھٹک کر لو اور ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی اور مدد چاہو.اس سے کام میں ایک تو برکت پڑتی ہے اور برائیوں میں ڈوبنے سے یا برائیوں کے بداثرات سے انسان بچتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے.“ گناہوں اور ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کا طریق بتاتے ہوئے نماز کی تلقین کی ہے.نماز شیطان کے حملہ سے محفوظ رکھتی ہے اور حسنات کا وارث بناتی ہے.پھر حضور انور نے بعض ظاہری برائیوں یعنی شراب نوشی ، جوئے اور لاٹری سسٹم کے نقصانات اور ان کے حرام ہونے کا ذکر کیا ہے.آخر پر حضور انور نے احباب جماعت کو آپس میں محبت اور بھائی چارہ قائم کرنے کی تلقین فرمائی ہے جو حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے.لیکن بدظنی ہنجنس، شکوہ شکایت اور غیبت معاشرہ کے امن کو تباہ کر دیتی ہے.احمدی معاشرہ اس سے پاک ہونا چاہیے.اللہ ہمیں ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھے، ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور ہر احمدی کا آپس میں محبت اور اخوت کا تعلق جاری رہے.آمین
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010ء بمطابق 5 تبلیغ 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّحِيمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ - إِنَّ الَّذِيْنَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُوْنَ (الانعام:121) اور تم گناہ کے ظاہر اور اس کے باطن ( دونوں) کو ترک کر دو.یقینا وہ لوگ جو گناہ کماتے ہیں وہ ضرور اس کی جزا دئیے جائیں گے جو (برے کام ) وہ کرتے تھے.اس آیت میں اہم کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے.اٹم کے لغوی معنی ہیں گناہ یا جرم یا کسی بھی قسم کی غلطی یا حدود کو توڑنا یا ایسا عمل جو نا فرمانی کرواتے ہوئے سزا کا مستحق
2 بنائے.یا ایسا عمل یا سوچ جو کسی کو نیکیاں بجالانے سے روکے رکھے.یا کوئی بھی غیر قانونی حرکت.ذنب ایک لفظ ہے جس کا معنی بھی گناہ کا ہے لیکن اہل لغت کے نزدیک ذنب اور اہم میں یہ فرق ہے کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ ذنب ارادہ بھی اور غیر ارادی طور پر دونوں طرح ہو سکتا ہے لیکن اہم جو ہے وہ عموماً ارادہ ہوتا ہے.بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہم کے حوالے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.ایک حکم یہ ہے کہ تم گناہ کی ظاہری صورت سے بھی بچو اور اس کے باطن سے بھی بچو.ہر کام کرنے سے پہلے غور کرو.بعض چیزیں اور بعض عمل ایسے ہوتے ہیں جو واضح طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں کہ غلط ہیں اور یہ شیطانی کام ہیں.لیکن دوسری قسم کے وہ عمل یا با تیں بھی ہیں جو بظاہر تو اچھے نظر آ رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بدنتائج پر منتج ہوتے ہیں.ان کی اصل حقیقت چھپی ہوتی ہے.شیطان کہتا ہے کہ یہ کام کرل کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں لیکن کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کام سے یہ ایسا گند ہے جس میں پھنس گیا ہوں اس سے نکلنا مشکل ہے.اور پھر ایسا چکر چلتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا گناہ سرزد ہوتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر چلنے والے کا کام ہے کہ ظاہر برائیاں جو ہیں ان پر بھی نظر رکھے اور باطن اور حقیقی برائیاں جو ہیں جن کے بدنتائج نکل سکتے ہیں ان پر بھی نظر رکھے.ہر کام کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے مدد چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شر سے بچائے ، جو بھی اس کام میں شر ہے اس سے بچائے.
3 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف ظاہری حسن دیکھ کر کسی کام کے کرنے پر تیار نہ ہو جاؤ، اس پر آمادہ نہ ہو جاؤ کسی چیز کو دیکھ کر اس کے حسن کو دیکھ کر اس پہ مرنے نہ لگو.بلکہ جہاں شبہات کا امکان ہے وہاں اچھی طرح چھان پھٹک کر لو اور ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی اور مدد چاہو.اس سے کام میں ایک تو برکت پڑتی ہے اور برائیوں میں ڈوبنے سے یا برائیوں کے بداثرات سے انسان بچتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے.دوسری بات یہ واضح فرما دی کہ اگر زندگی میں ہر کام میں تقویٰ کو سامنے نہیں رکھو گے ، پھونک پھونک کر قدم نہیں اٹھاؤ گے، حلال ، حرام کے فرق کو نہیں سمجھو گے تو پھر گناہ کا ارتکاب کرو گے.جو بھی گناہ کرو گے اس کی سزا ملے گی.یہ بہانے کام نہیں آئیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں چلا.اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں ایک اصولی بات یہ بیان فرما دی کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشوں کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں.اس لئے تمہیں ہوشیار ہونا چاہئے حلال حرام کے فرق کو پہچانو.جس کام سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اس سے رک جاؤ.انم کا لفظ استعمال فرما کر واضح فرما دیا کہ اس ہدایت کے با وجودا گر تم باز نہیں آتے اور غلط راستے پر چلانے والوں کی باتوں میں آتے ہو تو یہ ایسا گناہ ہے جو ظاہر ہے پھر تم جان بوجھ کر کر رہے ہو.اور جو گناہ جان بوجھ کر کئے جائیں وہ سزا کا مورد بنا دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انم، گناہ کے حوالے سے قرآن کریم میں متعدد احکامات دیئے
4 ہیں جن میں سے بعض اور بھی میں یہاں بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف میں اس بات کی یوں وضاحت فرمائی ہے.فرمایا کہ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِلْ بِهِ سُلْطنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (الاعراف:34) تو کہہ دے کہ میرے رب نے محض بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی جو اس میں سے ظاہر ہو اور وہ بھی جو پوشیدہ ہو.اسی طرح گناہ اور ناحق بغاوت کو بھی اور اس بات کو بھی کہ تم اس کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ جس کے حق میں اس نے کوئی حجت نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بات کو مزید واضح فرمایا کہ تمام قسم کے غلط اور شیطانی کام کی ( دین حق ) سختی سے مناہی فرماتا ہے.ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کی تلاش میں رہے کہ کون سے کام تقویٰ پر چلانے والے ہیں اور کون سے کام تقویٰ سے دور لے جانے والے ہیں اور خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں.بیشک بعض غلط کام انسان سے پوشیدہ بھی ہوتے ہیں اور شیطان اس تلاش میں ہے کہ کب میں ابن آدم کو آدم کی طرح ور غلاؤں اور ان گناہوں کی طرف راغب کروں.اور ایسے خوبصورت طریق سے ان غلط کاموں اور گناہوں کا حسن اس کے سامنے پیش کروں کہ وہ غلطی نہیں بلکہ اسے اچھا سمجھتے ہوئے اسے کرنے لگے اور پھر ان
5 برائیوں میں ڈوب کر ان کو کرتا چلا جائے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہوشیار کر دیا کہ ان سے بچو یہ حرام چیزیں ہیں.یہ تمہیں سزا کا مستوجب ٹھہرائیں گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ (الاعراف:34) کہ میرے رب نے بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے.خواہ وہ ظاہری بے حیائیاں ہیں اور بداعمال ہیں یا چھپی ہوئی بے حیائیاں ہیں یا بُرے اعمال ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ بے حیائی کی باتیں حرام ہیں بات ختم نہیں کر دی بلکہ جہاں بے حیائی کی باتوں کی نشاندہی فرمائی ہے کہ کون کون سی باتیں بے حیائی کی باتیں ہیں وہاں اس کا علاج بھی بتایا ہے کہ فواحش سے تم کس طرح بچ سکتے ہو ایک جگہ فرمایا کہ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر (العنكبوت:46) که یقین نماز فحشاء اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.اور کیونکہ بے حیائی اور فحشاء اس زمانہ میں تو خاص طور پر ہر وقت انسان کو اپنے روزمرہ کے معاملات میں نظر آتے رہتے ہیں اور اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے پانچ وقت کی نمازیں رکھ کر ان سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کا راستہ دکھایا اور اس کی تلقین فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الہیہ کا مورد بنا دیتی ہے.کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے.اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے.اب ذرا غور کرو
6 فرمایا ” اب ذرا غور کرو.نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے.اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے.یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لَا اِلهَ إِلَّا اللہ یعنی اللہ ہی پرختم ہوتی ہے.یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اوّل و آخر اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور فرمایا کہ " میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے.پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالی کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں“.(ملفوظات جلد.سوم صفحه 37 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه) پس اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے پر غور کریں کہ انسان کا اسم اعظم استقامت ہے تو ایک کوشش کے ساتھ اس نماز کی تلاش میں رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے تو اسے وہ نماز ادا کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتی ہے، جو فحشاء سے روکتی ہے، جو حسنات کا وارث بناتی ہے.ظاہری اور باطنی فواحش سے انسان محفوظ رہتا ہے.ایسی نمازوں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری مزید راہنمائی فرمائی ہے.فرمایا کہ: نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے.
7 مگر اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی.اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہو سکتا.اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 403 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه) پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد سے اپنے دلوں کو بھرنے کی ضرورت ہے تا کہ آج دنیا میں فحشاء اور بے حیائیوں کے جو ہر طرف نظارے نظر آتے ہیں ان سے ہم بچے رہیں.کیونکہ اس کے بغیر شیطان ہمیں ایسے گناہوں کی طرف لے جاتا ہے جو اتم کہلاتے ہیں ، جن میں انسان ڈوبتا چلا جاتا ہے، جو ہمیں اپنے فرائض کے بجالانے سے روکے رکھتے ہیں، غلطیوں پر غلطیاں سرزد ہوتی چلی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرتے چلے جاتے ہیں.اس لئے فرمایا کہ بغاوت سے بھی بچو.یہ بھی حرام ہے.اگر احساس پیدا نہ کیا تو تمام حدود قیود جو ہیں ان کو تم توڑ دو گے تمہیں احساس نہیں رہے گا کہ کون سے عمل احسن ہیں اور صالح ہیں اور کون سے غیر صالح.بعض نمازیں پڑھنے والے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑ رہے ہوتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نمازوں کا صحیح مقام حاصل کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی مدد اور استعانت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے کی ضرورت ہے.ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی ضرورت ہے.پس جب یہ صورتحال پیدا ہوگی تبھی ایک مومن حقیقی مومن کہلائے گا
8 اور بے حیائی کی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا.پھر سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ اس کے حوالہ سے بعض اور برائیوں کا بھی ذکر فرماتا ہے.فرمایا کہ يَسْتَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ - قُلْ فِيْهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرة: 220) کہ وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھی.اور دونوں کا گناہ ( کا پہلو ) جو ہے ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے.شراب اور جوئے کے بارہ میں پہلے فرمایا کہ ان میں بڑا گناہ ہے.اور پھر فرمایا کہ ان میں خدا تعالیٰ نے فوائد بھی رکھے ہیں لیکن فرمایا کہ اس کا گناہ جو ہے اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہے.اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے نشانات کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم سوچ اور فکر سے کام لو.پس واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جو بنائی ہے بیشک اس کے فوائد بھی ہوتے ہیں اور نقصان بھی.اس لئے یہ اصولی بات یاد رکھو کہ جس چیز کے نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہوں اس کے استعمال سے بچو اور یہ دونوں چیزیں جو ا اور شراب تو ایسے ہیں جو اہم گبیر ہیں.ان میں بڑے بڑے گناہ ہیں.باوجود فائدہ کے یہ گناہ میں بڑھانے والے ہیں اور جیسا کہ میں نے انم کے لغوی معنوں میں بتایا تھا اور قرآن کریم میں بھی ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَــامـا (الفرقان: 69) یعنی اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا.پس باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
9 جوئے اور شراب میں فائدہ بھی ہے، یہ کھول کر بیان کر دیا کہ تم غور کرو لیکن غور اس بات پر نہیں کہ میں تھوڑا فائدہ اٹھاؤں یا زیادہ.یہ دیکھوں کہ اس میں فائدہ ہے کہ نہیں ہے.غور اس بات پر کرنا ہے کہ اگر میں نے اس کو استعمال کیا یا یہ کام کیا تو گناہگار بنوں گا اور سزا کا سزاوار ٹھہروں گا.کیونکہ اسمُهُمَا اَكْبَر کہہ کر بتا دیا کہ تمہیں اس کے جرم کی سزا ملے گی.اور یہ ایسا گناہ ہے جس میں ایک دفعہ انسان پڑتا ہے تو پھر پڑتا چلا جاتا ہے.جان بوجھ کر اس گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے.دونوں کاموں کے کرنے کا ایک نشہ، ایک چاٹ لگ جاتی ہے اور یوں بغاوت کا روسیا ختیار کرتے ہوئے سزا کا بھی مستحق بن جاتا ہے.تو دونوں چیزیں ہی ایسی ہیں جس میں انسان اپنے پاکیزہ مال کو بھی ضائع کر رہا ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ پاکیزہ مال ضائع کر رہا ہوتا ہے بلکہ حرام مال جو ہے اس کو اپنے طیب مال میں شامل کر کے تمام مال کو ہی حرام بنالیتا ہے.جو اکھیلنے والا مال ضائع کر دیتا ہے.شراب پینے والا جو ہے وہ شراب میں مال ضائع کر دیتا ہے.اپنی صحت برباد کر لیتا ہے.قرآن کریم میں دوسری جگہ واضح طور پر مناہی کر کے بتایا کہ شراب، جوئے اور قرعہ اندازی کے تیر جو ہیں یہ سب شیطانی کام ہیں جو نیکیوں.روکتے ہیں، اعلیٰ اخلاق سے روکتے ہیں.عبادات سے روکتے ہیں.ނ سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَ نْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطنُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ
10 وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوةِ - فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ - وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا عَلَى رَسُوْلِنَا الْبَلْغُ الْمُبِينُ (المائده : 91-93) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً مد ہوش کرنے والی چیز اور جو ا اور بت ( پرستی) اور تیروں سے قسمت آزمائی یہ سب نا پاک شیطانی عمل ہیں.پس ان سے پوری طرح بچو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.یقیناً شیطان چاہتا ہے کہ نشے اور جوئے کے دوران تمہارے درمیان بغض اور عناد پیدا کر دے اور تمہیں ذکر الہی اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم باز آجانے والے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (برائی سے ) بچتے رہو اور اگر تم پیٹھ پھیر جاؤ تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف پیغام پہنچانا ہے.آجکل ان ملکوں میں شراب جوا تو عام ہے بلکہ اب تو ہر جگہ ہے.جہاں پابندیاں ہیں وہاں بھی بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگ جا کر پیتے ہیں.ان ملکوں میں تو ہر جگہ نہ صرف یہ کہ عام ہے بلکہ کسی نہ کسی طریق سے اس کی تحریص بھی کروائی جاتی ہے.ہر سروس سٹیشن پر یا ہر بڑے سٹور پر جوئے کی مشینیں نظر آتی ہیں.کسی نہ کسی رنگ میں اس میں جو اکھیلا جاتا ہے اور جہاں تک شرک کا سوال ہے اگر ظاہری بت نہ بھی ہوں تو نفس کے بہانوں کے بہت سے بت انسان نے تراش لئے ہیں.باوجود ایمان لانے کے بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کی انسان پرواہ نہیں کرتا.اور پھر یہ جو بت ہیں، بعض ایسے جو مخفی شرک ہیں یہ عبادات میں روک بنتے ہیں، نمازوں میں روک بنتے
11 ہیں.نمازیں جو فحشاء کو دور کرنے والی ہیں ان کی ادائیگی میں روک بن جاتے ہیں.پھر تیروں سے قسمت نکالنا ہے اور آج کل اس کی ایک صورت لاٹری کا نظام بھی ہے اس میں بھی لوگ بے پرواہ ہیں.زیادہ تر پرواہ نہیں کرتے اور لاٹری کے ٹکٹ خرید لیتے ہیں.یہ چیز بھی حرام ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب شیطانی کام ہیں.پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ عبادات میں استقامت دکھائے.نیک اعمال بجالانے کی کوشش میں استقامت دکھائے.برائیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کے لئے استقامت دکھائے اور یہ استقامت اس وقت آئے گی جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نمازوں کی طرف توجہ ہوگی.پھر نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے اور گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ اس طرح حکم فرمایا ہے کہ فرمایا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ ـ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائده : 3) کہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی ( کے کاموں ) میں تعاون نہ کرو.اور اللہ سے ڈرو.یقینا اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے.میہ ( دین حق ) کی خوبصورت تعلیم ہے کہ اس میں پہلے یہ بیان کر کے کہ دشمن کی زیادتی اور دشمنی بھی تمہیں کسی قسم کی زیادتی پر آمادہ نہ کرے، پھر فرمایا کہ نیکی اور تقویٰ میں ہمیشہ تمہارا تعاون رہے.اصل تقویٰ تو ایک مومن کے اندر ہے اور ہونا چاہئے.پس نیکی کے کاموں میں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے تعاون ہمیشہ جاری رہنا چاہئے اور
12 تقوی ہی ہے جو پھر مزید نیکیوں کے بیج ہوتا چلا جاتا ہے.اگر کوئی چیز ایک مومن کو بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے اور دوہرانی چاہئے تو وہ نیکیوں کی طرف توجہ اور نیکیوں کا فروغ ہے.اور اگر کسی چیز سے بچنا ہے تو وہ گناہ اور زیادتی ہے.ایک مومن کی شان نہیں کہ اقسم اس سے سرزد ہو.ایسا گناہ سرزد ہو جو جان بوجھ کر کیا جائے.جو زیادتی کرنے والوں سے زیادتی کرواتا چلا جائے.زیادتی کرنے والوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں کیا کر رہا ہوں.وہ ظلموں کی انتہا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اتم اور عُدْوَان یا بار بار کئے جانے والے گناہ اور زیادتی سے نہیں رکو گے تو یا درکھو اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بڑا سخت ہے.ایسی خوبصورت تعلیم ہوتے ہوئے پھر یہ الزام ( دین حق ) پر لگایا جاتا ہے کہ ظلم و زیادتی سے (دین حق ) پھیلا ہے اور ( دین حق ) زیادتی کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے اور آئے دن کہیں نہ کہیں ان ملکوں میں ( دین حق ) کے خلاف کچھ نہ کچھ شوشے چھوڑے جاتے ہیں.لیکن آج کل اگر ہم دیکھیں تو مغرب میں کیا ہو رہا ہے.عراق وغیرہ پر یا بعض اور ملکوں میں جو ظلم کئے جارہے ہیں،عراق کے ظلموں کا حال تو ہم نے سن لیا جو پبلک انکوائری ہورہی ہے اس میں بہت ساروں نے تسلیم کیا کہ یہ ظلم تھا اور ہے لیکن ظلم کے باوجود بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بالکل ٹھیک ہوا ہے اور ہونا چاہئے تھا.لیکن ( دین حق ) کہتا ہے کہ نہیں ، تقویٰ کا یہ کام نہیں.جہاں تمہاری غلطی ہے اس غلطی کو مانو اور جہاں صلح صفائی کی ضرورت ہے یا نیک کاموں میں بڑھنے کی ضرورت ہے وہاں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے نیکیوں کو پھیلاؤ.زیادتیوں سے اپنے آپ
13 کو روکو اور اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر یہ چیز اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کو سزا کا مستحق بناتی ہے.جب غیروں کو اس قدر تاکید ہے تو اپنوں سے حسن سلوک کس قدر ہونا چاہئے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور اُن کو طاقت دی جاوے.یہ کس قدر نا مناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے.اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے.اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدہ:3) کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ.بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو.کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے.صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو، کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے.اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے.فرمایا: ” دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہوسکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چارمل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ.
14 دیکھیں.ایسا ہر گز نہیں چاہئے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں.کیوں نہیں کیا جاتا ہے.....کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کرلیا جاوے.ذرا ذراسی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں.جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے.پردہ پوشی کی جاوے.جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں.خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاد دلائی ہے.اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا.(ملفوظات جلد دوم صفحه 25-263 جدید ایڈیشن) پس یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو نیکی اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہیں اور گناہ سے بچاتے ہیں اور زیادتی سے روکتے ہیں.عبادتوں سے جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے تو یہ اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان سے پھر حقوق العباد کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی ہے.پھر ایک بہت بڑی برائی کی طرف خدا تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلاتے ہوئے یہ حکم فرمایا که تأيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ - إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ولَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيْهِ
15 مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ - وَاتَّقُوا اللهَ ـ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات:13) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بکثرت ظن سے اجتناب کیا کرو.یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.اور تجسس نہ کیا کرو.اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے.پس فرمایا کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے، جو نہ صرف انسان کی اپنی ذات کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو معاشرے کے امن کو بھی برباد کر دیتا ہے.دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے.ایک ایسا گناہ جو انسان بعض اوقات اپنی انا کی تسکین کے لئے کر رہا ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو، تجس بھی بعض اوقات بدلنی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کسی کے بارہ میں تجس کر رہا ہوتا ہے اس کے بعد بھی جب پوری معلومات نہیں مانتیں تو جو معلومات ملتی ہیں انہی کو بنیاد بنا کر پھر بدظنیاں اور بڑھ جاتی ہیں اور بدظنی میں بعض اوقات انسان اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی حالت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ہیں، خدمت کرنے والے بھی ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جاہل اجڈ عورتیں بھی نہیں کرتی ہوں گی.چھوٹے چھوٹے شکووں کو اتنا زیادہ اپنے اوپر سوار کر لیا جاتا ہے.بلکہ
16 یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اس سے بڑی بات ہی کوئی نہیں ہے.اور اس سے نہ صرف اپنے کاموں میں حرج کر رہے ہوتے ہیں.ایسی سوچوں کے ساتھ اپنی زندگی بھی اجیرن کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ادھر اُدھر باتیں کر کے جس کے خلاف شکوہ ہوتا ہے اس کی زندگی بھی اجیرن کر رہے ہوتے ہیں.اور بعض دفعہ ایسے معاملات میرے پاس بھی آجاتے ہیں اور جب تحقیق کرو تو کچھ بھی نہیں نکلتا.بڑی معمولی سی بات ہوتی ہے.پھر بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا شکایت کرنے والے کے ساتھ براہ راست معاملہ بھی نہیں ہوتا.ادھر سے بات سنی ادھر سے بات سنی ، تجسس والی طبیعت ہے شوق پیدا ہوا کہ مزید معلومات لو اور ادھ پچدی جو معلومات ملتی ہیں ان کو پھر فوراً اپنے پاس سے حاشیہ آرائی کر کے اچھالا جاتا ہے.تو جب کسی کے بارہ میں باتیں کی جاتی ہیں اور انہیں اچھالا جاتا ہے تو اس شخص بیچارے کی زندگی اجیرن ہوئی ہوتی ہے کیونکہ اس ماحول میں اس کو دیکھنے والا ہر شخص ایسی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے وہ بہت بڑا گناہگار انسان ہے.وہ چھپتا پھرتا ہے.بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.بہر حال یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے.ہر احمدی کو اس سے بچنا چاہئے.پھر غیبت ایک گناہ ہے جس سے اصلاح کی بجائے معاشرے میں بدامنی کے سامان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس گندے فعل سے کراہت دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم تو آرام سے غیبت کر لیتے ہو.یہ سمجھتے ہو کہ کوئی بات نہیں ، بات کرنی ہے کرلی.زبان کا مزا لیتا ہے لے لیا.یا کسی کے خلاف زہر الگنا ہے اگل دیا.لیکن یا در کھو یہ ایسا
17 مکروہ فعل ہے ایسی مکروہ چیز ہے جیسے تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھالیا.اور کون ہے جو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہت نہ کرے.غیبت یہی ہے کہ کسی کی برائی اس کے پیچھے بیان کی جائے.پس اگر اس شخص کی اصلاح چاہتے ہو جس کے بارہ میں تمہیں کوئی شکایت ہے تو علیحدگی میں اسے سمجھاؤ تا کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور پھر بھی اگر نہ سمجھے تو پھر اصلاح کے لئے متعلقہ عہدیدار ہیں، نظام جماعت ہے، امیر جماعت ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی مصلحت آڑے آ رہی ہے یا تسلی نہیں ہے تو مجھ تک پیغام پہنچایا جاسکتا ہے.بعض لوگ مجھے شکایت کرتے ہیں لیکن ان شکایتوں سے صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ اصلاح کی بجائے اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں اور پھر ا کثر یہی ہوتا ہے کہ شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے صرف ایک احمدی یا ایک ہمدرد لکھ دیتے ہیں نیچے یا پھر ایسا نام اور پتہ لکھتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں ہوتا جو بالکل غلط ہوتا ہے.ایسے لوگ سوائے میرے دل میں کسی کے خلاف گرہ پیدا کرنے کی کوشش کے اور کچھ نہیں کر رہے ہوتے.اور اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے.کیونکہ نام چھپانے سے ایک تو صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ کوئی ہمدرد نہیں ہے بلکہ صرف کسی دوسرے کو بدنام کرنا چاہتے ہیں.عموماً تو ایسے خطوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور میرا کام تو ویسے بھی یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پہلے تحقیق کرواؤں، پتہ کروں اور جس کا نام پتہ ہی نہیں اس کی تحقیق بھی نہیں ہوسکتی.لیکن اگر کسی کو سزا ہوبھی تو میرے دل میں اس کے خلاف نفرت کبھی نہیں پیدا ہوئی ، نہ کوئی گرہ پیدا ہوتی ہے بلکہ دکھ ہوتا
18 ہے کہ ایک احمدی کو کسی بھی وجہ سے سزا ہوئی ہے.بہر حال ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاتَّقُوا اللهَ که تقویٰ اختیار کرو.إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رحیم کہ اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے.جن کو اس قسم کی بدلیوں کی یا تجسس کی یا نیت کی عادت ہے اپنے والوں کو ٹولیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف کریں.اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احساس ندامت لے کر میرے پاس آؤ گے تو میں تمہاری توبہ قبول کروں گا اور تمہارے ساتھ رحم کا سلوک کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنون فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے.بدظنی بہت بُری چیز ہے.انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدقتی شروع کر دیتا ہے".(ملفوظات جلد اول صفحه 375 جدید ایڈیشن) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”بدظنی صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے.اس لئے تم اس سے بچو اور صدیق کے کمالات حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرو.(ملفوظات جلد اول صفحه 247 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه)
19 پھر فرمایا : ” بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں.جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے.مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے ( شکوے شکائیتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے ) ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا ہے اَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مينا (الحجرات: 13) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نا دان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یاد شنی پیدا ہو.یہ سب کمرے کام ہیں.(ملفوظات جلد چهارم صفحه 654-653 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه) اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر ہم عمل کرنے والے ہوں اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والے ہوں.
اللہ کا ذکر اور اس کی یاد ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد سے اپنے دلوں کو بھرنے کی ضرورت ہے تا کہ آج دنیا میں فحشاء اور بے حیائیوں کے جو ہر طرف نظارے نظر آتے ہیں ان سے ہم بچے رہیں.کیونکہ اس کے بغیر شیطان ہمیں ایسے گناہوں کی طرف لے جاتا ہے جو اہم کہلاتے ہیں ، جن میں انسان ڈوبتا چلا جاتا ہے، جو ہمیں اپنے فرائض کے بجالانے سے روکے رکھتے ہیں،غلطیوں پر غلطیاں سرزد ہوتی چلی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرتے چلے جاتے ہیں.اس لئے فرمایا کہ بغاوت سے بھی بچو.یہ بھی حرام ہے.اگر احساس پیدا نہ کیا تو تمام حدود قیود جو ہیں ان کوتم توڑ دو گے.تمہیں احساس نہیں رہے گا کہ کون سے عمل احسن ہیں اور صالح ہیں اور کون سے غیر صالح.بعض نمازیں پڑھنے والے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑ رہے ہوتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نمازوں کا صحیح مقام حاصل کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی مدد اور استعانت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے کی ضرورت ہے.ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی ضرورت ہے.پس جب یہ صورتحال پیدا ہوگی تبھی ایک مومن حقیقی مومن کہلائے گا اور بے حیائی کی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا.(خطبہ جمعہ 5 فروری2010)