Language: UR
قبول احمدیت می داستان من منظوم کلام الحاج مولوی عز ترزا من ضا مشکل اوى مولوی فاضل
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِينَهُمْ سُبُلَتَعَاء وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِين ( عنكبوت ) میری قبول احمدیت کی داستان مع منظوم کلام -- از قلم.جناب الحاج مولوی عزیز الرحمن منا ولو يفضل منگلا مرتی سلسلہ عالیه احمدیه سبب شائع کردی أحمد اكيد مي
انتساب! صداقت قبول کرنے کیلئے ان بے میں مضطرب روحوں کے نام جن کے متعلق سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے :- خدا تعالے چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.(الوصية ) نمادرم مسلسله عزیز الرحمن - منگلا اکتوبر ۱۹۹۴ )
کلمه اغاز آسمانی تحریکات پر لبیک کہنے کی سعادت پانے والے انسانوں کو مختلف مراحل میں سے گزرنا پڑتا ہے.صدہا روکیں پیدا ہوتی ہیں.مگر ان کا عزم صمیم انہیں گو ہر مراد پانے میں کامیاب کر دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.والذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاء مجھے محترم الحاج مولومی عزیز الرحمن صاحب منگلا سے اس وقت سے تعارف حاصل ہے جب آپ ابھی تحقیق حق کی منازل طے کر رہے تھے.مجھے وہ دن بھی یاد ہے.جب میں نے اور اخویم مولوی محمد یار صاحب عارف نے ان کی تحریک پر ان کے گاؤں کے پہلے جلسہ میں تقاریر کی تھیں.اس وقت ابھی آپ کے اور آپ کے ایک دو ساتھیوں کے سوا گاؤں کے باشندے دائرہ احمدیت میں داخل نہ ہوئے تھے.مولوی صاحب موصوف کے خلوص اور ان کی دردمندانہ دعاؤں اور چک منگل کے احباب کی نیکی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک بڑی اکثریت احمدیت کو قبول کر چکی ہے.مجھے مولوی عزیز الرحمن صاحب فاضل کی قبول احمدیت کی داستان بہت پسند ہے میری تحریک پر ہی انہوں نے اسے قلمبند فرمایا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بہتوں کی ہدایت کا موجب بنا ئے آمین.خاکسار ابو العطاء جالندھری راکتو بر ۱۹۶۲ء ربوه
بسم الله الرحمن الرحیم میری قبول احمدیت کی داستان منگلا قوم خدا تعالے کا ہزار ہزار شکر ہے میں نے اپنے فضل وکرم سے اس خاکسار کو حضرت محمد عربی سید الاولین والآخرین صلی الله علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا اور پھر اپنے مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بخشی اور ہمیں بھی کتائب محمدیہ کے آخری شکر میں بھرتی کر لیا.فالحمد لله رب العالمین.اس احقر کی پیدائش دسمبر 1 میں ہوئی بہماری قوم منگل راجپوت ہے.اس قوم کے کئی خاندان فارو کہ ضلع سرگودہا میں آباد ہیں.دو تین چکوک اس قوم کے کمالیہ کے گرد و نواح میں واقع ہیں.چند جھوکیں لودھران ضلع ملتان میں آباد ہیں.ایک چک ساہی وال شاہ پور کے قریب واقع ہے اسی طرح اس قوم کے افراد ضلع مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازیخان میں بھی لیتے ہیں.چک منگلا جس میں خاکسار کی رہائش ہے چک 7 شمالی رسول پور منگلا کہلاتا ہے جو ریلوے سٹیشن سو بھا گہ ضلع سرگودہا کے میں مشرق میں بفاصلہ دو میل واقع ہے.ہمارے آباء و اجداد کا پیشہ شتر پروری اور شتر بانی رہا.لہذا اس قوم کی سابقہ نسلوں کو علم معرفت 161
سے بہت کم واقفیت رہی.انگریزوں کے زمانہ میں ہمارے چکوک آباد ہوئے.اور تمہیں زمینیں ہیں.خاکسار کا شجرہ نسب یہ ہے.عزیز الرحمن ولد رائے غلام محمد ولد رائے احمد ولد جوہر ولد خان ولد فتح محمد ولد کمیر ولد رحمت الخ.رحمت کے آباء و اجداد میں کسی بزرگ کا نام منگلا تھا.جس کا نسب نامہ راجہ سیلوان سے جا ملتا ہے.چک منگلا کی ذہنی تاریخ تقریبا دس سال پہلے کی اس عاجز کی عمر پانچ چھ سال تھی.ضلع جہلم بھو چھال کلاں کے ایک عالم بزرگ المعروف مولوی منور دین صاحب سیاحت کرتے ہوئے ہمارے چک میں تشریف لائے آپ نصاب دیوبند کے فاضل اور سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ مولانا حسین علی صاحب کے خاص شاگردوں میں سے تھے.اور اُن سے ہی روحانی فیض حاصل کرنے والے تھے.اُن ایام میں ہمارا گاؤں ایک معمولی کو ر وہ سمجھا جاتا تھا.اس جگہ دینی یا دنیوی علم کا نام و نشان نہ تھا.دیہاتی لوگ صرف سادہ قرآن شریف پڑھ لینا ہی قیمت جاتے تھے.اور وہ بھی چار چار پانچ پانچ سالوں میں مکمل ہوتا تھا.پیر منور الدین صاحب موصوف ہمارے بزرگوں کی درخواست پر ہمارے گاؤں میں رہائش پذیر ہو گئے.اور اعلان کیا کہ میں دوماہ میں قرآن مجید پڑھا سکتا ہوں.چک کے تمام باشندے آپ کے مدرسہ میں داخل ہو گئے چھوٹے بڑے بچے بوڑھے مرد عورت سب نے قاعدے سیپارے لے کر پڑھنا شروع کر دیا.
پیر صاحب قادیان سے قاعدہ بستر تا القرآن بذریعہ ڈاک منگواتے اور ایک ماہ میں قاعدہ پڑھا دیتے.دوسرے ماہ میں قرآن شریف پڑھا دیتے.اس زمانہ میں ہم لوگوں کو قادیان کا کچھ پتہ نہ تھا.اس سے پہلے عام طور پر ر بغدادی قاعدہ ، یہاں مسجد میں پڑھایا جاتا تھا.جس کا پڑھنا اور سمجھنا دیہاتیوں کے لئے بہت ہی مشکل تھا.جب گاؤں میں پیر صاحب کا اثر و رسوخ قائم ہو گیا.اور اکثر لوگ قرآن شریف پڑھ گئے.اور باہر علاقہ میں مشہور ہو گیا کہ فلاں پیر صاحب ایک دو ماہ میں قرآن شریف پڑھا دیتے ہیں.تو آپ نے توحید وسنت کا پرچار شروع کر دیا.چونکہ اس علاقہ میں قبر پرستی، پیر پرستی شرک و بدعت اور غیر اللہ کے لئے نذر و نیاز کا کافی رواج تھا.لہذا پیر صاحب نے ان مسائل پر لیکچر دینے شروع گئے.اور کافی لوگ شرک و بدعت سے تائب ہو گئے.لیکن اب ان مسائل پر آپ کی مخالفت بھی سخت شروع ہوئی.اور آپ کو اور آپ کے متبعین کو وہابی وغیرہ کے القاب اور خطاب ملنے شروع ہوئے.چونکہ یہ علاقہ زیادہ تر مشهور گدی سیال شریف کے پیروں کے ماتحت تھا.اور اس علاقہ کے وہ بڑے پیر مانے جاتے تھے.لہذا وہاں کے پیر صاحبان نے بھی محسوس کیا کہ اس علاقہ کے لوگ ہمیں چھوڑ کر پیر منور الدین کے مرید ہوتے جاتے ہیں.گویا وہابی ہوتے جاتے ہیں.انہوں نے بھی اس علاقہ میں اپنے دورے شروع کر دیئے.لیکن خدا کے فضل سے چک منگلا کے گردو نواح میں اکثر دیبات میں
لوگ شرک و بدعت سے متنفر ہو گئے.ہمارا تبلیغی نظام پیر صاحب نے چک منگلا کے لوگوں سے عہد لیا کہ ہم ہر ماہ کے ایام البیض قمری مہینے کی ۱۳ ۱۴ ۱۵ تاریخیں ، تین دن تبلیغ کے لئے وقف کیا کریں گے اور توحید و سنت کی تبلیغ کے لئے یہ تین دن باہر گزاریں گے.چنانچہ پیر صاحب اور آپ کے خاص مریدین تاریخ معین پر ایک قافلہ کی صورت میں اونٹوں پر خور و نوش کا سامان باندھے اور ضرور ہی کتابوں کو ساتھ اٹھائے ہوئے دور دراز نکل جاتے اور تبلیغ کرتے.یاد رہے کہ اس سارے پروگرام میں پیر صاحب کے وزیر اعظم الحاج صالح محمد مشکلا تھے جو ہماری قوم کے بزرگ ہیں اور اب ہماری منگلا کی جماعت کے عظیم رکن ہیں..مناظرہ سلانوالی جب اس طرح پر جنگ اور سرگودھا کے ہر دو اضلاع میں جانی تبلیغ ہوگئی اور سیال شریف والوں نے سمجھا کہ اب تمام علاقہ ہمارے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے.تو موجودہ گدی نشین جناب صاحبزادہ قمر الدین صاحب علماء کی ایک جماعت نے کر چک منگل وارد ہوئے.اور ہماری جماعت سے مناظرہ کا مطالبہ کیا.چنانچہ شرائط مناظرہ کھے ہوئیں اور علم غیب کے موضوع پر مناظرہ کی تاریخ وغیرہ کا پروگرام لے کر لیا گیا.یعنی صاحبزادہ صاحب کے نزدیک تمام انبیاء.اولیاء ہر وقت ہر چیز کا علم رکھتے ہیں.اور پیر صاحب کے نزدیک ہر وقت ہر چیز کا علم صرف
خدا تعالیٰ کی ذات کو ہے.اس مسئلہ پر مناظرہ ہونا قرار پایا.چونکہ یہ مناظرہ ایک بین الاضلاعی شکل اختیار کر گیا.لہذا اس کا مقام سلانوالی جو ایک مشہور منڈی ہے، مقرر کیا گیا.پیشہور تاریخی مناظره ها ذو الحجہ کو سیلانوالی کے مقام پر منعقد ہوا.جس میں ہند و پاکستان کے دیوبندی اور بریلوی علماء کا حجم تغییر حاضر ہوا.تمام گریوں کے مشائخ بھی موجود ہوئے.ہماری طرف سے مولنا عبد المنان صاحب خطیب آسٹریلیا مسجد لاہور صدر اور ہندوستان کے مشہور عالم دین ایڈیٹر الفرقان بریلی (ہند) مولنا محمد منظور صاحب نعمانی مناظر مقرر ہوئے اور بریلوی حضرات کی طرف سے مولوی کرم دین آف بھیں صدر اور مشہور عالم مولوی حشمت علی صاحب بریلوی مناظر مقرر ہوئے.اس کے علاوہ ہمارے مویدین میں مولفت احمد علی صاحب لاہوری اور مولانا حسین علی صاحب آف واں بھچران رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ بڑے بڑے بزرگ تھے.مناظرہ کامیاب ختم ہوا.پولیس کا انتظام اچھا تھا کوئی شور وغیرہ نہ ہوا.اس مناظرہ نے بچک منگلا اور پیر صاحب موصوف کی شہرت کو زیادہ اُجاگر کیا چنانچہ یوپی کے مشہور عالم مولانا مولوی محمد عطاء اللہ صاحب قاسمی بھی مولانا نعمانی کے ساتھ مناظرہ میں شامل تھے.انہوں نے واپس وطن جا کہ اس مناظرہ کی روئداد شائع کی.جو ملک بھر میں تقسیم ہوئی جس کا نام ہے :- رونداد مناظره سلانوالی دپنجاب مستمی به اسم تاریخی هو الظفر المبين ملقب به مناظره علم غیب ۱۳۵۵ هـ
9 جے ناظم مکتبہ الفرقان بریلی نے شائع کیا.چک منگلا کا ذکر خیر مولانا قاسمی صاحب کتاب مذکور کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :- لیکن حق تعالیٰ نے اپنی سنت قدیمہ کے مطابق وہیں چند مہستیاں ایسی بھی پیدا کر دی ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں توحید و سنت کی تبلیغ واشاعت کیلئے وقف کر رکھی ہیں انہیں بزرگوں میں سے حضرت مولانا مولوی حسین علی شاہ صاحب دامت فیوضہم ویر کا تہم کی ذات بابرکات بھی ہے.آپ کے خلفاء میں سے ایک پر جوش اور مجاہد عالم مولانا منتور الدین صاحب بھی ہیں.آپ نے تو اپنے آپ کو تبلیغ توحید اور اعلاء کلمۃ الحق کے لئے بالکل وقف کر دکھا ہے.آپ کا وطی ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں چک منگلیانوال نمبر ۱۹۸ میں ہے آپ ہر مہینے خاص اہتمام کے ساتھ تبلیغی دورہ فرماتے ہیں.اس دورہ میں آپ کے متوسلین کی کافی جماعت ساتھ ہوتی ہے جن کی تعداد بعض اوقات نہیں چالیس تک پہنچ جاتی ہے.کھانے پینے وغیرہ ضروریات کا کل سامان آپ کے ساتھ اونٹوں پر لدا ہوا ہوتا ہے.یہ قافلہ کسی بستی میں جا کر قیام کرتا ہے.اور محض خالصا لوجہ اللہ تبلیغ حق کا فریضہ انجام دیتا ہے.مواعظ کا زیادہ تر حصہ توحید و سنت پرمشتمل ہوتا ہے.کیونکہ وہاں کے حالات کا تقاضا یہی ہے.اس نیک کام کے آغاز کو قریبا دو سال کا عرصہ ہو چکا ہے.اللہ کے سینکڑوں بندوں کو اس کے ذریعہ سے بحمد للہ ہدایت ہوئی اور شرکت و بدعت سے تائب ہو کر توحید و سنت پر قائم ہو گئے.
ی تعلیم فارو کہ خالصہ ہائی سکول ضلع سرگودھا میں ٹول پاس کرنے میری سیم کے بعد مجھے بھی پیر صاحب موصوف کے مدرسہ میں عربی پڑھنے کے لئے داخل کیا گیا.پیر صاحب کے مدرسہ میں کافی طلباء تعلیم پاتے تھے.جن کے اخراجات کے کفیل اہالیان منگل تھے جن کی تعداد بعض اوقات چالیس پچاس تک ہوتی.خاکسار نے کر یما پند نامہ شیخ عطاء سے لے کر ابو الفضل تک فارسی پڑھی پھر صرف کے چند رسالے فصول اکبری، شافیہ تک پھر تھو کے سالے شرح جامی تک، فقه شرح وقایہ تک، منطق قطبی تک پڑھیں اور اسی معیار تک پیر صاحب موصوف درسی کتب پڑھا سکتے تھے.ادھر تصوف اور روحانیت کا علم حاصل کرنے کے لئے بزرگان نقشبندیہ کے رسالہ جات اور کتابیں مثلاً دار المعارف - ارشاد الطالبین فوائد عثمانیہ مکتوبات مجدد الف ثانی سبقا پڑھیں.اس کے بعد باقی تعلیم کو موقوف کر کے صرف مثنوی مولانا روم کے سات دفاتر مکمل پڑھے.اور میں کافی حد تک صوفی بن گیا.ہاں ایک بار شکوۃ شریف بھی در ساختم کر لی.اس کے بعد میں نے اپنی زندگی پیر صاحب کی خدمات میں وقف کر دی.اس نظریہ پر کہ اب روحانیت اور فیض اللی صرف خدا رسیدہ بزرگوں کی معیت سے ہی ملتا ہے.مجھے شوق پیدا ہو گیا کہ اب خدا تعالیٰ کو تلاش کرتا ہے.اور انسان کی پیدائش کی غرض تعلق باللہ ہے.باقی یہ علوم ظاہری تو محض بطور آلہ کے ہیں.اور فنا فی اللہ کا مقام فنا فی الشیخ پر موقوف ہے.
جب پیر صاحب نے دیکھا کہ میں نے تمام عمران کی خدمت میں وقف کر رکھی ہے.تو انہیں خیال آیا کہ یہ ایک ذہین لڑکا ہے اور ترقی کر سکتا ہے.اور یکیں اس کی ترقی پذیر استعدادوں کو روکے بیٹھا ہوں.تو انہوں نے مریدوں سے چندہ اکٹھا کر کے محض میرے لئے الگ استاد بلوانے کا پروگرام بنایا تا کہ میں بقیہ تعلیم کو مکمل کر سکوں چنانچہ میرے لئے دو تین اساتذہ علی المشاہرہ یہاں رکھے گئے اور میں نے دوبارہ تعلیم شروع کی.میرے دو استاندہ | اول چکڑالہ کے ایک مشہور عالم مولوی نصیر الدین صاب نامی جو مولوی فاضل اور فاضل دیو بند تھے.میرے استاد مقرر ہوئے.یکی نے چار سبق شروع کئے مقامات مسطول.ہدایہ اولین بیضاوی انہوں نے مجھے ہفتہ پڑھایا اور ساتویں دن وہ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے.میں اجازت چاہتا ہوں کہ وطن واپس جاؤں.کیونکہ یہ لڑکا بقتنا مطالعہ کرتا ہے میں اتنا نہیں کر سکتا.یہ ہر کتاب کے تقریبا ہیں ہیں صفحات روزانہ مطالعہ کر کے لاتا ہے جو صبح پڑھنے ہوتے ہیں.اور مجھ سے اتنا مطالعہ نہیں ہو سکتا.معلوم نہیں یہ حق ہے یا اسے کوئی فرشتہ پڑھا جاتا ہے.چنانچہ استاد صاحب موصوف واپس چلے گئے.اور مجھے کئی اپنی کتابیں مطالعہ کے لئے دے گئے.اس کے بعد کھلانٹ ضلع ہزارہ کے ایک عالم مولوی حبیب الرحمن صاحب
۱۲ کو بہ توسط مولانا احمد علی صاحب لاہوری یہاں منگوایا گیا.آپ اچھا مطالعہ کرنے والے تھے.وہ چھ ماہ ہمارے پاس رہے.ہم ان کو چالیس روپیہ شاہرہ اور دو وقت کا کھانا دیتے تھے.میں نے اس عرصہ میں ملا جلال - زواہد ثلاثہ - میبد یا شمس بانه صدرا شرح عقائد.خیالی - مطول وغیرہ بہت سی کتب سبقا پڑھیں اور پھر وہ واپس چلے گئے یہ اے کے حالات ہیں.اس کے بعد تو میں نے خود ہی مطالعہ شروع کیا.میں پیر صاحب کی نائبریری کا استخانہ سے ہوتا تھا.ساری صحاح ستہ.شروح فقہ کی کتابیں شامی تک شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتب.امام ابن قیم - امام ابن تیمیہ کی کتابیں غرضیکہ جنتی کتابیں ہماری لائبریری میں تھیں.میں نے کئی کئی بار ان سب کا مطالعہ کر لیا اور میں پیر صاحب کا ایک اچھا خاصہ مبلغ اور معاون اور خلیفہ بن گیا.ہاں اسی زمانہ میں میں نے سواتین ماہ کے عرصہ میں قرآن مجید بھی حفظ کر لیا.میرے ڈومناظر سے اس دوران پیر صاحب کے ساتھ بریلوی حضرات کے کئی مناظرے ہوئے جن میں میں پیر صاحب کا دست راست ہوتا.بلکہ ایک مشہور مناظرہ محمدی شریف کے علاقہ میں ہوا.وہاں مجھے بھجوایا گیا محمدی شریف کے چند علماء تھے علم غیب پر مناظرہ تھا ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے بمقام مناظرہ چک چچکانہ تھا.جہاں ب ہماری نئی جماعت بھی قائم ہو چکی ہے.پہلے دن تو مولوی ہار گئے اور انہوں نے خود محسوس کیا کہ ہم ہار گئے
راتوں رات لوگوں نے اس علاقہ کے مشہور پرانے مولوی قطب الدین جو تیا نوالہ کو بلوایا.اور دوسرے دن پھر مناظرہ کا مطالبہ کیا.میں نے کہا جب کل مناظرہ ختم ہو گیا.دوبارہ کیا ضرورت ہے.رائے خان محمد صاحب مرحوم سابق پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ کوٹ سلطان جھنگ اس وقت میرے ساتھ تھے.اور چند دیگر پیر بھائی احباب بھی.مولوی قطب دین نے مسجد چک چکانہ میں بڑہانکی کہ عزیز الرحمن بنگلا ایک نوجوان ناتجربہ کار ہے.وہ میرا مقابلہ کیسے کر سکے گا لوگوں نے مجھے آکر اس کی یہ بات سنائی میں نے فورا ایک کاغذ پر یہ دو عربی شعر لکھے اور میں نے کہا اگر مولوی قطب دین ان دو شعروں کا ترجمہ اور نحوی ترکیب بتا دے تو میں ہارا اور وہ جیتا.(1) وفاق كَعْبُ بِحير قد لكَ مِن و تَعْجِيل تهلكة والخلد في سقرا فقلت لعبدِ اللهِ لقَاسِقَاءِ (٢) وَنَحْنُ بِوَادِي عَبدِ شمس و هاشم جب میرا یہ رقعہ اسے ملا تو نادم اور شرمندہ ہوا.اور کچھ جواب نہ لکھا.اس کے بعد مناظرہ شروع ہوا.اور صبح سے شام تک مناظرہ ہوتا ن کعب منادی ہے اور بغیر وفاق کا مضاف الیہ ہے.۱۲ ے اصل میں ہے لما ستقاءنا وحی - شیم امر ہے اور لما کی جزا ہے.۱۲
۱۴ رہا اور ہزاروں لوگوں کو توحید کا پیغام سنایا گیا.رات جب میں سوا تو خوب میں دیکھا چھوٹے چھوٹے خوا کے فرشتے تھے دس پندرہ میرے جسم کو دبا رہے ہیں اور نہیں حسب معمول جانتا ہوں کہ یہ فرشتے ہیں.ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ اٹھ کر تہجد پڑھیں.دوسرے فرشتے اس سے ناراض ہو کر کہتے ہیں.کہ نہ جگاؤ.اسے آرام کرنے دو.مناظرہ کی وجہ سے اس کو دو تین دن کی تھکاوٹ ہے اور وہ بہت ہی پیار و محبت سے مجھے دبائے جارہے ہیں اور خواب میں اور جاگنے کے بعد میرے قلب میں ایسی لذت اور اطمینان اور سرور موجزن ہے.جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی.عطاء اللہ شاہ صاحب ان دنوں مولوی غلام اللہ خان صاحب بخاری سے مکالمہ خطیب راولپنڈی ہمارے پیر بھائی تھے کسی ا کام کے لئے میں ان کے پاس راولپنڈی گیا.انہوں نے کہا چلو کل ہزارہ میں آل انڈیا احرار کا نفرنس ہے جا کر دیکھیں بذریعہ ریل ہم ہزارہ پہنچے.مدر اس سے پشاور تک کے احرار جمع تھے.وسیع پنڈال تھا.جلسہ شروع تھا.ہزار ہا لوگ جمع تھے بعطاء اللہ شاہ صاحب ایک مکان کے بالا خانہ پر آرام فرما تھے کیونکہ رات بھر تقریر کرتے رہے تھے مولوی غلام اللہ خان صاحب اور چند دیگر علماء پیچھے کے علاقہ کے اور خاکسار شاہ صاحب کی ملاقات کے لئے اوپر گئے.شاہ صاحب ملے ہم کو یعنی مولوی حسین علی صاحب کے مریدین کو شاہ صاحب اچھا نہ جانتے
۱۵ تھے کیونکہ ہم کثر موحد تھے.اور احرار میں شیعہ بستی.دیوبندی بریلوی سب قسم کے لوگ جمع تھے.مولوی غلام اللہ خان صاحب نے درخواست کی کہ شاہ صاحب ہمیں بھی اپنے جلسہ میں توحید کے موضوع پر تقریر کرنے کا وقت دیں.بعطاء اللہ شاہ صاحب نے اتحکمانہ لہجہ میں ) کہا کہ مجھے تمہاری توحید کی کچھ ضرورت نہیں تمہاری ٹکر بریلویوں سے ہے.اور میری ٹکر انگریز ہے.ایک دفعہ فلاں مقام پر منور دین نے مجھے توحید کا وعظ کیا.اسی طرح قاضی شمس الدین آف گوجرانوالہ سے میری ایسی گفتگو ہوئی.میں تم لوگوں کو جانتا ہوں تم لوگوں میں افتراق پھیلانا چاہتے ہو.غرضیکہ سخت حقارت آمیز الفاظ میں شاہ صاحب نے ان بزرگوں کا ذکر کیا، مولوی غلام اللہ خان صاحب تو چپ ہو گئے لیکن میں غیرت سے بول اُٹھا.اور میں نے کہا شاہ صاحب تم نے میرے پیر کی بے ادبی کی ہے.تم نے یہ اچھا نہیں کیا مولوی منتور دین صاحب آپ کو وہ توحید سکھانا چاہتا تھا جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ابو جہل کو سکھانا چاہتا تھا.میں نے یہ الفاظ اسخت خوش سے کہے.حالانکہ وہاں میری کوئی وقعت ہی نہ تھی.ایک درویش مسافر طالب علم اور عطاء اللہ شاہ صاحب کا اس زمانہ میں جو طوطی بولتا تھا.سب کو معلوم ہے اور پھر خصوصاً آل انڈیا احرار کا نفرنس اور پھر شاہ صاحب کے کمرہ خصوصی ہیں.میں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ لوگ اب مجھے ماریں گے.پیٹیں کے لیکن کلمہ حق عند سلطان جائر پر عمل پیرا تھا.
14 شاہ صاحب بھی حیران ہوئے یہ کون پوشید رستم ہے جو میرے مقابلہ میں بولتا ہے.رعب دار آواز سے کہا ابو جہل تو خدا کا منکر تھا میں نے کہا ہرگز نہیں.قرآن کہتا ہے وہ خدا کو مانتا تھا.وَلَئِن سَاءَ لَتَهُم مَنْ خَلَقَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَ الله فَالى يُؤفكون.(العنكبوت آيت (4) اسی مضمون کی میں نے پانچ چھ آیات پڑھ دیں.انہوں نے سمجھا کہ اس مناظرہ میں ان کی تو ہین ہے کہا.ہم ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں تم چپ کرو.میں نے کہا تمہارے تو وہ بھائی ہیں میرے پیر و مرشد ہیں.میں اُن کی شان میں نازیبا الفاظ برداشت نہیں کر سکتا.جب باہر نکلے تو پیچھے کے علماء اور مولوی غلام اللہ خان صاحب نے مجھے گلے سے لگایا اور بہت خوش ہوئے.اور پشتو میں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ اس نوجوان کے سر پہ نئی پگڑی باندھنی چاہیئے.اس نے آج توحید کی عزت رکھ لی.دوسرے دن ہم واپس پہلے آئے.احمدیت کی آواز پیر صاحب موصوف ابھی ہمارے چک میں تشریف نہ لائے تھے.کسی زمانہ میں انہوں نے اپنے وطن بھو چھال کلاں کی جامع مسجد میں احمدیت کے خلاف تقریر کی.وہاں ایک احمدی بزرگ با بارعایت اللہ صاحب بھوچھا لوی جو پیر صاحب کے رشتہ داروں میں سے تھے.وہاں موجود تھے.پیر صاحب نے کسی اشتہار کی
تحریر پر اعتبار کرتے ہوئے دوران تقریر فرمایا کہ فلاں کتاب میں مرزا حساب نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں آیت کے معنی نہیں سمجھے اور میں نے سمجھے ہیں.یہ کتنی آنحضرت کی ہتک ہے.با با رعایت اللہ صاحب احمدی نے اُٹھ کر کہا.مولوی صاحب اگر یہ حوالہ ایسا ہی ہے.تو یکی احمدیت چھوڑ دوں گا.اور اگر غلط ہوا تو پھر ؟ پیر صاحب نے فرمایا تو آئندہ میں مرزا صاحب کے خلاف کبھی نہ بولوں گا.چنانچہ عام مجلس میں کتاب لائی گئی.اور یہ حوالہ اس کتاب سے ہرگز نہ نکلا پیر صاحب فرماتے تھے مجھے اپنی شرم آئی جس کی حد نہیں اور میں نے عہد کر لیا کہ آئندہ عام مولویوں کے اشتہارات اور کتابوں پر جو احدیت کے خلاف لکھی گئی ہوں کبھی اعتبار نہ کروں گا.اس دن سے پیر صاحب کے دل میں حضرت میں موجود کی کچھ عزت بیٹھ گئی.خیر بات آئی گئی ہوئی ایک دفعہ پیر صاحب کو یہاں منگلا سے لاہور جانا ہوا.وہاں آپ نے لاہور کے مشہور مدارس اور علماء دیکھنے کا پروگرام بنایا.مولوی محمد علی صاحب آپ اس سفر میں مولوی محمد علی صاحب لاہوری کے پاس بھی احمد یہ بلڈ نگس تشریف لے گئے.وہاں ان سے حضرت مرزا صاحب کے دعاوی کے تعلق لاہوری سے ملاقات بات چیت ہوئی.ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب بھی وہاں بیٹھے تھے.انہوں نے اپنی گرہ سے تقریباً چالیس روپیہ کی بہت سی کتابیں خرید کر پر صاحب کو دیں.واپس اگر پیر صاحب نے ان کتابوں کا مطالعہ شروع کیا.اور خاکسار بھی چونکہ آپ کی لائبریری کا منتظم تھا.میں نے بھی ان کتابوں کا مطالعہ
IA شروع کیا.عام طور پر میں ایک کتاب پڑھتا جاتا اور پر صاحب لیٹے لیٹے سنتے جاتے.نتیجہ یہ ہوا کہ براہین احمدیہ کے پہلے حصہ سے لے کر یو ای تک کی تمام کتابیں ہم نے خوب مطالعہ کر لیں.اور یہی کتابیں ہمیں لاہور سے ملی تھیں علاوہ ازیں مولوی محمد علی صاحب کی اپنی لکھی ہوئی چند کتا ہیں.مثلاً النبوة في الاسلام وغیرہ جن میں جماعت کے اختلافی مسائل پر بحث تھی.ان کتابوں کے ذریعہ سے ہمیں علم ہوا.کہ مرزا صاحب کی جماعت کے دو گروہ ہیں.اور ان کے درمیان یہ اختلافی مسائل ہیں مسئلہ نبوت مسئلہ خلافت پیش گوئی مصلح موعود وغیرہ لیکن اس زمانہ میں ہم مرزا صاحب کا ترجمان مولوی محمد علی صاحب کو سمجھتے تھے اور بقول شاعر: اتانی هواها قبل ان اعرف الهوى فصادف قلبا خاليا فتمكنا وہی عقائد ہمارے دلوں میں گڑ گئے کہ مرزا صاحب ایک نیک آدمی ہیں نبی نہیں.نہ ہی آپ کے بعد خلافت کی ضرورت ہے.ہمارے ان عقائد کا علم جب ہمارے دوسرے علماء کی مخالفت علماء کو جوتا توں ہور گوجرانوالہ.راولپنڈی.وان بھچراں سے کئی بزرگ علما و چک منگلا آنے شروع ہوئے.مثلاً مولوی غلام اللہ خان صاحب قاضی شمس الدین صاحب : قاضی نور محمد هنا مولوی شهاب الدین صاحب اور بے شمار علماء حضرات.ہمارے ساتھ ان کا یہ جھگڑا ہوتا کہ تم مرزا صاحب کو کافر کیوں
19 نہیں کہتے.ہم کہتے ہم احمدی نہیں صرف مرزا صاحب کو کافر نہیں کہتے.وہ کتنے جو مرزا صاحب کو کا فرنہ کے وہ خود کافر ہے.ہم کتنے کہ ہمیں سمجھاؤ.مرزا صاحب کیوں کا فر ہیں.وہ دلائل دیتے ہم ان کو جواب دیتے کہ یہ وجوہ کافر بنانے کے لئے کافی نہیں.چونکہ پیر صاحب کی طرف سے حوالہ جات وغیرہ پیش کرنے والا میں تھا.مجھے اچھی مزاولت ہوتی گئی اور مسائل ذہن نشین ہوتے گئے.ہوتے ہوتے ہمارے تمام مریدوں کے عقائد عبد الله معمار سے مناظرہ پختہ ہو گئے کہ میں فوت ہو چکے ہیں.اور میرا صاحب نیک انسان ہے لیکن ہمیں ان کی بیعت کی ضرورت نہیں.اور مرزا صاحب کو نیک بزرگ مانتے ہوئے ہمیں اپنی پیری مریدی کا سلسلہ قائم رکھنا چاہیئے.ایک مرید کی دعوت پر پیر صاحب سلانوالی تشریف لے گئے.اور وہاں تقسیم ملک کے بعد کافی مہاجر آباد ہو چکے تھے.اور وہ لوگ ہمارے قائد سے واقف ہو چکے تھے.انہوں نے ہمیں مرزائی مشہور کر دیا.اور ہمارے ساتھ مناظرہ کی طرح ڈال دی.پیر صاحب بھی جو شیلے آدمی تھے.انہوں نے لکھ دیا کہ میسی فوت ہو چکے ہیں.اور مرزا صاحب اپنے تمام دعاوی میں پیچھے ہیں.اس پر مناظرہ رکھا گیا.انہوں نے راتوں رات مولوی بلوائے ہیں نہ اس قسم کے مناظروں کا پتہ نہ پورا دلائل کا علم بہر حال دوسرے دن عبداللہ معمار امرتسری ان کی طرف سے مناظر مقرر ہوا.اور خاک از عزیز الرحمن پیر صاحب کی طرف سے مناظر مقرر ہوا.مجھے کہیں سے احمدیہ پاکٹ بک بھی
۲۰ مل گئی.ویسے بھی وفات مسیح کے دلائل ایک کاپی پر جمع کر رکھے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مناظرہ بہت اچھا ہوا.اور یہ بھی عجیب قسم کا مناظرہ تھا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے کہ نہ ہم احمدی نہ لاہوری نہ قادیانی اور وفات مسیح اور صداقت مرزا صاحب پر مناظرہ کر رہے ہیں.لیکن اصل میں خدا تعالے ہمیں ٹریننگ دے رہا تھا کہ تم نے احمد کی بن کر تبلیغ کرنی ہے ابھی سے تیاری اور مشق کر لو.ربع دار الحجرہ کی بنیاد انہیں ایام میں بوہ مرکز احمدیت جب ہمارے علاقہ نا میں آباد ہونا شروع ہوا.اور سر گو دھا شہر میں بھی کافی احمدی احباب آگئے.تو میں نے حضرت مسیح موعود کی تمام تصنیفات اکٹھی کرنی شروع کی.براہین احمدیہ حصہ پنجم پڑھی حقیقة الوحی پڑھی بیتوت کا مسئلہ حل ہو گیا.ہاں ان دنوں میں نے منہ بله مصلح موعود مسئلہ خلافت پر دونوں جماعتوں کا لٹریچر پڑھا.خدا تعالیٰ نے مجھ پر حق واضح کر دیا کہ خلافت برخی اور مرزا صاحب کی تحریرات کی روشنی میں مصلح موعود میرا پیارا محمود ہے.اس کے بعد میرا اور میرے استاد پیر صاحب کا اختلاف شروع ہوا.وہ اسی عقیدے پر جم گئے کہ مرزا صاحب نبی نہیں اور نہ ہی خلافت کی ضرورت ہے اور نہ ہی بیعت کی ضرورت ہے.اور خاکسار ان مسائل کی تہ تک پہنچ گیا.ا چکا تھا لیکن پیر صاحب کو
M چھوڑنا بہت مشکل تھا.کیونکہ ان کے ہم پر بہت احسانات تھے اور اُن کا رعب بھی اتنا تھا کہ ان کو چھوڑنا کارے دارد تھا.لیکن ٹریچر کے ذریعہ سے آپ حق واضح ہو چکا تھا.میں ایک دفعہ لا ہور گیا وہاں جو دھامل بلڈنگ میں حضرت خلیفہ آیع الثانی ایده الله نصرہ العزیز رہائش پذیر تھے.شام کی نماز میں تھے حضور کی اقتدار میں ادا کی اور مولوی ابو المنیر نورالحق صاحب نے میرا تعارف کرایا.نماز کے بعد ان دنوں حضور نفسیات پر کچھ لیکچر دیا کرتے تھے اور کافی دوست جمع ہو جایا کرتے حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اور حضور کے طرز گفتگو نے مجھے کچھ ایسا گرویدہ کیا کہ میں رونے لگ گیا.حضور نے علاقہ پوچھا.تعلیم پوچھی.میں نے سب کچھ بتایا لیکن اس ملاقات اور حضور کی نگہ نے مجھے اپنا مطیع بنا لیا.قال الشاعر: آن دل که رقم نمودی از خوبرو جوانان دیره بنیه سال پیرے بر دش بیک نگا ہے مناجات شوریدہ اندھرم اب میں نے علیحدگی میں پیر صاحب سے بات چیت نمودبانہ انداز میں شروع کی اور اپنے دلائل دینے شروع کئے کہ جناب جب حضرت عیسی وفات پا چکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مرزا صاحب می موجود ہیں.تو پھر خدا کے مامور کے مقابلہ میں ہمیں اپنی گری چھوڑ دینی چاہیئے.اور بیعت میں شامل ہونا چاہیئے.لیکن یہ قدم اٹھانا ان کے لئے بہت مشکل تھا.اور ہمیں پیر صاحب کا چھوڑنا بہت مشکل تھا.اسی کشمکش میں
۲۲ 192ء میں میں نے حج کا ارادہ کیا اور اس سفر میں میری ایک غرض یہ تھی کہ اس معاملہ کے متعلق مقامات مقدسہ پہر دُعا کروں گا.مجھے نہیں دن کراچی ٹھرنا پڑا.کیونکہ ہمارا جہاز لیٹ ہو گیا تھا.میں جمعہ احمدیہ ہال میں جاکر پڑھتا.اور رات دن سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کرتا.مجھے یاد ہے کہ دعوۃ الکبیر اور ذکر الٹی میکں نے وہاں ہی کسی احمدی دکاندار سے خریدی.اور سفر حج پر ساتھ لے گیا.ہاں مرقاۃ الیقین بھی ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا.اور اس کا بار بار مطالعہ کرتا تھا." دور اتنا کہا کہ پرپہلی بار نور لانے خانہ کعبہ میں دو دعائیں کے وقت جودھا کی جانتے قبول ہوتی ہے.لہذا دو دعائیں مانگیں.(1) خدایا عمر بھر جو دعا مانگوں قبول فرمانا.(۲) جماعت احمدیہ قادیان میں شامل ہونا اگر تیری رضا کا موجب ہے تو مجھے ضرور داخل فرمانا.یوم عرفه ۱۳۹ | یوں تو بیت الله - مدینہ منورہ - منی - عرفات - وغیرہ تمام مقامات مقدسہ پر دعائیں کیں.لیکن یوم عرفہ یعنی حج کے دن تو خصوصا دعا کا موقعہ لما.عرفات کے میدان میں تقریباً آٹھ تو بجے پہنچ گیا تھا.دوپہر کے بعد ظہر وعصر جمع کر کے احرام کی حالت میں ایک مشکیزہ پانی کا کندھے پی والے.اور کاپی دعاؤں کی ساتھ لئے ایک چھتری لے کر جبل ریت پر چڑھ گیا.جہاں حضرت سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے خطبہ دیا تھا.
خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے اس مقامیم پاک پر چھٹی کے دن کھڑے ہو کر قرآنی دعاؤں اور احادیثی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنے خدا سے یوں مخاطب ہوا.مولا کریم میں گنہ گا ہ پاکستان سے تیرے اس متبرک مقام پر اس لئے آیا ہوں کہ میرے گناہ بخش اور اگر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی تیرا سچا مسیح موعود ہے اور اس کی جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے تو مجھے اس جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.اے میرے مالک اگر قیامت کے روز تو مجھ سے سوال کرے گا.کہ تو نے مسیح موجود کو کیوں نہ مانا تو اس کا ذمہ دار تو ہوگا.میں روتے گرتے پڑتے تیرے در پر پہنچ گیا ہوں.اب آئندہ تو راستہ کھول.جو حالت دعا اور حالت گریہ اس وقت مجھ پر طاری ہوئی مجھے ساری عمر نہیں بھولے گی گویا میں روز محشر میں حاضر تھا.اور تعدا تعالے سے آمنے سامنے بات کر رہا تھا.اور جب مجھے اپنی وہ حالت یاد آتی ہے.تو سمجھتا ہوں شاید شیخ سعدی نے یہ شعر میرے حق میں ہی کہا تھا..a دلم سے بلرزد چوں یاد آورم مناجات شوریده اندر ح چنانچہ اس سفر سے واپس آکر ایک موقعہ پر میں نے اس واقعہ کی یاد میں یہ چند شعر بھی کہے تھے.جن میں میں نے اللہ تعالیٰ سے خطاب کرتے ہوئے عاجزی سے کہا تھا کہ :-
۲۴ دل میرے ڈال دی تو نے محبت کی جھلک میں تو آخر دم تلک روتا رہا با حالِ زار عرصہ عرفات میں ہے جبل رحمت خود گواہ تھا پکارا میں نے تجھے کو باد و چشم اشکبار یاد کر وہ وقت جب میں در پہ تیرے جا کھڑا دے مجھے رشد و ہدایت تھا زباں پر بار بار گر نہیں ہے میرزائے قادیان تیرا مسیح پھیر دے دل کو مرے ہاتھوں میں تیرے اقتدار گربنا فیضانِ احمد سے غلام احمد مسیح قوم کو میری ہدایت دے نہ ہوں از اہل نار واپس آکر دو سال متواتر مکرم پیر صاحب سے بحث ہو کالمہ میری بیعت ہوتا رہا اور اس عرصہ میں مجھے کئی خواہیں بھی آئیں جن کو میں نوٹ کر لیتا اور میری عقیدت حضرت خلیفہ آسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوگا فیوگا بڑھتی گئی.آخر میں نے حتمی فیصلہ کر لیا.اور خدا تعالے نے میرے اندر قوت بھر دی کہ خواہ پیر صاحب ناراض ہوں.اب خدا تعالے نے عقلی، علمی، روحانی طور پر مجھ پر حجت پوری کر دی ہے.آپ اگرہ مداہنت سے کام لوگ تو شاید سلب ایمان کا معاملہ نہ ہو جائے.پس ۱۹۵۴ء کے جلسہ سالانہ پر یہ خاکسار حضور کی دستی بیعت سے مشرف ہوا.اور میرے ساتھ رائے اللہ بخش ولد احمد منگلا نے بھی بیعت کی.اور
۲۵ بعد میں خاکسار کے ذریعہ سے پیر صاحب کے تمام مرید سوائے چند ایک کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے داخل سلسلہ حقہ ہو گئے.فالحمد للہ رب العالمین.الفرقان کے اثرات) ہاں ایک بات لکھتی میں بھول ہی گیا اور جب وہ یہ کہ میرے قبول احمدیت میں رسالہ الفرقان کا بھی حصہ ہے باشندہ میں جبکہ میں ابھی احمدی نہیں ہوا تھا.ام نگر سے یہ رسالہ نکلنا شروع ہوا.میں اسی دن سے اس کا خریدار بنا.ب پہلا پرچہ مجھے ملا تو پڑھ کر اپنے تاثرات ایڈیٹر صاحب مولانا ابو العطاء صاحب کو بھجوائے جو نومبر دسمبر 1924ء کے سالانہ نمبر میں چھپ چکے ہیں.چونکہ وہ میری آج سے ۱۳ سال پہلے کی رائے ہے.جو میں نے بیعت سے پہلے ماہنامہ الفرقان کے متعلق لکھی تھی.امید ہے قارئیں اسے پڑھ کر محفوظ ہوں گے.لہذا ذیل میں درج کرتا ہوں.متفرقات کے زیر عنوان درج ہے:- ایک عالم دوست کا گرامی نامہ ضلع سرگودہ اسے ایک عظیم دوست غیر احمدی مولوی صاحب کی طرف دوستکارانی سے ذیل کا مکتوب موصول ہوا ہے :- مکرم معظم شیخ ابو العطاء صاحب اعانكم الله في مرامكم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وجہ کا تہ.بندہ نے الفرقان کا پہلا پرچہ منگوایا.دیکھا.پڑھا.خدا کی قسم دل کو اتنا پیارا لگا جو بیان سے خارج ہے.اب ہر وقت یہی تمنا ہے کہ دوسرا پر چہ کب شائع ہوگا.
۲۶ مجھے دو چیزوں کا عشق ہے.یعربی زبان اور دینی لٹریچر پیکیں نے پچھلے سال حرمین شریفین کا سفر بھی کیا ہے.میں نے البشیر کو دیکھا.العربیة منگواتا ہوں.ام القریکی از مکہ مکرمہ پڑھا مصری مجلات دیکھے.رشید رضا کے رسائل کا مطالعہ کیا جرجی زیدان کے ادبی مضامین سے بھی آگہی ہوئی.نا صیف یا زجی کی نظمیں بھی پڑھیں.قندیل، طلوع اسلام - انجمن حمایت اسلام کے دینی رسائل بھی دیکھے.مگر سچ کتنا ہوں کہ الفرقان ایسا کوئی یال صوری معنوی فضائل سے میرے نہ پایا.ایک دن میں مکس نے پانچ پانچے دفعہ اس کا بار بار مطالعہ کیا.ہر دفعہ ایک نئی لذت پیدا ہوئی.اگر یہ رسالہ اور اس کے مضامین لکھنے والے احمدیہ جماعت کے علاوہ اور کوئی صاحبان ہوتے تو تمام بلاد اسلامیہ میں اس کی شہرت کی کوئی حد نہ رہتی.مگر صرف یہی بات کہ اس کا انتساب جماعت احمدیہ کی طرف ہے کو ر بین اس کی طرف توجہ نہ کریں گے.a حسدوا الفتى اذ لم ينالوا سعيه فالقوم اعداءله وخصوم كضرائر المحسناء قلن لوجهها حسداً ولغيا انه لرحيم میرا خیال ہے کہ آپ لوگ خود بھی اس کی وہ قدر نہ سمجھتے ہونگے جو اس کی حقیقی قدر ہے کیونکہ آپ کتنے ہوں گے یہ تو ہمارے ہی لکھے ہوئے مضامین ہیں.نہیں ، نہیں ، نہیں.
۲۷ گفته او گفته الله بود به گرچه از حلقوم عبد الله بود (مولانا روم) اب میری دعا اور آپ سے بھی یہی التجا ہے کہ اس کی حفاظت کامل طور پر فرماویں.کہیں راستہ میں اس کو چھوڑ ز دیویں زیاد لکھنانا انساب ہے.صرف ایک شعر دیو آن شریف رضی سے لکھتا ہوں ہے وَلَيْسَ لِمَنْ لَمْ يَمْنَعَ اللهُ مَانِعَ وَلَا لِقَضَاءِ اللهِ فِي الْأَرْضِ غَالِبُ میرا یہ شعر رسالہ الفرقان کے بارے میں تھا.لیکن جب میں نے الفرقان کا منا دیکھا تو اس شعر کو اس مضمون پر بھی بے حد چسپاں پایا.جہاں آپ لکھتے ہیں : " اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی خوبی پر نظر کرنے سے کیسا اوقات غیر مسلموں کے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش تعلیم ہماری ہوتی.قلائد فرقان تود لِحُسُنِها قلوب الاعادي ان تكون ترائباً والفرقان دارم آخر میں میں سب قارئین کرام سے اپنے لئے اور اپنے سب افراد خاندانو قوم کے لئے درخواست دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خدام احمدیت بنائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.تا آخرت میں اس کے حضور سرخرو ہو کر پہنچیں.آمین.خاکسار عزیز الرحمن منگلا مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ
۲۸ وہ رحمت کا بادل ادھر آرہا ہے حضور کی سفر یورپ سے واپسی) وہ بادل کے نیچے پہاڑوں کے پیچھے مجھے چاند سا اک نظر آرہا ہے وہ دریا سے گذرا پہاڑوں سے نکلا خضر آرہا ہے خضر آرہا ہے مشارق پہ ہو مغارب پر چھایا وہ رحمت کا بادل اِدھر آرہا ہے میچ زمان کا مسافر خلیفہ وہ محمود فضل عمر آرہا ہے کھلا راز یولله کا جہاں پر مسیحا کا لخت جگر آرہا ہے عزیز آب جہاں میں محمد کا غلبہ مسیحا کے ہاتھوں نظر آرہا ہے الفضل ۱۴ اکتوبر ۵۵ ) ا يسافر المسيح الموعودا وتخليفة من خلفائه الى ارض دمشق ۱۲ که يتزوج ويولد له ۱۲
۲۹ برکات رمضان میں مولی کی اپنے رضا چاہتا ہوں محبت حبیب خدا چاہتا ہوں پاک رمضان سلامت روی زیارت تیری بارہا چاہتا ہوں اٹھا کر فرش سے بٹھائے فلک پر میں وہ سوز و ساز دعا چاہتا ہوں کروں جس پہ قرباں میں لذات دنیا میں وہ ذوق آہ وبکا چاہتا ہوں لباس شب تار میں دو بقبلہ میں ترتیل آی نبی چاہتا ہوں به الحمد واخلاص ویسین وطہ میں ہر ہم وغم کی چلا، چاہتا ہوں مجھے کیا مزا ہو کسی انجمن میں میں دو اہل دل آشنا چاہتا ہوں صیام و قیام و قرآن و دعا میں میں بس یار کی ہی رضا چاہتا ہوں بناؤں جیسے آنکھ کا اپنی سرمہ میں محمود کی خاک پا چاہتا ہوں فدائے محمدؐ سے احمد کے صدقے میں آقا کی اپنے شفا چاہتا ہوں کہوں جب میں سالم رہے آل احمد تو سارے جہاں کا بھلا چاہتا ہوں به عشق مجازی سرا سر خسارہ میں محمود کی ایک نگاہ چاہتا ہوں س میں مالک سے بیویم جزاء وسزا کے رفاقت تری میرزا چاہتا ہوں
٣٠ بلال افق کی چمک تھوڑی تھوڑی یکی مغرب سے شمس ہلکا چاہتا ہوں ہو تو حید قائم جہاں میں مقدس میں تثلیث کا ہی میرا چاہتا ہوں وفات مسیحا حیات محمد مکیں زندہ فقط مصطفے اچاہتا ہوں ہو عیسی فلک پر محمد زمیں میں مکیں قرآن سے اسکی قضا چاہتا ہوں پڑے ماند تارے سرائیلیوں کے میں انوار میں حیرا چاہتا ہوں قیامت تک زندہ نور نبوت میں انعام سورۃ نیسا چاہتا ہوں ئنا تار ہوں میں کلام الہی تعدا سے یہ دل کی غذا چاہتا ہوں ہو تبلیغ اسلام ہی کام میرا زباں پاک و قلب صفا چاہتا ہوں سفر میں حضر میں میرے رب رحماں میں تبدیل سوء قضاء چاہتا ہوں میں طالب نہیں ہوں کسی ضروری کا تیرے در کی مولی گدا چاہتا ہوں ہو ایمان پہ مولیٰ مرا خاتمہ میں تجھ سے یہ عید الضحیٰ چاہتا ہوں دعائیں جو کیس میں نے سمجھوں میں گر کر خدایا اب ان کی وفا چاہتا ہوں اسکی پوستم کو عزیز التجا کو ہوں بندہ گھر میں خدا چاہتا ہوں د خالد جون 9 )
ہیں ! دیہ چند اشعار یا سالانہ چک منگتا ہے کئے گئے مسیحائے محمد کے نشاں معجز نما ہم ہیں مریضان محبت کے لئے عیسی نما ہم ہیں ہمارے دم سے وابستہ ہدایت سارے عالم کی فریقان ضلالت کے لئے جس نا خدا ہم ہیں جدھر کو ہم نے منہ پھیرا ادھر کو حق ہی دائر تھا کہ تعمیر نظام تو میں دستانِ قضا ہم ہیں تری نظروں میں اسے مسلم نے کافر ہوئے پیدا خدا شاہد ہے نو مسلم یہ ختم انبیاء ہم ہیں نہیں حاجت سنان و سیف کی جن جانفروشوں کو آ دلوں کو چیرنے والے بہ قرآن و مدنی ہم ہیں کریں گے دین احمد کو جہاں میں چار سو غالب کہ عشاق محمد مصطفے صلى على مسیحائے زماں اُتر ا جنہوں میں آج اے پیاروا عزیز قوم خوش بختاں چہ قوم منگلا ہم ہیں ر خالد ستمبر ۹۵ ) ہم ہیں
۳۲ فیوض احمدیت بحمد للہ مسیحائے زماں بخشا گیا ہم کو محمد کی صداقت کا نشاں بخشا گیا ہم کو قیامت تک کرے گا جو معطر ساری دنیا کو کلام اللہ کا وہ گلستان بخشا گیا ہم کو نظر آتی ہے اب محمود میں شانِ سماعیلی زمین شور میں آپ رواں بخشا گیا ہم کو ڈراتا ہے ہمیں کیوں آتش دوزخ سے اے واعظ اسی عالم میں جب دار الا ماں بخشا گیا ہم کو اجابت آسمان سے بہر استقبال آتی ہے دعائے نیم شب - سوزِ نہاں بخشا گیا ہم کو قبوض احمدیت کیا بتاؤں تجھ کو اے مالک نیاز فقر میں ناز شہاں بخشا گیا ہم کو زمانہ ڈھونڈتا پھرتا ہے جس کو آسمانوں میں عزیز با صفا وہ داستاں بخشا گیا ہم کو (خالد جولائی 4ك ) لاہور آرٹ پر لیس ۱۵ را نار کلی لاہویہ
ناشوان جمالك الدين النجم - غلام مر تفنى ظفر