Language: UR
حضرت عزیزہ بیگمؓ اہلیہ حضرت منشی برکت علی شملوی۔ حضرت زینب بی بیؓ المعروف ’مولویانی‘ اہلیہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی
بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی حضرت عزیزہ بیگم اہلیہ حضرت منشی برکت علی شمالوی حضرت زینب بی بی المعروف مولویانی اہلیہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی لجنہ اماء الله
عزیزہ بیگم اہلیہ حضرت منشی برکت علی شملوی حضرت زینب بی بی المعروف مولویانی اہلیہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ پاکستان کو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت عزیزہ بیگم 1 پیارے بچو! حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت منشی برکت علی شملوی آپ کو معلوم ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کے آسمانی نور ہیں.آپ کی پاکیزہ صحبت سے ایسے عظیم و ٹیک لوگ پیدا ہوئے جو آخری زمانہ کے چمکتے ستارے بنے.آپ علیہ السلام کی مبارک صحبت سے جہاں مردوں میں روحانی تبدیلی پیدا ہوئی وہاں عورتوں نے بھی خوب حصہ پایا.ہم ایسی ہی ایک پاکیزہ ہستی کا ذکر کرتے ہیں جن میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پاکیزہ تبدیلی پیدا ہوئی.ان کا نام حضرت عزیزہ بیگم ہے جو حضرت منشی برکت علی شملوی صاحب کی اہلیہ تھیں.حضرت عزیزہ بیگم اپنے خاندان کی پہلی خاتون تھیں جو حضرت منشی برکت علی شملوی کے ساتھ شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں شامل
حضرت عزیزہ بیگم 2 ہوئیں آپ کے والد منشی مولا بخش تھے.وہ ہوشیار پور کی ضلع کچہری کے دفتر میں محافظ کے طور پر کام کرتے تھے.آپ کے والدین اور دوسرے رشتہ دار احمدیت کی نعمت سے محروم تھے مگر جب آپ کی شادی حضرت منشی برکت علی صاحب سے ہوئی تو آپ اپنے خاوند کی نیکی اور حسنِ سلوک دیکھ کر جلد ہی احمدیت کی صداقت کو پہچان گئیں اور احمدیت قبول کر لی.حضرت منشی برکت علی صاحب آپ کی بیعت کے بارہ میں فرماتے ہیں.وو 1906ء میں میں ایک دفعہ محترمہ والدہ صاحبہ، اپنی اہلیہ محترمہ عزیزہ بیگم اور اکلوتی بیٹی (بعمر 6 سال) کو لے کر قادیان گیا اور بارہ تیرہ روز وہاں قیام کیا.ہمیں رہنے کے لئے جو مکان ملاوہ شہر میں تھا.اس مکان میں کبھی پریس ( Press) بھی ہوتا تھا.میری والدہ اور اہلیہ نے وہاں دستی بیعت کی.میرے گھر سے روزانہ حضور علیہ السلام کے گھر جاتیں اور اندرون خانہ کی بہت سی باتیں مجھے بتا تیں.افسوس کہ ان کو محفوظ نہ کر سکا.جہاں تک یاد ہے بتا تیں تھیں کہ حضرت صاحب عموماً مطالعہ یا تحریر میں مصروف رہتے تھے.اکثر ایسا ہوتا کہ آپ کمرے کے دو تین طاقچوں میں دوا تیں رکھ لیتے اور ٹہلتے ٹہلتے تحریر کا کام کر لیتے جہاں سیاہی
حضرت عزیزہ بیگم 3 لگانے کی ضرورت ہوتی ، دوات میں قلم ڈبو لیتے اور پھر ٹہلنا شروع کر دیتے.ان دنوں آج کل کی طرح پین اور بال پوائینٹ نہیں ہوتے تھے.حضور علیہ السلام کسی کی طرف اونچی نگاہ کر کہ نہیں دیکھتے بلکہ نگاہیں نیچی کئے ہوے اپنے کام میں مصروف رہتے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب حضور علیہ السلام کی مصروفیت کے وقت بھی اور نماز کے اوقات میں بھی حضور علیہ السلام کے آگے پیچھے کھیلتے رہتے اور حضور علیہ السلام کبھی منع نہیں کرتے ہماری لڑ کی قریباً اس عمر کی تھی وہ بھی کبھی صاحبزادہ کے ساتھ کھیلتی تو کئی دفعہ حضور علیہ السلام از راه شفقت اسے بھی اپنی گود میں بیٹھا لیتے اور پیار کرتے.1907ء میں یہ بچی بیمار ہوگئی.دُعا کے لئے لکھنے کا موقع نہ ملا.مگر دل میں تڑپ تھی کہ بچی ٹھیک ہو جائے لیکن وہ ساڑھے سات سال کی عمر میں وفات پاگئی.اس کا مجھے بڑا دکھ ہوا کیونکہ اس سے پہلے بھی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ بعد میں ہوئی دوسرے تیسرے دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ حضور علیہ السلام کو الہام ہوا ” میں ان کے رونے کی آواز سن رہا ہوں مجھے اس وقت کچھ ایسا یقین ہوا کہ یہ میرے ہی متعلق ہے.میں بچی کو بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کے لئے لانا چاہتا تھا.حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا مگر حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ بچے جہاں بھی دفن ہوں جنتی
حضرت عزیزہ بیگم 4 ہوتے ہیں.جنازہ قادیان لانے کی اجازت نہیں.(1) عزیز و بیگم کے خاوند حضرت منشی برکت علی صاحب اپنی بیوی کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ : " میری بہت خدمت گزار اور وفادار بیوی تھیں میری صحت اور کھانے پینے کا بہت خیال رکھتی تھیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُن کا یہ سلوک میرے ساتھ عشق کی حد تک پہنچ گیا تھا.رشتہ داروں اور غیروں سب میں یہ بات ضرب المثل ہو گئی تھی کہ وہ اپنے خاوند کا بہت ہی فکر رکھتی ہیں.تقویٰ میں بھی اپنے ملنے والوں میں مشہور تھیں مجمع میں جانا محض اس وجہ سے پسند نہ کرتی تھیں کہ عورتوں اور بچوں کے شوروغل کی وجہ سے ان کی طبیعت گھبراتی تھی اور عورتیں جو عموما ایک دوسرے کا گلہ شکوہ کرتی ہیں انہیں بُر ا معلوم ہوتا.کسی کا احسان لینا پسند نہ کرتی تھیں چاہے اپنا ہو یا غیر ہو.اگر کوئی کسی وجہ سے خاص حسنِ سلوک کرتا تو جب تک اس سے بڑھ کر بدلہ نہ دیتیں چین نہ آتا.کسی کا حق مارنا تو ایک طرف ہمیشہ دوسرے شخص کو اس کے حق سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں.آپ کو غرباء کی مددکرنے کا بہت شوق تھا.(2) میری اہلیہ صفائی اور پاکیزگی کا بہت خیال رکھتی تھیں.گھر ذرا بھی گندا پسند نہ کرتیں گھر میں عام طور پر کام کاج کے لئے لڑکی یا ملازم رکھا
حضرت عزیزہ بیگم 5 جاتا تھا مگر پھر بھی جب کبھی موقع ملتا اپنے ہاتھ سے کام کرتی رہتی تھیں.کپڑے خود دھو لیتی تھیں ، اور برتن خود صاف کر لیتیں کپڑا دھوتے اور برتن صاف کرتے ہوئے کئی دفعہ کلمہ طیبہ پڑھتیں کیونکہ وہ بجھتی تھیں کہ جب تک کلمہ طیبہ نہ پڑھا جائے چیز صاف اور پاک نہیں ہوتی.آپ بزرگوں کی خدمت کا خاص خیال رکھتیں خاص طور پر اپنے سسرالی رشتہ داروں کا اور اس کے مقابلے میں میکے والوں کی بھی پرواہ نہ کرتیں.میری والدہ مرحومہ کی بیماری میں ان کی دن رات خدمت کی والدہ صاحبہ کو بھی ان سے بہت پیار تھا.اپنا کام ان سے کرواتی تھیں کسی اور کا کام ان کو پسند نہ آتا تھا.جب تک ہم نے بیعت نہیں کی تھی میری ہر قسم کی بے قاعدگیاں برداشت کرتی رہیں لیکن بیعت کرنے کے بعد کسی قسم کی سختی برداشت نہ کرتی تھیں اور کہہ دیتی تھیں کہ اگر کوئی زیادتی کریں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھ دوں گی.اس لئے مجھے ان کی ہر بات ماننا پڑتی تھی.(3) آپ بڑی مہمان نواز اور سنی تھیں خود اگر کسی کے گھر جاتیں تو زیادہ خاطر تواضع کو پسند نہ کرتی تھیں لیکن جب ان کے ہاں کوئی مہمان آتا تو ان کی خدمت میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیتیں اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھتیں.آپ اپنے مہمان کا بہت احترام کرتیں.‘ (4)
حضرت عزیزہ بیگم 6 آپ اتنی بھی تھیں کہ غریب لوگوں میں صدقہ و خیرات کے علاوہ حضور ﷺ کے نام پر چاول پکا کر غرباء میں تقسیم کرتی تھیں.اس نیک کام کے لئے آپ ہر ماہ پیسے جمع کرتی رہتی تھیں.آپ چندہ با قاعدگی سے ادا کرتیں آپ نے اپنے شوہر سے کہ رکھا تھا کہ میری طرف سے بغیر پوچھے ہی چندہ دے دیا کریں اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں باہر نہیں جاتی تھیں اور اگر کبھی جانا پڑ جائے تو بتا کر جاتیں.اپنے زیور اور پیسے پر زکوۃ با قاعدگی سے ادا کرتیں.گھر کے عام استعمال کی چیزیں اگر کوئی مانگے تو خوشی سے دے دیتیں.مگر خود کسی سے کچھ لینا پسند نہ کرتیں اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو خریدلیں.آپ کسی کا کینہ (برائی) دل میں نہ رکھتیں نہ کسی سے بدسلوکی (بر اسلوک) کرتیں ، نہ بدلہ لینے کی کوشش کرتیں.آپ ہر معاملے کو اللہ کے سپر دکر دینے کی عادی تھیں.(5) عزیزہ بیگم نمازوں کی پابندی کرتیں تھیں کبھی نماز ترک نہ کرتیں.روزے باقاعدگی سے رکھتی تھیں.جب بیماری کے باعث روزہ نہ رکھ سکتی تو روزوں کا فدیہ ضرور ادا کرتیں.نماز پڑھتے وقت نماز کے ترجمہ کا ضرور خیال رکھتیں.بہت دعائیں کرتی تھیں.ہر نماز کے آخری سجدہ میں لمبی دعا کرتیں.ہر وقت تسبیحات زبان پر جاری رہتیں.احمدیت کے خلاف کوئی
حضرت عزیزہ بیگم 7 بات نہیں سنتی تھیں.اسی لئے کسی غیر احمدی کو ان کی موجودگی میں احمدیت کے خلاف بولنے کی جرات نہ ہوتی تھی.بزرگوں کا دل سے احترام کرتیں.خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بہت عزت کرتی تھیں.حضرت اماں جان کے ساتھ بہت عقیدت و محبت تھی نظرانہ دیئے بغیر ان سے ملنا کبھی پسند نہ کرتی تھیں.حضرت اماں جان (حضرت سید ہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ) جب عزیزہ بیگم صاحبہ کے گھر تشریف لاتی تھیں تو اس وقت بھی وہ ضرور کچھ نہ کچھ نظرانہ پیش کرتیں.(6) آپ کے شوہر حضرت منشی صاحب فرماتے ہیں کہ اپریل 1949 ء میں اپنی بیماری کی وجہ سے ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ میں شریک نہ ہو سکا اور اس دوسرے جلسہ میں بھی اپنی بیگم کی بیماری کی وجہ سے شمولیت کی کوئی امید نہ تھی.مگر ان کی وفات ایسے وقت میں ہوئی جو میرے لئے اس جلسہ میں شامل ہونے کا باعث بن گئی.اور اس طرح مجھے جلسہ کی برکات حاصل ہوگئیں.البتہ ایک بات کا افسوس ہے کہ مرحومہ اپنی وفات سے پہلے نہ کوئی وصیت کر سکیں اور نہ ہی اپنی کسی خواہش کا اظہار کر سکیں اور نہ ہی مجھ میں اتنا حوصلہ ہوا کہ ان سے کوئی بات یا خواہش پوچھ سکوں.کیونکہ میرے
حضرت عزیزہ بیگم 8 وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ اتنی جلدی مجھ سے جدا ہو جائیں گی.میں اسی خیال میں رہا کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد شفاء دے دے گا، تو کچھ کہوں گا.بیماری کے دوران ایک دفعہ انہوں نے کچھ کہنا بھی چاہا لیکن ایک دو باتیں کر کے خاموش ہوگئیں کہ میری طبیعت گھبرا رہی ہے باقی باتیں بعد میں کروں گی ،اگر اللہ نے چاہا تو لکھوا دوں گی ، افسوس موت نے مہلت ہی نہ دی، وفات سے دس بارہ گھنٹے پہلے ہی بے ہوش ہو گئی تھیں بے ہوشی میں ہی باتیں کرتی رہیں جو واضح نہ تھیں ، وفات سے چند منٹ پہلے طبیعت کچھ سنبھلی تو صرف یہی کہہ سکیں کہ کمزوری بہت ہے اور ان کی آنکھیں پتھرا گئیں اور نبض رُک گئی اور اپنے پیارے مولا کے حضور حاضر ہو گئیں.(7) میرا ان کا ساتھ اس دنیا میں 52 سال تک رہا.ہم دونوں میاں بیوی کی اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہی دعا ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی جگہ موت دے جہاں سے ہمارا جنازہ مرکز ( ربوہ ) میں آسانی سے پہنچ جائے اور حضرت مصلح موعود ید اللہ تعالی جنازہ پڑھائیں اور ہم بہشتی مقبرہ میں دفن ہوں.عزیزہ بیگم کی آخری بیماری کے دوران میری توجہ اس دعا کی طرف زیادہ ہوگئی.چنانچہ مرحومہ کے حق میں تو یہ دعا خدا کے فضل سے ایسی صورت میں قبول ہوئی کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کا خاص نشان ظاہر ہوا.
حضرت عزیزہ بیگم 9 مرحومہ 21 دسمبر کو راولپنڈی میں دن کے ایک بجے فوت ہوئیں.تابوت بڑی مشکل سے رات آٹھ بجے تک تیار ہوا اور جناز 220 دسمبر کی شام کور بوہ پہنچا.راولپنڈی روانہ ہونے سے پہلے میں نے دفتر بہشتی مقبرہ کو فوری تار دیا کہ ہم جنازہ لا رہے ہیں مگر یہ تار ہمارے پہنچنے کہ بعد دفتر والوں کو ملا.جس کی وجہ سے تدفین کی تیاریاں مکمل نہ ہو سکیں اور ہمیں دوسرے دن یعنی (جمعہ کے دن ) تک انتظار کرنا پڑا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھائی جس میں ہزار ڈیڑھ ہزار کے قریب احباب جماعت بھی شریک ہوئے.اس طرح جنازہ مرحومہ کی خواہش کے مطابق جمعہ کے دن ہوا.دوسرا فائدہ تار جلدی نہ ملنے کا یہ ہوا کہ میں 22 دسمبر کو تمام عزیز واقارب کو مرحومہ کی وفات کی تاریں دے آیا تھا، انہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ میں جنازہ ربوہ لے کر جا رہا ہوں چنا نچہ وہ سب اس خیال سے کہ جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد ہی ہوگا نماز جمعہ سے پہلے پہنچ گئے اور سب نے مرحومہ کا آخری دیدار کر لیا اور نماز جنازہ میں شریک ہو گئے.جیسا کہ عام طور پر عورتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں خاوند کو کچھ نہ ہو.اسی طرح مرحومہ کی بھی یہی خواہش تھی اور دعا کیا کرتی تھیں کہ میں اپنے خاوند سے پہلے اس کے ہاتھوں میں وفات پاؤں تا کہ بعد
حضرت عزیزہ بیگم 10 میں کسی اور کی محتاجی نہ کرنی پڑے چنانچہ ان کی یہ دعا بھی پوری ہوئی.مرحومہ کی وفات کے متعلق سوائے ایک دعا کے ہماری ساری دعا ئیں منظور ہوئیں.اب خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی بہشت (جنت) میں بھی اکٹھارکھے.میری یہ دعا بھی ضرور قبول ہوگی کیونکہ بظاہر اس کی بنیا درکھ دی گئی ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مرحومہ کی قبر کے ساتھ ہی میری قبر کی جگہ بھی مخصوص کر دی گئی اس طرح مرحومہ جس طرح میری زندگی میں ساتھی تھیں مرنے کے بعد بھی اگلے جہان میں بھی ساتھ رہیں گی.‘ (8) آپ کے شوہر منشی صاحب آپ کی ان الفاظ میں خوبیاں بیان کرتے ہیں کہ آپ اچھے اخلاق اور عادات کی ایک فرشتہ صفت خاتون تھیں جس کی وجہ سے انہیں کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچی اور ان کا گھر جنت کا نمونہ بنا رہا.(9) پیارے بچو! اس نیک بی بی کی اچھی اچھی باتیں پڑھ کر ہمیں بھی اپنے اندر ایسی ہی نیک عادات اور صفات پیدا کرنی چاہئیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.آمین ایک خاص بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ حضرت منشی صاحب سلسلہ کی خدمت بغیر معاوضہ کے کرتے تھے اور اپنا گزارا صرف پینشن پر
حضرت عزیزہ بیگم 11 تھا.مہنگائی کے اس دور میں عزیزہ بیگم نے نہایت قناعت اور سادگی سے اپنی زندگی گزاری.کبھی بھی کم آمدنی کا شکوہ نہ کیا اور اسی معمولی رقم سے گھر کے اخراجات پورے کئے.وصیت کی خواہش دل میں پیدا ہوئی تو آپ نے اپنی کم آمدنی کے باوجود 18 حصہ کی وصیت کی جو آپ نے زندگی میں ادا کی آپ کا وصیت نمبر 2920 تھا.(10) دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور انہیں اجر عظیم عطا کرے آمین.
حضرت عزیزہ بیگم 12 حوالہ جات اصحاب احمد ( جلد سوم ) (1) صفحہ 225 تا 227 227225 (2) (3) (4) (5) (6) (7) (8) (9) صفحہ 230 صفحہ 231 صفحہ 233 صفحہ 234 صفحہ 232.231 صفحہ 229.228 صفحہ 227 تا 230 صفحہ 235.234 (10) صفحہ 249
حضرت زینب بی بی پیارے بچو! حضرت زینب بی بی المعروف ' مولویانی ہمارے پیارے مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت ہی پیاری اور نیک جماعت عطاء فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہزاروں رفقاء نے نہایت اخلاص اور وفاء سے اپنی زندگیاں جماعت احمدیہ کے لئے وقف کیں.آپ کو ماننے والے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہندوستان میں پنجاب کے بعض علاقوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ بہت نمایاں تھے.ان جگہوں میں قادیان کے بعد کپورتھلہ ، دہلی ، لا ہور اور سیالکوٹ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں.یہ سیالکوٹ وہی مقام ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اپنے دعوئی سے پہلے زندگی گزار چکے تھے اور اسے آپ علیہ اسلام نے اپنا دوسرا وطن قرار دیا تھا.اس علاقہ سے ہزاروں نیک روحیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں.ان میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی سیالکوٹ کے ان مخلص احباب میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور ان کی اہلیہ اول
حضرت زینب بی بی 2 زینب بی بی المعروف مولویانی بھی شامل تھیں.اپنے خاوند کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی بہت برکات اور سعادتیں نصیب ہوئیں.حضرت زینب بی بی کو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوا اور آپ نے اپنا عہد بیعت نہایت وفا، ایمانداری اور خلوص سے نبھایا.زینب بی بی صاحبہ کے خاندانی بزرگ محترم عطر سنگھ صاحب چوہڑ کا نہ ( جسے اب فاروق آباد کہا جاتا ہے ) ضلع شیخوپورہ میں رہائش رکھتے تھے.آپ کا خاندان راجپوت ورک میں سے ہے.روزی کمانے کے لئے ایک زمانہ میں آپ کشمیر چلے گئے تھے جہاں ایک مسلمان نواب کے ہاں ملازم ہو گئے اور اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی.مسلمان ہونے پر آپ نے اپنا نام عطر سنگھ سے عطر باب رکھ لیا.عطر باب اپنی نیکی کی وجہ سے لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.کچھ عرصہ بعد آپ سیالکوٹ آگئے.سیالکوٹ آباد ہونے کے بعد زینب بی بی کے پڑدادا محمد حیات نے اپنی بہن کی شادی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے والد کے نانا سے کر دی.اس طرح دونوں خاندانوں میں ایک رشتہ قائم ہو گیا.زینب بی بی کے والد حنفی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور بہت دعا گو
حضرت زینب بی بی 3 تھے.آپ پہلے کوئٹہ میں ملازمت کرتے رہے، پھر تجارت کرنے لگے، اسی سلسلہ میں کوئٹہ کے علاقہ کی طرف گئے ہوئے تھے کہ 8 اگست 1885 ء کو وفات پاگئے.آپ کی والدہ کا نام حضرت عمراں بنت عبدالرحیم تھا.محترم عبدالرحیم صاحب بھٹی راجپوت تھے اور سیالکوٹ کے رہائشی تھے.حضرت عمراں بی بی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی پھوپھی تھیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر ایمان لے آئی تھیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ عمراں بی بی کے خاندان میں سب سے پہلے 1889 ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کے تعلقات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے 1888 ء سے بھی پہلے کے تھے.بیعت کے بعد قادیان جانا گویا آپ کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا.(1) زینب بی بی صاحبہ کی پیدائش انداز ا1859 یا 1860 کی ہے.آپ کی شادی 1883ء یا 1884ء میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی سے ہوئی.اسی بنا پر آپ ”مولویانی، مشہور ہوگئیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی 1868 ء میں پیدا ہوئے اور 11اکتوبر 1905 میں آپ کی وفات ہوئی.آپ نے اپنی عمر کے آخری
حضرت زینب بی بی 14 سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں گزارے اور بہت خدمت کی توفیق پائی.مولوی عبدالکریم صاحب کو یہ تاریخی سعادت بھی حاصل ہوئی کہ آپ وہ پہلی ہستی تھے جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.بہشتی مقبرہ کا افتتاح 26 دسمبر 1905 ء کو ہوا تھا.آپ کو امانتاً دوسرے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا مگر زینب بی بی کی ایک خواب نے آپ کو یہ سعادت بخشی کہ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خوابوں کے بارہ میں بالعموم یہ طریق تھا کہ حسب حالات بسا اوقات ظاہری طور پر بھی خوابوں کو پورا کر دیا کرتے تھے.جب مولوی صاحب کی اہلیہ نے خواب میں آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرا جنازہ پڑھا جاوے.تو حضور علیہ السلام نے اس خواب کو ظاہری رنگ میں بھی پورا کرنے کے لئے دوبارہ جنازہ پڑھایا.حضرت صاحب نے فرمایا جنازہ بھی دعا ہے، خواب کو پورا کرنا اچھا ہے.(2) زینب بی بی کی بیعت بھی مولوی عبد الکریم صاحب کی بیعت کے قریب ہی ہوئی تھی.بیعت کا وہ رجسٹر جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کرنے والوں کے ریکارڈ کے لئے تیار کروایا تھا اس میں آپ کا سن بیعت 7 فروری 1892 ء ہے.آپ کا نام 230 ویں نمبر پر درج ہے.(3)
حضرت زینب بی بی 5 قادیان میں آمد کے بارہ میں زینب بی بی کے بھائی حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی بیان کرتے ہیں:.وو میں 1893 ء میں پہلی دفعہ قادیان دارالامان میں آیا تھا....انہی دنوں یعنی 1893 ء میں ، میں اور میری ہمشیرہ صاحبہ حضرت خلیفہ اول کے مکان میں جوا بھی نامکمل صورت میں تھا آ کر رہے تھے.اس کے بعد زینب بی بی حضرت مولوی صاحب کے ساتھ قادیان میں ہی رہیں اور اپنے خاوند کی وفات کے بعد بھی بڑے صبر اور حوصلہ سے زندگی بسر کی.اپنے خاندان میں احمد بیت متعارف کروانے میں جہاں حضرت مولوی صاحب کا دخل ہے وہاں ان کا بھی حصہ ہے.آپ کی تحریک سے آپ کے بھائی نے بیعت کی سعادت پائی.مولوی عبد الکریم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے اس حصہ میں رہتے تھے جو مسجد مبارک کے اوپر کے صحن کے ساتھ ملحق تھا.اس مکان کے نیچے خود حضرت صاحب کا رہائشی کمرہ تھا.(4) گویا حضرت زینب بی بی کو الدار جیسے پاکیزہ ، بابرکت اور پرنور ماحول میں قرب مسیح پاک میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ کے گھر میں عورتیں دینی مسائل سمجھنے کے لئے آئیں تو آپ حسب توفیق ان کی رہنمائی کرتیں یا مولوی صاحب سے پوچھ کر انہیں بتادیتیں ، اسی طرح
حضرت زینب بی بی 6 آپ کے شوہر کو ملنے کئی لوگ آتے تو آپ خوش دلی سے ان کی مہمان نوازی کیا کرتیں.قادیان میں رہائش کے دوران آپ کی ساری زندگی دین کی خدمت میں گزری.اہل بیت اور خواتین مبارکہ سے خصوصی لگاؤ اور تعلق تھا.بلا تکلف آپ کا حضرت اماں جان کے گھر آنا جانا تھا اس طرح بعض چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں بھی پورا کرنے کی توفیق ملتی تھی.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ چار سال کی تھیں جب زینب بی بی کو کہا ہوا تھا کہ انہیں تہجد کے لئے اٹھا دیا کریں.بعض اوقات بچہ ہونے کی وجہ سے حضرت سید ہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے تہجد کے لئے اٹھا نہیں جاتا تھا تو زینب بی بی بار بار اٹھا تھیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی دیکھ لیتے تو فرماتے کہ:.” چلو نہ اٹھا ؤ لیٹے ہی لیٹے تسبیح وتحمید پڑھاؤ (5) ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ”قادیان کے آریہ اور ہم کی نظم لکھ رہے تھے جس کے آخر میں آتا ہے....دعا یہی ہے وفا یہی ہے وغیرہ آتا ہے تو زینب بیا بی کسی کام کی غرض سے حضرت علیہ السلام صاحب کے پاس آئیں.حضرت صاحب نے ان سے فرمایا میں ایک نظم لکھ رہا ہوں جس میں یہ قافیہ ہے.آپ بھی کوئی قافیہ بتائیں.زینب بی بی نے
حضرت زینب بی بی 7 کہا ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں تو میں کیا بتاؤں.حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے اور پھر بھی آپ شکایت کرتی ہیں کہ کسی نے پڑھایا نہیں مطلب حضرت صاحب کا یہ تھا کہ پڑھایا نہیں.کے الفاظ میں جو پڑھا کا لفظ ہے اس میں قافیہ آگیا ہے چنانچہ آپ نے اس وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا.(6) گویا بھولپن میں ہی کہی ہوئی بات کو خدا کے نبی علیہ السلام نے پسند فرمایا، حضرت سید ہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں.میں چھوٹی سی تھی بھائی پیار کرتے ، ہر کہنا مانتے ، ادھر حضرت اماں جان کا پیارا اور سب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ناز برداری اور بے حد خیال رکھنا.میرا مزاج خراب تھا، ایک ساتھ کھیلنے والی بچی نے کہنا نہ مانا، اس سے روٹھ گئی اور چھوٹے بھائی حضرت مرزا شریف احمد صاحب جو ساتھ کھیل رہے تھے میں نے ان سے کہا اس سے تم بالکل نہ بولنا میں اس سے نہیں بولتی.چھوٹے بھائی صاحب بھول کر اس سے بول پڑے میں نے ایک چیخ ماری پنجنی کھائی ، صدمہ ہوا اور سانس رُک گیا.حضرت اماں جان بھاگ کر آئیں گود میں اٹھا کر لائیں دیکھا پوچھا کیا ہوا وغیرہ میں نے روتے ہوئے واقعہ بیان کیا اور پھر رونے لگی.
حضرت زینب بی بی 8 حضرت اماں جان نے رونا شروع کیا کسی خاص جذبہ کے تحت حضرت مولویانی صاحبہ نے بھی رونا شروع کر دیا." (7) 66 حضرت مولویانی صاحبہ کا بے اختیار رونا آپ کا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گہری محبت ، عقیدت اور عشق کا منہ بولتا ثبوت ہے.زینب بی بی صاحبہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں رہائش پذیر تھیں اس لئے آپ کو بعض انتہائی اہم معاملات میں بطور مشیر کے بھی خدمت کرنے کا موقعہ ملا، جیسا کہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے رشتہ کے سلسلہ میں.حضرت نواب محمد علی خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص احباب میں شامل تھے ان کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد حضور علیہ السلام چاہتے تھے کہ ان کی شادی کسی اور جگہ کر دی جائے.مگر اللہ تعالیٰ کا منشاء کچھ اور تھا، پہلے حضرت نواب صاحب کی بیٹی حضرت بو زینب بیگم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو بنیں اور نکاح صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب سے ہو گیا، یہ رشتہ بہت مبارک ثابت ہوا.اسی سلسلہ میں زینب بی بی حضرت صاحب کے منشاء کے مطابق حضرت بو زینب کو دیکھنے کے لئے مالیر کوٹلہ بھی گئیں.اسی طرح حضرت نواب محمد علی خاں کی طرف سے رشتہ کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک
حضرت زینب بی بی 9 لانے کی سعادت بھی زینب بی بی ہی کے حصہ میں آئی.اگر چہ شروع میں عمر کے فرق کی وجہ سے رشتہ میں تا خیر رہی لیکن آپ کی کوششوں سے یہ رشتہ طے ہو گیا.اس طرح اللہ کی مرضی کے مطابق یہ نکاح ہو گیا اور اس سعادت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولویانی صاحبہ کا بھی حصہ ڈال دیا.(8) 26 مئی 1908 ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب خلافت اولی کی بنیاد پڑی تو مولویانی صاحبہ نے نہ صرف خلافت اولی کی بیعت کی بلکہ عہد بیعت کو خوب اچھی طرح نبھایا بھی.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جب کچھ لوگوں نے خلافت کے جواز پر اختلاف رائے کیا تو آپ نے خلافت ثانیہ کی فوراً بیعت کر کے اللہ کی اُس مضبوط رسی کو تھام لیا جس کا خدا نے حکم دیا تھا.آپ کا خلافت پر ایمان اور اس سے دلی وابستگی کا ایک رؤیا سے پتہ چلتا ہے ، جو آپ کے بھائی حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے دیکھی.منشی صاحب نے دعا کرنی شروع کی.پہلے دن دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے اور آپ دو چھتریاں سر پر لگائے ایک سڑک پر جارہے ہیں اور ان کے سائے تلے آپ کے پاس دائیں طرف دو مستورات ہیں.اچانک ان چھتریوں کے ٹانکے ٹوٹ گئے اور کپڑا اکھٹا ہو گیا.
حضرت زینب بی بی 10 مستورات آپ کے پاس سے جانے لگیں تو آپ نے کہا کہ ٹھہر و میں ابھی ٹانکے لگاتا ہوں.آپ ایک طرف سے کپڑا کھینچتے تو دوسری طرف اکھٹا ہو جاتا دوسری طرف کھینچتے تو پہلی طرف اکھٹا ہو جاتا.یہ خواب آپ نے اکبر شاہ خان نجیب آبادی ( ٹیوٹر بورڈ نگ ) کو سنائی اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلفتہ امسیح الاول دو سائے تھے جو جاتے رہے اب نا سکے یعنی خلافت سے وابستگی ہی فائدہ دے گی.اس پر خان صاحب نے سوال کیا کہ وہ عورتیں کون تھیں ؟ گھر گئے وہاں آپ کی لڑکی اور ہمشیرہ ( زینب بی بی ) آئی ہوئی تھیں کہنے لگیں کہ ہم تو بیعت کر آئی ہیں اگر آپ نہ کریں گے تو ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہ ہوگا.پھر آپ نے اکبر شاہ خان صاحب کو سنایا کہ عورتوں والا حصہ بھی پورا ہو گیا جس کے متعلق آپ دریافت کرتے تھے انہوں کہا کہ اب تو بات صاف ہو گئی.(9) اس خواب سے آپ کی خلافت سے گہری وابستگی اور دین کے معاملہ میں کسی دنیاوی رشتہ کو خاطر میں نہ لانے اور نیکی میں سبقت لے جانے کی فطری عادت کا پتہ چلتا ہے اور اسی نیک فطرت نے خواب کے ذریعہ سے اپنے بھائی کی سچائی کی طرف قدم بارنے کے لئے راہنمائی فرمائی.حضرت زینب بی بی کو خدا تعالیٰ نے جو شرف عطاء فرما دیا ہے
حضرت زینب بی بی 11 وہ قیامت تک کسی اور کو نصیب نہیں ہو سکتا.اپنی زندگی میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربت میں بلکہ ان کے بیت میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی اور وصال کے بعد بھی آپ علیہ السلام کے مزار کے قریب ہی آپ علیہ السلام کے قدموں میں جگہ ملی.(10) آپ ابتدائی موصیوں میں شامل تھیں اور وصیت نمبر 1699 تھا.آپ کا وصال 62 سال کی عمر میں ستمبر 1921 میں ہوا.تا ہم آپ کی تدفین اماننا سیالکوٹ میں ہوئی اور چند ماہ بعد اپریل 1922 میں آپ کا تابوت بہشتی مقبرہ قادیان منتقل کر دیا گیا.آپ حضرت مولوی صاحب کے وصال کے بعد چندر وسولہ سال حیات رہیں.دفتر بہشتی مقبرہ کے ریکارڈ کے مطابق اگر چہ حضرت مولوی صاحب نے دوشادیاں کیں تا ہم آپ کی کوئی اولا دن تھی.(11) آپ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ آپ کی وفات بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ٹھہرا آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:.دیکھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی قبر کے پاس تین اور قبریں ہیں اور ایک قبر پر لال کپڑا ہے." یہ جو رویا میں تین قبروں کا ذکر ہے یہ تیسری قبر بھی وہاں بنی ہوئی ہے جو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی اہلیہ زینب بی بی کی
حضرت زینب بی بی 12 ہے.(12) اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ جہاں حضرت مولوی صاحب کی قبر مقبرہ بہشتی قادیان کی چاردیواری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص احاطہ میں شامل ہو چکی ہے وہاں آپ کی اہلیہ زینب بی بی صاحبہ کی قبر بھی اسی احاطہ میں شامل ہے قبر نمبر 4 آپ کے خاوند کی اور قبر نمبر 5 حضرت مولویانی صاحبہ کی ہے.آپ کی قبر قطعہ نمبر 1 حصہ نمبر 1 میں شامل ہے.وذالك فضل الله يوتيه من يشاء ، (13) آج احاطہ مزار حضرت اقدس علیہ السلام کروڑوں کی زیارت گاہ بن چکا ہے.آپ علیہ السلام کے وجود کی برکت سے باقی تمام اصحاب کے لئے بھی دعائے خیر کا سلسلہ جاری ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ زینب بی بی صاحبہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے ، اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور ہر آن ان پر رحمتیں نازل فرماتا چلا جائے.آمین
حضرت زینب بی بی 1 اصحاب احمد جلد اوّل 13 حوالہ جات - 2 بار نمبر 41 جلد 1 21 دسمبر 1905 -:2 3 تاریخ احمدیت جلد 1 4:.سیرت المہدی حصّہ اوّل صفحہ 183-184 صفحہ 2 صفحہ 358 صفحہ 272-273 5:.محسنات احمدی خواتین کی سنہری خدمات صفحه 20 -:6 سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 243 7 سیرت و سوانح حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ صفحہ 76 8 اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 227 9.اصحاب احمد جلد اوّل صفحه 191 10.اصحاب احمد جلد اوّل صفحه 209 11:.سیرت المہدی حصہ سوم صفحه 246 12:.تذکرہ طبع چہارم 2004 13 :.اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 500 صفحه 358
حضرت عزیزہ بیگم اہلیہ حضرت منشی برکت علی شملوی (Hadhrat Aziza Begum w/o Hadhrat Munshi Barkat Ali Shimalvi) حضرت زینب بی بی اہلیہ حضرت عبدالکریم صاحب سیالکوٹی (Hadhrat Zaniab Bibi w/o Abdul-kareem Sahib Sialkoti) Published in UK in 2008 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.