Language: UR
اک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راه احمد مختار ہیں رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ دیں میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں (صرف احمدی احباب کے لئے) جب تک رسوم و بدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کر لیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھل نہیں سکتے." مختلف علاقوں میں پائی جانے والی اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے.گلے کا رہاہورہی ہیں.بدرسوم و بدعات اور اُن بری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے.سو آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین ( حق ) کی راہ اختیار کی جائے.اور جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسول نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں.اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں.اور اس کے بر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں.“ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 84) ان سے اجتناب کے بارہ میں تعلیمات
پیش لفظ مجلس مشاورت 2009 ء کی تجویز نمبر 1 بدرسوم سے اجتناب کے بارہ میں تھی.اس سے متعلقہ جو سفارشات حضور انور ایدہ اللہ نے منظور فرما ئیں ان میں ایک سفارش حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے مندرجہ ذیل ارشاد پر مشتمل تھی: " نظارت اصلاح و ارشاد کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ جتنی رسوم اور بدعات ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں.ان کو اکٹھا کیا جائے اور اس بات کی نگرانی کی جائے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں.“ (خطبہ جمعہ 09 ستمبر 1966 ء از خطبات ناصر جلد 1 صفحہ 384-385) اس ارشاد کی تعمیل میں ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والی رسوم اور بدعات کو اکٹھا کیا گیا ہے.چونکہ ان رسوم اور بدعات کو اکٹھا کرنے کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں اس لئے ان سے اجتناب کے متعلق دینی تعلیمات اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام وخلفاء کے ارشادات بھی اس کتاب میں شامل کر دیئے گئے ہیں.اللہ کرے کہ تمام احمدی ہمیشہ اپنے آپ کو تمام بد رسوم اور بدعات سے بچائے رکھیں.ہم "بد رسوم کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے ہمیشہ کے لئے ان کو خیر آباد کہہ دیں اور آنحضور علے کے بتائے ہوئے سید ھے اور آسان راستے پر چلنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
18 19 21 21 24 21 21 22 به اته بسم الله الرحمن الرحيم انڈیکس مضامین 01 بدعت کا لغوی مفہوم 02 بدعت کیا ہے؟ بدعت اور بدرسم 03 | سنت اور بدعت میں فرق 04 | قرآن اور سنت کے بعد اجتہاد 05 رسوم کے توڑنے سے غرض 06 | دور جدید کی مفید ایجادات استعمال کرنا بدعت نہیں 07 جلسہ سالانہ بدعت نہیں ہے 08 بدعت اور رسم از روئے قرآن کریم 09 | بدعت از روئے حدیث 1 2 3 3 5 LO 6 7 11 15 بد رسوم اور بدعات سے اجتناب کے بارہ میں ارشادات 13 رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے 14 | درود اور وظائف 15 حضرت خلیفتہ امسیح الاول نور اللہ مرقدہ 6 رسوم وروان با عادت اللہک باقی نادر تی ہیں 17 حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ 18 رسم و رواج کا گند فطرت کو خراب کر دیتا ہے 19 رسم و رواج اور قشر خدا کا نور نہیں 20 عورتیں رہیں اور بدعتیں کرنے پر مجبور نہ کریں 21 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ 22 کوئی احمدی رسوم و رواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو 3 | بدر سوم کے خلاف اعلانِ جہاد.اعلان جہاد 24 حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ 25 رسمیں اپنی ذات میں بھی بے ہودہ چیزیں ہیں 26 وقتا فوقتارسم ورواج کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں 27 رسمیں جس قوم پر بوجھ بن جائیں تو ہیں منع کیاجائے گا 28 حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز 29 رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں 30 رسم و رواج گلے کا طوق ہیں ان سے جان چھڑائیں 24 له اله 22 24 25 22 26 26 26 27 28 28 28 28 17 18 18 10 شریعت کے بنیادی ماخذ 11 حضرت مسیح موعود علیہ السلام 12 طرح طرح کی رسومات
41 41 iv 47 سالگرہ 48 سالگرہ لغو کے زمرہ میں آتی ہے 49 رسم بسم الله 50 | آمین کی تقریب 51 آئین سنت حسنہ ہے شادی بیاہ سے متعلقہ رسوم اور دینی تعلیمات 2 شادی بیاہ کے متعلق دینی تعلیمات 3 شادی کے موقع کی رسمیں 42 42 44 45 46 47 47 48 48 60 50 50 51 5557 51 52 54 دوسری قوموں میں شادی 55 منگنی کے بارہ میں ہدایت 29 29 30 50 31 31 4 32 33 33 33 33 iii 31 تم خوش قسمت ہو کہ ان بوجھوں سے آزاد ہو 32 اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں 33 رسم و رواج سے بچنے کے لئے دعا رسمیں بڑھیں تو انسان اندھا ہو جاتا ہے 35 دین سے دور لے جانے والی رسمیں رڈ کرنے کے لائق ہیں | 36 | رسم و رواج سے بچنا ( دین حق ) کا حصہ ہے 37 فقراء کے نکالے ہوئے طریقے انسان کو بھٹکاتے ہیں 38 چھٹی شرط بیعت ( مائو شوری 2009ء) 39 خوشی اور غمی کی حدود و قیود ہیں 40 ہر احمدی اپنے مقام کو سمجھے 41 ہر عمل میں رضائے الہی مدنظر رہے 42 | گود بھرائی پیدائش سے متعلقہ رسوم اور دینی تعلیمات 43 کان میں اذان دینا 4 بال کٹوانا اور نام رکھنا 45 عقیقہ کرنا 46 ناک کان چھدوانا اور بودی رکھنا 56 منگنی پر مٹھائی تقسیم کرنا 57 منگنی کا مقصد 58 | شادی بیاہ کے مواقع پر خوشی کا طبعی اظہار 59 | ناچ گانا 60 | شادی کی دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز ہے 1 شادی کے موقع پر گانا جائز ہے جو بے ضرر ہو 62 | مسلمانوں پر تباہی گانے بجانے کی وجہ سے آئی 34 35 35 36 38 38 39 39 40 40
63 64 65 66 66 66 20 67 68 89 68 vi 81 جہیز میں سادگی 82 جہیز اور بری کی رسم 83 بری یا جہیز کی نمائش 84 حلالہ حرام ہے بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرنا بد رسم ہے 86 بیوہ کا شادی کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے 87 | تنبول (نیندرہ) ڈالنا 88 دودھ پلانا اور جوتی چھپانا وغیرہ وفات سے متعلقہ رسوم اور دینی تعلیمات 70 71 72 72 26 72 76 77 77 77 88 رونا پیٹنا اور بے صبری کی باتیں کرنا 99 وفات کے موقع پر کیا جائز ہے اور کیا نا جائز ؟ 90 | وفات والے گھر کھانا بھجوانا 91 | قل خوانی 92 | فاتحہ خوانی 52 52 93 رسم چہلم 94 ختم قرآن 95 سوئم ، چالیسواں، ختم قرآن، آیت کریمہ کے ختم V 63 | ڈھولک بجا ئیں لیکن نا جائز رسمیں نہ کریں 64 عورتوں کا عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے 65 ڈانس اور ناچ سے بچیں 66 | شادی کارڈ پر اسراف 67 | مہندی 68 مہندی بطور رسم نہ ہو 69 مہندی پر زیادہ خرچ اور دعوتوں سے بچیں 70 گیتوں کے لئے ساؤنڈ سسٹم استعمال نہ ہو 1 با جا اور آتش بازی 72 | شادی بیاہ پر فضول خرچی بد رسم ہے 73 بھاجی یا مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا 74 دولہا کو سہرا باندھنا شادی بیاہ کی تقاریب میں بے پردگی کارجحان 76 بڑے بڑے مہر باندھنا 77 عورتوں سے مہر بخشوانا 78 مہر ادا کرنے سے قبل بیوی کی وفات ہو جائے تو ؟ 79 زیور اور کپڑے وغیرہ کا مطالبہ 80 جہیز وغیرہ کی شرطیں 53 54 54 55 55 56 57 57 58 58 59 59 60 61 86 62 22 62 63
92 92 93 93 94 94 95 96 40 97 97 97 46 99 99 99 100 100 101 102 viii 112 | رہبانیت 113 ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا 114 قضاء عمری ادا کرنا 115 احتیاطی نماز 116 | نماز کے بعد ہاتھ اٹھانا 117 شب برات، بارہ وفات ، گیارہویں اور دیگر محرم کی رسوم 118 | تاریخوں اور دنوں کو منحوس سمجھنا 119 بدشگونی لینا 120 حدہ نکالنا 121 نظر اتارنا 122 نظر لگنا 123 زنانہ وضع اور لباس اختیار کرنا 124 | ونی 125 | رجب کے کونڈے 1261 توشئہ خواجہ خضر دینا 127 بزرگوں کے نام کا ختم پڑھوانا 128 تصویر کشی 129 کیا تصویر لینا بت پرستی ہے؟ 79 79 28 80 80 60 81 88 82 83 84 85 85 85 87 2 88 88 88 89 91 vii 96 میت کے ساتھ روٹیاں 97 | اسقاط اور قرآن پھرانا 98 جمعرات کی روٹی 99 | طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے 100 قبر پر پھول چڑھانا 101 قبر پرستی 102 قبروں پر بیٹھنا اور نماز پڑھنا 103 قبروں کو پکا بنانا 104 قبروں پر چراغ جلانا 105 سجدہ تعظیم نا جائز ہے 106 | پیر پیرستی متفرق بد رسوم 107 غیر اللہ کو پکارنا ایک قسم کا شرک ہے 108 قبروں کا طواف اور عرس طریق سنت نہیں 109 مولود خوانی 110 تعویذ گنڈے کرنا 111 ٹونے ٹوٹکے
ix 130 قیام توجہ کیلئے خاص وضع پر بیٹھنا 131 جمعہ کے دن مرنا 132 نمود و نمائش کے لئے بیوت الذکر میں آنا 133 ٹی وی اور انٹرنیٹ کے لغویات سے اپنے بچوں کو بچائیں 134 تسبیح پھیرنا 135 متبنی بنانا 136 محرم کے تابوت 137 تعویذ لٹکانا 138 | محفل قرآن میں جانا 139 اپریل فول 140 ویلنٹائن ڈے 103 103 103 104 105 106 106 106 106 107 108 ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والی بد رسوم اور بدعات 141 پیدائش اور اس سے متعلقہ دیگر بد رسوم و بدعات (فہرست) 142 شادی بیاہ کے موقع پر رسومات (فہرست) 143 وفات کے موقع کی بدرسومات (فہرست) 144 قبر پرستی، پیر پرستی اور متفرق رسوم (فہرست) 145 رسمیں اور بدعتیں (نظم) 110 112 118 120 122
2 1 بدعت اور بد رسم بدعت کا لغوی مفہوم بدعت کا لفظ بدع سے مشتق ہے اس کے لغوی معنی ہیں کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا“ حافظ ابن حجر عسقلانی (773.852ھ ) بدعت کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.الْبِدْعَةُ أَصْلُهَا مَا أَحْدَثَ عَلَى غَيْرِ مَثَالِ سَابِقِ یعنی بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو.“ (عسقلانی فتح الباری جلد 4 صفحہ 353 ) صاحب مفردات امام راغب اصفہانی نے اس لفظ کا مفہوم یہ لکھا ہے.بَدَعَ : - اَلْإِبْدَاعُ إِنْشَاءُ صَنْعَةٍ بِلَا اِحْتِذَاءٍ وَاقْتِدَاءٍ یعنی کسی کی تقلید اور اقتداء کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا.نیز فرماتے ہیں.وَالْبِدْعَةُ فِي الْمَذْهَبِ إِبْرَادُ قَوْلٍ لَمْ يَسْتَنَّ قَائِلُهَا وَ فَاعِلُهَا فِيهِ بِصَاحِبِ الشَّرِيعَةِ وَاَمَا ثِلِهَا الْمُتَقَدِّمَةِ وَأصُولِهَا الْمُتَقَنَةِ وَرُوِيَ كُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ ترجمہ : بدعت مذہب میں ایسی نئی بات ایجاد کرنا جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کی اقتداء نہ کرے اور نہ ہی سلف صالحین اور اصول شریعت سے اس کا ثبوت ملتا ہو.ایک روایت میں ہے كُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ کہ بری رسم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام آگ ہے.عربی کی مشہور لغت المنجد میں محدثات کے معنی یہ لکھے ہیں ”المحدث ہر وہ نئی شئے جس کا ثبوت نہ کتاب اللہ سے نہ سنت رسول اور نہ اجماع امت سے مل سکے.بدعت کیا ہے؟ بدعت کا عام مفہوم یہ ہے کہ نیکی کے نام پر دین میں ایسے امور داخل کر لینا جن کی اصل شریعت میں نہ ہو.مندرجہ ذیل حدیث سے بدعت کی مزید وضاحت ہوتی ہے.صحابہ نے ایک مرتبہ قسم کھائی کہ وہ کبھی شادی نہیں کریں گے ، ساری رات قیام کریں گے، روزانہ روزہ رکھا کریں گے.اس پر آنحضور علی نے فرمایا: مجھے دیکھو میں نے شادیاں بھی کی ہیں، میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزہ بھی رکھتا.ہوں اور کبھی روزہ نہیں رکھتا.پھر فرمایا: مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِى یعنی جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے.(صحیح بخاری ، کتاب النکاح، باب الترغيب في النكاح) صحابی کا ارادہ نیک تھا لیکن طریق درست نہ تھا.نیکیوں کے اسلوب بھی ہم نے آنحضور سے ہی سیکھنے ہیں.آپ کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر ہی ہم يُحْبِبْكُمُ اللهُ کے مطابق اللہ تعالیٰ کو پاسکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض مواقع ہو اور آثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 611) ے معارض مخالف ۲ نقیض: الٹ، برعکس سے آثار نبویہ: احادیث کے زجر و تهدید: تنبیه ، دھمکی
4 3 پھر فرماتے ہیں:."کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے.شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت علیہ نے دیا ہے اُسے لے لے اور جس بات سے منع کیا ہے اس سے ہے.“ سنت اور بدعت میں فرق ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 128) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اس وقت لوگوں نے سنت اور بدعت میں سخت غلطی کھائی ہوئی ہے اور ان کو ایک خطر ناک دھو کہ لگا ہوا ہے وہ سنت اور بدعت میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر خود اپنی مرضی کے موافق بہت سی راہیں خود ایجاد کر لی ہیں اور ان کو اپنی زندگی کے لئے کافی راہنما سمجھتے ہیں.حالانکہ وہ ان کو گمراہ کرنے والی چیزیں ہیں.جب آدمی سنت اور بدعت میں تمیز کرلے اور سنت پر قدم مارے تو وہ خطرات سے بچ سکتا ہے لیکن جو فرق نہیں کرتا اور سنت کو بدعت کے ساتھ ملاتا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوسکتا.“ قرآن اور سنت کے بعد اجتہاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 389) اللہ تعالیٰ نے جو کچھ قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح اور بین ہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کر کے دکھا دیا ہے آپ کی زندگی کامل نمونہ ہے لیکن باوجود اس کے ایک حصہ اجتہاد کا بھی ہے جہاں انسان واضح طور پر قرآن شریف یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پاسکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہئے مثلاً شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے اگر اس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا جاوے تو یہ ریا کاری اور تکبر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے.لیکن اگر کوئی شخص محض اسی نیت سے کہ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ کا عملی اظہار کرے اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ پر عمل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں.پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سونہیں خواہ ایک لا کھ کو کھا نا دے منع نہیں.اصل مدعا نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنا دیتی ہے ایک قصہ مشہور ہے.ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس نے چالیس چراغ روشن کئے بعض آدمیوں نے کہا کہ اس قدرا اسراف نہیں کرنا چاہئے اس نے کہا کہ جو چراغ میں نے ریا کاری سے روشن کیا ہے اسے بجھا دو کوشش کی گئی ایک بھی نہ بجھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل ہوتا ہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں ایک اس فعل کو کرنے میں مرتکب معاصی کا ہوتا ہے اور دوسرا ثواب کا.اور یہ فرق نیتوں کے اختلاف سے پیدا ہو جاتا ہے.لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے نکلا جو ا کٹڑ اکڑ کر چلتا تھا اروصاف ظاہر ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا تو فرمایا کہ یہ وضع خدا تعالیٰ کی نگاہ میں معیوب ہے مگر اس وقت محبوب ہے کیونکہ اس وقت اسلام کی شان اور ا شوکت کا اظہار اور فریق مخالف پر ایک رعب پیدا ہوتا ہے پس ایسی بہت سی مثالیں اور نظیر میں ملیں گی جن سے آخر کار جا کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ بالكل صحیح ہے" ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 390،389)
6 5 رسوم کے توڑنے سے غرض اگر انسان تقویٰ اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہو سکتی ہیں چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے سعدی کہتا ہے کلید در دوزخ است آن نماز که در چشم مردم گزاری دراز ریاء الناس کے لئے خواہ کوئی کام بھی کیا جاوے اور اس میں کتنی ہی نیکی ہو وہ بالکل بے سود اور الٹا عذاب کا موجب ہو جاتا ہے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے فقراء خدا تعالیٰ کے لئے عبادت کرنا ظاہر کرتے ہیں مگر دراصل وہ خدا کے لئے نہیں کرتے بلکہ مخلوق کے واسطے کرتے ہیں انہوں نے عجیب عجیب حالات ان لوگوں کے لکھے ہیں وہ بیان کرتے ہیں.ان کے لباس کے متعلق لکھا ہے کہ اگر میلے رکھیں گے تو عزت میں فرق آئے گا اس لئے امراء میں داخل ہونے کے واسطے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنیں مگر ان کو رنگ لیتے ہیں ایسا ہی اپنی عبادتوں کو ظاہر کرنے کے لئے عجیب عجیب را ہیں اختیار کرتے ہیں مثلاً روزہ کے ظاہر کرنے کے واسطے وہ کسی کے ہاں کھانے کے وقت پر پہنچتے ہیں اور وہ کھانے کے لئے اصرار کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کھائیے میں نہیں کھاؤں گا مجھے کچھ عذر ہے اس فقرہ کے یہ معنے ہوتے ہیں مجھے روزہ ہے اس طرح پر حالات ان کے لکھے ہیں پس دنیا کی خاطر اور اپنی عزت اور شہرت کے لئے کوئی کام کرنا خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا موجب نہیں ہو سکتا اس زمانہ میں بھی دنیا کی ایسی ہی حالت ہو رہی ہے ہر ایک چیز اپنے اعتدال سے گر گئی ہے عبادات اور صدقات سب کچھ ریا کاری کے واسطے ہو رہے ہیں اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے اس لئے رسوم کے توڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کوئی فعل یا قول قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے.جبکہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال اور افعال اللہ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں.پھر ہم دنیا کی پرواہ کیوں کریں ؟ جو فعل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول ہے کے خلاف ہو اس کو دور کر دیا جاوے اور چھوڑا جاوے.جو حدود الہی اور وصایا رسول اللہ اللہ کے موافق ہوں ان پر عمل کیا جاوے کہ احیاء سنت اسی کا نام ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 391،390) دور جدید کی مفید ایجادات استعمال کرنا بدعت نہیں ” جو امور و وصایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے خلاف نہ ہوں یا اللہ تعالیٰ کے احکام کے مخالف نہ ہوں اور نہ ان میں ریا کاری مد نظر ہو بلکہ بطور اظہار شکر اور تحديث بالنعمۃ ہو تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں.ہمارے علماء سابقہ تو یہاں تک بعض اوقات مبالغہ کرتے ہیں کہ میں نے سنا ایک مولوی نے ریل کی سواری کے خلاف فتویٰ دیا اور ڈاکخانہ میں خط ڈالنا بھی وہ گناہ بتا تا تھا اب یہاں تک جن لوگوں کے حالات پہنچ جاویں ان کے پاگل ہونے یا نیم پاگل ہونے میں کیا شک باقی رہا؟ یہ حماقت ہے.دیکھنا یہ چاہئے کہ میرا فلاں فعل اللہ تعالیٰ کے فرمودہ کے موافق ہے یا خلاف ہے اور جو کچھ میں کر رہا ہوں یہ کوئی بدعت تو نہیں اور اس سے شرک تو لازم نہیں آتا اگر ان امور میں سے کوئی بات نہ ہو اور فسادایمان پیدا نہ ہو تو پھر اس کے کرنے میں کوئی ہرج نہیں إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کا لحاظ رکھ لے.میں نے بعض مولویوں کی نسبت ایسا بھی سنا ہے کہ صرف ونخو وغیرہ علوم کے پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں اور اس کو بدعت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت عے کے وقت یہ علوم نہ تھے پیچھے سے نکلے ہیں اور ایسا ہی بعض نے توپ یا بندوق کے ساتھ لڑنا بھی گناہ قرار دیا ہے.ایسے لوگوں کے احمق ہونے میں شک کرنا بھی.
8 7 غلطی ہے قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ جیسی تیاری وہ کریں تم بھی ویسی ہی تیاری کرو یہ مسائل در اصل اجتہادی مسائل ہیں اور ان میں نیت کا بہت بڑا دخل ہے.“ جلسہ سالانہ بدعت نہیں ہے ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 392،391 ) | میاں رحیم بخش صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جلسہ سالانہ کے آغاز سے متعلق ایک اشتہار پر اعتراض کیا کہ ایسے جلسے پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس اعتراض کا جواب درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا: یہ بھی یادر ہے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں تدبیر اور انتظام کیلئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کیلئے ہم قرین مصلحت سمجھیں اور دشمن پر غالب ہونے کیلئے مفید خیال کریں وہی بجالا دیں جیسا کہ وه عـز اسمه، فرماتا ہے.وَاعِدُوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُم مِن و یعنی دینی دشمنوں کیلئے ہر یک قسم کی طیاری جو کر سکتے ہو کر و اور اعلاء کلمہ اسلام کیلئے جو قوت لگا سکتے ہو لگاؤ.اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تد بیر میں خدمت اسلام کیلئے کارگر ہوں سب بجالاؤ اور تمام قوت اپنے فکر کی اپنے بازو کی اپنی مالی طاقت کی اپنے حسن انتظام کی اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تا تم فتح پاؤ.اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صرف قوت اور حکمت عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں.اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبر نہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیث نبوی کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کیلئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی ہیں یا نئے نئے طور پر ہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں پس اگر حالت موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے بدعات سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ بباعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سید و مولی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہو گئے اور نئے ہتھیارلڑائیوں کے پیدا ہوئے اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اٹھانا اور ان سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہوگا.پس ایسے مقامات تدبیر اور انتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی.اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی.ہماری ہدایت پانے کیلئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا کافی ہے.یعنی یہ کہ أَعِدُّوا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة الله جل شانہ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جوطرز تمہیں موثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو پس اب ظاہر ہے کہ اس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات اعلاء کلمہ اسلام کے فکر میں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حُبُّ الْأَنْصَارِ مِنَ الْإِيمَانِ ان کو مردود ٹھہرانا
10 9 نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ در حقیقت یہ ان لوگوں کا کام ہے جنکی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں.افسوس کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مد میں داخل نہیں کر سکتے.ہر یک وقت اور زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے.اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں تو بجز جدید طور کی تدبیروں کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں.پس کیا یہ تدبیریں بدعات میں داخل ہو جائیں گی جب اصل سنت محفوظ ہو اور اسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے تو کیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی معاذ اللہ ہرگز نہیں، بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہو اور آثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے.اور اگر صرف جدت انتظام اور نئی تدبیر پر بدعت کا نام رکھنا ہے تو پھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جاؤ کچھ شمار بھی ہے.علم صرف بھی بدعت ہوگا اور علم نحو بھی اور علم کلام بھی اور حدیث کا لکھنا اور اس کامبو اور مرتب کرنا سب بدعات ہوں گے ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا کلوں کا کپڑا پہننا ڈاک میں خط ڈالنا تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا تمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا نہ صرف بدعت بلکہ ایک گناہ عظیم ٹھہرے گا کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے.صحابہ سے زیادہ سنت کا متبع کون ہو سکتا ہے مگر انہوں نے بھی سنت کے وہ معنی نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش نے سمجھے.انہوں نے تدبیر اور انتظام کے طور پر بہت سے ایسے جدید کام کئے کہ جو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے اور نہ قرآن کریم میں وارد ہوئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھو جن کا ایک رسالہ بنتا ہے.اسلام کیلئے ہجری تاریخ انہوں نے مقرر کی اور شہروں کی حفاظت کیلئے کو تو ال مقرر کئے اور بیت المال کیلئے ایک باضابطہ دفتر تجویز کیا.جنگی فوج کیلئے قواعد رخصت اور حاضری ٹھہرائے اور ان کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اور مقدمات مال وغیرہ کے رجوع کیلئے خاص خاص ہدایتیں مرتب کیں اور حفاظت رعایا کیلئے بہت سے قواعد اپنی طرف سے تجویز کر کے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہد خلافت میں پوشیدہ طور پر رات کو پھرنا اور رعایا کا حال اس طرح سے معلوم کرنا اپنا خاص کام ٹھہرایا لیکن کوئی ایسا نیا کام اس عاجز نے تو نہیں کیا صرف طلب علم اور مشورہ امداد اسلام اور ملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا.رہا مکان کا بنانا تو اگر کوئی مکان بہ نیت مہمانداری اور بہ نیت آرام هر یک صادر و وارد بنا نا حرام ہے تو اس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہیے اور اخویم حکیم نور الدین صاحب نے کیا گناہ کیا کہ محض للہ اس سلسلہ کی جماعت کیلئے ایک مکان بنوا دیا جو شخص اپنی تمام طاقت اور اپنے مال عزیز سے دین کی خدمت کر رہا ہے اس کو جائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحه 609 تا 612 ) |
12 11 بدعت اور رسم از روئے قرآن کریم (لقمان: 7) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِى لَهُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ.یعنی لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنا روپیہ ضائع کر کے کھیل تماشا کی باتیں اختیار کر لیتے ہیں تا کہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ سے روکیں.اور اس ( یعنی اللہ کے راستہ کو) ہنسی کے قابل چیز بنا لیتے ہیں.ان لوگوں کے لئے ذلت والا عذاب ہوگا.وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (مومنون : 4 ) اور وہ لوگ جولغو اور ہر بے فائدہ کام سے اعراض کرتے ہیں.إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الَّا ذُقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُونَ (يسين:9) ترجمہ: ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈالے ہوئے ہیں اور وہ ان کی ٹھوڑیوں تک چڑھ گئے ہیں اور وہ (دکھ سے بچنے کے لئے اپنی گردنیں اونچی کر رہے ہیں.اس کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب شریعت نازل نہیں ہوتی تو انسان اپنی من گھڑت رسوم کے طوق اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے اور ان رسوم کی سختی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ انسان اپنے سامنے کی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتا اوران سے بچنے کے لئے آنکھیں بند کر کے اپنی گردن اونچی کرنے لگتا ہے.یعنی آنکھیں کھول کر یہ بھی نہیں دیکھتا کہ میں بے ہودہ رسوم میں جکڑا ہوا ہوں ، مگر نکلیف دور کرنے کے لئے کبھی کبھی اپنی گردن اونچی کرتا ہے یعنی قوم سے چوری چھپے ان رسوم کی تکلیف سے بچنا بھی چاہتا ہے.“ ( تفسیر صغیر صفحہ 576 حاشیہ ) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالْأَنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ط فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّو رَالَّذِى أُنْزِلَ مَعَهُ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.(اعراف آیت : 158) ترجمہ: وہ لوگ جو ہمارے اس رسول یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع | کرتے ہیں جو نبی ہے اور امی ہے جس کا ذکر تورات اور انجیل میں ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہے وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور بُری باتوں سے روکتا ہے اور سب پاک چیزیں ان پر حلال کرتا اور سب بُری چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور ان کے بوجھ ( جو ان پر لا دے ہوئے تھے ) اور طوق جو ان کے گلوں میں ڈالے ہوئے تھے وہ ان سے دور کرتا ہے.پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اس کو طاقت پہنچائی اور اس کو مدددی اور اس نور کے پیچھے چل پڑے جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے وہ لوگ بامراد ہو گئے.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں آنحضور عملہ کے ان عظیم احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے جو آپ نے تمام دنیا پر اور ہر زمانے کے انسان پر قیامت تک کے لئے فرمائے.آپ کے کچھ احسانات تو ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ بنی نوع انسان تک از خود پہنچ رہے ہیں اور کچھ احسانات ایسے ہیں جن میں بنی نوع انسان پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی گئی.ہیں کہ اگر وہ آگے بڑھیں گے ہاتھ بڑھا ئیں گے تو اس پھل کو پائیں گے جو ان کے لئے حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کامل اور نہایت شیریں اور مکمل حالت میں پیدا فرمایا ہے اور اگر وہ ہاتھ نہیں بڑھا ئیں گے تو اپنا نقصان کریں گے.
14 13 یہ احسانات جن کا ان آیات میں ذکر ہے یہ دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں.حضور اکرم اللہ نے کچھ ذمہ داریاں ادا فرما ئیں ان میں جو آپ کے ساتھ تعاون کرے گا جو آپ کی مدد کرے گا ان سے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے.أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (اعراف آیت : 158 ) کہ صرف انہی لوگوں تک حضرت محمد مصطفی ﷺ کا فیض پہنچے گا اور وہی فلاح پائیں گے اور جو اعراض کریں گے اور ان سے فائدہ نہیں اٹھا ئیں گے وہ ان ذمہ داریوں میں اسی حد تک ناکام و نا مرا در ہیں گے جو حضرت محمد مصطفی علیہ کے ذریعہ ہم تک پہنچیں.اس آیت کریمہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حرام اور حلال بیان فرمانے کے بعد وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأغْللَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ایک تیسری چیز بیان فرمائی کہ وہ ان کے بوجھ اتارتا ہے اور ان کی گردنوں سے ایسے طوق دور کرتا ہے جنہوں نے انہیں باندھ رکھا تھا.اس سے مراد حلال اور حرام کے مابین وہ عادتیں ہیں جو قوموں پر بوجھ بن جایا کرتی ہیں اور ان کی ترقی کی رفتار کمزور کر دیا کرتی ہیں اور بعض دفعہ اتنے بڑے بوجھ بن جایا کرتی ہیں کہ ان کی آزادیاں ختم ہو جاتی ہیں.وہ رسم و رواج کے غلام بن کر رہ جایا کرتے ہیں.اس لئے یہ بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان ہے.یہاں یہ اعلان ہو رہا ہے کہ محمد مصطفی علیہ صرف حلال اور طیب کی اجازت نہیں دے رہے.وہ صرف خبیث اور حرام سے منع نہیں فرما رہے بلکہ ان دونوں کے درمیان کچھ ایسی باتیں بھی تم پاؤ گے کہ فی ذاتہ نہ ان کا خبث نظر آئے گا نہ کوئی خاص طیب بات ان میں دیکھو گے.یہ درمیان کی سرزمین ایسی ہے کہ اس میں بھی تمہارے لئے بعض باتیں مصیبت کا موجب بن سکتی ہیں.حضرت محمد ﷺ تمہیں ایسے رسم ورواج سے بھی روکیں گے اور روک رہے ہیں اور دیگر ایسی عادات سے بھی روکیں گے اور روک رہے ہیں کہ جو تمہاری گردنوں کا طوق ثابت ہوسکتی ہیں.ان آیات کی روشنی میں میں جماعت کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم پر لازم ہے کہ وقتا فوقتا رسم ورواج کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.کہ خوشی کے طبعی اظہار سے ممانعت نہیں لیکن جب یہ رسمیں بن جائیں ، قوم پر بوجھ بن جائیں تو پھر انہیں منع کیا جائے گا.آپ نے فرمایا کہ نیتوں پر دارو مدار ہوتا ہے بعض دفعہ بے تکلفی سے بعض باتیں خود بخو درونما ہورہی ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ رسم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور انہیں ان کے کرنے پر غیر اللہ کا خوف مجبور کر دیتا ہے.چنانچہ اس مقام پر نہ صرف وہ منع ہو جاتی ہیں بلکہ شرک میں داخل ہونے لگتی ہیں.یہ اس وقت کے امام کا فرض ہے کہ وہ قوم کو لاز ما ان چیزوں سے روک دے.“ خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1983 ء.خطبات طاہر صفحہ 627 تا 629)
16 15 بدعت از روئے حدیث حضرت رسول کریم ﷺ نے بدعت کے بارہ میں فرمایا ہے:.إِيَّاكُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْأمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ترجمہ.دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچو کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام جاری ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے.(ترمذی کتاب العلم باب الاخذ بالسنة) إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كَتَابُ اللهِ وَ اَحْسَنَ الْهَدَى هَدَى مُحَمَّدٍ ، وَ شَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَ كُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَ كُلَّ بَدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ.(سنن النسائى كتاب الصلوة العيدين باب كيف الخطبة) سب سے اچھی تعلیم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر ہدایت (طریق) محمد کی سنت ہے اور سب سے بری بات ( میری سنت میں ) کوئی نئی چیز (بدعت ) پیدا کرنا ہے کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ( گمراہی) ہے اور ہر گمراہی کا انجام بالآخر دوزخ ہے.ایک مرتبہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ دشمنی ہے.ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو مسلمان ہو کر جاہلیت کی رسموں پر چلنا چاہے.(بخاری کتاب الديات باب من طلب دم امری ء بغير حق) پھر ایک موقع پر فرمایا:.مَنْ أَحْدَتْ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَةٌ (بخاری كِتَابُ الصُّلُح بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَهُوَ مَرْدُودٌ) کہ جس نے ہماری شریعت میں کوئی نئی بات داخل کی جو خلاف شریعت ہے تو وہ رد کر دینے کے قابل ہے.حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضور نے فرمایا:.سنو! شیطان اس سے تو مایوس ہو گیا ہے کہ تمہارے اس شہر میں کبھی بھی اس کی عبادت کی جائے.ہاں وہ اس سے خوش ہوتا ہے کہ تم اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال میں اس کو کی اطاعت کرو.“ (سنن ابن ماجه كتاب المناسك باب الخطبه يوم النحر) خطبہ حجۃ الوداع میں یہ بھی فرمایا: سنو! میں (اپنی شفاعت سے بہت سے لوگوں کو جہنم سے ) چھڑانے والا ہوں اور ایسے لوگ بھی ہیں، جو مجھ سے الگ کر دیئے گئے.میں کہوں گا کہ اے اللہ ! یہ تو میرے ساتھی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے نہیں معلوم انہوں نے تیرے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی تھیں.“ (سنن ابن ماجه، كتاب المناسك، باب الخطبه يوم النحر) آنحضور کی حدیث ہے کہ: و جس نے اسلام میں کوئی اچھی روایت قائم کی تو اسے ثواب کے علاوہ ان لوگوں کے ثواب میں سے بھی حصہ ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کمی کی جائے اور جو کوئی اسلام میں بری روایت جاری کرے گا تو اسے اپنے گناہ کے علاوہ ان لوگوں کے گناہ میں سے بھی حصہ ملے گا جو اس پر عمل پیرا ہوں گے.بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کوئی کمی کی جائے.(مسلم کتاب الزكوة باب الحث على الصدقة)
18 17 بد رسوم اور بدعات کے بارہ میں ارشادات شریعت کے بنیادی ماخذ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.(دینی) ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں (۱) قرآن شریف.جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے.(۲) دوسری سنت...سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے..یا بہ تبد یل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل.(۳) تیسر اذریعہ ہدایت کا حدیث ہے.“ ریویو بر مباحثہ چکرالوی و بٹالوی.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 209 210) امام آخر الزمان نے حکم و عدل ہونے کی حیثیت میں ان تینوں ماخذ کی بابت حقیقی راہنمائی فرمائی ہے کیونکہ آنحضور ﷺ نے آپ کو اس زمانہ کا حکم وعدل قرار دیا ہے: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكُنَّ أَن يَّنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدَلاً فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْحَرْبَ.(صحیح بخاری مطبع مترجم مكتبه اسلاميه جلد 2 كتاب الانبياء باب نزول عيسى ابن مريم) مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور ضرور مسیح بن مریم نازل ہوں گے جو حکم و عدل بن کر تمہارے اختلافات کا فیصلہ کریں گے اور وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جنگ کو موقوف کریں گے.اس حدیث کے مطابق تمام اختلافی معاملات کے بارہ میں اس زمانہ کے حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ کرنا ہے.دین میں سب سے زیادہ خرابی پیدا کرنے والی باتوں میں سر فہرست بد رسوم اور بدعات ہیں.کتاب کے اس باب میں رسومات کے بارہ میں کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ارشادات پیش ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام طرح طرح کی رسومات " قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران : 32) اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں کوئی مرا جاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہئے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں.رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت علی کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جا تا اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 316) رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے.اور خود بھی خدا تعالیٰ سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے..بلا مدد وحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے اور ایسی رائے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ
20 19 محدثات میں داخل ہوگی.رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے.دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے.“ درود اور وظائف ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 519) ”ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعا ئیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں.سو تم ان سے پر ہیز کرو.ان لوگوں نے آنحضرت مے کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا.گویا اپنی الگ ایک شریعت بنالی ہے.تم یا درکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ علیہ کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ 1 سیفی اسم مونث ہے.اس سے مراد وہ اسم جلالی ہے جو کسی دشمن کے دفعیہ کے واسطے نگی تلوار کی پشت پر مقررہ مقدار کے موافق پڑھ پڑھ کر پھونکتے ہیں اور اس دشمن کا ہلاک ہو جانا تصور کرتے ہیں.جب یہ اسم الٹا اپنی تباہی اور بربادی کا موجب ہو تو اسے سیفی کا الٹ جانا کہتے ہیں.نیز یہ ایک دعا کا نام ہے جس میں نہایت جلال برستا ہے.مجاز اجا دوٹو نے کو بھی کہتے ہیں.شاعر کہتا ہے.مجھ پہ افلاک سے میری ہی بلائیں آئی سیفیاں پڑھتے ہوئے پھر سے دعا ئیں آئیں بہادرشاہ ظفر کہتا ہے (داغ دہلوی) کوئی پڑھتا ہے سیفی میرا دشمن کوئی کھینچے پھرے ہے سیف آہن (بہادر شاہ ظفر) (فرہنگ آصفیه مولفہ مولوی سید احمد دہلوی زیر لفظ سیفی) جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں.بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے.نا کام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 103) میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے.گلے کا رہا ہو رہی ہیں.اور اُن بری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے.ہر چند سمجھایا گیا، کچھ سنتے نہیں.ہر چند ڈرایا گیا.کچھ ڈرتے نہیں اب چونکہ موت کا کچھ اعتبار نہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب کے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں.اس لئے ہمان لوگوں کے برا ماننے اور برا کہنے اور ستانے اور دکھ دینے سے بالکل لا پروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لئے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں کو خبر دار کرنا چاہا تا ہماری گردن پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے.اور قیامت کو کوئی نہ کہہ سکے نہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا.اور سیدھا راہ نہیں بتایا.سو آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین ( حق ) کی راہ اختیار کی جائے.اور جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسول نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں.اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں.اور اس کے برخلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 84) شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راه احمد مختار ہیں (در مشین ص 14) |
22 21 حضرت خلیفہ اسیح الاول نور اللہ مرقدہ رسوم ورواج یا عادت اللہ کا باغی بنادیتی ہیں انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہے اور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولو العزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلاتا ہے.وہ مرض عادت، رسم و رواج اور دم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے.یہ چار چیزیں میں نے دیکھا ہے، چاہے کتنی نصیحتیں کرو جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرے گا.“ (خطبات نور صفحه 650) حضرت خلیق است المانی نوراللہ مرقدہ رسم و رواج کا گند فطرت کو خراب کر دیتا ہے فطرت انسانی کو تو اللہ تعالیٰ نے پاک بنایا ہے لیکن اس میں رسم و رواج کا گندمل کر اسے خراب کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعہ سے پھر فطرت کے پاک تقاضوں کو جگا دیتا ہے اور طبائع میں ایک ایسا جوش پیدا کر دیتا ہے کہ جس طرح تیز بھٹی یا بڑھتے ہوئے سیلاب میں ہوتا ہے اس ہیجان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبائع کا جمود جاتا رہتا ہے.ایک طرف فطرت میں بیداری پیدا ہو جاتی ہے.دوسری طرف رسوم و عادات کی محبت میں جوش آتا ہے اس حرکت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے فطرت صحیحہ اور رسوم و عادات کے ایک ملے جلے ڈلے کے یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہو جاتی ہیں اور انسان کچھ عرصہ کے لئے دو متضاد جذبات کا حامل ہو جاتا ہے.آخر جس کی فطرت زیادہ پاک ہوتی ہے وہ رسوم و عادات کی میل کو باہر نکال کر پھینک دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے.اور جو کچی کوشش نہیں کرتا اس کی طبیعت پھر ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور پھر رسوم و عادات کی جھاگ فطرت کے سونے سے مل کر پہلے کی طرف ایک ناصاف ڈلا بن کر رہ جاتی ہے.“ رسم ورواج اور قشر خدا کا نور نہیں ( تفسیر کبیر جلد سوم ص 405) قرآن کریم ایک روشی ہے جس کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ لوگوں کو اندھیرے سے روشی کی طرف نکال لے جائیں گے.پھر روشنی کی تشریح إِلى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ سے کی.یعنی عزیز وحمید خدا کا راستہ ہی اصل روشنی ہے.ہم دیکھتے ہیں روشنی ک تو ہر ایک پسند کرتا ہے لیکن روشی کی تشریح میں لوگوں کو اختلاف ہوتا ہے.آج کل لوگ کہتے ہیں یہ نئی روشی کے آدمی ہیں اور مراد جدید فلسفہ اور تہذیب اور اباحت اور لامذہبی کی اتباع ہوتی ہے.کوئی کہتا ہے مسیحیت خدا کا نور ہے.کوئی ہندو مذہب کو کوئی اسلام کو خدا کا نور قرار دیتا ہے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسم و رواج اور قشر اور چھلکا خدا کا نور نہیں کہلا سکتا.نور تو خدا تعالیٰ کی طرف جاے کا نام ہے.جس کا قدم خدا تعالیٰ کی طرف نہیں اٹھا اسے نور کو حاصل کرنے والا کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے.نور کو وہی پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھاتا ہے.“ عورتیں رسمیں اور بدعتیں کرنے پر مجبور نہ کریں ( تفسیر کبیر جلد سوم ص 438) پھر کئی قسم کی رسمیں اور بدعتیں ہیں جن کے کرنے کے لئے عورتیں مردوں کو مجبور کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر اس طرح نہ کیا گیا تو باپ دادا کی ناک کٹ جائے گی گویا وہ
24 23 باپ دادا کی رسموں کو چھوڑنا تو پسند نہیں کرتیں.کہتی ہیں اگر ہم نے رسمیں نہ کیں تو محلہ والے نام رکھیں گے لیکن خدا تعالیٰ ان کا نام رکھے تو اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی.محلہ والوں کی انہیں بڑی فکر ہوتی ہے.لیکن خدا تعالیٰ انہیں کا فر اور فاسق قرار دے تو اس کا کچھ خیال نہیں ہوتا.کہتی ہیں یہ در تا وا ہے.اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے.حالانکہ قائم خدا تعالیٰ ہی کا ورتا وا رہے گا.باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا.“ اوڑھنی والیوں کے پھول صفحہ 38) وہ زنجیر کیا ہے؟ وہ رسوم ہیں جن کا تعلق قوم کے ساتھ ہوتا ہے.مثلاً بیٹے کا بیاہ کرنا ہے تو خواہ پاس کچھ نہ ہو قرض لے کر رسوم پوری کرنی ہوتی ہیں.یہ زنجیر ہوتی ہے جو کا فر کو جکڑے رہتی ہے اور وہ اس سے علیحدہ نہیں ہونے پاتا.“ اوڑھنی والیوں کے پھول.صفحہ 180 ) فضول رسمیں قوم کی گردن میں زنجیریں اور طوق ہوتے ہیں جو اسے ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں.“ ( خطبہ نکاح 27 مارچ 1931 ء.خطبات محمود جلد 3 صفحہ 301) احمدی اٹھ کہ وقت خدمت ہے یاد کرتا ہے تجھ کو رب عباد خدمت دیں ہوئی ہے تیرے سپرد دور کرنا ہے تو نے شر و فساد قصر کفر و ضلالت و بدعت تیرے ہاتھوں سے ہوگا اب برباد ( کلام محمود ص89،88) حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم اللہ تعالی اگر تم قرب الہی چاہتے ہو تو رسوم اور بدعات کی بجائے قرآنی راہ ہدایت اور صراط مستقیم تمہیں اختیار کرنا پڑے گا.جب تک رسوم و بدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کر لیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھل نہیں سکتے.“ خطبات ناصر جلد اول ص 378، 379) کوئی احمدی رسوم و رواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو ”اگر ہم بدعتوں اور رسموں کے پابندرہیں گے اور اندھیرے میں ہی پڑے رہیں گے تو ہر گز اس نور سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے.اور نہ ہی اس نور کے ذریعہ سے جو سنت اور جو اسوہ حسنہ دنیا میں قائم کیا گیا ہے ہم اس کی اتباع کر سکیں گے اور اگر ہم ایسانہ کرسکیں گے تو نہ ہمیں اس دنیا میں فلاح حاصل ہوگی اور نہ ہی اُخروی زندگی میں.پس ہر احمدی پر ، ہر احمدی خاندان اور ہر احمدی تنظیم پر یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو رسوم اور بدعتوں سے بچائے رکھے، محفوظ رکھے اور اس بات کی بھی نگرانی کرے کہ کوئی احمدی بھی رسوم ورواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو اور بدعات میں پھنسا ہوا نہ ہو.دنیا میں رسوم و بدعات کا عجیب جال بچھا ہوا ہے.جب آدمی ان پر غور کرتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ خدا نے جس مخلوق (انسان) کواشرف المخلوقات بنایا اور جس پر آسمانی رفعتوں کے دروازے کھولے وہ کس طرح اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے اور پھر کس طرح نور کی بجائے ظلمات میں آرام و راحت پاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ان کو رسوم و بدعات سے محفوظ رکھے اور توفیق دے کہ ہم اس کی منشاء کے مطابق اس آیہ کریمہ میں جس ایمان اور جس تعزیر اور جس نصرت اور جس اتباع کا حکم دیا گیا ہے اس کی پیروی
26 25 کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر کے اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور اُخروی زندگی میں بھی کامیاب ہوں اور مُفْلِحین کے گروہ میں شامل ہونے والے ہوں.آمین بد رسوم کے خلاف اعلانِ جہاد خطبات ناصر جلد اول ص 385، 386) ”ہماری جماعت کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ تو حید خالص کو اپنے نفسوں میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی قائم کریں اور شرک کی سب کھڑکیوں کو بند کر دیں...توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر بدعت اور ہر بدرسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹا نہ دے.رسوم تو دنیا میں بہت سی پھیلی ہوئی ہیں لیکن اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانے کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں.اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں ستا سودا ہے.“ خطبات ناصر جلد اول ص 758 ،762، 763) حضرت خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ رسمیں اپنی ذات میں بھی بے ہودہ چیزیں ہیں پس یہ ساری وہ رسمیں ہیں جن کے خلاف ہمیں جہاد کرنا ہے اور جماعت کو ان بوجھوں سے آزاد کرنا ہے ورنہ بہت سے جھگڑے بھی چل پڑیں گے.رسمیں اپنی ذات کو میں بھی بے ہودہ چیزیں ہیں اور آپ کو ان سے آزاد کرانا آپ کی اپنی بھلائی میں ہے لیکن اس کے نتیجہ میں پھر اور جو بد اثرات پیدا ہوتے ہیں اس سے سوسائٹی پھٹ جاتی ہے، اختلافات بڑھ جاتے ہیں، نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، دنیا داری بڑھ جاتی ہے، روحانیت کو بڑا شدید نقصان پہنچتا ہے.ایک دوسرے کے بعد پے در پے رونما ہونے والے نتائج ہیں جو اپنے بد اثرات میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.اس لئے رسموں کو معمولی نہ سمجھیں.اگر آپ ان سے صرف نظر کریں گے تو یہ بڑھ کر آخر کار آپ پر قابو پا جائیں گی پھر یہ پیر تسمہ پا بن جائیں گی.“ (خطبات طاہر جلد دوم 636) وقتا فوقتا رسم ورواج کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں حلال اور حرام کے مابین وہ عادتیں ہیں جو قوموں پر بوجھ بن جایا کرتی ہیں اور و ان کی ترقی کی رفتار کمزور کر دیا کرتی ہیں اور بعض دفعہ اتنے بڑے بوجھ بن جایا کرتی ہیں کہ ان کی آزادیاں ختم ہو جاتی ہیں.وہ رسم و رواج کے غلام بن کر رہ جایا کرتے ہیں.اس لئے یہ بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان ہے.یہاں یہ اعلان ہو رہا ہے کہ محمد مصطفی ﷺنے صرف حلال اور طبیب کی اجازت نہیں دے رہے.وہ صرف خبیث اور حرام
28 27 سے منع نہیں فرما ر ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان کچھ ایسی باتیں بھی تم پاؤ گے کہ فی ذاتہ نہ ان کا خبث نظر آئے گا نہ کوئی خاص طیب بات ان میں دیکھو گے.یہ درمیان کی سرزمین ایسی ہے کہ اس میں بھی تمہارے لئے بعض باتیں مصیبت کا موجب بن سکتی ہیں.حضرت محمد اللہ تمہیں ایسے رسم ورواج سے بھی روکیں گے اور روک رہے ہیں اور دیگر ایسی عادات سے بھی روکیں گے اور روک رہے ہیں کہ جو تمہاری گردنوں کا طوق ثابت ہوسکتی ہیں.ان آیات کی روشنی میں میں جماعت کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم پر لازم ہے کہ وقتا فوقتا رسم و رواج کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1983ء.خطبات طاہر صفحہ 629) رسمیں جب قوم پر بوجھ بن جائیں تو انہیں منع کیا جائے گا...حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خوشی کے طبعی اظہار سے ممانعت نہیں لیکن جب یہ رسمیں بن جائیں، قوم پر بوجھ بن جائیں تو پھر انہیں منع کیا جائے گا.آپ نے فرمایا کہ نیتوں پر دارو مدار ہوتا ہے بعض دفعہ بے تکلفی سے بعض باتیں خود بخو درونما ہورہی ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ رسم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور انہیں ان کے کرنے پر غیر اللہ کا خوف مجبور کر دیتا ہے.چنانچہ اس مقام پر نہ صرف وہ منع ہو جاتی ہیں بلکہ شرک میں داخل ہونے لگتی ہیں.یہ اس وقت کے امام کا فرض ہے کہ وہ قوم کو لاز ما ان چیزوں سے روک دے.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1983ء.خطبات طاہر صفحہ 629) | حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.صرف اپنے علاقہ کی یا ملک کی رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں.بلکہ جہاں بھی ایسی رسمیں دیکھیں جن سے ہلکا سا بھی شائبہ شرک کا ہوتا ہو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ کرے تمام احمدی خواتین اسی جذ بہ کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والی ہوں.“ خطبات مسرور جلد اول ص 379 رسم و رواج گلے کا طوق ہیں ان سے جان چھڑا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہو گا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے.اس برائی کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ہیں جو شادی بیاہ کے موقع پر کی جاتی ہیں اور جن کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.اس طرح معاشرے میں یہ برائیاں جو ہیں اپنی جڑیں گہری.کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح دین میں اور نظام میں ایک بگاڑ پیدا ہو رہا ہوتا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دوسروں کی مثالیں دے کر بچنے کی کوشش نہ کریں، خود بچیں.اور اب اگر دوسرے احمدی کو یہ کرتا دیکھیں تو اس کی بھی اطلاع دیں کہ اس نے یہ کیا تھا.اطلاع تو دی جاسکتی ہے لیکن یہ بہانہ نہیں کیا جاسکتا کہ فلاں نے کیا تھا اس لئے ہم نے بھی کرنا ہے، تا کہ اصلاح کی کوشش ہو سکے، معاشرے کی اصلاح کی جا سکے.ناچ ڈانس اور بیہودہ قسم کے گانے جو ہیں ان کے متعلق میں نے پہلے بھی واضح طور پر
30 29 کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح کی حرکتیں ہوں گی تو بہر حال پکڑ ہوگی.لیکن بعض برائیاں ایسی ہیں جو گو کہ برائیاں ہیں لیکن ان میں یہ شرک یا یہ چیزیں تو نہیں پائی جاتیں لیکن لغویات ضرور ہیں اور پھر یہ رسم و رواج جو ہیں یہ بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں.جو کرنے والے ہیں وہ خود بھی مشکلات میں گرفتار ہو رہے ہوتے ہیں اور بعض جو ان کے قریبی ہیں ، دیکھنے والے ہیں ، ان کو بھی مشکل میں ڈال رہے ہوتے ہیں.ان میں جہیز ہیں، شادی کے اخراجات ہیں، ولیمے کے اخراجات ہیں، طریقے ہیں اور بعض دوسری رسوم ہیں جو بالکل ہی لغویات اور بوجھ ہیں.ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے دین کو ماننے والے ہیں جو معاشرے کے قبیلوں کے، خاندان کے رسم و رواج سے جان چھڑانے والا ہے.ایسے رسم و رواج جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی تھی.نہ کہ ہم دوسرے مذاہب والوں کو دیکھتے ہوئے ان لغویات کو اختیار کرنا شروع کر دیں.تم خوش قسمت ہو کہ ان بوجھوں سے آزاد ہو تم ایسے دین اور ایسے نبی کو ماننے والے ہو جو تمہارے بوجھ ہلکے کرنے والا ہے.جن بے ہودہ رسم و رواج اور لغو حرکات نے تمہاری گردنوں میں طوق ڈالے ہوئے ہیں، پکڑا ہوا ہے، ان سے تمہیں آزاد کرانے والا ہے.تو بجائے اس کے کہ تم اُس دین کی پیروی کرو جس کو اب تم نے مان لیا ہے اور اُن طور طریقوں اور رسوم ورواج اور غلط قسم کے بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو، ان میں دوبارہ گرفتار ہور ہے ہو.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم تو خوش قسمت ہو کہ اس تعلیم کی وجہ سے ان بوجھوں سے آزاد ہو گئے ہوا اور اب فلاح پا سکو گے، کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی، نیکیوں کی توفیق ملے گی.پس ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو ان رسموں اور لغویات کو چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں کامیابیوں کی خوشخبری دے رہا ہے.اور ہم دوبارہ دنیا کی دیکھا دیکھی ان میں پڑنے والے ہورہے ہیں.بعض اور باتوں کا بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ وہ بعض دفعہ احمدی معاشرہ میں نظر آتی ہیں.بعض طبقوں میں تو یہ برائیاں بدعت کی شکل اختیار کر رہی ہیں.ان کے خیال میں اس کے بغیر شادی کی تقریب مکمل ہو ہی نہیں سکتی یہ باتیں ہماری قوم کے علاوہ شاید دوسری قوموں میں بھی ہوں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا تھا.ان کی یہ سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اندر کسی ایسے رسم ورواج کو راہ پانے کا موقع نہ دیں جہاں رسم و رواج بوجھ بن رہے ہیں.یعنی جن کا اسلام سے، دین سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو.اگر آپ لوگ اپنے رسم و رواج پر زور دیں گے تو دوسری قوموں کا بھی حق ہے.بعض رسم و رواج تو دین میں خرابی پیدا کرنے والے نہیں وہ تو جیسا کہ ذکر آیا وہ بے شک کریں.ہر قوم کے مختلف ہیں جیسا کہ پہلے میں نے کہا انصار کی شادی کے موقع پر بھی خوشی کے اظہار کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی ہے.لیکن جو دین میں خرابی پیدا کرنے والے ہیں وہ چاہے کسی قوم کے ہوں رد کئے جانے والے ہیں کیونکہ احمدی معاشرہ ایک معاشرہ ہے اور جس طرح اس نے گھل مل کر دنیا میں وحدانیت قائم کرنی ہے، اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے، اگر ہر جگہ مختلف قسم کی باتیں ہونے لگ گئیں اس سے پھر دین بھی بدلتا جائے گا اور بہت ساری باتیں بھی پیدا ہوتی چلی جائیں گی.ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو سے پھر بڑی بدعتیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں ، اس لئے بہر حال احتیاط کرنی چاہئے.“ خطبات مسر در جلد سوم ص 691 تا 693) اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں.آنحضرت علی
32 31 تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں.جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا.یعنی کوشش ہو گی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا و ہوس سے بھی باز رہوں گا.تو قناعت اور شکر پر زور دیا.یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو.اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہئے.“ رسم و رواج سے بچنے کے لئے دعا (خطبات مسرور جلد سوم ص 694) اللہ کرے کہ ہم ہر قسم کے رسم و رواج بدعتوں اور بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.آنحضرت علیہ کی سنت پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ اس زمانے کے حکم و عدل کی تعلیم کے مطابق دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں.دین کو دنیا پر مقدم کرنا بھی ایسا عمل ہے جو تمام نیکیوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اور تمام برائیوں اور لغو رسم و رواج کو ترک کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے.تو اس کی طرف بھی خاص توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.“ خطبات مسرور جلد سوم ص 699 700 رسمیں بڑھیں تو انسان اندھا ہو جاتا ہے ” جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مکمل طور پر ہوا و ہوس کے قبضہ میں چلا جاتا ہے جب کہ بیعت کرنے کے بعد تو وہ یہ عہد کر رہا ہے کہ ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور اللہ اور اس کے رسول علی اللہ کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کر لے گا.اللہ اور رسول ہم سے کیا چاہتے ہیں ، یہی کہ رسم و رواج اور ہوا و ہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو.“ شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں - صفحہ 93) دین سے دور لے جانے والی رسمیں رڈ کرنے کے لائق ہیں حدیث میں آپ علیہ نے فرمایا : جن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو دین سے دور لے جانے والی، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں وہ سب مردو در سمیں ہیں.سب فضول ہیں.رڈ کرنے کے لائق ہیں.پس ان سے بچو کیونکہ پھر یہ دین میں نئی نئی بدعات کو جگہ دیں گی اور دین بگڑ جائے گا.جس طرح اب دیکھو دوسرے مذاہب میں رسموں نے جگہ پا کر دین کو بگاڑ دیا ہے.خیر یہ تو ہونا ہی تھا.کو کیونکہ اس زمانے میں زندہ مذہب صرف اور صرف ( دین حق ) نے ہی رہنا تھا.لیکن آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دوسرے مذاہب نے مثلاً عیسائیت نے باوجود اس کے کہ ایک مذہب ہے.مختلف ممالک میں مختلف علاقوں میں اور ملکوں میں اپنے رسم ورواج کے مطابق اپنی رسموں کو بھی مذہب کا حصہ بنایا ہوا ہے.افریقہ میں بھی یہ باتیں نظر آتی ہیں.پھر جب بدعتوں کا راستہ کھل جاتا ہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں.تو آنحضرت ﷺ نے ان بدعتیں پیدا کرنے والوں کے لئے سخت انذار کیا ہے سخت ڈرایا ہے.آپ کو اس کی بڑی فکر تھی.حدیث میں آتا ہے فرمایا : میں تمہیں ان بدعتوں کی وجہ سے ، تمہارے ہوا و ہوس کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے دین میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے.تم گمراہ نہ ہو جاؤ“ شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں.صفحہ 96)
34 33 رسم و رواج سے بچنا ( دین حق ) کا حصہ ہے ” رسم ورواج سے بچنا اور ہوا و ہوس سے بچنا ( دین حق ) کی تعلیم کا حصہ ہے اور اس تعلیم کو سمجھنے کے لئے ہمارے لئے رہنما قرآن شریف ہے اور اصل میں تو اگر ایک مومن قرآن شریف کو مکمل طور پر اپنی زندگی کا دستور العمل بنالے تو تمام برائیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں.کسی بھی قسم کی ہوا و ہوس کا خیال تک بھی دل میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ پاک کتاب ہے جو ایک دستور العمل کے طور پر شریعت کو مکمل کرتے ہوئے ، انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے پاک دل پر نازل فرمائی اور پھر جہاں ضرورت تھی آنحضرت علیہ نے اپنے عمل سے اپنے فعل سے اپنے قول سے اس کی وضاحت فرما دی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو اپنے سر پر قبول کرو.“ شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں.صفحہ 99) | فقراء کے نکالے ہوئے طریقے انسان کو بھٹکاتے ہیں ”دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : 32) خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ علیہ کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے.انسان کا مدعا صرف ایک واحد لا شریک خدا کی تلاش ہونا چاہیے.شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے.رسوم کا تابع اور ہوا ہوس کا مطیع نہ بننا چاہیے.دیکھو میں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ یہ بھی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے اس کی تابعدادی سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں.آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہے.سو تم ان سے پر ہیز کرو.ان لوگوں نے آنحضرت علی اللہ کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا گویا اپنی الگ شریعت بنالی ہے.تم یا درکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ اللہ کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں.ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں.بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے.نا کام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابع دار نہیں بلکہ اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے.“ شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں - صفحہ 105 ، 106 ) چھٹی شرط بیعت ( ماٹو شوری 2009ء) اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں.جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا.یعنی کوشش ہو گی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا و ہوس سے بھی باز رہوں گا.تو قناعت اور شکر پر زور دی.یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو.اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مد نظر رکھنا چاہئے.“ (مشعلِ راه جلد سوم ص 155)
36 35 خوشی اور غمی کی حدود اور قیود ہیں ایک احمدی کو جہاں اس بات سے تسلی ہوتی ہے وہاں فکر بھی ہے.اپنے جائزے لینے کی ضرورت بھی ہے.اس نور سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا (التغابن:10) کی شرط رکھی ہے کہ اللہ پر ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے.پس ہمیشہ اپنے مد نظر یہ بات رکھنی چاہئے کہ کون ساعمل صالح ہے اور کون سا غیر صالح ہے.بعض بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.مثلاً خوشیاں ہیں.یہ دیکھنے والی بات ہے کہ خوشیاں منانے کے لئے ہماری کیا حدود ہیں اور غموں میں ہماری کیا حدود ہیں.خوشی اور غمی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور دونوں چیزیں ایسی ہیں جن میں کچھ حدود اور قیود ہیں.آج کل دیکھیں ، مسلمانوں میں خوشیوں کے موقعوں پر بھی زمانے کے زیر اثر طرح طرح کی بدعات اور لغویات راہ پاگئی ہیں اور غموں کے موقعوں پر بھی طرح طرح کی بدعات اور رسومات نے لے لی ہے.لیکن ایک احمدی کو ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کام بھی وہ کر رہا ہے اس کا کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ نظر آنا چاہئے.اور ہر عمل اس لئے ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جو حدود قائم کی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہر کام کرنا ہے....ہر احمدی اپنے مقام کو سمجھے (خطبہ جمعہ 15 جنوری 2010ء) | ” جماعت پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ نبی کے موقعوں پر جو رسوم ہیں ان سے تو بچے ہوئے ہیں.ساتواں دسواں، چالیسواں ، یہ غیر احمدیوں کی رسمیں ہیں ان پر عمل نہیں کرتے.جو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ یہی ہوتا ہے کہ یہ رسمیں گھر والوں پر بوجھ بن رہی ہوتی ہیں.لیکن اگر معاشرے کے زیر اثر ایک قسم کی بدرسومات میں مبتلا ہوئے تو دوسری قسم کی رسومات بھی راہ پاسکتی ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں یہاں بھی شروع ہو جائیں گی.پس ہر احمدی کو اپنے مقام کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اب یہ فرض | ہے کہ صحیح اسلامی تعلیم پر عمل ہو.“ ہر عمل میں رضائے الہی مدنظر رہے (خطبہ جمعہ 15 جنوری 2010ء) ” ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے.اگر یہ مد نظر رہے تو اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.بدعات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.فضول خرچیوں سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.لغویات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں اور ظالموں سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.یہ ظلم ایک تو ظاہری ظلم ہیں جو جابر لوگ کرتے ہی ہیں.ایک بعض دفعہ لاشعوری طور پر اس قسم کی رسم و رواج میں مبتلا ہو کر اپنی جان پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.اور پھر معاشرے میں اس کو رواج دے کر ان غریبوں پر بھی ظلم کر رہے ہوتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شاید فرائض میں داخل ہو چکی ہے.اور جس معاشرے میں ظلم اور لغویات اور بدعات وغیرہ کی یہ باتیں ہوں، وہ معاشرہ پھر ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہوتا ہے.قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا.كم يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الخَبْيتَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأغْللَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الأعراف:158) کہ جو
37 اس پر ایمان لانے والے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور ان سے ان کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے.گردنوں میں جو پھندے پڑے ہوئے ہیں وہ اتار دیتا ہے.جو پھندے پہلی قوموں میں پڑے ہوئے تھے، پہلی نسلوں میں پڑے ہوئے تھے ، اپنے دین کو بھول کر رسم و رواج میں پڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں نے گلوں میں جو پھندے ڈالے ہوئے تھے اب وہی باتیں بعض مسلمانوں میں پیدا ہورہی ہیں.اگر ہم میں بھی پیدا ہوگئیں تو پھر ہم یہ کس طرح دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم اس وقت آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں.پس یہ طوق ہمیں اتارنے ہوں گے اگر ہم بے احتیاطیوں میں بڑھتے رہے تو یہ طوق پھر ہمارے گلوں میں پڑ جائیں گے جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے گلوں سے اتارے ہیں اور جن کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتارنے کی پھر نصیحت فرمائی ہے.....اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں.اللہ اور اس کے رسول کے قول پر عمل کرنے والے ہوں.رسم ورواج سے بچنے والے ہوں.دنیاوی ہوا و ہوس اور ظلموں سے دور رہنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہم ہمیشہ حصہ 66 پاتے چلے جائیں.کبھی ہماریکو ئی بدبختی ہمیں اس نور سے محروم نہ کرے.“ (خطبہ جمعہ 15 جنوری 2010ء)
39 38 گود بھرائی پیدائش سے متعلقہ رسوم اور دینی تعلیمات جہاں تک رسومات کے بیان کا تعلق ہے یہ پیدائش سے پہلے ہی شروع کر دی جاتی ہیں مثلاً ایک رسم ہے گود بھرائی بچہ پیدا ہونے میں ابھی بہت وقت ہے تو یہ رسم شروع کر دی جاتی ہے جس پہ اکثر گھرانوں میں بے شمار روپیہ خرچ کیا جاتا ہے.گانا بجانا کپڑوں کے جوڑے مٹھائیاں اور بے جا اسراف آخر کس لئے ؟ ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا اور اس سے پہلے یہ فضول رسم اور اسراف سراسر اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے جس کا شریعت اور دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں.بچوں کی پیدائش پر ہیجڑوں کے ناچ گانے کرانا، تعویز دھاگے باندھنا ،سر پرلٹ یا بودی رکھنا ، درباروں پر لے جانا اور بچوں کو ان سے منسوب کرنا.یہ سب بدعتیں ہیں اور شرک کی راہیں ہیں.آنحضرت علیہ کی سنت سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچے کی پیدائش پر اس کے کان میں اذان دی جائے اور سر کے بال کٹوائے جائیں ، اچھا نام رکھا جائے اور اگر توفیق ہو تو عقیقہ کروایا جائے.کان میں اذان دینا احادیث میں آیا ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ لا أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِي يَوْمَ وُلِدَ فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى وَ أَقَامَ فِي أُذُنِهِ الْيُسْرَى.(شعب الايمان البيهقي 390/6 حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ جس دن حضرت حسن بن علی کی پیدائش ہوئی اس دن آنحضرت ﷺ نے ان کے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی.بال کٹوانا اور نام رکھنا آنحضرت مہ نے بچے کی پیدائش کے ساتویں دن اس کے بال کٹوانے ، نام رکھنے اور عقیقہ کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپ دادوں کے ناموں کے ذریعہ بلایا جائے گا.اس لئے اچھے اچھے نام رکھا کرو.(ابوداود کتاب الادب باب في تغيير الاسماء مشكواة باب الاسامي صفحه 408) (ترمذی کتاب الاضاحي باب من العقيقة) حضرت ابو وہب جشمی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انبیاء علیہ السلام کے ناموں جیسے اپنے بچوں کے نام رکھو اور عبداللہ اور عبدالرحمن نام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اور حارث اور ہمام بھی اچھے اور سچائی کے قریب نام ہیں لیکن حرب اور مرہ ( ان کے معنی لڑائی اور تلفی ہونے کی وجہ سے ) برے نام ہیں.عقیقہ کرنا ( ابوداؤد کتاب الادب باب تغير الاسماء ) اگر کوئی شخص عقیقہ کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے آنحضور کا ارشاد ہے کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ چاہے کہ اپنے بچے کی طرف سے عقیقہ کرے تو وہ بیٹے کی طرف سے دو بکریاں اور بیٹی کی طرف سے ایک بکری قربان کرے.“ (ابو داؤد كتاب الضحايا باب في العقيقة
41 40 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی بیان کرتے ہیں کہ:.ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکرے قربان کرنے چاہئیں میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا.میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے.ایک بکرے کے جواز کا فتویٰ نہ دیا.میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کر کے بھی عقیقہ کر سکیں.“ (سیرۃ المہدی جلد دوم صفحہ: 155 جدید ایڈیشن روایت نمبر : 1216) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیقہ کی نسبت سوال ہوا کہ کس دن کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا:.- ساتویں دن.اگر نہ ہو سکے تو پھر جب خدا توفیق دے.ایک روایت میں ہے آنحضرت ﷺ نے اپنا عقیقہ چالیس سال کی عمر میں کیا تھا.ایسی روایات کو نیک ظن سے دیکھنا چاہئے جب تک قرآن مجید و احادیث صحیحہ کے خلاف نہ ہوں.“ ( بدر 13 فروری1908 صفحہ 10 ملفوظات جلد پنجم صفحہ 442) ناک کان چھدوانا اور بودی رکھنا بعض لوگ بچوں کے ناک کان چھدواتے اور بالی بلاک پہناتے یا پاؤں میں گھنگروں ڈالتے اور سر پر چوٹی سی رکھ لیتے ہیں یہ سب غیر اسلامی رسوم ہیں جو غیر قوموں سےمسلمانوں میں آگئی ہیں.منت کے طور پر سر پر جو بودی رکھتے ہیں اس کے بارے میں استفسار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ”نا جائز ہے ایسا نہیں چاہیئے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 169 ) سالگرہ پیدائش کے بعد سب سے زیادہ منائی جانے والی رسم سالگرہ ہے جس میں مغربیت کے زیر اثر بہت سے خاندان ہزاروں روپیہ برباد کر دیتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع سے ایک بارسالگرہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ”مجھے بتائیں کہ کیا آپ کسی ایسے نبی کو جانتے ہیں جس نے اپنی سالگرہ منائی ہو کیا خدا کے کسی نبی ،اس کے نائبین یا مقربین نے کبھی اپنی سالگرہ منائی؟ ان میں سے یقینا کسی نے بھی نہیں.ان کی پیدائش ہماری پیدائش سے زیادہ اہم ہے یا ہماری پیدائش ان کی پیدائش سے مجھے بتا ئیں؟ کیا آپ کی پیدائش خدا کے نبیوں کی پیدائش سے زیادہ اہم ہے.ہرگز نہیں اگر انبیاء نے اپنی سالگرہ نہیں منائی تو آپ اپنی غیر اہم سالگرہ کیوں منائیں.“ ( فولڈر ” سالگرہ کی تقریبات از نظارت اصلاح وارشاد ) سالگرہ لغو کے زمرہ میں آتی ہے سالگرہ قرآن کریم کے کسی حکم کی رو سے حرام تو نہیں جس پر اللہ تعالیٰ سزادے یا اس کی لعنت نازل ہو بلکہ یہ لغو کے زمرہ میں آتی ہے یہ قرآن کریم کا عمومی بیان ہے کہ مومن بے فائدہ چیزوں کے پیچھے نہیں پڑتے اور وہ بے معنی مشاغل میں شریک نہیں ہوتے.مذہب کی مستند تاریخ کے مطابق خدا کے کسی نبی نے کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی.کسی نبی کے صحابیوں نے اپنے نبی کی سالگرہ نہیں منائی آنحضرت ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ نے آپ کی سالگرہ نہیں منائی آپ کے چاروں خلفاء، صحابہ کی ساری نسل اور بعد ازاں تابعین اور تبع تابعین نے بھی کبھی آپ کی سالگرہ نہیں منائی یہی وجہ ہے کہ حضرت مصلح موعود سالگرہ منانے کے سخت مخالف تھے اور آپ کے دور میں جماعت میں کوئی سالگرہ کی تقریب نہیں منا تا تھا اور جب اس کی خلاف ورزی آپ کے علم میں آتی تو آپ اس پر شدید ناراضگی کا ( فولڈر سالگرہ کی تقریبات از نظارت اصلاح وارشاد ) اظہار فرماتے.“ کو
43 42 رسم بسم الله حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کے بذریعہ تحریر یہ لکھنے پر کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچہ کو بسم اللہ کرائی جاوے تو بچہ کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد تختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی یا سونے کی دی جاتی ہے.اگر چہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر میں چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں.حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا: و سختی اور قلم دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ان سے پر ہیز کرنا چاہئے اور باوجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قدر اسراف اختیار کرنا سخت گناہ ہے.“ آمین کی تقریب ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 265) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاں نومبر 1901 ء کو قادیان میں آمین کی ایک تقریب منعقد فرمائی.جس میں بیرون قادیان سے بھی کثرت سے مہمانان شریک ہوئے.اس موقع پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ایک سوال کیا کہ حضور آمین جو ہوتی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے جو کچھ فرمایا وہ بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور ہر کام کرتے وقت ہماری راہنمائی کرتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا:.جو امر یہاں پیدا ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جاوے اور نیک نیتی اور تقویٰ کے پہلوؤں کو لحوظ رکھ کر سوچا جاوئے تو اس سے ایک علم پیدا ہوتا ہے میں اس کو آپ کی صفائی قلب اور نیک نیتی کا نشان سمجھتا ہوں کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو پوچھ لیتے ہیں.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو نکالتے نہیں اور پوچھتے نہیں جس سے وہ اندی ہی نشو ونما پاتا رہتا ہے اور پھر اپنے شکوک وشبہات کے انڈے بچے دے دیتا ہے اور روح کو تباہ کر دیتا ہے ایسی کمزوری نفاق تک پہنچا دیتی ہے کہ جب کوئی امر سمجھ میں نہ آوے تو اسے پوچھا نہ جاوے اور خود ہی ایک رائے قائم کر لی جاوے.میں اس کو داخل ادب نہیں کرتا کہ انسان اپنی روح کو ہلاک کر لے.ہاں یہ سچ ہے.کہ ذراذرا سے بات پر سوال کرنا مناسب نہیں اس سے منع فرمایا گیا ہے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ (385) پھر آپ نے فرمایا:.”بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے اِنَّمَا الاَ عُمَالُ بِالنِّيَاتِ اعمال نیت ہی پر منحصر ہیں صحت نیت کے ساتھ کوئی جرم بھی جرم نہیں رہتا.قانون کو دیکھو اس میں بھی نیت کو ضروری سمجھا ہے مثلاً ایک باپ اگر اپنے بچے کو تنبیہ کرتا ہو کہ تو مدرسہ جا کر پڑھے اور اتفاق سے کسی ایسی جگہ چوٹ لگ جاوے کہ بچہ مرجاوے تو دیکھا جاوے گا کہ یہ قتل عمد ستلزم سزا نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اس کی نیت بچے کو قتل کرنے کی نہ تھی تو ہر ایک کام میں نیت پر بہت بڑا انحصار ہے.اسلام میں یہ مسئلہ بہت سے امور کوحل کر دیتا ہے پس اگر نیک نیتی کے ساتھ محض خدا کے لئے کوئی کام کیا جاوے اور دنیا داروں کی نظر میں وہ کچھ ہی ہو تو اس کی پر واہ نہیں کرنی چاہئے اصل مدعا نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز مدعانیت اور حلال فعل کو بھی حرام بنا دیتی ہے ایک قصہ مشہور ہے ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس کو نے چالیس چراغ روشن کئے بعض آدمیوں نے کہا کہ اس قدر اسراف نہیں چاہئے اس نے کہا جو چراغ میں نے ریا کاری سے روشن کیا ہے اسے بجھا دو کوشش کی گئی ایک بھی نہ بجھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل ہوتا ہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں ایک اس فعل کو کرنے میں مرتکب معاصی کا ہوتا ہے اور دوسرا ثواب کا اور یہ فرق نیتوں کے اختلاف سے
44 پیدا ہوتا ہے.اسی طرح پر میں ہمیشہ اسی فکر میں رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کوئی راہ ایسی نکلے جس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا اظہار ہواور لوگوں کو اس پر ایمان پیدا ہو.ایسا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے قریب کرتا ہے.میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہا فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث بھی مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ارو قرآن کریم کی حقانیت اور خود خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں.اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا اس تقریب پر میں چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں میں جیسا کہ ابھی کہا ہے اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کر دوں“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 386-390) آمین سنت حسنہ ہے حضرت علینہ اصبع الرابع رحم اللہ فرماتے ہیں.آمین منانے کا کتنا اچھا طریق رائج ہوا ہے یہ سنت حسنہ ہے، جو دین میں داخل ہوئی ہے.اس سنت حسنہ سے فائدہ اٹھا ئیں بچوں میں قرآن کریم کا شوق پیدا کریں وہ جب سج دھج کے تیار ہو کے قرآن پڑھنے آئیں گے پھر آپ دعوت کریں تو آپ کے سارے شوق اچھی طرح پورے ہو سکتے ہیں اس لئے فضول باتوں کے لئے فضول بہانہ نہ بنا ئیں.پروگرام ملاقات اردو کلاس 1994 ء الفضل 5 اکتوبر 2002ء)
46 45 شادی بیاہ سے متعلقہ بدرسوم اور دینی تعلیمات شادی بیاہ کے متعلق دینی تعلیمات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.شادی بیاہ کی رسم جو ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو، اس رشتے کو دو، جس میں دین زیادہ ہو.اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا فعل ہے.یہ غلط ہے.یہ ٹھیک ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں اسلام نے یہ نہیں کہا کہ تارک الدنیا ہو جاؤا اور بالکل ایک طرف لگ جاؤ لیکن اسلام یہ بھی نہیں کہتا کہ دنیا میں اتنے کھوئے جاؤ کہ دین کا ہوش ہی نہ رہے.اگر شادی بیاہ صرف شور وغل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہو کر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی توجہ دلائی ہے کہ توجہ نہ دلاتے.بلکہ شادی کی ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے.پس اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے اُن کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے.حد تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.“ مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوم ص 152 ، 153) شادی کے موقع کی رسمیں "خوشیوں میں ایک خوشی جو بہت بڑی خوشی کبھی جاتی ہے وہ شادی کی خوشی ہے اور یہ فرض ہے.لیکن ان میں بعض رسمیں خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی معاشرہ میں راہ پاگئی ہیں جن کا اسلام کی تعلیم سے کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے.اب بعض رسوم کو ادا کرنے کے لئے اس حد تک خرچ کئے جاتے ہیں کہ جس معاشرہ میں ان رسوم کی ادائیگی بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے وہاں یہ تصور قائم ہو گیا ہے کہ شاید یہ بھی شادی کے فرائض میں داخل ہے اور اس کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی.“ (خطبہ جمعہ 15 جنوری 2010ء ) | میں ہے.آنحضور نے رشتہ کی تلاش میں دینداری کو ترجیح دینے کی تلقین کی ہے.حدیث عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ اللهِ قَالَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِاَرْبَعِ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرُ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتُ يَدَاكَ ( بخاری جلد ٢ كتاب النكاح باب الاكفاء في الدين ) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یا اس کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس کی دینداری کی وجہ سے لیکن تو دیندار عورت کو ترجیح دے اللہ تیرا بھلا کر.ے.
47 48 دوسری قوموں میں شادی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات : 14) ترجمہ: اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یقینا اللہ دائی علم رکھنے والا ( اور ) ہمیشہ باخبر ہے.حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں.”ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کولڑ کی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل بر خلاف ہے بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمُ (الحجرات : 14) یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پر ہیز گار ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 49،48) درست نہیں.حضرت رسول کریم ﷺ سے منگنی ( نسبت) کے بارہ میں ایک روایت ہے.عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ الله قَالَ لَا يَضِيعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ وَلَا يَخْطُبُ بَعْضُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ بَعْضٍ حضرت ابن عمر سے روایت کہ آنحضور علیہ نے فرمایا: تم میں کوئی آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور کوئی تم میں سے اس عورت کو شادی کے لئے پیغام نہ دے جسے کوئی پیغام دے دیا گیا ہو اور وہ راضی ہو گئی ہو.(جامع ترمذى اَبْوَابُ الْبُيُوعِ باب ماجاء في النهي عن البيع على بيع اخيه) منگنی پر مٹھائی تقسیم کرنا نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں.دراصل یہ بھی اسی غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو.مگر یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئے ہیں.پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں.یادرکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچا ہے، شرع اس پر ہر گز زد نہیں کرتی.کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے.“ کا منگنی کا مقصد ( ملفوظات جلد دوم ص 310) د منگنی تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن و تیج معلوم ہو جاویں.منگنی کے بارہ میں ہدایت رشتہ طے کرنے کی علامت منگنی ہے.اس موقع پر بڑی بڑی دعوتیں اور اسراف منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کو تو ڑ نا گناہ ہو.“ ( ملفوظات جلد پنجم ص 231)
50 49 حضرت خلیفۃ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.ایک روایت میں آتا ہے حضرت مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جگہ منگنی کا پیغام دیا تو آپ نے فرمایا کہ اس لڑکی کو دیکھ لو کیونکہ اس طرح دیکھنے سے تمہارے اور اس کے درمیان موافقت اور الفت کا امکان زیادہ ہے.(ترمذی کتاب النکاح باب في النظر الى المخطوبة ) اس اجازت کو بھی آج کل کے معاشرے میں بعض لوگوں نے غلط سمجھ لیا ہے.اور یہ مطلب لے لیا ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے ہر وقت علیحدہ بیٹھے رہیں ، علیحدہ سیریں کرتے رہیں.دوسرے شہروں میں چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں، گھروں میں بھی گھنٹوں علیحدہ بیٹھے رہیں تو یہ چیز بھی غلط ہے.مطلب یہ ہے کہ آمنے سامنے آ کر شکل دیکھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے.بعض حرکات کا باتیں کرتے ہوئے پتہ لگ جاتا ہے.پھر آجکل کے زمانے میں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.کھانا کھاتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی بہت سی حرکات وعادات ظاہر ہو جاتی ہیں.اور اگر کوئی بات نا پسندیدہ لگے تو بہتر ہے کہ پہلے پتہ لگ جائے اور بعد میں جھگڑے نہ ہوں.اور اگر اچھی باتیں ہیں تو موافقت اور الفت اس رشتے کے ساتھ اور بھی پیدا ہو جاتی ہے.یا رشتے کے پیغام کے ساتھ.تو ایک تعلق شادی سے پہلے ہو جائے گا.دوسرے لوگ بعض دفعہ ان کا کردار یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کا رشتہ ہو گیا ہے تو اس کو تڑوانے کی کوشش کریں.ان کو آمنے سامنے ملنے سے موقع نہیں ملے گا.ایک دوسرے کی حرکات دیکھنے سے کیونکہ ایک دوسرے کو جانتے ہوں گے.لیکن بعض لوگ دوسری طرف بھی انتہا کو چلے گئے ہیں ان کو یہ بھی برداشت نہیں کہ لڑکا لڑکی شادی سے پہلے یا پیغام کے وقت ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ بھی سکیں اس کو غیرت کا نام دیا جاتا ہے.تو اسلام کی تعلیم ایک سموئی ہوئی تعلیم ہے.نہ افراط نہ تفریط.نہ ایک انتہا نہ دوسری انتہا.اور اسی پر عمل ہونا چاہئے.اسی سے معاشرہ امن میں رہے گا اور معاشرے سے فساد دور ہوگا.“ شادی بیاہ کے مواقع پر خوشی کا طبعی اظہار خطبات مسرور جلد دوم ص 934، 935) شادی بیاہ کے مواقع پر خوشی کا اظہار ہونا چاہیے.اس موقع پر عمدہ اور پاکیزہ اشعار پڑھے جاسکتے ہیں.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ اَنْكَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِنَ الْأَنْصَارِ.فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَهْدَيْتُمُ الْفَتَاةَ؟ قَالُوا نَعْمِ قَالَ اَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِي؟ قَالَتْ لَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ | الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيْهِمْ غَزْلٌ فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ آتَيْنَا كُمْ آتَيْنَا كُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ (سنن ابن ماجه كتاب النكاح باب الغناء الدف) ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے حضرت عائشہ نے انصار میں سے ایک اپنے رشتہ دار کا نکاح کیا تو آنحضور علیہ بھی وہاں تشریف لائے آپ نے پوچھا کیا تم نے دلہن کو روانہ کر دیا لوگوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھی بھیجا حضرت عائشہ نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا انصارا ایسے لوگ ہیں جو غزل پسند کرتے ہیں تو کاش تم دلہن کے ساتھ ایک شخص بھیجتے جو ( گا کر) کہتا آتَيْنَا كُمْ آتَيْنَا كُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُم ہم تمہارے پاس آئے ہم تمہارے پاس آئے اللہ تم کو اور ہم کو سلامت رکھے.ناچ گانا ایک حدیث میں آنحضور علیہ کا ارشاد ہے.لَيَشْرِبَنَّ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اِسْمِهَا يُعْزَفْ عَلَى
52 51 بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ يَخْسِفُهُمُ اللهُ بِهِمُ الْأَرْضَ وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ (سنن ابن ماجه) میری امت میں سے بعض لوگ شراب پیئں گے اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے.ان کے سروں پر ڈھول باجے بجائے جائیں گے اور گانے گائے جائیں گے اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بندر اور سور بنائے گا.لَهُوَ الْحَدِيْثِ کی تشریح میں حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم لَهُوَ الْحَدِيْثِ سے مراد گانا ہے گانا ہے گانا ہے.3 دفعہ فرمایا.(تفسير ابن كثير زير آيت "ومن الناس من يشترى لهو الحديث" جلد 4 مطبع مصر) شادی کی دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال ہے.خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے ہاں جب پاک چیزوں ہی میں بری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں.اب شادی کو دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا.اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں.66 ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 354 355 ) | شادی کے موقع پر گانا جائز ہے جو بے ضرر ہو حضرت مصلح موعودنوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.بے ضرر ہو یا مذہبی ہو.مثلاً شادی کے موقع پر عام گانے اور جو مذاق کے رنگ میں گائے جاتے ہیں وہ تو بالکل بے ضرر ہوتے ہیں ان میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ محض دل کو خوش کرنے کے لئے گائے جاتے ہیں ان کا اخلاق پر کوئی برا اثر نہیں ہوتا.“ آپ مزید فرماتے ہیں:.( الفضل 20 جنوری 1945ء) بیاہ شادی کے موقع پر پاکیزہ اشعار عورتیں پڑھ سکتی ہیں.پڑھنے والی مستاجرہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں.“ ( مستاجرہ سے مراد اجرت پر گانے والی ہے) یہ بھی فرمایا:.صرف عورتوں کا عورتوں میں دف کے ساتھ پاکیزہ گانا بھی منع نہیں ہے.“ مسلمانوں پر تباہی گانے بجانے کی وجہ سے آئی حضرت مصلح موعود دنور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.(الفضل 14 جون 1938 ء) تمام تباہی جو مسلمانوں پر آئی زیادہ گانے بجانے کی وجہ سے آئی ہے.اندلس کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے ہی تباہ ہوئی.مصر کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی.مصر پر صلاح الدین ایوبی نے حملہ کیا تو فاطمی بادشاہ اس وقت گانے بجانے میں ہی مشغول تھا.“ ڈھولک بجا ئیں لیکن نا جائز رسمیں نہ کریں الفضل 4 ستمبر 1958 ء) ایک خاتون کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ شادی بیاہ کے موقع پر شریعت کی رو سے گانا جائز ہے مگر وہ گانا ایسا ہونا چاہئے جو نے فرمایا:.
54 53 شادی میں ڈھولک جتنا چاہیں بجائیں.یہ منع نہیں ہے، گانا بھی گا ئیں.آخر شادی اور موت میں کچھ فرق تو ہونا چاہیے.لیکن ایسے مواقع پر نا جائز رسمیں نہ کریں.ناجائز رسمیں بظاہر معصوم بھی ہوں تو نہ کریں کیونکہ وہ معاشرہ کو بوجھل بنا دیں گی اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیں گی.لیکن ( دین حق) نے جس حد تک جائز خوشی کا اظہار رکھا ہوا ہے اس میں منع نہیں کرنا چاہیے.آنحضرت علی کہ جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں کی بچیاں دف بجا رہی تھیں جو ڈھولک ہی کی ایک قسم ہے اور گیت گا رہی تھیں.رسول اکرم ﷺ نے منع نہیں صلى الله کیا بلکہ پسند فرمایا.آپ ﷺ کے ساتھ مرد بھی تھے انہوں نے بھی سنا.پھر فرمایا.اگر عورت کی آواز میں پاکیزہ گیت گایا جا رہا ہو اور اس کے نتیجہ میں شر پیدا نہ ہوتا ہو تو کہاں منع کیا ہوا ہے خدا نے.اگر عورت کی آواز سننا منع ہے تو مرد کی بھی منع ہونی چاہے.وہ عورت کے دل میں تحریک پیدا کرے گی...اگر چہ ڈھولک بجانے کی بات اور ہے لیکن اس میں بھی اگر اس قسم کے گیت گائے جائیں جن سے معاشرہ میں گند نہ پھیلے تو جائز ہے لیکن ڈھولک پر گندی گالیاں دینا اور سٹھنیاں دینا لغویات ہیں.ان کو آپ اختیار نہ کریں.عام گیت چھیڑ چھاڑ کے، پیار کی باتیں ہیں، مذاق بھی ہوتے ہیں، جائز ہیں.اس میں گندگی اور غلاظتیں نہیں ہونی چاہیے.“ مجلس عرفان شائع شدہ لجنہ اماءاللہ کراچی صفحہ 134 ، 135 ) عورتوں کے ناچنے میں حرج ہے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے....جہاں تک گانے کا تعلق ہے تو شریفانہ قسم کے شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں.“ ( خطبات مسر در جلد دوم ص 94) ڈانس اور ناچ سے بچیں حضرت خلیفتہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.میں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں.پھر ڈانس ہے ناچ ہے.بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہورہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جا سکتی.بعض لوگ اکثر مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں چاہے لڑکیاں لڑکیاں ہی ڈانس کر رہی ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پر ہورہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جاسکتیں.“ شادی کارڈ پر اسراف خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 687،688) حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.شادی کارڈوں پر بھی بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے.دعوت نامہ تو پاکستان میں ایک روپے میں بھی چھپ جاتا ہے یہاں بھی بالکل معمولی سا پانچ سات پینس (Pens) میں چھپ جاتا ہے تو دعوت نامہ ہی بھیجنا ہے کوئی نمائش تو نہیں کرنی لیکن بلاوجہ مہنگے مہنگے ) کارڈ چھپوائے جاتے ہیں پوچھو تو کہتے ہیں کہ بڑا ستا چھپا ہے صرف پچاس روپے میں اب یہ صرف پچاس روپے جو ہیں.اگر کارڈ پانچ سو کی تعداد میں چھپوائے گئے ہیں تو یہ پاکستان میں چھپیں ہزار روپے بنتے ہیں اور چھپیس ہزار روپے اگر کسی غریب کو شادی کے موقع پر ملیں تو
56 55 وہ خوشی اور شکرانے کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے.“ مہندی خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 334) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ للہ تعالی فرماتے ہیں.فی ذاتہ اس میں قباحت نہیں کہ اس موقع پر بچی کی سہیلیاں اکٹھی ہوں اور خوشی منائیں طبعی اظہار تک اس کو رکھا جائے تو اس میں حرج نہیں لیکن اگر اس کو رسم بنا لیا جائے کہ باہر سے دلہا والے ضرور مہندی لے کر چلیں تو ظاہر ہے کہ اس میں ضر ور تصنع پایا جاتا ہے بچی کی مہندی گھر پر ہی تیار ہونی چاہئے اس کے لئے ایک چھوٹی سی بارات بنانے کا رواج قباحتیں پیدا کرے گا اس موقع پر دولہا والوں کی طرف سے با قاعدہ ایک وفد بنا کر حاضر ہونا اور اس موقع پر اس کے لوازمات کے طور پر پر تکلف کھانے وغیرہ وغیرہ یہ جب ایک رسم بن جائے تو سوسائٹی پر بوجھ بن جاتا ہے.“ (الفضل 26 جون 2002ء) مہندی بطور رسم نہ ہو حضرت خلیفہ اسیح الرابع " نے ایک شادی کارڈ جس پر مہندی کا دعوت نامہ تھا ملنے پر 25-03-1998 کو ایک خط تحریر فرمایا جس میں نہایت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا.آپ نے فرمایا: ” آپ نے اپنی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ بھیجا ہے.لیکن آپ کو اتنی بھی باک نہیں کہ اس کے ساتھ آپ نے مجھے بھی مہندی کی رسم میں شمولیت کا کارڈ اٹھا کر بھجوا دیا ہے.حالانکہ ایسی رسمیں سراسر سلسلہ کی روایات کے خلاف ہیں اور میری واضح ہدایات ہیں کہ بطور رسم ہرگز مہندی وغیرہ کی تقریب نہیں ہونی چاہئے.ہاں گھر میں بہنیں اور چند سہیلیاں مل کر بے تکلف مجالس لگا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں.یہ میری واضح ہدایت ہے.لیکن آپ نہ صرف اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ مجھے بھی اس کے لئے دعوتی کارڈ بھجوا رہے ہیں.اللہ آپ کو سمجھ دے.“ (ماہنامہ مصباح جولائی اگست 2009 صفحہ 25،24) مہندی پر زیادہ خرچ اور دعوتوں سے بچیں حضرت خلیفہ المسح الخمس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.مہندی کی ایک رسم ہے.اس کو بھی شادی جتنی اہمیت دی جانے لگی ہے.اس پر دعوتیں ہوتی ہیں.کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.سٹیج سجائے جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کئی دن دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور شادی سے پہلے ہی جاری ہو جاتا ہے.بعض دفعہ کئی ہفتہ پہلے جاری ہو جاتا ہے.اور ہر دن نیا سٹیج بھی سج رہا ہوتا ہے اور پھر اس بات پر بھی تبصرے ہوتے ہیں کہ آج اتنے کھانے پکے اور آج اتنے کھانے پکے.یہ سب رسومات ہیں جنہوں نے وسعت نہ رکھنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایسے لوگ پھر قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں.غیر احمدی تو یہ کرتے ہی تھے اب بعض احمدی گھرانوں میں بھی بہت بڑھ بڑھ کر ان لغو اور بیہودہ رسومات پر عمل ہو رہا ہے یا بعض خاندان اس میں مبتلا ہو گئے ہیں.بجائے اس کے کہ زمانہ کے امام کی بات مان کر رسومات سے بچتے.معاشرہ کے پیچھے چل کر ان رسومات میں جکڑتے چلے جارہے ہیں.پہلے میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہندی کی رسم پر ضرورت سے زیادہ خرچ اور بڑی بڑی دعوتوں سے ہمیں رکنا چاہئے.اب میں کھل کر کہہ رہا ہوں کہ ان بیہودہ رسوم ورواج کے پیچھے نہ چلیں اور اسے بند کر دیں.“ خطبه جمعه فرمودہ 15 جنوری 2010ء)
58 57 گیتوں کے لئے ساؤنڈ سسٹم استعمال نہ ہو مہندی کی رسمیں گھر کی چار دیواری میں سہیلیوں کی حد تک کرنے کی جو اجازت میں نے دی ہے اس میں ہر جگہ یہ مد نظر رہے کہ آواز میں اتنی زیادہ اونچی نہ ہوں کہ گھر سے باہر نکلیں.مجھے پتہ چلا ہے کہ آج کل ڈیک بھی اس کے لئے استعمال ہوتے ہیں.شادی بیاہ کے گیتوں وغیرہ کے لئے کوئی ساؤنڈ سسٹم استعمال نہیں ہونا چاہیے.گھر سے آواز باہر نہیں نکلنی چاہیے.اسی طرح روشنیوں کا بھی بلا وجہ استعمال نہیں ہونا چاہیے.“ با جا اور آتش بازی (خط بتاریخ 22 جنوری 2010ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح پر باجا بجانے اور آتش بازی چلانے کے متعلق پر فرمایا.”ہمارے دین میں دین کی بناء کیسر پر ہے عمر پر نہیں اور پھر إِنَّمَا الَا عُمَالُ بِالنِّيَاتِ ضروری چیز ہے باجوں کا وجود آنحضرت علیہ کے زمانہ میں نہ تھا اعلان نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں ضروری شئے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پر اثر پڑتا ہے.اس لئے اعلان کرنا ضروری ہے مگر اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو.رنڈی کا تماشا یا آتش بازی فسق و فجور اور اسراف ہے یہ جائز نہیں.باجے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھر سے چلتی ہے کیا اسی وقت سے با جابجتا جاوے یا نکاح کے بعد ؟ فرمایا.ایسے سوالات اور جز و در جز و نکالنا بے فائدہ ہے.اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان و شوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی با جابجتا جاوے تو کچھ حرج نہیں.اسلامی جنگوں میں بھی تو با جا بجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہوتا ہے.“ شادی بیاہ پر فضول خرچی بد رسم ہے ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 227) بیاہ شادی کی بد رسوم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ہماری قوم میں ایک یہ بھی بدرسم ہے کہ شادیوں میں صد ہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے سو یا د رکھنا چاہئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھا جی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتش بازی چلانا اور رنڈی بھڑ وؤں ڈوم ڈھاریوں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے.سواس کے علاوہ شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے اتنا ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.“ بھاجی یا مٹھائی وغیر تقسیم کرنا ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 49) بھاجی اگر شیخی اور بڑائی کے اظہار کے لئے نہ ہو تو منع نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے اگر اس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا جاوے تو یہ ریا کاری اور تکبر کے لئے ہوگی.اس لئے حرام ہے.لیکن اگر کوئی شخص محض اس نیت سے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ (انی:11 ) کا عملی اظہار کرے اور مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ پر عمل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے
60 59 سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں.پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سونہیں خواہ ایک لاکھ کو کھانا دے منع نہیں اصل مدعا نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنادیتی ہے...ایسا ہی اگر کوئی شخص نسبت اور ناطہ پر شکر وغیرہ اس لئے تقسیم کرتا ہے کہ وہ ناطہ پکا ہو جائے تو گناہ نہیں لیکن اگر یہ خیال نہ ہو بلکہ اس سے مقصد صرف اپنی شہرت اور شیخی ہو تو پھر یہ جائز نہیں ہوتے.“ دولہا کو سہرا باندھنا ملفوظات جلد 2 صفحہ 389 تا 394) ایک رسم سہرا باندھنا ہے.اس کے متعلق حضرت مصلح نور اللہ مرقدہ نے فرمایا ہے.یہ تو آدمی کو گھوڑا بنانے والی بات ہے.دراصل یہ رسم ہندوؤں سے مسلمانوں میں آئی ہے.اس سے اجتناب کرنا چاہئے.“ نیز حضور نے فرمایا: ”سہرے کا طریق بدعت ہے.“ شادی بیاہ کی تقاریب میں بے پردگی کا رجحان حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.(الفضل 4 جنوری 1946ء) جب دولہا آئے اور خواہ وہ غیر ہی کیوں نہ ہو محلہ کی عورتیں اس سے پردہ کرنا ضروری نہیں سمجھتیں اور کہتی ہیں اس سے کیا پردہ ہے اور پھر صرف یہی نہیں کہ پردہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے محول اور ہنسی کرتی ہیں.“ (خطبات محمود جلد سوم صفحہ 71) وو حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.جو قباحتیں راہ پکڑ رہی ہیں ان میں سے ایک بے پردگی کا عام رجحان بھی ہے جو یقیناً احکام شریعت کی حدود پھلانگنے کے قریب ہو چکا ہے اور شادی والوں کی اس معاملہ میں بے حسی کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ معزز مہمانوں میں بہت سی حیادار پردہ دار بیبیاں ہوتی ہیں بے دھڑک انٹ سنٹ فوٹوگرافروں یا غیر ذمہ دار اور غیر محرم مردوں کو بلا کر تصویر میں کھنچوانا اور یہ پرواہ نہ کرنا کہ یہ معاملہ صرف خاندان کے قریبی حلقے تک ہی محدود ہے اس بارہ میں واضح طور پر بار بار نصیحت ہونی چاہئے کہ اپ نے اگر اندرون خانہ کوئی وڈیو وغیرہ بنانی ہے تو پہلے مہمانوں کو متنبہ کر دیا جائے اور صرف محدود خاندانی دائرے میں ہی شوق پورے کئے جائیں.“ ( الفضل 26 جون 2002ء) بڑے بڑے مہر باندھنا ایک رسم نکاح کے موقعوں پر ایسے مہروں کا باندھنا ہے جو انسان ادا ہی نہیں کرسکتا.ایسی صورت میں جبکہ مہر حیثیت سے زیادہ باندھا گیا ہو اور جھگڑا پیدا ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں.که نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے او محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے صرف ڈراوے کے لئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی.میرا مذ ہب یہ ہے کہ جب ایسی
62 61 صورت میں تنازعہ آ پڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقررہ مہر نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون“ عورتوں سے مہر بخشوانا ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 284) پاک و ہند میں ایک رسم عورتوں سے مہر بخشوانے کی پائی جاتی ہے.اس کے متعلق اصولی ہدایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمائی ہے.یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چاہئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کر دے ورنہ بعد ازاں ادا کرنا چاہئے پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 606) حضرت خلیفہ السیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا ایک واقعہ جو حق مہر بخشنے کے متعلق ہے یوں بیان فرمایا ہے.حکیم فضل دین صاحب جو ہمارے سلسلہ کے السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں سے ہوئے ہیں ان کی دو بیویاں تھیں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مہر شرعی حکم ہے جو عورتوں کو دینا چاہئے اس پر حکیم صاحب نے کہا میری بیویوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے حضرت صاحب علیہ السلام نے فرمایا." کیا آپ نے ان کے ہاتھ پر رکھ کر معاف کرایا تھا ؟ " کہنے لگے نہیں حضور یونہی کہا تھا اور انہوں نے معاف کر دیا حضرت صاحب نے فرمایا پہلے آپ ان کی جھولیوں میں ڈالیں پھر ان سے معاف کرائیں.ان کی بیویوں کا مہر پانچ پانچ سور و پیہ تھا حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سورو پیدان کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے تم نے اپنا مہر مجھے معاف کیا ہوا ہے سواب مجھے یہ واپس دے دو.اس پر انہوں نے کہا اس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے اس وجہ سے کہہ دیا تھا کہ معاف کیا.اب ہم نہیں دیں گی.حکیم صاحب نے آ کر یہ واقعہ حضرت صاحب کو سنایا حضرت صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور فرمانے لگے.درست بات یہی ہے پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور اگر وہ معاف کرنا چاہے تو کر دے.“ الازهار لذوات الخمار جلد اول صفحہ 152 ،153) مہر ادا کرنے سے قبل بیوی کی وفات ہو جائے تو ؟ ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا.اب وہ عورت مرگئی ہے خاوند کیا کرے.حضرت اقدس نے فرمایا.اسے چاہئے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے.اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں سے ہے.شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علی ھذا القیاس خاوند بھی لے سکتا ہے.“ زیور اور کپڑے وغیرہ کا مطالبہ حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 235، 236) اس امر کی طرف اپنی جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رسمیں خواہ کسی رنگ میں ہوں بری ہوتی ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے اگر بعض رسمیں مٹائی ہیں تو دوسری شکل میں بعض اختیار بھی کر لی ہیں.نکاحوں کے موقع پر پہلے تو گھروں کو میں فیصلہ کر لیا جاتا تھا کہ اتنے زیور اور کپڑے لئے جائیں گے.پھر آہستہ آہستہ ایسی شرائط تحریروں میں آنے لگیں.پھر میرے سامنے بھی پیش ہونے لگیں.شریعت نے صرف مہر
64 63 مقرر کیا ہے اس کے علاوہ لڑکی والوں کی طرف سے زیور اور کپڑے کا مطالبہ ہونا بے حیائی ہے اور لڑ کی بیچنے کے سوا اس کے اور کوئی معنی میری سمجھ میں نہیں آئے...میں آئندہ کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ اگر مجھے علم ہو گیا کہ کسی نکاح کے لئے زیور اور کپڑے وغیرہ کی شرائط لگائی گئی ہیں یالڑ کی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان میں نہیں کروں گا.“ ( خطبہ نکاح 27 مارچ 1931 ء بحوالہ الفضل 7 اپریل 1931ء ) جہیز وغیرہ کی شرطیں حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے فرمایا:.دو لیکن اس میں بعض دفعہ ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں اور ایسی لغو شرطیں لگاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.مثلاً بعض لوگ جہیز کی شرطیں لگاتے ہیں.اتنا سامان ہو تو ہم شادی کریں گے.یہ سب لغو ہے.میں متواتر سالہا سال سے جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کی جائے.اگر جماعت کے لوگ اس طرف توجہ کریں تو بہت جلد اصلاح ہوسکتی ہے.اگر وہ عہد کر لیں کہ ہر ایسی شادی جس میں فریقین میں سے کسی کی طرف سے بھی ایسی شرطیں عائد کی گئی ہوں تو ہم اس میں شریک نہ ہوں گے تو دیکھ لو تھوڑے ہی عرصہ میں وہ لوگ ندامت محسوس کرنے لگیں گے اور ان شفیع حرکات سے باز آجائیں گے.بھلا اس سے زیادہ اور کیا ذلیل کن بات ہو سکتی ہے کہ لڑکیوں کے چارپایوں کی طرح سودے کئے جائیں اور منڈی میں رکھ کر ان کی قیمت بڑھائی جائے.پس ہماری جماعت کو ایسی شنیع حرکات سے بچنا چاہیے 66 اور عہد کرنا چاہیے کہ ایسی شادی میں کبھی شامل نہ ہوں گے خواہ وہ سگے بھائی یا بہن کی ہو.“ (الفضل 18 ابريل 1947 ء ) جہیز میں سادگی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں سید ہوں.میری بیٹی کی شادی ہے.آپ اس موقع پر میری کچھ مدد کریں.حضرت خلیفہ اول یوں تو بڑے مخیر تھے مگر طبیعت کا رجحان ہے جو بعض دفعہ کسی خاص پہلو کی طرف ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا: میں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ سارا سامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں جو رسول کریم اللہ نے اپنی بیٹی فاطمہ کو دیا تھا.وہ یہ سنتے ہیں بے اختیار کہنے لگا.آپ میری ناک کاٹنا چاہتے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہ علی کی ناک سے بڑی ہے.تمہاری عزت تو سید ہونے میں ہے.پھر اگر اس قدر جہیز دینے سے رسول کریم ﷺ کی بہت نہیں ہوئی تو تمہاری کس طرح ہو سکتی ہے.“ جہیز اور بری کی رسم حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں.حیات نور - صفحہ 529، 530) اس میں شبہ نہیں کہ جہیز اور بری کی رسوم بہت بری ہے اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے“ ایسی وباء اور مصیبت جو گھروں کو تباہ کر دیتی ہے.اس قابل ہے کہ اسے فی الفور مٹا دیا جائے میں نے دیکھا ہے اچھے اچھے گھرانے اس رسم میں بری طرح مبتلا ہیں پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ناصرف جہیز بلکہ بری بھی بری چیز ہے اپنی استطاعت کے مطابق جہیز دینا تو پھر بھی ثابت ہے لیکن بری کا اس رنگ میں جیسے کہ اب مروج ہے مجھے اب تک کوئی حوالہ نہیں ملا.“ اوڑھنی والیوں کے لئے پھول صفحہ 48) حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالٰ نے فرمایا کہ: ” مجھے ایک دکھی بچی کے خط کے حوالہ سے معلوم ہوا کہ اس نے لکھا کہ میرے ماں
66 65 باپ غریب ہیں زیادہ جہیز نہیں دے سکے اور مجھے ہر وقت سرال سے طعنے ملتے ہیں.حضور نے فرمایا میری احباب جماعت کو نصیحت ہے کہ اول تو جہیز کو بہت اہمیت نہ دیں لڑکی اچھی صورت اچھی سیرت کی ہو، اس کے بعد کسی جہیز کا مطالبہ کرنا بالکل نا جائز ہے.آنحضور علی کی سنت پر عمل کریں کہ کس طرح سادہ کپڑوں میں آپ نے اپنی بیٹی کو رخصت کیا تھا.“ الفضل انٹرنیشنل 24 جنوری 2003ء) بری یا جہیز کی نمائش حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.شادی بیاہ کے موقع پر بعض فضول قسم کی رسمیں ہیں.جیسے بری دکھانا یا وہ سامان جو دولہا والے دولہن کے لئے بھیجتے ہیں اس کا اظہار، پھر جہیز کا اظہار.با قاعدہ نمائش لگائی جاتی ہے.تو صرف حق مہر کے اظہار کے ساتھ نکاح کا اعلان کرتا ہے.باقی سب فضول رسمیں ہیں صرف رسموں کی وجہ سے، اپنا ناک اونچا ر کھنے کی وجہ سے غریبوں کو مشکلات میں، قرضوں میں نہ گرفتار کریں اور دعوی یہ کہ ہم احمدی ہیں اور بیعت کی دس شرائط پر پوری طرح عمل کریں گے.تو یہ مختصراً میں نے ایک شادی کی رسم پر ہی خوفناک بھیانک نتائج سامنے لانے والی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں اور جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مکمل طور پر ہوا و ہوس کے قبضہ میں چلا جاتا ہے جبکہ بیعت کرنے کے بعد تو وہ عہد کر رہا ہے کہ ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور اللہ اور اس کے رسول حملہ کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کر لے گا.اللہ اور رسول ہم 66 سے کیا چاہتے ہیں ، یہی کہ رسم ورواج اور ہوا و ہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو.“ شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ 101 تا 103 ) حلالہ حرام ہے حلالہ کی گندی رسم کے بارہ میں حضرت رسول کریم ﷺ کی حدیث ہے عن جَابِرٍ وَعَلِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ عَلَ الله لَعَنَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ (ترمذی ابواب النكاح باب ماجاء فى لمحل والمحلل له ( حضرت جابر اور حضرت علی 1 سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں :.قرآن کریم کی رو سے جب تین طلاق دے دی جاویں تو پہلا خاوند اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکاح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بلاعم اسے طلاق دے دے اگر وہ عمداً اسی لئے طلاق دے گا کہ اپنے پہلے خاوند سے وہ پھر نکاح کر لیوے تو یہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کا نام حلالہ ہے.جو کہ حرام ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 215) | بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرنا بد رسم ہے ایک شخص کا سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورت کے نکاح کے بارے کیا ہدایات ہیں فرمایا.بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے.چونکہ بعض قو میں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے اس واسطے بیوہ کے نکاح کا حکم ہوا ہے.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے.نکاح تو اسی کا ہو گا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے.بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک
68 67 وہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کرسکتا کہ ہ اب دوسرا خاوند کرے.ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے ہاں اس بد رسم کو مٹا دینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبر ارکھا جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 320) بیوہ کا شادی کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کوئی بڑا بھارا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے.جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے اس کو چاہئے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یا در کھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 ص 85،84) تنبول ( نیندرہ) ڈالنا پارید ایک رسم تنبول نیندرہ ڈالنا ہے.اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ کل میرے ہاں شادی کے موقع پر یہ شخص مجھ کوزیادہ دے تو منع ہے اور اگر غرض یہ ہے کہ اس کی امداد کی جائے تو جائز ہے.قرآن شریف میں ہے.وَلَا تَمُنُنُ تَسْتَكْثِرُ (المدر : ج ) ترجمہ: تو کسی پر ایسا احسان نہ کر جس میں تو اس احسان سے زیادہ لینے کی خواہش رکھے.دودھ پلانا اور جوتی چھپانا وغیرہ ر بعض دوسری بد رسوم جیسے دودھ پلانا اور جوتی چھپانا وغیرہ جو ہیں یہ بھی سب ختم کروائیں اور ہر فرد جماعت کو اس بارہ میں متنبہ کردیں کہ آئندہ اگر مجھے کسی کی بھی ان رسموں کے بارہ میں کوئی شکایت آئی تو اس کے خلاف تعزیری کاروائی ہوگی.“ خط حضور انور بتاریخ 22 جنوری 2010ء) |
70 69 وفات سے متعلقہ رسوم اور دینی تعلیمات احمدیت سے باہر کے معاشرے میں بہت سی بد رسوم رائج ہیں.مثلا رونا پیٹنا، بے صبری کے کلمات زبان پہ لانا ، تین دن سے زیادہ سوگ منانا، سیا پا کرنا ، ان ایام میں بے جا طور پر صد ہاروپیہ ضائع کرنا، جھوٹے اور مصنوعی خاندانی وقار کے لئے نیز نمود و نمائش کے لئے زردہ پلاؤ پکانا اور برادری میں تقسیم کرنا، بیوہ کا نکاح نہ کرنا.مجلس فاتحہ خوانی قائم کرنا، قرآن شریف کو حلقہ باندھ کر چکر دینا ، رسم قل اور چہلم کرنا ، نیاز پکانا.میت کے ساتھ ، روٹیاں چھوہارے نمک اور غلہ لے جانا، میت پر کپڑے کی چادریں ڈالنا ، میت کے کفن پر کلمہ وغیرہ لکھنا یا لکھ کر میت کے سرہانے رکھنا ، میت کے ساتھ پنجسورہ یا قرآن دفن کرنا، برسی منانا، قبروں پر پھول چڑھانا، نیز قبروں پر چراغ جلانا ، مقررہ ایام میں ایصال ثواب کے لئے پکانا، قبروں پر پرندوں کے لئے پانی کے کٹورے رکھنا اور اناج پھینکنا، اس طرح کی بیسیوں رسمیں ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر قوموں کے میل جول کے نتیجہ میں ہمارے معاشرے میں گھس آئی ہیں.لوگوں نے اپنے آپ کو ان رسوم اور بدعات کی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے.غریب زیادہ مجبور ہیں.مہنگائی کے دور میں قرض اٹھا کر بھی رسومات ادا کرنی پڑتی ہیں.الحمد للہ احمدی معاشرہ اس سے پاک ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.جماعت پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ نبی کے موقعوں پر جو رسوم ہیں ان سے تو بچے ہوئے ہیں.ساتواں دسواں، چالیسواں ، یہ غیر احمدیوں کی رسمیں ہیں ان پر عمل نہیں کرتے.جو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ یہی ہوتا ہے کہ یہ رسمیں گھر والوں پر بوجھ بن رہی ہوتی ہیں.لیکن اگر معاشرے کے زیر اثر ایک قسم کی بدرسومات میں مبتلا ہوئے تو دوسری قسم کی رسومات بھی راہ پاسکتی ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں یہاں بھی شروع ہو جائیں گی.“ رونا پیٹنا اور بے صبری کی باتیں کرنا (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010ء) | ایک رسم یہ ہے کہ جب کسی کے ہاں کوئی وفات ہو جاتی ہے.تو لوگ روتے پیٹتے اور چلا چلا کر ہائے ہائے کرتے ہیں عورتیں بہت بے صبری سے روتی چلاتی اور چھاتی اور سرکو پیٹتی ہیں بعض سات دن تک بعض ایک ماہ تک اور بعض ایک سال تک سوگ مناتے رہتے ہیں.حضوراکرم علیہ فرماتے ہیں.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَ شَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ ترجمہ : وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے گریبان پھاڑے اور جہالت کی باتیں کرے (بخاری کتاب الجنائز باب ليس من شق الجيوب) ہر مصیبت میں انا للہ پڑھنا چاہئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرہ: 156 تا 158) ترجمہ : اے پیغمبران صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے جنہیں جب بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.اسی طرح فرمایا:.
72 71 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِين (البقره: 154) ترجمہ : اے ایمان والو! صبر اور دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو.اللہ تعالیٰ يقيناً صابروں کے ساتھ ہوتا ہے.ان آیات سے معلوم ہوا کہ مومن کو صرف صبر اور دعا سے کام لینا چاہئے.اسی - صورت میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور رضامندی حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس مصیبت کا نعم البدل عطا فرماتا ہے.وفات کے موقع پر کیا جائز ہے اور کیا نا جائز ؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ماتم کی حالت میں جزع و فزع اور نوحہ یعنی سیا پا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات زبان پر لانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں.جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لیں.کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے یہ حکم قرآن شریف میں ہے کہ صرف إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہیں یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں.اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے شیطان ہے.برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیا پا کرنا اور باہم عورتوں کا سرٹکرا کر چلانا رونا اور کچھ کچھ منہ سے بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ما تم ہو گیا ہے یہ سب نا پاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پر ہیز کرنا چاہیے.“ ( فتاویٰ حضرت مسیح موعود " صفحہ 103 بحوالہ فقہ احمدیہ صفحہ 264) وفات والے کے گھر کھانا بھیجوانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسرے لوگ اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں.اس پر آپ نے فرمایا.نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے“ قل خوانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.پہنچتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 233) قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے.صدقہ دعا اور استغفار میت کو ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 605) دو ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں.دین تو ہم کو صلى الله نبی کریم علے سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے؟ صد ہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے.“ فاتحه خوانی - لملفوظات جلد 3 صفحه (605) ایک شخص نے مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ میت کے لئے فاتحہ خوانی کے لئے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں.آپ نے فرمایا یہ درست ]
74 73 نہیں ہے یہ بدعت ہے.آنحضرت عے سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے.“ ( ملفوظات جلد 3 ص 606) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں جو دعائے مغفرت ہے اس میں کیا مضائقہ ہے.فرمایا:.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم علی یا صحابہ کرام وائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا ؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی ؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں نا جائز ہے.جو جنازہ میں شامل نہ ہوسکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں." ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 214،213) حضور سے جب یہ پوچھا گیا کہ فاتحہ خوانی کی شریعت میں اصل ہے یا کوئی نہیں تو آپ نے فرمایا:.نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں عرض کیا گیا کہ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ دعائے مغفرت ہی ہے؟ فرمایا: نہ استقاط درست ہے نہ اس طریق سے دعا ہے کیونکہ بدعتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم ص 16) ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ احمدی حضرات کسی غیر احمدی کی وفات پر جا کر فاتحہ خوانی کیوں نہیں کرتے ؟ اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے فرمایا: ” ہم ہر مسلمان کی وفات پر اظہار ہمدردی کرتے ہیں.ان کے گھر جاتے ہیں.فاتحہ خوانی جس کو آپ کہتے ہیں ہمیں اس فاتحہ خوانی کے لفظ سے اختلاف ہے.فاتحہ خوانی کی اصطلاح آنحضرت علی یا خلفائے راشدین کے زمانے میں کہیں نہیں.ملتی.ایک بھی حدیث آپ ایسی پیش نہیں کر سکتے.نہ قرآن کریم میں سے دکھا سکتے ہیں که قرونِ اولیٰ کے مسلمان دوسروں کے گھر جا کر جن کے گھر وفات ہوئی ہو ہاتھ اٹھا کر فاتحہ خوانی کی ہو.ہم آپ کو یہ سمجھاتے ہیں کہ (دین حق) میں نئی رسمیں نہ چلائیں.حضور اکرم ﷺ کا دین ہی کافی ہے.( دین حق ) وہی حسین ( دین حق ) ہے جو سنت سے ثابت ہے اس سے باہر جب بھی قدم رکھیں گے رسم و رواج میں پڑ جائیں گے.سوال کرنے والے نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے جو ہمیں بتایا.وہ زیادہ ( دین حق ) جانتے تھے یا نہیں جانتے تھے کہ اس کی ابتداء کب اور کیوں ہوئی ؟ اس میں نقص کیا ہے؟ حضور نے فرمایا: نقص یہی ہے کہ جو چیز سنت سے زائد ہو وہ ( دین حق ) نہیں ہے.سوال کرنے والے نے پھر کہا کہ کیا ہمارے بزرگ غلط تھے؟ حضور نے فرمایا کہ: کیا محمد رسول اللہ اللہ اور آپ کے صحابہ غلط تھے؟ کیا عجیب بات آپ کرتے ہیں.سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کہ کیا یہ رسم ہے؟ حضور نے فرمایا ہاں یہ رسم ہے.ہر وہ چیز جو سنت نہیں وہ رسم ہے.جو رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو وہ رسم ہے.رسمیں اچھی بھی ہوسکتی ہیں اور بری بھی ہوسکتی ہیں لیکن سنت نہیں بن سکتیں.اصل بات یہ ہے کہ جب پرانے بزرگ ہندوستان میں تشریف لائے تو وہاں بے انتہاء جہالت تھی.ہندو مذہب کی وجہ سے بد رسوم بے حد رائج تھیں.زبان کے اختلاف کی وجہ سے اور دوسرے مسائل کی وجہ سے وہ کسی بہانے سے ان کو کم سے کم دینی تعلیم دینا چاہتے تھے..اس کی وجہ سے کئی چیزیں نیک نیتی سے داخل ہوئی ہوئی ہیں لیکن بعد میں رسمیں بن گئیں.مثلاً سورۃ فاتحہ کاسکھانا اور فاتحہ کو بطور دعا کے پڑھانا.فرمایا: مجھے یقین ہے کہ اسی طرح انہوں نے شروع کیا ہوگا اور کہا ہوگا کہ جب تم کسی بزرگ کے لئے یا کسی فوت شدہ کے لئے دعا کرتے ہو تو چونکہ سورۃ فاتحہ کامل دعا ہے
76 75 یہ چھوٹی سی دعا تم سیکھ لو تمہیں عربی نہیں آتی یہ ہر جگہ کام آئے گی.اور نماز میں بھی کام آئے گی.چنانچہ کم علمی کی بناء پر ہندوؤں کی تعلیم وتربیت کی خاطر ہمارے صوفیاء اور بزرگوں نے یہ طریق اختیار کیا اور جب ( دین حق) زیادہ پھیل گیا.جب ( دین حق ) تعلیم عام اور روشن ہو گئی تو ان کو سنت کی طرف واپس لے جاتے اور یہی کوشش ہم کر رہے ہیں.اس کے سوا چالیسواں ہے، گیارہویں ہے، شیر مینیاں بانٹنا ہے، وفات کے بعد کھیر میں تقسیم کرنا ہے کھانے دینے ہیں.اتنے جھگڑے ہیں جن کو کوئی وجود قرون اولی کے ( دین حق ) میں نہیں ملتا.اور یہ تو جذباتی بات ہے کہ ہمارے برزگ غلط نہیں ہو سکتے.یہ تو ایسی بات ہے جیسے قرآن کریم بار بار کہتا ہے کہ ( دین حق) کے مخالف یہ کہا کرتے تھے کہ کیا ہمارے بزرگ غلط تھے.قرآن فرماتا ہے کہ تمہارے بزرگ کیوں غلط نہیں ہو سکتے.صرف وہی غلط نہیں جس پر الہام نازل ہوتا ہے.وہی درست ہوتا ہے جس کو خدا روشنی عطا فرماتا ہے.اس میں اختلاف کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی.میں تو آپ کو یہ پیغام دیتا ہوں اور جماعت احمد یہ یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمارے لئے سنت کافی ہونی چاہیے کیونکہ سنت میں مذہب کی تکمیل ہوگئی.حسن کامل میں نہ اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ اس میں کمی ہو سکتی ہے.اس لئے بعد کی رسموں نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے.( دین حق) سے رفتہ رفتہ ہم دور اس لئے گئے ہیں کہ بعد کی رسمیں جاری کی گئیں خواہ نیک نیتی سے جاری کی گئی تھیں ہم ان کو خالی برتنوں کی طرح لے کر بیٹھ گئے ہیں.اس لئے رسم و رواج سے باہر نکلیں سنت کو قائم کریں.قرون اولیٰ کے ( دین حق ) کی طرف واپس آجائیں.بیاہ شادی میں سادگی (اختیار) کریں.موت اور تدفین میں سادگی کریں.یہ سارے بوجھ آپ سے اتر جائیں گے جو بلاوجہ پڑے ہوئے ہیں.فرمایا: رسول اکرم ﷺ کی سنت تھی کہ نماز جنازہ پڑھتے تھے اور دعا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے تھے.ہم بھی یہی کرتے ہیں.اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے.سوال کرنے والے دوست نے کہا کہ فاتحہ خوانی تو ہے ہی دعا.اس پر حضور نے فرمایا کہ دعا کی خاطر سورۃ فاتحہ ہم بھی پڑھ لیتے ہیں لیکن میں تو رسم کے خلاف ہوں.جب کہیں تعزیت کے لئے جاتے ہیں اور میں کئی دفعہ گیا ہوں.ایک آدمی ہاتھ اٹھاتا ہے.سارے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں.یہ کوئی فاتحہ خوانی ہے؟ یہ غلط طریق ہے.فاتحہ کی دعا معنی خیز ہے.دعا میں دل حرکت کرتا ہے تو دعا قبول ہوتی ہے.دعا کوئی رسم تو نہیں.فاتحہ کے معنی | آنے چاہییں.انسان سوچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات میں ڈوب کر اس سے ایاک نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی التجاء کرے.اس پہلو سے دعا کے طور پر فاتحہ پڑھنا ہر گز منع نہیں.لیکن یہ جو رسم بنی ہوئی ہے کہ ضرور پڑھو اور دیکھا دیکھی پڑھو اور جب بھی کوئی آدمی جائے تو ایک آدمی ہاتھ اٹھائے سارے اٹھالیں.یہ بالکل بے بنیاد ہے.اس کی ( دین حق ) میں کوئی سند نہیں.یہ (دین حق ) کے ساتھ تمسخر ہے.اس لئے ہم آپ سے یہ گذارش کرتے ہیں کہ ہم سے ناراض ہونے کے بجائے آپ اپنی اصلاح کریں.آخر اس دین میں حرج کیا ہے جو محمد رسول اللہ علیہ نے عملا کر کے دکھایا تھا.وہ ہمارے لئے کیوں کافی نہیں ہونا چاہیے.“ ( مصباح جولائی اگست 2009ء صفحہ 108 تا 110 ) | رسم چہلم ایک رسم چہلم کی ہے جس میں کسی عزیز یا دوست یا بزرگ کی وفات کے چالیسویں دن مجلس جمائی جاتی ہے اور کھانا پکا کر مرنے والے کے نام پر لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس رسم کی بھی قرآن و حدیث اور صحابہ کرام اور اولیاء عظام کے اقوال میں کوئی سند نہیں ملتی محض ایک رسم ہے جو اسلام کے سادہ اور دلکش چہرہ کو بگاڑ کر قائم کر لی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم کی رسم کے متعلق فرماتے ہیں.وو 66 یہ رسم سنت سے باہر ہے.“ بدر 14 فروری 1907ء) |
78 77 ختم قرآن اسی طرح ایک رسم ختم قرآن کی ہے.ختم قرآن سے مراد وہ رسمی قرآن خوانی ہے جو کسی فوت ہونے والے کے ثواب کی خاطر حلقہ باندھ کر گھروں میں یا قبروں پر کی جاتی ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں.وو " مُردہ پر قرآن ختم کرانے کا کوئی ثبوت نہیں.صرف دعا اور صدقہ میت کو پہنچتا ہے.“ دوسری جگہ فرماتے ہیں.( بدر 14 مارچ 1904ء) قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں ملاں لوگوں نے اپنی آمد کے لئے یہ رسمیں جاری کی ہیں.“ (الحکم 10 نومبر 1907 ء بحوالہ الفضل 12 مئی 1940ء) خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو نا پاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے.وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے ملاں لوگ پڑھتے ہیں.اس ملک کے لوگ ختم وغیرہ دیتے ہیں تو ملاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ملے.وَلَا تَشْتَرُوا بِايْتِي ثَمَنًا قَلِيلاً (البقره: 42) کیا آنحضرت ﷺ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا.؟ اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار روٹی پر پڑھتے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 158 و 161 و 162 ) سوئم ، چالیسواں ختم قرآن، آیت کریمہ کے ختم حضرت خلیفہ امسیح الرابع " سے کراچی میں ایک دفعہ مجلس عرفان میں یہ سوال ہوا کہ آپ لوگ سوئم ، چالیسواں، ختم قرآن ، آیت کریمہ کے ختم پڑھنے اور باداموں کے ختم کو کیوں نہیں مانتے؟ حضور نے فرمایا کہ یہ مذہبی بگاڑ اور قومی تنزل کی علامتیں ہیں.واقع یہ ہے کہ ہم وہی ختم مانتے ہیں جو ختم رسول کریم علیہ سے ثابت ہو اور نہ اس سے سوا ہمارا کوئی اور عقیدہ ہے.بعض دفعہ نیکی کے نام پر بھی غلط رسمیں رائج ہو جاتی ہیں اور وہ فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچایا کرتی ہیں.امر واقعہ یہ ہے اور اس عقیدہ پر ہم بڑی شرح صدر سے قائم ہیں اور اس میں ہم کبھی تبدیلی نہیں کر سکتے کہ آنحضرت عے پر دین کامل ہو گیا اور آپ کا اسوہ حسنہ ہی ہمیشہ کے لئے تقلید کے لائق ہے یا ان صحابہ کا اسوہ حسنہ جنہوں نے آپ سے تربیت پائی.ان کے سوا تو قرآن میں اور کسی کا اسوہ ماننے کا کہیں حکم نہیں ہے، نکال کر دکھا دیجئے.حضرت اقدس محمد مصطفی امی کے آخری نمونہ ہیں جن کی پیروی لازمی قرار دے دی گئی اور کسی اور کی پیروی تب ہم کریں گے اگر وہ حضور اکرم کی پیروی کرے گا ورنہ نہیں کریں گے تو یہ ساری چیزیں جن کا ذکر ہے ، سوئم ، چالیسواں گٹھلیوں پر قرآن پھونکنا، ختم قرآن ، باداموں پر پڑھنا ان میں سے ایک بھی چیز حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے صحابہ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں نہیں تھیں اور اس بارے میں شیعہ سنی روایات میں اختلاف ہی کوئی نہیں متفق علیہ ہیں.کہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں ہے ، آپ کے خلفاء راشدین، آپ کے صحابہ کے وقت یہ رسمیں نہیں تھیں.تو قرآن ان سے بہتر کون سمجھتا تھا ؟ قرآن سے زیادہ پیار کرنے والے بعد میں پیدا ہوئے ؟ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ.قرآن کے استعمال کا اچھا طریق بتانے والے اس وقت نہیں تھے، اب آگئے ؟ اس کو ہم کسی قیمت پر مان ہی نہیں سکتے.جو مرضی آپ کہیں.آپ کہتے ہیں نعوذ باللہ تم قرآن کے دشمن ہو.اگر یہ ختم نہ کرنا قرآن کی دشمنی ہے تو پھر حضرت محمد مصطفی علیہ اور آپ کے صحابہ پر بھی زبان کھلے گی.وہ بھی تو نہیں کرتے تھے یہ گٹھلیاں اور بادام تنزل کی علامتیں ہیں.جب قو میں بگڑتی ہیں تو رسم ورواج بن جایا کرتی ہیں.“ مجلس عرفان کراچی 7 فروری 1983 ء)
80 79 میت کے ساتھ روٹیاں ایک رسم یہ ہے کہ میت کے ساتھ روٹیاں یا کوئی چیز پکا کر لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد اسے تقسیم کرتے ہیں.اسی طرح چھوہارے غلہ نمک وغیرہ بھی میت کے ساتھ لے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا."سب باتیں نیت پر موقوف ہیں.اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے ادھر وہ دفن ہوا دھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تا کہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لئے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے." اسقاط اور قرآن پھرانا ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 6) ایک بدعت مسلمانوں نے یہ اختیار کی ہے کہ کسی شخص کے مرجانے پر اسقاط کی رسم ادا کرتے ہیں اور قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں اس کے بارے میں مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ بالکل بدعت ہے اور ہرگز اس کے واسطے کوئی ثبوت سنت اور حدیث سے ظاہر ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 7) نہیں ہوسکتا.“ نیز فرمایا یہ اصل میں قرآن شریف کی بے ادبی ہے 66 ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 605) نہ اسقاط درست نہ اس طریق سے دعا ہے کیونکہ بدعتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 16) جمعرات کی روٹی بعض لوگ طعام پکانے کے لئے ایک تاریخ اور دن مقرر کرتے ہیں اور اس دن طعام پکا کر بزرگوں یا اپنے رشتہ داروں کی ارواح کو ثواب پہنچاتے ہیں.اسی طرح جمعرات کی روٹی دینا ضروری سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مُردوں کی ارواح گھروں میں آتی اور روٹی مانگتی ہیں.چالیس دن تک متواتر میت کے نام پر روٹی دینا ضروری سمجھتے ہیں اکثر ان میں سے نماز روزہ اور احکام شریعت کی پابندی کے لئے اتنا اہتمام نہیں کرتے جتنا کہ وہ ان رسوم کے مواقع پر کرتے ہیں.بچہ فوت ہو جائے تو چالیس دن تک دودھ مولوی صاحب کے گھر پہنچاتے ہیں.یہ سب مولویوں کی تراشیدہ بدعتیں ہیں.طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص سید عبدالقادر جیلانی کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکا کر کھلاوے تو کیا جائز ہے.تو آپ نے فرمایا.طعام کا ثواب مُردوں کو پہنچتا ہے.گزشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے.لیکن ہر ایک امر نیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لئے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بُت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے.پھر تاریخ کے تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے.اگر کوئی شخص ملا زم ہے اور اسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو حرج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقرر کرے.غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرکت
81 پایا جائے صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلا نا جائز ہے.“ قبر پر پھول چڑھانا ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 253 ایک رسم یہ ہے کہ قبروں پر پھول یا پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں یہ بھی ناجائز ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الاول نور اللہ مرقدہ سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا میت کی روح کو خوش کرنے کی نیت سے قبر پر پھول چڑھانا جائز ہے.فرمایا کہ اس سے میت کی روح کو کوئی خوشی نہیں ہو سکتی اور یہ نا جائز ہے.اس کا کوئی اثر قرآن وحدیث سے ثابت نہیں.اس کے بدعت اور لغو ہونے میں کوئی شک نہیں.“ ( بدر 12 راگست 1909ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے 20 راگست 1958ء میں اس مسئلہ پر مضمون لکھا تھا جس میں اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ بعض چیزوں کی ابتداء بظاہر چھوٹی اور معمولی ہوتی ہے اور بات بالکل معصوم نظر آتی ہے.لیکن چونکہ ان کا مال اور انجام تباہ کن اور شرک کی طرف لے جانے والا ہوتا ہے اس لئے اس سے منع کیا جاتا ہے.تا کہ لوگ ہر قسم کی امکانی ٹھوکر سے بچ جائیں.دوسرا نفسیاتی نکتہ اس میں یہ ہے کہ مرنے والا جنتی ہو گا تو یہ دنیا کے پھول اس کی قبر پر چڑھانا اس کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا.کیونکہ روح جنت کی عدیم المثال نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے خدانخواستہ اگر مرنے والا دوزخی ہوگا تو اسے یہ پھول ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.پس قبروں کا پھول چڑھانا جائز نہیں اس طرح بدعت کا راستہ کھلتا ہے.✰✰✰
83 82 قبر پرستی متفرق رسومات بعض لوگ غیر اللہ کے آگے جھکتے اور پیروں فقیروں کو سجدہ کرتے اور قبروں پر نیاز دیتے ، چڑھاوے چڑھاتے قبر کی مٹی اور سنگریزوں کو متبرک سمجھتے اور ان میں مدفون بزرگوں کو پکارتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ وہ مشکل کشا اور حاجت روا ہیں اور ان کی فریاد سنتے ہیں.یہ سب مشرکانہ رسوم اور مشرکانہ کام ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ ترجمہ : جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری ہی طرح کے بندے ہیں.پس تم انہیں بلاتے جاؤ اگر تم سچے ہو تو وہ تمہاری پکار کا جواب دے کر دکھا ئیں یعنی ان میں (الاعراف:195) تمہاری پکار کا جواب دینے اور حاجت روائی کرنے کی قدرت نہیں بلکہ خود عاجز ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں قبر پرستی اور پیر پرستی کو شرک سے مشابہ قرار دیا ہے.جو لوگ اپنے بزرگوں کو پکارتے ہیں اور جو قبر پرست ہیں وہ سب اس آیت کے مصداق ہیں.احادیث نبویہ میں بھی قبروں کی عظمت اور ان میں مدفون بزرگوں کو پکارنے اور ان کی پرستش کرنے سے منع کیا گیا ہے.یہاں تک کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برسنے کا بیان ہے.عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضَهِ الَّذِيْمَاتَ فِيْهِ لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَاءِ هِمْ مَسَاجِدَ (صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ مَا يُكَرَهُ مِنْ اِتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلَى الْقُبُورِ) الله ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم علیہ نے اپنی مرض الموت میں فرمایا.اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری پر لعنت کی جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.صلى الله.یہ کس قدر بے وقوفی اور بے دینی ہے کہ آج مسلمان قبروں پر جا کر ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں.اگر قبروں سے کچھ مل سکتا تو اس کے لئے سب سے پہلے آ حضرت علیہ قبروں سے مانگتے مگر نہیں.مُردہ اور زندہ میں جس قد ر فرق ہے وہ بالکل ظاہر ہے.بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی مخلوق اور ہستی نہیں ہے جس کی طرف انسان توجہ کرے اور اس سے کچھ مانگے.“ قبر پرستی کے سلسلہ میں فرمایا :.افسوس مسلمانوں کی عقل ماری گئی جو ایک خدا کے ماننے والے تھے وہ اب ایک ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 524) مُردہ کو خدا سمجھتے ہیں اور ان خداؤں کا تو شمار نہیں جو مُردہ پرستوں اور مزار پرستوں نے بنائے ہوئے ہیں ایسی حالت اور صورت میں خدا تعالیٰ کی غیرت نے یہ تقاضا کیا ہے کہ ان مصنوعی خداؤں کی خدائی کو خاک میں ملایا جاوے.زندوں اور مر دوں میں ایک امتیاز قائم کر کے دنیا کو حقیقی خدا کے سامنے سجدہ کرایا جاوے.اسی غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے اور اپنے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے.“ قبروں پر بیٹھنا اور نماز پڑھنا ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 523 عَنْ أَبِي مَرْتَدِ الْغَنْوَى قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا (مسلم کتاب الجنائز باب النهي عن الجلوس على القبر والصلوة عليه)
85 84 ترجمہ : حضرت ابو مرثد غنوی کا بیان ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قبروں پر مت بیٹھو اور نہ ان کی طرف نماز پڑھو.قبر پر بیٹھنا دو طرح پر ہے ایک یہ قبر کے اوپر بیٹھے اور دوسرا یہ کہ قبر کے بھروسہ پر قبر کا خادم یا مجاور بن کر بیٹھے.جیسے آجکل خانقاہوں پر مجاور لوگ کمائی کے لئے بیٹھتے ہیں دونوں طرح بیٹھنا درست نہیں.قبروں کو پکا بنانا بلا ضرورت محض نمود اور کھاوے کے لئے کی قبریں اور دربار بنانا درست نہیں.عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبَرُ وَ اَنْ يُعْقَدَ عَلَيْهِ وَ أَن يُبْنَى عَلَيْهِ (مسلم کتاب الجنائز بَابُ النَّهْيِ عَنْ تَحْصِيصِ الْقَبَرِ وَالْبَنَاءِ عَلَيْهِ ) ترجمہ : حضرت جابر کا بیان ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو چونہ کیچ کر کے پکا بنانے اور ان پر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا اور عمارتیں بنانے سے بھی منع فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبر یکی کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:.اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش ونگار اور گنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے.عمل نیت پر موقوف ہے.ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی بنانا درست ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے.بعض جگہ قبر میں سے میت کو کتے اور بجو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں.مُردے کے لئے بھی ایک عزت ہوتی ہے.اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک کہ نمود اورشان نہ ہو بلکہ صدمہ سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 505 - فتاوی حضرت مسیح موعود صفحہ 92 حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں :.یادگار کے خیال سے قبر بنانے کا بھی میں قائل نہیں.یہی خیال ہے جس سے آگے شرک پیدا ہوتا ہے.حضرت رسول کریم علیہ کے مزار پر جو قبہ بنایا گیا ہے وہ بھی دشمنوں سے قبر کومحفوظ کرنے کے لئے ہے نہ مزار کی عزت وشان کے لئے.“ خلاصہ مکالمہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی الفضل مارچ 1927 ء) قبروں پر چراغ جلانا عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ (جامع ترمذی ابواب الصلوة باب ماجاء في كراهية ان يتخذ على القبر مسجدا) ترجمہ : حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت رسول کریم علیہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی اور ان پر جو قبروں پر مسجد میں بناتے ہیں اور ان پر جو قبروں پر چراغ جلاتے ہیں.سجدہ تعظیم نا جائز ہے ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آیا اس نے سر نیچے جھکا کر آپ کے پاؤں پر رکھنا چاہا تو حضرت نے ہاتھ کے ساتھ اس کے سر کو ہٹایا اور فرمایا:.یہ طریق جائز نہیں السلام علیکم کہنا اور مصافحہ کرنا چاہیئے“ پیر پیرستی موجودہ زمانہ کے پیروں کے متعلق فرمایا :.( ملفوظات جلد 5 صفحہ (211) میں تعجب کرتا ہوں کہ آج کل بہت لوگ فقیر بنتے ہیں مگر سوائے نفس پرستی کے اور کوئی غرض اپنے اندر نہیں رکھتے.اصل دین سے بالکل الگ ہیں جس دنیا کے پیچھے عوام
87 86 لگے ہوئے ہیں اسی دنیا کے پیچھے وہ بھی خراب ہورہے ہیں.توجہ اور دم کشی اور منتر جنتر اور دیگر ایسے امور کو اپنی عبادت میں شامل کرتے ہیں جن کا عبادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف دنیا پرستی کی باتیں ہیں.اور ایک ہندو کافر اور ایک مشرک عیسائی بھی ان ریاضتوں اور ان کی مشق میں ان کے ساتھ شامل ہو سکتا بلکہ ان سے بڑھ سکتا ہے.اصلی فقیر تو وہ ہے جو دنیا کی اغراض فاسدہ سے بالکل الگ ہو جائے اور اپنے واسطے ایک تلخ زندگی قبول کرے تب اس کو حالت عرفان حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک قوت ایمانی کو پاتا ہے.آجکل کے پیر زادے اور سجادہ نشین نماز جو اعلیٰ عبادت ہے اس کی تو پرواہ نہیں کرتے یا ایسی جلدی جلدی ادا کرتے ہیں جیسے کہ کوئی بیگار کاٹنی ہوتی ہے اور اپنے اوقات کو خود تراشیدہ عبادتوں میں لگاتے ہیں جو خدا اور رسول نے نہیں فرمائیں ایک ذکر اڑہ بنایا ہوا ہے جس سے انسان کے پھیپھڑے کو سخت نقصان پہنچتا ہے.بعض آدمی ایسی مشقوں سے دیوانے ہو جاتے ہیں ان کو جاہل لوگ ولی سمجھنے لگ جاتے ہیں.ہمارے فقراء نے بہت سی بدعتیں اپنے اندر داخل کر لی ہیں.بعض نے ہندوؤں کے منتر بھی یاد کئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی مقدس خیال کیا جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 246،245) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :.آج کل کے پیراکثر فاحشہ عورتوں کو مرید بناتے ہیں بعض ہندوؤں کے پیر ہوتے ہیں ایسے لوگ اپنی بد کردار یوں پر اور اپنے کفر پر برابر قائم رہتے ہیں صرف پیر کو چندہ دے کر وہ مرید بن سکتے ہیں.اعمال خواہ کیسے ہی ہوں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا.اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو آنحضرت علہ ابوجہل کو بھی مرید بنا سکتے تھے وہ اپنے بتوں کی پرستش بھی کرتا رہتا اور اس قدرلڑائی جھگڑے کی ضرورت نہ پڑتی مگر یہ باتیں بالکل گناہ ہیں.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ (247) تنخواہ دار امام الصلوة ایک رسم مسلمانوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے کہ مساجد میں معاوضہ پر امام رکھتے ہیں.غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم خواہ مسجد میں آئیں یا نہ آئیں مسجد آبا در ہے.امام صاحب آ کر مسجد کھولے اور چراغ جلائے یا کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو کان میں اذان دیں یا مر جائے تو جنازہ پڑھا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے بارہ میں سوال ہوا.آپ نے اس کے جواب میں فرمایا.خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی جو روپیہ کے لئے نماز پڑھتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.نماز تو خدا کے لئے ہے.ایسا امام جو محض لالچ کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے میرے نزد یک خواہ وہ کوئی ہو احمدی یا غیر احمدی اس کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی.امام اتنی ہونا چاہئے.بعض لوگ رمضان میں ایک حافظ مقرر کر لیتے ہیں اور اس کی تنخواہ بھی ٹھہرا لیتے ہیں یہ درست نہیں.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی محض نیک نیتی اور خدا ترسی سے اس کی خدمت کر دے تو یہ جائز ہے.“ غیر اللہ کو پکارنا ایک قسم کا شرک ہے قرآن مجید میں آتا ہے: ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 446) وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَالَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ (يونس :107) اور اللہ کے سوا اسے نہ پکار جو نہ تجھے فائدہ دیتا ہے اور نہ نقصان پہنچاتا ہے اور اگر تو نے ایسا کیا تو یقینا تو ظالموں میں سے ہو جائے گا.
88 89 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.دعاؤں کو سننے والا اور قدرت رکھنے والا خدا ہی ہے.اس کو یقین کرنا یہی اسلام ہے.جو اس کو چھوڑتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے.پھر کس قدر قابل شرم یہ امر ہے کہ "یا شیخ عبد القادر جیلانی " تو کہتے ہیں یا محمد ( ﷺ ) یا ابو بکر یا عمر نہیں کہتے البتہ "یا علی " کہنے والے ان کے بھائی موجود ہیں.یہ شرک ہے کہ ایک تخصیص بلا وجہ کی جاوے جب خدا کے سوا کسی چیز کی محبت بڑھ جاتی ہے تو پھر انسان صم بکم ہو جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہے جب توحید کے خلاف چلے تو پھر مسلمان کیسا ؟ تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کو یہ خدا کا حصہ دار بناتے ہیں خود ان کو بھی یہ مقام تو حید ہی کے ماننے سے ملا تھا اگر وہ بھی ایسے "یا " کہنے والے ہوتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا.بلکہ انہوں نے خدائے تعالیٰ کی اطاعت اختیار کی تب یہ رتبہ ان کو ملا.یہ لوگ شیعوں اور عیسائیوں کی طرح ایک قسم کا شرک کرتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 604) | قبروں کا طواف اور عرس طریق سنت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے دیا ہے اسے لے لے اور جس بات سے منع کیا ہے اس سے ہے اب اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں ان کو مسجد بنایا ہوا ہے عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاج نبوت ہے نہ طریق سنت ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 129) اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خدا نے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے.لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحه 159) پھر بعض لوگ محفل مولود میں اچانک کھڑے ہو جاتے ہیں کہ محفل میں آنحضرت ﷺ کی روح آگئی ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.مجلسوں میں طرح طرح کے بدطینت اور بدمعاش لوگ ہوتے ہیں.وہاں آپ کی روح کیسے آسکتی ہے؟ اور کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے؟.وَلَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ به عِلْمٌ.(بنی اسرائیل: 37) ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 160 ) ” خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو.آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں.اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے آنحضرت علی اللہ کی بعثت ، پیدائش اور و وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے.ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنالیویں.“ تعویذ گنڈے کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 159، 160 ) مولود خوانی ایک شخص نے مولود خوانی پر سوال کیا.فرمایا:.و منحضرت ﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور کرنا ہے.“ تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں.ہمارا کام تو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 505)
91 90 حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.پیروں فقیروں کے پاس جا کر تعویذ گنڈے لینے سے بچیں.آپ کو اکثر ایسی مثالیں نظر آئیں گی کہ پیروں فقیروں کے پاس جا کر تعویذ لئے جاتے ہیں کسی نے بہو کے خلاف لینا ہے کسی نے ساس کے خلاف کسی نے ہمسائی کے خلاف تعویذ لینا ہے کسی نے خاوند کے حق میں تعویذ لینا ہے بے تحاشہ بدر میں پیدا ہو چکی ہیں یہ سب عورتوں کی بیماریاں ہیں یہ شرک کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتی ہیں.اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نہ سمجھنا نماز اور دعا کی طرف توجہ نہ ہونا فکر ہے تو پیروں فقیروں کے ہاں حاضریاں دینے کی...یہ سب لغویات ہیں بلکہ شرک ہے یہ تعویذ گنڈے کرنے والی جوعورتیں ہیں اگر آپ ان کے ساتھ رہ کر ان کا جائزہ لیں تو شاید وہ کبھی نماز نہ پڑھتی ہوں.پھر ہمارے معاشرے میں یعنی جماعت کے باہر اس میں زندہ انسانوں کے علاوہ مردہ پرستی بہت ہے.پیروں فقیروں کی قبروں پر جاتے ہیں اور وہاں مرادیں مانگتے ہیں اب ان قبروں کو بھی لوگوں نے شرک کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.“ ( الازهار لذوات الخمار جلد 3 حصہ اول صفحہ 363 364) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ سے تعویذ کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا: تعویذ گنڈہ وغیرہ کو دستور زندگی بنالینا حد سے زیادہ جہالت ہے.اور تمام دینی معاشرہ کی روح اس سے تباہ ہو جائے گی.اصل دعا ہے.حضرت مسیح موعود نے تیرہ سوسال کی جو رسوم کے خلاف ایک عظیم جہاد فرمایا.اور دین حق کو اس کی اصل صورت پہ بحال کر نے کے لئے بہت بڑی جدوجہد فرمائی ہے.یہی در اصل حقیقی مجددیت ہے.اسی کا نام مہدویت ہے.اور اس کے نتیجہ میں اب جماعت جو ابھر کر اور نکھر کر دنیا کے سامنے آئی ہے اس کا مرکزی نقطہ دعا ہے.اس کی ساری زندگی اس کے تمام اعمال اور تمام کامیابیاں اس کی تمام کاوشیں اس کے غم و فکر کے علاج دعا میں ہیں.اور دعا کو چھوڑ کر تعویذ گنڈوں کی طرف جانا حد سے زیادہ جہالت ہے.یہ تاریک زمانے کی پیداوار باتیں ہیں.اور ایسی قوموں کو الله دعا سے ہٹا کر جادو منتر وغیرہ کی طرف منتقل کر دیتی ہیں.یہ کہہ دینا کہ رسول اکرم علی نے دم کی اجازت دی، یہ ایک بالکل الگ بات ہے.تعویذ گنڈے کا معاشرہ پیدا کرنا بالکل الگ بات ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایسا ہر گز یہ کوئی معاشرہ نہیں تھا.دعا ہی کا معاشرہ تھا اور جس دم کی بات کرتے ہیں اس میں سورۃ فاتحہ بطور دعا استعمال ہوتی ہے اور وہ اب بھی اسی طرح جائز ہے فاتحہ کو دعا کے طور پر آپ چاہے پانی پر پڑھ کے دم کریں اور نفسیاتی لحاظ سے اس کو برکت کے لئے دے دیں.اس حد تک تو کوئی ہرج نہیں ہے.لیکن تعویذ گنڈے کی جو یہ بات کر رہی ہیں یا کر رہے ہیں جو بھی ہے لکھنے والا ، یہ تو بہت | خطرناک بے ہودہ رسم ہے.جو روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جانے والی ہے.اور حضرت مسیح موعود کے آنے کے مقاصد کے بالکل برعکس تحریک ہے.بالکل برعکس جماعت کا رُخ موڑنے والی بات ہے.“ ٹونے ٹوٹکے مجلس عرفان الفضل 4 دسمبر 2002ء صفحہ 3 ریکارڈنگ 4 نومبر 1994 ء ) | حضرت مصلح موعود دنوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ : اسی طرح عورتیں ٹونے ٹو ٹکے کرتی ہیں.اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو کچا تا گا باندھتی ہیں کہ صحت ہو جائے حالانکہ جس کو ایک چھوٹا بچہ بھی تو ڑ کر پھینک سکتا ہے ، تو وہ کیا کر سکتا ہے.اسی طرح عورتوں میں اور کئی قسم کی بدعتیں اور برے خیالات پائے جاتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جن سے سوائے اس کے کہ ان کی جہالت اور نادانی ثابت ہو اور کچھ نہیں ہوتا.پس خوب اچھی طرح یا درکھو کہ ٹونے ٹوٹکے، تعویذ گنڈے، منتر جنتر ، سب فریب اور دھو کے ہیں جو پیسے کمانے کے لیے کسی نے بنائے ہوئے ہیں.یہ سب لغو اور جھوٹی باتیں ہیں ان کو ترک کرو.ایسا کرنے والوں سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے.“ الازهار لذوات الخمار صفحه 43 )
رہبانیت 92 قضاء عمری ادا کرنا 93 حدیث نبوی ہے: "لَا رَهْبَانِيَةَ فِي الْإِسْلَام“ (المبسوط لشمس الدين السرخسی جلد 10 صفحه 111) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے.وہ ٹوکس کام کا ہے جو بر وقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے.وہ قابل تعریف نہیں وہ فقیر جو د نیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے.اسلام میں رہبانیت نہیں.ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کا روبار کو چھوڑ دو...یاد رکھو وہ شخص جو کہتا ہے کہ جنگل میں چلا جائے اور اس طرح دنیوی کدورتوں سے بیچ کر خدا کی عبادت کرے وہ دنیا سے گھبرا کر بھاگتا ہے.اور نامردی اختیار کرتا ہے.“ ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا ( ملفوظات جلد 5 ص 162 163 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے ایک دفعہ ذکر ہوا کہ ایک رکعت میں بعض لوگ قرآن کو ختم کرنا کمالات میں تصور کرتے ہیں اور ایسے حافظوں اور قاریوں کو اس امر کا بڑا فخر ہوتا ہے.یہ سن کر آپ علیہ السلام نے فرمایا:.یہ گناہ ہے اور ان لوگوں کی لاف زنی ہے.جیسے دنیا کے پیشہ والے اپنے پیشہ پر فخر کرتے ہیں.ویسے ہی یہ بھی کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس طریق کو اختیار نہ کیا 66 حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کر سکتے تھے.مگر آپ نے چھوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتفاء کی.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 333) ایک بدعت مسلمانوں نے یہ اختیار کر لی ہے کہ ایک نماز " قضاء عمری" کے نام سے ایجاد کر لی ہے اور سال بھر نمازیں اس لئے نہیں پڑھتے کہ عید الا ضحے سے جو جمعہ پہلے آئے.گا اس دن سارے سال کا قرض چکا دیں گے.ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ قضاء عمری کیا شئے ہے جو کہ لوگ عید الا ضحے کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں.آپ نے اس کے متعلق فرمایا:.”میرے نزدیک یہ سب فضول باتیں ہیں.نماز جورہ جائے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہو سکتا ہے اور جو شخص عمد اسال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ " قضاء عمری" والے دن ادا کرلوں گا تو وہ گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کر تو بہ کرتا ہے اور اس نیست سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں.“ احتیاطی نماز ( ملفوظات جلد 3 ص 264) بعض لوگ غیر مسلم حکومت کے اندر جمعہ کے جواز اور عدم جواز کی بابت شک میں ہوتے ہیں.ایسے لوگ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں پھر اس کے بعد اس احتیاط سے کہ شاید جمعہ ادا نہ ہوا ہو ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں.اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہوا ہے.اس کے ذکر پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کوئی نماز بھی نہیں ہوتی کیونکہ نیت میں اس امر کا یقین ہونا ضروری ہے کہ میں فلاں نماز ادا کرتا ہوں اور جب نیت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہوئی.“ ( ملفوظات جلد 3 ص 423)
95 94 نماز کے بعد ہاتھ اٹھانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے.ان کی نماز میں اس قدر بھی رقت اور لذت نہیں ہوتی جس قدرنماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں.کاش! یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میں ہی کرتے شاید ان کی نمازوں میں حضور اور لذت پیدا ہو جاتی.اس لئے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سردست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں اور وہ لذت اور حضور جو دعا کے لئے رکھا ہے دعاؤں کو نماز میں کرنے سے پیدا کریں.میرا مطلب یہ نہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنی منع ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذت اور حضور پیدا نہ ہونماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کومت گنوا ؤ.ہاں جب یہ حضور پیدا ہو جاوے تو کوئی حرج نہیں.“ ( ملفوظات جلد 4 ص 29) | شب برات، بارہ وفات، گیارہویں اور دیگر محرم کی رسوم حضرت خلیفہ امسیح الاول نوراللہ مرقدہ نے فرمایا:.شب برات کی عید، گیارھویں، بارہ وفات ،محرم کے معاملات جو موجودہ شرع اسلام میں ثابت نہیں.“ محرم کی رسومات کے متعلق ایک شخص کا تحریری سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا کہ محرم کے دنوں میں امامین کی روح کو ثواب پہنچانے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں ؟ اس پر آپ نے فرمایا:.عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں.رافضیوں کی طرح رسومات کرنا جائز نہیں ہے.“ بعض لوگ محرم کی دسویں کو شربت اور چاول تقسیم کرتے ہیں.حضرت قاضی ظہور ین صاحب اکمل مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا تھا کہ اگر دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم اللہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے.اس پر آپ نے فرمایا:.ایسے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں پس اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتداء میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے.“ تاریخوں اور دنوں کو منحوس سمجھنا ( ملفوظات جلد 5 ص 168) بعض لوگ ہندوؤں اور رافضیوں کے میل جول کے سبب سے بعض دنوں کو اچھا اور بعض کو منحوس اور بُرا سمجھتے ہیں حالانکہ دنوں میں کوئی نحوست اور بُرائی نہیں.سب دن اور سب اوقات اللہ تعالیٰ نے اچھے بنائے ہیں نحوست تو انسان کے اپنے اعمال میں ہے.دنوں اور تاریخوں کو بُراسمجھنا درست نہیں.نجومیوں اور رمالوں سے لوگ اچھی اور بُری تاریخیں پوچھتے ہیں اور وہ ستاروں کی غالب تاثیرات کے اچھا یا بُرا ہونے کے قائل ہوتے ہیں اور لوگ ان کی باتوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں حالانکہ اچھی یا بری تقدیر سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ستارے اور گردش افلاک بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور قانون کے ماتحت ہیں.پس اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کرتے رہنا اور صدقات دیتے رہنا چاہئے تاکہ انسان اپنے اعمال کی نحوستوں اور بلاؤں سے محفوظ رہے.صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ.
97 96 مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَالَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُقْبَلُ لَّهُ صَلوةُ اَرْبَعِينَ لَيْلَةً (مسلم کتاب السلام ) ترجمہ: جو شخص کسی عراف ( نجومی اور رمال) کے پاس آکر کسی چیز کے بارے میں سوال کرے اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں کی جائیں گی.اسی طرح یہ سمجھنا کہ فلاں دن فلاں سمت جانا سعد ہے اور فلاں سمت جانا نحس ہے یہ موجب شرک ہے.بدشگونی لینا بدشگونی لینا یہ ہے کہ کبھی انسان کی بائیں آنکھ پھڑ کی تو سمجھ لیا کہ مصیبت ہوگی ، دائیں آنکھ پھڑ کی تو سمجھ لیا کہ خوشی ہوگی، چھینک آئی تو سمجھا کہ کام نہیں ہوگا، سفر کو نکلا تو بلی یا کتایا عورت راستہ میں سامنے سے آ جائے تو سمجھا کہ کام میں ناکامی ہوگی یا چھپکلی چھت سے گرے تو اس سے بھی شگون لے لیا تو یہ سب مو ہم شرک ہیں.آنحضور علیہ فرماتے ہیں.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّيَّرَةُ شِرُكْ قَالَهُ ثَلَاثَ (ابو داؤد كتاب الطب باب في الطيرة) ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا بد فال لینا شرک ہے، بد فال لینا شرک ہے، بد فال لینا شرک ہے.مشرک چونکہ زیادہ وہم پرست ہوتے ہیں ذرا ذراسی باتوں پر شگون لیتے اور فال نکالتے ہیں لیکن مومن شک اور وہم سے مبرا اور اپنے رب قادر وتوانا پر ایمان رکھنے کی وجہ سے مطمئن اور تسلی یافتہ ہوتے ہیں وہ ایسے فضول تو ہمات کا شکار نہیں ہوتے.ایک حدیث میں ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاطِيَرَةَ ، وَخَيْرُهَا الْفَالُ ، قَالُوا وَ مَا الْفَالُ؟ قَالَ الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا اَحَدُ كُمْ (بخاری کتاب الطب باب الطيرة ) - حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا کہ بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے بہترین چیز نیک فال ہے.پوچھا گیا نیک فال کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا نیک کلمہ جس کو تم میں سے کوئی سنتا ہے.حدہ نکالنا یہ ایک رسم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جانوروں اور مویشیوں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے قرآن مجید کے نیچے سے گزارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وبائی امراض سے نجات ہوگئی یہ بھی بدعت ہے.نظر اتارنا نظر اتارنے کے لئے کئی قسم کی رسمیں پائی جاتی ہیں.جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے.مثلاً مرچیں وارنا پھر جلانا، تعویذ کروانا، پیروں سے پھونک مردانا اور دم درود کروانا وغیرہ.یہ درست نہیں.نظر لگنا.نے حضرت خلیفة المسح الانی نوراللہ مرقدہ سے سوال ہوا کہ نظر کوئی چیز ہے یا نہیں ؟ آپ نے لکھوایا:.انسان کی نظر میں ضرور اثر ہے.اور احادیث سے بھی ثابت ہے اور اس کا علاج دعا ہے.طبی طور پر سے بھی ثابت ہے کہ نظر میں ایک طاقت ہوتی ہے.“ (الفضل 13 مئی 1916ء)
99 98 حضرت خلیفہ امسح الرابع رحمہ للہ تعالی سے سال ہوا کہ کیا نظر گنا بھی ہے؟ جواب :.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نظر لگ جاتی ہے مگر میں نے جو غور سے دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ بعض دفعہ توجہ کا اثر پڑتا ہے اسے مسمریزم کہتے ہیں نظر لگنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کا بچہ ہی نہ ہو کوئی کہہ دے کسی عورت نے نظر ڈال دی ہے مگر کھانا کھاتے وقت بعض دفعہ لوگوں کے ہاتھ سے لقمہ گر جایا کرتا ہے ہمارے ابا جان کو بالکل وہم کوئی نہیں تھا لیکن ہماری ایک بہن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ میں جب لقمہ کھاتا ہوں تو جب یہ توجہ کرے تو میرے ہاتھ سے گر جاتا ہے اور واقعتاً وہ بات ٹھیک نکلی تو نظر لگنے کا اتنا مطلب ہے کہ مسمریزم ٹائپ کی چیز ہے مگر باقی جو وہم ہیں وہ فضول ہیں کہ نظر لگ گئی ہے فلاں کا بچہ نہیں ہورہا یہ سب جھوٹ ہے.( لجنہ سے ملاقات.الفضل یکم جولائی 2000 صفحہ 4 ریکارڈنگ 7 نومبر 1999ء) سوال : حضور سننے میں آیا ہے کہ نظر لگ جاتی ہے.اگر لگ جاتی ہے تو اس سے محفوظ رہنے کے لئے کیا کیا جائے؟ جواب : یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے کہ نظر لگتی ہے ویسے نظر کوئی چیز نہیں ہے لیکن انسان بعض دفعہ دوسرے کے نفسیاتی اثر میں آجاتا ہے یہ جادوگری نہیں ہے جس طرح جاہل لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ پیرا سائیکولوجی کی ایک قسم ہے اگر کوئی توجہ سے دیکھ رہا ہو اور آپ اس کے اثر کے نیچے آجائیں تو بعض دفعہ کانپ کر ہاتھ سے پیالی گر جاتی ہے لقمہ گر جاتا ہے تو یہ نظر لگنا ہے مگر یہ وہم ہے کہ بچوں کو نظر لگتی ہے کئی بیمار ہو جاتے ہیں بچوں کا علاج کروانا چاہئے اور دعا کرنی چاہیئے.مجلس عرفان - الفضل 13 اپریل 2000 ، صفحہ 3.ریکارڈنگ 4 فروری 2000ء) زنانہ وضع اور لباس اختیار کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.بعض ایسے پیر بھی دیکھے گئے ہیں جو بالکل زنانہ لباس رکھتے ہیں یہاں تک کہ رنگین کپڑے پہننے کے علاوہ ہاتھوں میں چوڑیاں بھی رکھتے ہیں.پھر ایسے لوگوں کے بھی بہت سے مرید پائے جاتے ہیں.اگر کوئی ان سے پوچھے کہ آنحضرت ﷺ نے کب ایسی زنانہ صورت اختیار کی تھی تو اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے.وہ ایک نرالی شریعت بنانا چاہتے ہیں اور آنحضرت عیہ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر اپنی تجویز اور اختیار سے ایک راہ بنانا چاہتے ہیں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قسم کی باتیں شعائر اسلام میں سے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں نے یہ امور بطور رسوم ہندوؤں سے لئے ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی بہت سی کا باتیں ہیں جو انہیں سے لی گئی ہیں جیسے دم کشی وغیرہ.“ ونی ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 417) یہ بھی ایک بدرسم ہے.اس سے پر ہیز کرنا چاہیے.ونی یا سوارہ ایک رسم کے نام ہیں.صلح کی خاطر جرگہ یا پنچایت کے ذریعہ بطور ہر جانہ لڑکیاں مخالف فریق کو دی جاتی ہیں بعض اوقات تو کم سن لڑکیاں بڑی عمر کے لوگوں سے بیاہ دی جاتی ہیں.رجب کے کونڈے 22 رجب کو پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر حضرت امام جعفر کے نام پر فاتحہ دلائی جاتی ہے.اس خیال سے کہ اس سے ہر مشکل رفع ہو جاتی ہے اور ہر کام آسان ہو جاتا ہے.یہ درست نہیں ہے.
101 100 توشئہ خواجہ خضر دینا یہ بھی ایک رسم ہے کہ بعض لوگ زراعت اور فصل کو بارشوں، سیلابوں اور طوفانوں اور دیگر آفات سے بچانے کے لئے خواجہ خضر کے نام کا توشہ یا نیاز دیتے ہیں.یہ بھی مشرکانہ رسم ہے.کیونکہ اس میں غیر اللہ کی نیاز دے کر غیر اللہ سے مدد مانگی جاتی ہے.حالانکہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے نام کی نیاز دینا بھی شرک ہے اور کسی سے مدد مانگنا بھی شرک ہے.علاوہ ازیں دیگر ہزاروں قسم کی مشرکانہ رسوم ہمارے معاشرے میں رائج ہیں.بعض بزرگوں کے نام کا روٹ پکا کر دینا.بی بی فاطمہ کی نیاز دینا.جمن شاہ کی ”من“ پکا کر دینا.ختم خواجگان پر حلیم پکانا ایسی بے شمار رسوم و بدعات جو مو ہم شرک ہیں.لوگوں کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہیں.اب یہ رسوم جو جہالت کی پیداوار میں لوگوں کا سمجھ دار سنجیدہ طبقہ ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے ان کو ترک کر رہا ہے.بزرگوں کے نام کا ختم پڑھوانا بعض لوگ بزرگوں کے ناموں پر ختم پڑھواتے ہیں مثلا ختم شیخ عبدالقادر جیلانی، گیارہویں پکانے کی رسم ختم خواجہ نقش بند ختم خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، ختم خواجه خضر ختم خواجگان، ایسے تمام ختم پڑھوا نے درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ (شعراء: 214) یعنی اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الہ کو نہ پکارو.چونکہ ان ختموں میں غیر اللہ کو پکارا جاتا ہے.اس لئے ایسے ختم موہم شرک اور ممنوع ہیں.تصویر کشی میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے.میں نے ہرگز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آجکل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اول خواہشمند ہوتے ہیں کہ اُس کی تصویر دیکھیں.کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں.لہذا اُس ملک کے اہل فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں.کئی ایسے لوگ ہیں.جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علم فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جسکی یہ تصویر ہے وہ کا ذب نہیں ہے اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ يسوع یعنی عیسی علیہ السلام کی تصویر ہے.پس اس غرض سے اور اس حد تک میں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کی وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّات اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جن حضرت سلیمان کیلئے تصویر میں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت علے کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت علی کو حضرت عائشہ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلا ئی تھی.اور پانی میں بعض پتھروں پر جانوروں کی تصویر میں قدرتی طور پر چھپ جاتی ہیں.اور یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت عملے کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھا اور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 365 تا 367)
103 102 کیا تصویر لینا بت پرستی ہے؟ حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فوٹو کا ذکر کیا ورعرض کیا لوگ کہتے ہیں یہ بت پرستی ہے؟ فرمایا: ” کیا بت پرستی ہے؟ کیا کسی کی شکل دیکھنا بت پرستی ہے.رہا یہ امر کہ رسول کریم ﷺ کے وقت ایسا نہیں ہوا.سو اس وقت تو کیمرہ ایجاد بھی نہیں ہوا تھا.رسول کریم ﷺ نے جس چیز سے منع کیا ہے وہ فوٹو نہیں بلکہ تصویر ہے.مصور انسانی جذبات کا اظہار تصویر میں دکھاتا ہے مگر فوٹو گرافر صرف شکل دکھاتا ہے.اس میں باطنی جذبات کا اظہار نہیں ہوتا.انبیاء کی تصویر اس لئے نا جائز ہے کہ انبیاء کا کیرکٹر اپنے اندر گونا گوں خصوصیات رکھتا ہے اور ممکن ہی نہیں کوئی مصور ان کا نقشہ تصویر میں دکھا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نہیں بلکہ فوٹو ہے اور یہ محض شکل ہے.مصور کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تصویر کے چہرے پر ایسے اثرات ڈالے جس سے اس انسان کے اخلاق پر روشنی پڑے اور انبیاء کے باطنی کمالات کا اظہار کوئی مصور نہیں کر سکتا بالکل ممکن ہے ایک مصور رسول کریم عملے کی تصویر کھینچے مگر آپ کے چہرے پر وحشت کا اثر ڈالے.وہ تصویر تو ہوگی مگر لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہوگی.حدیث میں جو تصویر کا ذکر آتا ہے اس سے مصور کی بنائی ہوئی تصویر ہی مراد ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو آپ کی صورت کا عکس ہے اور عکس کو تو وہابیوں نے بھی جائز تسلیم کیا ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے شیشہ میں انسان اپنی شکل دیکھے اور اگر عکس نا جائز ہے تو پھر شیشہ دیکھنا بھی جائز نہیں ہونا چاہئے.اسی طرح پانی میں بھی عکس آجاتا ہے مگر اسے کوئی ناجائز نہیں کہتا.ان میں اور فوٹو میں فرق صرف یہ ہے کہ فوٹو تو انسان کی شکل محفوظ رکھتا ہے مگر شیشہ یا پانی کا عکس محفوظ نہیں رہتا.“ (الفضل 14 / اپریل 1931 ) قیام توجہ کیلئے خاص وضع پر بیٹھنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال ہوا کہ یہ طریق جو صوفیوں نے بنایا ہوا ہے.کہ توجہ کے واسطے اس طرح بیٹھنا چاہئے اور پھر اس طرح دل پر چوٹ لگانا چاہئے اور دیگر اس قسم کی باتیں کیا وہ جائز ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.یہ جائز نہیں بلکہ سب بدعات ہیں.حَسُبُنَا كِتَابَ اللهِ ہمارے واسطے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن شریف سلوک کے واسطے کافی ہے.“ جمعہ کے دن مرنا (الحکم 10 اکتوبر 1905ء) بعض لوگ جمعہ کے دن مرنے کو میت کے ایمان کی علامت سمجھتے ہیں خواہ اعمال کچھ بھی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :.”جمعہ کے دن مرنا، مرتے وقت ہوش قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ اچھا ہونا.ان علامات کو ہم کلیہ کے طور پر ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے کیونکہ دہر یہ بھی اس دن مرتے ہیں ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید ہوتا ہے.“ نمودونمائش کے لئے بیوت الذکر میں آنا ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 433،432) | حضرت حذیفہ کی بہن بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ! اے عورتو! تم چاندی کے زیور کیوں نہیں بنوا تیں ؟ سنو کوئی بھی ایسی عورت جس نے سونے کے زیور بنائے اور وہ انہیں فخر کی خاطر عورتوں کو یا اجنبی مردوں کو دکھاتی پھرتی ہو تو اس عورت کو اس کے فعل کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا.(سنن نسائى كتاب الزينة من السنن الكراهية للنساء فى اظهار الحلي والذهب) |
105 104 پھر آپ ﷺ نے فرمایا:.”اے لوگو! اپنی عورتوں کو زیب وزینت اختیار کرنے اور مسجد میں ناز وادا سے مٹک مٹک کر چلنے سے منع کرو.بنی اسرائیل پر صرف اس وجہ سے لعنت کی گئی کہ ان کی عورتوں نے زیب وزینت اختیار کر کے ناز و نخرے کے ساتھ اتر کر آنا شروع کر دیا تھا.“ (سنن ابن ماجه کتاب الفتن ، باب فتنة النساء ) حضرت خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.( بیت الذکر ) تو عبادت کی جگہ ہے.یہاں ایسی عورتوں کو نہیں آنا چاہئے جن کا مقصد صرف نمود و نمائش ہو.( بیت الذکر ) ہے، کوئی فیشن ہال نہیں ہے.یہاں عبادت کی غرض سے جاتے ہیں.اس لئے یہاں جب آؤ تو خالصتا اللہ کی خاطر اس کی عبادت کرنے کی خاطر یا اس کا دین سیکھنے کی خاطر آؤ.یہی رویہ، یہی طریق، جماعتی فنکشن میں، اجلاسوں میں، اجتماعوں وغیرہ پر بھی ہونا چاہئے.“ الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصه اول صفحه 46 ،47) ٹی وی اور انٹرنیٹ کے لغویات سے اپنے بچوں کو بچائیں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں." آج کل کی برائیوں میں سے ایک برائی ٹی وی کے بعض پروگرام ہیں، انٹرنیٹ پر غلط قسم کے پروگرام ہیں، فلمیں ہیں.اگر آپ نے اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کی اور انہیں ان لغویات میں پڑا رہنے دیا تو پھر بڑے ہو کر یہ بچے آپ کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے...اس لئے کبھی یہ نہ سمجھیں کہ معمولی سی غلطی پر بچے کو کچھ نہیں کہنا، ٹال دینا ہے، اس کی حمایت کرنی ہے.ہر غلطی پر اس کو سمجھانا چاہئے.آپ کے سپر دصرف آپ کے بچے نہیں ہیں ، قوم کی امانت آپ کے سپرد ہے.احمدیت کے مستقبل کے معمار آپ کے سپرد ہیں.ان کی تربیت آپ نے کرنی ہے.پس خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عمل سے بھی اور سمجھاتے ہوئے بھی بچوں کی تربیت کریں اور پھر میں کہتا ہوں اپنی ذمہاری کو سمجھیں اور اپنے عہد بیعت کو جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ا ہے اپنے آپ کو بھی دنیاوی لغویات سے پاک کریں اور اپنے بچوں کے لئے جنت کی ٹھنڈی ہواؤں کے سامان پیدا کریں.“ الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصه اول جلدسوم صفحه 372،371) تسبیح پھیرنا ایک رسم تسبیح پر گن گن کر ورد کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارہ میں سوال پر فرمایا.دو تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے.اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے.اور یہ بات صاف ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا بچی تو بہ کر ہی نہیں سکتا.انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں.انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی.اہل حق تو ہر وقت خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں.ان کے لئے گنتی کا سوال اور خیال ہی بے ہودہ ہے.کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اللہ ہوتو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہوگا.وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا.زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا.لیکن اگر محض گنتی مقصود ہوگی تو وہ اسے ایک بریار سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 13 )
107 106 معینی بنانا ایک رسم متینٹی بنانے کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے کسی کا ذکر ہوا کہ اس کی اولاد نہ تھی اور اس نے ایک اور شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اپنی جائیداد کا وارث کر دیا تھا.آپ نے فرمایا ” ی فعل شرعاً حرام ہے شریعت اسلام کے مطابق دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا قطعاً حرام ہے.محرم کے تابوت ہے.فرمایا ”گناہ ہے.“ تعویذ لٹکانا ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 320) سوال ہوا کہ محرم پر تابوت بنانے اور اس میں شامل ہونے کے بارے میں کیا ارشاد ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 169 ) حضرت عیسیٰ بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن حکیم کے پاس عیادت کے لئے گیا اور ان کے بدن پر سرخی تھی یعنی مرض کی سرخی تھی.میں نے کہا کہ آپ کوئی تعویذ کیوں نہیں لٹکا لیتے انہوں نے کہا موت اس سے زیادہ قریب ہے.اور کہا حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے کوئی چیز ( یعنی تعویذ لٹکائی وہ سونپ دیا.جاوے گا اسی کو یعنی پھر اسے تائید غیبی نہ ملے گی.محفل قرآن میں جانا (ترمذى باب ماجاء في كراهية التعليق ابواب الطب ) محفل قرآن میں جانے کے سوال پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع" نے فرمایا.قرآن شریف کی محفل کا غلط استعمال جہاں ہو رہا ہو وہاں نہیں جانا چاہئے جہاں تک قرآن کریم ختم کروانے کا تعلق ہے اس کی سنت نبوی سے کوئی سند ثابت نہیں ہے.یہ محض ایک رسم ہے جس کا قرآن کریم سے ساری عمر کو ئی تعلق نہیں رہا ، تلاوتیں کرتے نہیں اور نہ ہی عمل کرتے ہیں اور مُردہ کو قرآن بخشتے ہیں جس کو آپ بھی نہیں پڑھنا آتا تو اس کی خاطر بخشوانا بھی ثابت نہیں ہے.جو چیز سنت سے ثابت نہیں وہ ہمارا دین نہیں.“ اس طرح حضور کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ پارٹیوں 66 وغیرہ میں آجاتے ہیں لیکن قرآن خوانی کی محفل میں کیوں نہیں آتے.فرمایا.کسی بھی محفل میں جانے کی اجازت ہے لیکن محفل میں دین کو بگاڑنے کی اجازت نہیں ہے.آپ ان کو کہیں کہ محفل کی اجازت ہے.محفلیں اس وقت بھی لگتی تھیں اب بھی لگتی ہیں.محفل میں دین کی باتیں کرنے کی اجازت ہے دین کو بگاڑنے کی اجازت نہیں.قرآن کو محض رسم کے طور پر جس رنگ میں تم پڑھ رہے ہو سنت نبوی سے کیونکہ ثابت نہیں ہے اس لئے ہمارے نزدیک یہ دین کو بگاڑنے کے مترادف ہے.مجلس عرفان کراچی 7 فروری 1983 ء) اپریل فول حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے" نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 ص 408) انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں اس کے بارے میں لکھا ہے.اس کو All fools" "day بھی کہتے ہیں.یہ ایک رسم ہے جس میں عملی مذاق کئے جاتے ہیں یا دوستوں کو بیوقوف بنایا جاتا
109 108 ہے.کئی صدیوں سے بہت سے ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے، اس رسم کی ابتداء نا معلوم ہے.یہ دوسرے تہواروں کے مشابہ ہے جس طرح ہولی کا تہوار 31 مارچ کو انڈیا میں منایا جاتا ہے.یہ ہولی کے مشابہ ہے.”جب فطرت انسانوں کو اچانک موسموں کی تبدیلی سے بیوقوف بناتی ہے 31 مارچ اور یکم اپریل میں ایک ہی دن کا فرق ہے.اس دن تمام لوگوں کو بیوقوف بنانے کا بہانہ مل جاتا ہے.یہی رسم برطانیہ والے امریکہ لے گئے.یہ رسم جہاں جھوٹ بولنے کی ترغیب دلاتی ہے وہیں اس سے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں.کئی لوگوں کو جھوٹی خبروں کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہو جاتے ہیں.ایسا مذاق جس سے کسی کو نقصان پہنچے جائز نہیں.ویلنٹائن ڈے ویلنٹائن ڈے جو 14 فروری کو منایا جاتا ہے.یہ ایک لغو اور بیہودہ رسم ہے.جو خواہ مخواہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دوستیاں اور میل ملاپ کی طرف راغب کرتی ہے.احمدی | معاشرہ اس سے بالکل پاک وصاف ہونا چاہیے.حضرت مصلح موعود نور اللہ تعالیٰ مرقدہ فرماتے ہیں.وو ” میرے نزدیک ہمیں زیادہ توجہ جس طرف دینی چاہئے وہ تعلیم ہے اور وہ بھی مذہبی تعلیم یہی تعلیم ہماری اولاد کے ہوش و حواس قائم رکھ سکتی ہے...ہمارے ملک کے لوگ اس طرح دیوانہ وار یورپ کی تقلید کر رہے ہیں کہ اسے دیکھ کر شرم و ندامت سے سر جھک جاتا ہے.ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے.“ حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے مزید فرمایا.”ہمارا فرض ہے کہ آپ کے ارشاد کے مطابق اسلام کی تعلیم کو دنیا میں قائم کریں.تمام رسم و رواج اور تمدنی پابندیوں کو ترک کر دیں تا وہ اسلامی فضا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے قائم ہو جائے.یاد رکھو کہ مغربی تہذیب و تمدن اور فیشن ہر گز باقی نہیں رہیں گے بلکہ مٹا دیئے جائیں گے اور ان کی جگہ دنیا میں اسلامی تمدن قائم ہوگا“ ( خطبات محمود جلد 3 صفحہ 488) الازهار لذوات الخمارص 213 نیا ایڈیشن)
ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والی بد رسوم اور بدعات 110 پیدائش اور اس سے متعلقہ دیگر گود بھرائی کی رسم پیدائش سے پہلے جوڑے تقسیم کرنے کی تقریب بچہ کے پیدا ہونے پر ناچ گانا کروانا بچہ کو تعویز دھاگے باندھنا مختلف مزارات کی طرف منسوب کرنا جیسے دولہ شاہ کے مزار وغیرہ مزارات پر بچوں کو لے جانا کسی پیر کے نام کا پیسہ بازو پر باندھنا، بلاق اور بالی پہنانا پاؤں میں گھنگر وڈالنا بچہ کا ناک کان چھیدنا بچہ کو بالی پہنانا بچے کے سر پر چوٹی / بودی رکھنا چھٹی نہانا ، چھ دن بعد زچہ نہاتی ہے اور کھانے پینے کی تقریب ہوتی ہے اور دیگیں پکتی ہیں نظر اترائی ، اس میں سورۃ فاتحہ، چاروں قل اور مسنون دعائیں اور پیروں فقیروں سے دم کروانا اور مرچیں وارنا اور جلانا وغیرہ شامل ہیں.سالگرہ منانا ( اس میں ہر سال پیدائش والے دن رنگا رنگ تقریبات گانا بجانا تحفے تحائف دیتے ہیں اور بڑی بڑی دعوتیں کی جاتی ہیں اور انتہائی اسراف ہوتا ہے.) بسم اللہ کی رسم.بچہ کو پڑھنا شروع کرانے کے موقع پر پڑھانے والے مولوی کو سونے چاندی کی تختی اور قلم دوات دی جاتی ہے.
112 111 بچوں کے ڈراموں سے دیکھ کر بے معنی نام رکھنا ڈومنیوں کا ڈھول کے ساتھ دو دو تین تین ہفتہ راگ جاری رکھنا پیدائش کے موقع پر بڑے وسیع پیمانے پر دعوتیں کرنا ختنہ کے موقع پر بڑے بڑے انتظام کرنا بچہ کی پیدائش پر منگنی کرنا ختنہ کے موقع پر بھاجی تقسیم کرنا بچہ کی پیدائش پر ناچ محجر او نقال و بھانڈ بلانا شادی بیاہ کے موقع پر رسومات منگنی کے موقعہ پر ناچ مجرا کرنا.نیز نقال و بھانڈ بلا نا سہرا باندھنا اور اس موقع پر جشن کرنا ملنی کے موقع پر فضول رسم و رواج کرنا دعوت ولیمه قبل از وقت کرنا چھوٹی سی بارات کی صورت میں مہندی لے جانا جوتا چھپانا اور پیسوں کا مطالبہ کرنا بری و جہیز کی نمائش.بری کا بچھایا جانا اور اس پر پیسے نچھاور کرنا ناچ آتش بازی نقال پر روپیہ کا فضول خرچ کرنا بوقت رخصتی لڑکی چاول یا گندم ہاتھ میں لے کر پیچھے کو چیکتی ہے کہ اس کا رزق ماں باپ کے گھر رہے.دولہا کے گھر پہنچ کر مہندی سے ہاتھ بھر کر تین یا سات بار دیوار پر لگائے جاتے ہیں.ولیمہ کی بجائے شادی کے تین دن بعد لڑکی کے والدین لڑکی کے سسرال جاتے ہیں اور کھانا اپنے گھر سے لے جاتے ہیں.پانچ دن بعد لڑکی اپنے والدین کے گھر آتی ہے اور سات روز بعد سسرال میں اپنے گھر جاتی ہے.مہندی سے لے کر شادی کے بعد تک گھر میں خوب ڈھولک ناچ ، گانے وغیرہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے.مایوں بیٹھنا
114 113 مایوں میں متفرق اشیاء کا دینا.ڈومنیوں کا ڈھول کے ساتھ دو دو تین ہفتہ راگ جاری رکھنا.مستورات کا مخش راگ گانا دودھ پلائی کی رسم گھٹنا باندھنا ( دیور کا بھا بھی کا گھٹنا باندھنا اور پھر پیسے مانگنا) جب بھاجی تقسیم ہو جاتی ہے تو برادری کی طرف سے شادی والوں کے گھر مختلف اشیاء بھیجی جاتی ہیں جن کو مایاں کہتے ہیں کوئی سویاں کوئی چاول پتاشے گڑ لاتا ہے.مہندی تقسیم کرنا ایک دن مقرر کر کے عورتوں بچیوں میں مہندی تقسیم کی جاتی ہے) اگر لڑکی کی مہندی کی تقریب ہو تو اس پر بعض خاندانوں میں مرد پیلے رنگ کے دوپٹے گلے میں ڈال کر گھومتے ہیں.ید دینا لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی والوں کو بددی جاتی ہے جو بعد میں رشتہ داروں میں بانٹی جاتی ہے.بد کی اشیاء میں چھوہارے کشمش ، ناریل ،مکھانے ، بادام وغیرہ بری مانگ دھری.اس میں زیورات اور پار چات کسی سے عاریۃ لے آتے ہیں.جوڑے دینا.( لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے کے گھر کے تمام افراد کو جوڑے دیئے جاتے ہیں.) بارات کی تیاری پر رسوم.تیل ، مہندی ، سہرا لگانا ، آتش بازی ، مجرا، بری کا جلوس زیورات اور پار چات اور دیگر اشیاء بڑی بڑی کشتیوں میں دھر کر سروں پر اٹھا کر جلوس کی شکل میں لڑکی کے گھر تک لے جانا اور اس جلوس پر نوٹ ،سکے اور چھوٹے چھوٹے زیورات نچھاور کرنا وڈیو بنانا عورتوں کی طرف مرد بہروں کا کھانا کھلانا بچپن میں منگنی کرنا وٹہ سٹہ کی شادی کرنا وٹہ سٹہ کے وعدہ پر شادی کرنا ( جولڑ کی پیدا ہوگی وہ فلاں کو دی جائے گی ) کسی تاوان کی صورت میں لڑکی دینا خواہ دولہا بوڑھا ہی ہو.بیسیوں لڑکیاں دیکھنا چھلنی کیلیاں توڑنا کنگنا کھیلنا برادری کی شرارتیں بات پکی کرنے کی خاطر ہاں کا جوڑا منگنی پر بڑی بڑی دعوتوں میں اسراف کرنا مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہنانا منگنی کے بعد لڑکے لڑکی کے ضرورت سے زائد روابط اور والدین کی چشم پوشی حق مہر نمائش کی خاطر استطاعت سے بڑھ کر مقرر کرنا نکاح کے موقع پر وڈیو وغیرہ کا الگ غیر ضروری فنگشن کرنا جہیز کا مطالبہ کرنا.جہیز کی نمائش.کھٹ کی نمائش مہندی کے موقعہ پر آغاز سیرت النبی کے پروگرام سے کر کے بعد میں گانے بجانے کی لغویات کرنا شادی سے قبل تقریبات منعقد کرنا اور کہنا کہ یہ رونق کی مجالس ہیں.دولہن کے کپڑوں میں لہنگا وغیرہ کا اسراف کرنا دولہے کو عورتوں کی طرف بلانا اور نامحرم مردوں کا ساتھ ہونا اور آداب پردے کا خیال نہ رکھنا دلہن کا بیوٹی پارلر سے ہی تیار ہونا
115 116 تقریب رخصتی میں جماعتی روایات تلاوت و دعا کے بغیر رخصت کرنا ولہن کو بوقت رخصتا نہ قرآن کے نیچے سے گزارنا دلہن کو گھر لانے کے بعد دولہا دولہن دونوں کو قرآن کے نیچے سے گزارنا دلہن کے گھر داخل ہوتے وقت گھر اور کمرہ کی چوکھٹ پر تیل ڈالنا سب سے چھوٹے دیور کا دولہن کے ساتھ بیٹھ کر پیسوں کا مطالبہ کرنا دولہا کے گھر دولہن کے جہیز کی نمائش کرنا وقت کی پابندی نہ کرنا اور وقت کا ضیاع کرنا خواتین کے حصہ میں مرد بہروں کا کھانا کھلانا نیوند را تنبول اور پوا، ور توارہ ، سلامی کا لکھنا اس غرض سے کہ بعد میں بڑھا کر لیں گے لڑکی کو مایوں بٹھانا اور سسرال کی طرف سے پہلے کپڑے اور ابٹن وغیرہ دینا دعوتی کارڈ پر بے جا اسراف کرایہ پر لیموزین وغیرہ مہنگی گاڑی پر برات لے جانے پر اسراف کرنا لڑکے کو بازو پر گانا باندھنا لڑکے کی مہندی کرنا لڑکے کو سبز ڈوپٹے کے سائے میں مہندی کی کرسی تک لے جانا برات پر پیسے پھینکنا سر بالا بنانا.بعض جگہ چار پانچ سر بالے بنائے جاتے ہیں آتش بازی کرنا ہوائی فائر کرنا نوٹوں کے ہار رخصتی کے موقعہ پر دولہن کے والدین کا بینڈ با جوں کا خاص اہتمام کرنا دوسری قوموں میں رشتہ کرنا اپنی ہتک سمجھنا مہر بخشوانا.حلالہ کروانا.مستورات کی طرف سے برات کی آمد پر برات والوں کو گالیاں دینا بھاجی کی تقسیم کے بعد برادری کی طرف سے شادی والوں کو مختلف اشیاء بھیجی جاتی ہیں.جیسے سویاں پتاشے وغیرہ اسے مایاں کہتے ہیں.لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کو زیور و خاص پار چات کی تاکید کرنا لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے کے گھر کے سامان بالخصوص اور زیورات اور پارچات طشتریوں میں سجا کر جلوس کی شکل میں لیجایا جانا اور اس جلوس پر پیسے اور چھوٹے چھوٹے زیورات کا نچھاور کرنا برات کا زیادہ دن قیام لڑکوں کا شراب نوشی کرنا بعض قبائل میں لڑکی والے لڑکے والوں سے کھانے کے اخراجات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں.گھڑولی بھرنا سر بالوں کو چوری کھلانا لڑکی والوں کی طرف سے رسی لگا کرنائی وغیرہ کام کرنے والے برات کو روکتے اور ویل ڈالنا میوزیکل گروپ کی شکل میں لڑکیوں کا ڈانس وغیرہ پیسے لے کر جانے دیتے ہیں.
118 117 ون واہ.رخصتی سے کچھ دن قبل لڑکے والے آ کرلڑکی کو کمرہ میں سوٹ پہناتے اور پیسے دیتے ہیں اور بٹھا جاتے ہیں اور لڑ کی رخصتانہ کے دن تک اس کمرہ میں رہتی ہے.دولہا کے گھر کی عورتیں پلیٹ میں مہندی سجا اور موم بتیاں جلا کر گانا گاتی ہوئی دولہن کے گھر جاتی ہیں اور وڈیو فلم بنائی جاتی ہے.دلہن کے گھر والے مٹھائی لے کر آتے ہیں اور دولہا کو مٹھائی کھلاتے ہیں اور آدھا ٹکڑا واپس لے جا کر دولہن کو کھلایا جاتا ہے.دولہا کو جو مٹھائی کھلائی جاتی ہے اس سے دولہا کی سالیاں پیسے لیتی ہیں.دولہا دولہن والے دونوں دن مقرر کر کے رشتہ داروں وغیرہ کو بلاتے ہیں اور دعوت کرتے ہیں جسے دعوت کی کہتے ہیں آنے والی مہمان عورتیں پیسے دیتی ہیں اور میزبان عورتیں مٹھائی کھلاتی ہیں.پیسے دینا اور مٹھائی کھلانا لازم ملزوم ہے.شادی بیاہ کی مخلوط دعوتیں.علیحدہ انتظام کے تحت بھی عورتوں میں مرد حضرات چلے جاتے ہیں بری کی نمائش کرنا مردوں کا موبائل فون کے ذریعہ خواتین کی تصویر میں اتارنا ماڈرن کہلانے کے شوق میں پردہ کا خیال نہ رکھنا وفات کے موقع کی بدرسومات سیاپا اور نوحہ وغیرہ کرنا کئی کئی دن تک سوگ منانا شادی کے قابل بیوہ کا نکاح نہ کرنا حلقہ باندھ کر قرآن کا چکر دینا قل اور چہلم کرنا.نیاز پکانا قرآنی خوانی کرنا میت کے ساتھ روٹیاں ، چھوہارے، نمک اور غلہ وغیرہ لے جانا میت کے کفن پر کلمہ لکھنا اور میت کے ساتھ پنج سورہ یا قرآن دفن کرنا قبروں پر پھول چڑھانا اور اگر بتیاں جلانا اور مقررہ ایام میں ثواب کیلئے کھانا پکانا فاتحہ خوانی کرنا اسقاط کرنا اور قرآن پھرانا یعنی روٹیوں پر قرآن پڑھنا تاریخ مقرر کر کے ثواب پہنچانے کے لئے کھانا دینا.جمعرات کا ختم ، ماہوار ختم ، چہلم ، سہ ماہی ختم ،ششماہی اور سالانہ ختم طعام کا ثواب مردوں کو پہنچانا میت کے اٹھانے سے لے کر قبر میں اتارنے تک کلمہ کا اونچی آواز میں ورد کرنا قبر پکی کرنا قبر تیار کرنے کے لئے استعمال ہونے والے اوزار قبر پر دھونا تا قبر کی مٹی اوزار کے ساتھ نہ جائے.
119 120 قبروں پر چراغ جلانا.اور عرس وغیرہ منانا چھاتی پیٹنا اور لمبے لمبے بین کرنا ماتم پرسی اور چہلم گھی اور کھانڈ کا عمل جاری کرنا جس گھر میں موت ہو اس کی مستورات کا ایک سال تک اجلا کپڑا نہ پہننا جس مکان میں فوتیدگی ہوئی اس مکان کی مرمت اور صفائی ایک سال تک ممنوع ہے.مستورات ایک سال تک آنکھوں میں سرمہ اور سر میں تیل نہیں لگا سکتی.دال روٹی کے علاوہ کوئی کھانا نہیں عید اور تہوار میں بھی شریک نہیں ہوسکتیں.اللہ تعالیٰ سے شکوے کرنا کہ تو نے اسے کیوں مارا وغیرہ.عورتوں کا مل کر بلین ڈالنا جھوٹی خوشامد کر کے رونا اور بین کرنا اور مرحوم کے لئے ایسی خوبیاں جن کا کوئی تعلق نہیں بیان کرنا رونے پیٹنے کے واسطے مرگ والے کے گھر دو تین دفعہ عورتیں جاتی ہیں.مرنے والے کا عرس منانا قبر پرستی قبر پرستی ، پیر پرستی اور متفرق رسوم پیر پرستی: بعض لوگ پیروں کے سامنے جھکتے اور انہیں سجدہ کرتے ہیں اور قبروں پر چڑھاوے چڑھاتے اور نیاز دیتے ہیں اور قبروں پر سجدہ کرتے اور قبر کی مٹی کو متبرک سمجھتے ہیں اور مرحوم بزرگوں کو پکارتے اور ان سے مراد میں مانگتے ہیں.قبروں کی طرف سفر کرنا قبروں پر بیٹھنا اور نماز و قرآن پڑھنا قبروں پر گنبد بنانا اور قبروں کو پکا بنانا.قبروں پر چراغ جلانا تصاویر لگانا اور بزرگوں کی تصاویر لٹکانا اور تعظیم کرنا غیر اللہ کو پکارنا عرس کا دن مقرر کرنا اور منانا.اوراد و وظائف مولود خوانی تعویذ گنڈے کرنا رہبانیت ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا قضائے عمری ادا کرنا احتیاطی جمعہ پڑھنا شب برات.بارہ وفات.گیارہویں اور محرم کی رسوم تاریخوں اور دنوں کو منحوس سمجھنا
121 بدشگونی لینا حدہ نکالنا نظر اتارنا اپریل فول بادام کے ذریعہ ختم متبنی بنانا زنانہ وضع اور لباس پہننا معاوضہ پر امام رکھنا بدشگونی لینا غیر اللہ کی قسم کھانا بزرگوں کے نام کا ختم کرانا توشہ خواجہ خضر دینا.خاندانی تفاخر اور تعصب رکھنا تمباکونوشی ، تاش، چوسر ، افیون اور گپ بازی فیشن پرستی.قیام توجہ کے لئے خاص وضع وطرز پر بیٹھنا جمعہ کے دن مرنے کو مقدس سمجھنا نجومی ، جوتشیوں سے قسمت کا حال معلوم کرنا تعویز لانا اور پلانا نجومی سے تعویز لے کر مخالف کو پلانا ، ان کے گھر لے کر جانا پیروں فقیروں سے من کی مراد پانے کے لئے مختلف عمل کروانا
123 122 رسمیں اور بدعتیں کسی بھی قوم کے کردار کی عکاس ہیں رسمیں تنزل کی نشانی ، دین کا افلاس ہیں رسمیں نحوست کا یہ باعث ہیں بہت خناس ہیں رسمیں صلى الله محمد م کے غلاموں کو بھلا کب راس ہیں رسمیں اگر دل عشق مہڈی کا زرا سا ذائقہ پائے تو سفلی خواہشوں کی پیروی کرنے سے شرمائے بہت سی بدعتوں میں آج کل جکڑے ہوئے ہیں ہم رسوم بد کو کتنے چاؤ سے سے پکڑے ہوئے ہیں ہم بنے ہیں نفس کے بندے بہت تکڑے ہوئے ہیں ہم جہاں جھکنا ہے لازم ، اس جگہ اکڑے ہوئے ہیں ہم سکھاتا طریقے نت نئے جب نفس امارہ ہے تو اس کے داؤ سے کوئی بھی بچ پائے نہ بیچارہ کہیں مالی پریشانی ہے ، پیہم تنگ دستی ہے مگر شوق نمائش دل میں ہے بدعت پرستی ہے ادھر دیں ہاتھ سے نکلا ، اُدھر دنیا میں پستی ہے مگر افسوس ہر جاہل کو سفلی مئے کی مستی ہے فرائض واجبات اور سنتیں سب کچھ قضا کر دیں دلوں میں ٹھنڈ تب پڑتی ہے جب رسمیں ادا کر لیں جہاں مالی کشائش ہے ، جہاں کوٹھی میں دانے ہیں وہاں کا حال مت پوچھو کہ کملے بھی سیانے ہیں یہی گھر بدعتیں گھڑنے کے جاری کارخانے ہیں ہر اک تقریب پر واں جشن کے سو سو بہانے ہیں جنم لیتی ہیں ان اونچے گھروں میں بدعتیں ساری مثال وائرس پھر پھیلتی جاتی ہے بیماری ہے جہاں ہے مان پیسے کا نصیحت زہر لگتی چھچھورے پن کی عادت ہے ، متانت زہر لگتی ہے بہت فیشن پرستی ہے ، قدامت زہر لگتی ہے ہے بہت خود سر ، اطاعت زہر لگتی طبیعت ہے بہت محبوب ہیں کچھ عورتوں کو من گھڑت رسمیں اور ان کے چاؤ میں توڑیں وہ اپنے عہد اور قسمیں 1
125 124 ہے رسمیں چھوڑنا ان عورتوں کے واسطے بھاری خوشی ہو یا کمی کرتی ہیں پوری بدعتیں ساری بہت نازاں ہیں پشتوں سے یہ رسمیں گھر میں ہیں جاری نبھانا اس جہالت کو بھی ہے رسم وفاداری نمازیں تک بھلا دیتی ہیں وہ رسموں کے چاؤ میں وہ ہیرے بیچ دیتی ہیں فقط کوڑی کے بھاؤ میں بہت سے شوہروں پہ بوجھ ہے روٹی کمانے کا مگر بیوی کو ہر دم شوق ہے رسمیں نبھانے کا خوشی ہو یا نمی اک خبط ہے پیسہ لٹانے کا وہ موقع ڈھونڈتی ہے ہر گھڑی دیگیں چڑھانے کا جنم دن ہے کبھی چہلم کبھی گانے کی محفل ہے بہانہ ڈھونڈ کر کوئی نیا گھر بھر میں ہلچل کہیں رشتہ ہوا تو بے دھڑک رسمیں ہوئیں جاری یہ جوڑا ہاں کا ہے، منگنی کے جوڑے کی ہے تیاری جنم دن پر کبھی عیدوں یہ تحفوں کی وضع داری ادھر منہ توڑ مہنگائی 6 ادھر پیہم خریداری فقط ہونے پہ ہاں ایسی طبیعت گد گدائی مسلسل فون پر باتیں ہیں شوق آشنائی ہے ہے کہیں کہیں پیلے ہرے جوڑے کہیں رسم حنائی ہے ہے ، کہیں جوتا چھپائی ہے نمائی چہرہ جو حق مہر کا پوچھو ، شریعت کا حوالہ ہے پہ جب اپنی غرض آئے شریعت تر نوالہ ہے ہر اک تقریب پر اب رقص کی پھیلی ہے بیماری مہینوں تک ہوا کرتی ہے ہر شب اس کی تیاری اذانِ فجر تک رہتی ہے محفل رقص کی جاری گناہ گاری اسی مخلوط محفل میں پنپتی ہے میاں جب چاؤ خود رقص بیوی کو سکھاتے ہیں ہے کوئی یونہی دن رات شوق نمائش بڑھتا جاتا ہے اسی کے چاؤ میں قرضہ سروں پر چڑھتا جاتا ہے تو بچے پیمپروں میں ہی تھرکنا سیکھ جاتے ہیں.اپریل فول ، اور کوئی سالِ نو کا شیدائی یوم ویلنٹائن یہ رسم پھول بھجوائی کہیں یومِ کسی نے بن کے مجنوں عشق میں ہے شیو بڑھائی جو محبوبہ نے دی مس کال تو پھر جاں میں جاں آئی اپنی بس اب کیبل ، موبائل اور چیٹنگ زندگی خدا جانے کہاں لے جائے گی دیوانگی اپنی
127 126 بسنت آ جائے تو گڈی اُڑانا فرض ہے ان پر عبادت جان کر اس کو منانا فرض ہے ان پر لگانا لائٹیں دیگیں پکانا فرض ہے ان پر یونہی شام و سحر پیچے لڑانا فرض ہے ان پر ادھر بچوں بڑوں کے ڈور نے کاٹے گلے کتنے اور آتش بازیوں کے شوق میں چہرے جلے کتنے یونہی رسمیں نبھانا سال بھر ایمان ہے ان کا شریک کار سارے شغل میں شیطان ہے ان کا یہ بازی سب پہ لے جائیں ، یہی ارمان ہے ان کا نہ ہرگز ناک ہو نیچی یہی فرمان ہے ان کا سجاتے ہیں جو خود ماتھے جھومر روسیاہی کا تماشا دیکھ لیں گے جلد ہی اپنی تباہی کا یہ اونچی ناک والے آخرت میں منہ چھپائیں گے فرشتے روز محشر داغ ناکوں پر لگائیں گے یہاں دو چار دن کی واہ وا بے شک کمائیں گے خدا سے نام لیکن فاسق و فاجر رکھائیں گے بہت ناداں ہیں جو اس باپ کی گٹھری کو ڈھوتے ہیں گھڑی بھر کے لئے ہنستے مگر آخر کو روتے ہیں کی غلامی کاش ان کے خوں میں رچ جائے تو پھر لازم ہے ان کو ہر غلامی سے حیا آئے خدا کا فضل ہی عرشی غلاظت سے بچا پائے یہاں پھسلا قدم جس کا ، پھسلتا ہی چلا جائے بھرے گھر کو یہ رسمیں مائل افلاس کرتی ہیں یہ کینسر کی طرح قوموں کا ستیاناس کرتی ہیں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبه )