Azeem Zindagi

Azeem Zindagi

عظیم زندگی

مترجم: محمد زکریا ورک
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اخلاقیات

Book Content

Page 1

عظ مصنفـ بشیر احمد آرچرڈ مترجم محمد زکریا ورك

Page 2

مصنف بشیر احمد آرمرڈ آکسفورڈ برطانیہ ترجمہ اُردو محمد زکریا رکن کنگسٹن کینیڈا ترجمه نظرثانی حسن محمد خاں عارف ٹورنٹو کینیڈا ناشر محمد زکریا ورک بی.اسے، ایل ایل بی مقام اشاعت لندن ، انگلینڈ قیمت تین پونڈ ملنے کا پتہ , 3 37 - TONSLEY HILL LONDON SW 18 ZAKARIEA VIRKE 116 - BASSWOOD PLACE KINGSTON, CANADA AHMADIYYA MISSION Zakaria Virk PD Parts Kingston N K7L 4V6 Canada 106 10 - JANE ST.MAPLE, ONT CANADA

Page 3

۱۶ ۳۵ ۴۱ ۴۹ ۵۳ ۶۳ 4.۸۹ نمبر شمار پیش لفظ ترتيب داستان میری عنوان.اخلاقی اقدار کا نمود جنت ارضی ۳ روح چند خیالات لکھی رُوح ضبط نفس عداوت 6 حصول تقوی اور صیام.روحانی ترقی کے چھ دشمن G ناکامی کے ذریعہ کامیابی شہد کے دریا To

Page 4

١٠٣ 11.۱۲۵ ۱۳۷ ۱۶۵ 161 ہماری مونیوم دنیا 1 حیات ابدی ۱۳ کائنات میں خدائی صداقتوں کا ظہور ہماری اندرونی کائنات (۱۵) عبادت کی عادت (19) ایک احمدی کا رول

Page 5

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ تمام تعریفیں اُس ذاتِ والا صفات کے لئے ہیں جس نے اپنے اس عاجز بندہ کو احمدیت کے ایک عظیم سیلوت جناب بشیر احمد صاحب آرچرڈ مرتی انگلستان کی انگریزی کتاب "لائف سپریم“ LIFE SUPREME کا اُردو ترجمہ کرنے کی سعادت نصیب کی اور پھر محض اس کی دی ہوئی استطاعت سے یہ کتاب اب شائع ہو کر منصہ شہود پر آئی ہے." لائف سپریم" سے میرا تعارف محترم عبدالرحمن صاحب دہلوی کے ذریعہ ہوا تھا.کتاب کا مطالعہ کیا کرنا تھا کہ بے ساختہ اس سے پیار ہو گیا اور یہ اس والہانہ پیار نے ہی کا نتیجہ تھا کہ محترم دہلوی صاحب کے ارشاد پر میں نے

Page 6

بلا حیل و حجت اُردو میں اس کے ترجمہ پر رضامندی کا اظہار کر دیا.جس وقت میں نے ترجمہ کا کام شروع کیا اُن دنوں خاکسار کا قیام ٹورنٹو میں تھا.میں کچھ پیراگراف کا یا بعض دفعہ ایک مکمل باب کا ترجمہ کر کے شام کو دہلوی صاحب کو فون پر سُنا دیا کرتا تھا.ستمبر ۱۹۸۳ء میں خاکسار کو صوبہ اونٹاریو کی سرکاری ملازمت کے تبادلہ کے سلسلہ میں کنگسٹن شہر میں نقل مکانی کرنی پڑی مگر اِس خلل کے باوجود میں یہ کام شہر کی پبلک لائبریری میں جا کہ متواتر کرتا رہا اور یوں زندگی کی دوسری مصروفیات اور ذمہ داریوں کے باوجود یہ کام محض اللہ کے فضل سے رفتہ رفتہ مکمل ہو گیا.ترجمہ پر نظر ثانی محترم حسن محمد خاں صاحب عارف نے فرمائی میں انکا تر دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اس سلسلہ میں.تعاون فرمایا." عظیم زندگی کی طباعت کے سلسلہ میں جناب طالبہ آغا صاحب آف ہملٹن نے اپنی بیگم مرحومہ نیٹ کے ایصال ثواب کی خاطر تعاون فرمایا.اللہ تبارک تعالیٰ ان کی اہلیہ مرحومہ کو کروٹ کروٹ جنتی سکون نصیب کرے.آمین مرحومہ آسٹریلیا کی باشندہ تھیں قبول دین حق کے بعد

Page 7

آپ نے بہت جوش و خروش کا مظاہرہ کیا.بعد وفات ان کی تدفین مرکز احمدیت ربوہ میں ہوئی.اسی طرح میری اہلیہ نے اپنی والدہ مرحومہ محترمہ رسول بی بی صاحبہ کی رُوح کو ثواب کے لئے طباعت کے سلسلہ میں تعاون کیا اللہ تعالیٰ ان کی والدہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام ہے عطا فرمائے.آمین " عظیم : زندگی کا اصل لطف تو درحقیقت انگریزی زبان میں ہی آ سکتا ہے کیونکہ اس زبان میں مصنف کے خیالات و جذبات اور زندگی کے نچوڑ کا اظہار ہوا اُردو میں ترجمہ کرتے وقت بعض جگہ اس لئے مافی امیر کا خیال رکھا گیا ہے.کتاب کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا مصنف ایک مذہبی عالم ، ایک فلسفہ دان اور بعض جگہ گویا ایک زبر دست سائنسدان ہے.جہاں مصنف کو مذہبی معاملات میں عمیق نظر حاصل ہے وہاں قاری اس بات کا بھی قائل ہو جاتا ہے کہ مصنف کا انداز بیان دل موہ لینے والا اور اس کی تحریر باغ میں مہکتے ہوئے پھولوں کی طرح شگفتہ کو آپ جتنی بار پڑھیں گے اس سے بے انتہا لطف اندوز ہوں گے.زندگی کے ہر شعبہ ، ہر..• ہے.

Page 8

پہلو پر اس کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے.میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مہنتوں کے لئے ہدایت مشعل راہ بنائے.کی کا موجب اور بچپن میں مجھے "خلافت لائبریری جا کر مطالعہ کرنے عادت ڈالی گئی اور یہ ترجمہ درحقیقت اسی عادت کا نتیجہ ہے کہ آج بھی جو سکون اور بے انتہاء لطف لائبریری جا کر آتا ہے وہ ناقابل بیان ہے.محمد زکریا ورک رابن الحاج محمد ابراہیم حنا خلیل کنگسٹن کینیڈا ۱۹۸۹ء

Page 9

داستان میری ( از مصنف) میری پیدائش انگلستان کے جنوبی ساحلی علاقہ ڈیون ( DEVOIN ) میں ٹور کی ( TORQUOY ) نامی ایک خوبصورت قصبہ میں (جو سیر گاہ کے طور پر مشہور ہے) ۲۶ اپریل ۱۹۲۰ء کو ہوئی.میرے والد ڈاکٹر تھے اور میری والدہ شادی سے پہلے نرس کا کام کرتی تھیں.میرے والدین کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا میرے دادا بھی ڈاکٹر تھے اور نانا ایڈمرل ہم تین بھائی تھے میرا سب سے بڑا بھائی ( جو مجھے سے تین سال بڑا تھا، نیوی میں بھرتی ہو گیا تھا دوسری عالمگیر جنگ میں اس کا بحری جہاز دشمن نے ڈبو دیا اور یوں وہ بے چارا عین جوانی کے عالم میں اس دُنیا سے رخصت ہو گیا میرے دوسرے بھائی کا میلان طبع شروع ہی سے مذہب کی طرف تھا.وہ دراصل میری اُس خالہ سے بہت متاثر تھا جو چین میں چالیس سال تک بطور مشنری کام کرتی رہی تھیں.اس تاثر کے تحت جب وہ جوان ہوا تو پروٹسٹنٹ فرقے کا پادری بن گیا مگر جلد ہی یہ پیشہ چھوڑ کر ایک سکول میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کر لی لیکن وہ اس ملازمت میں بھی زیادہ عرصہ تک نہ رہا اور روم چلا گیا وہاں تعلیم و تربیت کے بعد وہ رومن کیتھولک چریت کا پادری بن گیا.میری والدہ بھی مذہب سے بہت پچسپی رکھتی تھیں اور باقاعدہ گرجے بھایا کرتی تھیں.میرے بھائی کے رومن کیتھولک بن جانے کے بعد میری والدہ نے بھی Ι 1 f

Page 10

رومن کیتھولک مذہب اختیار کر لیا اس کے برعکس میرے والد مذہب سے کوئی پوپ پی سکتے تھے MUSHROOMS اکٹھا میں تین سال کا تھا جب میرے والد محترم نے ایک پہاڑی پر مکان خریدا جہاں سے سمندر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا اس لئے میرا بچپن کھیتوں ، جنگل اور ساحل سمندر ہی پر گھومتے پھرتے گذرا.مجھے خوب یاد ہے کہ میں صبح سویرے کرنے کھیتوں میں نکل جایا کرتا تھا اور دوسرے لوگوں کے گھروں سے نکلنے سے قبل اپنا شوق پورا کر کے گھر لوٹ آیا کرتا تھا.سکول کی کتابوں اور مضامین سے مجھے کوئی خاص لچسپی نہ تھی اسی لئے جب میں نے سولہ سال کی عمر میں سکول چھوڑا تو میرے پاس کوئی قابل ذکر سند نہ تھی.شاید اسی لئے جب ایک دفعہ میں نے اپنے والد سے ڈاکٹر بننے کی خواہش کی تو انہوں نے صاف صاف کہ دیا "تمہیں پڑھائی سے کوئی کمپنی نہیں ہے.اِس لئے اِس خیال کو دماغ سے نکال دو فوجی زندگی میں نے ۱۹۳۶ء میں سکول کو خیر باد کہا.اسی دوران میں میرے والدین میں علیحدگی ہو گئی میری والدہ پہلے ہاتھ ( ) نامی شہر میں اور پھر برسٹل کے شہر میں تقل طور پر رہائش پذیر ہوگئیں.میرے سامنے چونکہ اب کوئی مستقبل نہ تھا اس لئے ہمیں فوج میں بھرتی ہو گیا جہاں میری تنخواہ دو شلنگ یومیہ تھی.فوجی ملازمت کا یہ معاہدہ سات سال کے لئے تھا مگر میری طبیعت دو سال بعد ہی اس زندگی سے اکتا گئی ہیں نے اپنے والد کو لکھا کہ جس طور پر مکن ہو مجھے فوج سے نجات دلائیں چنانچہ انھوں نے چند دن بعد

Page 11

۳۵ پونڈ کا چیک مجھے بھجوا دیا جس کی ادائیگی کے بعد مجھے فوج سے ڈسچارج مل گیا.کچھ عرصہ تک میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر رہا یہاں تک کہ میرے دل میں پھر فوج میں جانے کا شوق پیدا ہوا اور میں نے جز وقتی فوجی ملازمت اختیار کر لی جس میں مجھے ہفتہ میں صرف ایک شام ٹرینگ کے لئے جانا پڑتا تھا.ان دنوں برطانیہ سنگی تیاریوں میں مصروف تھا بالآخر اس نے ستمبر ۱۹۳۹ء کو جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا جس کے بعد میری فوجی یونٹ کو بھی کوچ کا حکم مل گیا اور کیوں نہیں ایک بار پھر باقاعدہ فوجی بن گیا.ہمیں فرانس بھیجا گیا وہاں سے بلجیم جہاں سے جرمن فوجوں کی یلغار کی تاب نہ لاکر ہم واپس ڈنکرک ) ( DUNKIRK ) پسپا ہو گئے جہاں سے تمام برطانوی فوج کا انخلاء ہوا اور یوں ہم واپس برطانیہ پہنچ گئے جہاں سے ہمیں ایک ٹرین میں بٹھا کر ویز کے علاقہ میں پہنچا دیا گیا.بنا ۱۹۴۱ء میں میں نے ہندوستان میں متعینہ فوج میں کمیشن کے لئے درخواست دی مختلف جگہوں پر انٹرویوز کے بعد مجھے بطور کیڈٹ آفیسر چن لیا گیا جس پر میں نے ۱۹۴۲ء میں ہندوستان کا رخ کیا.ہمارا جہاز دوماہ کے بعد بیٹی کی بندرگاہ پر پہنچا جہاں سے ہم بنگلور پہنچے اور میں چھ ماہ کی ٹرینگ کے بعد ڈوگرہ رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ متعین ہوا جو جالندھر چھاؤنی میں تھی یہاں سے بعد میں مجھے" انڈین آرمی آرڈی نیس کارپس میں تبدیل کرکے آسام اور برما کے محاذ پر بھجوا دیا گیا.یہاں ایک معرکہ میں جب میں منی پور پہاڑ پر تعین تھا اور جاپانیوں نے ہمارا مکمل محاصرہ کر رکھا تھا اور ہم پر ہر طرف سے تمہاری ہو رہی تھی ہمارا محاصرہ دو ہفتے ایک جاری رہا ہمیں سامان خورد و نوش پیرا شوٹوں کے ذریعہ عتا رہتا تھا یہاں تک کہ ہمیں تازہ کمک پر

Page 12

پہنچ گئی اور ہم دشمن کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے یہاں کا ایک خاص لمحہ تو مجھے ابھی ایک روز روشن کی طرح یاد ہے میری زندگی کا بڑا ہی سنسنی خیز لمحہ ہم خندقوں میں بیٹھے تھے کہ اچانک مجھے اعلیٰ افسر نے بلوا بھیجا جونہی میں خندق سے نکلا ایک گولہ خندق پر گرا اور میرے تمام ساتھی موت کا معمہ بن گئے.یہ واقعہ ۱۹۳۳ء کا ہے.اسلام کا پیغام مجھے عیسائیت نے کبھی متاثر نہیں کیا.اسلام کے متعلق مجھے اس وقت تک کچھ معلومات نہ تھیں البتہ اپنے ایک برہمن دوست کی وساطت سے کچھ عرصہ ہندو مذہبی لٹر پھر ضرور پڑھا.اس وقت تک میں نے یا تو پنڈت نہرو کی کتاب " تاریخ عالم کی جھلکیاں انگریزی زبان میں پڑھی تھی یا میرے لئے مغل بادشاہوں کے حالات ویسپی کا باعث تھے.عام نوجوانوں کی زندگی کی دلچسپیاں سگریٹ نوشی اور شراب نوشی تھیں میں بھی سولہ سال کی عمر ہی سے ان دونوں چیزوں کا عادی تھا.جوا کھیلنا تومیری طبیعت ثمانیہ تھی اس پر مستزاد ناچ گانے اور سینما دیکھنے کی عادت.مذہب اسلام قبول کرنے کے بعد ان تمام مذکورہ عادتوں میں سے جس عادت سے سب کے بعد چھٹکارا ملا وہ سگریٹ نوشی تھی.اگرچہ اسلام نے اسے حرام شرار نہیں دیا تاہم اسے ایک مکر و فعل سمجھا جاتا ہے.اسلام کا پیغام مجھ تک سب سے پہلے ایک احمد می حوالدار کلرک نے پہنچایا جو اُس وقت میری یونٹ میں ملازم تھا.اُس وقت ہم برما کی سرحد کے قریب امپھال کی چوکی

Page 13

میں متعین تھے.اس احمدی کا نام عبد الرحمن دہلوی تھا.مجھے یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ ہماری یونٹ میں کئی اور انگریز فوجی افسر بھی تھے اُن سب میں سے اُس نے مجھے ہی کیوں اِس دعوت کے لئے چنا ہوا یوں کہ اس نے قادیان لکھا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کی تصنیف ” اسلامی اصول کی فلاسفی اس افسر کے - ایڈریس پر بھجوائی جائے.قادیان سے چنانچہ وہ کتاب بذریعہ ڈاک مجھے مل گئی لیکن اس وقت مجھ میں وہ روحانی استعداد نہیں تھی اِس لئے میں اس سے کما حقہ استفادہ نہ کر سکا البتہ اسلامی تعلیم کے بعض حصوں نے مجھے بہت متاثر کیا مجھے دو ہفتوں کی چھٹیاں تھیں اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دن کہاں گزاروں عبدالرحمن نے تجویز پیش کی کہ اس کے کچھ دوست قادیان میں رہتے ہیں ہیں وہاں چلا جاؤں اور یتعطیلات کے دن وہاں گزاروں.قادیان وہاں سے تقریباً ایک ہزار میل دور تھا بہت لمبا سفر پھر یہ جگہ بھی میرے لئے اجنبی تھی چنانچہ میں نے چند دن بعد اسے بتلایا کہ میں وہاں نہیں جا رہا.بی شنکر اُس کا چہرہ اُتر گیا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے بہت صدمہ ہوا ہے یہ دیکھ کر میں نے ارادہ بدل دیا اور چند دن قادیان میں گزارنے ہی کا پروگرام مرتب کر لیا.امپھال کی پچوکی سے جنگل میں واقع منی پور کا اسٹیشن کوئی ۸۰ میل کے فاصلہ پر تھا اور یہی نزدیک ترین اسٹیشن تھا.یہ ٹرک سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی پہاڑیوں اور جنگلوں میں سے گزرتی تھی ہر حال میں نے جوں توں یہ فاصلہ طے کیا اس کے بعد دہلوی صاحب آجکل ٹورنٹو (کینیڈا) میں اپنے بیٹوں کے پاس مقیم ہیں.

Page 14

ریل کا سفر شروع ہوا اور یوں مجھے قادیان پہنچنے میں ایک ہفتہ لگ گیا.قادیان میں قاریان پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ الگ تھلک چھوٹا سا قصبہ ہے، قادیان کے اسٹیشن پر مجھے لینے کے لئے کوئی موجود نہ تھا کیونکہ کسی کو میرے آنے کی اطلاع نہ کی گئی تھی ہیں نے ایک ٹانگہ لے کر کوچوان کو مفتی محمد صادق صاحب کا نام لیا وہیں شاید میری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا.گرمیوں کا موسم تھا.تانگہ ناہموار سٹرک پر چلتا ہوا تنگ گلیوں میں سے گزرتا ہوا ایک جگہ پہنچ کر رک گیا.سامنے دیوار تھی جس کے پیچھے سیڑھیاں تھیں جن کو عبور کر کے اُوپر کی منزل کا دروازہ کھٹکھٹایا، دروازہ کھتے پر ایک سفید ریش معمر بزرگ نمودار ہوئے مفتی محمد صادق صاحب تھے میں نے اپنا تعارف کرا یا مفتی صاحب نے مجھے خوش آمدید کہا اور کوچوان کو ہدایت کی کہ مجھے مہمان خانہ سے جائے جہاں وہ تھوڑی ہی دیر میں خود بھی پہنچ گئے اور کافی دیر تک میرے ساتھ گفت گو فرماتے رہے.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مفتی صاحب امریکہ میں اسلام کے پہلے مبلغ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب خاص میں سے تھے.اگلے دن حضرت مفتی صاحب نے مجھے قادیان کی سیر کرائی اورمختلف جگہیں دکھائیں.مجھے اب تک یاد ہے کہ میں نے اس سیر کے دوران مفتی صاحب سے دریافت کیا تھا کہ جماعت احمدیہ کا سگریٹ نوشی کے بارہ میں کیا موقف ہے تو انہوں نے جواباً فرمایا تھا کہ اگرچہ یہ حرام نہیں تاہم ایک مکروہ و نا پسندیدہ امر ہے.میرا قیام قادیان میں صرف دو دن رہا انہی دو دنوں میں حضرت مرزا بشیر الدین محمداحمد

Page 15

سے بھی ملاقات ہوئی.ان سے ملاقات لاریب میری زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے.گو میں اُس وقت ان کے بلند روحانی مقام سے واقف نہ تھا پھر بھی ان سے ملاقات کے وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی اور دنیا میں ہوں.وہ اپنے گھر کے برآمدے میں تشریف فرما تھے گفت گو شروع ہوئی تو میں نے عرض کی میرے نزدیک تو بہتر زندگی گزارنے کے لئے توریت کے دن احکام پر عمل کرنا ہی کافی ہے جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ یہ دن احکام تو مجمل حیثیت رکھتے ہیں زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی تفصیل و وصفات کی ضرورت ہے مثلاً ایک حکم ہے قتل نہ کرو لیکن بظاہر کئی ایسے مواقع جن پر جان لینا ضروری ہوتا ہے یا کن مراحل پر جان لینا منع ہے اور کن مواقع پر نہیں اس پر صرف اسلام روشنی ڈالتا ہے اور ہرحکم کی فلاسفی بھی بیان کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ.ئیں نہ صرف ان کے نورانی چہرے اور ان کی مقناطیسی شخصیت سے متاثر ہوا بلکہ ان کی گفت گو اور دلر با مسکراہٹ بھی ہمیشہ کے لئے میرے دل میں گھر کر گئی.اسوقت یہ احساس شدت سے تھا کہ میں کیسی عام آدمی سے ملاقات نہیں کر رہا بلکہ ایک نہایت اعلی ہستی اس وقت میرے سامنے ہے.قادیان کا ہر باشندہ ہی مجھ سے خندہ پیشانی سے پیش آیا.سب سے بڑی چیز جس نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا وہ یہی حسین سلوک تھا ، گو اس وقت میرزا علم اسلام کے بارے میں صفر تھا مگر میں نے اپنے دل کو سمجھایا کہ جس درخت کے پھل ایسے میٹھے ہوں وہ درخت بھی یقینا اعلیٰ ہوگا.میری واپسی پر ایک اور واقعہ پیش آیا جس نے میری زندگی میں تغیر رونما کیا میں امرتسر اسٹیشن پر دوسری گاڑی کے انتظار میں تھا.ویٹنگ روم میں دوسرے افسر

Page 16

بھی موجود تھے جو شراب نوشی میں مصروف تھے ان کی حالت دیکھ کر مجھے سخت کراہت ہوئی اور قادیان کا پاکیزہ ماحول میری آنکھوں میں پھر گیا.وہی وقت تھا جب میں نے مصمم ارادہ کیا کہ آئندہ شراب نوشی سے پر ہیز کروں گا چنانچہ اپنے یونٹ میں واپس پہنچنے پر سب سے پہلا کام یہی کیا کہ شراب کی جنسی بوتلیں میرے پاس تھیں سب پھینک دیں.اب ہماری فوج پیش قدمی کر رہی تھی اور جاپانی فوج پسپا ہو رہی تھی ہم نے برما کے ایک قصبہ میک تلہ میں پڑاؤ کیا اور اسی قیام کے دوران میں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور تبعیت فارم پر کر کے قادیان بھجوا دیا.بے شک یہ ایک بہت بڑا قدم تھا جو میں نے اٹھایا لیکن اب مجھے احمدیت قبول کئے چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے میں نے اس عرصہ میں اپنے رب کے بیشمار فضلوں اور احسانوں کا مشاہدہ کیا ہے.بد عادات سے نجات مشراب نوشی کے علاوہ مجھے قمار بازی کی کت بھی تھی نہیں گھوڑ دوڑ پر اگشتوں کی دوڑ پر یا تاش کی بازی پر جوا کھیلا کرتا تھا.مجھے خوب یاد ہے ایک دفعہ جب میں امپھال میں تھا میں نے اپنے پورے مہینے کی تنخواہ دوسرے افسروں کے ساتھ مجوا کھیلنے میں تنادی تھی خدا کا شکر کہ اسلام لانے کے بعد مجھے اس بد عادت سے بھی نجات ملی اور اس کے برعکس کتنی ہی اچھی عادتیں ودیعت ہوئیں مثلاً احمدیت قبول کرنے سے پیشتر میں نے کبھی ایک پیسہ بھی خیرات و سخاوت میں نہیں دیا تھا اسلام نے مجھے اللہ کی راہ میں مال کی قربانی کا

Page 17

فلسفہ سمجھایا اور میں بخوشی اس کی راہ میں مال دینے لگا.مشروع شروع میں اپنی آمد کا پر حصہ ادا کرتا رہا اور بعد میں اس کو بڑھا کر بڑا کر دیا.در آخر کار ۱۹۶۷ ء میں میں نے اپنی آمد کے یا حصہ کا نذرانہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دیا اور بفضلہ تعالی تا دم تحریر اپنے اس عہد پر قائم ہوں.اگر چہ میری آمدنی بہت قلیل ہے تاہم اِس لازمی چندہ کے علاوہ باقاعدہ زکوۃ بھی ادا کر تا ہوں اور دیگر تحریکات کے چند سے (مثلاً تحریک جدید ، جوبلی فنڈ اور انصاری کا چندہ ) بھی باقاعدہ ادا کرنے کی توفیق مل رہی ہے.ذہنی سکون اسلام پوشیدہ طور پر نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے اور ظاہر طور پر بھی میں نے اپنے چندوں کا ذکر اسلام کے اسی حکم کے تحت کیا ہے وہ بھی اس لئے کہ مجھ پر سوال کیا گیا ہے کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے پر جو فضل فرمائے اور میری زندگی میں جو تغیر رونما ہوا ایکس انہیں بیان کروں حقیقت یہ ہے کہ صرف مال چنداں خوشی اور قناعت نہیں دے سکتا امن اور سکون بخشنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ آج مجھے وہ ذہنی اطمینان اور سکون قلب میتر ہے جو ایک زمانہ میں میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا.احمدیت کے طفیل ایک اور تغیر جو میری زندگی میں رونما ہوا وہ نمازوں کی با قاعدہ ادائیگی کا ہے.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے " ذکر الہی سے قلوب طمانیت

Page 18

حاصل کر سکتے ہیں (۱۳: ۲۹ ).میں ابھی اس میدان میں مبتدی ہوں لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور ملفوظات سے بہت کچھ پایا ہے.مجھے اس بات پر سخت تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے والا ایک شخص جو خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہو وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی کیونکر کر سکتا ہے اور فرض نمازوں کی ادائیگی سے کیسے غافل رہ سکتا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ جب یکن اسلام لانے کے بعد قادیان گیا تھا میں نے مسجد مبارک کے باہر نوٹس بورڈ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا یہ ارشاد لکھا ہوا پڑھا کہ جس شخص نے گذشتہ دس برسوں میں ایک نماز بھی عمداً چھوڑی وہ سچا احمدی نہیں کہلا سکتا.تین خواب خوا میں ہر شخص کو آتی ہیں جبکہ بعض محققین کی دریافت کے مطابق تو جانوروں کو بھی خواہیں آتی ہیں مگر اپنے نیک بندوں کو خدا تعالیٰ ازل سے خوابوں کے ذریعہ اپنا چہرہ دکھلاتا رہا ہے قرآن مجید اور دیگر صحیفے ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں علم یا پیغامات یا اطلاع اپنے نیک بندوں کو دی.مجھے زمانہ احمدیت سے پہلے کی اپنی کوئی خواب یاد نہیں مگر احمدیت قبول کرنے کے بعد مجھے اپنی کوئی خواب نہیں بھولی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ میرے دل و دماغ میں اسی طرح مستحضر ہیں جیسے کہ خواب) یکھنے کے روز تھیں.میں یہاں ان خوابوں میں سے صرف تین کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.ئیس نے ۱۹۴۵ء میں احمدیت قبول کی اس زمانہ کی بات ہے میں نے

Page 19

حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو خواب میں دیکھا جو قادیان کی مسجد مبارک میں کھڑے تھے اپنے مجھے مخاطب کر کے فرمایا " حقیقی زندگی بسر کرنے کے لئے تمہیں غموں سے گھبرانا نہیں چاہیئے " پھر انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ اُوپر اُٹھایا جس میں چھڑی پکڑی ہوئی تھی اور بڑے زور سے فرمایا " اور اس میں شک کی گنجائش نہیں " ۱۹۵۸ء میں تھوڑے عرصہ کے لئے میں قادیان گیا میں مہمان خانہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کوئی شخص پیالہ میں میرے لئے ملائی لے کر آیا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ ملائی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے لئے تیار کی گئی تھی مگر کسی وجہ سے اب مجھے دی جا رہی ہے.تیسری خواب مجھے اس وقت آئی جب میں ویسٹ انڈیز میں بطور مبلغ اسلام کام کر رہا تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت المصلح الموعود میرے لئے ایک پیالہ لائے ہیں جسے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا ہے اس طرح کہ پیالہ میرے منہ کو لگا ہوا ہے پیالے کے اندر میں نے جھانکا تو دیکھا اس میں دُودھ ہے اور تھوڑی سی ڈبل روٹی بھی ہے.اگر چہ ان خوابوں کی اہمیت مجھ پر واضح ہے مگر میں ان کی تعبیر میں نہیں جانا چاہتا.دیرینہ خواہش کی کمی احمدیت قبول کرنے سے قبل میں نے اپنی زندگی کا کوئی خاص مقصد متعین نہیں کیا تھا مستقبل کے لئے کوئی خاکہ میرے ذہن میں نہ تھا جنگ کے دوران میں ایک برطانوی سپاہی تھا جو جبری بھرتی کا نتیجہ تھا.میری زندگی کھلے سمندر میں ایک شکستہ ناؤ کی مانند تھی

Page 20

جو موجوں کے ساتھ ساتھ اِدھر اُدھر ہچکولے کھاتی پھرتی ہو اس کے باوجو د بچپن ہی سے میرے دل میں خواہش تھی کہ میں کوئی غیر معمولی کام سرانجام دوں، اُس وقت میری عمر کوئی دس برس کی ہوگی جب میرے دل میں یہ خیال پنچنگی سے بیٹھ گیا تھا کہ میں عام لوگوں کی طرح زندگی نہ گزاروں بلکہ کوئی غیر معمولی کام کر کے دنیا میں نام پیدا کروں.احمدیت قبول کر کے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اپنی اس دیرینہ خواہش کو (جو میرے لاشعور میں ہر وقت موجود رہی ) پورا کیا ہے.جیسا کہ درج ذیل واقعات سے ظاہر ہو گا.جب ۱۹۳۵ء میں دوسری عالمگیر جنگ ختم ہوئی اور میں انگلستان واپس پہنچا تو میں فوری طور پر فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا.میں سیدھا اپنی والدہ کے پاس برسٹل ) URISTOL ) پہنچا اور چند دن قیام کرنے کے بعد لندن مسجد ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوا جہاں اُس وقت مولنا جلال الدین نمی مرحوم امام مسجد تھے ہیں نے وہاں پہنچ کر اپنا تعارف کرایا اور مشن میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ساتھ ہی اسلام کی خاطر زندگی وقف کر دینے کے ارادے کا بھی مولانا شمس یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں تحریر کرتے ہیں :- " فوج سے فراغت حاصل کرنے کے بعد جب وہ انگلستان پہنچے تو دو دن اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رہنے کے بعد تیسرے دن وہ لندن مسجد پہنچے اور گفتگو کے دوران انہوں نے مسجد میں ہی قیام کر کے بطور مبلغ اسلام کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا نہیں نے انہیں ایک مبلغ کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا مگر وہ اپنے عزائم پر ڈٹے رہے

Page 21

آخر کار میں نے کہا کہ میں اس بارہ میں مزید سوچوں گا اور جلد ہی انہیں مطلع کروں گا میری اس ہچکچاہٹ پر یہ کچھ افسردہ ہو گئے اور چند دنوں کے بعد سلسلہ کے دیگر واقفین کی طرح بلا شرط اسلام کی راہ میں اپنی زندگی وقف کر دی اور میں نے ان کی درخواست حضرت امیر المؤمنین کی خدمت میں برائے منظوری بھجوا دی اس سفارش کے ساتھ کہ یہ عید مبلغ اسلام بن سکتے ہیں.میں نے انہیں مسجد میں آنے اور ٹھہرنے کی دعوت دی تاکہ وہ اسلام کے بارہ اور سیکھ لیں حضرت امیرالمؤمنین نے نہایت شفقت کے ساتھ اس درخواست کو منظور فرمایا اور مسٹر آرچرڈ دیگر مبلغین کی طرح میدان تبلیغ میں کام کرنے لگے ہے ریویو آف ریلیجنز جون ۶۱۹۴۰ ) خدا تعالی کی مشقت بڑے عجیب انداز سے کام کرتی ہے اس نے چاہا کہ اس کا یہ حقیر بندہ پہلا یورپین احمدی مسلم مبلغ بنے.وو یہ خدا تعالیٰ کا ایک عظیم احسان ہے جو اس نے مجھ ناچیز پر فرمایا اور میرے لئے ایک بہت بڑا اعزاز حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے اس خاکسار کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا :." بے شک آج تمہیں کوئی نہیں جانتا اور کسی نے تمہارا نام نہیں سنا لیکن یا درکھو ایک زمانہ آئے گا کہ قومیں تم پر فخر کریں گی اور تمہاری تعریف کے گیت گائیں گی اس لئے تم اپنے کردار اور گفتار پر نظر رکھو یہ سمت خیال کرو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ تمہارا ذاتی فعل ہے بلکہ وہ تمام برطانوی قوم کی حرف منسوب ہو گا آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری پیروی کریں گی.اگر

Page 22

تمہاری حرکات اور تمہارا کہ دار اسلامی تعلیم کے مطابق ہو گا اور تمہارے افعال عظیم ہوں گے تو ان کو دیکھ کر تمہاری قوم کی اخلاقی حالت سدھر جائے گی لیکن اگر تمہارے افعال اس معیار پر پورے نہ اتر سے اور اسلامی تعلیم کے مطابق نہ ہوئے تو تمھاری قوم کو نقصان ہو گا اس لئے کوشش کرو کہ آئندہ آنیوالی نسلوں کے لئے اعلیٰ نمونہ قائم کرو ورنہ خدا تعالیٰ اپنے کسی اور بند سے کا انتخاب کرے گا جو یہ کام کر سکے جب احمدیت کا دُنیا میں غلبہ ہو جائے گا اور انشاء اللہ ایسا ہو گا تو دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس غلبہ کو روک سکے تب لوگوں کے دلوں میں تمہارے لئے عظمت ہوگی اس عظمت سے بھی زیادہ جو ان کے دلوں میں بڑے وزیر اعظم کیلئے ہے ؟ اریویو آف ریلیجبر جون ۲۱۹۴۷) اور میں اپنی زندگی کی یہ مختصر داستان خدائے عز و مبل کی حمد اور اس کے فضل اور احسانات کے ذکر پر ختم کرتا ہوں.انگریزی سے ترجمہ رشید احمد چودھری لندن) از رساله مسلم میر الله لندان ۱۴

Page 23

اخلاقی اقدار کا نمود جنہوں نے سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا کی سیر کی ہے انہوں نے پریس سٹریٹ پر ولیور ٹی اسٹیشن سے سو گز کے فاصلہ پر ایک یاد گار بھی دکھی ہوگی جومشہور سکاٹ مصنف اور مؤرخ سرو انٹر اسکاٹ کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی نہیں جب بھی اس کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس کے وہ آخری الفاظ یاد آتے ہیں جو اس نے اپنی موت سے قبل اپنے داماد سے کہے تھے :- " میری زندگی کے آب چند ہی لمحات باقی ہیں میری ہی تمہیں نصیحت ہے کہ اچھے انسان بنو نیکیوں کو اختیار کر وا دین کو اختیار کرو اور جب آخری آرامگاه کی طرف آنے کا وقت آئے گا تو تمہیں اس سے بہتر چیزیں کام نہیں آئیں گی؟ سر والٹر اسکاٹ نے اگر چہ ادبی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا اور بے شمار قارئین اس کی بہت تعریف کرتے ہیں مگر حیات کے آخری لمحات میں وہ یہ سمجھ گیا کہ زندگی کی سب سے زیادہ قیمتی متاع نیک بنا اور نیکی کا اختیار کرنا ہے چنانچہ اس نے اسلام کی ایک بہت بڑی صداقت کو پہچانا جو قرآن مجید میں یوں بیان ہوئی ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ (۵۱:۵۷) ترجمہ : میں نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت

Page 24

| کریں.اس آیت کریمہ میں خدا تعالیٰ کی عبادت سے مراد نماز پڑھنا ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے خیالات میں اور اعمال اور کلام میں خدا کی صفات اختیار کریں اور نیک اخلاق کے ذریعہ اس کی حمد اور تعریف کریں حقیقت میں یہی ہماری ہستی کا مقصد ہے اور اسی پر ہمیں اپنی تمام توجہ مرکوز کر نی چاہئیے.رفتہ رفتہ ہمیں اپنے ہر خیال ہر لفظ اور ہر کام حتی کہ ہمارے چہرہ کے آثار سے بھی نیکی کا نور نمایاں ہو.مندرجہ ذیل دعا ہمارے لئے چراغ راہ ہونی چاہیئے :- الہی میری زبان کو نور سے بھر دے.نور ہی میرے دائیں اور نور ہی میرے بائیں ہو.نور ہی میرے اوپر ہو اور نور ہی میرے نیچے ہو اور نور ہی سے مجھے بھر پور کر دے یہ قرآن پاک میں ایک جگہ بیان ہوا ہے کہ نیکی کے انتہائی درجہ تک پہنچنا ہماری زندگی کا اولین مقصد ہونا چاہیے اور ہر مومن کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ اثْقَكُمْ (۱۴: ۴۹) ترجمہ : یقینا تم میں سے معزز وہی ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے.ہماری بستی کا مقصد قرآن مجید کھلے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے کہ ہمیں نیکیوں کے کرنے میں سبقت حاصل کرنی چاہیئے.اتنی عظیم الشان چیز کا ہمیں علم ہو گیا ہے تو پھر کسی اور خواہش کے حصول کی ضرورت ہی کیا ہے.یقینا تمنائیں تو ہزاروں ہی ہوتی ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ سب سے بڑی خواہش نیکیوں کے حصول کے لئے ہو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے کہ روزوں کا حکم اس لئے دیا گیا تا اخلاقی قد کو پانے کے لئے سعی کی جائے.آئیهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا

Page 25

كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۲:۱۸۴) ا ، (۲:۱۸۴ ) اسے ایمان والو تمہارے نے لئے روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں کے لئے فرض کئے گئے تھے تا تم متقی بن جاؤ.اس آیت کریمہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں رمضان کے آنے کا بیتابی سے انتظار کرنا چاہیے اور پھر پورے ذوق و شوق سے روزے رکھنے چاہئیں ماسوا اس کے کہ کسی مجبوری کے باعث کوئی روزہ ہم سے چھوٹ جائے.اس دنیا میں لوگوں کی اکثریت اقتصادی و مالی خوشحالی کے حاصل کرنے کی تنگش رو میں لگی ہوئی ہے مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس طرح چاندی سونے سے کم تر ہے اسی طرح سونا نیکی کے مقابلہ میں کم تر ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے و اِنَّهُ لِحُبّ الْخَيْرِ لَشَدِيدُ (٩ : ١٠٠) ترجمہ : اور وہ یقینا مال کی محبت میں بہت بڑھا ہوا ہے.دولت حاصل کرنا کوئی بری چیز نہیں مگر ہمیں یہ جائزہ بھی تو لیتے رہنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہئیے کہ روپیہ کی لالچ میں کہیں ہم نے ان نیکیوں کو تو ضائع نہیں کر دیا جنہیں دولت خرید نہیں سکتی حقیقی خوشحالی کے بارہ میں اللہ تعالی قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے قدا فَلَحَ مَنْ تَزَكَّى (۱۵ : ۸۷ ) ترجمہ : جو پاک بنے گا وہ کامیاب ہوگا.شخص کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جیسے صحت اور جسم کا تعلق ہے ویسے ہی نیکی اور روح کا بھی آپس میں تعلق ہے.لوگ اپنی صحت کا تو بہت خیال رکھتے ہیں اور اپنی غذا کی طرف توجہ دیتے ہیں.جب بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کو فوراً بلاتے ہیں اور بہترین دوا کی جستجو کرتے ہیں لیکن اپنی روح کی نشو و نما کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے چنانچہ روحانی امراض کے علاج کی جستجو بھی نہیں کی جاتی ہے.

Page 26

نیکیوں کے بارہ میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے.خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ خدا کا فضل اور مدد مانگتے ہوئے ان نیکیوں کو اپنے اندر پیدا کریں.اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے کردار اور خیالات کو ڈھالنے کا نام ہی اخلاق ہے مثلاً محبت اس وقت نیکی بن جاتی ہے جب اس کا اظہار صحیح طریق پر ٹھیک موقع پر کیا جائے لیکن اس کے برعکس اگر اس کا غلط رنگ میں اظہار کیا جائے تو اسے نیکی نہیں کہا جائے گا.جانور جب اپنے بچوں کے لئے محبت اور نگہداشت کا اظہار کرتے ہیں تو یہ جبلی اظہار ہوتا ہے اور اسے نیکی کا نام نہیں دیا جا سکتا محبت اس وقت نیکی کھلائے گی جب اس کا اظہار صحیح طریق پر اسلامی قوانین کی حدود کے اند ر کیا جائے گا مثلاً ایک عورت جو اپنے بچے کے ساتھ بے جالاڈ پیار کرے اور اسے من مانی کرنے کی اجازت دے تو یہ نیکی نہیں کہلائے گی اور اسی طرح اگر ایک شخص دوسرے کی بیوی کو اپنے محبت کے جذبات کے اظہار کے لئے بھگا لے جائے تو اسے بھی نیکی نہیں کہا جائے گا صحیح وقت اور صحیح موقع پر نیک کردار دکھلانے کا نام نیکی ہے.اخلاقی ترقی کے درجات بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد سیح موعود و مہدی معہود نے نیکی میں ترقی کرنے کے تین مدارج بیان فرمائے ہیں.پہلا درجہ تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کم سے کم ویسا ہی سلوک کریں جیسا کہ وہ ہم سے کرتے ہیں.دوسرا درجہ یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ اس سلوک سے بہتر کریں.تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی خدمت

Page 27

اور نیک سلوک یہ سوچے بغیر کریں کہ اس کے معاوضہ میں نہیں کیا ملے گا ہمیں تو دوسروں پر اشارہ بھی یہ اظہار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اس پر کوئی احسان کر رہے ہیں.خدمت کا یہ رنگ ہماری فطرت بن جانا چاہیے جیسے ایک ماں اپنے بچے کی بے لوث اور بلا معاوضہ خدمت کرتی ہے.اخلاقی قدریں اخلاق اپنے اندر متعدد خواص پیدا کرنے کا نام ہے ان میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :- عزت نفس، دوسروں کا احترام ، خلوص ، رحمدلی، ذہانت ، عفو اور درگذر سادگی ، صفائی، نرم مزاجی ، جرأت ، بھلائی نیکی ، صبر، استقامت ، رحم ، انصاف ، ضبط نفس، قناعت، خوش مزاجی، مهمان نوازی ، صدقہ و خیرات ، بے غرضی ، محبت اور احسان مندی وغیرہ.اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں جو اس فہرست میں شامل ہو سکتی ہیں.ہمارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نیکیوں کا مجسمہ تھے.میں نے یہ بات مشر آن کے حوالے سے پہلے بیان کی ہے کہ اسلامی اخلاق کو اپنے اندر پیدا کرنا ہماری زندگی کا نصب العین ہے اس لئے اسے نظر انداز کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی کیونکہ اس طرح ہم دونوں ہی جہانوں میں خسارہ پانے والے ہوں گے.اعلیٰ اخلاق کو پیدا کرتا نہ صرف قابل ستائش بلکہ سب سے بڑی کامیابی ہے.کسی دوسرے کام میں ہم اتنی خوشی یا تسلی نہیں پائیں گے جتنی کہ اس میں، بلکہ دنیا کی سبسے بڑی دولت جمع کرنے میں بھی اتنی خوشی نہ ہو گی.

Page 28

حقیقی مطمح نظر کسی نصب العین کے حصول کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ ہمارے دل میں اس کے حاصل کرنے کی ایک تڑپ ہو ورنہ اس کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.خواہش اور ولولہ سے بھی بہت فرق پڑ جاتا ہے خواہش کی موجودگی میں ہم اپنے مقصد کی طرف ایک سپر سانک ہوائی جہاز کی طرح اُڑے چلے جاتے ہیں.مزید برآں دل میں اخلاص کا ہونا بھی بہت اہم ہے.قرآن مجید بعض ایسے ہی لوگوں کا درج ذیل آیت میں ذکر کرتا ہے جو یہ خواہش کرتے : وَمَا لَنَا لا نُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا جَاءَ نَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن يُدْخِنَا (۵:۸۵) رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّلِحِينَ.یہ لوگ دردِ دل سے چاہتے ہیں کہ وہ نیک بن جائیں اور ان کا شمار نیکوں میں ہو اس کا اظہار انہوں نے محض خواہش سے ہی نہیں بلکہ خلوص دل سے کیا ہوتا ہے چنانچہ انکی اس خواہش پر کہ وہ نیک بن جائیں خدا تعالیٰ نے ان پر اپنے انعامات کئے.اگلی ہی آیت کریمہ میں اس کا اظہار یوں ہوا ہے :- فَاثَابَهُمُ اللهُ بِمَا قَالُوا جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ.(۵:۸۶) آئیے ہم یہ جہاد شروع کریں کہ ہم اپنے اندر اخلاق فاضلہ پیدا کریں اور ان میں ترقی بھی کریں تا ہماری کوششیں بار آور ہوں اور خدا تعالیٰ ہم پر فضل فرمائے اور اس کا اجر دے.

Page 29

دعا اب اگلا موضوع دُعا کا ہے.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اُس شخص کو متکبر کہا ہے جو اپنی قوتوں پر ہی بھروسہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کوسب قوتوں کا مالک نہیں سمجھتا.آپ نے فرمایا کہ آپ کا ہتھیار صرف اور صرف دُعا ہے اور ہر کام میں آپ خدا کی مدد اور نصرت کے ہی طالب ہوتے ہیں.اخلاق فاضلہ کے پیدا کرنے کے بارہ میں یہ بھی لازم ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی نصرت کے طلبگار ہوں اور دعا کی طرف راغب ہوں کیونکہ دعا بذاتہ ایک نیکی اور خلق ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے ولذكر الله اکبر ( ۴۶ : ۲۹ ) دُعا کا ایک اور فائدہ قرآن میں یوں بیان ہوا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ آج کے فسق و فجور کے زمانہ ہیں جبکہ شیطانی وسوسے ہر جہت سے ہم پر حملہ آور ہورہے ہیں ہمیں نیکی کی توفیق کی انتہائی ضرورت ہے جس سے ہم ان وسوسوں کا دفاع کر سکیں اس سلسلہ میں خدا تعالٰی نے ہمیں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اس کا جواب دعا میں مخفی ہے لہذا ہمیں دعا کی طرف بہت توجہ کرنی چاہیے نہ صرف ہماری نمازوں میں باقاعدگی پیدا ہو بلکہ ہمیں شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لئے دعا بھی کرتے رہنا چاہئیے ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک نہایت ہی پیاری دعا سکھلائی ہے." نیک طبع لوگوں کو جب کبھی شیطان کوئی بد تحریک کرتا ہے تو وہ یاد الہی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں صراط مستقیم حاصل ہو جاتا ہے “

Page 30

خیالات اب اس موضوع کو لیجیئے جو انسانی خیالات سے متعلق ہے.یاد رہے کہ ہر چیز اور ہر کام کی ابتداء خیال سے ہی ہوتی ہے.انجیل میں لکھا ہے " جیسے ایک انسان کے اندیشے ہیں وہ ویسا ہی ہوتا ہے ؟ پر وورب (۲۲۷) سائنسی تحقیق نے اب حتمی طور ) پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک انسان وہی ہوتا ہے جیسا کہ وہ سوچتا ہے اور پھر وہ ویسا ہی بن جاتا ہے کیونکہ ہر انسان اپنے خیالات ہی کا مجموعہ ہے.ہمارا کردار ہمارے خیالات کے مجموعہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہم اپنے کردار کی بنیاد اپنے خیالات پر رکھتے ہیں اور پھر ہم ویسے ہی بن جاتے ہیں جیسا کہ ہم سوچتے ہیں.ہم میں اپنے خیالات کو کنٹرول کرنے کی قوت موجود ہے اور اس کے مطابق اپنا کر دار بنا سکتے ہیں اور جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ ہمارا کردار ہمارے خیالات کا ہی آئینہ دا ہوتا ہے.بد کرداری بد خیالات پر تعمیر ہوا کرتی ہے اور نیک کردار نیک خیالات پر بنا کرتے ہیں یہ بات سائنسی قانون کشش ثقل یا کسی دوسرے اور قانون کی طرح مسلم الثبوت ہے.اخلاق حسنہ پیدا کرنے کے لئے ہم اس اخلاقی قانون (یعنی نیک خیالات کو کیوں استعمال کر سکتے ہیں کہ اپنے دماغ سے منفی خیالات نکال دیں اور صرف نیک خیالات پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دیں.جس طرح ایک باغبان اپنے چمن کو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف رکھتا ہے اور اس میں پھل اور پھول ہی اُگاتا ہے اسی طرح ہمیں بھی اپنے دماغ سے منفی خیالات :

Page 31

q کو نکال پھینکنا چاہیے اور اس مین میں صرف نیک اور پاکیزہ خیالات کی پرورش کرنی چاہیے جو پھلیں، پھولیں اور رنگ لائیں اور پھر اپنی خوشبو سے ہمارے کردار کو معطر کر دیں ہمیں تو اپنے دماغ میں غلیظ خیالات کو داخل ہی نہیں ہونے دینا چاہیئے اور جو اتفاقاً داخل ہو جائیں ان کو فورا نکال پھینکنا چاہیئے.اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے شیطنت جنم لیتی ہے اس لئے ہمیں ناچ گانا ، جوا بازی کے اڈوں ، کنجر خانوں اور ایسی ہی اسفل چیزوں سے دور رہنا چاہیئے دوسرا جس سے اجتناب ضروری ہے وہ فحش ناول ہیں جو آجکل کتب خانوں میں ڈھیٹری تعمیر پڑے نظر آتے ہیں.ایسے رسالے جن پر عورتوں کی نازیبا تصاویر ہوں اور ایسی فلمیں جن کو واقعی شیطانی فلمیں قرار دیا جا سکتا ہے.یہ سب شیطان مردود کے کارنامے ہیں جو ہمارے دماغ کو گندے خیالات سے بھر دیتے ہیں.اسی طرح اپنے بھائیوں کے بارہ میں بڑے خیالات کی پرورش جیسے حسد ، نفرت ، دھوکا بازی ، انتقام وغیرہ سے بھی دماغ کو پاک رکھنا چاہیے کیونکہ یہ بھی غیر اخلاقی خیالات ہیں.قرآن مجید ہمیں شیطان سے دور رہنے کی ہی ہدایت نہیں کرتا بلکہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے.نیک صحبت سے اخلاق بڑھتے اور ایمان ترقی کرتا ہے.ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نہ صرف خدا کے حضور اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں بلکہ اپنے خیالات کے بھی.قرآن مجید کی درج ذیل آیت یہ بات صاف ثابت کرتی ہے.فرمایا : لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا في انْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُم بِهِ الله (۲:۲۸۵) ترجمہ : اللہ کے لئے ہی ہے جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اگر تم اسے ظاہر کرو گے تب بھی اور چھپاؤ گے اگر

Page 32

تب بھی اللہ تعالیٰ تم سے اس کا جواب طلب کرے گا.ایک انسان ہونے کے ناطے یہ ناممکن ہے کہ ہم اپنے دماغ سے تمام شیطانی خیالات مکمل طور پر نکال دیں.اِس صورت میں ہمیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان کو دبانے کی کوشش کریں اور یہ کام کرنا بذاتہ نیکی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے :- اگر انسان کو بد خیالات پریشان کریں اور وہ ان پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے یا انہیں اپنے ذہن سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور ان پر عمل کرنے سے دور رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کا نیک اجر عطا فرمائے گا " استقلال اس میں کوئی شک نہیں کہ نیکی کی راہوں پر چلنا سمل نہیں کیونکہ یہ پہاڑ سے پھسلنے والے راستہ پر چڑھنے کی مانند ہے جس پر پھسلنا لازمی ہے لیکن یہ وہ خوشگوار سفر ہے جو جنت کے حسین مناظر میں سے ہو کر گزرتا ہے.کوشش کے بغیر کوئی بھی چیز ممکن نہیں اور یہ بات نہ صرف اخلاقی ترقی کے بارہ میں صحیح ہے بلکہ دیگر دنیوی معاملنا میں بھی تکلیفوں کے بغیر تو کوئی بھی ترقی ممکن نہیں.اگرچہ دُعا لازمی امر ہے لیکن اسکے باوجود اپنے بہتر کر دار کا اظہار ضروری ہے اور خدا کے راستہ میں جہاد کرنا بھی اہم ہے بعض لوگ کوشش تو کرتے نہیں صرف دُعا پر ہی زور دیتے ہیں اور پھر بعد میں حیران ہوتے ہیں کہ ان کی دُعا کیوں قبول نہیں ہوئی.ہمارا مطمح نظر یہ ہو کہ ہمیں اپنے اخلاق کو مسلسل سنوارتے رہنا چاہیئے اور تم کر

Page 33

بیٹھ نہیں جانا چاہیے.کہا تو یہ یہی جاتا ہے کہ اگر کوئی ترقی نہیں کر رہا تو پھر وہ تنزل پذیر ہے.یہ نیک مقصد جو ہمارے سامنے ہے ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم صبر و استقلال سے کوشش کرتے رہیں اور جب خدائے تعالیٰ کے حضور حاضری کا وقت آئے تو ہر شخص یہ کہے کہ مرنے والا نہایت اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا.قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : انَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (۲:۱۵۴) یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا اخلاق حسنہ بغیر کوشش کے پیدا نہیں ہوسکتے ہمیں مسلسل غور کرنا ہوگا اور اپنا تجزیہ محاسبہ اور مضبط نفس کرتے رہنا ہو گا لیکن چونکہ ہم انسان ہیں فرشتے نہیں نیز ہم انتہائی کمزور ہیں اس لئے ممکن ہے کہ کبھی کبھار دیدہ و نادانستہ غلطی بھی کر جائیں اس لئے ہمیں بہت سے وساوس سے جد و جہد بھی کرنا ہوگی لیکن ہاں اگر ہمارا ارادہ مضبوط ہو اور ہماری روح توانا ہے تو پھر ہمیں کامیابی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حصولِ اخلاق میں ہماری کوششیں ہمیں بندی کی طرف ہی لے جائیں گی خواہ ہم اپنے ارادوں کی انتہاء سے کہیں کم ہوں لیکن اِس دوران ہم نیکی کے اس راستہ پر سفر کر چکے ہوں گے جو ہمیں سیدھا جنت کی طرف لے جاتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اگرچہ ہم میں کمزوریاں ہوں اور گھر بھی پڑیں لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - (۳۹:۵۴)

Page 34

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب اپنی کتاب " احمدیت یا حقیقی اسلام میں فرماتے ہیں :.اسلام انسان کو مایوسی سے نجات دلاتا ہے اور اسے بتلاتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اخلاق فاضلہ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے جو کہ انسان کا اعلیٰ مقام ہے" انگلستان کے ایک سابق مشہور وزیر اعظم ولیمہ کلیڈ اسٹون نے کیا ہی عجیب بات کہی ہے : کوئی انسان آج تک عظیم یا نیک نہیں بن سکا جب تک کہ اُس نے متعد داور فاش غلطیاں نہ کیں.اگرچہ انبیاء پر یہ قول ہاں نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی ساری ہی زندگی میں حد سے زیادہ نیک ہوتے ہیں لیکن جو حقیقت اُوپر بیان ہوئی ہے وہ دوسرے کئی ایک اکابرین کی زندگیوں میں نظر آتی ہے اس لئے نیکی کے راستہ سے اگر ہم پھسل بھی جائیں تو ہمیں فکر مند نہیں ہونا چاہیئے اور پختہ ارادہ اور اس نیت کے ساتھ آگے بڑھیں کہ آئندہ ایسی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے.SENECA دو ہزار سال قبل کارو من مصنف " سینیکا ( نیک آدمی کی تعریف یوں بیان کرتا ہے " عظیم وہ ہے جو اپنے لئے صداقت کو ناقابل تسخیر ارادہ سے انتخاب کرتا ہے بڑی سے بڑی اندرونی اور بیرونی خواہشات کو برداشت کرتا ہے اور اپنے فرائض کو بخوشی ادا کرتا ہے.طوفانوں میں پرسکون اور خطرات کے سامنے نڈر رہتا ہے اور کبھی بھی سچائی اور نیکی کو ترک نہیں کرتا اور خدا کی ذات پر ہمیشہ تو کل رکھتا ہے یہ

Page 35

۱۳ سادگی سادگی نیک زندگی کا ایک خاص جوہر ہے.ہمارے رسول مقبول محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعیش کی زندگی گزارنے سے منع فرمایا ہے آپ نے فرمایا تعقیش کی زندگی سے خبردار رہو کیونکہ خدا کے بندے ایسی زندگی نہیں گزارا کرتے " خدا کے راستہ میں سادہ زندگی گزارنے سے رُوح میں چمک آتی ہے انسان ایک حد تک دنیوی زندگی کی آلائشوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی اس چیز کی اور کبھی اس چیز کی خواہش نہیں کرتا جبکہ وہ جو تعیش کی زندگی گزارتے ہیں ان کو اطمینان قلب کبھی حاصل نہیں ہوتا جب تک انہیں بہترین چیز میستر نہیں آجاتی حقیقت تو یہ ہے کہ وہی دُنیا میں سب سے زیادہ مال دار ہے جسے کسی چیز کی ضرورت نہیں اور قرآن حکیم ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ تقوی اِس دُنیا کی بہترین چیزوں سے بھی زیادہ بہتر ہے.نیک انسان تھوڑے سے بھی مطمئن ہو جاتا ہے اور تعیش کی زندگی سے لچسپی نہیں رکھتا.دولت بلاست بہ خدا کا انعام ہے اور انسان کو سادہ زندگی گزارنے میں روک نہیں بنتی لیکن سادہ زندگی میں حائل ضرور ہوتی ہے.خدا کے انبیاء کا طریق سادہ زندگی ہی رہی ہے.ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو آسائش کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن آپ نے ہمیشہ انتہائی سادہ زندگی کو ترجیح دی.آپ کی عادات سادہ ، آپ کی غذا سادہ، کپڑے نہایت سادہ اور آپ کا گھر اور اس کا سامان بالکل سادہ تھا.آپ گھر دے بستر پر سویا کرتے اور کھجور کی صف پر آرام فرمایا کرتے تھے جس کے نشان آپ کی

Page 36

۱۴ کمر مبارک پر پڑ جایا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کھڑی صف پر کیوں سوتے ہیں جبکہ بادشاہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور نرم بستروں پر سوتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ میرے لئے یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں اُنہوں نے اس دنیا کو چنا میرے لیے کوئی بات اس دنیا کو میں نے آنے والی زندگی کو چنا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سن ۱۹۳۴ میں ایک سکیم شروع فرمائی جس کا نام تحریک جدید رکھا.آپ نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ دنیا میں مشن کھولنے اور چلانے کے لئے احباب چندہ دیں اور یہ چندہ اُس چندہ عام کے علاوہ تھا جو آمد کا پڑ ہوتا ہے.آپ نے احمدیوں کو سادہ زندگی گزارنے کی تلقین فرمائی جسکی بعض ہدایات یہاں بیان کی جاتی ہیں (۱) آپ کے دستر خوان پر صرف ایک کھانا ہو (۲) سینمامت دیکھو (۳) گھروں میں آرائشوں کو کم کرو (۴) کپڑوں پر خریج کم کرو (۵) زیورات پر کم خرچ کرو (۶) جس چیز کی ضرورت نہیں وہ مت خرید و - ریدور بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سادہ زندگی پر زور دیا ہے آپ نے فرمایا کہ (۱) فضول خریج مت بنو (۲) وہ جو اس دنیا کے عیش و آرام سے محبت کرتا ہے اسے یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی نہیں (۳) تعیش کی زندگی اور آرام کی چیزیں کوئی مستقل اور رہنے والی چیزیں نہیں اور ان کی کوئی گارنٹی نہیں (۴) خدا کے واسطے آرام و آسائش کی زندگی چھوڑ دو.سادہ زندگی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو غریبوں اور عام لوگوں سے قریب کرتی ہے وہ جو تعقیش کی زندگی پسند کرتے ہیں عموماً غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں بعض ایک تو

Page 37

1 ۱۵ غریبوں سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے کجا یہ کہ وہ ان سے مل کر بیٹھیں.اخلاق حسنہ کا پیدا کرنا ایک عملی فلاسفی ہے کوئی خشک و حفظ نہیں اس پر عمل ضروری ہے.یہ ایسا موضوع ہے جس پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں میں نے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور مقصد صرف اس موضوع سے دلچسپی پیدا کرنا اور اخلاق حسنہ کے پیدا کرنے کی طرف توجہ دلانا ہے میں دُعا کرتا ہوں کہ میں نے جو بیج پھینکے ہیں وہ زرخیز زمین پر گریں تھیں پھولیں اور بار آور ہوں.آمین

Page 38

14 جنت ارضی ہر احمدی خوش نصیب ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچانا اور آپ پر ایمان لایا یہ ایک بیش بہا انعام ہے اور جو اس بات کو بخوبی نہیں سمجھتا اور اس کا پورا پورا فائدہ نہیں اُٹھاتا و حقیقی مسرت سے محروم ہے اس لئے کہ احمدیت انسان کو زمین پرمشتی کیفیات سے ہمکنار کرتی ہے.اس مضمون کا مدعا یہ ہے کہ یہ بتایا جائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی جسم اور روح کو حقیقی اور دائمی مسترت مہیا کرتا ہے.خواہ ایک شخص کتنے ہی مصائب ، تکالیف اور مایوسیوں میں مبتلا ہو بالفاظ دیگر یہ کہ اسلام انسان کو اس دنیا میں جنت کی لذتوں سے لطف اندوز کراتا ہے.ہ شخص مسترت چاہتا ہے مگر ہر ایک کی خوشی کا تصور ایک سانہیں بعض اوقات ایک شخص سوچتا ہے کہ فلاں خواہش کے پورا ہونے سے خوشی حاصل ہوسکتی ہے مثلاً یہ کہ اس کی شادی ہو جائے، فلاں ملازمت مل جائے، دولت کا حصول، اولاد کی خواہش وغیرہ وغیرہ لیکن اسلامی تعلیم یہ ہے کہ حقیقی خوشی کا منبع اور دائمی خوشی صرف عشق الہی میں ہے مثلاً قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَاتَ

Page 39

16 مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن ( ۴۷ : ۵۵) بانی جماعتِ احمدیہ نے اس مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں دو جنتوں کی طرف اشارہ ہے ایک اسی دنیا میں ملنے والی جنت اور دوسری آنے والی دنیا ہیں.خدا مومنوں کے دل اس دنیا میں صاف کرتا ان کو تسلی اور تقویت دیتا ہے اور یہ حالت اس دنیا میں جنت کے برابر ہے.ارشادِ ربانی ہے نَحْن أو ليؤكم في الحيوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ (٣:٣٣) ہم تمہارے (۴۱:۳۲ راس زندگی میں بھی اور آنے والی زندگی میں بھی دوست ہیں.لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوة الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ( ۱۰:۲۵ ) ان کے لئے اِس دُنیا میں بھی اور بعد میں آنے والی ( :١٠) دنیا میں بھی بشارت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ انسانی آنکھ اور دماغ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.آپ نے فرمایا " جنت کی نعمتیں ایسی اشیاء ہیں جن کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کان نے نہیں سنا اور دماغ نے کبھی نہیں سوچا یہ بات قرآن مجید سے بھی ثابت ہے : فَلَا تَعلَمُ نَفْسٌ مَّا اخْفى لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(۳۲:۱۸) اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو ایسی میں ہی نہیں دی گئی جس سے وہ آنے والی زندگی کو پہچان سکے یا اس کا حقیقی اندازہ لگا سکے.بانی اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ دعا جنت کی کنجی ہے اور قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ جو دعا کرتا ہے خدا اس کی دُعا کو سنتا ہے یہ دعا زبر دست معنی کی حامل ہے.امید کا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ العنت i

Page 40

IA عَلَيْهِم.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ انسان دنیا کے مصائب اور آلام سے دو چار ہے تو پھر وہ اس دنیا میں جنت کیسے ڈھونڈ ہے.تو یا د رہے کہ تکالیف در اصل بچھی ہوئی نعمتیں ہیں.مصائب سے ہی تو انسان کے ایمان کا اندازہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَئُ مِّنَ الْخَوْنِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ من الأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرتِ (۲:۱۵۶) خدا تعالیٰ نے اس دنیا کے سفر کو ہمارے لئے آسان نہیں بنایا چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي كَبَدِ (۹۰:۵) مدعا اس کلام کا یہ ہے کہ ہمیں مصائب سے گھبرانا نہیں چاہیے.ایک امریکن مصنف نے کہا ہے کہ ہر تکلیف اور مصیبت میں کوئی نہ کوئی فائدہ یا اس سے زیادہ فائدہ پنہاں ہوتا ہے جس کا مطلب میرے خیال میں یہ ہے کہ انسان چاہے تو ہر مصیبت یا پریشانی سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے.چارلس ڈارون جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان کا ارتقاء بندروں سے ہوا ہے وہ بیچارہ ہمیشہ کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا رہتا تھا مگر آپ حیران ہوں گے کہ اس نے اپنی اس بیماری کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا اس نے کہا ہے کہ ” اگر میں اتنا زیادہ بیمار اپنی زندگی میں نہ رہتا تو شاید ہمیں اتنا کام نہ کر سکتا جتنا کہ میں نے کیا ہے یہ در اصل بات تکلیف کی نوعیت ہے؟" کی نہیں بلکہ یہ انسان کا ذہنی رجحان ہے جو پریشانی کو ایک بڑی مصیبت میں تبدیل کر دیتا ہے مثلاً دو آدمیوں کو لے لو دونوں پر ایک قسم کی مصیبت پڑے ان میں سے ایک تو گھبرا جائے گا مگر دوسرا خاموش اور پرسکون رہے گا مصیبت تو ایک ہی تھی مگر اس کا رد عمل دو انسانوں میں مختلف ہے.لاریب کوئی بھی انسان مصائب اور امتحانوں سے بالا نہیں ہر ایک کو ان کی توقع رکھنی چاہیے اور جب کوئی مصیبت

Page 41

۱۹ آئے تو شکوہ یا شکایت کی بجائے اس کا پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہیئے.عموماً انسان کی آواز کے لہجہ سے اس کے موڈ کا پتہ چل جاتا ہے چاہیئے کہ ہم اپنی گفت گو میں بُرے الفاظ کے استعمال سے گلی پر ہیز کریں اور اچھے الفاظ استعمال کریں یقینا گفتگو کا طریق انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے.انسانی جس صرف اِس دُنیا کی ارتعاش کا ادراک رکھتی ہے لیکن اسے یہ استطاعت بھی عنایت کی گئی ہے کہ وہ آنے والی زندگی کی جھلک کا بھی اندازہ کرے اور یہی اس کے لئے بہت عجیب و غریب ہوتا ہے.انسان سورج کی شدت حرارت برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود وہ اس کی گرم شعاعوں سے لطف اندونی ہوتا ہے جن کا سورج کی حقیقی گرمی سے ذرا بھی مقابلہ نہیں بعینہ وہ ہشت جو انسان اس ورلی زندگی میں مشاہدہ کرتا ہے اس کا آنے والی زندگی کی جنت سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.شاید کوئی معترض یہ اعتراض کرے کہ جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے اور حضرت نبی کریم صلعم نے بھی فرمایا ہے کہ انسان اگلی دنیا کی جنت کی نعماء کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا اس لئے یہ قول اس ارشاد کے متضاد ہے کہ انسان اس ارمنی زندگی میں بھی جنت کے اثمار کا مشاہدہ کر سکتا ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ آنے والی زندگی کے انعامات اس ورلی زندگی کی نعمتوں سے بدرجہا اعلیٰ اور ارفع ہوں گے قرآن کریم نے بھی اِس امر کو اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ آخرت میں ملنے والے انعامات اس ارضی زندگی کے انعامات سے بدرجہا بہتر اور عمدہ ہوں گے اور وضاحت فرمائی کہ اگر چہ وہ بعینہ ایسے تو نہ ہوں گے لیکن ان دونوں میں مشابہت ضرور ہے.قرآن کریم 3

Page 42

(۲:۲۶).فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ كُلَّمَارُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيْهَا خَلِدُونَ.اور تو ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کے لئے (ایسے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جب بھی ان (باغوں ) کے پھل میں سے کچھ رزق انہیں دیا جائے گا وہ کہیں گے یہ تو وہی (رزق) ہے جو ہمیں اس سے پہلے دیا گیا تھا اور ان کے پاس وہ (رزق) ملتا جلتاں ایا جائے گا اور ان کے لئے ان (باغوں) میں پاک جوڑے ہوں گے اور وہ ان (باغوں ) کے اندر ہمیشہ لیں گے.مذکورہ آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی دنیا کے روحانی اثمار اگرچہ وہی نہیں مگر اسی دُنیا کے رُوحانی پھلوں کے مشابہہ ضرور ہیں.یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جبت کے بارہ میں قرآن کریم کی تفصیلات استعارہ ہیں اور ان کا لفظی مطلب لینا درست نہیں باغات، دریا، اثمار ، شہد ، دودھ اور اسی قسم کی دوسری اشیاء جن کا ذکر جنت کے سلسلہ میں آتا ہے ان سے ہم سب واقف ہیں اور ان کے مطالب استعارہ ہی لئے جانے چاہئیں.دودھ کا مطلب روحانی علوم لیا جاتا ہے نہروں سے مراد اعمال صالحہ ہیں انمار کا مطلب انعامات سے ہے وغیرہ وغیرہ.اگلا جہان چھوٹے سے چھوٹے ایٹم کا بنا ہوا نہیں اس لئے وہاں کی اشیاء مادی نہیں اور نہ ہی اِس جہان کی نعمتوں کی طرح ہیں.اِس سے بہتر کیا آرزو ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے اندر بیشتی اخلاق پیدا کر سے

Page 43

۲۱ اور یہ اس کے لئے اس دُنیا میں جنت دیکھنے کے مترادف ہوگا.اسلام محض خشک قواعد وضوابط کا نام نہیں بلکہ یہ تو زندگی بخش پیغام کا نام ہے جو ایسی ہدایت مہیا کرتا ہے جو انسان کو آسمانی مسترتوں اور قناعت سے ہمکنار کرتا ہے جسے ارضی بہشت کا نام دیا جاسکتا ہے، بلاشبہ یہ مقام ایک ہی جست میں تو حاصل نہیں کیا جاسکتا یہاں تک پہنچنے کیلئے اور اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کے لئے استقلال کی ضرورت ہے اور نیکی کی راہوں پر چلنے کے لئے خواہش ہونی چاہیے یہی اِسلام کا مقصد اور منتہا ہے.قرآن کریم مسلمانوں کو اسی لئے نیکی میں سبقت لے جانے کی بار بار تاکید کرتا ہے کیونکہ اس ارضی بہشت اور اخروی جنت کے حصول کی راہیں بہت کشادہ ہیں.بعض امور دولت کے حصول اور سفلی زندگی کی آسائشوں سے بھی زیادہ بیش قیمت ہیں اسلام ان آسائشوں کی مذمت تو نہیں کرتا لیکن اس امر کی کھلی کھلی نشان دہی ضرور کرتا ہے کہ روحانی انعامات دنیوی آسائشوں سے بدرجہا زیادہ اہم ہیں.تعلق باللہ اور تقویٰ کی زندگی مادی عیش و طرب سے بدرجہا زیادہ راحت افزا ہوا کرتی ہے.روحانی دولت انسان کو زندگی کے طوفانوں میں صبر و استقلال کی ہمت عطا کرتی اور ہر حال میں قلبی سکون عطا کرتی ہے.یرقلبی کیفیت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب انسان اپنے خیالات کو احکام الہی اور اخلاق حسنہ کے ساتھ ہم آہنگ کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ متقیوں کی تعریف میں ارشاد فرماتا ہے.اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتَّقَيكُمُ (۳) : ۴۹) اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.پھر فرمایا کہ فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقُوای (۱۹۸: ۲) اور (یاد رکھو) بهتر زاد راه تقومی ہے حقیقی خوشی کا راز مذہب میں پنہاں ہے اور یہ نیک زندگی گذارنے سے ہی حاصل

Page 44

۲۲ ہوتی ہے.اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَاتَّقُوا اللهَ لا ولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۵:۱۰۱) پس اسے عقلمند و اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم با مراد ہو جاؤ پھر فرمایا اے ایماندار و صبر سے کام لو اور دشمن سے بڑھ کر صبر دکھاؤ اور سرحدوں کی نگرانی رکھو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.(۳:۲۰۱ ) اِس جہان کی زندگی آنے والی زندگی کی محض تیاری ہے.نیک اعمال اور افعال سے انسان قبر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسی دنیا میں جنت کا مزہ چکھ سکتا ہے جنت کی نعماء کا اِس دُنیا کی لذتوں سے کوئی مقابلہ نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس دنیا کی لذتوں کے بارہ میں ارشاد فرماتا ہے : وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْرُ وَلَدَارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۶:۳۳) اور ورلی زندگی کھیل اور شغلہ کے سوا کچھ نہیں اور جو لوگ تقومی اختیار کرتے ہیں ان کے لئے پیچھے آنے والا گھر یقیناً بہتر ہے پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے.ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے يُقَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَمُوةُ الدُّنْيَا مَتَاعُ دَوَّانَ الْأَخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ (۴۰ : ۴۰ ) اسے میری قوم یہ وربی زندگی صرف ایک چند روز کا فائدہ ہے اور اخروی زندگی ہی یقیناً پائیدار ٹھکانہ ہے.ہر نفع بخش چیز کے حصول کے لئے کوشش لازمی امر ہے.روحانی خصوصیات کے حصول کے لئے بھی یہی اصول صادق آتا ہے اور اسلام میں یہی مقصد حیات ہے.جسمانی صحت خدا کی بڑی نعمت ہے لیکن روحانی صحت تو بہت ہی بڑا انعام ہے معمولی سی تکلیف سے بھی انسان تڑپ اٹھتا ہے اور خواہ معمولی سردرد یا ز کام ہو تو فورا دو ادارو کے لئے تگ و دو کی جاتی ہے لیکن کیا ہی بد قسمتی ہے کہ روحانی دکھوں کے علاج کی طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی ہر شخص کا وجود اس کا

Page 45

۲۳ اپنا اشتہار ہے اور اگر وہ اپنی بہترین نمائش چاہتا ہے تو اسے اپنے اندر روحانی کمالات پیدا کرنے چاہئیں اور یہ عبادت سے ، نیک خیالات سے اور اعمال صالحہ سے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں.کسی نے کیا خوب کہا ہے اِنسان اپنے ہی خیالات کا مرقع ہوتا ہے نیکیوں اور بھلے کاموں پر سوچ و بچار آخر اعمال صالحہ کی جانب سے ہی جاتا ہے اور یہی وہ سنہرا طریق ہے جو روحانی شرور مہیا کرتا ہے اور روح کو جب لا بخشتا اور بہشتی حرارت مہیا کرتا ہے اور ایسا انسان جہاں بھی ہو گا اس کی جنت اس کے ساتھ ہو گی.روحانی بلندی صرف گناہوں کے ترک کرنے سے نہیں ملتی بلکہ اعمال صالحہ سے اس لئے یہ لازمہ کا درجہ رکھتے ہیں.نیکو کاری روحانی ترقی کا اہم جزو ہے.اللہ تعالے قرآن مجید میں فرماتا ہے بَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وا فَعَلُوا الخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۲۲:۴۸) اسے مومنور کوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیک کام کرو تا کہ تم اپنے مقصود کو پالو.ایک باغبان اپنے چمن میں نہ صرف فلائی اور گوڈی کرتا ہے اور جڑی بوٹیاں نکالتا رہتا ہے بلکہ وہ رنگارنگ کے نئے نئے پھول پودے بھی لگاتا جاتا ہے تا اسکے باغ کی زینت میں اضافہ ہوتا رہے.اسی طرح اگر اپنے من میں بہشتی باغ لگانا مقصود ہو تو صرف گھاس پھونس اور جڑی بوٹیاں اکھیڑنی ضروری نہیں بلکہ اس میں نیک خیالات کے نئے بیج بھی بونا ہوں گے جو اپنے وقت پر مبنی خصوصیات کے رنگ میں بار آور ہو جائیں گے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا جنت کی منجھی ہے اور

Page 46

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ پکارنے والے کی پکار سُنتا ہے اور بندہ کو ہمیشہ یہ دُعا کرتے رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ایسے اعمال بجالانے کی توفیق بخشے جن سے اب وہ مالک یوم الدین راضی ہوا اور یہ کہ اسی دنیا میں بہشت کا نور عطا ہوا اور جنت کا سکون ملے اس سلسلہ میں سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں کس قدر گہرے معانی پنہاں ہیں : اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ آے ہمارے پروردگار ہمیں سیدھا راستہ دیکھا اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا.صراط مستقیم ہی جرت کا راستہ ہے اور سالک کے لئے لازم ہے کہ وہ اس شاہراہ پر چلتا ہی چلا جائے اور یوں جنت کے باغوں میں دُور دُور تک پہنچ جائے میں حقیقی خوشی ہے اور درج ذیل دعا میں بندہ اپنے مولیٰ سے یہی چیزیں مانگتا ہے :.اے اللہ میرے دل کو اور میرے کانوں کو نور سے بھر دے.میری آنکھوں اور میری زبان پر نور جاری کر دے.نور میرے دائیں ہو اور نور میرے بائیں ہو.اور نور میرے اوپر ہو نور میرے نیچے ہو.اور یوں کہ میں نور ہی میں ڈوب جاؤں.شاید کوئی معترض یہ اعتراض کرے کہ جب انسان اس دنیا میں نت نئے دُکھوں اور تکلیفوں میں مبتلا رہتا ہے تو اسے جنت اور اس کا سکون کیسے ملے.پہلی بات تو یہ ہے کہ تکالیف کے در پردہ برکتیں ہوا کرتی ہیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ یہ مومن کے ایمان کی آزمائش اور اس کی ترقی کے لئے آیا کرتی ہیں اور اسی سے انسان کے عام اور ہمت کا پتہ چلتا ہے اگر انسان صبر و استقامت

Page 47

۲۵ سے ان آزمائشوں سے گذر جائے تو دونوں جہانوں میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بنتا ہے.قرآن مجید میں ارشاد ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَئُ مِّنَ الْخَونِ وَالْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ هُ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۵ (۲ : ۱۵۶ ۱۵۷) اور ہم تمہیں کسی قدر خون اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ سے ضرور آزمائیں گے اور اسے رسول تو ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے جن پر جب بھی کوئی مصیبت آئے ( تو گھبراتے نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف کوٹنے والے پھر ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجْهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّبِرِينَ وَنَبْلُوا أَخْبَارَكُمْ ۵ (۳۲:۲۷) اور ہم تمہاری ضرور آزمائش کریں گے اس وقت تک کہ ہم تم سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور ہم تمہارے اندرونی حالات کی ضرور آزمائش کریں گے.ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بات خوب کھول کر بیان کر دی ہے کہ اس زندگی کا سفر سہولتوں کا سفر نہیں.فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدِه (٩٠ :٥)ہم نے یقیناً انسان کو رامین محنت بنایا ہے.انسان کو آزمائشوں اور ابتلاؤں کے وقت مایوس اور خدا کا شا کی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ کمزوری اور خدا کی ناشکری کی علامت ہے.نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ایک مومن کے لئے یہ دنیا خیر و برکت سے بھری ہوئی ہے اور ایک مومن اس کا شعور رکھتا ہے کیونکہ اگر وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہو تو وہ مولیٰ کا شکر گزار ہوتا ہے اور یوں مزید انعامات کا وارث ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اگر اسے آزمائش اور تکلیف کا سامنا ہو تو وہ اسے صبر سے برداشت کرتا ہے اور یوں بھی

Page 48

I ۲۶ خدا کی رضا کا وارث بنتا ہے " و تکلیفیں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی نے کیا خوب فرمایا ہے " ہمیشہ تکلیفیں نہیں رہا کرتیں یہ ایک مشہور امریکی مصنف نے لکھا ہے کہ ہر شکل میں ایک سہولت کا بیچ مخفی ہوتا ہے اس کا یہی مفہوم ہے کہ انسان اپنی مشکل سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور قرآن نے بھی اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے.یہ امریکی مصنف مسلمان نہیں لیکن اس کے مندرجہ ذیل الفاظ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں ” میں ان مشکلات کا بھی شکر گزار ہوں جو میرے راستہ میں آئیں کیونکہ ان سے میں نے ہمدردی، ضبط نفس ، استقلال اور بعض دوسری نیکیوں کا سبق سیکھا ہے جو ان کے بغیر میں کبھی نہیں سیکھ سکتا تھا یا ڈارون گذشتہ صدی کا نامور سائنسدان تھا جس نے جیسی معروف کتاب لکھی اس میں اس نے انسانی ارتقاء کے بارہ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسان نے بند ر سے ترقی کی ہے.وہ نہایت کمزور صحت کا مالک تھا اور اس نے اپنی اس معذوری سے بھر پور فائدہ اُٹھایا وہ لکھتا ہے ” اگر میں اس قدر زیادہ معذور نہ ہوتا تو اس قدر بڑا کام انجام نہ دے سکتا جتنا کہ آب کر سکا SPECIES ہوں " ORIGINS OF قرآن مجید کی تعلیم یہی ہے کہ مشکلات کے وقت جبکہ حالات سازگار نہ ہوں تو مبر سے کام لو اور مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور زندگی کے طوفانوں میں بہشتی تعلف اُٹھانے کا یہی وقت ہوتا ہے مصائب و آلام زندگی کے لوازم ہیں مگر ان سے نبرد آزما ہونے کا سلیقہ آنا چاہئیے.زندگی کی شمکش میں کامیاب و کامران ہو جانا ہی تو کامیابی ہے.انسان مشکلات میں ہمت نہ ہار بیٹھے اور جرات و خندہ پیشانی کے ساتھ ان مشکلات

Page 49

کا مقابلہ کرے جیسے کہ وہ خوشگوار حالات کا سامنا کرتا ہے.مصائب ہمشکلات، ناکامیوں اور نامرادیوں کے وقت انسان بعض اوقات غیر ضروری طور پر پریشان ہو جاتا ہے اور ان پریشانیوں کی وجہ سے وہ سکون اور چین کی جنت سے محروم رہتا ہے.یہ پریشانیاں ہر اس کا موجب نہیں ہوتیں بلکہ انسان کا طرز عمل اس ہر اس کا باعث بن جاتا ہے.دو اشخاص کی مثال میں جو ایک جیسے حالات سے دوچار ہیں ایک گھبرا جاتا ہے اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے لیکن دوسرا پر سکون رہتا ہے.حالات ایک سے ہیں لیکن ایک تو گھبرا گیا دوسرے نے پریشانی کو قریب نہ آنے دیا.فرق تو ظاہر ہے اسلام یہی سکھاتا ہے کہ ہمشکل اور مصیبت کے وقت صبر وتحمل کا مظاہرہ کرو اگر اس میں کوئی کامیاب ہو جائے تو اس کی دماغی حالت پرسکون رہے گی اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ اس کا دل بھی مضبوط رہے گا اور با وجو د ناسازگار حالات کے وہ پرسکون رہے گا.سو کوشش کرنی چاہیئے کہ انسان ہر حالت میں پرسکون رہے اور بہتری کی جستجو کرے.اس کرتا میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ ہر شخص مصائب و مشکلات سے ضرور گزرے گا لیکن یہ عزم ہونا چاہیے کہ جب بھی ان کا سامنا ہو بغیر شکوہ و شکایت اور مثبت رویہ سے اس سے بھر پور فائدہ اُٹھائے یہی صورت ہے جس سے کہ انسان اسی زندگی میں جنت کا لطف اُٹھا سکتا ہے.قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ آنے والی زندگی میں جنت مسترت اور سکون کا گہوارہ ہے اس وقت انسانی روح پر سیاہ بادلوں کا سایہ نہ ہوگا بلکہ اس کے برعکس ہر وقت ہشت کا پرسکون زندگی بخش شورج انہیں زندگی دیتا رہے گا.اضطراب اور بے کلی کی جگہ سکون اور چین کی حکمرانی ہوگی.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :-

Page 50

YA وو اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَعُيُونِهُ ادْخُلُوهَا بِسَلِمٍ أَمِنِيْنَ ، وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلِ اِخْوَانًا عَلى سُرُرِ تَقْبِلِينَ ٥ (۱۵ : ۲۶تا۴۸) متقی لوگ یقیناً باغوں اورچشموں والے مقام) میں داخل ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کہ تم سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر ) ان میں داخل ہو جاؤ اور ان کے سینوں میں جو کینہ (وغیرہ) بھی ہو گا اسے ہم نکال دیں گے وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے اور ) تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے (بیٹھے) ہوں گے.اسی جہان میں اگر کوئی شخص جنت کے مزے لینا چاہتا ہے تو اسے اپنے دماغ میں سے تاریک خیالات کو خیر باد کہہ دینا ہو گا اس لئے کہ خیال ہی تو عزائم کا معمار ہے.انسان جو کچھ بھی ہے خیالات کا ہی مجموعہ ہے.قوتِ ارادی اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انسان کو اپنے دماغ کو شیطانی خیالات سے پاک رکھنا چاہیئے شیطان ایک نحیف دشمن نہیں اور راسی وجہ سے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ انسان کو ہر وقت چوکس رہنا چاہیئے وگرنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ شیطانی خیالات نا قابل تلافی نقصان پہنچا وہیں گے جس سے ہشتی اخلاق کی پرورش میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی.ذیل میں ہم ان سیاہ اور بھیانک امور کی فہرست دے رہے ہیں جن سے بچنا لازم ہے ، فکر و تشویش ، ضد ، جھوٹ ، انتقام، بغاوت ، گالی گلوچ ، نا واجب جوش ، کیبر، لغو گوئی، چشمک ، پژمردگی ، حسد، بد دیانتی، ظلم، مایوسی ، استهزاء ،ٹھٹھے بازی، شک شبه ، دل شکستگی ، بغض، غیبت ، دھوکہ بازی ، بد خواہی ، بے مہری یہ وہ سیاہ بھیانک چڑیلیں ہیں جو روح کے لئے زہر قاتل ہیں یہ اخلاق اور روح کو سیاہ کر دیتی ہیں.ان کا کام جنت کی طرف لے جانا نہیں بلکہ اس سے بے راہ

Page 51

۲۹ کرنا ہے.درج ذیل آیت میں قرآن کریم اصلاح نفس کی وضاحت فرماتا ہے : قد أَفْلَحَ مَن تَرکی جو پاک بنے گا وہ یقینا کامیاب ہو جائے گا.یہی اسلام کے پیغام کی رُوح ہے جو اوپر والی آیت میں بیان کی گئی ہے اس لئے جو اِس حقیقت کو نہ سمجھا اس نے مقصد اسلام کو بھی نہ سمجھا.قرآن محض نظریاتی کتاب نہیں بلکہ یہ تو ایک آفاقی ہدایت نامہ ہے جو انسان میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے نیز اسی جہان میں جنت مہیا کر سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ دیانت داری اور صدق دلی سے اس کے لئے جدو جہد کی جائے ذیل کی نظم اس کی بھر پور عکاسی کرتی ہے.( انگریزی سے ترجمہ ) میں اس سے مخاطب ہوں جو اپنے گناہوں سے نبرد آزما ہے.اور ان پر غالب آجاتا ہے.اور سال بہ سال اپنے نفس امارہ کے مقابل پر سعی پیہم میں مصروف رہ کر اسے تسخیر کر لیتا ہے مخاطب ہوں اس سے جو غالب ہوا گناہوں کی دیوار سے ٹکرا گیا اسی سلسلہ میں یہ بھی تو کہا گیا ہے " جس نے اپنے نفس پر فتح حاصل کی وہ ملکوں پر فتح حاصل کرنے والے شخص سے عظیم تر ہے " تاریک جذبات و خیالات جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کو مغلوب کرنا بظاہر مجذوب کی بڑے معلوم ہوتی ہے اور منزل ایسی لگتی ہے گویا کہ چاند پر کوئی انتر جائے مگر در حقیقت یہ ایسا نہیں اور منفی انداز فکر ہے.بلا شبہ نظر یہ بہت تعظیم ہے

Page 52

۳۰ لیکن ایک مسلمان کو تو تعلیم ہی یہ دی گئی ہے کہ وہ بلند نظری پیدا کرے.وہ لوگ جو اپنی روحانی رفعتوں کے خواہاں ہیں خدا تعالیٰ بھی ان کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے اس لئے کہ اس دنیا میں انسان کے لئے یہی منشاء ہے اسے استقلال اور عزم کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں اور وقت آجائے گا کہ اسے ان کوششوں کے ثمر ریل جائیں گے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے :- اسلام انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ اس کی غلطیوں کے باوجود وہ روحانی اور عملی پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے جو انسان کا مقصد حقیقی ہے اور اسے اس بات کی ترغیب دلاتا ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے حصول کے لئے اپنی کوششوں میں کچھ نہ آنے دے اور ایک وقتے آئے گا کہ آخر کار وہ اپنے مقصد میں بامراد ہو جائے گا " جب انسان کے دوسروں کے ساتھ تعلقات میں رنجش پیدا ہو تو وہ گناہ اور غلطیاں ظہور میں آتے ہیں جن کی فہرست اس سے پہلے دی گئی ہے.بانی جماعت احمدیہ حضرت احمد علیہ السلام نے دوسروں کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں لکھا ہے " میں نے اپنے دل میں سے غصہ اور نفرت کو نکال دیا ہے یہ حضرت احمد علی السلام کبھی دوسروں کی کمزوریوں کے بارہ میں گفت گو نہیں فرماتے تھے.آپ کبھی ان الفاظ کا بھی برا نہیں مناتے تھے جو مخالفین آپ کے بارہ میں استعمال کرتے تھے لیکن بانی اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی کو آپ نے کبھی برداشت نہیں کیا تشویش ، حسد، اطمع ، نفرت ، غصہ اور بد خواہی ہمیشہ روحانی قومی کو گھٹن کی طرح کھا

Page 53

I جاتے ہیں.گناہوں اور خطاؤں کا اوپر ذکر تو ہو چکا جو اس دنیا میں بہشت کے محاصل کرنے میں روک بن جاتے ہیں اب ہم ان نیکیوں کا ذکر کرتے ہیں جو جنتی دروازوں کے کھولنے میں مددگار ہوتے ہیں.محبت ، کشادہ نظری، ہمدردی ، بزرگی، رحم ، ضبط نفس، دیانت، صبر، خلوص، سادگی، استقلال، قناعت ، صفائی، صدقہ ، بشاشت، اخلاص، عدل ، مدد، وقار، جرأت، شرافت، ثابت قدمی، عضو ، مهمان نوازی ، احسان شناسی ، علم ، شفقت ، بے غرضی وغیرہ وغیرہ.ہر سلمان کو اپنے اندر یہ عادات وصفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے.انسان اپنے خیالات پر حکومت کرتا ہے اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ایک وقت آجاتا ہے کہ انسان وہی بن جاتا ہے جو اس کے خیالات ہوتے ہیں سلوک کی راہوں پر سفر کرنے والے جو جنت کی روشنی پھیلانے کا عزم رکھتے ہیں ان کے لئے پاک اور بلند خیالی ہی لازم ہے جبتک دماغ میں نیست خیالی اور نا پاک خیالات حاوی رہیں گے روحانی رفعتوں میں رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں گی.اصلاح نفس بڑی حد تک پاکیزہ خیالات پر ہی منحصر ہوتی ہے اور یہی مقصد حیات ہے.تقومی کی راہیں جنت کے باغوں میں سے ہو کر گزرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنے کی بار بار تلقین کرتا ہے.موجودہ حالات پر کبھی قناعت کرنا مناسب نہیں نفس کی مسلسل اصلاح ہر شخص کا مقصد حیات اور مطمح نظر ہونا چاہیئے اس کے علاوہ ایک حقیقی مومن کا اور کوئی مقصد نہیں ہونا چاہیئے اگر چہ اگلی زندگی میں نیک و بد اعمال کرنے کی طاقت تو نہ ہوگی لیکن بہشتی لوگوں کا

Page 54

۳۲ انداز یہی ہوگا یہ نیک رو میں اللہ تعالیٰ کے حضور اسی کے لئے دست بہ دعا ہونگی کہ انہیں اپنا زیادہ سے زیادہ قرب عطا کرے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :- نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا آتِهِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُه (۹:۲۲) (4:49) ان کا نور ان کے آگے آگے بھاگتا جائے گا اور دائیں پہلو کے ساتھ ساتھ بھی وہ کہیں گے کہ اسے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے فائدہ کے لئے پورا کر دے اور تمہیں معاف فرما تو ہر چیز پر قادر ہے.اوپر جو آیت کریمہ بیان کی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آنے والی زندگی میں بھی ارواح جنت میں بھی آگے بڑھنے اور تقرب الہی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی اور اس صورت میں انسان اس دنیا میں کیس طرح اپنی موجودہ حالت پر قناعت کر سکتا ہے ترقی کی ہر وقت گنجائش ہے اور جوں جوں انسان آگے بڑھتا ہے ترقی کے وسیع میدان سامنے آتے جاتے ہیں اور جب انسان کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ نعماء جنت کی بھی مختلف اقسام ہوں گی تو اس کے لئے خواہش بھی بڑھتی چلی جاتی ہے تاکہ اپنے آپ کو خوب سے خوب تر کرتا چلا جائے تاکہ بہتر سے بہتر انعامات کا وارث بن سکے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے دلیل درجت ما عملوا (۱۳۳۱۶) اور ان سب کو ان کے اعمال کے مطابق وَلِكُلّ دَرَجْتُ مِمَّا درجات ملیں گے.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے بھی فر مایا ہے " جو خدا کو قبول کرتے ہیں اور خدا کی محبت میں کھو جاتے ہیں اور صراط مستقیم پر قائم ہو جاتے ہیں ان کے لئے انعامات بھی خاص ہوتے ہیں جو دوسروں کو نہیں ملتے " ہر عقلمند شخص یہ بات جانتا ہے کہ انسان کی آواز سے اس کے جذبات اور احساسا

Page 55

کا اظہار ہوتا ہے.انسان کو چاہیے کہ اپنی گفتار میں نامناسب اور گھناؤنے الفاظ استعمال نہ کر سے اور ایسی باتیں کرے جن سے شگفتگی کا اظہار ہو.جیسے خیالات ہوں انسان ویسا ہی ہوتا ہے اسی طرح اس کی گفت گو بھی اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتی ہے.یہ بات خوب سمجھ لو کہ انسان کی گفت گو اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے.انسان جو بنا چاہتا ہے اس کے مطابق گفتگو کا انداز رکھے تو اسی کے مطابق بن جائے گا اور اگر وہ چاہتا ہے کہ روحانی ابن اللہ بن جائے اور جنت میں اس کا خاص مقام ہو تو اس کی گفتگو اسی انداز کی ہونا لازم ہے گفتگو رُوح کا آئینہ ہوتی ہے.اگر کبھی کوئی دل شکستگی یا مایوسی کی بات کرنی ہو تو اس سے پر ہیز کرے اور بہتر یہ ہے کہ گفتگو کا موضوع تبدیل کرے یا پھر خاموشی اختیار کرلے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ کبھی کسی کے بارہ میں تحقیر آمیز گفتگو نہیں فرماتے تھے خواہ اس میں کتنی ہی کمزوریاں ہوں.احسان مندی بھی وہ جذبہ ہے جس سے دینے والا اور لینے والا دونوں ہی محفوظ ہوتے ہیں.ایک احمدی کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا بے انتہا ء شکر ادا کرنے کے لاتعداد مواقع ہیں اور اِس دنیا میں انسان کے لئے لاتعداد محرومیاں بھی آتی ہیں لیکن احمدی مسلمان کے لئے تو سہی بہت عظیم انعام ہے کہ اسے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی نعمت یر مترقبہ نصیب ہوئی.اللہ جل شانہ قرآن مجید میں فرماتا ہے ولتكبروا الله على ماقدم وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ٥ ( ۲ : ۱۸۶) اِس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو یہ ہدایت دی ہے اور تاکہ تم (اس کے شکر گزار ہو.انتہائی احسان ناشناسی ہوگی کہ انسان واویلا مچائے اور شور و غوغا کرے

Page 56

۳۴ اس لئے کہ اس کی بعض خواہشات اس کی اپنی مرضی سے کیوں نہیں پوری ہوئیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اس جہان میں بہشتی زندگی گزار ہی نہیں سکتا اگر بایوسیاں اور محرومیاں اس کے جذبات پر حکمرانی شروع کر دیں.ہر انسان کی زندگی رحمتوں اور برکتوں سے معمور ہوتی ہے اگر وہ منظر عام پر نہیں تو انہیں ضرور تلاش کرنا چاہیئے.اس ضمن میں چند شعروں کا ترجمہ پڑھیں.(انگریزی) اگر میں تفکرات اور پریشانیوں کی فہرست بنانے لگ جاؤں تو یہ ان گنت ہیں.اس لئے میرے چہرہ پر بشاشت کہاں سے آئے گی.مگر واہ واہ مجھے نعمتیں بھی تو حاصل ہیں.میں ان کو شمار کرتا رہتا ہوں اور مجھے اپنے رب کے احسانات کی شکر گزاری سے فراغت ہی نہیں ملتی.کبھی اس مثال پر غور کرو کہ ایک شخص کو شکوہ تھا کہ وہ جوتوں سے محروم ہے یہانتک کہ اسے ایسا شخص نظر آیا جو ٹانگوں سے ہی محروم تھا اور اس شخص کی شکر گزاری کا جذبہ دیکھو جو سیڑھی پر سے گرا اور ٹانگ ٹوٹ گئی تو اس نے کہا اللہ تیرا شکر ہے کہ صرف ٹانگ ہی ٹوٹی گردن کا منکا نہیں ٹوٹ گیا.یا د رہے کہ احسان شناسی اور مسرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے.اس مضمون کی ابتداء میں ہی ہم نے یہ بات کہی تھی کہ ان سطور کے لکھنے کا مدعا یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں جنت کے اثمار سے کس طرح مستفید ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں کافی بیان ہو چکا ہے اور مزید لکھنا طوالت کا باعث ہو جائے گا اس لئے آپ ختم کرتا ہوں بے ختم

Page 57

۳۵ روح چند خیالات رُوح ہماری بستی کا سب سے قیمتی حصہ ہے کیونکہ یہ وہ بیج ہے جس سے اگلے جہان کے لئے ہمارا روحانی جسم تیار ہوتا ہے جس طرح ایک بچہ نطفہ کی خصوصیات کے مطابق ایک ماں کے رحم میں پرورش پاتا ہے اسی طرح موت کے بعد رُوح ہمارے رُوحانی جسم کے لئے بطور پیج کے کام کرتی ہے چنانچہ اس روحانی جسم کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ہماری روح کس حال میں اس دنیا سے رخصت ہوتی ہے.یہ بات ہر سلمان فرد پر بخوبی عیاں ہونی چاہیے کہ اس کی زندگی کا مقصد روح کی صحیح طریق پر نشو و نما کرنا ہے اور یہ نشو و نما صرف مذہب اسلام کے اصولوں اور قونین کی اطاعت سے ہی ہوسکتی ہے مسلمان کو ہر وقت اپنی عادات پر غور کرتے رہنا چاہئیے اور غیر اسلامی طرز زندگی سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے نیز نیکی کے راستوں پر گامزن رہنے کے لئے مثبت اقدام کرنے چاہئیں یہ ہے زندگی کا اصل مقصد اور دونوں جہانوں میں خوش رہنے اور کامیاب ہونے کا راز - رُوح کا وجود اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ ہمارے جسم کا جس میں یہ بستی ہے او

Page 58

۳۶ آنے والی زندگی اتنی ہی یقینی ہے جتنی کہ مادی دنیا کی حقیقت.اور اس کا سب سے بڑا ثبوت قرآن مجید یعنی خدا کا کلام ہے.قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ انسان کس طرح دنیاوی مال و متاع کے حصول کے لئے رُوحانی فرائض کی ادائیگی میں کوتا ہی سے کام لیتا ہے.اسلام کا مطلب خدا کی رضا کے آگے مجھک جاتا ہے، یہ ہے وہ پیغام جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب بیح الزمان نے مسلمانوں کی بے دینی کی کیفیت کو دیکھ کر دیا.احمق ہے وہ مسلمان جو اپنی روحانی ترقی کی بجائے خدا کے قوانین کو توڑتا ہے اور اس دُنیا کے کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے چنانچہ وہ دن ضرور آئے گا جب وہ پچھتائے گا.اور کف افسوس مل کر کہے گا: حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لا لَعَلَى اَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا (٢٣ : ١٠١/١٠٠ ) " خوب جان لو کہ روح ہی ہماری اصل حقیقت ہے ہم رُوح ہیں جس کے ساتھ جسم لگا ہوا ہے نہ کہ جسم جس کے ساتھ رُوح لگی ہوئی ہے.روح اور جسمر ایک دوستر سے منسلک ہیں جو ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب...روح جسم کو اس طرح اتار پھینکتی ہے جیسے سانپ اپنی کینچلی آثار دیتا ہے.ہمارا جسم روح کے ساتھ صرف ایک محدود عرصہ کے لئے لگا ہوا ہے اس لئے یہ بات واضح ہو کہ ہمیں اس زندگی میں روح کا خیال رکھنا اپنا فرض اولین قرار دینا چاہیئے.فی الحقیقت یہ روحانی خود کشی ہے کہ انسان روحانی باتوں کو ترک کردے اسلئے کہ اسے مادی خوشحالی اور دولت ملے تا وہ رنگ رلیوں والی زندگی گزارے.اس

Page 59

دنیا کی نعمتیں تھوڑے عرصہ کے لئے ہیں جبکہ خدا کے راستہ میں کوشش اور عمل کرنا ابدی اور فائدہ مند چیز ہے.جو مادی دولت اور خوشی خدا کی ناراضگی مول لے کر حاصل کی جائے وہ روح کو گندہ کرتی ہے اور ایک زہر ہے.ہر شخص کو خدا کی آواز کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اس خطرہ سے آگاہ رہنا چاہیے جو اس دُنیا کے کاموں میں پھنس جانے میں پنہاں ہے.خدا تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے : وَمَا الْحَلُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِب وَلَهُو وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ (۳۳:۶) ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے يقوم إِنَّمَا هَذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيَا مَتَاعُ وَانَ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِه (۴۰:۴۰) حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس بارہ میں کیا خوب فرمایا ہے: ریقین کہ خدا تعالی ہر لمحہ ہمیں دیکھ رہا ہے غلط کاموں کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہی چیز نیک کام کرنے کے لئے سب سے بڑی ترغیب ہے؟ ملاحظہ ہو کتاب اسلام) IT'S MEANING FOR MODERN MAN - ISLAM اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی کیا اچھی تفسیر فرمائی ہے " ایک دانا آدمی کا ہر کام اس کی اپنی اصلاح کے لئے ہوتا ہے.اس کی سب فکریں عاقبت کے لئے ہوتی ہیں اور اس کی ساری تگ و دو آنے والی زندگی کی بہتری کے لئے ہوتی ہے ؟ روح انسان کا سب سے بڑا گو ہر ہے اس کو سنبھال کے رکھنا اور نیکیوں کے ساتھ اسے آبدار کرتے رہنا بہت ضروری ہے قبل اس کے کہ موت آئے اس کی تشکر

Page 60

کرنا لازمی امر ہے کیونکہ نیک یا بد کام کرنے کی صلاحیت تو موت کے بعد ختم ہو جاتی ہے اگرچہ رُوحانی ترقی خدا تعالی کے فضلوں سے جاری رہتی ہے ، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :- يَوْمَ لا يُخْزِى الله النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَثْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُه (۹:۲۶) تمام ارواح کا جنت میں مقام ایک جیسا نہ ہو گا کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ہمیں خود بتلاتا ہے کہ ہر شخص کو جیسا اس نے کام کیا ویسا ہی اجر دیا جائے گا.فرمایا وَلِكُلّ دَرَجتُ مِمَّا عَمِلُوا (۲۰:۲۶ ) اور ان سب کو ان کے اعمال کے مطابق درجات ملیں گے.اور حدیث نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو جہاد کرتے ہیں ان کے لئے جنت میں سو درجات ہیں اور ان کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ زمین اور آسمان کے درمیان ہے.کیسی بھی مخلص مسلمان کو یہ نہیں مانا چاہیے کہ وہ اتنا نیک ہے کہ جنت میں اس کی جگہ لیتی ہے چنانچہ ایسا مسلمان اپنے آخری سانس تک اپنی روح کو چپکانے ہیں اور خدا کی طرف زیادہ رغبت میں کوشاں رہے گا یہ ہے اسلام کا اصل مقصد.موت کے بعد روح واپس نہیں آئے گی.کوئی مُردہ آدمی آج تک زندہ نہیں کیا گیا یہ خدا کا اٹل قانون ہے.فرمایا : اللهُ يَتَوَكَّى الآنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا (۴۳:۳۹ )

Page 61

۳۹ روح موت کے وقت ہمیشہ کے لئے جسم سے رخصت ہو جاتی ہے اور نیند میں عارضی طور پر رخصتی سے جاتی ہے مگر نیند سے اٹھنے پر جسم میں فوراً بجلی کی چمک کی مانند و اس آجاتی ہے.جسم روح کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور روح جسم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی.موت کے بعد رُوح روحانی ہالہ میں لیٹ جاتی ہے.اس کی مثال روحانی نور کے ساتھ یا شیطانی تاریکی کے ساتھ دی جاسکتی ہے اور اس روحانی نور کی چھنک یا تاریکی کی گہرائی اِس بات پر منحصر ہے کہ اس میں کس قدر روحانی مقناطیسیت ہے جہاں سے یہ نور آ رہا ہے.روح کے گرد جو ہالہ ہے یہ وہ رحم ہے جس میں سے روز قیامت یہ ایک روحانی تخلیق بن کر نکلے گی.تبدیلی کے ایک مخصوص نظام کے مطابق روح ایک نئے روحانی جسم میں تبدیل ہوگی اس نئے جسم میں مادی جسم سے زیادہ قوت بخش روحانی خواص ہوں گے اور نیا روحانی جسم انسانی روح سے بہت زیادہ لطیف ہو گا جس کی خود ایک رُوح ہوگی.یہ بیان کیا گیا ہے کہ جسم روح کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیند کے وقت جب روح اس کو چھوڑ جاتی ہے تو جسم کیسے زندہ رہ جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ روح نیند کے وقت باہر چلی جاتی ہے مگر دونوں میں ایک روحانی ڈوری کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے.ایک خلائی طیارہ زمین کی حدود سے نکل کر گتہ زمین سے باہر نکل جاتا ہے مگر زمین پر کنٹرول اسٹیشن اور طیارہ کے درمیان ریڈیائی تعلق قائم رہتا ہے جو اس بے ہوا بازطیارہ کو زمین پر واپس لا سکتا ہے میں تعلق روح اور جسم کے درمیان

Page 62

نیند کی حالت میں ہوتا ہے اگر چہ رُوح بیرونی علاقہ میں ہوتی ہے لیکن اس کا جسم کے ساتھ جوڑ ضرور ہوتا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے روح واپس آتی ہے اور جب یہ تعلق قطع ہو جاتا ہے تو اس وقت روح مستقل طور پر علیحدہ ہو جاتی ہے اور یہی موت کا باعث بن جاتا ہے اس کے بعد روح پھر واپس نہیں آتی اور کسی اور جگہ زندہ رہتی ہے.جب روح جسم سے باہر ہوتی ہے اُس وقت عموما ہمارا دماغ رُوح کے تجربات کو یاد نہیں رکھ سکتا.روح جاگتے ہوئے بھی اور سوتے ہوئے بھی انسانی جسم سے جا سکتی ہے.ایک انگریز مصنف کیپٹن برٹن جب ایک دفعہ سخت بیمار ہوا تو اس نے اپنے آپ کو ایک اور جسم پر تیرتے ہوئے محسوس کیا جو بعد میں اسکے جسم میں داخل ہو گیا.اور بھی لوگوں نے دنیا میں روح اور جسم میں روحانی فیتہ کے تعلق کا تجربہ کیا ہے.مذہبی کتابوں اور حالات کی گواہی اس بات پر ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ روح واقعی موجود ہے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو اپنے اندر محسوس کریں اور اس کو نیک خیالات، الفاظ اور اعمال کی غذا دیں تا یہ روح چودھویں کے چاند کی طرح خوب چکے اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی.آمین ہے BURTON !

Page 63

اسم سکھی روح سکون قلب ایک اندرونی کیفیت ہے جس کو پانے کے لئے ہر کوئی خواہش کرتا ہے مگر بہت تھوڑے اس کو پاتے ہیں.اکثر وہ لوگ جن کو شتعال انگیزی کا نشانہ بنایا جائے وہ بے چینی اور مایوسی کا کم وبیش اظہار کرتے ہیں حقیقی سکون قلب کا اظہار انسان کے کردار سے نمایاں ہوتا ہے اور اس کا اظہار انسان کی آواز، رفتار اور دیگر جسمانی حرکات سے ہوتا ہے.یہ در حقیقت آسمانی نعمت ہے جو انسان کے اندر سکونت پذیر رہتی ہے اور ہماری شخصیت کو جو میں گھنٹے متاثر کرتی ہے.رُوح کا سکون ایک ایسی خصوصیت ہے جسے ہر کوئی اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے.اس امر میں کامیابی کے حصول کے لئے ضروری اجزاء یہ ہیں : دعاء دماغی توجہ ، ضبط نفس پختگی، ارادہ اور استقلال.یہ صفات یقینا انسان کو اپنی منزل کی طرف اُڈا کے لے جائیں گی اور وہ جلد ہی ایک عظیم انقلاب اپنے اندر محسوس کرے گا.اپنی کوششوں کے اولین ثمرات سے وہ مطمئن نہ ہو گا چنانچہ وہ مزید ترقی کے لئے خواہش اور کوشش کرتا رہے گا اور ہمیشہ اپنے اعمال میں

Page 64

۴۲ احتیاط برتے گا تا ذرا سی لغزش بھی اس کے روحانی توازن کو بگاڑ نہ دے اور جوں جوں وہ ترقی کرے گا سکون اور اطمینان اس کے خیالات اور اعمال پر اس قدر حاوی ہوں گے کہ اس کو ہر وقت چوکس رہنے کے لئے مزید کوشش اور احتیاط در کار نہ ہوگی اور یہ چیز اس کی فطرت ثانیہ بن جائے گی.جس شخص کو سکون قلب حاصل ہو جاتا ہے وہ دنیا کی تکالیف اور دکھوں سے آزاد نہیں ہو جاتا ایسا شخص ان تکالیف سے خوب واقف ہوتا ہے مگر ان کو نهایت سکون سے قبول کرتا ہے اور دیکھنے والا ایسے شخص میں بظاہر کوئی جذباتی تغیر نہیں دیکھ سکتا.حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیه السلام کو اپنی پہلی بیٹی عصمت سے بہت مرزا احمدیح با لگاؤ تھا جب وہ بیمار ہوئی تو آپ نے اس کی بہت دیکھ بھال کی لیکن جب وہ بقضائے الہی فوت ہو گئی تو ایسا محسوس ہوتا تھا گویا آپ اسے بالکل بھول گئے ہیں.آپ نے خدا کی مرضی کے آگے سرتسلیم خم کر دیا تھا.ایک اور موقع پر بعض عیسائی پادریوں نے آپ کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا.ایسی حالت میں عموماً لوگ بے چینی اور اضطراری کا اظہار کرتے ہیں مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بالکل پرسکون رہے کسی کو گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ آپ کے اوپر قتل کا الزام عائد ہے.جس شخص کو سکون قلب حاصل ہو وہ کبھی گھبرانا نہیں ہے.زندگی یا موت ، صحت کی خرابی، مصائب و تکالیف اس کو پریشان نہیں کرتے اگرچہ ایسا شخص ان مصائب کے اثرات سے متاثر ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے سکون و حرکات پر اسے پورا ضبط حاصل ہوتا ہے.

Page 65

۴۳ قرآن پاک میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ انسان کو مختلف مصائب میں مبتلا کر کے صبر سکھلاتا ہے فرمایا :- وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَى مِنَ الْخَونِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالاَنْفُسِ والثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ هُ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم (۱۵۷ ۱۵۶:۲) مصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَهُ حقیقت تو یہ ہے کہ تکالیف اور مصائب کے دوران ہی انسان کی صحیح پہچان ہوتی ہے جبکہ انسان کو تمام نیکیوں سے افضل نیکی یعنی صبر کے مظاہرہ کا موقع ملتا ہے.سفلی جذبات کو زیر کرنا کوئی آسان کام نہیں مبارک ہیں وہ لوگ جو اس میں کامیاب ہوتے ہیں.بعض لوگ سب سے نیک اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں مگر ذرا سی بات پر وہ اس قدر بے صبری اور غم و غصہ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کے معتقدین حیران و ششدر رہ جاتے ہیں.ہمارے اس مضمون کا مقصد پر سکون قلب کی جاذبیت کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے تاکہ قارئین ایسی ذہنی کیفیت پیدا کریں اور اس ذہنی حالت کے پیدا کرنے کے لئے ایسے گر بتلائے جائیں کہ انسان ان بلندیوں کی طرف پرواز کر سکے.جو شخص سکونِ قلب کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی حالت اور موقع سے آگاہ ہو جو اس کی روح کو برباد کر دے.وہ روز مرہ زندگی کے ان تمام واقعات سے آگاہ ہو جہاں سے اسے ٹھوکر لگنے کا احتمال ہو اور وہ ان حادثات سے بچنے کے لئے مناسب اقدامات کرے.اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے یہ امر بہت مفید ہے کہ آنے والے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے

Page 66

ان امور کا علم ہو جو اس کی راہ میں حائل ہوتے ہیں.سیاہ بادل آنے والے طوفان کی علامت ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر راہگیر پناہ تلاش کرتا ہے.گھر والی دھوپ میں لٹکے ہوئے کپڑوں کو جلد جلد اکٹھا کر لیتی ہے اور گڈریا اپنا ریوڑ ہانک کر باڑہ میں سے جاتا ہے.وہ سب سمجھ جاتے ہیں کہ طوفان کی آمد ہے اور اس سے بچاؤ کا سامان ضروری ہے.سیلف کنٹرول کے نہ ہونے سے بے صبری، بے آرامی ، گالی گلوچ ، غصہ اور طنز آمیزی کے دروازے کھل جاتے ہیں ان سب پر قابو پانا ضروری ہے.اب ہم روز مرہ زندگی کی چند ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہیں.یہ صرف وارنٹنگ سائن ہیں اور مجوسی یہ نظر آئیں ان کے خلاف حفاظتی انتظامات کئے جائیں.ہر علامت کو ایک چیلنج سمجھا جائے اور ضبط نفس کا ایک زینہ سمجھا جائے مجھے یقین ہے کہ رفتہ رفتہ ان پر عبور حاصل کیا جاسکتا ہے.شور شور عام طور پر اعصاب شکنی ، غم و غصہ اور تلخ نوائی کا باعث بن جاتا ہے.گھر میں بچوں کا شور ومثل بعض دفعہ گھر والوں کے لئے ناراضگی کا باعث بن جاتا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے بعض علمی شاہکار اسی قسم کے شور و شعب کے درمیان تحریر فرمائے جو آپ کے گردوپیشیں جاری رہتا تھا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت سردرد تھا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ بچوں اور ملازموں کا شور حضور کی طبیعت پر بوتقبل

Page 67

۴۵ تو نہیں.فرمایا کہ میں خود ان سے یہ کہنا پسند نہیں کرتا البتہ آپ نرمی سے ان سے خاموشی کے لئے کر دیں.اسی طرح ایک اور موقع پر آپ حضور سے پوچھا گیا کہ آپ گھر کے شور وغل میں کیسے علمی کام کرلیتے ہیں ؟ تو فرمایا کہ نہیں تو اس طرف توجہ ہی نہیں کرتا لہذا مجھے یہ ناگوار نہیں گزرتا.خل اندازی بعض اوقات انسان جب کسی دلچسپ کام میں ہمہ تن مصروف ہوتا ہے تو بے وجہ کی خلل اندازی بہت بڑی محسوس ہوتی ہے حتی کہ ایک چھپاتا ہوا پرندہ یا مکھی مچھر کی و بھنبھناہٹ بھی اِس قدر بُری محسوس ہوتی ہے کہ انسان غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اسی طرح نیند میں خلل بھی بعض لوگوں کو بہت برا لگتا ہے.کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کسی علمی کام میں محو ہوتے تو پیچھے آپ کے کام میں مخل ہوتے مثلاً دروازہ پر بار بار دستک دیتے اور دروازہ کھولنے کے لئے کہتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بلاپس و پیشیش دروازہ کھول دیتے.ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے آپ کا ایک مسودہ جلا دیا تو آپ نے مسکرا کر فرمایا شاید خدا تعالیٰ کو اس سے بہتر مسودہ لکھوانا منظور تھا.یاوہ گو بعض لوگ بہت باتونی ہوتے ہیں.خودستائی میں وہ اس قدر دوسروں کو بور کرتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے ایسے لوگوں کو توجہ دینا نہایت مشکل کام ہے

Page 68

سُننے والے کے لئے ایسا شخص گو یا صبر کا امتحان ہوتا ہے.غذا بعض اوقات غذا انسان کی پریشانی کا موجب ہو جاتی ہے.بیچتے اس کا اظہار بہت خوبی سے کرتے ہیں بعض خاوند اپنی بیویوں پر اس لئے ناراض ہوتے ہیں کہ کھانا وقت پر تیار نہ تھا.بھوک اعصاب پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے اور جو حضرات روزوں کے عادی نہیں ہوتے بھوک ان کے لئے وبالِ جان بن جاتی ہے ہم سب کو بھوک کی علامات ظاہر ہوتے ہی خبردار ہو جانا چاہیئے.مالی پریشانیاں مالی مسائل اکثر دماغ پر بوجھل ہوتے ہیں.ان مسائل سے انسان کی صحیح قدریں گر جاتی ہیں، پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں.مالی مسائل ہمارا ذہنی سکون خراب کرنے کا باعث نہیں ہونے چاہئیں بلکہ سکون قلب ہمارا مقصد اور مدعا ہونا چاہیئے ہمیں خدا پر توکل رکھنا چاہیے اور اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ احمدیت کے ذرایعہ ہمیں وہ لازوال دولت ملی جو دنیا کی تمام دولت سے بھی زیادہ قیمتی ہے.ہمارے پیارے نبی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بوقت وفات صرف چند کھجوریں ہی اثاثہ تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس وفات کے وقت صرف ایک روپیہ تھا.سکون قلب انسان کو ہشاش بشاش اور مسکراتا ہوا چہرہ رکھنے میں محمد ہوتا ہے خواہ انسان کو کیسے ہی مالی مسائل درپیشیں ہوں.

Page 69

تھکاوٹ تھکا ماندہ انسان مسکراہٹوں سے دُور ہوتا ہے.اس کے اعصاب پیچھے ہوتے ہیں.ہر کام اور چیز طبیعت کے خلاف اور شکایت کا موجب بن جاتی ہے.تھکے ہوئے شخص کو اپنی گفتگو اور اعمال کی طرف خاص توجہ دینی چاہیئے.گالی گلوچ بعض لوگ اپنی زبان کو گالی گلوچ کے مہلک ہتھیار سے مسلح رکھتے ہیں تا وہ دوسروں کو بے عزت کر سکیں.اگر آپ کی کوئی اس طرح بے عزتی کرے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ خاموش ہیں اور ایسے مسند شخص کے سامنے تو از ما خاموش رہیں اس کام کیلئے ضبوط نفس کی ضرورت ہے.ہماری زندگی میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن سے ہم ناراض اور خفا ہو سکتے ہیں مثلاً اگر آپ کسی سے متفق نہ ہوں تو اس کا اظہار حکمت عملی سے کرنا پسندیدہ ہے مگر اس چیز کو تکلم گلا دشمنی کی ایک وجہ بنالینا نا پسندیدہ امر ہے.زندگی میں ہمیں خفا کرنے والے امور کی ایک فہرست قارئین کے لئے پیش کی جاتی ہے :.(3) جب لوگ وقت کے پابند نہ ہوں (ب) جب کوئی قیمتی چیز کھو جائے (ت ) جب کوئی خواہ مخواہ لڑائی مول لے (ث ) جب کوئی کس یا گاڑی سے رہ جائے (ج ) جب کوئی وعدہ ایفا نہ کرے (ح) جب صحت خراب ہو اور انسان سخت تکلیف میں مبتلا ہو (خر) ناروا سلوک.

Page 70

اِس فہرست میں اور بھی دوسری باتیں شامل ہوسکتی ہیں مگر چند ایک کی نشاندہی کافی ہے.جس طرح جسمانی ورزش انسان کے حبشہ کو مضبوط بناتی ہے اسی طرح ذہنی اور روحانی امور کے ذریعہ دماغی اور روحانی آسائش کا سامان کیا جا سکتا ہے کسی مقصد کے حصول کے لئے خواہ وہ مادی ہو یا روحانی خاص دھیان اور غور وفکر کی ضرورت ہے جس کے پیچھے کامیاب ہونے کا زبر دست جذبہ کار فرما ہو مندرجہ ذیل مساوات ہمیش مد نظر رکھیں : شوق + چاہت = کامیابی سکون قلب کی گہرائی ناپی نہیں جاسکتی.یہ وہ ہیرا ہے جو انمول ہے اور اسی کو نصیب ہوتا ہے جو دیانتداری سے اس کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے او راپنے کردار پر سلسل نظر رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں سے کامیابی کی انتجا کرتا ہے ؛ ه

Page 71

۴۹ ضبط نفس قارئین آپ میں سے کئی ایک نے یہ مقولہ تو ضرو رسُنا ہو گا " وہ انسان سب سے زیادہ طاقتور ہے جس کو اپنے نفس پر ضبط ہے“ چاند کی طرف باز و بڑھا کے پکارنے سے کبھی یہ چمکتا ہوا استارہ انسان کے پاس نہیں آسکتا.ایک خلائی سیارہ کے بنانے، اس کے خلاء میں جانے اور اس کے تیز رفتار سفر بمع سائنسی آلات کے نیز انسان کے خلائی سفر سے قبل کائنات کے قوانین کو سمجھنا، ان پر غور وفکر کرنا بہت ضروری ہے..خدا کبھی بھی انسان کی اس خواہش کو پورا نہیں کرے گا کہ وہ آنکھ جھپکنے میں زمین سے اُڑا کر چاند کی سطح پر پہنچ جائے.اس کے برعکس خدا نے انسان کو عقل دی ہے کہ وہ مطالعہ ، مشاہدہ ، تجربات اور سائنسی قوانین کو سمجھ کر اپنے مقصد کو حاصل کرے یعنی چاند کی تسخیر سائنسی اصولوں کی طرح رُوحانی اصول کو بھی انسان اگر سمجھے اور پہچانے تو اس دنیا سے نکل کر جنت کی دُنیا میں پہنچ جائے لیکن اس کے لئے پہلا قدم بھی انسان کو ہی اُٹھانا ہوگا کیونکہ خدا صرف ان کی ہی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے

Page 72

ہیں جس طرح ایک خلائی سیارہ کی کامیابی کا دارو مدار کنٹرول سنٹر پر ہے جو اس کے گوناگوں کاموں اور حالتوں کا خیال رکھتا اور ہدایات دیتا ہے اسی طرح روحانی پرواز کے لئے بھی انسان کو ایک اندرونی کیفیت کا پانا ضروری ہے اور وہ کیفیت ہے ضبط نفس ضبط نفس ہی وہ چیز ہے جو انسان کے کردار کو رنگین کرتی ہے.کردار کے بنانے میں اِس کا دخل بہت زیادہ ہے.اِس لئے اِس کے حاصل کرنے میں خاص توجہ کی ضرورت ہے.اپنے کردار کو بلندیوں تک پہنچانے کی طاقت فی الحقیقت انسان کے اندر ہی پوشیدہ ہے.یہ بجا ہے کہ تمام طاقت کا سرچشمہ خدا تعالیٰ ہے لیکن وہ ان ہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّىه (۱۵:۸۷) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا.ایک مومن ہمیشہ خدا کی پناہ میں رہنا پسند کرتا ہے شیطان کا اس پر دائمی غلبہ نہیں ہوسکتا.اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے خدا کی تائید و نصرت کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور خدا تعالے اپنا ہاتھ اس شخص کو ضرور دیتا ہے جو اس کی طرف بڑھنے کے لئے کوشاں رہتا ہے.اسلامی طریق زندگی نهایت منظم طریق حیات ہے جو اطاعت، کوشش اور نگرانی پر خاص زور دیتا ہے.نظم و ضبط کی ریڑھ کی ہڈی درحقیقت ضبط نفس ہے.گذشتہ انبیاء صوفیاء اور اولیاء کی زندگی کا مطالعہ ہمیں بتلاتا ہے کہ ان کی زندگی میں ضبط نفس کا بہت دخل تھا جس کی بناء پر ان میں روحانی جذب او کشش پیدا ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہر عمل، ہر بول اور ہر حرکت پر ضبط حاصل تھا آپ فرض کے راستہ پر ہمیشہ گامزن رہے اور سخت سے سخت آزمائش میں بھی صبر

Page 73

۵۱ اور ضبط سے کام لیا.آپ میں صبر، صداقت، دیانت ، جرأت، انصاف کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے جیسا کہ آپ حضور کی بیگم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ کا خُلق قرآن تھا كَانَ خُلُقَهُ الْقُرْآنِ.حضرت احمد علیہ السّلام کی زندگی اور کردار میں بھی ہمیں ضبط نفس نمایاں نظر آتا ہے.آپ کی زندگی میں آپ سے زیادہ شاید ہی کسی اور کو اتنی گالیاں دی گئیں اور طعن و تشنیع کا ہدف بنایا گیا لیکن اس کے باوجود آپ کے کر دار اور عمل میں کبھی فرق نہ آیا.آپ کے نحیف کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری تھی لیکن آپ نے ہمیشہ خدا تعالیٰ پر تو کل کیا اور اپنے مشن میں کامیابی و کامرانی کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کے حضور ہی دُعا نی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ عارضی ناکامی سے کبھی نہ گھبرائے اور نہ ہی کسی کی دشمنی اور تمسخر نے آپ کو پریشان کیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا " میرے دل میں رقم کی انتہا نہیں رفتہ کو تو میں نے بالکل ہی ختم کر دیا ہے.ہم اپنی زندگی میں اپنے حاکم ہیں.خدا نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور ہمیں ایسی فراست عطا کی ہے جس سے ہم اپنا کر دار اچھا بنا سکیں.یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے کردار کے معمار نہیں.شیطانی قوتوں کا دلیری سے مقابلہ کریں.اپنے آپ کو پاک صاف رکھیں اور دعا کے ساتھ خدائے ذوالجلال کی ہدایت اور رحمت کے طلبگار ہوویں یہ ایک بڑا مشکل کام ہے جسے ہم نے ہی کرنا ہے اور صراط مستقیم پر گامزن رہنے کیلئے ضبط نفس کے سٹیرنگ ویل پر قابو رکھنا ہوگا جس طرح ایک جہاز کا کپتان اس کو طوفان میں سے گذارتا ہوا بندرگاہ پر لے آتا ہے.STEERING WHEEL i

Page 74

۵۲ ضبط نفس ایک مسرت سے بھر گویہ زندگی کے کردار کو ڈھالتا ہے.بہندوؤں کی مقدس کتاب گیتا " میں لکھا ہے کہ " وہی شخص حقیقی مسرت سے فیضیاب ہے جو نفرت سے بالا تر ہے اور اس کے جذبات پر اس کا قابو ہے " ضبط نفس سے انسان کی خود داری بھی بڑھتی ہے.ایک کہاوت ہے کہ اپنی عزت خود کرو ورنہ دوسرے بھی عزت نہ کریں گے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ جو خود داری کو پروان چڑھاتا ہے وہ کبھی دوسروں کی نظر میں بے عزت نہیں ہوتا.امریکی مصنف تھامس جیفرسن نے کیا خوب کہا ہے کہ " ایک شخص کو دوسرے پر اس سے زیادہ کوئی فضیلت نہیں کہ وہ ہر حال میں خوش و خرم رہے ؛ ضبط نفس سے انسان میں سب سے افضل صفت صبر کی پیدا ہوتی ہے.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :- ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُواقفِ وَاتَّقُوا (۲۰۱۳) اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.ضبط نفس کا پیدا کرنا درحقیقت ایک زبر دست تعلیم ہے لیکن یاد رہے کہ اس تعلیم کا صرف وہی حصہ فائدہ مند ہو گا جس پر عمل کیا جائے ضبط نفس کوئی انعام نہیں بلکہ ایک زبر دست مجاہدہ ہے.ہم خود اپنی روح کے سنوارنے والے ہیں اور ہما را قادر مطلق پیارا خدا ہمارا رہنما اور مددگار ہے ؟ |

Page 75

۵۳ عداوت قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا (189) خالص جو میں کیراٹ کے سونے کی قیمت خالص چو میں کیراٹ کے دل کے مقابلہ میں بہت کم ہے.یہ بجا ہے کہ خالص سونے کا حاصل کرنا خاصا مشکل ہے لیکن دنیا میں سونے کے مالک تو بہت ملیں گے لیکن خالص دل والے بہت کم.عموماً مشاہدہ میں آیا ہے کہ لوگ روحانی طور پر ترقی تو کرتے ہیں اور قابل تقلید ہیں پھر بھی شیطان کے اثر سے وہ محفوظ نہیں ہوتے.عداوت ذہن کی منفی حالت کا نام ہے.عداوت کی صورت میں انسان کے دل میں دوسرے شخص کے لئے بڑے احساسات جنم لیتے ہیں.ایسا شخص بہت ہی نیک ہے جس کا دل عداوت کے احساسات سے پاک ہے.یہ ایک شیطانی زہر ہے جو روح کی مقنا طیقت کو ختم کر دیتا ہے.روحانی راستوں پر گامزن ہر شخص اپنے جسم اور رُوح پر اس کے برے اثرات سے آگاہ رہے.بانی جماعت احمدیہ حضرت احمد علیہ السلام فرماتے ہیں :-

Page 76

۵۴ " ہمیں اپنے دوستوں کی غلطیوں کو ہمیشہ نظر انداز کرنا چاہیئے خواہ وہ غلطیاں کیسی بھی سنگیر نے ہوں “ پھر فرمایا کہ : کمینگی سے پر ہیز کر و.دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آؤ حضرت احمد علیہ السلام کے مبارک دل میں کسی کے لئے عداوت نہ تھی.عداوت مندرجہ ذیل قسم کے جذبات سے پیدا ہوتی ہے جیسے کہ غصہ ، انتقام، نفرت، خود غرضی، شک ، غرور ہمیں ایسے جذبات پر قابو پانا چاہیے کیونکہ یہ سب عداوت کے سرچشمے ہیں.زندگی اپنے نفس کے خلاف جہاد ہی کا نام ہے.ایک مشہور پادری مسٹر بیچہ کا کہنا ہے " مجھے بجائے کسی اور کے اپنے ہی نفس کے مقابلہ کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے.عداوت کے برے اثرات سے بچنے کے لئے متواتر دعا اور کڑی نظر لازمی امور ہیں اگرچہ ترقی اس معاملہ میں بہت سست نظر آئے مگر انگریزی MR.BEECHER کا یہ مقولہ مد نظر رہے کہ SLOW AND STEADY WINS THE RACE زندگی روح کو خالص بنانے کی تگ و دو کا نام ہے اور چونکہ عداوت زندگی کو زنگ لگا دیتی ہے اس لئے مومن کو اس شیطانی دشمن کو فنا کر دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے.آئیے آپ کو پر مذکورہ جذبات پر تھوڑی دیر کے لئے غور کریں جو عداوت کے پیدا ہونے میں محمد ہوتے ہیں :-

Page 77

۵۵ ناراضنگی RESTNTMENT ناپسندیدہ خیالات دوسروں کے لئے دل میں عداوت کو جنم دیتے ہیں ایسے خیالات کے پیدا ہونے کی کئی ایک وجوہات ہیں بعض اوقات نا پسندیدہ بات یا گفتگو یا فعل سے عداوت پیدا ہو جاتی ہے یا بعض اوقات ایک شخص کے رجحان یا کردار سے بھی عداوت پیدا ہو جاتی ہے چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ ایسے شخص کے خیالات دوسروں کے بارہ میں ہمیشہ خراب ہوتے ہیں اور یہی خیالات دماغ کی مناسب پرورش میں رکاوٹ بن جاتے ہیں.انتقام انتقام ایک گندے ذہن کی گندمی خوشی کا نام ہے.انتقام سے ذہن میں عداوت کی آگ بھڑکتی ہے.اس گندے ناسور کو دماغ میں کبھی پیدا نہ ہونے دو.اس کی بیخ کنی اسی وقت کر دو جونہی یہ جنم ہے.اس دشمن کو شکست دینے کے لئے درج ذیل مقولوں پر غور کریں :- سب سے اچھا انتقام در گذر ہے.در گذرا ور مسکراہٹ بہترین انتقام ہے.جب تجھے انتقام لینے کی طاقت ہو تو استقامت ہے.احضرت علی ) اسے خدا ان کو معاف کر کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں.(حضرت علی سولی پر )

Page 78

۵۶ آغاز اسلام میں عرب کے شہر مکہ میں بت پرست لوگوں نے مسلمانوں کو بہت ستایا اور ان پر ہزاروں مظالم ڈھائے چنانچہ اس صورت حال کے پیش نظر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والے مدینہ شہر کو ہجرت کر گئے.رفتہ رفتہ اسلام کا پیغام لوگوں میں قبولیت حاصل کرنے لگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ وہ محشر واپس لوٹیں مگر اس امید میں پورے دین سال لگ گئے.جب آپ واپس لوٹے تو آپ کے ساتھ دس ہزار افراد پرمشتمل لشکر تھا آپ چاہتے تو مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے مگر آپ نے ہر ظلم کو جانتے ہوئے خون ریزی کی سختی سے ممانعت فرمائی اور در گذر و معافی کا سر چشمہ بن کر مکہ میں داخل ہوئے سوائے چند ایک کے جنہوں نے سنگین جرائم کئے تھے ان کو مناسب حال سزا دی گئی باقی تمام شہریوں کو معاف کر دیا گیا.یہ تھی ہمارے پیارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی وسعت اور فراخ دلی.آپ نے کبھی انتقام نہ لیا، آپ کا دل مبارک رقم اور ہمدردی اور انسانیت کی محبت سے بھر پور تھا.حقارت حقارت اور رسوائی در اصل عداوت ہی کا دوسرا رُخ ہے.چاہیے آپ کسی شخص کے کردار سے کتنے ہی متنفر ہوں مگر اس کے بارہ میں اچھے خیالات دل میں رکھیں حقارت سے دل سخت ہو جاتا ہے.بیماریوں سے تو ہم میں سے ہر کوئی زندگی میں دو چار ہوتا ہے.ہزارہ لوگ بری عادتوں سے اپنی صحت خراب کرتے ہیں.شراب نوش اور سگریٹ پینے والے ان میں

Page 79

سے چند ایک ہیں.جسمانی بیماریوں کی طرح ہر شخص سوائے اللہ کے پیغمبروں کے روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوتا ہے.جس کی صحت اچھی نہ ہو اس سے برا سلوک تو نہیں کیا جاتا اسی طرح جو روحانی بیمار ہو اس سے بھی برا سلوک مناسب نہیں ایسے لوگوں کے لئے ہمدردی لازم ہے.غرور عداوت غرور سے جنم لیتی ہے.جو شخص ذرا بھی مغرور ہو گا وہ دوسروں کے بارہ میں براہی سوچے گا.غرور خدا تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے.ارشاد خدا وندی ہے وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا (۳۸۱) زمین پر مغرور بن کر نہ چلو پھر ایک اور جگہ فرمایا فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِرِينَ (۱۲ : ۳۰) مغرور کا ٹھکانہ ہی بہت بُرا ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے روز مغرور لوگ اس طرح اکٹھے کئے جائیں گے جس طرح بیج اکٹھے کئے جاتے ہیں.ذلت اور رسوائی اس روز ان کو چاروں طرف سے گھیرے گی.پھر حضرت علی کا قول ہے وہ بیرے فصل جن سے تم شرمندہ ہو وہ ان نیک کاموں سے بہتر ہیں جن پر تم مغرور ہو.غرور ایسی مخفی قوت ہے کہ بعض اوقات نیک لوگ بھی دھوکہ میں اس کا اظہار کر دیتے ہیں اس سے ہر وقت چوکس رہنا لازمی امر ہے ہاں جب دوسروں کا اور اپنا بھی محاسبہ کرو تو وقار اور غرور کو ایک نہ سمجھو کیونکہ ذاتی وقار کا ہونا ضروری ہے.

Page 80

ناپسندیدگی کسی شخص کا کردار، عادات اور رجحانات آپ کو کتنے ہی ناپسند ہوں مگر دل میں عداوت کو جنم نہ دو مندرجہ ذیل مقولہ اس بارہ میں قابل غور ہے :.کیسی سے نفرت نہ کرو ان کی بری عادات سے نفرت کرو.(از برینارڈ) مومن ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشنودی کا طالب رہتا ہے.وہ ہمیشہ آسمان کی روشنی کا پر تو بنتا ہے.اس مصیبت بھری دنیا میں وہ ذہنی سکون کا طالب ہوتا ہے جہاں کشیدگی ہوگی وہاں عداوت جنم سے گی کشید گی دل کو جنگل کی آگ کی طرح بھیسم کرتی ہے.عداوت سے بھر گور خیالات دل کو شیطانی زہر سے آلودہ کر دیتے ہیں.وہ شخص بہت ہی نعمتوں کا مالک ہے جو اپنے خیالات پر قابو رکھتا ہے.حسد عداوت کا ایندھن ہے.اس کا زہر انسانی روح کی جاذبیت کو ختم کر دیتا ہے.حسد ایک ایسا انسانی جذبہ ہے جو ہر انسان پر وقتاً فوقتاً تھوڑا بہت حملہ کرتا رہتا ہے.یہ جذبہ ایسا ہے کہ جس کا دل میں داخل نہ ہونا غیر ممکن بات ہے اور جب یہ دل میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر اس کا نکالنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے.بائیبل میں لکھا ہے:." حسد قبر کی طرح خطر ناک ہے.اس کے شعلے آگ کے شعلوں کی طرح ہیں اور اس کے شعلہ میں زبر دست طاقت ہے (سانگ آن سالومن ۶:۸)

Page 81

۵۹ محبت اور حسد کا قریب کا رشتہ ہے کیونکہ جہاں محبت ہوگی وہاں حسد بھی ہو گا محبت اور حسد دونوں دل میں بہ یک وقت داخل ہوتے ہیں.دو افراد کے درمیان محبت کارشتہ کیسے پیدا ہوتا ہے اس کی بظا ہر کوئی وجہ نہیں محبت بس یونہی داخل ہوگئی خد بھی بس یونہی لوگوں کے دلوں میں داخل ہو جاتا ہے اس کو آنے کی دعوت نہیں دیجاتی مومن اسے ہر گز پسند نہیں کرتا اور دعا اور ذہنی ڈسپلن کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرتا ہے اور جوں جوں اس کو کامیابی ہوتی ہے وہ آئندہ کے لئے بھی اس کے خلاف جہاد کیلئے تیاری کرتا ہے حتی کہ وہ اپنی ذات کا مالک و آقا ہو جاتا ہے.اس سلسلہ میں قرآن مجید میں مذکورہ مندرجہ ذیل دعا کتنی معنی خیز ہے : خود غرضی وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَه (۱۱۳ : ۲) دوسروں کی فلاح اور بہبود سے لا تعلقی خود غرضی کی نشانی ہے.خود غرضی سے بیگانگی پیدا ہوتی ہے اور پھر عداوت پر منتج ہوتی ہے.اسلام نے ہمسایہ کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی بہت تلقین کی ہے.لا تعلقی کا نام خود غرضی ہے اسی طرح دوسروں کے بارہ میں غیر ذمہ داری بھی خود غرضی ہے کیسی نے کیا خوب کہا ہے :- خود غرضی تمام فطری اور غیر اخلاقی اعمال کی جڑ ہے" خود غرضی دنیا کا معروف ترین گناہ ہے" (EMMONS) SOUTHERN CHURCHMAN یہ قدرتی بات ہے کہ انسان شخص کی ہر بات نہیں مان سکتا لیکن اس کو دوسروں

Page 82

کی خدمت کے لئے ہر موقع کی تلاش میں رہنا چاہیے خواہ اس سلسلہ میں خود کو کتنی ہی بے آرامی ہو.حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے دوسروں سے بہتر سلوک کرنا، مدد کرنا نیک انسان کی وسعت قلب کی علامت ہے " غصہ اخلاقی قدروں میں سے ایک قدر یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات کو ہمیشہ قابو میں رکھے اور ان پر کنٹرول کر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپ کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک پر سخت غصہ آتا ہے.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غصہ کا غیر ضروری موقع پر کنٹرول کتنا ضروری ہے کیونکہ غصہ سے دل میں فاسد خیالات پیدا ہوتے ہیں جو عداوت ہی کی طرح ہے بغصہ بھی بھڑ کی ہوئی ذہنی حالت کا نام ہے.زرتشت علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنی روح کی خوبصورتی کو غصہ اور انتقام سے مت ہلاک کرو یہ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل مقولے بھی اِس ضمن میں سوچنے کے لائق ہیں :.جذبات میں نہ جانے والا شخص ایک جنگلی گھوڑے کی طرح ہے.نجمن فرینکلن ) غصہ پر قابو پانے کی کوشش کرو کیونکہ اس سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی.(حضرت علی رض) ہر مومن اور روحانی سفر پر جادہ مسافر کے لئے غصہ دبانے کی ہدایت ہے.غصہ میں انسان وہ بات کہ جاتا ہے یا کام کر لیتا ہے جس سے وہ بعد میں پچھتاتا !

Page 83

۶۱ ہے بُرے الفاظ دل و دماغ پر انیسٹ اثرات چھوڑ جاتے ہیں.یہ اثرات انسانی رشتوں کو توڑ دیتے ہیں.غصہ سے دوست، خاوند بیویاں ، والدین اور اولاد اجنبی بن جاتے ہیں.چڑ چڑا شخص خود بھی اور دوسروں کو بھی کبیدہ خاطر کر دیتا ہے.در اصل اس کو غصہ کا بخار لاحق ہوتا ہے.نبی اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر اور سکون کی یوں تعریف کی ہے :- اللہ تعالی کو دو خشک سالیان پسند ہیں ایک جو غصہ کو پی لے اور دوسرے جو مصیبتے کو آرام اور سکون سے سر لے " شک - شک سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ اکثر اوقات شک صحیح نہیں ہوتا اس سے انسان دوسروں کو غلط سمجھتا ہے جس سے افراد کے درمیان بُرے خیالات پیدا ہوتے ہیں.شک نیکی کا دوست نہیں بلکہ اچھے تعلقات اور خوشیوں کا دشمن ہے.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :- ( يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ (۱۳:۴۹ ) انسان کو افواہوں کی اچھی طرح تحقیق کرلینی چاہیے اور دوسروں کے بارہ میں اپنے ظن کے اظہار میں بہت احتیاط برتنی چاہیئے.جنت میں کوئی عداوت نہ ہوگی.عداوت سے پاک دل خدا تعالیٰ کی ایک نعمت ہے.یہ دراصل جنت کی ہی ایک علامت ہے کیونکہ اولیاء اللہ بھی اس کے خلاف اس دنیا میں جہاد کرتے رہے ہیں لیکن جنت میں وہ اس کے مضر اثرات سے بالکل

Page 84

محفوظ ہوں گے.ارشادِ خداوندی ہے:- ان المتقين في جنتٍ وَعُيُونٍ ادْخُلُوهَا بِسَلم امنين.وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ عَل اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مَّتَقْبِلِينَه لا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ.( ۴۶:۱۵ تا ۴۹) متقی لوگ یقینا باغوں اور مشینوں والے مقام میں داخل ہوں گے.انہیں کیا جائیگا کہ تم سلامتی کے ساتھ ان میں بے خوف و خطر داخل ہو جاؤ اور ان کے سینوں میں جو کینہ وغیرہ بھی ہو گا اسے ہم نکال دیں گے.وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے او تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے نہ ان میں کوئی تھکان ہوگی اور نہ انہیں ان میں سے کبھی نکالا جائے گا.ه

Page 85

۶۳ 6 حصول تقوی اور صيام قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ٥ ۱۸۴:۲۱) خدا وند کریم نے اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو یہ صیحت کی ہے کہ وہ تقوی کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھیں کیونکہ تقوی ہی ایک مثالی کردار کی خوبی ہے.پھر مسلمانوں کو تقوی کے حصول میں ہمیشہ کوشاں رہنے کی نصیحت کی گئی ہے کیونکہ یہ خوبی خدا کی نگاہ میں سر سے اچھا ہونے کی دلیل ہے.قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتقیم (۱۲۱۴۹) اللہ کے نزدیک تم میں باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.تقویٰ کے حصول میں ہر مسلمان کو خلوص دل سے تگ و دو کرنی چاہیے.درحقیقت یہ روحانی صفت ایک مقناطیسی قوت کی مانند ہے جو اس قدر طاقتور ہے کہ اس کی چمک سے دل بدل جاتے ہیں.حضرت علی کا قول ہے کہ جو تقوی کو اپنا مطمع نظر بناتا ہے وہ پخت دل انسان کو نرم اور غیروں کو اپنا بنا لیتا ہے.روزہ کا اسلامی نظام در اصل ایک روحانی مشتق ہے جو تقی بننے میں ممد و معاون ہوتی ہے.قرآن حکیم میں مسلمانوں کو بار بار نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنے دلوں میں

Page 86

۶۴ تقوی کی روح کو پیدا کریں.چنانچہ ارشاد ربانی ہے :- ياَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.(۲۲ :۲) اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی اور انہیں بھی جو تم سے پہلے گذرے ہیں پیدا کیا تا کہ تم آفات سے بچو.یاد رکھو بہترین زادِ راہ تقوی ہے.روز سے انسان کو تقوی کی طرف لے جاتے ہیں بشر طیکہ روزہ کی حالت میں انسان کو حانی ترقی پر آمادہ رہے.چاہت ہی وہ قوت ہے جو انسان کو اس کے حصولِ مقصد کی طرف لے جاتی ہے اور پھر چاہت کے ساتھ اگر عزم بھی مل جائے تو پھر انسان کو اس کے مقصد حاصل کرنے میں ماسوائے خدا کے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی.دیکھو پہاڑ پر کوئی انسان ایک سانس میں نہیں چڑھ سکتا اور نہ ہی خدا کا ایک فرمانبردار بندہ متواتر روزے رکھنے سے یک دم روحانی پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے انسان کو یہ کالم رفتہ رفتہ منزل بہ منزل کرنا چاہیئے.ہر نفلی روزہ رکھنے سے قبل انسان کو یہ عزم کرنا چاہیے کہ وہ روزہ کے مکمل ہونے پر پہلے سے زیادہ متقی بن چکا ہو گا.ایک شخص اگر اس عملی طریق کار کو اپنائے تو روزہ کی برکات سے زیادہ مستفید ہو گا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کس طرح زیادہ متقی بن سکتا ہے ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ بعض روزے تحقیقی روزے ہوتے ہیں اور بعض صرف نام کے نہ کھانے پینے سے اس وقت تک کوئی روحانی فائدہ نہ ہو گا جب تک کہ روزہ کی حقیقی روح دل میں پیدا نہیں ہوتی.اکثر مسلمان روزہ صرف عادت سے مجبور یا روایت کے طور پر رکھتے ہیں.اگر ایسے شخص سے پوچھا جائے کہ ;

Page 87

۶۵ روزہ کیوں رکھتے ہو تو جواب دیتے ہیں خدا کا حکم ہے جبکہ وہ خدا کے دوسرے احکامات کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں مثلاً شراب پینا ، جوا کھیلنا، سودی کاروبار کرنا ، نمازند پڑھنا وغیرہ.اگر ایسے شخص میں ذرا بھی اسلامی روح کا مادہ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرے گا نہ کہ صرف روزوں پر ، ایسے شخص کی زندگی میں روزہ کوئی انقلاب نہیں لائے گا اور نہ ہی وہ متقی بن سکے گا حالانکہ متقی بنا ہی روزہ کا بنیادی مقصد ہے.رمضان المبارک روزوں کا مقدس مہینہ ہے.یہ ایسا مقدس مہینہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو روزے رکھتے ہیں اپنی برکات نازل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ایسے لوگ روزوں کے ساتھ ساتھ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور دُعا اور اعمال صالحہ سے خدا تعالیٰ کی نصرت و تائید کے طلبگار ہوتے ہیں.روزہ کے اوقات میں روزہ دار کو نہ صرف کھانے پینے سے پر ہیز لازم ہے بلکہ اس کو غصہ، غیبت اور ہر قسم کی دوسری بُری باتوں سے بھی بچنا چاہیے.انسان کو اپنی زبان کی حفاظت شیطان کے حملوں سے کرتے رہنا چاہئیے مگر رمضان المبارک کے ایام میں اس کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ وہ ایام ہیں جن میں ہر پر خلوص کوشش کا بدلہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ دیتا ہے.ہر قسم کا گناہ شیطانی ترغیبات سے اپنے آپ کو نہ بچانے کا نتیجہ ہوتا ہے.روزہ نہ سے ضبط نفس کی قوت بڑھتی ہے اور یوں انسان شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو قلعہ بند کر لیتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنا خاص انعام دینگا جو اس کے مشکور ہوں گے وَسَيَجْزِی اللہ الشکرین (۳: ۱۳۵) رمضان کا مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس میں انسان خدا کی نعمتوں کا طالب ہوتا ہے.یہ ایک سنہری موقع ہے

Page 88

F ۶۶ کہ انسان خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرے شکر سے انسان صدقہ زیادہ دیتا ہے جو کہ ایک اور اسلامی صفت ہے جس پر روزہ کے دوران زیادہ فراخ دلی سے عمل کرنا چاہئیے.روزہ سے انسان کے دل میں اپنے ان بھائیوں کے لئے زیادہ احساس پیدا ہوتا ہے جو ہم سے کم خوش نصیب ہیں یا مصیبت زدہ ہیں.اگر چہ ہر نیکی قابل تعریف ہے لیکن زیادہ قابل تعریف نیکی صہبر ہے.یہ اپنے اوپر کنٹرول پیدا کرنے کے راز کی کلید ہے اور یہی جسمانی اور روحانی میدانوں میں کامیابی کا گر ہے قرآن پاک نے اس بنیادی صفت کو اپنانے کی نصیحت فرمائی ہے کیونکہ اس صفت کے بغیر تقویمی کی عمارت صحیح طور پر تعمیر نہیں ہوسکتی.صبر وہ راہ ہے جس پر خدا کی نعمتیں ملتی ہیں.قرآن پاک میں ذکر ہے:- وَاسْتَعِينُوا بِالصبر والصلوة پھر ایک اور جگہ ارشاد ہے :.(۴۶:۲) يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ ( ۲۰۱ : ۳ ) تعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.بے صبری کی مثال جسم میں کانٹا مجھنے کی طرح ہے.بے صبری سے انسان کا توازن پڑ جاتا ہے اور اعصابی نظام میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے.بڑی بڑی نیک ہستیوں میں بھی بعض دفعہ بے صبری کا نمونہ نظر آتا ہے اور وہ بچوں کی طرح بگڑ جاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.روزہ سے انسانی جذبات پر قابو پانے اور صبر پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے.بہت سے لوگ غصہ اور بے چینی سے اپنی زندگیاں خراب کرلیتے ہیں اس کے برعکس صابر شخص کو سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی روحانی

Page 89

طاقت کے بل بوتے پر باعوت نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ متقی بن جانے سے خدا کے 6 نزدیک تر ہو جاتا ہے.روزہ کے دوران نماز اور دعا کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئیے کیونکہ دعا ہی خدا اور بندے کے درمیان براہ راست رابطہ ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ادْعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ (۴: (۶) خدا نے جب روزہ کا مقصد مشقی بننا ٹھہرا دیا ہے اور وہ دُعا کو سنتا ہے تو پھر انسان کو اعلیٰ درجہ کا شتقی بننے کے لئے خاص دعا کرنی چاہیے خدا تعالیٰ یقیناً اس کی دُعا کو سُنے گا اور انسان خوش ہوگا کہ اسے روحانی ترقی نصیب ہوئی ہے جو کہ روزہ کا مقصد ہے.روزہ سے انسان اپنے اند ربہتری کے لئے ایک تبدیلی محسوس کرے گا اور دیکھے گا کہ کس طرح روزہ اسے مشتقی بننے میں محمد ثابت ہوتا ہے.صبر ایمان کا بنیادی حصہ ہے جس کے بغیر کوئی تقویمی کی راہ پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا.روزہ انسان کی تربیت کرتا ہے کہ بھوک، پیاس اور تھکاوٹ کے باوجود روزہ آخری لمحہ تک رکھا جائے.اپنی تربیت کرنے سے صبر کا مادہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ یہ وہ طاقت ہے جو راستہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرتی ہے اور انسان طوفانوں میں بھی خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے.قرآن مجید میں آیا ہے :- وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجْهِدِينَ مِنْكُمْ والشيرِينَ وَتَلوا اخباركم.پھر ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : (۳۲ : ۴۷)

Page 90

۶۸ وَمَا يُلقها إلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَهَا إِلَّاهُ وَحَةً عظيم.صبر سے متعلق ایک اور آیت یہ ہے :- (۳۶:۴۱) وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِه (۴:۱۰۳) روزے ہمیں ایمان کے اس لازمی حصہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کا نام صبر ہے.باوجود جسمانی تکلیف کے روزہ کو آخر وقت تک رکھنا لازم ہے سوائے اس کے کہ کوئی یکلخت بیمار ہو جائے حقیقت تو یہ ہے کہ تقوی کی غذا ہی صبر ہے.حالات کے مطابق یعنی موسم یا دن کے اوقات کے مطابق بعض دفعہ روزہ رکھنا مشکل یا آسان ہوتا ہے بعض لوگ اپنی جسمانی حالت کی بناء پر روزہ بہ نسبت بر دوسروں کے زیادہ محسوس کرتے ہیں.روزہ کے دوران سختی کو مسکراتے ہوئے سونا ہی روحانی پختگی کی علامت ہے ہمیں سختی سہنے کے لئے دماغی طور پر ہر وقت تیار رہنا چاہیے کیونکہ یہ زندگی کا ایک حصہ ہے.آیت کریمہ پر غور فرمائیں :- لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدِه (٥:٩٠) کامیاب روزوں کی وجہ سے انسان جسمانی اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے.اس سے جسم ہلکا پھل کا اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے.انسان اس دنیا سے پار فرشتوں کے ساتھ اُڑتا ہوا محسوس کرتا ہے.روزہ ہمیں یہ سبق سکھلاتا ہے کہ دماغ جسم پر حاوی رہے نہ کہ جسم دماغ پر.اس کتاب میں پہلے بھی یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جیسے انسان سوچتا ہے ویسے ہی وہ ہو جاتا ہے متقی بننے کے لئے ذہن میں نیک خیالات پیدا کرنے چاہئیں.دعا ، اچھا مطالعہ

Page 91

۶۹ اور نیک گفت گو بھی متقی بننے کے لئے چند مفید گر ہیں.بری عادات روحانی ترقی کی دشمن ہیں انسان کبھی ان کا غلام نہ بنے انہیں جلدی سے جلدی ترک کرے ورنہ یہ انسان کو ترقی نہ کرنے دیں گی جیسے ایک غبارہ دھاگے کے ساتھ بندھا ہو.روزہ سے بُری عادات مثلا سگریٹ نوشی، تمباکو کھانا ،ٹیلی ویژن سستی، بد کلامی، فضول خرچی، پرخوری اور اسی طرح کی دوسری بڑی عادات ترک کرنے میں مدد ملتی ہے جے

Page 92

ง روحانی ترقی کے چھہ دشمن a انگریزی زبان کی ایک نہایت دلچسپ اور موزوں نظم کا ترجمہ پڑھیے سے یہ جیون نام ہے ایک پوتر بوجھے کا تو اس کی جانب دیکھ اسے اُٹھا اور پھر اسے برداشت بھی کر کھڑے ہو جاؤ اور اسے استقلال سے سہارو غموں کی وجہ سے بے دل نہ ہو اور گناہوں کے باعث لڑکھڑا نہ جاؤ چلو اور بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ نا منزل کو پالو زندگی کا مقصد بہت ہی عظیم ہے اور عام انسان کی پہنچ سے باہر نہیں.ایک مومن کا مقصد حیات طہارت اور تقوی کے اعلیٰ ترین مدارج ملے کرنا ہونا چاہیے.قرآن مجید میں ارشاد ہے :- اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انْقَكُمْ (۱۴ : ۴۹) قرآن ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے جن میں مسلمانوں کو تقوی اختیار کرنے کی نصیحت کی گئی ہے.ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے:.

Page 93

لبنى ادم قَدْ انْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَا مَّا تُوَارِي سَواتِكُمْ وَرِيئًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (74:<) اسے آدم کی اولا دہم نے تمہارے لئے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری چھپانے والی جگہوں کو چھپاتا ہے اور زینت کا موجب بھی ہے اور تقوی کا لباس تو سب سے زیادہ بہتر ہے.ایک اور جگہ ارشاد ہے :- فَامَّا الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ فَيُوَفِّيْهِمْ أجُورَهُمْ (۱۷۴ : ۴) پھر جو لوگ مومن تھے انہوں نے نیک اور مناسب حال عمل کئے تھے انہیں وہ ان کے پورے پورے بدلے دے گا.ہر سلمان کی یہی خواہش ہونی چاہیئے کہ وہ تقوی کا لباس اوڑھ لے کیونکہ یہی قرآن کا پیغام ہے.یہ روحانی تمغہ یا ٹرائی ایک چمک دار ہیرے کی مانند ہے جو برت بھری پہاڑ کی چوٹی پر چمکتا ہے.بہت تھوڑے ہیں جو اتنی بلندی پر جاسکیں اور اس انعام کو حاصل کر سکیں کیونکہ راستہ پھیلنے والا اور ڈھلوان ہے.تقوسی رضاید الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا نام ہے تا انسان کا ہر خیال، ہر لفظ اور ہر تصل صرف اور صرف خدا کی شان بیان کرنے کے لئے ہو.وہ نیک انسان جو تقوی کی روشنی سے بہرہ ور ہوتا ہے وہ دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے اس کے چہرہ پر کسی اور دنیا کے دریچوں سے روشنی چمکتی ہے اور اس کا کر دار روحانی شوکت اور کشش سے رنگین ہوتا ہے.اس کے گرد

Page 94

فضاء نہایت میٹھی اور موسم گرما کی کسی سہانی شام کی مکتی ہوا سے زیادہ تازہ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ تمام انسانوں پر اپنا فضل نازل کرنا چاہتا ہے نیز وہ اپنی تجلیات ہمارے ہی ذریعہ دیکھا نا پسند کرتا ہے لہذا خدا کے ایک عاجز بندے کو اس کیلئے کوشش کرنا اور اپنے آپ کو اہل ثابت کرنا لازم ہے.اگر وہ اس آسمانی پائندہ کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر ایک شخص خدا کی طرف ہلکے قدموں سے چل کر جاتا ہے تو خدا اس کی طرف سبک خرامی سے آتا ہے اور اگر انسان مل کر جاتا ہے تو پھر خدا تعالی اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.اور بیجھی ذہن نشین رہے کہ خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.ا سلام کے مضبوط قلعہ پر شیطانی میزائل لگاتار حملہ آور ہیں بایں وجہ ہم اس جگہ چھ مہلک مینز انملوں پر تبصرہ کریں گے جن پر ہمیں قابو پانا ہے.خواہ جنگ کیسی بھی سخت ہو اس روحانی جہاد میں ہمیں خدا کا یہ وعدہ بہت سکون بخشتا ہے :- ذلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَ أَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمُ ( ۱۲ : ۴۷) کہ اللہ اُن لوگوں کا دوست ہے جو اس پر یقین رکھتے ہیں.آیت مذکور میں کین ایمان والوں کا ذکر کیا گیا ہے ؟ یہ وہ ایمان والے ہیں جو اس کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اور منصب والوں کی اطاعت کرتے ہیں اور خدا کے حضور عاجزی اختیار کرتے ہیں اور اپنے دلوں سے خود غرضی اور فخر نکال دیتے ہیں ان کے دلوں میں یہ خواہش آگ کی طرح جلتی ہے کہ وہ ہر برائی سے پاک ہو جائیں اور اگر وہ غلطی سے یا نادانستہ طور پر کوئی نا پسندیدہ فعل کرلیتے ہیں تو ان کی روح

Page 95

اس کئے پر نادم ہوتی ہے.ہر زمانہ نے ایسے عظیم انسان پیدا کئے ہیں جو کامیابی کی چوٹی پر صرف اور صرف صبر و استقلال کے ذریعہ پہنچے.ان عظیم رہنماؤں میں سے بعض تو بہت ہی کم تعلیم یافتہ تھے اور ان کا بچپن انتہائی غربت میں گذرا لیکن اس کے با وجود بعض قوم کے رہنما بنے یا انہوں نے صنعتوں اور ایجادات میں نام پیدا کیا.ان لیڈروں میں سے کئی ایک کروڑ پتی بن کر مرنے.انہوں نے اپنی اندرونی صلاحیتوں کو زبر دست طریق سے ابھارا اور اپنے میدان میں اول درجہ کے انسان بنے.ان کا مطمح نظر اگرچہ صرت اِس دُنیا تک محدود تھا اور اگر وہ اپنی توجہ روحانی امور کی طرف مبذول کرتے اور تمام قوت اپنی روح کی پرورش اور تزکیہ پر لگاتے تو عظیم الشان روحانی کا میک ابی حاصل کر سکتے تھے.ایسے لوگ عظیم روحانی لیڈر بن سکتے تھے.اسلام انسان کو بیشمار روحانی مواقع فراہم کرتا ہے وہ شخص کیسا بیوقوف اور کوتاہ بین ہے جو ان سے فائدہ نہیں اُٹھاتا اور اس دنیا کی آسائشوں کو ترجیح دیتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے :- قد أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى هُ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى هُ بَلْ تُؤْثِرُونَ الحيوةَ الدُّنْيَاةٌ وَالْأَخِرَةُ خَيْر و ابقى (۸۷ : ۱۵ تا ۱۸) جو پاک بنے گا وہ یقینا کامیاب ہوگا بشرطیکہ پاک بننے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھتا رہا مگر اسے مخالفو تم لوگ تو ورلی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے.ہرمسلمان کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ مضبوط سے مضبوط تر

Page 96

۷۴ ہوتا چلا جائے نہ کہ مضبوطی سے کمزوری کی طرف جائے جو کہ بدقسمتی سے اکثر ہو جاتا ہے نوجوان مسلمان اور نو مسلمان بعض ایک نئے دین کے ساتھ بہت خوشی سے تعلق پیدا کرتے ہیں لیکن جوں جوں وقت گذرتا جاتا ہے وہ کمزور ہوتے جاتے ہیں.ایک مومن کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ وہ اپنی جگہ پر قائم رہے اور اپنی زندگی میں تواتر کے ساتھ اپنے ایمان میں ترقی کرتا چلا جائے ایسا مسلمان کبھی ایک جگہ نہ ٹھرے بلکہ ہمیشہ نئے افق کی تلاش میں رہے بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ترقی پذیر نہیں ہے ممکن ہے یہ حقیقت میں درست نہ ہو ہاں بعض اوقات اسے ہوشیار رہنا پڑتا ہے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا پڑتا ہے.ڈیل کارنیگی جس نے ذاتی پرورش پر کٹی ایک " کتابیں تحریر کیں وہ کہتا ہے کہ بعض اوقات انسان پر حقیقت جھٹکوں کی طرح ظاہر ہوتی ہے نہ کہ رفتہ رفتہ بعض دفعہ انسان کو کسی بات کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ فورا روحانی ترقی کے بلند مدارج سے آگاہ ہو جاتا ہے یہ بات روحانی ترقی کے ضمن میں بھی صحیح ہے.روحانی مسافر کو شیطانی جراثیم لگا تار تنگ کرتے رہتے ہیں مندرجہ ذیل چھ منفی اثرات عموما مهلک ترین روحانی سرطان ثابت ہوتے ہیں :.ا پیڑ پر این ۲ کاہلی کبر ۴- حسد ۵ خون 4 - اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنوں سے پیار - چڑ چڑا پن بنجمن فرینکلن کا قول ہے کہ " جذبات میں بہ جانے والا انسان پاگل گھوڑے

Page 97

پر سوار ہے " نوع انسان کی ایک مہلک ترین مرض چیڑ پھڑ پن ہے ہاں وہ جن کو روح القدس نے بیماریوں سے صاف کیا ہے وہ اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں جو اس دنیا میں بہت تھوڑے ہیں.ایک مثالی گھر سلامتی کا مرقع ہوتا ہے جبکہ ایک فسادی گھر اس دنیا میں ہی جنم کا آئینہ دار ہوتا ہے.جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ امن سے نہیں رہ سکتا وہ بیمار ہے لہذا ایسے شخص کو عہد کرنا چاہیئے کہ وہ اپنی زبان کو لگام دے گا اور یوں دوسرے انسانوں کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوتے چلے جائیں گے.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے فرمایا ہے کہ اکثر لوگ دیکھنے میں بظاہر اچھے نظر آتے ہیں لیکن اندر سے خونخوار بھیڑیوں کی طرح ہوتے ہیں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو روحانی طور پر عالم اور فاضل سمجھے جاتے ہیں اور خصوصا جب وہ اپنے مداحوں میں گھرے ہوتے ہیں لیکن جب ان کو غصہ آتا ہے تو لال بھبو کے ہو جاتے ہیں اور سخت و گندے الفاظ ان کے منہ سے نکلتے ہیں جس سے وہ لوگ بھی پریشان ہو جاتے ہیں جن کی نظر میں وہ معزز ہوتے ہیں.اگر چہ بعض مواقع پر غصہ جائز ہے لیکن اس پر کنٹرول رکھنا بہت لازم ہے.جس طرح سوار اپنے گھوڑے کی رہنمائی کرتا ہے اور اس پر کنٹرول رکھتا ہے اسی طرح انسان کو اپنے غصہ پر قابو رکھنا چاہئیے اور حسب ضرورت ہو اسے فوراً روک سے بقصہ کی صورت میں ایک گر تھامس جیفرسن نے بیان کیا ہے کہ ” جب غصہ میں ہو تو بات کرنے سے پہلے دین تک گنوایا

Page 98

64 غصہ ، ناراضگی اور تمام ایسے منفی موڈ انسانی توانائی کو بہت تیز رفتاری سے ضائع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ انسان جسمانی اور رباعی طور پر جیف ہو جاتا ہے یا بعض دفعہ اعصابی کمزوری میں مبتلا ہو جاتا ہے.یا د رہے کہ وہ کام جو آرام سے نہ کیا جائے یا وہ خیال جو سکون نہ دے وہ بھی انسانی توانائی کو ضائع کرتا ہے اور بعض دفعہ ذہنی توازن کو بگاڑ دیتا ہے اور یہ روحانی ترقی اور پرواز میں ہرگز محمد نہیں.وقتی جوش ایک کمزوری ہے اور سکون توانائی.ان دو طاقتوں کا آپس میں ملنا ہی رُوحانی سکون کا موجب ہوتا ہے.سکون سے انسانی مقناطیسیت پیدا ہوتی ہے جو دوسری تک پہنچتی ہے.اس کے برعکس پڑ چڑا پن سے جسم کی توانائی خارج ہوتی ہے جس کا بہتر استعمال کیسی اور جگہ ہو سکتا تھا کسی شخص کے بڑے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں پرسکون رہے جبکہ وہ بُرے موڈ میں ہو.چھ چھڑا این دماغ ، دل اور روح کا سرطان ہے اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ اپنے شکار کو روحانی طور پر نیست و نابود کر دے گا.بد مزاج جورو اور جھگڑالو خاوند مل کر بھوتوں کی جوڑی بن جاتے ہیں.کہتے ہیں کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ احساس ہوتی ہیں لیکن بعض اوقات اس کے برعکس ہوتا ہے بے چاری بیوی بیٹھی خاموش روتی رہتی ہے اور غصیلا خاوند اپنی دو دھاری زبان سے اس کو سولی پر چڑھائے رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ یہ بات نہایت ہی قابلِ شرم ہے کہ ہم مرد ہوتے ہوئے عورتوں سے جھگڑا کریں.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب حلیمی و صبر کا حسین مرقع تھے.آپ کی گھریلو زندگی جنت معلوم ہوتی ہے.آپ کے گھر میں شانتی اور ضلع کا راج تھا.

Page 99

بچوں کی شرارتوں اور اودھم کے باوجود آپ کے منہ پر کبھی سخت کلمہ نہ آیا.آپ جب کبھی اہم تصنیف میں مصروف ہوتے تو آپ نے بچوں کو کبھی نہ ڈانٹا.ایک دفعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے آپ سے دریافت فرمایا کہ آپ اتنے شوروگل میں کیسے سوچتے اور کام کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا " میرے گردوپیش جو ہو رہا ہوتا ہے میں اس کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا اس لئے کی مخل نہیں ہوتا " حضرت مولوی صاحب نے یہ بات بھی حضور رہی کے متعلق بیان کی ہے " میرے حضور کے ساتھ اتنے پرانے اور قریبی تعلقات کے دوران میں نے آپ کو کسی کے ساتھ خفا ہوتے یا باز پرس کرتے نہیں دیکھا " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی جنتی روشنی سے پُر نور تھی اور یہی روشنی اُن لوگوں کے چہرہ کو روشنی دے گی جو آپ جیسا بننا پسند کریں گے لیکن یہ روشنی مدھم رہے گی جب تک چوڑ چپڑ ائین ان کی ساری زندگی پر حاوی رہے گا طمانیت کے ہر خواہشمند راہرو کو اس سے آگاہ رہنا چاہیے اور اس پر قابو پانا چاہیے.جد و جہد نخواہ کتنی بھی سخت ہو اس کا انعام انمول ہے.بدکار، بدطینت ، شرابی انسان بھی خدا کے نیک بندے بن گئے.زندگی بھر سگریٹ نوشی کرنے والوں نے تمباکو نوشی چھوڑ دی.جاہل اولیاء اللہ بن گئے لہذا چڑ چڑے پن کے لئے گذر تلاش کرنے کی کوئی وجہ نہیں اس پر قابو پایا جاسکتا ہے بشرطیکہ انسان خلوص دل سے کوشش کرے اور خدا تعالے کی طرف رجوع کرہے جہاں ملزم ہوگا وہاں اُمید کار استہ نکل ہی آئے گا.تمام کام عقل کے دائرہ کے اندر ممکن ہیں.مثبت سوچ انقلابی قوت ہے جو دعا کے ساتھ مل کر زبردست طاقت بن جاتی ہے.ایک روحانی راہرو کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ چڑ چڑے پن سے بچے اور اس پر

Page 100

قابو پائے کیونکہ یہی صلت تقدس اور نیکی کی روح کے خلاف ہے.ایک بیماری کے علاج کے لئے اچھا ڈاکٹر اس کی وجہ جاننا چاہتا ہے اور پھر اس وجہ کا علاج کرتا ہے مومن کو بھی اِس بات کی تلقین کی جاتی ہے.چڑچڑے پن کی بہت سی وجوہات ہیں اور اس میں سے ایک وجہ کھانے پینے کا طریق ہے.بعض ایسے ہیں جو تھوڑی تھوک لگنے پر بہت زیادہ کھاتے اور اپنے اعصاب پر بوجھ ڈالتے ہیں.اکثر ایسی غذا کھاتے ہیں جو جسم کے لئے مہلک ہوتی ہے پھر وہ اپنے اعصاب کو آرام پہنچانے کے واسطے اعصابی گولیوں کیلئے مرے جاتے ہیں اور جب ایسی گولیاں نہیں ملتیں تو پھر چڑ چڑا پن آدباتا ہے.چائے اور کافی نوشی تو قومی عادت بن چکی ہے.اگر چہ دونوں میں کوئی غذائیت نہیں پھر بھی عورتیں گھر میٹھی ان گنت چائے کی پیالیاں پی جاتی ہیں اور پھر حیران ہوتی ہیں کہ ان کے اعصاب کیوں کمزور ہیں.اس کے علاوہ تمباکو ہے جو بالکل زہر ہے اس کا جسم اور اعصاب پر بہت معمر اثر ہوتا ہے حتی کہ روح بھی اس کے مملک دھوئیں سے بچ نہیں سکتی.سگریٹ پینے والے اور تمبا کو چبانے والے دونوں کمزو و اعصاب سے زندگی گزارتے ہیں اور پھر مستقل چڑ چڑے پن کے مریض ہو جاتے ہیں.اپنی زندگی کا خود مالک و آقا ہونا ر جانی ترقی کی کلید ہے اور یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ جو اپنے اوپر فتح پالیتا ہے وہ اُس شخص سے بہت زیادہ عظیم ہے جو ایک شہر پر فتح حاصل کر لیتا ہے.جب انسان چڑ چڑا ہوتا ہے تو بعض اوقات ایسی بات موقع کی نزاکت کو نہ سمجھتے ہوئے کر ڈالتا ہے جو بعد میں پشیمانی کا باعث بن جاتی ہے.یاد رکھو غیر محتاط الفاظ اور بُرے افعال واپس نہیں جاسکتے سخت الفاظ دوسروں کے دلوں پر کبھی نمٹنے والے اثرات چھوڑ جاتے ہیں.بے احتیاطی سے کہی ہوئی بات اچھے سے اچھے دوست ، خاوند

Page 101

49 بیوی، والدین اور بچوں کو اجنبی بنا دیتی ہے.وہ دھاگہ جو انسانی رشتہ کو آپس میں باندھے ہوئے ہے وہ نہایت نازک ہے یہ دھاگہ بہت جلد استعمال ہو کر ٹوٹ جاتا ہے میرے ذہن میں اس میاں بیوی کا قصہ آتا ہے جنہوں نے اپنی پچاس سالہ شادی کی رسم منائی اور پھر ایک ہفتہ بعد طلاق کے لئے مقدمہ داخل کر دیا.چڑ چڑا شخص اس دنیا میں ہی جہنم کی آگ میں زندگی گزارتا ہے اور جو اولیاء اللہ کے ساتھ چلنا چاہتا ہے اسے اپنے جذبات پر قابو پانا ہوگا اور چڑ چڑا پن یقینا ان میں سے ایک ہے.شمتی اور کاہلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ک اللهُم أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَهل يعني اسے اللہ میں تجھ سے سستی سے پناہ مانگتا ہوں حقیقت یہ ہے کوشستی ہر کام میں ترقی کو روکتی ہے اور روحانی امور میں بھی یہ بات مستثنی نہیں.نیند اور آرام صحت اور مستعدی کے لئے لازم ہیں.آٹھ گھنٹے روزانہ کی ٹینسر بہت مناسب ہے مگر بعض ایک اِس سے بھی کم سوتے ہیں.دنیا کے کئی ایک ذہین و فطین انسان آدھی آدھی رات تک کام میں مشغول رہتے ہیں.نپولین کا قول ہے کہ جو میں گھنٹے میں سے میں گھنٹے صحیح کام کرنا اشد ضروری ہے.اس نے لیبی زندگی پائی اور اپنی زندگی میں کئی ایک زبر دست کارنامے بے آرامی اُٹھا کے سر انجام دیئے.مندرجہ ذیل واقعہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے : ایک فوجی افسر آدھی رات گذرنے کے چند گھنٹے بعد کوئی خبر دینے نپولین کے کمرہ

Page 102

میں گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نپولین وردی میں ملبوس نقشوں، کتابوں اور چارٹ سمیت بیٹھا ہوا ہے.افسر نے پوچھا " کیا آپ ابھی تک سوئے نہیں ؟.سونا ، نپولین نے “.“ جواب دیا " میں سو کے اٹھ بھی چکا ہوں جناب یا افسر نے حیرانگی سے پھر دریافت کیا کیا کہا آپ نے سو کے اُٹھ بھی گئے " نپولین نے جواب دیا " ہاں دوست اتنی جلدی اُٹھ گیا.دو یا تین گھنٹہ کی نیند ہر کسی کے لئے کافی ہے؟" روحانی دنیا میں بھی بعینہ انبیاء اور اولیاء اللہ اپنی راتیں اللہ جل شانہ کی عبادت میں گزارتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا " کس نے ہمارے دوستوں سے یہ کہا ہے کہ زندگی کیسی ہے موت کا کوئی موسم نہیں یہ کسی بھی وقت آسکتی ہے لہذا ہمیں اپنے وقت کی قیمت جاننی چاہیے یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا صرف قصے اور کہانیاں باقی رہ جائیں گی یہ حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اتنا وقت بیت الخلاء میں ضائع ہو جاتا ہے کاش کہ یہ وقت بھی خدمت اسلام میں صرف ہوتا.آپ نے شستی کی مذقت سخت الفاظ میں کی اور فرمایا :- ہر ایک جو تم میں سے مدت ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا؟ (کشتی نوح) سستی ہی ایک وجہ ہے کہ مسلمان پانچ وقتہ نماز کی ادائیگی میں نشستی دکھاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کی روحانی ترقی رک جاتی ہے محض نماز کا ادا کرنا ہی کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ وہ توجہ اور شوق سے نہ ادا کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 103

کا ارشاد ہے کہ پانچ وقتہ نماز اس قدر توجہ اور خوف سے ادا کرو کہ گویا تم خدا کو اپنی جسمانی آنکھوں سے اپنے بالکل سامنے دیکھ رہے ہو.ایک مومن چھٹی ہوئی نماز کا اسی طرح سوچے گا جس طرح ایک بھو کا انسان جھٹے ہوئے کھانے کا سوچتا ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ وہ احمدی جس نے دس برس میں ارادہ ایک نماز بھی چھوڑی و مخلص احمدی نہیں کہلا سکتا.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے فرمایا کہ سورج کے طلوع ہونے سے قبل اٹھنا، وضو کرنا اور نماز ادا کرنے میں ذرا سی کوشش درکار ہے مگر ضبط نفس کے بغیر ترقی ممکن نہیں.حقیقت روحانی زندگی پر اتنی ہی لاگو ہوتی ہے جتنی مادی زندگی یا معاشی زندگی میں ترقی کے لئے ضروری ہے.ایک مسلمان کو زندگی کے ہر لحہ سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیئے اور سستی سے پر ہیز کرنا چاہیئے.اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے اسے دماغ اور جسم کو ہر وقت چوکس رکھنا چاہیے.ہر قسم کے بُرے اعمال کو ترک کرو.انسان کے اُٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے اس کے کیر دار کی نمایاں باتیں معلوم ہو جاتی ہیں.آرام کرسی پر بیٹھنا ، سہارا لے کر کھڑے ہونا ،سڑکوں پر آوارہ گھومنا یہ سب بُری عادتیں ہیں جن سے شستی کا اظہار ہوتا ہے.انسان کے ذہن اور اس کے اعضاء کا آپس میں گہرا تعلق ہے جیب اعضاء مست ہوتے ہیں تو ذہن بھی سست ہو جاتا ہے اور جب ذہن سست ہو تو اعضاء سست ہو جاتے ہیں.انسانی زندگی کائنات کی عمر کے مقابلہ میں بہت کم ہے اور پھر اس کا تیسرا حصہ تو سونے میں گذر جاتا ہے لہذا عمل کا وقت بہت تھوڑا ہے.کہا گیا ہے کہ شستی زندہ آدمی

Page 104

کا بنا ہوا مجسمہ ہے.ایک مستعد روحانی مسافر اس بات کو خوب جانتا ہے کہ شبستی اس کی روحانی ترقی کے راستہ میں ایک رکاوٹ ہے.اس کا اظہار ایک انگریزی نظم میں کچھ یوں ہوا ہے ہے چاند کے تھے وہ سویا شورج کی دھوپ میں وہ لیٹا اس کی زندگی التوا میں گذرگئی وہ مر بھی گیا لیکن زندگی ہے کاج گذر گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے مجھ پر یہ بات نازل کی ہے کہ علیمی دکھاؤ تا کوئی ایک دوسرے سے بڑا نہ ہو اور نہ ہی کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنے میں فخر سمجھے.فخر کئی ایک نامور علماء کے زوال کا باعث بن چکا ہے.یہ چھکے چھپکے رفتہ رفتہ ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے سرطان جسم کو.وقت نے ایمان کے ایک ایک ستون کو گرتے دیکھا حتی کہ خدا کا اندرونی گھر بھی مٹی کا ڈھیر بن گیا.بے شک نیا گھر میرا نے گھر کے ملبے پر بتایا جا سکتا ہے لیکن یہ خلوص دل کے بغیر ممکن نہیں.اللہ کی کتاب گمراہ لوگوں کو امید کی کرن یوں دکھاتی ہے : إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَ أَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَاخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلهِ فَا وَلَبِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ (۲ : ۱۳۷) ۴ )

Page 105

AM ذاتی وقار اور عزت کو فخر نہ جانو کیونکہ اول الذکر تو نیکی ہے جبکہ مؤخر الذکر ایک 7 گناہ ہے.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے کہ فخر شرک کی ہی ایک صورت ہے آپ نے فرمایا کہ یہ نہایت قابل معقت چیز ہے اور نصیحت کی کہ کوشش کرو کہ دل میں اس کا ذرہ بھر باقی نہ رہے.منصب والوں کی اطاعت نہ کرنا فخر کی ایک عام صورت ہے اس کی وجہ سے کئی ایک علماء اسلام کو زوال کا سامنا کرنا پڑا.اسلام نے حاکم وقت کی اطاعت لازمت دار دی ہے ہاں سوائے اس کے کہ وہ اسلام کے خلاف کسی بات کا حکم دے.دینی معاملات میں کون امام مقرر ہو یہ جاننا ضروری نہیں ہاں اس کی اطاعت فرض ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شنوا اور اطاعت کرو خواہ تم پر ایسا شخص مقرر کیا جائے جس کا سر کشمش کے دانے کے برابر ہی ہو.(بخاری) بعض دفعہ مشہور مقررین کے دلوں میں بھی فخر داخل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں بر خلاف اس کے کہ دل پر بھی اثر ہو حضرت مسیح موعود نے اس بارہ میں ایک مرتبہ جلسہ سالانہ قادیان میں فرمایا کہ بعض مقررین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ زور سے اور تیزی سے بولیں گے تو سننے والے پر اس کا اچھا اثر ہو گا جبکہ حقیقت پر ہے کہ کوئی بھی ذہین شخص اس بات سے دھوکا نہیں کھائے گا کیونکہ ان کی آواز اندرونی کشش سے خالی ہے.اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ اونچی آواز بعض اوقات ضروری بھی ہوتی ہے خصوصاً جبکہ مائیکر و فون کے بغیر تقریر کی جائے.ہر حال جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کیس لہجہ میں بات کسی گئی وہ لمحہ جو دل کے سازوں کو اپنے خلوص سے ہلا دے.

Page 106

حدیث نبوی ہے کہ " اے لوگو اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو یا مبتلا حسد بن بلائے دل میں داخل ہو جاتا ہے اور دنیا میں کون ہے جو اس میں نہ ہوا ہو ؟ یہ ایک شخص پر اُس وقت حملہ کرتا ہے جبکہ اس کا کوئی ذرہ بھر گمان بھی نہیں ہوتا.اچھے سے اچھے لوگ بھی اس کے خطرناک بخار سے نہیں بچ سکتے.یہ دماغ کو آگ لگا دیتا ہے اور سکون کا ستیا ناس کر دیتا ہے.انجیل مقدس میں ذکر ہے کہ حسد قبر کی طرح خطرناک ہے اس کا ایندھن آگ کا ایندھن ہے جس کا شعلہ نہایت ہولناک ہے.ایک انگریز شاعر نے اس وباء کے نتائج کو اس طرح بیان کیا ہے سے اسے جہنم کے سب سے ہولناک دیو تیرا ملک زہر میرے اعضاء رئیسہ پر حملہ کرتا ہے اور میرے رخساروں کا حسین رنگ دھندلا جاتا ہے اور میری روح کا ستیا ناس کر دیتا ہے حسد بھائی چارہ کوختم کر دیتا ہے جو کہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" ایک دوسرے سے حسد نہ کر و باہمی تعلق ختم نہ کرو بلکہ سب بھائیوں کی طرح اللہ کے خادم نبو یہ حسد نے مردوں اور عورتوں کو قابل نفرت افعال اور قتل کرنے پر بھی مجبور کیا ہے.حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اس قدر حاسد تھے کہ وہ اپنے ہی چھوٹے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے.اس کا ذکر اللہ تعالئے

Page 107

۸۵ کی کتاب یعنی قرآن مجید کے بارہویں سیپارہ میں آیا ہے.اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ جہاں محبت ہوگی وہاں حسد بھی ہوگا.یہ متضاد ہے مگر ہے درست محجبت بہت مسئلہ سے سمجھتی اور حسد ان مسائل میں سے ایک ہے.گھاس میں چھپے ہوئے سانپ کی طرح محمد بھی اپنا زہر ملا سر زندگی کے معاملات میں اٹھاتا ہے جس طرح انسان میں جنسی خواہش جسم میں قدرتی طور پر ابھرتی ہے حسد بھی ہماری فطرت کا ایک جزو ہے ماسوائے انبیاء کے دُنیا میں شخص پر یہ شیطانی قوت حملہ کرتی ہے.سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے ؟ تو یا درہے کہ ہمیں ہر وقت خدا کی پناہ نماز کے ذریعہ مانگنی چاہیے اور ان احباب کے لئے دعا کرنی چاہیے جن کے بارہ میں ہم میں حسد کے خیالات پیدا ہوں.قرآن مجید تمام روحانی بیماریوں کا علاج ہے جندا سے دُعا اور یقین محکم سے ہمارے دل سے حسد کے بادل رفع ہو جائیں گے اور ذہن کا یہ بخار چاہے کم ہو یا زیادہ ختم ہو جائے گا.بانی جماعت احمدیہ حضرت احمد علیہ السلام کو خدا نے پرسکون دماغ عطا کیا تھا چنانچہ آپ نے فرمایا "ئیں نے اپنے دماغی رجحان میں غصه و ناراضگی کے احساسات کو ختم کر دیا ہے.قابل رشک بات تو یہ ہے کہ دوسروں کے بارہ میں کبھی ہتک آمیز طریق سے بات نہ کرو اگر کسی میں کوئی خامی ہے تو اس کے بارہ میں اس سے خاموشی سے ذکر کرنا مناسب ہے بجائے اس کے کہ تلخ کلامی کی جائے اور اس دُعا کا ہمیشہ ورد کرتے رہنا چاہیئے وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَه (۶:۱۱۳) خون رسول مقبول حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی تئیس سالہ زندگی میں

Page 108

AY اسلام کی اشاعت اور غلبہ کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی بے مثال حجرات کا اظہار تھا نہ کہ حکومت کی خواہش اور مال غنیمت جیسا کہ بعض جاہل نقادوں نے کہا ہے کوئی بھی صحیح العقل انسان اس بات کو تسلیم نہ کرے گا کہ تین سو تیرہ نہتے مسلمان مکہ کی فوج سے بدر کے میدان نہ جنگ میں اس لئے صف آرا ہوئے کہ مالِ غنیمت حاصل کر سکیں حقیقت یہ ہے کہ خدا کے وہ خاکسار اور عاجز بندے اس بات سے بکلی آگاہ تھے کہ اگر وہ خاک میں مل گئے تو مذہب اسلام دنیا سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا.اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار وہ صحابہ کرام اس لئے لڑے کہ جیت جائیں اور انہوں نے اللہ کے خاص فضل اور تائید سے دہریت پر عظیم الشان فتح حاصل کی.آج مسلمانوں کے کندھوں پر اسلام کی اسی شوکت کو دوبارہ لانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے اور یہ روحانی صلیبی جنگ خدا کے ارادہ سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی جماعت احمدیہ نے شروع کی.اِس کام کے لئے جُرأت درکار ہے تا مخالفت ، تکالیف اور گوناگوں مشکلات کا کامیابی سے مقابلہ کیا جائے.ایک احمدی کو تنہا تیار رہنا چاہیئے وہ جو اپنے مفاد کے لئے اسلامی تعلیمات کو بدلنا چاہتے ہیں ان سے کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی.بد قسمتی سے بعض اچھے احمدی دوستوں پر ماحول کا برا اثر ہو گیا ہے اور وہ دوسرے ایسے مسلمان بھائیوں کے اثر سے نہیں بچ سکے جو اسلامی تعلیم کی صحیح روح کو نہیں سمجھتے.دلی خواہش تو ضرور ہوتی ہے مگر اس خواہش کے آگے جھک جانے سے ایمان کی روشنی ان کے چہروں سے نہیں چمکتی.انسان چونکہ اپنی حفاظت کے لئے خوف زدہ رہتا ہے اس لئے وہ دولت کی خواہش کرتا ہے اور بجائے آخرت کے دنیا کا مال و دولت حاصل کرنے کے لئے زیادہ بیتاب

Page 109

16 رہتا ہے.ایک احمدی کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی آمد کا پڑا حصہ چندہ دے بعض اس سے زیادہ دیتے ہیں لیکن بعض ایسے ہیں جو اس سے کم دیتے ہیں اور بعض تو بالکل ہی نہیں دیتے ایسا لگتا ہے جیسے وہ خدا کے خوف کی بجائے اس دنیا کے خوف سے دہشت زدہ ہو گئے میں.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.پھر ایک اور ارشاد ہے :- (191:7) وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا انَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (۱۹۵:۲) دولت، جائیداد ، دوستوں، اپنے عزیزوں ، عورت ، شہرت ، آسائش ، دنیوی مجاہت صیحت کا کھو جانا چند ایک بنیا دی خوف ہیں جو انسان کو پریشان کرتے ہیں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتے ہیں.مندرجہ ذیل مقولہ امریکی صدر روز ویلیٹ سے منسوب کیا جاتا ہے :.و سب سے اوّل جس چیز سے ہمیں ڈرنا چاہیئے وہ خوف ہی تو ہے " سزا کا خوف اور اس بات کا خوف کہ دوسرے کیا کہیں گے صرف ذہنی حالتیں ہیں جو مومن کو جادۂ صداقت سے ہٹا دیتے ہیں.خوف کے آگے مجھک نہ جانا اور زندگی کے طوفانوں اور آسائشوں کا جرات سے مقابلہ کے لئے ہمیشہ دعا کرنی چاہیئے.اپنے عزیزوں سے پیار قرآن مجید میں ارشاد ہے :-

Page 110

AA قل إن كانَ ابَاؤُكُمْ وَاَبْنَاؤُكُمْ وَإخْوَانُكُمْ وَاَزْوَ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةً تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا، وَ مَكنُ تَرْضَوْنَهَا احَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللهِ.(TM:4) انسانی رشتے اس قدر مضبوط ہیں کہ ایک مخلص رشتہ دار، دوست یا خادم اپنے عزیز کے لئے جان کی بازی لگا دینے سے گریز نہیں کرے گا محبت ایک نیکی ہے بشرطیکہ اس کا اظہار صرف جسمانی خواہش کے لئے نہ ہو جبکہ اس کا صحیح طریق سے کنٹرول کیا جائے محبت ، اطاعت اور خدا سے وفاداری انسان کی اول محبت ہونی چاہیئے لیکن اس کی حقیقت صرف سخت امتحان اور ابتلاء کے وقت ہی گھلتی ہے کیونکہ آزمائش میں افعال اقوال سے نہیں میں کھاتے.خدا تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے :- الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَياةِ الدُّنْيَا (٢٤:١٨) بے شک انسانی رشتے بہت مضبوط ہیں لیکن قرآن کریم نے مسلمانوں کو انتباہ کیا ہے کہ وقت آئے تو انسان کو خدا کی خاطر خاندانی رشتے بھی توڑنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے.بے شک مطالبہ بہت بڑا ہے لیکن خدا کے آئیڈیل بھی بڑے ہیں اور بلندی تک پہنچنے کیلئے انسان کے لئے بلند پروازی بھی اشد ضروری ہے ؟

Page 111

ناکامی کے ذریعہ کامیابی برطانیہ کے ایک وزیر اعظم ڈینہ رائیلی نے کیا خوب کہا ہے کہ " میری تمام کامیابیوں کی بنیاد ناکامیوں پر رکھی گئی ہے یہ ترقی کی خواہش انسانی فطرت میں کم یا زیادہ پائی جاتی ہے.یہ ایک خاصہ ہے جو دوسری تمام مخلوقات سے صرف انسان ہی کا منفرد خاصہ ہے جو اسے دوسری مخلوق سے ممتاز کرتا ہے.آج کی دنیا میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ولت کا حاصل کرنا ہی وہ راستہ ہے جس پر انسان ترقی حاصل کرتا ہے.ترقی کرنے کی خواہش اگر اسلامی تعلیم کے مطابق ہو تو یہ ایک صحت مند علامت ہے.وہ مسلمان جو اپنی تمام تر توجہ دولت ہی کے حاصل کرنے میں لگا دے اور اپنے فرائض کو انجام نہ دے تو وہ راستہ غلط ہے.مسلمان کا بنیادی مقصد روحانی ترقی ہونا چاہیے.اگرچہ دنیوی معاملات میں اسلام نے ترقی کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی ہے لیکن روح کی صحیح پرورش اور تقوی کے راستہ پر ترقی کرنے پر اسلام نے زیادہ زور دیا ہے.قرآن مجیدمیں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کی نظر میں وہی لوگ معزز ہیں جو بہت متقی ہیں.یہ بات قابل افسوس ہے کہ لوگوں کی اکثریت قبر سے ماوراء نہیں دیکھیتی وہ دنیوی

Page 112

ترقی پر توجہ دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا پیارا بندہ اپنی روحانی ترقی کو نظر انداز نہیں کرتا وہ جانتا ہے کہ اس کی محبت خدا کے لئے بہت زیادہ ہونی چاہئیے.وہ اپنے اندر الہی صفات پیدا کرنے کے لئے جوش مارتا ہے.اگرچہ وہ دنیوی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کرتا لیکن روحانی ترقی کے راستہ میں تمام رکاوٹوں سے وہ اچھی طرح آگاہ اور محتاط رہتا ہے اور یہ جانتے ہوئے خدا کے فضل اور حفاظت کے لئے دُعا کرتا ہے کہ اس کی اصل حقیقت اس مادی جسم میں نہیں جبکہ اس روحانی جسم میں ہے جس پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :- وَمَا الْحَلوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِب وَلَهُوهُ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ (۳۳:۶) يقوم إنّما هذه الحلوة الدُّنْيَا مَتَاعُ وَانَ الْآخِرَةَ هِيَ ( ۴۰ : ۴۰) دار القراره روحانی ترقی کے لئے خواہش ایک مسلمان کے اندر ایسے جوش مارے جیسے ایک متلاطم سمندر میں موجیں اٹھتی ہیں.اُسے یہ سوچ کر ہمت نہیں ہارنی چاہیئے کہ اعلی ترقی صرف چند ایک انسانوں کے لئے ہی مخصوص ہے اس کو دوسروں سے آگے بڑھنے کیلئے زبر دست کوشش کرنی چاہیئے.اس کی ہر دعا اور خواہش یہ ہونی چاہیئے کہ ہر صبح اس بات پر گواہی دے کہ اس نے روز روحانی ترقی حاصل کی ہے.روحانی مقابلہ ایک صحتمند مقابلہ ہے جس کی دلیل قرآن سے ملتی ہے :- وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَتِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (۱۲۹:۲) تجارت کے میدان میں مقابلہ کی روح ہر آن نمایاں نظر آتی ہے اور وہ جو اپنے

Page 113

۹۱ مدمقابل تاجروں اور کمپنیوں کو تجارت کے میدان میں شکست دیتے ہیں وہ صنعت و تجارت کی دُنیا میں لیڈر بن جاتے ہیں بعینہ مذہب کے میدان میں خدا کی نگاہ ہیں قرب حاصل کرنا بھی ایک سودمند کوشش ہے اور اس وقت تک ہم لیڈر نہیں بن سکتے جب تک دوسروں سے آگے نہیں نکلتے اور اسوقت تک ہم نہیں جیتیں گے جب تک اسلام کی سربلندی کے لئے اپنے اندر الہی صفات نہیں پیدا کرتے.وہ مسلمان جو اپنی روحانی پرورش کی طرف توجہ نہیں دیتا اس نے اپنی زندگی کا مقصد اور مذہب اسلام کی روح کو نہیں سمجھا.جب اس کا جسم زندگی کا سانس لینا بند کر دے گا تو اس وقت یہ دنیوی مال و دولت اس کے لئے کسی سکون کا باعث نہ ہو گا بلکہ اس کی تاریک روح آبدمی زندگی کی سرحد پار کر کے یہاں سے چلی جائے گی جبکہ خدا کے محبوب بندے کی پُر سکون روج آنے والی زندگی کے بہشت میں ایک چمک دار تارے کی طرح روشن و تابندہ ہوگی.صحت ، دولت اور علم خدا کی دین ہیں جو خدا کی خاطر استعمال کئے جانے چاہئیں حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی جماعت احمدیہ نے بھی یہی کہا ہے کہ ہماری تمام قوتیں اور اعضاء اور جو کچھ بھی ہمارا ہے اسے خدا کے آگے رکھ دیں اور صرف خدا کی راہ میں صرف کریں.ایک مخلص مسلمان اپنی ذاتی ترقی کی طرف ہمیشہ تو جہ دے گا اور اعلی ترقی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنا مال ، دولت اور اپنی صلاحیتیں خدا کی راہ میں لگا دے.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خدا سے محبت اور تعلق دوسری تمام چیزوں کے تعلق سے اعلی و ارفع ہو.خدا کی رضا کے آگے تسلیم ہی اسلام کا مقصد اور اس کی روح ہے.

Page 114

۹۲ کوئین آف سکائٹس کو ۱۵۸۷ء میں کو ٹین ایلز بتھ کے حکم پر موت کے تختہ پر لٹکایا گیا.فرانس سے اس کے قریبی روابط کا یہ عالم تھا کہ جب اس پر موت وارد ہوئی تو سی لیز CALIS کا لفظ اسکے دل پر کندہ تھا اسی طرح ہر مسلمان کے دل پر تسلیم کا لفظ کندہ ہونا چاہیے.قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.شکست اور ناکامی (147:4) ناکامی اور شکست مترادف الفاظ نہیں ہیں شیکست میں جس طرح فتح کا پہلو چھپا ہوا ہے اسی طرح ناکامی صرف ایک عارضی دھچکہ کا نام ہے.ایک ترقی کرنے والے اور کامیاب اور ختم ارادہ والا شخص جس کے سامنے زندگی کا ایک خاص مقصد ہے اس کے نزدیک ناکامی کے یہی معنی ہیں اس کا مطمح نظر جلد یا بدیر ضرور حاصل ہو جائے گا.اس کو اس بات کا علم ہے کہ مثبت سوچ ہی کامیابی کی طرف لے جانے والا راستہ ہے اور وہ اس راستہ میں پیش آنے والی رکاوٹ کو مستقل رکاوٹ نہیں جانتا اور جونہی کوئی روک پیدا ہوتی ہے وہ اسے پاش پاش کر کے آگے اپنے مقصد کی طرف بڑھتا جاتا ہے.ایک کم حوصلہ شخص مایوسی میں پہلی روک پر یہی دل چھوڑ بیٹھتا ہے.رہی یہ بات کہ حالات سازگار نہیں اور وہ مشکلات میں گھرا ہوا ہے اس کا الزام صرف اپنے اوپر ہی لینا چاہیے.ایک ترقی پسند شخص ہر مسئلہ ہر رکا وٹ اور ہر مصیبت

Page 115

۹۳ کو اپنے عزم اور کردار کو پرکھنے کے لئے ایک سنہری موقع سمجھتا ہے وہ ہر مصیبت و مشکل کو آسائش میں بدل دیتا ہے اور اسے غیبی امداد سمجھتا ہے.ایک امریکن مصنف نپولین ہل لکھتا ہے کہ " یکں ان مصائب کا ممنون ہوں جو میرے راستہ میں آئیں کیونکہ انہوں نے مجھے صبر، ہمدردی ، ضبط نفس، عزم صمیم اور دوسری عادات کھلائیں جو شاید ان کے بغیر میرے لئے ممکن نہ تھا.ترقی پذیر زندگی ترقی پذیر اور کامیاب زندگی کا مدار مثبت سوچ پر ہے اور یہ بھی کہ انسان ناکامی کی وجہ سے بد دل نہ ہو جائے.کامیابی کا دارو مدار کامیاب سوچ پر ہے.دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات بعض اوقات حقیقت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس لئے ہمیں دماغ میں صرف مثبت خیالات پیدا کرنے چاہئیں اور دماغ کے دروازے کو منفی خیالات کے آنے سے پہلے ہی بند کر دینا چاہیے.یہ بات حقیقت سے بعید نہیں کہ خیالات بھی اشیاء ہیں.نوع انسانی کی موجودہ ترقی صرف دماغ کی تخلیقی قوت کی مرہون منت ہے ورنہ یہ دنیا چند تبدیلیوں کے سوا ویسی کی ویسی رہتی جیسے یہ شروع ہوئی تھی.انسانی ترقی ، ایجادات ، فصلوں کی آبپاشی اور میڈیسن کے میدان میں ترقی تمام کی تمام سوچ کے بیج سے شروع ہوئیں جن کو دماغ کی تخلیقی قوت نے حقیقی اشیاء میں ڈھال دیا.سوچ کامیابی کا سنگ بنیاد ہے.سوچ کو وہ خدا کی عطا کر د تخلیقی قوت حاصل ہے کہ اگر انسان اسے پیدا کر لے تو وہ اسے اپنے فائدہ کے لئے خواہ اس

Page 116

۹۴ دنیا میں یا آنے والی دُنیا میں استعمال کر سکتا ہے.انسان صرف اس سویح کو حقیقت میں بدل دیتا ہے جس سوچ میں دماغی طور پر وہ ڈوبا رہتا ہے اور دماغ کی تخلیقی قوت سے اپنی زندگی میں وہ ایسی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے جو نا قابل یقین اور غیر معمولی ہیں.ہر انسان ویسا ہی رہتا ہے جیسے اس کے خیالات ہوں.وہ اپنے کردار کا معمار ہے اور اپنی روح کے جہاز کا کپتان مجونہی وہ اپنے دماغ کی کیمسٹری سمجھے لیتا ہے وہ خدا کی عطا کردہ طاقتوں سے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے.فرانس کے مارشل میکموہن کی زندگی مندرجہ ذیل حسابی مساوات کا ایک زندہ ثبوت ہے." خواہش.چاہنے والی چیز میر سلسل سورع مطلوبہ نتیجہ کے برابر ہوتی ہے." مارشل میکموہن جب بچہ تھا تو اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ فرانس کا سپہ سالار بنے.اس نے اس خواہش کو اپنا مطمح حیات بنالیا اور یہ خواہش اس کے اندر اس قدر شدید تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ ایک مارشل کے لباس ہی میں دیکھتا چنانچہ وہ بالآخر فرانس کا مارشل بنا اور ملک کا صدر بھی پس جو زندگی میں ترقی کے خواہاں ہیں ان کے لئے مارشل میکموہن ایک عظیم نمونہ اور تابندہ مثال ہے.دن میں بعض دفعہ ایسے مواقع ضرور آتے ہیں کہ انسان کو فراغت حاصل ہوتی ہے ان فرصت کے سموں میں دُنیا کے عظیم آدمیوں کی سوانح عمریاں پڑھنے سے بہتر دوسری کوئی چیز نہیں.اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ناکامیوں میں سے کامیابیاں

Page 117

۹۵ کیسے حاصل کیں ؟؟ انسان جب اندرونی قوت سے آگاہ ہو جاتا ہے اور اس کو عمل میں بدلت چاہتا ہے تو پھر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ کس طرح اس فلسفہ کی قوت اس کو روحانی مقصد کے نزدیک تر کر دیتی ہے.دماغ کی تخلیقی قوت کو صرف راستہ دکھانے کی ضرورت ہے پھر یہ ایک فرمانبردار خادم کی طرح خدمت پر ہر وقت حاضر ہو گی.یہ وہی کرے گی اور وہی چیز پیدا کرے گی جس کا اس کو حکم دیا جائے گا بشرطیکہ خدا کی رضا کے خلاف نہ ہو اور خدا تعالیٰ کی بھی ہمیشہ یہی منشاء ہوتی ہے کہ ان کو راستہ سمجھائے جو اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی مدد کرے جو اپنی روح کی پاکیزگی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں یہی مقصد حیات ہونا چاہیے اور یقیناً صحیح سوچ کا علم اسکے حصول کے لئے بنیادی شرط ہے.مشکل کے بعد آسائش زندگی ایک میدان جنگ ہے جس میں ہر کامیاب مرد اور عورت فاتح بن کے منصہ شہود پر آیا ہے.یہ لوگ کامیابی کے متعلق کبھی بدظن نہ ہوئے اور اس وقت تک جنگ جاری رکھی جب تک کہ ان کو کامیابی نہ ہوئی پھر اس اندرونی تجربہ نے ان کے جسم کے انگ انگ میں ایک توانائی پیدا کر دی اور یہ بات باعث مترت ہے کہ یہ ایک آسمانی انعام ہے جس کو انہوں نے طویل جد وجہد کے بعد حاصل کیا.ایک روحانی راہرو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی جوں جوں ایک سے دوسری

Page 118

۹۶ مشکل پر قابو پاتا جاتا تو جیت کی فضاؤں میں چڑھتا چلا جاتا ہے زندگی ایک تفریح بنتی جاتی ہے اور طوفان اس کو ادھر سے اُدھر اُڑائے نہیں پھرتے.اس کا دل اس آسمانی ہوا سے تازہ اور صفی ہو جاتا ہے.اس نے ہر دروازے پر دستک دی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہ صبر اور استقلال کے پھل کھاتا ہے اور خدا کے اس وعدہ کو یاد کرتا ہے کہ یقینا مشکل کے بعد آسائش ہے.إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذلِكَ وَاصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُه (۲:۲۴) ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے : لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا اتْهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بعد عسر سراه (۸:۲۵) خدا کا فرمانبردار بندہ مشکلات کو خدا کا فضل اور عنایت سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مشکلات کو صبر اور جرات سے قبول کر کے نہ صرف وہ خدا کی رضا حاصل کرے گا بلکہ روحانی میدان میں اعلیٰ مراتب حاصل کرے گا اور یہی وہ غذا ہے جسے وہ دوسری چیزوں کے مقابلہ میں حاصل کرنا چاہتا ہے.ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی دُنیا کی سب سے اونچی ہوئی ہے جس کو فتح کرنے کے لئے بہت سے لوگوں نے کوششیں کیں وہ بار بار نا کام ہوئے اور بہت سے تو اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے لیکن مسلسل کوشش اور عزم بالآخر رنگ لایا b اور یہ چوٹی ۱۹۵۳ء میں سرایڈ منڈ ہماری نے سر کی.ایورسٹ پر چڑھائی کے لئے ڈھلوان آسان ہے مگر جوں جوں چڑھائی بڑھتی ہے رفتار کم ہوتی جاتی ہے مزید چڑھائی پر زبردست ٹھنڈ اور خطرناک طوفانی ہوائیں انسان کو بد دل کر دیتی ہیں لیکن جوں جوں چوٹی قریب تر ہوتی جاتی ہے

Page 119

96 سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے لہذا آکسیمین کا ماسک منہ پر چڑھانا پڑتا ہے چڑھائی کا ہر مرحلہ منجمد برف میں گزرتا ہے اور پھر تمام ہمت ملا کر چوٹی پر چڑھ جانا پہاڑیوں پر چڑھنے والے صبر کا عظیم نمونہ ہیں اور یہی صبر کا نمونہ ہر سلمان کے روحانی مقصد کے حصول کا طرہ امتیاز ہونا چاہیئے.ه

Page 120

۹۸ ہے :- شہار کے دریا قرآن مجید میں مومنوں سے جنت کے جن باغوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ یہ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا الْهرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اس.....وَاَنْهَرُ مِنْ عَسَلٍ مُّصَفَّى (۱۲:۴۷) مذکورہ بالا آیت کریمہ میں جنت کی ایک خوبصورت مثال پیشیں کی گئی ہے.اس آیت کا مطلب لفظ بلفظاً لینا درست نہیں کیونکہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ آنے والی دُنیا کی نعمتیں انسانی تصور سے بہت بالا ہیں.ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے :- فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(۱۸:۳۲) اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے فرمایا " جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کو اس آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کان نے سنا اور نہ ہی یہ دل پر گزریں کر انسان انہیں سوچ بھی سکے “

Page 121

44 خدا نے جنت کی بعض چیزوں کا اس دُنیا کی اچھی چیزوں سے موازنہ کیا ہے تا.انسان اس آسمانی زندگی اور اس میں اشیاء کی شوکت کا اندازہ لگا سکے جس طرح پانی انسان کو پاک اور تازہ کرتا ہے اسی طرح نیک بند سے دوسری دنیا میں روحانی تازگی اور صفائی عطا کئے جائیں گے دُودھ کا مطلب رُوحانی علم ہوتا ہے اور خواب میں اس کا پینا اچھائی کی علامت سمجھا جاتا ہے بشراب کا مطلب خدا تعالے سے محبت ہوتا ہے وہ شراب جو انسان کو بدمست نہیں کرتی اور شہد کا مطلب خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم ہوتا ہے.قرآن مجید میں بعض پھلوں کا ذکر جنت کی مناسبت سے کیا گیا ہے جسے کھجوریں انگور اور انار - یہ بات قابل غور ہے کہ جنت کے تعلق سے جن پھلوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ نہایت منفعت بخش اور غذائیت سے بھر پور ہیں.کھجور کو نہایت عمدہ غذائی پھیل کیا گیا ہے.انگور نہ صرف غذائیت سے بھر پور ہے بلکہ اس میں علاج کی بھی خاصیت ہے یہ جسم میں سرطانی اجزاء کو ختم کرنے میں بہت محمد ثابت ہوتا ہے اور دودھ کی غذائی اہمیت کا ہر ایک کو علم ہے.اس باب میں ہم شہد کے عجائبات کی تفصیل بیان کریں گئے.قرآن مجید میں شہد کی بہت تعریف کی گئی ہے اور شہد کی مکھی کا خاص طور پر ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے :- وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ لا ثُمَّ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذللا يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ فِيْهِ شِفَاءُ

Page 122

: (6.649:14) لِلنَّاسِ.قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے کہ خدا نے شہد کی مکھی پر وحی نازل کی حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ہر خلوق الہام سے مشترف ہوئی ہے.الہام کی مختلف صورتیں ہیں سب سے اعلی صورت زبانی الہام کی ہے اور جانور، کیڑے پچھلی اور ہر قسم کی مخلوق جبات سے صراط مستقیم پر چلتے ہیں جو خدائی ہدایت کا ذریعہ ہے حتی کہ انسانی بچہ بھی بلیک میل ہی کے باعث اپنی ماں کے پستان کی طرف رجوع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ یہی تمام علوم کا ماخذ و منبع ہے.وہی ذات ہے جو زندگی دینے والی اور تمام ہدایت کا سرچشمہ ہے.وجدان INTUTION الہام کی ایک دوسری صورت ہے بعض دفعہ ایک مسئلہ دماغ میں بجلی کی چمک کی طرح یا آسمان پر ٹوٹے ہوئے ستارہ کی طرح یک لخت سمجھ میں آجاتا ہے.وجدان کو ہمیشہ قبول کرو چاہے اس کے برعکس کتنی بھی وجوہات نظر آتی ہوں، یہ دوسری دنیا سے آتا ہے جبکہ عقل محض دماغ کی پیدا وار ہے.شہد قدرت کی عطا کردہ ایک نہایت عمدہ غذا ہے جس میں وٹامن، معدنیات اور شفا بخش خواص ہیں جسمانی نظام میں یہ داخل ہو کر ہمیں قوت بخشتا ہے.گرم پانی میں ایک چمچہ شہد ڈال کر پینا تھکاوٹ دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے چائے وکافی میں نقصان دہ عادت ڈالنے والی منشیات کے اجزاء پائے جاتے ہیں جو اعصاب کو وقتی طور پر توسکون دیتے ہیں لیکن چائے کافی میں کوئی غذائیت نہیں سیگریٹ نوشوں کی طرح چائے و کافی پینے والے بے چین مضمحل اور چڑ چڑے ہو جاتے ہیں جب یہ اشیاء ان کو دستیاب نہیں ہوتیں.وہ سکون حاصل کرنے کے لئے ان چیزوں کے

Page 123

عادی ہو جاتے ہیں جبکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کسی ناخوش گوار عادت کا غلام ناخوشگوار نہ بنے.اس وقت دنیا میں لکھوکھا افراد بشمول عورتوں کے کافی یا چائے پینے کے بغیر اپنی جولانی اور معمول کی زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکتے.شہد ایسی چیز ہے جو نظام جسم میں فورا گھل جاتا ہے اور جسم کے ہر خلیہ (سیل ) کو دوبارہ زندگی بخشتا ہے اور پھر طرفہ یہ کہ شہد کی عادت بھی نہیں پڑتی ہے.سگریٹ نوشی ایک ضرر رساں عادت ہے یہ اعصاب کو کمزور کرتی اور جسم کے ہر ایک خلیہ کو کمزور کرتی چلی جاتی ہے.تمبا کو ایک زہریلا مادہ ہے جو نہ صرف جسم بلکہ روج پر بھی اپنے بڑے اثرات چھوڑ جاتا ہے.جسم اور روح کی پاکیزگی ہر سلمان کا مطمح نظر ہونا چاہیے.ایک سگریٹ نوش نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ فضا کو بھی آلودہ کرتا ہے.یہ دراصل ہر اس انسان کے لئے باعث مصیبت ہے جو خدا کی دی ہوئی صاف ہوا کو عطیہ سمجھتا ہے.سگریٹ نوش کا کیا حق ہے کہ وہ اس پاک صاف ہوا کو آلودہ کرے جس میں دوسرے بھی سانس لیتے ہیں.شہد کی ایک بوثل اسی رقم سے خریدی جاسکتی ہے جس سے سگریٹ کا ایک ٹیکیٹ خریدا جاتا ہے.شہد نہ صرف ایک مفید غذا ہے بلکہ کلام الہی کے مطابق اس میں طبی خصوصیات بھی ہیں.ویسے تو اس کی میڈیکل خصوصیات بہت سی ہیں لیکن وہ شخص جو غذا کے ساتھ روزانہ شہد کھاتا ہے وہ کبھی قبض کی شکایت نہیں کرے گا.شہد میں قدرتی مٹھاس ہے جبکہ سفید چینی کو موت کا پھندہ" کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سے غذائیت کے وہ ہاؤ سے نکال لئے جاتے ہیں جو کہ ” بھوری چینی" میں پائے جاتے ہیں.سفید چینی سے قبض ہوتی ہے جبکہ براؤن شوگر سے معدہ صاف ہوتا ہے شہد بچوں

Page 124

۱۰۲ GERMS کے لئے ازحد مفید ہے اور اس سے بچوں کو اسمال کی بیماری نہیں لگتی.اگر بچے کو قبض ہو جائے تو دودھ میں شہد ملا کر دیں یہ موثر علاج ہے بعض بیچتے رات کو سوتے میں بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں رات کو شہد دینے سے یہ بیماری دُور ہو جاتی ہے.گرم پانی اور شہد اتنا ہی کھانسی کے لئے اچھا ہے جتنا کہ کھانسی کی دوائی.اس سے جوڑوں کو آرام ملتا ہے اور نیند خوب آتی ہے اس لئے یہ نیند نہ آنے کا بھی علاج ہے اور جو بچے رات کو ڈر کے مارے روتے ہیں یہ اس کا بھی علاج ہے.شہد (195) کو بھی مارتا ہے اور زخموں پر لگانا بھی اچھا ہے اس سے زخم اور جلے ہوئے جسم کے حصے جلد مندمل ہو جاتے ہیں.اندرونی طور پر جوڑوں کا درد اور سوجن بھی اس سے اچھے ہو جاتے ہیں کسی نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے کہ شہد جوڑوں پر زبر دست اثر کرتا ہے.مضمون ہذا کے ختم ہونے سے قبل مندرجہ ذیل مشاہدات قابل غور ہیں :- (1) شہد کی مکھیاں پالنے والے لوگوں کو گردوں کی تکلیف نہیں ہوتی.(ب) شہد کی مکھیاں پالنے والوں کا رنگ صاف اور نظر اچھی ہوتی ہے.(ت) جو لوگ شہد کھاتے ہیں ان کو سرطان اور اعصابی بیماری نہیں ہوتی.دنیا میں کپڑوں کی ان گنت اقسام میں قرآن حکیم نے صرف ایک شہد کی مکھی کا ذکر کیا.خدا تعالیٰ نے اس کپڑے پر اپنی خاص نظر عنایت فرمائی یہ اس لئے زبر دست مخلوق ہے اور جو رزق اِس کے پیٹ سے نکلتا ہے وہ بھی زیر دست غذا ہے.قرآن مجید بہ کی ایک سورۃ کا نام بھی استعمل یعنی شہد کی مکھی ہے.آؤ ہم اس دنیا کے شہد سے لطف اٹھائیں اور دعا کریں کہ ہم سب مسلمان آنیوالی دنیا کے شہر سے بھی متمتع ہوسکیں ہے

Page 125

11 ہماری موہوم دنیا قرآن مجید کے مندرجہ ذیل ارشاد پر غور فرمائیں وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بالأخيرة عن الصراط لتكبُونَ (۱۳۳ ۷۵) اخروی زندگی پر ایمان مذهب عَنِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے.قرآن مجید میں اس موضوع پر متعدد آیات بیان ہوئی ہیں.خوب جان لو کہ حیات بعد الموت سے انکار انسان کو صراط مستقیم سے ہٹا دیتا ہے اوپر درج شدہ آیت اس بات کا ثبوت ہے اور وہ شخص جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا وہ بے شک سیدھے راستہ سے گمراہ ہے.یہ بات از حد قابل افسوس ہے کہ اکثر لوگ آنے والی زندگی کے لئے روح کی صحیح تیاری کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں اور یہ بات تو اور بھی صد افسوس ہے کہ بہت سے لوگ آنے والی زندگی پر یقین ہی نہیں رکھتے.وہ اس ارمنی زندگی کے سوا کسی اور زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اپنے حواس خمسہ یعنی چھونے چکھنے، سونگھنے ، سننے اور دیکھنے کے ذریعہ نظر آنے والی زندگی پر ہی یقین رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے وَيُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (۴:۲ ) مومن وہ ہے جو نہ نظر آنے والی زندگی یا غیب پر یقین رکھتا ہے.یہ کوئی اندھا یقین نہیں بلکہ ایسا

Page 126

۱۰۴ یقین ہے جس کا ثبوت ذاتی تجربہ اور مذہبی کتب سے ملتا ہے.جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ کائنات اور اس کی ہر چیز مادی ہے وہ وہم میں مبتلا ہیں.ہم یہ بات ثابت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ وہ نہیں جیسے نظر آتی ہے.مادہ در اصل کچھ بھی نہیں.جب یہ عظیم حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے تو پھر حیات بعد الموت کی حقیقت سمجھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی.یہ دنیا روحانی کائنات ہے جیسا کہ آنے والی زندگی ہے فرق صرف یہ ہے کہ دونوں کی کیفیت مختلف ہے.نفس مضمون کا جائزہ ایک ہوا باز آسمان سے ساحل سمندر پرشنری لکیر دیکھتا ہے قریب آن کر پتہ چلا کہ اس نے جو کچھ دیکھا وہ در حقیقت ریت کے چھوٹے چھوٹے ذرات کا انبار ہے خوردبینی مطالعہ سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ریت کا ہر دانہ ان گنت ذروں سے بنا ہوا ہے جو اتنے چھوٹے ہیں کہ کروڑوں بلکہ اربوں دانے ملا کر وہ انبار بنا ہے کہ جسے انسانی آنکھ دیکھ سکے طبیعاتی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ایم مادہ کا سب سے چھوٹا ذرہ ہے لیکن اب ثابت ہوا ہے کہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرے موجود ہیں جن کے نام پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون ہیں.ہر چیز ایم سے بنی ہے اور محض خلاء ہے.پروٹون اور نیوٹرون کا مرکزی نقطہ نیوکلیس" کہلاتا ہے.الیکٹرون جو مختلف قسم کے ہوتے ہیں اپنے نیو کلیٹس کے گرد گھومتے ہیں جیسے شمسی نظام سورج کے گردگھومتا ہے حقیقت میں ہر ایٹم ایک چھوٹا سا

Page 127

۱۰۵ شمسی نظام ہے جو فضا میں تیر رہا ہے.ایٹم کے سائز کو ذہن میں رکھتے ہوئے الیکٹرون میں مرکزی نقطہ نیو کلیٹس سے فاصلہ کا مقابلہ ہمارے گروں کے سورج سے فاصلہ کا اندازہ کیا گیا ہے.یہ بات اچنبھا نہیں کہ ایکس ریز ، ریڈیو ویوز اور دوسری قسم کی لہریں دنیا کے سخت سے سخت ترین لو ہے اور پتھر میں سے گذر جاتی ہیں.کار کے سامان رکھنے والے حصہ میں ایک ریڈیو چلا کر اس حصہ کو بند کر دو ریڈیو اس کے باوجود بھی چلتا رہے گا.گھر کے کیسی دروازہ کی درز میں سے جس طرح سورج کی کرن گذر جاتی ہے اسی طرح اریں لوہے میں سے آسانی سے گذر جاتی ہیں.حقیقت میں ہر مادی چیز محض خلاء ہے جس میں ایک ایٹم بلکہ ہر ایٹم ایک دوسرے سے نہیں مل رہا.چونکہ ہمارے دیکھنے کی قوت بہت محدود ہے اور جو کچھ ہم دیکھنے کے قابل ہیں اور جو محسوس کرتے ہیں آپس میں بالکل مختلف ہیں.ہم ایک موتیوم دنیا میں رہ رہے ہیں تاہم مادہ ہے سہی.مادہ کیا ہے ؟ یہ کہاں سے آیا ؟ اس کا جواب ابھی انسان تلاش کر رہا ہے.مادہ توانائی ہے دنیا میں علت و معلول کے قانون کا ہر ایک کے علم ہے کوئی چیز بغیر عقلیت کے نہیں ہو سکتی اور یہ ایک حقیقت ہے مذہب اسلام کی تعلیم دیتا ہے کہ خدا تعالئے دنیا کی ہر چیز کا ماخذ اور منبع ہے.وہ بے مثال ہے کیونکہ اس کا آغاز اور انجام نہیں.وہ تمام چیزوں کا خالق ہے وَهُوَ الْخَلْقُ الْعَلِيمُ (۳۹ : ۸۲) نیز ارشاد ربانی ہے خَالِقُ الْبَارِی

Page 128

المصور (۵۹ : ۲۵ ) 1.4 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مادہ کو خدا نے یک لخت بنا یا یا کہ بیغیر مادہ قوتوں سے رفتہ رفتہ پیدا ہوا جو کہ فضا میں پہلے سے موجود تھیں.آئن سٹائن (۱۸۷۹- ۱۹۵۵ ) کو طبیعاتی حساب کے میدان میں بیسویں صدی کی سب سے بڑی شخصیت تسلیم کیا گیا ہے اس نے یہ بات ثابت کی کہ مادہ اور توانائی درحقیقت دو مختلف صورتوں میں ایک چیز کا نام ہے دونوں آپس میں اپنی ہیئت بدل سکتے ہیں.مادہ کو توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور توانائی کو مادہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے.توانائی مادہ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی موجود تھی جو کہ اس توانائی کا ثبوت ہے جس سے یہ پیدا ہوا.بعینہ خیال بھی نہ محسوس ہونے والی توانائی ہے جو کہ اِس کائنات کے بننے کے پیچھے کار فرما تھا اور جو بھی پیچیدہ نظام اس کائنات میں ہیں خیال ان کے پیچھے کار فرما تھا.انسانی اور حیوانی کائنات میں خیال کی توانائی کا اظہار دماغ کی قوت سے ہوتا ہے.سائنسدانوں نے اب ایسے آلات ایجاد کرلئے ہیں جن سے دماغ سے پیدا ہونے والی توانائی کی لہروں کا چارٹ یا گراف بنایا جا سکتا ہے سوچ کی توانائی اور دوسری قسم کی توانائی اس کائنات کے پیدا ہونے سے پہلے موجود تھی اور اس میں سے کچھ توانائی نے مادہ کی صورت اختیار کرلی.ہم نہ نظر آنے والی دنیا میں رہتے ہیں اور جب یہ حقیقت سمجھ آجاتی ہے تو پھر آخرت کی بھی نہ نظر آنے والی دنیا کی حقیقت آسانی سے آشکارا ہو جاتی ہے.اب ہمیں یہ پتہ چل گیا کہ توانائی اور مادہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.توانائی پر سفر کرتی مختلف فری کوئنسی FREQUENCY اور ویو لینتھ WAVE LENGTH

Page 129

1.4 ہے.یہ اتنی بڑی کائنات صرف توانائی کی بل میل کا ہی ایک بہت بڑا نظام ہے مختلف قسم کی توانائی مختلف فری کونسی پر سفر کرتی ہے اور اس کا اثر بھی بعینہ مختلف ہوتا ہے.آنے والی دنیا بھی مختلف ارتعاش VIBRATIONS کے زینوں کے مطابق کام کرتی ہے جس طرح یہ دنیا مختلف ارتعاش کے زمینوں پر کام کرتی ہے.جس طرح ہم اس گڑا زمین سے بڑے ہوئے ہیں اسی طرح ہمارے حواس بھی صرف اس دنیا تک ہی محدود ہیں ہم دوسری دنیا کی نوعیت اور حالت سے اِس لئے آگاہ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ دنیا ہمارے حواس کی فری کونسی سے باہر ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :- فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.0 (۱۸ : ۳۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آنے والی دنیا کی ماہیت ایسی ہے کہ جن کو کانوں نے نہ کبھی شنا اور نہ آنکھوں نے دیکھا اور دماغ انہیں اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتا.ایک ٹیلی ویژن سیدٹ جو کہ چند ایک مخصوص چینل کے لئے بنایا گیا ہو وہ دوستی چینل پر آنے والے پروگرام نہیں دکھلا سکتا اسی طرح ہما ر سے جو اس صرف اس دنیا تک محدود ہیں وہ آنے والی دنیا کو دیکھ اور سمجھ نہیں سکتے کیونکہ یہ حواس اُس آنے والی دُنیا کے لئے بنائے ہی نہیں گئے.ہم ایک مخصوص فری کو نسی کے اندر ارتعاش سے آگاہ ہیں.انسانی کان آواز کی اُن فری کو نسی کو سن سکتا ہے جن کی رفتار میں ہزار گر دش فی منٹ ہو انسانی

Page 130

کان اس رفتار سے زائد آواز کی ہر قسم کی گردشوں کو سننے کے قابل نہیں ہے.چنگا در ایک خاص قسم کی باریک آواز نکالتی ہے جسے ہم نہیں سن سکتے یہ آواز چمگادڑ کے لئے ریڈار کا کام کرتی ہے کیونکہ یہ آواز راستہ میں آنے والی ہر چیز سے ٹکرا کر واپس آتی ہے اور یوں چمگاڈ اس سے ٹکر نہیں کھاتی.گفتوں کے لئے ایک خاص خاموش بیٹی ہوتی ہے.گتے کا مالک جو سیٹی بجاتا ہے وہ خود اُسے نہیں سنتا لیکن کتے کا کان اُس کو سُن لیتا ہے اور وہ فوراً حکم کی تعمیل کرتا ہے.ہمارے اردگرد خاموش عالم میں ہر قسم کی کارروائی ہو رہی ہے ہمارے جو اس خمسہ اس کے لئے بہرے اور اندھے میں البتہ ہماری ٹھیٹی جس کو بعض اوقات ان میں سے کسی ایک کا پتہ چل جاتا ہے.روشنی بہر کی حرکت کا نام ہے.ہر رنگ مختلف رنگوں کی لہروں کا ایک سلسلہ روشنی کی سر کو قوس قزح کے سات رنگوں میں تبدیل ہے ایک پر زم PRISM SPECTRUM کر دیتا ہے ان سات رنگوں کو سپیکٹرم کہا جاتا ہے.اس سپیکٹرم میں دوسرے تمام نظر آنے والے رنگ مختلف رنگوں کو بلا کر بنائے جاسکتے ہیں تاہم بعض رنگوں کو ہماری آنکھ نہیں دیکھ سکتی کیونکہ لہروں کی مقدار ہماری آنکھ کی قوت جاذبیت سے زیادہ ہوتی ہے.ان نہ نظر آنے والی شعاعوں کا نام " الٹرا وایولیٹ ریز " ULTRA VIOLET RAYS ان کی دریافت سپیکروسکوپ SPECTRUM اور " انفراریڈ ریز INFRA RED RAYS SPECTROSCOPE ہے.سے ہوئی جو سپیکٹرم کے مطالعہ کے لئے مفید آلہ ہے.یہ دعوای سننے میں آیا ہے کہ سات

Page 131

١٠٩ رنگ جن کا علم ہمیں سپیکٹرم سے ملتا ہے وہ نہ نظر آنے والے رنگوں میں سے صرف چند ایک رنگ ہیں.ہمارے ارد گرد نہ سمجھ آنے والی دنیا او مختلف قسم کی کائنات موجود ہے مصیبت یہ ہے کہ ہم اس کو اپنے حواس کے ذریعہ سمجھ نہیں سکتے.ه

Page 132

۱۲ حيَاتِ اَبدی اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :- ارجعي إلى ربكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ : فَادْخُلِي فِي عِبَادِي : ( ۳۰۰۲۹ :۸۹) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کی اصلیت اس کے جسم میں نہیں بلکہ نہ نظر آنے والے اصل میں ہے اور اس اصل کا دل رُوح ہے.الہامی کتب میں سے سب سے زیادہ قرآن حکیم روح اور آخرت کی ماہیت پر روشنی ڈالتا ہے تاہم اس موضوع کو سمجھنے او جاننے کے بارہ میں انسان کا علم ہمیشہ محدود رہے گا.ارشاد ربانی ہے :- وَيَسْلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (۸۶:۱۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے شنا اور دماغ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا.ہم اس باب میں روح اور آخرت سے متعلق اسلامی تعلیم سے قارئین کو آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انشاء اللہ العزیز یہ بات بیان کرنے کی سعی کریں گے کہ کیونکر ہمارے جو اس دوسری دنیا کا اندازہ نہیں کر سکتے جو کہ مختلف فری کو نسی پر ارتعاش کر رہی ہے.اسلامی تعلیم کے

Page 133

علاوہ اس مضمون پر مزید معلومات مندرجہ ذیل باتوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں (1) چھٹی جس (۲) جسمانی تجربہ اور (۳) روحانی تجربہ.وجدان INTUTION یہ ایک ایسی دماغی قوت ہے جو تجزیہ اور علت کے بغیر حقیقت کو جان لیستی ہے.اس کی چک بعض دفعہ انسان کو ایک مسئلہ کا مل بانٹی ایجاد جس پر کسی نے سالہا سال دیر پا کی ہو وہ ایک محمد میں دریافت ہو جاتا ہے.یہ چمک بعض دفعہ دن میں جاگتے یا سوتے نہیں آتی ہے کیونکہ ہمارا دماغ تو چوبیس گھنٹے مصروف رہتا ہے چاہے ہمارا جسم آرام ہی کر رہا ہو.خطرہ یا بُرے وقت سے آگا ہی اکثر چھٹی حس کا نتیجہ ہوتی ہے.ایک شخص جس نے نیو یارک کے لئے ہوائی جہاز کی سیٹ ریزرو کر وار کی ہو بغیر کسی وجہ کے پیچحسوس کرے کہ وہ کسی اور دن سفر کر سے اور پھروہ جہاز کسی حادثہ کے نتیجہ میں گر کر تباہ ہو جائے یہ ہے چھٹی حس کا آنکھوں دیکھا ثبوت.موجد ، شاعر ، آرٹسٹ مصنف ، سائنسدان حضرات ان ان گنت لوگوں میں سے ہیں جو ہر زمانہ میں چھٹی جس کی کو شمالی طاقت کے عینی گواہ رہے ہیں.ایڈ کین جس نے بجلی کا بلب ایجاد کیا وہ ان موجدوں میں سے ایک ہے جس کی ایجادات صرف اور صرف چھٹی حق کی روشنی کے باعث ہوئیں.مائیکل اینجلو املی کا باشندہ تھا.وہ دنیا کا ایک عظیم ترین انسان مانا جاتا ہے اس کو خواب کی حالت میں اس کے عظیم کاموں کے حل ملے.پھر دوسرے بھی لا تعداد لوگ ایسے ہیں جن کوغیر متوقع موقعوں پر رہبری کلی یا اس سے اس وقت مستمتع

Page 134

١١٢ ہوئے جبکہ وہ کسی اور مسئلہ یا دریافت پر غور کر رہے تھے.علم محمونا حواس خمسہ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے یعنی دیکھنے، سننے چکھنے، سونگھنے اور محسوس کرنے سے علم مسلسل مطالعہ ، یاد داشت اور تجربہ کے ساتھ بھی حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ علم منطق پیدا ہوتا ہے جبکہ ایسے علم کے برعکس چھٹی جس کا علم کسی بلند اور منفرد منبع سے ملتا ہے یہ دماغی کوشش کا نتیجہ نہیں.اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک گلہری کا بچہ جس نے کبھی سردی کا موسم نہ دیکھا ہو وہ با وجود اس کے اخروٹ، بادام جیسا میوہ سرد موسم کے آنے سے پہلے اپنی خوراک کے لئے اکٹھا کرتا ہو اس کا یر فصل کسی نا معلوم قوت یا جبلت کی بناء پر ہے نہ کہ اس کے ذاتی تجربہ یا ہدایت پر منحصر ہے.روحانی دنیا سے متعلق روحانی حقائق بعض اشخاص کو چھپٹی جس سے حاصل ہوتے یں حقیقت تو یہ چھٹیمیں خدائی اسلام اک لطیف صورت ہے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ چھٹی جس خدائی انعام کی ایک لطیف صورت ہے جس کا تجربہ ہر مذہب ہر تہذیب اور ہر سطح کے لوگ کرتے آئے ہیں.نفسیاتی تجربه PSYCHIC EXPERIENCE یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس کی وضاحت کسی معروف قدرت کے قانون سے نہیں SP F S یعنی دوسری کی جاسکتی لہذا اسے مافوق الفطرت کہا جاتا ہے ایسے تجربے کو دُنیا میں دیکھنے کی طاقت سے بھی موصوف کیا جاتا ہے.اس سے انسان میں وہ باتیں جاننے یا بیان کرنے کی استطاعت حاصل ہوتی ہے جن کو ہمارے جسمانی حواس بیان نہیں کر سکتے نفسیاتی تجربہ کی مندرجہ ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں :-

Page 135

۱۱۳ (1) ایک شخص دن کے وقت دور کسی جگہ وقوع پذیر ہونے والے ایک حادثہ کو دیکھتا ہے اور پھر بعد میں اس بات کا ثبوت مل جاتا ہے کہ واقعتاً ایسا حادثہ اسی طرح ہوا تھا ایسا تجربہ سونے کی حالت میں بھی ہو سکتا ہے.(۲) ہوش و حواس کی حالت میں ایک شخص کے سامنے ایک زندہ یا مردہ دوست یا رشتہ دار کی شکل ظاہر ہوتی ہے اور اس سے باتیں کرتی ہے.(۳) ایک شخص اپنے باپ کی آواز کیوں سنتا ہے گویا وہ اسے پکار رہا ہو اور پھر دریافت کرنے پر یہ بات سچ ثابت ہو جاتی کہ اسی لمحہ اسی موقع پر کوسوں دور اس کے والد کی وفات ہوئی.(۴) ایک طالب علم امتحان کے پرچہ میں آنے والے سوالات کو خواب میں یاد کر لیتا ہے چند روز بعد وہ امتحان دیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ بعینہ وہی سوالات اس پرچہ پر ہیں چنانچہ اسے جواب لکھنے میں کوئی وقت نہیں ہوتی.یہ چند گوناگوں نفسیاتی واقعات ہیں جو دنیا میں ہر جگہ ہر قوم کے لوگوں میں رونما ہوئے ہیں.امریکہ برطانیہ میں نفسیاتی ریسرچ پر بنی ہوئی سوسائٹیوں نے اتنی شہادت میں اٹھی کی ہیں کہ نفسیاتی تجربات کو ثابت کرنے کے لئے وہ زبر دست اور حتمی ثبوت ہیں لہذا یہ کہنا بے جانہ ہو گا کرنفسیاتی تجربات اور ذاتی تجربہ کے ذریعہ مختلف فطری قوانین اور غیب کے راز لوگوں پر کھلے اورمسلم الثبوت ہیں.روحانی تجربه روحانی تجربه در اصل روح کو مکمل طور پر ہلا دینے والا تجربہ ہے.

Page 136

۱۱۴ نفسیاتی تجربے کے برعکس روحانی تجربہ خدا کی جانب سے نازل ہوتا ہے نفسیاتی تجر ہے کا رُوح پر کوئی اثر نہیں ہوتا اگر چہ وہ روحانی تجربے سے بہت مشابہ ہو مگر دونوں صورتوں میں انسان آوازیں سنتا ہے یا دور کسی جگہ پر قیمت شخص کو دیکھتا یا اس کے بارہ میں علم حاصل کرتا ہے یا بعض صورتوں میں وہ روحوں سے ملاقات کرتا ہے حتی کہ مستقبل میں ہونیو الے واقعات کا بھی علم حاصل ہوتا ہے.روحانی تجربے میں اکثر یوں ہوتا ہے کہ خدائی آواز سنائی دیتی ہے اور خدا کی موجودگی بلاشبہ محسوس ہوتی ہے.روحانی آنکھیں زمینی اُفق سے اُس پار دیکھتی ہیں جن سے لافانی کائنات کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے نفسیاتی تجربہ کے برعکس روحانی تجربہ زیادہ پختہ ہوتا ہے اور یہ ہرگز کسی صورت میں انسان پر ہونیو الے اثرات کو کم نہیں کرتا.اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ بصیرت حاصل ہوئی کہ اس زمینی دنیا کے علاوہ ایک دوسری تحقیقی دنیا بھی موجود ہے.انسانی اصلیت ہماری اصلیت ایک لافانی روح ہے یا یوں کہ جسم سے لگی ہوئی روح ہے.جسم تو جلد یا بدیر ختم ہو جاتا ہے مگر ہم اور ہماری اصلیت کبھی نہیں مرتی.ہم ایک روح ہیں جس کو جسم ملا ہوا ہے نہ کہ ایک جسم جس کو روح ملی ہوئی ہے.دیکھنے، جاننے اور اپنے آپ کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنی آنکھیں اندر کی طرف لگائے رکھنی چاہئیں.اگر چہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں لیکن ہمارے جسم اور روح کی ماہیت ہمارے جسم پر نہیں ماسوا اس کے کہ روح یا ہمارا اصل حمل کے دوران رحم میں پرورش پاتا ہے.روح کی پیدائش ایک ایسا موضوع ہے جس پر سیر حاصل بحث بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا

Page 137

110 غلام احمد صاحب نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ” اسلامی اصول کی فلاسفی میں کی ہے ہماری روح یعنی ہماری اصلیت ہمارے جسم کے مرنے کے بعد اسی طرح زندہ رہتی ہے جس طرح اس کے گزرنے کے بعد ، گویا دوسرے لفظوں میں ہم لافانی ہیں.مقصد حیات وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ( ۵۱ : ۵۷ ) عبادتِ الهی صرف دُعا یا گیان دھیان تک ہی محدود نہیں جبکہ یہ ہر انسانی خیال، لفظ اور ٹمل پر حاوی ہے کیونکہ ہم جو کچھ بھی سوچتے یا خدا کی خاطر کرتے ہیں وہ عبادت ہی کا عمل ہے.اگرچہ ہمارا تعلق اس دنیا سے ہے لیکن ہماری زندگی کا مدعا اپنی ذاتی طہارت ہونا چاہیے اپنی زندگی کا مقصد سلسل دعا اورمسلسل کوشش سے اپنے کردار کے اندر خدائی صفات کے ظہور سے کرنا چاہیئے مقصد بہت عظیم ہے اور کام بھی بہت کٹھن ہے لیکن اس ضمن میں کی ہوئی کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہمیں کمزوریوں اور ناکامیوں کے باوجود نا امید نہیں ہونا چاہیے بلکہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے الفاظ میں ان سے حوصلہ پانا چاہیئے.آپ فرماتے ہیں :- اسلام انسان کو نا امیدی سے نجات دلاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے باوجود ذہنی پاکیزگی اور اعلیٰ کر دار حاصل کر سکتا ہے جو انسان کا عظیم مقصد ہے چنانچہ اسلام انسان کو دیکھے اور پاکیزگھے کے حصول کے لئے مسلسل سی کی حوصلہ افزائی ھے کرتا ہے اور یوں اسے اپنے مقصد

Page 138

114 کے حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے" سچی خوشحالی ذاتی پاکیزگی میں ہے جو کہ ہمارا زندگی کا اصل مدعا ہے.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :- قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَلی (۱۵:۸۷) حضرت علی نے مقصد حیات کو یوں خوبصورتی سے بیان کیا ہے: ایک دانا آدمی کی ہر مصروفیت اپنی اصلاح ہونی چاہئیے اس کی تمام فکری آخریقے کے لئے اور اس کی تمام کوششیں آنے والی زندگی کی بہتری کے لئے ہونی چاہئیں " اس دنیا میں ہماری زندگی اُخروی زندگی کے سفر کا آغاز ہے.مرنے کے بعد ہمارا جسم اور ہڈیاں تو ہیں گلنے سڑنے کے لئے رہ جائیں گی اور ہم خود اگلی دنیا کی طرف سفر کر جائیں گے اور وہ ایسی حقیقی دنیا ہے جیسی کہ یہ دنیا اور اس کے ان گنت کرے جو فضا میں چکر لگا رہے ہیں.زندگی مختصر ہے اور تیاری کے لئے وقت بہت ہی مختصر کوئی بھی گزرا ہوا لمحہ واپس نہ آئے گا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ :- انہیں کس نے کہا ہے کہ زندگی لمبی ہے جوتے کا کوئ ھے موسم نہیں یہ تم پر کسی بھی وقت آجائے چنانچہ ہمیں ہر گھڑی کی قدر کرنی چاہیے یہ وقتے دوبارہ نہ آئے گا ہمارا اندرونی وجود لافانی ہے اس لئے ہمیں آئندہ زندگی کی فکر کرنی چاہئیے نہ کہ ہماری نظر اس جہان پر رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں روحانی حقائق سمجھنے کی ہمت دے اور اس مادی دنیا میں زندگی کا مقصد کامیابی سے پورا کرنے کی توفیق دے.اے

Page 139

116 خدا تو ایسا ہی کر.روحانی جسم ہم اپنی دماغی قوت سے رُوح کے اسرار کو نہیں سمجھ سکتے لیکن اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ ہر انسانی جسم میں محروح موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب قرآن مجید میں اس کی تصدیق فرمائی ہے جو دوسری تمام الہامی کتب سے زیادہ اس موضوع پر روشنی ڈالتا ہے.ہر انسان اس دنیوی جسم کی طرح ایک اور جسم رکھتا ہے جو موت کے بعد روح کا عارضی مسکن ہو گا یہ لطیف جسم اس مادی جسم سے موت سے قبل بھی علیحدہ ہونے کی خاصیت رکھتا ہے اور ہزاروں افراد اس وقت موجود ہیں اور ہر زمانہ میں رہے ہیں جو اس بات پر شہادت دینے کو تیار ہوں گے.ہمارا اصل نہ چھوٹے جانے والا روحی جسم ہے جو ہمارے دنیوی جسم میں رہتا ہے اور اس رومی جسم کے اندر ہماری ابدی زندگی کا مرکزی نقطہ ہے یعنی ہماری روح.نیند کی حالت میں روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے اور اس سفر کے دوران پوری طرح ما حضر ہوتی ہے جاگنے سے قبل یہ جسم میں واپس آجاتی ہے اور عموما انسان کو یاد نہیں رہتا کہ سونے کی حالت میں کیا ہوا تھا لیکن بعض اوقات کچھ یاد رہ جاتا ہے اور انسان اس کو بیان کر سکتا ہے.ایک گمنام شخص نے برطانیہ کے شہر پیا تھ سے یہ بات لکھی.PLYMOUTH میں نے یکلخت محسوس کیا کہ میں اپنے جسم سے اوپر ہوں اور بالکل

Page 140

اوپر سے اُسے دیکھ رہا ہوں یہ جسم روشن دن کی طرح بستر پر پڑا ہوا تھا میں نے اپنے چہرہ کو خاص طور پر دیکھا اور تعجب کیا کہ میں اپنے آپ کو ایسے دیکھ رہا ہوں جس طرح دوسرے لوگ مجھے دیکھتے ہیں.یہ تجربہ بالکل حقیقی اور یقینی تھا اس میں خیال یا وہم کا کوئی دخل نہیں اور میں جانتا ہوں کہ یہ واقعہ بالکل حقیقت تھا (THE PHENOMENA OF ASTRAL PROJECTION) ایک دوسرا مصنف بروس میل فراج میں لکھتا ہے :." BRUCE BELFRAGE اپنی سوانح عمری ر میں ایک موذی مرض میں مبتلا ہو گیا جس کی وجہ سے میں قریباً ختم ہوگیا ایک رات میں اپنے جسم سے آزاد ہو گیا اور اسے بستر پر سکتہ کی حالت میں دیکھا یہ حالت بالکل قدرتی لگتی تھی اور اس تجربہ سے مجھ پر ثابت ہو گیا کہ جسم اور روح بالکل الگ الگ ہیں اور میری حقیقت یعنی میری روح کبھی نہیں مرسکتی ، روح کے جسم سے باہر نکل جانے کے تجربات لوگوں کو صرف سونے کی حالت ہی میں نہیں ہوئے بلکہ بعض بیماروں کو ایسے تجربے دوائی کے زیر اثر بیہوش ہونے کی حالت میں بھی ہوئے.ایک مصنف فن سے لکنگ بیک LOOKING BACK J.A.FINDLAY میں لکھا ہے کہ :.نے اپنی کتاب ایک عورت جس کی دیانت داری اور راست بازی پر ذرہ بھر بھی شبہ نہیں ہو سکتا اس نے مجھے بتلایا کہ ایک دفعہ جب وہ (1) ANAESTHETICOS

Page 141

114 حالت بیہوشی کی دوائی کے زیر اثر تھی تو اس نے آپریشن کے میز پر اپنے جسم کو اوپر سے دیکھا.وہ یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ بھلا ڈاکٹر اور نرمیں کیا کری لیکن وہ بات جس پر سرجن کو واقعہ معلوم ہونے پر بہت حیرانگی ہوئی وہ یہ تھی کہ اس عورت نے ڈاکٹر کو اس کے پیٹ کے اندر وہ کچھ کرتے دیکھا جو ویسے دیکھنا بالکل محال تھا.“ (ANAESTHESIA) ایسے لوگ ہماری روزمرہ زندگی میں ہمیں ضرور ملیں گے جنہوں نے بیوشی کی میں اپنے آپ کو جسم سے باہر دیکھا اسی طرح بہت سے بیمار اور قریب المرگ اور صحت مند لوگ ملتے ہیں جنہوں نے ان حالتوں کو دیکھا.یہ واقعات ذہن کا اختراع نہیں بلکہ حقیقی واقعات ہیں.ہزاروں واقعات کتابوں میں ملتے ہیں جو قرآن پاک کی تعلیم کے عین مطابق ہیں.لاریب خدا تعالیٰ نہ صرف موت کے وقت بلکہ زندگی میں بھی انسان کی روح کو اپنے پاس لے جاتا ہے.قرآن مجید میں کیا خوب آیا ہے :.حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ پھر ایک اور جگہ ارشاد ہوا :- (Y7:4) وَالَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا فَيُسْكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الأخرى إلى أجل تُسَتَّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لايت لِقَوْمٍ يتَفَكَّرُونَ.(۴۳ : ۳۹) یہ موضوع بہت ہی دلچسپ ہے کیونکہ اس سے ہماری روحانی نظر تیز ہوتی ہے ہمیں

Page 142

۱۲۰ اپنے آپ کو حقیقی صداقت کو بجھنے میں مدعتی ہے اور عالم الغیب پر یقین کو مضبوط کرتی ہے.ہماری سی نظروں کے سامنے روح کی جسم سے علیحد گھے بہت سے ایسے لوگ دنیا میں اس وقت موجود ہیں جو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے ایک شخص کی وفات کے وقت اس کی روح کو جسم سے نکلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا.بلاشبہ اس قسم کے واقعات غیر معمولی ہیں لیکن نفسیاتی اور روحانی واقعات غیر معمولی ہی ہوتے ہیں.ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے فرشتوں کو دیکھا لیکن کوئی متقی مسلمان اس وجہ سے ان کے دعوے کو کرو نہیں کرے گا کہ یہ غیر معمولی ہونے کے باعث ناقابل یقین ہے کبھی نہ کبھی لوگ فرشتوں کو ایک نظارہ کی حالت میں دیکھ لیتے ہیں اگر چہ ہم ایسے فطری قوانین سے آگاہ نہیں جن کی وجہ سے لوگ فرشتے دیکھتے ہیں نہ ہی ہم ان قوانین سے آگاہ ہیں جن کی بناء پر لوگ موت کے وقت جسم سے روح کو علیحدہ ہوتے دیکھتے ہیں لیکن محض سمجھ نہ آنے کی بناء پر ایسے واقعات کو رد کر دیا کوئی معقول وجہ نہیں ہے.ایک مصنف مسٹر ایف ایل راسن (LIFE UNDERSTOOD) میں لکھتا ہے :- وو (RAWSON) اپنی کتاب " لائف انڈرسٹوڈ" لوٹیسا اسکاٹ اپنی کتاب ”یٹل وومن (LITTLE WOMEN) میں بیان کرتی ہے کہ اس کی بہن ہر تھا“ کی وفات کے وقت کس طرح خفیف دھواں اس کے جسم سے نکلا اور غائب ہو گیا، ڈاکٹر نے اسے بتلایا کہ

Page 143

۱۲۱ یہ اس کا وہم ہرگز نہیں تھا بلکہ حقیقت میں زندگی نے الوداع کہا تھا.شکاگو کے مرسی ہسپتال کے ڈاکٹر پیٹرک ڈینل ODANIEL) (PATRICK نے اس واقعہ کو تصویر کی صورت میں محفوظ کر لیا تھا " ایک دوسرا ڈاکٹر رابرٹ کروک ہال INTIMAFIONS OF IMMORTALITY (ROBERT CROOKHALL) اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ڈاکٹر ہوٹ نے بھی اپنی خالہ کی روح کو موت کے وقت جسم سے جدا ہوتے دیکھا.مسٹر سینل جو ایک نرس تھی اس نے بیان کیا کہ " ایک روز اس کی سہیلی کو قے آئی اور وہ میرے بازوؤں میں ڈاکٹر کے آنے سے قبل وفات پا گئی یہ پہلی موت تھی جو میرے ہاتھوں میں ہوئی.اس کے دل نے حرکت کچھ ہی لمحہ پہلے بند کی تھی کہ میں نے صاف صاف بخارات کی صورت میں اس کے جسم سے روح کو اُوپر جاتے دیکھا اور پھر کچھ فاصلے پر جاکر وہ ٹرک گئی اور اس نے ایسی صورت اختیار کر لی جو بالکل میری سہیلی کے جسم سے ملتی جلتی تھی.اس کے بعد جب میں نرس بن گئی اور یہ پیشہ میں نے بیس سال تک رکھا ئیں نے اور بھی بہت سی اموات دیکھیں اور ہر موت کے بعد میں نے جسم کے اوپر بخارات کی صورت میں جسم کو دیکھا جو اصلی جسم سے بالکل مشابہہ تھا یا حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی جماعت احمدیہ نے کئی بار وفات یافتہ روحوں سے مکالمہ کیا.آپ اپنی یاد گار تصنیف ” اسلامی اصول کی فلا" فی" میں فرماتے ہیں:." میں ان میں صاحب تجربہ ہوں مجھے کشفی طور پر مین بیداری میں بارہا بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنیوالوں

Page 144

• کا جسم ایسا سیاہ دیکھا کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے.غرض ین این کوچ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں نے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہے.خواہ نورانی خواہ ظلمانی" جانے اے رومیں اورپھیلی زندگی ہماری روح ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور قرآن مجید ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موت کے بعد آنے والی زندگی میں ہماری روح اس مادی دنیا کے تمام واقعات کو یاد رکھے گی کا فراور بدکار لوگ خدا سے درخواست کریں گے کہ انہیں اس دنیا میں خدا کی خوشنودی اور نیک کام کرنے کے لئے دوبارہ بھیجا جائے.اگر ان کو یہ دنیا یاد نہ رہتی تو وہ دوبارہ آنے کی خواہی کیونکر کرتے.مندرجہ ذیل آیت کریمہ پر غور فرمائیں ہے.حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لا لَعَلَّى أعْمَلَ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ لا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَابِلَهَا ( ۱۰۱ ، ۱۰۰ : ۲۳ ).فَقَالُوا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِبَ بِايْتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.(PA:9) مندرجہ بالا آیات کریمیہ کے علاوہ حشر آن مجید میں اور بھی آیات اس موضوع پر موجود ہیں.

Page 145

۱۲۳ روح کا سفر TRANSITION OF SOUL روح ہماری زندگی کا مرکزی نقطہ ہے جو اپنی حقیقت کا اظہار ایک جسم کے ذریعہ اس دنیا میں اور آنے والی دنیا میں کرتی ہے جس طرح روح کے لئے ایک جسم ضروری ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہو کہ مرنے کے بعد یہ کیس جسم میں رہے گی ؟ اس کا جواب روحانی جسم یا نہ نظر آنے والا جسم ہے جس کی ETHERIC BODY چمک کا انحصار موت کے وقت روح کی حالت پر ہے ہر حال روح اس جسم میں ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گی.اسلام ہمیں یہ سکھلاتا ہے کہ مادی جسم کے مرنے کے بعد رُوح میں ایک تبدیلی آتی ہے.اس کی مثال ایک عورت کے رحم کے اند رکمنی کے قطرے کی طرح ہے جو پرورش پانے کے بعد ایک جسم بنتا اور پھر ایک مکمل بچہ بن جاتا ہے اسی طرح روح بھی منی کے ایک قطر سے کی طرح ہے جس کا عارضی گھر عورت کے رحم کی طرح ہے جو قیامت کے روز ایک نئی صورت میں اُٹھائی جائے گی یہ جسم اب ایک نئی رُوح رکھتا ہے جیسا کہ ایک نوزائیدہ بچہ کی صورت اور ذہنی حالت کا احصائینی کے قطرے میں موجود خوبیوں پر ہے اسی طرح نئے روحانی جسم کا انحصار بھی اس جسم سے جاتے وقت رُوح کی حالت پر ہے.اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ جس طرح بچہ بڑھتا اور جوان ہوتا ہے اسی طرح نیا جسم پرورش پاتا ہے اور جب قیامت کے روزیہ عمل پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا تو جنت اور جہنم کے دروازے پوری طرح کھول دیئے جائیں گے.

Page 146

۱۲۴ خدا تعالیٰ رحیم ہے اور اسی رحیمیت کی صفت کے مطابق اس نے یہ قانون بنایا ہے کہ جہنم کی سزا ہمیشہ کے لئے نہیں ہو گی جس طرح محرم اس دنیا میں سزا پا کر جیل سے رہا ہوتے ہیں اسی طرح بد کار لوگ جہنم سے نجات پائیں گے اور پھر جنت میں داخل کئے جائیں گے جہاں انہیں تمام نعمتیں ملیں گی اور ان نعمتوں کے مدارج آن گفت ہیں.خدا تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے :.وَلِكُل دَرَجتُ مِمَّا عَمِلُوا وَلِيو فيهم أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ( ۲۰ : ۴۶) الشركيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَالأخيرة الكبرُ دَرَجَةٍ والبر تفضيلاً (۲۲:۱۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت کے بہت سے مدارج ہیں.اللہ نے ان کو ایسے لوگوں کے لئے تیار کیا ہے جو اس کے راستہ میں جد و جہد کرتے ہیں اور ہر درجہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ زمین اور آسمان کے درمیان.اسلام ہمیں یہ سکھلاتا ہے کہ ایک مسلمان کبھی بے بن کر نہ ہو جائے کہ اس نے اس دُنیا میں کافی نیک کام کر کے جنت میں مقام حاصل کر لیا ہے یہ خیال کرتے ہوئے کہ انسان فانی ہے اسے اپنی ترقی کے لئے پورے خلوص سے سعی کرنی چاہئیے اسے جسمانی خواہشات کو نیک کاموں کے درمیان حائل نہیں ہونے دینا چاہیئے.خدا ہمیں شیطان کے ہدارا دوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے.آمین ه

Page 147

۱۲۵ کائنات میں خدائی صداقتو کا ظہور قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :- ا في اللهِ شَقُّ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (۱۱:۱۴) کیا تم اس خدا کے بارہ میں شک کرتے ہو جو کہ زمین و آسمان کا بنانے والا ہے.قارئین ! میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ کسی اندھیری رات باہر کھلے آسمان کے نیچے پیدل چلیں اور دیکھیں کہ روشنی کی کتنی شمعیں آسمان کی زینت ہیں آپ دیکھیں گے کہ یہ کائنات کا صرف ایک چھوٹا سا کونہ ہے جبکہ اس کی وسعت اور اس میں مخفی عجائبات ہمارے ادراک سے بالا ہیں ہم جتنا کائنات کے رازوں اور عجائب پر غور کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ اس میں خدا کی لا تعداد قدرتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں ستاروں بھری رات خدا کو یاد کرنے کے لئے ایک نہایت ہی موزوں موقع ہے.ہماری کائنات خلاء کے ایک وسیع سمندر میں نہی ہوئی ہے.ہم جتنا زیادہ رات کو آسمان کی گہرائیوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو اتنا ہی زیادہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خلاء نہ ختم ہونے والی چیز ہے وجہ یہ ہے کہ درحقیقت خلاء کچھ بھی نہیں یہ کچھ نہ ہونے کا نام ہے چونکہ یہ کچھ نہیں اس لئے اس کی کوئی حد بھی نہیں یہ بغیر حدود سے ہے اگر خلاء کی

Page 148

۱۳۹ کوئی حد ہوتی تو پھر کہیں نہ کہیں ختم ضرور ہوتی اور اگر ختم ہو بھی جاتی تو اس کی آخری قدیر کیا ہوتا ہے یا تو اس کی آخری حد پر ضرور کچھ ہوتا یا بالکل کچھ نہیں اگر کچھ ہے تو پھر یہ کچھ جگہ گھیرے ہوئے ہے اور اگر کچھ بھی نہیں تو ضلا ء کی آخری حد پر ہم ابھی پہنچے نہیں بچوں مجوں ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا لافانی ہے اور نہ ختم ہونے والا ہے اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيِّ الْقَيُّومُ - ہماری توجہ اس بات کی طرف بھی مبذول ہوتی ہے کہ روح کی زندگی بھی لافانی ہے.یہ ایک درجہ سے دوسرے درجہ کی طرف ترقی کے راستہ پر مسلسل گامزن ہے.مومنوں کی روحوں کی آنے والی زندگی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں بیان فرماتا ہے :- نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا آتِهِمْ لَنَا تُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا.(9:97) تصویر سے بالا کائنات اگر چہ کائنات کی اپنی حدود ہیں مگر اس کی کا رعجیب اور وسعتوں کی گہرائی انسانی سمجھ سے بالا ہے.خلاء کے برعکس مادہ کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ بغیر حد کے ہو.خلاء کی گہرائیوں میں ڈور کہیں سب سے دور مقیم سیارہ ہے جو بڑے سے بڑے سائنسی آلات جو کہ کائنات میں تلاش کے لئے استعمال ہوتے ہیں اس کی پہنچ سے بھی باہر ہے.ستاروں کے درمیان فاصلہ اور ہم سے ان کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اس فاصلہ کو میلوں میں گفتنا نا ممکن ہے یہ فاصلہ نوری سالوں میں گنا جاتا ہے.یہ بات ہر کوئی جانتا ہے

Page 149

۱۲۷ ہے که روشنی ۸۶,۰۰۰, امیل فی سیکنڈ سفر کرتی ہے اور ہم سے قریب ترین ستارہ سوا چار نوری سالوں کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کو اس ستارہ سے ہماری دنیا تک آنے کے لئے سوا چار سال لگتے ہیں میلوں میں اگر حساب لگائیں تو وہ قریباً ۲۵ ملین میل کا فاصلہ بنتا ہے.اتنے بڑے فاصلہ کو ذہن میں لانے سے ہمارے دماغ پر بوجھ پڑے لیکن یہ فاصلہ ان ستاروں کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو کائنات کے دور کونوں میں جگمگا ر ہے ہیں.دُنیا میں اس وقت عظیم الشان دوربین ہے جو ایسے ستاروں کے جھرمٹ کو دیکھ سکتی اور ان کی تصویر بنا سکتی ہے جو چار ہزار مین نوری سال کے فاصلہ پر ہیں اور اب ایسی ریڈیو ٹیلی اسکوپ بھی موجود ہے جو چھ ہزار ملین نوری سال سے تعلق پیدا کر سکتی ہے.ٹیلی اسکوپی فاصلے یقینا ہمارے دماغوں کو چکرا دیتے ہیں.ستاروں بھرے آسمان کی طرف ہم جو نگاہ دوڑاتے ہیں اور دُنیا کے عجیب عجیب رازوں پر غور کرتے ہیں تو ہمارا ذہن اللہ تعالیٰ کی اس صفت کی طرف جاتا ہے کہ اللہ لطیف ہے یعنی تصور میں نہ آنے والا.سورج سورج ہر وقت چمکتا ہے لیکن رات کے وقت نظر نہیں آتا کیونکہ یہ زمین کے اُس حصہ کی طرف ہوتا ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے بہر حال رات کے وقت بھی ہم اس کی روشنی چاند اور دوسرے سیاروں میں منعکس ہوتی دیکھتے ہیں.خدا تعالیٰ بھی اسی طرح اپنے نیک اور صالح بندوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے یہ برگزیدہ بندے خدا کی روشنی کو اسی طرح منعکس کرتے ہیں جس طرح چاند اور دوسرے سیارے سورج کی روشنی کو منعکس کرتے

Page 150

۱۲۸ ہیں.خدا تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر خدا کی روشنی میں مکمل طور پر بنائے ہوتے ہیں حقیق تو یہ ہے کہ ہر خدائی پیغمبر خدا کی روشنی کو اپنے روحانی مرتبہ کے مطابق ہی منعکس کرتا ہے.وئیس VENUS سیارہ زمین سے قریب ترین سیارہ ہے اور دوسرے ستیاروں کی نسبت زیادہ چمکتا ہے ہم جوں جوں اس چمک دار ستارہ پر نظر دوڑاتے ہیں ویسے ویسے ہم خدا کی صفات میں مگن ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی صفات خدا کے نیک بندوں میں بھی عیاں ہوتی ہیں.ہمیں بار بار یہ صیحت کی جاتی ہے کہ خدا کی صفات کے نور کو ہمیں اپنے عمل، قول اور رسوچ کے ذریعہ اپنی زندگیوں میں پھیلانا چاہیئے.ہمیں کائنات کی روشنی میں مرقع ہونے کی خواہش کرنی چاہیے اور نیکی کے عطر اور خوشبو کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے جو کہ دنیا کے قیمتی ترین عطروں سے زیادہ خوش گوار عطر ہے.بھائی عبدالرحمن صاحب نے بانی جماعت احمدیہ کی روحانی کشش کو درج ذیل الفاظ میں یوں بیان کیا ہے :." ان دنوں آپ کے چہرہ مبارک پر روشنی کا ایک ہالہ چھائے رہتا تھا.آپ کے اندر سے پھوٹتی روشن چہرہ پر منعکس ہوتی جس سے سکون کا پتہ چلتا.یہ روشنی گویا ایک چمکدار روحانی ہے نور تھا جو آپ سے کے چہرہ پر چمکتا تھا یہ اسی طرح ایک اور رفیق منشی محمد اروڑا بیان کرتے ہیں :- "آپ (حضرت مرزا غلام احمد صاحب) کا چہرہ اس قدر نورانی اور روحانی روشنی سے منور تھا کہ میں نے ایسا چہرہ ساری عمر کسی کا نہیں دیکھا.یہ نور اور آپ کے مقناطیسی شخصیت

Page 151

۱۲۹ میرے لئے آپ کے ماننے کے لئے زہر دستے دلائے تھے.ہم اس موقع کی تلاش میں رہتے کہ آپ کے منور چہرہ کی ایک جھلک پاسکیں وہ لوگ جن میں ایسا روحانی نور پایا جاتا ہے وہ دوسروں میں جن میں ایسا نور ہوتا ہے جلد پہچان لیتے ہیں ایسے روحانی نور میں زبردست مقنا طیسی قوت ہوتی ہے جو ایک جیسی شخصیتوں والے افراد کو آپس میں ملا دیتی ہے.لوگوں کے ہجوم میں اگر دو ایسے اشخاص موجود ہوں تو وہ جلد ہی ایک دوسرے کی طرف بے اختیار کھینچے چلے آئیں گے جس سے یہ مقولہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ گندہ ہم جنس باہم جنس پروازی سورج ہمارے شمسی نظام کا مرکزی نقطہ ہے.زمین پر زندگی کا سارا انحصار شوج کی حرارت پر ہے، اگر سورج نہ ہوتا تو اس کرہ زمین پر زندگی کا کوئی نام و نشان نہ ہوتا زمین سورج کے بغیر گویا ایک محرک گیند ہوتی جو خلاء میں گھومتی رہتی یہی حال دوسرے تیاری کا ہوتا شاید وہ کسی دورستارہ کا سیٹیلائٹ بن جاتے بسورج اس کے گرد موجود سیاروں کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے مگر سیارے اس کے بغیر نہیں رہ سکتے یشورج شمسی نظام کا مرکزی نقطہ ہے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اِس کائنات کا مرکزی نقطہ ہے بیورۃ فاتحہ میں آیا ہے کہ رب العلمین یعنی تمام جہانوں کا مالک اور آقا.جس طرح سیاروں کا انحصار سورج پر ہے اسی طرح ہر چیز کا انحصار خدا پر ہے اور جس طرح سورج سیاروں پر منحصر نہیں اسی طرح خدا کسی دوسری چیز پر منحصر نہیں بہار آسی نظام حقیقت بہت وضاحت سے بیان کرتا ہے اور قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے تو بید وَلَمْ يُولد (۳:۱۱۲) نہ اُس کو کسی نے جنم دیا اور نہ اس نے کسی کو جنم دیا.

Page 152

۱۳۰ سورج کی ماہیت دوسرے سیاروں کی نسبت جو اس کے گرد ہر وقت گھومتے رہتے ہیں بہت مختلف ہے بستیا رے بڑے بڑے پتھروں اور دھاتوں سے بنے ہیں جبکہ سورج جلنے والی گیس سے بنا ہوا ہے حقیقت ہمیں بتلاتی ہے کہ خدا بھی اپنی مخلوق سے مختلف ہے.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (۵:۱۱۲) نظامِ شمسی میں سورج ہی وہ واحد چیز ہے جو اپنے لئے روشنی خود ہی پیدا کرتا ہے دوسرے سیارے صرف اس کی روشنی کو منعکس کرتے ہیں اسی طرح تمام نور اللہ تعالی سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے ذریعہ منعکس ہوتا ہے.قرآن مجید میں کیا خوبصورتی سے یہ حقیقت بیان ہوئی ہے الله نور السمواتِ وَالْأَرْضِ - نُور عَلَى نُورٍ (۳۶:۲۳) - سیارے ہماری زمین سورج کے گرد گھومنے والے نوسیاروں میں سے ایک ہے.انکی مثال خدا کے انبیاء سے دی جاسکتی ہے کیونکہ جس طرح تیار سے سورج کی روشنی سے چمکتے ہیں اسی طرح خدا کے نبی بھی اس کی روشنی سے منور ہوتے ہیں.جس طرح سیارے اپنے محور سے ذرا بھی ادھر اُدھر نہیں ہوتے اسی طرح خدا کے انبیاء بھی نیکی کے راستہ سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتے.ارشاد ربانی ہے :- لا يَسْقَوْنَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (۲۱ : ۲۸) وَمَا كَانَ لِنَبِي أَن يَغُل (۱۹۲:۳۱ انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں وہ اعلیٰ ترین روحانی رہنما ہوتے ہیں یہ کہنا کہ وہ بھی گناہ کرتے ہیں ان کی تذلیل ہے.بائیبل لکھنے والے مختلف مصنفین نے

Page 153

i ۱۳۱ تو حد کر دی اور بعض انبیاء پر شراب پینے قتل اور زنا کے الزام لگائے ہیں یہ سوچنا بھی 10 محال ہے کہ مجرم اور زانی شخص دوسروں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کر سکے میرے خیال میں ایک پادری اگر بدیوں میں ملوث ہو تو اس کی کمیونٹی اس کا بائیکاٹ کر دے گی قرآن مجید نے انبیاء کو ان الزاموں سے جو بائیبل میں پائے جاتے ہیں بالکل پاک وصاف قرار دیا ہے.ہر ستارہ اپنی مقررہ رفتار پر چلتا ہے اور اس کا انحصار اس کے سورج سے فاصلہ پر ہے.اصول یہ ہے کہ اگر ایک سیارہ سورج سے جتنا قریب ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی گردش ہو گی اسی طرح جتنا ایک انسان اپنے خالق و مالک سے نزدیک ہو گا اتناہی زیادہ وہ روحانی طور پر ترقی کرے گا.شہاب ثاقب آسمان پرا و پر بہت دور ہزار ہا دم دار ستار سے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ان کو کائنات کی گرد و COSMIC DUST اور گوڑا کرکٹ کہا جاتا ہے.ان میں سے اکثر ریت کے ذرے سے زیادہ وزنی نہیں یا بعض ان میں سے ذرا زیادہ بڑے ہیں.دم دار ستارے ہماری زمین کی فضا میں لگاتا رآتے رہتے ہیں لیکن جونہی یہ گرہ ارض میں داخل ہوتے ہیں جل کر خاک ہو جاتے ہیں.ان سے بڑے ستیارسے بعض دفعہ جب زمین کی طرف گرتے ہیں تو بہت چمک اور روشنی سے جلتے ہیں.دم دار ستارہ حقیقت میں زمین کی طرف فضا میں سے جلتا ہوا آتا ستارہ ہوتا ہے حقیقت میں کوئی " شوٹنگ سٹار نہیں ہوتا کبھی کبھار بڑے ستارے زمین تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کو شہاب ثاقب METEOR کہا

Page 154

۱۳۲ " جاتا ہے.ہزاروں سال قبل امریکہ کی ریاست اری زونا میں ایک ستارہ آسمان سے گرا اور زمین میں چار ہزار فٹ چوڑا گڑھا پیدا کر دیا.۱۹۰۸ ء یعنی جس سال حضرت مسیح موعود کی وفات ہوئی اس سال سائبیریا میں بھی ایک بہت بڑا ستارہ گرا تھا.ورلڈ انسائیکلوپیڈیا میں اس واقعہ کا ذکر یوں آیا ہے :."} ایک آسمان سے ستارہ جس کا وارض شاید کئی ٹھنے تھا سائبیریا کے جنگلوں میں ۱۹۰۸ء میں گرا.یہ علاقہ سائنسدانوں کی ایک خاص ٹیم نے ۱۹۲۸ء میں دیکھا اور بتلایا کہ ستارہ کے گرنے سے اس قدر حرارت پیدا ہوئے کہ ارد گرد کے تمام در خرتے جل کر خاک ہو گئے اور تہیں میاں کے علاقہ میرے تمام پودے فنا ہو گئے " کائنات میں لکھوکھا ستاروں کی مثال ہم انسانوں سے دی جاسکتی ہے ہر دفعہ جب ہم آسمان سے گرتا ستارہ دیکھتے ہیں تو ہماری توجہ اس بات کی طرف مبذول ہو جاتی ہے کہ کس طرح انسان بھی اللہ کے فضل سے اور قرب سے بعض دفعہ دور ہو جاتا ہے.ہماری توجہ ہمیشہ اس بات کی طرف رہے کہ ہم بھی کہیں یوں خدا کے فضل سے دُور نہ ہو جائیں.کوئی بھی اپنے زوال کا آرزو مند نہیں ہوتا اور یہ بات روحانی معاملات میں بھی اتنی سیچتی ہے جتنی کہ سیاسی معاملات میں صبر ایمان کی ریڑھ کی ہڈی ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی وقت اپنے مذہب کے پیچھے پیرو کار تھے مگر بعد میں شوق اور مذہبی لگن جاتا رہا اور وہ کسی بلند عمارت کی طرح گر کر پیوند خاک ہو گئے ہم جب بھی آسمان سے کسی ستارہ کو گرتا دکھیں تو یہ دعا ضرور پڑھیں انعوذ بالله مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ -

Page 155

۱۳۳ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے زنجبیل کا بڑا پیالہ پیا ہے کوئی شیطان کے اثر سے محفوظ نہیں.زنجبیل کا مطلب ادرک ہے اور قرآن مجید میں اس کا استعمال استعارہ کے طور پر ہوا ہے جس کا مطلب ہے نہایت ہی مفید قوی روحانی شربت یا ٹانک جو مومنوں کو تمام مشکلات پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے.چمکدار ستارے مختلف ستاروں کی چمک مختلف ہوتی ہے بعض اتنے چمکدار ہوتے ہیں کہ وہ سورج کی نسبت ہزار گنا چمکدار ہیں.ریل (RICEL) جو ایک بڑا ستارہ ہے یہ سورج کی نسبت اٹھارہ ہزار گنا زیادہ چمکدار ہے لیکن اس کی چمک کینا پس ستارے کے سامنے کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ سورج سے اسی ہزار گنا زیادہ چمکدار ہے.آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے ستارے شاید ہمیں اتنے چمکدار محسوس نہ ہوں لیکن سائنسدانوں اور ماہرین فلکیات کے بڑے بڑے آلات ان کی حقیقت ہم پر (CANAPUS) روزِ روشن کی طرح ثابت کر دیتے ہیں.فرض کریں کہ ہر ستارہ اس دنیا کے ایک انسان کی طرح ہے بعض اتنے چمکدار ہوتے کہ وہ اپنی قسم کے آپ ہوتے.ان کی مثال ان انبیاء اور صوفیاء کی طرح ہے جو روحانی افق پر گاہے بگا ہے نمودار ہوتے ہیں.ہماری دنیا ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہے جن کو ستا اس سے کہا جاتا ہے بعض فلمی دنیا کے ستا ہے، بعض ڈرامہ کے فن کے بستا ہے اور کھیلوں کے ستارے ہیں اور پھر وہ خواتین جو اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر سوسائٹی کے ستارے ہیں لیکن ان سے

Page 156

۱۳۴ بڑھ کر وہ ستارے سے ہیں جو روحانی دنیا کے ستارے سے ہیں یہ کہنا بجا ہے کہ ایسے روحانی ستاروں کو دنیا نہیں بھانتی لیکن خدا ان کو جانتا ہے اور یہی بات تمام دوسری باتوں کی نسبت زیادہ قدر ومرات رکھتی ہے.جن کا شمار روحانی ستاروں میں کیا جاتا ہے وہ بہت ہی علیم طبیعت ہوتے ہیں اس صدی کا سب سے زیادہ چمکدار ستارہ حضرت مرزا غلام احمد سیح موعود تھے حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لیکر آج تک کوئی اس سے زیادہ چمکدار ستارہ پیدا ہی نہیں ہوا.حضرت احمد پر خدا کا کلام بہت وانسر اترا کیونکہ آپ منتخب لوگوں میں سے ایک چنے ہوئے فرد تھے با وجو دیکہ آپ کا مرتبہ اس قدر اعلیٰ تھا لیکن آپ علم کا ایک زندہ ثبوت تھے.آپ اپنی ایک نظم میں اپنے متعلق فرماتے ہیں ے کائنات کا آغاز کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ہم جوں جوں کائنات کیسے رازوں سے آگاہ ہوتے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنا عظیم مادہ جس کے اور بھی شمسی نظام ہیں کس طرح وجود میں آیا ؟ ہماری فیکر خلاء کے صرف اس کو نہ سے ہے جس میں ہمارا شمسی نظام موجود ہے اور اس خلاء میں وہ ذرا سے دانے کے برابر ہے جس میں وہ رہتا ہے.کہا جاتا ہے کہ دس لاکھ ضرب دس لاکھ ایٹم سے اتنا سا مادہ بنتا ہے جس کو دیکھنا بھی مشکل ہے اور یہ کہنا ٹھیک ہے

Page 157

۱۳۵ کہ کائنات کے مقابلہ میں ہماری زمین صرف ایک ایٹم کے برابر ہے.آئیے ایک بار پھر کائنات کے عظیم وجود کا لیں ہمارا شمسی نظام ستاروں کی عظیم گلیکسی GALAXY کا حصہ ہے اور کہکشاں تو صرف اس کا ایک حصہ ہے ہر ستارہ جو آنکھ سے نظر آتا ہے وہ اس کہکشاں کی ایک اکائی ہے اور ہمیں دنیا کے مانے ہوئے ماہرین فلکیات یہ بتلاتے ہیں کہ تین کھرب گلیکسی ہماری پہنچے کے اندر ہیں جن کو ہم ٹیلی اسکوپ سے دیکھ سکتے ہیں اور کون جانتا ہے کہ ان سے دور کتنی اور ایسی گلیکسی ہیں جن کو ہماری ٹیلی اسکوپ دیکھ نہیں سکتی.کائنات کیسے وجود میں آئی ہے قبل اس کے کہ مادہ نے کوئی صورت اختیار کی بے شک یہ کسی اور صورت میں موجود تھا لیکن اس مضمون میں ہم کائنات کی کیمسٹری کے موضوع پر خیالات کا اظہار نہیں کریں گے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مادہ کی پیدائش کے یچھے کو نسا سبب تھا ؟ اور یہ بھی حقیقت مسلم الثبوت ہے کہ کسی نہ ہونے والی چیز سے کوئی ہونے والی چیز پیدا نہیں ہو سکتی یہ بات ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ان عظیم کائنات کے پیچھے ضرور کوئی زبر دست طاقت موجود ہے.بہت سے سائنسدانوں اور ملکی ماہرین کے لئے مادہ کا ماخذ ایک پیچیپ یہ مسئلہ بنا رہا ہے پیٹرک مور (PATRICK MOORE) ایک مشہور فل کی ماہر کا کہنا ہے کہ جب ہم اس مسئلہ پر غور کرتے ہیں کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا تو اس کا جواب آسانی سے نہیں (HOYLE) نے کہا ہے کہ مادہ یونہی ظہور میں آجاتا ہے ملتا ، ایک اور فلکی ماہر ہائل اس کو تخلیق کہا جاتا ہے پھر ایک مرحلہ پر وہ تمام ایم جن سے مادہ بنتا ہے ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ وجود پذیر ہو جاتے ہیں.

Page 158

۱۳۶ مذکورہ بالا ما ہرین یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ خدا کائنات کا خالق ہے شاید وہ ملحد ہوں گے لیکن ذرا یہ ارشاد قرآنی ملاحظہ ہو :- بَدِيعُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ (HA:P) كُن فَيَكُونُ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :.الم تَعلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُه (14:P) کون ہے جو چاند کی چمک اور اس کے حسن سے مسحور نہیں ہوتا.ہمیں نیلے آسمان کے خیمے کے نیچے چلنا چاہیئے.کائنات میں ہر چیز ہم پر خدا کے اوصاف عیاں کرتی ہے.خدا جو تمام جہانوں کا مالک ہے پس چاہیئے کہ ہم مبتنی بار آسمان کی طرف دیکھیں ہماری تو قبہ خدا کے اوصاف کی طرف جائے.آمین یا رب العلمین.Zakaria Virk P.O.Box 65, Kingston, ON K7L 4V6 Canada

Page 159

ہماری اندرونی کائت قرآن مجید کی پہلی آیت کتنی معنی خیز ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ بیماری زمین کے اردگرد کائنات اتنی وسیع و عریض خلاء میں پھیلی ہوئی ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی دُوربین اس کے کناروں کا احاطہ نہیں کر سکتی اگر یہ عین دور مینوں سے سائنسدانوں نے ہزاروں بلکہ لاکھوں " لائٹ ایر " دورستاروں کا پتہ لگایا ہے اور یاد رہے کہ روشنی ۸۶,۰۰۰, امیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے.کائنات کی وسعت اور اس میں مدفون عجائبات انسان کی فہم سے بالا ہیں قرآن مجید میں کیا خوب ارشاد ہوا ہے کہ اللہ ہر چیز جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو.(۲ : ۱۲۷ ) ہرستارہ اور ہر گرہ کائنات میں ایک مخصوص محور پر گھوم رہا ہے ہمارے اپنے تمسی نظام میں زمین اور اس کے آٹھ کڑے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں اور وہ گلیکسی جس کا یہ حصہ ہیں وہ بذات خود بہت سارے آسمانی گروں سمیت خلاء میں ایک مرکزی نقطہ کے گر دچھ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور اس کلیکسی کا محیط (یعنی گردش کا دائرہ) اس قدر وسیع ہے کہ ۲۵۰ مین

Page 160

۱۳۸ سالوں میں یہ ایک دفعہ مکمل طور پرگردش کرتی ہے.یہ اتنی بڑی گلیکسی جوخلا میں اتنی بڑی جگہ گھیرے ہوئے ہے دس کروڑ (TRILLION) گلیکسی میں سے ایک ہے.آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں خدا نے اپنے ایک عظیم بندے کو یہ حقیقت بتائی کہ خلاء میں موجود ہرگزہ گردش کر رہا ہے.فرمایا :- وا الشَّمس ينبغي لها أن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ لَ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ.(۴۱:۳۶) آج دنیا کی توجہ خلاء میں جستجو اور کائنات کے عجائب کو جاننے کی طرف لگی ہوئی ہے ہم اس چیز کو برا نہیں کہتے مگر یہ بات قابل افسوس ہے کہ انسان کے اپنے اندر جو کائنات موجود ہے اس کی طرف کم تو قبہ دی جارہی ہے.یہ اندر کی کائنات وہ ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے دنیوی کائنات چاہے کتنی بڑی اور پرکشش ہو یہ تو صرف عارضی گھروندا ہے جس میں زندگی چند لمحات کے لئے بسر ہوتی ہے کائنات کی زندگی میں چند سال کیا اہمیت رکھتے ہیں؟ ابدیت کے مقابلہ میں اس کی اہمیت کیا ہے ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے :- قُل مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلُ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تَظْلَمُونَ فيلاه (۷۸:۴) پھر ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے :- وما الحيرة الدُّنْيا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْر لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.(PF:4) کائنات کے بارہ میں جو تحقیقات انسان نے کی ہے وہ تو صرف سطح کو چھونے

Page 161

۱۳۹ کے برابر ہے.اسی طرح جن لوگوں نے ہمارے جسم کے اندر کی کائنات پر تحقیق کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابھی تو صرف آغاز ہوا ہے لیکن ترقی کی طرف بڑھنے والا ہر قدم نئی تحقیق سے ہمیں ہمکنار کرتا ہے.اسی طرح ذراسی ترقی سے نئی صداقتوں سے بھر پور پھلوں کے باغ ہمیں ملتے ہیں.ہماری اندرونی کائنات دو حالتوں یعنی دماغی اور روحانی حالتوں سے رواں ہے اور اس کی سمجھ اور ادراک ہمیں نہیں آسکتا کیونکہ یہ بات تو اس زندگی کے بعد آنے والی اصل زندگی میں پتہ چلے گی اور اس کا علم انسان کو بہت قلیل دیا گیا ہے.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اخْفَى لَهُمْ مِنْ قُرَةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءُ بِمَا كَانُوا (۱۸:۳۲) يَعْمَلُونَ.اِس آیت کریمہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان کو آنے والی زندگی کے بارہ میں بالکل اندھیرے میں رکھا گیا ہے قرآن مجید اُخروی زندگی کے بہت سے پہلو بیان کرتا ہے اور ذاتی تجربہ بھی بہت سے پہلو اجاگر کرتا ہے بہر حال زندگی اور آنے والی زندگی سے متعلق انسان کا علم بہت محدود ہے اگر چہ آخرت سے متعلق بہت سی سچائیوں اور گواہوں سے انسان کو آگاہ کیا گیا ہے.انسان کے اندر بہت سی مخفی قوتیں کارفرما ہیں ہمارا شعور ان کی موجودگی اور ان کے کاموں سے آگاہ نہیں بعض ایٹم میں موجود قویت کی طرح ہیں لیکن جب ہمیں ان کا ادراک ہو جاتا ہے تو یہ بارود کی طرح پھٹ کر ہماری شخصیت میں زبر دست مقناطیسیت پیدا کر دیتی ہیں ان قوتوں کو بُرے یا اچھے کاموں کے لئے بروئے کار لایا جاسکتا ہے لیکن ایک متقی شخص ان کو اپنے جسم، دماغ اور روح کی بھلائی کے لئے استعمال

Page 162

۱۴۰ کرے گا جس طرح زمین میں قیمتی دھاتیں مخفی ہیں اسی طرح یہ خدائی تھتے ہیں ایک دانا نہ صرف ان کو مزید ترقی دے گا بلکہ ان کو روح کی پرورش کے لئے استعمال کرتا ہے کیونکہ آنے والی زندگی میں یہ روحانی جسم کا بیج ہو گئی جو قیامت کے روز ایک خوبصورت مہکتے پھول کی طرح کھیلے گی.میرے خیال میں منیم کتابوں کی کئی جلدیں بھی شاید اس اندرونی کائنات پر صرف محمد و د روشنی ڈال سکیں راقم الحروف اس موضوع کو کتاب ہذا میں مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا لیکن میرا مقصد یہاں چند ایک مفید نقاط بیان کرنا ہے جو قیمتی اور یقیناً باعث دلچسپی ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہیں اس موضوع پر حقیقی اتھارٹی ہے اِنَّ اللهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَ اللهُ بَصِيرُ بِمَا تَعْمَلُونَ ٥ (۲۹ : ۱۹) آئیے اب ہم اس باب کے نفس مضمون یعنی انسان کے چارجموں پر غور کریں.ہمارا طبعی حسیم ہمارا طبیعی جسم حقیقت میں ہمارے اندر کے جسم کا آئینہ دار ہوتا ہے اور یہ مقولہ بالکل سچ ہے کہ " جیسے انسان سوچتا ہے ویسے ہی وہ ہوتا ہے ، طبعی جسم کو روح کا گھروندا بھی کہا گیا ہے اس لئے اس کو اندرونی اور بیرونی طور پر صاف رکھنا چاہئیے کیونکہ صفائی سے خدا کا قریبی رشتہ ہے.قرآن مجید میں ارشاد ہے :- " والرُّجْزَ فَاهُجُرُه (۶:۴) (4:27)

Page 163

ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ " انسان ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ وہ کھاتا ہے" اندرونی صفائی اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان صرف وہی چیزیں کھائے جو جسم کیلئے نفع مند ہوں اور نقصان دہ چیزوں سے پر ہیز کرے.یہ بظاہر ایک سادہ سابیان ہے لیکن جہالت کی بناء پر اور کھانے کی حرص و لایح کی بناء پر بعض لوگ نقصان دہ چیزیں بھی کھا لیتے ہیں اسلام ہمیں یہ سکھلاتا ہے کہ انسان صرف اچھی چیزیں کھائے ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں :- يستلونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ العيبت (۵:۵) قارئین یہ بات یاد رکھیں کہ اصل جسم ہمارا طبیعی جسم نہیں بلکہ اندرونی وجود جسم ہمارا ہے جو جسم کے ساتھ یا جسم کے بغیر زندہ رہنے کی اہلیت رکھتا ہے اصل جسم کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ہمارا جسم دماغی، نہ نظر آنے والا IETIERIES اور رومی جسم مشتمل ہے اور ان تین قسم کے جسموں پر اب ہم اگلی سطور میں روشنی ڈالیں گے.(ETHERIC) دماغی حیم حضرت علی کرم اللہ وجہ کے قول پر ذرا ایک لمحہ کے لئے غور فرمائیں " جب عظیم خیالات کو عمل کا حجامہ پہنایا جاتا ہے تو وہ عظیم کارنامے بن جاتے ہیں بیسویح در اصل دماغی جسم ہے تمام خیالات دماغ سے پیدا نہیں ہوتے اگر چہ سوچ اس عظیم قوت کے کنٹرول اور بہاؤ میں کارفرما ہے.

Page 164

سوچ ایک عالمی قوت ہے کیونکہ ہر چیز اور ہر عمل سوچ سے ہی شروع ہوتا ہے.ہر فعل کی کوئی وجہ ہوتی ہے اس لئے مادہ کے پیدا ہونے سے قبل سوچ ضرور موجود تھی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق اور ہمارا منبع ہے اس لئے سوچ خدا کی ایک زبر دست صفت ہے کائنات بننے سے قبل روز اول سے سویع موجود تھی اور دماغ کے بنانے اور اس کی ہیئت و طریق کار کے دیکھے بھی سوچ اس باب میں ہم سوچ کے دو حصوں پر بحث کریں گے یعنی (۱) شعوری فکر اور (۲) غیر شعوری فکر شعوری فکر ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہونے والی سوچ کا نام ہے جبکہ غیر شعوری فکر جو میں گھنٹے دماغ کے شعور سے زیادہ گہرائی میں ہر وقت خاموشی سے کار فرما ر رہتی ہے.ہمارا غیر شعوری دماغ ہمارے جسم کے تمام غیر ارادی افعال پر کنٹرول رکھتا ہے.یہ ہمارا غیر شعوری دماغ ہے جو ہمارے خون کے سفید اجزاء کو اکٹھا کرتا او حکم دیتا ہے کہ جسم میں جہاں کہیں بھی بیماری کا نام ہو ان پر حملہ کر دو.یہ غیر شعور ہی ہے جو ہمارے ہاضمہ کے نظام ، دل، جگر، گردہ اور دوسرے اندرونی اعضاء کو چلا رہا ہے تحت الشعور کی قوت اس قدر حیران کن ہے کہ جب اس کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے تو یہ ہر وہ نتیجہ پیدا کرے گی جس کا اس کو حکم دیا جائے.یہ بیان چاہے جتنا بھی سمجھ سے باہر ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ مزید بحث سے قبل ذرا اس شر آنی دعا کا ورد کرلیں : رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (۲۰ : ۱۱۵)

Page 165

اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " علم کا حاصل کرنا کرنا مسلمان پر فرض ہے.“ تحت الشعور کی طاقت اور اہلیت کے بارہ میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہاں ہم صرف چار پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے :- ا - تحت الشعور پر تجویز کے ذریعہ کنٹرول کیا جاسکتا ہے.۲ - تحت الشعور میں یہ اہمیت ہے کہ یہ پچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو حل کر سکتا ہے.۳ - تحت الشعور کو قدرت نے مکمل اور حیران کن یادداشت سے نوازا ہے.-۴- تحت الشعور کو ہمارے جسم کے کاموں اور تمام حالتوں پر کنٹرول حاصل ہے.سائنسی قوانین کی سمجھ اور ان کو زیر عمل لانے سے بہت سے میدانوں میں ترقی ملتی ہے.ہم سائنسی دریافتوں اور ایجادوں کے زمانہ میں رہتے ہیں جو کہ توسیع انسان کے لئے بہت نفع مند ہے.یہ سائنسی قوانین انسان کی نہ صرف مادی ترقی بلکہ روحانی ترقی میں بہت مفید ثابت ہوتے ہیں.مثال کے طور پر ریڈیو مخنیوی اور مذہبی علوم کے پھیلانے میں بہت محمد ثابت ہوا ہے اسی طرح دماغ کی سائنس کو جب سمجھا اور اس پر عمل کیا جائے تو یہ سائنس ڈھانی خواص کے پیدا کرنے میں زہر دوست محرک ثابت ہوگی.دماغ کے کام کرنے ، اس کی ہیئت کی سائنس اور علم کے مضمون کے مطالعہ کے وقت یہ نقطہ ہمارے مد نظر رہنا چاہیے.یہ بات ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ انسان وہی کچھ ہے جیسا کہ وہ (PSYCHOLOGY)

Page 166

۱۴۴ سوچتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی سوچ کے بیج سے پیدا ہو کر پھیلتی اور پھولتی ہے.ایک مشہور مصنف جیمز الین کا کہنا ہے کہ انسان سوچ کے اسلحہ خانہ میں جیسے ہتھیار پیدا کرتا ہے ان سے ہی وہ بگڑتا یا بنتا ہے اور اسی سوچ سے وہ ایسے آلات پیدا کرتا ہے جن سے وہ خوشی اور تجرأت و طاقت کے بڑے بڑے آسمانی محل تعمیر کرتا ہے" تحت الشعور کی مثال سرسبز نمودار باغ سے اور شعوری دماغ کی ایک مالی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے.ہر سوچ جس کا اثر تحت الشعوری دماغ پر ہو گا وہ ایک پیج کی طرح پھیل دے گا اور اس کا ویسا ہی اثر ہماری شخصیت پر ہوگا یایہ ایسی چیز کو اپنی طرف کھینچ لے گا جب تک کہ وہ ہر چیز پہنچ سے باہر نہ ہو.یہ ایک ایسا قانون ہے جو کبھی شکست نہیں کھائے گا جب تک کہ سوچ کے بیج تحت الشعور کی زمین میں صحیح طریق پر بوئے جائیں.وہ بیج جن کو مالی باغ میں لگاتا ہے ان کو کئی ایک چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے منگا ان کو دھوپ چاہیے ان کو مناسب مقدار میں پانی اور کھا د چاہیے تب جا کر وہ صحیح پرورش پاتے ہیں.اسی طرح وہ خیال جس کو تحت الشعور میں بویا جاتا ہے اس کو بھی زبر دست خواہش اور تڑپ کے ساتھ پرورش دینا لازم ہے.مزید برآں انسان کے نصب العین کی خواہش اور اس کے حاصل کرنے میں مکمل اعتماد بھی لازم ہے پھر یہ دیکھنا کہ دماغی تصور کسی جادو کی طرح باری صورت اختیار کرلے گا.یاد رہے کہ تحت الشعوری داغ پر تجویز کو بہت کنٹرول ہے.دماغ کی تخلیقی قوت ہر رائے کو غور سے پرکھتی ہے اور ہر کم جو تحت الشعور کو

Page 167

۱۴۵ دیا جاتا ہے وہ پر کھا جاتا ہے یہ ایک عظیم تحفہ ہے جو خدائے ذوالجلال نے انسان کو دیا ہے صرف اس کے سمجھنے اور اس کو جگانے کی ضرورت ہے یہ انسان کیلئے بہت مفید اور نہایت کارآمد چیز ہے یہ انسان کا بہت ہی قابلِ اعتبار خادم ہے جب ایک شخص تحت الشعور کی طاقت کو بیان کر تجربہ کر لیتا ہے تو انسان بے فکر ہو کر اس کو ہدایت دے سکتا ہے اور یہ یقین کر سکتا ہے کہ جو " بلو پرنٹ “ ( BLUE PRINT ) اس پر لگایا جائے گا وہ ضرور کامیابی اور کامرانی سے سرخرو ہوگا.یہ بات جاننا بھی لازمی ہے کہ دماغ ایک انسان کے حق میں یا خلاف بھی کام کر سکتا ہے مثبت خیالات مثبت نتائج پیدا کرتے ہیں او منفی خیالات منفی نتائج پیدا کرتے ہیں کامیابی کا سوچو گے تو کامیابی ملے گی ناکامی کا سوچو گے تو نا کامی ملے گی صحت مندی کا سوچو گے تو صحت مند رہو گے بیماری کا ہر وقت سوچو گے تو ہماری ضرور آئے گی.خوب یا درکھو کہ ایک قسم کی چیز ویسی ہی قسم کی دوسری چیز کو اپنی طرف کھینچے گی اور ہر انسان صرف ان چیزوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی سوچ سے میل کھاتی ہیں.تحت الشعور کی قوت ہر انسان میں موجود ہے بات صرف اس کے پہچاننے اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ہے.خیالات کو کنٹرول کرنے سے ایک شخص اپنی شخصیت کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے.انسان اپنے دماغ کے باغ کا بالی ہے اس میں یہ طاقت ہے کہ وہ دماغ سے تمام منفی خیالات نکال دے اور ان کی بجائے مثبت خیالات کے بیج لگائے اور ان کی خوب پرورش کرے جو نیم پر خوبصورت

Page 168

۱۴۶ شخصیت کے پھول اور دلربا پھل پیدا کرے یاد رکھو کہ اپنے نفس کا آقا بناہی کامیابی • کی گنجی ہے.یہ اصول یا نظر یہ خدا کی مالکیت کی صفت کے ہرگز خلاف نہیں یہ ٹھیک ہے کہ خدا ہی تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے اور یہ کہ وہ جہاں بھی اور جب بھی چاہتا ہے مداخلت کر سکتا ہے لیکن یہ بھی ناممکن ہے کہ قدرت کے اصولوں میں جنہیں اس نے خود بنایا ہے مداخلت کرے.ایک گیند جو ہوا میں پھینکا جائے تو وہ کشش ثقل کے اصول کے ماتحت زمین کی طرف ہی گرے گا ہاں خدا تعالیٰ میں یہ طاقت ضرور ہے کہ وہ گیند کو زمین کی طرف گرنے سے روک دے اور گیند یوں ہوا میں ہی معلق رہے لیکن جب تک اس کرشمہ کے دکھانے کی کوئی اشد ضرورت نہ ہو تو خدا قدرت کے اصولوں میں مداخلت نہیں کرتا لاریب حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا گیا لیکن خدا نے آپ کو آگ کے شعلوں سے محفوظ رکھا لیکن یہ ایک خاص نادر موقع تھا ورنہ آگ تو ہمیشہ جلاتی ہے.اسی طرح ذہن کی تخلیقی قوت کے قوانین کام کرتے ہیں اگر چہ تسلیم کرناضروری ہے کہ خدا میں مداخلت کی طاقت ہے کیونکہ خدا مالک کائنات ہے ہر چیز اس کے ماتحت ہے.تحت الشعوری دماغ میں اتنی قوت ہے کہ یہ بعض پیچیدہ اور شکل ترین مسائل کو آناً فاناً حل کر دیتا ہے بعض دفعہ مسائل کے حل ہمارے دماغ میں ہوتے میں اور بعض دفعہ جاگتے ہیں آجاتے ہیں جبکہ دماغ اس مذکورہ مسئلہ پر غور نہیں کو رہا ہوتا.یہ بات ثابت شدہ ہے کہ سونے سے قبل اپنے آپ کو کوئی کام تجویز کرنے سے تحت الشعور ی دماغ حرکت میں آجاتا ہے کیونکہ دماغ کی تخلیقی قوت اس وقت

Page 169

۱۴۷ بہترین حالت میں ہوتی ہے جب شعوری دماغ سویا ہوا یا آرام کر رہا ہوتا ہے یا پھر کسی دوسرے ہلکے پھلکے کام میں مصروف ہوتا ہے.یہ بات کوئی اچنبھا نہیں کہ ایک شخص رات کو ایک مشکل یا مسئلہ لیکر سوتا ہے لیکن صبح اُٹھنے پر اسے اس مشکل کا حل مل جاتا ہے.ہمارا غیر شعوری دماغ چوبیس گھنٹے جاگتا اور کام کرتا ہے حتی کہ جب ہمارا شعوری دماغ سویا ہوتا ہے اس حالت میں بھی غیر شعوری دماغ کام کر رہا ہوتا ہے.ایک سوئے ہوئے شخص کے کان میں ہلکی آواز میں کوئی چیز تجویز کرنے سے اچھے نتائج پیدا کئے جاسکتے ہیں.اپنے آپ کو بہتر بنانے سے متعلق مثبت تجاویز یا بری عادات کو چھوڑنے سے متعلق اپنے آپ کو نصائح کرنا یا ایک بچے...کے کان میں سوتے میں اچھی نصائح کہنا بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے.ایک دفعہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کی ایک مشکل ترین مسئلہ کے حل کرنے میں اِس طرح مدد کی کہ فائنل امتحان سے ایک رات قبل باب سوئے ہوئے بیٹے کے سرہانے بیٹھ گیا اور اس مسئلہ کے وہ حصے قدرے اونچی آواز میں بار بار پڑھے جن کو سمجھنے میں اس کو دقت تھی دوسرے دن باپ کے بیان کے مطابق بیٹے نے امتحان کا پرچہ بہت آسانی سے حل کیا.گویا سوتے میں سیکھنا ایک کامیاب طریق ہے اور اب تو بازار میں خاص قسم کے ٹیپ ریکارڈر ملتے ہیں جن کے ساتھ ایسے لاؤڈ اسپیکر لگے ہوتے ہیں جن کو تکیہ کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے اور ایسے آلات خاص تعلیمی اداروں میں بھی استعمال ہوتے ہیں.نیکی کے کاموں میں ترقی کرنے کے لئے بھی مذکورہ بالا قوانین سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.تحت الشعوری دماغ اس وقت ہدایات پر اچھی طرح عمل کرتا - : !

Page 170

۱۲۸ ہے جب شعوری دماغ سویا ہوتا ہے.ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اکثرا اپنے غیر شعوری دماغ کو ہدایت دی کہ انہیں صبح فلاں وقت پر جاگنا ہے اور پھر وہ اس مقررہ وقت پر بغیر گھڑی کے الارم کے خود بخود اُٹھ بیٹھے.تحت الشعوری دماغ کو قدرت نے نہایت ہی اچھی یادداشت سے نوازا ہے.یہ بات اچھی طرح ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارا تحت الشعوری دماغ ہر وقت ہر چیز کی تفصیل کو ریکارڈ کرتا ہے جس کا علم اس کو جو اس خمسہ سے ہوتا ہے.اس کی مثال ایک ٹیپ ریکارڈ کی طرح ہے یا ایک محترک کیمرہ کی طرح ہے ہر وہ چیز جس کو یہ دیکھتا ، سکتا یا محسوس کرتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس میں محفوظ ہو پھر جاتی ہے.مندرجہ ذیل تجربات ایک امریکن ڈاکٹر نے بیان کئے ہیں :.1- ایک نوجوان کو ایک اخبار کے اندر کئی ایک چھوٹی چھوٹی خبریں بار بار پڑھنے کے لئے کہا گیا پھر اس سے پوچھا گیا کہ اس نے کیا پڑھا تھا ؟ اس نے قریب قریب سب کچھ بتلا دیا مگر بالکل ٹھیک نہ بتلا سکا اس کو بہیوش ) کر دیا گیا اور اپنی یادداشت سے خبریں سُنانے کے لئے کہا گیا نہ صرف یہ کہ اس نے بالکل ٹھیک خبریں سنائیں بلکہ پورے صفحہ پر تمام خبریں اس نے ٹھیک ٹھیک سنائیں.اگر چہ وہ اپنی توجہ صرف چند ایک خبروں پر مرکوز کر رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں نے پورے ( HYPNOTISED صفحہ کی تصویر اتاری.- ایک دوسرے تجربہ میں ایک نوجوان عورت کو ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور کی

Page 171

۱۴۹ بڑی کھڑکی کے پاس سے گذرنے اور اس کے اندر رکھی ہوئی چیزوں کو جلدی سے دیکھنے کے لئے کہا گیا اس کے پاس کھڑکی کے اندر موجود چیزوں کو دیکھنے کے لئے صرف ایک لمحہ تھا جب اس سے تمام چیزوں کی تفصیل پوچھی گئی تو اس نے احتجاج کیا اور کہا کہ اسے صرف ایک لمحہ دیا گیا تھا البتہ جب اس پر PAROSIS کر کے اس کو سلا دیا گیا تو اس نے حیران گئی طریقے سے ہر چیز کی تفصیل بتا دی.تحت الشعور دماغ کی قوت فی الحقیقت ایک کرشمہ کی طرح ہے، اور تحت الشعور کی حیران کن یادداشت ہمیں یہ قرآنی نصیحت سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ آنے والی زندگی میں انسان اپنی گذشتہ زندگی کے واقعات ایک کھلی کتاب کے اندر محفوظ واقعات کی طرح پائے گا.اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے :- وَكُل اِنْسَانِ الزَمْنَهُ طَبِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ (۱۴:۱۷) الْقِيمَةِ كِتبًا يَلْقىهُ مَنْشُورًا یہ آیت کریمہ ہمیں کوئی نظیر معمولی بات نہیں بتلاتی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں ہی اس کے تمام الفاظ اور اعمال دماغ میں ریکارڈ اور محفوظ ہو جاتے ہیں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو.کہتے ہیں کہ ایک نوجوان عورت نے ایک دفعہ اچانک لاطینی زبان کے چند مجملے بولے جبکہ اس نے لاطینی کبھی بھی نہیں پڑھی تھی بعد میں تحقیقات پر معلوم ہوا کہ بچپن میں وہ لاطینی زبان کے ایک سکالر کے ہاں بعض اوقات جایا کرتی تھی جو اونچی آواز میں لاطینی زبان میں باتیں کیا کرتا تھا

Page 172

۱۵۰ بڑے ہونے پر وہ لاطینی کے جملے جو اس کے غیر شعوری دماغ میں مستقل طور پر ریکارڈ ہو گئے تھے وہ شعوری دماغ میں ایک لخت آگئے.اس واقعہ کے پیش نظر یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ کیونکر مسلمان بچوں کے پیدا ہونے پر ان کے کان میں اذان دی جاتی ہے.غیر شعوری دماغ کو جسم کے تمام فنکشن اور مختلف حالتوں پر کنٹرول حاصل ہے.دماغ کو مادہ کے کنٹرول کرنے کی طاقت حاصل ہے اور جیساکہ سیلف کنٹرول ایک بنیادی صفت ہے اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا حصول صرف سوچ کے کنٹرول (تھاٹ کنٹرول) سے ہی ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :- يبنى إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أو في السموتِ أَو فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ إِنَّ اللهَ (۱۷:۳۱) لطيف جيره غیر شعوری دماغ نہ صرف بیرونی ہدایات بلکہ اندرونی ہدایات کے بھی زیر اثر ہوتا ہے.اندرونی ہدایات کے ماتحت انسان اپنے تحت الشعوری دماغ پر ایسی اشیاء ، خیالات اور حالات کو چسپاں کرتا ہے جن کو وہ دماغ کی تخلیقی قوت کے ماتحت حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے.ہر شخص اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے مگر یا در ہے کہ اس کا حصول دماغ کی صحیح تربیت پر مبنی ہے مندرجہ ذیل مثالیں یہ بات اظہر من الشمس کریں گی کہ دماغ کو مادہ یا اشیاء پر کنٹرول حاصل ہے :.ہونے کو بری خبر کے گنے پر ہاضمہ کا نظام خراب ہو جاتا ہے، خون کی رگیں شکر -

Page 173

۱۵۱ جاتی ہیں، دل کی دھڑکن ملکی ہو جاتی ہے، سانس آنا مشکل ہو جاتا ہے اور نظام جسم کے کئی دوسرے حصے متاثر ہوتے ہیں.ب - جذباتی خیالات سے جسم کے اندر طبیعاتی تبدیلیاں آتی ہیں شرم آنے پر انسان کے رخسار شرع ہو جاتے ہیں جون سے انسان کا پینا شروع ہو جاتا ہے اور پٹھوں میں کھچاوٹ پیدا ہو جاتی ہے ، غصہ اور دماغی سے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور غدودوں میں زیادہ نکلتی ہے اور نتیجہ جسم میں دوسری خرابیاں پیدا EXITEMENT ADRENALIN ہو جاتی ہیں.ج - ن کر کرنے سے جسم سے توانائی ضائع ہو جاتی ہے اور سانس مشکل سے آتا ہے فکر اور تشویش سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے ، ہاضمہ کا نظام بگڑ جاتا ہے، بے آرامی ہوتی ہے نیند نہیں آتی اور سر میں اکثر درد رہتا ہے.تمام منفی قسم کے خیالات یعنی فکر، غصہ، حسد ، نفرت جسم پر برا اثر ڈالتے ہیں اور صحت خراب ہو جاتی ہے.یہ احساسات ہمارے غدودوں میں سے زیادہ زہر پیدا کر کے ہمارے خون میں شامل کر دیتے ہیں.انسان کی صحت کا مدار نہ صرف اِس بات پر ہے کہ وہ کیا کھاتا ہے بلکہ کسی قسم کی ورزش کرتا ہے اور مزید یہ کہ اس کی سوچ کس قسم کی ہے ؟ (RAWSON) ایک مصنف مسٹرایف - ایل.راسن اپنی کتاب لائف انڈرسٹوڈ میں پروفیسر گیٹس کے چند ایک دلچسپ تجربات بیان کرتا ہے.مذکورہ پروفیسر نے یہ دریافت کیا کہ ایک شخص کی د ماضی حالت کے بدلنے پر جسم کے پسینہ کا کیمیائی تجزیہ

Page 174

۱۵۲ بھی بدل گیا.اسی طرح دوسرے تجربہ میں ایک شخص کو ایک ٹھنڈی ٹیسٹ ٹیوب میں ہوا پھونکنے کو کہا گیا تو ایک بے رنگ قسم کا پانی نمودار ہوا لیکن جب اُسی شخص کو ایک بڑی بات کہ کو ناراض کر دیا گیا تو ٹیسٹ ٹیوب میں بھورے رنگ کا پانی سا نمودار ہوا بتجربہ سے ثابت ہوا کہ افسردگی سے GREY رنگ کا اور شیمانی سے گلابی رنگ کا مادہ نمودار ہوتا ہے.مزید بر آن پسینہ والے تجربہ سے یہ ظاہر ہوا کہ خاص قسم کی سوچ سے جمالی نظام سے اسی خاص قسم کا مادہ خارج ہوا پھر بعد میں اس نے براؤن رنگ کا مادہ کافی سارا اکٹھا کر کے اُسی شخص کو ٹیکہ لگا کر ایر واپس جسم میں ڈالا تو اس شخص میں اعصابی کھچاوٹ پیدا ہو گئی.ایک اور عورت کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو خود بھی صحتمند تھی اور اس کا بیجیہ بھی کا فی صحتمند تھا ایک دن خدا جانے کیا ہوا کہ عورت شدید طور پر ناراض ہوگئی جس سے نظام جسم میں زہر پیدا ہوا جو دودھ کے راستے بچہ میں چلا گیا اور بچہ سے جاں بحق ہو گیا.ایک ڈاکٹر یا معالج اپنے مریضوں کے سرہانے بیٹھ کر ان سے کیسے باتیں کرتا ہے اس کا مریضیوں پر بہت اثر پڑتا ہے.ڈاکٹر کا اچھا سلوک اور بہتر رویہ مریض میں شفا پانے کی حیرت انگیز قوت پیدا کر دیتا ہے اور بعض دفعہ مرض دوائی کی مدد کے بغیر بھی ٹھیک ہو جاتا ہے بعض ایک مریضوں کو رنگین پانی اور قینی کی گولیاں اس طور پر دی گئیں کہ گویا یہ کوئی زبر دست دو تھیں چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ مریض شفایاب ہو گئے اور یہ خاص دوا " ان کے علاج کی وجہ تھی جبکہ علاج انکے دماغ کے اندر موجود تھا.

Page 175

۱۵۳ دو ڈاکٹروں نے مندرجہ ذیل تجربہ صرف اس لئے کیا کہ پتہ لگائیں تصوراتی سویح کا کیا اثر ہوتا ہے ؟ بہت سارے مریضوں کو عام علاج کی دوائیاں ایک ہسپتال کے وارڈ میں دی گئیں لیکن ان مریضوں کو اچانک یہ بتلایا گیا کہ ان کو غلطی سے تھے کرنے والی دوا دے دی گئی ہے چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد بہت سارے مریضوں نے تھے کر دی.ایک قیدی کا مشہور واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ اس کو بتلایا گیا کہ اس کی موت اس رنگ میں وقوع پذیر ہوگی کہ اس کا خون اس کے جسم سے رستا رہے گا اور پھر وہ ختم ہو جائے گا پھر اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور اسے بتلایا گیا کہ خون بہنا شروع ہو گیا ہے اس کے بازو پر سے گرم پانی گرایا گیا زمین پر ایک برتن پڑا تھا جس میں قطرے گرتے تھے اور وہ ان کے گرنے کی آواز سُن سکتا تھا اس کے اردگرد لوگ موجود تھے ان کی آپس کی گفتگو سے کہ وہ خون بہنے سے کتنا کمزور ہو رہا ہے اس نے یہ جان لیا کہ وہ جلد ہی مر جائے گا اور پھر حقیقت میں وہ جلد ہی جاں بحق ہوگیا یہ واقعہ اس بات کا درخشندہ ثبوت ہے کہ دماغ کو جسم پر کتنی زبر دست طاقت حاصل ہے.یہ چند ایک مثالیں تھیں جو دماغ کے جسم پر اثر اور قوت کو بیان کرنے کیلئے اس باب میں پیش کی گئیں ورنہ ایسی اور بھی ضرور ہوں گی.فلکی قسم THE ETHERIC BODY دنیا کے روز اول سے یہ بات عوام الناس میں عقیدہ بنی رہی ہے کہ

Page 176

۱۵۴ انسان کے طبعی جسم کے علاوہ انسان کے اندر ایک اور جسم بھی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو جسم کے اندر سے خود کو پیش کرتا ہے اس کا نام عموماً یہ روح نہیں ہاں رُوح کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے.ASTRAL BODY ہے ہمارا ETHERIC جسم سونے کی حالت میں اور غیر شعوری حالت میں اپنے آپ کو جسم سے خارج کر لیتا ہے اس کا اظہار جاگنے کی حالت میں اور نیم شعوری حالت میں بھی ہوتا ہے جسم سے اس کا اخراج غیر ارادی اور یکایک ہوتا ہے اگر یہ بعض لوگ اس کو حسب خواہش بھی نکال سکتے ہیں.جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ETHERLAC BUOY روح کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے لہذا یہ جاننا قدرتی ہے کہ رُوح اس جسم کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے جب طبیعی جسم سے الگ ہوتا ہے.اس نقطہ سے متعلق قرآن حکیم ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ رُوح اگر چہ موت کے وقت الگ ہوتی ہے یہ سونے کی حالت میں بھی جسم سے الگ ہو جاتی ہے.مندرجہ ذیل آیت کریمہ پر غور فرمائیں :.الله يَتَوَلَّى الاَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَ الَّتِي لَمْ تَمُتْ في مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الأخرى إلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى اِنَّ فِي ذَلِكَ رَأَيْتٍ لِقَوْمٍ يتَفَكَّرُونَ.(۴۳:۳۹ ) مذہب اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ روح کا جسم کے اندر قائم رہنا اور جسم سے اس کا تعلق لازم و ملزوم ہے.اس ضمن میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ نعیف کی حالت میں جب رُوح جسم سے خارج ہو جاتی ہے تو پھر کسی دوسرے جسم میں قیام

Page 177

۱۵۵ کرتی ہے ؟ اس کا جواب ETHERIC BODY پیش کرتا ہے کیونکہ یہی جسم در اصل روح کا حقیقی ممکن ہے.اِس کا دوسرا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ روح کے اردگرد ایک ہالہ پیدا ہوتا رہتا ہے اور یہ روح اس روحانی دھندلکے کے اندر قائم رہتی ہے.ETHERIC BODY اور روح طبعی جسم یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ سے کبھی بھی بیرونی سفر کے دوران علیحدہ نہیں ہوتے یہ آپس میں نہ نظر آنیوالے ایک دھاگے سے منسلک ہوتے ہیں تو گویا لو گویا ETHERIC BODY اور روح طبعی جسم سے موت سے پہلے کبھی بھی ایک دوسرے سے مکمل طور پر جدا نہیں ہوتے ی منسلک کرنے والا دھاگہ بعض دفعہ کہلاتا ہے اور جن لوگوں نے جسم سے باہر کے روحانی تجر بے دیکھتے ہیں انہوں نے اس بات کا خوب مشاہدہ کیا ہے اس کی مثال UMBILICAL CORD سے دی جاسکتی ہے جو بچے کو رحم کی تاریک دُنیا سے باہر کی روشن دُنیا میں آنے کے بعد بھی ماں سے ملائے رکھتا ہے کے کٹنے کے بعد نوزائیدہ بچے کا ماں سے تعلق ختم ہو جاتا UMBILICAL CORD ہے اسی طرح ASTRAL CORD ASTRAL CORD کے کٹنے کے بعد ETHERIC BODY اور روح طبعی جسم سے ہمیشہ کے لئے جُدا ہو جاتی ہے بعض دوسرے مواقع پیر CORD طبعی جسم اور ETHERIC BODY ASTRAL کو آپس میں ملائے رکھتی ہے جبکہ اس کو کو مؤخر الذکر سے الگ کر دیا جاتا ہے اور یہی وہ ذریعہ ہے جو ETIMERIC BODY طبعی جسم میں واپس لاتا ہے اس کی ایک اور مثال زمینی اسٹیشن اور خلائی طیارہ میں ریڈیو تلق" سی ہے خلائی طیارہ کو زمین پر REMOTE CONTROL کے ذریعہ

Page 178

۱۵۶ لایا جاتا ہے.ETHERIC BODY ا ہماری گفت گو کا مقصد یہاں یہ ہے کہ ایک انسان کے اندر دو انسان ہوتے ہیں ایک وہ جوطبعی جسم سے نکل کر گھوم پھر سکتا ہے اور بعینہ شعوری حالت میں بھی ہوتا ہے.ایک انسان اپنے اس قسم کے جسم کو اوپر سے دیکھے تو اسے اپنے بی جسم کی طرح بستر پر لیٹے پائے گا.کی حالت میں انسان دُور دراز جگہوں کی سیر کر سکتا ہے اور اس کی حقیقت یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ انسان اُٹھنے پر ایسی جگہوں کی تفصیل مکمل طور پر بیان کر سکتا ہے اگر چہ اس نے بعض جگہوں کو زندگی میں کبھی بھی نہ دیکھا ہو.یہ کوئی خواب یا وہم نہیں ہوتا "اتھرک باڈی " طبعی جسم سے الگ ہونے پر بھی دنیا میں اس کے اردگر وجو ہو رہا ہوتا ہے اس کو سنتا اور اس سے مکمل طورپر آگاہ ہوتا ہے.عام طور پر انسان کا ایتھرک باڈی جب دوسری دُنیا کا سفر کرتا ہے تو وہ اس سے باخبر نہیں ہوتا لیکن یہ بات کوئی انہونی نہیں کہ ایک شخص اپنے آپ کو طبعی جسم سے الگ پائے اور اپنے جو اس میں بھی ہو اور بعد میں وہ تمام تجربات سے آگاہ بھی ہو.ASTRAL PROJECTION " اسٹرل پر ویکیشن ایک ایسا موضوع ہے جس صرف چند ایک لوگ دلچسپی رکھتے ہیں یا اس کے بارہ میں تحقیق کرنا چاہتے ہیں اسلئے اس کے ذکر سے بعض لوگ اس پر یا تو مشکوک ہو جاتے ہیں یا ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اور یا پھر اسے بالکل رد کر دیتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ دنیا میں لکھوکھا ایسے لوگ ہیں جو خدا پر یقین نہیں رکھتے اس لئے یہ قدرتی بات ہے کہ بعض کم علم لوگ اس موضوع پر گفت گو کرنے سے گریز کرتے ہیں.دنیا کی ابتداء سے لیکر آج تک

Page 179

۱۵۷ لوگ انسانی جسم سے باہر کے تجربات سے آگاہ ہوتے رہے ہیں اور مختلف قوموں کے لوگوں نے مختلف زمانوں میں ایسے تجربات کو قلمبند کیا ہے اس لئے ایسی زبر دست شہادتوں کے پیش نظر اس چیز سے انکار کم علمی پر دلالت کرے گا.اس موضوع پر چند ایک نہایت معلوماتی کتا نہیں دستیاب ہیں اگر اس موضوع پر کوئی شخص مزید تحقیق کا متمنی ہو تو مندرجہ ذیل کتابیں بہت مفید ثابت ہوں گی :- 1- THE PROJECTION OF THE ASTRAL BODY BY SYLVAN MULDOON THE PHENOMENA OF ASTRAL PROJECTION BY SYL VAN MUL DOON 3 - MY EXPEREINCE WHILE OUT OF THE BODY BY CERA L.V.RICHMOND 4- THE PHENOMENA OF BILOCATION BY E.BOZZANE MORE ASTRAL PROJECTION 5- BY ROBERT CROOKHALL مذکورہ کتابوں میں بعض ایک افراد کی شہاد نہیں جسم سے خارجی تجربات سے متعلق جو سلوان مڈون کی کتاب میں بیان ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک یہاں پیش کی جاتی ہیں:.امریکہ کے شہر بالٹی مور کی ایک شہری مسٹر پار کرنے لکھا کہ " میرا پہلا تجربہ بہت کم عرصہ کا تھا اور کئی سال پہلے وقوع پذیر ہوا.ایک صبح کو نہیں یو نہی نیند سے بیدار ہوئی اور اپنے آپ کو اپنے کمرہ میں کھڑے پایا اور میں نے اپنے جسم

Page 180

۱۵۸ کو سامنے کے بستر پر گہری نیند میں دیکھا." (۳) سینٹ لوئیس شہر کی عورت مسرور میں ایتھر ٹن نے حلفیہ بیان دیا کہ میں نے اپنے آپ کو بستر پر لیٹے پایا حالانکہ مجھے علم تھا کہ کہیں اس جسم میں نہیں ہوں.یں اس جسم سے الگ کھڑی تھی اور میرا باپ (جو پا ۲ سال پہلے وفات پاچکا تھام میرے ساتھ کھڑا تھا.وہ ان حقیقی اور سچا تھا جتنا کہ وہ اپنی زندگی میں تھا پھر جلد ہی ہر چیز تاریک ہوگئی اور چند نخوں میں میں اپنے طبیعی جسم میں دوبارہ داخل ہوگئی.مجھے یہ علم ہے کہ میں اپنے جسم سے الگ تھی...پھر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ یہ کوئی خواب نہ تھا کیونکہ کہیں بالکل ہوش و حواس میں تھی اس کے باوجود مجھے یہ علم نہیں کہ مجھے کیا ہو گیا تھا " ۳ برطانیہ کے شہر علی میتھ کے ایک شخص جس نے اپنا نام دینا پسند نہ کیا بیان کیا کہ میں نے اچانک محسوس کیا کہ میں اپنے جسم کے اوپر تھا اور اس پر سیدھا دیکھ رہا تھا میراجسم روز روشن کی طرح بستر پر پڑا ہوا تھا میں نے چہرہ پر خاص طور پر نگاہ ڈالی اور بڑی حیرت سے دیکھا کہ میں اپنے چہرہ کو ایسے دیکھ رہا تھا جس طرح دوسرے لوگ مجھے دیکھتے ہیں.یہ تجر بہ بالکل حقیقی تھا اور واقعی تھا اس میں تصویر یا وہم کا کوئی دخل نہیں ہے ایک عورت جس کا نام و برا جانسن ہے اس نے بیان کیا کہ گذشتہ سال موسم سرما میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا.ایک رات جونہی میں بستر میں گئی میں اُٹھی اور بستر کے ایک طرف چند ایک منٹ کے لئے کھڑی رہی اور ٹکٹکی لگا کے اپنے آپ کو بستر پر لیٹے دیکھتی رہی.جان لو کہ یہ کوئی خواب نہ

Page 181

۱۵۹ تھا ئیں حقیقتہ بستر سے نکل کر کھڑی ہوئی اور اپنے جسم کو بستر پر لیٹے پایا.پھر تھائیں میں گھر کے دروازہ سے باہر نکلی اور کچھ لمحوں کے لئے باہر گئی.اس وقت سے لیکر اب تک میں نے ایک دفعہ اور اپنے آپ کو باہر گھومنے کے لئے جاتے پایا جبکہ میرا جسم گھر میں تھا.انڈین سپرنگ ، امریکی ریاست انڈیانا کے والٹر میک برانڈ نے لکھا ۲۳۴ دسمبر کی شام کوئی آٹھ بجے ہمیں اپنے سونے کے کمرہ میں گیا جو گھر کے نیچے والے حصہ میں ہے میں نے بجلی بند کی اور حسب معمول سونے لگا ہر چیز معمول کے مطابق تھی....پھر یہ بات چاہے کتنی ہی فضول لگے ہیں نے محسوس کیا کہ میں کمرہ کے اندر ہوا میں تیر رہا ہوں لیکن کمرہ میں روشنی تھی میں اس وقت پورے جو اس میں تھا.پھر میں نے محسوس کیا کہ میں بلڈنگ کے اُوپر کی طرف تیر رہا تھا کمرہ کی چھت اور اوپر کی منزل مجھے او پر جانے سے نہ روک سکے اور میں آسانی سے گزر گیا پھر ایک مقررہ اونچائی تک پہنچ کر میں سیدھا ہو گیا اور میں نیچے کی طرف یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ میرا جسم بستر پر پڑا تھا اور یہ جسم اس حالت میں تھا جیسا کہ میں سونے کے وقت تھا." ایک رسالہ THE OCCULT REVIEW کی ایک پرانی جلد طبع ۱۹۰۸ء کے صفحہ ۱۶۰ پر ڈاکٹر فرانز ہارٹ مین نے مندرجہ ذیل واقعہ لکھا :- ۱۸۸۴ء میں جب میں کولمبو سیلون میں تھا تو میں ایک روز اپنے دوست کے ساتھ ایک دندان ساز سرجن کے دفتر میں دانت نکلوانے گیا

Page 182

14.میں نے کلور و فام سونگھا اور اس کا ابھی مجھ پر تھوڑا سا اثر ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو اس گرمی کے پیچھے پایا جس میں میرا جسم آرام کر رہا تھا.میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور بالکل وہی انسان محسوس کیا جیسا کہ میں ہوں میں نے اپنے سے متعلق ہر چیز دیکھی اور جو کچھ میرے بارے میں کہا جا رہا تھا وہ بھی شنا لیکن جب میں نے میز پر پڑے اوزاروں کو چھونا چاہا تو یوں لگا گویا میری انگلیاں ان اوزاروں میں سے گذر گئی ہیں.ETHERIC BODY یہ چند ایک واقعات یہاں اس لئے پیش کئے گئے تاہم یہ ثابت کریں کہ کا ہونا اتنا ہی مسلم ہے جتنا کہ تحت الشعوری دماغ ، خوابوں کی حقیقت اور دوسرے روحانی تجربات کا ہونا حقیقت ہے جسم سے خارجی تجربات نے بہت سے مشکوک لوگوں پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ زندگی اس عارضی جسم کے علاوہ بھی ہے اور اس طرح ان لوگوں کا موت کے بعد زندگی پر یقین اور بھی پکا ہو گیا ہے.رُوح والاحم THE SOUL BODY روح انسان کا نہایت قیمتی سرمایہ ہے جو ہمیشہ کے لئے رہتی ہے اور ایک روحانی درجہ سے دوسرے رُوحانی درجہ میں تبدیل ہوتی رہتی ہے اگر چہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے کہ انسان کا علم روح سے متعلق اِس دُنیا میں محدود رہے گا لیکن قرآن مجید جو اللہ کی اپنی کتاب ہے وہ اس زمانہ کے پادریوں غیر دینداروں، ملحدوں کے لئے ایک زبردست چیلنج ہے وہ اس موضوع -

Page 183

پر دوسری تمام مذہبی کتابوں سے زیادہ روشنی ڈالتا ہے جیسا کہ حشر آن کے خدائی کلام ہونے کا موضوع ایک وسیع مضمون ہے اس لئے ہم اس موضوع پر بحث نہیں کریں گے.قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق روح انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہے.یہ جسم کے اندر کسی باہر کی دنیا سے داخل نہیں ہوتی یہ انسان کے بیچ کے اندر چھپی رہتی ہے اور رحم کے اندر جسم کی پرورش کے ساتھ ساتھ پورش پاتی ہے.اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے :- ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا المُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظُمَ لَحْمًا ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا اخر (۱۵:۲۳) اللہ تعالیٰ کے وحدانیت کے تصور کی صحیح سمجھ مثبت سوچ اور نیک اعمال ہی وہ اسباب ہیں جن پر روح کی ٹھیک پرورش کا انحصار ہے، اگرچہ اسلام سم کی حفاظت پر کافی زور دیتا ہے لیکن روح کی مناسب دیکھ بھال ہمارا معلم نظر ہوتا چاہیئے.گویا دوسرے لفظوں میں یہ بہتر ہے کہ انسان اپنی زندگی گنوا دے مگر روح کو ہر گز نہ گنوائے.روح ایک نہایت نازک اور خفیف جسم ہے بہ نسبت اینتھرک باڈی کے یوں لگتا ہے کہ موت کے بعد روح گویا " ایتھرک باڈمی میں سکون پذیر رہتی ہے قرآن مجید میں یہ سکھلاتا ہے کہ موت کے وقت سے لیکر روز قیامت تک کے درمیان وقفہ میں رُوح کسی دوسری صورت میں موجود رہے گی اور قیامت کے

Page 184

١٩٢ روز یہ پرورش پا کر ایک نئی روحانی تخلیق کی صورت میں نمودار ہوگی.جاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہے کہ برزخ کی حالت کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں روح قیامت کے آنے تک بے جس پڑی رہے گی کیونکہ برزخ میں روحانی پرورش گویا اس طرح پائے گی جس طرح عورت کے رحم کے اندر بچہ پرورش پاتا ہے.روح کی دوبارہ پیدائش کے اس عرصہ میں روح جنت کی نعمتوں یا جہنم کی سزاؤں سے موت کے وقت اپنے روحانی مقام کے مطابق آگاہ ہوگی حتی کہ اس زندگی میں بھی انسان جنت یا جہنم کی زندگی سے آگاہ ہوتا رہے گا لیکن برزخ میں وہ خوب محسوس کئے جائیں گے یا روز قیامت اس سے بھی زیادہ.وہ لوگ جو اپنی روح کی پرورش سے غفلت کرتے ہیں ان کو قرآن مجید کا یہ ارشاد یا درکھنا چاہیے :- فَيَوْمَذ لا يُعَذِّبُ عَذَابَةً اَحَدُه (۲۲:۸۹) جبکہ اس کے برعکس اطمینان قلب صرف متقیوں کا اجر ہے.فرمایا :- يا يتهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكَ رَاضِيَةً مرْضِيَّةً ، فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِى.) ۸۹ : ۲۸ تا ۳۱ ) یاد رہے کہ روح کے سفر کا کوئی انجام نہیں جب یہ ایک دفعہ پاک ہو جاتی ہے تو کائنات کی گہرائیوں میں یہ دن رات مزید سے مزید ترقی کرتی ہے.یہ اس لئے نہیں کہ اس نے مزید نیک کام کئے ہوتے ہیں کیونکہ نیکی یا بدی کرنے کی استطاعت تو موت کے بعد ختم ہو جاتی ہے محض خدا کا فضل ہوتا ہے.ایسی روحوں

Page 185

۱۶۳ سے متعلق خدا تعالیٰ اپنی پیاری کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے :- نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا آتهِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُه (9:44) چہرہ کی مثال رُوح کے دریچہ سے دی گئی ہے ایک نیک انسان کے سے خاص نور کے چہرہ اور خدو کر دیتا ہے جبکہ ایک ہوا ہے کسی حدہ ہونا اور سیاہ ہوں اور کی شخص حالت میں یہ چیز کو بھی واضح ہو گی.یہ حقیقت ایسے لوگوں نے بیان کی ہے جنہوں نے مردوں سے ملاقات کی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- میں اس میں صاحب تجربہ ہوں مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بار ہا بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے.غرض میں اس کو چہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم تھا ہے خواہ نورانی خواہ ظلمانی.ایک شخص جتنا زیادہ اپنے جسم کے اندر کی کائنات پر غور کرتا ہے اتنا ہی

Page 186

۱۹۴ زیادہ وہ اس دنیا کی مختصر زندگی سے آگاہ ہوتا ہے اور زندگی کے مقصد کے حاصل کرنے کے لئے انسان کو اپنے ہوش و حواس اور استعمال کرنی چاہئیں.اِس گفت گو کا لب لباب یہ ہے کہ زندگی کا مقصد محض روح کی پاکیزگی ہے.FACULTIES

Page 187

۱۶۵ ۱۵ عبادت کی عادت انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل قطعہ پر غور فرمائیں :- HERE LIES A SOLDIER, WHOM ALL MUST APPLAUD.WHO FOUGHT MANY BATTLES AT HOME & ABROAD.BUT THE HOTTEST ENGAGEMENT HE EVER WAS IN WAS THE CONQUEST OF SELF IN THE BATTLE OF SIN.انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ٥ (۵۷:۵۱) خدا کی عبادت صرف نماز پڑھنے تک ہی محدود نہیں یہ عبادت خیالات ، بول چال اور اعمال پر بھی حاوی ہے کیونکہ اعمال کو جب نیک نیتی سے کیا جائے تو یہ عبادت بن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی عبادت ہمارا مقصد حیات ہے.ایک مسلمان خواہ اس دنیا میں کتنا ہی بڑا مرتبہ حاصل کرلے یعنی خواہ وہ آرکیٹیکٹ ، ڈاکٹر ٹیچر، وکیل یا تا جرین

Page 188

149 جائے لیکن اس کو روحانی مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے زیادہ توجہ دینی چاہیئے.مذہب اسلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ خدا کی عبادت میں مصروف رہے اور یہی زندگی کا صحیح مطمح نظر ہے جس کے لئے اللہ سے ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہنا چاہیئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ هُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.(46031) اسلام نہیں یہ سکھلاتا ہے کہ زندگی کا مقصد انسان کی ذاتی طہارت اور صفائی ہے جس کے لئے ہر مسلمان کو عزم صمیم اور خلوص دل سے کوشش کرنی چاہیئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر قدم ، ہر لکھے اور بولے جانے والے کلمہ ، ہر نظر اور ہر فصل پر کڑی نظر رکھے.زندگی ایک مجہد مسلسل کا نام ہے لیکن اس کی فتح کا پھل بہت ہی میٹھا ہے.انسان کو گوناگوں خواہشات ، زندگی کی ہر قسم کی آسائشوں پمفلتوں اور بے احتیاطیوں اور مختلف خامیوں پر غلبہ حاصل کرنا ہے.آخری فتح بعض اوقات بہت دُور اور ناممکن نظر آتی ہے یا بعض دفعہ حصول سے باہر لیکن وہ لوگ جو ثابت قدم رہتے ہیں خدا نے ان سے کامیابی کا وعدہ کیا ہے.یہ بات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کیا خوب بیان کی ہے :- " اسلام انسان کو مایوسی سے نجات دلاتا ہے اور اسے بتلاتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور خامیوں کے باوجود اپنے دماغ کی طارقے اور صفائی حاصل کر کے اپنی زندگی سنوار سکتا ہے جو کہ انسان کا سب سے عظیم مقصد ہے.

Page 189

196 چنانچہ اسلام اسے نیک ھے اور صفائی کی جان مسلسل کوشش کرنے کے لئے ہم تھے دلاتا ہے تا وہ زندگی کے انتہائی مقصد کو حاصل کرے " خدا کی عبادت سب سے اچھی عبادت ہے اور یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ عادت پیدا کی جاسکتی ہے اور ایک پیدا کی ہوئی عادت جلد ہی انسان کی فطرت بن جاتی ہے اور اسے خاص تو قبہ کی ضرورت نہیں رہتی.ٹائپ رائٹر کو سیکھنے والا ایک طالب علم شروع میں الفاظ کو آہستہ آہستہ پوری دماغی توجہ کے ساتھ ٹائپ کرتا ہے اور اس کے باوجود وہ غلطیاں کرتا ہے لیکن مسلسل کوشش سے اس کی رفتار بڑھتی جاتی ہے اور غلطیاں کم ہوتی جاتی ہیں حتی کہ وہ ایک منٹ میں آسانی سے ۱۲۰ الفاظ انگلیوں کے ہلاک سے بغیر توجہ کے ٹائپ کر سکتا ہے.اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تحت الشعور نے ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا.عبادت کچھ عرصہ توجہ اور محنت کے بعد فطری رجحان کے مطابق بھی بن سکتی ہے.جو صابر بننے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش پر یوری محنت کرتا ہے وہ سخت سے سخت حالات میں بھی صبر کانمونہ دکھلاتا ہے کیونکہ یہ صفت اس کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہے اسی طرح ہر قسم کی نیکی اور اچھی صفت کو مناسب تو جہ سے اپنا یا جا سکتا ہے اور جس طرح نیک زندگی اور اسلامی زندگی ایک سکتے کی دو اطراف کا نام ہے اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کا مقصد خدا کی عبادت اور نیکیوں کو اپنانے اور حاصل کرنے کے ذریعہ سے پورا کرے.کوئی بھی چیز بغیر کوشش کے حاصل نہیں ہوسکتی اور یہ اصول دینی معاملات

Page 190

۱۲۸ میں بھی بالکل صحیح ثابت ہو چکا ہے.خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور خدا ہم سے امید رکھتا ہے کہ مسلمان نیکیوں کے معاملہ میں سبقت حاصل کریں.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا (۲۰۱:۳) انسان کی زندگی اور ہستی کا مقصد قرآن مجید میں کھول کر بیان کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان وہ سب کام کرے جن سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو اور اس کی ناراضگی ہر گز نہ مول لی جائے.بلاشبہ یہ راستہ دشوار ہے لیکن ہے نفع مند خدا کی عبادت اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے کا نام ہے اور یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کی پہلی شرط ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : وَمَنْ أَحْسَنُ دِينَا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ (۱۲۶:۳) حضرت مسیح موعود نے نہایت ہی پر زور الفاظ میں اسلامی عبادت کی اہمیت بیان کی ہے اور اپنے پیرو کاروں کو اسلامی اصولوں کی صحیح پابندی کرنے پر زور دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ پیچھے مسلمان اور حضرت احمد کے حقیقی پیرو کار نہیں بن سکتے حتی کہ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر ایک شخص کے دل میں رتی بھر بھی دنیوی زندگی کی چاہت ہوگی تو اس کی روح اور دل خطرہ میں ہوں گے.ہر ایک شخص کا روحانی مرتبہ ایک سا نہیں ہوتا لیکن شیطانی رکاوٹوں پر عبور حاصل کرنے اور نیکی میں ترقی کرنے کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں آگ کی طرح جلتی رہنی چاہیے اور جب تک یہ روح اس انسان میں زندہ ہوگی اس کی مخلص کوششیں خدا کے فضل سے اس کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیں گی حضرت

Page 191

149 بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے فرمایا ہے : "خدا کی رضا اور خواہش تمہارے دماغ میں ہر وقت حاضر رہنی چاہیئے خدا کی خوشنودی اور ناراضگی ہر وقت ہمارے مد نظر اور اس کی محرک ہونی چاہیے." یہ وہ زندگی ہے جسے کامیاب کہا جاسکتا ہے اگر چہ مسلمانوں کو قرآن پاک ہدایت کے لئے نوازا گیا ہے اس کے باوجود بہت سے لوگ روپیہ اور دولت حاصل کرنے کے لئے دیوانے ہوئے جارہے ہیں یہ سوچ کر کہ مینیج ترقی اور خوشحالی روپیہ حاصل کرنے میں ہے لیکن اگر ان کے دلوں میں اسلام کے لئے صحیح محبت اور خلوص ہو تو وہ فلاح وہاں حاصل کریں جہاں کہ یہ واقعی موجود ہے ارشاد ربانی ہے:.قد افلح من ترى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى هُ بَلْ تُؤْثِرُونَ الحيوة الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْر وابقى ۵ (۱۵:۸۷ تا ۱۸) حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خدا تعالیٰ سے پورے دل سے محبت کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے آپ نے فرمایا ہے : خدا کی صف مکمل طور پر متوجہ ہوجاؤ حتی کہ تمارا دل اس دنیا سے اچاٹ ہو جائے " اگر چہ ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے تاہم اس دنیا کی لالچ اور دولت کی محبت ہماری روحانی ذمہ داریوں سے زیادہ نہ بڑھ جائے.زندگی کیا ہے ؟ یہ تو خواب کی طرح آتی جاتی ہے ہمارا طبعی جسم تو صرف ایک خول ہے جس میں ہمارا رہنے والا

Page 192

جسم یعنی "روح" رہتا ہے اس کے باوجود انسان اپنی بیوقوفی اور جہالت کی بناء پر اس دنیا کی نعمتوں کو روحانی نعمتوں پر ترجیح دینے میں مشغول رہتا ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو اس زمانہ میں مسلمانوں کے دلوں کے اندر خدا کی محبت جگانے کے لئے اور تمام نوع انسانی کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیجا گیا ہے حضرت احمد نے اس الہی مشن کی بنیاد نہایت کامیاب طریق سے رکھی تا آپ اسلام کا پیغام اور روحانی برتری کو دوسروں تک پہنچا سکیں.آپنے اپنے پیرو کاروں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے کردار اور زندگی کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں اور اس کے مطابق عبادت کی عادت کو اپنی عادت بنانے کی کوشش کریں.

Page 193

141 14 ایک احمدی کارول احمدی وہ مسلمان ہے جو یقین رکھتا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی جماعت احمدیہ سیح موعود اور مہدی معہود تھے.آپ کے ظہور کی پیش گوئی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے آنے والے انبیاء بشمول حضرت عیسی علیہ السلام نے کی تھی تاہم یہ صرف ایک نظریاتی دعوی ہے اور ہذا تہ صرف ایک لیبل کے سوا کچھ نہیں ہے.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب بلا شبہ اللہ کے رسول تھے آپ نے تمام نوع انسانی کو اپنے دعوی کی صداقت کو قبول کرنے کی دعوت دی مگر بات اس حد تک ہی نہ رہی بلکہ آپ نے فرمایا کہ اسلام واحد عملی دین ہے جو قرآنی تعلیمات اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے مکمل طور پر تسلیم خم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے.اس مقصد کے حاصل کرنے کی تمنا اور ارادہ ہر احمدی کو کرنا چاہیے اور اسلام کے اصول اس کی روز مرہ زندگی میں عمل پذیر نظر آنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا :-

Page 194

۱۷۲ ہے یا“ اسلام کیا ہے ؟ یہ ایسی آگ ہے جو تمام سفلی خواہشوں کو ختم کر دیتی ہے یہ جھوٹے خداؤں کو جلا دینے اور اپنی جارت و مال اور عزت کو خدا کی خاطر قربان کرنے کا نام اسلامی اصول کی فلاسفی ) ایک احمدی سے خدا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار کی توقع یوں کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھال لے وہ دنیوی مال و دولت اور آسانیوں کو اس کی روحانی ذمہ داریوں کے آگے دیوار نہ بننے دے اس کے دماغ پر ہر وقت میں خیال چھایا ر ہے کہ وہ اپنے کردار کو خدا کی رضا اور خواہش کے مطابق ڈھال ہے.حضرت مسیح موعود صرف مذہبی مسائل مثلاً ختم نبوت کے معنی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ، معراج کی حقیقت موت کے بعد زندگی وغیرہ کی وضاحت کرنے کے لئے تشریف نہ لائے تھے.ان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن آپ کی آمد کا اصل مقصد اسلام کے اصولوں پر عمل کے ذریعے عالم انسانیت کی اصلاح تھا.ایک احمدی کا طرہ امتیاز اسلام جیسے دین فطرت سے مربوط تعلق ہونا چاہیے اور اس تعلق کا یہ حال ہو کہ خدا کے قوانین سے ذراسی بے تعلقی سے اس کو نفرت ہو.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اگر ایک احمدی کے دل میں ذرہ بھر بھی دنیا کی چاہت یا ملونی ہوگی تو وہ سنچا احمدی نہ گنا جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیوی لانچ یا حرص کی خاطر اسلام کے کسی قانون یا اصول کو نظر انداز نہ کرو.ایک احمدی سے نہ صرف مذہب کی بنیادی تعلیمات پر غور کرنے بلکہ مذہب کی ضروری باتوں اور لطیف نقاط کو j

Page 195

16F جانے کی بھی توقع کی جاتی ہے جو دوسروں کے لئے خواہ اہمیت نہ بھی رکھتے ہوں.میرے نزدیک ایک احمدی کے مندرجہ ذیل رول ہیں :- ۱ 1- مذہب اسلام کا سپاہی - اسلام کا سفیر - اسلام کا مبلغ ۴- اسلام کا سچا خادم اسلام کا محافظ -> ۶ - اسلام کا سچا نمونہ مذہب اسلام کا سپاہی ایک سیاہی کی کئی خصوصیات ہوتی ہیں ان میں سے ایک خصوصیت ملک و قوم کی خدمت کرنا اور مشکل حالات میں قوم کے لئے لڑنا ہے وہ اپنے ملک اور قومی جھنڈے کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں استعمال میں لاتا ہے.احمدی خدا کا سپاہی ہے جو اسلام کے جھنڈے کی حفاظت کے لئے وقف ہو چکا ہے وہ پیپر امن ذرائع سے اسلام کے دفاع او تبلیغ کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے.ایک سپاہی کی حیثیت سے وہ گھر میں میٹھا مسلمان نہیں بلکہ روحانی تلوار ہاتھ میں لئے وہ ہر طرف جاتا ہے.جب اسے اپنے فرض کے لئے بلایا جاتا ہے تو وہ سخت گرمی یا برفباری اور یخ بستہ ہواؤں سے گھبراتا نہیں ہے اس کے پختہ ایمان اور عقیدہ کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اسلام کی محبت میں ہر قسم کی صعوبتیں سہنے کے لئے تیار رہتا ہے.ایک احمدی دُنیا کے بڑے بڑے اکابرین کی زندگیوں سے سبق لیتا ہے ان کی خوبیوں کو اپنانے کے لئے وہ کوشاں رہتا ہے تا وہ اسلام کی خاطر بہتر طریقی سے جہاد کر سکے.

Page 196

اسلام کا سفیر ایک احمدی پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی محمود کا نمائندہ ہے حضرت مسیح موعود کی کعبشت کی پیش گوئی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں.حضرت مہدی معہود نے اپنے ماننے والوں کو سخت تاکید کی کہ وہ ملی مسلمان بن کر دکھائیں.ایک احمدی کو اسلام کا ایک معزز سفیر بن کر پورے جوش و جذبہ سے اس کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا و چاہیے.یہ بات صحیح ہے کہ وہ مذہب جو کرامات نہیں دکھلانا ایک مردہ مذہب ہے یہ جانتے ہوئے ایک احمدی پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں کہ وہ احمدیت کی تعلیمات پر پورے خلوص سے عمل کرتا ہے یا نہیں لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ خدا کی نظریں بھی اس پر لگی ہوئی ہیں.ایک دنیوی سفیر میں حکومت کی نمائندگی کرتا ہے وہ اس حکومت کا نشان ہوتا ہے اسی طرح ایک احمدی کو احمدیت کا سفیر ہونے کے ناطے اس کی تعلیمات کا نشان ہونا چاہیئے.اسلام کا مبلغ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول تھے.آپ نوع انسانی

Page 197

۱۷۵ کے لئے خدا کا آخری پیغام لائے.ایک احمدی پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنا مذہب دوسروں تک پہنچائے جب بھی موقع ملے دوسرے مسلمانوں کو احمدیت سمجھانے کی کوشش کرے اور ان کو مشورہ دے یہ بات قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہے کیونکہ قرآن پاک میں مسلمانوں کو نصیحت ہوئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نصائح کریں.جماعت احمدیہ اسلام کا پیغام ہر شخص تک پہنچانے کے لئے مصروف کار ہے اور یہ اس دن کو قریب لانے کی کوشش کر رہی ہے جب مذہب اسلام دنیا میں غالب آجائے گا.ایک احمدی اسلام کا مبلغ ہے وہ ہر زید بکر کو تبلیغ کرتا ہے اور کامیاب تبلیغ کا ایک گریہ ہے کہ وہ اس بات پر خود عمل کرے جس کی وہ تبلیغ کرتا ہے یہ بات وہ اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ یہ بات قرآن مجید کا خلاصہ ہے چنانچہ تبلیغ کے میدان میں یہ بات کامیابی کی کنجی ہے.اسلام کا خادم ایک احمدی اسلام کا خادم ہے ایک سچے خادم کی دو خصوصیات ہیں ایک وہ عزت کرتا ہے دوسرے وہ وفادار ہوتا ہے.خدا کی غربت اور اس کی مخلوق کی عزت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے خدا قادر مطلق ہے اور خدا ہی سب سے زیادہ عزت اور محبت کا مستحق ہے خدا کی مخلوق اس کی تخلیق ہے اس لئے اسے بھی کما حقہ عزت دینی چاہئیے.خدا کا خادم ہونے کی حیثیت سے ایک احمدی خدا کا تابعدار ہوتا ہے خدا

Page 198

144 کے احکامات پر عمل کرنے میں وہ حد سے زیادہ محتاط ہوتا ہے نیز وہ خدا کی ناراضگی کا باعث ہونے کے بارہ میں بہت ہی محتاط ہوتا ہے وہ نماز باقاعدگی سے پڑھنا ہے اور روزے رکھتا ہے اور زکواۃ دیتا ہے اور تمام وہ چندے دیتا ہے جن کا اسلام نے حکم دیا ہے.وہ حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کی ہدایات کے مطابق چندے دیتا ہے.وہ جوا کھیلنے سے پر ہیز کرتا ہے.جھوٹ نہیں بولتا اور غیبت نہیں کرتا.وہ دھوکا نہیں دیتا اور تمام دوسری ممنوعہ باتوں سے دور رہتا ہے نیز خدا کی اطاعت ہمیشہ اس کا مطمح نظر ہوتا ہے.اسلام کا محافظ مذہب اسلام پر اس وقت ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں.اس کے دشمن اپنی جہالت کے باعث یا تعقب کی وجہ سے اسے بد نام کرنے کی پوری کوششیں کر رہے ہیں.اسلام شاید آج وہ واحد دین ہے جس کو سب سے زیادہ غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے.احمدی نہ صرف اپنی اصلاح کے لئے اسلام کے بارہ میں علم حاصل کرتا ہے بلکہ وہ اس کے معترضین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا کرتا ہے.اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام انسان کا بنایا ہوا مذہب ہے جس میں کوئی روحانیت نہیں ہے اس کے برعکس ایک احمدی اپنی زندگی میں یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اسلام زندہ مذہب ہے جو ایک انسان کے کیردار کو خوبصورت اور روح کو !

Page 199

162 پاک کرتا ہے.ایک احمدی مثالی کردار اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے پوری سعی کرتا ہے کیونکہ کسی دوسری چیز سے زیادہ اس عمل سے اسلام کی روحانیت زیادہ ثابت ہوتی ہے.ایک احمدی اسلام کا دفاع اسلامی زندگی سے خوب کر سکتا ہے.اسلام کا نمونہ " احمدی وہ ہے جسے روحانی صداقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے جو دوسروں کے لئے ابھی تک مخفی ہیں.یہ صداقتیں اس کے دل پر یوں منقش ہیں گویا وہ صرف خدا کی گود میں ہی سکون پاتا ہے.ایک انسان ہونے کے ناطے وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے محبت ضرور کرتا ہے لیکن ان رشتوں کی کشش کے باوجود خدا تعالیٰ سے اپنی فرمانبرداری کو بھی فراموش نہیں کرتا.جب ایک احمدی صحیح معنوں میں سپاہی ، سفیر، مبلغ ، خادم، محافظ بن جاتا ہے تب وہ اسلام کا کامل نمونہ بنتا ہے جیسا کہ حضرت بانی و سلسلہ عالیہ احمدیہ وہ فرماتے ہیں :." خدا انسان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور زبان ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ بولتا ہے اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ حملہ کرتا ہے.اور کان ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ سُنتا ہے.اور پیسہ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ چلتا [ |

Page 200

16A ہے." ( اسلامی اصول کی فلاسفی ) واخر دعوانَا عَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ Zakaria Virk P.O.Box 65, Kingston, ON K7L 4V6 Canada Publisher: ZAKARIFA VIRKE 116 BASSWOOD PLACE KINGSTON, CANADA

Page 200