Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
افراد سلسلہ کی اصلاح و فلاح کے لئے دلی کیفیت کا اظہار از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خليفة المسیح الثانی
۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم افراد سلسلہ کی اصلاح و فلاح کے لئے دلی کیفیت کااظہار (فرموده ۱۳- د سمبر ۱۹۲۴ء بعد از نماز عصر مقام مسجد اقصیٰ قادیان) سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج کل میری صحت اور ڈاکٹری مشورہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ میں کل کے خطبہ کے بعد اس قدر جلدی کوئی اور تقریر کروں لیکن بعض ایسے واقعات پیدا ہو گئے کہ جن کی وجہ سے مجبور ہو گیا اور باوجود اس کے کہ صحت کاتقاضااس کے خلاف ہے آج پھر آپ لوگوں کے سامنے کچھ بیان کروں گا.پیشتر اس کے کہ میں کوئی اور مضمون بیان کروں میں یہ بتلادینا چاہتا ہوں کہ کل کی حالت سے آج کی حالت بالکل متضاد ہے.کل کی حالت تو دعا کی تھی اور آج کی حالت غضب کی ہے.کل تو میں اس انسان کی طرح تھا جس کے جسم کا ہر ذرہ اپنے رب کے سامنے پگھل کر اپنے لئے اور دوسروں کے لئے دعائیں کر رہا ہو اور آج اس حالت میں ہوں کہ میرے تمام حواس اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ میں کسی کے لئے بددعا نہ کروں.مجھے بعض لوگوں کے اپنے خیالات معلوم ہوئے ہیں جو اس قسم کی بدظنیوں پر مشتمل تھے کہ جن میں میرے اخلاص اور ایمان پر ایسا حملہ تھا جس سے سرسے لے کر پیر تک میرے جسم کے اندر خون جوش مار رہا ہے.بعض نادانوں اور جاہلوں نے میرے کل کے خطبہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا میں اپنی بیوی کی وفات پر صبر کے دامن کو چھو ڑ بیٹھا ہوں اور اب قریب ہے کہ میں غم کے مارے ہلاک ہو جاوں اس لئے وہ تسلی دینے لگے ہیں.ممکن ہے کہ بعض اور لوگوں کو بھی اس قسم
۴ افراد سلسلہ کی اصلاح و فلاح کے لئےدلی کیفیت کااظہار کا خیال ہو اور انہوں نے اظہار نہ کیا ہو.ان نادانوں نے میرے پہلے حالات پر نظر نہ کی اور اگر کی ،تو باوجود ان حالات کے جانتے ہوئے بھی مجھ پر بد ظنی کی.نبی کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے تورسول من انفسکم ۱؎کہ یہ رسول تو تم میں ہی رہا ہے تم اس کے حالات سے خوب واقف ہو.اسی طرح آج میں بھی کہتا ہوں.او نادانو اور جاہلو! میں بھی تم میں بچپن سے رہتا ہوں.تم نے میرے حالات کو جانتے ہوئے پھر میرے متعلق کیونکر اس قسم کی بد ظنی کی اور میرے پہلے حالات پر کیوں نظر نہ کی.تم جانتے ہو کہ جس زمانہ میں غم اور حُزن کے بارے تمہاری کمریں ٹیڑھی ہو رہی تھیں اس وقت میرے جادہ استقلال میں فرق نہ آیا.اور میں نے کبھی غم اور حُزن کو پاس نہیں آنے دیا.یعنی تم اس پرانے تجربہ کی بناء پر سمجھ سکتے تھے کہ یہ خیال تمہاری اپنی نظر کی نابینائی کا نتیجہ ہے.تم اپنی نظرکی نا بینائی کو میری طرف تو منسوب نہ کرتے.تم میرے ان مضامین کو جو میں نے راستہ سے لکھے دیکھتے.اگر ان مضامین اور خطبہ میں کوئی ترتیب نظر نہ آتی تودھوکا احتمال ہو سکتا تھا لیکن اگر ان میں باہم ترتیب ہو اور ایک ایک انچ باہم مطابق ہو تو تم کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ تمہارا خیال تم کو غلطی میں مبتلاء کر رہا ہے اور تمہارا یہ خیال محض ایک بد ظنی ہے.میں سمجھتا ہوں دو چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ان کو غلطی لگی اور انہوں نے بدظنی کی.ایک میرے چہرہ پر غم کے آثار اور آنسو.دوسرے میرا مجلس میں آتے وقت لوگوں سے الگ رہنے کی درخواست کرنایا مجلس سے علیحدہ کھڑے رہنا.اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو آنکھیں دی ہوئی تھیں، اگر ان میں کچھ بینائی ہوتی تو ان کو معلوم ہو تا کہ میری یہ علیحدگی آٹھ دن سے جاری ہے.اور اس کی وجہ اعصابی دردہے جس کا لقوہ کی صورت اختیار کرنے کا ڈر تھا اور اسی وجہ سے با وجودیکہ امۃ الحیی کی حالت اچھی تھی مگر میں مسجد میں نہیں آتا تھا.میں نے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے بھی جو میرے معاج تھے کہا تھا کہ جب لوگ مجھ پر ہجوم کر کے آتے ہیں تو معا ًمجھے اعصابی دور شروع ہو جاتا ہے، میرے پٹّھے کھنچنے لگتے ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ مجھے لقوہ ہو جائے لیکن اب اس واقعہ کے بعد باوجود اس تکلیف کے موجود ہونے کے معا ًنماز میں آنا شروع کردیا ہے تاکہ میری طرف کوئی یہ منسوب نہ کرے کہ میں ایسے رنج میں مبتلا ہوں جس کو برداشت نہیں کر سکتا.
۵ دوسری وجہ بیماری کی زیادتی کی یہ تھی کہ جب میں باہر آتا تھا تو لوگ میرے پاس درخواستیں لاتے تھے کہ ہمیں فلاں تکلیف ہے اور ہم اس انتظار میں تھے کہ حضور تشریف لاویں تو حضور کے پاس عرض کریں.یا ہمیں فلاں امر کی ضرورت تھی اور افسروں نے حضور کی واپسی تک اسے ملتوی رکھا ہوا تھا اور ادھر میری یہ حالت ہے کہ مجھے جب معلوم ہو کہ فلاں کو یہ تکلیف ہے اور میں اس تکلیف کو دور نہیں کر سکتا یا اس کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا تو مجھے سخت بے چینی ہوتی ہے.غالباً میں نے میاں بشیر احمد صاحب سے ذکر کیا تھا کہ مجھ پر ایک جنون کی کی حالت طاری ہو جاتی ہے جب مجھ پر حاجت مند لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میں فلاں شخص کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا.ڈاکٹر میر احمد اسماعیل صاحب اور میری والدہ صاحبہ بھی میری اسی حالت سے واقف ہیں کیونکہ ان کے پاس میں نے ذکر کیا تھا کہ اودھر مجھے دورہ ہوتا ہے اور ادھر میں ان کی تکلیف پڑھتا ہوں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ایسا نہ ہو کہ میں جلسہ سے پلے زیادہ بیمار ہو جاؤں.اس وجہ سے میں ان دنوں میں جب تک کہ خداتعالی کوئی سامان نہ کردے لوگوں سے الگ رہوں گا.یہ واقعات تھے جن کی وجہ سے میں باہر کم آتا اور لوگوں سے الگ رہتا تھا.بلکہ یہاں تک حالت رہی ہے کہ اسی وجہ سے میں مرحومہ کی ایسی تیمار داری بھی نہیں کر سکا جیسا کہ میرا دل تیمارداری کرنے کو چاہتا تھا حتی کہ انہوں نے اپنی مرض الموت میں مجھ سے کہابھی کہ جب آپ آتے ہیں تو میری بیماری میں کمی معلوم ہونے لگتی ہے اس کا مطلب یہی تھا کہ تم کم آتے ہو.باقی رہا دوسرا سوال میں اس کو کئی حصوں میں تقسیم کرتا ہوں.پہلی بات غم کے متعلق ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجھے غم ہے اور بہت غم ہے.اس کا اثر میرے چہرے پر بھی ظاہر تھا جواب نہیں.اس کی وجہ یہ نہیں کہ اب غم نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ میں ضبط کر سکتا ہوں اور مجھے اپنے جذبات پر قابو ہے اور بہت قابو ہے اور میں ایسی حالت میں ہنس بھی سکتا ہوں.اور کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے اور میں اس وقت غم کی حالت میں ہو تا ہوں.گھر میں میرا بچہ بیمار ہوتا ہے یا او ر قومی غم ہوتے ہیں لیکن معاًمیں اپنے چہرہ کو ہنسی والا بنا تا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ میرا فرض ہے کہ اس شخص کی خوشی میں شامل ہوں.لیکن تم ایسا نہیں کر سکتے بلکہ تم میں سے کئی لڑ
۶ پڑیں گے کہ ہمارے گھر توماتم ہے اور تم ہمیں یہ بتانے آۓ ہو کہ میرے گھرلڑکا پیدا ہوا ہے.مگر میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ جب خدا تعالی نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے اور اس کے فضل سے میں نے اسے سنبھالا ہے تو میرا فرض ہے کہ میں جماعت کے غموں اور خوشیوں میں شامل ہوں.پھر میں ان غموں کو بھی ظاہر کرتا ہوں تاکہ کوئی بیماری پیدا نہ ہو کیونکہ غموں کے دبانے سے بھی اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے لیکن جب ایسا موقع ہے کہ اس غم کو دبانا ہو تو دبا بھی سکتا ہوں.آج تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جو مجھ سے زیادہ خوشی والاچہرہ بنائے اور مجھ سے زیادہ ہنس سکتا ہو گو میرے دل میں اس وقت غضب ہے.میں نے جو اسلام کو سمجھا ہے.اسی کو غرور کہو ،عُجب کہو، خودپسندی، اپنی تعریف آپ کرنے کا عادی کہہ لو لیکن میں یقین واثق سے کہتا ہوں کہ میں نے تم سب سے زیادہ سمجھا ہے اور اس پر میں فخر نہیں کرتا اور اس خوبی کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا بلکہ اس کو خدا افضل جانتا ہوں اور اسی وجہ سے میں جب کبھی بھی سیکھنے کی مجھے ضرورت ہوتی ہے کہتا ہوں کہ اے خدا ! تُواس بات کو جانتا ہے میں کسی علم کو اپنی طرف بھی منسوب نہیں کرتا بلکہ اس کو محض تیرا فضل و احسان ہی خیال کرتا ہوں.باقی رہا غم کرنایا آنسوؤں سے رونا یہ دعامیں تو جائز ہی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی جائز ہے.حدیث میں آتا ہے جب رسول اللہﷺ کےچچا فوت ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.آپ کو کہا گیا کہ اپنے چچا کر دیکھ لیں مگر آپ نے جواب دیا کہ میں ان کی اس حالت کو دیکھ نہیں سکتا.۲؎یہ وہ شخص ہے جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.پھر حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد ایسے غمگین رہے کہ اس کے بعد بارہ سال تک آپ زندہ رہے اس عرصہ میں جب کبھی حضرت خدیجہ کا آپ ذکر فرماتے تو آپ کی آنکھوں میں آنسوآ جایا کرتے تھے.جب آپ اس کے کسی رشتہ دار کو دیکھ لیتے تو آپ پر رقّت طاری ہو جاتی.اور جب ان کی سہیلیوں کو دیکھتے تو بھی آپ بے اختیار ہو جاتے.حتی کہ آپ کی دوسری بیویوں میں رشک پیدا ہو جاتا.اور حضرت عائشہؓ فرماتیں کہ آپ اس بڑھیا کو یاد کر کے کیوں اتنابےتاب ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا تم نہیں جانتیں کہ اس نے کتنی خدمت اور فرمانبرداری میری مشکلات کے وقت میں کی.۳؎ پھر ایک دفعہ نبی کریم ﷺ اپنے نواسہ پر روئے تو ایک جاہل نے آپ کو کہہ دیا ،رسول ہو کر پھر روتے ہیں تو حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ مجھے خدا تعالی نے
۷ شقی القلب نہیں پایا.تجھے اگر شقاوت حاصل ہے تو نہ رویا کر.۴؎ ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓسخت بیمار ہوئیں اور بیماری کی شدت کے باعث آہ آہ کرنے لگیں.تو آپ نے ایک رنگ میں ان کو ایسا کرنے سے منع فرمایا.لیکن حضرت عائشہ ؓنے ذرا غصہ سے کہا کہ آپ کو کیا میں مر جاؤں گی تو آپ اور شادی کر لیں گے اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا اگر تم ایساکہتی ہو تو میں ہی پہلے مروں گا.۵؎چنانچہ آپ کا اس وقت کا یہ کہا ہوا پورا ہو گیا اور آپ کی وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پہلے ہوئی اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو اس بات کا ہمیشہ غم رہا.پھر جب حضرت جعفر شہید ہوئے تو تقریر کرتے ہوئے آپ کی گالوں پر تار تار آنسو جاری تھے اور آپ نے فرمایا کہ جعفر شہید ہو گئے اور اب زید نے عَلَم اٹھایا ہے.پھر فرمایا اب زید شہید ہو گئے اور یہاں تک کہ پھر سيف من سيوف الله نے علم اٹھایا اور دشمنوں کو شکست ہو گئی.جب جنگ سے خبر آئی کہ فلاں فلاں شخص شہید ہوئے ہیں تو ان کے رشتہ دار اپنے گھروں میں روتے تھے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آه !جعفرپر رونے والا بھی کوئی نہیں.بعض نادان عورتوں نے حکم سمجھ کر ان کے گھر میں جا کر پیٹنا شروع کر دیا..حضرت حمزہؓ کی شہادت پر برابر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور تھمتے نہیں تھے.ان کی وفات کے سالہاسال بعد جب ان کا قاتل وحشی آپ کے سامنے آیا تو آپ نے فرمایا تُو بے شک مسلمان ہے اور میں تجھے معاف کرتا ہوں لیکن میرے سامے نہ آیا.۷؎ تجھے دیکھ نہیں سکتا.حالانکہ وحشی ہی وہ شخص تھا جو عین لشکر کفار کے قلب میں اس وقت گھس گیا جب کہ باقی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی اور لوگ اس کو بھی پیچھے ہٹنے کے لئے کہہ رہے تھے لیکن اس نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا جب تک میں حضرت حمزہ کے قتل کے عوض میں کسی بڑے کافر سردار کو نہ قتل کروں گا اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا.چنانچہ اس نے اس وقت مسیلمہ کو قتل کردیا.یہ اس کے ایمان اور اخلاص کا حال تھا مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تُو میرے سامنے نہ آیا کرمیں تجھے نہیں دیکھ سکتا.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حال سن لو.مولوی عبد الکریم صاحب بیمار ہوئے تو مولوی صاحب نے بار بار حضرت صاحب کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ حضور مجھے اپنی زیارت کرا جائیں لیکن آپ نے فرمایا کہ میں مولوی صاحب کی تکلیف کو نہیں رکھ سکتا.مجھے اس وقت خود دورہ شروع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.یہاں تک کہ آپ نے اس کمرہ کو بھی چھو ڑد یا جس
۸ میں مولوی صاحب کے کراہنے کی آواز آتی تھی پھر ان کی وفات کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز میں آناہی چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہاں جب مولوی صاحب کو موجود نہیں پاتے تھے اور وہ یاد آجائے تو آپ کو سخت تکلیف ہوتی اور فرماتے کہ مجھے بیماری کا دو رہ شروع ہو جاتا ہے.پس آنسوؤں سے رونا اور اظہار غم افسردگی اور اس کا اتنا لمبا اثر جو سالوں تک رہے یہ تو ثابت شده با تیں ہیں.انبیاء اور ان کے متبعین کے حالات سے معلوم ہوا ہے کہ ایک غم ان کو ان وجودوں کے متعلق ہوتا ہے جن کے ساتھ ان کا صرف جسمانی تعلق ہو اور ایک تم ان کو ان وجودوں کے متعلق ہوتا ہے جو ان کے ممد و مدد گار ہوتے ہیں اور یہ غم بہت عرصہ تک جاری رہتا ہے اور ان کی یا د پر ہمیشہ ان کے آنسو بہتے اور ان پر رقت کی حالت طاری ہو جاتی ہے کیونکہ وہ احسان فراموش نہیں ہوتے.ہمارے سلسلہ میں سے ماسٹر عبدالحق فوت ہوئے ان کا ذکر کرتے وقت اب بھی مجھے رقّت آ جاتی ہے حالانکہ ان کا ایک بیٹا بھی موجود ہے اور وہ ہنس ہنس کر ان کاذ کر کر لے گا لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ جیسا وہ کام کرتے تھے ایسا کام کرنے والا مجھے آج تک نہیں ملا.وہ زندگی وقف کر کے قادیان چلے آئے ہوئے تھے اور انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام اس تیزی سے کر سکتے تھے کہ میں اردو میں مضمون اتنی جلدی نہیں لکھ سکتا تھا.اب چودھری ظفر اللہ خان صاحب ان کے قریب قریب کام کر لیتے ہیں مگر نہ تو انہوں نے ابھی زندگی وقف کی ہے اور وہ باہر رہتے ہیں اور نہ اس قدر تیزی سے کام کر سکتے ہیں.اسی طرح مجھے اب امتہ الحیی کی وفات پر جوافسوس اور صدمہ ہے اور میں اپنے فرائض میں سے سمجھتا ہوں کہ اسے قائم رکھوں اور یہ شقاوت ہوگی اگر میں یاد نہ رکھوں جیسا کہ نبی کریم ﷺکی شہادت سے میں نے بتایا ہے.میرے نزدیک کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کی عورتوں میں تعلیم نہ ہو اور خصوصاًیورپ کے سفر میں میں نے معلوم کیا ہے کہ جب تک عورتیں مردوں کا ہاتھ نہ بٹائیں تب تک وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی.اگر ہماری عورتوں میں دینی تعلیم نہ ہو تو ہماری قوم خواہ کس قدر کی ترقی کرے، میں اس ترقی پر فخر نہیں کر سکتا.میں نے ان سے جب شادی کی اس وقت میری نیت بطور احسان کے تھی کہ ان کے ذریعے انسانی عورتوں میں تعلیم دے سکوں گااس لئے میں نے ارادہ کیا کہ فوراً ان کو تعلیم دوں مگر وہ اس شوق میں مجھ سے بھی آگے بڑھی ہوئی
۹ نکلیں.ابتداًء میں کبھی سبقوں میں ناغے بھی کر دیتا تھا مگر وہ کہہ کر اور زور دے کر اپنی تعلیم کو جاری رکھتی تھیں اوراس میں انہوں نے بہت ترقی کی.وہ قرآن شریف کا ترجمہ اچھی طرح پڑھالیتی تھیں.بلوغ المرام پڑھاتی تھیں ،اسی طرح اور دینی کتب لڑکیوں کو پڑھاتی تھیں.اور وفات سے چار پانچ روز ہی پہلے مجھ سے مشورہ کر رہی تھیں کہ لڑکیوں کو مشکوٰۃ پڑھانی ہے.جس کی قیمت اب بہت بڑھ گئی ہے لڑکیوں کو علیحدہ علیحده خریدنے کی استطاعت نہیں اب کیا کیا جائے.تو تعلیم کی یہ خواہش جو ان میں تھی وہ دیگر عورتوں میں نظر نہیں آتی.عام طور پر عورتوں میں ہے خواہ اس حد تک ہے کہ تہذیب نسواں پڑھ لیں، دینی تعلیم کا احساس نہیں ہماری جماعت میں اور بھی عورتیں تو ہیں جو علم رکھتی ہیں اور بعض باتوں میں امتہ الحیی سے بھی زیادہ علم رکھنے والی ہیں لیکن دین کے معاملہ میں خاص طور پر تعلیم دینی ان میں نہیں پائی جاتی.میرمحمد اسحاق صاحب کی بیوی بے شک تعلیم کی بہت شائق ہیں لیکن ان کے اندر وہ جنون نہیں جو امہ الحیی کے اندر تھا.پھر ان کا وہ اثر بھی نہیں ہو سکتا جو خلیفہ کی بیوی کا ہو سکتا ہے اور وہ میرے خیالات کی ترجمانی بھی نہیں کر سکتیں.اس کے بعد حافظ روشن علی صاحب کی بیوی ہیں.میری بڑی بیوی بھی پڑھائی میں تو امتہ الحیی کے برابر ہیں لیکن بعض روکوں کی وجہ سے کچھ بچوں کی کثرت اور ان کی تربیت میں مشغول رہنے کی وجہ سے ان کو وسیع مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا.اور اب میری عمر بھی اس قابل نہیں کہ اور شادی کروں اور دس سال تک اس کو تعلیم دوں اور تربیت کروں اس لئے عورتوں کے متعلق مجھے نہایت تاریک پہلو نظر آتا ہے.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالی کوئی سامان پیدا کر دے گا مگر اس کے لئے جس دعا کی ضرورت ہے وہ ایک درد اور تڑپ کو چاہتی ہے.پس میں نے اپنے غم و درد کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کیا.ہاں خداتعالی کے حضور اس قدر غم و درد کا اظہار کیا ہے جس سے میں یقین کرتا ہوں کہ میری دعائیں عرش کو اس طرح ہلائیں گی جس طرح درد مند شخص کی دعائیں ہلایا کرتی ہیں.مجھے جو افسوس اور غم ہوا ہے وہ اس واسطے ہوا کہ مجھے نظر آتا ہے کہ عورتوں میں جو میں نے تعلیم کے متعلق سکیم سوچی تھی وہ تمام درہم برہم ہو گئی.یورپ کے سفرمیں خاص سکیم تعلیم کی تیار کی تھی اور میں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ واپس جا کر اس سکیم کو جاری کروں گا لیکن انسانوں میں سب سے زیارہ جس ہستی سے مجھے امید تھی کہ وہ اس سکیم کو چلانے میں میری مدد گار ہوگی وہ
۱۰ وفات پا گئی ہے تو آپ اس کے بعد اس تمام سکیم کے بدل جانے کی وجہ سے مجھے بہت غم تھا.در حقیقت انسانوں میں سب سے زیادہ ہستی جس پر مجھے اس تعلیمی سکیم کے متعلق بڑی امیدیں تھیں وہ امتہ الحیی تھی اب میری وہ سکیم اس واقعہ کے بعد بدل گئی اور نئے فکر کی اس کے لئے ضرورت پڑی.کوئی کام بغیر آلات کے نہیں ہو سکتا.روشنی دیکھنے کا کس قدر بھی شوق ہو لیکن اگر آنکھیں نہ ہوں تو یہ شوق پورا نہیں ہو سکتا.چلنے کا کتنا شوق ہو لیکن وہ شوق بغیر ٹانگوں کے پورا نہیں ہو سکتا.پس جب تک ہتھیار نہ ہوں، تب تک کوئی کام نہیں ہوسکتا.اور میرے اپنے خیال اور ارادہ نہیں جس ہستی کے اوپر میرا ہاتھ تھا اور جس پر مجھے بڑی امیدیں تھیں وہ ہستی مجھ سے جدا ہو گئی اس وجہ سے کے غم ہے.ورنہ ایسے انسان کی موت پر بھلا کیا غم ہو سکتا ہے جس کے لئے اس قد ردعاؤں کا موقع ملا اور جس کے لئے آخری حد تک جوتیمار داری ممکن تھی اور میری برداشت کے اند ر تھی وہ کی اور اپنی محبت کے اظہار کے لئے دل پر پتھر رکھ کر وہ کام کئے جو دوسروں کے لئے کرنے نا ممکن ہیں.میں نے بھی اس کے لئے دعائیں کیں اور جماعت نے بھی دعائیں کیں.پھر ایک بہت بڑی جماعت نے جنازہ پڑھا اور باہر کی جماعتیں بھی جنازہ پڑھیں گی.پھر مقبرہ بہشتی میں مدفون ہوئیں بھلا اتنی خوش نصیبی کس کو نصیب ہے.میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم نے کہا کہ امتہ الحیی تو بڑی ہی خوش نصیب نکلیں، جس کے لئے اتنی دعائیں ہوئیں اور اتنے بڑے مجمع نے نماز جنازہ ادا کی.پس اس کی موت پر کیسا غم اور کیسا رونا.ہاں ایک روا اپنی طبیعت کے لحاظ سے بھی ہوتا ہے.جو طبیت مدت تک ایک انسان کے ساتھ رہنے کی عادی ہو چکی ہوتی ہے تو اس عادت کے خلاف ہونے پر ضرور رونا آتا ہے جو ایک طبعی امر ہے ،لیکن وہ حُزن کس طرح ہو سکتا ہے.حُزن تو گذشتہ چیز پر ہوتا ہے اور میں اگلی چیز کا خیال کرتا ہوں جو آئندہ آنے والی ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مستورات کی تعلیم اور پھر دینی تعلیم میرے ذمہ ہے اور کامیابی کے لئے یہ نہایت ضروری ہے.اور یہ کون انسان برداشت کر سکتا ہے کہ وہ پوری محنت کرے اور پھردہ ناکام رہے.میرے غم کی مشابہت حضرت یعقوبؑ کے غم سے ہو سکتی ہے.میرا واقعہ بھی حضرت یعقوبؑ کی طرح ہے.مجھے بھی لوگوں نے کہا کہ یہ تو اس غم میں مرجائے گا جس طرح کہ حضرت یعقوب کو
۱۱ ان کے بیٹوں نے کہا کہ یہ بوڑھا اب اس غم میں ہلاک ہو جائے گا حالانکہ حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کی موت کا فکر اور اندیشہ نہیں تھا کیونکہ ان کو خدا تعالی نے بتایا ہوا تھا کہ یوسف ان کو مل جائے گا لیکن ان کے ناوان بیٹے نہیں جانتے تھے اور حضرت یعقوبؑ نے بھی ان کو کسی مصلحت کی وجہ سے نہیں بتایا تھا.مگر حضرت یعقوبؑ غم کرتے تھے اور یا اسفي على يوسف کہتے تھے.تو وہ یو سف پر افسوس نہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو ان بیٹوں کے لئے غم کرتے اور روتے تھے تاکہ یوسف ان کا بھائی جلد مل جائے اور ان کو معاف کرے اور وہ خدا کی نظر میں منظور ہوں.مگر وہ نادان یہی کہتے تھے کہ یہ بڈھاتو بس غم میں مر جائے گا.حضرت یعقوب کے متعلق اللہ تعالیٰ و گلیم کالفظ فرماتا ہے اور کَظِیم اس شخص کو کہتے ہیں جس پر غم کی وجہ سے اس قدر رقت غالب ہو کہ اس کی وجہ سے وہ کلام نہ کر سکے.تم میں سے بھی بعض لوگوں نے مجھے یہی کہا اور سمجھ لیا کہ بس اب تو یہ اپنی بیوی کے غم میں ہلاک ہو جائے گا.ان نادانوں کو یہ علم نہیں کہ میرے پانچ بچے فوت ہو چکے ہیں ان میں سے ایک پر میں نے صرف ایک آنسو بہایا تھا اس لئے کہ تا میں شقی القلب نہ ٹهہروں اور اس لئے کہ رسول اللہ بھی اپنے بچے کی وفات پر روۓ تھے لیکن اس وقت جو مجھ کو افسوس ہوا ہے وہ اس لئے ہے کہ جو سکیم میں نے تیار کی تھی وہ اس طرح درہم برہم ہوگئی.یہ حُزن نہیں تھا بلکہ آئندہ کے لئے غم تھا.اس ایک بچہ کی وفات پر جو میں نے ایک آنسو بہایا تھا اس کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب میں بمبئی صحت کے لئے گیا تو وہاں میری لڑکی بیمار ہو گئی اس کی بیماری کی حالت میں میں ایک دن کے لئے کہیں باہر گیا.میری عدم موجودگی میں مجھے وہ اس قدریاد کرتی کہ ابا ابا کہہ کر مجھے پکار تی.اس کی نزع کی حالت تھی اس وقت میں گھر واپس آیا تو دیکھا کہ وہ تڑپتی اور کہتی تھی.کیا میرے ابا آگئے اور گھر والوں نے بتایا کہ وہ آپ کے پیچھے آپ کو بہت یاد کرتی اور پکارتی رہی ہے.ان حالات کا طبعی اثر میرے قلب پر ہوا اور میں نے آنحضرت ﷺ کی سنت پر ایک آنسو بہادیا.بچوں کی وفات پر گو میں طبعی اثر سے خالی نہ تھا.خدا نے مجھے شقی القلب نہیں بنایا ہے لیکن.ایسا اثر نہیں ہوا کیونکہ مجھے کوئی یقینی علم نہیں تھا کہ یہ دین کے لحاظ سے کیسے ہوں گا لیکن یہاں تو ایک و جود کو دس سال تک تربیت کر کے تیار کیا اور اس پر بڑی امیدیں تھیں.ایساوجود ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا جس سے مستورات کی تعلیم و تربیت میں بہت بڑی مدد کی توقع تھی.لوگوں کی تو
۱۲ ایسے موقع پر عجیب حالت ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص کے ہاں یہاں مردہ بچہ پیدا ہوا.اس شخص کی بیوی کو صرف خیال تھا کہ وہ زندہ پیدا ہوا ہے حالانکہ دایہ کہتی تھی کہ پیداہی مردہ ہوا ہے لیکن وہ دونوں میاں بیوی اس بچے کی قبر پر چھ ماہ تک جاتے رہے مگر میں نے اپنے پانچ بچوں پر باوجود طبعی اثرات کے بھی محسوس نہیں کیا.اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات میں رویا ہوں اور شدید رویا ہوں مثلاً حضرت مولوی عبد الکریم کی وفات پر اور حضرت خلیفہ اول کی وفات پر.صرف اس لئے کہ وہ سلسلہ کے لئے بطور ستون تھے اور ان پر رونا مردوں پر رونا نہیں تھا بلکہ درحقیقت وہ زندوں پر رونا تھا جو ان فوائد سے محروم ہو گئے تھے جوان و جودوں سے پہنچ رہے تھے.اسی طرح میں امۃ الحیی پر بھی ضرور رویا لیکن پچھلوں کے لئے جن کے متعلق میرا خیال تھا کہ ان کے سر پر سے ایک مفید و جود اٹھ گیا.اس کی وفات کے متعلق تو مجھے پہلے سے ہی اطلاع ہوگئی تھی.تین سال ہوئے کہ میں نے خواب دیکھا کہ وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آئی ہے اور السلام علیکم کہہ کر کہنے لگی’’ میں جاتی ہوں‘‘.اور اس کے بعد جلدی جلدی گھر سے نکل گئی.میں نے میر محمد اسماعیل صاحب کو اس کے پیچھے روانہ کیا تو انہوں نے واپس آکربتا یا کہ وہ بہشتی مقبرہ کی طرف چلی گئی ہیں.اسی طرح سفر میں واپسی کے وقت جہاز میں رؤیا دیکھی کہ سمندر کی طرف سے ایک عورت کی نہایت د رودناک چیخوں کی آواز آرہی ہے.میں نے اس کو وہاں جہاز میں حافظ روشن علی صاحب اور دوسرے دوستوں کے سامنے بیان کیا اور یہ واقعہ قریباً بیداری کا تھا.اسی طرح وفات سے دو دن پہلے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول تشریف لائے ہیں اور میرے پاس چارپائی پر بیٹھ گئے ہیں.ان کا رنگ بالکل زرد ہے.آپ نے میرے پاؤں کی جراب کو پکڑا اور فرمایا یہ جراب تو بالکل بوسیدہ ہو گئی ہے.پھر اس میں سے ایک دھاگا نکالا اور اسے ذرا کھینچا تو وہ بالکل ٹوٹ گیا اور کچھ روئی سی نکل آئی اور فرمانے لگے یہ تو بالکل ہی بوسیدہ ہے.دیکھو اس کے تو دھاگے بھی اب بو سید ہ ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ اس کا یہاں علاج نہیں.ولایت میں تو اس کا علاج ہو سکتا ہے.اس سے بھی میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ وفات کے دن اب بالکل قریب معلوم ہوتے ہیں.مولوی صاحب پر بھی اس واقعہ کا اثر ہوا ہو گا.جو ان کے زرد رنگ سے معلوم ہوتا ہے.جراب سے مراد بیوی ہی تھی جو اس حد تک کمزور ہوگئی تھی کہ اب وہ بچ نہیں سکتی تھی.اب یہ معلوم ہو تا ہے کہ ولایت میں ایسی امراض کا علاج ہو سکتا ہو گا.یا شاید اس کا کوئی اور مفہوم
ہو.پھر مبارکہ بیگم نے بتلایا کہ ایک دفعہ میرے آنے سے پہلے اوپر کھڑے ہو کرامتہ الحیی نے ایک مصرعہ کہا.جس کا مفہوم غالباً یہ تھا ؎ اے بلبل بوستان تُو خاموش کیوں ہے اور مجھ سے کہا کہ میں جب فوت ہو جاؤں گی تو آپ اس پر مصرعے لگانا.مبارکہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ نہیں میں آپ سے پہلے فوت ہوں گی.میری وفات پر آپ نے اس پر مصرعے جوڑنے ہوں گے.تو امتہ الحیی نے کہا نہیں.میں آپ سے ناراض ہو جاؤں گی اگر آپ نے پھرایسا کہا.میں پہلے وفات پاؤں گی میری وفات پر اس مصرعہ پر ضرور مصرعے لگانے ہوں گے.پھر دیکھو میں آخری حالتوں میں بھی بے صبرا اور مایوس نہیں ہوا.امتہ الحیی جب اپنی مرض الموت میں کرب کی وجہ سے کہتیں کہ دعا کرو کہ مجھ کو آسانی کے ساتھ موت آجاوے تو میں سختی سے کہتا کہ یہ ایمان کے خلاف ہے کہ میں اس حالت کو نزع کی حالت قرار دے کر خدا تعالی سے مایوس ہو کر یہ دعا کروں کہ تجھ پر موت آئے اور بے گھنیاں اس صورت میں آسان ہوں بلکہ میں نزع کے وقت بھی یہ دعا کرتا تھا کہ خدا ان کے کرب کو دور کر دے.بھلااتنا تو سوچو کہ میں اگر بے صبرا ہو اتو اتنی باتوں کے ہوتے ہوئے اور اس علم کے باوجو و جو مجھے دیا گیا تھا کیوں سفر اختیار کیا.مجھ کو یہ علم بھی تھا کہ میری ایک بیوی میرے پیچھے فوت ہو جائے گی مگر میں نے سفر کو ملتوی نہیں کیا.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے میرے آنے تک اس واقعہ کو مہلت دے دی ورنہ میں تو یہاں سے ہی اعلان کر کے گیا تھا کہ میرے اس سفر میں بہت سے ابتلاء مقد ر ہیں جن سے بے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہوئی ہے لیکن میں وہ ظاہر نہیں کرتا.مجھے یہاں سے چلتے وقت بھی علم تھا کہ میری دو بیویوں میں سے ایک مرجاۓ گی.باوجود اس علم کے پھر بھی میں نے اسلام کی خاطر لمبا سفر اختیار کیا.اگر بے صبرا ہوتا تو آپ بیٹھ جاتا اور کہتا کہ جاؤ مضمون پڑھ دو.اگر علم ہوتے ہوئے اور احساس رکھتے ہوئے کہ دو میں سے ایک کی موت مقدّر ہے اور میں جانتا تھا کہ منذر رؤيا اگر بیان کردی جاوے تو واقعہ ہو جاتی ہے میں نے اسلام کے لئے اس سفر کو ملتوی نہیں کیا.تو کیا اب وفات پر مجھے اس رنگ کا صدمہ ہو سکتا تھا جو ایک دنیا دار کو ہوتا ہے.کتنے لوگ ہیں کہ اگر وہ شقی القلب نہ ہوں اور میرے جیسے ان کے احساسات ہوں اور ان کو وہ علم ہو جو مجھے علم تھا
۱۴ پھران کو اسلام کے لئے کہا جائے کہ فلاں جگہ سفر کو جاو تو وہ سفر اختیار کریں گے.اور میں کہہ سکتا ہوں کہ تم میں سے ایک بھی نہیں جو ایسی حالت میں ایسا سفر اختیار کرے.یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ ایک مرتبہ حضرت خلیفہ اول نے مجھے ایک جگہ جانے کا حکم دیا اس وقت نا صراحمد کو نمونیہ تھا اور ڈاکٹر کہتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے لیکن میں نے حضرت خلیفہ اول سے اس کی بیماری کا ذکر تک بھی نہ کیا تاکہ کسی عُذر کا موجب نہ سمجھا جاوے اور میں خدا تعالی پر بھروسہ کر کے سلسلہ کی ضرورت کے لئے حکم پاکر سفر پر چلا گیا.تمہاری اور میری مثال تو اس شخص کی سی ہے جو کہ کسی کے گھر میں اپنامال رکھے.جب لینے جاوے تو وہ گھر والاشورمچا وے.چور ہے.چور ہے.اسی طرح میں نے اس وقت جو و رو محسوس کیا اور جس افسوس کا اظہار کیا وہ میرا افسوس او ر د رد مردوں کے لئے نہیں بلکہ ز ند وں پر ہے.مجھے تمہاری ترقی کی فکر ہے اور اس کے لئے جو ایک ذریعہ ہو سکتا تھا وہ جاتا رہا اس پر بھی تمہاری یہ حالت ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے - اور تم یہ سمجھتے ہو کہ میں مرنے والی پر رویا ہوں اور تم مجھے صبرکی تعلیم دیتے ہو.میں سچ کہتا ہوں تمہیں صبر کے معنے ہی معلوم نہیں تم یہ بھی نہیں جانتے کہ صبر کیا چیز ہے.ایک چیز موجو د ہو پھر انسان اپنے جذبات کو قابو میں رکھے تب صبر کہلائے گا.ول میں جرأت ہو، ہاتھ میں طاقت ہو ،پھر تھپڑ کھا کر چپ رہے تو وہ صبر اور عفو کہلاۓ گانہ یہ کہ مقابلہ کی طاقت ہی نہیں اور کہہ دے کہ میں نے بڑا صبرد کھایا ہے.اب سنوکل کا خطبہ اس کے پہلے حصہ میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی مجھے وفات کا خیال نہیں آیا.صرف ایک مثال پر آیا وہ بھی ایک سیکنڈ کے لئے آیا تھا اور اس وقت مجھے بے شک رونا آیا لیکن وہ روان مردوں کے لئے نہیں تھا جو قبروں میں پڑے ہیں بلکہ وہ ان مردوں کے لئے تھا جو میرے سامنے بیٹھے تھے.میرے آنسو یورپ کے مردوں پر تھے جن کے لئے میں سمجھتا تھا کہ مرحومہ میری سکیم میں مدد گار ہوگی.ایک بزرگ کاقصّہ ہے کہ وہ جب کبھی قبرستان میں گذرتے تو منہ پر کپڑا ڈال دیتے.اور جب بازاروں میں سے گزرتے تو ایسا نہ کرتے.ایک شخص نے ان کی یہ حالت دیکھ کر کہا کہ یہ کیا اُلٹی بات آپ کرتے ہیں.تو اس بزرگ نے کہا کہ تجھے وہاں زندے نظر آتے ہیں یہاں قبرستان میں مردے نظر آتے ہیں مجھے وہاں مردے نظر آتے ہیں اور یہاں زند ہ نظر آتے ہیں.پس میں جو روتا تھا تو وہ ان زندوں کے لئے نہیں روتا تھا جو قبروں میں ہیں بلکہ تم مردوں کے لئے روتا جو دنیا میں میرے سامنے ہو.تمہیں معلوم ہی نہیں کہ مردہ کون ہے اور
۱۵ زنده کون ہے تم مردہ اس کو سمجھتے ہو جو دنیا میں کھاتا پیتا چلتا پھرتانہ ہو اور زندہ اس کو سمجھتے ہو جو چلتا پھرتا ہو اور خوب کھاتا پیتا ہو حالانکہ مردہ وہ ہے جو کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہو لیکن اس کے دل میں خدا کی یاد نہیں.ایک انسان جس کی روحانیت اور اخلاق بگڑے ہوئے ہیں جس کے اندر ایمان نہیں وہ مردہ ہے اور جس کے اندر یہ باتیں ہوں وہ ہمیشہ زندہ ہے.تمہارا چلنا پھرنا اور کھانا پینا یہ کوئی زندگی نہیں.زندگی تو احساس کو کہتے ہیں کیا انجن کو کوئی زندہ کہہ سکتا ہے، مشینوں کو زندہ کہتا ہے ، حالانکہ وہ بھی تو چلتے ہیں.انہیں اس لئے زندہ نہیں کہتے کہ ان میں احساس نہیں.زندگی احساس کا نام ہے اگر تمہارے اندر احساس ہے تو تم اگر کروڑوں من مٹی کے ڈھیروں کے نیچے بھی ہو گے تو بھی زندہ ہی رہو گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر بھی وہ احساس ہی کام کرتا تھا اور اس احساس کی وجہ سے آپ ہمیشہ زندہ ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ سے اس طرح رونے کی آواز آتی تھی جس طرح ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز آتی ہے.۸؎ اس زمانہ میں تو جذبات کا اظہار کر لیا کرتے تھے لیکن آج اس قسم کا زمانہ ہے کہ ہمیں اپنے جذبات کو دبانا پڑتا ہے.نماز میں رقّت آتی ہے تواسے دباجاتے ہیں.پس میرے دل پر صدمہ ہے کہ تم میں اچھی تربیت کے آثار نظر نہیں آتے جب تک مجھے یہ تسلی نہ مل جائے کہ بوجھ اٹھانے والے اور سنبھالنے والے لوگ موجو د ہیں.بعض لوگوں کو میرے متعلق خوابیں آئی ہیں.ممکن ہے کہ وہ میری بیوی کے متعلق ہوں کیونکہ بیوی بھی مرد کا ایک حصہ ہوتی ہے.پس میرے غم اور میرے رونے کی وجہ تمہاری حالت ہے.تمہاری حالت کو دیکھ کر مجھ پر جنون کی حالت طاری ہوتی ہے کہ تمہارے اندر ابھی وہ قوت و طاقت نہیں کہ جس کے ساتھ تم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکو.تم میں وہ وجود نظر نہیں آتے کہ دوسروں کے لئے اپنے دل میں درد پیدا کر سکیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی تمہارے اندر رقّت پیدا کرے‘ قربانی کا جوش پیدا کرے ،باہم محبت پیدا کرے.پسں اپنے اندر اخلاص، محبت، دین کے لئے قربانی اور خدا سے محبت اور اس کی خشیت پیدا کرو.روسری وجہ میرے غم کی یہ ہے کہ میں اب آئندہ کے متعلق بھی خداتعالی سے ڈرتا ہوں.رسول کریم ﷺبجلی چمکنے پر بہت گھبرائے پھرتے تو ایک شخص نے پوچھایا رسول اللہ بجلی چمکنے پر آپ کیوں گھبراتے ہیں.اس نے سمجھا کہ بچے ہی بجلی سے ڈرا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مجھے
۱۶ ڈر آتا ہے کہ کہیں یہ عذاب کا نشان نہ ہو اور قوم پر عذاب نہ آجاۓ..۹؎ اب ان تین ماہ کے اندر ہمارے خاندان سے چار آدمی فوت ہو گئے ہیں.یہ موتیں کبھی رحمت کا موجب ہوتی ہیں اور کبھی عذاب کا موجب ہوتی ہیں.مجھے کیا علم ہے کہ کس بات کا باعث ہے.پس میری تو یہ حالت ہے کہ میں ہوا کا رخ دیکھتا ہوں اور تم آندھیوں میں اڑتے پھرتے ہو اور تمہیں احساس تک نہیں.تمہاری مثال اس شخص کی ہے جو کہ ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آجائے، یا کسی مکان کے نیچے آ جاوے ،بدن چُور چُور ہو ،مرنے کے قریب ہو ،مگر اس پر بھی یہ کہے کہ کون گر گیا ہے یا کون دب گیا ہے.پس تمہیں تو گِر کر بھی حِسّ نہیں ہوتی اور میرے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور میں خدا سے ڈرنے پر فخر کرتا ہوں.میں کسی انسان سے نہیں ڈرتا.میں خد اکے افعال کو اس کے اشاروں سے تاڑتا ہوں اور تم اس کے افعال سے بھی کچھ نہیں سمجھتے.دیکھو جب حضرت صاحب کو اپنی وفات کے متعلق خدا کی طرف سے علم دیا گیا تو آپ کرب کی وجہ سے گھنٹوں ٹہلا کرتے.اور اسی وقت بچوں تک کو استخارہ اور دعاؤں کے لئے کہتے.مجھے بار بابلا کر کہتے کہ محمود! متواتر الہام وفات کے ہو رہے ہیں.یہی حال رسول کریمﷺ اور آپ کے صحابہ کا تھا جب سورة اذاجاء نصر الله والفتح نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر کی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں لوگوں نے کہا کہ بڈھے کو کیا ہو گیا یہ تو انعام ہوا ہے.حضرت ابو بکر نے کہا تم نہیں جانتے یہ تو آنحضرت ﷺ کے جدا ہونے کی خبر ہے ۱۰؎ انعام نہیں.پس جب تک تم چھوٹے چھوٹے اشاروں سے نہ سمجھو انعام الہٰی کو سمجھ نہیں سکتے.اسی طرح نبی کریم ؐ کا حال تھا.پس کیا حضرت صاحب تمہاری شکلوں کو دیکھنے کے لئے دنیا میں اور زندہ رہنا چاہتے تھے اور گھبراتے تھے کہ یہ سورتیں میری نظروں سے غائب ہو جائیں گی.کیا تم انہیں خدا سے زیادہ محبوب تھے.تم بھی کبھی خدا کے قرب اور تقویٰ میں ترقی نہیں کر سکتے جب تک تم چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنے اندر خشیت پیدا نہ کرو اور پھر اس کے ساتھ ہمت نہ ہو.میں اپنے گھر میں عزیزوں کو بھی کئی دنوں سے یہی کہہ رہا ہوں کہ وہ سب ان دنوں میں استخارے اور دعائیں کریں تاخد اتعالی ان پر ظاہر فرمادے کہ یہ واقعات کیا نتیج پیدا کرنے والے ہیں اور ساتھ ہی وہ ہمت کو نہ چھوڑ بیٹھیں اور مایوس نہ ہوں خوف اور رجا کے اندر اپنے ایمان رکھیں.پس یہ وجہ تھی اس درد و غم کی.اور میرے اندر تو ان دنوں تمہارے لئے دعاؤں کے
۱۷ واسطے ایک جوش تھا اور میرا دل پگھلا ہوا تھا.اس درد اور غم میں میں تمہارے لئے دعاؤں میں لگا ہوا تھا لیکن تمہاری حالت نے میرے دل میں قبض پیدا کردی ہے.میرے اندر اس درجہ گداز کی حالت تھی کہ ممکن تھا اور میں چاہتا تھا کہ کچھ دن اسی گداز میں گذر جائے تاکہ میں تمہارے لئے ایسی دعائیں کرتا جو عرش پر پہنچتیں اور اسے ہلا دیتیں.آنحضرت ﷺ کو لیلۃ القدر کا علم دیا گیا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ اس سے لوگوں کو واقف کریں گے مگر دو آدمیوں کی لڑائی نے اس علم کو اٹھالیا.لیکن بعض نادانوں کی حالت نے میرے دل میں قبض پیدا کر کے جماعت کو بھی ان دعاؤں سے محروم کر دیا ہے.مجھے آتی دفعہ ماسٹر عبد الرحمن ٰنے ایک رقعہ دیا ہے اور میں اس کو پڑھ کر خوش ہو گیا کہ انہوں نے میرے خطبہ کے مفہوم کو سمجھ لیا ہے.(الفضل ۳.جنوری ۱۹۲۵ء) التوبة : ۱۲۸ ۲ طبقات ابن سعد (عربی) جلد ۳ صفہ زیر عنوان حمزه ابن عبدالمطلب مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء ۳ بخاری کتاب المناقب باب تزويج النبي صلى الله عليه وسلم خديجة وفضلها رضي الله عنها م بخاری کتاب الجنائز باب البكاء على الميت.بخاری کتاب المرضى باب قول المريض ائی واجع وازاساة اوشتد بي الوجع.- و بخاری کتاب الجنائز باب ماینهي عن النوح والبكاء والزجر عن ذلک ، بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزة ۸ شمائل ترمذی باب ماجاء في بكاء رسول الله صلى الله عليه وسلم مطبوعہ فاروقی کتب خانه بیرون بوہڑ گیٹ ملتان و بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الأحقاف باب فلماراوہ عارضا مستقبلا وديتهم.۱۰ بخاری کتاب فضائل الصحابة باب سد والابواب الاباب ابی بکر
۲۵ من انصاری الی اللہ از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۲۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم ایک لاکھ روپیہ کی تحریک (فرموده ۱۳- فروری ۱۹۲۵ء بعد از نماز عصر بمقام مسجد اقصٰی قادیان) سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دوستوں کو یاد ہو گا کہ سفر ولایت کے اختیار کرنے سے پہلے میں نے تمام جماعت سے مشورہ لیا تھا کہ میں اس سفر کو اختیار کروں یا نہ کروں اور اس وقت میں نے ان کو یہ بھی جتلایا تھا کہ اگر میرے جانے کے متعلق جماعت کا مشورہ قرار پایا تو پھر اس کے لئے ضروری ہے کہ جماعت کو زیادہ بوجھ کا متحمل ہونا پڑے گا کیونکہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہو جائے گا اور اخراجات بہت زیادہ ہو جائیں گے.اور اگر میری بجائے کوئی اور بھیجا گیا تو اخراجات کم ہوں گے.لیکن باوجود اس علم کے اکثر احباب کی طرف سے مشورہ یہی قرار پایا کہ میں خود اس سفر کو اختیار کروں اور جماعت کے نوے فی صدی نے یہی رائے دی کہ مجھے خود جانا چاہئے اور اس سفر کے اخراجات کے لئے اس وقت قرض لے لیا جائے جس کو بعد میں جماعت ادا کر دے گی.چنانچہ دوستوں کے مشورہ کے مطابق میں نے اس سفر کو اختیار کیا اور اس کے اخراجات کی مقدار جووفد کے ممبروں کی آمد و رفت پر یا اس سفر کی تبلیغی کوششوں پر صرف ہوا پچاس ہزار روپیہ ہے اور بیس ہزار روپیہ ان کتابوں پر صرف ہوا جو اس سفر کی غرض کے لئے چھپوائی گئیں جو چھ یا سات کی تعدادمیں ہیں.اسی طرح جماعت سے مشورہ لیتے وقت میں نے یہ سوال بھی پیش کیا تھا کہ جب میرے جانے سے تبلیغ کے لئے زیادہ تحریک کی گئی تو پھر اس تحریک کو جاری بھی رکھنا پڑے گا.اور اس طرح مشن کے اخراجات آگے سے بہت زیادہ بڑھ جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ملک شام میں جب ہمارا وفد پہنچا تو وہاں ایک بڑی جماعت کو سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے تیار پایا اور وہ اب بھی
۲۸ سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہے اور اگر کوشش کی گئی اور اس تحریک کو وہاں جاری رکھا گیا تو انشاء الله ملک شام ترقیات سلسلہ کے لئے ایک اعلیٰ ذریعہ ثابت ہو گا کیونکہ پہلی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود ؑکے الہامات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک سلسلہ کی ترقیات میں خاص خدل رکھتا ہے.خدا تعالی کا یہ فرمانا کہ ابدال شام مسیح موعودؑ کے لئے دعا کر رہے ہیں اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ ملک شام کی طرف بھی ہو گی اور وہ سلسلہ میں داخل ہو کر مسیح موعود ؑکے لئے دعائیں کریں گے اور اس کی تبلیغ کو زیادہ وسعت دیں گے کیونکہ دعا دنیا میں دو قسم کی ہوتی ہے.ایک خالق کی طرف اور ایک گلوق کی طرف.پس ان کی دعا کے صرف یقیناً یہی معنے نہیں کہ وہ مسیح موعودؑ کے لئے خدا سے دعا کریں گے بلکہ اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ مسیح موعود کے ذریعے دوسرے لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں گے.دعا کے معنے پکارنے اور بلانے اور التجاء کرنے کے ہیں.پس ان کا پکا ر ناو ر بلانا اور التجاء کرناخداتعالی سے بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے خدا تعالی کی طرف لوگوں کو بلائیں گے.گو ہر شخص جو دعا کرتا ہے وہ بندوں کے لئے خدا کو پکارتا ہے مگر اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ لوگ حضرت مسیح موعود ؑکی محبت میں اس قدر سرشار ہوں گے کہ ساری دنیا کو حضرت مسیح موعودؑ کی طرف دعوت دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے لوگ اس ذریعہ سے خدا کا قرب حاصل کریں.تو اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کو اس کام کے لئے چنا ہے اور پیشگوئیوں میں ان کاذ کر فرمایا ہے.اسی طرح ولایت اور دوسرے ممالک میں اس سفر کی وجہ سے خاص تحریک پیدا ہوگئی ہے اور ایک خاص جوش پیدا ہو گیا ہے اور سلسلہ کو خاص شہرت حاصل ہو گئی ہے.مجھے خط آیا ہے کہ ۳- دسمبر تک اخباروں میں برابر ہمارے متعلق مضامین شائع ہو رہے ہیں حالانکہ ۲۴-اکتوبر کو ہم نے ولایت کو چھوڑ دیا تھا.اس کے بعد ڈیڑھ ماہ تک ہمارے وفد کے متعلق مضامین اخباروں میں نکلتے رہے.اب اگر اس تحریک کو چھوڑ دیا جائے اور جاری نہ رکھا جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ سارا کا سارا روپیہ جو اس سفر پر خرچ ہو ا ضائع چلا جائے گا اور سب محنت برباد ہو جائے گی.اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ اسی سفر کا نتیجہ ہے کہ بیت المال کے بِل رُک گئے ہیں اور اب تک ادا نہیں ہوئے اور تین ماہ کی تنخواہیں بیت المال کے ذمہ ہیں اس تکلیف کا باعث بھی سفر ولایت کے اخراجات ہیں.پہلا ستر ہزار روپیہ تو ایسا ہے کہ جس کے ادا کر دینے کا ذمہ خود جماعت نے لیا ہے.باقی تیس ہزار روپے ایسے ہیں جن کے کچھ بِل رُکے پڑے ہیں یا جن
۲۹ کی آئندہ کام جاری رکھنے کے لئے ضرورت ہے.اور یہ بھی عقلاً ماننا پڑتا ہے کہ گو جماعت نے مشورہ دیتے وقت لفظاً اس روپے کی ادائیگی کا ذمہ نہیں لیا مگر کام کے بڑھنے اور اخراجات کے ترقی کر جانے کا ان کو علم دیا گیا تھا اس لئے گویا جماعت کا یہ بھی اقرار تھا کہ وہ ان ا خراجات کو بھی برداشت کرے گی.پس میں نے جماعت سے ایک لاکھ روپیہ کی اپیل شائع کی ہے جس کی ادائیگی کی تجویز میں نے یہ کی ہے کہ جماعت کے افراد اپنی ایک ماہ کی آمدنی تین ماہ کے اندر اندر اداکر دیں جس سے ستر ہزار سے تو وہ قرضہ ادا کیا جائے جو اس سفرولایت کے اختیار کرنے کے لئے لیا گیا اور اس کی ادائیگی کے دن اب قریب آگئے ہیں.اور باقی تیس ہزار سے وہ بل جور کے پڑے ہیں ادا کئے جائیں اور نظارت کے کام کو ترقی دی جائے اور تبلیغ کو زیادہ وسیع کیا جائے اور اسی طرح ملک شام کی طرف بھی خاص توجہ کی جائے.اس ایک لاکھ کے پورا کرنے کے لئے جو ایک ماہ کی آمدنی تین ماہ میں ادا کرنے کی میں نے تجویز کی ہے اس سے زیادہ سے زیادہ جماعت پر یہی بوجھ ہو گا کہ ان کو سال میں ایک ماہ کی بجائے دو ماہ کی آمدنی دینی پڑے گی.کیونکہ اگر باقی چندوں کاحساب کیاجائے تو سال میں ایک ماہ کی آمدنی جماعت دیتی ہے اس لئے سال میں ایک ماہ کی بجائے دوماہ کی آمدنی دے دینا ان پر کوئی بوجھ نہیں ہو سکتا گو بعض پہلے سے اپنی آمد کا پانچواں حصہ ادا کرتے ہیں.ممکن ہے وہ استثناء کی صورت میں چندہ کا بوجھ محسوس کریں.اور اگر اس چندے کو بوجھ بھی فرض کر لیا جائے تو بھی جو بوجھ خدا کے لئے اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے ہم نے اپنے سر پر اٹھایا ہے تو بہرحال اسے اٹھاناہی چاہئے.ضرب المثل ہے کہ جب اُکھلی میں سردیا تو پھر جو ضربیں پڑیں ان سے کیا ڈرنا.جب کوئی شخص الہٰی سلسلوں میں داخل ہوتا ہے تو پھر اس کو ان سب بوجھوں کو بھی اٹھانا پڑتا ہے جو اس سلسلہ کی ترقی کے لئے کام کرنے والوں کے حق میں مقدر ہوتے ہیں.اس سفر میں میں نے جویورپ اور اسلام کی حالت دیکھی ہے.اور اسلام کے مقابلہ میں دشمنوں کی کوششوں کو دیکھا ہے تو میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اسلام کی اشاعت میں ہمیں ایک ذرہ بھر بھی دل میں ڈر نہ رکھنا چا ہنے پہلے تو مجھے یہ خیال آجاتا تھا کہ جماعت کے کمزور لوگوں کا خیال رکھا جائے ایسا نہ ہو کہ وہ بوجھ کے متحمل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ٹھوکر کھائیں.مگراب میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کمزوروں کی کمزوری کا خیال رکھنا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ اسلام کی کمزوری کا خیال ضروری ہے.ان کی کمزوری سے دین کی کمزوری زیادہ حق رکھتی ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.اور اس کا زیادہ خیال رکھا جائے.ایک ایسا شخص جو خدا کی راہ میں قدم
۳۰ بڑھاتا ہے اور اس کے لئے ہر ایک قسم کی قربانی اختیار کرتا ہے وہ ایسے ہزار آدمیوں سے بھی بدرجہا بہتر ہے جو نہ خود آگے بڑھیں بلکہ دوسروں کے بڑھنے میں بھی روک ہوں اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اس امر کا خیال ہرگز نہ کروں کہ اس بوجھ کا کمزوروں پر کیا اثر پڑے گا.جس قدر کوشش کرنے والے اور خدا کی راہ میں ہر طرح کی قربانی کرنے والے ہیں وہ ممتاز ہو جائیں اور کمزوروں کا خیال چھوڑ دیا جائے بلکہ ان کا جدا ہو جانا ہی بہتر ہے.یہ وقت ہے کہ جو کچھ بھی ہے ہم خدا کی راہ میں قربان کر دیں اور ہماری کوئی کوشش ادھوری نہ رہے کہ خدا کی نصرت بھی ہم پر ادھوری نہ ہو.جب انسان ڈرتے ڈرتے خدا کی راہ میں کوشش کرتا ہے تو اس کی نصرت بھی کھلے طور پر نازل نہیں ہوتی.چونکہ ہمیشہ ایسی تحریکوں میں حصہ لینے کا قادیان کے لوگوں کو سب سے پہلے موقع دیا جا تا ہے اس لئے اب بھی عام جماعت میں اس اعلان کے شائع کرنے سے پہلے آپ کو موقع دیا جاتا ہے.منافق اور کمزور لوگ اسی قربانی کی تحریکوں میں بہت گھبراتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس قربانی سے بچ جائیں یا ان کے کان میں وہ آواز نہ پڑے یا سب سے آخر ان کے کان تک وہ تحریک پہنچی.لیکن مومن ایسی تحریکوں پر گھبراتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے اور اس کو فخر ہوتا ہے کہ تحریک سب سے پہلے مجھے تک پہنچی.وہ ڈرتا نہیں بلکہ اس پر اس کو ناز ہوتا ہے اور خدا تعالی کا وہ شکریہ ادا کرتا ہے اور سب سے زیادہ اس کی راہ میں قربانی کرتا ہے اور درجہ بھی سب سے بڑھ کر پاتا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جو جو قربانیاں حضرت ابو بکر نے کیں یا جس جس خد مت کا ان کو موقع حاصل ہوا ہے وہ آرزو کرتے تھے کہ مجھے سب سے پہلے ان قربانیوں کا کیوں موقع ملا.انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ اپنے آپ کو خطرات میں ڈالا اور خدا کی راہ میں تکلیفیں اٹھائیں اس لئے انہوں نے وہ درجہ پایا جو حضرت عمر بھی نہ پا سکے.کیونکہ جو پہلے ایمان لاتا ہے اس کو سب سے پہلے قربانیوں کا موقع ملتا ہے حالانکہ خطرات حضرت عمر کے ایمان لانے کے وقت بھی تھے.تکلیفیں دی جاتی تھیں ، نمازیں نہیں پڑھنے دیتے تھے ، صحابہ وطنوں سے بے وطن ہو رہے تھے، پہلی ہجرت حبشہ جاری تھی، ترقیوں کا زمانہ ان کے ایمان لانے کے بہت بعد شروع ہوا مگر پھر بھی جو مرتبہ حضرت ابو بکر کو ابتداء میں ایمان لانے اور ابتداء میں قربانیوں کا موقع میسر آنے کی وجہ سے حاصل ہوا حضرت عمر اس کی برابری نہ کر سکے.یہی وجہ ہے ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا اختلاف ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جس وقت اسلام سے انکار کر رہے تھے اس وقت ابو بکرنے
۳۱ اسلام کو قبول کیا اور جس وقت تم اسلام کی مخالفت کر رہے تھے اس نے اسلام کی مدد کی اب تم اس کو کیوں د کھ دیتے ہو تو ان کے پہلے ایمان لانے اور قربانیوں کا اظہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حالانکہ تکلیفیں حضرت عمر نے بھی اٹھائیں اور قربانیاں انہوں نے بھی کی تھیں.پس حضرت ابو بکر کو اس سبقت پر فخر حاصل تھا.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر یہ چاہتے ہوں گے کہ کاش !فتح مکہ کے وقت ان کو ایمان لانے کا موقع ملتا بلکہ اگر دنیا کی بادشاہت کو بھی ان کے سامنے رکھ دیا جاتا تو حضرت ابو بکر اس کو نہایت حقیر بدلہ قرار دیتے اور منظور نہ کرتے بلکہ وہ اس مرتبہ کے معاوضہ میں دنیا کی بادشاہت کو پاؤں سے ٹھوکر مارنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کرتے.حالانکہ ان تکلیفوں سے طبعی طور سے مومن کو رنج بھی ہوتا ہے مگر ایمان کی وجہ سے اس تکلیف کو بھی وہ انعام سمجھتا ہے جیسا کہ کسی کا باپ شہید ہو جائے تو کچھ نہیں کہ اس کو طبعی طور پر اس کا رنج بھی ہو گا مگر وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے باپ کو شہادت کا مرتبہ کیوں ملا.اگر بظاہر اس کو رنج پہنچتا ہے تو دل میں فرحت اور اطمینان بھی اس کو ہوتا ہے.مومن کے اس رنج میں بھی ایک ایسی باریک خوشی ہوتی ہے کہ دنیا کی کسی خوشی کو بھی وہ اس کے برابر قرار نہیں دے سکتا.پس اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سب سے پہلے قادیان کے احباب کو جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اور تمام رشتہ داریوں کو قطع کر کے قادیان میں ہجرت کر آئے ہیں اور ان کو جو دراصل اس بستی کے رہنے والے ہیں جو کہ خدا کے مسیح کی بستی ہے اس فضیلت کی وجہ سے ان کو اس تحریک میں حصہ لینے کا حق دار سمجھتا ہوں تا کہ آپ دوسروں کے لئے نمونہ بنیں.اور آپ کے نمونہ سے دوسروں کو اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع حاصل ہو اب میں وہ اپیل پڑھ کر سناتا ہوں.(الفضل ۱۷.فروری ۱۹۲۵ء)
۳۲ من أنصاري إلى الله (تحریر فرموده ۱۰- فروری ۱۹۲۵ء) اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر قل ان صلاتی و نسکی ومحياي ومماتي لله رب العلمين برادران جماعت احمدیہ ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاتہ.آج سے آٹھ ماہ پہلے میں نے آپ لوگوں سے مشورہ دریافت کیا تھا کہ کانفرنس مذاہب لندن نے جو مجھے لیکچر کی درخواست دی ہے کیا میں اس کو قبول کر کے خوا نگلستان جاؤں یا مضمون لکھ کر بعض اور دوستوں کے ہاتھ روانہ کردوں.میری تحریر کے جواب میں جماعتہاۓ احمدیہ میں سے نوے فی صدی نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہے اور مجھے خود جاکر اہل مغرب کو اسلام کی طرف بلانا چاہئے.اخراجات کثیرہ جن کا اس سفر میں پیش آنا ایک لازمی امر تھا ان کے متعلق احباب نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اس وقت قرضہ کے طور پر ان کا انتظام کر لیا جائے بعد میں جماعتہاۓ احمدیہ اس روپیہ کو خاص چندہ کے طور پر جمع کر دیں گی.میں نے اس مشورہ کو با وجود سخت مشکلات کے قبول کرلیا اور انگستان کی طرف روانہ ہوگیا.اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں اس سفر کو برکت دی اور سلسلہ احمدیہ کی شہرت دوام کا موجب بنایا اور اس کے ذریعہ سے دنیا کے گوشہ گوشہ میں اس کا نام بلند کیا اور ہزاروں قلوب میں سلسلہ کی ہیبت اور عظمت کو قائم کیا وہ محتاج بیان نہیں سب احباب اس سے واقف ہیں یہ شہرت قادیان بیٹھے ہوئے دس پند رہ سال میں بھی لاکھوں روپیہ خرچ کر کے نہیں ہو سکتی تھی مگر یہ جو کچھ تھا ایک بیج تھا.تیرہ سو سال کی پیشگوئیاں صرف اسی قدر شہرت کا سامان پیدا کر کے ختم نہیں ہو سکتیں اس سفر کا نتیجہ موجودہ نتیجہ
۳۳ سے بہت زیادہ اہم انشاء اللہ نکلے گا اور مخالفوں کی آنکھوں کو خیرہ اور مومنوں کے دلوں کو مسرورو خوش کرے گا مگر اب تک بھی جو نتیجہ نکل چکا ہے دوست تو دوست دشمن بھی اس کا اعتراف کر رہے ہیں خصوصا ًشام اور انگلستان میں سلسلہ احمد یہ کی محبت کا بیج اس قدر سعید روحوں میں بو دیا گیا ہے کہ انسانی عقل اس کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتی ہے اور خدا کی قدرت نمائی پر ششدر.اس سفر میں اور اس کے بعد جو جو تکالیف مجھ کو پہنچی ہیں اور جو تکالیف رو سرے ممبران ِوفد کو پہنچی ہیں وہ بھی آپ لوگوں کو معلوم ہیں ان کے بیان کرنے کی مجھے ضرورت نہیں.ہاں میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ وہ دلوں کو ہلا دینے والی اور کمروں کو جھکا دینے والی ہیں خصوصا ًوہ تکالیف جو مجھے اس سفر میں یا اس کے معاًٍ بعد پیش آتی ہیں اور جن کی مجھے اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت اطلاع دے دی تھی وہ ایسی ہیں کہ انہوں نے میری ہستی کی بنیاد کو ہلا دیا ہے اور اگر اللہ تعالی کی معرفت کی امید اور اس کے دین کا کام میرے سامنے نہ ہو تو اس دنیا میں میری دلچسپی کا سامان بہت ہی کم باقی رہ گیا ہے.میری صحت متواتر بیماریوں سے جو تبلیغِ ولایت کے متعلق تصانیف اور دورانِ سفر کے متواتر کام کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہو گئیں بالکل ٹوٹ چکی ہے اور غموں اور صد موں نے میرے جسم کو زکریا علیہ السلام کی طرح کھوکھلا کر دیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر کبھی کبھی میرا جسم راحت اور آرام کا مستحق اور میرا دل اطمینان کا محتاج تھاتو وہ یہ وقت ہے لیکن صحت کی کمزوری ، جانی اور مالی ابتلاؤں کے باوجود بجائے آرام ملنے کے میری جان اور بھی زیاد و بو جھوں کے نیچے دبی جارہی ہے کیونکہ سفر مغرب کی وجہ سے اور اشاعت ِ کتب کی غرض سے جو روپیہ قرض لیا گیا تھا اس کی ادائیگی کا وقت سر پر ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے اور بیت المال کا یہ حال ہے کہ قرضہ کی ادائیگی تو الگ رہی کارکنوں کی تنخواہیں ہی تین تین ماہ کی واجب الادا ہیں.پس یہ غم مجھ پر مزید برآں پڑ گیا ہے کہ قرضہ کے ادا نہ ہونے کی صورت میں ہم پر نادہندگی اور وعدہ خلافی کا الزام نہ آئے.اور اسی طرح وہ لوگ جو باہر کی اچھی ملازمتوں کو ترک کر کے قادیان میں خدمت دین کے لئے بیٹھے ہیں ان کو فاقہ کشی کی حالت میں دیکھنا اور ان کو ان کی ان تھک خدمت کے بعد قوت لایموت کے لئے روپیہ بھی نہ دے سکنا کوئی معمولی صدمہ نہیں ہے.تیسرا صدمہ مجھے یہ ہے کہ اس قدرتکالیف برداشت کر کے جو سفر کیا گیا تھا اس کے اثرات کو دیر پا اور وسیع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ فور اً سفر کے تجربہ کے ماتحت شام اور انگلستان میں تبلیغ کا راستہ کھولا جاتا مگر مالی تنگی کی وجہ سے اس کام کو شروع نہیں کیا جاسکتا اور سب
۳۴ محنت کے برباد ہونے کا خطرہ ہے.ان صدمات کے بعد جو میری صحت اور میرے جسم کو پہنچے ہیں اور جو اپنی ذات میں ہی ایک انسان کو ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہیں اس قدر قومی صدمات کا بوجھ میرے لئے ناقابل برداشت ہوا جا رہا ہے.پس میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ اس وعدہ کے مطابق جو احباب نے سفر ولایت کے متعلق مشورہ لیتے وقت کیا تھا ایک خاص چندہ کی اپیل کروں.سفر ولایت پر پچاس ہزار روپے خرچ آیا ہے اور اس خاص لٹریچر کی اشاعت پر جو اس سفر کی غرض کے لئے چھپوایا گیا بیس ہزار روپیہ مو جو وہ مالی تنگی کو رفع کرنے اور سفر سے جو تحریک اسلامی اور مغربی بلاد میں پیدا کی گئی تھی اس کے چلانے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے تیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے.یہ کل ایک لاکھ روپیہ ہوتا ہے اور میں اس کے لئے اب جماعت سے اپیل کرتا ہوں اور اس کے پورا کرنے کے لئے یہ تجویز کر تا ہوں کہ ہر شخص جو احمدی کہلاتا ہے اس غرض کے لئے اپنی ایک مہینہ کی آمد تین ماہ میں یعنی پندرہ فروری سے پندرہ مئی تک علاوہ ماہواری چندہ کے جو وہ دیتا ہے اس خاص تحریک میں ادا کرے.زمیندار لوگ دونوں فصلوں کے مواقع پر علاوہ مقره چنده کے دو سیرفی من پیداوار پر ادا کریں اور اس طرح جماعت کی عزت اور سلسلہ کے کام کو نقصان پہنچنے سے بچایا جائے.اے عزیزو! آپ لوگوں کے کہنے پر ولایت کے وفد کے لئے لوگوں سے قرض لیا گیا ہے کیونکہ برلن کی زمین فروخت نہ ہو سکی تھی اور آپ لوگ یہ بھی سمجھ سکتے تھے کہ جب اس قدر زور سے غیر ممالک میں سلسلہ کی تبلیغ کی جائے گی تو ضرور ہے کہ اس کام کو جاری رکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بھی بہت سے روپیہ کی ضرورت ہوگی پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اس رقم کو جلد سے جلد مہیا کر دیں تا وہ لو گ جن سے روپیہ قرض لیا گیا تھا ان کو حسب وعدہ وقت پر روپیہ ادا کیا جا سکے اور تاکہ آئندہ کام کو اس صورت میں چلایا جائے کہ سب محنت اکارت نہ جاۓ.چاہئے کہ ہر ایک احمدی سچے جوش سے اس کام کو پورا کرنے کے لئے لگ جائے اور آرام نہ کرے جب تک کہ وہ خود اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنے اور جب تک کہ دوسروں کو بھی اس کام میں شریک نہ کرلے اور چاہئے کہ احباب اس طرح تندہی اور انتظام سے کام کریں کہ کوئی احمدی ایسانہ رہے جس نے اس تحریک میں حصہ نہ لیا ہو.یہ ایک ماہ کی آمد تین ماہ میں دینے کی شرط میں نے صرف کمزوروں اور ایسے لوگوں کو مد نظر رکھ کر لگائی ہے جو پہلے ہی بعض مالی مشکلات میں مبتلاء ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ کئی مخلصين
۳۵ اپنے اخلاص کی وجہ سے اور کئی آسودہ حال لوگ اپنی آسودگی کی وجہ سے ایسے ہیں کہ وہ ایک ماہ کی آمد سے زائد دینا چاہتے ہیں اور دینے کی مقدرت رکھتے ہیں میں ایسے لوگوں سے کہوں گا کہ میری قیدوں کی وجہ سے اپنے ایمان اور اپنے اخلاص کو مقیّد نہ کرو بلکہ آگے بڑھو اور خد اکے فضل سے حصہ لینے کی بیش از پیش کوشش کرو کہ یہ دن روز نہیں آتے اور ایسی عیدوں کے چاند ہر سال نہیں چڑھتے.خدا کے رسولوں کا زمانہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتانہ تلاش کرنے سے حاصل ہوتا ہے یہ دن تو خداہی لاتا ہے اور اپنی پوشیدہ حکمتوں کے ماتحت لاتا ہے پس ان دنوں سے بڑھ کر قیمتی اور نایاب ون اور کوئی نہیں پس ان سے جس قدر فائدہ حاصل کر سکتے ہو کر لو.اے بھائیو! آپ لوگوں نے اس شخص کا زمانہ پایا ہے جس کے زمانہ کی خیر نو ح ؑسے لے کر رسول کریم ﷺ تک سب رسولوں نے دی تھی.ہاں اس کا زمانہ جو دنیا کے لئے منجی ہے اور سارے جہان کو ایک وین پر جمع کرنے کے لئے آیا ہے جس کا زمانہ قیامت کا زمانہ ہے کیونکہ اس میں سب دنیا کو اکٹھا کرنے کے لئے خدا کی قرنا پھونکی گئی ہے.وہ آدم ؑثانی ہے کیونکہ اس کی قدسی تاثیرات سے اب دنیا کو ایک نئی پیدائش حاصل ہونے والی ہے جس طرح پہلے آدمؑ کے ذریعہ سے اس کو جسمانی پیدائش ملی تھی اب اس آدم ؑثانی کے ذریعہ سے اسے ایک روحانی پیدائش ملے گی.دل بدل دیئے جائیں گے علوم و عرفان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے خدا تعالی کے زندہ اور قدیر ہونے کے ثبوت اس طرح مہیا کئے جائیں گے کہ گویا انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ لے گا اور قیامت اور حشرما بعد الموت کی حقیقت اس طرح منکشف کی جائے گی کہ گویا لوگ مردوں کو اپنے سامنے دیکھیں گے.آپ لوگوں نے خداتعالی کی قدرت کا نشان پر نشان دیکھا اور معجزہ پر معجزه مشاہدہ کیا اور نہ صرف یہ کہ خدا کے جری حضرت احمد علیہ السلام کے ہاتھ پر ہی لاکھوں معجزات دیکھے بلکہ آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر بھی آپ نے زندہ خدا کے قادرانہ نشانات کا مشاہدہ کیا.پس کیا اس زمانہ کو پا کر اور اس قدر نشان کو دیکھ کر بھی آپ لوگوں کے دلوں میں دنیا کی کوئی ملونی رہ سکتی ہے؟ اگر شہزاده عبد اللطیف اور مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کے نمونے ساری جماعت کی ایمانی حالت کانقشہ ہیں تب مجھے یہ کہنا چاہئے کہ نہیں اور ہر ہرگز نہیں.پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ لوگوں میں سے آج مجھے کوئی بھی یہ جواب دے گا کہ اذھب أنت وربک انا هھنا قاعدون \" بکہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالی کے نشانات کو جو بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں دیکھ کر آپ میں سے ہر ایک شخص یہ کہتے ہوئے
۳۶ آگے بڑھے گا کہ ہم آپ کے آگے لڑیں گے اور پیچھے لڑیں گے اور دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے اور اس روحانی اور علمی مقابلہ کے میدان کو نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ اسلام کی فتح نہ ہولے اور دشمن پیٹھ دکھا کر بھاگ نہ جائے اور میں امید واثق رکھتا ہوں کہ آپ لوگ میری اس آواز کے جواب میں کہ من أنصار إلى الله * غدا کے دین کی اشاعت کے لئے کون میری مدد کے لئے آگے بڑھتا ہے یک زبان ہو کر بلا استثناء پکار کر کہیں گے کہ تحن أنصار الله کے ہم خدا کے دین کے خادم اور مددگار ہیں جو اپنے مالوں سے کیا اپنے خون کے قطروں سے دین کے پودوں کی آبیاری کرنے کے لئے تیار ہیں.اے بھائیو! میں اس سطر سے پہلے کئی دفعہ یہ خیال کیا کرتا تھا کہ جماعت سے کام لیتے وقت مجھے اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ لوگ کام سے ملول نہ ہو جاویں اور ان کے دل تھک نہ جا ویں لیکن اس سفر میں جو نازک حالت اسلام کی میں نے دیکھی ہے اور جو طاقت اور قوت اور ہوشیاری اس کے رشتوں میں میں نے پائی ہے اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ زمانہ ڈرنے کا زمانہ میں اور یہ وقت ادھوری کوششوں کا وقت نہیں.جو بزدل ہے اس کو واپس جانے دینا چاہئے اور صرف بہادروں کو لے کر جو اسلام کے لئے ہر ایک شئے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں آئے بڑهنا چاہئے اور بلا کسی قربانی کے خوف کے، بِلا کمزوروں کے لحاظ کے آگے ہی بڑھتے چلے جانا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الله تعالی کے آپ پر اور آپ کے اور ہمارے مطاع پیارے محمد عربی پر بے انتہاء د رود ہوںسچ فرمایا تھا کہ نرم پاؤں والوں کو جو کانٹوں کے چبھنے سے ڈرتے ہیں واپس ہو جانا چاہئے کیونکہ میرا رستہ خطرناک ہے اور دشوار گزار گھاٹیوں میں سے میں نے گذرنا ہے وہی میرے ساتھ چلے جو موت میں راحت رکھتا ہو اور قربانی میں لذت پاتا ہو.اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ کفر کو جو ظا ہری غلبہ حاصل ہے اور اسلام کی اشاعت کے جو آسمانی سامان پیدا ہو رہے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک زبردست حملہ کی ضرورت ہے ایسا حملہ کہ اس میں ہمیں اپنے سراور پاؤں کی کچھ خبر نہ رہے‘ عزیز، رشتہ دار، دوست، مال ،جائداد، اپنی جان اور عزت کسی چیز کی بھی پروانہ ہو صرف اور صرف ایک خیال ہو کہ خدائے واحد کا نام دنیامیں قائم ہو اور اسلام کی حکومت دنیا میں پھیل جائے نہ زمینوں پر بلکہ لوگوں کے دلوں پر.پس اب اس تجربہ کے مطابق میرا رویہ ہو گا اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بیش از پیش قربانیوں کے کرنے میں جن کا اب آپ سے مطالبہ کیا جائے گا میں آپ میں سے ہر ایک کو دوسرے سے بڑھنے کی کو شش کر تا ہوا
۳۷ دیکھوں گا اور آپ میں سے ہر ایک شخص اپنے عمل سے ثابت کر دے گا کہ وہ شہزاوه عبد اللطيف اور مولوی نعمت اللہ صاحب کا ہم عنان ہے اور ان سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتا.جس امر کا میں نے اس وقت مطالبہ کیا ہے یہ بالکل حقیر اور ذلیل قربانی ہے اس سے بڑی قربانیاں سامنے ہیں اور بعد کو آنے والی ہیں کیونکہ اسلام کی ترقی کے دن آرہے ہیں بلکہ دروازه پر آچکے ہیں اور ترقی کے ساتھ ساتھ قربانیاں بھی بڑھتی چلی جائیں گی.ایک ماہ کی آمد سال میں دینے کے تو صرف یہ معنی ہیں کہ ماہواری اور دوسرے چند وں کو ملا کر گویا آپ لوگ سال میں سے دو ماہ کی آمد خدا کے نام پر دیتے ہیں اور دس ماہ کی آمد اپنے پر خرچ کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ صرف چھٹا حصہ خدا کی راہ میں دیتے ہیں حالانکہ بیعت کے وقت آپ نے قرار کیا تھا کہ آپ کا جو کچھ بھی ہے وہ خد اکاہی ہے.پس یہ قربانی کوئی قربانی نہیں اور سچا مومن اسے قربانی کہتے ہوئے بھی شرماتا ہے اور میں عنقریب اس مالی قربانی کے علا وہ بعض جسمانی اور علمی قربانیوں کا آپ سے مطالبہ کرنے والا ہوں جس کے لئے میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ پہلے سے تیار ہو جائیں گے.میرے پیارے بھائیو! خدا تعالی آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولے یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اشاعت کا زمانہ سخت مالی قربانیوں کو چاہتا ہے پس نہ صرف یہ کہ آپ کو ہر سال مالی امداد میں پچھلے سالوں سے زیادہ حصہ لینا چاہئے بلکہ چاہئے کہ آپ لوگ کوشش کریں کہ آپ اپنی آمدنوں کو بڑھائیں اور اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں.ہر ایک احمدی کو چاہئے کہ وہ خود بھی کام کرے اور گھر کے ہرایک ممبر سے اس کی حیثیت اور اس کے علم کے مطابق کام لے اور کوئی شخص فارغ نہ بیٹھے تا کہ دین کو طاقت حاصل ہو اور اسلام دو سرے دینوں پر غالب ہو جائے.اور وہ کیسی خوش گھڑی ہو گی جب ایسا ہو گا اس نتیجہ کے مقابلہ میں ہماری کوششیں کیسی حقیراور بے حقیقت ہیں.میں یہ بھی تاکید کرنی چاہتا ہوں کہ چاہے کہ اس تحریک کی طرف متوجہ ہو کر ہمارے احباب ماہواری چندہ سے غافل نہ ہوں اس میں کسی قسم کی کمی نہیں ہونی چا ہئے.اور یہ بھی چاہئے کہ ہر جگہ پر میری یہ تحریر سنادی جائے اور فورا ً اس کے مطابق عمل شروع کردیا جائے اور جماعت کے تمام افراد امیروں اور سیکرٹریوں کی مدد کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اس ذمہ داری کو محسوس کریں گے ہے خدا کا کام ہے کسی شخص کا کام نہیں کہ وہ اکیلا کرتا پھرے اور چاہئے کہ
۳۸ جماعت کی عورتوں کو بھی ان کے ذرائع کے مطابق اس تحریک میں شامل کیا جائے گا تاکہ سب لوگ ثواب میں شریک ہوں.اب اس دعا پر اس تحریر کو ختم کرتا ہوں کہ اے میرے رب! میرے مولا! تو اس کمزور جماعت کے افراد کو دیکھتا ہے کہ وہ کسی طرح تھرے دین کی اشاعت کے لئے کوششیں کر رہے ہیں تو ان کی ہمت میں برکت دے، ان کے عرفان میں برکت دے، ان کے ایمان میں برکت دے، ان کے علم میں برکت دے ،ان کے اخلاص میں برکت دے، ان کے عمل میں برکت دے، ان کے دین میں برکت دے، ان کی دنیا میں برکت دے، ان کی جانوں میں برکت دے اور ان کے مالوں میں برکت دے.ہر ایک جو اس تحریک میں حصہ لیتا ہے اس پر خاص الخاص فضل فرما اور ہر ایک جو اس تحریک کو کامیاب بنانے میں کوشش کرتا ہے اس کو اپنی رحمت سے حصہ وافر عطا فرما اور ان تمام کے لئے غیر معمولی اور غیر مترقّب طور پر دینی اور دنیاوی ترقی کے راستے کھول دے اللهم امين وأخر دعوانا أن الحمد لله رب العلمین خاکسار میرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی قادیان (۱۰.فروری ۱۹۲۵ء) بخاری کتاب المناقب باب قول النبي صل الله عليه وسلم لوكنت متخذا خليلا مطبوعہ آرام باغ کراچی ۱۹۳۸ء الأنعام : ۱۶۳ المائدة : ۲۵ آل عمران : ۱۵۳
۳۹ حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبرو سکون سے کام لو از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۴۱ حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبرو سکون سے کام لو بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبرو سکون سے کام لو (فرمودہ فروری ۱۹۲۵ء) دواحمدیوں کے کابل میں سنگسار کئے جانے کی خبر جب قادیان میں پہنچی تو احمدیوں نے ایک پروٹسٹ میٹنگ کی، حضرت خلیفۃالمسیح بھی تشریف لائے اور میٹنگ کی کارروائی ختم ہونے پر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.بعد از تشہد فرمایا.ٍ یہ بات متواتر تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مظالم کے ظلم کا وبال آخر ظالم پر ہی پڑتا ہے.آج تک کوئی ایک نظر بھی ایسی دنیا میں نہیں ملتی کہ کوئی ظالم ظلم کر کے پھر کامیاب ہو گیا ہو.ہمیشہ ظالموں نے اپنے قلم سے صداقت اور راستی کو دنیا سے مٹانا چاہا مگر وہ اپنے مقصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے.اگر کوئی ایک آدھ مثال ایسی ہوتی کہ ظالم ظلم کر کے کامیاب نہ ہوا ہو یا دو تین چار پانچ چھ یا دس بھی ایسی مثالیں ہوتیں تو یہ شک ہو سکتا تھا کہ شاید اس گیارھویں دفعہ ظالم اپنے ظلم میں کامیاب ہو جائے گا اور یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید اب وہ اپنے ظلم سے اس صداقت اور راستی کو مٹا ڈالنے میں کامیاب ہو جائے لیکن ہزار ہا سال گزر گئے اور ان میں ہزاروں ہی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے دل میں یہ شک اور شبہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ شاید اب کوئی ظالم ظلم کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے اور اس کے ظلم سے صداقت اور راستی دنیا سے مٹ جائے.لوگ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے گو ان سب کی تاریخ دنیا میں محفوظ نہیں مگر پھر بھی دنیا کے اس حصے میں جس کی تاریخ اب تک محفوظ ہے اس
۴۲ حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبر و سکون سے کام لو محفوظ حصے میں ہی کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ ظالم ظلم کر کے پھر خود منہ کے بل نہ گرا ہو.صداقت ہمیشہ بلند ہی رہی.اسی طرح اب بھی ظلم کا خمیازه ظالم ہی کو اٹھانا پڑے گا اور صداقت ہمیشہ بڑھے گی.کسی کا اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں کسی کو مار ڈالنا یا قتل کر دینا صداقت میں شک اور شبہات کا موجب نہیں بن سکتا اور نہ اس سے ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہمارا کیا حال اور انجام ہو گا.صداقت اپنے آپ اپنی جڑ پکڑتی ہے کسی انسان کی مدد کی وہ محتاج نہیں.جو اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہونے والا ہو اس کو اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کوئی چھوٹی یا بڑی طاقت اس کی امداد میں کھڑی ہو.مجھے اس بات کا خیال نہیں اور نہ ہمارے دلوں میں اس قسم کا خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ جس کام اور جس صداقت کے قیام کے لئے خدا تعالی نے ہمیں کھڑا کیا ہے یا وہ لوگ جو احمدی اور حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے اور صداقت دنیا میں پھیلنے سےرک جائے گی.بلکہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ امیر کی یہ بالکل بچوں کی سی حرکات ہیں جس طرح بچے اسکول جانے سے انکار کرتا ہے اور باپ اس کو پکڑ کر اسکول لے جاتا ہے.میں وہ کاتا ہے اور کہیں وہ لاٹھیں مارتا ہے میں کپڑے پھاڑتا ہے کی حالت حکومت کابل کیا ہے وہ لا تھیں مارتی اور میں کالی ہے مگر وہ اخلاقی سکول جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے ذرایی کھولا گیا اس میں اس کو ضرور داخل ہونا پڑے گا.ماں باپ بچے کو اس کی لا تیں چلانے اور کانٹے کی وجہ سے اس کو اسکول لے جانے سے باز نہیں رہتے اسی طرح ان کو بھی اس اخلاقی اسکول میں داخل ہونے کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا.یا ان کی مثال اس جانور کی ہے کہ جو دولتیاں چلاتا اور بسا اوقات لوگوں کو زخمی بھی کر دیتا ہے.لین کو نا جانور ہے جس نے آخر کار ان نیچے نہ ڈال دیئے ہوں اور پھر ادھر سے ادھر یکے نہ کھینچتے پھرتے ہوں.یا گورنمنٹ افغان کی مثال اس نے بل کی ہے جو گردن پر جڑا رکھنے سے پہلو تہی کرتا اور دولتیاں چلاتا ہے.مگر آخر اس کو جوئے کے نے گردن رکھنی پڑتی ہے.پہلے بھی آخر جوتے میں گئے اور یہ بھی آخر جوتے ہی جائیں گے اور خدا کا کام ان کو بھی کرنا ہی پڑے گا.مگر مجھے جو خیال آتا ہے وہ یہ آتا ہے کہ ان کی ان بد بختوں اور وحشیانہ حرکات اور بے وقوفوں کا نتیجہ ان کے حق میں کیا ہو گا.مجھے جس وقت گورنمنٹ کابل کی اس ظالمانہ اور اخلاق سے بید حرکت کی خبری میں اسی وقت بیت الدعائیں گیا اور دعا کی کہ الی تو ان پر رحم کر اور ان کو ہدایت دے اور ان کی آنکھیں کھول اوہ صداقت اور راستی کو
۴۳ حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبر و سکون سے کام لو شناخت کر کے اسلامی اخلاق کو سیکھیں اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات سے وہ باز آجائیں.میرے دل میں بجاے جوش اور غضب کے بار بار اس امر کا خیال آتا تھا کہ ایسی حرکت ان کی حد درجہ کی بیوقوفی ہے.امیر اور اس کے ارد گرد بیٹھنے والے گذشته تاریخ تو جانتے ہوں گے اور تاریخی حالات اس میں انہوں نے پڑھے ہوں گے اور اگر اس سے بے خبر ہیں تو کم از کم مسلمان کہلانے کی حیثیت سے وہ قرآن تو پڑھتے ہوں گے اور ان حالات کو بھی پڑھتے ہوں گے کہ ظالموں نے اپنے ظلموں سے صارتوں اور راست بازوں کو ذلیل کرنا چاہا اور صداقت اور راستی کے مٹانے کے لئے سر سے پاؤں تک زور بار اگر آخر کار مٹائے جانے والے وہی ہوئے جو کہ ظالم تھے.انہوں نے اس قرآن میں پڑھا ہو گا کہ ظالموں نے راستبازوں کی جماعتوں کو حقیر اور کمزور سمجھا اور اپنی قوت اور طاقت کے گھمنڈ میں ان کو ہر طرح کا رکھ دینے کی کوشش کی لیکن خدا نے ان کو می جواب دیا کہ تم کیا طاقت رکھتے ہو تم سے پہلے تم سے زیادہ طاقتیں رکھنے والی قومیں گذری ہیں جنہوں نے خدا کے راستبازوں کو نابود کرنا چاہا اور جو صداقت وہ لاۓ اس کو دنیا سے مٹانا چاہا تمہاری طاقت ان کی طاقت کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں مگر باوجود اس کے وہ راست بازوں کا وجو دونیاسے مٹانہ سکے اور صداقت دنیا میں پھیل کر رہی.پس کوئی حکومت اپنی طاقت کے متعلق بے خوف نہیں ہو سکتی کیونکہ حکومتیں ترقی بھی کرتی ہیں اور گرتی بھی ہیں اور نہ کوئی بادشاہ تغیرات زمانہ سے مطمئن ہو سکتا ہے.گورنمنٹ افغان کا یہ فعل محض ہماری شرافت کی وجہ سے ہے کیونکہ ہم مذہب کی حکومت کی وجہ سے ان کے مقابلہ میں اخلاق کو ان کی طرح وحشیانہ رنگ میں استعمال نہیں کرتے ورنہ جس طرح وہ ظلم کر رہے ہیں کیا ہماری جماعت نکالم کے ظلم سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتی.بیشک وہ ہم سے زیادہ ہیں اور تم ان کے مقابلہ میں کمزور ہیں مگر باطنیوں کی بھی کوئی بڑی جماعت نہیں تھی جب اخلاق کوذہب کی قید سے انہوں نے آزاد کر دیا تو بڑی بڑی حکومتیں اور بادشاہ بھی ان سے کاپیتے تھے.جس کو وہ اپنے مخالف پاتے تھے اس کو مخفی قتل کردیتے تھے.نذہب کی جو حکومت اغلاق پر ہوتی ہے نہ کوئی بادشاہ کر سکتا ہے نہ کوئی گورنمنٹ.جب انسان مذہب اور اخلاق سے دور جا پڑتا ہے تو نہ کی بادشاہ کا اس کو ڈر رہتا ہے اور نہ کسی حکومت کا اس کے دل میں کوئی خوف ہوا ہے.کم سے کم ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے امیر صاحب اس قسم کے مظالم ہماری جماعت پر کر تا ہے تو اس کو
۴۴ حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پرصبرو سکون سے کام لو یہ خیال نہ آتا ہو گا کہ اگر یہ لوگ بھی مذہب کی اخلاقی قید سے آزادی اختیار کریں تو وہ اس کے مظالم کو روک سکتے ہیں لیکن وہ تو اخلاق سے کام نہیں لیتا لیکن ان کے اخلاق مذہب کی حکومت کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور یہ کوئی خلاف انسانیت کام نہیں کرتے.میں ان کی اس حرکت پر جو انہوں نے ہمارے دو اور بھائیوں کو سنگسار کر دینے کی ہے اپنے دل میں کوئی غیظ اور غضب نہیں پاتا بلکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں خدا کے قول اور اخلاق کے خلاف ہم سے اور ہماری نسلوں سے ایسی حرکت سرزد نہ ہو.مجھے اس بات کا اتنا رنج نہیں کہ گورنمنٹ کابل نے ہمارے بھائیوں کو شہید کردیا ہے اور نہ اس کی اتنی فکر ہے جو بات کہ مجھ پر اثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ زمانہ نہیں رہے گا امیر بھی مٹ جائے گا اور اس کے معاون اور مددگار بھی نہیں رہیں گے لیکن جس عقیدہ کی بناء پر انہوں نے یہ ظلم کئے وہ عقیدہ دنیا میں رہے گا اور اس عقید ہوالے بھی دنیامیں رہیں گے کیونکہ غیراحمدیوں کی بھی یہودیوں کی طرح قلیل تعداد دنیا میں قائم رہے گی اس وقت کا خیال کر کے مجھے ان پر اور ان کی نسلوں پر رحم آتا ہے جو امیراور اس کے ساتھیوں کی اس عقیدہ میں وارث ہوں گی کیونکہ یہ تو دنیا سے مٹ جائیں گے لیکن ان کا یہ فعل دنیا میں محفوظ رہے گا اور اس کا جو وبال ان کو بھگتنا پڑے گا وہ سخت خطرناک ہو گا.حضرت عیسیٰ کے ساتھ بد سلوکی کرنے والے یہودی تو دنیاے مٹ گئے لیکن ان کا وہ فعل دنیا میں محفوظ ہے آج جہاں کہیں بھی یہودی پائے جاتے ہیں عیسائی جو کچھ ان کے ساتھ سلوک کرتے ہیں اور جس ذلت کی زندگی یہودی بسر کر رہے ہیں دنیا دیکھ رہی ہے.مجھے اس بات کا خیال نہیں آتا کہ گورنمنٹ افغان نے ہمارے آدمیوں کو سنگسار کردیا ہے مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ ہماری نسلیں جب تاریخ میں ان کے ان مظالم کو پڑھیں گی اس وقت ان کا جوش اور ان کا غضب عیسائیوں کی طرح ان کو کہیں اخلاق سے نہ پھیر دے کیونکہ جس وقت ان کو طاقت اور حکومت حاصل ہوگی ایک طرف وہ ان کی ظالمانہ اور وحشیانہ حرکات کو پڑھیں گے اور دوسری طرف یہ دیکھیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے ان کے بزرگوں پر ایسے ایسے ظلم اور ستم روا رکھے محض اس گھمنڈ ہیں کہ ہماری طاقت زبردست ہے اور یہ کمزور ہیں ہم حاکم ہیں اور یہ محکوم ہیں اس لئے ہم جو چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں کہیں وہ بھی یہ نہ کہہ دیں کہ چلو آج ہم بھی ان پر حاکم ہیں اور یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہم بھی جو چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں اس لئے ان تجربات اور واقعات کی بناء پر اس تقریر کے ذریعہ میں آئندہ آنے والی
۴۵ حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبروسکون سے کام لو نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ طاقت اور قوت کے زمانہ میں اخلاق کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ اخلاق اصل وہی ہیں جو قوت اور طاقت کے وقت ظاہر ہوں، ضعیفی اور ناتوانی کی حالت میں اخلاق اتنی قدر نہیں رکھتے جتنی کہ وہ اخلاق قدر رکھتے ہیں جبکہ انسان بر سر حکومت ہو اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالی ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں.(الفضل ۱۹.فروری ۱۹۲۵ء)
۴۷ جماعت احمدیہ کے عقائد از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خليفۃ المسیح الثانی
۴۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم جماعت احمدیہ کے عقائد (رقم فرمود و مئی ۱۹۲۵ء) ہمارے عقائد جن کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مختصر سا نقشہ ہمارے مذہب کا ذہن میں کھینچ سکتا ہے یہ ہے :.اللہ تعالیٰ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہے اور ایک ہے وہ ان تمام صفات سے متصف ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں.ملائكة الله ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملا ئکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور انسانوں سے علیحدہ موجود ہیں.خیالی یا وہمی وجود نہیں ہیں بلکہ حقیقتاً وہ ایسی ہستیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مادی اسباب کی آخری کڑی کے طور پر مقرر فرمایا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے عالم مخلوقات میں ایک ایسی حرکت پیدا کرتے ہیں جو مختلف مدارج طے کرنے کے بعد وہ نتائج پیدا کردیتی ہیں جن کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں.کلام الہٰی ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے کام نازل کیا کرتا ہے.اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے (جس کی حد بندی کرنے کی ہم کوئی وجہ نہیں پاتے خو اہ لاکھوں اور کروڑوں خواہ اربوں سال ہوں) تبھی سے خدا تعالی اپنے خاص خاص بندوں سے دنیا کی راہنمائی کے لئے کام کرتا چلا آیا ہے ، اب بھی کرتا ہے اور آشنده گرا رہے گا.قرآن کریم ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کلام الہٰی کئی اقسام کا ہے.ایک قسم شریعت یعنی ایسا كلام جو شریعت کا حامل ہوتا ہے اور ایک قسم تفسیر اور ہدایت ہوتی ہے یعنی کلام شریعت کی تفسیر اس کے ذریعہ سے کی جاتی ہے اور اس کے سچے معنے بنائے جاتے ہیں اور لوگوں
۵۰ کو حقیقی راستے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے خواہ وہ اس کلام کے حامل کے ذریعہ سے دنیا کو بتایا گیا ہو اور خواہ وہ اس سے پہلے کسی حامل کلام کے ذریعہ دنیا کو بتایا گیا ہو.اور ایک قسم الہام کی یہ ہے کہ اس کی غرض وثوق اور یقین دلانا ہوتی ہے.پھر ایک قسم الہام کی یہ ہے کہ اس میں اظہار محبت مد نظر ہوتا ہے.اور ایک قسم الہام کی یہ ہے کہ اس میں تنبیہہ مد نظر ہوتی ہے اور اس قسم کا کلام کافروں اور مشرکوں پر بھی نازل ہو جاتا ہے.ہمارا یہ یقین ہے کہ کلام شریعت اس دنیا کے لئے قرآن کریم پر ختم ہوگیا ہے.رسول کریم ﷺ ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ حاملین شریعت کی آخری کڑی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور قرآن کریم کے بعد کوئی شرعی کتاب خدا کی طرف سے نازل نہیں ہو سکتی اور نہ رسول کریم ﷺکے بعد کوئی ایسانبی مبعوث ہو سکتا ہے جو کوئی نیا حکم شریعت لائے یا کسی مٹے ہوئے حکم کو نئے طور پر دنیا میں قائم کرے.یعنی نہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ شریعت میں کوئی زیادتی کرے اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ پچھلے کلام کا کوئی حکم جو منسوخ ہو چکا ہوکسی نئے نبی کے ذریعہ سے قائم ہو.انبیاء علیهم السلام پھر ہم یقین کرتے ہیں کہ الله تعالى و قتاًفو قتاً دنیا کی ہدایت کے لئے بعض انسانوں کو جو اس کے کلام کے حامل ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں اور جو لوگوں کے لئے نمونہ بننے کی طاقت رکھتے ہیں اپنے کلام سے مشرف کر کے دنیا کی ہدایت کے لئے مامور کرتا رہا ہے جو کہ کبھی تو کلام شریع ت لے کر دنیا میں آئے ہیں اور کبھی صرف ہدایت ہی لے کر آتے ہیں خود ان پر کوئی ایسا کلام نازل نہیں ہوا جس میں کوئی نیا حکم ہو.غیر شرعی نبی ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دوسری قسم جو شریعت نہیں لاتے اور صرف پہلی شریعت کی تفسیر اور تشریح کرنے کے لئے نازل ہوتے ہیں وہ ایسے زمانہ میں نازل ہوتے ہیں جب کہ اختلافات ،روحانیت سے بُعد، خدا تعالی سے دوری، تقویٰ کی کمی اور نیکی کا فقدان کلام شریعت کے صحیح معنے کرنے کی قابلیت اس وقت کے لوگوں سے مٹادیتا ہے اور اگر کسی امر میں لوگ معنے دریافت بھی کر لیں تو اس قدر اختلاف آراء ہو چکا ہوتا ہے کہ کسی شخص کو یقین اور تسلی نہیں ہو سکتی کہ یہ معنے درست ہیں.اور جب کہ خدا تعالی کی طاقت اور قدرت لوگوں کی نظر سے بالکل مخفی ہو جاتی ہے اس کاو جود قصوں اور روایتوں میں محدود ہو جاتا ہے اور اس کے تازہ تازہ جلوے دنیا میں نہیں آتے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسانبی بھیجا
۵۱ جاتا ہے جو کلام الہٰی کی صحیح تفسیر جو اس کو خدا تعالی کی طرف سے ملتی ہے لوگوں تک پہنچا دیتا ہے اور تازه نشانات کے ساتھ خدا تعالی کے جلوے کو ظاہر کرتا ہے جس سے وراثتی ایمان جو در حقیقت ایک کوڑی کے برابر حقیقت نہیں رکھتایقین اور وثوق کا مقام حاصل کرلیتا ہے.انبیاء علیھم السلام کا آنا ہمارا یہ یقین ہے کہ امت کی اصلاح اور درستی کے لئے ہر ضرورت کے موقع پر اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء بھیجتا رہے گا.اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث میں اس زمانہ کی نسبت خصوصیت کے ساتھ یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ اس وقت جب کہ رسول کریم ﷺ کی تعلیم کو جو صفحات کاغذ پر تو موجو د ہوگی لیکن لوگوں کے قلوب پر سے مفقود ہو جائے گی اور بلحاظ ایمان اور یقین کے وہ ثریا پر چلی جاوے گی آپؐ ہی کی امت میں سے ایک ایسا شخص ظاہر ہو گا جو پھر قرآن کریم کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کرے گا اور ان کے ایمانوں کو تازہ کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارا یہ یقین ہے کہ وہ شخص موعود ظاہر ہو چکا ہے او ران کا نام مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہے.ہم رسول کریم ﷺ کی بتائی ہوئی ہدایت اور آپؐ سے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ مسیح موعود تھے جن کے ذریعہ خداتعالی عیسائیت کے فتنہ کو پاش پاش کرے گا.اور آپ مہدی موعود تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اصلاح کرنی ہے اور آپ کرشن اور دوسرے بزرگ جو مختلف اقوام میں آئے ہیں ان کے مثیل نے جن ناموں کے ذریعہ آپ نے ان قوموں کو اسلام کی طرف لانا ہے آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کا کام کرتا ہے اوروہ کررہاہے.مامور کا ماننا ہمارا یہ یقین ہے کہ جو شخص خدا تعالی کی طرف سے آتا ہے اس پر ایمان لانا اور اس کا ساتھ دینا اور اس کی جماعت میں داخل ہونا ضروری ہے ورنہ وہ غرض و غایت ہی مفقود ہو جاتی ہے جس کے لئے خدا تعالی کی طرف سے مامور آیا کرتے ہیں.اگر خداتعالی کے مامور کی جماعت میں داخل ہونا ضروری نہ ہو تو جیسا قرآن سے ظاہر ہے کہ نبی کی مخالفت اس وقت کے بڑے لوگوں کی طرف سے ضروری ہے کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک غیر ضروری کام کے لئے ساری دنیا کی مخالفت سہیڑے.تبھی ایک جماعت اس مقصد کو لے کر کھڑی ہو سکتی ہے کہ وہ اس مامور کی تائید کرے گی اور اس کے کام کو دنیا میں پھیلائے گی جب کہ وہ سمجھتی ہو کہ
۵۲ جماعت احمدیہ کے عقائد بغیر اس کے ہم خدا تعالی کی رضاء کو حاصل نہیں کر سکتے.پس وہ دنیا کی اشد ترین مخالفت کو جس سے بڑھ کر اور مخالفت نہیں ہوتی خداتعالی کی رضاء کے لئے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے.دُعا ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالی د عاؤں کو قبول کرتا ہے.جزا ءو سزا ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہر انسان جب مرجاتا ہے اس کے اعمال کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جا تا ہے اس حصہ میں جس کو قبر کا زمانہ کہتے ہیں مگر جس سے مراد مٹی کی قبر نہیں بلکہ اس سے مراد وہ خاص مقام ہے جس میں مردوں کی ارواح رکھی جاتی ہیں.اور اس وقت بھی جزاء و سزا ملے گی جب یہ قبر کا زمانہ ختم ہو جائے گا اور حشرکبیر کا زمانہ شروع ہو جائے گا.رحمتِ الہٰی ہمارا یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب صفات کے ساتھ اپنا اثر ظاہر کرتی ہے اور اس کی رحمت عظیم کے ماتحت آخر ایک دن ایسا آئے گا کہ تمام کے تمام بنی نوع انسان خواہ کیسی ہی بدی اور بد کاری اور کیسے ہی فسق اور کفر میں شرک یا دہریت میں مبتلاء ہوں ان کو اس کی رحمت اپنے اندر سمیٹ لے گی اور بالآخر وہ بات جو انسان کی پیدائش کے وقت خداتعالی نے ان سے کہی پوری ہو جائے گی یعنی ما خلقت الجن والإنس الأ ليعبدون ، تمام کے تمام اس کے عبد بندے اور اس کے عبادت گزار ہو جا ئیں گے.ہر شخص اپنے درجے کے مطایق بدلہ پائے گا.نہ کسی کی کوئی نیکی ضائع ہوگی اور نہ کسی کی بدی ضائع ہوگی.نادان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ آخر میں جب دوزخ کے سلسلہ کو مٹا دیا جائے گا تو پھر سزا کا ہے کی ہوئی.دنیا میں روزانہ لوگوں کو سزا ملتی ہے پھر وہ چُھٹ جاتے ہیں مگر وہ سزا ہی کہلاتی ہے.دوزخ کی سزا تو اپنے زمانے کی وسعت میں اتنی ہے کہ اس کا خیال کر کے بھی دل کانپ جاتا ہے کہ اللہ تعالی اس کو قرآن کریم میں اَبَد کے لفظ سے ذکر کرتا ہے لیکن ہمیشہ گویا اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ وہ نہ ختم ہونے والی ہو گی تو کون شخص ایسا ہے جواتنی لمبی سزا برداشت کر سکے.پھر اس سے زیادہ کیا سزا ہو سکتی ہے کہ ایک خدا تعالی کا نافرمان اس وقت جب کہ اس کے بھائی قرب الہٰی کے میدان میں دوڑ رہے ہوں گے اور آناًفاناً روحانیت میں ترقی کر رہے ہو نگے وہ اپنی گناه آلود روح دوزخ کی آگ میں جلا کر صاف کر رہا ہو گا کسی گھوڑ دوڑ کے سوار سے پوچھو کہ اس کو دوڑتے وقت روک لیا جائے اور بعد میں چھوڑا جائے تو اس کو کتنا صدمہ پہنچتا ہے.
۵۳ جماعت احمدیہ کے عقائد رویت الہٰی ہمارا یہ یقین اور وثوق ہے کہ انسانی روح ترقی کرتے کرتے ایسے درجے کو حاصل کرے گی جب کہ اس کی طاقتیں مو جو دو طاقتوں کی نسبت اتنی زیادہ ہوں گیا کہ اسے ایک نیا وجود کہا جا سکتا ہے.لیکن چونکہ وہ اسی روح کی نشو و نما ہو گی اس لئے اس کا نام یہی ہو گا جو اس کو اب اس دنیا میں حاصل ہے.اس وقت روح اس قابل ہو جائے گی کہ اللہ کے ایسے جلوے کو دیکھے اور ایسی رؤ یت اس کو حاصل ہو کہ باوجود اس کے کہ وہ حقیقی رؤیت نہ ہوگی مگر پھر بھی اس دنیا کے مقابلہ میں رؤیت اور یہ دنیا اس کے مقابلہ میں حجاب کہلانے کی مستحق ہوگی.نبوت اور کلام کا سلسلہ جاری ہے ہمیں لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے صرف یہودیوں میں نبوت کا سلسلہ مخصوص کیا ہوا ہے اور باوجود قرآن شریف کی متعدد آیات کی موجودگی کے وہ باقی تمام قوموں کو خدا اور اس کے نبیوں سے محروم رکھتے ہیں.پھر ہمیں ان لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ ان کا خیال ہے کہ خدا تعالی نے رسول کریم ﷺکے بعد ہر قسم کے کلام کو روک دیا ہے حالانکہ کلام شریعت کے سوا کسی قسم کا کلام رکھنے کی کوئی وجہ نہیں.کلام شریعت کے کامل ہو جانے سے کلام ہدایت اور کلام تفسیر کی ضرورت معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اگر کلام شریعت آسکتا ہے تو پھر کسی پچھلے کام شریعت کے مخفی ہو جانے میں چنداں حرج نہیں لیکن اگر کلام شریعت آنا بند ہو جائے تو اس کی تفسیر کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے ورنہ ہدایت کی کوئی راہ نہیں رہتی.اگر کہا جائے کہ انسان تفسیر کرتے ہیں تو ان کی تفسیروں میں اتنا اختلاف ہوتا ہے کہ ایک ایک تفسیر میں بیس بیس متضاد خیالات بیان کئے ہوئے ہوتے ہیں.کلام الہٰی تو یقین اور وثوق کے لئے آتا ہے اور امور مذہبی میں بھی اگر شک اور شبہ ہی باقی رہا تو نجات کہاں سے حاصل ہوگی.امت محمدیہ سے مامور پھر ہمیں لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اصلاح کے لئے موسوی سلسلہ کے مسیح کو آسمان سے نازل کیا جائے گا اور ہم کہتے ہیں کہ باہر سے کی آوئی کے منگوانے میں رسول کریم ﷺکی ہتک ہوتی ہے جب کہ آپ ؐہی کے شاگر داور آپ ہی سے فیض یافتہ انسان امت کی اصلاح کا کام کر سکتے ہیں تو باہر سے کسی آدمی کے لانے کی کیا ضرورت ہے.حقیقت یہی ہے کہ اب کسی ایسے آدمی کے
۵۴ جماعت احمدیہ کے عقائد آنے کی ضرورت ہی نہیں ہے.دین اور مذہب کامل ہو چکا ہے اب اس قسم کے مامور کی ضرورت نہیں جو امت محمدیہ سے نہ ہو.ضرورت صلح پھر ہمیں ان لوگوں سے یہ بھی اختلاف ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں مامور کے آنے کی غرض محض شریعت کالانا نہیں ہوتا بلکہ جیسا کہ بتایا گیا ہے کلام الہٰی کی صحیح تفسیراور یقین اور وثوق کا پیدا کرنا ہوتا ہے اور اپنے نمونہ سے لوگوں کی اصلاح کرنا اس کا کام ہوتا ہے.شریعت کے حاصل ہو جانے سے یہ ضرورت پوری نہیں ہو جاتی.صرف اس صورت میں رسول کریم ﷺ کے بعد ہر خم کے مامور کی ضرورت باطل ہو سکتی ہے جبکہ امت محمدیہ ؐ میں کسی قسم کا فساد پیدا ہی نہ ہوتا لیکن ذرا بھی کوئی شخص آنکھ کھول کر دیکھے تو چاروں طرف اس کو فسادہی فساد نظر آئے گا.پھر کیسے تعجب بلکہ حماقت کی بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں رسول کریم کے بعد بیماری تو ہوگی لیکن آپ ؐکے بعد کوئی طبیب نہیں ہو گا.اگر بیماری ہوگی تو طبیب بھی ضرور ہو گا.اگر طبیب نہیں آتا تو بیماری بھی نہیں ہونی چاہئے.مگر مسلمانوں کی مذہبی اخلاقی اور روحانی کمزوری تو اب اندھوں کو بھی نظر آتی ہے.معارف قرآن کریم پھر ہمارا ان لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ ہم یقین رکھتے ہیں قرآن شریف اپنے معارف اور مطالب ہمیشہ ظاہر کرتا رہتا ہے مگر ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ سب معارف پچھلے لوگوں پر ختم ہوگئے اب یہ کلام نعوذ بالله ایسی ہڈی کی طرح ہے جس سے سارا گوشت نوچ لیا گیا ہو.تعجب ہے دنیا کے پردے پر تو نئے علوم نکلیں مگر خدا کے کلام سے کوئی نیا نکتہ نہ نکلے.خداتعالی دعائیں سنتا ہے پھر ہمارا یہ اختلاف ہے کہ ہم لوگ اس بات پر یقین اور وثوق اگتے ہیں کہ الله تعالی مومنوں کی دعائیں سنتا ہے مگر یہ لوگ ان باتوں کی ہنسی اڑاتے ہیں.نشانات پھر ہم لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی ان شرائط کے ساتھ اپنی قدرت کے نشانات اب بھی ظاہر کرتا ہے جو قرآن شریف میں اس نے بتائی ہیں لیکن ہمارے مخالفین کے دو گروہ ہیں.ایک تو وہ ہے جو کہتا ہے کہ اس تعلیم کے زمانہ میں ایسی باتیں مت کرو.اور دوسرا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے خدا تعالی کی قدرت نمائی تبھی ہو سکتی ہے جب کہ وہ اپنے مقرر کردہ قوانین کو بھی توڑ دے اور اپنی سنت کے خلاف کرے.اسی وجہ سے وہ ایسی باتیں دنیا میں
۵۵ جماعت احمدیہ کے عقائد دیکھنی چاہتے ہیں جن کی نسبت خود خدا فرماتا ہے کہ میں ایسا نہیں کرتا.وہ لوگ عالم کہلاتے ہوئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ چونکہ خدا قادر ہے اس لئے وہ جھوٹ بول سکتا ہے (نعوذ بالله) حالانکہ وہ نہیں سمجھئے کہ جھوٹ بولنا تو کمزوری کی علامت ہے.یہ ان کے نزدیک قدرت کی عجیب دلیل ہے کہ چونکہ وہ کمزور ہے اس لئے وہ قادر نہیں.اسلام کی ترقی اسی طرح ہمارا ان لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ یہ لوگ اپنی نادانی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کو بھلا دیا ہے اور اس لئے ان کو ترقی کرنے کے لئے ایسی کوشش کی ضرورت ہے جس میں شریعت اور اس کی ہدایت کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.لیکن ہم لوگ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی پہلے اسلام کو قائم کیا اور اب بھی وہی قائم کرے گا اور ہم اس کے وعدوں کی وجہ سے مایوس نہیں.بعث بعد الموت ہمارا ان لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ ہم بعث ما بعد الموت کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس زندگی میں انسان نئی طاقتوں کے ساتھ مبعوث کیا جاتا ہے ، وہ اسی روح میں سے اور اسی انسان کے بعض ذ رات میں سے نشو و نما پاکر اس حالت کو حاصل کر تاہے لیکن یہی ذرات اور یہی جسم وہاں نہیں جاتا.لیکن ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ ہم ان عقیدہ کی وجہ سے حشراجساد کے قائل نہیں.بعث بعد الموت ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ جنت کی نعمتیں بعینہ اسی رنگ میں ظاہر ہوں گی جس رنگ میں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہاں کا عالم ہی اور ہے اس لئے جس مادے کی چیزیں یہاں ہیں اس مادے کی چیزیں وہاں نہیں ہوں گی مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ اس عقیدہ کی وجہ سے ہم جنت کے منکر ہو گئے.دوزخ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ دوز خ ایک آگ ہے لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس دنیا کی آگ کی قسم سے نہیں بلکہ وہ اس آگ سے کئی باتوں میں ممتاز ہے.وہ اپنی سختی میں اس سے بہت زیادہ ہے اور وہ انسان کے قلب کو صاف کر سکتی ہے مگر یہ آگ قلب کو صاف نہیں کرتی.ہمارے مخالف کہتے ہیں ہم اس عقیدہ کی وجہ سے دوزخ کے منکر ہو گئے ہیں.ابدی عذاب ہمارا یہ یقین ہے کہ آخر اپنی سزاؤں کو بھگت کر خدا تعالی کی نعمتوں کو پانے کی قابليت حال کرکے انسان دوزخ میں سے نکالے جا کر جنت میں داخل کئے جائیں
۵۶ جماعت احمدیہ کے عقائد گے اور سب کے سب آخر خدا تعالی کی نعمت کے وارث ہو جائیں گے ہمارے مخالف کہتے ہیں اس کی وجہ سے ہم ابدی عذاب کے منکر ہو گئے ہیں.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ خدا کی رحمت کو چھوڑ کر ان کے ابدی عذاب کو کیا کریں.قرآن کریم کی تفسیر یہ تو اصولی باتیں ہیں جن میں ہمیں دوسرے لوگوں سے اختلاف ہے.قرآن کریم کی آیات کی تفسیر میں انہیں اصول کے ماتحت پھر ایک وسیع خليج ہمارے اور ان کے درمیان واقع ہو جاتی ہے.وہ اپنی تنگ حوصلگی کے ماتحت قرآن کریم کے معنے کرتے ہیں لیکن ہم قرآن کریم کو الہام کی روشنی میں دیکھتے ہیں.(الفضل مورخہ ۱۴- مئی ۱۹۲۵ء) | الذّریت : ۵۷
۵۷ حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۵۹ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز (تحریر فرمودہ جون ۱۹۲۵ء) (۱) چونکہ ان دنوں حج بیت اللہ کے جواز یا عدم جواز کا سوال پیش ہے.اور مختلف لوگ اس کے متعلق اپنی آراء شائع کر رہے ہیں.اور ہندوستان کے مسلمان سیاسی لیڈروں نے تو زور دے کر اس سال حج کے لئے جہاز روانہ کرائے ہیں.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں احمد یہ جماعت کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے اپنی رائے ظاہر کردوں تاہماری جماعت کے لوگ بے فائدہ تکلیف اور دکھ سے بچ جائیں.اور تا جو اور لوگ مجھ پر حسن ظنی رکھتے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے ایک مخلصانہ مشورے محروم نہ رہ جائیں.میں اپنے تمام دوستوں کو شروع مضمون میں ہی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس سال حج کرنا فتنہ کا موجب ہے.اور شریعت کے حکم کے ماتحت اس سال حج کے ارادہ میں التواء کرنا بہتر ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ ج بہر صورت اور ہر حالت میں فرض نہیں ہے بلکہ اسی وقت اور اسی پر فرض ہوتا ہے جب اور جس شخص میں بعض شرائط پائی جا دیں.اور انہی شرائط میں سے ایک امن کاو جود بھی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ حج اس پر فرض ہے کہ جس میں وہاں پہنچنے کی استطاعت ہو.یعنی آمد و رفت کا کرایہ ہو گھروالوں کا خرچ ہو، راستے میں امن ہو، اس کی صحت اچھی ہو اور سفر کی تکالیف کو برداشت کر سکتا ہو وغیرہ وغیرہ.اور چونکہ اس سال مکہ مکرمہ کی راہ مخدوش ہے اس لئے میرے نزدیک ہندوستان کے لوگوں کے لئے اوران دیگر ممالک کے لوگوں
۶۰ کے لئے جن کو بحری سفر کے ذریعہ سے مکہ مکرمہ تک پہنچنا پڑا ہے اس سال حج ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا ملتوی کرنا بہتر ہے.انسان غیب کے حالات کو نہیں جانتا اور ہم نہیں کہہ سکتے کل کیا ہو.مگر فیصلہ موجودہ حالات پر لگایا جاتا ہے اور وہ حاجیوں کے لئے مخدوش ہیں.میری رائے کی بنیاد مندرجہ ذیل امور پر ہے.ان دنوں امیر ابن سعود اور شریف علی والی حجاز کے درمیان جنگ ہو رہی ہے.اور باوجود کوشش کے فریقین نے جنگ کو ملتوی کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا.اس لئے بالکل ممکن ہے کہ حاجیوں کو لڑائی کے قدرتی نقصانات برداشت کرنے پڑیں.او روہی مثل صادق آئے کہ"جوگی جوگی لڑیں اور کھپروں کا نقصان " دوجنگو مسلح ایک دوسرے کو فنا کردینے کا ارادہ کرنے والی قوموں کے درمیان ایک غیرمسلح بے بس جماعت کا آجانا جن خطرات کا موجب ہو سکتا ہے ان کا قیاس کر لینا کچھ مشکل نہیں اور ان کی موجودگی میں حج کا ارادہ کرنا جائز نہیں ہو سکتا.موجودہ حالت حجاز کی یہ ہے کہ امیر ابن سعود امیر نجد اس وقت مکہ مکرمہ پر قابض ہیں.شریف علی ملک الحجاز جدہ اور ساحل سمندر کے اکثر علاقہ پر قابض ہیں.امیر ابن سعود کی فوجوں نے جدہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے.اور ان کی پوری کوشش اس امر میں خرچ ہو رہی ہے کہ شریف علی کا تعلق عرب کی ان جنگجو قوموں سے نہ ہو جو اندرون عرب میں بستی ہیں تاکہ وہ اپنی فوجی طاقت کو بڑھا سکیں.شریف علی ایک قلیل فوج کے ساتھ جس کے افسراکثر شامی لوگ ہیں جو قدیم ترکی فوج کے بقیہ ہیں اور انہوں نے ترکی کالجوں میں فنون حرب سیکھے ہوئے ہیں فوج کا ایک حصہ بھی شامی لوگوں پر مشتمل ہے.اور باقی حجازی قبائل کے لوگ ہیں.جدہ اور اس کے گردو نواح میں اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ غلہ جو حجاز کو سمندر کی جانب سے آیا کرتا ہے مکہ مکرمہ اور پاس کے علاقہ میں نہ پہنچنے دیں تا کہ امیر نجد تنگ آکر محاصرہ اٹھائیں اور لوگوں میں بھی فاقوں کی وجہ سے امیر نجد کی حکومت کے خلاف بے اطمینانی پیدا ہو جائے اور وہ ان کو چھوڑ کر شریف علی سے مل جاویں، چونکہ حج کا مروّجہ راستہ جدہ میں سے ہو کر گزرا ہے.اس لئے اس راستہ سے ہو کر حج کو جانا تو بالکل نا ممکن ہے.مگر اس راستہ کے سوا کچھ اور راستے بھی ہیں.جن میں سے ایک رابغ ہے جو مکہ مکرمہ کی قدیم بندر گاہ ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اسی بندر (بندرگاہ )سے مکہ کے لوگ پار کے ممالک کی طرف جاتے تھے.اور صحابہ کرام ہجرت حبشہ کے وقت اسی بند ر سے ابی سینیایا بعض لوگوں کے نزدیک یمن کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے، یہ بندر
۶۱ مکہ مکرمہ سے پانچ منزل پر واقع ہے- اور معمولی حالات میں مکہ سے رابغ تک انسان پانچ دن میں پہنچ جاتا ہے.رابغ اور دو اور بندر اس وقت امیرابن سعود کے قبضہ میں ہیں.اور اس وجہ سے تحریک کی جارہی ہے کہ حاجیوں کے جماز اگر اس بند ر پر جاویں تو آسانی سے مکہ پہنچ سکتے ہیں.مگر اس خیال کے لوگوں کی نظروں سے چند امور پوشیدہ ہیں.۱- رابغ گو پر انا بند رہے لیکن بڑے جہازوں کے ٹھہرنے کے قابل نہیں.کیونکہ وہاں عام طور پر بڑے جہاز نہیں ٹھہرتے اور خصوصاً چو نکہ وہ اب مکہ کا بندر نہیں ہے اس لئے وہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان کی منزلیں غیر آباد ہو چکی ہیں.پس نہ تو رابغ میں حاجیوں کے آرام کے لئے کافی جگہ مل سکتی ہے اور نہ راستہ کی منزلوں میں ان کے ٹھہرنے کی کوئی مناسب صورت ہو سکتی ہے.مزید برآں عرب میں سب سے اہم سوال کھانے پینے کا ہوتا ہے اور پانچ منزلوں پر کافی ذخیرہ کھانے پینے کامہیا کردینا ایک بہت بڑا کام ہے.امیرا بن سعود نے انتظام کا وعدہ کیا ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ امیر ابن سعودجنگی آدمی ہیں.اور عرب کے باشندے ہیں.وہ انتظام کے جو معنے سمجھتے ہیں وہ بالکل اور ہیں.ایک عرب سپاہی کھجور کی گٹُھلیاں کھا کر یا درختوں کی چھال کھا کر کئی دن گذارا کر لیتا ہے.اور پانی کا ایک گھونٹ اس کی تشنگی کے بجھانے کے لئے کافی ہوتا ہے یہ چیزیں ہندوستانی آدمیوں کے لئے گذارہ نہیں کہلا سکتیں.اور خصوصا ًعورتوں بچوں کے لئے تو ایسے حالات میں یقینی تباہی ہے.وہ جو کچھ بھی انتظام کریں گے اس میں ہندوستانی طریق رہائش کالحاظ نہیں رکھا جا سکتا.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہوٹلوں اور اعلیٰ قہوه خانوں کا انتظام نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ انتظام تو پہلے بھی نہ تھا.میرا مطلب انتظام سے یہ ہے کہ پینے کو پانی مل جائے اور کھانے کو غلہ اور کافی اونٹ ہوں.جن پر لوگ سوار ہو کر مکہ پہنچ سکیں.میرا جہاں تک خیال ہے امیرابن سعود کے لئے باوجود اس کے کہ ان کی کامیابی اس سال کے حج کی کامیابی پر منحصر ہے ،یہ انتظام بھی مشکل ہو گا.۲ - دو سری دقّت یہ ہے کہ رابغ گوا میرا بن سعود کے قبضہ میں ہے مگر اس کا راستہ ساحل کے کنارے کنارے مکہ کی طرف جاتا ہے اور یہ علاقہ شریف علی کے قبضہ میں ہے.چونکہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں شریف علی کو حاجیوں کے مکہ پہنچنے میں سخت نقصان کا اندیشہ ہے اس لئے وہ بھی آسانی سے ان قافلوں کو گذرنے نہیں دیں گے.اور ضرور ہے کہ اگر خود مصلحتاًحاجیوں کے قافلوں پر دست درازی نہ کریں تو اردگرد کے قبائل کو اُکسا کر ان سے حملہ کروا دیں اور حاجیوں کو مال اور جان سے ہاتھ دھونا پڑے.
۶۲ ۳.مگر سب سے اہم سوال رابغ تک پہنچنے کا ہے.قوانینِ دُول کے مطابق ہر بادشاہ اپنے ساحل کے تین میل کے اندر سمند ر کامالک سمجھا جاتا ہے.اور کھلے سمندر میں بھی ہر بادشاہ کاجو دوسرے بادشاہ سے لڑائی کر رہا ہو حق ہے کہ اس کے ملک میں جانے والے غلہ اور ان اشیاء کو لُوٹ لے جو جنگ میں کام آتی ہیں.چونکہ شریف علی کے پاس جنگی بیڑا ہے اور امیرابن سعود کے پاس نہیں ہے اس لئے امیرابن سعود تو حاجیوں کے جہازوں کی حفاظت نہیں کر سکتے.مگر شریف على ہراس جہاز کو جس کی منزل مقصود امیرابن سعود کا علاقہ ہو، لوٹ سکتے ہیں اور پکڑ سکتے ہیں.چونکہ شریف علی کی کامیابی کا انحصارہی اس امر پر ہے کہ امیرابن سعود کو غلہ نہ پہنچے.اس لئے وہ پورا زور لگائیں گے کہ حاجیوں کے جہاز جو کئی ہزا رٹن غلہ بھی لے جا رہے ہیں منزل مقصود تک نہ پہنچ سکیں اور راستہ میں ہی پکڑ لئے جاویں.اس سے ایک تو امیرابن سعود کو نقصان ہو پہنچے گا دو سرے غلہ کی بہتات کی وجہ سے شریف علی کی طاقت بڑھ جائے گی.پس اندریں حالات شريف على حتی المقدور حاجیوں کو رابغ نہیں پہنچنے دیں گے اور راستہ میں ہی گرفتار کر کے جده لے جانے کی کوشش کریں گے اور یہ کام ان کے لئے بہت آسان ہے.اگر رابغ پر کھڑے ہوئے جہاز کو بھی وہ جنگی جہاز کے ذریعہ سے گرفتار کرنے کی کوشش کریں تو امیرابن سعود بوجہ جنگی بیڑا نہ رکھنے کے کچھ نہیں کر سکتے اور اس امر میں شریف علی بالکل قوانین ِ دُوَلی کے دائرہ کے اندر کام کر رہے ہوں گے.یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حاجیوں کے اُتر جانے کے بعد جہاز پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں.اگر ایسا ہو اتو حاجی خوراک سے بالکل محروم رہ جائیں گے.شریف علی کو یہ بھی تقویت حاصل ہے کہ بوجہ ان خبروں کے کہ امیرابن سعود اورشیخ سنوسی کا آپس میں کوئی سمجھوتہ ہوا ہے اٹلی کا میلان ان کی طرف ہے اور اٹلی کا علاقہ مسووا رابغ کے مقابلہ پر ہے اور وہاں اٹلی کے ساحلی جہاز ملک کی حفاظت کے لئے رہتے ہیں.یہ جہاز بغیراس امر کے ظاہر ہونے دینے کے کہ وہ شریف علی کی حمایت کر رہے ہیں بحیرہ احمر میں سے گذرنے والے ان جہازوں کی خبر رکھ سکتے ہیں جو رابغ جارہے ہوں.اور وقت پر تشریف علی کو اطلاع دے سکتے ہیں.اٹلی آگے بھی کافی ذخیره سامانِ حرب حجازی حکومت کو دے چکا ہے.ان حالات میں حاجیوں کے جہازوں کی حالت بہت خطرہ میں ہوگی.میں یہ نہیں کہتا کہ ان حالات میں جہازوں کا پہنچنا ناممکن ہے.نہایت زبردست پیڑوں کی موجودگی اور تجربہ کار بحری کمانڈروں کی موجودگی میں بھی بعض جہاز دھوکا دے کر نکل جاتے ہیں.
۶۳ مگر خطرہ کا حصہ ایسے موقعوں پر بہت زیادہ ہو تا ہے اور ایسے خطرہ میں اپنی جان کو ڈال کرحج کر لئے جانا شریعت کے حکم کے خلاف ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس دفعہ کاحج سیاسی حج ہے.امیرابن سعود کی تمام کوششیں جس کی تائید میں صرف اس لئے ہیں کہ اگر اس سال حج نہ ہو توڈیڑھ دو لاکھ من غلہ جو ان دنوں عرب میں پہنچ جاتا ہے وہ نہیں پہنچے گا.اور اس سے ان کو بہت نقصان پہنچے گا.دوسرے وہ جو کہ بیرونی اسلامی دنیا سے بالکل بے تعلق ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس موقع پر تمام دنیا کے مسلمانوں سے ان کے تعلقات قائم ہو جائیں.تیسرے حج کی آمد پر اہل مکہ اور اردگرد کے قبائل کا سال بھر گزرتا ہے.اگر نہ ہو تو ان لوگوں کی حالت پریشان ہو جائے گی.اور حکومت نجد پر ان کا بوجھ پڑے گا.اور اگر حکومت ان کا انتظام نہیں کرے گی تو ملک میں ایسی بے چینی پیدا ہوگی جس کا سنبھالنا حکومت کے لئے مشکل ہو گا.پس امیرابن سعود اپنا سارا زور اس امر کے لئے خرچ کر رہے ہیں کہ کسی طرح لوگ حج کے لئے آویں تاکہ غلہ بھی مکہ میں پہنچ جائے ، لوگوں کے گذارہ کا بھی سامان ہو جائے اور عالم اسلام کی رائے کو بھی وہ اپنے حق میں کرلیں.ہندوستان کے مسلم لیڈر بھی حج کی تائید محض سیاست کی وجہ سے کر رہے ہیں.وہ شریف علی کے دشمن ہیں کیونکہ انہوں نے ترکوں کے خلاف جنگ کرنے میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا.اور وہ جانتے ہیں کہ اگر اس سال حج نہ ہو اور شریف علی کی طاقت بہت بڑھ جائے گی.امیر ابن سعود کی نسبت یہ مشہور کیا جا رہا ہے کہ وہ ترکوں کے ساتھ ہیں.اور ایک زمانہ میں ترکوں کے سخت دشمن تھے.موجودہ زمانہ میں ان کا میلان ترکوں کی طرف اگر ہے تو اس کی وجوہ محض سیاسی ہیں دلی محبت اس کا باعث نہیں.مگر بہرحال چونکہ شریف کی طاقت کو تو ڑ رہے ہیں اس لئے ہندوستان کے مسلمان ان کی تائید میں ہیں.گو وہ مذہباً ہندوستان کے رائج الوقت مذہب کے خلاف ہیں یعنی حنفی مذہب کے سخت مخالف ہیں.اور اس خاندان کے درخشندہ گو ہرہیں جن سے وہابیت کی ہے.پس ہندوستان کے لیڈروں کی تائید امیر ابن سعود کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ شریف علی کی مخالفت کی وجہ سے ہے.لايحب علي بل بغض معاوية پھر ایک دفعہ اپنا رنگ دکھا رہا ہے.مگر خدا کرے کہ اس ذاتی بُغض و عناد کا شکار وہ غریب حاجی نہ ہوں جو اپنی ساده لوحی سے مؤیّدین امیرابن سعود کے مواعيد ومواثیق پر یقین کر کے حج کے لئے روانہ ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں.آئندہ واقعات ہی اس امر کو ظاہر کہیں گے جو خدا تعالی کے علم میں ہیں.مگر موجودہ حالات پر
۶۴ قیاس کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حاجیوں کی جانیں اور مال سخت خطرہ میں ہیں.گو دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے کہ وہ غریب لوگ جو اس کے جلال کے ظاہر کرنے والے گھر کی زیارت کی غرض سے اس خطرہ کے وقت میں گھروں سے نکلے ہیں ہر قسم کے شرسے محفوظ رہیں.آمین.میں انشاء الله تعالی اگلے مضمون میں عرب کے موجودہ فتنہ کے متعلق سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی کچھ روشنی ڈالوں گا.خاکسار مرزا محموداحمد (الفضل ۴ جون ۱۹۲۵ء)
۶۵ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز (تحریر فرموده جون ۱۹۲۵ء) (۲) میں نے پچھلے مضمون میں حج بیت اللہ کے متعلق اپنی رائے لکھی تھی کہ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سال حج کے لئے جانا شریعت کے احکام کے خلاف ہے.گو خطرات اس قسم کے نہیں ہیں کہ کہا جا سکے کہ ضرور ہی ہر شخص تکلیف اٹھائے گا مگر ایسے ضرور ہیں کہ غالب گمان یہ ہے کہ لوگوں کو تکلیف ہوگی اور ممکن ہے کہ وہ تکلیف سینکڑوں کے لئے ہلاکت کا موجب ہو یا ان کی صحت اور دماغ پر ناقابل تلافی اثر ڈالے اور ایسے حالات میں حج فرض نہیں رہنا بلکہ پسندیدہ بھی نہیں ہو تا.اور اس کی تحریک کرنے والے شریعت کی روح کو اور اس کے مغز کو نظر انداز کر دیتے ہیں.مجھے خصوصیت سے اس امر پر تجب آتا ہے کہ آج سے کچھ سال پہلے ہیں لوگ جو آج حج کے فرض ہونے پر زور دے رہے ہیں، لوگوں کو روک رہے تھے کہ مکہ کی حالت مخدوش ہے لوگوں کو حج کے لئے نہیں جانا چاہئے.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مکہ پر شریف علی کا قبضہ تھا.اور یہ لوگ چاہتے تھے کہ ان کو کسی طرح نقصان پہنچے.پس اس وقت کا طريق عمل موجو دہ طریق عمل سے مل کر بتا رہا ہے کہ جن کی تحریک حج کی خاطرسے نہیں ہے ،بلکہ محض سیاسی و جو ہ سے ہے.اور یہ بات نہایت قابل افسوس ہے اور دین کو بازیچہ اطفال بنانے کے مترادف.اس سال حج کو جانے کے متعلق جو میری رائے ہے اس کو بیان کرنے کے بعد میں چاہتا ہوں کہ فتنہ حجاز کے متعلق بھی کچھ بیان کروں - کیو نکہ حجاز کی حکومت کا سوال سب مسلمان کہلانے
۶۶ والے فرقوں سے تعلق رکھتا ہے خواہ احمدی ہوں خواہ غیراحمدی.جس وقت ترک جنگ عظیم میں شامل ہوئے ہیں اس وقت دول متحدہیعنی برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے کوشش شروع کی کہ عرب لوگ ان کے ساتھ مل جاویں اور ترکوں کا ساتھ چھوڑ دیں.اس سے ان کی تین غرضیں تھیں.ایک تو یہ کہ ترکوں کی طاقت کمزور ہو جائے گی.اور ان کو کچھ حصہ فوج کا عربوں کے مقابلہ کے لئے رکھنا پڑے گا.خصوصاً یہ خیال تھا کہ مصر محفوظ ہو جائے گا.کیونکہ مصر کی طرف راستہ عرب علاقہ میں سے گزر کر جاتا ہے.دوسری یہ کہ ترکوں کو غلہ مہیا کرنے والے حصے زیادہ تر عرب علاتے ہیں.یعنی عراق اور شام.پس عربوں کو ساتھ ملانے سے اتحادیوں کو امید تھی کہ ترکوں کوغلہ و غیره مہیا کرنے میں دقّت ہو گی.تیسری وجہ یہ تھی کہ اتّحادی خیال کرتے تھے کہ اگر عرب لوگ ساتھ مل گئے تو عالم اسلامی کو جو ہمدردی ترکوں سے ہے وہ نہ رہے گی.کیونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ساکنین ہمارے ساتھ مل جاویں گے.چونکہ ترکی حکومت کے دور جدید میں عربوں پر ظلم کئے جاتے تھے ان کو اچھے عہدے نہیں دیئے جاتے تھے عربی زبان کو مٹایا جاتا تھا اور عرب قبائل کو جو مد د سلطان عبد الحمید خان کی طرف سے ملتی تھی وہ بند کردی گئی تھی.اس لئے عرب بددل تو پہلے ہی سے ہو رہے تھے بعض شامی امرء اور شریف مکہ کے نمائندوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کے بعد عرب لوگ اس شرط پر اتحادیوں کے ساتھ ملنے کے لئے تیار ہو گئے کہ کل عرب کی ایک حکومت بنا کر عربوں کو پھر متحد کر دیا جائے گا.چونکہ شریف مکہ ہی اس وقت کھلے طور پر لڑ سکتے تھے اس لئے انہی کو امید دلائی گئی او رانہی کو امید پیدا بھی ہوئی کہ وہ سب عرب کے بادشاہ مقرر کر دیئے جائیں گے.اس معاہدہ کے بعد شریف حسن شریف مکہ نے اپنے آپ کو اتحادیوں سے ملا دیا.اور ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا.یہ جون ۱۹۱۶ء میں ہوا.جبکہ قطر پر مشہور انگریزی جنرل ٹاون شنڈ کو سب فوج سمیت ترکوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے.اور جبکہ ترکی فوجیں غلبہ حاصل کر رہی تھیں.پسی عربوں کا اس وقت اتحادیوں کی مدد کے لئے کھڑا ہونا بتاتا ہے کہ وہ نہایت سنجیدگی سے اپنی آزادی حاصل کرنے کے درپے تھے.اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ اتحادیوں کو ان کا مد دد ینا انتہائی درجہ کی قربانی پر مشتمل تھا اور ان کا شکریہ اتحادیوں پر لازم – اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ گو اتحادیوں کو کچھ تو فائدہ پہنچ گیامگر جو فوائد ان کو مد نظر تھے وہ نہ پہنچے.مسلمانوں کی عام ہمدردی ان کو حاصل نہ ہوئی بلکہ مسلمانوں کے دل اتحادیوں کے بغض
۶۷ سے اور بھی بھر گئے.اور عربوں کو بھی انہوں نے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا.شام اور عراق میں سوائے معدودے چند لوگوں اور قبیلوں کے اکثر حصہ آبادی کھلے طور پر کچھ نہ کر سکی مگر یہ ضرور ہوا کہ ترکوں کی توجہ بٹ گئی اور مصر پر حملہ کا خیال ان کو چھو ڑناپڑا.کیونکہ اس صورت میں ان کا عقب غیر محفوظ ہو گیا.میرے نزدیک بغاوت، بغاوت ہی ہے اور اس لحاظ سے میں ترکوں سے پوری ہمدردی رکھتا ہوں.اور شریف مکہ کے اس فعل کو نہایت بُرا اور قبیح خیال کرتا ہوں.مگر میں ساتھ ہی یہ خیال کرتا ہوں کہ خدا تعالی کے منشاء کے مطابق یہ فعل ہوا.کیونکہ اس طرح مقامات مقدسہ اتحادیوں کی دست بُرد سے محفوظ ہو گئے.آخری دو سالوں میں اٹلی اس قدر تنگ آچکا تھا کہ جنگ کو جلد سے جلد ختم کرنا چاہتا تھا.اور کوئی تعجب نہیں کہ چونکہ اس کا فریتی علاقہ مسووا کے ساحل کے مقابل پر ہے وہ کچھ فوج جدہ میں اتار کر مقامات مقدسہ پر قبضہ کرنا چاہتا.اور اٹلی جس مقام تہذیب پر ہے اس کو سوچ کر جسم کے رو نگٹے اس خیال سے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس میں ہمیشہ یہ خیال کرتا ہوں کہ اس طرح عربوں کا اتحادیوں سے مل جانامقامات مقدسہ کی حفاظت کا ایک ظاہری ذریعہ بن گیا اور خدا تعالی کی تدا بیر میں سے اسے ایک تو تدبیر سمجھنا چاہئے.مجھے حیرت ہوتی ہے جبکہ میں ہندوستان کے لئے سَوَراج (حکومت خود اختیاری.مرتّب) کا مطالبہ کرنے والے اور حکومت بہ رضائے باشندگان کا اصل پکار پکار کر سنانے والے مسلمان لیڈروں کو دیکھتا ہوں کہ وہ عربوں کی اس بغاوت کے خلاف جوش و کھاتے ہیں.اگر ہندوستان کے باشندوں کاحق ہے کہ وہ اپنے ملک کی حکومت کا آپ فیصلہ کریں تو باشندگان ِعرب کا کیوں حق نہیں کہ وہ اپنے ملک کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں.ان کا عربوں کو گالیاں دینا ان کے دعویٰ اور ان کے عمل میں ایسا تضاد پیدا کرتا ہے کہ ہر عقلمند اس کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے.غرض کہ جون ۱۹۱۶ء میں شریف نے ترکوں کے خلاف جنگ شروع کی.اور جنگ کے بعد شام کی حکومت امیرفیصل بن شريف حسن کو دے دی گئی.فلسطین اور عراق کے درمیان کا علاقہ عبد اللہ بن شریف حسن کو اور حجاز کی حکومت خود شریف کے ہاتھ میں آئی.اس عرصہ میں فرانس نے شام کا مطالبہ کیا.اور انگریزوں نے وہ علاقہ اس کے سپرد کر دیا.چونکہ فرانس نہیں جانتا تھا کہ شام آزادی حاصل کرے اور امیر فیصل کے ارادے اس وقت بہت بلند تھے وہ ایک متحده عرب حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے.فرانس کے نمائندوں اور ان میں اختلاف ہوا- اور امیر فیصل
۶۸ کو شام چھوڑنا پڑا.انگریزوں نے اس کو بدلہ میں ان کو عراق کا بادشاہ بنا دیا.سیاسی طور پر عرب کی آئندہ امیدوں پر یہ ایک بہت بڑا حربہ تھا.کیونکہ شام کی آزادی کا سوال بالکل پیچھے جا پڑا.اور شام کی شمولیت کے بغیر عرب کبھی متحد نہیں ہو سکتا تھا.کیونکہ شامی سب عرب میں سے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ترقی کرنے کی استعداد رکھتے ہیں.اور پھر ان کا ملک نہایت سرسبزبھی ہے.عراق سر سبز ہے مگر عراق سے انگریزوں کے فوائد ایسے وابستہ ہیں کہ یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی اور نہ کی جاتی ہے کہ عراق کسی قریب زمانہ میں ایسا آزاد ہو جائے کہ عرب کو متحد کرنے میں کامیاب ہو سکے.دوسرے عراقی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور ان میں عرب کو متحد کرنے کی روح بھی موجود نہیں.اس تبدیلی کا ایک اور بھی اثر پڑا - امیر فیصل نے دیکھ لیا کہ عرب کو متحد کرنے کے ان کے ارادے خواب و خیال بن گئے.وہ انگریزوں کے ممنون احسان بھی ہو گئے کیونکہ جب وہ سب کچھ کھو چکے تھے.انگریزوں نے ان کو حکومت دے دی نہ اور کچھ نہیں تو نام کا بادشاہ ان کو بنا دیا.اس وجہ سے ان کی آزاد طبیعت واقعات کی غلام بن گئی.اور وہ ہمت و جوش جو انہوں نے پہلے چند سالوں میں دکھایا تھا اب ایک مایوسانہ تسلی سے بدل گیا.جہاں اس تبدیلی کا یہ اثر پڑا کہ شریف حسن کے سب سے ہوشیار اورذکی فرزند امیر فیصل کو اپنی آئندہ امیدوں کو خیرباد کہہ کر ایک شام کی بادشاہت پر قناعت کرنی پڑی.وہاں اس کا ایک اور بھی اُلٹا اثر ہوا.اور وہ یہ تھا کہ امیر نجد ابن سعود کے غضب کی آگ امیر فیصل کے امیر عراق ہونے پر بھڑک اُ ٹھی.امیر نجد جیسا کہ آگے بیان ہو گا شریف مکہ کے خاندانی دشمن تھے.اور ان کی دشمنی کئی نسل پرانی دشمنی تھی.جب عرب کے شریف کے خاندان کے نیچے متحد کر دینے کا سوالی اُٹھتا تھا تو طبعاً ان کو بُرا لگتا تھا.کیونکہ اس کے یہ معنی تھے کہ نہ صرف ان کا دشمن خاندان اس قدر اقتدار د یا جائے بلکہ وہ ان کے علاقہ پر بھی قبضہ کر لے اور ان کو اس کے ماتحت ہو کر رہنا پڑے.پس جب انہوں نے دیکھا کہ امیر فیصل کو شام سے جواب مل گیا ہے تو ان کو بہت خوشی ہوئی.اور جب انہوں نے دیکھا کہ دول متحدہ نے خلاف وعدہ عرب کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کر دیا اور پاک حکومت میں جمع کرنے کی نہ خود کوشش کی اور نہ عربوں کو اس کے لئے کوشش کرنے کی اجازت دی وہ طبعاً خوش ہوئے اور انہوں نے مزید اطمینان کے لئے انگریزوں سے ایک معاہدہ کر لیا.بظاہر تو معاہدہ یہ تھا کہ وہ حجاز کے علاوہ پر حملہ نہ کریں گے مگر اس کا لازمی مفہوم
۶۹ یہ بھی تھا کہ ان کے علاقہ پر بھی انگریز یا اور کوئی عرب حکومت حملہ نہیں کر سکے گی، گورنمنٹ کی طرف سے کئی لاکھ روپے سالانہ ان کو اس معاہدہ کے بدلہ میں ملتا بھی تھا.جو بحرین کی انگریزی قنصل کے ذریعہ سے ان کو دیا جاتا تھا اور اسی قنصل کے ذریعہ سے ان سے مراسم دوستانہ طے کئے جاتے تھے.غرض شریفی خاندان کے کمزور ہونے پر ابن سعود خوش تھے کہ امیر فیصل عراق کے بادشاه مقرر ہوں گے.امیرابن سعود جانتے تھے کہ سرِدست عراق انگریزوں کے تصرف میں ہے اور نہایت ضرور حالت میں ہے.اس میں نجد پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں.لیکن ان کو یہ بھی نظر آتا تھا کہ کسی نہ کسی دن عراق طاقتور ہو جائے گا.انگریزوں کی تربیت میں وہاں کے باشندے جنگی فنون سیکھ جائیں گے اور مالدار بھی ہو جائیں گے.اس وقت عراق اور حجاز اگر مل کر اس پر حملہ کر دیں تو چونکہ نجد کا علاقہ عراق اور حجاز کے درمیان میں ہے، امیر نجد کو اپنی حفاظت نہایت مشکل ہو جائے گی.مگر وہ اس وقت کچھ نہیں کر سکتے تھے.وہ عراق پر حملہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ عراق پر حملہ انگریزوں پر حملہ تھا.جس کی ان میں تاب نہ تھی.وہ حجاز پر بھی حملہ نہیں کر سکتے تھے.کیونکہ وہ انگریزوں سے اسی غرض سے روپیہ لے رہے تھے کہ وہ حجاز پر حملہ نہ کریں گے.مگر وہ ہوشیار آدمی تھے اگر وہ عراق اور حجاز پر حملہ نہیں کر سکتے تھے تو کم سے کم اس کے لئے تیاری کر سکتے تھے.چنانچہ اس عرصہ میں انہوں نے خوب تیاری شروع کر دی اور ایک لشکر جرّار تیار کرتے رہے مگر امیر حجاز انگریزوں کی مدد کے بھروسہ پر بالکل مطمئن رہے.(الفضل ۹جون ۱۹۲۵ء)
۷۰ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز (تحریر فر مورو جون ۱۹۲۵ء) (۳) شریف مکہ اور انگریزوں کے تعلقات اس عرصہ میں بعض نئے امور پیدا ہونے شروع ہوئے.انگریزی نمائندہ مصرنے شریف مکہ سے وعدہ کیا تھا کہ عرب کو آزاد ہونے کے بعد ایک حکومت بنا دیا جائے گا.وہ اس وعدہ کے پورا کرنے پر زور دیتے تھے.اور ہر عرب تین طاقتوں کے اثر کے نیچے تقسیم ہو چکا تھا.شام پر فرانس کا قبضہ تھا (اصلی عرب میں شام وغیرہ شامل نہیں لیکن موجودہ زمانہ میں چونکہ عراق فلسطین اور شام میں عرب ہی زیادہ تر آباد ہیں اور بولی بھی عربی ہے.اس لئے اس سب علاقہ کو عرب ہی کہا جاتا ہے )عراق اور فلسطین انگریزوں کے تصرف کے نیچے تھے.نجد ایک آزاد امیرابن سعود کے ماتحت تھا.اگر انگریز چاہتے بھی تو ایسا نہ کر سکتے تھے.شریف کو غصہ تھا کہ مجھے سے وعدہ خلافی کی گئی ہے.انگریزوں کو شکوہ تھا کہ جب تم اپنے علاقہ کے سنبھالنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے تو سارے عرب کو اپنے ماتحت لانے کے لئے کس طرح خواہشمند ہو.شریف مکہ کو بھی انگریزوں کی طرف سے ایک معقول مدد ملتی تھی.اگر چاہتے تھے کہ وہ اس مدد کے بدلے میں انگریزوں سے اور بھی رعایت کریں.ادھرعالم اسلامی کا یہ حال تھا کہ وہ شریف مکہ کے سختخلاف ہو رہا تھا کہ یہ انگریزوں کی طرف کیوں مائل ہیں.شریف نے جب دیکھا کہ ادھر انگریزان کی اس خواہش کو پورا کرنے سے گریز کر رہے ہیں کہ عرب کو ایک حکومت کر دیا جائے بلکہ الٹا اس روپیہ کے بدلے جوان کو دیا جاتا ہے بعض ایسے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جو ان کی آزادی |
۷۱ حج بیت الله او رفتنہ حجاز کو تباہ کر دے گا.اور ادھر عالم اسلام ان کے اس رویہ کے خلاف ہے تو چونکہ ان کی دیرینہ خواب پوری ہوتی نظر نہ آتی تھی انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ انگریزوں کو ناراض کریں گے اور عالم اسلامی کو خوش.اور وہ یہ امید رکھتے تھے کہ ان کے اس رویہ سے مسلمانوں کی ہمدردی ان کے ساتھ ہو جائے گی.یہ فیصلہ کر کے انہوں نے انگریزی معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو انگریزوں سے مدد ملنی بند ہوگئی.انگریز حجاز کے بچانے کے لئے جو رقم ابن سعود کو دیتے تھے اس کو انہوں نے بند کردیا.شریف مکہ پر ابن سعود کا حملہ امیرابن سعود نے یہ دیکھ کر کہ اس سے عمدہ موقع کو ئی نہ ملے گا، حجاز سے ایک علاقہ کا مطالبہ کیا.شریف حسین نے اس علاقہ کے دینے سے انکار کیا اور وہ جنگ شروع ہو گئی جو اَب شروع ہے.امیرابن سعود نے چاہا تھا کہ وہ ساتھ تی یُردن پار کے علاقے پر جسم کے امیر شریف کے لڑکے امیر عبداللہ مقرر ہیں، حملہ کر دیں مگر چونکہ اسے انگریزوں نے اپنی حفاظت میں رکھا ہوا ہے تاکہ عراق اور فلسطین کے در میان کا راستہ کھلا رہے اس لئے اس میں تو ان کو کامیابی نہ ہو سکی مگر حجاز سے باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی.شریف حسین کو امید تھی کہ جنگ کے شروع ہونے پر انگریز پرانے تعلقات کی بناء پر ان کی مدد کریں گے مگر یہ امید بر نہ آئی انگر یزوں نے صاف کہہ دیا کہ جب تک وہ معادہ پر دستخط نہ کریں گے، اس وقت تک ان کی مدد نہ کی جائے گی.مسلمانوں نے ان کی ہمدردی نہ کی اور سمجھا کہ اب ان کو ترکوں سے بغاوت کرنے کی سزا ملنے لگی ہے.بیٹوں کی طرف سے بھی مددنہ ملی جو موجودہ حالات میں ان کو انگریزی حکومت سے معاہدہ کر لینے کا مشورہ دیتے تھے، صرف ان کی اپنی طاقت باقی رہ گئی اور وہ امیر نجد کے مقابلہ پرکچھ حیثیت نہ رکھتی تھی.جس کی وجوہ یہ تھیں ۱) انہوں نے حکومت کو باقاعدہ بنانے کے خیال سے مغربی حکومتوں کی طرح تمام محکمہ جات جاری کر دیئے تھے ملک کی آمد کم ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیکس بڑھانے پڑے اور بد و امیر جو سرکاری امداد کے ہمیشہ سے امیدوار رہے ہیں، ان سے ناراض ہو گئے.(۲) دوسرے ملکوں کی ہمدردی کے حصول کی غرض سے انہوں نے بدوؤں کو ڈاکہ سے روکنا شروع کیا اور اگر وہ ڈاکہ ڈالتے تو ان کو سزادیتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بدو اور بھی ان سے ناراض ہوگئے.(3) بدوؤں کی آمدن کے خیال سے انہوں نے اونٹوں وغیرہ کے کرائے زیادہ مقرر کئے.اس سے باہر کے لوگ بھی ناراض ہو گئے اور بدوالگ ناراض تھے.
۷۲ حج بیت الله او رفتنہ حجاز (۴) جب انگریزی مدد بند ہوئی تو انہوں نے مالیہ کو پورا کرنے کے لئے حاجیوں سے بہت زیادہ نیکس وصول کرنے شروع کئے جس سے بے اطمینانی اور بڑھی.نتیجہ یہ ہوا کہ نہ اہل کہ نہ اہل بادیہ اور نہ دوسرے ملکوں کو ان سے ہمدردی رہی.اگر وہ اخراجات کم رکھتے اور بدوؤں کو فوجی کام میں مشغول رکھتے اور ان کی مالی امداد کرتے رہتے اور آخری سالوں میں حاجیوں کو تکلیف نہ دیتے بلکہ آمد کے بڑھانے کے اور ذرائع تلاش کرتے تو ان کی طاقت اس قدر کمزور نہ ہوتی.خلاصہ یہ کہ جب جنگ شروع ہوئی تو اپنے لوگ بے دلی سے کام کرتے تھے.دشمن تجربہ کار تھا.بیرونی مدد تھی نہیں ، ان کی فوج کو شکست پر شکست ہونے لگی اور آخر طائف بھی امیر نجد نے لے لیا جب مکہ پر چڑھائی ہوئی تشریف حسین جن کو یہ ڈر تھا کہ شاید شہر کے لوگ بھی ان کے خلاف کھڑے ہو جاویں اور ان کے لئے بھاگنے کابھی رستہ نہ رہے، خلافت سے دست بردار ہو گئے.اور ان کے بڑے لڑکے شریف علی نے ان کی جگہ عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی.شریف علی چونکہ فوجی امور کا تجربہ اپنے والد سے بہت زیادہ رکھتے تھے انہوں نے فوراً فوج کو ترتیب دے کر جدہ کو اپنا صدر مقام قائم کیا.اور بجائے کھلے میدان میں جنگ کرنے کے ساحل سمندر کے پاس کے شہروں میں محصور ہو گئے.اور اس طرح ایک سال کے قریب سے وہ اپنی حفاظت کرتے چلے آتے ہیں.یہ تو فوجی حالات ہیں.اب میں اس کشمکش کے جو سیاسی یا تمدنی یا علمی اثرات عرب پر پڑ رہے ہیں یا پڑ سکتے ہیں ان کو بیان کرتا ہوں.مگر پھراس کے کہ میں ان اثرات کو بیان کروں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امیرابن سعود کے خاندان کے کچھ تاریخی حالات بھی بیان کروں کیونکہ ان کے بغیراس حرکت کی حقیقی اہمیت سمجھ میں نہیں آسکتی خاندان امیرابن سعود کے تاریخی حالات ۵ اااھ مطابق ۱۶۹۱ء کو ایک بچہ نجد کے شہر عیانہ میں پیدا ہوا.جس کا نام محمد رکھا گیا.خدا تعالی نے اس بچہ کی قسمت میں عرب کے اندر سینکڑوں سال کی موت کے بعد ہیجان پیدا کرنے کا کام مقرر فرمایا تھا.یہ زمانہ وہ تھا کہ اسلام پر شرک کی گھٹائیں چھا رہی تھیں اور رسوم اور بدعات کا کوئی ٹھکانا نہ رہا تھا.خدا تعالی کی غیرت بھڑک رہی تھی اور تمام اسلامی ممالک میں اسلامی محبت سے پُردل، فکر و اندوہ کا شکار ہو رہے تھے تب خدا تعالی کی غیرت نے مختلف ممالک میں مختلف لوگ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے پیدا کئے.ہندوستان میں شاہ ولی اللہ صاحب پیدا ہوئے.عرب میں خدا تعالی نے محمد بن عبد الو ہاب کو چنا.آپ اپنی جوانی کی عمر میں علم کے شوق
۷۳ حج بیت الله او رفتنہ حجاز میں اپنے وطن کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے.اور پہلے عراق کے شہروں میں تعلیم پاتے رہے ، بعد میں دمشق اور مدینہ منورہ میں تکمیل تعلیم کے لئے چلے گئے.وہاں انہوں نے اس وقت کے مشہور علماء سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اپنے وطن نجد کو واپس آئے ، نجد کی نہ مذہبی حالت اس وقت ناگفتہ بہ تھی.لوگ دین سے بالکل بے بہرہ تھے.شرک اس قدر عام تھا کہ پتھروں کی پوجا تک شروع ہو گئی تھی انہوں نے وطن پہنچتے ہی توحید کا وعظ کہنا شروع کر دیا.اور اپنی زندگی کو بدعات اور رسوم کے مٹانے کے لئے وقف کردیا.جیسا کہ قاعدہ ہے ان کی مخالفت ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے محمد ابن سو دکو جو درا عید کے رئیس تھے.ان کی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے شرح صد ردے دیا.انہوں نے اس طریق کو قبول کرتے ہی اس کی اشاعت پر اس جوش سے زور دینا شروع کیا کہ تھوڑے ہی دنوں میں محمد بن عبد الوہاب کا طریقہ اس علاقہ میں پھیل گیا.نئے طریق کے جوش سے بھر پور ہو کر محمد بن سعود نے پاس پاس کے علاقوں پر حملے کرنے شروع کئے اور جبراً لوگوں سے رسوم و بدعات چُھڑوانے لگے حتی کہ ان کی وفات سے جو ۱۷۴۲ء میں ہوئی پہلے ہی تمام مشرقی نجد اور رحاء میں محمد بن عبد الوہاب کا طریق پھیل گیا.وہابیوں پر حملے ٍ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے عبدالعزيز بن محمد بن سعود نے نجد سے بھی پرے تک اس طریق کو رائج کیا تا کہ ۱۷۹۸ء میں ترکوں کو مجبور ہو کر اس پر چڑھائی کرنی پڑی.مگر اس ترکی فوج کو زِک ہوئی اور وہابی طاقت کو اور بھی شہرت حاصل ہوگئی.عبد العزیز کے بیٹے سعودنے عراق کے ایک حصہ پر بھی قبضہ کر لیا.کربلا کو لوٹ کر مقابر کو برباد کیا.مکہ مکرمہ کو بھی فتح کر لیا.آخر امیر عبد العزیز ایک شیعہ کے ہاتھ سے مارے گئے.اور سعود بن سعود بادشاہ ہوئے.ان کے زمانہ میں مدینہ منورہ بھی فتح ہو گیا.چونکہ وہابی فوجوں نے مزار مبارک میں جن قد رقیمتی چیزیں تھیں ان کو لوٹ لیا تھا.اور بعض عمارتوں کو توڑ دیا تھا.(یہ لوگ پختہ قبر کے قائل نہیں) اس وجہ سے سب عالم اسلامی میں جوش پیدا ہو اگر چو نکہ خود ترکوں میں اس وقت طاقت نہ تھی ، مصر کی بڑھتی ہوئی حکومت کو ان کی سرکوبی مقرر کی گئی.اور انہوں نے ترکی حکومت کی ہدایت کے ماتحت دس ہزار فوج سمیت طوسون پاشا جو علی پاشاخد یو مصر کا لڑکا تھا حجاز پر حملہ آور ہوا.اول اول تو مصری فوجوں کو شکست ہوئی مگر آخر مکہ مکرمہ اور مد ینہ منورہ وہابیوں سے چھین لئے گئے.(محمد بن عبد الوہاب کے پیروؤں کا کام آہستہ آہستہ وہابی پڑ گیا.اس لئے میں نے وہی نام لکھا ہے.ورنہ یہ لوگ اس نام کو استعمال نہیں کرتے )مگر اس سے زیادہ
۷۴ حج بیت الله او رفتنہ حجاز مصری لشکر کچھ نہ کر سکا.اور آخر ۱۸۱۳ء میں خود محمد علی پاشاس مہم کو سر کرنے کے لئے آۓ.پھر بھی کچھ نہ ہوا.بلکہ ۱۸۱۴ء میں طوسون پاشا کو طائف پر پھر سخت شکست ہوئی.مگراسی سال سعود بن سعود فوت ہو گئے.ان کے بیٹے عبد اللہ نے مصریوں سے صلح کرنی چاہی مگر محمد علی پاشا نے انکار کر دیا اور نجد پر حملہ کر کے وہابی فوجوں کو شکست دی.اور عبد الله بن مسعود کو صلح پر مجبور کیا.مگر مصری فوجوں کی واپسی پر عبد اللہ نے معاہدہ کی پابندی سے انکار کر دیا.اس وقت طوسون پاشا کی جگہ ابراہیم پاشا کمانڈر مقرر ہو چکے تھے.انہوں نے بدوی قبائل کو پھاڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا.اور پھر عبد الله بن سعود کو شکست دی.اور نجد کے کئی شہروں کو فتح کرنے کے بعد۱۸۱۸ء میں داریہ کو جو نجد کا دارالخلافہ تھا فتح کر لیا.عبد اللہ اپنے چار سو ہمرا یوں سمیت قید ہوئے.اور ان کو قطنطنیہ بھیج دیا گیا.جہاں کے باوجود ابراہیم پاشا کی سفارش کے ان کو قتل کر دیا گیا.دارالامارۃ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور نجد کے تمام شہروں میں مصری فوجیں رکھی گئیں.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ترکی جو عبد اللہ کے بیٹے تھے.انہوں نے بغاوت کر کے پھر اپنی حکومت قائم کی مگر خراج مصر کو ادا کرتے رہے.ان کے بیٹے فیصل بن سعود نے چونکہ خراج دینے سے انکار کردیا اس لئے ان پر چڑھائی ہوئی.اور ان کو قید کر کےقاہرہ پہنچادیا گیا.اور ان کی جگہ ان کے ایک رشتہ دار خالد کو ریاض میں جواب نجد کادَارُ الامارت ہو گیا تھا حاکم مقرر کردیا میا- ۱۸۴۲ء میں فیصل بن سعود قاہرہ سے بھاگ کر پھر نجد پہنچے اور ملک نے ان کو اپنا بادشاہ تسلیم کیا.بظا ہروہابی طاقت پھر قائم ہو گئی مگر عمان ، یمن اور بحرین پر وہابی تسلط نہ کر سکے.عبد اللہ بن رشيد اسی زمانہ میں جبل شمر میں ایک نئی طاقت بڑھے گی.یہ طاقت عبد الله بن رشید کی تھی.۱۸۳۶ء میں جب فیصل بن سعود کو مصریوں نے قید کر کے قاہرہ بھیج دیا تو اس عرصہ میں عبد الله بن رشید نے اپنی حکومت کو شمال مغربی علاقہ میں مضبوط کرنا شروع کیا.اس کے بعد اس کے بیٹے طلال نے اور بھی اس ریاست کو مضبوط کیا.کنویں لگوائے، باغات لگاۓ ، قلعے بنوائے ، سکول جاری کئے اور ملک کی وسعت کو بڑھانا شروع کیاحتی کہ خیبر ،تیما اور جوف کے علاقے بھی جبل (دارالامارة ابن رشید )کے ماتحت ہو گئے.مگر وہابیوں سے جنگ سے بچنے کے لئے ابن رشید کی حکومت نے ان سے تعلق کو قائم رکھا.اور کسی طرح ان کو ناراض نہ ہونے دیا.اور اس طرح اپنی طاقت کو بڑھایا.مگربالمقال ابن سعود کی حکومت کمزور ہوتی چلی گئی اور مشرقی قبائل آزاد ہوتے گئے.یہاں تک کہ ۱۸۶۷ء میں ترکوں نے نجد کو اپنی
۷۵ حج بیت الله او رفتنہ حجاز حکومت سے ملا لیا اور نجد کو تر کی حکومت کا ایک صوبہ قرار دیا.۱۸۹۱ ء میں حکومت ابن سعود نے یہ دیکھ کر کہ این رشید کی طاقت بہت بڑھ گئی ہے ، مشرقی ریاستوں سے سمجھوتہ کر کے ایک مشترکہ حملہ اس پر کیا.مگر سب نے شکست کھائی اور محمد ابن رشید اس وقت کا امیر سب نجد کا بادشاہ ہو گیا.اور اس طرح ترکوں کی حکومت نجد پر اور بھی مضبوط ہوگئی.کیونکہ ترک ابن رشید کے ساتھ اور ابن سعود کے مخالف تھے-۱۹۰۴ء تک برابر ا بن رشید کا غلبہ رہا.مگر ۱۹۰۴ء شیخِ کویت جو انگریزی حکومت کے ماتحت تھا اس نے ابن سعود اور بعض اور قبائل سے مل کر ابن رشید پر حملہ کیا اور اس کو شکست دیتے دیتے اس کے دارالامارة تک لے گئے.ترکوں نے ابن رشید کی مدد کے لئے فوج بھیجی جو بغیر جنگ کئے صلح کر کے واپس لوٹ گئی.مگر اس دن سے وہابی طاقت پھر بڑھنے لگی.حتیّٰ کہ جنگ عظیم کے زمانہ میں ان کی طاقت بہت ہی ترقی کر گئی.ابن سعود اور شریف مکہ کی حالت مندرجہ بالا حالات سے ہے اور بخوبی روشن ہو جاتے ہیں کہ (۱) مو جو دہ جنگ ِحجاز کوئی نئی جنگ نہیں بلکہ یہ ایک ڈیڑھ سو سالہ پرانا قصہ ہے.اور سُنیوں وہابیوں کی جنگ ہے.پچھلے ڈیڑھ سو سال میں قریباً بغیر وقفے کے وہابیوں نے سب عرب پر قبضہ کرنے کی کو شش کی ہے.مگر سُنیوں نے ان کا مقابلہ کیا ہے.کبھی عرب قبائل ان کی طرف سے لڑے ہیں کبھی مصری کبھی ترک - (۲) دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن سعود کی حکومت ہمیشہ ہی پچھلے ڈیڑھ سو سال میں ترکوں کے مخالف رہی ہے اور ان سے جنگ کرتی رہی ہے.(۳) تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن سعوداسی جُرم کے مرتکب ہیں جس کے مرتکب شریف مکہ ہوئے ہیں.یعنی وہ بھی غیر مسلم حکومتوں کی مددسے ترکوں سے لڑ چکے ہیں بلکہ پچھلے چند سال تک بھی وہ انگریزوں سے روپیہ لیتے رہے ہیں.سُنیوں کا تشد د وہابیوں پر ٍ اس تاریخ کو بیان کرنے کے بعد اب میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس جنگ کا اثر سیاسی اور مذہبی طور پر عرب پر کیا پڑے گا.پہلے تو میں سیاسی اثر کر لیتا ہوں جیسا کہ اوپر کے واقعات سے ظاہر ہے.یہ جنگ سُنّی وہابی کا جھگڑا ہے.سُنّی ہمیشہ اپنی کثرت کے گھمنڈ پر مقامات مقدسہ کے قبضہ کے دعویٰ کرتے رہے ہیں.اور وہابی اس امر کے مدعی رہے ہیں کہ تم لوگوں نے ان مقامات کو نجس کر دیا ہے اس لئے تمہارا ان پر کوئی حق نہیں.ترکی حکومت کے زمانہ میں بھی وہابیوں کو مکہ میں آزادی نہ تھی.جب میں
۷۶ حج بیت الله او رفتنہ حجاز ۱۹۱۲ء میں حج کے لئے گیا ہوں اس وقت ترکی حکومت تھی میں بعض وہابیوں سے ملا تھا وہ لوگ سخت تنگ تھے اپنے عقیدہ کا اظہار تک نہیں کر سکتے تھے.ایک بڑے عالم نے جو سب مکہ میں عالم مشہور تھا بتایا کہ وہ دراصل وہابی ہے مگر ظاہر اپنے آپ کو حنبلی کرتا ہے کیونکہ دفعہ اسے وہابیت کے الزام میں قید کر دیا گیا تھا.معلوم ہوا کہ سب وہابی اپنے آپ کو اس زمانہ میں حنبلی کہتے تھے کیونکہ حنبلیوں کی فقہ اہل حدیث سے قریب ترین ہے اور اس وجہ سے وہ اس نام کے نیچے اپنے آپ کو چھپا سکتے ہیں.وہ لوگ الگ الگ نماز پڑھ لیتے تھے جماعت کرانے کی اجازت نہ تھی.دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے تھے.جماعت کے وقت اِدھر اُدھر ہو جاتے جب لوگ نماز پڑھ لیتے تو وہ اکیلے اکیلے خانہ کعبہ میں نماز پڑھ لیتے یا گھروں پر پڑھ لیتے.اگر کسی کی نسبت شبہ ہو جائے کہ وہ وہابی ہے تو اس کی جان کی خبر نہ ہوتی تھی کیونکہ حکومت تو بعد میں دخل دیتی عوام الناس ہی اس کو اپنے قدموں میں روند ڈالتے.میں نے دیکھا کہ یہ لوگ سُنّی علماء کی نسبت زیادہ عالم اور زیادہ ہوشیار تھے اور اچھے بارسوخ تھے.شریف حسین کے لڑکوں کے اتالیق جو ایک نہایت ہی سمجھدار اور لا ئق آدمی تھے اوراحمدیت کے بہت ہی قریب تھے گو انہوں نے اظہار نہیں کیا مگر میں سمجھتا ہوں وہ بھی وہابی تھے کیونکہ ان کو قریباً سب مسائل میں وہائیوں سے اتفاق تھا.خود کہتے تھے کہ مکہ میں انسان اپنے عقیدہ کو ظاہر کر کے نہیں رہ سکتا.ان صاحب کو میں نے سب مکہ کے علماء میں سے زیادہ سمجھدار اور وسیع الوصلہ دیکھا.مجھے نصیحت کرنے لگے کہ میرے جیسے لوگوں کو آپ احمدیت کی تبلیغ کر یں دوسرے علماء کے پاس نہ جاویں ورنہ فساد ہو جائے گا.میں نے کہا اگر حق سنانے میں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کچھ ڈر نہیں، بہت متاثر ہوئے اور کیا ایمان کی علامت تو یہی ہے.لفظ و ہابی بطور گالی غرض تر کی حکومت میں بھی وہابیوں کو مکہ میں آزادی نہ تھی وہابی کا لفظ بطور گالی کے مکہ میں استعمال ہوتا تھا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو کتّا کہہ دینے سے وہ اس قدر بُرا نہ مناتا ہو گا جس قدر کہ وہابی کہہ دینے سے.جب شریف حسین نے آزادی اختیار کی تو ان کے زمانہ میں بھی سنا ہے کہ یہ ظلم بر قرار رہا بلکہ ابن سعود نے حج کی اجازت اپنی قوم کے لئے طلب بھی کی تو ان کو اجازت نہ دی گئی.اور کیا تعجب ہے کہ شریفی خاندان کی موجود ہ تباہی اسی ظلم کے سبب سے ہو.
۷۷ حج بیت الله او رفتنہ حجاز اہل حجاز اور وہابیوں ں کے تعلقات ٍمذکورہ بالا واقعات سے ظاہر ہے کہ سُنّی حلقہ میں وہابیوں کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے اور چونکہ عرب کا پیشتر حصہ اب تک سُنّی ہی ہے اس لئے زیادہ حصہ عربوں کا نجدیوں کے مخالف ہے.چو نکہ وہابی لوگ ہمیشہ سے سخت گیر رہے اور جبر اً اپنے مسائل پر عمل کرواتے ہیں اس لئے کسی کو یہ طاقت تو نہیں کہ ان کے ماتحت رہ کر ان کی مخالفت کرے مگر اہل مکہ اور سب اہل حجاز کے دل کبھی ان کی طرف مائل نہیں ہو سکتے کیونکہ اہل مکہ اور اردگرد کے قبائل کے خون اور پوست جن رسومات کی آمد سے بنے ہوئے ہیں والی اس کے مخالف ہیں.اگر وہابیوں کی حکومت کچھ عرصہ تک رہے تو اہل مکہ کا بیشتر حصہ بھوکا مرنے لگے.پس حجاز کی نسبت یہ امید کرنا کہ وہ دل سے وہابیوں کا ساتھ دے ناممکنات کی امید کرنا ہے.اہل مدینہ کا بھی وہی حال ہے جو اہل مکہ کا.ان کے گوشت پوست میں بھی حُبِّ رسول بھری ہوئی ہے وہ کیسے ہی مجرم ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مزار کا ادب ان کے رگ و ریشہ میں پُر ہے.وہ مرجاویں گے مگر کبھی منظور نہ کریں گے کہ آپ کا مزار معمولی صورت میں رکھا جاوے خواہ و ہ تلوار کے ڈر سے سر جھکا دیں مگر وہ کبھی اس طریق کو دل سے قبول نہ کریں گے.فلسطین کے عربوں کا بھی یہی حال ہے.وہ بھی مجاور ہیں اور مقابر کے محافظ اور ان کی ہمدردی وہابیوں سے کبھی نہیں ہو سکتی.اہل شام وہابیوں کے سخت مخالف ہیں اور شریف حسین اور اس کے خاندان کے دلدادہ.چونکہ وہ اور فلسطین کے باشندے فرانس کی حفاظت میں ہیں وہابیوں کا ان پر کوئی زور نہیں اور اس وجہ سے ان کا اپنے حالات کو ظاہر میں بدلنا بھی بعید از قیاس ہے.عراق کے لوگ تو مشہور مجاور ہیں.عراق کا گاؤں گاوں زیارتوں سے بھرا ہوا ہے اس کے حاکم بھی شریف فیصل، شریف حسین کے لڑکے ہیں اس سے بھی امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کبھی وہابیوں کی تائید کرے.یمنی لوگ شریف حسین کے مخالف ہیں گومذہباً وہابیوں کے مخالف ہیں مگر سیاستاً کوئی تعجب نہیں کہ ابن سعود کا ساتھ دیں مگر ان میں بھی دو ٹکڑے ہیں ایک ٹکڑا اگر ابن سعود کے ساتھ ہو گا تو دوسرا ضرور ان کی مخالفت کرے گا.موجودہ جنگ کا سیاسی اور عرب ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بظاہر حال معلوم ہوتا ہے کہ (۱) اگرابن سعود شریف حسین کو شکست بھی دے دیں تو حجازپر دیر تک ان کا قابض رہنا مشکل ہو گا
۷۸ حج بیت الله او رفتنہ حجاز (۲) اگروہ حجاز پر قابض بھی ہو جاویں تو آئندہ کے لئے اس امید کو بالکل قطع کر دینا ہو گا کہ عرب کبھی ایک حکومت بن کر اپنی آپ حفاظت کر سکے کیونکہ اس صورت میں دوسرے عرب صوبے نجد و حجاز سے متحد ہو ناتو الگ رہا اس کے ساتھ امن سے رہنا بھی پسند نہیں کریں گے.اور چونکہ گواِس وقت وہ کمزور ہیں مگر اصل میں ان کی متحدہ طاقت زیادہ ہے اس لئے ہمیشہ عرب میں فساد کا دروازہ کھلا رہے گا.دوسری مشکل یہ پیش آتی ہے کہ عرب کی آئند ہ ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ شامی جو زیادہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار ہیں اس کے انتظامی صیغہ میں زیادہ حصہ دار ہوں کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے کہ اس میں خالی تلوار کام نہیں دیتی بلکہ علم اور علم کی ترقی کا دیتی ہے.وہابیوں کی حکومت میں یہ بات نا ممکن ہے.تیسری یہ مشکل ہے کہ عرب پر مشرقی علاقہ سے حکومت کرنا بالکل ناممکن ہے.جب سے عرب کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے ہمیشہ اس پر حکومت مغربي يا شمال مغربی یا جنوب مغربی علاقہ سے ہوتی رہی ہے اور یہ بات اتفاقی نہیں بلکہ اس کی طبعی وجوہ ہیں.پس اگر والی حکومت ریاض میں رہی وہ حجاز بالکل کمزور ہو جائے گا اور ممکن ہے دوسری حکومتوں کے قبضے میں چلا جاوے جو اسلام کے لئے ماتم کا دن ہو گا.لیکن اس کا ریاض سے بدل کر مکہ میں لانا وہابی مفاد کے مخالف ہو گا کیونکہ اس طرح امیر اپنے اس ذخیرہ سے دور ہو جائے گا جہاں سے وہ اپنی فوجی طاقت کو مضبوط کرتا تھا بلکہ اس واحد مرکزسے محروم ہو جاوے گا جس پر وہ اعتماد کر سکتا ہے.عرب کس طرح متحد ہو سکتاہے پس حالات موجو دہ میں وہابیوں کا حجاز پر قبضہ کر لینا گو عارضی طور پر کچھ مفید ہو کر انجام کار عرب اور پھر سارے عالم اسلامی کے لئے مضر ہو گا بلکہ خود وہابی طاقت کو بھی نقصان پہنچے گا.عربوں کے متحد ہونے کا خیال ایک وہم ہو جائے گا اور عرب کبھی بھی ایک منظّم حکومت کی شکل میں نہ آسکے گا.والله أعلم بالصواب شریف حسین کے خاندان کی موجودگی میں بھی گود قّتیں ہیں لیکن اگر شریف آئندہ کو اپنی اصلاح کر لیں، ترکوں سے اپنے تعلقات درست کرلیں، وہابیوں پر ظلم چھوڑ دیں بلکہ ان کو کامل مذہبی آزادی دیں ،عالم اسلام کی ہمدردی کو حاصل کریں اور عالم اسلام بھی ان سے جاہلانہ مطالبات نہ کرے تو ان کے ہاتھ پر عرب کا جمعہ ہو جانا نسبتاً بہت آسان ہو گا.مگر بہرحال مشکلات دونوں امور میں زیادہ ہیں البتہ میرے نزدیک شریف خاندان کے برسراقتدار
۷۹ حج بیت الله او رفتنہ حجاز رہنے کی صورت میں کم ہیں.وہابیت اور احمدیت اب میں اس سوال کا مذہبی پہلو لیتا ہوں.مذہبی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوۓ اس میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا کہ وہابیوں کی حکومت میں گو بعض امور میں ضرورت سے زیادہ سختی بھی ہوگی مگر پھر بھی نجدی لوگ مذہب کے زیادہ پکے ہیں،نمازوں کے پابند ہیں، شرک سے حتی المقدور بچتے ہیں اور ہمارا پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ احمدیت میں جس قدر جلد وہابی داخل ہوتے ہیں اس قدر جلد کوئی دوسرا فرقہ مسلمانوں کا داخل نہیں ہوتا.ہیں جماعت احمدیہ کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حجاز پر وہابیوں کی حکومت ہمارے لئے گو مشکلات بھی پیدا کرے گی کیونکہ وہابی مخالفت بھی احمدیت کی بہت کرتے ہیں مگر انجام کار انشاء الله ہمارے سلسلہ کے لئے مفید ہوگی اور تمام امور کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اگر کم سے کم کچھ عرصہ کے لئے وہابی حجاز پر حکومت کریں تو وہ ایک ایسا اثر ضرور وہاں چھوڑ جاویں گے جو ہمارے سلسلہ کی اشاعت کے لئے مفید ہو گا.دعا میں آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر کے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ اس فتنہ و فساد میں سے وہ ایسے خیروخوبی کے پہلو پیدا کر دے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور حجاز مسیح اثر سے بالکل پاک رہے اور دجّال کا رعب خانہ خدا میں رہنے والوں کے دلوں سے دُور رہے.اللھم امین.خاکسار مرزا محموداحمد (الفضل ۲۰- جون ۱۹۲۵ء)
۸۱ مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت از سیدناحضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۸۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ صلی علی رسول الكريم مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت (فرمودہ جولائی ۱۹۲۵ء) میری طبیعت کل سے کچھ ناساز ہے.اس وجہ سے میں نے ہدایت کی تھی کہ بجائے میرے بعض اور دوست تقریریں کردیں اور میں صرف جلسہ میں اس غرض کے لئے شریک ہو جاؤں گا کہ ان ایام میں جو دوست باہر سے تشریف لائے ہیں اور جنہیں پہرہ وغیرہ کاموں کی وجہ سے ملاقات کا موقع نہیں ملا ان کو ملاقات کا موقع مل جائے.اب بھی میرے سینہ میں درد ہے اس لئے میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا.چونکہ بالکل خاموش رہنے سے بھی پوری ملاقات نہیں ہوتی اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند منٹ میں کچھ بیان کروں جس میں خصوصیت کے ساتھ دوستوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاؤں تاوہ خدا تعالی کے ان فضلوں اور برکتوں اور انعامات سے محروم نہ رہیں جو ان فرائض کی ادائیگی پر خدا تعالی کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اور جو خدا تعالی کی پاک جماعتوں کے لئے ہی مقرر کئے گئے ہیں.راستی کی مخالفت میرے نزدیک پانی کی مخالفت کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی.اگر انسان اپنے نفس میں پاکیزگی اور طہارت، اخلاص اور محبت پیدا کرلے اگر صداقت اور ریاست کے حامل پوری پوری اس بات کی طرف توجہ کریں کہ خدا تعالی سے ان کو کامل پیار اور مخلوق خدا سے کامل محبت ہو تو میرے نزدیک صداقت اور راستی ایک ایسا حربہ ہے جو ہزاروں پردوں کو چیر کر سینوں کے اندر داخل ہو جاتی ہے اور کوئی چیز اسے روک نہیں سکتی خواه کیسے ہی مضبوط قلعے ہوں اور کیسی ہی سخت دیواریں کیوں نہ ہوں.صداقت اور راستی ایک ایسا
۸۴ مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت بھالا یا نیزہ ہے کہ کوئی ڈھال اس کو روک نہیں سکتی کیا یہ واقعہ نہیں کہ بہت سے ایسے لوگ جو سخت سے سخت صداقت کے دشمن ہوئے ہیں اور شب و روز اس کے مٹانے میں مصروف رہے ہیں ان پر بھی بالآخر صداقت نے ایسااثر کیا کہ وہ اس کے گرویدہ ہو کر سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گئے.ہمیں اس سلسلہ میں بھی بھارت ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو ایک وقت سلسلہ کے شدید ترین دشمن تھے اور اپنے بُغض و عِناد میں جو ان کو سلسلہ سے تھا حد سے بڑھے ہوئے تھے لیکن ایک چھوٹے سے کلمہ نے ان کے قلب پر ایسا اثر کیا کہ گویا ان کو ذبح کر ڈالا اور انہوں نے اپنی ساری عمر پشیمانی میں گزاری اور افسوس کرتے رہے کہ کیوں وہ اس قدر صداقت کی مخالفت کرتے رہے.پس اگر ہماری اپنی اصلاح ہو اور ہمارے قلب صاف ہو جائیں اور خدا تعالی کی محبت اور مخلوق خدا کی ہمدردی ہمارے اندر جوش مارنے لگ جائے تو یقیناً کسی مخالف کی مخالفت میں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی بلکہ ان کی مخالفت ہمارے کام اور ہمارے مقصد میں بڑی بھاری معاون ہو سکتی ہے.مخالفین کی مخالفت کس طرح ہماری معاون بن سکتی ہے ابھی کل پرسوں ہی کی بات ہے.ایک شخص کا مجھے خط پہنچا ہے.وہ نئے احمدی ہوئے ہیں.انہوں نے لکھا ہے.میں خدا تعالی کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مجھے سلسلہ حقہ کی طرف راہنمائی مولوی ثناء اللہ کی وجہ سے ہوئی ہے.میں ان کے اخبار کا خریدار تھا اور بہت غور اور توجہ سے اس کو اور ان کی دیگر کُتب کو پڑھتا تھا لیکن میرے اندر کوئی تعصب نہیں تھا.احقاق حق میرے مدنظر تھا.جوں جوں میں ان کتابوں کو پڑھتا تھا.مجھے ان کے کلام میں جابجاہنسی، تمسخر اور فریب نظر آتا تھا.تب میں نے خیال کیا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی گدی کے داروں سے تو ایسی حرکات سرزد نہیں ہو سکتیں.اگر ان کے اندر یہی تقویٰ اور یہی شرافت رہ گئی ہے تو پھر یقیناً یہ جھوٹے ہیں.دیکھو دل کی پاکیزگی اور طہارت صداقت کی طرف کس طرح انسان کو کھینچ کر لے آتی ہے.حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے پاکیزہ دل سے نکلی ہوئی صداقت نے اس کے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مخالفین کی مخالفت اس اثر کو مٹانہ سکی اور پاکیزہ دل سے نکلی ہوئی صداقت نے اپنا کام کر کے ہی چھوڑا.قلوب کی اصلاح کامیابی کی جڑ ہے پس اسلام کی اور سلسلہ کی سچی خدمت تبھی ہو سکتی ہے کہ ہم پہلے اپنے قلوب کی اصلاح کریں.خدا تعالی کی محبت ہمارے اندر پیدا ہو اور عام مخلوق کی ہمدردی ہمارے اندر جوش
۸۵ مارے.اس لئے میں اپنے دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ وہ صداقت اور راستی کے سچے حامل بن سکیں.رسول اور دوسرے لوگوں میں فرق قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر زمانہ میں رسالت کے لئے خدا تعالی بندوں میں سے کسی ایک بندے کو منتخب کرتا ہے، ہر ایک کو رسول نہیں بنادیتا.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی پاکیزگی، طہارت، اخلاص، محبت، جوش، ہمدردی میں سب سے آگے ہوتا ہے.ورنہ پیغام اور احکام الہٰی تو ایک مومن بھی پہنچاتا ہے اور اس طرح وہ بھی رسول ہی ہوتا ہے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کو خدا کا پیغام بذریعہ وحی ملتا ہے.یعنی جو کلام اس پر نازل ہوا ہے وہ فرشتہ لاتا ہے اور نبی اسے تمام بندوں تک پہنچاتا ہے.لیکن ہم جو اس کا کلام بندوں تک پہنچاتے ہیں وہ ہمیں فرشتہ کے واسطہ سے نہیں ملتا بلکہ ایک ایسے انسان کی وساطت سے ملتا ہے جسے خدا تعالی رسالت کے لئے منتخب کرتا ہے مگر پیغام دونوں ایک ہی پہنچاتے ہیں.فرق اگر ہے تو درجہ کا ہے جس کی وجہ سے ہمارے منتخب کئے جانے سے پہلے خدا تعالی نے اس کو ہم میں سے چن لیا ہوتا ہے.اگر ہمارا اخلاص، ہماری محبت، ہماری خلق اللہ سے ہمدردی زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی تو خدا تعالی ہمیں براہ راست رسالت کے لئے منتخب کرتا.دوسرا فرق جو اس کے اور ہمارے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ مرتبہ اور مقام کی وجہ سے سب کچھ براہ راست مشاہدہ کرتا ہے.اس وجہ سے جس طرح اس کے اندر ایمان کی لہر اور اخلاص و محبت کا جوش پیدا ہو سکتا ہے ہمارے دلوں میں وہ ایمانی لہراور وہ جوشِ اخلاص پیدا نہیں ہوتا.پس ہرایک وہ شخص جو امت محمدیہ میں سے خدا تعالی کے احکام اور اس کے کلام کو دنیا تک پہنچاتا ہے وہ ایک رنگ میں رسول ہی ہے.اس لئے اس کے واسطے ضروری ہے کہ وہ بھی ظلّی طور پر رسول کریم ﷺ کا علم، معرفت، اخلاص اور محبت الہٰی اور ہمدردی خلق اپنے اندر پیدا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بعثت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بھی اسی جوہر کو اپنے اندر کامل طور پر پیدا کیا جس کی وجہ سے اس زمانہ میں وہی رسالت کے لئے منتخب کئے گئے اور پھر ان کے واسطہ سے ہم بھی پیغام الہٰی کے پہنچانے والا بنے.پس جو لوگ نائب رسول ہو کر رسول بنتے میں جب تک وہ بھی خدا تعالی کی محبت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کامل
۸۶ طور پر اپنے اندر پیدا نہیں کرتے اور جب تک یہ جوش یہ عزم ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا کہ ہم نے خود بھی خدا کو پانا ہے اور دوسری قوت کو بھی جو اس کے صحیح راستے سے بہکی پھرتی ہے اس تک پہنچانا ہے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے.جب تک یہ روح ہم میں پیدا نہ ہو تبلیغ کا پوراحق ادا نہیں ہو سکتا اور جب ایسی روح انسان کے اندر پیدا ہو جائے.تو پھر اس کے کلام میں بھی ایسااثر پیدا ہو جاتا ہے کہ مخالفین کی مخالفت اس کی راہ میں اور اس کے مقصد میں کوئی روک نہیں ہو سکتی.خدائی تِیر اور اس کی کیفیت وہ ایک خدائی تیر ہوتا ہے جو کبھی خطا نہیں جاتا بلکہ دلوں کے اندر گھس جاتا ہے کیونکہ خدا تعالی کے جلائے ہوئے تیر کبھی خطا نہیں جاتے.دیکھو موت بھی خدا کے تیروں میں سے ایک تیر ہے.”ا اليا لا تليش يها مها.یہی وجہ ہے کہ جس وقت موت آتی ہے تو کوئی روک نہیں سکتا.بدر کی جنگ میں بھی خدا نے اپنا تیر چلایا تھا جبکہ صحابہ کی مٹھی بھر جماعت نے کفار کے بڑے لشکر کو سخت ہزیمت دے دی تھی.اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے ریت کی مُٹھی پھینکی تھی جس کے متعلق خدا تعالی فرماتا ہے.وہ تُو نے نہیں پھینکی بلکہ ہم نے پھینکی ہے.۲؎ پھر خدا کے پھینکنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مٹی پھینکی اور ادھر زور سے آندھی چلی جس سے ریت اور کنکر اُڑ اُڑ کر کفار کی آنکھوں میں پڑنے شروع ہو گئے کیونکہ جدھر سے آندھی آئی کفار کا اس طرف منہ تھا اور صحابہ کی اس طرف پشت تھی پھر ہو اکارُخ مطابق ہونے کی وجہ سے صحابہ کا نشانہ بھی خوب لگتا تھا اور ان کے تیروں میں زیادہ تیزی اور طاقت بھی پیدا ہو گئی.اس کے مقابلہ میں کفار کا مخالف ہوا کی وجہ سے نشانہ خطا جاتا تھا کیونکہ آندھی نے ان کی آنکھوں کو اس قابل نہ چھوڑا تھا کہ وہ نشانہ لگا سکتے نتیجہ یہ ہؤا کہ تین سو بے ساز و سامان مسلمانوں نے ایک ہزارباسازوسامان کفار کو مولی گاجر کی طرح کاٹ کر رکھ دیا.مقناطیسی اثر پیدا کرو پس اگر آپ اپنے قلوب کی اصلاح کریں، اپنے اندر جوش و اخلاص پیدا کریں تو یہ ناممکن ہے کہ تمہارے کلام میں وہ طاقت اور وہ تاثیر خدا تعالی پیدا نہ کرے جو دلوں کو مسخر کرنے والی ہوتی ہے.اس وقت تمہارا بیان اور تمہارا کلام ایک مقناطیسی اثر پیدا کرے گا جس سےسخت سے سخت دل بھی تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں گے.پس اگر سچے جوش اور اخلاص کے ساتھ آپ لوگ کھڑے ہوں، اگر درد مند دل لے
۸۷ کر آپ کام کریں، اگر آپ کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ ہم اور ہمارے بھائی خدا تعالی کی بھڑکتی ہوئی آگ سے بچ جائیں تو دوسرے لوگوں کے دل ایسے پتھر کے دل نہیں ہیں کہ وہ تمہاری سچی ہمدردی اور خیر خواہی کی باتوں سے خود بخود کھنچے نہ چلے آئیں.اور جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچ لیتا ہے اسی طرح اگر آپ اپنے قلوب کو پاکیزہ بنائیں تو کعبہ کی طرح لوگ تمہارے گرد جمع ہو جائیں گے.اس کے بعد میں بعض اور باتیں جو میں نے پہلے سنی ہیں یا جن کا اب مولوی جلال الدین صاحب کے لیکچر سے مجھے علم ہوا ہے ان کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں.کیا آریہ ، عیسائی احمدیوں سے بہتر ہیں مجھے یہ سن کر سخت حیرت ہوئی کہ غیر احمدیوں کے جلسہ میں ایک مولوی صاحب نے یہ کہا ہے کہ عیسائیوں سے ، یہودیوں سے، آریوں سے، سکھوں سے ہماری صلح ہو سکتی ہے مگر احمدیوں کے ساتھ ہم کسی طرح صلح نہیں کر سکتے کیونکہ یہ کافر اور مرتد ہیں.آریہ ، سکھ، یہودی اور عیسائی ان سے بدرجہا بہتر ہیں.یہ آواز جس وقت میرے کان میں پڑی، مجھے سخت حیرت ہوئی اور یہ کلمہ سن کر میں نے اپنے دل میں اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے آمادگی نہ پائی کیونکہ میری سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ ایک شخص جو رسول اللہ ﷺ کو نعوذ بالله ظالم، قاتل، ڈاکو، شہوت پرست وغیرہ بُرے سے بُرے الفاظ سے یاد کرتا ہے اسے ایک مولوی اس شخص سے بہتر کس طرح کہہ سکتا ہے جو رسول کریم ﷺکے دین کا سچا خادم ہو، آپ کا کلمہ پڑھنے والا ہو ، آپ کی محبت میں ایسا گداز ہو کہ آپ سے بڑھ کر کسی چیز سے اس کو اُنس اور پیار نہ ہو اور آنحضرت ﷺکی غلامی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہوں.میرے خیال میں وہی شخص یہ کہہ سکتا ہے جس کا دل بالکل سیاہ ہو چکا ہو جو سخت تاریکی اور ظلت میں پڑ گیا ہو.جس کے دماغ پر اندھیرا چھا گیا ہو.کیونکہ جس کے دل میں ایک ذرہ بھی آنحضرت ﷺ کی محبت ہو اور اپنے سر میں وہ صحیح دماغ رکھتا ہو وہ کبھی ایک ایسے شخص کو جو اسلام کا دشمن اور پانی اسلام کا دشمن ہے، اور جو ہر بُرے سے بُرا کلمہ آنحضرت ﷺ کی شان میں کہنے سے دریغ نہیں کرتا اسے ایک آن کے لئے بھی ایک ایسے شخص پر فوقیت نہیں دے سکتا جو رسول کریم کا عاشق اور آپ کی محبت میں گداز اور آپ کے دین کی جان اور مال سے خدمت کرنے والا ہو.غرض مجھے یہی خیال آیا کہ ایک مولوی کے منہ سے ایسا کلمہ نہیں نکل سکتا.اور ہمارے مقابلہ میں وہ آریوں عیسائیوں کو ترجیح نہیں دے سکتے.بے شک ان کو ہم سے اختلاف ہے اور وہ ہم سے دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں.
۸۸ احمدیوں کے عقائد اور آریوں، عیسائیوں کے عقائد مگر اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکے بعد آپ کی اتباع اور آپ کی غلامی سے آپ کی امت کا ایک فرد نبی بھی ہو سکتا ہے.گویا انہیں اگر ہمارا کوئی بڑا جُرم نظر آتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکے بعد نبی ہو سکتا ہے.جو باوجودنبی ہونے کے آپ کے دین کا خادم اور آپ کا غلام ہی ہو گا.اس بناء پر وہ ہم سے دشمنی اور عداوت رکھتے اور ہمیں کافر اور دجّال قرار دیتے ہیں.فرض کر لو یہ عقیدہ ایک جُرم ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس جُرم کا مجرم کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آپ کے متعین کامل نبوت کے مقام کو پا سکتے ہیں اور باوجود نبی ہونے کے وہ آپ کے غلام ہی ہوں گے جو آپ کے دین کو اور قرآن کریم کے پاک علوم کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں گے اس جُرم کے برابر یا اس سے بڑھ کر ہو سکتا ہے جو آنحضرتﷺ نعوذ بالله دجّال، کذّاب، شہوت ران، فاسق اور فاجر قرار دے.ان دونوں جُرموں کو ایک ادنی ٰسے ادنی ٰ عقل رکھنے والے گائوں کے جاٹ کے سامنے بھی رکھ دیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ دونوں میں سے بُری بات کونسی ہے.تو وہ یہی کہے گا کہ آنحضرت ﷺکے بعد اپنی غلامی میں نبوت جاری رہنے کے عقیدہ کے مقابلہ میں یہ جُرم بہت ہی بڑا ہے کہ آپ کو علی الاعلان نعوذ بالله دجّال، كذّاب، فاسق اور فاجر کہا جائے.اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی صحیح الفطرت اور صحیح الدماغ غیراحمدی ایک آن کے لئے بھی اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہو کہ وہ لوگ جو آنحضرتﷺکے غلاموں میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہیں اور آپ کے دین کو چاروں طرف دنیا میں پھیلانے والے ہیں اور آپ کی محبت اور آپ کے دین کی اشاعت میں ہر ایک قسم کی قربانی نہایت فراخدلی کے ساتھ کرتے ہیں ان سے ہم ان لوگوں کو بد ر جہابہتر سمجھے ہو کہ آنحضرت ﷺ کو ایک سے زیادہ بیویاں کرکے نِعُوذ بالله شہوت رانی کرنے والا ڈاکو ، زانی، فاسق، فاجر ، سچے دین سے کے تعلق نہ رکھنے والا قرار دیتے، دنیا میں اسلام کے پھیلنے کو گمراہی کا پھیلنا خیال کرتے اور اسلام اور بانی اسلام سے ہر طرح دشمنی رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.یہی وہ عقیدے ہیں جو آریہ اور عیسائی اسلام اور آنحضرت ﷺکی نسبت رکھتے ہیں.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آپ کی امت کا انسان آپ کی غلای میں نبوت کا مرتبہ حاصل کر سکتا ہے.
۸۹ فیصلہ مولوی صاحبان ہی کریں ٍ دور جانے کی ضرورت نہیں.انہی مولوی صاحب سے دریافت کیا جائے.اگر ان کے اپنے بیٹے کے متعلق دونوں قسم کے عقائد میں سے ایک اختیار کرنے کا سوال ہو تو وہ اس کے لئے کونسا عقیدہ پسند کریں گے.کیا یہ کہ وہ نعوذ بالله رسول اللہ کو فاسق، فاجر ، ڈاکو، زانی گمراہ تسلیم کرے.یا یہ کہ وہ یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت ﷺ کی امت کے افراد آپؐ کی غلامی میں نبوت کا مرتبہ بھی حاصل کر سکتے ہیں اور خواہ وہ کتنی بھی آپ کی اتباع میں ترقی حاصل کر جائیں پھر بھی ان کو یہی فخرہو گا کہ یہ آپ ؐکے نام کہلائیں.وہ باوجود نبی ہونے کے آپؐ کے خادم ہی ہوں گے.پھر میں ہر ایک غیر احمدی سے دریافت کرتا ہوں.وہی انصاف سے بتائے کہ ان میں سے اگر کسی کو ایسا موقع پیش آئے کہ اس کے لئے صرف یہی دو راہیں ہوں تو وہ کونسی راہ اختیار کرے گا.کیا وہ یہ پسند کرے گا کہ آریہ یا عیسائی ہو کر رسول الله ﷺ کا اور آپ کے دین کا دشمن ہو جائے یا وہ اس عقیدے کو تسلیم کرلینا منظور کرے گا کہ آپؐ کے بعد آپ کے خادموں میں سے نبی ہو سکتا ہے.اور وہ نبی ہو کر بھی آپ کا خادم ہی رہے گا اور آپ کے دین کی اطاعت اور اشاعت کرے گا.فرض کرو مولوی مرتضٰی حسن صاحب کے نزدیک دونوں عقیدے دو گمراہیاں ہیں.مگر دیکھنا یہ ہے کہ دونوں میں سے بڑی گمراہی کو نسی ہے.اور کونسا عقيدہ اپنے بیٹے کے لئے وہ پسند کریں گے.اگر تو وہ یہ اعلان کر دیں کہ میں اپنے بیٹے کے لئے یہ پسند کروں گا کہ وہ آریہ یا عیسائی ہو کر رسول اللہ ﷺ کا اور اسلام کا دشمن ہو جائے.وہ بے شک آپ کو تمام انسانوں سے بد تر انسان کہنا شروع کر دے مگر یہ عقیدہ نہ رکھے کہ آپ کی اتباع اور غلامی میں کوئی نبی بھی ہو سکتا ہے.تو میں سمجھوں گا کہ انہوں نے جو کچھ کہا دیانتداری سے کہا.لیکن اگر وہ ایسا اعلان نہ کریں تو پھر ان کا یہ کہنا جھوٹ یا تعصب ہو گا کہ آریوں اور عیسائیوں سے جو رسول اللہ کو جھوٹا، زانی، فاسق، فاجر خیال کرتے ہیں، ان کی صلح ہو سکتی ہے لیکن احمدیوں کے باوجود آنحضرت ﷺسے محبت رکھنے اور آپ کے دین کی اطاعت اور اشاعت کرنے کے محض اس وجہ سے ان کی صلح نہیں ہو سکتی کہ وہ یہ عقیده رکھتے ہیں کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سے آپ کی اتباع سے نبی ہو سکتا ہے.جو نبی ہو کر بھی آپ کا خادم اور غلام ہی رہے گا.غیر احمدیوں کے مقابلہ میں دیگر مذاہب کے لوگ اس کے مقابلہ میں ہماری یہ حالت ہے کہ
۹۰ باوجود اس کے کہ سب سے بڑھ کر ہم سے دشمنی اور عداوت کرنے والے غیر احمدی ہی ہیں اور باوجود اس کے کہ ان کے ملکوں میں ہمارے آدمیوں کو نہایت بیدردی اور ظلم کی راہ سے قتل کیا جاتا ہے لیکن مذہب کے لحاظ سے آریوں اور عیسائیوں سے کروڑوں درجے میں غیر احمدیوں کو افضل جانتا ہوں.امیر کابل اور کنگ جارج یہ ہم کہیں گے کہ عیسائیوں کی حکومت اور ان کے ملک میں ہمارے لئے بہت امن اور انصاف ہے.مگر أفغان گورنمنٹ میں ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی ہوتی ہے.لیکن جب مذہب کا سوال آئے گا تو میں امیر امان اللہ خان ۳؎ کو کروڑوں درجے کنگ جارج سے بڑھ کر سمجھوں گا کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺکی عزت کرتے ہیں، انہیں خدا کا سچار سول مانتے ہیں جو کہ ہمیں تمام چیزوں سے زیادہ عزیز اور پیارے ہیں.لیکن کنگ جارج آپ کی صداقت کے قائل نہیں.تو مذہباً امیر امان اللہ خان صاحب کو میں کنگ جارج سے زیادہ معزز سمجھتا ہوں باوجود اس کے کہ امیر امان اللہ خان کی حکومت میں ہمارے آدمیوں پر سخت ظلم ہوئے.لیکن مذہباً کنگ جارج سے ان کی عزت میرے دل میں بہت زیادہ ہے کیونکہ جس کی غلای کا مجھے فخر حاصل ہے اور جسے یہ مولوی لوگ کافر، کذّاب اور دجّال کہتے ہیں اس سے میں نے یہی سیکھا ہے اور یہی اس نے تعلیم دی ہے اور میرا یہ حوصلہ اسی کی بدولت ہے کہ باوجود حکومت کابل سے اس قدر دکھ اٹھانے کے امیر امان اللہ خان کی اس قدر محبت اور عزت میرے دل میں ہے کیونکہ خواہ ان کی حکومت میں ہم سے کیسا ہی بُرا سلوک کیا گیا اور ہمیں کتنے ہی دکھ دیئے گئے مگر وہ حضرت محمد رسول الله ﷺکے نام لیوا ہیں.دیکھو میرے دل میں اس شخص کی بدولت جسے یہ مولوی صاحبان نعوذ بالله كافر، دجّال اور کذّاب مانتے ہیں یہ حوصلہ ہے کہ میں اس شخص کو جو ہم سے بُرے سے برا سلوک کرتا اور ہر قسم کا ظلم ہم پر روا رکھتا ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لیوا ہے ان کی نسبت جن کی حکومت ہمیں امن و امان حاصل ہے اور ہم آزادی سے تبلیغ اسلام کر سکتے ہیں مذہب کے لحاظ سے اچھا سمجھتا ہوں.لیکن ان مولویوں کے دلوں میں جو اپنے آپ کو رسول اللہ کے تخت کا وارث اور جانشین قرار دیتے ہیں رسول اللہ کی یہ محبت ہے کہ آپ کے ایک عاشق صادق اور آپ کی دین کے ایک سچے خادم اور آپ کے نام لیوا سے آریوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو بہتر جانتے ہیں.عیسائیوں اور یہودیوں سے تو ان کی صلح ہو سکتی ہے جو رسول کریم ﷺ کو کاذب قرار دیتے ہیں لیکن رسول
۹۱ اللہ ﷺ کے سچے عاشق اور آپ کی دین کے ایک سچے خادم سے ان کی صلح نہیں ہو سکتی.الکفرۃ ملۃ واحدۃ پہلے تو مجھے یہ خیال آیا کہ ایک اسلام کے مدعی اور محمد رسول الله ﷺ سے محبت کا دم بھرنے والے کے منہ سے ایسا کلمہ کس طرح نکل سکتا ہے اور میں اپنے دل میں اس کے تعلیم کرنے کے لئے آمادگی نہیں پاتا تھا مگر مجھے ساتھ ہی اپنے اسی پیارے کا یہ فقرہ یاد آگیا کہ الكفر ملة واحدة.۴؎ جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ مولوی جلال الدین صاحب کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی.مولوی مرتضیٰ حسن صاحب نے ضرور ایسا کلمہ کہا ہو گا جب انہوں نے یہ کہا کہ احمدیوں سے جو کہ رسول کریم ﷺکی جان و دل سے عزت کرنے والے، آپ سے محبت رکھنے والے اور آپ کی دین کی اشاعت میں جان اور مال قربان کرنے والے ہیں ان کی صلح نہیں ہو سکتی.لیکن آریوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے ہو سکتی ہے جو رسول اللہ ﷺکے دشمن اور آپ کے دین کو شب و روز مٹانے کے لئے کوشاں ہیں تو یہ رسول کریم ﷺ کے قول کی تصدیق کی ہے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں سب کفر جمع ہو جاتے ہیں.مولوی مرتضیٰ حسن صاحب کے اس قول نے بتادیا کہ کافر کون ہے اور مومن کون.آریہ ، عیسائی، یہودی سب کافر ہیں.ان کے ساتھ ہمارے مخالفین کا جمع ہونا بتلاتا ہے کہ وہ ان سارے کفروں میں غرق ہو رہے ہیں اور سارے احمدیت کے مقابلہ میں ملۃ واحدة بن رہے ہیں.یہ ہے ان مولویوں کا اسلام جس پر انہیں فخر ہے.کیا غیراحمدی مولوی بنی آدم نہیں دوسری بات جو مولوی جلال الدین صاحب کے لیکچر سے مجھے معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری طرف سے جو یہ آیت پیش کی جاتی ہے.یبني ادم اما ياتينكم رسل.۸؎ غیر احمدی مولوی صاحب نے کہاہے کہ اس آیت میں ہم لوگ مراد نہیں بلکہ بنی آدم مراد ہیں.شاید وہ اپنے آپ کوبنی آدم شمار نہ کرتے ہوں مگر میں تو اپنے آپ کو بنی آدم میں سے ہی شمار کرتا ہوں.بے شک پہلے لوگ بھی بنی آدم تھے مگر ہم بھی آدم ہی کی اولاد میں اس لئے بنی آدم ہونے کی حیثیت سے ہم اس آیت سے باہر نہیں اور ہم میں نبی نہیں آسکتے ہیں.ہاں اگر وہ یہودیوں کے نقش قدم پر چل کر بنی آدم نہیں رہے بلکہ ان کی طرح قرد اور خنازیر بن گئے ہیں تو پھر واقعہ میں ان میں کوئی نبی نہیں آسکتا اور اسی وجہ سے وہ اب تک نبی کی شناخت سے محروم ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑکے قبول کرنے کی انہیں توفیق نہیں ملتی.
۹۲ غیراحمدیوں کی فتح کی حقیقت میں نے سنا ہے ایک دیوبندی مولوی صاحب نے کہا اب ہمیں فتح حاصل ہو گئی.لیکن سمجھ میں نہیں آتا وہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ ان کو فتح حاصل ہو گئی اور احمدیوں کو شکست.کیاجو جماعت روز بروز ترقی کر رہی ہو وہ کست خوردہ ہوتی ہے.انہوں نے ہزاروں کوششیں کیں، ہر طرح روکیں ڈالیں اور مخالفت کی مگر آج تک نتیجہ یہی نکلا کہ وہ روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں اور ہم ترقی کر رہے ہیں.ہماری جماعت کو جو لوگ بڑھا رہے ہیں آخر اِنہیں میں سے نکل نکل کر آرہے ہیں.میرے دیکھنے کی بات ہے کہ اس مسجد کے پرانے صحن میں جو بہت چھوٹا تھا ہمارا سالانہ جلسہ ہوتا تھا جس میں باہر کے لوگ شامل ہوتے تھے اور اتنا صحن بھی کافی سے زیادہ ہوتا تھا.مگر آج یہ حالت ہے کہ معمولی تقریبوں پر بھی اُس وقت کے سالانہ جلسہ سے زیادہ لوگ صرف یہاں کے جمع ہو جاتے ہیں.جمعہ کے روز یہ تمام صحن بھرجاتا ہے جو پہلے کی نسبت بہت وسیع کیا گیا ہے.ایسی حالت میں حیرت انگیز بات نہیں کہ آج وہ کہتے ہیں " قادیان فتح ہو گیا ‘‘اور یہ عنوان رکھ کر اشتہار شائع کرتے ہیں کہ ’’مرزائیت کا خاتمہ ".’’مرزائیت کا جنازہ بے گوروکفن ‘‘گویا ان کی طرف سے یہ اشتہار شائع ہونے کی دیر تھی کہ احمدیت کا خاتمہ ہو گیا لیکن میں پوچھتا ہوں بقول ان کے اگر مرزائیت کا خاتمہ ہو گیا ہے تو پھر ان کے یہ کہنے کا کیا مطلب کہ تمام مرزائی جماعتیں مل کر تجہیز و تکفین کریں.وہ مرزائی جماعتیں کہاں سے آگئیں جنہیں تجہیز و تکفین کے لئے کہا جاتا ہے.یہ مولوی صاحبان مرزائیت کسی الگ وجود کو تو قرار نہیں دیتے.احمدیوں کو ہی مرزائیت کہتے ہیں.پھر جب ان کےنزدیک مرزائیت یعنی احمدیوں کا خاتمہ ہو گیا تو پھر تجہیز و تکفین کے لئے کسے بلاتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ وہ بھی خوب جانتے ہیں کس کا خاتمہ ہو رہا ہے اور کس کی تجہیز و تکفین کی ضرورت ہے.دراصل ان کے اپنے گھروں میں ماتم پڑا ہوا ہے.غیر احمدیوں مولویوں کی حالت ان کی مثال تو ان چوہوں کی سی ہے جنہوں نے بلی کے مارنے کے لئے مشورہ کیا تھا.ان میں سے ایک نے کہاہماری اتنی بڑی تعداد ہے اگر ہم جرات سے کام لیں تو بلی کی کیا طاقت ہمارا مقابلہ کر سکے.یہ آئے دن ہمیں مارتی رہتی ہے اس کا مقابلہ کرنا چاہئے.اس پر دس پندرہ چوہوں نے کہا.ہم اس کی ایک ٹانگ پکڑیں گے.دس پندرہ نے کہا ہم دوسری ٹانگ پکڑ لیں گے.غرض اس طرح سب نے بلی کے تمام اعضاء تقسیم کے لئے اور بہت خوش ہو رہے تھے کہ اب ہمارے غلبہ پا لینے میں کی
۹۳ شک ہو سکتا ہے.ایک بوڑھا چوہا خاموش بیٹھا ان کی باتیں سنتا رہا.جب وہ سب اپنی اپنی باتیں کہہ چکے تب اس نے کہاکہ اور تو سب کچھ تم نے بانٹ لیا لیکن بے بتاؤ بلی کی میاؤں کون پکڑے گا.اتنے میں بلی نے میاؤں کی اور سب بھاگ کر بلوں میں گھس گئے.اسی طرح ان مولویوں نے بھی مرزائیت کا خاتمہ سمجھ لیا اور اس کا جنازہ نکال بیٹھے ہیں.احمدیت کو کوئی مٹانہیں سکتا ان کو یہ خبر ہیں کہ یہ جنازہ ان کو بہت مہنگاپڑے گا.مرزائیت کے خاتمہ کے تو یہ معنے ہیں کہ کوئی ایک احمدی بھی نہ رہے اور تمام مرزائی جماعتیں دنیا سے مٹ جائیں.مگر کیا ان کے خیال کر لینے اور اشتہار دے دینے سے ایسا ہو سکتا ہے.اہمیت کو مردہ نہ خیال کریں بلکہ زندہ سمجھیں.اور اگر وہ مردہ بھی خیال کریں تو مثل مشہور ہے ہاتھی زنده لاکھ کا مردہ سوالاکھ کا.یہ اچھا مرزائیت کا جنازہ ہے کہ روز بروز اس جماعت کی ترقی ہو رہی ہے.اور جو زندہ کہلاتے ہیں وہ مٹ رہے ہیں.میرے خیال میں دل میں تو وہ بھی دعائیں کرتے ہوں گے کہ ایسا جنازہ ان کا بھی نکلے.کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ عجیب مردے ہیں جو ہم زندوں کو کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کرتے جاتے ہیں.تعجب ہے اس قوم پر کیسی بچوں کی سی ان کی حرکتیں ہیں.بھلا وہ قوم جس کا ایک ایک فرد ان کے سَوسَو مولویوں پر بھاری ہے.اور وہ اس کے مقابلہ میں کچھ ہستی نہیں رکھتے اس کو بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ مرد ہے اور اس کا جنازہ نکل گیا ہے.رسول کریم ؐکے صاجزاده ابراہیم کی وفات مسئلہ نبوت کے متعلق میں نے سنا ہے.ان میں سے ایک نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کے صاحبزاده ابراہیم کو خدا نے وفات ہی اسی لئے دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ خود بخود پیدا ہو گیا تھا کہ خدا نے اسے اس لئے وفات دے دی کہ وہ نبی نہ بن جائے.جب وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ خدا نے پیدا کیا تھا تو اسے پیداہی کیوں کیا کہ پھر نبی بن جانے کے ڈر سے وفات دے دی.ہاں اگر نعوذ با لله یہ ثابت ہو جائے کہ خدا تعالی پر بھی غفلت کا کوئی وقت آسکتا ہے تو یہ بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اسی غفلت میں اس نے ابراہیم کو پیدا کیا ہو گا اور بعد میں جب معلوم ہوا کہ وہ زندہ رہاتو نبی بن جائے گا اور ختم نبوت ٹوٹ جائے گی تو پھر اس کو وفات دے دی لیکن اگر خدا تعالی پر غفلت کا وقت نہیں آتا تو پھر کون بے وقوف ہے جو یہ کہے کہ خدا نے پہلے اس کو پیدا کیا اور پھر اس لئے مار دیا کہ میں وہ تماشہ بن جائے.
۹۴ غیر احمدی مولویوں کے فتویٰ کی زد رسول کریمؐ تک پھر ایک اور اشتہار انہوں نے شائع کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں.مرزا صاحب نے نبی بن کر ہم کو نئی بات کیا بتلائی ہے کہ ہم انہیں مانیں.لیکن جس وقت وہ آپ پر کفر کا فتوی ٰلگاتے ہیں اس وقت ان کو یہ خیال کیوں پیدا نہیں ہوتا کہ جب حضرت مرزا صاحب نے کوئی نئی بات نہیں بتائی تو پھر فتویٰ کس بات پر لگاتے ہیں.اگر ہم پر وہ کفر کا فتوی ٰاس لئے لگتے ہیں کہ جو معنی وہ خاتم النبین کے کرتے ہیں وہ ہم نہیں کرتے تو ان کو چاہئے پہلے اور حضرت عائشہؓ پر کفر کا فتویٰ لگائیں.پھر حضرت مغیرہؓ پر جو کہتے تھے میرے بچوں کو خاتم النبین کی تا کی زیر کے ساتھ قراءت یاد نہ کراؤ.پھر اس پر بھی بس نہیں ہوگی بلکہ یہ فتویٰ تو اس سے بھی اوپر جائے گے یعنی رسول اللہ ﷺپر بھی ان کو فتویٰ لگانا پڑے گا کیونکہ جب آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ کے بعد نبی نہیں ہو سکتا تو آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتاتو ضرورنبی ہوتا.ایک شیعہ کاقصّہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ایک شیعہ کا قصہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک عمر رسیدہ شیعہ سخت بیمار ہو گیا.جب اس کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو بیٹوں نے درخواست کی کہ آپ ہمیں کوئی ایسا نکتہ بتا جائیں جس سے ہمارا ایمان کامل ہو جائے.کہنے لگا صبر کرو، ابھی میں اچھا ہوں.جب حالت زیادہ نازک ہو گئی تو بیٹوں نے پھر یاد دہانی کرائی تب اس نے کہہ.نہایت ہی راز کی بات آج میں تم پر ظاہر کرتا ہوں اور وہ یہ کہ کچھ کچھ بُغض تم امام حسن سے بھی رکھنا کہ وہ خلافت سے کیوں دست بردار ہو گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر بیٹوں نے درخواست کی کوئی اور بات.کہنے لگا کچھ کچھ بغض امام حسین سے بھی رکھنا کہ انہوں نے مدینہ کیوں چھوڑا.کچھ دیر کے بعد پھر بیٹوں نے درخواست کی کوئی اور نکتہ آپ بتائیں.کہنے لگا اتنا ہی کافی ہے جو میں نے بتا دیا.لیکن جب بیٹوں نے اصرار کیا تو کہنے لگا تھا تھوڑا بغض حضرت علی ؓسے بھی رکھنا کہ وہ شروع میں ہی بزدلی نہ دکھاتے تو خلافت دوسروں کے ہاتھ میں کیوں جاتی.اس کے بعد بیٹوں نے پر اصرار کیا کہ کوئی اور بات بھی بتائیں.تو اس نے کہا اچھا تھوڑا بُغض رسول کریم ﷺ سے بھی رکھنا کہ انہوں نے جرات کر کے اپنے سامنے ہی کیوں نہ حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کروا دی.اس کے بعد بیٹوں نے پھر اصرار کیا تو کہا.اچھا کچھ بُغض جبرائیل سے بھی رکھنا کہ اس کو تو وحی حضرت علی کے لئے دی گئی تھی وہ بھول کر رسول کریم کی طرف کیوں چلا گیا.اس کے بعد وہ فوت ہو گیا.اس پر کسی جلے ہوئے سنی نے کہہ دیا اگر وہ تھوڑی دیر زندہ رہتا تو
۹۵ مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت.یہ بھی کہہ دیتا تھوڑا سا بغض خدا سے رکھنا کہ جبرائیل کو بھیجنے میں اس نے دھوکا کھایا.معلوم ہوتا ہے کسی سنی نے بے قصہ بنایا ہے.جس میں اس نے یہ دکھایا ہے کہ اگر شیعوں کے عقیدوں کو تسلیم کیا جائے تو پھر سب سے بُغض رکھناپڑتا ہے.کیا ہمارے خلاف ایمانداری سے فتویٰ لگاتے ہیں یہی حال غیر احمدیوں کے عقیدہ کا ہے.اگر ہم ان کے عقیدہ کے خلاف خاتم النبین کے معنے کرنے سے کافر ہو سکتے ہیں تو پھر ان کا فتویٰ حضرت عائشہؓ پر، دیگر صحابہ اور علماء امت پر حتی کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی لگے گا.اگر وہ ایمانداری سے ہم پر فتویٰ لگاتے ہیں تو پھر ان کو چاہئے کہ اس کی پوری پابندی کریں اور پہلے فتویٰ رسول الله ﷺ پر لگائیں.ان سے تو وہ طالب علم بڑھ کر نکلا جس نے کہہ دیا تھا کہ محمد رسول اللہ نے نماز میں حرکت ثقیل کی اس لئے ان کی نماز ٹوٹ گئی.میں کہتا ہوں اگر وہ اپنے فتویٰ کو سچائی پر مبنی سمجھتے ہیں تو پھر ان کو چاہئے کہ وہ حضرت عائشہ ؓ، حضرت مغيره ؓ، دیگر آئمہ اور خود آنحضرت ﷺ پر یہی فتویٰ کیوں نہیں لگا تے کہ وہ بھی خاتم البنین کے ان معنوں کے قائل نہیں تھے جو معنے کہ یہ لوگ کرتے ہیں.نبوت وہبی ہے یا کسبی صاحبزادہ ابراہیم کے متعلق جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.لو عاش إبراهيم لكان نبیاً ۶؎ کہ اگر ابراہیم زندہ رہتاتو نبی ہو تا.میں اس کے متعلق ایک اور بات بھی بتلاتا ہوں جو غیر احمدیوں اور غیر مبائعین کے لئے مفید ہے.وہ کہا کرتے ہیں کہ نبوت کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے ہم کہتے ہیں اگر نبوت محض وہبی ہے تو ابراہیم کو زندہ رکھنے میں کیا حرج تھا.اس پر موہبت نہ کی جاتی اور وہ نبی نہ بنتے.مگر رسول کریم ﷺکے ارشاد سے ظاہر ہے اگر وہ زندہ رہتے تو اس زمانہ اور عرصہ وہ تقویٰ اور طہارت کے اس مقام پر پہنچ جاتے جو نبوت کی موہبت کا جاذب ہوتا ہے.پس بے شک نبوت موہبت ہے لیکن اس کے لئے کسب شرط ہے جس کے نتیجے میں موہبت ہوتی ہے.اگر کوئی کسب نہ کرے اور نبوت مل جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ فاسقوں اور تاجروں کو بھی نبوت مل سکتی ہے.اگر نہیں تو کیا وجہ ہے ایسے لوگ جن کی پاکیزہ زندگیاں نہیں ان کو نبوت نہیں مل سکتی.اور انبیاء کی پاکیزہ زندگیوں کو کیوں ان کی صداقت کی دلیل ٹهہرایا جاتا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہب سے پہلے کسب کا ہونا ضروری ہے.پس صاحبزادہ ابراہیم کی فطرت بھی ایسی صحیح تھی کہ اگر وہ
۹۶ زندہ رہتا تو ایسا تقویٰ اور طہارت پیدا کرتا کہ خدا کا وہب اس پر ضرور ہو تا.خاتم کا مفہوم اسی طرح خاتم النبین میں عام کے معنے مُہر کے ہیں.اور مہرتصدیق کے لئے ثبت کی جاتی ہے.جس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ مہر ثبت کرنے والا قرار کرتا ہے کہ یہ میری طرف سے ہے.اسی غرض کے لئے پہلے بادشاہ رکھتے تھے اور اپنے احکامات پر تصدیق کے لئے ثبت کیا کرتے تھے اور چونکہ ان میں یہ رواج تھا کہ وہ کوئی کاغذ بغیر مہر کے لیتے دیتے نہیں تھے اس لئے آنحضرت ﷺ نے بھی جب بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو آپ نے ان پر ثبت کرنے کے لئے مہر بنوائی.تو مہر ہمیشہ کلام کی تصدیق کے لئے ہوتی ہے.اس لحاظ سے خاتم النبین کے یہ معنے ہوں گے کہ آنحضرت ﷺتمام انبیاء کی تعلیم کی تصدیق کرنے والے ہیں.گویا جس تعلیم کی آپ تصدیق کریں گے وہ صحیح ہوگی اور جس پر آپ کی تصدیق نہ ہوگی وہ صحیح نہ ہو گی.اسی لئے قرآن کریم میں آیا ہے.مھیمنا عليہ.کہ قرآن کریم ان انبیاء کی تعلیم کا محافظ ہے اور وہ سب تعلیمیں اس میں جمع کر دی گئی ہیں.یعنی آنحضرت ﷺ کے ذریعے ان کی تمام صداقتیں محفوظ کر لی گئی ہیں.اب قرآن کا جو بیان ہے وہ صحیح ہے.اگر تورات یا انجیل میں اس کے خلاف پایا جاتا ہے تو ان کا بیان صحیح نہیں سمجھا جائے گا.یہی وجہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں کے متعلق جیسا کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے اگر وہ کچھ بیان کریں تو تم سنو توسہی لیکن لاتصدقوا ھم ولا تکذبواھم ۸؎ نہ اس بیان میں ان کی تصدیق کرو اور نہ تکذیب.گویا جب آپ نے ان کے تمام صحیح بیان محفوظ کر لئے ہیں تو جو باتیں آپ سے بیان نہیں کیں خواہ اس لئے کہ آئندہ ان کی کوئی ضرورت نہیں اور خواہ اس لئے کہ وہ صحیح نہیں ہمیں ان کی تصدیق یا تکذیب کی ضرورت نہیں.پس جن باتوں کو قرآن کریم نے غلط قرار دیا ہے ان کو غلط سمجھو اور جن کو صحیح قرار دیا ہے ان کو صحیح سمجھو اور جن سے خاموشی اختیار کی ہے تمہیں بھی خاموشی اختیار کرنی چاہئے تصدیق یا تکذیب کی کوئی ضرورت نہیں.دیوبندیوں کا چیلنج منظور غیراحمدی مولویوں نے اپنے جلہ میں یہ بیان کیا ہے کہ اگر مسیح موعود کے دولت لُٹانے سے مراد معارف اور حقائق بیان کرنا ہے تو بھی ہم سے بڑھ کر مرزا صاحب نے قرآن کے معارف بیان نہیں کئے اور انہوں نے اشتہار شائع کیا ہے جس میں لکھا ہے:."مرزا صاحب کے معارف قرآنیہ ،نئے علم کلام، جدید لاثانی دلائل، نئے انوکھے
۹۷ اچھوتے مسائل کی دھوم تھی.غُل تھا.مگر جب پوچھا گیا کہ وہ معارف کیا ہیں............تو جواب ندارد‘‘.پھر حضرت مسیح موعود کے بیان کردہ معارف کے متعلق لکھا ہے:.’’کم سے کم کسی قدر معارف قرآنیہ ہونے چاہئیں، کتنے دلائل اور علوم مختصّہ ہوںجن سے انسان مسیح موعود مہدی مسعود ہو سکے ان کی صرف فہرست بتادو.تو پھر خدا چاہے یہ ہم بتلادیں گے کہ یہ معارف بالکل مسروقہ ہیں".اگر یہ لوگ اپنی اس بات پر مضبوط اور قائم ہیں اور اس کو صداقت کا معیار قرار دینے کے لئے تیار ہیں تو اس بات کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب کی کتابوں میں سے وہ حقائق اور معارف پیش کروں جو ان مولوی صاحبان نے کبھی بیان نہیں کئے اور نہ پہلی کتابون میں قرآن کریم سے اخذ کر کے بیان کئے گئے ہیں.کہہ دینے کو تو انہوں نے کہہ دیا کہ مرزا صاحب نے کوئی معارف بیان نہیں کئے اور جو کئے ہیں وہ سرقہ ہیں.پچھلی کتابوں میں موجود ہیں لیکن اگر اس بات پر ثابت قدم رہیں اور اس کو سچائی کا معیار سمجھیں تو اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی کُتب سے ایسے قرآنی حقائق اور معارف پیش کروں جو ان مولوی صاحبان نے کبھی بیان نہیں کئے اور نہ حضرت مسیح موعود سے پہلے کسی نے لکھے ہیں.دیوبندیوں کو چیلنج مگر مولوی صاحبان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم میں وہ معارف ہیں جو پہلی کتب میں نہیں ہیں.پس حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کے پرکھنے سے پہلے ہمیں جدت و کثرت کا معیار قائم کر لینا چاہئے.اور اس کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ غیراحمدی علماء مل کر قرآن کریم کے وہ معارف روحانیہ بیان کریں جو پہلی کسی کتاب میں نہیں ملتے اور جن کے بغیر روحانی تکمیل ناممکن تھی.پھر میں ان کے مقابلہ پر کم سے کم دُگنے معارف قرآنیہ بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے لکھے ہیں اور ان مولویوں کو تو کیا سوجھنے تھے پہلے مفسرین و مصنّفین نے بھی نہیں لکھے.اگر میں کم سے کم دُگنے ایسے معارف نہ لکھ سکوں تو بے شک مولوی صاحبان اعتراض کریں طریق فیصلہ یہ ہو گا کہ مولوی صاحبان معارف قرآنیہ کی ایک کتاب ایک سال تک لکھ کر شائع کر دیں اور اس کے بعد میں اس پر جرح کروں گا جس کے لئے مجھے چھ ماہ کی مدت ملے گی.اس مدت میں جس قدر باتیں ان کی میرے نزدیک پہلی کُتب میں پائی جاتی ہیں ان کو میں پیش کروں گا.اگر عدالت فیصلہ دیں کہ وہ
۹۸ باتیں واقع میں پہلی کُتب میں پائی جاتی ہیں تواس حصہ کو کاٹ کر صرف وہ حصہ ان کی کتاب کا تسلیم کیا جائے گا جس میں ایسے معارف قرآنیہ ہوں جو پہلی کُتب میں نہیں پائے جاتے.اس کے بعد میں چھ ماہ کے عرصہ میں ایسے معارف قرآنیہ حضرت مسیح موعود کی کُتب سے یا آپ کے مقرر کردہ اصول کی بناء پر لکھوں گا جو پہلے کسی مصنف اسلامی نے نہیں لکھے.اور مولوی صاحبان کو چھ ماہ کی مدت دی جائے گی کہ وہ اس پر جرح کر لیں اور جس قدر حصہ ان کی جرح کا منصف تسلیم کریں اس کو کاٹ کر باقی کتاب کا مقابلہ ان کی کتاب سے کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ آیا میرے بیان کرده معارف قرآنیہ جو حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے لئے گئے ہوں گے اور جو پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں گے ان علماء کے ان معارف قرآنیہ سے کم از کم دُگنے ہیں یا نہیں جو انہوں نے قرآن کریم سے ماخوذ کئے ہوں اور وہ پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں.اگر میں ایسے دُگنے معارف دکھانے سے قاصر ہوں تو مولوی صاحبان جو چاہیں کہیں.لیکن اگر مولوی صاحبان اس مقابلہ سے گریز کریں یا شکست کھائیں تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا دعوی ٰمنجانب اللہ تھا.یہ ضروری ہو گا کہ ہر فریق اپنی کتاب کی اشاعت کے معاً بعد اپنی کتاب دوسرے فریق کو رجسٹری کے ذریعہ سے بھیج دے.مولوی صاحبان کو میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ دُگنی چوگنی قیمت کاوی پی میرے نام کر دیں.اگر مولوی صاحبان اس طریق فیصلہ کو ناپسند کریں اور اس سے گریز کریں تو دوسرا طریق یہ ہے کہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا ادنی ٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں.اور وہ تین دن تک اس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کُتب میں موجود نہ ہوں.اور میں بھی اسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی روشنی میں اس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسّر یا مصنّف نے لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق اور کیا رشتہ ہے.
۹۹ غیراحمدیوں کے معارف کا نمونہ باں اس قسم کے معارف نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں اور نہ میں بیان کر سکتا ہوں جس قسم کے یہ بیان کیا کرتے ہیں.چنانچہ ان میں سے آپ نے حضرت نبی کریم ﷺ کے معجزات بیان کرتے ہوئے کہا کہ معراج کے لئے جب آپ کے پاس گھوڑا لایا گیاتواس نے شوخی کی جس میں بڑی بڑی حکمتیں تھیں.مثلا ًایک تو یہ کہ شاہسوار شوخ گھوڑے کو بہت پسند کرتا ہے.دوسرے یہ کہ وہ گھوڑا ڈر گیا کہ معلوم نہیں میں نبوت کا بوجھ اٹھا سکتا ہوں یا نہیں.پھر ایک نکتہ انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺجس وقت گھوڑے پر سوار ہوتے تھے تو اس کا پیشاب پاخانہ بند ہو جاتا تھا.انبیاء کے معجزات اور برکات میں اگر یہ بات بھی داخل ہے کہ جس گھوڑے پر نبی سوار ہو اس کا پیشاب پاخانہ بند ہو جائے تو تمام گھوڑے نبی کی بعثت کا حال سن کر یہی دعا کرتے ہوں گے کہ خدایا! اس نبی کا گذر اس طرف نہ ہو ورنہ ہم میں سے کسی کی شامت آجائے گی.اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺکا پاخانہ زمین نگل لیتی تھی.بھلا کوئی پوچھے اس قسم کی باتوں کو کون دیکھنے والا تھا.اسی طرح ایک شخص نے شاید سید عبد القادر جیلانیؒ کا یہ معجزہ بیان کیا تھا کہ ان کے سامنے بُھنا ہوا مرغ لایا گیا.کھانے کے بعد اس کی ہڈیاں جمع کر کے انہوں نے زندہ کر دیا اور وہ کڑکڑاتا ہؤا اُڑگیا.ہندوؤں کے قصے اگر مولوی صاحبان اس قسم کے معجزات اور نشانات کا ہم سے مطالبہ کرتے ہیں اور اس قسم کے معارف اور حقائق ہم سے سننا چاہتے ہیں تو ان کے لئے قرآن و حدیث کی کوئی ضرورت نہیں اس قسم کے معجزات کی بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر جن کا ان مولوی صاحبان کو شاید کبھی و ہم بھی پیدا نہ ہؤا ہو ہندوؤں کی کتابوں میں اس قدر بھرمار ہے کہ اس معاملہ میں مسلمانوں کو ان سے کچھ نسبت ہی نہیں.مثلا ًہندو کہتے ہیں ان کا ایک رشی تھا جس کی کسی عورت پر نظر ہو گئی اور اسے انزال ہو گیا.اس نے وہ کپڑا ایک گڑھے میں ڈال دیا.تھوڑی دیر کے بعد گڑھے میں سے رونے کی آواز آنے لگ گئی.دیکھا تو بیچ بچہ رو رہا تھا.اسی قسم کے قصے نسلاً بعد نسل ہندوؤں کو بنانے کی اتنی مشق ہے کہ مسلمان اگر ان سے مقابلہ کریں تو ان کو پیٹھ دکھانے کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا.پھر وہ کہتے ہیں.ایک دفعہ نیل کنٹھ کو جو چھوٹا سا پرندہ ہے بھوک لگی تو وہ اپنی ماں کے پاس
۱۰۰ گیا کہ مجھے سخت بھوک لگی ہے کہ کھانے کو دو.میں نے کہا میرے پاس تو کچھ نہیں باہر جاکر کھا آؤ مگر برہمن کو نہ کھانا.جب وہ باہر آیا تو اس نے ایک بڑی برات دیکھی.ان میں ایک برہمن تھا.جسے چونچ سے پکڑ کر اس نے درخت پر بٹھادیا اور منہ کھول کر سب برات کو نگل گیا.پھر اسے پیاس لگی تو ایک ندی پر گیا اور اتنا پانی پیا کہ ندی خشک کردی.چنانچہ اب تک ایک ندی کے متعلق کہتے | ہیں کہ نیل کنٹھ نے خشک کی تھی.اس کے بعد وہ ماں کے پاس آیا اور کہنے لگا اب مجھے ذرا تسکین ہوئی ورنہ میں تو بھوک کے مارے مرا جاتا تھا.اب مسلمان جو تے بناتے ہیں ہندوؤں کی طرح پرانے مشّاق نہیں.قصوں کے ذریعہ ہندوؤں کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں.میں پوچھتا ہوں کیا اس قسم کے معجزات سے وہ لوگوں کو اسلام کے حلقہ میں لا سکتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اس قسم کے چھوٹے معجزات کی تردید اور ان کا استیصال کرنے آئے تھے.اگر کوئی اس قسم کے معجزات آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ اسلام پر نہایت ناپاک دھبہ لگاتا ہے.خدا تعالی ایسے نادان دوستوں سے اسلام کو محفوظ رکھے.جو اس کو دوستی کے رنگ میں بدنام کرتے ہیں.کیونکہ اس قسم کے قصے سن کر بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کی عزت اور عظمت پیدا ہو وہ اسلام پر ہنستے ہیں.کیا مخالفین مقابلہ میں آئیں گے ہاں اگر حقائق اور معارف سے وہ حقیقی معارف مراد ہیں جن سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے اور جن میں انسان کے اخلاق اعمال کی درستی اور اس کے تعلق باللہ کے اعلی ٰسے اعلی ٰذرائع بتائے گئے ہیں تو ان کے لکھنے میں ان مولویوں کو میں اپنے مقابلہ پر بلاتا ہوں.اگر وہ آئے تو دیکھیں گئے کہ حضرت مرزا صاحب کے ایک ادنی ٰ غلام کے مقابلہ میں ان کا کیا حشر ہوتا ہے.ان کی قلمیں ٹوٹ جائیں گی.ان کے دماغوں پر پردے پڑ جائیں گے اور وہ کچھ نہیں لکھ سکیں گے.اگر ان میں ہمت و جرأت ہے تو مقابلہ پر آئیں.(اخبار الفضل ،۱۶،۱۴ جولائی ۱۹۲۵ء) ا السبع المعلقات القصيدة الرابعة مفہ ۵۲ مطبوعہ دہلی \" \" وما رمیت اذ رميت و لكن الله رمی » (الانفال:18) ۳ امیر امان اللہ خان (۱۸۹۲ء.۱۹۶۰ء)امیر حبیب اللہ خان شاہ افغانستان کا تیسرا بیٹا جو ۱۹۱۹ء میں اپنے باپ کے قتل کے بعد افغانستان کا حکمران بنا.۱۹۲۶ء میں اس نے امیر کی بجائے
۱۰۱ "شاہ" کا لقب اختیار کیا.اس کے خلاف شورش ہوئی تو یہ کابل سے قندهار چلا گیا.۱۹۲۹ء میں اٹلی روما چلا گیا اور وہیں وفات پائی.محمد ظاہر شاہ (ابن نادر شاہ) کے دور حکومت میں اس کی میّت روم سے کابل لائی گئی‘‘.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ ۱۲۷ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء) الاعراف :۳۶ د کنزالعمال جلد۱۰ص ۴۶۹ روایت ۳۲۲۰۴ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء ، المائدة :۴۹ در منثور جلده من۴۷) زیر آیت ولا تجادلوا اهل الكتاب الا بالتي هي أحسن مطبوعہ بیروت.
۱۰۳ آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نسلی علی رسولہ الکریم آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر (رقم فرموده مورخہ ۱۳ جولائی ۱۹۲۵ء) آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے پروگرام کی ایک کاپی مجھے بھی بھیجی گئی ہے اور خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی اس میں شامل ہوں.چونکہ نظر بر حالاتِ موجودہ میں خود شمولیت کرنے سے معذورہوں اس لئے تحریراً میں اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے اپنے خیالات زیر بحث مواضیع کے متعلق بیان کرتا ہوں.اور یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ یہی خیالات جماعت احمدیہ کے اس حصہ کے ہیں جو میری بیعت میں شامل ہے اور جو اس کے مطابق عمل کر رہا ہے اور دوسری جماعتوں سے مل کر جہاں تک اس کے عقائد اور اس کی قومی ضروریات اجازت دیں عمل کرنے کے لئے تیار ہے.چونکہ یہ دعوت مجھے دیر سے پہنچی ہے اور چونکہ بوجہ بیماری میں صرف آج کے تیرہ تاریخ ہے اس پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا ہوں اس لئے مجبوراً نہایت اختصار سے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں.اسلام کی سیاسی اور مذہبی تعریف مجھے ابتداء ہی میں اس بات کو بتادینا چاہئے کہ کبھی بھی آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے داعیان کو اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ اس امر کو نہ سمجھ لیں اور سب مسلمانوں کو اپنا ہم خیال نہ بنا لیں کہ اسلام کی اس زمانہ میں دو تعریفیں ہیں.ایک مذہبی اور ایک سیاسی- مذہبی تعریف ہر ایک شخص کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے تعریف کرے اور اس کے مطابق جس کو چاہے کافر بنائے اور جس کو چاہے مسلمان.کسی کا حق نہیں کہ اس پر اس سے ناراض ہو گو ہر ایک کا حق
۱۰۶ ہے کہ اس کو اگر وہ غلطی پر ہے سمجھائے.دوسری تعریف سیاسی ہے اور یہ تعریف کوئی فرق خود نہیں کر سکتا بلکہ یہ تعریف اسلام کا لفظاًو معنا انکار کرنے والے لوگ کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں.سیاسی طور پر کون لوگ مسلمان ہیں؟ اس کا جواب نہ دیو بند دے سکتا ہے نہ قادیان نہ فرنگی محل نہ گولڑہ اور نہ علی پور.اس کا جواب صرف ہندو اور عیسائی اور سکھ دے سکتے ہیں جن سے مسلمانوں کاسیاسی واسطہ پڑتا ہے.اگر ایک جماعت کو دیگر مذاہب کے پیرو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں تو ایک لاکھ مولویوں کے فتوے بھی اس کو سیاست اسلامیہ سے باہر نہیں نکال سکتے.سنّی خواہ شیعوں کو اور شیعہ خواہ سنّیوں کو کافر کہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں ہندو اور سکھ سنّیوں اور شیعوں سے کیا معاملہ کریں گے کیا سنّیوں کے شیعوں کو کافر کہنے کے سبب سے ہندو لوگ سنّیوں اور شیعوں سے الگ الگ قسم کا معاملہ کریں گے؟ نہیں، وہ جو کارروائی ایک قوم کے خلاف کریں گے وہی دوسری کے خلاف بھی کریں گے.پس سیاستاً ان کے مفاد ایک ہیں جن پر اسلام کا لفظ حاوی ہے اور اگر وہ اس نکتے کو نہیں سمجھیں گے تو ان کو ایک ایک کر کے دوسری قومیں کھا جاویں گی اور ان کو اس وقت ہوش آوے گی جب ہوش آنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا.سیاسی امور میں ضرورت اتحاد اس اصل کے بیان کرنے کے بعد میں تمام ان فرقوں کے لوگوں سے جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں کہتا ہوں کہ عقید تاً وہ خواہ ہمیں کافر کہیں اور خواہ ہم ان کو کافر کہیں.اسلام کے نام نے ہمارے سیاسی فوائد کو اس طرح ملا دیا ہے کہ ہم سیاستاً ایک دوسرے کو مسلمان قرار دینے پر مجبور ہیں اور اگر کوئی ایک فرقہ مذہبی عقیدہ کی بناء پر سیاسی جدوجہد میں بھی الگ کر دیا گیا تو یاد رکھو کہ اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کے قیام کے لئے دوسری اقوام سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گا اور اس صورت میں اسے ان فرقوں کے مقابلہ میں جنہوں نے اسے سیاستا ًکچلنے کی بلکہ مارنے کی کوشش کی تھی ضرور اس جماعت کی رعایت کرنی ہوگی جو اس سے معاہدہ ہو کر اس کی حفاظت کا وعدہ کرے.کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ سیاسی میدان میں کوئی قوم بغیر طاقتور ہمسایوں سے معاہدہ کئے زندہ رہ سکے.اور یہ آپ لوگ ہرگز امید نہیں کر سکتے کہ ایک جماعت کو آپ لوگ دهتکار کر نکال دیں اور پھر یہ بھی امید کریں کہ وہ دوسری قوموں کی طرف بھی رجوع نہ کرے اور دست تظلّم کی داد دیتے ہوئے اپنے سیاسی وجود کو فنا کر دے اس قسم کی وفا کی مثالیں افراد میں مل سکتی ہیں اور وہ بھی شعراء کے کلام میں.قو میں اس قسم کی وفا کا نمونہ دکھا کر زندہ نہیں رہ سکتیں
۱۰۷ سوائے اس صورت کے کہ ان کی عقل ماری گئی ہو.اگر قلیل التعداد جماعتوں کو حقیر سمجھ کر اپنے سے دور پھینکا گیا محض اس لئے کہ ہمارا مذہبی اختلاف ہے یا اس وجہ سے ہی کہ ہم ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں تو ہندوستان میں دوسری ایسی عقلمند قومیں موجود ہیں جو ان دور پھینکے جانے والوں سے سیاسی سمجھوتے کر کے اپنی سیاسی طاقت کو بڑھانے کی خواہش مند ہیں.پس ہر ایک چیز کو اس کے مقام پر رہنے دو.مذہبی کفر و اسلام کو مذہب کی بحثوں کے موقعوں کے لئے اور سیاسی کفر و اسلام کو سیاسی حل و عقد کے موقعوں کے لئے.کانفرنس کے متعلق مشورہ اس کے بعد میں اپنے خیالات ان سوالات کے متعلق جن پر کانفرنس میں غور کیا جائے گا بتاتا ہوں.مگر یہ بھی مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ ایسے اہم امور ایک کانفرنس میں کبھی طے نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک ہی وقت میں علم کا حاصل کرنا اور اس کا نتیجہ بھی نکال لینا نہایت ہی مشکل کام ہے.پس چاہئے کہ اس کانفرنس میں صرف تبادلہ خیال ہو اور اس کے دو یا تین ماہ کے بعد پھر لوگ اکٹھے ہوں اور اس کانفرنس میں کسی خاص نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی جائے.اس عرصہ میں لوگ تمام تجاویز پر خوب غور و فکر کرلیں گے اور ان کی رائے زیادہ مضبوط ہوگی.تبلیغی نظام کا سوال جو سوالات کانفرنس میں پیش ہوں گے ان میں سے سب سے پہلا سوال جو درجہ کے لحاظ سے بھی پہلا ہے یہ ہے کہ تمام ملکِ ہند کے لئے ایک تبلیغی نظام مقرر کیا جائے اور تبلیغی انجمنوں کے اندر اتحاد پیدا کرتے ہوئے تقسیم کار کی صورت نکالی جائے.میرے نزدیک یہ سوال اسلام کے لئے ایسا ہی اہم ہے جیسا کہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا سوال.اسلام تبلیغ کے ذریعہ سے ہی زندہ رہا ہے اور زندہ رہے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالی مبلّغوں کے متعلق فرماتا ہے کہ او لیک هم المفلحون-۱؎ وہی لوگ کامیاب ہوں گے یعنی مسلمانوں کی کامیابی ہمیشہ تبلیغ سے وابستہ رہے گی.اسلام میں قوت جاذبہ تبلیغ کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں جو قوت جذب کرنے کی موجود ہے وہ اور کسی مذہب میں نہیں.نہ ہندووں میں نہ سکھوں میں نہ مسیحیوں میں وہ اخوت اور مساوات ہے جو اسلام میں ہے اس لئے اسلام کی تبلیغ میں جو آسانیاں ہیں وہ دوسری قوموں کو حاصل نہیں ہیں.خصوصا ًجبکہ اس امر کو مدنظر رکھا
۱۰۸ جائے کہ فوج در فوج لوگ جو کسی مذہب کو قبول کرتے ہیں وہ اس کی روحانی خوبیوں کی وجہ سے نہیں کیا کرتے بلکہ اس کی تمدنی اور سیاسی خوبیوں کی وجہ سے کرتے ہیں اور اس قسم کی قو میں ہمیشہ وہی ہوتی ہیں جو تمدناً ادنی ٰ ہوں یا ان کو ادنی ٰسمجھاجاتا ہو.پس تبلیغ کا بہترین میدان ہندوستان کی وہ قو میں ہوں گی جو تمدناًادنی ٰ ہیں یا ادنی ٰ سمجھی جاتی ہیں.تبلیغ اسلام میں مشکلات لیکن ان قوموں کے متعلق بیا در کناچاہتے کہ ان پر مسیحی ایک لمبے عرصہ سے اور ہندو کچھ سالوں سے حملہ آور ہو رہے ہیں.مسیحیوں کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس وقت تک تیس لاکھ سے زیادہ ایسے آدمیوں میں سے وہ اپنے ساتھ شامل کر چکے ہیں اور اس وجہ سے نئے داخل ہونے والوں کو ان میں ملنا بہ نسبت دوسرے مذاہب کے زیادہ آسان ہے.پنجاب میں چار لاکھ کے قریب چوڑھے ہیں جن میں سے نصف کے قریب عیسائی ہو چکے ہیں اور اب عیسائی ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ اب غیر عیسائیوں کو رشتہ کی سخت دقّت ہورہی ہے پس وہ رشتے ناطے کی غرض سے عیسائی ہو جاتے ہیں.دوسری فوقیت ان کو یہ ہے کہ ان کے پاس روپیہ ہے.وہ ان کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں اور ان کی تمدنی حالت کی درستی کے لئے ان کے واسطے زمیندار کا انتظام کرتے ہیں.تیسرے پادریوں کے بارسوخ ہونے کی وجہ سے کئی جگہ مجرم پیشہ لوگ مسیحی ہو جاتے ہیں کہ اس طرح جرائم کر کے بھی نسبتاً محفوظ رہتے ہیں اور کئی جگہ نمبردس کے رجسٹر سے نام کٹوانے کا باعث عیسائی ہو جانا ہوا ہے اور ہوتا ہے.چوتھے حکومت کا مذہب بھی مسیحیت کی کشش کو ضرور بڑھاتا ہے.ٍ دوسرے نمبر پر سکھ ہیں اور ان کو یہ فوقیت ہے کہ وہ پنجاب میں بڑے زمیندار ہیں اور چونکہ ادنی ٰ اقوام کا بیشتر حصہ زراعت پر گزارہ کرتا ہے وہ مالک زمیندار کے اثر کو قبول کرنے کے لئے تیار رہتا ہے.پھر سکھ ہندووں کی نسبت جلد ان لوگوں کو اپنے اندر شامل کر لیتے ہیں اور چونکہ ان میں بھی ایک لاکھ کے قریب یہ لوگ داخل ہو گئے ہیں رشتہ ناطہ کا سوال روک نہیں ڈالتا.مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ ان قوموں کی طرف توجہ نہیں بلکہ وہ ان کے مسلمان ہونے میں اس لئے روک ڈالتے ہیں کہ پھر ہمارے گھروں کی صفائی کون کرے گا.چنانچہ ایک علاقے میں چھ ہزار کے قریب ادنی ٰ اقوام کے آدمی اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے کہ ایک مسلمان مولوی کو ایک گاؤں والوں نے مقرر کیا کہ وہ ہمارے واعظ کے پیچھے پیچھے جائے اور ان لوگوں کو مسلمان ہونے پر
۱۰۹ آمادہ نہ کرسکے.چنانچہ اس مولوی نے سب علاقہ میں دورہ کر کے ان لوگوں کو روکا.وہ آج ختم ہندو ہیں اور کل کو ان زمینداروں کا خون چوسیں گے.خلاصہ ہے کہ کامیاب تبلیغ کے لئے ہمیں خاص نظام کی ضرورت ہے جس میں ہمیں اس امر کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ کسی قوم کو کس ذریعہ سے اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتاہے خالی مبلّغ مقرر کردینا ہرگز کافی نہ ہو گا.بوجہ قلت وقت میں اس نظام کو جو میں نے سوچا ہے لکھ نہیں سکا.اگر میرے خیالات سے آگاہ ہونے اور ان پر غور کرنے کی ضرورت سمجھی جائے تو میں بعد میں بتا سکتا ہوں.مخصوص عقائد کی تبلیغ انجمنوں میں اتحاد اور تقسیم کار کے سوال کے متعلق میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ امید کہ کوئی فرقہ اپنے خیالات کی اشاعت سے باز آجائے تو امید لا حاصل ہے.یہ خیال بھی غلط ہے کہ نومسلموں میں اپنے خیالات نہ پھیلاۓ جاویں.آخر نومسلم بہرے نہ ہوں گے وہ کسی قلعہ میں قید نہ ہوں گے وہ لوگوں سے ملیں گئے اور اختلافات کی باتیں سنیں گے اس وقت وہ ضرور اسی مبلغ سے ہدایت پائیں گے جس نے ان کو اسلام کا راہ دکھایا ہے اور یہ کس طرح ان کو جواب دینے سے پہلوتہی کر سکتا ہے یا اپنے عقیده کے خلاف بتا سکتا ہے.بہرحال نماز روزہ کی تلقین میں اسے ضرور اپنے پسندیدہ مسائل ہی بتانے پڑیں گے اور اختلاف وہیں سے شروع ہو جائے گا.پس صورت اتحاد یہی ہے کہ ہر ایک جماعت اس امر کو تسلیم کرے کہ الا الله محمد رسول الله پڑھوانے والا ایک اچھا کام کر رہا ہے خواہ وہ اس کے ساتھ اپنے خیالات بھی منواتا ہو اور دوسری جماعتوں کو اس کے کام سے تعّرض نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ کیا رسول کریم ﷺکو گالیاں دینے والے وہ شخص اچھا نہیں جو خواہ خلفاء ثلاثہؓ\" کو نہ مانتا ہو.امام ابو حنیفہؒ کا ادب نہ کرتا ہو مگر رسول کریمﷺ کو راستباز نبی مانتا ہو.اگر مرزا غلام اے صاحب علیہ السلام کو مجددیانبی یا مسیح موعود تسلیم کرتاہو لیکن رسول کریم ﷺکو آخری شارع نبی اور قرآن کریم کو آخری تشریعی وحی قرار دیتا ہو.تقسیم کار کا طریق تقسیم کار کا بہترین علاج یہ ہو گا کہ مختلف علات مختلف جماعتوں کے سپرد کئے جاویں اور وہ ایک دوسرے کے علاقے میں دخل نہ دیں اور غیر مسلموں کی تبلیغ کو اسی کے سپرد رہنے دیں جس کے سپرد وہ علاقہ ہے.مگر یہ سوال حل نہ ہو گا جس وقت تک تنظیم کا سوال نہ حل ہو گا.کیونکہ اگر کوئی قوم اس معاہدہ کو توڑ دے گی تو سب کیا کرایا کام دریا برد ہو جائے گا.
۱۱۰ تنظیم کاسوال دوسرا سوال تنظیم کا ہے.یہ سوال بھی نہایت اہم ہے.بغیر تنظیم کے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی بلکہ زندہ نہیں رہ سکتی.تنظیمی پروگرام مقرر کرتے ہوئے ہمیں ان امور کو سوچنا نہایت ضروری ہو گا.(1)مختلف جماعتوں کے اندرونی انتظام پر اس کا اثر نہ پڑے.(۲) افراد کو کانشس کی قربانی نہ کرنی پڑے.(۳) ذاتی بلندی کے حصول کے خیالات اس نظام کو بودہ اور کمزور نہ کر دیں.دوسری بات اس امر کے لئے یہ ضروری ہو گی کہ اس نظام کی باگیں ایک فی الواقع منتخب شده جماعت کے ہاتھ میں ہوں.جو وقتاً فوقتأً دوبارہ منتخب ہوتی رہے.اس سے ایک طرف تو مسلمانوں کے اندر حقیقی نیابت کا طریق کار راسخ ہوتا چلا جائے گا (۲) دو سرے عامہ رائے کی تربیت ہوتی چلی جائے گی.(۳) تیسرے عوام الناس کی دلچسپی کام سے بڑھ جائے گی.(۴) ایک ایسی سیاسی مشینری تیار ہو جائے گی.جو تحفظ حقوق کے لئے ہر وقت استعمال کی جا سکے گی.(۵) ہم گورنمنٹ کو دکھا سکیں گے کہ موجودہ فرنچائز ناواجب طور پر محدود ہے.مختلف صیغوں کی ضرورت تیسری بات اس تنظیم کے لئے یہ ضروری ہوگی کہ اس کے مرکزی کام کو مختلف ڈیپاٹمنٹس میں اسی طرح تقسیم کیا جائے جس طرح کہ گورنمنٹ کے محکمے ہوتے ہیں.سیکرٹری شپ کا طریق نہ ہو بلکہ وزراء کا طریق ہو.ہر ایک صیغہ کا ایک انچارج ہو اور اس کام کا ذمہ دار جو ہر سال اپنے صیغہ کی رپورٹ شائع کرے.اور ہر صیغہ کے لئے ایک مطمح نظر مقرر کیا جائے جس کے متعلق وہ ناظر بتائے کہ اس نے اس میں سے کس قدر حصہ کو پورا کرلیا ہے اور باقی کے پورا کرنے کی وہ کب تک امید کرتا ہے.مثلاً ایک صیغہ تبلیغ کا ہو، ایک صیغہ تعلیم و تربیت کا ہو جس کے ذمہ یہ بات ہے کہ وہ ہر مسلمان کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کرے اور اس کی صحیح تربیت کا نگران ہو.اس صیغہ کے متعلق ایک نہایت ضروری سلسلہ سکولوں اور کالجوں کے طلباء کے اندر قومی روح پھونکنے کا ہو.ہر جگہ جہاں کوئی سکول یا کالج ہو یہ انتظام کیا جائے کہ لیکچروں، وعظوں، ٹریکٹوں اور دوسرے ذرائع سے نوجوانوں کے اندر قربانی کی روح پھو نکی جائے اور خود غرضی کا مادہ دور کرنے کی کوشش کی جائے.سیاست حاضرہ میرے نزدیک طلباء کے لئے مفید نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں شُغل ان کے لئے مُضر ہوتا ہے لیکن اصول سیاست کے ماتحت ان میں قومی روح کا پیدا کرنا نہایت مفید اور ضروری ہے.میرے نزدیک مسلمانوں کی بڑی تباہی کا باعث افراد کی عدم تربیت اور خودغرضانہ
۱۱۱ خیالات کا غلبہ ہے.وہ دوسری اقوام کے مقابلہ میں اسی وجہ سے ذلیل رہتے ہیں اور ملک کے لئے بھی مفید نہیں ہو سکتے.میرا یہ خیال ہے کہ ہم حکومت سے صحیح تعاون کر کے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہو سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں.گورنمنٹ برطانیہ کی طاقت انگریز افسروں کے ذریعہ سے اسقدر نہیں ہے جس قدر کہ خود غرض نفس پرست ہندوستانی افسروں کے ذریعہ سے.اگر ہم کالجوں اور سکولوں کے طلباء کے اندر یہ روح پیدا کر دیں کہ جو ان میں سے ملازمت کو ترجیح دیں وہ اس غرض سے ملازمت کریں کہ اپنی قوم اور اپنے ملک کو فائدہ پہنچائیں گے تو یہ لوگ چند ماہ میں ہی حکومت کو اپنی آزاد رائے اور بے دھڑک مشورہ سے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ہندوستانی نقطہ نگاہ کی طرف مائل ہو.بے شک ایسے لوگوں کی ملازمت خطرہ میں ہوگی مگر جبکہ یہ لوگ ملازم ہی اس خطرہ کو مد نظر رکھ کر ہوئے ہوں گے تو ان کے دل اس بات سے ڈریں گے نہیں.دوسرے کوئی گورنمنٹ ایک وقت میں ہزاروں لاکھوں ملازموں کو اس جُرم میں الگ نہیں کر سکے گی کہ تم کیوں سچائی سے اصل واقعات کو پیش کرتے ہو.اگر پولیس کے محکمہ پر ہی ایسے حب الوطنی سے سرشار لوگ قبضہ کر لیں تو حکومتِ ہند میں بہت کچھ اصلاح ہو سکتی ہے.ایک صیغہ تجارت کا ہو جو مسلمانوں کی تجارتی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کرے.ایک صنعت و حرفت کا، ایک تحفّظ حقوق ملازمت کا ،ایک حفظان صحت کا ،ایک امور خارجیہ کا جو غیر اقوام سے تعلقات کا نگران رہے، ایک عدالت کا جو پنچایت سسٹم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے، ایک احتساب کا جو اس امر کا مطالعہ کرتا رہا کرے کہ مسلمانوں میں اخلاقی و تمدنی خرابیاں تو کوئی پیدا نہیں ہو رہیں.اسی طرح ایک صیغہ بیت المال کا اور ایک محاسبہ کا.اور یہ سب صیغے ایک دوسرے سے آزاد ہوں تا آزاد طور پر ایک دوسرے کے کام کی نگرانی کر سکیں.ان صیغوں کے متعلق ہر بستی اور ہر گاؤں میں ایک انتظامی جال پھیلا ہوا ہو تاکہ صرف سالانہ تقریروں تک یہ کام محدود نہ رہے بلکہ حقیقی کام بھی دکھا سکے.تحقیقاتی کمیٹی کی ضرورت اس انتظام کے ماتحت یہ ضروری ہو گا کہ فورا ً ایک تحقیقاتی کمیٹی بٹھائی جائے جو اس امر پر غور کرے کہ مسلمانوں کو دوسری اقوام کے اثر سے آزاد ہونے کے لئے کون کون سی چیزوں کی ضرورت ہے.مثلاً یہ کہ کون کون سے صیغوں میں مسلمانوں کا حصہ ملازمت اس قدر کم ہے کہ وہ اپنے حقوق کی آزادانہ حفاظت نہیں کر سکتے.یا مثلاً کون کون سے پیشے ایسے ہیں کہ ان میں مسلمانوں کی تعداد
۱۱۲ بہت کم ہے.مثلا ً جیسے انجینئرنگ ہے زنانہ طب ہے.وغیرہ وغیرہ.اسی طرح تجارت اور صنعت و حرفت کے متعلق غور کیا جائے کہ ان کے کون کون سے ضروری شعبے ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں یا ان میں ان کا دخل اس قدر کم ہے کہ وہ آزاد قومی زندگی بسر نہیں کر سکتے.یہ سب کمیٹی غور کے بعد جن جن امور کی طرف فوری توجہ مناسب سمجھے ان کی طرف مختلف ذمہ دار محکموں کو توجہ دلائے جن کا فرض ہو کہ جلد سے جلد ان کمیوں کو پورا کریں.اگر ایسی کمیٹی بنائی گئی اور اس نے محنت سے کام کر کے مختلف شعبہ ہائے عمل میں مسلمانوں کا حصہ معلوم کیا تو مسلمانوں کی آنکھیں کھل جاویں گی کہ بہ حیثیت ایک قوم کے وہ ہرگز آزاد نہیں ہیں بلکہ ان کی ہمسایہ قومیں ان کو تمدنی امور میں اس طرح دبائے ہوئے ہیں کہ یہ ایک دن بھی آزاد زندگی بسر نہیں کر سکتے.مسلم بنک کا سوال تیسرا سوال مسلم بنک کا ہے میں چونکہ سود کے لیئے دینے کو ہر حالت میں ناجائز سمجھتا ہوں.اس مسئلہ پر کچھ لکھنا مفید نہیں سمجھتاہوں اگر بِلا سود کے بنک کی صورت نکل سکے جو میرے نزدیک نکل سکتی ہے تو ہماری جماعت تفصیل معلوم ہونے اور مطمئن ہونے پر ایسے بنک میں شامل ہو سکتی ہے.قيام بیت المال یہ بھی ایک ضروری شے ہے مگر اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ روپیہ نااہل لوگوں کے ہاتھ میں نہ رہے.اس کا باقاعدہ حساب ہوتا رہے اور ایسے لوگوں کے ذریعہ سے حساب چیک کروائے جاویں جو آزاد ہوں.اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس نظام کو رجسٹرڈ کروا لیا جائے تا کہ کارکنوں کو عدالتی کارروائی کا بھی خوف رہے.بیشک جذباتی طور پر یہ امر ناپسندیدہ معلوم ہو لیکن فطرت انسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قسم کی احتیاطوں کی اشدّ ضرورت ہے.اور جب تک یہ احتیاطیں نہ کی جاویں گی اور دیانت کا اعلیٰ نمونہ نہ دکھایا جائے گا کبھی کام میں برکت نہ ہوگی اور لوگوں کی طبائع میں حقیقی جوش نہ پیدا ہو گا.بیت المال کے قیام میں اس امر کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہو گا کہ جن جماعتوں کے قومی بیت المال موجود ہیں ان کے نظام سے نیا نظام ٹکرائے نہیں کیونکہ کوئی قوم اپنے چلتے ہوئے کام کو اس نئے تجربہ کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہو گی اور نہ ہی وہ اپنے مخصوص نظام کو کسی وقت بھی نظام عام کے لئے چھوڑنے پر آمادہ ہوگی.اصلاح رسوم و رفع تنازعات پانچواں امر اصلاح رسوم و بدعات و رفع تنازعات کے متعلق ہے.یہ ایک نہایت ہی نازک سوال ہے اور
۱۱۳ اگر کانفرنس کی دیر پا نظام کی صورت دیکھنا چاہتی ہے تو اسے اس امر میں سوچ سمجھ کر دخل دینا چاہئے.بہت سی رسوم اس قسم کی ہیں کہ ان کو مختلف فرقے اپنے مذہب کا جزو سمجھ رہے ہیں اور ان میں دخل دینا ان کے نزدیک مذہبی دست اندازی ہو گا.میں اس غرض کے حصول کے لئے کوئی عام قاعده بناناشقاق و فساد کی بنیاد رکھنا ہو گا.اگر کانفرنس اپنے کام میں کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اصلاح رسوم کا کام ہر فرقہ کے علماء اور عمائدین کے ہاتھ میں رہنے دے اور اسی وقت اور اسی حد تک دخل دے کہ کسی جماعت کے علماء اور عمائدین اس کے ساتھ متفق ہوں.اس کا ایک آسان طریق میں بتاتا ہوں جو یہ ہے کہ مرکزی نظام کی طرف سے ایک کمیٹی تحقیقاتی بٹھائی جائے جو ہر ضلع میں اپنے ماتحت سب کمیٹیاں مقرر کرے جو اپنے اپنے علاقے کی قابل اصلاح رسوم کی فہرست بنا کر اور ساتھ یہ لکھ کر کہ یہ فلاں فلاں فرقہ یا جماعت میں پائی جاتی ہیں مرکزی کمیٹی کو اطلاع دے.مرکزی جماعت تمام رسوم کی ایک فرقہ دار لسٹ بناوے.یعنی اس طرح کہ فلاں فرقہ اور جماعت میں فلاں فلاں رسم پائی جاتی ہے جس کی اصلاح تمدنی یا اخلاقی لحاظ سے ضروری ہے اور پھر وہ لسٹ ہر فرقہ کے علماء کی کمیٹی کو دے کہ وہ اس پر اپنی رائے لکھیں گے اس لسٹ میں کونسے امور کو وہ مذہبی اعمال سمجھتے ہیں اور ان میں کسی قسم کا دخل دینے کو ناپسند کرتے ہیں اور کونسے أمور کو وہ مضر اور قابل اصلاح رسوم سمجھتے ہیں.جن امور کو وہ رسوم قرار دیں ان کے متعلق ان کی اور عمائدین فرقہ کی مدد سے اصلاح کی کوشش کی جائے.اور جن امور کو مذہب کا حصہ یا ضروری قرار دیں ان کو اس قوم کی اصلاح کے وقتی پروگرام سے نکال دیا جائے.گو مرکزی جماعت کا یہ حق ہوگا کہ وہ تبادلہ خیالات کے ذریعہ سے کسی فرقہ کے علماء کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرے اور ان پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ وہ امور رسوم ہیں، مذہب کا حصہ نہیں ہیں.مگر یہ افہام و تفہیم ایسے رنگ میں ہونی چاہئے کہ بحث اور مباحثے کا رنگ اختیار نہ کرے.ہر فرقہ کے علماء کی کمیٹی اس اصلاحی کام کو کامیاب بنانے کے لئے اور دوسرے نظام کو مکمل کرنے کے لئے یہ ضروری ہو گا کہ ہر فرقہ کےلوگوں سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اپنے علماء کی ایک کمیٹی تجویز کریں جس سے تمام ایسے أمور میں اس فرقہ کے متعلق مرکزی نظام مشورہ لے سکے جن کا اثر مذہب پر پڑتا ہے اور جن کی مددسے وہ اس فرقہ کے نقطۂ خیال کو سمجھنے میں کامیاب ہو سکے.ایسی کمیٹیاں اگر ان سے صحیح طور پر کام لیا جائے نہایت ہی مفید ہوں گی.
۱۱۴ پنچایتوں کا قیام تصفیہ تنازعات اور پنچایتوں کا قیام بھی ایک نہایت ہی نازک سوال ہے.اور اس میں سب سے بڑی شکل اختلاف مابين الجماعات کی ہے.بعض فرقے دوسرے فرقوں کے اسقدر مقہور ہیں کہ ان کو ان سے انصاف کی ہرگز کوئی امید نہیں ہو سکتی جن کی جانیں محفوظ نہ ہوں ان کے مال اور عز تیں کہاں محفوظ ہو سکتی ہیں.پس پنچایتوں کا عام قانون نہیں بنایا جا سکتا.(1) ہر فرقہ کے لوگ آپس کے جھگڑوں کو لازماً آپس میں طے کریں.عدالتوں میں ان کو نہ لے جاویں.سواۓ فوجداری مقدمات کے جن میں سے ایسے مقدمات جن کا عدالتوں میں لے جانا قانونی طور پر ضروری ہے اس قاعدہ سے مستثنٰی سمجھے جاویں.(۲) دو مختلف جماعتوں کے جھگڑے کی صورت میں یہ فیصلہ کیا جاوے کہ جو جماعتیں کہ عام نظام میں شامل ہونا چاہتی ہیں وہ اس میں شامل ہو جاویں.جن کو ابھی اپنی ہمسایہ قوم پر اعتبار نہ ہو ان کو مہلت دی جائے کہ ہم اس نظام کی خوبی کا تجربہ کر لیں.پھر جو جو قوم مطمئن ہوتی جاوے وہ عام نظام پنچایت میں شامل ہوتی جائے.ہاں یہ ضروری ہو گا کہ تجارتی اور صنعتی جھگڑوں کو عام پنچایتوں سے الگ رکھا جائے کیونکہ ان کی باریکیوں کو عام لوگ نہیں سمجھ سکتے.پس عام پنچایتوں کے ساتھ ساتھ ایک تجارتی و صنعتی پنچایتوں کا سلسلہ بھی ہونا چاہئے.تحفظ مساجد و اوقاف مکاتب یہ سوال بھی گو توجہ طلب ہے مگر پیچیدہ ضرور ہے.میرے نزدیک اس سوال کو ان دنوں خواہ مخواہ ایک قومی رنگ دے دیا گیا ہے.میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ مساجد کی حفاظت ہو مگر مساجد کی حفاظت اس طرح نہیں ہو سکتی کہ ہم ان کی چھتوں کا خیال رکھیں اور وہاں لوٹے مہیا کریں بلکہ مساجد کی حفاظت نماز کی طرف توجہ پیدا کرانے سے ہو سکتی ہے.جس مسجد کے نمازی موجود ہیں وہ آباد ہے اور اس کی حفاظت کے لئے کسی بیرونی جدوجہد کی ضرورت نہیں.پس تحفظ مساجد کا اصل حل مسلمانوں میں مذہبی روح کا پیدا کرنا ہے اور بڑوں اور چھوٹوں کو مجبور کرنا ہے کہ وہ نمازوں میں شامل ہوں.بے شک جو مساجد شکستہ ہیں اور جن کا انتظام خراب ہے اُن کا انتظام کرنا چاہئے مگر کثیر التعداد جماعتوں کو ایک منٹ کے لئے بھی قلیل التعداد جماعتوں کی مساجد میں دخل اندازی کا خیال نہیں کرنا چاہئے ورنہ مسجدیں آباد نہ ہوں گی ویران ہوں گی.اسلام کی طاقت بڑھے گی نہیں کمزور
۱۱۵ ہوگی.اوقاف کے متعلق بھی یہی خیال رہنا چاہئے اور یہی قاعدہ ہونا چاہئے کہ جس غرض کے لئے کوئی وقف ہے اور جس قوم کا وقف ہے.اس کا انتظام اسی کے ذریعہ سے نہ کہ دوسری قومیں بِلاوجہ اس میں دخل دینے کی کوشش کریں.قیامِ مکاتب نہایت ضروری ہے.بغیر تعلیم کے نظام قائم نہیں رہ سکتا.اور میرے نزدیک تو اگر روپیہ مہیا ہو سکے تو ابتدائی تعلیم ہر مسلمان کے لئے ممکن الحصول بنادینی چاہئے بلکہ ہر مسلمان کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں تعلیم دلوائے.ہندو مسلم مناقشات و تعلقات ساتواں امر ایجنڈے میں ہندو مسلم مناقشات و تعلقات کا ہے.اور در حقیقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کانفرنس کی ضرورت ہی اس سوال کے سبب سے پیدا ہوئی ہے.اگر ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات درست ہوتے تو اس رنگ میں تنظیم اور سنگھٹن کا خیال بھی شاید پیدا نہ ہوتا.میری رائے میں ملک کی سخت بد قسمتی ہوگی اگر ہم اس سوال کو حل نہ کر سکیں اگر مسلمان اور ہندو آپس میں محبت سے نہیں رہ سکتے تو وہ ہرگز سیلف گورنمنٹ کے مستحق نہیں.اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کا یہ خیال ہے کہ ہندوستان آج بھی پوری طرح سیلف گورنمنٹ کے حصول کے قابل ہے بشرطیکہ قومی مناقشات دور ہو جائیں.اور سَو سال تک بھی سیلف گورنمنٹ کے قابل نہ ہو گا اگر قومی مناقشات دور نہ ہوں خواہ انفرادی طور پر ہندوستان کے باشندے یورپ کے لوگوں سے کتنے ہی زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذّب کیوں نہ ہو جائیں.میرے نزدیک ہمیں اپنی قومی زندگی کے تحفظ کے مسلمان کرنے کے لئے ہر طرح ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور ایثار اور قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہے بشرطیکہ وہ قربانی ہماری قومی زندگی کو کمزور کرنے والی نہ ہو.ہندو مسلم مناقشات کی وجہ جہاں تک میں سمجھتاہوں تمام اختلاف کی بنیاد دو امر ہیں.(1) اختلاف کے باوجود اتحاد کرنے کی حقیقت نہ سمجھنا اور جو طبعی اختلافات ہیں ان کو بالجبر مٹانے کی کوشش کرنا (۲) اس امر سے آنکھیں بند رکھنا کہ ہندو مسلمانوں میں حقیقتاً سیاسی اختلاف بھی موجود ہے اور اس اختلاف کی موجودگی میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ایسے قواعد بن جاویں جن پر چل کر ہر اک قوم دوسرے کے حملہ
۱۱۶ سے محفوظ ہو جائے کیونکہ جب تک اطمینان نہ ہو جائے اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا.پہلے امرکی حقیقت کو نہ سمجھنے کے سبب سے گائے کی قربانی مساجد اور منادر کے احترام کا سوال پیدا ہوتا رہتا ہے.ہندو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کے عقائد کے مطابق عمل کریں اور مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ہندو ان کے معتقدات کا لحاظ رکھیں.حالانکہ اگر دونوں فریق ایک دوسرے کے معتقدات سے متفق ہوتے تو یہ اختلاف ہو تاہی کیوں.ایک ہندو گائے کا جس قدر بھی ادب کرے اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ ایک مسلمان سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ گائے کو ذبح نہ کرے.جس طرح ایک مسلمان کا یہ حق نہیں کہ وہ ایک ہندو کو سود لینے سے باز رکھنے کی کو شش کرے.اسی طرح ایک مسلمان کا کوئی حق نہیں کہ وہ ایک ہندو سے یہ درخواست کرے کہ وہ مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے باجہ نہ بجائے.نہ ایک ہندو کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کی کمی نہیں رسم کو مندر کے قرب میں بجالانے میں روک ڈالے.اختلاف وسعت حوصلہ سے مٹتا ہے اور وسعت حوصلہ اس کا نام ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے مخالف عقیدہ رکھتا ہے تو ہم اس کو اس کے عقیدہ کے مطابق کام کرنے دیں.خود اپنے عقیدہ کے مطابق کریں.ل يقوم اعملوا على مكانتكم انى عامل اور لکم دينكم ولي دین ۳؎ کے ہم سمجھانے کا حق رکھتے ہیں لیکن لڑنے جھگڑنے کا نہیں.مذہبی عقائد میں دخل نہ دیا جائے پس چاہئے کہ ہندو مسلمان اس امر کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایک دوسرے کے عقیدے میں اور مذہبی امور میں دخل نہ دیں.ہندؤ گائے کے مسئلہ میں مسلمانوں کو آزاد چھوڑ دیں.مسلمان ہندوں کو شرک کے مسئلہ میں اور سکھوں کو جھٹکہ اور مسیحیوں کو سؤر کے مسئلہ میں کچھ نہ کہیں.مسلمان مساجد میں نماز پڑھیں اور اس کے باہر جو کچھ چاہے کوئی کرے اس میں دخل نہ دیں اور ہندو مندر میں جو چاہے کریں مگر گلیوں میں مسلمانوں سے نہ اُلجھیں - پبلک سڑکوں اور پبلک جگہوں کو خواہ مخواہ کی مذہبی نمائشوں سے بچایا جائے.ہندو مسلم تعلقات اس سوال کا دوسرا حصہ ہندو مسلم تعلقات کے متعلق ہے.اور یہ تعلقات اس دوسرے نقص کے سبب سے جسے میں اوپر بیان کر آیا ہوں خراب ہو رہے ہیں.یعنی یہ کہ اس امر کو محسوس نہیں کیا جاتا کہ ایک لمبے عرصہ کے بغض و عناد کے سبب سے ہندو مسلم تعلقات خراب ہو رہے ہیں اور یہ کہ تعلقات کی خرابی کا باعث وہ
**********|| ۱۱۷ کروڑوں ہندو اور مسلمان ہیں جو روزانہ آپس میں مل رہے ہیں نہ کہ بعض لیڈر.لیڈر بعض دفعہ اشتعال کا موجب ہو جاتے ہیں مگر آتشی مادہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے قلوب میں موجود ہے.پس لیڈروں کی صلح سے ہرگز امن قائم نہیں ہو سکتا.ہندوستان نہ گاندھیوں، دیش بند ھوؤں، نہروؤں اور نہ برجیوں سے آباد ہے نہ علی برادر ز اور ابو الکلاموں سے.پس نہ ان لوگوں کے سمجھوتے کا اثر عوام پر پڑ سکتا ہے نہ ان کے قلوب کا انعکاس لوگوں کے قلوب پر اور اگر ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں لاکھوں کروڑوں ہندو مسلمانوں کے حقوق تلف کرتے ہوئے اور مسلمان ہندوؤں کے حقوق تلف کرتے ہوئے نظر آئیں گے تو امن کو کون قائم رکھ سکے گا.پس امن تب ہو سکتا ہے جبکہ اس حالتِ نفاق کو تسلیم کرایا جائے اور بجائے آنکھیں بند کر کے صلح کا اعلان کرنے کے جو چند ماہ سے زیادہ نہ ٹھہرے گا اور وہ بھی ظاہر میں کیونکہ عملا ًایک دوسرے کی گردن برابر کاٹی جاتی رہے گی.چا ہئے کہ عارضی طور پر ایسے قوانین بنائے جاویں جن سے قلیل التعداد جماعتوں کے حقوق محفوظ ہو جاویں.اور ہندو صاحبان اس امر کو تسلیم کر لیں کہ مسلمانوں اور دیگر قلیل التعداد جماعتوں کو ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق نیابتی حقوق بھی ملیں اور سرکاری خدمات کا حصہ بھی.اور نہ صرف اس معاہدہ پر عمل ہو بلکہ اس کو کانسٹی ٹیوشن میں داخل کیا جائے تا کثیر التعد اد جماعت اپنی کثرت رائے سے اس کو کسی وقت بھی قلیل التعداد جماعتوں کی مرضی کے خلاف بدل نہ سکے.ہندوؤں کی چُھوت چھات اسی طرح چونکہ ہندو لوگ مسلمانوں سے خورد و نوش کے مسلمان نہیں خریدتے اور ہر سال کم سے کم بیس کروڑ روپیہ ہندوؤں کی جیبوں میں مسلمانوں کی طرف سے ایسا جاتا ہے جس کا واپس آنا ناممکن ہوتا ہے.مسلمانوں کو اپنی تمدنی ضروریات کے لئے اور اپنی قومی زندگی کی حفاظت سے اس وقت تک کہ ہندو مسلمانوں کا یہ مقاطعہ چھوڑ دیں ہندووں سے خوردو نوش کی چیزیں ہرگز نہیں خریدنی چاہئیں اور چُھوت کے اس پہلو کو نہایت مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے اور ہندوؤں کو ان سے ناراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس طریق کے بغیر مسلمانوں کی مالی حالت بھی درست نہیں ہو سکتی اور وہ کبھی تمدنی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتے.سیاستِ ہند کے متعلق مسلمانوں کارویہ آٹھواں سوال سیاست ہند کے متعلق مسلمانوں کا رویہ ہے.اس کے متعلق مجھے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ کوئی عقلمند ایک منٹ کے لئے بھی خیال کرے گا
۱۱۸ کہ مسلمانوں کو سیلف گورنمنٹ کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہے یا نہیں.آزادی ہر انسان کا حق ہے اور مسلمان اس حت کو نظرانداز نہیں کر سکتے مگر سوال صرف طريق عمل کا ہے.میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تعاون زیادہ کار آمد حربہ ہے اور میں ان لوگوں سے جو اس حربہ کو استعمال کئے بغیر عدم تعاون پر عامل ہو گئے ہیں درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایک دفعہ تعاون کا حربہ بھی چلا کر دیکھیں.بے شک اس حربہ کا چلانا بہت بڑی جرأت اور رات دن کی محنت چاہتا ہے مگر ملک کی بہتری ایسا کام نہیں جس کے لئے ذاتی آرام کی قربانی نہ کی جا سکے.میں ہرگز تسلیم نہیں کر سکتا کہ تعاون کا تجربہ کر لیا گیا ہے.تعاون کا نہیں، خوشامد کا، لالچ کا ، حرص کا، طمع کا بلکہ جھوٹ اور فریب کا تجربہ اس وقت تک کیا گیا ہے.ملک کے فوائد کو مدنظر رکھ کر تعاون کا تجربہ بحیثیت قوم اب تک کل ہندوستان نے تو الگ رہا کسی ایک قوم نے بھی نہیں کیا.پس اس امر کو بِلا تجربہ کے چھوڑ دینا اور ملک کو فتنہ و فساد کی ندی میں دھکیل دینا کہ حوادث زمانہ کی تھپڑیں کھاتا پھرے کسی طرح درست نہیں ہو سکتا.اور کم سے کم میں یہ کہوں گا کہ اگر ایک فریق عدم تعاون کا قائل ہو تو اسے نہیں چاہئے کہ تعاون کے خیال والوں کی ذاتی مخالفت کرے یا ان کی نیت پر الزام لگائے.مسلمانوں کا سلوک اپنے لیڈروں سے افسوس! مسلمانوں نے اپنے پچھلے غلط رویہ سے کتنا نقصان اٹھایا ہے جبکہ ہندوؤں کے تعاونی لیڈر پنڈت مالویہ صاحب پبلک اور کانگریس میں ویسے ہی معزز رہے جیسا کہ وہ پہلے تھے سر سپرو اور شاستری اسی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے جس سے پہلے دیکھے جاتے تھے.مسلمانوں کے لیڈر مسٹر جناح اور فضل الحق، سرشفیع اور اس قسم کے دوسرے لوگ جو یا عدم تعاون کے قائل نہ تھے یا اس کے اندھادھند مقلّدوں میں سے نہ تھے ان کی آواز اس طرح دبادی گئی کہ گویا انہوں نے ملک کی کوئی خدمت کی ہی نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو تعاون اور عدم تعاون دونوں کے فوائد سے مالامال ہو گئے اور مسلمانوں دونوں طرف سے گھاٹے میں رہے.پچھلے سال کے سفر یورپ میں جن یورپین اہل الرائے سے ملا ہوں میں نے دیکھا ہے سوائے ایک دو کے سب کے سب باوجود اختلاف کے ہندو لیڈروں کے مداح تھے اور سوائے ایک دو کے سب کے سب مسلمان لیڈروں کو حقیر اور بیوقوف سمجھتے تھے.اس کا باعث یہی ہے کہ مسلمان ایک وقت میں اپنے لیڈروں کو سر پر چڑھاتے ہیں دوسرے وقت میں ان کو اختلاف پر قعرِ مذلّت
۱۱۹ میں گرا دیتے ہیں.حالانکہ اعزاز اور اکرام اور شے ہے اتباع اور.وہ ان کی اتباع نہ کریں مگر اختلاف رائے سے جو دیانتداری پر مبنی ہو ان کی پچھلی خدمات پر پانی کیونکر پھر جاتا ہے.سیاست سوداہے دوسرا نقص یہ ہے کہ ہم لوگ اس امر کو نہیں جانتے کہ سودا کیاشَے نے تمام سات سودے پر چل رہی ہے اور جب تک یہ سودا ہم نہ سیکھیں گے اس وقت تک نہ گورنمنٹ کے ساتھ معاملہ میں کامیاب ہوں گے نہ دوسری اقوام ہے.ہمیں کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ کہتے ہیں بس اس سے ایک قدم نہیں ہٹیں گئے.بے شک ہم حسن ِتدبیر سے یہ کوشش کریں کہ دلیل سے، حکمت سے دوسرے کو اپنے مطلب کی طرف کھینچ لاویں بلکہ اپنے مطالبہ سے بھی زیاده حق لے لیں لیکن عدم تسامح کی کارروائی پر ہمیں کبھی عمل نہیں کرنا چاہئے.ہمیں دنیا کے سامنے بھی اپنے مطالبات اس صورت میں نہیں رکھنے چاہئیں کہ ان کو مانتے ہو تو مانو ورنہ لو ہم جاتے ہیں بلکہ ہمیشہ اس پر آمادہ رہنا چاہئے اور اس آمادگی کو ظاہر کرنا چاہئے کہ دوسرے کی مشکلات اور اس کے راستہ کی روکوں کو بھی ہم غور سے سنیں گے اور ان کا لحاظ کریں گے.علیحدہ حقِ نیابت میرے نزدیک مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے مضبوط کرنے اور گورنمنٹ میں ان کی آواز کو وزن دار بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کے مطالبات کو اس طرح پیش کیا جایا کرے کہ وہ صرف معقول ہی نہ ہو بلکہ دوسروں کو بھی معقول نظر آویں.میں مثال کے طور پر ایک امرکو لیتا ہوں اور یہ علیجده حق ِ نیابت ہے.یورپ کے لوگ علیحده حق نیابت کو ملک کے حق میں سخت مضر خیال کرتے ہیں اور یہ بات بھی درست ہے.مگر مسلمانوں کی کمزوری ہندوؤں کا کل شعبوں پر قبضہ اور مسلمانوں کی ترقی کے راستے بند کردینا یہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ جب تک اس حالت کی اصلاح نہ ہو جائے جُداگانہ حق نیابت کا مطالبہ کریں بلکہ ملازمتوں میں بھی اپنا نسبتی حق مانگیں.اب یورپ کے نزدیک جُداگانہ حق نیابتی گو خودکشی ہے لیکن ملازمتوں میں حقِ نسبتی کا مطالبہ پورا اور کھلا ہوا جنون ہے.اتفاق ایسا ہے کہ ہندوؤں کا بوجہ کثیر التعداد ہونے کے اس اصل کے رائج کرنے میں فائدہ ہے.پس وہ اپنے فائدہ کی غرض سے اس کی تائید کرتے ہیں اور اہل یورپ سمجھتے ہیں کہ وہ دانا ہیں اور مسلمان پاگل اور ملک کے دشمن.مجھ سے لندن کے سب سے بڑے روزانہ اخباروں کے ایڈیٹروں میں سے ایک نے جو مسلمانوں کی تائید میں تھا حیرت سے ذکر کیا کہ یہ پاگلانہ مطالبہ مسلمان کس طرح کرتے ہیں.لارڈ منٹو کے
۱۲۰ وعدے کی وجہ سے وہ جداگانہ حقِ نیابتی کو اُڑا نہیں سکتے مگردل میں سب سمجھتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے اور اب جو ملازمتوں کا سوال اٹھا ہے اس کے بارہ میں تو وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا ظلم اور دیوانگی ہے.پس ضروری ہے کہ مسلمانوں کے مطالبات کو ایسی زبان میں اور واقعات کی روشنی میں گورنمنٹ اور اہل انگلستان کے سامنے رکھا جائے کہ وہ سمجھ سکیں کہ ہمارے مطالبات گو اصولاً درست نہ ہوں مگروقتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اشد ضروری ہیں اور ان کو اس وقت تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ حالات تبدیل نہ ہو جائیں.غرض چو نکہ انڈین گورنمنٹ ہمارے سامنے جوابدہ نہیں مگر انگلستان میں جو ابدہ ہے اس لئے گورنمنٹ کے سامنے اپنی ضروریات کو مدلل پیش کرنے کے علاوہ ہمارا فرض ہے کہ ہم انگلستان کی عام رائے میں بھی تبدیلی پیدا کریں.غیر تو غیر میں نے دیکھا ہے انگلستان میں جو مسلمان طلباء پڑھتے ہیں وہ بھی اپنے ملک سے دور ہونے کے سبب سے اور ہندوستان کے واقعات سے ناواقفیت کے سبب سے جداگانہ نیابت اور حقوق ملازمت کے مطالبات کو لغو اور ملک کے حق میں مضر خیال کرتے ہیں.جب ہمارے اپنے بچوں کا یہ حال ہے تو ہم دوسروں سے کیا امید رکھ سکتے ہیں.مسئلہ تعلیم و تجارت آخری مسلہ تعلیم و تجارت و صنعت و حرفت کی ترقی کا مسئلہ ہے تعلیم کے متعلق تومیں صرف اسقدر کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں تعلیم میں اس امر کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ بچوں میں قومی روح پھونکی جائے.موجو دہ حالت یہ ہے کہ مسلمان نوجوانوں کے سامنے کوئی خوش کن ماضی نہیں ہے.جس کی وجہ سے شاندار مستقبل کی امید ان کے دلوں میں پیدا ہو سکے ہمارے سب بادشاہوں، سب بزرگوں کی ایسی بھیانک شکل ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے کہ تعصباً اگر ہم ان کو اچھا کہیں تو اور بات ہے ورنہ دل ان کے اندر کوئی خوبی نہیں دیکھتے.مجھے تعجب آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ادبی رسالوں میں خود مسلمان مصنف مسلمان بادشاہوں کی نیتوں پر حملہ کرتے ہیں.حالانکہ نیت سے کون واقف ہو سکتا ہے نیت پر حملہ ہمیشہ دشمن کرتا ہے.کیونکہ وہ ایک ظاہری جائز بات کو بری کر کے دکھا نہیں سکتا جب تک نیت پر حملہ نہ کرے اور جب ایک تعلیم یافتہ مسلمان یہی فعل کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی قومی حس مر گئی ہے اور وہ اچھے اور برے اخلاق میں تمیز نہیں کر سکتا اور یہ نتیجہ اس غلط تعلیم کا ہے جو اس کو دی گئی ہے.پس تعلیم کا یہ پہلو خاص توجہ کا مستحق ہے.
۱۲۱ مسلمان بادشاہوں کی خوبیاں ہمیں مسلمان بادشاہوں کی وہ خوبیاں جو چھپائی جاتی ہیں ظاہر کرنی چاہئیں.اور ان کی وہ غلطیاں جو ان کے زمانہ کے تمدن کا نتیجہ تھیں ان کے متعلق ثابت کرنا چاہئے کہ وہ طبعی غلطیاں تھیں اخلاقی نہ تھیں.ہاں جو فی الواقع برے آدمی ہوں ان کی برائی کا بھی اقرار کیا جائے.اور کونسی قوم ہے جس میں اچھے اور برے لوگ نہ پائے جاتے ہوں.اسلام کے دشمنوں نے باقاعد ہ اشاعت کا کام اسلامی بادشاہوں کے خلاف شروع کیا ہوا ہے اور اس کا ازالہ ضروری ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر یہ واقعہ نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ جس قدر مسلمانوں کو دیندار کیا جاتا ہے ان کو ظالم بتایا جاتا ہے.اور جس قدر بادشاہوں یا دوسرے بڑے لوگوں کو عادل یا عاقل ثابت کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کی اسلام سے بیزاری بھی ثابت کی جاتی ہے.کیا اس امر کو دیکھتے ہوئے بھی کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ واقعات سے بحث کیا جاتی ہے نئے خیالات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی.دینی تعلیم کی ضرورت اسی طرح یہ ضروری ہے کہ دینی تعلیم کی طرف خاص طور پر توجہ کی جائے بغیر دینی تعلیم کے مسلمان مسلمان نہیں بن سکتے.اور جس کو اسلام سے محبت ہے وہ اس اعلیٰ سے اعلیٰ دنیوی تعلیم کو دیکھ کر بھی خوش نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے ساتھ دینی تعلیم نہیں.اسلامی تمدن پر تاریخی کتب تعلیمی پہلو کو مکمل کرنے کے لئے اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ایسی تاریخی کتب لکھی جاویں اور طالب علموں کو پڑھائی جاویں جو ابلای تمدن پر روشنی ڈالتی ہوں.اس وقت تک جو کتب لکھی جاتی ہیں وہ علاوہ ناقص ہونے کے چند آدمیوں کے حالات پر مشتمل ہوتی ہیں ان سے مسلمانوں کے تمدن کا بہ حیثیت قوم کچھ پتہ نہیں لگتا اور کسی ایک یا چند آدمیوں کے اچھے یا برے یا عالم یا جاہل ہونے سے اس قوم کی حالت کا صحیح اندازه کامل تو الگ رہا نا قص طور پر بھی نہیں کیا جاسکتا.تعلیم نسواں تعلیم کی تکمیل کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی طرف خاص طور پر زور دیا جائے عورتوں کی اعلی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی مگر چونکہ عورتوں کے بیشتر حصہ نے ملازمتیں نہیں گئی ان کی تعلیم میں زیادہ زور دینی تعلیم پر ہونا چاہئے اور اپنے بچوں کو پکے مسلمان بنا کر اپنی قوم کے سامنے پیش کریں.اور امور خانہ داری کی تعلیم ہونی چاہئے اور اچھی ساتھی بن سکیں اور صنعت و حرفت کی تعلیم ہونی چاہے تا وہ
۱۲۲ عند الضرورت اپنے گھروں میں بیٹھ کر بھی اپنی معیشت کا سامان پیدا کر سکیں اور عند الفراغت غرباء کی مدد کر سکیں.اور نرسنگ کی تعلیم ہونی چاہئے تاکہ وہ وقت ضرورت اپنے ملک اور اپنے خاندان کی خدمت کر سکیں.ہاں ان کے ساتھ زبانوں اور حساب وغیرہ کی بھی تعلیم ہو.کیونکہ یہ علوم تمدن کے قیام اور عقل کی تیزی کے لئے ضروری ہیں.مسلمان بچے اور تمدن یورپ : مگر میرے نزدیک سب سے ضروری چیز اس وقت ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یورپ کے تمدن سے آزاد کرائیں.تمدنی غلامی سیاسی غلامی سے بہت بڑھ کر ہے.سیاسی غلامی میں انسان کا دل آزاد ہوتا ہے لین تمدنی غلامی میں ان کا دل بھی غلام ہو جاتا ہے جو بہت زیادہ خطرناک بات ہے.میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان اپنے ظاہر اور اپنے باطن میں مغربی تمدن کے دلدادہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں جن کا خیال رکھنے میں کوئی بھی قربانی نہیں کرنی پڑتی اسلامی شعار اور آبائی تمدن چھوڑ کر مغربی تمدن اور مغربی عادات اختیار کرتے جارہے ہیں اور جو قوم ارتقاء کے طور پر نہیں بلکہ نقل کے طور پر دوسری قوم کی عادات کو اختیار کرتی ہے وہ خواہ سیاستاً آزاد بھی ہو جائے حقیقی غلامی سے بھی آزاد نہیں ہوتی اور اعلیٰ مدارج ترقی پر کبھی بھی نہیں پہنچتی.تجارت کے متعلق مشوره: تجارت کے متعلق میں یہ مشورہ دینا چاہتاہوں کہ اس امر سے مسلمانوں نے سب دوسرے امور کی نسبت زیادہ تغافل برتا ہے.تجارت بالکل مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں ہے اس کا ہر ایک شعبہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان اقتصادی طور پر ہندووں کے غلام ہیں.اور ان کی گردنیں ایسی بری طرح ان کی پھندے میں ہیں کہ وہ بغیر ایک جان توڑ جدوجہد کے اس سے آزاد نہیں ہو سکتے.آڑھت، صرافی، تجارت در آمدو برآمد، ایجنسی، انشورنس، بنکنگ، ہرایک شعبہ جو تجارت کے علم سے تعلق رکھتا ہے اس میں وہ نہ صرف پیچھے ہیں بلکہ اس کے مبادی سے بھی واقف نہیں اور اس کے دروازے تک بھی نہیں پہنچے.صرف چند چیزیں خرید کر دکان میں بیٹھ جانے کا نام وہ تجارت سمجھتے ہیں اور ان چیزوں کےبیچنے اور خریدنے کا بھی ڈھنگ ان کو نہیں آتا.وہ اس کو چہسے نابلد ہونے کے سبب اس دیانت تجارت اور خلق تاجرانہ سے جس کے بغیر تجارت باوجود علم کے بھی نہیں چل سکتی ناواقف ہیں.پس ضروری ہے کہ ایک کمیشن کے ذریہ تجارت کی تمام اقسام کی ایک لسٹ بنائی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کس قسم کی تجارت میں مسلمان کمزور
۱۲۳ ہیں.اور کس کس قسم کی تجارت سے مسلمان بالکل غافل ہیں اور پھر ان نقائص کا ازالہ شریعت کے احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے.مسلم چیمبر آف کامرس: یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مسلم چیمبر آف کامرس بنائی جائے تاکہ مسلمان تاجروں میں اپنی قوی کمزوری کا إحساس ہو.اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کا معاملہ کرنے کے عادی ہوں.اسی چیمبر سے نظام مرکزی بھی نہایت قیمتی مدد اپنے اغراض کے پورا کرنے میں لے سکتا ہے.صنعت و حرفت: صنعت و حرفت کا میدان میرے نزدیک تجارت سے بھی اہم ہے کیونکہ (1) اس میں نفع کا زیادہ موقع ہے.اور (۲) اس میں دوسرے ملکوں کی دولت کھینچی جاسکتی ہے.اور (۳) ملک کے لاکھوں آدمیوں کے گزارہ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.(۴) تجارت کا دارومدار اس پر ہے.جو قوم اس پر اچھی طرح قابو پالے وہ تجارت کو اپنے ہاتھ میں آسانی سے لے سکتی ہے.اس کے ذریعہ سے ملک اقتصادی اور سیاسی غلامی سے محفوظ ہو جاتا ہے.مسلمانوں کے لئے اس میدان میں بہت موقع ہے.اول تو اس وجہ سے کہ جو ملکی قدیم صنعت و حرفت ہے اس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے.گو وہ آج کل مردہ ہے لیکن اگر اس کو ابھارا جائے تو مسلمانوں کے پاس ایک بیج موجود ہے.دوسرے اس وجہ سے وسیع پیمانے پر صنعت و حرفت کا تجربہ ابھی ہمارے ملک میں شروع نہیں ہوا.یہ صیغہ ابھی ابتدائی تجارت کی حالت میں ہے اور بہت ہی قریب زمانہ سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں.پس مسلمانوں کے لئے اس میدان کا دروازہ بند نہیں اور وہ آسانی سے اپنا حصہ بلکہ اپنے حصے سے بڑھ کر اس شعبہ عمل میں حاصل کر سکتے ہیں.پس میرے نزدیک اس امر کی طرف فوری توجہ ہونی چاہئے.اور اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ (1) ایک بورڈ آف انڈسٹریزمقرر کیا جائے جس کا کام یہ ہو کہ وہ ان صنعتوں کی ایک فہرست بنائے جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہو رہی ہیں اور ان کی جو آسانی سے رائج ہو سکتی ہیں اور انکی جن کی ملک کی اقتصادی آزادی کے لئے ضرورت ہے.جو رائج ہیں ان کو تو ایک نظام میں لا کر ترقی دینے کی کوشش کی جائے.اور جو ملک میں رائے ہیں مگر مسلمان ان سے غافل ہیں ان کی طرف مسلمان سرمایہ داروں کو توجہ دلا کر ان کو جاری کروایا جائے.اور جو ملک میں رائج ہی نہیں مگر ان کی ضرورت ہے ان کے لئے تجربہ کار آدمیوں کا ایک وفد بیرونی ممالک میں بھیجا جائے جو ان کے متعلق تمام ضروری معلومات بہم پہنچائے.اور جن جن صنعتوں کا اجراء وہ ممکن
قرار دے ان کے لئے ہوشیار طالب علموں کو وظیفہ دے کر بیرونی ممالک میں تعلیم دلوائی جائے اور ان کی واپسی پر مسلم سرمایہ داران کے ذریعہ سے ان صنعتوں کے کارخانے جاری کئے جاویں.سیاسی اتحاد کے بغیر کامیابی محال ہے : میں جس قدر کہ ایک مختصرپمفلٹ میں لکھا جاسکا ہے لکھ چکا ہوں.تفاصیل پر بحث اس وقت کر سکتا ہوں جبکہ ان کی ضرورت محسوس ہو.اور اس لئے پھر ایک دفعہ اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ سب محنت رائیگاں اور سب تدابیر عبث جائیں گی اگر اس امر کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا گیا کہ ہم باوجود ایک دوسرے کو کافر کہنے کے اغیار کی نظروں میں مسلمان ہیں اور ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان ہے.پس سیاسی میدان میں ہمیں مذہبی فتوؤں کو نظرانداز کر دینا چاہئے کیونکہ وہ ان کے دائرہ عمل سے خارج ہیں.اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی سیاسی ضروریات کے لئے ان لوگوں سے مل کر کام نہیں کر سکتے جن کو تم مسلمان نہیں سمجھتے.اگر رسول کریم ﷺ مشرکوں کے مقابلہ میں یہود سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان کہلانے والے فرقے اسلام کی سیاسی برتری بلکہ یہ کہو کہ سیاسی حفاظت کے لئے اس میں مل کر کام نہ کر سکیں.اگر ہم ایسے موقع پر اتحاد نہ کر سکیں گے تو یقینا اس سے یہ ثابت ہو گا کہ ہمارا اختلاف اسلام کے لئے نہیں بلکہ اپنی ذات کے لئے ہے اپنے نفسوں کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس بدبختی سے محفوظ رکھے.آمین خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان.ضلع گورداسپور ۱: ال عمران :۱۰۵ ۲: الانعام :۱۳۶ ۳: الكفرون :۷
۱۲۵ جماعت احمدیہ کا جدید نظام عمل از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۱۲۷ بسم الله الرحمن الرحيم نححمد ہ ونصلی على رسوله الكريم جماعت احمدیہ کا جدید نظام عمل (فرموده مورخہ 19.اکتوبر۱۹۲۵ء) آج آپ لوگوں کو کسی عام جلسہ یا کسی مذہبی مسئلہ کے متعلق کوئی بات سنانے کے لئے جمع نہیں کیا گیا بلکہ ایک ایسی ذمہ داری کی طرف توجہ دلانے کے لئے جمع کیا گیا ہے جس کو اٹھانے اور پورا کرنے میں آپ سب لوگ شریک ہیں.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس وقت اللہ کے کام دو طریق پر چل رہے ہیں.کچھ حصہ کاموں کا مجلس معتمدین کے ذریعہ جو صدر انجمن احمد یہ کہلاتی ہے انجام پاتا ہے اور کچھ نظارت کے ذریعہ ہوتا ہے.۱۹۲۴ ء میں جو مجلس شوریٰ ہوئی اس میں بڑی بحث و مباحثے اور تبادلہ خیالات کے بعد یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ان دونوں صیغوں کو ملا دیا جائے اور مجلس معتمدین کے کام کو بھی نظارت کے سپرد کر دیا جائے.میں نے اس فیصلہ کے بعد غور کر کے اس میں کسی قدر تبدیلی کر دی ہے.اور وہ یہ کہ گو جیسا کہ میں نے بارہا سنایا ہے.صدر انجمن کا نام اور اس کے کام کا طریق اوروں کا تجویز کردہ تھانہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی اس کے متعلق منظوری ہو چکی تھی.اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام نام جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں قرار پا چکے تھے ، ان کو قائم رکھا جائے.جیسا کہ میں نے ریویو اور تشحیذ الاذہان ملاتے وقت اس نام کو عظمت دی تھی جو حضرت مسیح موعود نے تجویز کیا تھا.اور اب رسالہ پر موٹاریویو آف ریلیجنز لکھا جاتا ہے.اور باریک تشحيذ الاذہان پس جب کام ایک ہی رنگ میں ہو تا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس نام کو چھوڑ دیا جائے جو کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے تجویز نہ کیا ہو مگر آپ نے منظور کیا ہو.پس بجائے
۱۲۸ اس کے کہ نظارت کے قواعد میں تبدیلی کر کے مجلس معتمدین کو اس میں شامل کر دیا جاتا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ مجلس معتمدین کے قواعد میں تبدیلی کر کے نظارت کو اس میں شامل کر دیا جائے.اس وجہ نے مجلس معتمدین میں ایسی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں کہ مل کر کام ہو سکے.گو ممکن ہے اس الحاق کی وجہ سے عملاً کوئی فرق نہ پڑے.لیکن موجودہ صورت میں یہ کیا گیا ہے کہ نظارتوں کو مجلس معتمدین میں بدل دیا گیا ہے.آئنده نظارت مجلس معتمدین کہلاۓ گی.اس طرح حضرت مسیح موعود کا منظور کردہ نام قائم رہے گا اور صدر انجمن جو پہلے ایک خیالی وجود تھا بلکہ سلسلہ کے عقائد پر سخت حملہ تھا صحیح معنوں میں صدر ہوگی کیونکہ پہلے اس کی تعریف یہ تھی کہ ہر سلسلہ کے آدمی سے مل کر صدر انجمن بنتی تھی.جس کے معنے یہ تھے جماعت احمدیہ ایک انجمن ہے نہ کہ سلسلہ.بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے لیکن کفرو اسلام، نبوت، مجددیت کے سارے مسائل اس میں آجاتے ہیں اگر سلسلہ مسمّٰی انجمن ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کسی سلسلہ کے بانی نہیں.اور یقیناً آپ کی نبوت کے متعلق جو عقیدہ ہے وہ بھی غلط ہوگیا.کہ اسی طرح آپ کے انکار و عدم انکار سے جو مسائل متفرّع ہوتے ہیں وہ بھی غلط ہو جائیں گے حالانکہ سلسلہ احمدیہ حقیقی سلسلہ ہے.اور ایسا ہی سلسلہ ہے جیسے سلسلے گذشتہ انبیاء کے وقت قائم ہوتے رہے ہیں.ایسی حالت میں تمام جماعت احمدیہ صدر انجمن نہیں کہلاسکتی.پھر صدر تو وہ ہوتی ہے جس کی آگئے شاخیں ہوں.مگر اس تعریف کے ماتحت جب ساری جماعت صدر ہوئی تو پھر شاخیں کون سی ہوں گی.کیا غیراحمدی ہندو اور عیسائی شا خیں کہلائیں گی.آئنده مجلس شوری ٰکا نام صدر انجمن احمدیہ قرار پایا ہے اور جیسا کہ جماعت کا ہونا چاہئے کہ جماعت چند معتمدین سے زیادہ بااختیار ہو.اور مجلس معتمدین کے لئے جماعت کا فیصلہ یا وہ فیصلہ جو خلیفہ نے کیا ہو منظور کرنا ضروری ہو اس لئے آئندہ کے لئے ایسی تبدیلی کر دی گئی ہے کہ وہ اہم امور جو ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف انتظامی معاملات سے تعلق نہیں رکھتے، ان میں مجلس معتمدین کوئی کاروائی نہ کرے گی جب تک انہیں صدر انجمن یعنی مجلس شوریٰ منظور نہ کرے.مثلاً بجٹ کی کارروائی ہے.بجٹ پہلے صدر انجمن میں پیش ہو گا اور پھر مجلس معتمدین میں جائے گا.پس آئندہ کے لئے یہ کیا گیا ہے کہ نظارت کے کام مجلس معتمدین کے قواعد میں تبدیلی کر کے اس میں شامل کردیئے گئے ہیں اور صدر انجمن اس جماعت کا نام رکھا گیا ہے جس میں تمام جماعت کے نمائندے شامل ہوں گے.پہلے صدر انجمن ایک ذہنی وجود تھا.مگر آئندہ اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امور جو ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں گے اور جن کی ذمہ داری ساری جماعت پر عائد ہو گی وہ اس کے مشورہ کے بغیر نہ ہوں
۱۲۹ گے.کیونکہ یہ ضروری ہے کہ جنہوں نے کوئی کام کرنا ہو ان سے بذریعہ ان کے قائم مقاموں کے مشورو لے لیا جائے.اس وقت تک دونوں طریقوں کے علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے بعض نقصانات ہو رہے تھے جن کے دور کرنے کے لئے ضروری سمجھا گیا کہ دونوں کو ملا دیا جائے.سب سے پہلا نقصان تو یہ تھا کہ کہ خرچ میں زیادتی تھی.دو صیغے جو علیحدہ علیحدہ کام کریں ان میں لازماً اخراجات کی زیادتی ہوتی ہے.کیونکہ کئی کام جو ایک ہی کلرک یا ایک ہی آفیسر کر سکتا ہے ان کے لئے علیحدہ آدمی مقرر ہوتے ہیں.اس وجہ سے مرکزی اخراجات میں زیادتی تھی.اب دونوں صیغوں کو ملا دینے سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اگر اللہ تعالی چاہے اور کام کرنے والوں کو صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق دے تو اخراجات پہلے کی نسبت کم ہوں گے.دوسرا نقص یہ تھا کہ دو محکموں کے علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے آمدنی کم ہوتی تھی.بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو صیغوں کی وجہ سے آمد بڑھنی چاہئے کیونکہ ایک دوسرے کا مقابلہ ہوتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں تھا.وجہ یہ کہ آمد اسی وقت بڑھتی ہے جب صیغہ آزاد ہو اور دوسرے کا حصہ چھین کر لے جائے.لیکن اگر دوصیغے کسی اور کے ماتحت ہوں اور ان میں ایسی روایت نہ ہو کہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچا سکیں تو ان کی کوششیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ دو صیغوں سے آمد بڑھنے کی بجائے کم ہوتی تھی.اور اس کے متعلق یہ مثال موجود ہے کہ مجھے تعجب سے معلوم ہوا کہ مجلس معتمدین کے جو کار کن تھے وہ اس شرح سے چندہ نہ دیتے تھے جو مجلس نے مقرر کی ہوئی تھی.حالانکہ دوسرے کارکن زیادہ شرح سے چندہ دیتے تھے.اس طرح کم از کم ایک ہزار روپے ماہوار کا فرق پڑ جاتا ہو گا.اس کے علاوه جس صیغہ کے متعلق کوئی کام ہوتا تھا وہ اس کا زیادہ لحاظ رکھتا تھا.مثلاً تحصیل کا صیغہ اگر نظارت کے ماتحت ہوا تو وہ یہ مد نظر رکھے گا کہ نظارت کی آمد پوری ہو جائے.اور اگر مجلس معتمدین کے ماتحت ہواتو اسے یہ مد نظر ہو گا کہ صدر انجمن کی آمدنی پوری ہو.اس طرح بھی آمد کم ہوتی تھی.پچھلے دنوں مجلس معتمدین پر ہزاروں روپیہ قرض ہو گیا تھا.اور سولہ ہزار کے بل پڑے تھے.اگر تحصیل کا کام اکٹھا ہوتا تو اس قرضہ کی ذمہ داری صیغہ تحصیل کو معلوم ہو جاتی.مگر صیغہ تحصیل کا چونکہ زیادہ تعلق صیغہ نظارت سے ہے اس لئے اس کی طرف سے غفلت ہوئی.گو قدرتاً ہوئی مگر ہونی نہیں چاہئے تھی.اسی طرح ایک زمانہ میں میں نے دیکھا.صیغہ تحصیل مجلس معتقدین کے ماتحت تھااس وقت نظارت کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی.کیونکہ اس وقت تحصیل والوں کی یہ غرض ہوتی تھی کہ
۱۳۰ مجلس کا کام چلے اور اس کی آمدنی بڑھے.پس اس طرح طاقت بڑھنے کی بجائے کمزور ہوتی تھی.پھر اسی طرح ایک ہلکی سی رقابت بھی دونوں صیغوں میں پیدا ہو گئی اور اس کی آواز بھی برابر میرے کانوں میں پڑتی رہی.کبھی تو یہ کہ مجلس معتمدین والے یوں کام کرتے ہیں جس سے یہ نقصان ہوا ہے اور کبھی یہ کہ نظارت والے ہیں کام کراتے ہیں جس سے فلاں نقصان ہوا ہے.یوں تو ایک ہی صیغہ میں دو کام کرنے والوں میں بھی رقابت ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول جو ہمارے دو بازو ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ رقابت پائی جاتی ہے.لیکن جب یہ رقابت حد سے بڑھ جائے تو نقصان رساں ہوتی ہے اور دونوں فریق سے تعلق رکھنے والے کی حالت اور بھی مشکل ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سنایا کرتے تھے.ہماری مثال اس عورت کی سی ہے جس کی ایک بیٹی کمہاروں کے ہاں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری مالیوں کے ہاں.جب کبھی بادل آتا تو وہ عورت دیوانہ وار گھبرائی ہوئی پھرتی.لوگ کہتے اسے کیا ہو گیا ہے.اس کی زبان پر یہ ہوتا ایک بیٹی ہے نہیں اگر بارش ہو گئی تو جو کمہاروں کے ہاں ہے وہ نہیں.اور نہ ہوئی تو جو مالیوں کے گھر ہے وہ نہیں.کیونکہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے ترکاریاں نہ ہوں گی اور اگر ہو گئی تو کمہاروں کے برتن خراب ہو جائیں گے یہی حالت اس شخص کی ہوتی ہے جس نے دو ایسے فریق سے کام لینا ہو جن کی آپس میں رقابت ہو.ان صیغوں میں رقابت گو ایسی نمایاں نہ تھی مگر اس کے احساسات ضرور تھے.بعض ایسے لوگوں کے منہ سے جو ذمہ دار کہلاتے ہیں اور میں تو سب کو ذمہ دار سمجھتا ہوں.مگر ایک اصطلاع بن گئی ہے.انہوں نے الزام تو نہیں لگایا کہ آپ یوں کرتے ہیں.مگر یہ کہا کہ نظارت کے معاملات آپ کے سامنے ایسے رنگ میں پیش ہوتے ہیں کہ دہ آپ کی توجہ زیادہ لے جاتے ہیں اور ہم محروم رہ جاتے ہیں.میں یہ بحث نہیں کرتا کہ ان کا یہ خیال ٹھیک تھا یا نہیں.اور نہ مجھ میں یہ بحث کرنے کی قابلیت ہے.کیونکہ ایسی باتیں بہت باریک احساسات سے مستنبط ہوتی ہیں.مگر ایسی باتیں میرے کانوں تک ضرور پہنچتی تھیں.اس وجہ سے نہ صرف دونوں صیغوں میں کشش ہوتی تھی.بلکہ جس طرح دو بد خُو بیویوں والے خاوند کی شامت آجاتی ہے اسی طرح میری حالت ہوتی تھی.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ ان دونوں صیغوں کو ملا دیا جائے.پھر ایک اور نقص تھا اور وہ وقت کا ضائع ہونا تھا.دونوں صیغوں میں کام کرنے والے چونکہ عموماً ایک ہی تھے.وہی ناظر تھے وہی مجلس معتمدین کے ممبراس لئے کبھی نظارت انہیں اپنی طرف کھینچتی اور کبھی مجلس اور اس طرح بہت سا وقت ضائع ہو جاتا.میرے نزدیک ۲۵ فیصدی سے لے کر پچاس فیصدی تک ایک جگہ کام کرنے کی بجائے دو جگہ کام کرنے سے فرق پڑ جاتا ہے پھر دو جگہ کام ہونے کی وجہ سے
۱۳۱ کام کو بھی نقصان ہوا ہے.مثلاً کام کرنے والے ایک جگہ جمع ہوئے.وہاں کوئی اہم کام تھا لیکن دوسری جگہ جانے کی وجہ سے اسے وہیں چھوڑنا پڑا.اور دوسری جگہ اس کی نسبت کم ضروری کام تھا جسے ایک جگہ سارا کام ہونے کی وجہ سے پیچھے ڈالا جاسکتا تھا.پھر بعض اوقات بیرونی لوگ بھی پریشان ہوتے تھے کئی دفعہ میرے پاس خط آتے کہ میں سیکرٹری صاحب صدر انجمن کو کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ مبلّغ بھیجو مگر کوئی توجہ نہیں کی جاتی.اسی طرح کوئی یہ لکھتا کہ ناظر دعوت و تبلیغ کو تعلیم کے متعلق خط لکھا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملا.ایسے خطوط کے متعلق جو دوسرے صیغہ کے متعلق ہوتے یہاں یہ ہوتا کہ اول تو وہ خط یونہی دفتر میں پڑا رہتا یا پھر پندرہ بیس دن کے بعد اُٹھا کر دوسرے دفتر میں بھیج دیا جاتا.اسی طرح بعض لوگ جو یہاں کسی کام کے لئے آتے اور وہ کسی ایسے دفتر میں جا کر اس کام کے متعلق کہتے جس کے متعلق وہ نہ ہوتا تو اس وقت والے دوسرے دفتر میں بھیج دیتے.مثلا ً نظارت کا کام تھا جو صدر انجمن میں جا کر کہا گیاتو انجمن والوں نے نظارت میں بھیج دیا.دوسری دفعہ صدر انجمن کا کام تھا جسے وہ شخص نظارت میں لے گیاتو نظارت والوں نے انجمن کے ہاں بھیج دیا.اس سے اس نے یہ خیال کر لیا کہ دونوں صیغے کام نہیں کرنا چاہتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ باہر سے آنے والے حیران ہوتے اور بے چینی پیدا ہوتی تھی.پھر بعض کام کی ذمہ داریوں کے احساسں میں فرق پڑ جاتا ہے.ایک فریق کہتاہے دوسرا کرے اور دوسرا کہتا ہے وہ کرے.اور کوئی بھی پوری ذمہ داری نہیں سمجھتا.دو علیحده علیحده صیغوں میں یا تو یہ نقص پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک دوسرے کا کام چھیننا جا تے ہیں.یا پھر پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فریق بھی اس کام کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا.یورپ میں ایسی صورت میں یہ رقابت ہوتی ہے کہ دوسرے کے کام کو بھی اپنا کام قرار دیتے ہیں مگر یہاں چونکہ عام طور پر سستی ہے.اس لئے اس کے اُلٹ یہ کہتے ہیں کہ فلاں کام ہمارا نہیں بلکہ دوسروں کا ہے.میں نے یورپ کے وزراء کے متعلق بارہا اس قسم کے جھگڑے پڑھے ہیں کہ ایک وزیر کہتا ہے فلاں کام میرا ہے اور دوسرا کہتا ہے میرا ہے.میں نے اس قسم کا جھگڑا کبھی نہیں پڑھا کہ ایک وزیر کہے کہ یہ میرا کام نہیں دوسرے کا ہے.اور دوسرا کہے میرا نہیں اس کا ہے یہ سُستی اور چُستی کی وجہ سے فرق ہے.یورپ میں تو یہ جھگڑا ہوتا ہے کہ سب میرا کام ہے مگر یہاں یہ کہ فلاں بھی میرا نہیں.فلاں بھی میرا نہیں.پس دو مختلف صیغوں کی وجہ سے کام کرنے والوں کی ذمہ داری کے احساس میں فرق پڑ جاتاہے.
۱۳۲ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے نقائص تھے جن کی وجہ سے ضروری تھا کہ دونوں صیغوں کو جمع کر دیا جائے.رہی یہ بات کہ ان کاموں کو علیحدہ کیوں کیا گیا تھا؟ چونکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور ہواہے اور ہوتا چلا آیا ہے.کئی لوگوں سے میں نے سنا اور دو نے تو لکھ کر بھی دیا تھا.اس لئے اب میں وہ وجوہات پیش کرتا ہوں جن کی وجہ سے صدر انجمن احمدیہ سے نظارت کو علیحده تجویز کیا گیا تھا.اول یہ کہ مجلس معتمدین کے بنیادی اصول میں جو دراصل ہے ہی اسلام کا بنیادی مسئلہ خلیفہ وقت کا وجود شامل نہ تھل ایک ریزولیوشن خلافت ثانیہ میں پاس کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو خلیفہ کہے گااسےمجلس مانے گی مگر یہ اصولی بات نہیں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ممبروں کی جماعت کہتی ہے میں ایسا کروں گی.لیکن جو جماعت یہ کہہ سکتی ہے وہ یہ بھی تو کہہ سکتی ہے میں ایسانہ کروں گی کیونکہ جو انجمن یہ پاس کر سکتی ہے کہ ہم خلیفہ کی ہر بات مانیں گے وہی اگر آج سے دس سال بعد یہ کہے کہ نہیں مانیں گے تو انجمن کے قانون کے لحاظ سے وہ ایسا کہہ سکتی ہے یا پھر اگر انجمن یہ کہے کہ اس خلیفہ کی تو ہر بات مانیں گے لیکن دوسرے کی نہیں مانیں گے تو بھی وہ اپنے قواعد کے لحاظ سے بجانب ہوگی.جس طرح حضرت خلیفہ اول کے وقت میں ہوا.پس مسئلہ خلافت جس کے لئے ہمیں ایسی قربانی کرنی پڑی جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے پرانے ماننے والے، آپ کے دوست کہلانے والے، آپ سے دیرینہ تعلق رکھنے والے ہم نے اس مسئلہ کی خاطر قربان کر دیئے.اگر ان میں اور ہم میں یہ وہی اختلاف نہ ہوتا تو وہ ہمیں اپنی اولاد سے زیادہ عزیز تھے.اپنے عزوں سے زیادہ پیارے تھے کیونکہ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو دیکھنے والے اور آپ کے صحابہ میں سے شامل تھے اور آپ کے ساتھ انہوں نے کام کیا تھا.اگر یہ اختلاف نہ ہوتا جس کی وجہ سے ہمیں ان سے علیحدہ ہونا پڑا اور یہ سوال پیدا ہوتا کہ ہم اپنے بچوں کو قربان کریں یا ان کو تو میرے دل میں ذرا بھی خیال نہ آتا کہ ان کے مقابلہ میں بچوں کو قربان نہیں کرنا چا ہئے.مگر چونکہ ایک ایسے معاملہ میں اختلاف ہو گیا جو خدا تعالی کی طرف سے تھا اور جس کا ماننا ایمان اور جماعت کے لئے ضروری تھا.اس لئے وہ جو ہمیں اولاد سے زیادہ عزیز تھے انہیں ہم نے قربان کر دیا.پس اس مسئلہ کے لئے ہم نے ایسی عظیم الشان قربانی کی کہ اس کے مقابلہ میں اور کوئی قربانی نہیں ہو سکتی.یہ جان کی قربانی سے بھی بہت بڑھ کر ہے.کیونکہ جان میں انسان اپنے آپ کو قربان کرتا ہے مگر یہاں ہمیں سلسلہ کے ایک ٹکڑے کو قربان کرنا پڑا.اگر اتنی قربانی کے بعد بھی سلسلہ کی حالت غیر محفوظ ہو.یعنی چند لوگوں کے رحم پر ہو جو اگر چاہیں کہ خلافت کا انتظام قائم رہے تو قائم رہے اور اگر نہ چاہیں تو نہ رہے تو یہ کبھی گوارا نہیں کیا جاسکتا.
۱۳۳ اور چونکہ مسئلہ خلافت کے جماعت کے بنیادی اصول میں شامل نہ ہونے سے جماعت ایسے خطرات میں رہ سکتی ہے جو مبائعین کو غیر مبائعین میں بدل دے اور دس گیارہ آدمیوں کے جُنبشِ قلم سے قادیان معاً لاہور بن جائے اس لئے جماعت کے وہ کام جو تبلیغ اور تربیت سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک ایسی انجمن کے حوالے نہیں کئے جاسکتے تھے جو خواہ مبائعین کی انجمن ہی ہو اور خواہ بہترین مخلص ہی اس کے ممبر کیوں نہ ہوں اس کے لئے ضرورت تھی کہ ایک ایسانقطہ قرار دیا جائے جس پر جماعت قائم کردی جائے تا اسے اس بارے میں ٹھوکر نہ لگ سکے.ان حالات کی وجہ سے میں نے اس مشورہ سے جو میری خلافت کے زمانہ میں سب سے پہلے مسجد مبارک میں ہوا میں نے ایک ایسی جماعت تجویز کی کہ تبلیغ کا کام اس کے سپردرہے اور وہ براہ راست خلیفہ کی نگرانی میں رہے تاکہ سلسلہ کے اصولی کام خطرہ میں نہ ہوں.ایک وجہ تو یہ تھی نظارت الگ تجویز کرنے کی.دوسری وجہ یہ تھی کہ مجلس کے قواعد کی بنیاد ایسی طرز پر رکھی گئی تھی کہ جماعت کی نمائندگی کو اس میں کوئی دخل نہ تھا.سب سے خطرناک حکومت کی صورت یہ سمجھی گئی ہے کہ چند آدمی حکمران ہوں جو خیال کئے جاتے ہوں کہ لوگوں کے نمائندے ہیں مگر دراصل نمائندے نہ ہوں اور جن کے اختیار میں ہو کہ آئندہ اپنے قائم مقام آپ تجویز کر سکیں.یہ سب سے خطرناک طرز کی حکومت ہے اور یہ سب باتیں صدر انجمن میں پائی جاتی تھیں.اس کے ممبر جماعت کے نمائندے خیال کئے جاتے تھے مگر وہ نمائندے نہ تھے.انہیں کلّی اختیار تھا کہ اپنے قائم مقام تجویز کر لیں اور جماعت کا کوئی اثر ان پر نہ تھا.اس وجہ سے بھی ضروری تھا کہ ایسی بنیاد کام کی رکھی جائے ہے آہستگی کے ساتھ اس طرح بدلا جائے کہ جماعت کی نمائندگی صحیح معنوں میں پائی جائے اور جماعت کے نمائندوں کی رائے کا اثر اس نظام پر ہو.تیری وجہ جو شروع میں سب سے زیادہ محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ مجلس معتمدین اپنے قواعد کے لحاظ سے براہ راست خلیفہ سے تعلق نہیں رکھتی تھی.خلیفہ سے مشورہ لے لینا اور بات ہے اور براہ راست تعلق رکھنا اور.بجلی کے کاموں کی یہ صورت تھی کہ وہ ہر معاملہ فیصلہ دے کر میرے سامنے پیش کر سکتی تھی کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے آپ کی کیا رائے ہے.اور اپنے قواعد کے لحاظ سے وہ ایسا کر سکتی تھی.کیونکہ اس کے لئے کوئی قانون ایسانہ تھا کہ جس کی وجہ سے وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قبل خلیفہ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لئے مجبور ہو یا خلیفہ بعد فیصلہ جو مشورہ لے اس کا ماننا اس کے لئے
۱۳۴ لازمی ہو.گو یہ بات ہی فضول تھی کہ فیصلہ کے بعد کوئی مشورہ دیا جائے مگر یہ بھی نہ ہو سکتا تھا.کیونکہ اس کی بناوٹ میں خلافت کا کوئی تعلق ہی نہ تھا.آئندہ کے لئے اس قسم کے نقصانات کا اپنی طرف سے ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے.باقی زمانہ اور وقت خود اصلاح کرتا جائے گا.اب یہ صورت تجویز کی گئی ہے کہ صدر انجمن مجلس شوری ٰ ہو گی جو بجٹ وغیرہ پر غور کرے گی.مجلس معتمدین نہ کوئی بجٹ پاس کر سکے گی نہ اس میں کوئی تبدیلی کر سکے گی جب تک خلیفہ کو اطلاع نہ دے اور مجلس شوریٰ اس پر غور نہ کرے.پس مالیاختیارات مجلس معتمدین سے لے کر صدر انجمن کو دے دیئے گئے ہیں.آئندہ صدر انجمن بجٹ پاس کیا کرے اور صدر انجمن نام ہے خلیفہ اور اس کے مشیروں کا.مشیر رائے دیں گے اور خلیفہ بجٹ پاس کرے گا گویا اب بجٹ صدر انجمن پاس کرے گی جس کا صدر خلیفہ ہو گا اور مجلس معتمدین اس بجٹ کی پابندی کرے گی جس میں کمی یا زیادتی کا اسے اختیار نہ ہوگا.اسی طرح موجودہ انتظام میں قواعد کو اس طرح ڈھالا گیا ہے کہ صدر انجمن کو اختیارات خلیفہ کی طرف سے ملتے ہیں.پہلے تو مجلس معتمدین اس طرح اختیارات تجویز کرتی کہ جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی کہ کسی طرح مذہب اور یہ اختیارات جمع ہو سکتے ہیں مثلا ًمجلس نے پاس کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے احکام ماننا ضروری ہے.گویا اس بات کا اس نے فیصلہ کیا کہ یہ ضروری ہے.حالانکہ مجلس کا وجودہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے حکم سے ظہور میں آیا تھا.اس طریق کی بجائے ہونا یہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مجلس کو یہ اختیارات دیئے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کہے میں چار رکعت فلاں وقت پڑھوں گا.دو رکعت فلاں وقت، تین رکعت فلاں وقت، حالانکہ بات یہ ہے کہ خدا تعالی کہتا ہے نماز پڑھو.اس لئے ہم پڑھتے ہیں.تو پہلے صدر انجمن اپنا یہ منصب سمجھتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو اختیارات دے.اور اختیارات ماتحت کو ہی افسر کی طرف سے نہیں دیئے جاتے بلکہ ماتحت بھی افسر کو اختیار دیتے ہیں جیسے سفر میں اپنے میں سے کسی ایک شخص کو امیر بنا کر اسے اختیارات دیئے جاتے ہیں.اسی طرح انجمن کے قواعد میں یہ بات شامل تھی کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بات مانیں گے.گویا انجمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو اختیار دیتی تھی کہ آپ ہم سے اپنی بات منوالینا.حالانکہ انجمن کا وجود پیداہی آپ کے حکم سے ہوا تھا.اور اس وجہ سے اس کی بنیاد یہ ہوئی چاہئے تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ہمیں بے اختیارات دیئے ہیں.پس انجمن کا پہلا طریق مذہب اور حقیقت کے خلاف تھا جس کا بدلنا
۱۳۵ ضروری تھا.اسی طرح انجمن کے قواعد میں یہ تھا کہ ہم خلیفہ وقت کی بات مانیں گے.گویا خلیفہ کو وہ اختیار دیتے تھے کہ تم ہم سے بات منوا لینا.حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے انجمن کو یہ اختیارات دیئے ہیں.حضرت خلیفہ اول کے وقت یہ اختیار ملے یا یہ کہ آپ نے یہ اختیار قائم رکھے اور یہ زائد دیئے اسی طرح ہر خلیفہ کے وقت ہونا چاہئے کیونکہ اصل قائم مقام جماعت کا خلیفہ ہے اس لئے صدر انجمن خواہ کتنے اختیارات رکھے اور خواہ بالکل آزاد کر دی جائے تو بھی اس کے اختیارات نیابتی ہوں گے جو اوپر سے آئے ہوں گے.اور خلیفہ اگر دیکھے کہ انجمن غلطی کرتی ہے تو اس سے اختیارات کچھ بھی سکتا ہے مگر انجمن کی جو پہلی حالت تھی اس میں خلیفہ کچھ نہیں کر سکتا تھا.بلکہ انجمن والے خلیفہ کے اختیارات چھین سکتے تھے لیکن وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے اب یہ رکھا گیا ہے کہ انجمن کو یہ اختیارات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے دیئےیا آئندہ جو اختيارات خلفاء دیں گے ان کے مطابق کام کرے گی.گو انجمن کے اختیارات میں اس طرح کوئی تبدیلی نہیں ہوئی مگر نقطہ نگاہ بدل گیا ہے پہلے یہ تھا کہ انجمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اور خلفاء کو اختیار دیتی تھی اور اب یہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعود نے پہلے انجمن کو اختیارات دیئے آئنده خلفاء دیں گے.جس امرنے مجھے اس وقت آپ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے مجبور کیا ہے وہ یہ ہے کہ دنیامیں قواعد کام نہیں کیا کرتے خواہ وہ کتنے ہی اعلی کیوں نہ ہوں بلکہ کام کرنے والے انسان ہوتے ہیں.اگر قاعدے کام کرتے تو قرآن کریم کی موجودگی میں دنیا تباہ نہ ہوتی.قرآن کریم سے بہتر قاعدے اور کون سے ہو سکتے ہیں.ہم نے جو تجویز آج کی ہے اس کے متعلق خوش ہیں کہ اچھی ہے لیکن ہو سکتا ہے کل تجربہ بتائے کہ اس میں یہ یہ نقص ہیں.مگر قرآن کریم نے جو قاعدے بتائے ہیں ان میں کبھی نقص نہیں پیدا ہو سکتا.کیونکہ وہ قاعدے اس خدا نے بتائے ہیں جو ہر ایک چیز کا خالق اور مالک ہے اور باریک در بار یک راز جانتا ہے.مگر اس ہستی کے بتائے ہوئے قاعدے موجود ہوتے ہوئے دنیا خراب ہو گئی پھر ہمارے قاعدوں کی کیا حقیقت ہے.میں نے آپ لوگوں کو اس لئے بلایا ہے کہ میں بتاؤں دنیا میں قاعدے کام نہیں کیا کرتے بلکہ انسان کام کرتے ہیں.اب ہم نے انتظام کی جو صورت تجویز کی ہے اگر کام کرنے والے اس کو کامیاب بنانے کی کوشش نہ کریں تو ہو سکتا ہے کہ خرچ کم ہونے کی بجائے اور بڑھ جائے.اگر کام کرنے والے توجہ نہ کریں اور ماتحت صیغوں میں رقابت اور حسد پیدا ہو تو اس کا نتیجہ فتنہ و فساد ہو سکتا
۱۳۶ ہے.اور یہ سب باتیں اس انتظام میں بھی پیدا ہو سکتی ہیں جو اب تجویز کیا گیا ہے.اور اگر اس سے اعلیٰ کوئی انتظام ہو تو اس میں بھی پیدا ہو سکتی ہیں.پس میں نے آپ لوگوں کو اس لئے جمع کیا ہے کہ میں ان ذمہ داریوں کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاؤں جو سلسلہ احمدیہ کے بانی اور اسلام کے لانے والے خاتم النّبیّن ﷺکی طرف سے تم پر عائد ہوتی ہیں.کیونکہ ان کے بغیر نہ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ کام چل سکتا ہے.جب میں ولایت سے آیا تھا اور کارکنوں نے مجھے ایڈریس دیا تھا تو اس کے جواب میں میں نے کہا تھا کوئی کامیابی کی ایک شخص کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اس میں ان سب لوگوں کی کوشش شامل ہوتی ہے جو خفیف سے خفیف خدمت بھی کرتے ہیں.اور گو سہرا کسی ایک کے سر بندھ جاتا ہے لیکن در اصل کامیابی سب کی ملی جلی ہوتی ہے.آج میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ناکامیوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے.وہ بھی ایک کی نہیں ہوتیں بلکہ سب کا ان میں دخل ہوتا ہے.پس اگر کارکن ہی نہیں بلکہ تمام ممبر بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کا عہد نہ کریں تو کامیابی نہیں ہو سکتی.اس وقت تک طریق عمل میں جو نقص معلوم ہوئے ہیں انہیں ہم نے دور کر دیا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان نقائص کو دور کرنے کی وجہ سے کامیاب ہو جائے گی.کامیابی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک تمام کے تمام مل کر کوشش نہ کریں اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں.آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ ساری دنیا سے ہے اور ہمارے اسباب بہت ہی محدود ہیں.میں تو اپنی جماعت کی موجودہ حالت کی مثال اُحد کے مردوں سے دیا کرتا ہوں جن کے کفن کے لئے کپڑانہ تھا.اگر ان کے سر ڈھانپے جاتے تو پاوں ننگے ہو جاتے ۱؎ اور اگر پاؤں ڈھانپے جاتے توسرننگے ہو جاتے.یہی حال ہمارا ہے ہم ایک کام کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اسباب کی کمی کی وجہ سے دوسری طرف نقص پیدا ہو جاتا ہے.ایسے حالات میں ہمارا مقابلہ ایسے دشمن سے سینکڑوں سالوں سے اپنی تنظیم کر چلا آرہا ہے آسان نہیں ہے.ہم تو دیکھتے ہیں ہندوؤں کا مقابلہ بھی آسان نہیں ہے جو سینکڑوں سال مسلمانوں کےماتحت رہے.گو چند سال سے تعلیم میں مسلمانوں سے بڑھ گئے ہیں.ان کی تنظیم ایسی اعلیٰ ہے کہ مسلمان دیکھتے ہیں پِسے جارہے ہیں مگر مقابلہ نہیں کر سکتے.اٹھتے ہیں مگر پِٹ کر بیٹھ جاتے ہیں.میں اپنی جماعت کو ہی انتظامی لحاظ سے بہت پیچھے دیکھتا ہوں.یہاں کے لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو تکلیفیں دیں، سلسلہ کو نقصان پہنچایا اور اب بھی اس کوشش میں لگے رہتے ہیں اس کے
۱۳۷ مقابلہ میں ہم نے چاہا کہ یہاں کی تجارت ہمارے ہاتھ آجاۓ مگر کیا کامیابی ہوئی؟ یہ امور جو مقامی ہیں اور مقام بھی چھوٹا سا گاؤں ہے.اس چھوٹے سے گاؤں میں جہاں ہماری موت اور زندگی کا سوال ہے ہم مقابلہ میں کامیاب نہ ہوئے.تو خیال کرو کہ اگر ہمارا انتظام ایسا ہی ناقص ہے تو ہمارے لئے کتنے خوف کا مقام ہے.جبکہ ہم ساری دنیا کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں.اور اسی دنیا کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں جس کے ادنی ٰ ادنی ٰ آدمی اگر ہمارے اعلیٰ آدمیوں کی جگہ مقرر کر دیئے جائیں تو دنیوی تجربہ اور ظاہری علوم کے لحاظ سے اعلی ٰنظارت پر کام کر سکیں گے اور ہمارے اعلیٰ اظروں سے بھی اعلی ٰرہیں گے کیونکہ وہ لوگ سینکڑوں سالوں سے تجربہ کرتے چلے آرہے ہیں اور کام کرنے کے طریق میں جو جو نقائص انہیں معلوم ہوئے، انہیں دُور کرتے رہے ہیں.انہوں نے ایک ایک بات پر علمی طور پر غور کیا اور اس کے متعلق سالہا سال کی کوششوں سے تدبیریں نکالی ہیں.مثلا ًشراب تر ک کرانے کا کام ہے.یورپ دو صدیوں سے اس کے متعلق غور کرتا چلا آرہا ہے کہ کس طرح کم کی جاسکتی ہے.یہاں کا ایک طالب علم بھی کہہ دے گا کہ اس میں کونسی مشکل بات ہے.گورنمنٹ شراب بند کرنے کا حکم دے دے تو بند ہو جائے گی.لیکن یورپ کو اس کے بند کرانے میں دو صدیاں گزارنی پڑیں.شروع شروع میں یورپ والوں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ بندش کا حکم دینے سے بند ہو جائے گی مگرایسانہ ہوا.اور کئی قانون بدلے گئے.پہلے ملک میں شراب بننی بند کردی گئی.اس پر باہر سے آ کر بِکنے لگی اور ملک کی دولت باہر جانے لگی.پھر اس پر ٹیکس بہت زیادہ کر دیا گیا تو گھروں میں بنانے لگ گئے.اور جو بنائے تھے وہ بھی پینے لگ گئے.غرض کئی طریق نکالے گئے مگر کسی میں کامیابی نہ ہوئی.آخر یہ قرار دیا گیا کہ جتناممکن ہو شراب کو سستا کر دیا جائے اور ناجائز کشید کو بند کر دیا جائے.جب شراب سستی ہو گئی تو نتیجہ یہ ہوا کہ گھروں میں بننی بند ہو گئی اور دکانوں پر لائسنس لگا دیئے.جن سے معلوم ہونے لگا کہ ملک کا کس قدر حصہ شراب پیتا ہے.پھر آہستہ آہستہ کم کرنے لگے.اب یورپ میں شراب کا متوالا کوئی شاذ ہی نظر آتا ہے.ورنہ پہلے کئی کئی سَو روزانہ جیل خانوں میں بھیجے جاتے تھے.تو دو سو سال کے عرصہ میں اس حد تک شراب کے کم کرنے میں انہیں کامیابی ہوئی ہے.اس قسم کے تجربوں کی وجہ سے ان ممالک کے سب لوگ ان باتوں کو جانتے ہیں.اور وہ لوگ ذاتی، قومی اور وراثتی تجربہ کے لحاظ سے ہمارے آدمیوں سے زیادہ ہوشیار ہیں.اور ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے جن کے سامنے ہماری حالت بچہ کی سی ہے اس لئے جب تک ہم غیر معمولی قربانیاں نہ کریں کامیاب نہیں ہو سکتے.مگر ہماری جماعت کے لوگ چھوٹی چھوٹی قربانیوں پر ہی گھبرا جاتے ہیں.اس وقت میں پہلے
۱۳۸ کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں.اور پھر قادیان کے دوسرے لوگوں کو کہ اگر تم لوگ دین کی خدمت میں نمونہ نہ بنو تو باہر کے لوگ کس طرح بے نظیر قربانی کر سکتے ہیں.اب جہاں قواعد میں اصلاح کی گئی ہے وہاں میں آپ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ اپنے قلوب میں اور اپنے اعمال میں بھی اصلاح کریں تاکہ وہ کامیابی نصیب ہو جس کا وعدہ خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ذریعہ دے رکھا ہے.کامیابی کے لئے سب سے پہلی چیز اطاعت ہے.ولایت میں فوج کے انتظام کا میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا.فوج کا دستہ کہیں جا رہا تھا.ایک افسر نے ایک سپاہی سے کہا.تم ٹھیک نہیں چل رہے ٹھیک قطار میں چلو.سپاہی دراصل ٹھیک چل رہا تھا.اس نے کہا میں ٹھیک چل رہا ہوں.اگرچہ افسر کی غلطی تھی لیکن اس نے کہا آگے سے جواب دینے کی جو گستاخی تم نے کی ہے اس کی وجہ سے تمہیں گرفتار کیا جاتا ہے.یہ کہہ کر اسے حراست میں دے دیا گیا اسی طرح کے کئی واقعات ہوتے ہیں.گذشتہ لڑائی کے ایام میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی جو سِگنل کمپنی تیار کی گئی تھی اور جس میں مارے شمشاد علی صاحب بھی تھے.ان کے علاوہ اور بھی پانچ چھ احمدی تھے.انہوں نے سنایا ایک احمدی کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ تار کے کھمبے لگوادو.اس کے متعلق ایک افسرنے کر نل کے پاس رپورٹ کی کہ اس نے سستی کی ہے.اس پر شمشاد علی صاحب کو مقرر کیا گیا کہ تحقیقات کریں اس نے سستی کی ہے یا نہیں؟ ان کی تحقیقات پر ثابت ہوا کہ اس نے سستی نہیں کی.مگر چونکہ اُس نے یہ لکھا تھا کہ افسرنے میرے خلاف غلط لکھا ہے اس لئے اس وجہ سے اسے سزا دی گئی.غرض فوج میں اطاعت کا ایسا سبق سکھایا جاتا ہے کہ انسان مشین کی طرح بن جاتے ہیں.انہیں اپنے فرائض بجالانے کی ایسی عادت ہو جاتی ہے جو باتیں دوسرے لوگ برداشت نہیں کر سکتے وہ کر لیتے ہیں.امریکہ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ سِول وار میں ایک نوجوان کو پہرہ پر مقرر کیا گیا جو اپنی ماں کا اکلوتابیٹا تھا.افسراس کا پہرہ بدلنا بھول گئے اور تیسرے دن وہ تھکاوٹ سے بالکل چُور ہو گیا اور ایک کھمبے سے ٹیک کا کر کھڑا ہو گیا اس پر اسے اُونگھ آگئی.اتفاق سے ایک معائنہ کرنے والا افسراس وقت آ گیا اور اس حالت میں اُسے دیکھ لیا.اس پر وہ پکڑا گیا اور مقدمہ چلایا گیا.اس کی ماں نے رحم کی درخواست کی لیکن کچھ اثر نہ ہوا.لکھا ہے فیصلہ دیتے وقت افسر کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.اور اس نے لکھا کو گو یہ ماں کا اکلوتا بیٹا ہے اور تھکاوٹ سے سخت چُور ہو کر اس سے حرکت ہوئی مگر سوائے اس کے کوئی سزا نہیں
۱۳۹ دی جاسکتی کہ اسے گولی سے مار دیا جائے.یہی وہ بات ہے کہ یورپین لوگ ساری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں اور اس میں ان کی کامیابی کا راز ہے.پس جب تک کامل اطاعت اور پورا تعاون نہ ہو.اس وقت تک کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی کجا و قوم جو تجربہ میں، وسائل میں اور تعداد میں بستی قلیل ہو وہ کامیاب ہو سکے.پس آپ لوگوں کو ایک نصیحت تو میں یہ کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور اطاعت کا مادہ پیدا کرو.مجھے یہ افسوس سے کہنا پڑا ہے کہ اس کی بہت کمی ہے.جب کوئی افسرکسی سے باز پرس کرتا ہے تو جواب میں درشت کلامی سے کام لیا جاتا ہے.کم از کم مجھے جو رقعہ لکھا جاتا ہے اس میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ فلاں میرا ہمیشہ سے دشمن ہے.ہمیشہ مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.عورتیں اس لئے زیادہ جہنم میں جائیں گی کہ خاوندوں کا کفر کرتی ہیں.یہی حال ماتحت کارکنوں کا نظر آتا ہے.الا ما شاء الله یہ نتیجہ ہے غلامی اور ماتحت رہنے کا کہ ان میں عورتوں والے اخلاق پیدا ہو گئے ہیں.وہ کہتے ہیں کبھی نیک معاملہ ان سے نہیں کیاگیا.چونکہ برداشت کا مادہ ان لوگوں میں بہت کم ہے اس لئے جھگڑے بڑھ جاتے ہیں.اگر کوئی ایک دفعہ ظلم بھی برداشت کرلے تو دوسری دفعہ ظلم کرنے والے کو خود شرم آجائے گی.حالانکہ بسا اوقات قواعد کی پابندی کرائی جاتی ہے.اس کے مقابلے میں دوسری طرف یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بڑے کارکن ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم سے قواعد کی پابندی نہ کرائی جائے یہ بھی غلط خیال ہے.اگر وہ قواعد کی پابندی نہیں کریں گے تو چھوٹے کیوں کریں گے.کہتے ہیں ایران کا بادشاہ کہیں گیا تو اس کے لئے کوئی شخص انڈے لایا مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہااگر میں انڈے لے لوں گاتو کل سرکاری ملازم تم سے دبنے لیں گے.پس یہ غلط ہے کہ بڑوں سے قواعد کی پابندی نہ کرائی جائے.ان کے لئے تو زیادہ پابندی ہونی چاہئے کیونکہ اگر کسی رعایت کا کوئی شخص مستحق ہو سکتا ہے تو وہ چھوٹا کارکن ہے جس کے وسائل محدود ہوتے ہیں.پس میں بڑوں سے کہتا ہوں کہ قواعد کی پابندی سختی کے ساتھ کریں اور چھوٹوں سے کہتا ہوں کہ اطاعت کا وہ نمونہ دکھائیں کہ یورپ کی فوج بھی ان کے سامنے بات ہو جائے.پھر آپ کا تعاون اس طرح ہو کہ ہر ایک سمجھے یہ میرا کام ہے مگر باوجود اس کے جو کام دوسرے کے سپرد ہو اس میں دخل نہ دے.اس کے بغیر تعاون نہیں ہو سکتا.جب کوئی کام خراب ہونے لگے تو جسے اس کی خرابی معلوم ہو وہ اٹھ کھڑا ہو اور ہر طرح امداد دے.اور جب کام ٹھیک چلنے لگے تو علیحدہ رہے.
۱۴۰ وہ کارکن جس کے سپرد کوئی کام ہو اگر تمہارے کسی مشورہ یا امداد سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو اس سے تمہیں بد دل نہ ہونا چاہئے.اگر وہ تمہارے مشورہ کو غلط اور غیر مفید سمجھ کر ۹۹ دفعہ بھی رد کرتا ہے تو بھی تمهارا حق نہیں کہ سوویں دفعہ اسے مشورہ دینے کے لئے نہ جاؤ.اس نے اگر ۹۹ دفعہ تمہارا مشورہ رد کیا ہے تو اپناوہ حق استعمال کیا ہے جو اس کام کے متعلق اسے دیا گیا ہے.تمہارا فرض یہی ہے کہ ہر ضرورت کے موقع پر مشورہ دیتے جاؤ.مگر میں یہ دیکھتا ہوں 99 فیصدی لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ کسی کو مشورہ دیتے ہیں اور وہ نہیں جاتا تو آئندہ مشورہ دینا چھوڑ دیتے ہیں.یا کسی کام کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اگر ان سے فائدہ نہ اٹھایا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں.مگر یہ نتیجہ ہوتا ہے ان کے اس خیال کا کہ وہ دوسرے پر حکومت کرنا چاہتے ہیں نہ کہ تعاون.اگر ان کی غرض تعاون ہوتی تو خواہ سو دفعہ بھی ان کا مشورہ رد کیا جاتا پھر بھی وہ پیش کرتے.پس آپ لوگوں کو میں ایک نصیحت تو یہ کرتا ہوں کہ آپس میں تعاون سے کام کریں.اور اس طرح مشورہ پیش کریں کہ خواہ ہزار دفعہ بھی رد کیا جائے پھر بھی آپ اپنا فرض ادا کرنے سے باز نہ رہیں.اور ہر ضرورت کے وقت خدمات پیش کرتے رہیں.خواہ ہزار دفعہ ان سے فائدہ نہ اٹھایا جائے.اس کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تعاون دو قسم کا ہوتا ہے.ایک ذہنی یعنی جو کام کرنے والا ہے اس کے رستے میں سہولتیں پیدا کی جائیں.ہمارے ہاں یہ تعاون بہت کم ہے اور یورپ میں بہت زیادہ ہے.وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک بات غلط ہے.مگر کہتے ہیں جو شخص کر رہا ہے وہ چونکہ اپنے فن کا ماہر ہے اس لئے یہی سمجھو کہ ٹھیک کرتا ہے.اور دوسروں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم بھی اس کے متعلق یہی سمجھو.مگر یہاں ذہنی تعاون بالکل ترک کر دیا جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ لوگوں کے جذبات کسی کام کرنے والے کی تائید میں پیدا کئے جائیں اس کے خلاف باتیں مشہور کی جاتی ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے کام میں خرابی نہ ہو تو بھی عام لوگوں کو خرابی نظر آنے لگتی ہے اور کام کرنے والا لوگوں کے اعتراضات بڑھ جانے کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے اور اس کے گھرانے سے کام خراب ہو جاتا ہے.اس پر اعتراض کرنے والے کہہ دیتے ہیں ہم نہ کہتے تھے فلاں شخص کام خراب کر دے گا اب دیکھ لو ایسا ہی ہوا ہے.کسی کام اور طریق کو کامیاب بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو فیصلہ ہو اس کی پوری پوری مطابقت کی جائے تاوقتیکہ وہی فیصلہ کرنے والی جماعت یہ فیصلہ نہ کرے کہ ہم سے یہ غلطی ہو گئی تھی جس کی اصلاح کی جاتی ہے.دیکھو ولایت میں مزدور پارٹی کے خلاف امراء کو اس قدر غصہ تھا کہ جس کی
۱۴۱ حدنہیں.اور مزدوروں نے برسراقتدار ہونے کے زمانہ میں ایسے قانون بنائے جو پہلے نہ تھے.مگر جب ان کے بعد امراء کی پارٹی حکمران ہوئی تو اس نے مزدور پارٹی کے قوانین بدلے نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری اٹھالی ہے.اگر ان پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو خود جواب دیتے ہیں.پس یہ ذہنی تعاون ہے کہ جب کوئی تجویز پاس ہو جاتی ہے تو سارے لوگ اسے صحیح سمجھنے لگ جاتے ہیں اور اسے کامیاب بنانے میں امداد دینے لگ جاتے ہیں.دوسرا تعاون عملی ہے یعنی جو کام کرنے والے ہوں ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹایا جائے.یہ کئی طرح ہو سکتا ہے.مثلا کسی دوسرے دفتر کا کام ہوا تو وہ کر دیا.اب تو یہ حالت ہے کہ میرے پاس اس قسم کی چھٹیاں آئی ہیں کہ ہم قادیان میں چندہ لے کر گئے مگر کوئی لینے والے نہ تھا اس لئے واپس لے آئے.ایسے لوگوں نے کسی سے تو پوچھا ہو گا خواہ وہ یہاں کا دودھ بیچنے والا ہی ہو کہ کہاں چند و جمع کرایا جائے.اس کا بھی فرض تھا کہ اس رنگ میں اس کی مدد کر تا.اس تعاون میں اخبار والوں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے.یورپ میں جو قومی معاملہ ہو اس میں ساری پارٹیوں کے اخبارات اکھٹے ہو جاتے ہیں.یہی کابل کا واقعہ تھا.تمام پارٹیوں کے اخبار زبانی ہمارے آدمیوں سے کہتے تھے کہ بڑا ظلم ہوا ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم اس کے خلاف لکھنے سے معذور ہیں کیونکہ موجودہ حکومت کی کابل کے متعلق جو پالیسی ہے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے.اس وقت لیبر پارٹی بر سر حکومت تھی جو چاہتی تھی کہ افغانستان کے ساتھ صلح رکھی جائے.دوسرے لوگ اگرچہ صلح کےحامی نہ تھے مگر وہ خود کابل کے خلاف کچھ نہ لکھتے تھے.کہ برسراقتدار پارٹی کی پالیسی کو نقصان نہ پہنچے.یہ کہتے تھے کہ خبر کے طور پر شائع کر دیں گے اور جرمنی کے اخبارات نے تو اتنا بھی نہ کیا.کیونکہ وہ اسے وہاں کی حکومت کی پالیسی کے خلاف سمجھتے تھے.مگر ہمارے اخبارات میں یہ بات نہیں.ان میں ایسے مضامین تو چھپ جاتے ہیں جن کی کوئی قیمت اور کچھ وقعت نہیں ہوتی.مگر ایسے ضروری مضامین جن سے جماعت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو اس لئے نہیں چھپتے کہ وہ الفضل یا فاروق یا الحکم میں چھپ گئے ہیں.حالانکہ دنیا کے کون سے اخبارات ہیں جن میں ایک جیسی باتیں نہیں چھپتیں.پریس میں اس قدر تعاون ہونا چاہئے کہ جو بات لیں اس پر شور مچادیں.آرایوں کے اخبارات کو میں نے دیکھا ہے.اس قدر شور مچاتے ہیں کہ گورنمنٹ بھی مجبور ہو جاتی ہے.غرض دو قسم کا تعاون ہے.اور وہ یہ کہ نہ بد خبر پھیلانا اور نہ پھیلنے دینا.مگر یہاں کثرت ایسے لوگوں کی ہے جو یا تو بد خبر پھیلاتے ہیں یا بد خبر سن کر خاموش چلے جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کا مقابلہ نہیں کرتے.
۱۴۲ اب میں احمدیہ جماعت کے کارکنوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج کل مالی مشکلات بہت ہیں اس سال آمد کی نسبت بجٹ ایک لاکھ سے زیادہ ہے.آمد ڈیڑھ لاکھ ہے اور بجٹ اڑھائی لاکھ.اس کے علاوہ ۳۰ ہزار کے صیغہ جات مقروض ہیں.ایسی حالت میں اگر یہ بجٹ جوتیار کیا گیا ہے جاری کیا جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ساڑھے نو مہینے کے بعد نہ کسی صیغہ کو تنخواہ دی جاسکے گی نہ سائر، نہ کوئی رسالہ جاری ره سکے گا نہ کوئی اخبار.صاف ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں یہ بجٹ جاری نہیں کیا جاسکتا اس لئے میں نے دو کمیٹیاں بنائی ہیں.ایک آمد بڑھانے کی تجاویز پر غور کرنے والی اور دوسری خرچ گھٹانے والی.خرچگھٹانے کے لئے جب تک سب لوگ قربانی نہ کریں کم نہیں ہو سکتا اس لئے سب کے تعاون کی ضرورت ہے اگر خدانخواستہ سال کے بعد دیوالیہ نکل جائے تو یہ بہتر ہے کہ اس وقت بعض کام بند کر دیے جائیں یا پر اخراجات میں تخفیف کردی جائے.میں نے دیکھا ہے ہر چار سال کے بعد مالی تنگی کا دور آتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے آخری ایام میں خزانہ بالکل خالی تھا.علاوہ ازیں اٹھارہ ہزار کے قریب قرضہ بھی تھا.پھر ۱۹۱۷ء میں ایسی حالت ہوئی.پھرا۱۹۲ء میں اور پھر اب ۱۹۲۵ء میں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چار سال کے بعد ایسا ہوتا ہے.لیکن چونکہ جماعت میں تجربہ کار مالی معاملات سے واقف نہیں ہیں اس لئے نقص پیدا ہو جاتے ہیں.اگر صیغہ مال سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار ہوتے تو معلوم کر لیتے کہ اس دورہ کی کیا وجہ ہے اور اس سے پتا لگایا جاسکتا تھا کہ کوئی انتظامی نقص ہے جس کی طرف اگر توجہ کی جاتی تو آج پھر یہ خرابی پیدانہ ہوتی.مگرمیں نے دیکھا ہے جب آمد زیادہ ہوتی ہے کارکن کہتے ہیں بجٹ بڑھا دیا جائے.پچھلے سال میں نے کہابجٹ کم کرو مگر کہنے لگے کسی صورت میں کمی نہیں ہو سکتی.اور اب جب آمد کمی ہو گئی ستّر ہزار تک کم کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر گذشتہ سال ہی بجٹ کم کر دیتے اب ایسانہ ہوتا.میرے نزدیک سلسلہ کی تاریخ میں ایسا تاریک سال کبھی نہیں آیا جیسایہ سال ہے.پہلے ایسے موقع پر کہ کوئی چنده خاص نہیں لیا جاتا تھا مالی تنگی پیش آتی جو چنده خاص کے ذریعہ دور ہو سکتی تھی لیکن اب ہم دو دفعہ چنده خاص لے چکے ہیں.ایسی صورت میں جب تک سب لوگ تعاون نہ کریں کام نہیں چل سکتا.اس کے لئے ممکن ہے بعض عہدے اڑائے جائیں، بعض افراد تخفیف میں لائے جائیں، بعض دفاتر بند کئے جائیں جس سے بے چینی پیدا ہوگی.اس کا دور کرنا ہر ایک کا فرض ہے.اسی طرح ذاتی قربانی کی ضرورت ہے.اگر تنخواہوں میں کمی کی جائے تو اسے برداشت کیا جائے.اس کے لئے میں نے یہ اصول رکھے ہیں.(۱) اس وقت تک کوئی نیا کام نہ بڑھایا جائے جب تک ریزرو فنڈ نہ ہو اور آمد
۱۴۳ اخراجات سے بڑھ نہ جائے.(۲) آئندہ صیغوں کے لئے علیحدہ علیحدہ رقمیں مقرر کی جائیں کہ اتنا اتنا خرچ کرنا ہے.(۳) جو تخفیف کی جائے اس میں غرباء اور زیادہ افراد والوں پر بوجھ نہ پڑنے دیا جائے اور ان پر زیادہ اثر ڈالا جائے جو اسے برداشت کر سکیں اس لئے ایسے کارکن جو زیادہ تنخواہ پاتے ہوں یا جن کے گھر کے افراد کم ہونے کی وجہ سے اخراجات کم ہوں انہیں قربانی کے لئے زیادہ تیار ہونا چاہے.(۴) آئندہ کے لئے یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ جن کارکنوں کی تنخواہ میں تخفیف کی جائےوہ تخفیف اس صیغہ کے ذمہ قرض سمجھی جائے.اگر کسی کی ترقی روکی جائے تو یہ فرض کیا جائے کہ اسے ترقی دی گئی ہے مگر اس کی تنخواہ سے کاٹ رہے ہیں.پھر جب روپیہ آئے تو وہ ادا کیا جائے.اس سے یہ خیال رہے گا کہ کارکنوں کا اتنا قرضہ صیغہ جات کے ذمہ ہے.اور یہ سمجھ کر بے فکری نہ ہوگی کہ اس طرح آمدمیں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ یہ خیال رہے گا کہ یہ قرضہ ہے جسے ادا کرنا ہے.پہلی خرابی کسی وجہ سے ہو اور اس کی ذمہ داری خواہ کسی پر عائد ہوتی ہو اعلیٰ کارکنوں یا ماتحت کام کرنے والوں پر یا جماعت پر کہ اس نے کافی چندہ نہیں دیا اب یہی دو صورتیں ہیں کہ یا تو صیغہ جات میں تخفیف کر کے کام چلایا جائے یا کام بالکل بند کر دیا جائے.ہر ایک کے نزدیک بہتر یہی ہو گا کہ تخفیف کر کے کام چلایا جائے.مگر اب کے تخفیف کا اتنا اثر پڑے گا جتنا پہلے کبھی نہیں پڑا اس لئے اس اثر کو وہی برداشت کر سکیں گے جو قربانی کے لئے کھلا دل اور وسیع حوصلہ رکھیں گے.اس سے دو وقتیں پیدا ہوں گی.ایک تو یہ کہ کارکن کم ہو جائیں گے اس لئے کام زیادہ کرنا پڑے گا.دوسرے یہ کہ اخراجات میں مشکلات پیش آئیں گی.مگر جو اس قسم کی مشکلات کو برداشت نہیں کر سکتا وہ یہاں کام بھی نہیں کر سکتا.پس ہمیں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے اور قربانیاں کرتے ہوئے کام چلانا چاہئے.پس صیغہ جات کا اتحاد بہت سی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے اگر یہ اتحاد نہ ہوتا تو بھی مشکل ہوتی.موجودہ حالات میں نہ نظارت قائم رہ سکتی تھی نہ صدر انجمن.میں نے یہ حالات اس لئے بیان کئے ہیں تا ناواقف لوگ یہ نہ کہیں کہ صیغہ جات کے ملانے کا یہ نتیجہ نکلا ہے.بلادینے سے اس مشکل میں کچھ کمی ہوگی نہ کہ زیادتی اور ہم اس کام کو سنبھال سکیں گے.دوسری کمیٹی جو آمد بڑھانے کے لئے تجویز کی گئی ہے اس کے مدنظر یہ باتیں ہوں گی.اول عام چنده کے علاوہ ہر احمدی ہر سال نصف باہ کی آمدنی دیا کرے.دوم عملہ کھیل کو بڑھایا جائے.گورنمنٹ اس عملے پر اپنی آمد کا ۲۵ فیصدی صرف کرتی ہے لیکن ہم دو یا تین فيصدی خرچ کرتے ہیں.حالانکہ گورنمنٹ کے پاس وصولی کے اور ذرائع کے علاوہ جبر بھی ہے جو ہمارے پاس نہیں.
۱۴۴ دوسرے سلسلے کی آمد میں آج تک ایک خطرناک نقص رہا ہے اور میں اس کا مخالف رہا ہوں اور اب بھی ہوں.اور میری یہ رائے بھی نہیں بدل سکتی کہ وصیت کے معاملے کو غلط طور پر سمجھا گیا ہے.جن لوگوں کی جائیدادیں نہیں تھیںوہ وصیتیں کرتے چلے گئے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوةوالسلام نے وصیت کو مالی قربانی قرار دیا ہے مگر ۶۰ فیصدی وصیتیں ایسی تھی کہ عام لوگ شب برات اور محرم میں جتنا خرچ کرتے ہیں اس سے بھی کم انہوں نے وصیت میں دیا ہو گا.میں اس کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہوں اور میں سمجھ نہیں سکتا میری یہ رائے کبھی بدل سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر نہ تھا.میرے نزدیک ہر وہ جائداد جس سے کسی کا گذارہ نہیں چلتا اس کی اگر وصیت کرتا ہے تو وہ وصیت نہیں ہے اس لئے میں نے کارکنوں کو توجہ دلائی ہے کہ اس حکم کی وصیتیں فضول ہیں ان حالات میں چونکہ صاحب جائداد لوگوں نے وصیتیں کرنی چھوڑ دی ہیں اس لئے آمدمیں کمی گئی ہے.دوسرے یہ کہ وصايا موت کے وقت نہ کرنی چاہئیں.اس وقت تو ہر شخص کر دے گا.وصیت شوق سے اس وقت کرنی ہے جبکہ سامنے موت کا خوف نہ ہو.تیرے وصایا کرنے کی تحریک کرنی چاہئے.ایک دفعہ میں نے دیکھا تھا کہ ایک آدمی کو دو تین آدمی یہ کہہ کروصیت کرنے کے لئے مجبور کر رہے تھے کہ اگر نہ کرو گے تو منافق ہوگے.اس پر میں نے منع کیا تھاکہ اس طرح مجبور نہیں کرنا چاہے نہ یہ کہ تحریک ہی نہیں کرنی چاہئے.ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر ان سے وصیتیں کرائی جائیں تو انہیں سے کم از کم ایک کروڑ روپیہ وصول ہو سکتا ہے.میں نے جماعت کے مال کا اندازہ لگایا تو دیکھا کہ پنجاب کے تین ضلعوں منٹگمری، لائل پور اور سرگودھا کے احمدی اگر اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کی وصیت کریں تو دس لاکھ اور اگر زیادہ وصیت کریں تو ۳۳ لاکھ تک رقم مل سکتی ہے.اور سارے ہندوستان میں جماعت کی جائداد کا اندازہ لگایا جائے تو کم از کم دس کروڑ کی ہوگی.جس میں سے ایک کروڑ مل سکتا ہے.جن لوگوں کی جائدادیں نہیں ان کی ماہوار آمدنی وصیت میں رکھی گئی ہے.اور خواہ کوئی کتنی قلیل تنخوا کا ملازم ہو اگر وہ اس تنخواہ کا دسواں حصہ دیتا ہے تو واقعی قربانی کرتا ہے اس طرح تین لاکھ کے قریب آمد ہو سکتی ہے.پھر ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کی کوئی آمد نہیں یا جائداد نہیں وہ تبلیغ میں کوشش کریں تو کی خدمت ان کی طرف سے وصیت میں سمجھی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے لکھا ہے کثرت سے مال آئیں گے.مگر ہم دیکھتے ہیں
۱۴۵ نہیں آئے.وجہ یہ کہ وصیتوں کے متعلق غلط راستہ اختیار کرلیا گیا ہے.دراصل ایسے رنگ میں اس کی تعمیل ہونی چاہئے کہ وہ لوگ ایک جگہ جمع ہوں جو واقعہ میں قربانی کرنے والے ہوں اور اس کے لئے جائیدادیں رکھنے والوں کو عام تحریک کرتے رہنا چاہئے.اسی طرح ایک اور خطرناک نقص پایا گیا ہے جس کی طرف کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں.اور وہ نقص یہ ہے کہ صیغوں میں یہ میلان بہت کم ہے کہ آمد خود پیدا کریں حتی کہ تجارتی صیغے بھی نقصان میں رہتے ہیں.آئنده اس بات پر زور دینا چاہئے کہ صیغہ جات نہ صرف خرچ کے مطابق آمد پیدا کریں بلکہ نفع بھی حاصل کریں اور اس حد تک اس پر زور دینا چاہئے کہ اگر کسی صیغہ میں جو آمدنی پیدا کر سکتا ہے ایسا نہ ہو تو اس کے کارکن بدل دیئے جائیں یا ہٹادیئے جائیں.دنیا میں کوئی تجارتی صیغہ ایسا نہیں ہو گا جو ہمیشہ گھاٹے میں رہے اور اس کا مینجر ہٹایا نہ جائے.اس نقص کو آئندہ دور کرنا چاہیے.اور اگر آمد پیدا کرنے والا صیغہ آمد پیدا نہیں کرتا تو کارکنوں کی تنخواہیں کم کر دینی چاہئیں.افسربدل دینے چاہئیں یا کوئی اور صورت جو مناسب ہو اختیار کرنی چاہئے.باوجود اس بات کی طرف توجہ دلانے کے میں یہ کہنے سے رک نہیں سکتا کہ یہ باتیں ہماری اصل اغراض نہیں ہیں ہم روپیہ اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ اشاعت سلسلہ ہو.اور اس کی غرض دنیا میں قیام روحانیت ہے.اس لئے میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دنیا میں ہمارا فرض وہ روح پیدا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے آکر پیش کیا ہے کہ مکالمہ و مخاطبہ کبھی دنیا سے بند نہ ہو.ہم ایک غیراحمدی کو کہتے ہیں چونکہ تم سے خدا تعالی کا مکالمہ نہیں ہوتا اس لئے تم غلط راستہ پر ہو.یہی بات ہم عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر تمام مذاہب والوں سے کہتے ہیں لیکن اگر ہماری جماعت کا معتدبہ حصہ ایسا نہ ہو جو مکالمہ و مخاطبہ کا شرف رکھتا ہو تو پھر ہم اپنی صداقت کا دنیا کو کیا ثبوت دے سکتے ہیں اس لئے میں تمام کارکنوں کو اور خاص کرمدارس کے کارکنوں اور پھر خصوصاً مدرسہ احمدیہ کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نئی پود کی ایسی تربیت کریں کہ خداتعالی سے جو ہمارا تعلق ہے وہ قائم رہے.اگر ہم میں ایک ایسی جماعت نہ ہو جو مکالمہ و مخاطبہ کا شرف رکھتی ہو تو کس طرح ہم دنیا کو یہ منوا سکتے ہیں کہ خدا تعالی کا تعلق اس دنیا میں بھی اپنے پیارے بندوں سے ہو سکتا ہے.مگر اس کے متعلق کچھ عرصہ سےسستی پائی جاتی ہے.کوئی خاص تریک تو پہلے بھی نہ تھی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو دیکھ کر لوگوں میں خود بخود اس کی خواہش پیدا ہوتی رہتی تھی.مگر اب تو جہ کم ہے اور اگر یہی حالت رہی اور خدانخواستہ
۱۴۶ اس میں ترقی ہوتی گئی تو وہ نہر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے چلائی تھی، خشک ہو جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے لئے سب سے مقدم بات یہی ہو.اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے یہ گر بتایا ہے کہ خدا تعالی کی خالص محبت پیدا کی جائے.اس سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے وہ نہ مجاہدات سے اور نہ عبادات سے پیدا ہو سکتا ہے.محبت خالص خدا تعالی کو کھینچ لاتی ہے.اور یہ وہ چیز ہے کہ اس کی وجہ سے خدا تعالی نے بھی اپنے لئے پابندی مقرر کی ہے.حالانکہ وہ پابندیوں سے بالا ہے.پس تم خدا تعالی کی خالص محبت پیدا کرنے کی کوشش کرو تاکہ تم سے مکالمہ و مخاطبہ بند نہ ہو.جوں جوں زمانہ گزر رہا ہے اس کی ضرورت زیادہ بڑھ رہی ہے.قادیان والوں کو میں اس کی طرف خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں اور خصوصاً بچوں کی اصلاح کی طرف متوجہ کرتا ہوں.ان کے کان بچپن سے ہی اس بات سے آشنا ہونے جائیں کہ ہمارا مقصد خدا کو پانا ہے.یہ بات اگر بچوں کے دلوں میں ڈال دی جائے اور ہمیشہ ان کے سامنے پیش کی جائے اور میں صحیح گر انہیں بتائے جائیں تو ہماری جماعت میں مکالمہ و مخاطبہ کا شرف ہمیشہ جاری رہ سکتا ہے.پھر میں نے پہلے بھی بتایا تھا اور اب بھی بتاتا ہوں کہ روحانیت کو قائم رکھنے اور مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ سادہ زندگی بسر کی جائے.وہ لوگ جومال رکھتے ہیں جس طرح چاہیں کریں ہمیں سادہ زندگی بسر کرنی چاہئے اور کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے.پھر یہ کام چونکہ سب کے اتحاد سے ہو سکتے ہیں اس لئے میں سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپس میں اتحاد اور محبت بڑھانے کی کوشش کریں.پھر چونکہ یہ سب باتیں خداتعالی کے فضل پر منحصر ہیں اس لئے میں دوستوں سے چاہتا ہوں کہ اپنی اور سب کی روحانی ترقی سلسلہ کے کاموں اور ترقی کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اور یہ بھی چاہتا ہوں کہ ہم اس وقت مل کر دعا کریں کہ خدا تعالی صیغوں کا اتحاد بابرکت کرے اور ہمارے لئے اپنے فضل کے دروازے کھلے رکھے اور ان سامانوں کے استعمال کی توفیق دے جو ترقی کے لئے ضروری ہیں اور ان کے نیک نتائج ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے پیدا کرے.آمین ثم آمین (الفضل ۳۱ _اکتوبر،۳،۵،۷،۱۰ نومبر ۱۹۲۵ء) ۱-بخاری کتاب المغازی باب من قتل من المسلمين يوم احد.۲-بخاری کتاب الایمان باب كفران العشير و کفر دون كفر ۳- الوصیت صفحہ ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۹ (مفهوماً)
۱۴۷ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۵ء از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۱۴۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسولہ الكريم افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ (فرموده ۲۶ د سمبر۱۹۲۵ء) دنیا کا ہر ایک کام ہی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہوتا ہے اور ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ خدا انسان سے میرا کوئی کام کراتا ہے پھر بھی یہ اس کی صفات کا عین تقاضا ہے کہ دنیا کا ایک ذرہ بھی اس وقت تک حرکت نہیں کر سکتا جب تک خدا کا اِزن نہ ہو.اگر کوئی زندہ خدا میں تو پھر کوئی زندہ مذہب بھی نہیں.اور اگر زنده مذہب نہیں تو اس کی خاطر تکلیف برداشت کرنا اموال اور اوقات صرف کرنا بھی عقل کے خلاف ہے.مگر اصل بات یہ ہے کہ زندہ خدا ہے اور اس کے حکم سے سب کچھ ہوتا ہے اورعلاوہ اس کے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے خدا تعالی کے امراور اس کے علم اور اس کے فیصلہ سے ہو رہا ہے.ہماری جماعت کے کاموں میں ایک خاص خصوصیت ہے.اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کے کام تقدیر عام کے ماتحت نہیں بلکہ تقدیر خاص کے ماتحت ہوتے ہیں.ہر انسان جو لیتا ہے تقدیر عام کے ماتحت لیتا ہے.اسی طرح ہر قوم جو دنیا میں ترقی اور تنزل کرتی ہےتقدير عام کے ماتحت کرتی ہے.مگر ہم جو قدم اٹھاتے ہیں تقدیرخاص کے ماتحت اٹھاتے ہیں اور خدا تعالی کی عام تقدیر پر اس کی موید ہوتی ہے.پس میں سالانہ جلسہ کے شروع کرنے سے قبل جس کی بنیاد خدا تعالی کے ارشاد کے ماتحت اس کے مرسل نے رکھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہمارے تمام کاموں میں برکت دے ہماری نیتوں میں برکت دے ہمارے قلوب درست کرے ہماری کمزوریوں کو معاف کر کے اپنے فضل سے اس کام کو بلند کرے جس کیلئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو بھیجا.میں احباب سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ دعا میں شامل ہوں تاکہ جو کام ہم شروع کرنے والے ہیں وہ خدا کا کام ہو نہ کہ ہمارا.اور اس کی ابتدا ہمارے نفوس سے نہ ہو بلکہ خدا تعالی کے اذن سے ہو.(اس کے بعد لمبی دعا کی گئی اور پھر حضور نے فرمایا:)
۱۵۰ اب پروگرام کے مطابق انشاء اللہ جلسہ کی کارروائی شروع ہو گی مجھے چونکہ اور کام ہے اس لئے میں جاتا ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ دور دراز سے ہمت کر کے آئے ہیں تو جلسہ کے اوقات کو ضائع نہ ہونے دیں اور لیکچر دینے والے جو بات کہیں اسے غور سے سنیں کیونکہ جب تک غور سے کوئی بات نہ سنی جائے اس کا فائدہ نہیں ہوتا اور مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب اس کے سامنے خدا کی بات کی جائے تو ڈھیلا ہو کر خدا کے حضور گر پڑتا ہے.پس احباب ہر ایک بات غور اور توجہ سے سنیں.(الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۶ء)
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسولہ الكريم منہاج الطالبین (فرمودہ مؤرخہ ۲۷ دسمبر۱۹۲۵ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان) حضور نے تشہد اور تعوذ کے بعد حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں:- اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ.الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْداً وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا.سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِo رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْ خِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ.وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍo رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِيْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا.رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰ تِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِo رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ.اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَo فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی.بَعْضُکُمْ مِنْم بَعْضٍ.فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ.وَقَاتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰ تِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ.ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ.وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِo (آل عمران رکوع:۲۰) مَیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتاہوں کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں پھر ایک دفعہ اپنے اس نشان کو پورا کرنے والا قرار دیا.جو کہ اس نے اپنے مامور اور مُرسل کے لئے دُنیا میں قائم کیا.پھر اس نے ہمیں اِس بات کی توفیق دی کہ کسی دُنیوی عزّت کے لئے نہیں کسی دنیوی خواہش کے لئے نہیں کسی مال و دولت کے لئے نہیں.کسی آرام و آسائش کے لئے نہیں.بلکہ صرف اسی کی
۱۵۴ ذات اور اسی کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے، اس کے ایمان پر ثبات کے لئے اِس جگہ جمع ہوئے ہیں.پھر مَیں اللہ تعالیٰ سے اس بات کی دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری نیتوں کو درست کرے اور ہمارے عملوں کو صالح بنائے.اِس کے بعد مَیں اس مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جسے مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اِس جلسہ میں آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے.لیکن پیشتر اس کے کہ مَیں اس مضمون کو شروع کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کے دو حصّے ہیں.پہلا حصّہ تو چند ایسے امور پر مشتمل ہے جن کی طرف مَیں جماعت کو سالانہ اجتماع کے موقعہ پر توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.اور دوسرا حصّہ جس کے متعلق ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آج ہی شروع کر دوں.کیونکہ وہ لمبا ہے.وہ علمی مضمون ہے.جیسا کہ مَیں پچھلے سالوں میں بیان کیا کرتا ہوں.اس کی حقیقت آگے چل کر بیان کروں گا.(اس موقعہ پر منتظمین جلسہ گاہ نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ ابھی بہت سے آرہے ہیں.لیکن جلسہ گاہ میں جگہ نہیں ہے.لوگوں سے کہا جائے کہ وہ سُکڑ کر بیٹھیں تاکہ جو لوگ باہر ہیں اُن کے لئے بھی جگہ نِکل سکے.اس پر حضور نے فرمایا):- اَب کے ہم نے بہت وسیع جلسہ گاہ بنائی تھی مگر خدا تعالیٰ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ مَیں تمہاری اُمید سے بڑھ کر تمہیں سُننے والے دیتا ہوں.احباب سُکڑ کر بیٹھیں تا کہ جو دوست باہر ہیں وہ بھی آسکیں.مگر شور نہ ہو اور دوست تقریر غور سے سُنیں.مجھے کھانسی ہے اور کھانسی کی وجہ سے آواز بیٹھ گئی ہے.گو مجھے خدا تعالیٰ سے اُمید ہے کہ وہ مجھے توفیق دیگا کہ مَیں جو کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ دوستوں کو سُنا سکوں.مگر اسباب کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے.پس احباب خاموشی سے بیٹھیں اور جو کچھ سُنایا جائے غور سے سُنیں.سب سے پہلے مَیں اُن چند غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں جو میری ذات کے متعلق بعض لوگوں میں پیدا ہو گئی ہیں.ہمارے بعض دوست جنہیں باہر جانے کا اتفاق ہوتا ہے اُنہوں نے بیان کیا ہے.اور بغیر کسی کا نام لئے بیان کیا ہے (اور مَیں نے بھی ضرورت نہیں سمجھی کہ اُن سے نام پُوچھوں) میری نسبت بعض لوگوں نے کہا ہے کہ وہ خالی بیٹھے رہتے ہیں.کام کیا کرتے ہیں.ہمیں تو ان کاکوئی کام نظر نہیں آتا؟ ایسے لوگوں کے لئے مَیں اپنی طبیعت کے برخلاف اپنے کام بیان کرتا ہوں.تاکہ جن دوستوں کو اس بارے میں شک ہو اُن کا شک دُور ہو جائے.کیونکہ شکوک زہر کی
۱۵۵ طرح ہوتے ہیں جو عروق میں بیٹھے رہیں تو ہلاکت اور موت کا باعث ہوتے ہیں.مَیں چونکہ قریب کے گزشتہ ایّام کی نسبت زیادہ تفصیل سے اپنے کام بتا سکتا ہوں اِس لئے انہی کا ذکر کرتا ہوں تاکہ دوستوں کو معلوم ہو جائے کہ جہاں تک میرے نزدیک میری طاقت ہے اس کے مطابق مَیں کام کر لیتا ہوں.گو مَیں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر کوئی دوست اس سے زیادہ کام کرنے کا طریق بتائیں تو اس پر بھی عمل کروں مگر اب مَیں جوکام کرتا ہوں ان کی تفصیل یہ ہے کہ مَیں صبح ناشتہ کے بعد مدرسہ خواتین میں پڑھاتا ہوں.یہ ایک نیا مدرسہ قائم کیا گیا ہے جس میں چند تعلیم یافتہ عورتوں کو داخل کیا گیا ہے.ان میں میری تینوں بیویاں اور لڑکی بھی شامل ہیں.ان کے علاوہ اَور بھی ہیں.چونکہ ہمیں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے معلم عورتیں نہیں ملتیں اس لئے چِکیں ڈال کر عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں.آج کل میں ان عورتوں کو عربی پڑھاتا ہوں.مولوی شیرعلی صاحب انگریزی پڑھاتے ہیں اور ماسٹر محمد طفیل صاحب جغرافیہ.سو ۱ گھنٹہ تک مَیں انہیں پڑھاتا ہوں.اصل وقت تو ۴۵ منٹ مقرر ہے مگر سارے استاد اپنا کچھ نہ کچھ وقت بڑھا لیتے ہیں کیونکہ مقررہ وقت کم ہے اور تعلیم زیادہ ہے.اس کے بعد اس کمرہ میں جہاں دوست ملاقات کرتے ہیں جاتا ہوں.آج کل اس کی شکل اَور ہے.کیونکہ ملاقات کے لئے جگہ نکالنے کے لئے وہاں سے سامان اُٹھا دیا گیا ہے.میرے کام کرنے کے ایام میں اس کی یہ شکل ہوتی ہے کہ وہ کتابوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے.وہاں آکر میرا دفتر ی کام شروع ہوتا ہے.اس جگہ سوا نو بجے کے قریب آتا ہوں.اس وقت مَیں سلسلہ کے انتظامی کاموں اور کاغذات اور سکیموں کا مطالعہ کرتا ہوں.اسی دوران میں دس بجے کے قریب ڈاک آجاتی ہے.جس میں روزانہ ۶۰،۷۰،۸۰ سَو سَوا سَو خطوط ہوتے ہیں جو کم از کم دو اڑھائی گھنٹہ کا کام ہوتا ہے.اس لئے اِس کام سے مجھے ساڑھے بارہ بجے یا ایک بجے فراغت ہوتی ہے.اس کے بعد مَیں کھانا کھانے جاتا ہوں.پھر نماز ظہر کے لئے مسجد آتا ہوں.نماز پڑھانے کے بعد پھر آکر سلسلہ کے کام جو سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں یا دفاتر کے کاغذات پڑھنے یا تدابیر سوچنے یا بعض علمی مضامین کے لئے مطالعہ کرتا ہوں.کیونکہ کئی کتابیں مَیں نے لکھنی شروع کی ہوئی ہیں.اس کے بعد پھر عصر کی نماز کے لئے جاتا ہوں.نماز پڑھانے کے بعد وہاں کچھ دیر دوستوں کے لئے بیٹھتا ہوں.اور اگر درس ہو تو درس کے لئے چلا جاتا ہوں یا بیٹھ کر خطوط کے جواب لکھاتا ہوں کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے.وہ پڑھاتا ہوں اور اس کے بعد کھانا کھا کر عشاء کی نماز تک مطالعہ کرتا ہوں اور پھر عشاء کی نماز کے بعد کام کے لئے اسی کمرہ میں چلا جاتا ہوں جہاں ۱۱
۱۵۶ بجے سے ۱۲ بجے رات تک ترجمہ قرآن کریم کا کام کرتا ہوں.پھر علمی شوق کے لئے ذاتی مطالعہ کرتا ہوں.مگر اس کا فائدہ بھی جماعت کو ہی پہنچتا ہے.ساڑھے بارہ بجے یا ایک بجے تک یہ مطالعہ کرتا ہوں.اس کے بعد جب بستر پر لیٹتا ہوں تو تھکان کی وجہ سے نیند نہیں آتی.آنکھوں کے سامنے چیزیں ہلتی ہوئی نظر آتی ہیں.کیونکہ تھکان کی وجہ سے اعصاب کانپ رہے ہوتے ہیں.اِسی حالت میں نیند آجاتی ہے.پھر صبح کی نماز کے بعد کام کا یہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.یہ میرا کام ہے جو پچھلے تین چار ماہ سے ہو رہا ہے.اسی کام کے دَوران میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق جو مَیں نے ایک جلسہ کے موقعہ پر تقریر کی تھی اسے قریباً قریباً دوبارہ لکھا ہے.اسے دو تین بجے رات تک لکھتا رہتا تھا.اِن حالات میں جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں میرے وقت میں سے کوئی وقت ایسا نہیں بچتا جب مجھے فراغت ہو.کھانا کھاتے ہوئے بھی مَیں سلسلہ کے متعلق تجاویز اور اہم معاملات پر غور کر رہا ہوتا ہوں.اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے بیویاں یہ سمجھ کر کوئی بات دریافت کر لیں کہ اب یہ فارغ ہے تو باوجود اس طرز کی ناپسندیدگی کے مجھے انہیں خشک جواب دینا پڑتا ہے کہ کیا تم میرے چہرہ سے یہ معلوم نہیں کر سکتیں کہ کسی امر کے متعلق غور و فکر کر رہا ہوں تو بسا اوقات کھانا کھانے کے وقت بھی مجھے غور اور فکر میں ہی مشغول رہنا پڑتا ہے.گو طبیب اور حکیم کہتے ہیں کہ اِس طرح کھانا کھانے سے کھانا اچھی طرح ہضم نہیں ہوتا.مگر جب کسی کو کسی بڑے کام کی فکر لگی ہوئی ہو تو پھر اُسے حکیم کا مشورہ نہیں سُوجھتا.مجھے اپنے متعلق یہ خیال سُن کر کہ مَیں کیا کام کرتا ہوں اُس ہر دلعزیز کی مثال یاد آگئی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں گدھا لے کر جارہا تھا.ساتھ اُس کے اس کا بیٹا بھی تھا.راستہ میں انہیں کچھ آدمی ملے جنہوں نے کہا کیسے بیوقوف ہیں پیدل جا رہے ہیں اور گدھا خالی ہے.سوار کیوں نہیں ہو جاتے.یہ سُن کر باپ گدھے پر سوار ہو گیا.کچھ دُور جانے کے بعد کچھ اور آدمی ملے.جنہوں نے کہا کہ آجکل خون سفید ہو گئے ہیں.دیکھو بیٹا تو پیدل جا رہا ہے اور باپ سوار ہے.یہ سُن کر باپ اُتر بیٹھا اور بیٹے کو چڑھا دیا.تھوڑی دور پر اَور آدمی ملے.جنہوں نے کہا دیکھو بڈھا تو پیدل جا رہا ہے اور ہٹا کٹا جوان سوار ہے.یہ سُن کر دونوں نے مشورہ کیا کہ باپ بیٹھتا ہے تو بھی اعتراض ہوتا ہے بیٹا بیٹھتا ہے تو بھی اعتراض ہوتا ہے اب یہی تدبیر ہے کہ دونوں بیٹھ جائیں.یہ مشورہ کرکے دونوں گدھے پر بیٹھ گئے.آگے چلے تو کچھ اور لوگ ملے.اُنہوں نے کہا شرم نہیں آتی ایک بے زبان جانور پر ہر دو آدمی سوار بیٹھے ہیں.یہ سُن کر وہ دونوں اُتر بیٹھے اور مشورہ کرنے لگے کہ پچھلی سب
۱۵۷ صورتیں قابلِ اعتراض تھیں اب کیا کیا جائے.آخر سوچ کر سوا اِسکے کوئی تدبیر نظر نہ آئی کہ دونوں مل کر گدھے کو اُٹھا لیں.آخر اسی طرح کیا.مگر گدھے نے لاتیں مارنی شروع کیں اور ایک پُل پر اُلٹ کر گر گیا اور ہلاک ہو گیا اور باپ بیٹا ہر دلعزیزی کی خواہش پر افسوس کرتے ہوئے گھر واپس آگئے.اس خیال کا مطلب یہ ہے کہ انسان خواہ کچھ کرے اس پر اعتراض ضرور ہوتا رہتا ہے.ہماری جماعت میں ایک تو وہ لوگ ہیں جو رات اور دن کہتے رہتے ہیں کہ آپ ہر وقت کام میں لگے رہتے ہیں کسی وقت کام نہیں چھوڑتے.اور ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کام ہی کیا کرتے ہیں ہمیں تو کوئی کام نظر نہیں آتا.اگر نظر نہ آنے والوں کی بات سچی ہے اور یہ بیکار بیٹھنے کی علامت ہے.تو اللہ تعالیٰ تو کچھ نہ کرتا ہوگا.کیونکہ وہ کسی کو کام کرتا نظر نہیں آتا.کام کئی قسم کے ہوتے ہیں.کچھ دماغی کام ہوتے ہیں اور کچھ جسمانی.ایک شخص جو قوم کے غم میں دن رات تدبیر سوچتا رہتا ہے دیکھنے والا تو اس کے متعلق یہی کہے گا کہ نکما بیٹھا رہتا ہے.مگر کیا کوئی عقلمند بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایک ٹوکری ڈھونے والا تو کام کرتا ہے مگر وہ دماغی کام کرنے والا نکما بیٹھا رہتا ہے.دماغی فکر تو وہ چیز ہے جو ایک دن رات میں انسان کو بوڑھا کر دیتی ہے.مگر جسمانی کام انسان کو اور زیادہ طاقتور بناتا ہے.حالانکہ دماغی کام نظر نہیں آتا اور جسمانی کام نظر آتا ہے.دماغی کام پاس بیٹھنے اور ساتھ رہنے سے معلوم ہو سکتے ہیں.جب مَیں گزشتہ سال ولایت گیا تو کئی انگریز بھی جو ملنے کے لئے آتے گو وہ مسلمان نہ تھے وہ مجھے کام میں مشغول دیکھ کر مشورہ دیتے کہ اس طرح صحت خراب ہو جائے گی.آپ کچھ آرام بھی کیا کریں حقیقتِ حال انسان کو ملنے سے ہی معلوم ہو سکتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے: خیر کم خیر کم لا ھلہٖ جس سے ظاہر ہے کہ بیوی کی گواہی خاوند کے متعلق بہت وزن رکھتی ہے.اس لئے مسلمان حضرت خدیجہؓ کی گواہی رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کے متعلق پیش کیا کرتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے ایک مبلغ کے متعلق میرے پاس شکایت پہنچی کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں.اس پر جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا اور باتیں تو غلط ہیں البتہ یہ مَیں نے کہا ہے کہ جو آدمی ان کے ساتھ رہے اُس سے کام اِس سختی سے لیتے ہیں کہ وہ تنگ ہو جاتا ہے.پس میرے کام کا اندازہ ساتھ کام کرنے والے کر سکتے ہیں.مجھے خدا تعالیٰ نے ایسی عادت ڈالی ہے کہ مجھے بچپن میں بھی مطالعہ کا شوق تھا.بچپن سے
۱۵۸ میری مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد کا زمانہ ہے.میری صحت اِس عادت کی وجہ سے اس قدر کمزور ہو گئی تھی کہ ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے اس کے متعلق مشورہ کیا اور مجھ سے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کم سے کم سات گھنٹے ان کو متواتر سونا چاہئے.ورنہ صحت خراب ہو جائے گی.اور پھر سخت تاکید کی کہ سات گھنٹے متواتر سویا کرو.ورنہ صحت زیادہ بِگڑ جائے گی اور فرمایا یاد رکھو جو طبیب کا حکم نہ مانے وہ نقصان اُٹھاتا ہے تم اِس حکم کی پابندی کرو.مگر باوجود اسکے سوائے سخت بیماری کے ایام کے میری نیند ساڑھے چار گھنٹہ سے چھ گھنٹہ تک ہوتی ہے.اِسی وجہ سے اب اعصابی کمزوری اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ جو لوگ میرے پیچھے نماز پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ سورتیں جو مَیں روزانہ پڑھتا ہوں بعض اوقات وہ بھی بھول جاتا ہوں.اور نظر اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ بعض اوقات آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے.لیکن باوجود صحت کی یہ حالت ہونے کے مَیں دن رات اس طرح کام کرتا ہوں جو مَیں نے بتایا ہے.اور چونکہ اِس قِسم کے خیالات دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں.اس لئے مَیں نے ان کا ازالہ ضروری سمجھا ہے.یہی دیکھ لو جو دوست جلسہ پر آتے ہیں وہ تو سمجھتے ہوں گے کہ مَیں نے دو دن لیکچر دیا تو یہ کونسا بڑا کام ہے مگر وہ یہی نہیں جانتے کہ اس لیکچر کے لئے مجھے کس قدر مطالعہ کرنا پڑتا ہے.جو مسئلہ مَیں بیان کرتا ہوں اس کے متعلق مذاہب کے لوگوں کے خیالات معلوم کرنے کے لئے مجھے بہت کچھ ورق گردانی کرنی پڑتی ہے.یہی لیکچر جو مَیں آج دینا چاہتا ہوں اس کی تیاری کے لئے میں نے کم از کم بارہ سو صفحے پڑھے ہوں گے.ان میں سے مَیں نے بہت ہی کم کوئی بات بطور سند کے لی ہے.اور یہ صفحات مَیں نے محض خیالات کا موازنہ کرنے کے لئے پڑھے ہیں.یہ درست ہے کہ میرے دماغ میں جو باتیں آتی ہیں محض خدا کے فضل سے آتی ہیں.مگر خدا کے فضل کے جاذب بھی ہونے چاہئیں.اور اس کے لئے فِکر کی ضرورت ہوتی ہے.مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے.مراقبہ کی ضرورت ہوتی ہے.پس یہ لیکچر ایک دن کی تقریر نہیں ہوتی بلکہ لمبے غور، لمبے فکر اور لمبے مطالعہ کا نتیجہ ہوتا ہے.پھر جلسہ کی تقریریں یونہی چھپ نہیں جاتیں.تقریریں لکھنے والا ساری تقریریں مکمل طور پر نہیں لکھ سکتا.اسے صاف کرکے لکھنے میں مہینہ کے قریب عرصہ لگ جاتا ہے اور پھر مجھے اس کی لکھی ہوئی تقریروں کی اصلاح کرنی پڑتی ہے.تاکہ جس ترتیب سے مضمون بیان کیا جاتا ہے وہی قائم رہے.اِس کے بعد مَیں ایک اَور بات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ
۱۵۹ مَیں بہت کم لوگوں کو ملاقات کا موقع دیتا ہوں.مَیں نے پچھلے جلسوں میں سے کسی میں بیان کیا تھا کہ ملاقات اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر باوجود بہت سا کام ہونے کے مَیں دوستوں کو ملاقات کا وقت دیتا ہوں.کیونکہ جو لوگ اس طرح الگ ملتے ہیں ان میں بعض کی ایک سال، بعض کی دوسرے سال اور بعض کی تیسرے سال واقفیت ہو جاتی ہے.اور اب مَیں اپنی جماعت کے ہزاروں آدمیوں کی پہچان رکھتا اور انہیں پہچان سکتا ہوں.اِس ملاقات کے علاوہ بھی مَیں دوستوں کو علیحدہ ملاقات کا موقعہ دیتا رہتا ہوں لیکن الگ ملنا تبھی ضروری ہو سکتا ہے جبکہ خاص طور پر اس کی ضرورت بھی ہو.اور کوئی ایسی بات کرنی ہو جو مجلس میں نہ کی جا سکتی ہو.مگر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوست آتے ہیں اور الگ ملنا چاہتے ہیں لیکن جب علیحدہ ملاقات کا موقعہ دیا جاتا ہے تو کہتے ہیں مجھے اپنے لئے دُعا کے لئے کہنا تھا.حالانکہ یہ بات وہ مجلس میں بھی کہہ سکتے تھے.مگر اس کے لئے میرے وقت میں سے ۱۵-۲۰ منٹ خرچ کرا دیتے ہیں.مَیں نے اپنے جو کام پہلے بتائے ہیں ان میں دوستوں سے ملاقات کا وقت بھی ہوتا ہے اور جو دوست کسی ضروری کام کے لئے علیحدہ ملنے کی درخواست کرتے ہیں انہیں مَیں علیحدہ ملنے کے لئے وقت دیتا ہوں.مگر مَیں نے چونکہ پچھلے تجربہ سے دیکھ لیا ہے کہ عام طور پر علیحدہ ملاقات کا وقت مقرر کرکے ایسی باتیں کہتے ہیں جو عام مجلس میں بھی کہی جا سکتی ہیں اس لئے اب جو شخص علیحدہ ملاقات کے لئے کہتا ہے اس کے متعلق مَیں اپنے سیکرٹری سے کہتا ہوں کہ پوچھ لو کہ آیا ایسا ضروری کام ہے جو علیحدگی میں ہی کیا جا سکتا ہے.اور جب ایسا ہوتا ہے مَیں وقت دے دیتا ہوں.مَیں نے اپنے جو کام بتائے ہیں ان سے احباب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرا کوئی وقت فارغ نہیں ہے.دن رات کے ۲۴ گھنٹے مجھے مصروف رہنا پڑتا ہے.اب یہ تو میرے لئے ناممکن ہے کہ مَیں دن رات کے ۴۸ گھنٹے بنا لوں.پھر مَیں یہ تو کر سکتا ہوں کہ حوائجِ ضروریہ مثلاً کھانا، پینا، پیشاب، پاخانہ، سونا وغیرہ میں تھوڑے سے تھوڑا وقت خرچ کروں مگر مَیں اِن ضرورتوں کو بند نہیں کر سکتا.ان حالات میں اگر مَیں بغیر ضرورت کے علیحدہ وقت ملاقات کے لئے دوں تو اس سے دوسرے کاموں میں حرج واقعہ ہوگا.بعض دفعہ مَیں نے دیکھا ہے.کوئی دوست ملنے کے لئے آئے تو میرا ہاتھ پکڑ کر ۱۵-۱۵، ۲۰-۲۰ منٹ یہی کہتے جاتے ہیں.میرے لئے ضرور دُعا کرنا.چونکہ میں ہر بار اُن کے جواب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ضرور دُعا کروں گا اس لئے کسی کسی وقت کہہ دیتا ہوں.ہاں ضرور کرونگا اور پھر خاموش ان کی بات سُنتا رہتا ہوں.مَیں اِس طریق کو روکنا چاہتا ہوں.اور یہ بھی آپ ہی لوگوں کے فائدہ کے لئے.تا
۱۶۰ کہ مَیں اپنا وقت ضروری کاموں میں لگا سکوں.اس طریق کی بجائے اگر کوئی صاحب میرا زیادہ وقت لئے بغیر دُعا کے لے کہیں تو مجھے اُن کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو.کیونکہ مَیں سمجھوں کہ ان کو میرے وقت کی قدر ہے.لیکن جو لوگ دیر تک ہاتھ پکڑے رکھتے ہیں اُن کے سامنے مَیں بظاہر تو بشاشت قائم رکھتا ہوں لیکن میرا دل تلملا رہا ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے میرے فلاں کام میں حرج ہو رہا ہے.اِس طریق سے ملاقات کرنے والوں کو مَیں روکنا چاہتا ہوں.لیکن اگر کسی کو ضروری کام ہو تو اس سے مَیں دن رات میں ہر وقت ملنے کے لئے تیار ہوں.مَیں مُلاقات کو نہایت ضروری سمجھتا ہوں.اور جس طرح مَیں ان کو غلطی پر سمجھتا ہوں جو بلا ضرورت اور بلا وجہ میرا وقت صرف کرتے ہیں.اسی طرح مَیں اُن کو بھی غلطی پر سمجھتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ ملنا ہی نہیں چاہئے.جب بھی موقعہ ملے یہاں ضرور آنا چاہئے اور مجھ سے ملنا چاہئے.ہاں اگر کوئی ایسی بات کرنی ہو جو مجلس میں نہ کی جا سکتی ہو.مثلاً کوئی ایسی بیماری ہو یا اپنے خاص حالات ہوں یا کوئی اور ایسی ہی بات ہو تو اس کے لئے مَیں علیحدہ ملنے کے واسطے بھی تیار ہوں.اب تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کئی دوست بعض سوالات لِکھ کر لاتے ہیں اور ان کے متعلق علیحدہ پوچھتے ہیں.اُس وقت مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ اگر یہی سوال مجلس عام میں پوچھتے تو اوروں کو بھی فائدہ ہوتا.مثلاً یہی سوال کہ نماز میں توجہ کیونکر قائم رہ سکتی ہے.ظاہر ہے کہ اِس سوال کا جواب اور لوگوں کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے.مگر پوچھنے والے صاحب علیحدہ وقت لیکر پوچھتے ہیں اور عام لوگوں کو اس کے فائدہ سے محروم رکھتے ہیں.اِس قِسم کی علیحدہ ملاقات کرنے والوں کو روکنا چاہتا ہوں.ورنہ ملاقات کا حکم تو قرآن مجید میں بھی موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کُونُوْ ا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.جو لوگ اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتے ہیں ان سے ملتے رہا کرو.پس ملاقات ضروری ہے.اور اس قدر ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.جو لوگ ہمارے پاس نہیں آتے اُن کے ایمان کا خطرہ ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جو یہاں آتے تو ہیں لیکن مجلس میںدوسروں کے پیچھے بیٹھے رہتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں مَیں اُن کو دیکھ رہا ہوتا ہوں.لیکن ہمارے خاندان کے لوگوں کی آنکھیں اس قِسم کی ہیں کہ اوپر کو زیادہ نہیں کھل سکتیں.ان کے اوپر گوشت زیادہ ہے.جس کی وجہ سے نیچے جھکی رہتی ہیں.اور اگر زیادہ کھولیں تو درد ہونے لگتا ہے.پس جو دوست یہاں آئیں اُنہیں مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مجھے ملیں.اور انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ وہ کب تک رہیں گے اور اپنے اور اپنی جگہ کے حالات سے اطلاع دینی چاہئے.اس طرح اُن کی طرف خاص توجہ کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور اُن کے
۱۶۱ لئے دُعا کی طرف توجہ ہوتی ہے.اِس کے بعد مَیں ایک اور شُبہ کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں بعض دوستوں کا یہ خیال بیان کیا گیا ہے کہ دُعا کے لئے لکھنے کا کیا فائدہ ہے.اور وہ اتنے لوگوں کے لئے کہاں دُعا کرتے ہوں گے.اِس میں شُبہ نہیں کہ اگرکسی کو یہ خیال ہو کہ جس دوست کی دُعا کے لئے چٹھی آئے اُس کے لئے مَیں آدھ گھنٹہ یا گھنٹہ الگ بیٹھ کر دُعا کرتا ہوں تو یہ درست نہیں.مَیں نہ اِس طرح کرتا ہوں اور نہ کر سکتا ہوں.سو کے قریب روزانہ قادیان کے رُقعے ملا کر دُعا کی درخواستیں ہوتی ہیں اور بعض اِس قسم کے خطوط لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے دُعا کرتے رہنا.ان کو بھی اگر ملایا جائے تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے.ان کے لئے اگر ایک ایک منٹ بھی علیحدہ دُعا کے لئے رکھا جائے اور پھر اسلام کی ضروریات کو شامل کیا جائے تو تین چار گھنٹے صرف ایک وقت کی دُعا کے لئے چاہئے ہوتے ہیں.اس لئے مَیں اسی طرح کرتا ہوں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا کرتے تھے.آپ کا قاعدہ تھا کہ خط پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ دُعا بھی کرتے جاتے.مَیں بھی اسی طرح کرتا ہوں.اس وجہ سے خط بھی خاص توجہ سے پڑھا جاتا ہے اور اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک خط سیکرٹری کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ مجھے سُنا رہا ہوتا ہے لیکن مَیں کہتا ہوں.اِس میں یہ نہیں بلکہ یہ لکھا ہے.اور میری ہی بات درست نکلتی ہے.غرض دُعا کی وجہ سے مَیں خط پڑھنے میں پوری توجہ دیتا ہوں اور خط کا سارا مضمون میرے ذہن نشین ہو جاتا ہے.ایک تو اس طرح دُعا کرتا ہوں.دوسرے یہ طریق مَیں نے رکھا ہے کہ نوافل میں دعا کرتا ہوں اور پچھلے دنوں سے تو جماعت کی ترقی اور مشکلات کے ازالہ کے لئے ہر فرض نماز میں دُعا کرتا ہوں.اس دعا میں علاوہ اسکے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی درود بھیجتا ہوں اِنکے درجات کی بلندی کے لئے دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی بعثت کے اغراض کو ہمارے ذریعہ سے پورا کرے.ان کے نہ ماننے والوں اور اعتراض کرنے والوں کو سمجھ دے سلسلہ کی مشکلات اور تکالیف کو دور کرے اور ترقی کے سامان پیدا کرے.پھر جب سے کابل کے واقعاتِ شہادت ہوئے ہیں روزانہ یہ بھی دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے وہاں کے بھائیوں کی مدد اور نصرت فرمائے اور انہیں دشمنوں کے ہر شر سے محفوظ رکھے.پھر یہ دُعا بھی کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اسلام کی صداقت کو مشرق اور مغرب میں پھیلائے.اور سب انسانوں کو اسلام میں داخل کرے.پھر ساری جماعت کے لئے دُعا کرتا ہوں.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جماعت کی مالی، جسمانی، اخلاقی، علمی، روحانی ہر
۱۶۲ منہاج الطالبین قسم کی روکوں کو دور کرکے ان تمام اقسام میں ترقی کے سامان پیدا کرے.پھر سلسلہ کے جو اہم کام ہوتے ہیں ان کے لئے دُعا کرتا ہوں.پھر یہ دُعا کرتا ہوں کہ جنہوں نے مجھے دُعا کے لئے لکھا ہے اللہ تعالیٰ ان کے دُکھ اور تکالیف دور کرکے اُن کے لئے راحت کے راستے کھول دے.اس وقت وہ لوگ جن کی مشکلات کا میرے دل پر خاص اثر ہوتا ہے ان کے نام لیکر ان کے لئے دُعا کرتا ہوں.پھر یہ دُعا کرتا ہوں کہ الٰہی ہماری موجودہ جماعت پر ہی فضل نہ فرما.بلکہ اس کی اولاد پر بھی فضل فرما.پھر سلسلہ کے کارکنوں کے لئے دُعا کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کی سمجھ عطا فرما.اپنے فضلوں کا وارث بنا.لوگوں سے ہمدردی اور تعاون کا طریق سکھا.جماعت کا ان کے ساتھ تعاون اور ہمدردی ہو.پھر وہ دوست جو تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں اُن کے لئے اور اُن کے گھر والوں کے لئے دُعا کرتا ہوں.پھر جو مصائب میں مبتلا ہیں اُن کے لئے دُعا کرتا ہوں.یہ دعائیں پانچوں وقت بلاناغہ علاوہ نوافل کے فرض نمازوں میں کرتا ہوں.اب بھی اگر کوئی کہے کہ مَیں جماعت کے لئے دعائیں نہیں کرتا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی دن کے وقت کہے سورج نہیں نکلا ہوا.مَیں جس طرح دُعا کرتا ہوں.۹۰ فیصدی ایسے لوگ ہوں گے جو خود بھی اپنے لئے اس طرح دُعا نہیں کرتے ہوں گے.ایک اور خیال مجھے بتایا گیا ہے.اور یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ سے چونکہ اختلاف جائز ہے اس لئے ہمیں ان سے فلاں فلاں بات میں اختلاف ہے.مَیں نے ہی پہلے اس بات کو پیش کیا تھا اور مَیں اب بھی پیش کرتا ہوں کہ خلیفہ سے اختلاف جائز ہے.مگر ہر بات کا ایک مفہوم ہوتا ہے.اس سے بڑھنا دانائی اور عقلمندی کی علامت نہیں ہے.دیکھو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر کی ہر رائے درست ہوتی ہے.ہر گز نہیں ڈاکٹر بیسیوں دفعہ غلطی کرتے ہیں مگر باوجود اس کے کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ ڈاکٹر کی رائے بھی غلط ہوتی ہے اس لئے ہم اپنا نسخہ آپ تجویز کریں گے.کیوں؟ اس لئے کہ ڈاکٹر نے ڈاکٹری کا کام باقاعدہ طورپر سیکھا ہے.اور اسکی رائے ہم سے اعلیٰ ہے.اسی طرح وکیل بیسیوں دفعہ غلطی کر جاتے ہیں.مگر مقدمات میں انہی کی رائے کو وقعت دی جاتی ہے.اور جو شخص کوئی کام زیادہ جانتا ہے.اس میں اس کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے.پس اختلاف کی بھی کوئی حد بندی ہونی چاہئے.ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اُسے سمجھنا چاہئے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے.اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہ نمائی اور دینی مسائل میں غور و فکر
۱۶۳ ہوتا ہے.ا سکی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے.اور اس کی رائے سے اختلاف اُسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہی درست ہے.پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شُبہ ہے.اور خلیفہ سے وہ شبہ دور کرائے.جس طرح ڈاکٹر کو بھی مریض کہہ دیا کرتا ہے کہ مجھے یہ تکلیف ہے آپ بیماری کے متعلق مزید غور کریں.پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اُسے اختلاف ہو اُسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے.ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کر دے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے.کیونکہ ہر شخص میں صحیح فیصلہ کی طاقت نہیںہوتی.ورنہ قرآن شریف میں یہ نہ آتا کہ جب امن یا خوف کی کوئی بات سنو تو اولیٰ الامر کے پاس لے جائو.کیا اولی الامر غلطی نہیں کرتے؟ کرتے ہیں.مگر ان کی رائے کو احترام بخشا گیا ہے.اور جب انکی رائے کا احترام کیا گیا ہے تو خلفاء کی رائے کا احترام کیوں نہ ہو.ہر شخص اس قابل نہیںہوتا کہ ہر بات کے متعلق صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے.ایک دفعہ کا ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.اگر کوئی شخص تقویٰ کے لئے سو بیویاں بھی کرے تو اس کے لئے جائز ہیں.ایک شخص نے یہ بات سُن کر دوسرے لوگوں میں آکر بیان کیا کہ اب چار بیویاں کرنے کی حد نہ رہی سو تک انسان کر سکتا ہے اور یہ بات حضرت مسیح موعودؑ نے فرما دی ہے.آپ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا.میری تو اِس سے یہ مراد تھی کہ اگر کسی کی بیویاں مرتی جائیں تو خواہ اس کی عمرکوئی ہو تقویٰ کے لئے شادیاں کر سکتا ہے.پس ہر شخص ہر بات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا.اور جماعت کے اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ اگر کسی کو کسی بات میں اختلاف ہو تو اُسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے.اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دیکر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے.اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے.اس کے بعد مَیں ایک اور نصیحت کرتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ حقہ بہت بری چیز ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ چھوڑ دینا چاہئے.بعض لوگوں نے مجھے کہا ہے ہم نے ایسے ملہم دیکھے ہیں.جو حقہ پیتے تھے اور اُن کو الہام ہوتا تھا.اس کے متعلق مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا.جو حضرت مسیح موعود
۱۶۴ علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرمایا کرتے تھے کہ کچھ بنیئے بیٹھے یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی ایک پائو تِل کھائے تو اُسے پانچ روپے انعام دیا جائے گا.پاس سے ایک زمیندار گزرا.اُس نے یہ سُن کر پنجابی میں کہا کہ سَلّیاں سمیت کہ اینویں.یعنی اُن شاخوں سمیت تِل کھانے ہیں جن میں وہ پیدا ہوتے ہیں یا ان کے بغیر کیونکہ اس نے سمجھا ایک پاؤ تِل کھانا کونسی بڑی بات ہے جس پر انعام مِل سکتا ہے.بنیئے کہنے لگے تم جاؤ ہم تمہاری بات نہیں کرتے.تو طبائع میں اختلاف ہوتا ہے ایک شخص کے نزدیک جو بات بڑی ہوتی ہے دوسرا اُسے معمولی سمجھتا ہے.اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ حقہ پینے والے کو خدائی الہام ہوتے ہیں.تو کہنا پڑے گا کہ وہ الہام اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں گے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تو یہاں تک فرماتے ہیں.کہ لہسن کھا کر مسجد میں نہ آؤ.اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتے نہیں آتے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کچا لہسن رکھا گیا تو آپ نے نہ کھایا.صحابہؓ نے پوچھا.یا رسول اللہ ہم بھی نہ کھائیں.فرمایا.تم سے خدا کلام نہیں کرتا تم کھا سکتے ہو.اِن حدیثوں کے ہوتے ہوئے کس طرح مان لیں کہ حقہ پینے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں.جبکہ حقہ کی بدبو لہسن سے بھی زیادہ خراب ہوتی ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حقہ سے کم بدبووالی چیز کے متعلق فرماتے ہیں کہ مَیں اسے استعمال نہیں کرتا.کیونکہ میرے پاس فرشتے آتے ہیں.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس قدر احتیاط کرتے تھے تو جو شخص الہام کا مدّعی ہے یا جسے خواہش ہے کہ اُسے الہام ہو اُسے بھی حقہ سے بچنا چاہئے.اور مَیں اس کی شکل دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ کہے کہ مجھے الہام کی خواہش نہیں.اگر کوئی ایسا شخص نہیں تو پھر کسی کو حقہ بھی نہیں پینا چاہئے.پھر مَیں کہتا ہوں ممکن ہے ایسے شخص کو الہام ہو بھی جائے.مگر اعلیٰ درجہ کے الہام نہیں ہوں گے.اور ہم کہیں گے اگر وہ حقہ نہ پیتا تو اس سے اعلیٰ الہام اسے ہوتا جیسا کہ حقہ پینے کی عادت رکھتے ہوئے اُسے ہوا.اس کے پاس ادنیٰ فرشتے آجاتے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھاہے.بعض اوقات کنچنی کو بھی الہام ہو جاتا ہے.وہاں فرشتے جاتے ہیں یا نہیں.اسی قسم کے فرشتے حقہ پینے والے کے پاس آجاتے ہونگے.پس اگر کسی حقہ پینے والے کو الہام ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں یہ اس کے لئے خوشی کی بات نہیں.لیکن اگر وہ حقہ پینا چھوڑ دیتا تو اس کے پاس اعلیٰ درجہ کے فرشتے آتے.اس کے بعد مَیں ایک دوست کی عزّت اور احترام کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.گذشتہ مجلس مشاورت میں ایک سوال اُٹھایا گیا تھا جو ایڈیٹر نور صاحب کے متعلق تھا.خیال کیا گیا تھا کہ ان
۱۶۵ کے ایماء سے وہ بات سوال کرنے والے نے اٹھائی ہے.اس کے متعلق مَیں نے اگر کی شرط لگا کر کہا تھا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو غلطی کی ہے.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا.اسلئے جب رپورٹ شائع ہوئی تو اس میں سے وہ حصہ کاٹ دیا گیا تھا.مگر افسوس ہے کہ ایڈیٹر صاحب فاروق نے اس ذکر کو شائع کر دیا.مجھے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ فاروق کے متعلق وہ باتیں کہی تھیں.گویا فاروق کی طرف سے مَیں نے بدلا لے لیا تھا.مگر فاروق نے اسے کافی نہ سمجھا مَیں نے اس وقت فاروق کی ممکن سے ممکن حمایت کی تھی مگر ایڈیٹر صاحب فاروق نے اس پر صبر نہ کیا اور ایک بھائی کے خلاف خود قلم چلایا.چونکہ اِس امر کو اخبار میں شائع کیا گیا ہے.اس لئے اس کا ذبّ بھی مجلس میں ہی کرتاہوں.یہ اگر کسی کو بُرا لگے تو وہ اپنے نفس پر افسوس کرے.جس نے اس سے ایسا فعل۱؎ کرایا.اب مَیں جماعت کو مالی حالت کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ہمارے سلسلہ کی مالی حالت ان دنوں نہایت کمزور ہے.ہمارے دوستوں سے جس قدر ممکن ہو سکتا ہے مدد کرتے ہیں مگر باوجود اِسکے ہماری ضروریات پوری نہیں ہوتیں.ہماری ضروریات سے مراد میری ذاتی ضروریات نہیں.ان ہماری ضروریات میں مَیں بھی اتنا شریک ہوں جتنے آپ لوگ شریک ہیں.کیونکہ ان سے مراد سلسلہ کی ضروریات ہیں.اب مشکلات کی جو حالت ہے ان کو زیادہ لمبا نہیں جانے دیا جا سکتا.کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے.اب بھی یہ حالت ہے کہ کارکنوں کو تین تین ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں اور ان میں سے ۲۵-۳۰ آدمی مجھے ایسے معلوم ہیں جنہیں کئی کئی وقتوں کا فاقہ گذر چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک پرانے صحابی ایک دن میرے پاس آئے اور آکر رو پڑے کہ اتنے دنوں کا فاقہ ہے.اور کام کرتے ہوئے غشی کے قریب حالت پہنچ جاتی ہے.اس حالت میں مَیں نے ارادہ کیا کہ گھر بار چھوڑ کر کہیں جنگل میں جا بیٹھوں.مگر اس خیال سے باز رہا کہ خود کشی نہ ہو.آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی حالت میں اِس بات کو دیر تک التواء میں نہیں رکھا جا سکتا.بے شک باہر کی جماعتوں کے افراد کو تکالیف کا سامنا ہے کیونکہ وہ کوئی امیر کبیر نہیں ہیں.گر مَیں کہتا ہوں کہ کیا انکو بھی ایسی ہی تنگی در پیش ہے.جیسی یہاں ہم کو ہے؟ ایک دن تو ان تکالیف کی وجہ سے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میری قوتِ ارادی بالکل جانے لگی ہے.اور قریب تھا کہ مَیں اپنے تَن * ایڈیٹر صاحب فاروق نے بھی مومنانہ طور پر اسی وقت اس غلطی پر ندامت کا اظہار کر دیا تھا اس لئے ان پر بھی کوئی الزام نہیں.
۱۶۶ کے کپڑے پھاڑ ڈالوں.بے شک ہماری جماعت پر بہت بوجھ ہے اور وہ بہت کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرتی ہے.مگر جماعت نے ہی سارا بوجھ اُٹھانا ہے.غیروں سے تو ہم نے کچھ لینا نہیں.مَیں نے ابھی کہا ہے کہ ہماری جماعت نے بہت بوجھ اٹھایا ہوا ہے لیکن جماعت کی مجموعی حالت کو دیکھ کر مَیں کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جماعت نے ابھی اتنی مالی قربانی نہیں کی جتنی پہلی جماعتیں قربانی کرتی رہی ہیں.مَیں نے روم میں وہ مقام دیکھا ہے جہاں حضرت مسیحؑ کے ماننے والے اپنے دشمنوں کی سختیوں اور ظلموں سے بچنے کے لئے رہے.بیس میل کے قریب وہ مقام لمبا ہے.وہاں عیسائی اپنے گھر بار مال و اموال چھوڑ کر چلے گئے تھے.اور وہ فاقے پر فاقے اُٹھاتے تھے.سو رہ کہف میں ان کا نام اصحاب کہف والرقیم رکھا گیا ہے.ہم چند گھنٹے کے لئے وہاں گئے.مگر کئی دوست وہاں ٹھہرنا برداشت نہ کر سکے.حالانکہ وہ لوگ وہاں کئی سال تک دقیانوس کے وقت رہے.وہ نہایت تنگ و تاریک گیلی مٹی کے غار ہیں سرکاری فوجوں نے ان میں سے جن کو وہاں مارا ان کی قبریں بھی وہیں بنی ہوئی ہیں اور اُن پر کتبے لگے ہیں یہ فلاں وقت مارا گیا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خدا کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا تھا اور ایسی ایسی تکلیفیں برداشت کی تھیں جن کا خیال کرکے اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.آپ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت مسیح ناصریؑ سے بڑے تھے.پھر آپ لوگوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری قربانیاں بھی حضرت مسیحؑ کے ماننے والوں سے بڑی ہوں.مگر کیا اس وقت تک کی ہماری قربانیاں ایسی ہی ہیں؟ دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے جو وصیت نہیں کرتا وہ منافق ہے اور وصیت کا کم از کم چندہ ۱۰ ۱ حصّہ مال کا رکھا ہے.جس میں عام چندہ جو وقتاً فوقتاً کرنا پڑے شامل نہیں.مگر ہماری جماعت اس وقت اپنی آمد کا ۱۶ ۱ حصّہ چندہ میں دیتی ہے اور بعض یہ بھی نہیں دیتے بلکہ اس سے کم شرح سے دیتے ہیں.اور بعض بالکل ہی نہیں دیتے.مگر باوجود اس کے کہا جاتا ہے.ہم پر بڑا بوجھ پڑا ہوا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ جو کام کرنے کا ہم نے تہیہ کیا ہے وہ کتنا بڑا ہے.اب جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر بڑا بوجھ پڑ گیا اُن کی حالت اُس شخص کی سی ہے جو ہاتھی اُٹھانے کے لئے جائے اور جب اُٹھانے لگے تو کہے یہ تو بڑا بوجھ ہے.یا اُس شخص کی سی ہے جو اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارا پکڑنا چاہے اور پھر کہے اس سے تو ہاتھ جلتا ہے.پس جو قوم یہ کہتی ہے کہ وہ دُنیا کو اس طرح اُڑا دینے کی کوشش کر رہی ہے جس طرح ڈائنامیٹ پہاڑ کو اُڑا دیتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈائنامیٹ کی طرح پھٹ کر اپنے آپ کو تباہ کر
۱۶۷ لے.کیا کبھی بارُود خود قائم رہ کر کسی چیز کو اُڑا سکتا ہے؟ یا ڈائنا میٹ اپنے آپکو تباہ کئے بغیر کوئی تغیر پیدا کر سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو تمہیں اسی طرح کرنا پڑیگا.اگر تم تھوڑے سے ہو کر دُنیا کو فتح کرنا چاہتے ہو تو ڈائنا میٹ بنکر ہی فتح کر سکتے ہو.کیونکہ تھوڑاسا ڈائنامیٹ ہی ہوتا ہے جو ایک بڑے خطّہ کو تہ و بالا کر دیتا ہے.اور اسکے یہ معنے ہیں کہ ہم دُنیا کو اُڑانے سے پہلے آپ اُڑ جائیں گے.کیا یہ حالت تم میں پیدا ہو گئی ہے اور اس درجہ تک تم پہنچ گئے ہو؟ اگر نہیں تو ساری دُنیا کو فتح کرنیکا ارادہ رکھتے ہوئے کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تم پر بہت بوجھ پڑ گیا تم میں سے ہر ایک کو اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس نے اس مُدعا اور مقصد کے پورا کرنے میں کس قدر سعی اور کوشش کی ہے جو ہر ایک احمدی کا اوّلین فرض ہے اور جس کے لئے وہ پیدا ہوا ہے.اگر اس بات کو مد نظر رکھ کر تم اس بوجھ کو دیکھو گے جسے تم نے اس وقت تک اُٹھایا ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں ہے.مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے سارے کے سارے ایسے ہیں جنہیں اس بات کا احساس نہیں کہ وہ کس مقصد اور مُدعا کر لیکر کھڑے ہوئے ہیں اور اس کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی ضرورت ہے.بڑے بڑے مخلص بھی ہیں.ایک دوست جن کی تنخواہ ۶۰ روپے ماہوار ہے انہوں نے اپنی آمدنی کے ۳ ۱ حصّہ کی وصیّت کی ہوئی ہے.یعنی بیس روپے ماہوار چندہ دیتے ہیں.جب چندہ خاص کی تحریک ہوئی تو اس میں انہوں نے تین ماہ کی تنخواہ دے دی اور اس طرح وہ مقروض ہو گئے.اس پر انہوں نے خط لکھا کہ کیا مَیں قرضہ ادا ہونے تک ۱۰ ۱ حصّہ آمد کا چندہ میں دے سکتا ہوں.مگر اس سے ۵-۶ دن بعد انکا خط آگیا کہ مجھے پہلا خط لکھنے پر بہت افسوس ہوا.مَیں اپنی آمد کا ۳ ۱ حصّہ ہی چندہ میں دیا کرونگا تو ایک حصّہ جماعت کا ایسے مخلصین کا بھی ہے اور یہ بڑا حصّہ ہے مگر مَیں باقیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی ایسے ہی بنیں.اور ہماری تو یہ حالت ہونی چاہئے کہ ایک قطرہ بھی ہمارے اپنے لئے نہ ہو بلکہ ہمارے لئے وہی رہنا چاہئے جو ہمارا نہیں رہا.یعنی جان بچانے، ستر ڈھانکنے کے لئے جو خرچ ہو وہ کیا جائے باقی سب کچھ خدا کے لئے سمجھا جائے.دیکھیں آپ لوگ جماعت میں داخل ہو کر جو وعدہ کرتے ہیں وہ کتنا بڑا ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری جان، ہمارا مال، ہماری عزّت، ہماری آبرو، ہمارا آرام، ہماری آسائش، ہماری دولت، ہماری جائداد، غرض کہ ہمارا سب کچھ خدا کا ہوگیا.یہ بیعت کے معنے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ خدا ہی کا ہے.مثلاً سو روپیہ تنخواہ ہے تو اس کی نہیں بلکہ خدا
انوار العلوم جلد9 ۱۶۸ کے لئے ہو گئی.پھر جو کچھ میں جان بھی شامل ہے.یہ بھی اس کی نہیں پھر جو کچھ میں بیوی بچے ہیں یہ بھی اس کے نہیں.کوئی عزّت اور عہدہ ہے یہ بھی اس کا نہیں.یہ اقرار کرنے کے بعد اگر کوئی شخص چندہ خاص کے وقت کہے کہ یہ بہت بڑا بوجھ ہے تو وہ بتائے بیعت کرتے وقت اس نے جو اقرار کیا تھا اس کا کیا مطلب تھا.یا تو یہ مانو کہ اس کا یہ مطلب تھا کہ بیعت کرنے یعنی اپنا سب کچھ بیچ دینے سے مراد سارا جسم مراد نہ تھا.بلکہ ایک ٹانگ یا ایک ہاتھ مراد تھا.یا اس سے مراد سارا مال نہ تھا بلکہ اتنا اتنا مال تھا تو اس کی رعایت رکھ لی جائے لیکن اگریہ اقرار تھا کہ مَیں اپنا سارا مال، جان، بیوی، بچے، عہدے سب تجھے دیتا ہوں تو پھر وہ کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ بوجھ پڑ گیا.بوجھ کے معنے تو یہ ہیں کہ گویا وہ کہتا ہے جس قدر دینے کا مَیں نے اقرار کیا تھا اس سے زیادہ دینا پڑ گیا.یا جس چیز کے دینے کا وعدہ کیا تھا اس کے علاوہ اور بھی دینی پڑی.حالانکہ اس کا اقرار یہ ہے کہ اس نے اپنا سب کچھ دے دیا.ایسی حالت میں وہ بوجھ کس طرح کہہ سکتا ہے.مَیں امید رکھتا ہوں کہ تمام دوست بیعت کے صحیح مفہوم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرینگے اور اسلام کے لئے جو کچھ خرچ کرنا پڑیگا کرینگے.اور جب تک خرچ کرنا پڑیگا کرینگے.کیونکہ جب تک اس بات میں خوشی محسوس نہ ہو کہ اسلام کے لئے سب کچھ قربان کر دیا جائیگا.اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہو سکتا.مَیں دُعا کرتا ہوں کہ خدا کرے ایسا ہی ہو.موجودہ مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے فی الحال یہ تجویز کی گئی ہے کہ چونکہ آمد کے بجٹ سے چالیس ہزار خرچ زیادہ ہے اس لئے چندہ خاص مستقل طور پر اس وقت تک مقرر کر دیا جائے جب تک یہ خرچ معمولی آمد سے پورا نہ ہو جائے.یعنی ہماری جماعت کے لوگ اپنی ایک ماہ کی آمدکا ۴۰ فیصدی ہر سال عام چندہ کے علاوہ ادا کرتے رہیں.مَیں اس سے نہیں ڈرتا کہ کچھ لوگ کمزور ہوں گے جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیارنہ ہونگے ایسے کمزور دوسروں کے لئے طاقت کا باعث نہیں ہوا کرتے بلکہ کمزور کرنے کا موجب ہوتے ہیں.وہ ترقی کرنے والوں کے راستہ میں پتھر ہوتے ہیں.ان کا ہٹ جانا ہی مفید ہوتا ہے.پس اگراس وجہ سے کچھ لوگ پیچھے ہٹیں گے تو ہٹ جائیں.ان سے ہمیں کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ ہماری کمران کے بوجھ سے ہلکی ہو جائے گی.پس اس وقت تک کہ معمولی آمد ہمارے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو جائے سالانہ ایک ماہ کی آمد کا ۴۰ فیصدی چندہ خاص دینا ہوگا.آپ لوگ یہ مت خیال کریں کہ یہ کام کس طرح چلیگا.مَیں اِسوقت ان کو مخاطب نہیں کرتا جو قوی ہیں بلکہ ان کو مخاطب کرتا ہوں جو کمزور
۱۶۹ ہیں اور جو ہمارے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں.کہ یہ خدا تعالیٰ کا سلسلہ ہے.مَیں نے یہ جگہ اُسوقت دیکھی تھی جب یہ ویران پڑی تھی.اور وہ وقت بھی دیکھا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لئے نکلتے تو ایک آدھ آدمی آپ کے ساتھ ہوتا تھا.اور وہ بھی آپ کا ملازم.مگر آج خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بلکہ آپ کے غلام کی یہ حالت ہے کہ ہجوم میں سے چور کی طرح بھاگ کر نکلتا ہے تاکہ ہجوم میں گھر نہ جائے.پس وہ خدا جو ایک سے بڑھا کر اتنے آدمی کر سکتا ہے اور جو لاکھوں روپیہ چندہ بھیج سکتا ہے وہ آئندہ بھی اِس سلسلہ کو بڑھائیگا.اس وجہ سے مَیں ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ یہ سلسلہ ترقی نہیں کریگا.اور دُنیا کی کوئی روک اس کے رستہ میں حائل ہو جائیگی.پس مَیں سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے کہتا ہوں خدا کے فضل سے یہ سلسلہ ان مشکلات سے نکلے گا اور انہی کے ہاتھ سے خدا تعالیٰ فتح و نصرت دیگا جو آج کمزور سمجھے جاتے ہیں اور جو واقعہ میںکمزور ہیں بھی.دیکھو بہادر جرنیل وہی سمجھا جاتا ہے جو معمولی سپاہیوں کو لیتا اور ان کے ذریعہ عظیم الشان کام کرکے دکھاتا ہے.مَیں اپنے لئے نہیں کہتا.کیونکہ یہ سلسلہ خدا کا سلسلہ ہے اسلئے جس کے سپرد بھی خدا تعالیٰ اس سلسلہ کا انتظام کریگا اُسے ایسی قوّت اور طاقت بخشے گا کہ آج جو کمزور نظر آتے ہیں انہیں کے ہاتھوں فتح حاصل ہوگی.انہیں اپنے نفسوں پر بد ظنی ہو تو ہو مگر مجھے حسن ظنی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن آئے گاجب میری حسن ظنی پوری ہو کر رہے گی.پھر مَیں کہتا ہوں.اگر مالی اخراجات ہماری جماعت کے لوگوں پر بوجھ ہیں تو دوست کیوں تبلیغ پر خاص زور نہیں دیتے.مَیں نے انہیں کب روکا ہے کہ وہ جماعت کو نہ بڑھائیں.وہ کیوں نہیں جلدی جماعت بڑھاتے تاکہ یہ بوجھ کم ہو جائے.یہ ہمارا قصور نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی قصور ہے.آپ لوگ اگر جمات بڑھائیں تو مالی بوجھ آپ ہی کم ہو جائے.گو اصل بات تو یہ ہے کہ مومن کا یہ بوجھ مرنے کے بعد ہی کم ہوتا ہے زندگی میں نہیں ہو سکتا.اس موقعہ پر مَیں دوستوں کو یہ خوشخبری بھی سُنانا چاہتا ہوں کہ اِس سال دو اور ملکوں میں ہماری جماعتیں قائم ہو گئی ہیں.جن میں ایک تو وہ ملک ہے جہاں عیسائیوں نے سو سال تک تبلیغ کی تھی تب جاکر انہیں کچھ کامیابی ہوئی تھی.مگر ہمارے تبلیغ کو چند دن میں ۱۵-۱۶ سعید روحیں مل گئی ہیں.وہ سماٹرا اور جاوا کا علاقہ ہے.دوسرا وہ مُلک ہے جس کا نام لینے سے میرے خون میں جوش اور حرکت پیدا ہو جاتی ہے وہ ایران کا ملک ہے.ایران وہ ملک ہے جس سے حضرت مسیح موعود
۱۷۰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسیح فارسی النسل ہوگا.ایران کے دارالخلافہ میں بیس کے قریب آدمی احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.اور اس کے متعلق یہ اور بھی خوشی کی بات ہے کہ وہاں ہمارے جو مبلغ گئے ہیں انہیں ہم کوئی خرچ نہیں دیتے.وہ شاہزادہ عبد المجید صاحب ہیںجو شاہ شجاع کی اولاد سے ہیں اور لدھیانہ کے رہنے والے ہیں.انہوں نے خدمتِ دین کے لئے زندگی وقف کی تھی.مَیں نے انہیں ایران بھیج دیا.ان کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ کئی ایسے لوگ جو بارسوخ اور معزز ہیں اور جن کا ہزاروں آدمیوں پر اثر ہے سلسلہ کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں.ایک اَور بات مَیں سُنانا چاہتا ہوں تاکہ معلوم ہوکہ خدا تعالیٰ ہمارے سلسلہ کی کس طرح تبلیغ کر رہا ہے.پچھلے سال ترکستان میں کردوں کی جو بغاوت ہوئی تھی وہ ایک شخص شیخ سعید کے ماتحت ہوئی تھی.وہ اتنی بڑی بغاوت تھی کہ اس کے فرو کرنے کے لئے ترکوں کو ۳ لاکھ آدمی جمع کرنے پڑے تھے اور عصمت پاشا وزیر اعظیم جیسے مشہور آدمی کو ان کا کماندار مقرر کیا گیا تھا.شیخ سعید جب پکڑے گئے اور ان کا بیان لیا گیا تو انہوں نے کہا اگر فلاں واقعہ نہ ہوتا تو مَیں کبھی بغاوت میںشامل نہ ہوتا.کیونکہ مَیں ارادہ کر چکا تھا کہ مَیں ہندوستان چلا جائونگا اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر تبلیغِ اسلام کرونگا.اگرچہ ان کو ترکوں نے قتل کرا دیا اور وہ اپنے اس ارادہ کو پورا نہ کر سکے.مگر اس سے معلوم ہوتا کہ اس ملک کے بڑے بڑے آدمیوں نے احمدیت قبول کی ہوئی ہے.مجھے افسوس ہے کہ یہ صاحب سلسلہ سے پوری طرح واقف نہ تھے ورنہ حکومت کے خلاف بغاوت میں کبھی شامل نہ ہوتے.مَیں نے مالی مشکلات کی وجہ سے کہا ہے کہ اسوقت تک کوئی نیا کام نہ بڑھا یا جائے جبتک حالت درست نہ ہوا.امریکہ کے مِشن پر اب خرچ کم کر دیا گیا ہے اور ہندوستان میں آئندہ سال سے زیادہ کوشش کی جائے گی تاکہ یہاں کی جماعت زیادہ بڑھے اور زیادہ بوجھ اُٹھا سکے مگر جہاں یہ ضروری ہے کہ ہماری جماعت زیادہ قربانی کرے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جن سامانوں کے ذریعہ وہ قربانی کر سکتی ہے ان کو بڑھایا جائے.انگریزی میں مثل ہے کہ سونے کا انڈا لینے کے لئے مرغی کو مارنہ ڈالنا چاہئے.اس وجہ سے ضروری ہے کہ جماعت کی مالی اصلاح اور ترقی کے لئے کوشش کی جائے.اس کے لئے ایک تو یہ ضروری ہے کہ جماعت کے لوگ ایک دوسرے کا تعاون کریں مختلف مقامات پر ٹرنک سازی، سیاہی سازی، تنگیاں بنانا، آزار بند بنانا، کلاہ وغیرہ مختلف قسم کی
۱۷۱ صنعتیں جاری ہیں.اگر مختلف جگہ کے احمدی تاجر احمدی صناعوں سے اشیاء خریدیں تو ان کی بکری وسیع ہو سکتی ہے.اور ان کی آمد زیادہ ہونے کی وجہ سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے.پس احمدی تاجر احمدی صناعوں سے مال خریدیں اور احمدی گاہک احمدی دکانداروں سے خریدیں تو اس طرح بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے.ہمارے مبلغوں کو بھی اس کام میں مدد دینی چاہئے.جہاں جائیں دیکھیں کہ کونسی صنعت کوئی احمدی کرتا ہے.اور جب دوسری جگہ جائیں تو وہاں کے لوگوں کو بتائیں کہ فلاں مال فلاں احمدی بناتا ہے اس سے خریدا جائے.میرے نزدیک اس پہلو میں ترقی دینے کا ایک آسمان طریق یہ بھی ہے کہ مجلس مشاورت کے وقت ایک نمائش بھی ہو جایا کرے جس میں احمدی صناع اپنی بنائی ہوئی چیزیں لاکر رکھیں تاکہ دوست واقف ہو جائیں کہ فلاں چیز فلاں جگہ سے مل سکتی ہے.اور پھر ضرورت کے وقت وہاں سے منگا لیں.پھر احمدیوں کو چاہئے کہ بیکار احمدیوں کو ملازم کرانے کی کوشش کریں.بعض دوستوں نے اس بارے میں بڑی ہمت دکھائی ہے مگر اکثر سُستی کرتے ہیں.اسی طرح جماعت کے لوگوں کو چاہئے تجارتی شہروں میں جاکر تجارت اور صنعت سیکھیں.اسی طرح ایک ضروری امر پسماندگان کی مدد ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ سب کچھ دین کے لئے قربان کر دو تو جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ان کے فوت ہونے پر ان کے پسماندگان کے لئے کچھ نہیں بچتا.ایسے حاجتمندوں کے لئے ایک فنڈ ہونا ضروری ہے.جس میں چندہ دینا لازمی نہ ہوبلکہ مرضی پر ہو.اور اس کے لئے ایسا قانون بنادیا جائے کہ جو اتنا چندہ دے اسے اتنے عرصہ کے بعد اتنی رقم بالمقطع دی جائیگی یا اگر فوت ہو جائے تو پسماندگان کو اتنی رقم ادا کر دی جائے.اگر کسی ایسے فنڈ کا انتظام ہو جائے تو پسماندگان کا انتظام ہو سکتا ہے.اسکے متعلق مَیں تفصیلی طور پر اسوقت نہیں بیان کر سکتا.میرا ارادہ ہے کہ مجلس مشارت میں اسے پیش کیا جائے اور اسے ایسے رنگ میں رکھا جائے کہ سود نہ رہے.انشورینس نہ ہو اور کام بھی چل جائے.مثلاً یہی فیصلہ ہو کہ اس عمر تک پسماندگان کو گذارا دیا جائے گا.یا یہ کہ بچوں کو اس قدر تعلیم دلائی جائے گی.اس قسم کی تحریکات بھی جماعت کی مالی حالت کی درستی کے لئے ضروری ہیں جن کے متعلق تجاویز سوچی جائیں گی تاکہ شرعی لحاظ سے ان میں کوئی نقص نہ ہو اور پسماندگان کے گذارہ کا کوئی معقول انتظام ہو سکے.جس سے ہماری جماعت کے لوگوں کو ایک گونہ اعتماد حاصل ہو سکے کہ ان کے بعد ان کی اولاد خطرہ میں نہ ہو گی.گو مومن کا اعتماد تو خدا پر ہی ہوتا ہے.
۱۷۲ منہاج الطالبین اب مَیں وہ مضمون شروع کرتا ہوں جس کے متعلق مَیں پہلے اشارہ کر چکا ہوں.میرے دل میں مدّت سے یہ خواہش تھی کہ یہ مضمون بیان کروں.یہ ایسا اہم مضمون ہے کہ ہر انسان کے دل میں اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے اور بے شمار لوگوں نے اسکے متعلق مجھ سے پوچھا ہے اور اسکے بارے میں نسخہ دریافت کیا ہے.وہ سوال یہ ہے کہ وہ کونسے ذرائع ہیں جن پر عمل کرکے انسان گناہوں سے پاک ہو جائے اور نفس میں نیکیاں پیدا ہو جائیں.عام طور پر اس کا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ نیکی کرو، نیکی کرو اور گناہوں سے بچو، گناہوں سے بچو.لیکن جیسا کہ ہر ایک شخص کے تجربہ میں آیا ہے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کو پڑھا، احادیث کو پڑھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کو پڑھا اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کی.مگر ہم کلی طور پر نہیں بچ سکے، نیکی کرنے کے لئے ہم نے کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے.اب بتائو ہمارا کیا علاج ہے.اسلئے ضروری ہے کہ اس نقطہ سے بحث کی جائے کہ کس طرح انسان کی اس کمزوری کو دور کیا جائے کہ وہ باوجود ارادہ اور کوشش کے گناہوں سے بچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا.جب مَیں نے اِس مضمون کے متعلق نوٹ لکھنے شروع کئے تو خیال کرکے کہ یہ مضمون عرفانِ الٰہی کے مضمون کے بعض حصّوں سے ٹکرائیگا.اس تقریر کا مطالعہ کیا.اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ مَیں نے اس تقریر میں وعدہ کیا ہوا تھا کہ یہ مضمون بیان کرونگا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب مَیں اس وعدہ کو پورا کرنے لگا ہوں.پھر جب مَیں اس مضمون پر غور کرنے لگا تو ایک پُرانی اور بہت پُرانی رؤیا مجھے یاد آگئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے ایک آدھ ماہ بعد مَیں نے یہ رؤیا دیکھی تھی.اور اسوقت اس کی کوئی تعبیر نہ سوجھتی تھی.رؤیا یہ تھی کہ ایک مصلّٰی ہے جس پر مَیں نماز پڑھ کے بیٹھا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ شیخ عبد القادر صاحب جیلانی کی ہے اور اس کا نام منہاج الطالبین ہے یعنی خدا تعالیٰ تک پہنچنے والوں کا رستہ.مَیں نے اس کتاب کو پڑھ کر رکھ دیا کہ پھر یکدم خیال آیا کہ یہ کتاب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو دینی ہے اسلئے مَیں اسے ڈھونڈنے لگا ہوں مگر وہ ملتی نہیں.ہاں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک اَور کتاب مل گئی.اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے.ومایعلم جنود ربّک الّا ھو اور تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اُسکے اور کوئی نہیں جانتا.اس کے بعد مَیں نے اس خیال سے کہ اگر شیخ عبد القادر صاحب جیلانی کی کوئی کتاب اس نام
۱۷۳ کی ہو تو اُسے تلاش کروں.حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا.انکی اِس نام کی تو کوئی کتاب نہیں.البتہ غنیہ الطالبین نام کی کتاب ہے.پھر معلوم ہوا کہ اِس نام کی کسی اور کی کتاب بھی نہیں ہے.پھر خیال آیا کہ ممکن ہے کہ کسی وقت مجھے ہی اس نام کی کتاب لکھنے کی توفیق ملے.اور عبد القادر سے مراد یہ ہو کہ اس میں جو کچھ لکھا جائے وہ میرے دماغ کا نتیجہ نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی سمجھائی ہوئی باتیں ہوں اس وجہ سے مَیں نے اس مضمون کا نام منہاج الطالبین رکھا ہے.اس مضمون کے جن حصّوں کا تعلق عرفان الٰہی اور مسئلہ نجات سے ہے ان میں سے بعض کو توچھوڑ دوں گا اور جن کا تسلسل مضمون کے لئے ذکر کرنا ضروری ہوگا ان کو مختصراً بیان کروں گا.اور اصل بات تو یہ ہے کہ پہلے اس مضمون کے علمی پہلو بیان ہوئے.اب مَیں عملی پہلو بیان کرونگا.اس ضروری اور اہم مسئلہ پر غور کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی پیدائش کی غرض کیا ہے.وہ خدا تعالیٰ نے خود بیان کر دی ہے.فرماتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن کہ ہم نے انسان کو ایک ہی کام کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ عبد بن جائے.عبودیت کے معنے عربی میں تذلل کے ہیں اور تذلل کا یہ مفہوم ہے کہ جو دوسرے کا نقش قبول کرے.تو عبد کے معنے ہیں حکومت تسلیم کر لینا.نقش تسلیم کر لینا، اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے سوائے اس غرض کے انسان کو اور کسی غرض کے لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ میرے نقش کو قبول کرے.جب انسان کی زندگی کا یہ مقصد ہے تو ہم اس وقت تک اسے پورا نہیں کر سکتے جب تک خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب نہ کر لیں.خدا تعالیٰ نے انبیاء کو بھی اس غرض کے لئے بھیجا.چنانچہ فرماتا ہے: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُذَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحِکِیْمُ ( (البقرۃ-۱۳۰) حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام دُعا فرماتے ہیں.اے ہمارے ربّ ان میں ایسا رسول بھیجیؤ جو ان میں تیری آیات پڑھے.انہیں شریعت سکھائے، حکمت بتائے اور پاک کرے تو غالب اور حکمت والا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ رسول کی یہ غرض ہوتی ہے کہ ایمان مضبوط کرے.علم کو مضبوط کرے.شریعت سکھائے اور حکمت سکھائے، یعنی علم کے بعد عمل سکھائے.اور اس طرح پاک کرکے خدا
۱۷۴ تعالیٰ کی مقدس مجلس میں بیٹھنے کے قابل بنا دے.ہماری جماعت کے لئے یہ سوال کوئی معمولی سوال نہیں بلکہ ان کی زندگی اور موت کا سوال ہے.کیونکہ اس وقت خدا کا ایک نبی آیا ہے جسے ہم نے قبول کیا ہے اور جس نے خدا کی آیا ت پڑھ کر ہمیں سُنائی ہیں.اگر اس کو مان کر بھی ہم گندے رہے تو اس کو ماننے کا کیا فائدہ ہوا.مولوی بُرہان الدین صاحب جہلمی بہت مخلص احمدی تھے.حضرت مسیح موعود ایک دفعہ بیان فرمارہے تھے کہ مومن کے یہ یہ درجات ہونے چاہئیں.تقریر ختم ہونے کے بعد مولوی صاحب چیخیں مار کر رو پڑے اور حضرت مسیح موعودؑ سے کہنے لگے.پہلے ہم وہابی ہوئے اور ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتوں کی اشاعت کرنے کی وجہ سے ماریں کھائیں.پھر آپ آئے اور ہم نے آپ کو مانا اس وجہ سے مخالفین سے ماریں کھائیں.پتھر کھائے نقصان اٹھائے (مولوی صاحب موصوف یہ باتیں پنجابی میں کہہ رہے تھے جو مَیں نے اُردو میں بیان کی ہیں.لیکن اگلا فقرہ مَیں اُردو میں بیان نہیں کر سکتا اس لئے پنجابی میں ہی دہراتا ہوں.کہنے لگے.مگر باوجود اس قدر تکالیف اُٹھانے کے مَیں دیکھتا ہوں کہ مَیں ’’فیروی جھڈو دا جھڈو ہی رہیا.‘‘ یعنی کسی کام کا نہ بنا) پس اگر ایک نبی کو مان کر بھی وہی بات ہو کہ ہم نکمے کے نکمے ہی رہیں.تو ہمیں کیا فائدہ ہوا.ہمارے اندر تو ایسی تبدیلی اور ایسا تغیر ہونا چاہئے کہ ہمیں محسوس ہو کہ ہم نے زندہ انسان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے.بلکہ یہ محسوس ہو کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے.ورنہ اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہو ئے تو گویا ہم نے کچھ نہ کیا.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا خواہش رکھتے اور ہمیں کتنا خطرناک ڈراتے ہیں.آپ تزکیہّ نفس کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :تزکیۂ نفس اسے کہتے ہیں کہ خالق و مخلوق دونوں طرف کے حقوق کی رعایت کرنیوالا ہو.خدا تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ جیسا زبان سے وحدہٗ لا شریک اسے مانا جائے ایسا ہی عملی طور سے اسے مانیں اور مخلوق کے ساتھ برابر نہ کیا جائے.اور مخلوق کا حق یہ ہے کہ کسی سے ذاتی طور پر بُغض نہ ہو.تعصّب نہ ہو.شرارت انگیزی نہ ہو.ریشہ دوانی نہ ہو.مگر یہ مرحلہ دور ہے.ابھی تمہارے معاملات آپس میں بھی صاف نہیں.گلہ بھی ہوتا ہے.غیبتیں بھی ہوتی ہیں.ایک دوسرے کے حقوق بھی دباتے ہیں.پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جب تک تم ایک وجود کی طرح بھائی بھائی نہ بن جاوگے.اور آپس میں بمنزلہ اعضاء نہ بن جاؤگے تو فلاح نہ پاؤگے.انسان کا جب بھائیوں سے معاملہ صاف
۱۷۵ منہاج الطالبین نہیں تو خدا سے بھی نہیں.بیشک خدا کا حق بڑا ہے مگر اس بات کو پہچاننے کا آئینہ کہ خدا تعالیٰ کا حق ادا کیا جارہا ہے یہ ہے کہ مخلوق کا حق ادا کر رہا ہے.یا نہیں.جو شخص اپنے بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں رکھتا وہ خدا سے بھی صاف نہیں رکھتا.یہ بات سہل نہیں یہ مشکل بات ہے.سچی محبت اور چیز ہے اور منافقانہ اَور.دیکھو مؤمن کے مؤمن پر بڑے حقوق ہیں.جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کو جائے اور جب مَرے تو اس کے جنازہ پر جائے.ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر جھگڑا نہ کرے بلکہ درگذر سے کام لے.خدا کا یہ منشاء نہیں کہ تم ایسے رہو.اگر سچی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہو جائیگی.‘‘ بدر ۱۹۰۸ء نمبر ۱ صفحہ ۱۲، استغفر اللہ ربی من کل ذنبٍ واتوب الیک.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصائح ہیں تقویٰ کے متعلق.پس اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں.اب مَیں یہ تعریف بیان کرتا ہوں کہ انسان کامل کون ہوتا ہے.جیسے طبّ کے لحاظ سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ تندرست آدمی کون ہے.اسی طرح رُوحانیت کے لحاظ سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ انسان کامل کون ہوتا ہے.انسان کامل بننے کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انسان کا تعلق مخلوق سے بھی درست ہو اور خدا تعالیٰ سے بھی درست ہو.یہ دونوں باتیں ضروری ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انسان کامل کے لئے قرار دی ہیں.انسانوں سے تعلق کا درست رکھنا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے.(۱) یہ کہ انسان کا اپنے نفس سے تعلق درست ہو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں: ولنفسک علیک حقّ.تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.(۲) یہ کہ دوسری مخلوق سے اس کا تعلق درست ہو.اپنے نفس کے متعلق جو تعلیم ہے وہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے.(۱) انسان ان امور سے مجتنب رہے کہ جو اسکے دل کو خراب کرنے والے ہیں (۲) ان امور پر عمل کرے جن سے دل پاک ہوتا ہے.دوسرے حصہ کی بھی تین شاخیں ہیں یعنی (۱) بنی نوع انسان سے بحیثیت افراد انسان کا تعلق درست ہو (۲) اسکے تعلقات بنی نوع انسان سے بحیثیت جماعت درست ہوں یعنی قانونِ ملکی کے لحاظ سے دوسروں
۱۷۶ منہاج الطالبین کے ساتھ تعاون کرے (۳) اس کے تعلقات انسانوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق سے بھی درست ہوں.پھر آگے ان کی دو شاخیں ہیں (ا) ان امور سے مجتنب رہے جو بنی نوع انسان یا دوسری مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق کو خراب کرتے ہوں (ب) ان امور پر کاربند ہو جن سے بنی نوع انسان یا دوسری مخلوق سے اس کا تعلق احسان پر مبنی ہو جائے.پھر خد اتعالیٰ سے تعلق درست رکھنے کے بھی دو حصے ہیں (۱) ان افعال سے اجتناب کرے کہ جو اس تعلق کو توڑنے والے ہیں (۲) ان افعال پر کاربند ہو جو خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو بڑھاتے ہیں.اِس تقسیم کے بعد مَیں یہ بتاتا ہوں کہ دین اور مذہب کے کیا معنے ہیں کیونکہ ان سب باتوں کا خلاصہ دین ہے.اور اب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ دین کی تشریح کیا ہے.یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دین دو شقوں میں منقسم ہے.یعنی دین کے دہ حصے ہیں (۱) اخلاق (۲) روحانیت.مَیں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے جنہیں یہ دھوکہ لگا ہے کہ وہ اخلاق کو ہی دین سمجھتے ہیں.جس کے اخلاق اچھے ہوں اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا نیک ہے حالانکہ اس کے متعلق ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا آدھا حصہ درست ہے مگر اسے نیک یعنی دیندار اور متقی نہیں کہہ سکتے.اخلاق کی تعریف انسان کے اعمال کا وہ حصہ جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے اخلاق کہلاتا ہے.اور وہی معاملہ جب خدا تعالیٰ سے کیا جائے تو اسے روحانیت کہتے ہیں.اگر کوئی انسان بندوں سے جھوٹ بولتا ہے تو وہ بد اخلاق ہے اور اگر خدا سے جھوٹ بولتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کی روحانیت مردہ ہو گئی ہے.اور جب کسی کے دونوں پہلو درست ہوں تب ہی وہ دیندار اور متقی کہلا سکتا ہے.پس جب اخلاق مطابق شریعت کئے جائیں تو وہ روحانیت کے ساتھ مل کر دین کہلاتے ہیں.لیکن جب وہی افعال بغیررُوحانیت سے اشتراک کے تمدّن کے طور پر کئے جائیں تو ایسے انسان کے متعلق کہتے ہیں.بڑا با اخلاق ہے.مَیں پہلے اخلاق کو لیتا ہوں پھر روحانیت کو بیان کرونگا.لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اخلاق اور روحانیت میں فرق صرف یہی ہے کہ ہماری طاقتوں کا ظہور انسانوں کے ساتھ معاملات میں اخلاق کہلاتا ہے اور انہی طاقتوں کا خدا تعالیٰ کے متعلق ظہور روحانیت کہلاتا ہے.اسلئے جہاں مَیں اخلاق بیان کرونگا وہاں ساتھ ہی روحانیت کا بھی پتہ لگ جائے گا.اور جہاں فرق بتانے کی
۱۷۷ ضرورت ہوگی وہاں فرق بیان کر دوں گا.اخلاق کے مسئلہ پر غور کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ خُلق کیا چیز ہے.اسکے متعلق اسلام کے سوا سب مذہبوں نے اور فلسفیوں نے لغزشیں کھائی ہیں.اور اسکی عجیب عجیب تعریفیں کی ہیں.مثلاً (۱) بعض کے نزدیک خُلق اس گہری جڑ رکھنے والے ملکہ کا نام ہے جس سے انسانی اعمال بلا فکر و رویہ آپ ہی آپ سرزد ہوتے ہیں.یا جس کے ماتحت انسان بلا فکر و رویہ کسی فعل کے کرنے سے انکار کر دیتا ہے.(۲) بعض کے نزدیک خُلق وہ نیک مادہ ہے کہ جو انسان کے اندر خدا کی ذات پر دلالت کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.(۳) بعض کے نزدیک خُلق وہ مادہ ہے جو لمبے تجربہ کے بعد انسان میں پیدا ہو گیا ہے اور اب ورثہ کے طور پر انسانوں میں آتا ہے.یورپ کے فلاسفر اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں.میرے نزدیک خلق اس حالت کا نام ہے جبکہ طبعی تقاضے قوت فکر کے ساتھ ملادیئے جائیں اور ان تقاضوں سے کام لینے والی ہستی مقتدر ہو.یعنی چاہے تو ان سے کام لے اور چاہے تو ترک کر دے.اگر یہ افعال ایسے وجود سے ظاہر ہوں جس میں قوتِ فکر نہ ہو تو وہ طبعی تقاضے کہلاتے ہیں جیسے حیوانوں میں ہوتا ہے.حیوان محبت اور پیار کرتے ہیں مگر ان کو با اخلاق نہیں کہہ سکتے.بلکہ طبعی تقاضے کہتے ہیں.پھر اگر اس قسم کے افعال ایسے وجودوں سے ظاہر ہوں جنہیں خاص رنگ میں بنایا گیا ہو جیسے نباتات یا جمادات، تو انہیں ظہور قدرت کہیں گے.مضمون کا یہ حصہ مشکل ہے.اگر بعض دوست اسے نہ سمجھ سکیں تو جب یہ کتاب کی شکل میں چھپ جائیگا اُس وقت سمجھ جائیں گے.مگر اسکے بغیر چونکہ مضمون کا اگلا حصہ نہیں چل سکتا اس لئے بیان کرتا ہوں.اگلا حصہ آسان ہے وہ سب دوست سمجھ سکیں گے.مَیں اخلاق کی تعریف بیان کر چکا ہوں.اخلاق وہ افعال ہیں جو ایسے لوگوں سے صادر ہوں جن میں سوچنے اور فکر کرنے کی طاقت ہو اور کام کرنے یا نہ کرنے کی قابلیت پائی جائے.اب مَیں اخلاقِ حسنہ کی تعریف بیان کرتا ہوں.اخلاق حسنہ کی تعریفیں بھی مختلف لوگوں نے مختلف کی ہیں.چنانچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اخلاق حسنہ انسانی طاقتوں کے عقل کے ماتحت استعمال کرنے کا نام ہے.(۲) بعض کے نزدیک اخلاق حسنہ وہ افعال ہیں جو انسان کو حقیقی خوشی پہنچاتے ہیں.(۳) بعض کے نزدیک اخلاق حسنہ وہ افعال ہیں جن میں ایثار سے کام لیا گیا ہو یعنی اپنا نقصان
۱۷۸ کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچایا گیا ہو.(۴) بعض کہتے ہیں کہ اخلاق حسنہ وہ افعال ہیں جو عقل کی روشنی اور اس کے انتظام کے ماتحت ذاتی نفع کی غرض سے ایثار کے طور پر کئے جائیں.(۵) مسلمان صوفی کہتے ہیں جو افعال عقل اور شریعت کے ماتحت کئے جائیں وہ اخلاق حسنہ ہوتے ہیں.امام غزالیؔ نے اخلاق حسنہ کی یہی تعریف کی ہے لیکن یہ تعریف میرے نزدیک کچھ اصلاح کی محتاج ہے، اور وہ اصلاح یہ ہے کہ وہ افعال عقل اور شریعت کے مطابق بھی ہوں اور ساتھ ہی یہ بات بھی پائی جائے کہ ان کا مرتکب اپنی مرضی، ارادہ اور مقدرت سے ان افعال کو کرے.اگر یہ شرط نہیں پائی جاتی تو وہ اخلاق حسنہ نہیں کہلا سکتے.مثلاً اگر کوئی شخص نیم خوابی کی حالت میں کسی کو ایک روپیہ دے دے اور جاگتے ہوئے صدقہ و خیرات سے پرہیز کرے تو اس کا نیم خوابی میں صدقہ کرنا اچھا خُلق نہیں کہلائیگا.کیونکہ اس کا یہ فعل ارادہ کے ماتحت نہیں ہوگا.پس وہ افعال اخلاق حسنہ ہوتے ہیں جو شریعت اور عقل کے ماتحت ارادہ سے کئے جائیں.پھر ایک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اعمال خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق ہوں خلاف نہ ہوں.یہی تعریف صحیح ہے.کیونکہ خوبی وہی ہو سکتی ہے جو نقص اور غلطی سے پاک ہو.اورکوئی شئے ہماری عقل کے پاک کہنے سے پاک نہیں ہو سکتی.بلکہ خدا تعالیٰ کی صفات کی شہادت سے جو چیز پاک ہے وہی حقیقی طور پر پاک ہو سکتی ہے.اور خوبی کہلانے کی مستحق ہے.کیونکہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی کامل طور پر بے عیب ہے.اب مَیں اخلاق کے منبع کو بیان کرتا ہوں کہ اخلاق کہاں سے پیدا ہوتے ہیں مختلف لوگوں نے مختلف سر چشمے بتائے ہیں.بعض کہتے ہیں اخلاق کا منبع قوتِ فکریہ یعنے عقل، غضب اور شہوت ہیں عقل کام کرتی ہے جیسے سوار کام کرتا ہے.اور غضب و شہوت دو گھوڑے ہیں.عقل کا سوار جب ان دو گھوڑوں کو درست چلاتا ہے تو خلق پیدا ہوتا ہے.اور اگر سوار غلطی کرے تو بد خُلقی پیدا ہوتی ہے.محی الدین ابن عربی اس قوتِ فکر کا نام نفسِ ناطقہ رکھتے ہیں.ان کا دعویٰ ہے کہ تمام اخلاق ان تینوں مادوں کے ملنے سے پیدا ہوتے ہی.یعنی عقل اور شہوت کے ملنے سے.یا عقل اور غصہ کے ملنے سے یا تینوں کے ایک جگہ جمع ہو جانے سے وہ عقل کو مرد قرار دیتے ہیں اور شہوت اور غصہ کو دو بیویاں.جس طرح مرد کے عورت کے ساتھ ملنے سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح کہتے ہیں عقل کے قوتِ غضبیہ یا قوتِ شہوت کے ساتھ ملنے سے
۱۷۹ اخلاق پیدا ہوتے ہیں.بعض کے نزدیک انسان میں خوشی حاصل کرنے کی زبردست خواہش ہے.یہ جب عقل سے ملتی ہے تو اخلاق پیدا ہوتے ہیں.میرے نزدیک اخلاق کے منبع کو مسلمانوں نے قرآن کریم کی روشنی میں بھی اچھی طرح نہیں سمجھا.میں نے قرآن کریم پر غور کرکے یہ سمجھا ہے کہ اخلاق کا منبع بہت گہرا ہے اور دور تک چلاجاتا ہے.اگر صرف انسان میں افعال پائے جاتے جن کو اخلاق کہا جاتا ہے تو جو تعریف پہلوں نے کی ہے وہ صحیح ہوتی.مگر اس قسم کے افعال نچلی چیزوں میں بھی نظر آتے ہیں.مثلاً وہ کہتے ہیں عقل، شہوت اور غصہ سے مل کر اخلاق بنتے ہیں.اور محبت بھی ایک خلق ہے جو حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے.وہ کہتے ہیں عقل اور شہوت یا عقل اور غصہ کے ملنے سے تمام اخلاق بنتے ہیں.مگر حیوانوں میں عقل نہیں ہوتی.لیکن باوجود اس کے محبت جسے اخلاق میں شمار کیا جاتا ہے پائی جاتی ہے.اس لئے معلوم ہوا عقل، شہوت اور غصہ اخلاق کا منبع نہیں.ورنہ حیوانوں میں کوئی خلق نہ پایا جاتا.مَیں نے اِس مضمون پر غور کیا ہے اور خُدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا جدید مضمون میری سمجھ میں آیا ہے کہ جس نے اخلاق کے مسئلہ کی کایا پلٹ دی ہے.دراصل اخلاق کی جڑھ چند قوتیں ہیں جو نہ صرف انسانوں میں بلکہ حیوانات میں بلکہ نباتات میں بلکہ جمادات میں بھی پائی جاتی ہیں.اور نہ صرف جمادات میں ہی پائی جاتی ہیں بلکہ ان ذرّات میں بھی پائی جاتی ہیں جن سے جمادات بنتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو انسان سے اُتر کر حیوان میں بھی انسان کے مشابہ اعمال پائے جاتے ہیں.انسان میں غصہ ہے، حیوان میں بھی غصہ ہوتا ہے.انسان محبت کرتا ہے، حیوان بھی محبت کرتاہے.اب ہم اس سے اور نیچے چلتے ہیں یعنی نباتات کو لیتے ہیں.ان میں بھی ہمیں ایسے افعال ملتے ہیں جو حیوانات اور انسانوں میں پائے جاتے ہیں.ہاں یہ فرق بے شک ہے کہ نباتات میں وہ افعال بہت ادنیٰ درجہ کے نظر آتے ہیں.مثلاً جس طرح انسان میں لینے اور دینے کی خواہش ہے اسی طرح نباتات میں بھی ہوتی ہے.اور اب نئی تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قریباً تمام نباتات میں نر و مادہ ہیں (گو قرآن کریم میں یہ مضمون پہلے سے بیان ہو چکا ہے) اور جب نر مادہ سے ملے تب پھل بنتا ہے.کھجور کے متعلق یہ بات ہزاروں سال سے معلوم ہو چکی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ نباتات میں شہوت موجود ہے.پھر ان میں غصہ بھی پایا جاتا ہے.ڈاکٹر بوسؔ نے آلات کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا ہے.موٹی مثال چھوئی موئی کی بوٹی دیکھ لو انگلی لگاؤ تو سُکڑ جائیگی.اگر اسکے پھل
۱۸۰ کو ہاتھ لگایا جائے تو اپنے اندر کا بیج باہر پھینک کر سُکڑ جاتا ہے.امریکہ میں ایک درخت ہے، اگر گوشت والی چیز اس کے قریب جائے تو خوش ہو کر پھیل جاتا ہے.اور اگر وہ چیز اس کے ساتھ لگ جائے تو سُکڑ جاتا ہے اور اس کا خون چوس کر اُسے پھینک دیتا ہے.اِس قسم کی مثالوں سے ثابت ہے کہ نباتات میں بھی یہ احساس پائے جاتے ہیں.اب ہم اور نیچے چلتے ہیں اور جمادات کو لیتے ہیں.کہتے ہیں انسان میں محبت ایک بہت اعلیٰ خُلق ہے.مگر محبت کیا ہے.محبت اپنی طرف کھینچنے کو کہتے ہیں.پھر کیا مقناطیس لوہے کو اپنی طرف نہیں کھینچتا.اس میں بھی یہ جذبہ ہے مگر بہت سادہ جذبہ ہے.اس کے مقابلہ میں بجلی کی ایک ہی قسم کی طاقت اگر وہ چیزوں میں پیدا کر دی جائے تو وہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے پیچھے ہٹتی ہیں.گویا ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کرتی ہیں.پس ثابت ہو گیا کہ محبت اور کشش نفرت اور غصّہ کا مادہ جمادات میں بھی پایا جاتا ہے.پھر مَیں نے بتایا ہے کہ یہ طاقتیں باریک ذرّات میں بھی موجود ہیں.اگر ان میں یہ طاقتیں نہ ہوتیں تو پھر دُنیا بن ہی نہ سکتی تھی.اگر ذرّات ایک دوسرے کو کھینچ کر آپس میں اکٹھے نہ ہوں تو کسی چیز کا دُنیا میں قائم ہونا ناممکن ہو جائے.یہ جذب کرنے کی طاقت ہی ہے جس نے ذرّات کو آپس میں ملایا ہوا ہے.پس ثابت ہو گیا کہ اخلاق کا مادہ بہت گہرا ہے.گویہ درست ہے کہ جتنے جتنے ہم نیچے جائیں بعض اخلاق کا ہی پتہ لگتا ہے اور بعض کا نہیں لگتا.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ جڑھ ہر جگہ موجود ہے.اِس امر کو مثالوں سے ثابت کر دینے کے بعد کہ اخلاق کا ظہور جن خاصیتوں سے ہوتا ہے وہ ذرّاتِ عالم میں بھی پائی جاتی ہیں.اب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ وہ کونسی خاصیتیں ہیں جو اخلاق کا مادہ ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ مادہ کی ابتدائی حالت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مادہ میں شش جہات ہیں یعنی اُوپر نیچے.دائیں بائیں.آگے پیچھے.اسی طرح چھ باطنی جہات بھی ہیں اور وہ بھی اپنی نسبت کے لحاظ سے اِسی طرح جوڑا جوڑا ہیں جس طرح ظاہری جہات جوڑا جوڑا ہیں.یعنی جس طرح ظاہری جہات ایک نسبت کے لحاظ سے مثلاً دائیں ہوتی ہے تو دوسری نسبت سے بائیں.ایک نسبت سے آگے ہوتی ہے اور ایک نسبت سے پیچھے.ایک نسبت سے اوپر ہوتی ہے تو دوسری نسبت سے نیچے.اسی طرح باطنی چھ جہات بھی نسبتوں کے لحاظ سے وہ دو قسم ہوتی ہیں یعنی ذکوری واناثی.دو سروں پر اپنی تاثیر ڈالنے والی اور دوسروں سے اثر قبول کرنے والی.یہ ظاہر بات ہے کہ اس چیز پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا جو اثر نہ قبول کر سکے.مثلاً آٹا نرم ہوتا ہے.اس میں مٹھی گھس جاتی
۱۸۱ منھاج الطالبین ہے مگر میز میں نہیں گھس سکتی.کیونکہ یہ اس کے اثر کو قبول نہیں کرتی.اس سے معلوم ہوا تبھی کوئی کام ہو سکتا ہے جبکہ ایک طرف کام کرنے کی طاقت اور دوسری طرف اثر قبول کرنے کی قابلیت ہو.ہر ذرّہ جو پایا جاتا ہے اس میں کھینچنے اور کھینچے جانے کی طاقت ہے.پہلی باطنی جہت جذب یعنے کھینچنے کی طاقت ہے.اور اسکے ساتھ کی میل یعنی جھکنا جب موافق سامان پیدا ہو جائیں گے.وہ کھینچنے لگ جائیگا یا دوسری طرف کھینچ جائیگا.اسی طرح دوسری جہت دفع کی ہے اورا س کے ساتھ کی دوسری طاقت اعراض کی.تیسری خصوصیت ہر ذرّہ میں افناء کی ہے.ہر چیز جو اپنا وجود قائم کرتی ہے دوسری اشیاء کو فنا کرتی ہے.مثلاً مَیں اپنا ہاتھ یہاں سے اُٹھا کر وہاں رکھوں تو پہلے ہاتھ رکھنے کی جو شکل بنی تھی وہ فنا کرکے دوسرے بنائی گئی.اسی طرح ذرّات جب اثر قبول کرکے نئی شکل اختیار کرتے ہیں تو پہلی پر فناوارد ہو جاتی ہے.اسکے مقابل کی خصوصیت فنا کی ہوتی ہے.یعنی ہر ذرّہ میں جہاں دوسرے کو فنا کرنے کی قابلیت ہے وہاں اس میں خود فنا ہونے کی بھی قابلیت ہے.چوتھی خصوصیت ابقار کی ہے.کوئی چیز گرائو آگے دیوار ہو تو وہ اُسے ٹھیرا لیگی.یہ باقی رکھنے کی طاقت ہے.اس کے مقابل کی خصوصیت بقاء ہے یعنی باقی رہنے کی قابلیت.پانچویں خصوصیت اظہار کی ہے.یعنی بعض چیزوں کو اُبھارنا، ظاہر کرنا، ہر ذرّہ دوسرے کو اُبھار تا ہے.اسے موٹا اور نمایاں کر دیتا ہے.اسکے مقابل کی خصوصیت ظہور ہے.یعنی ہر ذرّہ میں نمایاں ہونے اور ظاہر ہونے کی خصوصیت بھی ہے.چھٹی خصوصیت اخفار ہے یعنی کسی چیز کو مخفی کر دینا.مثلاً میرے ہاتھ کے پیچھے کوئی چیز ہو تو وہ اسے چھپا دیگا.اسکے مقابلہ میں خفاء یا چھپنے کی طاقت ہے.یعنی اپنے وجود کو مخفی کر دینا اور دوسرے کے سایہ میں آجانا.یہ طاقتیں جو مادہ کے باریک سے باریک حصّہ میں پائی جاتی ہیں اخلاق کی بنیاد ہیں.تمام اخلاق کی بنیاد انہی پر ہے.اور یہی ترقی کرتے کرتے انسان میں ایک حیرت انگیز صورت میں ظاہر ہو جاتی ہیں.جوں جوں مادہ مرکب ہوتا جاتا ہے اجزاء ملتے جاتے ہیں.اسکے افعال میں زیادتی اور صفائی پیدا ہوتی جاتی ہے.جوں جوں مادہ ترقی کرتا ہے یہ خاصیتیں اعلیٰ پیرایہ میںاور مختلف اقسام سے ظاہر ہوتی ہیں.اور جس قدر ادنیٰ ہوتا جاتا ہے ان خصوصیات کا ظہور ادنیٰ اور محدود ہوتا جاتا ہے جبتک خالص مادی قوانین کے ماتحت یہ خاصیتیں عمل کرتی ہیں اُسوقت تک ہم ان کے ظہوروں کو
۱۸۲ اچھا اور بُرا تو کہہ سکتے ہیں مگر اخلاقِ فاضلہ یا سیئہ نہیں کہہ سکتے.جس طرح ہر چیز جو کام نہ دے ہم اُسے بُرا اور جو کام دے اسے اچھا کہنے لگ جاتے ہیں اور اسکے یہی معنے ہوتے ہیں کہ ان چھ خاصیتوں کا ظہور ان سے قانونِ قدرت کے مطابق پوری طرح ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا.دیکھو یہ سوٹی اگر کسی پر جاگرے تو اسے بُرا محسوس ہوگا مگر یہ نہیں کہیگا کہ یہ سوٹی کی بد خلقی ہے.اسی طرح اگر کسی کو کہیں پڑا ہوا ایک پیسہ مل جائے تو وہ کہیگا اچھی بات ہے مگر یہ نہ کہیگا کہ پیسہ کی بڑی مہربانی ہے.پس جب تک افعال مادی ظہور کے مطابق ہوں ہم انہیں اچھا یا بُرا تو کہہ سکتے ہیں مگر اخلاق نہیں قرار دے سکتے.اچھا یا بُرا کہنے سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ ہماری منشاء کے مطابق وہ کام کر رہے ہیں یا ہمارے منشاء کے خلاف.بعض دفعہ اچھائی یا بُرائی نسبتی ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص کو گولی لگی تو جو اُس شخص کے ہمدرد ہونگے وہ کہیں گے بُرا ہوا لیکن جو مخالف ہوں گے وہ کہیں گے اچھا ہوا.یہ بُرائی اور اچھائی نسبتی ہے.ہم اسے خُلق نہیں کہہ سکتے.یہ ایک طبعی قوت کا اظہار ہے جو طبعی قوانین کے ماتحت ظاہر ہو رہی ہے.ارادہ کا چونکہ دخل نہیں اس لئے اسے خُلق بھی نہیں کہتے.مگر فعل ایک ہی قسم کا ہے.ہاں مگر جب ترقی کرتے کرتے مادہ انسانی شکل اختیار کرتا ہے تو یہ چھ خاصیتیں سینکڑوں شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہیں چونکہ انسان مادہ سے مرکب در مرکب ہو کر بنا ہے اور اس وجہ سے یہ خاصیتیں بھی اسکے اندر مرکب در مرکب ہوتی چلی گئی ہیں.انکی مثال رنگوں کی ہے کہ جو اصل میں تو صرف چھ سات ہیں مگر ان کو مرکب کرکے سینکڑوں رنگ پیدا کر لئے گئے ہیں.چونکہ انسان میں ان خاصیتوں کا ظہور نئے رنگ میں ہونے لگتا ہے اسے خلق کہتے ہیں.گویا وہ ایک نئی پیدائش ہے.اور خَلق یعنی جسمانی پیدائش سے ممتاز کرنے کے لئے اسے خُلق پیش سے کہنے لگے ہیں ورنہ اصل میں وہی چھ خاصیتیں ہیں جو ابتدائی سے ابتدائی مادہ میں بھی پائی جاتی ہیں.جب تک وہ جمادات میں کام کرتی ہیں ان کو طاقتیں کہتے ہیں.جب نباتات میں ایک زیادہ مکمل ظہور ان کا ہوتا ہے انہیں حسیں کہتے ہیں.جب حیوانات میں اس سے بھی زیادہ مکمل ظہور ہوتا ہے تو انہیں شہوات یا طبعی تقاضے کہتے ہیں.اور جب اس سے بھی زیادہ مکمل صورت میں انسان میں ان کا ظہور ہوتا ہے تو فکر اور ارادے کے بغیر انکے ظہور کو طبعی تقاضے یا اظہارِ فطرت کہتے ہیں.اور جب ارادے یا فکر کے ماتحت اُن کا ظہور ہوتا ہے تو اسے خُلق کہتے ہیں.یعنی ترقی کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئیں.جیسے قرآن کریم میں بھی انسان کی تخلیق کے متعلق آتا ہے ولقد خلقنا الانسان من سلٰلۃ من طینٍ.
۱۸۳ ثم جعلنٰہ نُطْفَۃً فی قرارٍ مکینٍ.ثمّ خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظٰمًا.فکسونا العِظٰم لحماً.ثمّ انشأنٰہ خلقًا اٰخر فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین.(۲۳-۱۳تا ۱۵) انسان کو خدا نے سب سے اعلیٰ مخلوق بنا دیا اور سب خُلق اس کے ماتحت آگئی.اب اس اصل کو سمجھ لینے کے بعد انسانی اخلاق پر غور کرو.سب اخلاق کا باعث یہی سیدھے سادھے خواص جو مادے میںپائے جاتے ہیں نظر آتے ہیں.جو مختلف مدارجِ ارتقاء کے بعد اس حالت کو پہنچ گئے ہیں.اور اس وجہ سے ان کو اپنی ذات میں ہم ہر گز بُرا نہیں کہہ سکتے.کیونکہ وہ طبعی تقاضے ہیں.ہم انہیں تبھی بُرا کہہ سکتے ہیں.جب وہ بے محل استعمال ہوں.مثلاً بز دلی ہے، سب لوگ اسے بُرا کہتے ہیں.لیکن کیا اس کا یہی مطلب نہیں ہے کہ ایک بات سے انسان پیچھے ہٹتا ہے.اور خالی پیچھے ہٹنا بُرا نہیں کہلا سکتا ہے.وہ اعراض کے قدرتی جذبہ کا اظہار ہے.ہم اسے تبھی بُرا کہیں گے جب کہ وہ فعل عقل اور مقتضائے وقت کے خلاف کیا گیا ہو.چنانچہ ہم زہد کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی پیچھے ہٹنے کا ہی فعل ہے لیکن سب لوگ اسے اچھا کہتے ہیں.حالانکہ دونوں فعلوں کی شکل ایک ہے.لیکن حق یہ ہے کہ یہ فعل بھی اپنی ذات میں نہ اچھا ہے نہ بُرا.بلکہ جب عقل اور مقتضائے وقت کے مطابق یہ فعل ہوتو اچھا ہے ورنہ بُرا خواہ اس کا نام زہد رکھو یا کچھ اور.اسی طرح صبر ہے، اس میں بھی خاصیتِ اعراض کا ہی ظہور ہے.اور ہم اسے اچھا تبھی کہیں گے جب یہ عقل و متقضائے وقت کے مطابق ہو ورنہ نہیں.اب مَیں ایک مثال خاصیتِ میل کی بیان کرتا ہوں اور وہ عاشقانہ محبت کی یعنی اُس محبت کی جو محب اپنے محبوب سے کرتا ہے مثال ہے.ایک مرید اپنے پیر سے یا شاگرد اپنے اُستاد سے اس قسم کی محبت کرتا ہے.وہ اسکے حسن کو دیکھ کر جو اپنے اندر جذب رکھتا ہے اسکی طرف جھک جاتا ہے.جب یہ محبت عقل و مقتضائے وقت کے ماتحت ہوتی ہے خُلق حسن کہلاتی ہے.اور جب ایسی نہ ہو تو آوارگی اور کمینگی.لیکن دونوں حالتوں کے اندر حقیقت ایک ہی پوشیدہ ہے.اور وہی خاصیت دوسرے کی کشش کو قبول کر لینے کی جو مادہ میں بھی موجود تھی ایک دوسری شکل میں ظاہر ہوئی ہے.قوتِ دفع سے پیدا ہونے والے اخلاق کی مثال میں بہادری کو پیش کیا جا سکتا ہے.بہادری کیا ہے.وہی خاصیت دفع کی جو مادہ میں موجود تھی اس شکل میں ظاہر ہوتی ہے.اور جب موقع مناسب پر استعمال کی جائے تو خُلق حسن کہلاتی ہے.ورنہ بد خُلقی.گالیاں دینے کی عادت بھی اسی خاصیت کی
۱۸۴ ایک شاخ ہے.اس کی غرض بھی دوسرے کے الزام یا حملہ یا ظلم کو اپنے سے دور کرنا ہوتی ہے.قوتِ جذب کا ایک ظہور ہے.قوتِ جذب دوسری اشیاء کو اپنی طرف کھینچتی ہے.یہی مادہ جس وقت حرص انسانی افعال میں ظاہر ہوتا ہے تو کبھی حرص کی شکل میں اموال اور رُتبوں کو کھینچنے میں لگ جاتا ہے اور جب ناجائز طور پر ظاہر ہوتا ہے تو اسے بُرا ا ورنہ اچھا کہتے ہیں.اسی خاصیت کے ماتحت بشاشت یعنی خوش خلقی سے ملنا بھی ہے اور مدح اور محبت، محبوبی اور درع اور اشاعتِ حق کے لئے جھگڑنے کی صفات بھی اسی جذبہ کے ماتحت ہیں.فناء کی خاصیت سے پیدا ہونے والے اخلاق کی مثال میں تہور کو پیش کیا جا سکتا ہے.تہورّ اس جذبہ کو کہتے ہیں کہ انسان اپنی فنا کا فیصلہ کر لیتا ہے اور کہہ دیتا ہے.کہ مَیں اپنی جان کی بالکل پرواہ نہیں کرونگا.یہ جذبہ بھی کبھی عقل کے ماتحت ہوتا ہے.اسوقت یہ جذبہ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے جیسے نعمت اللہ خان نے کیا کہ جان دینے کا قطعی فیصلہ کر لیا مگر ایمان کی حفاظت کی.جب عقل کے ساتھ صحیح طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں یہ قربانی ہے لیکن جب عقل کے ماتحت نہ ہو جیسے آگ جل رہی ہو اور کوئی اس میں گر کر اپنے آپ کو جلا دے تو یہ بھی تہور ہی ہے.لیکن عقل کے ماتحت نہیں اسلئے بُرا ہے.دوسری مثال اس جذبہ کی احسان ہے.یعنی ایک شخص دوسرے کی خاطر اپنا حق چھوڑ دیتا ہے اور ایک حد تک اپنے لئے فنا کے سامان پیدا کرتا ہے.چونکہ وہ ان اشیاء کو جو اُسکے بقاء کے لئے تھیں دوسروں کو دے دیتا ہے.افناء کی خاصیت سے پیدا ہونیوالے اخلاق کی مثال میں قتل، غارت، کینہ کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان اخلاق کی تہ میں افنا کی خواہش کا زور معلوم ہوتا ہے.ابقاء کی خاصیت کے ماتحت پیدا ہونے والے اخلاق کی مثال میں سخاوت، امید، احسان اور اسی قسم کے اور اخلاق کو پیش کیا جا سکتا ہے (احسان کو پہلے فناء کے نیچے بیان کیا گیا ہے.اسکی یہ وجہ ہے کہ بعض اخلاق مرکب ہوتے ہیں ار وہ خاصیتوں سے مل کر پیدا ہوتے ہیں یا مختلف وقتوں میں مختلف جذبات کا ظہور ہوتے ہیں) کبر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش، شجاعت، خود پسندی، ظہور کی خاصیت سے پیدا ہونے والے اخلاق میں شمار ہو سکتے ہیں.کیونکہ انکی تہ میں ظاہر ہونے کی خواہش مخفی ہے.افشاء سر، ریاء، بے حیائی، صدق ایسے اخلاق میں جو اظہار کی خاصیت کے غیر مادی ظہور
۱۸۵ ہیں.توکل، غفلت اور حیاء کے اخلاق قوتِ خفاء یعنی پوشیدہ ہو جانے کے مادہ سے ترقی کرکے پیدا ہوتے ہیں.استہزاء، مزاح، جھوٹی گواہی، رازداری، جھوٹ، اخفاء کی خاصیت کا غیر مادی ظہور معلوم ہوتے ہیں.بعض اخلاق مرکب ہوتے ہیں جیسا کہ حسد، جذب اور افناء سے مرکب ہے اور حقد اعراض اور افناء سے مرکب ہے.بعض اخلاق مختلف حالتوں میں مختلف خاصیتوں کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ مراء اور جدال یعنی ہمت کرنا اور جھگڑنا کبھی اعراض کے ماتحت ہوتا ہے.اسوقت اس کی غرض دوسرے کا دعویٰ باطل کرنا ہوتا ہے.کبھی ہمت اور جھگڑا حق لینے کے لئے ہوتا ہے.اس وقت یہ جذب کی خاصیت کے ماتحت ہوتا ہے.غرض انسانی اخلاق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت مادہ کے خواص کی ایک ترقی یافتہ صورت میں اور صرف ارتقاء کی حالت میں غیر مادی صورت اختیار کر گئے ہیں اور بعض صورتوں میں مرکب ہو گئے ہیں.اس اصل کے ماتحت جو مَیں نے اوپر بیان کیا ہے نہ صرف یہ کہ اخلاق کی جڑ اور حقیقت ہی معلوم ہو جاتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اخلاق کی بُرائی اور بھلائی ذاتی نہیں ہے بلکہ ان کے استعمال کی طرز اور موقعہ سے وابستہ ہے.کیونکہ خاصیات اپنی ذات میں نہ بُری ہیں نہ اچھی.مگر اس سے بھی بڑھ کر اس تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دُنیا کو پیدا کرنے والی ایک ہستی ہے.کیونکہ اخلاق کی ایسی گہری جڑ آپ ہی آپ پیدا ہو سکتی تھی.صاف ظاہر ہے کہ ابتدائے عالم سے اس امر کا خیال رکھنا کہ انسان کے دل میں اخلاق کی ایک گہری جڑ قائم کی جائے جس سے وہ آزاد ہو ہی نہ سکے.بغیر کسی بالارادہ ہستی کے فعل کے نہیں ہو سکتا.اسی نے انسان کی پیدائش کی غرض کو مد نظر رکھ کر اس کے خمیر میں ہی اخلاق کی آمیزش کی.تا وہ ہر حالت اور ہر عمر میں اخلاق کے اثر کو قبول کرنے کی قابلیت رکھے اور ان کی طرف اسے فطرتی میلان ہو.اعلیٰ اخلاق کا خیال کیوں رکھا جائے؟ اخلاق کی حقیقت کے بیان کرنے کے بعد مَیں اِس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ
۱۸۶ اعلیٰ اخلاق کیوں برتے جائیں اور بُرے اخلاق سے کیوں اجتناب کیا جائے؟ پورپ کے لوگ چونکہ فلسفۂ اشیاء کی طرف زیادہ متوجہ ہیں انہوں نے اِس سوال کو خاص اہمیت دی ہے اور ان میں سے محققین نے بڑے غور کے بعد اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ اعلیٰ اخلاق اپنی ذات میں اچھی چیز ہیں.اس لئے خود اعلیٰ اخلاق کی خاطر نہ کہ کسی اور غرض سے انکو قبول کرنا چاہئے.اسلامی ماہرین اخلاق نے اِس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ انسان کو اخلاق کا اظہار بہ نیتِ ثواب کرنا چاہئے.اور امام غزالی یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کوئی صحت کے خراب ہونے کے خیال سے زنا سے بچے تو وہ متقی نہیں ہے.اِس خیال پر مغربی خیال کے دلدادہ دو اعتراض کرتے ہیں.(۱) جو شخص کس مریض کا علاج اسکی صحت کے خیال سے نہیں بلکہ ثواب کی خاطر سے کرتا ہے کیا وہ تاجر نہیں.پھر جو شخص تجارت کے طور پر ان کاموں کو کرتا ہے وہ کیوں اچھا سمجھا جائے.(۲) اگر کوئی شخص زنا سے اپنی حفاظتِ عزّت یا صحت کے لئے بچے تو وہ کیوں عفیف نہیں ہے.اور اگر عفیف نہیں ہے تو شریعت نے زنا سے منع کیوں کیا ہے.تم کہتے ہو چونکہ اس طرح زنا سے بچنے میں ثواب کی نیت نہیں اس لئے وہ اخلاق نہیں کہلا سکتے.ہم پوچھتے ہیں خدا کسی کام کا ثواب کیوں دیتا ہے، اسی لئے نہ کہ جس کام کے متعلق وہ کہتا ہے یوں نہ کرو وہ نہ کیا جائے.اور جس کام کے متعلق وہ کہے کرو وہ کیا جائے.اب سوال یہ ہے کہ وہ کیوں کسی کام کے متعلق کہتا ہے کہ یہ کرو اور کیوں کہتا ہے کہ فلاں کام نہ کرو.اگر بغیر کسی حکمت کے تو اسکی شریعت بے معنی اور فضول ہوئی اور اگر کسی سبب سے اور حکمت کے ماتحت تو اس حکمت کو مد نظر رکھ کر کام کرنا کیوں اخلاق فاضلہ میں شامل نہ ہوگا.جس حکمت کو خدا تعالیٰ حکم دیتے وقت مد نظر رکھتا ہے اگر بندہ اسے کام کرتے وقت مد نظر رکھے تو اس کے کام کی قدر کیوں کم ہو جائے.مثلاً خدا تعالیٰ نے اگر زنا صحت یا قیامِ امن کے لئے منع فرمایا ہے تو جب ہم اسی غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے زنا نہ کریں تو یہ کیوں اچھا خُلق نہ سمجھا جائے اور ہم کیوں ثواب کے مستحق نہ ہوں.اور اگر زنا سے منع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو معلوم ہوا خدا تعالیٰ نے اس کی ممانعت کا یونہی حکم دیا ہے.پہلے اعتراض یعنی تجارت کا جواب یہ ہے کہ اس فعل اور تجارت میں کوئی مناسبت نہیں.کیونکہ اخلاق حسنہ کی جزا خدا تعالیٰ نے پہلے مقرر کر رکھی ہے اور کہہ چھوڑا ہے کہ جو فلاں افعال
۱۸۷ سے بچیگا اُسے یہ بدلہ دیا جائیگا.اور جو فلاں افعال کریگا اُسے یہ بدلہ دیا جائیگا.پس یہ تجارت نہیں بلکہ انعام ہے کیونکہ تجارت میں انسان اپنے کام کی قیمت خود مقرر کرتا ہے.یہاں بدلہ اسکی پیدائش سے بھی پہلے کا مقرر شدہ ہے اور طبعی بدلہ ہے.خواہ ہم خدا تعالیٰ کو راضی کرنیکی نیت رکھیں یانہ رکھیں وہ بدلہ ہمیں مل رہا ہے اور ملیگا.پس یہ تجارت نہیں.تجارت تو یہ ہے کہ مثلاً ایک کے پاس گھی ہے اور دوسرے کے پاس روپیہ وہ روپیہ دیکر گھی خرید لیتا ہے لیکن بیچنے والا مختار ہے خواہ اپنی چیز دے یا نہ دے.مگر یہاں معاملہ بر عکس ہے.کیونکہ کام لینے والے نے خود ہی انعام کا وعدہ کیا ہے اور کام کرنیوالے نے اس سے کوئی مطالبہ نہیں کیا.پھر یہ فرق ہے کہ وعدہ کرنیوالا وہ ہے جس کے ہم بہرحال محتاج ہیں.اگر وہ افعال جنہیں ہم بہ نیتِ ثواب کرتے ہیں نہ بھی ہوں تب بھی اسی کے احسان سے جیتے ہیں.اس ایسے شخص کے انعام کو جس کے انعام کے بغیر ہم زندہ ہی نہیں رہ سکتے تجارت نہیں کہا جا سکتا.تجارت اسی سے ہوتی ہے جس سے ہم مستغنی ہوں خواہ تعلق رکھیں یا نہ رکھیں.دوسرا اعتراض بالکل ٹھیک ہے بشرطیکہ یہ کہا جائے کہ اگر بہ نیتِ ثواب کوئی کام نہ ہو تو وہ اخلاق سے نہیں.اصل جواب ان اعتراضوں کا یہ ہے کہ تم لوگ ثواب کی حقیقت کو نہیں سمجھے.ثواب کے معنے اگر روپیہ پیسہ کے ہوں تو بیشک تمہارا اعتراض درست ہو سکتا ہے.مگر ثواب کے معنے روپیہ اور پیسہ کے نہیں ہیں بلکہ اس اعلیٰ مقصد کے حاصل ہونے کے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہم کامل الصفات ہو جائیں.ہمارے اندر وہ طاقت پیدا ہو جائے جس سے پاکیزگی ہمارا ذاتی جوہر ہو جائے اور ہم طہارت کا سر چشمہ ہو جائیں.جو انعامات کہ بظاہر مادی معلوم ہوتے ہیں وہ یا تو استعارے ہیں اور یا پھر اصل مقصد نہیں بلکہ لوازمات سے ہیں.اور لوازمات اصل مقصد نہیں ہوتے.ایک دوست کی انسان خاطر کرتا ہے، وہ خاطر اصل نہیں.بلکہ لازمہ ہے.اصل دلی میلان اور اندرونی اتصال ہے.اسی طرح ثواب سے مراد کھانا اور پینا نہیں بلکہ کمالِ ذاتی کا حصول ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن.یعنی انسانی پیدائش کی غرض عبد بننا ہے.پس ثواب یہ ہے کہ انسان کو عبد بننے کی توفیق عطا ہو اور وہ کامل ہو جائے.اور اس میں کیا شک ہے کہ اس غرض سے کام کرنے سے ہی اخلاق، اخلاق کہلا سکتے ہیں.ورنہ وہ صرف ظاہری مشقیں ہیں اَور کچھ نہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص ظاہری اخلاق کے مطابق عمل کریگا وہ دُنیا میں ایک حد تک فائدہ اٹھائیگا.لیکن اگر
۱۸۸ اس کی غرض ساتھ ہی کامل ہونے کی نہیں اور خدا کی رضا کی اُسے جستجو نہیں تو کمال اُسے کس طرح حاصل ہوگا.باطنی اور ذہنی افعال کا دار و مدار تو نیتوں پر بہت ہی مبنی ہے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ جسمانی افعال بھی نیتوں سے وابستہ ہیں.ورزش کرتے وقت اگر جسم کی طاقت کا خیال رکھا جائے تو اعلیٰ نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور اگر نہ رکھا جائے تو ادنیٰ.دو سراجواب یہ ہے کہ ہم رضائے الٰہی کے لئے اخلاق پر عمل کرتے ہیں اور رضائے الٰہی کے حصول سے یہ مراد نہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں کچھ آئندہ دے.بلکہ یہ ہے اس کے دئے ہوئے کا شکر ادا کریں.اور اخلاقی طور پر اس کے حضور سر خرو ٹھہریں.علاوہ ازیں مَیں کہتا ہوں معترض خود اپنی حقیقت کو نہیں سمجھا.اگر انعام کامل جانا خود غرضی ہے تو اس کے اندر بھی خود غرضی موجود ہے.ہم اس سے دریافت کرتے ہیں کہ بیمار کا علاج کوئی شخص کیوں کرتا ہے.اگر وہ کہے کہ دلی رحم کی وجہ سے تو پھر یہ خوبی نہ رہی.کیونکہ اگر اسے دل مجبور کرتا ہے کہ ضرور علاج کرو تو پھر علاج کرنے والے کی یہ خوبی نہیں وہ تو اپنے دل سے مجبور ہو کر کر رہا ہے.اگر یہ نہیںتو کوئی اور وجہ ہوگی.اور وہ تعاون کا خیال ہے.انسان سمجھتا ہے آج مَیں کسی کا علاج کرونگا تو کل میرا بھی کوئی کریگا.اس میں بھی اس کام کا بدلہ ملنے کا خیال ہو گیا.اس کے مقابل پر ہماری طرف دیکھو کہ ہم یہ نیت نہیں رکھتے کہ جو ہم کام کرتے ہیں انکا بدلہ روپیہ پیسہ کی شکل میں ہمیں آئندہ ملے.بلکہ یہ نیت کرتے ہیں کہ ہم اس پہلے انعام کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمیں اس وقت تک خدا تعالیٰ کی طرف سے مِل چکا ہے.بااخلاق کسے کہتے ہیں؟ اَب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ با اخلاق کسے کہتے ہیں.مسیحیوں کے نزدیک جسمیں سب خوبیاں ہوں اور جو سب عیبوں سے پاک ہو وہ با اخلاق ہوتا ہے.باقی مذاہب والے بھی تھوڑے بہت اسی طرف گئے ہیں.مگر اسلام کہتا ہے: فاما من ثقلت موازینہ.فھو فی عیشۃٍ راضیۃٍ.وامّا من خفّت موازینہ.فامّہ ھاویہ.(۱۰۱-۷ تا ۱۰) کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں وہ اچھے اخلاق والا ہے اور جس کی بدیاں زیادہ ہوں وہ بد اخلاق ہے.دیگر مذاہب والے کہتے ہیں اگر ایک شخص ساری عمر نیکیاں کرتا رہے اور ایک بدی کا مرتکب ہو جائے تو بد اخلاق ہوگا.لیکن اسلام کہتا ہے جو شخص کوشش کرکے کثرت کے ساتھ خوبیاں پیدا کر لیتا ہے اس میں اگر بعض عیوب بھی ہوں جن کو خوبیاں چھپالیں تو وہ بااخلاق ہے.
۱۸۹ اصل بات یہ ہے کہ دیگر مذاہب والے سمجھتے ہیں شریعت تحکم ہے.اس کے احکام کی کوئی وجہ نہیں ہے.اسلئے ذرا کوئی حکم توڑا اور انسان پکڑا گیا.گویا شریعت تعزیرات کے طور پر ہے.مگر اسلام کہتا ہے اخلاق اور شریعت کے احکام اپنی ذات میں مقصود نہیں بلکہ یہ تو ورزشیں ہیں جو انسان میں دلی پاکیزگی پیدا کرنے کے لئے ہیں.ان کے ذریعہ مشق کرائی جاتی ہے تاکہ پاکیزگی پیدا ہو.اسلئے اگر کسی مشق میں کوئی غلطی ہو جائے تو یہ نہیں کہ ضرور اسکی سزا دی جائے تا وقتیکہ اس غلطی سے مشق کی اصل غرض کو نقصان نہ پہنچتا ہو اور اصل مقصد فوت نہ ہو جاتا ہو.جیسے مثلاً سکول میں اگر کوئی لڑکا دس سوالوں میں سے ایک درست نہ نکالے تو اسے سزا نہیں دی جائیگی.اسی طرح ڈاکٹر غلطیاں بھی کرتے ہیں.لیکن انکے علاج سے لوگوں کو صحت ہوتو وہ ڈاکٹر سمجھے جاتے ہیں.پس اگر کسی میں بعض نقص رہ بھی جائیں تو بھی وہ با اخلاق سمجھا جا سکتا ہے.لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کہے اچھا میں اور کوئی برائی نہیں کرونگا صرف چوری کر لیا کرونگا.اس ایک نقص کا تو کوئی حرج نہیں.یہ بغاوت ہے اور بغاوت معاف نہیں ہوا کرتی.معاف غلطی ہوتی ہے.مثلاً ایک طالب علم کہے کہ میں ایک سوال کا جواب نہیں دوںگا تو اسے سکول سے نکالا جائیگا کیونکہ اس نے ممتحن کی ہتک کی.لیکن اگر وہ ایک آدھ سوال حل نہ کر سکے تو اس وجہ سے اسے کوئی سزا نہ دی جائیگی.کیا اخلاق کی اصلاح ممکن ہے اَب یہ سوال ہے کہ کیا اخلاق کی اصلاح بھی ممکن ہے.گوعام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ ممکن ہے.مگر اپنے معاملہ میں آکر کہدیا کرتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا.اسی مجمع میں جس سے پوچھو کہ اخلاق درست ہو سکتے ہیں تو کہیگا.ہاں ضروری ہو سکتے ہیں.اور اگر کہو تم نے اپنے اخلاق کی اصلاح کر لی ہے تو کہیگا.مَیں نے بہت زور لگایا ہے مگر کچھ نہیں بنتا.عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں کے لئے بُری رائے ظاہر کرتے ہیں.اور اپنے لئے اچھی.مگر اس معاملہ میں اُلٹ ہوتا ہے.کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کے لئے اچھی رائے ظاہر کرتے ہیں اور اپنے لئے بُری.مگر قرآن کریم کہتا ہے اخلاق کی اصلاح ہو سکتی ہے.فرماتا ہے فذکّر اِن نفعت الذِکریٰ (۸۷-۱۰) اِن کے معنی قد کے ہیں.کہ اے محمدؐ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تو لوگوں کو نصیحت کر کہ نصیحت ہمیشہ ہی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.پس قرآن کریم کی اس آیت کے ماتحت اخلاق کی اصلاح ہر حالت میں ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں جو ارشاد جماعت کو کیا ہے وہ اپنی
۱۹۰ ذات میں ایک معجزہ ہے.بلکہ اتنا بڑا معجزہ ہے کہ وہی آپ کی صداقت کے ثبوت کے لئے کافی ہے.قرآن کریم کو چھوڑ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کا وہی منبع ہے اور کسی نے اِس حقیقت کو بیان نہیں کیا.آپ نے ایسے الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ دل کو اُمید سے پُر کر دیتے ہیں.آپ جماعت کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: ’’یہ خیال نہ کرو کہ ہم گنہگار ہیں.ہماری دُعا کیونکر قبول ہوگی.انسان خطا کرتا ہے مگر دعا کے ساتھ آخر نفس پر غالب آجاتا ہے اور نفس کو پامال کر دیتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر یہ قوت بھی فطرتاً رکھ دی ہے کہ وہ نفس پر غالب آجائے.دیکھو پانی کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ آگ کو بجھا دے.پس پانی کو کیسا ہی گرم کرو اور آگ کی طرح کر دو.پھر بھی جب وہ آگ پر پڑیگا تو ضرور ہے کہ آگ کو بجھا دے جیسا کہ پانی کی فطرت میں برودت ہے ایسا ہی انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک شخص میں خدا تعالیٰ نے پاکیزگی کا مادہ رکھ دیا ہوا ہے.اس سے مت گھبرائو کہ ہم گناہ سے ملوث ہیں.گناہ اس میل کی طرح ہے جو کپڑے پر ہوتی ہے اور دور کی جا سکتی ہے.تمہارے طبائع کیسے ہی جذبات نفسانی کے ماتحت ہوں خدا تعالیٰ سے رو رو کر دُعا کرتے رہو تو وہ ضائع نہ کریگا.وہ حلیم ہے.وہ غفور رحیم ہے.‘‘ (بدر ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء تقریر جلسہ سالانہ) یہ ایسا پُر اُمید پیغام ہے کہ گو اجمالی طور پر قرآن کریم میں پایا جاتا ہے مگر اور کسی کتاب میں اس کو اس رنگ میں نہیں بیان کیا.جس رنگ میں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اجمال کے طور پر قرآن کریم سے اس بیش بہاء تعلیم کو لیا ہے اور کسی کتاب نے بیان نہیں کیا.اور تشریح کو مدّ نظر رکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کمال کر دیا ہے.اُوپر کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان میں ایسا مادہ ہے کہ جب بھی اسکو کام میں لایا جائے سب گناہوں کو دور کر دیتا ہے اور اصلاح کر دیتا ہے.فطرت کا میلان نیکی کی طرف ہے یا بدی کی طرف اِس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر فطرت کا سیلان نیکی کی طرف ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فطرت کا میلان نہ نیکی کی طرف ہے نہ بدی کی طرف.ہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ قابلیتیں دیکر بھیجا ہے اور اسے مقدرت دی ہے کہ وہ انہیں نیک و بد طور پر استعمال کر سکے.پھر وہ اسے سیدھا راستہ دکھا کر چھوڑ دیتا ہے.
۱۹۱ جیسا کہ فرماتا ہے: انّا ھدینٰہ السّبیل اِمّا شاکراً و اِمّا کفوراً.یعنی ہم نے انسان کو ہر رنگ کی طاقت دیکر قدرت دے دی ہے.چاہے کافر بنے چاہے شکر گذار.دُنیا میں اکثر بدی کیوں ہے؟ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان میں یہ طاقت ہے کہ بدی کو دبا سکتا ہے تو دُنیا میں بدی کیوں زیادہ ہے اور نیکی کیوں کم ہے؟ اِس سوال کا جواب مَیں نے پہلے بھی اپنی ایک تقریر میں دیا تھا.مگر پچھلے دنوں چار پانچ آدمیوں نے مختلف مقامات سے یہ سوال لکھ کر بھیجا ہے.نہ معلوم ایک ہی وقت میں یہ سوال کس طرح پیدا ہو گیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ دُنیا میں بُرائی زیادہ نہیں بلکہ نیکی زیادہ ہے.دیکھو ایک چور جس میں چوری کی بُرائی پائی جاتی ہے وہ اگر کئی نیک کام کرے.مثلاً خوش خلق ہو، سخی ہو، ماں باپ کی خدمت کرنیوالا ہو تو اس میں نیک خلق زیادہ ہوئے یا بُرے.پس اگر اخلاق کو مدّ نظر رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بد اخلاقی کم ہوگی اور نیک اخلاق زیادہ ہونگے.اکثر نیک اخلاق لوگوں میں پائے جائینگے.اور بد اخلاقیاں کم ہونگی.یہ شُبہ کہ دُنیا میں بُرائیاں بہ نسبت نیکیوں کے زیادہ ہیں دو وجہ سے پیدا ہوتا ہے.ایک تو اِس وجہ سے کہ لوگ دیکھتے ہیں.دُنیا میں کافر زیادہ ہوتے ہیں اور مؤمن کم.اور دوسرے اس وجہ سے کہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اکثر انسانوں میں کچھ عیوب نظر آتے ہیںلیکن یہ دونوں اُمور ہر گز ثابت نہیں کرتے کہ دُنیا میں بدی زیادہ ہے.بلکہ باوجود اِن دونوں اُمور کے دُنیا میں نیکی زیادہ ہے.اگر پہلی بات کو یعنی اس امر کو کہ دُنیا میں کافر زیادہ ہیں لیا جائے تو غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ ایک دھوکہ ہے جو حقیقت پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے.حقیقت یہ نہیں کہ دُنیا میں کافر زیادہ ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دُنیا میں کافر کہلانیوالے زیادہ ہیں.کیونکہ اگر تحقیق کی جائے تو دُنیا میں سے اکثر آدمی وہی ملیں گے جن پر باطنی حجت پوری نہیں ہوئی.پس گو ان کا نام ظاہر شریعت کی بناء پر کافر رکھا جائے خدا تعالیٰ کے نزدیک ان میں کفر کی حقیقت نہیں پائی جاتی بلکہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ یا پھر موقع دیگا یا ان کے فطری اعمال یعنی شرک و توحید کی بناء پر انہیں سزا یا جزا دیگا.پس حقیقت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اصل میں ایمان ہی زیادہ ہے اور اسی نسبت سے نیکی بدی کی نسبت زیادہ ہے.دوسری وجہ بھی کہ اکثر لوگوں میں کمزوریاں نظر آتی ہیں، باطل ہے.کیونکہ سوال یہ نہیں کہ
۱۹۲ اکثر لوگوں میں کمزوریاں نظر آتی ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اکثر لوگوں میں بدیاں نظر آتی ہیں یا نیکیاں اگر اکثر لوگوں میں اکثر نیکیاں نظر آتی ہیں تو نیکی دُنیا میں زیادہ ہوئی.اور ہر شخص جو انسانوں کے مجموعی اعمال پر نظر کریگا اُسے معلوم ہوگا کہ انسانوں کے اعمال کو مجموعی طور پر دیکھ کر یہی ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں میں اکثر نیکیاں ہیں اور کم بدیاں ہیں.پس دُنیا میں بدی کم ہوئی اور نیکی زیادہ.بعض لوگ اِس موقع پر کہہ دیتے ہیں کہ خواہ کچھ ہو اگر اکثر لوگوں کو سزا ملنی ہے تو پھر شیطان جیتا.مَیں کہتا ہوں نہیں، پھر بھی خدا ہی جیتا.اور وہ اس طرح کہ خدا تعالیٰ کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ سزا بھگت کر سارے کے سارے انسان جنت میں چلے جائیں گے.چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے.وما خلقت الجنّ والانس الّا لیعبدون.مَیں نے انسانوں کو اسلئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے بندے بن جائیں.اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ لوگ خدا کے بندے بنکر بھی سزا میں پڑے رہیں.پس معلوم ہوا کہ ایک وقت سب کے سب دوزخ سے نکالے جائینگے.چنانچہ دوسری آیات اور احادیث سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت سب کے سب لوگ جنت میں چلے جائینگے.اس لئے سارے خدا کے عبد ہو گئے اور خدا ہی جیتا.پھر شیطان بھی کہاں بیٹھا رہے گا.وہ بھی جنت میں چلا جائیگا.اس طرح وہ اپنے نفس کے لحاظ سے بھی ہار گیا.اب وہ جو کہتے ہیں شیطان جیتا وہ شیطان کو بھی جنت میں دیکھ کر شرمائیں گے کہ ہم تو اسے جتا رہے تھے یہ خود بھی یہیں آگیا.اب پھر مَیں باکمال انسان کی تعریف دُہراتا ہوں.باکمال وہ انسان ہے جو اِس حد تک گناہ سے بچے کہ اسکی رُوح ہلاکت اُخروی سے بچ جائے (ہلاکتِ اُخروی سے مراد خدا تعالیٰ کی ناراضی ہے) اور اِس حد تک نیکی کرے کہ خدا تعالیٰ کی رضاء کی طرف قدم مارنے کی فوری قوّت اس میں پیدا ہو جائے.ورنہ یوں تو یہ قوت سب میں پیدا ہوگی.گناہ کیا ہے؟ اَب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ گناہ کیا ہے.گناہ وہ عمل ہے کہ جس سے انسان کی روح بیمار ہو جاتی ہے اور رویتِ الٰہی کے قابل نہیں رہتی اور اس کے لئے اس سفر میں دقتیں پیدا ہو جاتی ہیں جس کے لئے اُسے پیدا کیا گیا ہے.ان اعمال میں سے بعض مادی ہیں اور بعض رُوحانی.جو مادی ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہیں کہ جن کی مضرات نظر آتی ہیں.جیسے جھوٹ، قتل وغیرہ کے ارتکاب کا نقصان عیاں ہوتا ہے.
۱۹۳ نیکی کیا ہے؟ نیکی وہ اعمال ہیں کہ جن سے انسانی رُوع کو اتنی صحت حاصل ہو جائے کہ وہ رویت الٰہی کے قابل ہو جائے.تندرست آدمی کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ وہ کام کاج کر سکے ورنہ ڈاکٹر تو ہر ایک میں کوئی نہ کوئی بیماری بتا دیگا.پس نیکی یہ ہے کہ رویتِ الٰہی کی قابلیت انسان میں پیدا ہو جائے.اس میں بھی روحانی اور مادی دونوں قسم کے افعال شامل ہیں.گناہ کی اقسام اصل مضمون کے سمجھنے کے لئے یہ بات سمجھنی بھی ضروری ہے کہ گناہ کی اقسام کتنی ہیں.سویاد رکھو کہ اس کی تین اقسام ہیں (۱) دل کا گناہ، یہ اصل گناہ ہے (۲) زبان کا گناہ (۳) جوارح یعنی ہاتھ اور پائوں اور دیگر اعضاء کا گناہ.نیکی کی کتنی اقسام ہیں نیکی کی اقسام بھی تین ہی ہیں (۱) دل کی نیکی.یہ اصل ہے (۲) زبان کی نیکی (۳) جوارح کی نیکی.نیکی کی اِسقدر طاقتوں کی موجودگی میں گناہ کہاں سے آتا ہے؟ اُوپر کے بیان کو پڑھ کر یہ خیال ہو سکتا ہے کہ جب بندہ کی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ نے اسقدر طاقتیں رکھی ہیں تو گناہ کہاں سے آتا ہے.اِسکا جواب یہ ہے کہ گناہ کی ابتداء مندرجہ ذیل امور سے ہوتی ہے: (۱) جہالت یا عدم علم سے.یعنی بعض دفعہ انسان طبعی تقاضوں کے پورا کرنے میں قوتِ فکر سے کام نہیں لیتا اور عارضی خوشی کو مقدم کر لیتا ہے.پس عارضی خوشی دائمی راحت سے اس کی نظر کو ہٹا دیتی ہے.اس کے موجبات یہ ہیں: اوّل جہالت مستقل ہو یا عارضی.جہالت مستقل تو ظاہر ہی ہے.عارضی جہالت یعنی باوجود علم کے ایک وقت میں جاہل کی طرح ہو جائے.اسکے مندرجہ ذیل اسباب ہیں (۱) لالچ اس سے بھی جہالت پیدا ہوتی ہے.(۲) غصّہ (۳) سخت ضرورت (۴) صحت کی خرابی (۵) سخت خوف (۶) سخت محبت.اس سے بھی جہالت پیدا ہوتی ہے.(۷) انتہائی اُمید (۸) سخت مایوسی (۹) ضِد (۱۰) خواہش کی زیادتی (۱۱) یا کمی (۱۲) ورثہ یعنی بعض خیالات ورثہ سے ملتے ہیں اور بسا اوقات دوسرے تمام خیالات پر پردہ ڈال دیتے ہیں.یہ بارہ ذریعہ ہیں جن سے جہالت پیدا ہوتی ہے.(۲) دوسری چیز جس سے گناہ پیدا ہوتا ہے وہ صحبت کا اثر ہے.انسان کے اندر نقل کی طاقت رکھی گئی ہے.وہ اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اس کی نقل کرتا ہے اور اس کے نتائج پر غور
۱۹۴ نہیں کرتا.صحبت کا اثر زیادہ تر ماں باپ یا دوسرے رشتہ داروں کی طرف سے، کھیلنے والوں کی طرف سے اور اُستادوں کی طرف سے پڑتا ہے.قومی رسوم سے جو اثر انسان پر پڑتا ہے وہ بھی اسی قسم میں شامل ہے.(۳) گناہ کا ایک موجب غلط عِلم بھی ہے.ایسی باتوں کو انسان علم سمجھ لیتا ہے جو علم نہیں ہوتیں.ایسے اُصول پر عمل کرتا ہے جو غلط ہوتے ہیں.(۴) گناہ کا ایک موجب عادت بھی ہے.باوجود اس کے کہ انسان سچائی سے واقف ہوتا ہے مگر جب موقع آتا ہے اس بُرائی سے بچ نہیں سکتا.مثلاً جانتا ہے کہ شراب پینا بُرا ہے اور ارادہ کرتا ہے کہ نہیں پیونگا.لیکن باہر جاتا ہے.بادل آیا ہوتا ہے.ایک ایسی صحبت میں جاکر بیٹھتا ہے جہاں شراب اُڑ رہی ہے.وہاں دوسرے کہتے ہیں لو تم بھی پیو.تو اس نے نہ پینے کے متعلق جو ارادہ کیا تھا وہ ٹوٹ جاتا ہے.(۵) گناہ کا ایک موجب سُستی اور غفلت ہے.ایک بات کا عِلم ہوتا ہے.عادت بھی نہیں ہوتی.مگر باوجود اسکے کام کرنے کی امنگ نہیں ہوتی.کہتا ہے پھر کر لینگے.اسی میں وقت گذر جاتا ہے اور وہ بُرائی میں مبتلا ہو جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں ایک ایسا ہی واقعہ ہوا.ایک مخلص صحابی تھے جو جنگ کے لئے جانے کی تیاری کرنے کی بجائے اس خیال سے بیٹھے رہے کہ جب چاہونگا چل پڑونگا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لشکر کے ساتھ نہ جا سکے.غرض کبھی سُستی سے بھی انسان گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے.ایسے انسان کے اندر یہ مادہ نہیں ہوتا کہ اُسے مجبور کرے کہ اُٹھو یہ کام کرو.(۶) گناہ کا ایک موجب عدم موازنہ بھی ہے.یعنی یہ فیصلہ کرنیکی طاقت نہ رکھنا کہ یہ کام اچھا ہے یا وہ.یا یہ فلاں جذبہ کو کس حد تک کس سے اور کس حد تک کس سے استعمال کرنا چاہئے.مثلاً محبت ایک اچھا جذبہ ہے لیکن ایک شخص بیوی سے زیادہ محبت کرے اور ماں سے کم حالانکہ ماں کا اس پر احسان ہے.وہ اس کے عدم سے وجود میں لانے کا باعث ہوئی ہے اور بیوی سے اسکا تعاون کا رشتہ ہے.وہ صرف اسکی خواہشات کو پورا کرتی ہے.یا جیسے آجکل بعض لوگ کہتے ہیں حضرت مرزا صاحبؑ سچے ہیں مگر ہم فلاں پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے چکے ہیں.یہ سب باتیں قوتِ فیصلہ کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں.(۷) گناہ کا ایک موجب اس زمانہ کے خیالات کی مخفی رو بھی ہے.باقی اُمور کی مَیں نے
۱۹۵ تفصیل نہیں بیان کی مگر اسکی بیان کرونگا.کیونکہ تفصیل کے بغیر آپ لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے.بلا اسکے کہ کوئی تحریک کرے یا منوانے کے لئے دلیل دے.جب کسی خیال کی رو دُنیا میں چلیگی تو وہ متاثر کریگی.دس بد معاشوں میں ایک اچھے انسان کو بٹھا دو، وہ بد معاش خواہ دل میں بدی رکھیں اور اس پر ظاہر نہ کریں تو بھی اسکے دل پر بُرائی کا اثر ہونا شروع ہوجائیگا.ایک دفعہ ایک سِکھ لڑکا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اخلاص تھا.اس نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی معرفت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیغام بھیجا کہ میرے دل میں کچھ دنوں سے دہریت کے خیالات پیدا ہو رہے ہیں.جب حضرت خلیفہ اوّلؓ نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سُنائی تو آپؑ نے فرمایا اسے کہو کالج میں جہاں اسکی سیٹ ہے اُسے بدل لے.اُس نے ایسا ہی کیا اور بعد میں پتہ لگا.جس دن سے اُس نے سیٹ تبدیل کی اُسی دن سے اس کے خیالات میں اصلاح ہونی شروع ہو گئی.اسکی وجہ یہ تھی کہ اسکے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہونے کا سبب ایک دہریہ لڑکے کا قرب تھا.بغیر اسکے کہ وہ لڑکا اپنے خیالات کو ظاہر کرتا اس کے دلی خیالات کا اثر اُس سکھ لڑکے پر پڑتا رہا تھا.پس خیالات کی رَو ایسی چیز ہے کہ جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.اور یہ بات قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی ثابت ہے.اسکی مثال حیوانوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ ملتی ہے.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دو بلّیاں آپس میں لڑنے لگتی ہیں لیکن تھوڑی دیر غوں غوں کرنے کے بعد ان میں سے ایک اپنی دُم نیچی کرکے چلی جاتی ہے اور لڑائی نہیں ہوتی.اِسی طرح شیروں کے متعلق تجربہ کیا گیا ہے.چار پانچ کو اکٹھا ایک جگہ چھوڑ دیا جائے تو ان میں سے جو سب سے زبر دست ہوگا وہ کھڑا رہیگا اور باقی اپنی دُمیں نیچی کرکے ادھر ادھر سرک جائیں گے.اس وقت اگر ان کے درمیان گوشت ڈالا جائے تو صرف وہی کھائیگا جو زبردست ہوگا.اور باقی بغیر پنجہ مارے چپکے کھڑے رہیں گے.مسمریزم جو خیالات کی رَو سے ہی متاثر کونیوالا علم ہے اسکے متعلق مَیں ایک دفعہ تجربہ کر رہا تھا تاکہ اس علم کے ذریعہ رُوحانیت پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں انکا جواب دیا جا سکے.اسوقت ہماری نانی اماّں صاحبہ نے کہا.یہ یونہی باتیں ہیں، یہ سامنے چڑیا بیٹھی ہے اسے پکڑ کر دکھا دو تو جانیں.چڑیا دو اڑھائی گز کے فاصلہ پر بیٹھی تھی.مَیں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر اُسے
۱۹۶ متاثر کیا اور اُس کے پاس چلا گیا.لیکن جب مَیں نے اُسے پکڑنے کے لئے ہاتھ ڈالا تو چونکہ میرا ہاتھ میری اور اُس کی آنکھوں کے درمیان آگیا اس لئے وہ ہاتھ سے نکل کر اُڑ گئی.ایک سیاح لکھتا ہے.مَیں نے جنگل میں دیکھا کہ ایک گلہری بے تحاشہ دوڑ رہی ہے مگر دور نہیں جاتی.ہِر پھر کر اسی جگہ آجاتی ہے.مَیں نے قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک سانپ سر نکالے اس کی طرف دیکھ رہا ہے.آخر وہ بالکل اسکے نزدیک چلی گئی اور سانپ اُسے منہ میں ڈالنے ہی والا تھا کہ مَیں نے اُسے کوڑا مارا اور وہ بھاگ گیا.یہ سانپ کے خیالات کا ہی اثر تھا کہ وہ گلہری بھاگ کر دور نہ جا سکتی تھی اور آخر بالکل قریب آگئی.ایک اور سیاح لکھتا ہے.افریقہ کے ایک جنگل میں مَیں نے دیکھا کہ ایک پرندہ پھڑ پھڑا رہا ہے قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سانپ اس کی طرف نظر جمائے بیٹھا ہے.مَیں نے سانپ کو مار دیا بعد میں دیکھا تو وہ جانور بھی اس خوف اور صدمہ سے کہ مَیں پکڑا جائونگا.مرا پڑا تھا.انگلستان میں ایک اور طریق سے تجربہ کیا گیا ہے.اور وہ اس طرح کہ ایک جنس کے دو کیڑے لائے گئے.ان میں سے ایک پانچ میل کے فاصلہ پر رکھ دیا گیا مگر وہ دوسرے کیڑے کے پاس خود بخود پہنچ گیا.یہ خیالات کی رَو کا ہی نتیجہ تھا.امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے چیونٹیوں کا گھر بنایا جسے چاروں طرف سے بند کر دیا.اسکے بعد دیکھا گیا کہ باہر کی طرف سے چیونٹیاں چمٹی ہوئی تھیں.جب اس کمرہ کو کھولا گیا تو معلوم ہوا کہ اسی جگہ چیونٹیاں چمٹی ہوئی تھیں جس طرف چیونٹیوں کا گھر تھا.پھر اسے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا گیا اور چیونٹیاں ادھر ہی جا چمٹیں.حالانکہ درمیان میں دیوار حائل تھی.اِن واقعات سے ثابت ہے کہ خیالات کی رَو ایک زبردست طاقت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ جب آپ کسی مجلس میں بیٹھتے تو ستر بار استغفار پڑھتے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپؑ ڈرتے تھے کہ آپؑ گندے نہ ہو جائیں لیکن یہ ضرور ہے کہ نبی گندگی کے پاس آنا بھی پسند نہیں کرتے اس لئے آپؑ بھی استغفار پڑھتے تھے کہ گندگی دور ہی رہے.پھر بعض لوگ ایسے بھی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں جو خود گندے نہیں ہوتے مگر دوسروں کا اثر قبول کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.پس آپ اس لئے بھی استغفار پڑھتے تھے کہ ان پر کسی گندگی کا اثر نہ ہو.
۱۹۷ گناہ آلود حالتیں گناہ کے خلاف جدّو جہد کرنے کے لئے گناہ آلود حالتوں کا جاننا بھی نہایت ضروری ہے اسلئے اب میں گناہ آلود حالتوں کا بھی اِس جگہ ذکر کر دیتا ہوں.پہلی حالت یہ ہے کہ انسان گناہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے مگر کبھی کبھی اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے.دوسری حالت یہ ہے.گناہ کو بُرا تو سمجھتا ہے مگر اکثر لالچوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے.تیسری حالت یہ ہے کہ انسان گناہ کو بُرا تو نہیں سمجھتا مگر گناہ کی خواہش بھی نہیں ہوتی.یعنی اگر موقعہ پیش آجائے تو گناہ سے نفرت بھی نہیں کرتا.چوتھی حالت یہ ہے کہ انسان گناہ کو پسند کرتا ہے مگر اس میں حیا کا مادہ ہوتا ہے اِس لئے پوشیدہ گناہ کرتا ہے.اور اگر گناہ سے رُکتا ہے تو عادت یا رسم کی وجہ سے رُکتا ہے.پانچویں حالت یہ ہوتی ہے کہ انسان عادت اور رسم کو توڑ کر گناہ کے ارتکاب پر دلیر ہو جاتا ہے اور گناہ کو پسند کرتا ہے.چٹھی حالت یہ ہوتی ہے کہ انسان دوسروں کو بدی کی ترغیب دیتا اور اسے اچھا قرار دیتا ہے.ساتویں حالت یہ ہوتی ہے کہ انسان شیطان کا بروز ہوجاتا ہے اور اس کا مقصد ہی بدی پھیلانا ہوجاتا ہے.اس کے مقابلہ میں نیکی کی یہ حالتیں ہیں: اوّل: بہ خواہشِ ثواب نیکی کرنا.دوم: بطور فرض نیکی کرنا کہ خدا کا حکم ہے.سوم: نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا.چہارم: نیکی کو بطور عادت کرنا.پنجم: نیکی میں ہی اپنی خوشی پانا.ششم: دُنیا میں نیکی پھیلانے کی کوشش کرنا.ہفتم: نیکی کا مجسم ہو جانا اور نیکی کے پھیلانے کو اپنا مقصدِ وحید قرار دے لینا.یعنی ملائکہ کی طرح ہو جانا.اس کے اوپر اور بھی درجے ہیں.مگر وہ کسبی نہیں بلکہ وہبی ہیں.یعنی نبوت کے مدارج.مَیں اوپر بتا آیا ہوں کہ اخلاق اور روحانیت میں صرف اس قدر فرق ہے کہ وہی صفات جب بندوں کے متعلق استعمال ہوں تو اخلاق کہلاتی ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوں تو روحانیت.اس لئے جو اصولی علاج ایک کا ہوگا وہی دوسرے کا.اس لئے مجھے اخلاقی اور روحانی
انوار العلوم جلد9 ۱۹۸ بیماریوں کے علاج الگ بتائے جانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ مَیں اس جگہ ان علاجوں کے بیان کرنے کی گنجائش پاتا ہوں.جو دوسرے مذاہب نے بیان کئے ہیں یا صوفیاء نے بیان کئے ہیں.اس لئے مَیں اوپر کی ابتدائی تشریحوں کے بعد میں گناہ کے علاج کے متعلق وہ اسلامی تعلیم جو میری سمجھ میں آئی ہے بیان کرتا ہوں: اسلام نے علاجِ گناہ کے متعلق گناہ پیدا ہونے کے بعد اس کا علاج کس طرح کیا جائے؟ کے سوال سے پہلے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کیا احتیاط کی جائے کہ گناہ پیدا ہی نہ ہونے پائے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سوال کے جواب میں گناہ کے دور کرنے کی کنجی ہے.کپڑے کے میلا ہو جانے کے بعد اس کے دھونے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ایسی تدبیر اختیار کریں کہ وہ میلا ہی نہ ہو.اس میں کیا شک ہے کہ یہ سب سے بہتر اور ضروری امر ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے دوسرے مذاہب کے برخلاف صرف اسی طرف توجہ نہیں دلائی.کہ گناہ کا قلع قمع کس طرح کیا جائے.بلکہ اِس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ سب سے پہلے یہ کوشش کرو کہ گناہ پیدا ہی نہ ہو.مگر مَیں افسوس سے کہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے ادھر توجہ دلائی اور بعض اسلامی بزرگوں نے بھی اس پر زور دیا ہے.بحیثیت قوم مسلمانوں نے ادھر پوری توجہ نہیں کی.اور اِس امر کو نظر انداز کر دیا ہے کہ گناہ انسان کے بلوغ سے پہلے پیدا ہوتا ہے.جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں اب گناہ کرنے لگا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گناہ کا بیج جو اس کے اندر تھا.وہ درخت بن کر ظاہر ہو رہا ہے.ورنہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ بیج نہ ہو اور درخت پیدا ہو جائے ہر گز نہیں.اگر گناہ کی قابلیت پہلے ہی نہ تھی تو پھر وہ بالغ ہونے پر کہاں سے آگئی.پس اصل بات یہ ہے کہ گناہ بچپن سے پیدا ہوتا ہے اور ہر ایک بدی بلوغ سے پہلے انسان کے دل میں جاگزین ہو جاتی ہے.بلکہ بعض دفعہ تو پیدا ہونے سے بھی پہلے بعض بدیوں کی ابتدا شروع ہو جاتی ہے.جب ایک شخص بالغ ہو جاتا ہے اور علماء کہتے ہیں اسے بدیوں سے بچائو.تو اس وقت وہ شخص پورے طور پر شیطان کے قبضہ میں جا چکا ہوتا ہے.میرے اِس کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں سب بدیاں پائی جاتی ہیں بلکہ یہ ہے کہ اس میں گناہ کی طاقت اور ان کا شکار ہو جانے کا میلان پیدا ہو چکا ہوتا ہے.مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہ اخلاق مادہ کی چند خاصیتوں سے پیدا ہوتے ہیں.وہی میلان اگر بچپن میں خراب ہو جائیں تو گوبچہ بالکل بے گناہ نظر آئے.مگر اس کے اندر گناہ کے ارتکاب کا پورا سامان موجود ہوگا.
۱۹۹ اب ذرا سوچو تو سہی کہ گناہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے.کیا گناہ ورثہ سے نہیں پیدا ہوتے؟ وہ قومیں جو کوئی خاص کام کرنے والی ہوتی ہیں اسی قسم کا میلان ان کی اولاد میں پایا جاتا ہے.ایک ایسی قوم جس میں نسلاً بعد نسلٍ بہادری کی رُوح نہ ہو اور اُسے بہادر بنانے کی کوشش کی جائے وہ لڑائی کے وقت ضرور بُزدلی دکھائے گی.یا ویسی بہادری نہیں اس سے ظاہر ہوگی جیسی کہ ایک نسلی بہادر قوم سے ظاہر ہوگی.تو گو اس قسم کی باتوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.مگر پھر بھی ورثہ کا اثر ضرور ہوتا ہے.اِسی طرح گناہ لالچ، غصّہ، ڈر، محبت، خواہش کی زیادتی وغیرہ سے پیدا ہوتا ہے.اب غور کرو کیا یہ وہی خصلتیں نہیں جو بچپن میں ہی بچہ سیکھتا ہے.کیا وہ اس کی چھوٹی چھوٹی بے ضرر نظر آنیوالی عادتیں ہی نہیں ہیں جو سارے گناہوں کا موجب ہوتی ہیں.ماں باپ کہتے ہیں کہ جی بچہ ہے.اس لئے فلاں فلاں فعل کرتا ہے.مگر کیا بچپن ہی کا زمانہ وہ زمانہ نہیں ہے جب سب سے زیادہ گہری جگہ پکڑنے والے نقش جمتے ہیں.ایک شخص جو کسی کا مال چوری کرکے لے جاتا ہے اسے اگر بچپن میں اپنے نفس پر قابو کرنا سکھایا جاتا تو وہ بڑا ہو کر چوری کا کیوں مرتکب ہوتا.ایک شخص جہاد کے لئے جاتا ہے مگر دشمن سے ڈر کر بھاگ آتا ہے لوگ کہتے ہیں کیسا خبیث ہے.مگر غور کرو کیا اُسے وہی بُزدلی پیدا کرنے والے قصّے نہیں بھگالائے جو ماں اُسے بچپن میں سُنایا کرتی تھی.اِسی طرح غصّہ ہے.بچپن میں ماں باپ خیال نہیں رکھتے اس وجہ سے بچہ بڑا ہو کر ہر ایک سے لڑتا پھرتا ہے.پھر کیا گناہ قوتِ ارادی کی کمی سے پیدا نہیں ہوتا؟ اور کیا یہ کمی کسی سبب کے بغیر ہی پیدا ہو جاتی ہے.آخر وجہ کیا ہے؟ کہ انسان ساری عمرارادے کرکرکے توڑتا رہتا ہے مگر اس سے کچھ نہیں بنتا.یہ ارادہ کی کمی ایک ہی دن میں تو نہیں پیدا ہو جاتی.بلکہ یہ بھی بچپن میں اور صرف بچپن میں پیدا ہوتی ہے.ورنہ کیا سبب ہے کہ باوجود سچی خواہش کے کہ مَیں فلاں بدی کو چھوڑ دوں یہ اسے چھوڑ نہیں سکتا.اگر تربیت خراب نہ ہوتی تو انسان کی اصلاح کے لئے صرف اس قدر کہہ دینا کافی تھا کہ فلاں بات بُری ہے اور وہ اسے چھوڑ دیتا.اور وہ بات اچھی ہے اور وہ اسے اختیار کر لیتا.اَب مَیں اس نقص سے اولاد کو محفوظ کرنیکا طریق بتاتا ہوں.پہلا دروازہ جو انسان کے اندر گناہ کا کھلتا ہے وہ ماں باپ کے اُن خیالات کا اثر ہے جو اُس کی پیدائش سے پہلے اُن کے دلوں میں موجزن تھے.اور اس دروازہ کا بند کرنا پہلے ضروری ہے.پس چاہئے کہ اپنی اولادوں پر رحم کر
انوار العلوم جلد9 ۲۰۰ کے لوگ اپنے خیالات کو پاکیزہ بنائیں.لیکن اگر ہر وقت پاکیزہ نہ رکھ سکیں تو اسلام کے بتائے ہوئے علاج پر عمل کریں تا اولاد ہی ایک حد تک محفوظ رہے.اسلام ورثہ میں ملنے والے گناہ کا یہ علاج بتاتا ہے کہ جب مرد و عورت ہم صحبت ہوں تو یہ دُعا پڑھیں: اَللّٰھُمَّ جَنَّبْنَا الشَّیْطٰنَ وَجَنِّبِ الشَّیْطٰنَ مَا رَزَقْتَنَا.اے خدا ہمیں شیطان سے بچا اور جو اولاد ہمیں دے اُسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ.یہ کوئی ٹونا نہیں.جادو نہیں اور ضروری نہیں کہ عربی کے الفاظ ہی بولے جائیں.بلکہ اپنی زبان میں انسان کہہ سکتا ہے کہ الٰہی گناہ ایک بُری چیز ہے اس سے ہمیں بچا اور بچہ کو بھی بچا.اُس وقت کا یہ خیال اس کے اور بچہ کے درمیان دیوار ہو جائے گا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے.یہ دُعا کرنے سے جو بچہ پیدا ہوگا اس میں شیطان کا دخل نہیںہوگا.کئی لوگ حیران ہوں گے کہ ہم نے تو کئی دفعہ دُعا پڑھی مگر اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلا جو بتایا گیا ہے.مگر ان کے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو وہ لوگ اس دُعا کو صحیح طور پر نہیں پڑھتے صرف ٹونے کے طور پر پڑھتے ہیں.دوسرے سب گناہوں کا اِس دُعا سے علاج نہیںہوتا بلکہ صرف ورثہ کے گناہوں کے لئے ہے.ورثہ کے گناہ کے بعد گناہ کی آمیزش انسان کے خیالات میں اُسکے بچپن کے زمانہ میں ہوتی ہے.اس کا علاج اسلام نے یہ کیا ہے کہ بچہ کی تربیت کا زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ قرار دیا ہے جبکہ بچہ ابھی پیدا ہی ہوا ہوتا ہے.میرا خیال ہے اگر ہو سکتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ فرماتے کہ جب بچہ رحم میں ہو اُسی وقت سے اسکی تربیت کا وقت شروع ہوجانا چاہئے.مگر یہ چونکہ ہو نہیں سکتا تھا اس لئے پیدائش کے وقت سے تربیت قرار دی اور وہ اس طرح کہ فرما دیا کہ جب بچہ پیدا ہو اسی وقت اس کے کام میں اذان کہی جائے.اذان کے الفاظ ٹونے یا جادو کے طور پر بچہ کے کان میں نہیں ڈالے جاتے.بلکہ اس وقت بچہ کے کان میں اذان دینے کا حکم دینے سے ماں باپ کو یہ امر سمجھانا مطلوب ہے کہ بچہ کی تربیت کا وقت ابھی سے شروع ہو گیا ہے.اذان کے علاوہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بچوں کو بچپن ہی سے ادب سکھانے کا حکم دیا ہے.اور اپنے عزیزوں کو بھی بچپن میں ادب سکھا کر عملی ثبوت دیا ہے.حدیثوں میں آتا ہے، امام حسنؓ جب چھوٹے تھے تو ایک دن کھاتے وقت آپؐ نے ان کو فرمایا: کُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ ممَّا یَلِیْکَ.کہ دائیں ہاتھ سے کھائو اور اپنے آگے سے کھائو.حضرت امام حسنؓ کی عمر اس وقت
۲۰۱ اڑھائی سال کے قریب ہوگی.ہمارے مُلک میں اگر بچہ سارے کھانے میں ہاتھ ڈالتا اور سارا مُنہ بھر لیتا ہے بلکہ ارد گرد بیٹھنے والوں کے کپڑے بھی خراب کرتا ہے تو ماں باپ بیٹھے ہنستے ہیں اور کچھ پرواہ نہیں کرتے.یا یونہی معمولی سی بات کہہ دیتے ہیں.جس سے ان کا مقصد بچہ کو سمجھانا نہیں بلکہ دوسروں کو دکھانا ہوتا ہے.حدیث میں ایک اور واقعہ بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں امام حسنؓ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور مُنہ میں ڈال لی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کے منہ میں انگلی ڈال کر نکال لی.جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا کام خود کام کرکے کھانا ہے.نہ کہ دوسروں کے لئے بوجھ بننا.غرض بچپن کی تربیت ہی ہوتی ہے جو انسان کو وہ کچھ بناتی ہے جو آئندہ زندگی میں وہ بنتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : ما من مولودٍ الّا یُولد علی الفطرۃ فابواہ یھوّ دانہٖ اوینصرّ انہٖ اویمجّسانہٖ (بخاری و مسلم) کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے.آگے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں.اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ ماں باپ ہی اُسے مسلمان یا ہندو بناتے ہیں.اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جب بچہ بالغ ہوجاتا ہے تو ماں باپ اُسے گر جا میں لیجا کر عیسائی بناتے ہیں.بلکہ یہ ہے کہ بچہ ماں باپ کے اعمال کی نقل کرکے اور انکی باتیں سُن کر وہی بنتا ہے جو اسکے ماں باپ ہوتے ہیں.بات یہ ہے کہ بچہ میں نقل کی عادت ہوتی ہے.اگر ماں باپ اسے اچھی باتیں نہ سکھائیں گے تو وہ دوسروں کے افعال کی نقل کریگا.بعض لوگ کہتے ہیں بچوں کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے خود بڑے ہو کر احمدی ہو جائیں گے.مَیں کہتا ہوں اگر بچہ کے کان میں کسی اور کی آواز نہیں پڑتی تب تو ہو سکتا ہے کہ جب وہ بڑا ہو کر احمدیت کے متعلق سُنے تو احمدی ہو جائے لیکن جب اور آوازیں اس کے کان میں اب بھی پڑ رہی ہیں اور بچہ ساتھ کے ساتھ سیکھ رہا ہے تو وہ وہی بنے گا جو دیکھے گا اور سُنے گا.اگر فرشتے اُسے اپنی بات نہیں سُنائیں گے تو شیطان اس کا ساتھی بن جائے گا.اگر نیک باتیں اس کے کان میں نہ پڑیں گی تو بد پڑیں گی اور وہ بد ہو جائیگا.پس اگر آپ لوگ گناہ کا سلسلہ روکنا چاہتے ہیں تو جس طرح سگریشن کمپ ہوتا ہے اُس طرح بنائو اور آئندہ اولاد سے گناہ کی بیماری دُور کر دو تا کہ آئندہ نسلیں محفوظ رہیں.تربیت کے طریق اب مَیں تربیت کے طریق بتاتا ہوں: (۱) بچہ کے پیدا ہونے پر سب سے پہلے تربیت اذان ہے.جس کے متعلق پہلے بتا چکا ہوں.
۲۰۲ (۲) یہ کہ بچہ کو صاف رکھا جائے.پیشاب پاخانہ فورًا صاف کر دیا جائے.شاید بعض لوگ یہ کہیں یہ کام تو عورتوں کا ہے.یہ صحیح ہے مگر پہلے مَردوں میں یہ خیال پیدا ہوگا تو پھر عورتوں میں ہوگا.پس مردوں کا کام ہے کہ عورتوں کو یہ باتیں سمجھائیں کہ جو بچہ صاف نہ رہے اس میں صاف خیالات کہاں سے آئینگے.مگر دیکھا گیا ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی.مجلس میں اگر بچہ کو پاخانہ آئے تو کپڑے پر پھرا کر عورتیں کپڑا بغل میں دبا لیتی ہیں.اور قادیان کے ارد گرد کی دیہاتی عورتوں کو تو دیکھا ہے، جوتی میں پاخانہ پھرا کرا ادھر اُدھر پھینک دیتی ہیں.جب بچہ کی ظاہری صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا تو باطنی صفائی کس طرح ہوگی؟ لیکن اگر بچہ ظاہر میں صاف ہو تو اس کا اثر اس کے باطن پر پڑے گا اور اس کا باطن بھی پاک ہوگا.کیونکہ غلاظت کی وجہ سے جو گناہ پیدا ہوتے ہیں اُن سے بچا رہے گا.یہ بات طبّ کے رو سے ثابت ہو گئی ہے کہ بچہ میں پہلے گناہ غلاظت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.جب بچہ کا اندام نہانی صاف نہ ہو تو بچہ اسے کھجلاتا ہے.اِس سے وہ مزا محسوس کرتا اور اس طرح اُسے شہوانی قوت کا احساس ہو جاتا ہے.اگر بچہ کو صاف رکھا جائے اور جوں جوں وہ بڑا ہو اُسے بتایا جائے کہ ان مقامات کو صفائی کے لئے دھونا ضروری ہوتا ہے، تو وہ شہوانی بُرائیوں سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتا ہے.یہ تربیت بھی پہلے دن سے شروع ہونی چاہئے.(۳) غذا بچہ کو وقت مقررہ پر دینی چاہئے.اس سے بچہ میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ خواہشات کو دبا سکتا ہے اور اس طرح بہت سے گناہوں سے بچ سکتا ہے.چوری، لوٹ کھسوٹ وغیرہ بہت سی برائیاں جو اہشات کو نہ دبانے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں.کیونکہ ایسے انسان میں جذبات پر قابو رکھنے کی طاقت نہیں ہوتی.اور اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب بچہ رویا ماں نے اسی وقت دودھ دے دیا.ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ مقررہ وقت پر دودھ دیناچاہئے.اور بڑی عمر کے بچوں میں یہ عادت ڈالنی چاہئے کہ وقت پر کھانا دیا جائے.اس سے یہ صفات پیدا ہوتی ہیں (۱) پابندی وقت کا احساس (۲) خواہش کو دبانا (۳) صحت (۴) مل کر کام کرنیکی عادت ہوتی ہے.کیونکہ ایسے بچوں میں خود غرضی اور نفسانیت نہ ہوگی.جبکہ وہ سب کے سب ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے.(۵) اسراف کی عادت نہ ہوگی.جو بچہ ہر وقت کھانے کی چیزیں لیتا رہتا ہے وہ ان میں سے کچھ ضائع کریگا، کچھ کھائیگا لیکن اگر مقررہ وقت پر مقررہ مقدار میں اسے کھانے کی چیز دی جائیگی تو وہ اس میں سے کچھ ضائع نہیں کریگا.پس اس طرح بچہ میں تھوڑی چیز استعمال کرنے اور اسی سے خواہش کے پورا کرنے کی عادت ہوگی (۶) لالچ کا مقابلہ کرنے کی عادت ہوگی.مثلاً بازار میں
۲۰۳ چلتے ہوئے بچہ ایک چیز دیکھ کر کہتا ہے.یہ لینی ہے.اگر اُس وقت اُسے نہ لیکر دی جائے تو وہ اپنی خواہش کو دبا لیگا.اور پھر بڑا ہونے پر کئی دفعہ دل میں پیدا شدہ لالچ کا مقابلہ کرنے کی اس کو عادت ہو جائے گی.اسی طرح گھر میں چیز پڑی ہو اور بچہ مانگے تو کہہ دینا چاہئے کہ کھانے کے وقت پر ملے گی.اس سے بھی اس میں یہ قوت پیدا ہو جائیگی کہ نفس کو دبا سکے گا.زمیندار گنے، مولی، گاجر، گُڑ وغیرہ کے متعلق اسی طرح کر سکتے ہیں.(۴) بچہ کو مقررہ وقت پر پاخانہ کی عادت ڈالنی چاہئے.یہ اسکی صحت کے لئے بھی مفید ہے.لیکن اس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسکے اعضاء میں وقت کی پابندی کی حِسّ پیدا ہو جاتی ہے.وقت مقررہ پر پاخانہ پھرنے سے انتڑیوں کو عادت ہو جاتی ہے اور پھر مقررہ وقت پر ہی پاخانہ آتا ہے.یورپ میںتو بعض لوگ حاجت سے وقت بتا دیتے ہیں.کہ اب یہ وقت ہوگا.کیونکہ مقررہ وقت پر انہیں پاخانہ کی حاجت محسوس ہوتی ہے.تو بچہ کے لئے یہ بہت ضروری بات ہے.وقت پر کام کرنے والے بچہ میں نماز، روزہ کی پختہ عادت پیدا ہو جاتی ہے اور قومی کاموں کو پیچھے ڈالنے کی عادت نہیں پیدا ہوتی.علاوہ ازیں بے جا جوش دب جاتے ہیں.کیونکہ بے جا جوش کا ایک بڑا سبب بے وقت کام کرنیکی عادت ہے خصوصاً بے وقت کھانا کھانا.مثلاً بچہ کھیل کود میں مشغول ہوا.وقت پر ماں نے کھانا کھانے کے لئے بُلایا مگر نہ آیا.پھر جب آیا تو ماں نے کہا ٹھہرو کھانا گرم کر دوں.چونکہ اسے اُس وقت بھوک لگی ہوئی ہوتی ہے اس لئے وہ روتا چلاتا اور بے جا جوش ظاہر کرتا ہے، کیونکہ وہ اُسی وقت کھانے کے لئے آتا ہے جب اس سے بھوک دبائی نہیں جاتی.اور اس سے نہات شور کرتا ہے.(۵) اسی طرح غذا اندازہ کے مطابق دی جائے.اس سے قناعت پیدا ہوتی اور حرص دور ہوتی ہے.(۶) قِسم قِسم کی خوراک دی جائے، گوشت، ترکاریاں اور پھل دیئے جائیں کیونکہ غذائوں سے بھی مختلف اقسام کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں.پس مختلف اخلاق کے لئے مختلف غذائوں کا دیا جانا ضروری ہے.ہاں بچپن میں گوشت کم اور ترکاریاں زیادہ ہونی چاہئیں.کیونکہ گوشت ہیجان پیدا کرتا ہے اور بچپن کے زمانہ میں ہیجان کم ہونا چاہئے.(۷) جب بچہ ذرا بڑا ہو تو کھیل کود کے طور پر اس سے کام لینا چاہئے.مثلاً یہ کہ فلاں برتن
۲۰۴ اُٹھا لاؤ.یہ چیز وہاں رکھ آؤ.یہ چیز فلاں کو دے آئو.اِسی قسم کے اور کام کرانے چاہئیں ہاں ایک وقت تک اسے اپنے طور پر کھیلنے کی بھی اجازت دینی چاہئے.(۸) بچہ کو عادت ڈالنی چاہئے کہ وہ اپنے نفس پر اعتبار پیدا کرے.مثلاً چیز سامنے ہو اور اُسے کہا جائے ابھی نہیں ملے گی.فلاں وقت ملیگی.یہ نہیں کہ چھپا دی جائے.کیونکہ اِس نمونہ کو دیکھ کر وہ بھی اسی طرح کریگا.اور اس میں چوری کی عادت پیدا ہو جائیگی.(۹) بچہ سے زیادہ پیار بھی نہیں کرنا چاہئے.زیادہ چومنے چاٹنے کی عادت سے بہت سی بُرائیاں بچہ میں پیدا ہو جاتی ہیں.جس مجلس میں وہ جاتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ پیار کریں.اس سے اس میں اخلاقی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.(۱۰) ماں باپ کو چاہئے کہ ایثار سے کام لیں.مثلاً اگر بچہ بیمار ہے اور کوئی چیز اُس نے نہیں کھانی تو وہ بھی نہ کھائیں اور نہ گھر میں لائیں بلکہ اُسے کہیں کہ تم نے نہیں کھانی اس لئے ہم بھی نہیں کھاتے.اس سے بچہ میں بھی ایثار کی صفت پیدا ہوگی.(۱۱) بیماری میں بچہ کے متعلق بہت احتیاط کرنی چاہئے کیونکہ بُزدلی، خود غرضی، چڑچڑاہٹ جذبات پر قابو نہ ہونا اس قسم کی بُرائیاں اکثر لمبی بیماری کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں.کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو بُلا بُلا کرپاس بٹھاتے ہیں.لیکن کئی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی اُن کے پاس سے گذرے تو کہہ اٹھتے ہیں.ارے دیکھتا نہیں، اندھا ہو گیا ہے.یہ خرابی لمبی بیماری کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے.چونکہ بیماری میں بیمار کو آرام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے اس لئے وہ آرام پانا اپنا حق سمجھ لیتا ہے.اور ہر وقت آرام چاہتا ہے.(۱۲) بچوں کو ڈراؤنی کہانیاں نہیں سُنانی چاہئیں.اِس سے اُن میں بُزدلی پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان بڑے ہو کر بہادری کے کام نہیںکر سکتے.اگر بچہ میں بُزدلی پیدا ہو جائے تو اُسے بہادری کی کہانیاں سُنانی چاہئیں.اور بہادر لڑکوں کے ساتھ کھلانا چاہیئے.(۱۳) بچہ کو اپنے دوست خود نہ چُننے دئے جائیں بلکہ ماں باپ چنیں اور دیکھیں کہ کن بچوں کے اخلاق اعلیٰ ہیں.اس میں ماں باپ کو بھی یہ فائدہ ہوگا کہ وہ دیکھیں گے کِن کے بچوں کے اخلاق اعلیٰ ہیں.دوسرے ایک دوسرے سے تعاون شروع ہو جائیگا.کیونکہ جب خود ماں باپ بچہ سے کہیں گے کہ فلاں بچوں سے کھیلا کرو تو اس طرح ان بچوں کے اخلاق کی نگرانی بھی کریں گے.(۱۴) بچہ کو اس کی عمر کے مطابق بعض ذمہ داری کے کام دیئے جائیں تاکہ اس میں ذمہ
۲۰۵ داری کا احساس ہو.ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے تھے.اس نے دونوں کو بُلا کر اُن میں سے ایک کو سیب دیا اور کہا کہ بانٹ کر کھا لو.جب وہ سیب لیکر چلنے لگا تو باپ نے کہا جانتے ہو کس طرح بانٹنا ہے.اُس نے کہا نہیں.باپ نے کہا.جو بانٹے وہ تھوڑا لے.اور دوسرے کو زیادہ دے.یہ سُنکر لڑکے نے کہا پھر دوسرے کو دیں کہ وہ بانٹے.معلوم ہوتا ہے اُس لڑکے میں پہلے ہی بُری عادت پڑ چکی تھی لیکن ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امر کو سمجھتا تھا کہ اگر ذمہ واری مجھ پر پڑی تو مجھے دوسرے کو اپنے پر مقدم کرنا پڑیگا.اس عادت کے لئے بعض کھیلیں نہایت مفید ہیں جیسے کہ فٹ بال وغیرہ.مگر کھیل میں بھی دیکھنا چاہیے کہ کوئی بُری عادت نہ پڑے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ اپنے بچے کی تائید کرتے ہیں اور دوسرے کے بچہ کو اپنے بچہ کی بات ماننے کے لئے مجبور کرتے ہیں.اس طرح بچہ کو اپنی بات منوانے کی ضد پڑ جاتی ہے.(۱۵) بچہ کے دل میں یہ بات ڈالنی چاہئے کہ وہ نیک ہے اور اچھا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا نکتہ فرمایا ہے کہ بچہ کو گالیاں نہ دو کیونکہ گالیاں دینے پر فرشتے کہتے ہیں.ایسا ہی ہو جائے اور وہ ہو جاتا ہے.اِس کا یہ مطلب ہے کہ فرشتے اعمال کے نتائج پیدا کرتے ہیں.جب بچہ کو کہا جاتا ہے کہ تو بدہے تو وہ اپنے ذہن میں یہ نقشہ جما لیتا ہے کہ مَیں بد ہوں اور پھر وہ ویسا ہی ہو جاتا ہے.پس بچہ کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں بلکہ اچھے اخلاق سکھانے چاہئیں اور بچہ کی تعریف کرنی چاہیئے.آج صبح میری لڑکی پیسہ مانگنے آئی.جب مَیں نے پیسہ دیا تو بایاں ہاتھ کیا.مَیں نے کہا یہ تو ٹھیک نہیں.کہنے لگی ہاں غلطی ہے پھر نہیں کرونگی.اسے غلطی کا احساس کرانے سے فوراً احساس ہو گیا.(۱۶) بچہ میں ضِد کی عادت نہیں پیدا ہونے دینی چاہئے.اگر بچہ کسی بات پر ضد کرے تو اسکا علاج یہ ہے کہ کسی اور کام میں اُسے لگا دیا جائے اور ضد کی وجہ معلوم کرکے اُسے دور کیا جائے.(۱۷) بچہ سے ادب سے کلام کرنی چاہئے.بچہ نقّال ہوتا ہے.اگر تم اُسے تو کہہ کر مخاطب کروگے.تو وہ بھی تو کہے گا.(۱۸) بچہ کے سامنے جھوٹ، تکبر اور ترش روئی وغیرہ نہ کرنی چاہئے.کیونکہ وہ بھی یہ باتیں سیکھ لیگا.عام طور پر ماں باپ بچہ کو جھوٹ بولنا سکھاتے ہیں.ماں نے بچہ کے سامنے کوئی کام کیا
۲۰۶ ہوتا ہے مگر جب باپ پوچھتا ہے تو کہہ دیتی ہے مَیں نے نہیں کیا.اس سے بچہ میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ بچہ کی غیر موجودگی میں ماں باپ یہ کام کریں بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو ہر وقت اِن عیبوں سے نہیں بچ سکتے وہ کم سے کم بچوں کے سامنے ایسے فعل نہ کریں.تامرض آگے نسل کو بھی مبتلا نہ کرے.(۱۹) بچہ کو ہر قسم کے نشہ سے بچایا جائے.نشوں سے بچہ کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اس وجہ سے جھوٹ کی بھی عادت پیدا ہوتی ہے اور نشہ پینے والا اندھا دُھند تقلید کا عادی ہو جاتا ہے.ایک شخص حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ کا رشتہ دار تھا وہ ایک دفعہ ایک لڑکے کو لے آیا اور کہتا تھا.اِسے بھی مَیں اپنے جیسا ہی بنا لونگا.وہ نشہ وغیرہ پیتا اور مذہب سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا.حضرت خلیفۂ اوّلؓ نے اُسے کہا تم تو خراب ہو چکے ہو اِسے کیوں خراب کرتے ہو.مگر وہ باز نہ آیا.ایک موقعہ پر آپ نے اُس لڑکے کو اپنے پاس بُلایا اور اُسے سمجھایا کہ تمہاری عقل کیوں ماری گئی ہے.اس کے ساتھ پھرتے ہو.کوئی کام سیکھو.آپ کے سمجھانے سے وہ لڑکا اُسے چھوڑ کر چلا گیا.مگر کچھ مدّت کے بعد وہ ایک اور لڑکا لے آیا.اور آکر حضرت خلیفہ اوّلؓ سے کہنے لگا.اَب اِسے خراب کرو تو جانوں.اُس کے نزدیک یہی خراب کرنا تھا کہ اُس کے قبضہ سے نکال دیا جائے.حضرت خلیفۂ اوّلؓ نے بہتیرا اس لڑکے کو سمجھایا اور کہا کہ مجھ سے روپیہ لے لو اور کوئی کام کرو.مگر اُس نے نہ مانا.آخر آپ نے اُس شخص سے پوچھا اِسے تم نے کیا کیا ہے تو وہ کہنے لگا.اس کو مَیں نشہ پلاتا ہوں اور اس وجہ سے اس میں ہمت ہی نہیں رہی کہ میری تقلید کو چھوڑ سکے.غرض نشہ سے اقدام کی قوت ماری جاتی ہے.جھوٹ سب سے خطرناک مرض ہے کیونکہ اس کے پیدا ہونے کے ذرائع نہایت باریک ہیں اِس مرض سے بچہ کو خاص طور پر بچانا چاہئے.بعض ایسے اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ مرض آپ ہی آپ بچہ میں پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً یہ کہ بچہ کا دماغ نہایت بلند پرواز واقع ہوا ہے وہ جوبات سُنتا ہے آپ ہی اُس کی ایک حقیقت بنا لیتا ہے.ہماری ہمشیرہ بچپن میں روز ایک لمبی خواب سُنایا کرتی تھیں.ہم حیران ہوتے کہ روز اِسے کِس طرح خواب آجاتی ہے.آخر معلوم ہوا کہ سونے کے وقت جو خیال کرتی تھیں وہ اُسے خواب سمجھ لیتی تھیں.تو بچہ جو کچھ سوچتا ہے اُسے واقعہ خیال کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ اُسے جھوٹ کی عادت پڑ جاتی ہے.اِس لئے بچہ کو سمجھاتے رہنا چاہئے کہ خیال اور چیز ہے اور واقعہ اور چیز ہے.اگر خیال کی حقیقت بچہ کے اچھی طرح ذہن
۲۰۷ نشین کر دی جائے تو بچہ جھوٹ سے بچ سکتا ہے.(۲۰) بچوں کو علیحدہ بیٹھ کر کھیلنے سے روکنا چاہئے.(۲۱) ننگا ہونے سے روکنا چاہئے.(۲۲) بچوں کو عادت ڈالنی چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنی غلطی کا اقرار کریں اور اسکے طریق یہ ہیں: (۱) اُن کے سامنے اپنے قصوروں پر پردہ نہ ڈالا جائے (۲) اگر بچہ سے غلطی ہو جائے تو اس سے اِس طرح ہمدردی کریں کہ بچہ کو یہ محسوس ہو کہ میرا کوئی سخت نقصان ہو گیا ہے جسکی وجہ سے یہ لوگ مجھ سے ہمدردی کر رہے ہیں.اور اُسے سمجھانا چاہئے کہ دیکھو اِس غلطی سے یہ نقصان ہو گیا ہے.(۳) آیندہ غلطی سے بچانے کے لئے بچہ سے اس طرح گفتگو کی جائے کہ بچہ کو محسوس ہو کہ میری غلطی کی وجہ سے ماں باپ کو تکلیف اُٹھانی پڑی ہے.مثلاً بچہ سے جو نقصان ہوا ہو وہ اس کے سامنے اس کی قیمت وغیرہ ادا کرے اِس سے بچہ میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ نقصان کرینکا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.کفارہ نہایت گندہ عقیدہ ہے مگر میرے نزدیک بچہ کی اِس طرح تربیت کرنے کے لئے نہایت ضروری ہے.(۴) بچہ کو سر زنش الگ لیجا کر کرنی چاہئے.(۲۳) بچہ کو کچھ مال کا مالک بنانا چاہئے.اس سے بچہ میں یہ صفات پیدا ہوتی ہیں : (۱) صدقہ دینے کی عادت.(۲) کفایت شعاری.(۳) رشتہ داروں کی امداد کرنا.مثلاً بچہ کے پاس تین پیسے ہوں تو اُسے کہا جائے ایک پیسہ کی کوئی چیز لائو اور دوسرے بچوں کے ساتھ ملکر کھائو.ایک پیسہ کا کوئی کھلونا خرید لو.اور ایک پیسہ صدقہ میں دے دو.(۲۴) اِسی طرح بچوں کا مشترکہ مال ہو.مثلاً کوئی کھلونا دیا جائے تو کہا جائے.یہ تم سب بچوں کا ہے.سب اس کے ساتھ کھیلو.اور کوئی خراب نہ کرے.اِس طرح قومی مال کی حفاظت پیدا ہوتی ہے.(۲۵) بچہ کو آداب و قواعد تہذیب سکھاتے رہنا چاہئے.(۲۶) بچہ کی ورزش کا بھی اور اُسے جفاکش بنانے کا بھی خیال رکھنا چاہئے.کیونکہ یہ بات دنیوی ترقی اور اصلاحِ نفس دونوں میں یکساں طور پر مفید ہے.اخلاق اور روحانیت کی جو تعریف میں اوپر بیان کر چکا ہوں اسکے مطابق وہی بچہ تربیت یافتہ کہلائیگا جس میں مندرجہ ذیل باتیں ہوں: (۱) ذاتی طور پر بااخلاق ہو اور اسمیں روحانیت ہو (۲) دوسروں کی ایسا بنانے کی قابلیت رکھتا ہو.(۳) قانوں، سلسلہ کے مطابق چلنے کی قابلیت رکھتا ہو.
۲۰۸ (۴) اللہ تعالیٰ سے خاص محبت رکھتا ہو جو سب محبتوں پر غالب ہو.پہلے امر کا معیار یہ ہے کہ (۱) جب بچہ بڑا ہوتو امورِ شرعیہ کی لفظاً و عملاً وعقیدۃً پابندی کرے.(۲) اس کی قوت ارادی مضبوط ہوتا آئندہ فتنہ میں نہ پڑے (۳) اس کا اپنی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اور جان بچانے کی قابلیت رکھنا.(۴) اپنے اموال و جائیداد بچانے کی قابلیت کا ہونا اور اسکے لئے کوشش کرنا.دوسرے امر کا معیار یہ ہے: (۱) اخلاق کا اچھا نمونہ پیش کرے.(۲) دوسروں کی تربیت اور تبلیغ میں حصہ لے.(۳) اپنے ذرائع کو ضائع ہونے نہ دے بلکہ انہیں اچھی طرح استعمال کرے جس سے جماعت و دین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے.تیسرے امر یعنی قانونِ سلسلہ کے مطابق چلنے کی طاقت رکھنے کا یہ معیار ہے :(۱) اپنی صحت کا خیال رکھنے والا ہو.(۲) جماعتی اموال اور حقوق کا محافظ ہو.(۳) کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان پہنچے.(۴) قومی جزا اور سزا کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو.چوتھے امر کا معیار یہ ہے: (۱) کلام الٰہی کا شوق اور ادب ہو (۲) خدا تعالیٰ کا نام اُسے ہر حالت میں مؤدّب اور ساکن بنادے.(۲) دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے بکلی الگ ہو.(۴) خدا کی محبت کی علامات اس کے وجود میں پائی جائیں.اب بچہ کی تربیت کرنے کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جن میں گناہ پیدا ہو گیا اُن سے کس طرح دور کرایا جائے؟ یہ کل بیان کروں گا.
۲۰۹ خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (فرموده ۲۸دسمبر۱۹۲۵ء بر موقع جلسہ سالانہ ) تشہّد تعوّذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چونکہ مجھے کھانسی کی تکلیف تھی اسوجہ سے کل کی تقریر اور آج کی تقریر کرنے سے جو عورتوں میں کی گئی میرا گلا بیٹھ گیا ہے لیکن احباب گھبرائیں نہیں.اللہ تعالیٰ چاہے تو اُن تک آواز پہنچ جائیگی.مَیں اصل تقریر شروع کرنے سے پہلے دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذکر الٰہی کی عظمت کو اچھی طرح سمجھیں.یہاں وہ کسی تماشہ اور کھیل کے لئے جمع نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰٰ کا ذکر کرنے اور اس کا نام لینے کے لئے آتے ہیں.اس لئے ذکر الٰہی کے آداب کو مد نظر رکھنا چاہئے.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض دوست اس ادب کو مد نظر نہیں رکھتے اور بلا وجہ اور بلا سبب جلسہ گاہ سے اُٹھ کر باہر چلے جاتے اور ادھر اُدھر باتیں کرتے رہتے ہیں.مَیں جانتا ہوں کہ جلسہ پر ایک کافی تعداد جو آٹھ سو اور ہزار کے قریب قریب ہوتی ہے غیر احمدیوں کی ہوتی ہے اور وہ لوگ اپنے نفس پر جبر کرکے وعظ سُننے کے عادی نہیں ہوتے اور ان کا کثیر حصہ جلسہ گاہ میںآتا اور جاتا رہتا ہے.مگر تجربہ بتاتا ہے کہ وہی لوگ آنے جانے والے نہیں ہوتے بلکہ بعض احمدی بھی اس جلسہ گاہ سے باہر چلے جاتے ہیں.کہ چلو ان کو باہر جاکر تبلیغ کریں.مگر یاد رکھنا چاہئے مذہب میں انسان پر سب سے بڑا فرض اپنی جان کا ہوتا ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا.کہ جس وقت اپنی ہدایت کی فکر میں ہو.اگر کوئی دوسرا گمراہی میں پڑتا ہے تو پڑنے دو.اپنی ہدایت کی فکر دوسرے کی خاطر چھوڑ نہ دو.دین کے لئے مال قربان کیا جاتا ہے.اور جان قربان کی جاتی ہے مگر دین وہ چیز ہے کہ ساری دنیا کی خاطر بھی قربان کرنے کے لئے کوئی مومن تیار نہیں ہو سکتا.پس اگر کسی مجبوری کی وجہ سے جلسہ گاہ سے اُٹھنا پڑے اور بعض دفعہ ایسی مجبوریاں پیش آجاتی ہیں جیسے قضائے حاجت کے لئے جانا تو بے شک جائو.مگر فارغ ہو کر جلدی واپس آجانا چاہئے
۲۱۰ کیونکہ کیا معلوم ہے کہ کب وہ گھڑی آجائے جس کے لئے انسان ساری عمر کوشش کرتا رہتا ہے.ایک گھڑی ایسی آسکتی ہے کہ اُسوقت ایک کلمہ انسان کو کافر سے مومن بنا دیتا ہے.اُسے شیطانی سے رحمانی بنا دیتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہی دیکھ لو.آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے مگر ایک بات انکے کان میں ایسی پڑ گئی جس نے اُن کی حالت بالکل بدل دی.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قتل کے لئے نکلے کہ انہیں معلوم ہوا اُن کی اپنی بہن مسلمان ہو چکی ہے.اِسپر اپنی بہن کے ہاں گئے اور گھر میں قرآن کریم پڑھتے ہوئے سُنا.غصّہ میں آکر اندر گھس گئے اور اپنے بہنوئی کو مارنے لگے.اسپر بہن بچانے لگی تو اس کے بھی چوٹ آئی.اِس حالت کو دیکھ کر اُن کے دل میں کچھ ندامت پیدا ہوئی تھی کہ بہن نے کہا کہ عمر! تم ہم پر اسلئے ناراض ہوتے ہو کہ ہم نے ایک خدا کو مانا ہے یہ سُن کر وہ سر سے پائوں تک کانپ گئے اور اپنی بہن سے کہا.جو تم بڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی سنائو.اُنکی بہن نے کہا.پاک ہو کر آئو تو سُنائئیں.وہ نہاکر آئے اور اُن کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی گئی.جسے سُنکر اُن کے آنسو رواں ہو گئے اور سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے.آکر دستک دی جب معلوم ہوا کہ عمر ہیں تو بعض نے کہا دروازہ نہیں کھولنا چاہئے وہ سخت آدمی ہیں.نقصان نہ پہنچائیں.حضرت حمزہؓ نے کہا کہ اگر مخالفت کی نیت سے آئے ہیں تو ہمارے پاس بھی تلوار ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اندر آنے کی اجازت دے دی.جب سامنے آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا.عمرؔ! کب تک مخالفت کرتے رہو گے.اس پر انہوں نے کہا مَیں تو غلامی کے لئے آیا ہوں.اب دیکھو انہیں کس طرح ہدایت نصیب ہوئی؟ اگر وہ اس مجلس میں نہ جاتے تو شاید عمرؔ ایمان سے محروم رہتے.آپ لوگوں کے لئے سارا سال آرام کرنے کے لئے پڑا ہے.اس لئے یہ چند دن کی تکلیف اُٹھا کر بھی خدا تعالیٰ کا کلام سُننا چاہئے اور کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہئے.دوسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے کل بتایا تھا میں نے قرآن کریم کے ترجمہ کا کام شروع کیا ہوا ہے اور خدا کے فضل سے ۲۰؍دسمبر کو سورۂ بقرہ کا ترجمہ ختم ہو گیا ہے.اور اُمید ہے کہ اگلے سال ساڑھے سات پاروں کی پہلی جلد شائع ہو جائیگی.مَیں چاہتا ہوں کہ احباب دُعا کریں.بغیر اس کے کہ اس کام میں کوئی روک پیدا ہو مَیں اس کام کو سر انجام دے کر اس فرض سے سُبک دوش ہو جائوں اور تفسیر اور ترجمہ دوستوں تک پہنچا سکوں.تیسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کل مَیں نے مالی مشکلات کی طرف جماعت کو توجہ دلائی
۲۱۱ تھی آج مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ یہ بھی سلسلہ کی سچائی کی ایک علامت ہے.ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے مَیں نے بیسیوں کتابیں پڑھی ہیں جن میں لکھا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جھوٹا ہے مگر مَیں اُن کتابوں کو کیا کروں جب کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان لوگوں میں جو غریب، وحشی اور غیر تعلیم یافتہ ہیں ایک کچے مکان میں بیٹھا ہوا جو چھوٹا سا کمرہ ہے اور مسجد کے نام سے مشہور ہے.اور جس کی چھت پر کھجور کی ٹہنیاں بغیر صاف کئے پڑی ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو اِتنا پانی ٹپکتا ہے کہ سجدہ پانی میںکرنا پڑتا ہے ایسے لوگوں میں جن میں سے کسی کے پاس بھی سارا تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا نہیں.یہ مشورہ کر رہا ہے کہ ساری دُنیا کو کس طرح فتح کرنا چاہئے اور پھر ایسا کرکے بھی دکھا دیتا ہے.وہ مصنف کہتا ہے لاکھوں صفحوں کے مقابلہ میں جب مَیں اس واقعہ کو دیکھتا ہوں تو سب باتیں حقیر معلوم ہوتی ہیں.اِسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا تھا اُسی وقت اُمراء اور بادشاہ آپ کے ساتھ شامل ہو جاتے تو کیونکر ثابت ہوتا کہ آپ کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ خدا کا فعل تھا.وہ تو امراء اور بادشاہوں کا فعل سمجھا جاتا.مگر جب آپ نے دعویٰ کیا تو سب بھائی بند اور عزیز رشتہ دار آپ کے دشمن ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سب سے بڑا دوست اور آپ کے علم اور معرفت کا سب سے بڑا معترف مولوی محمد حسین بٹالوی تھا.اس نے اعلان کر دیا کہ آپ کا دماغ بگڑ گیا ہے.مَیں نے اسے بڑھایا تھا، مَیں ہی اِسے گِرائوں گا.ساری دنیا کے علماء نے آپ کا مقابلہ کیا.عرب اور عجم سے آپ کے خلاف فتوے منگائے گئے مگر باوجود دُنیا کی اسقدر مخالفت کے آپ اکیلے اُٹھے اور کہا یہ ٹھیک ہے کہ میرے ساتھ کوئی آدمی نہیں اور ساری دُنیا میری دشمن بن گئی ہے.مگر مَیں اس آواز کو کیا کروں جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے سُنائی دے رہی ہے کہ ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دیگا.‘‘ مَیں اس آواز کا کس طرح انکار کردوں.اسوقت گورنمنٹ بھی آپ کی مخالف تھی اور تمام لوگ بھی دشمن تھے مگر نتیجہ کیا نکلا؟ وہ ایک طرف تھا اور ساری دنیا دوسری طرف مگر یہ اتنے لوگ اس کے شکار پکڑے ہوئے یہاں بیٹھے ہیں اور یہ تو اس جگہ کا نظارہ ہے باہر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں.
۲۱۲ مَیں پچھلے سال جب شام گیا تو دمشق کے ایک بڑے ادیب نے جو ادب کے مجدد مانے جاتے ہیں مجھے تمسخر سے کہا.آپ مرزا صاحب کی کتابوں کی یہاں اشاعت نہ کریں.کیونکہ ان میں غلطیاں ہیں اور لوگ ان غلطیوں کو دیکھ کر اُن سے بد ظن ہو جائیں گے.مَیں نے کہا لو مَیں یہاں بیٹھا ہوں اور اسوقت تک یہاں سے نہیں جائونگاجبتک تمہارے اس دعویٰ کو باطل نہ کر لوں.تم حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں پر جو اعتراض کرنا چاہتے ہو کر لو.یہ سُنکر وہ کہنے لگا میں تو آپ کا خیر خواہ ہوں مَیں آپ کا مقابلہ کرنا نہیں چاہتا.مَیں نے کہا ضرور کرو اگر کر سکتے ہو.کہنے لگا.اس میں آپ کا نقصان ہوگا.مَیں نے کہا اگر ہم جھوٹے ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ مقابلہ کرو اور اگر ہم سچے ہیں تو تمہارے مقابلہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچے گا.بلکہ فائدہ ہوگا.مگر اُس نے کوئی اعتراض نہ کیا.پھر کہنے لگا.عرب ایک ہندوستانی کو مسیح موعودؑ نہیں مان سکتے.مَیں نے کہا مَیں یہاں مشن قائم کرنے والا ہوں.ہم یہاں جماعت قائم کریں گے تم زور لگا لو.خدا کی قدرت ہم وہاں پانچ دن کے لئے ہی گئے تھے.جب چلنے لگے تو ایک عالم کا جو عربی، فارسی، ٹرکی کا ماہر تھا رات کے دس بچے کے قریب رقعہ آیا کہ مَیں ملاقات کی خاطر صبح سے بیٹھا ہوں.ممکن ہے اب بھی مجھے ملاقات کے لئے وقت نہ ملے.اس لئے مَیں اس رقعہ کے ذریعہ اطلاع دیتا ہوں کہ مَیں مرزا صاحب پر ایمان لے آیا.اب آپ جہاں چاہیں مجھے تبلیغ کے لئے بھیج دیں.اور اب تو وہاں ہمارا وفد پہنچ گیا ہے اور اس کے ذریعہ جماعت قائم ہو گئی ہے اور اُسی شخص نے جس نے کہا تھا کہ یہاں کوئی شخص نہیں مان سکتا کہلا بھیجا ہے کہ مجھ پر بد ظنی نہ کی جائے مَیں کبھی آپ کی مخالفت نہیں کرونگا.پس آپ لوگ اپنی غربت اور کمزوری کا خیال نہ کریں.وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم اپنی غُربت اور کمزوری کی وجہ سے کامیاب نہ ہونگے وہ مشرک ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ سلسلہ کا کام اُس نے کرنا ہے پھر جو شخص اپنے آپ کو ناکارہ سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ پر الزام لگاتا ہے کہ اس علیم ہستی نے دنیا کو فتح کرنے کے لئے یہ ناکارہ ہتھیار چُنا.اسے کون اچھا سپاہی کہیگا جو ٹوٹی ہوئی بندوق یا تلوار اُٹھا کر دشمن کے مقابلہ میں نکلتا ہے.پھر جس کو خدا تعالیٰ نے سلسلہ کی خدمت کے لئے چُنا وہ ناکارہ کس طرح ہو سکتا ہے.وہ کام کا انسان ہے.اور جسے خدا تعالیٰ چُنتا ہے وہ ذلیل نہیں ہوتا بلکہ وہی معزز ہے.مدینہ کے ایک رئیس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے کہا تھا کہ مدینہ کا سب سے معزز وہاں کے سب سے ذلیل شخص (رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نعوذ باللہ من ذالک) کو مدینہ سے نکال دے
۲۱۳ گا.اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وہ کہتا ہے عزت اس کے پاس ہے عزت تو رسول کو ماننے میں ہوتی ہے.اس کے الفاظ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کا بیٹا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا مَیں نے سُنا ہے میرے باپ نے اس اس طرح کہا ہے اسکی سزا یہ ہے کہ اُسے قتل کیا جائے.مگر یہ نہ ہو کہ کوئی اور قتل کرے.کسی وقت شیطان مجھے دھوکہ دے کر اس کے خلاف بھڑکائے.اس لئے اُس کے قتل کی خدمت میرے سپرد کی جائے.یہ بات سُنکر اُسے اپنی عزّت کا اچھی طرح احساس ہوگیا ہوگا.آپ لوگ اپنے ذرائع، علم، حیثیت کی کمی پر نگاہ نہ رکھیں.یہ موجودہ جماعت جن ذرائع سے بنی ہے وہ اسوقت کے ذرائع سے بہت کم تھے اور جب لوگ کئی لاکھ کو کھینچ کر سلسلہ میں لے آئے ہیں تو یہ کئی لاکھ کئی کروڑ کیوں نہ لائیں گے.تھوڑے ہی دن ہوئے مَیں نے ایک رئویا دیکھی کہ مَیں خطبہ پڑھ رہا ہوں.جس میں کہتا ہوںہمیں اپنے بچوں کی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہئے کیونکہ اس وقت جو بوجھ ہمارے کندھوں پر ہے اس سے ہزار گنازیادہ بوجھ ان کے کندھوں پر ہوگا.پس ہماری آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں دیکھی گی کہ دنیا کی زبردست طاقتیں اور قوتیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گی کہ اب احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا.مگر خدا تعالیٰ اسی پر راضی نہ ہوگا.وہ جماعت کو اور بڑھاتا جائیگا جب تک لوگ یہ نہ کہہ اُٹھیں کہ دُنیا میں احمدیت ہی ایک مذہب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس زمانہ میں جبکہ آپ کے ساتھ ایک بھی آدمی نہ تھا فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہاری جماعت اسقدر ترقی کریگی کہ باقی اقوام دنیا کی اس طرح رہ جائینگی جس طرح آجکل پُرانی خانہ بدوش قومیں ہیں.پس کچھ لوگ آج مانیں گے، کچھ کل، کچھ پرسوں.اسی طرح روز بروز اور دن بدن جماعت بڑھتی جائیگی اور ساعت بساعت اسکی قوت ترقی کرتی جائیگی.غریب امیر، عام انسان و خواص و بادشاہ اور رعایا حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لائیگی.یہاں تک کہ ساری دنیا میں یہی سلسلہ رہ جائیگا اور باقی مذاہب اس کے مقابلہ میں اسی طرح ماند ہو جائینگے جس طرح سورج کے سامنے ستارے ماندپڑ جاتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتیں ہیں جو پوری ہو کر رہیں گی.پس دنیا کی بڑی سے بڑی روکیں ہمارے ایمانوں کو متزلزل نہیں کر سکتیں اور ہم لوگوں کی مخالفت سے مایوس نہیں ہوسکتے جس شخص نے یہ دیکھا ہو کہ ایک اکیلے انسان کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کی جماعت بن گئی ہے وہ آئندہ
۲۱۴ ترقی سے کیونکر ناامید ہو سکتا ہے.ہم ایسے بے ایمان نہیں ہیں کہ لاکھوں نشانات دیکھ کر اور خدا تعالیٰ کے بیشمار وعدے پورے ہوتے دیکھ کر یہ خیال کریں کہ ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکیں گے بے شک ہم کمزور ہیں.ہمارے پاس ظاہری سامان نہیں.ہم میں طاقت نہیں لیکن دنیا کو ہم نے فتح نہیں کرنا بلکہ خدا تعالیٰ نے کرنا ہے اور اس کو سب طاقتیں حاصل ہیں.پس ہمیں مشکلات اور رکاوٹوں سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر پورا پورا وثوق ہونا چاہئے.اَب مَیں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.کل یہاں تک مضمون پہنچا تھا کہ انسان کو پاکیزگی، نفس اور طہارت قلب کس طرح میسر ہو سکتی ہے اور کونسے ذرائع ہیں کہ انسان بلوغت کو پہنچ کر گناہ کو اپنے سے دور رکھے اور نیکی حاصل کر سکے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دُنیا میں انسان کی طبائع مختلف قسم کی ہیں.کوئی ادنیٰ ہے اور کوئی اعلیٰ.اسوجہ سے تمام فطرتوں کے لئے ایک قانون جاری نہیں ہو سکتا اور نہ ایک قسم کا علاج سب کے لئے مفید ہو سکتا ہے.دنیا میں ہی دیکھا جائے تو ایک ہی بیماری کا سب کے لئے ایک علاج مفید نہیں ہو سکتا.مَیں نے دیکھا ہے نزلہ ہوتا ہے تو ایک بیمار ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ قہوہ پی لے تو دو گھنٹہ میں اس کا نزلہ ہٹ جاتا ہے.اور کوئی دہی میں میٹھا ملا کر پی لے تو اسی سے اس کا نزلہ جاتا رہتا ہے.مگر کئی انسان ایسے ہوتے ہیں کہ کئی دن میں علاج کرانے کے بعد اچھے ہوتے ہیں کئی ایسے ہوتے ہیں کہ حکیموں سے مشورہ لینے کی انہیں ضرورت پڑتی ہے.اور کئی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی بیماری کے متعلق ڈاکٹروں کی عقلیں چکر میں آجاتی ہیں.اسکی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ مختلف لوگوں کو مختلف قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں اور ان کو مختلف قسم کے علاج سے افاقہ ہوتا ہے.یہی حال دیگر اُمور میں بھی ہے اور چونکہ انسانی قوتوں کے تفاوت کا انکار کرنا ناممکن ہے.اس لئے ضروری ہے کہ علاج کے وقت لوگوں کے تفاوت اور استعدادوں کے اختلاف کو مد نظر رکھیں.اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مَیں گناہوں سے بچنے کا طریق بھی بیان کرتا ہوں.سب سے پہلے مَیں اس فطرت کو لیتا ہوں جو زنگ سے بالکل پاک ہوتی ہے اور جس میںطاقت ہوتی ہے کہ عقل سے کام لے سکے اور اعمال کو جاری رکھ سکے.سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام میں پاکیزگی اس کا نام نہیں کہ زبان پر اچھی باتیں ہوں یا اعمال اچھے ہوں.بلکہ اسلام میں اصل دل کی پاکیزگی ہے.جو انسان دل کا پاک نہیں وہ
۲۱۵ خدا تعالیٰ کے نزدیک پاک نہیں ہے.ایک شخص قطعاً کوئی گناہ نہ کرے مگر اس کے دل میں گناہ اور بُرائی سے اُلفت ہو اور گناہ کے ذکر میں اُسے لذّت محسوس ہو تو وہ نیک اور پاک نہیں کہلا سکیگا جبتک اس کے دل میں بھی یہ بات نہ ہو کہ گناہ میں ملوث نہ ہو.اِسی طرح کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ عادت کے ماتحت انہیں غصہ آتا ہے مگر گالی نہیں دیتے لیکن ان کا دل کہہ رہا ہوتا ہے کہ فلاں انسان بڑا بد معاش اور شریر ہے.ایسے لوگوں کے متعلق ہم یہ نہ کہیں گے کہ وہ پاکیزہ ہیں.بلکہ یہ کہیں گے کہ وہ اپنے گند کو چھپائے بیٹھے ہیں.پس اسلام میں پاکیزگی دل کی ہے.اعمال اور زبان تو آلات اور ذرائع ہیں جن سے پاکیزگی ظاہر ہوتی ہے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہ (۲:۲۸۵) کہ جو دل کی حالت ہو وہ محاسبہ کے نیچے آتی ہے خواہ تم دل کی حالت کو چھپائو یا ظاہر کرو.یہاں خدا تعالیٰ نے کیا عجیب نکتہ بیان فرما دیا کہ زبان اور اعمال تو دلی حالت کا اظہار کرتے ہیں.اصل چیز دلی حالت ہے.خدا تعالیٰ اسی کا محاسبہ کریگا.فرماتا ہے تم دلی حالت کو ظاہر کر و یا چھپاؤ.یعنی تم اعمال گندے نہ کرو یا زبان سے ظاہر نہ کرو مگر تمہارے دل میں گند ہے تو ضرور پکڑے جائوگے دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(۶۴:۱۷) کہ سب اعمال بجا لائو.مگر نفس کو پاک کرو.کیونکہ جس کے قلب میں بُرائی ہوگی وہ پکڑا جائیگا.یہ بات سمجھانے کے بعد کہ اصل نیکی دل کی پاکیزگی ہے اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ جس فطرت پر زنگ نہ ہو اس کے لئے گناہوں سے بچنے کے تین علاج ہیں (۱) یہ کہ اُسے بدیوں کا علم اور نیکیوں کی خبر ہو.خواہ دل ایک شخص کو کہتا ہو کہ نیکی کرو.لیکن اگر نیکی کا پتہ ہی نہ ہو تو کیا کرے گا.اِسی طرح دل خواہ اُسے بُرائی سے باز رہنے کی تحریک کرتا ہو لیکن اُسے یہ علم ہی نہ ہو کہ فلاں فعل کا ارتکاب بُرائی ہے تو اس سے کس طرح بچ سکے گا.پس ضروری ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ اُسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا.خالی کسی فعل کے کرنے یا کسی فعل کے ارتکاب سے باز رہنے کی استعداد کافی نہیں ہوتی.مثلاً کسی شخص کی خواہش ہو کہ وہ اپنے دوست کو خوش کرے.مگر وہ دوست بتاتا نہیں کہ کِس طرح خوش ہو سکتا ہے تو وہ کیا کر سکتا ہے.پس سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بدیوں کا علم اور نیکیوں کی خبر ہو.(۲) اسے معلوم ہو کہ بدیوں سے اجتناب اور نیکیوں پر عمل کرنے کے مواقع کیا کیا ہیں.یہ
۲۱۶ ایسی بات ہے کہ نوکر کو کہیں فلاں اسباب اُٹھا کر اندر رکھ دو.نوکر رکھنے کے لئے مستعد ہو.اور ہم نے اُسے کہہ دیا کہ رکھ دو.لیکن اگر اُسے یہ پتہ نہیں کہ کہاں کہاں رکھنا ہے تو وہ میز کی جگہ کُرسی اور کُرسی کی جگہ میز رکھ دیگا.یہی حال اس شخص کا ہو سکتا ہے جسے نیکیوں کے کرنے اور بدیوں سے بچنے کے مواقع کا علم نہ ہو.پس مواقع کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے.(۳) یہ معلوم ہو کہ کونسی بدیاں میرے اندر ہیں جنہیں مَیں نے دور کرنا ہے.جب تک اس بات کا علم نہ ہو وہ اپنا علاج کس طرح کرا سکتا ہے.پس روحانی علاج کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ معلوم ہو کہ میرے اندر کیا کیا بدیاں ہیں.اور کون کون سی نیکی کی کمی ہے تاکہ بدیوں سے بچوں.اورنیکیاں حاصل کرنے کی کوشش کروں.اگر ایک شخص کے قلب میں زنگ اور تاریکی اور روکاوٹ نہیں ہے تو اوپر کی باتیں معلوم ہونے پر وہ نیک ہو جائیگا جب تک اپنی کمزوریوں کا علم نہ ہو.کوئی انسان علاج نہیں کر سکتا.اور اگر معلوم ہو جائیں تو نہایت آسانی سے علاج کر سکتا ہے.اَب میں ان تینوں باتوں کی موٹی موٹی تشریح بیان کرتا ہوں.اوّل میں بدیوں اور نیکیوں کے علم کو لیتا ہوں.مَیں نے دیکھا ہے بہت لوگ ایسے موجود ہیں کہ اُن میں استعداد ہے کہ نیک ہو جائیں مگر انہیں بدیوں اور نیکیوں کا پتہ نہیں ہوتا.کئی لوگ مردوں میں سے بھی اور عورتوں میں سے بھی کہتے ہیں.کیا ہم میں (۱) فسق و فجور ہے.(۲) ظلم ہے.(۳) ہم لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں.(۴) جھوٹ بولتے ہیں.(۵) زنا کرتے ہیں.اگر نہیں تو پھر ہم میں کونسی بُرائی ہے.گویا جن میں یہ باتیں نہ ہوں وہ سمجھتے ہیں ان میں کوئی عیب نہیں ہے اور لوگ یہ پانچ عیب شرعی قرار دیا کرتے ہیں گویا اس سے زیادہ عیب نہیں.حالانکہ یہ لمبا سلسلہ چلتا ہے اور عیب سینکڑوں تک پہنچتے ہیں.اس وقت اِن سب کا بیان کرنا مشکل ہے.وقت کے لحاظ سے بھی اور یوں بھی کہ بعض عیب انسان کے علم سے اوپر ہوتے ہیں اور ایسا انسان جسے سب عیوب کا علم تھا وہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کی ذات تھی اور انسانوں کو بھی عیوب کی اطلاع دی جاتی ہے مگر اسقدر علم کسی انسان کو نہ ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے جسقدر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تھا.ایک دفعہ مَیں نے رؤیاء میں دیکھا کہ مَیں دوست کو سمجھا رہا ہوں کہ ورزش نہ کرنا بھی گناہ ہے مگر یوں ہم اسے گناہ نہیں کہتے.لیکن ایک انسان جسکی زندگی پر لاکھوں انسانوں کی زندگی کا مدار ہو.اگر وہ اپنی زندگی کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ گناہ کرتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کون بہادر ہو سکتا ہے مگر جنگ میں آپکی حفاظت کے لئے پہرہ ہوتا تھا اور آپ کے گھر پر
۲۱۷ بھی پہرہ ہوتا تھا.کوئی کہے وہ اپنی جان کی حفاظت دوسروں سے مقدم سمجھتے تھے.مگر ایسا کرنا ضروری تھا.کیونکہ آپ کی حیات سے دنیا کی زندگی وابستہ تھی.اگر آپ نہ ہوتے تو دنیا میں اسلام کس طرح قائم ہوتا؟ تو بعض انسانوں کا آرام اور صحت کا قائم رکھنا نیکی ہوتی ہے.اس کے خلاف کرنا گناہ ہوتا ہے.شیخ عبد القادر صاحبؓ جیلانی ایک کتاب میں فرماتے ہیں کہ مجھ پر ایسی حالت آتی ہے کہ جبتک خدا مجھے نہیں کہتا کہ عبدالقادر اُٹھ تجھے میری جان کی قسم کھانا کھا لے تو مَیں کھانا نہیں کھاتا.اور جبتک وہ نہیں کہتا کہ میری جان کی قسم کپڑا پہن تو میں نہیں پہنتا.اس کا یہی مطلب ہے کہ اس مرتبہ کے انسان کو خدا کہتا ہے کہ اپنی خاطر نہیں میرے لئے یہ کام کر تو وہ کرتا ہے.کیونکہ وہ سب کچھ خدا کے لئے کر رہا ہوتا ہے.پس گناہوں کے اسقدر مدارج ہیں کہ انسان کی حالت کے ساتھ ساتھ انکی کیفیت بھی بدلتی رہتی ہے.اسی لئے صوفیا، کہتے ہیں کہ ابرار کے گناہ عوام کی نیکیاں ہوتی ہیں.اَب میں موٹی موٹی تشریح بدیوں کی کرتا ہوں.اوّل وہ بدیاں جو ذاتی ہوتی ہیں.یعنی جن کا اثر انسان کے اپنے نفس پر پڑتا ہے.(۲) وہ بدیاں جو دوسروں سے تعلق رکھتی ہیں.یعنی اُن کا اثر انسان کے اپنے نفس پر ہی نہیں پڑتا بلکہ دوسروں پر بھی اُن کا اثر ہوتا ہے.(۳) وہ بدیاں جو قومی ہوتی ہیں.یعنی قوم کی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ بدی ہوتی ہے.(۴) وہ بدیاں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہیں.اس کے مقابلہ میں نیکیوں کی بھی چار قسمیں ہیں (۱) ذاتی نیکیاں یعنی جن کا اثر انسان کی اپنی ذات پر پڑتا ہے.(۲) وہ نیکیاں جو دوسروں سے بھی تعلق رکھتی ہی.یعنی جن کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے.(۳) قومی نیکیاں جو بحیثیت قوم نیکیاں سمجھی جاتی ہیں.(۴) وہ نیکیاں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہیں.اَب مَیں اُن بدیوں کو بیان کرتا ہوں جو ذاتی بدیاں ہیں اور ان کی موٹی موٹی بدیوں کی لسٹ دیتا ہوں تاکہ ان کے ذہن میں آنے سے ان سے بچنے کی طاقت پیدا ہو.ان سے آگے جو بدیاں ہیں وہ الہام کے ذریعہ بتائی جاتی ہیں.(۱) تکبر یعنی اپنے نفس میں اپنے آپکو بڑا سمجھنا.کسی اور پر ظاہر کئے بغیر ایک شخص اپنے نفس میں سمجھتا ہے کہ مَیں بڑا آدمی ہوں تو یہ بات اس کے نفس کو طہارت حاصل کرنے سے
انوار العلوم جلد9 ۲۱۸ روکتی ہے.(۲) سلفہ پن، بازاروں میں آوارہ طور پر پھرنا یا بیٹھنا اور ذلیل پیشے اختیار کرنا.یہ بھی نفس کی بدی ہے اور اس کی وجہ سے بھی اعلیٰ ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.جب تک کوئی اپنی حالت اور پیشہ نہ بدلیگا.(۳) جلد بازی، کسی کام کو بے سوچے سمجھے جلدی میں اختیار کر لینا.اسکا نقصان بھی اختیار کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے.(۴) بد ظنی، یعنی دوسرے کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ ایسا ہے.ویسا ہے خواہ اس پر اِس خیال کو کبھی ظاہر نہ کرے حتی کہ مر جائے مگر پھر بھی یہ گناہ ہے.(۵) ناجائز محبت، خواہ دل میں ہی رکھے اور کسی کو نہ بتائے تو بھی یہ بدی ہے.(۶) کینہ، یعنی دل میں یہ خیال رکھناکہ فلاں کو نقصان پہنچائوں گا.چاہے عملاً کبھی بھی نقصان نہ پہنچائے.(۷) بزُدلی، بُزدلی کا دل میں پیدا ہونا گناہ ہے خواہ اُسکے اظہار کاکبھی موقعہ آئے یا نہ آئے.(۸) حسد یعنی دوسرے کے متعلق یہ خیال کرنا کہ اس کی چیز جاتی رہے اور مجھے مل جائے.(۹) بے صبری یعنی مصائب پر گھبرا جائے.اور جو کام اسے کرنا ہو وہ نہ کر سکے.(۱۰) دون ہمتی، انسان اپنے لئے بڑے مقصد قرار نہ دے بلکہ چھوٹے چھوٹے قرار دے.یہ بُرائی بھی بڑی تباہی کا موجب ہوتی ہے.یہ خصوصاً بادشاہوں اور امراء کے لئے سخت تباہی کا باعث ہے.کیونکہ اُن کی کم ہمتی سے ان کی رعایا بھی کم ہمت ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے کیا عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں:.تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے یعنی تونے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ترقی کی تو ہم بھی آگے بڑھے.پس امراء کے لئے دون ہمتی بہت بڑا گناہ ہے اور عوام کے لئے بھی گناہ ہے.(۱۱) چاپلوسی- یونہی کسی کو خوش کرنے کے لئے باتیں بنانا چاپلوسی ہے.امراء کے نوکروں میں یہ بدی بہت زیادہ ہوتی ہے.(۱۲) ناشکری- اس سے دل میں کسی کے احسان کی قدر نہ ہونا مُراد ہے.
۲۱۹ (۱۳) بے استقلالی- ایک کام اختیار کرنا اور بغیر سر انجام دئے چھوڑ دینا بے استقلالی ہے.(۱۴) سُستی- اس کی وجہ سے انسان کام ہی نہیں کرتا.(۱۵) غفلت (۱۶) حق کا انکار (۱۷) حق کے اقرار کی جرأت کا فقدان.(۱۸) ناجائز نزاکت- یعنی وہ وجود جنہیں نزاکت نہ کرنی چاہئے.وہ کریں.یا کوئی اس حد تک نزاکت کرے کہ عمل سے ناکارہ ہو جائے.(۱۹) جہالت- یعنی علم حاصل نہ کرنا.(۲۰) حرص- اس میں مبتلا ہونا بھی بُرائی ہے.(۲۱) ریاء- یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے کام کرنا.(۲۲) بد خواہی- دل میں دوسرے کے نقصان کی خواہش رکھنا.(۲۳) ہمت ہار بیٹھنا-ذرا مشکل کا سامنا ہوا اور کام چھوڑ دیا.یہ بھی خاص طور پر اُمراء کی بدی ہے.(۲۴) بدی سے محبت- یعنی بدی کو دیکھ کر بُرا نہ منانا بھی گناہ ہے.(۲۵) ہر قسم کا نشہ بھی بدی ہے.اس میں شراب،افیون، بھنگ، نسوار، چائے، حقہ سب چیزیں شامل ہیں.بعض چیزیں ایسی ہیں جو غذا کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں جیسے چائے ہے.اگر اسکی ایسی عادت ہو کہ چھوڑنے پر صحت پر اثر پڑے تو اس کا استعمال بھی بُرائی ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک وقت یہ ضرورت پیش آئے کہ انسان دور دراز دیہاتوں میں تبلیغ کے لئے جائے اس وقت اگر وہ سماوار اٹھا لے جائے اور چائے کا انتظام کرنا چاہے تو یہ ایسا بوجھ ہوگا جس کی وجہ سے وہ بہت مشکلات میں مبتلا ہوگا.چونکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک مسلمان سپاہی بنے اور جہاں بھیجا جائے فوراً چلا جائے.اس لئے وہ اس قسم کی عادتوں سے منع کرتا ہے جو روکاوٹ کا باعث بن سکتی ہیں.مَیں نے کئی دفعہ سُنایا ہے.ایک دفعہ ایک سفر میں ایک پٹھان کی نسوار ختم ہو گئی تو اُس نے ایک کشمیری سے نہایت لجاجت کے ساتھ پوچھا.کیوں بھئی تمہارے پاس نسوار ہے.یہ دیکھ کر میں نے کہا.نسوار نے اس کی گردن اس کے سامنے جھکائی ہے.یہاں کئی لوگ آتے ہیں جنہیں حقہ کی عادت ہوتی ہے پھر وہ اس کی وجہ سے کئی فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں.ابتداء میں ہمارے ایک رشتہ دار تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
۲۲۰ کے سخت مخالف تھے.اور جو لوگ یہاں آتے وہ انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے ان کی عادت تھی کہ اپنے صحن میں چار پائیاں بچھا کر حقہ رکھ دیتے.لوگ حقہ کو دیکھ کر جاتے اور وہ گمراہ کرنے کی کوشش کرتے.اور کہتے ہم ان کے رشتہ دار ہیں اور ان کے حالات سے واقف.اگر کوئی بات ہوتی تو ہم نہ مان لیتے.اس طرح کئی لوگوں کو ٹھوکر لگ جاتی.ایک دفعہ ایک احمدی آیا اور حقہ پینے ان کے پاس چلا گیا.اُسے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف باتیں سناتے رہے.لیکن جب وہ خاموش بیٹھا رہا تو پھر اس کے سامنے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں بھی دیں.اس پر بھی وہ کچھ نہ بولا.آخر اُسے کہنے لگے تم کس سوچ میں ہو.کیوں کوئی بات نہیں کرتے.وہ کہنے لگا.مَیں اس سوچ میں ہوں کہ حقہ کی خبیث عادت مجھے یہاں لائی.اگر یہ نہ ہوتی تو مَیں نہ یہاں آتا اور نہ حضرت صاحب کے خلاف باتیں سُنتا.اِس وقت مَیں ضمناً یہ کہدینا چاہتا ہوں کہ پہلے بھی کئی بار اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ حقہ بہت گندی چیز ہے.اِسی طرح دوسرے نشے بھی سخت مضر ہیں.ان کو ترک کر دینا چاہئے.بعض نشے ایسے ہیں جن کی وجہ سے جھوٹ کی عادت پڑتی ہے.مَیں ان کے نام نہیں لیتا تا کہ جو ان کے عادی ہیں.ان کے متعلق بد ظنی نہ پیدا ہو.مگر یہ بات بالکل سچی ہے بعض نشوں سے اعصاب پر خاص اثر پڑتا ہے.اس لئے کسی نشہ کی بھی عادت نہیں ڈالنی چاہئے.مجھے کسی چیز کی عادت نہیں ہوتی.مجھے بچپن میںبیماری کی وجہ سے افیون دیتے تھے.چھ ماہ متواتر دیتے رہے مگر ایک دن نہ دی تو والدہ صاحبہ فرماتی ہیں مجھ پر نہ دینے کا کوئی اثر نہ ہوا.اِس پر حضرت صاحب نے فرمایا.خدا نے چھڑا دی ہے تو اب نہ دو.تو مَیں ہر چیز جو استعمال کرتاہوں اگر چھوڑ دوں تو کوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے چائے جس کا استعمال ہمارے گھروں پر ناشتہ کے طور پر ہوتا ہے کبھی کبھی پینا چھوڑ دیتا ہوں کہ عادت نہ ہو جائے مومن کو کسی چیز کے نشہ کی عادت نہ ڈالنی چاہئے.یہ بھی ایک بُرائی ہے.(۲۶) دوسروں کو حقیر سمجھنا.(۲۷) دلی عداوت- عداوت کا خواہ اظہار نہ کیا جائے اور دل میں رکھی جائے.تو یہ بھی بُرائی ہے.(۲۸) دوسروں پر بے اعتباری کرنا.انسان دوسرے کے سُپرد کوئی کام کرتا ہوا ڈرتا ہے.(۲۹) طمع- یہ بھی قلبی بدی ہے.
انوار العلوم جلد9 ۲۲۱ (۳۰) حد سے زیادہ غم کرنا بھی بدی ہے.یعنی انسان غم کو اتنا بڑھائے کہ اس کی عملی طاقتوں کو مضمحل کر دے.(۳۱) حد سے زیادہ خوشی بھی بدی ہے.(۳۲) بے تعلق باتوں میں دخل دینا.ایسی باتیں جن سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو.خواہ مخواہ کود پڑنا بھی بدی ہے.(۳۳) ہلکا پن- جس سے مُراد زیادہ باتیں کرنا ہے.جب کسی انسان کو زیادہ باتیںکرنے کی عادت ہوتی ہے تو وہ بے سوچے سمجھے جواب دیتا ہے.(۳۴) سنگ دلی- یعنی رحم نہ ہونا بھی ایک بدی ہے.(۳۵) دوسروں کو ایذا رسانی میں لذّت محسوس کرنا.(۳۶) اسراف (۳۷) خودکشی.(۳۸) وہ جھوٹ جس میں کسی کا نقصان نہ ہو.کئی لوگ بے فائدہ جھوٹ بولتے ہیں.اَب مَیں وہ بدیاں بیان کرتا ہوں جو دوسری مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں.یہ دو قسم کی ہیں.اوّل وہ بدیاں جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں.دوم وہ بدیاں جو انسانوں کے سوا دوسری مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں.ایک دوست پوچھتے ہیں ،حقہ چھوڑنے کی ترکیب بتائو.حقہ کی نسبت افیون چھوڑنے میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے.ایک دوست تھے جنہوں نے بہت سال افیون کھائی.جب وہ چھوڑنے لگے تو ڈاکٹر نے کہا.اگر چھوڑ دوگے تو مر جائو گے.مگر انہوں نے چھوڑ دی.اس پر چند دن انہیں تکلیف رہی.مگر پھر ان کی صحت اچھی ہو گئی.نشے چھوڑنے کے کچھ علاج تو آگے بتائوں گا.لیکن اس وقت مضمون کو خراب کئے بغیر جو بتا سکتا ہوں وہ یہی ہے کہ چھوڑ دو.وہ بدیاں جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ یہ ہیں.(۱) بے ادبی- جن کا ادب کرنا ضروری ہو ان کا ادب نہ کرنا بھی بدی ہے.(۲) ناجائز اظہارِمحبت.(۳)بے وفائی یعنی آپ تو کام کراتے رہے لیکن جب دوست کو مدد کی ضرورت ہوئی تو جواب دے دیا.(۴) چھچھوراپن: اس کی تعریف یہ ہے کہ جلد غصہ میں آجانا.ناشائستہ اشارے کرنا.فوراً سزا دینے پر آمادہ ہو جانا.یونہی سزا دینے کی دھمکیاں دینا.مَیں نے کئی دفعہ قادیان کے دو بنیوں کا قصہ سُنایا ہے.ایک دوسرے کو گالی دے رہا تھا اور دوسرا کہہ رہا تھا کہ اَب گالی دو تو تمہارا سر پھوڑ دوں گا.اگر اُسے سر پھوڑنا تھا تو پہلی دفعہ گالی
.۲۲۲ دینے پر ہی پھوڑ دیتا.نئی گالی دلوانے کی کیا ضرورت تھی.مگر وہ ہر دفعہ یہی کہتا جاتا کہ اب گالی دو تو سر پھوڑ دوںگا.آگے سے دوسرا کہتا.سو دفعہ گالی دوں گا مگر دیتا نہ تھا.مَیں اس وقت آٹھ سال کا بچہ تھا اور اس نظارہ کو دیکھ کر وہاں کھڑا ہو گیا تھا مگر باوجود اس انتظار کے کہ ایک گالی دے اور دوسرا سر پھوڑے کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا.تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنی اپنی دوکان پر چلے گئے.اور اُسوقت ایک نے دوسرے کو پھر گالی دی اور دوسرا باہر آکر پھر کہنے لگا کہ اب گالی دو تو مزا چکھائوں.بہت دیر تک وہ اسی طرح کرتے رہے.یہ چھچھوراپن ہے اور بُزدلی کی علامت ہے.اسی طرح سزا میں حد سے زیادہ سختی کرنا بھی چھچھوراپن ہے.یا ذرا کسی سے تکلیف پہنچی اور شور مچا دیا یہ بھی چھچھوراپن ہے.مَیں نے دورانِ تقریر میں سوال کرنے سے روکا ہوا ہے.مگر یہ مضمون چونکہ اہم ہے اس لئے بعض سوالات جو دوستوں نے کئے ہیں اُن کے جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں ایک دوست پوچھتے ہیں کہ کونسے پیشے ذلیل ہیں.اس سوال کے ذریعہ وہ مجھے ایسے دلدل میں گھسیٹ کر لے جانا چاہتے ہیں جس میں جانا نہیں چاہتا.مگر مَیں اُن کو جواب نہ دینا بھی نہیں چاہتا.اس لئے بتاتا ہوں کہ وہ پیشے ذلیل ہیں جو انسان کو موجودہ حالت سے آئندہ ترقی میں روک پیدا کریں.ایک سوال یہ کیا گیا ہے کہ حقہ پینے والے کی وصیت منظور ہو سکتی ہے یا نہیں؟ یہ چونکہ پیچیدہ سوال ہے اس لئے اس وقت اس کا جواب نہیں دیتا.ایک سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ طمع اور حرص میں کیا فرق ہے.اس کا جواب یہ ہے طمع تو یہ ہے کہ انسان دوسرے سے اُمید رکھے کہ فلاں چیز مجھے دے دے.اور حرص یہ ہے کہ فلاں چیز مل جائے خواہ کہیں سے مل جائے.(۵) گالیاں دینا.اسے ہر جگہ کے لوگ بُرائی سمجھتے ہیں.لیکن پنجاب میں رواج ہے کہ بچہ سے کہتے ہیں کہ فلاں کو گالی دو اور جب وہ گالی دیتا ہے تو ہنستے ہیں.گویا ان کے نزدیک معراج گالی دینا ہی ہے.یہ واقعہ مَیں نے خود بھی دیکھا ہے.(۶) لعنتیں ڈالنا.(۷) بد دُعا- لعنت اور بد دُعا میں مَیں نے فرق کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بد دُعا انسان کی جسمانی حالت کے متعلق ہوتی ہے اور لعنت روحانیت کے متعلق ہوتی ہے.مثلاً جب کوئی یہ بد دُعا دیتا ہے کہ فلاں مر جائے تو یہ بد دُعا ہے اور جو کہتا ہے.فلاں پر لعنت ہو.اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اُس کا دل ناپاک ہو جائے.
۲۲۳ مَیں اس سے وہ لعنت مستثنیٰ کرتا ہوں جو بد دُعا کے طور پر نہیں بلکہ اظہار واقعہ کے طور پر ہوتی ہے اور وہ نبی کی طرف سے لعنت ہوتی ہے.وہ بد دُعا نہیں ہوتی بلکہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ جس پر لعنت کی جاتی ہے اس کا دل ناپاک ہو گیا ہے.(۸) خیانت- کسی نے مال دیا.تو اُسے واپس نہ دیا.یا پورا نہ دیا.(۹) افشاء راز- کسی کا کوئی راز معلوم ہوا تو اُسے ظاہر کر دیا.مگر یہ کبھی بدی نہیں بھی رہتی.مثلاً ایسے وقت میں جب کسی دوسرے کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اُسے نقصان سے بچانے کے لئے راز افشاء کرنا بُرا نہیں ہوتا.مثلاً کسی کو معلوم ہو کہ ایک شخص کا ارادہ ہے کہ زید کو قتل کر دے.اب اگر زید کو یہ بات بتا دی جائے تو یہ بدی نہیں ہوگی.بلکہ اس کا چھپانا بدی ہوگا.اِسی طرح حکومت کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے اُسے بد نام کرتا ہے یا اُسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے.تو جس کو یہ راز معلوم ہو اُسکا فرض ہے کہ ذمہ وار آدمیوں تک یہ بات پہنچائے.(۱۰) چغل خوری (۱۱) بشاشت سے نہ ملنا.اس سے دوسرے کے قلب پر بُرا اثر پڑتا ہے اور تعلقات محبت قطع ہو جاتے ہیں.(۱۲) ناواجب طرفداری- دو آدمی لڑ رہے ہوں.اُن میں ایک دوست ہو.تو اس کی بیجا حمایت کی جائے.(۱۳) دھوکہ بازی (۱۴) بخل (۱۵) ظلم (۱۶) ظاہری ناشکری.یعنی جس کا احسان ہو اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس نے کبھی احسان نہیں کیا.(۱۷) غلاظت (۱۸) غفلت (۱۹) جھگڑا (۲۰) فساد.مَیں ان کی تشریح چھوڑتا ہوں کیونکہ لوگ یہ باتیں جانتے ہیں.(۲۱) شور مچانا.بازاروں میں کھڑے ہو کر شور مچانا یا اجتماع میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے شور پیدا کرنا.اور کام کرنے والوں کے کام میں حرج پیدا کرنا بھی ایک بہت بڑا عیب ہے.اہل یورپ کو مَیں نے دیکھا ہے اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں.مجالس میں جونہی ایک طرف سے خاموشی شروع ہو سب خاموش ہو جاتے ہیں.اس لئے کہ جب خاموش ہو گئے انہیں ہماری آواز سے تکلیف نہ پہنچے.(۲۲) ایذا رسانی (۲۳) جبر (۲۴) ڈاکہ (۲۵) قتل (۲۶) چوری.مَیں انتظار کر رہا تھا کہ اس کے متعلق بھی کوئی سوال آئے.چنانچہ ایک دوست سوال کرتے ہیں کہ لوگ مراسم دوستانہ
۲۲۴ کے طور پر چوری کرتے ہیں.چنانچہ بعض گائوں میں دستور ہے کہ ایک دوسرے کا مال چُرا لیتے ہیں.یہ بھی بُرائی ہے.(۲۷) مارپیٹ (۲۸) فخر بے جا (۲۹) بہتان لگانا (۳۰) غیبت کرنا (۳۱) عیب چینی کرنا.عیب چینی اور غیبت میں فرق ہے اور وہ یہ کہ غیبت کے معنی ہیں کسی کی بدی لوگوں میں بیان کرنا تاکہ وہ ذلیل ہو اور چغل خوری یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق کوئی شخص کوئی بُری بات بیان کرے تو اُسے جاکر بتانا اور ان کی آپس میں لڑائی کرانا.(۳۲) عیب لگانا.(۳۳) تحقیر کرنا.لوگوں میں ذلیل قرار دینا (۳۴) نام دھرنا جیسا کہ ہمارے ملک میں لوگوں کے مختلف قسم کے نام رکھ دئے جاتے ہیں.(۳۵) استہزاء کرنا.یعنی حقیر اور ذلیل کرنے کے لئے ہنسی تمسخر کرنا.(۳۶) منہ چڑانا.بچوں اور عورتوں میں یہ بہت عادت ہوتی ہے.(۳۷) منصوبہ بازی کرنا.یعنی یہ سوچنا کہ فلاں کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے.(۳۸) تعذیب- یعنی بجائے سزا کے دُکھ دینا.(۳۹) غصہ ہونا- وہ غصہ جس کا اظہار کیا جائے.(۴۰) انتقام میں شدّت- یعنی جتنا انتقام لینا چاہئے اس سے زیادہ لینا.(۴۱) رشوت لینا.(۴۲) رشوت دینا.(۴۳) سود لینا.(۴۴) سود دینا.یہ موٹی موٹی بدیاں ہیں جو دوسرے انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں.اَب میں وہ بدیاں بیان کرتا ہوں جو انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں: (۱) بد بودار چیزیں استعمال کرنا- رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے بدبودار چیزیں کھانے سے ملائکہ کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ ایسے انسان کے پاس نہیں آتے.(۲) بلاوجہ گھر میں کتا رکھنا.رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے.جس گھر میں کتّا ہو.وہاں فرشتے نہیں جاتے.اَب مَیں وہ بدیاں بیان کرتا ہوں جو دوسرے جانوروں سے تعلق رکھتی ہیں: (۱) جانوروں کو بلا وجہ مارنا.(۲) جانوروں سے زیادہ کام لینا.اس بُرائی میں عام طور پر زمیندار مبتلا ہوتے ہیں.وہ جانور سے کام لیتے رہتے ہیں اور جب وہ کام دینے کے ناقابل ہو جاتا ہے اور مرنے لگتا ہے تو مذبح والوں
۲۲۵ کے پاس بیچ دیتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ ذبح کرنا ناجائز ہے بلکہ یہ کہ اس طرح کام لینا کہ وہ تکلیف سے کام کے ناقابل ہو جائے یہ ناجائز ہے.(۳) جانوروں کو کھانا کم دینا اور کام زیادہ لیتے رہنا.اس بُرائی میں زمیندار نہیں مبتلا ہوتے دوسرے ہوتے ہیں.زمینداروں کو تو دیکھا ہے کہ وہ خود بھوکے رہیں گے مگر جانوروں کے چارے کا ضرور انتظام کریں گے.مجھے زمینداروں کا یہ فقرہ بہت پسند آتا ہے کہ جب قحط پڑتا ہے تو یہ نہیں کہتے.ہمارے کھانے کے لئے کچھ نہیں رہا.بلکہ یہ کہتے ہیں چارہ نہیں ملتا.(۴) بیمار جانور کا علاج نہ کرنا.(۵) جانوروں کی تعذیب- داغ دینا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ دیکھا ایک گدھے کہ منہ پر نشان لگا ہوا تھا.آپ نے فرمایا یہاں مت لگاؤ.کیونکہ اس جگہ حس زیادہ تیز ہوتی ہے.اگر نشان لگانا ہی ہے تو پیٹھ پر لگا دو.(۶) جانوروں کی سردی گرمی کا خیال نہ رکھنا.(۷) جانوروں کے شہوانی جذبات کا خیال نہ رکھنا.جانوروں میں بھی ایسے ہی قویٰ ہوتے ہیں جیسے انسانوں میں.اس لئے یا تو اُن کی شہوت دور کرنے کا انتظام کرنا چاہئے یا کوئی اور تدبیر کرنی چاہئے.(۸) اولاد کی وجہ سے دُکھ دینا.یعنی اُن کے سامنے اُن کے بچوں کو ذبح کرنا یا بھوکے رکھنا یا اور کسی طریق سے دُکھ دینا.اَب مَیں تیسری قسم کی بدیاں بیان کرتا ہوں جو قومی بدیاں ہیں: (۱) فحش کی اشاعت کرنا.اگر کوئی شخص لوگوں میں یہ کہتا پھرتا ہے کہ فلاں شخص جھوٹا ہے تو یہ صرف دوسرے انسان سے تعلق رکھنے والی بدی نہیں بلکہ قومی بدی ہے.کیونکہ جس قوم میں یہ اعلان ہوتا رہے کہ اس میں جھوٹ بولنے والے بھی ہیں.اُس میں جھوٹ کی عظمت مٹ جاتی ہے اور اس میں یہ بدی پھیلنے لگتی ہے.میرے نزدیک فحش کی اشاعت خود کشی ہے.(۲) نفسانیت- جب قوم کے فوائد کے مقابلہ میں اپنے فوائد ٹھکرائیں تو اپنے فوائد کو مدّ نظر رکھنا اور قومی فوائد کو نظر انداز کر دینا قومی بُرائی ہے.(۳) فسق و فجور-جیسے کنچنیوں کا پیشے بیٹھنا یا علی الاعلان شراب پینا.(۴) قومی فرائض کی ادائیگی میں سُستی کرنا.(۵) تربیت اولاد کی طرف توجہ نہ کرنا.
۲۲۶ (۶) تعلیم اولاد کی طرف توجہ نہ کرنا.جو لوگ اِن باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے وہ قوم کو تباہ کرتے ہیں.کیونکہ اولاد نے ہی آگے قوم بننا ہوتا ہے.(۷) غلاظت- یہ پہلے بھی بیان کی گئی ہے.وہاں اسلئے بیان کی گئی تھی کہ اس سے لوگوںکو بُو آتی ہے اور تکلیف ہوتی ہے.لیکن یہاں اس لئے اسے بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں.جن سے قوم تباہ ہوتی ہے.(۸) ذمہ داری کے احساس کا فقدان- فقدان کے معنی ہیں کسی چیز کا نہ پایا جانا.یعنی انسان یہ محسوس نہ کرے کہ میرے اُوپر جو کام تھا اس کا کرنا میرا فرض تھا.(۹) کام یا ذمہ داری کو پورا نہ کرنے اور نقصان ہو جانے کی صورت میں برداشت نہ کرنا.خواہ غلطی سے کام نہ کیا ہو یا جان بوجھ کر.(۱۰) بغاوت.ایک دوست نے ایک سوال کیا ہے.چونکہ مَیں خود بھی اس کے متعلق بیان کرنا چاہتا تھا اس لئے اسی موقعہ پر جواب دیتا ہوں.وہ دوست کہتے ہیں.ہماری جماعت کو مخالفین کے مقابلہ میں درشت کلامی اور بد زبانی سے کام نہیں لینا چاہئے.انہوں نے ہماری جماعت کے لیکچراروں اور واعظوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ سخت الفاظ استعمال نہ کیا کریں.مَیں بھی اس کے متعلق تاکید کرتا ہوں.وہ میری تحریروں میں کبھی ایسے الفاظ نہیں دیکھینگے کیا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بد زبانی اور گالیاں سُنکر رنج نہیں ہوتا؟ ہوتا ہے.لیکن مَیں نے کبھی درشت کلامی کے جواب میںدرشت کلامی سے کام نہیں لیا.بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض تحریروں کا حوالہ دیتے ہیں.انہیں یاد رکھنا چاہئے.حضرت صاحب بحیثیت مجسٹریٹ تھے اور اُن کا فرض تھا کہ لوگوں کو اُن کی اصل حقیقت بتاتے.مگر ہماری یہ پوزیشن نہیں ہے اور درشت کلامی اور گالیاں دینا نفس کی کمزوری کی علامت ہے.آجکل ممکن ہے کسی کا اس سے دل خوش ہو جائے مگر آئندہ جو اولاد ہوگی وہ جب ان تحریروں کو پڑھے گی تو کہے گی.کاش! ہمارے باپ دادا ایسا نہ کرتے.کیونکہ وہ ٹھنڈے دل سے ان تحریروں کو پڑھیںگے.انکو طیش نہ ہوگا.ان کے سامنے مخالفین کی تحریریں نہ ہونگی.اسوقت وہ ان کتابوں اور اخباروں کو چھپاتے پھرینگے جن میں سخت اور درشت الفاظ ہونگے.(۱۱) مہمانداری کے جذبہ کا نہ ہونا.یہ بھی قومی بدی ہے.
۲۲۷ (۱۲) تجارت میں فریب کرنا بھی قومی بدی ہے.حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وعظ فرمارہے تھے کہ یکے بعد دیگرے لوگوں نے سوال کرنے شروع کر دیئے.اس پر آپ کو جوش آگیا اور آپ نے فرمایا کرو جس قدر سوال کرنا چاہتے ہو.مَیں وعظ چھوڑتا ہوں.اب پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو.مَیں قیامت تک کی باتیں بتاتا ہوں.اِسی طرح اسوقت مَیں کہتا ہوں.سوال پر سوال آرہے ہیں.کیا مَیں لیکچر چھوڑ کر سوالوں کے جواب دینا شروع کر دوں.جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں اس کے نوٹوں کے ابھی تک صرف پینتیس صفحے بیان کر سکا ہوں اور پچیس باقی ہیں.اگر مَیں نے سوالوں کے جواب دینے شروع کر دیئے تو مضمون کس طرح ختم ہوگا.مَیں یہ بیان کر رہا تھا کہ تجارت میں فریب کرنا بھی قومی بدی ہے.کیونکہ اس سے قوم کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے.مَیں جب کشمیر گیا تو مَیں نے تحقیقات کی کہ چاندی کے برتنوں اور شال وغیرہ کی تجارت جو ایک کروڑ کی تھی لوگوں کی بد دیانتی کی وجہ سے اب صرف سترہ لاکھ کی رہ گئی ہے.(۱۳) کارکنوں پر بے تعلق آدمیوں کے سامنے نکتہ چینی کرنا.(۱۴) بغیر کسی کا نام لئے قوم کی عام بدی کا اعلان کرنا.مثلاً یہ کہنا ہم میں بڑے فریب کرنیوالے لوگ ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم ایسی ہی ہو جاتی ہے.(۱۵) قومی اغراض میں مدد دینے سے دریغ کرنا.(۱۶) جن لوگوں سے قوم کو نقصان پہنچے اُن سے دوستی اور تعلق رکھنا.(۱۷) حکومت یا جماعت کے کارکنوں سے تعاون نہ کرنا.(۱۸) اطاعت کی کمی.اب مَیں وہ بدیاں بیان کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہیں: (۱) بلاوجہ قسم کھانا.مجسٹریٹ کے سامنے قسم کھانی پڑے یا کوئی اور ایسا اہم معاملہ ہو جس کے متعلق قسم کھانا ضروری ہو تو قسم کھا سکتا ہے.ورنہ یونہی قسم کھانا گویا خدا تعالیٰ کے نام کی تخفیف کرنا ہے.(۲) مایوسی کہ اب میری مشکلات دُور نہیں ہو سکتیں.یہ خدا تعالیٰ پر بد ظنی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.(۳) دل میں گندگی جمع کرنا.خدا تعالیٰ نے اسلئے دل پیدا کیا ہے کہ اُسے اپنا گھر بنائے
۲۲۸ اِسی لئے دل بیت اللہ کہلاتا ہے اور جو دل کو خراب کرتا ہے وہ گویا خدا کو اس کے گھر میں آنے سے روکتا ہے.(۴) احکام شریعت کا انکار (۵) پانچویں بدی عقائد باطلہ میں مثلاً شرک وغیرہ.(۶) چھٹی بدی تمام عقائد حقہ کا انکار ہے.مثلاً خدا تعالیٰ کا، ملائکہ کا، رسولوں کا، الہام کا بہشت کا، دوزخ کا انکار.(۷) ساتویں بدی احکام شریعت کا خواہ وہ عبادت کے متعلق ہوں یا تمدّن کے متعلق توڑنا ہے.جیسے نماز نہ پڑھنا.حج نہ کرنا.ورثہ کے متعلق جو احکام ہیں اُن کی تعمیل نہ کرنا.اخلاق کی پابندی نہ کرنا.کیونکہ جب ان احکام کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کر لیا ہے تو اُن کو توڑنا گویا اللہ تعالیٰٰ کو ناراض کرنا ہے.پس جس طرح اِن امور کی پرواہ کرنے سے بندوں کو تکلیف ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی بھی ناراضگی ہوتی ہے.(۸) آٹھویں بدی خدا تعالیٰ سے محبت میں کمی ہے.(۹) نویںبدی خدا تعالیٰ اور رسول کی بے ادبی ہے.(۱۰) جسقدر بدیاں دوسروں سے تعلق رکھتی ہیں وہ خدا تعالیٰ سے متعلق بھی ہیں.مثلاً ناشکری ہے.یہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ کے متعلق بھی ہو سکتی ہے.اِسی طرح اور بھی کئی باتیں ہیں.اب مَیں نیکیاں بیان کرتا ہوں.پہلے ذاتی نیکیاں لیتا ہوں.(۱) شجاعت بہادری (۲) چستی (۳) علم سیکھنا (۳) تواضع (۵) غیرت یعنی کوئی بدی ہوتی دیکھے تو بُرا منائے (۶) شکر (۷) حُسن ظنی (۸) دلی خیرخواہی (۹) محنت یعنی خوب کام کرنے کی عادت (۱۰) حیا (۱۱) رحم دلی.کسی کی تکلیف کو دیکھ کر اس کے متعلق احساس ہونا (۱۲) استقلال یعنی نیکی کو جاری رکھنا.(۱۳) وقار یعنی بے فائدہ اور بلاوجہ دوسروں کی کسی بات میں نقل نہ کرنا.ہمارے ملک میں یہ عیب بہت پایا جاتا ہے.جو بات انگریز کریں اس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں.(۱۴) بلند ہمتی (۱۵) صبر (۱۶) حریّت ضمیر یعنی بلا وجہ کسی کی تقلید نہ کرنا.(۱۷) شکر قلبی یعنی دل میں محسوس کرنا کہ فلاں نے احسان کیا ہے.(۱۸) تحقیق حق یعنی سچائی کو تلاش کرنا.(۱۹) کسی کی خوبی کا دلی اعتراض.(۲۰) رافت.رحم دلی اور رافت میں یہ فرق ہے کہ رحمدلی تو یہ ہے کہ لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر مدد دینے کا خیال پیدا ہونا.اور رافت یہ ہے کہ کسی کی تکلیف کو دیکھ کر دُکھ محسوس
۲۲۹ ہونا.(۲۱) اپنے حق کی خاطر مقابلہ کرنیکی قوت.یہ اور بات ہے کہ کسی پر عفو کرکے کوئی اپنا حق چھوڑ دے.یا یوں اپنی سُستی سے نہ لے لیکن کسی سے دب کر حق نہیں چھوڑنا چاہئے.(۲۲) سباق کی قوت یعنی یہ طاقت کہ نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکلوں.(۲۳) اپنی ہزیمت اور شکست تسلیم نہ کرنا.خواہ کئی دفعہ ہارے.مگر اپنی ہار نہ مانے.یہ مطلب نہیں کہ منہ سے اقرار نہ کرے بلکہ اس پر راضی نہ ہو.اور اس کے اثر کو دور کرنیکی کوشش کرتا رہے.(۲۴) چوکس رہنا.یعنی اپنے دشمن سے غافل نہ ہونا.(۲۵) اقرار حق (۲۶) قوت برداشت کا ہونا.یعنی تکلیفیں برداشت کرنے کی طاقت ہونا.(۲۷) جفاکشی کا عادی.خواہ کتنا کام آپڑے گھبرائے نہں.(۲۸) جرأت.(۲۹) نیکی سے محبت (۳۰) لوگوں کی مدد کی خواہش کہ اگر موقعہ ملے تو ضرور مدد کروں.(۳۱) سادہ زندگی بسر کرنا.اپنے نفس کی آسائش پر روپیہ زیادہ صرف نہ کرنا.(۳۲) اپنی عزّت کی حفاظت کرنا.(۳۳) دوسروں کی خوبیوں کا اقرار کرنا.(۳۴) ہر بات میں میانہ روی اختیار کرنا.اَب میں وہ نیکیاں بیان کرتا ہوں جو دوسروں سے تعلق رکھتی ہیں: فرشتوں سے تعلق رکھنے والی نیکیاں یہ ہیں:- (۱) ذکر الٰہی- لکھا ہے جہاں ذکر الٰہی ہوتا ہے وہاں فرشتے ٹوٹ ٹوٹ پڑتے ہیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں.وہاں فرشتے گھیرا ڈال لیتے ہیں.(۲) طہارت ظاہری.یہی وجہ سے کہ جہاں ملائکہ کے نزول کے مواقع ہوتے ہیں وہاں خوشبولگا کر جانے کا حکم ہے.جیسے جمعہ کے لئے نہانا اور خوشبو لگانا مسنون ہے.اَب میں وہ نیکیاں بیان کرتا ہوں جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں:- (۱) عدل.(۲) احسان.(۳) احسان کا شکریہ.(۴) صفائی پسندی.(۵) سخاوت (۶) وفاداری.(۷) رحم کرنا عملاً.(۸) دوستانہ.(۹) حلم.اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسکے جو نیک پہلو ہوں انکو سوچ کر چھوڑ دینا.عفو تو یہ ہے کہ قصوروار سمجھ کر معاف کر دینا.مگر حلم یہ ہے کہ اس کی خوبیوں کی وجہ سے درگذر کرنا.(۱۰) ایثار.(۱۱)قرض روپیہ دینا.(۱۲) صدقہ.(۱۳) تعاون.(۱۴) دیانت.(۱۵) صلح جوئی.یعنی صلح کی کوشش کرنا.(۱۶) عفو یعنی معاف کردینا.(۱۷) عہد کی پابندی.(۱۸) گِرے ہوئے لوگوں کو بلند کرنے کی کوشش کرنا.(۱۹) دوسروں کا اعزاز اور اکرام کرنا.(۲۰) دوسروں کا ادب کرنا.اعزاز تو یہ ہے کہ جو برابر کا ہے اس کی عزت کرنا.
۲۳۰ اور ادب یہ ہے کہ بڑوں کا احترام کرنا.(۲۱) اگر لوگوں میں لڑائی ہو تو اُن کی صلح کرانا.(۲۲) اخوت.(۲۳) رازداری.(۲۴) بشاشت.اَب میں وہ نیکیاں بیان کرتا ہوں جو دوسرے جانوروں سے تعلق رکھتی ہیں: (۱) انکی غذا کا خیال رکھنا.(۲) انکی طاقت کے مطابق ان سے کام لینا.(۳) جن جانوروں سے کام نہ لیا جائے انکو بھی کھانا دینا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ایکدفعہ کئی دن تک بارش ہوتی رہی اور پرندوں کو دانہ نہ ملا.ایک شخص نے انکو دانہ ڈالا.اس وجہ سے اُسے ایمان نصیب ہوا اور وہ جنت میں چلا گیا.قرآن کریم میں بھی آتا ہے.والذین فٓي اموالھم حقّ معلوم.للسّآئلِ والمحروم (۷۰:۲۵/۲۶) مومنوں کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ ان کے مال میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے جو مانگ سکتے ہیں.اور جو نہیں مانگ سکتے ان کا بھی حصہ ہوتا ہے.نہ مانگ سکنے والوں میں حیوانات اور پرند شامل ہیں.اُن کو بھی کھانے کے لئے دینا چاہئے.(۴) بے زبان جانوروں کی سردی گرمی اور اُن کے شہوانی جذبات اور ان کی اولاد کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے.اَب مَیں وہ نیکیاں بیان کرتا ہوں جو قومی نیکیاں ہیں.(۱)زکٰوۃ دینا.(۲) ضروریات قومی کے لئے چندہ دینا.(۳) مہمان نوازی کرنا.(۴) خدمتِ قومی کرنا.(۵) اطاعتِ حکّام.(۶) حکام سے تعاون کرنا.(۷) حفاظت ملک کرنا.(۸) ذمہ داری کا احساس.(۹) غلطی پر خوشی سے سزا بھگتنا.(۱۰) اشاعت حسنات یعنی لوگوں کی نیکیاں پھیلانا.(۱۱) دشمنانِ قوم سے اجتناب کرنا.(۱۲) قومی عزّت کی حفاظت کرنا.قوم پر اگر کوئی حرف لاتا ہو تو اس کی تردید کرنا.(۱۳) تجارت میں ایمانداری اور دیانتداری اختیار کرنا.(۱۴) تعلیم دینا.(۱۵) تربیت کرنا.اب میں وہ نیکیاں بیان کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہیں.(۱) ایمان میں کامل ہونا.(۲) محبتِ الٰہی.(۳) اعمال شریعت، عبادات اور معاملات کو پورا کرنا.(۴) رجا یعنی خدا تعالیٰ پر اُمید رکھنا.(۵) خوف یعنی خدا تعالیٰ کی عظمت سے خوف رکھنا.(۶) دلی پاکیزگی.(۷) توکل یعنی باوجود اپنی طرف سے کوشش کرنے کے یہ احساس ہونا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی نصرت آئیگی تب کامیابی ہوگی.(۸) اخلاقِ حسنہ سے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُنکا خیال رکھنا.جیسے عہد کی پابندی وغیرہ ہے.(۹) تمام عقائدِ باطلہ کا ردّ کرنا.(۱۰) اللہ تعالیٰٰ کی شان میں اگر کوئی شخص بے ادبی کرے مثلاً کہے اُس نے مجھے کیا دیا ہے.مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے تو اُسے سمجھانا کہ یہ خدا تعالیٰ کے ادب کے خلاف ہے اس سے باز رہو.(۱۱) تبلیغ حق، شعائر
۲۳۱ اللہ کا ادب.اَب مَیں دوسرے سوال کو لیتا ہوں کہ کونسے مواقع ہیں کہ جن میں ان اعمال کو برتایا ترک کیا جائے.اس کے جواب دو ہیں ایک اجمالی اور دوسرا تفصیلی.اگر تفصیلی جواب بیان کرنا چاہوں اور اس میں بھی اختصار سے کام لوں تب بھی کم از کم ۱۵-۲۰ گھنٹے چاہئیں.اس لئے مَیں اجمال کو لیتا ہوں اور موٹی موٹی باتیں بیان کرتا ہوں.(۱) وہ حق جو اللہ تعالیٰ کے بندے پر ہیں اسوقت تک اُن کو ترک نہ کرے جبتک مجبور نہ ہوجائے یا خد اتعالیٰ کا کوئی دوسرا حکم اُسے روک نہ دے.مثلاً ہاتھ یا منہ پر زخم ہے اِسوجہ سے وضو نہیں کر سکتا یا ہاتھ ہی نہیں اسلئے اُسے دھو نہیں سکتا.یہ مجبوری ہے.اور دوسرا حکم مقابلہ میں آجانیکی مثال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے عورت پردہ کرے لیکن یہ بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ حج کے موقعہ پر خانہ کعبہ میںپردہ اُٹھا دینا چاہئے.یہ دوسرا حکم پہلے کے مقابلہ میں آگیا اور اس کی وجہ سے خانہ کعبہ میں پردہ نہ کرنا ہی نیکی ہے.یا مثلاً حکم ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کرو.یہ نیکی ہے لیکن اگر ماں باپ کا کوئی حکم خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں آئے تو اسوقت اُسکا نہ ماننا ہی نیکی ہوگی.(۲) دوسرے کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کرے کہ جس کا ویسے ہی حالات میں کرنا اپنے لئے پسند نہ کرتا ہوَ مَیں اس میں ایک شرط لگاتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نہیں کہتا کہ دوسرے سے وہ معاملہ کرے جو یہ پسند کرتا ہو.بلکہ مَیں یہ کہتا ہوں کہ کوئی بات دوسرے کے ساتھ ایسی نہ کرے جسے ویسے ہی حالات میں اپنے لئے پسند نہ کرے یا دوسرے کے ساتھ وہ سلوک نہ کرے جو ویسے ہی حالات میں اپنے لئے پسند نہ کرتا ہو.انجیل کا حکم ہے کہ تو دوسرے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر جیسا اپنے لئے پسند کرتا ہے.مگر یہ حکم صحیح نہیں ہے.(۳) افراط تفریط کا خیال رکھے بعض لوگ ہوتے ہیں وہ یا تو نفل پڑھنے ہی چھوڑ دیتے ہیں یا پھر اتنے پڑھتے ہیں کہ گھر بار کی فکر ہی نہیں کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک آدمی کے متعلق شکایت آئی کہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نفل پڑھتا رہتا ہے.آپ نے اُسے بُلاکر فرمایا: وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ.کہ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے یعنی تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اُسے بھی ادا کرنا ضروری ہے.(۴) انسان اس رنگ میں عمل کرے کہ خدا تعالیٰ کی صفت کے ظہور سے ویسا ہی رنگ پیدا
۲۳۲ ہو جائے.اَب مَیں تیسرے سوال کو لیتا ہوں جو یہ ہے کہ کسِ طرح معلوم ہو کہ کونسی بدیاں انسان کے اندر پائی جاتی ہیں.یہ معلوم کرنے کے کئی ذرائع ہیں: (۱) محاسبۂ نفس ہے.جب انسان کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدیاں ہیں.یہ نیکیاں ہیں.تو پھر وہ غور کرے کہ ان میں سے کونسی بدی ہے، جو اس میں پائی جاتی ہے یا کونسی نیکی ہے جو نہیں پائی جاتی.(۲) اپنے کسی گہرے اور دلی دوست سے کہے کہ وہ اس کے نفس کا مطالعہ کرے.کیونکہ کبھی انسان اپنا عیب آپ معلوم نہیں کر سکتا اسلئے دوست سے کہے کہ وہ اسکے اعمال ظاہری کا مطالعہ کرے.یہ نہ کہے کہ تم میرے متعلق بدی کے لئے تجسس اور تلاش کرو.یہ گناہ ہے بلکہ کہے کہ جو ظاہر اعمال ہیں اُن میں جو نقص ہو وہ بتائو اِس طرح جو نقص وہ آپ معلوم نہ کر سکتا تھا اُسے دوست بتا دیگا مگر پھر بھی دوست دوست ہی ہوتا ہے کئی عیب وہ بھی چھوڑ دیگا اسلئے تیسرا طریق یہ اختیار کرنا چاہئے کہ جو عیب اُسے دوسروں میں نظر آتے ہوں اُنکے متعلق دیکھے کہ وہ مجھ میں تو نہیں پائے جاتے! مَیں بھی تو انہی افعال کو نہیں کرتا یا یہ کہ دوسروں میں جو نیکیاں نظر آئیں اُنکے متعلق دیکھے کہ مجھ میں ہیں یا نہیں.(۴) اس سے بھی بڑھکر ایک اور بات ہے اور وہ یہ دیکھے دشمن اُسپر کیا عیب لگا رہے ہیں؟ اور پھر سوچے کہ وہ عیب اس میں پائے جاتے ہیں یا نہیں.کئی عیب اس طرح معلوم ہو جائیں گے.اسی طرح یہ بھی دیکھے کہ دشمنوں کو مجھ میںکونسی نیکیاں نظر آتی ہیں.کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیکیوں کا اعتراف کرنے کے لئے دشمن بھی مجبور ہو جاتا ہے.(۵) بہت اہم اور بہترین ذریعہ بدیوں اور نیکیوں کے معلوم کرنے کا یہ ہے کہ تلاوت قرآن کریم کرتے وقت جہاں وہ عیب پڑھے جو خدا تعالیٰ نے پہلے قوموں کے بیان کئے ہیں وہاں غور کرے کہ مجھ میں بھی تو یہ عیب نہیں.اسی طرح جہاں قرآن کریم میں کسی نیکی کا ذکر آئے وہاں دیکھے کہ مجھ میں یہ نیکی پائی جاتی ہے یا نہیں.اِسکا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ چونکہ سب نیکیاں اور بدیاں ایک وقت میں انسان کے سامنے نہیں آسکتیں اسلئے آہستہ آہستہ تلاوت کے وقت آتی رہیں گی.دوسرے تلاوت کے وقت چونکہ خشیۃ اللہ پیدا ہوتی ہے اسلئے بدیوں سے بچنے اور نیکیاں اختیار کرنے میں بھی اُسے بہت مدد ملے گی.
۲۳۳ جو بدیوں کا علم ہو کر بھی انہیں نہیں چھوڑ سکتے اُن کا علاج یہ باتیں ان لوگوں کے متعلق ہیں جن کے دلوں پر بدیوں کی وجہ سے زنگ نہ لگ چکا ہو.مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں بدیوں کا علم ہوتا ہے مگر باوجود اسکے وہ انہیں چھوڑ نہیں سکتے.ان کا کیا علاج ہے.مثلاً ایسے لوگ ہیں جنہیں پتہ ہے کہ نماز نہ پڑھنا گناہ ہے.مگر نہیں پڑھتے.جانتے ہیں کہ قتل کرنا گناہ ہے مگر چھوڑ نہیں سکتے.اس سوال کا ایک تفصیلی جواب ہے مگر نہ وہ اس وقت لیکچر میں بیان ہو سکتا ہے اور نہ کسی چھوٹی موٹی کتاب میں لکھا جا سکتا ہے.پس مَیں دس پندرہ نکتے اس سوال کے جواب میں اختصار کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں.(۱) ایسے انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور کوئی روک پیدا ہوگئی ہے جو اُسے نیکی نہیں کرنے دیتی اور بدی سے بچنے نہیں دیتی.اور یہ شامت اعمال ہے.یعنی پچھلے گناہوں کا نتیجہ ہے.اس کے لئے پہلا علاج یہ ہے کہ استغفار کرکے خدا تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگے.استغفار کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اسکے معنی پردہ ڈالنے کے ہیں اور یہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک حالت میںتو استغفار یہ ہوتا ہے کہ استغفار کرنیوالا کہتا ہے کہ خدایا ان گناہوں کو جو مَیں کرچکا ہوں مٹادے یا جن میں گرفتار ہوں انکو دور کر دے اور دوسرا درجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کہتا ہے.الٰہی مجھ میں گناہ پیدا ہی نہ ہو.جب انبیاء کے متعلق استغفار آتا ہے تو اسکے یہی معنی ہوتے ہیں کہ گناہ کبھی پیدا ہی نہ ہو.دوسرا طریق یہ ہے کہ انسان اپنے اندر معرفت پیدا کرے.معرفت کے یہ معنی ہیں کہ صفاتِ الہٰیہ کو اپنے دل پر جاری کرکے صفات الہٰیہ کا مطالعہ کرے اور ان کو جذب کرنے کی کوشش کرے.مثلاً خدا تعالیٰ کی رحمانیت کو دیکھے اُس نے مجھ پر کتنے احسان کئے ہیں اور جب وہ کہتا ہے کہ میرے بندوں کو اپنے مال سے دو.تو مَیں کیوں نہ دوں.اِس طرح خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے سے بدیوں سے بچنے اور نیکیاں کرنیکا ملکہ پیدا ہوگا.۳ - نیکی کے نیک انجام اور بدی کے بد انجام پر غور کرے.یعنی یہ دیکھے کہ فلاں نے نیکی کی تو اُسے یہ فائدہ پہنچا.اور فلاں نے بدی کی تو اُسے یہ نقصان اٹھانا پڑا.اس سے بھی عرفان حاصل
۲۳۴ ہوتا ہے.۴ - جب یہ تینوں باتیں کر لے تو چہارم یہ کہ توبہ کرے.توبہ کا مفہوم یہ ہے (۱) گذشتہ گناہوں پر ندامت.یہ حالت دل میں پیدا ہو.(۲) جو فرائض ادا کرنے سے رہ گئے ہوں وہ ادا کرے.مثلاحج رہ گیا ہے وہ کرے.مگر نماز ایک ایسا فرض ہے کہ وہ رہا ہوا پھر پورا نہیں کیا جا سکتا.اس کے لئے استغفار ہی ہے.(۳) جو گناہ خدا نے چھپائے ہوئے ہوں یعنی جن پر خدا تعالیٰ نے پردہ ڈالا ہو اُن کے علاوہ جس جس کے گناہ یاد ہوں اس سے معافی مانگے.(۴) جن کو اس سے نقصان پہنچ چکا ہو ان کو فائدہ پہنچائے یعنی اُن سے حُسن سلوک کرے.(۵) آئندہ گناہ نہ کرنیکا عہد کرے.(۶) نفس کو نیکی کی طرف راغب کرے.یہ توبہ کی شرطیں ہیں انکو بجا لائے تب توبہ حقیقی توبہ کہلا سکیگی اور منظور ہوگی.(۵) انسان تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کی حالت پیدا کرے.یہ نہ خیال کرے کہ اخلاص نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ واری سمجھ کر نیک کام کرتا ہی جاے.مثلاً صدقہ دینے پر تکلیف ہو تو دیتا ہی رہے یا نماز میں توجہ نہ قائم رہے تو بار بار پڑھتا رہے.اسکے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کا فرض یہی ہے کہ کام میں لگا رہے اور ہمت نہ ہارے.مَیں نے کئی دفعہ سنایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے.ایک مرید اپنے پیر کو ملنے کے لئے آیا اور انہیں کے پاس ٹھہر گیا.رات کو پیر صاحب دُعا کرتے رہے کہ الٰہی فلاں کام ہو جائے.آخر آواز آئی.یہ کام تو نہیں ہوگا.یہ آواز مرید نے بھی سُن لی.اس پر وہ حیران ہوا کہ اچھے پیر صاحب ہیں ہم تو ان سے دُعا کرانے کے لئے آتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ جواب ملتا ہے کہ تمہاری دُعا منظور نہیں کی جائیگی خیر وہ چپکا ہو رہا.دوسرے دن پھر اُسی طرح ہوا کہ پیر صاحب ساری رات دُعا کرتے رہے.آخر انہیں پھر وہی جواب ملا.مرید اور بھی زیادہ حیران ہوا.تیسرے دن پھر اسی طرح ہوا.آخر مرید نے انہیں کہا.تین دن سے آپ کوئی دُعا کر رہے ہیں جس کے متعلق الہام ہوتا ہے کہ نہیں سُنی جائیگی.پھر کیوں آپ دُعا کرتے چلے جاتے ہیں.پیر صاحب نے کہا نادان! مَیں تو بیس سال سے یہی دُعا کر رہا ہوں اور مجھے یہی الہام ہو رہا ہے مگر مَیں نہیں گھبرایا.اور تو تین دن جواب سن کر گھبرا گیا ہے.بات یہ ہے کہ خدا کا کام قبول کرنا یا نہ کرنا ہے اور میرا کام دُعا مانگنا ہے.وہ اپنا کام کر رہا ہے اور مَیں اپنا کام کر رہا ہوں.لکھا ہے.اسپر معاً الہام ہوا کہ اس عرصہ میں تم نے جتنی دُعائیں کی ہیں سب قبول کی گئیں.
۲۳۵ پس بندہ کا کام یہ ہے کہ اپنے کام میں لگا رہے.نماز میں اگر توجہ قائم نہیں رہتی تو نہ رہے یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے.اس کا کام یہ ہے کہ نماز نہ چھوڑے.مگر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان ظاہر میں نیکی کرتا ہے تو اس کا اثر باطن پر پڑتا ہے اور انسان پاک ہوتا جاتا ہے لیکن اگر اس طرح بھی کامیابی نہ ہو.انسان ارادے کرتا رہے مگر وہ ٹوٹ ٹوٹ جائیں.اُٹھتا رہے مگر پھر گر گر جائے ہمت کرتا رہے لیکن ناکامی کا مُنہ دیکھنا ہی نصیب ہو.ایسے انسان کو یقینا سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کے دلپر بہت زنگ لگ گیا ہے اور اس کے دور کرنے کے لئے تفصیلی علاج کی ضرورت ہے کیونکہ اس پر نفس غالب آچکا ہے اور وہ مغلوب ہو گیا ہے اور وہ احساسِ انانیت جس کی طرف میری اس نظم میں جو کل پڑھی گئی اشارہ کیا گیا ہے.وہ مٹ گیا ہے اور وہ اس جانور کی طرح ہو گیا ہے جسے انسان نکیل ڈال کر جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے.اُسکا نفس بھی اُسے نکیل ڈالے لئے پھرتا ہے.پس اس کے لئے پہلے تو اجمالی اصولی علاج اور پھر تفصیلی اصولی علاج بیان کرتا ہوں.مگر پیشتر اسکے کہ مَیں اس کے متعلق کچھ کہوں اس فلسفۂ اخلاق میں جو پہلے سمجھا جاتا تھا اور اس میں جو احمدی نقطۂ نگاہ سے اب سمجھا جاتا ہے فرق بتانا ضروری سمجھتا ہوں.مسلمانوں میں فلسفۂ اخلاق کے بانی ابن مردویہؒ ہوئے ہیں.انہوں نے اس پر ایک کتاب لکھی ہے اور بعد میں ابن عربیؒ سب سے بڑے اُستاد سمجھے جاتے تھے.ان کے بعد امام غزالیؒ ہوئے جنہوں نے اخلاق پر ایک چار جلد کی کتاب لکھی ہے.ان کے بعد کوئی کتاب نہ لکھی گئی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ فلسفۂ اخلاق ختم ہو گیا.اس وجہ سے مَیں اس کے متعلق روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.تاکہ وہ لوگ جو اس فلسفہ کی کتابیں پڑھتے ہیں اُن پروہ غلطیاں ظاہر ہو جائیں جو ان میں پائی جاتی ہیں.بے شک وہ باتیں اپنے وقت میں اچھی تھیں.مگر اب غلطیاں ہیں.امام غزالیؒ کے فلسفہ اور احمدی فلسفہ میں فرق یہ ہے کہ امام غزالیؒ نے صفاتِ سلبیہ پر بڑا زور دیا ہے.لیکن احمدی فلسفۂ اخلاق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے قائم کیا ہے.اس نے اس میںبڑا تغیر کر دیا ہے.کیونکہ آپ نے صفاتِ ایجابیہ پر زور دیا ہے.یعنی آپ نے یہ فرمایا ہے کہ اخلاق یہ نہیں کہ یہ نہ ہو وہ نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ یہ بھی ہو اور وہ بھی ہو.اِس میں شبہ نہیں کہ نفس کُشی بھی علاج ہے مگر وہ ایک علاج ہے نہ کہ وہی علاج ہے ہم فلسفۂ اخلاق پر بحث کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتیں نہیں بھول سکتے.اوّل خدا تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.کہ ہم نے انسان کو صرف اس لئے پید اکیا ہے
۲۳۶ کہ عبادت کرے.پھر فرماتا ہے.وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَاشَآئَ رَبُّکَ عَطَائً غَیْرُ مَجْذُوْذٍ.کہ انسان کو بھی ختم نہ ہونے والی نعماء کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اِس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ بعض باتیں نہ کرے بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ کرے.چنانچہ یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے انسان کو اسلئے پیدا کیا ہے کہ فلاں کام نہ کرے.بلکہ یہ فرمایا کہ ہم نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ عبادت کرے.پس ہم دنیا میں کام کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.نہ اس لئے کہ کچھ نہ کریں.نفی بطور پرہیز کے ہوتی ہے.یعنی مقصد کے حصول میں جو روکیں ہیں اُنکو الگ کر دو.لیکن مقصد نفی نہیں؟ وہ غرض تو اس کے پیدا نہونے کی صورت میں زیادہ اچھی طرح پوری ہو رہی تھی.یہ غرض تو ایسی ہے جیسے ہندوئوں کے خدا کی تعریف کہ وہ یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کو نفی کے لئے نہیں بلکہ اثبات کے لئے پیدا کیا ہے.گونفی بطور پرہیز کے شامل ہو.پس اصل بحث یہ ہے کہ انسان کیا کیا بنے.نہ یہ کہ کیا کیا نہ بنے.دوسری بات جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ نفس کی مثال گھوڑے کی سی ہے بے شک گھوڑے کو ورزش کرانی چاہئے اور اتنا دُبلا رکھنا چاہئے کہ خواہ مخواہ سوار کو نہ گرا دے مگر کیا کوئی شخص ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ گھوڑے کو دُبلا کرکے سوار بن گیا ہو.ایک سفر میں ایک دوست جو سوار نہ تھے کہنے لگے.مَیں گھوڑے پر سوار نہیں ہونگا.اگر سوار کرانا ہے تو کوئی دُبلا گھوڑا لائو.اُن کے کہنے پر ایک دُبلا گھوڑا لایا گیا تو وہ اُس سے بھی خوف ہی ظاہر کرتے رہے اور کہنے لگے کہ کیا اس سے دُبلا اور چھوٹا کوئی گھوڑا نہیں؟ پس اگر سواری نہ آتی ہو تو گھوڑے کو دُبلا کرنے سے نہیں آسکتی.اسلئے نفس کو دُبلا کرکے یہ سمجھنا کہ ہم اس پر قابو پا لیں گے اور پھر جس طرح چاہیں گے اُسے چلائیں گے ایک وہم ہے.صرف نفس کے دُبلا کرنے سے نہیں بلکہ اُس پر قابو پانے کا ہنر سیکھنے سے نفس پر قابو ہوگا.تیسری بات جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ گناہ نفس کے قبضہ میں آجانے سے ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ نفس کے مر جانے سے بھی پیدا ہوتا ہے.مثلاً بے غیرتی ہے.یہ نفس کے مر جانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.ایسے موقعہ پر تو یہ ضرورت ہوتی ہے کہ نفس میں طاقت پیدا کی
۲۳۷ جائے.تاکہ وہ ایسے موقعہ پر کام کر سکے.غرض جس طرح کام لینے کے لئے گھوڑے کو کبھی دُبلا کیا جاتا ہے اور کبھی موٹا بھی یہی حالت نفس کی ہے.نہ تو اسے بالکل مار دینا چاہئے اور نہ اتنا سرکش بنا دینا چاہئے کہ کوئی بات ہی نہ مانے.فلسفۂ اخلاق کے متعلق غزالیؒ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق میں یہ فرق بھی ہے کہ آپ نے یہ تعلیم دی ہے کہ ایمان کی بناء اجاء اور اُمید پر ہے.یہ تو قرآن کریم میں آتا ہے کہ طمع اور خوف کے درمیان ایمان ہوتا ہے.مگر یہ نہیں آتا کہ اُمید اور نااُمیدی کے درمیان ایمان ہوتا ہے.ناامیدی کے متعلق تو یہاں تک آیا ہے کہ اِنَّہٗ لَا یَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْم الْکٰفِرُوْنَ کہ نا اُمید کافر ہی ہوتا ہے مومن نہیں ہوتا.تو ایمان کا فلسفہ اُمید پر قائم ہے اور حدیث میں آتا ہے.جیسا بندہ گمان کریگا ویسا ہی خدا تعالیٰ اس سے سلوک کریگا.پس ایسی کوئی ترکیب کہ جس سے نااُمیدی پیدا ہو اسلام نہیں کہلا سکتی.مگر خوف کے متعلق بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ طمع سے کم ہو اور طمع خوف کی نسبت زیادہ ہو بے شک خوف ایمان کا حصّہ ہے مگر طمع سے کم ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ کہ میری صفت رحمت غضب کی صفات سے زیادہ وسیع ہے.اس سے معلوم ہوا کہ بندہ کے دل میں بھی خوف سے طمع کی حالت زیادہ زور دار ہونی چاہئے.مومن کا دل امید سے پُر ہوتا ہے.بیشک اُسے خوف بھی ہوتا ہے مگر کم.وہ سمجھتا ہے خدا تعالیٰ مجھ سے ایسا معاملہ نہ کریگا کہ مَیں تباہ ہو جائوں.اگر ہم مومن کے خوف اور امید کو دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا خوف خدا تعالیٰ پر بد ظنی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے.لیکن اُس کی امید خدا تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہوتی ہے.اب کیا یہ صحیح نہیں کہ ہماری کمزوری خدا تعالیٰ کے فضل کے مقابلہ میں حقیر ہے.پس اگر مومن کا خوف خدا تعالیٰ کی بے نیازی کومد نظر رکھ کر ہو تو اس کی رحمت اس کی بے نیازی پر غالب ہے.اور اگر اپنی کمزوری کو دیکھ کر ہو تو خدا تعالیٰ کی طاقت ہماری کمزوری پر غالب ہے.پس بہرحال اُمید کا پہلو ہی غالب رہا کیونکہ اس کا محرک خوف کے محرک سے ہر طرح زبردست ہے.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امید مطیع کے لئے ہوتی ہے باغی کے لئے نہیں ہوتی.کوئی انسان یہ نہ کہے کہ جو جی چاہے کرینگے اور پھر امید رکھیں گے کہ خدا کی رحمت کے مستحق ہو جائیں
۲۳۸ گے.یہ بغاوت ہے اور باغی کے لئے کوئی امید اور طمع نہیں ہو سکتی طمع مطیع کے لئے ہے.دوسری بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ مومن کے خوف کا موجب یہ نہیں ہوتا کہ شاید یہ بات نہیں ہو سکیگی یا یہ کہ ایسا نہ کیا تو سزا ملیگی بلکہ اُسے یہ خوف ہوتا ہے کہ جس رستہ پر مَیں چل رہا ہوں شاید اس پر چل کر نہ ہو سکے.اِسی طرح خوف کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ یہ بات نہ کی تو خدا تعالیٰ سزا دیگا بلکہ یہ ہوتی ہے کہ شاید مَیں خدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب نہ کر سکوں.غرض اصل اسلامی تصوف کی بنیاد طمع اور خوف پر ہے اور امید کا پہلو خوف کی نسبت بھاری ہے اور حق یہ ہے کہ اثباتی طاقتیں اُمید سے ہی پیدا ہوتی ہیں اور خوف سے سلبی طاقتیں پیدا ہوتی ہیں اصل مقصد خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنا ہے اور وہ امیدسے پیدا ہوتی ہے خوف سے صرف گناہ دور ہوتے ہیں.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنی امت سے خوف مٹانے کی کوشش فرمائی ہے.اوّل تو قرآن کریم میں رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ آجانے سے معلوم ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہر ایک چیز سے بڑھکر ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی اور بھی وضاحت فرما دی.حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا.منذر خوابیں شیطانی ہوتی ہیں اور مبشر خوابیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں.چونکہ خوابوں کا بہت بڑا اثر انسان کی طبیعت پر پڑتا ہے.اس لئے آپ نے یہ فرما دیا کہ منذر خوابوں سے خوف نہیں کھانا چاہئے یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ منذر خوابیں انبیاء کو بھی آتی ہیں.پس اس سے مُراد یہ نہیں کہ ہر منذر خواب شیطانی ہوتی ہے.بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر کثرت سے منذر خوابیں آئیں اور مبشر خواب آئے ہی نہیں یا کم آئے تو انہیں شیطانی خواب سمجھنا چاہئے.اس طرح آپ صلعم نے مومنوں کے دلوں سے خوف کو دور کر دیا ہے کیونکہ خوابوں کا اثر انسان کے دل پر خاص ہوتا ہے.لیکن چونکہ ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کو جسے شیطانی خوابیں آتی ہوں کوئی سچی خواب بھی آجائے اور وہ اس کو شیطانی سمجھ کر نقصان اٹھائے اس لئے اس کا بھی علاج بتا دیاکہ جب ڈراونی خواب آئے تو مومن کو چاہئے کہ بائیں طرف تھوک دے اور لاحول پڑھے.اِس میں کیا عجیب نکتہ آپ نے فرمایا ہے.لوگ کسی چیز کے متعلق کیوں تھوکتے ہیں.اسلئے کہ مَیں اسکی کوئی پرواہ نہیں کرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطانی خوابوں کے متعلق مومن کے نفس کو جرأت دلائی کہ جب اس قسم کی خواب آئے تو تھوک دو کہ ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے اِس طریق سے آپ نے اُمید اور
۲۳۹ ہمت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.دوسرا علاج لاحول پڑھنا فرمایا ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے احتمال ہے کہ ایسی خوابوں میں سے کوئی سچی بھی ہو.پس لاحول سے خدا تعالیٰ کے حضور میں استغفار اور اسکی ذات پر توکل کا مقام حاصل ہو جائیگا.غرض تھوکنے سے شیطانی خواب کے اثر سے محفوظ ہو جائیگا اور لاحول سے خدائی انذار کے اثر سے محفوظ ہو جائیگا.کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کے آگے اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے.وہ اس کی سزا سے بچ جاتا ہے.پس جو شخص یہ دونوں علاج کریگا اس کے دل پر سے خوف دور ہو جائیگا.دیکھو کس لطیف اور عمدہ صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی اُمت پر سے خوف کے غلبہ کو دور کیا ہے.غزالی اور احمدی فلسفۂ اخلاق میں فرق بتاکر اب مَیں وہ علاج بتاتا ہوں جو اس روحانی مریض کے مناسب حال ہیں.جو عمل سے بالکل رہ گیا ہے اور باوجود کوشش کے کھڑا نہیں ہو سکتا.لیکن ان علاجوں کے بتانے سے پہلے میں اس شبہ کا ازالہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے انسان کے لئے کچھ اور عمل بنانے سے فائدہ کیا ہے کیونکہ یہ پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس سے عمل ہو ہی نہیں سکتا.ایسی صورتوں میں اور عمل بتانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے.(۱) جب تک نیک عمل کرنا انسان کے لئے ناممکن نہ ہو جائے اس وقت تک عمل کے بغیر اس کے لئے کچھ نہیں ہو سکتا.ہاں اگر اس کے لئے عمل ناممکن ہو گیا ہوتو پھر بغیر عمل کے بھی پاکیزگی ہو سکتی ہے مگر جب تک عمل کرنا اس کے لئے ممکن ہے اسوقت تک عمل کے بغیر پاکیزگی نہیں ہو سکتی.پس اگر عمل ناممکن ہو جائے.جیسے کوئی پاگل ہے کہ وہ کوئی عمل نہیں کر سکتا تو اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے.اُسے پھر موقعہ دیا جائیگا.ہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عمل دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو ہر قسم کی حالت کے لوگوں کے لئے ممکن ہوتے ہیں.اور ایک وہ جو دل کی بعض حالتوں میں ناممکن ہوتے ہیں.جو عمل بعض قلبی حالتوں میں ناممکن ہو جاتے ہیں وہ جذبات سے اور خیالات سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جو عمل کہ ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں وہ کسی حالت میں بھی ناممکن ہوتے.مثلاً نماز ہے اس کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں نماز پڑھ سکتا ہی نہیں.اگریہ کہہ سکتا ہے کہ ناجائز محبت میرے دل سے نہیں نکل سکتی.پس عمل دو قسم کے ہیں.ایک جذبات سے تعلق رکھنے والے.اور دوسرے وہ جن کا تعلق جذبات سے نہیں ہوتا.اب دیکھو جسمانی بیماریوں کے علاج کس طرح کئے جاتے ہیں.اِسی طرح کہ ایک شخص ڈاکٹر
۲۴۰ کے پاس جاتا ہے.وہ بہت کمزور ہوتا ہے.کوئی کام نہیں کر سکتا.اُسے کہا جاتا ہے ورزش کیا کرو اب کیا وہ یہ کہتا ہے کہ مَیں تو پہلے ہی کام نہیں کر سکتا اور آپ کہتے ہیں ورزش کیا کرو.وہ یہ نہیں کہتا کیونکہ اور کام میں اور ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کام میں فرق ہے.اور وہ یہ کہ جو کچھ ڈاکٹر بتاتا ہے گو وہ بھی کام ہے مگر ہے اختیار میں اور دوسرااس کی طاقت سے بڑھ کر ہے.تو طاقت پیدا کرنے کے لئے بھی ایک عمل ہی کی ضرورت ہوتی ہے.ایک ایسا کمزور جو اُٹھ کر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا.چار پائی پر لیٹا رہتا ہے.اس کے متعلق ڈاکٹر یہی کہے گا کہ اِسے مالش کیا کرو.جب اسے کچھ طاقت آئیگی تو بیٹھ سکیگا.پھر اور طاقت آئیگی تو کھڑا ہو سکے گا.یہی بات روحانی اعمال میں ہے کہ چھوٹے اعمال پر لگا کر اوپر اٹھایا جاتا ہے.ایک لڑکا جو کہتا ہو کہ مجھ سے دسویں جماعت کی ریڈر نہیں پڑھی جاتی اُسے کہا جائیگااچھا نویں جماعت کی پڑھا کرو.اس کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب مجھ سے دسویں جماعت کی ریڈر نہیں پڑھی جا سکتی تو نویں کی کس طرح پڑھوں گا.اِسی طرح روحانیت میں چھوٹے اعمال سے ترقی کرکے بڑے اعمال تک لے جایا جاتا ہے.پہلے بیان شدہ علاجوں کے علاوہ ایسے شخص کے لئے بعض اور امور کی بھی ضرورت ہوتی ہے جنہیں میں آگے چل کر بیان کرونگا.پہلے علاج یہ ہیں:- (۱) یہ کہ ایسا انسان نیکیوں اور بدیوں کا علم حاصل کرے.(۲) ان کے برمحل استعمال کا علم حاصل کرے.(۳) محاسبۂ نفس کرے.(۴) استغفار کثرت سے کرے.(۵) خدا تعالیٰ کی معرفت پیدا کرنے کی کوشش کرے.پہلے مَیں نے کہا تھا خدا کی معرفت پیدا کرے.مگر یہاں یہ کہتا ہوں کہ معرفت پیدا کرنیکی کوشش کرے.کیونکہ اسکی نسبت یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ یہ عمل پر پوری طاقت نہیں رکھتا.(۶) نیکی اور بدی کا انجام سوچے.(۷) تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کی کوشش کرے.اِس سے آگے میں جو علاج بتاؤنگا وہ اصولی ہیں.ایسے انسان کے متعلق اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اس کے اندر بیماری ہے.اور بیماری کا علاج بغیر تشخیص کے نہیں ہو سکتا.اس لئے
۲۴۱ ضروری ہے کہ وہ علمی طور پر معلوم کرے کہ اُسے کیا بیماری ہے.اسکے لئے وہ پہلے اپنے دل سے یہ سوال کرے کہ وہ کس بات کے لئے کوشش کر رہا ہے؟ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ دل کی پاکیزگی کے لئے.اور دوسرا یہ کہ اعمال کی اصلاح کے لئے.امر اوّل خدا تعالیٰ کی محبت سے تعلق رکھتا ہے.اور دل کی کمزوری کے یہ معنی ہیں کہ صحیح محبت کا مادہ مفقود ہو گیا ہے.مَیں نے کئی دفعہ اپنی ایک رویاء سُنائی ہے کہ مَیں نے دیکھا حضرت مسیحؑ ایک چبوترہ پر کھڑے بچہ کی شکل میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے.اوپر سے مَیں نے حضرت مریم کو اُترتے دیکھا.وہ کچھ اونچے چبوترہ پر کھڑی ہو گئیں.پھر وہاں سے وہ ایک قدم نیچے اُتریں.اور حضرت مسیحؑ نے اوپر کی طرف قدم بڑھایا.حضرت مسیحؑ ان کی طرف جھکے.اور مریم اُن پر جھک گئیں.اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے Love creates love محبت محبت سے پیدا ہوتی ہے.پس محبت محبت سے ہی پیدا ہوتی ہے.مگر محبت پیدا کرنے کے لئے بھی سامان ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں.(۱) حسن (۲) احسان.اب ہم دیکھتے ہیں ایک شخص نے خدا تعالیٰ کا حسن بھی دیکھا یعنی اس کی صفات پر غور کیا.اور احسان بھی دیکھے.اپنے ساتھ خدا تعالیٰ کے تعلقات پر نظر کی.مگر باوجود اس کے اُس کے دل میں محبت نہ پیدا ہوئی.اس سے معلوم ہوا کہ اس کی حالت اس بچہ کی سی ہے جو اپنی ماں سے محبت نہیں کرتا اور محبت کا مادہ اُس میں سے مارا گیا ہے.جیسے اگر کسی انسان کے پیٹ میں نہ غذا جاتی ہے اور نہ دوا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا معدہ خراب ہو گیا ہے.اس کے لئے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ اسکے معدہ کو قوت دیں اور روحانیت میں یہ علاج ہے کہ اسکے احساسات اُبھاریں.سو ایسے انسان کے لئے پہلا علاج یہ ہے کہ چونکہ ظاہر کا اثر باطن پر ہوتا ہے وہ ظاہری طور پر خشوع و خضوع اختیار کرے.نماز پڑھے تو رونے کی صورت بنائے خواہ تصنع سے ہی بنانی پڑے بعض کام اگر تصنّع اور بناوٹ سے بھی کئے جائیں تو اُن کا اثر باطن پر پڑتا ہے.میں نے امریکہ کی ایک کتاب میں پڑھا تھا.ایک پروفیسر طالب علمی کی حالت میں بہت قابل تھا آخر اُسے ایک کالج کا پرنسپل بنادیا گیا.مگر اسوقت وہ سخت ناقابل ثابت ہوا.اس نے اسکی وجہ ایک علم النفس کے ماہر سے پوچھی تو اس نے بتایا کہ تمہارے دل میں اتنی زیادہ نرمی ہے کہ اس کی وجہ سے تم انتظام نہیں قائم رکھ سکتے.اس کا اس نے علاج پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم اپنے دانت اور جبڑے جوڑ کر رکھا کرو.بعض دفعہ منہ کو سختی سے بند کیا کرو.جس سے غصہ کی حالت نظر آئے اُس نے ایسا ہی کیا اور کچھ عرصہ کے بعد اُس میں ایسا تغیر پیدا ہو گیا کہ ملک میں مشہور ہو گیا کہ سب سے زیادہ سخت
۲۴۲ پرنسپل وہی ہے اور اس نے خوب انتظام کر لیا.تو ظاہر کا اثر باطن پر ہوتا ہے.وہ شخص جو بزدل ہو وہ اگر اکڑ کر چلے تو اس میں جرأت اور دلیری پیدا ہو جائیگی.فوج کے سپاہیوں سے ایسا ہی کرایا جاتا ہے.ان کو مشق کرائی جاتی ہے کہ اونچی گردن رکھ کر اور چھاتی تان کر چلیں.اس سے ان میں بہادری پیدا ہو جاتی ہے.پس پہلا علاج یہ ہے کہ کسی شخص میں جو عیب ہو اس کے مقابل کی صفت تصنّع سے اختیار کرے اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس میں فی الحقیقت وہ صفت پیدا ہو جائیگی.محبت کا مادہ پیدا کرنیکے لئے انسان ظاہری محبت کے آثار ظاہر کرے.مثلاً کسی سے مصافحہ کرے تو خوب بھینچ کر اور تپاک سے کرے.ایک شخص اس کے پاس آکر بیٹھے جب وہ اٹھنے لگے تو خواہ دل میں یہی چاہتا ہو کہ چلا جائے مگر اصرار کرے کہ اور بیٹھو.اس طرح جب وہ ظاہر میں محبت کے آثار ظاہر کریگا تو آہستہ آہستہ اس میں حقیقی محبت کا جذبہ پیدا ہو جائیگا.اور پھر وہ خدا تعالیٰ سے بھی محبت کرنے لگ جائیگا کیونکہ پہلے اس کے محبت نہ کرنے کی یہی وجہ تھی کہ اس میں محبت کا جذبہ ہی نہ تھا.(۲) اس کے علاوہ دوسرا علاج یہ ہے کہ ماں باپ.بیوی بچوں سے پیار میں زیادتی کرے یہی وہ نکتہ ہے جسے عشق مجازی کہا جاتا ہے.صوفیاء نے اسی کو عشق مجازی قرار دیا تھا کہ جن سے محبت کرنا جائز ہے اُن سے محبت میں زیادتی کی جائے مگر بعد میں اس کو بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا لیا گیا.عشق مجازی کے یہی معنی نہیں ہیں کہ ایک شخص کوئی خوبصورت لڑکا تلاش کرے.اس سے محبت کرنے لگ جائے یا اور اسی قسم کی ناجائز محبت میں گرفتار ہو جائے بلکہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے محبت کرنا جائز ہے اُن سے زیادہ محبت کرے.اس طرح اس میں محبت کا جذبہ زیادہ پیدا ہوگا اور پھر خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا جذبہ بڑھے گا.دوسری چیز جس کے لئے اپنی روحانیت کی اصلاح کی غرض سے انسان کوشش کرتا ہے وہ اعمال کی اصلاح ہے.اس کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ ایک عمل قوتِ ارادی سے ہوتا ہے.انسان ارادہ کرتا ہے کہ یوں کرنا ہے اور پھر کر لیتا ہے.لیکن جو شخص کہتا تو رہتا ہے کہ مَیں نے فلاں کام کرنا ہے مگر کر نہیں سکتا تو اُس کی اس بے بسی سے ثابت ہوتا ہے کہ اس میں یا تو (۱) اسکا قبضہ ارادہ پر نہیں رہا.انسان میں جو مَیں ہے وہ کمزور ہو گئی ہے اس وجہ سے وہ ارادہ پر حکومت نہیں کر سکتا.مَیں بطور مالک کے ہوتی ہے اور ارادہ بطور داروغہ کے.مالک کمزور ہو گیا ہے اور وہ داروغہ سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام کرائو بلکہ اس سے ڈرتا ہے.اس وجہ سے داروغہ
انوار العلوم جلد9 ۲۴۳ کام کرانے میں سست ہو جاتا ہے.(۲) یا پھر یہ کہ مَیں تو مضبوط ہے مگر داروغہ بیمار ہو گیا یعنی قوتِ ارادی کمزور ہو گئی اور اس کا جذبات پر قابو نہیں رہا.جذبات داروغہ یعنی قوتِ ارادی کے ماتحت بطور ملازم ہوتے ہیں.جب داروغہ بیمار ہو گیا تو ملازم سُست ہو گئے.اسکا حکم نہیں مانتے گویا اس طرح مَیں اور احساسات میں جو واسطہ تھا وہ کمزور ہو گیا.(۳) اگر یہ بھی نہیں تو یہ نقص پیدا ہو گیا ہے کہ کوئی ایسی چیز ارادہ اور احساسات کے درمیان آگئی ہے کہ باوجود اس کے کہ ارادہ حکم دینے کی طاقت تو رکھتا ہے اور احساسات ماننے کے لئے بھی تیار ہیں مگر ان میں اتنا فاصلہ ہو گیا ہے.یا روک پیدا ہو گئی ہے کہ احساسات تک حکم نہیں پہنچتا.پس عملی گناہ یا نیکی میں کمی کے یہ تین سبب ہوتے ہیں یعنی (۱) انانیت کی کمزوری (۲) ارادہ کی کمزوری (۳) بعض اور چیزوں کی دخل اندازی احساسات کو ارادہ کے قبضہ سے نکال لیتی ہے جیسے مثلاً عادت ہے.ایک شخص کو حقہ پینے کی عادت ہے، وہ ارادہ رکھتا ہے کہ حقہ نہیں پینا.مگر جب سامنے حقہ دیکھتا ہے تو کچھ نہیں کر سکتا اور عادت سے مجبور ہو کر پی لیتا ہے.اب مَیں وہ امور بتاتا ہوں جن سے انانیت بڑھتی ہے اور انسان کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے.(۱) پہلی چیز جو مَیں کو مضبوط کرتی ہے وہ قوتِ بقا یعنی قائم رہنے کی خواہش ہے.ہر چیز میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ مجھے باقی رہنا چاہئے.ایک معمولی سے کیڑے کو مارو.تو وہ تلملاتا ہے.یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ زندہ رہنا چاہتا ہے.وہ انسان جسمیں مذکورہ بیماریاں پیدا ہو جائیں اسے خیال کرنا چاہئے کہ اگر میری یہی حالت رہی تو مَیں مرا مگر تجھے تو زندہ رہنا ہے اس لئے قوت بقا کو مضبوط کرے.یہ ایک طبعی تقاضا ہے اور فکر سے جلدی بڑھ سکتا ہے.چنانچہ یہی دیکھ لو ایک حقہ پینے والا حقہ دیکھ کر اس کے پاس جا بیٹھیگا.شراب پینے والا شراب دیکھ کر اُسکی طرف دوڑیگا.لیکن اگر کوئی تلوار لیکر اُسے وہاں مارنے کے لئے آئے تو پھر دیکھو کس طرح بھاگتا ہے.کہتے ہیں شرابی کو اگر جوتیاں ماری جائیں تو اس کا نشہ دور ہو جاتا ہے.یہ بقا کی خواہش کا ہی غلبہ ہوتا ہے جس کے باعث نشہ دور ہو جاتا ہے.(۲) فنا کی خواہش کو مضبوط کر لے.یہ تقاضا پہلے تقاضا کا لازمی نتیجہ ہے.ابقاء کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی جب تک افناء کی خواہش کو مضبوط نہ کرے.اُسے چاہئے کہ افناء کی خواہش کو بھی مضبوط کرے یعنی سوچے کہ جو چیز میرے مقاصد میں حائل ہوگی مَیں اس کو پیس ڈالوں گا.
انوار العلوم جلد9 ۲۴۴ (۳) تیسرا ذریعہ انانیت کے بڑھانے کا جذب کی طاقت کو مضبوط کرنا ہے.ایسا انسان سوچے کہ جن چیزوں کی مجھے ضرورت ہے وہ مَیں ضرور لونگا جن جن چیزوں کا حاصل ہونا مشکل نظر آئے ان کے متعلق یہ احساس دل میں بار بار قائم کرے اس سے انانیت غالب آجائیگی.(۴) قوتِ مقابلہ کی طاقت کو مضبوط کرے.یعنی یہ خیال کرے کہ جو چیزیں مضر ہونگی انکا مَیں مقابلہ کرونگا.(۵) استقلال کی طاقت کو مضبوط کرے.اس سے بھی مَیں پیدا ہوتی ہے.استقلال کبھی کبھی مشکل ہوتا ہے اور بعض کے لئے ناممکن ہوتا ہے مگر بعض لوگ اس کے متعلق بے توجہی کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں خیر اس بات کو جانے دو.یہ عادت نہ رہنی چاہئے.کیونکہ اگر انسان بعض باتوں میں استقلال دکھائے تو دوسری باتوں میں استقلال کی قوت پیدا ہو جاتی ہے.اور اس طرح مَیں کی طاقت مضبوط ہو جاتی ہے.(۶) مصلحت- یہ بھی بقاء کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.مصلحت وقت کو غور کرکے کام کرے.اِس سے تدبیر حکمت.راز رکھنے اور نفس پر قابو رکھنے کی قابلیت پیدا ہوگی اور انانیت ترقی کریگی.(۷) احتیاط ہوشیاری.چوکس رہنا دور اندیشی.ان باتوں کو ذہنی طور پر پیدا کرنیکی کوشش کرے.ان سے بھی انانیت ترقی کریگی.(۸) اپنی مدح سے نفرت کرے.اگر کوئی کرے تو اُسے روک دے.اس سے بھی انانیت مضبوط ہوتی ہے.مدح انانیت کو مار دیتی ہے اور نہایت تیز چھری ہے جو اُسے ذبح کر دیتی ہے.دیکھو قرآن کریم میں کیا لطیف طور پر بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلَوْا (۳:۱۸۹) کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہ پسند کرتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ان کے متعلق ان کی تعریف کی جائے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ وہ بات مانتے ہیں جو لوگ ان کے متعلق کہیں اور خود اپنے نفس پر غور نہیں کرتے کہ انہوں نے کوئی کام کیا بھی ہے کہ نہیں یعنی ایسے لوگ خود کام نہیں کرتے.جو تھوڑا بہت کام ہو جائے اُسی پر خوش ہو جاتے ہیں.اور جو دوسرے بتائیں کہ تم نے یہ کام کیا ہے اسے مان لیتے ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا ہے.گویا دوسروں کی مدح ان کے لئے جو خیالی محل بنا دیتی ہے اس میں ایسے لوگ رہتے ہیں.پس مدح سے نفرت کرنے سے انانیت مضبوط ہوتی ہے.
۲۴۵ (۹) نواں علاج عزتِ نفس کی طاقت کا پیدا کرنا ہے.یعنی انسان ہر قسم کی ذلّت اور شرمندگی کی برداشت سے انکار کرے.کہے میری طرف بدی کیوں منسوب ہو.اس طرح نفس کو غیرت آتی ہے اور وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے.اور پھر ارادہ سے کام کرا لیتا ہے.(۱۰) دسواں علاج وقار ہے یعنی جو باتیں تم سے متعلق نہ ہوں.ان میں خواہ مخواہ دخل نہ دو ہر کام میں دخل دینا چھچھورا پن ہوتا ہے اور اس سے انانیت مُردہ ہو جاتی ہے.(۱۱) گیارھواں علاج امید ہے.اس طاقت کو اپنے اندر بڑھائو.اس سے بھی اعزازِ نفس حاصل ہوتا ہے.انسان یقین رکھے کہ ایسا ہو جائیگا.اس طرح اپنے نفس پر اعتبار کرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے.(۱۲) بارھواں علاج خوش مزاجی ہے.اس سے انسان میںطاقت پیدا ہوتی ہے.اور کُڑھنے سے طاقت ضائع ہو جاتی ہے.اِن میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مشکل ہیں لیکن اگر کوئی ان میں سے چند پر بھی عمل کریگا تو اس میں طاقت پیدا ہونی شروع ہو جائیگی.یہ سب امور ذہنی ہیں اور ان کی مشق سے انسان کی ذہنی قوتیں نشوو نما پا سکتی ہیں یہاں تک کہ ارادہ ہی ماتحت آجائے.ان کے استعمال کا بہتر طریق یہ ہے کہ انسان انسان کی اس حیثیت پر غور کرے جو مَیں نے بتائی ہے اور اس سے چند ہی دن میں علیٰ قدرِ مراتب وہ اپنے اندر انانیت کا جذبہ بڑھتا ہوا پائیگا.مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انانیت ہی حد سے بڑھ جاتی ہے اور اس سے گناہ پیدا ہونے لگتے ہیں.جیسے ایک ظالم آقا ہو جو خواہ مخواہ نوکروں کو مارتا رہتا ہو.ایسی حالت میں اسکا علاج خدا تعالیٰ کی بے نیازی پر غور کرنا ہے.انسان سوچے کہ اگر میری مَیں اس طرح ہر نقص پر گرفت کر رہی ہے تو اگر خدا تعالیٰ مجھ سے یہی سلوک کرے تو میری کیا حالت ہو اور یہ سوچے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے وہ خدا تعالیٰ کا عطیہ ہے.مَیں اس کا مالک نہیں ہوں.مَیںتو صرف امین ہوں اور امانت کے متعلق سوال کیا جائیگا.اس لئے مجھے بے جا سختی نہیں کرنی چاہئے.جب انانیت پیدا ہو جائے یا وہ پہلے ہی موجود ہو مگر مشکل ارادے کے متعلق ہو یا درمیانی روکوں کے متعلق ہو تو اس صورت میں اس کا مندرجہ ذیل علاج ہے: (۱) اوّل تو وہی ظاہر و باطن کی مشابہت پیدا کرنا ہے جو پہلے بیان کر آیا ہوں کہ ظاہری طور پر انسان تصنع سے ہی کام کرے اس کا اثر باطن پر پڑیگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر
۲۴۶ خاص زور دیا ہے.(۲) دوسرا علاج کامل توجہ ہے.یہ گُر کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے.اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خیالات کو ایک ہی رَو میں چلائے اور اپنے دل سے خدا تعالیٰ کے سوا باقی سب چیزوں کے خیالات مٹا دے.قرآن کریم میں آتا ہے وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا جو لوگ کسی کام میںکامیاب ہونا چاہتے ہیں اس میں غرق ہو جاتے ہیں.گویا وہ اپنے خیالات کو اس طرح چلاتے ہیں کہ صرف وہی کام اُن کا مقصد رہ جاتا ہے اور کسی چیز کی انہیںفکر نہیں ہوتی.جب کسی کام کے متعلق نفس میں پورا پورا نقشہ کھنچ جاتا ہے تب اس میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.مثلاً ایک شخص جسے جھوٹ بولنے کی عادت ہے وہ یہ خیال کرے کہ مجھے جھوٹ چھوڑ دینا چاہئے تو اس سے کامیابی نہ ہوگی جبتک رات دن اسکی توجہ اسی طرف نہ ہوگی کہ جھوٹ نہیں بولنا اور جھوٹ چھوڑ دینا ہے.ایک بات کا بار بار خیال کرنے سے یہ طاقت پیدا ہوتی ہے مگر اس طاقت کے متعلق خطرہ بھی ہوتا ہے.کیونکہ یہ پاگل ہو جاتی ہے یعنی ارادہ کے قبضہ سے نکل جاتی ہے اور اِدھر اُدھر ناچنے لگتی ہے.ہمارے ملک میں کئی لوگ پوچھا کرتے ہیں.نماز میں دلیلیں آتی ہیں ان کے دُور ہونیکا کوئی علاج بتایئے.دلیلیں آنیکا یہی مطلب ہے کہ ایسے شخص کی خیال کی طاقت پاگل ہو گئی ہے اسے توجہ تو پیدا ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف نہیں بلکہ اور چیزوں کی طرف.وہ خدا تعالیٰ کی طرف لگاتا ہے وہ کہیں اور بھاگ جاتی ہے.پس جن لوگوں کو نماز میں دلیلیں آتی ہوں ان کے متعلق یہ خیال غلط ہے کہ انہیں توجہ نہیں پیدا ہوتی.اصل بات یہ ہے کہ اُن کی توجہ قوت ارادی کے قبضہ میں نہیں ہوتی خود مختار ہو جاتی ہے اور جدھر چاہتی ہے چلی جاتی ہے.ایسی حالت میں اس کو قوت ارادی کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرنا چاہئے.نماز میں جو شخص اور خیالات میں پڑ جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وجہ ارادہ کی قوت کے قبضہ سے نکل گئی ہے.اس صورت میں سب سے پہلا کام اُسے قوتِ ارادی کے ماتحت لانا ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ اُسے کس طرح ماتحت لائیں؟ اس کا اصل جواب تو میں آگے چل کر دونگا لیکن ایک اور نسخہ بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر ایسے لوگ نماز میں اس امر کا خیال کرنا چھوڑ دیں کہ زور سے توجہ قائم کریں تو پھر ان کی یہ حالت نہ ہوگی.معمولی باتوں کی طرح نماز بھی پڑھیں.(۳) تیسری چیز قوتِ ارادی کا استعمال ہے.ارادہ کرے کہ مَیں اس کام کو کرتا ہی جاؤنگا اور
۲۴۷ کسی روک کی پرواہ نہیں کرونگا.بعض دفعہ چونکہ قوت ارادی کمزور ہوتی ہے اس لئے ایک کام کا انسان ارادہ کرتا ہے.مگر پھر گر جاتا ہے.اس لئے مَیں قوتِ ارادی کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لئے ایک نسخہ تجویز کرتا ہوں جس میں تیرہ دوائیں پڑتی ہیں.اور وہ دوا ئیں قرآن کریم اور احایث سے ملتی ہیں.(۱) اوّل یہ کہ اس آیت کو انسان ورد میں لائے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مَیں نے انسان کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یعنی اپنا بندہ بننے کے لئے پیدا کیا ہے.انسان اس بات کا خیال کرے اور کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰٰ نے اپنے قرب کے لئے پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی پیدائش رائیگاں نہیں جا سکتی.مَیں ضرور اس کا عبد بنونگا اور ہو نہیں سکتا کہ نہ بنوں.وہ یہ خیال نہ کرے کہ مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا.مَیں کچھ نہیں کر سکتا بلکہ وہ اس طرح نقشہ جمائے اور اس طرح تصور باندھے کہ گویا خدا تعالیٰ نے اسے پکڑ کر کہا ہے کہ اُٹھ کام کر.یہ وہی بات ہے جسے صوفیا مراقبہ کہتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان گردن ڈال کر بیٹھا رہے بلکہ یہ ہے کہ بار بار سوچے اور غور کرے کہ بھلا کبھی یہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے عبد بننے کے لئے پیدا کرے اور مَیں کچھ اور بن جاؤں.(۲) اس آیت کے مضمون پر غور کرے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ خدا تعالیٰ نے مجھے بہترین طاقتیں دیکر بھیجا ہے جو نیکی بھی انسان کے لئے ممکن ہے وہ میرے لئے بھی ممکن ہے.اور جو بھی اعلیٰ درجہ حاصل ہونا ممکن ہے وہ میرے لئے بھی ممکن ہے.پھر میں کس طرح گر سکتا ہوں.اس بات کا بھی خوب نقشہ جمائے اور بار بار اس پر غور کرے.(۳) تیسرے اس آیت کا ورد کرے نَحْنُ اَقْرَبَ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد.اور اس رنگ میں اس کا مفہوم سوچے اور اسے ذہن میں نقش کرے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور وہ ان باریک درباریک وساوس کو جانتا ہے جو دل میں پیدا ہوتے ہیں اور دل کو پراگندہ کر سکتے ہیں حتّٰی کہ وہ انسان کے نفس سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے.نفس جب وسوسے پیدا کرتا ہے وہ جھٹ اسکو مٹا سکتا ہے.یہی بات خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہے.اور بندہ کو تسلی دی ہے کہ خوف کی کیا وجہ ہے جبکہ وسوسوں کے سامان سے زیادہ قریب وسوسے مٹانے کے سامان ہیں.(۴) اس آیت پر غور کرے وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.اس کے متعلق اس طرح سوچے کہ میں مومن ہوں اور مومن کسی سے مغلوب
۲۴۸ نہیں ہو سکتا.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ میری قوت ارادہ غالب نہ آئے.اسے اسقدر دوہرائے کہ قوتِ ارادہ نفس پر غالب آجائے.(۵) یہ آیت پڑھا کرے اِنَّ عِبَادِيْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ.یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں پر شیطان کا قبضہ نہیں ہے.وہ سوچے مَیں خدا تعالیٰ کا بندہ ہوں اور خدا کے بندوں پر شیطان کا تسلّط نہیں ہو سکتا.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ بدی مجھ پر غالب آجائے.(۶) یہ آیت پڑھے لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ.اور یہ خیال کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا.مَیں مومن ہوں اور مومن کو سوائے خدا کے کسی کا خوف نہیں ہو سکتا.(۷) اس آیت پر غور کرے نَحْنُ اَوْلِیٰئُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ.جو مومن ہوتا ہے اس پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تمہارے مددگار ہیں.پھر تم کیوں گھبراتے ہو.(۸) آیت وَلَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یَیْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ پڑھے اور سوچے مَیں مشکلات سے مایوس نہیں ہو سکتا.مایوسی موت ہے جسے قبول کرنے کے لئے مَیںتیار نہیں ہوں.اگر ارادہ نہیں مانتا تو مَیں اسے سیدھا کرکے چھوڑ دونگا.(۹) یہ آیت زیر غور رکھے یٰآیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ مَیں مطمئن ہوں اور غیر محدود امیدیں میرے سامنے کھڑی ہیں.پھر مجھے کیا گھبراہٹ ہو سکتی ہے جبکہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور فرماتا ہے.جا اس جنت میں داخل ہو جا جو کبھی برباد نہیں ہو سکتی.(۱۰) حدیث یَوْضَعُ لَہُ الْقُبُوْلُ زیر نظر رہنی چاہئے.اور سوچنا چاہئے کہ مومن کے متعلق تو اللہ تعالیٰٰ وعدہ کرتا ہے کہ اس کی قبولیت دنیا میں پھیلائی جائیگی اور وہ ذلیل نہیں ہوگا.اِس سے بھی قوت ارادی بڑھتی ہے.(۱۱) وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ کی آیت پر غور کرتا ہوا یہ خیال کرے کہ سب ناکامیاں لالچ اور حرص سے پیدا ہوتی ہیں.مگر مجھے کسی چیز کی حرص نہیں ہے.کیا پہلے ہی خدا تعالیٰ نے میرے لئے سب کچھ نہیں بنا چھوڑا؟
۲۴۹ (۱۲) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّا ئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ.اس میں یہ سوچے کہ بد خیال بد ارادے اور بد تحریکیں میرے دل میںہر گز داخل نہیں ہو سکتیں کیونکہ مَیں اس امت میں سے ہوں جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ کہ وہ کافروں کا اثر قبول نہیں کرتے بلکہ مومنوں کا اثر قبول کرتے ہیں.(۱۳) کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ کا ورد کرے اور اس حدیث کو سوچے لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ وہ یہ خیال کرے کہ جو نیک ارادے میرے دل میں پیدا ہوتے ہیں وہ دوسروں پر اثر کرتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے نیکوں کے پاس جائو.اگر میرا کسی پر اثر نہیں ہوتا تو پھر میں مومن نہیںہو سکتا.(۱۴) اس بات پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق فرمایا ہے.وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاِنْ مِّتَ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ ہم نے نہ تجھے اور نہ کسی اور انسان کو ہمیشہ اس دنیا میں رہنے کے لئے بنایا ہے.انسان خیال کرے کہ جب مجھے ہمیشہ اس دنیا میں نہیں رہنا تو مجھے اپنے وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.اِن چودہ باتوں سے قوتِ ارادی کو وہ طاقت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ جذبات اور احساسات کو دبا لیتی ہے.مگر شرط یہ ہے کہ انسان ان باتوں پر پورے طورپر غور و فکر کرے.(۴) چوتھا علاج ارادے کو مضبوط کرنے یا اس کے راستہ سے روکیںدُور کرنیکا یہ ہے کہ جس عیب کو دور کرنا ہو.اس پر شروع دن سے ہی یکدم حملہ کر دے.جب فوج کسی مقام پر حملہ کرتی ہے تو پہلے حملہ میں سارا زور صرف کر دیتی ہے.اسی طرح کسی بدی کے دور کرنے کے متعلق کرنا چاہئے.یعنی جس بدی کو دُور کرنا مدّ نظر ہو اس پر پورا زور صرف کرنا چاہئے.(۵) پانچواں علاج یہ ہے کہ جو نیک خصلت پیدا کرنی ہو اس کی عادت ڈالے یا جس خصلت کو چھوڑنا چاہے اُس کے اُلٹ عادت ڈالے.مثلاً اگر غصہ پیدا ہو تو نرمی کی عادت ڈالے.(۶) فکر اور تَاَنّی کی عادت ڈالے.جلد بازی سے بچے.اس سے جو عادات پہلے پڑ چکی ہونگی انکے حملہ سے محفوظ ہو جائیگا.کیونکہ عادات جلد بازی سے فائدہ اُٹھا کر ہی حملہ کرتی ہیں اور سوچ کے اور غور کرکے کام کرنے پر وہ حملہ نہیں کر سکتیں.(۷) جس بات کے کرنے یا چھوڑنے کا ارادہ کرے اس کی پوری حقیقت کو اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کرے اور اس کے تمام پہلوئوں پر غور کرے.یہاں تک کہ اس کا ایک مکمل نقشہ
۲۵۰ اس کے ذہن میں قائم ہو جائے.اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ جو کام کرنیکا ہوگا اُسے یہ آسانی سے کر سکے گا اور جو چھوڑنے کا ہوگا اُسے آسانی سے چھوڑ سکیگا.(۸) جو باتیں جائز ہوں اُن کی طرف اُسے رغبت ہو.انہیں بعض موقعوں پر ترک کر دے، تاکہ مرضی کے خلاف کام کرنے کی اُسے عادت پڑے.مثلاً ایک شخص کو چوری کی عادت ہو گئی ہے اور دور نہیں ہوتی تو اُسے چاہئے کہ بعض جائز باتیں جن کی طرف اُسے رغبت ہے انہیں چھوڑنا شروع کر دے.مثلاً ایک وقت دل سونے کو چاہتا ہے اور نہ سوئے.ایک چیز کے کھانے کو چاہتا ہو اور یہ نہ کھائے.اس طرح دل کو طاقت حاصل ہوتی چلی جائیگی.حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے مَیں اس کا یہی مطلب سمجھتا ہوں.فرماتے ہیں عَرَفْتُ رَبِّیْ بَفَسْخِ الْعَزَائم کہ مَیں نے خدا تعالیٰ کو پختہ ارادوں کے بار بار ٹوٹنے سے پہچانا ہے.اس کا مطلب یہی ہے کہ مَیں نے بعض ارادے کئے جو ٹوٹے.مَیں نے پھر کئے پھر ٹوٹے لیکن جب مَیں نے بار بار ارادوں کے ٹوٹنے کے باوجود ان کا کرنانہ چھوڑا اور ہمت نہ ہاری تو مجھے خدا تعالیٰ مل گیا.پہلے ہی اگر مَیں ارادہ کے ٹوٹ جانے پر نااُمید ہو کر بیٹھ رہتا اور پھر عزم نہ کرتا تو مَیں خدا تعالیٰ کے پانے میں ناکام رہتا.(۹) انسان اپنے نفس کا بار بار مطالعہ کرے جس طرح ایک حکیم مریض کو بار بار دیکھتا ہے.اِسی طرح وہ اپنے نفس کو دیکھے.
انوارالعلوم جلد9 ۲۵۱ نے کہا جب تم اپنے وطن پہنچوگے تو اگر شیطان نے تم پر حملہ کیا تو کیا کروگے؟ اس نے کہا مَیں شیطان کا مقابلہ کرونگا.بزرگ نے کہا.اچھا تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا.لیکن پھر تم خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے لگے اور اُس نے پیچھے سے آپکڑا تو کیا کروگے؟ اُس نے کہا مَیں پھر اسکا مقابلہ کرونگا.بزرگ نے کہا اگر تم اسی طرح شیطان کا مقابلہ کرتے رہوگے تو خدا تعالیٰ کی طرف کس طرح متوجہ ہو سکوگے؟ اس نے کہا تو پھر آپ ہی بتائیں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ انہوں نے کہا بتائو اگر تم کسی دوست کو ملنے جائو جس کا ایک کتا ہو جو تمہیں گھیر لے تو کیا کروگے؟ اُس نے کہا مَیں اُسے لاٹھی مارونگا.انہوں نے کہا کُتا بھاگ کر پھر تمہارے پیچھے آپڑا تو کیا کروگے؟ اُس نے کہا صاحب مکاں کو آواز دونگا کہ آئو اور آکر اپنے کُتے کو روکو.انہوں نے کہا یہی طریق شیطان کے متعلق اختیار کرنا خدا تعالیٰ سے کہنا مَیں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں.مگر شیطان مجھے آنے نہیں دیتا.آپ ہی اسکو دور کریں پس برائیوں سے بچنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان دُعا کرے کہ الٰہی میں اپنی طرف سے کوشش کرتا ہوں.آگے مدد آپ نے دینی ہے.دسویں بات مَیں نے یہ بیان کی تھی کہ انسان اپنا مقصد بلند رکھے.ایک دوست نے اسکے متعلق سوال کیا ہے کہ کیا بلند خواہشات بھی جائز ہیں؟ میرے نزدیک یہ جائز نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ الہام کی خواہش نہیں کرنی چاہئے.مگر مقاصد کے بلند ہونے اور کسی بات کی طمع اور حرص میں بڑا فرق ہے.حرص کا مفہوم یہ ہے کہ انسان جو چیز اچھی دیکھے اسی کے متعلق خواہش کرے کہ مل جائے.لیکن مقصد وہ ہوتا ہے جو پہلے مقرر کر لیا جاتا ہے.اور پھر اس کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے.گویا حریص تو سوالی بنتا ہے.لیکن مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنیوالا علوہمت والا بنتا ہے.اسی طرح الہام کی خواہش کا حال ہے.الہام دعوت ہے جو خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کو دیتا ہے اب اگر کوئی کہے میں فلاں دوست سے اسلئے ملنے جاتا ہوں کہ اس کے ہاں مکلف دعوت کھاؤں تو یہ کیسی کمینہ بات ہوگی اور سب لوگ اُسے بُرا سمجھیں گے.لیکن اگر کوئی کہے مَیں فلاں دوست سے ملاقات کرنے کے لئے جاتا ہوں تو خواہ اُسے کتنی مکلف دعوت ملے.اُسے کوئی بُرا نہ کہیگا.اسی طرح الہام کی خواہش کا حال ہے.جب کوئی دُعا کریگا کہ خدا تعالیٰ مجھے اعلیٰ مقام پر پہنچا دے اور اپنا قرب عطا فرمائے تو اس مقام کے حاصل ہوتے ہی اُسے الہام کی دعوت حاصل ہو جائیگی.لیکن اگر کوئی یہ خواہش کرے کہ مجھے الہام ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے وہ اس
۲۵۲ دعوت کے حصول کا خواہشمند ہے.خدا تعالیٰ کے قرب کی اسے کوئی پروا نہیں ہے.اس وجہ سے الہام کی خواہش کرنا درست نہیں ہے.اَب مَیں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.یہ اصول جو مَیں نے بیان کئے ہیں اگر ان پر عمل کرنے کے باوجود نیک اعمال میں ترقی نہ ہو اور برائیوں سے انسان بچ نہ سکے تو سمجھنا چاہئے اسے روحانی بیماری نہیں بلکہ جسمانی بیماری ہے.اسکے اعصاب میں نقص ہے.ایسی حالت میں اسے ڈاکٹروں سے مشورہ لینا چاہئے.اور اگر یہ بات میسر نہ ہو.تو یہ چار باتیں کرے (۱) ورزش کرے.(۲) دماغی کام چھوڑ دے.(۳) عمدہ غذا کھائے.(۴) اپنا دل خوش رکھنے کی کوشش کرے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بسا اوقات امراض روحانی وہم سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں.جیسے وہم سے جسمانی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں.ایسے ہی وہم سے روحانی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں.میرا اپنا ہی تجربہ ہے.جب میں طب پڑھنے لگا تو جو بیماری پڑھتا تھا اس کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ یہ تو مجھ میں بھی ہے.مَیں یہ خیال کرتا تھا کہ شاید یہ میرا ہی حال ہوگا.لیکن ایک ڈاکٹری کے طالبعلم نے مجھے بتایا کہ اُن کے استاد نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ طلباء کو اس قسم کا وہم ہوا کرتا ہے انہیں اس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.اس لئے مَیں آپ لوگوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو.روحانی بیماریوں کا خیال کرکے یہ سمجھنے لگ جائو کہ یہ ہم میں بھی ہے اور اس طرح خواہ مخواہ اپنے آپ کو ان بیماریوں میں مبتلا کر لو.سُنا ہے ایک اُستاد تھا جو لڑکوں پر بڑا ظلم کرتا تھا.ایک دن لڑکوں نے ارادہ کیا کسی طرح چھٹی لینی چاہئے.ایک لڑکے نے کہا اگر میرا ساتھ دو تو مَیں چھٹی لے دیتا ہوں.مَیں جاکر کہونگا اُستاد جی آپ کو آج کیا ہوا ہے آپ کا چہرہ زرد معلوم ہوتا ہے.پھر تم آنا اور میری تائید کرنا.لڑکوں نے یہ تجویز مان لی.اس پر اُس لڑکے نے جاکر کہا.اُستاد جی خیریت ہے؟ اُستاد نے کہا کیا بکتا ہے اپنا کام کرو.اس نے کہا آپ کا چہرہ زرد معلوم ہوتا ہے.اس پر اُستاد نے اسے گالیاں دیں.اور دوسرا ایک اور آگیا.اُس نے آکر بھی یہی کہا.اُسے بھی گالیاں دیں.مگر پہلے کی نسبت کم.آخر لڑکوں نے باری باری آنا اور یہی کہنا شروع کیا.چھٹے ساتویں لڑکے تک اُستاد جی نے اِتنا مان لیا کہ ذرا طبیعت خراب ہے.تم تو یونہی پیچھے پڑ گئے ہو.جب پندرہ سولہ لڑکوں نے کہا تو اُستاد جی کہنے لگا.کچھ حرارت سی محسوس ہوتی ہے.اچھا لیٹ جاتا ہوں.یہ خیال کرتے کرتے اس کو بخار ہو گیا.اور لڑکوں کو چھٹی دے کر گھر چلا گیا.لڑکوں نے گھر جاکر اپنی مائوں سے کہا کہ اُستاد جی بیمار ہو گئے ہیں ان کی عیادت کرنی چاہئے.جب عورتیں ان کے گھر جانے لگیں اور اظہارِ
۲۵۳ ہمدری کرنے لگیں تو اُس نے سمجھا مَیں تو بہت سخت بیمار ہوں.آخر اُسی بیماری میں وہ مر گیا.یہ تو ایک لطیفہ ہے مگر یورپ میں تحقیقات کی گئی ہیں کہ جب سے پیٹنٹ ادویات نکلی ہیں امراض بڑھ گئی ہیں.ان دوائیوں کے اشتہار میں مشتہرین اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ ساری مرضیں لکھ کر لکھ دیتے ہیں کہ یہ دوا ان سب بیماریوں کے لئے مفید ہے.پڑھنے والے کسی نہ کسی مرض میں اپنے آپ کو مبتلا سمجھ کر منگوا لیتے ہیں اور پھر ان کا وہم ترقی کرتا کرتا فی الحقیقت انہیں بیمار بنا دیتا ہے.پس وہم میں بھی نہیں پڑنا چاہئے.دوسری بات یہ سمجھ لو جو قومی طور پر بھی ضروری ہے کہ اشاعت فاحشہ نہ ہو.کئی لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خواہ مخواہ لوگوں کو بد نام کرنے کے لئے کہنا شروع کر دیتے ہیں.یہاں کے سب لوگ بد معاش اور دوسروں کا حق مارنے والے ہیں.پہلے تو کچھ لوگ اسکے خلاف آواز اٹھانے والے بھی ہوتے ہیں مگر پھر وہ بھی یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اگر ایسے لوگ ہیں تو اپنے گھر میںہیں ہمیں ان سے کیا.پھر اس سے آگے بڑھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ایسے لوگ ہیں تو سہی مگر ہم کیا کریں.پھر آہستہ آہستہ یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ وہ بھی کہنے لگ جاتے ہیں کہ سب لوگ بد معاملہ اور بد معاش ہو گئے ہیں.ایسے لوگوں کی بات پر کان نہیں دھرنا چاہئے.ورنہ خود بھی انسان اس بُرائی میں مبتلا ہو جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.جو شخص کسی پر الزام لگاتا ہے وہ خود ایسا ہی ہو جاتا ہے.اس طرح قومیں برباد ہو جاتی ہیں.اسلئے جو شخص فواحش کی اشاعت کرے اسکا مقابلہ کرنا چاہئے.اور اس سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ جو بُرا ہے اس کا نام لو عام بات کیوں کہتے ہو کہ سب لوگ ایسے ہو گئے ہیں جو بُرا ہے اس کا نام بتائو اور جس بُرائی میں وہ مبتلا ہے وہ بھی بتائو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں جو قوم کے متعلق کہتا ہے کہ بد ہو گئی وہی شخص انکو بد کار بنا دیگا.یعنی لوگوں کو کہنا کہ ہماری قوم بُری ہو گئی یہ خیال قوم کو ویسا ہی بنا دیگا.تو ہمیشہ ایسے قومی دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے جو فحش کی اشاعت کرتا اور قوم کو بُرا کہتا ہو.لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جو قوم نڈر ہو جاتی ہے وہ بھی تباہ ہو جاتی ہے.اسلئے اصل علاج یہ ہے کہ ایسے ہر امر کو جو کسی کی بُرائی کے متعلق ہو اسے ادلوالامر تک پہنچانا چاہئے تاکہ وہ اس کی تحقیقات کرے اور پھر اگر وہ نقص ٹھیک ہو تو اس کی اصلاح کی کوشش کرے.اس لیکچر کے متعلق میرا اندازہ تھا کہ ایک دن میں ختم ہو جائیگا لیکن جب مَیں نے اسکے نوٹ لکھے تو دو دن میں ختم ہو جانے کا خیال تھا.لیکن ابھی اصولی چالیس گُر باقی ہیں جو مَیں بیان
۲۵۴ نہیں کر سکا.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو کتاب میں لکھ دیئے جائیں گے یا کسی اور موقع پر بیانکر دیئے جائیں گے.چالیس گُر ابھی ایسے باقی ہیں جن سے معلوم ہو سکتا کہ انسان کس طرح نیک بن سکتا ہے.اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات پر اس لیکچر کو ختم کرتاہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایسی بات ہے جس میں آپ نے دکھ کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اگر ہم نیک نہ بنیں تو ہماری غرض جو اس جماعت کے بنانے سے ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ اس صورت میں ہماری جماعت خدا کے فضل کی وارث نہیں بن سکتی اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان اخلاق کو پیدا کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے لئے ضروری قرار دئے ہیں.مَیں اُمید کرتا ہوں کہ وہ دوست جنہوں نے میرے اس سال کے لیکچروں کے نوٹ لئے ہیں اور جنہوں نے یہ لیکچر سُنے ہیں وہ عملی طور پر ان طریقوں کو استعمال کریں گے تاکہ ہم دنیا کو دکھا سکیں کہ ظاہری اعمال میں بھی ہماری جماعت کے برابر اور کوئی نہیں.سچ بات تو یہ ہے کہ اگر ہماری جماعت کا ہر ایک شخص اولیاء اللہ میں سے نہ ہو تو دنیا کو نجات نہیں دلائی جا سکتی اور ہم دنیا میں کوئی تغیر نہیں پیدا کر سکتے.یاد رکھو ہمارا مقابلہ دنیا کی موجودہ بدیوں سے ہی نہیں بلکہ ہمارا فرض خیالات بد کی رو سے مقابلہ کرنا بھی ہے.اور ہمیں خیالات کے اس دریا کا مقابلہ کرنا ہے جو ہر طرف لہریں مار رہا ہے.پس ہماری پوزیشن بہت ہی نازک ہے.مَیں احباب سے التجاء کرتا ہوں کہ احباب ایسا ہی بننے کی کوشش کریں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں بنانا چاہتے ہیں.اب مَیں حضرت مسیح موعودؑ کی دُعا پر اس لیکچر کو ختم کرتا ہوں اور خود بھی اس دُعا میں شامل ہوتا ہوں.حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:- ’’مَیں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ (یعنی جماعت احمدیہ) کے دلوں پر کارگر ہوں.خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریر یں الہام کر جو ان کے دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کے زہر کو دور کر دیں.میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہر ایک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل
۲۵۵ دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے.‘‘ ’’دُعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دمِ زندگی ہے کئے جائوں گا اور دُعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنا رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اُٹھا دے.اور باہم سچی محبت عطا کر دے.اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دُعا قبول ہوگی اور خدا میری دعائوں کو ضائع نہیں کریگا.‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دُعا قبول ہوگی اور خدا تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرے گا.مگر تم سوچ لو تم اس کے مصداق بنو گے یا بعد میں آنے والے؟ اگر بعد میں آنے والوں کے حق میں قبول ہوگی تو پھر ہمیں کیا فائدہ؟ اس لئے مَیں کہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دُعا کو مد نظر رکھ کر کوشش کرو کہ ہم ہی اس کے مصداق ہوں اور اس نظارہ سے ہمیں ٹھنڈک پہنچے جو حضرت مسیح موعودؑ نے کھینچا ہے.اس کے بعد مَیں دُعا کرکے جلسہ ختم کرتا ہوں اور جنہوں نے جانا ہے ان کو اجازت دیتا ہوں.بک ڈپو والے کہتے ہیں مَیں سفارش کروں کہ ان کی شائع کردہ کتابیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں ہیں احباب خریدیں.آپ لوگوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی اشاعت کریں.خود خریدیں اور پڑھیں اور ان کو دنیا میں پھیلائیں یعنی دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں.ا ال عمران :1۹1،۱۹۶ ! ابن ماجه کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں \" خيركم خيركم لا مله وأنا خيركم لا ملی ٣ التوبة :۱۱۹ م ملفوظات جلد اص ۲۰۵.”واذاجاء هم امر من الا من اوالخوف اذاعوابه و لو ردوه الى الرسول و الى اولی الامر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم\" (النساء:۸۴)
۲۵۶ : ، مسلم کتاب المساجد و مواضع السلوة باب نهى من اكل ثوما او بصلا او کرانا و نحوها.حقيقة الوحي ص۵ روحانی خزائن جلد ۲۴ ص۵ : دقیانوس.ایک ظالم حکمران جس کے عہد میں أصحاب کہف ہوئے.رسالہ الوصیت ۳۰ روحانی خزائن جلد ۲۰۳۲۸ ضمیمہ رسالہ الوصیت ص ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۰۳۱۹ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الجمعة باب قوله و اخرين منهم يلحقوا بهم ، المدثر:۳۲.البقر ::۱۳۰ بدر ۹ جنوری 1908ء نمبر ۱ ص۱۲ بخاری کتاب الادب باب منع السلعام والتكلف للشيف ام المومنون :۱۳،۱۵ والقارعة : ۷،۱۰ الا على :۱۰ بد ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ تقریر جلسہ سالانه الدهر.۴ ۲۳ بخاری کتاب المغازی باب حد بن کعب بن مالک ۲۴ سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب الاستنفار ۴۵ بخاری کتاب التوحيد باب السؤال باسماء الله تعالى والاستعانة بها \" کنزالعمال جلد وامه مطبوی جلبم ! بخاری کتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين ۲۸.بخاری کتاب الزکوة باب ما یذکر في الصدقة للنبي صلى الله عليه و سلم و بخاری کتاب القدر باب الله اعلم بما كانوا عاملین ۳۴ سیرت ابن ہشام على جلد اسلحہ ۳۷،۳۹۸ مطبوه مصر۱۹۴۶ء ۳۳ تذکرہ ۱۸۴- ایڈیشن چہارم ۳۴ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة المنفقون باب يقولون لئن رجعنا IA
۲۵۷ الى المدينة ليخرجن الا عزم- ۳۵ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۳، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان ۱۳۳۷ء ٣ البقرة:۲۸۵ ۳۸ التغابن :۱۷ ۳۰ قلائد الجواهر في مناقب الشيخ عبدالقادر جیلانی ۳۶ مولفه الشيخ محمد بن يحيى التاد في الحنبلی مطبوع عامرخانے ہیں مرد.در ثمین میں یہ اشعار اس طرح ہیں تیرے منہ کی ہی تم میرے پیارے امر تیری خاطر یہ سب بار الیا ہم نے ہم ہوئے خراسم تجھ سے بی اے خردل تیرے بدن سے تم آئے ملا ہم نے بخاری کتاب بد.الخلق باب اذا قال أحد كم أمين والملائكة في السماء امين فوافقت احداهما الا جری غفر له ما تقدم من ذنبه ۳۲ سنن ابو داود کتاب الجهاد باب النهي عن الوسم في الوجه والشرب في الوجه ۳۳ مسلم کتاب الفضائل باب توقيره صلى الله عليه و سلم و ترک اکثار سؤاله ۴۴ مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذكر بخاری کتاب الجمعة باب الليب - المعارج:۲۶،۲۵ يوسف :۸۸ ۵۴ بخاری کتاب التوحيد باب بحذركم الله نفسه الاعراف:۱۵۷ ۵۴ بخاری کتاب التعبير باب العلم من الشيطن ۵۵
انوار العلوم جلد۹ ۲۵۸ منہاج الطالبین ۵۲ آل عمران :۱۸۹ النزعت :۲ ۵۸ التين :۵ ق..۱۷ ۲۰ المنفتون :۹ الا الحجر:۴۳ يونس :۶۳ لحم السجدة :۳۲ يوسف :۸۸ هل الفجر:۳۱،۲۸ ۲۲ بخاری کتاب التوحيد باب کلام الرب مع جبریل و ندا.الله الملكة لا الجاثية :۱۴ ۷۸ الفتح:۳۰ ۲۹.التوبة :۱۱۹ مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذكر ای الانبیاء:۳۵ و نهج البلاغة حصہ سوم صنم و قول نمبر ۲۳۳ مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور میں عرفت الله بفسخ العزائم کے الفاظ ہیں.ملفوظات جلد ۳ص ۱۰۲،۱۳۵ بخاری کتاب الادب باب ما ينهى من السباب واللعن مسلم کتاب البر والصلة والادب باب النهى من قال ملک الناس شهادة القران صفحہ ۱۰۲روحانی خزائن جلد۶ ص ۳۹۸
۲۵۹ مستورات سے خطاب از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
انوار العلوم جلد۹ ۲۶۱ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مستورات سے خطاب (فرمودہ ۲۸ دسمبر ء بر موقع جلسہ سالانہ) حضور نے سورۃ الدھر کے پہلے رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس سورۃ میں بلکہ اس رکوع میں جو میں نے پڑھا ہے اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی زندگی کے ابتدائی ، درمیانی و آخیری انجام بتائے ہیں اس لئے یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے کامل رکوع ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھل اَتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا.دنیا میں اِنسان گناہ کا مرتکب تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے.اور تکبر اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.وہ باوجود آنکھوں کے نہیں دیکھتا اور باوجود کانوں کے نہیں سنتا.اور وہ یہ نہیں جانتا کہ ہر ایک اِنسان پر ایک زمانہ ایسا آیا ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب ، فقیر ہو یا بادشاہ ، کہ اس کا ذکر دنیا میں کوئی نہ کرتا تھا.ہر ایک شخص اپنی زندگی پر غور کر کے دیکھ لے.جس کی عمر آج چالیس سال کی ہے اکتالیس سال پہلے اس کو کون جانتا تھا.جس کی عمر پچاس سال کی ہے اکاون سال پہلے اس کو کون جانتا تھا.پس چاہے کتنا ہی بڑا اِنسان ہو خیال کرے کہ اس کی زندگی شروع کہاں سے ہوئی ہے.دنیا تو پہلے سے آباد چلی آرہی ہے.اور جب اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی دنیا آباد تھی اور یہ بعد میں آیا اور اس کے نہ آنے سے پہلے کوئی نقصان نہیں تھا اور دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا جابر و فاتح بادشاہ کو گذرا ہے.بڑے بڑے بادشاہ جو ایک وقت حکومت کرتے تھے ایک آیا کہ ان کو کوئی جانتا بھی نہ
انوار العلوم جلد۹ ۲۶۲ تھا.تو اِنسان کو چاہئے کہ اپنی پیدائش پر غور کرتا رہے اس سے اس میں تکبّر نہیں پیدا ہوگا اور وہ بہت سے گناہوں سے بچ جائیگا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا خلقنا اللانسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ فجعلنہ سمیعا بصیرا ہر ایک اِنسان پر ایسا زمانہ آیا ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی مذکور نہ تھا.پھر ہم نے اس کو مختلف چیزوں کے خواص سے سمیع اور بصیر اِنسان بنادیا.اِنسان کیا ہے.ان ہی چیزوں یعنی مختلف قسم کے اناجوں، پھلوں، ترکاریوں اور گوشت کاخلاصہ ہے جو ماں باپ کھاتے ہیں.بچہ ماں باپ سے ہی پیدا ہوتا ہے اور کبھی کوئی بچہ اآسمان سے نہیں گرا.دیکھو اگر کسی شخص کی غذا بند کردی جائے تو اس کے ہاں بچہ پیدا ہونا تو درکنار وہ خود بھی زندہ نہیں رہ سکے گا.پس بچہ ماں باپ کی اس غذا ہی کا خلاصہ ہے جو وہ کھاتے ہیں.پھر بچہ ہی سے روح پیدا ہوتی ہے عام لوگوں کا خیال ہے کہ بچہ تو ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے، روح کہیں آسمان سے آجاتی ہے جو اللہ کے پاس پہلے ہی موجود ہوتی ہے.مگر یہ خیال روح کی نسبت غلط ہے.صحیح یہ ہے کہ روح بھی ماں باپ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور یہ ایک بے ہودہ اور لغو خیال ہے کہ بچہ تو ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے اور روح آسمان سے آتی ہے.یہ آریوں کاخیال ہے کہ روح ہمیشہ سے چلی آتی ہے.اس طرح خداروح کا خالق تو نہ ہؤا.سورۃ دھر میں اللہ تعالیٰ ماں کے پیٹ میں بچہ کے نشوونما کو اس طرح بتاتا ہے کہ جس وقت دنیا میں اس کا کوئی مذکور نہ تھا ہم نے چند چیزوں کے خلاصہ سے اس کو سمیع اور بصیر اِنسان بنایا.اور یہ اس غذا ہی کا خلاصہ جو ماں باپ کھاتے تھے.بچہ کی پیدائش اور روح کی مثال اس طرح ہے جس طرح جَو اور کھجور سے سرکہ بناتے ہیں اور سرکہ سے شراب.اس طرح بچہ سے روح پیدا ہوجاتی ہے.گلاب کا عطر گلاب کے پھولوں کا ایک حصہ ہے جو خاص طریقہ پر تیار کرنے سے بن جاتی ہے اسی طرح بچہ کے جسم سے ہی روح تیار ہو جاتی ہے.ہمارے ملک میں تو ابھی اس قدر علم نہیں ہے یورپ میں دواؤں سے عطر تیار کرتے ہیں.دو ایک دوائیاں ملائیں اور خوشبو بن گئی.پس جس طرح پھولوں سے خوشبو اور جَو سے شراب بن جاتی ہے اسی طرح جسم سے روح پیدا ہو جاتی ہے.پہلے بچے کا جسم پیدا ہوتا ہے اور پھر جسم میں ہی روح پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے.انا خلقنا الانسان من نطفۃ کہ گوشت، ترکاریاں، پانی، طرح طرھ کے پھل، ہر ایک قسم کی دالیں جو ماں باپ کھاتے ہیں ان
انوار العلوم جلد۹ ۲۶۳ مختلف قسم کی غذاؤں کا خلاصہ نکال کر ہم نے اِنسان کو پیدا کیا.پھر انا ھدینہ السبیل اما شاکراً و اما کفورًا ہم نے جو سب چیزوں کے نچوڑ سے خلاصہ بن گیا تھا.اس پر انعام کیا اور وہ بولتا چالتا اِنسان بن گیا.پس تم دیکھو کہ تمہاری ابتداء اس طرح پر ہوئی.اور پیدائش کے لحاظ سے تمہارے اور گائے، بھیڑ، بکری میں کوئی فرق نہیں.اگر فرق ہؤا تو احسان سے ہؤا ہے اور وہ یہ کہ اس کی طرف وحی بھیجی، اس پر اپنا کلام اتارا اور اس کے اندر یہ قوت رکھ دی کہ چاہے تو شکر کرے اور چاہے تو انکار کرے.ہم نے اِنسان کو ان حقیر چیزوں سے پیدا کیا اور اس میں یہ قوت رکھ دی کہ چاہے ہماری راہ میں جدوجہد کر کے ہماری رضا کو حاصل کر لے اور چاہے ہمارے نبی کا منکر ہو جائے.اس کو جو اقتدار حاصل ہے ہم اس میں دخل نہیں دیتے.ہاں خدا کا کلام اس پر اترا اور اسے بتلایا کہ اس پر چل کر ترقی کر سکتے ہو.کوئی کہہ سکتا ہے خدا نے اِنسان کو یہ قدرت ہی کیوں دی اور اس کی آزاد کیوں چھوڑا اس سے اس کی کیا غرض تھی؟ سو معلوم ہو کہ اگر خدا اِنسان کو یہ قدرت نہ دیتا تو وہ ترقی بھی نہ کرتا.دیکھو آگ کی خاصیت جلانا ہے.آگ میں جو چیز بھی پڑے گی وہ اس کو جلا دے گی.چاہے وہ چیز آگ جلانے والے کی ہی کیوں نہ ہو.دیکھو اگر کسی گھر میں چراغ جل رہاہو اور وہ گر پڑے اور سارا گھر جل جائے تو کوئی چراغ کو ملامت نہیں کرے گا.اسی طرح کوئی شخص آگ کو کبھی کوئی الزام نہیں دیتا.کیونکہ جانتے ہیں کہ آگ کی خاصیت جلانا ہے.لیکن اگر کوئی اِنسان کسی کو بلاوجہ انگلی بھی لگائے تو لوگ اس کو ملامت کریں گے.کیونکہ اس میں یہ بھی مقدرت ہے کہ کسی کو ایذاء نہ پہنچائے.اسی طرح دیکھو مکان بھی اِنسان کو سردی سے بچاتا ہے مگر کبھی کسی اِنسان نے مکان کا شکریہ ادا نہیں کیا.اس کے مقابلہ میں کوئی اِنسان کسی کو ایک کرتا دے دیتا ہے تو اس احسان مانتا ہے.کیونکہ وہ جانتا کہ اس کو اِختیار تھا.چاہے دیتا چاہے نہ دیتا تو آگ اگر بچہ کو جلادے تو بھی کوئی آگ کی مذمت نہیں کرے گا اور اِنسان اگر انگلی بھی لگائے تو اسے برا بھلا کہیں گے.اس کی کیاوجہ ہے یہی کہ آگ کو اِختیار نہیں مگر اِنسان کو اِختیار تھا.چاہے دکھ دیتا چاہے نہ دیتا.اسی طرح پانی کا کام ہے ڈبونا.سمندر میں کئی اِنسان ڈوبتے رہتے ہیں.مگر کبھی کوئی سمندر کو ملامت نہیں کرتا.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ قانون ہے.اس میں سمندر کو اِختیار نہیں.پھر سارے انعام اِختیار کے ساتھ وابستہ ہیں.اِنسان کو اس لئے بھی اِختیار دیا گیا کہ اس کو انعام دیا جائے.اور جو انعام کے قابل ہو سکتا ہے وہی سزا کا بھی مستحق ہو سکتا ہے.بعض دفعہ بچہ زمین پر گر پڑتا ہے تو
انوار العلوم جلد۹ ۲۶۴ زمین کو پیٹتا ہے.عورتیں کہتی ہیں.آؤ زمین کو پیٹیں اس نے تمہیں گرایا.مگر یہ محض ایک تماشا ہو تا ہے.جو بچہ کے بہلانے کے لئے ہوتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنسان کو اِختیار اس لئے دیا کہ چاہے بڑھ چڑھ کر انعام لے جائے چاہے سزا کا مستحق ہو جائے.کئی مسلمان مرد اور عورتیں کہتی ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰٰ نے ہمیں بنانا تھا بنا دیا ہمیں کسی کوشش کی ضرورت نہیں.اگر یہ صحیح ہے تو بتلاؤ پھر اب خدا کا کیا حق ہے کہ ہم میں سے کسی کو سزا دے یا انعام.دیکھو آگ کا کام خدا نے جلانا اور پانی کا کام ڈبونا رکھا ہے.اب اگر کوئی کسی چیز کے جلنے پر آگ کو یا ڈبونے پر پانی کو مارے تو چوہڑی چماری بھی کہے گی یہ پاگل ہے.مگر تم میں سے بہت سی عورتیں جو کہتی ہیں اگر ہماری تقدیر میں جہنم ہے تو جہنم میں ڈالے جائیں گے اور اگر بہشت ہے تو بہشت میں جائیں گے کچھ کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے.دیکھو پانی یا آگ کو مارنے والی عورت کو تمام پاگل کہتے ہیں اس لئے کہ آگ یا پانی کو جو کام تھا اس نے وہی کیا.پھر خدا اگر اِنسان کو ایک کام کرنے کے لئے مجبور بنا کر پھر سزا دیتا تو کیا نعوذ با للہ لوگ اسے پاگل نہ کہتے.کیونکہ انہوں نے وہی کام کیا جو اس کی تقدیر میں تھا پھر چور، ڈاکو، جواری سب انعام کے قابل ہیں کیونکہ انہوں نے وہی کام کیا جو ان کے مقدر میں تھا اور جس کام کے لئے وہ پیداکئے گئے تھے.مگر اللہ تعالیٰٰ اس کی تردید فرماتا ہے اور کہتا ہے اگر جبر ہو تا تو کافر نہ ہوتے.کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو مار مار کے لوگوں سے کہے کہ مجھ کو گالیاں دو یا میرے بچہ کو مارو.جب تم میں سے کوئی ایسا نہیں کرتا تو خدا نے جو زبان دی، کان دیئے تو کیا اس لئے کہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو گالیاں دو.جب دنیا میں کوئی کسی کو اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کیوں لوگوں کو برے کاموں کے لئے مجبور کرنے لگا.اگر اس نے مجبور ہی کرنا ہوتا تو سب نیکی کے لئے مجبور کرتا.پس یہ غلط خیال ہے اور خدا اس کو ردّ کرتا ہے.عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہو تا ہے.کسی کا بیٹا بیمار ہو جائے تو کہتی ہے یہی تقدیر تھی.کوئی اور بات ہو جائے تو تقدیر کے سر تھوپ دیتی ہے.میں کہتا ہوں اگر ہر بات تقدیر سے ہی ہوتی ہے اور اِ نسان کا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا تو ایک عورت روٹی کیوں پکاتی ہے تقدیر میں ہو گی تو ہوجائے گا مگر ایسا کوئی نہیں کرتا.ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آرہا تھا اسی گاڑی میں پیر جماعت علی شاہ صاحب لاہور سے سوار ہوئے.حضرت صاحب ایک دفعہ سیالکوٹ گئے تو انہوں نے یہ فتویٰ دیا
انوار العلوم جلد۹ ۲۶۵ تھا کہ جو کوئی ان کے وعظ میں جائے یا ان سے ملے وہ کافر ہو گا اور اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی کیونکہ یہ مسئلہ ہے کہ جب مرد کافر ہو جائے تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ایک احمدی ان کے وعظ میں گیا اور ان سے کہا آپ نے میری شکل دیکھ لی ہے.میں احمدی ہوں.اس لئے آپ اب کافر ہو گئے اور آپ کی بیوی کو طلاق ہو گئی.اس پر سب لوگ اس کو مارنے لگ گئے.خیرانہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے؟ میں نے کہا.بٹالہ.انہوں نے کہاکیا خاص بٹالہ.یا کسی اور جگہ میں نے کہا.بٹالہ کے پاس ایک گاؤں ہے وہاں.انہوں نے کہا.اس گاؤں کا کیا نام ہے.میں نے کہا قادیان.کہنے لگے.ہاں کیوں جاتے.میں نے کہا میرا وہاں گھر ہے.کہنے لگے کیا تم میرزا صاحب کے رشتہ دار ہو.میں نے کہ میں ان کا بیٹا ہوں.ان دنوں ان کا کسی احمدی کے ساتھ جھگڑا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں اس احمدی سے کہوں کہ مقدمہ چھوڑ دے.مگر انہوں نے پہلے غرض نہ بتائی اور کچھ خشک میوہ منگوا کر کہا.کھاؤ.میں نے کہا مجھ کو نزلہ کی شکایت ہے.کہنے لگے.جو کچھ تقدیر الہٰی میں ہوتا ہے.وہی ہوتا ہے.میں نے کہا.اگر یہی ہے.تو آپ سے بڑی غلطی ہوئی.ناحق سفر کی تکلیف برداشت کی اگر تقدیر میں ہوتا.تو آپ خود بخود جہاں جانا تھا پہنچ جاتے اس پر خاموش ہو گئے.تو شدی کے متعلق بالکل غلط خیال سمجھا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم کسی کو مومن یا کافر نہیں بناتے.بلکہ وہ خودہی شکر گزار بنده یا کافر بنتا ہے.اور ہم نے جب اس کو مقدرت دے دی تو حساب بھی لینا ہے.دیکھو جس نوکر کو مالک اِختیار دیتاہے کہ فلاں کام اپنی مرضی کے مطابق کر، اس سے محاسبہ بھی کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا اعتدنا للکفرین سلسلا وأغللا و سعيرا.جو لوگ انکار کرتے ہیں.ان کے لئے زنجیریں اور طوق ہے اور الگ رکھی ہے.وہ زنجیر کیا ہے.یہ رسوم ہیں جن کا تعلق قوم کے ساتھ ہوتا ہے.مثلا ًپیٹے کا بیاہ کرنا ہے.تو خواہ پاس کچھ نہ ہو قرض لے کے رسوم پوری کرنی ہوتی ہیں.یہ زنجیر ہوتی ہے جو کافر کو جکڑے رہتی اور وہ اس سے علیحدہ نہیں ہونے پاتا.اس کے مقابلہ میں مومن ہے اس کے نکاح پر کچھ خرچ نہیں ہوتا.اگر توفیق ہے تو چھوہارے بانٹ دو.اگر نہیں تو اس کے لئے بھی جبر نہیں.پھر اغلال وہ عادتیں ہیں جن کا اپنی ذات سے تعلق ہے.اسلام عادتوں سے بھی روکتا ہے.شراب، حقہ ، چائے کسی چیز کی بھی عادت نہ ہونی چاہے.إنسان عادت کی وجہ سے بھی گناہ کرتا ہے.حضرت صاحب کے زمانہ میں حضرت صاحب کے مخالف رشتہ داروں میں سے بعض لوگ حقہ لے
انوار العلوم جلد9 ۲۶۶ کر بیٹھ جاتے کوئی نیا احمدی جسے حقہ کی عادت ہوتی وہاں چلا جاتا تو خوب گالیاں دیتے.چنانچہ ایک احمدی ان کی مجلس میں گیا انہوں نے حقہ آگے رکھ دیا اور حضرت صاحب کو گالیاں دینے لگ گئے.اس سے اس احمدی کو سخت رنج ہوا کہ میں ان کی مجلس میں کیوں آیا.انہوں نے جب دیکھا کہ یہ کچھ بولتا نہیں تو پوچھامیاں تم کچھ بولے نہیں.احمدی نے کہا.بولوں کیا.میں اپنے آپ کو ملامت کر رہا ہوں کہ حقہ کی عادت نہ ہوتی تو یہ باتیں نہ سننی پڑتیں.آخر اس نے عہد کیا میں آئندہ کبھی حقہ نہ پیوں گا.تو عادت اِنسان کو گناہ کے لئے مجبور کر دیتی ہے.پھر سعیر وہ آگ ہوتی ہے جو ان کے اندر لگی ہوتی ہے اور انہیں تسلی نہیں ہونے دیتی.دیکھو ایک بت پرست کے سامنے جب ایک مومن اپنے خدا کی وحدانیت بیان کرتا ہے.تو وہ کس قدر جلتا ہے اور ایک عیسائی کے سامنے جب ایک یہودی کہتا ہے کہ تمہارا خداوہی ہے.جس کو ہم نے کانٹوں کا تاج پہنایا اور یہ یہ تکلیفیں دیں تو اس کے سینہ میں کس قدر جلن پیدا ہوتی ہے.تو کافروں کے دلوں میں ایک آگ ہوتی ہے جو ان کو جلاتی ہے.ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمرؓ سے کہنے لگا.مجھ کو تمہارے مذہب پر رشک آتا ہے اور میرا سینہ جلتاہے کہ کوئی بات نہیں جو اس شریعت سے چھوڑی ہو کاش کہ یہ سب باتیں ہمارے مذہب میں ہوتیں.تو یہ ایک آگ ہے جو ان کو جلاتی ہے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ مومن کا حال اس آیت میں بیان فرماتا ہے.ان الأبرار يشربون من كأس كان مزاجها کافورایعنی کافروں کے مقابلہ میں خداوند کریم مومن کو کافوری پیالہ پلاتا ہے.کافور کی خاصیت ٹھنڈی ہے.پس جہاں کافر کا سینہ جلتاہے اس کے مقابلے میں مومن کا مزاج کافور ہو جاتا ہے.یعنی جہاں کافر جلتا ہے.مومن خوش ہوتا ہے کہ میرے مذہب جیسا کوئی مذہب نہیں.توحید کی تعلیم اور کلام الہٰی اس کے سامنے ہوتا ہے.ایک مسلمان جس وقت قرآن پڑھتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا پر ایمان لاتے ہیں ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، ان کو الہام ہوتا ہے، تو اس کادل اس بات پر کس قدر خوش ہوتا ہے کہ میں خدا سے کس قدر قریب ہوں.اسلام پر چلنے سے ہی خدا سے تعلق ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں وید ماننے والا جب وید پڑھتا ہے تو کس قدر کڑھتا ہے کہ خداجو وید کے رشیوں سے کلام کرتا تھا اب مجھ سے نہیں کرتا میں کیا اس کا سوتیلا بیٹا ہوں.تو مومن خوش ہوتا ہے اور کافر جلتاہے.مگروہ کا فوری پیالہ جو مومن کو دیا جاتا ہے مشکل سے ملتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.عینا يشرب بها عباد الله يفجرونها تفجيرا.جب رسول کریم ﷺکے زمانہ میں لوگ ایمان
انوار العلوم جلد9 ۲۶۷ لائے تو قتل کئے گئے.صحابہ کو بڑی بڑی تکلیفیں دی گئیں.حضرت بلال کو گرم ریت پر لٹا کر مارتے اور کہتے کہولات خداہے.فلاں بت خدا ہے.مگر وہ لا اله الا الله ہی کہتے.باوجود اسقدر تکلیفوں کے انہوں نے اپنا ایمان نہ چھوڑا.تو ایمان لانا کوئی معمولی بات نہیں.جنت کے اردگرد جو روکیں ہیں.اور مشکل سے بنتی ہیں.اور جو لوگ ایمان کی نہر کھود کر لاتے ہیں وہ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.یہاں جو نہر سے مشابہت دی ہے تو اسی لئے کہ نہربڑی مشکل سے کُھدتی ہے.اگر اکیلے کسی کو کھودنی پڑے تو کبھی نہ کھود سکے.اب اگر ہماری جماعت کے مرد یا عورتیں خیال کریں کہ ہم کو یونہی ایمان مل جائے اور کوئی قربانی نہ کرنی پڑے تو یہ ناممکن ہے.ایمان کے لئے بہت سی قربانیوں کی ضرورت ہے.قربانیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک تو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں.اور دوسری بندہ آپ اپنے اوپر عائد کرتا ہے.پہلی قربانیاں جو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں.وہ اس قسم کی ہوتی ہیں مثلا ًکسی کا بچہ مرجائے یا کسی کی بیوی مر جائے.اس میں بندے کا دخل نہیں ہوتا.اس کے علاوہ جو دو سری قربانی ہے اس میں انسان کا دخل ہوتاہے کہ بھائی بند، بیٹا، بیوی سب مخالف ہیں اور وہ ایمان لاتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا.یہ ہے جو ایمان کی نہر کو چیر کر لاتا ہے.اسی طرح ایک عورت ہے جس کی سمجھ میں حق آگیا یا کوئی لڑکالڑکی ہے جس پر حق کھل گیا اور وہ اپنے ایمان پر قائم رہے.اور مخالفت کا خیال نہ کرے تو یہی نہر ہے جو کھود کر لاتے ہیں.بچپن میں ایمان لانے والوں میں بھائی عبدالرحمنٰ قادیانی ہیں جو پہلے ہندو تھے ان کے والد آکر ان کو لے گئے اور جا کر ایک کمرہ میں بند کر دیا.چھ مہینے بند رکھا.ایک دن انہیں موقع ملا تو وہ پھر بھاگ کر یہاں آگئے.تو ایمان کی نہرحاصل کرنے کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہے.دنیا میں جب کوئی کپڑا، جوتی، روپیہ غرض کوئی چیز مفت نہیں ملتی تو ایمان جیسی نعمت کیسے مفت مل جائے.اور نہر کا لفظ بتا رہا ہے کہ یہ بڑا مشکل کام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مومن وہی ہے جو قربانی کرتا ہے.اس سے وہ ترقی کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یوفون بالنذر ويخافون یوما كان شرہ مستطيرا.وہ خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں اس دن سے کہ انجام کادن ہو گا.انجام کادن ایک دنیا میں بھی آتا ہے اور ایک آخرت میں آئے گا.اول آپ قربانی کرتے ہیں.پھر اس سے بڑھ کر دُنیا میں خدا کے مظہر بن جاتے ہیں.ويطعمون الطعام على حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا.خدا رزق دیتا ہے وہ بھی لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں.حتی کہ آپ محتاج ہوتے ہیں مگر اپنا کھانا غریبوں،
انوار العلوم جلد9 ۲۶۸ مسکینوں اور قیدیوں کو کھلا آتے ہیں.پھرانما نطعمکم لوجہ الله لا تريد منكم جزاء ولا شکورا یہ کھانا کھا کر احسان نہیں جتاتے کہ فلاں وقت ہم نے یہ احسان کیا تھایا دعوت دی تھی بلکہ ان کا احسان اپنے اوپر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو نیکی کا موقع دیا.ان کو کسی کے ساتھ سلوک کرنے میں مزا آتا ہے.پس مؤمن جس کے ساتھ سلوک کرتا ہے اس کا احسان سمجھتاہے کہ اس نے شکر کا موقع دیا.على حبہ کا یہ مطلب ہے کہ یہ جو کچھ کرتا ہے اللہ ہی کے لئے کرتا ہے.شہرت کے لئے نہیں کرتا.تو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کرتا ہے اس کا ایک ہی مقصود ہوتا ہے کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.پھر ان کی احسان کرنے کی ایک اور بھی غرض ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا- اس دن خدا ہمارے کام آئے جو کہ بہت ڈراؤنا ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو ان خطرات سے بچائے اور ہم پر رحم کرے.ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًا.ایسے ایمان والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ٰایسا سلوک کرے گا کہ وہ قیامت کے دن محفوظ رہیں گے اور ان کو اچھا بدلہ دے گا.پھرفرماتا ہے وَ جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّ حَرِیْرًا.یہ بدلہ ان کو ان کے ایمان کے بدلے میں ملے گا.مُّتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىٕكِۚ-لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِیْرًاوہ سب سب کے سب بادشاہ ہوں گے.وہاں نہ گرمی ہوگی نہ سردی.وہ ایک نئی دنیا ہو گی وہاں گرمی بھی نہیں ہوگی یعنی نہ وہاں جوش آۓ گا اور نہ ٹھنڈہی ہوگی.یعنی نہ جوش کم ہو جائے گا ایک ہی رنگ ہو گا.دیکھو قرآن کریم کی تعلیم کیا پرحکمت ہے قرآن نے دوزخ کے عذاب میں بتلا دیا کہ وہاں سردی کا بھی عذاب ہو گا اور گرمی کا بھی.سرد ملکوں کے لوگوں کو سردی کے عذاب سے ڈرایا ہے اور گرم ملکوں کے لوگوں کو گرمی سے.بعض ملک اسقدر برفانی ہیں کہ وہاں کے لوگ برف ہی کے مکان بنا لیتے ہیں.وہاں پر اگر کسی کو پانی پینا ہوتا ہے تو برف کو رگڑ رگڑ کر پانی بناتے ہیں.وہاں آگ ایک نعمت سمجھی جاتی ہے.چونکہ انجیل میں صرف آگ کے عذاب کا ہی ذکر ہے اس لئے جب اس برفانی ملک میں ایک پادری گیا اور وہاں جا کر عیسائیت کی تبلیغ کی اور کہا کہ اگر تم نہ مانو گے تو خدا تم کو آگ میں ڈالے گا تو لوگ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ اوہو! ہم آگ میں ڈالے جائیں گئے.کیونکہ آگ ان کے لئے نعمت تھی.اس طرح جب پادریوں نے دیکھا کہ یہ آگ سے نہیں ڈرتے تو انہوں نے ایک کمیٹی کی اور کہا کہ آگ کی جگہ برف کاعذاب لکھ دو.مگر قرآن شریف میں
انوار العلوم جلد9 ۲۶۹ کسی اِنسانی دخل کی ضرورت نہیں ہے.اس میں برف کا عذاب موجود ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں.پھرفرماتا ہے.وَ دَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلٰلُهَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوْفُهَا تَذْلِیْلًا؟ - ہاں سائے جھکے ہوئے ہوں گے اور وہاں ہر قسم کے کھانے ہوں گے.(حضور نے اسی طرح دیگر آیات کی تفسیر فرماتے ہوئے اس آیت کے متعلق کہ ویطاف عليهم ولدان مخلدون اذارايتهم حسبتهم لولوء منثورا.) فرمایا: اب یہ عورتوں کے متعلق ہے.اور عورتیں خوش ہوں گی کہ ان کے آگے جو بچے پھریں گے وہ وہی بچے ہوں گے جو ان کے مرجاتے ہیں.وہ خوبصورت موتیوں کے طرح ہوں گے.وہ ہمیشہ ایک ہی سے رہیں گے.اس دنیا میں تو بچہ بیمار ہو جاتا ہے.بعض دفعہ اس کی شکل بگڑ جاتی ہے.پھر کوئی بچہ ذہین ہوتا ہے.کوئی کند ذہن ہوتا ہے.مگر وہ سب بچے ایک سے ہوں ہے.گویا موتی بکھرے ہوئے ہوں گے.(چونکہ مردوں میں تقریر فرمانے کا حضور کا وقت ہو گیا تھا.اس لئے حضورنے بقیہ آیات کی مختصر توریرفرما کر ان الفاظ پر تقریر ختم فرمائی کہ ) جب تک تم احمدیت کی تعلیم کو پورا نہیں کروگی احمدی کہلانے کی مستحق نہیں.میں چاہتا ہوں کہ تم پوری احمدی بنو تا کہ اگر ایسا وقت آئے جب ہمیں خدا کے دین کے لئے تم سے جدا ہونا پڑے تو تم ہمارے بچوں کی پوری پوری تربیت کر سکو.دنیا اس وقت جہالتوں میں پڑی ہوئی ہے تم قرآن کو سمجھو اور خدا کے حکموں پر چلو.(الفضل ۲ فروری ۱۹۲۶ء)
احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت (فرموده مئی ۱۹۲۶ء) نوٹ: مبلّغ امریکہ حضرت مولوی محمد دین صاحب کی کامیاب مراجعت پر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ان کی خدمت میں ایڈ ریس پیش کیاگیا.اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسح الثانی نے حسب ذیل تقرر فرمائی:.میں اسی انتظام دعوت سے پہلے کہہ رہا تھا کہ نہ صرف جس کو مدعو کیا جاۓ اس کی بیوی کو بھی بلانا چاہئے بلکہ جیسا کہ اسلامی طریق ہے درمیان میں پردہ ڈال کر دوسری طرف مدعو کرنے والی عورتیں بھی بیٹھی ہوں.ہمارے ہاں پنجابی دعوت کا یہ طریق ہے کہ مہمان بیٹھا کھاتاہے اور میزبان ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے مگر اسلامی طریق یہ ہے کہ میزبان بھی کھاتا ہے.میں پچھلے دنوں سے بجلی کی تاریخ یورپ کے سفر کے بعد کی نہیں بلکہ پہلے کی ہے یہ سمجھ رہا تھا اور میں نے اس کا اس مضمون میں ذکر بھی کیا تھا جو یورپ جانے کے وقت لکھا تھا کہ اسلام پر حملہ کرنے والا اہل مغرب کامذہب نہیں بلکہ ان کا تمدن ہے.اس تمدن نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ بعض بری باتیں بھی اچھی اور اچھی باتیں بری ہو گئی ہیں.اگر ہمارے مذہب نے سب اچھی باتیں بیان کی ہیں.مگر چونکہ مسلمانی در کتاب والا معاملہ ہے مسلمانوں کا ان باتوں پر عمل نہیں.وہ کتابوں میں بند پڑی ہیں اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہم میں پائی جاتی ہیں اور نہ لوگ یہ بات ماننے کے لئے تیار ہیں.ورنہ ہماری مثال آریوں کی طرح ہوگی جو ہر ایجاد کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ اس کا ذکر وید میں موجود ہے.اگر ہم بھی یورپ والوں سے کہیں کہ اچھی باتیں ہمارے مذہب
انوار العلوم جلد ۲۷۴ احمدی خواتین کی تعلیم تربیت میں موجود ہیں تو وہ ہم پر ہنسیں گے جب تک کہ ہم ان باتوں پر عمل کر کے نہ دکھائیں.میں نے بتایا تھا کہ یورپین تمدن کی وہ باتیں جو قرآن کریم اور حدیث کے ماتحت نہیں ان کو تو رد ّکر دینا چاہئے لیکن جو قرآن اور حدیث میں موجود ہیں انہیں اختیار کر لینا چاہئے.مگر اس طرف توجہ نہ ہوئی اور اس بارے میں اتنی روک مردوں کی طرف سے نہیں ہے جتنی عورتوں کی طرف سے ہے.عورتوں میں اتنی دلیری نہیں ہے کہ وہ پرانی رسموں اور رواجوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں.اگر چہ ہم اس وقت پورے طور پر اس بات کا فیصلہ نہ کر سکیں کہ عورتوں کو کسی حد تک مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے مگر یہ تو موٹی بات ہے کہ اسلام نے مردوں عورتوں کا اتحاد ایک حد تک ضروری قرار دیا ہے.اسلام نے مرد عورت کا ایک حد تک ملنا منع رکھا ہے مگر ضرورتوں کے موقع پر ایک حد تک ملنا جائز بھی رکھی ہے.حدیث میں آتا ہے اگر مرد سوار ہو اور عورت پیدل جارہی ہو تو عورت کو اپنے پیچھے سوار کرلے.۱؎ جب ایک مرد ایک عورت کو اس طرح سوار کر کے گھر پہنچا سکتا ہے تو قوی اور دہی کاموں میں کیوں مردو عورت مل کر کام نہیں کر سکتے.وہ وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب مردو عورتیں مل کر کام کریں گے.معلوم نہیں ساری زندگی میں آتا ہے یا بعد میں مگر آئے گا ضرور.البتہ ڈر ہے تو اس بات کا کہ عورتوں کو اسلام نے جو آزادی دی ہے وہ نہ دینے کی وجہ سے وہ حدود بھی نہ ٹوٹ جائیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں.ماسٹر دین صاحب نے اپنی تقرے میں ایک نکتہ بیان کیا ہے.اور یہ ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے.اگلے جہاں کی جنت تو الگ رہی اس دنیا کی جنت بھی ماں کے قدموں کے نیچے ہے.تعلیم و تربیت کا جس قدر اثر بچہ پر ہوتا ہے اتنا اور کسی چیز کا نہیں ہو تا اور یہ ماں کے سپرد ہوتی ہے.ہمیں تعلیم و تربیت میں جس قدر مشکلات درپیش ہیں ان میں عورتوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے.عورتیں کہتی ہیں ہمیں پیچھے رکھا ہوا ہے ہمیں کوئی کام نہیں دیا جا تا- میں کسی پر الزام نہیں لگاتا.مگر اس ظلم کی وجہ سے جو متواتر عورتوں پر ہوتا چلا آیا ہے اور وہ گری ہوئی ہیں میں یہ کہنے سے بھی باز نہیں روستا تا کہ وہ خود بھی ہمت نہیں کرتیں کہ ہمارا ہاتھ بٹائیں.ٍ ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتوں کے لئے کوئی باہر کا کام کرنا یالازمت کرنا نا جائز ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ عورتوں کے کثیر حصہ کا کام گھر میں ہی ہے.یورپ میں جہاں اتنی آزادی اور اتنی تعلیم ہے وہاں نے نوے فیصدی عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ عورتیں کثرت سے مردوں کی طرح کاروبار میں حصہ لے سکیں جب تک یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ یہ ان کی
۲۷۵ شادی ہو گی اور نہ بچے جنیں گی.پس جب یورپ کی عورتیں انتہائی تعلیم پاکر بھی زیادہ تر گھرہی میں کام کرتی ہیں تو معلوم ہوا عورتوں کی تعلیم کا جزو اعظم تربیت اولاد اور گھر کا کام ہی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کے کپڑے سینا اور پہنانا ہی عورتوں کا کام ہے بلکہ بچوں کو تعلیم دینا بھی ان کا فرض ہے.اور اس کے لئے ان کا خود تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے.اس کے علاوہ بچہ کی مذہبی تعلیم ، امور خانہ داری کا انتظام یعنی حساب کتاب رکھنا، صحت کا خیال رکھنا، خوراک کے متعلق ضروری معلومات ہونا، اوقات کی پابندی کا خیال رکھنا، یہ جاننا کہ سونے جاگنے، اندھیرے روشنی وغیرہ کا صحت پر کیا اثر ہوتا ہے کیونکہ عورت نے بچہ کے متعلق ان باتوں کو اس وقت کرتا ہے جس وقت کے اثرات ساری عمر کی کوششوں سے دور نہیں کئے جاسکتے.مگر ہماری عورتیں ابھی ان باتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتیں.اس کے لئے سب سے پہلی چیز جو ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ عورتوں کا میسّر آنا ہے.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ پہلے استاد عورتیں میسّر آجائیں.مردوں کے ذریعہ لڑکیوں کو ایک عرصہ تک تو تعلیم دی جاسکتی ہے زیادہ عمر تک نہیں دی جاسکتی کیونکہ قدرتی طور پر اور رسم و رواج کے لحاظ سے لڑکی جب جوانی کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس میں ایک حد تک حیا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے نے یورپ میں ضروری نہیں سمجھا جاتا لیکن ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.اب ادھر لڑکی میں اس کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اور مرد اُستاد اسے پڑھانے والا ہو تو اس کے جذبات اور احساسات دب جائیں گے.کیونکہ وہ اس عمر کی اُمنگیں اور جذبات کا اظہار نہ کر سکے گی جو عورت ُاستاد ہونے پر اس کے سامنے کر سکتی تھی.ہمیں لڑکیوں کے لئے اپنے استادوں کی ضرورت ہے جو موقع اور محل پر سنجیدگی اور متانت سے بھی کام لیتے ہوں لیکن انہیں ہنسی بھی آسکتی ہو.کھیل کود میں بھی اپنے شاگردوں میں حصہ لے سکیں اور ان میں خوش طبعی پیدا کر سکیں.یہ باتیں ہم مردوں کے ذریعہ لڑکیوں میں پیدا نہیں کر سکتے کیونکہ مردوں کے ذریعہ یا تو ان میں وہ باتیں پیدا ہو جائیں گی جنہیں ہم پیدا نہیں کرنا چاہتے اور جن کے پیدا کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا یا وہ مرد ہو جائیں گی.ان میں زندگی کی روح باقی نہ رہے گی اس لئے ضروری ہے کہ لڑکیوں کے لئے عورتیں اُستاد مہیا کی جائیں.جن عورتوں کی پڑھائی کا علیحده انتظام کیا گیا ہے وہ دراصل اُستانیاں ہیں نہ کہ طالبات.ان میں زیادہ شادی شدہ ہیں اور تھوڑی بِن بیاہی ہیں.پھر زیادہ وہ ہیں جو پہلے ہی تعلیم یافتہ ہیں اور
۲۷۶ تھوڑی ایسی ہیں جو کم علم رکھتی ہیں.ان سے ہم اُمید رکھتے ہیں کہ جو اپنے گھروں میں رہنے والی ہوں گی وہ بھی وقت دیں گی اور سکول میں لڑکیوں کو پڑھائیں گی تاکہ لڑکیوں میں تعلیم بڑ ھے.دنیا میں یہ عجیب بات ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کسی چیز کا منبع وسیع ہوتا ہے مگر علم میں یہ بات ہے کہ منبع چھوٹا ہوتا ہے اور آگے جا کر زیادہ وسعت ہو جاتی ہے.اُستاد سے لڑ کا زیادہ علم رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شاگرد کو استاد سے ورثہ میں تجربہ اور عقل بھی ملتی ہے.اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں بیشک یہ عورتیں ایسی نہ ہوں گی جنہیں ہم مکمل اُستانیاں بنا سکیں مگر ان سے جو تعلیم پائیں گی وہ ان سے اعلیٰ ہوں گی.پھر ان سے جو تعلیم پائیں گی وہ ان سے اعلیٰ ہوں گی.یہی یورپ میں ہوا اور یہی یہاں بھی ہو سکتا ہے.ہم سکول میں بھی مرد مدرّس رکھ کر تعلیم دلا سکتے ہیں مگر اس طرح اسی کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی جیسی اس صورت میں ہے کہ مردوں کے ذریعہ استانیاں تیار کی جائیں اور وہ آگے لڑکیوں کو پڑھا ئیں تاکہ وہ اپنی شاگردوں سے ہنس کھیل بھی سکیں.تربیت تب ہی عمدگی سے ہو سکتی ہے جبکہ استاد شاگرد آپس میں کھیل بھی سکیں، مرد یہ نہیں کر سکتے.ہاں اگر یہ استانیاں کام کی ہو جائیں تو یہ لڑکیوں سے مل کر رہ سکیں گی جو لڑکیوں کی استاد بھی ہوں گی اور ہمجولی بھی.لڑکیاں ان سے کھل کر باتیں بھی کر سکیں گی اور ان کے رنگ میں رنگین ہو جائیں گی.ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو یہ استانیاں تیار ہو کر ہماری جماعت کی تعلیم مکمل ہو سکے گی.ہم پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں.دوسرے لوگ یا تو جہات پسند کرتے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم ہی نہ دلائی جائے یا پھر یورپ کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہم جہالت کو پسند نہیں کر سکتے کیونکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ہر حکمت کی بات مومن کی گم شده چیز ہے جہاں پائے لےلے.۲؎ مگر دوسری طرف ہم یورپ کی نقل بھی نہیں کر سکتے اس وجہ سے ہمیں نیا طریق اختیار کرنا ہے.نیا اس لئے کہ اب تک جاری نہیں ورنہ اسلام میں تو موجود ہے.اب ہم نے جو کوششں شروع کی ہے وہ اگرچہ بہت چھوٹے پیمانہ پر ہے لیکن ہر بات ابتداء میں چھوٹی معلوم ہوتی ہے اور اپنے وقت پر اس کا نتیجہ نکلتاہے.یہی مدرسہ احمدیہ جو اس حد تک ترقی کر گیا ہے اس کے متعلق کئی دفعہ بعض لوگوں نے چاہا کہ اسے توڑ دیا جائے.مگر جو توڑنے والے تھے وہ آج خود زبان حال سے کہہ رہے ہیں.ربما يود الذين کفروا لو كانوا مسلمين – ۳؎ کاش! ہم ایسا ہی کرتے.غیرمبا ئعین کی طرف سے آواز آرہی ہے کہ مولوی نہیں ہیں اس کے لئے کوئی انتظام ہونا چاہئے.خواتین کی تعلیم کے متعلق جو کوشش کی گئی ہے وہ ابتدائی
۲۷۷ حالت میں ہے اور ہم اس کو کافی نہیں سمجھتے لیکن ابتدائی کام اس طرح شروع نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بالکل رہ جاتا ہے.اگر تعلیم کا کام اسی طرح جاری رہا تو انشاء اللہ تعالیٰ دو تین سال میں ایسی استانیاں تیار ہو جائیں گی کہ ہم مڈل کی لڑکیوں کا سکول جاری کر سکیں گے.پھر مڈل تک تعلیم یافتہ لڑکیوں کو پڑھا کر انٹرنس تک کے لئے آسانیاں تیار کر سکیں گی.پھر ان سے لے کر اور اعلیٰ تعلیم دلا سکیں گے.ابھی ہمیں ایسی استانیوں کی بھی ضرورت ہے جو لڑکیوں کو نرسنگ اور ڈاکٹری کی تعلیم دے سکیں اس کے لئے چودھری غلام محمد صاحب نے اپنی لڑکی کو ڈاکٹری سکول میں داخل کر کے اچھی بنیاد رکھ دی ہے.آگے لڑکی کو بھی اس کام کو پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ توفیق دے تو ہمیں بنی بنائی لیڈی ڈاکٹر مل جائے گی.یہ ابتداء ہے اگر یہ کام جاری رہا اور اگر عورتوں نے ہمت کی تو بہت کچھ کامیابی ہو سکتی ہے اور خداتعالی بھی ان کی مدد کرے گا.یہی ایڈریس جو اس وقت پیش کیا گیا ہے.لجنہ کی سیکرٹری نے جو میری بیوی ہیں بہت کوشش کی کہ میں اس کو دیکھ کر اصلاح کر دوں.لیکن میں نے کہا میں ایک لفظ کی بھی اس میں کمی بیشی نہ کروں گا.میں نے کہا تم سمجھتی ہو اگر تمہارے لکھے ہوئے اڈریس میں کوئی غلطی ہوئی تو لوگ تمہیں جاہل کہیں گے مگر مرو بھی غلطیاں کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں پھر تمہیں کیا خوف ہے.وہ ناراض بھی ہوئیں مگر میں نے ان کے مضمون میں دخل نہ دیا.میرا مطلب یہ تھا کہ اس طرح امداد دینا عورتوں میں بزدلی پیدا کرنا ہے.عورتیں تبھی کام کر سکتی ہیں جب وہ جرات اور دلیری سے کام لیں.مجھے سب سے بڑی تعلیم جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے دی وہ یہی تھی کہ جب میں پڑھتے ہوئے کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے میاں آگے چلو اس سوال کے متعلق گھرجا کر خود سوچنا.گویا آپ مجھے کوئی سوال نہیں کرنے دیتے تھے.حافظ روشن علی صاحب کی عادت تھی کہ سوال کیا کرتے تھے اور انہیں جواب بھی دیتے تھے مگر مجھے جواب نہ دیتے.اور بعض اوقات تو میرے سوال کرنے پر حافظ صاحب پر ناراض بھی ہوتے کہ تم نے اسے بھی سوال کرنے کی عادت ڈال دی ہے.عورتیں کہتی ہیں تم ہمیں تعلیم نہیں دیتے اس لئے ہم علم میں پیچھے ہیں.میں پوچھتا ہوں ہمیں کس نے تعلیم دی.خدا تعالی نے علم اکٹھا کر کے مردوں کے پاس نہیں بھیج دیا تھا کہ مردوںنے سارے کا سارا خود لے لیا اور عورتوں کو اس میں سے حصہ نہ دیا.مردوں نے خود کو شش کر کے سیکھا انہیں آگیا.تم بھی کوشش کرو اور سیکھو.اور اصل بات تو ہے جس قدر مردوں کو علم
۲۷۸ احمدی خواتین کی تعلیم تربیت سیکھنے میں بیرونی مل سکتی تھی اس سے زیادہ عورتوں کو مل سکتی ہے کیونکہ مردانہیں کھانے کے لئے تیار ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں جرأت سے کام لیں.مضمون لکھنے تقریر کرنے کی کوشش کریں.زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ لوگ ان کے مضمون پڑھ کر یا تقریر سن کر ان کی غلطیوں پر ہنسیں گے مگر ایسے چند ہی لوگ ہوں گے.زیادہ تر وہی ہوں گے جو ان کی جدوجہد کودیکھ کر محسوس کریں گے کہ وہ قابل عزت ہیں – یہ بہترین نصیحت ہے جو میں ممبرات لجنہ کو کر سکتا ہوں.اس کے علاوہ یہ بھی کہتا ہوں کہ وہ ممبر بڑھانے کی کوشش کریں.لجنہ نے ابھی تک اس کے متعلق کچھ نہیں کیا.یہی ضروری نہیں کہ جو پڑھی لکھی عورتیں ہوں انہی کو ممبر بنایا جائے بلکہ جو سنجیدگی سے بات کر سکتی اور سن سکتی ہیں خواہ وہ ایک لفظ بھی نہ جانتی ہوں ان کو بھی ممبر بنایا جائے.اعلیٰ کام بھی تعاون سے ہوتے ہیں.پس دوسری عورتوں کو بھی لجنہ میں شامل کرنا چاہئے.آج اگر لجنہ کی ممبرات پچاس ساٹھ عورتیں ہوتیں تو ان پر بھی کئی قسم کے نیک اثرات ہوتے.اب چونکہ مغرب کی اذان ہو گئی ہے اور میرا گلا بیٹھا ہوا ہے اس لئے میں اس دعاپر تقریر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہماری جماعت کے اس حصہ کو بھی ترقی کی توفیق عطا فرمائے.اور اس پر اپنا فضل نازل کرے جو مستورات کا حصہ ہے.آمین (الفضل ۱۵ مئی ۱۹۲۶ء) ؎۱ ۲؎ : ابن ماجه ابواب الزهد باب الحكمة مطبوم قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی ٣ الحجر : ۳
۲۷۹ حق الیقین از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۲۸۱ حق الیقین بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر حق الیقین (رقم فرمودہ ۱۹۲۶ء) ایک کتاب مسمی بہ ھفوات المسلمين في تفضيح سيد المرسلين و تقبيح امهات المؤمنين من کتب المورخین والمفسرين والمحد ثين حال ہی میں ایک صاحب کی طرف سے جن کا نام مرزا احمد سلطان سے لکھنؤکے مطبع نور المطابع سے شائع ہوئی ہے.اس کتاب کے مصنف کا منشاء اس دل آزار اور سبّ و شتم سے پُر کتاب کے شائع کرنے سے ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ : ’’ مذہب اہل سنت کی کوئی کتاب ایسی نہیں کہ جب میں خدا و انبیاء و رُسل کی تفضیح نہ ہو اور سب سے زیادہ تفضیح حضور سید المرسلین و امہات المومنین کی کتب اسلامی میں ہے لیکن ان جملہ تفضیحات میں حضور سید المرسلین وامہات المؤمنین کی تفضيات و تقبیحات نہات روح فرسا اور بیخ کن اسلام ہیں اس لئے ان دو قسموں کی احادیث کے تھوڑے تھوڑے نمونے اس غرض سے پیش کئے جاتے ہیں کہ ہمارے غیور مسلمان ان احادیث و اہیہ و روایات کاذبہ کو کتب اسلامی سے خارج فرما کر خدا اور رسول کی خوشنودی کا پروانہ حاصل کریں.چونکہ وہ موضوعہ عبارات بزرگان دین و معتبران اسلام کے نام نامی سے احادیث مشہور کر دی گئی ہیں اس لئے ہفوات امام بخاری اور بالخصوص خاتمہ کتاب ھذا سے ثابت کر دیا گیا ہے کہ ایسی جملہ احادیث دشمنان رسول و معاندان امہات المؤمنین کے تحائف ہیں جن کو نا محقّق محدثین نے
۲۸۲ حق الیقین منقولات اسلاف کے نام نامی سے دھوکا کھا کر اپنی اپنی جامع و مسانید و صحاح و سنن و معاجم میں درج کر لیا ہے پس ان کے اخراج ِ و اِکاک و احراق کرنے میں اجر عظیم اور ثواب فخیم ہے“.ہفوات صفحه ۲.ٍ اس تحریر اور خصوصاً طرز بیان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ مصنف ہفوات کا منشاء اس کتاب کی تصنیف سے حق جوئی اور صداقت طلبی نہیں ہے بلکہ پردہ پردہ میں آئمہ اسلام اور بزرگان دین کو گالیاں دینا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تصنیف کے اصل مخاطب اہل حدیث صاحبان ہیں اور اگر وہی مسلک ہم اختیار کرتے جو وہ لوگ ہمارے متعلق اختیار کیا کرتے ہیں تو شاید ہمارا طریق بھی یہ ہوتا کہ ہم اس جنگ کا لطف دیکھتے اور ایک دوسرے کی فضیحت اور تحقیر کو خاموشی سے ملاحظہ کرتے لیکن چونکہ ہمارا رویہ تقویٰ پر مبنی ہے اور اسلام کی محافظت اور اس کے خزائن کی نگرانی کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس لئے میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ یہ کتاب بِلا جواب کے رہے اور اسلام کے چُھپے دشمن اسلام کے ظاہری دشمنوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر رخنہ اندازی کرنے کا کام بلا روک ٹوک کرتے چلے جائیں.کسی مذہب کی خوبی اس کے ثمرات سے پائی جاتی ہے حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:.’’ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے.اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے.جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وه کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے ہیں ان کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لو گے ‘‘.۲؎ اگر ایک شخص دنیا کی اصلاح اور اس کے درست کرنے لئے مامور ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی سب کوششیں اکارت جاتی ہیں اور وہ ایک ایسی جماعت چھوڑ جاتا ہے جو بے دین اور منافق اور خدا سے دور ہوتی ہے تو یقیناً اس کا دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ ایک کام کے لئے بھیجے اور وہ اس کام میں ناکام ہو اس کی تربیت یافتہ اور صحبت سے مستفیض ہونے والی جماعت کا بیشتر حصہ اس کے اثر سے متاثر ہونا چاہئے اور اس کی تعلیم کا حامل اور عامل ہونا چاہئے ورنہ اس کی آمد فضول اور اس کی بعثت عبث ہو جاتی ہے.اسی طرح یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک نیک اور پاک جماعت کی تربیت کے ماتحت ایک ایسی جماعت پیدا ہو جائے جو بِلاتدریج شرارت اور فتنہ کا مجسم نمونہ بن جائے.ہمیشہ خرابی آہستگی سے پیدا ہوتی ہے جس قدر
۲۸۳ حق الیقین جماعتیں دنیا میں خراب ہوئی ہیں تدريجاً ہی خراب ہوئی ہیں اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل کمزور ہوتے ہوتے اور اسلاف کے اثر مٹ گئے ہیں.پس جو شخص یہ بتانا چاہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے بعد خدمت اسلام کرنے والے لوگ در حقیقت منافقوں کی ایک جماعت تھی اور اسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دم تک تھا یا آپ کے بعد آپ کے چند رشتہ داروں کے دلوں میں اس کا اثر محدود ہو گیا وہ یا تو قانون قدرت اور انبیاء کی شان سے بالکل ناواقف ہے یا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پوشیده دشمن ہے کہ آپ کو ناکام اور نامراد ثابت کرنا چاہتا ہے اور اسلام کو ایک بے ثمر درخت اور بے اثر تعلیم بتاکر دشمنوں کو خوش کرنا اور اسلام کی وُقعت کو گرایا جاتا ہے.دنیائے اسلام کا بیشتر حصہ ان احادیث پر اپنی سی فقہ اور تفصیلات تعلیم کا انحصار رکھتا ہے اور گو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر احادیث کی کتب نہ ہوتیں تو اسلام کا کوئی حصہ مخفی نہ رہتا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر یہ کتب نہ ہوتیں تو اب جس طرح ایک تدبّر کرنے والے انسان کے لئے اپنے آقا کے کلام میں اپنے تدبّر کی تائید دیکھ کر ایک خوشی کا سامان پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو عالم خیال میں اپنے محبوب کی مجلس ارشاد میں ہدایت کے موتی چُنتے ہوئے پاتا ہے وہ بات نہ رہتی.اسی طرح تاریخ اسلام کا ایک بیشتر حصہ بھی جو مردہ روحوں کو تازہ کرنے والا اور صدیوں کے گزرنے پر بھی استاد اور شاگرد اور آقا اور غلام اور عکس اور ظل میں شدید اتّصال پیدا کرنے کا موجب ہے معدوم ہو جاتا.غرض تکمیل دین کے لئے گو احادیث کی ضرورت نہیں لیکن فقہ اور قیاس کی رہنمائی کرنے اور اطمینان قلب اور زیادتِ تعلق کے لئے وہ ایک بیش بہاذریعہ ہیں اور سنت کے لئے بھی بطور گواہ ہیں کیونکہ گو سنت حدیث کی محتاج نہیں لاکھوں کروڑوں آدمیوں کا عمل اس پر شاہد ہے لیکن حدیث یہ گواہی تو ضرور دیتی ہے کہ سنت کا تواتر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا بھی ہے یا کوئی عمل اور طریق بعد کے لوگوں کا اختراع ہے مثلاً اس وقت کروڑوں مسلمان بدعات میں مبتلا ہیں اور وہ اپنے زعم باطل میں یہی سمجھ رہے ہیں کہ یہ کلام اسلام کا جزو ہیں اور ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں حدیث ہمیں اس امر میں مدد دیتی ہے کہ یہ خیالات بعد میں پیدا ہوئے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ان کا پہنچنا الگ رہا اس زمانہ میں بھی ان رسوم کا مسلمانوں میں کچھ پتہ نہ تھا جب احادیث جمع کی جارہی تھیں اور صاحب بصیرت کے لئے وہ موجب ہدایت ہو جاتی ہے جب اہل شیعہ میں تازیوں کی بد رسم ہے کہ
۲۸۲ حق الیقین خود بڑے بڑے ائمہ اس رسم کرنا پسند کرتے ہیں ان کی ہدایت کا موجب وه روایات ہی ہوتی ہیں جو احادیث کے نام سے مشہور ہیں اور انہیں سے معلوم کرتے ہیں کہ اس کا کام کا ثبوت ائمہ اہل بیت کے عمل سے نہیں ملتا اگر وہ روایات نہ ہوتی تو وہ کیو نکر سمجھتے کہ یہ کام حضرت امام زین العابدین کے زمانہ سے چلا آتا ہے یا بعد میں کسی تماش بین طبیعت نے ایجاد کر کے اپنے ہم مذاق لوگوں کی ہمدردی کو حاصل کرکے اس کا رواج عام کر دیا ہے.علم حدیث کا ایک اور فائدہ بھی ہے کہ یہ سنت کے متعلق ہمیں یہ علم بھی دیتا ہے کہ کونسی سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ مرغوب تھی.بے شک نسلاً بعد نسلِ مسلمانوں کا طریق عمل اس امر کو تو ثابت کر سکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کو کس طرح کیا یا کس کس طرح کیا لیکن یہ بات تواتر اور عمل سے نہیں معلوم ہو سکتی تھی کہ کئی طریقوں پر جو کام کیا گیا ہے ان میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ پسندیدہ کون سا طریق تھا یا کس طریق پر آپ خود اکثر عمل فرماتے تھے ایک سالک راہ کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق کے لئے یہ علم نہایت ہی دل کو تقویت دینے والا اور معلومات کے ذخیرہ کو بڑھانے والا ہے.علم حدیث کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم کے وہ بہت سے معارف جسے ایک عام انسان خود نہیں معلوم کر سکتا تھا بلکہ اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے حصول کے بغیر ان پر اطلاع ہی نہیں ہو سکتی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ظاہر کر دیئے گئے ہیں اور ہر ایک شخص ان سے فائدہ اٹھا کر قرآن پر تدبر کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے مثلاً قرآن کریم میں دوزخ کا عذاب ابدی قرار دیا گیا ہے مگر اسے غیرمتناہی نہیں قرار دیا گیا لیکن عام طور پر لوگ اس امر کو نہیں سمجھ سکے اور انہوں نے قرآن کریم کی آیت رحمتی وسعت علی کل شیء کی تہہ کو نہیں پایا.اور نہ امہ ھاویة ۴ کی آیت پر غور کیا کہ کیا کوئی شخص ماں کے پیٹ میں ہمیشہ رہتا ہے اور نہ ہی سوچا کہ جنت کے انعامات کی نسبت کیوں باوجود ابد کے الفاظ استعمال ہونے کے غير مجذوذ (نہ کٹنے والے) اور غیر ممنون (نہ کٹنے والے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور کیوں دوزخ کی نسبت یہ الفاظ استعمال نہیں ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ليأتين على جهنم زمان ليس فيها احد فرما کر اس نکتہ معرفت کو جو سِرَّ خلق کی جان اور معرفت کی روح ہے ہر ایک شخص تک پہنچا دیا اب جو شخض ضدّ اور تعصب سے خالی ہو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.
۲۸۵ حق الیقین اسی طرح مثلاً قرآن کریم میں مسیح علیہ السلام کے ایک مثیل کی خبر سورة تحریم میں بایں الفاظ دی گئی تھی کہ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَۘ-اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۸؎یعنی مسلمانوں کی دو اقسام ہیں ایک تو وہ جو نیک تو ہوتے ہیں مگر کبھی بدی سے مغلوب بھی ہو جاتے ہیں اور ایک وہ جو بکلّی پاک ہوتے ہیں مگر اس سے اوپر ایک ترقی کا درجہ بیان فرمایا ہے کہ یہ پاک لوگ جب اللہ تعالیٰ کی وحی سے مشرف ہوتے ہیں تو مریمی صفت سے ترقی کر کے اپنے اندر مردوں والی طاقت پیدا کر لیتے ہیں اور وہ درجہ مسیحیت کا درجہ ہے اور اس میں ایک مثیل مسیح کی خبر دی گئی ہے اسی طرح سوره زخرف کے چھٹے رکوع میں بیان فرمایا ہے و لما ضرب ابن مریم مثلا إذا قومك منه يصدون جب ابن مریم کو بطور مثال کے بیان کیا جاتا ہے تو میری قوم اس پر تالیاں پیٹتی ہے سوائے اس کے کہ ایک مسیح کی آمد کی خبر دی گئی ہے اور کبھی بھی مسیح علیہ السلام کو قرآن کریم یا حدیث میں بطور مثال نہیں پیش کیا گیا پس اس میں بھی ایک میں کے رنگ میں رنگین شخص کی آمد کی خبر دی گئی تھی مگر اس نکتے کو وہی سمجھ سکتا تھا جو یا تو معرفت میں ترقی یافتہ ہو یا پھر خود اس زمانہ کو پالے جس کے متعلق یہ اخبار تھیں پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی ہدایت کے لئے ان الفاظ میں لوگوں کو خبر دے دی کہ آیندہ زمانہ میں مسیح کا نزول ہونے والا ہے اگر آپ نہ بتاتے تو عوام الناس اس موعود کی انتظار ہرگز نہ کرتے اور اس کے قبول کرنے کی طرف انہیں کوئی توجہ نہ ہوتی.غرض احادیث قرآن کریم کے دقیق مسائل کی وہ تفسیر بھی بیان کرتی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ہے اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیوں خود قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرز بیان نہ کر دیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلت تدبر کا نتیجہ ہے کیونکہ اگر اس اعتراض کی روح کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو تفاوت مدارج اور حقیقت تدبر بالکل باطل ہو جائے کئی لوگ اس قدر علم بھی : نہیں رکھتے کہ ان معمولی باتوں کو سمجھ سکیں جن کو علوم ظاہری رکھنے والا آدمی بھی ادنیٰ تدبر سے سے سمجھ سکتا ہے لیکن جب وہ شخص ان اشخاص کو تفصیلاً سمجھاتا ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے اِنہیں الفاظ میں قرآن کریم کون اتارا جن میں صافی یا رازی نے اس مطلب کو ادا کیا ہے تا کہ سب لوگ سمجھ سکتے.بے شک دوسرے انسانوں کے سمجھانے سے بعض
۲۸۶ حق الیقین مطالب تو حل ہو جاتے ہیں لیکن اس قدر وسعت مطالب میں نہیں رہتی جو قرآن کے الفاظ میں پائی جاتی ہے.غرض یہ کہ احادیث کے مجموعہ سے اسلام کی ترقی میں اور روحانیت کی زیادتی میں بتددلی ہے اور اس کے فوائد بہت سے ہیں جن میں سے چند اوپر بیان کئے گئے ہیں اور ان کے فوائد کا انکار سوائے جاہل یا متعصّب انسان کے اور کوئی شخص نہیں کر سکتا.اور جن لوگوں نے ان کو ضبط اور جمع کیا ہے اس پر بہی خواہ اسلام کے شکریہ اور دعا کے مستحق ہیں جزاهم الله عنا وعن جميع المسلمين - احادیث کے متعلق یہ امر بھی لینا ضروری ہے کہ وہ انسانی کوشش کا نتیجہ ہیں جوصحیح حدیث ہے وہ خدا کے رسول کا قول ہے اور جو غلط ہے اس کی غلطی انسانی علم کی کمی کے سبب سے ہے نہ حدیث کے جمع کرنے والوں نے اپنی کوششوں کو غلطی سے پاک قرار دیا ہے اور نہ وہ غلطی سے پاک کبھی قرار دی گئی ہیں پس اسی حیثیت سے ان پر تنقید کرنی چاہئے کون سا کام انسان کا ہے جس میں غلطی نہیں ہوئی.پہلے زمانہ کے علوم کے بعض حصوں کو آج کی تحقیق نے باطل ثابت کر دیا ہے مگر اس سے ان علوم کے مدوّن کرنے والوں کی ذات پر کوئی حرف نہیں آتا.موجودہ طب خواه و یونانی ہو خواہ انگریزی اسب سے ہزاروں گنے بڑھ کر ہے جو آج سے پہلے دنیا میں مروّج تھی اور آئنده زمانہ کی ترقیات موجودہ زمانے کی طب کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گی مگر باوجود اس کے ان لوگوں کے احسان اور ان کی شان میں ہرگز شبہ نہیں کیا جائے گا جنہوں نے آج سے دو ہزار سال پہلے طب کو مدوّن کیا.جالینوس *۱۰؎ کی سیکڑوں غلطیاں ثابت ہو جائیں پھر بھی وہ جالینوس کا جالینوس ہی رہے گا اور ہر علم دوست انسان اس کے احسان اور اس کے علم کی قدر کرے گا کیونکہ سوال یہ نہیں ہے کہ جالینوس کیا جانا تھا بلکہ سوال یہ ہے کہ جالینوس نے علم میں کس قدر زیادتی کی اور آئندہ علوم کی ترقی میں کس قدر مدد کی.اگر اس کی سَو بات غلط ثابت ہو جاۓ تو ہو جائے مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ اس نے بعض باتیں ایسی دریافت کیں کہ وہ آئندہ علوم کی ترقی کے لئے بنیاد ہو گئیں.پچھلی تحقیق ہے کہ اس کی تحقت سے بڑھ کر ہے مگر اس کی تحقیق نہ ہوتی تو یہ بعد کی تحقیق بھی نہ ہوتی.سقراط ۱۱؎ اپنے علم الاخلاق کے سبب اور افلاطون ۱۲؎ اپنے فلسفہ کے سبب سے ہمیشہ یاد رکھے جاویں گے گو علم الاخلاق اور فلسفہ کس قدر ہی ترقی کیوں نہ کر جائیں اور نئی تحقیق ان کی تحقیقاتوں میں ہزاروں غلطیاں کیوں نہ ثابت کر دے گی انان پرستی کے سبب سے نہیں بلکہ اس
۲۸۷ سبب سے کہ ان کا دماغ دوسروں کے لئے تحریک کا موجب بنا اور انہوں نے ایک ایسی بنیاد رکھی جس پر اور اور عمارتیں تیار ہوئیں.ایک تاریخی کتاب کا مصنف جو سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد ان واقعات کو جو پراگندہ طور پر ہزاروں دماغوں میں مخفی تھے یکجا اور ترتیب وار جمع کر کے ہر انسان کی پہنچ میں لے آتا ہے محض اس وجہ سے کہ اس کی تحقیق میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں اس شخص کی نسبت حقیر نہیں قرار دیا جا سکتا جس نے واقعات نہیں جمع کئے بلکہ مصنف کی کتاب کے کسی ایک واقع میں غلطی نکال دی ہے کیونکہ مصنف نے اگر بشریت کے ماتحت کوئی غلطی کر دی ہے تو اس نے ہزاروں جدید باتیں بھی تو ہمیں بتائی ہیں جو ہمیں پہلے معلوم نہ تھیں پھر کیا اس کی اس محنت کو ہم نظر انداز کر دیں گے اور اس کی غلطی کو جو محض بشریت سے واقعہ ہو گئی ہے اور جس قسم کی غلطیاں اگر ہم اس کام کو کرتے جو اس نے کیا ہے اور اس زمانہ میں کرتے جس میں اس نے وہ کام کیا ہے خود ہم سے نہ صرف یہ کہ واقعہ ہوتیں بلکہ شائد اس سے کئی گنے زیادہ واقعہ ہو جاتیں اس قدر بڑھا بڑھا کر بیان کریں گے کہ اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیں گے یقینا ً اگر ہم شرافت طبع کا کوئی حصہ اپنے اندر رکھتے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں کریں گے.اسی وقت کسی کے کام پر اس کو ملامت کی جاتی ہے جب کہ اس کا کام جائے مفید معلومات کا موجب ہونے کے بجائے، ترقی کی طرف لوگوں کا قدم اٹھانے کے لوگوں کے تباہ ہو جانے کا موجب ہوا ہو اور اُسی وقت ہم کسی کی غلطی پر لعنت ملامت کرنے کے حق دار ہوتے ہیں جب کہ اس نے جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہو یا ایک ایسی غلطی میں لوگوں کو ڈالا ہو جو اس زمانہ کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے معمولی کوشش اور سعی سے دور ہو سکتی تھیں یا جب کہ وہ کسی ایسے امر کو جس میں غلطی کا احتمال ہو سکتا تھا اپنے زیر اثر لوگوں کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ اس میں غلطی کا احتمال ہی بالکل ناممکن ہے اور یہ انسانی غلطی سے پاک ہے جیسے کہ الہام الہٰی سےبتائی ہوئی تعلیم.ایسے شخص پر اس لئے ملامت کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کو علم سے محروم کرتا ہے لیکن محدثین نے ایسی کونسی بات کی ہے جس پر ان کو اس قدر گالیاں دی جائیں.کیا ان لوگوں کی محنت سے ہزاروں قسم کی بدعات کا قلع قمع نہیں ہوا؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاقی وعظوں کا ایک ذخیرہ انہوں نے جمع نہیں کر دیا؟ کیا سنت کی حفاظت کا کام انہوں نے نہیں کیا؟ کیا علوم قرآنیہ کی ترویج اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم قرآن کی اشاعت میں انہوں نے مدد نہیں دی ؟ کیا ایک اعلیٰ درجہ کی اسلامی تاریخ جس میں عام تاریخی تحقیقات سے بہت زیادہ محنت کے
۲۸۸ ساتھ حالات جمع کئے گئے ہیں اور جس میں تاریخ سے بڑھ کر یہ جِدّت ہے کہ بجائے اپنے الفاظ کے خود راوی کے الفاظ یا متکلّم کے الفاظ کو بیان کرنے کی حیرت انگیز حد تک کامیاب کوشش کی گئی ہے انہوں نے تیار نہیں کر دی؟ پھر اس بے نظیر کوشش کے صلہ میں کیا ان کو وہی انعام ملنا چاہئے جو مصنّف کتاب نے ان کو دینا چاہا ہے.اور جس عطیہ پر صداقت اور احسان شناسی بآواز بلند ”عطائے تُو بلقاۓ تُو‘‘ کے مقولہ سے اسے مخاطب کر رہی ہیں.وہ کونسا علم تھا جسے علم حدیث کے رواج سے نقصان پہنچا، یا وہ کونسی تحقیق تھی جو اس علم کی ایجاد کے بعد رُک گئی.اگر اس علم سے کوئی نقصان لوگوں کو پہنچا ہے تو اور کونسا علم ہے جس کا غلط استعمال لوگ نہیں کر لیتے.اگر علم حدیث کو بعض لوگوں نے تدبّر فی القرآن میں روک بنا لیا ہے تو بعض دوسروں نے تدبر في القرآن کو فہم رسول پر اپنے فہموں کو مقدم کرنے کا مترادف بنادیا ہے.پس لوگوں کے غلط استعمال سے ان ہزاروں فوائد پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا جو اس کے علم کے ذریعہ سے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور جو فوائد کہ اہل علم لوگوں نے ہمیشہ مال کئے ہیں اور جن کو وہ حاصل کر رہے ہیں.باوجود موضوعات کے ایک انبار کے صحیح روایات کا ایک ایسا مجموعہ موجود ہو گیا ہے جس میں ہزاروں دُرِّبے بہاملتے ہیں بے شک ان میں کانٹے بھی ہیں لیکن کانٹوں کی موجودگی سے گلاب کے پھول کی قدر میں کمی نہیں آجاتی.کون کتنا ہے کہ تم کانٹے اپنے جسم میں چبھو لو، باغبان نے گلاب کا درخت لگایا ہے اس میں کانٹے ضرور لگیں گے تم اس میں سے پھول چُنو اور ان کو استعمال کرو.روایتیں جمع کرنے والوں نے روایات جمع کر دی ہیں ان کی تحقیقات میں تین وجوہ سے صداقت سے دور روایات شامل ہوسکتی ہیں.(1)یا تو اس وجہ سے کہ ان کی تحقیقات ناقص رہ گئی اور ایک جھوٹا سچا بن کر ان کو کوئی بات بتا گیا.(۲) یا اس طرح کہ انہوں نے بھی دیانتداری سے کام لیا اور دوسرے نے بھی لیکن بشریت کے اثر سے غلط فہمی کے ماتحت کوئی بات اس طرح بیان کی گئی جس طرح پہلے راوی نے بیان نہ کی تھی یا جس طرح اصل واقعہ نہ ہوا تھا.(۳) یا یہ کہ انہوں نے اس خیال سے ان روایتوں کو نقل کر دیا جو ان کے نزدیک بھی کمزور تھیں تا دونوں قسم کے خیالات کو پہنچا دیں تاکہ لوگوں میں تحقیق اور تدقیق کا ملکہ پیدا ہو.اور تاکہ وہ لوگوں کے دلوں پر اپنے اپنے خیالات کے جبریہ عکس ڈالنے کے مرتکب نہ ہوں.اول الذکر سے پوری طرح بچ جانا تو انسانی طاقت سے بالکل بالا ہے اور آخر الذکر سے اگر بعض نقصانات بھی جاتے ہیں تو اس کے بعض
۲۸۹ حق الیقین عظیم الشان فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا.قرآن کریم میں جن منافقوں کی خبر دی جاتی ہے ان کی شرارتوں کا نقشہ ہمارے دلوں پر کب جم سکتا تھا اگر ان کی مشہور کردہ روایات کا ایک سلسلہ ہم تک نہ پہنچ جاتا.ان کی روایتوں کا بقیہ بھی ہمیں الفاظ قرآنیہ کی حقیقت اور اس رحم اور صبر کا پتہ دیتا ہے جس سے خدا اور رسول نے منافقوں کے متعلق کام لیا.غرض بعض روایات کی غلطی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ کام ہی عبث تھا اور نہ محدثین کی خدمت اسلام میں کوئی شبہ لاحق ہوتا ہے اور نہ ان کی شان میں کوئی کمی آتی ہے انہوں نے فوق العادت محنت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے نقشہ کو ہمارے لئے محفوظ کر دیا ہے اور اگر ہم میں سے کوئی ان کی بشری غلطیوں سے ٹھوکر کھاتا ہے تو یہ اس کی بدقسمتی ہے اگر وہ اس قسم کی غلطیوں سے ڈر کر اس کام کو چھوڑ دے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے حضور میں مجرم ہوتے اور ان سے پوچھا جاتا کہ کیوں انہوں نے ایک مفید علم کو زندہ گاڑ دیا.مصنّف صاحب ہفوات کا یہ قول کہ چونکہ بعض ایسی احادیث مروی ہیں کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہیں اس لئے ان کو جلا دینا چاہئے اور پھاڑ دینا چاہئے اور مٹادینا چاہئے ان کی نہایت کم علمی اور جہالت پر دلالت کرتا ہے کیا دنیا کا یہ بھی قاعدہ ہے کہ جس کتاب میں کوئی غلطی ہو جائے اسے جلا دیا جائے یا اس حصہ کوبیچ میں سے نکال دیا جائے اگر اس طریق پر عمل کیا جائے تو دنیا سے علوم کا خاتمہ ہو جائے.اور یہ توسخت بد دیانتی ہے کہ مصنف کچھ لکھے اور پچھلے اس کو مٹاڈالیں.اگر یہ صورت اختیار کی جائے تو کی تصنیف پر اعتبار ہی کیا رہ سکتا ہے مثلاً پچھلی طب کی ُکتب جو بو علی سینا ۱۳؎ کی تصنیف ہیں ان کو موجودہ تحقیقات کے مطابق بدل دیا جائے.فلسفہ میں جو جدت پیدا ہوئی ہے اس کے ماتحت پچھلی فلسفہ کی کتب میں تبدیلی کر دی جائے گویا اپنے جاہلانہ خیالات میں تبدیلی پیدا کرنے کے سوا اور ہر ایک چیز میں تبدیلی پیدا کر دی جائے.مصنف ہفوات نے اس قدر نہ سوچا کہ اگر پچھلے مصنّفین کی کتب میں اس قسم کی تبدیلی جائز ہو تو روایت کا اعتبار کیا رہ جائے اور درایت کی بنیاد کس امر پر ہو.ہزاروں باتیں ہیں جو ایک زمانہ کے خیالات کی روشنی میں قبیح نظر آتی ہیں اور ایک دوسرے زمانہ کے خیالات کی روشنی میں خوبصورت.اگر ہر زمانہ کے لوگ اپنے خیالات کے مطابق پچھلی کتب کو بدل لیا کریں تو باقی کیا رہ جاۓ؟ آپ کی اس تجویز پر عمل کر کے بالکل وہی حال ہو جو اس شخص کا ہوا تھا جس کی دو بیویوں میں سے ایک بوڑھی اور ایک جوان تھی.
۲۹۰ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نہیں تھیں ایک بڑهیا تھی اور ایک جوان.جب وہ عمر رسیدہ کے گھر ہو تا تو جس وقت وہ سوجاتا تو وہ اس خیال سے کہ یہ اپنے سیاہ بال دیکھ کر خیال کرے گا کہ یہ عورت تو بڑھیا ہو گئی ہے اور میرے بال ابھی سیاہ میں اس لئے میری مجالست کے قابل زیاده جوان ہی ہے اس کے سیاہ بال ایک ایک دو دو کر چنٹی رہتی.اسی طرح جب وہ جوان عورت کے گھر ہوتا تو وہ بھی اس خیال سے کہ یہ اگر اپنے سفید بال دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ میں اب بوڑھا ہو گیا اب اس جوان عورت کی نسبت میری صحت کے قابل بڑھیا عورت ہی ہے اس لئے سفید بال نوچتی رہتی.نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اس کے سر اور داڑھی میں نہ سفید بال رہے اور نہ کالے.یہی تجویز آپ کتب عليه کے متعلق بتاتے ہیں کہ جس قوم کو کوئی خیال اپنے عقیدہ کے خلاف کسی کتاب میں نظر آوے جھٹ اس کا اِحکاک وہاں سے کردے مثلاً احادیث کی تدقیق کے متعلق اختلاف ہے بعض لوگوں کے نزدیک بعض راوی کمزور ہیں بعض کے نزدیک دوسرے.مصنّف ہفوات کے بتائے ہوئے اصل کے مطابق ہر ایک فریق اپنے فہم کے خلاف جس قدر باتیں پاۓ ان کو کتب حدیث میں سے نکال دے حنفی جس قدر احادیث میں رفع یدین یا ہاتھ سینے پر باندھنے یا آمین با لجہریا اور دیگر اختلافی مسائل کے متعلق اپنی رائے کے خلاف ذکر دیکھیں ان کو کتب حدیث سے نکال دیں.اور اہل حدیث ان سب حدیثوں کا اخراج کردیں جو حنیفوں کے مسائل کی تائید میں ہیں.اگر ایسا ہونے لگ جائے تو آپ جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے؟ علم بالکل مفقود ہو جاے اور تحقیق کا دروازہ بند ہو جائے اور تاریخ ایسی مسخ ہو جائے کہ سَو سال پہلی بات کا معلوم کرنا بھی بالکل ناممکن نہ جائے اور بد دیانتی اور خیانت کا دروازه اتنا وسیع ہو جائے کہ اس کا بند کرنا حد ِ امکان سے نکل جائے.ہر شخص کا اختیار ہے کہ جس بات کو ناپسند کرے ردّکر دے لیکن کسی کو یہ اختیار نہیں کہ مصنّف کے بیان میں کمی بیشی کردے.اگر کسی کو بخاری کی اکثر احادیث غلط نظر آتی ہیں تو وہ ان کو ردّ کر سکتا ہے مگر امام بخاری کی تصنیف میں سے اپنے مطلب کے خلاف باتیں نکال کر ایک نئی صورت میں اس کو بدل دینا ہرگز جائز نہیں بلکہ یہ ایک ایسی خیانت ہے، ایک ایسا فریب ہے جس کو صرف کوئی سیاہ باطن اور جاہل انسان ہی جائز قرار دے سکتا ہے.ایک اور خطرناک نیچے بھی اس جاہلانہ تجویز پر عمل کرنے سے پیدا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ایسے زمانوں میں جب کہ کسی قوم پر فَترة کا زمانہ آیا ہوا ہو اور جہالت اس کے میدانوں میں ڈیرے
۲۹۱ ڈالے ہوئے ہو تمام صداقتیں باطل ہو سکتی ہیں.اگر مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لوگ پچھلی چند صدیوں میں جب کہ شرک کا دور دورہ تھا تمام ایسی احادیث کتب حدیث سے نکال کر پھینک دیتے جن میں شرک کاردّ ہے بلکہ بعض لوگوں کے اس خیال پر عمل کر کے کہ قرآن کریم میں بھی کچھ زیادتی ہوگئی ہے جس قدر آیات شرک اور رسوم اور بدعات کے خلاف دیکھتے ان کو نکال دیتے تو نتیجہ کیا ہوتا؟ اسلام کا کیا باقی رہ جاتا.وہ لوگ دیانتداری سے اپنے عقیدہ کے مطابق کام کرتے لیکن اس کا نتیجہ حق اور راستی کے خلاف کیسا خطرناک ہو گا.اس زمانہ میں تعلیم یافتہ لوگ کثرت ازدواج، طلاق اور پردہ کو اپنی عقل کے مطابق تہذیب و شائشتگی کے خلاف سمجھتے ہیں.کیا ان کا اختیار ہونا چاہئے کہ وہ قرآن وحدیث سے اپنے تمام مضامین کو یہ کہہ کر نکال ڈالیں کہ ایسی باتیں خدا اور رسول کب کہہ سکتے تھے نتیجہ یہ ہوتا کہ چند دنوں کے بعد جس کے آثار ابھی سے شروع ہو گئے ہیں جب دنیا کو معلوم ہوتا کہ یہی طریق مناسب تھا تو وہ ان اِحکاک شدہ اور احراق شدہ آیتوں اور حدیثوں کو قرآن کریم میں نہ پاکر اس کو ایک نامکمل اور بے معنی کتاب سمجھتے.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ تمام عالم اسلام اس مرض میں چلا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.اگر وہ لوگ تمام آیات قرآنیہ اور احادیث کو جو ان کی وفات پر دلالت کرتی ہیں نکال دیتے کہ ایساخلاف واقعہ امر قرآن اور حدیث میں کہاں سے آسکتا تھا ضرور کسی مفسد نے پیچھے سے ملا دیا ہے تو کیا دنیا ایک صداقت سے اور اسلام ایک خوبی سے محروم نہ وہ جاتا؟ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور لوگوں کے نقطۂ نگاہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں.ایک وقت میں ایک بات جو بالکل خلاف تہذیب سمجھی جاتی ہے دوسرے وقت میں عقل و علم کی ترقی کے ساتھ وہی معقول اور مفید ثابت ہو جاتی ہے یا کبھی اس کے خلاف ایک وقت میں ایک بات اچھی سمجھی جا کر دوسرے وقت میں بُری خیال کی جانے لگتی ہے.اگر مصنّف ہفوات کے مجوزہ طریق اِحکاک و إحراق پر کیا عمل کیا جائے تو ہزاروں صداقتیں جہالت اور فَترة کے زمانہ میں مٹادی جائیں.اور مذہب کے پیروؤں کو تحقیق وتدقیق کے زمانہ میں دوسرے مذہب کے پیروؤں کے سامنے منہ دکھانے کی گنجائش نہ رہے.اس وقت جو پچھلے لوگوں کی تحقیق کی بعض غلطیاں معلوم ہوتی ہیں تو کیا اسی سبب سے نہیں کہ انہوں نے دیانتداری سے اپنے فہم کے خلاف خیالات کو باقی رہنے دیا کہ خود محفوظ کر دیا تاکہ تحقیق کا دروازہ بند نہ ہو جائے.اگر وہ لوگ بھی اس اِحکاک اور اِحراق کے طریق کو اختیار کرتے تو آج ہمارے لئے صداقت کے معلوم کرنے کا کون سا راستہ کھلا رہ جاتا؟
۲۹۲ خلاصہ کلام یہ کہ مصنف ہفوات کا احراق واِحکاک کا مشورہ خیر خواہی و نیک طلبی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ تم ان لوگوں کے کام پر پردہ ڈالنے کے لئے ہے جنہوں نے خدمت اسلام میں رات اور دن کو ایک کر دیا.اگر مصنّف ہفوات یہ مشورہ نہ دیتے بلکہ سیدھی طرح یہ بات کہہ دیتے کہ باوجود ان لوگوں کی کوششوں کے بعض کو تاہیاں بھی ہو گئی ہیں تو ان کو خوف تھا کہ اس طرح لوگوں کے دل سے محدثین کی عظمت نہ مٹے گی اور وہ کہدیں گے کہ ہاں انسان سے غلطی ہو جاتی ہے اور یہ بات پہلے بھی مسلمان مانتے ہی تھے کہ محدثین غلطی سے پاک نہیں ہیں.بعض دفعہ انہوں نے ایک حدیث کو کمزور سمجھا ہے اور وہ بعد میں صحیح ثابت نہیں ہوئی.اور بعض دفعہ انہوں نے ایک حدیث کو کمزور سمجھا ہے اور وہ بعد میں کمزور ثابت نہیں ہوئی.انہوں نے ایسے الفاظ استعمال کئے جن سے دوسروں پر تو کچھ اثر ہو یا نہ ہو مگر ان کا بُغض نکل گیا اور اپنی اس عادت سبّ و شتم کو جو گرد و پیش کے اثرات سے متاثر ہو کر طبیعت ثانی ہو چکی ہے انہوں نے پورا کرلیا مگر کیا چاند پر تھوکنے سے چاند کا کچھ بگڑتا ہے؟ تھوکنے والے کے منہ پر تھوک آپڑتا ہے اور اسی کی فضیحت ہوئی ہے.میرے نزدیک مصنّف ہفوات کا یہ طریق سبّ و شتم زمانہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر بھی نہایت خطرناک ہے اس وقت مختلف قم کے مصائب اور آلام نے مسلمانوں پر یہ روشن کر دیا ہے کہ خواہ ان میں مذہی طور پر کسی قدری اختلاف کیوں نہ ہو ان کو اپنی ہستی کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے پر بے جا حملہ کر کے موانست اور مواسات کے تعلقات کو قطع نہ کریں.اختلافِ مذاہب کو قربان نہیں کیا جا سکتا لیکن اس اختلاف کے اظہار کا طریق یہ نہیں کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کو گالیاں دی جائیں.اگر ہم ایسے مذہب کے بزرگوں کا بھی ادب کر سکتے ہیں جن کے ساتھ ہمیں نہایت کم وجہ اشتراک پائی جاتی ہے تو ایک کتاب کو ماننے والے اور ایک رسول کی امت کہلانے والے لوگوں کو جو دوسری کسی قوم میں بزرگ مانے جاتے ہوں کیوں ادب سے یاد نہیں کر سکتے.اس وقت تک اسلام کو کافی نقصان اس قسم کے اختلافات سے پہنچ چکا ہے اور اگر باوجود خدا تعالی کے قہری نشانوں کے اب بھی دشمنی اور عداوت کے بے محل استعمال کر نہ ترک کیا گیا تو اس رویہ کے اختیار کرنے والے افراد اور ان کے افعال پر خوش ہونے والی جماعتیں ایک ایسا روز بد دیکھیں گی کہ دشمنوں کو بھی ان پر رونا آۓ گا.میرا یہ مطلب نہیں کہ شیعہ سنی اور دیگر ناموں سے یاد کئے جانے والے فرقے اپنے مذہب
۲۹۳ کی تبلیغ نہ کریں.میرا طریق عمل میرے قول سے زیادہ اس خیال کو رد کر رہا ہے کیونکہ تبلیغی لحاظ سے اس جماعت نے کہ جس کا امیر الله تعالی نے مجھے اپنے فضل سے بنایا ہوا ہے تمام دنیا میں اپنی تبلیغی کوششوں کے ذریعہ سے حیرت انگیز حرکت پیدا کر رکھی ہے.بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ اپنے اپنے محاسن اور خوبیاں بیان کی جائیں اور دوسروں پر بِلاوجہ اور بِلا ان کی طرف سے حملہ ہونے کے حملہ نہ کیا جائے.اور اس حدیث کو یاد رکھا جاۓ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من الكبائر شتم الرجل والديه قالوا يا رسول الله وحل يشتم الرجل والديه قال نعم یسب أبا الرجل فيسب أباء ويسب أ مہ فیسب امہ ل ۱۴؎ فرمایا: میرے گناہوں میں سے ایک اپنے ماں باپ کو گالیاں دینا بھی ہے.لوگوں نے کہایا رسول اللہ کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالیاں دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے پھروہ اس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے.یا کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے پھر وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے.یعنی دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دے کر اپنے ماں باپ کو گالیاں دلوانا ایسا ہی ہے جیسا اپنے ماں باپ کو خود گالیاں دے لینا.جن لوگوں کو کوئی قوم اپنے روحانی ہادیوں میں سمجھتی ہے ان کی عزت اپنے ماں باپ سے زیادہ کرتی ہے ان کی نسبت بِلاوجہ گندے الفاظ استعمال کرنے کالازمی نتیجہ نکلتاہے کہ وہ اس کے بزرگوں کو گالیاں دیں اور اس صورت میں اکسانے والا اپنے بزرگوں کو گالیاں دینے والا سمجھا جائے گا.خصوصاً جب صورت ایسی ہو کہ ایک قوم کے بزرگ دوسری قوم کے نزدیک بھی بزرگ ہوں تب تو اس دوسری قوم کے بزرگوں کو گالیاں دینانہ صرف بُرا ہے بلکہ حد درجہ کی کمینگی کا مظہر ہے کیونکہ ایسا شخص اس امرسے کہ دوسری قوم کے لوگ اس کے بزرگوں کو بھی اپنا بزرگ خیال کرتے ہیں اور اس کی سختی کا سختی سے جواب نہیں دے سکتے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور بارہا دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کو جو اس کے بزرگوں کو اپنا بزرگ خیال کرتے تھے وہ اپنی ناشائستہ حرکت سے ایسا مجبور کر دیتا ہے کہ ان میں سے بعض بطور بدلے کے ان بزرگوں کو برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں اور یہ شخص ایک دوست کو دشمن بنانے کا عذاب مزید براں اپنے اوپر نازل کرلیتا ہے.غرض سب و شتم ایک قبیح فعل ہے اور دوسروں کے بزرگوں کو گالیاں دینے والا سخت مجرم ہے اور اگر اس کی زیادتی کے سبب سے دوسری قوم کے لوگ بھی اپنی زبان کھولیں تو اس کا الزام ان پر نہیں بلکہ اس گالیاں دینے والے کے ذمہ ہے اور میں یقین کرتاہوں کہ اہل شیعہ کے شرفاء اور رؤساء مصنّف کی بد کلامیوں اور بلِا وجہ کی چھیڑ چھاڑ کو اسی طرح بُرا سمجھیں گے جس طرح کہ
۲۹۴ دوسرے فریق کو اس کا فعل بُرا معلوم ہوا ہے اور ہونا چاہئے.مصنّف ہفوات کو جو بغض ائمہ اسلام سے ہے وہ مندرجہ ذیل عبارت سے بخوبی ظاہر ہے وہ لکتے ہیں.’’یہ امر ممکن تھا کہ ہم کتب عقائد و اصول حدیث ور جال سے بھی ایسی احادیث کو مجروح و مقدوح کر دیتے لیکن جب یہ مسلمات عقلی ہے کہ راوی کی ثقاہت متن حدیث کی صحت کو مستلزم نہیں اور نہ خلاف قرآن حدیث حُجّت ہے اور نہ وہ ہفوات درایت کی معیار پر کھری ہیں اس لئے اس بیکار طُول کو ترک کر دیا.‘‘ یعنی گو خود ان اصول کے مطابق جو اہل اسلام نے مقرر کئے ہیں اور خود ان قواعد کے مطابق ائمہ حدیث نے تجویز کئے ہیں ایسی احادیث کی کمزوری ثابت ہو سکتی تھی مگر یہ ایک بیکار طول تھا اس لئے مصنف ہفوات نے اس کو ترک کر دیا مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک بیکار طول تھا کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا کہ خود ائمہ حدیث نے ایسے قواعد تجویز کئے ہیں جن سے صحیح اور کمزور حدیثوں میں فرق کیا جائے تو لوگ سمجھ جاتے کہ حدیثوں کو کلام الہٰی کی طرح مسلمان غلطی سے پاک نہیں مانتے.اور اگر خود انہی آئمہ کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق بعض احادیث ضعیف ثابت ہو جائیں تو ان کے ذریعہ سے آئمہ حدیث کو گالیاں دینے کا موقع نہیں مل سکتا تھا پس بیکار طول سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی سبّ و شتم کی عادت کو پورا کرنے کے لئے مصنّف ہفوات نے اس طریق کو اختیار کیا ہے اور یہ بات ان کے دلی تعصّب پر ایک شاہد ناطق ہے.اس تمہیدی نوٹ کے بعد میں ایک ایک کر کے مصنّف صاحب ہفوات کے اعتراضات کے متعلق اپنی تحقیق بیان کرتا ہوں لیکن ایک دفعہ پھر کھول کر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کتب احادیث کے مؤلّفوں کو نہ خوددعوی ٰہے کہ وہ غلطی سے پاک ہیں اور نہ کبھی مسلمانوں کو یہ دعویٰ ہوا ہے کہ ان میں کسی قسم کی غلطی نہیں ہوئی بلکہ ان کی نسبت یہی خیال علماء میں رائج چلا آیا ہے کہ وہ بعض خدام اسلام کی دیانتدارانہ اور ان تھک کوششوں کا خوبصورت اور دل آویز نتیجہ ہیں جس میں گو بعض کمیاں رہ گئی ہوں لیکن ان کے ذریعہ سے جو فائدہ دنیا کو پہنچا ہے یا پہنچتا ہے یا پہنچ سکتا ہے اس کی قیمت کا اندازہ لگانا ہمارے لئے مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کی نیک خدمات کا بدلہ ان کو دے گا.
۲۹۵ پہلا اعتراض حدیث قال رسول الله صلى الله عليه و حب الی من الدنيا النساء والطیب ۱۵؎ نقل کر کے آپ نے اعتراض کیا ہے.مسلمانوں کو کسی کَنہیاپرست نے یہ عبارت دی اور انہوں نے اس زٹل کو حدیث سمجھ لیا.دیکھئے رسول کی شان یہ ہے کہ معرفت الہٰی اور ہدایت خلق اور اجر ائ احکام خدا میں زیادہ خوش ہونہ کہ عورتوں اور اس کے لوازم خوشبو سے \؎" ہفوات صفحہ ۴ حیرت پر حیرت اور تعجب پر تعجب ہوتا ہے کہ کیسی اعلی ٰاور اکمل تعلیم روحانی دینے والی حدیث اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی شان کو ظاہر کرنے والی روایت کو مصنّف ہفوات نے اِحکاک اور اِحراق کے لئے چنا ہے اور اس پر ایک بہت گند ہ اعتراض کیا ہے.اگر اس قسم کے فہم اور اس قسم کی سمجھ پر کتب روایات کا اِحکاک اور احراق شروع ہوا تو یقیناً صحیح احادیث کا ملنا مشکل ہو جائے گا.اس سوال کا جواب کہ کیا اس حدیث کے وہی معنے ہیں جو مصنّف ہفوات نے سمجھے ہیں نفی میں ہے.ہر شخص کی نظر اس کے اپنے تقویٰ اور معرفت کی حد تک ہی جاتی ہے اور مصنّف ہفوات اس قسم کی بات لکھنے پر مجبور ہے.اگر حق یہ ہے کہ اس حدیث کے ہر گز وہ معنی نہیں جو مصنّف ہفوات نے سمجھے ہیں.مصنف ہفوات کا یہ خیال ہے کہ اس حدیث میں ہے بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کی صحبت میں ہی وقت گزار دیتے تھے اور معرفت ِالہٰی اور ہدایتِ خَلق اور اجراۓ احکام میں آپ کو خوشی حاصل نہ ہوتی تھی.اس سے زیادہ بعید معنے اس حدیث کے اور کوئی نہیں ہو سکتے.نہ تو الفاظ حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ عورتوں کی صحبت میں وقت گزارتے تھے اور نہ اس میں یہ کہیں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم دین و دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ عورتوں سے اور خوشبو سے محبت کرتے تھے.پس اس حدیث سے یہ مطلب نکالنا کہ آپ کو خدا تعالی اور اس کے دین کی باتوں میں خوشی حاصل نہ ہوتی تھی یا عورتوں کی نسبت سے کم خوش ہوتے تھے.کسی صورت میں جائز نہیں.اور محض ہفوات میں داخل ہے.یہ معنے ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص کسی دوست سے کہے کہ مجھے تم سے بہت محبت ہے.اور آگے سے کوئی عقل کا کورا یہ سمجھ لے کہ یہ شخص اپنے والدین کا نافرمان ہے ان سے اس کو محبت نہیں ہے یا اس شخص کی نسبت ان سے کم محبت ہے.جب کہ ایک لفظ بھی حدیث میں ایسا نہیں ہے جس کے یہ معنی ہوں کہ عورتوں اور خوشبو کی محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی سب
۲۹۶ چیزوں سے زیادہ تھی.تو مصنف ہفوات کے کئے ہوئے معنی الفاظ حدیث سے کیونکر پیدا ہوئے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں کل کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بعض ہوتا ہے.جیسے ملکہ سبا کی نسبت آیا.وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ (النمل: 24) اس کو ہر ایک چیز دی گئی تھی.حالانکہ ایک چھوٹا سا ملک اس کو ملا تھا.نہ دنیا کی سب قسم کی نعمتیں اس کو حاصل تھیں اور نہ دین ہی اس کو حاصل تھا.پس جب کُلّ کا لفظ استعمال کر کے بھی بعض کے مونے ہوتے ہیں تو جہاں بالکل ہی کوئی لفظ حصر کے لئے استعمال نہیں ہوا وہاں یہ معنی کرنا کہ رسول کریم ﷺ کو سب ماسوا پر عورتیں اور خوشبو محبوب تھے.کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ دوسرا پہلو مصنف ہفوات کے اعتراض پر غور کرنے کا یہ ہے کہ کیا عورتوں سے محبت رکھنا اور خوشبو کو پسند کرنا گناہ ہے یا روحانی ترقی کے حصول کے منافی ہے.اور اہل اللہ کے طریق سے نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی شئے کی محبت تین طرح کی ہوتی ہے یا تو ایسی محبت کہ دوسری اشیاء کو بالکل بھلا دے یا ایسی محبت جو دوسری اشیاء کی محبت کے ساتھ دل میں رہے اور کسی اور محبت کے طفیل سے پیدا ہو.یا ایسی محبت جو محب کو مغلوب تو نہ کر دے لیکن مستقل محبت ہو جسے دوسرے الفاظ میں طبعی محبت کہنا چاہئے.جو محبت کہ دوسرے تعلقات بھلا دیتی ہے اور ان کو نظر میں ادنیٰ اور حقیر کر کے دکھاتی ہے وہ تو ما سوی اللہ سے ناجائز ہے اور گناہ ہے لیکن ایسی محبت جو تابع ہو اللہ تعالیٰٰ کی محبت کے اور اس کی محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہو عین ثواب اور موجب زیادتی ایمان اور ترقی درجات ہوتی ہے اور وہ محبت جو نہ تو اللہ تعالیٰٰ کی وحی او رحکم کے ماتحت پیدا ہو اور نہ ماسوا پر غالب ہو بلکہ حدود کے اندر رہے یہ محبت طبعی محبت کہلاتی ہے اور جائز و حلال ہے.گو موجب ثواب اور باعث ترقی درجات نہیں.ہاں یہی محبت نیک اور باخدا انسان کے اندر ترقی کرتے کرتے دوسری قسم کی محبت بن جاتی ہے.پس محبت تو نہ نیکی کے منافی ہے نہ نبوت و رسالت کی شان کے خلاف.بلکہ بعض وقت تقویٰ کے خلاف ہوتی ہے اور بعض وقت نہ خلاف نہ مطابق اور بعض وقت عین تقویٰ میں داخل ہوتی ہے.ان تین قسم کی محبتوں کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے چنانچہ سورۃ بقرۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلّهِ } (البقرة :166)ترجمہ: اور لوگوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو اللہ کے شریک بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہئے اور مومن سب سے
۲۹۷ زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں.اس جگہ دو محبتوں کا ذکر ہے.ایک جس میں ماسوا کی محبت وہ رنگ اختیار کر لیتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہونا چاہئے.اس کو ناپسند اور ناجائز فرمایا ہے.اور ایک محبت وہ بیان فرمائی ہے کہ گو دوسروں کی محبت بھی دل میں ہوتی تو ہے مگر اللہ تعالیٰ کی محت سے کم ہوتی ہے اور اس سے ادنیٰ درجہ پر ہوتی ہے.اس طرح سورۃ توبہ میں فرماتا ہےقُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة :24)ترجمہ: کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادے اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا تمہیں ڈر ہے اور گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کے رستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰٰ کا فیصلہ صادر ہو اور اللہ فاسقوں کو کبھی کامیاب نہیں کرتا.اس آیت سے بھی ظاہر ہے محبت دو قسم کی ہوتی ایک وہ جو حرام ہے جو خدا اور رسول کی محبت اور خدمت دین کی خواہش پر غالب آ جاوے اور اس میں سستی پیدا کر دے.اور ایک جو جائز ہے یعنی جو اللہ تعالیٰٰ اور رسول کی محبت سے ادنیٰ درجہ پر ہو اور خدمت دینی کے رستہ میں روک نہ ہو.تیسری قسم کی محبت جو اہل اللہ اور انبیاء او ررسل کی محبت ہے اس کا ذکر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات میں ہے: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ (البقرة :178)ترجمہ: نیکی تمہارے مشرق و مغرب کی طرف نہ پھیرنے کا نام نہیں ہے لیکن سچی نیکی اس شخص کی نیکی ہے جو اللہ اور یوم آخر پر اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اللہ کی محبت کی وجہ سے اپنے قریبیوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر اور لوگوں کے چھڑانے پر خرچ کرتا ہے جو مالی یا جسمانی قید میں گرفتار ہوتے ہیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی محبت اپنے عزیزوں اور قریبیوں سے بھی اللہ کی محبت کے باعث ہوتی ہے اور اس کے سب رشتہ دار طبعی محبت کے علاوہ للہی محبت کی رسی سے بندھے ہوتے ہیں.
۲۹۸ حق الیقین دوسری آیت جس میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے یہ ہے.اِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ () فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ() رُدُّوهَا عَلَيَّ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ (ص: 32-34)ترجمہ.جب کہ اس کے (حضرت سلیمان علیہ السلام کے) سامنے سے نہایت اعلیٰ تین سُموں پر کھڑے ہونے والے تیز دوڑنے والے گھوڑے گزارے گئے تو انہوں نے بار بار کہا کہ میں ان دنیاوی سامانوں سے اپنے رب کی یاد کے سبب سے محبت کرتا ہوں (ذاتی محبت نہیں ہے) یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نظر سے دور ہو گئے تو حکم دیا کہ ان کو میرے پاس واپس لاؤ اور ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے (جیسا کہ پیار سے جانوروں پر ہاتھ پھیرا جاتا ہے).اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں سے محبت رکھتے تھے اور اس کی وجہ ان کی طبعی یا جسمانی لذتیں نہ تھیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے ذکر کے قیام کے لئے وہ ایسا کرتے تھے.کیونکہ گھوڑوں کے ذریعہ ان کو جہاد فی سبیل اللہ میں مدد ملتی تھی.پس ذکر محبوب کے قیام میں ممد ہونے کے سبب سے وہ آپ کو پیارے تھے.مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک محبت ایسی بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی دوسری محبت کے طفیل میں ہوتی ہے اور ایسی محبت اصل محبت کے راستہ میں روک نہیں ہوتی.بلکہ اس کی گہرائی اور عظمت پر دلالت کرتی ہے.اس قسم کی محبت کا ذکر قرآن کریم میں صحابہ کے متعلق آیا ہے سورۃ حشر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر :10) ترجمہ: اور وہ لوگ جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ دار الہجرت میں رہتے تھے اور جنہوں نے ایمان کو اختیار کیا ہوا تھا وہ محبت کرتے ہیں ان سے جو ان کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں اور اس مال کی رغبت نہیں کرتے جو ان کو دیا جاتا ہے اور مہاجرین کو اپنی جانوں پر مقدم کر لیتے ہیں گو خود ان کو بھوک کی تکلیف ہی کیوں نہ ہو اور جو لوگ بخل نفس سے بچائے جاتے ہیں وہ کامیاب ہونے والے ہیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے سے اللہ کے لئے محبت کرتے تھے اور انکا یہ فعل اللہ تعالیٰ کو محبوب تھا اور وہ اس کی تعریف فرماتا ہے.
۲۹۹ حق الیقین خلاصہ یہ کہ قرآن کریم سے تین قسم کی محبتوں کا ثبوت ملتا ہے.ایک وہ محبت جو بُری ہوتی ہے.دوسری وہ جو طبعی ہوتی ہے.نہ اچھی نہ بری.تیسری وہ جو موجب ثواب ہوتی ہے اور اس کا کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے کیونکہ وہ طفیلی محبت ہوتی ہے اور خدا کی محبت کا نتیجہ ہوتی ہے پس وہ غیر کی محبت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہی محبت ہوتی ہے اور اسی کے حکم اور اسی کی رضا کے ماتحت ہوتی ہے.اس تیسری قسم کی محبت کا کسی اعلیٰ سے اعلیٰ انسان میں بھی پایا جانا اس کی شان کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا نہ پایا جانا اس کی شان کے خلاف ہے کیونکہ اس کی محبت کی کمی کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کی محبت اللہ تعالیٰ سے ایسی بڑھی ہوئی نہیں کہ وہ اس کی خاطر دوسروں سے محبت کر سکے.یہ محبت جس قدر بھی کوئی اعلیٰ مرتبہ کا انسان ہو اسی قدر اس میں زیادہ پائی جائے گی.پس رسول کریم ﷺ کی نسبت اگر یہ بیان کیا جائے کہ آپ اپنی عورتوں سے محبت کرتے تھے تو یہ ہرگز آپ کی شان کے گھٹانے والی بات نہیں ہے آپ کا یہ فعل اللہ تعالیٰٰ کے احکام اور اس کی منشاء کے بالکل مطابق تھا جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الروم :22) ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی قسم کے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف مائل ہو کر تسلی پکڑو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا سلسلہ بنایا ہے اس میں ان لوگوں کے لئے نشان ہیں جو اپنے نفوس میں غور کرنے کے عادی ہیں.مصنف ہفوات اگر اپنے نفس میں غور کرنے کے عادی ہوتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ عورت و مرد کا تعلق صرف شہوات کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے بہت سی حکمتیں رکھی ہیں.مگر ہر شخص اپنے اوپر دوسروں کی حالت کا بھی قیاس کر لیتا ہے.علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ازواج مطہرہ کو ایک عظیم الشان نعمت قرار دیا ہے اور جنت میں مومن مرد کے پاس اس کی مومن بیوی کو رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے اور مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے قرۃ عین بننے کی دعا کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے منشاء کے مطابق پاک بیویوں کو ایک نعمت سمجھنا اور ان کی قدر کرنا اور ان سے محبت کرنا ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے اور نیکی کا وجودنیکوں کی شان کو بڑھاتا ہے نہ کہ گھٹاتا ہے.
۳۰۰ حق الیقین تیسر اپہلو مصنف ہفوات کے سوال پر غور کرنے کا یہ ہے کہ اس حدیث کے اصل معنوں پر غور کیا جائے کیونکہ بہت دفعہ انسان ایک بات کے معنے غلط کر کے اعتراض کر دیتا ہے لیکن صحیح معنے معلوم ہوں تو اعتراض دور ہو جاتا ہے.میرے نزدیک اسی حدیث کے صحیح معنے معلوم نہ ہونے کے سبب سے ہی مصنف ہفوات کو اعتراض پیدا ہوا ہے بلکہ مصنف ہفوات سے ایک خطرناک غلطی یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ صحیح معنے معلوم نہ ہو سکیں اور حدیث کاایک ٹکڑا اس غرض سے محذوف کر دیا ہے.گو اصل معنی اس حدیث کے جب میں بیان کروں گا تب معلوم ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حدیث کو پورا نقل کر دینے سے ہر شخص سمجھ لے گا کہ مصنف ہفوات نے دیانتداری سے کام نہیں لیا کیونکہ انہوں نے حدیث کا وہ حصہ جو اس اعتراض کو جو انہوں نے کیا ہے بالکل دور کر دیتاہے.چھوڑ دیا ہے.حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں حدثنا سلام ابو المنذر عن ثابت عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ حبب الی من الدنیا النساء و الطیب و جعل قرۃ عینی فی الصلٰوۃ ایک دوسری روایت میں ہے من دنیاکم.ترجمہ : رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے پسند کرائی گئ ہیں تمہاری دنیا میں سے عورتیں اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز ہی میں رکھی گئی ہے.اس آخری فقرہ کی موجودگی میں کیا مصنف ہفوات کا اعتراض پڑ سکتا تھا کہ ‘‘رسول کی یہ شان ہے کہ وہ معرفت الٰہی اور ہدایت خلق اوراجرائے احکام میں زیادہ خوش ہو نہ کہ عورتوں اور لوازم خوشبو سے معاذ اللہ’’ صفحہ 4.پس ان کا اس فقرہ کو چھوڑ دینا بتاتا ہے کہ ان کی نیت اعتراض پیدا کرنا تھی نہ کہ احقاق حق.پیشتر اس کے کہ میں اصل معنی اس حدیث کے بیان کروں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ حب کے معنے عشق کے نہیں ہوتے جیسا کہ مصنف ہفوات نے سمجھے ہیں.بلکہ یہ ایک وسیع معنوں کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے یہ معنی لکھے ہیں.الحب نقیض البغض و الحب الوداد والمحبۃ یعنی حب کا لفظ بغض کے خلاف معنی رکھتا ہے اور اس کے معنے وداد اور محبت کے ہوتے ہیں ان معنوں کو مدنظر رکھ کر حب کے معنے کسی کو پسند کرنے اس کو چاہنے اس کی خیر خواہی کرنے کے ہوتے ہیں.یعنی عشق کے معنے نہیں بلکہ عام خیر خواہی اور پسندیدگی سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ کشش اور اتصال کے معنی اس لفظ کے ہیں.چنانچہ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم اور احادیث اور لغت عرب میں کثرت سے مستعمل ہے.قرآن کریم میں خیر خواہی کے معنوں میں سورۃ قصص
۳۰۱ حق الیقین میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص :57) ترجمہ: تو ہر اس شخص کو ہدایت نہیں دے سکتا جس کی ہدایت کا تو خواہاں ہے لیکن اللہ جسے پسند کرتا ہے ہدایت دیتا ہے اور خدا ہی جانتا ہے کہ کون لوگ ہدایت کے مستحق ہیں.اس حدیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کفار سے بھی محبت رکھتے تھے پس اگر مصنف ہفوات کے معنوں کے مطابق یوں سمجھا جائے کہ محبت کے معنے عشق کے اور ماسوا کو بھلا دینے کے ہوتے ہیں تو اس آیت کےنعوذ باللہ یہ معنے بن جائیں گے کہ رسول کریم ﷺ کو کفار کی محبت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ آپ معرفت الٰہی اور اجرائے احکام خدا میں زیادہ خوش نہ ہوتے تھے مگر ایسا خیال کفر ہے آپ کا وجود تو اس آیت کا مصداق تھا.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأَنعام: 163)پس اس آیت میں محبت کے معنی خیر خواہی کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ تُو تو سب دنیا کا ہی خیر خواہ ہے اور چاہتا ہے کہ سب کو ہدایت مل جائے مگر تیری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ انہی لوگوں کے لئے ہدایت کے سامان جمع کرتا ہے جو خود ہدایت کے جویاں ہوتے ہیں اور ہدایت کا مقابلہ نہیں کرتے.کسی چیز کو نسبتی طور پر پسند کرنے کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے گو وہ اپنی ذات میں اچھی نہ ہو.چنانچہ حضرت یوسف کی نسبت آتا ہے قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ (يوسف: 34)ترجمہ: یوسف علیہ السلام نے کہا.اے میرے رب! قید خانہ مجھے اس بات سے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلاتی ہیں زیادہ پسند ہے.اس جگہ محبت کا لفظ ایک ایسی بات کی نسبت استعمال ہوا ہے جو اپنی ذات میں بری ہے لیکن نسبتی ترجیح کے سبب سے اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے.طبعی محبت اور عشق کے متعلق میں یہ پہلے آیات لکھ آیا ہوں اس لئے اس جگہ اس کی تکرار کی ضرورت نہیں.احادیث میں بھی یہ لفظ کثرت سے ان معنوں میں استعمال ہوا ہے چنانچہ حُبّ کے معنوں کی تشریح میں لسان العرب نے دو حدیثیں لکھی ہیں جن سے حب کے معنوں کی خوب تشریح ہو جاتی ہے ایک حدیث تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کی نسبت فرمایا ھذا جبل یحبنا و نحبہ ۲۸؎ وہ ایک ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے
۳۰۲ حق الیقین ہیں.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت کا لفظ نفع رسانی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے پہاڑ محبت نہیں کیا کرتے.پہاڑ کی محبت سے اس کا وہ نفع ہے جو وہ پہنچاتا ہے چونکہ احد کی جنگ میں ایک غلطی کے سبب سے مسلمانوں کو تکلیف اٹھانی پڑی اور مفکر اسلامی کا اجتماع احد پہاڑ پر ہی ہوا اور وہ دشمن کے حملوں سے بچانے کا ایک ذریعہ ہو گیا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ہمیں نفع پہنچاتا ہے اور ہم اس کے قیام کو پسند کرتے ہیں.اسی طرح لسان نے ایک دوسری حدیث انس ؓسے لکھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انظروا لحب الآنصار التمر ۲۹؎ انصار کی محبت کھجور سے دیکھو.اس کے یہ معنی نہیں کہ انصار کھجور کے عشق میں سرشار تھے.بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ انصار کھجور کے مفید ہونے کو دیکھ کر اس کی حفاظت کرتے تھے اور اس کے بونے اور جمع کرنے میں کوشاں رہتے تھے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے اذ ا ابتليت عبدي بحبيبتيه فصبر ۳۰؎ یعنی جب بندے کی آنکھیں ضائع ہو جائیں اور وہ صبر کرے.آنکھوں کے لوگ عاشق نہیں ہوتے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے فائدہ کو دیکھ کر ان کی قدر کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں.غرض محبت کے معنے وسیع ہیں کسی چیز کو نفع رساں سمجھ کر اس کی قدر کرنی اور اس کو تباه ہونے سے بچانے کی کوشش کرنے اور نفع پہنچانے کے علاده طبعی کشش اور اتّصال اور پھر کلی طور پر کسی کے خیال میں محو ہو جانے تک اس لفظ کا دائرہ وسیع ہے.جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ محبت کے معنے صرف عشق کے نہیں ہیں جیسا کہ مصنف ہفوات نے اپنی ناواقفیت سے سمجھا ہے تو اب اس حدیث کے معنی سمجھنے میں کوئی دقت نہیں رہی.اس حدیث میں آلنساء کا لفظ ہے اور النساء کے معنی عورتیں اور بیویاں دونوں ہو سکتے ہیں اور میرے نزدیک اس جگہ عورتوں کے معنے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں کہ مجھے دنیا کی باتوں میں سے خصوصیت کے ساتھ عورتوں کی خیر خواہی اور خوشبو کی اشاعت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.مگر باوجود اس کے مجھے اصل لذت عبادت الہٰی میں دی گئی ہے یعنی مخلوق کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرتا ہوں مگر جو لطف اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے میں آتا ہے اتنا لطف اس کام میں نہیں آتا کیونکہ یہ کام در حقیقت ضمنی ہے اصل کام اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے ہاں خدا نے چونکہ اس کام کو بھی ضروری قرار دیا ہے اس لئے اس طرف بھی توجہ کرنی پڑتی
۳۰۳ ہے.اس حدیث کو مدنظر رکھو اور اس حالت کو دیکھو جو اسلام سے پہلے عورتوں اور طہارت کی تھی اور معلوم کرو کہ کیا یہ حدیث ایک اعلیٰ درجہ کی صداقت اور خوبی پر مشتمل ہے یا نہیں؟ کیا اس میں کچھ شک ہے کہ اسلام سے پہلے عورتوں کے حقوق کو پامال کیا جاتا تھا اوران کے لئے ابدی حیات کا انکار کیا جاتا تھا اور ان کو مالوں اور جائیدادوں کی طرح ایک منتقل ہونے والا ورثہ خیال کیا جاتا تھا اور ان کی پیدائش کو صرف مرد کی خوشی کا موجب قرار دیا جاتا تھا حتی کہ مسیحی جو اپنے آپ کو حقوق نسواں کے حامی کہتے ہیں ان کے پاک نوشتوں میں بھی عورت کی نسبت لکھا تھا.’’ البتہ مرد کو اپنا سر ڈھانکنانہ چاہئے کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اس کا جلال ہے‘‘ اسی طرح لکھا تھا.’’ اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے‘‘ ۳۱؎ اسلام ہی ہے جس نے عورتوں کی انسانیت کو نمایاں کر کے دکھایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عورتوں کے بلحاظ انسانیت برابر کے حقوق قائم کئے اور و لھن مثل الىذی عليھن بالمعرو ف\" ۳۲؎ کی تفسیر لوگوں کے خوب اچھی طرح ذہن نشین کی.آپ کے کلام میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق اور ان کی قابلیتوں کے متعلق جس قدر ارشادات ہیں ان کا دسواں حصہ بھی کسی مذہبی پیشوا کی تعلیم میں نہیں ملتا اور یہی مطلب ہے تب إلى البناء الجن کا یعنی عورتوں کی قدردانی اور ان کی خوبیوں کا احساس میرے دل میں پیدا کیاگیا ہے.وہی سلوک جو عورتوں سے آنحضرت کی بعثت سے پہلے کیا گیا تھا کم و بیش طور پر خوشبو سے بھی کیا گیا تھا.عیسائیوں میں اور ہندوؤں کے بعض فرقوں میں بزرگان دین کے لئے پاک رہنا اور خوشبو کا استعمال بالکل حرام سمجھا جاتا تھا گندے اور بدبو دار لباس کا استعمال اور ناخن نہ کٹوانا میل نہ اتارنا بہت بزرگی خیال کی جاتی تھی اور مختلف اقوام میں بھی خوشبو کے استعمال کو روحانیت کے لئے مضر سمجھا جاتا تھا حالانکہ جیسا کہ طب سے ثابت ہوا ہے خوشبو صحت کی بہتری اور خیالات کے بلند کرنے میں مُمِّدہوتی ہے اور بدبو اس شخص کے لئے بھی مضر ہوتی ہے جو گندہ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے ضرر ہوتا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من أكل من هذه الشجرة يعني الثوم دلا یقربن مسجدنا فان الملئكة تاذیمما يتاذی منه الإنس ۳۳؎ جو شخص اس بُو دار پودے لہسن کا استعمال کرے اسے چاہئے کہ مسجدوں میں نہ آئے کیونکہ ملائکہ کبھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس
۳۰۴ حق الیقین کرتے ہیں.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بُو کو لوگوں کے لئے مضر قرار دیا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ نے جمعہ کے دن بوجہ اجتماع کے خوشبو کے استعمال کا حکم دیا.غرض کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ایک یہ بات تھی کہ آپ نے جگہ کی پاکیزگی کے علاوہ جو مختلف مذاہب میں ضروری سمجھی جاتی تھی شخصی صفائی کو بھی ضروری قرار دیا اور اسی مضمون کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے.لیکن چونکہ بعض لوگ افراط کا پلو اختیار کر لیتے ہیں اس لئے فرما یا و جعلت قرة عینی فی الصلوة: یعنی میری اصل راحت نماز میں ہی رکھی گئی ہے.پس چاہئے کہ میرے ان احکام کو دیکھ کر عورتوں سے نیک سلوک ہونا چاہئے اور خوشبو کا استعمال کرنا چاہئے کوئی شخص یہ غلط مفہوم نہ لے لے کے بس عورتوں کی رضا میں لگا رہے اور ظاہری صفائی میں ہی لگارہے بلکہ چاہئے کہ عورتوں سے حسن سلوک بھی کرو اور ظاہری پاکیزگی کا بھی خیال رکھو لیکن اصل لذت تم کو اللہ تعالی ہی کی یاد میں حاصل ہو.مصنف صاحب ہفوات ان معنوں پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا یہ حدیث احکاک اور احراق کے قابل ہے یا اس قابل ہے کہ اس کو دشمنوں کے سامنے اسلام کی خوبیوں سے اظہار اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے لئے پیش کیا جائے ان کو چاہئے کہ جب وہ کسی حدیث کے معنی کرنے لگیں تو یہ دیکھ لیا کریں کہ وہ ان کی نسبت نہیں ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے اور اس کے اندر ان کے خیالات کا اظہار نہیں ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا اظہار ہے اور اپنے خیالات اور جذبات کے مطابق اس کا ترجمہ نہ کیا کریں.اگر اس حدیث میں نساء کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے معنے بیویاں کیا جائے تب اس حدیث کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں اور خوشبو کی طرف میری رغبت جبراً کی ہے ورنہ میری لذت تو نماز ہی میں ہے اور یہ معنی بھی صحیح ہیں.اگر اسلام میں رہبانیت کو روکا نہ جانا اور اس کی اجازت دی جاتی تو اغلب تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم امور خانہ داری میں پڑنے کی بجائے اپنے اوقات کو ذکر الہٰی میں ہی صرف کرتے.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو ذکرالہٰی کا جزو قرار دیا ہے اور خصوصا ً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو بہت سی بیویوں کا ہو نا ضروری تھا تاکہ وہ عملاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طریق معاشرت کو سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جُبّبَ بصیغہ مجہول فرمایا ہے جب بھی معروف
۳۰۵ نہیں فرمایا.پس حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی حکمت کاملہ کے ماتحت میں نے بہت سے نکاح کے ہیں اور خوشبو کو پسند کرتا ہوں ورنہ میری لذت ذکرالہٰی میں تھی.یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی کوئی لذت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بخواہش خود استعمال نہیں فرماتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے ازلی قانون کی متابعت میں بقدر ضرورت دنیا کی چیزوں سے تعلق رکھتے تھے اور یہ مضمون آیت ان صلاتي و نسكي ومحياي ومماتي لله رب العلمين کے عین مطابق ہے اور اس پر اعتراض کرنا کور چشمی کی دلیل ہے.میں نے اس اعتراض پر زیادہ بسط سے اس لئے لکھا ہے کہ یہ ایک اصولی سوال ہے اور مصنّف ہفوات کی طرح بہت سے لوگ اس وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ استعمال طیبّات شائد ایک مکروہ بات ہے جو عام مومنوں کو تو جائز ہو سکتی ہے مگر بزرگوں اور نبیوں کے لئے جائز نہیں حالانکہ معاملہ برعکس ہے.طیبّات ایک نعمت ہے اور ہر نعمت کے اصل مستحق الله تعالی کے محبوب بندے ہیں اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیاہی پیدا نہ کی جاتی.ہاں چونکہ وہ اپنی محبت کو خدا ہی کے لئے وقف کر چکے ہوتے ہیں وہ جس دنیاوی کام کو کرتے ہیں محض احکام الہٰی کی بجا آوری میں کرتے ہیں اور اس کے قانون کے ادب کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ان نعتوں کے حقیقی مستحق نہیں ہیں وہ زیادہ شوق انہی کا رکھتے ہیں جیسے ایک شخص کسی دوست کو ملنے جاتا ہے تو جب کہ مہمان کی تمام توجہ اپنے دوست کی صحبت سے فائدہ اٹھانے میں لگی ہوئی ہوتی ہے.اور وہ کھانا محض دوست کے اظہار محبت کی قدر کے طور پر کھاتا ہے اس کے نوکروں کی توجہ زیادہ تر کھانے کی طرف ہوتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک حق پسند انسان کی تسلی کے لئے کالی ہے لیکن سب دنیاحت پسند نہیں ہوتی اور خصوصاً مصنف ہفوات کے تو ایک ایک لفظ سے تعصب اور بُغض ٹپک رہا ہے ان کی نسبت یہ خیال بہت مشکل ہے کہ وہ بِلا اپنے گھر کے بھید معلوم کرنے کے خاموش ہوں بلکہ کوئی تعجب نہیں کہ وہ سب جواب پڑھ کر پھر بھی تحریر فرما دیں کہ ’’مسلمانوں کو کسی کَنہیا پرست نے یہ عبارت دی اور انہوں نے اس زٹل کو حدیث سمجھ لیا‘‘ پس چاہتا ہوں کہ ان کو بتا دوں کہ وہ کَنہیا پرست (نعوذ بالله من ذاک) کا لفظ کس کی نسبت استعمال کر رہے ہیں.فروع کافی جلد ۲ کتاب النکاح باب حب النساء میں عمر بن یزید امام ابو عبد الله سے روا کرتے ہیں قال ما اظن رجلا يزداد في الإيمان إلا ازدادا للنساء ۳۴؎ ترجمہ
۳۰۶ میں ہرگز خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص ایمان میں ترقی کرتا ہو بِلا اس کے کہ ساتھ ساتھ عورتوں کی محبت میں بھی بڑھتا ہو.دوسری روایت حفص بن البحّری کی امام ابو عبداللہ سے اسی کتاب اور اسی باب میں درج ہے اور وہ یہ ہے قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحببت من دنياكم إلا النسا، واللطيب ۳۵؎ ترجمہ.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہاری دنیا میں سے محبت نہیں کرتا مگر عورتوں اور خوشبو سے.یہ الفاظ ابو داؤد کی روایت سے بہت زیادہ سخت ہیں کیونکہ اس میں تو حُبِّبَ کے لفظ تھے جن کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ میں خود تو محبت نہیں کرتا مجھ سے محبت کرائی جاتی ہے لیکن امام ابو عبد اللہ ایک طرف تو یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص ایمان میں ترقی نہیں کر سکتا جب تک اسے عورتوں سے محبت نہ ہو.دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں میں تمہاری دنیا میں سے عورتوں اور خوشبو سے محبت کرتا ہوں اب مصنف ہفوات صاحب فرمائیں کہ کیا وہ کُنہیا پرست اور واضح حدیث کے الفاظ اس امام اہل بیت کی نسبت بھی استعمال کریں گے یا صرف یہ الفاظ ابو داؤدہی کی نسبت استعمال کئے جا سکتے ہیں؟ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب کوئی شخص کسی راستباز انسان پر اعتراض کرنا ہے تو اس کا قدم ٹھہرہی نہیں سکتا جب تک سب راستبازوں پر حملہ نہ کرے کیونکہ راستباز سب ایک زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں اور سب کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے جو ان میں سے کسی ایک کے راستہ میں پتھر رکھتا ہے وہ سب کو گرانے کی کوشش کرتا ہے جو ایک کو دھوکا دیتا ہے ہم سب کو دھوکا دیا ہے تو انسان سب راستبازوں کو قبول کرلے یا اسے سب کو ردّ کرنا پڑے گا.اور اس کا دعوائے ایمان اس کے کسی کام نہ آئے گا.کیونکہ اس کے اقوال اس کے ایمان کو رد کر رہے ہیں.اس سے بھی بڑھ کر یہ روایت ہے جو علی بن موسی ٰرضا ؒسے معمر بن خلاد نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے يقول ثلاث من سنن المرسلين العطر و اخذالشعر و الطروقة\" ۳۶؎ یعنی *مصنف صاحب ہفوات نے دوسرے ایڈیشن میں کچھ تبدیلیاں کر دی ہیں چنانچہ عورتوں اور خوشبو کی محبت کے متعلق چونکہ ان کو اپنے بزرگوں سے معلوم ہوا ہے کہ ان کا ذکر توسنّیوں سے بڑھ کر ہماری کتب میں موجود ہے اس لئے انہوں نے دوسرے ایڈیشن میں اعتراض کا پہلو یوں بدل دیا ہے کہ ان چیزوں سے محبت تو ہر صحیح القویٰ کو ہوتی ہے رسول کی کیا خصوصیت ہے؟ لیکن یہ اعتراض بھی ویساہی بودہ ہے کیونکہ حدیث میں خصوصیت کا ذکرہی
۳۰۷ تین چیزیں نبیوں کی سنتوں میں سے ہیں اول خوشبو، دوم بال صاف کرنا، سوم کثرت جماع.اب مصنف ہفوات بتائیں کہ علی بن موسی الرضاتو عورتوں کی صحبت کی کثرت کو سنت انبیاء قرار دیتے ہیں.پھر آپ اسے کنہیا پرستی قرار دے کر کس کو گالیاں دے رہے ہیں ؟ آیا ائمہ اہل سنت کو یاخود ائمہ اہل بیت کو؟ مندرجہ بالا احادیث جو اہل شیعہ کی روایات میں سے ہیں.مصنف ہفوات کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہوں گی.مگر میں دو اور روایتیں لکھ کر جو ان سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کو پھوس کے گھر میں بیٹھ کر آگ سے نہیں کھیلنا چاہئے.ایک شیعہ صاحب امام ابو عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت امام ابو عبداللہ سے پوچھا کہ سب سے زیادہ لذید شئے کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا الذالاشياء مباضعة النساء ۳۷؎ سب سے زیادہ لذیز شئے عورت سے جماع کرنا ہے وہ لفظ جو امام ابو عبداللہ کی طرف اس شیعہ مخلص نے منسوب کئے ہیں بہت زیادہ ننگے اور واضح ہیں لیکن میں نے ان کا ترجمہ سنجیدہ الفاظ میں کر دیا ہے.امید ہے کہ مصنّف صاحب ہفوات لغت دیکھ کر خود معلوم کر لیں گے کہ ان لفظوں کا لفظی ترجمہ ہماری زبان میں کیا ہو سکتا ہے.اور پھر اسی طرز تحریر کو بدلنے کی کوشش کریں گے جو الفاظ احادیث کی وجہ سے نہیں بلکہ بخاری کے مترجم کے بعض نامناسب الفاظ سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنی کتاب میں اختیار کی ہے.دوسری روایت اہل شیعہ کی جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں حسب ذیل ہے.عقبہ بن خالد بیان کرتے ہیں میں ابو عبدالله علیہ السلام کے پاس آیا جب آپ گھر سے نکل کر آئے تو کہا کہ یاعقبة شغلنا عنک ھولاء النساء ۳۸؎ ترجمہ.اے عقبہ! ان عورتوں نے ہمیں مشغول رکھا اور تیرے پاس نہ آنے دیا.مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ ایک تو امام صاحب جو نبیوں کی طرح آپ کے عقیدے میں معصوم تھے عورتوں سے تعلق کو سب سے زیادہ لذیذ شئے بتاتے ہیں.دوسرے دین کی خدمت پر آنے والے لوگوں سے عورتیں ان کو روک بھی لیتی ہیں اور (بقیہ نوٹ نوٹ) نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہی احادیث کتب شیعہ میں بھی موجود ہیں وہ کس خصوصیت کی وجہ سے...........ہیں؟ تعجب پر تعجب یہ ہے کہ اس قدر تبدیلی کے بعد مصنف صاحب ہفوات نے دوسرے ایڈیشن میں پھر پہلے ہی اعتراض دُ ہرا دیئے ہیں.
۳۰۸ وہ ان کی صحبت میں بیٹھے ہوئے خدمت دین کو بھول جاتے ہیں.کیا اب اہل سنت بھی کہہ دیں کے.”امام کی شان تویہ ہے کہ وہ معرفت الہٰی اور ہدایت خلق اللہ اور اجرائے احکام خدا میں زیادہ خوش ہو نہ کہ عورتوں اور اس کے لوازم خوشبو سے“ (معاذ الله).اور کیا مصنف صاحب ہفوات اپنے اعوان شیعہ صاحبان کی مدد سے ان کتب اہل شیعہ کے احکاک سے فارغ ہو لینا چاہئے پھر دوسری طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ دوسرے کو کہنے کا وہی شخصی مستحق ہوتا ہے جو پہلے اپنے گھرکا انتظام کرے.یہ جواب تو اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہے جو مصنف ہفوات نے تجویز کیا ہے لیکن ہم جس اصل کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اسکے رو سے امام ابو عبداللہ کی طہارت اور پاکیزگی اور تقوی ٰ اور بزرگی میں کچھ بھی فرق نہیں آتا.نہ ان کتب اہل شیعہ کی تحقیر ہوتی ہے.ہم جب تک بددیانتی ثابت نہ ہو ان کی کوشش کی بھی قدر کرتے ہیں اور میرے نزدیک انہوں نے ائمہ اہل بیت کے اقوال نقل کر کے ایک قابل قدر خدمت کی ہے.اگر اس خدمت میں نادانستہ ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس سے ان کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا.نہ ان کی کتابوں کی عظمت کو صدمہ پہنچتا ہے اور اگر دانستہ غلطی کی ہے تو اس کے ذمہ دار وہ خدا تعالی کے حضور میں ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت عائشہ سے عشق دوسرا اعتراض مصنف ہفوات کا یہ ہے کہ احادیث میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے عاشق تھے.اور یہ بات غلط ہے.اور اس کی تائید میں انہوں نے کئی احادیث نقل کی ہیں جن کے متعلق میں الگ الگ لکھتا ہوں اول تو انہوں نے جواب الکافی سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ امّ سلمہؓ سے کہا کان اذارأي عائشة لا یتمالک نفسہ ۳۹؎ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو دیکھتے تھے تو ان کا اپنے نفس پر قابو نہیں رہتا تھا.یہ روایت جو اب الکافی میں بِلاحوالہ کتاب اور بِّلا سند درج ہے اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی کتاب میں سے مصنّف کتاب نے درج کی ہے یا یہ کہ ان بے شمار نا قابل اعتبار روایات میں سے ایک ہے جو عام طور پر مجالس وعظ کی زینت کے لئے لوگوں میں مشہور تھیں.مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کا مضمون قابل اعتراض ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف اور قرآن کریم کے بتاۓ ہوئے اخلاقِ محمدی کے بر عکس ہے.پس یہ روایت یہ سبب مضمون قرآن اور صحیح روایات اور عقل
۳۰۹ حق الیقین سلیم کے خلاف ہونے کے غلط ہے.اور ان روایات سے معلوم ہوتی ہے جو عبد اللہ بن ابی بن سلول کے چیلے چانٹوں کی طرف سے مشہور کی جاتی تھیں اور جن کا ذکر بعد میں منافق مسیحی اور یہودی نَو مسلموں نے تازہ رکھا.مگر باوجود اس کے کہ یہ روایت میرے نزدیک بالکل نا قابل اعتبار اور صریح دروغ ہے اس کے پیش کرنے سے مصنّف ہفوات کا جو منشاء ہے وہ کسی صورت میں پورا نہیں ہو سکتا نہ اس روایت کا جھوٹا ہونا جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں محدثین کی شان کو کم کر سکتا ہے.اور نہ ضرورت حدیث کو باطل کر سکتا ہے اور نہ اس کے جھوٹے ہونے سے ہمارے لئے یہ جائز ہو سکتا ہے کہ اس روایت کو کتابوں میں سے نکال پھینکیں.اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو بعض دوسرے لوگ اس کے مقابل میں صداقتوں کو بھی نکال کر پھینک دیں گے.میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ احادیث کی کتب غلطی سے پاک نہیں ہیں اور نہ ہر ایک کتاب نیک نیتی سے لکھی گئی ہے کئی کتب محض مجالس وعظ کو رونق دینے کے لئے لکھی گئی ہیں مگر باوجود اس کے اس فن کے کمال تک پہنچانے والوں کی خد مت اسلام کا انکار نہیں ہو سکتا اور ہزاروں حدیثوں کے جھو ٹا نکلنے پر بھی اس فن کی حقارت نہیں کی جاسکتی.اس وقت کوئی شخص قابل ملامت ہو سکتا ہے جب کہ وہ ان مُزیل شانِ رسالت احادیث کو صحیح قرار دیتے اور ان کی ایسی تاویل بھی نہ کرے جس سے یہ اعتراض دور ہو جائے جو ان سے پیدا ہوتا ہے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ علماء سلف ایسی روایات کو ہمیشہ باطل قرار دینے چلے آئے ہیں پس صرف نقل کر دینے کے سبب وہ کسی الزام کے پیچھے نہیں آسکتے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہمیں ہر ایک قسم کی روایات لوگوں کے لئے جمع کر دینا چا ہئے.ہاں علماء خلف بے شک اس الزام کے نیچے ہیں کہ انہوں نے ان احادیث اور روایات کو اتنا رواج نہیں دیا جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی شان ظاہر ہوتی تھی اور اپنے وعظوں کو عوام میں دلچسپ بنانے کے لئے جھوٹے قصوں اور غلط روایات کو صحیح احادیث قرار دے کر لوگوں میں خوب رائج کیا بلکہ ان کا انکار کرنے والوں کو اسلام کا دشمن اور حدیث کا دشمن قرار دیا.ایسے لوگوں کے طریق عمل کو ہم اس سے بھی زیاده حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جتنا کہ مصنّف صاحب ہفوات کے طریق عمل کو دیکھتے ہیں کیونکہ مصنف صاحب ہفوات نے تو ازدواج مطہرات اور صحابہ کرام اور علماء اسلام پر حملہ کیا ہے اور ان لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور عبد الله بن ابی بن سلول کے ہم آواز ہو گئے ہیں.ہماری جماعت کی کوششیں شروع سے ایسے ناپاک لوگوں کے
۳۱۰ حق الیقین خلاف صرف ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی جب تک کہ یہ لوگ اہل اکاذیب ہوتے ہوئے حدیث کے نام کو بدنام کرنا اور قرآن کریم پر روایات کو جو محتمل كذب وصدق ہیں.مقدم کرنانہ چھوڑ دیں گے.دوسری روایت اس خیال کی تصدیق میں مصنف ہفوات نے بخاری کتاب التفسیر سے پیش ہے.یہ روایت ابن عباس سے مروی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ میرے دل میں مدت سے خواہش تھی کہ میں حضرت عمر سے ایک بات دریافت کروں آخر ایک دن موقع پا کر میں نے آپ سے پوچھا کہ وہ دو عورتیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف آپس میں ایک دوسرے کی مدد کی تھی وہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا وہ حفصہ اور عائشہ ہیں اور پھر فرمایا کہ ہم لوگوں میں عورتیں بالکل حقیر سمجھی جاتی تھیں حتی کہ قرآن کریم میں ان کے حقوق مقرر ہوئے.ایک دن کسی بات کو میں سوچ رہا تھا میری بیوی نے مجھے کہا کہ اگر اس طرح کر لو تو اچھا ہے میں ناراض ہوا کہ تیرا حق کیا ہے کہ مجھے مشورہ دے اس پر میری بیوی نے کہا عجبا لك يا ابن الخطاب ماتريد أن تراجع انت وان ابنتك تتراجع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتي يظل يؤمه غضبان فقام و اخذ ردائه مکانه حتى دخل على حفصة فقال لها يابنية إنک تراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يظل يؤمه غضبان فقالت حفصة والله انا لترا جه فقلت تثلي تعلمین انی احذرک عقوبة الله و غضب رسول اللہ یبنیة لا یغرنک ھذہ التي اعجبها حسنها حب رسول اللوایا ھا يريد عائشة ۴۰؎ " (ترجمہ) اے ابن خطاب ! تجھ پر تعجب ہے کہ تو ناپسند کرتا ہے کہ تیسری بیوی تھری بات میں بولے اور تیری بیٹی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دیتی ہے یہاں تک کہ آپ کبھی سارا سارا دن ناراض رہتے ہیں.یہ سن کر عمر کھڑے ہوئے اور اپنی چادر ٹھیک طرح اوڑھی اور حفصہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے بیٹی کیا یہ سچ ہے کہ تُو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں میں بول پڑتی ہے.یہاں تک کہ آپ دن بھر ناراض رہتے ہیں.حفصہ نے کا خدا کی قسم ہم تو آپ کی باتوں کا جواب دے دیا کرتی ہیں.پس میں نے کہایادرکھ میں تجھے اللہ کے عذاب اور اس کے رسول کے غضب سے ڈراتا ہوں.اے بیٹی! تجھے اس بیو ی کا طرق عمل دھوکے میں نہ ڈالے جسے اپنے حسن یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز ہے اور اس سے ان کی مراد حضرت عائشہ سے تھی.
۳۱۱ حق الیقین اس ٹکڑہ حدیث کو نقل کر کے مصنّف ہفوات یہ اعتراض کرتے ہیں.اول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان کہ جس بی بی کا دل خدا سے پھر گیا ہو اس پر آپ فریفتہ ہوں دوم ج و بیوی خدا سے منحرف ہو وہ ان کی زوجیت میں رہ جائے.ایسا نہیں ہو سکتا.سوم رسول الله پر ازواج کی یہ زیادتیاں ہوں کہ آپ کئی کئی دن غم و غصہ میں مبتلاء ہیں یعنی کار ِ رسالت سے معطّل رہیں.ان ہفوات کو عقل انسانی ہرگز قبول نہیں کرتی.چونکہ عشق کے ہیڈ نگ کے پیچھے یہ حدیث لکھی گئی ہے.اور چونکہ اعتراضات میں عشق کا ذکر نہیں ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف ہفوات کے نزدیک عشق کے اعتراض کے علاوہ مزکورہ بالا حدیث پر یہ اعتراض پڑتے ہیں.اس حدیث سے عشق کا مفہوم نکالنا تو مصنّف ہفوات کی عقل میں ہی آسکتا ہے کیونکہ اس میں نہ عشق کا کوئی ذکر ہے نہ کوئی واقع اس میں ایسا لکھا ہے جس میں یہ اشارہ پایا جاۓ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سے عشق تھا.ہاں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حفصہ کی نسبت زیادہ محبت تھی.لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے عشق کا نتیجہ نکالا جائے یا جس پر کسی قسم کا اعتراض ہو سکے.حضرت عائشہ کی نیکی.ان کی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے فدائیت اور ان کے والد کی خدمات و قربانیاں ایسی نہ تھیں کہ ان کی وقعت کو دوسری بیویوں کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بڑھانہ دیتیں.پس اس کی وجہ سے حضرت عائشہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ محبت کرنا قابل اعتراض امر نہیں بلکہ اس قدر دانہ طرز عمل پر روشنی ڈالتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ایک ممتاز نمونہ پیش کرتی ہے.اور اس اعتراض سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنّف صاحب ہفوات کی نظر میں محبت کا کوئی نہایت ہی غلط مفہوم بیٹھاہوا ہے اور وہ اپنی جہالت کا غصہ ائمہ حدیث پر نکالنا چاہتے ہیں.دوسرا اعتراض بھی کہ جس بی بی کا دل خدا تعالی سے پھر گیا ہو اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح فریفتہ ہو سکتے تھے.ایسا ہی غلط ہے جیسا کہ پہلا.کیونکہ قرآن کریم میں تو اس کی بجائے یہ بیان ہے کہ ان کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف مائل تھا.اور وہ اس کی رضا پر چلنے کے لئے بالکل تیار تھیں مصنف ہفوات خودہی آیت کے ایک غلط معنے کر کے ائمہ حدیث پر اعتراض کرنے گئیں تو اس میں ائمہ حدیث کا کیا قصور ہے؟
۳۱۲ حق الیقین وہ الفاظ قرآن جن سے مصنّف ہفوات نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت عائشہ کا دل خدا تعالی سے پھر گیا تھا یہ ہیں ان تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما وان تظهرا عليه فإن الله هو موله وجبريل و صالح المؤمنين في الملئكة بعد ذالک ظهير \۱۴؎ " (ترجمہ) اگر تم الله تعالی کی طرف رجوع کرو.تو تمہارے دل تو جھک ہی چکے ہیں اور اگر تم دونوں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو اللہ اس کا دوست ہے اور جبریل بھی اور مسلمانوں میں سے نیک لوگ بھی اور پھر اس کے ساتھ فرشتے بھی اس کے مددگار ہیں.اس آیت سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں کے دل خدا سے پھر گئے تھے بلکہ اس کے برخلاف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان بیویوں کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے ہوئے تھے.کیونکہ ان تتوباالی الله کے بعد فقه صف لوگما فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ کچھل فعل پہلے فعل کا باعث اور موجب ہے.اور یہ خیال کرنا کہ کسی شخص کا دل پھر جانا توبہ کا موجب اور باعث ہو گا عقل کے خلاف ہے.دل میں خشیت کا پیدا ہونا توبہ کا محرک ہوتا ہے نہ کہ دل کا خدا سے دور ہو جانا.پس فقد صغت قلوبکما کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے دل اللہ تعالیٰ سے پھر گئے ہیں.بلکہ یہ معنی ہیں کہ تمہارے دل تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے ہوئے ہیں.لیکن یہی کام تمہارا اصل کام ہے اور غلطی دل سے نہیں ہوئی بلکہ سہواً ہوئی ہے.ان معنوں کے سوا دوسرے کوئی معنے کرنے لغت عرب اور قواعد زبان کے بالکل خلاف ہیں اور ہرگز جائز نہیں اور تجب ہے ان لوگوں پر جو تعریفی کلمات کو مذمت قرار دیتے ہیں.غرض اس آیت میں تو تعریف کی گئی ہے کہ اگر اسے بیویو تم توبہ کرو تو تم اس کی اہل ہو.کیونکہ تمہارے دل پہلے ہی خدا کی طرف جھکے ہوئے ہیں.ہاں اگر توبہ نہ کرو تو ہمیں تمہاری پرواہ نہیں.اگر اس آیت کے وہ معنے لئے جاویں جنہیں مصنف صاحب ہفوات نے پسند کیا ہے تو یوں معنے ہوئے.اگر تم توبہ کرو تو تمہارے دل تو خدا سے دور ہو ہی چکے ہیں.اور اگر تم رسول کے خلاف کام کرو تو خدا اور مومن اور فرشتے اس کے مددگار ہیں کیا کوئی عقلمند اس فقرہ کی بناوٹ کو درست کہہ سکتا ہے کیونکہ مقابلہ کے فقروں میں دونوں حصوں کا مقابلہ ہوتا ہے لیکن ان معنوں کے رو سے پہلے فقرہ کے دوسرے حصہ کا مقابلہ کسی جملہ سے نہیں رہتا اور مزید برآں یہ عجیب مہمل بات بن جاتی ہے کہ اگر تم توبہ کرو تو تم تو پہلے ہی گناہ کی طرف مائل ہو چکی ہو کیا گناہ کی طرف میلان کے باعث توبہ نصیب ہوتی ہے یا خدا تعالی کی طرف توجہ کرنے سے اور اس سے تعلق پیدا
۳۱۳ حق الیقین کرنے سے.پس صحیح معنے وہی ہیں جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں.اور ان کی رو سے آیت مذکورہ بالا سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بعض بیویاں رسول کریم کی اللہ سے دور ہو گئی تھیں.بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی وہ بیویاں دل سے نیک اور پرہیزگار تھیں.جو غلطی ان سے ہوئی تھی وہ سہوًا اور بشریت کی کمزوری کے ماتحت تھی.دوسرا اعتراض مصنف صاحب ہفوات کا یہ ہے کہ جو بیویاں خدا سے منحرف ہوں وہ نبی کی زوجیت میں کس طرح رہ سکتی ہیں؟ یہ اعتراض تین وجہ سے باطل ہے.اول تو اس وجہ سے کہ حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویاں خدا سے دور تھیں مگر باوجود اس کے وہ ان کی زوجیت میں رہیں.اگر مصنف صاحب ہفوات اس صورت کا آخری حصہ پڑھ لیتے تو ان کویہ ٹھوکر نہ لگتی مگر قرآن کا پڑھنا تو ان کے لئے نہایت مشکل ہے کیونکہ ان کے نزدیک حضرت عثمان نے اس میں بہت کچھ رخنہ اندازی کر دی ہوئی ہے.(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) ان کے نزدیک تو قرآن کریم کی صرف وہی آیت قابل سند اور قابل مطالعہ ہے.جس میں سے وہ توڑ مروڑ کر کوئی اعتراض خدام اسلام پر کر سکیں.اسی سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ١ؕ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا وَّ قِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ (ترجمہ) اور اللہ تعالیٰ کافروں کی دو مثالیں بیان کرتا ہے.ایک تونوح کی بیوی کی اور ایک لوط کی بیوی کی وہ دونوں ہمارے نیک بندوں کے نکاح میں تھیں مگر ان کے خلاف راستہ پر چلیں پس وہ دونوں نبی خدا کے عذاب سے ان کو ذرہ بھی نہ بچا سکے.اور ان دونوں سے کہا گیا کہ جس طرح باقی لوگ آگ میں داخل ہوتے ہیں تم بھی آگ میں داخل ہو جاؤ.یہ آیت بتاتی ہے کہ باوجود خدا سے دور ہونے کے ایک عورت نبی کے نکاح میں رہ سکتی ہے کیونکہ مذہب اور عقیدہ کا تعلق نکاح کے ساتھ نہیں.(ہاں اہل اسلام کے لئے شرط ہے کہ صرف اہل کتاب سے شادی کریں) ظاہری اخلاق اور شرافت کا تعلق ہے.ایک بدکار اور فاحشہ عورت نبی کی بیوی نہیں رہ سکتی.لیکن مذہباً اگر وہ خراب ہے تو وہ نکاح میں رہ سکتی ہے.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے ثابت کر چکا ہوں.اس آیت کے یہ معنے ہی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بیوی خدا سے دور ہو گئی تھی.بلکہ اس کے یہ معنے
۳۱۴ حق الیقین ہیں کہ ان کا دل بالکل خدا کی طرف متوجہ تھا اور جو غلطی ہوئی تھی محض سہواًتھی پس یہ اعتراض اس جگہ پڑ تاہی نہیں.تیسرا جواب اس کا یہ ہے کہ یہ آیت تو قرآن کریم کی ہے.امام بخاری کی روایت تو نہیں جس پر اعتراض ہے.پس اعتراض امام بخاری پر نہیں اللہ تعالیٰ پر ہے.اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ یا تو اس آیت کے معنے برے ہیں یا اچھے.اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کی دو بیویاں خدا سے پھر گئی تھیں.اور اگر یہ درست ہے کہ خدا سے دور ہونے والی بیویاں نبی کی زوجیت میں نہیں سکتیں تو پھر امام بخاری ہی کا یہ فرض نہیں کہ وہ یہ بتائیں کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو بیویوں کو الگ کیوں نہ کر دیا.بلکہ مصنف ہفوات کا بھی جب تک وہ مسلمان کہلاتے ہیں فرض ہے کہ بتائیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم کے خلاف کام کیوں کیا.پس ان کا یہ اعتراض بخاری پر نہیں بلکہ در حقیقت قرآن کریم پر ہے کیونکہ فقد صغت قلوبکما بخاری کی روایت نہیں بلکہ قرآن کریم کی آیت کا ایک حصہ ہے.اور اگر اس آیت کے معنے اچھے ہیں اور اس میں ازواج مطہرات کی تعریف کی گئی ہے تو پھر مصنف ہفوات نے اس آیت کی بناپر اعتراض کیوں کیا ہے؟ جب بیویاں نیک تھیں تو ان کے علیحدہ کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے؟ تیسرا اعتراض مصنف ہفوات کا یہ ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ پر ایسی زیادتیاں کریں کہ کئی کئی دن تک آپ غم و غصہ میں مبتلاء رہیں اور کار رسالت سے معطل رہیں.اس اعتراض سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف صاحب ہفوات کا دماغ قرت ایجاد کا وافر حصہ رکھتا ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ناپسند اور مکروہ باتوں کی ایجاد ہی میں مشغول رہتا ہے.اول تو حدیث میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں جس میں ازواج مطرات کی زیادتیوں کا ذکر ہو.اول تو حدیث کے الفاظ سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے دستور کے خلاف اس حریت کی روشنی میں جو اسلام نے پھیلائی تھی.اور ان محبت کے تعلقات کے نتیجہ میں جو میاں بیوی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرنا چاہتے تھے.آپ کی بیویاں بعض دفعہ بعض معاملات میں آپ کو مشورہ دے دیا کرتی تھیں اور بعض دفعہ اس تعلق محبت کی بنا پر آپ پر اپنی بات کے منوانے کے لئے اور بھی دے دیا کرتی تھیں.کیا اس بات کانام کوئی شخص زیادتی رکھ سکتا ہے؟ حدیث میں
۳۱۵ حق الیقین الفاظ تراجعین کے ہیں یعنی بات کا جواب دینا اور واقعہ بتا رہا ہے کہ جواب دینے سے کیا مراد ہے.کیونکہ یہ بات حضرت عمرکی بیوی نے کہی ہے اور اس کا واقعہ حضرت عمر یہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ کسی بات کو سوچ رہے تھے کہ آپ کی بیوی نے مشورۃ ً کوئی بات کہہ دی کہ جس امر میں آپ کو فکر ہے.آپ اس میں اس اس طریق سے کام کر سکتے ہیں.حضرت عمر کو دستور عرب کے مطابق عورت کا مشورہ میں دخل دینا ناپسند ہوا ہے اور آپ نے اسے ڈانٹااس پر اس نے کہا کہ آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں؟ اس طرح تو آپ کی بیٹی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے بھی کر لیا کرتی ہے.پس مراجعت کے مہینے خود الفاظ حدیث سے ہی کھل جاتے ہیں یعنے بات میں دخل دے لینا نہ کہ تُوتُو میں میں کرتا اور لڑنا جو مضمون کے مصنّف ہفوات نکالنا چاہتے ہیں حضرت عمر کی بیوی نے کہ حضرت عمر کی کسی بات کو رد کیا تھا کہ اس کی نسبت به افظ استعمال کیا گیا ہے.اگر اس کے لئے یہ لفظ صرف مشورہ دینے پر بولا گیا ہے تو اس حدیث میں وہی لفظ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی نسبت استعمال ہوا ہے تو اس کے وہی سونے کیوں نہ کئے جاویں اور کیوں اس کے معنے زیادتی کے کئے جاویں.باقی رہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی کیا گیا ہے کہ آپ اس جواب سے دن بھر ناراض رہتے تھے تو اول تو یہ حضرت عمر کی بیوی کے لفظ ہیں اور ان کی تصدیق نہ حضرت عمر نے کی ہے نہ حضرت حفصہ نے کیونکہ جب انہوں نے حضرت حفصہ کے سامنے واقعہ بیان کیا ہے تو انہوں نے اس امر کی تو تصدیق کی ہے کہ ہم آپ کے اصرار کر کے بات کر لیا کرتی ہیں لیکن اس کا اقرار نہیں کیا کہ آپ بھی سارا سارا دن ناراض رہتے ہیں.پس یہ ایک عورت کا خیال ہے اور اگر ہم یہ کہہ دیں کہ یہ خیال غلط تھا تو حدیث کی صحت يا امام بخاری کی شخصیت پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا.دوسرے اگر اس امر کو نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض رہنے کو بطور واقع بیان نہیں کیا گیا بلکہ ایک عورت کے خیال کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کی حضرت حفصہ تصدیق نہیں کرتیں تو بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ پر کوئی زیادتی کرتی تھیں بلکہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مشورہ میں کوئی ایسی بات کہہ بیٹھتی تھیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کہنی مناسب نہیں ہوتی تھی.اور آپ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرما دیتے تھے اور یہ بات ان دو شخصوں کے تعلقات میں جو اخلاق اور علم
۳۱۶ حق الیقین میں فرق رکھتے ہوں پیدا ہو جانی بالکل معمولی ہے.دوسری ایجاد مصنف صاحب ہفوات کے دماغ کی یہ ہے کہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن ناراض رہتے اور وہ اپنے اعتراض میں لکھتے ہیں کہ کئی کئی دن تک آپ غم و غصہ میں مبتلا رہتے.تیسری ایجاد مصنف ہفوات کی یہ ہےکہ حدیث میں تو لفظ غضب کا استعمال ہوا ہے جو اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی استعمال ہوا ہے جو اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی استعمال ہو جاتا ہے جیسا کہ آتا ہے مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَيْهِ اور انہوں نے اس لفظ کو بدل کر غم و غصہ کا لفظ استعمال کر دیا ہے تا کہ اعتراض مضبوط ہو جائے.کیونکہ غصہ کا لفظ عربی زبان میں بُرے معنوں میں استعمال ہوتا ہےا ور اس لفظ کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کے اندر یہ مادہ جوش میں آوے خود اس کو تکلیف ہو اور اس کا گلا گُھٹ جائے.اور یہ حالت صرف ان لوگوں کی ہوتی ہے جو جوش سے اندھے ہو جائیں اور ماسِوا کو بھول جائیں.قرآن کریم میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.دوزخیوں کے کھانے کی نسبت آتا ہے وَ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ.وہ کھانا ان کو ملے گا جو ان کے گلے کو پکڑ لے گا او ر نہ باہر نکل سکے گا نہ اندر جا سکےگا.لغت میں بھی یہی معنے کئے ہیں کہ غصہ اس حزن کو کہتے ہیں جو انسان کے گلے کو پکڑے یعنی اس کی حالت موت کی سی کردے جیسے کسی کا گلا بند ہو جائے.پس یہ لفظ اللہ تعالیٰ اور اس کے نیک بندوں کی نسبت استعمال نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس کا مفہوم ان کے اندر نہیں پایا جاتا اور حدیث میں یہ لفظ رسول کریمؐ کی نسبت استعمال نہیں ہوا بلکہ غضب کا ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی استعمال ہو جاتاہے.مصنّف ہفوات کے دماغ کی چوتھی اختراع یہ ہے کہ وہ اس حدیث سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت لکھا ہے.آپ اپنی بیویوں کی بات پر اظہار غضب کرتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ آپ کارِ رسالت سے معطلّ ہو جاتے تھے.حالانکہ غضب کرنے اور کارِ رسالت سے معطلّ ہونے کا کوئی بھی علاقہ نہیں ہے.معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مصنّف ہفوات نے محبت کا غلط مفہوم سمجھ کر پہلی حدیث پر اعتراض شروع کر دیا تھا اسی طرح غضب کا غلط مفہوم سمجھ کر دوسری حدیث پر اعتراض شروع کر دیا.اگر وہ قرآن کریم پر نظر ڈالتے تو ان کو اس قسم کے اعتراضات کر کے خود سُبکی نہ اٹھانی پڑتی اور دشمنانِ اسلام کو خوشی کا موقع نہ ملتا.
۳۱۷ میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں بار بار استعمال ہوا ہے.چنانچہ بعض آیات اور لکھ دیتا ہوں جن سے معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ بھی غضب کرتا ہے.سورۃ مجادلہ میں فرماتا ہے تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ.سورۃ نساء میں ہے غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهٗ.سورۃ فتح میں ہے غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ.اور اگر مصنف ہفوات نماز کے فریضہ کے ادا کرنے کی طرف بھی کبھی متوجہ ہوتے ہیں توان کو معلوم ہونا چاہئے کہ سورہ فاتحہ جسے ایک مسلمان کم سے کم بتیس دفعہ دن میں پڑھتا ہے اس میں غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ.ایک قوم کی نسبت آتا ہے.اور اس غضب کی مدت قیامت تک ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ١ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.ترجمہ: جب تیرے رب نے خبر دے دی کہ وہ ان لوگوں پر قیامت تک ایسے لوگ مقرر کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب دیتے رہیں گے.ضرور تیرا رب جلد بُرے کام کا بدلہ دینے والا ہے.اور وہ ساتھ ہی بہت بخشے والا اور مہربان بھی ہے.اب اگر غضب کرنے والا اپنے کام سے معطّل ہو جاتا ہے اور اسی صورت میں وہ غضب کر سکتا ہے جب اور کسی کی بات کی اسے ہوش نہ رہے تو کیا اللہ تعالیٰ بھی اپنے کام سے معطّل ہو جاتا ہے اور اگر باوجود اس کے کہ یہ لفظ بار بار اللہ تعالیٰ کی نسبت استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی شان میں کچھ فرق نہیں آتا توکیا رسول کی شان خدا سے بڑھ کر ہے کہ اگر اس کی نسبت یہ لفظ استعمال ہو جائے تواس کی شان میں فرق آ جاتا ہے.اگر یہ کہو کہ خدا تعالیٰ کی نسبت تو یہ الفاظ بطور استعارہ اور مجاز استعمال ہوتے ہیں اور بندوں کی نسبت اصل معنوں میں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی قاعدہ ایسا نہیں جس میں استعارہ اور مجاز کے استعمال کے لئے یہ حد لگائی گئی ہو کہ فلاں کے لئے وہ استعمال ہو سکتا ہے اور فلاں کے لئے نہیں.اگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ بطور استعارہ استعمال ہوتے ہیں تو وہی لفظ اگر اللہ تعالیٰ کے رسول کی نسبت آ گیا ہے تو اس کے حقیقی معنے اگر رسول کی شان کے خلاف ہیں تو ہم اسی طرح اس جگہ اس کے مجازی معنے لے لیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ کی نسبت اس کے مجازی معنے لیتے ہیں.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ مجاز اور استعارہ کے طور پر وہی لفظ کسی قدوس او ر پاک ہستی کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے جو پاک ہو.پس اگر مجازاً بھی غضب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کیا
۳۱۸ حق الیقین جاتا ہو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ وہ لفظ اعلیٰ سے اعلیٰ انسان کے لئے بولنا اس کی شان کے خلاف نہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس لفظ کا استعمال آپ کی شان کےخلاف نہیں.کیونکہ یہ کسی عیب پر یا کمزوری پر دلالت نہیں کرتا بلکہ غضب اس موقع پر ایک خوبی ہے جس کا پایا نہ جانا بے غیرتی پر دلالت کرتا ہے.ٍ مگر مصنف صاحب ہفوات کی تسلی کے لئے ہم استعارۃً اور مجاز کے عذر کو بھی قبول کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا انبیاء اور نیک لوگوں کے لئے اس لفظ کا استعمال قرآن کریم میں دکھا دیتے ہیں.سورۃ اعراف میں یہی لفظ حضرت موسیٰ کی نسبت آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا١ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ۠ مِنْۢ بَعْدِيْ.اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف ایسی حالت میں لوٹے کہ وہ ان پر غضبناک تھے اور ان کی حالت پر افسوس کر رہے تھے.انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے میرے بعد میری جانشینی بہت بری طرح کی ہے.اس کے آگے چل کر فرمایا وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ.اور جب موسیٰ کا غضب ٹھہرگیا تو انہوں نے تختیاں لےلیں.کیا ان آیات کے مطابق یہ سمجھنا چاہئے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت موسیٰ طور سے واپس آئے اور اپنی قوم کے سمجھانے کے عرصہ میں کارِ نبوت سے معطّل رہے تھے.اگر نہیں تو رسول کریم کی نسبت یہی لفظ اگر استعمال کیا گیا ہے تو اس کے معنی کارِ نبوت سے معطّل ہونے کے کیونکر ہو گئے.کیا اس لئے کہ مصنّف ہفوات نے امام بخاری کے پردہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو بُرا بھلا کہنے کی ایک سبیل نکالی ہے یا کم سے کم یہ کہ حدیثوں کی برائی ثابت کرنا ان کا اصل مقصد نہیں بلکہ اصل میں صحابہ اور ائمہ دین کو گالیاں دے کر اپنی طبیعت ثانیہ کے مقتضیٰ کو پورا کرنا مطلب ہے.حضرت موسیٰ کے علاوہ یہی لفظ ایک اور نبی کی نسبت بھی استعمال ہوا ہے اور وہ یونسؑ نبی ہیں جن کو قرآن کریم میں ذوالنون کے لقب سے بھی یاد کیا ہے.ان کی نسبت سورۃ انبیاء میں آتا ہے.وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادٰى فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ.(ترجمہ) اور ذوالنون کو بھی (ہم نے ہدایت دی تھی) جب کہ وہ غضبناک ہو کر اپنے علاقہ سے چلا اور اسے یقین تھا کہ ہم اس کے ساتھ سختی کا معاملہ نہیں کریں گے.پس اس یقین کی بنا پر اس نے مصائب کے وقت پکار کر کہا.تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں تو پاک ہے اور میں تو ظالموں میں سے ہوں (یعنی اپنے نفس کو میں نے دکھ میں ڈال
۳۱۹ حق الیقین دیا ہوا ہے) اس آیت میں بھی ایک نبی کی نسبت غضب کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر باوجود اس کے وہ کارِ نبوت سے معطّل نہیں ہوا بلکہ نبی ہے اور نبیوں والا کام کر رہا ہے.لوگوں سے ناراض ہے مگر اللہ کی مدد کا کامل بھروسہ رکھتا ہے.دنیا کی تنگی کو دیکھ کر بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا مجھے نہیں چھوڑے گا اور اس کی امداد کےحصول کے لئے اس کا درازہ کھٹکھٹاتا ہے اور اس کے لئے الہٰی رحمت کا دروازہ کھولا جاتا ہے.یہی غضب کا لفظ مومنوں کی نسبت بھی استعمال ہوا ہے اور بصورتِ مدح استعمال ہوا ہے.چنانچہ سورۃ شوریٰ میں فرمایا ہے.وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ.جب ان کو کسی پر غضب آتا ہے تو اپنے غضب کے نتیجہ میں لوگوں کو سزا نہیں دیتے بلکہ باوجود غضب کے ان کے رحم کا پہلو غالب رہتا ہے اور وہ دوسروں کے قصوروں کو معاف کر دیتے ہیں.اس جگہ دیکھو مومنون کی تعریف میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ وہ غضب کے وقت سزا سے ہاتھ کھینچے رکھتے ہیں.اگر غضب کے معنے کارِ رسالت سے معطّل ہونے کے ہوتے تو یہ مؤمن کارِ مؤمنیت سے کیوں معطّل نہ ہو جاتے.اس جگہ سے تو معلوم ہو رہا ہے کہ غضب کے باوجود ایک مؤمن کا تعلقِ ایمان بھی قائم رہتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰٰ کی صفات کی جلوہ گری اپنے اندر پاتا ہے اور اس کے رحم کو اپنے اندر منعکس کر کے وہ لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہے.تو پھر کیا نبیوں کےدل کا ظرف ہی اس قدر تنگ ہے کہ اس میں غضب کے آتے ہی باقی سب حواس وہاں سے غائب ہو جاتے ہیں اور ان کو پھر دنیا و ما فیہا بلکہ خدا ور عقبیٰ کی بھی کچھ فکر نہیں رہتی اور وہ کار نبوت سے معطّل ہو جاتے ہیں.اس عقل و دانش پر تعجب ہے اور اس علم پر ائمہ پر اعتراض کرنے کی جرأت موجبِ حیرت ہے.اور اس ستم ظریفی پر عقل دنگ ہے کہ آپ بایں علم وفہم لکھتے ہیں کہ ان ہفوات کو عقل انسانی ہرگز قبول نہیں کرتی.تیسری روایت مصنف ہفوات نے اس امر کی سند میں کہ ائمہ حدیث کےنزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سے عشق تھا بخاری کتاب النکاح سے نقل کی ہے.یہ روایت درحقیقت اسی واقع کے متعلق ہے جو اوپر بیان ہو چکا ہے اس لئے واقع کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں.اس میں سےیہ الفاظ نقل کرے مصنّف ہفوات نے اعتراض کیا ہے.ثُمَّ قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ لَوْ رَأَيْتَنِيْ وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأُ مِنْکِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِیِّ اللّٰهِ صَلَّى
۳۲۰ حق الیقین الله عليه وسلم تبسمة اخری.۵۵؎ میں نے کہا یا رسول اللہ دیکھئے تو سہی میں حفصہ کےپاس گیا اور میں نے اس سے کہا کہ مجھے کوئی بات دھوکا نہ دے کیونکہ تیری ہمسائی تجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ خوش رکھنے والی اور زیادہ پیاری ہے جس سے ان کی مراد حضرت عائشہ تھیں.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اپنے خاص طرز میں مسکرائے.مصنّف ہفوات اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم عوام کی طرح مبتلائے نفس امارہ تھے.اس عقل و دانش پر مجھے تعجب آتا ہے.اگر اس کا نام نفس امارہ ہے کہ کسی شخص سے جس سے خدا تعالی نے رشتہ محبت پیدا کیا ہے محبت کی جائے تو پھر وہ سب روایات جن میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ذکر آتا ہے وہ سب ہی نفس امارہ کی غلامی پر دلالت کرتی ہیں.نعوذبالله من ذلک.اور اگر کسی شخص سے دوسروں کی نسبت زیادہ محبت کرنانفس کی غلامی ہے تو لیوسف و أخؤہ أحب إلى أبينا منا ۵۶؎ کی آیت کے ماتحت حضرت یعقوب نعوذ بالله مث ڈاک.نفس امارہ کے غلام ٹھہرے.افسوس کہ انسان تعصب میں اندھا ہو کر بالکل غور نہیں کر سکتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے.مجھے اس اعتراض پر اور بھی زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ محبت کے مضمون پر میں پہلے تفصیلاً لکھ آیا ہوں.ہاں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس حدیث کو نقل کر کے مصنّف ہفوات نے جو چند فقرات بزعم خود اس کے مضمون کو رد ّکرنے کے لئے لکھے ہیں ان سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان صاحب کا عندیہ اصل میں کیا ہے اور اس کتاب کی تصنیف کی حقیقی غرض کیا ہے.آپ لکھتے ہیں.اس روایت کو ابن عباس سے کتاب المظالم میں بھی بیان کیا گیا ہے.لیکن اس حدیث میں حضرت عائشہ و حفصہ رضي الله عنهما کے راز فاش کرنے پر عتاب فرمانے کا بھی ذکر ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اوپر کی عشق بازی کی احادیث لغو و بہتان ہیں.دوم ابن ماجہ جلد سوم باب اسم الله الاعظم صفحہ ۲۲۵ میں حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ آنحضرت ؐنے اسم اعظم کی تعریف کی تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس کے سکھانے کی فرمائش دو بار کی لیکن آپ نے انکار فرمایا.۵۷؎ سوم مولوی حسن الزمان صاحب حیدر آبادی کی کتاب قول مستحسن کے صفحہ ۴۰۲ میں عوام بن حوشب کی روایت ہے کہ جناب عائشہ نے حضرت فاطمہ اور حسن و حسین کے ساتھ چادر تطہیر گھسنے کی درخواست کی تو آنحضرت نے فرمایا ہٹ جا.
۳۲۱ حق الیقین ان روایات کے نقل کرنے سے مصنف کتاب کا منشاء سوائے حضرت عائشہ کی تحقیر کے اور کیا ہو سکتا ہے.اور جو شخص بھی بِلا تعصّب کے اس کتاب کو پڑھے گا اسے ماننا پڑے گا کہ یہی ان کا منشاء ہے.گو اس کتاب کے موضوع سے چنداں اسے تعلق نہیں.لیکن چونکہ ان اعتراضات کو میں نے اس جگہ درج کر دیا ہے ان کا جواب بھی اس جگہ دے دینا مناسب سمجھتا ہوں.امراول.یعنی حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ پر عتاب کا ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں.وہ عتاب خراب ہوتا ہے جو شرارت پر کیا جائے.لیکن جو عتاب غلطی پر کیا جائے وہ تو ایک سبق اور نصیحت ہے.نبی دنیا میں سکھانے کے لئے آتے ہیں.لوگوں میں کمزوریاں ہوتی ہیں.تبھی ان کی بعثت کی ضرورت ہوتی ہے.پھر اس سے بڑے درجہ کے لوگوں کے لئے علوم روحانیہ کے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کسی جگہ وہ ٹھوکر کھا جائیں تو ان کو تنبیہہ ہوتی ہے اور یہ تنبیہہ بطور تلطّف ہوتی ہے نہ بہ نظرِ تحقیر و عذاب.پس اگر حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کو جو تنبیہہ ہوئی ہے وہ عتاب میں ہے تو کوئی حرج نہیں خدا تعالی فرماتا ہے کہ ان کا دل خدا ہی کی طرف مائل تھا.پس یہ تنبیہ ان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ کی علامت ہے.دوسرا اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو اسم اعظم نہیں سکھایا.اصل مضمون سے تعلق نہیں رکھتا.یہ بات کہ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے سخت محبت ہے اس امر کا موجب نہیں ہوتا کہ وہ اسے ہر ایک بات بتادے.مگر اس بات کے بیان کرنے سے چونکہ آپ کی یہ نیت ہے کہ حضرت عائشہ کی عظمت کو لوگوں کی نظروں میں کام کریں اس لئے میں اس کا جواب دے دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ابن ماجہ میں حضرت عائشہ سے یہ روایت مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو اسم اعظم نہیں سکھایا لیکن اس روایت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اسم اعظم کوئی خاص شئے ہے جو نہایت پیاروں کو سکھائی جاتی ہے ایک حماقت کی بات ہے.اسم اعظم کوئی خاص شئے نہیں بلکہ اسم اعظم کے متعلق اس قسم کا خیال مسلمانوں میں یہود سے آیا ہے جو یہودا کے نام کا تلفّظ اس قدر مشکل سمجھا کرتے تھے کہ سوائے عالموں سے دوسروں کے لئے اس نام کالینا یا اس کا کھانا جائز نہیں جانتے تھے (دیکھو جیوش انسائکلو پیڈیا وانسائیکلو پیڈیا بیلیکا زیر لفظ نیمز ) اور ان کا یہ خیال تھا کہ اس نام کو صحیح طور سے جو شخص بول سکے اس کی ہر ایک غرض
۳۲۲ پوری ہو جاتی ہے مسلمانوں میں جب دیگر اقوام سے میل جول کے نتیجے میں ان کے خیال اور وساوس داخل ہو گئے تو یہ خیال بھی یہود سے داخل ہو گیا اور صرف اسلای الفاظ کے پردہ میں یہ یہودی عقیده عام مسلمانوں میں راسخ ہو گیا.ورنہ یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام ہے جو اس کے بندے کے لئے مفید ہے اس کے انبیاء جو ہر ایک چیز کو جو انسانوں کے لئے مفید ہو ظاہر کر دیتے ہیں.اس نام کو چھپائے رکھتے ہیں.خدا اور اس کے رسولوں کی ہتک ہے.اسم اعظم در حقیقت اللہ کا لفظ ہے جو اسم ذات ہے اور تمام اسماء اس کے ماتحت ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں.ہاں مختلف اشخاص کو ان کے مخصوص حالات کے مطابق بعض خاص اسماء سے تعلق ہوتا ہے اس وقت ان ناموں کو یاد کر کے دعا کرنا ان کے لئے بہت مفید ہوتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها۵۸؎ اس وقت موقع کے لحاظ سے ان اشخاص کے لئے وہی اسماء جن کی بلانے سے ان کی حاجت روائی ہوتی ہے ان کے لئے اسم اعظم بن جاتے ہیں خود اس حدیث کے ساتھ جو اور حدیث اسم اعظم کے متعلق مذکور ہیں انہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اعظم سے مراد کوئی خاص پوشیدہ نام نہیں ہے چنانچہ اس حدیث کے ساتھ عبداللہ بن بریدہ کی روایت درج ہے کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو کہتے سنا لله اللھم انی اسئلک بانک انت اللہ الاحد الصمدالذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا لقد سال اللہ باسمہ الأعظم الزی اذا سئل بہ اعطے واذا دعی بہ اجاب.۵۹؎ اس نے اللہ تعالیٰ کو اس کے اسم اعظم سے پکارا ہے جس کے ذریعہ سے پکارنے پر وہ سوال کو قبول کرنا اور پکار کا جواب دیتا ہے.پھر ساتھ ہی انس بن مالک کی روایت درج ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ اللھم اني أسئلك بأن لك الحمد لا إله الا انت وحدك لا شریک لک المنان بديع السموت والأرض والجلال والاكرام تو فرمایا کہ لقد سال اللہ باسمہ الأعظم الزی اذا سئل بہ اعطے واذا دعی بہ اجاب ۶۰؎ یعنیاس نے خدا تعالی کو اس کے اس اسم اعظم سے پکارا ہے کہ اگر اس کے ذریعہ سے اس سے سوال کیا جائے تو وہ دیتا ہے اور اگر اسے پکارا جائے تو وہ جواب دیتا ہے.ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ (1) اسم اعظم کی ایک اسم کا نام نہیں بلکہ ان اسماء کانام ہے جن سے کسی خاص وقت میں دعا مانگنی زیادہ مفید ہوتی ہے کیونکہ مختلف لوگوں نے مختلف
۳۲۳ حق الیقین دعاؤں اور ناموں سے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا ہے اور ان کانام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسم اعظم رکھا ہے (۲) یہ اسم اعظم کوئی پوشیدہ امر نہیں ورنہ رسول کریم لوگوں کو یہ کیوں بتاتے کہ ان لوگوں نے اسم اعظم کو یاد کر کے دعا مانگی ہے.آپ کو تو چاہئے تھا کہ اگر اتفاقاً کسی کے منہ سے اسم اعظم نکل گیا تھا تو چپ کر رہتے.(۳) جب کہ آپ علی الاعلان اسم اعظم کی تلقین کرتے تھے تو ممکن نہ تھا کہ حضرت عائشہ سے چھپاتے کیونکہ وہ دوسروں سے سن سکتی تھیں.اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں بعض لوگوں کی خاص حالت کے مطابق بعض اسماء ہوتے ہیں اور وہی ان کے لئے اسم اعظم ہوتے ہیں.چنانچہ اس حدیث میں جس پر صاحب ہفوات نے اعتراض کیا ہے اسی قسم کے اسم کا ذکر ہے اور اس میں یہ جو بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ نام بتایا ہے جس کے ذریعہ سے اگر اس سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے.اس سے مراد آپ کی اسی اسم سے تھی.جو آپ کے ذاتی امور کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا یہ اسم یا بطور الہام یا بطور القاءہی معلوم کرایا جاتا ہے.حضرت عائشہ نے اس سے فائدہ اٹھا کر کسی ایسے امر کے متعلق دعا کرنی چاہی ہے جو ان میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان مشترک تھا.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت معلوم ہو چکا تھا کہ وہ امراللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف ہے آپ نے حضرت عائشہ کو یہ نام نہیں بتایا کہ کہیں جوش میں اس امر کے متعلق وہ دعا نہ کر بیٹھیں.لیکن حضرت عائشہ نے اپنے عمل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کا ثبوت دے دیا.اور اسکی جامع مانع دعا کی جو اسم اعظم پر مشتمل تھی اور خدا تعالی سے کوئی دنیاوی چیز نہیں مانگی بلکہ اس کی مغفرت اور رحم ہی مانگا.چنانچہ اس حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کی دعابر ہنس پڑے اور فرمایا کہ اسم اعظم تیری دعا میں شامل تھا.پس جب کہ حضرت عائشہ کی زبان پر بسبب ان کی کامل اتباع کے اللہ تعالیٰ نے خود بطور القاء کے وہ اسم جاری کردیا جو ان کے مناسب حال تھا.تو کیسانادان ہے وہ شخص جو حضرت عائشہ کے درجہ پر اس حدیث کے ذریعہ سے اعتراض کرتاہے یہ حدیث تو آپ کے بلند درجہ اور اعلی ٰمقام پر دلالت کرتی ہے اور آپ کو جو محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اس پر شاہد ہے نہ کہ اس سے آپ کی شان کے خلاف کوئی استدلال ہوتا ہے.اس کے بعد آپ نے حضرت عائشہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی نفی کے
۳۲۴ حق الیقین ثبوت میں قول مستحسن کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ عمر بن حوشب کی روایت ہے کہ جب عائشہ نے حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین کے ساتھ چادر تطہیر میں داخل ہونے کی درخواست کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پرے ہٹ جا اس روایت کے متعلق مجھے اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ چادر تطہیر شیعہ محاورہ ہے.چادرتطہیر کا ثبوت قرآن کریم سے نہیں ملتا.قرآن کریم میں تو ایک وعدہ تطہیر بیان ہوا ہے اس کا کسی چادر کے ساتھ تعلق نہیں.شیعان علی نے نہیں کیونکہ وہ نیک اور پارسالوگ تھے بلکہ بعض شیعان نفسانیت نے اہل بیت کے معنے حقیقت سے پھیرنے کے لئے جو روایات گھڑی ہیں ان میں چادر تطہیر کا ذکر آتا ہے اور ان کی عبارتیں ہی بتاتی ہیں کہ ان سے محض امہات المؤمنین کی ہتک اور لوگوں کی عقل پر پردہ ڈالنا مقصود ہے.قرآن کریم میں مریح طور پر بیویوں کو اہل بیت کہاگیا ہے.چنانچہ سورہ ہود میں ان رسولوں کے ذکر میں جو لوط کی قوم کی ہلاکت کے لئے مبعوث ہوئے تھے حضرت سارہ کو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی تھیں اہل بیت کہہ کر پکارا گیا ہے وہ لوگ حضرت سارہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں اتعجبين من آمر اللہ رحمت اللہ وبركتہ عليكم أهل البيت انہ حمید مجید یعنی کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے فیصلے پر تم پر تو اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کی برکات ہیں اللہ تعالیٰ یقیناً بہت تعریف والا اور بڑی بزرگیوں کا مالک ہے.لیکن ان روایات میں صاف الفاظ میں بیویوں کے اہل بیت ہونے سے انکار کیا گیا ہے.پس ان خلاف قرآن روایات کو کون مسلمان تسلیم کر سکتا ہے.یہ اقوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہیں.بلکہ ان لوگوں کی افترا پردازیاں ہیں جو باوجود سخت وعیدوں کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے نہیں جھجکتے تھے.مگر جھوٹے چھپ نہیں سکتا.اول تو قرآن کریم سے ہی ان کی یہ روایات ٹکرا جاتی ہیں اور اس لئے قابل قبول نہیں.دوسرے خود آپس میں یہ روایتیں سخت ٹکراتی ہیں.مثلاًیہی واقعہ پندرہ بیس راویوں سے مذکور ہے اور مختلف روایتوں میں اس قدر سخت اختلاف ہے کہ ان میں تطبیق کی کوئی صورت نہیں.حضرت ام سلمہ کی طرف بہ قول منسوب کیا گیاہے کہ یہ آیت ا.ن کے گھر میں نازل ہوئی ہے حضرت عائشہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ گویا ان کے گھر نازل ہوئی ہے.کسی روایت میں ہے کہ جس وقت آیت تطہیر اتری تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ اور حضرت حسین اور علی کو ام سلمہ کے گھر میں بلا کر ان کو اور میں داخل کیا.کسی میں ہے
۳۲۵ کہ آپ نے خود ان کے گھر میں جا کر ان کو ایک چادر میں جمع کر کے ان پر یہ آیت پڑھی.پھر کسی روایت میں ہے کہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ مجھے اس چادر میں داخل کردا اور آپ نے داخل نہ کیا.اور کسی میں ہے کہ عمیر بن حوشب کہتے ہیں کہ عائشہ نے کہا تھا کہ مجھے داخل کرو اور آپ نے داخل نہ کیا.اس اختلاف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کی محبت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں نے وقتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ روایات بنائی ہیں اس لئے دروغ گو را حافظہ نہ باشد کے اصل کے مطابق وہ اپنے بیان میں کوئی مابہ الاشتراک پیدا نہیں کر سکے.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک روایت میں تو یہ بیان ہوتا ہے کہ ام سلمہ ؓنے کہا کہ میں نے خود چادر تطہیر میں داخل ہونا چاہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا.مگر عمیر بن حوشب کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے داخل ہونا چاہا مگر اجازت نہ ملی.کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ ایک وضاع نے اگر حضرت ام سلمہ کی ہتک کرنی چاہی ہے.تو دوسرے نے حضرت عائشہ کی.ٍعلاوہ ازیں حضرت عائشہ کی جو حدیث مصنف ہفوات نے درج کی ہے اس سے حضرت عائشہ کی ہر گز ہتک ثابت نہیں ہوتی بلکہ آپ کی رفعت ثابت ہوتی ہے.ہاں مصنف ہفوات نے اپنے ترجمہ میں ہتک کا مضمون پیدا کرنے کی کوشش بے شک کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت عائشہ نے چادر تطہیر میں داخل ہونا چاہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کے لہجہ میں فرمایا چل دور ہو تو اپنے درجہ پر ٹھیک ہے.یہ ترجمہ خواہ ان کا ہے یا قول مستحسن والے کا جس کے حوالہ سے انہوں نے یہ روایت نقل کی ہے بالکل غلط ہے.انہوں نے خودہی الفاظ حدیث درج کئے ہیں جو ہے ہیں.قال تنحی فانک خیر ان الفاظ میں غصے سے کہا کے الفاظ ہرگز موجود نہیں ہیں.اور نہ ’’چل دور ہو ‘‘، کے ہیں اور نہ یہ کہ تواپنی جگہ ٹھیک ہے.یہ تینوں باتیں اپنے پاس سے بنا کر داخل کر دی گئی ہیں.الفاظ حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک طرف ہو جاوؤ تم بہت ہی اچھی ہو جس کے اگر کوئی معنے نکل سکتے ہیں تو صرف یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ تم میں تو پہلے سے ہی خیر موجود ہے.ہمیں اور تقریر میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے.مگر حق یہ ہے کہ خواہ الفاظ کچھ ہوں.یہ احادیث بعض نام نہاد محبان اہل بیت کے حقیقی اہل بیت کو بدنام کرنے کے لئے وضع کی ہیں.اس جگہ کی کو شائد یہ شبہ گزرے کہ اس بیان سے تو معلوم ہوا کہ بعض احادیث جھوٹی بھی
۳۲۶ حق الیقین ہوتی ہیں پھر اعتبار کیارہا؟ مگر یاد رہے کہ اس شبہ کا ازالہ میں پہلے کر آیا ہوں کہ باوجود بعض احادیث کے غلط ہونے کے حد یثوں پر اس حد تک اعتبار کیا جاسکتا ہے جس حد تک وہ اپنی ضرورت کو پورا کر رہی ہیں.اس سے زیادہ نہ ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور ان کی ضرورت ہے.اسلام کے أصول قرآن کریم اور سنت سے ثابت ہیں اور احادیث صرف سنت کی مؤید اور اس پر ایک تائیدی گواه کے طور پر ہوتی ہیں.دوسرے امور کے متعلق وہ بحیثیت ایک معتبر تاریخ کے شاہد ہوتی ہیں.اور جس طرح معتبر سے معتبر تاریخ میں غلطیاں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے فائدہ سے انکار نہیں ہو سکتا اسی طرح ان میں بھی غلطیاں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا.بلکہ حدیث میں یہ خوبی ہے کہ اس کے جمع کرنے میں جو احتیاط برتی گئی ہے اس کے سبب سے یہ یورپ کی تاریخوں کا ذکرہی کیا ہے اسلامی زمانہ کی مدوّن شدہ تاریخوں سے بھی بعض حیثیتوں میں زیادہ معتبر ہے اور اس میں جھوٹ کا معلوم کر لینا آسان ہے.اگر کہا جائے کہ پھر مصنّف ہفوات میں اور ہم میں اختلاف کیا ہے.انہوں نے بھی بعض احادیث کو جھوٹا قرار دیا ہے اور ہم نے بھی تعلیم کر لیا ہے کہ بعض احادیث جھوٹی ہو سکتی ہیں بلکہ جھوٹی ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم میں اور مصنف ہفوات میں بہت سے فرق ہیں.اول یہ کہ انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ بعض احادیث کے غلط ہونے سے کتب احادیث کاہی اعتبار اٹھ جاتا ہے.اور یہ بات جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں بالبداہت باطل ہے.دوم یہ کہ انہوں نے بعض احادیث پر اعتراض کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان کتب کے مصنفّین جن میں وہ احادیث پائی جاتی ہیں جھوٹے اور فریبی اور دشمن اسلام تھے اور ان کی کتب کا اعتبار کر کے دوسرے مسلمان بھی ان کے ہم نوا ہیں.لیکن جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں یہ بات غلط ہے بہت سی حدیثیں جن کو ہم غلط سمجھتے ہیں ان کو غلط سمجھتے ہوۓ ہی محدثین نے اپنی کتب میں درج کیا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی کتب میں اضداد مطالب کی احادیث ایک ہی جگہ جمع نظر آتی ہیں.انہوں نے تحقیق کا ایک معیار مقرر کیا ہے اور اس معیار کے مطابق جو حدیث ان کو ملی ہے خواہ بعض دوسرے طریقوں سے اس کی کمزوری ہی ثابت ہوتی ہو انہوں نے اس کو اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے اور یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا باستثناء ایک دو کتب احادیث کے کہ ہر ایک حدیث جو کسی حدیث کی کتاب میں پائی جاتی ہے اس کا مؤلف اسے ضرور صحیح ہی تسلیم کرتا تھا.نہ صرف یہ خیال کرتا تھا کہ میرے مقرر کرده معیار کے چونکہ یہ حدیث مطابق آتی ہے مجھ پر دیانتداری سے اس کا لکھ دینا فرض ہے اور بس.
۳۲۷ پس باوجود بعض کمزور یا وضعی احادیث کے پائے جانے کے کتب احادیث کے اکثر مصنفّین کے درجہ اتقاء میں فرق نہیں آتا.ان میں سے بعض اپنے اپنے زمانہ کے لئے رکن اسلام تھے اور اولیاء اللہ میں تھے اور ان کو گالیاں دینے والا خود تقویٰ اور طہارت سے بے بہرہ ہے.اور اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ بعض احادیث انہوں نے صحیح سمجھ کر لکھیں.لیکن وہ صحیح نہ تھیں.اور بعض احادیث کے متعلق یہ سمجھ لینا بالکل قرین قیاس ہے بلکہ قیاس کا غالب پہلواسی طرف ہے تو بھی چند ایک غلطیوں سے بشرطیکہ وہ غلطیاں سہو خطاء کی حد میں ہوں اور شرارت کا نتیجہ نہ ہوں ایک شخص کے نہایت مفید کام اور عمر بھر کی قربانی کی تحقیر نہیں کی جاسکتی.سوم یہ فرق ہے کہ مصنّف ہفوات کی غرض یہ نہیں ہے کہ بعض غلط اور کمزور احادیث کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائیں.بلکہ ان کی غرض اس پر میں ائمہ اسلام اور اہل بیت میں سے پہلے مخاطبین کی ہتک کرنا ہے اور وہ صحیح احادیث کو جان بوجھ کر اپنے اصل مطلب سے پھرا کر دوسرا رنگ چڑھا کر پیش کرتے ہیں تا اہل سنت والجماعت پر بذعم خود پھبتی اُڑائیں اور ان کی تضحیک کریں اور ان کی غرض کسی غلطی کی اصلاح نہیں ہے بلکہ غلطیاں پیدا کر کے ان کی اُلجھن میں لوگوں کو پھنسانا ہے.چنانچہ اکثر احادیت سے جو انہوں نے منتخب کی ہیں بالکل صاف اور واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بُغض اور تعجب کی وجہ سے انہوں نے ان کو اپنے اصل مطلب سے پھیر کر ائمہ حدیث اور ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کو گالیاں دینے کا ایک ذریعہ پیدا کیا ہے.چہارم یہ فرق ہے کہ ان کا خیال ہے کہ صرف کتب اہل سنت میں اس حکم کی غلط روایات داخل ہو گئی ہیں حالانکہ شیعہ کتب بھی اس قسم کی احادیث سے بھری پڑی ہیں کہ اہل سنت کیکتب سے بہت زیادہ کمزور اور وضعی احادیث ان میں موجود پائی جاتی ہیں.غرض باوجود بعض احادیث کو غلط ماننے کے ہمارے اور مصنف ہفوات کے خیالات ایک نہیں کہ دونوں خیالات میں بعيد المشر قین ہے اور ایک خیال اسلام کو اس کی اصل شکل میں دنیا کے سامنے لاتا ہے تو دوسرا اس کو دشمنان اسلام کی نظروں میں نہایت مکروہ اور بھیانک کر کے دکھاتا ہے بہتان اقدام زناوطلبی مہ جبیں مصنّف ہفوات نے ایک الزام ائمہ حدیث پر یہ لگایا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک حسین عورت کے طلب کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس کے بعد ایک اور الزام یہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ من ذي رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر اقدام زنا کا بھی الزام لگایا
۳۲۸ ہے.اور پہلی بات کی تصدیق کے لئے بخاری کی ایک حدیث جس کے راوی سہل بن سعد ہیں اور جو کتاب الاشربة کے باب الشرب من قدج النبي صلى الله عليه و سلم میں درج ہے.لکھی ہے اور دوسرے الزام کی تصدیق کے لئے بخاری کی ایک اور روایت جو ابو سعید سے مروی ہے اور کتاب الطلاق میں درج ہے بیان کی ہے.گو مصنف ہفوات نے یہ اعتراض الگ الگ ہیڈنگوں کے نیچے اور الگ روایتوں کی سند سے لکھے ہیں.لیکن میں ان کا جواب اکٹھاہی دینا چاہتا ہوں.کیونکہ ان کو الگ الگ اعتراض مصنف ہفوات کی بوالہوسی نے بتا دیا ہے ورنہ یہ دونوں اعتراض ایک ہی ہیں اور یہ دونوں روایتیں ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اور ان کو الگ الگ واقعات سمجھنایا تو مصنف ہفوات کے بڑھے ہوئے بغض پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بات کے سمجھنے سے بالکل معذور ہو گئے ہیں اور یا اس پر شاہد ہے کہ وہ علم حدیث سے بالکل کورے ہیں اور صرف کتابیں کھول کر نقل کردینے کی عادت رکھتے ہیں اور اس نقل میں بھی عقل سے کام نہیں لے سکتے.جن لوگوں نے کوئی ایک کتاب بھی حدیث کی پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک واقعہ کو کئی کئی آدمیوں نے بیان کیا ہے اور ان مختلف لوگوں کی روایت کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ واقعہ دو ہیں.اگر ایک واقعہ کو سو آدمی دیکھ کر اپنے اپنے دوستوں کے سامنے بیان کریں تو وہ سو واقعات نہیں ہو جاتے.جیسا کہ ظاہر ہے ان دو حدیثوں میں ایک ہی واقعہ دوراویوں کی زبان سے بیان ہوا ہے.اور جیسا کہ میں آگے ثابت کروں گا یہ ایسی ثابت شده بات تھی کہ مصنف صاحب ہفوات اگر علم حدیث سے محض نابلد اور جاہل آدمی نہیں ہیں تو ان کو اس کا علم ہونا چاہئے تھا.اور اگر ان کو اس کا علم تھا تو اس صورت میں صرف یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ اعتراضوں کی تعداد بڑھانے کے لئے انہوں نے ایک واقعہ کو دو بنا دیا ہے.جن حدیثوں پر مصنّف ہفوات نے اعتراض کیا ہے اور جو اعتراض ان پر کئے ہیں ان کو بیان کر کے میں بتاتا ہوں کہ انہوں نے کس جہالت یا دھوکا دہی کا ثبوت دیا ہے پہلی حدیث وہ یہ لکھتے ہیں عن سهل بن سعد قال ذكر للنبي امرأة من العرب فامرا با اسید الساعدي ان یرسل اليها فارسل فقد مت فمزلت في أجم بني ساعدة فخرج النبی و حتی جاءھا فد خل عليها.الخ میں مضمون کو سمجھانے کے لئے جو حصہ حدیث کا مصنف ہفوات نے چھوڑ دیا ہے اس کو بھی لکھ دیتا ہوں.آگے لکھا ہے فإذا امرأة
۳۲۹ منکسة رأسها فلما کلمھا النبی قالت اعوذ باللہ منک فقال قد أعذتک منی فقالوا لها أتدرين من هذا قالت لا قالوا هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء اليخطبك قالت کنت أنا أشقى من ذالك.له ۶۲؎ ترجمہ.سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عرب کی ایک عورت کا ذکر کیا گیا.پس آپ نے ابو اُسید الساعدی کو حکم فرمایا کہ اس کو بلوا بھیجے.انہوں نے بلوا بھیجا.جب وہ آئی تو بنو ساعدہ کے قلعے میں اتری اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف تشریف لے گئے.جب وہاں پہنچے اور اس کے پاس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت سر جھکائے بیٹھی ہے.جب آپ نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں.آپ نے فرمایا میں نے تجھے اپنے سے پناہ دی.اس پر لوگوں نے اس سے کہا کیا تو جانتی ہے یہ شخص کون تھا؟ اس نے کہا نہیں انہوں نے کہایہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو تجھ سے نکاح کی درخواست کرنے آئے تھے.اس نے کہا میرے جیسی بد بخت آپ کے لائق کہاں.کیا کوئی شخص ساری حدیث کو پڑھ کر کہہ سکتا ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کوئی الزام لگایا گیا ہے اگر اس حدیث سے کوئی استدلال کیا جاسکتا ہے تو صرف یہ کہ آپ ایک عورت کے پاس گئے اور اسے نکاح کا پیغام دیا.لیکن اس بدبخت نے کسی کے سکھانے سے یا اپنے نفس کی شرارت سے نہ صرف نکاح سے انکار کیا بلکہ نہایت بُرے لفظوں میں انکار کیا اور اس پر آپ بِلا کچھ کہے واپس تشریف لے آئے کیونکہ شرعاً عورت کا حق ہے کہ وہ اپنی رضامندی سے نکاح کرے کوئی اسے کسی خاص جگہ نکاح کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا(میں آگے چل کربتاؤں گا کہ في الواقع یہ استدلال بھی درست نہیں کیونکہ اس عورت سے آپ کی شادی ہو چکی تھی) اور پھر اگر اس حدیث سے کچھ معلوم ہوتا ہے تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بادشاہوں سے بالکل مختلف تھا ان کی خواہش کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی میں اس امر کی بالکل پرواہ نہیں فرماتے تھے کہ کوئی شخص آپ کی نسبت ہتک آمیز الفاظ کہہ دے.یہ ٹکڑاحدیث کا کس طرح وضاحت سے بتادیتا ہے کہ مصنف ہفوات کی نیت نیک نہیں بلکہ بد ہے کیونکہ کہ اتناتو بیان کر دیتا ہے کہ ایک عورت کا ذکر کیا گیا اور آپ نے اس کو بلوایا اور اس کے پاس تشریف لے گئے لیکن اس کا اگلا حصہ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ایک جماعت سمیت اس
۳۳۰ کے پاس گئے تھے اور یہ کہ آپ اس کو نکاح کا پیغام دینے گئے تھے اس کو اس نے بالکل چھوڑ دیا تاکہ یہ سمجھاجائے حدیث کا یہ مطلب ہے کہ آپ کسی بد نیتی سے گئے تھے بلکہ اس قدر دلیری سے کام لیا ہے کہ اس اعتراض کو الفاظ میں بھی بیان کر دیا ہے.یورپ کے لوگ بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.مگر میں نے ایسی بے حیائی ان کی طرف سے بھی نہیں دیکھی کہ اس قدر صریح امر کو آدها بیان کر کے انہوں نے اس پر اعتراض جمائے ہوں.شاید یہ مصرع کہ ’’چہ دلا درست دزرے کہ کت چراغ دارو‘‘، مصنف ہفوات کی قسم کے لوگوں کو ہی مد نظر رکھ کر کہاگیا ہے.گو یہ حدیث ہی مصنف ہفوات کے اعتراض کو رد کر دیتی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے پچھلے حصے کو اُڑا دیا ہے تاکہ ان کے اعتراض کا پول نہ کھل جائے.لیکن میں ابھی دلائل سے ثابت کروں گا کہ مصنف ہفوات نے جان بوجھ کر اس واقعہ کو بگاڑ کر پیش کیا ہے اور ائمہ حدیث پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام کا بھی پاس نہیں کیا.دوسری حدیث جس کو مصنّف ہفوات نے الگ واقعہ کے طور پر پیش کیا ہے اور جو در حقیقت اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے یہ ہے.عن ابی اسيد قال خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم حتى انطلقنا إلى حائط يقال له الشوط حتى انتهینا إلى حائطين فجلسنا بينهما فقال النبي صلى الله عليه وسلم إجلسوا ھھنا ودخل وقدأوتى بالجونية فانزلت في بيت في نخل في بيت أميمة بنت النعمان بن شراحيل و معها دايتھا حاضنة لها فلما دخل عليها النبي صلى الله عليه و سلم قال حبی نفسک لي قالت وھل تهب الملكة نفسها للسوقة قال فاھوی بیدہ يضع يدہ عليها لتسكن فقالت أعوذ باللہ منك قال قد عذت بمعاذا خرج علينا فقال يا أبا اسيد إکسيها رازقيين وألحقها بأهلها ۶۳؎ (ترجمہ) ابواسید رضي الله عنه سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ایک باغ کا رخ کیا جسے شوط کہتے ہیں.جب ہم دوباغوں کے درمیان پہنچے تو ان کے درمیان میں بیٹھ گئے آپ نے فرمایا یہاں بیٹھے رہو اور آپ باغ کے اندر داخل ہوئے اور اس جگہ جو نیہ پہلے سے ایک گھر میں جو کھجوروں کے درختوں میں تھالا کر رکھی گئی تھی آپ داخل ہوئے امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے گھرمیں (یہ جونیہ کاہی نام ہے جو نیہ اس کے قبیلہ کی نسبت کی وجہ سے اس کو کہا جاتا تھا) اور اس کے ساتھ اس کی دایہ یعنی کھلائی تھی پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ
۳۳۱ حق الیقین اپنے نفس کو مجھے ہبہ کر دے تو اس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کرتی ہے.ابو اسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تا اس پر اپنا ہاتھ رکھیں اور اس کادل تسکین پاۓ اس پر اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اس بات کو سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تُو نے اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے.پھر آپ باہر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے ابا اسید اس کو دو چادریں دیدو اور اس کے گھر والوں کے پاس اسے پہنچادو.ٍاس حدیث کو نقل کر کے مصنف ہفوات نے یہ اعتراض کئے ہیں.(۱) اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اقدام زنا کا الزام لگایا گیا ہے (۲) زن اجنبیہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایا (۳) محصنہ اجنبیہ (یعنی اجنبی بِن بیاہی عورت ) نے دُہائی دے کر اپنا پیچھا چُھڑایا.مگران اعتراضات پر ہی آپ کی تسلی نہیں ہوئی ایک آریہ رام سنگھ بی اے کی زبانی ایک لمبا طومار اعتراضات کا اس حدیث پر لکھ مارا ہے یعنی (1) ایک عورت کو بستی سے الگ آبادی سے دور باغ میں بلوایا گیا (۳) بِلا پیسے ٹکے قبضہ میں لانا چاہا (۳) اس کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ آپ ہیں کون (۴) جب اس عورت نے انکار کیا تو اس کی طرف زبردستی کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا گیا (۵) پھر اس بے حجابانہ ملاقات کے صلہ میں اس عورت کو بیت المال میں سے معاوضہ دیا گیا.آریہ بے چارہ کا نام پردہ ڈالنے کے لئے کیا گیا ہے در حقیقت یہ اعتراضات بھی خود مصنف ہفوات کی طرف سے ہی ہیں.مجھے تعجب آتا ہے کہ اس عقل و دانش اور علم وفہم پر آپ کو کتاب لکھنے اور پھر ائمہ اسلام کے منہ آنے کی کیا سوجھی تھی.اس حدیث میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس سے ظاہر ہو کہ جونیہ کو شہر سے با ہرویرانہ میں بلایا گیا تھا یا یہ کہ وہ زن اجنبیہ تھی یا یہ کہ اس سے زبردستی کی گئی یا یہ کہ اسے بیت المال سے روپیہ دیا گیا تھا.بلکہ اس کے برخلاف الفاظ حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آباد جگہ بلکہ چوراہے پر اتاری گئی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جماعت مسلمین سمیت اس کے گھر تشریف لے گئے تھے.خود اس کے ساتھ بھی ایک دایہ تھی.آپ نے اس کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی بلکہ حدیث کے لفظ صاف ہیں کہ اس کی تسلی کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر ہاتھ رکھنا چاہا.کیا زبردستی ہاتھ ڈالنے سے دوسرے انسان کی تسلی ہوا کرتی ہے؟ اس حدیث سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس کو معلوم
۳۳۲ حق الیقین نہ تھا کہ آپ کون ہیں کیونکہ اس حدیث میں اس قسم کا کوئی ذکر نہیں ہے.اسی طرح بیت المال سے اس کو کسی رقم کے دیئے جانے کا کوئی ذکر نہیں.ایک صحابی کو کہا گیا ہے کہ وہ اس کو دو کپڑے دے دے اور اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ بیت المال سے دیدے بلکہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے کپڑے دینے کو کہا گیا ہے.خواہ یہ سمجھ لیا جائے کہ اس صحابی کے پاس آپ کا کچھ مال ہو گا خواہ یہ کہ اس سے آپ نے قرض لے کر یہ کپڑے دلوائے.تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ آپ بیت المال مسلمانان سے کوئی رقم اپنے ذاتی اخراجات کے لئے نہیں لیتے تھے پھر اس ثابت شده حقیقت کے خلاف کوئی نتیجہ کس طرح نکالا جاسکتا ہے؟ مصنف ہفوات کابُغض اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس حدیث کے اس حصہ کا ترجمہ جس میں جونیہ پر ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے اس نے یوں کیا ہے.’’ پس آنحضرت نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا (یعنی زبردستی کرنی چاہی) تاکہ اسے تسکین ہو‘‘ صفحہ ۸- اس ترجمہ کور کی کرہی ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مصنف ہفوات اس کتاب کی تصنیف کے وقت جوش تعصب سے اندھے ہو رہے تھے.کیونکہ ایک طرف تو آپ حدیث کے لفظوں کا یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ہاتھ بڑھایا تا اس عورت کو تسکین ہو.اور دوسری طرف خطوط وحدانی میں نوٹ کرتے ہیں ’’ یعنی زبردستی کرنی چاہی اور یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص کو اس نے مارنا چاہا تا اس کے دل سے ڈر نکل جائے.فلاں شخص کو اس نے زہر دیا تا وہ بچ جائے.اگر آپ نے اس عورت کی تسکین کے لئے ہاتھ بڑھايا تھا تو اس سے زبردستی کرنے کا مفہوم کیونکر نکل آیا.غرض حدیث کے الفاظ اس مفہوم کو بہ صراحت رد ّکر رہے ہیں جو مصنف ہفوات نے حدیث سے اخذ کیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ صراحت اس حدیث کے سیاق و سباق سے ہو جاتی ہے اور کم سے کم ائمہ حدیث پر ایک اعتراض سے محفوظ ہو جاتے ہیں اس حدیث کا جو مفہوم امام بخاری نے سمجھا ہے اور اس عورت کا جو تعلق انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے خیال کیا ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ یہ حدیث انہوں نے اس مسئلہ کے ثبوت میں تحریر کی ہے کہ کیا طلاق دی اور خصوصا ًعورت کے منہ پر طلاق دینی درست ہے چنانچہ وہ اس حدیث کو اس باب میں بیان کرتے ہیں، باب من طلق وھل يواجه الرجل امرته با لطلاق یہ عنوان ظاہر کرتا ہے کہ امام بخاری جونیہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منکوحہ بیوی خیال کرتے ہیں اور آپ کے اس قول کو کہ تُونے اس کی پناہ مانگی ہے جو پناہ دینے والا
۳۳۳ حق الیقین ہے طلاق قرار دے کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ضرورت کے وقت طلاق عورت کے منہ پر بھی دی جا سکتی ہے اور یہ بد اخلاقی نہیں کہلائے گی.اگر جونیہ امام بخاری کے نزدیک زن اجنبیہ تھی اور اگر اس کا انکار حفاظتِ عصمت کے لئے تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس آجانافضیحت کے خوف سے تھا(نعوذ بالله من ذاک) تو اس سے یہ کیونکر ثابت ہوگیا کہ عورت کو اس کے منہ پر طلاق * دی جاسکتی ہے پس باوجود اس کے کہ امام بخاری اس حدیث سے یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ جونیہ آپ کی منکوحہ بیوی تھی اور اس کے گستاخی آمیز کلام کی وجہ سے آپ نے اس کو طلاق دے دی تھی یہ نتیجہ نکالنا کہ محدثین نے آپ پر اقدام زنا کی تہمت لگائی ہے کہاں تک درست ہے.کیا مصنّف ہفوات کے نزدیک ایک خاوند کا اپنی بیوی کے پاس جانا زنا ہے اور کیا اسی معیار پر وہ اپنی اور اپنے آباء کی نسل کو پرکھا کرتے ہیں.یہ تو اس حدیث کا سیاق ہے.سباق بھی اس سے کم واضح نہیں.اس حدیث کے بعد جو مصنّف ہفوات نے بیان کی ہے دوسری حدیث جو اسی راوی کی بیان کردہ ہے جس نے پہلی روایت بیان کی ہے یہ ہے.، عن سهل بن سعد وابن أسيد قالا تزوج النبی صلی الله عليه وسلم * ہفوات کے نئے ایڈیشن میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے جواب کا ذکر کرتے ہوے جو انہوں نے اس اعتراض کے متعلق اپنے اخبار میں شائع کیا ہے مصنّف صاحب ہفوات لکھتے ہیں کہ باب الطلاق کے نیچے اس حدیث کا درج کرنا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ امام بخاری کی مراد یہ ہے کہ جونیہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہو چکا تھا کیونکہ امام بخاری و باب و حدیث کی مطابقت کی پابندی نہیں کیا کرتے.اول تو ان کا یہ دعوی ٰباطل ہے امام بخاری پابندی کرتے ہیں مگر انہوں نے کتاب سمجھداروں کے لئے لکھی ہے جُہّال کے لئے نہیں لکھی اس لئے بعض جہلاء کو جو حقیقت شناسی کی قابلیت نہیں رکھتے باب و حدیث میں موافقت نظر نہیں آتی.لیکن اگر یہ کوئی اعتراض ہے تو امام بخاری ہی اس کا نشانہ نہیں ہیں شیعوں کی سب سے معتبر کتاب "کافی " بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے چنانچہ فروع کافی جلد اول میں صلوٰة فاطمہ کا باب باندھ کر نیچے جو احادیث لکھی ہیں ان میں حضرت فاطمہ کی نماز کا کوئی ذکرہی نہیں.پس اس اصل کے ماتحت کہ اگر بعض بابوں کا احادیث سے جہلاء کو تعلق نظر نہ آئے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ باب سے حدیث کے مفہوم کا استدلال درست نہیں تمام "کافی" غیر معتبر ٹھہرے گی.
۳۳۴ أمينة بنت شرحیل فلما أدخلت عليہ بسط يدہ اليها فکانها کرمت ذالک فأمر ابااسید ان يجھزها ويكسؤھا ثويين رازقیین – ۶۴؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیاجب وہ آپ کے پاس لائی گئی اور آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے ایسا ظاہر کیا گویا وہ اس کو ناپسند کرتی ہے.پس آپ نے ابا اسید کو حکم دیا ہے کہاسے واپس اس کے وطن پہنچاوے اور دو رازقی چادریں اس کو دے دے یہ حدیث جیسا کہ اوپر آچکا ہے انہی ابو اسید کی بیان کردہ ہے جنہوں نے پہلی حدیث بیان کی ہے اور یہی ہیں جن کو کپڑے دینے کا حکم ملا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عورت رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی منکوحہ تھی.اس سیاق و سباق کی موجودگی میں مصنّف ہفوات کا جونیہ کو ایک اجنبی عورت قرار دے کر اور ایک سر تا پا جھوٹا قصہ بنا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر گندے سے گندے اعتراضات کرنا خواه وہ اعتراضات بظاہر ائمہ حدیث کا نام لے کر ہی کیوں نہ کئے جائیں.اس امر دلالت کرتا ہے کہ ان کو اسلام اور بانی اسلام سے محبت نہیں بلکہ عداوت ہے اور یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر حقیقت کو چھپایا ہے نہ کہ نادانی سے واقعات کو نظرانداز کیا ہے.میرے نزدیک مصنّف ہفوات کے اعتراض کی حقیقت پوری طرح تب بے نقاب ہوگی جب میں جونیہ کا تمام واقعہ تاریخ سے بیان کر دوں.طبری ابن سعود اور ان مجربے زبردست مورخین کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماء یاامیمہ اس کے نام میں اختلاف ہے (مگر میرے نزدیک ہو سکتا ہے کہ اس کے دو نام ہوں.ایسابہت دفعہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کے دو نام ہوتے ہیں یا تو مختلف رشتہ دار مختلف نام رکھ دیتے ہیں یا بعض لوگ خودہی بڑی عمرمیں اپنے لئے ایک اور نام پسند کر لیتے ہیں اور لوگوں میں وہ ان مختلف ناموں کی وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں) کنده قبیلہ سے تھی اور اس نسبت سے کندیہ کہلاتی تھی.اس کے والد کا نام اسود ابوالجون تھا.اس وجہ سے یہ جونیہ یا بنت الجون کہلاتی تھی.بعض روایات میں اس کو اسود کی پوتی اور نعمان کی بیٹی لکھا ہے.لیکن یہ اختلاف ہے حقیقت اور اصل مطلب سے بے تعلق ہے.جب عرب فتح ہوا اور اسلام پھیلنے لگا تو اس کا بھائی نعمان یا بموجب بعض روایات کے اس کا والد نعمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد کے حاضر ہوا اور اس موقع پر اس نے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست بھی کر دی کہ میری ہمشیرہ جو پہلے اپنے ایک رشتہ دار سے بیاہی
۳۳۵ حق الیقین ہوئی تھی اور اب بیوہ ہے نہات خوبصورت اور لائق ہے آپ اس سے شادی کر لیں.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبائل عرب کا اتحاد منظور تھا آپ نے اس کی یہ درخواست منظور کر لی.فرمایا کہ ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے.اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم معزّز لوگ ہیں مہر تھوڑا ہے.آپ نے فرمایا اس سے زیادہ میں نے کسی اپنی بیوی یا لڑکی کی مہر نہیں باندھا.جب اس نے رضامندی کا اظہار کیا نکاح پڑھا گیا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجئے.آپ نے ابا اسید کو اس کام پر مقرر کیا وہ تشریف لے گئے.جونیہ نے ان کو اپنے گھر میں بلایا تو آپ نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر حجاب نازل ہو چکا ہے.اس نے اس پر دوسری ضروری ہدایات دریافت کیں.آپ نے بتادیں اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لاۓ اور ایک مکان میں جس کے گرد کھجوروں کے درخت بھی تھے لا کر اتارا.اس کے ساتھ اس کی دایہ بھی اس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی جس طرح کہ ہمارے ملک میں ایک بے تکلف نوکر ساتھ کی جاتی ہے یا کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.چونکہ یہ عورت حسین مشہور تھی اور یوں بھی عورتوں کو دلہن کے دیکھنے کا شوق تھا مدینہ کی عورتیں اس کو دیکھنے گئیں اور اس عورت کے اپنے بیان کے مطابق کسی عورت نے اس کو سکھا دیا کہ رعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے.جب رسول کریم صلی الله علیہ وسلم تیرے پاس آئیں تو تو کہہ دیجئیو کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں.اس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے.اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہوئی نہیں تو کچھ تعجب نہیں کہ کسی منافق نے اپنی بیوی یا اور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو.غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ملی آپ اس گھر کو تشریف لے گئے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا تھا.اور اس کو اپنے پاس بیٹھنے کے لئے کہا.اس نے اس پر کراہت کا اظہار کیا.آپ نے اس خیال سے کہ یہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرا رہی ہے تسکین اور تسلی دینے کے لئے اس پر ہاتھ رکھا جس پر اس نے وہ نامعقول فقرہ کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں.چونکہ نبی خدا کا نام سن کر ادب کی روح سے بھر جاتا ہے اور اس کی عظمت کا متوالا ہوتا ہے اس کے اس فقرہ پر آپ نے اسے کہہ دیا کہ تُو نے بڑے کا واسطہ دیا ہے میں تیری درخواست کو قبول کرتا ہوں اور اسے طلاق دے کر رخصت کر دیا اور ابواسید کو پھر اس کام پر مقرر کر دیا کہ اسے اس کے گھر واپس کر آئیں.اور علاوہ مہر کے حصہ کے دو ازرقی چادریں بھی اس کو دینے کا حکم دیا تاکہ قرآن کریم کا حکم ولا تنسوا الفضل ۶۵؎ پورا ہو جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو
۳۳۶ بِلا صحبت طلاق دے دی جائے.جب آپ نے اس کو رخصت کر دیا تو ابو اُسید اس کو اس کے گھر پہنچا آئے.اس کے قبیلے کے لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری اور انہوں نے اس کو ملامت کی مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بد بختی ہے اور بعض دفعہ اس نے یہ کہہ دیا کہ مجھے دھوکا دیا گیا مجھے کسی نے سکھا دیا تھا کہ تُو اس طرح کہیو اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تیری طرف خاص طور سے مائل ہو جائے گا.یہ ہے اصل واقعہ جو تاریخوں اور احادیث میں مفّصل موجود ہے.اس موجودگی میں مصنّف ہفوات کا احادیث بخاری پر یہ اعتراض کرنا کہ ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر زنا کی تہمت لگائی گئی ہے.اور اس اعتراض کو زور دار بنانے کے لئے ایک آریہ صاحب کو بھی اپنی مدد کے لئے لانا مصنف ہفوات کے جن اندرونی جذبات پر دلالت کرتا ہے ان کا اندازہ لگانا میں حق پسند لوگوں پر ہی چھوڑتا ہوں.مذکورہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ جو واقعہ احادیث میں مذکور ہے اس کی بناء پر نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کسی قسم کا اعتراض کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے بیان کرنے پر محدثین پر کوئی حرف گیری کی جاسکتی ہے.بلکہ اس واقعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی مندرجہ زیل خوبیاں نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہیں.(1) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو عربوں کی اصلاح کی خاطر ان کے جذبات کے خیال رکھنے کا خاص طور پر احساس تھا.(۲) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے اعلیٰ درجہ کے تھے کہ آپ اپنی بیویوں سے بھی جو تمام قوانین تمدن کے ماتحت خاوند کے زیر حکومت کی جاتی ہیں ایسے رنگ میں کلام کرتے تھے جو نمات مؤدب ہوتا تھا اور جسے سن کر انسان خیال کر سکتا ہے کہ گویا کسی نہایت قابل ادب وجود سے آپ کلام کر رہے تھے.(۳) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو نکاح میں عورت کی رضامندی کا اس قدر خیال تھا کہ نکاح کے بعد اس خیال سے کہ شاید عورت کی رضامندی حاصل نہ کی گئی ہو آپ نے جونیہ سے کہا کہ ھبئ نفسک لی اپنا آپ مجھے سونپ دے لیکن نکاح پر رضا ظاہر کر.(3) اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہایت اشتعال انگیز باتوں پر بھی خنده پیشانی سے صبر کر جاتے تھے.
۳۳۷ حق الیقین (۵) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خشیت اللہ آپ کے دل میں اس قدر تھی کہ خدا تعالی کانام آنے پر آپ حتی المقدور اپنے حقوق کے چھوڑ دینے پر بھی تیار ہو جاتے تھے.(1) اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان لوگوں سے بھی حسن سلوک کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے جو آپ کے لئے ایذاء اور تکلیف کا موجب بنتے تھے.غرض بجائے اس کے کہ اس واقعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کوئی ادنی سے ادنی ٰ اعتراض بھی پڑتا ہو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اخلاقِ حَسنہ کا ایک بے نظیر نمونہ تھے پیشتر اس کے کہ میں اس اعتراض کا جواب ختم کروں میں ان استدلات پر بھی روشنی ڈالنا پسند کرتا ہوں جو میرے اوپر کے بیان کے خلاف بخاری کی نقل کردہ احادیث سے دشمن کر سکتا ہے.کہا جا سکتا ہے کہ حدیث میں جو یہ لفظ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت کا ذکر کیا گیا اور آپ نے اس کو بلوایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اس سے نکاح نہیں ہوا تھا.مگر یہ اعتراض درست نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس عورت کے متعلق جب کہ تاریخ اور حدیث سے ثابت ہے کہ اس کے باپ یا بھائی نے خود اس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا ہے اور نکاح کی درخواست کی ہے اور مہر مقرر کیا ہے اور نکاح پڑھا گیا ہے بلکہ اس عورت کے واقع سے فقہاء یہ استدلال کرتے چلے آئے ہیں کہ عورت کے منہ پر اسے ضرور تا ًطلاق دینی جائز ہے.تو پھر ان الفاظ سے یہ کیونکر نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس کا نکاح نہیں ہوا تھا.اس حدیث سے تو صرف یہ نتیجہ لگتا ہے کہ چونکہ اس جگہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کٹورے کا (اصل حدیث اس بارے میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کٹورے میں ایک صحابی نے ایک اپنے دوست کو پانی پلایا ہے) ذکر کرنا مقصود تھا نکاح کے ذکر کو مختصر کر دیا ہے.چنانچہ طلاق کے ذکر میں یہی راوی اس واقعہ کا بیان کرتے ہوئے بیان کرتا ہے.تتزوج النبي صلى الله عليه وسلم أميمة بنت شراحيل یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جونیہ عورت سے نکاح کیا تھا.دوسرا استدلال یہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ لفظ استعمال فرماتے ہیں کہ اپنانفس مجھے دے.تو ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح نہیں ہوا تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ الفاظ اس امر پر دلالت نہیں کرتے کہ نکاح نہیں ہوا تھا کہ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قومی شرف کو مد نظر رکھتے ہوۓ اور اخلاق فاضلہ سے
۳۳۸ کام لیتے ہوئے یہ الفاظ اسے پاس بلانے کے لئے استعمال فرمائے ہیں اور اس قسم کے الفاظ میں جیسے ایک میزبان دستر خوان پر سے کسی چیز کے اٹھا کر دینے کے لئے مہمان سے کہہ دے کہ فلاں چیز مجھے عنایت فرمائے.اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوں گے کہ وہ مہمان کی تھی اور اس سے میزبان سوال کرتا ہے.غرض اپنا آپ مجھے عطا کر، کے صرف یہ معنے ہیں کہ میرے قریب ہو کر بیٹھ نہ کہ درخواست نکاح.دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ چونکہ جس وقت نکاح ہوا ہے اس وقت یہ عورت مدینہ میں موجود نہ تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ عورت کی رضامندی حاصل کرنا نکاح کے لئے نہایت ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ بھائی نے اپنی عزت کے خیال سے بِلا اجازت ہی نکاح پڑھوا دیا ہو اور یو نہی کہہ دیا ہو کہ بہن راضی ہے.اس سے کہا کہ ممبئ نفت لی یعنی اب اپنی مرضی کا اظہار کر دے کہ تُو میرے نکاح میں خوشی سے آئی ہے.اس نے اس پر چونکہ ناراضگی کا اظہار کیا آپ نے اس کو اس کے گھر بھجوا دیا قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نکاح کرنے والی عورتوں کے متعلق لفظ ہبہ استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورة احزاب میں ہے امراة مؤمنة ان وھبت نفسها للنبي إن أراد النبى ان يستنكحها ۶۶؎ یعنی وہ عورت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نکاح میں لانا چاہیں اور وہ اپنے نفس کو اس امر کے لئے پیش کر دے.مصنّف ہفوات کی نقل کردہ احادیث سے یہ بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کہ اس عورت کا یہ کہتا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں تانتا ہے کہ اس کا نکاح نہیں ہوا تھا.یہ استدلال بھی غلط ہو گا.اس لئے کہ اس عورت نے جیسا کہ خود ظاہر کیا ہے.یہ الفاظ اپنا رُعب جمانے کے لئے کہے تھے اور اس نے خیال کیا تھا کہ اس طرح آپ کے دل میں میری محبت بڑھ جائے گی.پس ان سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا نکاح آپ سے نہیں ہوا تھا یا یہ کہ اسے معلوم نہ تھا ابواسید اس کو لائے.راستے میں وہ ان سے وہ طریق پوچھتی رہی جس کا اختیار کرنارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لئے ضروری تھا.پھر کیونکہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ناواقف تھی.پس اس فقرہ کا محرک صرف یہ خیال تھا کہ اس قسم کی بات کہنے سے اس کا درجہ بڑھ جائے گا.ایک یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ اگر واقعہ میں اس کا نکاح ہو چکا تھا تو پھر اس نے یہ کیوں کہا کہ میں ان کو نہیں جانتی.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ طبعی جواب ہے جو ایسے موقعوں پر دیا جاتا ہے
۳۳۹ اور علی الخصوص عورتیں دیا کرتی ہیں.لوگوں کا یہ سوال کرنا کہ تُو جانتی ہے کہ یہ کون تھا؟ یہ بھی اظہار غصہ کے لئے تھا جیسا کہ ناراضگی میں ایسا فقرہ کہا جاتا ہے کہ مجھے معلوم ہے میں کون ہوں؟ یا تجھے معلوم ہے یہ کون ہے ؟ اور اس عورت کا جواب بھی غصہ اور نامرادی کے نتیجہ میں تھا کہ میں نہیں جانتی کہ یہ کون ہے یعنی میں نہیں پرواہ کرتی کہ یہ کون تھا چنانچہ حقارت کے لئے لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ فلاں شخص کون ہے حالانکہ بچپن سے اس شخص کے ساتھ تعلق اور واقفیت ہوتی ہے.غرض یہ سب استدلال باطل ہیں.اور واقعات کے مقابل میں قیاسات کو رکھنا عقل و دانش کے بالکل برخلاف ہے.جب کہ اسی روایت کا راوی صاف الفاظ میں یہ بیان کرتا ہے کہ اس عورت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوئی تھی اور جب کہ ابواسید جو اس عورت کو لائے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ اس عورت کی شادی ہو چکی تھی.اور جب کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس کی شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو چکی تھی اور آپ نے اس کو طلاق دے دی.تو پھر بعض اشارات سے جن کے کئی معنے ہو سکتے ہیں یہ نتیجہ نکالنا کہ شادی نہیں ہوئی تھی اور واقعات اور تفصیلات کو ترک کر دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اسی طرح جب کہ امام بخاری نے اس روایت کے نتیجہ میں یہ نکالا ہے کہ عورت کو اس کے منہ پر طلاق دے جاسکتی ہے.اور جب کہ انہوں نے اسی روایت سے پہلے اس عورت کے متعلق حضرت عائشہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد نکاح طلاق دی تھی.اور جب کہ انہوں نے اس روایت کے بعد اسی راوی کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے کہ اس عورت کو رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کرنے کے بعد بلوایا تھا.یہ نتیجہ نکالنا کہ امام بخاری کا اس روایت کے نقل کرنے سے یہ منشاء تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اقدام زنا کا الزام لگایا جائے کیسا صریح جھوٹ اور کھلا کھلا دھوکا ہے.میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ یہ دونوں روایتیں جو مصنّف ہفوات نے بیان کی ہیں در حقیقت ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں.میرے نزدیک اس امر کا ثابت کرنا بھی مصنّف ہفوات کی اصل نیت پر سے پردہ اٹھادیتا ہے اس لئے میں اس کو ثابت کر دینا بھی ضروری سمجھتاہوں.علاوہ اس کے کہ تمام دوسری روایات اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعہ کے متعلق ہیں.ان دونوں میں مندرجہ ذیل باتوں کا اشتراک بھی اس امر کو روز روشن کی
۳۴۰ حق الیقین طرح ثابت کر دیتا ہے.اول.دونوں روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت باہر سے لائی گئی تھی.روم.دونوں روایتوں میں ایک مکان کا ذکر ہے جس میں عورت اتاری گئی سوم.دونوں روایتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابواسید کو اس عورت کو لانے اور لے جانے کا کام سپرد ہوا.چہارم.دونوں روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس عورت کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے تسکین دہ الفاظ میں کام کیا.لیکن اس نے کہا کہ میں آپ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں.پنجم.دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کے اس قول پر اسے علیحدہ کر دیا.کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ یہ سب واقعات ایک ہی شخص سے دو دفعہ گزرے تھے اور کیا صرف اس وجہ سے کہ ایک حدیث میں اس عورت کا نام نہیں آیا ان دونوں روایتوں کو دو واقعوں کے متعلق قرار دیا جاسکتا ہے.علاوہ ازیں تمام معتبّر شرّاح اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں ایک ہی امر کے متعلق ہیں.دیکھو قسطلانی وفتح الباری.مگر میں سمجھتاہوں کہ مصنف صاحب ہفوات کی تسلی نہ ہو گی جب تک شیعہ کتب سے ہی یہ ثابت نہ کیا جائے کہ جو نیہ بیاہتا بیوی تھیں اور اس غرض کے لئے میں مصنف صاحب ہفوات کو شیعوں کی سب سے معتبر کتاب فروع کافی جلد دوم کا حوالہ دیتا ہوں اس کتاب کے صفحہ ۱۷۶ پر كتاب النكاح میں باب اخر منہ لکھ کر حسن بصری سے روایت کی ہے کہ جونیہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا تھا ۶۷؎ اور پھر امام ابو جعفر سے اس کی تصدیق نقل کی ہے بلکہ ان کی زبان سے یہ اعتراض کرایا ہے کہ اس کو اور ایک اور عورت کو حضرت ابو کرنے نکاح کی اجازت دے دی حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آجانے کی وجہ سے امہات المومنین میں شامل تھی.اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف تو جونیہ کو نکاح کی اجازت دینے پر حضرت ابو بکر پر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ نے ایک ام المومنین کو نکاح کی اجازت دے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی اور دوسری طرف یہ کہا جائے کہ بخاری نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات جونیہ سے بیان کر کے آپ پر اقدام زنا کا الزام لگایا ہے.اگر جونیہ بیاہتا بیوی نہ تھی تو بقول فروع کافی امام جعفر نے اسے نکاح ثانی کی اجازت دینے پر اعتراض کیوں کیا ہے اور اگر وہ بیاہتا تھی تو اس سے ملاقات کاذ کر اقدام زنا کا الزام کیونکربن گیا.اب کیا امام جعفر کو
۳۴۱ حق الیقین نعوذ بالله التزام دیں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر کو بدنام کرنے کے لئے ان پر ایک اتہام لگایا یا مصنف ہفوات کو بے دین قرار دیں کہ بخاری کی عداوت میں اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ کیا.حلول خدابہ صورت عائشہ ایک اعتراض مصنف ہفوات نے یہ کیا ہے کہ مصنف کتاب فردوس آسیہ لکھتے ہیں کہ قرآن میں أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ(النور:27) کے الفاظ آتے ہیں ان کے یہ معنی ہیں کہ صفوان اور عائشہ اور صدیقہ بری ہیں اس سے جو منافق کہتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ فردوس آسیہ کے مصنف کے نزدیک حضرت عائشہؓ پر نعوذ باللہ من ذالک کسی منافق نے حضرت ابو بکر کے ساتھ ناجائز تعلق کا بھی الزام لگایا تھا.تعجب ہے کہ مصنف ہفوات نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ احادیث میں جو ہتک رسول کریم ﷺ کی گئی ہے اس کو پیش کریں گے لیکن آ گئے فردوس آسیہ پر اور وہ بھی اس کے اقوال اور خیالات پر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل غرج ان کی صرف اعتراض کرنا اور اہل سنت سے لوگوں کو بدظن کرنا ہے نہ کہ احادیث کی تحقیق و تدقیق.چونکہ میرا کام ان احادیث اور ائمہ احادیث کے متعلق حقیقت کو ظاہر کرنا ہے جن پر مصنف ہفوات نے اعتراض کئے ہیں اس لئے فردوس آسیہ کے مصنف کے بریت کی کوشش کرنا میرے مقصد سے دور ہے.مگر ضمناً میں اس قد رکہہ دینا چاہتا ہوں کہ گو میں نہیں جانتا کہ مصنف فردوس آسیہ کس تقویٰ اور کس علم کا آدمی تھا.مگر اس کی مذکورہ بالا تحریر سے وہ نتیجہ نکالنا جو مصنف ہفوات نے نکالا ہے درست نہیں.مصنف ہفوات کو معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اولاد کے افعال پر ماں باپ کے افعال کو قیاس کر لیا کرتے ہیں اور کسی بچہ کے بد فعل کو دیکھ کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس کے ماں باپ بھی ایسے ہی ہوں گے.پس کیا تعجب ہے کہ بعض منافقوں نے جن کو حضرت ابو بکر سے بلا وجہ بغض تھا اور جو ان کو اسلام کے لئے بمنزلہ ستون دیکھ کر ان کی تباہی اور بربادی کی فکر میں لگے رہتے تھے.یہ بھی کہہ دیا ہو کہ جیسی بیٹی ثابت ہوئی ہو (نعوذ باللہ) ایسا ہی باپ ہو گا.یا کم سے کم مصنف آسیہ کو یہ خیال پیدا ہوا ہو.پس اس صورت میں اس آیت میں حضرت ابو بکر کی بریت بھی خود بخود آ گئی کیونکہ جب حضرت عائشہ پر سے اللہ تعالیٰ نے اعتراض دور
۳۴۲ حق الیقین کر دیا تو حضرت ابو بکر پر سے خود ہی اعتراض دور ہو گیا.قرآن کریم میں بھی اسی قسم کے خیالات کے لوگوں کا ذکر ہے.چنانچہ حضر ت مریم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ان کے ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو لوگوں نے ان سے مخاطب ہو کر کہا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا(مريم :28-29) ترجمہ.اے مریم تُو نے ایک حیرت انگیز کام کیا ہے.اے ہارون کی بہن تیرا باپ تو برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں فاحشہ تھی.یعنی یہ کس طرح ہوا کہ ان نیکوں کی اولاد خراب ہو گئی ہو.خراب او ربدکار تو بدوں کی اولاد ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو بھی وہ جواب سکھایا کہ ان کا منہ بند ہو گیا یعنی انہوں نے اس اعتراض کے جواب میں صرف اتنا کیا کہ فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ (مريم :30) حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف اشارہ کر دیا.یعنی ان کو انہی کے معیار سے ملزم کیا.ان کا تو یہ اعتراض تھا کہ بد کی اولاد بد ہوتی ہے اورنیک کی نیک.حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت مسیح کی زندگی کو پیش کر دیا کہ اگر یہ معیار درست ہے تو دیکھو یہ میرا لڑکا کیسا ہے؟ اگر تمہارا خیال درست ہے تو پھر بدکاری کے نتیجہ میں یہ نیک اور نمونہ پکڑنے کے قابل لڑکا کہاں سے پیدا ہوا؟ تمہارے اصل کے مطابق تو خود اس لڑکے کا چال چلن ہی میری بریت کے لئے کافی ہے.چنانچہ ان کے اس دعویٰ کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح کا یہ دعویٰ پیش کرتا ہے.قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ (مريم:31-35)ترجمہ: مسیح نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور مجھے مبارک کیا ہے.جہاں بھی میں رہوں اور مجھے تاکید کی ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں عبادت اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر کاربند رہوں.اور مجھے اس نے اپنی ماں سے بہت ہی نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے (یعنی اگر میری ماں بدکار ہوتی تواللہ تعالیٰ اس سے نیک سلوک کرنے کا خاص حکم کیوں دیتا؟ اور اس کی مرضی کا پاس کیوں رکھتا؟) اور مجھے لوگوں کے حقوق چھیننے والا اور نیکی سے محروم رہنے والا نہیں بنایا.اور اس نے میرے تینوں زمانوں پر سلامتی نازل کی ہے جب میں پیدا ہوا اس وقت بھی اور جب میں مروں گا اور جب دوبارہ اٹھوں گا اس وقت بھی ایسا ہی ہو گا.مریم کابیٹا عیسیٰ ایسا تھا یعنی ایسے آدمی کی والدہ پر وہ لوگ اعتراض کر سکتے تھے کہ وہ بدکار تھی.اور پھر مذکورہ بالا حالات کی
۳۴۳ حق الیقین موجودگی میں.مصنف ہفوات بجائے اس گندے اعتراض کے جو انہوں نے اپنی جبلی کمزوری کے ماتحت اختیار کیا ہے اگر قرآن کریم پر غور کرتے اور انسانوں کے مختلف طبقات کو دیکھتے تو مصنف فردوس آسیہ کے قول کے وہ معنی بھی کر سکتے تھے جو اوپر بیان ہوئے ہیں اور جن پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا.اسی اعتراض کے تحت میں مصنف ہفوات نے ایک اور اعتراض بھی کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مصنف آسیہ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو اپنا جمال عائشہ کی شکل میں دکھلایا اور پھر درمیان سے پردہ اٹھا دیا اس پر مصنف ہفوات کو اعتراض ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ کی عورتوں کو محبت دیکھ کر عائشہ کی شکل میں حلول کیا.اس اعتراض کی بناء بھی کسی حدیث پر نہیں ہے.مصنف ہفوات کو چاہئے تھا کہ اول وہ حدیث لکھتے جس میں یہ بات بیان ہے پھر اعتراض کرتے اور اگر ایسی کوئی حدیث ان کو معلوم نہ تھی یا اگر کوئی تھی تو ایسی تھی کہ اس کو پیش کرتے ہوئے ان کو اپنی انصاف پسندی پر سے پردہ اٹھنے کا احتمال تھا تو خاموش رہتے.اگر ایسی ہی باتوں پر اعتراض کیا جائے تو شیعہ صاحبان میں بھی ایسی روایات مشہور ہیں کہ جن کو سن کر انسان دنگ رہ جاتا ہے.ایک روایت مشہور ہے کہ معراج کے دن رسول کریم ﷺ نے عرش پر حضرت علی کی ہی تصویر کو دیکھا تھا.پس اس قسم کی روایات اگر عوام الناس میں پھیل جائیں تو ان کی وجہ سے کسی مذہب یا اس کے ائمہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا.یہ جواب تو اس بات کو مدنظر رکھ کر ہے کہ ایسی کوئی حدیث اہل سنت میں نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا.لیکن اگر ا س کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا کیونکہ یہ ایک عام نظارہ ہے جس سے تمام روحانیت رکھنے والے مومن آگاہ ہیں اور اس پر اعتراض کر کے مصنف ہفوات نے صرف اس امر کو ظاہر کیا ہے کہ ان کو روحانیت سے ذرہ بھی مسّ نہیں.یہ امر لاکھوں مومنوں کے تجربہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ عام کشف اور رؤیا میں انسانوں کی شکل میں نظر آ جاتا ہے اور اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ محدود ہے یا حلول کرتا ہے بلکہ اس رؤیا سے صرف اس تعلق کا اظہار مراد ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بندے سے ہے اور تصویری زبان میں
۳۴۴ حق الیقین اس تعلق کو ظاہر کر کے ایک گہرا نقش اس کے دل میں جمایاجاتاہے.میں نے خود کی دفعہ اللہ تعالیٰ کو انسانی شکل میں دیکھا ہے اور مضمون رویا کے مطابق اس کی شكل مختلف طور پر دیکھی ہے.میں ہرگز نہیں بنتا کہ وہ شکل ندانی یا اس میں خداتعالی حلول کر آیا تھا.لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایک جلوہ تھی اور اس رویا کے مضمون کے مطابق الہٰی صفات کی جلوہ گری پر دلالت کر رہی تھی وہ ایک رؤیت تھی مگر تصویری زبان میں.اور اس تعلق کو ظاہر کرتی تھی جو اللہ تعالیٰ کو مجھ سے کیا ان لوگوں سے تھا جن کے متعلق وہ رؤیا تھی حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول اپنی طالب علمی کے زمانہ کا ایک واقعہ سناتے تھے کہ ایک دفعہ آپ کے استاذ مولوی عبدالقیوم صاحب بھوپالوی نے جو مجّدد عمر حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی کے خلفاء میں سے تھے خواب دیکھا کہ ایک شخص کوڑھی اندھا اور دیگر ہر قسم کی بیماریوں میں مبتلا بھوپال کے باہر پُل پر پڑا ہے اس سے آپ نے پوچھا کہ تم کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں اللہ میاں ہوں.انہوں نے کہا اللہ میاں تو سب حُسنوں کا جامع ہے اور سب عیبوں سے پُر ہے تو اس نے کہا کہ وہ بھی درست ہے لیکن میں بھوپال کے لوگوں کا خداہوں یعنی انہوں نے مجھے ایسا سمجھ چھوڑا ہے.غرض خدا تعالی کی رؤیت کئی بناء پر کی صورتوں میں مومن کو ہوتی ہے اور اس سے ایمان کی زیادتی کا موجب بنتی ہے اور اس پر اعتراض کرنا ایک جاہل اور نادان انسان کا کام ہوتا ہے واقف حقیقت اس گڑھے میں نہیں گرتا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت ہوئی ہو تو اس میں کچھ تعجب کی بات نہیں اور یہ اعتراض کا مقام نہیں اکثر دفعہ رؤیا کی تعبیر ناموں کے معنوں پر ہوتی ہے.اگر ایسی رؤیا کسی کو ہو تو اس کے معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایک سلسلہ بخشے گا جو ہمیشہ قائم رہے گا کیونکہ عائشہ کے معنے زندہ رہنے والی کے ہیں اور اس نام کی عورت کی شکل میں اگر اللہ تعالیٰ اپنا جلوہ ظاہر کرے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ جلوہ نہ مٹنے والا ہے اور عورت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ جلوہ امت کے متعلق ہے جو مؤنث ہے.ایک رؤیاپر اعتراض کرنا کو رباطنی اور روحانیت سے حرمان پر دلالت کرتا ہے.نجات رسول از سکرات بلُعاب عائشہ ایک اعتراض مصنف ہفوات نے یہ کیا ہے کہ فردوس آسیہ میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے وفات کے وقت مسواک چبوائی تاکہ آپ پر
۳۴۵ حق الیقین سکرات موت کی آسانی ہو.اور اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ کونسی طب کا نسخہ ہے کہ مسواک کسی کے منہ میں چبوا کرلی جائے تو اس سے سکرات موت میں آسانی ہوتی ہے.میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ فردوس آسیہ نہ حدیث کی کتاب ہے اور نہ اس پر اہل سنت والجماعت کے مذہب کا انحصار ہے ہیں اس کے حوالہ سے کوئی حدیث پیش کرنا درست ہی نہیں ہو سکتا جب کتب احادیث موجود ہیں تو ان کا حوالہ دینا مصنّف ہفوات کے لئے کی مشکل تھا صاف ظاہر ہے کہ مصنف ہفوات کو اس میں اپنے ارادہ کی قلعی کھل جانے کا احتمال تھا اور وہ جانتے تھے کہ اصل حوالہ جات کے ظاہر ہوتے ہی بہت سی روایات کی حقیقت ظاہر ہو جائے گی.چونکہ یہ واقعہ بخاری میں بھی آتا ہے اس لئے میں بخاری کی روایت اس جگہ نقل کر دیتا ہوں.اس سے مصنّف ہفوات کے اعتراض کی حقیقت خود بخود ظاہر ہو جائے گی امام بخاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ذکر میں حضرت عائشہ کی روایت لکھتے ہیں.کانت تقول ان من نعم الله على أن رسول الله صلى الله علي وسله توفي في بيتي و في يومي وبين سحري و نحري وان الله جمع بين ريقي وريقه عند موته - د ځل على عبد الرحمن و بيده التواك وانا شيد شو الله صلى الله عليه و سلم قرأ ينظر إليه ورث أنه يحب السواك وانا مستندہ رسول اللہ فرایتہ ینظر الیہ و عرفت انہ یحب السواک فقلت اخذہ لک فاشار براسہ ان نعم فتناو لتہ عليه فقلت الینہ لک فاشار براسہ ان نعم فلینتہ \" تر جمہ.حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر احسان کئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں اور میری باری میں فوت ہوئے ہیں اور میری گردن اور سینے کے درمیان (یعنی اس مقام پر آپ نے ٹیک لگائی ہوئی تھی) اور یہ کہ اللہ تعالی نے میرے اور آپ کے لعاب کو آپ کی وفات کے وقت جمع کر دیا.اور یہ اس طرح ہوا کہ عبدالرحمٰن (حضرت عائشہ کے بھائی )اندر آئے اور ان کے پاس مسواک تھی اور میں نے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹیک دی ہوئی تھی میں نے دیکھا کہ آپ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں اور میں نے سمجھا کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں پس میں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے لئے یہ مسواک کے لوں؟ آپ نے سرسے اشارہ فرما یا کہ ہاں.میں نے مسواک لے کر آپ کو دی لیکن آپ کو وہ سخت معلوم ہوئی اس پر میں نے کہا کہ کیا میں اسے آپ کے لئے نرم کر دوں؟ آپ نے سرسے اشارہ فرمایا کہ ہاں.پس میں نے مسواک کو نرم کر دیا اور آپ نے
۳۴۶ حق الیقین اپنے منہ میں مسواک کرنی شروع کردی.دو طرح اور بھی بخاری میں روایت آتی ہے.لیکن مفہوم میں ہے.اس امر کا کہیں بھی ذکر نہیں کہ عائشہ کی مسواک کرنے سے آپ پر سکرات موت کی سہولت ہو گئی جب کہ مصنف ہفوات نے بخاری کو بہ نیت اعتراض پڑھا تھا تو ضرور اس روایت پر بھی ان کی نظر پڑی ہو گی.پھر اس کو چھوڑ کر فردوس آسیہ کی طرف توجہ کرنے کی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اس حدیث پر اعتراض نہیں پڑ سکتا تھا بلکہ اگر وہ اس حدیث کو نقل کر دیتے تو اس سے اعتراض ہی ردّ ہو جاتا کیونکہ اس حدیث میں اس روایت کے بالکل خلاف مضمون ہے.فردوس آسیہ کی عبادت سے مصنّف ہفوات نے یہ مطلب نکالا ہے کہ گویا حضرت عائشہ کی برکت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکرات میں کمی ہوئی حالانکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ اس کو ایک فخر سمجھتی ہیں کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت میں خدمت کا موقع ملا.بخاری میں اسی موقع کے متعلق ایک اور روایت ہے اور وہ بھی حضرت عائشہؓ سے مروی ہے.اس سے اس بہتان کی قباحت اور فضاحت اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے.کتاب فضائل القرآن میں امام بخاری حضرت عائشہ سے باب المعوذات کے نیچے ایک روایت لکھتے ہیں جو یہ ہے عن عائشة أن رسول الله ملى الله عليه وسلم كان إذا اشتكى يقرأ على نفسه بالمعوذات وينفث فلما اشتد وجعه كنت أقر عليه واسمح بیدہ رجاء بر کتها ترجمہ.حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی بیماری ہوتی آپاپنے جسم پر معوّذات پڑھ کر پھونک لیا کرتے.پس جب آپ کی بیماری بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ کا ہاتھ جسم پر پھیر دیتی اور آپ کا ہاتھ اس لئے پھیرتی تابرکت ہو.اس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ ؓیا ائمہ حدیث کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی یہ بات نہ تھی کہ حضرت عائشہ کو ایسی برکت حاصل تھی کہ ان کے لُعاب کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب سے مل جانے سے آپ پر سکرات موت آسان ہو جائیں گے.اگر یہ بات ان کے ذہن میں ہوتی اور وہ بقول مصنف بفوات اس خیال کے پھیلانے کے خواہش مند ہوتے تو وہ مذکورہ بالا حدیث کو کیوں اپنی کتب میں درج کرتے.خلاصہ یہ کہ صحیح احادیث میں یہ بات کہیں بھی بیان نہیں ہے کہ حضرت عائشہؓ کو رسول کریم نے فرمایا کہ مجھے مسواک اس لئے چباکر دے کہ مجھ پر سکرات موت آسان ہو جائے گی.
۳۴۷ جس بات کو مصنف ہفوات نے چھپایا ہے میں اس کو ظاہر کر دیتا ہوں کہ عقیلی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں امضغیہ ثم أتيني به أمضغہ لکی يختلط ريقی بريقک لكى يهون على عند الموت ۷۳؎ تک اس کے معنے بے شک یہ کئے جا سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے مسواک چبا کر دے تا موت کے وقت کا حال مجھ پر آسان ہو.لیکن اس کے بھی یہ معنے نہیں نکل سکتے کہ لُعاب عائشہؓ میں کوئی ایسی برکت تھی جبکہ زیادہ سے زیاد ہ یہ معنی نکلیں گے کہ آپ کو چونکہ عائشہ سے محبت تھی اور پیاروں کا قرب انسان کی تسلی کا موجب ہوتا ہے اس لئے جس طرح آپ بھی اس جگہ منہ لگا کر پانی پی لیتے تھے جس جگہ منہ لگا کر عائشہؓ نے پیا ہو اسی طرح آپ نے اس وقت ایسی خواہش کی.مگر میرے نزدیک حق یہی ہے کہ یہ روایت باطل ہے.کیونکہ گو اس روایت سے قطعی طور پر وہی معنے نہیں نکلتے جو مصنّف ہفوات کئے گئے ہیں.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو معنے بھی اس کے کئے جائیں وہ واقعات کے خلاف ہیں.بخاری کی روایت جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں اور دوسری روایات جن کو میں نے بخوف طوالت نقل نہیں کیا یہ روایت ان کے خلاف ہے.اور اس لئے قابل اعتبار نہیں.بخاری اور دوسری معتبر کتب حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایسے ضعیف ہو چکے تھے کہ اس قدر بھی گفتگو نہیں کر سکتے تھے.بخاری کی حدیث میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عائشہ کے دریافت کرنے پر کہ کیا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مسواک لینا چاہتے ہیں؟ آپ نے منہ سے ہاں نہیں فرمایا بلکہ سر کا اشارہ فرمایا اور پھر جب آپ چبا نہیں سکے تو خود منہ سے نہیں فرمایا کہ اس کو چبا دو بلکہ حضرت عائشہ ؓکے پوچھنے پر بھی سر سے فرمایا کہ ہاں چبادو.پس جب کہ خود حضرت عائشہ کی روایت معتبر کتب احادیث میں یوں درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک چبانے کے لئے منہ سے کچھ نہیں کہا بلکہ صرف سر ہلایا.تو عقیلی کی روایت جس میں ایک فقرہ کافقرہ درج ہے کس طریا درست ہو سکتی ہے؟ اور جب کہ وہ روایت اہل سنت کی معتبر کتب کی روایات کے خلاف ہے تو اسے ائمہ حدیث اور اہل سنت کے خلاف کس طرح استعمال کیا جاسکتاہے.
۳۴۸ حضرت عائشہؓ کے ہاتھ دکھانے سے رسول کریم ؐکو سکرات موت سے نجات ہوئی؟ مصقت ہفوات کے فردوس آسیہ کے ہی حوالہ سے ایک اور اعتراض ائمہ حدیث پر کیا ہے اور یہ کہ ان کی روایات کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکرات موت سے نجات اس طرح ہوئی کہ آپ کو حضرت عائشہ کے ہاتھ اور ہتھیلیاں دکھائی گئی تھیں.اس روایت کو درج کر کے مصنف ہفوات نے یوں اعتراض کیا ہے ’’غنیمت ہے کہ پیغمبر معصوم کو دوزخ نہ دکھائی ہاتھ ہتھیلیوں ہی پر خیر گزری اور نہ ان خوش اعتقاد مولویوں سے یہ بھی دور نہ تھا‘‘ پھر لکھا ہے."لطیفہ.معلوم ہوتا ہے کہ جناب عائشہ ؓکے ہاتھوں کی قوت مقناطیسی بلکہ قوت برقی بڑھتے بڑھتے ملک الموت کا کام کرنے لگی تھی مَا شَآ اللہ جب شرافت، جس ادب، جس سنجیدگی کے ساتھ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہؓ کا ذکر کیا گیا ہے وہ مصنف ہفوات کے اندرونے کے ظاہر کرنے کے لئے خودہی کانی ہے.اس پر مزید کچھ لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں.میں اصل اعتراضی کے جواب پر کفایت کرتا ہوں.یہ حدیث جس کی طرف مصنف ہفوات نے اشارہ کیا ہے مسند احمد بن حنبل اور این سعدی ہے.مسند احمد بن حنبل میں یہ الفاظ ہیں عن عائشة أيضا ان النبي صلى الله عليه و سلم قال إنه ليهون على الموت لا ني رأیت بيا ض کف عائشة في الجنة \ ۷۴؎ یعنی حضرت عائشہ نے یہ بھی روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر موت آسان ہو گئی ہے کیونکہ میں نے عائشہ کے ہاتھوں کی سفیدی کو جنت میں دیکھا ہے اور ابن سعد نے مرسل طور پر اس روایت کو یوں بیان کیا ہے انہ صلى الله عليه وسلم قال لقد رأيتها في الجنة حتى ليھون على بذالک موتی کانی آری كفيها يعني عا ئشة۷۵؎ ترجمہ.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جنت میں اس کو دیکھا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مجھ پر موت آسان ہو گئی ہے گویا کہ میں عائشہ کی ہتھیلیوں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں.اصل روایات کو پڑھ لینے کے بعد کوئی عقلمند وہ اعتراض نہیں کر سکتا جو مصنّف ہفوات نے کئے ہیں.ان روایات سے نہ اشارۃً نہ کنایۃً بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ کی ہتھیلیاں
۳۴۹ د کھانے کے سبب سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نکل گئی نہ یہ کہ ہتھیلیوں کے دیکھنے کے سبب سے آپ کے سکرات موت کم ہو گئیں یہ تمام کی تمام بات ایک سرتاپا جھوٹ ہے جس کے کہ مصنّف ہفوات اور ان کے ہم آہنگ لوگ خاص طور پر مشتاق معلوم ہوتے ہیں.اس حدیث کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ عائشہ کو جنت میں دیکھ کر آپ پر موت آسان ہوگئی ہے اور اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ہر انسان خواہ نبی ہو خواہ غیرنبی بلکہ نبی زیادہ اس امر کی فکر رکھتا ہے کہ اس کے عزیز اور رشتہ دار بھی خدا کے غضب سے بچ جائیں اور اس کے فضلوں کے وارث ہوں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کا جنت میں دکھایا جانا واقع میں ایک خوشی کا امر تھا اور اس پر آپ کا یہ فرما دینا کہ مجھ پر یہ بات دیکھ کر موت آسان ہو گئی ہے.آپ کی شان کو بڑھانے والا ہے نہ کہ آپ کی شان کے خلاف.جس نبی کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہےلعلک با خع نفسك ألا يكونوا مؤمنین ۷۶؎ کیاتُو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے.کیا اس کو اپنے اہل کی نسبت اس امر کی خواہش نہیں ہو گی کہ وہ بھی انعامات الہٰیہ کے وارث ہوں اور کیا اگرناللہ تعالیٰ اس کے بعض اہل کی نسبت اس امر کی خوشخبری دے کہ وہ بھی اعلیٰ درجہ کے انعامات کے وارث ہوں گے.اور ان کے جسم خاص طور پر روشن بنائے جائیں گے تو اس کی آخری گھڑیاں خوشی سے معمور نہ ہوں گی؟ اے کاش! مصنف صاحب ہفوات اپنے پتھر سے زیادہ سخت دل اور معکوس کوز ے سے زیادہ ایمان سے خالی قلب سے اس واقعہ کو نہ جانچتے بلکہ ایک مومن دل کی حالت سے اندازہ لگاتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف نہیں ہے بلکہ آپ کی شان کو بڑھانے والی ہے اور اسی طرح حضرت عائشہؓ کی عظمت کا اظہار کرنے والی ہے.اور غالباً یہی باعث ہے کہ مصنّف ہفوات کو یہ حدیث گراں گزری ہے اور ان کو اپنے دماغ پر پورا زور دے کر عجیب قسم کے بے تعلق اعتراض ایجاد کرنے پڑے ہیں.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس روایت میں سکرات موت کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ موت سے کسی قدر پہلے کا معلوم ہوتا ہے اور موت کے آسان ہونے کے معنے دل کی خوشی کی ہیں نہ کہ موت کی ظاہری تکلیف کے.کیونکہ اس قسم کی تکلیف ایک طبعی امر ہے اور دل کی خوشی یا عدم خوشی کا اس سے بھی تعلق نہیں.
۳۵۰ رسول کریم ﷺ پر بد اخلاقی کا الزام فردوس آسیہ ہی کے حوالہ سے کشف الغمة عن جميع الائمة کی ایک روایت درج کر کے مصنّف ہفوات نے ایک اعتراض ائمہ حدیث پر یہ کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شرمی کا الزام لگایا ہے.وہ روایت بقول مصنّف ہفوات یہ ہے کہ ’’جب آنحضرت میرے (عائشہ کے) گھر تشریف لاتے تو دونوں گھٹنے میرے دونوں زانووں پر رکھے اور دونوں ہا تھ مونڈھوں پر اور مجھ پر اوندھے ہو جاتے اور سانس چڑھ جاتی تھی" میں پہلے کے آیا ہوں کہ فردوس آسیہ کوئی حدیث کی کتاب نہیں ہے اور نہ اس کی روایات اہل سنت کی مسلّمہ ہیں بلکہ ہم اس کے مصنف کی حالت تقویٰ اور علم کو بھی نہیں جانتے.پس اس کی روایات پر پناء رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ شیعہ مذہب پر اعتراض کرنے کے لئے کوئی شخص حشاشین اور بھنگی، چرسی، فقیروں کے اقوال پر اپنے دلائل کی بناء رکھے کیونکہ اس قسم کی کتاب کے مصنفین کی اصل غرض عجیب و غریب روایات کا جمع کرنا ہوتی ہے نہ کہ تحقیق وتدقیق.اسی طرح فردوس آسیہ نے جس کتاب سے یہ روایت نقل کی ہے وہ کتاب بھی حدیث کے علم کے لئے مستند نہیں ہے.امام شعرانی ان علماء میں سے ہیں جو روایت کی تحقیق سے زیادہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم کسی روایت سے عبرت کا حاصل کر سکتے ہیں پس خواہ روایت جھوٹی ہو خواہ سچی وہ اس کو درج کر دیتے ہیں.انہوں نے صوفیاء کرام کے سوانح میں جو کتاب لکھی ہے اس میں ایسی روایات بہت سی جمع کر دی ہیں جو گوشیعوں کی روایات کا تو مقابلہ نہیں کر سکتیں مگر پھر بھی عقل کو چکرا دینے کے لئے کافی ہیں اور ان کی غرض اس قسم کی روایات کو نقل کر دینے سے محض یہ ہوتی ہے کہ ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر محقّق صوفياء اور محقق ائمہ حدیث کا یہ طریق نہیں ہے وہ جب روایات کو جمع کریں گے تو بے شک ہرقسم کی حدیث جو اس خاس قانون کے مطابق ہو جسے انہوں نے اپنی تصنیف کے وقت مد نظر رکھا ہو درج کر دیں گے لیکن استعمال کے وقت اس امر کو مد نظر رکھیں گے کہ آیا کوئی حدیث تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کس پایہ کی ہے.اس بات کو کھول دینے کے بعد کہ نہ فردوس آسیہ کا مصنّف نہ امام شعرانی روایت کے معاملہ میں اس مقام پر ہیں کہ ان کی بیان کرد ہ روایت حدیث کی تحقیق کے متعلق کوئی وُقعت رکھتی ہو
۳۵۱ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے کشف الغمہ میں وہ روایت نہیں ملی جو مصنّف ہفوات نے درج کی ہے.ہاں ایک حدیث اس میں ایسی موجود ضرور ہے جس کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنّف ہفوات کااسی کی طرف اشارہ ہے.مگر اس حدیث کے الفاظ اور ہیں اور مطلب اور.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حدیث کس پایہ کی ہے کیونکہ کشف الغمہ کے مصنّف مستقل محدث نہیں ہیں اور انہوں نے حوالہ بھی نہیں دیا کہ معلوم ہوتا کہ انہوں نے اس حدیث کو کہاں سے نقل کیا ہے اس کی حقیقت معلوم کی جاتی.لیکن اس بات میں کچھ شک نہیں کہ کشف الغمہ کی روایت خواہ سچی ہو خواہ جھوٹی اس اعتراض کی حامل نہیں ہو سکتی جو مصنف ہفوات نے کیا ہے مزید وضاحت کے لئے میں اس روایت کے الفاظ کشف الغمہ میں سے درج کر دیتا ہوں جو یہ ہیں.كان صلى الله عليه وسلم إذا دخل على وضع رکبتیه على فخذی ويديہ على عاتقي ثم اكب فأحنى على - ۷۷؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے گھر میں تشریف لاتے تو میری رانوں پر اپنے گھٹنے ٹیکتے اور میرے کاندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیتے پھر میری طرف جھکتے اور مجھ سے شفقت و پیار کا معاملہ کرتے.کشف الغمہ کی اصل روایت اور ہفوات المسلمین کی بیان کردہ عبارت میں ہی نمایاں فرق نظر آرہا ہے کہ اس میں سانس چڑھ جاتی تھی کے الفاظ بالکل موجود نہیں.اور اگر یہ روایت کسی اور جگہ بھی درج ہے اور اس میں یہ الفاظ موجود ہیں تو مصنّف ہفوات کا فرض ہے کہ اس کا حوالہ دے.اصل بات یہ ہے کہ ان الفاظ کو جدا کر کے اعتراض کی جان نکل جاتی ہے کیونکہ شہوت و بوالہوسی کی روح انہی الفاظ سے پیدا ہوتی ہے.پس اگر فردوس آسیہ میں یہ الفاظ موجود بھی ہیں تب بھی باوجود اس کے کہ عام طور پر یہ کتاب مل جاتی ہے کشف الغمہ سے حوالہ نہ دینے کی غرضی مصنف ہفوات کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ کسی طرح ایک اعتراض کی اور زیادتی ہو جائے.مصنّف ہفوات کا منشاء اس روایت کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ وہ اسے حالت جماع کا نقشہ قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ اس تلطّف و مہربانی کا اظہار ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں پر فرمایا کرتے تھے.اور جو تمدن و اخلاق کی اساس ہے جس قدر متمدن اقوام ہیں ان میں یہ بات خصوصیت سے پائی جاتی ہے کہ خاوند کو اپنے گھر میں داخل ہونے پر بیوی سے خاص طور پر تلطفّ سے پیش آنا چاہئے اور اس روایت میں اگر یہ صحیح ہے اسی نقشہ کو کھینچا ہے اور اس روایت کے الفاظ بتارہے ہیں کہ اس میں اس حالت کا ذکر ہے جب کہ حضرت عائشہؓ بیٹھی ہوا کرتی تھیں.
۳۵۲ حق الیقین کیونکہ رانوں پر گُھٹنوں کا کیا اور کندھوں پر ہاتھوں کا رکھنا بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی حالت کو بتاتا ہے نہ کہ لیٹنے کی حالت کو.عاتق پر ہاتھ ہمیشہ بیٹے یا کھڑے ہوئے انسان کے رکھا جاسکتا ہے.اور یہ بات تو بچے بھی جانتے ہیں کہ لیٹے ہوۓ آدمی کی رانوں پر اگر گھٹنوں کو ٹیک دیا جائے تو وہ سخت تکلیف کا موجب ہوتا ہے نہ کہ محبت کے اظہار کا ذریعہ.غرض جو مفہوم مصنّف ہفوات نے اس روایت سے سمجھا ہے وہ ہرگز درست نہیں بلکہ اس کے الفاظ سے فقط یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ جب گھر میں داخل ہوتے تو اپنی بیویوں کو پیار کرتے اور یہ قابل اعتراض بات نہیں بلکہ ایک اُسوہ حسنہ ہے بشرطیکہ کوئی بے رحم سنگدل یار یا کار صوفی نہ ہو.بہتان در اعانت شرک از پیغمبر ایک نئے اعتراض کے پیدا کرنے کے لئے پھروہی کتاب فردوس آسیہ مصنف ہفوات کے ہاتھ میں آئی ہے اور اب کے بھی اسی غرض کے لئے کہ اگر اصل کتاب کا حوالہ وہ دے دیں تو اعتراض باطل ہو جاتا ہے.وہ فردوس آسیہ کے حوالہ سے سنن ابو داود کی یہ روایت درج کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس آئے تو حضرت عائشہ کی گڑیوں کا پردہ ہواسے اُڑگیا آنحضرت نے پوچھا یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں.ان میں ایک پردار گھوڑا بھی تھا آنحضور نے پوچھا کیا گوڑے کے پَر بھی ہوا کرتے ہیں؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا کیا حضرت سلیمان کے گھوڑے کے پَر نہ تھے پس آنحضرت ہنس کرچُپ ہو گئے.‘‘ اس روایت کو نقل کر کے مصنّف ہفوات ان الفاظ میں اعتراض کرتا ہے.’’ راوی نے حضرت عائشہؓ میں طباعی کی فضیلت ظاہر کرنے کی دھن میں رسالت کو غارت کر دیا.کیونکہ ذی روح کی تصویر سایہ دار کے دیکھنے پر پیغمبر خدا کا ہنس کر چپ رہ جانا منانی رسالت ہے.بلکہ ان تصاویر کا گھرے اخراج بلکہ احراق شریا تھا جو نہ ہوا اس وجہ سے پیغمبر بشیر و نذیر نہ رہے.کیونکہ ان سے نہی عن المنكر تک ہو گیا.پس اس بناء پر ماننا پڑے گا کہ معاذ الله آیت ان الشرک لظلم عظیم ۷۸؎ ہے.صفحہ ۲۲- ایڈیشن دوسرا.دوسرا اعتراض مصنف ہفوات نے یہ کیا ہے کہ تبوک کے وقت حضرت عائشہ کی عمر سترہ سال کی تھی اور اس عمر میں بیاہی لڑکیاں بالعموم گڑیاں نہیں کھیلا کر تھیں.یہ حدیث بے شک ابو داؤد میں ہے.لیکن اس میں ایک جملہ ایسا بھی ہے جو مصنف ہفوات
۳۵۳ کے اعتراض کے ایک حصہ کو باطل کردیا ہے اور غالباً اسی وجہ سے انہوں نے ابو داؤد کو نکال کر نہیں دیکھا بلکہ فردوس آسیہ کے حوالہ سے اعتراض کر دیا ہے اور وہ جملہ یہ ہے.قدم رسول الله لى الله عليه وسلم من غزوة تبوك او خيبر» ۷۹؎، یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے یا خیبر سے واپس تشریف لائے تھے تب یہ واقعہ ہوا تھا.اس جملہ سے ظاہر ہے کہ راوی کو وقت کے متعلق شک ہے کہ وہ کون سا تھا تو ک اور خیبر میں دو سال سے زائد کا فرق ہے یعنی غزوہ خیبر دو سال پہلے ہوا ہے.پس اگر خیبرکو صحیح سمجھاجائے تو اس وقتحضرت عائشہ کی عمر پندرہ سال سے کچھ کم ہی بنتی ہے.لیکن جب راوی وقت کے متعلق خود شک میں ہے اور اس شک کا اظہار کرتا ہے اور دو ایسی جنگوں کا نام لیتا ہے جن میں دو سال سے زیادہ کا فرق ہے تو کیا تعجب ہے کہ درحقیقت جس جنگ کے بعد یہ واقعہ ہوا ہے وہ ان دونوں جنگوں کے سوا کوئی اور جنگ ہو اور خیبر سے بھی پہلے ہو اور یہی قرین قیاس معلوم ہوتا ہے اور اسی شک کو پوشیدہ رکھنے کے لئے غالباً مصنف ہفوات نے سنن ابو داؤد کی روایت کو نقل نہیں کیا جو زیادہ معروف کتاب ہے اور فردوس آسیہ کا حوالہ دے دیا ہے.اب میں اس اعتراض کا جواب دے کر کہ حضرت عائشہؓ کی عمر گڑیاں کھیلنے کی اجازت دے سکتی تھی کہ نہیں؟ اس دوسرے سوال کا جواب دیتا ہوں کہ کیا گڑیاں کھیلنا شرک ہے اور کیا ذی روح کی تصویر یا تمثال سے کھیلنا شروع ہے.اور إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ کی آیت کے خلاف ہے؟.اول تو میں مصنف ہفوات اور ان کے طرز کے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ روپیہ پیسہ کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں؟ کیا اسی کتاب کے چھپوانے پر ان کو کاتبوں، پریس مینوں، مطبع والوں، کاغذ فروشوں کو ان کی مزدوری اور ان کے بل ادا کرنے پڑے تھے یا نہیں؟ اور وہ بل کس سکہ میں انہوں نے اداکئے تھے؟ کیا جس وقت وہ رائج الوقت سکہ کو استعمال کرتے ہیں یا کسی سے لے کر اپنی جیب میں ڈالتے ہیں تو اپنے آپ کو مشرک قرار دیا کرتے ہیں؟ یا مومن سمجھتے ہیں؟ ان کا گڑیوں پر اس طرح غضبناک ہو کر اعتراض کرنا کہ رسول کریم ﷺ کے ادب کو بھی نظر انداز کر کے یہ فقرہ لکھ دینا کہ "رسالت کو غارت کر دیا" بتاتا ہے کہ وہ شرک کے بڑے سخت دشمن ہیں لیکن کیا روپیہ پیسہ کا استعمال انہوں نےچھوڑ دیا ہے یا ان کے کسی بزرگ مجتہد نے چھوڑ دیا ہے؟ حالانکہ روپیہ اور نوٹ اور پیسہ سب پر ذی روح کی تصویر ہوتی ہے.
۳۵۴ اسی طرح کیا آپ نے یا آپ کے ہم خیال لوگوں نے آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے کہ اس میں بھی ذی روح کی تصویر بن جاتی ہے اگر کہو کہ اس تصویر کو ہم تو نہیں بناتے.مگر سوال یہ ہے کہ آپ اس کو دیکھتے بھی ہیں یا نہیں یا آئینہ کا احراق کر دیا کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے اور اسی ذی روح کی تصویر بن جاتی ہے.اگر کہیں کہ وہ تو عارضی تصویر ہوتی ہے قائم نہیں رہتی تو کیا عارضی طور پر گڑیاں بنا کر پھر ان کو توڑ ڈالنا جائز ہے؟ اور اس طرح شرک نہیں رہے گا.اگر یہ درست ہے تو گڑیاں سب ہی ٹوٹتی رہتی ہیں ان کو کون ہمیشہ کے لئے رکھتا ہے؟.مجھے افسوس آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنی نادانی اور جہالت سے اسلام کو نہایت تنگ اور محدود مذہب بنا دیتے ہیں حالانکہ جس طرح کسی مذہب میں اپنے پاس سے بڑھا دینا منع ہے.قرآن کریم میں جس طرح ان لوگوں کو برا کہا گیا ہے جو اپنے پاس سے احکام بنا کر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اسی طرح ان لوگوں کو بھی برا کہا گیا ہے جو بعض احکام الٰہی کو چھپا دیتے اور مخفی کر دیتے ہیں.پس ایمان کا تقاضہ ہے کہ مذہب میں زیادتی اور کمی کسی قسم کی نہ کی جائے بلکہ اس کو اپنی اصل حالت میں رہنے دیا جائے.شرک ایک خطرناک شئے ہے اور اس کا مرتکب خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر نازل کر لیتا ہے لیکن جو شخص شرک کے مفہوم کو خلاف منشائے شریعت کھینچ تان کر کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے وہ بھی کم مجرم نہیں.کیونکہ وہ بھی درحقیقت اپنے آپ کو خدائی کی طاقتیں دے کر شریعت کے احکام کی وسعت و تنگی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے.تعجب ہے کہ ایک طرف مسلمانوں میں سے وہ لوگ ہیں جو کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونے کو شرک کہتے ہیں.عکس اُتروانے کو شرک کہتے ہیں.حتی کہ غلو کرتے کرتے کرتے شرک فی الرسالت کا ایک مرتبہ ایجاد کر لیتے ہیں اور اس طرح شرک کے مسئلہ کو جو خاص ذات باری سے تعلق رکھتا ہے مبہم و مخلوط کر دیتے ہیں بعض بچوں کی کھیلوں تک کا نام شرک رکھ دیتے ہیں.دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو بزرگوں کی قبروں پر سجدہ کرتے ہیں.ان سے مرادیں مانگتے ہیں.بزرگوں کے نام پر بکرے دیتے ہیں ان کے نام پر جانوروں یا بچوں یا اور چیزوں کو وقف کر دیتے ہیں ان کو عالم الغیب خیال کرتے ہیں ان کو خدائی طاقتوں کا وارث سمجھتے ہیں اور بعض تو ان کے مکان یا مزار کی طرف منہ کر کے نماز بھی پڑھ لیتے ہیں اور یہاں تک سمجھ بیٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی ان سے خائف اور مرعوب ہے.
۳۵۵ حق الیقین ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا کاش یہ لوگ دین کو اس کی اصل حالت پر رہنے دیتے اور خدا تعالیٰ کے کام کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جرأت نہ کرتے تو نہ یہ خود تکلیف میں پڑتے نہ لوگوں کے ایمان خراب ہوتے او ر نہ دشمنوں کو اسلام پر ہنسی اور ٹھٹھا کرنے کا موقع ملتا.اور نہ یہ ضلّوا و اضلوا کی جماعت میں داخل ہو کر خدا کے غضب کو بھڑکا لیتے.کیسی عجیب بات ہے کہ یہی لوگ جو گڑیاں کھیلنے کا نام شرک رکھتے اور حضرت عائشہؓ اور رسول کریم ﷺ پر بالواسطہ زبان طعن دراز کرتے ہیں قرآن کریم میں جب أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ (آل عمران:50) پڑھتے ہیں تو اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ میں مٹی سے پرندے بنا کر ان میں پھونکتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم کے ماتحت پرندے ہو جاتے ہیں.اور نہیں سمجھتے کہ اگر تمثال بنانی شرک ہے تو پھر کیا مسیح علیہ السلام جو ان کے خیالوں کے مطابق پرندے بنایا کرتے تھے مشرک تھے؟ اگر مسیح علیہ السلام پرندے بنائیں اور ان کو اڑا ارا کر دکھائیں تو وہ مشرک نہ بنیں اور خود نبی ہو کر ایسی کھیلوں میں مشغول رہیں (حاشا و کلا و نعوذ باللہ من ذالک) تو ان کی ہتک نہ ہو لیکن حضرت عائشہؓ اگر بچپن کی عمر میں گڑیوں سے کھیلیں تو یہ شرک ہو جائے اور رسول کریم ﷺ اگر ان کو نہ روکیں تو اس سے آیت إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ.نعوذ باللہ من ذالک باطل ہو جائے.پھر یہ لوگ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں کہ يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُور (سبأ: 14) یعنی حضرت سلیمان کے لئے وہ لوگ ان کی مرضی کے مطابق قلعے اور مجسمے حیوانوں کے اور بڑے بڑے برتن حوضوں کی طرح کے او ربڑی بڑی دیگیں جو ایک جگہ ٹکی رہتی تھیں بناتے تھے.اے داؤد کی اولاد! شکر گزاری سے گزر کرو اور میرے بندوں میں سے تھوڑے ہی ہیں جو شکر گزار ہیں.لیکن باوجود اس آیت کے پڑھنے کے ہر ایک قسم کا مجسمہ بنانے کو شرک قرار دیتے ہٰں اگر ہر ایک قسم کا مجسمہ بنانا شرک ہے تو اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ کیسا احسان ظاہر فرماتا ہے کہ تمہارے لئے ایک قوم جانداروں کے مجسمے بنایا کرتی تھی.اس صورت میں تو یہ ایک غضب بن جاتا ہے نہ کہ احسان.مگر افسوس کہ یہ لوگ قرآن کریم کو آنکھیں بند کر کے پڑھتے ہیں اور دلوں پر غلاف چڑھا کر
۳۵۶ حق الیقین پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی سمجھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور یہ اسی طرح کورے کے کورے اس سے نکل جاتے ہیں گویا کہ انہوں نے اسے پڑھا ہی نہیں.مصنف ہفوات نے شرک کی تعریف میں ذی روح کی تصویر کو شامل کیا ہے حالانکہ قرآن کریم میں جو حضر ت سلیمان علیہ السلام کی نسبت آیا ہے کہ وہ تماثیل بنواتے تھے اس لفظ تماثیل کے معنوں میں خصوصیت کے ساتھ ذی روح چیزوں کے مجسمے داخل ہیں حتیٰ کہ بعض لوگوں کے نزدیک تو تمثال کہتے ہی ذی روح چیز کے مجسمے کو ہیں.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت تمثال بنانی جائز ہوتی ہو گی شرک ان گناہوں میں سے نہیں ہے جو وقتاً فوقتاً بدلتا رہے اللہ تعالیٰٰ کی توحید اور تفرید کا ظہور اسی طرح ابتداء میں ضروری تھا جس قدر کہ آج کل ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر قسم کی تمثال بنانی منع نہیں ہے بلکہ ایسی ہی صورتیں ناجائز ہیں جن کے نتیجہ میں شرک پیدا ہو جایا کرتا ہے اور اس کا احتمال ہوتا ہے یا ایسی صورتوں میں تصاویر کا استعمال منع ہے جہاں شرک کے علاوہ کچھ اور اخلاقی امور مدنظر ہوں ورنہ ان کے سوداگر کسی اور غرض کے پورا کرنے کے لئے تصویر یا تمثال ہو تو وہ منع نہیں ہے جیسے بچوں کے کھیلنے کے لئے کھلونے بنا دئیے جاتے ہیں یا گڑیاں یا اور اسی قسم کی چیزیں ان چیزوں کا تو وجود ہی ان کی حقارت کے لئے ہوتا ہے ان سے شرک کا احتمال کب ہو سکتا ہے؟ یا آج تک دنیا میں کبھی ان چیزوں سے شرک ہوا ہے؟ ادنیٰ سے ادنیٰ اقوام میں بھی کبھی گڑیوں اور کھلونوں کے سبب سے شرک پیدا نہیں ہوا.ہاں بزرگوں اور صلحاء اور قومی لیڈروں کی تصاویر یا ان کے مجسموں یا اخلاق یا مخفی طاقتوں کی خیالی تصاویر یا مجسموں سے بے ک شرک پیدا ہوتا رہا ہے اورہوتا ہے پس ان چیزوں کی تصویریں بنانی یا ان کے مجسمے بنانے یا شرک ہیں یا شرک کے پیدا کرنے کا موجب اور ان سے بچنے اور احتراز رکھنے کا شریعت اسلام حکم دیتی ہے.اس کے علاوہ شرک کے خیال سے نہیں بلکہ بعض اور مختلف وجوہ کی بناء پر خاص خاص موقعوں پر تصاویر کے استعمال کو ناپسند کیا گیا ہے.جیسے مثلاً خواہ گھروں میں خواہ مساجد میں اور ایسے موقعوں پر صرف تصویریں ہی نہیں بلکہ ہر ایک چیز جو ایسی زینت کی ہو کہ توجہ میں یکسوئی نہ رہنے دیتی ہو اور عبادت کی سادگی میں خلل انداز ہوتی ہو منع ہے.کیونکہ گو وہ شرک نہ پیدا کرتی ہو مگر ایک نیک کام میں روک ہوتی ہے جیسے کہ باجہ وغیرہ عبادت کے وقت بجانا درست نہیں ہے.وہ شرک کا موجب نہیں ہیں لیکن ان سے عبادات کی حقیقت میں فرق پڑتا ہے برخلاف اس کے
۳۵۷ حق الیقین گڑیوں کی کھیل ایک نہایت مفید کھیل ہے اور اس سے لڑکیاں سینے پرونے اور امور خانہ داری کی تعلیم نہایت سہولت سے اور بِلا طبیعت پر بوجھ پڑنے کے حاصل کر لیتی ہیں.روزے میں زبان چوسنا ایک اعتراض مصنف ہفوات نے یہ کیا ہے کہ سنن ابو داؤد کی کتاب الصوم میں حضرت عائشہ کی روایت درج ہے کہ ان النبی صلى الله عليه وسلم كان يقبلها وھوصائم ويمص لسانھا.۸۲؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بوسہ دیا کرتے تھے اورانحالیکہ آپ روزہ دار ہوتے تھے اور اسی طرح آپ ان کی زبان چوستے تھے.اس پر مصنف ہفوات یوں اعتراض کرتے ہیں.’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ما عبدناك حق عباد تک کو ہم مقام تواضع و انکسار میں سمجھتے تھے لیکن روزہ میں زبان چوسنے سے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنی عبادت کی واقعیّت بیان کی ہے‘‘.’’ ایمان سے بولو کیا خدا کے رسول روزہ میں ایسا عمل کر سکتے ہیں؟ کیا ایسارسول امت کی ہد ایت کر سکتا ہے؟ الہٰی توبہ توبہ".یہی اعتراض مصنّف ہفوات نے صفحہ ۴۵.ایڈیشن اول وصفحہ ۷۰ ایڈیشن ثانی پر بعنوان ’طغیانی درتقبیل و مباشرت رسول بہ صوم ‘‘درج کیا ہے.میں اس کو بھی اس اعتراض کے ساتھ شامل کر لیتا ہوں کیونکہ اعتراض ایک ہی قسم کا ہے.اس جگہ مصنف ہفوات نے بخاری کتاب الشؤم باب المباشرة إلایم کی یہ حدیث درج کیا ہے عن عائشة قالت كان النبي الا يقبل ويباشر وھو صائم حضرت عائشہ فرماتی ہیں نبی کریم روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے اور مباشرت بھی کر لیا کرتے تھے.اس حدیث پر صاحب ہفوات نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ’’باب اول میں ہم لکھ چکے ہیں کہ بحالت سوم اپنی زوجہ کا بوسہ لینا حرام نہیں لیکن مکرور ضرور ہے.پس پیغمبر معصوم کا فعل مکروه اختیار کرنا عقل سے بعید ہے اب تقبیل کے بعد بے حیا راوی نے مباشرت کا لفظ کہا ہے.جو بحالت صوم بمعنی اقرب بمواقعت ہے اور وہ حرام ہے نتیجہ رسول مرتکب حرام ہوۓ لہٰذا رسالت سے موقوف‘‘.اس کے بعد باب القبيلة إلایم میں سے حضرت عائشہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کَان
۳۵۸ رسول الله صلى الله علیه وسلم یقبل بعض آزواجه و هوصائم ۸۳؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض بیویوں کا حالت صوم بوسہ لے لیا کرتے تھے.صاحب ہفوات کے تمام اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے کہ بحالت صوم زبان چوسناء بوسہ لینا، مباشرت کرنا حرام یا مکروہ ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.پس یہ احادیث شرارت سے بنائی گئی ہیں اور کتب احادیث سے ان کا اندراج ضروری ہے.اخراج واحراق کے متعلق تو میں پہلے جواب دے آیا ہوں اس جگہ صرف نفس حدیث کے متعلق جو اعتراض مصنّف ہفوات نے کیا ہے اس کا جواب لکھتا ہوں.پہلا اعتراض مصنّف ہفوات کو یہ ہے کہ ابو داؤد کی روایت میں یہ لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ میں حضرت عائشہ کی زبان چوستے تھے.آپ کی ذات پر حملہ ہے.اگر مصنف ہفوات اعتراض کرنے سے پہلے کتب اہل سنت والجماعت کو دیکھ لیتے تو ان کو اس اعتراض کے پیش کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی.لیکن یا تو انہوں نے بوجہ تعصب یا جہالت ان کتب کو دیکھا ہی نہیں یا دیدہ و دانستہ نظرانداز کر دیا ہے.ابو داؤد کی شرح عون المعبود جلد مجانی صفحه ۲۸۵ پر اس حدیث کے متعلق لکھا ہے.قال في المرقاة قيل ان ابتلاع ريق الغير يفطر إجماعا وأجيب على تقدير صحة الحديث..........انہ عليه الصلوة كان يبصقه ولا يبتلعه ۸۴؎ یعنی مرقاة میں لکھا ہے کہ دوسرے کا تھوک نگلنابالا جماع روزہ توڑ دیتا ہے اور اس حدیث کے متعلق بالاجماع کیا جاتا ہے کہ اگر یہ درست فرض کرلی جائے تو اس کی یہ تاویل کی جائے گی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوک نگلتے نہیں تھے بلکہ پھینک دیتے تھے.اس جواب سے ظاہر ہے کہ اہل سنت والحدیث اس حدیث کو قابل قبول ہی نہیں سمجھتے اور اگر اس کو صحیح فرض کر لیں تو اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس صورت میں یہ تاویل کرنی پڑے گی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوک پھینک دیتے تھے.پس جب ائمہ حدیث کے نزدیک یہ حدیث ہی قابل قبول نہیں اور بصورت صحت قابل تاویل ہے تو اس پر اعتراض کیسا؟ کیا کسی شخص پراس امر کے متعلق بھی اعتراض ہوا کرتا ہے جسے وہ مانتاہی نہیں.اگر کہا جائے کہ پھر انہوں نے اس حدیث کو درج کیوں کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ مؤلّفین حدیث ہر حدیث جسے وہ نقل کرتے ہیں اس کے مطلب کو صحیح قرار دے کر اسے درج نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے ان کے اور اصول ہیں اور بسا اوقات وہ ایک حدیث درج کرتے ہیں اور خود ان کو اس کے
۳۵۹ حق الیقین مطلب سے اختلاف ہوتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ وہ ایک ہی جگہ متضادمضامین کی روایات لے آتے ہیں اور یہ بات صرف اہل سنت والجماعت کی ہی کتب حدیث میں نہیں ہے بلکہ اہل شیعہ کی کتب حدیث میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے چنانچہ آپ لوگوں کی سب سے معتبر کتاب فروع کافی ہے باب الرجل يجامع أهله في السفر میں امام عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ سے عمر بن یزید اور سہل عن ابیہ اور ابوالعباس سے ایسی روایات درج ہیں.جن کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں جو شخص سفر پر ہوا سے جماع جائز ہے.عمربن یزید کی روایت کے الفاظ یہ ہیں یعنی کیا اسے جائز ہے کہ اپنی بیوی سے صحبت کرے فرمایا ہاں.مگر اسی جگہ ساتھ ہی ابن سنان نے انہی امام ابو عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے روایت درج کی ہے کہ ایسا کرنا بالکل درست نہیں اور راوی کے اعتراض کرنے پر کہ جب اس کو کھانا پینا جائز ہے تو جماع کیوں جائز نہیں؟ ان کی طرف سے یہ دلیل بیان کی گئی ہے.ان الله رخص لمسافر في الإفطار والتقصير رحمة و تخفيفا الموضع التعب والنصب ووعث السفر ولم يرخض له في مجامعة النساء في السفر بالنهار في شهر رمضان ۸۶؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے مسافر کو إفطار اور قصر نماز کی اجازت تھکان اور تکلیف اور سفر کی کوفت کی وجہ سے دی ہے لیکن اسے دن کے وقت سفر میں رمضان کے مہینہ میں عورتوں سے جماع کرنے کی اجازت نہیں دی.ان دونوں حدیثوں میں کس قدر اختلاف ہے ایک میں جماع کو جائز قرار دیا ہے دوسری میں بالکل ردّ کیا ہے.اور دونوں روایتیں ایک کتاب حدیث میں درج ہیں اور ایک ہی راوی سے درج ہیں اور بالکل پاس پاس درج ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بُھول چُوک سے ایسا نہیں ہوا بلکہ مصنّف نے جان بوجھ کر ان کو ایک جگہ جمع کیا ہے تا روایات کا اختلاف پڑھنے والے کے سامنے آجائے.اب یہ ظاہر بات ہے کہ مصنّف دونوں باتوں کا ایک ہی وقت میں تو قائل نہیں ہو سکتا ضرور ہے کہ وہ دونوں باتوں میں سے ایک کو ترجیح دیتا ہو گا مگر باوجود اس کے وہ درج دوسری روایت کو بھی کر دیتا ہے.اسی طرح روزہ میں خوشبو سونگھنے کے متعلق مختلف روایتیں فروع کافی میں درج ہیں خالد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ امام ابو عبد اللہؒ روزہ میں خوشبو لگائے اور اسے تحفہ خداوندی قرار دیتے.حسن بن راشد امام ابو عبداللہ ؒسے روایت کرتے ہیں کہ خوشبو کا سونگھنا روزہ میں منع ہے.۸۷؎ غرض ہر ایک روایت جو مؤلف حدیث اپنی کتاب میں درج کرتا ہے اس کی صحت کاوہ قائل
۳۶۰ حق الیقین نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس حدیث کے مخالف رائے رکھتا ہے اور اس حدیث کو متروک یا منسوخ یا ضعيف يا نا قابل احتجا ج سمجھتا ہے پس ابو داؤد میں اس روایت کے درج ہونے کے یہ معنی نہیں کہ ابو داؤد اس کو صحیح سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اس روایت کو درج کیا تھا.دوسرا جواب مصنّف ہفوات کے اعتراض کا یہ ہے کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ابو داؤد نے اس حدیث کو صحیح سمجھ کر لکھا ہے تب بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اخلاق نہیں ہے بلکہ شرعی ہے.شرعی مسائل روایت سے ثابت ہوتے ہیں نہ کہ درایت ہے.اگر کسی شخص کو کسی شرعی حکم کے متعلق جو اخلاقی سے تعلق نہ رکھتا ہو کوئی روایت پہنچے اور وہ اسے درج کر دے تو اس سے یہ کیوں کر سمجھا جائے گا کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جسے اہل سنت شیعوں پر اس لئے اعتراض کریں کہ ان کے نزدیک پاؤں پر مسح کیا جاتا ہے اور ان روایات کی بناء پر جو ان کے نزدیک ثابت ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ننگے پاؤں کے نہ دھونے سے وضوہی باطل ہو جاتا ہے اور نمازہی نہیں ہوتی یہ کہہ دیں کہ دیکھو شیعہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نہ وضو کرتے تھے اور نہ نماز پڑھتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک آپ وضو میں پاؤں نہ دھوتے تھے.کیا یہ اعتراض سینوں کا درست ہو گا؟ اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراض اخلاقی مسائل اور عقلی مسائل کے متعلق ہوا کرتے ہیں نہ کہ شرعی کے متعلق.فرض کرو کہ روزہ میں بعض کی غذاؤں کا کھانا جائز ہوتا تو کیا دشمنان اسلام اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق رکھتے تھے کہ یہ ایک خلاف اخلاق بات ہے.یا مثلاً ظہرکی رکعتیں بجائے کار کے تعین ہوتی تو کیا اس پر کوئی یہ اعتراض کر سکتا تھا کہ یہ بد اخلاقی ہو گئی.پس اسی طرح اگر کسی شخص کے نزدیک یہ ثابت ہو کہ زبان چوسنی جائز ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کر لیا کرتے تھے تو اس پر یہ تو اعتراض کیا جاسکتاہے کہ یہ روایت ثابت نہیں یا یہ کہ دوسری احادیث کے خلاف ہے یا یہ کہ اس نے ایک غلط روایت کو بیان کر دیا ہے.لیکن اس پر یہ اعتراض ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت یا آپ کے اخلاق پر کوئی اعتراض کیا ہے ایسے موقع پر یہ اعتراض کرناایسا ہی ہے جیسا کہ ایک انسان کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے اس قسم کی حدیثیں جب پڑھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے موقع پر کوئی بچہ اٹھالیا یا اس کو اتار دیا اور اس کا کوئی کام کیا تو بے اختیار بول
۳۶۱ اٹھا کہ خود صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نماز ٹوٹ گیا.کیونکہ کنز (کنزالعمال) میں لکھا ہے کہ حرکت کرنے سے نماز ٹوٹ جاتا ہے.تیسرا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک اس حدیث کو درست سمجھ کر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ مص لسانها علیحدہ جملہ ہو یعنی راوی نے حضرت عائشہ سے یہ دو باتیں سنی ہوں کہ آنحضرت روزہ میں بوسہ لے لیا کرتے تھے اور یہ کہ آپ اپنی ازواج کی زبان بھی پیار میں چوس لیا کرتے تھے اور اس نے ان کو ایک ہی جملہ میں بیان کر دیا.حالانکہ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ آپ بحالت صوم ایسا کیا کرتے تھے.پس اس تاویل سے اس حدیث کا مطلب بالکل صاف ہو جاتا ہے اور اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت روزہ میں بوسہ لینا اور پیارسے زبان کا چوسنا ثابت ہوتا ہے افطار میں نہ کہ روزہ میں.اگر کہا جائے کہ اگر روزہ کی حالت میں ایسا نہیں کیا گیا تو پھر اس کے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اسوہ تھے تمام مسلمانوں کے لئے اس لئے آپ کی ہر ایک حرکت کو مسلمان غور سے دیکھتے اور جو نہ معلوم ہوتی اس کے متعلق دریافت کرتے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں.اس وجہ سے آپ کی تمام باتیں احادیث میں بیان کی جاتی ہیں حتی کہ یہاں تک بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ پیارسے کبھی اس جگہ گلاس پر منہ رکھ کے پانی پیتے جہاں رکھ کر آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے پانی پیا ہوتا.اور غرض ان احادیث کے بیان کرنے کی یہ ہے کہ تالوگ عورتوں سے حسن معاشرت کریں اور ان کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھیں اور ان کے حقوق کو غصب اور ان کی خواہشات کو باطل نہ کریں.دوسرا اعتراض مصنّف قوات کا یہ ہے کہ ان احادیث میں ہے بات لکھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم روزہ میں بوسہ لے لیا کرتے تھے اور یہ بات مصنّف ہفوات کے نزدیک مکروہ ہے اور مکروہ فعل رسول نہیں کر سکتا.ٍ مجھے تعجب پر تعجب ان مسلمان کہلانے والوں پر آتا ہے جو اپنے پاس سے شریعت بھی بنانے لگتے ہیں.یہ کب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دونو میں بوسہ لینا مکروہ ہے؟ یا آپ کی کس بات سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے؟ خود ہی ایک مسئلہ گھڑا اور خودی اسے رسول پر حاکم بنادیا جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں مسائل اخلاقیہ ہی صرف ایسے مسائل ہیں کہ جن میں استنباط اور قیاس
۳۶۲ درست ہے لیکن تفاصيل شرعیہ ہمیشہ سند سے معلوم ہوتی ہیں.لیکن مصنّف صاحب ہفوات کا معاملہ بالکل اُلٹ ہے وہ اپنی عقل سے ایک مسئلہ تجویز کرتے ہیں اور اس سے نص صریح کو رد کر دیتے ہیں اور نص بھی وہ کہ جو عقل سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ تفاصیل شریعت سے تعلق رکھتیہے.کل کو آپ کہہ دیں گے کہ ظہر کے وقت جب کام کا یا آرام کا وقت ہوتا ہے ظہر کی چار رکعت قرار دینا خلاف عقل ہے اصل میں دو چاہئیں اور فلاں حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت ظہر کے وقت ادا کیا کرتے تھے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہے کہ گویا آپ دو کی بجائے چار پڑھ کر اپنی نماز فاسد کر دیتے تھے.پس ان محدثین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ظلم عظیم کیا ہے اور اسکی سب احادیث اور روایات قابلِ إحراق اور اخراج اور تنسیخ اور محد ثین قابلِ تکفیر و تفسیق ہیں.برایں عقل و دانش بباید گریست.بوسہ کو روزہ میں مکروہ قرار دینا علماء کا اجتہاد ہے اور وہ اجتہاد بھی مشروط یعنی روزہ میں جو ان کو بوسہ لینا مکروہ ہے کیونکہ وہ اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتا ممکن ہے کہ کسی ایسی بات میں مبتلا ہو جائے جو شرعاً ناجائز ہے.اور اس فتوے میں شیعہ اور سنی دونوں متفق ہیں.مؤطامیں عبداللہ بن عباس کا فتویٰ درج ہے کہ ارخص فيها لليخ و كير مها للات.۸۸؎ انہوں نے روزہ میں بوڑھے کے لئے بوسہ لینا جائز قرار دیا اور جو ان کے لئے منع کیا.عبداللہ بن عمر کا فتویٰ صرف ایک ہے کہ بوسہ لینا دونوں کے لئے منع ہے مگر چونکہ وہ بلا قید ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ ان کا فتویٰ عام تھایا جوانوں کے متعلق.امام ابو حنیفہ کا فتوی ٰجو ہدایہ میں لکھا ہے یہ ہے ولا باس با قبلة اذا امن على نفسہ و يكره ازا لم یامن.یعنی جب اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو تو جائز ہے اور اگر اپنے نفس پر قابو نہ رکھتا ہو اور خطرہ ہو کہ حدیث شریعت کو توڑ ڈالے گاتو مکروہ ہے.شافعیہ کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ تكره القبلة للصائم الذي لا یملک اربه د ۹۰؎ یعنی اس کے لئے بوسہ لینامکروہ ہے جو اپنی شہوت پر قابو نہیں رکھتا بلکہ امام شافعی کا قول تو یہ ہے کہ بوسہ لینا ہر حالت میں جائز ہے اگر اس سے بڑھ کر کوئی شخص کوئی عمل خلاف شریعت کر بیٹھتا ہے تو اس کی سزا وہ الگ پائے گا.یہ تو اہل سنت کے فتوے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ بوسہ لینا روزہ میں مکروہ نہیں بلکہ اس کے لئے مکروہ ہے جو جوان ہو اور اپنی شہوت پر قابو نہ رکھتا ہو.اب میں ایل شیعہ کافتویٰ درج کر کرتا ہوں.فروع کافی جلد اول میں زردارہ کی ایک روایت امام ابو عبداللہ سے درج ہے کہ لا تنقض
۳۶۳ القبلة الصوم ۹۱؎ یعنی روزہ بوسے سے نہیں ٹوٹتا.اسی طرح منصور بن حازم سے روایت ہے کہ میں نے ابو عبداللہ سے پوچھا ما تقول في الصائم يقبل الجارية أو المرأة فقال أما الشیخ الكبير مثلي ومثلك فلا بأس وأما الشاب الشیق فلا لأنه لا يؤمن والقبلة إحدى الشھوتين - ۹۲؎ ترجمہ.آپ اس روزہ دار کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو لڑکی یا عورت کا بوسہ لے لے؟ آپ نے فرمایا بوڑھا جیسے تُویا میں ہوں اگر بوسہ لے تو کچھ حرج نہیں اور اگر جوان ہو جو شہوت پر قابو نہ پا سکتا ہو تو اسے بوسہ لینا نہیں چاہئے.کیونکہ وہ محفوظ نہیں اور بوسہ بھی ایک شہوت ہے.یعنی اس سے چونکہ شہوت پیدا ہوتی ہے اور وہ شخص شہوت پر قابو نہیں رکھتا اس لئے ڈر ہے کہ اس قدم کے اٹھانے سے دوسرا بھی اٹھالے.مذکورہ بالا فتووں سے جو سنّیوں اور شیعوں کے ہیں ثابت ہے کہ روزہ دار کو بوسہ لینا یوں تو جائز ہے مگر ایسی حالت میں منع ہے جب اس سے شر میں پڑ جانے کا خطرہ ہو اور بوڑھاچو نکہ بظاہر اس شر میں پڑنے سے محفوظ ہوتا ہے اسی کے لئے انہوں نے جا ئز رکھا ہے کہ بوسہ لے لے.ان فتووں کی موجودگی میں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی موجودگی میں مصنّف ہفوات کایہ لکھنا کہ یہ ایک مکروہ فعل ہے اور رسول مکروہ فعل نہیں کہ سکتا.کیا یہی دلالت نہیں کرتا کہ مصنّف ہفوات اپنے فتویٰ پر خدا کے رسول کو بھی چلانا چاہتے ہیں اور خود شریعت بنانے کا دعوے رکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں جب تشریف لے گئے ہیں اس وقت آپ کی عمر پچاس سے متجاوز ہو گئی تھی.پس اگر فتویٰ یہی سمجھا جائے کہ بوڑھے کو بوسہ لینا جائز ہے جو ان کو نہیں تو بھی آپ کی طرف اس قسم کا عمل منسوب کرنافتویٰ کے خلاف نہیں.اور مصنّف ہفوات کے مقرر کردہ معیار کے مطابق بھی محل اعتراض نہیں.اور اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ یہ عمل اس شخص کی نسبت بیان کیا گیا ہے جو خدا کے سامنے مقام شہود پر کھڑا تھا اور مقام شہود میں سے بھی سدرة المنتہٰی پر باریاب ہو چکا تھا تو پھر تو یہ اعتراض اور بھی لغو ہو جاتا ہے.آپ تو عین عُنفوان شباب میں بھی اس فتویٰ کے ماتحت نہیں تھے کیونکہ آپ سے زیادہ کون شخص اپنی شہوات پر قابو رکھنے والا تھا خواہ جوان ہو خواہ پیر ِفرتوت.مصنف ہفوات کے اعتراض کے تو یہ معنے ہیں کہ گویا نعوذ بالله من ذک سب سے زیادہ رسول کریم شهوات میں پڑ جانے کے محّل تھے.اس لئے آپ کو تو اس فعل کے قریب ہی نہیں جانا چاہئے تھا حالانکہ اس نہی کا باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ
۳۶۴
۳۶۵ و خارجا منها.۹۴؎ عورت سے مباشرت کرنا اس سے چُھونے کو کہتے ہیں.اور کبھی اس کے معنے جماع کے بھی ہوتے ہیں.پھر صاحب لسان نے اس حدیث کی نسبت لکھا ہے وفي الحديث أنه كان يقبل و يباشر وهو صائم آراد با لمباشرة ملامسة.ق ۹۵؎ یعنی حدیث میں جو آیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوسہ لیتے تھے اور مباشرت کرتے تھے اس سے مراد چُھونا اور ہاتھ لگانا ہے نہ کچھ اور.لسان العرب لغت کی کتابوں میں سے اہم ترین کتاب ہے اور اس کی شہادت کے بعد مجھے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں صرف اس قدر نصیحت کر دینا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ انسان کو اعتراض کرتے وقت اس امر کو ضرور مد نظر رکھنا چاہئے کہ وہ ایسی بات نہ کہے جو قائل کے منشاء کے خلاف ہو.اور اگر دل سے انصاف اٹھ چکا ہو تو کم سے کم ایسی بات تو نہ کہے جس کا بطلان بالبداہت ظاہر ہو.کیونکہ اس قسم کی باتوں کا لکھنا اس امرکو ثابت کرتا ہے کہ لکھنے والا اپنی عبادت میں حد سے بڑھا ہوا ہے اور جن کے فائدے کے لئے وہ بات کہتا ہے ان پر اس کی حرکت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کے دل ایسے شخص کی نسبت جذبہ حقارت و نفرت سے بھر جاتے ہیں.میں مصنّف ہفوات کی طرز تحریر سے سمجھتا ہوں کہ ان پر کوئی نصیحت جو غیر کے منہ سے نکلی ہوئی ہواثر نہیں کر سکتی اس لئے میں انہیں کی مسلّمہ کتب کے حوالہ سے بتاتا ہوں کہ مباشرت حرام نہیں ہے جیسا کہ وہ لکھتے ہیں بلکہ جائز ہے.اور یہ بھی کہ مباشرت کے معنے کسی ایسی حرکت کے ہی نہیں ہیں جو جماع کے مشابہ ہو بلکہ اس سے مراد صرف عورتوں کا چھونایا ان کے پاس بیٹھنا بھی ہے.فروع کافی جلد اول کتاب الصيام میں ایک باب ہے.باب الصائم يل اوباش یعنی اس امر کے متعلق باب کہ روزہ دار بوسہ دے یا مباشرت کرے.اور آگے یہ حدیث لکھی ہے عين الحلبي عن أبي عبد الله عليه السلام أنه سئل عن رجل يمس من المرأة شیئا ايفسد ذالك صومه أو ينقضه قال إن ذالك يكرہ، للرجل الشاب مخافة ان یسبقہ المنى ۹۶؎ یعنی حلبی نے امام ابو عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ آپ سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو عورت کو کسی طرح چُھوتا ہے کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گایا خراب ہو جائے گا؟ فرمایا یہ بات نوجوان کے لئے مکروہ ہے اس ڈر سے کہ اس کی منی خارج نہ ہو جائے اس حدیث سے دو باتیں ظاہر ہیں ایک تو یہ کہ مباشرت کے معنی عورت کو چُھونے کے ہیں نہ کہ کچھ اور.کیونکہ مباشرت کا باب مقرر کر کے عورت کے چھونے کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے دوسرے یہ کہ
۳۶۶ مباشرت حرام نہیں بلکہ جو ان کے لئے مکروہ اور بوڑھے کے لئے جائز ہے اور جو ان کے لئے بھی اس ڈرسے مکروہ ہے کہ اس سے کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو روزہ کے ٹوٹنے کا موجب ہو.لیکن اگر یہ وجہ کسی میں نہ پائی جائے تو کراہت کی پھر کوئی وجہ نہیں.اور ظاہر ہے کہ جو وجہ بتائی گئی ہے وہ کسی بیمار میں ہی پائی جاسکتی ہے تندرست اور صحیح القویٰ آدمی کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوتا جو بیان کیا گیا ہے پس درحقیقت کسی کے لئے کبھی سوائے قلیل استثنائی صورتوں کے مباشرت منع نہیں رہتی.اور مباشرت کو حرام قرار دینایا تو مصنف ہفوات کی جہالت پر یا شریعت سازی کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش پر دلالت کرتا ہے.مصنف صاحب ہفوات نے جو مضحکہ اوپر کی روایات بیان کر کے اُڑایا ہے اس کا جواب مکمل نہ ہو گا اگر میں اس جگہ کتب شیعہ سے چند ایک روایات درج نہ کردوں.کافی جلد اول صفحہ ۳۷۷ پر کتاب روزہ میں امام ابو عبد اللہ کا فتویٰ درج ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا عورت کھانا پکانے ہوئے کھانے کا مزہ روزے میں چکھ سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہاؤ بأست.* اس میں کوئی حرج نہیں اور اسی حدیث میں لکھا ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا عورت روزہ میں اپنے بچے کو منہ میں کھانا چباکر دے سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہالابا س.اس میں بھی کوئی حرج نہیں.اس کے بعد حسین بن زیاد کی روایت لکھی ہے کہ باورچی اور باورچن کھانا پکاتے ہوئے کھانا چکھ سکتے ہیں.مگر اس سے بڑھ کر یہ کہ مسعود بن صدقہ کی ایک روایت امام ابو عبد اللہ سے لکھی ہے کہ حضرت فاطمہ اپنے بچوں کو رمضان کے مہینہ میں روٹی چباچبا کر دیا کرتی تھیں.بلکہ ان روایات پر بھی طُرہ وہ روایت ہے جس میں روزہ دار کے لئے پیاس بجھانے کا نسخہ بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ امام ابو عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ روزہ دار کو پیاس لگے تو اس کے بجھانے کے لئے وہ انگو ٹھی منہ میں ڈال کر چوسے.یہ سب روایات فروع کافی کے صفحے ۳۷۷ پر درج ہیں اور شیعہ صاحبان کے لئے نہایت زبردست جُجت ہیں.ان روایات کی موجودگی میں اس روایت پر اعتراض جسے خود اہل سنت کمزور اور ضعیف قرار دیتے ہیں مصنف ہفوات کے لئے کب جائز ہو سکتا ہے؟ وہ ان احادیش کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ بقول ان کے ادنی ٰ امتی تو غبار سے بھی بے چین اور حضرت فاطمہ روٹیاں چبا چبا کر بچوں کو دیں اور خوب لطف اُڑائیں.آخر منہ میں اس قدر در روٹی چبانے سے ایک حصہ تو ان کے پیٹ میں بھی جاتا ہو گا.
حضرت عائشہ کا ہے اجازت حضرت زینب کے گھر میں جانا ایک اعتراض مصنّف ہفوات نے یہ کیا ہے کہ ابن ماجہ باب معاشرة النساء میں روایت ہے کہ ’’مجھے معلوم نہ تھا کہ حضرت زینب مجھ سے ناراض ہیں اور میں نے اجازت اندر چلی گئی انہوں نے کہا یا رسول اللہ جب ابوبکر کی بیٹی اپنا کرتا اُلٹ دے تو آپ کو کافی ہے‘‘.اس پر مصنف ہفوات کو یہ اعتراض ہے کہ (1) کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم في الواقع ایسے ہی تھے جیسا کہ حضرت زینب نے بیان کیا ہے (۲) کیا حضرت زینب ایسی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کریں (۳) کیا حضرت عائشہ ایسی ناواقف تھیں کہ بِلا اجازت گھر میں گھس گئیں.ان تینوں سوالوں میں سے پہلے کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز ایسے نہ.تھے کہ آپ کے دل پر کسی انسان کی یا کسی مخلوق کی محبت اس طرح حاوی ہو جائے کہ ماسواء کو بُھلا ہے اور نہ حضرت زینب کے قول کا یہ مطلب ہے کہ آپ ایسے ہیں.بلکہ اصل الفاظ حدیث کے یہ ہیں کہ ا حسبک اذا قلبت لک بنیہ ابی بکر ذریعتیھاترجمہ.کیا کافی ہے آپ کے لئے کہ جب ابو بکر کی لڑکی اپنی باہوں کو ننگی کرے.مصنف ہفوات کیا کے لفظ کو اُڑا کر خالی کافی ہے پر کفایت کر لیتے ہیں اور اس پر اعتراض بھی وارد کر دیتے ہیں لفظ ’’کیا‘‘ ایسے موقع پر کئی معنے دیتا ہے کبھی اس کے معنے تردید کے ہوتے ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کبھی اس کے معنے سوال کے ہوتے ہیں کیا یہ بات درست ہے؟ اور کبھی اس کے معنی تعریف کے ہوتے ہیں یعنی ایک شخص کی کی نسبت کوئی بات کہتا ہے یا سمجھتا ہے تو اس پر طنز کرنے کے لئے ایسے الفاظ کہہ دیئے جاتے ہیں اور کبھی اس کے معنی ایک بات کے اثبات کے بھی ہوتے ہیں یعنی سوال سے مراد کسی امر کا اقرار ہوتا ہے نہ کہ سوال.لیکن یہ معنی بعید مجاز کے ہیں اور اسی وقت اس کے یہ معنی کئے جا سکتے ہیں جب کہ اصل معنے یا مجاز قریب کے معنے نہ لئے جاسکیں یا قرینہ ان پر شاہد ہو.اس جگہ اس کے معنی حقیقی یا مجاز قریب کے لئے جاسکتے ہیں.اور وہی برمحل ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ بات کو پِھرا کر کہیں کا کہیں لے جایا جائے.بات صاف ہے کہ حضرت زینب استفهام انکاری کے طور پر کہتی ہیں کہ کیا عائشہ کا اپنی باہوں کو ننگا کر لینا آپ کے لئے کافی ہے؟ یعنی ایسا نہیں
۳۶۸ ہے.یہ تمہید باندھ کر وہ آگے اپنا مطلب کہنا چاہتی ہیں جس کے لئے جیسا کہ الفاظ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے وہ حضرت عائشہ سے مخاطب ہو کر باتیں کرنے لگتی ہیں.پس یہ اعتراض ہی بالکل لغو ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے تھے یا یہ کہ آپ کی بیویاں ایسی گستاخ تھیں.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں الفاظ حدیث میں تو اس الزام کی نفی کی گئی ہے.پس خود الفاظ حدیث ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ناواجب محبت سے اور ام المومنین کو الزام گستاخی سے بری کر رہے ہیں.پھر تعجب ہے مصنّف صاحب ہفوات کی عقل پر کہ وہ اس سے اُلٹا نتیجہ نکال رہے ہیں اور لفظ کیا کو بالکل نظر انداز کر کے اپنا بغض نکالنا چاہتے ہیں.اب رہا یہ سوال کہ حضرت عائشہؓ جن سے شطردین سیکھنے کا حکم تھابلا اجازت حضرت زینبؓ کے گھر کیوں چلی گئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ ہرگز زینب کے گھر میں نہیں گئیں پس حضرت عائشہؓ پر اعتراض ہی فضول ہے.اصل الفاظ حدیث کے یہ ہیں کہ ما علمت حتى دخلت على زينب بغيراذن وھی غضبی ثم قالت يا رسول الله ۱۰۲؎ یعنی مجھے یہ امر نہیں معلوم ہؤا حتی کہ زینب میرے گھر میں بغیراِذن کے داخل ہو گئیں اس حال میں کہ دو غضب میں تھیں.پھر کہا یا رسول اللہ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب حضرت عائشہ کے گھر میں چلی گئی نہ یہ کہ حضرت عائشہ حضرت زینب کے گھر میں گئیں.مصنف ہفوات کو دھوکا اس سے لگا ہے کہ ابن ماجہ کے بعض حواشی میں غلطی سے اس کے اُلٹ معنی لکھے گئے ہیں.چونکہ خود ان کو تمیز نہ تھی انہوں نے بث ان معنوں کو لے کر اعتراض کر دیا.کسی عرب کے سامنے اس حدیث کو رکھ کر پوچھو وہ یہی معنے کرے گا کہ حضرت زینب حضرت عائشہ کے گھر گئی ہیں نہ حضرت عائشہ حضرت زینب کے گھر.کیونکہ ما علت و وی بی اور ثم کے الفاظ دوسرے معنی کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے.فقرہ کی بناوٹ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ داخل ہونے والی زینب ہیں نہ کہ عائشہ.ابن ماجہ مطبوعہ مصر میں بھی اس حدیث کو اسی طرح لکھا ہے جس طرح میں نے بیان کیا ہے اور حاشیہ سندی میں لکھاہے وعند مجيئ ب ظهر لها في تمام العتيق - ۱۰۳؎ یعنی نیب کے آنے پر عائشہ کوسب حال معلوم ہوا جس سے معلوم ہوا کہ سندہی کے نزدیک بھی اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ زینب عائشہ کے گھر میں آئی تھیں نہ کہ عائشہ زینب کے گھر گئی تھیں.اس جگہ یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ خواہ زینب عائشہ کے گھر بلا اجازت گئیں یا عائشہ زینب
۳۶۹ کے گھر گئیں بہرحال یہ اعتراض تو قائم رہا کہ آنحضرت ﷺکی ایک بیوی بِلا اِذن خلاف شریعت کے طور پر دوسری بیوی کے گھر میں چلی گئیں.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وقت پڑسکتا ہے جب کہ حقیقت سے آنکھیں بند کرلی جائیں.لیکن ان واقعات کو مد نظر رکھ کر جن کے ماتحت یہ معاملہ ہوا ہے اعتراض تو پڑتاہی نہیں یا اس کا وہ وزن نہیں رہتا جو اس کو دیا گیا ہے.وہ واقعہ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے اس طرح ہے کہ آنحضرت ﷺکی ازواج مطہرات کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جو لوگ ھد ایالاتے ہیں وہ اس دن تک انتظار کرتے رہتے ہیں جس دن کہ حضرت عائشہ کے گھر میں آنحضرت ﷺ کی باری ہو- اور یہ بات ان کو طبعا ً ناگوار گزری.اس پر انہوں نے مشورہ کر کے حضرت فاطمہ کو آنحضرت ﷺ کے پاس بھیجا کہ آپ یہ اعلان کر دیں کہ جو لوگ ھد ایالاتے ہیں سب بیویوں کی باری میں مساوی طور پر لایا کریں حضرت عائشہ کی خصوصیت نہ مدنظر رکھا کریں.اس امر کا اعلان اس شخص کی طرف سے جس کے پاس ھدایا آتے ہوں نہایت مخفی طور پر ھد ایا لانے کی ترغیب پر بھی مشتمل قرار دیا جا سکتا تھا اس لئے رسول کریم ﷺجو اخلاق فاضلہ کا نمونہ تھے اپنے اعلان کا کیا جانا کب پسند فرما سکتے تھے.آپ نے حضرت فاطمہ سے صاف کہدیا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا.چونکہ آپ کی بیویاں اس امر کو اور نظر سے دیکھتی تھیں اور اس میں اپنی سُبکی خیال کرتی تھیں انہوں نے پھر زور دینا چاہا اور اسی وقت حضرت زینب ؓ دوبارہ اس امر کو پیش کرنے کے لئے رسول کریم ﷺ کے گھر تشریف لائیں.اور چونکہ اسی وقت حضرت فاطمہ اس گھرے رسول کریم ﷺسے بات کر کے نکلی تھیں انہوں نے اِذن لینے کی ضرورت نہیں سمجھی اور خیال کیا کہ اس عمر میں کوئی ایسی صورت نہیں پیدا ہو سکتی جس میں مجھے حجاب کی ضرورت ہو.پس اس وقت ان کا داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسے کسی ایسے گھر میں جس میں سے کہ دوسرے لوگ نکل رہے ہوں کوئی دوسرا شخص اسی خیال پر گھس جائے کہ پردہ ہی ہو گا.حضرت فاطمہ کو جس قدر پردہ رسول کریم ﷺ سے ہو سکتا تھا اس سے بہت کم پردہ زینب کو تھا جو آپ کی بیوی تھیں پس حضرت فاطمہ کے آنے کے بعد ان کا اس جوش میں جو اس واقعہ سے ان کی طبیعت میں پیدا ہو گیا تھابِلا إذن اندر چلے جانا ہر گز اس نظر سے نہیں دیکھا جاسلامی نظر سے مصنّف ہفوات کی آنکھ نے اسے دیکھا ہے.زیادہ سے زیادہ وہ ایک اجتہادی غلطی تھی اور بس.
۳۷۰ حضرت عائشہ کا حبشیوں کاناچ دیکھنا اس کے بعد مصنف ہفوات نے یہ اعتراض کیا ہے کہ بخاری کتاب الصلوة اور کتاب العیدین اور کتاب الجہاد کی بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ کو حبشیوں کا ناچ د کھایا اور یہ کہ آپ کے گھر میں بعض لڑکیوں نے شعر پڑھے.مصنّف ہفوات اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ (1) حضرت عائشہ نے نامحرموں پر نظر کیوں ڈالی؟ (۲) رسول کریم ﷺنے منع کرناتو الگ رہا خود ان کو ناچ کیوں دکھایا؟ (۳) باوجود حضرت ابو بکرؓ کے شعر پڑھنے سے اور حضرت عمر ؓکے ناچ سے روکنے کے آپ ؐنہ سمجھے کہ یہ منع ہے اور فرمایا کہ ناچے جاؤ چو نکہ یہ امور آپ کی شان کے خلاف ہیں معلوم ہوا کہ یہ احادیث باطل ہیں.یہ سوال کے گانے سے رسول کریم ﷺنے کیوں منع نہیں فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ شعر خوش الحانی سے پڑھنا اسلام میں جائز ہے اور جب شریعت کے باقی احکام کو چو پردہ اور فحش سے اجتناب کرنے کے متعلق ہیں مد نظر رکھ کر کوئی عورت یا مرد شعر پڑھے تواسے شريعت باز نہیں رکھتی نہ کہیں قرآن کریم میں یہ حدیث میں یہ مذکور ہے کہ شعر کا خوش الحانی سے پڑھنا حرام اور ممنوع ہے.پھر رسول کریم ﷺ جو دین فطرت لے کر آئے تھے اس امر سے کیوں روکتے؟ حضرت ابوبکر نے جو روکا تو یہ ان کا اجتہاد تھا اور رسول کریم ﷺنے چونکہ ان کو روکنے سے منع فرما دیا تھا معلوم ہوا کہ ان کا یہ اجتہاد غلط تھا.پس جب شارع نبی ایک امر کو جائز قرار دیتا ہے تو کسی شخص کا حق نہیں کہ عورت یا مرد کو خوش الحانی سے شعر پڑھنے سے روکے.ہاں یہ ضرور ہے کہ شریعت کے پردہ کے حکم پر عمل کیا جائے اور فحش کلامی سے بات کی طرف توجہ دلانے والے جذبات سے پرہیز کیا جائے.اگر قومی ترانے یا وعظ ونیکی کی باتیں یا مناظر قدرت کی تشریح یا قومی جذبات کے اُبھارنے کے اشعار ہوں یا جنگوں کے واقعات یا تاریخی امور ان میں بیان ہوں تو ایسے اشعار کا پڑھنا یا سننا نہ صرف یہ کہ ممنوع نہیں بلکہ بعض اوقات ضروری اور لازمی ہے اور فطرت کے صحیح اور اعلیٰ مطالبہ کا پورا کرنا ہے اور جو شخص اس امر کو ناجائز قرار دیتا یا اسے بُرا مناتا ہے وہ جاہل مطلق ہے اور مذہب اور فطرت کے تعلق اور شریعت کے اسرار سے قطعا ً ناواقف ہے اور پھر شخص رسول کریم ﷺ کے فعل کو دیکھ کر بھی یہ کہتا ہے کہ اگر آپ نے اس کی اجازت دی ہو تو اس سے آپ پر اعتراض آتا ہے اس کی مثال اس پٹھان کی سی ہے جس کی نسبت پہلے لکھا جا چکا ہے کہ اس نے حدیث میں یہ پڑھ کر کہ رسول کریم ﷺ نے نماز میں حرکت کی تھی کہدیا تھا کہ
۳۷۱ خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.کیونکہ کنز میں لکھا ہے کہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتی ہے نادان مصنف ہفوات بھی اس پٹھان کی طرح نہیں جانتا کہ شریعت کے احکام کا بیان کرنا رسول کا کام ہے نہ مصنف ہفوات جیسے لوگوں کا جو کنویں کے مینڈک کی طرح ایک محدود دائرے میں چکر لگاتے رہے ہیں اور قانون قدرت کی وسعت اور احکام شریعت کی غرض اور غایت سے ایسے ہی نابلد ہیں جیسے کہ ایک جانور ایجادات انسانیہ سے.خدا کے رسول نے جب ایک کام کر کے دکھا دیا تو اس کے خلاف جو مسئلہ کوئی بیان کرتا ہے وہ لغو اور بے ہودہ ہے اور اس سے اس مسئلہ کے بیان کرنے والے کی جہالت اور حماقت سے زیادہ اور کچھ ثابت نہیں ہوتا سوائے اس صورت کے کہ اس سے نادانستہ ایسامسئلہ بیان ہوا ہو جو اقوال وافعال رسالت مآب کے خلاف ہو.مصنف ہفوات کو یاد رکھنا چاہئے کہ خوش الحانی سے شعر پڑھنایا سننا ایک فطری تقاضا ہے اور بچپن سے اس کی لذت روح انسانی میں رکھی گئی ہے اور اسلام دين الفطرت ہے.خدا کا کلام اور اس کا فعل مخالف نہیں ہو سکتے.جس خدا نے یہ جذبہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ اس جذبہ کے صحیح استعمالسے اسے روک نہیں سکتا تھا.باقی رہا دوسرا سوال کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ کو حبشیوں کا ناچ کیوں دکھایا اور غیر محرم پر نظر کیوں ڈلوائی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں اعتراضات بالکل باطل اور جھوٹے ہیں.نہ رسول کریم نے حضرت عائشہ کو ناچ دکھایا نا غیر محرموں پر نظر ڈلوائی ہے.اور مصنف ہفوات نے دیدہ و دانستہ یہ اعتراض کیا ہے کیونکہ جو احادیث انہوں نے نقل کی ہیں وہی ان اعتراضات کو رد کر رہی ہیں.حدیث کے الفاظ یہ ہیں.وكان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب فاما سالت رسول الله صلى الله عليه و سلم وإما قال أتشتھين تنظرين فقلت نعم فأقامنى وراء خدی، على خدہ وھو یقول دونكم يابني آرفدة ، حتى إذا ملت قال حسبک قلت نعم قال فاذھبی- ۱۰۴؎ " یعنی عید کا دن تھا اور حبشی لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کرتب کررہے تھے مجھے یاد نہیں کہ میں نے خود کہا یا رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا تو دیکھنا چاہتی ہے؟ اس پر عائشہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہاں.پس آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور آپ کی گال کے ساتھ میری گال لگی ہوئی تھی پھر آپ نے فرمایا اپنا کام کئے جاؤ اے بنوارفده! یہاں تک کہ جب میں ملول ہو گئی آپ نے فرمایا بس؟ میں نے کہاہاں.آپ نے فرمایا اچھاجاؤ.
۳۷۲ حدیث کے الفاظ واضح ہیں اس کا مطلب ظاہر ہے اس میں کسی اندر کے دربار کے ناچ کا ذکر نہیں جنگی مشق کا ذکر ہے جو مسجد کے صحن میں صحابہ رسول کریم ﷺ کر رہے تھے.پس اس پر یہ ہے اعتراض کرنا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی بیوی کو ناچ دکھایا پس چاہئے کہ مسلمان تھیٹروں اور ناچ گھروں میں اپنی عورتوں کو لے جایا کریں اول درجہ کی بے حیائی اور شرارت ہے اور ایسا انسان جو جنگ کے فنون کو ناچ گھروں کے اعمال سے تشبیہہ دیتا ہے یا تو خر دماغ ہے جس کی عقل میں ادنی ٰ سے ادنی ٰ بات بھی نہیں آسکتی یا بے شرمی وبے حیائی میں اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بے شرمی کا خیال کرنا بھی مشکل ہے.کیا فنون حرب کا استعال ناچ ہوتا ہے تو کیا جنگ کے موقع پر آگے پیچھے حرکت کرنا ناچ ہے؟ اور حضرت علی ؓجنہوں نے سب عمرجنگ میں گزار دی وہ ہمیشہ ناچ گھروں کو ہی زینت دیتے رہے تھے؟ اگر کہو کہ وہ تو جنگ کے موقع پر اس فن کا استعمال کرتے تھے نہ کہ بے موقع.تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی فن بِلا سیکھے کے بھی آجاتا ہے؟ آخر پہلے تلوار پکڑنی اور پیترے بدلنے انہوں نے سیکھے ہوں گے.نیزے کا وار اور ڈھال کا استعمال کرنے کی مشق کی ہوگی تبھی آپ جنگ میں ان چیزوں کو استعمال کر سکتے ہوں گے تو کیا ان مشق کے ایام میں آپ ناچا کرتے تھے؟ وہ فن جو اعلی ٰدرجہ کے شریف فنون میں سے ہے جس کے ساتھ قوموں کی عزت اور ترقی وابستہ ہے اس کو ناچ قرار دینا سوائے بے شرموں اور بُزدلوں کے کسی کا کام نہیں.اور اس کو ناچ قرار دینا گویا خدا کے انبیاء اور اولیاء کو ایکٹر قرار دینا ہے کیونکہ بہت سے انبیاء اور اولیاء فتون حرب میں ماہر تھے اور ان کو استعمال کرتے تھے.مصنف ہفوات نے اس امر سے بالکل آنکھیں بند کرلی ہیں کہ جس قدر زندہ قومیں ہیں وہ و قتاً فوقتاًفوجی کرتب دکھاتی رہتی ہیں جس سے ان کی ایک طرف تو یہ غرض ہوتی ہے کہ سپاہیوں کے ہاتھ سست نہ ہو جائیں اور ان کی مشق جاتی نہ رہے.دوسرے نئی پود کے دل میں جنگی ولولوں کا پیدا کرنا اور ان کے دلوں میں اپنی ذمہ داری کا شعور پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے.تیسرے اس فطرتی تقاضا کا پورا کرنا مطلوب ہوتا ہے جو انسان کی طبیعت میں حصول فرحت و سرور کی خواہش کے رنگ میں ازل سے ودیعت کیا گیا ہے.جو لوگ نادان اور بے وقوف ہوتے ہیں وہ اس خواہش کو لغو اور بے ہودہ طریق پر پورا کرتے ہیں.لیکن نیک اور صالح لوگ اس خواہش کو ایسے رنگ میں پورا کرتے ہیں کہ خوشی کا سامان بھی بہم پہنچ جاتا ہے اور نیک نتائج بھی پیدا ہو جاتے ہیں.پس بے وقوف ہے وہ شخص جو ان مشقوں اور مظاہروں کو ناچ گھروں والے ناچوں سے تشبیہہ دیتا ہے اور
۳۷۳ ان کو اخلاق کے خلاف قرار دیتا ہے.درحقیقت کسی قوم کی مرونی کی اس سے بڑھ کر کوئی علامت نہیں کہ اس کے افراد فنون جنگ سے نفرت کرنے لگیں اور ان کو شان کے خلاف سمجھنے لگیں اور جس خاندان سے مصنّف ہفوات اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اس کی ہلاکت کی ایک بہت بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ عیش پرست اور نکمّا ہو گیا تھا اور مجھے تعجب ہے کہ باوجود اس سخت گرفت کے جو مصنف ہفوات کے خاندان پر اللہ تعالیٰ نے کی ہے ان کی حکومت چھین لی ان کا مال چھین لیا ہے ان کی عزت چھین لی ہے ابھی تک ان کے اندرانہی بیگمات کے خیالات جوش مار رہے ہیں جنہوں نے دہلی کی جنگ کے موقع پر بادشاہ کو رو رو کر مجبور کر دیا تھا کہ وہ ان کے مکان کے سامنے سے جو بہترین موقع توپ چلانے کا تھا توپ کو ہٹا لے اور اس طرح اپنی بزدلی کا اظہار کر کے اور اس کے مطابق بادشاہ سے عمل کر کے شاہی خاندان اور دلی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا.اگر شاہی خاندان کی عورتیں فنون جنگ کو دیکھنے کی عادی ہوتیں اگر ان کو جنگی مظا ہرات کا معائنہ کرنے کا موقع دیا جاتا اگر وہ اپنے زمانہ کے ہتھیاروں کے استعمال کو دیکھ دیکھ کر ان کی ہیبت کو دل سے نکال چکی ہوتیں تو ایک بد اندیشانہ حرکات ان سے کیوں ظاہر ہوتیں.اور اگر بادشاه فنون جنگ کے ماہر ہوتے اور ان کی عمر اس قسم کے کاموں میں بسر ہوتی وہ جنگ اور اسکے نتیجہ سے آگاہ ہوتے تو وہ بیگم کی خواہش کو کیوں مانتے؟ وہ اس کی موت کو اس کی خواہش کے پورا کرنے سے ہزار درجہ بہتر سمجھتے کیونکہ ملک کی عزت اور اس کے وقار کے مقابلہ میں کسی فرد کی خواہ وہ بادشاہ کی چہیتی بیوی ہی کیوں نہ ہو کیا قدر ہوتی ہے؟.لوگ کہتے ہیں کہ بیگم نے انگریزوں سے ساز باز کیا ہوا تھا اور وہ تکلّف سے کام لیتی تھی مگر میں کہتا ہوں اگر جنگی مظاہرات ہوتے رہتے اور تو پیں دغتی رہتیں اور ان کے دیکھنے اور ان میں حصہ لینے کا بیگمات کو موقع ملتا رہتا تو بیگم یہ بہانہ کیونکر بنا سکتی تھیں کیا بادشاہ اور دوسرے لوگ ان کو یہ نہ کہتے کہ یہ بات تو ہمیشہ تم دیکھتی رہتی ہو آج یہ نیاڈر کہاں سے پیدا ہوگیا ہے؟ اس میں کوئی کام نہیں کہ عورت جنگ میں حصہ لینے کے لئے نہیں پیدا کی گئی.لیکن عورت کا فنونِ حرب سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے ورنہ اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے اور اس کا خون بندوق یا توپ کی آواز کو سن کر خشک ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت کب دے سکتی ہے؟ اور ان کے دل سے ان کے جھوٹے خوف کوکب دور کر سکتی ہے؟ وہی اور صرف وہی عورت جو رات اور دن اپنے زمانہ کے ہتھیاروں کی
۳۷۴ نمائش کو دیکھتی رہی ہے اور اس کے دل سے ان کا خوف دور ہو جاتا ہے اور وہ ان کو ایک کھلونا سمجھنے لگتی ہے اپنے بچوں کو اس ذمہ داری کے اٹھانے کے لئے تیار کر سکتی ہے جو اپنے مذہب اور اپنے ملک کی طرف سے ان پر عائد ہونے والی ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جنگ سے قریب ترین نظاره مصنوعی جنگ کا ہوتا ہے جس میں دیکھنے والا بسا اوقات یہ خیال کرتا ہے کہ اب ایک شخص دوسرے کے وار کے آگے زخمی ہو کر گر جائے گا اور ہتھیار کا حقیقی رُعب اس سے قائم ہوتا ہے.غرض جنگ کے کرتب کروانے یا کرنے ناچ کروانا کرنا نہیں ہے نہ ان کا عورتوں کو دکھانا ناچ دکھانا ہے بلکہ جنگ کے کرتبوں کی مشق کرانامذہبی فرض ہے اور ملک کا حق ہے اور زندگی کا نشان ہے اور عورتوں کو ان فنون کے دیکھنے کا موقع دینا ایک قومی ذمہ داری ہے جس کی طرف سے بے توجہی غداری ہے.بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو ان کو فنون جنگ سکھانے چاہئیں جیسا کہ عرب لوگ سکھاتے تھے تاکہ وقت پر وہ اپنی عصمت اور عزت کی حفاظت کر سکیں اور مصیبت کی سماعت میں اپنے مردوں اور اپنے بھائیوں کا ہاتھ بٹا سکیں.اسلام کی تاریخ ان مثالوں سے پُر ہے کہ عورتوں نے جنگ میں خطرناک اوقات میں جب اور لشکر میسر نہ آسکتے تھے مردوں کا ہاتھ بٹایا اور ان کے ساتھ فتح میں شریک ہوئیں.ان کے حالات ہماری رگوں میں فخر کی لہر پیدا کر دیتے ہیں اور ان کے کارنامے ہماری ہمتوں کو بلند وبالا کر دیتے ہیں اور مصنّف ہفوات میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ نچنیاں تھیں اور قوم اور ملک کے لئے ننگ.وہ غیر مردوں کا چہرہ دیکھنے والی تھیں اور حیا اور شرم سے عاری.مگر میں کہتا ہوں یہ ننگ ہمارے لئے سترکا موجب ہے اور یہ عار ہمارے لئے عزت کا باعث ہے.تیری عزت اور تیری حیا تیرے لئے مبارک ہو کہ وہ ہمارے لئے موجب ننگ وعار ہے.مصنف ہفوات کا یہ اعتراض کہ کیا حضرت عائشہ نے غیر محرم پر نظر ڈالی اور رسول کریم ﷺنے نظر ڈلوائی ایسا ہی بے وقوفی کا سوال ہے جیسا کہ پہلا.غیر محرم پر نظر نہ ڈالنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی صورت اور کی غرض سے غیر محرم کے کسی حصہ پر نظر ڈالنی منع ہے.اگر شریعت اسلامیہ کا یہ مسئلہ ہوتا تو عورتوں کو چار دیواری سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوتی اور مکان بھی بند دریچوں کے بنائے جاتے جس قسم کا کہ ظالم بادشاہ قید خانے تیار کراتے ہیں.مصنّف ہفوات کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عورت بھی اسی قسم کی انسان ہے جس قسم کا کہ مرد ہے اور اس کی طبعی
۳۷۵ ضروریات بھی مرد ہی طرح ہیں.خدا کا طبعی قانون دونوں پر یکساں اثر کر رہا ہے اور یہ قانون صحت کی درستی اور جسم کی مضبوطی کے لئے اس امر کا متقضی ہے کہ کھلی ہوا میں انسان پھرے اور روزانہ کافی مقدار میں نقل وحرکت کرے اور محدود دائرہ میں بند ہونے کا خیال اس کے أعصاب میں کمزوری نہ پیدا کرے جس خدا نے عورت کو ان قوتوں اور ان تقاضوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور جس خدا نے اس کا ایک ہی علاج مقرر فرمایا ہے اس کا کلام عورت کو اس ایک ہی علاج سے محروم نہیں کر سکتا سزا ایک آدمی کو دی جاسکتی ہے دو کو دی جاسکتی ہے لیکن قوم کی قوم کو نسلاً بعد نسل قيد میں نہیں رکھا جاسکتا.آخر فطرت بغاوت کرے گی اور قید خانوں کی دیواروں کو توڑ کر رکھ دے گی.شریعت کا مقرر کردہ پردہ فطرت کے خلاف نہیں ہے اس کو جو لوگ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ فطرت کے تقاضے کو نہیں بلکہ ہوا ؤ ہوس کے تقاضے اور عیش پرستی کے جذبات کو پورا کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں فطرت کے تقاضے قانون قدرت کے اندر اپنے نشان رکھتے ہیں اور ان کا توڑنا خدا کی کل کائنات کو مخالفت پر کھڑا کر دیتا ہے لیکن عورت کا بے محابا ہر مرد کے سامنے ہو اس کے ساتھ بے تکلف ہونا اور علیحدہ ہو جانا کسی ایک قانون قدرت کو بھی مخالفت پر نہیں آمادہ کرتا بلکہ اُلٹا انسان کو اس کے اعلی ٰمرتبہ سے گرا کر حیوانی تقاضوں اور جذبات کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ہیں اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن اس سے زیادہ پردہ کرانا یا اس کی خواہش کرنی خدا کے حکم کی اتباع نہیں ہے بلکہ اس کا مقابلہ ہے اور صرف ایک عارضی اور زیادہ اہم ضرورت کے لئے اس کو جاری کیا جاسکتا ہے جس طرح کہ ایک طبیب ایک بیمار کو چلنے پھرنے سے جو فطری تقاضے ہیں روک دیتاہے.جب کہ شریعت نے عورت کو باہر نکلنے کی اجازت دی ہے اور صرف منہ کا ایک حصہ اور بدن کو ڈھا نپنے کا حکم دیا ہے اور ہاتھ اور پاؤں اور دوسری میں جو ایسے موقع پر ظاہر ہوہی جاتی ہیں انکو ظاہر کر دینے کی اجازت دی ہے تو یہ ضروری بات ہے کہ ایک عورت جو گھر سے باہر اس حالت میں نکلے گی اس کی نظر مردوں کے جسم کے بہت سے حصوں پر اسی طرح پڑے گی جس طرح کہ عورت کے بعض حصوں پر مرد کی پڑتی ہے.غض بھر کے علم نے بتادیا ہے کہ اصل چیز جوپردہ کی جان ہے دونوں کی نظروں کو ملنے سے بچانا ہے اور جسم کا وہ حصہ جس پر نگاہ ڈالتے ہوئے آنکھیں ملنے سے رہ ہی نہیں سکتیں یا اس امر کی احتیاط نہایت مشکل ہو جاتی ہے وہ چہرہ ہے.بقیہ جسم کو جب کہ یہ مناسب کپڑوں سے ڈھکارا ہو نہ چھپانے کی ضرورت ہے نہ اسے چھپایا جا سکتاہے جب
۳۷۶ تک کہ عورتیں بازاروں اور گلیوں میں پھرنا نہ چھوڑ دیں یا قناتیں تان کر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر نہ کریں لیکن کیا یہ ہر عورت کے لئے ممکن ہے؟ امراء کی عورتیں تو اپنے مکانوں کی وسیع چار دیواروں میں پھر بھی سکتی ہیں غرباء کی عورتیں کہاں جائیں اور اوسط طبقہ کی عورتیں کس طرح گزارہ کریں ؟ مگر امراء کی عورتوں کو بھی میل ملاقات کے لئے ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف جانا پڑتا ہے جب تک کہ ان کی تمام زندگی کو ایک سخت قید کی ہم شکل نہ بنا دیا جائے اس وقت تک ان کو بھی کبھی نہ کبھی باہر نکلنا ہو گا اور ان کی نظر بھی لازماً گلیوں اور سڑکوں پر پھرنے والے اور برآمدوں اور سٹیشنوں اور گاڑیوں پر بیٹھنے والے لوگوں کے بعض حصہ جسم پر پڑے گی سوائے اس صورت کے کہ گھر سے نکلتے ہی ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جائیں.جو عورت یہ کہتی ہے کہ باوجود باہر نکلنے کے اس کی نظر کسی مرد کے کسی حصہ جسم پر کبھی نہیں پڑی وہ جھوٹی ہے اور جو مرد یہ امید رکھتا ہے کہ اس کی بیوی نے کسی مرد کو مذکورہ بالا طریق پر کبھی نہیں دیکھا وہ پاگل ہے.پردہ مرد اور عورت کے لئے برابر ہے.جب عورت باہر بُرقع یا چادر اوڑھ کر نکلتی ہے تو کیا مردوں کو اس کے پاؤں اور اس کی چال اور اس کا قد اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور ایسی ہی اور کئی چیزیں نظر نہیں آتی؟ اور کیا ان کا پردہ ممکن ہے؟ اگر عورت کے بعض حصے مرد کو ضرور نظر آتے ہیں اور ان کا پردہ ناممکن ہے اور اس سے بھی زیادہ بعض حصے ایسے ہیں جن کا پردہ غریبوں کے لئے ناممکن ہے تو پھر اگر اسی قدر حصہ یعنی مرد کاڈھکا ہوا جسم اور اس کی حرکات عورت کو نظر آتی ہیں تو یہ امر اس کے لئے ناجائز کیونکر ہوگیا؟ پردہ مرد اور عورت کے لئے برابر ہے جیسے عورت کے لئے پردہ ہے ایسے ہی مرد کے لئے.بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ پردہ صرف عورت کے لئے ہے پردہ کے مسئلہ کو عقل کی روشنی میں مسائل کی چھان بین کرنے والے لوگوں کے لئے لأيثل عقدة بنا دیا ہے.اگر عورت کو چادر اوڑھ کر باہر نکلنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ پردہ کا علم صرف اسی کے لئے ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد کا اصل دائرہ عمل گھر سے باہر ہے اور عورت کا اصل دائرہ عمل گھر کی چار دیواری ہے.پس چونکہ عورت مرد کے اصل دائرہ عمل میں جاتی ہے وہ چادر اوڑھ لیتی ہے اور مرد چونکہ اپنے اصل دائرہ عمل میں ہوتا ہے وہ کھلا پھرتا ہے اگر اس کو اپنے دائرہ عمل میں چادر اوڑھنے کا حکم دیا جاتا تو چونکہ اس کا وہاں ہر وقت کا کام ہے اس کے لئے کام مشکل ہو جاتا اور وہ تھوڑے ہی
۳۷۷ دنوں میں اپنے مرتبہ عمل سے گر جاتا جس طرح کہ اگر عورت کو اس کے دائه عمل میں گھر کی چار دیواری میں چادر اوڑھ کر کام کرنے کا حکم دیا جائے تو وہ گھبرا جائے اور کام نہ کر سکے.اس فرق کے مقابلہ میں مرد کو یہ حکم ہے کہ وہ عورت کے دائرہ عمل میں بالکل گھسے ہی نہیں اور اس کو آزادی سے اپنا کام کرنے دے پس حکم برابر ہے عورت اگر مر دکے دائرہ عمل میں گھستی ہے تو اس کے لئے حکم ہے کہ چادر اوڑھ لے اور مرد اگر عورت کے دائرہ عمل میں جانا چاہتا ہے تو اسے حکم ہے کہ بِلا عورت کی اجازت کے ایسا نہ کرے اور مرد کے لئے یہ سختی بھی عورت کی رعایت کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ مرد کے دائرہ عمل میں عورت کے بھی حقوق ہیں اور عورت کے دائرہ عمل سے مرد کے حقوق وابستہ نہیں.پس عورت کو اجازت کی ضرورت نہیں رکھی بلکہ صرف اوٹ کرلینا کافی رکھا ہے اور عورت کے دائرہ عمل میں مرد کے بِلا اجازت داخلہ کو روک دیا ہے.پردہ کے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد حضرت عائشہ کے واقعہ کو سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں.حضرت عائشہ رسول کریم ﷺ کی اوٹ میں کھڑے ہو کر ان فوجی کرتبوں کو دیکھ رہی تھیں جن کو مصنف ہفوات اپنی نادانی سے ناچ گھروں کے ناچ سے تشبیہہ دیتا ہے پر ان کا چہرہ تو اوٹ میں تھا اور وہ لوگ جو کرتب کررہے تھے ہاتھوں سے یہ کام کر رہے تھے ان کے چہرہ پر نظر ڈالے بغیر اور آنکھ سے آنکھ مِلائے بغیر آپ ان کے فنون کو دیکھ سکتی تھیں پس یہ بھی شریعت کے خلاف بات نہ تھی اس طرح ضروری اور علمی امور کو دیکھنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ جیسامیں پہلے ثابت کر آیا ہوں ضروری ہے.حضرت فاطمہ کی نسبت روایات شیعہ اور سنی سے ثابت ہے کہ وہ بھی گھر سے باہر نکلتی تھیں اور رسول کریم ﷺ کے پاس بھی تشریف لاتی تھیں اور حضرت ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کرنے بھی تشریف لے گئی تھیں اور کہیں تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت قناتیں کھینچ کر پردہ کر دیا جاتا تھا یا یہ کہ مردوں کو راستہ چلنے سے روک دیا جاتا تھا اپنے اوقات میں لازماً ان کی نظر بھی گلیوں میں چلنے والے مردوں کے بعض حصص پر پڑتی ہو گی جس طرح کہ گلیوں میں چلنے والے مردوں کی نظر آپ کے ایسے حصص پر جو چھپائے نہیں جاسکتے پڑتی تھی.پس جو امور کے خود ان لوگوں سے سرزد ہوتے رہے ہیں جن کو کہ آپ لوگ بھی بزرگ سمجھتے ہیں ان پر اعتراض کرنا حد درجہ کی ڈھٹائی نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرت عائشہؓ کا صرف اس قدر قصور ہے کہ جس بات کو بہت سے لوگ اپنی منافقت کے پردہ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں حضرت عائشہ ؓاس کو مؤمنانہ
۳۷۸ سادگی سے بیان کر دیتی تھیں اور یہ قصور عقلمندوں کے نزدیک قصور نہیں بلکہ قابل فخر جرات ہے.حضرت علی کی محبت میں رسول کریمؐ کا انحراف حق سے ایک اعتراض مصنف ہفوات نے یہ کیا ہے کہ تاریخ بغداد اور شرح نہج البلاغہ معتزلی میں لکھا ہے کہ عبد الله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک دفعہ ایک صاع کھجور کا ٹوکرا پڑا تھا اور آپ اس میں سے کھارہے تھے میں جو گیا تو مجھے بھی کہا کہ کھاؤ میں نے ایک کھجور اٹھائی اور حضرت عمر نے سب کھجوریں کھالیں اور ایک ٹھلیا پانی کی پی اور بار بار شکر خدا کا کرنے لگے.پھر مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا مسجد سے.حضرت عمر نے پوچھا تمہارے عمزادبر ادر کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا اپنے ہم سنوں میں کھیلتے ہوں گے (یعنی عبد اللہ بن جعفر)انہوں نے کہا نہیں میں تمھارے بزرگ اہل بیت (یعنی علی) کا پوچھتا ہوں؟ میں نے کہا وہ ایک باغ میں اُجرت پر پانی بھرنے جاتے ہیں اور قرآن کی تلاوت کرتے جاتے ہیں.اس کے آگے مصنف ہفوات نے ان کتب کی عربی عبارت میں درج کی ہے.قال يا عبدالله عليک د ماء البدن إث كتمتها ھل بقى في نفسه شي من أمر الخلافة قلت نعم وازيدک سئلت أبي عما عايد عيه فقال صدق قال عمر لقد كان من رسول اللہ من امر ذرو قول لا يثبت حجة ولا يقطع عذر و لقد كان يزيغ في , امرہ وقتا و لقد أراد في مرضه آن یصرح باسمه فمنعت من ذالك اشفاقا وحيطة على الإسلام ورب هذه البيت لا تجتمع عليه قريش أبدا و لووليها لا انتقضت عليه العرب من آطارفها فعلم رسول الله انی علمت مافئ نفسه فامسک والى الله الإمضاء ما حتم ۱۰۵؎ اس کا ترجمہ.ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے.حضرت عمر نے فرمایا اے عبداللہ تم پر اونٹوں کی قربانی فرض ہو جائے جو تم چھپاؤ- سچ کہو کیاعلی کے دل میں اب بھی ادعائے خلافت ہے؟میں نے کماہاں بلکہ میں اس سے زیادہ بتاؤں کہ میں نے اپنے باپ سے بھی یہ بات دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ علی کا دعویٰ سچا ہے.حضرت عمر نے کہا کہ آنحضرت سے علی کے باب میں چند بار ایسے کلمات نکلے ہیں کہ وہ ثابت نہیں ہوتے اور نہ ان سے حجت قطع ہوتی ہے اس محبت کے سبب سے جو ان کو علی سے تھی اور آنحضرت نے اپنے مرض.موت میں حق سے باطل کی طرف میل کرنا چاہا تاکہ نام علی کی صراحت کر دیں لیکن خدا کی قسم میں
۳۷۹ نے شفقت امت اور محبت اسلام کے سبب سے آنحضرت کو منع کیا کیونکہ قریش خلافت علی پر اتفاق نہ کرتے اگر وہ خلیفہ ہو جاتے تو اطراف عرب میں (یعنی مہاجرین قریش) شورش کرے.پس آنحضرت نے جان لیا کہ میں اس بھید کو سمجھ گیا جو بات آنحضرت کے دل میں تھی بایں وجہ آنحضرت ساکت ہو گئے اور نام علی کی صراحت نہ کر سکے اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھاوہ حکم جاری ہؤا.اور اس سے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ (1) کیا رسول خدا علی کی محبت میں ایسے گرفتار تھے کہ معاذ اللہ حق سے باطل کی طرف میل کر جاتے تھے (۲) اور ایسے کو تہ عقل (نعوذ بالله ) کہ جو حضرت عمر کو سوجھتی تھی وہ رسول اللہ کو نہ سو جھتی تھی (۳)پھرحضرت عمر کو تو رسول اللہ اور آپ کی امت پر شفقت مگر خود رسول اللہ کو اپنی امت پر شفقت نہ ہو (۴) حضرت عمر کو گستاخ وبے اوب ثابت کر کے ان کے ایمان کی نفی کی گئی ہے.پیشتر اس کے کہ میں ان اعتراضات کا جواب دوں.اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ترجمہ میں صاحب مصنّف نے خیانت سے کام لیا ہے پہلی خیانت تو یہ ہے کہ عمر لقد كان من رسول اللہ من امر ذرو قول لا يثبت حجة کا ترجم مصنف نے یہ کیا ہے کہ آنحضرت سے علی کے باب میں چند بار ایسے کلمات نکلے ہیں کہ وہ ثابت نہیں ہوتے جس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ گورسول کریمﷺ نے حضرت علی کے حق میں بعض باتیں فرمائی ہیں لیکن وہ غلط ہیں حالانکہ اصل عبارت کے یہ معنے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی طرف سے ایسی باتیں ان کی جاتی ہیں جو اشارات کہی جا سکتی ہیں یا عبارتوں کے ٹکڑے ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی کیونکہ وہ باتیں واضح نہیں ہیں.ژوبن قول کے معنے کا حصہ کلام یا اشارہ کے ہوتے ہیں اسی طرح لا یثبت حجةکے معنے نہیں کہ وہ کلمات غلط ہیں بلکہ یہ کہ وہ ایسے واضح نہیں ہیں کہ ان سے دلیل پکڑی جا سکے.دوسری خیانت مصنف کی یہ ہے کہ انہوں نے و لووليها لا انتقضت عليه العرب من آطارفها کا ترجمہ ہی کیا ہے کہ اگر وہ خلیفہ ہو جاتے تو اطراف عرب میں (یعنی مہاجرین قریش) شورش کرتے.گویا حضرت عمر نے یہ فرمایا تھا کہ اگر علی کو رسول کریم ﷺ خلیفہ مقرر کر دیتے تو مہاجرین ان کا مقابلہ کرنے اور سارے عرب میں شور ڈال دیتے.حالانکہ یہ ترجمہ بالکل غلط ہے.اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر علی خلیفہ ہو جائیں تو عرب لوگ چاروں طرف سے ان کی مخالفت شروع کر دیں گے اور اس میں مہاجرین کی مخالفت یا ان کی شورش کا اشارہ بھی نہیں.اگر کہا جائے
۳۸۰ کہ عرب میں مہاجرین بھی شامل تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اسی طرح عرب کے لفظ کے عام معنی کرنے ہیں تو پھر عرب میں حضرت علی کے اپنے رشتہ دار بھی اور تمام بنو ہاشم اور بنو مُطّلب بھی شامل تھے مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ اس بات کا یہ مطلب تھا کہ حضرت عباس اور عقیل بھی حضرت علی کے مقابلے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے.مصنف کے ترجمہ کی اپنی غلطیوں کی طرف اشارہ کر کے جو اپنی وضع سے بتا رہی ہیں کہ جان بوجھ کر اپنے مضمون کو زور دار بنانے کے لئے کی گئی ہیں اب میں اس حدیث کی حقیقت پر روشنی ڈالتا ہوں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کے بعض حصے نہایت قابل اعتراض ہیں اور اگر وہ ثابت ہوں تو حضرت عمر پر اعتراض آتا ہے اور اگر نہ ثابت ہوں تو حدیث جھوٹی قرار پاتی ہے میں اس امر میں مصنّف ہفوات سے بالکل متفق ہوں کہ یہ حدیث بالکل جھوٹی ہے لیکن اس کا اثر علمائے اہل سنت پر کچھ نہیں پڑتا کیونکہ یہ حدیث اہل سنت کی کتب معتبرہ میں سے نہیں ہے بلکہ اس کا اول راوی ایک ایسا شخص ہے جو گونہ سنی کہلا سکے اور نہ شیعہ مگر اس کی طبیعت کا اصل رجحان شیعیت کی طرف ہے.پس اول تو جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں بعض حدیثوں کے جھوٹا ثابت ہونے سے نہ علم حدیث پر اور نہ علمائے اہل سنت پر کوئی حرف آسکتا ہے.دوم یہ حدیث اہل سنت کی کتب سے نہیں شروع ہوئی اس کی ابتداء ان لوگوں سے شروع ہوئی ہے جو شیعیت کی طرف راجح ہیں.پس اگر اس سے کسی پر الزام لگ سکتا ہے تو شیعوں پر.سوم میں جہاں تک سمجھتا ہوں یہ حدیث ان بعض شیعوں کی بنائی ہوئی ہے جو جھوٹ کو اپنی تائید کے لئے جائز سمجھتے ہیں اور تقیہ کو دین کا ایک جزو قرار دیتے ہیں.اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ احادیث پر ایک مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض امل شیعہ نے ظلماً اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جھوٹی حدیثیں اہل سنت سے بیان کی ہیں تاکہ ان کی کتب سے اپنے مطلب کی روایات پیش کر سکیں.ایسی کئی حدیثیں ہیں جن کو درایتاً اور روایتاً انسان جھوٹاماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اور پھر ساتھ ہی اس کو یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ اہل سنت کی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ اہل شیعہ کی ہیں.میرا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اہل سنت لوگوں میں ایسا کوئی شخص نہیں گزرا جس نے جھوٹی حدیث بنائی ہو یا یہ کہ شیعہ لوگ مذہباً جھوٹ بولتے ہیں.حاشا و کلا اس سے زیادہ میرے ذہن سے اور کوئی بات دور نہیں ہو سکتی.میں طبعاًٍ اور اخلاقاً اور مزہباً اس امر کا مخالف ہوں کہ کسی قوم کو محض اختلاف عقائد کی وجہ سے ایسا سمجھ لیا جائے کہ اس میں گویا اخلاقی طور پر کوئی نیک
۳۸۱ ہی نہیں.میرے نزدیک شیعوں میں بھی چ بولنے والے موجود ہیں جس طرح کہ ہندوؤں اور مسیحیوں اور یہودیوں اور سکھوں اور اہل سنت میں.اس میں کوئی شک نہیں کہ جس قوم میں روحانیت زیادہ ہو گی اس کے زیادہ افراد با اخلاق ہوں گے اور اس کا معیار اخلاق بھی بالا ہو گا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ہر قوم میں ایسے لوگ موجود ملیں گے جو ایک حد تک اخلاق کے پابند ہوں گے اور بڑی بڑی بدخُلقیوں سے پاک ہوں گے.ای طرح خواہ کوئی مذہب کتناہی تصرف اپنے پیروؤں پر رکھتا ہو اس کے پیروؤں میں ایسے لوگ ضرور پائے جائیں گے جو بد اخلاقیوں کے مرتکب ہوں گے اور انسانیت کا جامہ پھاڑ چکے ہوں گے.پس میں بوضاحت بتادینا چاہتاہوں کہ میں ہرگز کسی قوم کو جو میرے ساتھ مذهباً اختلاف رکھتی ہو اخلاق سے عاری نہیں سمجھتا اور نہ خیال رکھتا ہوں کہ جو لوگ میرے ہم خیال یا ہم مذہب ہیں وہ تمام کے تمام بلا استثناء بدیوں اور گناہوں سے پاک ہیں اور ان میں کوئی بھی بدخُلقی نہیں پائی جاتی مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر کسی قوم میں یہ عقیدہ ہو کہ انسان اپنے عقیدہ اور یقین کے خلاف ضرورت وقت کو مدنظر رکھ کر بیان کر سکتاہے عمل پیرا ہو سکتا ہے وہ قوم بہت زیادہ اس خطرہ میں ہے کہ اس کے کمزور اور ضعیف الاخلاق لوگ جھوٹ اور فریب کی مرض میں مبتلاء ہو جائیں اور میں سمجھتا ہوں کہ بعض اہل شیعہ نے اس قسم کا عقیده ایجاد کر کے اپنے ہم مذہبوں پر ایک اخلاقی ظلم کیا ہے اور دوست بن کر دشمنوں کا کام کیا ہے.مگر میں فطرت انسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ اکثر اہل شیعہ یقیناً اس خیال سے نفرت رکھتے ہوں گے اور ائمہ اہل بیت کو اس ناپاک خیال سے پاک سمجھتے ہوں گے اور اس گند کو ان کی طرف منسوب نہیں کرتے ہوں گے بلکہ یقین رکھتے ہوں گے کہ بعض نادان لوگوں نے یہ باتیں بعد میں گھڑی ہیں نہ توائمہ اہل بیت نہ کبار شیعہ اس جرم کے مرتکب ہو سکتے ہیں مگر بہرحال چونکہ بعض لوگوں نے اس کا عقیدہ گھڑا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اہل شیعہ میں سے اہل سنت کی نسبت بہت زیادہ لوگوں کو جھوٹی حدیثیں بنانے کا موقع مل گیا ہے اور ان میں سے بعض نے افسوس سے کہنا چاہئے کہ اہل سنت کا جامہ پہن کر شیعیت کے عقائد کو پردے پردے میں اہل سنت کی روایات میں داخل کرنا چاہا ہے.میں کہہ چکا ہوں کہ ائمہ اہل حدیث کا طریق یہ تھا کہ وہ احادیث کے لئے ایک خاص معیار مقرر کر کے جو حدیث اس معیار کے مطابق ان کو پہنچتی تھی وہ اسے روایت کر دیتے تھے.گو ان
۳۸۲ میں سے بعض جھوٹی بھی ہوں.اور جیسا کہ میں پہلے کے آیا ہوں ان کا یہ طریق نہایت عمدہ اور دُور اندیشی پر مبنی تھاپیں اگر اس حدیث کے راوی کو گو یہ صحاح میں یا معتبر کتب حدیث میں درج نہیں دیانتدار قرار دیا جائے تو اس کی نسبت یہی کہا جائے گا کہ اس نے اپنے مقرر کردہ معیار پر اس حدیث کو صحیح پاکر اسے اپنی کتاب میں درج کر دیا.گو ممکن ہے کہ وہ خود بھی اسے جھوٹا سمجھتا ہو.اور جیسا کہ قوی قرائن سے ثابت ہے یہ کسی ایسے ہی شیعہ کی بنائی ہوئی ہے جس نے اپنے مذہب کو چھپا کر اپنے عقیدہ کی اشاعت کے لئے جھوٹ کو اپناشیوہ بنایا ہوا ہو.میں اپنے اس خیال کی تائید میں مندرجہ ذیل شہادت پیش کرتا ہوں (1) یہ حدیث جیسا کہ خود اس کی عبارتوں سے ثابت ہے جھوٹی ہے (۲) جب یہ جھوٹی ہے تو اس کو بنانے والا وہی ہو سکتا ہے جس کو اس حدیث کے مضمون سے فائدہ پہنچ سکتا ہو اور (۳) یہ فائدہ ایک شیعہ کو ہی پہنچ سکتا ہے (۴) پس یہ کسی اہل شیعہ کی بنائی ہوئی ہے.اس امر کا ثبوت کہ یہ روایت محض جھوٹی اور بناوٹی ہے مندرجہ ذیل ہے.اس روایت کی بنیاد اس امر پر ہے کہ حضرت علی ؓکو خواہش خلافت تھی اور وہ اپنے آپ کو اس کا حق دار سمجھتے تھے حتی کہ حضرت عمر کے وقت تک اس کا اظہار کرتے رہتے تھے اور یہ امر روایتاً و درایتاً بالکل باطل ہے پس معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل جھوٹی ہے کیونکہ واقعات کے برخلاف ہے.در ایتاً تو یہ امراس لئے غلط ہے کہ یہ خیال کر لینا کہ حضرت علیؓ جیسا بہادر اور شجاع انسان ایک امر کو حق سمجھ کر پھر اس پر خاموش رہے اور رسول کریم ﷺ کی وصیت کو پس پشت ڈال دے اور عالم اسلام کو تباہ ہونے سے بالکل عقل کے خلاف ہے.یہ امر ثابت ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابو بکرؓ کی بھی بیعت کی اور پھر حضرت عمرؓ کی بھی بیعت کی اور پھر ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ایسا ایک شخص جو دوسرے کی غلامی کا جَوا اپنی گردن پر رکھ لیتا ہے اور اس کی بیعت میں شامل ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دل میں نیابت کو اپنا حق سمجھتا تھا اور حق بھی لیاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ منشائے شریعت کے ماتحت.اس کے معنے دوسرے الفاظ میں یہ ہیں کہ وہ شخص اول درجہ کا منافق تھا اور یہ بات حضرت علیؓ کی نسبت امکانی طور پر ذہن میں لائی بھی گناہ معلوم ہوتی ہے کُجا یہ کہ اس کے وقوع پر یقین کیا جائے.پس حضرت علیؓ کا طریق عمل اس خیال کو باطل کررہا ہے اور جب کہ عقل اس امر کی تعلیم نہیں کر
۳۸۳ سکتی کہ حضرت علی ظاہر میں حضرت عمر کے دوست بنے ہوئے ہوں اور ان کی بیعت میں ہوں اور دل میں یہ خیال کرتے ہوں کہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت وہ خلیفہ ہیں توماننا پڑتا ہے کہ یہ روایت عقل کے خلاف ہونے کے سبب بناوٹی اور جھوٹی ہے.دوسری بات جو اس کو بالبداہت باطل ثابت کرتی ہے یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنی لڑکی کی شادی حضرت عمر سے کی ہے.اب کون سا شخص ہے جو حضرت علیؓ کو ایک اعلیٰ درجہ کا ولی تو الگ رہا ایک غیور مسلمان سمجھتے ہوئے بھی یہ خیال کر سکے گا کہ انہوں نے اپنی لڑکی ایک منافق کو دے دی حالانکہ قرآن کریم میں رشتہ ناطہ کے تعلقات میں سب سے زیادہ زور تقویٰ پر دیا ہے.اگر حضرت علی جیسا انسان خوف سے یالالچ سے اپنی اور کی ایک منافق کو دے سکتا ہے تو ایمان کا ٹھکانا کہیں نہیں رہتا اور اسلام ایک موہوم بات ہو جاتا ہے.پس حضرت علی کا حضرت عمر کو اپنی لڑکی بیاہ دینا اس امر پر شاہد ہے کہ وہ ان کو غاصب اور منافق خیال نہیں کرتے تھے بلکہ ایک سچامتقی اور حق دار خلافت سمجھتے تھے.میں تو حیران ہوتا ہوں کہ وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ حضرت علی حضرت عمر عمر کو منافق سمجھتے تھے کس طرح خوارج کو اس بات کے کہنے کا موقع دیتے ہیں کہ حضرت علی نعوذ بالله من ذ یک خلافت کی خواہش میں ایسے مخمور تھے کہ انہوں نے اپنی بے گناه لڑکی، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی ایک منافق اور بے دین شخص کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی وصیت کے خلاف خلافت اور نیابت کے حق کو غصب کر کے دین کی بربادی اور تباہی میں مشغول تھا دیدی ی انا لله وانا اليه راجعون.۱۰۶؎ مصنّف ہفوات کو اگر اس نکاح میں شبہ ہو تو وہ شیعہ کتب مثلاً کلینی وغیرہ دیکھیں انہیں معلوم ہو جاۓ گا کہ کتب اہل شیعہ میں بھی اس نکاح کا ذکر ہے گو ایسے الفاظ میں ہے کہ شریف آدمی رسول کریم ﷺکے خاندان کے متعلق انہیں استعمال نہیں کرسکتا.درایت کے علاوہ تاریخی طور پر بھی ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ جو اس بات کو باطل قرار دیتے ہیں کہ حضرت علی دل میں خواہش خلافت رکھتے تھے یا یہ کہ حضرت عمر کو ان پر شبہ تھا.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں بعض سفروں کے پیش آنے پر حضرت علی کو اپنی جگہ مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا.چنانچہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ واقعہ جسر کے موقع پر جو مسلمانوں کو ایرانی فوجوں کے مقابلہ پر ایک قوم کی زک اٹھانی پڑی تو حضرت عمر نے لوگوں کے مشورہ سے ارادہ کیا کہ آپ خود اسلامی فوج کے ساتھ ایران کی سرحد پر تشریف لے جائیں تو آپ
۳۸۴ نے اپنے پیچھے حضرت علی کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا.۱۰۷؎ اب پراک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر حضرت علی پر حضرت عمر کو ذرا بھی شبہ ہوتا جیسا کہ اوپر کی روایت کے راوی نے ثابت کرنا چاہا ہے تو پھر وہ اپنی غیبت کے دنوں میں ان کو دارالخلافہ مدینہ کا گورنر کیوں مقرر کرتے؟ کیا ایسے شخص کو جس پر بدظنی ہوتی ہے کوئی عقلمند صدر مقام کا با اختیار حاکم بناسکتا ہے؟ وہ ضرور خوف کرتا ہے کہ ایسانہ ہو میرے جانے کے بعد ملک میں بغاوت کر کے ہی میں حکومت پر قابض نہ ہو جائے پس اگر في الواقع حضرت عمر کو حضرت علی پر کوئی شبہ ہوتاتو کسی صورت میں بھی آپ ان کو اپنی غیبت کے ایام میں مدینہ کا گورزنہ مقرر کرتے.اگر کوئی شیعہ صاحب یہ کہیں کہ اس سفرمیں تو حضرت عمر چار پانچ دن کے بعد ہی واپس آگئے تھے اور لشکر کی کمان حضرت سعد بن ابی وقاص کو سپرد کر دی تھی تو انہیں یاد رکھنا ہے کہ اس کے بعد جب بیت المقدس کا محاصرہ مسلمانوں نے کیا ہے اور وہاں کے لوگوں نے اس وقت تک ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا ہے جب تک کہ خود حضرت عمر وہاں تشریف نہ لائیں تو اس وقت بھی حضرت عمر حضرت علی کو ہی اپنے بعد مدینہ کا گورنر مقرر کر گئے تھے ۱۰۸؎ حالانکہ آپ کو کئی ماہ کا سفر پیش تھا جس میں دشمن کچھ کا کچھ کر سکتا ہے.پس اگر یہ درست ہے کہ حضرت عمر کو حضرت علی پر شک تھا یا ان کے حضرت علی سے تعلقات اچھے نہ تھے تو کب ممکن تھا کہ وہ انہیں مدینہ جیسے اہم مقام کا جو تمام فوجی طاقت کی کنجی تھی والی مقرر کر جاتے.اگر فی الواقع ان کے دل میں کوئی شک ہوتا تو وہ ضرور انہیں اپنے ساتھ لے جاتے تاکہ وہ ان کے پیچھے کوئی فتنہ نہ کھڑا کر دیں.اب ایک طرف تو حضرت عمر کا فعل ہے کہ آپ دو دفعہ حضرت علی کو اپنے بعد مدینہ کا گورنر مقرر کرتے ہیں اور ان پر اس انتہائی درجہ کے اعتماد کا ثبوت دیتے ہیں پھر ایک بادشاہ اپنی رعایا کے متعلق رکھ سکتا ہے دوسری طرف مذکورہ بالا روایت ہے کہ حضرت عمر کو حضرت علی پر شک رہتا تھا کہ شاید خلافت کے حصول کا خیال اب تک ان کے دل میں باقی ہے ان دونوں چیزوں میں ہم کسے تر جیح دیں؟ حضرت عمرکی فعلی شهادت کو یا ایک راوی کی روایت کو جس کی روایات فتنہ پردازی میں خاص شہرت رکھتی ہیں.پس مندرجہ بالا واقعات سے درایتاً و روایتاً دونوں طرح روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت علی کو حضرت عمر سے کچھ پرخاش نہ تھی اور نہ حضرت عمر کو ان پر کسی قسم کی بدظنی تھی اور اوپر کی روایت محض جھوٹ اور افتراء ہے.دوسرا ثبوت اس روایت کے جھوٹے ہونے کا خود اس کی اپنی عبارت ہے اس میں لکھاہے کہ حضرت علی حضرت عمر کے زمانہ میں اُجرت پر پانی بھرنے جایا کرتے تھے حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا
۳۸۵ ہے کہ حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں تمام اہل بیت کے بیش با وظائف مقرر کر چھوٹے تھے اور حضرت علی کو حسنین کے وظائف ملا کر کوئی پندرہ بیس ہزار سالانہ مل جاتا تھا.اب ایسے شخص کی نسبت جس کی آمد پندرہ بیس ہزار روپے سالانہ ہو.یہ کہنا کہ وہ کسی کے باغ میں پانی بھر کے روٹی کمایا کرتا تھا کس قدر خلاف عقل ہے.صاف ظاہر ہے کہ کسی شخص نے جسے علم تاریخ سے کوئی لگاؤ نہ تھا آنحضرت ﷺکے زمانہ کے بعض حالات سن کر جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کسب حلال کے لئے مزدوری کر لیا کرتے تھے اس حدیث میں یہ بات بھی درج کروی ہے اور یہ خیال نہیں کیا کہ حضرت عمر کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اور تھی اور رسول کریم ﷺکے زمانہ میں اور.جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ روایت جھوٹی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ کسی ایسے ہی شخص نے بنائی ہے ہے اس حدیث سے فائدہ پہنچتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ سنیوں کو نہیں پہنچتا ہے بلکہ اس حدیث میں حضرت عمر پر اعتراض کیاگیا ہے اس لئے سنّی جان بوجہ کرایسی حدیث ہرگز نہیں بنا سکتا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث سے کسی قوم کو فائدہ پہنچتاہے؟ سو ظاہر ہے کہ اس حدیث سے شیعوں کو کئی طرح فائدہ پہنچتا ہے.اول اس میں حضرت عمر پر ہنسی اڑائی گئی ہے کہ آپ ایک ٹوکرا کھجوروں کا کھا گئے.اور ایک ٹھلیاپانی کاپی گئے.روم حضرت علی کی مظلومیت بتائی گئی ہے کہ جب کہ تمام مسلمانوں کے گھر دولت سے کررہے تھے اور ادنی ٰ سے ادنی ٰ صحابی کا بھی چار ہزار درہم سالانہ مقرر تھا آپ کو کوئی نہیں پوچھتا تھا اور آپ لوگوں کے کھیتوں پر پانی بھر بھر کر گزارہ کیا کرتے تھے.تیسرے یہ بتایا گیا ہے کہ جب کہ حضرت عمر ٹوکرے بھر بھر کر کھجوریں کھاتے اور غیبت میں مشغول رہے حضرت علی مزدوری کرتے اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے.چوتھی بتایا گیا ہے کہ حضرت عباس بھی حضرت علی کے دعوۓ خلافت کے مؤید تھے.اب ہر اک شخص تعصب سے خالی ہو اسے تسلیم کرے گا کہ ان سب باتوں کا فائدہ شیعہ صاحبان کو ہی پہنچتا ہے اور انہی کے عقائد اور دعوؤں کی اس میں تصدیق ہوتی ہے.پس جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ صث روایتاً اور درایتاً جھوٹی ثابت ہوتی ہے تو اس امر کے ثابت ہو جانے پر کہ اس حدیث کے مضمون کا فائده شیعہ صاحبان کو ہی پہنچتا ہے کس عقل مند کو اس بات کے قلیم کرنے میں شبہ ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کا بنانے والا کوئی دھوکا خورده شیعہ تھا جس نے مذہب کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے سچ کی تائید کے لئے ہر ایک تدبیر کا اختیار کرنا جائز ہے کے شرمناک مسئلہ پر عمل کیا ہے.پس مصنّف
۳۸۶ صاحب ہفوات کو سُنیوں کے بزرگوں کو گالیاں دینے کا حق نہیں انہیں اپنے ہی بھائی بندوں کو کوسنا چاہئے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ باوجود اس کے کہ اس حدیث کا جھوٹا ہو نا روز روشن کی طرح ثابت ہے.میرے نزدیک اس کا اِحراق اور اِحکاک جائز نہیں کیونکہ جیسا کہ میں شروع میں ثابت کر چکا ہوں کسی کا حق نہیں کہ کسی مصنف کی تصنیف میں اپنی مرضی کے مطابق کوئی تغیّر کر دے.اگر مصنف صاحب ہفوات فرمائیں کہ جب حدیث جھوٹی ثابت ہو گئی تو اس کے رکھنے کا کیا فائدہ؟ مگر میں کہتا ہوں کہ فائدہ ہو نہ ہو تصنیف ایک امانت ہے اور اس میں تغیّر ایک خیانت ہے جو مسلمان کے لئے جائز نہیں.لیکن یہ بھی درست نہیں کہ ایسی حدیث کے رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس میں فائدہ ہے.ایسی احادیث انسانی اخلاق کے اس تاریک پہلو پر روشنی ڈالتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ اپنے خیال کی تائید میں خدا کے مقدس رسولوں پر جھوٹ باند ھنے بھی پرہیز نہیں کرتے اور اس امر کے معلوم ہونے سے عقل مند انسان بہت سے گڑھوں سے بچ جاتا ہے.ردبہتان در سُبکی عقل رسول ﷺ و گستاخی حضرت عمرؓ ایک اعتراض مصنف صاحب ہفوات نے یہ کیا ہے کہ مسلم کتاب الایمان جلد اول میں لکھاہے کہ ایک وفعہ رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ کو اپنی جوتیاں دے کر کہا کہ جو شخص تم کو ملے اسے کہد و کے جو لا اله الا الله کہے وہ جنت میں داخل ہو گا حضرت عمر سب سے پہلے ان کوملے.ان کو حضرت ابو ہریرہ نے یہ بات پہنچائی تو انہوں نے ابو ہریرہ کے اس زور سے گھونسا مارا کہ وہ گر پڑے اور پھر فرمایا کہ واپس چلے جاؤ.انہوں نے آنحضرت ﷺ کے پاس واپس آکر شکایت کی اتنے میں حضرت عمر بھی پہنچ گئے.رسول کریم ﷺ نے ان سے ابو ہریرہ کو مارنے کی وجہ پوچھی.انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ان سے کہا تھا کہ اس طرح لوگوں کو کہدو؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں.اس پر حضرت عمر نے کہا کہ ایسانہ کیجئے درنہ لوگ خدا تعالی کی عبادت ترک کر دیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھاجانے دو ۱۰۹؎.مصنف صاحب ہفوات نے اس حدیث پر یہ اعتراض کئے ہیں (1) کیا صحابہ جھوٹ بولا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کو ابو ہریرہ کے ہاتھ میں اپنی جوتیاں د ینی پڑیں تاکہ لوگ ان کو جھوٹانہ سمجھیں؟ (۲) کیا حضرت عمر ایسے گستاخ تھے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کے اہلچی کو مارا؟
۳۸۷ (۳) کیا رسول کریم ﷺحضرت عمر سے کمزور تھے کہ حضرت عمر سے ڈر کر آپ نے پہلی بات کا اعلان نہ کرایا؟.مصتف صاحب ہفوات نے خود مضمون حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے کیونکہ وہ اس کی تشریح کرتے ہیں کہ ” مراد یہ ہے کہ سروست جو توحید خدا کا بھی اقرار کرے وہ داخل امن ہے اس کی جان ومال کو کوئی جو کھوں نہیں‘‘.مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کو نہ قرآن کریم کا علم ہے نہ تاریخ کا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام پر کوئی بھی ایسا زمانہ نہیں آیا کہ اس نے صرف توحید پر ایمان لانے کو موجب نجات قرار دیا ہو.قرآن کریم کی نہایت ہی ابتدائی سورتوں میں بھی ایمان اور عمل دونوں کو نجات کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے.چنانچہ سورة العلق جو سب سے پہلی سورۃ ہے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکلا ان لإنسان ليطغی آن را استغنی ان إلى ربک الرجعی – اریت الزی ینھی عبد اذا صلی ۱۱۰؎ یعنی انسان سرکش ہے کہ وہ اپنے آپ کو خداتعالی کی مددسے مستغنی سمجھتا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہر ایک امرمیں لوٹنا پڑتا ہے.کیا مجھے اس شخص کا حال معلوم ہے جو ایک بندہ کو جب وہ نماز پڑھتا ہے روکتا ہے.سورة شمسی میں کہ وہ بھی مکیہ ہے فرماتا ہے قدافلح من زکها و قد خاب من دسها ۱۱۱؎ جو شخص اپنے نفس کو پاک کرے گا وہ کامیاب ہو گا اور جو اسے روند ڈالے گا وہ ناکام و نامراد رہے گا.پھر سورة التين مکیہ میں فرماتا ہے الا الذين أمنوا و عملواالصلحت فلهم أجر غير ممنون ۱۱۲؎یعنی سب لوگ تباہ ہوں گے سوائے ان لوگوں کے کہ ایمان بھی لائیں اور نیک عمل بھی کریں انہیں لازوال بدلے ملیں گے.سورة قارعہ میں جو وہ بھی مکی سورت ہے فرماتا ہے فاما من ثقلت موازينه فهو في عیشة راضیة وأما من خفت موازينه فامه ھاوية لك ۱۱۳؎ جس کے نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو پسندیده زندگی بسر کرے گا اور جس کے نیک عمل بدیوں سے کم ہوں گے اس کا مقام دوزخ ہو گا.ان آیات سے ثابت ہے کہ شروع سے اسلام ایمان اور اعمال کی اصلاح پر زور دیتا چلا آیا ہے.اور کسی وقت بھی اس نے یہ رخصت نہیں دی کہ صرف الله إلا الله پر ایمان لے آؤ- کیو نکر درست ہو سکتاہے.اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کوئی زمانہ اسلام پر ایسا بھی آیا ہے تب بھی اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کیونکہ جیسا کہ تاریخ اسلام کے واقف لوگ جانتے ہیں حضرت ابو ہریرہ ہجرت کے بعد رسول کریم ﷺ کی وفات سے صرف ساڑھے تین سال پہلے ایمان لائے تھے یعنی صلح حدیبیہ
۳۸۸ اور جنگ خیبر کے درمیان کے زمانہ میں.دوسرے جیسا کہ اس حدیث کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور دوسری تاریخی شہادتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے یہ واقعہ رسول کریم ﷺ کی وفات سے صرف دو سال پہلے کا ہے جب کہ مدینہ پر بعض مسیحی قبائل کے حملہ کی افواہیں گرم تھیں ان ایام میں رسول کریمﷺ کا ذرا بھی آنکھوں سے اوجھل ہونا مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا کر دیتا تھا.پس جو واقعہ کہ عرب کی فتح کے بعد اور مشرکوں کے مغلوب ہو جانے کے بعد ہوا ہے.اس کی نسبت یہ کہنا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ سرِدست اتنا کافی ہے کہ لا الہ الاالله کہہ دو کس قدر حماقت اور بے وقوفی کی بات ہے.کیا اس قسم کی آسانیاں ابتداء میں دی جاتی ہیں یا آخر میں؟پس اس حدیث کا مطلب ہرگز نہیں جو مصنّف ہفوات نے سمجھاہے.اور اسی غلط مطلب کانتیجہ ہے کہ انہیں دخل الجنة کا ترجمہ یہ کرنا پڑا ہے کہ داخل امن ہے اس کی جان ومال کو کوئی جوکھوں نہیں.جنت کا یہ ترجمہ خود مصنّف ہفوات کی پریشانی پر دلالت کرتا ہے نعماء دینوی کانام تو بے شک جنت رکھا جا سکتا ہے لیکن یہ مضمون بیان کرنے کے لئے کہ ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے جنت کے لفظ کا استعمال صرف انہی کے دماغ کی اختراع ہے.جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو صرف لا الہ الا الله کہدے وہ جنت میں داخل ہو جائے گانہ یہ مطلب کہ اسے ہم کچھ نہیں کہیں گے تو اب سوال یہ ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا؟ سو یاد رکھنا چاہے کہ ہر ایک تعلیم کا ایک مرکزی نکتہ ہوتا ہے اور اختصار کے لئے کبھی اس مرکزی نکتہ کو بیان کر دیا جاتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام تفصیلات اس کے اندر شامل ہیں اور یہی نکتہ جسے سمجھانے کے لئے رسول کریم ﷺنے حضرت ابو ہریرہ کو بھیجا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ تنہائی کے مقام پر توحید کے حقائق پر غور کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ کو جوش پیدا ہوا ہے کہ میں ایک نئے رنگ میں امت کو توحید کے نکتہ مرکزی ہونے کی طرف توجہ دلاؤں اور اس کے لئے آپ نے یہ طریق اختیار کیا کہ ایک صحابی کو اس کا اعلان کرنے کے لئے مقرر کر دیا.حضرت عمر راستے میں ملے تو آپ کو دو خیال پیدا ہوۓ (۱) اگر اس پیغام کو محدود معنوں میں لیا جائے (جن معنوں میں کہ مصنف ہفواتن ے قلت تدبیر کی وجہ سے لیا ہے) تو وہ درست نہیں رسول کریم ﷺکبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف لا الہ الاالله کا کافی ہے جب کہ قرآن و تعلیم رسول کریم ﷺ ان معنوں کو رد کر رہے ہیں.پس ایو رو رضي الله عثا کو سمجھنے میں غلطی کی ہے اور ان کو روکنا ضروری ہے (۲) اگر اس کی بجائے اس کے عام معنے لئے
۳۸۹ جائیں تو یہ درست ہے لیکن ممکن ہے کہ لوگ اس کے معنے غلطی سے کچھ اور لے لیں اور اسلام میں رخنہ اندازی کریں.چونکہ آپ جانتے تھے کہ جس نکتہ کو رسول کریم ﷺسمجھانا چاہتے ہیں عام لوگ اسے پہلے ہی آپ کی تعلیم کے اثر سے سمجھ چکے ہیں اور عوام ان الفاظ سے دھوکا کھا سکتے ہیں اس لئے آپ نے حضرت ابو ہریرہ کو رو کا.حضرت ابو ہرہرہ جو کہ اس باریک بینی سے حصہ نہ رکھتے تھے جس سے عمرؓ.انہوں نے نہ مانا اور اس پر حضرت عمر نے ان کو دھکا دے کر واپس کرنا چاہا اور وہ گر گئے ورنہ عقل اس امر کو پاور نہیں کر سکتی کہ بغیر کچھ بات کہنے کے حضرت عمرنے ابو ہریرہ کو مارا ہو.غرض جب رسول کریم ﷺکے پاس پہنچ کر آپ نے حقیقت کا اظہار کیا تو رسول کریم ﷺنے آپ کی بات کو تسلیم کرلیا.اور آپ کا تسلیم کر لینا ہی بتاتا ہے کہ حضرت عمر کے خیال کو آپ نے صحیح سمجھا.باقی رہا یہ خیال کہ کیا رسول کریم اﷺ نے اس بات کا خیال نہ کیا جس کا حضرت عمر نے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا تعلق لوگوں سے اور قسم کاتھا اور حضرت عمر کا اور قسم کا.حضرت عمر چونکہ بے تکلفی سے لوگوں میں ملتے تھے آپ اس گروہ سے واقف تھے جو اپنی بے ایمانی یا عقل کی کمزوری کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی باتوں کو غلط رنگ دینے یاغلط طور پر سمجھنے کی مرض میں مبتلاء تھا.پس جب انہوں نے رسول کریم ﷺ کو ان لوگوں کی طرف توجہ دلائی کہ ایسے لوگ اس حدیث کو سن کر عمل ہی چھوڑ بیٹھیں گے تو آپ نے بھی ان لوگوں کو ٹھوکرسے بچانے کے لئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ حضرت عمرے لوگ اس مسئلہ کو سمجھ ہی چکے ہیں پس یہ صداقت مسلمانوں میں سے مٹے گی نہیں اپنے حکم کو منسوخ کر دیا اور ان الفاظ میں اعلان کرانے کی ضرورت نہ سمجھی جن الفاظ میں اعلان کرنے کا حکم کہ اس سے پہلے آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه کو دیا تھا.غرض یہ حدیث ہرگز قابل اعتراض نہیں ہے اور اس پر اعتراض صرف جہالت سے پیدا ہے جو تدبر کرنے والے لوگ ہیں یہ جانتے ہیں کہ اس حدیث سے بجاے اعتراض کے صحابہ کا درجہ عظیم ظاہر ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ (1) وہ لوگ دین کے لئے غیرت رکھتے تھے اور رسول کریم ﷺ کے تعلیم کے مغز کی حفاظت پر بہت حریص تھے (۲) یہ لوگ آپ کے اشارات کو خوب سمجھتے تھے اور پیشتر اس کے کہ آپ بِالوضاحت کسی امر کو بیان کریں آپ کے کلام کی تمہیدات سے ہی آپ کے مطلب کو سمجھے جاتے (۳).کہ رسول کریم ﷺکو ان لوگوں کے اخلاص پر پورا یقین تھا اور آپ ان کے مشوروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.تعجب ہے کہ
۳۹۰ مصنّف ہفوات اپنی اندرونی کیفیت کی وجہ سے اس خیال کی طرف تو چلے گئے کہ حضرت عمر کی سمجھ میں جو بات آئی حضرت نبی کریم ﷺ کی سمجھ میں نہیں آئی مگر ادھر ذہن نہ گیا کہ حضرت عمر چونکہ رسول کریم ﷺ کا مفہوم اچھی طرح سمجھ گئے تھے اس لئے آپ نے اس اعلان کرانے کی ضرورت نہ سمجھی تا نااہل لوگ دھوکا نہ کھائیں.مصنف صاحب ہفوات نے اس جگہ اپنے بعض کے اظہار کے لئے یہ طریق بھی اختیار کیا ہے کہ بزعم خود حضرت عمر کے چند عیوب بیان کر کے لکھے ہیں کہ کیا ایسا شخص رسول کریم کی بات کو ردّ کر سکتا تھا؟ میں جیسا کہ بتا چکا ہوں رسول کریم ﷺکی بات کے رد کرنے کا اوپر کے واقعہ سے کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا بلکہ آپ کی حقیقی تعلیم کے سمجھنے اور اس کی تصدیق کرنے کا علم ہوتا ہے.پس یہ تو سوال ہی نہیں.باقی رہا یہ کہ حضرت عمر حضرت رسول کریم ﷺ سے ڈرتے تھے یہ عیب کی بات نہیں خوبی ہے.میں اس شیعہ کو دیکھنا چاہتا ہوں کہ جو یہ کہے کہ حضرت علی رسول کریم ﷺسے نہیں ڈرتے تھے.نبیوں سے ڈرنا عین ایمان کی علامت ہے اور صرف بے ایمان ہی اس جذبہ سے خالی ہو تا ہے جس طرح اللہ تعال پر ایمان خوف ورجاء کے درمیان ہے اسی طرح نبیوں پر ایمان بھی خوف و محبت کے درمیان ہے.جب تک دونوں جذبات نہ پائے جائیں ایمان کامل ہو ہی نہیں سکتا.لیکن جب یہ ہے کہ مصنف ہفوات اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے جو مثال پیش کرتے ہیں وہ حد درجہ کی کمزور اور بودی ہے وہ تفسیر حسینی اور ترمذی کے حوالہ سے اول تو یہ بیان کرتے ہیں کہ جو آیت حرمت شراب کے متعلق نازل ہوتی تھی وہ حضرت عمر اور معاذ کو خاص طور پر بُلا کر سِنائی جاتی تھی.لیکن آپ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ اے خدا! حرمت شراب کے بارے میں اور واضح بیان نازل فرما.لیکن جب وہ نہ مانے پر جو کچھ ہوا وہ بقول مصنّف یہ تھا کہ حضرت عمر شراب سے باز نہ آئے اور آخر رسول کریم ﷺنے ان کو مارا اور تب جا کر وہ باز آئے.مذکورہ بالا بیان میں مصنف ہفوات نے یہ اعتراض کئے ہیں.اول حضرت عمر شراب پیا کرتے تھے دوم ان کی حالت کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ خاص طور پر بُلا کر انہیں احکام وحرمت سنوايا کرتے تھے.سوم باوجود اس کے وہ باز نہ آتے اور یہی کہتے جاتے تھے کہ خدایا حرمت شراب کے حکم کو اور بھی واضح کر.مجھے ہفوات کے مصنف پر تعجب ہے کہ یہ صریح کلام کی موجودگی میں ہمیشہ اُلٹی چال چلتے ہیں اور غلط معنے ہی لیتے ہیں اصل حدیث کو دیکھ کر کوئی شخص ایک منٹ کے لئے
۳۹۱ بھی نہیں خیال کر سکتا کہ حضرت عمر کو شراب کی عادت تھی اور اسے چھوڑتے نہ تھے اس لئے ان کو احکام سنائے جاتے تھے مگر پھر بھی نہ مانتے تھے کہ الفاظ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر شراب کے مخالف تھے اور ان کے اس شوق کی وجہ سے رسول کریم ﷺان کو شراب کے متعلق آیات سنایا کرتے تھے مگر چونکہ اس وقت تک قطعی حکم ممانعت کانہ آیا تھا حضرت عمر خواہش کرتے کہ کاش اس سے بھی واضح الفاظ میں شراب حرام کی جائے تاکہ کوئی شخص اس کے قریب بھی نہ جائے.چنانچہ حدیث یہ ہے.عن عمر بن الخطاب أنه قال اللھم بين لنا في الخمر بیان شفاء فنزلت التي في البقرة يسئلونک عن الخمر والميسر فدعی عمر قرأت عليه فقال الله بين لنا في الخمر بيان شفاء فنزلت التي في النساء یایها الذين آمنوا لا تقربوا الصلؤة وانتم سکاری.فدعی عمر قرأت عليه ثم قال اللھم بین لنا في الخمر بيان شفاء فنزلت التي في المائدة وإنما يريد الشیطن أن یوقع بينكم العداوة والبغضاء في الخمر والميسر إلى قوله فھل أنتم منتھون.فدعی عمر فقرات عليه قال انتھینا انتھینا.۱۱۴؎ یعنی عمر بن الخطاب کی روایت ہے کہ آپ نے کہا کہ اے اللہ ہمارے لئے شراب کا مسئلہ اس طرح بیان کر دے کہ پھراور حاجت نہ رہے اس پر سورہ بقرہ کی آیت شلونك عن الغث و اثير (تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں تو کہہ دے کہ ان سے پیدا ہونے والا گناہ ان کے لئے نفع سے زیادہ ہے) نازل ہوئی اس پر عمرکو بُلایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی مگر انہوں نے اس آیت کو سن کر پھر بھی یہ کہا کہ اے الله ! ہمارے لئے شراب کے متعلق کوئی ایسا حکم دے جو بالکل واضح ہو کہ کی تاویل کی گنجائش نہ ہو اس پر سورہ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی کہ اے مومنو! جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز کے قریب نہ جاؤ.اس پر عمر کو پھر بلایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی مگر آپ نے پھت یہی کہا کہ اے خدا! کوئی واضح حکم جس کے بعد تا ویل کی گنجائش نہ رہے شراب کے بارہ میں بیان کر.اس پر مائده کی یہ آیت اُتری کہ شیطان تو شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تم میں عداوت اور بُغض پیدا کرنا چاہتا ہے اور اللہ کی یاد سے اور اور نماز سے روکنا چاہتا ہے پھر کیاتم (شراب اور جوئے سے ) باز آو گے؟ (یا نہیں؟) اس پر حضرت عمرنے کہااب ہم باز آگئے ہم باز آگئے.اس حدیث کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمر شراب کے مخالف تھے کیونکہ حدیث میں صاف بیان ہے کہ جس وقت شراب کے متعلق ابھی کوئی حکم نہ آیا اس وقت حضرت عمردعا
۳۹۲ حق الیقین کیا کرتے تھے کہ خدایا شراب کے متعلق کوئی حکم نازل فرما.اگر وہ شراب کے خواہشمند تھے تو انہیں اس دعا کی کیا ضرورت تھی؟ شراب تو پہلے ہی ملک میں رائج تھی اور سب لوگ اس کو استعمال کرتے تھے پھر اس کی حِلت کے لئے دعا کرنے کی انہیں کیا ضرورت تھی؟ جو چیز ملک میں پہلے ہی سے رائج ہو اور اس سے منع نہ کیا گیا ہو گیا اس کامشتاق یہ دعا کر سکتا ہے کہ خدایا اس کے بارہ میں کوئی واضح حکم ہے.یہ دعا تو صرف وہی کر سکتا ہے جو اس چیز کو رُکوانا چاہتا.پس جب کہ شراب کی ممانعت نہ خدا تعالی کی طرف سے تھی نہ رسول کی طرف سے حضرت عمر کا خدائی حکم کے لئے دعا مانگنا صاف بتاتا ہے کہ آپ اس کے حرام کئے جانے کی دعا کرتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ جب ایک آیت اس بارے میں اُتری تو رسول کریم ﷺنے خاص طور پر انہیں بلا کر سنائی.تا انہیں خوشی ہو کہ میری خواہش اللہ تعالیٰ کی مرضی کے ساتھ مل گئی.مگر چو نکہ ملک میں شراب کا بہت رواج تھاحضرت عمرسمجھتے تھے کہ شراب اس طرح نہ رُکے گی.انہوں نے پھر دعا کی کہ خدایا اسے اور واضح کر.اس دفعہ کی دعاسے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ شراب کے مخالف تھے کیونکہ جب خداتعالی نے یہ فرمایا تھا کہ شراب میں نقصان زیادہ ہے تو اور بھی وضاحت کی خواہی کے یہی معنے ہیں کہ صرف یہ نہ فرما کہ اس میں نقصان ہیں بلکہ اس کو منع فرما.اگر وہ شراب کی تائید میں ہوتے تو اس موقع پر چاہئے تھا کہ یہ دعا کرتے کہ اے خدا! شراب کی خوبیاں بیان فرما اور اس آیت کو منسوخ کر دے مگروہ تو وضاحت چاہتے ہیں اور بُری چیز کے متعلق حکم کی وضاحت اس کی حرمت کے ذریعہ سے ہی ہو سکتی ہے.جب ایک اور آیت نازل ہوئی کہ نشہ کے وقت نماز کے قریب نہ جاؤ (میں ان معنوں کو حدیث کے الفاظ کی بناء پر لے رہا ہوں ورنہ میرے نزدیک اس آیت کے معنی بالکل اور ہیں) تو پھر آپ نے وہی خواہش ظاہر کی کہ اس سے بھی واضح حکم ہو.آخر صاف الفاظ میں جب ممانعت ہوئی تو آپ کی تسلی ہو گئی.غرض الفاظ حدیث واضح طور پر بتاتے ہیں کہ حضرت عمر شراب کے مخالف تھے اور یہ جو آخر حدیث میں لفظ ہیں کہ ہم باز آگئے باز آگئے ان سے مراد خود حضرت عمر نہیں بلکہ مسلمان بحیثیت قوم ہیں اور ان الفاظ کے یہ معنے ہیں کہ اب ہماری قوم باز آجائے گی کیونکہ حکم صاف طور پر نازل ہو گیا ہے اور اب کسی کو تاویل کی گنجائش نہ رہے گی ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو شخص شراب کی حرمت کی خواہش رکھتا ہو وہ خود شراب پیتا ہو اور باز آجانے سے اس کی مراد اپنانفس ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اس جواب سے ہر شخص پر مصنف ہفوات کے اعتراض کی لغویت ظاہر ہو جائے گی.اور جو ان کی دھمکی ہے کہ حضرت عمر کے بازنہ
۳۹۳ حق الیقین آنے پر جو کچھ ہوا اسے ہم آگے بیان کریں گے.میں بھی انشاء الله اسی موقع پر ان کے اس بیان کی قلعی کھولوں گا.والتوفيق من الله ۱؎ تاریخ احمدیت جلد۵ص ۵۵۶ مطبوعہ ۱۹۶۴ء ۲؎ٍ متی باب ۷ آیت ۲۰،۱۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۵۷ء | الاعراف:۱۵۷ \" القارعة :۱۰ د هود:۰۹۱ الى التين :۷ کنز العمال جلد ۴، صفحہ ۵۲ روایت نمبر۳۹۵۰۶ مطبوع طب ۱۹۷۵ء میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں ” ياتي على جهنم يوم ما فيها من بني ادم احد تخفق ابوابها“.التحریم:۱۲، ۱۳ و الزخر ف :۵۸ جالینوس GALENOS (۲۰۰۶۱۳۰ء) نامور طبیب، جراح اور طبی کتابوں کا مصنف.طب کی تعلیم کے لئے سریا اور اسکندریہ کا سفر اختیار کیا.اس نے انسانی جسم کے اندرونی اعضاء کا مطالعہ کیا اور تورته الابدان (ANATOMY) اور افعال الأعضاء (PHYSIOLOGY) کی بنیاد رکھی اس نے ارسطو کے نظریات کی بھی نفی کی.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ ۲۴۴ مطبوعہ لاہور1924ء) سقراط socRATES (۹۹-۳۹۸ م) اختر کا بو علی قلفی جی اثار معما دانشور ترمین لوگوں میں ہوتا ہے.اس نے نوجوانوں کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کیا اور ان میں تحقیق و جستجو کی ایسی روح پھو کی جو انہیں علم و انصاف کی طرف لے جانے والی تھی........موجوده معلومات کی حد تک اس نے خود کچھ نہیں لکھا.اس کی تعلیمات افلاطون، ارسطو اور روغن کے وسیلے سے ہم تک پڑھی ہیں.(اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد اصلحہ ۳۳، مطبوعہ لاہور۱۹۷۷ء).افلاطون PLATO(۴۲۷-۳۴۷ ق م) یونانی فلسفی، دنیا کے نایت ذی از اور بارسوخ مفکروں میں شمار ہوتا ہے.سقراطے تعلیم حاصل کی.اس کالنے مکانات کی دل میں بیان ہوا ہے جو اسلوب بیان کی حسن و خوبی نیز فکر و نظر کی گمراہی اور وسعت خیال کے اعتبار سے عالی ادب کے شاہکار اے جاتے ہیں.جمہوریت (REPUBLc) افلاطون کی مشہور ترین تصنیف ہے جس میں ایک مثالی حکومت کا سامنے رکھ کر بخش و انصاف کا عملی مظاہرہ
۳۹۴ کیا گیا ہے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحه ۴ مطبوعہ لاہور۱۹۷ء) بو علی سینا (۶۹۸۰ - ۱۰۳۷ء) ایشیاء کا جامع العلوم طبیب، فلسفی اور ماہر ریاضیات.انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں القانون اور الفاء کو بہت شہرت حاصل ہوئی.اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلدا صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور سے۱۹۷ء) مسلم کتاب الایمان باب بيان الكبائر واكبر ها-.سنن نسانی کتاب عشرة النساء باب حب النساء - النمل :۲۴ البقرة :۱۶۶ ۱۸ التوبة :۲۴ و البقرة:۱۷۸) الحشر:۱۰ ۲۲ الروم:۲۴ ۲۳ سنن نسائی کتاب عشرة النساء باب حب النساء ۲۴ لسان العرب جلد ۳ صنمها زر لفظ \" مطبوعہ دار احیاء التراث العربي بيروت ۲۵ القصص :۵۷ ۲۹.الانعام:۱۶۳ یوسف :۳۴ ۲۸ بخاری کتاب المغازی باب احد يحبنا و نحبه وہ لسان العرب جلد ۳ صفیہ نے لفظ \"حب\" مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱۹۸۸ء ۳۰ بخاری کتاب المرشی باب فضل من ذهب بصر تھیں باب ۲ آیت پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور مطبوع ۱۹۹۴ء ۳۲ البقرة:۲۲۹ ۳۳ مسلم کتاب الصلوة باب نهى من أكل ثومااو بصلا او کراثا او نحوها أسباب کے تحت دو مختلف روایتوں میں یہ الفاظ مل جاتے ہیں.۳۷۲۳۴ فروع کافی جلد ۲ کتاب النکاح باب حب النسا.مطبوعہ نولکشور ۱۸۸۹ء ۳۸ فروع کافی جلد ۲ کتاب النکاح باب غلبة النسا.مطبوعہ نولکشور ۱۸۸۹ء و جواب الان مسلم۱۸۷ مطبوعہ بار اول مطیع ، لیلی آرو انڈیا بخاری کتاب التفسير باب تبتغي مرضاة ازواجک قد فرض الله لكم تحلة ایمانکم
۳۹۵ حق الیقین \" التحريم :۵ ۲\" التحريم :۱1 ۴۳ المائد ہ::۶۱ 33 المزمل :۱۴ ۳۵.اقرب الموارد جلد ۲ صفیہ ۴۹ المجادلة :۵ٍ۱ ۲۸ الفتح:.۷ ۳۹ الفاتحة :۷ في الاعراف :۱۵۵ الانبيا.:۸۸ في الشوری :۳۸ هه بخاری کتاب النکاح باب مو علة الرجل ابنته لحال زوجها ۵۹ یوسف :۹ ام ابن ماجہ کتاب الدعاء باب اسم الله الا علم ۵۸ الاعراف :۱۸۱ ۲۰۰۵۹ ابن ماجہ کتاب الدعا.باب اسم الله الاعظم الى هود:۷۴ ۲۲ بخاری کتاب الاشربة باب الشرب من قدح النبي صلى الله عليه و سلم ۲۴۹۳.بخاری کتاب الطلاق باب من طلق و هل يواجه الرجل امراته با لنلا ق ۳۵ البقرة:۲۳۸ ۲۲ الاحزاب:ا۵ فروع کافی جلد ۲ صنم 21 ا کتاب النکاح باب اخر منه مطبونه نولکشور ۱۸۸۹ء ۱۸ النور:۲۷ ۲۹.مریم :۲۸، ۲۹ * مریم :۳۰ اے مریم :۳۵،۳۱ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي صلى الله عليه و سلم و وفاته \" فامر\"الفظ حاشیہ میں دیا گیا ہے.مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ ۱۳۸ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں ” قال انه يهون على انی رایت بیان کف عائشة في الجنة“.هی
۳۹۶ اک الشعراء:۴ کشف الغمة عن جميع الانمة جلد ۲ مطبوعہ مصر۱۹۵ء القمن :۱۴ طبقات ابن سعد جلد ۸ سنہ ۴۵ مطبوعہ ۳۲۱ام میں روایت کے الفاظ اس طرح ہیں” و قد رابعها في الجنة ليمون بذلك على موتی کانیاری کنیها یعنی عائشة“ ۱۰ ال عمران :۵۰ د سبا:۱۴ ۸۴ ابو داود کتاب الصوم باب الصائم يبلع الريق ۳ي بخاری کتاب الصوم باب القبة للصائم ۸۴ عون المعبود (شرح ابو داور) جلد ۲ سن ۲۸۵ مطبوع متان ۳۹۹ ام ۸۹۰۸۵ فروع کافی جلد اول کتاب الصيام باب الرجل يجامع امله في السفر مطبوع کشور ۰۴ملم فروع کان جلد اقل كتاب الصيام باب الطيب الريحان للصائم ۸۸ موطا امام مالک کتاب الصيام باب ماجا.في الرخصة في القبلة للصائم ۹۴، ۳ فروع کافی جلد اول کتاب الصيام باب الصائم يقبل او يباشر مطبوع کشور لسان العرب جلد اسم ۲۳۳، ۴۱۴ زر لفظ ”بشر» مطبوعہ دار احیاء التراث : فروع کی جلد کتاب الصيام باب في الرجل يمص الخاتم والحياة والنواة ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء
۳۹۷ ۰۴ بخاری کتاب العيدين باب الحراب والدرة يوم العيد آل البقرة:۱۵۷ تاریخ طبری جلد ۴ ص ۳۰۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ۴۸ البداية والنهاية جلد ۵۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۷ء و مشکوة كتاب الايمان الفصل الثالث • العلق : ۷ تا۱۱ الشمس :۱۰،۱۱).التين :۷ القارعة :۷ تا۱۰ ترمذی ابواب التفسير تفسير سورة المائدة آيت انما يريد الشيطن ان يوقع بينكم العداوة والبغضا......:
۳۹۹ تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۴۰۱ تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم تقار یر جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء تقرير اول (فرمودہ مورخہ ۲۷دسمبر۱۹۲۶ء) سورۃ یونس رکوع ۶کی تلاوت کے بعد فرمایا:.سب سے پہلے میں اُن دوستوں سے جو اس موقع پر تشریف لائے ہیں اور جن کو الگ ملنے کا موقع نہیں ملا السلام عليکم کہتا ہوں.اس کے بعد میں یہ بتاتا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ماتحت کل انشاء الله ایسا مضمون بیان کروں گا جو عام ضروریات سلسلہ کے علاوہ بعض ایسے مسائل پر روشنی ڈالے گا جو سلسلہ کے لئے نہایت ضروری ہیں.اور وہ نہ صرف اس زمانہ کی ضروریات کو بلکہ تمام زمانہ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستوں کے لئے نہایت مفید و بابرکت ہوگا.متفرق اُمور آج میں چند متفرق امور پر بولنا چاہتا ہوں.اور اگر ممکن ہوا اور فرصت مل گئی تو آج ہی وہ مضمون بھی بیان کرنا شروع کر دوں گا.لیکن سب سے پہلے ان متفرق امور کو بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ بھی جماعت کے اجتماع کو مدنظر رکھتے ہوۓ ضروری ہیں.آنے والوں کی کثرت الله تعالی کا فضل و احسان ہے کہ جتنے بھی ہم پھیلتے ہیں اس سے زیادہ ہی وہ اپنے فضل کو وسیع کر دیتا ہے.چونکہ پچھلے سال جلسہ گاہ کافی نہیں معلوم ہوتی تھی اس لئے اس دفعہ پچھلے سال کی نسبت ڈیڑھ ہزار فٹ کی جگہ زیادہ کی گئی تھی مگر باوجود جگہ کے زیادہ کرنے کے پھر بھی آج جگہ خالی نظر نہیں آتی.کل تک بعض دوستوں کی رائے تھی کہ شاید اس دفعہ پہلے کی نسبت کم لوگ آئے ہیں.یہ بات ہمارے لئے
۴۰۲ تعجب انگیز تھی اس لئے ہم نے اس تحقیقات کی ضرورت محسوس کی کہ لوگوں کے کم آنے کی کیا وجہ ہے.کل صبح کی نماز کے وقت منتظمین کی رائے تھی کہ گیارہ سو آدی کم آیا ہے.جو واقع میں فکر کی بات تھی کیونکہ یہ کمی خلاف معمول تھی جبکہ ہر سال پہلے سے زیادہ لوگ آتے تھے.ایک کشف آج جب صبح کی نماز پڑھ کر میں نے سلام پھیراتو معاً دائیں طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو دیکھا.اس پر میں نے سمجھا کہ ہمارا اندازہ غلط ہے اس دفعہ بھی لوگ ہمارے اندازہ سے زیادہ ہی آئیں گے.یہ ہو نہیں سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام تشریف لائیں اور پھر لوگ کم آئیں.بادشاہ کے آنے پر تو لوگ زیادہ آیا کرتے ہیں.چنانچہ آج جلسہ گاہ شہادت دے رہا ہے اس بات کی کہ باوجود جلسہ گاہ کے پہلے کی نسبت زیادہ وسیع ہونے کے اب زیادہ آدمیوں کی گنجائش نہیں.اور یہ ہمارے لئے نشان ہے کیونکہ دوسری مجالس میں دنیوی فوائد ہیں اور یہاں دنیوی نقصان ہیں.ان مجالس میں لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور یہاں آنے پر دوسرے لوگ ناراض ہوتے ہیں.ہمارا معاملہ دوسرے لوگوں سے بالکل الگ ہے.یادرفتگان قبل اس کے کہ میں اصل تقریر کو شروع کروں.میں ان دوستوں کے لئے اپنے جذبات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں جو اس سال ہم سے جدا ہو گئے ہیں اور جو سِلسِلہ کے لئے عمود تھے.جدائی ایک تلخ چیز ہے لیکن خدا کا قانون بھی ہے اس لئے ہمیں تلخ گھونٹ پینا ہی پڑتا ہے.بیشک بسا او قات جدائی رحمت کا موجب ہو جاتی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے قانون کا شکوہ نہیں کرتے لیکن یہ بھی اسی کا قانون ہے کہ مفید وجود کے اٹھ جانے سے ہر دِل غم محسوس کرتا ہے.اس دفعہ ہمارے سلسلہ میں سے چند دوست ہم سے جدا ہو گئے جن کے ساتھ بعض خصوصیات وابستہ تھیں.ان میں سے ایک ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ایسے زمانہ میں قبول کیا جبکہ چاروں طرف مخالفت زوروں پر تھی اور پھر طالب علمی کے زمانہ میں قبول کیا اور مولویوں کے گھرانہ میں قبول کیا.آپ کا ایسے خاندان کے ساتھ تعلق تھا کہ جس کا یہ فرض سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود سے دنیا کو روکیں.اور اس وقت ساری دنیا آپ کی مخالفت پر تُلی ہوئی تھی.پس ان کا ایسے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو قبول کرنا ان کی بہت بڑی سعادت پر دلالت کرتا ہے.ڈاکٹر صاحب پر مخالفت کا
۴۰۳ زمانہ ہی نہیں آیا.جب انہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود کادعویٰ سناتو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعویٰ کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بیعت کرلی.حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے.اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئنده آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں.لنگر خانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں.اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہو رہا ہے لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں.جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ قریباً ۴۵۰ روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کے لئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں.غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کے لئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اُنہیں کہنا پڑا کہ اب آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.ایک دفعہ میری صحت کمزور ہوگئی تو میں گورداسپور چلا گیا.حضرت صاحب کو خیال آیا کہ شاید بیوی کے آنے پر میری صحت ٹھیک ہو جائے تو آپ نے ڈاکٹر صاحب کو لاہور لکھ بھیجا کہ محمود احمد کی صحت اچھی نہیں اس لئے آپ لڑکی یہاں بھیج دیں.ڈاکٹر صاحب میڈیکل کالج لاہور میں پروفیسرے اور پر نسپل آپ سے کے شاکی رہتا تھا.اُن کو خیال تھا کہ پر نسپل چُھٹی تو دیگا نہیں اس لئے میں استعفی ٰدے دوں گا.اس خیال سے آپ استعفیٰ دینا چاہتے کہ آپ کو دوست نے اس سے روکا اور کہا کہ چُھٹی کیوں نہیں لیتے.انہوں نے کماحضرت صاحب نے مجھے یہ لکھا ہے اب میں کسی طرح رُک نہیں سکتا اور میں جلدی قادیان پہنچنا چاہتا ہوں.اگر پر نسپل نے چُھٹی دیدی تو خیر ورنہ اسی وقت استعفیٰ دیدوں گا تا میرے جانے میں دیر نہ لگے.پھر قادیان کی رہائش باوجود مشکلات کے اختیار کی.میں نے اس خیال سے قادیان کی رہائش سے اُن کو روکا تھا کہ یہاں گزار نہیں کر سکیں گے.چنانچہ اُنہوں نے تکلیف سے ہی گزارہ کیا
۴۰۴ لیكن قادیان کی رہائش نہ چھوڑی.دوسرے دوست چوہدری نصر اللہ خان صاحب تھے جو گو اتنے پرانے احمدی نہ تھے لیکن سلسلے کی خدمات میں بہت آگے نکل گئے تھے.میں نے جب ایک دفعہ اعلان کیا کہ سلسلہ کے لئے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے اوقات کو وقف کریں تو اِس پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے چوہدری نصر اللہ خان صاحب ہی تھے.جو اَدب اور احترام ان میں تھا وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے.کامیاب وکیل تھے، صاحب جائیداد تھے، زمین کافی تھی اس لئے یہاں آزادی سے گزارہ کرتے تھے.مگر ان کی فرمانبرداری کو دیکھا ہے کہ گزارہ لینے والوں میں بھی وہ فرمانبرداری نہیں نظر آتی.ایک دفعہ ان کے بیٹے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے انہیں جلسہ کے موقع پر کسی دوست کے ہاں اپنے ساتھ ٹھہرنے کے لئے کہاتو چوہدری صاحب نے کہامیں تو یہیں عام لوگوں میں ٹھہروں گا دَال روٹی کھاؤں گا زمین پر سوؤں گا.پہلے لوگوں نے پلاؤ کھا کھا کر ایمان خراب کر لیا.میں اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چاہتا.چنانچہ یہ عوام میں ہی ٹھہرے.ان میں بہت ہی اخلاص تھا.ایک دفعہ کوئی معاملہ میرے پاس لائے.اور کہا.یہ بات یوں ہونی چاہئے.میں نے کہا یوں نہیں ہونی چاہئے.دوسرے دوستوں نے اس پر رائے زنی کر کے کہا کہ اسے پھر دوبارہ پیش کرو تو کہا میں تو یہاں ایمان لینے آیا ہوں ایمان ضائع کرنے نہیں آیا.جب ایک دفعہ پیش کرنے سے حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ بات یوں نہیں ہونی چاہئے تو پھر میرا تمہارا کیا حق ہے اس کے خلاف بولنے کے باوجود کامیاب وکیل اور صاحب جائیداد ہونے کے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں آگئے اور سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.تو ایک پرانا خادم سلسلہ ہم سے اُٹھ گیا.آئندہ نسلوں کی یاد کے لئے اور انہیں بتانے کے لئے کہ ہم میں ایسے مخلص موجود ہیں.چند کلمات کہے ہیں تا دوسروں کو بھی تحریک ہو اور کام کر کے دکھائیں.دینی خدمات میں ان کی طرح حصہ لیں.سوامی شردھانند کا قتل اب میں ایک تازه واقعہ کی طرف اشارہ کرناچاہتا ہوں.جو دہلی میں ہوا ہے اور وہ شردھانند صاحب کا قتل ہے.شردھانند صاحب آریوں کے لیڈر تھے اور پہلے منشی رام کے نام سے مشہور نے کامیاب پلیڈر تھے.ان کی اس حد تک تعریف کرنی چاہنے کے باوجود اس کے کہ ان کامذہب جھوٹا تھا پھر بھی اس کی
۴۰۵ اشاعت میں اپنی عمر کو لگادیا جس کو غالباً رہ سچا سمجھتے تھے.ان کا قتل کرنے والا مسلمان ہے.یہ بیان کرتا ہے کہ میں نے انہیں اس لئے قتل کیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف تبلیغ کرتے تھے اور میرا مذہب یہ سکھاتا ہے کہ غازی سیدها جنت میں جاتا ہے.بقول خود کابل سے ایک پستول لایا تھا کہ اس کے ڈرایہ ایک کافر کو قتل کرکے خدا کے حضور ثواب حاصل کرے.یہ واقعہ کئی لحاظ سے اہم ہے.ایک تو شردھانند صاحب آریوں اور پولیٹیکل جماعتوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے دوسرے وہ ایک ہی ہندو تھے جن کو مسجد میں ممبر پر چڑھا کر جہاں خدا کا کلام پڑھا جاتا اور سنایا جاتا ہے مسلمانوں نے ان سے تقریر کرائی.اور جس کو اس لئے مسجد میں منبر پر کھڑا کیا گیا کہ اس کے ذریعہ سے ہندو مسلمانوں میں اتحاد ہو - پانچ سال بعد اس قوم کا فرد اسے قتل کرتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس قتل کے نتیجہ میں وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا.تو اس لحاظ سے بھی یہ واقعہ اہمیت رکھتا ہے کہ یہ ایک مذہبی فعل ہے.کسی فساد یا جھگڑے کی بناء پر نہیں بلکہ اس بناء پر کیا گیا ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے.تیسرے اس لحاظ سے یہ واقعہ اپنے اندر اہمیت رکھتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ہے.آریہ سماج کے لیڈر کے قتل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی پیشگوئی آج سے ۳۴ سال پہلے شائع کی گئی.آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا ہے جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے.پچھتا ہے کہ لیکھرام کہاں ہے.اور ایک اور شخص ہے جس کے متعلق وہ پوچھتا ہے.اس کا نام آپ کو یاد نہ رہا.تو دو شخصوں کے قتل کی پیشگوئی تھی.ان میں سے ایک لیکھرام صاحب تھے اور دوسرے کانام آپ کو اس وقت یادنہ تھا ۱؎ عجیب حکمت ہے کہ پہلے شردهانند صاحب کا نام منشی رام تھا اور مارے جانے کے وقت ان کا نام شردھانند تھا.اسی وجہ سے حضرت صاحب کو ان کانام یاد نہ رہا.پھر وہ لیکھرام کے بھی قائم مقام ہیں.چنانچہ تیج نے لکھا ہے کہ جب لیکھرام کے قتل کی خر جالندھر پہنچی تو سوامی شردھانند صاحب اپناکام چھوڑ کر لاہور آگئے اور سوامی لیکھرام صاحب کا کام انہوں نے سنبھال لیا.بہرحال آریوں میں سے بڑے پایہ کے لیڈر تھے.بہت سی باتیں ان کے قتل کی لیکھرام صاحب کے قتل سے ملتی ہیں.لیکھرام صاحب ہفتہ کے دن جمعہ وعید سے اگلے روزمارے گئے اور ہر جمعرات کو مارے گئے.جو جمعہ کے ساتھی کا دن ہے.یہاں بھی قاتل کمبل پوش تھا اور یہاں بھی کمبل پوش ہی ہے.وہاں بھی قاتل کو پہلے روکا گیا لیکن اس کو اندر جانے کی اجازت دی گئی اور
۴۰۶ یہاں بھی اسی طرح ہوا.گو یہ پیشگوئی کے مطابق ہؤا لیکن یہ صحیح نہیں کہ جو بات پیشگوئی کے مطابق ہو وہ ضرور اچھی ہوتی ہے.مثلاً یہ پیشگوئی کہ نبی کی مخالفت ہوگی.اس پر استہزاء کیا جائے گا لیکن باوجود اس کے اس کی مخالفت اور استہزاء اچھی بات نہیں.پھر یہ بھی پیشگوئی ہوتی ہے کہ فلاں شخص دین کی راہ میں مارا جائے گا.اور ایک شخص کے ناحق مارے جانے کی خبر دی جاتی ہے.بہرحال اس فعل کے اندر بعض بھیانک باتیں ہیں جن کے باعث ہم اظہار نفرت کئے بغیر نہیں رہ سکتے.یہ ایسا ظالمانہ اور ناپاک خیال ہے (کسی کو محض کافر ہونے کی وجہ سے قتل کرنا) کہ اس سے بڑھ کر ناپاک نہیں ہو سکتا.کیونکہ وہ شخص نہ صرف خود بُرا فعل کرتا ہے بلکہ مذہب کو بھی بدنام کرتا ہے.جو قوم اس لئے مارتی ہے کہ اُس کے مذہب پر لوگ حملہ کرتے ہیں وہ گویا ثابت کرتی ہے کہ اس کامذہب تلوار کا محتاج ہے اس میں خوبی نہیں.دو اپنی خوبی کے زور سے نہیں پھیل سکتا بلکہ تلوار کے زور سے پھیلتا ہے.اور ایسامذہب تو خود اس لائق ہے کہ اسے دنیا سے مٹا دیا جائے.لیکن اسلام کی اشاعت تلوار سے نہیں ہوئی ہے.جو شخص اسلام کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے.اس لئے ہم اس فن کی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نہایت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اس نے قوم اور ملک کے امن کو برباد کر دیا ہے اور دین اسلام کو بدنام کر دیا ہے.ہماری قوم نے بیڑا اٹھایا ہے کہ محبت کے ذریعہ حق کو پھیلایا جائے گا.نرمی کے ذریعہ حق کو قائم کیا جائے گا اس لئے ہمیں سب سے زیادہ اس فعل پر اظہار نفرت کرنا چاہئے.ہماری قوم ہی ہے کہ جس نے پانچ آدمی محض اس لئے دے دیئے ہیں کہ مذہب کے نام پر دنیا کے امن کو برباد نہ کیا جائے.ہمارے پانچ آدمی ۲؎ صرف اس لئے سنگسار کئے گئے کہ وہ کہتے تھے کہ مذہب کے لئے جہاد جائز نہیں.آج صرف ہم ہی یہ دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے عزیز دوستوں نے محض اسی غرض سے تکلیف کے ساتھ جان دے دی کہ مذہب کو امن سے پھیلایا جائے.کال کی سرزمین گواہ ہے.ہمارے عزیز دوستوں کی لاشیں نہیں کابل کے پتھراور ہزاروں پتھر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم ادب کے معاملے میں زبردستی اور ظلم کو جائز نہیں سمجھتے.اس واقعہ میں بھی ہم کہتے ہیں کہ قاتل اس فعل کا ذمہ دار نہیں.وہ مجبور ہے، وہ معذور ہے، اسے اس قتل پر مجبور کیا گیا کیونکہ قتل جیسے فعل کو انسانی فطرت قبول نہیں کرتی بلکہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.انسان اس قسم کے فعل کا مرتکب نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجبور نہ
۴۰۷ ہو.اسے کوئی اور طاقت مجبور نہ کرے.اس شخص کو مجبور کرنے والی وہ زبردست طاقت تھی کہ جس کا انسان مقابلہ نہیں کر سکتا.اور وہ عقیدہ کی طاقت ہے.یہ ایسی زبردست طاقت ہے کہ انسان آگ میں کود سکتا ہے.سمندر میں پڑ سکتا ہے.پہاڑ سے ٹکڑا سکتا ہے.لیکن اس طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور اس عقیدہ کے قائم کرنے والے علماء اور مسلمانوں کے لیڈر ہیں.پس شردهانند کے قاتل، خلافت کمیٹیوں اور دیوبندی علماء اور زمیندار کے مضامین ہیں کہ کافروں کا قتل جائز ہے.وہ آرام کرسیوں پر بیٹھ کر اس قسم کے مضامین لکھنے والے کہ اسلام کے لئے قتل ضروری ہے اس کے قاتل ہیں.آج کس طرح ہندوستان کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ تک شور اٹھا ہوا ہے کہ اس خون میں سختی سے کام لیا گیا.مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ فعل ایسا ہی بُرا ہے کہ جس پر آج تم اسقدر اظہار نفرت کی آواز اُٹھارہے ہو تو اس وقت تم نے کیوں نہ آواز اٹھائی جبکہ ہمارے آدمی محض اس لئے مارے گئے کہ وہ خدا کے دین پر قائم تھے اور تم سے بڑھ کر و ہ اسلام پر قائم تھے.اور آج تم ایک آریہ لیڈر کے قتل کو ظالمانہ فعل قرار دیتے ہوئے نفرت کی آواز بلند کرتے ہو یہ بتاتا ہے کہ تمہاری طرز منافقانہ طرز ہے.پس اگر واقعہ میں یہ فعل ظالمانہ فعل ہے اور اس قابل ہے کہ اس پر اظہار نفرت کیا جائے.اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو کابل کی سرزمین میں تمہاری آواز کیوں نہ اُٹھی.اگر اس وقت تم نے مبارکبادی کی تاریں دی تھیں تو آج تمہیں کس طرح لوگ سچا سمجھ سکتے ہیں.آج تم محض ہندوؤں کے ڈر سے جھوٹ بولتے ہو.در حقیقت تمہارے دل اس فعل پر خوشیاں منارہے ہیں.میں نے اس وقت تم سے اپیل پر اپیل کی تھی کہ دیکھو اگر اس وقت تم اظہار نفرت نہ کرو گے تو دنیا سے امن اٹھ جائے گا.انسانی زندگی جوذی حرمت چیز ہے خطرہ میں پڑ جائے گی لیکن تم نے بجائے اظہار نفرت کرنے کے خوشی کا اظہار کیا اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ثابت کرنا چاہا جس کا آج یہ نتیجہ دیکھ رہے ہو.ہم نے تو اپنی عزیز جانیں صرف اس لئے دی تھیں کہ آئنده دنیا میں امن قائم ہو لیکن انہوں نے سمجھا کہ ہم اپنی جانیں بچانے کے لئے کہتے ہیں.خدا تعالی جانتا ہے کہ ہماری جانیں تو اسی کے لئے ہیں اور ہم اس کی راہ میں موت سے بہتر کوئی چیز نہیں دیکھتے.اس سے بہتر کونسی موت ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اور اس کے دین کی راہ میں آئے.ہم نے اس بات کو اپنی جانیں دے کر دکھا بھی دیا.لیکن ہمیں تویہی نظارہ نظر آرہا تھا کہ آج جو ہمارے قتل کے فتوے دے رہے ہیں اور ہمارے قتل ہونے پر خوشیاں مناتے
۴۰۸ ہیں جب کہ ہم اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں.تو کل دوسروں کو تو ضرورہی قتل کر کے اسلام کو بدنام کریں گے.اور اس پر سواۓ سید رضا علی اور محمد علی صاحب کے باقی سب نے نہ صرف خود ہمارے خلاف آواز اٹھائی بلکہ ہمارے موافق آواز اُٹھانے والوں کو بھی روکا بلکہ خوشی اور مبارکبادی کی تاریں دیں.انہوں نے کہا کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کا مار دینا ہی اچھا فعل ہے.خدا نے کہا.آؤ.ہم تمہارے ہی ہاتھوں اچھا فعل کرا کے تمہارے ہی منہ سے اقرار کرائیں گے کہ یہ بُرا فعل ہے اور تمہیں جھوٹا اور منافق ثابت کریں گے.ایک لا إله إلا الله ، و الل کہنے والے مسلمان پر پتھر برسائے جاتے ہیں.ایک ایک قطرہ خون کا بہا کر ایک ایک دانت توڑا جاتا ہے.ایک ایک ہڈی توڑی جاتی ہے.یہ موذی محمد رسول اللہ کی گدی پر بیٹھنے کادعوی ٰکرنے والے مبارکبادی کی تاریں دیتے ہیں.آج ان کی شرافت اور دعویٰ اسلام کہاں سے آگیا اور اُس وقت کہاں چلا گیا تھا.اُس وقت ایک مسلمان ایک لا إله إلا الله کہنے والے کے قتل پر تو درد پیدا نہ ہؤا آج ایک ہندو لیڈر پر درد پیدا ہو رہا ہے.یہ منافقانہ درد ہے.وہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے مرتد کے لئے وہ فتویٰ دیا تھا کیونکہ کو اس سے مدت پہلے ہر کافر کے قتل کا فتویٰ دے چکے تھے.پس آج اگر کوئی شردھانند کا قاتل ہے تو وہ عبدالرشید نہیں بلکہ وہ مولوی اور لیڈر ہیں جنہوں نے قتل کے فتوے ہے اور اگر کوئی قابل سزا ہے عبدالرشید نہیں کہ وہ مولوی ہی ہیں جنہوں نے اِنسان کی جان کو بیدردی سے تلف کرنے کے فتوے دیئے.إبن سعود کی حکومت اور اس کے متعلق ہمارا رویہ اس کے بعد میں ایک سیاسی مسئلہ پر کو بیان کرنا ہوتا ہوں.وہ یہ کہ عرب اور حجاز میں جو اختلاف ہے اس کے متعلق ہماراکیا رویہ ہونا چاہئے.اس اختلاف کے باعث نہایت افسوس ناک اور عبرتناک فسادات ہوئے ہیں اس لئے اس مسئلہ کے متعلق جتنا مسلمان فکر کریں اتناہی تھوڑاہے.یہ معاملہ عجیب عجیب رنگ اختیار کر رہا ہے.پہلے جب عرب ترکوں سے علیحدہ ہوئے تو ہندوستان کے مسلمان عربوں کے خلاف ہو گئے اور اِبن سعود کے ساتھ تھے اور اس کی تائید میں تھے.جب اِبن سعود بادشاہ بنا تو اس کے خلاف ہو گئے.یہ واقعات سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت نہیں کی تھی بلکہ اسلام کی حفاظت کے لئے وہ اثنائے جنگ میں ترکوں سے علیحدہ ہو گئے.اصل بات یہ ہے کہ
۴۰۹ جب حجازیوں کو معلوم ہوا کہ اِٹلی کی حکومت مکّہ و مدینہ پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اِٹلی والے اس قسم کے لوگ ہیں کہ جب وہ حملہ کرنا چاہیں تو وہ کسی کے روکے رُکا نہیں کرتے اس لئے اُنہوں نے ترکوں کو لکھا کہ اگر آپ ان کی حفاظت اور اٹلی سے مقابلہ کی طاقت رکھتے ہیں تو آپ تیار ہو جائیں ورنہ ہمیں اسلام کی عزت اور لئے علیحدہ کردیں تا ہم خود حفاظت کا بندوبست کر لیں.ترکوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس فوجیں نہیں ہیں.تو پھر عرب ان سے علیحدہ ہو گئے اور انگریزوں سے مدد لی.میرے نزدیک انہوں نے اَرض حجاز کی حفاظت کے لئے نہایت دُور اندیشی سے کام لیا.مگر ادھر کے مسلمان اس کے مخالف ہوگئے اس وجہ سے کہ وہ انگریزوں سے کیوں میں مل گئے.ہاں انگریزوں کا عربوں سے معاہدہ تھا کہ وہ تمام عرب کو آزاد کر دیں گے.اس معاہدہ کی بناء پر جنگ کے ختم ہونے پر آزادی کا مطالبہ کی.مگر جنگ کے ختم ہونے کے بعد خود یورپ کی حکومتوں میں ملکوں کی تقسیم کے متعلق اختلاف تھا اس لئے انگریز آزادی کا فیصلہ نہ کر سکے اور عربوں کو آزادی نہ ملی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شریف حسین نے غلطی سے چیلنج دے دیا کہ اگر آزادنہ کرو گے تو میں خلافت کا دعوی ٰ کردوں گا اور تمام مسلمانوں کو تمہارے خلاف کھڑا کر دوں گا.انگریز جانتے تھے کہ مسلمان تائید تو کیا کریں گے.اس کے خلافت کے دعوی ٰکے ساتھ ہی خود اس کے مخالف ہو جائیں گے.ادھر شریف حسین ابھی عرب کو انگریزوں کے پنجہ سے نکالنے اور آزاد کرانے کی سی کوشش کر رہا تھا کہ اِبن سعود خلاف کھڑا ہو گی اب اِبن سعود کی طاقت زیادہ تھی وه آخر جیت گیا اور لڑائی میں قبے وغیرہ بھی گرائے گئے.دوسرے لوگوں نے کہا کہ اب یہ ہمارے سپرد کر دو.لیکن سعودی لوگ بھلا کہاں وہ چیز دوسروں کو دے سکتے نے جس پر ان کی طاقت خرچ ہوئی تھی.بھلاشیر کے منہ سے بھی کسی نے شکار چُھرایا ہے.شیر نے اپنے پنچوں سے شکار مارا.اب وہ گیدڑوں کے کہنے سے کہ ہم بھی تمہارے ساتھ تمہارے پیچھے پیچھے پھرتے تھے شکار چھوڑ سکتا ہے؟ تمہارے ریزولیوشنوں سے تو اِبن سعود نہیں جیتا ہے.تم نے اتنے ریزولیوشن ترکوں کی تائید میں پاس کئے تھے تو کیا اس سے و ہ جیت گئے.ہمارا رویہ عرب کے مسئلہ میں یہی ہے کہ عرب کی بہتری اور بہبودی اس میں ہے کہ وہاں مستقل حکومت ہو خواہ وہ کوئی ہو.عرب کبھی ترقی نہیں کر سکتے جب تک ان میں ایک باقاعدہ اور مستقل حکومت قائم نہ ہو.اب چونکہ ابن سعودی حاکم بن چکا ہے اور اس کو طاقت حاصل ہو چکی ہے اس لئے اب اس کی ہی حکومت کا قائم رہنا عربوں کے
۴۱۰ لئے بہتر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ سعودیوں میں سختی اور وحشت بھی ہے مگر باوجود اس کے وہ علم کے خواہشمند ہیں.ان میں علم کا چرچا ہے اس لئے ان کے حکومت پر رہنے سے ملک میں علم کا چرچا ہو جائے گا.اور عرب وحشت و جہالت سے بھی آزاد ہو جائے گا.دوسرے ان کے پاس سپاہی ہیں جو گھرسے کھاکر لڑنے والے ہیں.ملک کے لئے قربانی کرنے والے سپاہی ہیں.ایسے لوگوں کی اگر حکومت قائم رہے تو عرب بہت جلدی اعلیٰ درجہ کی ترقی پر پہنچ سکتا ہے.ہاں ایک خوف ہے کہ وہ روضہ رسول اللہ کو نہ کہیں گرا دیں.اگرچہ امید تو یہی ہے کہ خود اِبن سعود اس کی حفاظت کرے گا.مگر اس کے ساتھی شاید اسے حفاظت میں کامیاب نہ ہونے دیں.اور اس کی حفاظت کے لئے بہتر طریق یہ ہے کہ ان کو یہ یقین دلایا جائے کہ ہم آپ لوگوں کے دوست اور خیر خواہ ہیں.اور یہ اس صورت میں ہے کہ آپ روضہ کی حفاظت کریں.باقی گالیاں دینا فضول بات ہے.گالیوں سے وہ ڈر تو نہیں جائے گا.ہاں محبت اور نرمی سے اسے سمجھاسکتے ہیں.حفاظت و اشاعت اسلام شردھانند صاحب کے قتل کی نسبت میں اور بات کہنا چاہتا ہو ان کے قتل سے ہماری جماعت پر بہت ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جن قوموں میں زندگی ہوتی ہے جسم سے زندہ نہیں ہوتیں.روح سے زنده ہوتی ہیں.شردھانند کے قتل نے ہندو قوم کی رُوح کو زندہ کر دیا ہے.پشاور سے لے کر کلکتہ تک کے تمام ہندو بلا امتیاز متفق ہو گئے ہیں کہ ہم سارے مل کر شر دھانند کے کام کو جاری رکھیں گے.اپنی جانیں اور روپیہ شد ھی میں خرچ کر ڈالیں گے.اس میں تمام وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس کی موت سے پہلے اس کے مخالف تھے.اس کے کام کے مخالف تھے.اس کے مارے جانے کے ساتھ ممکن ہے کہ پچاس یا سو سال اور زندگی ہندو قوم کو مل جائے.دو مولوی جن کے فتوؤں اور تحریکوں سے یہ واقعہ ہوا ہو تو گھر میں خوش ہو رہے ہوں گے اور کیئے ہوں گے کہ بڑا اچھا کام ہوا.وہ قاتل کیا خوش قسمت اور اسلام کا خادم ہے.و ہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے فتوؤں کی بدولت اسلام کس خطرہ میں پڑ گیا ہے.اسلام کے لئے تاریک دن ہمارے سامنے آگیا ہے.اس کی مصیبت کا زمانہ شروع ہوگیا ہے اس لئے سارا بوجھ ہماری گردنوں پر آپڑا ہے.ہماری تووہی مثال ہے ؎ غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں اغیار کا بھی قضیہ چُکانا پڑے ہمیں اب اسلام پر جو حملہ ہو گا اس کا دفعیہ بھی ہمیں کرنا پڑے گا.شردھانند کا کام یہ تھا کہ ہندو مذہب کی ترقی اور اشاعت ہو.اس کے ایک وفعہ مرنے پر تمام ہندو اس کے کام کو پہلے سے بہت
۴۱۱ زیادہ زور کے ساتھ جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اے ہمارے دوستو! اور عزیزو! اس قوم کی کتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ جس کام کرنے والا کہتا ہے کہ سینکڑوں دفعہ مجھے قتل کیا گیا.جو کہتا ہے ؎ صد حسین است گریبانم اس کو کون مارنے والے تھے ؟ کیا وہی نہ تھے جنہوں نے دین اسلام کے راستہ میں روکیں پیدا کیں.اگر آج ہندو قوم باوجود ہزاروں اختلافات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک ہو جاتی ہے اس لئے کہ ایک لیڈر نے جان دی تو اے احمدیو!اگر مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے سَو دفعہ جان دی تو کیا آپ ایک ہو کر اسلام کی اشاعت کا اقرار نہ کریں گے آپ کو اس نے اسلام کے پہرے دار مقرر کیا ہے اس لئے آپ پورے زور سے اس کی اشاعت میں لگ جائیں اور اس کی حفاظت کریں.یاد رکھو اگر اس زمانہ میں مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہ کی تو اس کا وہی حال ہو گا جو سپین میں مسلمانوں کا ہوا.آج دنیا دلائل کے ساتھ فتح ہو سکتی ہے.اور دلائل کے ہتھیار حضرت موعود علیہ الصلوة والسلام نے ہمیں اتنے دیئے ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے.آج اسلام کے لئے مشکلات کے دن ہیں.کل ایک دوست نے سوال کیا تھا کہ بیعت کا کیا مقصد ہے.بیعت کا مفہوم یہی ہے کہ وفادارانہ طور پر ایک ہاتھ پر جمع ہو کر اقرار کیا جاتا ہے کہ ہم اسلام کے لئے مالوں اور جانوں کو قربان کریں گے.اور اس کام کے لئے ایک جماعت کی ضرورت ہے جو اسلام کے لئے رات دن ایک کر کے اپنے مال و جان قربان کر دے.اگر اسلام کی حفاظت اور اشاعت کوئی کام ہے تو اس کے لئے جماعت کی ضرورت ہے.اور جماعت بن نہیں سکتی جب تک کہ لوگ ایک ہاتھ پر جمع ہو کر إقرار نہ کریں.جہاں میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں وہاں غیراحمدیوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن امن کے دن نہیں ہیں.یہ زمانہ گھروں میں بیٹھنے کا زمانہ نہیں ہے.تم خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے جب تمہارے سامنے اسلام کی یہ حالت ہے.آج اللہ تعالیٰ نے ایک ہاتھ بڑھایا ہے.اگر تمہیں اسلام سے کچھ بھی محبت ہے تو آؤ آج اس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اقرار کرو.اور دوسروں کے ساتھ مل کر سب کچھ قربان کردو.
۴۱۲ دو نئے اخبار.مس رائز اور مصباح اس سال دو نئے اخبار جاری کروائے ہیں.ایک تو مستقل طور پر جاری ہو گیا ہے وہ سن رائز ہے.دوسرا اخبار شرطی طور پر جاری ہؤا ہے.میں نے کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ کوئی اخبار جاری نہ ہونے دوں گا جب تک کہ اس کے متعلق پہلے غورنہ کر لوں گا.وہ جماعت میں اشاعت ہونے والے اخباروں کے متعلق تھا.اب جس اخبار کی اجازت دی ہے وہ ایسا اخبار ہے کہ جس کی اشاعت غیر مسلموں میں ہوگی.پچھلے دنوں اَمریکہ میں پانچ ہزار پادری عیسائیت کی تبلیغ کے لئے جمع ہوئے ہیں.اس اخبار کی غرض یہ ہے کہ غیروں میں تبلیغ ہو اور اپنوں میں تبلیغ کے لئے جوش پیدا ہو.گویا یہ اخبار تبلیغ کے لئے اور تبلیغ کا جوش پیدا کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے اس لئے دوست نہ صرف خود خریدار بنیں بلکہ زیادہ تر دوسروں کی خریدار بنائیں.کیونکہ بے اخبار نہیں بلکہ اشاعت ہے.دوسرا اخبار شرطی ہے.جو عورتوں میں ترقی کی روح پیدا کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے.یاد رکھو جب تک عورتوں میں ترقی کا احساس نہیں پیدا ہو گا تب تک مرد بھی پورے طور کام نہیں کر سکتے.تبلیغ کے نتائج یہ سال تبلیغ کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کا سال ہے.اس سال اعلی ٰطبقہ کے لوگ زیادہ مقدار میں سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.داخل ہونے والے میں عموماً بڑے طبقہ کے اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں.پھر اس سال نئی جگہوں پر جماعتیں قائم ہوئی ہیں.ہزارہ میں ۱۸ معزز خوانین سے ۱۳ داخل سلسلہ ہوۓ ہیں.یہ علاقہ بالکل الگ پڑا تھا.سرحد میں بھی جماعت قائم ہوئی ہے.وہاں جماعت قائم ہونے سے افغانستان میں احمدیت پھیل سکتی ہے.کیونکہ وہ لوگ کی حکومت کے ماتحت نہیں.نہ انگریزوں کے نہ افغانستان کے ماتحت ہیں.ہیں افغانستان سے ان کے تعلقات ہیں.ہندوستان سے باہر سماٹرا میں بھی جماعت قائم ہوئی ہے.وہیں ایک معزز غيراحمدی نے اپنے پاس سے اخبار جاری کرایا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ احمدیتکے مضامین بھی نکالے جائیں.اور وہ باوجود غیراحمدی ہونے کے احمدیہ سکول جاری کرنے کا أراده رکھتے ہیں.دمشق میں جماعت قائم ہو رہی ہے.وہاں سے چندہ بھی آیا ہے.یہاں سے ایک دوست احسان حقی صاحب آئے ہوئے ہیں جو یہاں تعلیم پارہے ہیں.(اس وقت ان کو حضرت صاحب نے کھڑا کر کے ان کا تعارف کرایا).یہ معزز خاندان کے ہیں.ان کا خاندان جو ایک معزز اور
۴۱۳ بارسوخ خاندان ہے تمام کا تمام احمدی ہو گیا ہے.یہ صاحب پانچ زبانیں جانتے ہیں اور بہت اخلاص رکھتے ہیں.یہاں اُردو زبان اور دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.غرض اس سال تبلیغ کا کام اچھے پیمانہ پر ہؤ ا ہے.اب میں ایسا طریق تبلیغ نکالنے والا ہوں کہ اس سے اگلے سال بغیر زائد خرچ کے اور ممالک میں بھی جماعتیں قائم ہوں گی.مولوی ظہور حسین صاحب کی واپسی ایک اور خوش کن بات یہ ہے کہ ہمارے وہ عزیز جو دو سال ہم سے جدا رہے دو سال کی قید کے بعد چُھوٹ کر آئے ہیں.آپ لوگوں نے ان کی تقریر سنی ہو گی.کہ روسی گورنمنٹ نے ان کو کیا کیا تکالیف دیں.تاریک قید خانوں میں ان کو ڈالا گیا.میں نے گورنمنٹ انگریزی کو ان کی خبر معلوم کرنے اور واپس بلانے کے لئے لکھا.اس موقع پر میں گورنمنٹ انگریزی کا شکریہ ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا.اس نے کوشش کر کے ان کا پتہ لگایا اور واپس ہندوستان میں بھیج دیا.لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں سے ہمدردی نہیں.ہم کہتے ہیں کہ سچی بات ہے ہمیں تو اسلام سے ہمدردی ہے.اب دیکھو ایک طرف اسلام کی تبلیغ کرنے مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں پتھروں سے مارے جاتے ہیں اور ایک طرف عیسائی گورنمنٹ ہمارے گم شده آدمی کو تکلیفوں اور قید خانوں سے نکال کر ہندوستان واپس لاتی ہے حالانکہ وہ عیسائیت کے خلاف تبلیغ کرنے جاتاہے.محمد امین خاں صاحب کے متعلق بھی افواہ تھی کہ وہ قتل ہو گئے ہیں.اب ایک دوست کا خط آیا ہے کہ یہ غیر معتبرافواہ ہے.پچھلے سال جلسہ پر معاً میراحلق خراب ہو گیا.تین ماہ تک آواز بالکل خراب رہی.جس کے اثر قریباًسارا سال میری طبیعت خراب رہی دودھ کا ایک چمچہ سوڈے کے ساتھ بھی نؤہضم نہیں کر سکتا تھا.دست ہو کر نکل جاتا تھا.باوجود اِس کمزوری صحت کے خدا نے بہت سا کام کرنے کی توفیق بخشی.اس سال ترجمہ قرآن کریم بھی کر رہا ہوں.اس کا ایک حصہ اگلے سال انشاء الله مکمل ہو کر شائع ہو جائے گا.سلسلہ کی قوت و عظمت اس سال الله تعالی کے فضل سے ہمیں ایک اور عظمت اور قوت حاصل ہوئی ہے.وہ یہ کہ نمائندوں کے انتخاب میں وہ لوگ جو ہمیں کافر سمجھتے تھے اور ہماری شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی
۴۱۴ اپنی مدد کے لئے ہماری طرف رخ کیا حتی کہ ایک پِیر نے میری طرف لکھا کہ پِیروں میں سے ایک نمائندہ منتخب ہونا چاہئے.چونکہ آپ بھی پِیر ہیں اس لئے میرے حق میں ووٹ دلوائیں.میں نے اسے جواب دیا کہ پِیروں کا کام گدیوں پر ہے کونسلوں میں نہیں.آپ کو نسل سے باہر قومی مدد کر سکتے ہیں.غرض اس ذریعہ سے بھی ہماری جماعت کی خاص عظمت قائم ہوگئی ہے کیونکہ ہماری جماعت کی مد دسے ۱۶مسلمان کونسل کے ممبر منتخب ہوئے ہیں.جماعت کی طاقت کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے.میرے پاس ایک بڑا آدمی پہنچا اور اس نے کہا کہ آپ اپنی جماعت کو میرے حق میں بھی ووٹ دینے کے لئے ارشاد کریں.میں نے کہا کہ ہم چونکہ دوسرے آدمیوں کے حق میں ووٹ دینے کا وعدہ کر چکے ہیں اس لئے اب ہم آپ کے لئے ووٹ دینے سے معذور ہیں.پھر جب انہوں نے بہت اصرار کیا تو میں نے کہا آپ ہماری طرف اتنا کیوں رخ کرتے ہیں.آپ دوسرے لوگوں سے مدد لے سکتے ہیں تو وہ کہنے لگا کہ آپ کے ووٹروں میں دو باتیں ہیں جو اوروں میں نہیں اس لئے ہماری نظریں آپ کی جماعت کی طرف ہی اُٹھتی ہیں.ان میں سے ایک تو یہ بات ہے کہ آپ کے ووٹر آپ کے مشورہ سے خود میرے پاس چل کر آئیں گے لیکن دوسری جگہ تو ایک ایک ووٹر کے گھر پر ہمیں جانا پڑے گا.دوسری بات یہ ہے کہ دوسرے ووٹر اگر آٹھ ہزار بھی میرے حق میں ووٹ دینے کا وعدہ کریں تو مجھے ان پر اعتبار نہ ہو گا اگر آپ کے ووٹ اگر ۲۰۰ ہوں.تو میں اپنے لئے ۲۰۰ کے ۲۰۰ ہی ووٹ سمجھوں گا.تیسری بات یہ ہے کہ دوسرے ووٹر تو ہم سے آکر کچھ مانگتے ہیں اور ہمیں ان کو اپنے پاس سے کھانا وغیرہ دینا پڑتا ہے مگر آپ کے لوگ مفت کام کرتے ہیں.ایک نے بیان کیا کہ آپ کے آدمی صرف خود ہی ووٹر نہیں بنتے بلکہ دوسروں کو بھی ووٹر بنالیتے ہیں اور تمام علاقہ کو سنبھال لیتے ہیں.ان وجوہات کے باعث اس دفعہ بڑے بڑے آدمی خود ہمارے پاس بار بار چل کر آئے جو ہمیں بالکل حقیر خیال کرتے تھے.اور واقعہ بھی ایسا ہی ہوا کہ سوائے ایک ممبر کے باقی سارے کے سارے کہ جن کی ہم نے تائید کی انتخاب میں کامیاب ہو گئے.یہ اتحاد اور اخلاص کی طاقت ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ جس اتحاد اور اخلاص سے ہم نے موجودہ الیکشن میں کام کیا ہے.اگر آئندہ بھی اسی طرح کام کیا تو تین بار الیکشنوں میں تقریباً تمام بڑے بڑے آدمیوں کی توجہ ہماری طرف ہوگی اور اس کے نتیجہ میں کئی فوائد بھی ہمیں حاصل ہونے کی اُمید ہے.چنانچہ پچھلے دنوں سردار جوگندر سنگھ صاحب وزیر زراعت پنجاب میں آئے تووہ اس اہمیت کی بناء پر ہمارے ہاں ہی ٹھہر ے اور مجھ سے بھی ملے.ملاقات کے دوران میں بٹالہ والی سڑک کا بھی ذکر آگیاجس پر
۴۱۵ انہوں نے فرمایا کہ اس محکمہ کا انچارج میں ہی ہوں آپ ہدایت فرمائیں کہ آپ کے سیکرٹری مجھے خط لکھ دیں تاکہ میں محکمہ کو توجہ دلا سکوں.اور اب ان کا خط آیا ہے.تو انہوں نے کہا پہلے تویہ منظور شدہ تھا کہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے پاس روپیہ جمع ہو گا تو اس سے سڑک بنائی جائے گی لیکن اب اُمید ہے کہ گورنمنٹ کے خرچ سے سڑک پختہ بنائی جائے.پھر ہمیں یہ بھی امید ہے کہ الیکشن میں ہماری مدد کا کم از کم یہ نتیجہ تو ضرور ہو گا کہ ممبر ہماری مخالفت نہیں کریں گے.چنانچہ شیخ عبد القادر صاحب بیرسٹر ایٹ لاء نے کہا کہ لوگوں نے الیکشن میں میری اس لئے مخالفت کی تھی کہ میں نے احمدیوں کی مسجد کا افتتاح کیا.مگر میں احمدی جماعت کا بہرحال مشکور ہوں کیونکہ اس نے مجھے ایسے کام کرنے کے موقع دیا کہ جو قیامت تک تاریخوں میں میری عزت کا باعث ر ہے گا اور آئندہ بھی میں جماعت احمدیہ کی ہر خدمت کے لئے تیار ہوں.مسجد لندن کے متعلق پانچ سال ہوئے میں نے تحریک کی تھی.مسجد برلن کا چندہ بھی اس میں شامل کیا گیا.اب میں عورتوں میں تحریک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ یا توده مسجد لندن اپنے اس روپیہ کے معاوضہ میں لے لیں.اور یا اپنا روپیہ بطور قرضہ ہمارے پاس رہنے دیں.تاہم اسے سلسلہ کی اور ضروریات کے لئے کام میں لے آئیں.ان دو باتوں میں سے جو بات وہ پسند کریں اس کے لئے ہم تیار ہیں.افتتاح مسجد کی اہمیت افتتاح مسجد کا واقعہ اپنے اندر اس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اب دنیا کی کوئی تاریخ اس کو نہیں مٹا سکتی اور معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقدر ہو چکا ہے کہ یہ مسجد ہمیشہ قائم رہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی تعمیر کے لئے اور اس کی اس شُہرت کے لئے ایسے سامان کر دیئے کہ جن سے اس کی اہمیت اس قدر بڑھ رہی ہے کہ حیرانی ہی ہوتی ہے.پہلے اللہ تعالیٰ نے اسے میرے ولایت جانے تک روکے رکھا.میرے ہاں جانے سے سلسلہ کی یکدم حیرت انگیز شہرت ہوگئی کیونکہ ولایت کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ ایک نبی کا خلیفہ وہاں پہنچتا ہے اس لئے ہر اخبار میں ہمارا ذکر متواتر ہوتا رہا اور کثرت کے ساتھ فٹوٹو چھپتے رہے حتی کہ ایک جرمن اخبار کے پورے صفحہ میں میرا فوٹو شائع ہوا.اسی طرح امریکہ میں بھی ہمارے متعلق خبریں شائع ہوئیں.چونکہ میرے وہاں جانے پر میرے ہاتھ سے مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی اس لئے پہلے بنیاد کے موقع پر بڑے بڑے وزیر ولارڈ آئے.ان وجوہات کے باعث اب لوگوں کو یہ انتظار کی ہوئی تھی کہ کب یہ مسجد مکمل ہو تو ہم دیکھیں اور جب مکمل ہونے لگی تو شُہرت
۴۱۶ کے اور کئی ایک قدرتی سامان پیدا ہونے شروع ہو گئے.مثلاً ایک یہ بات شُہرت کا باعث بن گئی کہ یہ تحریک کی گئی کہ ابن سعود کے لڑکے کو بلایا جائے.چنانچہ ابن سعود نے بھی اس تحریک کو پسند کیا اور اپنے لڑکے امیر فیصل کو جو مکہ کا گور نر ہے پھیجنے کا وعدہ کیا.اب امیر فیصل کے خاص افتتاح مسجد کے لئے آنے کی خبرے اور بھی شہرت ہونے لگی.جب امیر فیصل ولایت پہنچاتو بیان کیا جاتا ہے کہ ہندوستان سے مولویوں نے تاریں دیں کہ یہ کیا کام کرنے لگے ہو.ہماری کیوں ناک کاٹنے لگے ہو.تمھاری اس حرکت سے ہماری ناکیں کٹ جائیں گی.اسی طرح مصر سے بھی ہمارے خلاف آوازیں اُٹھیں.یہ تاریں گئیں اور اسے روک دیا گیا.اب اس کے روکنے پر سارے برطانیہ میں اور بھی شور پڑ گیا کہ روکنے کی کیا وجہ ہوئی.یہ کیا بات ہے کہ امیر فیصل مکّہ سے چل کر جس کام کے لئے ولایت پہنچتا ہے اس کام سے اسے روکا جاتا ہے کوئی خاص راز ہو گا.ولایت کے لوگ راز کے پیچھے بہت پڑ جاتے ہیں.راز کو معلوم کرنا چاہتے ہیں.مضمون پر مضمون نکلنے لگے کہ اس میں راز کیا ہے.ان مضامین کا ہیڈ نگ ہی یہ ہوتا تھا کہ راز کیا ہے جب کئی روز تک پڑے زور سے آر ٹیکل پر آرٹیکل نکلے کہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے امیر فیصل یہاں پہنچ کر افتتاح مسجد سے رک گیا ہے.تو وہاں لوگوں میں اور بھی ہیجان پیدا ہوا کہ چلو اس مسجد کو تو چل کر دیکھیں گے جس کے افتتاح کے لئے امیر فیصل مکّہ سے یہاں پہنچا اور یہاں آکر اس کے افتتاح سے رک گیا.دراصل یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اس منشاء کے ماتحت ہوا کہ ہمارے سلسلہ کی شہرت بھی ہو جائے اور پھر احسان بھی کسی کا نہ ہو.کوئی کہہ سکتا ہے کے افتتاح تو پھر بھی ایک فیراحمدی کے ہاتھ سے ہوا.ہم کہتے ہیں کہ ہم نے کب اسلام کو تمہاری طرح تنگ ظرف مانا ہے.ہمارے نزدیک اسلام ایسا تنگ ظرف نہیں.عجیب بات ہے کہ رسول الله ﷺجب عیسائیوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں تو ان پر اعتراض نہیں کرتے اور ہمارے صرف چابی دینے پر اعتراض کرتے ہو.پھر وہ مسجد اتنی بابرکت ہے کہ اس کے افتتاح کے ساتھ ہی اس کی برکات ظاہر ہونی شروع ہو گئیں.افتتاح ہی کے موقع پر چار انگریز مسلمان ہو گئے.پھرافتتاح پر ابھی دو ہفتہ ہی گزرے کہ ایک اعلیٰ درجہ کا تعلیم یافتہ نوجوان انگریز مسلمان ہو گیا.جس نے اسلام کی تائید میں ایک نہایت لطيف مضمون شائع کیا ہے اسی وجہ سے اس کے باپ نے اس پر تشدد شروع کر دیا جو اس بات کی علامت ہے کہ اب وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام تو واقعہ میں پھیلنے لگا ہے.پہلے ہمارے کام کو ایک کھیل سمجھتے تھے لیکن اب محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام پھیل رہا ہے.وہاں کا ایک اخبار
۴۱۷ لکھتا ہے کہ ہزاروں تعلیم یافتہ لوگوں کے دلوں میں محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمیں عیسائیت کو چھوڑنا پڑے گا.اور پادریوں نے بھی ہمارے خلاف شور مچانا شروع کیا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسلام کو زبردست چیز خیال کرنے لگے ہیں.کیونکہ مقابلہ کا خیال شیر کے مقابل ہی پیدا ہوتا ہے.مٹی سے بنے ہوئے شیر کے لئے نہیں پیدا ہوتا.ہمیشہ شیر سے ہی کوئی ڈرا کرتا ہے.آج ایک اور خوشخبری آپ کو سناتا ہوں.آج ہی تار آیا ہے کہ آسٹرین حکومت کا وزیر احمدی ہو گیا ہے.اس نے اہمیت کا اعلان کر دیا ہے.اور چھ اور انگریزوں نے اس ہفتہ میں احمدیت کا اعلان کیا ہے.غرض اس افتتاح کے بعد ۱۳ بڑے آدمی سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں یا گویا تیره حواری ملے ہیں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ پہلے میت کے ساتھ جو کچھ ہوا یہاں اس کے اُلٹ ہو گا اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ان تیرہ حواریوں میں یہودا اسکریو طی انشاء الله کوئی نہیں ہو گا.اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی بشارت دی تھی کہ میرے ولایت جانے سے اسلام کی فتوحات شروع ہوں گی.بعض دوستوں نے کہا بھی کہ میرے وہاں جانے سے کیا ہوا.حالانکہ اول تو جماعت نے ہی مجھے وہاں بھیجا تھا میں خود اپنے ارادہ سے ہی نہیں گیا تھا بلکہ مجھے تو خواب میں بعض مصائب و مشکلات بھی دکھائے گئے جو میری غیر حاضری میں ہمارے خاندان میں پیدا ہونے والے تھے.لیکن باوجود اس کے جماعت کی کثرت رائے دیکھ کر میں وہاں گیا اور پھر میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھاکہ جماعت یہ خیال نہ کرلے کہ میرے وہاں جاتے ہی احمدی ہونا شروع ہو جائیں گے.میں تو وہاں تبلیغ کے لئے حالات دیکھنے جاتا ہوں.پھر بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ میرے وہاں جانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ وہ فتوحات جو میرے وہاں جانے کے نتیجہ میں اب شروع ہوئی ہیں وہ کسی اور شخص کی طرف منسوب نہ ہوں اور اسلام پر کسی خاص شخص کا احسان نہ ہو بلکہ براہ راست حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب ہوں.پھر میں کہتا ہوں جب نبی بھی کوئی ایسا نہیں گزرا جس نے ایک دن میں فتح حاصل کی ہو تو ایک خلیفہ کو کس طرح ایک دن میں فوجات مل سکتی ہیں.لیکن بہرحال اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ ایسی ترقی کر رہا ہے کہ ایک انگریز لکھتا ہے کہ اس کی ترقی کی نظیر پچھلی صدیوں کے کسی سلسلہ میں نظر نہیں آتی.جماعت کو نصائح اب میں دوستوں کو چند نصائح کرتا ہوں.جب جماعتیں بڑھا کرتی ہیں تو حاسد لوگ جماعت کی ترقی کو دیکھ نہیں سکتے اور بعض لوگ کمزور دل
۴۱۸ ہوتے ہیں.جب تک تو ان کا غیروں سے مقابلہ رہتا ہے تب تک ان میں جرأت رہتی ہے جب غیروں سے مقابلہ جاتا رہے تو اپنوں کے ہی گریبان پکڑنے لگتے ہیں.میں جماعت کے بعض افراد کے اخلاص میں کمزوریاں دیکھتا ہوں.یہ کمزوری علاج چاہتی ہے.یہ کمی اور کمزوری آگ کی مانند ہوتی ہے.آگ ایک جگہ پر نہیں رہا کرتی تو ارد گرد بھی پھیلتی ہے اس لئے دوست خاص طور پر روحانیت کی فکر کریں.انہوں نے اپنی منزل مقصود کو پایا نہیں بلکہ ابھی تو وہ ابتدائی حالت میں ہیں.دیکھو اسلام چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے اس لئے کام کرنے کی ابھی بہت ضرورت ہے اور کام کے لئے اخلاص، حسن ظنی اور قدر کی ضرورت ہوتی ہے.بغیر ان باتوں کے کام نہیں ہوا کرتا.بدظنی کو ہی دیکھ لو اس مرض سے کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.کہتے ہیں ایک غلام تھا.جس کو اس کا آقا بہت کم قیمت پر فروخت کر رہا تھا.خریدارنے آقا سے پوچھا اس کو کیا کیا ہنر آتے ہیں.کہابہت آتے ہیں.خریدار نے پوچھا.پھر کیوں اسے کم قیمت پر فروخت کرنا چاہتے ہیں.لیکن غلام نے کہا کہ مجھ میں بہت خوبیاں ہیں صرف ایک نقص ہے کہ میں ایک جھوٹ بول لیا کرتا ہوں.خریدار نے کہا.معمولی بات ہے اور اسے خرید لیا.اس سے کام کراتا رہا.ایک دن غلام روتا آقا کے پاس گیا اور کہا اور مجھ میں ہزار عیب بھی کیوں نہ ہوں.لیکن میں اپنے آقا بے وفا نہیں ہوں.آقا کی بے وفائی کبھی نہیں کر سکتا.میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کی بیوی بے وفا ہے.اس کا ایک شخص سے ناجائز تعلق ہے.اور میں نے خود غیر سے ناجائز تعلق رکھتے ہوئے دیکھا ہے.اور اب اس کے دوست نے اسے یہ پٹی پڑھائی ہے کہ یہ آپ کو قتل کردے تاکہ وہ آرام سے اپنے تعلق کو قائم رکھ سکیں.ایک دو دفعہ تو آقا نے کہا کہ میں یہ یقین نہیں کر سکتا میری بیوی پاک دامن ہے.مگر یہ سن کر غلام نے زور زور سے رونا اور چلانا شروع کر دیا اور کہا کہ غلام کا کام صرف عرض کرنا ہے باقی حضور مالک ہیں.تب تواس آقا کو بھی فکر ہوئی.اس نے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ لگا.اس نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ وہ آپ کی بیوی کو اُسترادے کر کہہ رہا تھا کہ جب تمہارا خاوند سو رہا ہو تو اس کے گلے پر یہ اُسترا پھیر دینا اگر حضور باور نہ کریں تو اس کا تجربہ کر لیں.مگر رات کو سوئیں نہیں خبردار ہو کر رہیں.اب تو آقا کو فکر ہوئی اور وہ اس امتحان کے لئے تیار ہو گیا.اور پھر اس کے بعد اسی طرح وہ غلام آقا کی بیوی کے پاس گیا اور کہا کہ مجھ میں بہت عیب ہیں.مگر آپ کا بے وفا نہیں.میں نے دیکھا ہے کہ آپ کا خاوند کسی غیر عورت ناجائز تعلق رکھتا ہے.اور وہ.تمہیں قتل کر دینا چاہتا ہے.میں نے آپ کو اطلاع دے دی ہے.اس نے بھی اولا ًتردید کی.مگر
۴۱۹ آخر وہ بھی اس وہم میں مبتلاء ہو گئی اور اس غلام سے کہنے لگی.اس کا علاج کیا ہے.اس نے کہا کہ علاج یہ ہے کہ آپ کے خاوند کے ڈاڑھی کے دو بال ہوں جن سے تعویز بنایا جاوے.تب اس کایہ خیال جاسکتا ہے.اس نے کہا کہ یہ کیونکر ممکن ہے.غلام نے کہا کہ یہ تو بہت آسان ہے جب وہ سو رہا ہو تو استرے سے دو بال اتار لیں.عورت اس کام کے لئے تیار ہوگئی.خاوند گھر میں آیا.رات کو عمداً ایسے طور پر لیٹ گیا کہ گویا وہ سور رہا ہے.اب اس کی بیوی نے اُسترالیا اور خوب تیز کیا.اس کا گردن کے پاس لانا تھا کہ خاوند نے اسی اُسترے سے بیوی کو غضب میں آکر قتل کر دیا.ن خیر جب دہ پکڑا گیا اور اسے قتل کا سبب پوچھا گیا تو اس نے وہی ظنّی سبب بتایا جو غلام سے سنا ہوا تھا.تحقیقات پر عورت بری ثابت ہوئی.تب آقا نے غلام سے کہاتُو نے یہ کیا حرکت کی.غلام نے عرض کی حضور سے میں نے تو پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ سال میں ایک جھوٹ بولا کرتا ہوں اور وہ یہی جھوٹ تھا.اب دیکھو ظنّ کی بناء پر کیا کچھ ہوا.کوئی قوم جیت نہیں سکتی جس میں بد ظنّی کامادہ ہو کیونکہ اس صورت میں کام ہونا محال ہوتا ہے.ایک قصہ مشہور ہے.ایک دفعہ نابینا اور سوجاکھا دونوں کو اکٹھا کھانا کھانے کا موقع پیش آگیا نابینا حریص تھا پہلے تو اس نے جلدی جلدی کھانا شروع کردیا.پھر اسے خیال ہوا کہ یہ سوجا کھا تو مجھے دیکھ کر جلدی جلدی کھارہا ہو گا تو دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.پھر اس پر بھی نہ ہو سکا اس نے خیال کیا کہ ممکن ہے کہ سوجا کھا بھی میری طرح دونوں ہاتھوں سے کھا رہا ہو تو اس نے کپڑے میں کھانا ڈالنا شروع کیا.مگر اس پر بھی اکتفا نہ کر سکا.یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ بھی کپڑے میں ڈال لے گا کھانے کا برتن اٹھالیا اور کہاتم جاؤ تم تو ساراکھانا ہی کھا جاؤ گے.سوجا کھا بیٹھا دیکھ رہا تھا.ہنسنے لگا کہ یہ کہاں تک پہنچا ہے تو بد ظني بہت انتہاء پر لے جاتی ہے.ناظرانِ سلسلہ کی قربانیاں میں مثال کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ ہم سے بعض نے کس طرح بد ظنی سے کام نیا ہے.ایک دوست نے مجھے لکھا کہ قادیان میں بڑے بڑے کارکنوں پر اتناروپیہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.آدھی تنخواہ پر ان سے زیادہ لا ئق آدمی مل سکتے ہیں.اب دیکھو یہ ایک ظن ہے جو بہت دور تک پہنچتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ آدمیوں کی لیاقتیں محض ڈگریوں پر نہیں ہوتیں.کاموں میں محض ڈگریوں کو ہی نہیں مد نظر رکھا جاتا.بعض وقت تجربہ کو دیکھا جاتا ہے.بعض دفعہ ذہن رسا دیکھا جاتا ہے.محض ڈگری کوئی چیز نہیں.خاندانی وجاہت بھی ایک چیز ہے.ذہن رسا بھی ایک چیزہے.پھر سوسائٹی بھی
۴۲۰ ایک چیز ہے.خاندانی وجاہت کی وجہ سے ایک شخص کو معمولی لیاقت سے وہ عہده مل جاتا ہے جو دوسرے کو اعلی ٰلیاقت پر نہیں ملتا اسی طرح ذہن کی وجہ سے ایک انٹرنس پاس کو تین سو ملتے ہیں اور دوسرے بی.اے کو اتنے نہیں ملتے.یا ایک تجربہ کار انٹرنس پاس کو تین سو ملتے ہیں اور دو سرے بی.اے کو ساٹھ ملتے ہیں.تو دنیا میں خالی ڈگریوں سے کام نہیں ہوا کرتا بلکہ کام کے لئے اور باتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے.مثلاً چوہدری فتح محمد صاحب ایم.اے ہیں.آج سے۱۴ سال پہلے انہوں نے ایم.اے پاس کیا.اس وقت وہ ولایت تبلیغ کے لئے گئے.اور پہلے بغیر ایک پیسہ تک انجمن سے لینے کے وہاں کام کیا.وہ اس رنگ میں گئے تھے کہ خواجہ صاحب صرف ان کو روٹی دے دیا کریں گے.ایک ایم اے پاس کے لئے یہ کتنی بڑی قربانی ہے.انہیں دنوں میں مسٹر والس پرنسپل نے جو ان کو پڑھاتا رہا متواتر یہاں خط لکھے کہ میں نے چوہدری فتح محمد کے لئے کالج میں ایک پروفیسر کی جگہ خالی کرائی ہے جس طرح بھی ہو انہیں منگوا دو.اگر وہ اس وقت اس آسامی پر لگ جاتے تو آج سے چودہ سال پہلے وہ ڈھائی سو لے سکتے تھے اور یہاں چودہ سال کی سروس کے بعد آج ایک سو ستر ملتے ہیں.ہم کہتے ہیں.چلو ہم تمہارے کہنے سے آج ہی ان کو علیحدہ کر دیتے ہیں.تم ہمیں انہیں کی طرز کا کوئی آدمی لا دو.جو ذہن کے لحاظ سے، لیاقت کے لحاظ سے چوہدری صاحب سے زیادہ تو کیا ان جیسا بھی ہو.چودہ سال اس نے ملازمت کی ہو ڈھائی سو روپیہ آج سے چودہ سال پہلے تنخواہ لیتا ہو اور یہ خصوصیات بھی اس میں ہوں تو ہم بڑی خوشی سے رکھنے کے لئے تیار ہیں.پھر مفتی محمد صادق صاحب ہیں.جو جس سروس کو چھوڑ کر آۓ اس وقت ان کے ماتحت آج ۵۰۰لے رہے ہیں.اگر یہ اس سروس پر رہتے تو کم از کم آج ۸۰۰ لے لیتے.ہم ان کو علیحدہ کرنے کو تیار ہیں مگر ہمیں تم ان کی طرح کا وہ آدمی دے دو جو گورنمنٹ سے ۸۰۰ تنخواہ بھی لے سکتا ہو.اور پھر اس میں مفتی صاحب کی خصوصیات بھی ہوں.مثلا ًالسابقون الاولون میں سے ہو.حضرت مسیح موعود کی صُحبت سے انہیں کی طرح فیض یافتہ ہو.اور ان کی سی لیاقت اور قابلیت رکھتا ہو.ان کا سا تجربہ کار ہو.تو آج اگر ان خصوصیات کا آدمی ہمیں ۲۰۰ پر بھی مل جائے تو ہم غنیمت سمجھتے ہیں.پھر اسحاق صاحب ہیں جو ناظرضیافت ہیں.وہ لنگر کا کام اور دینی خدمات بغیر تنخواہ کے سرانجام دیتے ہیں.مدرسہ احمدیہ میں وہ مدّرس ہیں اور دوسرے مدرّسوں کی طرح ان کو بھی
۴۲۱ تنخواہ ملتی ہے.وہ اسی تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں اور باقی فرائض کو حسبة لله سرانجام دیتے ہیں.پھر مولوی شیر علی صاحب ہیں.ان کو اب ۲۰۰ لیتے ہیں.ایک تو ان کی انگریزی کی قابلیت وہ چیز ہے جو اوروں میں نہیں.اس کے علاوہ یہ قابلیت ان میں ہے کہ یہ مضمون پر حاوی ہو جاتے ہیں.ان کے مضمون پڑھنے والے دوستوں نے دیکھا ہو گا کہ وہ کس طرح مضمون کی باریکیوں تک پہنچتے ہیں اور کوئی پہلو اس کا باقی نہیں چھوڑتے.پھر جب وہ یہاں ملازم ہوئے ہیں.اس وقت ان کا نام منصفی (سب ججی) میں جا چکا تھا اور یہاں وہ ۲۰ روپے پر لگے تھے.میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے ہیں.وہ ۱۴۰ لیتے ہیں.ہمارا خاندان خاندانی حیثیت سے بھی کوئی معمولی خاندان نہیں.ہمارے خاندان نے جو گورنمنٹ کی خدمات کی ہیں ان کے لحاظ سے وہ اعلی ٰسے اعلیٰ عہده پر لگ سکتے ہیں.ان کی لیاقت کا یہ حال ہے کہ انہوں نے جب میرے مضمون کو جو بذریعہ تار افتتاح مسجد پر لندن بھیجا گیا تھا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا.اس مضمون کی انگریزی کے لحاظ سے ولایت کے ایک بڑے آدمی نے لکھا کہ وہ انگریزی کے لحاظ سے کم از کم خان بہادر عبد القادر صاحب کی لیاقت کا مضمون تھا.اب ان کی قابلیت کا آدمی ان کے ذہن کا آدمی اگر ہمیں مل جائے تو ہم بھی خوشی سے لینے کو تیار ہیں.پھر میاں شریف احمد صاحب ہیں.ان کو ۱۰۰ روپیہ ماہوار ملتا ہے.آج سے آٹھ سال پہلے ان کو ۱۰۰ روپیہ گورنمنٹ نے دینا منظور کیا تھا.گورنمنٹ نے ان کو فوج میں لیفٹیننٹ کے عہده پر رکھا.کمانڈنگ آفیسر انہیں واپس نہیں بھیجتا تھا.آخر میں نے کمانڈر انچیف کو بار بار لکھ کر اس کے ذریعہ آرڈر بھجوا کر واپس بلایا.مولوی عبد الغنی صاحب ناظر بیت المال بی.ایس.سی ہیں.ان کی چودہ سال کی سروس ہے.مدت دراز تک وہ ساٹھ روپے ہی لیتے رہے ہیں.اب جب کہ ناظروں کا گریڈ مقرر ہوا.تو مناسب سمجھا گیا کہ ان کی تنخواہ میں بھی ترقی کی جاوے.چنانچہ کچھ عرصہ سے ان کی تنخواہ زیادہ کی گئی ہے.جس زمانے میں وہ یہاں آئے ہیں.اس زمانہ میں بی.ایس.سی فیل کی وہ تنخواہ تھی جو آج ایم.اے کی ہے.اب تم بتاؤ کہ کیا کوئی دنیا میں ایسی شریف اور مہذب گورنمنٹ ہے جو یہ برداشت کرے کہ وہ پندرہ پندرہ سال کے تجربہ کاروں کو نکال کر نئےآدمی رکھ لے.یہ تو اندھی نگری چوپٹ راجا‘‘ والا معاملہ ہو گا.میں ان اپنے کارکن دوستوں کو کہہ سکتا ہوں کہ تم آج ہی قادیان کو چھوڑ دو اور ان ملازمتوں کو چھوڑ دو اور وہ آج ہی شام سے پہلے پہلے استعفی ٰلے آئیں
۴۲۲ گے.جنہوں نے اتنے سال قربانیاں کیں وہ یہ قربانی بھی کر لیں گے.لیکن سوال یہ ہے کہ پہلے مجھے ان جیسے آدمی لادو.ان پہلے آدمیوں کو تو یہاں سے جاتے ہی یہاں کی نسبت باہراچھی جگہیں مل جائیں گی.چنانچہ پچھلے دنوں یہاں کے ایک کارکن کو جنہیں تخفیف میں آنا پڑا.اور معمولی تنخواہ لے رہے تھے باہر جاتے ہی ۱۲۰ مل گئے.اور پھر اس محکمہ میں جس میں وہ ملازم ہیں ترقی کا بھی کافی میدان ہے.لیکن ہمارا یہ مطلب ہے کہ ہمیں تم ان کی بجائے ان کی خصوصیات رکھنے والے آدمی کہاں سے لا دو گے.جنہوں نے سلسلہ کے کاموں میں عمریں صرف کر دیں.خدارا غور کروان کار کن دوستوں کے دلوں پر کیا اثر پڑے گا جب وہ یہ سنیں گے.کہ ہمارے متعلق لوگوں کے یہ خیالات ہیں.حالانکہ اگر آپ ان کو اپنے سروں پر اٹھاتے تو بھی ان کی خدمات کا بدلہ نہیں دے سکتے تھے.پھر ان باتوں کا نقصان ان کارکنوں کو تو نہیں پہنچے گا.ان کو تو بہتر سے بہتر ملازمتیں مل جائیں گی.ان باتوں سےسلسلہ کو نقصان پہنچے گا.ہمارے بعض دوست تو یہ شکایت کرتے ہیں.اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم قحط الرجال کے شاکی ہیں.یہ ایک شکایت میں نے مثالاً بیان کی ہے.ورنہ اور کئی اس قسم کی شکایات ہیں جو محض بد ظنی سے پیدا ہوئی ہیں اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے والی ہیں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس قسم کی باتوں سے پرہیز کرو اور سلسلہ میں کام کرنے والوں کی قدر کریں.دیکھو جب یہ بات پھیلے گی تو ناواقف تو یہی سمجھیں گے کہ یہاں روپیہ برباد ہو رہا ہے.نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ چُندوں میں سُست ہوں گے.اور اس سے چوہدری صاحب یا مفتی صاحب کو نقصان نہیں پہنچے گا.بلکہ سلسلہ کو پہنچے گا.سلسلہ کے کام درہم برہم ہو جائیں گے.پس اعتراض کرنے والا اس قسم کے کارکنوں پر اعتراض نہیں کرتا.بلکہ وہ اس جڑ پر تبر رکھتا ہے.جس کی حفاظت کے لئے خود خدا تعالی کھڑاہے.اس لئے میں ڈرتاہوں کہ ایسے لوگوں کے ایمان نہ ضائع ہو جائیں.بچوں کی تربیت اس کے بعد میں اور ضروری بات کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں.وہ یہ کہ بچوں کی تربیت کی بہت ضرورت ہے.احباب جلسہ پرتو بچوں کو ساتھ لے آتے ہیں.لیکن صرف اتنی تربیت ہی کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اول تویہاں بچوں کو بھیجیں اور اگر استطاعت نہ ہو تو پھر اپنے ہاں ہی بچوں کی خصوصیت سے دینی تربیت کی طرف توجہ کریں.
۴۲۳ انجمن انصار الله یہاں میں نے ایک انجمن بچوں کی بنائی ہے.جس کانام انصار اللہ رکھا اس میں میں خود ان کو ہدایات دیتا ہوں.چنانچہ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے لڑکے اب تہجد پڑھنے لگے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ تمام بیرونی جماعتوں میں بھی اس قسم کی انجمنیں بنائی جائیں جن میں بچوں کو اخلاقی تربیت کے سبق سکھائے جائیں تاکہ وہ آئندہ قوم کے بہترین افراد ثابت ہو سکیں.مگر بہتر طریق یہی ہے کہ بچوں کو یہاں بھیجیں کیونکہ یہاں میں خود تربیت کے متعلق سبق دیتا ہوں.ان کی تربیت کرتا ہوں.تھوڑے دنوں میں ہی تربیت اعلی ٰ رنگ میں ہو گئی ہے.دوست بچوں کو قادیان بھیجیں.اگر بعض نہیں بھیج سکتے تو اپنے پاس ہی ان کی تربیت کریں.خدا کا قرب حاصل کرنے کیلئے بڑی قربانیوں کی ضرورت ترقیات لیکچر سننے یا لیکچر دینے سے نہیں ہوا کرتی.ترقیات کام کرنے سے ہوا کرتی ہیں.سلسلہ میں داخل ہونے کی غرض محض لیکچر نہیں بلکہ دین کی خدمت اور قرب الہٰی کا حاصل کرنا ہے.دوست دین کی خدمت کریں.کچھ کام کریں اور قرب الہٰی کو حاصل کریں اور قرب الہٰی قربانیوں سے حاصل ہوتاہے.بڑے کاموں کے لئے بڑی اور لمبی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.آپ لوگوں نے خدا کے فضلوں کا وارث ہونا ہے اور کیا خدا کے فضلوں کا وارث ہونا اس کا مقرب ہونا کوئی معمولی بات ہے.اتنے بڑے فضلوں کے تم معمولی کاموں سے تو وارث نہیں ہو سکتے بلکہ بڑے فضلوں کے لئے بڑی اور لمبے عرصہ تک قربانیاں کرنی پڑیں گی.اس وقت عام طور پر بھی قربانی چند دن چندہ دینا سمجھی جاتی ہے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی بادشاہوں کا قرب حاصل کرنے کے لئے لوگ ساری ساری عمرمیں خدمت میں خرچ کر دیتے ہیں.معمولی خطاب لینے کے لئے تمام عمر بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.پھر وہ خطاب بھی کوئی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا گورنمنٹ انہیں خان بہادر کا خطاب دیتی ہے.کیا واقعہ میں وه بہادر ہو جاتا ہے.وہ تو بعض وقت نہایت بُزدل ہوتا ہے.اس خظاب سے بنتا کچھ نہیں.لیکن خدا تعالی جس کو جوخطاب دیتا ہے اس کے اندر واقعہ میں یہ بات بھی پیدا کرتا ہے.اسے واقعہ میں انعام دیتاہے خالی خطاب ہی نہیں دے چھوڑتا.حضرت مسیح موعود ؑکے زمانہ میں ایک شخص آیا.اس نے کہا مجھے بڑے الہام ہوتے ہیں.حرت صاحب نے اسے فرمایا کہ جب تجھے کہاجاتاہے کہ تُو محمد ہےیا
۴۲۴ ایراہیم یا موسیٰ ہے.تو کیا کچھ ملتا بھی ہے یا نہیں؟ جو (سیدنا) محمدﷺ پر انعام ہوئے وہ تمہیں بھی ملتے ہیں یا نہیں؟ اس نے کہا کہ ملتا تو کچھ نہیں.تو حضرت صاحب نے فرمایا.یہ پھر خدا کی طرف سے الہام نہیں یہ کسی اور ہستی کی طرف سے ہے.خدا تعالی کی طرف سے جب الہام ہوتا ہے تو اس کے مطابق ملتابھی ہے.خدا دنیا کی گورنمنٹ کی طرح نہیں.خدا میں تو سب طاقتیں ہیں.کبھی کوئی خالی ہاتھ بھی کہا کرتا ہے کہ یہ چیز لو.وہ تو بچے ہنسی سے کیا کرتے ہیں.یہ شیطانی بات ہے خدائی الہام نہیں.خدا اگر کہتا کہ تُو محمد ہے تو تجھے محمد والی طاقتیں بھی دیتا.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن کو ولی کا خطاب ملتا ہے.اب کیا یہ خطاب یو نہی مل جائے گا.اگر معمولی بات سے یہ خطاب ملنے لگے تو پھر تو کنچنی بھی ولی ہو سکتی ہے جو ایک مسجد بنا چھوڑے.پس خدا کے ترب کے لئے ایک چیز کی قربانی نہیں ہوتی اور نہ ایک وقت میں قربانی ہوتی ہے بلکہ ہر وقت ہر چیز کی قربانی کی جائے.تب جا کر خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے.میں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.آخر سوچو تو سہی تم نے بننا کیا ہے؟ خدا کا درباری.کیا یہ عہدہ کوئی معمولی عہدہ ہے.اس سے سمجھ سکتے ہو کہ اس عہدہ کے لئے کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.میں نے بچوں کو بتایا تھا کہ جب گاؤں میں ڈپٹی کمشنر آتا ہے.تو تم کس طرح اس کے دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے بھاگتے پھرتے ہو.اور تم بڑے خوش ہوتے ہو اور فخر سے اپنے دوستوں کو سناتے ہو کہ میں نے ڈپٹی کمشنر کو دیکھا ہے حالانکہ وہ تمہاری طرف کبھی نظر نہیں اٹھاتا.اور اگر وہ کسی بچہ سے کوئی بات کرے تو پھر وہ بچہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا.وہ یوں سمجھتاہے کہ گویا اسے بڑی نعمت مل گئی ہے.مگر اس کے مقابلہ میں نماز کیا ہے.نماز ہے خدا کے حضور حاضر ہو کر اس کی زیارت کرنا اور اس سے باتیں کرنا.تمہارے اندر اس نماز سے کیوں نہیں خوشی پیدا ہوئی.اس وقت میں نے دیکھا کہ اس مثال سے بچوں کے چہروں پر بشاشت تھی.آپ لوگ ایک جماعت میں سے ہیں کہ جس کا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ اس میں ہمیشہ ایک قائم مقام رہا جس کی اطاعت فرض ہے اور جس چیز کے لئے کہہ دے کہ فلاں جگہ پر اسے خرچ کرو تو اس کاحق نہیں ہے کہ وہ اسے دوسری جگہ پر خرچ کرے.فتح مکّہ پر رسول اللہ ﷺ نے مکہ والوں کو مال دیئے تو انصار میں سے ایک نوجوان نے غلطی سے کہہ دیا کہ خون توماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال رسول اللہ کے ہم وطن لے گئے ہیں.رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچ گئی.آپ نے انصار کو بلایا اور فرماایا.تم نے یہ بات کہی ہے.انصار دیندار تھے ان کی چیخیں نکل گئیں.انہوں نے
۴۲۵ کہایا رسول اللہ! ہم میں سے ایک نوجوان نے ایساکہا ہے.ہم نے خود اسے بہت ڈانٹا ہے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.اے انصارا! بے شک تم کہہ سکتے ہو.تُو بے وطن تھا ہم نے تجھے اپنے پاس جگہ دی.تُو بےکس تھا ہم نے تیرے دائیں اور بائیں اپنی جانیں دیں اور خون کی ندیاں بہا کر تیریحفاظت کی.انہوں نے کہایا رسول اللہ! ہم ہرگز ایسا نہیں کہتے.رسول اللہ نے فرلیا.ہاں یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے خود نصرت دی اور مکہ پر فتح دی مگرفتح مکہ کے بعد لوگ تو اپنے گھروں میں اونٹ لے گئے.اور تم خدا کے رسول کو اپنے گھر لے آئے.اے انصار !جو کچھ ہو گیا سو ہو گیا اب دنیا میں رسول کی خلافت تمہیں نہیں ملے گی.۳؎ ہاں آخرت میں تمہیں معاوضہ دیا جائے گا.چنانچہ آج تک کوئی انصاری خلیفہ نہیں ہوا.اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض وقت ایک بات منہ سے نکل جاتی ہے.جس کو انسان معمولی سمجھتا ہے لیکن اس کا نتیجہ بہت دور تک پہنچتا ہے.اسی طرح یہاں جب ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ خلیفہ قائم کرتا ہے وہ اگر أموال تلف کرتا ہے یا تلف کرنے دیتا ہے تو وہ خود خدا کے حضور جوابدہ ہے تم اس پر اعتراض نہیں کر سکتے.لیکن اگر بہترین نتائج پیدا کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے تو پرھ معترض شخص خطرہ میں ہے.تقویٰ اور ادب سیکھو آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ تم نے اقرار کیا ہے کہ تم ہر چیز کو میرے حکم پر قربان کردو گے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس اقرار کا پورے طور پر خیال نہیں رکھا جاتا.اقرار تو یہ تھا کہ جو کچھ میں کہوں وہ تم کروگے لیکن عمل یہ ہے کہ چند پیسوں پر ابتلاء آجاتا ہے.یہ تمام وسوسے تقویٰ کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے میں تقویٰ کے حصول کے لئے اور اس میں ترقی کے لئے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں.خواہ آپ میں سے بعض مجھ سے عمر میں بڑے ہوں لیکن ایک بات آپ میں سے کسی میں نہیں.وہ یہ کہ میں خدا کا قائم کردہ خلیفہ ہوں.میری تمام زندگی میں لوگ میری بیعت کریں گے.میں کسی کی خدا کے قانون کے مطابق بیعت میں کر سکتا اور یہ عہده میری موجودگی میں تم میں سے کسی کو نہیں مل سکتا.نبوت کے بعد سب سے بڑا عہدہ یہ ہے.ایک شخص نے مجھے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں تاگورنمنٹ آپ کو کوئی خطاب ہے.میں نے کہایہ خطاب ایک معمولی بات ہے.میں شہنشاہ عالم کے عہدہ کو بھی خلافت کے مقابلہ میں ادنی ٰ سمجھتا ہوں.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے معاملات میں ایسارنگ اختیار کریں جس میں تقوی ٰ اور ادب ہو.اور میں کبھی یہ بھی نہیں پسند کر سکتا کہ و ہ ہمارے دوست جن کو اعتراض پیدا ہوتے ہیں
۴۲۶ ضائع ہوں کیونکہ خلافت کے عہدہ کے لحاظ سے بڑی عمر کے لوگ بھی میرے لئے بچہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی باپ نہیں چاہتا کہ اس کا ایک بیٹا بھی ضائع ہو.میں تو ہمیشہ یہی خواہش رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر ابتلاء سے ہمیشہ دوستوں کو محفوظ رکھے.مجھے تو اللہ تعالیٰ نے ایسا وسیع دل دیا ہے کہ میں دشمن کے لئے بھی بد دُعا کرنا پسند نہیں کرتا.ایک شخص نے کہا کہ مولوی ثناء اللہ کے لئے تم بددُعا کیوں نہیں کرتے.میں نے کہا مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا دل دیا ہوا ہے.تو جو شخص دشمنوں تک کے لئے بددُعا نہیں کرتا و ہ دوستوں کے لئے کیا کیا دُعائیں کرتا ہو گا خدا کے حضور جھکو.دعاؤں میں گریہ و زاری کرو تم پر خدا کی طرف سے برکات نازل ہوں.تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ کے قیام کے لئے نماز اور نماز باجماعت کی پابندی ضروری ہے.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ نماز کے لئے جماعت کی پابندی ضروری ہے.اگر دوست دو تین میل کے فاصلے پر بھی ہوں تو بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کرالیا کریں.اور دفتروں میں ایک جگہ اکھٹے ہو کر باجماعت ادا کریں.دسویں نصیحت یہ ہے کہ تقوی ٰکے قیام کے لئے معاملات کی درستگی بھی نہایت ضروری ہے.بعض دوست معاملات میں درستی کا خیال نہیں رکھتے.بعض لوگ روپیہ قرض پر لیتے ہیں پھرادا کرنے میں نہیں آتے.اس کے نتیجہ میں بد ظنی پیدا ہوتی ہے.قرض خواہ مظلوم ہوتا ہے اسے دُور کی سوجھتی ہیں.اور ایک بات پر سب کو قیاس کرلیتا ہے.اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ ایک حجام کو روپیوں کی تھیلی ملی.وہ اُمراء کی مجلس میں جایا کرتا تھا.اس کے پاس تھیلی دیکھ کر اُمراء ہنسی سے پوچھا کرتے.سناؤ شہر کی کیا حالت ہے.وہ کہتا کوئی کم بخت بھی تو ایسا نہیں جس کے پاس کم از کم بانسو اشرفی نہیں.ایک دن ایک امیر نے اس کی تھیلی ہنسی سے اٹھالی.کچھ دن بعد امیر نے پوچھا سناؤ شہر کا کیا حال ہے.اس نے کہا شہر کی کیا پوچھتے ہو شہر کا بُرا حال ہے سب لوگ بھوکے مررہے ہیں.امیرنے تھیلی واپس دے کر کہا لو بھائی اپنی تھیلی پاس رکھو شہرنہ بھوکا مرے.اس مثال سے انسانی دماغ کی حالت معلوم ہوتی ہے.اس پر جو گزرے یہ سمجھتا ہے کہ یہی مال سب کا ہے اس لئے جس کے ساتھ معاملہ اچھا نہ ہو وہ یہ قیاس کرلیتا ہے کہ سب کا ایسا ہی حال ہے یہاں تو بھائی سب بد معاملہ ہیں.مگر تنخواہوں کے لئے بھی مناسب ہے کہ درگزر سے کام لیں اور سب پر ایک بات کا قیاس نہ کر لیا کریں کیونکہ جو بات قوم میں پھیلائی جاۓ وہ خواه قوم میں پہلے نہ بھی ہو تو بھی وہ قوم میں پیدا ہو جاتی ہے اسی لئے قرآن کریم نے بدی کی اشاعت سے منع کیا ہے.۴؎ مثلاً
۴۲۷ آج تم سے کہنے لگو کہ ہماری قوم میں چور بہت ہو گئے ہیں تو اگر قوم میں ایک بھی چور نہ ہو تو بھی دس سال بعد قوم میں ضرور چور اور جھوٹے پیدا ہو جائیں گے.وہ اس کی یہ ہے کہ خدا تعالی نے بدیوں کی نسبت دلوں پر ایک ہیبت بٹھائی ہوتی ہے.جب عام زبانوں پر کوئی بات جاری ہوتوو ہ ہیبت دلوں سے اُٹھ جاتی ہے اور بات معمولی معلوم ہوتی ہے.یہ ڈاڑھی کاہی معاملہ دیکھ لو.آج سے۵۰ سال پہلے ڈاڑھی منڈانا عیب سمجھا جاتا تھا اس لئے لوگ عام طور پر نہیں منڈایا کرتے تھے بلکہ منڈانے والا لوگوں میں نہیں پھر سکتا تھا لیکن آج کس قدر اس کا رواج بڑھا ہوا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ اب یہ معمولی بات معلوم ہوتی ہے بلکہ فیشن بن گیا ہے.جس بات کو لوگ کرتے ہوئے دیکھتے یا سنتے ہیں وہ معمولی بات معلوم ہوتی ہے.اور جس کو کوئی نہیں کرتا اس کی کوئی جرأت نہیں کرتا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہماری قوم گنہگارہے درحقیقت اس نے قوم کو ہلاک کر دیا.۵؎ یہ باتیں بظاہر ابتداء میں چھوٹی نظر آتی ہیں مگر نتائج ان کے خطرناک نکلتے ہیں.کیابیج چھوٹے نہیں ہوا کرتے پھر کتنے بڑے درخت بن جاتے ہیں اسی طرح ایک چھوٹے سے چھوٹا بُرابیج قوموں کو ہلاک کردیتاہے.پس آپ لوگوں کے دل و دماغ آپ کے قابو میں ہونے چاہئیں.وہ کام مت کرو کہ جس سے حضرت مسیح موعود کاسارا کیا کر ایا خراب ہو جائے اور آپس کے معاملات کو درست کرو.درحقیقت ایک بد معاملہ شخص قوم کے بیسیوں مسکینوں کو تباہ کر دیتا ہے.ہاں اگر کوئی معللہ خراب کرتا ہے تو تمہارے لئے بھی مناسب ہے کہ صبر کرو اور شور مت کرو آخر مال چوری بھی تو ہو جاتےہیں.بڑی بڑی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں.اگر کسی کے بد معاملہ سے نقصان ہوا ہے توسمجھ چھوڑو کہ چلو چوری ہو گی پھر یہ سوچو کہ اس وقت اسلام پر بڑی مشکلات کا زمانہ ہے.مشکلات کے زمانہ میں جھگڑے نہیں ہوا کرتے.بتاؤ جب طوفان آرہا ہو تو کیا اس وقت لوگ آپس میں لڑا کرتے ہیں.اس وقت چیزیں سنبھالنے کی ہوش نہیں ہوتی.اس وقت تو جان کی فکر ہوتی ہے.دیکھو اس وقت اسلام کو کفر کھا رہا ہے اور ہمارے کندھوں پر تمام دنیا کا بوجھ ہے.اب تو یہ ضرورت ہے کہ ایسی نصرت حاصل کرو کہ کفر کو کھانے لگ جاؤ اور نصرت کے حصول کے لئے تقویٰ حاصل کرو.اب یہ بتاتا ہوں کہ تقویٰ کیا چیز ہے.اس کے معنے کئی دفعہ میں ایک مثال سے بیان کرچکا ہوں جو اب پھر بیان کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ ؓسے کسی نے پوچھا.تقویٰ کیا ہے.انہوں نے
۴۲۸ جواب دیا.تنگ گلی میں چاروں طرف کانٹے ہوں اور زمین پر کنکر ہوں تو بتاؤ ایسے رستہ سے تم کیو نکر گزرو گے.اس نے کہا کپڑے چاروں طرف سے سمیٹ کرہی گزروں گا.یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن در حقیقت بہت لطیف بات ہے.اسی طرح ایک بزرگ نے کہا کہ چھوٹی باتوں کو بڑا سمجھو یعنی چھوٹے گناہوں کو بڑا سمجھو.یہ پہاڑ جو نظر آتے ہیں ذرات سے ہی بنے ہیں.پس مومن ہر ایک حرکت میں یہ دیکھے کہ میری اس حرکت کا مجھ پر اور میری قوم پر کیا اثر پڑے گا.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ تقوی ٰکے حصول کے ذرائع کیا ہیں میں تقوی ٰ پر کوئی خاص مضمون بیان نہیں کرتا بلکہ انہیں باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں.تقوی ٰکے معنے ہیں کہ انسان خدا کو اپنی ڈھال بنائے.یہ لفظ و قایہ سے نکلا ہے جس کے معنے بچاؤ اور حفاظت کے ہیں.تو تقویٰ کے معنے ہوئے کہ انسان اپنے اندر ایسی حالت پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہو جائے.اب غور کرو خدا کیوں محافظ بنے گا.اس کی کوئی وجہ ہونی چا ہئے.انسان کس شخص کی حفاظت کرتا ہے.یہ ہم جانتے ہیں کہ ہم سب سے زیادہ حفاظت اس کی کیا کرتے ہیں جو ہمارا کام کرتا ہے.جس کو ہم جانتے ہیں کہ اس کے نقصان سے ہمیں نقصان پہنچے گا.اسی طرح ہم کو یہ معلوم کرنا چاہئے کہ ہم کو نسے کام کریں کہ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارا محافظ ہو جائے.تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ایک ذریعہ تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کا اور تقویٰ کے حصول کا وہ یہ ہے کہ انسان کلمتہ اللہ کے اعلاء میں لگ جائے.اس کی شان کا اظہار کرے.اسی طرح جب وہ کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ یقینا ًاس کی حفاظت کرے گا.اس کو ایسی راہوں پر چلاۓ گا کہ جن پر چلنے سے اس کی حفاظت ہوگی.اب سوال یہ ہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ کس طریق سے ہو.بعض کام اللہ تعالیٰ جبر سے کرتا ہے اور بعض ربوبیت سے.سب سے پہلا کام اللہ تعالیٰ کار بوبیت ہے.جیسا کہ سورة فاتنے میں آیا ہے.الحمد لله رب العلمين ۶؎ اس میں اس کی پہلی صفت ربوبیت کی بیان ہے.اب انسان بھی اپنے ذریعہ سے اس کی صفت ربوبیت کی شان کا اظہار اور اس کے کلمہ کا اعلاء کر سکتا ہے کہ جب وہ اس کی طرح ربوبیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے یعنی انسان پہلے مجازی ربّ بنے تب اللہ تعالیٰ اس کے دل میں تقویٰ ڈالے گا.اب میں ربوبیت کے معنے بیان کرتا ہوں.ربوبیت کے معنے پہ ہیں کہ انسان دوسروں کی بھلائی اور تربیت میں لگ جاۓ اپنی زندگی کو اپنے نفس کی بھلائی کے لئے نہ سمجھے بلکہ مخلوق کی ہمدردی میں اپنی زندگی کو لگادے.جب یہ ایسے کاموں میں لگ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت
۴۲۹ کرے گا.اگر کوئی غلطی بھی اس سے سرزد ہو گی تو اللہ تعالیٰ اس کا محافظ رہے گا کیونکہ و ہ بچہ کی طرح ہو گا جس کی حفاظت اس کی ماں کرتی ہے.دوسرا ذریعہ تقویٰ کے حصول کا یہ ہے کہ انسان دل میں الله تعالی کی محبت پیدا گے.جس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اسے وہ کبھی ضائع نہیں کرتا اور محبت پیدا کرنے کا طریق یہ ہے کہ روزانہ کچھ وقت اس کی صفات پر غور کرے.جب روزانہ اس کی صفات پر غور کر کے اپنے اندر محبت پیدا کرے گا تو کوئی چیز اس محبت کو مٹا نہیں سکے گی.پس روزانہ ایک وقت اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرو.یہ سوچو کہ تمہارے ساتھ اس کی کونسی صفات تعلق رکھتی ہیں اور کس رنگ میں اور کس قدر ان کا فیضان تم کو پہنچ رہا ہے.پھر اس کے انعامات پر نظر ڈالوان کو اپنے سامنے لاؤ تب ایک محبت کا دریا تمہارے دلوں میں موجزن ہو جائے گا.مشکلات اور مصائب بھی نعمت ہوا کرتے ہیں مثلا ً موت ہی کو لے لو.یہ بڑی مصیبت خیال کی جاتی ہے لیکن خیال کرو اگر یہ موت دنیا میں نہ ہوتی اور کوئی نہ مرتا.تو آج زمین پر آدمی ایک دوسرے کے ساتھ پھنسے ہوئے ہوتے اور یہاں چلنے کی بھی جگہ نہ ملتی.اور اس قدر مصیبت ہوتی کہ اگر دو چار صدیاں بھی موت دنیا سے اُٹھالی جاتی تو سب سے بڑی دُعالوگ موت کے لئے مانگتے.اگر غور کرو تو ذرہ ذرہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت نظر آتی ہے.غرض جب اللہ تعالیٰ کی صفات اور انعامات پر روزانہ کچھ وقت لگا کر غور کرو گے تو پھر تھوڑے عرصہ بعدہی دیکھو گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی محبت چشمہ کی طرح پھوٹتی ہے.تیسراذریعہ حصول تقویٰ کا ذکرالہٰی ہے.جس طرح میں نے بتایا ہے کہ روزانہ ایک خاص وقت میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور انعامات پر غور کیا کرو.اسی طرح میں یہ بتاتا ہوں کہ ذکرالہٰی کے لئے روزانہ ایک وقت نکالو.ہماری جماعت کے لوگ ذکرالہٰی سے بہت غافل ہیں.روزانہ اس وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا خود اپنی ذات میں بہت بڑی نعمت ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ذکر الہٰی دل کے شیشہ کو جِلا کرنا ہے.اس کو صیقل کرنا ہے.نماز تو انسان کو غذا کی طرح ہے اور ذکر الہٰی صیقل کرنا ہے.مسنون ذکر تحمید، تہلیل، تسبیح ہے.ذکر الہٰی ایک رنگ میں خدا کے حسن کو دیکھنا ہے اس لئے جو لوگ کرالہٰی کریں گے وہ ضرور اپنے دل میں نیا جوش اور نئی محبت اور ایک صیقل اپنے اندر محسوس کریں گے.غلطی سے ہماری جماعت کے لوگ سمجھتے کہ ذکر ہوتاہی نہیں اس لئے عام طور پر دوست ذکر کے عادی
۴۳۰ نہیں.اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں غیراحمدیوں میں ذکر کا غلط طریق چلا آتا ہے.انہوں نے چند کلمے بتائے ہوئے ہیں جن میں وہ رٹتے رہے ہیں اس کے لئے کچھ سانس بھی مقرر ہوتے ہیں.یہ تمام فضول طریق ہیں جن سے روحانیت اور بھی خراب ہو جاتی ہے.بھلا بتاؤ جب بھائی کا ذکر کرتے ہو تو خاص قسم کا سانس لیا کرتے ہو.تو کیا الله تعالی ہی ایسا ہے کہ جس کے ذکر کے لئے خاص سانسوں اور خاص آوازوں کی ضرورت ہے.یہ طریق نہایت مکروہ اور روحانیت کو برباد کر دینے والے ہیں یہ تو مسمریزم کی طرح ہیں اور مسمریزم کوئی ذکر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بھی ان طریقوں کو ناپسند ہے کرتے تھے.اور تجربہ بھی بتاتا ہے کہ روحانیت کے لئے یہ خطرناک طریق ہیں.جو شخص ان طریقوں سے ذکر کرے گا اس کی روحانیت ماری جائے گی.وه بندر کی طرح ہو جائے گا.اس کی ذاتی قابلیت جاتی رہے گی.وہ ایک نقّال بندر ہو گا جس کی ایک رسّی ہوگی کہ جس کے ذریعہ اس کا مردہ پِیر اُسے نچارہا ہو گا اور میں تجربوں کے ساتھ ان طریقوں کے نقصانات دکھا سکتا ہوں.یہ نہ سمجھو کہ مجھے وہ طریق آتے نہیں.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کوئی موجودہ پِیر میرے سامنے لے آؤ.اور جو بھی طریق اختیار کرے اور ادھر میں بھی ایسا طریق اختیار کروں گا کہ اس سے نصف وقت میں میری طرف کے شخص پر وہ حالت طاری ہو جائے گی جو وہ طاری کیا کرتے ہیں.مجھے تو کبھی سمجھ نہیں کہ بھلا سانس کا ذکرالہٰی سے کیا تعلق.ان پیروں کے اذکار کا تو ایسا معاملہ ہے جیسا کہ افیون کھانے والوں کا ہوتا ہے.ایک دوست نے جو احمدی ہونے سے پہلے بھنگ کے عادی تھے.بتایا کہ جب میں نے بھنگ پی تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ میں عرش پر پہنچ گیا ہوں اور تمام زمانہ میرے قابو میں آگیا ہے اور دنیا میرے قبضہ میں ہے.غرض ان چیزوں کے ذریعہ دماغی قوتوں کو مار دیا جاتا ہے.اور اس طریق سے یقیناً ایک بڑا طبقہ مجنون ہو جاتا ہے.حقیقی ذکرو ہ ہے کہ جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو دل میں داخل کرے.انسان میں اللہ تعالیٰ نے ووقسم کی قوتیں رکھی ہیں.ایک قوت حواس ظاہری کی ہے اور ایک قوت ارادی ہے.ان دونوں قوتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے.چنانچہ جب اعصاب کمزور ہو جائیں تو قوت ارادی کمزور ہو جاتی ہے.اور تجربہ بتاتا ہے کہ سانسوں سے دماغی اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور چند دن کے اندر ایسا انسان دیوانہ ہو جاتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بہترین طریق عرفان رکھا ہے.لیکن اس کے خلاف دوسرے لوگوں کو دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ دل سے آوازیں اُٹھتی ہیں حالانکہ یہی تو جنون ہے.کیا کبھی دل سے بھی آوازیں آیا کرتی ہیں.آواز تو دماغ کے ذریعہ انسان کو پہنچتی
۴۳۱ ہے.بے شک اللہ تعالیٰ نے دل کو اپنے انوار کا مہبط بنایا ہے.مگر دل بولا تو نہیں کرتا اور نہ دل دیکھا کرتا ہے.کسی بات کو محسوس کرنا، یہ دماغ کا کام ہے.اور در حقیقت آنکھیں نہیں دیکھتیں بلکہ دماغ دیکھ رہا ہوتا ہے.دماغ میں ایسی قوت اور اعصاب اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں کہ جن کے ذریعہ آنکھ دیکھتی ہے ورنہ اگر یہ حصہ کاٹ دیں تو آنکھ خواہ سلامت بھی ہو تو نہیں دیکھ سکتی.چوتھاذریعہ حصول تقویٰ کا دُعا ہے.تقویٰ کے حصول کے ذرائع میں سے دُعا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.دُعاؤں کی عادت ڈالنے سے بھی تقویٰ نصیب ہوا ہے.اس لئے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دُعاؤں پر بہت زور دیں.میں رکھتا ہوں کہ نئے لوگوں میں دُعاؤں کے لئے یہ جذبہ اور جوش نہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کے لوگوں میں ہے.میں ان دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ دُعاؤں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.خدا تعالی کے حضور دُعائیں بڑی عجیب ہیں اور بہت بڑا اثر رکھتی ہیں.لیکن میں اس موقع پر دعا کے متعلق چند غلطیوں کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں.دُعاکے متعلق لوگوں کو چار غلطیاں کی ہیں.ایک غلطی تو یہ ہے کہ دعاؤں میں کوئی اثر نہیں کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ دعا کے بغیر بھی تو کام ہو رہے ہیں اور بعض کام باوجود دُعا کے نہیں ہوتے.دو سری غلطی یہ ہے کہ دُعا میں توجہ نہیں پیدا ہوتی.دُعا کریں تو کیونکر.پہلی غلطی کا ازالہ تو یہ ہے کہ پہلے یہ معلوم کرنا ہے کہ دُعا کی غرض کیا ہوتی ہے.اس کا اصلی مقصد کیا ہے.اگر تو دُعا کا صرف یہ مقصد ہے کہ جو کچھ مانگا جاۓ وہی ضرور مل جائے تب تو اس مقصد کے پورا نہ ہونے کی صورت میں واقعی ظلم ہے.بے شک اگر یہی مقصد دُعاکا ہے تب تو مقصد ضرور پورا ہونا چاہئے اگر پورا نہ ہو تو ظلم خیال کیا جائے گا لیکن ہم کہتے ہیں کہ دُعا کا یہی حقیقی مقصد نہیں کہ جو چیز مانگی جائے وہی ضرور مل جائے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر دُعا کا یہی حقیقی مقصد ٹھہرایا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ دنیا میں انسان کوئی کام نہ کرے انسان یہ دعا کرے گا کہ بغیر اس کے کچھ کرنے کے اس کے کام خود بخود ہو جائیں.اصل بات یہ ہے کہ دُعا کے ساتھ انسان کو کام بھی کرنا پڑتا ہے.دُعا کی قبولیت کے لئے اور بھی شرائط ہیں جو پوری کرنی چاہئیں.اب دیکھو.طبیب ایک بیمار کو کہتا ہے کہ تم یہ دوائی استعمال کرو لیکن اس کے ساتھ اچھی غذا بھی استعمال کرو فلاں غذا سے پرہیز کرو اور کھلی ہوا میں رہو.وہ شخص ان چار باتوں میں سے ایک بات پر عمل کرے اور باقی تین پر عمل نہ کرے اور تندرست نہ ہو تو وہ آکر کہے کہ میں اور تندرست نہیں
۴۳۲ ہوا.اور طبیب کے علاج کو نا قص کہے تو یہ شخص غلطی پر ہو گا کیونکہ طبیب نے علاج کے ساتھ کچھ شرائط بتائی تھیں جن کے پورا نہ کرنے کی وجہ سے اِسے صحت نہیں ہوئی.پھر کہتے ہیں کہ جب بعض دفعہ تمام شرائط کے پورے کرنے کے باوجود لوگ مر جاتے ہیں تو کیالوگ علاج چھوڑ دیا کرتے ہیں یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دعاؤں میں اثر نہیں اسی طرح باوجود بعض دعاؤں کے قبول نہ ہوئے بھی دُعاؤں کے اثر سے انکار نہیں کیا جا سکتا.اصل بات یہ ہے کہ دُعا کی وہ حقیقی غرض نہیں جو عام طور پر خیال کی گئی ہے.یعنی یہ کہ بس جو کچھ مانگا جائے وہ ضرور مل جائے.بلکہ حقیقی غرض دُعا کی ایمان اور تزکیہ نفس کا پیدا کرنا ہے.دُعا کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان حاصل ہو اور اس کے دل میں صفائی اور پاکیزگی پیدا ہو اور یہی غرض پیدائش انسانی کی ہے جو کئی ذرائع سے پوری کی جاتی ہے.ان میں سے ابتلاء اور مشکلات بھی ہیں.اس دنیا میں انسان کی پیدائش کی حقیقی غرض پوری کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے اسے تیار کیا جاتا ہے.تیاری کے اسباب میں ابتلاء بھی داخل ہیں.غرض ابتلاء بھی انسان کی زندگی کا مدعا پورا کرنے کے لئے یعنی اس کے تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہیں.اب اگر اس کی ہر منہ مانگی چیز اے مل جائے یا ہردُعا اس کی منظور ہو جائے تو وہ ابتلاء پھر کس پر آئیں گے اور اس کا مدعا کیسے پورا ہو گا.اور ابتلاء کس چیز کا نام ہے.یہی ہے نا مثلاً بیماری، موت ، لڑائی، بڑے لوگوں کا ظلم، ماتحتوں کی بغاوت، افلاس، غربت، اور انہی چیزوں کے لئے انسان دُعا کرتا ہے.انسان دُعا کرتا ہے یا اللہ! میری فلاں مصیبت دور ہو جائے یا بیماری دُور ہو جائے.فلاں ضرورت پوری ہو.فلاں مال مل جاۓ یا فلاں رشتہ دار بچ جائے.اب اگر ساری کی ساری کی دُعائیں قبول ہوں اور انسان پر کوئی ابتلاء نہ آئے تو کیا اس کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ مثلا ًنہ تو کوئی بیمار ہو اور نہ ہی کسی پر موت آئے اور پھر کیا سارے انعامات لیتے ہوئے بھی یہ بھی کہے گا کہ یا اللہ! میرے دل کی صفائی بھی ہو.تو اصل بات یہ ہے کہ اصل غرض تو صفائی قلب ہے جو ابتلاء کے ذریعہ ہوتی ہے.پیدائش انسانی کی غرض دل کی صفائی ہے جس کا ایک طریق ابتلاء بھی ہے.اس لئے اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض دُعائیں بظاہر قبول بھی نہیں ہوتیں اور ابتلاء اور مشکلات نہیں ٹلتے.دیکھو انبیاء پر سب سے بڑھ کر مصائب و مشکلات آتے ہیں.کیا وہ دُعائیں نہیں کرتے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھ پر تمام انبیاء سے بڑھ کر مصاب آئے ہیں.۷؎ لیکن باوجود اس کے جب وہ بھی دُعائیں مانگتے تھے.تو معلوم ہوا کہ دُعا کی صرف وہی غرض نہیں جو عام طور پر سمجھی گئی ہے اور نہ یہ صحیح ہے کہ دعاؤں کا
کوئی اثر نہیں.نہ یہ درست ہے کہ ہر دعا منظور کی جاتی ہے.بلکہ دعاؤں کے اثرات حکمت اور دوسرے قوانین کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور دعاؤں میں بہت سے فوائد ہیں جن کی خاطر دُ عا کا حکم ہے.پہلا فائده تو یہ ہے کہ دُعا اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص کا بندہ کے منہ سے اقرار کرا لیتی ہے اور خدا تعالی کی صفات پر یقین دلاتی ہے کیونکہ انسان جب دعا کرتا ہے تو الله تعالی کو اس بات پر قادر یقین کرتا ہے کہ وہ اس کی مصیبت کو دور کر سکتا ہے یا اس کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے تو اس طرح بندہ کو خدا تعالی کی تقدیر خاص پر ایمان پیدا ہوتا ہے اور اگر اس کی ایک دُعا بھی قبول ہوتی ہے تو اس کے دل میں یہ یقین پیدا کرتی ہے کہ اس کا خدا وہ خدا ہے جو اس کے لئے اپنے قانون کو بھی بدل سکتاہے.دوسرا فائدہ دعا کا یہ ہے کہ انسان جب دعا کرتا ہے تو اس وقت اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے قریب ہے اور میری آواز کو سنتا ہے.دعا کی اصل غرض یہ نہیں کہ اس کی عارضی ضروریات ہی پوری ہوں بلکہ اس کی اغراض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچا جائے اور اس کو خدا تعالی کا قرب حاصل ہو.اس کو یہ یقین ہو اور اقرار بھی کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے.چنانچہ اس غرض کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس طرح بیان فرماتا ہے.وإذا سألك عبادي عني فإني قريب ؎۵ کہ جب بندہ میرے حضور دعا کرتا ہے تو میں اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور اس کی آواز کو سنتا ہوں.پس دعا کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے قرب کا مقام حاصل ہو اور وہ اسے اپنی گود میں لے لے.جس طرح ایک بچہ جس کو دوائی پلائی جا رہی ہو یا اس کا آپریشن ہو رہا ہو تو وہ ہائے ہائے کرتا ہے.اس کے والدین گو اسے اس موجودہ تکلیف سے تو نہیں چُھڑا سکتے مگر اسے اپنی گود میں لے لیتے ہیں جس سے بچہ کو تسلی ہو جاتی ہے.اسی طرح خدا تعالی اگر دعا کسی وجہ سے نہ بھی قبول کرے تو بھی اسے اپنی گود میں لے لیتا ہے.تیسرا فائدہ دُعا کا یہ ہے کہ انسان کی دُعا اس کی حسنات میں لکھی جاتی ہے.دراصل انسان کے اعمال کے دو نتیجے ہوتے ہیں.ہر کام کے دو نتیجے نکلتے ہیں.ایک نتائج فوری ظاہر ہوتے ہیں اور ایک تاج آئندہ زمانہ میں جمع ہو کر نکلتے ہیں.مثلا ًانسان ہاتھ کو حرکت دیتا ہے.اس حرکت کا ایک تو فوری نتیجہ نکلے گا اور ایک نتیجہ آئندہ زمانہ میں نکلے گا جب ہاتھ کو متواتر
۴۳۴ باقاعدگی کے ساتھ حرکت دیتا رہے گا.اس متواتر اور باقاعدہ حرکت دینے کا آئندہ زمانہ میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ اس کا ہاتھ مضبوط ہو جائے گا.اس کے ہاتھ میں ایک طاقت پیدا ہو جائے گی.اب انسان کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ وہ ہلاک نہ ہو جائے.عارضی تکلیف مدنظر نہیں ہوتی.عقلمند آدمی عارضی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتا.مثلاً اس وقت آپ لوگ سردی میں بیٹھے ہوئے ہیں.سردی کی عارضی تکلیف برداشت کر رہے ہیں.اسی طرح طالب علم، علم حاصل کرنے کے لئے راتوں کو جاگتا ہے محنت کرتا ہے.وہ اس تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتا.اس لئے کہ اس کے نتیجہ میں آرام اور عزت کا لمبازمانہ حاصل ہو گا اور لمبی تکلیف سے بچ جائے گا.عارضی تکلیف لمبی تکلیف کے مقابلہ میں تکلیف ہی نہیں خیال کی جاتی.پس دعا کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ اس دنیا میں انسان کے اندر اگلے جمان میں کام کرنے کے لئے قابلیت پیدا ہو جائے.گویہاں اس کی دعائیں قبول نہ ہوں لیکن وہ اگلے جہان میں کام آنے والی حسنات کے بہی کھاتہ میں درج کی جاتی ہیں.تو دُعا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کو اور انعامات کے لئے تیار کیا جاتاہے.چوتھافائده دعا کایہ ہے کہ دُعا الله تعالیٰ پر توکّل کا نشان ہے کیونکہ بندہ دعا کے وقت اپنے عجز کا اقرار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ اقرار کرتا ہے کہ تُوہی قادر و توانا ہے.خدا کے فضل کے ہم کبھی امیدوار نہیں ہو سکتے جب تک اس کے حضور اقرار نہ کریں کہ تُو طاقتور ہے اور ہم کمزور ہیں.یہ توکل کا مقام ہے جو بغیر دعا کے حاصل نہیں ہو سکتا.پانچواں فائدہ دعا کا یہ ہے کہ دُعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے یقینی نمونے ہمیں ملتے ہیں.میں نے اپنی ذات میں کئی مشاہدے کئے ہیں.ایک دفعہ ایک دوست نے مجھے مجملاً ایک مصیبت کی اطلاع دی اور دُعا کے لئے کہا.مجھے اس نے نہیں بتایا تھا کہ فلاں مصیبت ہے اور حالات نہیں لکھے تھے.ان دنوں ان کی ہمشیرہ بھی بیمار رہتی تھیں اس لئے میں نے خیال کیا کہ ان کی ہمشیرہ زیادہ بیمار ہو گی.میں نے دُعائیں کیں تو مجھے رؤیا میں معلوم ہوا کہ کوئی کہتاہے کہ قانونی غلطی کی وجہ سے تمام حقوق ضائع ہو گئے اور گورنمنٹ کی گرفت کے نیچے آ گئے لیکن اگر وہ توکل کریں گے اور گھبرائیں گے نہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ان معاملات کو بالکل اُلٹ دے گا اور اُن کے حق میں بہتر حالات پیدا کر دے گا.میں نے ان کو یہی لکھ دیا.تھوڑے ہی دنوں بعد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ قریب تھا کہ واقعہ میں ان کے حقوق ضائع ہو جائیں اور گرفت کے
۴۳۵ نیچے آئیں.میری طرف انہوں نے لکھا کہ اس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ مجھے خطرہ ہے کہ میرے پہلے تمام حقوق تباہ ہو جائیں.میں نے انہیں لکھا کہ آپ توکل کریں اور گھبرائیں نہیں.اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ ان کے مد مقابل انگریز ھایہ حالات بالکل بدل گئے حتی کہ اس انگریز نے میری طرف لکھا کہ مجھے مصیبت سے بچایئے.جب ہم روزانہ دعاؤں کی قبولیت کے نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم کیسے ان کے اثرات سے انکار کریں.چھٹافائده دُعا کا یہ ہے کہ اس سے دل میں قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے اور بُزدلی دور ہوتی ہے کیونکہ بُزدلی مایوسی سے پیدا ہوتی ہے لیکن دُعا کرنے والا مایوس نہیں ہوتا.جو شخص دُعا کرے گا اللہ کے حضور یہ یقین لے کر جائے گا کہ خدا ہے اور وہ میری مدد يا حاجت روائی کر سکتا ہے اس سے اس کے دل میں تسلی ہو گی جس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ یہ جزع فزع سے محفوظ رہے گا اور دوسرے مسلمان بھی کام کے لئے مہیا کرے گا.ساتواں فائدہ یہ ہے کہ جس وقت دُعاکا قبول نہ ہو ناہی اس کا قبول ہو ناہوتاہے.بہت سی باتیں ہیں جن کو انسان مفید سمجھتا ہے لیکن وہ مضر ہوتی ہیں.اس لئے بعض دفعہ دُعاکا قبول نہ کرناہی انسان کے لئے رحمت ہوتا ہے.آٹھواں فائده یہ ہے کہ جس جگہ پر تدابیر رہ جاتی ہیں وہاں دعا کام کرتی ہے.جب تدابیر اور ظاہری اسباب کا سلسلہ منقطع نظر آتا ہے اس وقت دُعا اپنا اثر دکھاتی ہے.میرے ساتھ بیسیوں دفعہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جن میں تمام دنیوی سامان کٹ گئے اس وقت دعا کے بعد میرے خدا نے میری دعا سنی اور نہ صرف دُعاسنی بلکہ بشارت دی.نواں فائدہ دعا کا یہ ہے کہ دعا الله تعالی کی ہستی کا ثبوت ہوتی ہے دعامانگنے کے بعد جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے وہ خدا تعالی کی ہستی پر زیادہ ثبوت ہوتا ہے.نسبت اس کے کہ آپ ہی آپ کوئی کام ہو جائے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ دعا توجہ سے ہوتی ہے اور توجہ خوداثر پیدا کرتی ہے تو کیوں نہ کہیں کہ جو کام ہوا ہے وہ توجہ کے اثر کا نتیجہ ہے.بے شک یہ اہم سوال ہے جس کا میں یہ جواب دیتا ہوں کہ علم النفس کے ماہر یہ کہتے ہیں کہ توجہ اس وقت اثر کرتی ہے جب ذہن میں یہ لایا جائے کہ ہر بات یوں ہو گئی.توجہ کے لئے یہ سکھاتے ہیں کہ تم ذہن میں یہ خیال رکھو کہ یہ بات یوں ہو گئی.لیکن یہاں تو اس کے اُلٹ دُعا کرنے والا یہ ذہن میں پیدا کرتا ہے کہ یا اللہ! میں کچھ نہیں ہوں مجھے یہ کام امن ہے تری یہ کام کر سکتا ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ
۴۳۶ توجہ کا اثر جاندار چیزوں پر ہوتا ہے بے جان پر نہیں ہوتا.لیکن دعا میں تو ایسارنگ پیدا ہوتا ہے کہ جس کا اثر دنیا سے جا کر پڑتا ہے.دُعا خالی انسان پر بھی اثر نہیں کرتی بلکہ وہ طبیعات میں بھی تبدیلیاں پیدا کر دیتی ہے.انسان یہ توجہ کر سکتا ہے کہ فلاں شخص میرا دوست ہو جائے لیکن یہ توجہ نہیں کر سکتا کہ کھیت سرسبز ہو جائے یا بارش ہو جائے.تیسرا جواب یہ ہے کہ کہاں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ صرف دُعاہی ایک ذریعہ ہے جس سے کام ہوتے ہیں بغیر اس کے کوئی کام نہیں ہو تا.اور بھی تو اس کے قوانین ہیں.بغیر دُعا کے جو کام ہو جاتے ہیں ان کی ایسی ہی مثال ہے ہے کسی کو کہیں سے گری ہوئی چیز مل جائے تو دوسرا ہمیشہ کے لئے یہی قانون سمجھ لے کہ اس کا کام بھی بیٹھے بٹھائے ہو جائے گا.یہ اتفاقی باتیں ہوتی ہیں.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تم اپنے مصائب کو دور کرنے یا ضروریات کے پورا کرنے کے لئے دُعا کرو تو اس سے یہ تو ہمارا مطلب نہیں ہوتا کہ خدا تعالی دُعا کے بغیر اور کسی طرح بھی رحم نہیں کرتا.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالی نے اپنے رحم کے لئے دو قسم کے قانون رکھے ہوئے ہیں ایک قانون دُعاہے اور ایک عام قانون قدرت ہے.پھر اصل سوال تو یہ ہے کہ وہ کام جو دُعا سے ہوا ہے آیا وہ بغیر دُعاکے ہو سکتا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ وہ کام دعا کے بغیر واقعی نہیں ہو سکتا.پھر توکل کا یہ مفہوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور ہی دعا کو سن لے گا بلکہ یہ مفہوم ہے کہ خدا ایسا کر سکتا ہے.میں اس کے رحم پر اُمید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعا کو سن لے گا.پس دعا کی یہ اہمیت ایسی ہے کہ اس کے بغیر دعا، دعا ہی نہیں ہوتی.اسی وجہ سے برہمولوگ بھی دعا کرتے ہیں حالانکہ وہ قبولیت کے معتقد نہیں.اور میرے نزدیک بھی اگر ہماری ضروریات ہمیں مجبور نہ کریں تو دنیاکے متعلق نامنظور ہونے والی دعا منظور ہونے والی دعاسے بڑھ کر ہمارے لئے نتیجہ خیز ہے کیونکہ ایک تو وہ عبادت میں شمار ہو گی جو ہماری زندگی کا اصل مقصد ہے اور دوسرے اس کے عوض میں آخرت میں درجہ ملے گا اور ہمیں زیادہ حسنات ملیں گی.ہمیں عقلاً بھی یہ دیکھنا ہے کہ خدا تعالی کوئی بچہ نہیں کہ وہ ہماری دعاسے بہل جاتا ہے اور ہماری ہر بات منظور کر لینے پر تیار ہو جاتا ہے.یہ غلط خیال ہے جس میں عام مسلمان گرفتار ہیں.اگر خدا تعالی ایبانی ہے تو وہ ہمارے ماتحت ہوا نہ کہ بادشاہ.ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض دعاؤں میں اثر بھی ہوتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ کوئی خاص منتر ہیں یا خاص الفظ ہیں بلکہ وہ دعائیں اس لئے اپنا اثر دکھاتی ہیں کہ اس میں دُعاکاوہ مغز ہوتا ہے جس سے انسان پر وہ حالت طاری ہو جاتی ہے جو دعا میں ہونی چاہئے.جیسا کہ سورة
۴۳۷ فاتحہ جامع اور پُر مغز دعاہے.چوتھا سوال یہ ہے کہ دُعامیں توجہ نہیں ہوتی.دعائیں توجہ کس طرح پیدا کی جائے.اس کا یہی جواب ہے کہ جس کام کو کرنا چاہتے ہو اس کے کرنے کا یہی طریق ہے کہ اسے کرنا شروع کر دو.کچھ مدت بعد اس کے کرنے کے لئے خود بخود شوق پیدا ہو جائے گا.جو شخص دعا کرنی شروع کر دے گا اس کے اندر دعانہ کرنے کی نسبت آہستہ آہستہ ضرور توجہ پیدا ہو جائے گی اور پھر کسی وقت وہ خاص حالت بھی اس پر طاری ہو جائے گی جو دُعا کے وقت پیدا ہونی چاہئے ہاں بعض دفعہ دل کے زنگ خوردہ ہونے کی وجہ سے بھی دعا میں توجہ نہیں پیدا ہوتی.ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ دعا سے پہلے استغفار کرے کہ اے خدا! چو تم مجھے معلوم ہیں وہ بھی اور جو نہیں معلوم وہ بھی معاف کر دے اور اس رسیّ سے مجھے علیحدہ نہ کر جو تیرے اور تیرے بندوں کے درمیان ہے.کبھی صحت کی کمزوری کی وجہ سے بھی توجہ نہیں پیدا ہوتی.اس کے لئے صحت کی درستی کا لحاظ رکھنا چاہئے.میں پھر دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ دعاؤں پر خاص زور دو اور خشوع کے ساتھ باجماعت نمازیں ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اس کے دین کی خدمت کر کے راضی کرو.آپ لوگوں کا اصل کام دین کا پھیلانا ہے.بچوں کی طرح وقت ضائع مت کرو.باہمی جھگڑوں اور فسادوں کو ترک کر دو اور موت کو یاد رکھو کہ جو ہر انسان کے لئے ضروری ہے.بڑے بڑے طبیب اور ڈاکٹر موت سے نہیں بچ سکتے تو اور کون بچ سکتا ہے.اس لئے بہتر ہے کہ موت کے آنے سے پہلے پہلے خدا تعالی سے صلح کر لو.بست ہیں جو نیک ہونے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا کوئی کام صرف خواہش سے ہی ہوا کرتا ہے.لیٹے رہنے سے تو کامیابیاں نہیں ملا کر تیں بلکہ بڑی جدوجہد کے بعد جا کر کامیابیاں حاصل ہوا کرتی ہیں.تو کیا نیکی ہی ایسی چیز ہے جو صرف خواہش سے حاصل ہونی چاہئے.لوگ ایک سست اور کاہل کا واقعہ مثال کے طور پر بیان کیا کرتے ہیں کہ وہ ایک دورسے گزرنے والے سپاہی کو کہنے لگا کہ دیکھو لوگ کتنے سست اور کاہل ہیں کہ میری چھاتی کے بیر بھی اٹھا کر میرے منہ میں نہیں ڈالتے.اس پر سپاہی نے اس کو ملامت کرنی شروع کی.ساتھ والا آدمی بول پڑاہاں صاحب یہ ایساسست اور کاہل ہے کہ آج ہی کا واقعہ ہے کہ تمام رات کتا میرا منہ چاٹتا رہا اور اس نے اسے ہٹایا تک نہیں.اس مثال کے بیان کرنے کی غرض یہ ہے کہ صرف کسی کام کی خواہش سے و ہ کام نہیں ہوا کرتا کہ اس کے لئے ہمت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے.یہ ممکن ہیں کہ ایک شخص نیک بننے کے لئے صحیح اور پوری کوشش کرے خدا تعالی اسے ضائع ہونے
۴۳۸ ہے.آخر وہ رحم کرنے والا اور فضل کرنے والا ہے.کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع کر دے.پس پورے جوش اور پوری ہمت کے ساتھ تقویٰ پر نہ صرف خود قائم ہو جاؤ بلکہ اسے دنیا میں قائم کرو اور دین کی نصرت کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرو، مل کر کام کرو، ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے پیش آؤ ، ہر بھائی کے ساتھ محبت کا سلوک کرو.جھگڑوں کو چھوڑ دو اور مصیبتوں میں ایک دوسرے کے کام آؤ.بعض وقت دیکھا ہے کہ ایک بھائی کے جنازہ پر لوگ نہیں جاسکتے لیکن جب ہم نے ایک بھائی کے جنازہ کے لئے کام کو نہیں چھوڑا تو ہمارا کہاں حق ہو سکتا ہے کہ ہمارے مرنے پر دوسرے لوگ اپنے کاموں کو چھوڑیں.پس آپس میں ہمدردی اور محبت سے کام کرو.ابھی ماری جماعت میں ہمدردی اور تعاون باہمی کا مادہ کم ہے جس سے بعض وقت دوستوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے.میں نے سنا ہے کہ بعض موقع پر میت کے ساتھ ایک بھی آدمی (سوائے اس کے رشتہ داروں کے) نہیں گیا اور لوگ عدم فرصتی کا عُذر کرتے ہیں.یہ عُذر صحیح نہیں.مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال میں جلسہ کے موقع پر ہی ایک جنازہ خود پڑھایا حالانکہ جلسہ پر مجھے کام بھی بہت تھا اور لیکچر بھی دینا تھا.دنیا میں کبھی محبت اور ہمدردی بغیر ایثار کے نہیں ہوا کرتی.پس ہمیں وقت اور مال کی قربانی کر کے آپس میں صلح و آشتی پیدا کرنی چاہئے اور اپنے اندر زندگی کی روح پیدا کرنی چاہئے.(الفضل ۱۱،۱۴ ۱۸-۲۱ جنوری ۱۹۲۷ء)
۴۳۹ تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء تیسرادن خطاب حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی (فرموده ۲۸ دسمبر۱۹۲۶ء) بیش قیمت وقت کو ضائع مت کرو میں اپنی اصل تقی شروع کرنے سے پہلے چند امور کا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں.اول تو یہ کہ میں ان دوستوں کو جو یہاں آ کر بھی اس جلسہ کے موقع پر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور تقریروں کے سننے میں پورا حصہ نہیں لیتے ملامت کرنا چاہتا ہوں.میں نے کل اپنی تقریر کے آخری حصہ میں دیکھا کہ دو ہزار کے قریب دوست قریباً ساڑھے پانچ بجے جلسہ گاہ سے اٹھ کر گئے اور ساڑھے سات بجے تک ان کو واپس آنے کی توفیق نہیں ہوئی جو نہایت قابل افسوس بات ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبی دیر تک بیٹھنا گراں ہوتا ہے اور انسان دیر تک بیٹھنے سے اُکتا جاتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیر تک بولنا اس سے بھی بہت زیادہ مشکل کام ہے.پھر اگر ایک شخص باوجود صحت کے نہایت کمزور ہونے اور اس عضو کے ماؤف ہونے کے جس پر کام کا دارو مدارے متواتر چھ گھنٹے تک بول سکتا ہے تو میں ہرگز یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ دوسرا آدمی اس سے زیادہ دیر تک سننے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا.آخر سامنے گیلریوں پر بیٹھنے والے اور سٹیج پر بیٹھنے والے بھی تو شروع سے آخر تک اطمینان سے تقرر سنتے رہے حالانکہ سٹیج پر بیٹھنے والے بوجہ جگہ کی تنگی کے بہت تنگی سے بیٹھے ہوتے ہیں لیکن بعض دوست جو بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اٹھ کر چلے گئے.شاید وہ بینچوں پر بیٹھنا اسی لئے پسند کرتے ہیں کہ اپنی مرضی سے درمیان میں چلے جایا کریں اور اپنے وقت کو ضائع کریں.میں اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ جو شخص اپنے وقت اور مال کو خرچ
۴۴۰ کر کے یہاں آتا ہے وہ اپنے نفس پر کیونکر جبر نہیں کر سکتا اور کس طرح وہ اپنے وقت کو چائے کی د کانوں اور باہر فضول پھرنے پر ضائع کر دیتا ہے.اگر چائے پر ہی وقت خرچ کرنا تھا تو وہ یہاں کی نسبت ان کے گھروں میں یا بڑے شہروں کے ہوٹلوں میں بہت اچھی مل سکتی تھی اور اگر یہاں ان کے آنے کی غرض سیر و تفریح تھی تو بہتر تھا کہ بجائے میں آنے کے بڑے بڑے شہروں کی سیرگاہوں میں جاتے.وہ دہلی چلے جاتے اور وہاں وائسرائے کے مکانوں، بادشای عمارتوں کو دیکھتے یا لاہور کی ٹھنڈی سڑک پر سیر کرتے.پھر لارنس گارڈن ( باغ جناح) میں تفریح حاصل کرتے اور جب چائے کی خواہش ہوتی تو لورینگ ( قبل از تقسیم ہند لاہور کا ایک معروف ریستوران )میں جا کر پی لیتے.لیکن یہاں آنے کی غرض تو خدا کی باتیں سننا ہے.اگر یہ غرض مدنظر نہیں تو پھر یہاں آنا بے فائدہ ہے.ہاں حاجات بھی انسان کے ساتھ بے شک گئی ہوئی ہیں اور ان کا پورا کرنا بہرحال ضروری ہے.حاجت کو روک کر تو نماز بھی جائز نہیں لیکن جب انسان کسی حاجت کی قضاء کے لئے جائے تو وہ حاجت پوری کر کے واپس بھی آسکتا ہے.جو دوست واپس نہیں آتے میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا خدا کے کلام سے اتنا ہی متاثر ہونا چاہئے کہ پیشاب کے لئے گئے تو واپس آنا ہی بھول گئے.جب ابھی یہاں ہی تمہارے اندر اثر کی یہ حالت ہے تو گھر پہنچنے پر بالکل ہی اثر جاتا رہے گا اور سب باتوں کو فراموش کردو گے.اس میں کوئی شک نہیں کہ پانسو کے قریب غیراحمدی دوست بھی آئے ہوئے ہیں اور تین سَو کے قریب دوسرے لوگ ہوں گے لیکن کل جلسہ گاہ سے اٹھنے والے دوست زیادہ تر احمدی ہی تھی.پس آج اپنی اصل تقریر شروع کرنے سے پہلے دوستوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ اگر وہ آرام اور اطمینان سے میری تقریر کو سننا چاہتے ہیں تو بیٹھ سکتے ہیں اور اگر در میان میں بغیر حاجت کے اٹھ کر جانا ہے تو بجائے اس وقت اٹھ کر جانے اور خلل اندازی کے ابھی ہی چلے جائیں تاکہ درمیان میں ان کے اٹھنے سے سامعین کو تو جہ میں خلل نہ واقع ہو اور نہ ان کا وقت ضائع ہو.اس کے بعد میں چند ضروری متفرق امور کی طرف جو کل کی تقریر کا بقیہ ہیں آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.منہاج الطالبین پہلی قابل توجہ بات یہ ہے کہ میں نے پچھلے سال نفس اور اولاد کی اخلاقی اور روحانی تربیت پر تقریر کی تھی.میرے نزدیک وہ لیکچر اپنے نفس کی اور اپنی آئندہ نسلوں کی روحانی اور اخلاقی اعلی ٰدرجہ کی تربیت کے متعلق نہایت ہی اہم اور مفید ترین معلومات پر مشتمل ہے.یہ لیکچر چھپ کر کتابی صورت میں تیار ہو چکا ہے.بکڈپو نے جو کہ
۴۴۱ بعض دوستوں کے مشترکہ سرمایہ سے قائم کیا گیا ہے اس کتاب کو شائع کیا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ اس کو خرید کر پڑھیں.حق الیقین اس سال اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور کتاب کے لکھنے کی توفیق فرمائی ہے اور وہ کتاب ہفوات المسلمین کا جواب ہے.ہفوات المسلمین ایک شیعہ نے لکھی ہے جس کے مضمون سے حضرت نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواج اور صحابہ رضي الله عنهم کی ذات پر نہایت ناپاک حملے ہوتے ہیں اور ان کی اشاعت سے تمام ہندوستان میں اسلام کے خلاف خطرناک زہر پھیل رہا ہے.اور یوں کہنا چاہئے کہ اس نے ہندوستان میں ایک آگ لگا دی تھی.اسی وجہ سے گورنمنٹ نظام نے اس کو ضبط کر لیا تھا لیکن اس کا اور بھی اُلٹا اثر پڑا کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ فی الواقع مسلمانوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہی نہیں تب ہی تو اس کو ضبط کیا جا رہا ہے.اخبار اہل حدیث میں بھی اس کے جوابات نکلنے شروع ہوئے تھے مگر چند سوالوں کا جواب دے کر خاموشی اختیار کرلی گئی جس سے کتاب نے اور بھی ناجائز فائدہ اٹھایا اور مشہور کر دیا کہ معلوم ہوا کہ باقی مطالبات کا کوئی بھی جواب نہیں.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس کا جواب لکھا جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے اس کے جواب میں کتاب حق الیقین کی ہے.یہ کتاب بھی ایسی معلومات پر مشتمل ہے جو علمی بھی ہیں اور جو اسلام سے بہت گہرا تعلق رکھتی ہیں.علاوہ اس کے مخالفین اسلام کے جوابات کے لئے نہایت مفید معلومات کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہے.علمی مباحثوں میں بھی کام آسکتی ہے اور اسلام کا مطالعہ کرنے کے لئے نہایت مفید ہے.احباب کو چاہئے کہ اس کو بھی بکثرت شائع کریں.الواح الہدیٰ ان کے علاوہ بعض اور دوستوں کی بھی کتابیں ہیں جو نہایت مفید اور ضروری ہیں.ایک کتاب الواح الہدی بک ڈپو نے شائع کی ہے.یہ کتاب قاضی اکمل صاحب کی مرتبہ ہے اور درحقیقت ریاض الصالحین کا ترجمہ ہے.ریاض الصالحین تربیت کے لحاظ سے ایک بے نظیر کتاب ہے.اور بالخصوص بچوں کی تربیت میں بہت مفید ہے.اسی بناء پر میں نے بچوں کی انجمن انصار اللہ کے لئے جو سکیم بنائی اس میں ضروری قرار دیا گیا کہ ہر طالب علم کے پاس تین چیزیں ضروری ہونی چاہئیں.ایک قرآن شریف دوسرے کشتی نوح تیسری ریاض الصالحین.دوسری جگہوں پر اس کتاب کی قیمت بھی زیادہ ہے.غالباً ایک ہی روپیہ ہے اور یوں بھی عربی میں ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا.اس لئے تجویز کی گئی ہے کہ کتاب کے بعض فقہی مسائل
۴۴۲ کو حذف کر کے اس کا ترجمہ قادیان میں ہی چھپوا لیا جائے.چنانچہ قاضی صاحب نے اس ضرورت کو پورا کر دیا اور اسکی قیمت بھی تھوڑی رکھی گئی ہے یعنی باره آنہ.یہ کتاب نہ صرف بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے بلکہ بڑوں کی اخلاقی حالت کی اصلاح میں بھی بے نظیر ہے.اخلاق کے متعلق آنحضرت ﷺ کے اقوال اور آیات کا یہ ایسا مجموعہ ہے کہ میرے خیال میں ایسا کوئی اور مجموعہ نہیں ہے.بہت ہی بے نظیر کتاب ہے.مجھے اتنی پسند ہے کہ میں کبھی سفر نہیں جاتا مگراس کو ساتھ رکھتا ہوں.پہلے عربی میں تھی جس سے ہر شخص فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا.اب ترجمہ کر دیا گیا ہے احباب کو چاہئے کہ اس بہترین مجموعہ کو ضرور خرید کر زیر مطالعہ رکھیں.یہ تینوں کتابیں بک ڈپو نے چھپوائی ہیں.وہاں سے ملیں گی.چشمہ ہدایت ایک اور کتاب چشمہ ہدایت ڈاکٹر نور محمد صاحب نے مختلف مذہبی مسائل پر تصنیف کی ہے.ڈاکٹر صاحب ان نوجوانوں میں سے ہیں جو ضروری مشاغل کے باوجود دینیات میں مشغول رہتے ہیں.اکثر طور پر ان کو آریوں سے مباحثات کرنے پڑتے ہیں.ان کے زہر کے ازالہ کے لئے انہوں نے یہ کتاب تالیف کی ہے.آریوں کے مسائل پر بہت عمده روشنی ڈالی ہے.یہ کتاب بھی مفید معلومات کا ذخیرہ ہے.میں اس کی سفارش کرتا ہوں کہ احباب اس کو بھی خریدیں.قادیان میں ہر کتب فروش سے مل سکے گی.اَحكام القرآن ایک اور ضروری کتاب احکام القران ہے.یہ کتاب ہمارے دوستوں کے لئے بہت مفید ہے کہ اس میں ہمیں قرآن کریم کے تمام اوامر و نواہی ایک اس صورت میں معلوم ہو جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے نشان کردہ ہیں.حکیم محمد الدین صاحب نے (جو حضرت مسیح موعود ؑکے پرانے صحابی اور نہایت مخلص ہیں قرآن پاک کے اوامرد نواسی کو جن پر حضرت مسیح موعودؑ نے نشان لگائے ہوئے تھے ایک جگہ کر کے اور باترجمہ شائع کر دیا ہے.میرے نزدیک یہ بہت ہی مفید کتاب ہے.اس مجموعہ کو پیش نظر رکھنے سے انسان کی بہت کچھ اصلاح ہو سکتی ہے.دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیال میں جو اوامر و نواہی تھے.ان پر بھی روشنی پڑتی ہے.یہ کتاب پچھلے سال سے شائع ہو چکی ہے لیکن آج کل جو کہ لوگ چُٹکلے پسند ہیں.جن کتابوں میں چُٹکلے ہوں وہی زیادہ فروخت ہوتی ہیں اس لئے یہ کتاب فروخت نہیں ہوئی.اب تو انہوں نے اس کی قیمت بھی نصف کر دی ہے یعنی آٹھ آنہ کردی ہے.احباب کو چاہئے کہ اس کو بھی ضرور خرید کر فائدہ اٹھائیں.
۴۴۳ وصیتوں کے متعلق ہدایات اس کے بعد میں دوستوں کو وصیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.وصیت ہماری جماعت کے لئے نہایت، اہم اور اصل چیز ہے.حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا ہے کہ جو شخص وصیت نہیں کرتا اس کے ایمان میں نفاق کا حصہ ہے.۹؎ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.وصیت کی طرف خاص توجہ کریں.جماعت کا کثیر حصہ ابھی تک وصیتوں سے خالی ہے.اس وقت ہماری جماعت کی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی بہت ضرورت ہے.خدا تعالی کامنشاء ہے کہ ہم مالی قربانیوں میں پورا حصہ لیں.چنانچہ ایک دوست نے خواب دیکھا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ہماری جماعت بے نظیر کامیابی اور ترقی دیکھنا چاہتی ہے تو ہر احمدی اپنے مال کا چوتھائی حصہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے قربان کرے.چنانچہ انہوں نے لکھاہے کہ میں اب سے ایسا ہی ادا کیا کروں گا.اہم کاموں کے لئے روپیہ کی ضرورت یہ زمانہ ایسا ہے کہ نہایت اہم کاموں کی ضرورت پیش آرہی ہے جس کے لئے روپیہ کی ضرورت بڑھ رہی ہے.مثلاً اب ہر ضلع میں ایک تربیت کرنے والے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اگر ہر ضلع میں ایک ایک مبلغ رکھا جائے تو صرف پنجاب اور سرحدی علاقہ کے لئے دس ہزار ماہوار خرچ کی ضرورت ہے اور اس رنگ میں تبلیغ کے بغیر جماعت کبھی ترقی نہیں کر سکتی.پس مالی قربانیوں کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے.بے روزگاروں کو روزگار دلایا جائے پھر ہماری جماعت میں بہت سے دوست بے روزگار بھی ہیں.ان کے لئے ایک جگہ کا اعلان اخبار میں ہو چکا ہے.وہ کئی سو احمدی معقول روزگار پر لگ سکتے ہیں.اس کے لئے دوست چوہدری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ پاک پٹن سے مل سکتے ہیں اور مفصّل حالات دریافت کر سکتے ہیں.انتظام ضیافت آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ کل رات ساڑھے بارہ بجے رات تک مہمانوں کو کھانا ملتا رہا ہے.مہمانوں کو جلدی کھانا کھلا دینا چاہئے.جب انہیں ساڑھے بارہ بج ے کو کھانا ہی ملے گا تو انہیں ذکر کرنے کا کہاں موقع ملے گا اور دن کے وقت وہ تقریریں کیسے سن سکیں گے.اس میں قادیان کی آبادی ابھی محدود ہے اور مہمان ہر سال پہلے زیادہ آتے ہیں اس لئے انتظام یہاں کے محدود دوستوں کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے.میرے نزدیک
۴۴۴ باہر کے دوستوں سے مشورہ کر کے ان میں سے باقاعدہ طور پر میزبان لئے جایا کریں جیسا کہ بعض دوست اب بھی کام میں شریک ہوتے ہیں مگر باقاعدہ طور پر کام لینے سے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور باہر کے دوستوں کو مدد کرنے میں کوئی عُذر نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک لحاظ سے ہم سب ہی میزبان ہیں اس لئے باہر کے دوستوں سے بھی اس موقع پر مددلے لیا کریں.مسجد لندن کی اہمیت آج مسجد لندن کے متعلق ایک اور شہادت ملی ہے کہ ولایت کے ایک بڑے آدمی نے لکھا ہے کہ ابن سعود نے ایک نادر موقع ہاتھ سے کھو دیا اس کے لئے موقع تھا کہ وہ یہ دکھا تا کہ اس کا تعلق اس جماعت سے ہے جو اسلام کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہے.میرے نزدیک اس کے بیٹے کو چو ولایت سے دنیوی فوائد پہنچے ہیں وہ آپ کی جماعت کے طفیل ہی پہنچے ہیں اگر آپ اسے نہ بُلاتے تو اس کو یہ فوائد کیسے پہنچتے.(الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۲۷ء) ۱؎ تذکرہ ص ۲۳۳، ۲۳۴.ایڈیشن چہارم (مفہوماً) ۲؎ (i) میاں عبدالرحمن صاحب تاریخ شہادت وسط 1901ء (تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ ۳۲۷ طبع ثانی) (ii) حضرت صاجزادہ عبداللطیف صاحب تاریخ شهادت ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء ( تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ ۱۸۵ طبع ثانی) (iii) مولوی نعمت اللہ خان تاریخ شهادت ۳۱.اگست۱۹۲۴ء (تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحہ ۴۴۷ طبع اول) (iv) مولوی عبدالحلیم صاحب ساکن چراسہ تاریخ شهادت ۵ فروری ۱۹۲۵ء (تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحه ۴۷۵ طبع اول) (v) قاری نور احمد صاحب ساکن کابل تاریخ شهادت ۵ فروری ۱۹۲۵ء (تاریخ احمدیت جلد۵ صفحہ ۴۷۵ طبع اول) ۳ ؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف ۴؎ النور:۲۰ د۵؎ مسلم کتاب البر والصلة والادب باب النهي عن قول ملک الناس ۶؎ الفاتحة :۲ ۷؎ بخاری کتاب المرضى باب اشد الناس بلا.(الانبياء ثم الاول فالاول.۸؎ البقرة:۱۸۷ و۹؎ الوصیت ص ۲۹، ۳۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۳۲۷ ۳۲۸(مفہوگا) ۴۳
۴۴۵ ہندو مسلم فسادات ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
ہندو مسلم فسادات ، ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ہندو مسلم فسادات ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل (فرموده مورخہ ۲مارچ۱۹۲۷ء بمقام بریڈ لاء ہال لاہور زیر صدارت خان بہادر سر شفیع کے سی ایس آئی) الحمد لله رب العلمین الرحمن الرحيم و ملك يوم الدين ایا نعبد وایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالین جیسا کہ آپ صاحبان کو معلوم ہے.آج میں آپ لوگوں کے سامنے اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ ہندو مسلم فسادات کے بواعث، ان کا علاج اور مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل بیان کروں.میرے نزدیک ہر وہ شخص جو خواہ کسی مذہب کے ساتھ تعلق رکھتا ہو، خواہ کسی ملت میں منسلک ہو، خواہ کسی عقیدہ اور کسی خیال کا ہو جسے کچھ بھی ہمدر دی اپنے ملک سے ہوگی بلکہ میں کہتا ہوں جس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی ملک کی خیر خواہی کا احساس ہو گا بلکہ میں کہتا ہوں جس کے اندر ایک ذرہ بھر بھی دردمندی کا مادہ ہو گا وہ ان فسادات کے سبب ایک تکلیف دہ احساس محسوس کئے بغیر نہیں رہے گا.ہندو مسلم اتفاق کاحشر ابھی چند سال کی بات ہے کہ پلیٹ فارموں پرسے یہ آواز بلند کی جاتی تھی کہ ہم بھائی بھائی ہیں ہم ایک وطن کے رہنے والے ہیں، ہمارے تعلقات کو کوئی بگاڑ نہیں سکتا، ملک کے خیر خواہ انسانوں کے لئے یہ آواز کیسی بھلی تھی اور اس سے کیسی لذت محسوس ہوتی اور کس قدر سرور حاصل ہوتا تھا.مگر یہ آواز ہی تھی اور ایک عارضی وقت کے لئے تھی کیونکہ چند ہی دن یہ اتفاق اور صلح رہی اور پھر فتنہ و فساد پیدا ہو
۴۴۸ گیا.یا تو وہ وقت تھا کہ جابجا اس قسم کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور اس قسم کے مضامین لکھے جا رہے تھے کہ ہم ایک ہیں اور ہم جدا نہیں ہو سکتے یا اب یہ حال ہے کہ وہ جو کہتے تھے ہم بھائی بھائی ہیں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے اور ایک دوسرے کو وطن سے نکالنے کی تیاریاں کرنے لگے.یہ اس لئے ہوا کہ ان کا اتفاق اور صلح صحیح بنیادوں پر نہیں تھی.ترقی کے لئے امن کی ضرورت میرے نزدیک اس وقت تک کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا، کوئی تمدن ترقی نہیں کر سکتا، کوئی سیاست ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ امن نہ ہو.جس طرح کھیت بغیر پانی کے ہرا نہیں ہو سکتا اسی طرح ترقی بغیرامن کے حاصل نہیں ہو سکتی.امن ترقی کے لئے اس پانی کی طرح ہے جس سے کھیت ہرا بھرا ہوا ہے.غرض ترقی خواه مذہب کی ہو، خواہ ملک کی، خواہ سیاست کی ہو خواہ تمدن کی امن کے بغیر نہیں ہو سکتی اور بغیر امن کے کوئی ترقی نہیں کر سکتا.چونکہ امن ترقی کا اصل ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جتنے متمدن ممالک ہیں وہ فسادات کے مٹانے میں لگے ہوئے ہیں اور نہ صرف عام لوگ اپنے اپنے طور پر یہ کام کر رہے ہیں بلکہ وہاں کی پارلیمنٹیں اور وہاں کے ذمہ دار حکام بھی رات دن اسی کام پر لگے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کسی طرح فسادات مٹائیں اور ترقی کریں.ان ملکوں میں اس قسم کی تقریر یں کی جاتی ہیں جن سے امن کی خوبیاں لوگوں کے ذہن نشین ہوں اور لوگوں کو فسادات سے بچایا جائے.ہندوستان کی بد بختی پھر ایک یہی بد بخت ملک ہندوستان ہے جس میں بجائے ایسی تقریریں کرنے کے جن سے امن قائم ہو اور لوگ امن کے سائے تلے ترقی کرتے چلے جائیں اس قسم کی تقریر یں کی جاتی ہیں کہ فسادات بڑھیں، قومی اور فرقہ وارانہ نفرتیں زیادہ ہوں اور ملک کا امن جاتا رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بحیثیت ملک ہونے کے ہندوستان ترقی کرنے سے رُکا ہوا ہے کیونکہ جب کسی ملک کے باشندے ایک دوسرے کے برخلاف اپنی طاقتیں خرچ کریں گے تو ضرور ہے کہ ترقی کرنے سے رُکے رہیں.ہمارے ملک میں اگر تمدن کو کسی مطلب کا سمجھا جاتا ہے تو نفرت پیدا کرنے کا ذریعہ ، اگر سیاست کو کسی کام کا خیال کیا جا تا ہے تو فتنہ و فساد کرانے کا آلہ، اگر سوسائٹیوں کو کسی مصرف کا سمجھا جاتا ہے تو فساد اور بدامنی پھیلانے کا ہتھیار.غرض کیاتمدن، کیا سیاست، کیا سوسائٹی اور کیا مذہب سب کے سب فساد کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں اس وجہ سے ہماری حالت سخت خراب ہے.ہم دوسروں کی نظروں میں بھی گرے
۴۴۹ ہوئے ہیں اور اپنی نظروں میں بھی گرے ہوئے ہیں لیکن افسوس کہ ہم اپنی عدالتوں پر جیسا کہ چاہئے غور نہیں کرتے.اگر ہم غور کریں تو صاف نظر آ جائے کہ ہم سخت گرے ہوئے ہیں جس کی وہ ہی ہے کہ ہم بہت جلد شورشوں کا شکار بن جاتے ہیں غلط کوششیں ملک میں جو کچھ عرصہ سے فسادات ہو رہے ہیں ان کے دور کرنے کے لئے جو کوششیں اس وقت کی گئیں اور جس رنگ میں سعی کو کام میں لایا گیا جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہی معلوم ہوا ہے کہ وہ صحیح نہیں.وہ کوششیں غلط راستوں پر لے جاتی ہیں جن پر چلنے سے فسادات بڑھا کرتے ہیں مٹا نہیں کرتے.ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی علاج بغیر تشخیص کے نہیں ہوتا اور صحیح علاج کے لئے معنے تشخیص کی ضرورت ہوا کرتی ہے.جہاں صحیح تشخیص نہیں ہوتی وہاں صحیح علاج بھی نہیں ہوتا.جب ہم ان کوششوں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو اس ملک سے فتنہ وفساد مٹانے کے لئے کی گئیں تو کہنا پڑتا ہے کہ وہ صحیح تشخیص پر مبنی نہیں تھیں.چونکہ فسادات کی اصل وجہ ہی کی تشخیص نہیں کی گئی تھی اس لئے یہ ممکن نہ تھا کہ جو کوششیں فسادات کے مٹانے اور صلح کے پیدا کرنے کے لئے کی گئیں وہ کامیاب ہو تیں.سو ایسا ہی ہوا.سال دو سال کے لئے بظاہر امن کی صورت اور صلح کا رنگ پیدا ہو گیا مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایسی کوششیں صحیح اور درست طریق پر نہ تھیں اور ان کی کیفیت ایسی ہی تھی جیسی مرض کی تشخیص کئے بغیر اس کے علاج کرنے کی سعی کی جائے اس لئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ عارضی خاموشی رہی پھر فسادات بڑھ گئے اور وہ بات جو صلح کی شکل میں نظر آرہی تھی مٹ گئی اور باوجود تین چار سال تک وقت، طاقت، اثر اور روپیہ استعمال کرنے کے بھی اسے قائم نہ رکھا جاسکا صلح کے دو ناکام طریق اس وقت تک صلح کے لئے جو دو طریق استعمال کئے گئے ہیں وہ بالکل نادرست تھے.ان میں سے پہلا طریق تو یہ تھا کہ ہمارے ملک کے سیاسی لیڈر جمع ہو جاتے اور کہہ دیتے آؤ صلح کر لیں.جب ان کا آپس میں سمجھوتہ ہو جاتا تو اعلان شائع کر دیتے کہ صلح ہو گئی ہے.حالا کے لیڈروں کے درمیان تو لڑائی پہلے سے ہی نہ تھی او نہ ہی لیڈروں کے درمیان لڑائی ہوا کرتی ہے.لڑتے تو عام لوگ ہیں.وہ سیاسی لیڈروں کے ایسے اعلانات کے باوجود کہ صلح ہو گئی ہے پھر بھی لڑتے رہے کیونکہ لڑائی محمد علی وشوکت علی صاحبان.گاندھی جی اور پنڈت مالویہ کے درمیان نہ تھی.لڑائی تو عوام کے درمیان تھی اور یہ ناممکن ہے کہ لڑیں تو عوام اور صلح کریں لیڈر.اس طرح کبھی صلح نہیں ہو سکتی.غرض چونکہ لیڈروں میں لڑائی
۴۵۰ نہ تھی اس لئے ان کی صلح کااثر عوام پر نہیں ہو سکتا تھا مگر باوجود اس کے یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ صلح ہو گئی.لیڈر اگر صحیح اقرار بھی کریں گے لوگ آئندہ نہیں لڑیں گے تو بھی فساد نہیں رک سکتے کیونکہ لڑنے والے ان کی صلح کو قبول نہیں کر سکتے.دوسرا طریق یہ تھا کہ کچھ پبلک کو بلا کر کہہ دیا جاتا کہ تم آپس میں بھائی بھائی ہو تمہیں لڑنا نہیں چاہئے.اس پر بعض جگہ اعلان تو ہو گیا کہ ہندو مسلمان نہیں لڑیں گے لیکن نتیجہ اس کا بھی کچھ نہ نکلا کیونکہ محض اعلانوں سے کبھی صلح نہیں ہوئی جب تک لڑائی کے اسباب کو دور نہ کیا جائے.سوال یہ ہے کہ لوگ بِلا وجہ لڑا کرتے تھے یا ان کی لڑائی کی کوئی وجہ ہوتی تھی اور کیا ایسے اعلان لڑائی کی اصل وجہ دریافت کر کے کئے جاتے تھے؟ یا یونہی.واقعات بتائیں گے کہ لوگ بِلاوجہ نہیں لڑا کرتے اور لیڈروں کے اعلان بغیر اس لڑائی کی وجہ معلوم کئے ہوتے تھے.جس طرح ہر انسان میں غصے کا مادہ ہوتا ہے مگر کسی باہوش انسان کو بِلاوجہ کسی پر غصہ نہیں آتا اور نہ بِلاوجہ کسی سے لڑتا ہے کسی وجہ سے ہی اسے غصہ آتا ہے.اسی طرح قومیں بھی بِلاوجہ نہیں لڑا کرتیں اور ملکوں کی لڑائیاں بھی کسی وجہ سے ہی ہوا کرتی ہیں.جب ہر لڑائی کے لئے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور لڑائی بند تب ہی ہو سکتی ہے جب اس کی وجہ مٹ جائے تو ہندو مسلمانوں کی لڑائی کے متعلق کیسے امید کی جاسکتی تھی کہ صرف لیڈروں کے منہ سے کہہ دینے سے بند ہو جائے گی حالا نکہ نہ اس کی وجہ دریافت کی گئی اور نہ اس وجہ کو دور کرنے کی کوشش کی گئی.یہ قاعدے کی بات ہے کہ جوش میں انسان ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے.جب ہندو مسلمانوں میں صلح کا جوش تھا اس وقت اس جوش سے شاید اگر ائمی نہیں تو ایک لمبے عرصہ کے لئے صلح ہو جانی ممکن تھی بشرطیکہ لیڈر پیک کے اس جوش سے پورا اور صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے لیکن انہوں نے فسادات کی وجہ تو دریافت نہ کی جس کے دور کرنے سے فساد دور ہو سکتے تھے اور جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ کچھ لوگوں کو بلا کر کہہ دیا صلح کر لو لڑو نہیں اور لوگوں نے بھی جلسوں کے موقعوں پر کہہ دیا ہم نہیں لڑیں گے اور تماشے کے طور پر عوام الناس نے کہنا شروع کر دیا آج سے ہم بھائی بھائی ہیں.ہمیں آپس میں ایک دوسرے کو گلے لگا لینا چاہیے.آج سے ہماری صلح ہو گئی.لڑائی کی وجہ معلوم کئے بغیر صلح کا نتیجہ اسی بریڈلا ہالمیں آج سے چار پانچ سال پہلے میں نے ایک تقریر کی تھی اس میں بھی ہندو مسلمانوں کی صلح کے متعلق اظہار خیالات کیا تھا.میرے نزدیک اس صلح کی مثال
۴۵۱ ایسی تھی ہے دو زمیندار جو آپس میں بھائی ہوں اور جن میں جائیداد تقسیم کر دی گئی ہو وہ کھیت کے کی منڈیر کے لئے لڑ پڑیں.ایک کہے یہ حصہ میرا ہے دوسرا کہے میرا.اس موقع پر ان کا باپ اگر انہیں کہے خبردار مت لڑو نقصان اٹھاؤ گے تو کوئی تعجب نہیں کہ وہ باپ کی نصیحت سن کر رو بھی پڑیں اور بغیر اس کے کہ وہ باپ سے پوچھیں کہ ہم صلح کن اصول پر کریں ہم آپس میں گلے مل جائیں.لیکن گو وه بظاہر صلح کر لیں گے لیکن ان میں سے پرایک کے دل میں یہ خیال کرے گا کہ ہمارے باپ کا مطلب یہ تھا کہ میرا دوسرا بھائی مجھ پر ظلم نہ کرے اور اب امید ہے کہ اس صلح کے بعد وہ میرا حق مجھے دے دے گا اور وہ دل میں خوش خوش چلا جائے گا کہ اب تنازعہ زمین مجھے مل جائے گی.اس کے بعد جب ان دونوں میں سے کوئی متنازعہ فیہاحصہ زمین میں ہل چلائے گا تو دوسرا لٹھ لے کر کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا عجیب احمق ہے کہ ابھی باپ نے سمجھایا اور اس کے سامنے فیصلہ کر کے آیا ہے اور ابھی اس کے خلاف کر رہا ہے.اس طرح پہلے سے بھی زیادہ زور سے لڑائی شروع ہو جائے گی.ایسی صلح در حقیقت نئے فساد کی وجہ بن جاتی ہے اور اس سے امن قائم نہیں ہو سکتا.چونکہ ان مجالس میں جو لیڈروں کی طرف سے قائم کی جاتی ہیں یہ فیصلہ نہیں کیا گیا تھا کہ ہندو مسلمانوں کے مطالبات کیا ہیں، جھگڑا کن باتوں پر ہے اور ان کے متعلق صفائی کس طرح ہو سکتی ہے اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ جب لوگ جلسوں کو چھوڑ کر گھروں میں گئے تو ہندووں کے جو مطالے مسلمانوں سے تھے ان کے متعلق ہندووں نے سمجھ لیا اب وہ پورے ہو گئے اور مسلمانوں کے جو مطالبات ہندووں سے تھے ان کے متعلق مسلمانوں نے سمجھ لیا چونکہ لیڈروں نے اب صلح کرا دی ہے اس لئے وہ پورے ہو جائیں گے.مگر جب ہندوؤں نے اپنے حقوق کا مطالبہ مسلمانوں سے کیا اور مسلمانوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ ہندوؤں سے کیا تو دونوں کا غصہ اور بھی بڑھ گیا کیونکہ ہر ایک صلح کا مفہوم یہ خیال کرتا تھا کہ اب دوسرا اپنا مطالبہ چھوڑ دے گا.اور نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے سے بھی زیادہ فساد پیدا ہو گیا.ہندو مسلمان دھوکا کھا گئے حقیقت یہ ہے کہ لیڈروں کے صلح کے اعلانات سے پبلک اس دھوکا مٰن آگئی کہ صلح ہوگئی حالا نکہ یہ کوئی صلح نہ تھی بلکہ یہ تو ایک قسم کی لڑائی تھی.اس طرح جب بھی کیاجائے گا اس سے پہلے کی نسبت زیاده فساد ہو گا کیونکہ یوں اپنے حق کے لئے لڑنیوالوں کو اگر کسی وقت سمجھایا جائے تو کچھ نہ کچھ سمجھ سکتے ہیں لیکن جہاں یہ سمجھ لیا گیا ہو کہ ہمیں صلح کے پردہ میں دھوکا دیا گیاوہاں لڑائی کا کم ہونا مشکل ہوتا
۴۵۲ ہے.ہندو مسلمانوں میں بھی یہی ہوا.اگر ہندو اور مسلمانوں نے یہ نہ سمجھ لیا ہوتا کہ ہم ایک دوسرے کی طرف سے دھوکا دیئے گئے ہیں تو ان کی آپس میں لڑائی نہ ہوتی.اور اگر ہوتی تو سمجھانے سے کم ہو جاتی مگر یہاں دونوں نے یہ سمجھا کہ ہم کو دھوکا دیا گیا ہے.حالانکہ ان کو دھوکا نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان کے نفسوں نے دھوکا کھایا تھا کہ جو بات صلح نہ تھی اسے صلح سمجھ لیا تھا.مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ہندوؤں نے باوجود صلح کے ان باتوں کو نہیں چھوڑا جن سے مسلمانوں کو رنج پہنچتا تھا تو انہیں غصہ آیا کہ ابھی صلح کا فیصلہ ہوا تھا لیکن انہوں نے اس کی کچھ پرواہ نہیں کی اور ابھی تک بدستور وہی کام کر رہے ہیں جن سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے.ادھر ہندوؤں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں نے وہی باتیں کرنی شروع کر دیں جن سے انہیں تارانتی تھی تو انہیں بھی غصہآیا.مطلب یہ کہ دونوں نے سمجھا ہمیں دھوکا دیا گیا ہے اور یہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس کے نتیجہ میں ملک کا امن برباد ہو گیا.اس وقت میں چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق میں اپنے خیالات آپ لوگوں کے سامنے ظاہر کروں کہ اس نزاع کے اصل بواعث کیا ہیں؟ اور ان حالات میں جب کہ نزاع پیدا ہو چکی ہے اور ملک کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ جو باتیں میں بیان کرو اگر انہیں غور سے سناجائے گا اور ان کے مطابق عمل کیا جائے گا تو بہت جلد امن قائم ہو جائے گا.وجوہ ِفساد میں ان فرقہ وارانہ فسادات اور نزاعات کے باعث تفصیلی طور پر تو اس قلیل وقت میں بیان نہیں کر سکتا مختصر طور پر جو کچھ کہہ سکتا ہوں یہ کہوں گا.میرے نزدیک موجودہ فسادات کے بواعث یہی ہیں جو میں بیان کروں گا اس لئے جس طرح سبب نہیں رہتا تو مرض بھی نہیں رہتا اسی طرح اگر یہ بواعث نہ رہیں تو فسادات بھی نہ رہیں گے.سیاسی رواداری اور مساوات کاعدم سب سے پہلا باعث جوان فسادات کا ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی رواداری اور مساوات کا خیال مفقود ہے.سیاسی رواداری کی تو ہم لوگوں نے قیمتی نہیں سمجھی اور مساوات کے اصول کی اہمیت سے بے خبر ہیں اس لئے بجائے اس کے کہ رواداری کا چرچا عام ہو ہر ایک یہی خیال کرتا ہے کہ جس چیز پر اس کا قبضہ ہو گیا وہ اسی کے لئے ہے اور اسی کے فائدہ کے لئے ہے دوسروں کے فائدہ کے لئے نہیں.یہ رواداری کے جذبہ کے نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر ایک آدمی ایسا خیال کرتا ہے.اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ رواداری کا جذبہ لیاقت اور علم سے پیدا ہو
۴۵۳ سکتا ہے لیکن وہ قوم کیا لیاقت حاصل کر سکتی ہے جس کے لئے تعلیمی راستہ ہی نہ کھلا ہو.میں اس بات کو ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے افراد لیاقت پیدا کریں.لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک قوم کے لئے بغیر حکومت میں مناسب حصہ پانے کے ترقی ہی ناممکن ہوتی ہے اور دوسری قوم اس قدر ترقی کر چکی ہوتی ہے کہ بغیر خاص مدد کے پہلی قدم قدم آگے کو نہیں اٹھا سکتی.اور اس وقت ترقی یافتہ قوم کا فرض ہوتا ہے کہ وہ وطنی جذبہ کا اظہار کرے اور نہ صرف یہ کہ پیچھے رہی ہوئی قوم کو اس کا حق دے بلکہ اسے رعایت دے تاکہ وہ بھی ترقی کر سکے.یہی صحیح جذبہ رواداری کا ہے جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور نہ اس کے بغیر امن ہو سکتا ہے.ایک ملک کی مختلف قوموں کی مثال ایک سڑک کی ہے جس پر مختلف لوگ چل رہے ہوں بیشک راستہ میں ہر ایک شخص کو خود ہمت کر کے آگے بڑھنا چاہئے لیکن جب یہ صورت پیدا ہو جائے کہ کچھ لوگ راستہ میں دیوار کی طرح کھڑے ہو گئے ہوں تو پچھلوں کے لئے آگے بڑھنا بالکل ناممکن ہو گا ان کی سب کوششیں اکارت جائیں گی.میں اس وقت اگلی قوم کا فرض ہو گا کہ وہ بیشک آگے کر چلے لیکن سارا راستہ نہ روکے دوسروں کے آگے ہونے کے لئے بھی راستہ چھوڑدے ورنہ پسماندہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں.جمہوریت کے نہ ہونے کے نقصان سیاسی رواداری کا یہ فقدان ہمارے ملک میں اس سبب سے ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کبھی قائم نہیں ہوئی.ہندو راجے بھی یہاں ہوئے اور مسلمان بادشاہ بھی یہاں گزرے مگر سب کی حکومت قومی ہوا کرتی تھی.یعنی کیا ہندو اور کیا مسلمان دونوں کی حکومتیں رہی ہیں مگر وہ بادشاہوں کی حکومتیں تھیں.ہندوؤں میں سے عام طور پر راجپوت حکومت کرتے رہے ہیں.اس وقت گویا راجپوتوں کی قومی حکومت تھی.ان کے سوا جو قومیں ہندووں کی تھیں ان کے لئے ترقی کے کوئی سامان راجپوت قوم کی طرف سے نہ کئے جاتے تھے.اسی طرح مسلمانوں کی اگر حکومت اس ملک میں قائم ہوئی تو اسے ایک لحاظ سے کہ سکتے ہیں کہ مغلوں کی تھی یا پٹھانوں کی تھی کیونکہ ان میں سے بعض ایسے تھے جو مغل بادشاہ تھے اور بعض ایسے پٹھان بادشاہ تھے نہ کہ ملکی بادشاہ تھے اس وجہ سے باوجود سینکڑوں سال تک بھی بڑی بڑی حکومتوں کے قائم ہونے کے ہر قوم کا ہر بادشاہ سمجھتا تھاکہ مجھے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے تلوار اور جتھے کی ضرورت ہے.اور جب ایک بادشاہ کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے تلوار اور جتھے کی ضرورت ہو لازمی طور پر یہ بات پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ
۴۵۴ اس کے لئے اپنی قوم کا اپنے لوگوں کی طرف دیکھے اور انہیں ہر قسم کی رعایت دے اور دوسرے لوگوں کو ان فوائد سے محروم رکھے.ہندوستان میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کیونکہ ہر بادشاہ یا ہر راجہ یہ محسوس کرتا تھا کہ اگر اپنے جتھے کی رعایت نہ کی جائے گی اور اگر اسے خاص حقوق نہ دیئے جائیں گے تو وہ اس کی مدد نہ کرے گا اور لڑائی کے موقع پر اس کا ساتھ نہ دے گا اور حکومت قائم نہ رہے گی.ایساجتھہ ان کی اپنی قوم ہی کا ہوتا تھا.اور ان خاص مراعات کی وجہ سے جو ان کو ملتی تھیں بادشاہ کی قوم خیال کرتی تھی کہ گویا حکومت انہی کی ہے اور اس کی حفاظت کا خیال اسے رہتا تھا.غرض اس ملک کے بادشاہوں اور راجوں کو اپناجتھہ قائم کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کرنا پڑتا اور اس جتھہ کے فوائد کے لئے دوسرے گروہوں اور فرقوں اور جماعت کے فوائد کو نظر انداز کر دیا جاتا اور صرف انہیں لوگوں کو خاص حقوق کے جو اس کی اپنی قوم اپنے جتھے کے ہوتے.اس طریق عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ قومی پاسداری یا دھڑا بندی کے خیالات لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو گئے.اور یہ خیال ورثہ کے طور پر جو اپنے باپ دادوں سے اس ملک کے باشندوں کو ملے بِلاشبہ یہ بُرا ورثہ ہے.اور جب تک اس کی اصلاح نہ ہو گی اس وقت تک جس قوم کے ہاتھ میں کوئی اختیار ہو گا وہ دوسروں کو مٹا دے گی.اس کے افراد باپ دادوں کی طرف سے یہی دیکھتے چلے آئے ہیں کہ ہر ایک قوم کا فرد اپنی ہی قوم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور دوسروں کی پرواہ نہیں کرتا اور جب کوئی قوم اس اختیار کے مل جانے پر دوسری قوموں کو مٹانے کی کوشش کرے گی لازماً فساد بڑھے گا اور جب فساد بڑھے گا تو امن اٹھ جائے گا.اور ان کے اٹھ جانے کی صورتمیں ترقی کی کوئی امید نہیں ہو سکتی.اس کے لئے ضروری ہے کہ اس طریقہ کی اصلاح کی جائے کیونکہ جب تک اس طریقہ میں اصلاح نہ ہوگی اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنانہ سیکھیں گے نہ صرف یہ کہ اپنوں میں سے ایک دوسرے کی مدد نہ کریں گے بلکہ غیروں اور دوسری قوموں کے آدمیوں کی مدد نہ کریں گے اور ان میں مساوات کا مادہ موجود نہ ہو گا اور سیاسی رواداری کا جذبہ پیدا نہ ہو گا ترقی نہیں کر سکیں گے.مذہبی رواداری کا فقدان دوسری وجہ جوان فسادات کی ہے اور جس کا اثر بھی بہت بڑا ہے وہ مذہبی رواداری کا فقدان ہے.جس طرح اس ملک میں سیاسی رواداری نہیں اسی طرح مذہبی رواداری بھی نہیں.لوگ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ کسی دوسرے مذہب کو اچھا کہہ سکیں بلکہ اُلٹا یہ خیال بیٹھ گیا ہے کہ جب تک ایک مذہب
۴۵۵ دوسرے مذہب کی بُرائی نہ کرلے اس وقت تک اس کی برتری ثابت نہیں ہو سکتی.ہم اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ دوسروں میں کیڑے نکالیں ان کو جھوٹا کہیں.جا بجا کہتے پھریں کہ فلاں مذہب بہت بُرا ہے اس میں تعفّن پیدا ہو گیا ہے اور اس حد تک تعفن پیدا ہو گیا ہے کہ پاس جاتے ہوئے دماغ پھٹ جاتا ہے.اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پچھلا زمانہ انحطاط کا زمانہ گزرا ہے اس میں ہر قسم کی قابلیت کم ہوگئی تھی اس وقت لوگوں میں بلند ہمتی نہ رہی تھی اس لئے بجائے اس کے کہ اپنے مذہب پر غور کرتے ان کی خوبیاں معلوم کرتے اور دوسروں کو ان سے آگاہ کرتے لوگوں نے یہ طریق اختیار کر لیا کہ اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے دوسرے مذہبوں کو بُرا کہنے لگ گئے.ذہب کی خوبیوں سے واقف ہونے کے لئے عبادت، خدا کی محبت اور وقت کی قربانی کی ضرورت تھی لیکن ہمارے ملک میں نہ عبادت رہی نہ خدا کی محبت نہ مذہب کے لئے وقت کی قربانی کی عادت.اس لئے ان کی جگہ یہ بات پیدا ہو گئی کہ دوسرے مذاہب کو بُرا بھلا کہنے لگ گئے کیونکہ بلند ہمتی نہ رہی تھی.دوسرے مذاہب کو بُرا کہہ دینے اور ان کے نقائص بیان کردینے سے ہی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے بڑا کام کر لیا.ضرورت اصلاح یہ دو وجہیں ہیں ملک کے فسادات کی جنہیں سیاسی اور مذہبی عدم رواداری کہا جاتا ہے اور یہ اس ملک کے لوگوں نے خود پیدا کی ہیں ورنہ خدا تعالی کی طرف سے یہ رواداری کے جذبہ سے محروم نہیں کئے گئے.پچھلے اعمال کے اثرات سے یہ بات پیدا ہوئی کہ نہ سیاسی رواداری باقی ہے اور نہ مذہبی رواداری.اور جب تک یہ نقص دور نہ کیا جائے گا اور ملک میں عدم رواداری کا جو مادہ پیدا ہو گیا ہے اسے خارج نہ کیا جائے گا اس وقت تک ترقی نہیں ہو سکے گی.لیکن یہ حالت ایک دن میں پیدا نہیں ہو سکتی اس کے پیدا کرنے میں دیر لگے گی پس اس وقت تک کہ یہ حالت پیدا ہو ہمیں ایسی شرائط طے کر لینی چاہئیں جن پر عمل کر کے عارضی طور پر یہ بُرے جذبات ان لوگوں کے دلوں میں دبے ر ہیں جو اس مرض میں مبتلاء ہیں اور ان کے بار بار ظاہر ہونے سے ملکی امن کو نقصان پہنچے.عدم رواداری کے دو خطرناک نتیجے میں نے دیکھا ہے عدم رواداری سے دو خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں.پہلا یہ کہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ دشمن کوئی اچھی بات کہہ ہی نہیں سکتا.رواداری کے فقدان کی وجہ سے ہندو فرض کر لیتے ہیں کہ مسلمان جو کچھ کرتے ہیں بُرا کرتے ہیں اور مسلمان یہ سمجھ لیتے ہیں کہ
۴۵۶ ہندو جو کچھ کرتے ہیں بُرا کرتے ہیں خواہ اچھی بات ہی ہو پھر بھی اسے بُراہی کہتے اور بُرا ہی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسرے کی بات کو اچھا کہنے میں ہماری ہتک ہے.پس کو دوسرے مذہب کا آدمی اچھی بات ہی کر رہا ہو لیکن رواداری کے نہ ہونے کے سبب اسے بُرا ہی سمجھاجاتا ہے.دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہر شخص جو کچھ کہتا ہے بدنیتی سے کہتا ہے یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی کوئی بات کہے اور دوسرے کو وہ ناپسند ہو لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ چونکہ اسے ناپسند ہے اس لئے کہنے والے نے بد نیتی سے کہی ہے.مگر یہاں نیتوں پر بھی حملہ کیا جاتا ہے اور جب کسی کی نیت پر حملہ کیا جاتا ہے تو لازماً یہ نتیجہ ہے کہ دوسرے کو غصہ آئے اور اس غصہ سے وہ خیال کرنے لگ جائے کہ یہ مجھے اس لئے ذلیل کرنا چاہتا ہے کہ خود ترقی کرے.در حقیقت یہ نقص اس لئے پیدا ہوا ہے کہ قوم پرستی کی وجہ سے ہمارے ملک میں یہ خیال راسخ ہو گیا ہے کہ ترقی بغیر دوسروں کو گرانے کے نہیں ہو سکتی.اسلامی سیاسی رواداری اس موقع پر یہ بھی بتادینا چاہتاہوں کہ اسلام کی تعلیم مذکورہ بالا امور کے متعلق کیا ہے.سیاسی رواداری ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق اتنی سی بات بیان کر دینا ہی کافی ہو گا کہ اسلامی ملکوں میں اسلامی حکومتوں کے ماتحت لوگ بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں پر قائم رہے اور یہ بات کہ غیرمذاہب کے لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر مقرر کیا گیا ہو خاص جکومت یا کسی خاص اسلامی ملک یا کسی خاص زمانہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر اسلامی حکومت میں ایسا کیا جاتا تھا اور ہر اسلامی ملک میں اس رواداری کو استعمال میں لایا جاتا رہا.جہاں جہاں اسلامی حکومت ہوتی ہے وہاں لائی اور قابل آدمیوں کو اعلی ٰعہدوں پر مقرر کیا گیا اور یہ نہ دیکھا گیا کہ فلاں آدمی اپنی قوم کا فرد ہے یا غیر قوم کا.چنانچہ انجینئر، اطبّاء، کمانڈر ، حتی کہ وزارتتک کے عہدے ان لوگوں کو دیئے گئے جو یہودی تھے یا عیسائی یا کسی اور قوم کے فرد.یہی حال ہندوستان میں بھی رہا اور بادشاہوں نے ہندوؤں کو بھی بڑے بڑے عہدوں پر مقرر کیا بلکہ بعض حالتوں میں غیرمذاہب کے لوگ مسلمانوں سے بھی ترقی کر جاتے تھے کیونکہ جو بڑے بڑے مسلمان بادشاہ گزرے ہیں وہ جانتے تھے کہ انہیں مذہبی طور پر بھی حکم ہے کہ کسی کا حق نہ ماریں خواه وہ شخص اپنی قوم کا ہو یا غیر قوم کا.چونکہ مسلمانوں کو مذہبی طور پر اس قسم کی رواداری اختیار کرنے کا حکم ہے اس لئے وہ اس سے احتراز میں کرتے تھے.
۴۵۷ مذہبی رواداری میں نے فسادات کی اصل وجہ بیان کرتے وقت ایک وجہ مذہبی رواداری کا فقدان بتائی تھی اور بتایا تھا کہ جس طرح سیاسی رواداری کامادہ ملک میں نہیں رہا اسی طرح مذہبی رواداری کا جذبہ بھی مفقود ہو گیا ہے.سیاسی رواداری کے متعلق اسلام کی جو تعلیم تھی اس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں کہ مسلمان حکومتوں میں یہودی، عیسائی، ہندو اور دوسری اقوام کے لوگ اعلیٰ اعلیٰ عہدوں پر مقرر کئے گئے اور مطلقا ًاس بات کا خیال نہ کیا گیا کہ وہ حکمرانوں کی اپنی قوم کے ہیں.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مذہبی رواداری کے متعلق اسلام کی کیا تعلیم ہے اور اس تعلیم کے مطابق ایک مسلمان کہاں تک دوسری اقوام سے نیک سلوک کرنے کے لئے مجبور ہے.مذہبی رواداری کی اسلام میں اس قدر مضبوط بنیاد موجود ہے جس کی نظیر کسی اور جگہ نہیں پائی جاتی.دوسرے لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک دوسرے کو جھوٹا ثابت نہ کر لیا جائے اپنی سچائی ثابت نہیں ہو سکتی مگر اسلام کی یہ تعلیم نہیں.اسلام جہاں اپنی خوبیوں کو پیش کرتا ہے وہاں وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہر قوم جو زمین پر قائم ہوئی اس میں کوئی نہ کوئی خدا کا نبی آیا.جیسا کہ فرماتا ہے ان من أمة إلا خلا فيها نذير ۲؎ ہر قوم میں نذیر آیا.اب دیکھو کتنا بڑا فرق ہے اسلام میں اور دوسرے مذاہب میں.دوسرے مذاہب یہ ہر گز نہیں سکھاتے کہ ان کے سوا کسی اور قوم میں بھی نبی آئے لیکن یہ اسلام کی تعلیم ہے جو بتاتی ہے کہ تمام قوموں میں نبی آتے رہے ہیں.ب ام تعلیم کے ماتحت مسلمان اس بات کے پابند ہیں کہ ہر قوم میں نبی مانیں اور جب وہ ہر قوم میں نبی مانیں گے تو پھر کیا وہ کسی قوم کو کہہ سکتے ہیں کہ تمہارانبی جھوٹاتھا.اگر کوئی ایسا کہے تو وہ اس نبی کو ہی جھوٹا نہیں کہے گا بلکہ قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلائے گا.دیکھو ایک عیسائی اطمینان کے ساتھ گندے سے گندے الفاظ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر سکتا ہے لیکن ایک مسلمان گھر میں بھی اور باہر بھی ’’ مسیح‘‘ کو حضرت عیسی عليه السلام کر کے پکارے گا یعنی حضرت عیسیٰ پر سلامتی ہو اور برکتیں نازل ہوں.یہ اسلام ہی کی تعلیم کا اثر ہے کہ عیسائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں لیکن ہم حضرت عیسیٰ عليه السلام پر درود بھیجتے ہیں.یہی حال ہندوؤں اور دوسرے مذہب والوں کا ہے کہ وہ تو ہمارے انبیاء کو گالیاں دیتے اور بُرے الفاظ بولتے ہیں مگر ایک مسلمان ان کے سب پیشواؤں کی عزت کرتے ہے اور ان کے لئے عزت اور ادب کے الفاظ استعمال کرتا ہے کیونکہ جب قرآن کریم کہتا ہے وان من امة إلا خلا فيها نذیر تو ہر مسلمان کو ماننا پڑے گا کہ ہندوؤں میں بھی نبی گزرے کیونکہ ہندو
۴۵۸ کی دنیا میں ایک قوم ہے اور جب یہ ماننا پڑے گا تو کیونکر اس میں سے ہے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ہندوؤں کے بزرگوں کو گالیاں نکالے.مہاراج کرشن درام چندر جی نبی تھے میں تومانتا ہوں کہ کرشن اور رام چندرجی نبی تھے.ممکن ہے دوسرے مسلمان میرے ساتھ متفق نہ ہوں لیکن وہ بھی اگر انہیں اچھا نہ کہیں تو انہیں بُرا بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ سب قرآن کو ماننے والے ہیں.اگر مسلمان مسلمان ہیں اور اگر قرآن شریف کی تعلیم ان کے لئے حجت ہے تو وہ ہرگز ہرگز اس آیت کے ماتحت جو میں نے پڑھی ہے کسی قوم کے نبی کو بُرا نہیں کہہ سکتے.قرآن شریف میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ہر قوم میں نبی آۓ اس میں یہ بھی مصلحت ہے کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ وہ کسی قوم کے نبی کو بُرا نہ کہیں کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہیں.لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں ہندو اس کے مقابل پر اپنی کوئی تعلیم نہیں پیش کرسکتے جس میں انہیں اس قسم کی تعلیم کے ذریعہ مذہبی رواداری کا سبق دیا گیا ہو اور جس سے وہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی عزت کرنا سیکھیں.جس طرح میں کرشن اور رام چندرجی کی عزت کرتا ہوں کیونکہ وہ قرآن کی تعلیم کے مطابق نبی تھے اسی طرح ہندو وید سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ تعلیم نہیں پیش کر سکتے کہ وہ بھی دوسری اقوام کے نبیوں کو نبی کہیں مگر بہرحال ان کو عقلاً یہ ضرور تسلیم کرنا ہو گا کہ کم سے کم دوسری اقوام کے بزرگوں کو بُرا کہنامذہب کا حصہ نہیں ہو سکتا.تمام ملکوں میں نبی پھر خدا تعالی نے مسلمانوں کو یہ ہی نہیں تھا کہ تمام قوموں میں نبی آئے بلکہ یہ بھی بتایا ہے ولقد بعثنا في كل امة رسولا ۳؎ کہ تمام قوموں میں رسول آئے.پس کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتاکہ قرآن میں نذیر کالفظ ہے رسول نہیں ہے اور نذیر کچھ اور ہوتا ہے.غرض قرآن کریم کے روسے ہر قوم میں نبی اور رسول آتے رہے ہیں اور کسی ملک میں بھی کسی نبی کا پتہ ملے مجھے اس کے ماننے میں عذر نہیں ہو سکتا.خواه ہندوستان میں ہو، خواہ چین میں.کیونکہ جب قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تو مجھے ماننا پڑے گا کہ ضرور آئے.اس صورت میں کسی ایسے شخص کے متعلق جسے کسی قوم یا کسی ملک کے لوگ نبی کہتے ہوں میں نہیں کہ سکتا کہ وہ جھوٹا تھا.فرض کر لیا جائے اگر میں اسے اچھا نہیں کہہ سکتا تو کم از کم یہ جرات بھی مجھ میں پیدا نہیں ہو سکتی کہ میں اسے بُرا کہوں کیونکہ تعجب نہیں جسے میں بُرا کہوں اور جھوٹا ٹھہراوں کہ فی الواقع خدا کی طرف سے ہو.پس ایک مسلمان جب قرآن
۴۵۱ شریف کی اس تعلیم کو دیکھے گا تو پھر وہ کسی قوم یا کسی ملک کے بزرگ کو بھی بُرا نہیں کہہ سکتا.ہندو قوم میں کوئی بزرگ ہو یا عیسائی یا یہودی قوم کا اس تعلیم کے ماتحت ایک مسلمان کسی کو بُرا نہیں کہہ سکتا.یہی حال ہر ملک کے بزرگوں کا ہے کہ انہیں مسلمان بُرا نہیں کہہ سکتے.خواہ کوئی شخص فرانس میں گزرا ہو، خواہ جاپان میں، خواہ جرمنی میں، خواہ روس میں، خواہ ایران میں، خواہ افریقہ میں، خواہ امریکہ میں غرض کسی جگہ کا ہو جسے اس کے ملک کے لوگ بزرگ قرار دیتے ہیں اسے مسلمان اگر سچا نہیں سمجھتا تو اسے بُرا بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں شاید یہ بزرگ ان نبیوں میں سے ہی ہو.پس میں آج یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میں عقید تاً کسی ایسے شخص کو جسے اس کی قوم یا اس کا ملک نبی بتاتا ہے بُرا نہیں کہہ سکتا اور اس کی ہتک نہیں کر سکتا کیونکہ ممکن ہے وہ نبی ہو اور میں اس کی ہتک کروں تو خدا تعالی کے سامنے مجھے جوابدہ ہونا پڑے گا.پس میں ہتک کرہی نہیں سکتا بلکہ ہتک کرنا تو دور کی بات ہے میں ایسے سب لوگوں کی عزت کرتا ہوں کیونکہ خدا کانور جس قوم میں چاہے چمکتا ہے اس لئے میں اس کے جلوے کا احترام کرتا ہوں.قرآن شریف کی تعلیم کے لحاظ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے لئے کسی دوسرے مذہب والوں کی ہتک کرنے کا دروازہ ہی بند ہو گیا ہے.کسی کے مذہبی بزرگ کو بُرانہ کہو جو باتیں میں سن بیان کی ہیں.اگر ہر ایک کی سمجھ میں آجائیں اور ہندو بھی اس بات پر عمل کرنا شروع کر دیں کہ کسی کے مذہبی بزرگ کو بُرا نہ کہیں تو مذہبی رواداری پیدا ہو سکتی ہے.جو لوگ دوسروں کے بزرگوں کو بُرا کہتے ہیں وہ اتناتو سوچیں کہ اگر وہ دوسروں کے بزرگوں کی ہتک نہ کریں تو ان کا کیا نقصان ہوتا ہے.کیا یہ ضروری ہے کہ دوسرے کا دل دکھا کر اپنا مطلب پورا کیا جائے.ہندو مسلم سوال میں چاہتاہوں کہ ملک سے ہندو مسلم سوال مٹ جائے اور وہ اس طرح مٹ سکتا ہے کہ ہندو بھی اسی قسم کی رواداری کو اپنا شعار بنالیں جس قسم کی رواداری کی مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے.میں نے جو یہ کہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ملک سے ہندو مسلم سوال اُٹھ جائے اس سے میری غرض اس اصل کی طرف اشارہ کرنا نہیں کہ ہم پہلے ہندوستانی ہیں اور پھر مسلمان یہ بالکل بیہودہ بات ہے اور کیا حقیقت پر اس اصل کی بنیاد نہیں ہے اور اس اصل کے ماتحت مذہب کی بنیادہی کھوکھلی ہو جاتی ہے.اصل میں اس فقرہ کی کہ میں پہلے
۴۶۰ ہندوستانی اور پھر مسلمان یا ہندو ہوں کوئی حقیقت ہی نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے مذہب کو سچاتسلیم کرتا ہے تو اس کے نزدیک ہر ایک خوبی جو روحانی یا اخلاقی ہو اس کے مذہب میں پائی جانی چاہئے اور جس کے نزدیک ہرایک مذہبی اور اخلاقی خوبی اس کے مذہب میں پائی جاتی ہے وہ اور چیز کو اپنے مذہب پر مقدم کس طرح کر سکتا ہے بلکہ وہ اس امر کا خیال بھی کسی طرح کر سکتا ہے کہ کوئی اچھی چیز اس کے مذہب سے ٹکراسکتی ہے.پس جب ہم اسلام کو سچامذہب سمجھتے ہیں تو یہ کہ بھی نہیں سکتے کہ ہم پہلے ہندوستانی ہیں اور پھر مسلمان.کیونکہ اگر ہندوستانیت کوئی اچھی چیز ہے تو سچے مذہب کو اس کے مخالف ہوناہی نہیں چاہئے اور اگر بُری ہے تو پھر ہم نے پہلے ہندوستانی ہیں نہ بعد میں.غرض دونوں صورتوں میں ہندوستانیت اور اسلام کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا اور ہم پہلے اور پیچھے کہہ کر ان کے مدارج قرار دیں.اگر مذہب خدا تعالی کی طرف سے ہے تو وہ بہر حال مقدم ہے اور اگر ہندوستانیت کوئی اچھی چیز ہے تو وہ ضرور مذہب کا جزو ہونی چاہئے اور جزو کل پر مقدم نہیں ہو سکتا.بات یہ ہے کہ اگر ہم ملک کومذہب پر مقدم رکھیں گے تو ملک کا بھی کچھ نہیں بنا سکیں گے اور اگر مذہب کو ملک پر مقدم رکھیں گے تو ملک کے لئے بھی مفید ہوں گے اور دین بھی درست ہو گا اور میں یہ کہتا ہوں کہ میں پہلے بھی مسلمان ہوں پھر بھی مسلمان.کیونکہ اگر میں مسلمان ہوں تو میں ہندوستانی بھی ہوں یعنی وطن کا بھی خیر خواہ ہوں اگر ذرا بھی اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ ایمان اور مذہب سے ہی حب الوطنی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مروی ہے کہ حب الوطن من الإيمان ۴؎ لیکن اگر مذہب چھوڑ کر حب الوطنی اختیار کی جائے یا حب الوطنی کو مذہب پر مقدم کر لیا جائے تو نہ مذہب رہتا ہے اور نہ حب الوطنی.کیونکہ حب الوطنی سے مذہب نہیں پیدا ہوا کرتا بلکہ مذہب سے حب الوطنی پیدا ہوا کرتی ہے.پس جب میرا مذہب مجھے سکھاتا ہے کہ مذہب کو حب الوطنی پر مقدم رکھنا چاہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ میں پہلے بھی مسلمان پر مسلمان اور میرے مسلمان ہونے میں ہی ہندوستانیت شامل ہے گویا میں پہلے مسلمان ہوں اور پھر ہندوستانی نہ کہ پہلے ہندوستانی اور پھر مسلمان.پس میں نے یہ جو کہا ہے کہ ہندو مسلم سوال اُٹھ جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے ملک اور پھر مذہب کو رکھا جائے بلکہ یہ مطلب ہے کہ قومی بُغض اور تنافرمٹ جائے.ہاں مسلمانوں کی نازک حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوؤں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ خیال رکھیں کہ چونکہ مسلمان ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں انہیں ساتھ ساتھ لے کر چلیں اسی طرح مسلمانوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ ہندو بھی ہم میں سے ہیں اور اسی ملک کے رہنے والے ہیں ہمیں
۴۶۱ ان کے ساتھ مل کر رہنا چاہئے.اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف مذہبی روا داری بھی ہونی چاہئے ایک دوسرے کو بُرا نہیں کہنا چاہئے اور آپس میں محبت کے ساتھ رہنا چاہئے.لیکن میں افسوس کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتا ہوں بجائے اس کے کہ یہ باتیں اختیار کی جائیں ان کے برخلاف کوشش کی جارہی ہے اور ملک میں یہ ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے.پس دو بڑی قومیں جو ہندوستان میں بستی ہیں اگر ان باتوں کو اختیار کر لیں تو ان کی زندگی آرام سے گزر سکتی ہے اور اگر وہ ان کے خلاف کوشش کریں گی جیسا کہ کر رہی ہیں تو امن کی زندگی تو کجاوہ زندہ ہی نہیں رہ سکتیں.ہندوؤں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کا خیال رکھیں اور انہیں اپنا سمجھیں اور مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہندوؤں کا خیال رکھیں اور انہیں اپناہی سمجھیں.اگر دونوں قوموں میں سمجھوتہ ہو کر یہ طریق اختیار کر لیا جائے تو ہندو مسلم سوال بالکل مٹ جائے گا اور امن اور ترقی کی راہیں کھل جائیں گے.مگر افسوس کہ اس وقت بالکل اس کے خلاف ہو رہا ہے.مثلاً گو مسلمان پہلے ہی سرکاری دفاتر میں بہت کم ہیں مگر پھر بھی ہندوؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں دفاتر سے نکال دیا جائے اور جو حقوق انہیں حاصل ہیں ان سے بھی انہیں محروم کر دیا جائے.اسی طرح بعض اوقات مسلمانوں کا حال ہو جاتا ہے.حالانکہ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے اور ہندوؤں کو مسلمانوں کی نسبت زیادہ خیال ہونا چاہئے کیونکہ مسلمان کمزور حالت میں ہیں.منافرت پھیلائی جارہی ہے میں چونکہ انصاف سے کہنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں اس میں صاف صاف کرتا ہوں کہ مسلمان اس لئے ہندوؤں کا ساتھ نہیں دیتے کہ وہ جانتے ہیں ہندو طاقتور ہیں وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے اور ہمارے معاملہ میں انصاف سے کام نہ لیں گے اور ہندو مسلمانوں سے اس لئے رواداری نہیں برتتے کہ یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اس لئے ان کو نکال کر تمام ملک میں ایک ہی قوم کی حکومت قائم کر لینی چاہئے.اگر ہندوؤں کی طرف سے رواداری کا سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ ہندووں کے ساتھ مل سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کیا جاتا.اور میں دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو مذہبی رواداری کا جذبہ مفقود ہے اوردوسری طرف مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے لیکچروں کے ذریعہ سے بھی اور کتابوں کے ذریعہ سے بھی ایک دوسرے کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے.انبیاء کو گالیاں دی جاتی ہیں بزرگوں کی توہین کی جاتی ہے.اس قسم کے تمام کام حقارت اور نفرت کے جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے ہیں جن سے قومیں آرام سے نہیں رہ
۴۶۲ سکتیں.اور ان کی زندگیاں امن سے نہیں گزر سکتیں.اسلام جبر سے پھیلایا صبرسے منافرت اور حقارت پھیلانے کے لئے جہاں کتابیں شائع کی جارہی ہیں وہاں اس بات کی بھی اشاعت کی جاتی ہے کہ اسلام جبر سے پھیلا.مضمون کثرت سے پھیلایا جا رہا ہے حالانکہ جس قدر امن کے ساتھ اسلام صرف اپنی تعلیمی خوبیوں کے لحاظ سے پھیلا اس کی مثال کہیں نظر نہیں آتی لیکن باوجود اس کے یہی کہا جاتا ہے اور بڑے زور شور سے کہا جاتا ہے کہ اسلام جبر سے پھیلا.اچھا اگر فرض بھی کر لیا جائے اسلام جبر سے پھیلا تو اس زمانہ میں ان پرانے اور پچھلے قصوں کو دُہرانے سے کیاحاصل؟ اور ان کو تازہ کرنے سے کیا فائده؟ ایسے لوگ جو یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اسلام جبرسے نہیں پھیلا اگر وہ فرض بھی کر لیں کہ اسلام جبر سے پھیلا اور اس جبر کے فرضی اور وہمی قصے بھی پھیلائے جائیں تو بھی اس سے ہندووں کو کیا فائدہ؟ یہ جبر جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہوا ہو چکا اب واپس نہیں آسکتا.اس صورت میں چھے قصوں کے دہرانے سے سوائے لڑائی اور فساد کے اور کوئی بات پیدا نہیں ہو سکتی.لیکن میں کہتا ہوں اسلام کے لئے کوئی جبر نہیں کیا گیا اسلام جب جبر کی تعلیم ہی نہیں دیتا تو یہ بات کس طرح قائل تعلیم ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں نے اس کے لئے جبر روا رکھا.اس مجمع میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی.میں ان سب سے کہتا ہوں وہ گھروں میں جا کر اس پر غور کریں کہ پچھلے قصوں کے دہرانے سے فائدہ کیا ہے ان سے سوائے فساد پیدا ہونے کے اور کیا امید ہو سکتی ہے.پچھلے قصوں کو دہرانا عام اس سے کہ وہ فرضی ہوں یا اصلی ہمیشہ فساد کا موجب ہوا کرتا ہے.پس میں ہندوؤں سے کہتا ہوں اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ جبر ہوا تو اب اس جبر کے قصے بیان کرنے سے فساد پیدا ہو گا رکے گا نہیں اس لئے چاہئے کہ اول تو وہ اپنے اس غلط خیال کو دل سے نکال دیں گے اسلام جبر سے پھیلا اور اگر یہ نہیں مان سکتے تو بھی چاہئے کہ ملک کے امن کی خاطر ان فرضی قصوں کو جن کو دو اصلی سمجھتے ہیں اور دُہرائیں نہیں کیونکہ باوجود اس بات کے جان لینے کے کہ اس قسم کے پرانے تھے بیان کرنے سے فتنہ و فساد ہوتا ہے اگر کوئی شخص اس بات سے نہ رُکے تو وہ ملک اور قوم کا خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہے.وہ امن پسند نہیں بلکہ فساد کو پسند کرتا واقعات گذشتہ کی تحقیق یہ کہہ دینا کہ اسلام جبرسے پھیلا اور اس کے لئے تلوار کو حرکت دی گئی بلکل غلط بات ہے میں نے اس امر پر خوب
۴۶۳ غور کیا ہے کہ تمام تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت بزور تلوار ایک قصہ اور افسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں.جن واقعات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ انفرادی مثالیں ہیں اور وہ بھی نامکمل.کوئی شخص ان مثالوں سے وہ نتائج نہیں نکال سکتا جو نکالے جاتے ہیں.ہندوستان ہی کو لوہاں مسلمانوں کی حکومت چھ سات سو سال رہی ہے اور سو سال اس حکومت کوختم ہوتے ہو چکے ہیں اگر اس چھ سات سو سال کے عرصہ کی حکومت کی چند مثالیں اور وہ بھی بِلا تفصیلات کے پائی جائیں تو کون عقلمند انسان ان سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اسلام جبراً پھیلایا گیا ہے.جبر کا اصل مرکز حکومت ہوتی ہے اور حکومت کا جبر افراد سے نہیں قوموں سے ہوتا ہے پس قومی جبرکی مثالیں پیش ہونی چاہئیں.قوی جبرایس مخفی نہیں ہوتا کہ اس کے لئے انفرادی واقعات جمع کرنے کی ضرورت ہو وہ تو آپ ہی آپ ظاہر ہوتا ہے پھر غضب یہ ہے کہ جو انفرادی واقعات ہیں کئے جاتے ہیں ان کے بھی سب حالات محفوظ نہیں اور جب واقعات سامنے نہ ہوں تو ان کے متعلق بحث و مباحثہ سے نتائج صحیح نہیں کھا کرتے کیونکہ درست نتائج انہی واقعات سے نکلا کرتے ہیں جو سامنے ہوں اور جن کی تحقیق ہو سکتی ہو اب جن واقعات کی بناء پر کہا جاتا ہے اسلام نے جبر کیا اور تلوار سے کام لیا وہ تو سامنے نہیں اور جب وہ سامنے نہیں تو ان کی تحقیق بھی مشکل ہے اس لئے اِدھر اُدھر کی باتوں سے اس قسم کی نتیجے نکال لینے فضول ہیں اور بدامنی پھیلانے کا باعث ہیں.لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں اگر کوئی ایسا واقعہ ہے بھی کہ جس سے اس قسم نتیجہ نکل سکتا ہے جو نکالا جاتا ہے تو وہ کسی ایک شخص کا جوش تھانہ کہ اس کے اندر کوئی قومی رنگ تھا.پس ایک شخص کے جوش کے سبب ساری قوم پر الزام کا عقلمندی کا کام نہیں ہے.کیمبرج میں ایک سوال کا جواب پچھلے دنوں ہمارا ایک لیکچرار کیمبرج میں یہ لیکچر دے رہا تھا کہ اسلام امن کے ساتھ پھیلا ہے اور اس کی اشاعت کے لئے تلوار نہیں اٹھائی گئی.اس لیکچر میں کچھ طالب علم بھی تھے ان میں سے ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ اگر اسلام في الواقع امن سے پھیلا ہے تو پھر جنگیں کیوں ہوتی رہیں اس پر ہمارے لیکچرار نے کہامیں ایک سوال آپ کو پو چھتا ہوں پہلے میرے سوال کا جواب دے لیجئے پھر میں آپ کے سوال کا جواب دونگا میرا سوال یہ ہے کہ عیسائیت میں جنگیں کیوں ہوئیں چونکہ عیسائیت کی آپس میں جو جنگیں ہوئیں ان کے مظالم سے ہر ایک مسیحی خاندان شاکی ہے اس کا جواب دینا سائل کے لئے ناممکن تھا اس لئے یہ سوال ہی سن کر وہ بیٹھ گیا کیونکہ اس
۴۶۴ سوال ہی میں اس کے سوال کا جواب دیا گیا تھا.جبر کی تحقیقات جبر کئی طرح کا ہوتا ہے اور کئی قسم کے لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے بھائی کا بھائی پر بھی جبر ہو سکتا ہے آپس میں رشتہ دار ایک دوسرے پر بھی جبر کرتے ہیں ایک باپ بھی کسی وقت بیٹے پر جبر کر لیتا ہے اور بعض اوقات بیٹا بھی باپ پر جبر کرلیتا ہے اسی طرح اور کئی قسم کا جبر ہوتا ہے اور اس قسم کے جبروں کو کوئی برا نہیں کہتا سب ہی اپنے دوستوں پر زور دے لیتے ہیں اور بعض دفعہ محبت میں سختی بھی کر لیتے ہیں جو جبر منع ہے اور جسے بُراکہاجاتاہے وہ جبر وہ ہے جو ایک فرد یا ایک قوم دوسرے پر اس لئے کہے کہ اس سے ایک اسکی چیز چُھڑوائے جسے چھوڑنے پر وہ محبت اور دلیل سے تیار نہ ہو اور جسے وہ محبت کے تعلقات پر مقدم سمجھتا ہو اور قدرتاً ایسے موقع پر انسان اپنی انتہائی کوشش جبر کے اثرات سے بچنے کے لئے کرتا ہے اور اپنا سارا زور مقابلہ پر خرچ کر دیا ہے.اور اب جب جبر ایک قوم کی طرف سے ایک قوم کے خلاف ہو رہا ہے تو لازماً یہ مقابلہ نہایت نمایاں، نہایت وسیع اور نہایت لمبا ہوتا ہے کیونکہ ایک قوم دوسری قوم سے جو ملک کے ہر گوشہ میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے وہ کچھ چُھڑانا چاہتی جسے وہ نہ دباؤ سے نہ محبت سے چھوڑنے پر رضامند ہے.پس ظالم قوم بھی قسم قسم کی تدابیر اپنی بات منوانے کے لئے کرتی ہے اور مظلوم قوم بھی قسم قسم کی تد ابیران ظلموں سے بچنے کے لئے کرتی ہے.پس اسلام پر جبر کا الزام لگانے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس قسم کے جبر کس کس طرح ہوا کرتے ہیں؟ اور مختلف قوموں کی تاریخ پر نگاہ ڈال کر کوئی نتیجہ نکالنا چاہئے مثلا ًہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان میں مذہبی جبر ہوتا رہا ہے اور یہ کوئی ایسا جبر نہیں جس کے متعلق کچھ بحث مباحثہ کی ضرورت ہو کوئی شخص اس کے متعلق شک نہیں کر سکتا کہ جبر ہوا یا نہ.کیونکہ جبر کرنیوالے خود اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے جبر کیا پس انگلستان کی مثال ایسی ہے کہ ہم اس سے بِلا تردّد نتیجہ نکال سکتے ہیں روم کا جبر، عیسویت کے ابتدائی زمانہ میں مسیحیوں کے ابتدائی زمانہ میں روم والوں کی طرف سے ان پر جبر کیا گیا.چنانچہ یہ بات مسیحی اور رومی لوگ مانتے ہیں کہ مسیحی جب اپنے ابتدائی زمانہ میں روم گئے تو رومی حکومت کی طرف سے ان پر جبر ہوتے رہے ہیں بدھوں کے برخلاف جبر اسی طرح ہندوستان میں بھی جبر ہوئے.مثلاً بد ھوں کے خلاف جبر ہوا.انہیں ہندووں نے ملک سے نکال کر چھوڑا
۴۶۵ اور انہیں مذہب تبدیل کرنے کے واسطے بھی مجبور کیا گیا.گو ا میں جبر ہندوستان کے ایک گوشے گوا میں بھی جبر ہوا.عیسائیوں نے وہاں کے باشندوں پر جبر کیا جس سے مجبور ہو کر وہاں کے تمام باشندے اب عیسائی ہیں.غرض یہ اور اس قسم کے اور کئی جبر ہیں جو مختلف مقامات پر ہوۓ ان سب کے لئے تاریخی شواہد موجود ہیں اور ان کے متعلق کوئی شخص انکار نہیں کرتا اور خود جبر کرنے والوں کو اس بات کا اقرار ہے کہ انہوں نے جبر کیا.جبر سے مذہب تبدیل ہو جاتا ہے ہم جب ان تاریخوں پر غور کرتے ہیں جن میں تفصیلات جبر کی درج ملکوں ہیں جو ان ملکوں میں ہوا.اور جب ہم ان کیفیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ اسلام نے ہرگز جبر نہیں کیا کیونکہ سوائے بعض شخصی مثالوں کے جن کے حالات بھی پوری طرح محفوظ نہیں ہیں اسلام میں قومی جبر کی کوئی شکی مثال بھی نہیں ملتی.پس ان حالات میں اسلام پر یہ الزام لگانا کہ یہ جبر کرتا رہا ہے بالکل ظلم ہے.دوسری قوموں کے جبر اور اس قسم کے شخصی واقعات کو آپس میں کوئی مناسبت نہیں کیونکہ جبر کے عام نتائج میں سے پہلا اور بڑا نتیجہ جو ہوتا ہے وہ مذہب کی تبدیلی ہے.چنانچہ دوسری قوموں کے جبر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن پر جبر ہؤ ا وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر جبر کرنے والوں کے مذہب میں داخل ہو گئے.چنانچہ مثال کے طور پر میں گوا کے جبر کو پیش کرتا ہوں یہ جبر اٹھارویں صدی میں ہوا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہاں سارے عیسائی ہیں.سب جانتے ہیں اور خصوصا ًجہازوں کا سفر کرنے والے جانتے ہیں کیونکہ جہازوں پر گوا کے ہی عیسائی ملازم ہوتے ہیں کہ گوا کے تمام لوگ جبری طور پر عیسائی کر لئے گئے ہیں.ہندوستان میں جبر پس جبر کا ایک نتیجہ تو تبدیلی مذہب ہوا کرتا ہے اور چونکہ اسلام پر بھی جبرکا الزام لگایا جاتا ہے اس لئے ہم دیکھتے ہیں کیا اسلام کے اس جبر کے نتیجہ میں یہاں وہی بات پیدا ہو گئی جو عیسائیوں کے گوا میں جبر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی اور کیا فی الواقع اس ملک میں سوائے مسلمانوں کے اور کوئی نظر نہیں آتا.جب ہم اس طرف دیکھتے ہیں تو پہلی بات تویہی ہمارے سامنے آتی ہے کہ اگر واقعہ میں ہندوستان میں مسلمانوں کی طرف سے جبر ہوتا تو جس طرح گوا میں عیسائیوں کے جبر کے سبب عیسائیوں کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا اسی طرح یہاں بھی اس جبر کے باعث مسلمان ہی مسلمان نظر آتے اور ہند و نظر نہ آتے لیکن یہ بات نہیں.ہر شخص
۴۶۶ جانتا ہے کہ یہاں کثرت ہندوؤں کی ہے بلکہ ہندو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہیں اور اپنے پرانے رسم و رواج کو قائم رکھتے ہوئے آباد ہیں اور ان حالات کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ اسلام نے جبر سے کام لیا ایک بے دلیل بات ہے.ایک بنگالی کی رائے اوپر کی دلیل کے متعلق ایک بنگالی لیڈر کی رائے مجھے ہمیشہ انسانی افکار کے اختلاف پر حیرت زدہ کرتی ہے.ان صاحب سے ہمارے ایک مبلغ انگلستان میں ملے تو انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں اورنگ زیب نے جبر کیا اور زبردستی ہندوؤں کو مسلمان بنایا اور آپ کہتے ہو کہ اس نے ایسا نہیں کیامگر مجھے یہ غصہ ہے کہ اس نے کیوں نہ ایساکیا اور کیوں نہ ان سب لوگوں کو جبراً مسلمان بنا یا تم آج ہندوستان میں ایک مذہب ہوتا.غرض جیسا کہ ہندو کہتے ہیں جبر ہوا.تو اس کا اثر یہ ہونا چاہئے تھاکہ یہاں ہندو نظر نہ آتے مگر سب جانتے ہیں کہ میں اب تک ہندوؤں کی کثرت ہے.پس ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اسلام نے کوئی جبر ہندوستان میں نہیں کیا.جبر کے باعث مذہب چھپانا دو سری بات جو مذہبی جبر سے پیدا ہوا کرتی ہے وہ إخفاء ہے جن قوموں پر جبر کیا جاتا ہے کہ وہ مذہب کو چھپانے لگ جاتی ہیں اور اپنی رسوم پوشیدہ رکھتی ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں یہ بات نہیں ہے بلکہ ہر قوم جو ان ملکوں میں آباد ہے اپنامذہب اور اپنا عقیدو ظاہراً طور پر رکھتی ہے اسے کوئی مجبوری نہیں کہ اپنامذہب چھپائے اور اپنی رسوم پوشیدہ رکھے.پھر گیا اس ملک میں یہ بات ہو سکتی ہے جس میں مسلمان خود محکوم ہیں.چونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ پچھلے زمانہ میں مسلمانوں نے جبر کیا.لیکن اگر پچھلے زمانہ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بھی کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس سے یہ گمان ہو سکے کہ مسلمانوں کے جبر کے سبب ہندوؤں کومذہب چھپاناپڑایا رسم اور رواج کو پوشیدہ رکھنا پڑا.انگلستان کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے.وہاں جب کیتھولک فرقہ زور پر ہوا تو پروٹسٹنٹ فرقہ والوں کو اپنا مذہب چُھپانا پڑا اور رسوم کو پوشیدگی میں رکھنا پڑا.کیا ہندوستان میں ہندو اپنے مذہب کو چھپاتے رہے ہیں اور رسوم کو پوشیدہ رکھتے رہے ہیں ہرگز نہیں.کیا کسی پہلے زمانہ میں بھی انہیں اپنامذہب چھپانا پڑا یا رسوم پوشیدہ رکھنی پڑیں؟ ہرگز نہیں بلکہ پہلے زمانوں میں تو رسوم بجالانے میں ان کی امداد کی جاتی رہتی ہے بعض مغل سلاطین نے اس بارے میں ان کو خاصی رعائتیں دے رکھی تھیں حتی کہ بعض معذوروں کے لئے جائیدادیں تک انہوں نے عطا کی تھیں اور یہی حال مذہب
۴۶۷ کے متعلق تھا.چونکہ اسلامی حکومت ایک وقت بہت پھیلی ہوئی تھی اس لئے اس بات کو دیکھنا چاہئے کہ اگر ہندوستان میں نہیں تو کسی اور ملک میں اس نے شاید اس قسم کی مجبوری پیدا کردی ہو کہ لوگ اپنے مذہب کو چھپائیں اور رسوم پوشیدہ رکھیں مگر جب ہم دیکھتے ہیں تو ہندوستان کی طرح وہاں بھی یہی پاتے ہیں کہ نہ آج نہ آج سے پہلے بھی کوئی ایسی مجبوری پیدا کی گئی جس سے وہاں کے لوگ مذہب کو چھپانے اور رسوم کے پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہو جاتے.پس جیسا کہ میں ہندوستان کے متعلق کہہ سکتا ہوں مسلمانوں نے اپنے اقتدار کے زمانہ میں اس جگہ کوئی جبر نہیں کیا جس کی وجہ سے ہندوؤں کو اپنامذہب چھپانا پڑے یا رسوم پوشیدہ رکھتی پڑھیں.اسی طرح شام، آرمینیا، فرانس، پین، چین وغیرہ وغیرہ ممالک کے متعلق کہتا ہوں وہاں اسلامی حکومت تھی مگر لوگوں کے لئے کامل آزادی تھی.حکومت ان پر جبر نہیں کرتی تھی جس کی وجہ سے انہیں اپنامذہب چھپانا پڑتا یا رسوم پوشیدہ رکھنی پڑتیں.پس جب نہ کی اور ملک میں اور نہ ہندوستان میں جہاں اسلامی حکومت تھی کیا مذہب کے پیروؤں نے مذہبی رسوم کا اخفاء کیا تو پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں نے مذہب میں جبر کیا سخت ظلم ہے.جبر سے وطن کا چھوڑنا تیسری بات جو جبرسے پیدا ہؤا کرتی ہے اور وطن کا چھوڑنا ہے لوگوں پر جب جبر ہوتا ہے تو وہ اگر مذہب تبدیل نہیں کرنا چاہتے اور مذہب کو چھپا کر بھی رکھنا گوارا نہیں کر سکتے تو اپنے وطن چھوڑ دیتے ہیں.مگر کیا ہندوستان میں ایسی صورت بھی پیدا ہوئی یا اس کی ضرورت یہاں کے باشندوں کو کبھی محسوس ہوئی؟ ہندوستان تو ہندوستان تمام اسلامی ممالک میں سے کسی میں بھی ایسی صورت اور ایسی ضرورت کبھی نہیں پیدا ہوئی.وہ لوگ جن پر جبر ہو رہا ہوتا ہے اپنے آپ کو بچانے کے لئے جہاں موقع ملے چلے جاتے ہیں.چنانچہ رومیوں نے جب مسیحیوں پر جبر کرنے شروع کئے تو مسیحی ایک پہاڑ کی غاروں میں چلے گئے.یہ غاریں ایک سَو بیس میل لمبی ہیں اور ایسی ہیں جیسے کمره در کمرہ مکان بنائے جاتے ہیں.ان کو CATACOMBs کہتے ہیں اور میں نے ان کو دیکھا ہے.جب مسیحیوں پر رومیوں کی طرف سے ظلم ہوتے تو وہاں پ کر اپنی جانیں بچاتے.کیا اس کی کوئی مثال ہندوستان میں ملتی ہے.ہندوستان کے علاوہ دوسرے تمام اسلامی ممالک پر بھی نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی ایسی مثال نظر نہیں آتی.جب اسکی کوئی مثال نہیں ملتی تو پھر یہ کہنا کہ اسلام نے جبر کیا اور پزور تلوار پھیلا اسلام اور اسلام کی پاک تعلیم پر جو امن کی تعلیم ہے غلط الزام لگانا ہے.پس جب اسلامی حکومتوں میں ایسا
۴۶۸ ، عمل نہیں ہوا اور لوگوں کو مسلمانوں کے خوف سے ملک نہیں چھوڑنا پڑا تو معلوم ہوا کہ اسلامی ممالک میں جبر بھی نہیں ہوا.جبر سے قتل کیا جانا چوتھی بات جو جبر کے نتیجہ میں پیدا ہونی چاہئے وہ مظلوم قوم کاقتل ہے.یعنی اگر جبر کے نتیجہ میں لوگ نہ مذہب کو چھپائیں نہ اس کو بدلیں نہ ملک چھوڑیں تو پھر اگر واقعہ میں حاکم قوم ظالم ہے تو وہ اس ملک کے باشندوں کو بہ حیثیت قوم قتل کرتی ہے.غرض جبر کے نتائج میں سے ایک نتیجہ قتل بھی ہے.چنانچہ انگلستان میں جب جبر کیاگیاتو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو قتل کر ڈالا گیا.ہسپانیہ میں تو صفایا ہی کر دیا گیا.اور یہی حال اٹلی وغیرہ میں ہوا.مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا.لیکن کیا ہندوستان میں بھی ایسا ہوا؟ کبھی مسلمانوں نے ہندوؤں کو جبر کے ساتھ قتل کیا؟ سمجھ دار آدمی آپ ہی جواب دیں گے کہ نہیں پھر باوجود اس کے یہ کہنا کہ مسلمانون نے ہندوستان میں جبر کیا بالکل ناواجب ہے.جبر سے جائیداد ضبط کرنا پانچویں بات جو جبر دلالت کرتی ہے وہ جائیداد ضبط کرلینا ہے.جب کوئی قوم کسی پر جبر کرتی ہے تو ان کی جائیدادیں ضبط کر لیتی ہے اور ان کے پاس کچھ نہیں رہنے دیتی.چنانچہ انگلستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب ایک وقت پروٹسٹنٹ فرقہ کا زور ہوا تو انہوں نے کیتھولک فرقہ سے تعلق رکھنے والے لارڈوں کی جائدادیں آئرلینڈ میں ضبط کر لیں اور ان کی جگہ پروٹسٹنٹ لارڈوں کو جا بسایا اور ان کی مدد کے لئے دوسرے لوگوں کو بھی وہاں آباد کر دیا اور ان کی حفاظت کے واسطے فوج بھی متعین کر دی.تو جبر سے جائدادیں بھی ضبط کی جاتی ہیں.لیکن ہندوستان میں بجائے اس کے جائدادیں دی گئیں اور نہ عرف عام لوگوں کو دی گئیں بلکہ مسلمان بادشاہوں نے مندروں اور شِوالوں کے لئے بھی بڑی بڑی جائدادیں دیں جو اس وقت بھی ان کے نام پر ہیں.اسلام نے کسی جگہ جبر نہیں کیا یہ عجیب جبر ہے نہ ہندوستانی باشندوں کو مارا جاتا ہے نہ ان کی جائیدادیں ضبط کی جاتی ہیں؟ نہ وطن سے نکالا جاتا ہے اور نہ ہی ان ظالموں سے تنگ آکر اس ملک سے نکلتے ہیں نہ رسوم ادا کرنے سے روکا جاتا ہے نہ جبراً ان سے مذہب تبدیل کروا لیا جاتا ہے بلکہ وہ اسی طرح ہندو کے ہندو رہتے ہیں جس طرح مسلمانوں کے ہندوستان میں آنے کے وقت تھے اور اسی طرح اپنی رسوم بجالاتے ہیں اور بجالا رہے ہیں جس طرح وہ اسلامی حکومت کے زمانہ سے پہلے بجالاتے تھے.پھر مجھے نہیں آتا کہ
۴۶۹ باوجود اس کے جبر ہوا.جن باتوں کو جبر کے ثبوت میں ہندو بیان کرتے ہیں تمام تاریخوں کا مطالعہ کرنے سے بھی ان کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.اتنا بڑا واقعہ ہو اور تاریخیں اس کے بیان کرنے سے خاموش رہیں ناممکن ہے.ہم دیکھتے ہیں کسی ملک میں ایک طرف اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بہت جلد دوسرے سرے تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہاں تاریخیں ایسے واقعات کا حقیقی ثبوت دینے سے خاموش ہیں.در حقیقت اسلام میں جبر کی تعلیم ہی نہیں اس لئے یہ ہو نہیں سکتا کہ مسلمان کسی پر جبر کریں.اگر کسی جگہ شخصی جوش کے ماتحت کسی فرد نے کوئی ایسا کام کر دیا تو قوم اس کی وجہ سے ملزم نہیں ٹھہرائی جاسکتی.معلوم ہوتا ہے بعض ایسے واقعات کو لے کر بعض لوگوں نے اپنی قوم کی بد ردی حاصل کرنے کے لئے کہنا شروع کر دیا کہ جبرہؤا ہے.حالانکہ یہ صریح بات ہے کہ انفرادی فعل قومی فعل نہیں بنا کرتا اور انفرادی فعل سے قوم ملزم نہیں ہوا کرتی کیونکہ جب قوم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا تو پھر اگر اس کا کوئی فرد کوئی بُرا کام کرے تو اس سے قوم زیر الزام نہیں آسکتی.اسی طرح ان شخصی باتوں سے جن کو لے کر بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسلام نے جبر سے کام لیا اسلام پر الزام نہیں آستانه اس قسم کے انفرادی افعال سے یہ نتیجہ نکالا جا ہے کہ مذہب پھیلاہی تلوار کے ذریعہ سے.اسلام نے ہر جگہ لوگوں کو امن دیا ہندو شکایت کرتے ہیں کہ اسلام نے جبر کیا اور بدامنی کا باعث ہوا.مگر جس قدر اسلام نے امن پھیلایا اس کی نظیر خود ہندوؤں کے مذہب میں بھی نہیں ملتی.خود ہندوستان میں اسلام امن کا ذریعہ ہوا.پھر اسلام کی ابتداء عرب سے ہوئی.عرب میں جو بد امنی اسلام سے قبل تھی اس کی نظیر ملنی مشکل ہے.وہ بدامنی کسی نے دور کی؟ جس مذہب نے وہ بد امنی جس کی نظیرملنی بھی مشکل ہے دور کی وہ مذہب اسلام تھا.اسی پُرامن تعلیم کا نتیجہ تھا کہ آج تک عرب میں غیر مسلم موجود ہیں.یہی حال شام کے علاقہ کا ہے.اس میں بھی اسلامی حکومت کے وقت سے پہلے عیسائی وغیرہ موجود تھے اور اس وقت تک بھی موجود ہیں.مصر فتح ہؤا اس میں آج بھی عیسائی دکھائے جاسکتے ہیں.تیرہ سو سال ہوئے وہاں حکومت قائم ہوئی اور تیرہ سو سال ہی ان کے اسلام کی ماتحتی میں گزرے.ان کی رسمیں بھی وہی ہیں جو پہلے تھیں، ان کے رواج بھی وہی ہیں جو ان میں جاری تھے، ان کی عبادت گاہیں اس وقت سے لے کر اس وقت تک بدستور قائم ہیں، ان کی جائدادیں بھی ہیں، اسی طرح ہندوستان کا حال ہے.مسلمانوں کے آنے سے پہلے جو ہندوؤں کی
۴۷۰ رسمیں اور ان کے رواج تھے اس وقت تک سب وہی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.جب یہ سب باتیں موجود ہیں تو پھرماننا پڑتا ہے کہ اسلام نے جبر سے کام نہیں کیا بلکہ وہ امن کا حامی رہا اور امن کی تعلیم دیتا رہا.موجودہ اسلامی حکومتوں کا طریق کار یہ بات پہلے زمانوں میں ہی نہ تھی اب بھی جہاں جہاں اسلامی حکومتیں ہیں وہاں یہی بات ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ جو اور قومیں وہاں آباد ہیں انہیں ہر قسم کے جائز حقوق حاصل ہیں اور ان پر کوئی جبر نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی مدد اور مناسب دادرسی کی جاتی ہے.چنانچہ حال میں سرحد پر ایک تازہ واقعہ ہوا.جو اس بات کی دلیل ہو سکتا ہے کہ اسلام جبر کی تعلیم نہیں دیتا.وہاں ایک ہندو شخص ٹیک چند زرگر مارا گیا.نواب انب نے مارنے والوں کے گاؤں پر حملہ کر کے ایک سید اور ایک اور شخص کرامت علی کو مار دیا.باوجود اس کے کہ پٹھان اُجڈ اور اکھڑ مشہور ہیں ابھی تک ان میں یہ إحساس موجود ہے کہ ماتحت غیر قوموں اور ان کے مذہب اور رسم و رواج کی حفاظت اور عزت کرنی چاہئے اور افغانستان میں بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے.گو ہمارے لئے امن نہیں لیکن غیر مسلموں کے لیے ہے.اور ہم دکھا سکتے ہیں کہ ہندو افغانستان کے اندر امن سے آباد ہیں.پس جب ہر اس جگہ کہ جہاں اسلامی حکومت قائم ہوئی غیر قوموں پر کوئی خبر نہیں کیا گیا تو ہندوستان کے متعلق برخلاف شہادت کی موجودگی میں ہم کیو نکرمان سکتے ہیں کہ مسلمان حکمران ہندوؤں پر جبر کرتے تھے.پس اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا تو وہ شخصی اور انفرادی تھا اور انفرادی واقعات کو قومی قرار دے کر قوم کی قوم کو ملزم قرار دینا کہاں کی عقلمندی اور کہاں کا انصاف ہے.مسلمانوں کے جبر کرنے کا قصہ ہی غلط ہے ہر بات کے کچھ شواہد ہوتے ہیں جن سے اس کی معرفت ہوتی ہے اسی طرح جبر کے بھی شواہد ہیں.اب جس قوم میں اس کے شواہد پائے جائیں وہی جبر کرنے والی ہو گی.مسلمانوں کے متعلق کیاجاتا ہے کہ انہوں نے جبر کیا.میں نے ان شواہد میں سے بعض کو پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان میں سے مسلمانوں کے ہاتھ سے کوئی بھی بات پیدا نہیں ہوئی.یعنی ہندوؤں کو مذہب تبدیل نہیں کرنا پڑا، انہیں مذہب چھپانے کی بھی ضرورت پیدا نہیں ہوئی، ان میں اپنی ابتدائی رسمیں اور رواج بدستور جاری رہے، ان کو اپنا وطن بھی نہیں چھوڑنا پڑا تو معلوم ہوا ان پر جبر نہیں ہوا.یہ صرف مسلمانوں کے برخلاف شور برپا کرنے کے لئے ایک بات پیدا کرلی
۴۷۱ گئی ہے کہ انہوں نے جبر کیا.راجپوتوں کا اسلام ہندوؤں میں سے جس قوم نے زیادہ اسلام قبول کیا وہ راجپوت ہیں جن کے متعلق ہندو کہتے ہیں ان کو جبرا ً مسلمان بنا لیا.اس میں کچھ شک نہیں کہ ہندوؤں میں سے راجپوتوں نے زیادہ اسلام قبول کیا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی بہادر اور لڑنے والی قوم بھی راجپوت ہی تھی اس وجہ سے یہ سن کر تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ اس بہادر اور دلیر قوم کو زبردستی اسلام میں داخل کر لیا گیا اور یہ کہ اس قوم نے مسلمانوں کے جبر کے ڈر سے اسلام قبول کیا.اگر یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے جبر کیا اور مسلمانوں کے ڈر سے راجپوتوں نے اسلام قبول کیا تو چاہئے تھا کہ آج برہمن وغیرہ قو میں نظر نہ آتیں.کیونکہ ڈر کی وجہ سے اگر اسلام قبول کیا گیا تھا تو سب سے پہلے برہمن اسلام قبول کرتے کیونکہ یہ راجپوتوں کی طرح بہادر اور ولیرنہ تھے لیکن ہوتا اس کے بالکل اُلٹ ہے کہ بر ہمن تو برہمن ہی نظر آتے ہیں اور راجپوت مسلمان پائے جاتے ہیں.راجپوتوں کے ہاتھ میں ہمیشہ تلوار رہی ہے.وہ اسلام کے جبر کا مقابلہ کر سکتے تھے اور جن کے ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہتھیار نہ تھے وہ فوراً اسلام قبول کر لیتے.مگر جو ڈرنے والے تھے وہ تو کثرت سے اپنے مذہب پر نظر آتے ہیں اور جو بہادر اور دلیر تھے وہ کم نظر آتے ہیں.اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی پر جبر نہیں کیا اور نہ اسلام کی طرف سے ایسی تعلیم دی گئی ہے کہ جبر کر کے لوگوں کو مسلمان بنایا جائے.اسلام کو جبر کی ضرورت نہیں ان سب باتوں کے علاده اب میں آپ لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کو جبر کرنے کی ضرورت می نہیں ہے قرآن شریف میں ہے لا اكراه في الدین قد تبين الرشد من الغي ۵؎ یعنی دین میں کوئی جبر نہیں.کیونکہ واقعی جو حق بات تھی وہ گمراہی اور ضلالت کے بالمقابل پورے طور پر ظاہر ہو گئی.اور خدا تعالی اس آیت میں وجہ بیان فرماتا ہے کہ کیوں اسلام کو جبر کی ضرورت نہیں اسلام کو جبر کی اس لئے ضرورت نہیں کہ قد بي ال شد سچائی صاف صاف ظاہر ہو گئی اور یہ ظاہر ہے کہ جبراسی وقت ہوتا ہے جب کوئی بات دلیل سے ثابت نہ ہو سکے گا جس کو سمجھایا جاۓ وہ سمجھنے کے قابل نہ ہو.جیسے بچے کہ ان کی عقل چونکہ کمزور ہوتی ہے انہیں بسا اوقات ان کی مرضی کے خلاف اور جبر کرنے والے کی مرضی کے موافق کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن اسی بچہ میں جب عقل آجاتی ہے تو پھر وہ اپنے آپ ہی سمجھ لیتا ہے اور اپنے نفع و نقصان کو سوچ سکتا ہے اس حالت
۴۷۲ میں اس پر کوئی جبر نہیں ہوتا.اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں دلائل کو کھول کر بتا دیا گیا ہے اس لئے جبر کی اسے ضرورت نہیں.اب اس دعوی ٰکے ہوتے ہوئے اگر کوئی مسلمان جبر کرے تو اسلام کے اس دعویٰ کو جھوٹا قرار دیتا ہے.اس لئے کسی عقلمند مسلمان کی نسبت یہ خیال نہیں کیا سکتا کہ وہ جبر کر کے اسلام کے اس عظیم الشان دعویٰ کو جھوٹا کر سکے.قرآن کورسول کریمؐ کی ڈائری کہنے والی سوچیں ٍ اسی طرح قرآن مجید کی ایک اور آیت سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں مطلقاً جبر کی تعلیم نہیں ہے حضرت شعیبؑ نبی کے پاس اس کی قوم کے سرکردہ لوگوں نے آکر کہا.اے شعیب! اگر تم اور تمہارے ساتھی اپنے دین کو چھوڑ کر ہمارے دین میں واپس نہ آؤ گے تو ہم تم کو اپنے شہر سے نکال دیں گے.حضرت شعیب جواب دیتے ہیں اولو کنا کارھین ۶؎ کیا اگر ہم تمہارے دین کو بڑا سمجھیں اور اس سے بیزر ہوں اور اگر ہمارا دل نہ بھی چاہتا ہو تو بھی تم ہمیں اس بات پر مجبور کردے کہ ہم تمہارے مذہب میں لوٹ آئیں اور اگر ہم نے تمہارا دین قبول نہ کیا تو ہمیں اس شہر سے نکال دو گے.کیا ہی لطیف یہ جواب ہے.اگر وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں جبر کی تعلیم ہے صرف اسی ایک آیت پر غور کرتے تو انہیں سمجھ آجاتی کہ قرآن جب کہ ایک نبی کی زبان سے یہ کہلوا رہا ہے کہ اگر دل نہ بھی چاہتا ہو تو پھر بھی کیا تم مجبور کرو گے کہ تمہارا دین قبول کیا جائے تو وہ خود کیسے کسی کو یہ تعلیم دے سکتا ہے کہ لوگوں پر جبر کر کے انہیں مسلمان بناؤ.پھر جیسا کہ بعض اعتراض کرنے والے بالکل غلط کہا کرتے ہیں قرآن تو (نعوذ بالله من ذالیک) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بنایا ہوا ہے اور ان کی روزانہ ڈائری ہے.اگر قرآن شریف واقعی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روزانہ ڈائری ہے اور آپ کا بنایا ہوا ہے تو یہ الفاظ بھی آپ ہی کی زبان سے نکلے ہونگے جو شعیب نبی کے متعلق قرآن میں پیش کئے گئے ہیں جو انہوں نے اپنی قوم کے سرداروں کے جواب میں کہے.اگر یہ الفاظ اسی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہیں جس کے متعلق کماجات ہے کہ قرآن اس نے آپ بنایا تو کیا اس کے متعلق یہ خیال کر لو گے کہ وہ خود جبر کرتے تھے اور اپنے ماننے والوں کو جبرکی تعلیم دیتے تھے.کیا ایک شخص جو جبر کو عقل اور فطرت کے خلاف سمجھتا ہے وہ خود جبر کر سکتاہے.
۴۷۳ اسلام کی اصل روح غرض اس قسم کی بہت سی مثالیں قرآن شریف سے پیش کیا جا سکتی ہیں.جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم جبر کے خلاف ہے مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًاؕ-اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَگر خدا تعالی چاہتا تو تمام دنیا کی آبادی ایمان لے آتی پھر کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہو جائیں.اگر دنیا کو جبر کے ساتھ منوا نا ہوتا اور اگر اسلام میں جبر کی تعلیم ہوتی تو خدا تعالی یہ نہ فرماتا کہ تو لوگوں کو مسلمان ہونے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو یہ بات ہماری طاقت میں تھی کہ ہم اپنی مشیت سے کام لے کر تمام لوگوں کو مسلمان بنادیتے.مگر جب ہم نے یہ نہیں کیا تو اے محمد !صلی اللہ علیہ وسلم تُو کیسے ان کو مسلمان بننے کے واسطے مجبور کر سکتا ہے اور تُو جب ان کو مجبور نہیں کر سکتا تو پھر تیرے لئے یہی ایک راہ ہے کہ ان سے کہدے قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ- فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ۸؎ کہہ حق اور صداقت جو دنیامیں آئی ہے تو وہ تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور یہ تعلیم جو تمہارے لئے بھیجی گئی ہے بالکل بھی ہے اور تمہارے واسطے فلاح کا موجب ہے اب تمہارادل چا ہے تومان لو اور دل نہ چاہے تو نہ مانو.کیسی صاف بات ہے کہ حق پیش کر کے کہا جاتا ہے مرضی ہو تو مانونہ مرضی ہو تو نہ مانو.غور کرو اگر جبر اسلام میں ہوتا تو کیا خیال کر سکتے ہو کہ خدا تعالی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سکھاتا ہے کہ دنیا سے تم یہ کہو الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ- فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُر- یقیناً وہ ایسا نہ کہتا بلکہ وہ ایسے الفاظ فرماتا جن کا یہ مطلب ہوتا کہ اگر نہیں مانو گے تو ملک سے نکال دیا جائے گا یا تمهاری جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی یا تمہیں قتل کر دیا جائے گا لیکن نہ خدا نے یہ فرمایا نہ قرآن کریم میں ایسا حکم ہے نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ارشاد فرماتے ہیں بلکہ خداء قرآن اور گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی کہتے ہیں کہ مرضی ہو تو مالو نہ مرضی ہو تو نہ مانو تم پر جبر نہیں.سمجھ نہیں آتی پھراسلام پر جبر کا الزام لگانے والے کہتے کس بناء پر ہیں کہ اسلام میں جبر ہے.اسلام کی ہر بات میں امن ہے ایک اور رنگ سے بھی یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ اسلام کے متعلق جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس میں جبر ہے بالصراحت غلط ہے.خدا تعالی کا اس کا نام اسلام رکھناہی یہ بات ظاہر کرتا ہے
۴۷۴ کہ یہ مذہب جبرو تشدد کے برخلاف صلح و آشتی کا حامی ہو گا کیونکہ لفظ اسلام کے معنی ہیں امن میں رہنا اور امن دینا.جس مذہب کے نام کے یہ معنی ہوں کہ وہ امن ہے امن میں رہتا ہے اور امن دنیا کو دیتا ہے اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ جبر کرتاہے سراسر غلط ہے اور نا سمجھی پر دلالت کرتا ہے.پھر خدا تعالی کے اسماء حسنہ جو قرآن نے بیان کئے ان میں سے ایک نام مومن ہے.جس کے معنی ہیں امن دینے والا.پس جو خدا امن دینے والا ہے اور اپنے دین کا نام اسلام رکھتا ہے کیا اس کے متعلق یہ یقین کر سکتے ہیں کہ باوجود اپنا نام مومن بتانے اور باوجود اپنے دین کانام اسلام رکھنے کے وہ اسی اسلام کے ذریعہ بدامنی، تشدد اور جبر کی تعلیم ہے.اسی طرح مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ کے متعلق ہے من دخله كان أمنا ۹؎ کہ جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں ہو گیا کیونکہ کعبہ امن کی جگہ ہے.یہاں کعبہ سے مراد وہ خاص مکان بھی ہے جس کی طرف مسلمان منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور وہ مذہب ہی ہے جو امن کا حامی ہے.یعنی جو اس مذہب میں داخل ہو گا وہ خود بھی امن میں ہو جائے گا اور دوسروں کے لئے بھی امن کا باعث ہو گا.اسی طرح قرآن کریم ہے.اس کی نسبت فرماتا ہے کہ يدعوا إلى دار السلام ۱۰؎ کہ یہ امن کے گھر کی طرف بلاتا ہے.پھر مسلمان کا اپنانام بھی’’ مسلم ‘‘ہے یعنی دنیا میں امن قائم کرنے والا.نماز کانام عربی میں ”الصلوة‘‘ ہے.جس کا مفہوم ہے شفقت، رحمت، برکت یعنی ان راہوں پر چلاتی ہے جن پر چلنے سے انسان شوخی و شرارت سے بچ جاتا ہے فسق وفجور سے نجات پالیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی شفقت اور رحمت پا لیتا ہے اور اس کی طرف سے اسے برکت میسّر آجاتی ہے.پھر مسلمان کسی دوسرے سے ملتے ہیں تو السلام علیکم کہتے ہیں کہ تم پر اللہ کی سلامتی ہو تم اللہ کی طرف سے امن میں کئے جاؤ.آگے جواب دینے والا کہتا ہے تم پر بھی سلامتی ہو.کیا جو منہ سے السلام علیکم کہے گا کیا وہ آگے جاکر تلوار ہاتھ میں پکڑلے گا؟ عقل اسے نہیں تسلیم کرتی.پھر ہماری نماز کا اختتام بھی سلام پر ہے مسلمان جب نماز سے فارغ ہوتا ہے تو قبل اس کے کہ خدا کے دربار سے رخصت ہو وہ دائیں بائیں منہ کر کے السلام عليكم ورحة اللو کہتا ہوا دنیا میں سلامتی اور امن پہنچاتا ہے.اب کوئی بتائے کہ جس کے دائیں بھی امن اور بائیں بھی امن آگے بھی پیچھے بھی امن ،نیچے بھی امن اوپر بھی امن ہو جس کا نام امن جس کا کام امن کیا وہ امن کا دشمن اور تشدد اور جبر کا حامی ہو سکتا ہے.
۴۷۵ اسلام پر بے جا الزام لیکن فرض کر لو اسلام میں جبر کی تعلیم نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں نے جبر کیا تو پھراب اس شور کا بلند کرنا کیافائدہ دے گا ؟ کیا اس سے جبر واپس آجائے گا یا کیا جبر جبر کی پکار لگانے سے اسلام جھوٹا ثابت ہو جائے گا؟ اسلام اگر جھوٹا ہے تو مسلمان جبر نہ بھی کرتے تو بھی سچا ثابت نہیں ہو سکتا اور اگر سچاہے تو مسلمان جبر بھی کریں تو بھی جھوٹا نہیں ہو سکتا.پس اگر واقعہ میں مسلمانوں نے جبر کیا تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ انہوں نے غلطی کی نہ یہ کہ اسلام جھوٹا ہے اسلام ہرگز جھوٹا نہیں وہ خدا تعالی کی طرف سے ہے اور خدا کا دین ہے.ایک شخص اگر علم کی قدر نہ کرے یا ایک طالبعلم اگر علم کو صحیح طور پر نہ سمجھے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس طالبعلم میں نقص ہے نہ یہ کہ علم خراب شئے ہے.پس بفرض محال اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہے کے ہندو جبر سے نامزد کرتے ہیں تو وہ ان مسلمانوں کی غلطی تھی جن کا تعلق اس سے تھایہ نہیں کہ چند افراد کی غلطی سے اسلام پر الزام لگایا جائے کہ وہ جبر کی تعلیم دیتا ہے.ہندوؤں کے جبر اگر ہندو با وجود ان حالات کے اسلام جبر الزام لگانے سے بازنہ آئیں گے تو پھر دیکھو ہمارے منہ میں بھی زبان ہے ہم بھی جبر کے وہ واقعات بیان کر سکتے ہیں جو ہندوؤں نے دوسروں پر کئے اور غلط نہیں ہیں.مثال کے طور پر کہتا ہوں اگر زیادہ نہیں تو ہندوؤں کو وہ جبر تو ماننے پڑیں گے جو انہوں نے باہر سے آنے والی قوموں پر کئے.تمام تاریخیں متفق ہو کربتاتی ہیں کہ یونانی، ایرانی، ستھین اور بعض چین کی قومیں ہندوستان میں آئیں جنہوں نے اسے فتح کیا اور پھر وہ واپس نہیں گئیں.یہ قو میں بہت بڑی تعداد میں تھیں حتی کہ ایک قوم نے سو سال تک پشاور سے متھرا تک حکومت کی ہے تاریخیں یہ بتاتی ہیں کہ وہ ہندوستان میں آئیں اور اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ چار زبردست قوموں کے ریلے ہوۓ اور ساٹھ ستر بلکہ سو سال تک انہوں نے اس ملک میں حکومت کی مگر بعد میں ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا ہوئیں.البتہ ان کی یعنی ہندوؤں کی چار قومیں نظر آتی ہیں جس سے یہ قیاس گزرتا ہے کہ یا تو ان قوموں کو مار ڈالا گیا یا ملک سے باہر نکال دیا گیا اور یہ جبر تھایا پھر ان کو جبراً ہندو بنایا گیاورنہ وہ چالیس لاکھ انسان کس کنویں میں غرق ہو گئے جو باہر سے ہندوستان میں آئے اور حکومت کرتے رہے.پس تاریخی طور پر جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جبر ہندوؤں پر نہیں ہوا بلکہ انہوں نے دوسروں پر کیا.اسی طرح بدھوں کی تباہی ہے بدہ ہندوستان میں حاکم تھے ان کو اس ملک سے یکدم مٹادیا گیا
۴۷۶ ہے.کہا جاتا ہے کہ چار راجپوت اگنی کنڈ سے پیدا ہوئے اور انہوں نے ان کو تہ تیغ کیا.اول تو خواه وہ اگنی کنڈ سے پیدا ہوئے یا آسمان سے گرے بہرحال انہوں نے بدھوں کو تہ تیغ کیا اور اب اس مذہب کا اس ملک سے نام و نشان بھی قریبا ً مٹ گیا ہے.لیکن دوسرا سوال یہ ہے کہ اگنی کنڈ سے چار راجپوت تو الگ رہے.ایک چوہا بھی پیدا نہیں ہو سکتا اگر ہو سکتا ہے تو آج ہندوصاحبان ایسا کر کے دکھاویں.اصل بات یہ ہے کہ وہی باہر سے آنے والی چار تھیں جن کا نام ونشان اب مٹ گیا ہے انہیں لالچ دے کر کہ ان کو راجپوت کا درجہ دے دیا جاوے گا راجپوت بنا کر بدھوں کو تِہ تیغ کرنے پر مقرر کی گئی ہیں اور اس ناجائز سمجھوتہ کا نام اگنی کنڈ رکھا گیا ہے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ادھر بدھ اس ملک سے غائب ہوتے ہیں ادھر یہ باہر سے آئی ہوئی قومیں غائب ہو جاتی ہیں.پس صاف ثابت ہے کہ ستھین اور یونانی وغیرہ اقوام پر ہندوؤں نے جبرکیا یا لالچ دے کر ہندو بنالیا.یہ ہے ان لوگوں کے جبر کا نمونہ.مگرنہ وہ لوگ موجود ہیں جن پر جبر کیا گیا اور نہ ہی وہ جنہوں نے جبر کیا.وہ دونوں گزر گئے اب اگر ہم بھی ان کی طرح شور مچانا شروع کر دیں تو کیا آپ لوگ امید کر سکتے ہیں کہ امن قائم رہے گا.پس اگر ہندو امن پسند ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ امن اسی طرح ہو سکتا ہے کہ پچھلی باتوں کو چھوڑا جائے اور آئندہ کے لئے رواداری برتی جائے اور مساوات کا خیال رکھا جاوے.اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ملک میں امن بھی نہیں ہو سکتاپس اگر فی الواقع امن پیدا کرنا چاہتے ہیں تو رواداری قائم کریں اور مساوات بر تیں.غلط طریق عمل اب تک یہ طریق رہا ہے کہ جس قوم کے فرد سے کوئی قصور ہو تا وہ قوم بجائے اس کے کہ قصور وار کو ملامت کرتی اور جس کا اس نے قصور کیا اس سے عُذر خواہی ہوتی یہ کرتی ہے کہ مجرم کی تائید شروع کر دیتی ہے جس سے بجائے امن اور صلح کے فتنہ و فساد پڑھتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ اگر قصور کرنے والے کی تائید کی جائے تو جس کا اس نے قصور کیا ہوتا ہے اس کا غصہ بھی تیز ہو جاتا ہے اور مجرم بھی دلیر ہو جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اسی قسم کے افعال کرنے کی جرأت پیدا ہو جاتی ہے.غرض اس وقت تک یہی ہوتا رہا ہے کہ مسلمانون کا کوئی آدمی اگر قصور وار ہوتا تو مسلمان اس کی تائید میں شور مچا دیتے اور ہندوؤں کا کوئی آدمی قصور کرتا تو ہندو اس کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے.یہی وجہ ہے فساد بڑھتا گیا اور امن قائم نہ ہو سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ترقی کرنے سے رک گیا مگر اب یہ حالت میں رہی.میں ہندوؤں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے بھی اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کی.
۴۷۷ واقعات بتاتے ہیں کہ انہوں نے بالکل اس میں تبدیلی نہیں کی.ہاں مسلمانوں نے ایک عظیم الشأن تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی ہے جو امن پیدا کرنے والی ہے مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ایک تازہ واقعہ جس نے ملک میں ہلچل مچادی ہے اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا وہ شردهاند جی کا قتل ہے.کسی نے انہیں قتل کیا میں نہیں جانتا مگر جس نے کیا اس کے فعل کو صرف میں ہی نہیں کہتا بلکہ سارا ہندوستان بلکہ افغانستان بھی بُرا کہتا ہے بلکہ اور بھی جس جس اسلامی ملک میں یہ آواز پہنچی وہاں لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس فعل کے مرتکب نے بُرا کام کیا ہے.پس ایک سِرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمانوں کا اس واقعہ کے متعلق یہ کہنا کہ جس نے کیا بُرا کیا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں نے اپنی حالت بدل لی ہے اور وہ بات جو ہندوؤں کی طرح پہلے ان میں پائی جاتی تھی وہ نہیں رہی اور اس کی بجائے ایسا طريق ایسا طریقر کیا گیا ہے جو امن قائم کرنے والا ہے اور وہ طریقہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اظہار نفرت کا ہے.سو مسلمان اس شخص کی تائید کر سکتے تھے لیکن انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی اور صاف صاف کہدیا کہ قاتل نے بُر اکیا انہوں نے اپنے اندر ایک تبدیلی کرلی ہے اور یہ تبدیلی نہایت مبارک ہے لیکن ہندوؤں نے کوئی تبدیلی نہیں کی جس کا افسوس ہے.نبی کریمؐ کو گالیاں مت دو شردھانندجی کے قاتل کو میں نے بھی بُرا کہا اور مسلمانوں نے بھی کہا.دوسرے ملکوں کے مسلمانون نے بھی کہا لیکن اس ہماری شرافت کا نتیجہ کیا نکلا ہم نے تو ہندوؤں سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ قاتل نے بُرافعل کیا ہے لیکن ہندوؤں نے اُلٹامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینی شروع کر دی ہیں.اول تو یہ منطق نرالی ہے کہ اگر ایک مسلمان کہلانے والے نے مارا تو سب نے مارا.اگر ایک اس فعل کی وجہ سے بُرا ہے تو مسلمان سب بُرے ہیں لیکن اس کو تسلیم کر کے بھی ہم کہتے ہیں کہ ہم سب برے سہی قاتل سہی جس قدر چاہو بُرا کہو ہمیں سزا دے لو، ہمارے ساتھ سختی کرلو، ہمیں گالیاں چھوڑ گولیاں مار لو لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دو، اس کو بُرانہ کہو، اس کی شان گستاخی نہ کرو.ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن نہیں اگر برداشت کر سکتے تو اس مقدس ہستی کی تو ان نہیں برداشت کر سکتے.اس پاک وجود کے متعلق گالیاں نہیں برداشت کر سکتے.ہاں وہ جس نے دنیا میں امن قائم کیا ان کی تعلیم دی وحشی انسانوں کو انسان بنادیا اور دنیا
۴۷۸ کو اند میرے سے نکال کر روشنی میں کھڑا کر گیا اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ ظالم اور مفسد تھا اور یہ فعل اس کی تعلیم کا نتیجہ ہے.ہم کون ہیں؟ یاد رکھو ہم وہ لوگ ہیں جن کے ایک ایک آدمی کو مخالفین پکڑ کر لے گئے اس کو سخت ایذائیں پہنچائیں تکلیفیں دیں یہاں تک کہ اس کے جسم میں سوئیاں چبھوئی گئیں اس کے سامنے ایک سولی لٹکائی گئی اور اسے بتایا گیا یہ تمہارے لئے ہے ان تکلیفوں کے درمیان اس سے پوچھا گیا کیا تم چاہتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے سبب تمہیں یہ تکلیفیں پہنچ رہی ہیں یہاں ہوتا اور ان تکلیفوں میں مبتلاء ہوتا اور تم گھر میں آرام کرتے؟ یہ بات سن کر وہ نہایت اطمینان اور سکون سے مسکراتا ہوا کہتا ہے تم تو کہتے ہو کہ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یہاں ہوں اور یہ کہ کیا میں پسند کر سکتا ہوں کہ تکالیف ان کو پہنچ رہی ہوں اور میں اپنے گھر آرام سے بیٹھا ہوا ہوں لیکن مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹاچُبھے اور میں گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں.۱۱؎ غرض ہمارے جسم کا ہرذرہ محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر قربان ہونے کا متمنی ہے ہماری جان بھی اسی کے لئے ہے سارا مال بھی اسی کے واسطے ہم اس پر راضی ہیں بخدا راضی ہیں.پھر کہتا ہوں بخدا راضی ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے بچے قتل کر دو ہمارے دیکھتے دیکھتے ہمارے اہل و عیال کو جان سے مار دو لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دو.ہمارے مال لوٹ لو ہمیں اس ملک سے نکال دو لیکن ہمارے سردار حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتکاور توہین نہ کرو.انہیں گالیاں نہ دو.اگر یہ سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینے سے تم جیت سکتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ گالیاں دینے سے تم رک نہیں سکتے تو پھر یہ بھی یاد رکھو کہ کم سے کم ہم تمہارا اپنے آخری سانس تک مقابلہ کریں گے اور جب تک ہمارا ایک آدمی بھی زندہ ہے کہ اس جنگ کو ختم نہیں کرے گا.حضرت نبی کریم ﷺ پر الزام مت دھرو میں نے قادیان سے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ شردہا نندجی کے قتل کا فعل بہت بُرا فعل ہے اور جس نے کیا اس نے کوئی اچھا کام نہیں کیا لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی فعل ہے اسلام کو اس سے کوئی تعلق نہیں اور اسلام کو اس سے معلوم نہیں ٹھہرایا جا سکتا.مگر میں یہاں تک دیکھتا ہوں کہ آریوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور
۴۷۹ یہ اور بھی آگے بڑھے یہاں تک کہ ہمارے اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس پر ہم اپنی عزت، اپنی آبرو، اپنی جان، اپنامال، اپنی اولاد غرضیکہ ہر ایک شئے قربان کرنے کو تیار ہیں پہلے سے بھی زیادہ گالیاں دینے لگ گئے ہیں.میں بھی چونکہ مسلمان ہوں اور خدا کے فضل سے ان مسلمانوں میں سے ہوں جنہیں خدا تعالی نے اس زمانہ میں اسلام کی خدمت کے لئے چُن لیا میرے دل میں درد ہے اور سب سے بڑھ کر درد ہے میں نے جب دیکھا قادیان سے جو ہمدردی کی آواز میں نے اٹھائی تھی اس پر کان نہیں دھرا گیا تو میں نے محسوس کیا مجھے قادیان سے باہر جا کر یہ آواز لوگوں تک پہنچانی چاہئے اور میں اسی درد کو لے کر لاہور آیا ہوں اور میں اسی دردسے یہ لیکچر دے رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اسے توجہ سے سنیں اور جو میں کہتا ہوں اسے مانیں اور میں سوائے اس کے کیا کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دو اور ایک شخص کے فعل سے جسے ساری قوم برملا بُرا کہہ رہی ہے اس کی ساری قوم اور ہماری قوم کے پیشوا اور ہاد ی کو اس کا مجرم نہ ٹھہراؤ اگر آپ لوگوں کی عورتیں اور بیویوں اور بچوں اور ماؤں اور باپوں اور رشتہ داروں کو گالیاں دی جائیں اور ان پر عیب لگائے جائیں حالانکہ ان میں عیب ہوتے بھی ہیں تو کیا آپ خاموش رہ سکتے ہیں اور آرام سے بیٹھ سکتے ہیں اگر نہیں تو کیا ہم سے ہی یہ توقع ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللد علیہ وسلم کے متعلق جنہیں ہم اپنی جان ومال عزیزوں رشتہ داروں سے کہیں عزیزسمجھتے ہیں گالیاں سنیں اور خاموش رہیں اور آرام سے بیٹھے رہیں.یقینا ًہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے.جب تک آپ لوگ تسلیم نہ کر لیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں نہیں دیں گے.گالیاں دینے والوں سے صلح نہیں ہو سکتی ہم لڑیں گے نہیں اور نہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم ہے کہ لڑا جائے مگر ہم صلح بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے پیارے رسول کو گالیاں دی جاتی ہیں.ہماری اس وقت تک اس شخص سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے صلح نہیں ہو سکتی جب تک وہ گالیاں ترک نہ کرے.بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود نے بھی ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میں جنگل کے سانپوں سے صلح کر لوں گا لیکن اگر نہیں کروں گا تو ان لوگوں سے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ان پر ناپاک حملے کرتے اور ان کے حق میں طرح طرح کی بدزبانی کرتے ہیں ۱۲؎ ہم صلح پسند ہیں لیکن ہم اس بات کو بھی پسند کرنے والے نہیں کہ صلح و آشتی کی تعلیم دینے والے کو بُرا کہا جائے.ہم بہرے تھے
۴۸۰ اس نے ہمیں کان دیئے ہم گونگے تھے اس نے ہمیں زبانیں دیں ہم اندھے تھے اس نے ہمیں آنکھیں دیں.ہم راہ سے بھولے ہوئے تھے اس نے ہمیں راہ دکھائی خدارا اسے گالیاں نہ دو.غور کرو اس نے شردہانند جی کو مارا نہیں اور نہ مروایا ہے اس کا اس معاملے میں کوئی دخل نہیں.پھر اسے کیوں گالیاں دیتے ہو.جس نے مارا ہے اسے پکڑ لو.ایک کو نہیں بہتوں کو پکڑ لو جیسا کہ تم نے پکڑابھی اور ایک کو مار بھی ڈالا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں نہ دو.وقت کے لحاظ سے مسلمانوں کا فرض اب میں مسلمانوں کو توجہ لانا چاہتاہوں کہ انہیں سوچنا چاہئے شُدھی اور سنگھٹن کے ذریعے ہندو کیا کرنا چاہتے ہیں.وہ یقیناً اس ذریعہ سے انہیں مٹانا چاہتے ہیں.اور جب دوسری قومیں انہیں مٹانا چاہتی ہیں تو مسلمانوں کو ہوشیار ہو جانا چاہئے.شدھی اور سنگھٹن سے مسلمانوں پر ایک اثر پڑ رہا ہے اور یہ اثر جہاں تک میں دیکھتا ہوں مضر ہے.پس اگر مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کا احترام ہے تو انہیں بیدار ہو جانا چاہئے لیکن میں ساتھ ہی کہوں گا کہ شُدھی اور سنگھٹن سے مسلمانوں کو جوش میں بھی نہیں آنا چاہئے بلکہ انہیں اپنا فرض پہچاننا چاہئے.انہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اگر ملکانا شُدھ ہو رہے ہیں تو ہمیں کیا.کیونکہ آج اگر ملکانا شدھ ہو جائیں تو کل دوسروں کی باری بھی آجائے گی.پس اس سے بے پروا نہیں ہونا چاہئے.اگر ملکانوں کو شدھ ہونے سے نہ بچایا گیا تو کل دوسرے بھی ہو جائیں گے.اگر ایک دیوار کے نیچے سے ایک اینٹ نکال لیں تو پھر دوسری آسانی کے ساتھ نکل سکتی ہے تیری آپ ہی نکل آتی ہے پھر چوتھی پانچویں غرضیکہ ایک وقت آتا ہے کہ دیوار کی دیوار ہی گر پڑتی ہے.پس ملکانوں کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور ہمیں اس فرض کے پورا کرنے میں غفلت نہیں کرنی چاہئے.سرحد پر گھوڑے باندھو اگر اسلام کی تڑپ ہے، اگر چاہتے ہو اسلام ترقی کرے، اگر چاہتے ہو مسلمان مسلمان رہیں اور دوسری قوموں میں جذب ہونے سے بچے رہیں تو خود مسلمانوں کو چاہئے مسلمان بن کر رہیں.اسلام کا کوئی حکم نہ ہو جسے وہ کر سکتے ہوں اور نہ کریں.پس میں نصیحت کرتا ہوں آج اگر کل کی فکر کرو گے تو کل کا فکر کم ہو جائے گا آج جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے اس کی فکر کرو اور اس کے علاج کی طرف توجہ کرو تا آج کا بھی علاج ہو اور کل کا بھی.آج ملکانے شدہ کئے جارہے ہیں.ان کو بچاؤگے نہیں تو کل دوسرے لوگ شدھ ہو نگے.قرآن شریف میں خدا تعالی فرماتا ہے یایها الذين أمنوا اصبروا
وصابروا ورابطوا واتقوا الله لعلكم تفلحون ۱۳؎ مومن کو سرحد پر گھوڑے باندھنے چاہئیں یعنی سرحدوں کی حفاظت کرنی چاہئے.ہندوستان کی ادنی ٰ اقوام ہماری سرحدہیں ہمیں چاہئے اپنی سرحد پر گھوڑے باندھیں اور ان کی حفاظت کریں.اگر دشمن نے اس سرحد پر قبضہ پالیا اور ادنی ٰ اقوام کو اپنے ساتھ ملا لیا تو پھر جیسے دشمن سرحد سے گذر کر وسط ملک میں پہنچ جاتا ہے اسی طرح ہندو اچھوت اقوام سے گزر کر خود مسلمان قوموں پر حملہ کر دیں گے.پس ہمیں چاہئے کہ ہم ہوشیاری کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کریں اور ادنی ٰ اقوام کو جو ہماری سرحد ہیں ان لوگوں کی دستبرد سے بچائیں.ملکانوں کو بچانا اور بھی ضروری ہے کیونکہ وہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں.اسلام کی حفاظت اور اشاعت ہمارے لئے فرض ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ذمہ داری کو جو بطور فرض ان کے سر پر ہے پوری کریں اور خود بھی مسلمان بن کر رہیں اور کمزور مسلمانوں اور ادنی ٰ اقوام کے مسلمانوں اور دُور اُفتادہ مسلمانوں کی بھی حفاظت کریں.اگر مسلمان ہوشیار نہ ہوئے اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی انہوں نے کوشش نہ کی تو کم از کم میں خدا کے سامنے یہ کہہ سکوں گاکہ میں نے بریڈلا ہال میں ۲.مارچ ۱۹۲۷ء کو کہہ دیا تھا اور لوگوں کو ان کا فرض یاد دلا دیا تھا لیکن اے خدا! تیرے بندے غفلت میں رہے اور انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی.مسلمانوں کا آئندہ طریق کار اب میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو ان کے لئے آئندہ کے واسطے وہ طریق عمل بتاؤں جس پر انہیں چلنا چاہئے اور جن کی انہیں ازحد ضرورت ہے.سب سے پہلی بات جو میں انہیں کہتا ہوں یہ ہے کہ وہ پہلے خود پکے مسلمان بنیں.شاید مجھے تعلیم یافتہ لوگ پاگل کہیں کہ ہر ایک عیب کا علاج اسلام پر عمل بتاتا ہے مگر وہ خواہ کچھ کہیں حق یہی ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کا اصل ذریعہ یہی ہے.مسلمانوں کا آئندہ طریق کار سب سے پہلی بات جو میں نے کہی کہ پکے مسلمان بن جاؤ اس کے ساتھ میں دوسری بات جو بتاتا ہوں اور وہ بھی ازحد ضروری ہے و ہ ہے تدبیر.تدبیر سے کام مسلمانوں کا خاص کام ہے اور مسلمان جانتا ہے کہ ہمارا مذہب تدبیر سکھاتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ خود تو کرو کچھ نہ اور امید رکھو کہ سب کچھ ہو جائے گا.مسلمانوں کا مذہب اس بات کا حامی نہیں بلکہ اس بات کا حامی ہے کہ ہر موقع پر تدبیر سے کام لینا چاہئے.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمان کو تدبیر کرنی چاہئے.چنانچہ آپ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اپنا اونٹ باہر چھوڑ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا
تمہارا اونٹ کہاں ہے اس نے عرض کی اللہ کے توکل پر اسے باہر ہی چھوڑ آیا ہوں.آپ نے فرمایا جا پہلے اسے رسّہ سے مضبوط باندھ اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل رکھا.۱۴؎ اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو تدبیر کی تعلیم دینا چاہتے تھے کہ انسان کا کام اور بالخصوص ایک مسلمان کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہر معاملے میں تدبیر کرے اور ساتھ ساتھ دعا کے سلسلے کو جاری رکھے اور پھر خدا پر توکل کرے.اس کے مطابق میں بھی آج آپ لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں آپ صحیح معنوں میں مسلمان بنیں وہاں صحیح تدبیر کرنے والے بھی ہو جائیں اور جب وہ کریں گے تو خدا تعالی ان کا محافظ ہو جائے گا اور خود ان کی حفاظت کرے گا اور دشمن حملوں کا شکار نہیں ہونے دے گا.مسلمان سات کروڑ ہو کر ڈر رہے ہیں.قرآن شریف میں آتا ہے ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغیروا ما با نفسهم هل ۱۵؎ یعنی اللہ تعالیٰ کسی کی کوئی نعمت نہیں چھینتا جب تک وہ آپ اس نعمت کو خراب نہ کر دے اور اس کی بے قدری کر کے اس قابل نہ ہو جائے کہ اس سے نعمت واپس چھین لی جائے.اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو خراب کرنا اور ان کی بے قدری کرنا یہی ہے کہ ان کا صحیح استعمال نہ کیا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حکم دیا کہ مسلمانوں کی مردم شماری کی جائے.یہ بالکل ابتدائی زمانہ کی بات ہے مردم شماری کی گئی تو صحابہ کی تعداد سات سو نکلی.صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی حضور نے مردم شماری کیوں کرائی ہے کیا آپ کا خیال تھا کہ ہم تباہ نہ ہو جائیں اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تباہ نہیں کر سکتے.۱۶؎ صحابہ سات سو تھے اور ان کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی اس تعداد کو بہت بڑی تعداد سمجھتے تھے اور حیران ہو کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہے تھے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تباہ نہیں کر سکتی.آج مسلمان سات سو نہیں صرف ہندوستان میں سات کروڑ سے بھی زیادہ ہیں مگر پھر بھی ڈرتے ہیں.صحابہ باوجود قلیل التعداد ہونے کے دنیا کی طاقتوں سے کیوں نہیں ڈرتے تھے اور اس ملک کے مسلمان سات کروڑ سے بھی زیادہ ہو کر دنیا کے ادنی ٰلوگوں سے کیوں ڈر رہے ہیں.یہ ایک سوال ہے جو بالطبع یہاں پیدا ہوتا ہے مگر اس کا حل نہایت آسان ہے اور وہ یہ کہ وہ خداکے ہو چکے تھے اور خدا ان کا ہو چکا تھا اس لئے خدا ان کی ہر موقع پر مدد اور حفاظت فرماتا تھا مگر مسلمان آج خدا کے ساتھ تعلقات توڑ چکے ہیں اس لئے اس نے بھی ان کی طرف سے منہ موڑ لیا
۴۸۳ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ جرأت جو خدا کے بندوں میں ہوتی ہے ان میں نہیں اور اس جرأت کے نہ ہونے سے یہ ادنی ٰ ادنی ٰ لوگوں سے ڈر رہے ہیں.مسلمان اسلامی خزانہ کے محافظ ہیں ممکن ہے کوئی کہے دوسری قومیں بھی اس حالت میں ترقی کر رہی ہیں اور اگر مسلمان بھی اسی حالت میں ترقی کرنے کے لئے کوشش کریں تو ان کو کیوں ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے یہی شرط ہے کہ وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے اور جب خدا کسی کا ہو جائے تو پھر ترقی کوئی روک نہیں سکتا.اسلام کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھ لوعرب کے ان لوگوں میں جن کے غیر مہذب اور غیر متمدن ہونے کے تھے تمام علاقوں میں مشہور ہیں وہ خوبی پیدا ہو گئی کہ یکدم ان کی حالت پلٹ گئی اور وہ جو غیر مہذب تھے نیب کے استاد مانے گئے اور جو غیر متمدن تھے ان کا تمدن دنیا کاتمدن قراردیا گیا اور جو غیر تعلیم یافتہ تھے معلّم تسلیم کئے گئے اور جو حکمرانی کے طریق سے نابلد تھے حکمران بنا دیئے گئے.یہ سب باتیں اسی لئے حاصل ہوئی تھیں کہ وہ اللہ کے ہو گئے تھے اور اللہ ان کا ہو گیا تھا.اب بھی اگر اس نسخہ کو استعمال کیا جائے تو یہی اثر ہو سکتا ہے.پس اگر یقین ہے کہ اسلام سچا ہے اور اس یقین کے ہوتے ہوئے مسلمان اس سے تعلق کاٹ کر ترقی حاصل کرنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے کیونکہ وہ اسلام کے خزانہ کے محافظ مقرر کئے گئے ہیں اگر وہ اس زمانہ کی طرف سے غفلت کر کے کسی اور طرف توجہ کریں گے تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ سلوک ہو گا کہ ان کی طرف سے منہ پھیرلے گا اور جب بھی وہ اس کو چھوڑ کر دنیا کی طرف متوجہ ہوں گئے تکلیف اور نقصان اٹھائیں گے.دوسروں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی سچے مذہب پر نہیں ہیں اگر وہ اپنے مذہب سے غفلت کریں تو اس سے سچائی کو کوئی نقصان نہیں ہوتا.پس اس وقت کی آفات سے بچنے کا علاج یہی ہے کہ پکے مسلمان بن جاؤ تا خدا تعالی تمہارا بن جائے اور ہر موقع پر تمہاری حفاظت فرمائے اور ہر جگہ اپنی مدد تمہیں عطا کرے.اتحاد بین المسلمين دوسری بات جس کی طرف میں آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ اتحاد بین المسلمین ہے یعنی مسلمانوں کے بے شمار فِرقوں کے درمیان اتحاد واتفاق.مسلمان اس وقت کئی فرقوں پر تقسیم ہو چکے ہیں اور یہ فرقے آپس میں ایک دوسرے کے مخالف بلکہ دشمن ہو رہے ہیں جس سے مسلمانوں کو بحیثیت قوم نقصان پہنچ رہا ہے اور
۴۸۴ اگر وہ اتحاد اور اتفاق نہیں کریں گے تو دوسری قومیں ان کو آسانی سے مٹادیں گی اس موقع پر میں ایک مولوی اور ایک سید اور ایک عام آدی کا قصہ سناتا ہوں جو واقعی اس قابل ہے کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے.مولوی، سید اور ایک اور آدمی یہ تینوں کسی سفر پر گئے.راستہ میں ان کو ایک باغ ملا جس میں گھس گئے اور میوے توڑنے شروع کردیئے کچھ تو کھائے اور کچھ توڑ توڑ کر ضائع کئے.اتنے میں باغ کا مالی آگیا اس نے دیکھا تو دل میں سوچا میں اکیلا ہوں اور یہ تین ہیں اگر میں انہیں کچھ کہتا ہوں تو تینوں میرا بھرکس نکال دیں گے چاہئے کہ تدبیر سے ان پر قابو پاؤں.یہ سوچ کر وہ ان کے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بڑے نرم الفاظ میں سید سے کہنے لگا آپ سید ہیں سب کچھ آپ کا ہی ہے اور مولوی لوگ رسول کریم کی گدی پر بیٹھنے والے ہیں مگر یہ تیسرا کون ہے جو آپ کی برابری کرے اور دوسرے کو نقصان پہنچاۓ اس پر سید اور مولوی چپکے کھڑے رہے اور اس نے تیسرے آدمی کو خوب مارا اور ہاتھ پاؤں باندھ کر الگ رکھ دیا.اس کے بعد وہ پھر سید سے مخاطب ہو کر کہنے لگا آپ تو آل رسول ہیں سب کچھ آپ کاہی ہے مگر یہ مولوی کون ہے جو خواہ نخواہ حصہ دار بن بیٹھا ہے یہ کہہ کر اس نے مولوی صاحب کو پکڑ لیا اور خوب مارا اور سید صاحب الگ کھڑے دیکھتے رہے کہ ہم تو اصل مالک ہیں یہ اس ڈاکو کو مار رہا ہے.پھر زمیندار نے اس کو بھی باندھ کر ایک طرف پھینک دیا.پھر سید کی طرف لپکا اور کہا کہ تو آل رسول بنا پھرتا ہے شرم نہیں آتی لوگوں کا مال بغیر اجازت کے کھاتا ہے اور ان کو نقصان پہنچاتا ہے.یہ کہہ کر اس نے سید صاحب کو بھی خوب پیٹا اس ترکیب سے اس نے تینوں کو سزا دے لی.مسلمان بھی اگر اسی طرح رہے اور اتفاق و اتحاد نہ کیا تو خطرہ ہے کہ ان تینوں کی طرح ایک ہی قوم کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں گے.پس میرے نزدیک موجودہ حالات کے لحاظ سے یہ بہت ضروری ہے کہ اتحاد بین المسلمین ہو ورنہ دوسرے لوگ مسلمانوں کو کچل ڈالیں گے اور مسلمان اگر متحد نہ ہوئے تو منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گئے.اشتہار کا جواب اب میں اس اشتہار کے سوال کا جواب دیتا ہوں جو مجھے ابھی ملا ہے اور جس میں یہ سوال ہے کہ مسلمانوں کو مسلمان کہتا ہوں کہ کافر.مگر پیشتر اس کے کہ میں جواب دوں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو بات صاحب اشتہار نے پو چھی ہے وہ پہلے سے ہی میرے اس لیکچر کے نوٹوں میں شامل ہے اور مجھے خود اس پر بولنا تھا.اب انہوں نے وہی بات پیش کی ہے اس لئے میں ان کی توجہ کے لئے اور دوسرے لوگوں کے واسطے کہتا ہوں کہ میں نے
۴۸۵ مسلم لیگ کے جلسہ پر جو لاہور ہوا تھا بتا دیا تھا کہ کسی سے یہ کہنا کہ اپنے مذہب کے لحاظ سے جوتم خیال رکھتے ہو اسے چھوڑ دو اور پھر ہماری طرف صلح کے لئے آو یہ سراسر غلط طریق ہے اور مسلمانوں کے فرقوں کے درمیان اس رنگ میں قیامت تک بھی صلح کا ہونا ناممکن ہے.ہونا یہ چاہئے کہ سیاسی نقطہ خیال کے مطابق ہر شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ نہیں قرار دیتا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں ہے اس کو مسلمان قرار دیا جائے ایسے لوگوں کے درمیان اتحاد ہو.پھر میں نے آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے موقع پر بھی بتایا تھا اب پھر کہتا ہوں کہ اسلام کی اس زمانہ میں دو تعریفیں ہیں ایک مذہبی اور ایک سیاسی.اب ان تعریقوں سے الگ رہ کر کہنا کہ صلح کر لو ایک غلطی ہے جو سخت نقصان پہنچانے والی ہے.اسلام کی مذہبی تعریف کے لحاظ سے ایک لحظہ علیحدگی اختیار کر کے اسلام کی سیاسی تعریف کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک عیسائی یا ایک ہندو کسے مسلمان سمجھتا ہے؟ کیا وہ دیوبندیوں کو مسلمان سمجھتا ہے اور باقی سب کو غیر مسلم؟ کیا وہ احمدیوں کو مسلمان سمجھتا ہے اور باقی سب کو کافر؟ کیا وہ شیعہ لوگوں کو مسلمان سمجھتا ہے اور باقی سب کو کافر؟ نہیں وہ سب کو مسلمان سمجھتا ہے خواہ کوئی دیوبند کا ہو، خواہ قادیان یا فرنگی محل کا.اس کے لئے سب ایک ہیں اور وہ سب کے ساتھ ایک ہی قسم کا سلوک کرے گا کیونکہ ہندو یا عیسائی قوم کو اس سے بحث نہیں کہ اسلام کی مذہبی تعریف کے لحاظ سے کون کون مسلمان ہے اور کون کون کافر بلکہ وہ سلوک کرتے وقت یہ دیکھیں گے کہ کون لوگ مسلمان کہلاتے ہیں.وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ ان کو تو اسلام کے فلاں فرقہ نے کافر قرار دیا ہوا ہے یا فلاں فرقہ کو فلاں فرقہ نے اپنے سے علیحدہ کردیا ہے وہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں گے اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی تعریف کے روسے مسلمانوں کے تمام فرقے اکٹھے ہو جائیں.مذہبی تعریف کے لحاظ سے ہم جس کے متعلق چاہیں کہیں لیکن سیاسی امور کے لحاظ سے ہمیں ایک جگہ متحد ہو جانا چاہئے کیونکہ دوسری قومیں مسلمانوں کے تمام فرقوں کو مسلمان سمجھتی ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے فرقے ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں.بریلوی دیوبندیوں کو اسی طرح شیعہ سنیّوں اور سنّی شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں.یہ الگ بات ہے کہ کسی کو کافر کہیں یا نہ کہیں مگر عقید تاً ایسا سمجھتے ہیں اور یہ اعتقاد اتحاد میں مانع نہیں ہو سکتا اور اگر اس کے بغیر اتحاد نہیں ہو سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب چُھڑایا جائے اور مذہب چھوڑ کر قیامت تک بھی صلح نہیں ہوسکتی.
۴۸۶ آزادی رائے اتحاد بین المسلمین کے لئے دوسری چیز جس کی ضرورت ہے وہ آزادی رائے ہے باہمی اتحاد کے لئے اس کی اشد ضرورت ہے اگر اسے نظرانداز کردیا جائے تو اتحاد نہیں ہو سکتا اگر ہو جائے تو قائم نہیں رہ سکتا.إختلاف امتی رحمۃ آزادی رائے کے ساتھ ہی اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے اور یہ مضر نہیں ہوا کرتا بلکہ رحمت اور برکت کا باعث ہوتا ہے.جیسا کہ ایک حدیث میں ہے.اختلاف ام زخم ملے ۱۷؎ میری امت کا اختلاف بھی رحمت ہو گا.یعنی امت کی حد میں رہ کر جس قدر اختلاف وہ کریں وہ مضر نہ ہو گا بلکہ مفید ہو گا.اور اس میں کیا شک ہے کہ تمام ترقیاں اختلاف رائے سے پیدا ہوتی ہیں.اگر پچھلے پہلوں سے اختلاف نہ کرتے تو حساب، سائنس، کیمسٹری، فزکس، علم طبقات الارض اور ہیئت اور دوسرے علوم میں کوئی بھی ترقی نہ ہوتی.لوگ اپنی جگہوں پر کھڑے رہتے اور پھر قانون قدرت کے اس اصل کے ماتحت کہ جو کھڑا ہوا رہ گیا، وہ تباہ ہو جاتے اور نسل انسانی برباد ہو جاتی.پس اختلاف تو ایک ضروری اور مفید شئے ہے اس کا مٹا نا قوم کے لئے زہر ہے.ہاں اس کا حد کے اندر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے تا دریا کی طرح اپنے پاٹ سے باہر ہو کر تباہی اور بربادی کا موجب نہ ہو.میں جب ولایت سے واپس آیا تو میں نے اپنے سیکر ٹریوں میں سے ایک کو گاندھی جی کے پاس بھیجا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں انہوں نے دہلی کے پروگرام میں فرق کر کے بمبئی میں مجھ سے ملاقات کا وقت مقرر کیا میں نے عند الملاقات ان کو اس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی کہ کانگرس اس وقت تک ملک کی نمائندہ نہیں ہو سکتی جب تک ہر خیال کے آدمی اس میں شامل نہ ہوں.صرف وہی جماعت ملکی نمائندہ کہلائے گی جس میں اختلاف خیالات رکھنے والے بھی ہوں.اختلاف کی حد بندی ہونی چاہئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یونہی فساد کھڑا کر دیا جائے.ہمیشہ نرمی اور محبت کو استعمال کیا جائے.پس ہمیں چاہئے کہ اختلاف کی حد بندی تو کریں اور اتحاد بین المسلمین کے لئے آزادی رائے کو قربان نہ کریں بلکہ اس کی موجویدگی میں اتحاد کی بنیاد رکھیں.ہندوؤں اور مسلمانوں کا اپنے اپنے لیڈروں سے سلوک ہندوؤں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ باوجود اختلاف رائے کے قومی مقاصد کے لئے متحد ہوتے ہیں.پچھلے دنوں جب شورش ہوئی تو ہندو لیڈروں میں سے گاندھی جی ایک طرف تھے اور پنڈت مالوی صاحب ایک
۴۸۷ طرف.اسی طرح مسلمانوں میں مولوی محمد علی اور ابو الکلام ایک طرف اور مسٹر جناح اور سرشفیع ایک طرف.جس طرح گاندھی جی اور مالوی جی کا اختلاف تھا اسی طرح محمد علی اور ابو الکلام صاحب مسٹر جناح اور سر شفیع میں اختلاف تھا لیکن ہندوؤں کی تو یہ حالت تھی کہ جو لوگ مالوی جی کے ہم خیال تھے وہ گاندھی جی کی بھی عزت کرتے اور جو گاندھی بی کے طرف دار تھے وہ مالوی جی سے اظہار خلوص کرتے حالانکہ اس وقت ان دونوں اور ان کے ہم خیال لوگوں میں سخت اختلاف تھا.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں نے یہ طریق استعمال کیا کہ ایک لیڈر کے ہم خیالوں نے دوسرے لیڈر اور اس کے ہم خیالوں کی تذلیل کی اس طرح مسلمانوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں کاٹ لئے.میں نے اس وقت مسلمانوں کو سمجھایا کہ جن لیڈروں نے خدمات کی ہیں ان سے یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے مگر کسی نے نہ سنا.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو آپریشن کی پالیسی جب ناکام رہی تو ہندوؤں کی طرف سے مالوی جی نے گورنمنٹ میں کہہ دیا کہ گاندھی جی اصلی لیڈر نہیں ہم لوگ اصل لیڈر تھے اور چونکہ ان کی عزت ہروقت قائم رہی ان کی بات تسلیم کرلی گئی اور کہا گیا کہ ہندو قوم نے بہ حیثیت قوم جادة اعتدال سے اپناقدم نہیں نکالا تھا لیکن چونکہ مسلمانوں نے اپنے لیڈروں کی ہتک کی تھی وہ یہ نہ کہہ سکے اور مسلمان ہی گھاٹے میں رہے.اور حقیقت اختلاف پر عداوت کا پیدا کر لینا ایک خود کشی کی پالیسی ہے جس سے اجتناب ضروری ہے.افراد اور قوم کے حقوق کی نگہداشت اتحاد کے لئے مختلف فرقوں کے حقوق کی نگہداشت بھی نہایت ضروری ہے جب تک پورے طور پر اس کا خیال نہ رکھاجاۓ اتحاد نہیں ہو سکتا.چونکہ انفرادی رنگ میں بھی اور جماعتی رنگ میں بھی ایک دوسرے کے حقوق کی نگہداشت نہیں کی جاتی اس وجہ سے جو جماعتیں قلیل اور کمزور ہیں وہ کثیر اور مضبوط جماعتوں کے ساتھ نہیں ملتیں کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ملنے سے کہیں اور نقصان نہ ہو.جب مختلف فرقے مسلمانوں میں موجود ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ بغیر ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت کرنے کے وہ آپس میں مل سکیں.مثلا ًشیعہ ہیں وہ سب مذہبی تعصبوں اور بُغضوں کو چھوڑ کر سنّیوں سے ملنا چاہیں تو ان کے لئے اگر کوئی روگ ہو گی تو یہی کہ سنی شاید ہمارے حقوق کی نگہداشت نہ کریں اور ہم جو اس وقت تک اپنے حقوق کی آپ حفاظت کرتے چلے آتے ہیں اس حفاظت سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں.
۴۸۸ ۸ اسی طرح ایک احمدی کا حال ہے کہ وہ بھی اتحاد بين المسلمين کی جب خواہش کرے گا تو اس کے راستے میں بھی یہی روک پیدا ہو گی.پھر خود ہی سوچ لو ایک شیعہ سنی سے کس طرح اتحاد کر سکتا ہے، ایک وہابی سنی سے کیونکر مل سکتا ہے، ایک احمدی غیر احمدی سے کیسے صلح کر سکتا ہے.پس مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کی نگہداشت کی جائے اسی سے متفقہ طور پر قومی رنگ میں دوسری غیر مسلم قوموں کے حقوق کی نگہداشت کرنے کی بھی اہلیت پیدا ہو سکے گی.تبلیغ مسلمانوں کی ترقی کے لئے جن امور کی ضرورت ہے ان میں سے ایک امر تبلیغ اسلام ہے قرآن شریف میں تمہیں تمام امتوں سے بہترین امت کہاگیا ہے اور بہترین کہنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا وعظ کرتے ہو اور بدی سے ڈراتے ہو چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتؤمنون باللہ ۱۸؎ کہ تم سب سے اچھی امت ہو جو دنیا کے نفع کے لئے پیدا کی گئی ہو کیونکہ تم لوگوں کو نیکی باتیں بتاتے اور انہیں خدا کے راستہ پر چلانے کے لئے وعظ کرتے ہو اور بدی اور بُرائی کرنے سے روکتے ہو اور ان پر ظاہر کرتے ہو کہ خدا تعالی ان باتوں سے ناراض ہوتا ہے.پس مسلمانوں کا خیر امت ہونا صرف تبلیغ ہی کے سبب سے ہے اور اگر تبلیغ چھوڑ دی جائے تو پھر خیر امت کیسے کہلا سکتے ہیں.میں کہتا ہوں اگر ترقی کی خواہش رکھتے ہو اور تمہیں ضرور ترقی کی خواہش رکھنی چاہئے تو تبلیغ کرو.عیسائی بالکل معمولی قوم تھی لیکن اس نے تبلیغ شروع کی.تکلیفیں تو اس راہ میں اس نے اٹھائیں مگر ترقی بھی کر گئی اور اب تمام دنیا پر پھیلی ہوئی ہے.يأجوج ماجوج ایک طرف مسیحیوں کو دیکھو اور ایک طرف آریوں کو دیکھو کہ وہ پورے زور کے ساتھ اپنے اپنے خیالات کی تبلیغ کر رہے ہیں.کہتے ہیں یاجوج ماجوج کو دوسرے ممالک میں پھیلنے سے روکنے کے لئے ایک دیوار بنا دی گئی ہے اور وہ اس دیوار کو چاٹتے رہتے ہیں اسی طرح چاٹ چاٹ کر ایک دن وہ دیوار کو درمیان سے مٹا دیں گے اور سب دنیا میں پھیل جائیں گے.یاجوج ماجوج توجو چاٹیں گے چاٹیں گے عیسائی اور آریہ اس وقت اسلام کی دیوار چاٹ رہے ہیں کہ اسلام کو مٹا ڈالیں.اسلام کی دیوار یہی مسلمان ہیں جنہیں مرتّد کر رہے ہیں اور اگر اسی طرح کچھ عرصہ یہ کام جاری رہا تو یہ دیوار ساری کی ساری صاف ہو جائے گی یعنی اگر مسلمانوں نے روک تھام نہ کی تو ان میں سے کچھ لوگ آریہ ہو جائیں گے اور کچھ عیسائی.پس
۴۸۹ ہمارے لئے ضروری ہے نہیں نہیں بلکہ فرض ہے کہ ہم ان کے حملوں کو بھی روکیں اور تبلیغ بھی کریں.نفس کی اصلاح مگر تبلیغ بھی یونہی نہیں ہو سکتی اس کے لئے سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کی ضرورت ہے.ہمیں فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اسلام کا فائدہ ہمارے احساسات پر مقدم ہونا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ اسی وجہ سے مسلمان تبلیغ نہیں کر سکتے اور نقصان اٹھاتے ہیں.ملکانوں کے علاقوں میں ایک جگہ سات آٹھ سو کے قریب آدمیوں کو آریہ مرتد کرنے لگے مجھے خبرملی تو میں نے اپنے مبلغین کو وہاں بھیجا وہ لوگ ہمارے قبضہ میں آگئے تھے مگر دوسری جماعتوں کے مبلّغوں نے وہاں پہنچ کر اخمت اور غیر احمدیت کا سوال چھیڑ دیا اور بجائے اس کے کہ ان لوگوں کو جو آریہ ہو رہے تھے بچاتے انہیں ہمارے متعلق یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ قادیانی کافر ہیں ان کی باتیں نہ سنو.اس کے بعد اگر وہ خود ان کو اپنی باتیں سناتے اور مرتد نہ ہونے دیتے تو ایک بات بھی تھی مگر یہ بھی نہ کیانہ ہمیں کام کرنے دیانہ آپ کام کیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہزاروں آدمی جو ہمارے قبضہ میں آسکتے تھے ہمارے ہاتھ سے نکل کر آریوں کے ہاتھوں میں جا پڑے.وہ واقعہ میں ہزاروں تھے کیونکہ ان کے ساتھ ان کے بیوی اور بال بچے بھی تھے اور پھر اردگرد کے قصبوں کے بعض باشندے بھی.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان مولویوں نے وہاں بھی مخالفت کی جس کے یہی معنی ہیں کہ انہوں نے اسلام کی مخالفت کی اور اس کی اشاعت میں روک کھڑی کر دی اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ سے یہ بھی کہہ دوں کہ اپنے نفوس کی اصلاح کرو تا آئندہ کے لئے اس طرح نقصان اٹھانے کا خطرہ نہ رہے.مسلمان دین سے واقفیت پیدا کریں تبلیغ کے واسطے بھی اور عام ضروریات کے واسطے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ مسلمان خود اپنے دین سے واقف ہوں کیونکہ میں نے دیکھا ہے ذرا سا اعتراض پڑتا ہے تو مسلمان گھبرا جاتے ہیں.اگر اپنے دین سے پوری واقفیت ہو تو کبھی کسی اعتراض سے نہ گھبرائیں اور اگر خودہی واقف نہیں تو دوسروں کو دین وہ کیابتا سکتے ہیں.پھردین سے واقف نہ ہونے کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ مسلمان اعمال کی طرف سے بے توجہ ہیں.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ خود بھی دین سے واقف ہوں اور اپنے اپنے متعلقین کو بھی اس سے واقف بنائیں خصوصیت سے ایسے مسائل پر کتابیں لکھی جائیں جو بچوں کے لئے مفید ہو سکیں تا بچپن میں ہی ان کے ذہن میں وہ باتیں مضبوطی کے ساتھ
۴۹۰ بیٹھ جائیں جو بڑے ہو کر کوشش کرنے پر بھی نہیں بیٹھتیں کیونکہ بچپن کا حافظہ تیز اور ذہنی طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں.پھر چونکہ انہی بچوں نے بڑے ہو کر قوم بننا ہے اس لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں اسی وقت سے اس قسم کی تربیت دی جائے کہ وہ صحیح طور پر بہترین قوم بن سکیں ان کے لئے اس قسم کی کتابیں، رسالے اور اخبارات ہونے چاہئیں جو ان کے لئے نہ جسمانی طور پر نقصان دہ ہوں نہ علمی اور روحانی رنگ میں.اور اگر ذرا سی کوشش کی جائے تو ایسالڑ یچر آسانی کے ساتھ بہم پہنچ سکتا ہے.امراء غرباء سے میل جول رکھیں مسلمانوں کی ترقی کے لئے ایک اور امر جس کی سخت ضرورت ہے یہ ہے کہ امراء غرباء سے میل جول پیدا کریں.ہندوؤں میں تو یہ بات ہے کہ ان کے بڑے بڑے لوگ چھوٹے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں لیکن مسلمانوں میں یہ بات اول تو ہے نہیں اور جو ہے تو اس قدر کم کہ اسے نہ ہونے کے برابر کہا جاسکتا ہے.پس ضرورت ہے کہ جو بڑے ہیں اور جن کو خدا نے امارت دی ہے و ہ غرباء سے تعلقات بڑھائیں ان کی ضروریات معلوم کریں ان سے ملتے رہنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ وہ سمجھیں گے یہ ہم سے محبت کرتے ہیں پھر وہ بھی محبت کرنے لگیں گے اور محبت سے اتفاق کی روح پیدا ہوا کرتی ہے.اب تو مسلمانوں میں سے جو بڑے ہیں ان کے مکانوں کے پاس تک جانے سے عوام خوف کھاتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں انہوں نے اپنی طرزہی اس طرح بنارکھی ہے کہ لوگ ان سے ڈریں لیکن اگر ان سے اپنی ہی قوم ڈرتی رہی تو کسی ترقی کی امید کس طرح ہو سکتی ہے.پس جو بڑے ہیں وہ چھوٹوں سے ملتے رہیں تا چھوٹے درجہ کے لوگوں کو بھی اپنا اور اپنی قومیت کا احساس ہو اور جب احساس پیدا ہو گا تو پھر انہیں اپنی حفاظت کا خیال بھی آۓ گا اور ترقی اور کامیابی کی اُمنگیں پیدا ہو جائیں گی.چُھوت چھات سے نجات چھوت چھات کے ذریعے بھی ہم اپنی طاقت مضبوط کر سکتے ہیں.میں دیکھ رہا ہوں چھ سو سال سے مسلمانوں کا کروڑوں روپیہ ایسے طور پر ہندوؤں کے گھر جا رہا ہے جس کی واپسی کی مسلمانوں کو کوئی امید نہیں اور کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ وصول ہو سکے.میں مثال کے طور پر صرف حلوائیوں کی دُکانوں کو لیتا ہوں مٹھائی کا استعمال اس ملک میں کثرت سے ہے ہر بازار میں ہر دس دُکانوں کے بعد ایک دُکان ہندو حلوائی کی نظر آتی ہے.ہندو تو ان سے لیتے ہی ہیں مگر مسلمان بھی انہی سے خریدتے ہیں اس
۴۹۱ طرح مسلمانوں کا کروڑوں روپیہ ہر سال ہندوؤں کے گھر جا پڑتا ہے.اور چونکہ ہندو مسلمانوں سے خوردنی اشیا نہیں خریدتے یہ کروڑوں روپیہ جو ہر سال ہندوؤں کے پاس جاتا ہے اس کا کوئی حصہ مسلمانوں کے گھر واپس نہیں آتا پس اس طرح ہندوؤ ں کی دولت روز بڑھ رہی ہے اور مسلمانوں کی کم ہو رہی ہے.میں عداوت نہیں پھیلانا چاہتا بلکہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اگر چھوت چھات اپنی تمدنی زندگی کے لئے مفید ہے اور اس سے اقتصادی حالت درست ہو سکتی ہے تو ہمیں بھی یہ ذریعہ اختیار کرنا چاہئے اور اپنی بہتری اور بہبودی کے لئے اگر کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے یا دشمنی اور عداوت پیدا کرنے کے لئے ایسا کیا گیا.میرے مدنظر مسلمانوں کے مفاد ہیں اور میں نے ان کے مفاد کے واسطے کہا ہے کہ ہمیں چھوت چھات کے ذریعہ وہ روپیہ بچانا چاہئے جو ہندوؤں کے گھر اس وجہ سے ہمیشہ کے لئے چلا جاتا ہے کہ وہ ہم سے چھوت چھات کرتے ہیں اور ہم ان سے نہیں کرتے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کا یہ روپیہ مسلمانوں کے ہی پاس رہے تو مسلمانوں کی حالت بہت حد تک درست ہو سکتی ہے.پس ان چیزوں میں چھوت چھات جن میں ہندو مسلمانوں سے چھوت چھات کرتے ہیں مسلمانوں کے اسے ایک علاج کے طور پر ضروری ہے.کُتب تاریخ کی اصلاح ہمارے مدارس میں تاریخ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان سے ہمارا قومی کیریکٹر پچھ خراب ہو چکا ہے اور کچھ ہو رہا ہے کیونکہ ان میں مسلمان بچوں کے باپ دادوں کو چور، ڈاکو ، لٹیرے وغیرہ کہا گیا ہے اور بچے جب پڑھتے ہیں تو اپنے آپ کو چوروں، ڈاکووں اور لُٹیروں کی اولاد سمجھتے ہیں پس اس کی اصلاح کی بھی سخت ضرورت ہے.گو بڑے ہونے پر جب تحقیقی طور پر ان کے سامنے واقعات آتے ہیں تو ان میں سے بعض کے دماغ سے یہ بات نکل جاتی ہے لیکن بچپن کا اثر مٹانے کی ہر اک میں طاقت نہیں ہوتی اور پھر جو اس اثر کو مٹاڈالتے ہیں وہ بھی اس عمر کے بعد جس میں کیریکٹر بنتا ہے اس بات پر قادر ہو سکتے ہیں بھلا وہ بچے جن کے ذہن میں چھوٹی عمر سے یہ ڈالا جائے کہ تمہارے باپ دادے چور اور ڈاکو تھے کس طرح بلند حوصلہ ہو سکتے ہیں اور کس طرح قومی کیریکٹر ان میں پیدا ہو سکتا ہے؟ پس ضرورت ہے کہ موجودہ کتب تاریخ میں اصلاح کی جائے ان تاریخوں میں تو اورنگ زیب کو بھی جو ایک عابد اور پرہیز گار بادشاہ تھا ڈاکو اور لٹیرا کہا گیا ہے اور سیواجی کو بڑا ہوشیار، دانا بادشاہ.اب بچوں میں اتنا مادہ تمیز کا تو نہیں ہوتا کہ وہ چھان بین کر سکیں اس لئے وہ اس اثر کے ماتحت رہتے ہیں
۴۹۲ کہ واقعی سیوا جی بڑا ہوشیار اور دانا راجہ تھا اور اورنگ زیب ایک ڈاکو بادشاہ تھا.میں یہ نہیں چاہتا کے خواہ مخواہ مسلمان بادشاہوں کی تعریف کی جائے بلکہ میں یہ چاہتا ہوں جو جائز حق ہے وہ ہمارے بادشاہوں کو دیا جائے اور جو ان کی جائز تعریف ہو سکتی ہے وہ کی جائے میں یہ نہیں کہتا کہ اورنگ زیب کو ولی قرار دو لیکن کم سے کم اس کی طرف وہ عیب تو منسوب نہ کرو جو اس نے نہیں کئے.اصل میں قومی کیریکٹر پچھلی روایات پر مبنی ہوتا ہے اگر اسلاف کی طرف سے اچھے کارناموں کی تار یخ بچوں تک پہنچے تو وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسے اچھے نام کوذلّت سے بچانا ہمارا فرض ہے اور اگر وہ یہ خیال کریں کہ ہمارے اسلاف اچھے نہ تھے تو چو نکہ وہ اپنی قومی عزت کچھ سمجھتے ہی نہیں وہ اس کی حفاظت کا بھی چنداں خیال نہیں کرتے اور ان کے اخلاق اعلی ٰنہیں ہوتے اور حوصلہ اور استقلال نشوونما نہیں پاتا پس کتب تاریخ کی اصلاح نہایت ضروری ہے ہندوؤں سے اپیل میں آخر میں ہندوؤں سے بھی اپیل کرتا ہوں اور سچی ہمدردی کے ساتھ کرتا ہوں میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دل کے کسی گوشہ میں بھی ان کی عداوت نہیں ہاں جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے تکلیف محسوس کرتا ہوں اس لئے میں ملک کے نام سے، مذہب کے نام سے، انسانیت کے نام سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو بدلو.ہم دنیا کے لئے بار اور بوجھ ہو رہے ہیں اور لوگ ہم پر نالاں ہیں کہ ہم بجائے ترقی کے تنزل کرتے چلے جارہے ہیں ہمارا ملک دوسرے ممالک کی طرح عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر آج لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں میں اپنی حالت کوبدلو اور اپنے ساتھ رہنے والی قوم کی مدد کرو، اور اس سے مدد حاصل کرو.مسلمانوں سے مخاطبہ مسلمانوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑو نہیں اور اخلاص سے کام لو وہ کام کرو جو ملک کے لئے عزت کا موجب ہو..دلوں سے کینہ ، بُغض، تعصّب نکال دو خواہ وہ کینہ اور تعصب اپنوں کے خلاف ہو خواہ غیروں کے.ہر قدم پر ملک کی بھلائی کو مد نظر رکھو اپنے ساتھ رہنے والی قوموں کا احترام کرو، ان سے محبت اور پیارے ر ہو.آخری الفاظ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ صلح غلام ہو کر نہیں ہوا کرتی صلح آزاد ہو کر ہؤا کرتی ہے.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ تمدنی اور سیاسی ترقی کر کے دوسری اقوام کی غلامی سے آزاد ہوں.دیکھو صلح کرنے والا بندوں کے نزدیک بھی اور خدا کے نزدیک بھی
۴۹۳ مکّرم ہوتا ہے پس آپ لوگوں کو چاہئے صلح کرنے والے کام کریں صے سے چونکہ خدا تعالی کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے اس لئے میں کہتا ہوں خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے صلح کرو.میں دعا کرتا ہوں کہ ہندوستان کے باشندے خدا کو راضی کرنے والے کام کر سکیں ان سے قوم کی خدمت ہو سکے وہ ملک کے امن اور ترقی کے لئے کوشش کرنیوالے ہوں جو ایسا کرے گایعنی محبت و پیار اور صلح و آشتی سے رہے گاوہ دنیا کے تاج پر ہیرا بن کر چمکے گا اور میں یہ چاہتا ہوں کہ خدا اس ملک اور اس ملک کے باشندوں کو ہیرا بنا کر چمکائے.اے خدا! تُوایسا ہی کر.آمین.خاتمہ تقریر پر صدر جلسہ کے ریمارکس حضرات! میں اپنی طرف سے اور آپ لوگوں کی طرف سے مرزا صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں.انہوں نے اپنے قیمتی خیالات آپ کے سامنے ظاہر فرمائے ہیں اور ایسے نیک سبق ہمیں دئیے امید ہے کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو ملک اور قوم کے واسطے مفید ہوں گے، میں امید کرتا ہوں میرے مسلمان بھائی جو کچھ مرزا صاحب نے ملک کی بہتری کے لئے دونوں قوموں کو سبق دیئے ہیں ان کو دل میں جگہ دیں گے اور ان پر غور کریں گے اور میں دوبارہ اپنی طرف سے اور آپ لوگوں کی طرف سے شکریہ کا اعادہ کرتا ہوں اور پھر آپ کو ان سبقوں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہوا یہ جلسہ برخاست کرتا ہوں.۱؎ الفاتحة :،۷،،۲ ۲؎ فاطر:۲۵ ۳؎ النحل :۳۷ ۵؎ البقرة:۲۵۷ ۶؎ الاعراف :۸۹ ۷؎ یو نس :۱۰۰ الكهف :۳۰ و أل عمران :۹۸ ال اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحہ ۲۲۹، ۲۳۰ مطبوعہ بیروت l۳۸۵ھ ۱۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے وہ الفاظ جن کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے حضور کی ’’پیغام صلح‘‘ نامی کتاب سے نقل کئے جاتے ہیں.(مرتب تقرير) جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ حضرت محمد مصطفى ٰصلى الله عليه و سلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور پر بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شور زمین کے
۴۹۴ سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں.(پیغام صلح ۲۱.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۸۹) ۱۳ ال عمران :۲۰۱ ترمذی ابواب صفة القيامة باب ما جاء في صفة اواني الحوض هل الرعد:۱۲ کنزالعمال جلدها صفحہ ۱۳۱ روایت نمبر۲۸۹۸۶ مطبوعه حلب اے۱۹ء ال عمران :۱۱۱
۴۹۵ مذہب اور سائنس از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۴۹۷ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلى على رسولہ الكريم مذہب اور سائنس (حضرت فضل عمرخلیفۃ المسیح الثانی نے ۳.مارچ۱۹۲۷ء کو زیر صدارت جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، اسلامیہ کالج کی سائنس یونین کی درخواست پر حبیبیہ ہال لاہور میں ’’مذہب اور سائنس‘‘ پر لیکچر دیا.) تشہّدد تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ اشتہار میں شائع کیا گیا ہے اس مجلس میں میں مذہب اور سائنس کے متعلق کچھ بیان کروں گا.بادی النظر میں اس مضمون پر بحث کے لئے ایک ایسے آدمی کا کھڑا ہونا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو ان دونوں علوم کے متعلق کامل واقفیت رکھتا ہو.میں عمر کے بیشتر حصہ کو اور اوقات میں سے اکثر وقت کو مذہب کی تحقیق میں صرف کرتا ہوں اور میرے لئے سائنس کے متعلق بار یک مطالعہ کے لئے ایسی فرصت کا ملنا ناممکن ہے جو کسی فن کا ماہر ہونے کے لئے ضروری ہے.مگر اس امر کے باوجود جو بحث کرنی ہے وہ چونکہ اصول کے متعلق ہے اس لئے میں نے اس مضمون پر لیکچر دینا منظور کر لیا ہے.مذہب اور سائنس کا تصادم مذہب اور سائنس کا مقابلہ بہت پرانا چلا آتا ہے.ترقی انسانی کے مختلف دوروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقابلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے.سائنس کے ماہروں کو جادوگر کہا گیا، ان پر سختی کی گئی، بعضوں کو جلایا گیا اور طرح طرح کے ظلم اُن پر مذہب کے حامیوں کی طرف سے کئے گئے.اسی طرح مذاہب کے بانیوں کو سائنس دان اور فلسفی مجنون کہتے چلے آئے.ان کو ہمیشہ مرگی، ہسٹیریا اور مالیخولیا کے مریض تصور کرتے رہے.چنانچہ سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں پر مذ ہبی لوگوں کے مظالم بخوبی روشن ہیں اور مذہب کی تاریخ کو جاننے والوں کو فلسفیوں کے یہ ناموزوں القاب
۴۹۸ خوب معلوم ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ یہ مقابلہ کیوں ہے اور یہ تصادم کس وجہ سے ہے؟ آیا کوئی معقول وجہ اس بات کی ہے کہ سائنسی مذہب سے ٹکرائے.کیا مذہب واقعی سائنس کے خلاف تعلیم دیتا ہے؟ اس بات کے فیصلہ کی آسان صورت کہ آیا ان دونوں میں حقیقی تصادم ہے یا نہیں یہ ہے کہ دونوں کی تعریف بتا دی جائے.یعنی مذہب کسے کہتے ہیں اور سائنس کس چیز کا نام ہے.با اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دو شخص جھگڑ رہے ہوتے ہیں.ان دونوں کانقطہ نگاہ ایک ہی ہوتا ہے.مگر الفاظ کی غلطی سے ٹھوکر لگ جاتی ہے.اور محض لفظی نزاع سے لڑائی شروع ہو جاتی ہے.مولانا روم اپنی مثنوی میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ چار شخص اکٹھے جارہے تھے.انہوں نے ملکر مزدوری کی جس کے عوض میں انہیں کچھ پیسے ملے.اس پر انہوں نے مشورہ کیا کہ ان پیسوں سے کیا چیز خرید کر کھائی جائے.ایک نے کہا.ہم تو منقہ خریدیں گے.دوسرے نے کہا نہیں ہم تو عِنَب لیں گے.تیسرا بولا ہمیں تو انگور بہت پسند ہیں.اور چوتھا کہنے لگا.میں تو داکھ کھاؤں گا.اس اختلاف پر ان میں جھگڑا ہو گیا.پاس سے ایک شخص گزرا.اس نے جھگڑے کا سبب دریافت کیا.معلوم ہوا کہ چیز ایک ہی ہے.محض لفظی نزاع ہے.اور زبانوں کے اختلاف سے مختلف نام لے رہے ہیں.اس نے بازار جا کر انگور خریدے.اور ان کے آگے رکھ دیئے.سب نے مل کر کھائے اور اس راہ گزر کی عقلمندی کی داد دی.پس معلوم ہوا کہ بعض دفعہ دو چیزوں میں حقیقی تصادم نہیں ہوتا کیونکہ چیز ایک ہی ہوتی ہے اور محض الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے ٹکراؤ معلوم ہو تا ہے.مذہب کی تعریف مذہب کی تعریف یہ ہے.خداتعالی سے ملنےکا وہ راستہ جو خود اس نے الہام کے ذریعہ دنیا کو بتایا ہو.مذہب کے معنی ہی عربی زبان میں راستہ کے ہیں اور دین کے معنی ہیں طریقہ.سائنس کی تعریف سائنس کی اصولی تعریف یہ ہے.وہ علوم جو منظم اصول کے ماتحت ظاہر ہوئے ہوں اور ظاہری صداقتوں سے جن پر استدلال کیا گیا ہو یا پھر اس سے مراد وہ مادی حقائق ہیں جن کی بنیاد مشاہدہ اور تجربہ پر ہو.یعنی استدلال صحیحہ سے بعض حقائق معلوم کئے جائیں.مذہب اور سائنس کی اس تعریف کے ماتحت کیا تصادم ممکن ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مذہب اور سائنس کی یہی تعریف ہے جو ابھی بتائی گئی ہے تو پھر ان دونوں میں تصادم نہیں اور تصادم نہیں ہو سکتا.مذہب کی حقیقی تعریف یہی ہے ورنہ مذہب سائنس کے تصادم سے بچ نہ سکے
۴۹۹ گا.مثلاً اگر مذہب کی یہ تعریف کی جائے کہ انسان کے دماغ کی وہ ارتقائی حالت جس پر پہنچ کروه علمی ارتقاء سے بعض ایسی باتیں معلوم کرلیتا ہے جو دوسرے معلوم نہ کرسکتے تھے.یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ مذہب قلب غیر عامل (SUB CONCINNOUS MIND) کی نشوونما (DEVELOPMENT) کا نتیجہ ہے تو سائنس کا دائرہ بھی یہی ہو گا.یعنی وہ علوم جو غور و فکر کا نتیجہ ہوں اور اس تعریف کے ماتحت مذہب اور سائنس کا دائرہ الگ الگ نہیں ہو سکتا.اور اگر مذہب کے یہ معنی ہیں کہ وہ خیالات جو جذبات کا نتیجہ ہوں اور کسی اصول پر ان کی بنیاد نہ ہو تو وہ واہمہ اور قوت متخیلہ کا نتیجہ ہیں نہ کہ مذہب.ان کو تو زیادہ سے زیادہ لطائف کہہ سکتے ہیں جن پر بحث کی ضرورت نہیں.پس مذہب اگر قلب کے اُن خیالات کا نام رکھا جائے جو سب کانشس مائینڈ (SUB CONCINNOUS MIND) کے ارتقاء کا نتیجہ ہوں تو وہ سائنس ہی ہے اور مذہب سے جدا نہیں.ہاں اگر کوئی ایسی بات ہو جس کی بنیاد علم پر نہ ہو.محض دل کے خیالات ہوں تو وہ و ہم ہے اور غیر حقیقی چیز ہے نہ کہ مذہب.مذہب اور سائنس میں فرق مذہب اُن صداقتوں کا نام ہے جو لقائے الہٰی سے متعلق ہیں.اور ان کا علم کائنات عالم کے صانع نے الہام کے ذریعہ دیا ہے.اور سائنس اُن نتائج کا نام ہے جو کائنات عالم پر انسان خود غور کر کے اور تد بّر کرنے کے بعد اخذ کرتا ہے.گھر مذہب کے بعض حقائق بھی عقل سے معلوم ہو سکتے ہیں مگر سائنس کی بنیاد محض غور و فکر اور تجربہ و مشاہدہ پر ہے.آپ اس تعریف کے ماتحت مذہب اور سائنس میں مقابلہ ہی کوئی نہیں.کیونکہ مذہب خدا کا کلام ہے.اور سائنس خدا کا فعل.اور کسی عقلمند کے قول اور فعل میں اختلاف نہیں ہو سکتا.ہاں اگر کوئی جھوٹا ہو یا پاگل ہو تو اختلاف ہو گا.خدا کے متعلق دونوں باتیں ممکن نہیں کیونکہ خدا ناقص العقل یا ناقص الاخلاق نہیں.پس خدا کے قول اور فعل میں فرق نہیں اسی لئے مذہب اور سائنس میں بھی تصادم نہیں.اِس جگہ سوال ہو سکتا ہے.کیا واقعی خدا موجود ہے جو کلام کرتا ہے؟ مگر اس وقت خدا کے وجود پر بحث نہیں.اس لئے فرض کر لو کہ خدا ہے اور اس کی طرف سے تعلیم بھی آئی ہوئی ہے.پس اگر واقع میں مذہب کوئی چیز ہے تو اس کا سائنس سے تصادم بھی نہیں ورنہ مذہب کاہی انکار کرنا ہو گا.جب تک مذہب کا نام دنیا میں موجود ہے ماننا پڑے گا کہ خدا بھی ہے.
۵۰۰ تصادم کی وجہ اگر مذہب اور سائنس میں تصادم ممکن نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں مقابلہ چلا آیا ہے.اگر ان میں جو جھگڑاہے اس کی کوئی وجہ ہونی چاہئے.کیا سائنس دانوں پر یونہی ظلم کئے گئے.ان کو بِلا وجہ قتل کیاگیا اور جلایا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصادم حقیقی نہیں.سے ہرگز سچا مذہب سائنس سے ہرگز نہیں ٹکراتا اور سچی سائنس مذہب کے خلاف نہیں ہو سکتی کیونکہ مذہب خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل.پس خدا کے قول اور فعل میں حقیقی تصادم نہیں ہو سکتا.اگر تصادم ہو تو ماننا پڑے گا کہ یا تو مذہب کی ترجمانی غلط ہوئی ہے.(کیونکہ مذہبی احکام دینے والا تو نہ جھوٹا ہے اور نہ پاگل) یعنی لوگوں نے مذہب کو غلط سمجھا.یا پھر خدا کے فعل (سائنس) کے سمجھنے میں غلطی ہوئی.ورنہ مذہب اور سائنس دونوں متنرہ عن الخطاء ہستی کی طرف سے ہیں.جس کے قول اور فعل میں تضاد ممکن نہیں.پس معلوم ہوا کہ ہمارے غلط INTERPRETATION(ترجمانی )کی وجہ سے تصادم ہوا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ظرف کے ساتھ مل کر چیزنئی شکل اختیار کر لیتی ہے.مثلا ًپانی ہے.اسے اگر گول برتن میں ڈالا جائے تو گول شکل اختیار کر لے گا اور اگر چپٹے برتن میں ڈالو تو چپٹا نظر آئے گا.یہی تقریر جو اس وقت میں کر رہا ہوں.اسے ہر شخص الگ الگ طرز پر بیان کرے گا.اور اس طرح میرے بیان میں اختلاف نظر آئے گا.مگر یہ ہماری اپنی سمجھ کا فرق ہو گا.گویا INTERPRETATION الگ الگ ہوں گے.پی مذہب اور سائنس میں تصادم ہو تو ماننا پڑے گا کہ یا تو خدا تعالی کے قول کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے.یا پھر خدا تعالی کے فعل کے سمجھنے میں ٹھوکر لگی ہے.مثلا ًپانی کے متعلق پہلے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ مفرد چیز ہے مگراب ثابت ہوا ہے کہ یہ مرکب ہے.اسی وجہ سے کیا پہلوں کو پاگل کہہ دو گے.فرض کرو قرآن کہتا کہ پانی مرکب ہے تو کیا سائنس دان اس وقت نہ کہتے کہ سائنس سے ٹکرا رہا ہے.حالانکہ اس وقت سائنس کی ترجمانی میں وہ خود غلطی کھارہے تھے.اسی طرح دنیا کی عمر قرآن سے ۷ ہزار سال ثابت نہیں.محض لوگوں نے ایسا سمجھ رکھا ہے.اب یہ بات سائنس کے خلاف ہے.مگر یہاں پر مذہب کے INTERPRETATION میں غلطی کی گئی ہے نہ یہ کہ قرآن حقیقی سائنس کے خلاف کہہ رہا ہے.حضرت محی الدین صاحب ابن عربی نے کتاب فتوحات مکّیہ میں لکھا ہے کہ مجھے الہام کے ذریعہ بتایا گیا تھا کہ اہرام مصر لاکھ سال کے بنے ہوئے ہیں.
۵۰۱ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا دماغ بعض دفعہ خدا تعالی کے فعل اور کبھی خدا تعالی کے قول کے سمجھنے میں غلطی کر جاتا ہے جس سے سائنس اور مذہب میں اختلاف نظر آتا ہے ورنہ اگر واقعہ میں مذہب خدا کی طرف سے ہے اور سائنس اس کا فعل ہے تو پھرٹکر اؤ نہیں ہو گا.سائنس تو مذہب کی مؤید ہونی چاہئے نہ کہ خلاف.کیونکہ فعل ہمیشہ قول کا مؤید ہوا کرتا ہے نہ کہ مخالف.پس سائنس کی کوئی تحقیق مذہب کے خلاف نہیں ہو گی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.خدا کے کلام کی آپ کے عمل سے تائید ہوتی ہے.چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے صحابہ نے دریافت کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے.تو انہوں نے جواب دیا.کان خلقه القران - ۱؎ آپ کے اخلاق وہی تھے جو قرآن نے بیان کئے ہیں.پس سچائی میں قول اور فعل ٹکراتے ہیں.اگر مذہب خدا کی طرف سے ہے تو سائنس ضرور اُس کی مؤید ہو گی.اسی طرح خدا تعالی کے کلام پر غور کرنے سے سائنس کی تائید ہوگی نہ کہ مخالفت.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ولا مبدل لکلمت اللہ.۲؎ یعنی خدا کے کلام میں جھوٹ نہیں ہو سکتا اس میں جتنا غور کرو گے سچائی ہی سچائی نکلے گی.پھر فرماتا ہے.ولن تجد لسنة الله تبدیلا.۳؎ یعنی خدا کے عمل میں بھی غلطی نہیں ہے.گویا خدا کے کلام (مذہب) اور اس کے فعل (سائنس) پر جتنا بھی غور کرو گے کبھی اس کی بات کو اس کے عمل کے خلاف نہ پاؤ گے.قرآن اور سائنس پس قرآن تو سائنس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے.چہ جائیکہ اس سے نفرت دلائے.قرآن نے یہ نہیں کہا کہ سائنس نہ پڑھنا، کافر ہو جاؤ گے کیونکہ اسے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ لوگ علم سیکھ جائیں گے تو میرا جادو ٹوٹ جائے گا.قرآن نے لوگوں کو سائنس کی تعلیم سے روکا نہیں بلکہ فرماتا ہے.قل انظروا ماذا في السموت والا رض۴؎ غور کرو.زمین اور آسمان کی پیدائش میں.آسمان سے مراد سماوی (علوی) علوم اور زمین سے ارضی یعنی جی آلوجی (GEOLOGY)، بائی آلوجی (BIOLOGY)، آر کی آلوجی (ARCHEOLOGY)طبيعیات وغیرہ علوم مراد ہیں.اگر خدا کے نزدیک ان علوم کے پڑھنے کا نتیجہ مذہب سے نفرت ہو تا تو قرآن کہتا ان علوم کو کبھی نہ پڑھنا.مگر اس کے برخلاف وہ تو کہتا ہے، ضرور غور کرو، ان علوم کو پڑھو اور اچھی طرح چھان بین کرو کیونکہ اسے معلوم ہے علوم میں جتنی ترقی ہو گی اس کی تصدیق ہوگی.
۵۰۲ قرآن کریم کی یہ آیت بھی سائنس کی طرف توجہ دلاتی ہے.اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۵؎ فرمایا.زمین و آسمان کی پیدائش میں اور دن رات کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے نشان ہیں.زمین اور آسان کی پیدائش میں غور کرنے سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی چیز فضول اور بے فائدہ پیدا نہیں کی گئی.اب دیکھو.اس آیت میں سائنس کے متعلق کیسی وسیع تعلیم دی گئی ہے.اشیاء کے فوائد اور پھر یہ نتیجہ کہ کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی گئی یہ بغیر تحقیق کے کیسے معلوم ہو سکتا تھا.پس قرآن نے خواص الاشیاء کی طرف توجہ دلائی ہے اور ساتھ ہی یہ سنہری اصل بھی سکھا دیا ہے کہ کسی چیز کو بے فائدہ نہ سمجھو.ہم نے کوئی چیز فضول پیدا نہیں کی.گویا لمبی تحقیق جاری رکھنے اور عاجل نتائج سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے.پہلے سائنس دان بعض اعضاء جسم انسانی کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ یہ نیچرنے بے فائدہ بنائے ہیں.اور یہ محض ارتقاء حیوانی کے مختلف دوروں کی یادگار ہیں جن کی اب ضرورت نہیں اِس لئے ان کا کٹوا دینا ہی بہتر ہے کیونکہ وہ کئی دفعہ بیماری کا موجب ہو جاتے ہیں.مگر علوم مروّجہ کی ترقی اور ان کا بڑھتا ہوا تجربہ اور مشاہدہ اس بات کو رد کر رہا ہے اور ان کو قرآن کے اس سنہری اصل کی طرف توجہ دلا رہا ہے.مثلاً انسان کی بڑی آنتوں کے ساتھ چھوٹی انگلی کے برابر ایک زائد آنت ہوتی ہے.جس کو (VERIFORM APPENDIX) کہتے ہیں.اس میں بعض دفعہ غذا کے نیم ہضم شدہ ذرات رگ جاتے ہیں.جن کی وجہ اس کے اندر سوزش ہو کر ورم ہو جاتا ہے.جسے (APPENDIX) کہتے ہیں.اور ڈاکٹر عموماً اس کو آپریشن کر کے کاٹ دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ بے فائدہ ہے.مگر اب اس کے متعلق تجربہ کیا گیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ ان کا یہ خیال درست نہ تھا.چنانچہ انہوں نے بار ہ بندر لئے.اور ان میں سے نصف کے (APPENDIX ) کاٹ دیئے.اور سب کو ایک ہی قسم کی غذادی گئی.مگر بعد میں معلومہوا کہ جن کی یہ آنت کاٹی گئی تھی ان کی چستی میں فرق پڑ گیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پہلے ڈاکٹر لوگ معمولی تکلیف پر بھی اس کو کاٹ دیتے تھے مگر اب احتیاط کرتے ہیں.پہلے اس آنت کا فائده ان کو معلوم نہ تھا مگر فائدہ اس کا تھا ضرور.اور تجارب سے معلوم ہوا کہ واقعی یہ آنت بے فائدہ نہیں.بتاؤ اگر اس کے متعلق تجربہ نہ کیا جاتا تو قرآن کریم کے اس اصل کی تصدیق کس طرح ہوتی
۵۰۳ کہ ہر چیز مفید ہے.پس اسلام سائنس کی طرف توجہ دلاتا ہے اور سائنس کی تحقیقاتوں سے اسلام کی تائید ہوتی ہے.تصادم کی ایک اور وجہ مذہب اور سائنس کے باہمی تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اپنے وہم کو مذہب قرار دیتے ہیں جو لازماً سائنس کے مسلّمہ اصول سے ٹکراتا ہے مگر یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا وہم درست ہے اور تجارب اور مشاہدات غلط ہیں.اِدھر سائنس والے بھی بعض دفعہ غلطی کرتے ہیں کہ محض تھیوری کا نام سائنس رکھ لیتے ہیں اور وہ مذہب کے ساتھ ٹکراتی ہے.مگر تھیوری قابل قبول نہیں کیونکہ خدا تعالی کے قول کے مقابلہ میں ایک انسان کی ذہنی اختراع کچھ چیز نہیں.جس طرح بعض مذاہب جھوٹے ہو سکتے ہیں مثلا ًوہ جو دل کے خیال، وہم اور تخیل کو خدا کا کلام سمجھ لیں اسی طرح تھیوری بھی جھوٹی ہو سکتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ کئی تھیوریاں آئے دن بدلتی رہتی ہیں.جوں جوں علوم میں ترقی ہوتی ہے پرانی تھیوریوں کو باطل کرتی جاتی ہے.مثلاً EINSTEn کی نئی تھیوری نے علم ایس ٹرانومی (ASTRONOMY) کی بہت سی ثقہ باتوں کو غلط ثابت کر دیا ہے.اسی طرح قدرت کے کرشموں کے مطالعہ سے جو غلط نتائج نکالے جائیں اور وہ مذہب سے ٹکرائیں تو بعد میں اصل حقیقت کے منکشف ہو جانے پر پشیمانی ہوتی ہے.پس آئندہ کے لئے فیصلہ کر لو کہ خدا تعالی کے الفاظ اور اپنے تجربہ پر علوم کی بنیاد رکھیں گے اور اس طرح پر تصادم نہیں ہو گا اور اگر ٹکراؤ ہو تو سمجھ لو کہ یا تو خدا کا کلام سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے یا پھر تجربہ میں غلطی کی گئی.مخالفت کی تین وجوہات دو باتوں میں مخالفت تین طرح کی ہو سکتی ہے.(۱)اگر ایک کو مانا جائے تو دوسری کا لازماً رد ہو.(۲) ایک دوسری کی طرف توجہ کرنے سے روکے.مثلاً مذ ہب یہ کہے کہ سائنس پر غور نہ کرو اور سائنس کہے مذہب کی طرف توجہ نہ کرو.(۳) تفصیلی تعلیم میں اختلاف ہو.یعنی اصولی باتوں میں نقص نہ ہو بلکہ جزئیات میں اختلاف ہو.اسلامی تعلیم میں ان تینوں میں سے ایک غم کا اختلاف بھی نہیں پایا جاتا.کیونکہ (1) اسلام خدا کا قول ہے اور سائنس اس کا فعل ہے.پس نقیض نہ ہوئے.(۲) دونوں نے ایک دوسرے کا مطالعہ کرنے سے منع بھی نہیں کیا.(۳) جزئیات میں بھی اختلاف کوئی نہیں.دونوں آپس میں متحد اور متفق ہیں.(۴) قرآن تو حقیقی سائنس کو منکشف کرتا ہے.بعض
۵۰۴ اسلامی احکام آج سے تیرہ سو سال قبل گو عجیب معلوم ہوتے تھے مگر اب آہستہ آہستہ ان کا فلسفہ اور حکمت ظاہر ہو رہی ہے.خواہ ان احکام کا تعلق علم النفس (PSYCHOLOGY) سے ہو یا علم کیمیا(CHEMISTRYہے.ہر چیز مفیدہے سائنس کے متعلق جو اصولی انکشاف قرآن کریم نے کئے ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا فائدہ ہے.اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ نے فضول پیدا نہیں کی.یہ بات پہلے بیان نہ ہوئی تھی.صرف اسلام نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ عظیم الشان علمی نکتہ دنیا کوبتایا کہ کوئی چیز خواہ وہ بظاہر کتنی ہی بُری ہو اس کے اندر ضرور اہم فوائد ہوں گے.گویا اصل غرض ہر چیز کی پیدائش کی نیک اور مفید ہے.چنانچہ فرمایا.اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ۬ؕ-ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ ۶؎ سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے.اور جو نور اور ظلمت دونوں کا بنانے والا ہے.یعنی الله تعالی ظلمات مثلاً مصائب، تکالیف، آفات، دکھ، درد، پیاری، موذی جانور وغیرہ سب کا خالق ہے.اسی طرح نور یعنی آرام و آسائش، سکھ، مفید اشیاء وغیرہ کا بھی خالق ہے اور ہر چیز کی پیدائش سے اس کی حمدہی ثابت ہوتی ہے.پھر فرمایا الذی خلق الموت والحيوة ليبلوكم أيكم أحسن عملا.۷؎ زندگی اورموت سب سے خدا کی حمدہی نکلتی ہے.کیا عجیب نظریہ پیش کیا ہے کہ ہر موذی چیز بھی مفید ہے.گویا اس طرح موذی اشیاء کے فوائد معلوم کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.مثلا ًسنکھیا بُرا خیال کیا جاتا ہے.مگر ہزاروں ہیں جو اس کے ذریعہ بچتے ہیں.اگر چند لوگ غلطی سے اسے کھا کر مر جائیں تو اس سے سنکھیا کے فوائد کا انکار نہیں کیا جا سکتا.سنکھیابہت سی امراض میں استعمال ہو رہا ہے.چنانچہ CHRONIC MALARIA(یعنی پرانا موسمی بخار) میں جب کونین فیل ہو جائے.اور فائده نہ دے سکے.تو آرسینک ہی فائدہ دیتا ہے.پھر امراض خبیثہ (آتشک) اور RELAPSING FEVER ( ہیرے پھیرے بخار )میں بھی آرسینک دیا جاتا ہے.پس اگر ایک آدمی سنکھیاسے مرتا ہے تو ہزاروں اس کے ذریعے جیتے ہیں.پھر افیون کو ایک لعنت خیال کیا جاتا ہے.مگر آدھی طب افیون میں ہے.مارفیا کی جلدی پچکاری ہزاروں مریضوں کے لئے ایک نعمت ہے.اگر ادویہ کے غلط استعالی سے ہم نقصان اُٹھائیں تو یہ ہمارا قصور ہے.مثلاً چاقو مفید چیز ہے لیکن اگر ایک شخص اس سے بجائے کوئی چز کاٹنے کے
۵۰۵ اپنی ناک کاٹ لے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ ہر بات سے ایک طبعی نتیجہ نکالتا ہے اور اس کے ساتھ اس کا شرعی نتیجہ بھی ہوتا ہے.مثلاً اس آیت سے طبعی نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ہر چیز مفید ہے.اور موذی اشیاء سے بھی خدا کی حمد ہی نکلتی ہے.اس سے ایک شرعی بھی نکالا ہے اور وہ یہ کہ ثم الذين کفروابربهم یعد لون یعنی بعض لوگ جو اس حقیقت کو نہیں سمجھے وہ شرک کرنے لگ پڑے ہیں.مثلاً زرتشتی مذہب کے لوگ.ان کا یہ عقیدہ ہے کہ موذی اشیاء کا خالق کوئی اورہے.وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا چو نکہ رحیم ہستی ہے اس لئے موذی اشیاء مثلاً سانپ اور بچھو زہر وغیرہ کی پیدائش اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.لہٰذا موذی اشیاء کا خالق کوئی اور ہونا چاہئے.مگر یہ غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے.انہوں نے موذی اشیاء کی پیدائش کی حقیقی غرض کو نہیں سمجھا.ورنہ وہ ضرور اس نتیجہ پر پہنچتے کہ ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے.پس ہر ایک بظاہر لغو اور موذی چیز اصل میں مفید ہے.اس کی پیدائش کی غرض نیک ہے.اور اس سے خدا کی حمد ہی ثابت ہوتی ہے.ہاں اگر ہم قوانین طبعی کی خلاف ورزی کر کے نقصان اٹھائیں تو یہ ہمارا قصور ہے.اس سے خدا تعالی کے رحم پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا.ہر چیز کاجوڑاہے قرآن نے فرمایا.ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے.یعنی ہر چیز کا جوڑا ہے.فرمایا و من كل شيئ خلقنا زوجين لعلکم تذكرون ۵ پر آتا ہے.ومن كل الثمرات جعل فيها زوجين اثنين – ۹؎ گویا نر اور مادہ مل کر مکمل ہوتے ہیں.اگر یہ دونوں آپس میں نہ ملیں تو ان کی مادی قوتیں ظاہر نہیں ہو سکتیں.عرب کو کھجور کے جوڑے کا تو علم تھا مگر ان کو ہر درخت کا جوڑ ا ہونے کا علم نہ تھا اور نہ ہی غیرذی روح اشیاء کے جوڑے کا علم تھاجب تک کہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو اُن پر منکشف نہ کیا.ایک یورپین مصنّف لکھتا ہے.تم عرب کے لوگوں کو جاہل مت خیال کرو اُن کو اس حقیقت کا علم تھا کہ درختوں میں نرومادہ ہوتے ہیں.میں ایک دفعہ گورداسپور گیا اور وہاں کے ایگریکلچر ل فارم کا ملاحظہ کیا.تو وہاں کے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھ کو بتایا.یہ گیہوں کے خوشے جو ہیں ان میں سے فلاں نر اور فلاں مادہ ہیں.جب سائنس میں اور ترقی ہو گی تو باقی درختوں کے بھی جوڑے معلوم ہو جائیں گے.غیرذی روح اشیاء مثلاً بجلی وغیرہ کا بھی جوڑا ہے.منفی اور مثبت بجلی کا آپ کو علم ہے.غرض اس اصل کو بیان کر کے قرآن کریم نے علمی دنیا پر ایک عظیم الشان احسان کیا ہے اور اس کے
۵۰۶ لئے آئندہ تحقیقات کا ایک وسیع میدان کھول دیا ہے.قرآن نے اس سے ایک شرعی نتیجہ بھی نکالا ہے اور وہ یہ کہ خدا ایک ہے.جوڑا احتیاج پر دلالت کرتا ہے.اس لئے ہر چیز ناقص ہے کیونکہ ہر چیز کو اپنی طاقت کے نشوونما اور قوتوں کے اظہار کے لئے دوسرے سے ملنا ضروری ہے.اپنی ذات میں کامل اور احتیاج سے منزّہ صرف ایک ہی ہستی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے جسے جوڑے کی ضرورت نہیں.کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو مٹی سے ملنا حدیث شریف میں آتا ہے.اذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليغسلہ سبع مرات أو لھن بالتراب.۱۰؎ یعنی جس برتن کو کتّاچاٹ جائے.اس کو سات دفعہ مٹی سے مل کر دھونا چاہئے.ڈاکٹر کاخ جو جرمنی کے مشہور پیتھالوجسٹ ہیں.انہوں نے PASTEAR INSTITUTES میں جب کام شروع کیا.تو انہیں چونکہ اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا شوق تھا.اس لئے خیال آیا حدیث میں جو آتا ہے کہ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو مٹی سے ملنا چاہئے.اس میں ضرور کوئی حکمت ہو گی.محمد صلی اللہ علیہ وسلم دانا آدمی تھے انہوں نے ضرور اچھی بات کہی ہو گی.پس انہوں نے تحقیقات شروع کی.تو معلوم کیا کہ مٹی کے اندر ایسے أجزاء پائے جاتے ہیں جو RABES(کتے کازہر) کے لئے مفید ہیں اور اس کے مصلح ہیں.گویا اُن کو اس حدیث نے اس طرف توجہ دلائی.چوہے کو مارنے کا حکم اسی طرح حدیث میں آتا ہے.خمس لا جناح علی من قتلھن فی الحرم والاحرام القارة والغراب والحدة والعقرب والكلب العقور ۱۱؎ کہ پانچ چیزیں بُری ہیں ان کو احرام کی حالت میں اور خانہ کعبہ کے اندر بھی مار دینا چاہئے.ان میں سے ایک چوہا ہے.گویا اس طرح پلیگ کا راز منکشف کیا گیا.اور آج سے تیرہ سو سال قبل بتایا کہ پلیگ کا سبب چوہا ہے جس کی تصدیق حال کی تحقیقاتوں نے کر دی ہے.حالانکہ ان کو آج سے تیرہ سو سال قبل پلیگ کے جَرم (GERM)کا پتہ نہ تھا.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوہے کو مارنے کا حکم دے کر لوگوں کو بتا دیا کہ یہ مضر جانور ہے.اور اس کی اہمیت اس سے معلوم ہو سکتی ہے کہ جس جانور کو بیت اللہ کے اندر مارنے کا حکم ہے.(جہاں جوں مارنے کی بھی اجازت نہیں ) تو کیا دوسرے مقامات میں اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور اس کے انسداد کی تدبیر نہ سوچی جاۓ گی.
۵۰۷ طاعون کے متعلق مزید انکشاف حد یث شریف میں طاعون کے متعلق بعض اور لطیف اشارات بھی پائے جاتے ہیں.مثلا ًصحابہ نے عرض کی کہ طاعون کیا ہے تو حضورؐ نے فرمایا.جنّ کاٹتے ہیں.۱۲؎ جن سے مرض جسم میں داخل ہو جاتا ہے.اب اس کا عام جواب یہ کافی تھا کہ طاعون ایک مرض ہے.مگر آپ نے ایسا جواب دیا جس میں اس مرض کے مخفی جرمز کی طرف اشارہ تھا.حدیث شریف میں بعض اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں اور ان میں سے لفظ جن بھی ایک اصطلاح ہے.یہاں پر جن سے مراد مخفی اور پوشیدہ چیز ہے.چنانچہ ایک اور جگہ بھی جن کا لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.یعنی حضورؐ نے فرمایا.ہڈی جنّ کی غذا ہے.۱۳؎ جس سے مراد کیڑے اور جراثیم (BACTERIA) تھی.پس اسی جگہ جن کے کاٹنے سے مراد وہ جن نہیں جو لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ جراثیم مراد ہیں.اس کا ایک اور حدیث سے بھی ثبوت ملتا ہے.آپ نے فرمایا.طاعون متعدی مرض ہے دوسرے علاقوں میں نہ جانا.۱۴؎ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن ّ نہیں کوئی اور وجود ہے.ورنہ اگر اس سے مراد جنّ ہی ہو تو سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ہمارا محتاج ہے جو ہمارے ذریعے دوسری جگہ جائے گا.خود بخود کیوں نہ چلا جائے گا.پھر صحابہ رضوان الله عليهم کا یہ عمل تھا کہ جب طاعون پڑتی تو پھیل جاتے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ّمراد نہیں بلکہ پلیگ کے جراثیم مراد ہیں جو پھیل جانے، باہر کھلی ہوا، دھوپ اور روشنی میں ڈیرا لگانے سے مر جاتے ہیں.اِس سے یہ نتیجہ ہے کہ حضرت نبی کریم کا یہ فرمان کہ جنّ کاٹتا ہے اس سے مراد پلیگ کے جراثیم تھے نہ کہ حاتم طائی والا جنّ.مسواک کرنے کا طریق یہ ایک موٹی سی بات ہے مگر اس کا ثبوت بھی حدیث شریف سے ہی ملتا ہے.اور وہ مسواک کی ضرورت اور اس کےکرنے کا پُر حکمت طریق ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.اگر مجھے اپنی امت کے لئے یہ حکم دو بھر معلوم نہ ہوتا تو مسواک کو فرض کرتا.۱۵؎ آج مسواک کے ساتھ ہنسی اور تمسخر کیا جاتا ہے.مگر آپ کے نزدیک مسواک کی اتنی اہمیت تھی کہ نزع کے وقت بھی حضور نے مسواک مانگی اور مسواک کی.آج کی تحقیقات نے دانت کا جسم انسانی پر عظیم الشان اثر واضح کر دیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ کئی مزمن امراض (CHRONIC) کا باعث دانت اور مسوڑھوں کی خرابی ہے.جسے (PYORRAOCA) کہتے ہیں.امریکہ میں جنون کے اسباب کے متعلق ایک
۵۰۸ تحقیقاتی کمیشن بٹھایا گیا.اس نے کئی ہزار مجانین کے جسم کا معائنہ کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ۸۰ فیصدی مجانین میں جنون کا سبب دانت اور مسوڑھوں کی پیپ تھی.مسوڑھوں کی خرابی کا زہریلا اثر گلے کی غدود کو پہنچتا ہے اور وہاں سے عروق جاذبہ کے رستے دماغ میں جا کر جنون پیدا کر دیتا ہے.میں جب کانفرنس مذاہب کے موقع پر لنڈن گیا تو ایک ماہر فن دانت کے ڈاکٹر سے دانتوں کا معائنہ کرایا.اس نے کہادانتوں کو باقاعدہ برش کیا کرو.پھر برش کرنے کا طریق بھی بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ برش کی حرکت اوپر نیچے ہو.لیکن صرف دانتوں کی سطح کو صاف نہ کیا جائے بلکہ دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان جو جگہ ہے اس کو اچھی طرح صاف کیا جائے.رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد ہے کہ اوپر سے نیچے کی طرف حرکت کی جائے.۱۶؎ کیونکہ مسوڑھوں کا آخری حصہ نرم ہوتا ہے.اور اس کے پیچھے جرمز چھپے رہتے ہیں.چونکہ یہ اصولی مضمون ہے اس لئے یہ چار پانچ مثالیں کافی ہیں ورنہ قرآن کی ساری کی ساری تعلیم سائنس پر مبنی ہے جس کا آج سے تیرہ سو سال قبل کسی کو وہم بھی نہ تھا.سائنس کی ترقی صرف ۲ سَو سال سے ہے اور نئی تحقیقاتیں اسلامی تعلیم کی حکمت ظاہر کر رہی ہیں.پس معلوم ہوا کہ مذہب سائنس کا مؤ یّد ہے.کیا مذہب سے وہم پیدا ہوتا ہے اعتراض کیا جاتا ہے کہ مذہب کے بعض نظریات کی بناء چو نکہ مادیات پر نہیں ہوتی اِس لئے انسان بر لغو بات خواہ وہ عقل کے خلاف ہی ہو مان لیتا ہے جس سے اس کی قوت استدلال کمزور ہو جاتی ہے اور وہم بڑھ جاتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب سے وہم نہیں پیدا ہوتا کیونکہ مذہب کی بناء یقین پر ہے.اگر وہم ہو تو پھراتنا وہم سائنس سے بھی پیدا ہوا ہے.مثلاً ملائکہ کا وجود، بعث بعد الموت، اللہ تعالیٰ کا وجود ان سب کا ثبوت مادیات سے نہیں ملتا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہب لغو باتیں منواتا ہے کیونکہ اگر چہ وہ نظریات جو عقل سے بالا ہوں، ان کو منواتا ہے مگر دلیل ہے.نذہب کی سچائی کے لئے ضروری ہے کہ جو امور مادیات سے بالا ہوں ان کے لئے دلیل دے.پس اسلام نے اللہ تعالیٰ کی ہستی، ملائکہ کاوجود وغیرہ کے لئے دلائل دیتے ہیں لہٰذا وہم پیدا نہیں ہوتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے وہم کا ازالہ کیا.حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاجبزادے ابراہیم جب فوت ہوئے تو اُس دن اتفاقاً
۵۰۹ سورج گرہن ہو گیا.صحابہ نے کہا.حضور کے صاحبزادہ کی وفات پر سورج نے بھی افسوس کیا ہے اور اس کو صدمہ ہوا ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو قانون طبعی کے ماتحت ہے اس کا میرے بیٹے کی وفات سے کیا تعلق؟ گویا اس طرح آپ نے اپنے عمل سے وہم کا ازالہ کیا نہ کہ اُسے پیدا کیا.مگر اس کے مقابلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس سے وہم پیدا ہوتا ہے.جیسا کہ علم الجراثیم (BACTERIOLOGY) کی ترقی سے ہوا ہے.طب کہتی ہے ہر جگہ جراثیم ہیں.ڈاکٹر ذرا ذرا سی بات پر خوف کھاتے اور بار بار ہاتھ دھوتے رہتے ہیں.طب کامطالعہ کیا جائے تو جس مرض کا حال پڑھو ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ مرض ہم کو ہی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ان عام علامات (GENERAL SYMPTOMS) کی وجہ سے جو ہر مرض میں مشترک ہوتی ہیں اور ہر انسان میں کم و بیش پائی جاتی ہیں خیال کرلیتا ہے کہ مجھ میں یہ مرض ہے حالانکہ اس مرض کی خاص علامات (SPECIAL SYMPTOMS) اس میں موجود نہیں ہوتیں.اسلام نے اس قسم کے وہم کو جوکمزوری دماغ کا نتیجہ ہوتا ہے دُور کیا ہے.وہم ہمیشہ غلوّ سے ہوتا ہے مگر اسلام نے ہر بات میں میانہ روی سکھلا کر وہم کا ازالہ کیا ہے.فرمایا.نماز میں میانہ روی اختیار کرو ہر وقت نماز نہ پڑھتے رہو.اور تین وقت نماز پڑھنے سے منع کر دیا.۱۷؎ پھر فرمایا: جو روزانہ روزہ رکھے اس کو دوزخ ملتی ہے.۱۸؎ مگر روزہ تو خدا کے لئے رکھا جاتا ہے اس کے بدلہ میں دوزخ کیسی.اس کی غرض بھی صرف وہم کو دُور کرنا تھی.کیونکہ غلوّ کرنے سے دماغ کمزور ہو کر وہم پیدا ہو جاتا ہے.اسی واسطے فرمایا.ولنفسک علیک حق ۱۹؎ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.اس لئے نفس کشی نہ کرو.حدیث شریف میں آتا ہے کہ دو صحابی آپس میں بھائی بھائی بنے ہوئے تھے.ایک دن ایک دوسرے کی ملاقات کے لئے گیا تو دیکھا.اس کی بیوی متبذ ّل حالت میں ہے.وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا تمہارے بھائی کو میری کچھ حاجت نہیں.وہ تو ہر روز دن کو روزہ رکھتا اور رات کو نماز پڑھتا رہتا ہے.صحابی نے اپنے دوست سے کہا.دیکھو تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، تمهارے نفسی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے.ہر ایک کو اس کا حق دینا چاہئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے قائم اللیل اور صائم الدھر رہنے کو ناپسند فرمایا.اور فرمایا.زیادہ سے زیادہ کوئی شخص ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتا ہے.اور زیادہ سے زیادہ عبادت یہ ہے
۵۱۰ کہ آدھی رات سوئے اور آدھی رات نماز پڑھے.۲۰؎ گویا ہر بات میں میانہ روی سکھائی تاکہ وہم پیدا نہ ہو.مذہب سائنس کیوں نہیں بتاتا سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر مذہب خدا کی طرف سے ہے تو پھر وہ سائنس کیوں نہیں بتاتا.اس کا جواب یہ ہے کہ در حقیقت ایسا ہی چاہئے تھا کہ مذہب سائنس بیان نہ کرے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یایها الين امنوا لا تسئلوا عن أشياء ان تبد لكم تسؤكم - ۲۱؎ یعنی اے ایمان والو.ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کرو جن کے بتادینے سے تمہیں نقصان ہو.اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ خدا کی بتائی ہوئی بات سے نقصان کیسے ہو سکتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالی فرماتا ہے.ہمیں تو بتادینے میں کچھ مضائقہ نہیں.لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا دماغی ارتقاء رک جائے گا اور تمہاری خود سوچنے اور غور و فکر کرنے کی قابلیت مرجاۓ گی اور تمہارا علمی ارتقاء مٹ جائے گا.پس ہماری ذہنی ترقی کو قائم رکھنے کے لئے مذہب نے سائنس نہیں بتائی.ہاں ضروری باتیں بتا دی ہیں جو ایجاد سے معلوم نہ ہو سکتی تھیں یا دیر سے معلوم ہوتیں.مگر ہر ایک بات بتادینے سے ہمارے ذہنی ارتقاء کو نقصان ہو تا.اور یہ مشاہدہ ہے کہ جس کا ذہنی اترقاء بند ہوا وہ قوم مٹ گئی.مومن کے دو دن بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ وہ ہر روز ترقی کرتا ہے.اگر مذہب ساری کی ساری باتیں بتا دیتا تو انسان ذہنی طور پر اسی دن مرجاتا کیونکہ اس کا ذہنی ارتقاء بند ہو جاتا.اس لئے مذہب میں اصول کو لے لیا گیا ہے اور جزئیات میں اجتہاد کی گنجائش رکھ دی ہے تاکہ انسان کا ذہنی ارتقاء بند نہ ہو.کیا مذہب ذہنی ارتقاء بند کرتا ہے کہا جائے گا اگر ذہنی ارتقاء کے لئے ضروری تھا کہ مذہب سائنس بیان نہ کرے تو خود مذہب میں علمی ارتقاء کو کیوں بند کر دیا گیا ہے.مذہب نے کیوں الہام کے ذریعے تعلیم دی.کیوں نہ ہم پر ان باتوں کو چھوڑ دیا تا کہ ہم خود سوچتے اور غور و فکر کے بعد انہیں حاصل کرتے.اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب کے بہت سے مسائل کی بنیاد رضاء الہٰی پر ہے نہ کہ سائنس کی طرح شواہد پر.اور رضاء کا علم وہ خود جانتا ہے سائنس نہیں بتاسکتی.مثلاً اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست سے ملنے جائے اور جا کر خاموش رہے تو اس کا دوست کس طرح معلوم کر سکتا ہے کہ میرا مہمان کیا کھائے گا.ہاں مہمان اگر خود منہ سے بولے کہ میں فلاں چیز پسند کرتا ہوں تو میزبان کو اس
۵۱۱ کی رضاء کا علم ہو سکتا ہے پس رضاء الہٰی کے معلوم کرنے کا ذریعہ الہام ہے.پھر مذہب کا تعلق ابد الآباد زندگی سے ہے اور سائنس کا صرف موت تک.اس لئے سائنس کی ایجادوں مثلاً ریل اور لا سِلکی کی عدم موجودگی میں انسان کو نقصان نہ تھا.مگر دین کے بغیراس کے کامل ہونے سے پہلے ہی دنیا تباہ ہو جاتی اور اخلاق فاضلہ اور روحانیت کے متعلق تجربے کرتے کرتے لاکھوں آدمی دوزخ میں چلے جاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اصولی باتوں کا علم جو عقل سے بالا تھیں الہلام کے ذریعہ دیا اور جزئیات کو ہمارے عقلی اجتہاد کے لئے چھوڑ دیا.علاوہ ازیں بعض مسائل نیچرل قوانین سے بالا ہیں.مثلاً صفات الہٰی، ملائکہ کا وجود، بعث بعد الموت وغیرہ.ان کو عقل اور سائنس سے معلوم کرنا مشکل تھا.یہاں پر عقل بالکل اندھی تھی.اور اگر کچھ ثابت کرتی تو زیادہ سے زیادہ یہ بتاتی کہ خدا اور ملائکہ کا وجود ہونا چاہئے نہ یہ کہ واقعی موجود ہے.کیونکہ’’ ہونا چاہئے‘‘ تو عقل سے ہو سکتا ہے مگر " ہے" کے لئے مشاہدہ کی ضرورت ہے جو الہام کے بغیر ممکن نہیں.اِن وجوہات سے الہام کی ضرورت تھی.سائنس اور مذہب کا دائرہ الگ الگ ہے سائنس کا اثر مادیات پر ہے اور مذہب کا تعلق مافوق ا لمادیات پر.مذہب میں یہ چھ باتیں داخل ہیں.اخلاق، تمدن، سیاست، الوہیت، روحانیت، حیات بعد الموت اب یہ ساری کی ساری باتیں مادیات سے بالا ہیں اس لئے سائنس کے شواہد سے ان پر استدلال نہیں ہو سکتا.پس امورمذہبی کی قطعی تحقیق سائنس سے نہیں ہو سکتی.مثلاً خدا کا وجود ہے.اب یہ وجود چو نکہ مادیات سے بالا ہے اِس لئے اس کی ہستی کا ثبوت اور اس کی صفات کا علم سائنس کے تجارب سے نہیں مل سکتا.ہاں الہام کے ذریعے اس کی صفات کا علم ہو سکتا ہے.پس یہ کہنا کہ خدا کا وجود سائنٹیفک تجربات کے خلاف ہے غلط ہے.ہاں یہ درست ہے کہ سائنس کے تجارب سے معرفت الہٰی حاصل نہیں ہو سکتی.سائنس خدا کی نفی نہیں کرتی پس سائنس دان یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سائنس کے تجربات سے معرفت الہٰی کا کچھ پتہ نہیں چلا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ سائنس کی تحقیق خدا کے وجود کی نفی کرتی ہے.کیونکہ اگر وہ ایسا کہیں گے تو خود گرفت میں آئینگے.اس لئے کہ پروفیسر بکسلے ۲۲؎ "* (HUKLEY) جس نے
۵۱۲ AGNOSTICISM (دہریت کی بنیاد ڈالی ہے اس نے یہ نہیں کہا کہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا کوئی نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ سائنس کی تحقیقات سے خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.اور یہ ہے بھی درست.کیونکہ سائنس تو وہاں تک پہنچتی نہیں.یہ وجود تو فوق المحسوسات ہے اور سائنس کادائره مادیات اور محسوسات تک محدود ہے.پس وہ اس کے متعلق تحقیق کر ہی نہیں سکتی.اس کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی شخص ریل کے ذریعے کابل جانا چاہے اور راولپنڈی سے ٹرین میں بیٹھ جائے مگر آخر ناکام ہو کر یہ نتیجہ نکال لے کہ کابل کوئی شہرہی نہیں.حالانکہ ظاہر ہے کہ کابل جانے کا یہ طریق ہی غلط تھا کیونکہ ریل تو وہاں تک جاتی ہی نہیں.اسی طرح سائنس دانوں نے سائنس کے تجربات سے خدا کا پتہ لگانا چاہا اور وہ ناکام ہوئے.محض اس لئے کہ سائنس وہاں جاتی نہیں اس کا دائرہ اس سے بہت نیچے ہی ختم ہو جاتا ہے.صادقوں کی شہادت اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر بات صرف سائنس کے تجربات اور مشاہدات سے ہی تسلیم نہیں کی جاتی بلکہ اس کے اور ذرائع بھی ہیں.مثلا ً راستبازوں کی شہادت وغیرہ.ہم سائنس دانوں سے پوچھتے ہیں کہ ان کو ماں باپ کا پتہ کس نے دیا.کیا انہوں نے سائنس کے شواہد اور تجارب سے معلوم کیا ہے کہ فلاں شخص فلاں کا باپ ہے یا کسی اور ذریعہ سے.یہ ظاہر ہے کہ اس کا ثبوت ماں باپ کا دعویٰ اس کی اپنی یاد کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے انہی کے گھر میں رہتا ہے اور لوگوں کی شہادت بھی ہے.اسی طرح خدا کے وجود کے ثبوت کے لئے (جو کہ فوق المحسوسات ہے) راستبازوں کی شہادت کی ضرورت ہے جو اس بارے میں صاحب تجربہ ہوں.جو لوگ صحیفئہ فطرت سے خدا کا وجود ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مشین کھول کر موجد کا پتہ لگاناچا ہے.مثلاً کوئی شخص اگر سِنگر کی سلائی کی مشین کو کھول کر مسٹر سِنگر (MR.SINGER) کو دیکھنا چاہے تو وہ اس کو نہیں پائے گا.اسی طرح فورڈ کار (FORD CAR) کو کھول کر مسز فورڈ (MR.FORD) کو معلوم کرنا چاہے تو اسے نہیں ملے گا.وہ تو اسے بنا کر الگ ہو گیا.اب مشین کو دیکھ کر آپ عقلاً صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اس مشین کا بنانے والا کوئی ’’ہو گا‘‘.یا ’’ ہونا چاہئے‘‘.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا بنانے والا مسٹر فورڈ یا سِنگر ضرور ’’ہے".اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ خدا تو ہر وقت اس صحیفہ قدرت کی مشینری کو چلا رہا ہے.اس لئے اس کو تو نظر آنا چاہئے.مسٹر فورڈ تو اِس لئے فورڈ کار کے اندر نظر نہیں آتا کہ وہ اس کو اب
۵۱۳ نہیں بنا رہا.وہ تو بنا کر الگ ہو گیا ہے.اگر ہم اس کو بناتے دیکھتے تو بتا دیتے کہ اس کا بنانے والا ہے.خدا کس طرح کام کرتا ہے مگر در حقیقت یہ اعتراض غلط ہے کیونکہ دیکھا اس صانعکو جا سکتا ہے جو ہاتھ سے کام کر رہا ہو.مگر جب کام ارادہ سے ہو رہا ہو تو دو وجود نہیں ملا کر تا.مثلاً کسی کے کان میں چپکے سے کہہ دیا جائے کہ فلاں کام کرو.تو دیکھنے والا کس طرح پتہ لگا سکتا ہے کہ کون کام کرا رہا ہے.اللہ تعالیٰ بھی چونکہ ہاتھ سے کام نہیں کرتا بلکہ ارادہ سے کرتا ہے اس لئے صحیفہ قدرت کے اندر اس کو کام کرتے ہوئے دیکھنا بھی مشکل ہے.خدا تعالی فرماتا ہے.اذا ارادشیئا أن يقول له كن فيكون - ع ۲۳؎ وہ کام کن کے ذریعہ کرتا ہے نہ کہ ہاتھ سے.اور ارادہ سے کام کرنے کی نہایت ادنی ٰ مثال مسمریزم کرنے والوں میں مل سکتی ہے جو اپنی توجہ سے اثر ڈالتے ہیں.گو لبعض ہاتھ سے بھی PASSES کرتے ہیں مگر مخفی توجہ کا اثر بھی ہوتا ہے.جس میں بغیر ہاتھ کی حرکت یا زبان سے کلمہ نکالنے کے اثر ہوا ایک دلچسپ تجربہ توجہ کا اثر معلوم کرنے کے لئے یہ تجربہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی لڑ کے کی آنکھیں بند کر کے اسے کمرے کے وسط میں چکر دے کر چھوڑ دو.اس طرح جہات جو نسبتی چیز ہیں اس کے ذہن سے نکل جائیں گی.اب سب مل کر اس پر اثر ڈالو اور ذہن میں تصور کرد کہ یہ مثلاً مغرب کی طرف چلے تو وہ لڑکا مغرب کی طرف چلنے لگ پڑے گا.اب دوسروں کو یہ نظر نہ آئے گا.کیونکہ کام توجہ اور ارادہ سے ہو رہا ہے نہ کہ ہاتھ سے.خدا تعالی مخلوق کا سرچشمہ نہیں بلکہ خالق ہے.سرچشمہ تلاش سے مل جایا کرتا ہے مگر خالی نہیں ملا کرتا.مثلا ًدریائے راوی کے منبع کا پتہ لگانا ہو تو پانی کے کنارے چل پڑو آخر اس کا منبع مل جائے گا.مگر خالق کو اس پر قیاس نہیں کرسکتے.کیا قانون قدرت کا علم خدا کے خلاف ہے بعضوں کا یہ خیال ہے کہ قانون قدرت معلوم ہو گیا اور اس کے مخفی در مخفی اسباب کا علم ہو گیا تو بس خدا باطل ہو گیا اور اس کی ضرورت کی نفی ہو گئی.مثلاً بچہ کی تحقیق ہے.سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ نطفہ سے مختلف شکلیں بدل کر انسان بنتا ہے یا ڈارون ۲۴؎ (DARWIN) کی تھیوری نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان نے مختلف ارتقائی دوروں میں سے گزر کر یہ شکل اختیار کی ہے.یا اگر یہ معلوم ہو گیا کہ پانی دو گیسوں ہائیڈروجن اور آکسیجن
۵۱۴ کا مرکّب ہے تو کیا خدا باطل ہو گیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ خدا ان چیزوں کا خالق نہیں.یہ تو بچوں والا استدلال ہے.کیا اسباب آج معلوم ہوئے ہیں.کیا نطفہ کے اجزاء کا پہلے علم نہ تھا کہ رحم مادر میں جا کر بچہ بنتا ہے.تو اب اگر اس میں اسباب کی ایک اور کڑی معلوم ہو گئی تو اس سے خدا کی خالقیت کی کیوں نفی ہو گئی.مذہب نے سبب کا انکار کبھی نہیں کیا اور نہ یہ کہا ہے کہ صرف ایک سبب خدا ہی ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں.مذہب تو اس بات کو منواتا ہے کہ اسباب کا لمبا سلسلہ ہے اور سب سے آخری سبب جو ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے.فرماتا ہے.الی ربک منتھها.۲۵؎ باریک در باریک اسباب ہیں اور پھر یہ سلسلہ خدا تک جاتا ہے.گویا آخری سبب (FINAL CAUSE) خدا ہے.ان لوگوں کی مثال جن کو أسباب کی تلاش کرنے سے ملا نہیں ملا اور اس کی ذات کا ہی انکار کر دیتے ہیں ایسی ہے.جیسے کوئی شخص دو چار ہاتھ مٹی کھود کر چھوڑ دے اور کہے پانی نہیں نکل سکتا اِس زمین کے نیچے پانی ہے ہی نہیں حالانکہ اگر وہ گہرا کھود کر تو اسے ضرور پانی مل جاتا.قرآن کریم نے خود اسباب کو تسلیم کیا ہے اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر کام تدریجی ہے.اور اس کی نشوونما میں STAGES ہیں.چنانچہ فرمایا.یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْؕ.۲۶؎ اے لوگو! تم دوبارہ اُٹھائے جانے کے متعلق شک میں ہو.تم کو معلوم نہیں ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا.پھر ہے.پھر اس کو حلقہ بنایا.پھرمضغہ میں اس کو تبدیل کیا.اسباب کا وجود تو حقائق کے بیان کے لئے تھا.نہ اس لئے کہ ان کی نفی کرے.اسباب کے لمبےسلسلہ کی غرض دنیا کی تکمیل کے لئے تھی.خواہ کسی قسم کی تکمیل ہو.علمی یا عملی اس کے لئے STAGE ضروری ہیں.مختلف ترقی کے دور تھے.جن میں سے دنیا گزری ہے.یہ ہماری ترقی کے لئے ضروری تھے.اگر یہ دور مختلف نہ ہوتے تو ہم ترقی نہ کر سکتے.پھر لمبے سلسلہ کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ اشیاء ایک دوسرے کا اثر قبول کر لیں.اور اپنے گرد و پیش کے حالات سے مناسبت (ADOPTATION) پیدا کر سکیں.پس اللہ تعالیٰ نے اسباب کا لمبا سلسلہ اور مختلف اشیاء کی ارتقائی STAGES ہماری ترقی کی غرض سے ہماری کمزوری کو مدنظر رکھ کر رکھی ہیں.ورنہ وہ تو اس بات پر قادر تھا کہ چند دنوں میں دنیا کی تکمیل کر دیا اور اسباب کا سلسلہ بالکل نہ ہوتا.
۵۱۵ الہام کا ثبوت کہا جاتا ہے مذہب کی بنیاد الہام پر ہے مگر الہام محض دلی خیال کا نام ہے.مذہب کے بانیوں نے سوچا کہ ہماری بات لوگ یوں نہ مانیں گے چلو خدا کی طرف منسوب کر دو تاکہ جلدی مان لیں.گویا یہ مخفی ایک مصلحت وقت تھی اور چونکہ اس میں قومی نفع تھا اس لئے اپنے قلبی خیالات کا نام الہام رکھ لیا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ طبعی قانون سے الہام کی تصدیق نہ ہونا اس بات کا ہرگز ثبوت نہیں کہ الہام خدا کی طرف سے نہیں اور محض قلبی خیالات ہوتے ہیں.طبعی قانون سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی جبھی تو اس کا نام الہام ہے.ورنہ وہ طبعی اسباب کا نتیجہ ہوا.اور اس کا نام سائنس رکھنا چاہئے نہ کہ الہام – الہام کی تصدیق طبعی قوانین سے نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ طبعی قوانین سے بالا ہے اور القاء ہے نہ کہ قلبی خیال.اصل سوال یہ ہے کہ الہام لفظی ہو سکتا ہے یا نہیں.قرآن کریم نے اس کے ثبوت میں خواب اور رؤیا کو پیش کیا ہے.جس طرح انسان خواب میں بغیر خارجی محرک کے نظارے دیکھتا ہے اسی طرح یہ خیال بالکل ممکن ہے کہ بولنے کے بغیر الفاظ کان میں ڈالے جائیں اور وہ دل کا خیال نہ ہوں.بتاؤ ایسا ممکن ہے یا نہیں کہ انسان اس قسم کا نظارہ دیکھ سکے.یقینا ًہر ایک نے کبھی نہ کبھی اس قسم کا نظارہ دیکھا ہو گا.چاہے وہ بخار کی حالت میں ہی دیکھا ہو.اس نظارہ کو تم جھوٹا سمجھو یا سچا.مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ واقعہ میں نظارہ ہوتا ہے اور دل کا خیال نہیں ہوتا.یہ الگ بات ہے کہ تم اس کو جھوٹ کہو، تخیل سمجھویا بیماری کا نتیجہ خیال کرو.پس ایسے نظارے دیکھے جاتے ہیں جن کا ثبوت شواہد سے ملتا ہے نہ کہ طبعی قوانین سے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دماغ میں ایسی کیفیت ہے جس سے ایسے نظارے معلوم ہو سکتے ہیں.اور اگر آنکھ اس دماغی کیفیت سے نظارے دیکھ سکتی ہے تو کیا کان آواز نہیں سن سکتے.یہ الگ سوال ہے آیا کہ وہ آواز جھوٹی ہے یا سچی.بیماری کا نتیجہ ہے تخیل.انسان کمرے میں الگ بیٹھا ہوا ہو تو بعض دفعہ اپنا نام کان میں پڑتا ہے.یاجنگل میں اگر اکیلا ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اس کو بلا رہا ہے.گو تم اس کو وہم ہی خیال کرو مگر یہ نا ممکن نہیں ہے.پس ان نظاروں اور ان آوازوں کے متعلق ثبوت یہ مانگنا ہو گا کہ یہ وہم ہے یا خدائی الہام.مثلاً میں اس وقت کھڑا ہوں اور مجھ کو ایسا معلوم ہو کہ کسی نے باہر سے آواز دی ہے ’’محمود".توتم مجھ کو پاگل خیال کر سکتے ہو.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جھوٹ کہہ رہا ہے.مثلاً یہ کہ آواز کوئی نہیں آئی، اس کے دل کا خیال ہے.
۵۱۶ کہا جاتا ہے کیا خدا کی بھی زبان ہے.اس کے بھی حلق، دانت اور VOCAL CORDS وغیرہ ہیں.جن کی مدد سے آواز پیدا ہوتی ہے.مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ خدا کی زبان اور ہونٹ وغیرہ سے آواز نکال کر ملہم کے کان میں سنائی دیتی ہے.ہم تو کہتے ہیں.الہام کے ذریعے کان میں آواز پیدا کی جاتی ہے نہ یہ کہ خدا کے ہونٹ اس کو بتاتے ہیں.الفاظ تو اسی ہوا کی VIBRATIONS لہروں کے ذریعے کان میں جاتے ہیں اور اعصاب کے ذریعے دماغ تک پہنچتے ہیں.مگر فرق یہ ہے کہ یہ الفاظ فکر کا نتیجہ نہیں ہوتے، قلبی خیالات نہیں ہوتے بلکہ بنے بنائے الفاظ خدا کی طرف سے کان میں ڈالے جاتے ہیں.الہام پانے والوں اور مجانین کی حالت میں فرق یہ قاعدہ ہے کہ جو خیال باطل ہو یا وہم کا نتیجہ ہو، اس کی تصدیق صرف ایک حِسّ کرتی ہے.مثلاًوہ نظارہ جو قلبی خیالات کا نتیجہ ہویا وہمی ہو اس کی تائید صرف آنکھ کرتی ہے.مگر کان اور ہاتھ اس کو جھٹلاتے ہیں.مثلاً اندھیرے میں کسی کو کوئی آدمی کمرے کے اندر کھڑا نظر آۓ تو اگر یہ نظارہ وہم کا نتیجہ ہو گا تو اس شخص کو ہاتھ سے چھونے سے کچھ معلوم نہ ہو گا.قرآن کریم میں آتا ہے.و كلم الله موسی تکلیما.۲۷؎ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نے زبان سے کلام کی بلکہ یہ لفظ زور دینے کے لئے اور شان کے اظہار کے لئے ہے.یعنی وہ ایسا کلام تھا کہ اس کی تصدیق نہ صرف کان بلکہ دیگر حواس بھی کرتے تھے.پس الہام کی تصدیق کئی حواس کرتے ہیں اور نہ صرف ملہم کے حواس بلکہ دوسرے لوگ بھی اس کو محسوس کرتے ہیں.دوسرا فرق الہام اور وہم میں یہ ہے کہ الہام پانے والوں کو دوسروں پر عقلی برتری حاصل ہوتی ہے.مگر وہم تو بد تر عقل والوں کو ہوا کرتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمام عرب نے گواہی دی کہ ہم سب سے بڑھ کر صاحب عقل و فراست ہے.چنانچہ کعبہ کی تعمیرکے وقت جب سنگ اسود کو نصب کرنے پر مکہ والوں میں جھگڑا ہوا کہ کس قبیلہ کا سردار اس کو اٹھاکر نصب کرے.اور قریب تھا کہ کشت و خون سے زمین سرخ ہو جائے.اس وقت کسی نے کہا اس نوجوان (محمد رسول اللہ) سے پوچھو.تو حضور نے جس عقلمندی اور موقع شناسی سے اس وقت کام کیا وہ تاریخ اسلام کے جاننے والوں پر خوب روشن ہے.۲۸؎ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کا دماغ نہایت اعلیٰ تھا.وہم تو ایک اندرونی بات ہے اور جنون کی علامت ہے جو ایسے عقیل کے
۵۱۷ متعلق وہم و گمان بھی نہیں آسکتا.تیسرے الہام پانے والوں کی اخلاقی حالت NORMAL(درست) ہوتی ہے.ان میں جوش اور ہیجان نہیں ہوتا.مگروہمی کی حالت ABNORMAL (نادرست) ہوتی ہے.اس کی طبیعت میں جوش ہوتا ہے.بات کرتے ہوئے کانپتا ہے.سُرعت اور عُجلت سے کام لیتا ہے.ایک ہی بات کی دھن لگی ہوتی ہے.ایسے لوگ دوسروں سے مل کر کام نہیں کر سکتے.قوم بنانا، جتھہ بناناء سوسائٹی قائم کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہوتا.کسی ماہر امراض دماغی (MENTAL SPECIALIST) سے پوچھو گے وہمی لوگ بھی وہ کام کر سکتے ہیں جو الہام کے مدعی دنیا میں آ کر کرتے ہیں.اس کے مقابل میں الہام پانے والوں کی طبیعت میں صبر ہوتا ہے ، سکون کی حالت ہوتی ہے، گھبراہٹ نہیں ہوتی، ان میں رحم اور حلم ہوتا ہے، ان کی ہر طرف نگاہ ہوتی ہے، ہر شعبہ زندگی پر نظر ہوتی ہے.ان کی تعلیم میں ہدایات ہوتی ہیں، ان کا کلام پُر حکمت ہوتا ہے، یہ دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں، کشت و خون سے دنیا کو نجات دیتے ہیں، وہ امن کے شہزادے ہوتے ہیں اور قوموں کے درمیان صلح اور اتحاد کی بنیاد ان کے ہاتھوں سے رکھی جاتی ہے.اگر ان صفات والوں کو پاگل کہا جائے تو پرایسے پاگل تو دنیا میں سب ہی ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ن والقلم وما يسطرون - ما انت بنعمۃ ربک بمجنون ۲۹؎ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں.نہیں ہے تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ.قلم کی قسم ہے یعنی قلم کو اور ان علوم کو جو اس زمانہ میں رائج ہیں اس بات پر گواہ ٹھہرا یا ہے کہ تیری باتیں مجنونہ نہیں.اس میں ایک ہی پیشگو ئی ہے کہ دنیا خواہ کتنی علمی ترقی کر جائے، دماغی امراض کا کتناہی باریک مطالعہ کیا جائے، تجھ کو ہرگز مجنون ثابت نہ کر سکیں گے.ساری علمی کتابوں کی تم ہے.سارے علوم مقابلہ پر لے آئیں، تیرے عمل کو پرکھ لیں، تیری تعلیم پر جرح کرلیں، تجھ کو هرگز دیوانہ ثابت نہیں کرسکتے.تیرا عمل اس کے برعکس ہو گا.لیکن اس میں اطمینان ہے، اُمنگ ہے، شوق ہے، وسعی چال ہے، اعلیٰ تربیت ہے، تُو نے دوسروں کی تربیت کی، ہزاروں کاموں کی تجاویز کیں، خداتعالی کے کلام کے حقیقی معانی بیان کئے.کیا یہ سب باتیں مجانین کیا کرتے ہیں.چوتھے الہام پانے والوں کی پالیسی ہمیشہ غالب آتی ہے.اگر ان میں دماغی نقص ہوتا تو وہ غالب
۵۱۸ کیوں ہوتے.پاگل کے کلام کے نتائج نہیں ہوا کرتے.جنون (HALLUCINATIONs) کی تصدیق واقعات سے نہیں ہوا کرتی.اور پاگلوں (DELUSIONS) کی ایک بڑ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں.مگر یہ کس طرح ہوا کہ ایک مجنون (HELLUCINATIONS) کی تمام دنیا کی تجاویز پر غالب آگئیں.حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے مخالفوں کو چیلنج دیا کہ تم میرے مقابل پر سارے مل جاؤ، متفق ہو جاؤ، پھر بھی میری پالیسی غالب رہے گی اور میں ہی جیتوں گا.اگر یہ خدا کا کلام نہ تھا تو وہ غالب کیوں ہوا.یہ بات عام تجربہ اور مشاہدہ سے پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ وہ افکار جو دماغی کیفیت کا نتیجہ ہوں بڑھاپے میں جا کر کمزور ہو جاتے ہیں.اور حِسّیں عمر بڑھنے سے کم ہو جاتیں ہیں.مگر انبیاء علیہم السلام میں اس کے برخلاف بڑی عمر میں جا کر زیادہ شاندار الہام ہوتے ہیں.اور الہام بھی زیادہ ہوتاہے.یعنی نہ صرف یہ کہ الہام اکثر دفعہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی کیفیت، کمیت، اور جلال میں بھی نیاره شاندار ہوتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ جب دماغ کمزور ہو گیا، اس میں فاسفورس مٹ گیا اور اس کے CELLS کمزور ہو گئے تو الہام زیادہ ہونے لگ گئے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انبیاء کے الہام کی خاص دماغی کیفیت کا نتیجہ نہیں ہوتے.ورنہ عام قانون طبعی کے ماتحت ان کو پڑھاپے میں کم ہو جانا چاہئے تھا.مگر یہاں بالکل اس کے بر عکس ہے.ان کا الہام جوانی میں اگر ستارہ کی طرف ہو تو بڑھاپے میں سورج کی مانند ہوتا ہے جو کہ نیچر کے قانون کے خلاف ہے.پس ثابت ہوا کہ الہام وہم کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ خدا کا کلام ہوتا ہے.نوجوانوں سے اپیل آخر میں میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ قطع نظر میرے مذہب کے تم بھی چونکہ اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہو اس لئے مذہب اسلام کا مطالعہ کرو.قرآن کو ہاتھ میں لو اور اس پر غور کرو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سائنس مذہب کے خلاف نہیں ہے.کوئی سچی سائنس مذہب کے خلاف نہیں اور کوئی سچا مذہب سائنس کے خلاف نہیں ہو سکتا.اگر کسی مسئلہ کے متعلق شک ہو تو اسے میرے سامنے پیش کرو.میں تم کو بتا دوں گا کہ کوئی سائنس کا مسئلہ اور کوئی صحیح فلسفہ اسلام کے خلاف نہیں.تم کو سب سے اچھا مذہب ملا ہے.تم اس کی قدر کرو.یہ وہ مذہب ہے جس کے متعلق کفار بھی رشک کرتے اور کہتے تھے کہ کاش یہ ہمارا مذہب ہوتا.ربما يود الذین کفروا لو کانوا مسلمین- ۳ؤ؎
۵۱۹ اس کا تاریخی ثبوت یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک مسلمان کا جھگڑا تھا اور وہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کے لئے آئے.فیصلہ کے بعد یہودی نے کہا کہ مذہب تو یہ جھوٹاہی ہے مگر ہے مکمل.کوئی مسئلہ نہیں جو اس میں بتایا نہ گیا ہو.تم اپنے مذہب کی قدر کرو اور اس کا احترام کرو.اسلامی روح اپنے اندر پیدا کرو.پھر تمام تدابیر کامیاب ہوں گی.تم قرآن کو ہاتھ میں لو.اس کا مطالعہ کرو.اس کو غور سے STUDY کرو.اس کتاب کا احترام کرو اس کی آیات پر بہنسی نہ کرو.صرف کلوا واشربوا ۳۱؎ کا مسئلہ ہی یاد نہ ہو بلکہ مذہب بھی سیکھو.یاد رکھو اس میں وہ علوم ہیں جو تمام دنیا کے تمدن کو ہیچ کر دیں گے.تماگر اسلام کا سچا نمونہ اختیار کرو گے تو تم کو روحانی اور جسمانی دونوں امور میں دنیا پر برتری حاصل ہو گی.لا إله إلا الله انعرہ پھر بلند ہو گا.اور اسلام کی حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل کی طرح پر دنیا پر قائم ہو گی.انشاء الله (( الفضل ۲، ۵،۷ ، 9-اگست۱۹۳۰ء) مسند احمد بن حنبل جلد۶ ص ۹۱مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء الانعام:۳۵ \" الاحزاب:۴۳ \" يونس:۱۰۲ آل عمران :۱۹۱، ۱۹۲ و الانعام:۲ في الذاریت:۵۰ مسلم کتاب الطهارة باب حكم و لوغ الكلب بخاری ابواب العمرة باب ما يقتل المحرم من الدواب میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں ”خمس من الدواب كلهن فاسق يقتلهن في الحرم الغراب والحداة والعقرب والفارة والكلب العتور.مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۳۹۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء لى تذی ابواب الطهارة باب ما جاء في كراهية ما يستنجی به ل بخاری کتاب الصلب باب ما يذكر في الطاعون تنی ابواب الطهارة باب ما جاء في السواک مسند احمد بن حنبل جلد مسلم مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء کا تذی ابواب الصلوة باب ما جاء في كراهية الصلوة بعد العصر وبعد الفجر
۵۲۰ مسلم کتاب الصيام باب النهي عن الصوم الدهر میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں ”لا صيام من صام الابد ۲۰۰۱۹ بخاری کتاب الصوم باب حق الامل في الصوم ۴ المائدة :۱۰۳ کبسلے THOMAS HENRY HUXLEY (۱۸۹۵-۶۱۸۲۵ء) انگریز حیاتیات دان اور ڈارون کاهای.ڈارون کے نظریات کا حافظ ہونے کی وجہ سے زیادہ شہرت پائی.(THE NEW ENCYCLOPAEDIA BRITANNICA VOL:V P.229.15TH EDITION) ڈارون CHARLES ROBERT DARWIN (۱۸۰۰ء.۱۸۸۲ء) ماہر موجودات (NATURALST) جس نے طب اور مذہب کا مطالعہ کیا.اس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا یہ نظریہ قائم ہوا جو ڈارونیت (DARLINSM1) کہلاتا ہے.(THE NEW ENCYCLOPAEDIA BRITANNICA (MICROPAEDIA) VOL: 1 P.385 15TH EDITION) ۲۵ الزغت:۳۵ ٢ الحج:۶ النساء :۱۶۵ ۲۸ سیرت ابن ہشام (عربی) جلد اصمہ و مطبوعہ بیروت و القلم :۲،۳ ۳ الحجر:۳ ا۳ البقرة : ۱۸۸|--الاعراف :۳۲-المطور:۲۰– المرسلت:۴۴
۵۲۱ فسادات لاہور پر تبصرہ از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خليفۃ المسیح الثانی
۵۲۳ فسادات لاہور پر تبصرہ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی علىرسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھو الناصر برادران ! السلام علیکم پچھلے منگل ، بدھ اور جمعرات کو لاہور میں جو فساد ہوا ہے اس کے واقعات سے تو آپ لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ واقف ہیں، اس لئے ان کے متعلق مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.ہاں میں اس امر پر افسوس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بے گناہ مسلمانوں کو جو نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل رہے تھے ، بعض ہندوؤں اور سکھوں نے ہندوؤں کے اشتعال دلانے پر بے دردی سے قتل کر دیا اور پھر ان کے جنازہ کے وقت بِلا کسی انگیخت کے سنگ باری کر کے جلتی ہوئی آگ پر اور تیل ڈالا - ہاں میں اس موقع پر ان لوگوں کی موت پر بھی افسوس کرتا ہوں جو سکھوں یا ہندوؤں میں سے اس جوش و فساد کے موقع پر مارے گئے.میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے اکثر اسی طرح بے گناہ تھے جس طرح کہ مسلمان کیونکہ ان کا جُرم ثابت نہیں کیا گیا.جس طرح سوامی شردھانند کے مارے جانے پر قاضی محبوب علی صاحب کا مارا جانا جائز نہ تھا اسی طرح مسلمان مقتولین کے بدلہ میں ان لوگوں کا مارا جانا درست نہ تھا اور گو البادئ أظلم کے ماتحت ہندو اور سکھ صاحبان يقينا ظالم ہیں جنہوں نے ابتداء کی اور بے د ردانہ ابتداء کی اور پھر اپنے ظلم پر اصرار کیا اور اس کو جاری رکھا.لیکن باوجود اس کے ہندوؤں اور سکھوں کے مقتولین پر بھی ہمیں اخلا قا ً اور شرعاً اظہار افسوس کرنا چاہئے اور چاہئے کہ ایسے مواقع پر آئندہ اس قسم کا بدلہ نہ لیا جائے.اسلام کا فخر اس کی مظلومیت میں ہے اور ہمیں رسول کریم ﷺفدا نفس و جن کے اسوہ حسنہ پر چل کر بتا دینا چاہئے کہ
۵۲۴ مسلمان کے جذبات ہمیشہ اس کے قابو میں رہتے ہیں.ہمیں اپنا بدلہ اس تعلیم سے اور اس تعصّب سے لینا چاہئے جس کے نتیجہ میں یہ واقعات ظاہر ہو رہے ہیں اور ہمیں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ ہندوستان کے ہر گھر میں اسلامی تعلیم کو قائم کر دیں.تانہ یہ اختلاف مذاہب رہے اور نہ یہ خونریزیاں ہوں.ان تمام فسادات کا علاج صرف تبلیغ اسلام ہے اور اس کام کے لئے ہمیں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے.عارضی جوش اسلام کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا.اسلام ہم سے اس قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر روز کی جائے، دن کو بھی اور رات کو بھی.وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنے آرام اور اپنی آسائش کو اس کے لئے قربان کر دیں.ہم اس کی اشاعت کے لئے اپنے سارے ذرائع کو استعمال کریں اور سانس نہ لیں ، آرام کی نیند نہ سوئیں جب تک اس امر میں کامیاب نہ ہو جائیں.پس پچھلے واقعات سے سبق حاصل کر کے آپ لوگوں کو چاہئے کہ اشاعت اسلام کی طرف توجہ کریں.اور اپنے اموال اور اپنے اوقات اس راہ میں خرچ کریں.میں آپ لوگوں کو یہ بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ سکھ صاحبان کے گرو اسلام کے بہت بڑے مداح تھے.اور مسلمان اولیاء سے ان کے گہرے تعلقات تھے بلکہ ہماری تحقیق کی رو سے تو حضرت باوا نانک رحمه الله علیه مسلمان تھے.تبھی تو انہوں نے مکہ کا حج کیا اور باوا فرید صاحب رحمه الله علیه کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور ان کے جانشینوں نے میاں میر صاحب رحمه الله علیه سے امرتسر کے گور دوارہ کا پتھر رکھوایا.لیکن بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ان کے تعلقات مسلمانوں سے ہندوؤں کی نسبت زیادہ تھے اور صرف بعد میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے سکھ صاحبان ہند و صاحبان سے مل گئے.لیکن اب بھی توحید کے مسئلہ میں وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ سکھ صاحبان سے تعلقات کو بڑھائیں اور اس شورش کی وجہ سے اس امر کو نظر انداز کر دیں کہ سکھ صاحبان صرف ہندوؤں کا ہتھیار بنائے گئے ہیں ورنہ وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں.بلکہ بوجہ اپنے بزرگوں کی نصائح اور توحید پر ایمان رکھنے کے مسلمانوں کا داہنا بازو ہیں اور مسلمانوں کی ذرا سی توجہ کے ساتھ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک سے فساد اور شورش کو مٹانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے.خصوصاً جب کہ ان کا سیاسی فائده بھی مسلمانوں سے ملنے میں ہے.کیونکہ ہندوؤں سے مل کر وہ اس صوبہ میں قلیل التعداد ہی
۵۲۵ رہتے ہیں لیکن مسلمانوں سے مل کر وہ ایک زبردست پارٹی بنا سکتے ہیں جو پنجاب کو اس کی پرانی شان و شوکت پر قائم کرنے میں نہایت مفید ہو سکتی ہے.اس کے بعد میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جگہ ہر قصبہ اور ہر شہر کے مسلمانوں کو جلسے کر کے گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے کہ وہ یا تو سب کو تیار رکھنے کی اجازت دے یا پھر کسی کو بھی اجازت نہ دے.ورنہ ہر وقت کے خوف کی وجہ سے مسلمانوں کی اخلاقی حالت بہت ہی گر جائے گی.لیکن جب تک گورنمنٹ اس بارہ میں کوئی کارروائی نہ کرے ، جہاں قانون اجازت دیتا ہے، وہاں کے مسلمانوں کو اپنے پر فرض کر لینا چاہئے کہ ہر ایک شخص اپنے گھر میں ایک سونٹا رکھے اور جب بھی وہ گھر سے باہر نکلے سونٹالے کر نکلے خواہ وہ نماز کے لئے ہی کیوں نہ جا تا ہو.اگر اس امر کی طرف پہلے توجہ کی جاتی تو اس قدر جان کا نقصان نہ ہوتا.ہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک مسلمان کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق کبھی حملہ میں ابتداء نہیں کرے گا بلکہ صرف مجبوری کی حالت میں جب اپنی جان کو خطرہ میں دیکھے گا، سونٹے کو استعمال کرے گا اور وہ بھی اس وقت تک کہ حملہ آور بے کار ہو جائے اور انسانی جان کے لینے سے بکلّی اجتناب کرے گا.ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ مسلمان مقتولین و مجرد حین اور ان کی جو بے قصور گرفتار کئے گئے ہیں خصوصا ً اور ہندو اور سکھ مقتولین و مجرد حین کی عمو ماً مدد کریں.تا ان گھروں پر جن کے آدمی مارے گئے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں ،دو ہری مصیبت نازل نہ ہو.ایک مصیبت جان کی اور دو سری فاقہ کشی کی.ہمیں اس امداد میں اسلامی تعلیم کے مطابق اس قدر وسیع الحوصلہ ہونا چاہئے کہ ہندو اور سکھ مقتولین اور محروحین کی امداد سے بھی غفلت نہ کی جائے.مسلمان ہمیشہ مصیبت زدہ دشمن کی مدد کرتے چلے آئے ہیں حتّٰی کہ تُرک اس گئے گذرے زمانہ میں بھی جنگی قیدیوں کو آپ بھوکا رہ کر کھانا کھلاتے رہے ہیں.پس ہماری ہمدردی کی بنیاد قرآن کریم کے پیش کردہ خدا کی طرح ربوبیت عالمین پر ہونی چاہئے.میں اس غرض کے لئے اپنی جماعت کی طرف سے دو سو روپیہ کا وعدہ کرتا ہوں.اور امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے احباب اپنے اپنے حلقہ اثر میں دو سرے بہی خواہان بنی آدم سے بھی مناسب رقوم جمع کر کے اس غرض کیلئے بھجوائیں گے تاکہ جلد سے جلد مصیبت زدگان کی مناسب امداد کی جائے.میں نے اپنے چیف سیکرٹری خان ذوالفقار علی خان صاحب برادر مولوی محمد علی صاحب
۵۲۶ ایڈیٹر و مالک ہمدرد دہلی اور فارن سیکرٹری ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب سابق مبلغ امریکہ کو جو دونوں کہ اس وقت لاہور میں ہیں، ہدایت کی ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس مشکل کے وقت میں مسلمانوں کی امداد کریں اور جماعت کے دوسرے دوستوں سے بھی مدد دلوائیں.مجھے نہایت افسوس ہے کہ لاہور میں جہاں کے باشندوں کو میں نے ہمیشہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا اور حوصلہ مند پایا ہے ،اس قسم کا فساد ہوا اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ فساد آخری فساد ہو گا.اور اس سے سبق حاصل کر کے وہ لوگ جو ہندوستان میں فساد کی آگ بھڑکانے میں خاص لذت حاصل کر رہے ہیں.اور جن میں سے بعض بد قسمتی سے لاہور کے باشندے ہیں آئندہ اپنے رویہ میں تبدیلی کریں گے اور غور کریں گے کہ کس طرح اس فساد کے موقع پر وہ ہندو جو احمدیوں کے درمیان رہتے تھے، ہر ایک شر سے محفوظ رہے ہیں.اور نصیحت حاصل کریں گے کہ تبلیغ کے جوش کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ انسان انسانیت سے بھی خارج ہو جائے.ان ہندو صاحبان کا جوش تبلیغ، احمدیوں سے زیادہ نہیں ہو سکتا.پس جس طرح با و جو د انتہائی درجہ کا جوش تبلیغ رکھنے کے ایک احمدی ایک ہندو پر ہاتھ نہیں اٹھاتا، ایک ہندو کیوں ایک مسلمان پر ہاتھ اٹھائے.میں اس امر کا اظہار کر کے اس اشتہار کو ختم کرتا ہوں کہ میں نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ اس وقت مسلمان اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کس طرح کر سکتے ہیں.تمام احباب سے درخواست ہے کہ دو پیسہ کا کٹ بھیج کر یہ رسالہ صیغہ ترقی اسلام قادیان سے مفت طلب کریں.شاید کہ خدا تعالی ان کے ہاتھ سے کوئی خد مت لے لے اور ان کے لئے دین و دنیا کی بہتری کے سامان جمع ہو جا ئیں - واخر دعوا نا أن الحمد لله رب العلمين - خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان گورداسپور (الفضل ۱۳ مئی ۱۹۲۷ء)
۵۲۷ آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی علىرسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھو الناصر آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ (رقم فرمودہ مئی ۱۹۲۷ء) اس وقت مسلمانوں کی حالت جس قدر نازک ہورہی ہے اس سے ہر ایک مسلمان کہلانے والے کا دل پگھل رہا ہے.وہ زمانہ تو گیا ہی تھا جبکہ مسلمان ہندوستان پر حاکم تھے اور پشاور سے چین تک اور ہمالیہ سے راس کماری تک ان کی حکومت تھی.ایک باہر کی قوم کی نگرانی میں کم سے کم انہیں یہ امید ضرور تھی کہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ برابر کی عزت یا برابر کی ذلت کے ساتھ بسر کریں گے.لیکن یہ امید بھی پوری نہ ہوئی.اور ہر شعبہ زندگی میں وہ ناکام رہے.ملازمتیں ان کے لئے بند ہو گئیں، تجارتیں ان کی تباہ ہو گئیں، صنعت و حرفت ان کی جاتی رہی، وہ بادشاہ تھے رعایا بنے اور رعایا بننے کے بعد رعایا کے ایک دوسرے حصہ نے جو درحقیقت ان کی اپنی برادری میں سے تھا برادرانِ یوسف کا سا سلوک ان سے کرنا شروع کیا.مگر مسلمان جو قریب میں ہی حکومت اپنے ہاتھ سے کھو چکے تھے انہوں نے اس تغیر کو حقیر سمجھ کر نظرانداز کر دیا.مگر افسوس کہ ہندو صاحبان نے تمدنی اور سیاسی برتری اور غلبہ کو کافی نہ سمجھا اور مسلمانوں کے مذہب پر دست اندازی کرنی شروع کی.شدھی اور سنگھٹن کا جال پھیلا کر اس بات کا اعلان کر دیا کہ ہندوستان میں ہندو ہی رہ سکتے ہیں.ڈاکٹر مونجے ، بھائی پر مانند اور سادرکر وغیرہ نے جو موجودہ ہندو حملہ کے لیڈر ہیں صاف لفظوں میں کہدیا ہے کہ یا مسلمان ہندو ہو جائیں یا ہم ان کو ہندوستان سے باہر نکال دیں گے.ہندوستان ہندوؤں کا ہے اور وہی اس میں رہ سکتے ہیں.اس مقصد کو کھلے طور پر پیش کر دیا گیا ہے.بعض سیاسی لیڈروں نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ پردہ اس قدر باریک ہے
۵۳۰ کہ حقیقت ظاہر ہو رہی ہے.تبلیغ جو اشاعت مذہب کا ایک مقدس فرض تھا ایک سیاسی آلہ کار بنا لیا گیا ہے.ملک کے تمام گوشوں میں بیواؤں، یتیموں اور غریب و بے کس لوگوں کو ورغلا کر ہندو بنایا جارہا ہے.مسلمان بادشاہوں کے بناوٹی مظالم سناسنا کر نومسلم قوموں کی قومی غیرت بھڑکائی جاتی ہے اور انہیں پھر ہندو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے.ہندوؤں کے مقروض مسلمانوں پر ساہو کاروں کا دباؤ ڈال کر انہیں اسلام سے پرانے کی کوشش کی جاری ہے.چماروں اور چوہڑوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں سے چھوت شروع کر دیں تو ان کو ساتھ ملا لیا جائے گا.گویا دنیا کے پردہ پر سب سے زیادہ گندی قوم مسلمان ہے.غرض مختلف قسم کی تدابیر سے جن میں سے بیشتر حصہ ناجائز ہے ہندو مذہب کی اشاعت کی کوشش کی جارہی ہے.مسلمانوں کا کوئی حق نہیں کہ وہ ہندوؤں کی اس جائز جدوجہد کے خلاف کوشش کریں جو وہ اپنے مذہب کے پھیلانے کے لئے کر رہے ہیں.بلکہ میرے نزدیک تو جو ناجائز کو شش کی جاتی ہے اس کے خلاف آواز اُٹھانے کا بھی کوئی حق نہیں.کیونکہ ضروری نہیں کہ ہمارے نقطۂ نگاہ کو ہراک شخص تسلیم کرے.ہندو آزاد ہیں کہ جس امرکو وہ جائز سمجھتے ہیں اس کے مطابق عمل کریں.ہم انہیں ان کے عمل کی برائی کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں مگر ہمارا یہ حق نہیں کہ ان کو مجبور کریں کہ جس طرح ہم سمجھتے ہیں اسی طرح وہ عمل کریں.کیونکہ یہ جبر ہو گا اور جبر اسلام میں جائز نہیں ہے.مگر اب جبکہ یوپی، بہار، سی پی وغیرہ صوبہ جات میں جہاں ہندو اثر غالب ہے مسلمان مرتد ہو رہے ہیں اور لاکھوں دیہاتی مسلمان خاندان اور شہر کے کمزور مسلمانوں کو رفتہ رفتہ ہند و تمدن کے زیر اثر لایا جا رہا ہے کہ آگے چل کر ان کو باآسانی مرتد کیا جاسکے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے.موجودہ حالت کو دیکھ کر ہراک مسلمان سمجھ رہا ہے کہ اگر جلد اس رو کو روکا نہ گیا بلکہ اس کے مقابلہ میں ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری نہ کیا گیا تو تھوڑے ہی دنوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہو جائے گی.اور پیارا اسلام جس نے آٹھ سو سال عزت سے اس ملک میں بسر کئے تھے ایک گمنام بے وطن کی طرح اس ملک سے نکلنے پر مجبور ہو گا.لیکن ہر اک مسلمان جبکہ اس درد کو محسوس کر رہا ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ کس طرح اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کر سکتا ہے.وہ اگر ایک کاروباری آدمی ہے تو جب وہ مسلمانوں کا ارتداد یا مذہبی و تمدنی و تعلیمی مشکلات کا حال سنتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے.کہ کاش! میں آزاد ہو تا.ملازم یا تاجر یا پیشہ ور نہ ہوتا تو اس علاقہ میں جا کر اپنے بھولے بھٹکے بھائیوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا.اگر وہ دینی علوم سے ناواقف ہوتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ کاش!
۵۳۱ میں دین کی تعلیم سے اچھی طرح واقف ہوتا تو تبلیغ میں حصہ لیتا.اگر وہ لیکچر دینے کا عادی نہیں تو وہ خیال کرتا ہے کہ اگر مجھے لیکچر دینے کی عادت ہوتی تو میں ایسے دُھواں دھار لیکچر دیتا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ لگا دیتا.اگر وہ مصنّف نہیں تو حسرت کرتا ہے کہ اگر میں مصنّف ہوتا تو دشمنان اسلام کو ایسے دندان شکن جواب دیتا کہ پھرا نہیں اسلام پر حملہ کرنے کی جرأت نہ رہتی.غرض قسم قسم کے خیالات اس کے دل میں آتے ہیں اور پیچ و تاب کھا کر رہ جاتا ہے.اس کی ساری قربانی جو وہ اسلام کے لئے کرتایا کر سکتا ہے، اس کی ساری خد مت جو وہ ہدیہ کے طور پر اپنے رب کے حضور میں پیش کرتا یا کر سکتا ہے ایک سرد آہ ہوتی ہے کہ وہ بھی فرط یاس سے منہ تک آتے آتے رہ جاتی ہے.اسلام کا درد رکھنے والے کی وہ گھڑیاں کچھ عجیب رقّت خیز گھڑیاں ہوتی ہیں.اس کا اپنے جی ہی جی میں تڑپ تڑپ کر رہ جانا، اس کا اندر اندر ہی اپنے ہی غضب میں جل بجھ کر رہ جانا خود ایک تکلیف دہ قربانی ہوتا ہے مگر اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کیا فائدہ؟ اے اسلام کا درد رکھنے والے انسانو! میں آپ لوگوں کی اس حالت کو اپنی باطنی نظر سے دیکھتا ہوں اور آپ کی یہ کرب کی گھڑیاں میری روحانی آنکھوں کے سامنے ہیں اور اسی لئے میں نے اس وقت قلم اٹھایا ہے تاکہ میں آپ لوگوں کو یہ بتاؤں کہ آپ کے لئے خدمت کے بہت سے راستے کھلے ہیں.آپ اپنے گھر بیٹھے اور اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کر سکتے ہیں اور انہیں دشمنوں کے حملہ سے بچا سکتے ہیں.پیشتر اس کے کہ میں یہ بتاؤں کہ آپ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کی کیا خدمت کر سکتے ہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں.کہ موجودہ فتنہ ارتداد کی وجہ کیا ہے.کیونکہ اس کے بغیر آپ اچھی طرح نہیں سمجھ سکیں گے کہ آپ اسلام کے لئے کیا کر سکتے ہیں.میں نے اس فتنہ ارتداد کے مختلف پہلوؤں پر نظر کرکے اس حقیقت کو پالیا ہے جو اس فتنے کے نیچے مخفی ہے وہ ہمہ گیر تنزّل ہے.جو مسلمانوں کی عام حالات میں رونما ہو رہا ہے.مذہب اسلام سے نہ پہلے کوئی بیزار ہؤا نہ اب بیزار ہو تا ہے.اس فتنہ کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے آج ترقیات کے تمام راستے بند ہیں اور وہ جمالت اور جمود کی انتہائی گہرائیوں میں گرے ہوئے ہیں.علم میں وہ اپنی ہمسایہ قوموں سے پیچھے ہیں، تجارت میں و ہ پیچھے ہیں ، صنعت و حرفت میں وہ پیچھے ہیں، ملازمتوں میں وہ پیچھے ہیں، صرافی میں وہ پیچھے ہیں.اور نہ صرف وہ ان امور میں دوسری قوموں سے پیچھے ہیں کہ اکثر شعبہ ہائے زندگی میں ان کے آگے ہونے کا راستہ بھی محدود ہے.ہمسایہ
۵۳۲ قوم ان کے راستے میں کھڑی ہے اور یہ نیت کر کے کھڑی ہے کہ ہم کسی کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے.ہر طرف سے ترقی کے راستے بند ہونے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی تربیت میں بھی نقص آگیا ہے.زندگی کے مختلف پہلوؤں کا چونکہ انہیں تجربہ نہیں رہا ان میں مایوسی، گھبراہٹ، جلد بازی، عدم رواداری، بے استقلالی اور اسی قسم کے بیسیوں عیوب پیدا ہو گئے.ان میں سے سینکڑوں یہ خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ اگر اسلام سچا ہوتا تو مسلمان اس حالت کو کیوں پہنچتے اور ہندو اسقدر ترقی کیوں کرتے.غرضیکہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی پوری پوری تصدیق ہو رہی ہے کہ کاد الفقر ان یکون کفرا ۱؎ غربت کبھی ترقی کرتے کرتے کفر کی شکل اختیار کرلیتی ہے.پس اس فتنہ کا مقابلہ جی طرح کہ مذہبی ذرائع سے کیا جانا ضروری ہے.سیاسی اور تمدنی ذرائع سے بھی اس کا مقابلہ ہونا ضروری ہے اور آج جو شخص ایک انگلی بھی ان ذرائع کے مہیا کرنے کے لئے اٹھاتا ہے وہ اسلام کی حفاظت میں اپنی خدمت کے مطابق حصہ لیتا ہے.ان تمہیدی فقرات سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آپ خواہ کسی شعبہ زندگی میں حصہ لے رہے ہیں آپ اسلام کی خدمت اپنے دائرہ میں خوب اچھی طرح کر سکتے ہیں.اور اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مندرجہ ذیل امور میں سے سب میں یا بعض یا کسی ایک میں حصہ لے کر آپ اسلام کی خدمت میں حصہ لے سکتے ہیں.(1) اگر آپ مسلمانوں کی تمدنی حالت درست کرنے میں مدد دے سکتے ہیں اور کسی محکمہ میں مسلمانوں کی ملازمت کا انتظام کر سکتے ہیں.تو آپ ان سے اقرار کر لیں کہ جہاں تک آپ کے اختیار میں ہو گا آپ جائز طور پر مسلمانوں کی بیکاری کو دُور کرنے میں مدد دیں گے اور اپنے اس ارادہ سے صیغہ ترقی اسلام قادیان ضلع گورداسپور کو اطلاع دیں گے جسے اس کام کے لئے میں نے مقرر کیا ہے.(۲) اس انجمن کے مراکز.کام کی زیادتی کے ساتھ إنشاء الله ہر صوبہ میں قائم کئے جائیں گے.(۳) چونکہ کئی مسلمان مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کا ارادہ تو رکھتے ہیں لیکن انہیں مناسب آدمیوں کا علم نہیں ہوتا اس لئے آپ کو اگر ایسے مسلمانوں کا علم ہو جو کسی قسم کے روزگار کے متلاشی ہیں تو ان لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ اپنے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو جسے موجودہ فتنہ کے دُور کرنے کے لئے میں نے قائم کیا ہے اطلاع دیں.یہ بھی آپ کی ایک اسلامی خدمت ہو گی.یہ صیغہ ہر جگہ تحریک کر کے مسلمانوں کی بیکاری کے دُور کرنے کی کوشش کرے گا.
۵۳۳ (2) اگر آپ پیشہ ور ہیں.اور آپ کے نزدیک آپ کے پیشہ کے ذریعہ سے ملک کے مختلف گوشوں میں انسان روزی کماسکتا ہے.تو آپ یہ ارادہ کر لیں کہ آپ مسلمان مستحقین کو اپنا پیشہ سکھا کر انہیں کام کے قابل بنانے کی ہر سعی کو استعمال کریں گے.اور اس ارادہ سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں.(۵) چونکہ بہت سے لوگ اپنے پیشے سکھانا چاہتے ہیں لیکن مستحق آدمیوں کا ان کو علم نہیں ہوتا اس لئے اگر آپ پیشہ سکھا نہیں سکتے مگر آپ کو ایسے نوجوانوں کا حال معلوم ہے.جو مناسب پیشہ نہ جاننے کے سبب سے بیکار ہیں تو ایسے نوجوانوں کے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں.یہ بھی آپ کی اسلامی خد مت ہوگی.(1) مسلمان ہر جگہ پر ظلم کا شکار ہو رہے ہیں.اگر آپ صاحب رسوخ ہیں اور اسلام کی خدمت کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں تو آپ آج سے ارادہ کر لیں کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کے لئے آپ حتی الوسع تیار رہیں گے.اور اپنے ارادہ اور پتہ سے مذکورہ بالا صیغہ کو اطلاع دیں تا جو کام آپ کے مناسب حال ہو اس سے آپ کو اطلاع دی جائے.(2) اگر آپ یہ نہیں کر سکتے.تو یہ بھی آپ کی اسلامی خدمت ہو گی کہ آپ ایسے مظلوموں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیں تا جہاں تک اس کے امکان میں ہو اصلاح کی کوشش کرے.(۸) اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اقتصادیات کا علم دیا ہے اور ذہن رسا عطا کیا ہے اور آپ کو بعض ایسے کام اور پیشے معلوم ہیں جن میں مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو اس کے متعلق صیغہ مذ کور تفصیلی علم دیں تا اگر اس کے نزدیک وہ کام یا پیشہ مسلمانوں کے لئے مفید ہوں تو وہ ان کی طرف انہیں توجہ دلائے.(9) اگر آپ کو بعض ایسے محکموں کا حال معلوم ہو جن میں مسلمان کم ہیں اور ان کی طرف توجہ مسلمانوں کے لئے مفید ہے تو ان سے صیغہ مذکورہ کو اطلاع دیتے رہیں.یہ بھی ایک اسلامی خدمت ہے.(۰) اگر آپ بارسوخ آدمی ہیں اور اپنے علاقہ کے حُکام پر اثر رکھتے ہیں تو آپ اپنا نام اس غرض کے لئے پیش کر سکتے ہیں کہ اگر اس علاقہ کے مسلمانوں کی کی ضرورت کے لئے کسی ڈیپوٹیشن کی ضرورت ہو تو اس میں شامل ہونے کے لئے بشرطیکہ آپ کے حالات اجازت دیں تیار
۵۳۴ ہیں.(۱۱) بعض تعلیمی صیغے ایسے ہیں کہ ان کی طرف توجہ مسلمانوں کے آئندہ مفاد کے لئے ازحد ضروری ہے.پس اگر آپ پروفیسر ہیں یا تعلیم کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں تو ایسے تعلیمی شعبوں سے صیغہ مذکورہ کو اطلاع دیتے رہا کریں جن میں مسلمان کم ہیں اور جن میں شمولیت مسلمانوں کے لئے مفید ہے اور خود بھی مسلمان طالب علموں کو تحریک کرتے رہیں کہ وہ ان شعبوں میں داخل ہوں تا آئنده اسلامی کام میں مفید ہو سکیں.(۴) اگر آپ کو خدا تعالی نے آسودگی دی ہے اور اولاد عطا کی ہے اور اسلام کی خدمت کا شوق دیا ہے تو اند ها دُھند پُرانی لکیر پر چل کر ایک ہی لائن پر اپنے بچوں کو نہ چلائیں بلکہ اپنے بچہ کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے پہلے اپنے احباب سے مشورہ کر لیں کہ کس تعلیم سے نہ صرف بچہ ترقی کر سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے.صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دینے پر وہ بھی ہرقسم کا مشورہ دینے کے لئے تیار رہے گا.اگر اس کا مشورہ آپ کو مفید نظر آئے تو اس پر آپ عمل کر سکتے ہیں.(۳) آپ اس طرح بھی اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں کہ خود بھی سادہ زندگی کو اختیار کریں اور اپنے بچوں کو بھی سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک کریں.سادہ زندگی قربانی کی روح اور جرأت پیدا کرتی ہے جس کی قومی ترقی کے لئے ازحد ضرورت ہے.(۱۴) اگر آپ کو خدا تعالی نے عزت دی ہے تو غرباء سے اور اگر آپ شہری ہیں دیہاتوں سے تعلق بڑھائیں تا اسلامی برادری کا احساس قلوب میں پیدا ہو اور اس کا چھوڑنا طبائع پر گراں گزرے.(۵) اگر آپ کو توفیق ملے تو تعاون باہمی کی انجمنیں اپنے علاقوں میں قائم کریں.لیکن اس کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے.ذرا سی بد دیانتی بلکہ غفلت سے بھی اس قسم کی انجمنیں بجائے فائدہ دینے کے ضرر رساں ہو جاتی ہیں اور بُغض اور عداوت پیدا ہو جاتی ہے.(۱۶) ہندو مسلمانوں سے چُھوت کرتے ہیں اور کھانے کی چیزیں ان سے نہیں خریدتے نہ ان کے پکے ہوئے کھانے کھاتے ہیں.اس کا یہ نقصان ہو رہا ہے کہ:.(1) نَو مسلم اقوام جو کہ چُھوت کرنے والے کو بڑا خیال کرتی آئی ہیں وہ مسلمانوں کو اس سلوک پر راضی دیکھ کر یہ خیال کرتی ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو ہندوؤں سے ادنی ٰ سمجھتے ہیں اور اس خیال کی وجہ سے وہ ہندوؤں کی طرف جانے کو پسند کرتی ہیں.
۵۳۵ (ii) کروڑوں روپیہ سالانہ مسلمانوں کے گھروں سے غیروں کے ہاں جاتا ہے جس کی واپسی کی کوئی صورت نہیں کیونکہ ہندو ان چیزوں کو مسلمانوں سے نہیں خریدتے.پس آپ آج سے عہد کر لیں کہ کسی ایسے شخص کی پکی ہوئی یا اس کے ہاتھ کی چُھوئی ہوئی چیز کا استعمال نہیں کرناجب تک کہ وہ اپنی رَوش کو بدل کر مسلمانوں سے خریدنا اور ان کے ہاتھوں کا کھانا نہ شروع کر دیں.اس طرح کروڑوں روپے مسلمانوں کا بچ جائے گا.(iii) ہزاروں لاکھوں نَو مسلم ارتداد سے محفوظ ہو جائیں گے.(iv) ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو کام مل جائے گا.ہندو سیاحان اس کا نام بائیکاٹ رکھتے ہیں، اسے فساد کہتے ہیں مگر یہ رائے ان کی غلط ہے.اگر یہ بائیکاٹ اور فساد ہے تو وہ اتنے عرصہ سے کیوں اس بائیکاٹ کو رائج اور اس فساد کو کھڑا کرتے آئے ہیں.آج مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کا راز اس چھوت کے مسئلہ میں مخفی ہے.ہر ایک جو اس کو نظر انداز کرنا ہے وہ قوی غداریا قومی ضروریات سے غافل ہے.میں نے آج سے قریباً ۱۵ سال پہلے سے اس آواز کو اُٹھایا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس طرف توجہ کے ساتھ ہی مسلمان اقتصادی آزادی کا سانس لینے لگیں گے.اس لئے ضروری ہے کہ آپ تمام مسلمانوں کو بار بار تحریک کرتے رہیں اور اس کے متعلق لیکچر کراتے رہیں.ضرورت کے وقت آپ صیغہ ترقی اسلام سے لے سکتے ہیں.اور آپ کی طرف سے اطلاع آنے پر لیکچرار بھیجے جاسکتے ہیں.(۱۷) مسلمانوں کو اس امر کی بار بار تحریک کرنی چاہئے کہ وہ وقتی طور پر اپنے جوش کا اظہار کرنے کی بجائے استقلال سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.ہر ایک فساد جو پیدا ہوتا ہے وہ اسلام کو مادی اور روحانی طور پر کمزور کر دیتا ہے.پس فسادسے بچنے اور مستقل ارادہ سے کام کرنے کی طرف آپ اپنے گردوپیش کے لوگوں کو تحریک کرتے رہیں.اس وقت تک میں نے دُنیوی تدابیر بتائی ہیں.اور ان کو پہلے بیان کرنے کی یہ وجہ نہیں کہ وہ زیادہ اہم ہیں بلکہ یہ کہ اس وقت ملک کی حالت ایسی ہو رہی ہے کہ لوگ دین کی بات فوراً سننے لئے تیار نہیں ہیں.پس میں نے چاہا کہ جو لوگ دین سے بے پروا ہیں وہ بھی اس طرف متوجہ ہو جائیں.دینی کاموں میں سے مفصّلہ ذیل آپ کر سکتے ہیں.(۱۸) آپ کے محلّہ اور آپ کے گاؤں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ہندو تہذیب نے ہزاروں سالوں سے غلام بنا رکھا ہے.چونکہ ہندو کہتے ہیں کہ ان کا ادب کروڑوں سال سے ہے اس
۵۳۶ صورت میں یہ اقوام کروڑوں سال سے جانوروں سے بدتر سلوک برداشت کرتی چلی آئی ہیں.ان کی ہدایت کی طرف توجہ کریں.اور اگر یہ نہیں تو جس جگہ کوشش کرنا آپ کے نزدیک مفید نتائج پیدا کر سکتا ہے اس کی اطلاع فور اً صیغہ ترقی اسلام کو بھیج دیں تا وه حتی المقدور اس کام کو بجالانے کی کوشش کرے (19) مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے چونکہ وقتاً فوقتاً اشتہارات کی تقسیم کی ضرورت رہتی ہے.اگر آپ اپنے پتہ سے اطلاع دیں اور اس خدمت کو اپنے ذمہ لیں کہ آپ مرسلہ اشتہارات کو مناسب موقعوں پر اپنے شہریامحلّہ میں لگا دیں گے تو یہ بھی ایک دینی خدمت ہے.(۲۰) چونکہ اس قدر عظیم الشان کام بغیر عام تربیت کے نہیں ہو سکتا.اگر آپ چاہیں اور آپ کے لئے ممکن ہو تو ایک خدمت آپ اس وقت یہ کر سکتے ہیں کہ اس لٹریچر کو منگوا کر جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق شائع کرایا جائے گا اپنے علاقہ میں فروخت کریں.صیغہ ترقی اسلام نہایت چھوٹے چھوٹے ڈیکٹ موجودہ ٹریکٹ کے سائز کے شائع کراتا رہے گا جو سستے داموں پر دیئے جائیں گے.ان کو اگر آپ مناسب قیمت پر اپنے علاقہ میں فروخت کریں تو آپ فائدہ بھی اُٹھا سکتے ہیں اور خدمت اسلام بھی کر سکتے ہیں.(۲۱) اگر آپ کے قصبہ اور شہر میں کوئی اسلامی انجمن ایسی نہیں جو تبلیغی کام میں حصہ لے رہی ہو تو آپ اسی انجمن کو قائم کر کے دینی خدمت کر سکتے ہیں.انجمن کے قیام کے لئے صحیح مشورہ دینے یا بعد میں اس کے جلسوں پر لیکچر دینے کے لئے صیغہ ترقی اسلام کو لکھنے پر جہاں تک ممکن ہو گا آپ کی مدد لیکچرار بھیج کر کی جائے گی.(۲۲) ہندو لوگ ہر علاقہ میں خفیہ خفیہ ارتداد کی تحریک جاری کر رہے ہیں.آپ ایک بہت بڑی اسلامی خدمت کریں گے اگر آپ ان کی حرکات کو تاڑتے رہیں اور جس وقت اپنے علاقہ کے متعلق یا کسی خاص شخص کے متعلق ذرا سا بھی شبہ پڑے تو صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں تافوراً اس کے تدارک کی کوشش کی جائے.(۲۳) بیواؤں، مظلوم عورتوں اور یتیموں کو آریہ اور مسیحی خصوصاً بہکا رہے ہیں.آپ ایک بڑی خدمت اسلام کریں گے اگر ان کے حالات پر نگاہ رکھیں اور ان کی مدد اور ہمدردی کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کریں.(۲۴) اگر آپ کو شوق تبلیغ ہے اور آپ عربی کی تعلیم رکھتے ہیں یا کم سے کم انٹرنس مک
۵۳۷ تعلیم یافتہ ہیں تو ہم بڑی خوشی سے آپ کی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں.تبلیغی کام کے لئے تین ماہ سے عید مبارک کا عرصہ کافی ہو گا.اگر اتنے عرصہ کے لئے آپ فرصت نکال کر دینی تعلیم حاصل کرلیں تو اس طرح آپ اپنے طور پر تبلیغ اسلام کے لئے بہت مفید ہو سکیں گے.(۲۵) اگر آپ کے ہاں پہلے سے انجمن قائم ہے.تو آپ تبلیغی لیکچروں یا مباحثوں کا انتظام کر کے خدمت اسلام کر سکتے ہیں.اطلاع ملنے پر مذکورہ بالا صیغہ آپ کی ہر طرح مدد کرے گا.(۲۹) آپ مسلمانوں کی دینی تعلیم کے لئے ایسے لیکچروں کا انتظام کر کے بھی جن میں اسلامی تعلیم کی خوبیاں بیان کی جائیں اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں.اطلاع ملنے پر صیغہ مذکورہ آپ کی مدد کرے گا.(۲۷) آپ دین کی خدمت کے لئے اپنے اموال میں سے ایک حصہ الگ کر کے دین اسلام کی مدد کر سکتے ہیں.اس رقم کو جہاں آپ مناسب سمجھیں اور جسے آپ سمجھیں کہ اسلام کی خدمت کر رہا ہے اور دیانتداری سے اسلام کی خدمت کر رہا ہے دے سکتے ہیں.لیکن کچھ نہ کچھ مالی امداد اس وقت اپنی حیثیت کے مطابق ضرور کریں.(۲۸) آپ مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر کے کہ آپس میں گو ہمارے کس قدر اختلاف ہوں لیکن دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ہمیں ایک ہو جانا چاہئے اور اسلام کے محافظوں کو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والوں کو بہرحال اسلام کے دشمنوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والوں پر فضیلت دینی چاہئے اور اسلام کی خدمت کے وقت ان کی پیٹھ میں خنجر نہیں گھونپنا چاہئے.ایک بہت بڑی خدمت اسلام کر سکتے ہیں.(۲۹) آپ مسلمان زمینداروں میں یہ خیال پیدا کر کے کہ وہ اپنے علاقوں کی ادنی ٰ اقوام کو مسلمان بنانے میں مبلّغین اسلام کی مدد کریں خد مت اسلام میں حصہ لے سکتے ہیں.اس وقت بہت سے مسلمان زمیندار ادنی ٰ اقوام کی تبلیغ میں اس لئے روک بنتے ہیں کہ مسلمان ہو کر یہ ہمارے کام چھوڑ دیں گے.یہ ایک وسوسہ ہے.انہیں بتانا چاہئے کہ اگر یہ مسلمان نہ بنیں گے تونہ صرف کام چھوڑیں گے بلکہ دشمنوں سے مل کر اُن کا مقابلہ کریں گے.(۳۰) آپ ایک بہت بڑی دینی خدمت کریں گے اگر مسلمانوں کو ہر موقع پر اس خطرہ سے آگاہ کرتے رہیں جو اس وقت اسلام کو پیش آ رہا ہے.(۳۱) آپ کی خدمت اور بھی بڑھ جائے گی اگر آپ ایسے لوگوں کے ناموں اور پتوں سے
۵۳۸ صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیتے رہا کریں جو کسی نہ کسی رنگ میں خدمت اسلام میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوں.(۳۲) اگر آپ ان امور میں سے کسی امر کی تعیین کر سکتے ہوں تو کم سے کم اس قدر ضرور کریں کہ اپنی زندگی کو اسلام کی تعلیم کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں.اس طرح آپ اسلام کو اعتراض سے بچانے میں ہماری مدد کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کو مزید ترقی کی توفیق دے گا.اگر آپ ان کاموں میں کسی ایک یا زیادہ کاموں کے کرنے کے لئے تیار ہیں تو بھی اور اگر کسی معیّن کام کے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن یوں اس غرض اور مقصد سے دلچسپی رکھتے ہیں تو بھی ساتھ کے فارم پردستخط کر کے اور اپنا پتہ لکھ کرمذکورہ بالا انجمن کے نام ارسال کر دیں تاکہ آپ کی خواہش پوری ہو اور اسلام کی خدمت میں آپ کو بھی حصہ ملے.میں امید کرتا ہوں کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آپ سُستی سے کام نہ لیں گے اور خود بھی اس تحریک میں شامل ہوں گے اور دوسروں کو بھی شامل کرنے کی تحریک کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کا مددگار ہو.وقت نازک ہے اور حالات دم بدم بدل رہے ہیں.ایک ایک منٹ کی دیر خطرناک ہے.آپ سوچ لیں کہ کیا آپ سپین کی طرح اسلام اور مسلمانوں کا نام ہندوستان سے مٹ جانے پر راضی ہیں.اگر نہیں تو پھر اس جدوجہد کے لئے تیار ہو جائیں جو آپ کی ساری قوتوں کو اپنی طرف مشغول کرے.ایک زبردست اور منظّم قوم کا آپ نے مقابلہ کرتا ہے اور بغیر اعلی ٰدرجہ کے نظام کے آپ اس کام میں کامیاب نہیں ہو سکتے.میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ ساتھ کے فارم پردستخط کرنے سے آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.جب آپ سے کوئی تحریک کی جائے گی تو آپ آزاد ہوں گے کہ اپنے حالات کے مطابق جو راه چاہیں اختیار کریں.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين خاکسار میرزا محموداحمد امام جماعت احمدیہ قادیان دارالامان (الفضل ۱۷، ۲۴ مئی ۱۹۴۷ء) ۱؎ مشكوةكتاب الاداب باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع و اتباع العورات الفصل الثالث مدیث نمبر۵۰۵ صفحہ نمبر۳۰۳، مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
۵۳۹ اسلام کی آواز از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفه المسیح الثانی
۵۴۰
۵۴۱ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی علىرسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھو الناصر اسلام کی آواز (رقم فرمود ہ مورخہ 5 مئی ۱۹۲۷ء) آج اسلام کی جو حالت ہے وہ مسلمانوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں.ایک طرف ہندوستان کو مسیحیت کھاتی چلی جاتی ہے تو دوسری طرف ہندو مت.حکومت پہلے ہی مسلمانوں کے ہاتھوں سے جا چکی ہے مگر اب وہ غلامی کے بھی ناقابل سمجھے گئے ہیں.ارتداد یا اخراج دو صورتیں ہندوصاحبان کی طرف سے مسلمانوں کے سامنے پیش کی گئی ہیں اور علی الاعلان کہا جاتا ہے کہ ان دونوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک ان کو قبول کرنی ہو گی یا مرتد ہو کر توحید کی یا تعلیم کو چھوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات باکمال سے تعلق محبت کو توڑ کر ہزاروں بتوں کا بندہ بننا ہو گا اور نامعلوم الاسم رشیوں کے دامن سے وابستگی کرنی ہوگی یا اس ملک سے جس میں وہ ہزاروں سال سے آباد ہیں (اکثر مسلمان ہندوستان کے قدیم باشندوں میں سے ہیں ہمیشہ کے لئے نکل جانا ہو گا اور ہندوستان کو ہندو مذہب کے پیروؤں کے لئے خالی کر دینا ہو گا.کیا مسلمان ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ کیا وہ ارتداد اختیار کر سکتے ہیں یا کیا وہ سات کروڑ کی مسلمان آبادی کو کسی اور جگہ جا کربساسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا انہوں نے اس امر پر غور کیا ہے کہ ان مصائب سے بچنے کے لئے انہیں کیا کچھ کرنا چاہئے.ریزولوشن خواہ کس قدر اخلاص سے پاس کئے جائیں ان سے کچھ نہیں بن سکتا.دھمکیاں خواہ کس قدر چھوٹی سے دی جائیں ان سے کچھ نہیں بن سکتا.گالیاں خواہ کس قدر غصے سے دی جائیں ان سے کچھ بن نہیں سکتا.یہ واقعہ کہ ہر ایک ہندو مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لئے تیار ہے
۵۴۲ ایک نہ پوشیدہ ہو سکنے والی صداقت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور کوئی مسلمان اس کا انکار نہیں کر سکتا.وہ دن گئے جب ہم سمجھتے تھے کہ ہندو مذ ہب دوسروں کو اپنے اندر شامل نہیں کرتا.آج ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے شد ھی کی آواز آتی ہے.کونہ کونہ سے سنگھٹن کی پکار اٹھ رہی ہے.اور شدھی کیا ہے؟ صرف اسلام کو مٹا کر اس کی جگہ ہندو مذہب کو قائم کرنے کا نام ہے اور سنگھٹن کیا ہے؟ صرف اس کوشش کو ایک انتظام اور تدبیر کے ساتھ کرنے کا ذریعہ ہے.ان تدابیر کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمان اس قدر کمزور ہو رہے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے.ہزاروں آدمی جو آج سے چند ماہ پہلے لا الہ إلا الله کہنا اپنے لئے نجات کا موجب سمجھتے تھے آج پتھر کے بتوں کے آگے جھکنا فخرخیال کرتے ہیں.اور ہزاروں آدمی جو آج سے چند ماہ پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اپنی زندگی کے بہترین اعمال میں سے تصور کرتے تھے آج آپ کو گالیاں دیناثواب کا کام سمجھ رہے ہیں.پنجاب میں کیا، سندھ میں کیا، یوپی میں کیا اور بنگال میں کیا ہزاروں کی تعداد میں کلمہ گو اسلام سے الگ ہو کر ہندوؤں میں جا ملے ہیں اور آج ہر ایک میدان مسلمانوں کے لئے کربلا بن رہاہے.؎ ہرطرف کفراست چوشاں ہمچر افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین اس تحریک کے اثر کے نے کئی گھر برباد ہو گئے ہیں.بچے ماؤں سے اور بیویاں خاوندوں سے جدا کر دی گئی ہیں.ان گھروں کی چیخ و پکار جو اپنی عورتوں اور بچوں کو دین اسلام کی خدمت کے لئے تیار کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن جن کی عورتیں مندروں میں اور لڑ کے گروکلوں میں جا داخل ہوئے ہیں پتھرسے پتھردل کو بھی موم کر رہی ہے.اور اگر یہی حالت دیر تک قائم رہی تو اسلام کا نام اسی طرح ہندوستان سے مٹ جائے گا جس طرح کہ وہ سپین سے مٹ گیا تھا.اسلام کے دشمن ہیں وہ لوگ جو ان حالات کو دیکھ کر بھی بیدار نہیں ہوتے اور جاہل ہیں وہ اشخاص جو اس حالت کو مشاہده کرتے ہوئے بھی مسلمانوں کو تھپک تھپک کر سُلانے کی کوشش کر رہے ہیں.اگر آج مسلمان.بیدار نہ ہوئے تو قیامت تک بیدار ہونے کا موقع نہ ملے گا.اور ایک دن آئے گا کہ ان کی آنکھیں اس حالت میں کھلیں گی کہ ہندوستان کے آسمان پر شرک کی گردو غبار کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا.بے شک بہت سے مسلمانوں کے دل میں درد ہے اور جلن ہے اور وہ اس حالت کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں لیکن غم اور غصہ سے بنتاکیا ہے.دشمن ہمارے ریزولیوشنوں کا سن کر اور جوش کودیکھ کر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میرا مقابلہ اس قوم سے ہے جسے صحیح جدوجہد کے طریق
۵۴۳ سے آگاہی بھی نہیں اس لئے میری فتح یقینی ہے.مسلمانوں کا جھنڈے لے کر جلوس نکالنا یا مسجد کے آگے باجہ سے جانے پر لڑ پڑنا کیا فائدہ دے سکتا ہے.اگر ہر لڑائی میں برابر کے ہندو اور برابر کے مسلمان مارے جائیں.نہیں نہیں.اگر ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو دو ہندو بھی مارے جائیں تو کیا بنے گا.یہی کہ سب مسلمانوں کا خاتمہ ہو جانے پر ہندو ہی ہندوستان پر قابض رہیں گے کیونکہ ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں چار چار ہندو ہیں.مگر سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اسلام لڑائیوں اور فساد سے روکتا ہے.ہم ان طریقوں سے اسلام کی خدمت کس طرح کر سکتے ہیں کہ جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں.اگر ہم خود بھی اسلام کی تعلیم کے خلاف عمل کررہے ہیں تو دوسروں پر ہماری باتوں کا کیا اثر پڑ سکتا ہے.پس ان طریقوں سے بچنا چاہئے کہ یہ طریقے اسلام کی تعلیم کے خلاف بھی ہیں اور بے فائدہ بھی ہیں.ہندوستان میں اسلام کو امن جبھی نصیب ہو سکتا ہے اگر ایک طرف تو موجودہ مسلمانوں کی تربیت کی جائے اور دوسری طرف ہندوؤں کو مسلمان بنایا جائے اسلام نے مسلمانوں کی ترقی کا راز ہی تبلیغ میں پوشیدہ رکھا ہے.اور مسلمانوں کی فضیلت ہی دعوة الى الخیر کو بتایا ہے.فرماتا ہے کنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعرو ف و تنهون عن المنكر.۱؎ تم سب سے اچھی امت ہو کیونکہ تمہیں خدا تعالی نے دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے.تم لوگوں کو نیک باتوں کی نصیحت کرتے اور بدباتوں سے روکتے ہو.پس اگر مسلمانوں کو امن نصیب ہو گا تو اس طرح کہ وہ مسلمانوں کی تربیت کریں اور انہیں مرتد ہونے سے بچائیں اور سب سے پہلے ہندوستان کے دیگر مذاہب کے پیروؤں کو اپنے اندر شامل کر لیں.اسی ذریعہ سے ملک میں امن ہو گا اور اسی ذریعہ سے اسلام کو دنیا میں غلبہ نصیب ہوگا.پس چاہئے کہ آج سے ہر ایک مسلمان اس قرض کی ادائیگی کے لئے تیار ہو جائے.چند علماء اس کام کو ہرگز نہیں کر سکتے.اگر علماء پر اس بات کو رکھا گیا تو شکست یقینی ہے.فتنہ ہر جگہ رونما ہے اور اس کے لئے ایسی جد وجہد کی ضرورت ہے جو ہندوستان کے ہر گوشہ میں کی جائے.ایک باقاعده نظام کے ماتحت اگر ارتداد کو روکا نہ گیا اور دعوت اسلام نہ دی گئی تو کامیابی کی کوئی امید نہیں.پس اس امر کے لئے مسلمانوں کو تیار ہو جانا چاہئے.اے برادران! ذرا غور تو کرو کہ آپ کا ایک بچہ بیمار ہو جاتا ہے تو آپ اس کے لئے بے تاب ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک صبر نہیں کرتے جب تک وہ اچھا نہ ہو جائے.تو کیا وجہ ہے کہ اسلام اس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ دوسرے مذاہب کو کھاتا تھا لوگ اسے
۵۴۴ کھانے کی فکر میں ہیں آپ کے دل میں حرارت نہیں پیدا ہوتی.کیا ایک بچہ جتنی بھی آپ کو اسلام سے محبت نہیں رہی؟ کیا خدا تعالی کے لئے آپ اس قدر قربانی بھی نہیں کر سکتے جس قدر کہ اپنے معمولی دوستوں کے لئے کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.یاد رکھو کہ آپ خداتعالی کے دین کی مدد کے لئے ایک قدم اُٹھائیں گے تو وہ آپ کی مدد کے لئے دو قدم اٹھائے گا اور آپ کے دل کو آخر کار اسی نور ایمان سے بھر دے گا جس سے کہ اس نے صحابہ ؓکے دلوں کو بھر دیا تھا.وہ فرماتا ہے.والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا.۲؎ جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنے خاص راستوں پر چلا کر اپنے حضور میں لے آتے ہیں.پس یقین جانئے کہ اس فتنہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے.اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی پرانی دوستی کو آپ سے پھر تازہ کرے اور اپنے قرب کی راہیں آپ کے لئے پھر کھولے.پس اُٹھو اور خدمت اسلام کے لئے إستادہ ہو جائے.اور اپنی اپنی جگہ پر دشمنانِ اسلام کے علمی مقابلے کی تیاری کرنی شروع کردو.میں یہ بھی اعلان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ موجورو حالت کو مدنظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جہاں کہیں بھی آریوں کے مقابلہ کی ضرورت ہو یا اسلام کی تائید میں لیکچر د لانے کی ضرورت ہو وہاں جلد سے جلد مبلّغ بھیجے جائیں.پس تمام ہمدردانِ اسلام کو میں مطلع کرتاہوں کہ جہاں کہیں بھی دیگر مذاہب کی طرف سے اسلام کے خلاف زہر اُگلا جاتا ہو یا جہاں کہیں بھی اسلام کی تعلیم سے واقف کرکے مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کی حقیقت پر آگاہ کیا منظور ہو وہاں جلسہ کا انتظام کر کے صیغہ ترقی اسلام قادیان کو اطلاع دیں انشاء الله فوراً مبلّغ بھیجے جائیں گے.جن ہمدردانِ اسلام کے دل میں اسلام کی خدمت کا شوق ہو اور وہ نہ جانتے ہوں کہ کس طرح اپنے گھر پر رہ کر اور اپنے کام میں مشغول رہ کر وہ خد مت اسلام میں حصہ لے سکتے ہیں ان کے لئے میں نے ایک رسالہ لکھا ہے ’’آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟" پس آپ کو چاہئے کہ فوراً محصول ڈاک دو پیسہ کے ٹکٹ بھیج کر صیغہ ترقی اسلام سے یہ رسالہ مفت طلب کریں.اگر کوئی صاحب دو پیسے ڈاک کے لئے بھی خرچ نہ کرنا چاہیں یا ان میں اسقدر بھی توفیق نہ ہو تو ان کا خط ملنے پر انہیں رسالہ مفت اپنے پاس سےٹکٹ لگا کر بھیج دیا جائے گا.یہ اعلان کر کے میں خدا تعالی کے سامنے بری الذمہ ہوں.اگر اب بھی مسلمان نہ جاگے تو میں اس کے حضور عرض کروں گا کہ اسے خدا! جو کچھ ہم سے ہو سکتا تھا ہم نے کیا.مگر وہ تیرے بندے بیدار نہ ہوئے.انہوں نے دولت اسلام کو اپنی آنکھوں سے لُٹتا ہوا دیکھا اور حرکت نہ کی.ندا و رسول کی ہتک
۵۴۵ ہوتی ہوئی اپنے کانوں سے سنی لیکن ان کے دلوں میں غیرت نہ پیدا ہوئی.لیکن مجھے یقین ہے کہ اسلام کی آواز بے جو اب نہ جائے گی.اسلام سے محبت رکھنے والے چاروں طرف سے لبیک کہتے ہوئے آئیں گے اور دیوانہ وار اس کے جھنڈے کے گرد جمع ہو جائیں گے.تب خدا کی نصرت نازل ہوگی اور اس کی محبت جوش میں آئے گی.تاریک بادل چھٹ جائیں گے اور اس کے فضل کی شُعائیں دنیا کی تاریکی کو مٹا دیں گی.و أخر دعوانا أن الحمد لله رب العلمين - خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب ۵ مئی ۱۹۲۷ء ( الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۷ء) ! ال عمران :۱۱۱ ! العنكبوت:۷۰
۵۴۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۵۴۹ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی علىرسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھو الناصر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کادعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے؟ (رقم فرموده مورخہ ۲۹ مئی ۱۹۲۷ء) مسیحی اور آریہ جس طرح سالہا سال سے بانی اسلام عليه السلام فدتہ نفسی و اھلی کے خلاف زہر اُگلتے چلے آرہے ہیں اسے وہ لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں جو ان کی کتب کے پڑھنے کے عادی ہیں.وہ کتب اس قدر گندے الفاظ سے پر ہیں کہ ایک مسلمان کے لئے ان کا پڑھنا نا ممکن ہو جاتا ہے لیکن چونکہ مسلمان ان کتب سے عام طور پر واقف نہیں ہوتے انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کتب کے مصنّفین ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی قسم کے خیالات کی اشاعت کر رہے ہیں اور اس وجہ سے ان میں وہ بیداری بھی نہیں پیدا ہوتی جو قومی زندگی کے لئے ضروری ہے.وہ اپنی ذمہ داری سے غافل رہتے ہیں اور اسلام کی خدمت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کا خیال ایک دبی ہوئی چنگاری کی طرح ان کے سینوں میں مخفی رہتا ہے.اسی نقص کو دیکھ کر بانی سلسلہ احمد یہ علیہ السلام نے اپنی کتب میں ان گالیوں کی نقل کر کے جو مسیحی اور آریہ مصنفین کی کتب میں مارے مقدس رسول ؐکو دی گئی ہیں مسلمانوں کو بیدار کرنا چاہا تھا.لیکن افسوس کہ بعض انسانی فطرت کے ناواقفوں نے اس کا نام بے ادبی رکھا اور اس کے خلاف شور مچایا حالانکہ کفار کی گالیوں کو قرآن کریم بھی نقل کرتا ہے اور خدا تعالی سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی نگہداشت رکھنے والا اور کون ہو گا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس گہری عداوت کی رَو سے جو اندر ہی اندر مختلف مذاہب کے پیروؤں کے دلوں میں پیدا کی جارہی تھی ناواقف رہے اور جبکہ دوسری اقوام اسلام کی دشمنی کے خیالات میں پل کر ہوشیار ہو
۵۵۰ رسول کریم کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں ؟ رہی تھیں مسلمان غفلت کی نیند سو رہے تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ دوسری اقوام کے دلوں میں ہماری نسبت کیا خیالات پیدا کئے جا رہے ہیں.ان فتنہ انگیز مصنفوں کی جرات بھی اس غفلت کی وجہ سے بڑھتی گئی.اور آخر ’’رنگیلا رسول‘‘، ’’مسلمانوں کا خدا ‘‘ اور ’’ وچتر جیون‘‘ جیسی کتب شائع ہونے لگیں جو زبان درازی اور فحش کلامی میں پہلی کتب سے بھی سبقت لے گئیں.اگر مسلمان پہلے ہی ہوشیار ہو جاتے اگر وہ پہلے ہی اس مرض کے علاج کی طرف توجہ کر لیتے تو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.مگرانوں کے علاج سے بے پرواہی کی گئی اور باطل پرستی کی روح اور بھی دلیہ ہو گئی اور اس نے مذکورہ بالا کتب سے بھی بڑھ کر قدم مارا.پہلے تجربہ کی بناء پر یہ یقین کر لیا گیا کہ مسلمان کا دل لوہے کا ہے، اس کا کلیجہ پتھر کا ہے، وہ ہر اک منہ کو برداشت کر سکتا ہے، اس کی غیرت قصہ ماضی ہو چکی ہے اور اس کا عزم حکایت گزشتگان بن چکا ہے.چنانچہ آج مجھے اس تازه حملہ کو مسلمانوں کے سامنے رکھنے کا ناخوشگوار فعل ادا کرنا پڑا ہے.ممکن ہے بعض لوگ مجھے بھی گالیاں دیں کہ میں نے دشمن کے اقوال نقل کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فدته نفسي و اھلی کی ہتک کی ہے.لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ گو لوگ مجھے گالیاں ہی دیں لیکن ہرایک شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ایک ذرہ بھی دل میں رکھتا ہے وہ اس حملہ کی حقیقت کو معلوم کر کے بیدار ہو جائے گا.پس میں اس ذلت کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت کے قیام کے لئے اور مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی خاطر برداشت کرنی پڑے بخوشی قبول کرتا ہوں.یہ تازہ حملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر ایک مضمون کی صورت میں رسالہ ور تمان امرتسر میں شائع ہوا ہے.اس کا لکھنے والا کوئی دیوی شرن شرما ہے.جس نے ایک ڈرامہ کی صورت میں معراج نبویؐ کی نقل میں ایک مضمون شائع کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس میں محمد کی بجائے مہامند کر کے بیان کیا ہے اور حضرت عائشہؓ کا نام بگاڑ کر آشہ لکھا ہے اور حضرت زینبؓ کا نام جنبھی.اور حضرت علی ؓکانام مرتضیٰ سے بگاڑ کر مرتیو نجا رکھ دیا ہے مگر ان ناموں کے بگاڑنے سے بھی تمسخر مراد ہے.یہ کوشش مقصود نہیں کہ مسلمان حقیقت کو نہ سمجھیں اور ان کا دل نہ دُکھے کیونکہ جو واقعات اس قصہ میں بیان ہیں وہ سب کے سب اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ ہر اک شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوہی گالیاں دی گئی ہیں اور کوئی خیالی قصہ مذکور نہیں ہے.
۵۵۱ شروع میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ایک نورانی جسم آسان کی سیر کرانے کے لئے میرے پاس آیا اور میرے لئے ایک سواری لایا جسے دنیا کے لوگ سن سنا کر براق کہتے ہیں.میں اس سواری میں بیٹھ کر پہلے جنت کی سیر کے لئے گیا.وہاں میں نے سری رامچندر، سری کرشن، شنکر آچاریہ، دسوں گورو اور پنڈت دیانند، پنڈت لیکھرام اور سوامی شردھانند کو دیکھا.اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ میں نے دوزخ کے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور وہاں میں نے دیکھا کہ ”ایک دراز ریش بڈھاء برہنہ بدن آگ میں تپی ہوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا بہت سی برہنہ عورتیں اس کے گرد حلقہ کئے تھیں جو نہایت ہی حسین تھیں مگر بدن زخموں کی کثرت سے چھلنی ہو رہے تھے جن سے پیپ بہہ رہی تھی.پیاس کی شدت سے بڈھے کی زبان لٹک رہی تھی.پانی نایاب تھا.اس لئے بار بار وہی پیپ پیتا تھا.لیکن پیاس نہ بجھتی تھی‘‘.وہاں اور بھی مرد و عورت تھے.’’لیکن بڈھے کے نزدیک ایک سب سے زیادہ حسین لڑکا اور ایک نوجوان بیٹھے تھے.’’ پھر لکھتا ہے کہ میرے پہنچنے پر بڈھا میرے پاؤں پر گر کر بولا.”للہ مجھے بخشو.کئی سالوں سے عذاب میں مبتلاء ہوں.میری شفاعت کرو.میں نے کہا ’’ مہامند! تم تو خود کو شفيع کہا کرتے تھے.اب میری شفاعت کی کیا ضرورت ہے‘‘ مہامند نے جواب دیا "يا حبیب اللہ میں آپ سے وعدہ کر کے پھر گیا..................خدا کے نام ان سب عورتوں کی عصمت دری کی......................اب رحم کیجیئے.خطا معاف کیجئے.میری شفاعت کیجئے ‘‘.میں : ’’یہ امر ناممکن ہے خدا کی سزا میں کمی بیشی میرے احاطہ اختیار سے باہر ہے.میں شفع نہیں ہوں‘‘.بڈھا مایوس ہو کر بیہوش ہو گیا.تب اس لڑکی اور ایک عورت نے میرے پاؤں پکڑ لئے...........................میں نے لڑکی کا سر اُٹھا کر کہا ’’ آشہ تم کیوں اضطراب میں ہو تمہارا خاوند تو شفیع ہے ہے" يا حبیب اللہ ! کیا اپنی نفسانی خواہشات کی آگ خدا کے نام پر کثیر التعداد عورتوں کی عصمت دری کرنے والا انسان بھی شفیع ہو سکتا ہے اور جس کی جان نزع کے وقت آسانی سے نہیں نکلتی تھی.میری جو ٹھی مسواک کے تھوک سے جس کی تکلیف کم ہوئی تھی وہ میرا شفیع نہیں ہو سکتا.اب میں بخوبی سمجھتی ہوں‘‘.میں: ’’لیکن آشہ تمهارا گناہ بھی ناقابل معافی ہے.مہامند کے مرنے کے بعد علم ہو جانے پر میں یہ راز طشت از بام کردینا چاہئے تھے.مگر تم نے دنیا کی حرص میں اس کی تبلیغ کی.اس لئے اور سزا بھگتو‘‘ تو اس کے بعد دوسری عورت بولی."لیکن حضور میں قطعی بے قصور ہوں.میں اپنے خاوند کی خوشی سے ان کی نفس پرستی کا شکار ہوئی‘‘ میں: ’’ جنبھی کیوں جھوٹ بولتی ہے.مہامند تیرا سسر تھا.تُو نے اپنے خاوند جنت کو کیوں نہ بتایا کہ عالم بالا کے فرشتوں کے
۵۵۲ سامنے شادی ہونے کا دعویٰ بالکل غلط ہے اور صریح دھوکا ہے.تُو بھی مقررہ معیاد تک عذاب کا مزہ چکھ‘‘.آگے حضرت علی ؓکے متعلق بھی لکھا ہے.لیکن میں اسے نہیں سمجھا اس لئے اسے چھوڑتاہوں.ہر اک مسلمان اس امر کو سمجھ سکتا ہے کہ اس افسانے کے پردہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے واقعہ، حضرت عائشہؓ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسواک چبا کر دینے کے واقعہ اور حضرت زینب ؓکے نکاح کے واقعہ کی طرف اشارہ کر کے افتراء اور جھوٹ کی نجاست منہ مار کر اور اصل واقعات کو بگاڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المومنین رضی الله عنه کو ایسی گندی گالیاں دی گئی ہیں کہ شاید ایک چوڑھا کی اس قسم کی گالیاں دینے سے دریغ کرے گا.لیکن اِن دشمنان ِاسلام کو آج ہماری ساری قوم کا اس قدر بھی پاس نہیں رہا جس قدر گہ ایک معمولی آدمی کے احساسات کا ہوتا ہے.اور اس قسم کے مصنفین میں اس قدر بھی شرافت نہیں رہی جس قدر کہ ایک چوڑھے میں ہوتی ہے؟ کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اورمصیبت کا دن آ سکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ جاری بے کسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے.کیا ہمارے ہمسائیوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم قه تبي و املی کواپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ ان پاکبازوں کے سردار کی جوتوں کی خاک پر بھی فدا ہے.اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا.ہماری جانیں حاضر ہیں، ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں، جس قدر چاہیں ہمیں دُکھ دے لیں لیکن خدارا نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کر آپؐ کی ہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس ذات بابرکات سے ہمیں اس قدر تعلق اور وابستگی ہے کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم کبھی صلح نہیں کر سکتے.ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہوسکتی ہے.لیکن ان لوگوں سے ہرگز نہیں ہوسکتی
۵۵۳ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینے والے ہیں.بیشک و ہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں.اور پنجاب ہائیکورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے لیں.لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا ایک اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون ِفطرت ہے.وہ اپنی طاقت کی بناء پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانون قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے.اور قانون قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوئی ہے اسے بُرا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا اور اب جبکہ ہندو صاحبان کی طرف سے ہمارے رسول پاکؐ کی اس قدر ہتک کی گئی ہے کہ جس کا واہمہ بھی آج سے پہلے ہمیں نہیں ہو سکتا تھا.اور جبکہ باقی قوم نے ان لوگوں کو ملامت نہیں کی بلکہ ان کا ساتھ دیا ہے تو اب مسلمانوں سے اس وقت تک صلح کی امید رکھنی اور محبت کی توقع رکھنابالکل فضول اور عبث ہے جب تک یہ لوگ اپنے افعال پر ندامت کا اظہار نہ کریں.آہ! میں انسانی فطرت کے اس پاک اظہار کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ہم لوگ تو ہندو رشیوں اور ہندو بزرگوں کا ادب کرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں اور انہیں خدا تعالی کا برگزیدہ تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ لوگ ہمارے آقا اور سردار ؐکے متعلق اس قسم کے گندے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اس ناپاک فعل سے ذرہ بھی نہیں شرماتے.مگر میرے نزدیک اس میں ان کا قصور نہیں وہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں اب غیرت نہیں رہی.وہ کبھی کبھی بیجاجوش تو دکھا بیٹھتے ہیں.لیکن غیرت جو مستقل عمل کو اُبھارنے والی ہے ان میں کم ہے اس لئے و ہ دلیر ہو رہے ہیں.اور وہی تدابیر اختیار کر رہے ہیں جوسپین میں مسیحیوں نے اختیار کی تھیں اور وہ یہ تھیں کہ جب انہوں نے ارادہ کرلیا کہ سپین سے مسلمانوں کو نکال دیا جائے تو انہوں نے اپنی قوم کو ابھارنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا کہ بعض لوگ مساجد میں مسلمانوں کا لباس پہن کر چلے جاتے اور جب مسلمان جمع ہو جاتے تو ایک یا ایک سے زیادہ آدمی کھڑے ہو کر بے نقط گالیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالنے لگ جاتے.مسلمان ان کی تدبیرسے واقف نہ تھے بعض جوشیلے نوجوان ان کو قتل کر دیتے تو یہ سب ملک میں شور مچارہے کہ دیکھواس طرح ظالمانہ طور پر مسیحیوں کو مارا جاتا ہے.اس کارروائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب قوم بیدار ہو گئی اور اس میں ایک آگ بھڑک اُٹھی اور اس جوش سے فائدہ اٹھا کر مسیحی ریاستوں نے مسلمانوں کو جو پہلے ہی کمزور ہو رہے تھے ملک سے نکال دیا.یہٍی تدبیر مذکورہ بالا قسم کی ہندو مصنفّین استعمال کر رہے ہیں.وہ مسلمانوں کو اس
۵۵۴ قدر جوش دلانا چاہتے ہیں کہ مسلمان آپے سے باہر ہو کر خونریزی پر اُتر آئیں.اور اس طرح انہیں اپنی سنگھٹن میں مدد ملے.لیکن کیا مسلمان اس دھوکے میں آئیں گے ؟ آخر سوامی شردھانند کے قتل سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا خونریزی ہرگز کوئی نفع نہیں دے سکتی.وہ اخلاقی اور تمدنی طور پر قوم کو سخت نقصان پہنچاتی ہے.ہر مسلمانوں کو اس قسم کی تحریروں سے ضرور واقف ہونا چاہے.لیکن اپنے جوشوں کو دبا کر غیرت پیدا کرنی چاہے.اور سوچنا چاہئے کہ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر شدید حملوں کی ہندوؤں کو جرأت کیوں ہوئی ہے؟ اگر وہ اس امر غور کریں گے تو انہیں معلوم ہو گا کہ اس کا سبب صرف یہی ہے کہ ان کے نزدیک مسلمان آپ ؐکے ناخلف فرزند ہیں.پس وہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کی جرأت نہیں.پس اگر مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ ہندو قوم پر ثابت کردیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت کے قیام کے لئے ہر اک قربانی کے لئے تیار ہیں.اور اگر وہ اس امر کے لئے تیار ہوں تو انہیں یاد رکھنا چا ہے کہ اس قسم کے حملوں کا دفعیہ صرف اور صرف تین طرح ہو سکتا ہے.(1) اپنی عملی حالت کی اصلاح سے.تاکہ ہمارے عمل کو دیکھ کر ہراک دشمنِ اسلام یہ کہنے پر مجبور ہو کہ جس اُستاد کے یہ شاگرد ہیں اس کی زندگی کیا شاندار اور مزکّی ہو گی.(۲) تبلیغ کے ذریعہ سے.تاکہ جو لوگ گالیاں دینے والے ہیں ان کی تعداد خود بخود ختم ہونے لگے.اور جو پہلے گالیاں دیتے تھے اب درود پڑھنے لگیں.مکہ کے لوگوں کی گالیاں کس طرح دُور ہوئیں.اسی طرح کہ وہ اسلام کو قبول کر کے درود بھیجنے لگے.اب بھی اس دریدہ دہنی کا یہی علاج ہو سکتا ہے.اس تدبیر سے ہر اک شریف الطبع تو اسلام کی خوبیوں کا شکار ہو جائے گا.اور شریر الطیع جن کو اپنی تعداد پر گھمنڈ ہے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر خودہی ان طریقوں سے باز آجائیں گے.(۳) تیسرا طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمدنی حالت کو درست کیا جائے.ان ہندو مصنفین کو اس امر پر بھی گھمنڈ ہے کہ ان کی قوم دولتمند ہے اور گورنمنٹ میں اسے رسوخ حاصل ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ بات سچی ہے.مگر اس کی وجہ خود مسلمانوں کی غفلت ہے.مسلمان جو کچھ کماتے ہیں اسے خرچ کر دیتے ہیں.اور اکثر ہندوؤں کے مقروض ہیں اور ایک ارب کے قریب روپیہ سالانہ مسلمان ہندوؤں کو سود میں ادا کرتے ہیں اور اشیائے خوردنی کی خرید میں اس
۵۵۵ کے علاوہ روپیہ ادا کرتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندو نوگ روز بروز دولتمند ہو رہے ہیں اور مسلمان روز بروز گر رہے ہیں.وہ طاقتور ہو رہے ہیں اور یہ کمزور.پنجاب جہاں ایک ہندو کے مقابلہ میں دو مسلمان ہیں.وہاں بھی ہندوؤں کے دس روپیہ کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس بمشکل ایک ہے.اور ملازمتوں میں بھی دو دو تین تین ہندووں کے مقابلہ میں ایک ایک مسلمان بمشكل ملتا ہے.پس اس حالت کو بدلنا مسلمانوں کا اہم فرض ہے.ہر اک جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے جو چاہتا ہے کہ آپ کو گالیاں نہ دی جائیں.اس کا فرض ہے کہ بجائے وحشت دکھا کر اسلام کو بدنام کرنے کے صحابہ کرام ؓکی طرح غیرت دکھائے.اور دائمی قربانی سے اسلام کو طاقت دے.ہر اک مسلمان کو چاہئے کہ جس طرح ہندو مسلمانوں سے چُھوت کرتے ہیں وہ بھی ہندووں سے چُھوت کرے اور سب کھانے کی چیزیں مسلمانوں ہی کے ہاں سے خریدے.اور روسری اشیاء کے لئے بھی ممکن حد تک مسلمانوں کی دکانیں کھلوانے کے لئے کوشش کرے اور ان کی امداد کا خیال رکھے.بائیکاٹ کو میں ذاتی طور پر ناپسند کرتا ہوں.لیکن یہ بائیکاٹ نہیں بلکہ تر جیح ہے اور ترجیح پر کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا.میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت ہر اک وہ شخص جو اسلام سے محبت کا دعویٰ رکھتا ہے.اب غفلت کی نیند کو ترک کر کے عمل کے میدان میں آ جائے گا.اور ہندوؤں کی تمدنی غلامی سے آزاد ہونے اور دوسروں کو آزاد کرانے کی پوری کوشش کرے گا.تاکہ ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی غیرت مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اور وہ آپ کی عزت کے قیام کے لئے مستقل قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر مسلمان اس کام پر آمادہ ہو جائیں گے تو یقینا ً وہ ہندو جو دل سے بُرے نہیں ہیں لیکن بعض شورید و هر لوگوں کے شور سے ڈرے ہوئے ہیں اس خطرہ کو محسوس کریں گے جو تمدنی طور پر ان کے سامنے پیش ہے اور وہ خود ہی ان لوگوں کو باز رکھیں گے.اور حکومت کو بھی یہ احساس ہو گا کہ مسلمان بھی سنجیدگی سے کسی کام کے کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں اور محض وقتی جوش کا شکار نہیں ہوتے اور اس کے افسروں کے دلوں میں بھی مسلمانوں کا احترام پیدا ہو گا اور وہ خیال کریں گے کہ یہ ایک عقلمند قوم ہے اور اپنے جوشوں کو دبا کر اور امن کے قیام کو اپنا اولین مقصد قرار دے کر اپنے مذہبی فوائد کی نگہداشت کرتی ہے.اے بھائیو! میں درد مند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑ پڑتا ہے.جو لڑ پڑتا ہے وہ بُزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے.اور وہ ہے جو ایک مستقل ار ادہ کر لیتا ہے
۵۵۶ اور جب تک اس کو پورا نہ کرلے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا.پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں تینوں باتوں کا عہد کرلو.اول یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.دوسرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنےمال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.اور تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے اور اس وقت تک بس نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان اس کچل دینے والی غلامی سے کلی آزادنہ ہو جائیں.اور جب آپ یہ عہد کر لیں تو پھر ساتھ ہی اس کے مطابق اپنی زندگی بھی بسر کرنے لگیں.یہی وہ سچا اور حقیقی بدلہ ہے ان گالیوں کا جو اس وقت بعض ہندو مصنفین کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قدثه نفى و آملی کو دی جاتی ہیں.اور یہی وہ سچا اور حقیقی علاج ہے جس سے بغیر فساد اور بدامنی پیدا کرنے کے مسلمان خود طاقت پکڑ سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں.ورنہ اس وقت تر نہ اپنے کام کے ہیں نہ دوسرے کے کام کے.اور وہ قوم ہے کبھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیاسے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کر سکتی؟ کیا کوئی درد مند دل ہے جو اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنے علاقہ کی درستی کی طرف توجہ کرے اور خدا تعالی کے فضلوں کا وارث ہو؟ وأخر دعؤانا أن الحمد لله رب العلمين- والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور ۲۹.۵.۱۹۲۷ء الفضل ۱۰ جون ۱۹۲۷ء) -
۵۵۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا تحفّظ اور ہمارا فرض از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۵۵۹ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی علىرسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھو الناصر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض (تحریر فرمودہ مورخہ ۲۳ جون ۱۹۲۷ء) ابھی پانچ ہی دن ہوئے کہ سید دلاور شاہ صاحب بخاری اپنے ایک عزیز کے ساتھ اس نوٹس کے متعلق جو ہائی کورٹ کی طرف سے ’’ مستعفی ہو جاؤ‘‘ والے مضمون کے متعلق انہیں ملا تھا میرے پاس قادیان تشریف لائے اور مجھ سے دریافت کیا کہ انہیں اس موقع پر کیا کرنا چاہئے.اور ضمناً ذکر کیا کہ بعض لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ اظہار افسوس کر دینا چاہیے.میں نے انہیں کہا کہ ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ صوبہ کی عدالت کا مناسب احترام کریں لیکن جبکہ ایک مضمون آپ نے دیانت داری سے لکھا ہے اور اس میں صرف ان خیالات کی ترجمانی کی ہے جو اس وقت ہر ایک مسلمان کے دل میں اٹھ رہے ہیں تو اب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور کیا ہو سکتا ہے.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کی عزت کے معاملہ میں کسی کے معارض بیان پر بغیر آواز اُٹھانے کے نہیں رہ سکتے.میں قانون تو جانتا نہیں اس کے متعلق تو آپ قانون دان لوگوں سے مشورہ لیں مگر میری طرفسے آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے جواب میں یہ لکھوا دیں کہ اگر ہائی کورٹ کے ججوں کے نزدیک کنور دلیپ سنگھ صاحب کی عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی میں کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں.تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہوں.جیسا کہ سب احباب کو معلوم ہے اس مضمون کو نہایت خوبصورت الفاظ میں سید دلاور شاہ
۵۶۰ صاحب نے اپنے جواب کے آخر میں درج کر دیا اور مومنانہ غیرت کا تقاضا یہی تھاکہ وہ اپنا حقیقی جواب و ہی دیتے جو انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں دیا.قانون کا حیرت انگیز نقص کل خبر آگئی ہے کہ اس مقدمہ کافیصلہ ہو گیا ہے.اور سید دلاور شاہ صاحب بخاری ایڈیٹر مسلم آؤٹ لک کو چھ ماہ قید اور ساڑھے سات سو روپیہ جرمانہ ہوا ہے اور مولوی نور الحق صاحب پروپرائیٹر کو تین ماہ قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ ہوا ہے.ہمیں قانون کے اس نقص پر تو حیرت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداء تقيئ و روحی کی عزت پر ناپاک سے ناپاک حملہ کرنے والوں پر تو مہینوں مقدمہ چلے اور آخر میں براءت ہو اور ہائی کورٹ کے متعلق ایک ایسی بات لکھنے پر جو صرف تاویلاً اس کی ہتک کہلا سکتی ہے آٹھ دن کے اندر اندر دو معزّز شخص جیل خانہ میں بھیج دیئے جائیں.بہ بیں تفاوت رو از کُجاست تابہ کجا.قید ہونے والوں کی بہادری ہمارے بھائی آج جیل خانہ میں ہیں لیکن اپنے نفس کے لئے نہیں ، اپنی عزت کے لئے نہیں، کسی دنیوی غرض کے لئے نہیں، اس وجہ سے نہیں کہ وہ حکومت کو کمزور کرنا چاہتے تھے نہ اس لئے کہ و ہ کسی کے حق کو دبانا چاہتے تھے بلکہ صرف اس لئے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت کے لئے غیرت کا اظہار کیا.ان کی یہ بہادرانہ رَوش ہمیشہ کے لئے یادگار رہے گی کہ دونوں نے سارا بوجھ اپنے ہی سر پر اُٹھانے کی کوشش کی ہے اور دوسرے کی براءت کی کوشش کی ہے.اس مصیبت کی ان میں سے یہ ایک ایسی خوشبو اُٹھی ہے کہ باوجود صدمہ زدہ ہونے کے دماغ معطر ہو رہا ہے.گورنمنٹ کے جیل خانے بے وفاؤں اور غداروں کے لئے تیار کئے گئے تھے لیکن آج انہیں دو وفادار شخص جنہوں نے دوجہان کے سردار سے بھی وفاداری کی اور گورنمنٹ کی بھی وفاداری کی زینت دے رہے ہیں.کیا مسلم آؤٹ لُک نے عدالت کی توہین کی محترم ججان نے فیصلہ کیا ہے کہ ان دونوں صاحبان نے یہ کہہ کر کہ یہ فیصلہ غیر معمولی ہے اور غیر معمولی حالات میں ہوا ہے اور اس کی تحقیق ہونی چاہئے عدالت عالیہ کی ہتک کی ہے.مگر میرے نزدیک عدالت عالیہ کی یہ رائے درست نہیں.یہ کہنا کہ جن حالات میں یہ فیصلہ ہوا ہے اس سے لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں اس
۵۶۱ لئے اس کی تحقیق کرنی چاہئے اور یہ کہنا کہ جج نے کوئی بددیانتی کی ہے اس میں بہت بڑا فرق ہے.اور میں خیال کرتا ہوں کہ عدالت عالیہ پنجاب بیسیوں مقدمات میں اس فرق کو تسلیم کر چکی ہو گی.کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ملک معظّم کی وفادار رعایا کے کروڑوں افراد اس فیصلہ پر جس کا حوالہ مسلم آؤٹ لک نے دیا حیران و انگشت بدنداں ہیں اور کیا عدالت عالیہ کا یہ فرض نہیں کہ جب ملک کی ایک بڑی تعداد ایک فیصلے پر حیران ہو اور خود گورنمنٹ بھی جو اس قانون کی وضع کرنے والی ہے اس کے عجیب اور خلاف امید ہونے کا اظہار کرے تو اس کے متعلق ایسے حالات بہم پہنچائے کہ جس سے پبلک کی تسلّی ہو اور اس کی گھبراہٹ دور ہو سکے.اس میں کیا شک ہے.کہ ملک کا امن عدالت عالیہ پر اعتبار سے قائم رہ سکتا ہے.پس اس وجہ سے عدالت عالیہ کو معمولی شکوک کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور انسانی فطرت کی کمزوریوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے.سزا نادرست ہے عدالت عالیہ کو خواہ کسی فیصلہ کی صحت پر کس قدر بھی یقین ہو اور وہ ایک جج کی دیانت پر خواہ کس قدر ہی اعتماد رکھتی ہو اس سے پبلک کی تسلّی تو نہیں ہو جاتی اور اس سے پبلک میں عدالت عالیہ کا وقار تو قائم نہیں ہو جاتا.پس عدالت عالیہ کو ایسے مواقع پر خود ہی پبلک کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے اور اس خیال سے تسلی نہیں لینی چاہئے کہ لوگوں کے خیالات غلط ہیں.خیالات خواہ کس قدر ہی غلط ہوں مگر جب وہ پیدا ہو جائیں تو بے امنی پیدا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتے.اور عدالت کا فرض ہے کہ نہ صرف لوگوں کے خیالات کی درستی کی غرض سے بلکہ خود اپنی عزت کو صدمہ سے بچانے کے لئے وہ کوئی ایسی تدبیر اختیار کرے جس سے لوگوں کے شبہات کے دور ہونے کا موقع نکل آئے.مسلم آؤٹ لک نے صرف اس قسم کی تدبیر اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا.پس فاضل ججان کا اس کے ایڈیٹر اور مالک کو سزا دینا اور سخت سزا دینا میری رائے میں درست نہ تھا.آؤٹ لک کا مطالبہ ہائی کورٹ کی خد مت تھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس مقدمہ کے متعلق غیر معمولی واقعات موجود تھے.دفعہ ۵۳).الف ہر صوبہ کی گورنمنٹ کے نزدیک ایک خاص مفہوم رکھتا تھا اور پبلک اس مفہوم سے متفق تھی.غالباً مختلف صوبوں میں مختلف گورنمنٹیں اس دفعہ کے ماتحت اگر مقدمات چلانہ چکی تھیں تو لوگوں کو اس امریکی دھمکی ضرور دے چکی تھیں اور لوگ بھی اس کا یہی مفہوم سمجھ کر معافیاں مانگ مانگ کر اپنی جان بچارہے تھے.اگر ایک ہی وقت
۵۶۲ میں قانون کی وضع کرنے والی جماعت اور جن کے لئے وہ قانون بنا تھا سب کے سب اس قانون کے ایک معنوں پر متفق تھے بلکہ جیسا کہ ایک بعد کے فیصلہ سے معلوم ہوا ہے ایک ہمسایہ صوبہ کی عدالت عالیہ بھی اس قانون کا وہی مفہوم لیتی تھی تو کیا اس صورت میں پبلک میں ہیجان پیدا ہونا ایک لازمی امر نہ تھا.کیا پبلک اس موقع پر یہ نتیجہ نہیں نکالے گی کہ غیر معمولی حالات میں ایک غیر معمولی فیصلہ ہوا ہے.اور کیا خود ہائی کورٹ کی عزت کے قیام کے لئے اس امر پر روشنی ڈالنا ہائی کورٹ کے لئے ضروری نہ تھا.اگر بغیر اس کے کہ کنور صاحب پر بد دیانتی کا الزام لگایا جائے پبلک کے لئے یہ فیصلہ استعجاب و حیرت کا موجب تھا تو پھر مسلم آؤٹ لک کا مطالبہ عدالت عالیہ کی ایک بہت بڑی خدمت تھی نہ کہ جُرم جس کی پاداش میں اسے سزا دی جائے.معاملہ کی حقیقی حیثیت اگر معاملہ کسی معمولی قانون کی تشریح کا ہوتا تو اور بات تھی.مگر یہاں تو معاملہ یہ تھا کہ ایک قانون کے ایک معنے سالہا سال سے ثابت شدہ سمجھے گئے تھے گورنمنٹ کی نظر میں بھی اور پاک کی نگاہ میں بھی اور کنور صاحب نے ان مسلّمہ معنوں کو غلط قرار دیا تھا.پس ایسے وقت میں اگر مسلم آؤٹ لک نے اپنی آواز اُٹهائی خصوصا ً اس حال میں کہ اس فیصلے سے مسلمانوں کے دل مجروح ہو رہے تھے تو اگر فاضل ججان کے نزدیک وہ آواز ہے موقع بھی تھی تو زیادہ سے زیادہ اسے نامناسب قرار دینا چاہئے تھا نہ یہ کہ وہ اس قدر سخت سزا دیتے.پھر ہائی کورٹ کو دیکھنا چاہئے کہ کیا اس سزا سے ہائی کورٹ کی وہ عزت قائم ہو گئی جسے وہ قائم کرنا چاہتا تھا.اس سزا کے بعد تو مسلمانوں کے دل اور بھی غم و غصہ سے بھر گئے ہیں.اور وہ پہلے تو صرف ایک جج کے فیصلہ کی نوعیت پر معترض نے اب عدالت عالیہ کے بہت سے ججوں کے متفقہ فیصلہ کے وہ اپنے مفاد اور منشائے قانون کے سخت خلاف سمجھ رہے ہیں.پس بجاست فائدہ کے اس فیصلہ سے نقصان پہنچا ہے.اور خدا تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.کنور صاحب کا فیصلہ اور مسلمانوں کا جوش میں کنور صاحب کے فیصلہ کے متعلق صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک فاضل ججوں نے اس امر کو نہیں سمجھا کہ کنور صاحب کے فیصلہ کے خلاف مسلمانوں کے دلوں میں جوش کیوں ہے.اگر وہ ایک مسلمان کی حیثیت میں اپنے آپ کو فرض کرتے جس طرح کہ مسٹر جسٹس دلال نے اپنے آپ کو فرض کیا تھا تو یقینا ًوہ صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتے.
۵۶۳ گو اس وقت تک مسلمان اس کو واضح الفاظ میں بیان نہ کر سکتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلہ میں ہر ایک مسلمان اپنی ہتک محسوس کرتا ہے.وہ یہ نہیں خیال کرتا کہ اس فیصلہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی گئی ہے کیونکہ کنور صاحب نے صاف لکھا ہے کہ آپ کی نسبت ہتک آمیز الفاظ لکھنے والے کو سزا ملنی چاہئے.(گو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس فیصلہ سے آپ کی ہتک کا دروازہ کھل گیا ہے) مگر وہ یہ ضرور خیال کرتا ہے کہ اس فیصلہ کا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان کو یہ تو حق ہے کہ اگر اسے کوئی شخص گالی دے تو اس پر وہ ناراض ہو لیکن اسے اس شخص سے نفرت کرنے کا حق نہیں ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے.اگر اس موقع پر منافرت پیدا ہوتی ہے تو یہ اس کی اشتعال انگیز طبیعت کا نتیجہ ہے.اس کے فطری تقاضوں کا نتیجہ نہیں ہے.مسلمان اور حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اب ایک مسلمان کے نزدیک یہ خیال کہ اس کی نسبت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر خود اُسے گالی دی جائے تو اُسے غصہ آجانا چاہئے لیکن اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جائے تو اس کے دل میں جائز طور پر منافرت کے جذبات نہیں پیدا ہونے چاہئیں اس کی سب سے بڑی ہتک ہے.وہ اسے بے غیرتی کا اور سب سے بڑی بے غیرتی کا الزام سمجھتا ہے اور ایک منٹ کے لئے بھی اس کو برداشت نہیں کر سکتا.حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذات کے متعلق سخت کلامی کو اکثر اوقات معافی کے قابل ملتا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فدا نفسى وروحی کے متعلق ایک ادنی ٰ کلمہ گستاخی کا سن کر بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ ایسا کلمہ استعمال کرنے والا اپنی قوم کی تائید اپنے ساتھ شامل رکھتا ہے تو وہ اس قوم کو بھی نہایت ہی حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے.پس جب ایک مسلمان یہ سنتا ہے کہ ایک فاضل جج قانون منافرت بین الا قوام کے معنے صرف یہ لیتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بہ حیثیت قوم کچھ نہ کیا جائے اور یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کچھ کہنا باعث منافرت نہیں کہلا سکتا تو وہ اس میں اپنی ہتک سمجھتا ہے اور اپنے ایمان پر حملہ خیال کرتا ہے اورجج کی نیت اچھے ہونے یا بُرے ہونے کا اس میں کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر فاضل ججان ہائی کورٹ مسلمانوں کے اس احساس کو مدنظر رکھتے تو انہیں مسلم آؤٹ لک کے مضمون کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہو جاتا.مگر افسوس ہے کہ انہوں نے مضمون کے مختلف پہلوؤں پر غور نہیں کیا اور یہی سمجھ لیا کہ اس میں ایک جج پر بد نیتی کا الزام لگایا گیا ہے اور ایک ایسا فیصلہ کر دیا جس سے مسلمانوں
۵۶۴ کے دل اور بھی مجروح ہو گئے ہیں اور ان کی طبائع میں اور بھی جوش پیدا ہو گیا ہے.اور اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی کریں جو ان کے نزدیک صرف اسلام کی عزت کی حفاظت کے لئے جیل خانہ گئے ہیں.اور ہر سچا مسلمان اس وقت تک صبر نہیں کرے گا جب تک کہ وہ اس بارہ میں اپنے فرض کو ادا نہ کرے.اب ہمیں کیا کرنا چاہئے فیصلہ کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.اور پیشتر اس کے کہ میں اپنے خیالات کو بیان کرو میں ان تین امور پر جو اس وقت تک بطور علاج کے بیان کے گئے بحث کرنی چاہتا ہوں.عدالتوں سے مقاطعہ ایک علاج بعض لوگوں نے یہ تجویز کیا ہے کہ ہم عدالت عالیہ سے مقاطعہ کریں.میرے نزدیک علاج وہ ہوتا ہے جس کا ہمیں فائدہ پہنچے.لیکن اگر اس علاج پر غور کیا جائے تو بجائے فائدہ کے ہمیں اس سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس امر کے متعلق تو خود فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں جو ہماری ذات سے تعلق رکھتا ہو لیکن جو امردو سروں کی ذات سے تعلق رکھتا ہو.اس پر ہماری نیتوں کا کچھ اثر نہیں ہو سکتا.مسلمانوں کو تین قسم کے مقدمات پیش آسکتے ہیں.ایک وہ مقدمات جو باہم مسلمانوں میں ہوں.خواہ مالی حقوق کے متعلق ہوں یا فوجداری ہوں.مگر قابل دست اندازی پولیس نہ ہوں.ایسے مقدمات و قطع نظر اس فیصلہ کے مسلمانوں میں آپس میں ہی طے ہونے چاہئیں.اگر ہم اپنے جھگڑے خود فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے تو ہم در حقیقت اس نظام اسلامی سے بے بہرہ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم فرمایا تھا.ہماری جماعت بڑی سختی سے اس امر کا لحاظ رکھتی ہے کہ تمام مالی مقدمات اور تمام فوجداری اختلافات جن کو برطانوی عدالت میں لے جانے کے نام قانوناً پابند نہیں اپنی جماعت کے قاضی ہی طے کریں.اس قسم کے ایک واقعہ کے متعلق پچھلے دنوں اخبارات میں ایک مضمون بطور اعتراض شائع ہوا تھا.مگر میرے نزدیک یہ امر قابل اعتراض نہیں بلکہ قومی اتحاد کے لئے ضروری ہے اور قومی دولت اس سے محفوظ رہ جاتی ہے.دوسری قسم کے مقدمات وہ ہو سکتے ہیں جو گو دو مسلمان فریق میں ہوں لیکن قابل دست اندازی پولیس ہوں اور قابل راضی نامہ ہوں.اور تیسری قسم کے مقدمات وہ ہیں جو مسلمانوں اور
۵۶۵ غیر قوموں میں ہوں.ان دونوں قسم کے مقدمات میں ہی عدالت کا مقاطعہ مقاطعہ کہلا سکتا ہے.لیکن کیا ایسا مقاطعہ ہم سے ممکن ہے؟ ایک وقت میں ایسے سینکڑوں کیس عدالت میں داخل ہوتے ہیں جن کا ہزاروں مسلمانوں پر اثر پڑتا ہے.پس کیا یہ بات اسلام کے فائدہ کی ہو گی کہ ہزاروں غریب مسلمان اس مقاطعہ کی وجہ سے جیل خانہ میں جائیں اور ہزاروں مسکینوں، غریبوں، بیواؤں، یتیموں کے حقوق عدمِ پیروی کی وجہ سے تلف ہو کر غیر قوموں کو مل جائیں.اس طریق کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ مسلمان جو آگے ہی اقتصادی طور پر تباہ ہو رہے ہیں بالکل تباہ ہو جائیں گے.پس ہمیں اس تدبیر کو ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کی صورت پیدا نہیں ہوتی.تکرار فعل دوسرا طریق یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اس فعل کو متواتر کریں جو مسلم آؤٹ لک والوں نے کیا ہے.میرے نزدیک یہ طریقی بھی عمل اور قانون شکنی کے (پہلے یہ فعل قانون شکنی نہ تھا، لیکن اب ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد یہ فعل قانون شکنی ہو گیا ہے) اپنی ذات میں بے فائدہ ہے.ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہائی کورٹ اس امر کاپابند نہیں کہ اس شخص پر مقدمہ چلائے جو اسی کی نظر میں عدالت کی ہتک کرنے والا ہے.اگر وہ اس کا پابند ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ لاکھوں مسلمان مسلم آؤٹ لک کی نقل کریں.ہائی کورٹ کہاں تک لوگوں کو جیل خانہ میں ڈالے گا.آخر تنگ آجائے گا.لیکن جب کہ وہ ہر ایک پر مقدمہ چلانے کا پابند نہیں تو وہ صرف یہ طریق اختیار کرے گا کہ بڑے بڑے لوگوں کو پکڑے گا دوسروں کے فعل کو نظر انداز کر دے گا.اس سے صرف مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور کچھ فائدہ نہ ہو گا.مثلاً مسلمانوں کے لاہور میں چار روزانہ اخبارات ہیں اگر روزانہ ان میں مسلم آؤٹ لک کے نوٹ کے ہم معنی نوٹ شائع ہوں تو ہر روز چار آدمیوں پر ہائیکورٹ مقدمہ چلائے گا ان چار آدمیوں کو یا آٹھ آدمیوں کو روزانہ گرفتار کر کے بھی ہائی کورٹ کو کیا نقصان پہنچے گا.اور پھر اس طریق سے اسلام کو کیا فائدہ ہو گا.اگر چھوٹے چھوٹے آدمیوں کو اس امر کے لئے آگے بھیجا گیا تو یہ قابل شرم ہو گا اور انتہائی درجہ کی قومی غداری ہوگی.اور اگر بڑے بڑے سب لوگ اس طرح جیل خانوں میں چلے گئے تو اسلام کو نقصان پہنچانے والے اور بھی خوش ہوں گے.انہیں ہندوستان میں اسلام کو نقصان پہنچانے اور اپنی من مانی کارروائیاں کرنے کا اور کبھی موقع مل جائے گلے پس یہ تدبیر بھی قابل عمل نہیں ہے.سکھوں کی کوششوں پر قیاس نہیں کرنا ہے کیونکہ وہاں عملی جدوجہد تھی.یہ ایک گوردوارہ میں زبردستی
۵۶۶ گھس جاتے تھے.اگر سرکار سب کو نہ پکڑتی تو گوردوارہ ہاتھ سے جاتا تھا.اگر پکڑتی تو جیل خانے کفایت نہ کرتے تھے.لیکن یہاں تو صرف بعض الفاظ کے دُہرانے کا سوال ہے.بغیر کسی قسم کے نقصان کے خطرہ کے ہائی کورٹ ہزاروں آدمیوں کے فعل کو نظر انداز کر سکتا ہے.سِول نافرمانی تیسری تدبیر سِول نافرمانی بتائی جاتی ہے.علاوہ اس کے کہ میں اس تدبیرکامذہباً مخالف ہوں عقلا ًبھی میرے نزدیک اس تدبیر کو اختیار کرنا درست نہیں.سِول نافرمانی ہائی کورٹ کے خلاف نہ ہو گی بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ہو گی اور گورنمنٹ کا اس معاملہ میں کوئی قصور نہیں ہے.گورنمنٹ اس وقت اس معاملے میں ہمارے ساتھ ہے.گورنر صوبہ بڑے زور دار الفاظ میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر استعجاب ظاہر کر چکے ہیں اور اس کو منسوخ کرانے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں.وہ بے شک بوجہ غیرمذہب کے پیرو ہونے کے اورقانون کی الجھنوں کے اس طرح جلدی سے عمل نہیں کر سکتے جس طرح کہ ہمارے دل چاہتے ہیں.لیکن وہ ظاہر کر چکے ہیں کہ ان کا مقصد اور ہمارا مقصد اس قانون کے بارہ میں ایک ہی ہے.پس سول نافرمانی کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم گورنمنٹ کو جو اس معاملہ میں ہم سے اتفاق رکھتی ہے اپنا مخالف بنا لیں.لیکن سول نافرمانی چونکہ گورنمنٹ کے خلاف ہو گی وہ اس چیلنج کو قبول کئے بغیر نہیں رہ سکے گی اور اس طرح ہم اپنے ہاتھوں سے ہندوؤں کے تیار کردہ گڑھے میں گرا جائیں گے جس میں ہمیں گرانا ان کی عین خواہش ہے.ہمیں ایک لمحہ کے لئے بھی اس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا جھگڑا اس وقت ہندوؤں سے ہے اور ان میں بھی در حقیقت آریہ سماجیوں سے.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں کامل آزادی نہیں حاصل کر سکتے جب تک کہ مسلمان اس ملک میں باقی ہیں.وہ ہندوستان میں برہمنک قانون کو جاری کرنا چاتے ہیں جو برطانوی اور اسلا می قانون آزادی کے بالکل برخلاف ہے.اور وہ جانتے ہیں کہ اس اختلاف کی وجہ سے جب بھی ہندو اپنے مقصد کو پورا کرنا چاہیں گے، ، انگریز اور مسلمان ملکر ان کے راستے میں روک دیں گے کہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان دو طاقتوں کے مقابلہ میں وہ کچھ نہیں کر سکتے.پس وہ پہلے مسلمانوں کو کمزور کر کے نکّما کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد وہ انگریزوں سے نپٹیں گے.مگر اس تحریک کے بانی ہوشیار بھی بہت ہیں.وہ مسلمانوں اور انگریزوں کو لڑوانا چاہتے ہیں اور بسا اوقات انگریز ان کے قریب میں آکر مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں.اور بعض اوقات مسلمان کی بات پر مشتعل ہو کر انگریزوں کو اپنا مخالف خیال کرنے لگتے ہیں.مگر
۵۶۷ ہمیں اس دھوکے میں نہیں آنا چاہئے.میرے نزدیک انگریزوں اور مسلمانوں کے اکثر اختلافات کا اب فیصلہ ہو چکا ہے.آئنده تمدنی جنگ میں یہ دونوں مل کر اپنے اپنے حقوق کی حفاظت اچھی طرح کر سکتے ہیں.انگلستان کی نجات مسلمانوں سے صلح رکھنے میں ہے اور مسلمانوں کا فائدہ انگریزوں سے تعاون کرنے میں.ہم سب دنیا سے نہیں لڑ سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مشرکوں کے مقابلہ میں اہل کتاب سے معاہدہ کیا تھا.۱؎ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم تدابیر اختیار نہ کریں اور اس میں کوئی شک نہیں.کہ باوجود بیسیوں قسم کے عیوب کے انگریزی قوم تمام موجودہ غیر اسلامی اقوام سے ہمارے زیادہ قریب ہے.اور در حقیقت دوسری قوم صرف روسیوں کی ہے جو اسلام کو سختی سے مٹا رہی ہے جیسا کہ احمدی مبلّغوں اور دوسرے بہت سے ایسے مسلمانوں کی عینی شہادت سے ثابت ہے جو پہلے برطانوی حکومت کے سخت دشمن تھے.مگر میں کہتا ہوں کہ جو لوگ سیاسی طور پر میرے اس خیال سے متفق نہ ہوں ان کو بھی ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ اس موجودہ مسئلہ میں ہمیں برطانیہ کے قائم مقاموں سے کوئی جنگ نہیں ہے.میری سکیم جس قدر پیش کردہ تجاویز ہیں ان کے نقائص بیان کرنے کے بعد میں اپنی تجاویز کو پیش کرتا ہوں.میرے نزدیک ہمیں قدم اُٹھانے سے پہلے ہی غور کر لینا چاہئے کہ ہمارا مقصد اس وقت کیا ہے.میرے نزدیک ہمارا مقصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت ہے.مسلم آؤٹ لک کا معاملہ اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا ایک ظہور ہے.پس ہمیں بجائے اس پر اپنا زیادہ وقت خرچ کرنے کے اس سے جس قدر ممکن ہو فائدہ اٹھانا چاہئے.مسلم آؤٹ لک کے فیصلہ نے مسلمانوں کی آنکھیں ان کی بے بسی کے متعلق کھولدی ہیں.لوہا گرم ہے.اس کو اس طرح کُوٹنا ہمارا کام ہے کہ اس سے اسلام کے لئے کار آمد اشیاء تیار ہو سکیں.ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اس کام کو جاری ہی نہ رکھیں بلکہ ترقی دیں جو مسلم آؤٹ لك کرتا تھا.اور اس کے لئے میں اپنی جماعت کی طرف سے آٹھ سو روپیہ کی امداد کا اعلان کرتا ہوں.میرے نزدیک کم سے کم پانچ ہزار روپیہ اس کام کے لئے جمع کر دینا چاہئے اور یہ روپیہ مسلم آؤٹ لُک کی ترقی پر خرچ ہونا چاہئے اور مسلم آؤٹ لک کے خریداروں کے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.ہندوؤں کو یہ جرأت کیوں ہوئی؟ اس کے بعد اصل معاملہ کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوسرے بزرگان اسلام کو عموماً
۵۶۸ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصاً گالیاں دینے کی جرات ہندوؤں کو صرف ان کے اقتصادی اور تمدنی غلبہ کی وجہ سے ہے.وہ اس غلبہ کے بعد ہماری غیرت کو مٹا کر ہمیں شُودر بنانا چاہتے ہیں.میں ان پر اعتراض نہیں کرتا.ہر ایک قوم کا حق ہے کہ اپنے مفاد کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرے لیکن ساتھ ہی ہر اس قوم کا بھی جسم کے مفاد کے خلاف اس کے کاموں کا اثر پڑتا ہو حق ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کرے.اگر ہندوؤں کا حق ہے کہ ہم اپنی دولت کو بڑھانے کے لئے مسلمانوں سے چُھوت چھات کریں اور اپنی قوم کی ہر ممکن ذریعہ سے پرورش کریں تو کیا وجہ ہےکہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہ ہو.مجھے تعجب آتا ہے کہ ہندو خود چُھوت چھات کرتے ہیں اور سنگھٹن کی تائید میں لیکچر دیتے پھرتے ہیں.لیکن جس وقت مسلمان وہی کام کرتے ہیں تو شور مچا دیتے ہیں کہ دیکھو یہ ملک کے امن کو بگاڑتے ہیں.گویا ان کے نزدیک ہر کوشش جو مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے کی جائے وہ ملک کے امن کے خلاف ہے.مگر ہم نے اس امن کو کیا کرنا ہے جس سے ہماری ہستی ہی مٹ جائے.اور پھر اس فساد کے ذمہ دار ہندو لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی بیداری کی وجہ سے پیدا ہو نہ کہ مسلمان.وہ شخص جو اپنے حقوق کی حفاظت کرتا ہے وہ کسی طرح مفسد کہلا سکتا ہے.مفسد وہ ہو گا جو اسے اس کے جائز حق کے لینے سے روکتا ہے.اصل میں یہ شور ہی بتاتا ہے کہ ہندو قوم اس تدبیر سے سب سے زیادہ گھبراتی ہے.پس اس تدبیر پر ہمیں سب سے زیادہ زور دینا چاہئے.اور اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلی جدوجہد ہماری یہی ہونی چاہئے کہ ہم ہندوؤں سے چُھوت چھات کریں.مسلمانوں کا روپیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خرچ کیاجارہا ہے میں تمام ان مسلمانوں سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں رکھتے ہیں پوچھتا ہوں کہ کبھی اُنہوں نے یہ بھی خیال کیا ہے کہ رنگیلا رسول وچتر جیون اور ورتمان و وغیرہ قسم کی کتا ب اور رسالے انہی کے روپیہ سے چھاپے جاتے ہیں اور انہی کے روپیہ سے ان کتب کے لکھنے والوں کی مدافعت کی جاتی ہے.اگر ان میں واقعہ میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے لئے غیرت ہے تو وہ کیوں وہ ہتھیار ہندوؤں کو مہیا کر کے دیتے ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ کرتے ہیں.مسلمانوں کی تمدنی بربادی ہی ان سب خرابیوں کی ذمہ دار ہے اور اس کا
۵۶۹ دُور کرنا ان کا سب سے پہلا فرض ہے.اپنے روپیہ کو محفوظ کر کے وہ دیکھیں تو سہی کہ کس طرح مخالفین اسلام کی طاقت آپ ہی آپ ٹوٹ جاتی ہے اور خود ان میں پھوٹ پڑ جاتی ہے.جو لوگ آج مسلم آؤٹ لک کے بہادر ایڈیٹر اور جری مالک کے پیچھے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہیں میں ان سے کہتا ہوں آپ کا کام جیل خانہ کے باہر ہے.ان چیزوں میں ہندوؤں سے چُھوت چھات کروجن میں ہندو چُھوت کرتے ہیں اور دوسری چیزوں میں مسلمانوں کی مدد کرو تو یہ بہترین تدبیر ہوگی جس سے آپ ان جیل میں جانے والوں کی مدد کر سکیں گے اور ان کے کام کو کامیاب بنا سکیں گے.چاہئے کہ اس وقت سب جگہ کے مسلمان اس امر پر اتفاق کر لیں کہ جلد سے جلد ہر قسم کی دکانیں مسلمانوں کی نکل آئیں اور جہاں تک ہو سکے مسلمان ان ہی سے سودے خریدیں.بائیکاٹ کے طور پر نہیں بلکہ صرف ہندوؤں کی تدابیر کے جواب کے طور پر اور اپنی قوم کو اُبھارنے کے لئے.ٍ اے بھائیو! یاد رکھو کہ صرف جلسوں میں ریزولیوشن پاس کرنے سے کچھ نہ بنے گا کیونکہ ان کا کوئی مادی اثر نہیں.جیل خانوں میں جانے سے کچھ نہیں بنے گا کیونکہ اس میں خود ہمارا اپنا نقصان ہے.عقلمندوہ کام کرتا ہے جس سے اس کا فائدہ ہو.اور اس وقت اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ اس میں ہے کہ مسلمانوں کی تمدنی حالت کو درست کیا جائے.ان کی اپنی دکانیں کھولی جائیں.آڑھت بالکل ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور اس سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے.مسلمانوں کی آڑھت ہمیں مسلمانوں کی آڑھت کی دکانیں کھلوانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے.جب تک آڑھت کی دکانیں نہیں کھلیں گی کبھی مسلمان زمیندار اور دُکاندار ہیں پنپ سکتے.اند میر ہے کہ جو روپیے اس وقت ہندو تبلیغ پر خرچ ہو رہا ہے اس کا کافی حصہ مسلمانوں کے گھروں سے خاص اس غرض سے جاتا ہے.عام طور پر ہندو آڑھتی ہر مسلمان زمیندار سے ہر سودے کے وقت ایک مقررہ رقم لیتا ہے کہ اتنی گئوشالہ کے لئے ہے، اس قدر دھرم ارتھ کے لئے، اتنی یتیموں کے لئے.اور اس سے مراد مسلمان یتیم خانے اور مسلمانوں کے کام نہیں ہوتے بلکہ اس ہندوؤں کے کام ہوتے ہیں.اب غور کرو کہ پنجاب میں کس قدر رقم مسلمان خالص ہندو کاموں کے لئے دیتے ہیں.پس جب تک مسلمان ان رقوم کو بند نہ کریں گے اور اپنی رقوم کو اسلام کی ترقی کے لئے خرچ نہیں کریں گے وہ پروپیگنڈا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف ہو رہا ہے کبھی بند نہ ہو گا.لوگ کہتے ہیں مٹھائیاں و برف وغیرہ کہاں سے لیں.میں کہتا ہوں.اسے بھائیو! تمہارے بھائی اسلام کی عزت کے لئے برفوں
۵۷۰ سے نہیں اپنے بیوی بچوں کی صحبتوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں کیا تم برف اور مٹھائی ترک نہیں کر سکتے.اور کیا مسلمان کا دماغ اور سب کام کر سکتا ہے مگر یہ کام نہیں کر سکتے.تبلیغ اسلام دوسرا کام جو حقیقی کام ہے لیکن ابتداءً اس کا اثر ہندوؤں پر ایسا نہ ہو گا جیسا کہ پہلے کام کا، وہ تبلیغ اسلام ہے.ہندوؤں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف حملہ کرنے کی جرأت صرف اس خیال سے ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں خالص ہندو مذہب قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.اگر ہم تبلیغ کے کام کو خاص زور سے اختیار کریں تو اسلام میں ایسی طاقت ہے کہ کوئی مذہب اس کے مقابلہ میں ٹھہر ہی نہیں سکتا.پس یقیناً اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بہت جلد بہت سی ہندو اقوام جو برہمنک اصول مدارج سے تنگ آچکی ہیں اسلام میں داخل ہونے لگیں گی اور ہندوؤں کو معلوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں کو ہندو بنا لینے کا خیال بالکل وہم ہے اور خود بخود ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا.سیاسی حقوق کا فیصلہ تیسری تدبیر یہ ہے کہ مسلمان اپنے سیاسی حقوق کا استقلال سے مطالبہ کریں.میں حیران ہوں کہ مسلمان کس طرح اس امر پر راضی ہو گئے کہ چین فی صدی آبادی کے باوجود چالیس فیصدی حقوق انہوں نے طلب کئے لیکن ملے اب تک وہ بھی نہیں.مسلمانوں کی یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی کہ وہ ملازمتوں کو حقیر چیز خیال کرتے تھے.ملازمت اگر ایسی ہی حقیر ہوتی تو ہندو جو ایک بیدار قوم ہے کیوں اس طرح اس کی خاطراپنی تمام تر طاقت خرچ کر دیتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ ملازمت اپنی ذات میں بڑی شئے نہیں لیکن اس کا واسطہ تمدنی ترقی سے اس قدر ہے کہ اس میں کمی یا زیادتی قوم کو تباہ کر سکتی یا بنا سکتی ہے.ملازمت کے سوا قومی گزارم کاذریعہ یا زراعت ہے یا ٹھیکہ داری یا صنعت و حرفت.مگر کیا زراعت کی کامیابی نہروں، تحصیل کے عملہ اور جوڈیشری پر موقوف نہیں.ٹھیکہ داری پبلک ور کس ریلوے اور نہروں سے متعلق نہیں.اور تجارت اور صنعت و حرفت گورنمنٹ سپلائی کے ساتھ وابستہ تھیں.جن لوگوں کے پاس ملازمتیں ہوں گی وہی ان کاموں میں ترقی کریں گے اور کر رہے ہیں.جس قدر بڑے بڑے مالدار ہندو اس وقت ہیں ان میں سے اکثر کو دیکھ لو کہ ان کی ترقی کا پہلا زینہ سرکاری ٹھیکہ داری پاؤ گے اور اس کا باعث ہنده افسرہوگا.پس مسلمانوں کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اپنی تعداد کے مطایق یا کم سے کم پچاس فی صدی تک اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی متواتر کوششیں کریں.اور اس وقت تک بس نہ کریں جب تک کہ یہ
۵۷۱ حق ا ن کو مل نہ جائے.میں نے سنا ہے کہ ملازمتیں تو الگ رہیں تعلیم میں بھی مسلمانوں کی ترقی کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں اور یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ پیشہ سکھانے والے کالجوں میں مسلمان مل چالیس فی صدی داخل کئے جائیں.اگر یہ صحیح ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان کبھی اپنے حق کو حاصل ہی نہ کر سکیں.کیونکہ جو لوگ چالیس فیصدی کالجوں میں داخل کئے جائیں گے وہ پچپن في صدی یا پچاس فی صدی حق پانے کے قابل کبھی ہو ہی نہیں سکتے.پس چاہئے کہ مسلمان ایک ایک کر کے ہر ایک صیغہ کے متعلق نہ ختم ہونے والی جدوجہد کریں اور اس وقت تک بس نہ کریں جب تک ان کے حقوق انہیں مل نہ جائیں.اگر انہیں اپنے اوپر رحم نہیں آتا تو کم سے کم اپنی آئندہ نسلوں پر رحم کریں اور انہیں دائمی غلامی میں نہ چھوڑیں.اتحاد عمل اور اس کا طریق یہ تینوں تجویزیں اس وقت مسلمانوں کے آزاد ہونے نہایت سے عمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمام مسلمان کہلانے والے لوگ اکھٹے نہ ہو جائیں.مسلمانوں کی ناکامی ان کے تفرقہ کا نتیجہ ہے.وہ مخالفین اسلام کے دھوکے میں آکر آپس میں ایک دوسرے کی گردن کاٹتے رہتے ہیں اور دشمن ہنستا ہے کہ میں خود انہی کے ہاتھوں ان کو تباہ کر دوں گا.آؤ آج سے فیصلہ کر لو کہ خواہ کس قدر ہی اختلاف مذہبی یا سیاہی ہو غیر قوموں کے مقابلہ میں ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے.ہمارے مذہبی، سیاسی، تمدنی، اقتصادی اختلاف ہمیں آپس میں مل کر کام کرنے سے نہیں روکیں گے.ہم اپنے مذہب پر قائم رہیں اور محبت سے اس کی تلقین کریں.اپنا کوئی اصل نہ ترک کریں نہ کسی سے ترک کرائیں.لیکن ہم باوجود ہزاروں اختلافات کے اس امر کو نہ بھولیں کہ ایک نقطہ ہے جس پر ہم سب جمع ہو جاتے ہیں.اور ایک مقام ہے جہاں آکر ہم سب بسیرا کر لیتے ہیں.وہ نقطہ كلمہ لا اله إلا الله ہے.اور وہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک ہے.پس مخالفین اسلام کے مقابلہ کے لئے ہم سب کو جمع ہو جانا جائے تاکہ ہمارا اختلاف ہماری تباہی کا موجب نہ ہو.یہ اتحاد ایسا ہو کہ ہم اس میں سے کسی کو باہر نہ رہنے دیں.خلافتی یا خوشامدی، لیگ کا ماننے والا یا کانگرسی، عدم تعاونی یا ملازم سرکار کسی کو بھی ہم اپنے سے دُور نہ کریں کیونکہ اس عظیم الشان جدوجہد میں ہمیں ہر ایک میدان کے سپاہی کی ضرورت ہے.خلافتی کی بھی ہمیں اسی طرح ضرورت ہے جس طرح خوشامدی کی.ابھی سے ہر ایک اپنا اپنا کام کر سکتا ہے.اس لئے چاہئے کہ مفید تجویز کسی کی طرف سے پیش ہو خواہ وہ ہمار ا کس قدر ہی دشمن ہو
۵۷۲ ہم سب ملکر اس کی تائید کریں اور ایک زبان ہو کر سارے ہندوستان میں اس کی دھوم مچادیں.اور جن لوگوں سے ہمیں اختلاف بھی ہو گو ان کے خیالات کی اہم تردید کریں لیکن استہزاء سے کام نہ لیں اور تذلیل نہ کریں تاکوئی شخص بھی مارا ہاتھ سے جاتا نہ رہے.اخبارات کو مضبوط کرنے کی ضرورت میں نے ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے چھ اضلاع میں مبلّغ مقرر کئے ہیں اور باقی ضلعوں میں مقامی انجمنوں کے ذریعہ سے کام کروا رہا ہوں.ان لوگوں سے علاوہ چُھوت چھات کی تحریک کرنے، تمدنی آزادی کی ترغیب دینے اور مل کر کام کرنے کی تحریص دلانے کے یہ بھی کام لیا جائے گا کہ تمام مسلم اخبارات کی اشاعت کی تحریک بھی وہ ہر جگہ کریں کیونکہ پریس کی مضبوطی قوم کی آواز کے بلند کرنے کے لئے ضروری ہے.اس وقت تک مسلمانوں کی ترقی مشکل ہے جب تک کہ مسلمانوں کا پریس نہایت مضبوط نہ ہو.اور اسی طرح یہ تحریک بھی کرائی جائے گی کہ مسلمان ، زمیندار اور تاجر اپنا کام مسلمان وکلاء کو دیا کریں تاکہ مسلمان وکلاء آزاد ہو کر کام کر سکیں.یہ پیشہ آزاد ہے مگر وہ کام کی کمی کے مسلمان وکلاء اس طرح کام نہیں کر سکتے جس طرح کہ ہندو وکلاء کر سکتے ہیں.عام اعلان کی ضرورت ان تمام تدابیر پر عمل کرنے کے لئے میرے نزدیک تمام اسلامی سوسائٹیوں، انجمنوں، اخباروں، رسالہ جات اور جماعتوں کی طرف سے سب سے پہلے یہ اعلان ہو جانا چاہئے کہ ہم اسلام کے عام فوائد کے معاملہ میں اپنے اختلافات سے قطع نظر کر کے آپس میں ملکر کام کیا کریں گے تاکہ عوام الناس میں بھی ادھر توجہ پیدا ہو جائے اور وہ سمجھ لیں کہ اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے اور یکدم سب مقامات پر عملی جدوجہد شروع ہو جائے.ایک اہم جلسہ کی تجویز اس کا مناسب ذریعہ علاوہ اوپر کے اعلان کے جس کا میں اپنی طرف نے تو اس مضمون میں وعدہ شائع کر دیتا ہوں یہ بھی ہے کہ مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر اور مالک کے قید ہونے کے مثلاً پورے ایک ماہ بعد یعنی ۲۲.جولائی کو جمعہ کے دن ہر مقام پر ایک جلسہ کیا جائے جس میں مسلمانوں کی اقتصادی اور تمدنی آزادی کے متعلق مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے اور سب سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کا کام جاری کریں گے.اور ہندوؤں سے ان امور میں چُھوت چھات کریں گے جن میں ہندو اُن سے
۵۷۳ چھوت چھات کرتے ہیں.اسی طرح یہ کہ وہ اپنی تمدنی اور اقتصادی زندگی کے لئے پوری سعی کریں گے، اپنے قومی حقوق کو قوانین حکومت کے ماتحت حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے، اسلای فوائد میں سب ملکر کام کریں گے اور اسی دن ہر مقام پر ایک مشترکہ انجمن بنائی جائے جو مشترکہ فوائد کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے.اسی طرح اس دن تمام لوگ مل کر گورنمنٹ سے درخواست کریں کہ ہائی کورٹ کی موجودہ صورت مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہے اور ان کی ہتک کا موجب.پچپن فی صدی آبادی والی قوم کے کل دوجج ہیں اور ان میں سے ایک سروس سے لیا ہوا اور ایک صوبہ سے باہر سے لایا ہوا.اس میں مسلمان اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.یہ سمجھنا کہ ہر شعبہ کے لئے مسلمان قابل سے قائل مل سکتے ہیں لیکن جج نہیں مل سکتاہماری سمجھ سے باہر ہے.گورنمنٹ نے جو کچھ کیا انصاف ہی سے کیا ہو گا اگر ہمارے نزدیک اس معاملہ میں مسلمانوں کے حقوق پر کافی غور نہیں کیا گیا اور اس کا ازالہ جلد سے جلد ضروری ہے اور اس کے لئے ہم با ادب یہ درخواست کرتے ہیں کہ کم سے کم ایک مسلمان جج پنجاب کے بیرسٹروں میں سے اور مقرر کیا جائے اور اسے نہ صرف مستقل کیا جائے بلکہ دوسرے ججوں سے اس طرح سینئر کیا جاۓ کہ سر شادی لال صاحب کے بعد وہی چیف جج ہو.ایک محضر کی ضرورت اسی طرح ایک جلسہ میں حاضرین سے دستخط لے کر ایک منظر نامہ تیار کیا جائے کہ ہمارے نزدیک مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر اور مالک نے ہرگز عدالت عالیہ کی ہتک نہیں کی بلکہ جائزہ نکتہ چینی کی ہے جو موجودہ حالات میں ہمارے نزدیک طبعی تھی اس لئے ان کو آزاد کیا جائے اور جلد سے جلد کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلہ کو مسترد کراکے مسلمانوں کی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنی ٰ بے ادبی برداشت نہیں کر سکتے دلجوئی کی جائے.کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کم سے کم پانچ چھ لاکھ مردو عورت کے دستخط یا انگوٹھے اس محضر نامہ پر ہوں تاکہ نہ صرف ہندوستان بلکہ اس کے باہر بھی اس کا اثر ہو.اور اس کا ایک طبعی اثر مسلمانوں کے دماغوں پر ایسا پڑے کہ دوسرے امور میں جدوجہد بھی ان کے لئے آسان ہو جائے.یہ محضرنامہ ابھی سے تیار ہونا شروع ہو جانا چاہئے.اس سے لوگوں کو کام کرنے کا موقع بھی مل جائے گا اور لوگوں پر اثر بھی اچھا ہو گا.میرے نزدیک ایک ماہ بعد کی تاریخ رکھتی اس لئے مناسب ہے کہ تا اس عرصہ میں تمام ملک کو اس غرض کے لئے بیدار کیا جا سکے.جلسہ جمعہ کی نماز کے بعد آسان ہو گا.لیکن جس جگہ قانوناً
۵۷۴ جلسہ کو روک دیا جائے اس جگہ نماز جمعہ کے خطبہ میں امام ان باتوں کو بیان کر سکتا ہے.اس طرح قانون کے مقابلہ کے بغیر کام ہو جائے گا.قوم کی قربانی ضروری ہے میرے نزدیک فی الحال یہی تدابیر مناسب ہیں.گو بہت سے لوگ اس وقت بہت جوش رکھتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ کامیابی کے لئے ساری قوم کی قربانی ضروری ہوتی ہے.صرف چند آدمیوں کی قربانی زیادہ فائدہ نہیں پہنچاسکتی.پس ہمیں سب مسلمانوں کو تیار کرنا چاہئے اور اس کے لئے بہت بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے.جب کام شروع کیا جائے گاتب معلوم ہو گا کہ کس قدر مشکلات راستے میں آئیں گی.اور جن کو ناجائز فوائد کے حاصل کرنے سے روکا جائے گا کس کس طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.میں آخر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ وہ تجاویز ہیں جو میرے ذہن میں آئی ہیں.باقی مسلمان بھائی خود بھی غور کر لیں اور جو تجاویز بھی مفید ہوں انہیں اختیار کیا جا سکتا ہے.لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اگر اس پروگرام کو اختیار کیا جائے تو انشاء الله مفید ہو گا اور ایک اسکی رو چل جائے گی کہ جس سے کام لے کر بہت سے مفاسد کی اصلاح ہو سکے گی ورنہ ہم تو اس کی طرف توجہ کرہی رہے ہیں اور انشاء الله کریں گے.بائیس جولائی یا جس تاریخ پر بھی اتفاق ہو اس کے آنے تک ہمیں ہر ممکن ذریعہ سے اس تحریک کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ جو غرض اس تحریک سے ہے وہ پوری ہو سکے.ٍمیں مضمون ختم کرنے سے پہلے پر تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے ہماری جماعت ہر جائز اور مطابق اسلام قربانی کرنے کے لئے تیار ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی توفیق عطا فرمائے.خاکسار مرزا محموداحمد امام جماعت احمدیہ قادیان ۲۳ جون ۱۹۲۷ء (الفضل یکم جولائی سے ۱۹۲۷ء) ۱؎ سیرت ابن ہشام (عربی) جلدا حصہ دوئم صلی ۹۳، ۲۵ مطبوعہ دارالتوفيقية ازهر
۵۷۵ مذہبی رواداری کی بے نظیر مثال از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خليفۃ المسیح الثانی
۵۷۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم مذہبی رواداری کی بے نظیر مثال (تحریر فر مودہ ۷ جولائی ۱۹۲۷ء بمقام کنگزے شملہ) برادران السلام عليكم کچھ عرصہ ہوا میرے پاس قادیان کے کچھ سکھ صاحبان بطور وفد آئے.اور انہوں نے شکایت کی کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے کی کتاب "گورو نانک صاحب کا مذہب‘‘ میں ان کے پیشواؤں پر حملہ کیا گیا ہے.میں یہ یقین نہیں کر سکا تھا کہ کوئی احمدی ایسا کرے.لیکن چونکہ بعض حوالے مجھے ایسے بنائے گئے جو میرے نزدیک واقعہ میں قابل اعتراض تھے اس لئے میں نے انہیں تسلی دلائی کہ اس کتاب کے متعلق تحقیق کر کے میں مناسب کارروائی کروں گا.اس وعدہ کے مطابق میں نے صیغہ تالیف و تصنف کو توجہ دلائی کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کر کے رپورٹ کرے.صیغہ کی رپورٹ کو پڑھنے اور ان عمارتوں کے دیکھنے کے بعد جو رپورٹ میں نقل کی گئی ہیں، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ گو یہ کتاب قانون کی زد میں نہ آتی ہو مگر سکھوں کا دل دُ کھانے کے لئے کافی ہے.میں اس امر کا قائل نہیں ہوں کہ ہمیں صرف اس بات سے بچنا چاہئے جو قانون کی زد میں آتی ہو بلکہ ہمارے لئے گورنمنٹ انگریزی کے قانون سے بھی بڑا قانون ایک اور ہے اور وہ شریعت اسلام کا قانون ہے.اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم بد گوئی اور سخت کلامی سے احتراز کریں اور بچیں.اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمیں ایسی تحریر و تقریر سے بچنا چاہئے جو بد گوئی پر مشتمل ہو.مزید بر آں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت باوانانک رحمة اللہ عليه کی نسبت تحقیق سے لکھا ہے کہ وہ ایک ولی اللہ اور خدا رسیدہ بزرگ تھے اور اسلام کے ماننے والے تھے.پس ایسے بزرگ کے جانشینوں کو بغیر کسی قطعی ثبوت کے سخت الفاظ سے یاد کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیق پر پانی پھیرنا ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک ہے.لیکن اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ سکھ مذہب گورؤوں کے
۵۷۸ زمانہ میں ہی بگر گیا تھا تب بھی کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کے احساسات کا لحاظ نہ کرتا ہوا ایسے الفاظ استعمال کرے جو خواہ مخواہ ایک حصہ بنی نوع انسان کا دل دُکھانے والے ہوں.خصوصا ً ایک تبلیغی جماعت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ سخت کلامی سے کام نہ لے تا وه دو سروں اقوام متنفّر ہو کر اس کی بات سننے سے احتراز نہ کرنے لگیں.پس ان حالات میں جب کہ مجھ پر قطعی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ اس کتاب کے صفحہ ۶۵ تک بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو سکھ صاحبان کے دل کے کھانے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہیں.میں یہ اعلان کر تا ہوں کہ سلسلہ کے نام پر میں اس کتاب کو ضبط کر تا ہوں.آئندہ کسی سلسلہ کے اخبار میں اس کا اشتہار نہ چھپے ، کوئی احمدی اسے نہ خریدے اور جو خرید چکے ہیں وہ فوراً اس کتاب کو تلف کر دیں اور جب تک اس کتاب کے سخت الفاظ بدل کو مہذب طریق سے مضمون کو پیش نہ کیا جائے ،اس کتاب کی بندش رہے.اور نہ احمدی اسے خود خریدیں اورنہ وو سروں کو خریدنے کی تحریک کریں چونکہ اس سے پہلے بھی ماسٹر صاحب کو کہا جا چکا تھا کہ وہ ایسے طریق سے باز رہیں جس سے اقوام میں منافرت پھیلتی ہو لیکن انہوں نے احتیاط کا طریقاختیار نہیں کیا.اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ انہیں کسی اشتہار یا کتاب کے شائعکرنے کی اس وقت تک اجازت نہ ہوگی جب تک کہ صیغہ تالیف و تصنیف اسے دیکھ نہ لے اور اگر وہ بغیر منظوری کے کوئی تحریر شائع کریں گے تو فوراً اس کے متعلق جماعت میں اعلان کر دیا جائے گا کہ اسے کوئی نہ خریدے.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے جماعت کے بعض لوگوں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ سکھ صاحبان کی طرف سے بھی ایسے مضمون شائع ہو رہے ہیں جن میں اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی جاتی ہے.چونکہ مجھے ایسے مضمون وکھائے نہیں گئے میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی تازه واقعہ ایسا ہوا ہے یا نہیں.لیکن اگر کوئی ایسا تازہ واقعہ ہوا ہے تو اس کو میرے سامنے پیش کرنا چاہئے.اگر سکھ صاحبان ہمارے رسول اور ہمارے مذہب کی توہین اور ہتک کرتے ہیں تو میں اس کے خلاف اسی طرح آواز بلند کروں گا کہ جس طرح آریہ کتب کے خلاف میں نے آواز بلند کی تھی.لیکن ایسے أمور میرے سامنے پیش کرنے چاہئیں.ہر ایک شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اپنے خیال سے ہی ایسا کام شروع کر دے جو فساد کا موجب ہو سکتا ہو.رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت میں
۵۷۹ میں ہر ایک قربانی سے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے دریغ نہیں ہو سکتا اور اس معاملہ مین ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ بغیر اس کے کہ خلیفہ وقت کے سامنے جو ان کاموں کا ذمہ وار ہے معاملہ کو پیش کیا جائے، پس آپ حقیقی یا خیالی مظالم کا بدلہ لینا شروع کر دیا جائے.اگر احمدیوں میں بھی اسی طرح ہونا ہے تو پھر کسی خلیفہ کی ضرورت ہی کیا ہے.میرا تجربہ یہ ہے کہ گو بہت سے سکھ پچھلی شورش میں دھوکا کھا کر ظلم کرنے والوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے تھے لیکن بعض بڑے لیڈروں نے اس طریق کو ناپسند کیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ ہم ان لوگوں کی تائید میں جنہوں نے ظلم کیا ہے، مسلمانوں سے لڑنے پر تیار نہیں ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ جلد یہ فریق دو سروں کی آواز کو دبا دے گا.ٍمیں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے مصنف اور لیکچرار آئندہ مجھے اس فلم کے اعلان کے شائع کرنے کا موقع نہ دیں گے.نہ صرف سکھوں کے متعلق بلکہ تمام دوسرے مذاہب کے متعلق بھی.والسلام خاکسار مرزا محموداحمد خلیفۃ المسیح کنگزلے.شملہ ۷.۷.۱۹۲۷ء (الفضل ۱۶ ستمبر۱۹۲۷ء)
۵۸۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر کیا آپ اسلام کی زندگی چاہتے ہیں؟ (رقم فرمودہ جولائی ۱۹۴۷ء) جس سُرعت سے ہندوستان میں حالات بدل رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آج مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے.ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان سو بھی سکتا ہے لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اگر سونا بھی چاہیں تو ان کے لئے ناممکن ہے.خدا تعالیٰ کے فرشتے انہیں مار مار گراُٹھارہے ہیں.اور انہوں نے سخت دل دشمن کو ان پر مسلّط کر دیا ہے تاکہ وہ ان کی نیند کو ان پر حرام کر دے.اب اُن کے لئے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار کر لازمی ہے.یا تو بیدار ہو کر اپنی زندگی کو قائم رکھیں مرکر زمین کو اپنے وجود سے پاک کر دیں.سب درمیانی راہیں آج ان پر بند ہیں اور سب دوسرے دروازے آج ان کے لئے مقفّل ہیں.کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کے فیصلے نے ہندوؤں میں سے ان لوگوں کو چو بزرگان دین کی ہتک میں لذت محسوس کرتے ہیں اور خدا کے پیاروں کو گالیاں دینا ان کی غذا ہے اس قدر دلیر کر دیا ہے کہ وہ خدا کے برگزیدہ رسول اور نبیوں کے سردار اور پاکیزگی و طہارت کے مجسمہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم فداء أبي و أتی پر ایک سے ایک بڑھ کرناپاک حملے کر رہے ہیں اور ان کی فطرت اس غلاظت اور نجاست پر منہ مارنے سے کراہت نہیں کرتی.حالانکہ یہ ایسا گندہ فعل ہے کہ انسانیت اس کے خیال سے کانپتی ہے اور شرافت ہے ذکر سے نفرت کرتی ہے.شریف الطبع لوگ تو معمولی آدمی کو گالیاں دینے سے بھی دریغ کرتے ہیں کُجاہے کہ اس حکم کے مصنف اس پاکباز کو گندے سے گندے الفاظ سے یاد کرتے ہیں جس پر طہارت کو فخر ہے اور پاکیزگی کو ناز.
۵۸۴ کتاب ”رنگیلا رسول" اور " و چتر جیون‘‘ سے یہ ہولی شروع ہوئی.کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلے سے جرأت پا کر ورتمان نے اس ظلم کو اور بڑھایا.اور اس کے بعد پے در پے پر تاپ اور ملاپ وغیرہ کے ایڈیٹروں نے اپنی دریدہ دہنی کا ثبوت دیا.اس ناپاک حملے کے جواب میں مسلمانوں نے کیا کیا اور اس کا کیا بدلہ ملا وہ ظاہر ہے.مسلم آؤٹ لک میں کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلے پر جرح کی گئی تو ایدیٹر اور مالک ہتک عدالت کے جُرم میں قید خانے میں ڈال دیئے گئے.وہ ہندوستان کی سرزمین جس پر کل تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حکومت کر رہے تھے آج اس کی عزت کی حفاظت کرنے والے عدالت عالیہ کی ہتک کے مرتکب قرار پا کر قید خانے کی دیواروں کے پیچھے مجبوس ہیں.یہ کیوں ہے؟ اسی لئے کہ مسلمانوں نے اپنے فرائض کو بھلا دیا اور اپنی ذمہ داریوں کو پس پُشت ڈال دیا.خدا تعالی ظالم نہیں.وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسھم ۱؎ اللہ تعالیٰ یقیناً کسی قوم سے اس کی نعمتیں نہیں چھینتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو ان نعمتوں کے استحقاق سے محروم نہیں کر دیتی.پس اے مسلمانو! اپنے حال پر غور کرو اور اپنی مشکلات پر نظر ڈالو.ایک دن وہ تھا کہ خدا کی نصرت تم کو کرہ ارض کے کناروں تک لے جارہی تھی اور آج تم دوسری قوموں کا فٹ بال بن رہے ہو.جسکاجی چاہتا ہے پیر مار کر تمہیں کہیں کا کہیں پھینک دیتا ہے.ایک وقت وہ تھا کہ تمارے رحم پر تمام دُنیا تھی اور تم دنیا سے رحم کا سلوک کرتے تھے لیکن آج تم دنیا کے رحم پر ہو اور دنیا و تم سے رحم کا سلوک نہیں کرتی.آہ! وہ دن کیا ہوۓ جب تم دنیا کے رکھوالے تھے اور کیا ہی اچھے رکھوالے تھے.ہر قوم اور ملت کے بے کس تمہاری حفاظت میں آرام سے زندگی بسر کرتے تھے.تمہارا نام انصاف کا ضامن تھا اور تمہاری آواز عدل کی کفیل.مگر آج تم لاوارث اور بے یار و مدد گار ہو.اپنی عزت کی حفاظت تو الگ رہی اس پاک ذات کی عزت کی حفاظت بھی تم سے ممکن نہیں جس پر تمہارے جسم کا ہر ذرہ فدا ہے اور جس کی جوتیوں کی خاک بننا بھی تمہارے لئے فخر کا موجب ہے.آسمان تمہارے لئے تاریک ہے اور زمین تمہارے لئے تنگ ہے.اے بھائیو! کیا کبھی آپ نے اس امر پر غور کیا کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کی اپنی سستیوں اور غفلتوں کا نتیجہ ہے ورنہ خدا تعالی ہر گز ظالم نہیں.یہ دن کبھی بھی نہ آتے اگر مسلمان اپنی سستیوں اور غفلتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کرتے اور اپنی اصلاح کی فکر کرتے.لیکن اب بھی کچھ نہیں گیا.اگر اب بھی آپ لوگ ہمت سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ سے صلح کر کے بجائے اس پر الزام لگانے کے اور یہ کہنے کے کہ اس نے ہمیں ذلیل کر دیا ہے اپنے عیب اور نقص کو محسوس کرنے لگیں اور اپنی سستیوں اور غفلتوں کو ترک کر دیں تو یقیناً یہ مصائب کا زمانہ بدل جائے گا اور
۵۸۵ یہ مشکلات کے بادل پھٹ جائیں گے.اے بھائیو! آپ کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بغیر عقل اور تدبیر سے کام لینے کے موجودہ مشکلات دُور نہیں ہو سکتیں.ہو گا وہی جس کے مستحق ہمارے اعمال ہمیں بنائیں گے.اس وقت حالت یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے ایک جج نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ انگریزی کانون کی رو سے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی سخت سے سخت ہتک کرنے والا شخص بھی قابل سزا نہیں.یہ فیصلہ ہمارے نزدیک غلط ہے لیکن اس میں کیا شک ہے کہ صوبہ کی اعلیٰ عدالت کے ایک رکن نے یہ فیصلہ کیا ہے.اور جب تک یہ فیصلہ نہ بدلے اس وقت تک یہی فیصلہ ملک کا قانون ہے.مسلم آؤٹ لک نے اس فیصلہ پر جرح کی اور اس کے ایڈیٹر اور مالک کو ہتک عدالت کے جرم میں قید خانے میں داخل کر دیا گیا ہے.اب ہمارا یہ کام ہے ہے کہ (1) ان لوگوں کو قید سے رہا کرائیں کہ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت کی حفاظت میں قید کیا گیا.(۲) فیصلے کو جلد سے جلد بدلوائیں.(۳) ان حالات کی اصلاح کرائیں جن کی وجہ سے اس قسم کی ہتک آمیز تحریر ات لکھی گئیں اور ان کے لکھنے والے بری کئے گئے.آپ خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہم اکیلے ہی ہندوستان کے باشندے ہیں.حکومت انگریزوں کے اختیار میں ہے اور ہندوستان کی آبادی کا اکثر حصہ ہندو ہے.پس ہم خود کچھ کر نہیں سکتے اور گورنمنٹ کو بھی دخل دیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے فیصلے کا آبادی کے دوسرے حصہ اور زیادہ حصہ پر کیا اثر پڑتا ہے.پس بغیر اس کے کہ ہم حُسن تدبیر سے کام لیں ہمارے لئے کامیابی نا ممکن ہے.اور اگر ہم جوش میں اپنے آپ کو ہلاک بھی کر دیں تو اس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے کا دروازہ اور بھی کھل جائے گا.پس ہمیں چاہئے کہ اپنی عقل کو قائم رکھتے ہوئے ان تدابیر کو اختیار کریں جو موجوده مشکلات کو حل کر دیں اور مسلمانوں کی موجودہ ذلت کو عزت سے بدل دیں.آپ سب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ گورنر صاحب پنجاب نے بڑے زور دار الفاظ میں کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلہ کے خلاف آواز بلند کی تھی اور اس پر تعجب اور حیرت کا اظہار کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ ضرور یا تو اس فیصلے کو دلوائیں گے یا پھر قانون کی اصلاح کرائیں گے تاکہ آئندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
۵۸۶ وسلم کی ہتک کی کسی کو جرأت نہ ہو.اس عرصے میں ور تمان کے رسالے میں ایک مضمون شائع ہوا اور میں نے اس کی طرف ایک اشتہار کے ذریعہ سے توجہ دلائی اور گورنمنٹ نے اس رسالہ کو ضبط کرنے کے علاوہ اس کے ایڈیٹر اور مضمون نگار پر مقدمہ چلا دیا.یہ مقدمہ اب ہائی کورٹ میں پیش ہے اور اس کے فیصلے پر یا تو قانون کی وہ تشریح قائم ہو جائے گی جو اب تک سمجھی جاتی رہی ہے.یا پھر گورنمنٹ قانون کی کسی تشریح کر دے گی کہ آئندہ کسی جج کو اس قانون کے وہ معنے کرنے کا موقع نہ ملے جو کہ کنور دلیپ سنگھ صاحب نے کئے تھے.میں نے قانون دان لوگوں سے معلوم کیا ہے کہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کے مصنّف کے خلاف پریوی کونسل میں اپیل نہیں ہو سکتی.کیونکہ پریوی کونسل یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اس کے سامنے اپنے ہی مقدمات آنے چاہئیں جن میں کسی شخص کی بریت یا سزا کی تخفیف کی خواہش کی گئی ہو.اور سزا کی زیادتی یا سزا دینے کے متعلق اپیلوں کو سننے کے لئے وہ تیار نہیں.پس یہی راستہ گورنمنٹ کے لئے کھلا تھا وہ ایک نیا مقدمہ چلائے.اور اس کا موقع اُسے ورتمان کے مضمون سے مل گیا ہے اور الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ موقع میرے ذریعہ سے بہم پہنچادیا.ان حالات میں آپ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں ہماری تکلیف کا موجب گورنمنٹ نہیں کہ جیسا کہ گورنر صاحب صاف کہہ چکے ہیں گورنمنٹ اس معاملہ میں مسلمانوں کو مظلوم سمجھتی ہے اور ان سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن وہ ہندو جو اس وقت فساد کے درپے ہیں چاہتے ہیں کہ کسی طرح گورنمنٹ سے ہمیں لڑا کر اپنا کام نکالیں اور گورنمنٹ کی نظروں میں مسلمانوں کو فسادی ثابت کر کے اس کی ہمدردی کو اپنے حق میں حاصل کر لیں.اے بھائیو! آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو اسلام کے لئے کس قدر مشکلات پیدا ہو جائیں گی.بے شک بعض لوگ کہہ دیں گے کہ ہم جانیں دے دیں گے.مگر میں کہتا ہوں کہ گیا بے فائده جان دیدینے سے اسلام کا نفع ہو گایا نقصان؟ یقینا ًجس طرح موقع پر جان دینے سے گریز کرنے والا آدمی مجرم ہے اسی طرح وہ شخص بھی مجرم ہے جو بے موقع جان دے کر اسلام کی طاقت کو کمزور کرتا ہے.ہر شخص جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے اسلام کی چھت کے نیچے کا ایک ستون ہے اور اس کا ٹوٹنا اسلام کے لئے مُضر.پس ہر ایک شخص جو بے جا جوش میں آکر اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے اسلام کو نقصان پہنچانے والا ہے نہ کہ فائدہ پہنچانے والا.پس میں خلوص دل اور گہری محبت کے جذبات سے متاثر ہو کر آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہی وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کا ہے.اسلام کی بات پر نظر کرتے ہوئے ، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مسلمانوں کے فوائد کا خیال کرتے ہوئے
۵۸۷ آج ہر قسم کے ایسے افعال سے اجتناب کریں جو گو آپ کے جوشوں کو تو نکال دیں لیکن اسلام کی طاقت کو نقصان پہنچادیں.اے بھائیو! وہ دو بہادر اور وفادار جو آج قید خانے کو زینت دے رہے ہیں ان میں سے ایک یعنی ’’ مسلم آؤٹ لک“ کا ایڈیٹر میرا روحانی فرزند ہے اور ایک مخلص احمدی ہے اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ کس بہادری سے اس نے غیرت اسلامی کا ثبوت دیا ہے.اس کا اور اس کے بھائی کا قید میں رہنا مجھے جسقدر شاق گزر سکتا ہے اس کا اندازہ دوسرے لوگ نہیں کر سکتے.اسی طرح میری صحت کمزور ہے اور آج کل تو روزانہ بخار ہوتا ہے مگر اس حالت میں بھی دن اور رات موجودہ اسلامی مشکلات کی فکر میں اور ان کے دُور کرنے کی تدابیر میں لگا رہتا ہوں.پس میں جو کچھ کہتا ہوں محض اسلام کی عزت اور آپ لوگوں کے فائدہ کے لئے کہتا ہوں.خدا اور اس کے رسول کے لئے جس وقت جان دینا ضروری ہو گا اس وقت اگر میں زندہ ہوا تو انشاء الله تعالی میں سب سے آگے ہوں گا اور خدا کے فضل سے کسی کو آگے نکلنے نہیں دوں گا.لیکن عقل کہتی ہے کہ اس وقت ہمارے فوائد اس امر سے وابستہ ہیں کہ ہم حُسنِ تدبیر سے اور گورنمنٹ کے ساتھ صلح رکھ کر اپنے مقاصد کو حاصل کریں.اے بھائیو! اس وقت ہندوستان میں اسلام کی زندگی اور موت کا سوال پیش ہے اور اس وقت ہماری ذر ا سی کوتاہی ہمیں خدا تعالی کی ناراضگی کا موجب بنا دے گی.پس اس بیداری کو جو خدا تعالی نے مسلمانوں میں پیدا کی ہے رائیگاں نہ جانے دو.چاہئے کہ ہم اس شخص کی طرح کام نہ کریں کہ جسے سوتے سے جگایا جاتا ہے تو اٹھ کر جگانے والے کو مار کر پھر لیٹ جاتا ہے بلکہ ہماری بیداری حقیقی بیداری ہو اور ہم ان کاموں میں بڑے زور سے لگ جائیں جو اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبودی کے لئے ضروری ہیں.اسلام کی زندگی آپ کی موت سے نہیں بلکہ آپ کی زندگی سے وابستہ ہے.یہ نہ خیال کرو کہ اس وقت تک ہماری زندگی سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا ہے.کیونکہ اس وقت تک آپ کی زندگی غفلت کی زندگی تھی حقیقی زندگی نہ تھی.اسلام کے لئے زندگی بسر کر کے دیکھو تو تھوڑے ہی دنوں میں سب غلامی کے بند ٹوٹنے لگ جائیں گے اور ذلت کی گھڑیاں جاتی رہیں گی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں غیرت کا چشمہ پھوڑ دیا ہے جو روز بروز ایک زبردست دریا کی شکل میں تبدیل ہوتا جاتا ہے.اس دریا کے پانی کو پھیلنے نہ دو کہ وہ اس طرح ضائع ہو جائے گا اور پھر یہ دن میسّر نہ ہوں گے.اس دریا کو اس کے کناروں کے اندر رہنے دو اور اسلام کے دشمنوں کے کھودے ہوئے گڑھوں کی وجہ سے جو آبشاریں بن رہی ہیں ان سے بجلی لے کر ایک نہ دبنے والی طاقت پیدا کرو تا خدا آپ پر راضی ہو اور آئندہ آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں.
۵۸۸ میرے نزدیک ہر ایک اسلام کا درد رکھنے والے کا اس وقت یہ فرض ہے کہ اس موقع پر بجائے وقت جوش دکھانے کے وہ یہ عہد کرے کہ وہ آئندہ قرآن کریم کو اپنا ہادی بنائے گا اور اسلام کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے گا.اور مسلمانوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے گا.اور مسلمانوں کی ہر قسم کی مدد کے لئے آمادہ رہے گا.اور اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں سے لڑائی جھگڑے کو بند کردے.اور خواہ وہ اس کے کتنے دشمن ہوں وہ انہیں اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں پر ترجیح دے گا.اور تبلیغ اسلام کو اپنا مقدم فرض سمجھے گا.اور اس کے متعلق مالی اور جسمانی اور اخلاقی امداد پر کمربستہ رہے گا.اور ہندوؤں سے ان تمام امور میں چُھوت چھات سے کام لے گا جن میں وہ مسلمانوں سے چُھوت چھات کرتے ہیں.اور حتی الامکان مسلمانوں سے ہی سودا خریدنے کی کوشش کرے گا.اور مسلمانوں کی ہر قسم کی دکانیں کھلوانے کا ہمیشہ خیال رکھے گا.اور سود سے پر ہیز کرے گا اور اگر وہ اس خلاف شرع کام میں مبتلاء ہو چکا ہے تو اپنے علاقہ میں کو آپریٹو سوسائٹی کھلوا کر اس سے لین دین رکھے گا تاکہ ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہو جائے اور رفتہ رفتہ سود کی لعنت سے بھی بچ سکے.اور اگر وہ ملازم ہے تو حتی الامکان مسلمانوں کے پامال شده حقوق انہیں دلوانے کی کوشش کرے گا.اور اگر ایسے مقدمات پیش آتے ہیں تو وہ مقدور بھر مسلمان و کیلوں کے پاس جائے گا.اور ان مٹھی بھر مسلمان حکام کی عزت کی حفاظت کا یہ خیال رکھے گا کہ جنہیں برادران ِ وطن ہر طرح کا نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اور اسلامی اخبارات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت میں ہر ممکن طریق سے حصہ لے گا.اور مسلمانوں میں صلح اور آشنی پھیلانے اور ان میں سے تفرقہ دور کرنے کی کوشش کرتا رہے گا کہ وہ کام ہے جس کی اسلام کو اس وقت سخت ضرورت ہے.اور یہ وہ قربانی ہے جس سے اسلام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے.یہ کام یقیناً لڑ کر مر جانے سے ہزار درجے بڑھ کر مشکل ہے.پنجاب کے ہر شہرمیں جوش سے بڑھ بڑھ کر جان دینے والے آدمی ایک دن میں ہی پیدا کئے جا سکتے ہیں لیکن اس قربانی کے لئے جو لمبی اور نہ ختم ہونے والی قربانی ہے بہت ہی کم آدمی اس وقت میسر آسکتے ہیں.لیکن اسلام کو فتح اسی طرح نصیب ہو گی اور اسے غلبہ اسی طرح حاصل ہو گا.پس اس کی طرف توجہ کرو اور خدا پر توکل کر کے اٹھ کھڑے ہو.جوسست ہیں انہیں ہوشیار کرو.اور جو سو رہے ہیں انہیں جگاؤ اور جو کمزور ہیں انہیں سہارا دو اور جو روٹھے ہوئے ہیں.انہیں مناؤ.اور خدا کی راہ میں ہر ایک ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ کہ عزت وہی ہے جو خدا کی طرف سے ملتی ہے.اور معزز وہی ہے جس کی قوم معزز ہوتی ہے.یاد رہے کہ دنیا کی تمام دولتیں اور تمام عزتیں آپ کو اس وقت تک حقیقی
۵۸۹ عزت نہیں بخش سکتیں جب تک کہ آپ کی سب قوم معزز نہیں ہو جاتی.یہ تواصلی کام ہے.باقی رہا وقتی کام سو اس کے لئے میرے نزدیک بہترین تجویز یہ ہے کہ اول تو جلد سے جلد ایک وفد ہِز ایکسیلنسی گورنر پنجاب کے پاس جائے اور انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائے کہ مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر اور مالک کو فورا ً آزاد کیا جائے اور اس وفد میں ہر فرقہ کے لوگ اور تمام پنجاب کے نمائندے شامل ہوں.میں نے اس غرض سے ہِز ایکسیلنسی کو چٹھی بھی لکھوائی ہے.میں نہیں سمجھتا کہ اس وفد کو ملنے سے انہیں کیا عذر ہو سکتا ہے.پس ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ ہمارے معقول مطالبے کو منظور کرنے میں گورنمنٹ کو کوئی اعتراض نہ ہو گا.اور اگر بفرض محال اس میں کوئی دقت محسوس ہوئی تو اس کے متعلق اس وقت کے پیدا ہونے پر غور کیا جا سکے گا.دوسری تدبیر یہ ہے کہ ایک محضر نامہ تمام پنجاب اور دہلی اور سرحدی صوبہ کے لوگوں کی طرف سے گورنمنٹ کے پیش کیا جائے جس میں اس سے پُرزور مطالبہ کیا جائے کہ وہ کنور دلیپ سنگھ صاحب جج ہائی کورٹ پنجاب کے فیصلے کے اثر کو مٹا کر فوراً اس امر کا انتظام کرے کہ آئندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی شخص ایسے الفاظ استعمال نہ کرے جو اس مصنّف کے خبث باطن اور ناپاک فطرت کو نہایت ہی گندے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل شکنی کا موجب ہوں.بلکہ نہ صرف آپ کے لئے بلکہ تمام مذاہب کے بزرگوں کی عزت کی حفاظت کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرے.اسی طرح گورنمنٹ سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے کہ وہ کنور دلیپ سنگھ صاحب کو جن کے فیصلہ متعلقہ کتاب ”رنگیلا رسول ‘‘کی وجہ سے صوبے کی اکثر آبادی کو ان پر اعتماد نہیں رہا اس عہده جلیلہ سے الگ کر کے مسلمانوں کی بے چینی کو دُور کرے.نیز یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ مسلم آؤٹ لک کے مدیر اور مالک کو قید سے رہا کر دیا جائے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے در حقیقت ہائی کورٹ کی عزت کو بچانے کی کوشش کی ہے نہ کہ اس کے اعتبار کو مٹانا چاہا ہے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے ان کی قید کا حکم دے کر اپنے ہاتھوں اپنی عزت کو سخت صدمہ پہنچایا ہے اور چونکہ اس وقت ہائی کورٹ میں ہندوستانی ججوں میں سے اکثریت ہندوؤں کی ہے.اور پنجاب کے مسلمانوں کی اس بات میں سخت ہتک ہے کہ مسلمان بیر سٹروں میں سے ایک بھی جج مقرر نہیں.بلکہ ایک جج تو سروس سے لیا گیا ہے اور ایک جج یوپی سے بلایا گیا ہے.حالانکہ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی ۵۵ فیصدی ہے اور اکثر مقدمات مسلمانوں کے ہی ہوتے ہیں.پس مسلمانوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں.اور کم سے کم ایک مسلمان جج پنجاب کے بیرسٹروں میں سے فوراً مستقل طور پر مقرر کیا جائے اور جو موجودہ مسلمان جج ہیں.
۵۹۰ انہیں اگر گورنمنٹ رکھنا چاہتی ہو تو انہیں فوراً مستقل کردے.اور یا انہیں واپس کر کے ان کی جگہ دوسرے مسلمان جو مقرر کئے جائیں تا مسلمانوں کی بے چینی دُور ہو اور چاہئے کہ اگلا چیف جج پنجاب کا مسلمان بیرسٹر جج مقرر ہو.اسی طرح یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ پنجاب جس میں اکثر حصہ آبادی کا مسلمان ہیں اس میں مسلمانوں کو پچیس فیصدی ملازمتیں بھی حاصل نہیں ہیں بلکہ بعض صیغوں میں تو ۱۰ فیصدی بھی مسلمان اعلیٰ ملازم نہیں ملیں گے.اس کا خطرناک اثر مسلمانوں کے تمدن اور ان کے حقوق کی حفاظت پر پڑتا ہے.پس جس قدر جلد ممکن ہو مسلمانوں کو کم سے کم نصف ملازمتیں دی جائیں تاکہ ان کے حقوق کی حفاظت ہوسکے.یہ محضر نامہ چھپ کرتیار ہے.میرے نزدیک اس پر کم سے کم پانچ چھ لاکھ مسلمانوں کے مرد ہوں یا عورتیں دستخط ہونے چاہئیں‘‘.نہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ حکومت ہند اور حکومت برطانیہ کے اوپر اثر کئے بغیر نہیں رہے گی اور یہ محضر نامہ بھی دستخطوں کی تکمیل کے بعد ایک وفد کے ذریعہ گورنمنٹ کے سامنے پیش ہونا چاہئے.میں امید کرتا ہوں کہ ایک بہت بڑا وفد جو سب فرقوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو گا جب اسے پیش کرےگا تو گورنمنٹ اس متفقہ مطالبہ کو رد نہیں کر سکے گی کیونکہ ملک کا فائدہ اور گورنمنٹ کی مضبوطی بھی اسی امر میں ہے کہ دوران مطالبات کو جلد سے جلد پورا کرے.جو لوگ اس محضر نامہ پر دستخط کرانے کی خدمت کو اپنے ذمہ لینا چاہیں وہ مجھے یا صیغہ ترقی اسلام قادیان کو اطلاع دیں تا ان کے نام مطبوعہ فارم بھجوادیئے جائیں.اسی طرح میری یہ تجویز ہے کہ ۲۲ جولائی بروز جمعہ بعد از نماز جمعہ پنجاب، دہلی اور سرحدی صوبہ کے ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں تمام فرقہ ہائےاسلامی کا ایک مشترکہ جلسہ کیا جائے جس میں اوپر کے أمور کی تائید میں ریزولیوشن پاس کئے جائیں.اور کاروں اور خطوں کے ذریعہ سے گورنمنٹ کو اسلامی حقوق کی حفاظت کی طرف توجہ دلائی جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر حقیقی اصلاح کے کام کے ساتھ ساتھ ان تدابیر پر عمل شروع کیا جائے تو انشاء اللہء يقیناً مسلمانوں کو کامیابی ہو گی.یہ کام اتنی بڑی محنت اور قربانی کو چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان ان میں کامیاب ہو جائیں تو دنیا سمجھ لے گی کہ اب ان کا مقابلہ ناممکن ہے.اور ان کی آواز اس قدر کمزور نہ رہے گی جس قدر کہ اب ہے بلکہ ہر ایک ان کی آواز سے ڈرے گا اور اس کا ادب کرے گا اور اس پر كان رکھے گا.
۵۹۱ اے بھائیو! میں نے اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنے فرض کو ادا کر دیا.اب کام کرنا آپ کے اختیار میں ہے.وقت کم اور کام بہت ہے.چاہئے کہ اسلام کے لئے درد رکھنے والے لوگ آج سے ہی اس کام کو ہاتھ میں لیں اور علاوہ تبلیغی اور تمدنی اصلاح کے کاموں کو محضر نامہ پر دستخط کرانا اور ۲۲ جولائی کے جلسے کے لئے تیاریاں شروع کر دیں.محضر نامے پر کم سے کم پانچ لاکھ مسلمانوں کے دستخط ہونے چاہئیں.اور جلسوں میں اس قدر لوگ جمع ہونے چاہئیں کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے ہوں.یاد رکھیں یہ اسلام کی زندگی اور موت کا سوال ہے.آپ اپنے عمل سے جواب دیں.کیا اسلام آپ کے نزدیک زندہ رہنا چا ہئے یا نہیں؟ منہ کے دعوؤں سے کچھ نہیں بنتا.ایک لمبی اور تکلیف دہ قربانی کی ضرورت ہے.اور دنیا آپ کے منہ کے الفاظ سے نہیں بلکہ آپ کے اعمال سے دیکھے گی کہ آپ کو اسلام سے کس قدر محبت ہے.میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کا کیا جواب ہو گا.ہاں میں سمجھتا ہوں ہر ایک مسلمان کا اس وقت ایک ہی جواب ہو گا اور وہی جواب ہو گا.جو حج کے موقع پر ہمارے بھائی دے چکے ہیں.یعنی لبيك اللهم لبیک.اے خدا! ہم تیرے دین کی خدمت اور تیرے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حاضر ہیں.حاضر ہیں.حاضریں.وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمین - والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور ( الفضل ۱۵جولائی ۱۹۲۷ء) ۱؎ الرعد :۱۲
۵۹۳ اسلام اور مسلمانوں کافائده کس امر میں ہے از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۵۹۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – والامر اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے (تحریر فرمودہ مؤرخہ ۱۷ جولائی ۱۹۲۷ء بمقام قادیان) میں متواتر اعلان کر چکا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کی حفاظت صرف اس امر میں ہے کہ وہ ان امور میں کہ جو سب مسلمانوں میں مشترک ہیں، متحد ہو کر کام کریں اور اپنی طاقت کو ضائع نہ ہونے دیں.اس جدوجہد کے نتیجہ میں جو ہم نے پچھلے دنوں کی ہے خدا کے فضل سے مسلمانوں میں اس قدر بیداری پیدا ہو چکی ہے کہ اہل ہنود دل ہی دل میں کُڑھ رہے ہیں اور ایسی تجاویز سوچ رہے ہیں جن کے ذریعہ سے مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کر دیں.میں نے پہلے بھی مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں تمام ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو دشمنوں کو ہنسنے کا موقع دیں اور ہماری طاقت کو پراگندہ کر دیں.تمام احباب جانتے ہیں کہ ہماری طرف سے تمام مسلمان کہلانے والوں کے ایک مشترکہ جلسہ کرنے کی تحریک ایک ماہ سے کی جا رہی ہے.اور خدا کے فضل سے اس کام میں جو ہمارا ذاتی نہیں ہے بلکہ اسلام کا ہے، تمام بہی خواہان اسلام ہم سے مل کر کام کر رہے ہیں.ان جلسوں کے لئے شروع دن سے بائیس جولائی کی تاریخ اور نماز جمعہ کے بعد کا وقت مقرر تھا.لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ خلافت کمیٹی کی طرف سے حال ہی میں ایک اعلان ہوا ہے کہ ان کی طرف سے بھی بائیس جولائی کو اسی وقت جلسے کئے جائیں.(انقلاب مؤرخہ ۱۷جولائی صفحہ ۷ ب کالم ۴) میرا خیال ہے کہ اس تاریخ کے مقرر کرتے وقت کارکنان ِخلافت کے ذہن میں یہ بات
۵۹۶ نہ ہوگی کہ ایسے جلسے پہلے مقرر ہو چکے ہیں.ورنہ وہ اس زمانہ میں جب کہ مسلمانوں میں پورے اتحاد کی ضرورت ہے بائیس جولائی کو الگ جلسے مقرر نہ کرتے مگر اب جب کہ ان کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے، میں مسلمانوں کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے خواہش کرتا ہوں کہ چونکہ ہماری طرف سے ایک ماہ سے اعلان ہو رہا تھا اور تیاری مکمل ہو چکی ہے اور متواتر اخباروں اور پوسٹروں کے ذریعہ سے تحریک ہوتی رہی ہے اور بعض اہم مقامات کی طرف واعظ بھی بھیجے جا چکے ہیں اور ہزاروں روپیہ کا خرچ برداشت کیا جا چکا ہے ، اس لئے خلافت کمیٹی مہربانی فرما کر اپنے جلسوں کو یا تو کسی دوسرے دن پر ملتوی کر دے یا کم سے کم وقت ہی بدلا دے.مثلاً یہ کہ جن جلسوں کا انتظام ہم نے کیا ہے ، وہ جمعہ اور عصر کے درمیان ہو نگے تو وہ بعد از مغرب اپنے جلسے مقرر کر دے.اگر اس قدر خرچ اور محنت سے اور نیز سب فرقوں کے سر بر آوردہ لوگوں کے مشورہ کے ساتھ جلسوں کا انتظام نہ ہو چکا ہوتا تو میں خود ہی جلسہ کی تاریخیں بدل دیا.کیونکہ وقت اور دن کی نسبت اتحاد بہت زیادہ اہم شئے ہے.لیکن ایک ماہ کی مسلسل تیاری کے بعد ہمارے لئے اس قدر مجبوریاں ہیں کہ ہمارے لئے دن اور وقت کا بدلنا بہت مشکل ہے.خصوصاً اس لئے کہ جو جلسے بائیس کو ہماری تحریک پر مقرر ہوئے ہیں وہ صرف ہماری جماعت کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ شیعہ ،سنی ،اہل حدیث، حنفی، احمدی سب کی طرف سے مشترکہ جلسے ہیں.دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں بائیس تاریخ کوئی مذہبی تاریخ نہیں کہ اس سے جلسے اِدھر اُدھر نہ کئے جا سکتے ہوں.اس لئے بجائے اس کے کہ طاقت کو منتشر کیا جائے اور دشمنوں کو ہنسی کا موقع دیا جائے ، کیوں نہ دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں اور طاقت کو پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے.اگر ایک ہی وقت میں مسلمانوں کی کچھ جماعت ایک طرف اور کچھ دوسری طرف جاتی ہوئی نظر آئی تو ہندو لوگ کہیں گے کہ رسول کریم ﷺ کی حفاظت کے معاملہ میں بھی یہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.اور اس سے اسلام کی عزت کو جو صدمہ پہنچے گا اس کا اندازہ ہر اک اسلام کا درد رکھنے والا انسان خود ہی لگا سکتا ہے.ہندوؤں کو جو دلیری اور جرأت اس سے حاصل ہوگی ،اس کا خیال کر کے میرا دل کانپ جاتا ہے اور میری روح لرز جاتی ہے.
۵۹۷ اسلام کیلئے کربلا کا زمانہ اس آفت و مصیبت کے زمانہ میں کہ اسے کربلا کا زمانہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ کفر و ضلالت کے لشکر محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین کو اسی طرح گھیرے ہوئے ہیں کہ جس طرح کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی الله عنه کو یزید کی فوجوں نے گھیرا ہوا تھا.آہ ! آج اسلام کی وہی حالت ہے جو ذیل کے شعر میں بیان ہوئی ہے کہ ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدين اشتراک عمل کی دعوت پس میں امید کرتا ہوں کہ مرکزی خلافت کمیٹی اپنے فیصلہ میں مندرجہ بالا تبدیلی کر کے دشمنان اسلام کے دلوں پر ایک کاری حربہ چلائے گی اور ان کی تازہ امیدوں کو خاک میں ملا دے گی اور مقامی انجمن ہائے خلافت بھی اپنے جلسوں کو کسی اور وقت اور دن پر ملتوی کر دیں گی اور ان جلسوں کو جو تمام اسلامی فرقوں اور سوسائیٹیوں کی طرف سے مشترک طور پر ہونے والے ہیں، ان میں اپنے مقرر وقت پر منعقد ہونے میں مزاحم نہ ہوں گی بلکہ مدد گار اور شریک بنیں گی.سِول نافرمانی کے تباہی خیز نقصانات پھر ان احباب کو جو سول نافرمانی کو اس وقت کی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں.مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ یہ خیال در حقیقت گاندھی جی کا پھیلایا ہوا ہے اور اس کے عیب و ثواب پر پوری طرح غور نہیں کیا گیا.میرے نزدیک اگر غور کیا جائے تو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے موجودہ حالات میں سول نافرمانی سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی.اور یقینا ً اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت پہلے سے بھی خراب ہو جائے گی.اور عدم تعاون کے دنوں میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا تھا اور جس کے اثر کو وہ کئی سالوں میں جا کر بہ مشکل دور کر سکے ہیں اس سے بھی زیادہ اب نقصان پہنچ جائے گا.اس وقت ہمارا مقابلہ ہندوؤں سے ہے اسے بھائیو! ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس وقت ہمارا مقصد کیا ہے اور پھر اس کے مطابق ہمیں علاج کرنا چاہئے کیونکہ دانا وہی ہوتا ہے جو تشخیص کے بعد مرض کا علاج شروع کرتا ہے.اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارا اس وقت مقصد یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ
۵۹۸ کی جو ہتک کی جاتی ہے ، اس کا سدّباب کریں اور آپ کی عزت کی حفاظت کا مقدس فرض جو ہم پر عائد ہے اس کو بجا لائیں.اگر میرا یہ خیال درست ہے تو کیا پھر پہلی بات کی طرح یہ بھی سچ نہیں ہے کہ یہ ہتک ہندوؤں کی طرف سے کی جا رہی ہے نہ کہ گورنمنٹ کی طرف سے.پسہمارا مقابلہ ہندوؤں سے ہے نہ کہ گورنمنٹ سے.گورنمنٹ تو اس وقت حتی الوسع ہماری مدد پر کھڑی ہے اور ہمیں ان اخلاقی ذمہ داریوں کے ماتحت جو اسلام نے ہم پر عائد کی ہیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے نہ کہ ان کی مخالفت کرنی چاہئے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہائیکورٹ کے ایک جج کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہندوؤں کو اور بھی دلیری ہو گئی ہے اور انہوں نے پہلے سے بھی سخت حملے اسلام پر شروع کر دیئے ہیں.لیکن پھر کیا یہ بھی درست نہیں کہ گورنمنٹ اس فیصلہ کو بدلوانے کی پوری کوشش کر رہی ہے.اور غیر معمولی ذرائع سے جلد سے جلد اس مفسده پروازی کا ازالہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور ہزایکسلینسی ( HS EXCELLENCY ) گورنر پنجاب نے مسلمانوں کے وفد کے جواب میں نہایت پُر زور الفاظ میں مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار اور ان گندے مصنفوں کے خلاف ناراضگی کا اظہار اور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تعجب کا اظہار کیا ہے.جب حالات یہ ہیں تو پھر کیا اخلاق ، کیا عقل اور کیا فوائد اسلام ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم سِول نافرمانی کو جو ہندوؤں کے خلاف نہیں بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ہے، اختیار کریں اور کیا اس ذریعہ سے ہندو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے سے باز آجائیں گے.سول نافرمانی اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کے خلاف ہے مگر علاوہ اس کے کہ سِول نافرمانی اس موقع پر اخلاق کے خلاف ہے ، وہ اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کے بھی خلاف ہے.سِول نافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار نہ ہوں.سِول نافرمانی دو غرضوں کیلئے ہو سکتی ہے.۱.جب کہ ہم کوئی کام کرنا چاہیں جسے گو ر نمنٹ منع کرتی ہو.۲.جب کہ ہم گورنمنٹ کو کسی کام کے کرنے سے روکیں یا اس سے کوئی کام کروانا چاہیں.صورت اول میں اس قدر کافی ہوتا ہے کہ بہت سے آدمی اس کام کو کرنے لگیں کہ جس سے گو ر نمنٹ روکتی ہو.اگر گورنمنٹ ان کو رو کے تو وہ نہ رکیں حتیّٰ کہ گورنمنٹ مجبور
۵۹۹ ہو جائے کہ انہیں گرفتار کرے.چونکہ گورنمنٹ لا کھوں آدمیوں کو قید میں ڈال نہیں سکتی، اس لئے جو امور معمولی ہوتے ہیں اور گورنمنٹ کے قیام کا ان سے تعلق نہیں ہو تا، وہ ان میں لوگوں کے مطالبہ کو پورا کر کے اپنے حکم کو واپس لے لیتی ہے.اس صورت میں کامیابی کیلئے اس قدر تعداد آدمیوں کی چاہئے کہ جن کو گورنمنٹ جیل خانوں میں رکھ ہی نہ سکے.جب گورنمنٹ کی طاقت سے قیدی بڑھ جاتے ہیں تو اسے دینا پڑتا ہے.مگر یہ صورت تبھی کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب کسی ایسے کام کے کرنے کا ہم ارادہ کریں جس کی گورنمنٹ اجازت نہیں دیتی.دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ سے لوگ کوئی مطالبہ پورا کرانا چاہیں یا دوسرے لوگوں کو کسی کام سے روکنا چاہیں.اس صورت میں چونکہ ان کا کام بھی ہو تا ہی نہیں، انہیں سِول نافرمانی کے لئے کوئی اور چیز تلاش کرنی پڑتی ہے.مثلاً وہ کہہ دیتے ہیں کہ جب تک گورنمنٹ ہمارا مطالبہ پورا نہیں کرے گی، ہم اسے لگان نہیں دیں گے یا ٹیکس نہیں دیں گے.اس صورت میں بھی قر یباً ساری کی ساری قوم کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جن کی جا ئدادیں گورنمنٹ اپنے حق کے لئے قرق کرائے، اگر ان کی جا ئدادوں کو دو سرے لوگ خریدنے پر تیار ہو جائیں تو گورنمنٹ کا کیا نقصان ہو گا، انہی لوگوں کا اپنا نقصان ہو گا.غرض کوئی صورت بھی ہو، سِول نا فرمانی بغیر سارے ملک کے اتفاق کے یا کم سے کم ایک بڑے حصہ کے اتفاق کے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.پچھلے چند سالوں میں جرمنی کے لوگوں نے فرانسیسیوں کے خلاف اس علاقہ میں جو فرانس والوں نے لے لیا تھا، سِول نافرمانی کی تھی.مگر و ہ با وجود ایک قوم اور بڑے تعلیم یافتہ ہونے کے کامیاب نہ ہو سکے.اور آخر مجبور اً انہیں اپنا رو یہ بدلنا پڑا.مگر جو سامان جر منوں کو حاصل تھے وہ مسلمانوں کو حاصل نہیں.اور پھر سب ملک میں صرف وہی آباد نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں ایک بڑی تعداد سکھوں اور ہندووں کی بھی ہے.پس سِول نافرمانی سے گورنمنٹ کے کام نہیں رُکیں گے.بلکہ صرف یہ نتیجہ ہو گا کہ جو تھوڑی بہت تجارت اور زمیندارہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے وہ بھی ہندوؤں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور یہی اس وقت ہندووں کی خواہش ہے.ہم سِول نافرمانی کی صورت میں رسول کریم ﷺکی عزت کی حفاظت نہیں کریں گے بلکہ اپنی طاقت کو کمزور کر کے اور اپنے دشمن بڑھا کر لوگوں کو آپ کی ہتک کا اور موقع دیں گے.
۶۰۰ سِول نافرمانی کیلئے لاکھوں آدمی کہاں سے آئیں گے جیسا کہ میں بتا آیا ہوں، سِول نافرمانی بغير لاکھوں آدمیوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی.اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ لاکھوں آدمی سول نافرمانی کرنے والے کہاں سے آئیں گے.کیا اپنے نوجوانوں کو جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہم اس کام کیلئے پیش کریں گے یا اپنے تاجروں کو یا اپنے زمینداروں کو یا اپنے پیشہ وروں کو ان میں سے کسی ایک کو اس کام کے لئے پیش کرو نتیجہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے نہایت خطرناک پیدا ہو گا.طالب علم اگر اس کام کے لئے آئے ہوئے تو مسلمان جو تعلیم میں آگے ہی پیچھے ہیں اور بھی پیچھے رہ جائیں گے اور ہماری ایک نسل بالکل بے کار ہو جائے گی.اگر تاجروں یا پیشہ وروں کو جیل خانہ بھجوایا گیا تو ہندوؤں کو اس سے اور بھی فائدہ پہنچے گا اور مسلمان اور بھی زیادہ سختی سے اقتصادی طور پر ان کے غلام بن جائیں گے.اور وہ مسلمان جو روٹی کھاتے ہیں، وہ بھی اپنے کام سے جائیں گے.اگر زمیندار قید خانوں میں بھیجے گئے ، تب بھی ہندوؤں کو عظیم الشان فائدہ پہنچے گا.غرض بغير لاکھوں آدمیوں کو سِول نافرمانی پر لگانے سے کام نہیں چل سکتا اور اس قدر تعداد میں مسلمان اگر سِول نافرمانی کے لئے تیار بھی ہو جائیں تو یقیناً مسلمانوں کی طاقت پنجاب میں بالکل ٹوٹ جائے گی اور ہم جو یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوں تاکہ ہماری آواز میں اثر پیدا ہو اور بھی زیادہ پست حالت کو پہنچ جائیں گے اور ہمیں ہمارا ٹھکانہ نہیں رہے گا.بےشک اگر صرف شُغل کر نا ہمارا مقصد ہو تو چھ ہزار آدمی اس کام پر لگ کر شور پیدا کر سکتے ہیں.لیکن اگر ہمارا مقصد اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے تو یہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی.جب تک کہ سب ملک میں مسلمان ہی نہ بستے ہوں اور جب تک سب کے سب سِول نافرمانی پر آمادہ نہ ہو جائیں.اور چونکہ صورت حالات اس کے بر خلاف ہے، اس لئے سِول نافرمانی سے کامیابی کی امید رکھنا بالکل درست نہیں.جیل میں جانے والوں کے بال بچے کیا کریں گے پھر ہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جو لوگ جیل خانوں میں جائیں گے، ان کے رشتہ داروں کا گذارہ کس طرح ہو گا.مسلمانوں کے پاس حکومت نہیں کہ وہ جبر یہ ٹیکس سے سب کے گزارہ کی صورت پیدا کر لیں گے.جو لوگ قید
۶۰۱ ہوں گے ان کے رشتہ دار یقیناً قرض پر گزارہ کریں گے اور وہ قرض ہندو بنئے کے پاس سے انہیں ملے گا جس کی وجہ سے وہی لوگ جو اسلام کی مدد کیلئے نکلیں گے اور حقیقت اسلام کو اور زیادہ کمزور کر دینے کے موجب ہو جائیں گے.عدم تعاون کے بعد سِول نافرمانی ہونی چاہئے یہ امر بھی نہیں بھلایا جا سکتا کہ سِول نافرمانی ہمیشہ عدم تعاون کے بعد ہوتی ہے.تعاون اور سِول نافرمانی کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے.میں مسٹر گاندھی سے بہت اختلاف رکھتا ہوں لیکن ان کی یہ بات بالکل درست تھی کہ انہوں نے پہلے عدم تعاون جاری کیا اور اس کا دوسرا قدم سِول نافرمانی رکھا.ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ مدد نہ کرنے اور نافرمانی کرنے میں فرق ہے.مدد نہ کرنا ادنی ٰ درجہ کا انقطاع ہے اور نافرمانی اعلیٰ درجہ کا انقطاع ہے.اور یہ ممکن نہیں کہ ہم ادنی ٰ انقطاع کئے بغیر اعلى ٰانقطاع کر دیں.جو لوگ سِول نافرمانی کریں گے جب ان کو گورنمنٹ سزا دینے لگے گی تو کیا پچاس ساٹھ ہزار مسلمان جو سرکاری ملازمت میں ہے وہ سرکاری حکم کے ماتحت سِول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا یا نہیں.اگر وہ مقابلہ نہیں کرے گا تو سب کو ملازمت چھوڑی پڑے گی اور عدم تعاون شدید صورت میں شروع ہو جائے گا اور میدان بالکل ہندوؤں کیلئے خالی رہ جائے گا اور اگر لازم طبقہ سِول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا تو کیا یہ جنگ گھر میں ہی نہ شروع ہو جائے گی.پولیس فوج اور عدالتوں کے ملازم اگر خود مسلمانوں پر دست درازی کریں گے تو کیا آپس میں ایک دوسرے سے تنافر پیدا ہو گا یا نہیں.اور کیا ان چالیس پچاس ہزار ملازموں کے رشتہ دار جو چالیس پچاس لاکھ سے کم نہ ہوں گے، دوسرے لوگوں سے جو ان کو برُا بھلا کہیں گے بر سر پیکار ہوں گے یا نہیں.اور کیا اس کے نتیجہ میں ہر گاؤں اور ہر شہر میں مسلمانوں میں ایک خطرناک جنگ شروع ہو جائے گی کہ نہیں؟ غرض سِول نافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پہلے عدم تعاون نہ جاری کیا جائے.سِول نافرمانی جاری کرنے سے پہلے سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ فوج سے پولیس اور ایگزیکٹو اور جوڈیشل غرض ہر قسم کی ملازمتوں سے علیحدہ ہو جائیں تا کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑنا نہ پڑے.اور سب ملک کے مسلمان آپس میں دست و گریبان نہ ہو جائیں.لیکن کیا حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کا اس میں فائدہ نہ ہو گا ، ہاں ہندوؤں کا فائدہ ہو گا.ایک مسلمان کی جگہ دس ہندو اور سکھ بھرتی ہونے کے لئے تیار ہوں
۶۰۲ گے اور مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی.سِول نافرمانی کیلئے تیار ہونیوالوں کو کیا کرنا خلاصہ یہ کہ سِول نافرمانی کا تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار ہوں اور جب کہ پہلے عدم تعاون کا فیصلہ کر لیا جائے ، ورنہ سوائے شور کرنے کے کچھ فائدہ نہ ہو گا.پس جو لوگ سِول نافرمانی کیلئے تیار ہوں میں انہیں مشورہ دوں گا گے وہ ذرا زیادہ ہمت دکھائیں اور جو وقت ان کے پاس فارغ ہو، اسے تبلیغ اسلام پر خرچ کریں.اگر دو چار ہزار آدمی تبلیغ کے لئے نکل کھڑا ہو اور ادنی ٰاقوام کے گھروں پر جا کر شفقت اور اتھہ روی سے ان کو اسلام کی دعوت دے تو اسلام کو کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے.اگر یہ لوگ ملک میں پھر کر زمینداروں کو سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں اور بندو بنئے سے سودی قرض لینے سے منع کریں تو اسلام کو کسی قدر تقویت پہنچ سکتی ہے.اگر وہ اپنے فارغ وقت کواپنے جاہل بھائیوں کو دین کی باتیں سمجھانے اور قومی ضروریات سے واقف کرانے پر لگائیں تو قومیت کو کس قدر نفع حاصل ہو سکتا ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ فارغ ہیں تو ہزاروں گاؤں جن میں سب سودا ہندو بنئے سے لیا جاتا ہے وہاں جا کر وہ ایک دکان کھول لیں اور اس طرح مسلمانوں کو ہندو دکاندار کے ذلت آمیز سلوک سے محفوظ کریں تو قومی احساس میں کس قدر ترتی ہو سکتی ہے.کام کرنے کا وقت ہے نہ جیل خانہ جانے کا پس اے دوستو! یہ کام کا وقت ہے، جیل خانہ میں جانے کا وقت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں اس وقت بیداری پیدا کر دی ہے ،اس بیداری سے فائدہ حاصل کرو.یہ دن روز نصیب نہیں ہوتے، پس ان کی ناقدری نہ کرو.خدا تعالی کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے دشمن کے ہاتھوں آپ لوگوں کو بیدار کر دیا.اب جلد سے جلد اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبود ی کے کاموں میں لگ جاؤ.اِس وقت ہر ایک جو مسلمان کہلاتا ہے، اس کے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے.جیل خانہ میں لوگوں کو بھرنے کا موقع نہیں بلکہ ان کو ان میں سے نکالنے کا موقع ہے.دشمن آپ لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کر گھبرا رہا ہے.وہ محسوس کر رہا ہے کہ اب آپ نے اس کے مخفی حملہ سے بچنے کا صحیح ذریعہ معلوم کر لیا ہے.پس و ہ تلملا رہا ہے اور اپنے شکار کو ہاتھوں سے جا تا دیکھ کر سٹ پٹا رہا ہے.ایک تھوڑی سی ہمت،
۶۰۳ ایک تھوڑی سی کو شش، ایک تھوڑی سی قربانی کی ضرورت ہے کہ صدیوں کی پہنی ہوئی زنجیریں کٹ جائیں گی اور اسلام کا سپاہی اپنے مولیٰ کی خدمت کیلئے بھی آزاد ہو جائے گا اور ہندووں کی غلامی کے بند ٹوٹ جائیں گے.اے بھائیو! ہمت اور استقلال سے اور صبر سے اپنی دینی اور تمدنی اور اقتصادی حالت کی درستی کی قدر کرو اور خدا تعالی کی طرف سچے دل سے جھک جاؤ اور اس کی مرضی پر اپنی مرضی کو قربان کر دو اور اس کے ارادوں کے سامنے اپنے ارادوں کو چھوڑ دو.اور اس کے کلام کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دو اور اس کی شریعت کو اپنا شعار بناؤ - اور اس کے ہر ایک اشارہ پر عمل کرنے کیلئے تیار رہو اور اپنے نفس کو بالکل مار دو.تب وہ اپنا وعدو الذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا کے ماتحت آپ کو اس راستے پر چلائے گا جو اس کی مرضی کے مطابق ہے.اور اپنی نصرت کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھاۓ گا اور آپ کے بازو کو قوت بخشے گا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کرے گا اور ہر ایک میدان میں خواہ علمی ہو خواہ تمدنی ہو خواوہ اقتصادی ہو، آپ کو فتح دے گا.متواتر قربانی کی ضرورت ہاں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ متوار اور لگا تار قربانی کی جائے اور عقل سے کام لیا جائے اور خدا تعالی کی نصرت پر نظر رکھی جائے اور بے فائدہ جوش سے اپنی قوتوں کو ضائع نہ کیا جائے اور خواہ مخواہ دشمن کے تیار کرده گڑ ھوں میں نہ گرا جائے.وہ لوگ جو مسلمانوں کو بھی اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں وہ گورنمنٹ سے ہمیں لڑوا کر ہماری طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں.اور اس وقت جو مسلمانوں کی توجہ مذہبی، اقتصادی، تمدنی آزادی کی طرف ہو رہی ہے، اس کا رخ دوسری طرف پھیرنا چاہتے ہیں.مگر میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان اس دھوکے میں نہیں آئیں گے.گورنمنٹ نے پیچھے جو کچھ بھی کیا ہو، اس وقت وہ مسلمانوں کی جائز مدد کر رہی ہے اور اگر کسی جگہ بعض مجسٹریٹ مسلمانوں کی تکلیف کا موجب ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ گورنمنٹ کی پالیسی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مجسٹریٹوں کے دل ان ہندوؤں کی باتوں سے متاثر ہیں کہ جو ملک میں امن دیکھنا پسند نہیں کرتے.پس ہمیں وقتی جوش سے متاثر ہو کر اپنے اصل کام کو نہیں بھولنا چاہئے.آج سے ہمارا فرض ہو کہ تبلیغ کر میں مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت کو درست کریں اور جس حد تک ممکن اور مذہباً جائز ہو مسلمانوں میں سے اختلاف کے مٹانے کی اور
۶۰۴ مستقل جد و جہد کے ساتھ ان جائز حقوق کو جن کے ہم اس ملک کے باشندہ ہونے کے لحاظ سے مستحق ہیں حاصل کریں.اور اس کے لئے پہلا قوم آپ کا ۲۲ جولائی کے جلسوں کو غیر معمولی طور پر کامیاب بنانا ہے.میں اب اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ہر اک دوسری بات کو فراموش کر کے آپ صرف اس امر کو مد نظر رکھیں گے کہ آج اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۲۷ء)
۶۰۵ اسلام کے غلبہ کیلئے ہماری جدوجہد از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۶۰۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھو الناصر اسلام کے غلبہ کیلئے ہماری جدوجہد برادران اسلام السلام عليكم آج آپ لوگ جو نصرت اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے جمع ہوئے ہیں، میں آپ کے سامنے اسلام کی ترقی کے متعلق کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ ان پر مناسب غور فرمائیں گے.آپ لوگ اس امر سے ناواقف نہیں ہیں کہ اسلام کو اس وقت کی قدر نقصانات پہنچ رہے ہیں اور ہر میدان میں مسلمان کمزور ہو رہے ہیں.اس کی وجہ جیسا کہ آپ لوگ خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کی ہے کہ کبھی بھی مستقل اور مدبّرانہ جدوجہد مسلمانوں کی بہتری کی نہیں کی گئی.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ تجارت میں مسلمان پیچھے ہیں، ٹھیکیداری میں مسلمان پیچھے ہیں ، صنعت و حرفت میں مسلمان پیچھے ہیں، تعلیم میں مسلمان پیچھے ہیں، آڑھت میں مسلمان پیچھے ہیں، تنظیم میں مسلمان پیچھے ہیں ، اعلیٰ پیشوں میں مسلمان پیچھے ہیں، تبلیغ جو مسلمانوں کا ابتدائی فرض رکھا گیا تھا، اس میں بھی وہ سب قوموں سے پیچھے ہیں.زراعت بعض صوبوں میں ان کے قبضہ میں ہے مگر صرف نام کے طور پر.زمینیں مسلمانوں کے نام درج ہیں لیکن پیداوار ہندووں کے گھر جاتی ہے.اس کمزوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر معاملہ میں مسلمانوں کی آواز بے اثر اور ان کی کوشش بے سود جا رہی ہے.اغیار نے ان کے تمدن اور اقتصاد پر اس قدر قبضہ پالیا ہے کہ وہ مسلمان جو غلاموں کے آزاد کرنے کیلئے پیدا کیا گیا تھا، آج خود غلام بن رہا ہے.وہ گِردو پیش کے حالات سے اس قدر مجبور ہو رہا ہے کہ گو وہ سب سے زیادہ شور چائے مگر حقیقی آزادی نصیب ہونی اس کے لئے مشکل ہے اور کی وجہ ہے کہ آپ لوگ اس کی سب سے محبوب چیز یعنی اس کے مذہب کی بھی عزت کرنے
۶۰۸ کیلئے تیار نہیں.انا لله و انا الیہ راجعون اے بھائیوا ! ان تاریک حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایک روشنی کی صورت پیدا کر دی ہے.لین دشمنان اسلام کے دلی ارادوں کو شدھی اور سنگھٹن کی شکل میں ظاہر کر دیا ہے.جن کا سب سے گندہ پہلو وہ ناپاک اور گندہ لٹریچر ہے جو اسلام اور مقدس بانی اسلام کے خلاف لکھا جا رہا ہے.ہندوؤں کی عداوت کے اس خطرناک اظہار سے سوئے ہوئے مسلمان بھی بیدار ہو رہے ہیں.اور ان میں بھی صحیح اصول پر کام کرنے کا جوش پیدا ہو رہا ہے چنانچہ پچھلے دو ماہ میں اقتصادی غلامی سے آزادی کے لئے چھوت چھات کی تحریک مسلمانوں میں بڑے زور سے جاری ہے اور اس کا زبردست اثر پیدا ہو رہا ہے.اس وقت تک ہزاروں دکانیں مسلمانوں کی کھل چکی ہیں اور لاکھوں روپے کا فائدہ مسلمانوں کو حاصل ہو چکا ہے.ہندو ساہو کار سے سود پر روپیہ لینے کے خلاف ایک عام رَو جاری ہے جو اگر کامیاب ہو گئی تو انشاء الله کلی طور پر مسلمانوں کو ہندوؤں کے قبضے سے آزاد کرا دے گی.کفایت شعاری کی تحریک مسلمانوں میں پیدا ہو رہی ہے.تنظیم کی طرف وہ متوجہ ہو رہے ہیں اور اپنے کھوئے ہوۓ حقوق لینے کی بھی انہیں فکر پیدا ہونے لگی ہے.اس تحریک کو دیکھ کر ہندو کو شش کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ تحریک دب جائے اور اس کے لئے انہوں نے دو تدبیریں اختیار کی ہیں.ایک تو وہ مسلمانوں کو جوشی والا کر گورنمنٹ سے لڑوانا چاہتے ہیں دوسرے فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر ہم میں آپس میں پھوٹ ڈلوانی چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ گورنمنٹ میں بھی اور پبلک میں بھی انتہائی کوشش کر رہے ہیں.خفیہ ہی خفیہ حکام اور بعض مسلمانوں کے ذریعہ سے ایسی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں کہ مسلمان ایک طرف تو گورنمنٹ سے اُلجھ جائیں اور دوسری طرف آپس میں لڑنے لگیں.اگر اس وقت آپ لوگوں نے ان کی چالوں کو نہ سمجھا اور ان کے دھوکے میں آگئے تو پھر سمجھ لیجئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھیں گے اور اسلام کو ذلیل کرنے کی کوشش کریں گے.ان کی ان کوششوں کو باطل کرنے کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ پورے جوش اور مستقل ارادہ کے ساتھ تبلیغ اور اتحاد باہمی کی تحریکات کو جاری رکھا جائے.چھوت چھات ، بنئے کے سود سے پرہیز کی تلقین کی جائے.گورنمنٹ سے اپنی تعداد کے مطابق حقوق کا مطالبہ کیا
۶۰۹ جائے.سرحدی صوبہ جس میں اسی فیصدی مسلمان بستے ہیں اور ذکاوت اور عقل میں ہندوستان کے کسی صوبہ سے پیچھے نہیں ہیں اور جنہیں محض ہندوؤں کی مخالفت کی وجہ سے حقوق نیابت سے محروم رکھا گیا ہے، اس کو نیابتی حقوق دلوانے کی کوشش کی جائے اور جب تک ان تحریکات میں پوری طرح کامیابی حاصل نہ ہو جائے اس جدوجہد کو ترک نہ کیا جائے.اے بھائیو! یہ جلسہ اس جدوجہد کا پہلا مظاہرہ ہے نہ کہ اس کا اختتام ، اس قدر عظیم الشان کام ایک دن میں نہیں ہو جاتے‘ وہ مہینوں یا سالوں کی کو شش چاہتے ہیں اور بہترین دماغوں کی خدمات اور بہت بڑی وقتی اور مالی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں.پس آپ لوگ اس جلسہ میں شامل ہو کر یہ خیال نہ کریں کہ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے.اس جلسہ میں تو جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائیوں کے سامنے یہ اقرار کیا ہے کہ ہم اسلام کی ترقی کیلئے ہر ایک قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں.مگر صرف اقرار کر دینے سے کام نہیں ہو جاتے.اصل کام اس جلسہ کے بعد شروع ہو گا جب کہ آپ کی آزمائش ہوگی کہ آپ اپنے عہد کو اپنے عمل سے پورا بھی کرتے ہیں یا نہیں.عہد خواہ کس قدر ہی جوش سے کیا جائے، نفع نہیں دیتا لیکن کام خواہ کتنا بھی تھوڑا ہو مفید ہو تا ہے.خالی ریزولیوشن پاس کر دینا سچائی کی ہتک کرنا ہے.سچائی ہمارے منہ کے تحفوں کو قبول نہیں کرتی.وہ ہماری عملی قربانی چاہتی ہے پس آج کے ریزولیوشن در حقیقت عہد ہیں جو آپ نے کئے ہیں اور اب آپ کا فرض ہے کہ ان ریزولیوشنوں کے مطابق جد و جہد شروع کریں اور اپنے ملنے والوں اور ہمسایوں کو اپنا ہم خیال بنا کر انہیں بھی اس جدوجہد میں شریک کریں یہاں تک کہ ایک مسلمان بھی باقی ایسا نہ رہے جو آپ کے خیالات کے مخالف ہو اور اس جدوجہد میں شریک نہ ہو.ہاں یہ مد نظر رہے کہ فساد اور دنگا اسلام کو پسند نہیں.امن کے ساتھ لیکن بہادری کے ساتھ اپنا کام کریں اور دلیل کے زور سے اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنی بات منوائیں نہ کہ زبردستی.ہاں جو لوگ بِلاوجہ آپ کے کام میں روک ڈالنا چاہیں ان سے بھی نہ ڈریں کہ بُزدل دین اور دنیا دونوں میں ذلیل ہوتا ہے.اگر آپ اس تجویز کے مطابق عمل کریں گے تو يقيناً الله تعالی کی مدد سے آپ کو گلے کامیاب ہوں گے اور خدا تعالی کی تائید آپ کو حاصل ہوگی.اس کام کے لئے ہر شہر ،قصبہ اور ہر گاؤں میں ایسی کمیٹیاں بننی چاہئیں جن میں ہر ایک فرقہ کے آدمی شامل کئے جائیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.یاد رکھیں کہ وہ معاملات جو
۶۱۰ دشمنان اسلام سے تعلق رکھتے ہیں یا سیاسی ہیں، ان میں اسلام کی تعریف یہی ہے کہ ہراک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے.دشمن بھی یہی تعریف اسلام کی سمجھتا ہے اور وہ اس تعریف کے مطابق ہم سے سلوک کرتا ہے.پس اس تعریف کے مطابق ہی ہمیں مشترکہ معاملات میں کام کرنا چاہئے.اور اپنی اپنی تعریفوں کو خالص مذہبی معاملات تک محدود رکھنا چاہئے کہ یہی ایک راه صلح کی ہے.یاد رکھئے کہ کوئی ایک حصہ مسلمان کہلانے والوں کا اکیلا اس عظیم الشان کام کو نہیں کر سکتا جو ہمارے سامنے ہے.اور نہ کوئی ایک سوسائٹی جس کا دائرہ محدود ہو، اس کام کو کر سکتی ہے.وہی کمیٹی اس عظیم الشان کام کو کر سکتی ہے جس میں سب فرقوں کے لوگ شامل ہوں اور جن کا دروازہ کامل طور پر سب مسلمان کہلانے والوں کے لئے کھلا ہو.بے شک ہر مجلس یا کمیٹی کا حق ہے کہ وہ ایسا کام اپنے ذمہ نے جو اس کے دائره عمل کے اندر ہو.لیکن اس کام کو جو سب مسلمان کہلانیوالوں کے ساتھ وابستہ ہے اور امتياز کی اجازت نہیں دیتا کسی ایسی کمیٹی کا اپنے ہاتھ میں لینا جس میں ہر اک فرقہ کو آزادی کے ساتھ شمولیت کا حق نہ ہو اور جو صرف چند آدمیوں کی رائے کے ماتحت سب لوگوں کو ملا نا چا ہے کبھی اور کبھی کامیابی تک نہیں پہنچا سکتا.پہلے اس قسم کے تدابیر سے اسلام کو نقصان پہنچ چکا ہے اور مسلمانوں کی تجارتیں تباہ ہو چکی ہیں، کالج برباد ہو چکے ہیں.ملازمتیں کھوئی گئی ہیں، زمینیں نیلام ہو چکی ہیں اور آئنده اس قسم کی کوشش پر مسلمانوں کو تباه او ر برباد کر دے گی.بس ناجائز جوش پیدا کر کے قوم کو تباہی کے راستے پر ڈالنے اور الگ الگ جدوجہد کرنے کی بجائے ہر اک شہر اور قصبہ میں ایسی کمیٹیاں بننی چاہئیں جو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں پر مشتمل ہوں اور جو دلیری اور جرأت سے اسلامی حقوق کے لئے مناسب کوشش کرنے کیلئے تیار ہوں.اور کام کا پروگرام ایسا بنایا جائے جس میں وہ مسلمان بھی شامل ہو سکیں جو کہ گورنمنٹ میں رسوخ رکھتے ہیں.کیونکہ اگر عمدگی سے ان سے کام لیا جائے تو یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی بہت کچھ مدد کر سکتے ہیں اور پچھلی ناکامیوں کا سبب یہی تھا کہ کام ایسے رنگ میں شروع کیا گیا تھا کہ گورنمنٹ کے ملازم یا گورنمنٹ کے ساتھ رسوخ رکھنے والے لوگ مسلمانوں کی مدد نہیں کر سکتے تھے بلکہ انہیں ان کی مخالفت کرنی پڑتی تھی.اس طرح یہ نقص بھی تھا کہ طریق عمل ایسا چنا گیا تھا کہ بعض نہایت کار آمد اور زبردست سوسائیٹیاں اور جماعتیں اپنے مذہبی عقیدوں کی وجہ سے اس طریق عمل کو اختیار ہی نہیں کر سکی تھیں.پس آپ پر جو اللہ تعالیٰ نے محض رحم فرما کر اتحاد کا
۶۱۱ موقع نکالا ہے، اسے ضائع نہ کیا جائے اور تمام مسلمان کہلانے والوں کی مشترکہ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ایک دوسرے کے مذہبی امور میں دخل نہ دیا جائے اور طریق عمل ایسا چُنا جاۓ کہ گورنمنٹ ملازم اور گورنمنٹ میں رسوخ رکھنے والے مسلمان بھی اس میں حصہ لے سکیں یا کم سے کم ان کو اس کام کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر اس طرح کام کیا گیا تو انشاء الله ضرور کامیابی ہوگی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے دشمنوں کو ہوش آ جائے گا.پس کیا ہی اچھا ہو کہ آج آپ لوگ اس امر کا بھی عہد کر کے اُٹھیں کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر آپ ایک ایسی کمیٹی تیار کر لیں گے اور اپنے علاقہ میں آج کے پاس شدہ ریزولیوشنوں کے مطابق عملدرآمد شروع کر دیں گے.میں نے آئندہ کام کے متعلق ایک تفصیلی سکیم سوچی ہے جسے میں اگر ایسی کمیٹیاں بن گئیں تو آہستہ آہستہ ان کے سامنے پیش کروں گا تاکہ جو امور انہیں پسند ہوں وہ ان پر عمل کر کے اسلام کی خدمت کر سکیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ انہیں پسند ہی کریں گے کیونکہ وہ ایسی تدابیر ہیں کہ جو ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے قابل عمل ہیں.اور ان پر عمل کر کے آئندہ کا پروگرام باحسن وجوه پورا ہو سکتا ہے.میں آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دستگیری فرمائے اور انہیں ایسی سمجھ دے کہ وہ ان امور میں مشترک ہو کر کام کرنے لگیں جن پر عمل کرنا مسلمانوں کی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے.واخردعوانا أن الحمد للہ رب العلمین - والسلام خاکسار مرزا محموداحمد امام جماعت احمدیہ قادیان (الفصل ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء)
۶۱۳ سرحدسے ہندوؤں کا اخراج از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۶۱۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ سرحدسے ہندوؤں کا اخراج ملاپ کی شرانگیز تحریر (تحریر فرموده مورخہ ۲۸ جولائی ۱۹۲۷ء) سرحد کی خبر ہے کہ راجپال کی کتاب اور ورتمان کی تحریرات کی وجہ سے وہاں کے خوانین نے ان ہندوؤں کو جو تجارت کرتے تھے اپنے اپنے علاقہ سے نکل جانے کا حکم دیا ہے.اس پر ملاپ کا ایڈیٹر نہایت سخت ناراض ہے.اور اس تمام فعل کا الزام خصوصیت سے میری تحریرات پر رکھتا ہے.اس امر میں ملاپ کے ایڈیٹر صاحب سے ہمدردی رکھتا ہوں.اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ان ہندووں کی حفاظت میں جو سرحد پر رہتے ہیں ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے اور درحقیقت ہم حیران ہیں کہ سرحد کے پُر جوش افغان جن کی تربیت پنجاب سے بالکل جداگانہ ہے‘ کس طرح اپنے جوشوں کو خلافِ معمول دبائے ہوئے ہیں.ملاپ کے ایڈیٹر صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سرحدی افغان اسلامی شعار کی اس قدر غیرت رکھتے ہیں کہ چند سال ہوئے ایک سپاہی نے ایک انگریز افر کو صرف اس لئے مار دیا تھا کہ اس نے قبلہ کی طرف پاؤں کئے ہوئے تھے.ہم اس فعل کو خواہ احکام شریعت کے خلاف سمجھیں لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک یہ امر شریعت کے مطابق تھا.پس اس قدر جلد ان لوگوں میں یہ تغیر پیدا ہو جانا کہ رسول کریم ﷺکی ہتک کے موقع پر بجاۓ جوش میں آکر خون کرنے کے انہوں نے مہلت دے کر ہندو دکانداروں کو اپنی زمینوں سے چلے جانے کا حکمدیا‘ ایک بہت بڑی بات ہے اور گو میرے نزدیک ابھی انہیں اور ترقی کی ضرورت ہے.مگر یہ تبدیلی خوش کن تبدیلی ہے جس کے لئے میں خوانین سرحد کو مبارک باد دیتا ہوں.میں خوش ہوں کہ اس تبدیلی میں ہماری جماعت کا بھی حصہ ہے.کئی علاقوں کی نسبت جب معلوم ہوا کہ وہاں کے افغان جوش میں ہیں تو ہمارے آدمیوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ اسلام کی عزت کے
۶۱۶ خیال سے قتل و غارت سے پرہیز کریں.چنانچہ انہوں نے اقرار کیا.اور کیا ہندو صاحبان اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ لوگ جو تھوڑے تھوڑے جوش پر قتل کر دیا کرتے تھے، ان کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کے معالمہ میں اس قدر صبر سے کام لینا کوئی معمولی بات ہے اور کیا یہ قابل قدر تبدیلی نہیں؟ ہمارے آدمیوں نے مزید کوشش کی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی جگہ سے نکالا بھی نہ جائے اور بعض بااثر علماء نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کے لئے بھی کوشش کریں گے.اور اگر اس امر میں ان علماء کی کوششیں کامیاب ہو گئیں تو موجودہ ایجی ٹیشن کا یہ سب سے خوشگوار میں ہو گا اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ عالم اسلام کس طرح آنا ًفاناً خوشگوار تبدیلی پیدا کر رہا ہے.میں ہندو اخبارات کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ بعض ہندوؤں نے اس موقع پر نہایت اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا ہے اور باوجود سرحد کے مخصوص حالات سے واقف ہونے کے اور وہاں پشت ہا پشت سے رہنے کے بجائے اس امر پر اظہار افسوس کرنے کے کہ بعض خبيث الطبع لوگوں نے پاکبازوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی ہتک کی ہے ، اُلٹا ان لوگوں کے خیالات کی تائید کر کے سرحد کے باغیرت مسلمانوں کو اور جوش دلایا.اگر بعض لوگ ایسا نہ کرتے تو شاید معاملات اس حد تک نہ پہنچتے جس حد تک کہ اب پہنچ گئے ہیں.بہرحال ہم اب بھی کوشش کر رہے ہیں اور سرحد کے قوانین سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ہندو وں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا ایک اور موقع نہیں دیں گے.انہیں سب سے زیادہ چھوت چھات اور مسلمانوں کی دکانیں کھلوانے اور ہندوؤوں سے سودا نہ لینے کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور اس کے نتیجہ میں اگر وہاں کے ہندو آپ ہی آپ کام نہ ہونے کے سبب سے اس ملک کو چھوڑ دیں تو اس کا الزام ان پر نہ ہوگا.لیکن انہیں چاہئے کہ خود ہندوؤں کو اپنے علاقہ سے نکل جانے کے لئے نہ کہیں.میں سرحد کے بااثر اصحاب کو اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ افغانستان، روساور ہزارہ کی تجارت کروڑوں روپیہ کی ہے اور یہ سب کی سب ہندووں کے قبضہ میں ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ جلد سے جلد اس تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسلام کی مدد کریں.اسقدر روپیہ سالانہ ان کے ہاتھوں سے جا کر اسلام کی بیخ کنی کی کوششوں پر یا مسلمانوں کے کمزور کرنے پر خرچ ہوتا ہے.پس انہیں چاہئے کہ وہ اپنی دکانیں کھولیں اور کم سے کم اسلامی ممالک کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اگر وہ اس سال کوشش کر کے اس تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو یقیناً اگلے سال اس کا اثر پنجاب کی تجارت پر پڑے گا اور پنجاب میں بھی مسلمانوں کی
۶۱۷ تجارت مضبوط ہو جائے گی.اس کے بعد میں پھر ایڈیٹر ملاپ اور ان کے ہم آواز لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ اوپر جو مشورہ میں نے دیا ہے ، وہ اپنے مذہب کے مطابق دیا ہے.ہمارا مذ ہب سختی کا حکم نہیں دیتا.اس لئے اس نازک وقت میں بھی جب کہ ہمارے احساسات کو نہایت بُری طرح کُچلا گیا ہے ، ہ م امن اور صلح کی تعلیم دے رہے ہیں.لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ آریہ سماج کے کسی ممبر کا کوئی حق نہیں کہ وہ سرحدی افغانوں کے اس فعل پر کوئی اعتراض کرے.آریہ سماج کی اپنی تعلیم یہ ہے کہ مذہب کی ہتک کرنے والے کو ملک سے نکال دیا جائے.دیکھئے پنڈت دیانند صاحب اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں کیا کہتے ہیں.’’ جو شخص وید اور عابد لوگوں کی وید کے مطابق بنائی ہوئی کتابوں کی بے عزتی کرتا ہے.اس وید کی بُرائی کرنے والے منکر کو ذات، جماعت اور ملک سے نکال دینا چاہئے." (ستیارتھ پرکاش صفحہ ۵۹.ایڈیشن چہارم) اگر پنڈت ویاند صاحب کے نزدیک و ید ہی نہیں بلکہ وید کے مطابق لکھی ہوئی کتابوں کی بُرائی کرنے والے کو بھی ملک سے نکال دینا چاہئے.اور شاید اس قانون کے مطابق ملاپ اور پر کاش وغیرہ کی بُرائی کرنے والے کو بھی ملک سے نکال دینا چاہئے کیونکہ ان اخبارات کو بھی ویدوں کے مطابق تی لکھنے کا دعویٰ کیا ہے.تو کیا وجہ ہے کہ جس جگہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کی جائے اور اس ہتک پر دوسرے ہندو رضامندی کا اظہار کریں تو وہی سلوک جو پنڈت دیانند صاحب نے مذہب کی ہتک کرنے والوں کے لئے مقرر کیا ہے، ان سے نہ کیا جائے.کیا صرف و ید کی ہتک کرنے والا ہی اس امر کا مستحق ہے کہ اسے ملک سے نکالا جائے.دو سرے مذاہب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی اپنے مذہب کی ہتک کرنے والوں کو ملک سے نکال دیں.مگر میں باوجود پنڈت صاحب کی اس تعلیم کے سرحد کے خوانین سے یہی کہوں گا کہ ہم قرآن کریم کے ماننے والے ہیں جو رحم اور صلح کی تعلیم دیتا ہے.پس وہ اپنے خدا داد رسوخ سے کام لے کر اپنے بھائیوں کے جو شوں کو ٹھنڈا کریں اور اقتصادی تدابیر کے اختیار کرنے سے زیادہ کچھ نہ کریں.اور جو ہندو مسلمانوں کے چھوت چھات اختیار کرنے اور سود ترک کرنے کے باوجود بھی ان کے ملک میں رہنا چاہیں انہیں اپنے ملک میں امن سے زندگی بسر کرنے دیں جیسا کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں.آخر میں میں ملاپ کے ایڈیٹر صاحب کی اس شر انگیز تحریر کی طرف خود ہندو صاحبان کو
۶۱۸ توجہ دلاتا ہوں جو انہوں نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ :.’’گورنمنٹ کا فرض ہے کہ جن علاقوں سے ہندووں کو جلا وطن کیاگیا ہے.ان علاقوں پر چڑھائی کر کے ان علاقوں کو انگریزی علاقہ کے ساتھ شامل کر لینا چاہئے." اس وقت جب کہ سرحد پر پہلے سے ہی جوش پھیلا ہوا ہے ، یہ الفاظ سوائے فساد کی آگ بھڑکانے کے اور کیا اثر کر سکتے ہیں.افغان سرحد جو سینکڑوں سال سے اپنی آزادی کیلئے سربکف رہے ہیں اور گورنمنٹ برطانیہ نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے سرحد پر امن قائم کیا ہے اس تحر یر کا اثر سرحد کے افغانوں پر اور گورنمنٹ کی پالیسی پر کیا ہو گا.کیا افغان اس تحریر کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہ نکالیں گے کہ ہندو ہماری آزادی کو برباد کرنا چاہتے ہیں اور کیا ان کا جوش ان کے ہم مذہبوں کے خلاف آگے سے بھی تیز نہ ہو جائے گا اور کیا اس تحریر کے نتیجہ میں انگریزی سیاست کو جو نہایت قیمتی جانیں قربان کرنے اور کروڑوں روپیہ خرچ کے بعد وہاں قائم ہوتی ہے ، ایک زبردست ٹھیس نہ لگے گی.میں ہندو صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس قسم کے غیر ذمہ دار اشخاص کو روکیں کہ سارے فساد کے یہی بانی ہیں.یہ لوگ موقع کی نزاکت اور کام کرنے والوں کی مشکلات کو نہیں دیکھتے اور نادان دوست کی طرح اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کو نقصان پہنچا رہے ہیں.اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ نوجوانان سرحد اس موقع پر نہایت بُردباری سے کام لے رہے ہیں.اور ہر اک معقول بات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں.پس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس قسم کے فتنہ انگیز مضامین کی روک تھام کی جائے.میں ہندو صاحبان سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ جس طرح وہ سرحد کے بھائیوں کی ہمدردی کی طرف متوجہ ہیں اسی طرح ده چمبہ اور دوسری ریاستوں میں جو مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، اس کی طرف بھی توجہ کریں اور اس ظلم کو جو کمزور مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے دور کریں.ورنہ ان کا کوئی حق نہیں کہ ابتداء خود کر کے اس کے انجام سے محفوظ رہنے کیلئے واویلا کریں- واخردعوانا ان الحمد للہ رب العلمین - خاکسار مرزا محموراحمد ۱۹۲۷ء.۷.۲۸ الفضل / اگست۱۹۴۷ء)
۶۱۹ موجودہ بے چینی کے چندشاخسانے از سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۶۲۱ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھو الناصر موجودہ بے چینی کے چند شاخسانے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ ہر ایک اہم امر کے ساتھ چند ضمنی امور پیدا ہو جایا کرتے ہیں جو بعض وقت اصل معاملہ سے بھی زیادہ لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اسی طرح موجودہ بے چینی میں بھی ہوا ہے.راجپال کی کتاب کے متعلق مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی.گورنمنٹ اس کے علاج کی فکر میں تھی کہ کنوردلیپ سنگھ صاحب کا فیصلہ ہوا.ملک کی بد قسمتی سے وہ فیصلہ گورنمنٹ اور مسلمانوں کے خیالات کے خلاف ہوا.اس پر طبعاً مسلمانوں کے بے چینی اور بڑھی.اتنے میں ورتمان میں ایک مضمون شائع ہوا جو مسلمانوں کے نزدیک پہلے سب مضامین سے بڑھ گیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ گورنمنٹ اپنی طرف سے مسلمانوں کی دلجوئی کے لئے ہر ایک ممکن کوشش کر رہی تھی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج سَرہیلی کی جگہ کوئی مسلمان گور نر ہو تا تو وہ بھی ہتک رسول کریم ﷺکے مضامین کے معاملہ میں سَرہیلی سے زیادہ کچھ نہ کرتا اور کچھ نہ کر سکتا.مگر بعض طبائع جوش کے انتہائی اثرات کے ماتحت اس خد مت کا اندازہ نہ کر سکیں اور شورش اور بڑھ گئی.اس شوری کے متعلق اب دو اور شاخسانے پیدا ہو گئے ہیں.پنجاب کونسل میں لاہور کے پچھلے جلسوں کے ذکر کے دوران میں سر جیفرے مانٹ مورنسی وزیر مالیہ نے بیان کیا کہ جس وقت ایک جلسہ کو منتشر کرنے کا حکم دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب اس جلسہ میں پہنچ گئے تو چوہدری افضل حق صاحب جو اس جلسہ کے پریذیڈنٹ تھے اور اس وقت نہایت سخت تقریر کر رہے تھے انہوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو دیکھتے ہی اپنی تقریر کا لہجہ بدل لیا اور نرم الفاظ استعال کرنے لگے.دوسری بات سر جیفرے مائنٹ مورنسی نے یہ بیان فرمائی کہ گورنمنٹ برطانیہ نے
۶۲۲ مسلمانوں کی خاطر اس وقت جب کہ مسلمان بالکل مردہ کی طرح ہو گئے تھے ، معاہدہ لوزین میں بہت کچھ قربانیاں کر کے ان کی مدد کی.پس اس وقت جب کہ خطرہ معمولی ہے مسلمانوں کو گورنمنٹ پر اعتبار کرنا چاہئے.سر جیفرے بانٹ مورنسی کی تقریر کے ان دونوں حصوں پر ایک حصہ رعایا میں اس قدر جوش پیدا ہو گیا ہے کہ وہ پہلے مظاہرات سے کم نہیں ہے.لیکن میرے نزدیک اس قضیئہ نامرضیہ میں دونوں فریق کی غلطی ہے.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سر جیفرے مانٹ مورنسی نے جن الفاظ میں چوہدری افضل حق صاحب کا ذکر کیا ہے وہ الفاظ نامناسب تھے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے الفاظ پر جن الفاظ میں گرفت کی گئی ہے، وہ بھی نامناسب ہیں.ہمیں اپنی تحریر و تقریر میں اخلاق کے قوانین کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اخلاق کے قوانین حکومت اور رعایا دونوں پر یکساں طور پر حاوی ہیں.گورنمنٹ اپنی تمام شان کے باوجود ان قوانین سے بالا نہیں.اور رعایا اپنی تمام بے بسی کے باوجود ان قوانین سے بری نہیں.سرجیفرے مانٹ مورنسی کا عہدہ گورنر کے بعد ممتاز ترین عہدوں میں سے ہے اور غالباً وہ کچھ عرصہ کے بعد گورنری کے عہدہ پر مقرر ہونے والے ہیں.پس انہیں اپنی شان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی طنزآمیز گفتگو میں حصہ نہیں لینا چاہئے تھا.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ دلوں میں بل پڑے ہوئے بہت مشکل سے نکلتے ہیں.چوہدری افضل حق صاحب کے متعلق اگر انہیں کوئی ایسی رپورٹ آئی بھی تھی جو ان کے اخلاق پر اعتراض کا موجب ہوتی تھی تو انہیں بر سر اجلاس ان پر اس طرح دف گیری مناسب نہ تھی.کیونکہ اس قسم کی باتوں کے نتیجے میں اصلاح نہیں بلکہ فساد پیدا ہوتا ہے.مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں انہیں اصل معاملہ میں غلطی لگی ہے اور اس کے متعلق میں دوسرے مضمون میں روشنی ڈالوں گا.میرے نزدیک جن الفاظ میں انہوں نے معاہدہ لوزین کا ذکر کیا ہے وہ بھی ایک مدبّر کی شان کے خلاف ہیں.انہوں نے مسلمانوں کی حالت کو ایسا ذلیل کر کے دکھایا ہے اور پھر ان کی نجات اور اس طرح کلی طور پر گورنمنٹ برطانیہ کے احسان پر مبنی قرار دیا ہے کہ ایک مسلمان اس کو پڑھ کر ذلت محسوس کرتا ہے اور بجائے شکریہ کے افسردگی اور اپنی انتہائی بے بسی کا احساس اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے مگر میں اس مضمون میں بھی ان سے اختلاف رکھتا ہوں.اور بعد میں اس کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں گا.
۶۲۳ سر جیفرے کو مخلصانہ مشورہ دینے کے بعد میں ان صاحبان کو بھی جنہوں نے سر جیفرے کی تقریر کے مذکورہ بالا حصہ پر سختی سے اعتراض کئے ہیں کہتا ہوں کہ کیا سخت زبانی سے دنیا میں کبھی بھی نفع ہوا ہے.الفاظ کی سختی سے مقصد کی بلندی کبھی ثابت نہیں ہوتی.بلکہ الفاظ کی سختی سے ہمدردوں کی ہمدردی میں کمی پیدا ہو جاتی ہے.ہمیں اسلام نرمی کا حکم دیتا ہے اور ہمیں اپنے جوشوں کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے اور ہر ایک بات کو دلیل سے ثابت کرنا چاہئے کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس وقت تک کسی ایک شخص نے بھی گورنمنٹ کے اس اعتراض کو جو اس نے چوہدری افضل حق صاحب کے لہجہ کے متعلق کیا ہے، صحیح طور پر دور کرنے کی کو شش نہیں کی.اصل جواب یہ تھا کہ وہ تقریر لکھ دی جاتی جو چوہدری افضل حق صاحب کر رہے تھے اور بتایا جاتا کہ اس تقریر کے فلاں حصہ کے موقع پر ڈپٹی کمشنر صاحب آئے تھے.اس طریق سے ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ جاتا کہ گورنمنٹ کا نکالا ہوا نتیجہ غلط ہے یا درست.لیکن افسوس ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا اور پھر جب کہ ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سر جیفرے مانٹ مورنسی مجبور تھے کہ اس رپورٹ پر اعتبار کرتے جو ان کو بھیجی گئی تھی.اور گو ہم ان کے رویے کو غلط کہیں مگر ہم ان کی طرف غلط بیانی کا گند ہ الزام لگانے کا ہرگز حق نہیں رکھتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سر جیفرے جو کچھ کہہ رہے تھے اپنے نزدیک صحیح سمجھ کر کہ رہے تھے ، ان کے الفاظ پر مجھے اعتراض ہے.ان کے اس واقعہ کی طرف کونسل میں اشاره کرنے پر بھی مجھے اعتراض ہے.مگر یہ بات ہر گز ثابت نہیں بلکہ اس کا امکان بھی ثابت نہیں کہ وہ یہ بات اپنے پاس سے بنا کر کہہ رہے تھے.وہ ان رپورٹوں کے مطابق جو انہیں پہنچیں، تقریر کر رہے تھے.اور باوجود اس کے کہ ہم ان رپورٹوں کو غلط کہیں ہمارا حق نہیں کہ ہم ان کی طرف جھوٹ یا بد نیتی کو منسوب کریں.اس طرح ہر ایک بات پر نیت اور راستبازی پر حملہ کر دینے سے ملک میں ہر گز امن قائم نہیں ہو سکتا.اور یہ طریق خود ہمیں بد نام اور ذلیل کر دیا ہے.اور ہماری کم حوصلگی کو ظاہر کرتا ہے.اے بھائیو! ادب اور احترام کی کے لئے ذلّت کا موجب نہیں ہوتا بلکہ ہماری عزت نفس پر دلالت کرتا ہے.پس ہمیں ہمیشہ دوسروں کے ادب اور احترام کا خیال رکھنا چاہئے.علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ سر جیفرے آج پہلی دفعہ ہندوستان نہیں آئے انہوں نے اپنی عمر اس جگہ گزاری ہے.اور سب لوگ ان کے اخلاق اور ان کے رویے سے
۶۲۴ واقف ہیں.اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کے ملنے والے ان کے اخلاق کی تعریف اور ان کی خیر خواہی کی مدح کرتے ہیں.پس صرف ایک ایسی بات کی وجہ سے جس میں ہم ان سے اختلاف رکھتے ہوں، ان پر حملہ آور ہونا آئین اخلاق کے خلاف ہے.دنیا آگے ہی مسلمانوں کو وحشی قرار دیتی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اخلاق سے اس اعتراض کو دور کریں اور اپنی زبانوں اور اپنے اعمال سے ثابت کر دیں کہ اسلام کی تعلیم نے ہمارے اخلاق میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی اور قوموں میں نہیں ملتی.(الفضل ۲.اگست ۱۹۲۷ء)
۶۲۵ فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۶۲۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا ہم فرض (تحریر فرموده مورخہ 10 اگست ۱۹۲۷ء) ورتمان کے مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا اور سیر دوزخ کا مضمون لکھنے والا اور اس کا چھاپنے والا دونوں ایک سال اور چھ ماہ کے لئے دنیا کی دوزخ میں ڈال دیئے گئے.لوگ خوش ہیں.بعض لوگ مجھے مبارک باد کے تار دے رہے ہیں اور بہت سے خطوط کے ذریعہ سے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں.مگر میرا دل غمگین ہے.میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا اپنے سردار حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانہ کو نہیں قرار دیا.میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینے والے کی سزاقتل ہے.ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا میں ایک قوم کی تباہی کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.میں ایک دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا بلکہ میں اگلے اور پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.کیونکہ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے.کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو جِلادینے کے لئے آیا تھانہ کے مارنے کے لئے.وہ لوگوں کو زندگی بخشنے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے.اور وہ زمین کو آباد کرنے کے لئے آیا تھا نہ کہ ویران کرنے کے لئے.اللہ تعالیٰ آسمان سے اس کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ.۱؎ اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے تمہیں بلاتے ہیں.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا کے احیاء میں ہے نہ کہ موت میں.پس
۶۲۸ میں اپنے نفس سے شرمندہ ہوں کہ اگر یہ دو شخص جو ایک قسم کی موت کا شکار ہوئے ہیں.اور بد بختی کی مُر انہوں نے اپنے ہاتھوں پر لگالی ہے اس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عطا ہوئی تھی تو کیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے.کیوں اس کے زندگی بخش جام کوپی کر ابدی زندگی نہ پاتے اور اس صداقت کان تک نہ پہنچنا مسلمانوں کا قصور نہیں تو اور کس کا ہے؟ پس میں اپنے آقا سے شرمندہ ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش در حقیقت مسلمانوں کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے.قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے نہ دل کا اور میرے لئے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بُغض نکل کر اس کی جگہ آپ کی محبت قائم نہ ہو جائے.لوگوں کے مونہوں پر مہر لگانے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.یہ تو صرف ہمارے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.محمد رسول اللہ ﷺکی عزت تو اس میں ہے کہ دل اس کی محبت کے جذبات سے پر ہوں اور آنکھیں اس کے فراق میں نمناک اور زبانیں اس کی تعریف میں گویا.اگر سیرووزخ کا مضمون لکھنے والا اور اس کے چھاپنے والا دونوں قید ہو گئے ہیں تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمارے جذبات کو جو صدمہ پہنچا تھا اس کا بدلہ لے لیا گیا ہے.لیکن اے مسلمان کہلانے والے ! اس بات کو مت بھول کہ جو کچھ ان دونوں نے لکھا اور شائع کیا ہے وہ کروڑوں آدمیوں کے دلوں میں ہے اور جب تک اس کو مٹایا نہ جائے اس وقت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ أبي و أمی کی عزت قائم نہیں ہو سکتی.پس تو خوش نہ ہو کہ اگر تو سچا مومن ہے تو تیری خوشی اپنے انتقام میں نہیں.بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے انتقام میں ہے.اور وہ انتقام یہ ہے کہ تو اس وقت تک سانس نہ لے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر باقی ہے.تو اس پر خوش نہ ہو کہ تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت میں دنیا کو مار دیا بلکہ اس پر خوش ہو کہ تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں دنیا کو زندہ کر دیا.اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بخش آواز کو بعید ترین حِصص دنیا میں پہنچادیا.آہ! ہم کس بات پر خوش ہیں؟ کیا اس بات پر کہ انگریزی حکومت نے جو مذہباً عیسائی ہے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے اور بیسیوں آدمی مقرر کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کی اور اس بات کا ہمیں خیال بھی نہیں آتا کہ اس عزت کی حفاظت کے لئے ہم نے کچھ بھی نہیں گیا اور نہ کچھ کرنے کی فکر ہے.ہمیں دوسروں کے کئے پر کیا خوشی ہو سکتی ہے؟ اور ان کی غفلت پر
۶۲۹ شکوہ کا کیا حق پہنچتا ہے؟ جبکہ ہم خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت سے غافل ہیں.مسیحی ایک انسان کو خدا منوانے کے لئے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں اور جانوں کو خطرہ میں ڈال کر اور کروڑوں روپیہ سالانہ خرچ کر کے اپنے مذہب کی تلقین کرتے پھرتے ہیں.ہندوجواب تک اپنے مذہب کی تعریف بھی نہیں کر سکے اور جن کے فرقوں کا باہمی اختلاف اس سے بھی بڑھاہوا ہے جتنا کہ ان کے بعض فرقوں اور اسلام یا مسیحیت میں ہے.لاکھوں روپے خرچ کر کے ہر صوبہ میں پرچار کر رہے ہیں اور شدھی کی رَو چل رہی ہے.لیکن اسے مسلمان کہلانے والو! جکے نبی کی زبان پر خدا تعالی نے خود یہ الفاظ جاری کئے کہ یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا.۲؎ اسے تمام بنی نوع انسان !میں اللہ کی جانب سے تم سب کی طرف پیغام ہدایت دے کر بھیجا گیا ہوں.اور جن کی اپنی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کنتم خير امة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر.۳؎ تم سب سے بہتر امت ہو کہ جن کو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے تم نیکی کو دنیا میں پھیلاتے ہو اور بدی سے لوگوں کو باز رکھتے ہو.تم بتاؤ کہ تم نے نور اسلام اور پیغامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت کے لئے کیا کیا؟ اگر آپ لوگ اپنے فرض کو ادا کرتے تو آج دنیا میں رسول کریم اور اسلام پر حملہ کرنے والا کوئی نظر نہآتا.دنیا پر اسلام کی حکومت ہوتی اور تمام دل نگینِ مجھ سے منقّش ہوتے.بجاۓ گالیوں کے اس مقدس ہستی پر درود بھیجا جاتا.اگر آپ لوگوں کو اشاعت اسلام اور شریعت کے قیام کے لئے قربانی کرنے کی جرأت نہیں تو پھر دوسروں کی حرکات کا گلہ کیا.اور گورنمنٹ کی مدد سے رسول کریم کی عزت کی حفاظت پر فخر کیسا.کیا آپ لوگوں میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ پہلے اسے زہر دیا جائے اور پھر علاج کر کے اسے بچالیا جائے.وہ ڈوب جائے اور پھر لوگ اسے نکال لیں.یااس کامال چور لے جائیں اور پھر پولیس اس مال کو برآمد کر دے.اگر آپ اسے پسند نہیں کرتے بلکہ یہ پسند کرتے ہیں کہ آپ کو زمردیا ہی نہ جائے اور آپ سلامتی سے سمندر کے کنارے پر کھڑے رہیں.یاتختہ جہاز پر امن سے بیٹھے ہوئے ہوں.اور آپ کا مال گھروں میں محفوظ رہے اور کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے.تو بخدا یہ بتائیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ اس امر پر کیوں خوش ہوتے ہیں کہ پہلے لوگ انہیں گالیاں دیں اور پھر جیل خانوں میں چلے جائیں.کیوں یہ کوشش نہیں کرتے کہ لوگ انہیں گالیاں ہی نہ دیں.اور یہ کام بغیر اشاعت اسلام اور اصلاح نفس کے ہوہی نہیں سکتا.پس اٹھو اور
۶۳۰ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو اسلام کی اشاعت کے لئے اور اپنی اور اپنے بھائیوں کی اصلاح کے لئے خرچ کرو.پھر دیکھو کہ کس طرح دنیاپر امن قائم ہو جاتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور دنیا کے چاروں کونوں میں درخشاں نظر آتا ہے.اب بھی وقت ہے کہ اپنی پچھلی سستی کا کفارہ کرو اور اپنی غفلتوں کو ترک کرو.اور تقوی ہمدردی کا نقش اپنے دل میں جماؤ اور ہر اک مسلمان کہلانے والے کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دو.اور چُھوت چھات جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت تباہ ہو رہی ہے اسے ہندووں کے مقابلہ پر اسوقت تک اختیار کرو جب تک کہ وہ اس کو مسلمانوں کے متعلق نہ چھوڑیں.اور اپنے اخلاق کی درستی کرو اور درندگی اور وحشت کو چھوڑ کر استقلال اور حکمت سے کام کرنے کی عادت ڈالو.اور نفس پرستی کے خیالات کو دلوں سے نکال دو.اور پھراس دروازہ کی طرف دوڑو جس کے سوا تمہارے لئے کہیں پناہ نہیں.اور اس بارگاہ میں حاضر ہو جس کے سوا تمہارا کوئی چارہ کار نہیں اور ایک پختہ عہد اور نہ ٹوٹنے والا اقرار کرو کہ آئندہ اپنے مال اور اپنی جان اور اپنی ہر اک چیز کو خدا تعالی کی رضا کے حصول اور اشاعت اسلام کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار رہوگے.اور اپنی خواہشات اور اپنی اُمنگوں اور اپنے اہل و عیال کے آرام اور اپنے حاضرو مستقبل کے فوائد کو خدا تعالی کی راہ میں فدا کردو گے اور سادہ اور پاک زندگی بسر کرنے کی کوشش کروگے.کیونکہ وہ شخص جو میدان جنگ کی طرف جانے سے پہلے اَپنے آپ کو تیار نہیں کرتا میدان جنگ میں بھی کچھ نہیں کر سکتا.پس سادہ زندگی اور اسراف سے پرہیز اور خدمت دین کی عادت ڈال کر اس جہاد عظیم کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو جو اسلام کو پیش آنے والا ہے.اور یاد رکھو کہ جب تک وقت سے پہلے اس کے لئے تیاری نہیں کرو گے تو خواہ کیسے ہی مخلصانہ ارادے ہوں اور نیک نیتیں ہوں وقت پر کچھ نہ بن سکے گا اور اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کر سکو گے.پس اے بھائیو! ور تمان کے ایڈیٹر اور مضمون نگار کی قیدپر خوش نہ ہو بلکہ سمجھو کہ ان کی قید ہمارے لئے ایک تازیانہ ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ ہم خود کو تبلیغ اسلام کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت نہ کر سکے لیکن ایک غیر ہب کی گورنمنٹ نے اپنے قانون کے ذریعہ سے آپ کی عزت کی حفاظت کی.میرا یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ سے اس بارہ میں مدد نہیں لینی چاہئے کیونکہ باوجود پرہیز کے اگر مرض پیدا ہو تو علاج کرنا ہی پڑتا ہے.لیکن میرا یہ مطلب ہے کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کے
۶۳۱ قانون پر ہی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے.کہ وہ جُرم کو نہیں روک سکتا بلکہ صرف مجرم کو سزا دیتا ہے.اور خود تبلیغ اسلام اور شریعت کے قیام کے کام پر اس طرح زور دینا چاہئے کہ دل محبت رسول سے بھر جائیں اور کوئی شخص آپ کو بڑا سمجھنے والا باقی نہ رہے.مذکورہ بالا اہم فرض کی طرف توجہ دلانے کے بعد میں عزت رسول کے تحفظ کے بارہ میں ایک اور امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ گو جیسا کہ میں اوپر کے چکا ہوں عزت رسول کریم کا تحفظ خود ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہماری کوششوں پر منحصر ہے.لیکن پھر بھی چونکہ بعض لوگ نصیحت کو نہیں مانتے اور جُرم کے ارتکاب پر دلیر ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو روکنے کے لئے قانون کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہمیں مقدمہ ورتمان کے فیصلہ پر بے فکر نہیں ہو جانا چاہئے.کیونکہ گو اس فیصلہ نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ دفعہ ۱۵۳.الف میں ان لوگوں کی سزا کے لئے بھی قانون مہیا کر دیا گیا ہے کہ جو مقدس ہستیوں کو گالیاں دے کر ان کے پیروؤں کا دل دُکھاتے ہیں.لیکن اس قانون میں ابھی بہت سی خامیاں ہیں کہ جب تک وہ دُور نہ ہوں گی ملک میں امن قائم نہ ہو سکے گا.پس ہمارا فرض ہے کہ ہمت کی کمر کس کر کھڑے ہو جائیں.اور اس وقت تک آرام نہ کریں جب تک کہ وہ خامیاں دور ہو جائیں.اور ایک مکمل قانون بن جائے جس کے ڈر سے وہ شریر الطبع لوگ جو دلیل اور بُرہان کی قدر نہیں کرتے اپنے خُبث باطن کے اظہار سے رُکے رہیں.اور ان آسمانِ روحانیت کے ماہتابوں پر خاک ڈالنے کی کوشش نہ کریں جن کو خدا تعالی نے اپنے ہاتھوں سے پاک کیا اور جن کے کندھوں پر اپنے تقدس کی چادر اس نے ڈال دی.ہمارا فرض ہے کہ ایک آواز ہو کر گورنمنٹ کو توجہ دلائیں کہ وہ قانون کو ایسا مکمل کردے کہ آئندہ اس کی کمزوری کی وجہ سے ملک میں فتنہ پڑنے کا اندیشہ نہ رہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ خود اس کام کو کرنا نہیں چاہتی.(گورنمنٹ نے جس ہمدردی سے ور تمان اور راجپال کے مقدموں میں کام کیا ہے وہ بتاتا ہے کہ وہ پورے طور پر ہمارے جذبات سے ہمدردی رکھتی ہے اور اس کی ان خدمات کا شکریہ نہ ادا کرنا اول درجہ کی اخلاقی کمزوری اور کمینگی ہو گی.اور میں اس اشتہار کے ذریعہ سے بھی اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے گورنمنٹ پنجاب اور صوبہ سرحدی کا اور خصوصاً سرہیلی کا اس ہمدردی پر شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں سے ظاہر کی اور یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ ان کی حکمت عملی نے ملک کو خطرناک فسادات میں پڑنے سے بچانے میں بہت بڑی مدد دی ہے.میرا یہ مطلب ہے کہ چونکہ یہ قانون مختلف مذاہب کے لوگوں سے تعلق رکھتا
۶۳۲ ہے اس لئے ضروری ہے کہ گورنمنٹ کو مسلمان اپنے منشاء سے اطلاع دیں تاکہ اسے اپنی ذمہ داری کے ادا کرنے میں آسانی ہو اور وہ اہل ملک کی خواہش کے مطابق قانون بنا سکے.شاید بعض لوگوں کو خیال گزرے کہ اس سے پہلے قانون کی ترمیم کے متعلق جو مطالبہ کیا جا رہا تھا میں اس میں کیوں شریک نہیں ہوا اور کیوں ورتمان کے مقدمہ کے پہلے قانون کے مطابق چلانے پر میں زور دیتا رہا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک اس مقدمہ کا پہلے قانون کے مطابق ہونا ضروری تھا.اور اس وقت قانون کی تبدیلی کا مطالبہ کرنا قومی مصلحت کے خلاف تھا کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ اگر اس مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے ہم قانون کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے اور کوئی قانون پاس ہو جاتا تو اس کا یہ نتیجہ ہوتا کہ معزّز جج صاحبان ور تمان کے مقدمہ کا فیصلہ اس قانون کے ماتحت کر دیتے اور دفعہ ۱۵۳.الف کے متعلق بحث کرنے کی ضرورت نہ رہتی اور یہ تسلیم کیا جاتا کہ کنور دلیپ سنگھ صاحب کا فیصلہ بالکل صحیح تھا حالانکہ ہم یہ جانتے تھے کہ وہ فیصلہ غلط ہے.اور اس فیصلہ کے قائم رہنے میں مسلمانوں کی سخت ہتک تھی.پس اس وقت میں اس مطالبہ کو ناجائز سمجھتا تھا.اور میرا یہ خیال تھا اور صحیح خیال تھا کہ موجودہ قانون کی تشریح پہلے ہو جانی چاہئے اور یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کنور صاحب کا فیصلہ درست نہ تھا.اس کے بعد ہمیں قانون کے نقص کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.کیونکہ قانون میں نقص یہ نہیں کہ دفعہ ۱۵۳- الف راجپال اور ورتمان کے ایڈیٹر کو سزا دینے کے لئے کافی نہیں جیسا کہ کنور صاحب کا خیال تھا بلکہ اس میں اور نقصان ہیں.پس اب جب قانون کی تشریح ہو گئی ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قانون بانی مذہب اور مذہب پر حملہ کرنے والوں کو دو علیحدہ جُرموں کا مرتکب نہیں قرار دیتا تو اب ضروری ہے کہ قانون کی اصلاح کی جائے.اور ان دوسرے نقصوں کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے یہ قانون اس غرض کو پورا نہیں کر سکتا جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے.ہم اس قانون کے نقص کے دیر سے شاکی ہیں.چنانچہ ۱۸۹۷ء میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مذہبی فِتن کو دور کرنے کے لئے اسے ایک زیادہ مکمل قانون بنانا چاہئے.لیکن افسوس کہ لارڈ اینکن نے جو اس وقت وائسرائے تھے اس تجویز کی طرف مناسب توجہ نہ کی.اس کے بعد سب سے اول ۱۹۱۴ء میں میں نے سرا ڈوایئر کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ گورنمنٹ کا قانون مذہبی فِتن کے دور کرنے کے لئے کافی نہیں اور جب تک اس کو مکمل نہ کیا جائے گا ملک میں امن قائم نہ ہو گا انہوں نے مجھے اس
۶۳۳ بارہ میں مشورہ کرنے کے لئے بلایا.لیکن جس تاریخ کو ملاقات کا وقت تھا اس سے دو دن پہلے استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب امام جماعت احمدیہ فوت ہو گئے اور دوسرے دن مجھے امام جماعت منتخب کیا گیا.چونکہ وہ جماعت کے لئے ایک سخت فتنہ کا وقت تھا میں سرا ڈوایئر سے مل نہ سکا اور بات یو نہی رہ گئی.اس کے بعد ۱۹۲۳ء میں میں سرمیکلیگن سابق گورنر پنجاب سے ملا اور انہیں اس قانون کے نقصوں کی طرف توجہ دلائی.مگر باوجود اس کے کہ میں نے انہیں کیا تھا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں.انہوں نے یہ معذرت کر دی کہ اس امر کا تعلق گورنمنٹ آف انڈیا سے ہے اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس کے بعد میں نے پچھلے سال پر ایکسیلنسی گورنر جنرل کو ایک طویل خط میں ہندوستان میں قیام امن کے متعلق تجاویز بتاتے ہوئے اس قانون کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن افسوس کہ انہوں نے محض شکریہ تک ہی جواب کو محدود رکھا.اور باوجود وعدہ کے کہ وہ ان تجاویز پر غور کریں گے غور نہیں کیا.میرے اس خط کا انگریزی ترجمہ چھ ہزار کے قریب شائع کیا گیا ہے.اور تمام حُکام اعلیٰ، سیاسی لیڈروں، اخباروں، پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے سربر آوردہ لوگوں کو جاچکا ہے.اور کلکتہ کے مشہور اخبار ”بنگالی ‘‘ نے جو ایک متعصّب اخبار ہے لکھا ہے کہ اس میں پیش کردہ بعض تجاویز پر ہندو مسلم سمجھوتے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے.سرمائیکل اڈوائیز اور ٹائمز آف لندن کے مسٹر براؤن نے ان تجاویز کو نہایت ضروری تجاویز قرار دیا اور بہت سے ممبران پارلیمنٹ اور دوسرے سربر آوردوں نے ان کی اہمیت کو تسلیم کیا.لیکن افسوس کہ ان حُّکام نے جن کے ساتھ ان تجاویز کا تعلق تھا ان کی طرف پوری توجہ نہ کی.جس کا نتیجہ یہ ہوا جو نظر آرہا ہے.ملک کا امن برباد ہو گیا اور فتنہ پر فساد کی آگ بھڑک اٹھی.یہ بتاچکنے کے بعد کہ بزرگان دین کی عزت کی حفاظت کے متعلق میں شروع سے ہی کوشش کرتا چلا آیا ہوں.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ موجودہ قانون میں کیا کیا نقص ہیں.(۱) موجودہ قانون صرف اس شخص کو مجرم قرار دیتا ہے جو بہ نیت فتنہ کوئی مضمون لکھے براه راست انبیاء کی ہتک کو جُرم نہیں قرار دیتا.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا کہ راجپال کے مقدمہ کی طرح ہمیشہ ہی عدالتوں میں یہ بحث رہے گی کہ کسی شخص نے فساد ڈلوانے کی نیت سے کتاب لکھی تھی یا نہیں.یا اس سے فساد کا احتمال ہو سکتا تھا یا نہیں.اور قوموں میں فساد پڑ سکتا تھا یا نہیں.اور اگر کوکی جج اس رائے کا ہو جائے کہ فساد ڈلوانے کی نیت نہ تھی.یا یہ خیال کرلے کہ
۶۳۴ ان حملوں کی وجہ سے فساد نہیں پڑ سکتا تھا.یا یہ کہ دو قوموں میں فساد نہیں پڑ سکتا تھا تو پھر خواہ کیسی ہی گندی کتاب لکھی گئی ہو.اس کے لکھنے والے پر کوئی گرفت نہیں ہو سکے گی.پس قانون میں ایک ایسی دفعہ زیادہ ہونی چاہئے جس کی رو سے ہر وہ شخص جو خدا تعالی کی یا کسی مذہب کے بانی کی یا نبی کی ہتک کرے یا اس پر تمسخر اڑائے خواہ فساد کا احتمال ہو یا نہ ہو اسے سزا دی جا سکے.کیونکہ اگر فساد کے احتمال پر سزا کی بنیاد رکھی گئی قو میں اپنے بانیوں اور بزرگوں کی ہتک کرنے والوں کو سزا دلوانے کے لئے فساد کے آثار پیدا کرنے پر مجبور ہوں گی.اور یہ ناقص قانون بجاۓ امن پیدا کرنے کے فساد پیدا کرنے کا موجب ہوتا رہے گا.اور اس کا نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ جو قومیں اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق فسادسے احتراز کریں گی ان کے بزرگوں کی ہتک سے روکنے کے لئے کوئی قانون ہی نہ ہو گا اور یہ سخت ظلم کی بات ہوگی.(۲) دوسرا نقص اس قانون میں یہ ہے کہ اس قانون کے ماتحت صرف گورنمنٹ ہی مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس وجہ سے کسی ایسی کتب یا رسالے جن میں گندے سے گندے حملے بزرگان ِ دین پر کئے جاتے ہیں ان پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا اور اس کے نتیجہ سے فساو بڑھتا ہے.اگر ایسارسالہ ہندوؤں نے لکھا ہوتا ہے اور گورنمنٹ اس پر مقدمہ نہیں چلاتی تو مسلمانوں کا غصہ بڑھتا ہے.اور اگر مسلمانوں کی طرف سے ایسا رسالہ شائع ہوا ہے اور اس پر تو نہیں لیا جاتا تو ہندووں کا غصہ بڑھتا ہے.اور اس وجہ سے فساد کے مٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.پس ضروری ہے کہ اس قانون کی اصلاح اس طرح کی جائے کہ علاوہ گورنمنٹ کے اس بزرگ کے پیرو بھی جس کی ہتک کی گئی ہو اس ہتک کرنے والے پر نالش کر سکیں اور اسے سزا دلوا سکیں.راجپال کے مقدمہ میں گورنمنٹ کے خلاف مسلمانوں کے جوش کی بڑی وجہ یہی تھی کہ پریوی کونسل میں کیوں اپیل نہیں کی جاتی.اگر خود مقدمہ چلانے کی اجازت ہوتی تو مسلمان خود اس کام کو کر سکتے تھے اور گورنمنٹ کے خلاف کوئی جوش نہ پیدا ہوتا.پس قانون کی یہ اصلاح ضروری ہے کہ بزرگان دین کے پیروؤں کو بھی ان کی ہتک کرنے والوں پر نالش کرنے کی اجازت ہے.تاکہ اگر گورنمنٹ کسی پر مقدمہ چلانا مناسب نہ سمجھے تو بجائے ایجی ٹیشن کے لوگ خود مقدمہ چلا کر شریر کو اس کے کردار کی سزا دلا سکیں.جب تک یہ اصلاح نہ ہوگی گورنمنٹ پر رعایا کے مختلف حصے خواہ مخواہ ناراض رہیں گے اور اسے کبھی امن حاصل نہیں ہو گا.بے شک اس تبدیلی قانون میں بعض نقائص بھی ہیں لیکن ان کا علاج ہو سکتا ہے جیسا کہ میں نے اپنے خط بنام وائسرائے میں ثابت کیا ہے.
۶۳۵ (۳) تیسری اصلاح جس کی اس قانون میں ضرورت ہے یہ ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک مقدمہ نہ چلایا جائے جب تک کہ اصل کتاب والے پر بشرطیکہ اس نے گندہ ذہنی سے کام لیا ہو مقدمہ نہ چلایا جائے.اس وقت یہ ہو رہا ہے کہ ایک شخص پر گورنمنٹ مقدمہ چلا دیتی ہے حالانکہ اس نے ایک نہایت گندی کتب کا جواب لکھا ہوتا ہے.اس کو چھوڑ دیتی ہے جس نے حملہ میں ابتداء کی ہوتی ہے مگر شرط یہ ہونی چاہئے کہ دوسری کتاب پہلی کتاب کا حقیقی جواب ہونہ کہ نئی مستقل کتاب.(۴) چوتھا نقص اس قانون میں یہ ہے کہ یہ قانون صوبہ دار ہے.ایک صوبہ کا اثر دوسرے پر نہیں پڑتا.مثلا ً ور تمان جسے گورنمنٹ نے ضبط کیا ہے اس کی ضبطی صرف پنجاب سرحد اور یوپی میں ہوئی ہے.اگر ہندو اسے بنگال، بمبئی، مدراس، بہار وغیرہ میں شائع کرتے رہیں تو اس میں ان پر کوئی جُرم عائد نہیں ہوتا.حالانکہ سارا ہندوستان ایک ہے.ایک جگہ کی کتاب کا بد اثر سارے ملک پر پڑتا ہے.پس قانون یہ ہونا چاہئے کہ جب ایک گندی کتاب کو ایک صوبہ کی گورنمنٹ ضبط کرے تو سب صوبوں کی حکومتیں قانوناً مجبور ہوں کہ وہ اپنے صوبوں میں بھی اس کتاب کا چھپنایا شائع ہونا بند کر دیں.یا اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ اس قانون پر عملدر آمد گورنمنٹ آف انڈیا کے اختیار میں ہو جو کسی صوبے کی گورنمنٹ کے توجہ دلانے پر ایک عام حکم جاری کر دے جس کاسب صوبوں پر اثر ہو.ورنہ موجودہ قانون کی رو سے اس قسم کی شرانگیز کتابیں یکے بعد دیگرے مختلف صوبوں میں چھپ کر شائع ہو سکتی ہیں.اور جب تک کہ سب صوبوں میں ان کا چھپنا بند ہو اس وقت تک ملک میں خون کا دریا بہہ سکتا ہے.چنانچہ اس وقت بھی ملک کے قانون کے لحاظ سے راجپال کی کتاب بنگال، بمبئی، مدراس اور برہما میں چھاپ کر شائع کی جاسکتی ہے اور یہ بات قانون کے خطرناک نقص پر دلالت کرتی ہے.غرض موجودہ قانون میں یہ نقص ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے.اور جب تک ان کا ازالہ نہ ہو گا نہ بزرگانِ دین کی عزتوں کی حفاظت ہو سکے گی اور نہ ملک میں امن قائم ہو گا.پس چاہئے کہ ہندوستان کے تمام شہروں سے مشترکہ جلسے کر کے مندرجہ بالا نقصوں کی طرف اپنی اپنی گورنمنٹوں کی معرفت ہندوستان کی حکومت کو توجہ دلائی جائے تا ایسا نہ ہو کہ ور تمان کے فیصلے سے مطمئن ہو کر گورنمنٹ قانون میں اصلاح کا خیال چھوڑ دے.یا ایسی اصلاح کرے جو ہماری ضرورتوں کو پورا
۶۳۶ کرنے والی نہ ہو.میں امید کرتا ہوں کہ تمام مسلمان اول الذکر کام کی طرف تو خود فوری توجہ کریں گے.اور دوسری بات کی نسبت اپنی اپنی گورنمنٹوں کی معرفت گو ر نمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں گے اور اپنے منشاء سے آگاہ کریں گے.اور چونکہ یہ کام امن کے قیام کے لئے ہے اور خود گورنمنٹ کو بدنامی سے بچاتا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو اہل ملک کی خواہش کے مطابق قانون کی تبدیلی سے انکار نہیں ہوگا.ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دوسرا کام گو عارضی ہے لیکن پہلا کام ایک مستقل کام ہے اور اس وقت تک پورا نہ ہو گا جب تک کہ تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں کی مشترکہ کمیٹیاں ہر قصبہ اور ہر شہر میں قائم نہ ہو جائیں گی.پس اے بھائیو! اٹھو اور اس قسم کی کمیٹیاں جلد سے جلد قائم کرو.ہمت اور استقلال سے خدا کے دین کی اشاعت اور قوم کی ترقی کے لئے کھڑے ہو جاؤ.تب خدا خود آسمان سے تمہاری مدد کے لے آئے گا اور اس کا نور تمہارے آگے آگے چلے گا.واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین - والسلام مرزا محموداحمد امام جماعت احمدیہ قادیان ۱۰.اگست ۱۹۲۷ء الانفال :۲۵ کو الاعراف :۱۵۹ ٣ ال عمران :۱۱۱
۶۳۷ ہندو مسلم اتحاد کے متعلق تجاویز از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ ا لمسیح الثاني
۶۳۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی على رسؤله الكريم ہندو مسلم اتحاد کے متعلق حضرت امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی حقوق کی حفاظت کا انتقام (تحریر فرموده یکم ستمبر ۱۹۲۷ء بمقام کنگز لے شملہ) (شملہ میں ۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو تمام فرقوں کے لیڈروں کی جو کانفرنس مسئلہ اتحاد کے متعلق غور و خوض کرنے کے لئے منعقد ہوئی اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی.اس موقع پر اتحاد کے بارہ میں حضور نے جو بیس امور پیش فرمائے ان کا ترجمہ درج ذیل ہے.) ۱.ہر جماعت کو اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کی اور دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے لیکن ناجائز ذرائع نہیں استعمال کرنے چاہئیں.۲- کسی جماعت کے مذہب یا بانی مذہب یا دوسرے پاکباز لوگوں کے متعلق جن کو کوئی فرقہ قابل تنظیم سمجھتا ہو، گندی اور معاندانہ تحریروں اور تقریروں کا سدّ باب ہو نا چاہئے اور کسی قوم کے مذہب پر کسی ایسے عقید ہ یا دستور کی بناء پر جس کو وہ قوم اپنے مذہب کا جزونہ سمجھتی ہو، کوئی اعتراض نہ کیا جائے.متعلقہ جماعتیں اس کے متعلق ذمہ دار سمجھی جائیں اور ایسا کرنے والے کا اس کی قوم کی طرف سے بائیکاٹ ہونا چاہئے یا کوئی دو سری مناسب سزا اس کو ملنی چاہئے حتی کہ دوائی قابل اعتراض تصنیف یا تحریر کو علانيہ تلف کر دے اور غیر مشروط معافی مانگے.۳- پر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے افراد کی اقتصادی اصلاح کر سکے اور کہ ان کو کاروبار کرنے یا دکانیں کھولنے کی ترغیب دے اور ان کی سر پرستی کی تحریک کرے.یہ بات خصوصیت سے مسلمانوں کی حالت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اس میدان میں بہت پیچھے ہیں اور اقتصادی آزادی کیلئے ان کا تجارت کی طرف متوجہ ہونا ضرور ی ہے.
۶۴۰ ۴.ممکن ہے کہ ہندو مسلمانوں سے اپنے بعض مذہبی عقائد کی بناء پر چھوت چھات کرتے ہوں.مگر مسلمانوں کی اقتصادی حالت پر اس کا بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے جو کہ آزادانہ ہندو دکانداروں سے تمام اشیاء خریدتے ہیں.حالا نکہ ہندو اکثر اشیاء مسلمانوں سے نہیں خریدتے.لہٰذا کسی دشمنی کے جذبات سے متاثر ہو کر یا انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی اقتصادی اصلاح کیلئے ہم ان میں اس تحریک کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان اشیاء کی دکانیں کھولیں جو ہندو ان سے نہیں خریدتے اور مزید برآں ہم اپنے ہم مذہب لوگوں کو یہ بھی تلقین کر رہے ہیں کہ وہ ایسی اشیاء صرف مسلم دکانداروں سے لیں.چونکہ یہ تحریک مسلم قوم کیلئے ایسی ہی مفید ہے جیسے کہ سودیشی تحریک ہندوستان کے لئے سمجھی جاتی ہے.اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ہماری کوششیں کی انتقام یا دشمنی کی بناء پر نہ سمجھی جائیں.۵.کسی قوم کے مذہبی یا سوشل عقائد سے کوئی تعّرض نہ ہو نا چا ہے.اگر مسلمان گاۓ ذبح کرنا چاہیں تو ان کو پوری آزادی ہونی چاہئے.اسی طرح عیسائیوں، سکھوں ،ہندوؤں کو سؤر مارنے یا جھٹکے کرنے یا باجہ بجانے میں پوری آزادی ہو.مگر کوئی فعل بھی ایسی طرز میں نہ ہونا چاہئے جس سے دوسری قوم کے احساسات کے مجروح ہونے کا احتمال ہو.مثلاً مسلمانوں کو قربانی کی گایوں کا جلوس نہ نکالنا چا ہئے یا کسی اور طرح بھی ان کی خواہ مخواہ نمائش نہ کرنی چاہئے اور یہی طریق سؤریا جھٹکے کے متعلق ہو نا چاہئے.ہمارے خیال میں مسلمانوں کو باجہ بجائے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہو نا چاہئے.مگر یہ نہایت انسب ہو گا کہ اگر قانون کی رو سے عبارت کے وقت معابد کے سامنے باجہ بجانا ممنوع قرار دیا جا سکے.1- مذہبی امور میں ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے اور اس اصل کو ہندو مسلم اتحاد کا ایک ضروری جزو قرار دینا چا ہئے.بدقسمتی سے اس وقت بہت سی ایسی جگہیں ہیں.خام کر پنجاب میں جہاں مسلمانوں کی قلیل آبادی کو اذان دینے یا مساجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں.اسی طرح بعض دیسی ریاستوں میں تبلیغ کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں.۷- پرائیویٹ بینکرز کا مروجہ ساہو کارہ نہایت قابل اعتراض ہے اور اگر چہ ایسے ساہو کار ہندو اور مسلم میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے مگر پھر بھی زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے اور اس وجہ سے سینکڑوں ہزاروں خاندان تباہ ہو گئے ہیں.بدقسمتی سے جب بھی ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور مسلمانوں کو گورنمنٹ کو آپر یٹو بنکوں کے ساتھ لین دین کی
۶۴۱ تلقین کی تو ہمیشہ ہم پر ہندووں سے بائیکاٹ کرانے کا الزام لگایا گیا.لہٰذا اس کے متعلق ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہندووں کو ایک ایسا قانون پاس کرانے میں جس کی روسے پرائیویٹ ساہو کاره باضابطہ ہو سکے ہماری مدد کرنی چاہئے اور ہماری کوششوں کو جو ہم مسلم رقیوں میں مسلمانوں کے فائدہ کیلئے کو آپریٹو بنک کھلوانے کے سلسلہ میں کریں ، فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا ذریعہ نہ بنائیں.۸.مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں.اس لئے وہ سرکاری ملازمتوں میں اپنا جائز حصہ نہیں حاصل کر سکتے اور یہ ظاہر ہے کہ ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کے راستہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں.جس کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں پر تمام ترقیوں کے دروازے عملی طور پر بند ہو گئے ہیں.اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جہاں تک ہمسایہ اقوام کی طاقت میں ہے.اس معاملہ میں تناسب اعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور جس طرح کہ ملازمتوں کو ہندوستانیوں کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، مختلف قوموں کے تناسب کے لحاظ سے بھی ملازمتوں میں ان کی نیابت منظور کی جائے.اور ہر صوبہ میں ہر قوم کی نیابت اس کی تعداد کے لحاظ سے ہونی چاہئے.۹- یہ بات بطور اصل تسلیم کی جائے کہ جس صوبہ میں جو قوم زیادہ تعداد میں ہو وہ کونسل میں قلیل تعداد نہ رکھے.اور جب کسی قلیل التعداد قوم کو خاصی مراعات دینا ہوں تو یہ مذکورہ بالا اصول کے عین مطابق کیا جائے.۱۰.یونیورسٹیوں کے بارہ میں بھی یہی اصل ہونا چاہئے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ہر صوبہ کی ذہنی بالیدگی ایسی قوم کے سپرد کی جائے جس کی تعداد اس صوبہ میں زیادہ ہو.۱ا.صوبہ سرحدی میں اصلاحات کا نفاذ اسی طرح اور اسی حد تک ہو نا چاہئے جہاں تک کہ دوسرے صوبوں میں ہے اور اس صوبہ میں ہندوؤں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں ملے ہیں.جہاں وہ قلیل التعداد ہیں.۱۲.سندھ اور بلوچستان ایک علیحدہ صوبے کی صورت میں تبدیل کر دیئے جائیں اور ہندووں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں حاصل ہیں جہاں وہ قلیل التعداد ہیں.۱۳- چونکہ دیسی ریاستوں کو بھی برٹش انڈیا کے ہم پایہ ہو نا چا ہئے.اس لئے یہ فیصلہ ہو
۶۴۲ جانا چاہئے کہ کسی ریاست میں وہاں کی حکمران قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے بعض خاص حقوق دیئے جائیں اور اس کی فوقیت ہونی چاہئے.بنا بریں حیدر آباد ہمیشہ ایک مسلم ریاست رہے.اب میں مسلمانوں کو فوقیت ہو اور یہ ایک ہندو ریاست ہے جہاں کہ ہندوؤں کو فوقیت حاصل ہو.میرے خیال میں حکمران قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے ۶۰ فیصدی حقوق ملنا چاہئے.۱۴.خان صوبہ جات کے اختیار خود انتظامی کے اصول کو اس شرط پر تسلیم کر نا چاہتے کہ ایسے صوبہ جات ہمیشہ مرکزی حکومت کے قوانید و آئین کے اندر رہیں گے.۱.مخلوط انتخاب کا طریقہ اصولاً صحیح ہے مگر ہندوستان کی موجود ہ حالت کے مطابق نہیں اور ہمارے خیال میں یہ مسلم مفاد کے لئے خطرناک ہے.بہرحال جماعت احمدیہ اور پنجاب کے مسلمان اور بعض دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی فی الحال مخلوط انتخاب کے طریقہ کو منظور کرنے کیلئے تیار نہیں.اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جداگانہ انتخاب کا حق مسلمانوں کے لئے جاری رہنا چا ہئے.اور دوسری جماعتوں کو بھی جو اسے پسند کریں ، ملنا چاہئے اس اصل کو کانسٹی ٹیوشن CONSTITUT ON، میں اس طرح شامل کیا جاوے کہ جب تک منتخب مسلم ممبران اسمبلی میں سے ۳/۴ متواتر 3.اسمبلیوں میں اس کی تنسیخ کے لئے رائے نہ دیں، نہ بدلا جاۓ.اور پھر مخلوط انتخاب کا طریقہ اس وقت تک اس صوبہ میں رائج نہ کیا جائے جب تک ممبران کی کثیر تعداد اس کے مخالف ہو.اور کانسٹی ٹیوشن میں ایسی دفعہ موجود ہونی چاہئے اس کی رو سے مخلوط انتخاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی اگر کسی وقت مسلم ممبروں کی تین چو تھائی اس کو اپنے حق میں مضر خیال کرنے لگے اور پھر جداگانه انتخاب کی طرف عود کر نا چا ہنے تو اس معاملہ کا تصفیہ مسلمان رائے دہندگان کے مشورے پر چھوڑا جائے.تاہم مخلوط انتخاب بطور تجربہ ایک ایسے صوبہ میں رائج کیا جائے جس کی قلیل التعداد اقوام اس کے رواج کو پسند کریں.مثلا ًبمبئی میں یہ ہو سکتا ہے اگر سندھ کو اس سے علیحدہ کر دیا جائے.۱۶- مذہبی امور میں سے کوئی بات فیصلہ نہ کی جائے جب تک اس قوم کے تین چوتھائی ممبر جس پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اس کے حق میں رائے نہ دیں اور فیصلے کرنے کے بعد بھی اگر اتنی ہی تعداد ممبروں کی اس کو چھوڑنا چاہئے تو اس کو چھوڑ دیا جائے.۱۷.اس وقت تمام فرقہ وارانہ مخالفت اور لڑائیوں میں ایک قوم دوسری قوم کو
۶۴۳ پیش دستی کا الزام دیتی ہے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ اتحاد کانفرنس کے آخری فیصلہ سے پہلے یا تو یہ طے ہو جائے کہ تمام مصائب کی ذمہ داری کس قوم پر ہے.یا پھر یہ طے ہو جانا چاہئے کہ اگر آئندہ کوئی رنجیده واقعہ ہو تو کسی فریق کو گذشتہ واقعات کا حوالہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی.ورنہ فطرتاً یہ خیال پیدا ہو گا کہ ذمہ داری سے اظہار کے ڈر سے صلح کی جارہی ہے.۱۸.ہر صوبہ میں ایک بورڈ بنایا جائے جس کی شاخیں تمام اضلاع میں ہوں اور اب کبھی کوئی فرقہ وارانہ مخاصمت پیدا ہو تو لوکل بورڈ کے ممبروں کو فورا ً جائے وقوع پر پہنچ کر تفتیش کرنی چاہئے اور جس قوم کی طرف سے ابتداء ثابت ہو اس کے لیڈروں کو اسے مناسب سزا اور مظلوم پارٹی کو ہر ممکن طریق سے مد د دینی چاہئے.۱۹.انڈین نیشنل کانگریس صحیح معنوں میں قومی جماعت ہونی چاہئے اور ہر خیال اور عقیدہ کے لوگوں کو اس کا ممبر ہونے کی اجازت ہو اور حلف و فاداری صرف انہیں الفاظ میں لیا جانا چاہئے کہ."میں اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ ہندوستان کی بہبودی کو نظر رکھوں گا.“ اس کے سوا ممبری کیلئے کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے تاکہ ہر خیال اور عقیدہ کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں.بے شک کثیر التعداد جماعت کو کانگریس کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہئے.مگر جیسا کہ برٹش پارلیمنٹ میں دستور ہے مخالف پارٹیوں کو اپنے خیال کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے.ہمارے خیال میں صرف یہی طریقہ ہے جس سے کہ ہندوستانی متحد ہو سکتے ہیں.۲۰- ہر قوم یا فرقہ کو اس کی اپنی تنظیم سے متعلقہ باتوں میں کامل آزادی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنے مفاد کی حفاظت کر سکے.خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کنگز لے شملہ یکم ستمبر ۱۹۲۷ء (الفضل۱۴ ستمبر ۱۹۲۷ء)