Badrgahe Ziahan Selected Naats

Badrgahe Ziahan Selected Naats

بدرگاہ ذیشانؐ

منتخب نعتوں کا مجموعہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی
منظوم کلام

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے متبعین کی محبت رسول ﷺسے زمانہ آگاہ ہے۔آپ علیہ السلام کی پیدا کردہ جماعت جانی ، مالی اور قلمی طور پر اس راہ میں فدا ہے۔ لجنہ اماء اللہ ۔۔ نے 77 احمدی شعراء کا منظوم نعتیہ کلام کا مجموعہ مرتب کرکے دکھایا ہے کہ یہ گروہ عاشقاں صرف نثر ہی نہیں بلکہ شاعری کے توسط سے بھی اپنے آقا و مطاع کی بلند شان کے بیان اور اس سے اظہار عقیدت ومحبت میں یگانہ روزگار ہے۔ اس مجموعہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اردو، عربی اور فارسی نعتیہ کلام سے آغاز کرکے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ  اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعد احمدی احباب و خواتین کا نعتیہ کلام پیش کیا گیا ہے جس کا سرسری مطالعہ ہی اس الٰہی سلسلہ کے بہت سے معترضین کے بے سروپا اعتراضات اوران کی  ناواقفیت کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔


Book Content

Page 1

زندگانشان صلى الله

Page 2

وسلم والسليمان إن الله ومليت الي ياتِهَا الذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ اللہ یقینا اس نبی پر اپنی رحمت نازل کر رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی پس اے مومنو! تم کبھی اس نبی پر درود بھیجتے اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو اور اُن کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو.رسورۃ الاحزاب آیت ، د) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللهُم بَارِك عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حميد مجيده اے میرے خدا تو اپنا خاص فضل نازل فرما محمد اور آل محمد پر اور آپ سے قر ی تعلق رکھنے والوں پر جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر خاص فضل نازل کیا یقینا تو بے انتہا خوبیوں والا بڑی شان والا ہے.اے میرے خدا تو برکت نازل کرم محمد اور آل محمد پر جس طرح تو نے برکت نازل کی ابراہیم اور ال ابراہیم پر یقینا تو بے انتہاء خوبیوں والا اور بڑی شان والا ہے.

Page 3

صلى الله بَدَرُكَاهِ ذیشان علية منتخب نعتوں کا مجموعہ

Page 4

2 نام کتاب بدرگاه ذیشان ما صلى الله

Page 5

3 پیش لفظ کے شعبہ اشاعت نے جماعت کے تربیتی لٹریچر میں جو اضافہ کیا ہے اُس کے دوشاندار نتائج دیکھنے میں آئے ہیں.اوّل یہ کہ نہ صرف خواتین بلکہ ساری جماعت کیا مرد ، کیا عورتیں، کیا بچے ، کیا بڑے سب مستفید ہو رہے ہیں.دوم یہ کہ سلطان القلم کی جماعت کی مستورات کی قلمی صلاحیتیں اُجاگر ہوئیں.تصنیف و تالیف میں حصہ لینے والی خواتین کے مطالعہ اور ذوق تحقیق میں نمایاں ترقی ہوئی اور ان کی مخفی صلاحیتوں کو دل خوش کن چلا ملی ہے.گلدستہ عقیدت کا یہ حسین مجموعہ ان اشاعتوں میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے.مجھے یقین ہے کہ عاشقان محمد یہ اس کے مطالعہ سے اپنی محبت کے جذبات کی تسکین پائیں گے.

Page 6

4

Page 7

5 تعارف نے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر سلسلہ احمدیہ کے تربیتی اور تعلیمی لٹریچر میں شاندار اضافہ کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اس کام کا بہترین اجر دے.اسی سلسلہ کی ایک کڑی ایک نہایت پیاری تالیف ہمارے مقدس و مظہر و محبوب آقا محمد مصطفی احمد مجتبی میہ کے عشق میں ڈوبی ہوئی نعتوں کا ایک گلدستہ عقیدت "بدرگاہ ذیشان" ہے.حضرت بانی سلسلہ نے اردو کے علاوہ فارسی اور عربی میں بے مثال نعتیہ کلام تحریر فرمایا ہے.ربط ہے جان محمد سے مری جان کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے چھو کے دامن تر اہر دام سے ملتی ہے نجات لا جرم در پہ ترے سر کو جھکا یا ہم نے فارسی زبان میں اپنے محبوب کی شان میں گویا ہوئے.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم اور عربی میں بے مثال قصیدہ رقم فرمایا.

Page 8

60 يَا عَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلُقُ كَا الظمانِ یعنی اے اللہ کے فیض و عرفان کے چشمے خلقت تیری طرف پیاسے کی طرح دوڑ رہی ہے.سید نا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو ) کا محمد مصطفی حوالے سے جو عشق اور فدائیت کا جذبہ تھا جماعت کے افراد کو اس محبت سے ہمیشہ کے لئے سیراب کر گیا.جماعت کے شعراء کے کلام میں جابجا اس محبت کے آثار نمایاں ہیں.اس محبت کے پھولوں کی خوشبو کو لجنہ اماء اللہ کے شعبہ اشاعت نے نہایت احتیاط سے ایک دلفریب مجموعے میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے.اللہ تعالی سے دعا ہے اس عشق محمدی کو ہمارے تزکیہ کا ذریعہ بنائے اور محمدکی رنگ ہمارے فکر، ہمارے جذ بہ اور ہمارے عمل کو رنگین بنا دے.آمین محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیاں کر دئیے سب حلال و حرام علیک الصلوۃ و علیک السلام

Page 9

7 ا.ترتیب تبركات کلام الامام حضرت سید نا مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ( آپ پر سلامتی ہو ) ہمیں ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے و وہ پیشوا ہمارا جس سے سے نور سارا عجب نوریست در جان محمد (فارسی) يَا عَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ (عربی) ۱۷ ۱۸ 73 > F 19 ۲.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( خدا آپ سے ہمیشہ راضی رہے ) محمد پر ہماری جاں فدا ہے ہ اے محمد اے حبیب کردگار ۳.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی عمل اے شاہ مکی و مدنی سید الوری شہید حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلّم گلشن میں پھول باغوں میں پھل آپ کے لئے ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۷ ۳۰ ۳۳ -۴ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ( خدا آپ سے ہمیشہ راضی رہے) رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی ہ السلام اے بادی را دیدی جانِ جہاں عد میرے آقا مرے نبی کریم ۳۴ ۳۵ [ ۳۶ نمبر شمار 1

Page 10

۳۹ ۴۰ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۹ 8 دورِ اوّل ا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل دہلوی ی بدرگاہ ذی شان خیر الانام محمد مصطفیٰ ہے مجتبی ہے ۲.حضرت میر حامد شاہ تو جلوہ حق دکھا دیا تو نے آسان حضرت ماسٹر محمد حسن آسان دہلوی ی حمد سے کم نہیں ہے رتبہ نعت ۴.اکمل حضرت قاضی ظہور الدین اکمل ہ ورد میرا ہے رات دن صل علی محمد تیرے صدقے تیرے قربان مدینے والے - حافظ جناب حافظ محمد سلیم صاحب اٹاوی ے فیض جاری ہے ترا عام رسول عربی - حسن جناب حسن رہتاسی صاحب ہیر پس از حمد خدا نعت جناب مصطفی که خلیل حضرت حکیم خلیل احمد مونگھیری ہوئے ہیں گو ہزاروں انبیائے صادقیں پیدا زوتی حضرت سید حسن ذوقی حیدر آبادی الصلوة الصلوة خير الانام ہی جوش پہ آئی رحمتِ باری

Page 11

۵۲ ۵۴ ۵۵ ۵۶ ۵۸ ۶۴ ۶۶ ۶۷ 79 9 ۱۳ ۱۴ と ۱۵ 17 ۱۷ و قیس جناب قیس مینائی نجیب آبادی غمبر حضرت اقدس سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں محمد عربی پر ہزار بار درود ہے محمد کا مقام اللہ اکبر ۱۰ گوہر حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر تیرے دیدار کی جس دل میں اے احمد تمنا ہے ال مختار حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری اللہ اللہ شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم مضطر جناب پروفیسر محمد علی مضطر صاحب زندان ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا ۱۳.ہادی حضرت سیّد عبدالہادی بھاگلپوری روئے زمیں پر دین کے سلطاں تمہی تو ہو دور دوم ۱۸.جناب پیر معین الدین صاحب نہیں ہے دل میں جوش نعت شہر انبیا لکھوں ۱۹.جناب مولانا دوست محمد شاہد صاحب ہ تیرے احسانوں کا ہوشکر بھلا کیسے ادا ابد جناب قریشی عبدالرحمن صاحب ابد و دل میں حبیب پاک کی الفت لئے ہوئے

Page 12

2.ง ง ۷۲ ۷۳ ۷۴ ۷۵ ZY 22 27 10 ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۴- اختر جناب عبدالسلام اختر صاحب ہے کتنا دلنشیں اُس رحمتِ انوار کا سایہ ادیب جناب حنیف ادیب صاحب والی کون و مکاں عالی صفات - اصغر جناب اکبر خان اصغر صاحب ید محمد کا ہی نور نور ازل ہے.اعجاز جناب سعید احمد اعجاز صاحب مبارک اُس بندۂ خدا کا وجود اُس پر ہزار رحمت -- اکرم جناب اکرم سرحدی صاحب عليه دل تجھ پر فدا ہو تو ہو شیدائے نبی بھی ایاز جناب ڈاکٹر مرزا محمد یوسف ایاز صاحب ذات محمد نور مجسم بسمل جناب آفتاب احمد بنل صاحب محمد کی توصیف کیسے بیاں ہو کہ جس کی شنا خود خدا کر رہا ہے ید شاہ جہان و فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ۲۸ ۱۱.پرویز جناب ناصر احمد پرویز پروازی صاحب کی زباں پہ جب بھی محمد کا نام آئے گا ۲۹ ۱۲.ثاقب جناب ثاقب زیروی صاحب اُن پر زباں پہ آیا ہے نام جن کا سلام ان پر درود ہے نام نامی تمہارا لب پر درود تم پر سلام تم پر 27 ۷۹

Page 13

۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۴ ۸۵ ۸۶ AZ ۸۸ ۸۸ 9.11 خادم جناب عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی تمنا ہے دیکھوں جمال محمد ۱۴.خالد جناب خالد ہدایت بھٹی صاحب حمير امام از کیا خیر البشر محبوب یزدانی ۱۵.ریاض جناب ملک نذیر احمد ریاض صاحب _17 کعبہ مہر و وفا سکیم جناب محمد سلیم شاہجہانپوری صاحب میرا رسول ارفع و اعلی دکھائی دے ا اور اللہ رے فیض ساقی کوثر سرشت کا ۱۷.سمیع جناب سمیع اللہ صاحب بھاگلپوری ہید مظہر عشق ہے آئینہ ادراک میرا ۱.شاہد جناب مرزا محمد افضل شاہد صاحب ہو وہ دل جو محمدؐ کا طلب گار نہیں ہے -۱۹.شاہد جناب منصور احمد شاہد انا وی لکھنوی جو کرن شمع مدینہ سے ادھر آئی ہے شبیر جناب شبیر احمد صاحب تشبیر عالم بحر و بر میں تصادم انساں تھالا چار ۲۱.شرق جناب غلام قادر صاحب شرق بنگلوری عماران صدائے قلقل مینا میں کیا تاثیر ہے تم کی ۳۰ ۳۱ ۳۲ سمسم ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸

Page 14

۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۳ 12 ۳۹ ۴۰ ۴۴ ۴۳ م م ۴۵ ۴۶ र ۴۷ شکیب جناب ارشاد احمد شکیب صاحب ا تو نور مجسم ہے دو عالم سے حسیں ہے -۲۳ - شمس جناب حکیم محمد صدیق شمس صاحب کروں کیا مدحت شان محمد ۲۴.شوق جناب عبدالحمید خان صاحب شوق حمد و لازم ہے احترام رسول کریم کا ۲۵.صادق جناب غلام محی الدین صادق صاحب اک بادی اکبر کا نعرہ جب گونج اٹھا کو ہساروں میں -۲۶ صدیق جناب محمد صدیق صاحب امرتسری نور حق ہے نور تابان محمد مصطفیٰ ی دو جہاں آپ سے رخشاں ہیں رسول عربی صوفی جناب صوفی محمد اسحاق صاحب وہ مہر منور وہ دلیر ہمارا محمد رحمت للعالمین ہیں ۲.طاہر جناب مبشر احمد صاحب طاہر جو آپ محبوب حق ہیں حبیب خدا ۲۹- ظفر جناب ظفر احمد ظفر صاحب آو درود پڑھ کر کریں اس نبی کی بات ۳۰- ظفر جناب مولانا ظفر محمد ظفر صاحب ہوں تجھ پہ قربان میری جان رسول عربی ۹۴ ۹۵ لا ٩٩ : 101 151

Page 15

۱۱۲ = ۱۰۲ ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۰۶ ۱۰۸ 11+ 13 ۴۸ ۴۹ ۵۰ ۵۱ ۵۲ ظفر جناب راجہ نذیر احمد صاحب ظفر گلدستہ صفات ہے سیرت رسول کی ۳۲.عارف جناب عبد الحئی صاحب عارف بھاگلپوری ہے محمد مصطفیٰ سردار عالم مظہر خالق ۳۳.جناب عبدالرحیم صاحب راٹھور کاشمیری و یہی آرزو ہے مری رب باری ۳۴..علیم جناب عبید اللہ علیم صاحب عمیر ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھی عید کمال آدمی کی انتہا ہے ۳۵.فیض جناب فیض چنگوی صاحب وہ نور اولیں آیا وہ نور آخریں آیا ۵۳ ۳۶- قدسی جناب عبدالکریم صاحب قدسی ہیں تابش عشق محمد ملی جب سے مجھ کو ۵۴ ۵۵ ۵۶ ۳۷.مبشر جناب مبشر احمد صاحب را جیکی علا وہ آفتاب ہدایت وہ رہبر کامل -۳۸.محمود جناب محمود احمد مرزا صاحب نہیں کتنا پیارا ہے ترا نام رسول عربی -۳۹ محمود جناب محمود الحسن صاحب ایمن آبادی و شمع ہدی ہے نور کا پیکر میرا رسول

Page 16

14 ۴۰.محشر جناب سیٹھ معین الدین صاحب محشر حیدر آبادی فکر و نظر سے ہے بلند تیرے وجود کا مقام ۴۱.مختار جناب چوہدری احمد مختار صاحب دل نے جب صلتِ علی کا ورد اونچا کر دیا ۴۲.منظور جناب میجر (ریٹائرڈ) منظور احمد صاحب ساہیوال جرم و عصیاں کے جہاں منظر کھلے ۴۳.نادر جناب نادر قریشی صاحب نوشیہ دنیا و دیں ہے تو دلوں پر حکمراں ۴۴.ناظر جناب غلام نبی ٹاک کاشمیری صاحب سرور کون و مکاں رحمتہ للعالمین -۴۵ ناہید جناب عبدالمنان ناہید صاحب ۱۱۴ 117 ۱۱۷ ۱۱۸ 119 ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ تجھ کو ازل سے ہے ملی دونوں جہاں میں برتری ۴۶.نسیم جناب نسیم سیفی صاحب حسینوں کے حسین آئے کریموں کے کریم آئے ۴۷.نصرت جناب ڈاکٹر سید حمید اللہ نصرت پاشا صاحب عليم جن کو ہوا عرفان محمد صلی اللہ علیہ وسلم -۲۸.نصیر جناب پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب نصیر عمیر جس بزم میں ذکر شہ ابرار نہیں ہے ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۵

Page 17

۱۲۴ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۵ ۱۳۷ 15 ۶۶ 12 YA شاعرات ا.محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ وہ جو احمد بھی ہے اور محمد بھی ہے.محترمہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ تیرے منہ ہی کی قسم میرے پیارے احمد" ۳.محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ محمد پہ آل محمد پہ برسے سدا میرے مولا کی رحمت کی بارش ی پیشگیری کے لئے ترساں ہے امت آج بھی ۴.محترمہ امتہ القدیر ارشاد صاحبه ☆ 79 اء ۷۲ ۷۳ اے دل و جاں کے تاجدار سلام ۵.محترمه اصغری نور الحق صاحبه آؤ مل کر آج کریں کچھ ذکر محمد پیارے کا محمد مصطفیٰ کے نام پر جاں بھی فدا کروں محترمہ شاکرہ بیگم صاحبہ ا اور احمد پاک مجتبی شمع بندی تمہیں تو ہو کہا اس نے جو ہے خبیرا بصیراً ۷.محترمہ سیدہ طیبه سروش صاحبه ہیں سجائی تو نے اخوت سے بزم امکانات ۸.محترمہ عابدہ مبارک صاحبه قبول ہونے لگیں دُعائیں

Page 18

۱۳۷ ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ 16 ۹.محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ ہیں کہیں ریگ صحرا کہیں قافلے کہیں قربتیں اور کہیں فاصلے حم سجدہ گاہوں کی خیر ہو یا رب اور جبینوں کی لاج رہ جائے ۱۰ محترمه منصوره بیگم صاحبه جميع السلام اے پادشاہ دو جہاں ا.محترمہ سیدہ منیرہ ظہور صاحبہ جہاں کے سارے ناموں سے بڑا نام محمد ۱۲.محترمہ وسیمه قدسیہ صاحبہ میرے آقا محمد رسولِ خدا شاہِ کون و مکاں سید الاصفیاء ۷۴ ۷۵ 21 22

Page 19

17 حضرت سید نا مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے کوئی دیں، دین محمد سانہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور.اُٹھود کھونا یا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے آؤ لو گو کہ یہیں نورِ خدا یاؤ گے تو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے

Page 20

18 وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے اس پر ہر اک نظر ہے بدر الدجی یہی ہے وہ یار لامکانی وہ دلبر نہانی !! دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب و امیں ہے اُس کی شا یہی ہے اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

Page 21

19 عجب نوریست درجانِ محمد عجب لعله است درکانِ محمد ز ظلمت ہاد لے آنگه شو دصاف که گر دو از محبانِ محمد عجب دارم دل آن ناکسان را که رو تابند از خوان محمد اگر خواہی دلیلے عاشقش باش ہست برہان محمد سرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربان محمد بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم شار روئے تابان محمد فدا شد در رہش ہر ذرة من که دیدم حُسن پنهان محمد تو جان ما منور کردی از عشق فدایت جانم اے جانِ محمد ا لا اے دشمن نادان و بےراہ بترس از تیغ بُران محمد ره مولی که گم کردند مردم بجو در آل و اعوان محمد الا اے منکر ازشان محمد هم از نور نمایان محمد کرامت گر چہ بے نام ونشاں است بیا بنگر زغلمان محمد طویل نظم سے چند اشعار - آئینہ کمالات اسلام مطبوعه ۱۸۹۳ء)

Page 22

20 يَا عَيْنَ فَيْضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ اے اللہ تعالٰی کے فیض اور عرفان کے چشمہ )رواں! يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظَّمَانِ آپ کی طرف لوگ پیاسوں کی طرح دوڑے (چلے) آتے ہیں يَا بَحْرَ فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَيَّانِ اے انعام و احسان کرنے والے ! خدا تعالیٰ کے فضل کے سمندر تَهْوِى إِلَيْكَ الزَّمَرُ بِالْكِيْزَانِ آپ کی طرف لوگ گوڑے لیے گروہ در گروہ بھا گئے آتے ہیں ! يَا شَمْسَ مُلْكِ الْحُسْنِ وَالْإِحْسَانِ ات ملک حسن و احسان کے آفتاب نَوَرتَ وَجْهَ الْبَرِّ وَ الْعُمْرَانِ آپ نے کی اور آبادی ک من روشن کردیائینی ہے نور ہدایت جنگلوں آبادیوں نے کہا راتوں کو ایت وتی يَا بَدَرَنَا يَا آيَةَ الرَّحْمَنِ اے ہمارے چاند ! اے خدائے رحمن کے نشان أهْدَى الهُدَاةِ وَأَشْجَعَ الشُّجَعَانِ سب ہادیوں کے ہادی اور سب بہادروں سے بڑے بہادر!

Page 23

21 إنّى أَرَى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَلِ بے شک میں آپ کے چمک دار چہرہ میں ایسی شان دیکھتا ہوں شَأْنَا يَفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ جو تمام انسانی شمائل ( و خصائل پر فوقیت رکھتی ہے فَطَلَعْتَ يَا شَمْسَ الْهُدَى نُصْحالَهُمْ اے آفتاب ہدایت ( آپ نے ایسی تاریکی اور ظلمت کی معات میں انکی خیر خواہی کیلئے اپر طلوع فرمایا لِتُضِيتَهُمْ مِنْ وَجْهِكَ التَّوْرَاني تا اپنے نورانی چہرہ سے انھیں منور و روشن کریں يا للفتى مَا حُسْنُهُ وَجَمَالُهُ اسے وہ (خوبصورت) نوجوان ! آپ کے حسن و جمال (کی خوبیاں کیسے بیان ہوں رَيَّاهُ يُصبى الْقَلْبَ مَا لَرِّيْحَانِ جن کی خوشبو ریحان کی طرح دل کو فریفتہ کر لیتی ہے.وَجهُ المُهَيْمِنِ ظَاهِرُ فِي وَجْهِهِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے خدائے جہیمن کا چہرہ نظر آتا ہے وَشُونُهُ لَمَعَتْ بِهَذَا الشَّانِ اور آپ کے تمام اعمال ( اور اخلاق اسی) شان و شوکت) کے ساتھ چپکتے ہیں

Page 24

22 22

Page 25

23 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( خلاآپ سے ہمیشہ راضی رہے) محمد پر ہماری جاں فدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے مرا دل اُس نے روشن کر دیا ہے اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے خبر لے اے مسیحا درد دل کی ترے بیمار کا دم گھٹ رہا ہے کسی کو بھی نہیں مذہب کی پروا ہر اک دنیا کا ہی شیدا ہوا ہے بھنور میں پھنس رہی ہے شتی دیں تلاطم بحرِ ہستی میں بپا ہے مرا ہر ذرہ ہو قربان احمد مرے دل کا یہی اک مدعا ہے اُسی کے عشق میں نکلے مری جاں کہ یادِ یار میں بھی اک مزا ہے محمد جو ہمارا پیشوا ہے محمد جو کہ محبوب خدا ہے ہو اُس کے نام پر قربان سب کچھ کہ وہ شاہنشہ ہر دوسرا ہے خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا وہی اک راہ دیں کا رہنما ہے (کلام محمود)

Page 26

اے محمد ! اے حبیب کردگار میں ترا عاشق، ترا دلدادہ ہوں گو ہیں قالب دو مگر ہے جان ایک کیوں نہ ہو ایسا کہ خادم زادہ ہوں اے میرے پیارے سہارا دو مجھے ! بیکس و بے بس ہوں خاک افتادہ ہوں جنت فردوس سے آیا ہوں میں تشنہ لب آئیں کہ جام بادہ ہوں میری اُلفت بڑھ کے ہر اُلفت سے ہے تیری رہ میں مرنے پر آمادہ ہوں ( کلام محمود ) 24 24

Page 27

25 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر مشعل ظلمات پہ وار آئی تاریکی پہ تاریکی ، گمراہی پر گمراہی ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی طوفانِ مفاسد میں غرق ہوگئے بحر و بر ایرانی و فارانی رومی و بخارائی بن بیٹھے خدا بندے.دیکھانہ مقام اُس کا طاغوت کے چیلوں نے ہتھیا لیا نام اُس کا تب عرش معلی سے اک نور کا تخت اترا اک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی اک ساعت نورانی خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلوے بے حد وشمار آئی کافور ہوا باطل ، سب ظلم ہوئے زائل اُس شمس نے دکھلائی جب شانِ خود آرائی ابلیس ہوا غارت، چوپٹ ہوا راج اُس کا توحید کی یورش نے در چھوڑا ، نہ بام اُس کا وہ پاک محمد ہے ہم سب کا حبیب آقا انوار رسالت ہیں جس کی چمن آرائی محبوبی و رعنائی کرتی ہیں طواف اُس کا قدموں پہ نثار اس کے جمشیدی و دارائی نبیوں نے سجائی تھی جو بزم مہ و انجم واللہ اُسی کی تھی سب انجمن آرائی دن رات درُود اُس پر ہر ادنی غلام اس کا پڑھتا ہے بصد مِنتُ جیتے ہوئے نام اُس کا آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دُعا پہنچی ہم ڈر کے فقیروں کے بھی بخت سنوار آئی ظاہر ہوا وہ جلوہ جب اُس سے نگہ بیٹی خود حُسن نظر اپنا سو چند نکھار آئی

Page 28

26 اے پشم خزاں دیدہ کھل گھل کہ سماں بدلا اے فطرت خوابیدہ اُٹھ اُٹھ کہ بہار آئی نبیوں کا امام آیا، اللہ امام اُس کا سب تختوں سے اونچا ہے تخت عالی مقام اُس کا اللہ کے آئینہ خانے سے شریعت کی نکلی وہ دُلہن ، کر کے جو سولہ سنگار آئی اترا وہ خدا کوہ فارانِ محمد پر موسیٰ کو نہ تھی جس کے دیدار کی یارائی سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کہ کچھ لمحے جو اُس کے تصور کے قدموں میں گزار آئی وه ماه تمام اُس کا مہدی تھا غلام اُس کا اُس کا روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام مرزائے غلام احمد تھی جو بھی متاع جاں کر بیٹھا نثار اُس پر.ہو بیٹھا تمام اُس کا دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اس کا اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق تام اُس کا اس دور کا یہ ساقی.گھر سے تو نہ کچھ لایا کے خانہ اُسی کا تھا.ئے اُس کی تھی جام اُس کا سازندہ تھا یہ، اسکے.سب ساجھی تھے میت اُسکے دھن اسکی تھی گیت اُسکے.لب اسکے پیام اُس کا اک میں بھی تو ہوں یا رب.صید نہ دام اُسکا دل گاتا ہے گن اُسکے.لب جیتے ہیں نام اُسکا آنکھوں کو بھی دکھلا دے.آنالب بام اُس کا کانوں میں بھی رس گھولے.ہر گام - خرام اُسکا خیرات ہو مجھ کو بھی.اک جلوہ عام اُس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پر.الہام کلام اُس کا اُس بام سے نو را ترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر نغموں سے اٹھے خوشبو.ہو جائے سُرود عنبر

Page 29

27 12 آے شاہ ملی و مدنی سید الوری بزبان حضرت اقدس اس کی شانِ نزول یہ ہے کہ رویا میں ایک شخص کو دیکھا کہ انتہائی درد میں ڈوبی ہوئی لے کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) کی ایک نعت اس انداز سے پڑھ رہا ہے گویا آنحضور ﷺ سامنے ہوں اور حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو ) کی طرف سے آپ کے حضور حالِ پر دل پیش کیا جا رہا ہو.آپ کا وہ کلام تو اٹھنے پر لفظاً لفظا میرے ذہن میں نہیں تھا مگر اس کے ٹیپ کا مصرع اے میرے والے مصطفیٰ ع خوب ذہن پر نقش ہو گیا کیونکہ وہ اسے بار بار ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر د ہرا تا تھا.پس اسی روز گویا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو ) کی نمائندگی میں اس اثر کو اپنے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی جو اس نعت کو سنتے ہوئے دل پر نقش ہو گیا.اگر چہ معین الفاظ کی صورت میں نہیں ڈھلا اور کوشش یہی تھی کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو ) کی نعتوں میں سے ہی کچھ مضمون اخذ کر کے پیش کیا جائے اور جہاں ممکن ہو آپ ہی کے اشعار زینت کے طور پر جڑ دیئے جائیں.عشق آے شاہ مکی و مدنی سید الوری تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا تیرا غلام در ہوں تیرا ہی اسیر تو میرا بھی حبیب ہے، محبوب کبریا تیرے جلو میں ہی مرا اٹھتا ہے ہر قدم چلتا ہوں خاک پاکو تری چومتا ہوا تو میرے دل کا نور ہے اے جانِ آرزو روشن تجھی سے آنکھ ہے اے پیر بدی

Page 30

28 ہیں جان و جسم ہو تری گلیوں پہ ہیں نثار اولا د ہے ، سو وہ تیرے قدموں پہ ہے فِدا تو وہ کہ میرے دل سے جگر تک اتر گیا میں وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا اے میرے والے مصطفیٰ اے سید انورٹی اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا رپ جلیل کی تیرا دل جلوہ گاہ ہے سینہ تیرا جمال الہی کا مستقر قبلہ بھی تو ہے قبلہ نما بھی تیرا وجود شانِ خدا ہے تیری اداؤں میں جلوہ گر نورو بشر کا فرق مٹاتی ہے تیری ذات " بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر " تیرے حضور نہ ہے میرا زانوئے ادب میں جانتا نہیں ہوں کوئی پیشوا دگر تیرے وجود کی ہوں میں وہ شایخ با شمر جس پر ہر آن رکھتا ہے رب الوریٰ نظر ہر لحظہ میرے در رے در پئے آزار ہیں وہ لوگ جو تجھ سے میرے قُرب کی رکھتے نہیں خبر مُجھ سے عناد و بغض و عداوت ہے اُن کا دیں اُن سے مجھے کلام نہیں لیکن اس قدر آے وہ کہ مجھ سے رکھتا ہے پر خاش کا خیال " اے آں کہ سُوئے مَن بِدَ وِيْدِی بَصَدَ تَبَر از باغباں پرس که من شاخ مُجرم بعد از خدا بعشق محمد مُخَمَّرَم گرگفر این بود بخدا سخت کافرم" آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے بر سے ہے شرق و غرب پر یکساں تیر اکرم تو مشرقی نہ مغربی اے نورشش جہات تیرا وطن عرب ہے نہ تیرا وطن عجم تو نے مجھے خرید لیا اک نگہ کے ساتھ اب تو ہی تو ہے تیرے سوا میں ہوں کالعدم

Page 31

29 ہر لحظہ بڑھ رہا میرا تجھ سے پیار دیکھ سانسوں میں بس رہا ہے تیرا عشق دم بدم میری ہر ایک راہ تیری سمت ہے رواں تیرے سوا کسی طرف اٹھتا نہیں قدم اے کاش مجھ میں قوتِ پرواز ہو تو میں اُڑتا ہوا بڑھوں، تیری جانب سُوئے حرم تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں ایں چشمہء رواں کہ خلق خداد ہم یک قطره ز بحر کمال محمد است جان و دیم فدائے جمال محمد است خاکم بشار کوچه آلِ محمد" است"

Page 32

7 30° حضرت سید ولد آدم صلى الله عليه وسلم سب نبیوں میں افضل واكرم صلى الله عليه وسلم نام محمد کام مکرم صلى الله عليه وسلم بادي کامل رہبر اعظم صلى الله عليه وسلم آپ کے جلوۂ حسن کے آگے شرم سے نوروں والے بھاگے مہر و ماہ نے توڑ دیا دم - صلى الله عليه وسلم اک جلوے میں آنا فانا.بھر دیا عالم کردئے روشن اثر دکھن پورب هم - صلى الله عليه وسلم اوّل و آخر ، شارع و خاتم صلى الله عليه وسلم ختم ہوئے جب گل نبیوں کے دورِ نبوت کے افسانے بند ہوئے عرفان کے چشمے، فیض کے ٹوٹ گئے پیمانے تب آئے وہ ساقی کوثر - مست مئے عرفان- پیمبر مُغانِ بادۂ اطہر - مے نوشوں کی عید بنانے آئیں گھنگھور گھٹائیں جھوم اٹھیں مخمور ہوائیں جھک گیا ابر رحمت باری - آب حیات نو برسانے کی سیراب بلندی پستی - زندہ ہو گئی بستی بستی بادہ کشوں پر چھا گئی مستی.اک اک ظرف بھرا برکھانے اک برسات کرم کی پیہم صلى الله عليه وسلم

Page 33

31 چارہ گروں کے غم کا چارہ - دُکھیوں کا امدادی آیا - راہنما بے راہرووں کا.راہبروں کا ہادی آیا عارف کو عرفان سکھانے.متقیوں کو راہ دکھانے جس کے گیت زبور نے گائے.وہ سردار مُنادی آیا وہ جس کی رحمت کے سائے یکساں ہر عالم پر چھائے وہ جس کو اللہ نے خود اپنی رحمت کی ردا دی.آیا صدیوں کے مُردوں کا محی صلِ علیہ گیفت پیچی موت کے چُنگل سے انسان کو دلوانے آزادی آیا جس کی دعا ہر زخم کا مریم صلى الله عليه وسلم شیریں بول - انفاس مظہر - نیک خصائل پارک شمائل حامل فرقاں - عالم و عامل - علم و عمل دونوں میں کامل جو اُس کی سرکار میں پہنچا.اُس کی یوں پلٹا دی کایا جیسے کبھی بھی خام نہیں تھا.ماں نے بنا تھا گویا کامل اُس کے فیض نگاہ سے وحشی.بن گئے علم سکھانے والے معطی بن گئے شہرة عالم.اُس عالی دربار کے سائل نبیوں کا سرتاج - ابنائے آدم کا معراج محمد ایک ہی جست میں طے کر ڈالے وصل خدا کے ہفت مراحل رب عظیم کا بندہ اعظم صلى الله عليه وسلم

Page 34

32 وہ احسان کا افسوں پھونکا موہ لیا دل اپنے عدو کا کب دیکھا تھا پہلے کسی نے حُسن کا پیکر اس خُو بُو کا نخوت کو ایثار میں بدلا.ہر نفرت کو پیار میں بدلا - عاشق جان نثار میں بدلا - - پیاسا تھا جو خار لہو کا اُس کا ظہور ظہور خدا کا.دکھلایا یوں نور خدا کا بتکدہ ہائے لات و منات پہ طاری کر دیا عالم ہوکا توڑ دیا ظلمات کا گھیرا.دُور کیا ایک ایک اندھیرا ا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً گاڑ دیا توحید کا پرچم صلى الله عليه وسلم ا شعر میں یہاں وقف کرنا ہے اس لئے باطل کی بجائے باطل پڑھا جائے

Page 35

33 گلشن میں پھول باغوں میں پھل آپ کیلئے جھیلوں پر کھل رہے ہیں گول آپ کے لئے ا میری بھی آرزو ہے.اجازت ملے تو میں اشکوں سے اک پر وؤں غزل آپ کے لئے پر مہ گاں بنیں.حکایت دل کے لئے قلم ہور وشنائی.آنکھوں کا حل آپ کے لئے ان آنسوؤں کو پھولوں پر گرنے کا اذن ہو آنکھوں میں جو ر ہے ہیں نیکل آپ کے لئے دل آپ کا ہے.آپ کی جان.آپ کا بدن غم بھی لگا ہے جان کسکن آپ کے لئے میں آپ ہی کا ہوں.وہ میری زندگی نہیں جس زندگی کے آج نہ کل آپ کے لئے اب حسرتیں بھی ہیں وہاں.آرزوؤں نے خوابوں میں جو بنائے محل آپ کے لئے گو آ رہی ہے میرے ہی گیتوں کی بازگشت نغمہ سرا ہیں دشت و جبل آپ کے لئے گر ہیں تمام گھل گئیں بجز آرزوئے وصل رکھ چھوڑا ہے اس مقدے کا حل آپ کے لئے گل آنے کا جو وعدہ تھا.آکر تو دیکھتے تڑپا تھا کوئی کس طرح کل آپ کے لئے ہر لمحہ فراق ہے عمر دراز غم گزرانہ چین سے کوئی پل آپ کے لئے آجائے کہ سکھیاں یہ مل مل کے گائیں گیت موسم گئے ہیں کتنے بدل آپ کے لئے ہم جیسوں کے بھی دید کے سامان ہو گئے ظاہر ہوا تھا حُسنِ ازل آپ کے لئے

Page 36

34 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رکھ پیش نظر وہ وقت بہن! جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیوار میں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خوں جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی یوں ماں تیری گھبراتی تھی یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی کیا تیری قدر و قیمت تھی! کچھ سوچ تری کیا عزت تھی تھا موت سے بدتر وہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی عورت ہونا تھی سخت خطا.تھے تجھ پر سارے جبر روا یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا.تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر تھی، احساس نہ تھا، جذبات نہ تھے تو ہین وہ اپنی یاد تو کر ترکہ میں بانٹی جاتی تھی وہ رحمت عالم آتا ہے.تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے.سب تیرے حق دلواتا ہے ان ظلموں سے چھڑواتا ہے بھیج درُود اُس محسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار صلِ على محمد و علی ال محمد و بارک وسلم علیہ ( در عدن )

Page 37

السلام! اے ہادی راہِ ہدیٰ جانِ جہاں والصلوۃ اے خیر مطلق اے شہ کون و مکاں 35 تیرے ملنے سے ملا ہم کو وہ "مقصودِ حیات" تجھ کو پا کر ہم نے پایا " کام دل " آرام جاں آپ چل کر تو نے دکھلادی رو وصل حبیب تو نے بتلایا کہ یوں ملتا ہے یارِ بے نشاں ہے کشادہ آپ کا باب سخاسب کے لئے زیر احساں کیوں نہ ہوں پھر مردوزن پیر و جواں تشنہ روحیں ہوگئیں سیراب تیرے فیض سے و عرفانِ خداوندی کے بحر بیکراں تو وہ آئینہ ہے جس نے منہ دکھایا یار کا جسم خاکی کو عطا کی روح اے جانِ جہاں ہے یہی ماہ میں جس پر زوال آتا نہیں ہے یہی گلشن جسے چھوٹی نہیں بادخزاں ایک ہی زینہ ہے اب بام مرادِ وصل کا بے ملے تیرے ملے، ممکن نہیں وہ دل ستاں تا قیامت جو رہے تازہ تری تعلیم ہے تو ہے روحانی مریضوں کا طبیب جاوداں

Page 38

36 یہ دُعا ہے میرا دل ہو اور تیرا پیار ہو میرا سر ہو اور تیرا پاک سنگ آستاں ( در عدن ) میرے آقا میرے نبی کریم بانی پاک باز دین قویم شان تیری گمان سے بڑھکر حُسن و احسان میں نظیر عدیم تیری تعریف ہے تری تعلیم سنگ ہوتی ہے یاں زبانِ کلیم تیرا رتبہ ہے فہم.سے بالا سرنگوں ہو رہی ہے عقل سلیم.مدح تیری ہے زندگی تیری تیری تعریف ہے تری تعلیم ساری دنیا کے حق میں رحمت ہے سب پہ جاری ہے تیرا فیض عمیم بند کر کے نہ آنکھ منہ کھولے کاش سوچے ذرا عدد لیم حق نے بندوں پر رحم فرمایا اک نمونہ بنا کے دکھلایا اسوہ پاک خلق ربانی منتہائے کمال انسانی صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کیا کہیں ہم کہ کیا دیا تو نے ہر بلا سے چھڑا دیا تو نے آدمی میں نہ آدمیت تھی اس کو انساں بنا دیا تو نے لے کے آب حیات تو آیا مر رہے تھے جلا دیا تو نے سخت گرداب گمرہی میں تھے پار ہم کو لگا دیا تو نے

Page 39

37 32 ہو کے اندھے پڑے بھٹکتے تھے ہم کو بینا بنا دیا تو نے تا به مقصود جو کہ پہنچائے وہی رستہ بتا دیا تو نے روح جس کے لئے تڑپتی تھی اس کا جلوہ دکھا دیا تو نے تیرا پایہ تو بس یہی پایا تیرے پانے سے ہی خدا پایا مصحف دید عکس یزدانی منتہائے کمال انسانی صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ شان "رپ جلیل" ہے احمد بخدا بے عدیل ہے احمد کیوں نہ پھر ہو جمال میں کامل جبکہ نور جميل" احمد ہے احمد ہے باعث ناز حضرت آدم عز و فجر خلیل اس سے بڑھکر ہزارشان میں ہے جس نبی کا مثیل ہے احمد خُلق میں آپ ہے مثال اپنی آپ اپنی دلیل ہے احمد وجہ راح روح علیل ہے احمد مضطر ہے چشمه سلسبیل احمد ہے تسکین قلب "زندگی بخش جامِ احمد ہے" بکر رحمت نے جوش فرمایا بن کر ابر کرم جو تو آیا منبع جود و فضل رحمانی منتہائے کمالِ انسانی صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ السلام اے نبی والاشان والصلوۃ اے موسس ایمان حضرت ذوالجلال کے محبوب جسکی خاطر ہوئی بنائے جہان تو مدینہ ہے علیم اکمل کا تیرا سینہ ہے مبط قرآن

Page 40

38 38 سارے جھگڑے چکا دیئے تو نے اے شہِ عدل صاحب فرقان پاک اسمائے انبیاء کردی ہمہ بودند زیر صد بہتان منهزم ہو چکی تھی جب توحید غالب آیا تھا لشکر شیطان جب زمانہ میں دور ظلمت تھا حق و باطل میں کچھ نہ تھی پہچان اے سراج منیر تو آیا ساری دنیا میں نور پھیلایا مہر عالم طبیب روحانی منتہائے کمال انسانی صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ ( در عدن )

Page 41

39 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل دہلوی بدرگاه ذی شان خیر الانام بصد عجز و منت ، بصد احترام شفيع الوَرى مَرْبَع خاص و عام یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام کہ اے شاہ کونین عالی مقام علیک الصلوة علیک السلام حسینان عالم ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں پھر اس پروہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں ز ہے ے خُلق کامل زہے حسنِ تام علیک الصلوة علیک السلام خلائق کے دل تھے یقین سے تہی بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھارہی کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے اُس کا قیام علیک الصلوة علیک السلام گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیاں کر دیئے سب حلال و حرام علیک الصلوة علیک السلام نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع ہیں آپ میں لامحال

Page 42

40 صفات جمال اور صفات جلال ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال لیا ظلم کا عفو سے انتقام علیک الصلوة علیک السلام مقدس حیات اور مطہر مذاق اطاعت میں یکتا عبادت میں طاق سوار جہانگیر یکراں براق که بگذشت از قصر نیلی رواق محمد ہی نام اور محمد ہی کام علیک الصلوة علیک السلام علمدار عشاق ذات یگاں سپہ دار افواج قدوسیاں معارف کا اک قلزم بیکراں افاضات میں زندہ جاوداں پلا ساقیا آب کوثر کا جام علیک الصلوة علیک السلام ( بخارول) محمد مصطفى مجھے ہے محمد مہ لقا ہے دل رُبا ہے جامع حسن و شمائل محمد محسن ارض محمد محسن ارض و سما ہے کمالات نبوت کا خزانہ اگر پوچھو.تو ختم الانبیاء ہے شریعت اس کی کامل اور مدلل غذا ہے اور دوا ہے اور شفا ہے مبارک ہے یہ آنحضرت کی اُمت کہ عالم اس کا مثل انبیاء ہے

Page 43

41 وہ سنگ گوشه قصر رسالت یہی "تورات" نے اس کو لکھا ہے گرا جس پر ہوا وہ چورا چورا گرا جو اُس پہ.خود ٹکڑے ہوا ہے کہا ہے سچ مسیح ناصری نے نزول اس کا نزول کبریا ہے کروں کیا وصف اُس شمس الضحی کا کہ جس کا چاند نیہ بدر الڈ جے ہے محمد نیر راہِ ہدی ہے محمد شافع روز جزا ہے محمد فخر شان آدمیت محمد مظہر ذات خدا ہے باعث تکوین عالم جسے کولاک، خالق نے کہا ہے عصمت سراسر کہ ہر بات اُسکی وحی بے خطا ہے محمد قاب قوسین محبت شفیع و وصل انسان و خدا ہے محمد پیکر محمد ہے رحمة للعالمیں عدو تک جس کے احساں سے دیا ہے محمد حاصل توحید باری جو عالم کے لئے راز بقا ہے صاحب اخلاق کامل جمالی اور جلالی ایک جا ہے ہر اک حالت سے گزرا جبکہ وہ خود تو ہر اک خُلق بھی دکھلا دیا ہے محمد راز دان علم یزداں کہ باطل جس سے سحر فلسفہ ہے محمد قاسم انعام کوثر ہر اک نعمت جہاں بے انتہا ہے ثنا کیا ہو سکے اس پیشوا کی کہ پیرو جس کا محبوب خدا ہے ہدی اور دینِ حق کا لے کے ہتھیار ہراک ملت پر وہ غالب ہوا ہے علم بردار آئین مساوات بڑا احسان دنیا پر کیا ہے.اُٹھایا خاک سے روندے ہوؤں کو ہراک جانب سے شور مرحبا ہے

Page 44

42 ہوا قرآن اُس کے دل پہ نازل وہ دل کیا ہے کہ عرش کبریا ہے وہی زندہ نبی ہے تا قیامت کہ لنگر فیض کا جاری سدا ہے امام سالکان برق رفتار کہ سدرہ ایک شب کی منتہی ہے (بخار دل) حضرت میر حامد شاہ جلوة حق دکھا دیا تو نے کفر یکسر مٹا کفر یکسر مٹا دیا تو نے تیرے قربان اے نبی عرب سیدھا رستہ بتا دیا تو نے راہ حق میں پڑے تھے جو پتھر اُن کو آ کر ہٹا دیا تو نے خواب غفلت میں سونے والوں کو اُٹھ کے آخر جگا دیا تو نے وحشیوں کو عرب کے اے ہادی آ کے انساں بنا دیا تو نے پوچھے جاتے تھے جو نہ دنیا میں اُن کو سلطاں بنا دیا تو نے جونہ دین و دنیا کی بادشاہت کا کیا سکہ جما دیا تو نے وعظ اپنا سنا دیا تو نے قوم کو لطف و مہر سے شاہا تو نے ہر وقت رحم کو برتا کرم اپنا دکھا دیا تو نے قوم نے سختیاں جو پہنچائیں کر کے نرمی ہرا دیا تو نے سرکشان عرب کو اے آقا خاک و خوں میں ملا دیا تو نے دشمنوں کے سبھی قصوروں کو فتح پا کر بھلا دیا تو نے

Page 45

43 کفر و باطل نہ ٹھہرے میداں میں حق کا ڈنکہ بجا دیا تو نے اے نبی تجھ پہ ہو صلوۃ وسلام راز تقویٰ بتا دیا تو نے حمد سے حضرت ماسٹر محمد حسن آسان دہلوی کم نہیں ہے رتبہ نعت کہ ہے وابستہ حق سے رشتہ نعت کوئی کیا جانے اُس محمد کو رب کے منشاء کو رب کے مقصد کو سارا قرآن اُس یہ ہے مشہور یعنی اس کا وجود حق کا وجود ہو جو مطلوب حق کا اور محبوب اُس کو اللہ ہی جانتا ہے خوب دلبری ! دلربائی اُس کی ہے وہ خدا کا.خدائی اس کی ہے - اہلِ عرفاں کا تصفیہ ہے یہی شان میں اس کی فیصلہ ہے یہی نام جس کا محمد عربی سیدی ہاشمی مطلبمی و مدح قرآن کی جب زبان کرے کوئی شان اس کی کیا بیان کرے اُس کی تعریف میں خدا کی زباں کھولے منہ کیا مجال ہے انسان نعت پر میرا اعتقاد بھی ہے اور تخیل اعتماد بھی ہے شان تک اس کی ہے مرا ایقاں پہنچے انسان کا نہ وہم و گماں

Page 46

44 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل ورد مرا ہے رات دن صَلّ على محمد صَلِّ عَلَى محمدٍ صَلِّ عَلَى محمدٍ لاکھ مصیبتیں پڑیں سینکڑوں مشکلیں پڑیں دل رہے اس سے مطمئن صَلِّ عَلى محمدٍ کیوں نہ کہیں یہ خلصیں کیوں نہ پڑھیں یہ مومنین تو ہے امین و موتمن صَلِّ عَلَى محمدٍ ہند و عرب میں شوق سے پڑھتے ہیں اُٹھتے بیٹھتے تیرے جواں تیرے من صَلِّ عَلَى محمدٍ شان بڑھے نبی کی کیا کہتے ہیں جب لکھوکھا وحش وطيور وانس وجن صَلِّ عَلَى محمدٍ جو ہے ہمارا شہر یار.اُسکے کرم ہیں بیشمار تو بھی نہ انگلیوں پر کن صَلِّ عَلی محمد ہم میں مسیح پاک تھا جس کا عدد ہلاک تھا ہائے وہ راتیں اور وہ دن صَلِّ عَلی محمد اکمل جاں نثار کی بات یہ ہے ہزار کی حق سے کر یگا مقترن صَلّ على محمد تیرے صدقے تیرے قربان مدینے والے مری اولاد مری جان مدینے والے دین و دنیا کے سب انعام ہمیں دلوائے کس قدر ہیں تیرے احسان مدینے والے تیری تعلیم نے مذہب کی حقیقت کھولی تو نے بخشا ہمیں عرفان مدینے والے تو نے روحانی و جسمانی ترقی کے لئے کر دیئے ہیں سبھی سامان مدینے والے تو ہی دنیا میں ہے اک کامل و اکمل انسان تجھ پہ نازل ہوا قرآن مدینے والے کفر و اسلام میں تھی جنگ نتیجہ یہ ہوا حق نے بخشا تجھے فرقان مدینے والے

Page 47

45 دین اسلام ہے بے عیب، مکمل، جامع اسکے قائل ہیں سب ادیان مدینے والے اپنا کرے قربان جو تیری خاطر اُسے ہوتا نہیں نقصان مدینے والے ہے میخانفسی تیری کہ فرمایا ہے تو نے ہر درد کا درمان مدینے والے تیرے اُسوہ سے مشرف ہو بطرزا حسن سچے مسلم کی ہے پہچان مدینے والے تجھ سا ہو شافع مقبول تو پھر کیوں ہوگا امتی تیرا پریشان مدینے والے جو بھی آیا تیرے در پر کبھی خالی نہ گیا میری مشکل بھی ہو آسان مدینے والے خوش نصیبی ہے یہ اکمل کی کہ روز محشر ہاتھ میں ہو ترا دامان مدینے والے الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۱ء) حافظ محمد سلیم اٹاوی فیض جاری ہے ترا عام رسولِ عربی ہو عطا مجھ کو بھی اِک جام رسولِ عربی کون ہے فیض سے محروم ترے، عالم میں کس پہ تیرا نہیں انعام رسولِ عربی نہ ہوا ہے نہ جہاں میں کہیں پیدا ہو گا تجھ سا محبوب دل آرام رسول عربی تیری ہر بات ہے اے ختم رسل اک آیت تیرا ہر قول ہے الہام رسولِ عربی زندہ ہوتے تو اطاعت تری کرتے عیسی تجھ پہ نعمت کا ہے اتمام رسولِ عربی

Page 48

46 وحی و الهام غلامی میں ترکی پاتے ہیں اللہ اللہ ترے خُدام رسولِ عربی تربیت سے تری اونٹوں کو چرانے والے بن گئے والی و حکام رسولِ عربی فیض صحبت سے تری بن گئے بھائی بھائی سب گل اندام و سیه فام رسولِ عربی تو نے جو بات کہی ہو گئی پتھر کی لکیر حکمت ترا ہر کام رسولِ عربی جان آرزو ہے کہ تری مدح و ثنامیں گذریں زندگی کے ہیں جو ایام رسولِ عربی رب کعبہ سے دعا ہے کہ ترے صدقے میں نیک حافظ کا ہو انجام رسولِ عربی حسن رہتاسی پس از حمد خدا نعتِ جناب مصطفی کہیئے بھری مجلس میں اوصاف حبیب کبریا کہیئے مگر یہ شرط لازم ہے کہ ہراک شعر پر میرے دُعا کرتے ہوئے صلِ عَلَى صَلِ علیٰ کہیئے جسے بدر الدجی کیلئے جسے شمس الضحا کہیئے غلط ہوگا اگر اس خوبرو کو مہ لقا کہیئے

Page 49

47 خلاف عقل و دانش ہے کہ آدم کو خدا کہیئے بعید از آدمیت ہے جو بالکل ہی جُدا کہیئے چراغ آمنہ یا شمع تابان حرا کہیئے نوید ابن مریم ابن آذر کی دعا کہیئے جو ملجائے مساکیں اور ماوائے سلاطیں ہو خدا لگتی کوئی کہہ دے کہ اُس محسن کو کیا کہیئے تیری تصویر کے دونوں ہی رُخ روشن سے روشن ہیں محمد مصطفی کہیئے کہ احمد مجتبی کہیئے اگر کہیئے یم ذخار ذات حق تعالیٰ کو تیری امت کو کشتی اور تجھ کو ناخدا کہیئے حسن اس پختہ سالی میں ترے اشعار نا پختہ تم ہی کہہ دو مناسب ہے؟ کہ ان کو دلربا کہیئے حضرت حکیم خلیل احمد مونگھیری ہوئے ہیں گو ہزاروں انبیائے صادقیں پیدا نہ ہوتا آسماں پیدا نہ ہوتی یہ زمیں پیدا محمد مصطفیٰ ان میں ہوئے اکمل تریں پیدا اگر ہوتے نہ اس دنیا میں ختم المرسلین پیدا

Page 50

48 محمد کو خدا نے رتبہ لولاک بخشا اور فرمایا سما سکتا نہیں نور محمد ایک عالم میں تیری خاطر کیا ہے یہ فلک پیدا زمیں پیدا اسی کے واسطے حق نے کئے دُنیا و دیں پیدا محمد باعث ایجاد و مقصود دو عالم ہیں اندھیرا رہتا ہر آں آسماں والوں کی محفل میں نہ ہوتے آپ تو کچھ بھی نہیں ہوتا کہیں پیدا خدا کرتا نہ گر حضرت کا نور اولیں پیدا فلک پر کرتیں کب جگمگ ستاروں کی یہ قندیلیں نہ ہوتا سرور عالم کا گر عکس جبیں پیدا نہ سورج چاند ہوتے اور نہ زہرہ مشتری ہوتے اگر ہوتا نہ یہ خورشید رَبُّ العالمیں نہ ہوتے یہ ملائک اور نہ یہ جن و بشر ہوتے زمیں پر لالہ وگل اور نہ نسریں نسترن ہوتے کہاں سے ہوتی ٹھنڈک دید کی آنکھوں میں نرگس کی پیدا نہ ہوتے آپ تو ہوتے نہ جبریل امین پیدا نہ ہوتے سنبل وریحاں نہ ہوتی یا کمیں پیدا اگر ہوتے نہ یہ دیدہ ور دنیا و دیں پیدا

Page 51

49 تھے جس دم آب اور گل ہی میں غلطاں حضرت آدمؑم امام انبیاء ہیں آپ سب کے مقتدا ہیں آپ تھا اُس دم بھی فلک پر نام ختم المرسلیں پیدا ہوئے ہیں آپ فخر اولیس و آخریں پیدا خدا نے چاہا، دنیا کو دکھائے حُسن خود اپنا محمد کو کیا ہر حسن میں احسن تریں پیدا حضرت سید حسن ذوقی حیدر آبادی الصلوة الصلوة خير أنام الصَّلوة الصلوة عرش مقام الصلوة الصلوة ختم نبي الصلوة الصلوة شمس ضحى الصلوة الصلوة في رسل الصَّلوة الصلوة ظل خدا الصلوۃ اے محمد عربی الصَّلوة الصَّلوة بدر دبي حق کے محبوب خلق کے مقبول الصلوۃ اے شفیع روز جزا "

Page 52

50 50 الصلوۃ اے کہ مخبر صادق الصلوۃ اے کہ بانی اسلام اے رسولوں کے رہبر صادق الصلوۃ اے کہ صاحب قرآں اے حیات النبی محمد نام الصلوۃ اے کہ جلوہ یزداں الصلوۃ اے کہ رحمتِ عالم الصَّلوة اے مر آدم الصَّلوة الصَّلوة كشف وجی الصلوة الصلوة بدر على الصَّلوة الصلوة امام رُسل الصَّلوة الصَّلوة سرورِ كُل الصَّلوة الصَّلوة مهر مُنير الصلوۃ اے بروزِ رَبِّ قدیر جوش آئی رحمتِ باری اسکو کہتے ہیں شان غفاری لله الحمد تھا کرم وہ عجب رہے تقدیر سر زمین عرب سارے نبیوں میں تھی مبارکباد اہل عرفاں تھے سارے خرم و شاد

Page 53

51 ساکنان جناں تھے لطف اندوز سب ملائک میں شادیانے تھے ہو گیا نور حق کا جلوہ فکن یعنی شمس الضحی گلشن ہوا پیدا دہر میں بہار آئی آگ دوزخ کی سر تھی اُس روز زبانوں پہ یہ ترانے تھے ہوئیں فاراں کی چوٹیاں روشن اور بدر الرجی ہوا پیدا رحمت رب کردگار آئی آسماں اور زمین تھے شاداں ہوا دنیا پر فضل ربّ جہاں ہو گیا آمنہ کا روشن گھر تھے فدا صبح و شام شمس و قمر آیا دنیا میں جبکہ اس کا وجود سب فرشتوں کی تھا زباں پر درود مرحبا مرحبا کا تھا نعرہ کہ سراپائے نور حق آیا ہیں اپریل پیر کا دن تھا عیسوی پانچ سو اکہتر تھی وصف میں اسکے جسکا وقت ہو صرف آیا دنیا میں نورِ رَبِّ عُلا ہو گئی شان حق کی جلوہ گری حوصلہ اُس کا اور اس کا ظرف جو بھی لکھے رسول کی تعریف اس سے بڑھکر ہے کونسی توصیف نعت گوئی کا ماحصل ہے یہی نام جب بھی سنو محمد کا !! کہ ہو حاصل خدا کی خوشنودی تو پڑھو بے حساب صلِ علیٰ ہے یہی ایک بس خلاصہ نعت چاہتے ہو اگر وثیقہ نعت ( مثنوی ذوقی )

Page 54

52 قیس مینائی نجیب آبادی حضرت اقدس سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم گل نبیوں کے قائد اعظم صلی اللہ علیہ وسلم دائره گل محور اعظم صلی اللہ علیہ وسلّم سب نبیوں کی آپ ہیں خاتم صلی اللہ علیہ وسلم روح مقدس جانِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جسم محمد نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نقش قدم تھا زینتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے دم سے تصادم آدم صلی اللہ علیہ وسلم چشمه رحمت چشم پرنم صلی اللہ علیہ وسلم آب وضو ہے کوثر و زمزم صلی اللہ علیہ وسلم مظہر قدرت، آیه رحمت ، راز فطرت ہر حقیقت قاسم نعمت، منهم و ممنعم صلى الله عليه وسلم صبح شریعت، نورطریقت، ماحی ظلمت قیم وحدت دست شفقت، ناصرو ہمدم صلی اللہ علیہ وسلّم شافع محشر ، ساقی کوثر ، سارے رسولوں کے ہیں افسر ہادی برحق، مصلح عالم صلی اللہ علیہ وسلم سر پر آپ کے تاج رسالت ، ساتھ ہے عالمگیر شریعت ہاتھ میں ہے توحید کا پرچم صلی اللہ علیہ وسلّم

Page 55

53 غار حرا کا منظر و عالم، یاد خدائے راحم و ارحم دستِ دعاء و دیده پرنم صلی اللہ علیہ وسلم سارے نبی ہیں چاند ستارے سقف فلک پر جیسے تارے آپ ہیں سب کے نیر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سارے رسولوں کی تصویر میں آپ کی صورت میں ہیں پنہاں کل تصویروں کے ہیں البم صلی اللہ علیہ وسلّم آدم سے تا حضرت عیسی سب کی دعاؤں کا ہیں نتیجہ موعود ادیانِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم سے تا ایں دم سارے نبی ہیں آپ میں مدغم آپ آئینه قد آدم صلی اللہ علیہ وسلم روح سے بڑھکر جان سے پیارا فیس کی امیدوں کا سہارا قیس کے زخم دل کا مرہم صلی اللہ علیہ وسلّم فرش زمیں سے عرش بریں تک جن و بشر اور جو رو ملائک میں یہ گاتے پھرتے ہیں ہر دم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم..صلی اللہ علیہ وسلم

Page 56

54 محمد عربی پر ہزار بار درود ہزار بار نہیں بلکہ بے شمار درود ہماری زندگی جسم و جاں درُود شریف ہمارے قلب و زباں کا ہے کاروبار درود درود پاک ہے خوشنودی رسول کریم ہزار جان سے حضرت پہ ہیں شار درود درخت عشق محمدؐ کا ہے یہ میٹھا پھل ریاض حسنِ محمدؐ کی ہے بہار درُود ہے کارگاہِ تصوف کا شاہکار ججوں تو کارگاه جنوں کا ہے شاہکار درود درود جان بہارانِ جنت ایقاں ہے خلد کا چمنستان لاله زار درود جمال و حُسنِ محمدؐ ہے عشق کی توجیہ کمال عشق محمدؐ کا اختصار درود الہیات کی تفسیر جلوہ قرآں جمالیات محمد کی جلوہ بار درود درود بھیج اگر ہے تو مسلم صادق زبان پر تری جاری ہو بار بار درود درود بھیج اگر تو ہے مومن صادق بطور ورد و وظیفه کر اختیار درود ہے قیس کی یہ غذائے زبان و قلب وروح حیات قیس کا ہے اصل میں مدار درُود (الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۷۷ء)

Page 57

55 محمد کا مقام اللہ اکبر یہی خیر البشر خیر الرسل ہیں خدا بھیجے سلام اللہ اکبر کہ ہیں خیر الانام اللہ اکبر ہوئی ملت کی پھر شیرازہ بندی یہ حسن انتظام اللہ اکبر قدم رنجہ جو فرمایا زمیں پر ہوا دیں کا قیام اللہ اکبر شہنشاہ رسل کا خیر مقدم فرشتوں کا ہے کام اللہ اکبر محمد مصطفیٰ زندہ خدا کے ہیں اک زندہ پیام اللہ اکبر ملی دونوں جہاں کی بادشاہی ز ہے حق کا غلام اللہ اکبر شب اسراء بھی ہے اک سیر معنی یہ جد انضمام اللہ اکبر گئے مکہ سے کیسے؟ آئے کیسے یہ عزو احتشام اللہ اکبر وه لا تثریب کا اعلان والله وہ عفو انتقام الله اکبر نه کتر و فرنه تاج و تخت شاہی حکومت کی زمام اللہ اکبر حُسنِ کلام اللہ اکبر ہے قلب آنمکرم مهبط نور نظر فوز الكرام الله اکبر شراب معرفت اور مفت تقسیم ز ہے الطاف عام اللہ اکبر خوشا! اے جلوۂ حسن حقیقی رہے ز ہے سر خموشی الله الله زہے حسن تمام اللہ اکبر شہنشاہانِ عالم سے ہے بڑھکر ترے در کا غلام اللہ اکبر ہوئی ہے ختم تشریعی نبوت حُسنِ اختتام اللہ اکبر نہیں ختم نبوت پر ہی موقوف غلام احمد، مسیح و مهدی وقت ہے ہر نعمت تمام اللہ اکبر محمد کا غلام اللہ اکبر

Page 58

56 مری قسمت کی کایا ہی پلٹ دی درود صبح و شام اللہ اکبر ہوا مقبول فیض مصطفی سے مرا سج حج کلام اللہ اکبر ہے واللہ قیس مینائی بھی اُنکے غلاموں کا غلام اللہ اکبر بزم نعت ختم المرسلین اور یہ قیس کج کلام اللہ اکبر حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں گوہر ترے دیدار کی جس دل میں اے احمد تمنا ہے وہی دل شمع نورانی وہی دل عرشِ اعلیٰ ہے مقام مدح احمد نے یہ رتبہ مجھے کو بخشا ہے قلم ہاتھوں میں یہ میرے نہیں اک شاخ طوبیٰ ہے دہن ہی کا ترے اک نام کوثر حق نے رکھا ہے اُسی چشمہ سے بحر سرمدی دن رات بہتا ہے ہمیں يُحبُكُمُ الله نے ہی یہ نکتہ سکھایا ہے لقب امی مگر خدا خود اس کا شیدا ہے محمد کا جو شیدا ہے سینه ترا گنجینه حکمت معارف کا خزانہ دل میں یا گوزہ میں دریا ہے ترا روئے مبارک آئینہ ہے حُسن وحدت کا خدا کو جس نے دیکھا ہے اس شیشہ میں دیکھا ہے

Page 59

57 بہار جاوداں عالم کو بخشی تیری سیرت نے ترے اخلاق نے دنیا کو بھی جنت بنایا ہے خدائی دیکھنا چاہو تو دیکھو روئے احمد میں محمد مظہر کامل تجلی خدا کا ہے ترے دیدار سے ہر زشت رُو ہے صبح حوراں پر تیرے انوار سے میر منور سنگ سودا ہے اے فدا آل محمد فدا ہونا پر یہی تو ابتداء و انتہائے زہد و تقویٰ ہے یہ فیضِ جاریہ ہے بزم نعت مصطفیٰ گوہر خدا بے خود کو بخشے جس نے یہ پودا لگایا ہے ا سنگ اسود بیخود مرحوم احمد علی خان صاحب آف رامپورعرف امن خانصاحب ہر رمضان میں نعت کا مشاعرہ کیا کرتے تھے اور احباب کی دعوت کیا کرتے تھے ( ذوالفقار علیخان گوہر )

Page 60

58 حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری اللہ اللہ شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرش عظیم ایوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم دل شیدائے آن محمد روح فدائے شان محمد وجد میں ہیں مستان محمد صلی اللہ علیہ وسلم از آدم تا حضرت عیسی" سب سے عالی رتبہ ہیں لیکن اور ہی کچھ ہے شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم เ پیش نظر ہے شان محمد ذہن میں ہیں احسان محمد کیوں نہ ہوں پھر قربان محمدصلی اللہ علیہ وسلّم بے تعداد احسان محمد بے پایاں فیضانِ محمد رحمت حق قربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر سب سے اعلیٰ سب اعجاز رسل سے بالا معجزہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم عاقل پر کرتا ہے ہو یدا إِنْ هُوَ إِلَّا وَحی وحی توقیر فرمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے پرسان شانِ محمد جویائے فیضان محمد دیکھ ذرا قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 61

59 عین عنایت چشمه رحمت بر حقیقت حسن رسالت خلق عالی شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم صدیوں کے مُردوں کو جلا یا پیغام تو حید سنایا روح رواں قربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم آدم و نوح و ابراهیم و داؤد و موسی و عیسی سب ہیں ثنا گویان محمد صلی اللہ علیہ وسلم لرزاں تھے شاہانِ زمانہ حیرت میں ایک ایک زمانہ امن جہاں قائم فرمایا جو جس کا حق تھا دلوایا قربان فرمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھی شوکت وشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے بد افعال چھڑائے سب عمدہ اخلاق سکھائے راحت پر راحت دیتا ہے کیا دلکش موجیں لیتا ہے دریائے فیضان محمد صلی اللہ علیہ وسلم جانِ جہاں قربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم صبح روز ازل سے لیکر ختم نہیں تا شام محشر سلسلہ احسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 62

60 سبحان اللہ کیا کہنا ہے سینوں سے دل کھینچ رہا ہے جذب بے پایانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا ثانی ہونہ ہوا ہے دنگ ہے جس نے دیکھ لیا ہے گو کیسا ہی سحر بیاں ہولیکن ناممکن جو بیان ہو تفصیل فیضانِ محمد فیضانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کچھ حُسن و احسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرق وحدت مہر رسالت آیه قدرت سایۂ رحمت ذات عالی شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہوں یا بیگانے ہوں مسلم ہوں یا نامسلم سب پر ہے احسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگو اس درجہ حق پوشی یہ ختی یہ ناحق کوشی گرد و غبار حرص و ہوا سے صاف ہے بالکل فضل خدا سے آئینہ دامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم توہین شان محمد صلی اللہ علیہ وسلّم ہر شجر آخر اپنے پھلوں سے ہی پہچانا جاتا ہے دیکھ سوئے غلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 63

سیدنا صدیق مکرم ، سیدنا فاروق اعظم سرخیل یاران محمد صلی اللہ علیہ وسلم 61 سیدنا عثمان معظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خواہانِ رضوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسد اللہ الغالب سیدنا ابن بوطالب سرتاج اخوان محمد صلی اللہ علیہ وسلّم حامي مہر وصدق وصفا تھے مائی ظلم جور و جفا تھے اصحاب ذی شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم جامع درویشی و شاہی نافع مخلوقات الہی کون؟ یہی یاران محمد صلی اللہ علیہ وسلم.کان صفا تھے باغ وفا تھے ابر سخا تھے بحر عطا تھے خوش اطوار و نیک طبیعت پاک دل و پاکیزہ فطرت جملہ مقبولانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انصار و اعوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسنین کی حالت کر دیتی ہے محو حیرت یہ ہیں فرزندان محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 64

کامل تھے تسلیم ورضا میں جانیں دے دیں راہ خدا میں لیکن رکھ لی آن محمد صلی اللہ علیہ وسلم 62 کس درجہ رکھتے تھے لطافت کیسی رنگت کیسی نکہت حضرت موسیٰ “ ہوں یا میسی" ایک کے یاروں نے بھی نہ پایا گلہائے بُستان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اخلاص یاران محمد صلی اللہ علیہ وسلم نقش دوئی کو دل سے مٹادے نعرہ الا اللہ لگا دے آذیل مستانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا ہادی آپ سا محسن ناممکن بالکل ناممکن سب سے اعلیٰ شان محمد صلی اللہ علیہ وسلّم آپ میں آقا آپ میں مولا آپ نہیں بجا آپ ہیں مادی قربان ہر شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نگہت گل ہیں شمع سبل ہیں ہادی گل ہیں ختم رسل ہیں کیا ہو بیانِ شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے مکرم سب سے معظم ہادی اعظم محسن عالم سبحان اللہ شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اُدھر اللہ سے واصل اور ادھر مخلوق میں شامل موجب حیرت شان محمد صلی اللہ علیہ وسلّم

Page 65

63 اے کہ جسے لاحق ہے سراسر خوف تاب میر محشر آ زیر دامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم حد شرک سے باہر رہیے پھر جو کچھ جی چاہے کہیے سب شایانِ شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ فدائے خلق خدا ہیں آپ شفیع روز جزا ہیں جملہ اصولوں سے ہے نرالا ہم بشر سے ارفع واعلیٰ جلوه شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر بخت رسا پر نازاں ہوں میں فضل خدا پر نازاں ہوں میں پایا ہے فیضانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مردہ اے خواہانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سب پر شفقت کی ہے سکودین کی دعوت دی ہے عالم ہے مہمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ناممکن ہے ناممکن ہے مجھ سے ادا ہو کیا ممکن ہے کچھ شکر احسان محمد صلی اللہ علیہ وسلّم میں ہوں اور احسان محمد لطف بے پایان محمد دست من و دامانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شور صانِ علی ہر سو ہے کیوں نہ ہوائے مختار کہ تو ہے نغمہ خوانِ شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 66

64 محمد علی مضطر زندان ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا وہ جبس تھا کہ سانس بھی لینا عذاب تھا تیری عنایتوں کی نہ تھی کوئی انتہا میری خطاؤں کا بھی نہ کوئی حساب تھا ہم جی رہے تھے تیری ہی رحمت کی گود میں سانیہ تمن ترے ہی کرم کا سحاب تھا تیرے ہی نور سے تھیں منور صداقتیں تو ہی تھا ماہتاب تو ہی آفتاب تھا خوشبوؤں میں بھی تیری ہی خوشبو تھی دلنواز پھولوں میں پھول تیرے ہی رخ کا گلاب تھا نیکی تیرے بغیر گناہ عظیم تھی لمحہ جو تیری یاد میں گزرا ثواب تھا اے حسن تام علم بھی تو تھا عمل بھی تو لوح و قلم بھی تو ہی تھا تو ہی کتاب تھا

Page 67

65 صبح ازل مشیت یزداں تھی دیدنی جس صبح بزمِ گن میں ترا انتخاب تھا کام آگئی غریب کے مدحت حضور کی مضطر کا آج کہتے ہیں یوم الحساب تھا (الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۸۹ء)

Page 68

66 حکیم سید عبدالہادی بھاگلپوری روئے زمیں پہ دیں کے سلطاں تمہیں تو ہو شمس و قمر سے بڑھ کے درخشاں تمہیں تو ہو آئے تھے جس قدر بھی زمانے میں انبیاء احسان آپ کا ہے ہر اک جاندار پر خلق خدا میں رحمت یزداں تمہیں تو ہو ہرشان میں سبھوں سے نمایاں تمہیں تو ہو ابر سیاہ چھایا ہے دُنیا میں ہر طرف ظلمت کدے میں شمع فروزاں تمہیں تو ہو جور و جفا و ظلم تعدی کے دور میں بیکسوں کے درد کے درماں تمہیں تو ہو ہم دیں کا چمن تو باد خزاں سے ہے پائمال شام بہار و صبح گلستاں تمہیں تو ہو بادی پہ بھی نگاہِ کرم ہو نگاہ کرم ہو رسول پاک اُس کی نظر میں آیت رحماں تمہیں تو ہو

Page 69

67 پر معین الدین ہے دل میں جوش نعت شیر انبیا لکھوں جس کی شنا محال ہے اُس کی شنالکھوں پھر اپنی بے بضاعتی کو دیکھتا ہوں میں اورسوچتا ہوں کیسے لکھوں اور کیالکھوں جس کی کہ خوبیوں کا احاطہ محال ہو اس کی مدح میں ہیچمداں کیا بھلا لکھوں وہم وگماں میں آنہ سکے جس کا مرتبہ اس کی ثنا ہے کارِخدا باخدا لکھوں لیکن رضائے رب محمد کے واسطے سوچا ہے کہ تو مانگ کے میں بھی ڈھالکھوں بد الدجی لکھوں اُسے شمس الضحی لکھوں باتوں کی ایک بات ہے نورِ خدا لکھوں احمد بھی اس کا نام محمد بھی اس کا نام عاشق لکھوں کہ اس کو حبیب خدا لکھوں.بیا خدا کا اُسے آئینہ لکھوں سر تا بپا خدا ہی خدا اُس میں تھا نہاں سر تا خوف خدا سے گونہ میں اُس کو خدا لکھوں لیکن خدا نما تو اُسے برملا بندوں کو اپنے بندے کہا جسکو تو نےخود لکھوں مولیٰ بتا میں اس تیرے پیارے کو کیا لکھوں تھا اُس کا ہاتھ ہاتھ خداوند پاک کا بیعت کو اُس کی بیعت رب الور کی لکھوں احسان میں نہ حُسن میں اُس کا کوئی نظیر بعد از خدا اسی کو میں سب سے بڑالکھوں ی بھی درست گر اسے لکھوں کمال حسن یہ بھی بجا ہے عشق کی جو انتہا لکھوں لکھوں سو معجزوں کا معجزہ خود اُس کی ذات ہے محتاج معجزہ اسے کیسے بھلا اُتر ا جو اُس کے قلب پر قرآن کی شکل میں اس آب وحی پاک کو آپ بقالکھوں بیمار دل کے واسطے لکھوں اُسے شفا یا شہر آسمان سے اُترا ہوا لکھوں

Page 70

68 لکھوں لکھوں مخزن صداقتوں کا لکھوں کانِ معرفت یا موتیوں سے ایک سمندر بھر الکھوں نور خدا سے ساری زمیں جگمگا اُٹھی اُس کا ظہور میں تو ظہورِ خدا لکھوں صدیوں کے مُردے اُس نے دنوں میں جلا دیئے تھا کس مقام کا وہ مسیحا میں کیا لکھوں اُس میں نہاں خدا تھا خدا میں نہاں تھا وہ میں اِن کو ایک جان دو قالب سید الکھوں ہو جانا اُس کی راہ میں ہر شے سے دستکش ہے کیمیا گری تو یہی برملا لکھوں مرتا ہوں بات بات پہ تیری میرے رسول اور تیری بات بات کو میں جانفر الکھوں پر درود بھیجتا ہے عرش سے خدا پھر کیوں نہ بار بار میں صلے علیٰ نبیوں میں ایک تو ہے کہ جاری ہے جس کا فیض زندہ نبی تجھی کو میں یا مصطفی آئے تھے لے کے حسنِ ازل سارے انبیاء پر تیرے حسن کو میں ہر اک سے سوالکھوں ہر خو برو میں جلوہ تیرے حسن ہی کا ہے میں ہر حسیں ادا کو تری ہی ادالکھوں باعث بھی دل کے درد کا ہے تو ہی اے رسول تجھ کو ہی دل کے درد کی پیارے دو الکھوں جو تیری پاک ذات میں بھی دیکھتا ہو عیب میں اسکو کورچشم لکھوں بے حیاء لیکھوں تو ہی تو قوس بندہ وخالق کی تاب ہے تجھ کو ہی میں تو شافع روز جز الکھوں مجزو تیری راہ قرب کی ہر راہ بند ہے تجھ کو ہی میں وسیلہ وصل خدا لکھوں پیارے ترے فراق میں جو کٹ گئے ہیں دن دن زندگی کے میں انہیں کیسے بھلا لکھوں لکھوں اگر قرآن کے میں آدموں کے نام انسان ، کاملین شہر انبیاء لکھوں اسماء حق کے ظاہری مظہر تھے سب نبی ہاں مظہر اتم میں تجھے مصطفیٰ لکھوں تجھ سا کوئی ہوا نہ کبھی ہوگا اے رسول لاریب تجھ پر ختم میں سب انبیا لکھوں

Page 71

69 تیری دعا ہے باعث تسکین روح و جاں تیری دعا کو زیست کا میں آسرالکھوں تجھ جیسا روئے یار کا دیوانہ کون ہے تجھ جیسا کس کو صاحب فہم و ذکاء لکھوں شاہوں کے شاہ جس کے غلامان در بنے اس بوریا نشیں کواے دل میں کیا لکھوں کوچے میں تیرے سر اگر عشاق کا کٹے میں بھی ہوں عاشقوں میں ترے بر ملا لکھوں مولا نا دوست محمد شاہد تیرے احسانوں کا ہو شکر بھلا کیسے ادا فرش سے عرش تلک جلوہ دکھانیوالے اک نظر شاہد تشنہ کی طرف بھی آقا آپ کوثر سے بھرے جام پلانے والے ارض میثرب ! تیری عظمت پہ ہیں افلاک جھکے شاہ لولاک کو سینے یہ بسانے والے (نغمات احمدیت)

Page 72

70 لاریب قریشی عبد الرحمن ابد دل میں حبیب پاک کی الفت لئے ہوئے ہوں مطمئن اُمید شفاعت لئے ہوئے اُس پر آتش دوزخ حرام ہے عاصی ہے سر پہ دامنِ رحمت لئے ہوئے خُلق عظیم کی ہے وہ نعمت لئے ہوئے ہر طور ہر طریق میں شفقت لئے ہوئے دل میں یہی ہے تیرے صحیفے کو چوم لوں ہر سو پھروں حضور کی برکت لئے ہوئے پہنچا نہ کوئی اور نہ پہنچے گا تا ابد وہ آمنہ کا لال ہے عظمت لئے ہوئے عبد السلام اختر ہے کتنا دلنشیں اُس رحمت انوار کا سایہ زمیں پر آ کے جس نے آسماں کا نور پھیلایا مبارک وہ جو اس عالم میں آپ زندگی لایا خدا کا چہرہ زیبا زمانے بھر کو دکھلایا خرد کی کم نگاہی کو جنوں کا راز سکھلایا نگاہ و دل کو تڑپایا تو روح و جاں کو گرمایا وہ تنہا تھا مگر تنہا ہر اک دشمن سے ٹکرایا نہ کچھ باطل سے وہ جھجکا نہ کچھ ظلمت سے گھبرایا ہر اک سختی گوارا کی ، ہر اک بیداد کو جھیلا ہر اک مشکل کو اپنایا ، ہر اک الجھن کو سلجھایا ہزاروں آندھیوں کے سامنے اُس بندہ حقوق نے ہر اک سیلاب کو روکا ، ہر اک طوفان پر چھایا گلوں کو نکہتیں ، قلب و نظر کو طلعتیں بخشیں گلستانوں کو نکھرایا بیابانوں کو مہکایا

Page 73

71 وہ جسکی چشم سحر انگیز سے تابانیاں پھوٹیں وہ جسکے حسن سے عالم کا ہر اک پھول شرمایا یہ اُسکی تابش حسن کرامت تھی کہ کیا شے تھی جھکایا اپنا سر خورشید نے اور چاند گہنایا جہاں پر بُت پرستی کی و باشد ت سے جاری تھی وہاں توحید کا پرچم بڑی عظمت سے ہرایا ہراک ملت پر اپنی شفقتوں کے پھول برسائے ہراک وادی پر ابر سرمدی کا رنگ ٹپکایا سلام اُس پر نسدا جو خانہ دل کا اُجالا ہے سلام اسپر کہ جس سے ذات حق کا بول بالا ہے حنیف ادیب (الفرقان جولائی ۱۹۷۵ء) والی کون و مکاں عالی صفات مشعل نوروہدایت تیری ذات تیرے دم سے یہ جہانِ مہروماہ تیرے دم سے یہ نظام کائنات تیرے دم سے زندگی تا بندہ تر تیرے دم سے ضوفشاں شمع حیات تیرے دم سے رونق کون و مکاں تیرے دم سے بزم ہستی کو ثبات تیری ہستی باعث تسکین جاں چشمه تسنیم و کوثر تیری بات علم تیرا وہ سمندر ہے اتھاہ ، پا نہیں سکتی جسے انساں کی ذات ہر عمل تیرا ہے بے مثل و نظیر وجہ فخر انس و جن وشش جہات یاد تیری باعث تسکین دل ذکر تیرا خالق عرفانِ ذات

Page 74

72 اکبر خان اصغر محمد کا ہی نُور نُورِ ازل ہے محمد ہی وجہ ظہورِ ازل ہے وہی ایک یزداں کے دل کی تڑپ تھی وہی ذات محبوب ذاتِ خدا ہے وہی راز تخلیق ارض و سما ہے وہی راز رحماں کے دل کی تڑپ تھی وہی نور آدم کی لوح جبیں پر وہی نور نائب خدا کا زمیں پر وہی اک تصور رموزِ بیاں تھا اُسی کا تقدس خلافت کی جاں تھا اُس کے لئے تھا سجود ملائک درود خدا و درود ملائک وہی عید کامل وہی مدعا تھا وہی مبتدا تھا وہی منتہا تھا وہی ذات برحق رسول خدا ہے وہی مصطفی احمد جو خیرالبشر ہے جو خیر الوری ہے شہ دو جہاں خاتم الانبیاء ہے احمد مجتبی ہے

Page 75

73 سعید احمد اعجاز مبارک اُس بندہ خدا کا وجود اُس پر ہزار رحمت کہ جس کی ہستی سے حق تعالیٰ کا ہے ظہور جلال و عظمت وہ جسکا مقصود زندگانی رضائے مولا کی شادمانی نصیب اُس کو ہے کامرانی جسے ہے اللہ سے محبت کسی بھی فرماں روائے جابر سے آج تک وہ ڈرا نہیں ہے وہ جس کے قلب سلیم پر ہے خدائے جبار کی حکومت وہ سرور کائنات جس کے لئے نمودِ جہاں ہوئی ہے وہ خاتم الانبیاء ہیں برحق کہ ختم اُن پر ہے ہر نبوت ازل سے فانوس وقت روشن انہی کے نور وجود سے ہے ہمیشہ روشن رہے گی اُن سے حریم ارض و سما کی وسعت کوئی زمانہ ہو ہر زمانے میں ہے ظہورِ جمال اُن کا رسالت مصطفیٰ کا فیض عمیم جاری ہے تا قیامت زمیں، دورِ زماں بھی اُنکا خدا بھی اُنکا جہاں بھی اُنکا نجوم شمس و قمر بھی اُن کے خدا کی تخلیق انہیں کی دولت حرم کو جاتے ہیں جانے والے ہزار ہالوگ قافلوں میں کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے نور دیدار کی مسرت بزور بازو قبول ہوتا نہیں طواف حرم، حرم میں خدا کی رحمت سے آدمی کو میسر آتی ہے یہ سعادت

Page 76

74 74 اکرم سرحدی دل تجھ پہ فدا ہو تو ہو شیدائے نبی بھی یارب ہو ترا عشق تمنائے نبی بھی توحید کے جلوے تو ہیں ہر سمت نظر میں دکھلا دے خدا عارض زیبائے نبی بھی قدرت کی بہاروں ہی کا احسان نہیں مجھ پر ہے سایہ فکن دامن رعنائے نبی بھی ہر سانس ہو میری مجھے اک موج بہاراں دے تجھ کو سہارا کوئی دریائے نبی بھی اللہ کا تابع تو ہوں ہر حال میں لیکن کچھ اپنے لب پاک سے فرمائے نبی بھی خالق کی عنایت سے تو مسرور ہوں لیکن اور لطف وکرم مجھ پہ جو برسائے نبی بھی جز احمد مختار ہے محبوب خدا کون یوں آنے کو دنیا میں بہت آئے نبی بھی ہشیار میں اتنا ہی ہوں مدہوش ہوں جتنا کیا چیز ہے صہبائے تمنائے نبی بھی میخانہ وحدت کا میں وہ رند ہوں اکرم ساغر بھی مرے دل میں ہے صہبائے نبی بھی

Page 77

75 ڈاکٹر مرزا محمد یوسف ایاز ذاتِ محمد نور مجسم مبر رسالت فخر دو عالم بحر سخاوت امن کے قلزم صلی اللہ علیہ وسلم نور سراپا شمع ہدایت رحمت عالم قلزم شفقت سب سے اعلیٰ ذات مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مخزن رحمت مصدر حکمت گنج سعادت بحر سخاوت نور کے عنواں سید اعظم صلی اللہ علیہ وسلم مشعل عرفاں حامل قرآں نور کے عنوان سایہ رحماں ہادی برحق شاہ معظم صلی اللہ علیہ وسلم عشق و وفا میں ماہ تاباں حسن وادا میں مہر درخشاں علم و عمل میں رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم اول و آخر سرور عالم دنیا و دیں میں سب سے مقدم ماه نبوت نیر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم برتر آپ کی ہے سرداری فیض رہیں گے آپ کے جاری صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہیں سب نبیوں کے خاتم (خالد دسمبر ۹۱۸۴ء)

Page 78

76 آفتاب احمد بسمل محمد کی توصیف کیسے بیاں ہو کہ جس کی شنا خود کر رہا ہے نہیں نعت خواں صرف جن و بشر ہی فرشتوں کے لب پر بھی صلِ علیٰ ہے نہیں مقدرت یہ کسی بھی بشر کی کہ وہ معرفت پائے اُس کی حقیقی محمد کو جس نے بنایا محمد - مقام محمد وہی جانتا ہے کہا حق تعالی نے لولاک جس کو بنے جسکی خاطر ہیں افلاک سارے وہ خیر البشر رحمت العالمیں ہے وہ فخر رسل خاتم الانبیاء ہے خدا تو نہیں کہتا اُس کو میں لیکن خدا سے جُدا بھی نہیں اک ذرا وہ کہ ہے " قاب قوسین " سے بھی وہ بڑھکر خدا سے قریب اسقدر وہ ہوا ہے مزمل مدثر وہ یسین طه رؤف و رحیم و سراجاً منیرا وہ مخلوق عالم میں سب سے ہے بہتر.ہے مظہر خدا کا شہ دوسرا ہے - ہے معراج ایسی کہ جبریل ششدر - عجب شانِ احمد ہے اللہ اکبر سیر عرش اعلیٰ کچھ اسطرح پہنچے کہ زیر قدم سدرۃ المنتہیٰ ہے وہ مقصود عالم ہے، شاہ اہم ہے وہ محبوب داور ہے والی حشم ہے : شمس الضحیٰ بھی ہے بدر الدجی بھی وہی وجہ تخلیق ارض و سما ہے وہ عابد کہ معبود جس پر ہے نازاں وہ عاشق کہ معشوق جسکا ہے شیدا گے فاتح رزم بدر و احد وه - گہے رونق سنج ثور و حرا ہے غرض مختصر بات اتنی ہے بل کہ بعد از خدا سب سے افضل وہی ہے وہی نور اوّل، وہی نور آخر وہی ابتدا اور وہی انتہا ہے

Page 79

77 شاہ جہان وفخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم باعث تخلیق دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہاں میں آپ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم شافع محشر مالک کوثر نبیوں کے سرتاج پیمبر شانِ رسالت جان قیادت فخر رسل سر تا پا رحمت مہر نبوت تاج رسالت آپ ہی کے شایاں ہے یہ عظمت مہر درخشاں ماہ منور مخزنِ حُسن و نور سراسر ہادی برحق - نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کامل - خُلق مجسم صلی اللہ علیہ آپ مؤخر آپ مقدم صلی اللہ علیہ وسلّم رہبر کامل، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلّم آپ کے دم سے عظمت آدم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے آپ ہیں خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ذکر سے اُنکے روح کولذت - نام سے اُنکے دل کو ہے راحت قوت قدی ایسی مؤثر تا بقیامت دنیا منور دونوں جہاں کے نیر اعظم صلی اللہ علیہ وسلّم یاد میں اُن کی آنکھ ہے پُر نم صلی اللہ علیہ وسلّم دن و بشر کہتے ہیں ہر دم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 80

78 تن من میر آپ پر واری ہر رگ و پے میں عشق ہے ساری جاری لبوں پر ہے مرے پیہم صلی اللہ علیہ وسلّم بل آپ کی دل سے فدا ہے اور وزباں ہی صبح و مسا ہے صلی اللہ علیہ وسلم ـ صلی اللہ علیہ وسلّم ناصر احمد پرویز بپردازی زبان پہ جب بھی محمد کا نام آئیگا حریم عرش بریں سے سلام آئیگا یہی ہیں معنیٰ ختم الرسل کہ دنیا میں جب آئے گا تو اُسی کا غلام آئے گا به فیض پرتو مهر جمال مصطفوی شب آچکے گی تو ماہ تمام آئے گا اُسی کے نور سے سینوں میں روشنی ہوگی اُسی کے ہاتھ سے کوثر کا جام آئے گا گلوں کو پیرہن برگ تر عطا ہوگا کلی کو بادِ صبا کا پیام آئے گا یہ پانچ شعر ہیں پرویز میرا زادِ سفر یہ زاد وہ ہے جو منزل پہ کام آئے گا ثاقب زیروی سلام اُن پر درود اُن پر ، زباں پہ آیا ہے نام جن کا میرے تخیل کی رفعتوں سے بلند تر ہے مقام جن کا اُنہی کے فیض کرم سے علم وادب کے چشمے اہل رہے ہیں مثال قرآں زبانِ عالم پہ آج تک ہے کلام جن کا

Page 81

79 بروز محشر خدا کی رحمت اُنہی پہ سایہ کرے گی آکر جنوں نے بڑھ کر لکھا دیا ہے ترے شہیدوں میں نام جن کا انہی کی مستی ہے میکدوں میں انہی کا چرچاہے میکشوں میں بلا تامل رواں ہے اب تک تمام رندوں میں جام جن کا ہمارے دل کا تو پوچھنا کیا انہی کا قائل اُنہی پہ مائل ! بلند رتبہ ہے بادشاہوں سے ایک ادنی غلام جن کا انہی کے قانون زندگی سے نظام ہیں زندگی کے قائم نہیں ہے گرچہ جدید پھر بھی جدید تر ہے نظام جن کا وہ نور دیکھو، ظہور دیکھو، جمال دیکھو، کمال دیکھو وہی ہیں عقبے میں میر حفل سُنا تھا دُنیا میں نام جن کا انہی کے پیغام ضوفشاں سے چھٹیں گی تاریکیاں جہاں کی عرب کے ظلمت کدوں میں پہلے کبھی تھا گونجا پیام جن کا نہیں یہ جرات تو اور کیا میں اُنکی توصیف کر رہا ہوں خدا نے ذوق طلب میں ثاقب کیا ہے خود احترام جن کا ہے نامِ نامی تمہارا لب پر درود تم پر سلام تم پر ادھر بھی ہو اک نگاہ سرور درُود تم پر سلام تم پر (شہاب ثاقب)

Page 82

80 تم ہی ہو شمع حریم داور درود تم پر سلام تم پر ہیں تم سے دونوں جہاں منور درود تم پر سلام تم پر چمن چمن تذکرہ تمہارا یہ کہکشاں راستہ تمہارا تمہاری خوشبو گلوں کے اندر درود تم پر سلام تم پر لحن ہے سر چشمہ صداقت زباں ہے گنجینۂ فصاحت لبوں پہ قربان موج کوثر درود تم پر سلام تم پر تمہارے نقشِ قدم سے پائی ہے خاک نے ایسی سر بلندی زمیں کو ہے فوق آسماں پر درود تم پر سلام تم پر رہ وفا سے ہٹائے گا کیا زمانہ اُس کو مٹائے گا کیا تمہاری سیرت ہو جس کی رہبر درود تم پر سلام تم پر ہم اب کس کے در پہ جائیں کسے غم زندگی سنائیں تمہی تو ہو بے کسوں کے یاور درود تم پر سلام تم پر کبھی تو آئے گا وہ زمانہ کبھی تو ہو گا مرا بھی جانا کہوں گا روضے پہ سر جھکا کر درود تم پر سلام تم پر تمتا ہے عبدالرحمن خادم گجراتی دیکھوں جمالِ محمد ہے دُنیا میں روشن کمال محمد

Page 83

81 زبانوں پر توصیف احمد ہے جاری زمانے میں ہمسر نہیں کوئی اُن کا بلایا انہیں حق نے معراج کی شب انہیں اپنی امت کا ہے پاس کتنا دلوں پہ ہے چھایا جلال محمد جہاں میں نہیں ہے مثال محمد کھلا عرش والوں یہ حال محمد ہے امت کی بخشش سوال محمد دُعا ہے یہ خادم کی مولا سے ہردم اسے بھی دکھا دے جمال محمد خالد ہدایت بھٹی امام اڈ کیا خیر البشر محبوب یزدانی نہیں ادراک رتبے کا ترے مقدور انسانی خدا کے بعد تجھ سے کوئی افضل ہو نہیں سکتا ہیں شاہد تیری عظمت پر بھی آیات قرآنی ترے کردار سے روشن ہوئیں اخلاق کی قدریں ہوا اقوال سے کشف غطائے راز پنہانی

Page 84

82 کہوں کیا تھے تیرے افکار اور اشغال کے مرکز خدا طلبی، خدا جوئی - خدا بینی - خدادانی عرب کے تیرہ و تاریک دل لوگوں کو تو نے ہی نکالا قصر ظلمت ست سے بنایا اُن کو نورانی وہ جن کی ضرب سے ٹوٹا غرور قیصر و کسری سکھایا تھا تجھی نے ان کو آئین جہانبانی غلاموں کو کیا آزاد لیکن اہل حکمت کو پسند آئی دل و جاں سے ترے ہی گھر کی دربانی ذلیل وخوار اور نا کام دشمن ہو گئے سارے تجھے ہر گام پر حاصل ہوئی تائید ربانی غلامی تیری خالد کو ہے ہر اعزاز سے پیاری کہ رہتے میں تری چوکھٹ ہے رشک تاج سلطانی ملک نذیر احمد ریاض اے کعبہ مہر و وفا اے قبلہ صدق و صفا اے مخزن جودو سخا اے معدنِ فہم وذ کا اے منبع علم و ہدئی کن چاره آزار ما اے بارش ابر کرم اے نازشِ خیر امم

Page 85

83 اے پیکر جاہ و حشم اے شافع روز جزا اے زینت باغ ارم کن چاره آزار ما اے مرہم زخم جگر اے تابش نور سحر ای روکش بزم قمر اے راحت قلب و نظر اے مشعل راہ خدا چاره آزار ما کن اے چارہ سوزِ نہاں اے غم گسار بیکساں اے غازہ روئے جناں اے شیشہ عطر و رضاء کن چاره آزار ما اے مرجع شاہنشہاں اے مامن و ملجا ومن اے نافہ مشک ختن اے شہپر روح الا میں کہتا ہے باقلب حزیں اے رونق بزم چمن اے فخر دور ہر زمن اے سرخوش جام غناء کن چاره آزار ما اے تاجدار انبیاء کن چاره آزار ما اے مہر انوار یقیں تیرا ریاض کمترین

Page 86

84 محمد سلیم شاہجہانپوری میرا رسول ارفع و اعلی دکھائی دے رتے میں سب رسولوں سے بالا دکھائی دے ممکن نہیں وہ چہرہ زیبا دکھائی د.دے ہاں تیرا فضل ہو تو خدایا دکھائی د یا رب مجھے اک آئینہ ایسا نصیب ہو جس آئینہ میں اُن کا سراپا دکھائی دے سونے سے پہلے وردِ زباں ہو درود پاک شاید کہ خواب ہی میں وہ جلوہ دکھائی دے ہر گام پر ہو پیش نظر سیرتِ رسول ہر موڑ پر حضور کا اُسوہ دکھائی دے شعر ہو حضور کی مدحت سے مستنیر ہر لفظ میں اُنھیں کا اجالا دکھائی دے جس ہاتھ سے میں نعتِ محمدؐ کروں رقم روشن ہو اس قدر ید بیضا دکھائی دے ہر ہر ورق پر ثبت ہیں سیرت کے وہ نقوش قرآن بھی انھیں کا سراپا دکھائی د نور نبی ازل سے ابد تک ہے ضوفشاں و ہراک قدم پر نقش انہیں کا دکھائی دے

Page 87

85 دل سے اگر ہو طاعت محبوب کبریا دنیا بھی عکس عالم بالا دکھائی دے دل میں اگر ہو ذکر حبیب خدا کا نور ہر آئینہ نظر کو مجلی دکھائی دے جس کو ملے مقام فنا فی الرسول کا وہ کیوں نہ ہر نگاہ کو یکتا دکھائی دے ہو جائے گر حضور کا لطف وکرم سلیم رفعت یہ عاصیوں کا ستارہ دکھائی دے (۱۷ مارچ ۱۹۸۶ء) اللہ رے فیض ساقی کوثر سرشت کا امت پہ جس نے کھول دیا در بہشت کا کایا پلٹ کے رکھ دی ہراک بدنہاد کی چولا بدل کے رکھ دیا ہر بد سرشت کا مومن بنایا مشرک و آتش پرست کو قبلہ درست کر دیا دیر و کنشت کا سمجھا دیا حضور نے انجام خیر و شر بتلایا فرق آپ نے خوب اور زشت کا مہکے ہیں باغ سیرۃ خیر البشر کے پھول نقشہ جما ہوا ہے نظر میں بہشت کا طائف کی سرزمین نے دیکھا یہ ماجرا بدلہ دعائے خیر تھا ہر سنگ و خشت کا کی جس نے دل سے طاعت محبوب کبریا دوزخ کا خوف اس کو نہ ارماں بہشت کا

Page 88

86 رکھا ہے جس نے پیشِ نظر اُسوہ رسول طالب کبھی نہ ہوگا وہ دنیائے زشت کا آنکھیں ہوئی ہیں اشک ندامت سے ہمکنار عنوان مغفرت ہے مری سرنوشت کا میں ہوں غلام شافع روز جزا مظہر کیا خوف ہو مجھے مرے اعمال زشت کا سمیع اللہ بھا گلوری عشق ہے آئینی ادراک مرا دام صیاد ہے اندیشہ بیباک مرا دیکھ ہے اشک فشاں دیدۂ غمناک مرا دامن صبر غم ہجر میں ہے چاک.محفل دہر میں میرا کوئی غماز نہیں میرا اندازِ طبیعت بھی کوئی راز نہیں آج کیوں میری تائف پہ طبیعت آئی روبرو عشق کے کیا ہجر کی وحشت آئی دیکھ اے شوق کہ بیتابی الفت آئی میرے الفاظ سے خوشبوئے محبت آئی جی میں آتا ہے کہ کچھ عشق کے آثار کہوں اپنے دلدار سے حال دل بیمار کہوں میری آواز میں قدسی کی زبانیں غلطاں مدحت احمد مرسل میں ہوں گو ہر افشاں عظمت صاحب لولاک میں دل ہے حیراں جن کے مضمونِ نبوت کے تھا آدم عنوان وادی طور پہ موسیٰ کی امامت آئی اس کے پردے میں محمد کی بشارت آئی

Page 89

87 جس نظر سے دلِ صدیق نے دیکھا تجھ کو ساز فاروق نے جو نغمہ سنایا تجھ کو دل میں عثمان نے جس طرح بسایا تجھ کو زور کرار نے جس طرح سراہا تجھ کو کاش اسلاف کا وہ در دجگر ہو مجھ میں گرمی عشق ابوذر کا اثر ہو مجھ میں مرزا محمد افضل شاہد وہ دل جو محمدؐ کا طلبگار نہیں ہے خالق کی محبت کا سزاوار نہیں ہے جس باغ میں ہیں پھول کھلے نور نبی سے اس دنیا میں ویسا کوئی گلزار نہیں ہے اس محسنِ انسان کی عظمت ہے نظر میں انساں سے کسی شے کا طلب گار نہیں ہے دنیا میں قیادت کیلئے آئے کئی لوگ اس جیسا مگر کوئی بھی سردار نہیں ہے جس شخص کو حاصل نہیں عرفان محمد مجنوں ہے وہ دیوانہ ہے ہوشیار نہیں ہے وہ صبر ورضا عزم و توکل کا تھا پیکر جز اس کے کوئی محرم اسرار نہیں ہے اللہ بھی عاشق ہوا جس حُسن پر شاہد اس حسن مجسم سے کسے پیار نہیں ہے

Page 90

88 منصور احمد شاہد ا نا وی لکھنوی جو کرن شمع مدینہ سے ادھر آئی ہے کس کو معلوم ہے میرے لئے کیا لائی ہے مدتوں اُس کو رہا تنگی داماں سے گلہ جس نے جھولی تیرے در پر کبھی پھیلائی ہے جب بھی آیا ہے مجھے گنبد خضری کا خیال چاندنی دل کے دریچوں میں اُتر آئی ہے 09 سامنے تیرے کسے قوت گویائی ہے ہ عرب ہو کہ عجم صورت تصویر خموش کیسے بنائے میں آئی ہے صدا اقراء کی کس کی آواز رفیق دم تنہائی ہے فاتح بدر و احد ہم پہ ہو بھی ایک نظر حق و باطل میں ابھی معرکہ آرائی ہے کیوں نہ ہو ناز محبت پہ نبی کی شاہد یہ محبت تو میرا وریشہ آبائی شبیر احمد شبیر عالم بحرو بر میں تصادم انساں تھا لاچار نام کو تھا کوئی نہ مسیحا ہر سُو تھے بیمار ہے غرق تھی دنیا تاریکی میں بدیاں تھیں بسیار آخر آئی جوش میں رحمت آیا اک غم خوار اماک محمد مصطفی نبیوں کا سردار"

Page 91

89 غار حرا سے آنے والا مہر عالم تاب کتنا سچا نکلا آخر ابراہیم کا خواب اس تاریک جہاں کو اُس نے کر دیا اک مہتاب ہر سو روئے زمیں پر پھیلے قرآں کے انوار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار" کوئی بشر گن سکتا نہیں اُس محسن کے احسان انسانی سوچوں سے سے بالا اُس کی ارفع شان اُس کے احسانوں کے نیچے انسان اور حیواں فرش سے اُٹھ کر عرش کو جانے والا وہ دلدار پاک محمد مصطفیٰ" نبیوں کا سردار" مالک تھا کونین کا لیکن فقر رہا مرغوب تاہم ایسی شان کہ قیصر جیسے بھی مرعوب تاج و تخت سے مستغنی تھا اللہ کا محبوب اللہ کا وہ کامل مظہر قدرت کا شہکار "پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار" حشر کے دن تک دائم جس کی قوت کے آثار ذات محمد جود و سخا کا اک بحر ذخار جس کے دم سے پایا ہم نے مہدی ساجیدار محشر کے میدان شفاعت میں بھی کل مختار پاک محمد مصطفیٰ" نبیوں کا سردار"

Page 92

90 ختم نبوت جس کی فضیلت ہر خوبی کا خاتم صل اللہ علیہ وسلم پڑھتا ہوں میں پیہم رحمت یزداں نورِ مجسم سیّد وُلدِ آدم نام محمد لب پر آئے دن میں جتنی بار "پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار" حق نعت ادا کرنے سے فلم مرا معذور پاس ہے اک روٹی کا گلا پھر بھی ہوں مسرور لیکن ذکرِ جانِ تمنا مجھ کو ہے منظور عشق محمد ہی سے ہو گا آخر بیڑا پار پاک محمد مصطفیٰ" نبیوں کا سردار" غلام قا در شرق بنگلوری صدائے ملال مینا میں کیا تاثیر سے کم کی ہے دیکھا جلوہ رخسار و خال مصطفیٰ جس نے کوئی پوچھے تو حلفاً غنچہ وگل سے ذرا چل کر نکلتی ہیں زمین میکدے سے روحیں مردم کی نہ دیکھے عمر بھر صورت کبھی مہتاب و انجم کی نہ کی تقلید کیا تم نے محمد کے تبسم کی

Page 93

91 میں رویا اس قدر بجر رسول اللہ میں شب بھر گدائے احمد مرسل ہوں زیبا ولق ہے مجھ کو دعائے بد نہ کرتی ظالموں کے ظلم سہ کر بھی یک یک قطرہ نے کی ہمسری دریائے قلزم کی حقیقت کیا ہے جسکے رو برد بخاب و قائم کی دلیل اُس رحمۃ اللعالمیں کے ہے ترحم کی خدا کی حمد اور نعت محمد کا وظیفہ ہے زباں میں شرق کے جب تک رہے طاقت تکلم کی ( بدر قادیان اکتوبر ۱۹۵۶ء) ارشاد احمد شکیب تو نور مجسم ہے دو عالم سے حسیں ہے " تابندہ ترے نور سے آدم کی جبیں ہے" سب دولت کو نین تیرے زیر نگیں ہے اک لفظ " نہیں " ہے جو تیرے پاس نہیں ہے اے شاہد لولاک یہ سب تیرا کرم ہے حاصل جو ہمیں دولت ایمان و یقیں ہے جو شہر مشرف ہے تیرے نقشِ قدم سے واں سجدہ کناں آج دو عالم کی جبیں ہے

Page 94

92 وہ ذات جسے دُور سمجھتا تھا زمانہ تو نے یہ بتایا کہ رگ جاں سے قریں ہے سب ختم ہوئے تجھ پہ کمالات نبوت تجھ سا ہو کوئی اور یہ ممکن ہی نہیں ہے جو ذات سما سکتی نہیں ارض وسماء میں دیکھو تو اسے قلب محمد میں مکیں ہے کہتا ہے شکیب عرش جسے سارا یہ عالم وہ ہ صاحب اسراء کیلئے مثلِ زمیں ہے حکیم محمد صدیق شمس کروں کیا مدحت شان محمد خدا خود ہے ثنا خوانِ محمد وہ بن جاتا ہے ممدوح بشر خود جو ہو مدحت گر شان محمد کروں کس منہ سے ذکر لالہ و گل نظر میں ہے گلستان محمد سکھاتا ہے جو انساں کو معارف وہی تو ہے دبستان محمد جو خاطر میں نہ لاتے تھے کسی کو بنے آخر غلامان محمد ارادہ قتل کا جو لے کے آئے بنے وہ جاں نثاران محمد مٹا دی سطوتِ باطل خدا نے بڑھا دی شوکت و شان محمد بوبکر و عمر عثمان و حیدر یہ تھے گلہائے بستان محمد دلیلوں کی ضرورت شمس کیا ہے محمد خود ہیں بُرہانِ محمد

Page 95

93 عبدالحمید شوق لازم ہے احترام رسولِ کریم کا ہے عرش پر مقام رسول کریم کا ہر ذرہ کائنات کا پڑھنے لگا ورود نکلا جو منہ سے نام رسول کریم کا دونوں جہان ہیں تو ہیں آپ کیلئے ارض و سما تمام رسول کریم کا صلِ علیٰ کا ورد ہے میری زبان پر لب پر ہے میرے نام رسول کریم کا دونوں جہاں میں اسم محمد کی روشنی دونوں جہاں میں نام رسول کریم کا کس درجہ رام ہو گئے سنتے ہی سنگدل شیریں ہے وہ کلام رسول کریم کا پڑھتا ہے خود خدا بھی درود آپ پر مدام کتنا ہے احترام رسول کریم کا میری زبانِ شوق پر رہتا ہے ذکر خیر دن رات صبح و شام رسول کریم کا غلام محی الدین صادق اک ہادی اکبر کانعرہ جب گونج اٹھا کو ہساروں میں محسوس ہو اُس ہیبت کا پرزور اثر درباروں میں سرکار دو عالم ایسے ہیں نبیوں کے مبارک حلقے میں ممتاز و یگانہ ہوتا ہے جیسے مہ کامل تاروں میں سوچو تو سہی آنحضرت کے انوار کا عالم کیا ہوگا جب آپ کے خوشہ چیں یا رو آتے ہیں نظر سیاروں میں

Page 96

94 محبوب خدا ، مخدوم ملک کیا شان ہے کملی والے کی ہے قادر مطلق یاروں میں جبریل ہے خدمت گاروں میں ساحل پر سفینے آپہنچے وہ اسم گرامی کام آیا موجوں کی تلاطم خیزی میں ، طوفانوں میں منجدھاروں میں لاریب یہ سارا لطف و کرم ہے ساقی کوثر کا صادق تحریر ہمارا نام ہوا جو وحدت کے میخواروں میں محمد صدیق امرتسری نور حق ہے نور تابان محمد مصطفی رحمة للعالمین شان محمد مصطفی رشک صد گلشن ہے بُستان محمد مصطفیٰ وحی ربانی ہے فرمانِ محمد مصطفی اس سے بڑھکر اور کیا ہوگی فضیلت آپ کی رب کعبہ ہے ثنا خوانِ محمد مصطفی خاتم جملہ رسولاں پیشوائے جن وانس الله الله عظمت و شان محمد مصطفی تا ابد تشنہ لبانِ نوع انساں کے لئے موجزن ہے بحرِ فیضانِ محمد مصطفی غم نہ کر ہیں درپئے آزار گرا اپنے بھی آج چھوٹنے پائے نہ دامان محمد مصطفی شب بسر کی صبح ہوتے ہی مسلماں ہو گیا دشمن حق تھا جو مہمان محمد مصطفی کون ہے جو کر سکے تسخیر یوں سرکش قلوب کس نه باشد جز غلامانِ محمد مصطفی خود خدا جس کا منزل اور محافظ ہے مدام شرع کا حل ہے وہ قرآنِ محمد مصطفی پا نہیں سکتا کبھی وہ حق تعالیٰ کی رضا !! ہو جسے حاصل نہ رضوان محمد مصطفی

Page 97

95 کر رہی ہے آیت يُحبكُمُ اللہ بھی عیاں کتنی پیاری ہے اُسے جانِ محمد مصطفیٰ جسکی نکہت سے معطر ہیں زمین و آسماں لا جرم ہے وہ گلستان محمد مصطفی کر د عا صدیق محشر میں بھی مل جائے پناہ تجھ کو زیر ظل دامانِ محمد مصطفی (دل کی دُنیا ) دو جہاں آپ سے رخشاں ہیں رسول عربی جان و دل آپ پہ قرباں ہیں رسولِ عربی ختم ہے آپ پہ لاریب نبوت کا مقام آپ سردار رسولاں ہیں رسول عربی دافع رنج و بلا رحم و کرم کے خوگر آپ ہر درد کا درماں ہیں رسولِ عربی بادی جن و بشر شافع روز محشر کس قدر آپ کے احساں ہیں رسولِ عربی آج کل شامت اعمال سے اپنی شاید سخت بے حال مسلماں ہیں رسولِ عربی

Page 98

96 مسجد میں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے خندہ زن اُن پہ شبستاں ہیں رسولِ عربی آدمیت جنہیں دُنیا کو سکھانا ہے وہی آدمیت سے گریزاں ہیں رسولِ عربی ہے چمن زاروں پر کانٹوں کا تسلط ہر سُو پھول پژمردہ و حیراں ہیں رسولِ عربی دیکھ کر آپ کے گلزاروں کی یہ حالت زار طعنہ زن خار مغیلاں ہیں رسول عربی ہم غریبوں کی بھی فریادرسی ہو جائے آپ غم خوار غریباں ہیں رسولِ عربی ہے قصور اپنا بس اتنا ہی کہ ہم دنیا میں حامل مشعل قرآں ہیں رسولِ عربی آپ کے دین کی تبلیغ واشاعت کے لئے مال و جاں حاضر وقرباں ہیں رسولِ عربی ساری دُنیا تیرے نوروں سے منور کر دیں یہ ارادے یہی ارماں ہیں رسول عربی ( دل کی دنیا )

Page 99

97 وہ میر منور صوفی محمد اسحاق وہ دلبر ہمارا خدا نے فلک پر جسے خود پکارا وہ قوموں کا ہادی وہ دنیا کا رہبر تھکا راہِ حق میں کبھی جو نہ ہارا وہی رہبر و راہنما ہے ہمارا محمد ہمارا محمد ہمارا وہ شیدائے حق اور حق اس پر شیدا ہوئی جس سے حق کی حقیقت ہویدا وہ نور میں اور فخر رسولاں عرب کی زمیں میں ہوا تھا جو پیدا وہی دلبر و دلستاں ہے ہمارا P محمد ہمارا محمد ہمارا عبادت کے جس نے طریقے بتائے ریاضت کے جس نے سلیقے سکھائے عقیدت کے سرسب کے جس نے جھکائے حقیقت کے جلوے تھے جس نے دکھائے وہی ہادی و ناخدا ہے ہمارا P محمد ہمارا محمد ہمارا - دلائل سے جس نے کیا سب کو قائل برا ہیں سے جس نے کیا سب کو گھائل بتوں پر جو رہتے تھے ہر آن مائل کیا اُن کو توحید کا دل سے قائل وہی مصطفی مجتبی ہے ہمارا محمد ہمارا محمد ہمارا

Page 100

98 عبادت میں جو تھا سدا محو رہتا ریاضت میں جو تھا سدا کھویا رہتا جسے اپنا غم تو کبھی کچھ نہ کہتا مگر غیر کے غم میں غمگین رہتا وہی مشفق و مہرباں ہے ہمارا محمد ہمارا - محمد ہمارا قیامت کے دن جو شفاعت کریگا غریبوں کی جو واں حمایت کریگا خدا جس کے صدقے عنایت کریگا خدا جس کے باعث رعایت کریگا وہی قائد و مقتدا ہے ہمارا محمد ہمارا محمد ہمارا جو خلاق عالم کا ظل مبیں تھا صداقت کی جو ایک حبل متیں تھا زمیں پر جو خود ایک نور میں تھا جو حق کیلئے ایک حصن حصیں تھا وہی دلبر و جانِ جاں ہے ہمارا محمد ہمارا محمد ہمارا وہ پر نور سیند و قلب مطهر مزمل مدثر وہ روح معطر وہ محسن وہ وہ جود و سخا کا سمندر حسینان عالم سے ہے جو حسیں تر وہی مہ وش و مہ لقا ہے ہمارا محمد ہمارا محمد ہمارا بہ ظاہر وہ بے شک مکین زمیں ہے مقام اُسکا لیکن وہ عرش بریں ہے وہی ذات باری کا نعم القریں ہے کہ وہ قائد زمرہ مرسلیں ہے وہی نقطه ارتقا ہے ہمارا محمد ہمارا محمد ہمارا

Page 101

99 محمد رحمة تیکامیں تیل میں ہے محمد عند ذی العرش مکیں ہے محمد دلبر ذات یگانہ محمد مطلع نور یقیں ہے 09 محمد مظہر ذات خداوند محمد عکس رب العالمیں ہے وہ ہے خیر البشر خیر الرسل ہے اسی باعث وہ ختم المرسلین ہے وہ ہر مرسل سے ہے اعلیٰ و برتر فجر اولین و آخریں ہے وہ بحر بیکراں ہے معرفت کا محمد منزل روح الا میں ہے محمد فخر موجوداتِ عالم محمد ایک تخلیق حسیں ہے محمدم سانہیں کوئی جہاں میں نہیں ، ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں ہے شفیع بے شک وہی ہے روز محشر ہمیں اس بات کا کامل یقیں ہے نہیں احسان اسپر اسکی مدحت کہ اُسکی ذات فخر مادھیں ہے ضلالت چار سو پھیلی ہوئی ہے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے ضلالت سے اگر ہم کو ہے بچنا محمد ہی فقط حسن حسیں ہے مقام اسکا کوئی جو پوچھے صوتی وہ میر مجلس عرشِ بریں ہے سلام اس پر درود اس پر پڑھو تم کہ وہ تنہا شفیع المذنبیں ہے

Page 102

100 مبشر احمد طاہر آپ محبوب حق ہیں حبیب خدا آپ شمس و قمر آپ نور الہدی آپ کے دم سے روشن ہیں کون و مکاں آپ سے ابتداء آپ سے انتہا پ ہی مربع خاص بھی عام بھی آپ سے فیض پاتا ہے چھوٹا بڑا آپ کے دم قدم سے بہار جناں آپ کے دم قدم سے فضا پرفضا قَابَ قوسین اور سدرة امتہی آپ کی منزلیں آپ کی رفعتیں آپ کی ذات نور علی نور ہے آپ کی ذات ہے بعد ذاتِ خدا آپ آقا مرے، میں غلام آپ کا ہر بنِ مو سے طاہر کے آئے صدا ظفر احمد ظفر آؤ درود پڑھ کے کریں اس نبی کی بات ہے جس کی ذات باعث تخلیق کائنات جس کی ضیا سے چھٹ گئیں تاریکیاں تمام روئے زمیں پہ چھا گئیں جس کی تجلیات انساں بھٹک رہا تھا کوئی رہبر نہ تھا چھائی ہوئی تھی جہل کی کالی سیاہ رات اکراه و جبر و جور کا دنیا میں دور تھا تھا بے بسوں یہ تنگ ہوا عرصہ حیات اہلِ جہاں تھے حق و صداقت سے بے خبر ہر شخص تھا اسیر طلسم تو ہمات تھا مال و زر ہی باعث اکرام و افتخار سنتا نہ تھا غریب کی کوئی جہاں میں بات

Page 103

101 آئے جو آنحضور تو حل ہو گئیں تمام انسانیت کی راہ میں جتنی تھیں مشکلات لاکھوں دلوں کو لوٹ لیا اک نگاہ میں میرے رسول پاک کے کیا کیا ہیں معجزات کیا کم یہ معجزہ ہے کہ خانہ بدوش قوم اُٹھ کر جہاں کو دے گئی درسِ النہیات منکر ہے گو زبان مگر مانتے ہیں دل دامن ہے مصطفی کا فقط دامن نجات بادِ بہار بن کہ وہ آئے جہان میں سُوکھے چمن کا ہو گیا سرسبز پات پات ایسا دیا بشر کو مساوات کا سبق باقی رہی دلوں میں نہ تفریق ذات پات ختم الرسل ہمارے سراج منیر ہیں روشن انہیں کے نور سے ہے ہرنبی کی ذات دل جھومے کیوں نہ سُن کے اذاں دن میں پانچ بار اُٹھتی ہے گونج نام محمد کی شش جہات سنتے بھی ہو ظفر کہ اذان سحر ہوئی حَى على الفلاح و حَى عَلَى الصَّلوة الفضل ۲۶ فروری ۱۹۷۹ء ظفر محمد ظفر تجھ پہ قربان مری جان رسول عربی کیا ہی اونچی ہے تری شان رسولِ عربی تجھ سا پیدا نہ ہوا اور نہ ہوگا کوئی تیری یکتائی پہ قربان رسولِ عربی تو دور سے دیکھا جسے چشم کلیم اللہ نے ہے وہ جلوه فاران رسول عربی ذات واجب کے سوا فوق ترے کچھ بھی نہیں غایت عالم امکان رسولِ عربی تیرے ہی جام سے ملتی ہے حیاتِ دائم ساقی کوثر عرفان رسول عربی

Page 104

102 تیری آمد سے ہوا رحمت باری کا نزول تو ہے وہ بندہ رحمان رسولِ عربی تیرے ہی فیض سے موقوف ہوا واد بنات محسن طبقہ نسوان رسولِ عربی یہ بھی اعجاز ہے تیرا کہ شتر بانِ عرب ہو گئے شاہ و جہاں بان رسول عربی سلک وحدت میں پروئے تھے جو موتی تو نے آج ہیں پھر وہ پریشان رسولِ عربی آج اُمت ہے تری لہو و تجارت میں مگن مسجدیں ہو گئیں ویران رسول عربی مغربی فلسفہ محبوب ہے اُمت کو تری اور مہجور ہے قرآن رسول عربی پھر مسلماں ہوں مسلمان رسولِ عربی (الفرقان جنوری فروری ۱۹۶۰ء) ہاں دُعا کیجئے گا محی مولیٰ کے حضور راجہ نذیر احمد ظفر گلدستہ صفات ہے سیرت رسول کی عنوانِ کائنات ہے سیرت رسول کی دولہا ہے کائنات کا محبوب کبریا پھولوں بھری برات ہے سیرت رسول کی ہے طور سے سوا دل عشاق مصطفیٰ اصلِ تجلیات ہے سیرت رسول کی قرآن کا مثیل ہے کردار آں جناب یعنی خدا کی بات ہے سیرت رسول کی

Page 105

103 فزا نعرة تكبير مصطفى ہے موت منات ولات ہے سیرت رسول کی انسانیت کے ہاتھ میں کیا ہے جو یہ نہ ہو سرمایہ حیات ہے سیرت رسول کی کچھ مصلحت کی بات ہے کچھ حادثات ہیں اک دل کی واردات ہے سیرت رسول کی اقوال مصطفیٰ! سو معارف کی جان ہیں اور جان واقعات ہے سیرت رسول کی ہے خالقِ حیات ہی خود منزلِ حیات اور جادۂ حیات ہے سیرت رسول کی مشکل میں مبتلا ہے اب اُمت رسول کی اور حل مشکلات ہے سیرت رسول کی عبد الحئی عارف محمد مصطفى سردار عالم مظہر خالق انیس و همدم اولاد آدم رهبر صادق خزاں دیدہ گلستاں میں بہار صد چمن آیا مٹانے شرک کا دنیاے دوں سے بیخ و بن آیا

Page 106

104 قرآن پاک دے کر کر دیا مبعوث قادر نے جھکا دیں جسکے آگے گردنیں شاہانِ جابر نے نظام نو کیا قائم بمفرمانِ خدا جس نے کھڑا شاہ و گدا کو ایک صف میں کر دیا جس نے نئی اک روشنی پیدا ہوئی مکہ کی بستی سے نقوش باطلہ جس نے مٹائے لوح ہستی سے کیا باطل کی ظلمت سے حقیقت کی ضیا پیدا منات ولات کے گھر سے خدا کو کر دیا پیدا قلمی نسخه ظهور المهدی (منظوم) عبدالرحیم راٹھور کا شمیری یہی آرزو ہے مری رب باری زبان پر ہو پیاری سی اک نعت جاری خیابان یثرب میں ہر شاخ گل کی کروں اشک اخلاص سے آبیاری عقیدت کے پھولوں کی بارش ہو ہر دم فضا میں چلے ایسی بادِ بہاری نچھاور کروں لعل و گوہر جہاں کے اخلاص و با جذبۂ خاکساری سدا گنبد سبز کے بام و در کی لعل بدخشاں کروں مینا کاری پڑھوں روضہ پاک کے روبرو پھر سلام محبت بصد آه و زاری الہی کرم خیر امت فرما که تاریک شب اور طوفاں ہے بھاری مسرت بھری صبح نو زود تر لا سکوں سے بدل دے مری بے قراری

Page 107

105 اسی دھن میں یاد آگیا وہ زمانہ کہ ہر سو جہالت کے بادل تھے طاری دیو مالا کے چکر میں بے کل عرب بن چکے تھے بتوں کے پجاری ہرسو فضا میں تھے جنگوں کے بادل سکوں سے تھے محروم ترک اور تاری نہ ماں محترم تھی نہ بیٹی پیاری ادب تھا بڑوں کا نہ کچھ پاسداری کھلو نہ تھی اک صنف نازک جہاں میں یہ صید زبوں اور دنیا شکاری ہر اک سو تظلم کا سکہ تھا جاری بھلا کون سنتا وہاں آہ و زاری یہ بگڑے ہوئے کام جس نے سنوارے وہی ہیں محمد خدا کے دلارے عبید اللہ میم ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھی لیکن ہم نے مولا جیسی ذات نہیں دیکھی اُس کی شانِ عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے اک ایسا خورشید کہ جسنے رات نہیں دیکھی بستر پر موجود رہے اور سیر ہفت افلاک ایسی کسی پر رحمت کی برسات نہیں دیکھی اُس کی آل وہی جو اُس کے نقش قدم پر جائے صرف ذات کی ہم نے آلِ سادات نہیں دیکھی

Page 108

106 ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جاتی ہیں کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی اک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے یہ شان برکات کسی کے ساتھ نہیں دیکھی شاہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن اُس کے دَر کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی اُس کے نام پہ ماریں کھانا اب اعزاز ہمارا اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی صد یونکی اس دھوپ چھاؤں میں کوئی ہمیں بتلائے پوری ہوتی کون سی اُسکی بات نہیں دیکھی اہل زمیں نے کون سا ہم پر ظلم نہیں ڈھایا کونسی نصرت ہم نے اُسکے ہات نہیں دیکھی کمال آدمی کی انتہا ہے وہ آئندہ میں بھی سب سے بڑا ہے کوئی رفتار ہو گی روشنی کی مگر وہ اس سے بھی آگے گیا ہے جہاں بیٹھے صدائے غیب آئی سایہ بھی اُسی دیوار کا ہے

Page 109

107 مجسم ہو گئے سب خواب میرے مجھے میرا خزانہ مل گیا ہے حقیقت ایک ہے لذت میں لیکن حکایت سلسلہ در سلسلہ ہے یونہی حیراں نہیں ہیں آنکھ والے کہیں اک آئینہ رکھا ہوا ہے وصال یار سے پہلے محبت خود اپنی ذات کا اک راستہ ہے سلامت آئینے میں ایک چہرہ شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے چلو اب فیصلہ چھوڑیں اس پر ہمارے درمیاں جو تیسرا ہے رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ کہ وقت عصر ہے اور کربلا ہے کسی بچے کی آہیں اُٹھ رہی ہیں غباراک آسماں تک پھیلتا ہے اندھیرے میں عجب اک روشنی ہے کوئی خیمہ دیا سا جل رہا ہے 1

Page 110

108 ہزاروں آبلے پائے سفر میں مسلسل قافلہ اک چل رہا ہے جدھر دیکھوں میری آنکھوں کے آگے انہی نورانیوں کا سلسلہ ہے یہ کیسے شعر تم لکھنے لگے ہو عبید اللہ تمہیں کیا ہوگیا ہے فیض چنگوی وہ نور اولیں آیا وہ نور آخریں آیا مبارک ہو جہاں والو وہ تاج مرسلیں آیا نبی کامل ، بشر کامل ، کمال شفقت و احساں خدا کے نور میں ڈوبا ہوا ماہ مبیں آیا نبی امی لقب لیکن معلم ساری قوموں کا به این خلق مجسم حاملِ دین متیں آیا مقدس، ارفع و اعلیٰ نہیں جس کی نظیر ایسا وہ قرآن میں لیکر شہر دنیا و دیں آیا خدا اک نور مطلق ہے محمد مظہر مطلق نہ اُس جیسا حسیں کوئی نہ اس جیسا حسیں آیا

Page 111

109 علم بردار توحید و رسالت بادي اعظم کمالات محاسن کا وہ عکس کاملیں آیا وہ منبع نورو برکت کا وہ گلدستہ نزاکت کا قمر ، خورشید ، تاروں، پھول کلیوں سے حسیں آیا وه راز خلقت ہستی جو مظلوموں کا حامی تھا زبوں رسم غلامی پر وہ ضرب اولیں آیا مساوات و تمدن کا محبت کا اخوت کا !! سبق پاکیزہ دینے کو وہ ختم المرسلین آیا شتر بانوں نے جسکے دم سے پائے تاج سلطانی ہے خاک راہ جسکی قیصری وہ شاہ دیں آیا شب معراج جب پہنچاز میں سے عرشِ اعلیٰ پر قدم بوسی کی خاطر دوڑ کر عرشِ بریں آیا بتوں سے پاک کر ڈالا صداقت کو کیا بالا مدینے کا مکیں آیا وہ کعبے کا امیں آیا سراسر فیض کا چشمہ شفیق بے مثال آقا وہ آئین وفا ختم رسالت کا نگیں آیا محمد مصطفی پر رحمتیں ہوں فیض بے پایاں کہ وہ آیا تو دنیا کو خدا پر بھی یقیں آیا ( تقدیس افکار )

Page 112

110 عبدالکریم قدسی تابش عشق محمد ملی جب سے مجھ کو لوگ مہتاب و کواکب سے کریں کسب ضیاء میں خطا کار سہی پر ہوں ثنا خوانِ رسول صبح دیدار کی مل جائے ضیاء بارکرن حشر میں آپ کا ہی لطف شفاعت مانگوں آپ کے در سے کہیں لوٹ نہ جاؤں خالی گر ملے مدحتِ حستان کا پرتو قدسی خوف آتا نہیں تاریکی شب سے مجھ کو روشنی کی ہے طلب مہر عرب سے مجھ کو لوگ کیوں دیکھتے ہیں چشم غضب سے مجھ کو ظلمت شب نے ہے گھیرا ہوا کب سے مجھ کو خلق پہچان تو لے حسنِ طلب سے مجھ کو بھیک بھی مانگنا آتی نہیں ڈھب سے مجھ کو کوئی شکوہ نہ رہے دستِ طلب سے مجھ کو الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۷۶ء)

Page 113

111 وہ آفتاب ہدایت وہ رہبر کامل ہے جس کا اسم گرامی محمد و احمد مبشر احمد را جیکی وہ جس کو مور د فضل عظیم کہتے ہیں ہے جسکی ذات رؤف و رحیم کہتے ہیں اُسی کی عقل سے روشن ہیں حکمتوں کے چراغ اُسی کی عقل کو عقلِ سلیم کہتے ہیں اُسی کے عشق کو حاصل ہے دلبری کا کمال اُسی کو مظہر ذات قدیم کہتے ہیں اُسی کا سانس حقیقت میں ہے دم عیسی اُسی کے ہاتھ کو دست کلیم کہتے ہیں اُسی کا روئے مبارک ہے مطلع انوار اُس کے قلب کو عرش عظیم کہتے ہیں محمود احمد مرزا الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۷۷ء) کتنا پیارا ہے ترا نام رسولِ عربی ورد جس کا ہے میرا کام رسول عربی وجہ تخلیق دو عالم ہے تو.اور تیری ذات اولیں حق کا ہے پیغام.رسول عربی یہ ترافیضِ نظر ہے کہ کرم ہے جس سے ہم ہوئے فجر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل ، ہو گئے پختہ کئی خام رسول عربی یہ ترا ہم پہ ہے انعام رسول عربی ختم ہیں تجھ پہ کمالات نبوت ، لاریب سب پہ ہے فیض تر اعام رسول عربی اس کی یہ شان یہ اکرام رسولِ عربی تری اُمت میں مسیحائے زمان کی آمد

Page 114

112 تیرے اسلام کی خاطر ہیں کہاں تک پہنچے تیرے چاکر تیرے خدام رسولِ عربی یورپ و جر من و امریکہ و افریقه نیز ٹارگٹ اپنا سری نام رسولِ عربی منکرِ فیضِ نبی ہم ہیں بقول اغیار ہم سے ہے خاص یہ الزام رسولِ عربی عشق کا تیرے ملا ہم کو یہ بدلہ کیا خوب ہم ہیں اور گردشِ ایام رسولِ عربی اک نظر مہر و تلطف کی ادھر بھی آقا عشق کا ہم کو بھی اک جام رسول عربی نگہ لطف کہ گو بیچ ہیں.پر پھر بھی ہیں ہم ترے بندہ بے دام.رسول عربی تیری مدحت کا شرف اور یہ محمود حزیں اُس پہ یہ بارش اکرام رسولِ عربی ڈاکٹر محمودالحسن ایمن آبادی (الفرقان ۱۹۷۷ء) شمع ہدی ہے نور کا پیکر میرا رسول شمس الہی سے بدر منور جزا رسول ہے میرا ہر خاص و عام اُسکی دعاؤں سے فیضیاب سب کیلئے ہے رحمت داور میرا رسول غم ہائے روزگار کے کانٹے ہزارہا باده کشان عشق و محبت کے واسطے گلزار جاں میں اک گل تر میرا رسول اب ہے تو ایک ساقی کوثر میرا رسول آئے ہیں بے شمار پیمبر جہان میں بے شک وہی ہے باعث تخلیق کائنات اب ہے جہاں کا ایک پیمبر میرا رسول ہر برتری کا منبع ومصدر میرا رسول ہر اک نبی کو جس کی غلامی پہ ناز ہے قدموں پہ جسکے قیصر و کسری بھی جھک گئے

Page 115

113 وہ ہے حبیب خالق اکبر مرا رسول ہاں ہاں وہی ہے مرد قلندر میرا رسول امی مگر جہاں کا معلم کہیں جسے مانا رہ حیات میں دشواریاں بھی ہیں علم و عمل کا ایک سمندر میرا رسول لیکن نہیں ہے غم کہ ہے رہبر مرا رسول آتش نو بہار ) سیٹھ محمد معین الدین محشر حیدر آبادی فکر ونظر سے ہے بلند تیرے وجود کا مقام دونوں جہاں کے بادشہ تجھ پر درود اور سلام اے تیری ذات باصفا شرح مقام کبریا اے تیرے نام پاک میں حمد وثنا کا انضمام اے تیرے قلب صاف میں کون و مکاں کی وسعتیں اے تیرے فیض عام سے شاہ گدا ہیں شادکام اے ترا حسنِ بیمثال نورِ خدائے لایزال اے تیرا جلوہ جمال شعلہ طور کا پیام چاره دردِ زندگی تیرا پیام سرمدی تیری نوائے لطف سے زخم نہاں کا التیام جو تیرے فیض سے ہوئے راہ خدا میں گامزن کارگہِ حیات میں ہو گئے فائز المرام حق نے دلوں کو بخش دی علم و یقیں کی روشنی اُن کی نظر یہ کھل گیا راز حقیقت دوام محشر خستہ جاں بھی ہے تیرے کرم کا منتظر فیض عمیم سے تیرے قلب و نظر ہیں شادکام

Page 116

114 چوہدی احمد مختار دل نے جب صلِ علیٰ کا ورد اونچا کر دیا سوچئے تو کس کی آمد کا ہے ہر سوغلغلہ احسنِ تقویم انسانی کا ہے یہ ارتقاء جس کی بعثت باعث تکمیل بیت اللہ ہوئی جس نے حیوانوں کو بخشا آدمیت کالباس جو جہالت کی خجالت میں تھے صد ہا سال سے کفر وشرک و بدعت و ظلم وتعدی میکشی کفروشرک ہر طرف چھائی ہوئی تھیں جہل کی تاریکیاں جس نے فرزانوں کو بھی سکھلائے آداب جنوں روح یوں تڑپی کہ اک ہنگامہ برپا کر دیا کس لئے ارض و سما کو حق نے پیدا کر دیا ختم ہیں جس پر کمالات اُسکو پیدا کر دیا جس نے عرفان براہیمی کا چرچا کر دیا جس نے ہر ذرے کو مہتاب وثر یا کر دیا.خاک سے اُن کو اٹھایا چرخ پیما کر دیا مشغلے سارے چھڑا کر حق کا شیدا کر دیا مہر عالم تاب نے ہر سو اجالا کر دیا حق کے جو یاؤں کو جس نے حق شناسا کر دیا

Page 117

115 ہر طرف پھیلا دیئے انوار علم و آگہی کس صف وصدق سے معمور تھی وہ ذات پاک جس نے ہر انسان کو بخشی فضیلت کی ردا ماؤں کے قدمونکی جنت سے بڑھا کر عظمتیں ظلم و استبداد کی بنیاد ہل کر رہ گئی قیصر و کسری کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی کوئی دکھلائے تو اُس حسن ترحم کی نظیر اور ہر وادی کو رشک طور سینا کر دیا کذب کے رسیوں کو بھی صدق سرا پا کر دیا امتیاز اسود و احمر کو عنقا کر دیا صنف نازک کا جہاں میں بول بالا کر دیا جبر و استحصال کا یکسر صفایا کر دیا ہر شکوہ خسروی کا رنگ پھیکا کر دیا کہہ کے "لانتثریب "سردشمن کا نیچا کر دیا وہ میرا پیارا محمد، وہ مبشر، وہ جمیل جس کے حسن خلق نے جگ میں اجالا کر دیا

Page 118

116 میجر (ریٹائرڈ) منظور احمد ساہیوال مُجرم و عصیاں کے جہاں منظر رکھے مغفرت کے بھی وہاں سو در کھلے روبرو اعمال کے دفتر کھلے رُو بروواں اُن کے بھی جو ہر کھلے آپ ہیں جب شافع اُمت تو پھر یہ رجسٹر کیوں سر محشر کھلے جانتے ہیں وہ میری مجبوریاں ایک تھا دِل لاکھ فتنہ گر کھلے راز کی ہے بات لیکن اے ندیم نیم شب کے بعد وہ اکثر کھلے "مت الجھنیو کوئی بھی ان سے" کہ یہ ہیں ولی پوشیدہ اور کافر کھلے اب سوار اشہب دوران بیا ین تمہارے قفل دل کیونکر کھلے آپ کے دم سے کھلا رحمت کا در کاش یہ دروازہ میرے گھر کھلے الفضل ۲۷ اگست ۱۹۸۹ء)

Page 119

117 نادر قریشی تو شبہ دنیا و دیں ہے تو دلوں پر حکمراں واقف اسرار فطرت تو خدا کا رازداں نور سے چپکا ترے ہر ذرہ کون و مکاں تو حقائق اور معارف کا ہے بحر بیکراں تیرے آنے سے باحسن وہ نمایاں ہو گیا جو ہر انسان جو ابتک تھا پردوں میں نہاں تو شفیع الناس ہے خیر البشر بحر العطاء ایک موج فیض سے سیراب ہے بزم جہاں تجھ کو مدحت کی نہیں حاجت حبیب کبریا عرش پر گاتے ہیں جب تیری مدح کرو بیاں مجھ پہ اتری عرش سے کامل ہدایت کی کتاب تو ہے انوار ہدایت ہادی آخر زماں تیرا ہر قول و عمل ہے شرح قرآن مجید ذات تیری ذات باری کا ہے تا بندہ نشاں تا ابد تو ہی خدا کے راستے کا راہ نما تجھ کو پہچانا تو پایا جلوہ یارِ نہاں

Page 120

118 ڈالتے ہیں لوگ تو ڈالیں ستاروں پر کنند ہم بنا ئینگے جہاں والوں کو تیر مدح خواں مدحتِ آقا کہاں اور بے ہنر نادر کہاں یہ تیرا لطف کریمانہ ہے شاہ دو جہاں الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۸۹ء) غلام نبی ٹاک کا شمیری سرورکون و مکاں رحمۃ للعالمیں مہر انور مه لقا مظہر نورِ خدا مصدر فیض و عطا، منبع بحر وسخا دلبر من جانِ جاں رحمۃ لِلعالمیں تاجدارِ دو جہاں رحمۃ للعالمیں اور شفیع عاصیاں رحمۃ للعالمیں ساقی کب تشنگاں، حامی بیگانگاں ہمت افتادگاں رحمۃ للعالمیں مدعائے طالباں، دستگیر رہرواں والی بے خانماں رحمۃ للعالمیں طالب لوح و قلم، حامل جاہ و حشم وہ شہ شاہنشہاں رحمۃ للعالمیں صاحب لولاک ہے زینت افلاک ہے وجہ تخلیق جہاں رحمۃ للعالمیں صاحب معراج وہ ، انبیاء کا تاج وہ خاتم پیغمبراں رحمۃ للعالمین دائی دین متین اور شفیع یوم دین غمگسار انس و جاں رحمۃ للعالمیں قوت ہر نا تواں جرات ہر نوجواں دردمند مفلساں رحمۃ للعالمیں ناظر عاجز بیاں کسطرح ہو مدح خواں کر دیا وردِ زباں رحمۃ للعالمیں

Page 121

- 119 عبدالمنان ناہید تجھ کو ازل سے ہی ملی دونوں جہاں میں برتری تیرا ظہور جاوداں تیرا غیاب حاضری تیرا وجود ابتدا تیرا وجود انتہاء تیرا قدم تھا اولیں منزلِ شوق آخری تجھ سے نمود اولیں تجھ سے بہار آخریں تیرے شجر کی شاخ شاخ آج بھی ہے ہری بھری تیری حکائتیں کوئی قصہ ماضی نہیں آج بھی تیرا دور ہے آج بھی تیری داوری تیری درایت آج بھی فکر و عمل کی روشنی تیری روایت آج بھی عزم و یقیں کی رہبری فقرو شہی کے مسئلے حل ہوئے تیرے نطق سے گنگ یہاں سکندری چپ ہے یہاں قلندری تیرے نقوش پا ہیں یا منزل شوق کے نشاں سالک راہ کو بھی دیں گرد رہ پیمبری شان شہی بلند ہے فقر بھی ارجمند ہے رتبہ میں تو بلندتر ہے تیرے در کی چاکری فکر و نظر کے شعبدے کیسا یہ گل کھلا گئے ہے میری سجدہ گاہ میں سجدہ دلیل کافری

Page 122

120 سنت ابراہیم اور دینِ حنیف بھی وہی پکنے کو آگئے یہاں کیسے بتانِ آذری الفضل ۱۰ اگست ۱۹۹۰ء وہ نسیم سیفی حسینوں کے حسین آئے کریموں کے کریم آئے جہاں کی رہبری کو حاملِ خُلقِ عظیم آئے فقیری جن کے استغناء سے تھی رشک شہنشاہی شہ لولاک بن کر صورت در یتیم آئے ہ آئے بزم میں شمع ازل کی روشنی لے کر کلام پاک لائے، بن کے صدر شک کلیم آئے میں وابستہ ہوں اک الفقر فخری لکھنے والے سے میری رہ میں الہی اب نہ زر آئے نہ سیم آئے غبارِ کارواں بھی ہے دلیل عظمت منزل کٹھن منزل کو طے کرنے مسافر بھی عظیم آئے بہارِ جانفزا آجائے ایماں کے گلستاں میں اگر ان کی گلی سے گھوم کر بارنیم آئے (نور فطرت)

Page 123

121 ڈاکٹر سید حمید اللہ نصرت پاشا جن کو ہوا عرفانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم اُسکے وجود کے نور محل میں کیسا سجا ہے تختِ الہی دل پر سحر کیا ہے اُس نے.کشتیہ مہر کیا ہے اُس نے دید کی لذت عشق کی نعمت، قرب کی فرحت ، وصل کی راحت اُس کو چاہنا جرم ہوا ہے.آج یہ کیسا ظلم ہوا ہے تجسیم انوار ہدایت ، تفسیر قرآن مجسم وہ قادر جو اُسکا خدا ہے ، وہی خدا ہے ، وہی خدا ہے ہو گئے سب غلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرش خدا ایوان محمد صلی اللہ علیہ وسلّم جان مری قربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم جاری ہیں فیضانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قید ہوئے طیرانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم اللہ اللہ شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرا خدا رحمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 124

122 پروفیسر نصیر احمد خاں نصیر جس بزم میں ذکرِ شہ ابرار نہیں ہے اُس بزم سے کچھ ہم کو سروکار نہیں ہے جو فیض محمد کا طلب گار نہیں ہے مجنون ہے دیوانہ ہے ہشیار نہیں ہے جس آنکھ نے دیکھا نہیں اُس نور کا جلوہ اُس آنکھ میں جس نور کی بیداری نہیں ہے جو کان شناسانہیں گلبانگ نبیؐ سے وہ واقف رعنائی گفتار نہیں.جب تک نہ کرن نور محمد کی ہو داخل ہے تاریک ہے دل مهبط انوار نہیں ہے جو ہاتھ نہیں زیر بدسید لولاک معذور ہے مفلوج ہے با کار نہیں ہے جودین رسا فکر نبی میں نہیں ڈوبا وا اُس کیلئے عالم اسرار نہیں ہے جُھکتی نہیں جو روح در تیم رسل پر دربار خدا میں بھی اُسے بار نہیں ہے

Page 125

123 جس سر پہ نہ ہو سایہ دامانِ محمد اللہ کی رحمت کا وہ حقدار نہیں ہے گزرے ہیں بہت بحر محبت کے شناور ہر ایک کوئی آپ سا چیدار نہیں ہے جو بات بھی فرمائی عمل کر کے دکھایا کر دار نبیؐ ہے کوئی پندار نہیں ہے آئے کوئی آکر مجھے وہ وصف بتائے جس وصف کا حامل مرا دلدار نہیں ہے دل سب نے نچھاور کئے اخلاق نبی پر ہاتھوں میں کوئی صبر کی تلوار نہیں ہے چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا کبھی آپ کا دامن اس راہ میں حائل کوئی دیوار نہیں ہے کیا وصف بیاں مجھ سے ہوا خلاق نبی کا حاشا مجھے یہ طاقت اظہار نہیں ہے قسمت پر تری رشک نصیر آتا ہے مجھکو کیا نعت ترا طالع بیدار نہیں ہے

Page 126

124 محتر مہامۃ القدوس بیگم صاحبہ وہ جو احمد بھی ہے اور محمد بھی ہے وہ مؤید بھی ہے اور مؤید بھی ہے وہ جو واحد نہیں ہے یہ واحد بھی ہے ایک اُسی کو تو حاصل ہوا یہ مقام اُس پہ لاکھوں در و داُس پہ لاکھوں سلام سوچا جب وجہ وجد تخلیق دنیا ہے کیا عرش سے تب ہی آنے لگی یہ ندا مصطفى مصطفى مصطفى مصطفى وہ ہے خير البشر خیر الانام وہ ہے اُس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام اُسکی سیرت حسین اسکی صورت حسین کوئی اُس سا نہ تھا کوئی اُس سا نہیں اُس کا ہر قول ہر فعل ہے دلنشین خوش وضع ، خوش ادا، خوش نوا، خوش کلام اُس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام زندہ رہنے کا عورت کو حق دے دیا اُس کے اُلجھے مقدر کو سلجھا دیا خُلد کو اُس کے قدموں تلے کر دیا اُس نے عورت کو بخشا نمایاں مقام اُس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام

Page 127

125 اُس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام درس ضبط و تحمل کا یوں بھی دیا وہ کہ جو آپ کی جان لینے چلا ایسے دشمن سے بھی درگزر کر دیا ہاتھ میں گرچہ تلوار تھی بے نیام اُس کے قدموں تلے یہ خدائی ہوئی عرش تک اک اُس کی رسائی ہوئی گل فضا نور میں تھی نہائی ہوئی تھے خدا اور حبیب خدا ہم کلام ذاتِ باری نے یہ تک تو فرما دیا جو محمد کا ہے وہ ہمارا ہوا وہ ملا تو سمجھ لو خدا مل گیا کس قدر پیار ہے کس قدر احترام اُس پہ لاکھوں دروداُس پہ لاکھوں سلام اُس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام رحسین خُلق اُس میں ہی موجود ہے وہ جو روز ازل سے ہی موعود ہے ماسوا اُس کے ہر راہ مسدود ہے میری ہر سانس کا اُس کو پہنچے سلام اُس پہ لاکھوں در و داُس پہ لاکھوں سلام

Page 128

126 مرد کے بس میں تھی عورتوں کی حیات اُس نے ہر ظلم سے ان کو دی ہے نجات اُس نے عورت کی تکریم کی کر کے بات کہہ دیا میں ہوں رحم وکرم کا امام اُس پہ لاکھوں دروداُس پہ لاکھوں سلام وہ معارف کا اک قلزم بیکراں فخر انسانیت رشک قدوسیاں اُسکی توصیف ہو کس طرح سے بیاں ہے زباں شرمسار اور نادم کلام اُس پر لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام ہے صفات الہی کا مظہر وہی انبیائے گزشتہ سے برتر وہی نوع انسان کا ہے مقدر وہی ختم اُس پہ نبوت شریعت تمام اُس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام وہ محبت کا نادی محبت اتم وہ مروّت کا پیکر وہ رحمت اتم عفو اور درگزر اور اخوت اتم ہر خوشی کا وہ منبع مسرت تمام اُس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام

Page 129

127 اُسکی عاشق ہے خود رب اکبر کی ذات اُس کے زیرنگیں ہے یہ کل کائنات اُس نے ثابت کیا وصل کی ایک رات اُس کے پاؤں کی ہے دھول یہ نیلی فام اُس پہ لاکھوں در و داُس پہ لاکھوں سلام تھے کبھی جبرئیل امین راز داں اور کبھی یونہی آپس میں سرگوشیاں جلوتیں اُس کی ہرطور خلوت نشان اُس کی صبح حسین اُس کی تابندہ شام اُس پہ لاکھوں دروداس پہ لاکھوں سلام محترمہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ " تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے " آج تو مال ہی کیا جان لٹا دی ہم نے تیرے عشاق میں یوں نام لکھایا ہم نے تیری الفت کے خزانے کو بچانے کے لئے دکھ کا یہ درد بھی سینے سے لگایا ہم نے دل جو چیرو گے تو پاؤ گے محبت اسکی آج یہ راز عدو کو بھی بتایا ہم نے

Page 130

128 دعوت حق نہ رکی چرچا دیں عام کیا تیرے اس کام سے جی کو نہ پھرایا ہم نے ایک مولیٰ ہے ہمارا نہ کوئی اُس کا شریک بر ملا سب سے کہا، جنگ کو سنایا ہم نے قید و بند ، ظلمت وسفا کی سہی جاں سے گئے شاخ پیوند کو ہر آن بچایا ہم نے کوئی جابر بھی جدا کر نہ سکا تجھ سے ہمیں عہد بیعت کو بہر طور نبھایا ہم نے نقش ہستی تیری الفت سے مٹایا ہم نے اپنا ہر ذرہ تیری رہ میں اُڑایا ہم نے " امتہ الباری ناصر محمد پہ آل محمد پہ برسے سدا میرے مولا کی رحمت کی بارش جو بری تھی حضرت ابوالانبیاء پہ برستی رہے ویسی برکت کی بارش اے ایمان والو سد ادل سے بھیجو درود و سلام افضل الانبیاء پر خدا اور فرشے بھی کرتے ہیں ہر دم درود و سلام و محبت کی بارش آپ سے بڑھ کے کوئی حسیں تھا ، نہ ہے اور نہ ہوگا کبھی کوئی نوع بشر میں آپ کا نام نامی لبوں پر جو آیا ہوئی میری آنکھوں سے مدحت کی بارش متانت، فراست، شرافت مودت ،سکنیت ، وجاہت ، مروت سراپا

Page 131

129 ہر اک خُلق کی آخری حد پہ فائز مسلسل ہوئی حسن سیرت کی بارش بلا یا خدا نے جو پاس اپنے انکوتو دنیا میں ایک اُنکی تصویر چھوڑی کلام الہی کی صورت میں ہوتی ہے اب آپ کے خُلق و سیرت کی بارش فداہ ابی و امی ذرہ ذرہ مرے جسم و جاں کا ہو قربان اُن پر میں کہنے لگی نعت خیر البشر تو ہوئی میرے دل پر سکینت کی بارش خدایا نصیبوں میں میرے بھی لکھ دے زیارت مقدس مقامات کی تو میں آنکھوں سے پیموں دو گھر اور دونگیاں جہاں پہ ہوئی تھی ہدایت کی بارش دستگیری کے لئے ترساں ہے اُمت آج بھی بحرِ رحمت آپ کا ہے بیکراں مواج بھی تخلیق دو عالم حامل قرآن بھی صاحب لولاک بھی صاحب معراج بھی مهبط انوار ربانی ہے قلب مصطفی ام ← آپ کے سر پر سجا خیر البشر کا تاج بھی خاک سے افلاک تک پھیلا دیئے انوار حق کر دیا جھوٹے خداؤں کا فسوں تا راج بھی موبمو نقطه به نقطه باهمه نقش رسول ایک چھوٹی سی جماعت بن رہی ہے آج بھی

Page 132

130 امتہ القدیر ارشاد اے دل و جاں کے تاجدار سلام اے رو دیں کے شاہ سوار سلام خُلق انسانیت کے رکھوالے دار نقش خوبی اُبھارنے والے ملتوں سے مٹا کے بغض و عناد متوں کو سنوارنے والے انے علم والے کامگار سلام اے دل و جاں کے تاجدار سلام اے کہ تو مثل آفتاب ہوا گل جہاں تجھ سے فیضیاب ہوا پستیوں میں گرا ہوا انسان اوج عظمت سے بہرہ یاب ہوا اے اسیروں کے رستگار سلام اے دل و جاں کے تاجدار سلام رونق بزمِ کائنات ملی مل گیا تو ، تو حق کی ذات ملی زندگی کو رہ ثبات ملی جس نظر سے نئی حیات ملی

Page 133

131 اُس نظر کو ہزار بار سلام اے دل و جاں کے تاجدار سلام رونق بزم دو جہاں تجھ سے چشمه زندگی رواں تجھ سے راحت دل، سکونِ جاں کی قسم راحتِ دل سکونِ جاں تجھ سے رحمت ابر تو بہار سلام اے دل و جاں کے تاجدار سلام اصغری نورالحق آؤ مل کر آج کریں کچھ ذکر محمد پیارے کا وہ جو ہے سکھ چین دلوں کا آتا ہے جگ سارے کا وہ جس نے دنیا میں آکر ظلم کا نقش مٹایا ہے اس کا ہی پرتو آب آکر بگڑے کام سنوارے گا وہ جس کے دم اور قدم سے ظلمت سب کا فور ہوئی پھیر دیا رخ ہر جانب جس نے انوار کے دھارے کا جس کے ذکر سے زخمی دلوں کو تسکین اور آرام ملے جگ کے ہادی برحق کا اور اپنی آنکھ کے تارے کا

Page 134

132- جس نے بیج اُلفت کا بویا جسنے دلوں میں پیار سمویا جو ہے پیار کا تانا بانا الفت کے گہوارے کا حق کے پیارے احمد مرسل کی میں کیا تعریف کروں وہ جو ہے محبوب خدا کا پیارا پالن ہارے کا ایسے لفظ کہاں سے لاؤں میری قلم میں تاب کہاں وصف بیاں کر پاؤں اُسکے یار ہے جو بے یاروں کا وہ جس نے خود چل کر سیدھی راہ ہمیں دکھلا دی ہے جس کے نور کی کرنوں سے دُکھ دور ہوا اندھیاروں کا جس کے کارن اُس دنیا میں لاکھوں گھر آباد ہوئے راہ تکے ہے آج زمانہ اُس کے ایک اشارے کا بس اچھی خاموش! کہ اب تو حدادب کو پار نہ کر اس کا تصور کیا کیجیے جو نور ہے چاند ستاروں کا محمد مصطفیٰ کے نام پر جاں بھی فدا کر دوں! یہ مجھ پر قرض ہے اس قرض کو کیسے ادا کر دوں سبق جس نے دیا ہم کو محبت کا مروت کا اسی جانِ جہاں پر اپنے جان و دل فدا کر دوں

Page 135

133 میرے ماں باپ قرباں آپ پر اے جانِ جاناناں میں اپنی آل کو آلِ محمد پر فدا کردوں وہ جس نے دُکھ اُٹھا کر سکھ دیئے اور راحتیں بخشیں میں ساری لذتیں اور راحتیں اس پر فدا کر دوں وہ جس نے آپ چل کر ہم کو دکھلا دی رو منزل میں زادِ رہ کی ساری نعمتیں اس پر فدا کر دوں نہ پوچھو سارے عالم میں سخاوت کملی والے کی میں جو گن بن کے آؤں جان چوکھٹ پر فدا کر دوں بنا کر حرز جان اپنی محمد کی شریعت کو میں آج اپنی وفا کے عہد کو بڑھ کر وفا کر دوں در مے خانہ عشق محمد وا یونہی ہو گا دلوں کو لذتِ حُب نبی سے آشنا کردوں شاکرہ بیگم احمد پاک مجتنی صبح بدنی تمہیں تو ہو غیروں میں حسن ہے کہاں ان سے نہیں ہے واسطہ ظلمت کفر کے لئے نور خدا تمہیں تو ہو جس نے لیا ہے ہم سے دل وہ دلر با تمہیں تو ہو

Page 136

134 تارے بہت چمک گئے ظلمت مگر نہیں گئی حیواں سے آدمی کیا پھر باخدا بنا دیا پر تو ترا ہے جس سے کہ مردوں میں جان پڑ گئی تھی ورطہ فنا میں جب عورت کی کشتی حیات احسان حسن دیکھ کر حیراں میں تم یہ جن و انس شرق سے لے کے تا بہ غرب اسلام ضوفگن ہے آج ہوتے جو تم نہ جلوہ گر بنتے نہ آسماں زمیں میری خدا سے ہے دعا حاصل ہو تیری اقتداء بھیجیں درود اور سلام جتنے ہیں قارئیں تمام آئے جو تم تو دن چڑھا شمس الضحی تمہیں تو ہو ظل خدا تمہیں تو ہو خالق نما تمہیں تو ہو مٹی کو جس نے زرکیا وہ کیمیا تمہیں تو ہو کشتی لگائی جس نے پار وہ ناخدا تمہیں تو ہو دشمن ہیں جسکے مدح خواں وہ باصفا تمہیں تو ہو یعنی جہاں میں مصطفی فرمانروا تمہیں تو ہو جان جہان موجب ارض و سما تمہیں تو ہو ہم سب یہاں ہیں راہ رو اور رہنما تمہیں تو ہو اخلاص تم میں ہے تو پھر اہلِ وفاتمہیں تو ہو

Page 137

135 کہا اس نے جو ہے خبیرام بصیرا کہ ہے تو محمد سراجاً منیرا مبشر بھی تو اور نذیر اور شاہد جہانوں کی رحمت سرا جا منیرا ہے داعی الی اللہ بھی نام تیرا باذن خدا اے سراج منیرا الہی عطا کر ہمیں وہ عقیدت کہ ہوں ہم فدائے سرا جا منیرا ہیں اخلاق اُس کے مذکور قرآں ہیں اوصاف مثل سرا جا منیرا ہے اسوہ بھی کامل شریعت بھی کامل کہ ختم الرسل بھی سرا جا منیرا بنے تیری خاطر ز میں آسماں سب ور ان کیلئے تو سرا جا منیرا فلک پر جو چھائے مظالم کے بادل مدینہ میں چمکا سرا جا منیرا ترے فیض صحبت سے بنتے گئے ہیں صحابہ نجوم، اے سرا جا منیرا بہت ماہ و انجم سرا جا منیرا تری قوت قدسیہ سے بنے ہیں تری اتباع میں محبت خدا کی یہ قولِ خدا ہے سراج منیرا جمالی جلالی ہیں دو رنگ تیرے ہے احمد محمد سراجا منیرا جو ہے بدر کامل تری پیروی سے ہے ہر رنگ تیرا سرا جا منیرا زر و مال سارا غر یبیوں میں بانٹا زہے شانِ فقراء سراجاً منیرا تھا مغرب پہ تاریکیوں کا تسلط تو مغرب میں نکلا سرا جا منیرا اندھیرے نے پائی اجالے کی دولت ز ہے حسنِ خُلق سرا جا منیرا تو محسن ہے اسود و احمر کا یکساں ہے محبوب رب اے سرا جا منیرا

Page 138

136 سیده طیبه سروش سجائی تو نے اخوت سے بزم امکانات دیئے دلوں کو محبت کے نرم احساسات طلب کے دائرے تنصیف توڑ کر اپنی ملے تو بن گئی معراج مصطفیٰ" کی رات کہی تھی مشت محمد سے سنگریزوں نے جو بوجہل سے ہوئی، کتنی معتبر وہ بات تھی اہتمام طلوع وجود میں مصروف ظلام غار حرا میں عبادتوں کی رات مقام و مرحلہ سے دل ہے ماوراء میرا کہ عجز میرا ہے احرام شوق ہے میقات عجب تھا ذوق پذیرائی اہل طائف کا زبان سنگ سے کرتے ہیں مہماں سے بات لہولہان ہے، زخمی ہے پیکرِ اقدس زباں پہ پھر بھی نہیں کوئی شکوہ وہیہات سروش نعت نبی کیلئے میں حاضر ہوں قیام ہے میرا سجود ہیں کلمات

Page 139

137 عابدہ مبارک قبول ہونے لگیں دُعائیں معاف ہونے لگیں خطائیں آمد مصطفے کا مژدہ فلک سے آتی ہیں یہ ندا ئیں ہے درُود تم پر سلام تم پر سلام اے بیکسوں کے والی ہے تیرا در بارسب سے عالی کھڑے ہیں در پر ترے سوالی بھرے ہیں دل جھولیاں ہیں خالی درُود تم پر سلام تم پر کھڑے ہیں یہ طالبانِ رحمت دلوں میں لیکر تمہاری اُلفت بصد عقیدت ، بصد ندامت یہ کہہ رہے ہیں بصد محبت درود تم پر سلام تم پر دیار غربت میں جی رہے ہیں عجیب سے کرب سہہ رہے ہیں جواشک آنکھوں سے بہر رہے ہیں تڑپ تڑپ کر وہ کہہ رہے ہیں ورود تم پر سلام تم کرے (مصباح جولائی ۱۹۸۴ء) ڈاکٹر فہمیدہ منیر کہیں ریگ صحرا کہیں قافلے.کہیں قربتیں اور کہیں فاصلے ملے تجھ کو الفت کے کیسے صلے.جو رستہ چنوں تیرے گھر جاملے میرا رونا ہنسنا تمہارے لئے

Page 140

138 ہو ذوق تماشا کہ شرم و حجاب.محبت کی دُنیا کا ہر اضطراب حسینوں کے جھرمٹ کا ہر بے نقاب.کتاب محبت کا ہر ایک باب ہے منسوب کرنا تمہارے لئے یہ بت ریزہ ریزہ یہ سارے صنم.ہمارا یہ مرنا ہمارے جنم ترے کام آؤں میں شاہ اُمم.نہ جینے کی الفت نہ مرنے کا غم میرا جینا مرنا تمہارے لئے ہو پانی میں کشتی کہ دشت و سراب.سمندر کی لہروں کا سب پیچ و تاب برستے سے بادل چمکتے شباب.ہر اک جھیل یہ ماہتاب آفتاب یہ ڈھلنا اُبھرنا تمہارے لئے کٹھن راہ الفت کا ہر راہرو.کوئی سر بکف ہو کہ ہو تیز رو کہیں رک کے دم لے بھلا کون ہو.وہ کون ایسا ہوگا کہ بھاگے نہ جو یہ چلنا ٹھہرنا تمہارے لئے ادائے حسیں شوخی دلبری سخن گستری یا سخن پروری مہم جو کی ہر ایک پیشہ وری.ہر اک کو بکن کی وہ تیشہوری یہ حد سے گزرنا تمہارے لئے یہ سب بوڑھے بچے ، یہ سب مردون.یہ سب اہل دانش یہ سب اہل فن یہ با ہم مروت یہ سب حسن ظن.نکھرتا سا قدرت کا یہ بانکپن نظر سے گذرنا تمہارے لئے

Page 141

139 جہانِ محبت کی یہ داغ بیل.بڑوں کا تذ تبر یہ بچوں کا کھیل زمانے میں الفت کی بیدریل پیل.کہیں جان جوکھم کہیں سب کے بیل یہ ملنا بچھڑنا تمہارے لئے خدا کا یہ سب اپنے بندوں سے پیار - یہ انساں پہ انسانیت کا نکھار یہ دور خزاں اور جشنِ بہار.کہیں دشمنی اور کوئی یار غار یہ پل پل بدلنا تمہارے لئے خدا آسمان اور یہ سرز میں.عبادت سے جُھکتا ہوا سرکہیں کہیں سرزنش اور کہیں آفریں.خدا کا ہوگھر یا کوئی درکہیں یہ ڈر سے چمٹنا تمہارے لئے یہ در در بھٹکنا تمہارے لئے سجدہ گاہوں کی خیر ہو یا رب اور جبینوں کی لاج رہ جائے تیرا محبوب چند ساعت کو میری محفل میں آج رہ جائے آج اس رحمت مجسم کو میں نے بھی اک سلام کہنا ہے زندگانی کے کچھ خوابوں میں اک پل بھر کا راج رہ جائے ! چاہتوں کے بھرے سمندر سے میں نے بھی ایک جام پینا ہے اور اس ایک جام کی خاطر جتنا رہتا ہے کاج رہ جائے

Page 142

140 تیری دُنیا میں نامورلاکھوں اک مرا نام نہ ہوا تو کیا تیرے در کی گدائی مل جائے چاہے دُنیا کا تاج رہ جائے تیرے روضہ کی تھام کر جالی چند ساعت کو بیٹھ جاؤں میں غیر ممکن ہے پھر میں لوٹ آؤں پھر کوئی احتیاج رہ جائے جان تجھ پر شار وصدقے ہو.میری اتنی دعا قبول ہو آج سارا عالم رہے رہے نہ رہے.وہ منیر و سراج رہ جائے بادشاہت کو چھوڑ سکتی ہوں اور فقیری بھی مجھ سے چھن جائے مجھ کو نام و نمود کیا لینا ایک حسنِ خراج رہ جائے اک ترے پیار کی نظر پالوں.پھر مجھے زندگی سے کیا لینا زندگی موت سے ملے جس دم ایک حسین امتزاج رہ جائے منصوره بیگم السلام کے پادشاہ دو جہاں السلام اے ہادی کون و مکان السلام اے فجر أمت السلام اے کہ یابندہ شان سروری ختم شد برذات تو پیغمبری بیچ کس نے یافت ایس عالی مقام کے علمبردار صدق و راستی راہنما ہستی از عدد ہم نام صادق یافتی شاہد صدق تو است ایں نیک نام گم گشته راه پیکرت سرچشمه نور و ہدی اے کہ ہستی باعث ردّ ظلام

Page 143

141 سراپا منبع جود و سخا صاحب تقویٰ پر از شرم وحیا پاک طینت - رحم دل ، شیر میں کلام آے قیوم عز و تکریم زناں حامی غربا - رفیق بے کساں فیض می یا بدز تو ہر خاص و عام ہمچو کردی جان و دل برحق شار عاشق تو شد جہاں دیوانہ وار اے کہ داری شاہد و مشہور نام جلوہ جاناں را از تو دیده ام راز الفت ہم ز تو فهمیده ام ربط می دارم به جان تو مدام در ره تو جان من قربان شود بر تو نازل رحمت رحماں شود اے حبیب پاک بر تو صد سلام سیدہ منیرہ ظہور (مصباح جولائی ۱۹۸۴ء) جہاں کے سارے ناموں سے بڑا نام محمد ہے صداقت جس میں ہے وہ دینِ اسلام محمد ہے چمن کے پتے پتے پر لکھا نام محمد ہے فلک سے بھی کہیں اونچا ہے جو بامِ محمد ہے جو پی لیتا ہے اس کو ، تا ابد وہ مر نہیں سکتا کچھ ایسا روح پرور ہمدمو! جام محمد ہے فلک کو ناز ہے کہ اُس پہ وہ خورشید ، تاباں ہے زمیں کو فخر ہے کہ اُس پہ جو انعام محمد ہے

Page 144

142 ہزاروں بار چومے کامرانی نے قدم اپنے ہماری کوششیں کیا ہیں، یہ اکرام محمد ہے حسین ابن علیؓ نے زیرِ خنجر جو سنایا تھا خدا شاہد ہے، بے شک وہ ہی پیغام محمد ہے مر امر شد ہے وہ جو ا سکے دروازے کا سائل ہے میرا ہادی ہے وہ کہ جس پر انعام محمد ہے منیره آتش دوزخ بگاڑے گی ہمارا کیا کہ سوتے جاگتے وردِ زباں نام محمد ہے میرے آقا محمد رسول خدا شاہِ کون و مکان سید الاصفیاء مصطفے، مجتبے، مرتضے، مقتدی زینت بزم کن خاتم الانبیاء اے بلیغ اللساں اے شفیع الزماں رشک قدوسیاں ماورائے گماں قدرت حق تجھ ہی میں ہے جلوہ نما تیری معراج ہے سدرۃ المنتہی شرف انسانیت کو یہ تجھ سے ملا عبد کو بھی حکومت کا حق مل گیا ترک رہبانیت، فجر روحانیت مظہر حسنِ کامل ہے خیر الوریٰ اُسکی تعریف انساں سے ہو کیا بیاں خود شنا خواں ہوجس کا بدیع الزماں باعث وجہ گن اے شہہ ذوالمنن نام تیرا جولیس پڑھیں صلِ علیٰ

Page 145

۲۸ 19 ۳۲ ۱۶ ۲۰ ۷۲ لده ΑΛ ۶۸ ۲۱۲ ۲۴ ۳۲ ۲۴ ΟΛ ۹۲ ۴۸۰ zr ۲۸ ۲۲۴ ۱۴۰ ۲۴ ۴۸ ۱۴۴ ۲۰۴ ۲۵۲ ۶۰ ۲۸ ۳۰ ۴۸ IT فہرست کتب اخلاق حسنہ " حضرت خلیفة المسح الرابع کا خطبہ ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ء، بمقام لندن "مقدس ورثہ " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی پہلی کتاب "سبز اشتہار اور لیکچر سیالکوٹ" حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں کونیل" پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب "چشمہ زمزم" بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی دوسری کتاب خنچه " سات سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب اس میں تصویروں کے ساتھ وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ہے ضرورة الامام اور لیکچر لدھیانہ " حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں THE NAZARENE KASHMIRI CHRIST" دنیا پور کی مجلس عرفان قواریر قوامون" اصلاح معاشرہ پر کتاب "گل" دس سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب مکمل نماز با ترجمہ ایک با برکت انسان کی سرگزشت" حضرت عیسی کی زندگی کے حالات افاضات ملفوظات " حضرت مسیح موعود کے ملفوظات سے اقتباسات اصحاب فیل " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی تیسری کتاب ۱۳ بیت بازی پرشین، کلام محمود، در عدن اور بخار دل سے منتخب اشعار ۱۵."پانچ بنیادی اخلاق" حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطبہ ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح حضرت بانی سلسلہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں علی حضرت رسول کریم ع ہے اور بچے ۱۸ صد سالہ تاریخ احمدیت" بطر ز سوال و جواب ۱۹.فتوحات" حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی انداری پیشگوئیاں ۲۰." بے پردگی کے خلاف جہاد" جلسہ سالانہ ۱۹۸۲، خواتین سے سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا خطاب ۲۱- " آداب حیات" قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ۲۲- مجالس عرفان" (طبع دوم ) حضرت خلیہ اسیح کی مجالس سوال و جواب ۲۴ ۲۵ ۲۷.واقفین ٹو کے والدین کی راہنمائی کے لئے" "بركات الدعاء اور مسیح ہندوستان میں " حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں بدرگاه ذیشان" (طبع روم) منتخب نعتوں کا مجموعہ "الحراب" صد سالہ جشن تشکر نمبر ۱۹۸۹ء المحمر اب" سوواں جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۹۱ء ۲۸." پیاری مخلوق" بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی چوتھی کتاب ۲۹." دعوت الی اللہ " دعوت الی اللہ کے طریق ۳۱."SYYEDNA BILAL" بچوں کے لئے انگریزی میں حضرت سیدنا بلال کی زندگی کے حالات "خطب لقاء" سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطبہ ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء

Page 146

17.۲۸ ۱۵۲ ۱۲۰ ۲۹۰ ۱۶۲ ۱۲۰ ۱۵۷ zr 125 ۵۴ ۱۹۲ ۲۵۲ ۶۴ ۱۳۸ ۲۸۰ ۳۲ ۲۸ ۲۰ 17.۳۵۸ ۱۴۴ ۶۴ 33773 ۳۳ ۲۸ ۱۴۴ ۲۴ ۳۲.حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ " ( طبع دوم) خطابات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ۳۳."میرے بچپن کے دن" حضرت مولوی شیر علی کے حالات زندگی ۳۴ "ری الانبیاء" انبیائے کرام کے مستند حالات زندگی ۳۵.عہدیداران کے لئے نصائح " سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا ۳۱ اگست ۱۹۹۱ء کا خطاب ۳۶- " گلدستہ تیرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب ۳۷- "مسيرة و سوانح حضرت محمد دا له ( بطرز سوال و جواب) کده دعائے مستجاب" دُعا کا طریق اور حضرت مصلح موعود کے قبولیت دعا کے واقعات " میری کہانی" محترم حاجی عبدالستار آف کلکتہ کے حالات " کلامِ طاہر " سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کا شیریں کلام معدہ نعت ام انبیاء کا موعود" سیرت النبی پر بچوں کے لئے سلسلے کی پانچویں کتاب ۳۲.حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ اسیح الثالث " حضرت طاہرہ صدیقہ صاحبہ کی مرتب کردہ کتاب زندگی ۴۳- "ترکیبیں" آسان کم خرچ خالص اشیاء بنانے کی ترکیبیں ۲۴.قندیلیں" سبق آموز واقعات ۴۵." جماعت احمدیہ کا تعارف " دعوت الی اللہ کے لئے ضروری معلومات "سیرت حضرت محمدمع الله ولادت سے نبوت تک" بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب ۴۷."نماز" با ترجمه با تصویر -۲۸ گلشن احمد پندرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب ۴۹ " عاجزانہ راہیں " حضرت اقدس بانی سلسلہ کے ارشادات کی روشنی میں ۵۰."اچھی کہانیاں" بچوں کے لئے سبق آموز کہانیاں ۵۱- " قوار بر قوامون" حصہ اول ۵۲.دلچسپ سبق آموز واقعات" از تقاریر حضرت مصلح موعود الله ۵۳ مسیرت حضرت محمد نے نبوت سے ہجرت تک بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب " ۵۴ بچے احمدی کی ماں زندہ باد" ۵۵- " کتاب تعلیم" ۵- تجلیات البیہ کا مظہر محمل ۵۷ - احمدیت کا فضائی دور " ۵۸ امن کا گہوار مکہ مکرمہ " سیرت النبی کیر بچوں کے لئے چھٹی کتاب -Yo ۵۹ - " بیعت عقبی اولی تا عالمی بیعت" "سیرت حضرت محمد مصطفے یہ ہجرت سے وصال تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب.انسانی جواہرات کا خزینہ " سیرت النبی پر بچوں کے لئے ساتویں کتاب ۶۲." حضرت محمد مصطفے کا بچپن" سیرت النبی پر بچوں کے لئے آٹھویں کتاب " مشاغل تجارت و حضرت خدیجہ سے شادی" سیرت النبی پر بچوں کے لئے نویں کتاب ۶۴ - " جنت کا دروازہ والدین کی خدمت اور اطاعت، پاکیز تعلیم اور دلکش نمونے ۶۵ - "سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفے مل آغاز رسالت"

Page 147

Page 148

دعائے احمد اے خداوندم بنام مصطفے رکش شدی در ہر مقامے ناصرے اے میرے خدا.مصطفیٰ کے نام پر جس کا تو ہر جگہ مددگار رہا ہے دست من گیر ازره لطف و گرم در مهتم باش یارو یاورے اپنے لطف وکرم سے میرا ہاتھ پکڑ اور میرے کاموں میں میرادوست اور مدگار بن جا تکیه بر زور تو دارم گرچه من میں تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے اگرچہ میں خاک کیطرح ہوں بلکہ اس سے بھی کمتر (دیباچہ " براہین احمدیہ حصہ اوّل مطبوعہ ۱۸۸۰ء) 351

Page 148