Language: UR
حضرت مریم صدیقہ علیھا السلام کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ متنازعہ فیہ شخصیت بھی کہہ دیا جاتا ہے لیکن زیر نظر کتاب میں مصنفہ نے اس بابرکت انسان کی کہانی کو نہایت محبت، جانفشانی اور خلوص کے ساتھ مرتب کیا کہ تحریر اور اسلو ب خود گواہ ہے۔ اس کتاب کے ہر صفحہ سے موضوع کا تسلسل ، الفاظ کی سادگی، تحقیق میں باریک نظری ، حوالہ جات کی تائید سے مصنفہ کی سنجیدگی ٹپکتی ہے۔ الغرض اس بہت اچھی کتاب کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبوب شخصیت کومحبت و نفرت کرنے والوں کی طرف سے پیدا کردہ افراط و تفریط کے دبیز پردوں سے نکالا گیا ہے، آپ کی صحیح تعلیم کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں اور گمراہیوں کو بھی دلیل اور تحقیق کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ) وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَاَوَصْنِى بِالصَّلَوةِ وَالزَّكُوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ( سورة مريم :32) اور میں جہاں کھیں بھی ھوں اس نے مجھے بابرکت بنایا.اور جب تک میں زندہ جھے نماز اور زکوۃ کی تاکید کی ھے.ایک بابرکت انسان کی سرگزشت
2 انتساب میں اپنی اس کوشش کو اپنے پیارے ابا جان مکرم و محترم میاں عبدالرحیم دیانت صاحب درویش (مرحوم) کے نام کرتی ہوں جن کی بیت الدعا کی متضرعانہ دعائیں اور ذوق تحصیل علم ، ہر گام پر میرے ساتھ ہیں.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور اپنے خاص قرب سے نوازے.آمین
3 نمبر شمار 1 پیش لفظ 2 تعارف 3 عرض حال 4 نقش ثانی عناوین فہرست مضامین 5 اقتباس حضرت اقدس مسیح موعود علیه السلام.6 بنی اسرائیل اور اس کے گمشدہ قبائل.7 حضرت حزقیل کی پیشگوئی 8 ایک خاتون کی منت.9 حضرت مریم کی پرورش 10 حضرت مریم کو خوشخبری اور بچے کی پیدائش.11 حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپن 12 حضرت عیسی علیہ السلام مقام نبوت پر 13 حضرت عیسی علیہ السلام نبی اللہ کی تعلیمات 14 یہودیوں کی سرکشی.15 حضرت عیسی علیہ السلام کا سفر یروشلم.16 خدا کے واحد لا شریک ہونے کا پیغام.صفحہ نمبر
17 توریت کی تعلیم 18 حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت عطا کی گئی.19 حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا کا طریق.20 حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات.21 حضرت عیسی علیہ السلام کی مخالفت.22 تمثیلات سے پیغام حق.23 حضرت عیسی علیہ السلام کا اصل مشن 24 حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں 25 حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشگوئیاں.26 حضرت عیسی علیہ السلام کی گرفتاری اور دعائیں.27 حضرت عیسی علیہ السلام کا مقدمہ 28 حضرت عیسی علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا..29 حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے زندہ اتارے گئے 30 حضرت عیسی علیہ السلام کی تجہیز وتکفین 31 حضرت عیسی علیہ السلام کا علاج.32 حضرت عیسی علیہ السلام کا سفر.33 حضرت مسیح علیہ السلام دمشق میں.34 حضرت مسیح علیہ السلام مکہ مکرمہ میں 35 حضرت مسیح علیہ السلام کربلا میں
5 36 حضرت مسیح علیہ السلام ایران اور افغانستان میں 37 حضرت مسیح علیہ السلام موجودہ پاکستان اور تبت میں.38 حضرت مسیح موجودہ ہندوستان اور کشمیر میں 39 حضرت مریم علیہا السلام کی وفات.40 عیسائیوں کا عقیدہ ہے.41 اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے.42 حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات.43 حرف آخر 44 اقتباس از حضرت اقدس مسیح موعود علیه السلام بابت عدم نزول..45 تعارف کتاب از روز نامه الفضل ربوه.
9
7 تعارف قدیم سے سنت خداوندی چلی آ رہی ہے کہ جب قو میں گمراہ ہوتی ہیں تو ان کی ہدایت کے لئے ان میں نبی مبعوث فرماتا ہے اور اسی سنت کے ماتحت حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم دین کی راہ سے روگردان ہوئی اور ان کی شریعت کی تعبیر و تعمیل میں اضمحلال پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت مستمرہ کے مطابق حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.چونکہ موسوی شریعت ایک مخصوص قوم اور زمانہ کے لئے تھی لہذا شریعت موسوی کے آخری نبی نے ایک عالمگیر نبی کے آنے کی پیشگوئی کی جو آخری شریعت لے کر مبعوث ہو گا.جو تمام قوموں اور زمانوں کے لئے ہو گی اور اس بنا پر وہ رحمت اللعالمین کہلائے گا.حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ جس طرح موسیٰ کی شریعت کی تعبیر و تعمیل میں کمزوری اور نقص پیدا ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اس کی تجدید کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کو مبعوث کیا تھا.اسی طرح محمد می شریعت کی تعبیر و تعمیل میں نقص اور اضمحلال پیدا ہونے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ایک امتی نبی مبعوث فرمائے گا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی خو اور سرشت لے کر آئے گا.اس امتی نبی کا آنا گویا حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی قرار پائے گا.اس کا منصب نہ صرف یہ ہو گا کہ مسلمانوں کو دینِ حق کی سچی تعلیم سے روشناس کرے اور ان میں دین کی روح کو زندہ کرے بلکہ عیسائیوں کو بھی ہدایت کی راہ پر قائم کرے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم نے ان کی تعلیم
8 میں جو مشرکانہ عقائد کو داخل کیا تھا اس کو صاف و پاک کرے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام مہدی بھی رکھا اور مسیح ابن مریم بھی رکھا.اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہدی اور مسیح ثانی کے ذریعہ دینِ حق کی نشاۃ ثانیہ مقدر کی ہے.اور اس کے ظہور کے لئے آسمانی اور زمینی نشانیاں بتلائیں.اس بناء پر دینِ حق کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ میں حضرت عیسی کی صحیح تعلیم و عقائد کو دنیا کے سامنے پیش کرنا نہایت ضروی اور مفید ہے.کیونکہ انسانیت کا ایک بہت بڑا حصہ حضرت عیسی کی شخصیت، زندگی اور موت اور ان کی صحیح تعلیم کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہو کر شرک کا مرتکب اور حق کی شناخت سے محروم ہو رہا ہے.اس نہایت اہم موضوع پر ایک مضمون لکھنے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ کو بخشی.جس محبت جانفشانی اور خلوص سے یہ مقالہ لکھا گیا ہے.اس کے پڑھنے والے خود محسوس کریں گے.اس کے ہر صفحہ سے موضوع کا تسلسل، الفاظ کی سادگی، تحقیق میں باریک نظری حوالہ جات کی تائید سے مصنفہ کی سنجیدگی ٹپکتی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ رسالہ حضرت عیسی علیہ السلام کی محبوب شخصیت کو اور ان کی صحیح تعلیم کو اُجاگر کرنے اور ان کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں اور گمراہیوں کو دور کرنے کا باعث بنے.اور اس نیک کام کی برکت سے مصنفہ دین و دنیا میں سرخرو ہوں.
9 عرض حال انچارج سمعی و بصری پروگرام نے انبیاء علیہم السلام کے حالات پریسٹس تیار کروانے کے سلسلے میں مجھ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق لکھنے کی فرمائش کی.سرگزشت لکھنا ایک مشکل کام ہے اور وہ بھی ایسی ہستی کی جو تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ متنازعہ فیہ شخصیت ہے.تحقیق طلب امور میں کوئی حرف حرف آخر نہیں ہوتا.اس طرح میری طالب علمانہ سی کوشش کچھ نہ کچھ قابل پذیرائی ہو گی.قرآنِ پاک اور مسیح ہندوستان میں“ میرے مضمون کے بنیادی ماخذ ہیں.بائبل سے تائیدی حوالوں کی شمولیت سے یہ کتاب عیسائی صاحبان کے لئے بھی اجنبی نہیں رہے گی.میں نے کوشش کی ہے کہ طویل متنازع بحثوں میں پڑنے کی بجائے بزرگوں کے اخذ کردہ نتائج پیش کر دوں.میں اپنے دینی بھائی محترم حضرت اللہ پاشا صاحب اور اپنے حقیقی بھائی محترم مولانا عبدالباسط صاحب شاہد کی شکر گزار ہوں جن کی نظر ثانی اور مفید مشورے حوصلہ افزائی کا باعث ہوئے.اسی طرح کے جذبات تشکر محترم عبدالحئی شاہ صاحب کی خدمت میں پیش کرتی ہوں جنہوں نے مطالعے کے بعد نوٹ لکھا ”اس مضمون کے کسی حصے کے اشاعت پر کوئی اعتراض نہیں.“ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری حقیر کوشش قبول فرمائے.آمین
10 نقش ثانی ہماری گیارہویں پیش کش تھی جو پہلی دفعہ 1989ء میں شائع ہوئی.پہلا ایڈیشن ختم ہوئے سالوں گزر گئے مگر باوجود مانگ اور ضرورت ہونے کے دوسری کتب کی طرف ترجیحی توجہ کی وجہ سے اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کے کام میں تاخیر ہوتی گئی.اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے کو جنہوں نے میری درخواست پر اس کتاب پر بڑی توجہ اور محنت کے ساتھ نظر ثانی کی.میں ان سب بزرگ ہستیوں کے لئے بھی دعا گو ہوں جن کی تحقیقی کاوشوں سے استفادہ سے یہ کتاب مرتب ہوئی.اللہ کرے کہ یہ کتاب قارئین کرام کے علم میں اضافہ کا موجب بنے اور ہم کاسر صلیب کی دعاؤں کے مستحق ٹھہریں.آمین.اب ن
11 اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام.حضرت مسیح علیہ السلام سیر کرتے کرتے نصیبین تک پہنچ گئے تھے.اور نصیبین موصل اور شام کے درمیان ایک شہر ہے جس کو انگریزی نقشوں میں نسی بس کے نام سے لکھا ہے جب ہم ملک شام سے فارس کی طرف سفر کریں تو ہماری راہ میں نصیبین آئے گا اور وہ بیت المقدس سے قریباً ساڑھے چار سو کوس ہے اور پھر نصیبین سے قریباً اڑتالیس میل موصل ہے جو بیت المقدس سے پانسو میل کے فاصلہ پر ہے اور موصل سے فارس کی حد صرف سو میل رہ جاتی ہے.اس حساب سے نصیبین فارس کی حد سے ڈیڑھ سو میل پر ہے.اور فارس کی مشرقی حد افغانستان کے شہر ہرات تک ختم ہوتی ہے یعنی فارس کی طرف ہرات افغانستان کی مغربی حد پر واقع ہے اور فارس کی مغربی حد سے قریباً نو سو میل کے فاصلہ پر ہے اور ہرات سے درہ خیبر تک قریباً پانسو میل کا فاصلہ ہے.حضرت عیسی علیہ السلام افغانستان سے ہوتے ہوئے پنجاب کی طرف آئے.اس ارادہ سے کہ پنجاب اور ہندوستان دیکھتے ہوئے پھر کشمیر کی طرف قدم اُٹھا دیں.پنجاب میں داخل ہو کر ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ قبل اس کے جو کشمیر اور تبت کی طرف آویں ہندوستان کے مختلف مقامات کا سیر کریں.حضرت مسیح نے نیپال اور بنارس وغیرہ مقامات کا سیر کیا ہوگا اور پھر جموں سے یا راولپنڈی کی راہ سے کشمیر کی طرف گئے ہوں گے.." (روحانی خزائن جلد 15 مسیح ہندوستان میں صفحہ نمبر 67 تا 70ء)
12 یہ حقیقت ہے کہ حضرت آدم سے لے کر آج تک جتنے بھی انسان اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں ان میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس کے متعلق دوسرے انسانوں کی آراء میں سب سے زیادہ اختلاف رہا ہے.یہ سب سے زیادہ متنازع فیہ ہستی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.ان کی پیدائش، زندگی کے حالات، واقعہ صلیب، سفرِ مشرق اور وفات تک ہر مرحلہ پر بے شمار نظریات ہیں کہیں انہیں انسان کی عام عزت بھی نہیں دی گئی اور کہیں انہیں خدا کا بیٹا اور کہیں خدا بنا دیا گیا ہے.کئی جگہ اور مواقع پر تاریخ خاموش ہے یا کسی خاص فرقے اور گروہ کے خیالات پیش کرتی ہے.جس میں اختلاف اور تحقیق کی بہت گنجائش موجود ہے.ہم حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں ان کے سب سے زیادہ صحیح اور سچے حالات قرآن مجید نے بیان کئے ہیں.قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کرتا ہے.اور اپنے دلائل کو ذہن نشین کروانے کے لئے پرانے زمانے کے نبیوں کے حالات شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے.بعض جگہ پرانے نبیوں کا ذکر اس لئے آتا ہے کہ ہم ان کے حالات سے مقابلہ اور موازنہ کریں اور بعض جگہ وہ تاریخی واقعات جن کا اب کوئی دوسرا یقینی ماخذ نہیں ہمیں قرآن پاک کے محفوظ خزانے سے ملتے ہیں.اس کے بعد ہونے والی سائنسی تحقیق اور Archaeological Research قرآنی حقائق کی تائید کرتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے سے
13 ہمیں اس لئے بھی دلچسپی ہے کہ ہم عیسائیت کے مقابلے میں دینِ حق کی سچائی اس طرح ثابت کر سکیں کہ ان کے پاس ہمارے دلائل کا کوئی ایسا جواب موجود نہ رہے جسے ہم غلط اور بے بنیاد ثابت نہ کر سکیں.کچھ عرصہ قبل تک صحیح حالات کو سامنے لانا مشکل تھا کیونکہ عیسائی متادوں کی کوششوں سے برصغیر پاک و ہند میں کثیر تعداد میں ان کا لٹریچر پھیل گیا تھا جس کا اثر مقامی لوگوں پر ناگزیر تھا.دینِ حق کی سربلندی اور اس کی تعلیمات کے امتیاز اور اعزاز کو برقرار رکھنے اور بامِ عروج تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی موعود ( آپ پر سلامتی ہو ) کو مقرر فرمایا.آپ نے قرآن پاک کی مدد سے اور اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ایسے نظریات پیش فرمائے.جن کی صداقت چمکتے سورج کی طرح روشن ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روشن تر ہوتی جا رہی ہے.ہر روز کوئی نئی تحقیق کوئی نئی دریافت آپ کے پیش کئے ہوئے نظریات کی تائید میں ظاہر ہو رہی ہے.بنی اسرائیل اور اُس کے گمشدہ قبائل: اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے باپ اور اپنے دوست حضرت ابراہیم علیہ ا کو آج سے چار ہزار سال قبل ان کی نیکی کے انعام میں دو بیٹے عنایت فرمائے.عراق کے یہ بزرگ نبی اللہ تعالیٰ کا حکم پا کر اپنی ایک بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور ایک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی وادی میں لے گئے اور وہاں اللہ کا گھر بنایا.معمار باپ اور مزدور بیٹے کو یہ گھر بنانے کی سعادت حاصل ہوئی تو ان کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گئے انہوں نے اس موقع پر دعا کی.”اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بندہ بنالے اور ہماری
14 اولاد میں سے بھی ایک فرمانبردار جماعت بنا اور ہمیں ہمارے مناسب حال عبادات کے طریق سکھا اور ہماری طرف فضل کے ساتھ توجہ فرما یقیناً تو بہت توجہ کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.“ ( سورة البقره : 129) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے بہت سے نبی پیدا فرمائے جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے مثلاً حضرت اسمعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، اور حضرت یوسف علیہ السلام.حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق ایک بڑا دلچسپ قصہ ہے.بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک سفر کے دوران ایک شخص رات بھر گشتی لڑتا رہا.کشتی لڑنے والے نے ان کا نام پوچھا.تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنا نام بتایا تو اس نے کہا.تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا.“ ( پیدائش باب 32 آیت 28) چنانچہ اولاد یعقوب کو قرآن پاک میں بنو اسرائیل ہی کہا گیا ہے.اور اڑتیں جگہ یہ لفظ آیا ہے.حضرت یعقوب علیہ السلام کے دو بیٹوں بن یامین اور یہودا کو ماننے والے یہود کہلائے.باقی ساری اولاد بنی اسرائیل ہی کے نام سے مشہور ہیں.اللہ تعالیٰ کے انعام کی ایک کڑی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں.اور قرآنِ پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سب سابق نبیوں سے زیادہ کیا گیا ہے.آپ کو توریت دی گئی.آپ کے پیغام کو بہت لوگوں نے مانا.آپ خدا کی وحدانیت، نماز، زکوۃ کی تعلیم دیتے چوری شرک، سود اور الزام تراشی سے منع کرتے اس تعلیم کی کشش کی وجہ سے دوسرے دینوں کی حامل قوموں
15 نے دین موسوی قبول کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران تھا اس لئے موسوی سلسلہ آلِ عمران کہلایا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع بن نون نے فوجی تربیت اور لمی کوشش کے بعد کنعان پر قبضہ کیا اور کئی جنگوں کے بعد فلسطین اور شام کے دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا.حضرت طالوت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ ہوئے یہیں سے بنی اسرائیلی کے عروج کا زمانہ شروع ہوتا ہے آپ کی روحانی اور فوجی تربیت سے اسرائیل سلطنت شام کے شمال و جنوب کی طرف دُور دُور پھیل گئی.آپ کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں بنی اسرائیل کا سنہرا دور شروع ہوا اور یہ قوم مال و دولت کے اعتبار سے بھی قابل رشک ہو گئی.تجارت کی غرض سے ان کے جہاز مصر، افریقہ، عرب کے علاوہ موجودہ پاکستان و ہندوستان کے ساحلوں تک آئے اور بہت فائدہ اٹھایا.آپ نے پہلی دفعہ یروشلم میں بیت المقدس کی تعمیر کی جو اسرائیلیوں کی مقدس عبادت گاہ اور قربان گاہ ہے.حضرت سلیمان کے بعد قبائل میں پھوٹ پڑ گئی ایک طرف یہودا اور بن یامین کے قبائل ہو گئے اور جنوبی فلسطین میں آباد ہو گئے دوسری طرف بنی اسرائیل کے دس قبائل ہو گئے جنہوں نے شمالی فلسطین میں حکومت قائم کی.اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر آشوری بادشاہ شالمنذر نے حملہ کر دیا.شالمنذر کے بعد اس کے بیٹے سرجون نے بنی اسرائیل کو شکست دی اور اُن کے دس ہزار آدمیوں کو قیدی بنا کر لے گیا.شمالی فلسطین کی اس تباہی کے بعد بھی سرجون نے حملہ کیا اور بچے کھچے بنی اسرائیلیوں کو ہانک کر نیوالے گیا اور پھر آرمینیا اور میڈیا کے مختلف علاقوں میں بکھیر دیا یہ تمیں لاکھ سے زائد تھے انہیں کو بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کہا جاتا ہے.(ماہنامہ الفرقان اپریل 1967ء)
16 حضرت حزقیل کی پیشگوئی : جن لوگوں کو شالمنذ قید کر کے لے گیا تھا ان میں ایک حضرت حزقیل بھی تھے جو کہ اُس وقت کے نبی تھے.جن کا دل یروشلم کی حالت دیکھ کر گڑھا ان کے غم کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کو کشفی رنگ میں دکھایا کہ گویا وہ اپنی وفات کے سو سال بعد پھر زندہ ہوں گے اور اس وقت بنی اسرائیل کو نئی زندگی ملے گی.حضرت حزقین 586 سال قبل مسیح گزرے ہیں 519 قبل مسیح سے یروشلم کی دوبارہ تعمیر شروع ہوئی 489 قبل مسیح یروشلم مکمل آباد ہو گیا.انطیوکس یونانی کے زمانہ میں جو 175 قبل مسیح کا ہے یہودیوں پر ایک دفعہ پھر بدامنی کا زمانہ آیا زبردست قتل و غارت ہوا اور یہودی ترک وطن پر مجبور ہو گئے.اور زیادہ تر ہندوستان کی طرف ہجرت کر گئے.اس طرح اسرائیلی اور یہود سیاسی لحاظ سے کمزور ہوتے گئے.پے در پے نافرمانیوں کی وجہ سے اخلاقی کمزوریاں بھی پیدا ہوتی گئیں مثلاً وہ اپنے نبیوں کو قتل کرنے کے منصوبے بناتے.(سورہ بقرہ : 63 ).وعدہ کرتے تو پورا نہ کرتے.سبت کے دن کی مناسب عزت نہ کرتے لوگوں کے مال کو ناجائز طور پر کھا لیتے.امت موسویہ کی ایک خاتون نے منت مانی: زمین و آسمان کے مالک خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ انسانوں کی اصلاح کے سامان پیدا فرماتا رہتا ہے چنانچہ اسی زمانہ کی بات ہے کہ عمران کے خاندان کی ایک دردمند عورت نے منت مانی کہ اگر خدا مجھے لڑکا عنایت کرے تو میں اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دوں گی اس نے بہت دعا کی کہ خدا تعالیٰ نذر قبول کرے اور اسے برکت دے.خدا تعالیٰ نے اسے ایک
17 بیٹی عطا فرمائی.اس پر اسے بہت مایوسی ہوئی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ کام جس کے لئے اس نے اپنی اولا د وقف کی تھی لڑکی سے نہ ہو سکے گا.اس نے گھبرا کر دعا کہ ” الہی اب کیا کروں میرے گھر میں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے؟“ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ جو بیٹی اس نے عنایت کی ہے وہ اس شان والی ہے کہ اس کے برابر کا کام بعض لڑکے بھی نہیں کر سکتے.اس نے بچی کا نام مریم رکھا.مریم کی والدہ کی نیت اپنی اولاد کو دین کی راہ میں وقف کرنے کی تھی اس لئے اس نے دعا کی.( تفسیر کبیر جلد نمبر 5 ص: 155) إِنِّي أُعِيْدُ هَابِكَ وَ ذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ (ال عمران : 37) ترجمہ: کہ (خدایا) میں اسے اور اس کی اولاد کو مردود شیطان کے حملہ سے تیری پناہ میں دیتی ہوں.ان کا ارادہ تھا کہ مریم کی نیک تربیت کریں گی.ان کی شادی کریں گی اور ان کی اولاد سے تبلیغ دین کا کام ہو سکے گا.چنانچہ انہوں نے مذہبی عبادت گاہ (ہیکل) میں ایک بزرگ حضرت زکریا علیہ السلام کی نگرانی میں مریم کو دے دیا.اس جگہ زکریا سے وہ زکریا مراد نہیں جن کی کتاب بائبل میں شامل ہے.وہ زکریا 487 سال قبل مسیح گزرے ہیں اور یہ زکریا وہ ہیں جو حضرت مسیح کے قریب کے زمانے میں آپ کی والدہ کے کفیل تھے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذکریا بھی نبی تھے لیکن انا جیل میں ان کا ذکر بطور کا ہن کیا گیا ہے بطور نبی نہیں.66 ( تفسیر کبیر پنجم صفحہ 117)
18 وو ” وہ دونوں (یعنی زکریا اور اُن کی اہلیہ) خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے.“ لوقاب باب 1: 6) حضرت زکریا علیہ السلام جو حضرت مریم کے کفیل تھے اور جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی وہ ایک دفعہ اپنی عبادت گاہ میں گئے اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت مریم جو اُس وقت بہت چھوٹی بچی تھیں اُن کے پاس کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی تھیں انہوں نے مریم سے پوچھا کہ انی لک هذا بیٹی تمہیں یہ چیزیں کہاں سے ملی ہیں؟ چھوٹے بچوں سے عام طور پر لوگ محبت اور پیار کی وجہ سے اس قسم کی باتیں پوچھا ہی کرتے ہیں.انہوں نے جواب دیا.هُوَ مِنْ عِنْدِ اللهِ یہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں.جواب صرف اُس نیک تربیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریم علیھا السلام کی ہوئی تھی.“ ( تفسیر کبیر پنجم صفحہ 118، 119) ایک نوعمر بچی کا خدا تعالیٰ سے اتنا پیار اور تعلق دیکھ کر حضرت زکریا کے دل میں یہ حسرت جاگ اُٹھی کہ خدا تعالیٰ اُن کو بھی کوئی بچہ دیتا جو دین کا خادم ہوتا اور ان کا نیک ذکر قائم رکھنے کا باعث ہوتا.چنانچہ حضرت زکریا نے دعا کی: ”اے خدا میں بوڑھا ہو گیا ہوں میری ہڈیاں کمزور اور بال سفید ہو گئے ہیں میری بیوی بھی بوڑھی ہے مجھے بیٹا عطا فرما جو میرا وارث ہو اور ان وعدوں کا بھی وارث ہو جو آلِ یعقوب سے کئے گئے ہیں.( سورة مريم : 5 تا 7) پیار کرنے والے خدا نے یہ دعا سن لی اور انہیں نیک پاک بیٹا عطا
19 کیا.خدا تعالیٰ نے خود ان کا نام بیچی رکھا.مریم کی پرورش: (یونس : 54) حضرت زکریا نے دیکھ لیا کہ مریم بہت خدا پرست ہیں اور خدا تعالیٰ بھی ان سے پیار کا سلوک کرتا ہے ان کو اندازہ ہو گیا کہ ہوسکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں جس شاندار نبی کی بشارتیں موجود ہیں وہ انہیں کی نسل سے ہوں اس لئے وہ مریم کا بہت خیال رکھتے دوسرے لوگ بھی مریم کے تقویٰ اور پاکی کی وجہ سے ان کی بہت عزت کرتے تھے اور ہیکل کے ایک کمرے میں مصروف عبادت مریم کے لئے طرح طرح کے تحفے لاتے کوئی کھانا لاتا کوئی پھل لے آتا.خدا تعالیٰ نے قرآن پاک میں جن چند پاک عورتوں کے نام لئے ہیں ان میں حضرت مریم کا نام بھی آتا ہے.مریم جب بڑی ہو گئیں تو ہیکل میں ٹھہر نا مشکل ہو گیا اب ان کی تربیت مکمل ہو چکی تھی دوسرے ذرا بڑی عمر کی لڑکی کا عبادت گاہ میں رہنا مشکل تھا.ان کی عمر بھی شادی بیاہ کی ہو گئی تھی.والدین تو بچی کو وقف کر چکے تھے اس لئے ان کی شادی کرنے کا اختیار بھی استعمال نہیں کیا اور فیصلہ قرعہ اندازی سے خدا پر چھوڑ دیا.یہ قرعہ ایک شخص یوسف نجار کے نام نکلا جن سے مریم کی منگنی کر دی گئی.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس یوسف کے ساتھ حضرت مریم کی شادی ہوئی تھی اس کی ایک بیوی پہلے بھی موجود تھی.(الحکم 10 نومبر 1901ء) یہ بڑھئی کا کام کرتے تھے اور نیک آدمی تھے.یوسف حضرت ابراہیم کے خاندان میں سے تھے.یوسف کا نسب نامہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچتا ہے متی باب 1 آیت 16 کے مطابق
20 ” یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اُس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے.“ خدا تعالیٰ حضرت مریم سے ان کی نیکی کی وجہ سے خوش تھا مگر بنی اسرائیل سے ان کی گستاخیوں کی وجہ سے ناراض ہو گیا تھا.وہ اب بنی اسرائیل کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ نبوت کا جو انعام نسل درنسل ان کو دیا گیا تھا ان میں جاری رکھا جائے.کیونکہ ان میں اب کوئی مرد اس کا اہل نہ رہا تھا کہ اسے نبی کا باپ ہونے کا انعام دیا جا سکے اس لئے اس نے پاک دامن مریم کو اپنی قدرت سے ایک بیٹا عطا کرنے کا فیصلہ کیا.حضرت مریم کو بچے کی پیدائش کی خوشخبری: سردیوں کا موسم تھا.ایک دن حضرت مریم حسبِ معمول عبادت میں مصروف تھیں کہ تندرست اور جوان مرد کی شکل میں خدا تعالیٰ کے فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور مریم کو بیٹے کی خوشخبری دی.حضرت مریم کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی.اس لئے وہ بہت حیران ہوئیں اور اپنی حیرت کا اظہار فرشتے سے بھی کیا.فرشتے نے جواب دیا : وو یہ ٹھیک ہے مگر یہ تیرے رب نے کہا ہے کہ یہ کام میرے لئے بہت آسان ہے ہم تمہیں بیٹا دیں گے تا کہ اسے لوگوں کے لئے نشان بنائیں اور اپنی طرف سے رحمت کا موجب بنائیں اور یہ ہماری تقدیر میں طے ہو چکا ہے.( سورة مريم : 22) آپ کی گھبراہٹ اور بے چینی کو دیکھ کر فرشتے نے آپ کی دل جمعی کی خاطر بچے کے متعلق یہ بشارتیں بھی دیں کہ: وو وہ دنیا میں بھی راستبازوں میں عزت پائے گا اور قیامت میں بھی
21 اس کی وجاہت ظاہر ہوگی.وہ بچپن سے ہی کلام کرے گا جوان ہو کر اپنی نبوت کا اظہار کرے گا.وہ مناسب الاعضاء ہو گا.“ اتنی بہت سی خوشخبریاں پا کر بھی مریم گھبرا رہی تھیں وہ اپنی بہن الیشبع کے پاس گئیں جو حضرت زکریا کی بیوی تھیں اور انہیں سارا ماجرا بتایا.الیشبع سمجھتی تھیں کہ مریم بہت مقدس ہیں.ان کی آمد سے ہی گھر میں نور پھیل جاتا ہے.انہوں نے حضرت مریم کو بہت تسلی دی اور یوسف کو ساری بات بتائی.یوسف بھی بہت گھبرا گئے کیونکہ سب کو علم تھا کہ ابھی صرف منگنی ہوئی ہے وہ لوگوں کے سوالات کا کیا جواب دیں گے خود انہیں ذاتی طور پر مریم کی پاکدامنی کا یقین تھا.اسی شش و پنج میں تھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے خواب آیا کہ آپ پاک مریم کو اپنے گھر لے جائیں.یوسف نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اوائل بہار کے دنوں میں سفر شروع کیا چونکہ وہ بیت اللحم کے رہنے والے تھے اس لئے اسی طرف کا رخ کیا.انجیل میں لکھا ہے کہ ان دنوں وہاں کے بادشاہ قیصر آگسٹس نے مردم شماری کا حکم دیا تھا.سب لوگ نام لکھوانے آئے تھے اس لئے شہر کی سرائے میں جگہ نہ ملی تو وہ کسی مناسب ہموار جگہ کی تلاش میں نکلے جہاں قیام کیا جا سکے.فلسطین کی سرزمین قیصر روم کی حکمرانی میں تھی اس کے تین صوبے تھے گلیل، سامریہ اور یہودیہ، صوبہ گلیل میں ایک شہر بیت اللحم تھا.بیت اللحم یروشلم سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے اور ناصرہ سے ستر میل جنوب کی طرف واقع ہے اور بہت ذرخیز پہاڑی علاقہ ہے.سطح سمندر سے 2350 فٹ بلند ہے اس کے ارد گر دسبز وادیاں ہیں اس میں دو تین چشمے بھی ہیں جن میں سے ایک کا نام چشمہ سلیمان ہے.یہاں سے سارے شہر میں پانی جاتا تھا.سرسبزی وجہ سے چرواہے یہاں اپنی بکریاں چرایا کرتے تھے سردیوں میں اتنی شدید کی
22 سردی پڑتی تھی کہ چشموں کا پانی جم جاتا.مگر گرمیوں میں موسم خوشگوار ہوتا.حضرت مریم کو بیٹا ایک غیر معمولی طریق سے عطا ہو رہا تھا.ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ زیادہ آبادی والی جگہ چھوڑ کر تنہائی میں چلے گئے.حضرت مریم الگ تھلگ خاموش عبادت میں مصروف رہتیں یوسف بھی ان کی عبادت میں مخل نہ ہوتے.اسی عارضی قیام گاہ میں حضرت مریم بیمار ہو گئیں گرمیوں کا موسم تھا کھجور کا پیٹر ہی واحد سہارا تھا اس کو پکڑ لیتیں شدت تکلیف میں ان کے منہ سے نکلتا کاش میں اس تکلیف سے پہلے مرگئی ہوتی.اسی جگہ وہ پاک وجود اس دنیا میں آیا جس کی بشارتیں خدا تعالیٰ نے دی تھیں.خدا تعالیٰ نے ان دو پاک وجودوں کیلئے سارے سامان پیدا فرما دیئے تازہ پکی ہوئی کھجوریں بطورِ خوراک مل جاتیں.پانی کی ضرورت محسوس ہوئی تو خدائے مہربان کے حکم سے ایک فرشتے نے نشیب کی طرف سے آواز دی کہ اس طرف پانی کا چشمہ ہے حضرت مریم کے لئے یہ جگہ اجنبی تھی انہیں علم نہیں تھا کہ یہاں پانی کا چشمہ بھی ہے.فرشتے کی آواز سے متوجہ ہو کر انہوں نے جھک کر دیکھا تو پانی کا چشمہ بھی نظر آ گیا.آپ نے ننھے عیسی کو نہلایا دھلایا خدا کا شکر ادا کیا جس نے بے سروسامانی اور غریب الوطنی میں تازہ کھجور میں عنایت کیں اور وافر پانی عطا کیا.خدا کی پیشگوئی کے مطابق اس کی خاص منشاء سے اسی کی حفاظت کے سایہ میں حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے.حضرت مریم ایک ایسے بچے کی ماں بنیں جو ایک نشان کے طور پر عطا کیا گیا تھا.حضرت مریم کو فطری طور پر گھبراہٹ تھی کہ اب جو بھی سوال کرے گا کیا جواب دوں گی تب خدا تعالیٰ کا پیغام ملا کہ کہ اگر تمہیں کوئی شخص نظر آئے تو اسے کہو کہ آج میں نے خدا کے لئے روزہ رکھا ہوا ہے آج میں کسی سے زیادہ بات نہیں کروں گی.
23 (سوره مریم : 27) (آج کی دنیا میں حضرت عیسی کا یوم پیدائش 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے مگر حضرت مصلح موعودؓ کی تحقیق کے مطابق حضرت عیسی موسم گرما میں پیدا ہوئے.تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 179) جب حضرت عیسی پیدا ہوئے تو پورب کے مجوسی اس تلاش میں یروشلم آئے کہ نجات دہندہ نبی پیدا ہو گیا ہے.یہ اندازہ انہوں نے کوئی ستارہ دیکھ کر لگایا تھا.اس وقت کے بادشاہ ہیرو دلیس کو جب اس بات کا پتہ چلا کہ دانشور مسیح کی تلاش میں آئے ہیں تو اس نے تمام علماء کو اکٹھا کیا اور پوچھا کہ وہ اندازہ لگا کر بتائیں کہ میسیج کہاں پیدا ہو گا.سب نے ایک ہی جواب دیا کہ مسیح بیت اللحم میں پیدا ہو گا.ہیرو دیس نے دانشوروں سے کہا.کہ جب تمہیں اس کا پتہ ملے تو مجھے بتانا اس کی غرض یہ تھی کہ وہ مسیح کو مروا دے تاکہ اس کی حکومت کو نقصان نہ پہنچے.مگر ان کو بادشاہ نے یہی کہا کہ جب تمہیں بچے کے متعلق صحیح علم ہو جائے تو مجھے بتانا تا کہ میں بھی آکر سجدہ کروں.وہ بادشاہ کی بات سن کر روانہ ہوئے اور جو ستارہ انہوں نے پورب میں دیکھا تھا وہ ان کے آگے آگے چلا یہاں تک کہ اس جگہ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا جہاں وہ بچہ تھا وہ ستارہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور حضرت مریم کی گود میں بچہ دیکھ کر سجدہ کیا اور تحائف نذر کئے.ان کو خواب میں علم ہوا کہ ہیرو دیس کے پاس جانا خطرہ سے خالی نہیں اس لئے وہ اپنا راستہ بدل کر اپنے ملک واپس چلے گئے.جب وہ روانہ ہو گئے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے نے یوسف کو خواب میں کہا کہ بچے اور اس کی والدہ کو لے کر مصر چلے جائیں اور وہاں اس وقت تک رہیں جب تک دوسرے احکام نہ ملیں.کیونکہ ہیرو دیں بچے کی تلاش میں ہے.اور وہ بچے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے.چنانچہ یوسف مقدس مریم اور ننھے عیسی کو لے کر رات
24 کے وقت مصر چلے گئے.( متی 13:2 تا 15 ) ہیرو دیں اپنی شکست پر غصے میں آ گیا.اور اپنے آدمی بھیج کر بیت اللحم اور اردگرد کے دو سال یا اس سے کم عمر سب لڑکوں کو قتل کروا دیا.ہیرو دیس کے مرنے تک یوسف مصر میں مقیم رہے.اور یہ تسلی ہونے پر کہ ہیرودیس مر گیا ہے وہ واپس وطن روانہ ہوئے مگر ہیرودیس کے بعد اس کا بیٹا جانشین ہو چکا تھا جو بہت ظالم تھا اس لئے خدا تعالیٰ سے ہدایت حاصل کر کے گلیل چلے گئے جہاں ایک شہر میں جس کا نام ناصرہ تھا مقیم ہوئے.حضرت عیسی اسی شہر کی مناسبت سے مسیح ناصری بھی کہلاتے ہیں.ان دنوں حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحی علیہ السلام خدائی حکم کے مطابق اصلاح کا کام کر رہے تھے.اور بنی اسرائیل کو آنے والے مسیح کے بارے میں بتا رہے تھے تاکہ مسیح کی آمد پر اس کی نافرمانی ہو اور نافرمانی کے نتیجے میں جو عذاب آنے والا ہے وہ ٹل جائے.حضرت کی علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بپتسمہ دیا اور لوگوں کو بتایا.میں تو تمہیں تو بہ کے لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن جو میرے بعد آتا ہے (یعنی مسیح) وہ مجھ سے زور آور ہے اور میں اس کی جوتیاں اٹھانے ا کے لائق نہیں وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا“.( متی کی انجیل 11:3) حضرت یحی علیہ السلام نے لوگوں کو کھلے کھلے الفاظ میں بتایا کہ ایک بہت بڑی شان کا نبی آئے گا اگر بنی اسرائیل اور یہود نے اس کی بھی تکذیب کی تو تباہی پھیلے گی.مگر یہود نے حضرت سجی علیہ السلام کی بات پر اپنی اصلاح کرنے کی بجائے انہیں قید کروا دیا.تاریخ میں حضرت سکی علیہ السلام کے کئی
25 نام مذکور ہیں مثلاً الیاس، ایلیاہ، اور یوحنا.حضرت عیسی کا بچپن : حضرت یحی علیه السلام کی گرفتاری کے وقت حضرت عیسی ناصرہ ہی میں قیام پذیر تھے.بارہ سال کی عمر میں آپ یروشلم گئے.آپ ایک مؤدب بچے تھے بزرگوں کی باتیں سنتے اور اپنا وقت کھیل کود میں نہیں گزارتے تھے.( تفسیر کبیر سورہ مریم ص 190) ان کی زبان آرامی تھی جو عبرانی سے بہت ملتی جلتی تھی وہ لکڑی کا کام کرتے تھے اور اس میں بڑی مہارت حاصل کر لی تھی.وہ بہت ذہین تھے.سنے سنائے غلط عقائد کو من و عن تسلیم کرنے کی بجائے ان کا جائزہ لیتے مشاہدہ اور تجزیہ کرتے بزرگوں سے معلوم کرتے اور اس کھوج میں لگے رہتے کہ انہیں صحیح بات کا علم ہو.وہ ہر وقت سوچ میں کھوئے سے رہتے اور اپنے سے پہلے گزرنے والی تہذیبوں کے عروج و زوال پر غور کرتے.رومی تہذیب سے واقف تھے ان کو مطالعہ کا بھی شوق تھا اور علم حاصل کرنے کا یہ شوق وہ ایک لائبریری میں جا کر پورا کرتے.کسی مسئلے پر تحقیق کے لئے سفر بھی کرتے.پھر وہ اپنی تحقیق کے نتائج دوسروں کو بھی سکھاتے.اس طرح مردہ عقائد کو ایک زندہ شکل دیتے.آپ جس لائبریری میں اپنا وقت گزرتے وہ یہودیوں کے ایک فرقہ کی تھی جو نئے دور کی قوم کہلانا پسند کرتے تھے.یہ ایسینی فرقہ تھا.اس فرقہ کے لوگ پڑھے لکھے تھے صحیح عقائد پر عمل کرتے تھے اپنی تعلیمات افکار اور نصائح لکھ کر محفوظ کر لیتے.ان کی کچھ تحریریں یروشلم سے چودہ میل کے فاصلے پر وادی ثمر ان کی غاروں کے ایک سلسلے سے دریافت ہوئی ہیں.(جو نصف صدی قبل کی بات ہے.ناقل ) حضرت عیسی نے اس مطالعہ سے بپتسمہ کا طریق، کھانے کے آداب، امن و
26 سلامتی اور سچائی کے سبق سیکھے.اسی حوالے سے ایسینی فرقے کو لوگ پسند کرتے تھے.اور انہیں دعوت دیتے تھے کہ وہ باہر آ کر اصلاح کا کام کریں.خیال یہی ہے کہ یسوع نے اپنی زندگی کا اٹھارہ سالہ دور (بارہ سال سے تمہیں سال تک جو تاریخی طور پر منظرِ عام پر نہیں آیا اور اس کے بارے میں مؤرخین خاموش ہیں) ایسینی فرقے میں گزارا اور ان کے مقدس لٹریچر سے (الفرقان اپریل 1970ء) استفادہ کیا.“ حضرت عیسی اپنی عمر کی مناسبت سے زیادہ سمجھ کی باتیں کرتے تھے.اسی دانش نے ان کو ایک خاص مقام اور عزت بخشی تھی لیکن یہودیوں کی دینی بے راہ روی اور مذہب سے نفرت کی وجہ سے وہ اپنی بات کو واضح لفظوں میں کہنے کی بجائے چلتے پھرتے لوگوں کو سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے.ان کہانیوں میں تاریخ سے سبق لینا، خدا سے محبت کرنا اور امن سے رہنا سکھاتے تھے.اس زمانے کا مزاج ایسا تھا کہ لوگ ان تمثیلی کہانیوں کو غور سے سنتے تھے اور مفہوم سمجھ لیتے کبھی وضاحت چاہتے تو حضرت عیسیٰ انہیں بتاتے اور تفصیل سے سمجھاتے.حضرت عیسی کی شکل و شباہت : " حضرت عیسی سرخ رنگ والے گھنگھریالے بالوں والے اور چوڑے سینے والے تھے.( بخاری جلد اول کتاب الانبیاء صفحہ 489) آپ کا قد پانچ فٹ 10 انچ تھا.حضرت عیسی کا امتحان : حضرت عیسی ابن مریم 30 سال کے ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ان
27 وہ کام لینے کا ارادہ کیا جو وہ اپنے پاک نبیوں سے لیتا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ایک امتحان لیا.آپ خدائی حکم.ایک بیابان میں چلے گئے.اور وہاں چالیس دن اور چالیس رات تک ریاضت کی.وہ بہت بھو کے ہو گئے تو شیطان نے سامنے آ کر کہا.اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے تب ابلیس اسے مقدس شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے 66 ہاتھوں پر اٹھا لیں گے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے.“ یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ ” تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر پھر ابلیس اسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی سب سلطنتیں اور ان کی شان و شوکت اسے دکھائی اور اس سے کہا کہ اگر جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا.“ یسوع نے اس سے کہا ”اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کرے“ خدمت کرنے لگے.تب ابلیس اس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آ کر اس کی (متی باب 4 آیت 1 تا 11 ) احادیث صحیحہ میں بھی لکھا ہے..شیطان عیسی کے پاس آیا اور کہا کہ کیا تو گمان نہیں کرتا کہ تو سچا ہے اس نے کہا کیوں نہیں.شیطان نے
28 کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو اس پہاڑ پر چڑھ جا اور پھر اس پر سے اپنے تئیں نیچے گرا دے.حضرت عیسی نے کہا تجھ پر واویلا ہو، کیا تو نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی موت کے ساتھ میرا امتحان نہ کر کہ میں جو چاہتا ہوں کرتا ( ضرورة الامام روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 486 ہوں.66 حضرت عیسی مقام نبوت پر: فرسٹ ایڈیشن صفحہ 16،15) حضرت عیسی ابن مریم اس امتحان میں پورے اُترے اور انہوں نے دنیاوی جاہ و جلال کی طرف رغبت کرنے کی بجائے ایک خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا.آپ اس وقت تکلیل شہر میں تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول اللہ اور کلمۃ اللہ قرار دیا.مسیح 30 سال کی عمر میں نبی ہوئے“ (تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 202) جوں جوں آپ کے شہرت پھیلی کہ آپ روحانی بیماریوں کو شفا بخشتے ہیں.بہت لوگ نزد یکی شہروں سے آپ کے پاس جمع ہونے لگے.یہ لوگ یہودیہ، یروشلم، مردن، دیپلس ، گلیل اور اس کے گرد و نواح سے جمع ہو گئے تو آپ نے انہیں خدا کا پیغام سنایا.میں اللہ کا بندہ ہوں اور اُس نے مجھے کتاب بخشی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اُس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید کی ہے اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا.“ حضرت عیسی نبی اللہ کی تعلیمات : (سورہ مریم : 32 ، 33 ) مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی انہیں
ہے.29 مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ تسلی پائیں گے.مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے.مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ آسودہ ہوں گے.وہ مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا.مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے.مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے.مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کی ہے جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہو گے خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے اس لئے کہ لوگوں نے ان نیبوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اسی طرح ستایا تھا.یہ نہ سمجھ کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا.جواپنے بھائی کو احمق کہے گا آتش جہنم کا سزاوار ہو گا.بُری خواہش سے عورت کو نہ دیکھنا.قسم بالکل نہ کھانا.تم سن چکے ہو کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والے کے لئے دعا کرو.جب تم خیرات کرو تو جو تیرا داہنا ہاتھ
30 کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے.جب تو دعا کرے تو اپنی کوٹھڑی میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے، جو پوشیدگی میں ہے، دعا کر تم اس طرح دُعا کیا کرو کہ: اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا پاک نام مانا جائے تیری بادشاہی آئے تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو.ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا.روزہ رکھو تو ریا کاروں کی طرح صورت اُداس نہ بناؤ.اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو.تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے تم پہلے (اپنے خدا) اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی پس کل کے لئے فکر نه کرد.عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے تو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا.پاک چیز کتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ ان کو پاؤں تلے روندیں اور پلٹ کر تم کو پھاڑیں..مانگو تو تم کو دیا جائے گا.ڈھونڈو تو پاؤ گے.دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا.جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیئے ہیں ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا.نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے.جو کوئی میری
31 باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے وہ اس عظیمند آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی اور جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ اس بے وقوف آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر کو صدمہ پہنچایا اور وہ گر گیا اور بالکل بر باد ہو گیا.(متی باب5) حضرت عیسی ابن مریم کے منہ سے یہ الفاظ سن کر بہت سے لوگوں نے انہیں سچا نبی تسلیم کر لیا.حضرت یحیی علیہ السلام نے اپنی تمام جماعت کے ساتھ ان کو قبول کر لیا.کچھ لوگ تو آپ سے اس قدر محبت کرتے کہ ہر وقت آپ کے ساتھ ساتھ رہتے.آپ جس طرف جاتے سینکڑوں آدمی آپ کے ساتھ چلتے حتی کہ آپ سے ملاقات مشکل ہو جاتی اس وقت کے ایک بادشاہ نے بھی آپ کی صداقت کو تسلیم کیا جو آپ کی نبوت کے منکر تھے وہ بھی آپ کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے کیونکہ آپ کے متعلق اللہ تبارک تعالیٰ کا وعدہ تھا.وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَه یعنی وہ دُنیا و آخرت میں وجیہہ ہو گا.یہودیوں کی سرکشی : مگر یہودیوں نے اپنی بدنصیبی کی وجہ سے اعتراضات کرنے شروع کر دیے.اور سب سے بڑا اعتراض ان کو یہ تھا کہ عیسی نبی کے آنے سے پہلے ایک ایلیا نبی کو آسمان سے اترنا تھا.کیونکہ اُن کا عقیدہ تھا کہ (سلاطین 2 باب 2 آیت (11) ایلیا اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ چلے گئے تھے جو آخری زمانہ میں اسی جسم کے ساتھ پھر آسمان سے اُتریں گے.
32 (صحیفہ ملا کی باب 4 آیت (5) حضرت مسیح ناصری نے لوگوں کو بتایا کہ ”ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے.(متی باب 11 ، آیت 15 ) کوئی اس جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں جا سکتا ہے جس ایلیا کے آنے کی خبر دی گئی تھی وہی حضرت یحییٰ کی شکل میں تشریف لائے ہیں.تم ان کو مان لو تو دین کی راہیں آسان ہو جائیں گی اور سارے جھگڑے ختم ہو جائیں گے کیونکہ ان کو نہ ماننے کی صورت میں تم گمراہی میں گر جاؤ گے.مگر یہود نہ مانے وہ نادان اس ضد پر اڑے رہے کہ ایلیا کو آنا ہے اور اسی وجہ سے وہ حضرت عیسی کو جھوٹا سمجھتے اور انہیں طرح طرح سے تکلیفیں دیتے.حضرت بیٹی کی گرفتاری تک آپ ناصرہ میں تھے کچھ لوگوں کی شدید مخالفت سے آپ دل برداشتہ ہو گئے اور پریشان رہنے لگے آپ کی والدہ حضرت مریم نے فیصلہ کیا کہ یروشلم چلے جائیں اس طرح یروشلم میں اپنے ہم قوموں تک حق کا پیغام بھی پہنچ جائے گا.اس وقت آپ کو تبلیغ کرتے ہوئے دو سال ہو چکے تھے.حضرت عیسی کا سفر یروشلم : آپ پہلے بھی ایک دفعہ اپنی والدہ کے ساتھ یروشلم گئے تھے مگر اس وقت تک کسی کے علم میں نہیں تھا کہ یہ ماں اور بچہ جسے طرح طرح کی باتیں سننی پڑتی ہیں ایک وقت اس شان کے حامل ہوں گے کہ بیٹا نبی ہوگا اور ماں اس کی تائید اور تصدیق کر رہی ہو گی.اب وہ یروشلم میں اپنے رشتہ داروں کی غلط فہمیوں کا آسانی سے جواب دے سکتی تھیں چنانچہ جب ان کے عزیزوں نے
33 ”اے ہارون کی بہن تیرے ماں باپ تو بہت عزت والے تھے ( یہ تمہارے ساتھ کیا قصہ مشہور ہے ).(سوره مریم : 23) تو آپ نے بڑی طمانیت سے اپنے خدائے مہربان پر توکل کرتے ہوئے اپنے نیک و پاکباز بیٹے کی طرف اشارہ کیا کہ اب یہ اس قابل ہے کہ تمہارے سارے اعتراضات کا جواب دے کر سرخرو ہو سکے.اس کی طرز کلام اور الہامی سچائیوں کی حامل باتیں تمہارے ہر اعتراض کا روشن جواب دیں گی.اور ہماری بریت بھی کریں گی.حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے عزیزوں کو بتایا : میں خدا کا بندہ ہوں.اس نے مجھے کتاب بخشی ہے اس نے مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید کی ہے اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا..( سورہ مریم : 33) ان الفاظ میں حضرت عیسی علیہ السلام اپنا تعارف کرواتے.یہ وہ وقت تھا جب انہیں اپنی شخصیت منوانی تھی اور اپنی تمام تر فضیلتوں، صلاحیتوں اور انعامات و فضائل کا ذکر کرنا تھا تا کہ سننے والوں کو اندازہ ہو جائے کہ بات کرنے والا کس حیثیت کا آدمی ہے پھر بھی آپ نے اپنی ذات کے لئے کوئی مبالغہ نہیں کیا اور خدا کا بندہ ہونے پر فخر کیا ہے.یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں بلکہ اپنی بندگی کا اظہار کیا.ماں کی فرمانبرداری کو بھی تسلیم کیا.اپنے عقائد بھی بتائے اور اپنے ساتھ آنے والی خیر و برکت کا بھی ذکر کیا.خدائے واحد کی
34 پرستش کے لئے بُلانے والے اس نبی کو بہت مشکلات پیش آئیں اور انہیں اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کرنے پڑے.خدا کے واحد و لاشریک ہونے کا پیغام : آپ کی زندگی کا مقصد خدائے واحد کی وحدانیت سے لوگوں کو متعارف کروانا تھا.آپ درس دیتے تھے: دو ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا جانیں“.” یسوع نے اس سے کہا نیک کوئی نہیں مگر ایک خدا (يوحنا 3:17) (18/185) اول حکم یہ ہے کہ اے اسرائیل سُن خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھے.(مرقس باب 12 : 39، 40 ) اُس زمانہ کے محاورے کے مطابق خدا کے بندے کے لئے خدا کا بیٹا تمہیں بھی بخشے گا.“ لفظ بھی بولا جاتا تھا اور اسی طرح خدا کو باپ بھی کہہ دیا جاتا تھا.”ہمارا باپ ایک ہے یعنی خدا (یوحنا باب 8 آیت 41) ”اگر تم آدمیوں کے گناہ بخشو گے تو تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے (یوحنا باب 6 آیت 14) نیک لوگوں کے لئے بیٹا کا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ یرمیاہ باب 31 آیت 9 میں خدا تعالیٰ حضرت یرمیاہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے.میں اسرائیل کا باپ ہوں اور افرائیم میرا پہلوٹھا ہے.“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں میں باپ اور بیٹا کے لفظ ، لفظ رائج
35 تھے مگر یہ خدا اور بندہ کے مفہوم میں بولے جاتے تھے.حضرت عیسی علیہ السلام نے خود کو عبداللہ کہہ کر سارا مسئلہ حل کر دیا.کیونکہ باپ اگر بچے کو کچھ دے سکتا ہے تو شفقت مہربانی اور پیار جب کہ خدا اپنی تمام تر صفات کے ساتھ اپنے بندے کو شریک نہیں بناتا کچھ عکس عطا فرماتا ہے.خدائی بندے کو دی ہی نہیں جاسکتی خدا ہر قسم کی احتیاج سے پاک ہے اور اس کو کبھی فنا نہیں جبکہ بندے کی لا محدود ضروریات ہیں اور وہ فانی ہے حضرت عیسی علیہ السلام خود کو ہمیشہ ایک عاجز بندہ یا ابنِ آدم کہتے.توریت کی تعلیم : دوسرا اعزاز جو خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو عطا فرمایا یہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی الہامی کتاب توریت کو دوبارہ پڑھانے اور سمجھانے کا کام کریں.حضرت عیسی علیہ السلام خود شرعی نبی نہ تھے.اس کی دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کا وہ قول ہے جو انجیل میں آتا ہے.یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ملے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے.“ متی باب 15 آیت 17، 18) آپ سے سن کر توریت کی تعلیمات اور وہ خوشخبریاں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا کی گئیں آپ کے شاگردوں نے جمع کیں.جن کو انجیل، نام دیا گیا.انجیل کا مطلب ہے خوشخبری.
36 انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر وحی کبوتر کی شکل میں آتی تھی اور آپ اپنے الہامات دوسروں کو سنا دیتے تھے.چنانچہ انہوں نے کہا ” میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا ہے ایک دفعہ حضرت مسیح علیہ السلام ناصرہ میں سبت کے دن عبادت خانہ میں گئے.انہوں نے یسعیاہ نبی کی کتاب کھول کر اس حصے کا وعظ کیا: ” خداوند کا روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سناؤں کچلے ہوؤں کو آزاد کروں اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کروں.“ (لوقا باب 4 آیت 19،18) آپ بار بار بتاتے تھے کہ میرے ساتھ خدا کی تائید ہے میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.خدا تعالیٰ مجھے وہ باتیں سکھاتا ہے جو میں کہتا ہوں میں نے ایک عمر تمہارے سامنے گزاری ہے.خدا کی قدرتیں بار بار میرے لئے نشان دکھاتی ہیں.لوگوں نے آپ کی تبلیغ سنی تو حیران رہ گئے کہ یہ شخص کس قدر پر حکمت باتیں کرتا ہے.مگر یہ باتیں اس نے کہاں سے سیکھ لیں.حضرت مسیح علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ یہ سب میرے خدا نے مجھے سکھائی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مجھے برکت سے بھی نوازا ہے.میں جہاں بھی جاؤں گا خدا تعالیٰ کی برکت میرے ساتھ ہوگی.حضرت عیسی کو خدا کی طرف سے معجز نما برکت عطا کی گئی: حضرت مسیح علیہ السلام نے خدا سے برکت مانگ کر روٹیوں اور دو مچھلیوں سے سینکڑوں آدمیوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا.ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے پاس سات روٹیاں اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تھیں اس رزق پر خدا
37 کا شکر ادا کیا اور برکت مانگ کر اپنے مریدوں کو کھانا کھلایا.حضرت عیسی کی دعا کا طریق: آپ کو شکر کرنے اور خدا سے مدد مانگنے کی عادت تھی آپ اکثر تنہائی میں عبادت کرتے.اپنی ترقی اور کامیابی کے لئے دعائیں کرتے.اپنے شاگردوں کو بھی دعا کرنے کا طریق سکھاتے دعا سے پہلے حمد بیان کرتے تھے.”اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.تیری بادشاہت آوے تیری مراد جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی آوے ہماری ہر روز کی روٹی روز ہمیں دے اور ہمارے گناہوں کو بخش کیونکہ ہم بھی ہر ایک کو جو ہمارے قرضدار ہیں.بخشتے ہیں اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ ہم کو برائی (لوقا باب 11 آیت 1) سے چھڑا.خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں دعا مانگنے کا حکم ملا تھا (أوصــــــــى بِالصَّلوةِ ) اس لئے وہ مستقل دعائیں کرتے تھے.لوقا باب 22 آیت 41.میں لکھا ہے.” اور وہ جان کنی میں پھنس کے بہت گڑ گڑا کے دعا مانگتا تھا اور اس کا پسینہ لہو کی بوند کی مانند ہو کر زمین پر گرتا تھا.وہ جنگلوں میں الگ جا کر دعا کیا کرتا تھا ملے گا.دو (لوقا باب 16:5) (یسوع نے کہا ) جو کچھ دعا میں ایمان کے ساتھ مانگو گے وہ سب تم کو (متی 22:21) وہ اپنے مالوں میں سے صدقہ خیرات اور زکوۃ ادا کرتے تھے بھوکوں اور غریبوں کو کھانا کھلاتے تھے.وہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق پہچانتے تھے.
38 اپنی والدہ کی ہمیشہ عزت کرتے اور سب سے نرمی اور تحمل سے ملتے.درویشانه وضع رکھتے اور خاکساری اختیار کرتے لوگوں کو عاجزی اور خوش خلقی سے اپنی طرف متوجہ کرتے.حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات: اپنے پیارے خدا کی باتیں سنانے کے لئے کبھی کبھی وہ ایسے معجزہ نما کرتب دکھاتے کہ لوگ حیران رہ جاتے اس زمانے میں لوگوں کے ذہن تماشوں، شعبدہ بازیوں اور بازیگروں کے کرتبوں کی طرف مائل تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی مصر میں اسی رُجحان کے پیش نظر معجزے دکھائے گئے.مثلاً سونٹا پھینک کر سانپ بنا دینے کا معجزہ جو درحقیقت سونٹا ہی ہوتا تھا مگر لوگ اسے سانپ سمجھنے لگ جاتے تھے..N.P یہودیوں نے بھی مصری جادوگروں کی طرح بہت سے کرتب سیکھ لئے تھے اور جادوگری کے مظاہرے کیا کرتے تھے.حضرت عیسی علیہ السلام بھی مٹی کے کھلونے بناتے اور خدا تعالیٰ نے انہیں ایسی عقل عطا فرمائی تھی کہ وہ بالکل اصل کے مطابق کھلونے بناتے پھر کسی حصے یا کل کو دباتے تو یہ پرندے اڑنے لگتے.حضرت عیسی علیہ السلام بڑھئی کا کام جانتے تھے اور بائیس سال تک اسی پیشے سے منسلک رہنے والا شخص لکڑی کو تراش کر مختلف شکلیں یا کلیں بنانے کے قابل ہوسکتا ہے.مشہور ہے کہ حضرت عیسی جو پرندے بناتے اور پھر ان کو پھونک مار کر اڑاتے وہ صرف لوگوں کی نظروں کے سامنے پرواز کرتے اور کچھ دور جا کر گر جاتے اور پھر مٹی ہو جاتے.اس قسم کے فن کو علم الترب کہا جاتا ہے.اس میں انسان اپنی توجہ سوچ اور سانس سے مدد لے کر حیران کرنے والے کام کر سکتا ہے مگر اس میں بہت مہارت کی ضرورت ہوتی ہے یہ پرندے خدا تعالیٰ
39 کے بنائے ہوئے پرندوں کی طرح نہ ہوتے تھے جو دانہ کھاتے ہیں گھونسلے بناتے ہیں اور بچے پیدا کرتے ہیں.یہ پرندے تو مٹی کی مٹی ہی رہتے.ایک مفہوم پرندے بنانے کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نادان لوگوں کو الہی پیغام سنا کر اپنے قریب رکھ کے ان میں ایسی روح پھونک دیتے کہ وہ آسمانِ روحانیت پر اُڑنے والے پرندے بن جاتے.ایک اور معجزہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کو عطا کیا گیا وہ یہ تھا کہ وہ بیماروں کو شفا بخشتے تھے.برص ایک بیماری ہوتی ہے جس سے بدن پر سفید دھبے نظر آتے ہیں اور اکمہ ایک آنکھوں کی بیماری کا نام ہے جس میں رات کو نظر نہیں آتا.یہودی ان دونوں مرضوں میں مبتلا لوگوں کو ناپاک سمجھتے تھے.حضرت عیسی علیہ السلام کو یہ تعلیم دی گئی کہ یہ مریض ناپاک نہیں ہوتے بلکہ ہمدردی کے قابل ہوتے ہیں وہ غریبوں سے ہمدردی کرنے اور قیدیوں کو رہائی دینے کیلئے آئے تھے اور یہ سب روحانی طور پر تھا.ان کو روحانی طریق علاج میں جو مہارت حاصل تھی اس سے مریض کے ذہن پر ایسا اثر ڈالتے کہ وہ اچھا ہو جاتا اور یہ سب اللہ کے حکم سے ہوتا.حضرت مسیح علیہ السلام اخلاقی جسمانی اور روحانی مریضوں کو خدا کا پیغام سنا کر جہالت اور تاریکی کا مرض دُور کر کے صحت عطا فرماتے.وہ ایسے خطر ناک مریضوں کو بھی اپنی مہارت سے شفا بخش سکتے تھے جو موت کے کنارے ہوں اور زندگی سے مکمل طور پر ناامید ہو چکے ہوں.شفا بخشنا صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.حضرت عیسی کو جو معجزہ عطا فرمایا گیا وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور تائید سے روحانی طور پر لوگوں کو شفا بخشنے کا تھا.جو آپ جاں بخش پیغام سے کرتے تھے اور یہ جاں بخش پیغام ہی ایسا تھا جس سے وہ عام لوگوں کو خدا پرست انسان بنا کر خدا کے قریب لے آتے.(ازالہ اوہام صفحات حاشیہ 295 تا 322 سے استفادہ)
40 حضرت عیسی کی مخالفت : ایک طرف یہ جاں نثار حواری تھے اور دوسری طرف مخالفت پر آمادہ یہودی جو تعداد میں بہت زیادہ تھے اپنی تعلیمات کو فراموش کر چکے تھے.بغض اور کینہ پروری ان کا شعار تھا.ان کی ضد یہ تھی کہ چونکہ ایلیاہ نبی ابھی نہیں آئے اس لئے مسیح کا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے.اس کم فہمی کے نتیجہ میں وہ خدا کے بھیجے ہوئے دو نبیوں کے انکار کے مجرم ہو گئے.نہ حضرت سکی علیہ السلام کو مانا اور نہ ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا نبی مانا.وہ نہ صرف انکار کے مجرم ہوئے بلکہ انہیں تکلیفیں دے دے کر خدا تعالیٰ کو بالکل ناراض کر لیا.ان کے علماء، مولوی، کاہن، فقیہہ سب کے سب کفر کے فتوؤں کے ساتھ آگ کی طرح بھڑک اٹھے عوام کو اُکساتے کہ وہ مسیح علیہ السلام کی بات نہ سنیں بلکہ انہیں کافر دجال اور ملحد کہیں.اگر چہ یہودی ایک خدا کو مانتے تھے مگر شوخی شرارت اور تکبر میں حد سے بڑھ گئے.اس وقت ارض فلسطین پر قیصر روم کی حکومت تھی (جس طرح کچھ عرصہ قبل برصغیر پاک و ہند پر انگریز مسلط تھے ) یہودیوں نے قیصر روم کو بھی مسیح علیہ السلام سے بدظن کرنا شروع کر دیا.وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بُرا آدمی نہ کہتے تھے مگر ایک ضد تھی کہ وہ خود کو خدا کا نبی کیوں کہتے ہیں جب کہ ایلیاہ اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان سے نہیں اترے.ایک دوسرا اعتراض ان کا یہ تھا کہ وہ داؤد علیہ السلام کی طرح تخت پر بیٹھ کر بادشاہی کیوں نہیں کرتے.حضرت مسیح علیہ السلام نے جواب دیا کہ میری بادشاہت آسمانی اور روحانی ہے زمینی نہیں ہے مگر یہودی اس تاویل کو بھی نہ مانے.حضرت مسیح علیہ السلام کے
41 غمگساروں میں ان کی والدہ مریم بنت عمران ایک مرید عورت مریم مگد لینی ایک اور مریم جو ان کی بہن مشہور تھیں کے علاوہ چند حواری تھے جو دُکھ سکھ میں شریک رہتے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی حفاظت بھی کرتے ان کے مشہور شاگردوں کے نام یہ تھے.شمعون جو پطرس کہلاتا ہے، اندریاس، یعقوب، یوحنا، فلپس برتلمائی، تو ما متی، یعقوب اور تذکی، شمعون اور یہوداہ اسکر یوطی.ایک موقع پر حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے پوچھا.تم میں سے کون لوگ اللہ کے لئے میرے مددگار بنتے ہیں اس پر حواریوں نے جواب دیا.” ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور تُو گواه رہ کہ ہم فرمانبردار ہیں.اے ہماے رب جو کچھ تو نے اُتارا ہے اس پر ہم ایمان لے آئے ہیں اور ہم اس رسول کے متبع ہو گئے ہیں.اس لئے تو (آل عمران : ہمیں گواہوں میں لکھ لئے“.(53 تمثیلات سے پیغام حق: یہودیوں کی مخالفت کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اپنی باتیں تمثیلوں میں کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پیغام حق پہنچانے کے لئے اکثر سفر میں رہتے.متی کی انجیل باب 7 میں لکھا ہے.” یسوع سب شہروں اور گاؤں میں پھرتا رہا اور ان کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتیا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا.اور جب اس نے بھیٹر کو دیکھا تو اس کو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ ان بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہ حال اور
42 پراگندہ تھے تب اس نے شاگردوں سے کہا فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں پس فصل کے مالک کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کیلئے مزدور بھیج دئے.اپنے بارہ حواریوں کو حکم دیتے ہیں.” غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامر یوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی قریب آ گئی ہے.بیماریوں کو اچھا کرنا.مُردوں کو چلانا.کوڑھیوں کو پاک صاف کرنا، بدروحوں کو نکالنا.تم نے مفت پایا مفت دینا.نہ سونا اپنے کمر بند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے راستہ کے لئے نہ جھولی لینا نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حقدار دیکھو میں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں میں پس سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بے آواز بنو.مگر آدمیوں سے خبردار رہو کیونکہ وہ تم کو عدالتوں کے حوالے کر دیں گے اور اپنے عبادت خانوں میں تم کو کوڑے ماریں گئے“.(متی باب 5:1) اگر چہ یہ نصیحتیں حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کو کیں مگر ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یہودیوں کے طرز عقوبت کا اندازہ تھا.وہ اپنے مخاطبین کے جذبہ ایمانی سے پوری طرح مطمئن نہ تھے بار بار سخت الفاظ میں تنبیہ کیا کرتے تھے اور انجام سے ڈراتے تھے.ان کو سمجھانے کے لئے کئی قسم کی مثالیں دیتے اور مستقبل کے بارے میں پر حکمت تمثیلی باتیں کرتے.وو شام کو تم کہتے ہو کھلا رہے گا کیونکہ آسمان لال ہے.اور صبح کو یہ کہ آج آندھی چلے گی کیونکہ آسمان لال اور دُھندلا ہے.تم آسمان کی صورت میں تو تمیز کرنا جانتے ہو مگر زمانوں کی علامتوں میں تمیز نہیں کر سکتے“.
43 ( متی باب 2:16 ،3) ” میں آسمان کی بادشاہی کی کنجیاں تجھے دوں گا جو کچھ تو زمین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کچھ تو زمین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھلے متی باب 25:16) گا.اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے اسے پائے گا.گا..(متی باب 15:16 ) اے بے اعتقاد اور کج رونسل میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں..اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا.تو وہ چلا جائے گا اور کوئی بات (متی باب 21:17) اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی.خدا کی بادشاہی میں داخل ہو“.حضرت عیسی کا مشن : وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے رہتے تھے.ان کو یہ فکر بھی لاحق تھا کہ اپنا مشن کس طرح پورا کریں گے.بائبل میں آپ کے الفاظ یوں میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے ملتے ہیں :- پاس نہیں بھیجا گیا.“ (متی باب 15 آیت 24) ”اچھا چرواہا میں ہوں جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو
44 جانتا ہوں اسی طرح میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اور میں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی.پھر ایک ہی گلہ ہوگا اور ایک ہی چرواہا ہوگا“.(یوحنا باب 10 : 16،14) ارض فلسطین میں بنی اسرائیل کے صرف دو قبائل آباد تھے باقی دس قبیلے عراق، ایران، افغانستان اور ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے.آپ رسولاً الی بنی اسرائیل تھے.اس لئے اکثر ان افراد کی تلاش میں نکلنے کا سوچتے تھے جن تک پیغام پہنچانا خدا تعالیٰ کی طرف سے ان پر فرض تھا.اس لئے بعض باتیں ان کے منہ سے ایسی نکلیں جو انجیل میں درج ہیں اور مستقبل کے کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں.متی باب 14 آیت 40 میں لکھا ہے.” جیسا که یونس تین رات اور تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابنِ آدم تین دن رات زمین کے اندر رہے گا.“ متی باب 26 آیت 32 میں لکھا.ہے.لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے آگے گلیل کو جاؤں گا.“ ان ارشادات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ کو بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں کسی دور دراز کے علاقے کے سفر کا خیال رہتا تھا ایک نبی کو اپنے مولا کریم کے ارشاد کے مطابق عمل کرنا اپنی اولین ترجیح معلوم ہوتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کا حقیقی مشن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارت:
45 حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے بعد کے زمانہ میں ایک عظیم الشان بنی کی آمد کی بشارت بھی دی تھی اور فرمایا تھا وہ نبی میرے نام پر آئے گا.انجیل برنباس میں لکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بنی اسرائیل کو یہ خبر دینے کے لئے بھیجا تھا کہ میرے بعد ایک عظیم الشان نبی آئے گا.قرآن پاک میں ارشاد ہے:- د عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل یقیناً میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں جو تورات میں سے میرے سامنے ہے اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا.‘ انجیل برنباس میں لکھا ہے:- (الصف : 7) میں اس لائق بھی نہیں ہوں کہ اس رسول اللہ کے جوتے کے بند یا نعلین کے تسمے کھولوں.وہ جو میرے پہلے پیدا کیا گیا اور اب میرے بعد آئے گا اور وہ بہت جلد کلام حق کے ساتھ آئے گا اور اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو گئی.( برنباس باب 16،15:42) یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مردِ خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.متی باب 42:21 میں لکھا ہے:- " جس پتھر کو معماروں نے رڈ کیا.وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا اور ہماری نظر میں عجیب ہے اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم
46 سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے لی لی جائے گی اور اس قوم کو گی.“ حضرت عیسی کی پیشگوئیاں : ایک دو جہانوں کے سردار نبی کی پیشگوئی کے علاوہ بھی حضرت مسیح علیہ السلام نے کئی پیشگوئیاں کیں مثلاً یہ کہ قبلہ تبدیل ہو جائے گا.(1) ” ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنی چاہئے یروشلم میں ہے یسوع نے اس سے کہا.اے عورت میری بات کا یقین رکھ کہ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ تو اس پہاڑ پر اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کرو گے“.(یوحنا باب 20:4‘21) ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ آئندہ اس مذکورہ پہاڑ اور یروشلم کی طرف منہ کر کے عبادت نہ ہوگی بلکہ ایک تیسرا قبلہ مقرر ہوگا.ایک پیشگوئی آئندہ زمانہ میں اپنے دوبارہ ظہور کے متعلق تھی.2) ” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعض ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزا نہ یکھیں گئے.(متی 16/28) مسیح کو خدا تعالیٰ نے علم دیا تھا کہ وہ صلیب سے بیچ کر دوسرے ملک چلے جائیں گے اور صلیب پر ہلاک نہیں ہوں گے اور وہ زندہ رہیں گے جب تک یہودیوں کی بربادی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں.انجیل میں اپنے روحانی طور پر دوبارہ آنے کی پیشگوئیاں ہیں جیسے ایلیاہ نبی ان کے زمانہ میں آئے.یعنی اپنے مادی جسم کے ساتھ نہیں بلکہ حضرت بیٹی علیہ السلام کی صورت میں.
47 اس وقت انسان کے بیٹے کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا اور اس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی اور انسان کے بیٹے کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھیں گے“.(3 (متی 24/30) حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ سے مشابہ واقعہ دوبارہ ہو گا.اپنے ماننے والوں کی نشان طلبی پر آپ نے فرمایا ” یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا کیونکہ یوناہ تین دن اور تین راتیں مچھلی کے پیٹ میں رہا اسی طرح ابنِ آدم تین دن اور تین راتیں زمین کے پیٹ میں رہے گا.متی باب 12 : 38 تا 40 و لوقا باب 11 : 29 30) اس پیشگوئی سے حضرت عیسی ایک ایسے آنے والے زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب خدا کی قدرت سے ایسے علوم، دلائل اور شہادتیں پیدا ہوں گی جو یہودیوں کے اس دعوی کو غلط ثابت کریں گی کہ انہوں نے صلیب پر مار دیا.اس وقت افراط یا تفریط کرنے والے لوگ ماتم و افسوس کریں گے.اس پیشگوئی میں ملک شام کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ شام سے اُن قوموں کا تعلق ہے جو عیسی علیہ السلام کو صلیب پر مارنے کا دعوی کرتے ہیں اور یہودیوں کا معبد بھی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی گرفتاری اور دعائیں: : یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کی مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھے کہ انہوں نے سازش کی کہ ان پر مختلف الزامات لگا کر کوئی مقدمہ بنایا جائے اور پھانسی دلوا دی جائے تاکہ ان کی توریت میں جو لکھا ہوا تھا کہ جو صلیب دیا
48 گیا وہ لعنتی ہے اس کے مطابق وہ لعنتی ثابت ہو جائیں اور یوں ان کی نبوت بھی ثابت نہ ہو گی اتنی بڑی سزا دلوانے کے لئے بہت بڑے بڑے الزامات عائد کئے سب سے پہلے تو یہ کہا کہ مسیح کافر ہے.ایک خدا کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسرا الزام یہ لگایا کہ یہ کہتا ہے کہ میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں اس طرح یہ شخص حاکم وقت قیصر روم کا باغی ہے.ان الزامات اور اس کے نتیجے میں ملنے والی سزاؤں سے آپ خوب واقف تھے.اس لئے اس صورتِ حال حضرت عیسی علیہ السلام سخت ملول ر اس وقت یسوع ان کے ساتھ سمنی نام کی ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا یہیں بیٹھے رہنا جب تک میں وہاں جا کر دعا کروں اور پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر غمگین اور بے قرار ہونے لگا اس وقت اس نے ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو پھر ذرا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یوں دعا کی.اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو.پھر شاگردوں کے پاس آ کر ان کو سوتے پایا اور پطرس سے کہا کہ تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے جاؤ اور دعا کرو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو.روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے پھر دوبارہ اس نے جا کر یوں دعا کی ”اے میرے باپ اگر یہ پیالہ میرے پیئے بغیر نہیں مل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو اور آکر انہیں پھر سوتے پایا کیونکہ ان کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں اور ان کو چھوڑ کر پھر چلا گیا اور پھر وہی بات کہہ کر تیسری بار دعا کی.(متی 26 : 36 تا44) وہ خدا کی رضا میں راضی تھے اگر چہ فکرمند تھے مگر اپنے مالک کی مرضی
49 میں دخل دینا بھی گوارا نہ تھا.عرض کرتے ہیں کہ اگر یہی مقدر میں ہے تو جو تو چاہتا ہے وہی کر مقصد تو خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے.مسیح ان دنوں گرفتاری کے خوف سے چھپے پھرتے تھے اور وہ اور اُن کے شاگرد ایک ہی قسم کا لباس پہنتے تھے اور منہ کو بھی ڈھانک کر کھتے تھے تا کہ حضرت مسیح کا اُن کو پتہ نہ چل جائے (یوحنا باب 21 آیت (4) دشمن بھی آپ کی تلاش میں تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح ہمیں پتہ لگ جائے کہ ان میں سے مسیح کون سا ہے آخر انہوں نے تمیں روپے رشوت دے کر حضرت مسیح کے ایک شاگرد یہوداہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اُس نے کہا میرے ساتھ چلو جہاں سب اکٹھے بیٹھے ہوئے ہوں گے وہاں آگے بڑھ کر میں جس شخص کا بوسہ لوں تم سمجھ جانا کہ وہی مسیح ہے اور اُسے گرفتار کر لینا.ادھر حضرت مسیح کو اللہ تعالی نے قبل از وقت الہام کے ذریعہ بتا دیا تھا کہ تمہارا فلاں شاگرد اس طرح غداری کرے گا چنانچہ جب یہوداہ دشمن کے سپاہی لے کر وہاں پہنچا اور وہ آپ کا بوسہ لینے کے لئے آگے بڑھا تو حضرت مسیح نے کہا.”اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑوا تا لوقاہ باب 22 : 48، تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 65 ہے؟ گتسمنی میں اس دعا کے بعد آپ گرفتار کر لئے گئے.ایک خدا پرست انسان کی طرح آپ یہ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ گرفتاری، صلیب پر چڑھنا وغیرہ (موت کا آپ کو علم تھا کہ آپ کو صلیب پر نہیں آئے گی ) اگر ٹل نہ سکے تو وہ انسان جو حق کی تلاش میں آپ کو سچا نبی سمجھ رہے تھے سخت ٹھوکر کھائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف رہنمائی کا کام پورا نہ ہو سکے گا اس لئے وہ بار بار اپنے خدا کے حضور جھکے جس قدر ان کا دل پریشان ہوتا اور مخالفت زور پکڑتی گئی آپ کی دعا میں درد پیدا ہوتا گیا ” اس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں بن کر زمین پر ٹپکتا.“ (44.22)
50 اس نے اپنی بشریت کے دنوں میں اور زور سے پکار کر آنسو بہا بہا کر اس سے دعا ئیں اور التجائیں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا ترسی کے سبب اس کی سنی گئی.(7:5 (عبرانیوں آخر خدا تعالیٰ نے اپنے فرشتوں اور روح القدس کے ذریعہ اپنے ( لوقا : 43:22) پیارے کو تسلی کا پیغام بھیجا.یعنی قتل کے اس پیالہ سے بالآخر تمہاری جان بخشی جائے گی.حضرت عیسی علیہ السلام کا مقدمہ : کیا گیا.وو حضرت مسیح کو گرفتار کر کے ایک سردار کا ہن کیفا نامی کے سامنے پیش ” پھر سردار کاہن نے یسوع سے اس کے شاگردوں اور اس کی تعلیم کی بابت پوچھا.یسوع نے اسے جواب دیا کہ میں نے دنیا سے اعلانیہ باتیں کی ہیں.میں نے ہمیشہ عبادت خانوں اور ہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور پوشیدہ کچھ نہ کہا تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے سننے والوں سے پوچھ کہ میں نے ان سے کیا کہا دیکھ ان کو معلوم ہے کہ میں نے کیا کیا کہا.(يوحنا 21-18/20) کاہن نے سب کی طرف دیکھا کہ اب بتاؤ تم اس پر کیا کیا الزام لگاتے تھے مگر کفر ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت، کوئی گواہ نہ ملا.وو سردار کاہن اور سب صدر عدالت والے یسوع کو مار ڈالنے کے لئے اس کے خلاف جھوٹی گواہی ڈھونڈنے لگے مگر نہ پائی گو بہت سے جھوٹے
51 گواہ آئے “ (متی 60-26/59) جب کچھ بن نہ پڑی اور کوئی قصور ثابت نہ ہوا تو سردار نے جھوٹ ہی اپنے کپڑے پھاڑ لئے اور کہا اس نے میرے سامنے کفر بکا ہے ہمیں گواہوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں یہ قتل کے لائق ہے.اس پر حضرت مسیح علیہ السلام کی مشکیں کس لی گئیں اور عدالت میں پیش کر دیے گئے.عدالت کا سربراہ پیلاطوس تھا.وہ خوب جانتا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابن مریم بے گناہ ہیں.” پھر پیلاطوس نے سردار کاہنوں اور سرداروں اور عام لوگوں کو جمع کر کے ان سے کہا کہ تم اس شخص کو لوگوں کو بہکانے والا ٹھہرا کر میرے پاس لائے ہو اور دیکھو میں نے تمہارے سامنے ہی اس کی تحقیقات کی مگر جن باتوں کا الزام تم اس پر لگاتے ہو ان کی نسبت نہ میں نے اس میں کچھ قصور پایا نہ ہیرودیس نے کیونکہ اس نے اسے ہمارے پاس واپس بھیجا ہے اور دیکھو اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرتا“.(23/13-156) مقدمہ کی کاروائی جاری تھی پیلاطوس اپنی ذاتی دلچسپی سے مسیح علیہ السلام کو چھوڑنے کی کوشش کر رہا تھا.عدالت میں ایک پیغامبر آیا کہ مجھے آپ کی بیوی نے بھجوایا ہے.جب پیلاطوس اس کی بات سننے کے لئے اُٹھا تو اس نے کہا کہ آپ کی بیوی نے مجھے یہ پیغام آپ تک پہنچانے کے لئے دیا ہے کہ آج میں ساری رات سوئی نہیں کیونکہ فرشتے مجھے بار بار آ کر کہتے تھے کہ یہ شخص بے گناہ ہے اسے سزا نہ دینا ورنہ امر جاؤ گے.انجیل متی باب 19:27 - تفسیر کبیر جلد پنجم ص109) پیلاطوس جو پہلے ہی آپ کو بے گناہ سمجھتا تھا اس پیغام سے ڈر گیا اور
52 پانی لے کر سب کے سامنے اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا ” میں اس راستباز کے خون سے بری ہوتا ہوں تم جانو“.وو (متی 27/24) پس یہ دعا کی قبولیت کا پہلا نشان تھا جس خدا نے بچپن میں ایک دفعہ ہیرود لیس کے مظالم سے بچنے کے لئے خواب کے ذریعہ اشارہ دے کر مصر کی طرف ہجرت کرائی تھی اسی خدا نے ایک دفعہ پھر اپنے مسیح کا ساتھ دیا.پھر بعد اس کے مسیح ان کے حوالہ کیا گیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے سے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا.سب اس نے (ازالہ اوہام ص 380 بمطابق فرسٹ ایڈیشن ) پیلاطوس کو کہا گیا کہ اگر تم نے اس شخص کو صلیب کی سزا نہ دی تو حاکم وقت تم کو باغی سمجھے گا.پیلاطوس کا ایک دوست جو بڑا معزز مالدار یہودی تھا دل سے مسیح پر ایمان لا چکا تھا.دونوں نے مل کر اپنی سی کوشش کی کہ صلیہ تو ہو مگر مسیح کو کم سے کم تکلیف پہنچے.دیکھا“.جس دن مسیح پیش ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے ساتھ ہی سبت (ہفتہ) کا دن آتا تھا جو یہودیوں کا ایک مقدس تہوار ہے مگر اس دن ایک اور خاص تہوار بھی تھا جس میں رومی حکومت یہود کو خوش کرنے کے لئے ایک قیدی چھوڑا کرتی تھی تاکہ یہود یہ سمجھیں کہ حکومت مذہب کا احترام کرتی ہے اور اس کا دل ان کے مذہب سے متاثر ہے اس تقریب کی وجہ سے پیلاطوس نے یہ کوشش کی کہ وہ حضرت مسیح کو یہ کہہ کر کہ ہم نے کوئی نہ کوئی قیدی تو چھوڑنا ہی ہے چلو اسے ہی چھوڑ دیں آپ کو رہا کر دے.مگر یہودیوں نے کہا کہ ہم اس تجویز کو نہیں مان سکتے فلاں ڈاکو کو
53 بیشک چھوڑ دیا جائے لیکن مسیح کو نہ چھوڑا جائے.(انجیل متی باب 23،21:27) مسیح کو انہوں نے چھڑوانے نہیں دیا.یہاں تک کہ جب پیلاطوس نے یہ کہہ دیا کہ میں اس کے خون سے بری ہوتا ہوں تو انہوں نے کہا تم صلیب کا فیصلہ کرو اس کا خون تمہاری اور تمہاری اولادوں کی گردن پر ہو گا.تب پیلاطوس نے مسیح علیہ السلام کو ان کے حوالے کر دیا کہ اسے لے جاؤ اور صلیب پر لٹکا دو.ایک کانٹوں کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا.(متی باب 27 آیت 29) حضرت مسیح علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا: اناجیل سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت چھٹا گھنٹہ آ گیا تھا اور چھٹے گھنٹے کے معنی اس زمانہ کے لحاظ سے تین اور چار بجے کے درمیان کے وقت کے ہیں.اس دن دو اور مجرم بھی پیش ہوئے تھے جن کو پھانسی پر لٹکایا جانا تھا.“ (تفسیر کبیر سوره مریم) اس زمانہ میں صلیب کراس (f) کی شکل کی ہوتی تھی جس کو صلیب پر لٹکایا جاتا اسے لکڑی کے ساتھ سیدھا کھڑا کر دیا جاتا اور اس کے بازوؤں کو پھیلا کر دو ڈنڈوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا اس کے بعد مجرم کے بازو اور ٹانگیں توڑے جاتے اور اس طرح وہ بھوکا پیاسا صلیب پر لٹکا لٹکا مر جاتا.شام کا وقت تھا اور تین آدمیوں کو صلیب پر لٹکانا تھا.پیلاطوس کو ان میں سے حضرت مسیح سے ہمدردی تھی ظاہر ہے وہ بعد میں لٹکائے گئے ہوں گے.خدا کا پیارا موت سے خائف نہیں تھا.مگر اس بہت بڑی ذمہ داری کا احساس تھا جو انہیں سونپی گئی تھی کیونکہ بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کو پیغام حق
54 پہنچانے کا مشن ابھی پورا نہ ہوا تھا اور صلیب پر لٹکانے کا وقت آ پہنچا.خدائی بشارتوں کی وجہ سے یقین کامل تھا کہ خدا کی مدد ضرور آئے گی.وہ ایک عالم بے کسی میں اپنے خدا کے حضور گڑ گڑائے کہ ”ایلی ایلی لما سبقتانی“ یعنی اے (متی 27 : 47) میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.”اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے“.(متی 26 : 39) موت کے خطرے کا سامنا کرنا بڑی آزمائش تھی اس اضطرار پریشانی میں آپ اپنے سے پہلے آنے والے نبی حضرت داؤد کی حالتِ بے کسی کی دعاؤں کو پڑھتے رہے.میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں اے خداوند خدائے صادق تو مجھے بچائے گا.کیونکہ تم نے میرے دکھ پر نگاہ کی ہے اور مصیبت کے وقت میری جان کو محفوظ رکھا ہے..داؤد نبی بھی کہتا ہے کہ وہ موت کے منہ سے بچایا جائے گا وہ لقمہ اجل نہیں بنے گا اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی نے اپنے سولی دئے جانے کی نسبت کوئی خواب دیکھی ہو گی.اس لئے اُن کے دل میں یہ خوف دامن گیر ہوا کہ اگر میں سولی دیا گیا تو شریر یہودی لعنتی ہونے کی تہمت میرے پر لگائیں گے پس اس وجہ سے انہوں نے جان توڑ دعا کی اور وہ دعا قبول ہو گئی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 287) ”اس کے بعد یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تا کہ نوشتہ پورا ہو تو کہا میں پیاسا ہوں وہاں سرکہ سے بھرا ہوا ایک برتن رکھا تھا.پس انہوں نے سرکہ میں بھگوئے ہوئے سینچ کو زوفے کی شاخ پر رکھ کر
55 اس کے منہ سے لگایا پس جب یسوع نے وہ سرکہ پیا تو کہا کہ تمام ہوا اور سر (يوحنا 19/28,30) جھکا کر جان دے دی.دراصل اس مشروب میں ایسے اجزاء تھے جو بے ہوش کر دیتے ہیں اور درد کو محسوس ہونے نہیں دیتے.اس طرح ایک بندے نے اپنی جان کو خدا کے سپرد کر دیا کہ اب جو تیری رضا ہو تو کر.اور خدا تعالیٰ نے تیز آندھی کا اندھیرا پھیلا کر شام کے چھٹے کو اور قریب کر دیا اس طرح حضرت مسیح کے بہی خواہوں کو موقع مل گیا کہ وہ انہیں جلدی جلدی صلیب سے اتار سکیں.خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کی دکھ بھری آواز سن لی اور ایسے سامان پیدا کئے کہ مسیح صلیب کی موت سے بچ جائیں.اچانک آندھی چلنے لگی اور زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے.مقدس مریم اپنے بیٹے کو صلیب پر ٹنگے حسرت و یاس سے دیکھ رہی تھیں ہاتھوں اور پاؤں میں کیل گڑے ہوئے سر پر کانٹوں کا تاج اور بدن پر کوڑے لگنے سے خون ریں رہا تھا.اگر چہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنے خدا تعالیٰ سے رحم کی پوری امید تھی تاہم اپنی والدہ کے متعلق فطری طور پر فکر بھی تھی.” یسوع نے اپنی ماں اور اس شاگرد کو جس سے محبت رکھتا تھا پاس کھڑے دیکھ کر ماں سے کہا اے خاتون دیکھ تیرا یہ بیٹا ہے پھر شاگرد سے کہا دیکھ تیری ماں یہ ہے اور اسی وقت وہ شاگرد اسے اپنے گھر لے گیا“.(يوحنا 19/26,27) حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے زندہ اتارے
56 خدائی تائید اور تصرفات کے نتیجہ میں حضرت عیسی کو چند گھنٹے صلیب پر رہنا پڑا.صلیب پر لٹکانے کا عمل ایسا نہیں ہوتا کہ چند گھنٹوں میں موت واقع ہو جائے ان کے ساتھ جو دو شخص مصلوب ہوئے تھے وہ بھی اس اثناء میں فوت نہیں ہوئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں.خدا تعالیٰ نے دشمنوں کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسے سامان کئے کہ وہ سمجھ گئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں حالانکہ وہ زندہ صلیب سے اتار لئے گئے خدا نے مصیبت میں انہیں اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ ساتھ ساتھ رہا.اس طرح زبور کی ایک پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس کے 34 باب میں لکھا ہے:.اس غریب نے دہائی دی.خداوند نے اس کی سنی اور اسے اس کے سب دکھوں سے بچا لیا.خداوند سے ڈرنے والے کے چاروں طرف اس کا فرشتہ خیمہ زن ہوتا ہے اور ان کو بچاتا ہے.صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن خداوند اس کو ان سب سے رہائی بخشتا ہے.وہ اس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے ان میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی.یہ موسم بہار کی اکیسویں مارچ کی ایک ایسی شام تھی جس میں سورج گرد اور بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا.تین ساڑھے تین گھنٹہ صلیب پر رہنے اور تکلیف سے بے ہوش ہو جانے والے مسیح علیہ السلام کو بچانے کے لئے خدائی تدبیروں میں سے آندھی کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیلاطوس نے جلدی جلدی ان کو صلیب سے اتارنے کا حکم دے دیا.بھالے سے نکلنے والے 1
57 خون سے ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مسیح ابھی زندہ ہیں.مگر شدید مخالف یہودیوں کو باور کرا دیا گیا کہ چونکہ مسیح فوت ہو گئے ہیں اس لئے اب ان کی ہڈیاں توڑنے کا کوئی فائدہ نہیں یہودی سمجھنے لگے کہ ہماری زیادتی کی وجہ سے جس شخص کو سزا ملی ہے ہوسکتا ہے وہ خدا رسیدہ ہو کیونکہ آندھی آنا خدائی تنبیہہ تصور کی جاتی تھی انہوں نے فوراً کہا کہ اچھا اگر یہ فوت ہو گیا ہے تو اسے فی الفور دفن کر دو.Stroude, William-On the physical cause of the death of 1 christ.P123 قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ اور (یہود) نے تدبیر کی (کہ مسیح کو قتل کریں) اور اللہ نے بھی تدبیر کی (کہ مسیح کو بچائے ) اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر ہے جب اللہ نے کہا.اے عیسی ! بے شک میں تجھے وفات دینے والا ہوں (یعنی یہود تمہیں نہیں مارسکیں گے ) اور تجھے اپنے حضور اٹھانے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں کے الزامات سے ) پاک ثابت کرنے والا ہوں اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی قیامت کے دن تک تیرے منکروں پر غالب رکھنے والا (ال عمران:55،56) 66 ہوں.“ قرآنِ پاک کی اس آیت کی تشریح میں پانچویں صدی ہجری کے مفسر قرآن علامہ زمخشری تحریر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:- " میں تیری مدت عمر پوری کرنے والا ہوں اس کے معنی ہیں میں تجھے کافروں کے ہاتھ سے مرنے سے بچانے والا ہوں اور تیری مقرر اجل تک تجھے زندہ رکھنے والا ہوں اور تجھے طبعی موت دینے والا ہوں نہ کہ اُن کے ہاتھ
58 سے قتل ہونے کی موت.“ 66 کشاف جلد 1 صفحہ 306) خدا تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا پورا کیا ان یہودیوں کے ہاتھوں مسیح علیہ السلام کو بچا لیا.اور اس کی زندگی اور طبعی موت صرف خدا کے ہاتھ میں تھی.چونکہ خدا تعالیٰ سب تدبیر کرنے والوں سے بڑھ کر تدبیر کرنے والا ہے.اس نے اپنے فرستادہ کو بچانے کے انتظامات کر رکھے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ جون کے مہینے میں پیش آیا.” حضرت مسیح جب یہودیوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے تب شدت گرمی کا مہینہ تھا کیونکہ گرفتاری کی حالت میں اُس کا پیاسا ہونا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ موسم کا یہی تقاضا تھا کہ گرمی اور پیاس محسوس ہو سو وہ مہینہ جون ہے کیونکہ اُس وقت ایک سخت آندھی بھی آئی تھی جس کے ساتھ اندھیرا ہو گیا تھا اور جون کے مہینہ میں اکثر آندھیاں بھی آتی ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 117) لہذا مسیح علیہ السلام کی لاش اُتارنے کی جلدی اس لئے تھی کہ چونکہ تیاری کا دن تھا.یہودیوں نے پیلا طوس سے درخواست کی کہ ان کی ٹانگیں توڑی جائیں اور لاشیں اُتار لی جائیں تاکہ سبت کے دن صلیب پر نہ رہیں.کیونکہ وہ سبت کا ایک خاص دن تھا.پس سپاہیوں نے آکر پہلے اور دوسرے شخص کی ٹانگیں توڑیں جو اس کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑیں مگر ان میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اس کی پہلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون اور پانی نکلا.
59 (يوحنا 19/31,34) جو اس امر کا قطعی ثبوت تھا کہ ابھی حضرت مسیح علیہ السلام زندہ تھے صرف مشابہ بقتل تھے.یہی بیان سورۃ نساء میں ہے.اور ان (یہود ) کے اس قول کے سبب (انہیں سزا ملی ) کہ یقیناً ہم نے مسیح ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کر دیا حالانکہ نہ انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ انہوں نے اسے صلیب پر مارا بلکہ وہ ان کے لئے قتل کیا جانے اور صلیب دیا جانے کے مشابہ بنایا گیا.حضرت مسیح علیہ السلام کی تجہیز و تکفین : (النساء : 158) جب مسیح کو صلیب سے اُتار لیا گیا تو یوسف آرمیتیاہ نے پیلاطوس سے کہا کہ مسیح کو ان کو دے دیا جائے.پس وہ آکر لاش لے گیا اور نکدیمس
60 بھی آیا جو پہلے یسوع مسیح کے پاس رات کو گیا تھا اور پچاس سیر کے قریب مُر اور خود ملا ہوا لایا پس انہوں نے یسوع مسیح علیہ السلام کی لاش لے کر اسے سوتی کپڑے میں خوشبودار چیزوں کے ساتھ کفنایا جیسا کہ یہودیوں میں دفن کرنے کا دستور ہے اور جس جگہ وہ مصلوب ہوا وہاں ایک باغ تھا اور اس باغ میں ایک نئی قبر تھی جس میں کبھی کوئی نہ رکھا گیا تھا پس انہوں نے یہودیوں کی تیاری کے دن کے باعث یسوع کو وہیں رکھ دیا کیونکہ یہ قبر نزدیک تھی“.( یوحنا 19/38,42) حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کفن میں یوں لیے گئے حضرت مسیح علیہ السلام کا علاج: حضرت مسیح کو جس کپڑے میں لپیٹا گیا اس میں دوائیں لگائی گئیں وہ 14.25 فٹ لمبا تھا.اور 3.7 فٹ چوڑا تھا.کپڑے کا نصف حصہ مسیح کے جسم کے اوپر لپٹا گیا تھا اور باقی نصف حصہ سر پر اور جسم کے اوپر تھا.تیار شدہ قبر ایک کھلی کوٹھڑی تھی جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی.یوسف آرمیتیاہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے مجروح بدن کو صلیب سے اُتار کر احتیاط کے ساتھ ایک کشادہ کمرہ نما غار میں رکھ دیا جس کا پہلے سے انتظام کیا گیا تھا.حکیم نقادیمس نے جو ماہر طبیب تھا مسیح کے زخموں کے علاج کے لئے بہترین ادویات استعمال کیں اور ایک زوداثر اور حد درجہ مفید مرہم آپ کے زخموں کے لئے تیار کی جو آج بھی مرہم عیسی کے نام سے مشہور و معروف ہے.اس کے علاوہ ایک قدرتی علاج میسر آ گیا کہ شدید زلزلہ سے بعض پہاڑیاں پھٹ گئیں اور ان کے پھٹنے سے تیز ی پیدا ہوئی جو حکیم مذکور کے نظریہ کے مطابق آپ کے سانس کے اجراء کے لئے اکسیر کا حکم رکھتی تھی جب یہ بُو پیدا ہوئی تو حکیم نقاد یمس خوش ہوا کہ
61 یہ کو بہت مفید ہے یوسف آرمیتیاہ تو اس وقت بھی آنسو بہا رہے تھے جس وقت حکیم نقاد یمس مسیح علیہ السلام کے کانوں میں پھونک پھونک کر مسیح علیہ السلام کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا.یوسف کہتا تھا کہ یسوع کے بچنے کی کوئی امید نہیں حکیم نقاد یمس بار بارتسلی دیتا تھا کہ یسوع کا دل حرکت کر رہا ہے بچنے کی امید رکھو.تیسرے دن صبح کو مسیح نے آنکھ کھولی اور وہ ہوش میں آ گئے جونہی ان کی آنکھ کھل گئی یوسف آرمیتیاہ نے ان کو گلے سے لگا لیا اس کی اور حکیم نقادیمس کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں رہی ہوش میں آنے پر مسیح نے کہا کہ میں کہاں آ گیا ہوں اس پر حکیم موصوف نے انہیں بتایا کہ وہ کہاں ہیں اور کس طرح یہاں پہنچے ہیں.اس کے بعد آپ کو یہاں سے قریب ہی ایک مخفی مکان پر لے جایا گیا جو ایسینی فرقہ کے کسی ممبر کا تھا وہاں آپ کا علاج جاری رہا یہاں تک کہ آپ چند دنوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے آپ چھ چھپ کر خفیہ راستوں سے حواریوں کو ملتے رہے بعض دفعہ یہودیوں نے آپ کو پہچان بھی لیا لیکن فرقہ ایسینی کے احباب کی کڑی نگرانی کی وجہ سے ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے رہے.سردار کا ہن کیفا جس نے آپ کو صلیبی موت کی سزا دی تھی، کو بھی علم ہو گیا کہ یوسف آرمیتیاہ حکیم نقادیمس اور پیلاطوس نے مل کر سازش کر کے مسیح کو بچا لیا ہے.یہود کے دباؤ کے باعث یوسف آرمیتیاہ کو قید کر لیا گیا.ملک میں منیح کے خلاف بہت شورش تھی اس لئے ایسینی فرقہ کے احباب نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ یہاں سے کسی اور جگہ تشریف لے جائیں ورنہ فساد کا بہت اندیشہ ہے.آپ سفر کے لئے تیار ہو گئے.آپ نے فرمایا مجھے خدا نے ہاتھ بڑھا کر دشمنوں کے پنجے سے بچا لیا ہے اس میں بھید یہ ہے کہ مجھے کسی خاص
62 اور اہم مشن کے لئے خدا نے زندگی دی ہے.آرام و استراحت کے لئے نہیں چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری کی اور پھیلی ہوئی کہر اور دھند کے درمیان مخفی طور پر حواریوں سے جدا ہو گئے.“ (Crucifixion by an eye wietness سے خلاصہ مکتوب یروشلم کا خلاصہ بحوالہ میسیج کشمیر میں ) آپ کو جس کمرہ میں چھپایا گیا تھا اس کے سامنے ایک پتھر لڑھکا دیا گیا.یہ کمرہ اتنا چوڑا تھا کہ اس میں لوگ آ جا سکتے تھے اور چل پھر سکتے تھے.یہودیوں کو علم تھا کہ مسیح علیہ السلام نے پیشگوئی کی ہوئی ہے کہ وہ تین دن کے بعد یوناہ (حضرت یونس) کی طرح جی اٹھیں گے اس لئے انہوں نے درخواست کی کہ تین دن تک قبر پر پہرہ لگا دیا جائے.پیلاطوس نے سرکاری پہرے دار دینے سے انکار کر دیا اور کہا ” تمہارے پاس پہرے والے ہیں جاؤ جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی حفاظت کرو.مریم مگد لینی اور دوسری مریم قبر کے سامنے بیٹھی رہیں.(متی 27/65) " حضرت عیسی کے حواریوں نے ان کے زخموں کے لئے مرہم تیار کی اس میں ایسے اجزاء شامل کئے جن سے بہتا ہوا خون جلدی سے رُک جائے اور جراثیم بھی نہ بڑھیں یہ دوائیں اکسیر کی طرح ہیں.اس دوا کے استعمال سے حضرت مسیح کے زخم چند روز میں ہی اچھے ہو گئے.اور اس قدر طاقت آگئی کہ آپ تین روز میں یروشلم سے گلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ گئے.“ (روحانی خزائن جلد 15 ص: 57 مسیح ہندوستان میں ) مسیحی کلیسا کے بانی پولوس نے لکھا ہے :- چنانچہ میں نے سب سے پہلے تمہیں وہ بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی.
63 کہ مسیح کتاب مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے مرا.اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتاب مقدس کے مطابق جی اُٹھا...اگر مسیح جی نہیں اُٹھا تو ہماری منادی بھی بے فائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بے فائدہ.حضرت عیسی کا سفر : (کرنتھیوں باب 15 : 1443) حضرت عیسی کے واقعہ صلیب کے بعد یہ اہم واقعات مختلف اناجیل میں مختلف طریق سے لکھے گئے ہیں کہ جس سے کم علمی اور حالات سے مکمل طور پر ناواقفیت ظاہر ہوتی ہے پھر سبت کے بعد ہفتہ کے پہلے دن پو پھٹتے وقت مریم مگد لینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیں.اور دیکھو ایک بڑا بھونچال آیا کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اترا اور پاس آ کر پتھر کو لڑھکایا اور اس پر بیٹھ گیا اس کی صورت بجلی کی مانند تھی اور اس کی پوشاک برف کی مانند تھی اور ۹۱ PK نقته سفر حضرت مسیح علا السلام حجاب المیزی سیس انستان راه اسفر -D
64 اس کے ڈر سے نگہبان کانپ اٹھے اور مردہ سے ہو گئے فرشتہ نے عورتوں سے کہا تم نہ ڈرو کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلوب ہوا تھا وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابق جی اٹھا ہے آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خداوند پڑا تھا اور جلد جا کر اس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور دیکھو وہ تم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے.وہاں تم اسے دیکھو گے.دیکھو میں نے تم سے کہہ دیا ہے اور وہ خوف اور بڑی خوشی کے ساتھ قبر سے جلد روانہ ہو کر اس کے شاگردوں کو خبر دینے دوڑیں اور دیکھو یسوع ان سے ملا اور اس نے کہا سلام.انہوں نے پاس آ کر اس کے قدم پکڑے اور اسے سجدہ کیا.اس پر یسوع نے ان سے کہا ڈرو نہیں جاؤ میرے بھائیوں سے کہو کہ کلیل کو چلے جائیں وہاں مجھے دیکھیں گے.“ (متی باب 28) مریم مگدلینی نے قبر کو خالی پایا وہ جلدی سے واپس مڑی کہ پطرس اور یوحنا کو بتائے جو یہ سن کر قبر کی طرف ایسی رفتار سے گئے جو ان کے لئے ممکن تھی انہوں نے دیکھا سوتی کپڑے پڑے ہوئے ہیں اور وہ رومال بھی جو (يوحنا 7 ،6:/20) اس کے سر پر لپیٹا تھا.“ بعض پہرے داروں نے آپ کو دیکھ لیا تھا اور آ کر سارا ماجرا سردار کا ہنوں کو سنا دیا انہوں نے رشوت وغیرہ دے کر پہرے دار سپاہیوں کو دکھا دیا کہ تم باز پرس پر کہہ دینا کہ ہم سو گئے تھے.وو ” تب انہوں نے یعنی یہودیوں نے بزرگوں کے ساتھ اکٹھے ہو کر صلاح کی اور اُن پہرے والوں کو بہت روپے دئے اور کہا کہ تم کہو کہ رات کو جب ہم سوتے تھے اُس کے شاگرد یعنی مسیح کے شاگرد آ کر اُسے چُرا کر لے متی باب 28 : 1312 ) گئے.حضرت عیسی چالیس دن تک یروشلم سے باہر نہیں گئے گرد ونواح میں
65 مخفی رہے اور مرہم عیسی سے ان کا علاج ہوتا رہا.دو واقعہ صلیب کے ڈیڑھ ماہ بعد حضرت مریم حواریوں کے ساتھ مل کر عبادات میں حصہ لیتی رہیں.“ 1 (اعمال باب 14:1) 18 ماه یا 550 دن حضرت مسیح کے حواریوں کے ساتھ رہنے کی شہادتیں موجود ہیں اس عرصہ میں تازہ وحی اور مکاشفات بھی ہوتے رہے اور آپ نے پطرس اور یعقوب کو اس کی تعلیم دی.An introduction to the study of the Gospels by westcote.P408 1 Theology of Gospel of Thomas by Gartner P102 2 پھر زخمی یسوع مسیح پیدل ہی چھیتے چھیاتے گلیل کی طرف گئے کیونکہ انہوں نے اپنے حواریوں کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ تم کلیل کی پہاڑیوں پر اماؤس نامی گاؤں میں چلے جانا.جب مسیح وہاں پہنچے تو وہ کھانا کھا رہے تھے.مسیح کو اچانک دیکھ کر وہ انتہائی حیران ہو گئے.حضرت مسیح نے اپنا قصہ سنایا اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے زخم دکھائے اور اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھا کر ثابت کیا کہ وہی مسیح ہیں کوئی روح نہیں اور چونکہ بھوکے تھے کچھ کھانے کو طلب کیا جس پر انہوں نے بھونی ہوئی مچھلی اور شہد دیا.رات وہیں قیام کیا.” یہ سب کے سب حواری چند عورتوں اور یسوع کی ماں مریم اور اس کے بھائیوں کے (اعمال 1/14) ساتھ ایک دل ہو کر دعا میں مشغول رہے.“ ایک حدیث میں ہے کہ وو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی پر وحی بھیجی کہ اے عیسی! ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا کہ تو پہچانا نہ جائے اور تجھے تکلیف نہ دی جائے.“ (کنز العمال جلد 2 صفحہ 34) چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور ایک
66 ملک سے دوسرے ملک کی سیر کرتے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے.(کنز العمال جلد 2 صفحہ 71) اور پھر اگلے دن نئی منزل کی طرف چل پڑتے تھے.اس طرح سیر و سیاحت کرتے ہوئے اپنی گمشدہ بھیڑوں کے پاس پہنچے.جس شام یسوع اور اس کے شاگردوں کی ملاقات ہوئی ان میں ایک شاگرد تھوما موجود نہیں تھا.جب دوسرے شاگردوں نے اسے مسیح کے بارے میں سب کچھ بتایا تو اس نے کہا کہ جب تک میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں اور زخموں کے چھیدوں میں اپنی انگلیاں ڈال کر نہ دیکھ لوں اور اپنے ہاتھ کو اس کی پسلی میں نہ ڈال لوں یقین نہ کروں گا.چنانچہ ایک اور موقع پر جب تھوما سے مسیح علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو اس نے آپ کے جسم کو چھو چھو کر زخموں کو دیکھا.کئی اور لوگوں نے بھی مسیح علیہ السلام کو سڑک پر جاتے دیکھا مگر یہودیوں کا خوف اتنا غالب تھا کہ اپنی زبان سے نہ کہہ سکتے تھے اس لئے راز ہی رہتا.تقریباً ڈیڑھ سال آپ حواریوں کے ساتھ رہے.بے سروسامانی، سفر اور خدائی رحمتوں کے نشان دیکھ دیکھ کر حضرت مسیح علیہ السلام اپنے خدا تعالیٰ کے حضور زیادہ دعائیں کرتے اور انہیں اپنا یہ فرض یاد آ جاتا کہ بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کو بھی پیغامِ حق پہنچانا تھا اس لئے آپ نے مشرق کی طرف سفر شروع کیا اور چلتے چلتے دمشق پہنچے.حضرت مسیح علیہ السلام دمشق میں : آپ دمشق میں کافی عرصہ رہے.بہت سے لوگوں نے آپ کو خدا کا نبی مان لیا.دمشق میں آپ کا ایک شاگرد جو بہت مشہور ہوا حنانیاس تھا.
67 یہودی حکام کو خبریں مل رہی تھیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام معجزانہ طور پر بیچ کر نکل گئے ہیں انہوں نے اپنا ایک وفد دمشق بھیجا تاکہ معاملہ کی تحقیقات کریں چنانچہ اس وفد کا سر براہ ساؤل حضرت مسیح علیہ السلام سے ملا اور ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کا شاگرد ہو گیا.اس کا نام پولوس رکھا گیا اس نے یہودیوں کے منصوبہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کو آگاہ کر دیا.آپ سمجھ گئے کہ دمشق میں ٹھہر نا مناسب نہیں ہو گا چنانچہ وہاں سے بابل کی طرف روانہ ہو گئے.(Doker, Ernests, If Jesus does not die upon the cross P:75) ނ وہ ایک موقع پر پولوس نے عدالت میں یہ گواہی دی کہ مجھے دمشق باہر حضرت مسیح ملے یہ واقعہ 35 عیسوی کا ہے.آپ نصیبین بھی گئے یہ میسو پوٹیمیا کے شمال میں ایک قدیم شہر اور چھوٹا سا قلعہ ہے جو موصل اور شام کے درمیان ہے اور بیت المقدس سے ساڑھے چارسو کوس کے فاصلہ پر ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مسیح اس واسطے رکھا گیا کہ سیاحت بہت کرتے تھے ایک چشمی طاقیہ ان کے سر پر ہوتا تھا اور ایک پتمی کرتہ پہنے رہتے تھے اور ایک عصا ہاتھ میں ہوتا تھا اور ہمیشہ ملک بہ ملک اور شہر بہ شہر پھرتے تھے اور جہاں رات پڑتی وہیں رہ جاتے جنگل کی سبزی کھاتے تھے اور جنگل کا پانی پیتے اور پیادہ سیر کرتے تھے ایک دفعہ سیاحت کے زمانہ میں ان کے رفیقوں نے ان کے لئے ایک گھوڑا خریدا اور ایک دن سواری کی مگر چونکہ گھوڑے کے آب و دانہ اور چارے کا بندوبست نہ ہو سکا اس لئے اس کو واپس کر دیا وہ اپنے ملک سے سفر کر کے نصیبین میں پہنچے جو ان کے وطن سے کئی سو کوس کے فاصلہ پر تھا اور آپ کے ساتھ چند حواری بھی تھے آپ نے حواریوں کو تبلیغ کے لئے شہر میں بھیجا مگر اس شہر میں حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کی نسبت غلط اور خلاف واقعہ خبریں پہنچی ہوئی تھیں اس لئے اس شہر کے
68 آیا.حاکم نے حواریوں کو گرفتار کر لیا.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کو بلا یا آپ نے اعجازی برکت سے بعض بیماروں کو اچھا کیا اور بھی کئی معجزات دکھلائے اس لئے نصیبین کے ملک کا بادشاہ مع تمام لشکر اور باشندوں کے آپ پر ایمان لے (خلاصه از کتاب روضۃ الصفا صفحات 130 تو 135) (روحانی خزائن جلد نمبر 15 ( مسیح ہندوستان میں ) صفحہ : 67،66) پولوس کے ایک ہمعصر ابر کی لیس نے ان علاقوں کا سفر کیا وہ کہتے ہیں ونصیبین کے سفر میں مجھے چشمہ کی وہ تازہ مچھلی عطا ہوئی جو کہ معصوم کنواری نے پکڑی.اس مچھلی کو وہ اپنے احباب کے سامنے کھانے کے لئے ہر جگہ پیش کرتی ہے.یہ خاتون شراب طہور کو پانی میں ملا کر روٹی کے ساتھ دیتی ہے ( یعنی ابن مریم کے دین کی طرف بُلاتی ہے.) که شام و حواریوں کے ساتھ آپ کا عہد تھا کہ میں دوبارہ آؤں گا چنانچہ آپ ارد گرد کے علاقہ میں یہودیوں کو تبلیغ کرتے رہے اور ایک لمبے عرصہ کے بعد دوبارہ کنعان گئے اور وہاں سے پھر سفر پر روانہ ہو گئے.حضرت مسیح علیہ السلام مکہ مکرمہ میں : یہاں آپ صحرائے عرب سے گزرے اور مکہ میں آئے یہاں پولوس شاگرد اور رسول بھی آپ سے آ ملا.عرب کا علاقہ نسبتا محفوظ تھا.رومن حدود سے نکل کر آپ یہودی علاقہ کے مشرق میں نبطیہ عرب مملکت میں پہنچے.یہ لوگ رومیوں کے دشمن تھے.مبطیوں کے بادشاہ کی بیٹی یہودیہ کے حکمران ہیرودیس سے بیاہی ہوئی تھی.ہیرودیس نے خلاف شرع اپنے بھائی کی بیوی کو گھر میں رکھ لیا.حضرت یحیی علیہ السلام نے اس گناہ کے خلاف آواز اٹھائی جس کی پاداش میں وہ قید ہوئے پھر سلومی جو ہیرودیس کی بھیجی تھی کے رقص
69 سے خوش ہو کر اس کے مطالبہ پر اس پیغمبر کا سر قلم کر کے طشتری میں رکھ کر نابکار رقاصہ کے سامنے پیش کیا گیا.نبطی شہزادی اپنی سوکن کے اس دہلا دینے والے ظلم سے بیزار ہو کر اور اس ناپاک کاروائی سے متنظر ہو کر اپنے باپ کے پاس بھاگ گئی.منبطی شہزادی کے دل میں حضرت یحیی علیہ السلام کی بڑی قدر تھی.حضرت عیسی علیہ السلام بیٹی کے قریبی عزیز تھے اس مملکت کو اپنے لئے محفوظ سمجھتے ہوئے پہلے وہیں گئے.اور صحراء میں پھرتے پھراتے عرب بھی پہنچے جہاں حواری اور پولوس آ کر آپ سے ملتے رہتے.آپ نے حج بھی کیا ”وادی مکہ میں سے ستر نبی گزرے ہیں جو سرخ اونٹوں پر سوار تھے اور ان اونٹوں کی مہاریں کھجور کی چھال کی تھیں اور ان نبیوں کے لباس چنے تھے وہ مختلف الفاظ میں لبیک کہتے تھے.“ ( حدیث اخبار مکہ مکتبه خیاط بيروت ص: 39،38) حضرت عیسیٰ کہتے تھے میں حاضر ہوں تیرا بندہ ہوں تیری بندی کا بیٹا ہوں جو تیرے دونوں نیک بندوں کی بیٹی تھی میں حاضر ہوں.“ حدود حرم میں حواری اور حضرت عیسی ننگے پاؤں چلتے تھے.آپ اور آپ کی والدہ چاہ زمزم سے سیراب ہوئے.” حضرت مسیح علیہ السلام نے اسی سفر کے دوران اپنے بعد ایک الشان نبی کی آمد کی خوشخبری بھی سنائی جس کا نام احمد ہو گا اور دوسرا نام محمد ہو گا اور لوگوں کو کہا کہ جو اس نبی پر ایمان لائے گا اور اس کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا وہ میری نافرمانی کرے گا.(بحار الانوار جلد 5 صفحہ 340، حیات القلوب جلد 1 از ملا باقر مجلسی مطبوعه ایران) حضرت مسیح نے آنے والے معزز نبی کے لئے ” دوسرا مددگار
70 وو ” روح القدس جانی تسلی دہندہ ( فارقلیط ) کے الفاظ بھی استعمال کئے.حضرت مسیح علیہ السلام کربلا میں : : (يوحنا 26:14) ނ اس کے بعد مسیح علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ ارض کربلا گزرے.بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ ارضِ عراق میں حضرت مسیح اور آپ کی والدہ مریم اور آپ کے حواریوں نے بارہ سال گزارے حضرت مریم کے چچا کا بیٹا یوسف بن ماخان بھی ہمراہ تھا حضرت مریم نے سوت کات کر گزارا کیا.( تفسیر منہج الصادقین کا شانی زیر آیت ربوہ سورہ مومنون ) عراق میں آپ جس جگہ ٹھہرے وہ عیسائی معبد تھا آپ نے وہاں نماز پڑھی اور آپ سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی وہاں نماز پڑھی ا ( بحار الانوار جلد 5 صفحہ : 231 230 مطبوعہ تہران) تھی.حضرت مریم اور ابن مریم کربلا سے گزرے انہوں نے حواریوں کے ہمراہ یہاں قیام فرمایا.( بحار الانوار جلد 13 صفحہ 155) پطرس نے بابل عراق سے جو پہلا خط لکھا اس میں لکھا ہے کہ ایک معزز خاتون اپنی دعائیں اور برکات مغرب کی طرف رہنے والے عیسائیوں کو بھیجتی ہیں.یہاں حواریوں نے تبلیغ کی.ان میں تھوما اور برتلمائی کا نام بھی ہے.عربستان میں مسیحیت ص 94،93) حضرت مسیح علیہ السلام ایران اور افغانستان میں: وو حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے فرض رسالت کے رُو سے ملک پنجاب اور اس کے نواح (افغانستان و کشمیر) کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری
71 تھا.کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے جن کا نام انجیل میں اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں رکھا گیا ہے ان ملکوں میں آگئے تھے.جن کے آنے سے کسی مؤرخ کو انکار نہیں ہے.اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک کی طرف سفر کرتے اور ان گم شدہ بھیڑوں کا پتا لگا کر خدا تعالیٰ کا پیغام اُن کو پہنچاتے.“ مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 93) آپ سفر کرتے رہے اور لوگوں کو بتاتے رہے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے اس طرح یہ مسافر ایران پہنچ گئے.یہاں مخالفت شروع ہو گئی اور آپ گرفتار کر کے زرتشتی مذہب کے بڑے پیشوا کے حضور پیش کئے گئے اس نے کہا: ”اے آدمی کیا تجھے معلوم نہیں کہ ایک زرتشت ہی کو پاک الہام کا فخر حاصل ہوا اس کے بعد کسی اور کو یہ فخر نہیں مل سکتا پس تم کون ہو کہ خدا کے الہام کی توہین کرتے ہو اور مومنین کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہو.66 حضرت مسیح علیہ السلام نے جواب دیا: میں کسی نئے خدا کی طرف دعوت نہیں دیتا میں اسی آسمانی باپ کا اُپدیش کرتا ہوں جس نے زرتشت پر الہام کیا تھا.ازلی خدا نے میری معرفت تمہارے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ”تم سورج کی پرستش نہ کرو کیونکہ وہ اس دنیا کا صرف ایک حصہ ہے جسے میں نے انسان کے لئے پیدا کیا ہے.سورج تم کو کام کرنے کے وقت طاقت دینے کے لئے طلوع ہوتا ہے اور آرام دینے کے لئے غروب ہوتا ہے اور یہ کارروائی میرے حکم سے ہوتی ہے جو کچھ تمہارے پاس ہے اور تمہارے چاروں طرف یا تمہارے اوپر یا نیچے موجود ہے ب کچھ میرے ہی طفیل ہے.تم انسان کے لئے سورج کی پرستش لازمی
72 بتلاتے ہو اور اسے نیکی اور بدی کی روح مانتے ہو مگر یہ مسئلہ تمہارا جھوٹا ہے کیونکہ سورج اپنے آپ کچھ نہیں کر سکتا وہ صرف اس قادر خدا کی مرضی کے مطابق چلتا ہے جس نے اسے پیدا کیا جس کی مرضی یہ ہے کہ سورج دن میں روشنی دے اور انسان کو محنت کے قابل بنا دے.بدی کی روح زمین پر ان لوگوں کے دلوں میں رہتی ہے جو خدا کے بچوں کو راہِ راست سے ہٹاتے ہیں اس لئے میں صاف کہتا ہوں کہ خدا سے ڈرو قیامت کے جوار 66 ڈرو.“ مسیح علیہ السلام کی باتیں سن کر پجاریوں نے فیصلہ کیا کہ اسے کوئی تکلیف نہ دی جائے مگر رات کے وقت جب کہ تمام شہر سو یا ہوا ہو.اسے شہر کی چار دیواری سے پکڑ کر باہر ویرانہ میں چھوڑ آئیں اس خیال سے کہ اسے جنگلی درندے کھا جائیں گے لیکن خدا کے فضل سے عیسی علیہ السلام نے بلا کسی ہرج مرج کے اپنا راستہ پکڑا اور کسی اگلے ملک کی طرف روانہ ہو گئے.(مسیح کشمیر میں صفحہ 25، 26) ایران کے مقامی لوگوں کے لہجے میں یسوع آصف بدل کر یوز آصف بن گیا اور اسی نام سے آپ کو پکارا جانے لگا.اسی سفر میں یوحنا اور آپ کی والدہ آپ سے آ ملے.ایران کے بعد آپ افغانستان گئے.اور ہرات میں قیام پذیر ہوئے یہاں کے لوگوں میں تبلیغ کی اور کافی لوگ آپ کے ہم خیال ہو گئے آپ نے یہ بھی کہا کہ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ پیشہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ معاشرہ پر بوجھ نہ بنے آپ اپنے فرائض تبلیغ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھئی کا کام کرتے اور بھیڑ بکریاں پالتے تھے.یہاں آپ کے ارشادات کو احادیث مسیح کے نام سے جمع کیا گیا.اور حضرت عیسی علیہ السلام کو ناصرہ کے عیسی ابن مریم کشمیری یا عیسی ابن مریم ناصری کشمیری کہتے تھے.
73 اور شہزادہ نبی کے نام سے بھی یاد کرتے تھے.افغانستان کے باشندے وہی یہودی قبائل تھے جو بخت نصر کے عہد میں وطن چھوڑ کر مشرق میں آ بسے تھے ان کا ایمان تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ جسمانی طور پر اٹھائے گئے ہیں.) ہرات کے قبائل کے سردار ابا بیٹی کے پاس بائبل اپنی اصل شکل میں موجود تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشگوئیاں موجود ہیں انہیں پیشگوئیوں کی وجہ سے جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہ قبائل ان پر ایمان لے آئے اور عیسائی مسلم کہلائے دینِ حق سے قبل افغانستان میں نصرانی مذہب کے لوگ موجود تھے بعد میں مسلمان ہو گئے ان میں نصرانی مذہب کے آثار پائے جاتے تھے اور روٹی پر صلیب کا نشان بناتے تھے.تاریخ افغانستان از علامه جمال الدین افغانی) حضرت مسیح علیہ السلام موجودہ پاکستان اور تبت میں : تو ماحواری قندھار اور کابل سے سفر کرتے ہوئے ٹیکسلا پہنچے.ٹیکسلا کے حکمران گنڈ وفرس نے حبان نامی ایک شخص کو نصیبین کے بادشاہ کے پاس اس غرض سے بھیجا کہ وہ کسی ایسے معمار کو بھیج دے جو ٹیکسلا میں روم کے محلات کی طرز پر ایک محل تیار کر دے جب وہ نصیبین کے بادشاہ کے پاس یہ عرضداشت لے کر پہنچا اس وقت مسیح نے تو ما کو حبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ ٹیکسلا میں بادشاہ کا محل تیار کرے.تھومانے چھ ماہ میں محل بنایا.ایک دفعہ تھوما حواری گنڈ وفرس کی مملکت میں قیام رکھتے تھے تو حضرت مسیح علیہ السلام ان کے پاس آئے اور انہیں مشرقی جانب تبلیغ کی غرض سے روانہ کیا اور انہیں برکت کی دعا بھی دی.
74 چنانچہ تو ما آپ کے ارشاد کے مطابق جنوبی ہند (مدارس) کی طرف چلے گئے.ٹیکسلا میں حضرت مسیح اور تو ما حواری نے حبان کے بھائی جاد کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی.مسیح کشمیر میں بحوالہ 46-The Apwstle Thomas Idiain (P)) حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اپنی جائے پیدائش سے دور دراز علاقوں میں سفر کرنے کی بہت سی پیشگوئیاں تھیں جو اس سفر سے پوری ہوئیں یسعیاہ نبی نے کہا تھا.مسیح اپنی جان کی سخت مصیبت دیکھے گا مگر وہ مرے گا نہیں بلکہ ذلت کی موت سے بچ کر ایک دور دراز علاقہ میں چلا جائے گا.جہاں وہ صاحب اولاد ہو گا اور وہ اپنی نسل دیکھے گا اور اس کی لمبی عمر ہو گی.“ (یسعیاہ باب 53) اسی طرح زبور میں اکثر و بیشتر حضرت داؤد علیہ السلام کی زبان ایسی دعائیں درج ہیں جس میں ایک شخص دعا کرتا ہے جو انتہائی مصیبت کی حالت میں ہے.اسے گرفتاری جسمانی اذیتیں، صلیب، ہاتھوں، پیروں کا چھیدا جانا اور کرب کی حالت میں دعائیں کرتا بیان کیا گیا ہے.وہ بڑی دردمندی سے ایک مصیبت زدہ مظلوم اور غمگین و اداس شخص کے لئے دعا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو کشف میں دکھا دیتا ہے کہ جس کے بچائے جانے کے لئے تم دعا کر رہے ہو وہ موت سے بچ کر دُور دراز سفر کر کے جنت نظیر ملک میں پہنچ جاتا ہے جو سرسبز شاداب تھا.اس مطمئن کرنے والے کشف پر حضرت داؤد علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گائے تھے.-1 اس کے سفر کو خدا نے مبارک کیا اور اسے ہری چراگاہوں اور
75 چشموں اور اناج سے ڈھکی ہوئی وادی میں بٹھلایا.خداوند اسے محفوظ اور جیتا رکھے اور وہ زمین پر مبارک ہوگا.“ (زبور : 41) -2 ” میں اپنی آنکھیں خداوند کی طرف اٹھاتا ہوں جہاں سے میری مدد آئے گی اور میری مدد خداوند سے ہے.“ -3 (زبور 2،1:121) ” خداوند میرا چوپان ہے مجھے کمی نہ ہوگی وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھلاتا ہے.وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے وہ میری جان کو بحال کرتا.وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں لے چلتا ہے بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو سی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تو میرے ساتھ ہے.میں بہت دنوں تک خداوند کے گھر ( مقدس، ہجرت گاہ) میں سکونت کروں گا.“ (زبور : 1 تا4) 66 خدا تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام کو ان الہی نوشتوں کے مطابق نہ صرف سرسبز و شاداب وادیوں میں لے آیا بلکہ یہاں بہت سے چاہنے والے، عزت کرنے والے اور ایمان لانے والے بھی آپ کو عنایت کئے اور آپ اس سفر میں عزت وجاہت والے بنے خود تکلیفیں اٹھائیں سفر کی صعوبتیں برداشت کیں مگر گمشدہ قبائل تک پہنچ کر خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا.حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- ”سب سے پیارے خدا کی جناب میں وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں پوچھا گیا کہ غریب کے کیا معنی ہیں.کہا وہ لوگ ہیں جو عیسی مسیح کی طرح دین لے کر اپنے ملک سے بھاگتے ہیں.“
76 وو حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں.(کنز العمال جلد 6 صفحہ 51) ” مجھے اور شہروں میں بھی خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانا ضروری ہے کیونکہ میں اسی لئے بھیجا گیا ہوں.“ (لوقا باب 4 ، آیت 42) ابن آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈ نے اور نجات دینے آیا ہے.“ (لوقا باب 19 ، آیت 10 ) ” میں جاتا ہوں اور تم مجھے ڈھونڈو گے..جہاں میں جاتا ہوں تم نہیں آ سکتے.“ (یوحنا باب 8، آیت 21) ” میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کو بھی لانا ضروری ہے اور وہ میری آواز سنیں گی اور پھر ایک ہی گلہ ہو گا اور ایک ہی چرواہا.( یوحنا باب 10 ، آیت 16) آپ کی ہجرت اور سفر صرف خدا کی خاطر تھا اس لئے آپ خدا کی طرف ہجرت کرنے والے کہلائے.جو ہجرت خدا کے لئے ہو دینی مقاصد کے لئے ہو وہ خدا کی طرف ہوتی ہے.اس مسلسل سفر میں خدا تعالیٰ نے اکثر جگہ آپ کو بہت مقبولیت عطا کی مشرقی پنجاب میں ایک بادشاہ آپ کا اتنا معتقد ہوا کہ اپنے سکوں پر آپ کی شبیہ بنوائی.(مسیح ہندوستان میں ) ٹیکسلا سے پہاڑی علاقے میں سفر کرتے ہوئے آپ راولپنڈی کے قریب مری کے علاقے سے گزرے یہاں آپ کی ہمسفر مریم مگدلینی کا انتقال ہو گیا اور وہ مری کے علاقے میں دفن ہوئیں لوگ ان کے مزار کو مائی مری کی ڈھیری کہا کرتے تھے.یہاں سے آپ گلگت گئے پھر پنجاب کے شمالی حصے اور
77 وو وو بنارس میں وعظ کرتے رہے واپس گلگت جا کر لداخ تبت اور نیپال کا رخ کیا.یہاں بدھ مت کے پیرؤں نے مسیح علیہ السلام کو گوتم بدھ نیا ہیرا کی پیشگوئی کا مصداق سمجھا انہوں نے مسیح علیہ السلام سے ساڑھے پانچ سو برس پہلے کہا تھا.” میرے بعد متیا آئے گا جو میرا چھٹا مرید ہو گا.بدھ نے ان کا نام بگو امتیا“ بھی بتایا تھا یعنی ” سفید رنگ کا مسیحا“ چنانچہ بدھ مذہب رکھنے والوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو نبی مانا اور اپنی زبان میں مشیحا یا می شی ہو بھی کہتے تھے.حضرت عیسی علیہ السلام نے ان کو سمجھایا کہ شودر اور ولیش جنہیں ہندو ذلیل سمجھتے ہیں.بحیثیت انسان برابر ہی کا حق رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ انسانوں سے برابر کا پیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ واحد لاشریک ہے پتھر دھات کی مورتیاں عبادت کے لائق نہیں.حضرت مسیح علیہ السلام موجودہ ہندوستان اور کشمیر میں : چونکہ وہ ایک سرد ملک کے آدمی تھے اس لئے ان ملکوں میں غالباً وہ صرف جاڑے تک ہی ٹھہرے ہوں گے اور اخیر مارچ یا اپریل کی ابتداء میں کشمیر کی طرف کوچ کیا ہوگا.“ مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد نمبر 15 ص:70) کنز العمال میں دیلمی اور ابن نجار نے حضرت جابر سے حضرت مسیح کے سفر اور ایک برفانی وادی میں پہنچنے کی روایت کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے.” حضرت عیسی علیہ السلام سفر کیا کرتے تھے جب شام پڑ جاتی تو جنگل کا ساگ پات کھا لیتے اور چشموں کا صاف پانی پی لیتے اور مٹی کا تکیہ بنا لیتے پھر فرماتے تھے کہ نہ میرا گھر ہے جس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو اور نہ
78 کوئی اولاد ہے جس کے مرنے کا غم ہو کھانے کے لئے جنگل کا ساگ پات، پینے کے لئے چشموں کا صاف پانی اور سونے کے لئے زمین کا بستر ہے.اور ن کے گم ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہیں جب صبح ہوتی تو چل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ سفر کرتے کرتے ایک وادی میں پہنچے جہاں ایک اندھا آدمی دیکھا.جو ہل جل نہیں سکتا تھا.جذام نے اس کے بدن کو پھاڑ دیا ہوا تھا اس کے اوپر آسمان تھا اور اس کے نیچے وادی اور اس کے دائیں بائیں برف اور سردی تھی مگر ان تکالیف میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کرتا تھا عیسی ابن مریم نے اس سے پوچھا کہ ان حالات میں بھی تو خدا کا شکر ادا کرتا ہے تو کس بات پر؟ اس نے جواب دیا:- اے عیسیٰ میں اس لئے اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ میں اس زمانے میں نہیں ہوا جب لوگ تجھے خدا کا بیٹا یا تین میں سے تیسرا بتائیں گے.“ (کنز العمال جلد 2 صفحہ 71) اس کشف میں ضعیف مرد کی زبان سے آپ کو یہ خوشخبری ملی کہ اس علاقے کے لوگ آپ پر ایمان لائیں گے یہ وہ لوگ نہیں جو شرک کریں بلکہ یہاں آپ کو وجاہت اور مقبولیت نصیب ہو گی.مسلسل سفر کی وجہ سے آپ سیاح نبی مشہور ہوئے حتی کہ آپ کو اصل نام سے زیادہ صحیح اور مسیحا کہا جاتا ہے لسان العرب کے ص 431 میں لکھا ہے د عیسی علیہ السلام کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا کہ وہ زمین کی سیر کرتا رہتا تھا اور کہیں اور کسی جگہ اس کو قرار نہ تھا.تاج العروج شرح قاموس میں لکھا ہے کہ مسیح وہ ہوتا ہے جو خیر اور برکت کے ساتھ مسح کیا گیا ہو.اس طرح آپ الہی خیر و برکت لئے سفر کرتے ہوئے کشمیر جنت نظیر
پہنچے.79 حضرت مریم علیہا السلام کی وفات: خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمُّهُ ايَةً و أَوَيُنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِينٍ (مؤمنون :51) ترجمہ: اور ابن مریم کو اور اس کی ماں کو بھی ہم نے ایک نشان بنایا تھا اور ان دونوں کو ہم نے ایک مرتفع مقام کی طرف پناہ دی جو پُر امن اور چشموں والا تھا.حضرت مریم علیہ السلام اور ابن مریم علیہ السلام خدا تعالیٰ کا ایک نشان بنے.سفر کرتے ہوئے دونوں وادی کشمیر پہنچے.تبلیغی سفر کے دوران کاشغر کے مقام پر حضرت مریم علیہ السلام کا انتقال ہو گیا.د, کاشغر سے قریباً چھ میل کے فاصلے پر مریم مزار کے نام سے ایک مقبرہ موجود ہے یہ قبر مقدس کنواری یعنی والدہ حضرت مسیح ناصری کی بتائی جاتی ہے.یہ مقام آج کے دن تک مرجع خلائق اور زیارت گاہ ہے.(Heart of Asia by Prof.Nicholas Roorakh 1929 P39) قرآن کریم میں حضرت مریم کو سب سے بہتر اور سب سے مقدس قرار دیا ہے.اپنے زمانے کی سب عورتوں میں سے بہترین عورت فرمایا ہے.”اے مریم! اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بزرگ بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے پاک کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی ساری عورتوں پر تجھے فضیلت دی ہے.(ال عمران : 13)
80 وہ ایسی دعا گو خاتون تھیں جن کی دعائیں بارگاہِ الہی میں مقبول ہوتی تھیں.دعا کی قبولیت سے خدا تعالیٰ کی ہستی پر اُن کا ایمان مزید تقویت حاصل کرتا.اور وہ نیکیوں اور عبادات میں زیادہ خلوص سے عمل پیرا ہوتیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے مریم! اپنے رب کی فرمانبردار رہو.اُس کی عبادت بجا لاؤ اور باقی مومنوں کے ساتھ مل کر اُس کی عبادت بجا لاؤ.“ ( آل عمران : 44) اللہ تعالیٰ نے مومن کی مثال دیتے ہوئے جن دو خواتین کا ذکر فرمایا ہے اُن میں سے ایک حضرت مریم علیہا السلام ہیں جن کا قرآن کریم میں یوں ذکر ملتا ہے.اور عمران کی بیٹی مریم کی (جس کی مثال دی ہے) جس نے اپنی عصمت کو اچھی طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس (بچے) میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکا اور اس کی ماں) نے اپنے ربّ کے کلمات کی تصدیق کی اور اس کی کتابوں کی بھی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی.“ 66 (التحريم : 13) حضرت مریم علیہا السلام اللہ کے ایک نبی کی ماں ہونے کا اعزاز رکھنے والی محترم خاتون ہیں.اُن پر سلامتی ہو.
81 شبيه حضرت مسیح ناصری حضرت مسیح ناصری کی یہ قدیم تصویری جو کہ روم میں سینٹ پیٹر کے مقدس آثار میں موجود ہے.ظاہر کرتی ہے کہ آپ نے بڑھاپے کی عمر پائی.(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا 1947ء) 1 کشمیر میں ایک چلتے پھرتے پاکباز انسان کی شبیہ ایک معزز معمر شخص کی تھی (انسائیکلو
82 پیڈیا برٹینی کا زیر لفظ جیز ز کرائسٹ ) اس زمانے کی تصویر مقدس امانت کی حیثیت سے عیسائی دنیا کشمیر میں قیام کے دوران وہاں کے ایک راجہ سا کا دلیش نے جس کا نام شالباھن تھا آپ سے ملاقات کی وہ ایک دفعہ ہمالہ کی چوٹی پر گیا وہاں اس نے ایک گورے رنگ والے شخص کو دیکھا جو سفید کپڑوں میں ملبوس تھا.( یہ حضرت عیسی علیہ السلام تھے ) جن سے راجہ نے پوچھا آپ کون ہیں؟ آپ نے جواب دیا.مجھے خدا کا بیٹا سمجھئے میں ایک کنواری کا بیٹا ہوں.میں ملیچھوں کے مذہب کا واعظ ہوں اور صداقت کی پیروی میں مضبوط ہوں آپ نے اپنے مذہب کا خلاصہ بیان کیا.انسان کو اپنی انسانیت صاف اور جسم کو پاک کر کے یکسو ہو کر خدا سے دعا کرنی چاہئے اور انصاف سچائی اور دلجمعی اور پوری یکسوئی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.جو سورج کے آسمان میں ہے خدا خود اپنے طریق کو نہیں چھوڑتا جس طرح سورج ہمیشہ آخر کار سب خطا کار مخلوق کی روح کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اے بادشاہ یہ وہ پیغام ہے جو روح القدس سے ظاہر ہو کر خدا کی طرف سے مجھے دیا گیا میں محبت، سچائی اور دل کی پاکیزگی قائم کرنے آیا ہوں اس وجہ سے میں عیسی مسیح کہلاتا ہوں.(مسیح کشمیر میں صفحہ 75 از محمد اسد اللہ قریشی کا شمیری) آپ نے بنی اسرائیل کے قبائل کو ایک عظیم الشان نبی کی آمد کا مژدہ بھی سنایا اور وصیت کی کہ جب وہ دو جہانوں کا سردار ( یعنی حضرت محمد مصطفیٰ بقیہ حاشیہ صفحہ 75 : کے پاس محفوظ ہے یہ 1947ء میں شائع ہوئی اس کے نیچے لکھا ہے.یہ تصویر روم کے مقدس پطرس کے گر جا میں قدیم یادگاروں میں رکھی ہوئی ہے جو کہ
83 ایک کپڑے پر بنائی گئی ہے.تصویر کی تاریخ یقینی طور پر دوسری صدی عیسوی تک پیچھے جاتی ہے.صلی اللہ علیہ وسلم ) آئے تو اسے قبول کر لیں.میر میں آپ ایک خدا رسیدہ نبی اور پاکباز، بابرکت انسان سمجھے جاتے تھے.(کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے صدر پروفیسر حسنین کی تحقیق روز نامہ مساوات کراچی 5 نومبر 1973 ء ٹائمنز آف انڈیا 6/نومبر 1977ء) وہاں آپ نے شادی کی اور اولاد کی نعمت سے نوازے گئے.کثرت سے کشمیر میں موجود بنی اسرائیل آپ پر ایمان لائے وہ توریت و انجیل پڑھتے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے.جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تو مزار پر صلیب بطور نشان کے لگاتے کہ یہ حضرت عیسی یا یوز آسف نبی کے پیروکار کی قبر ہے.انہوں نے کلیسیا بھی بنائے ان میں ایک خدا کی عبادت ہوتی نماز، روزہ کے بھی پابند تھے ایک عبادت گھر کا نام عیسی بار بھی تھا جہاں دُور دُور سے لوگ آتے اور اُص مقدس مقام سمجھتے تھے حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے کاشغر کا سفر بھی کیا دورانِ سفر ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہیں کاشغر میں مدفون ہوئیں.( قلمی تاریخ کشمیر بحوالہ وفات مسیح اور احیائے اسلام دوست محمد شاہد صاحب) حضرت مسیح علیہ السلام شب و روز عبادت الہی میں مشغول رہتے اور تقویٰ اور پارسائی کے اعلیٰ درجہ کو پہنچ کر خود کو اہل کشمیر کی رسالت کے لئے مبعوث قرار دیا اور دعوت خلائق میں مشغول رہتے چونکہ خطہ کشمیر کے اکثر لوگ 1 مسیح اور آپ کی والدہ حضرت مریم کے اکٹھے ہجرت کرنے اور زمین میں سیاحت کرنے کا ذکر محمد بن حسین مسعود فراء بغوی المتوفی 615 نے اپنی تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا اور ان کو دعوت دین کے
84 لئے مامور کیا تو بنی اسرائیل نے آپ کو وطن سے نکلنے پر مجبور کیا اس پر حضرت مسیح اور آپ کی والدہ دونوں نکل گئے اور دونوں ملک سے باہر زمین میں سیاحت کرتے رہے.آپ کے عقیدت مند تھے راجہ گوپانند نے ہندوؤں کا اعتراض ان کے سامنے پیش کیا اور آپ کے حکم سے سلیمان نے جسے ہندوؤں نے سند یمان کا نام دیا تھا گنبد مذکورہ کی تکمیل کی 54 عیسوی) تھا اس نے گنبد کی سیڑھی پر لکھا کہ اس وقت یوز آسف نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے اور دوسری سیڑھی کے پتھر پر لکھا کہ آپ بنی اسرائیل کے پیغمبر یسوع ہیں.“ ( قلمی تاریخ کشمیر بحوالہ وفات مسیح اور احیائے اسلام دوست محمد شاہد صاحب) ایک موقع پر اہلِ شام کے عقیدت مند بھی حاضر ہوئے اور آپ کی تصویر بنائی اور تبرک کے طور پر ساتھ لے گئے.یہاں بھی آپ کی تعلیم کا وہی طریق تھا تمثیلی انداز اور پُرحکمت اور چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں مثلاً آپ نے فرمایا:- دنیا کی مثال مست ہاتھی کی ہے اور اہل دنیا کی مثال اس شخص کی جو مست ہاتھی کے خوف سے کنوئیں میں جا گرتا ہے.کسان بونے کے لئے اچھے اچھے بیج نکالتا ہے اور جب ایک مٹھی بھر کر پھینکتا ہے تو کچھ دانے راستے کے کنارے پر گرتے ہیں اور تھوڑی دیر میں چڑیاں چگ جاتی ہیں اور کچھ پتھروں پر گرتے ہیں اور اگر کسی پر ذرا سی مٹی بھی جمی ہوتی ہے تو پھوٹتے ہیں اور سبزہ لہلہاتا ہے مگر جب پتھر پر ان کی جڑ پہنچتی ہے تو جل کر سوکھ جاتے ہیں اور کچھ دانے کانٹوں سے بھری ہوئی زمین پر جا پڑتے ہیں اور جب وہ اُگتے ہیں اور بالیں نکلتی ہیں اور پھلنے پھولنے کا زمانہ قریب آتا ہے تو کانٹوں میں لپٹ کر ضائع و بیکار ہو جاتے ہیں اور جو دانے ایسی
85 زمین پر گرتے ہیں جو تھوڑی ہے مگر صاف ہے تو وہ خوب پھلتے پھولتے ہیں.سب سے بڑھ کر عادل وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ اکثر اپنے نفس کو ملزم قرار دے اور سب سے بڑھ کر ظالم وہ ہے جو اپنے ظلم کو عدل سمجھے اور سب سے بڑھ کر عقلمند وہ ہے جو اپنا سامانِ آخرت درست کرے اور سب سے بڑھ کر نادان وہ ہے جو محض دنیا میں ہی مصروف ہو جائے اور سب سے بڑھ کر خوش نصیب وہ ہے جس کے اعمال تا انجام بخیر ہوں اور سب سے بڑھ کر بدنصیب وہ کہ اس کے اعمال خدا کی ناراضگی پر منتج ہوں.ہندوستان کے بادشاہ جنسیر نے یوز آسف سے کہا ایک انسان دوسرے کا گناہوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے اس پر یوز آسف نے کہا.”اے بادشاہ! کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور گناہوں کی سزا سے نہیں بچ سکتا اے بادشاہ میرے ہاتھوں میں یہ زخم ہیں اور مجھے ان سے درد اور تکلیف ہے آپ میرے دکھ درد کو دور کر سکیں گے یا اسے ہٹا سکیں گے.بادشاہ نے کہا ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟ یوز آسف نے کہا.آپ بادشاہ ہوتے ہوئے میری تکلیف کو نہ دُور کر سکتے ہیں نہ اسے بٹا سکتے ہیں تو اگر میں آخرت میں دوزخ کی آگ میں پڑوں تو آپ مجھے اس سے کیسے بچا سکیں گے جب کہ آپ وہاں بے بس بھی ہوں گے.“ آپ بہت ضعیف ہو گئے تھے اور خدا کے پاک لوگوں کی طرح اپنی وفات کے وقت کو قریب سمجھ رہے تھے اس لئے آخری نصیحتوں میں کہا.” میں نے لوگوں کو تعلیم دی خدا سے ڈرایا، بیعت کی نگہداشت کی اور اگلے لوگوں کے چراغ کو روشن کیا اور ایمان والوں کی جماعت کو جو منتشر تھی مجتمع وو
86 کیا اور اسی غرض کے لئے بھیجا گیا تھا اب دنیا سے عالم بالا کی طرف میرے اٹھائے جانے کا وقت آ پہنچا ہے.تم سب کو لازم ہے کہ اپنے فرائض کی نگہداشت کرو اور جس حق کو میں نے قائم کیا ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دو.“ (مسیح کشمیر میں از محمد اسد اللہ قریشی کا شمیری سن اشاعت 1978،صفحہ 103،102) اس طرح وہ انسان جو ایک عظیم الشان مقصد کے لئے صلیب.بچایا گیا تھا مطمئن دل کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر کے لوگوں کو حق اور توحید پر قائم رہنے کی نصیحت کر کے ہر لحاظ سے سرخرو ہو کر اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہونے کی تیاری کر رہا تھا.عیسائیوں کا عقیدہ ہے: وو ” حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان دی اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ گئے اور اپنے باپ کے دائیں ہاتھ جا بیٹھے اور پھر آخری زمانہ میں دنیا کی عدالت کے لئے زمین پر آئیں گے اور کہتے ہیں کہ دنیا کا خدا اور خالق اور مالک وہی یسوع مسیح ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں وہی ہے جو دنیا کے اخیر میں سزا جزا دینے کے لئے جلالی طور پر نازل ہو گا تب ہر ایک آدمی جس نے اس کو یا اس کی ماں کو بھی خدا کر کے نہیں مانا پکڑا جائے گا اور جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں رونا اور دانت پینا ہوگا.“ مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد نمبر 15 ص : 6) اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے: ”حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ صلیب پر مرے بلکہ اس وقت جبکہ یہودیوں نے ان کو مصلوب کرنے لئے گرفتار کیا خدا کا فرشتہ
87 ان کو مع جسم عنصری آسمان پر لے گیا اور اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مقام ان کا دوسرا آسمان ہے جہاں حضرت حي علیہ السلام نبی یعنی یوحنا ہیں.اور نیز مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کا بزرگ نبی ہے مگر نہ خدا ہے اور نہ خدا کا بیٹا.اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے منارہ کے قریب یا کسی اور جگہ اُتریں گے اور امام محمد مہدی کے ساتھ مل کر جو پہلے سے بنی فاطمہ میں سے دنیا میں آیا ہو گا دنیا کی تمام غیر قوموں کو قتل کر ڈالیں گے اور بجز ایسے شخص کے 66 جو بلا توقف مسلمان ہو جائے اور کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.“ مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد نمبر 15 ص : 6) قرآن پاک احادیث صحیحہ اور پہلی صدیوں کے اکابرین آئمہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کیا موقف تھا درج ذیل چند اقتباسات سے واضح ہو جاتا ہے.” قیامت کے روز خدا تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھے گا :- أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَ أُمِّي الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ ”اے عیسی ابن مریم کیا تو نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود مانو.“ حضرت عیسی علیہ السلام جواب دیں گے.وو پاک ہے تو.مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو.اگر میں نے وہ بات کہی ہوتی تو تو ضرور اسے جان لیتا، تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے.یقینا تو تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے.(سورۃ مائدہ : 117)
88 تم نے ان کو ایسا عقیدہ اپنانے سے منع کیوں نہ کیا؟ میں نے تو انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جو تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں رہا.پس جب تو نے مجھے وفات دے دی فقط %1 66 ایک تو ہی ان پر نگران رہا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے.“ (سورۃ مائده: 118) مندرجہ بالا آیت کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن کچھ لوگ گرفتار ہوں گے تو میں کہوں گا.یہ تو میرے دوست ہیں.مجھے جواب دیا جائے گا.بیشک اے نبی تو نہیں جانتا کہ تیرے بعد انہوں نے کیا بدعات اختیار کیں یقیناً یہ لوگ جب تو ان سے جدا ہوا اپنی اپنی ایڑیوں پر واپس پھر گئے تھے یعنی مرتد ہو گئے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.” میں اس وقت تک ہی نگران تھا جب تک ان میں موجود تھا پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو ان کا تُو ہی نگران تھا.(صحیح البخاري الجز الثانی کتاب التفسير ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.” تم کیسے خوش بخت ہو گے جب ابنِ مریم تم میں نازل ہو گا اور وہ تم 1 اس آیت کریمہ میں عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا صراحتاً ذکر ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب تک حضرت عیسی علیہ السلام زندہ رہے ان کی اپنی قوم میں شرک نہیں پھیلا.جب آپ فلسطین ہجرت کر گئے تو سینٹ پال Sainat Paul نے یونانیوں کو جو بنی اسرائیل نہیں تھے گمراہ کیا اور انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو معبود بنا لیا
89 بنی اسرائیل جو حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم دعوت تھی ان میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں شرک نہیں پھیلا.( ترجمہ قرآن کریم از حضرت خلیفہ امسیح الرابع : ص 200) 66 میں سے تمہارا امام ہو گا.“ ( بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم) ” معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جن انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقات کرائی گئی ان میں دوسرے آسمان پر حضرت عیسی علیہ السلام بھی تھے.“ الخصائص الکبری جلد اوّل صفحہ 168 از جلال الدین عبدالرحمن مطبوعه حیدر آباد دکن) حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- 1 ” اگر عیسی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا.“ (تفسیر ابن کثیر اردو جلد اول آل عمران صفحه 85، از نور محمد کارخانه تجارت آرام باغ کراچی، تفسیر ابن کثیر برحاشیہ تفسیر فتح اللبیان جلد 2 صفحہ 246) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- " مہدی عیسی ابن مریم) کے سوا کوئی دوسرا وجود نہیں.“ ابن ماجہ ابواب الفتن باب شدة الزمان) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خطبے سے اقتباس: ”اے لوگو! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اپنے نبی کی موت سے خوفزدہ.ہو کیا مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والا کوئی ایک نبی بھی ایسا گزرا ہے جو غیر طبعی عمر پا کر ہمیشہ زندہ رہا ہو کہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکوں گا یاد رکھو میں اپنے ربّ سے ملنے والا ہوں تھے ،،
90 1 الیواقیت الجواہر صفحہ 22 از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع از ہر یہ مصر، مطبع سوم 1321 ھ 2 المواہب الدنیہ جلد 2 صفحہ 368 از احمد بن ابی بکر خطیب قسطلانی شرفیہ 1908ء حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ.”رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بے شک میرے اور عیسی ابن مریم کے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں سنو یقیناً وہ میری امت میں میرے بعد میرا خلیفہ ہے سنو بے شک وہ دجال کو قتل کرے گا اور صلیب کو توڑے گا اور جزیہ موقوف کر دے گا اور لڑائی اپنے اوزار رکھ دے گی.سنو! تم میں سے جو اسے پائے اسے السلام علیکم کہے.“ (طبرانی فی الاوسط وطبرانی الصغیر) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو بعد میں پہلے خلیفہ راشد بنے :- ” بعد حمد وصلوٰۃ واضح ہو کہ جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا اس کو معلوم ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور جو شخص تم میں سے خدا کی پرستش کرتا تھا تو خدا زندہ ہے جو کبھی نہیں مرے گا (اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر دلیل ہے کہ ) خدا نے فرمایا ہے کہ محمد صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گزر چکے ہیں یعنی مر چکے ہیں اب کیا تم اس رسول کے مرنے یا قتل ہو جانے کی وجہ سے دینِ اسلام چھوڑ دو گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جائے وہ اللہ کا ہر گز کچھ نقصان نہیں کر سکتا اور اللہ شکر گزاروں کو ضرور بدلہ دے گا.“ ( بخاری جلد 3 ص 63 مطبوعه مصر) حضرت جارود بن معلیٰ نے اعلان کیا:- میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفیٰ کی
91 صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی زندہ رہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام زندہ رہے اور اسی طرح انتقال کر گئے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام نے وفات پائی.“ (مختصر سيرة رسول صفحه 222 از مسجد دصدی دوازدهم حضرت محمد بن عبدالوہاب المتوفی 1206 ہجری) حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی وفات: خدائے قادر و قیوم نے بدنیت یہودیوں کو اس ارادہ سے ناکام اور نامراد رکھا اور اپنے پاک نبی علیہ السلام کو نہ صرف صلیبی موت سے بچایا بلکہ اس کو ایک سو بیس (120) تک زندہ رکھ کر تمام دشمن یہودیوں کو اُس کے سامنے ہلاک کیا.ہاں خدا تعالیٰ کی اُس قدیم سنت کے موافق کہ کوئی اولوالعزم نبی ایسا نہیں گزرا جس نے قوم کی ایذا کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پا کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ میں ہندوستان اور کشمیر اور تبت میں آئے ہوئے تھے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر آخر کار خاک کشمیر جنت نظیر میں انتقال فرمایا اور سری نگر خان یار کے محلہ میں باعزاز تمام دفن کئے گئے آپ کی قبر بہت مشہر ہے بُزار و يتبرک به.راز حقیقت، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 155,154) ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم مارتا ہے اس کو فرقاں سر بسر اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر وہ نہیں باہر رہا اموات ہو گیا ثابت یہ تمیں آیات سے
92 قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں سب سے زیادہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ملتا ہے.سورۃ آل عمران آیت 56 کا ترجمہ ہے: ”اے عیسی ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں.“ رفع سے مراد : درجہ کی بلندی ہوتی ہے یعنی روحانی رفعت عطا کرنا.سورۃ المائدہ آیت 76 کا ترجمہ ہے: مسیح ابن مریم ایک رسول ہی تو ہے اس سے پہلے جتنے رسول تھے سب کے سب گزر چکے ہیں اور اس کی ماں صدیقہ تھی.دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.ہوتی.فرمایا:- دونوں ماں، بیٹا کی حیات بھی ایک جیسی تھی وفات بھی ایک جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجرانیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے ” کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا مگر عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.“ وو (اسباب النزول سفحه 53 از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولی 1959 ء مطبع مصطفی البابی مصر) سنت الہی کے مطابق نبی کی عمر آخری نبی کی عمر سے نصف ہوتی ہے اس سنت کے مطابق سلسلہ موسوی کے آخری نبی حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر 120 سال تھی.“ (کنز العمال جلد 6 ص 120 ) أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے
93 کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں جس میں آپ وفات پاگئے فرمایا:- رہے.66 ” جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ عیسی ابن مریم 120 سال زندہ (کنز العمال جلد 6 ص 120 از علاء الدین علی متقی دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد 1312ھ) حضرت ابن جریر طبری (متوفی 510ھ) نے اپنی تاریخ میں قبر مسیح کے کتبہ کے یہ الفاظ لکھے ہیں : هَذَا قَبُرُ رَسُولِ اللَّهِ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمُ تاریخ وفات : تاریخ الرسل والملوک جلد 2 صفحہ 739) حضرت امام حسین علیہ السلام نے امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:- ترجمہ: - امیر المؤمنین حضرت علیؓ اس رات فوت ہوئے جس رات حضرت عیسی ابن مریم کی روح اٹھائی گئی یعنی ستائیس رمضان کی رات.(طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 39 دارالبيروت للطباعة والنشر ) حرف آخر حضرت مسیح علیہ السلام اپنے پیروکاروں اور مخالفوں کے ہاتھ افراط و تفریط کی چیرہ دستی کا شکار رہے ہیں.ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا.وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة ” دنیا اور آخرت میں وجاہت پائے گا.“ (ال عمران : 46)
94 خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ پر عائد ہونے والے الزامات کی تردید کے سامان کروائے پھر آخری زمانہ میں حضرت مسیح و مہدی علیہ السلام کے ذریعے ایسے حقائق و دلائل منظر عام پر لانے کا سامان فرمایا کہ یہ پاک برگزیدہ نبی ہر الزام سے بری ہو کر معزز و محترم مانا جائے.میں یہ باتیں کسی قیاس اور ظن سے نہیں کہتا بلکہ میں خدا تعالیٰ سے وحی پا کر کہتا ہوں اور میں اُس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اُسی نے مجھے یہ اطلاع دی ہے وقت میری گواہی دیتا ہے خدا کے نشان میری گواہی دیتے ہیں ماسوا اس کے جبکہ قرآن شریف سے قطعی طور پر حضرت عیسی کا وفات پا جانا ثابت ہے.66 (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 33) ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيْهِ يَمْتَرُونَ (مریم : 35) ترجمہ : ” یہ حقیقی عیسی بن مریم ہے اور یہ (اس کا اصل) سچا واقعہ ہے جس میں وہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں.آخر پر دعا ہے کہ خداوند کریم میری اس کاوش کو قارئین کے لئے موجب تسلی تشفی بناوے.(آمین)
95 سری نگر (کشمیر) محلہ خانیار میں یہ قبر یوز آسف کی ہے.تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آخری آرام گاہ ہے.
96 دو 1903 ء میں کی جانے والی پیشگوئی تحریر حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اُترا تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ میٹی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک
97 سکے.ہے ( تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 65) پر روز نامہ الفضل کا تبصرہ یہ محترم حضرت اللہ پاشا اور محترم مولانا عبد الباسط صاحب شاہد کے مفید مشوروں اور نظر ثانی کے بعد شائع کی گئی ہے محترم ناظر صاحب اشاعت نے اس کا مسودہ پڑھ کر تحریر فرمایا.” اس مضمون کے کسی حصے کی اشاعت پر کوئی اعتراض نہیں.ہمارے قارئین نے امتہ الباری ناصر کی نظمیں بھی پڑھی ہیں.اور نثری تحریر بھی.اور وہ جانتے ہیں کہ امتر الباری ناصر نظم بھی اچھی کہتی ہیں اور نثر بھی نہایت شستہ اور شائستہ زبان میں مھتی ہیں.ان کا اپنے متعلق یہ کہنا.دینی علوم سے تہی دامنی اور فن تحریر سے نا آشنائی کے احساس کے باوجود میں نے لکھنے کی حامی بھر لی.ایک بہت قابل قدر خاکساری کی صورت ہے.جہاں تک اس سرگزشت کا تعلق ہے.سلیمہ میر صاحبہ جو لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی صدر ہیں نے پیش لفظ میں لکھا ہے.خدا کے فضل سے لجنہ اماءاللہ کراچی جشن تشکر منانے کے لئے کتابیں شائع کرنے کے پروگرام کے سلسلے میں ایک اور کتاب ”ایک بابرکت انسان کی سرگزشت" کے نام سے پیش کر رہی ہے.میں نے یہ کتاب شروع سے آخر تک پڑھی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے حالات زندگی پر ایسی مکمل کتاب اس سے قبل میری نظر سے نہیں گزری.اس پیش لفظ سے قاری سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ سرگزشت حضرت عیسیٰ
98.علیہ السلام کی ہے.امتہ الباری ناصر کی عرض حال سے پتہ چلتا ہے کہ اس مختصر سی کتاب جو...صفحات پر پر مشتمل ہے کے لئے خاصی تحقیق کی گئی.اور جوں جوں تحقیق کے لئے مطالعہ کیا جاتا رہا.نئے نئے حقائق سامنے آتے رہے اور موضوع میں دلچسپی بڑھتی رہی.اور وہ کہتی ہیں کہ آہستہ آہستہ اس موضوع میں اتنی ڈوب گئی کہ بہت سے کتب و رسائل ہمہ وقت زیر مطالعہ رہتے.وہ سرگزشت لکھنے کی مشکلات کا بھی ذکر کرتی ہیں.اور کہتی ہیں کہ ”سرگزشت لکھنا آسان کام نہیں.اور وہ بھی ایسی ہستی کی جو تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ متنازعہ فیہ شخصیت ہے.تحقیق طلب امور میں کوئی حرف حرف آخر نہیں ہوتا.“ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحقیق طلب امور میں کوئی حرف حرف آخر نہیں ہوتا.لیکن یہ بات بھی صد فی صد درست ہے کہ تحقیق کی ہر کڑی انگلی کڑی کی طرف توجہ دلاتی ہے.اور اس کی طرف راہنمائی کرتی ہے.اور اس طرح تحقیق کا موضوع وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے.عام طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں انہیں کا رقم کر دینا بھی ایک حد تک سرگزشت کہلا سکتا ہے.لیکن تحقیق کے بعد مختلف زاویوں سے ان کی زندگی پر نظر ڈالنا واقعی کوئی آسان کام نہ تھا.لیکن ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ بات نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ سرانجام دی گئی ہے.ایک مقام پر آپ کی تعلیمات کا نچوڑ اس رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ تمثیلی انداز بھی سامنے آ جائے.اور پُرحکمت اور چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں بھی انسانی زندگی کو بہتر بنانے کا کام دے سرگزشت میں ان کی پیدائش کا واقعہ ان کے اپنی والدہ سے حسنِ سلوک.یروشلم کا سفر اور خدا کی طرف سے انہیں برکت کا عطا کیا جانا اور ان کی دعا کا طریق اور پھر ان کے معجزات اور ان معجزات کی حقیقت.اور اس
99 کے ساتھ ہی ان کا مشن جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے سپرد کیا گیا تھا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کی بشارتیں اور پیشگوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوئیں.حضرت عیسی علیہ السلام کا مقدمہ اور ایسی ہی دیگر باتیں اس کتاب کا موضوع ہیں.چند ایک تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں.ان تصاویر میں ایک تو حضرت مسیح علیہ السلام کی اپنی تصویر یعنی ان کا چہرہ اور ایک حضرت مسیح علیہ السلام کا کفن میں لپٹایا جانا وغیرہ تصاویر ہیں.کتاب لجنہ اماء اللہ احمد یہ ہال میگزین لین صدر کراچی نے شائع کی ہے نہایت اچھا کاغذ اچھی کتابت اور اچھی گٹ اپ.کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے والد محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش کے نام کیا ہے.جن کی بیت الدعا کی متضرعانہ دعا ئیں اور ذوق تحصیل علم ہر گام ان کے ساتھ ہیں.یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ہم نیک اور برگزیدہ ہستیوں کی زندگی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں.اور ان کی خوبیوں کو جہاں تک ہماری استعداد اجازت دیتی ہے ہم اپنی زندگیوں پر وارد کریں اور نیکیوں کے حصہ دار بنیں.(روز نامه الفضل ربوہ، ص 5، 17 دسمبر 1989ء)
100 نام کتاب ایک بابرکت انسان کی سرگز مرتبه.ناشر شمارہ نمبر طبع امۃ الباری ناصر........لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی 11 دوم تعداد..............1000 کمپوزنگ مطبع ضیاء اللہ قصوری، وحید منظور میر پرنٹ گرافکس ڈیزائنز اینڈ پرنٹرز ناظم آباد، کراچی."AIK BAABARKAT INSAAN KI SARGUZISHT" By