Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
۱ تائید دین کا وقت ہے از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۲
۳ تائید دین کا وقت ہے (تحریر فرموده ۵ا.فروری ۱۹۲۴ء) أعوذ بالله من الشیطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر تمام احباب اور مخلصين جماعت کو اس امر کا علم ہے کہ ملکانا قوم کی اصلاح اور اسلام کی طرف واپس لانے کے لئے ایک سال کے قریب سے ایک زبردست جد و جہد ہو رہی ہے اور خدا تعالی کے فضل سے دوسری تمام جماعتوں کی نسبت ہمیں زیادہ کامیابی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے.سینکڑوں دوست ہماری جماعت کے ان علاقوں میں تین تین ماہ کے لئے کام کر چکے ہیں اور سینکڑوں جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.ان سہ ماسی و ارجانے والوں کے علاوہ ایک مستقل عملہ اس علاقے میں رکھنا پڑتا ہے جو کام کو ایک طرز پر جاری رکھ سکے اور نئے آنے والوں کو پچھلوں کے کام اور ان کے علم سے واقف رکھ سکے اور ان کے کام کی نگرانی بھی کر سکے اور یہ عملہ گھرانی و دیگر اخراجات تعلیم وغیرہ ایک کثیر رقم کا خرچ چاہتے ہیں.اس وقت تک تیس ہزار روپے سے زیاده اس مد میں سو سو روپیہ دینے والے دوستوں کی ہمت سے جمع ہو چکا ہے اور اس کا اکثر حصہ خرچ ہو چکا ہے بہت ہی قلیل رقم باقی ہے اور اب اخراجات کی تنگی کاسخت خوف ہے حتی ّٰکہ ڈر ہے کہ کام کو نقصان نہ پہنچے.احباب کو جلسہ سالانہ پر معلوم ہو چکا ہے کہ ہم صرف ملکانہ قوم میں ہی تبلیغ نہیں کر رہے بلکہ اسی ضمن میں بعض ہندو اقوام میں بھی زورسے تبلیغ جاری ہے اور ان میں اس تحریک کو کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے.ملک کے مختلف حصوں میں بعض اقوام اہل ہنود اسلام لانے کے لئے تیار ہیں اور بعض قو میں اسلام کو قبول کرنے بھی لگ پڑی ہیں جن میں سے بعض کا حال تو احباب کو معلوم ہوتا رہا ہے اور بعض کا حال ابھی مصلحتاً عام طور پر شائع نہیں کیا جاتا اور یہ تبلیغ بھی بہت سے چاہتی ہے.
۴ میں نے اس وقت تک ان تبلیغی کوششوں میں حصہ لینے والے احباب کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ کم سے کم سو روپیہ دیں تب اس فنڈ میں شامل ہو سکتے ہیں اور اس وقت تک ایسے ہی لوگ اس میں چنده دیتے رہے ہیں جو سو روپیہ دے سکتے تھے مگر چونکہ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں اب اس فنڈ کی آمد بہت محدود ہوتی جارہی ہے اور ضرورت ہے کہ اب اس دروازہ کو اور وسیع کردیا جائے.ہماری جماعت کے احباب کے دلوں میں جو اخلاص اللہ تعالیٰ نے کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس امر کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ اس سو روپیہ کی شرط کی وجہ سے ہزاروں مخلصین کے دل زخمی تھے اور ان کے جوش اندر ہی اندر اٹھ اٹھ کر رہ جاتے تھے کیونکہ گو ان کے دل وسیع تھے لیکن ان کی جیبوں میں روپیہ نہ تھا اس لئے وہ اس شرط کو پورا نہیں کر سکتے تھے میں جانتا ہوں کہ اگر یہ سو روپیہ کی شرط نہ ہوتی یا ان کے پاس روپیہ ہوتا تو ہزاروں مخلص ہماری جماعت کے ایسے ہیں جو چندہ دینے والوں کی صف اول میں کھڑے ہوتے اور کبھی بھی دوسروں سے پیچھے رہنے کو گوارا نہ کرتے.مگر اللہ تعالیٰ ان کی مجبوریوں کو دیکھتا ہے اور ہر ایک شخص جس کا دل چاہتا تھا نہیں بلکہ اپنی مجبوری کو رکھ کر اندر ہی خون ہو رہا تھا لیکن صرف مجبوری کی وجہ سے اب تک اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکا وہ خدا کے حضور میں ویساہی ہے جیسا کہ وہ جس نے بوجہ مقد رت ہونے کے سو روپیہ دینے والوں کی جماعت میں شمولیت اختیار کی.اللہ تعالی کے خزانے میں ثواب اور مدارج کی کمی نہیں وہ ان مخلصین کو جنہوں نے اپنی مقدرت سے زیادہ بوجھ اٹھایا اور دین کی خد مت کی ان کے کام کا پورا بدلہ دے گا اور ان کو بھی جن کے دل چاہتے تھے لیکن عدم استطاعت کی بیڑیاں ان کے پاؤں میں تھیں انہی کا سابدلہ دے گا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے سو روپیہ دینے والے دوست اپنے بہائیوں کے اس مفت کے ثواب پر چِڑیں گے نہیں بلکہ خوش ہوں گے اور میں اپنی طرف سے تو کہتا ہوں کہ ایسے دوست جتنے بھی زیادہ ہوں ان کا خیال اور قیاس میرے دل کو خوشی سے بھر دیتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ ان دوستوں کو صرف ثواب سے ہی حصہ دینا نہیں چاہتا بلکہ وہ ان کے دل کی حسرت کو بھی دور کرنا چاہتا اور اس کی جگہ خوشی کی لہر پیدا کرنا چاہتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملکانہ تحریک اس قدر لمبی ہو گئی ہے کہ اب ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ تمام جماعت کو اس میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے اور تمام بہائیوں کو اس قد مت میں شریک کر لیا جائے ، اور اگر میں احمدیوں
۵ تائید دین کا وقت ہے کے دلی خیالات پڑھنے میں غلطی نہیں کرتا تو میں سمجھتاہوں کہ میں اس اعلان کے ذریعہ سے ان کو ایک بہت بڑی خوشخبری سنا رہا ہوں جس کے لئے وہ مدت سے چشم براہ تھے.ٍعلاوہ ملکانا تحریک اور ہندوؤں میں تبلیغ کی تحریک کے جز من مشن“ بخارا مشن، اچھوت قوموں میں تبلیغ اور ان کی تعلیم کے اخراجات ایسے ہیں جو معمولی چندوں سے پورے نہیں ہو سکتے اور ان کے لئے بھی خاص چندہ کی ضرورت ہے.اسی طرح اس سال جلسہ گاہ کی تیاری، مہمان خانہ کی وسعت اور افریقہ کی جماعت کو جواَب بیس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے تین ہزار کے قریب روپیہ بطور امداد دینا ضروری ہے تا کہ وہ ایک سکول اور لیکچر گاہ تیار کریں.ایک قیمتی زمین سرکار کی طرف سے مفت ملی ہے اور بہت سارو پیہ وہ خود جمع کریں گے.تالیف قلب کے لئے اور ہندوستانی بہائیوں کی ہمدردی کے اظہار اور تعلقات کی مضبوطی کے لئے ان کو تین ہزار روپیہ مرکز کی طرف سے دیا جائے گا.مولوی عبید اللہ صاحب مرحوم کے پسماندگان کی واپسی کا سوال بھی درپیش ہے.ان تمام ضرورتوں کے لئے چالیس ہزار کے قریب روپیہ کی علاوہ ماہواری چندوں کے ضرورت ہے اور میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت کے مخلصين اس رقم کو باآسانی پورا کر سکتے ہیں.میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت غریب ہے لیکن مال خرچ کرنے میں آسانی مال کی زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ دل کی وسعت سے ہوتی ہے اور یہ وسعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو حاصل ہے.چونکہ میرا دل چاہتا ہے کہ تمام احباب اس تحریک میں یکساں حصہ لیں اس لئے میں نے اس رقم کے جمع کرنے کے لئے ایک تجویز کی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس تحریک پر عمل کر کے ہماری جماعت کے دوست اس رقم کو بہت جلد پورا کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ تمام احمدی علاوہ ماہوار چندوں کے اپنی ماہوار آند کا ایک تہائی حصہ اس سال ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یکمشت دے دیں.ان علاقوں میں جہاں مربّعے ہیں یہ انتظام کیا جائے کہ ہر زمیندار علاوه اپنے مقررہ چندہ کے فی مربع پچیس رو پیہ اس تحریک میں دے اور کل زمیندار اپنے حصے کی رقم کو دو فصلوں میں بھی ادا کر سکتے ہیں.جو لوگ ماہوار آمدنی رکھتے ہیں وہ بھی ایک مہینہ سے لے کر تین مہینے تک اپنے حصہ کی رقم پوری کر سکتے ہیں.جو لوگ سو روپیہ پہلے دے چکے ہیں میں ان کو بھی اس تحریک سے مستثنیٰ نہیں کرتا کیونکہ اول تو اس تحریک میں علاوہ ملکانہ فنڈ کے اور تحریکیں بھی شامل ہیں اور دوسرے جن کو خدا نے زیادہ
۶ وسعت دی ہو ان پر حق ہے کہ کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں.میں امید کرتا ہوں کہ تمام جماعتوں کے امیر اور سیکرٹری اس تحریک کے پہنچتے ہی اپنے علاقہ کے احمدیوں سے پوری طرح اس تحریک میں حصہ لینے کی تحریک کریں گے اور اس امر کو دیکھیں گے کہ کوئی احمدی اس تحریک سے باہر نہیں رہتا کیونکہ یہ رقم تبھی پوری ہو سکے گی جب کہ پوری طرح تجویز پر عمل کیا جائے.اور چاہئے کہ سوائے زمینداروں کے جن کے لئے فصلوں کا انتظار کیا جاسکتا ہے باقی سب دوست تین ماہ کے اندر اس تحریک کے مطابق اپنے حصہ کو ادا کر کے ثواب دارین حاصل کریں اور ان مشکلات کے دور کرنے میں حصہ لیں جو دوسری صورت میں پیدا ہو سکتی ہیں.اے عزیزو! ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی کہہ بیٹھے کہ چنده! چنده!! ہروقت چنده؟ ہم کہاں تک چندے دیتے جائیں کیونکہ یہ چندہ میں اپنے نفس کے لئے تم سے نہیں مانگتا بلکہ میں یہ چندہ خود تمہارے لئے ہی مانگتا ہوں تاکہ یہ رقم تمہارے لئے خدائے خزانہ میں جمع رہے اور بڑھے اور بڑھے اور تمہاری اس زندگی میں کام آئے جو نہ ختم ہونے والی ہے اور جس زندگی میں کہ صرف اسی دنیا کے اعمال اور اس دنیا میں جمع کیا ہوا روپیہ کام آتا ہے.دشمن اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں سے روپیہ بٹورنے کے لئے یہ سب انتظام کیا ہے اور یہ کہ انہوں نے اپنی اولاد کے لئے ایک جائداد چھوڑی ہے مگر آپ لوگ جانتے ہیں کہ نہ مسیح موعودؑ کسی کے روپیہ کے محتاج تھے اور نہ اللہ کے اموال آپ کے خلفاء کی یا آپ کی اولاد کی جائداد بنے.وہ خدا کے لئے جمع کئے جاتے ہیں اور خدا کے لئے خرچ ہوتے ہیں.کون ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کبھی ایک پیسہ بھی اپنے لئے اس سے طلب کیا ہے کہ سلسلہ کے اموال میں سے ایک حبّہ بھی کبھی میں نے اپنا قرار دیا اور اسے اپنے پر خرچ کیا.میں تو اس قدر محتاط ہوں کہ بعض لوگ اگر مجھ سے دریافت کریں کہ ہم آپ کے لئے کوئی تحفہ بھیجنا چاہتے ہیں کیا چیز بھیجیں؟ تو میں ان کو کیا جواب ہی نہیں دیتا یا یہ لکھ دیتا ہوں کہ میں پیدائش سے لے کر آج تک سوال کرنے سے بچا رہا ہوں اور اب بھی سوال کے لئے خدا کے فضل سے تیار نہیں ہوں.میں جانتا ہوں کہ جماعت کے مخلصين کو اور بھی زیادہ میری اس تحریر کو پڑھ کر صدمہ اور افسوس ہو گا کیونکہ گو میں ان سے کچھ طلب نہیں کرتا اور ان کے مال انہیں کے فائدے کے لئے خرچ کرتا ہوں مگر وہ اپنے اخلاص کی وجہ سے اپنے اقرار بیعت کو
۷ مد نظر رکھ کر اپنی ہر ایک چیز میری ہی سمجھتے ہیں.لیکن ہر جماعت میں ایک حصہ کمزور لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو شیطانی تحریکوں کو قبول کرنے کے لئے تیار رہتا ہے.پس ان لوگوں کے دلوں کے وسوسوں کا دور کرنا بھی میرا فرض ہے اور اسی کو مد نظر رکھ کر میں نے یہ باتیں لکھی ہیں.اے عزیزو!فتح کا زمانہ آگیا.کامیابی دروازے پر ہے خوشی کی گھڑیاں ناچتی ہوئی چلی آتی ہیں اور تمہارے قدموں کے چومنے کی مشتاق ہیں.وہ دن قریب ہیں جب فوج در فوج لوگ اسلام اور احمدیت کو قبول کریں گے.پس اس زمانہ کی مناسبت سے اپنی قربانیوں کو بھی بڑهادو کے لوگ روز مرہ کی نسبت شادیوں کے موقع پر زیادہ خرچ کرتے ہیں.اب تک تمہاری قربانیاں ایسی تھیں جیسے کہ انسان روز مرہ کے خرچ برداشت کرتا ہے.اب عید کا دن آنے والا ہے اس کا باریک ہلال مجھے نظر آرہا ہے.اے کاش ہم جس طرح رمضان میں ثابت قدم رہے اس سے بڑھ کر عید کے دن ہمیں صراط مستقیم پر رہنے کی توفیق ملے.ہم مسلمان ہیں اور ہمارے دن چاند کے حساب پر ہیں.پس دن خواہ عید کاہی ہو اس سے پہلے رات آنی ضروری ہے.میں نے کہا ہے کہ عید کا چاند نظر آرہا ہے.مگر اے عزیزو! پھر اس کے کہ دن چڑھے عید کی رات کا ختم ہونا ضروری ہے.پس دعا کرو کہ اس رات کے بعد دن کا دیکھنا ہمیں نصیب ہو اور یہ رات ہمارے لئے بابرکت ثابت ہو.یہ فتح کی ابتدا ئی گھڑیاں سخت قربانی کی گھڑیاں ہوں گی.مگر یہ رات ایک خالص خوشی کا دن چڑھائے گی اور یہ اند ھیرا ایک روشن سورج پیدا کرے گا اور ہر ایک جو اسلام کی عظمت کا خیال لے کر اس رات میں لیٹے گا وہ اسلام کی فتح کا جھنڈالے کردن کو کھڑا ہو گیا.مبارک وہ جو آخر تک مستقل رہیں اور کامیابی کا منہ دیکھیں.اور خدا کرے کہ سب احمدی ایسے ہی ثابت ہوں.واخر دعونا ان الحمد لله رب العلمين - خاکسار مرزا محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی (الفضل ۱۹ فروری ۱۹۲۴ء) +
۹ بہا ئی فتنہ انگیز وں کا راز کیونکر فاش ہوا؟ از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۱۱ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى على رسوله الكريم بہا ئی فتنہ انگیز وں کا راز کیونکر فاش ہوا؟ فرموده ۱۸.مارچ ۱۹۲۴ء بعد نماز عصر بمقام مسجد اقصی قادیان) سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.بابیوں کا راز کا انکشاف میں نے اس وقت اپنی جماعت کے احباب کو ایک خاص غرض کے لئے بلایا ہے.وہ غرض مختصر یہ ہے کہ چند دن گذرے ہیں جبکہ میں تبدیلی آب و ہوا کے بعد قاریان آیا تو مجھے ایک شخص نے رپورٹ دی کہ قادیان میں بعض آدمی ایسے ہیں جو ظاہر میں اپنے آپ کو ہماری جماعت میں شامل کئے ہوئے ہیں لیکن ان کے دل اور ان کی توجّہات در حقیقت ہمارے غیروں اور مخالفوں کے ساتھ ہیں.وہ یہاں ہمارے کہلا کر، ہمارے کام میں شریک ہو کر، ہماری جماعت کا پردہ اوڑھ کر ہمارے دوست بن کر ،ہماری اطاعت کا ادّعا کر کے اور اسلام کادعوی کر کے در حقیقت اسلام کے خلاف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں.یہ خبر میرے لئے نہایت حیرت انگیز تھی اور جن کے متعلق یہ بتائی گئی تھی باوجود اس سے کہ ان میں سے ایک کے متعلق تقریبا ایک سال سے میرے دل پر انکشاف ہو چکا تھا کہ اس کی روحانی حالت اچھی نہیں ہے اور میں نے بارہا مجالس میں اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ احمدیت اس کے دل میں رچی ہوئی نہیں ہے.جب وہ میرے سامنے آتا تو مجھے یہی معلوم ہوتا لیکن باوجود اس کے چو نکہ ظاہر میں کوئی بات اس کے متعلق معلوم نہ تھی اور اس ہمدردی کی وجہ سے جو مرشد کو اپنے مرید سے ہوتی ہے جس کے باعث قدرتی طور پر اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مرید پر الزام نہ آئے میں نے اطلاع دینے والے پر جرح کر کے اس الزام کو دور کرنا چاہا.لیکن جوں جوں جرح
۱۲ کرتا ایسی ایسی باتیں نکلتی تھیں کہ میں حیران ہو کر یہ ماننے پر مجبور ہو ا کہ جھوٹ ایسا نہیں ہو سکتا اور بتانے والا اتنی علمی قابلیت نہیں رکھتا تھا کہ ایسی باتیں خود بنالے.جب مجھے اس طرح یقین ہو گیا تو میں نے اسی وقت عزیز مکرم مرزا بشیر احمد صاحب، شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اور شیخ یعقوب علی صاحب کو بلایا اور کہا کہ جرح کر کے دیکھیں کہ کیا حقیقت ہے اور کیا یہ اطلاع ایسی ہے کہ اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے.وسوسہ اندازی کا طریق وہ اطلاع یہ تھی کہ مولوی محفوظ الحق یہاں اس رنگ میں لوگوں سے باتیں کرتا ہے کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ احمد یت سے خارج ہے مگر وہ دوسروں پر ایسے اثرات ڈالے کہ بہائی مذ ہب سچاہے.مثلاً کوئی حد یث پیش کی اور کہہ دیا کہ بہاء اللہ پر یہ حد پیٹ زیاد ہ عمدگی سے چسپاں ہوتی ہے.ہر شخص جو یہ بات سنتا یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہائیت کا اثر ڈالے بلکہ وہ یہی خیال کرے گا کہ کسی کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے.اس کو بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے یااسے یہ خیال ہو سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کے ہاتھ پر جو اس نے بیعت کی ہے اس کے سامنے بھی اس نے پیش کیا ہو گا اور اس بات کو حل کرنا چاہتا ہو گا.اس کے علاوہ قدرتی طور پر یہ خیال نہیں آتا کہ مجھے اس کے تاڑ کر گمراہ کرنے کے لئے یہ بیان کیا ہے.پھر مجھے بتایا گیا کہ یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو مخفی طور پر دوسروں کو پڑھنے کے لئے کتا بیں دیتے ہیں اورصداقت سے دور رکھنے اور تاریکی میں ڈالنے کے لئے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کتاب مخفی رکھنا کیونکہ یہاں بعض ایسے متعصب لوگ ہیں کہ جس کے ہاتھ میں جس مذہب کی کتاب دیکھتے ہیں اسے اسی مذہب میں سے کہہ دیتے ہیں.یہ اس لئے کہا جاتا کہ تا کتاب پڑھنے والے کو اگر کوئی شک پیدا ہو تو کسی کے سامنے پیش نہ کرے اور نہ جواب لے پھر بتانے والے نے بتایا کہ وہ ایک کتاب تیار کر رہے ہیں جو اس غرض کے لئے لکھی جارہی ہے کہ اصل مہدی بہاء الله او رباب ہیں مرزا صاحب ان کا راستہ بتانے کے لئے آئے تھے.چو نکہ دنیا کی حالت ایسی نہ تھی کہ بہاء اللہ کو مان سکے اس لئے خدا نے مرزا صاحب کو بھیجا کہ نبوت کے جاری رہنے کا عقیده منوائیں.جب لوگ یہ مان لیں گے تو پھر مصلح موعود پیدا ہو کر کہے گا کہ بہاء اللہ صاحب شریعت ہے اسے مانو.
۱۳ مزید تسلی کی سعی اس قسم کی بہت سی باتیں بتائی گئیں جنہیں سن کر میں حیران تھا کہ کس طرح یہ لوگ یہ باتیں کر سکتے ہیں.جو کارروائی بتائی گئی تھی وہ چونکہ ایسی خلاف اخلاق اور خلاف شریعت تھی اور انسانیت سے بعید تھی کہ کوئی بھی شریف انسان ایسا کرنا پسند نہ کرتا اس لئے میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جو شخص خبر دے رہا ہے ممکن ہے اس کے دل میں ان سے کوئی بغض ہو.لیکن چونکہ بات ایک تفصیلی اور مسلسل تھی کہ بناوٹ ایسی نہیں ہو سکتی تھی اس لئے میں نے اس کی تحقیقات کرنی چاہی.لیکن اس سے قبل میں نے تسلی کے لئے اس شخص کو جس نے بات بیان کی تھی کہا کہ ان کی وہ کتاب لے آؤ چاہے دس منٹ کے لئے ہی لاؤ - اس پر وہ کتاب لے آیا جو بہت ضخیم تھی اور کسی کاتب سے لکھوائی ہوئی تھی جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مختلف حوالے اس طرح جمع کئے ہوئے تھے کہ معلوم ہوتا تھا ان سے لکھنے والے کی نیت کے خلاف کام لینا ہے.وہ کتاب لکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ راوی کتاب بناوٹ سے نہیں بنا سکتا اور کاتب سے نہیں لکھوا سکتا اور نہ ہی یہ تیار کر سکتا ب اگر اس کی بات میں اوٹ ہوتی تو جب کتاب لانے کے لئے کیا گیا تھا کہ دیتاوہ بھلا دیتے ہیں.ات تو بہت پوشیدہ رکھتے ہیں لیکن وہ لے آیا.باقاعدہ تحقیقات کا حکم اس مرحلہ پر پہنچ کر میں نے اور عامہ کو ہدایت دی کہ اس کی تحقیقات کے لئے کمیشن مقرر کرے او راس کمیشن کے ممبر میاں بشیر احمد صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ، مفتی محمد صادق صاحب اور میاں محمد شریف صاحب مجسٹریٹ تھے ، ان کو ہدایت دی گئی کہ ان الزامات کی تحقیق کریں کہ صحیح ہیں یا غلط اور جن کے خلاف لگائے گئے ہیں ان سے جواب لیں اور گواہ طلب کریں.قابل تحقیقات سوالات وہ سوال جو مقرر کئے گئے تھے یہ تھے:.(1) آپ قادیان کے بعض احمدیوں سے بہائی مذہب کے متعلق ایسے طرز پر نظر کرتے ہیں جس سے مترشخّ ہوتا ہے کہ آپ بہائی مذہب کی عظمت او ر دعویٰ کی صداقت لوگوں کے دلوں پر نقش کرنا چاہتے ہیں.(۲) یہ کہ آپ نے بعض مجالس میں حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوة والسلام کے دعویٰ اور آپ کی صداقت کے ثبوتوں کے متعلق ایسے رنگ میں سوالات اٹھائے ہیں جن سے معلوم ہوا
۱۴ ہے کہ بعض اعتراضات حضرت صاحب کے دعوی پر ایسے پڑتے ہیں کہ ہم ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے اور یہ سوالات ایسے لوگوں کے سامنے کئے گئے ہیں جو اپنی علمیت کے لحاظ سے ایسے نہ تھے کہ جن سے آپ استفاضہ کر سکیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کی غرض علمی تحقیقات نہ تھی بلکہ آپ شبہات پیدا کرنا چاہتے تھے.(3) آپ کی نسبت یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ایک کتاب ایسی تیار کر رہے ہیں جس میں آپ کا منشاء یہ ثابت کرنے کا ہے کہ بہاء اللہ کاد عو یٰ سچا تھا اور حضرت صاحب اس کے لئے بطور مؤید کے ہیں.(۴) آپ کی نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ نے الفضل کی ایڈ یٹری کے زمانہ میں الفضل میں اور بعض دوسری تحریروں میں ایسے مضامین لکھ دیئے ہیں جن سے آپ حسب موقع ایک بہائی مذہب کی تائید میں کام لیں گے.(۵) یہ کہ آپ بہائیوں کی کتا بیں لوگوں کو براہ راست یا اللہ دتہ کی معرفت جو اس امر میں آپ کا ساتھی بیان کیا جاتا ہے پڑھنے کے لئے دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایسی باتیں کہی گئی ہیں جن سے یہ ظاہر کرنامدّ نظر تھا کہ وہ کتابیں لاجواب ہیں.(۶) بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اس عقیدہ کا اظہار کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺ کے بعد نیا شرعی نبی اور قرآن کریم کے بعد نئی شریعت آسکتی ہے.(۷) کہا جاتا ہے کہ ایک نہایت ہی خطرناک رویہ آپ نے یہ اختیار کیا ہے کہ آپ اپنی تمام کارروائیوں کو ایسی صورت میں مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ لوگ جو اس زہر کا ازالہ کر سکتے ہیں آپ کی کارروائیوں سے بے خبر رہیں.(۸) یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ بعض لوگوں کو بہائی مذہب کی نماز لکھ کر یا لکھوا کر دیتے ہیں.اسی طرح روزے بہائی مذہب کے مطابق رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ بھی کہا جا تا ہے کہ آپ نمازوں کے اوقات میں لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ نماز مسجد میں جا کر نہ پڑھیں بلکہ نماز دل کی ہے جہاں دل چاہے پڑھیں.ٍ (9) یہ کہ آپ کے تعلقات معروف بہائیوں کے ساتھ ہیں اور ان سے خط و کتابت ہے اور ان سے کتا ہیں منگواتے ہیں، اور اس تجویز کی فکر میں بھی آپ ہیں کہ خاص آدمی بھیج کرکتا بیں منگوائیں.
۱۵ (۱۰) علاوہ مذکورہ بالا طریقوں کے بعض اور طریقوں سے بھی آپ بہائی مذہب کی اشاعت اور سلسلہ احمدیہ کے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ امر تھے جن کی تحقیقات کے لئے کمیشن مقرر کیاگیا تھا میشن نے جو تحقیقات کی وہ یہ ہے.کمیشن کی تحقیقات (1) مولوی محفوظ الحق صاحب علمی کے بیان اور گواہوں کی شہادت سے ثابت ہے (۲) ایضاً (۳) ایضاً (۴) مولوی صاحب کے اپنے بیان سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے مضامین میں بہاء اللہ کے دعاوی کی تصدیق کو مد نظر رکھا ہے.(۵) مولوی صاحب کے اپنے بیان اور نیز شہادتوں سے ثابت ہے کہ مولوی علمی صاحب نے بعض لوگوں کو کتا بیں خود یا ان کے مانگنے پر دی ہیں.(۶) ثابت ہے.(۷) مولوی صاحب کے اپنے بیان سے اخفاء تو ثابت ہے لیکن وہ اس کو سازش اخفاء تسلیم نہیں کرتے.مگر شہادتوں سے اور ان کے عام رویہ سے اور خصوصاً حکیم ابو طاہر صاحب کی شہادت سے یہ بات ثابت ہے کہ نہ صرف اخفا کیا گیا کہ اسی رنگ میں اخفاء کیا گیا کہ گویا مولوی صاحب کا یہ منشاء اور کوشش تھی کہ یہ بات ایست اصحاب تک نہ پہنچے کہ جو اس کا ردّیا مقابلہ کر سکیں اور ان کو خفیہ خفیہ کمزو رطبائع کے آدمی یا ناواقف لوگوں پر اپنا اثر ڈالئے اور بہائی تعلیم کے پھیلانے کا موقع مل جائے.(۸) یہ بات یقینی طور پر ثابت نہیں مگر مولوی صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی طرف سے ان کی بیوی کو بہائی نماز سیکھنے کے لئے دی گئی ہے.روزے رکھنا یا رکھوانا ثابت نہیں ہوا.لیکن اس کی تحقیق میں کمیشن نے زیادہ توجہ بھی نہیں کی کیونکہ ملزم نے صاف الفاظ میں تسلیم کر لیا تھا کہ وہ بہائی ہے تمام بہائی تعلیمات اور عقائد کو مانتا ہے.مولوی صاحب نہیں مانتے لیکن حکیم صاحب کی شہادت سے یہ ثابت ہے کہ مولوی صاحب نے ان سے یہ اظہار گیا تھا کہ ان کے خیال میں نماز کے اوقات کی پابندی ضروری نہیں جس وقت دل میں
۱۶ انشراح ہو پڑھی جاسکتی ہے.(۹) یہ ثابت نہیں ہوا.لیکن مولوی صاحب اتنا مانتے ہیں کہ وہ بعض بہائیوں سے ملتے رہے ہیں اور حشمت الله آگرہ والے کا ان کو ایک خط بھی آیا تھا.کتابیں منگوانے کے متعلق ہم سے زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی.شاہدوں کے بیان میں ذکر آیا ہے مگر مولوی صاحب خودانکار کرتے ہیں.(۱۰) کسی خاص نئے طریقہ کا پتہ نہیں چلا اور نہ اس کی زیادہ تحقیق کی گئی.الزامات کا خلاصہ نمبروار خلاصتہً جواب دینے کے بعد ہم یہ کہنا چا ہتے ہیں کہ اگر غور کیا جائے تومذکورہ بالادس الزامات کا خلاصہ یہ دو باتیں ہیں.اول - آیا مولوی صاحب نے عام معروف مسلمّہ احمدی عقائد سے انحراف یا تبدیلی کر کے بہائی عقائد اور مذہب کو اختیار کر لیا ہے.دوم - آیا مولوی صاحب نے اس امر میں اپنا رویہ ایسا رکھا ہے کہ جس کو مجرمانہ اخفاء کہا جا سکے اور جو ایک سازش اور خفیہ زہر پھیلانے اور فتنہ پیدا کرنے کا حکم رکھتا ہو.امراول بالبداہت ثابت ہے.مولوی صاحب اس کو تسلیم کرتے ہیں.گواہوں کی شہادت اس کی مثبت ہے.نمونتہً مولوی صاحب کے بیانات سے مندرجہ ذیل فقرات نہیں کئے جا سکتے ہیں.عقائد اسلامیہ سے انحراف (الف) میں بہاء اللہ کو صادق سمجھتا ہوں.ب) ان کادعوی ٰموعود کل ادیان ہونے کا ہے.آج میں ان کو مسیح موعود مانتا ہوں بلکہ موعود کل ادیان.(ح) مجھے بہائی مذہب سے کوئی اصولی اختلاف نہیں.(خ) میں بہائی ہوں.(د) میں باب کومہدی معہورمانتا ہوں.(ذ) میں بہاء اللہ کو مرزا صاحب سے افضل سمجھتا ہوں (ر) اگر مجھے کوئی ہدایت شوقی کی طرف سے آوے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے بھی اور وہ دونوں ٹکرا جائیں تو میں شوقی صاحب کی ہد ایت کو تر جیح دوں گا.
۱۷ (ز) بعض احکام قرآن شریف کے ایسے ہیں جو بہا ء اللہ کی وحی کے ماتحت تبدیل ہو گئے ہیں.میں بعض حالات کے لحاظ سے میں بہاء اللہ کو آنحضرت ﷺ سے افضل سمجھتا ہوں.(ش)میں پانچ اسلامی نمازوں کا پڑھنا فرض نہیں سمجھتا.(ص) میں روزانہ تین بہا ئی نماز یں پڑھتا ہوں.(ض) بہائی فرض نماز جو نہ پڑھے وہ گنہگا رہے.(ق) اسلامی روزے رمضان کے اب فرض نہیں رہے (ک) تحویل قبلہ اب مکہ کی طرف ہو چکی ہے.(گ) میں لا تثئ إلا عينى که کا مصداق بہاء اللہ کو مانتا ہوں.میرے نزدیک مہدی اور مسیح دو شخص ہیں.(ف) نزول ابن مریم کی حدیث بہاء اللہ کے متعلق ہے.ضمناً مرزا صاحب کے متعلق.(ل)، لوكان الإيمان لا کی حدیث صاف طور پر بہاء اللہ کے متعلق ہے.(م) میں کبھی نماز مکہ کی طرف منہ کر کے بھی پڑھتا ہوں.جب مساجد میں پڑھتا ہوں تو مکہ کی طرف منہ کر کے پڑھتا ہوں.بیانات مندرجہ بالا سے یہ بات اظهر من الشمس ہے کہ مولوی صاحب موصوف نہ صرف مخصوص عقائد احمدیہ سے بلکہ عام مسئلہ عقائد اسلامیہ سے منحرف ہیں جس کا وہ کھلم کھلا اقرار کرتے ہیں.گو وہ ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ میں مرزا صاحب اور آنحضرت ﷺ کو راست باز سمجھتا ہوں.خفیہ کارروائی اور اس کی بیہودہ وجہ: امردوم کے متعلق جیسا اوپر بھی لکھا جا چکا ہے مولوی محفوظ الحق صاحب خود تو کھلم کھلاا قراری نہیں ہیں مگر اخفاء کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جو غرض وہ اس اخفاء کی بیان کرتے ہیں وہ نہ صرف نا قابل تعلیم بلکہ مضحکہ انگیز ہے.یعنی یہ کہ احمدیوں کو تکلیف نہ ہو.بات یہ ہے جیسا کہ شہادت سے پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا ہے انہوں نے مجرمانہ اخفاء کیا ہے اور اس بات کی کوشش میں رہے ہیں کہ خفیہ خفیہ اپنے بہائی عقائد کی زہر پھیلائیں تاکہ کھلم کھلا اظہار سے قبل ایک جماعت قائم ہو جائے.اور زیادہ قابل افسوس یہ جرم کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی مخفی تبلیغ کے لئے ان لوگوں کو چنا کہ جن کے متعلق کسی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ ان پر میں اپنا اثر ڈال سکوں گا.
۱۸ جُرم ثابت ہے یہ بات سمجھ سے بالا ہے کے ایک شخص ایک لمبے عرصہ سے بہائی مذہب اختیار کر چکا ہے لیکن وہ اس کا اعلان نہیں کرتا اور جس انتظام میں وہ منسلک ہونا ظاہر کرتا ہے اس کے امام یا کسی ذمہ دار شخص کے سامنے اپنے نئے عقائد کا اظہار نہیں کر تا بلکہ خفیہ خفیہ اور اخفاء کی تاکید کرتے اور اقرار لیتے ہوئے ناواقف شخصوں کے سامنے اپنے خیالات کو اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ گویا وہ ان خیالات کی تبلیغ و تلقین کرنا چاہتا ہے پھرمدعی بنتا ہے کہ اس کی نیت صالح ہے جس نتیجہ پر ہم پہنچے ہیں اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب مولوی محفوظ الحق صاحب کو یہ پتہ لگا کہ حکیم ابو طاہر صاحب جن کو وہ گاہے گاہے اپنے عقائد کی تلقین کرتے رہتے تھے اب واپس وطن کو جانے والے ہیں تو انہوں نے خاص طور پر ان سے کہہ کر الگ بات کرنے کے لئے وقت لیا.تین دن کے لئے تین تین گھنٹے وقت مانگا اور پھر ان کو الگ لے جا کر مخفی طور پر سلسلہ احمدیہ سے بد ظن کرنے اور بہائی عقائد کو منوانے کی کوشش کرتے رہے اور ساتھ ہی ان کو یہ تاکید بھی کر دی کہ کسی سے اس امر کا ذکر نہ کریں.گویا کہ ان کے لئے ازالہ شکوک کا دروازہ بھی بند کرنا چاہا.اسی طرح اور شہادتوں اور قرائن سے ثابت ہے کہ مولوی محفوظ الحق صاحب اور ان کے ساتھی خطرناک اخفاءِ مجرمانہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور سازش اور فتنہ کا رنگ اختیار کیا ہے.اللہ دتہ کا جُرم جو دو باتیں ہم نے اس الزامات کا خلاصہ نکالا ہے ، ان کو مد نظر رکھتے ہوئے.ماسٹر اللہ دةہ عبد الصمد ملزم نمبر۲ کے متعلق ہم مندرجہ ذیل نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بہائی کہلانے سے انکاری ہے مگر اس کے مجموعی بیان سے اور اس کی ان کارروائیوں سے جو وہ بہائی مذہب کی تائید میں وقتاًفوقتاً کرتا رہا ہے اور گواہوں کی شہادت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دراصل وہ بہائی مذہب کا مصدق ہے اور بہائی مذہب کے لئے اس کی تبلیغی کوششیں علمی صاحب کی کوششوں سے بھی ظاہر طور پر زیادہ نمایاں ہیں.وہ شریعت جد یدہ کا مجوز ہے اور دَور ِاسلام کو ختم ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود کو اپنی ایک من گھڑت اصطلاح کی رُو سے کسی اصل مسیح موعود کا ظل مانتا ہے.اور وہ نوجوان ناواقف احمدیوں بلکہ بالکل جاہل ناخواند ہ دیہاتیوں تک اپنا اثر پھیلانے کی کوشش کرتا رہا ہے ، اور اپنے رفیق مولوی علمی صاحب کی طرح یہ بھی اخفائے مجرمانہ اور سازش اور فتنہ کا مرتکب ہوا.
۱۹ مہرمحمد خاں کاذ کر نوٹ.گو ہمیں مرد خاں کے متعلق کسی تحقیق کرنے کے لئے نہیں کہا گیا تھا اور استغا ثہ نے ان کو صرف بطور شاہد کے پیش کیا تھا لیکن ان کے بیان اور شہادات سے ہم کو یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی بہائی مذہب کے مصدق ہیں اور علمی صاحب کے ساتھ مل کر ان کی کارروائی میں مددگار رہے ہیں لیکن چونکہ ہم نے ان کے متعلق بطور ملزم کے تحقیق نہیں کی اس لئے اپنی کوئی قطعی رائے نہیں پیش کر سکتے.لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے متعلق بھی مناسب کارروائی ہونی چاہئے.یہ ممکن ہے کہ ان کی حالت ابھی تک قابل اصلاح ہو.مرزا بشیراحمد بقلم خود محمد صادق - عبدالرحمن مصری - محمد شریف.اب میں ان کے بیانات سناتا ہوں.مولوی محفوظ الحق علمی کا بیان سنتے وقت یہ بھی خیال رکھیں کہ پہلے پہلے کیا بیان دیا ہے اور بعد میں کیا بتایا ہے.نیز دس سوالوں کا جس طرح جواب دیا گیا ہے اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کیسی نیک نیتی سے دیا گیا ہے آگے جرح میں بالکل اس کے خلاف ہو جاتا ہے.بیان یہ ہے.بیان محفوظ الحق میں یہ عرض کر سکتا ہوں.اس کے متعلق بعض کتا بیں ماسٹر نواب دین ساحب کے ذریعہ مجھے ملی ہیں جو بہائی مذہب کے متعلق ہیں.ان کے بعض حصے مجھے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے.اور بعض مکمل طور پر پڑھی ہیں.میں سلسلہ کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا اور حضرت صاحب کو منجانب الله راستباز سمجھتا ہوں جیسا کہ پہلے سمجھتا تھا.اس سلسلہ میں ضرور بعض دوستوں سے اس قسم کی گفتگو ہوتی رہی ہے بلکہ بعض علماء سے بھی خود علمی طور پر اس کے متعلق تذکرہ کرتا رہا ہوں.اور اس سلسلہ میں تحقیقات کے طور پر میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں حضرت صاحب کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے بھی بعض امور میرے ذہن میں آئے ہیں جن کے متعلق میں خود کئی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اید ہ الله بنصرہ کی خد مت میں عرض کرنے کا ارادہ کر تا تھا لیکن ابھی تک کوئی موقع پیش نہیں آیا.سوال اول کا جواب:.میں بالکل سچ کہتا ہوں جو کتابیں میں نے اس وقت تک پڑھی ہیں اگر ان میں جو واقعات ہیں وہ سچ ہیں تو بہاء اللہ کو مفتری نہیں کہتا اور اس کے ساتھ ہی حضرت صاحب کو بھی مفتری نہیں کہتا.
۲۰ سوال - کیا آپ ان واقعات کو سچے سمجھتے ہیں.جواب میں کیا کہہ سکتا ہوں.میں ان واقعات کے وقت نہ تھا.میرا مقصد یہ ہے کہ ان کتابوں میں جو واقعات ہیں ان کے متعلق مجموعی حیثیت میں واقعات اور بیانات کے لحاظ سے میں ان کو مفتری نہیں کہہ سکتا( اس وقت جو میرے دل کی حالت ہے وہ یہ ہے) سوال: - کیا آپ حالت معلق میں ہیں یا ان کو صادق سمجھتے ہیں.جواب:.میں ان کو صادق سمجھتا ہوں.سوال:- ان کا دعویٰ کیا ہے؟ جواب: - ان کا دعویٰ موعود ہونے کا ہے.سوال : - آپ بھی ان کو موعودہانتے ہیں؟ جواب:- اس کتاب میں جو دلائل لکھے ہیں ان سے مانتا ہوں.ہاں مو عود مانتا ہوں.سوال:- دعوی ٰ کیا ہے ان کا؟ جواب:- موعود کل ادیان ہونے کا ہے.نبی کالفظ وہ اپنے لئے نہیں بولتے.سوال: آپ ان کو نبی مانتے ہیں؟ جواب: - ان کا بیان ہے.ہر دور میں جو شخص خدا تعالی کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے وہ اپنی طرف سے اصطلاحات بھی لاتا ہے.نبوت اور رسالت کی اصطلاحات آنحضرت ﷺکے ساتھ ختم ہوئیں.بہاء اللہ کی اصطلاح میں لفظ اور ہے.بہاء اللہ کی کتاب میں ان کے اپنے متعلق میں نے کوئی لفظ نبی یا رسول کا نہیں دیکھا.ہاں ایک اور بہائی عالم کی کتاب میں بحث القاب کے ماتحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور جوکسی مامورالہیٰ کے ظہور سے شروع ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ جہاں اور امور لاتا ہے اصطلاحات بھی ساتھ لاتا ہے اس لئے بہاء اللہ کو نبی یا رسول نہیں کہتے کیونکہ ان کے دور میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا.بہاء اللہ کی کتاب اقدس کے مطابق انہوں نے دعویٰ مسیح موعود ؑ ہونے کا کیا ہے جیسا کہ یہ فقرہ ان کی کتاب سے ہے.إنه أتى من السماء كما أتی اول مرة ، میں ان کو مسیح موعود مانتا ہوں بلکہ موعود كل ادیان.ساتھ ہی حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو راست باز اور ایک رنگ میں مسیح موعود مانتا ہوں.بہاء اللہ نے مہدی موعود ہونے کا دعوی ٰنہیں کیا.جتنا میں نے اس وقت تک دیکھا ہے.اس کے لحاظ سے مجھے بہائی مذہب سے کوئی اصولی اختلاف نہیں.اسلام اور بہائی مذہب کے اصولوں میں میرے خیال
۲۱ میں کوئی اختلاف نہیں.میں بہائی ہوں - احمد ی بھی ہوں.میں مسلمان ہوں.میں بابی بھی ہوں.بابی جو سید علی محمد باب کو مہدی موعو د مانتے ہیں.میں ان کو مہدی موعود مانتا ہوں.اس لحاظ سے بابی ہوں.حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بہائی مذہب کے خلاف جہاں تک میں نے مطالعہ کیا کچھ نہیں لکھا.تائید کے متعلق یہ عرض ہے کہ حضرت اقدس ؑکے بیانات سے کثرت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہائیوں کے خیالات کی تائید کرتے ہیں.سوال- جو بہائی نہ ہو اس کو کیا سمجھتے ہیں؟ جواب میں اس کا جواب ایسی جلدی میں نہیں دے سکتا میں حضرت اقدس مرزا صاحب کو ایک رنگ میں مہدی موعود مانتا ہوں.مجھے حضرت مرزا صاحب کے کسی الہامی عقیدہ سے اختلاف نہیں اجتہادی امور کے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے.اختلاف کی کوئی مثال اس وقت عرض نہیں کر سکا.دعاوی اور بیانات کے لحاظ سے چو نکہ کوئی بہاء اللہ کا حضرت صاحب سے عظیم ہے اس واسطے میں بہاء اللہ کو مرزا صاحب سے افضل سمجھتا ہوں.عبد البہاء عباس خلیفہ تھے.اس وقت جانشین شوقی آفندی ہے.ان کی اطاعت کے متعلق میں اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا.اگر کو نئی ہد ایت ان کی طرف سے آئے کوشش کروں گا کہ اطاعت کروں.اگر کوئی ہدایت شوقی صاحب کی طرف سے آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے بھی اور وہ ٹکرا جائیں تو شوقی صاحب کی ہدایت کو ترجیح دوں گا.جب میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا اس وقت میرے بہائی خیالات نہ تھے.نہ ان کے متعلق کچھ علم تھا.میں تین سال سے بہائی کتب کا مطالعہ کر رہا ہوں اور ساتھ ہی حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں.چونکہ حضرت صاحب کی کتابوں میں بکثرت ایسی باتیں ہیں جو بہائی خیالات کی مؤید نظر آتی ہیں اس لئے اور بھی مجھے ان کی طرف توجہ پیدا ہوئی حضرت مرزا صاحب نے نبی ہونے کا دعویٰ ایک طرح سے کیا ہے یہ ان کی اصطلاح ہے.سوال: - کیا آپ حضرت مرزا صاحب کے الہامات کو خطا سے خالی سمجھتے ہیں؟ جواب: - حضرت مرزا صاحب کے الہامات کی جو کیفیت ہے اسی کے مطابق میں ان کو تسلیم کرتا ہوں.بعض الہامات ایسے ہیں جن کے بعض اجزاء حضرت صاحب پر مشتبہ رہے اور ان کے متعلق خود حضرت صاحب نے لکھا کہ یہ حصہ الہام کا مشتبہ رہا.بعض الہامات کے متعلق حضرت صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے بعض حصے میں بھول گیا.بعض الہامات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ان کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا.بعض کے متعلق یہ حالت ہے کہ ان کا مطلب ایک وقت کچھ سمجھا
۲۲ گیادوسرے وقت کچھ نکلا.بعض الہامات ایسے ہیں جو میرے نزدیک قرائن کی وجہ سے بہاء اللہ یا کسی اور شخص کے متعلق معلوم ہوتے ہیں.بعض بہاء اللہ کے متعلق میرے خیال میں ہیں.وہ اور کسی کے متعلق نہیں.میرا خیال حالات موجودہ کے لحاظ سے یہ ہے کہ چونکہ مقصد خدا اور صرف خدا ہے اس لئے جو وجود خداتعالی کی طرف سے ظاہر ہونے کے مدعی ہوئے میں نے ان کو اس لئے مانا ہے کہ وہ خدا کی طرف بلاتے ہیں.سوال:- وہ کون سے دوست ہیں جن سے آپ کی گفتگو اس کے متعلق ہو ئی؟ جواب- غالباً شیخ عبد الرحمن ٰصاحب مصری - حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری.مولوی محمد امین صاحب جو خود مجھ سے گفتگو کرتے رہے ہیں.سوال:- یہاں بہائی خیالات کے احمدی اور بھی ہیں؟ جواب میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے سوائے کوئی اور ہے میرا خیال ہے کہ اللہ دتہ بہائی مذہب کی طرف مائل ہے.حافظ روشن علی صاحب سے بعض دفعہ بہائی مذہب کے متعلق گفتگو کی ہے.اور جن کا میلان ہے میں اس واسطے ان کا نام نہیں لیتا کہ وہ اپنے کسی فیصلے کے متعلق خودہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور اس واسطے بھی نام نہیں لیتا کہ ان کو کچھ نقصان نہ پہنچے.بعض احکام قرآن شریف کے ایسے ہیں جو بہاء اللہ کی وحی کے ماتحت تبدیل ہو گئے ہیں.بعض حالات کے لحاظ سے میں بہاء اللہ کو آنحضرت ﷺسے افضل سمجھتا ہوں.میں پانچ اسلامی نمازوں کا پڑھنا فرض نہیں سمجھتا مگر پڑھتا ہوں کیونکہ شریعت بہاء اللہ نے اس کو جائز قرار دیا ہے.بہاء اللہ نے بھی ایک نماز فرض کیا ہے وہ تین نمازیں روزانہ ہیں اور میں پڑھتا ہوں.تین سال سے میں بہائی ازم کا مطالعہ کر رہا ہوں اب جب علیگڑہ سے واپس آیا ہوں اس وقت سے موجو دہ کیفیت ہے.یعنی بہائی ہوں.بہائی فرض نماز جو نہ پڑھے وہ گنہگار ہے چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کے متعلق مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اجازت دی ہے کہ ایک شخص کفر و اسلام کے مسئلہ میں بھی آپ سے اختلاف رکھتے ہوئے آپ کے ساتھ رہ سکتا ہے اس لئے اس سلسلہ میں اسی طرح میں بھی رہا ہوں اور میں قریب ہی ارادہ کر رہا تھا کہ یہ باتیں حضرت خلیفۃ ا لمسیح کی خدمت میں عرض کروں گا.چونکہ شریعت جدید کا ظہور ہو گیا ہے اس واسطے اسلامی روزے رمضان کے اب فرض نہیں.میں نے ماہ مارچ میں بہائی ازم کے ماتحت کوئی روزے نہیں رکھے.حج کعبہ کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ فرض ہے یا نہیں.تحویل قبلہ مکہّ کی طرف ہو چکی ہے.میں
۲۳ بھی نماز مکہ کی طرف منہ کر کے بھی پڑھتا ہوں.جب مساجد میں پڑھتا ہوں تو مکہ کی طرف منہ کر کے پڑھتا ہوں زکوة کے متعلق مجھے معلوم نہیں فرض ہے یا نہیں.میں نے ایک تصنیف کرنے کے واسطے نوٹ کئے ہیں.ابھی تک اس کا نام میرے خیال میں نہیں میں وہ نوٹ دکھا سکتا ہوں وہ ایک رجسٹر تھا تین چار سال ہوئے اس پر لکھا تھا ’’قرآنی طاقتوں کا جلوہ گاہ‘‘ مگر ضروری نہیں کہ یہ اس کا نام ہو، سوائے ماسٹراللہ دتہ کے وہ نوٹ میں نے اور کسی کو نہیں دکھائے.میں نے جن علماء سے پہلے گفتگو کی انہوں نے کچھ توجہ نہ کی اس واسطے بعد میں ان سے گفتگو نہ کی.اب میرا أراده تھا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں اپنی معلومات پیش کروں.مجھے ماسٹر نواب الدین سے کتاب الاقدس بعد جلسہ ملی اور اسی کے مطالعہ سے مجھ پر زیادہ اثر ہوا.حشمت اللہ بہائی سے میں آگرہ میں ملتا تھا اور بطور محقق گفتگو کرتا تھا مگر اس وقت مجھ پر یہ اثر نہ تھا حشمت اللہ سے بعض دفعہ خط و کتابت رہتی ہے اس نے لکھا تھا کہ ایسی تجویز کرو کہ ان کے مضمون ہمارے اخباروں میں اور ہمارے ان کے اخباروں میں شائع ہوں.راولپنڈی کے پریتم سنگھ سے میری کوئی خط و کتابت نہیں.میں نے کوشش کر کے کسی کو بہائی مذہب کی کتب نہیں دیں.لوگ خود لے جاتے ہیں.مثلاً مہرمحمد خاں صاحب.حکیم ابو طاہر صاحب مولوی ظل الرحمن صاحب نے کتاہیں لیں اور ماسٹر الله دتہ صاحب نے.میں نے یہ ضرور کہا کہ مخفی رکھنا تاکہ کسی احمدی کو تکلیف نہ ہو.سوال:- آپ نے ان عقائد کی کسی اور کو تلقین کی ؟ جواب:- لوگوں سے تذکرہ ہوتا رہا ہے.اور اس سلسلہ میں انہیں مذکورہ بالا لوگوں سے جو کتابیں لے گئے تھے بہائی مذہب کے متعلق تذکرہ ہوتا رہا.اور میں نے ان سے کہا کہ یہ مذہب بہائی سچا ہے.میں نے ان سے تذکرہ کیا اور اپنا خیال ظاہر کیا اور اس نیت سے کیا کہ وہ بھی اس کو قبول کریں.سوال میرمحمد اسحٰق صاحب میں آپ کا ہمسایہ ہوں مجھے کیوں تلقین نہ کی؟ جواب.وہ لوگ ملاقات کے لئے آیا کرتے تھے ان سے گفتگو چھڑ گئی.میں نے جن دوستوں سے تبلیغی گفتگو کی.تذکرہ ہوا ان میں سے بعض کو میں نے ضرور کہا کہ ان کو مخفی رکھیں قبل اس کے کہ میں اس کو حضرت خلیفۃ المسیح کی خد مت میں کہوں اس کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بعض ضعیف القلب احمدیوں کو ممکن ہے کہ تکلیف ہو رات جو با تیں میں نے حکیم ابو طاہر سے کہیں وہ اسی رنگ میں تھیں کہ کسی اور پر ظاہر نہ ہوں.میں نے
۲۴ کہا کہ بعض نے حضرت مرزا صاحب مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے پورے نہیں ہوئے مگر وہ راستبازی میں مخل نہیں.مضمون میثاق النّبیّن میں جو میں نے لکھا ہے کہ موعود آگیا اس میں اول درجہ بہاء اللہ ہیں دوم درجہ پیر مرزا صاحب.میں نے کسی سے ایسانہیں کہانہ مجھے معلوم ہے کہ کسی اور نے کہا کہ الفضل میں بعض ایسے مضامین لکھے گئے ہیں جن سے بعد میں بہائی ازم کی تائید نکلے.عبدالجبار سے میری ملاقات اور گفتگو متعلق بہائی ازم ہوتی رہی.اس وقت کچھ اختلاف یا اتفاق ان کے ساتھ نہ کرتا تھا.علیگڑھ میں بھی دو ایک کتا بیں دیکھی ہیں میری بیوی کہتی ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے.تین بہائی نمازیں نہیں پڑھتی.ان نمازوں کی فرضیت کا ظہوراس وقت ہو گا.جب بیت العدل اعظم قائم ہو گا.میں نے اپنی بیوی کو بہائی تذکروں کے وقت یہ بھی کہا تھا کہ کسی سے ذکر نہ کرنا.میرا ارادہ ہے کہ جس عقیدہ پر قائم ہو چکا ہوں اس کو لوگوں تک پہنچاؤں- اگر حضرت خلیفۃ المسیح فرماویں کہ تم خاموش رہو اور اسی عقیدہ کا اوروں کے سامنے اظہار نہ کرو تو میں حالت موجو دہ میں اس علم کی تھیں اس وقت تک کروں گا جب تک کہ مجھے اس کے اظہار کی خواہش نہ پیدا ہو.سوال: - کیا آپ نے کوئی اراده و کوشش یا تجویز اس امر کے متعلق کی کہ بغیرعام اعلان کے کوئی اس امر کو قبول کرلے.جواب:.میں نے کوئی باقاعدہ کوشش نہیں کی بعض دوستوں سے تذکرہ ہوتا رہا.میں نہیں کہہ سکتا کہ کیا حالات نہیں آتے.ممکن تھا کہ میں اعلان کر تا ممکن تھا نہ کرتا یاد نہیں کہ کسی کے سامنے بہائی تین نمازیں پڑھی ہوں.ہم نے دہلی سے کوئی کاتب کتاب لکھوانے کے لئے نہ منگوایا تھا.میرا دوست ہے ملنے آیا تھا احمدی ہے.کتابت بھی کرتا ہے وہ کاتب یہاں دو تین ماہ رہا.میں نے اللہ دتہ کو کہا تھا کہ یہ نوٹ بک کسی کو نہ دکھائیں جس سے کسی احمدی کو تکلیف ہو.اس واسطے میں نے اس کو مخفی رکھا کہ کوئی شخص اصل بات کو نہ سمجھ کر مسیح موعود کو کبھی نہ چھوڑدے.علمی پریس کا میں مالک ہوں ایک اور شخص بھی شریک ہیں جو بہائی ہیں.علیگڑہ میں جج صاحب کے ساتھ معمولی طور پر کبھی ذکر بہائی مذہب کا ہو ا.پر یس جاری کرنے میں منشاء تجارتی تھا کہ اس سے گزارہ چل جائے اشاعت لٹریچر بھی خیال تھا کبھی ایسا خیال نہیں ہوا کہ اس پر یس کو قادیان میں لایا جائے.وہ پر یس پانچ چھ ماہ سے قائم ہے.الفضل میں جو مضامین لکھے تھے ، اپنے نقطہ خیال
۲۵ سے لکھے تھے.یعنی بہاء اللہ بھی صادق.حضرت صاحب بھی صادق لا مهدی إلا عیسٰی والی حدیث کو مانتا ہوں اور اس کا مصداق بہاء اللہ کو جانتا ہوں.میں برهان الصحيح کے مناظر سے اس امر میں متفق ہوں کہ مہدی اور مسیح دو شخص ہیں.حضرت مرزا صاحب کی تحریر کے مطابق کہ مہدی بہت سے ہیں.ازانجمله مہدیؑ ہند حضرت مرزا صاحب بھی.نزول ابن مریم کی حدیث بہاء اللہ کے متعلق ہے.ضمناً مرزا صاحب کے متعلق.ولوكان الإيمان معلقا والی حدیث صاف طور پر بہاء اللہ کے متعلق ہے کیونکہ وہ صاف طور پر فارسی تھے.اگر ثابت ہو جائے کہ بہاء اللہ کا دعویٰ نہیں یا دعویٰ ہے مگر دلائل نہیں تو اب بھی اس خیال کو چھوڑنے کے واسطے تیار ہوں.میری بیوی نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ بہائی نماز یا د کرے مگر اب تک نہیں کی.میری بیوی نے جتنا احمدیت کو سمجھا تھا اس سے زیادہ بہائی ازم کو سمجھا ہے.میں نے کتاب اقدس کے بعض حصے اپنی بیوی کو پڑھ کر سنائے ہیں.جتنا یقین احمدیت کو قبول کرنے کے وقت مجھے تھااتنااب بہائی ازم پر ہے.دستخط، محفوظ الحق علمی بیان مہرفان مولوی محفوظ الحق صاحب نے مجھے کوئی کتاب بہائی ازم پر نہ دی نہ میں نے ان سے لی.البته ان کی بیٹھک میں میں نے ایک کتاب پڑی دیکھی اور اٹھا کر پڑ ھی میں بہائی نہیں ہوں مجھے معلوم نہیں کہ مولوی محفوظ الحق صاحب بہائی ہیں یا نہیں لیکن وہ اس کا مطالعہ رکھتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ وہ اس کے مکذّب نہیں.وہ بہاء اللہ کے دعاوی الہام کو سچا سمجھتے ہیں.ان سے باتیں بہائی ازم پر ہوتی رہتی ہیں.میں ان کے ہاں کھانا کھاتا ہوں ہر قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں.انہوں نے مجھے ایسا کہا ہے کہ ہائی ازم کو سوچنا چاہئے غور کرنا چاہئے.میرے سامنے بھی اور کوئی آدمی ان کے پاس خصوصیت سے نہیں آیا ، عام طور پر لوگ آتے ہیں محمد الدین اور حافظ عبدالرحمن د و طالب علم بھی ان کے پاس آتے ہیں وہ مولوی علمی صاحب بہاء اللہ کو راستباز بکھتے ہیں.میں نے کبھی کوشش نہیں کی کہ بہاء اللہ کو جھو ٹا کہوں کیونکہ میں نے اس کے متعلق دیکھانہ تھا.میں اس کو مفتری یا پاگل نہیں جانتا.میرے نزدیک اس کا دعویٰ صحیح ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ خدا کی طرف سے الہام پانے کا دعویٰ کرتا ہے اور وہ سچا ہے.میں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ
۲۶ بہاء اللہ افضل ہے یا حضرت مرزا صاحب.بہاء اللہ نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے اور میں اس دعویٰ میں ان کو سچا سمجھتا ہوں.میں بہاء اللہ کو نبی سمجھتا ہوں.اس نے تشریعی نبوت کا دعوی ٰکیا ہے.میں اس کو اس دعویٰ میں سچا سمجھتا ہوں.مجھے علم نہیں کہ قرآن شریف کے کچھ احکام منسوخ ہوئے ہیں یا نہیں.جلسہ کے بعد سے میرے ایسے خیالات ہیں.کتاب مبین میں نے مولوی صاحب کے مکان پر دیکھی ہے.میں قرآن شریف کے تمام علموں پر ایمان لاتا ہوں.اور عمل کرتا ہوں.مجھے معلوم نہیں کہ مولوی صاحب کا ارادہ کوئی کتاب لکھنے کا ہے ہاں ان کا یہ ارادہ ہے کہ اس سارے معاملہ کو حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور پیش کریں.مجھے معلوم نہیں کہ اب تک مولوی صاحب نے اس کا اخفاء کیوں رکھا.ماسٹر اللہ دتہ صاحب سے میری معمولی ملا قات ہے.سید عبد اللہ سے میں واقف ہوں.میں نے ان کو کوئی کتاب ’’مقالہ سیاح“ انگریزی نہین دی.مسٹر حشمت اللہ کو بھیجنے کے واسطے میں نے کوئی کتاب نہیں دی.میں نے عبداللہ کو کتاب ’’کلمات مکنونہ‘‘ پڑھنے کے واسطے دی تھی.یہ کتاب مسٹر حشمت اللہ نے مجھے آگرہ میں دی تھی اور بہتوں کو بھی دی تھی میرے ساتھ حشمت اللہ کی خط و کتابت نہیں.مجھے معلوم نہیں کہ اللہ دتہ نے روزے بہائی رکھے ہوں.میں روزانہ صبح عبد اللہ کے مکان پر نہیں جاتا.کہیں اتفاقی ملاقات ہوتی ہے \" قرآنی طاقتوں کا جلوگاه‘‘ جو مولوی محفوظ الحق صاحب لکھ رہے ہیں میں نے نہ دیکھا اور نہ پڑھا.یہ مجھے علم ہے کہ وہ کچھ نوٹ کر رہے ہیں.میں نے ان نوٹوں کے لکھنے میں کچھ مدد نہیں کی.الفضل میں جو مضامین لکھے ہیں ان کے متعلق کوئی خاص گفتگو مولوی علی صاحب سے نہیں ہوئی.جب میں \"ٹری ٹوریل‘‘ میں تھا میری کوئی خط و کتابت علمی صاحب سے نہیں ہوئی.میرا فیصلہ متعلق بہاء اللہ کہ وہ مفتری نہیں جلسہ سے بعد کا اور نری ٹوریل‘‘ پر جانے سے قبل کا ہے.مولوی علمی صاحب نے کہا تھا کہ یہ معاملہ اہم ہے.اس کے متعلق تحقیقات کرنی چاہئے.میں نے کہا جب کوئی کتاب نہیں تو کیا تحقیقات کریں.اس پر وہ’’ کتاب مبین‘‘ ماسٹر نواب الدین سے لائے اور میں نے پڑھی.جنوری میں پڑھی.بہاء اللہ کی تصنیف ہے.جو رسالہ میں آگرہ سے لایا میں نے پڑھا.وہ تراجم اقوال بہاء اللہ ہیں.میرا خیال ہے کہ اگر اس سے قبل بات کھل کر مولوی صاحب کا خیال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوتا تو اچھی بات تھی.میرے سامنے مولوی محفوظ الحق صاحب نے بھی حضرت مرزا صاحب کی پیش گوئیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا.مولوی محفوظ الحق علمی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ بعد قرآن نئی شریعت آ سکتی ہے، مولوی محفوظ الحق
۲۷ صاحب نے میرے علم میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جو بہائی مذہب کے مطابق اور خلاف اسلام ہو.انہوں نے سود کے متعلق یہ کہا ہے کہ قرآن شریف سے ایسا ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ قطعاً بند ہے.انہوں نے تعدّد ازدواج کے متعلق یہ رائے دی ہے کہ تعدّد ازدواج نہیں چاہئے.پردے کے متعلق بھی وہ اس کی کے قائل نہیں جو مروّجہ ہے.مولوی صاحب کے ساتھ قیامت کے وجود کے متعلق بھی گفتگو نہیں ہوئی.یعقوب علی صاحب نے فہرست مضان " قرآنی طاقتوں کا جلوه گاه " دکھائی اور سوال کیا کہ ان مضامین کے متعلق آپ کو کیا علم ہے.مہر محمد خاں صاحب نے جواب دیا کہ ان میں سے بعض کے متعلق مولوی محفوظ الحق صاحب سے گفتگو ہو چکی ہے.ان میں سے نفخ صور ،معیار صداقت انتشار روحانیت وحدت احکام کے متعلق تذکرہ ہوا.منشی اللہ دتہ عمر کے خط کو میں میں پہچانتا.برہان صریح میں نے غلام رسول صاحب اور ماسٹر نذیر احمد صاحب کو پڑھنے کے لئے دی.ماسٹر صاحب کے ساتھ بہائی مذہب کا ذکر ہوا تھا، تب کتاب دی تھی عید ا دھوبی کے مکان پر جہاں ماسٹر اللہ دتہ رہتے ہیں اور علمی صاحب ایک دفعہ رات کو گئے تھے.عشاء سے تھوڑا بعد.غالباً عشاء کے وقت.مولوی صاحب کو ان سے ملنا تھا.میں بھی ساتھ چلا گیا.ماسٹراللہ دتہ وہاں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھ رہے تھے.مولوی اللہ دتہ کے پاس جو نوٹ بک ہے.میں نے دیکھی ہے -۴.مارچ سے میں نے کوئی روزہ نہیں رکھا.د(دستخط ) مہر محمد خاں شہاب ان بیانات کے بعد تجویز ہوئی.کہ مہر محمد خاں کو دوبارہ بلا کر موقع دیا جائے کہ اگر اسے کچھ تر ددّ ہو تو سمجھایا جائے.اس پر جو کارروائی ہوئی وہ یہ ہے.(نوٹ) مہر محمد خاں کو دوبارہ بلا کر پوچھا گیا کہ اگر وہ کسی حالت تردد میں ہو تو اس کو سمجھایا جائے اس نے کہا کہ میں فیصلہ کر چکا ہوں اور میں اس پر کچھ بحث و گفتگو کرنا نہیں چاہتا.اور مولوی محفوظ الحق صاحب کا سارابیان مہر خاں کو سنایا گیا اور اس نے اس کی تائید کی اور کہا میں بہاء اللہ کو راستباز سمجھتا ہوں جو کچھ اس نے کہامیں سب مانتا ہوں.
۲۸ بیان اللہ دتہ میرا نام عبد الصمد ہے.میرا سابق نام اللہ دتہ ہے میں بہائی نہیں ہوں.میں بہاء اللہ کو اس کے دعاوی میں نہ سچا سمجھتا ہوں اور نہ جھوٹا کیونکہ میری تحقیقات ابھی نامکمل ہیں.آج میں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے جو کہ میرے ذاتی خیال کے ماتحت ہے نہ کہ کسی تعلیم کے ماتحت.میں بہائی مذہب کی طرف مائل نہیں ہوں.مولوی علمی کے مائل ہونے کا مجھے علم نہیں ہے.میں اس بات کا قائل ہوں کہ آنحضرت صلعم کے بعد شرعی نبی بھی آسکتا ہے لیکن کوئی ایسانبی آج تک مبعوث نہیں ہوا.لیکن بہاء اللہ کا دعوی قابل غور ہے.میں حضرت مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتا.میں ان کو مسیح اور نبی دونوں مانتا ہوں.حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو ان کا سچا جانشین مانتا ہوں.اگر وہ کہیں کہ بہاء اللہ کا دعوی غلط ہے تو میں مرزا محمود احمد صاحب کی بات کو نہیں مانوں گا جب تک کہ میری تحقیقات مکمل نہ ہو.میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا.میں بہاء اللہ کو مفتری نہیں کہہ سکتا میں اس کو پاگل نہیں کہتا یا سمجھتا.یہ مسئلہ کہ اسلام کا کوئی مسلہ قائل نسخ ہے.اگرچہ قابل غور ہے لیکن ابھی تک جو میں نے غور کیا وہ یہی ہے کہ دور اسلام ختم نہیں ہے.میں مصلحتاً اسلامی کام کرتا ہوں.مصلحت یہ ہے کہ تحقیقات مکمل نہیں اور نامکمل تحقیقات کی حالت میں فتنے کا اندیشہ ہے.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کسی پیشگوئی کی نسبت یہ نہیں سمجھتا کہ وہ پوری نہیں ہوئی.میں مسیح موعود او ر مهدی دو اشخاص کو سمجھتا ہوں.میں حضرت مرزا صاحب کو ظلّی مسیح موعود سمجھتا ہوں لیکن مہدی موعود نہیں سمجھتا.میں حضرت صاحب کو ظلی مہدی موعود سمجھتا ہوں.میں حدیث مهدئ ا علی کو سچا نہیں سمجھتا.میں حضرت مرزا صاحب کو ظلی مسیح اور ظلی مہدی سمجھتا ہوں.یہ بات میری تحقیق کی رو سے ہے اور اس وقت تک میرا یہ خیال ہے کہ اصل مسیح اور اصل مہدی کوئی اور ہیں جن کا مرزا صاحب ظل میں خواووہ حضرت صاحب باب یا بہاء اللہ میں یا کوئی اور ہے.اصل پہلے ہوتا اور ظل بعد میں.اصلی مسیح موعود و مہدی مو عود پہلے گذر چکے ہیں جن کے مرزا صاحب ظل تھے اور مصدق بھی تھے.حضرت مرزا صاحب کی تحریروں سے یہ نکلتا ہے کہ وہ اصل مہدی فارسی میں ہو چکا ہے.مرزا صالح علی کو میں جانا واب - سید محمد عبد اللہ کو بھی جانتا ہوں.اس کو میں نے کتاب " برہان الصریح‘‘ پڑھنے کے لئے دی تھی.مولوی محفوظ الحق صاحب
۲۹ علمی نے مجھے یہ کتاب دی تھی.ان کے پاس میں نے دیکھی.پھر مانگ کر میں نے پڑھ لی تھی اس سے پہلے وہ کتاب میں نے ماسٹر نواب الدین صاحب سے لے کر پڑھی تھی.میں مولوی علمی صاحب کو ملنے کے لئے ملکاتا سے ان کے واپس آنے پر ان کو ملنے گیا تھا.تو وہ کتاب ان کی میز پر پڑی تھی.صرف یہی ایک کتاب پڑی تھی.انہوں نے مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ کتاب کسی اور کو نہ دکھانا.وہ کتاب میرے پاس صرف ایک روز رہی تھی.دیکھ کر واپس کر دی تھی.پھر اس کے کئی ہفتے بعد وہ کتاب دوبارہ میں لایا تھا.اور راستے میں پڑھتا جارہا تھا کہ سید عبد اللہ نے راستے میں مجھے سے وہ لے لی تھی.چونکہ اس میں حضرت اقدس کی کتب کے حوالے تھے اور میں حضرت صاحب کی کتب کا مطالعہ کر رہا تھا اس لئے میں یہ دیکھنے کے لئے لایا تھا کہ اس میں کہاں تک صحیح حوالہ جات آئے ہیں.میں عید ا دھوبی کو جانتا ہوں.اس کے گھر میں ہی میں رہتا ہوں.میں نے عیدا دھوبی کو بہائی مذہب کے مطابق نماز لکھ کر دی تھی لیکن میں نے خود وہ نماز یاد نہیں کی.وہ بہائیوںکی نماز سے میں نے نماز لکھ کر دی تھی وہ کتاب جس میں نماز تھی وو ماسٹرنواب الدین صاحب س لی تھی.اور ان کے ولایت جانے کے بعد میں نے عید ا کو لکھ کر دی.میں نے اس میں سے یہ حصہ نقل کر لیا ہوا تھا.وہ کتاب ماسٹر نواب الدین صاحب نے گئے تھے.میں نے خود یاد کرنے کے لئے نقل کر لی تھی.میں نے صالح علی کو ’’برہان الصریح ‘‘ نہیں دی.” قرآنی طاقتوں کا جلوہ گاہ‘‘ میں نے دیکھا ہے.وہ مولوی علی صاحب کے نوٹ ہیں.اس کتاب میں حضرت صاحب کی کتابوں کے حوالے خاص خاص مضامین پر جمع کئے گئے ہیں ” لوح محفوظ ‘‘بھی اس کا نام ہے اس کے چالیس باب ہیں.فہرست باب الابواب پیش کردہ شیخ یعقوب علی صاحب اسی کتاب "لوح محفوظ‘‘ کی فہرست کی نقل ہے.مجھے علم نہیں کہ میثاق کس بلا کا نام ہے.میثاق بہاء کو میں جانتا ہوں.پرچہ کاغذ جو شیخ یعقوب علی صاحب نے پیش کیا.جس پر یہ لکھا ہوا ہے کہ’’ کون صاحب ہیں کیا کام ہے.معاف فرمائیں میں نہ بول سکتا ہوں نہ باہر جا سکتا ہوں‘‘ یہ میرے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے.اب \"قرآنی طاقتوں کا جلوہ گاہ‘‘ میں نے سید عبداللہ کو دکھائی تھی.مہر محمد خاں کو میں نے نہیں دکھائی.وہ کتاب علمی صاحب سے لی تھی وہ کتاب لکھ رہے تھے.اس میں بہت سے نوٹ حضرت صاحب کی کتابوں کے تھے.اور مختلف نوٹ تھے اس لئے میں نے اس سے شوقیہ عرض کی کہ مجھے بھی مطالعہ کی اجازت دیجئے.انہوں نے فرمایا.اچھا دیکھ لیجئے.میں وہ کتاب دیکھ رہا تھا کہ اتفاقیہ سید عبد اللہ بھی آگئے اور میں نے کتاب بند کرلی.پھر ان کے اصرا ر ا و ر پر زُور اصرار
۳۰ پر ان کو دکھانی پڑی.کتاب عمدة التنقيح در دعوت مھدی و مسيح\" میرے پاس ہے.وہ بہائی مذہب کی نہیں ہے.وہ ایک احمد کی اور بابی کا مناظرہ ہے.وہ میں نے ماسٹر علی محمد صاحب اظہر کو دی تھی.یہ رقعہ اگزبٹ (Exhibit) نمبر۳ بنام محمد علی اظہر میرا ہی قلمی ہے.اس رقعہ میں جس نوٹ کا ذکر ہے وہ میری اپنی نوٹ بک ہے.میں وہ دے نہیں سکتا.صرف دکھا سکتا ہوں.میں نے محمد علی کو ہدایت دی تھی کہ یہ کتاب کسی کو دکھانا نہیں.جلد واپس کر دینا غالباً یہ میں نے نہیں کہا تھا کہ یہ کتاب کسی کو دکھانا نہیں.وہ کتاب میرے پاس عیدے دھوبی کے گھر جب میں کھانا کھا رہا تھا واپس آئی تھی.فضل الدین کمہار سکنہ کیٹری افغاناں کو میں جانتا ہوں.اس کے ساتھ بھی میں نے خودانہی مسائل کا ذکر کیا تھا.وہ بہائی مذہب کے مسائل تھے.مہرمحمد خاں صاحب اور مولوی علی صاحب میرے مکان پر غالباً رات کے وقت میرے پاس عیدے والے مکان میں آئے تھے.جب کہ میں بائبل کا مطالعہ کر رہا تھا.آٹھ ساڑھے آٹھ کا وقت تھا.قریباً پندرہ منٹ تک وہ میرے پاس ٹھہرے.مطالعہ و غیرہ کے متعلق ان سے گفتگو ہوتی رہی.کہ کون کون سی کتاب کا مطالعہ ہو چکا ہے.شاید مہر محمد خاں نے بھی گفتگو میں کچھ حصہ لیا ہو.یاد نہیں صالح علی میرے پاس کئی دفعہ آیا تھا.اس کے ساتھ میں نے مسیح موعود کے ابن فارس ہونے یا نہ ہونے کے متعلق کئی دفعہ گفتگو کی تھی.اب مجھے یاد آگیا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کا ابن فارس ہونے کا دعوی ٰصرف الہام کی بناء پر ہے.اور بہاء اللہ کا دعویٰ ابن فارس ہونے کاواقعات کی بناء پر ہے.یہ بات میں نے کئی اشخاص کو کہی ہے.ماسٹر محمد علی اظہر کے سوا اور کوئی یاد نہیں پڑتا.فضل الدین سے بھی یہ ذکر میں نے کیا تھا.عقیدے کے مکان پر تو یہ باتیں ہوتی رہتی ہیں.میری نوٹ بک میں چار صد سے زائد حوالے ہیں.میں نے سید عبداللہ سے کسی بیتالعدل کا کوئی ذکر نہیں کیا’’ کلمات مکنونہ " میں نے سید عبد اللہ سے لے کر دیکھی تھی.اس نے غالبا ًمہرمحمد خاں سے لی تھی.سید عبد اللہ نے مجھے یہ نہیں کہا.پھر کہا کہ یاد پڑتا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ ایسا معاملہ حضرت صاحب کے پاس پیش کر دو.میں نے اس کو یہ جواب دیا تھا کہ اس طرح بات کھل جانے کا اندیشہ ہے.اول ہمارے پاس بابی مذہب کا پو رالٹریچر ہو ، پھرنقدی ،پر یس اور مکان ہو، تا کہ ہم کسی کے دست نگر نہ رہیں.اسی سلسلے میں شاید یہ بات بھی ہوئی تھی کہ ہمارا ایک پر یس علیگڑھ میں ہے.اس جگہ بھی ہونا مفید ہے.یاد نہیں کہ پریتم سنگھ کے پاس راولپنڈی میں جانے کے متعلق میں نے اس سے کوئی ذکر کیا تھا یا کہ نہیں.غالباً یہ بات میں نے عبداللہ کو کہی
۳۱ تھی کہ جس دن’’ لوح محفوظ ‘‘چھپ جائے گی وہ احمدی جماعت کے واسطے ماتم کا دن ہو گا.مستری قادر بخش یا اس کے لڑکے کو میں نے کوئی تبلیغ بہائی مذہب کی نہیں کی.صرف معمولی گفتگو اس سے ہوئی تھی.اس وقت سید عزیز الرحمن سے ماسٹر علی محمد صاحب.بی.اے.بی.ٹی کو مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ میں ابھی حضرت صاحب کو ایک پرچہ لکھ کر بھیجوں گا تو بہاء اللہ بیٹھ جائے گا میں نے اظہر صاحب کو یہ کہا تھا کہ میں نے کتاب ”اقدس" پڑھی ہے.اس میں بہاء اللہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.انہوں نے مجھ سے وہ کتاب مانگی لیکن میں نے کہا کہ ماسٹر نواب الدین لے گیا ہے.ماسٹراظہرنے اصل کتاب ”اقدس\" کا مطالبہ مجھ سے کیا تھا تو میں نے اس کتاب کو مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا.اگزبٹ نمبر۳ میں جس کتاب کے بھیجنے کا وعدہ میں نے کیا ہے.وہ المعيار الصحیح\" ہے.وہ مصطفےٰ رومی کی کتاب ہے.قاضی عبد الرشید دکاندا رڈلے والے کو جانتا ہوں.اس کے پاس سے میں تشحیذ کا ایک نمبر لایا تھا.اس رسالے میں بہاء اللہ کے خلاف ایک مضمون تھا.میں نے اسی پر اس کے جواب نوٹ کر دیئے تھے.وہ رسالہ میں نے واپس نہیں کیا تھا.وہ نوٹوں والا رسالہ میرے پاس موجود ہے.اس کا بدل واپس کر دیا تھا.اس سے بھی میرا تبادلہ خیالات ہوتا رہتا ہے.قاضی عبدالسلام صاحب کو میں جانتا ہوں.ان سے میری خط و کتابت نہیں ہے.مولوی ظلّ الرحمنٰ صاحب سے بھی کوئی تبادلہ خیالات نہیں ہوا.میں کتب ’’برہان الصريح‘‘ عمدة التنقيح\" دے نہیں سکتا کیونکہ وہ مولوی محفوظ الحق صاحب کی ہیں میں نہیں دے سکتا.دستخط ) ایم عبد الصمد عمر- احمد الله دتہ قادیان میں مذہبی آزادی ان بیانات کے سنانے کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ یہاں تمام لوگ جانتے ہیں کسی جگہ بھی دنیا میں غیرمذاہب کے لوگوں کو اس طرح امن میں رہنے کا موقع نہیں دیا جا تا جیسا کہ ہم یہاں دیتے ہیں.کچھ عرصہ عبدالجبار ایک شخص کئی ماہ یہاں رہ گیا.وہ بہائی مذہب کی تبلیغ کرتا رہا اور اسے کھانا ہم کھلاتے رہے اور اسے اپنے ہاں مہمان رکھا ہر طرح عزت کی حالا نکہ وہ مجھے ایک دن بھی ملنے نہیں آیا.یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے آنے کا منشاء یہ نہ تھا کہ ہم سے کچھ سیکھے یا تبادلہ خیالات کرے کیونکہ وہ اگر اس لئے آتا تو اس کا فرض تھا کہ مجھ سے ملتا مگر وہ میرے پاس نہ آیا
۳۲ اور جب کبھی اسے درس میں لایا گیا تو بھی مجھ سے نہ ملا.پھر جب لوگوں نے اسے کہا کہ تم دوسروں سے گفتگو کرتے ہو خليفۃ المسیح سے کیوں نہیں کرتے تو اس نے مجھے چٹھی لکھی کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا کرو مگر مسجد میں ملاقات ہو گی.اس کا اس نے انکار کر دیا.وہ الگ ملنا چاہتا تھا تاکہ لوگوں پر اس کے خلاف اثر نہ ہو اور جو چاہے کہتا پھرے.تو ایک ایسا شخص جو ہمارے مخالف مذہب کا تھا ہمارے گھر بیٹھ کر لوگوں کو ورغلاتا رہا.ہم اس کو کھانا دیتے رہے، اس کی عزت کی، اسے مہمان رکھا.کئی لوگوں نے کہا بھی کہ یہ لوگوں کو ورغلاتا ہے اسے نکال دیں لیکن میں نے کہا کہ اگر لوگ ایسے کچے ہیں کہ ایک بابی ان کو ورغلا سکتا ہے تو انہیں کون روک سکتا ہے.تم اپنا کام کرو وہ اپنا کام کرتا ہے.تو ہم اس سے نہیں ڈرتے کہ کوئی ہمارے خلاف بات کرے بلکہ ہم تو بُلا بُلا کر اپنی مسجد اور مدرسہ میں آریوں اور سکھوں کے لیکچر کرواتے رہے ہیں.ناراضگی کی وجہ اگر ان کے دلوں میں تغیر ہوا تھا تو یہ ہمارے لئے کو ئی نا را ضگی کی وجہ نہیں.مگر ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے کسی مذہب کی اصول کی پابندی نہیں کی.یہ ایسے کام پر مامور تھے جو ہمارے مذہب کی اشاعت کیلئے مخصوص ہیں.بڑے اخبار الفضل اور فاروق.مگر اس کو جانتے ہوئے ان کاموں میں انہوں نے ملازمتیں کیں اور اپنی کارروائیوں کو خفیہ جاری رکھا اور اپنی حالت کو ظاہر نہیں کیا.دنیا میں گندے سے گندے مذہب موجود ہیں مگر یہ ایسی بد اخلاقی انہوں نے دکھلائی کہ جس مذہب کے لئے انہوں نے ایسا کیا ہے وہ گندگی سے بھی گرا ہوا ہے.عیسائی حضرت مسیح کو خدا مانتے ہیں.ہندو بت پرستی کرتے ہیں اور سکھ شریعت سے جدائی رکھتے ہیں، یہودی رسول کریم ؐکو گالیاں دیتے ہیں' زرتشت آتش پرستی کرتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ انسانی ودائرے سے نہیں گر جاتے کیونکہ اس طرح وہ اخلاقی جرائم کے مرتکب نہیں ہوتے.مگر ان لوگوں نے مذہب کی تبدیلی ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے اخلاق سے گرا ہوا کام کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ باوجود یکہ بہائی خیال رکھتے تھے ان اخبارات میں کام کرتے رہے جن کی غرض یہ ہے کہ احمدی عقائد کو پھیلائیں جو بہائیوں کے قطعا ًخلاف ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ ہم غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے انہوں نے اپنے عقائد کو چھپایا اور احمدیوں کو نمازیں پڑ ھائیں حالا نکہ لاکھ درجہ بہائیوں سے غیراحمدی اچھے ہیں.
۳۳ بہائی مذہب کا گند میرے نزدیک اس مذہب کے سچے یا جھوٹے ہونے کے لئے یہی دیکھنا کافی ہے کہ اسے قبول کرکے انسان اس قدر گند ا ہو جاتا ہے کہ اسے یہ بھی تمیز نہیں رہتی کہ اس کے انسانی اخلاق کس قدر گر گئے ہیں.اور یہ مذہب ایسا ہی ہے جیسا کہ میں اپنے لیکچروں میں بتاؤں گا.ان کا خلیفہ ”ووکنگ میں خواجہ کمال الدین صاحب کے پیچھے نماز پڑھ آیا.امریکہ میں یہ لوگ کہتے ہیں عیسیٰ سب سے بڑے انسان گزرے ہیں.مسلمان ملکوں میں یہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سب سے بڑے انسان تھے.غرض ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی باتیں کہیں.انسان جو معاہدہ کرتا ہے اسے توڑ بھی سکتے مگر دیکھو اسلام نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے جو یہ ہے کہ جب معاہده توڑو تو پہلے اس کے متعلق اطلاع دو.جب ایک شخص اقرار بیعت کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اگر توڑا ہے تو توڑنے کی اطلاع دے مگر انہوں نے نہ دی.اور ان کے بیانات سے یہ پتہ لگتا ہے کہ جو عہد انہوں نے کیا تھا اس کو انہوں نے توڑا اور مہینوں توڑتے چلے گئے.غرض ہم میں مل کر، ہم میں رہ کر اور ہم میں اپنے آپ کو شامل کر کے وہ باتیں انہوں نے کیں جو کسی طرح انہیں شامل نہیں رکھ سکیں.حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کا اِدعّا وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کو بھی سچا سمجھتے ہیں.مگر حضرت صاحب تو لکھتے ہیں کہ جو قرآن کے ایک شُعثہ کو بھی مٹائے وہ کافر ہے اور اگر میں مٹاؤں تو میں بھی کافر ہوں.مگر یہ ایک طرف ان کو سچاکہتے ہیں اور ایک طرف اس کی صداقت کا اظہار کرتے ہیں جو شریعت کو ،نماز کو،روزوں کو ، حتی کہ قرآن کو منسوخ قرار دیتا ہے اور نئی شریعت لانے کا مد عی ہے.اس کا صاف ہے کہ احمدیوں کو دھوکا دینے کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم حضرت صاحب کو سچا سمجھتے ہیں.پھر حضرت مرزا صاحب اس کے بعد آئے اور جو نئی شریعت کامد عی ہے وہ آپ سے پہلے گزر چکا ہے.مگر مجیب بات ہے کہ خدا اپنے راستباز اور ملہم یعنی حضرت صاحب کو نہیں بتاتا کہ نئی شریعت آگئی ہے اور اسلامی شریت منسوخ ہو چکی ہے.اور اگر بتاتا ہے تو وہ منافقت سے چھپائے رکھتا ہے اور لوگوں کو بتاتا نہیں.اسلام اور حضرت مسیح موعود حضرت صاحب اپنی کتاب کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ :
۳۴ "قرآن شریف پر شریعت ختم ہوگئی" پھر صفحہ ۲۴ پر تحریر فرماتے ہیں.’’میرا مذ ہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں.سب سے اول قرآن ہے.*جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کاذ کر ہے.اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے.جیسا کہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسی ابن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اس کا رفع نہیں ہوا.اسی طرح قرآن میں منع کیا گیا ہے کہ بجز خدا کے تم کسی جیز کی عبادت کرو نہ انسان کی نہ حیو ان کی.نہ سورج کی نہ چاند کی – اور نہ کسی اور ستارہ کی.اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی.سو تم ہوشیار رہو.اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے بر خلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو علم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازو اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبرّ سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ گیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: الخير كله في القران- کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمهاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمهارے ایمان کا ق ا كذب قیامت کے دن قرآن ہے.اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بِلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا * ”دوسرا ذریعہ ہدایت کا سنت ہے.لیکن وہ پاک نمونے جو آنحضرت ﷺنے اپنے فعل اور عمل سے دکھلائے.مثلاً نماز پڑھ کے دکھلائی کہ یوں نماز چا ہئے اور روزہ رکھ کر دکھلایا کہ یوں روزہ چاہے اس کا نام سنت ہے یعنی روش نیوی جو خدا کے قول کو فعل کے ہر ملک میں وکھلاتے رہے.سنت اسی کا نام ہے.تیسرا ذ ریعہ ہدایت کا حدیث ہے جو آپ کے بعد آپ کے اقوال جمع کئے گئے.اور حدیث کا رتبہ قرآن اور سنّت سے کم تر ہے کیونکہ اکثر حد یثیں ظنی ہیں لیکن اگر ساتھ سنت ہو تو وہ اس کو یقینی کر دے گی \" منه
۳۵ ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہو تے.اور یہ نعمت اور ہدایت جو نہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت ہے منکر نہ ہوتے.پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے.یہ بڑی دولت ہے.اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی.قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدائتیں ہیچ ہیں“ ۵؎ یہ وہ تعلیم ہے کہ جو حضرت مسیح موعود ؑبہاء اللہ کے مرنے کے بعد دے رہے ہیں.اور آپ کا عمل تو ظاہر ہی تھا.ان حالات میں یہ خیال ایک منٹ کے لئے بھی درست نہیں ہو سکتا کہ حضرت مسیح موعودؑ اور بہاء اللہ جمع ہو سکتے ہیں.یہ خیال ایسا ہی ہے جیسے تاریکی اور روشنی کو رات اور دن کو جمع کیا جائے.صداقت کے اظلال حیرت ہے کہ ان لوگوں کو جنہوں نے کئی نشان دیکھے کیونکر ٹھوکر لگ گئی.کوئی صداقت ایسی نہیں جو ؟ظل نہیں چھوڑتی انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے اظلال دیکھے.بہاء اللہ کے خلیفہ کو مقابلہ پرلاؤ حضرت مسیح موعودؑ کے اظلال میں سے ایک میں ہوں کہ جس پر خدا نے ایسے کلام نازل کئے جو وقت پر پورے ہوئے اور آج بھی میں کہتا ہوں لاؤ میرے مقابلے میں عبد البہاء کے خلیفہ کو اور پھر دیکھیں خداتعالی کس کی صداقت ظاہر کرتا ہے.میں نے رنگون ایک شخص کو لکھا تھا کہ لاؤ بہائی خلیفہ کو.مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا اللہ تعالیٰ جس طرح ہم پر باتیں کھولتا ہے اس کی ایک دو تازه مثالیں پیش کرتا ہوں.میں نے اسی مسجد میں کھڑے ہو کر گذشتہ فروری میں ایک خطبہ جمعہ پڑھا تھا جس میں کہا تھا.گمراہ ہونے والوں کا ذکر ایک خطبہ جمعہ میں اس عظیم الشان ابتداء کے بعد جو الحمد سے ہوتی ہے کہتا ہے.غير المغضوب عليهم ولا الضالین که خدایا مجھ پر غضب نہ نازل کرنا اور ایسا نہ ہو کہ میں تیری رضا کی راہ سے بہک جاؤں.لوگ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں کہ علم و معرفت سے انسان ہلاکت سے بچتا ہے.لوگ کہتے ہیں
۳۶ اور صحیح کہتے ہیں کہ جس جنگل میں شیر ہو وہاں کوئی نہیں جاتا.یا جس جنگل میں ڈاکہ پڑتا ہو وہاں سے لوگ بغیر حفاظت کے نہیں گزرتے.پھر باوجود عرفان حاصل ہونے کے سمجھ میں نہیں آتا کہ غير المغضوب عليهم ولا الضالین کیوں فرمایا.عرفان کے بعد غضب اور ضلالت کا کیا خوف؟ مگر میں کہتا ہوں یہ سچ ہے کہ عرفان کے بعد اس کا خوف نہیں ہوتا لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ عرفان کھویا بھی جاتا ہے.پس اعلی ٰسے اعلی ٰعرفان اور علم کسی کو مطمئن نہیں کر سکتا کہ وہ غضب اور ضلالت سے بالکل مصئون ہو گیا.کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص کو عرفان اور علم ہو مگروہ اس سے چھینا جائے یا کھویا جائے.عرفان کھوئے جانے کی مثال دنیا میں دیکھ لو.ایک انسان دوسرے کو ملتا ہے.اس حال میں کہ وہ دونوں ایک لمبا عرصہ جدا رہے ہیں جب وہ ملتا ہے تو کہتا ہے آپ نے مجھے پہچانا.وہ کہتا ہے نہیں.تو وہ کہتا ہے کہ میں اور آپ اکٹھے کھیلتے اور پڑھتے رہے ہیں.وہ کہتا ہے کہ ابھی تک میں نے آپ کو نہیں پہچانا.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بہت کچھ تعارف سابقہ کی باتیں بتانے کے بعد بھی ایک شخص یہی کہتا ہے کہ افسوس میں نے آپ کو اب تک نہیں پہچانا اس سے ثابت ہوا کہ علم اور عرفان مٹائے بھی جاتے ہیں.ہدایت کے بعد ضلالت اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ جو کہا جا تا ہے کہ فلاں شخص مخلص تھا، بڑا خادم تھا، اس کو کیونکر ٹھو کر لگ گئی.اس کو ٹھوکر اسی وقت لگتی ہے جب اس کا اخلا ص کھویا جاتا ہے، یا مٹ جاتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح راستہ معلوم ہونے کے باوجو لوگ راستہ سے ہٹ جایا کرتے ہیں ہدایت کو اختیار کر کے بھول بھی جایا کرتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے، ومن نعمرہ ننکسہ في الخلق لم جب عمر بڑھتی ہے تو قویٰ میں کمزوری آجاتی ہے.پس جس طرح عمر میں بڑھاپا آنے سے علوم میں کمی آجاتی ہے.اسی طرح بعض انسانوں اور روحانی طور پر بھی بڑھاپا آ جاتا ہے.ایسی حالت میں کوئی عارف یا عالم جو الحمد لل کہنا جانتا ہو مگر پھر اس سے اس کی حقیقت گم ہو جائے وہ مغضوب عليهم میں شامل ہو سکتاہے.اپنی فکر آپ کرو سورہ فاتحہ میں یہ بات بتا کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کسی کی ٹھو کر سے کوئی ٹھوکر نہ کھائے اور کسی سے گرنے سے کوئی نہ گرے.جب تک کسی شخص کے متعلق خدانہ کہہ دے کہ یہ شخص غلطی سے محفوظ ہو گیا اور اب یہ ٹھو کر نہیں کھا
۳۷ سکتا تب تک کسی شخص کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شخص منزل مقصود پر پہنچ گیا.اور ایسے لوگ جن کو غضب اور ضلالت سے محفوظ کر دیا جاتا ہے وہ خدا کے انبیاء ہوتے ہیں.وہ بچے کی طرح خدا کی گود میں ہوتے ہیں.خدا ان کے وجود کو اپنا وجود قرار دے دیتا ہے اور ان پر اپنی الوہیت کی چادر ڈال دیتا ہے.ان میں خدا کی الوہیت تو نہیں آجاتی مگر وہ خدا کے مظہر ہو جاتے ہیں.ان کی تعریف سچی تعریف اور ان کی حمد سچی حمد ہو تی ہے.ان کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کے متعلق کہا جائے کہ وہ ٹھو کر کیوں کھا گیا.ایک عبرتناک مثال ایک شخص کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص نے جہنمی دیکھنا ہو تواس شخص کو دیکھ لے یہ کہہ کر آپ نے ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ فرمایا جو لڑائی میں کفار سے بڑی سرفروشی لڑ رہا تھا.ایک صحابی ؓکہتے ہیں مجھے خیال ہوا کہ بعض لوگوں کو اس بات سے ابتلاء نہ آجائے کہ ایک ایسے مخلص شخص کو جہنمی کہا گیا ہے کیونکہ وہ اس طرح لڑ رہا تھا کہ مسلمان کہہ رہے تھے کہ خدا تعالی اس کو جزائے خیر دے.وہ صحابی اس کے پیچھے ہو لئے.آخروہ زخمی ہوا.اس نے رونا شروع کیا صحاب آکر کہتے تھے تھے جنت کی بشارت ہو.مگر وہ کہتا تھا کہ تم مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ جہنم کی بشارت دو کیونکہ میں خدا کے لئے نہیں اپنے نفس کے لئے لڑ رہا تھا.آخر جب وہ درد سے بیتاب ہو گیا تو اس نے اپنا نیزه گاڑا اور اپنا پیٹ اس پر رکھ کر ہلاک ہو گیا کہ اسی طرح خودکشی کر کے اس سے ثابت کر دیا کہ وہ جہنمی تھاپس کسی شخص کی حالت محفوظ نہیں ہوتی جب تم خدا تعالی اس کے وجود کو اپنا وجود نہ کہہ دے اور اس کی یہ حالت نہ ہو جائے.من شدم من شدی من تن شدم جہاں شدی تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری پس کتنا ہی مخلص اور کتنی ہی خدمت کرنے والا کوئی ہو یہ کہنا کہ وہ ٹھوکر نہیں کھا سکتا درست نہیں.اس وقت مجھے کیا علم تھا کہ کیا ہو رہا ہے.لیکن مجھے القاء کیا گیا تھا کہ کچھ لوگوں کو ٹھو کر لگنے والی ہے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خطبہ پڑھتے وقت کوئی خاص آوی مد نظر نہیں تھا.مگر مجھے بتایا گیا تھا کہ ایسے آدمی ہیں جو ٹھوکر کھائیں گے.
۳۸ طاعون پھیلنے کی قبل ازوقت اطلاع پھر دیکھو نومبر میں ایک خطبہ پڑھا تھا جو ۳۰- نومبر کے الفضل میں چھپ چکا ہے.اس میں کہا تھا."میں نے جو آج یہ خطبہ پڑھا ہے کہ ایک رویاکی بناء پر پڑھا ہے جو میں نے پرسوں دیکھی.جس سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا پر کوئی اور عذاب آنے والا ہے اور قریب کے زمانے میں آنے والا ہے.میں نے دو نظارے دیکھے ہیں.اول میں نے ایک مریض کو دیکھا جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ طاعون کا مریض ہے.پھر ایسا معلوم ہوا کہ ہم کچھ آدمی ایک گلی میں سے گزر رہے ہیں.ہمیں ایک شخص کہتا ہے پر ے ہٹ جاؤ یہاں سے بھینسیں گزرنے والی ہیں.ایسا معلوم ہوا کہ گویا گلی کے پاس ایک کھلا میدان ہے جس کے اردگر د احاطہ کے طور پر دیوار ہے اور ایک طرف دروازہ بھی ہے جس کو کواڑنہیں ہیں اور میں اور میرے ساتھی اس دروازہ میں داخل ہو گئے.ہم نے گلی میں سے گزرنے والی بھینسوں کو دیکھا کہ وہ مارنے والی بھینسوں کی طرح گردن اٹھا کر دوڑتی چلی آتی ہیں.میں نے انتظار کیا کہ وہ گزر جائیں لیکن اتنے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ اس گلی سے نہیں دوسری سے گزر گئیں.تعبیرالرؤیا میں بھینس کی تعبیرو بابا بیماری ہوتی ہے اور طاعون سے مراد بھی عام بیماری یا کوئی وبا ہو تی ہے اور طاعون بھی ہو سکتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب اس ملک میں کوئی اور نشان ظاہر ہو گا.دیکھو اب کس طرح طاعون پھیل رہی ہے.یہ نشان خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود ؑکے غلام کے ذریعہ حال میں دکھائے ہیں.دعاسے مقابلہ کرنے کا چیلنج آج میں کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی مذہب دعا سے مقابلہ کر لے.میرے مقابلہ.میں دعا کر کے دیکھ لے کہ خدا میری مدد کرتا ہے یا اس کی اور میں یہ اپنے متعلق ہی نہیں کہتا میرے مرنے کے بعد بھی لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ میں ایسے انسان ہوں گے کہ جو نشان دکھائیں گے.حضرت مسیح موعودؑنے قرآن کریم کی تعلیم کے کامل ہونے کا اپنی کتابوں میں اس قد رذکر کیا ہے کہ میں حیران ہوں کہ حضرت صاحب کو راستباز جان کر کس طرح کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن کی تعلیم منسوخ ہو گئی یا تو ایسے شخص کو عقل سے گورا کہنا پڑے گا اور حضرت (مسیح موعو دؑاو ر بہاء الله) دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے.
۳۹ بہاء اللہ کے کذاب ہونے پر حلف مگر مجھے یقین ہے اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بہاء الله كذاب ہے اور حضرت مسیح موعود خدا تعالی کے سچے نبی.جماعت سے خارج کرنے کا اعلان جب کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم اور بہاء اللہ کی تعلیم میں ایسا تباین اور اس قدر اختلاف ہے اور ان لوگوں نے چونکہ اسی عہد کو توڑا جو ہم سے کیا تھا اور پھر ہماری جماعت سے وہ سلوک کیا جو شرافت اور انسانیت سے گرا ہوا ہے.یعنی احمدی کہلا کر ایسے کاموں میں حصہ لے کر جواحمدیت کی اشاعت کے لئے مخصوص ہیں، در پر دہ ان کے خلاف کارروائی کی اس لئے میں حضرت مسیح موعودؑ کے منشاء کے ماتحت اعلان کرتا ہوں کہ ان تینوں یعنی مولوی محفوظ الحق.مہرمحمد خاں اور الله دتہ کو جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں اور اس شرمناک اور اخلاق سے گرے ہوئے سلوک کی وجہ سے جو ان لوگوں نے ہم سے کیا کہ اپنے خیالات کو پردہ اخفاء میں رکھا اور نہ صرف یہ کہ بد عہدی کی بلکہ خفیہ خفیہ دوسروں کو ورغلانے کی کو شش کرتے رہے اس وجہ سے یہ حکم دیتا ہوں کہ ہماری جماعت کا کوئی آدمی ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے.میں تو اب بھی ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ان کے دل کھل جائیں اور جس گڑھے میں یہ گرے ہیں اس سے نکل آئیں.اگر ایسا ہو تو اب بھی ہم ان کو اسی طرح اپنے سینہ سے لگانے کے لئے تیار ہیں جس طرح ماں اپنے کھوئے ہوئے بچے کو لگاتی ہے.لیکن اگر وہ توبہ نہ کریں تو چو نکہ ان سے ہمارا تعلق خدا کے لئے تھا اس لئے جو خدا کو چھوڑا ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہمارا اس سے کوئی تعلق ہے.(۲۵/۲۹اپر میں ۱۹۲۴ء)
۴۰ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بہائی فتنہ اور جماعت احمدیہ (فرموده ۲۰.مارچ ۱۹۲۴ء) ہماری جماعت کی طرف منسوب ہونے والے دو تین آدمی جن سے بعض لوگ شناسا ہیں.ان کی دینی حالت اور تقویٰ تو ایسانہ تھا کہ جس کی وجہ سے جماعت میں کوئی رتبہ رکھتے تھے.مگروہ چونکہ کام ایسے پر تھے جو جماعت سے تعلق رکھتا تھا اس لئے لوگ ان سے واقف تھے.اور وہ لوگوں سے واقف - انہوں نے غداری سے سلسلہ کے خلاف ایسی کارروائیاں کی ہیں کہ جن کی کسی شریف انسان سے توقع نہیں کی جاسکتی.وہ تین شخص ہیں محفوظ الحق علمی - مہرمحمد خان اور اللہ دتہ.ان کے متعلق یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ مخفی طور پر بہائیوں کی تعلیم پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ایک کے متعلق توسناہے کہ وہ آیاہی اس غرض سے تھا اور دوسرا اس کے اثر کے نیچے آکر بہائی ہو گئے.مذہبی معاملہ میں ہماری فراخ حوصلگی جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں.مذہبی معاملہ میں ہم لوگ تنگ دل نہیں ہیں.ہم ایسے حوصلہ سے مخالفین کی باتیں سنتے ہیں کہ دوسرے برداشت ہی نہیں کر سکتے.میں اپنا ہی ایک واقعہ بیان کرتا ہوں مصر کے سفر میں تین آدمی ہندوستانی اسی جہاز پر سوار تھے جس پر میں تھا.وہ ولایت میں پڑھتے تھے.گھر ملنے آئے تھے اور پھر واپس جا رہے تھے.وہ تین سال ولایت ره آۓ تھے.اور اس رہائش سے دہریہ ہو گئے تھے.ان کو جو احمدیت سے مخالفت ہو سکتی تھی وہ ظاہر ہے.انہوں نے مجھ سے مذہبی گفتگو شروع کی.جونہی انہوں نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا.انہوں نے سمجھا کہ یہ مذہبی آدمی ہے اس لئے گفتگو کرنے لگ گئے.شروع گفتگومیں ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ میں احمدی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں.اس سے وہ اور بھی جوش دکھانے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ
۴۱ السلام پر ایسے گندے حملے کرنے لگے کہ ان کو برداشت کرنا مشکل تھا.لیکن میں نے انہیں یہ معلوم نہ ہونے دیا کہ میں حضرت مسیح موعود کا لڑکا ہوں تا کہ وہ آزادی سے اعتراض کر سکیں.انہوں نے بڑے بڑے سخت حملے کئے.جھوٹے.فریبی دوکاندار وغیرہ کہا اور عجیب عجیب تمسخر کرتے رہے.جب وہ سارے تیر چلا چکے اور میری گفتگو سے دبنے لگے.اور اپنے خیالات کی انہیں غلطی محسوس ہو گئی اور انہوں نے اقرار کیا کہ ان کے خیالات میں تغیر پیدا ہوگیا ہے.تب میں نے بتایا کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا لڑکا ہوں.اس پر وہ مجھ سے معافی ما نگنے لگے اور کہا آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا.میں نے کہا اس لئے نہیں بتایا تھا کہ تا آپ لوگ آزادی سے اعتراض کریں.اگر میں بتادیتاتو یورپ کی اس تہذیب کی وجہ سے ہی انہوں نے سیکھی تھی یہی کہتے کہ وہ سچے تھے.اور جو گند ان کے دلوں میں تھا اسے ظاہر نہ کرتے اور وہ دور نہ ہو سکتا.اسی طرح تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ یہاں ایک ڈاکٹر آیا جو بہائی تھا اس کو ہم نے بطو ر مہمان رکھا.اپنے مکان میں اتارا.وہ اپنے خیالات پھیلاتارہا کئی لوگوں نے کہا کہ اس کو نکال دینا چاہئے اس کابداثر کسی پرنہ ہو لیکن میں نے کہا کہ تم بھی اپنے خیالات اسے سناؤ.ہم غداری کو برداشت نہیں کر سکتے پس ہم اس بارہ میں تنگ دل نہیں مگر یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ہم سے غداری اور دھوکا کرے اگر کوئی کسی اور مذہب کو پسند کرتا ہو تو آۓ اپنے خیالات اور اعتراضات پیش کرے تاکہ اگر ہم ان کا ازالہ کر سکیں تو کریں.مگر انہوں نے نہ صرف اپنا خیال ظاہر نہ کیا بلکہ درپردہ دوسرے لوگوں کو متاثر کرنا چاہا.اور ان کو کہا کہ ان باتوں کو مخفی نہ رکھیں تاکہ ان کے شکوک رفع نہ ہو سکیں.پھر اس سے بڑھ کر انہوں نے غداری یہ کی کہ ایسی حالت میں ان کاموں پر مامور ہے جن کی غرض اشاعت احمدیت ہے.وہ تنخواہ اس کام کے لئے لیتے رہے مگر کام اس کے خلاف کرتے رہے.اور بعض مضامین بھی خلاف لکھے.ان کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک آدمی کو روپیہ دیں اور کہیں کہ ہمارے لئے زمین خرید و- وہ جائے اور کہے میں نے تمہارے لئے زمین خریدی ہے مگر در پردہ اپنے نام زمین لکھا لے.ایسا شخص ایک غدار اور فریبی سمجھاجائے گا.لیکن اس سے بڑھ کر وہ غدار اور فریبی سمجھا جائے گا جو دین میں ٹھگی کرتا ہے.ایسے شخص کی ہم شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے.پھر ایسا شخص اگر یہ کہے کہ جوذہب ہم نے قبول کیا ہے وہ اس لئے آیا ہے کہ اخلاق کی اصلاح کرے.اور یہ سب سے اعلیٰ مذہب ہے تو یہ کس قدر جھوٹ ہو گا.اور
۴۲ اس مذہب سے بدتر کوئی مذہب نہیں ہو سکتا.پھر اس سے بڑھ کر جنون نہیں ہو سکتا.اگر ایسے مذہب کے ماننے والے یہ کہیں کہ وہ اصلاح کے لئے آیا ہے.ایسے لوگوں کو یا تو پاگل کہا جائے گا.یاپرلے درجہ کا بے شرم اور بے حیاجواتنا بھی نہیں جانتے کہ اخلاق کیا ہوتے ہیں.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص یہاں آیا اور کہنے لگا.میں نے سلسلہ احمدیہ کو سمجھ لیا ہے اور بیت کرنا چاہتا ہوں.مگر اپنے علاقے میں جا کر نہیں بتلاؤں گا کہ میں احمدی ہو گیا ہوں.کیونکہ وہاں ابھی کوئی احمدی نہیں.پہلے میں جماعت تیار کروں گا اور پھر ظاہر ہو جاؤں گا.میں نے کہاتم کیا جماعت تیار کروگے جو اپنے آپ کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے.جاؤ ابھی ظاہر ہونے کی جرأت پیدا کرو، پھر بیعت کرنا.وہ کسی کا نوکر نہ تھا بلکہ ایک پیشہ ور یعنی سُنار تھا.مگر باوجود اس کے میں نے اسے اجازت نہیں دی کہ نفاق سے ان لوگوں میں رہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھے.اس نے یہ بھی کہا تھا کہ گھر پر نماز پڑھ لیا کروں گا.مگر میں نے کہا کہ اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ تم کون ہو.منافقت کی انتہا مگر بہائی بننے والوں نے یہ غداری کی کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے.حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم غیراحمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.جو محمدﷺ کو سچا اور سب نبیوں کا سردار اور قرآن کریم کو قابل عمل مانتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ قرآن منسوخ ہو گیا اور بہاء اللہ کا درجہ آنحضرت ﷺسے بڑا ہے.وہ غیراحمدی جنہوں نے ہمارے بزرگوں کو قتل کیا ہم اُن کو اِن سے ہزا رد رجہ اچھا لکھتے ہیں.کیونکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عزت سے لیتے ہیں مگر وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتا ہے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت منسوخ ہو گئی.اور بہاء اللہ کا درجہ آپ سے بڑا ہے اس کے ساتھ ہمارا ذرا بھی تعلق نہیں ہو سکتا.ہمارا قاتل ہم پر کفر کا فتوی ٰلگانے والا، ہمیں گھربار سے جُدا کرنے والا ہمیں بیوی بچوں سے علیحدہ کرنے والا، ہمیں دشمن سمجھتا ہے گو ہم اس کو اپنا بھائی ہی سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے تعلق خدا کے لئے ہیں اور سب انسان چونکہ خدا کی مخلوق ہیں اس لئے ہمارے بھائی ہیں لیکن بہائیوں کے متعلق ان کا رویہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ غیراحمدیوں کا یا پیغامیوں کا ہمارے متعلق ہے.کو نسا دکھ ہے جو غیراحمدیوں نے ہمیں نہیں دیا اور نہیں دے رہے.اور پیغامیوں نے ہم سے کونسی کمی کی ہے.خواجہ صاحب نے لکھا تھا کہ سب سے بڑا فتنہ یہ مبائعین کا گروہ ہے اور یہ سب سے بدتر ہیں.فیراریوں کے متعلق کسے معلوم نہیں کہ جب حضرت مسیح
۴۳ موعود ؑ فوت ہوئے تو انہوں نے آپ کا مصنوعی جنازہ بنایا اور اس طرح ہمارے کالجوں کو چَھلنی کیا.مگر بہاء اللہ کے جنازہ میں کئی مسلمان کہلانے والے شریک ہو گئے.حالانکہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ قرار دیا ہے.مگر ہم ان کی تقلید نہیں کر سکتے ان کی مخالفت ہم سے اس لئے نہیں کہ ہم یہ مانتے ہیں.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی غلامی میں نبی آیا بلکہ ذاتی وجوہ کے وجہ سے مخالفت کرتے ہیں.اگر ایسانہ ہوتا تو بہائیوں کی ہم سے زیادہ مخالفت کرتے مگران سے تعلقات رکھتے ہیں.حالانکہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ سمجھتے ہیں.ہمارے تعلق خدا کے لئے ہیں! مگر ہمارے تعلق چونکہ خدا کے لئے ہیں اور جو خدا اور اس کے رسول کو چھوڑتا ہے.اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اس لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ چونکہ یہ لوگ احمدی نہیں ہے اس لئے جماعت سے خارج کئے جاتے ہیں.اور چونکہ انہوں نے ہم سے غداری اور فریب کیا ہے اس لئے جماعت ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے.سوائے انسانی ضروریات کے کہ جو زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً سودا دینا یا کنویں سے پانی لینے دینا.پس ان حقوق کو چھوڑ کر جوتمدنی حقوق ہیں ان کے متعلق میں اعلان کرتا ہوں کہ ان سے کوئی سلوک جائز نہیں.مگر یہ انہی کے متعلق ہے بہائیوں کے لئے نہیں.ان کو تو ہم چاہتے ہیں کہ تبلیغ کریں.مگر ان لوگوں نے جو غداری کی ہے اس کی یہ سزا ہے.اور یہ ویساہی سلوک ہے جیسا کہ رسول کریم ؐنے تبو ک کی جنگ سے پیچھے رہنے والوں سے کیا تھا کہ ان سے بات تک نہ کریں.اُس سے اِن کا جرم بڑا ہے.وہ غلطی سے پیچھے رہے تھے مگر اِنہوں نے غداری کی ہے.غداری کی تازہ مثال ان کی غداری کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ اخبار فاروق جو عریاں طور پراحمدیت کی تبلیغ کرنے والا اخبار ہے.اور جو غیرت میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ بعض اوقات ہم کو اسے روکنا پڑتا ہے.اس میں تنخواہ دار ملازم محفوظ الحق نے ایک مضمون لکھا ہے.جس میں بہائی مذہب کی تبلیغ کی ہے.مگر یہ ظاہر نہیں کیا.اس مضمون کو پڑھ کر ہر احمدی یہی سمجھے گا کہ اس سے مسیح موعودؑ مراد ہیں.مگر دراصل اس سے بہاء اللہ مرادلیا گیا ہے.چنانچہ لکھاہے."اے امت ِمرحومہ ! وہ دیکھ اس تِیره و تار یک رات میں رحمت کا فرشتہ فضل کا چراغ لئے ہوئے دور سے چلا آرہا ہے.اے امت ِمسلمہ ! آنکھیں کھول اور دیکھ کہ عنایتِ الہیٰ کے بلند
۴۴ جھنڈے لے کر نصرت خداوندی کا لشکر آ پہنچا ہے.اسلام کا روحانی تاجدار پھر ظاہر ہو گیا ،ربانی فوج جذب حق کے اسلحہ سے مسلح ہو کر نمودار ہو گئی.یہ وہ فوج ہے جس کا وعدہ ابتداء سے تھا.دیکھو خدا نے اس جماعت کے ظہور کا وعدہ کیسے زبردست الفاظ میں فرمایا ہے.وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِؕ-اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ اے محمدﷺ) تیرارب غنی اور ذور حمت ہے.اس لئے اس کو پرواہ نہیں.چاہے تو اے مسلمانو تمہیں ہلاک کردے.اور جس کو چاہے تمہارا جانشین بنائے.جیسا کہ تم کو دوسرے لوگوں کی ذریت سے پیدا کر کے ایک جماعت بنایا ہے بیشک یہ بات جس کا تم کو وعده د یا جا رہا ہے کہ تمھاری حکومت پر ایک اور جماعت کھڑی کی جاوے گی.یہ وعدہ یقینا ًظہور میں آنے والا ہے اور تم کسی طرح اس وعدہ کو پورا ہونے سے نہیں روک سکتے.یہ آیت جماعت موعودہ کے ظہور کے لئے نہایت صاف ہے.اس کی تائید میں سورة محمد کی آخری آیت بھی ہے.ان تتولوایستبدل قوما غيركم لا يكونواامثالکم اگر اے مسلمانوں تم منہ پھیر لو گے تو خدا تعالی ایک قوم تمہاری جگہ لائے گا جو تم سے بڑھ کر ہوگی.‘‘ (فاروق ۲۰مارچ ۱۹۲۴ء) اس عبارت میں سخت و هوکا دیا گیا ہے.کیونکہ سورہ انعام کی یہ آیت مسلمانوں کے متعلق نہیں بلکہ ان کافروں کے متعلق ہے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تھے.چنانچہ آتا ہے.یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْن ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنََ وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِؕ-اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ دیکھو جو آیت پیش کی گئی ہے.اس سے پہلی آیات کا فروں کے متعلق ہیں.جن میں بتایا گیا ہے
۴۵ کہ پہلے بھی رسول آتے رہے ہیں.اب بھی آیا ہے اے لوگو تم ہلاک ہو جاؤ گے اگر تم اس نبی کو نہ مانو گے.تمہارے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جائے گا جو پہلے لوگوں کے ساتھ ہوا کہ تباہ ہو جاؤ گے.پھر اس کے بعد کی آیت یہ ہے قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ کیا صحابہ کو رسول کریمﷺ کہہ رہے تھے کہ تم اپنے شرک میں مبتلا ر ہو میں اپنے عمل کرتا ہوں؟ ہرگز نہیں، کہ کفار کے متعلق ہے مگر ان آیتوں کو مسلمانوں پر لگایا جارہاہے.پھر یہ آیت پیش کی ہے.ان تتولوایستبدل قوما غيركم لا يكونواامثالکم اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام کو تباہ کر کے ایسی قوم خد الاۓ گا جو مسلمانوں سے اچھی ہوگی.حالانکہ یہاں تو یہ بتایا ہے کہ اے مسلمانوں اگر تم میں سے کوئی پھر جائے تو اللہ ان کی بجائے اور جماعت لائے گا جو مسلمانوں سے اچھی نہیں ہوگی بلکہ مرتد ہونے والوں سے اچھی ہوگی.اب دیکھو یہ تنخواہ لے کر کیسی غداری سے بہائی مذہب کی تائید کی گئی ہے.پہلے بھی ایک مضمون فاروق میں چھیا ہے.اس میں بھی یہی غداری کی ہے اور الفضل میں بھی اس نے چندون کام کیا ہے.اُس وقت کے مضامین کے متعلق بھی اس نے کہا ہے کہ ان میں پہلے بہاء اللہ مد نظر تھا، پھر مرزا صاحب.مگر یہ دونوں باتیں کسی طرح جمع نہیں ہوسکتیں.فتنہ بہائی کے رونما ہونے کی وجہ میں سمجھتا ہوں.اس فتنہ کے پیدا ہونے کی غرض یہ ہے کہ خدا تعالی ہمیں اس مذہب کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے، آج تک جو قوم ہمارے مقابلہ میں آئی اس کو خدا نے تباہ کیا.اب اس کو خدا نے لا کر کھڑا کیا ہے اب بھی ویسی ہی مثال ہوگی کہ ہم کونے کا پتھر ہیں جو اِس پر گرے گا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور جس پر یہ گرے گا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا.ہم اللہ کے وعدوں اور نصرتوں پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ قوم احمدیہ جماعت کے ذریعہ تھوڑے عرصہ میں مٹائی جائے گی اور اس کا سارا گند ظاہر ہو جائے گا.(الفضل ۱۱.اپریل ۱۹۲۴ء) ۱ ابن ماجه کتاب الفتن باب شدة الزمان
۴۶ ۲.بخاری کتاب التفسير باب قوله وأخرين منهم لما یلحقوا بهم میں روایت کے الفاظ اس طرح ہیں لوكان الايمان عندالثريالناله رجال اوررجل من هؤلاء ۳ کشتی نوح مسلم ۳۱حاشیه روحانی خزائن جلد ۱۹ سے ۲۴ حاشیہ ۴ کشتی نوح سنی ۲۹۲۸ روحانی خزائن جلد ۱۹ الی ۲۷۲۹ بخاری کتاب المغازی باب غزوة خيبر بخاری کتاب المغازی حدیث کعب بن مالک ۱۰ الأنعام : ۱۳۴،۱۳۵ محمد : ۳۹ الانعام : ۱۳۱ تا ۱۳۶
۴۷ قول الحق از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۴۹ قول الحق بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی على رسوله الكريم حضرت مسیح موعود پر غیراحمدی علماء کے اعتراضات کے جواب (فرموده ۳-اپریل ۱۹۲۴ء بمقام مسجد اقصیٰ قادیان) انبیاء عليهم السلام مختلف زبانوں کی حالتوں کے مطابق مختلف قسم کے نشانات اپنے ساتھ لاتے ہیں اور مختلف زمانوں کی ضرورتوں کے مطابق مختلف قسم کی تعلیمیں ان پر نازل ہوتی ہیں اور مختلف لوگوں کی زبانوں اور محاورات کے مطابق مختلف قسم کے الفاظ اور اشاروں میں خدا ان سے کلام کرتا ہے.ہر نبی سے استہزاء کیا گیا مگر باوجود تمام ان اختلافات کے جو دنیا میں پائے جاتے ہیں اور باوجود ان تمام حالات کے تغیر کے جو و قتاًفو قتاًہوتے رہتے ہیں پھر بھی ایک بات میں تمام انبیاء متفق ہیں اور کسی نبی کو اس میں فرق اور تفاوت حاصل نہیں ہے.سب کے سب نبی اور تمام کے تمام ماموراس ایک بات میں یکساں ہیں اور حضرت آدم ؑسے لے کر رسول کریم ﷺ اور رسول کریم ﷺ سے لے کر آج تک جتنے مامور اور مرسل گذرے ہیں ایک بات میں سارے کے سارے متفق ہیں وہ سارے کے سارے ایک دروازه سے گذرے ہیں ان سب پر ایک حالت طاری ہوئی ہے وہ بات اور حالت کیا تھی قرآن کریم کے الفاظ میں ہی ہے.یحسرة على العباد ما يأتيهم من رسول الا كانوا بہ يستهزءون اے افسوں انسانوں پر اے حسرت اے بندوں پر کیوں؟ اسلئے کہ آج تک ایک بھی رسول ہماری طرف سے ایسا نہیں بھیجا گیا جس سے انسانوں نے ہنسی اور تمسخرہ کیا ہو.جس قدر مأمور دنیا میں آئے جس قدر مرسل بھیجے گئے جتنے انبیاء نازل ہوئے ان ساروں سے یہ معاملہ ہوا
۵۰ کہ ان سے ہنسی اور ٹھٹھا اور تمسخر لوگوں نے کیا.کیوں کیا؟ میں نے سنا ہے آج ہی کسی شخص نے بیان کیا تھا کہ ہم پر احمد ی ناراض ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں کہ ہم مرزا صاحب کی باتوں پر ہنستے ہیں.یہ کہنے کے بعد اس مولوی نے کہا ہم کیوں نہ ہنسیں مرزا صاحب قابل ہنسی اور تمسخربا تیں ہی کیوں لکھتے تھے کیوں ان کی زبان سے ایسی باتیں نکلیں جو ہنسی کے قابل ہیں.مگر میں پوچھتا ہوں حضرت آدمؑ سے کیوں تمسخر کیا گیا؟ کیا ان سے تمسخر کرنے والے یہ کہتے تھے کہ آدمؑ کی کوئی بات قابل تمسخر نہیں ہے؟ اس لئے ہم اس سے تمسخر کرتے ہیں.اسی طرح حضرت نوحؑ سے کیوں تمسخرکیاگیا.کیا ان سے تمسخر کر نیوالے یہ کہتے تھے کہ اس کی بات قابل ہنسی نہیں مگر ہم اس پر ہنسی اڑاتے ہیں.پھر لوگوں نے حضرت ابراہیمؑ سے کیوں ٹھٹھا گیا؟ کیا اس لئے کہ وہ کہتے تھے اس کی باتیں ایسی دل نشیں اور دلربا ہیں کہ ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا؟ مگر ہم ہنسی کرتے ہیں.پھر حضرت یوسف ‘حضرت یعقوب ،حضرت اسحٰق سے ہنسی کی گئی.پھر حضرت موسیٰ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمان ،حضرت زکریا ،حضرت یحیٰی ، حضرت عیسیٰ علیهم السلام ان سب سے تمسخر کئے گئے کیا یہ کہہ کر لوگ ان سے تمسخر کرتے تھے کہ کوئی بات ان کی قابل تمسخرنہیں مگر ہم تمسخر کرتے ہیں.پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ محمدﷺ جو سردار ہیں سب نبیوں کے ان سے بھی تمسخر کیا گیا.کیا ان کی باتوں کو تمسخر کرنے والے قابل تسخیر کہہ کر کرتے تھے یا اس لئے کہ وہ کہتے تھے اس کی با تیں بڑی دانائی اور حکمت کی ہیں مگر پھر بھی ہم ان سے تمسخر کرتے ہیں.ٍجس کے دماغ میں ذرا بھی عقل ہو وہ تویہ مان نہیں سکتا کہ وہ کہتے تھے کہ نبیوں کی باتیں تمسخر کرنے والی نہیں مگر پھر بھی ہم تمسخر کرتے ہیں.صاف بات ہے کہ حضرت آدم ؑکے دشمن یہی کہا کرتے تھے کہ آدم کیوں ایسی باتیں کرتا ہے جو قابلِ تمسخر ہیں، حضرت نوحؑ کے دشمن یہی کہا کرتے تھے کہ نوح کیوں ایسی باتیں کرتا ہے جو قابلِ ہنسی ہیں، حضرت ابراہیم ؑکے دشمن یہی کہتے تھے کیوں ابرا ہیم ایسی باتیں کرتا ہے جن پر تمسخر کیا جاتا ہے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور آنحضرت ﷺکے دشمن بھی یہی کہتے تھے.پھر اگر آج حضرت مسیح موعود ؑکے دشمن یہ کہیں کہ مرزا صاحب ٹھٹھے ہنسی والی باتیں ہی
۵۱ کیوں کرتے تھے تو یہ کونسی زبردست دلیل ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مرزا صاحب واقعی قابل تمسخرباتیں کیں بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ جیسے حضرت مرزا صاحب کے دشمنوں نے کہا کیوں انہوں نے ایسی باتیں کیں جو قابل تمسخر ہیں ویسے ہی سب انبیاء کے دشمنوں نے ان انبیاء کے متعلق کہا مگرخد اکہتاہے یہ ہنسی یہ جو انبیاء سے کرتے ہیں ان کے کام نہ آئے گا.یہ زمین میں ہی ذلیل اور رسوا ہو کر رہیں گے.کیونکہ خداکہتاہے یحسرة على العباد اے افسوس ان بندوں پر اور جس پر خدا افسوس کرے اس کی حالت کس قدر قابل افسوس ہوگی.بندے کسی کی قابل افسوس حالت ہو جانے کے بعد افسوس کرتے ہیں مگر خدا پہلے ہی کرتا ہے کیونکہ جس طرح خدا کہتا ہے اسی طرح ہو کر رہتا ہے.اس کا مطلب ہے کہ جب کوئی رسول آتا ہے تو خدا کو افسوس آتا ہے کہ کیوں اس سے ہنسی ٹھٹھاکر کے لوگ اس کے غضب کو بڑھاتے ہیں تو یہ لوگ آج ہنستے ہیں مگر ایک دن آئے گا کہ ساری دنیا ان پر روئے گی.پس اگر اب حضرت مرزا صاحب کی باتوں پر لوگ ٹھٹھا کرتے ہیں تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہے.تم مت گھبراؤ کہ کیا وجہ ہے خدا کا مسیح آیا اور لوگ اس سے ٹھٹھا کرتے ہیں کیونکہ خدا کہتا ہے آدم سے اس طرح ٹھٹھا کیا گیا، پھر مت گھبراؤ کہ حضرت مسیح موعوؑد سے کیوں ٹھٹھا کیا جاتا ہے کیونکہ خدا کہتا ہے کہ نوحؑ سے بھی اسی طرح کیا گیا پھر مت حیران ہو کہ حضرت صاحب کی باتوں پر لوگ کیوں استہزاء کرتے ہیں کیونکہ خدا کہتا ہے موسیٰ، عیسیٰ، محمدﷺ کے زمانہ میں لوگ ان سے بھی ایسا ہی کرتے تھے.انبیاء سے تمسخر کرنیوالوں کا انجام مگر ان باتوں کے نتیجے کیا ہوئے یہی کہ یحسرة على العباد ایک وہ دن آیا کہ لوگ ان پر حسرت کرنے لئے یہی حالت حضرت مرزا صاحب پر تمسخر کرنے والوں کی ہو ری ہے.ہمارے سلسلہ کے مخالف کہتے ہیں ہم پر کیا حسرت ہوئی ہم تو تم سے زیادہ ہیں مگر دیکھو آج اسلام پر تیرہ سو سال سے زیادہ گذر چکے ہیں مگر مسلمان کہلانیوالوں سے دوسرے لوگ زیادہ ہیں دنیا کی ساری آبادی ایک ارب بیس کروڑ بتائی جاتی ہے اور یورپین لوگ کہتے ہیں مسلمان ۲۰کروڑ ہیں اور مسلمان کہتے ہیں ہم ۴۰ کروڑ ہیں.اگر یہی تعدادمان لیں تو بھی کس قدر مخالف زیادہ ہیں.باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺساری دنیا کی طرف آئے اور اس پر تیرہ سو سال گزر چکے آپ کے منکروں کی تعداددُ گنی ہے بہ نسبت ماننے والوں کے.پس اگر محمدﷺ اپنے ماننے والوں کی
۵۲ تعداد نہ ماننے والوں سے اتنے عرصہ میں زیادہ نہیں کر سکے اور اس کا آپ کی صداقت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تو اس زمانہ میں خدا نے جو مأمور بھیجا ہے اور جو آپ کے خادموں میں سے ایک خادم ہے اور جس نے آپ سے بڑائی کادعویٰ نہیں کیا اس کے لئے کیو نکر کہہ سکتے ہیں کہ اس کے ماننے والوں کو ابھی سے ظاہری غلبہ حاصل ہو جائے.پھر حضرت مسیح ناصری سے کیا ہو اکیا وہ اپنی زندگی میں دیکھ سکے کہ ان کے ماننے والے اپنے دشمنوں پر غالب آگئے.ہرگز نہیں کیونکہ کئی سو سال ان کی وفات کے بعد عیسائیوں کو غلبہ حاصل ہوا اور دو سو سال تک دشمن ان پر غالب رہے.پس حضرت مسیح موعود کی وفات نے آپ کے مخالفین کو کیونکر ہم سے یہ مطالبہ کرنے کا حق دیدیا ہے کہ کیوں ابھی سے آپ کی جماعت ساری و نیاپر غالب نہیں آجاتی.ظاہری غلبہ کے متعلق اعتراض کا جواب جو حالت حضرت مسیح موعود ؑکی وفات کے بدر ماری تھی وہی حضرت مسیح ؑ کی وفات یا بقول ہمارے مخالفین ان کے آسمان پر چڑھنے کے وقت تھی.پس اس وقت اگر فوق الذين كفروا ' کا ارشاد سچا تھا تو آج مولوی اس بات پر کیوں چیختے اور شور مچاتے ہیں کہ احمدیوں کو مخالفین پر بھی ظاہری غلبہ حاصل نہیں ہوا.اگر پہلا مسیح ظاہری غلبہ نہ ہونے سے جھوٹا نہیں تھاتو آج مسیح موعود کیو نکر جھوٹا ہو سکتا ہے.اگر حضرت موسیٰؑ کی صداقت پر اس سے کوئی الزام نہیں آتا کہ وہ باوجود حکومت حاصل ہونے کا وعدہ ملنے کے جنگل میں فوت ہو گئے ان کی قوم ۴۰ سال تک بیابانوں میں بھٹکتی رہی دشمن ان کے سامنے حکومت کرتا رہا اور حضرت موسیٰؑ چٹان پر چڑھ کے دیکھتے رہے کہ دشمن حکومت کر رہا ہے اور خود فوت ہو گئے تو پھر کیوں کہا جاتا ہے کہ چونکہ مرزا صاحب نے دشمنوں پر غلبہ نہ دیکھا اس لئے سچے نہ تھے.اگر حضرت موسیٰؑ‘حضرت عیسیٰؑ حضرت محمد ﷺکی اس طرح تکذیب نہیں ہوتی تو کیا وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب اس سے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کے نشان لوگ کہتے ہیں مرزا صاحب نے کیا نشان دکھائے انکی فلاں پیشگوئی جھوٹی نکلی.فلاں بات جھوٹی ثابت ہوئی.ہم کہتے ہیں قرآن میں یہی لکھا ہے کہ سب انبیاء کو ان کے مخالف یہی کہتے رہے ہیں بلکہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کی ساری باتیں جھوٹی نکلیں.پس اگر حضرت آدم ؑکے دشمنوں نے ان کے متعلق کہا کہ ان کی ساری باتیں جھوٹی نکلیں مگر وہ سچے تھے، اگر حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق
۵۳ ان کے مخالفوں نے کہاکہ ان کی ایک بات بھی پوری نہ ہوئی مگر اس سے ان کی صداقت میں فرق نہ آیا' اگر حضرت ابراہیم ؑکے متعلق ان کو نہ ماننے والوں نے کہا کہ ان کی سب باتیں غلط نکلیں مگر اس سے ان کے نبی ہونے میں کوئی فرق نہ آیا، اگر حضرت عیسی ٰؑکے متعلق ان کے دشمنوں نے یہ کہا کہ ان کی سب پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں مگر ان سے وہ جھوٹے ثابت نہ ہوئے ،اگر رسول کریم ﷺ کے مخالفوں نے آپ کے متعلق کہا کہ آپ کی سب خبریں غلط تھیں مگر آپ کی صداقت پر اس سے حرف نہیں آیا تو آج مسیح موعود کے دشمن مولویوں نے آکر اگر یہ کہہ وبا کے آپ کی ساری پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں توکیو نکر آپ کی صداقت میں فرق آگیا.منکر.منکروں کے مثیل ہوتے ہیں قرآن کریم میں آتا ہے.وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌؕ-كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْؕ-تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ خداتعالی فرماتا ہے.جاہل لوگ کہتے ہیں کیوں خدا ہمیں خود نہیں کہتا کہ یہ رسول سچاہے.خدا کیوں ہمیں اس کے متعلق الہام نہیں کرتا.یا اگر یہ سچا ہے تو کیوں اس کی کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوتی.آگے فرماتا ہے ہاں تمهارا یہی حق تھا کہ تم کہتے اسے کوئی نشان نہیں ملا.کیوں؟ اس لئے کہ جن لوگوں کے تم جانشین ہو وہ یہی کہتے آئے ہیں بعینہ یہی بات وہ کہتے چلے آئے ہیں جو تم کہتے ہو.کیوں؟ اس لئے کہ جس طرح نبی کانبی مثیل ہو تا ہے اسی طرح اس نبی کے وقت کے کافر پہلے نبیوں کے کافروں کے مثیل ہوتے ہیں ہیں اگر محمدﷺکے دشمن یہ کہتے ہیں کہ آپ نے کوئی نشان نہیں دکھایا تو ٹھیک کہتے تھے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰؑ کے دشمنوں کے مثیل تھے.اور اگر حضرت عیسیٰؑ کو ان کے دشمن کہتے تھے کہ کوئی نشان نہیں لایا تو سچ کہتے تھے کیونکہ وہ حضرت موسیٰؑ کے دشمنوں کے مثیل تھے اور اگر حضرت موسی علیہ السلام کو یہی ان کے مخالفوں نے کہا تو ان کا کہنا حق تھا کیونکہ وہ حضرت ابراہیمؑ کے دشمنوں کے مثیل تھے اور اگر حضرت ابراہیم ؑکو ان کے نہ ماننے والوں نے یہ کہا تو انکا حق تھا کیونکہ وہ حضرت نوح ؑکے دشمنوں کے مثیل تھے.خدا تعالی فرماتا ہے ان کے دل مل گئے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ کوئی نشان نہیں لایا.حالا نکہ ماننے والوں کے لئے بہتیرے نشان ہیں ہاں نہ مانے والوں کے لئے نہیں.نشان ماننے والوں کے لئے ہوتے ہیں شاید کوئی کہہ دے آتا ان کے معنے یہ ہیں کہ کوئی نشان نہیں لایا یہ نہیں کہ نشان
۵۴ جھوٹے ہیں مگر یہ معنے نہیں ہوسکتے.میں پوچھتا ہوں کیا ان نبیوں نے کوئی نشان دکھائے تھے یا نہیں؟ اگر دکھائے تھے تو پھر یہی معنے ہونگے کہ انکے منکر کہتے تھے جو نشان تو پیش کرتا ہے وہ جھوٹے اور غلط ہیں ان کے علاوہ اور دکھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تب قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ جس قوم میں یقین ہو اس کے لئےتوبہت نشان بیان کئے گئے ہیں لیکن جو یہی کہتی رہے کہ کچھ نہیں ملا حالا نکہ اسے نشان دیئے جائیں اورنٹوں کی طرح یہی کہنا جانتی ہو کہ میں نہ مانوں.میں نہ مانوں اس کے لئے کہاں سے نشان آئے.پس اس زمانہ میں بھی جن لوگوں نے مولویت اور مشیخت کو چھوڑ کر نٹوں اور بھانڈوں کا کام اپنے ذمہ لے لیا ہے اس قوم کے لئے کوئی نشان نہیں ہے.مثل مشہور ہے سوتے کو سب جگا سکتے ہیں جاگتے کو کوئی نہیں جگاسکتا.سچے اور جھوٹے نبی کی پہچان چونکہ یہ لوگ دل سے ٹھان لیتے ہیں کہ نبیوں کا مقابلہ کرنا ہے اس لئے انکار پر کمر باندھ لیتے ہیں اور ہر بات کا انکار کرتے جاتے ہیں ورنہ دیکھوسچے اور جھوٹے نبی کی پہچان نہایت آسان ہے کیونکہ قرآن کریم نے یہ بتادیا ہے کہ نبی پہلے نبیوں کے مثیل ہوتے ہیں اور کافر پہلے کافروں کے.اس معیار کے مطابق حضرت صاحب کے زمانہ کے تعلق دیکھ لو کس کی جماعت کس سے ملتی ہے حضرت صاحب کی عادات اور طریق نبیوں سے ملتا ہے یا جھوٹوں سے اور آپ کو نہ ماننے والوں کی عادات اور طریق پہلے نبیوں کے ماننے والوں سے ملتے ہیں یا کافروں سے.جس رنگ میں یا جس طریقے یہ مولوی حضرت صاحب سے استہزاء کرتے رہے اور جن باتوں پر کرتے ہیں قرآن اور حدیث میں کیا یہ طریق نبیوں کا اور ان کے ماننے والوں کا ہے ؟کہ کوئی یہ تو ثابت کرے کہ نبی کریم ﷺ لو گوں سے استہزاء کرتے تھے یا کوئی یہ تو ثابت کرے کہ حضرت موسی ٰؑیا حضرت عیسیٰؑ یا حضرت نوحؑ استہزاء کرتے تھے.پھر کوئی یہ ثابت کرے کہ جس طرح یہ لوگ تمسخر اور استہزاء کرتے رہے ہیں حضرت مسیح موعود نے بھی ایساکیا.ہرگز نہیں.اگر ہنسی اور ٹھٹھا کرنے والا کوئی گروہ ہو گا تو نبیوں کا دشمن ہی ہو گانبی ہمیشہ سنجیدگی اور متانت سے لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا.نبی کے مانے اور نہ مانے والوں کے طریق عمل میں فرق نبیوں کے دشمن استہزاء سے کام لیتے ہیں اور نبی اور اس کے ماننے والے سنجیدگی سے کام لیتے ہیں کیونکہ خدا ان کے متعلق کہتا ہے.الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبھم لو کہ خدا کے ذکر پر ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں
۵۵ لیکن وہ لوگ جن کے دل میں ایمان نہیں ہوتاوہ ہنسی کی باتیں کرتے ہیں.اب دیکھو کونسی باتیں کس فریق میں پائی جاتی ہیں.آیا مسیح موعود بھی اسی طرح تمسخراور ہنسی کرتے تھے جس طرح آپ کے مخالفت کرتے ہیں؟ کیا آپ بھی اس بات میں مخالفین کی طرف منسوب کرتے تھے جو وہ نہیں مانتے تھے.کبھی حضرت صاحب نے عیسائیوں یا آریوں یا غیرا حمدیوں کے لئے ایسا کیا اور ان کی طرف وہ باتیں منسوب کیں جو وہ نہیں مانتے تھے.مگر ہمارے مقابلہ میں جتنی باتیں پیش کی جاتی ہیں وہ وہی ہیں جن کا ہم انکار کرتے ہیں اور پھر ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے.بے شک ہر مخالف اعتراض کر سکتا ہے اگر ہم حضرت صاحب کو خدا کہتے ہوں.اگر ہم تو انہیں خدا کا بندہ مانتے ہیں اور وہ بھی محمد ﷺ کا غلام.پھر اعتراض کیسا؟ اسی طرح اگر ہم انہیں خدا کا بیٹا کہتے تو اعتراض ہو سکتا تھا مگر جب ہم کہتے ہی نہیں اور نہ یہ مانتے ہیں تو کسی کا کیا حق ہے کہ ہم پر اعتراض کرے.اسی طرح کہا گیا ہے حضرت صاحب لکھتے ہیں.مجھے حیض آیا.اگر اس کا یہی منشاء ہے توبے شک اس پر ہنسی اڑائی جاسکتی ہے لیکن اگر خود حضرت صاحب نے اس کی تشریح کردی ہے تواس تشریح کو چھوڑ کر اور رنگ میں پیش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں سے شرافت مٹ گئی ہے اور انہیں خوفِ خدا نہیں رہا.غرض میں نے بتایا ہے کہ استہزاء ہو نا سارے نبیوں کی سنت چلی آرہی ہے اس لئے دوستوں کو گھبرانا نہیں چاہئے جو کچھ پلوں سے گذرا تم نہیں بچ سکتے کہ تم سے نہ گذرے.پہلے نبیوں کا بروز اور انکے مخالفین کے بروز ٍیاد رکھو کہ جن حالات میں سے پہلے نبیوں کی قو میں گذری ہیں ان ہی حالتوں میں سے پچھلے نبیوں کی گذریں گی.پس اے دوستو! اور عزیزو! جو جماعت احمدیہ میں سے ہو گھبراؤ نہیں.کیونکہ یہ خدا کی سنت پوری ہو رہی ہے اور خدا بتا رہا ہے کہ جس طرح آج مثیل محمد ﷺآیا ہے مثیل ا بو جہل بھی آئے ہیں اوردکھاتا ہے کہ اس وقت جس طرح حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ آئے.اسی طرح اس وقت فریسی اور فقیہی بھی آئے.پس اے عزیزو! جس طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم آۓ اسی طرح شدّاد اور نمرود بھی آگئے تم کس طرح امید کر سکتے ہو کہ خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح ،حضرت ابراہیم تو آئیں مگر شد اداور نمرود نہ ہوں.یہ ہو نہیں سکتا کہ محمد ﷺ دوبارہ آئیں مگرا بو جہل عتبہ شیبہ نہ آئیں.اگر ہدایت سے روکنے کے لئے شیطان موجود ہے تو کیوں ہدایت سے روکنے
۵۶ کے لئے ابو جہل پیدا نہ ہو ضرور ہے کہ جو عیسیٰ کے مقام پر کھڑا کیا جائے اس کے لئے فریسی بھی پیدا ہوں اور ضرور ہے کہ جو موسیٰؑ کے مقام پر کھڑا کیا جائے اس کے لئے فرعون بھی پیدا ہو.پھر ضرور ہے کہ جو ابراہیم کے مقام پر کھڑا کیا جائے اس کے لئے نمرود اور شدادبھی ہو کیونکہ خدا کہتا ہے کہ انبیاء کے مخالفوں کے دل مل جاتے ہیں.مخالفین کاوجود ثبوت ہے مسیح موعود کے آنے کا پھر تم کیوں گھبراتے ہو.بے شک تم میں غیرت پیدا ہونی چاہئے اور تم سے بڑھ کر مجھ میں غیرت ہے مگر میں کہتا ہوں.گھبرا ؤنہیں مایوس نہ ہو کیونکہ ان لوگوں کا وجو د ہی بتا رہا ہے کہ مسیح موعود آگیا.اس زمانہ میں اگر کوئی بروزِ ابو جہل موجود ہے تو ماننا پڑے گا کہ محمدﷺ کا بھی بروز آگیا کیونکہ خدا کی رحمت کی صفت غضب پر غالب ہے ابو جہل کا بروز غضب ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ غضب ہو اور رحمت کا وجود نہ ہو.اسی طرح اگر تمہیں فریسی اور فقہی نظر آتے ہیں تو خوش ہو کہ مسیح موعود آگیا.اسی طرح اگر فرعون صفت لوگ دیکھو تو جان لو کہ خدا نے مثیل موسیٰ کو مبعوث کر دیا.کیونکہ ’’ہر فرعونِ راموسیٰ‘‘ ضروری ہے پس ان لوگوں کی شرارتوں سے نہ گھبراؤ کیونکہ خدا کہتا ہے یہ پہلوں کے مثیل ہیں اور ضروری ہے کہ پہلے نبیوں کا مثیل بھی آئے.پس اس بات پر کیوں رنج کرتے ہو کہ یہ لوگ حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا اور مفتری کہتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کی نسبت تو یہ جو چاہیں کہیں کیونکہ انہیں سچانہیں سمجھتے.ان مولویوں نے تو ان کو بھی نہیں چھوڑا جن کو یہ سچامانتے ہیں.ہرنبی کی عزت ان مولویوں نے برباد کی میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ کوئی نبی ایسانہیں ہے جس کی عزت ان کے ہاتھوں برباد نہیں ہوئی سوائے حضرت عیسی علیہ السلام کے.یہ مولوی جو حضرت صاحب پر تمسخر کرتے رہے کیا وہ یہ نہیں کہتے کہ آدم علیہ السلام کو خدا نے ایک حکم دیا تھا جسے اس نے توڑ دیا اور گنہگا ربنا.یہی مولوی اگر کہیں کہ مرزا صاحب نے گناہ کیا تو کیا ہی بات ہے حضرت آدم علیہ السلام کو تو یہ لوگ نبی کہتے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کونبی نہیں کہتے.پھر یہ لوگ حضرت نوح کو بھی گنہگار قرار دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں انہوں نے خداتعالی کی گستاخی کی اور مقابلہ کیا.پس اگر یہ لوگ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مان کر یہ کہیں کہ وہ خدا کا گستاخ تھا تو حضرت مسیح موعودؑ کو جھوٹا سمجھتے ہوئے اگر کہیں کہ انہوں نے خدا کے احکام کو توڑا تو یہ کونسی بڑی بات ہے.پھر یہ کہتے ہیں
۵۷ ابرایم جھوٹا تھا.ایک دفعہ اس نے اپنی بیوی کو بہن کہا، ایک دفعہ بیمار نہ تھا مگر بحث سے جان چھڑانے کے لئے کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں.پس یہ لوگ اگر حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کو ابو الانبیاء کہہ کر جھوٹا کہتے ہیں تو حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا سمجھتے ہوئے جھوٹا کہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.پھر یہ لوگ کہتے ہیں حضرت یوسف نے چوری کی تھی اور ان کی چوریاں گناتے ہیں پھر کہتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام بد کاری میں مبتلا ہوئے مگر حضرت یعقوب نے ہٹالیا.پس اگر حضرت یوسف کو نبی مان کر یہ لوگ چور اور بد کار کہتے ہیں تو اس کو جسے جھوٹا کہتے ہیں ان کے برا بھلا کہنے پر کیا تعجب ہے.پھر یہ لوگ حضرت موسیٰؑ کو خدا کانبی مانتے ہیں مگر باوجود اس کے تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے جانتے بوجھتے ایک ناحق قتل کیا تھا.پس اگر یہ لوگ حضرت موسیٰ کو خدا کا نبی مانتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بلاوجہ قتل کیا تھاتو پھر اگر یہ کہیں کہ مرزا صاحب نے لیکھرام کو مروا دیا تو افسوس کی کیا وجہ ہے.غرض انہوں نے ان بزرگوں کی جن کا ادب کرنے کا یہ دعویٰ کرتے ہیں پگڑیوں پر بھی ہاتھ مارتے ہیں پھر جن کو یہ جھوٹا کہیں وہ اِن سے کیو نکر بچ سکتے ہیں.تم میں سے بُہتوں کے چہرے یہ سن کر سرخ ہو گئے کہ انہوں نے کہا مرزا صاحب عورتوں کے پیچھے پھرتے رہے مگر حضرت داؤد علیہ السلام جن کو یہ نبی مانتے ہیں ان کےمتعلق کہتے ہیں کہ وہ عورت کے پیچھے پڑا رہا اور اس کے خاوند کو دھوکا سے جنگ پر بھیج کر مروادیا.ان باتوں سے ان کی تفسیریں اور روایتیں بکھری پڑی ہیں.پس اگر یہ لوگ حضرت داؤد کو ایک بے گناہ کا قاتل اور اس کی عورت کا عاشق اور عورت چھین لینے والا کہتے ہیں تو حضرت مرزا صاحب کو اگر انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے پیچھے پھرتے رہے تو کونسی بڑی بات ہے پھر میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے بہت اس لئے ناراض ہوئے کہ مخالف کہتے ہیں مسیح موعود دنیا کے پیچھے پڑا رہا لیکن ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت سلیمان نبی تھے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ گھوڑے دیکھتے رہے اور نماز چھوڑ دی.پس اگر حضرت سلیمان کو نبی مان کر دنیا کے پیچھے پڑا رہنے والا کہہ سکتے ہیں تو حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا کہہ کر یہ کہیں تو کیا تعجب ہے.پھر یہ لوگ جس کو خاتم الانبیاء کہتے ہیں اور جس کی عزت کا جھوٹا دعویٰ کر کے ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے آتے ہیں دیکھو اس کے متعلق کیااندھیر مچاتے ہیں ان کے بڑے بڑے یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺکی خواہش ہوئی کہ کافروں کو خوش کریں یہ شیطانی
۵۸ خواہش تھی (نعود بالله) شیطان نے قرآن نازل ہوتے وقت یہ نازل کردیا.تلک الغرانيق العلی وان شفاعتھن لترتجی یہ بہت ایسی اعلیٰ ہستیاں ہیں کہ ان کی شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے کہ جنہوں نے محمدﷺ کے دل میں شیطانی خواہش پیدا ہونا جائز قرار دیا، جن کا یہ خیال ہو کہ شیطان نے آپ پر ایسی باتیں اتاریں وہ اگر کہیں کہ مرزا صاحب نے خود باتیں بنالیں تو کوئی تعجب کی بات ہے.پھر تم کہتے ہو مخالف مولوی ہے کہتے رہے ہیں کہ مرزا صاحب میں ہے یہ عیوب تھے مگر یہ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے ایک دفعہ اتنا گناہ کیا تھا کہ اس کی وجہ سے مدینے کی دیواروں تک عذاب آگیا تھا اور وہ گناہ یہ تھا کہ خدا کا حکم تھا قیدیوں کافدیہ نہ لو اور حضرت عمر ؓنے آپؐ کو سمجھایا بھی مگر آپؐ نہ سمجھے اور فدیہ لے لیا اس لئے خدا نے کہا قریب تھا کہ عذاب نازل کیا جاتا.پس اگر محمد ﷺ کے لئے ان کے نزدیک عذاب نازل ہو سکتا تھاتو تمہارے لئے کیا تعجب کی بات ہے اگر یہ حضرت صاحب کی طرف کوئی گناه یا عیب منسوب کریں.پھر اگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمدی بیگم جو حضرت مرزا صاحب کی پھوپھی کی بیٹی تھی اس پر آپ عاشق تھے اور اس کے پیچھے پڑے رہے تو بعینہ یہی الزام ہے لوگ محمد ﷺپر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی پھوپھی کی بیٹی کو ننگا دیکھا اور اس پر عاشق ہو گئے اور اس کے خاوند سے طلاق دلاکر خود نکاح کرلیا یہ باتیں ان کی تفسیروں میں موجود ہیں.پس جو قوم ایک بے حیا ہو کہ جس کی ایک طرف تو خاتم الانبیا کہتے کہتے زبان نہیں تھکتی اور دوسری طرف کہتی ہو کہ وہ زینب کو ننگا دیکھ کر اس پر عاشق ہو گیا تھا اس سے ہمیں کس سلوک کی امید ہوسکتی ہے.پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ پر یہودیوں نے جادو کر دیا تھا جس سے آپ کی ایسی حالت ہو گئی تھی کہ جماع کرتے تھے اور بھول جاتے تھے کھانا کھاتے تھے مگر پتہ نہ تھا آخر سحر اور ٹونہ نکالا تب آپ کی حالت بھی ہوئی.اگر یہ لوگ محمدﷺ کے لئے یہ باتیں کہہ سکتے ہیں تو حضرت مرزا صاحب کو گالیاں دیں تو کونسی تعجب کی بات ہے.مگر اس سے بڑھ کر ایک اور خطرناک بات کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺنے چھپ کر اور پوشیدہ طور سے ایک لونڈی سے صحبت کی جس کا آپ کی ایک بیوی کو پتہ لگ گیا آپ نے اس کی منتیں کیں اور کہا کہ کسی کو نہ بتانا جو لوگ رسول کریم ﷺکے متعلق ایسی باتیں لکھتے ہیں کیا تعجب ہے کہ اگر وہ حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کریں پس ان کی باتوں سے مت گھبراؤ.کوئی ایک نبی بھی ایسا
۵۹ نہیں گذرا جس کی ان مولویوں نے بے عزتی نہیں کی اور نبیوں پر انہوں نے چوری، جھوٹ، دغا قتل، زنا کے الزام نہیں لگائے اگر انہوں نے ان انبیاء کو سچامانتے ہوئے یہ کیا ہے تو جسے سچانہیں مانتے اس کے ساتھ جو کچھ کر یں تھوڑا ہے.مخالف مولویوں سے ایک شکوہ ہاں صرف ایک شکوہ ہے اور وہ یہ کہ اے مولویو! اے محمدﷺکی امت کہلانے والو! اے عقل و خرد کا دعویٰ کرنے والو!جب تم کسی نبی کو چور، کسی کو جھوٹا ،کسی کو دوسرے کی عورت چھین لینے والا اور رسول کریم ﷺ کو اپنی پھوپھی کی شادی شد ہ بیٹی پر عاشق ہو کر اس سے شادی کرنے والا کہتے ہو اور باوجود اس کے ان کوسچے نبی مانتے ہو تو کیوں آج اس نبی کو نہیں مانتے جس پراسی قسم کے الزام لگاتے ہو.تم تو ہمیشہ نبیوں کے عیب نکا لتے چلے آئے ہو جو تمہاری عقل کی کو تاہی ہے پھر آج کیوں انکار کر رہے ہو.یہ سوال تم ان لوگوں سے کر سکتے ہو اور یہ جائز سوال ہے کیونکہ ایک بَھینگا جس کو تجربہ ہو کہ وہ ایک چیز کو دو ہی دیکھتا ہے وہ اس بات کو سمجھ جاتا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے تو کہتا ہے ایک ہی ہے.کہتے ہیں کہ کی بَھینگانو کر تھا آقا نے اسے کہا کہ شیشہ اُٹھالا ؤ وہ گیا تو اسے دو شیشے نظر آئے واپس آکر آقاے کہا کونسالاؤں - آقانے کہا ایک ہی ہے وہ لے آؤ مگروه بار بار یہی کہتا رہا کہ دو ہیں تنگ آکر آقا نے کہا ایک کو توڑ دو اور دو سرا لے آؤ.اس نے جب ایک کو توڑا تو کوئی بھی نہ رہا.اس سے اس کو معلوم ہو گیا کہ میں ایک ہی کو دودیکھتا تھا.تو بَھینگے کو پتہ ہوتا ہے کہ چیز ایک ہوتی ہے اور وہ دیکھتادو ہے.مگر افسوس! ان بَھینگوں پر کہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ‘حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت رسول کریم ﷺ میں انہوں نے عیب دیکھے اور خدا نے کہا یہ سچے ہیں اس بات کو انہوں نے بھی تسلیم کیا مگر آج اتنی مثالیں ہوتے ہوئے بھی انہیں یہ پتہ نہ لگا کہ سب نبیوں میں انہیں عیب ہی نظر آتے رہے ہیں یہ لوگ سات ہزار سال سے نبیوں میں عیب دیکھتے چلے آئے ہیں پھر بھی ان کو پتہ نہ لگا کہ ان کی آنکھ میں نقص ہے اس لئے انہیں عیب نظر آتے ہیں ورنہ حضرت مرزا صاحب بھی خدا کے سچے نبی ہیں.ان لوگوں نے جو اعتراض کئے ہیں ان میں سے بعض موٹے موٹے میں نے سنے ہیں جنہیں سن کر حیرت ہوتی ہے.
۶۰ حضرت مسیح موعود اور حیض کا الزام ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حضرت صاحب کا الہام ہے يريدون أن یروا طمثك والله يريد أن یریک انعامہ - الإنعامات المتواترة '.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں ’’یہ لوگ خون حیض تجھ میں رکھنا چاہتے ہیں یعنی ناپاکی اور پلیدی اور خباثت کی تلاش میں ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ اپنی متواتر نعمتیں جو تیرے پر ہیں دکھلاوے" پھر اس کی تشریح میں آپ تتمه حقيقة الوحی صفحہ ۱۴۳-۱۴۴میں تحریر فرماتے ہیں.حیض ایک ناپاک چیز ہے مگر بچہ کا جسم اسی سے تیار ہوتا ہے اسی طرح جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو جس قدر فطرتی ناپاکی اور گند ہوتا ہے جو انسان کی فطرت کو لگا ہوا ہوتا ہے اس سے ایک روحانی جسم تیار ہوتا ہے یہی طمث (حیض ) انسانی ترقیات کا نتیجہ ہے اسی بناء پر صوفیہ کا قول ہے کہ اگر گناہ نہ ہوتا تو انسان کوئی ترقی نہ کر سکتا.آدم کی ترقیات کا بھی یہی موجب ہواپس ہر ایک ابن آدم اپنے اند را یک حیض کی ناپاکی رکھتا ہے مگر وہ جو سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے وہی حیض اس کا ایک پاک لڑ کے کا جسم تیار کر دیتا ہے.اسی بناء پر خدامیں فانی ہونے والے اطفال اللہ کہلاتے ہیں.لیکن یہ نہیں کہ وہ خدا کے در حقیقت بیٹے ہوتے ہیں.کیونکہ یہ تو کلمہ کفر ہے اور خدا بیٹوں سے پاک ہے بلکہ اس لئے استعارہ کے رنگ میں وہ خدا کے بیٹے کہلاتے ہیں کہ وہ بچہ کی طرح دلی جوش سے خدا کو یاد کرتے ہیں.‘‘ یہ الفاظ ہیں جن پر مولوی تین دن ہنسی اُڑا تے رہے اور کہتے رہے کہ مرزا صاحب کو اسی طرح حیض آتا تھا جس طرح عورتوں کو آتا ہے.اول تو حضرت صاحب نے خود تشریح کردی ہے کہ حیض سے مراد طبعی کمزوریاں ہیں اور یہ استعارہ ہے.پس جب لکھنے والا کہتا ہے کہ حیض سے مراد حیض نہیں تو پھر بھی اس پر زور دینا اس سے زیادہ غیر شریفانہ کی بات ہو سکتی ہے.اصطلاح حیض اور گذشتہ بزرگ دو سرے یہ اصطلاح حضرت مرزا صاحب ہی کی نہیں ہے بلکہ جن کو یہ لوگ بزرگ کہتے ہیں انہوں نے بھی لکھا ہے چنانچہ مجالس الأبرار میں لکھا ہے وأما الكرامة بمعنی ظهور آمر خارق للعادة فلا عبرة لها بل حیض كيف الرجال کہ کرامت ولیوں کے لئے حیض کے طور پر ہوتی ہے کہ اسے چھپاتے ہیں.
۶۱ پس اگر سارے بزرگانِ امت محمدیہ کو حیض آتا تھا اور حضرت مرزا صاحب کو آیا تو کیاہوا.پھر شیخ فرید الدین عطار یہی لفظ تذکرة الاولیاءکے صفحہ ۴۶۱میں استعمال کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں.جیسے عورتوں کو حیض آتا ہے ایسا ہی ارادت کے راستہ میں مریدوں کو حیض آتا ہے اور مرید کے راستے میں جو حیض آتا ہے تو وہ گفتار سے آتا ہے اور کوئی مرید ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس حیض میں ہی پڑا رہتا ہے اور کبھی اس سے پاک نہیں ہوتا –‘‘ بات یہ ہے کہ ہر مرید پرایسی حالت آتی ہے جو حیض کی ہوتی ہے.جبکہ اس پر علوم کا دروازہ کھلتا ہے اس کی زبان پر جو دعوے آتے ہیں وہ حیض ہوتے ہیں پھر جس طرح حیض کے بند ہونے سے بچہ بنتا ہے اسی طرح ان کے دعوے کے بعد جب نتیجہ نکلتا ہے تو وہ بچہ ہوتا ہے پس اگر پہلوں نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے تو کیا ہوا اگر حضرت مرزا صاحب نے بھی استعمال کرلیا.مگر اصل بات یہ ہے تابث تلو ال ان کے دل ان لوگوں سے مل گئے جو نبیوں پر اعتراض کرتے چلےآۓ ہیں.مولویوں کی عربی دانی مگر یاد رکھنا ہوا ہے کہ حضرت مسیح مو عودؑ پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ نہ صرف آپ کی تشریح کے خلاف ہے بلکہ ان لوگوں کی عربی دانی کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ طمث کے مینے لغت میں حیض ہی کے نہیں بلکہ گندگی اور فساد کے بھی ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی لغت سے لے کر بڑی سے بڑی تک میں یہی ہیں.چنانچہ منجد جو بچے استعمال کرتے ہیں اس میں لکھا ہے.الطمت.الدنس - الفساد.الدم.الریبة \" یعنی اس کے معنے میل.فساد- خون.حیض.شک و شُبہ کے ہیں.اس لئے اس الہام کے یہ معنے ہوئے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ تیرے اندر کوئی عیب او ربدی دیکھیں یا ایسی بات دیکھیں کہ جو شک اور شُبہ والی ہو.مگر خدا ان کو ناکام رکھے گا اور تیری صداقت کو پھیلائے گا.اب بتاؤ ان معنوں کی رو سے کونسا اعتراض اس کشف پر پڑ سکتا ہے خود حضرت صاحب نے اس کے معنے ناپاکی اور گندگی کئے ہیں.کیا یہ لوگ آپ کی ناپاکی اور گندگی کی تلاشی نہیں کرتے.اسی الہام کی یہ صداقت ظاہر ہو رہی ہے جو کچھ ان لوگوں نے بیان کیا ہے.
۶۲ حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی مخالف مولویوں کے ذریعہ پوری ہوئی یہ ایک حضرت صاحب کی زبردست پیشگو ئی ہے جس کو مخالفوں نے پورا کیا ہے جب یہ لوگ ہنس رہے تھے تو اس کو پورا کر رہے تھے اور وہ یہ ہے کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا تھا.تو مریم ہے.اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ تیرے مخالف ایسے اُلوّ ہیں کہ کہیں گے تم نے مریم ہونے کا دعویٰ کیا ہے کیا تمہیں حیض بھی آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کاذ کراسی الہام میں کیا ہے کہ ایسا اعتراض کریں گئے اور فرماتا ہے کہ اصل میں مریم سے مراد تو یہ ہے کہ تجھے اس مقام پر کھڑا کیا گیا کہ ابن مریم بنے.پس تو انعام متواترة آتے آتے عیسیٰ بن جائے گا مگر یہ بد بخت حیض کے لیتھڑے ہی تلاش کرتے رہیں گے اب دیکھو یہ الہام پورا ہوا یا نہیں.جب حضرت صاحب نے دعوی ٰکیا جب سے ہی یہ مولوی لیتھڑے تلاش کرنے میں لگے رہے اور آج بھی تلاش کر رہے ہیں.مگر خدا کے فضل نے حضرت صاحب کو عیسیٰ بنا دیا کوئی کہے کہ کیوں اس الہام سے یہ مراد نہیں کہ مرزا صاحب کو حیض آیا جبھی تو کہا ہے کہ لوگ دیکھتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں بعینہ اس طرح کے الفاظ آئے ہیں.چنانچہ آتا ہے الذي خلق سبع سموت طباقا ماتری في خلق الرحمن من تفوت فارجع البصر هل ترى من فطور\" فرما یاخد انے سات آسمانوں کو پیدا کیا.خدا کی پیدائش میں تُو نے کوئی نقص نہیں دیکھا نظر دوڑا کر دیکھ کیا ان میں کوئی نقص ہے.اگر اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ نقص تو ہے مگر نظر نہیں آتا تو حضرت مرزا صاحب کے متعلق بھی یہی ہونا چاہئے اور اگر یہ معنے ہیں کہ لوگ دیکھ دیکھ کر تھک جائیں تو بھی انہیں کوئی نقص نظر نہیں آئے گا کیونکہ کوئی نقص ہے ہی نہیں تو یہاں بھی یہی معنی ہونگے کہ یہ لوگ دیکھ دیکھ کر تھک جائیں گے انہیں کوئی عیب نظر نہیں آئے گا کیونکہ کوئی عیب ہے ہی نہیں.پس اس کے یہی معنی ہیں کہ حیض ہے ہی نہیں نظر کہاں سے آئے گا.تو یہ ایک پیشگو ئی تھی جو مولویوں نے پوری کی ہے.خداتعالی نے حضرت مسیح موعود کو کیا کہ مولوی چیتھڑے تلاش کریں گے کیونکہ گند ہ انسان گندی چیز کوی تلاش کرتا ہے مگر تجھے خدا مسیح بنادے گا.مبائعین و غیر مبائعین کا اختلاف ایک اعتراش یہ کیا گیا ہے کہ چو نکہ محمودی اور پیغامی آپس میں لڑ رہے ہیں اور ان کا اس بات پر اختلاف ہے
۶۳ کہ مرزا صاحب کا دعویٰ کیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ ان کا دعویٰ ہی ثابت نہیں ہے.حضرت مسیح نے کہا ہے لوگوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا مگر دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے یہی حالت ان لوگوں کی ہے.اگر اختلاف کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے دعوی ٰکی تعیین نہیں ہے اور مرزا صاحب جھوٹے ہیں تو کیوں یہ لوگ حضرت عیسیٰؑ کو جھوٹا نہیں کہتے کیونکہ عیسائی انہیں خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا کا نبی تھا.یہ اختلاف ہے یا نہیں.پھر کیا اس سے حضرت عیسیٰ جھوٹے ثابت ہوئے ؟ پھر حضرت مسیح موعود کو جانے دو رسول کریم ﷺ کے متعلق ہی دیکھ لو.مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو رسول کریم ﷺ کی نسبت مانتے ہیں کہ در حقیقت ان کا حق نبوت کا نہ تھا اصل میں وقت حضرت علی کا تھا مگر جبرائیل بھول کر آپ کے پاس چلا گیا پھر مسلمانوں میں سے ہی وہ بھی ہیں جو مانتے ہیں کہ اسی وجود میں رسول کریم ﷺواپس دنیا میں آئیں گے اور رسول کریم ﷺ کی رجعت کے تناسخ کے طور پر قائل ہیں.کیا ان باتوں سے یہ سمجھا جائے کہ قرآن کریم کا مفہوم ہی مشخص نہیں.میں پوچھتا ہوں کہ کونسی بات ہے جس میں اختلاف نہیں کوئی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بعد اس کے ماننے والوں میں اختلاف نہیں ہوا.پس ہمارا اور پیغامیوں کا اختلاف محض ایسا ہی اختلاف ہے جیسا کہ پہلے نبیوں کے بعد ان کی امتوں میں ہوتا رہا اس کا حضرت مسیح موعود کے دعویٰ پر اثر نہیں پڑسکتا.پھر رسول تو رسول خدا کے متعلق بھی اختلاف موجود ہے مسلمان کہلانے والے ایسے ہیں کہ جو ذرہ ذرہ کو خدا سمجھتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں خدا مجسم آسمان پر بیٹھا ہے.پس رسالت تو الگ ری خدا کی خدائی میں بھی اختلاف ہے کیا اس سے خدا تعالی کی ذات پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے؟ خليفة الله پھر حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں خدا کا جانشین ہوں اب عجیب بات ہے ادھر تو یہ اعتراض کرتے ہیں ادھر بادشاہ کو خلیفۃ اللہ کہتے ہیں.اگر جانشین کے یہ معنی ہیں کہ جس کا کوئی جانشین ہو وہ فوت ہو جائے اور اس کی جگہ وہ بیٹھے کیا نعوذ بالله خد افوت ہو گیا ہے اگر نہیں تو پھر حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کیسا؟ خدا ہونے کے دعوے کا الزام پھر کہا گیا ہے مرزا صاحب کہتے ہیں میں خدا ہوں حالانکہ حضرت مسیح موعودتر بھی لکھتے رہے ہیں کہ میں انسان ہوں اور انسان بھی رسول کریم ﷺجیسا نہیں.پس جب رسول کریم ﷺ کو آپ خدا
۶۴ نہیں مانتے اور اپنے متعلق کہتے ہیں کہ میں آپ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں تو کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ میں خدا ہوں.اگر کہو مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا خدا ہوں ۱۴؎ نہ تو میں کہتا ہوں رسول کریم ﷺ کہتے ہیں ایسے بہت سے خدا ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ نوافل پڑھنے سے انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے کان، آنکھ، ہاتھ ،پاؤں خدا کے ہو جاتے ہیں ۱۵؎ اب جس قدر مؤمن ہیں ان سب کو خدا کہہ دو.پھر اگر اسی طرح خدائی کا دعوی ٰنکل سکتا ہے جس طرح حضرت مرزا صاحب کے متعلق نکالا جاتا ہے تو اس طرح محمدﷺ کا بھی خدائی کا دعویٰ ثابت ہو جائے گا کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے.مارمیت اذرمیت ولکن الله رمى خد اتعالی فرماتا ہے تو نے نہیں مارا تھا جب مارا تھا بلکہ اللہ نے مارا تھا.ہم کہتے ہیں کنکر تو رسول کریم ﷺنے پھینکے تھے مگر کہا گیا ہے کہ خدا نے پھینکے اس پر کیا یہ اعتراض نہیں پڑتا کہ رسول کریم اپنا پھینکنا خد اکا پھینکنا قرار دیکر خدا بنتے ہیں.اگر نہیں بلکہ اس کی تاویل کی جائے کی تو کیوں اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے الفاظ کی تاویل نہیں کی جاتی؟ ابن اللہ ہونے کادعویٰ پھر کہا جاتا ہے مرزا صاحب نے ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کیا.چنانچہ ان کا الہام ہے اسمع ولدی ہے تو جھوٹ ہے کہ آپ کا یہ الہام ہے یہ کتابت کی غلطی ہے.اصل الہام جہاں شائع ہوا وہاں صحیح ہے یعنی ولدی کی جگہ داری ۱۶؎ ہے مگر باوجود یہ بتادینے کے مولوی اعتراض کرتے رہتے ہیں کیا اس طرح قرآن کی کتابت کی غلطیاں پیش کر کے آیات پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اس طرح جب غیرمذاہب کے لوگ اعتراض کرتے ہیں تو جو جواب مولوی صاحبان ان کو دیتے ہیں وہی اس الہام کے متعلق ہمارا ہے کہ اصل الہام جو شائع شدہ ہے وہ صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا.باتی رہاالہام انت منی بمنزلة ولدی ۱۸؎ اس کے معنی یہ ہیں کہ تُو بیٹے کے مرتبہ پرہے یہ نہیں کہ تو بیٹا ہے.میں پوچھتا ہوں اعتراض کرنے والوں نے کبھی سنا ہے کہ کسی نے بھائی کو کہا ہو تو میرے لئے بھائی کے مقام پر ہے.یا بھائی کو کہتے ہیں کہ تُو بھائی کے مقام پر ہے یہ اسی کو کہا جاتا ہے جو اصل میں بھائی نہیں ہوتا اور اس سے تعلق کے اظہار کے لئے کہاجاتاہے اسی طرح حضرت مرزا صاحب کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تُو مجھے ایسا پیارا ہے جیسے بچہ پیارا ہوتا ہے.۱۹؎ اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے خدا تعالی اپنے بندوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ پیار کرتا ہےجتناماں اپنے بچے سے کرتی ہے چنانچہ بد ر کی لڑائی کے وقت ایک عورت نہایت گھبرائی ہوئی پھر
۶۵ رہی تھی رسول کریم ﷺنے صحابہ کو فرمایا تم نے اس کی حالت دیکھی جب اس کو بچہ مل گیا تو آرام سے بیٹھ گئی خدا اس سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے جتنی کہ ماں اپنے بچہ سے کرتی ہے.۲۰؎ اس طرح آپ نے سب بندوں کو خدا کا بچہ بلکہ اس سے بڑھ کر قرار دیا ہے.پھر وَلَدُ‘ کے معنی لغت میں مقرب کے لکھے ہیں یہی کرلو.حضرت مرزا صاحب اور مریمیّت کا درجہ پھر کہتے ہیں مرزا صاحب نے حاملہ ہونے کا دعویٰ کیا.کیونکہ کہتے ہیں پہلے میں مریم تھا پھر عیسیٰ بن گیا.مگر یہ اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے قرآن کریم میں خدا تعالی نے بتایا ہے بعض مؤمن مریم کی طرح ہیں اور بعض فرعون کی بیوی کی طرح اس لئے سب مومنوں کو حمل بھی ہونا چاہئے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ایک وقت مریم کی طرح کیا گیا اور بعد میں عیسیٰ تو حمل کہاں سے نکل آیا.اگر حضرت عیسیٰ کا درجہ مریم سے بڑا ہے اور قرآن کریم کہتا ہے کہ مومن پر ایک درجہ مریمیّت کا آتا ہے تو میں پوچھتا ہوں اس عیسیٰ پر جو مریم کے پیٹ سے پیدا ہو اسے درجہ آیا تھایا نہیں.اگر آیا تھا تو وہ جس طرح مریم عیسیٰ بن گیا تھا اسی طرح حضرت مسیح موعود بھی بن گئے.اگر نہیں آیا تھا تو پھر وہ عیسیٰ نہیں بن سکتے کیونکہ قرآن کہتا ہے مؤمن پر پہلے مریمیت کا درجہ آتا ہے.حضرت عیسیٰ کی ماں مریم کو جانے دو کہ یہ جسمانی رشتہ ہے روحانی لحاظ سے خدا تعالی فرماتا ہے مومن مریم کے درجہ پر آتا ہے اور مریم کی صفت یہ بتائی کہ احصنت فرجها.۲۳؎ وہ نبی نہیں ہو تامگر مقدس اور عیبوں سے پاک ہوتا ہے اگر حضرت عیسیٰ پر یہ زمانہ آیا اور ضرور آیا تو اس زمانہ میں مریم تھے اور پھر جس طرح اس سے بغیر حمل کے عیسٰی بن گئے اسی طرح حضرت مرزا صاحب بھی مریم کے درجہ سے عیسیٰ بن گئے اگر حضرت عیسیٰ پر مریمیّت کا زمانہ نہیں آیا تو نعوذبالله کہنا پڑے گا کہ وہ گندے اور ناپاک تھے پس یا تو یہ مانو کہ نبوت سے پہلے وہ نجس اور ناپاک زندگی بسر کرتے تھے یا یہ کہو کہ پاک زندگی بسر کرتے تھے مگر نبی نہ تھے.اگر ان پر نجس میں مبتلاء ہونے کا زمانہ آیا تو یہ اور بھی خطرناک حملہ ہے اور اگر تقریس تھی مگر نبوت نہ تھی تو وہ بھی اسی زمانہ میں قرآن کریم کی اصطلاح میں مریم تھے پھر جس طرح وہ عیسیٰ ہے اسی طرح حضرت مرزا صاحب بھی بن گئے.حضرت عیسیٰ کا باپ بننا پھر کہا گیا ہے مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ کا باپ ہونے کا دعوی ٰکیا ہے اور وہ اس طرح کہ کہتے ہیں مریم سے عیسی ٰبن گئے حالانکہ
۶۶ جب آپ اپنے متعلق مریم کا لفظ بولتے ہیں تو صاف بتاتے ہیں کہ اس سے مراد روحانی درجہ ہے اگر درجہ بدلنا باپ ہوتا ہے تو قرآن نے ایسے سات باپ بتائے ہیں کہ ایک شخص سات دفعہ اپنا باپ بنتا جاتا ہے.قرآن نے سات درجے مؤمن کے بتائے ہیں.چنانچہ فرمایا.قد أفلح المؤمنون الذين ھم في صلاتهم خاشعون والذين ھم عن اللغو معرضون والذين ھم للزكوة فاعلون.والذین ھملفروجھم حفظون الاعلى أزواجهم اوما ملكت أيمانهم فإنهم غير ملومین- ۲۴؎ پس اگر مدارج کےفرق کے معنی یہ ہیں کہ پہلا درجہ دوسرے کاماں یا باپ ہوتا ہے تو کوئی یہ بھی مان سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب حضرت عیسیٰ کی ماں بن گئے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر حضرت صاحب پر کیسا اعتراض.پھر اگر حضرت صاحب کہتے ہیں کہ میں سچ مچ مریم ہوں.تو بھی اعتراض کیا جا سکتا تھا لیکن اگر مریم سے مراد آپ مریم کی حالت پاکیزگی لیتے ہیں تو اعتراض کیسا؟ دیانت اور شرافت کا تقاضایہ ہے کہ قائل کے کلام اور مراد کو دیکھا جائے مگر افسوس کہ ہمارے مخالفین اس سے بالکل عاری ہو گئے ہیں.حضرت مرزا صاحب کے مختلف نام پھر کہا گیا ہے مرزا صاحب کبھی اپنے آپ کو مریم لیتے ہیں کبھی ذوالقرنین کبھی عیسیٰ، کبھی کرشن ہم انہیں کیا سمجھیں میں کہتا ہوں سب کچھ ایک وجود کو ہی کہہ سکتے ہیں رسول کریم ﷺکونبی، رسول، خاتم النّبيّن، بشارت ،عیسیٰ، مثیل عیسیٰ، دعائے ابراہیم کیا جاتا ہے یا نہیں اسی طرح رسول کریم ﷺنے اپنے آپ کو ماحی ،عاقب، حاشر کہا ہے یا نہیں ۲۵؎ کہ اگر رسول کریمﷺ ایک وقت میں یہ سب کچھ کہلا سکتے ہیں تو مرزا صاحب وہ کیوں نہیں کہلا سکتے جو وہ اپنے متعلق فرماتے ہیں.اگر رسول کریم ﷺایک وقت میں تمام پہلے انبیاء کے مثیل ہو سکتے ہیں تو آپ کا غلام کیوں نہیں ہو سکتا؟ پھر پہلے انبیاء کو جانے دو پچھلے اولیاء کے ہی متعلق دیکھ لو.شیعوں کے جو بارہ امام مانے جاتے ہیں اور ہم بھی انہیں نیک مانتے ہیں ان میں سے ایک کا قول ہے کہ میں آدم ہوں میں موسیٰ ہوں میں عیسیٰ ہوں وغیرہ.پھر حضرت مرزا صاحب پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.دیکھو ایک شخص اگر ایک استادسے فارسی پڑھے ایک سے عربی ایک سے انگریزی تو کیا یہ نہ کہے گا کہ میں نے یہ علم فلاں فلاں سے پڑھے اسی طرح جتنے نبیوں کے علم تھے اور چونکہ حضرت مسیح موعود کو سکھائے گئے کیونکہ آپ محمد ﷺ کے بروز تھے اس لئے یہ چند نام کیا اگر آپ کے ایک لاکھ
۶۷ چو بیس ہزار نام ہوں تو بھی ٹھیک ہیں.حضرت مرزا صاحب اور رسول کریم کے معجزات پھر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب اپنے معجزات رسول کریم ﷺسے بھی زیادہ بتاتے ہیں.ایک جگہ اپنے معجزے تین لاکھ لکھے ہیں ۲۶؎ اور رسول کریم ﷺکے تین ہزار.۲۷؎ ٍاس کے متعلق اول تو میں یہ کہوں گا کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے معجزوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریم ﷺکا استثناء کیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.’’اگر یہ اعتراض ہو کہ اس جگہ وہ معجزات کہاں ہیں تو میں صرف یہی جواب نہیں دوں گا کہ میں معجزات د کھلا سکتا ہوں بلکہ خدا تعالی کے فضل اور کرم سے میرا جواب یہ ہے کہ اس نے میراد عو یٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزات دکھائے ہوں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اس قدر معجزات کا دریا رواں کر دیا ہے کہ باستثناء ہمارے نبی ﷺکے باقی تمام انبیاء عليهم السلام میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال ہے".۲۸؎؎ دوسرے رسول کریم ﷺ کے جو تین ہزار معجزے بیان کئے ہیں یہ معجزات کی قسمیں ہیں اور اپنے جو تین لاکھ معجزے بتاتے ہیں یہ اپنی ذات میں الگ الگ معجزے ہیں.پس اگر حضرت مرزا صاحب نے اپنے 3لاکھ معجزے لکھے ہیں تو رسول کریم ﷺکے کئی کروڑ ہوئے اور آج تک ظاہر ہو رہے ہیں.پھر حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ جو میرا معجزہ ہے وہ بھی دراصل رسول کریم ﷺکا معجزہ ہے اس طرح بھی رسول کریم ﷺکے مجھے 3 لاکھ اور تین ہزار ہو گئے اور یہ تو ہمارے مخالف بھی مانتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی امت کے معجزے آپ ہی کے معجزے ہیں.پھر حضرت مرزا صاحب جب کہ رسول کریم ﷺ کی امت میں سے ہیں تو آپ کے مجھے رسول کریم ﷺ کے معجزوں سے کس طرح زیادہ ہو گئے.خدا کے جھوٹ بولنے کا عقیده پھرا یک یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے کہا ہے خدا جھوٹ بولتا ہے اور یہ کہنے والا مرتضیٰ حسن دیوبندی
۶۸ ہے حالانکہ دیوبندی وہ ہیں جنہوں نے خدا کے جھوٹ بولنے پر رسالہ لکھا ہے اور ان پر جن باتوں کی وجہ سے کفر کا فتوی ٰلگایا گیا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خدا جھوٹ بول سکتاہے حضرت مسیح موعود نے اس قسم کی ناسزا باتوں سے خدا تعالی کو بالکل منزّہ قرار دیا ہے مگر باوجود اس کے ان مولویوں کی دیانت داری اور ایمانداری کا یہ حال ہے کہ آپ پر یہ الزام لگاتے ہیں اور استدلال اس سے کرتے ہیں کہ آپ نے لکھا ہے کہ خداتعالی وعید کو ٹلا دیتا ہے حالانکہ ان کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ وعید کا ٹالنا جھوٹ بولنا نہیں کہلا سکتا.کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ ایک شخص اگر کسی کو کہے کہ میں تمہیں ماروں گا مگر پھر اسے معاف کر دے تو کوئی اُلو اسے کہے گا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ مارنے کا کہہ کر پھر اس نے مارا نہیں اسے کوئی عقلمند جھوٹ نہیں کہہ سکتا اور اگر کسی چوہڑے چمار سے بھی پوچھا جائے گا تو وہ بھی اسے جھوٹ نہیں کہے گا مگر یہ مولوی بڑی بڑی داڑھیوں والے منبر پر چڑھ کر ناچتے اور شور مچاتے ہیں کہ مرزا صاحب نے خدا کو جھوٹ بولنے والا قرار دیا ہے چنانچہ امرتسر کے ایک مولوی نے مرتضیٰ حسن دیوبندی کی تقریر میں تتمه حقيقة الوحی صفحہ ۱۳۴ کی عبارت پڑھ کر سنائی.’’کبھی خداتعالی وعدہ کرتا ہے اور اس کو پورا نہیں کرتا " – ۲۸؎ حالانکہ اس کے متعلق اسی جگہ حضرت مسیح موعود نے صاف لکھا ہے کہ ’’یہ قول حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ کا ہے اور اس کے متعلق سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں قديوعد ولا يؤفی یعنی کبھی خداتعالی وعدہ کرتا ہے اور اس کو پورا نہیں کرتا.اس قول کے بھی یہی معنی ہیں کہ اس وعدہ کے ساتھ مخفی طور پر کئی شرائط ہوتے ہیں اور خدا تعالی پر واجب نہیں کہ تمام شرائط ظاہر کرے پس اس جگہ ایک کچا آدمی ٹھوکر کھا کر منکر ہو جاتا ہے اور کامل انسان اپنے جہل کا اقرار کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ بدر کی لڑائی کے وقت باوجود یکہ فتح کا وعدہ تھابہت رو رو کر دعا کرتے رہے اور جناب الہٰی میں عاجزانہ یہ مناجات کی کہ اللھم إن أھلکت هذه العصابة فلنتعبد في الأرض أبدا.کیونکہ آپ اس سے ڈرتے تھے کہ شاید اس و عمرہ کے اندر کوئی مخفی شرائط ہوں.جو پوری نہ ہو سکیں ہر کہ عارف ترست ترساں تر‘‘ ۳۱؎
۶۹ ملازمت کرنے کا اعتراض پھر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب انگریزوں کے ملازم رہے ہیں مگر معلوم نہیں ہوا کہ یہ کیا اعتراض ہے کہاں لکھا ہے کہ نبی کا ملازم نہیں ہوا؟ میں اعتراض کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کیا تم قرآن میں میں پڑھے کہ حضرت یوسف کافر بادشاہ کے نوکر تھے ؟ پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کرتے ہو.اس کی یہی وجہ ہے کہ قرآن تمہارے دماغوں سے نکل گیا ہے.تم لوگ سورة يوسف میں حضرت یوسف کے متعلق پڑھتے ہو اس کے گیت گاتے ہو اس میں لکھا ہے کہ حضرت یوسف نے کافر بادشاہ کی ملازمت کی پھر حضرت مرزا صاحب پر کیوں اعتراض کرتے ہو؟ کہا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ حضرت یوسف پر ایمان لے آیا تھا مگر کیا انکے قید ہونے سے پہلے یا بعد ؟ حضرت یوسف نے ملازمت تو قید سے چھوٹتے ہی کی تھی اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بھائیوں کے ان کے پاس آنے تک وہ بادشاہ ان پر ایمان نہیں لایا تھا کیونکہ خداتعالی فرماتا ہے ماكان لیاخذ أخاه في دين الملک الاان یشاء الله ۳۲؎ حضرت یوسف اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں لیکن بادشاہ کے قانون کے ماتحت نہ رکھ سکتے تھے.اگر بادشاہ ان پر ایمان لے آیا تھا تو پھر اس کے قانون کے ماتحت نہ رکھ سکنے کا کیا مطلب ؟ قانون توسب حضرت یوسف کے اختیار میں ہوتے.پھر بظاہر تو یہ اعتراض حضرت مرزا صاحب پر کیا گیا ہے مگر یہ پڑتا رسول کریم ﷺپر ہے جنہوں نے حضرت خدیجہ کی ملازمت کی.۳۳؎ کیا وہ رسول کریم ﷺ کی رسالت سے قبل مسلمان تھیں؟ یا وہی جو مکہ کے لوگ تھے اگر مسلمان تھیں تو پھر حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لائیں اس کا کیا مطلب ہے اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت رسول کریم ﷺ نے نبوت کا دعوی ٰنہیں کیا تھا تو یہی بات حضرت مرزا صاحب کے متعلق کہی جاسکتی ہے کیونکہ آپ نے کبھی اس وقت تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا.پھر حضرت لقمان کو یہ لوگ نبی مانتے ہیں اور ان کے متعلق ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ ایک جگہ لازم رہے.زوج کے معنی پھر کہاگیا ہے کہ مرزا صاحب نے زوج کے معنی بہن کئے ہیں اور اس طرح اپنی بیوی کو بہن قرار دیا ہے میں کہتا ہوں کہاں گئے ان لوگوں کے علوم کہاں سے ثابت ہے کہ زوج صرف بیوی کو کہتے ہیں.دو جڑے ہوئے آموں کو بھی زوج کہتے ہیں دوست کو بھی زوج کہتے ہیں ہاں بیوی کو بھی کہتے ہیں.اسی طرح بہن جو توام پیدا ہوتی ہو اسے
۷۰ زوج کہنے میں کیا حرج ہے.یا مریم اسکن پھر کہا گیا ہے مرزا صاحب کا امام ہے یا تژیم اشن.مگر مریم عورتہے اور اسکن مذکر کا صیغہ ہے سنا ہے کہ مولویوں نے یہ اعتراض بڑے مزے لے لے کر کیا اور بار بار لوگوں کو سنایا ہے مگر مجھے حیرت ہے کہ ان مولوی کہلانے والوں‘ عربی دانی کا دعوی ٰکرنے والوں‘ صرف و نحو اور بلاغت کے مدعیوں کو کیا ہو گیا ان کے سب علوم حضرت مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے سلب ہو گئے اور یہ علم سے بالکل جاہل اور کورے رہ لئے انہیں اتنا معلوم نہیں کہ عربی کا قاعدہ ہے کہ جب استعارہ کے طور پر مونث کا لفظ مذکر کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے لئے ضمائر مذ کر ہی آتے ہیں جیسا کہ قرآن میں بلدة میتا ۳۵.؎ آیا ہے.میتۃ نہیں آیا اب کیا یہ مولوی قرآن میں غلطی قرار دیں گے اور اس پٹھان کی مثال کو زندہ کریں گے جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کہیں پڑھا کہ رسول کریم ﷺ نے نماز پڑھتے ہوے بچہ اٹھالیا تو کہنے لگا خوه محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا کیونکہ انہوں نے حرکت کبیرہ کیا اور قدوری میں لکھا ہے کہ اس طرح نماز ٹوٹ جاتا ہے.اسی طرح اب یہ مولوی صاحب بھی کہیں کہ قرآن میں میتا کی بجائے مت آنا چاہئے تھا اور یہ قرآن کریم کی غلطی ہے اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے السماء منفطر بہ حالا نکہ سماء کا لفظ جبکہ مونث ہے تو کہنا چاہئے تھا السماء منفطرة ؛ لیکن اونچی چیز چونکہ مذکر ہے.اس لئے منفطر مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا یہ بھی ان لوگوں کے نزدیک قرآن کریم کی غلطی ہوگی اس کی بھی اصلاح ہونی چاہئے.ان کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جسے کسی نے کہا تھا قرآن لکھ دو وہ لکھ کر لے آیا لکھانے والے نے پوچھا ٹھیک لکھاہے کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی؟ کہنے لگا میں نے تو ٹھیک لکھا ہے لیکن پہلے قرآن میں بعض غلطیاں تھیں ان کی اصلاح کر دی ہے چونکہ قرآن کریم کلام اللہ ہے جو پاک ہے اور کوئی بُرا لفظ اس میں نہیں ہونا چاہئے اس لئے جہاں جہاں شیطان یا فرعون یا ابلیس یا خنزیر وغیرہ الفاظ تھے وہاں کہیں میں نے اپنے باپ کا نام لکھ دیا ہے اور میں تمہارے باپ کا.یہی مثال ان آج کل کے مولویوں کی ہے یہ بھی ان الفاظ کو کاٹ دیں جو ان کے علم اور عقل کے ماتحت غلط ہیں اورا نکی جگہ اور رکھ دیں.خاتم الکمالات کا مطلب پھر کہا گیا ہے چونکہ مرزا صاحب نے کہا ہے مجھے پر کمالات ختم ہوتے ہیں میرے بعد اب کوئی کامل نہ ہو گا اس لئے مرزا صاحب
۷۱ دنیا کے لئے زحمت ہوئے نہ کہ رحمت.کسی نے سچ کہا ہے.’’ لو آپ اپنے دام میں صیادآ گیا.‘‘ ہم کہتے ہیں جس طرح حضرت مرزا صاحب نے کہاہے کہ مجھ پر کمالات ختم ہوئے اسی طرح محمد ﷺنے کہا ہے کہ میں خاتم النّبیّن ہوں اور اس کے یہ معنی کر کے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا آپ لوگوں نے مان لیا ہے کہ رسول کریم ﷺ(نعوذ باللہ) دنیا کے لئے زحمت تھے رحمت نہ تھے.تم نے حضرت مرزا صاحب پر جو اعتراض کیا ہے اس کا ہمارے پاس تو جواب ہے مگر تمهارے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں جو تمہارے خیال کی وجہ سے رسول کریم ﷺپر پڑتا ہے کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے تو لکھا ہے کہ میرے بعد کسی کو کمال حاصل نہیں ہو سکتا سوائے اس کے جو میری پیروی سے کامل ہے.۳۷؎ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد صاحب کمال ہونگے مگر آپ کے اتباع سے لیکن تم لوگوں نے نبوت کا دروازہ بند کردیا اور تمہارے اعتقاد کے روسے اب کسی کو کمال حاصل نہیں ہو سکتا.خداتعالی کا قلم چھڑکنا پھر کہا گیا ہے مرزا صاحب لکھتے ہیں خدا تعالی نے دستخط کرتے وقت قلم چھڑ کا اور اس سے سرخی کے نشان کپڑے پر پڑ گئے لیکن اگر خدا نے قلم چھڑکا تھا تو خدا کا ہاتھ ماننا پڑا اور خدامحدود ہو گیا پھر اس چھینٹے سے سارا قادیان ہی بہہ جانا چاہئے تھا کیونکہ خدا کا ہاتھ انسان کے ہاتھ جتنا نہیں ہو سکتا.بلکہ بہت بڑا ہو گا.میں کہتا ہوں یہ لوگ کیسے نادان ہیں خدا تعالی کے ہاتھ اور پاؤں کا ذکر حدیثوں میں پڑھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں خدا کا ہاتھ ہونے سے وہ محدود ہو گیا.دوزخ کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ وہ کہے گی میں ابھی نہیں بھری اس وقت خدا اس میں اپنا پاؤں ڈالے گا اور وہ کہے گی اب میں بھر گئی ہوں.یہ لوگ اہلحدیث کہلاتے ہیں مگر بخاری اور مسلم بھی نہیں مانتے.اگر خدا تعالی کا پاؤں دوزخ میں پڑا اور وہ بھر گئی تو خدا کا پاؤں محدود ہو گیا پھر قادیان خد ا کے چھینٹے سے نہیں رہ سکتی کیونکہ خدا تعالی کے اور چھینٹوں کا بھی ذکر آتا ہے جن پر وہ پڑیں گے وہ بہہ نہیں جائیں گے بلکہ زندہ ہو جائیں گے.چنانچہ آتا ہے دوزخی جب دوزخ سے نکالے جائیں گے تو جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے اس وقت خدا ان پر زندگی کے پانی کا چھینٹادے گا اور وہ زندہ ہو جائیں گے ۳۹؎ میں کہتا ہوں جس ہاتھ سے اس وقت دے گا اسی سے اس نے وہ چھینٹا دیا جس کا ذکر حضرت مرزا صاحب نے کیا ہے کیا کوئلہ سے انسان زندہ ہو جائیں گے یا بہہ جائیں گے.اگر وہاں بہہ نہیں جائیں گے بلکہ نتیجہ یہ ہو گا کہ زندہ ہو جائیں گے تو اسی طرح حضرت مرزا صاحب پر جو چھینٹا پڑا اس سے آپ زنده
۷۲ ہوگئے اگر وہ سارا چھینٹا ساری قاریان پر پڑتا تو قادیان بہہ نہ جاتی بلکہ اس میں رہنے والے سارے کے سارے زندہ ہو جاتے اور پھر ہمیں اس جگہ یزیدی صفت لوگ نظر نہ آتے مگر وہ چھینٹا صرف مرزا صاحب پر پڑااس لئے آپ ہی زندہ ہونے یا وہ جو آپ کے دامن سے وابستہ ہو گئے.خدا کو بیٹھے ہوئے دیکھنا پھر اعتراض کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے خدا کو دیکھا کہ وہ بیٹھا ہوا تھا کیا خدا آدمی تھا.بے اعتراض بھی ان لوگوں کی جہالت کا نتیجہ ہے حدیث میں آتا ہے ابی ابن کعب فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا.میں نے خدا کو دیکھا ہے جو ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں تھا سبز لباس تھا اور سونے کی کرسی پر تھا اور سونے کی جوتیاں پہنے تھا.۴۰؎ اس کشف پر یہ مولوی اعتراض نہیں کرتے مگر حضرت مرزا صاحب کے کشف کے متعلق باتیں بنانے لگتے ہیں کبھی کہا جاتا ہے قلم کہاں سے آیا تھا کبھی کہا جاتا ہے چھینٹا کیوں پھینکا.ہم تو کہتے ہیں خدا سونے کی جوتی بھی استعمال کرتا ہے سونے کی کرسی پر بھی بیٹھتا ہے وہ نوجوان صفت بھی ہے اور تم ان باتوں کو مانتے ہو پھر جب حضرت صاحب کا کوئی کشف تمهارے سامنے آئے تو اس وقت تمہارا کفر کیوں چھوٹ پڑتا اور تمہارا کوڑھ کیوں ظاہر ہونے لگتا ہے.اسی طرح ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے خدا کو سبز لباس میں دیکھا ۴۱؎ یہ روایت کتاب الانتماء والترفات میں لکھی ہے.طاعون کے متعلق پیش گوئی پھر کہا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی مگر آئی.میں کہتا ہوں حضرت مرزا صاحب نے یہ نہیں لکھا تھا کہ یہ لکھا تھا کہ طاعون آۓ گی مگر ہمارا گھر بچایا جائے گا ۴۲؎ میں اس شخص کو دس ہزار روپیہ دیتا ہوں جو حضرت مرزا صاحب کی کسی تحریر سے یہ الفاظ نکال دے کہ قادیان طاعون سے بالکل محفوظ رہے گی اور یہاں کوکی آدی طاعون سے نہ مرے گا.آپ نے جو کچھ لکھا تھا وہ یہ تھا کہ طاعون آئے گی مگر یہ جگہ طاعون جارف سے بچائی جائے گی ۴۳؎ اور یہ دونوں باتیں پوری ہوئیں.حضرت عیسیٰ کے معجزات پھر کہا گیا ہے مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ کے معجزات کو تماشہ قراردیا ہے میں کہتا ہوں جن معنوں میں تم لوگ حضرت عیسیٰ کے معجزات پیش کرتے ہو مثلا ًیہ کہ انہوں نے جسمانی مردے زندہ کئے ،جسمانی اندھوں کو آنکھیں دیں‘ پرندے پیدا کئے.ان معنوں کو حضرت مرزا صاحب نے تماشہ کہا ہے ورنہ ان
۷۳ معجزوں کی جو اصل حقیقت ہے اس کے متعلق تو آپ فرماتے ہیں یہ میں بھی دکھاتا ہوں اور میرے آقامحمدﷺ نے بھی دکھائے کہ روحانی مردوں کو زندہ کیا، روحانی اندھوں کو بینا کیا، روحانی پر ندے پیدا کئے.پس حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسی ٰکے جن معجزوں کو تماشہ کہا ہے وہ وہی ہیں جو تمہاری کتابوں میں لکھے ہیں.کہ انہوں نے پرندے پیدا کئے باقی رہا یہ کہنا کہ ان کے معجزات کے متعلق باذن اللہ آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کے حکم سے پرندے وغیرہ پیدا کرتے تھے.لیکن میں پوچھتا ہوں کیا سب کچھ خدا کے حکم سے نہیں ہوا.پھر حضرت ابراہیم کے متعلق آتا ہے وہ کہتے ہیں جب میں بیمار ہوتا ہوں تو خدا شفاء دیتا ہے ۴۴؎ کہ کیا وہ دوائی نہ کھاتے تھے.کھاتے تھے مگر باوجود اس کے یہی کہتے تھے کہ خدا نے شفادی.اسی طرح حضرت عیسیٰ لوگوں کی روحانی اصلاح کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ خدایسا کراتا ہے.اونٹوں کا بیکار ہونا ٍ پھر کہا گیا ہے کہ مکہ مدینہ میں ریل نہ بنی اور اونٹوں کے بیکار ہونے کی پیشگوئی پوری نہ ہوئی.ہم کہتے ہیں نشان یہ تھا کہ وہ جانور چھوڑے جائیں گے ۴۵؎ کہ وہ دوسری جگہ عرب میں ریل بننے سے پورا ہو گیا اور یہ کسی خاص مقام کے لئے نہ تھا.جس طرح ہر بات میں تدر یجی ترقی ہوتی ہے اسی طرح اس میں بھی ہوگی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیصر و کسریٰ کی چابیاں مجھے دی گئیں ۴۶؎ مگر وہ حضرت عمر ؓکو ملیں.۴۷؎اسی طرح حضرت مسیح موعود کے بعد یہ نشان اور بھی وضاحت سے پورا ہو گا اور اس وقت اور بھی زیادہ شان میں پورا ہو گا جب وہاں بھی احمدیت پھیل جائے گی اور بھاری جماعت کے لئے ریل چلائی جائے گی.مَلکانوں کاار تداد پھر کہا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے آکر کیا کام کیا راجپوتانہ میں ملکانے مرتد ہورہے ہیں مگر یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی کہے کہ میں کو نین اس لئے نہیں کھاتا کہ گرمی کرتی ہے اور پھر کہے کہ مجھے کونین سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.جو ملکانے مرتد رہے ہیں وہ حضرت مرزا صاحب کے مرید ہیں یا مخالف؟ اگر مخالف ہیں اور یقیناً ہیں تو ان کا مرتد ہونا نہ صرف حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر اثر ڈالتا ہے بلکہ ثبوت ہے اس بات کا کہ کوئی مأمور آئے جو آکر ہدایت پھیلائے.اگر وہ لوگ احمدی ہوتے اور پھر مرتد ہوتے تو کہا جاسکتا تھا کہ مرزا صاحب نے آکر کیا کیا لیکن اگر کوئی ایک احمدی کہلانے والا مرتد ہو اور خدا تعالی اس کی بجائے تو جماعت میں داخل کرے تو پھر اعتراض کیسا؟ یہ لعنت اورپھٹکارا اعتراض کرنے
۷۴ والوں کے ہی حصہ میں آئی ہے کہ آریہ، عیسائی ،سکھ وغیرہ ان سے لوگوں کو چھینے لئے جارہے ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتے.ہمیں بھی وہ لوگ اسلام سے الگ سمجھتے ہیں ہم بھی ان سے چھین رہے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں یہ غضب تم پر ہے یا حضرت مرزا صاحب کی جماعت پر.تم میں سے اس طرح لوگوں کا نکلتے جانا اور تمہارا کچھ نہ کر سکنا ثبوت ہے اس بات کا کہ تم میں روحانیت نہیں رہی جس کے لئے حضرت مسیح موعود کا آنا ضروری ہے اور اسی لئے آئے باقی جو تریاق کھاتا ہے وہی بچایا جا تا ہے.تم حضرت مرزا صاحب کے غلاموں میں آجاؤ پھر دیکھواس ارتداد کی لعنت سے کس طرح تمہیں بچایا جاتا ہے.محمدی بیگم کے متعلق پیشگوئی ایک اعتراض محمدی بیگم والی پیشگوئی پر کیا گیا ہے اس اعتراض کو یہ لوگ ہمیشہ رٹتے رہتے ہیں.حالا نکہ با رہابتایا گیا ہے کہ یہ وعید کی پیشگوئی تھی جو اس لئے کی گئی تھی کہ محمد صلی اللہ ﷺ کی ہتک جو اس خاندان نے کی تھی اس کی سزا پائیں لیکن جب انہوں نے اس سے توبہ کی اور اصلاح کرلی تو خدا تعالی نے ان پر رحم کر دیا.جب تک کہ وہ لوگ حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ پر رہے دکھوں تکلیفوں میں مبتلاء رہے لیکن جب انہوں نے شوخی و شرارت چھوڑ دی اور خوف زدہ ہو گئے تو خداتعالی نے ان پر رحم کر دیا.اس صورت میں اس پیشگوئی پر اعتراض کرنا پرلے درجہ کی بے حیائی نہیں تو اور کیا ہے.کس قدر عجیب بات ہے کہ وہ خاندان اور وہ عورتیں اور وہ گھر جس کےخلاف پیشگوئی تھی اس نے تو حضرت مرزا صاحب کو صادق اور راست باز مان لیا ہے اور یہ مولوی ابھی تک شور مچا رہے ہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوتی.وہ ماں جس کی لڑکی کے متعلق پیشگوئی تھی وہ کہتی ہے کہ مرزا صاحب سچے تھے اور بیعت کرلیتی ہے وہ بھائی جس کی بہن کے متعلق پیشگوئی تھی وہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب سچے اور پاک باز تھے پھر کیا مولویوں کا اس پیشگوئی کو غلط کہنا عجیب و غریب اندھے پن کی علامت نہیں ہے.اگر یہ پیشگوئی جھوئی تھی تو اس کا سب سے زیادہ اثر اس خاندان کے افراد پر ہو نا چاہئے تھا جس کے متعلق کی گئی تھی مگر وہ تو بیعت میں داخل ہو چکے ہیں اور مولوی صاحب ابھی تک سرپیٹ رہے ہیں اگر وہ پیشگوئی بطور وعدہ کے تھی اور اسی طرح تھی جس طرح مولوی کہتے ہیں تو اس عورت کی ماں، بہن بھائی کیوں میری بیعت میں شامل ہو ئے کیا ان کو ان باتوں کا پتہ نہیں اور ثناء اللہ وغیرہ کو زیا دہ پتہ ہے.اس سے زیادہ چمگارڈ چشم کیا ہو سکتے ہیں کہ گھر والے تو کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب سچے تھے مگر یہ باہر بیٹھے کہتے ہیں
۷۵ نہیں جھوٹے ہیں.اسلام پر مصیبت اور مولویوں کی خوشی دیکھو ان مولویوں کی یہ حالت اور یہ کیفیت ہی بتا رہی ہے کہ اس زمانہ میں کسی مصلح کی ضرورت ہے اس وقت دیکھو کیا حالت ہے اسلام کی اور اسی حالت میں اسلام کے یہ عمود اور ستون کیا کر رہے ہیں.ان کی مثال ایسی دی ہے کہ ایک خوبصورت اور پیارا لڑکا کچھ لوگوں کے سپرد کیا گیا ہو.جو ان کی لاپرواہی اور بے توجہی سے دم توڑ رہا ہو لیکن وہ اس کے کپڑے بانٹنے میں مصروف ہوں اور اسی تقسیم پر خوش ہو رہے ہوں.یہ لوگ محمد ﷺکے خادم کہلانے والے، اس کے دین کے وارث بننے والے، اس نے دین کے نگہبان ہونے کا دعوی ٰکرنے والے اس وقت جبکہ دین مٹ رہا ہے اس پر عمل کرنے والے ان میں موجود نہیں ہیں ادھر اد ھر ناچتے پھرتے ہیں اور روپے بٹورتے پھرتے ہیں اسلام کی انہیں کوئی فکر نہیں.آخر عقل و فکر بھی کوئی چیز ہے یا نہیں.مسلمان اتنا تو سوچیں کہ ان محمد ﷺ کے ورثاء کہلانے والوں میں اسلام ہےکہاں؟ وہ کونسا طبقہ ہے جو نمازیں پڑھنے والا ،روزے رکھنے والا ،و رثہ کے احکام پر عمل کرنے والا، صحیح عقائد رکھنے والا ہے؟ اور وہ کونسے لوگ ہیں جنہوں نے خدمت اسلام کے لئے زندگیاں وقف کی ہیں جن کی شکلیں اور شباہتیں مسلمانوں کی سی ہیں انصاف سے کہدیں کیا آج ان مسلمان کہلانے والوں کی حالت ایسی ہے کہ اگر محمدﷺ آئیں تو انہیں مسلمان کہہ سکیں؟ اگر نہیں کہہ سکتے تو کیا ان مولویوں کو شرم نہیں آتی جو کہتے ہیں اب بھی کسی مامور کی ضرورت نہیں.اگر آج نہیں تو پھر کب ہو سکتی ہے وہ عرب جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ جب مرزا صاحب کو انہوں نے نہیں مانا تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ سچے تھے آج انہیں باغی اور غدار اور دشمنانِ اسلام کہا جاتا ہے.وہ ترک جن کو حاملِ خلافت کہاجا تا تھا اب جبکہ انہوں نے خلیفہ کو کان سے پکڑ کر اپنے ملک سے نکال دیا تو وہ بھی ان کے نزدیک مسلمان نہ رہے یا اسلام کا صحیح نمونہ نہ رہے.مصر میں اسلامی پر دہ کو خیر باد کہا جارہا ہے مسلمان شراب پیتے اور علماء على الاعلان جوا کھیلتے ہیں.ایران شریعت اسلامیہ کے ہر حکم کو توڑ بیٹھا ہے چین اور جاوا کے مسلمانوں کی حالت کا پتہ نہیں اس اپنے ملک ہندوستان میں دیکھ لو مسلمانوں کی کیا حالت ہے.پھر اسلام کہاں ہے؟ اگر اب بھی خدا نے اسلام کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کیا تو پھر کب اور کس وقت خدا کی طرف سے مدد آئے گی؟ اگر اب بھی خدا اسلام کی مدد نہیں کرتا تو حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا کہہ دو.مگر ساتھ
۷۶ ہی اسلام کو جھوٹا کہنا پڑے گا کیونکہ اگر اسلام سچا ہے تو کہاں ہے وہ خدا جس نے اس کی مدد کا کوئی سامان کیا.اگر یہ مولوی رسول کریم ﷺکے وارث ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کی امت کو نہیں سنبھال سکتے اور کیوں ان کی وجہ سے اسلام کی کوئی جماعت موجود نہیں؟ اسلام کے لئے انہوں نے کیا قربانیاں کیں ہیں؟ ملکانوں کے ارتداد کے متعلق ہی انہوں نے کیا کیا وہاں بھی یہ لوگ ہمارے ہی مبلّغوں کو کوستے رہے.شاء اللہ نے ادھر منہ تک نہ کیا.گذشتہ سال یہاں مرتضیٰ حسن نے کہا تھا کہ میں ملکانوں کے علاقہ سے احمدیوں کو جا کر نکال دوں گا مگر وہ سارا سال اس علاقہ میں گھساہی نہیں.ان لوگوں نے کرنا ہی کیا ہے ان سے ہوہی کیا سکتا ہے جنہوں نے اسلام اور عقائد اور اخلاق کی بوٹی بوٹی کردی ہے اور کوئی چیز ثابت نہیں رہنے دی.حضرت مرزا صاحب نے کیا کیا ٍان کے مقابلہ میں حضرت مرزا صاحب کو دیکھو کہ انہوں نے کیا گیا.ایک ایسے گاؤں میں جہاں ریل بھی نہیں آپ پیدا ہوئے ،آپ کے پاس کوئی مال میں تھا، جائیداد نہیں تھی ،بادشاہت میں تھی، حکومت نہیں تھی اسی حالت میں آپ کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ خدا کے حکم کے ماتحت کھڑا ہوا ہوں میرے پاس دولت نہیں مگر خدا اور اس کے رسول کی محبت کی دولت ہے میرے پاس علم نہیں مگر قرآن ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی علم نہیں میرے پاس کوئی گدی نہیں مگر میرے آقامحمدﷺ کی گدی خالی پڑی ہے اس کی خدمت کے لئے کھڑا ہوا ہوں.بے شک میرے پاس کچھ نہیں مگر خدا چاہتا ہے کہ میرے ہی ذریعہ سب کچھ کرے.دیکھو اور غور کر و کس برتے پر یہ آواز نکلتی ہے کوئی ظاہری چیز آپ کے پیچھے ہے جس کا آپ کو سہارا ہو.ایک تن تنہا انسان ہے جو اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ خواہ کچھ ہو اسلام کو سب مذاہب پر بالا کر دوں گا اس کی یہ آواز سن کر مولوی کہلانے والے درندوں کی طرح اس پر آپڑتے ہیں کہ اسے پھاڑ ڈالیں.انہوں نے خود تو کچھ نہ کیا مگر جو اسلام کی خاطر کھڑا ہوا اس پر پِل پڑے پر مسلمان ہی نہیں عیسائی‘ آریہ ،ہندو سکھ بھی آپ کے خلاف ہو گئے ، حکومت بھی اور رعایا بھی آپ کی مخالفت پر تُل گئی.یورپ اور امریکہ تک نے آپ کے خلاف زور لگایا غرض آسان کے نیچے اور زمین کے اوپر کی سب طاقتوں نے کہا ہم اسے مٹادیں گی.ان کے مقابلہ میں آپ نے فرمایا.بے شک میں کمزور ہوں میرے پاس کوئی طاقت نہیں کوئی جھتہ نہیں، کوئی قوت نہیں ،مگر میرا خدا مجھے کہتا ہے’’ دنیا میں ایک نذیر آیا.پردنیانے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر
۷۷ کرے گا.۴۸؎ اور آپ نے کہا اے مولویو ! سن رکھو.اے گدی نشینو! یاد رکھو اسے یو رپ و امریکہ کی حکومت اور ایشیا اور جزائر کے باشندو! سمجھ لو کہ گو میں کچھ نہیں مگر زبردست اور قادر خدا کا ہتھیار ہوں جو مجھ پر گرے گا چکنا چُور ہو جائے گا اور جس پر میں گروں گا اسے پیس دوں گا.آپ نے یہ کس وقت اور کس حالت میں کہا.اس وقت جبکہ ساری دنیا آپ کی مخالف تھی اور آپ اکیلے کھڑے تھے.اسماعیلی سلسلہ کا یہ پہلوان اس طرح کھڑا ہوا کہ اس کے ترکش میں تیر نہیں، سپاہی ساتھ نہیں، حکومت قبضہ میں نہیں ،مگر باوجود اس کے وہ قوت او ر وہ طاقت اس نے دکھائی کہ ان حکومتوں ان دشمنوں اور ان رسول کریم ﷺکی گدی کے دعوی ٰپر ناچنے والوں کو گرانا شروع کیا.کچھ یہاں سے لئے کچھ وہاں سے کچھ ادھرے لئے کچھ ادھر سے اور آج کچھ لوگ تو یہ بیٹھے ہیں اور لاکھوں پیچھے ہیں مولویوں نے آپ پر کفر کی تلوار چلائی گالیوں کے تیر برسائے حکومت کو کہا گیا کہ باغی ہے اسے پیس ڈالو لیکن پچھری منہ سے ان نابکاروں نے یہ بھی کہا کہ انگریزوں کا جاسوس ہے.قابل غور بات یہ ہے کہ کیا کبھی جاسوس بھی باغی ہو تے ہیں.یاباغی جاسوس لیکن ان لوگوں کی غرض تو حضرت مرزا صاحب کو نقصان پہنچانا تھی جو ان کے جی میں آیا کہتے چلے گئے.انہوں نے حکومت کو ُاکسانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اور رعایا کو بھڑکانے میں بھی کوئی کمی نہ کی اور سب نے آپ کا مقابلہ کیا مگر کون بھی جیتا کیاخد ا کا مسیح نہ جیتا اور اس نے جماعت نہ قائم کی ؟ ساری دنیا کے تختہ پر آپ کی قائم کردہ جماعت کے مقابلہ کی کوئی جماعت تو دکھاؤ.مسیح موعود کی جماعت وہ ہے کہ اس کی جیبیں خالی ہیں مگر دل بہت وسیع ہیں.جسم کمزور ہیں مگر حوصلے بہت بلند ہیں دنیا کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں مگر خدا کے لئے اور خدا کے دین کے لئے ساری دنیا کے مقابلہ میں کھڑی ہے اور تکلیفیں اٹھا رہی ہے قرآن کریم کی تعلیم کو جاری کرنے اور اس کے مطابق زندگیاں بنانے میں اس قدر کوشاں ہے کہ دشمن بھی بول اٹھے ہیں کہ اگر محمدﷺکی جماعت کا نمونہ دیکھنا ہو تو وہ احمدی جماعت ہے کہتے ہیں خوبی وہ ہے جس کا دشمن بھی اقرار کرے.غیراحمدیوں کے ایک روزانہ اخبار ’’ہمدم‘‘ لکھنؤنے لکھا تھا کہ احمدیوں میں خدمت دین کا جو ولولہ اور جوش ہے اس کا نمونہ آج سے تیرہ سو سال قبل رسول کریم ﷺکے ساتھیوں میں ہی مل سکتا ہے اسی طرح اور کئی مخالف اخبارات نے اعتراف کیا ہے کہ اگر کوئی جماعت دین کی خدمت کر رہی ہے تو وہ احمد ی جماعت ہے.مگر اے مولویو!اور اے جُبہ پوشو! تم کوئی ایک ہی تحریر کسی غیر مسلم شخص کی ایسی دکھادو جس میں یہ لکھا
۷۸ ہو کہ مولوی ثناء اللہ یا مولوی مرتضیٰ حسن کے صحابیوں کا نمونہ ہیں.یا کسی غیر کو جانے دو آپ ہی کھڑے ہو کر کہہ دو کہ تم لوگ رسول کریم ﷺکے صحابہ کا نمونہ ہو.تمہارا منہ نہیں ہے کہ اپنے متعلق آپ بھی یہ کہہ سکو لیکن ہمارے متعلق ہمارے دشمن یہ کہہ رہے ہیں.حضرت مرزا صاحب کی صداقت پس میں پوچھتا ہوں آخر صداقت کا کوئی ثبوت بھی ہوا ہے کہ نہیں اگر ہوتا ہے تو جو بھی ہے وہ سارے کا سارا حضرت مرزا صاحب کے لئے موجود ہے.حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ اسلام زندہ ہوا، قرآن کریم زنده ہوا، محمدﷺ کا نام زندہ ہوا' خدا کی توحید زندہ ہوئی، ہرنیکی زندہ ہو ئی، ہرنبی زندہ ہوا، ہر راستباز نے دوبارہ حیات پائی پس حضرت مسیح موعود کوئی معمولی انسان نہ تھے آپ نے رسولوں اور ان کی تعلیموں کو زندہ کیا ہے.پہلے مسیح نے تو بقول غیراحمدیاں چند ماچھیوں کو زندہ کیا تھا مگر اس نے نبیوں کو زندہ کیا ہے پھر بھی کہتے ہیں اس نے کیا کیا.وہ کونسی خوبی اور وہ کونسی صداقت ہے جو کسی نبی میں پائی جاتی ہے مگر حضرت مرزا صاحب میں نہیں.تم لوگ اعتراض کی زبان دراز کرتے ہو کرو مگر یہ تو بتاؤ تمہارا کو ن سا اعتراض ہے جو پہلے نبیوں پر نہیں پڑتا.پھر تمہیں کس بات کا انتظار ہے سور ج چڑھ آياخد اکانبی آگیا، اسلام کو اس نے زندہ کیا ،اور دشمنوں نے مان لیا مگر اے محمد ﷺ کے نام لیوا ؤاور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والو ! کیا تمہیں اسلام کا زندہ ہو ناپسند نہیں آیا اور تم نے اسلام کی زندگی کے مقابلہ میں اپنے نفسوں کو موٹا کرنا ضروری سمجھا کاش تمہیں تمہاری مائیں نہ جَنتیں اور اگر جنتیں تو اس وقت سے قبل تم مرجاتے کہ تمہارے جسم او رنا پاک جسم اسلام کی طرف منسوب ہو کر باعث شرم بنتے.مولویوں نے اسلام کو بدنام کیا اسلام کی ایک ایک بات کو لے کر تم نے اسے بدنام کیا اور غیروں کی نظروں میں حقیر ٹھہرایا ہے.تم نے کہا ہندوستان سے ہجرت کر جانا قرآن کا حکم ہے لیکن اسے بے شرمو؟ پھر تم نے خودہی لوگوں کو کہا کہ ہجرت نہ کرو.تم نے کہا انگریزوں سے ترکِ موالات کرنا اسلام کا علم ہے مگر اے بے شرمو !تم نے خود اس کی خلاف ورزی کی.تم کہتے تھے خلافت ٹرکی کے بغیر اسلام زندہ نہیں رہ سکتا اور یہ اسلام کے لئے نہایت اہم اور ضروری چیز ہے لیکن اے بے حیاؤ ! کان سے پکڑ کر ایک خلیفہ کو نہیں بلکہ دو کو ملک سے نکال دیا گیا خلافت کا نام تک مٹا دیا گیا مگر تم نے اب تک نہ ہلائے.
۷۹ ہمارے ما تھے اور تمہاری پیٹھیں زخمی ہیں ٍ اس کے مقابلے میں ہماری طرف دیکھو عورت مرزا صاحب پہلے ان جو کہا مصیبتوں کے پہاڑ گر پڑنے پر بھی نہ چھوڑا.پھر ہم نے بھی جو راہ اختیار کی اس سے سرِمُوادھر ادھر نہ ہوئے.ہجرت کے معاملہ میں ترک موالات کے معاملہ میں خلافت کے معاملہ میں تم نے شکست کھائی اور بری طرح کھائی.اس مقابلہ میں تمہاری پیٹھیں زخمی ہیں کیونکہ تم پیٹھ دکھا کر بھاگے.زخم تو ہمیں بھی لگے مگر ہمارے ماتھے اور سینے زخمی ہیں کیونکہ ہم ماتھے اور سینے پیش کرتے رہے اور دشمن ہمارے ماتھے پر زخم لگاتا رہا.پھر کس منہ سے تم دعویٰ کرتے ہو کہ ہم سچے ہیں.تمہارے پاس سچائی کی کونسی علامت ہے تمہارے پاس محمدﷺ کی کیا چیز باقی ہے.کیا محمدﷺ کا علم تمہارے پاس ہے اگر ہے تو کیوں تم لوگوں کو وہ علوم اور وہ نکات نہیں معلوم ہوتے جو اس شخص کی جماعت کے ادنی ٰ ادنی ٰلوگوں کو معلوم ہوتے ہیں جو تمهارے نزدیک کافر اور دجال ہے.محمد ﷺ نے اپنی امت میں جو روحانیت چھوڑی ہے وہ تم میں کہاں ہے کوئی ایک بھی ہے تم میں جو خدا کا کہلا سکے اور جسے دعویٰ ہو کہ خدا تعالی اس سے ہمکلام ہوتا ہے اگر کوئی ہے تو سامنے آئے.لیکن ہماری چھوٹی سی جماعت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے آدمی ہیں کہ جن سے خد اتعالی نے کلام کیا.مگر اے مردو! تم چالیس کروڑ میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے پھر وہ کیا چیز ہے جس پر تم اس قدر شور و شرمچاتے ہو.کیا یہ حیض کے لوتھڑے نہیں ہیں جنہیں تم لئے پھرتے ہو.حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ پر آنے والی ہر چیز کو خدا نے مٹایا تم نے ایک ایک چیز کو حضرت صاحب کے مقابلہ میں رکھا اور خدا نے اسے مٹا دیا.ایک وقت تھا جب تم کہتے تھے اہل عرب نے مرزا صاحب کو نہیں مانا مقامات مقدسہ کے محافظوں نے قبول نہیں کیا ہم کس طرح مان لیں لیکن تمهارے مونہواں سے خدا نے حاکم مکہ و مد ینہ کو باغی اور غدار کہلا یا پھر تم نے کہاٹر کی حکومت جب تک قائم ہے امام مہدی نہیں پیدا ہو سکتا خدا نے اسے بھی پاش پاش کر دیا پھر تم نے گیا ترکوں کا خلیفہ اصل اسلامی خلیفہ ہے خدا نے اس کو بھی نکال دیا.اب میں پوچھتا ہوں اور کیا اسلام سے کیا جائے کہ تم سمجھ سکو وہ مٹ گیا ہے کیا تمہارا یہ مطلب ہے کہ سارے کے سارے مسلمان کہلانے والے اپنے آپ کو مسلمان بھی نہ کہلائیں اور عیسائی ہو جائیں.یا سارے جَنیو
۸۰ پہن لیں.اور کونسی مصیبت باقی ہے جس کی انتظار میں تم لوگ بیٹھے ہو کاش اب بھی تم لوگ سمجھتے اور خدا کے غضب کو اور نہ بھڑکاتے مگر افسوس ہے جسے خدا اندھا کرے اسے کوئی دکھا نہیں سکتا.ہم کس مقام پر کھڑے ہیں خدا نے ہم کو اس مقام پر کھڑا نہیں کیا کہ ہم ان لوگوں کی دل آزاریوں اور تکلیف دہیوں سے گھبرا جائیں کیونکہ جیسا کہ ہمیشہ سے سنت ہے ضرور ہے کہ ان پر ہمیں ظاہری فتح بھی حاصل ہو جو فاتح قادیان کہلاتے ہیں اس وقت ان کی اولاد اسی طرح ان کے نام سے شرمائے گی جس طرح ابو جہل کی اولاد شرماتی تھی.دنیا دیکھے گی کہ میری یہ بات میں جو کبھی اور چھاپی جائیں گی پوری ہو نگی اور ضرور پوری ہو نگی ان لوگوں کی نسلیں جو بعد میں آئیں گی وہ یہ کہنا پسند نہ کریں گی کہ محمد حسین یا ثناء اللہ کی اولاد ہیں وہ یہ کہنے سے شرمائیں گی ان کے نام سن کر ان کی گردنیں بھی ہو جائیں گی اور مرتضیٰ حسن جو سید کہلاتا ہے اس کی یہ سیادت باطل ہو جائے گی اب وہی سید ہو گا جو حضرت مسیح موعود کی اِتباع میں داخل ہو گا اب پرانا رشتہ کام نہ آئے گا کہ ان رشتہ داروں نے اس کی ہتک کی.مسلمان کہلا کر اسلام کے نام لیوا کہلا کر انہوں نے لیکچر دیئے کیا احمدی آریوں سے بھی بد تر ہیں پس خدا کی کتاب سے ان کی سیاست مٹائی گئی اور یہ ذلیل اور حقیر کئے گئے اور کئے جائیں گے اگر انہوں نے تو بہ نہ کی ان کے تمام دعویٰ باطل اور تمام خوشیاں ہیچ ہو جائیں گی کیا وہ اپنی اس وقت تک کی حالت پر نظر نہیں کرتے کسی امر میں بھی انہیں کامیابی اور خوشی نصیب ہوئی؟ ہرگز نہیں لیکن ان کے مقابلہ میں ہماری یہ حالت ہے اگر ہمیں ایک غم آیا تو خدا تعالی نے چار خوشیاں دکھائیں پس ہم انکی مخالفتوں اور شرارتوں سے گھبراتے ہیں کیوں کہ خداتعالی کی تائید ہمارے ساتھ ہے پس اے عزیزو! اور دوستو ! میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کے ہو کر خدا کے بن کر اسلام کی خد مت کے لئے کھڑے ہو جاؤ.تمہارے سامنے یہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم رکھ سکتے ہو کہ ایک نبی کا انکار اور مخالفت کرنے سے ان کی حالت کیا سے کیا ہو گئی ہے پس تم خدا کے لئے ہو جاو اور پھر نہ ڈرو جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے پھر وہ کسی سے نہیں ڈرتا.(الفضل ۱۳.۱۶ مئی ۱۹۲۴ء) ۴- أل عمران : ۵۶ ٣- البقرة : ۱۱۹ تفسیر بیضاوی جلد ۲ صفہ و تفسیر سورة انج زمر آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول...الخ پیست : ۳۱ - الحج : ۳۶
۸۱ مطبوعہ ۱۹۹۸ء تذکرہ صفحہ ۳۹۹.ایڈیشن چہارم تذکرہ سنہ ۳۹۹.ایڈیشن چهارم اربعین نبرم صفحہ ۱۰ حاشیه روحانی خزائن جلد اصفہ ۳۵۲ حاشیہ ۸ حقيقة الوحي روحانی خزائن جلد۲۲ صفی ۵۸۲۵۸ ۱۰ تذكرة الاولياء للشيخ فرید الدین عطار مترجم مولوی نذیر احمد صاحب سیماب قریشی صفحہ ۲۶۸ناشر یخ غلام علی اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور مطبوه ۱۹۵۳ء || البقرة : ۱۱۹ ۱۲ المنجد في اللغة والادب والعلوم صفا ۴ زیر لفظ ”طمث مطبوعہ بیروت ۱۹۵۷ء ۱۳ الملک :۴ » آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلده صفه ۵۶۴ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع و الانفال : ۱۸ تذکره مسلمہ - ایڈیشن چہارم ۱۸- تذکرہ سنی ۵۴۶، این چہارم و انت منی بمنزلة أولادي\" تذکره ده مه ۳- ایڈیشن چهارم ۲۰ بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته ۲۱ التحريم : ۱۳ ۴۴- التحريم : ۱۲ ۴۳- التحريم : ۱۳ ۲۴ المؤمنون : ۲تا۷ ۲۵ مسلم کتاب الفضائل باب فی اسمانه صلى الله عليه وسلم ۲۶ حقيقة الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳ ۲۷ تحفہ گولڑویہ صفیے.روحانی خزائن جلدےاصفہ ۵۳ ۲۸ تتمه حقيقة الوحیانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۵۷۴ ۲۹ تتمه حقيقة الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۷۲
۸۲ ۳۰ مسند أحمد بن حنبل جلدا صفحه ۳۲ پر اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں \"اللهم ان تهلک هذه العصابة من اهل الاسلام فلا تعبد في الأرض ۳۱ تتمه حقيقة الوحي روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۷۲ ۳۴ يوسف : ۷۷ ۳۳ سیرت ابن ہشام (عربی) جلد اصفیه ۱۹۹ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء ۳۴ تذکرہ صفحہ ۷۰.ایڈیشن چارم ۳۵ الفرقان : ۵۰ ۳۱- المزمل : ۱۹ ۳۷ خطبہ الہامیہ ص روحانی خزائن جلد اصفه ۳۸ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفیہ ۳۹۹ ۳۹ ترمذی ابواب صفة جهنم باب ما جاء ان للنار نفسين ما ذكر من يخرج من النار من اهل التوحيد ۴۰ الیواقیت والجواهر جلد اصفحہ ۲۸ مطبوعہ ازھر مصر۳۴۱اه ۴۱ رایت ربی جمدا امرد عليه حلة خضرا.“ (کتاب الاسماء والصفات لابی بکر احمدبن الحسين بن على البيهقي باب ماجاء في قول الله عزوجل ثم دنی فتدلى منهم۳۴۵ مطبوع احياء التراث العربی بیروت) ۳۲ دافع البلا.صفحه و روحانی خزائن جلد ۸، صفحہ ۲۲۵ ۳م دافع البلالی و حاشیه روحانی خزائن جلده اصلی ۲۲۵ حاشیہ ۲۴ واذا مرضت فهو يشفين“ (الشعراء: ۸۱) ۴۵ مسلم کتاب الایمان باب بیان نزول عیسی بن مریم ۴۷۳۲ فتح الباری فی شرح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ خندق صفحه ۳۹ مطبوعه دار النشر الکتب الاسلامية ۱۹۸۱ء ۴۸ تذکرہ سنی ها ایڈیشن چهارم وم جنیو: وہ بٹا ہوا دهاگہ جسے ہندو لوگ بدھی کی طرح گلے میں ڈالے رہتے ہیں
۸۳ اساس الاتحاد از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۸۵ اساس الاتحاد بہ طرف جملہ ممبرانِ استقبالیہ کمیٹی مسلم لیگ و نمائندگانِ اجلاس مسلم لیگ ۱۹۲۴ء (یہ مضمون مسلم لیگ کے اجلاس منعقد ہ لا ہو ر میں ۲۳- مئی ۱۹۲۴ء کو پڑھاگیا) أعوذ بالله من الشیطن الرجيم بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر السلام علیکم.آپ لوگ اس وقت مسلم لیگ کے اجلاس کے لئے جمع ہوئے ہیں اور آپ کے سرپر قومی مفاد کی نگرانی کے اہم فرض کا بوجھ صبر آزما طور پر رکھا ہوا ہے.آپ کی غلطی کروڑوں مسلمانوں کی ٹھوکر کا موجب اور آپ کا صحیح رائے قائم کرنا کروڑوں کی ہدایت اور آرام کا موجب ہو سکتا ہے.پہلوں نے غلطی کی اور آج تک مسلمان اس کا خمیازہ بُھگت رہے ہیں.آپ لوگ اگر غلطی کریں گے تو تکلیف قریباً لا علاج ہو جائے گی اور مسلمانوں کا پیالہء عمل کناروں پر سے اُچھل پڑے گا.چونکہ باوجود اس کے کہ ہماری جماعت کی نسبت عموماً اور میری نسبت خو صاًیہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کی عام سیاسی حالت سے دلچسپی نہیں ہے اور ان کے مصائب کو ہم بے پر واہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ہمارے دل مسلمانوں کی تکالیف کو دیکھ کر زخمی ہیں اور ان کی مشکلات کو معائنہ کر کے خون کے آنسو بہاتے ہیں اور چونکہ مجھے کارکنان مسلم لیگ نے شمولیت کی دعوت بھی دی ہے میں یہ چند سطور لکھ کر بطور مشورہ آپ لوگوں کی خدمت میں اپنے نمائندوں کے ذریعے سے اور اس مطبوعہ چٹھی کے ذریعہ سے پیش کر تا ہوں اور امید کرتا ہوں
۸۶ کہ جس اخلاص کے ساتھ یہ مشورہ دیا گیا ہے اسی اخلاص سے آپ لوگ اس پر غور فرمائیں گے.اسے احبّاءِ کرام ! اس وقت جن سوالوں پر آپ لوگ جمع ہوئے ہیں ان میں سے اہم سوال مسلمانوں کے قومی حقوق کی نگرانی اور ہندو مسلم اتحاد کے سوال ہیں اور انہی سوالوں کے متعلق میں اپنے مشورہ کو محدود رکھنا چاہتا ہوں.ٍپہلا سوال یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں اور ملک کی سیاست میں اپنے طبعی مقام کو کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب سوچنے کے لئے ہمیں بہت غور کی ضرورت نہیں دنیا کی اقوام پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر ہم اس امر کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی قوم کے اپنے مقام پر رہنے کی صرف ایک صورت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو خود قائم رکھے.وہ قوم جو اپنے وجود کو خود مٹاتی ہے اس کا ہرگز حق نہیں کہ وہ زندہ رہے اور وہ ہرگز زندہ نہیں رہ سکتی.پس اگر آپ لوگ اپنی جداگانہ ہستی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کے قیام کی خود فکر کریں اور اپنی ذات کو اس طرح نہ مٹنے دیں کہ آپ کا وجود اور عدم برابر ہو جائے.میرے نزدیک مسلمانوں کی پچھلی تباہی کا بڑا موجب ہی ان کی جداگانہ ہستی کا فقدان تھا اور میں برابر چار سال سے ان کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں مگر افسوس کہ ان کو اس وقت آکر توجہ ہوئی ہے جب وہ بہت کچھ کھو چکے ہیں.ایک ایسے ملک کی مثال جس میں کئی قو میں بستی ہیں ایسی عمارت کی ہے جسے بہت سے پتھر کی سِلوں سے بنایا گیا ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ مکان اصل ہے لیکن اس مکان کا قیام بھی ان سِلوں کے قیام کے ساتھ ہے ضروری ہے کہ جس طرح سلیں آپس میں پیوستہ ہوں اسی طرح ہر ایک سِل اپنی ذات میں بھی محفوظ ہو.اگر ایک سِل کمزور ہو جائے گی تو وہ خود تو مٹے گی ہی، مکان کو بھی نقصان پہنچائے گی پس یہ پالیسی بالکل درست نہیں کہ ملک کے اتحاد کے قیام کے لئے مسلمانوں کو اپنی الگ آرگنائزیشن کی ضرورت نہیں حالانکہ جب تک ایسی کوئی آرگنائزیشن نہ ہو گی اس وقت تک کبھی بھی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہیں ہو سکے گی اور کبھی بھی وہ ملک کے لئے مفید وجود نہیں بن سکیں گے پس میرے نزدیک ایک ایسی آرگنائزیشن کا ہونا نہایت ضروری ہے خواہ اسے مسلم لیگ کے نام سے موسوم کیا جائے یا اور کسی نام سے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس اجلاس میں آپ لوگ اس امرپر ایک متفقہ فیصلہ کر کے
۸۷ جلسہ کو برخواست کریں گے کہ ایک ایسی آرگنائزیشن ہو اور وقتی نہیں بلکہ مستقل ہو.گو پچھلے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تو اس امر پر اتفاق کا ہو جانا بھی ایک بہت بڑی بات ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ مشکل سوال ہے کہ یہ نظام کن قوانین کے مطابق کام کرے اور درحقیقت یہی سوال ہے جس کا حل ہمیں کوئی مستقل نفع دے سکتاہے.جیسا کہ اس جلسہ مسلم لیگ کے بانیوں کی تحریر سے مترشح ہوتا ہے اور جیسا کہ ضروریات وقت سے ظاہر ہے اس وقت ایک ایسی مجلس کی ضرورت ہے جو تمام مسلمانوں کے قومی فوائد کی نگرانی کرے نہ کہ کسی خاص نقطہ خیال کی.اگر آپ لوگوں کے نزدیک کسی خاص نقطہ خیال کی اشاعت یا اس کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہوتی تو آپ لوگ مسلم لیگ کے نام کے نیچے جمع نہ ہوتے بلکہ اس انعقاد کا کوئی اور نام رکھتے کیونکہ مسلمان کہلانے والے سب کے سب آدمی گو کلمہ شہادت پر تو جمع ہیں لیکن کسی خاص سیاسی خیال پر جمع نہیں ہیں اور نہ جمع ہو سکتے ہیں اور اگر کسی خاص سیاسی خیال پر جمع کرنا مقصود ہو تا تو اس کے لئے مسلم کی شرط لگانے کی ضرورت نہ تھی.سیاسی خیالات میں تو نہ صرف یہ کہ ہم ہر ایک قوم کے ساتھ مل سکتے ہیں بلکہ ہمیں ان کو اپنے ساتھ ملانے کی پوری کوشش کرنی چاہے پس مسلم لیگ کے نام اور بانیان ِجلسہ کی تحریرات کو اگر حقیقت کا جامہ پہنانا ہے تو ضروری ہے کہ اس آرگنائزیشن کو ایسے اصول پر قائم کیا جائے کہ اس میں ہر قسم کے سیاہی خیالات کے آدمی جمع ہو سکیں نا اس کا وہی حشر نہ ہو جو پہلی مسلم لیگ کا ہو چکا ہے یعنی ایک ہی ا ہم اختلاف پیدا ہوا اور مسلم لیگ نوٹ کردومجلسوں میں تقسیم ہوگئی.اگر پہلی لیگ واقع میں مسلم لیگ ہوتی نہ کہ سوراج لیگ یا لبرل لیگ تو و ہ افتراق کیوں واقع ہوتا جو اس سے پہلے واقع ہو چکا ہے.پس اگر آپ لوگ مسلم لیگ بنانا چاہتے اور اسی قسم کی لیگ کی ضرورت بھی ہے تو اس کو کسی خاص سیاست سے وابستہ نہ کریں بلکہ اسے حقیقی معنوں میں مسلم لیگ بنائیں.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک لفظ اپنے اپنے دائرہ میں الگ معنے رکھتا ہے لفظ مسلم کی تعبیر مذہبی نقطہ خیال سے اور ہے اور سیاسی نقطے خیال سے اور.مذہبی نقطہ خیال سے تو مختلف فِرقِ اسلام کے نزدیک وہ لوگ مسلم ہیں جو ان اصولی مسائل میں جن پر وہ اپنے نز د یک بنائے اسلام رکھتے ہیں متفق ہوں اور سیاسی نقطۂ خیال کے مطابق ہر شخص جو رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ نہیں قرار دیتا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں ہے
۸۸ مسلم کے دائرہ کے اندر آجا تا ہے.جب تک جملہ فرق اسلام اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں غیر مذہب کا سلوک ان سب سے ایک ہی طرح کا ہو گا وہ سیاستاًان میں کوئی امتیاز نہیں کریں گے اور جب تک دنیا سیاسی معاملات میں ہر فرقہ سے جو مسلمان کہلاتا ہے سیاستاً ایک سا سلوک کرے گی اس وقت تک اسلام کی اس تعبیر کو جو اوپر بیان ہوئی ہے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا.بغیر اس فرق کے سمجھنے کے نہ باہمی امن ہو سکتا ہے نہ باقی دنیا کے مقابلہ میں اسلامی حقوق کی حفاظت کی جاسکتی ہے پس مسلم لیگ کے یہ معنے نہیں کئے جاسکتے کہ ان مسلمانوں کی انجمن جن کو بعض خاص فریق کے علماء مسلمان کہتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ان تمام لوگوں کی انجمن جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کسی اسلام سے پہلے یا اسلام کے ناسخ دین کے قائل نہیں.سیاسی معاملات میں جب تک کہ اختلاف کی بنیاد مذہب کی بجائے سیاست پر نہ رکھی جائے گی اس وقت تک ہر گز امن نہیں ہو سکتا نہیں ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے دروازے ہر ایک اس فرقہ کے لئے کھلے ہوں جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے خواہ اس کو دوسرے فرقوں کے لوگ مذہبی نقطہ نگاہ سے کافرہی سمجھتے ہوں اور اس کے کفر پر تمام علماء کی مہریں ثبت ہوا.اس امر کے بیان کر دینے کے بعد کہ مذہبی طور پر کون کون سے فرقے اس لیگ میں شامل کئے جانے چاہئیں اب میں پھر اصل مضمون کو لیتا ہوں کہ جب ایک مسلم لیگ کی ضرورت ہے نہ کہ کسی خاص سیاسی نقط نگاہ کی پابند جماعت کی تو ہمیں مسلم لیگ کے قواعد بھی ایسے ہی بنانے چاہیں جو ہمیں کسی خاص سیاسی نقطہ نگاہ کا پابند نہ بناتے ہوں کہ اس کے قواعد کو ایساو سیع بنانا چاہئے کہ ہر سیاسی نقطہ نگاہ کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ انجمن سب مسلمانوں کی نمائندہ نہیں بن سکے گی اور صرف ایک خاص قسم کے خیالات کی پا پند جماعت کی نمائندہ ہو گی پس اس کو تمام مسلمانوں کی نمائنده مجلس بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دروازے ہر ایک خیال کے لوگوں کے لئے کھلے رکھے جائیں اور اس کی ممبری کے لئے سوائے دعوئِ اسلام کے اور ہندوستانی ہونے کے اور ایک مقررہ رقم چندہ کے طور پر دینے کے اور کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے.ہرایک جواِن شرطوں کو پورا کرتا ہے خواہ وہ سوراج کا قائل ہو خواہ وہ ہوم رول کا دلدادہ ہو، خواہ وہ کامل حریت کا شیدائی ہو، خواہ وہ امن پسند وں میں ہو، خواہ وہ خوشامدیان ِسرکار میں سے سمجھا جاتا ہو.خواہ وہ ہندو مسلم اتحاد کا والہ ہو اور خواہ مسلمانوں کے کامل طور پر الگ
۸۹ رہنے کے اس کا شیدا اس کو حق ہونا چاہئے کہ وہ اس لیگ کا ممبر ہے اور اپنے خیالات سنائے اور دوسروں کے سنے اور اگر اس سے ہو سکے تو دوسرے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا کر اپنی ہم عقیده جماعت کو پڑھا اور اپنی قّلت کو کثرت سے بدل دے.جب تک اس اصول پر کام نہ کیا گیا اس وقت تک کبھی صلح نہیں ہو سکتی کبھی امن نہیں ہو سکتا اور کبھی ترقی نہیں ہو سکتی.اس سے زیادہ تنگ ظرفی اور کیا ہو گی کہ ہم ظاہر تو یہ کریں کہ ہم ایک ایسی انجمن تیار کرتے ہیں جو سب مسلمانوں کی نمائندہ ہو گی لیکن عملاً ہم صرف انہی کو اس کے اندر شامل ہونے کا موقع دیں جو سیاستاً ہما رے ہم خیال ہیں اور دوسروں کو قانوناً یا عملاً تنگ کر کے باہرنکال دیں.ہمارے ہندو بہائی بھی اسی نکتہ کی پوری حقیقت کو ابھی نہیں سمجھے لیکن پھر بھی مسلمانوں کی نسبت ان میں رواداری زیادہ ہے اور اس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے.پچھلے دنوں کے اختلافات کے دوران میں ہندو لیڈروں نے جو کانگریس کے نئے طریق کی تائید میں تھے پنڈت مدن موہن مالویہ صاحب کو باوجود اس کے کہ وہ اختلاف رکھتے تھے نہایت ادب کے ساتھ دیکھا ہے لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں نے ان پرانے کارکنوں کو جنہوں نے اپنی عمریں انکی بہتری کے لئے خرچ کر دی تھیں بہت بری طرح سے اپنے سے الگ کر دیا اور ان کو آئنده خد مت کرنے سے محروم کردیا.ہندوؤں نے اپنی پالیسی سے فائدہ بھی اٹھایا.ایک طرف کانگریس کے میدان عمل میں بھی وہ معزز رہے اور گورنمنٹ سے بھی انہوں نے ہاتھ کے ساتھ فائدے اٹھائے مگر مسلمانوں نے اپنے پرانے کارکنوں کو ذلیل کر کے ایک اخلاقی جرم کا ارتکاب بھی کیا اور دنیوی فائدہ بھی کوئی نہیں اٹھایا.یاد رکھنا چاہئے کہ اتحاد کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ ہم اختلاف کو سننا اور دیکھنا برداشت کر سکیں اختلاف کو چھیانا یا اختلاف پر قطع تعلق کرلینا بھی سیاست میں کامیاب نہیں کرتا.سیاسی کامیابی کا ایک ہی گر ہے کہ جب اختلاف ہو تو ہم اس اختلاف کو تسلیم کریں اور دلائل سے اس پر غالب آنے کی کوشش کریں نہ کہ قطع تعلق سے اس کو دبانے کی سعی.اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ مختلف خیالات کے لوگ آپس میں مل کر کیو نکر کام کر سکتے ہیں؟ میرے نزدیک اس کا حل آسان ہے ہمیں یہ کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ ہم ہر ایک کو اپنے خیال کا تابع بنائیں اور نہ ہم اس کو قبول کر سکتے ہیں کہ لیگ بحیثیت لیگ کچھ بھی نہ کرے کیونکہ اس
۹۰ صورت میں عملی میدان میں اس کا عد م اور وجود برابر ہو جائے گا میں جو کچھ کرنا چاہئے اور جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ لیگ کے قواعد اس طریق پر بنا ئے جائیں کہ لیگ کے ممبروں کی کثرت رائے کا فیصلہ اس کے ممبروں کے لئے واجب الاطاعت نہ ہو وہ صرف لیگ کے نظام کے لئے واجب الاطاعت ہو یعنی لیگ کی آرگنائزیشن صرف اسی فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی کو شش کرے جو لیگ کے ممبروں کی کثرت رائے سے ہوا ہے اور لیگ کے فنڈز صرف انہی تحریکات کی تائید میں خرچ ہوں جن کی تائید کثرت رائے نے کی ہو اور قلیل التعد ادرائے والی جماعت اپنی علیحدہ آرگنائزیشن قائم کر کے اور اپنا الگ سرمایہ جمع کر کے اپنے خیال کی اشاعت کرے جس طرح انگلستان میں مختلف پارٹیوں میں دستور ہے کہ جو پارٹی حکومت پر قابض ہوتی ہے اس کے وہپ کو سرکاری خزانہ سے تنخواہ ملتی ہے اور دوسری پارٹیوں کو اپنے پاس سے اپنے و ہپس کو تنخواہ دینی پڑتی ہے.اس صورت میں لیگ کی آرگنائزیشن پر وہی لوگ قابض ہو سکیں گے جو اس کے اندر کثرت رائے رکھیں گے اور اس کے عہدہ داروں کے لئے لازمی ہو گا کہ یا تو وہ اپنے آپ کو کثرت رائے کے تابع کریں اور عملاًکثرت رائے کے منشاء کے پورا کرنے پر آمادگی ظاہر کریں یا پھر اپنے عہدہ سے الگ ہو جائیں.مگر یہ ضروری ہوگا کہ ایک کا ایک مستقل عملہ ہو جو اپنے آپ کو بالکل غیر جانبدار رکھے لیگ کی سیاست میں بالکل حصہ نہ لے جو نقطہ نگاہ بھی کسی وقت لیگ کی کثرت رائے کو اپنے ساتھ متفق کرلے وہ عملہ اس کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے.اگر لیگ ان اصولوں پر قائم ہو تو کسی جماعت کو بھی اس میں شمولیت میں عذر نہ ہو گا.باغیانہ خیالات کی حد کو پہنچے ہوئے لوگوں سے لے کر گورنمنٹ کی خوشامد کرنے والے لوگوں تک سب اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں کو اس قدر فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ اس کا اندازہ اس وقت پوری طرح نہیں لگایا جاسکتا.لیگ کے انتظام کے متعلق میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ صرف لیگ کا یہ کام نہیں ہونا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی غیروں کے مقابلہ میں حفاظت کرے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہونا چاہئے کہ وہ مسلمان جماعتوں کی آپس کی سیاسی لڑائیوں اور ایک دوسرے کی حق تلفیوں کا بھی فیصلہ کرے اور مختلف جماعتوں کے باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کو شش کرے تاکہ اختلافات باہمی بڑھ کر خودلیگ کے لئے ہی صدمہ کا موجب نہ ہو جائیں.
۹۱ ایک امراور لیگ کی کارروائیوں میں مد نظر رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ کثرت رائے کے فرائض میں یہ امر شامل ہونا چاہئے کہ وہ قلیل التعداد جماعتوں کے نمائندوں کے جائز ادب اور احترام کی حفاظت کرے اور وہ غیر شریفانہ رویہّ جو بعض اوقات پبلک جلسوں میں قلیل التعداد لوگوں کے خلاف برتا جاتا ہے اور ان کی باتیں سننے سے انکار کر دیا جا تا ہے اس کو روکے.بیشک یورپ کی پارلیمنٹوں میں بھی ایسا ہوتا رہتا ہے کہ ایک جماعت اپنے مخالف خیال کے لوگوں کی ہتک کردیتی ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کی ہر ایک بات قابل تقلید نہیں ہے وہ اگر یہ حرکات کرتے ہیں تو وہ معذور ہیں ان کے سامنے محمدﷺ کا اسوہ موجود نہیں ہے اور آپ کے سامنے ہے اور ان کے پاس زندہ کتاب موجود نہیں ہے مگر آپ کے پاس ہے.اب میں دوسرے امر کر لیتا ہوں کہ ہندو مسلم اتحاد کو کیونکر قائم کیا جائے ؟ اس سوال کو حل کرنے سے پہلے ہمیں پہلے ایک اور سوال کو حل کر لینا چاہئے اور دو یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلاف کیوں ہے؟ میرے نزدیک اس سوال کے چار جواب ہیں.۱.صلح کرتے وقت ان اختلافات کو نہیں دیکھا گیا جو دونوں جماعتوں میں پائے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ان اختلافات کے مٹانے یا ان کے بد اثر کو دور کرنے کی کو شش کی جاتی صرف اس جذباتی دلیل کے زور سے صلح کرا دی گئی کہ ہم ایک ملک کے باشندے ہیں ہم میں کوئی اختلاف نہیں ہیں ہمیں صلح کر لینی چاہئے.چونکہ اختلاف حقیقی تھا اور صلح بناوٹی.حقیقت آخر بناوٹ پر غالب آگئی اور لوگوں کو اپنے اختلافات نظر آنے لگ گئے.چونکہ لوگوں کو یہ بتایا گیا تھا که اختلاف نہیں.نہ یہ کہ اختلاف تو ہے مگر اس اختلاف کے بد اثرات کو روکنے کے لئے تم فلاں فلاں تدابیر کر سکتے ہو اس لئے جب اختلافات لوگوں کو نظر آنے لگے تو وہ آپس میں لڑ پڑے اور انہوں نے خیال کیا کہ شاید یہ اختلاف اب پیدا ہوئے ہیں حالانکہ وہ اختلافات ہمیشہ سے تھے.۲.دوسرا نام یہ ہوا کہ صلح کے شوق میں بین الا قوامی تعلقات کی حد بندی نہیں کی گئی.اس امر کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا کہ ملکی اور غیر ملکی سوال کے ساتھ ایک قومی اور غیر قومی کا سوال بھی لگا ہوا ہے اور فطرت انسانی اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی خیال کر لیا گیا کہ جب ہندوستانی سب کو قرار دیا گیا ہے تو اب سب آپس میں نیک سلوک ہی کریں گے اور یہ بات بالکل بھلا دی گئی کہ ہندو بھی تو آپس میں ایک سا سلوک نہیں کرتے اگر ایک ہندو کے سامنے اور
۹۲ ہندوؤں کا معاملہ آجائے اور ایک اس کا بھائی ہو دو سراغیرتووه طبعا ًاپنے بھائی کی حمایت کرتا ہے.پس ہندو گو غیر ملکیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیں مگر ملک کی دولت سے فائدہ اٹھاتے وقت بالطبع ہر ایک قوم اپنے عزیزوں کا لحاظ کرے گی اور قلیل التعداد اور تعلیم اور رسوخ میں پیچھے رہنے والی قوم لازما ًسخت نقصان اٹھائے گی اور صلح کا زمانہ ہی جبکہ قلیل التعدار جماعت اپنے حقوق کی حفاظت سے غافل ہوگی شقاق اور نفاق کے بیج کو نشوونما دینے والا ثابت ہو گا.اور یہ بھی نہ سوچا گیا کہ جملہ حقوق کی حد بندی نہیں کی گئی تو جو لوگ سمجھدار ہیں اور حقیقت کو سمجھتے ہیں وہ ضرور ایک دوسرے پر بد گمان رہیں گے اور بِلا تصفیہ حقوق کے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکیں گے جس کا آخری نتیجہ فسادا ور عناد ہو گا.٣.تیسری یہ غلطی ہوئی کہ خیال کر لیا گیا کہ ہمارے سوا ہندوستان میں کوئی اور نہیں بستا اور ان لوگوں کی طاقت کا بالکل اندازہ نہیں کیا گیا جن سے مقابلہ تھا حالانکہ یہ طبعی بات ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کوئی سمجھوتہ کیا جائے وہ ضرور اس جمود کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ سمجھوتہ جو ہندو مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا ایک طرف تو موجودہ گورنمنٹ کے خلاف تھا دوسری طرف دوسری اقوام ہند پر اس کا بد اثر پڑتا تھا اور خود ہندوؤں اور مسلمانوں میں سے بعض فریقوں کے خلاف تھابعض لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور آخر وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.۴.مسلمانوں کے جن نمائندوں نے ہندو مسلم اتحاد کے مسودہ کافیصلہ کیا انہوں نے انجام پر ایسے گہرے طور پر غور نہیں کیا جیسے کہ ان کو غور کرنا چاہئے تھا.ان چار نقائص کا نتیجہ یہ ہوا کہ صلح قائم نہ رہ سکی اور ملک میں اور بھی فساد پھوٹ پڑا جیسا کہ وہ لوگ جانتے ہیں جن کو میرے ان لیکچروں کے سننے کا موقع ملا ہے جو میں نے گذشتہ پانچ سال میں ان معاملات کے متعلق دیئے ہیں یا میری تحریرات کے پڑھنے کا موقع ملا ہے میں ان امور کی طرف شروع سے توجہ دلاتا رہا ہوں اور اس نتیجہ ہے ڈراتا رہا ہوں جو اب نکلا ہے.میرے نزدیک ہندو مسلم اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیا د مندرجہ ذیل اصول پر رکھی جائے.۱ - اس امر کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ اختلاف کا اصل باعث ان کمیٹیوں سے پیدا نہیں ہوتا جن میں کہ مختلف قوموں کے نمائندے جمع ہو کر فیصلے کرتے ہیں بلکہ اس کا اصل باعث ان کروڑوں آدمیوں میں پیدا ہوتا ہے جن میں سے بہت سے لوگ اس امر کو بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اتحاد کا کیا فائدہ ہے ؟ اور اس کا خیال رکھنے کی ان کو کیا ضرورت ہے ؟ وہ اس امر کی قابلیت نہیں
۹۳ رکھتے کہ مال اندیشی سے کام لیں بلکہ وہ صرف اس امر کو دیکھتے ہیں کہ ہمارے ٹھیس کھائے ہوئے جذبات کا کوئی بدلہ ضرور ملنا چائے پس کوئی اتحاد قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ ان لوگوں کے جذبات کو مد نظر نہ رکھا جائے.فتنہ کو مٹایا نہ جائے اور اس غرض کے پورا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ عوام الناس سے ان قربانیوں کا مطالبہ نہ کیا جائے گا جن کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے.اگر ان کی روایات اور عادات اور جذبات کے خلاف مطالبہ کیا جائے گا تو وہ بھی کبھی اس کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور لیڈر خواہ کسی قد رہی فراخ دلی کا ثبوت دیں عوام الناس کو وہ اپنے ساتھ شامل نہیں رکھ سکیں گے.پیچھے جو سمجھوتہ اس غرض کے پورا کرنے کے لئے کیا گیا تھا اس میں یہ شرط کی گئی تھی کہ گائے کی قربانی کو مسلمان بہ ِطيبِ خاطر چھوڑ دیں.یہ سمجھوتہ عام مسلمانوں کے قومی جذبات اور احساسات بلکہ ان کی تمدنی ضروریات کے لحاظ سے بھی غیرطبعی تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فسادات اور بھی ترقی کر گئے.علاوہ ازیں سیاستاً بھی یہ سمجھوتہ درست نہ تھا.اگر مسلمان لیڈر جو اس سمجھوتے میں شامل ہوئے تھے ہندو قوم کی بناوٹ پر غور کرتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ گائے کا سوال نہ مذہبی نہیں بلکہ پولیٹیکل ہے خود ویدوں میں ہم لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ ست جگ میں اور رشیوں کے زمانہ میں ہندوستان میں علی الاعلان گائے کے گوشت کے کباب بنائے جاتے تھے اور کھائے جاتے تھے اور آج سے کچھ عرصہ پہلے سوائے پنجاب کے ہندوستان میں گائے کی قربانی علی الاعلان ہوتی تھی پھراب جو اس سوال کو اٹھایا گیا ہے تو کیوں؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پچھلے پچاس سال سے ہندو قوم میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہندو مذہب کی تعریف کیا ہے بڑے بڑے مد بروں نے غور کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہندومت ایک مذہب نہیں بلکہ مختلف مذاہب کے مجموعے کا نام ہے جو بیرونی حملہ آوروں کے حملوں کے روکنے کے لئے ایک نام کے نیچے جمع ہو گئے تھے اس زمانہ میں جبکہ جتھاداری اور کثرت ِقومی ایک نہایت ضروری امر سمجھا جاتا ہے اس انکشاف کا اثر جو ہندو لیڈروں پر ہوہو سکتا تھا وہ ظاہرہی ہے ان سے یہ امر مخفی نہ تھا کہ اگر یہ امر اہل ہنود کے مختلف فرقوںپر ظاہر ہوتا چلا گیا تو جس طرح سکھ الگ ہو گئے ہیں وہ فرقے بھی الگ ہو جائیں گے اور ان کی موجودہ طاقت ٹوٹ جائے گی اس اندیشہ کو دور کرنے کے لئے انہوں نے یہ تجویز کی کہ مختلف ہندو فرقوں میں جو بڑے بڑے مابه الاشتراك ہیں ان کو معلوم کر کے ان پر خاص طور پر زور دیا جائے اور ان کو مذہب کی جڑ قرار دیا جائے تماس دائرہ میں سب ہندو قومیں جمع رہیں اور ان میں
۹۴ وحدت کا خیال پیدا ہو جائے.اس غرض کے پورا کرنے کے لئے جب انہوں نے ہندوستان کے مختلف مذاہب پر جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں غور کیا تو ان کو تمام قومیں تین باتوں میں سے کسی نہ کسی پر جمع نظر آئیں.(1) بعض قومیں ویدوں کے الہامی ہونے پر متفق تھیں.(۲) بعض تناسخ کے مسئلہ پر (۳) بعض گائے کی عظمت اور حرمت پر.غرض کُل ہندومذاہب ان تین مسائل میں سے کسی نہ کی مذہب کے ماننے والے تھے جیسے مثلاً و ید کو نہیں مانتے لیکن تناسخ کے قائل ہیں سکھ تناسخ کو نہیں مانتے مگر گائے کی عظمت ان کے دلوں میں بھی ہے بلکہ انہوں نے اس امر کو بھی معلوم کیا کہ ہندو مذاہب اسقدر وید پر جمع نہیں ہیں جس قدر کہ تناسخ اورگائے کی عظمت پر.پس انہوں نے زیادہ تر ان ہی مسائل پر زور دینا شروع کیا تا کہ سب ہندو فرقوں میں ایک وحدت کا رشتہ ایسا پیدار ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اندرونی اختلافات کو بھلائے رکھیں.انہوں نے خصوصاً گائے کی عظمت پر زور دیا کیونکہ پہلے دونوں امر اعتقادی ہیں اور اس قدر وحدت کے پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتے لیکن گائے کی عظمت ایک نظری چیز ہے اس کی وجہ سے ان کے جوش تازه رہنے کی زیادہ امید تھی اس تدبیر سے انہوں نے مختلف مذاہب کو ایک ہی نام سے جمع رکھنے کی تدبیر نکالی.پس اس مسئلہ پر زور ہرگز شرعی جذبات کے سبب سے نہیں دیا جاتا بلکہ سیاسی ضروریات کے سبب ہے.اگر مسلم لیڈران مضامین پر یہ اطلاع پا لیتے جو الٰہ آباد کے لیڈ ر اخبار میں ہندو مذہب کی تعریف کے متعلق ہندوؤں کے تمام سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی طرف سے نکلتے رہے ہیں اور جو بعد میں کتابی صورت میں چھپ کر شائع ہوئے ہیں تو ان پر اس امر کی حقیقت کھل جاتی.خلاصہ یہ کہ گائے کی عظمت ایک سیاسی مسئلہ ہے اور ہندو قوم کے لیڈروں نے اسے صرف ہندوستان میں پیدا ہونے والے مختلف مذاہب کو ایک رشتہ میں منسلک رکھنے کے لئے ایجاد کیا ہے.پس مسلمانوں سے گائے کی قربانی کے ترک کرنے کا مطالبہ کرنا بالکل نادرست اور ناواجب ہے کہ مسلمانوں کا فرض نہیں ہو سکتا کہ وہ ہندوؤں کے قومی اتحاد کے دواعی (بواعث.مرتب) اپنے قومی وحدت کے وداعی کو ترک کر کے مہیا کر یں اتحاد کی بناء صرف اس امر پر رکھی جاسکتی ہے کہ ہر ایک قوم دوسرے کے مذہبی امور میں دخل نہ دے نہ اس پر کہ ایک قوم دو سرے کے مذہبی اور تمدنی امور کو اپنی مرضی کے مطابق طے کرانے کی کوشش کرے.کیا یہ بھی مثلا ًصلح کا
۹۵ طریق کہلا سکتا ہے کہ انگریز کہیں کہ ہندوستانی انگریزی لباس اختیار کر لیں اور انگریزی زبان کو اپنی زبان بنالیں تو ہم ان کو حکومت دیدیتے ہیں اگر انگریزوں کی طرف سے ایسا مطالبہ درستہو سکتا ہے تو ہندوؤں کا مطالبہ بھی درست ہو سکتا ہے.مگر جس طرح انگریز اگر مذکورہ بالا مطالبہ کریں تو وہ درست نہ ہو گا اسی طرح ہندوؤں کا مطالبہ بھی نادرست ہے.خواہ کوئی کتنا بڑالیڈرہی کیوں نہ ہو وہ قانون قدرت کے خلاف نہیں جاسکتا اور یہ قانون قدرت ہے کہ صلح دوسرے کے خیالات یا اعمال کے چُھڑوانے سے نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ ایک دوسرے کے ذاتی اعمال میں دخل نہ دیا جائے.ہندوؤں کا مسلمانوں سے گائے کی قربانی یا اس کے ذبح کے ترک کا مطالبہ کرنا ہرگز صلح کا موجب نہیں ہو سکتا ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کے ذاتی کاموں میں اور ان کے اپنے اموال کے خرچ میں دخل دیں اور مسلمانوں کا کوئی حق نہیں کہ سکھوں ہندوؤں یا اور کسی قوم کے کاموں میں دخل دیں.ایک ہندو اگر مسلمانوں کے افعال میں دخل دیئے بغیر صلح کے لئے تیار نہیں تو وہ ہرگز صلح کا جو یاں نہیں اور ایک مسلمان اگر ہندو کے کاموں میں دخل دیئے بغیر صلح کرنے کے لئے تیار نہیں تو وہ ہرگز صلح کا طالب نہیں.ہندوؤں کا کوئی حق نہیں کہ وہ صلح کی شرائط میں گاؤ کشی کی بندش کو پیش کریں اور مسلمانوں کا کوئی حق نہیں کہ وہ جھٹکے پریاسؤر کا گوشت بِکنے پر اعتراض کریں.اگر ہندوؤں کو گائے کے ذبح کرنے سے تکلیف ہوتی ہے تو ایک مسلمان کو بت پرستی اور سود کے لینے دینے پر تکلیف ہوتی ہے کیا ہندو مسلمانوں کی خاطر بت پرستی با سود کا لین دین چھوڑ دیں گے.خلاصہ یہ کہ صلح اس طرح نہیں ہو سکتی کہ ایک دوسرے سے ان کے اعمال چُھڑوائے جائیں بلکہ اس طرح کہ کوئی فریق دوسرے کے مذہبی امور میں دخل نہ دے.پس آئند ہ بنیاد سلی اس امر کو مد نظر رکھ کر ڈالنی چاہئے ورنہ وہ غیر طبعی ہوگی اور کبھی کامیاب نہ ہو سکے گی.ہر مذہب کے پیروؤں کو اپنے ذاتی اعمال میں پوری آزادی ہونی چاہئے.مسلمانوں کو دسہروں وغیرہ کے جلوسوں پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے خواہ وہ کہیں سے نکالے جاویں اور ہندؤں کو تعزیوں وغیرہ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے خواہ وہ کہیں سے نکالے جاویں اسی طرح مساجد کے پاس سے اگر جلوس نکلیں تو مسلمانوں کے اس پر چِڑنے یاناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں یہ سب بچوں کی سی باتیں ہیں سمجھدار لوگوں کو ان سے پرہیز کرنا چاہئے ہاں یہ ضرور ہے کہ جس وقت مسلمان با جماعت عبادت کر رہے ہوں اس وقت مساجد کے پاس اور جس وقت ہند و با جماعت عبادت کر رہے ہوں
۹۶ اس وقت مندر کے پاس شور نہ کیا جائے.کیونکہ ایسی صورت میں آزادی کا سوال نہیں رہتا بلکہ عملی ضرر کا سوال ہو جاتا ہے شور کی وجہ سے عبادت گزار عبارت نہیں کر سکتے اور شرافت کا تقاضا ہے کہ دوسرے کے کام میں حرج نہ کیا جائے.دوسری شرط یہ ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کو گالیاں نہ دی جائیں.گالیاں دینا ہرگز کسی قوم کا فرض نہیں ہو سکتا اور اس سے زیادہ غیر شریفانہ بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کو گالیاں دی جائیں.بانی سلسلہ ام به حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے عرصہ ہوا کہ اس سوال کو گورنمنٹ اور پبلک کے سامنے پیش کیا تھا.کہ ہندوستانؤ میں اکثر فساد مذ ہبی اختلافات کے باعث سے ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی ایک بڑا حصہ اس بد زبانی کے سبب سے ہوتا ہے جو ایک مذہب کے پیرو دو سرے مذہب کے بزرگوں کی نسبت کرتے ہیں.واقعات برابر اس صداقت پر سے پردہ اٹھاتے چلے آئے ہیں اور اب جبکہ حق کھل چکا ہے ہمارا فرض ہے کہ مابین الا قوام صلح کی تجاویز کرتے وقت اس ضروری امر کو نظرانداز نہ ہونے دیں.کون شخص اس صداقت کا انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے ہندوؤں میں سے آریہ لوگ جس طرح رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں اس کا برداشت کرنا ایک غیرت مند انسان کے لئے ناممکن ہے اگر مسلمان، مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو ان کے دلوں میں رسول کریم ﷺ کے لئے غیرت بھی ہونی چاہئے ورنہ مسلم کہلانے سے کیا فائدہ اور مسلم لیگ بنانے کی کیا غرض ہے؟ مسلمانوں کی ہستی رسول کریم ﷺکے وجود میں مخفی ہے اگر آپ کی عزت کا ہم لوگوں کے دلوں میں خیال نہ ہو تو ہمارے مسلمان کہلا کر دنیا میں ایک الگ جماعت بنانے کا کیا فا ئدہ ؟تب ہمیں ہندو یا مسیح ہو جانا چاہئے کہ وہ قو میں ہم سے زیادہ اور طاقتور ہیں مسلم کہلانے کی تواسی وقت تک ضرورت ہے جب اسلام میں ہمیں کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو دوسری جگہ نہیں ملتی اور جب تک اسلام میں ہمیں کوئی بھی خوبی نظر آتی ہے رسول کریمﷺ کی محبت اور آپ کے نام کے لئے غیرت دکھانے کے فرض سے ہم ہرگز سبکدوش نہیں ہو سکتے.پس صلح کے لئے یہ شرط سب سے پہلے ہونی چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کو خصوصاً اور دوسرے ائمہ اسلام کو عموماً دوسرے مذاہب کے لوگ بد زبانی سے یاد نہ کریں اور اسی طرح مسلمان دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے حق میں بد کلامی نہ کریں بغیر اس کے صلح نہیں ہوسکتی.جب تک کسی مسلمان کے دل میں ایمان کی خفیف سے خفیف چنگاری بھی جلتی ہے وہ آج نہیں تو کل رسول کریم ﷺکی محبت
۹۷ کی طرف کھنچا چلا جائے گا اور ہزار صلح بھی ہو رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والی قوم سے صلح نہیں رکھ سکے گا کیونکہ اس کے ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ جنگل کے درندوں او ربَن کے سانپوں سے تو وہ صلح کرلے لیکن ان بد بخت لوگوں سے صلح نہ کرے جو اس مقدس وجود کو گالیاں دیتے ہیں جس کے احسان کے نیچے ہماری گردنیں جھکی پڑی ہیں اور جس کی جوتیوں کی خاک ہمارے سروں کے لئے باعث ِعزت ہے.تیسرا امر جس کے بغیر صلح مکمل اور دیرپا نہیں ہو سکتی یہ ہے کہ اقوام آپس میں معاہدہ کریں کہ مذہبی مناقشات اور مباحثات میں محبت اور تحقیق کو چھوڑ کر لڑائی اور جھگڑے کی طرح نہ ڈالی جائے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیاست کے فیصلے کے ساتھ مذہب کا کیا تعلق ہے لیکن یہ خیال درست نہیں جب دو قوموں میں لڑائی ہوتی ہے تو وہ بھی اسی تک محدود نہیں رہی جس کے متعلق لڑائی ہو بلکہ وہ اپنا دامن وسیع کرتی ہے اور آخر ہرا یک چیز کا احاطہ کر لیتی ہے پس اگر مذہبی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا یا اس کے اسباب موجود رہے تو کبھی بھی صلح قائم نہ رہے گی.مگر سوال یہ ہے کہ مدعا کس طرح حاصل کیا جائے؟ بعض لوگ اس کا یہ علاج بتاتے ہیں کہ مذہبی مباحثات کا سلسلہ ہی بالکل بند کردیا جائے لیکن یہ تدبیر غیر طبعی ہے ایک طرف تو افراد ِملک کے اندر یہ جوش پیدا کرنا کہ ہر اچھی چیز کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور دوسری طرف ان کو مذہب میں دلچسپی لینے سے روکنایہ ایسی متضاد باتیں ہیں کہ کبھی جمع نہیں ہو سکتیں.اورمذہب تو ایسی طاقت ہے کہ اسے یورپ کی مادہ پرستی نہیں دباسکی.ایشیا کی بو ئے عرفان سے بسی ہوئی ہواؤں کی موجودگی میں اس کی شگفتگی کو کون روک سکتا ہے.پس وہی تجویز یہاں کامیاب ہو سکتی ہے جو ایک طرف تومذہب کی حدود میں دست اندازی نہ کرے اور دوسری طرف ایک حد بندیاں مقرر کردے جو فسادات کے احتمال کو یا بالکل روک دیں یا اس حد تک کم کردیں کہ اس کو آسانی اور سہولت سے دبایا جا سکے اور یہ غرض میرے نزدیک صرف ان ہی تجاویز سے پوری ہو سکتی ہے جو الحكم العدل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے پیش فرمائی ہیں.ہم بارہا گورنمنٹ کو ان کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں لیکن گو ر نمنٹ ان کی خوبی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو نا قابل عمل قرار دیتی رہی ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ گورنمنٹ کا یہ جواب درست نہیں.یہ تجاویز بآسانی عمل میں آسکتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے ملک میں امن قائم کیا جا سکتا ہے اور میں آج آپ لوگوں کے سامنے ان کو اس امید سے
۹۸ پیش کرتا ہوں کہ شاید گورنمنٹ کے دخل کے بغیر آپس کے سمجھوتے سے ان پر عمل ہو سکے اور ملک میں امن قائم ہو جائے وہ تجاویز یہ ہیں.۱.تمام مذاہب کے پیرو اس امر پر متفق ہو جائیں کہ وہ مذہب کے متعلق کوئی تصنیف باتقریر کرتے ہوئے صرف اپنے مذہب کی خوبیاں ہی بیان کریں گے دوسرے مذہب پر حملہ بالکل نہیں کریں گے.اور ایسا عہد کرنے پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی مذہب کی سچائی اس کی اپنی خوبیوں کے اظہار سے ثابت ہوتی ہے نہ کہ دوسرے مذاہب کے نقائص کے بیان ہے.اگر اس طریق تصنیف و بحث کو لوگ قبول کر لیں تو آئندہ نہ ہی مباحثات اور مناظرات ایسے امن سے ہوں کہ کسی قسم کا فتنہ پیدا نہ ہو.۱؎ اگر اس تجویز کو قبول نہ کیا جائے تو دوسری تجویز یہ ہے کہ.۲ - ہرمذ ہب کے پیرواپنی مسلمہ کتب کے نام لکھوادیں اور جو شخص کسی مذہب کے متعلق کچھ لکھے اس کی مسلمّہ کتب ہی کی بناء پر لکھے.اس وقت دیکھا جاتا ہے کہ محض جوش پیدا کرنے کے لئے قصوں اور کہانیوں کی کتب تلک سے اعتراض درج کر لئے جاتے ہیں اور محض جھوٹی روایات کی بناء پر کتابیں اور مضامین لکھ کر دوسرے فریق کا دل دُکھایا جاتا ہے اس کے ساتھ یہ شرط بھی ہونی چاہئے کہ اپنے مقابل فریق کے مسلّمہ عقائد کے خلاف ان کی طرف کوئی بات منسوب نہ کی جائے.یہ امر بھی فتنہ کو بڑھا تا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل ایک دوسرے کی طرف وہ باتیں منسوب کی جاتی ہیں جو طرفین کے ذہن میں بھی نہیں ہوتیں اعتراض صرف اس امر پر کرنا ہوا ہے جس کا کوئی شخص مدعی ہو نہ کہ اس کی طرف ایک غلط عقیده منسوب کر کے پھر اس پر اعتراض کرنے شروع کردیئے جاویں اگر یہ تجویز قبول نہ کی جائے تو پھر تیسری تجویز ہے.٣.کہ تمام مذاہب کے پیرو آپس میں معاہدہ کریں کہ وہ ایسا اعتراض اپنےمخالف پر نہ کریں جو خود ان کے مسلمات پر بھی پڑتا ہو کیونکہ ایسے اعتراضات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل غرض چِڑانا اور جوش دلانا ہے.اس طریق کو اختیار کرنے سے بھی بہت سے جھگڑے بند ہو سکتے ہیں کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ مختلف مذاہب کے پیرو اکثر اعتراض ایسے کرتے ہیں جو خود ان کے مذہب پر بھی پڑتے ہیں.۲؎ یہ تین تجاویز حضرت مسیح موعودؑ بإنی سلسلہ احمدیہ نے بین الا قوامی مذہبی تعلقات کے بہتر بنانے کے لئے پیش فرمائی ہیں اور ان میں سے کسی ایک پر بھی اگر عمل کیا جائے تو فتنہ بہت کچھ
۹۹ رک سکتا ہے مگر پہلی تجویز پر عمل کرنے سے تو فتنہ کابالکل ہی سد باب ہو جاتا ہے.چوتھا امرجس کا اظہار سمجھوتے کے وقت ہو جانا چاہئے یہ ہے کہ تبلیغ مذہب ہرگز منع نہیں ہوگی اور ہر ایک قوم کا حق ہو گا کہ وہ اپنے مذہب کی اشاعت کرے.جو قوم اس شرط کو قبول کرلیتی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرے گی وہ گویا صریح الفاظ میں اس امر کو تسلیم کر لیتی ہے کہ اس کامذ ہب جھوٹا ہے پس یہ امید کرنی کہ سیاسی سمجھوتے کے ساتھ مذہبی تبلیغ بھی بند کردی جائے یا دوسرے لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کی کو شش ترک کر دی جائے ایک نہ پوری ہونے والی امید ہے بلکہ ایک مجنونانہ خیال ہے جس کو عقل دھکے دیتی ہے ان می بات ضرور طے ہو جانی چاہئے کہ تبلیغ جائز طریقوں سے ہو اور اس کو باہمی مناقشات کا موجب نہ بنایا جائے.مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے مذہب کو قبول کرے تو اس کے جلوس نہ نکالے جائیں یا اس کی آمد پر اس قوم کے متعلق جس میں سے دو آیا ہے طعن اور تشنیع کا طریق نہ اختیار کیا جائے.یا اسی طرح دنیاوی دباؤ سے کسی شخص سے مذہب نہ بدلوایا جائے.یا سیاسی طور پر قوموں کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہ کی جائے.جیسا کہ ملکانوں کے متعلق ہوا کہ ان کو ہندو مذہب کی خوبیوں کے اظہار کے ذریعہ سے ہندو بنانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ مال کی لا لچ زمینداروں کے دباؤ اور اس قسم کی جھوٹی روایات کے ذریعہ سے کہ تم اصل میں ہندو ہو مسلمانوں کے دباؤ سے تمہارے باپ دادوں نے ظاہر میں مسلمان کہلانا شرع کر دیا تھا یا یہ کہ مہاتما گاندھی کو سب مسلمانوں نے اپنا پیشوا تسلیم کرلیا ہے اور ان کا فیصلہ ہے کہ سوراج (حکومت خود اختیار ی.مرتب) تبھی ملے گا جب سب لوگ ایک قوم بن جاو یں وغیرہ وغیرہ مرتد کرنے کی کوشش کی گئی.اسی طرح بعض ہندو ریاستوں جیسے بھرت پور اور اَلور علی الاعلان حکام نے دباؤ سے مسلمانوں کو ہندو کیا اور اب تک کر رہے ہیں یہ طریق، تبلیغ مذ ہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے اور اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کوئی قوم دوسری قوم کو لڑائی کا چیلنج نہیں دے سکتی.پانچویں بات جس کی وضاحت ضروری ہے یہ ہے کہ جو کام ایک قوم کر رہی ہو اس سے وہ دوسری کو روکنے کاحق نہیں رکھتی مثلاً ہندو لوگ مسلمانوں سے چُھوت کرتے ہیں مسلمانوں کو بھی حق ہونا چاہئے کہ وہ ان سے چھوت کریں.اور اگر مسلمان چھوت کی تحریک اپنے بھائیوں میں کریں تو اس پر ہندوؤں کو ناراض نہیں ہونا چاہئے اور اس صلح کے خلاف نہیں سمجھنا چاہتے کیونکہ اگر ہندوؤں کی چھوت کرنے کے باوجو د ہندو مسلمان کی صلح ہو سکتی ہے تو کیوں مسلمان
۱۰۰ کے چُھوت کرنے سے صلح میں فرق پڑ جاتا ہے.ہندو صاحبان بیان کرتے ہیں کہ ہمارا تو یہ مذہبی علم ہے لیکن بفرض محال اگر ان کی یہ بات درست بھی ہو تو بھی اسی عذر کی وجہ سے مسلمانوں کا حق مارا نہیں جاتا کیونکہ گو ہندو مذ ہبی علم کی بناء پر چُھوت کرتے ہوں لیکن ان کے اس عمل کا لازمی نتیجہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کا کروڑوں روپیہ سالانہ ہندوؤں کے گھروں میں جارہا ہے اور ہندوؤں کا روپیہ مسلمانوں کی طرف نہیں آتا اور اس کے سبب سے دولت ہندوؤں کے گھروں میں جمع ہو رہی ہے اور مسلمانوں کو مالی طور پر سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور ان کی طاقت کمزور ہوتی جارہی ہے.اول تو ہندو تجارت میں مسلمانوں سے یونہی بڑھے ہوئے ہیں.پھر اس چُھوت کے مسئلہ نے کھانے پینے کی چیزوں کی تجارت چو ملک کی سب بڑی تجارتوں میں سے ہے بالکل ان کے قبضہ میں دیدی ہے میں مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ایسے طریق اختیار کریں جن سے ان کا قومی وقار قائم رہے اور ان کی دولت محفوظ رہے اور ان کے اس فعل کو منافی صلح نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ صلح کے یہ معنے نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو برباد کر دے.چھٹی بات جس کا فیصلہ صلح کے قیام کے لئے ضروری ہے وہ مختلف اقوام کے حقوق کا تصفیہ ہے جو نیابتی مجالس اور خدمات سرکاری کے متعلق مختلف اقوام کو حاصل ہونے چاہئیں.اس امر کے تصفیہ میں پہلے سخت غلطی ہو چکی ہے مسلمانوں اور ہندوؤں کا پہلا سمجھوتہ یہ تھا کہ ان صوبوں میں جہاں کہ مسلمان کم ہیں ان کی تعداد آبادی کی نسبت سے نیابتی مجالس میں ان کو زیادہ حق دیا جائے اور جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہاں ہندوؤں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے.اس سمجھوتے میں دو نقص تھے.ایک تو یہ کہ یہ سمجھو تہ دو قوموں میں تھا حالانکہ ہندوستان میں کئی قومیں بستی ہیں اس سوال کا کوئی حل نہیں سوچا گیا تھا کہ اس تقسیم کے وقت دوسری قوموں کو کس نسبت سے حق نیابت دیا جائے گا چنانچہ پنجاب میں سکھوں کی موجودگی کی وجہ سے اس سمجھوتے نے مشکلات پیدا کر دیں.دوسرا نقص یہ تھا کہ اس سمجھوتے کے ماتحت مسلمانوں کو گو ممبئی ،مدراس، یو پی ،بہار اور سی پی میں ان کی تعداد سے زیادہ حق نیابت مل گیا مگر پھر بھی ان صوبوں میں قلیل التعد اد وہی رہے اور ان کی آواز برادران وطن سے نیچی ہی رہی لیکن اس کے مقابلہ میں پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی کثرت قّلت سے بدل گئی.جب یہ سمجھوتہ ہوا ہے میں نے اسی وقت اس کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی تھی اور واقعات نے میری رائے کی صحت کو ثابت کر دیا ہے مجھے تعجب ہوا جب میں نے دیکھا کہ سمجھوتہ
۱۰۱ کرنے والے لوگ معاملات کی حقیقت سے بالکل ناواقف تھے مجھے پرانی لیگ کے بعض پُر جوش ممبروں سے گفتگو کا موقع ملا ہے.اور میری حیرت کی کوئی انتہاءنہ رہی جب میں نے مسلمانوں کے ان نمائندوں کو مسلمانوں کے حقوق سے بالکل ناواقف پایا.جب میں نے یہ نقص ان لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ مسلمانوں کو سب صوبوں کی مجالس نیابتی میں قلیل التعد اد رہنے کی وجہ سے نقصان پہنچے گا اگر بنگال اور پنجاب میں وہ کثیر التعداد میں رہتے تو یہ بہتر تھا بہ نسبت اس کے کہ دوسرے صوبوں میں ان کو کچھ حق زیادہ مل جاتا کیونکہ پنجاب ہندوستان کا ہاتھ ہے اور بنگال سر.ان دونوں جگہ کی طاقت سے مسلمان باقی صوبوں کے مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھ سکتے تھے تو انہوں نے مجھے جواب دیا کہ صرف پنجاب کی دوفیصدی زیادتی کو قربانی کیا گیا ہے اور نہ بنگال میں تو مسلمان کم ہی ہیں حالانکہ واقع یہ ہے کہ بنگال میں مسلمانوں کی طاقت پنجاب سے بھی بڑھ کر ہے.واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ یہ سودا مسلمانوں کو بہت مہنگاپڑا ہے اور بہت سے فسادات کا موجب ہواہے آئندہ معاہدہ دو قوموں کے درمیان نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایسے اصول پر ہونا چاہئے کہ خواہ کتنی بھی قو میں کیوں نہ ہوں ان کے حقوق کی حفاظت اس معاہدہ ہو کے ذریعہ ہو جائے اور جھگڑے کی صورت ہی پیدا نہ ہو اور نہ یہ نقص ہو کہ کسی قوم کی کثرت قلت میں تبدیل ہو جائے.میرے نزدیک اس کا طریق یہ ہے کہ مسلمان اپنا پہلا مطالبہ کہ ان کو بعض صوبوں میں ان کی تعداد سے زیادہ حق نیابت دیا جائے چھوڑ دیں مدراس یا بہار میں اگر وہ چند ممبریاں زیادہ بھی حاصل کر لیں تو اس سے ان کو اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جس قد ر کہ بعض صوبوں میں ان کی کثرت رہنے سے ان کو فائدہ ہو سکتا ہے.اور آنند ہ نظام اس طریق پر قائم کیا جائے کہ ہر ایک قوم کو اس کی تعداد آبادی کے مطابق حق نیابت ملے.صرف یہ رعایت ہو کہ قلیل التعداد اقوام کو اگر ان کی تعداد اس حد تک پہنچے کہ ان کو نصف ممبری کا حق ملنا ہو تو ان کو ایک پوری ممبری کا حق دیا جائے اور یہ وقت کثیرالتعد او قوم سے دلوایا جائے بشرطیکہ اس کی کثرت قلت سے نہ بدل جائے اور اسی طرح یہ استثناء کیا جائے کہ جو اقوام کہ ملک میں اہمیت رکھتی ہوں لیکن تعداد کے لحاظ سے ان کو ممبری کا حق نہ ملتا ہو ان کو ایک ممبری کا حق دیا جائے ان استثناؤں کے سوا سب اقوام اپنی اپنی تعداد کے مطابق حصہ لیں سوائے ان ممبر یوں کے جو خاص مفاد کی نیابت کرتی ہیں.ان میں قومی سوال کو بالکل اٹھا دیا جائے مگر یہ ممبریاں کم سے کم ہونی چاہئیں اور استثنائی
۱۰۲ صورتوں میں سمجھی جانی چاہئیں.نیابت مجالس کا سوال خواہ مرکزی ہوں یا مقامی وہ تو اس طرح آسانی سے حل ہو سکتا ہے لیکن ملازمتوں کے متعلق حقوق کا سوال زیادہ پیچیدہ ہے میرے نزدیک اس سوال کا کوئی ایساحل نہیں نکل سکتا جو اس سوال کو معقول طور پر حل کردے کیونکہ ملازمتوں کا سوال سودو سو آدمیوں کا سوال نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں کا سوال ہے جس میں کام کی قابلیت کا بھی بہت حد تک دخل ہے مگر فتنہ کے دور کرنے کے لئے میرے نزدیک اگر مذکورہ بالا اصول کے مطابق اس کو بھی حل کیا جائے تو ایک حد تک اس سے مشکل رفع ہو سکتی ہے.لینی ہر قوم کو اس کی تعداد کے مطابق ملازمتوں سے حصہ دیا جائے مگر ایسی پابندی نہ کی جائے کہ تھوڑابہت فرق بھی نہ ہو.اگر کسی قوم کے حقوق میں کسی وقت دس پندرہ فی صدی کا فرق پڑ جائے تو اس کا خیال نہیں کرنا چاہئے ہاں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی قوم مستقل طور پر اس قسم کے فرق اپنے حق میں پیدا کرتی چلی جائے.جس جس صوبہ میں جو قومیں ملازمتوں پر زیادہ قابض ہیں ان کی بھرتی انہی اصول کے ماتحت جو امپیریل سروس میں انگریزوں کی بھرتی کو کم کرنے کے لئے تجویز کئے گئے ہیں کم کر کے دوسری اقوام کو اس وقت تک بڑھایا جائے کہ وہ اپنے جائز حق پر قابض ہو جائیں.اسی طرح تعلیمی اخراجات میں بھی ان قوموں کو زیا دہ حصہ دیا جائے تو تعلیم میں پیچھے ہیں اور چاہئے کہ ترقی یافتہ قومیں اس کو خوشی سے قبول کریں.لیکن ممکن ہے کہ کبھی یہ سوال پیدا ہو جائے کہ کسی خاص کام کے لئے کسی قوم کے آدمی بالکل میّسریہ نہیں آتے یا کم میسّر آتے ہیں اگر ایسا ہو تو اس قوم کی مجلس محافظہ حقوق کو موقع دیا جانا چاہئے کہ اگر وہ آدمی مہیا کر سکتی ہو تو کر دے.لیاقت کے معیار کے لئے یہ کافی ہو نا چاہئے کہ امیدوار اس امتحان میں کامیاب ہو چکا ہو جس امتحان کا پاس کرنا اس کام کے لئے شرط مقرر کیا گیا تھا.چھوٹی شرط معاہدہ صلح کی یہ ہونی چاہئے کہ ہر ایک قوم کا انتخاب اس کی اپنی قوم کے افراد کے ذریعہ سے کیا جائے یعنی نہ صرف یہ شرط ہو کہ ہر ایک قوم کو اس کی تعداد کے مطابق نیابت دی جائے بلکہ یہ بھی شرط ہو کہ ہر قوم کے نمائندے صرف اسی کے ووٹوں سے منتخب کئے جائیں ورنہ طاقتور اور ہوشیار قو میں دوسری اقوام کے ایسے ممبروں کے منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں کی جو اپنی قوم کا نمائندہ کہلانے کی بجائے دوسری زبردست یا زیادہ تعلیم یافتہ قوم کا نمائندہ
۱۰۳ کہلانے کے لئے زیادہ حقدار ہوں گے.ساتویں احتیاط یہ ضروری ہے کہ ایسے قواعد تجویز کئے جائیں کہ جن کی موجودگی میں کثیر التعداد قو میں قلیل التعداد قوموں پر ظلم نہ کر سکیں یا ایسے قواعد نہ بنا سکیں جو ان کے عقائد یا احساسات کے خلاف ہوں.پچھلے سمجھوتے میں اس کا تدارک کرنے کے لئے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ کسی کے مذہب کے متعلق کوئی ایسا قاعدہ نہیں بتایا جا سکے گا جب تک اس قوم کے تین چوتھائی نمائندے اس کے ساتھ متفق نہ ہوں لیکن یہ سمجھو تہ کافی نہیں تھا.مذہبی امور میں دست اندازی بھی گو ممکن ہے لیکن اس تعلیم کے زمانہ میں ایک قوم دوسری قوم پر اس طرح ظلم نہیں کیا کرتی کیونکہ اسے خوف ہوتا ہے کہ دنیا کی رائے عامہ اس کے خلاف ہو جائے گی.پس اس امر کا چنداں خوف نہیں کہ کوئی حکومت بھی اس امر کا قانون بنانا چاہے کہ مسلمان روزے نہ رکھیں یا یہ کہ نماز نہ پڑھیں یا یہ کہ حج نہ کریں.جس امر کا خوف ہو وہ یہ ہے کہ ایسے قوانین نہ بنائے جائیں جو بظاہر تو سیاسی یا تمدنی ہوں لیکن ان کا اثر دوسری قوم کے مذہب یا اس کے وقار کے خلاف ہو.مثلاً گائے کی قربانی کو بند کر دیا جائے اور مذ ہبی سوال کی بناء پر نہیں بلکہ یہ کہہ کر کہ ملک میں گائیں کم ہو گئی ہیں اس لئے زراعت اور دودھ، گھی کی حفاظت کے لئے ایسا کیا جا تا ہے اور یہ تمدنی سوال ہے نہ مذہبی نہیں.یا یہ کہ ایک سے زیادہ شادیوں کا قانون پاس کر دیا جائے.یہ ایسے امور ہیں کہ بظاہر تمدنی نظر آتے ہیں لیکن ان مسائل میں اسلام کو ایک خاص تعلق ہےگائے ہی قربان کرنے کا حکم مسلمانوں کو نہیں ہے لیکن گائے کی قربانی کے معاملہ میں چونکہ ہندو مسلم تعلقات کو دخل ہے اس لئے ایسا قانون سیاسی نہیں بلکہ مذ ہبی دست اندازی سمجھاجائے گا.ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کا حکم اسلام نہیں دیتا مگر چونکہ اس اسلامی رخصت پر دنیا اعتراض کرتی ہے اس امتیاز کے خلاف قانون پاس کرنے کے معنے ہیں یہ ہوں گے کہ اسلام کے احکام کے ناقص ہونے کا فیصلہ دیا گیا ہے کیونکہ ایسے امور کا تقاضا سیاست ملکی نہیں کرتی بلکہ اصلاح تمدن ان کا مقتضی ہو تا ہے پس ان امور میں کسی مذہب کی اجازت کے خلاف فیصلہ کرنے کے یقیناً یہ معنے ہیں کہ اس کی اجازت کو ناواجب قرار دیا گیا ہے.غرض جن امور میں اختلاف اور ظلم کا خوف ہے وہ ایسے امور ہیں کہ جن میں یہ بین الا قوامی اختلاف ہے یا اسلام جن میں دوسری قوموں کے سامنے محل اعتراض ہے پس سمجھوتے میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مذہبی امور میں ایک قوم دوسری قوم کے خلافِ منشاء قانون نہیں بنا سکتی بلکہ
۱۰۴ یہ بھی شرط چاہئے کہ اس کے مخصوص تمدنی قوانین کے خلاف بھی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ ان امور کے متعلق جو دو قوموں میں مابه الزاع ہوں جیسے گائے کی قربانی کا سوال ہے.اور پھر یہ بھی شرط ہونی چاہئے کہ ایسے امور میں نہ صرف مذاہب کے کثیرالتعداد فرقوں کے خیالات کا احترام کیا جائے گا بلکہ اگر قليل التعد اد فرقہ کثیر التعداد کے خلاف ہو تو اس کے لئے بھی کوئی قانون اس کی مرضی کے خلاف نہیں بنایا جائے گا.مثلا ًاگر ایک امرکے متعلق حنفی المذہب ممبر متفق ہو جائیں لیکن شیعہ یا اہلحدیث یا احمدی اس کے خلاف ہوں تو اس مذہبی یا تمدنی اصول پر اثر رکھنے والے قانون کا ان پر نفاذ نہ ہو سکے گا.آٹھویں بات جس کا تصفیہ اصلاح بین الا قوام کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جن کی مدد سے اُس وقت کہ دو قوموں میں جھگڑا پیدا ہو جائے فساد کو روکا جا سکے اور اس کو پھیلنے نہ دیا جائے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے تمام فیصلوں میں اس امر کو بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے اس لئے جب بھی فساد پڑا ہے اس کا رونا بالکل ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ فساد کی صورت کے رونما ہونے کے بعد طبائع جوش میں آجاتی ہیں اور اس وقت ان کو وہی شخص اچھا لگتا ہے جو ان کے جوش کے خیالات کا مؤید ہو ایسے وقت میں بعض شرپسند آدمی اٹھ کر مشتعل شد ہ طبائع کو اور بھی بھڑکا کر ان کے لیڈ ر بن جاتے ہیں اور فساد ان حدود سے نکل جاتا ہے جن میں اسے مقیّد رکھا جاسکتا تھا.دوسرے یہ نقص ہوتا ہے کہ چو نکہ فسادات کے روکنے یا ان کو آگے نہ بڑھنے دینے کے لئے کوئی ذریعہ قبل از وقت مقرر نہیں ہوتا اس بات کے متعلق سوچتے سوچتے کہ اس کا کیا علاج کیا جائے لوگ اس امر سے مایوس ہو جاتے ہیں کہ کوئی بیرونی طاقت ہما ر ا فیصلہ کرے گی اور وہ خودہی فیصلہ کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جس کے جونتائج پیدا ہوتے ہیں ظاہر ہی ہیں.تیسرا نقص یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے صحیح طور سے کسی فریق پر ذمہ داری عائد کی جا سکے اس لئے ذمہ داری کے معیّن نہ ہونے کی وجہ سے ظالم فریق بھی شورمچاتا رہتا ہے کہ میں مظلوم ہوں اور مظلوم فریق کا غصہ اس حالت کو دیکھ کر اور بڑھ جاتا ہے اور یہ نقص بھی ہوتا ہے کہ ذمہ داری کے معین نہ ہونے کے سبب سے تمام فریق کے اہم مذہب بھی طبعاً اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں جس سے مظلوم فریق کے احساسات کو اور بھی ٹھوکر لگتی ہے.
۱۰۵ ان نقائص کے دور کرنے کے لئے عام طور پر ہمیں مندرجہ ذیل اصول کے ماتحت ایک خاص انتظام ہندوستان کی اقوام کے ساتھ مل کر کرنا چاہئے.ہر تین سال کے لئے ایک محکمہ تفتیش تمام اقوام ہند کی طرف سے مقرر کیا جائے جس کا یہ کام ہو کہ بین الا قوامی فسادات کے موقع پر اصل اسباب کو معلوم کرے.اور اس کے متعلق اپنی رپورٹ کو فوراًشائع کرے.اس جماعت میں ہندو مسلمان، سکھ ، پارسی ،ادنی ٰ اقوام اور مسیحیوں وغیرہ کے نمائندے ہوں جن کو مندرجہ ذیل طریق سے یا اور کسی احسن طریق سے منتخب کیا جا سکتا ہے.دو ثُلث نمائندوں کو تو خود ان قوموں کی انجمنیں منتخب کریں اور ایک ثُلث نمائندے تمام اقوام ہند میں سے مذکورہ بالا منتخب شدہ نمائندے منتخب کریں.اس انتخاب میں اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ ہر صوبہ میں اس مجلس کے نمائندے موجود رہیں تاکہ قوم کی نمائندہ جماعت کی اپیل پر فوراً وہ مقام ضرورت پر پہنچ کر واقعہ کی تفتیش کریں اس جماعت مفتشّه کے لئے یہ ضروری ہو نا چاہئے کہ باقاعدہ تفتیش کرے دونوں فریق کو اپنے وکلاء (جن کے لئے یہ شرط نہیں کہ قانونی معنوں میں وکیل ہوں) اور گواہ پیش کرنے کا اور دونوں طرف کے گواہوں پر جرح کا موقع دے اور مفصّل بیانات و جرح لکھ کر بادلیل فیصلہ لکھے.اس جماعت کو بہ رضامندی فریقین صلح کرانے کا بھی حق ہونا چاہئے اس صورت میں اس کو مفصل تحقیقات کرنے کی ضرورت نہ ہوگی اس انتظام کی تفصیل اسی طرح طے کی جاسکتی ہے کہ ہر وقت فساد کے موقع پر ایک قابل اعتماد جماعت تفتیش کے لئے جا سکے اور چونکہ یہ لوگ اختلاف کی صورت کے پیدا ہونے سے پہلے مقرر ہو چکے ہوں گے اس لئے ان لوگوں پر لوگ اعتبار بھی کریں گے اور یہ خود بھی تعصب سے بہت حد تک محفوظ ہو گئے اور جھگڑوں کے مٹانے یا ذمہ داریوں کے قائم کرنے میں بہت مُمِّد ہونگے.اگر صلح نہ ہو اور تحقیقات کی بناء پر ایک فریق پر ظلم ثابت ہو جائے تو اس صورت میں اس فریق کے ہم قوموں یا ہم مذہبوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس کی ہمدردی سے باز رہیں اور اس کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ظلم کی تلافی کرے اور اگر ظالم ایسانہ کرے تو اسے تمدنی سزادیں.اور اگر کوئی قوم اپنے ہم قوم ظالم سے ایسا معاملہ نہ کرے تو سمجھا جائے گا کہ اس قوم نے غداری کی ہے اور معاہدہ کو توڑ دیا ہے.جس وقت تک کہ ملک میں یہ روح نہ پیدا ہو جائے کہ ظالم کی حمایت سے اجتناب کیا جائے
۱۰۶ خواہ ظالم اپنا عزیز ہی کیوں نہ ہو اس وقت تک ضلع ہرگز قائم نہیں رہ سکتی.اور اگر یہ رویّہ رہا کہ شاد آباد کے مظالم پر ہندو ؤں نے پر وہ ڈالنے کی کوشش کی.اور مالا بار کے مظالم پر مسلمانوں نے توصلح کا خیال کبھی بھی حقیقت کا جامہ نہیں پہنے گا اور ملک خونریزی اور فساد کی آفتوں سے کبھی بھی محفوظ نہیں ہو سکے گا.نواں ا مرجوصلح کے دائمی رکھنے کے لئے ضروری ہے اور جس کے بغیر ایک دوسرے پر اعتماد ہو ہی نہیں سکتا وہ یہ ہے کہ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ یہ معاہدات ہمیشہ کے لئے قائم رہیں اور اس امر کا امکان نہ رہے کہ جب کوئی کثر التعداد جماعت اس امر کو محسوس کرے کہ اب مجھے قلیل التعداد جماعتوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں اور میں اس کی مدد کے بغیر کام چلا سکتی ہوں تو وہ ان معاہدات کے خلاف قانون پاس کر دے یا یہ قانون پاس کر دے کہ اب ان معاہدات کی ضرورت نہیں رہی.عام ملکی قواعد کی رو سے ہر ایک حکومت کی کثرت رائے کو ایسا حق حاصل ہے اور وہ ایسا کر سکتی ہے پس اس کا سد باب ضروری ہے کہ آئندہ کبھی ان کو مذکورہ بالا معاہدہ میں تبدیلی نہ ہو سکے مگر ساتھ ہی اس امر کا خیال ضروری ہے کہ بعض حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں وہی قوانین جو آج قلیل التعداد جماعتوں کے لئے رگِ گردن کی طرح ضروری ہیں کل اس جماعت اور تمام ملک کے لئے مُضِرّ ہوں مثلاً انتخاب جداگانہ کا قاعدہ ہی ہے اگر تمام اقوام میں کامل اعتماد پیدا ہو جائے اور دلی کدورتیں بالکل صاف ہو جائیں تو اس وقت اس قاعده پر کاربند رہناایسا ہی مُضِرّ ہو گا جیسا کہ اس وقت اس کا ترک کرنا.پس کوئی ایسی راہ بھی کشادہ رہنی چاہئے جس کے ذریعہ سے ایسے اوقات میں ازالہ نقص کیا جا سکے.ان سب امور کالحاظ میرے نزدیک مندرجہ ذیل اصول کے قبول کر لینے سے ہو جاتا ہے.الف) ان اقوام و مذاہب کو جو اس وقت ہندوستان میں موجود ہیں ہندوستان سے باہر نکالنے یا ان کے حقوق کو دوسری اقوام کے مقابلہ میں محدود کرنے کا فیصلہ کرنے کا بھی کسی کثیر التعد اد جماعت یا جماعتوں کو حق نہ ہو گا.یہ شرط گو اس وقت مضحکہ انگیز معلوم ہوتی ہے لیکن اگر ہندوستانی کے طور پر حکومت خود اختیاری کے متمنّی ہیں تو ان کو ایسے امکانات کے احتمال کو بھی ماننا پڑے گا.اس قسم کا خیال آج سے پندرہ سال پہلے مشرقی افریقہ کے متعلق ایسا ہی محکمہ انگیز تھا جیسا کہ آج کل مذکورہ بالا خیال
۱۰۷ ہندوستان کے متعلق ہو سکتا ہے مگر آج وہ ایک حقیقت بنا ہوا ہے اور ہندوستانیوں کو پریشان کر رہا ہے.(ب) جو امور کہ اس بین الا قوامی معاہدہ میں طے ہوں وہ صرف اسی صورت میں بدلے جاسکیں جب وہ مندرجہ ذیل حالات سے گزر جائیں.(اول) وہ قوم جس پر معاہدہ کے کسی حصہ کے بدلنے کا اثر پڑتا ہے اس کی مجلس نوّاب کے منتخب شدہ نمائندوں کی تین چوتھائی اس تبدیلی کو پسند کرلے (دوم) اس کے بعد جب مجلس نمائند گان کانیا انتخاب ہو تو بشرطیکہ اس انتخاب اور پہلے فیصلہ میں کم سے کم دو سال کا فاصلہ ہو پھر مجلس نمائندگان میں اس تبدیلی کے سوال کو پیش کیا جائے.اگر پھر بھی اس قوم کے نمائندے اس کو قبول کرلیں تو پھر تیسری دفعہ منتخب ہونے والی مجلس نمائندگان میں اس سوال کو پیش کیا جائے بشرطیکہ اس تیسری دفعہ کی منتخب شد ہ مجلس کا انتخاب دوسرے دفعہ کے فیصلہ کے دو سال بعد ہوا ہو.جب اس طرح تین دفعہ کسی قوم کے نمائندوں کے تین چوتھائی ممبر کی اس معاہدہ میں تبدیلی کو پسند اور منظور کر لیں تو ایسی تبدیلی جائز ہو اور اسے کانسٹی ٹیوشن (CONSTITUTION) کی تبدیلی قرار دیا جائے.لیکن اس پر بھی یہ مزید شرط لگائی جائے کہ اگر دس سال کے عرصہ میں پھراس قوم کے مجلس نمائندگان کے ممبر کی وقت کثرت رائے سے اصل معاہدے کی تجویز کردہ حالت کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کریں تو بعد کا تغیر کالعدم ہو کر پراصل معاہده پر عمل کیا جائے.(ج) یہ کہ یہ معاہدہ ملک کی کانسٹی ٹیوشن میں داخل سمجھا جائے اور اس کے خلاف کرنے والی جماعت کو باغی قرار دیا جائے خواہ وہ اس وقت مجلس نمائند گان میں کثرت ہی کیوں نہ رکھتی ہو اور ملک کی حکومت پر قابض ہی کیوں نہ ہو.اور اس کے خلاف ہر ممکن تدبیر کرنے کی اور اصل قانون کو قائم کرنے کی خواہ زور اور طاقت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو دوسری قوم یا قوموں کو اجازت ہو اور ان کا یہ فعل بغاوت قرار نہ دیا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے لوگ ان امور کو قبل از وقت کہیں گے لیکن پچھلی تاریخ اور موجودہ سیاست کے گہرے مطالعہ کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ان امور کے آج ہی سے تصفیہ کر لینے کے بغیر قوموں میں باہمی اعتبار بھی پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ قلیل التعداد قوموں کے حقوق محفوظ رہ سکتے ہیں.ان کے بغیر اگر صلح ہو گی تو اس کے ساتھ یہ منافقت برابر جاری رہے گی کہ مسلمان بیرونی طاقتوں کے گھمنڈ اور ہندو اپنی تعداد، مال اور علم کی زیادتی کے
۱۰۸ فخر میں زبان سے گو کچھ کہیں دلوں میں کچھ اور ہی کھچڑ یاں پکاتے رہیں گے لیکن مذکورہ بالا تدابیر پر عمل کر لینے سے میں امید کر آہوں کے اعتماد اور اعتبار کی صورت پیدا ہو جائے گی اور اختلافات یا پیداہی نہ ہوں گے یا ان کا فو راً سدِّباب ہو سکے گا.اس جگہ یہ بھی لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ان تدابیر پر کامل طور پر عمل تبھی ہو سکتا ہے جب علاوہ قومی مجالس کے کانگرس جو سب ملک کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کی بنیاد بھی انہی اصول پر رکھی جائے جو مسلم لیگ کے متعلق میں اوپر بیان کر چکا ہوں اور حقیقی طور پر سارے ملک کی قائم مقائم ہو جس طرح کہ اب وہ خاص خیال کے لوگوں کی قائم مقام ہے کیونکہ اس صورت میں کانگرس تمام قومی مجالس کے لئے بمنزلہ ایک میزبان کے ہو جائے گی اور معاہدات کی پابندی کرانے میں ایک زبردست آلہ کا کام دیگی مگر جب تک وہ اپنے دروازہ کو سب قسم کے خیالات کے لوگوں کے لئے نہ کھولے اور مخالف خیال رکھنے والی جماعتوں کو اپنے صحن سے باہر کام کرنے پر مجبور کرتی رہے اس سے ایسی امید رکھنی ناممکن ہے.اے برادران! یہ مختصر خاکہ ہے اس سکیم کا جس پر عمل کرنے سے میرے نزدیک مسلمانوں کے اپنے حقوق بھی محفوظ ہو سکتے ہیں اور دوسری قوموں سے بھی ان کے تعلقات درست ہو سکتے ہیں.میں نے باوجود کم فرصتی اور کاموں کی کثرت کے آپ لوگوں کے سامنے اس سکیم کو پیش کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جس اخلاص سے یہ لکھی گئی اسی اخلاص سے آپ اس پر غور فرمائیں گے.مسلمانوں کی بہتری اور ہندوستان کی کل دنیا کے امن کا خیال جس زور سے میرے دل میں موجزن ہے آپ لوگ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ اس امر پر شاہد ہے کہ میرا سینہ آپ لوگوں کی خیر خواہی کے جذبات سے پُر ہے اور میرے دماغ ان خیالات سے معمور – میں یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کا ایک لفظ بھی بدلا نہیں جا ساگر میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کی حقیقت اور اس کا مغز بالکل درست ہے اور خداتعالی کےمنشاء کے مطابق اور اس کی مشیّت کے موافق ہے ان میں سے کئی باتیں ایسی ہیں جن کی پہلے زمانہ مخالفت کرتا تھا مگر آج خود ادھر چلا آرہا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ آئندہ واقعات ان کی تصدیق کر دیں گے مگر انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگ دیکھیں گے کہ ہو گا اسی طرح جس طرح میں نے لکھاہے صلح اور امن دنیا کی اہم ضروریات میں سے ہیں اور اس ذریعہ کو اختیار نہ کریں تو ہم ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.پس جب تک ہم اس ذریعہ کو اختیار نہیں کریں گے جو صلح کے قیام کے لئے ممد ہے
۱۰۹ ہم ہرگز صلح اور امن کا منہ نہیں دیکھ سکتے.آپ لوگ جن کو خداتعالی نے اپنے اپنے علاقہ میں رسوخ اور عزت دی ہے خدا تعالی کے حضور میں دوسروں سے زیادہ جواب دہ ہیں پس چاہئے کہ بِلا تعصّب ان امور پر غور فرما دیں جو میں نے پیش کئے ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی آپ خداتعالی کے حضور میں بھی مبارک گنے جائیں گئے اورآئندہ نسلوں میں بھی آپ کا نام عزت سے قائم رکھا جائے گا.میں اس تحریر کے ذریعہ سے اپنا فرض ادا کر چکا ہوں اور اب آپ سے جدا ہوتا ہوں.وأخر د عؤنا أن الحمد لله رب العلمين * اسلامی اصول کی فلاسفی.ص روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ ۳۱۵ مفهوما) / آریہ دھرم صفحہ ۱۰۳.روحانی خزائن جلده۱۰ ۱۰۳( مفھوما)
احمدیت یعنی حقیقی اسلام از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمو داحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۱۱۳ احمدیت یعنی حقیقی اسلام احمدیت یعنی حقیقی اسلام (تحریر فرموده ۲۴.مئی تا ۶ جون ۱۹۲۴ء) أعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ "الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ () الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ () مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ () إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ () اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ () صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة:2-7) اللھم یا رب الھمنا ما یکون فیہ رضاک وارزقنا تقوٰک و صفِّ خواطرنا و نق افکارنا و جرّءنا علی مقابلۃ الشر و دواعیہ و شجعنا علٰی مخالفۃ الخناس و مساعیہ.اما بعد ہم اللہ تعالیٰ کا بے حد و انتہاء شکر کرتے ہیں جس نے ہمیں ان طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا جو ہمیں اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات ترقی تک پہنچا سکتی ہیں پھر ہمیں علم و عرفان کے پَر دئیے جن کی مدد سے ہم آسمان روحانی تک اُڑ کر پہنچ سکتے ہیں.جس نے ہماری کمزوریوں او رکوتاہیوں کو دیکھ کر روحانی علاج کے اسرار ہمارے لئے کھولے اور اپنے پاس سے علم روحانی کے طبیب ہمارے علاج کے لئے بھیجے جنہوں نے بیماریوں کا علاج کیا اور ہماری طاقت او ر قوت کے بڑھانے کی تدابیر اختیار کیں.اور ہم خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ہمارے دلوں میں اپنی محبت رکھی اور اپنی ملاقات کی تڑپ پیدا کی پھر اس محبت سے ہماری طرف کھینچا گیا اور اپنی ملاقات سے اس نے ہمیں مسرور کیا.جس نے اپنے عشق کا جام ہمیں پلایا اور اپنے وصل کے پیالہ سے ہمیں سیراب کیا جس سے اس تاریکی کے زمانہ میں جبکہ روحانیت کے متلاشی اندھوں کی طرح مارے مارے پھرتے
۱۱۴ تھے اپنے علم کا سورج چڑھایا اور اپنے مامور اور مرسل حضرت احمد علیہ السلام کو مشرقی زمین سے برپا کیا اور اس کی نورانی کرنوں کے ذریعہ سے وساوس اور شکوک کی تاریکی کو پھاڑ دیا.پھر اس نے اپنی رحمت کے بادل برسائے اور اپنے فضل کی ہوائیں چلائیں.اور ہر ایک خشک زمین کو سیراب کیا اور روحانیت اور تقویٰ کی روئیدگی کو نکالا تا دنیا ایک شاداب کھیت کی طرح ہو جائے بعد اس کے کہ وہ ایک خشک جنگل کی طرح تھی اور لوگ زندگی اور خوشی کا سانس لیں بعد اس کے کہ وہ مر چکے تھے اور مرجھا گئے تھے.ہم اس کے نبی محمد ﷺ پر بھی درود بھیجتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ چشمہ پھوٹا جو کبھی خشک نہ ہو گا اور وہ علم کا دروازہ کھولا گیا جو تلاش کرنے والوں کے لئے کبھی بند نہ ہو گا.اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق دنیا کو راستی اور ہدایت کی طرف لائے اور حق کو قبول کرنے کی اس کو توفیق دے تا تمام دنیا میں امن اور صلح کا دَور دَورہ ہو اور روز مرہ کے جھگڑے اور فساد دور ہوں اور تا لوگ اس حقیقی راحت کو پالیں جو بغیر خدا تعالیٰ سے ملنے کے کبھی نہیں مل سکتی.اللھم اٰمین اس کے بعد میں خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس کلام کی تائید میں جو اس نے تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم میں نازل فرمایا تھا بانیان ریلیجس کانفرنس کو اس جلسہ کے انعقاد کی توفیق عطا فرمائی وہ کلام یہ ہے:.وَالصَّافَّاتِ صَفًّا () فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا () فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا () إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ () رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ () إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ () وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ(الصافات:2-8) یعنی میں اس امر کی شہاد ت کے طور پر کہ خدا کا دین ہی آخر غالب رہے گا ان مجالس کو پیش کرتا ہوں جہاں لوگ قطاروں میں بیٹھیں گے اور اس جماعت کو پیش کرتا ہوں جو انتظام کرے گی اور کسی کو اپنے دائرہ عمل سے باہر نہیں جانے دے گی اور ان لوگوں کو پیش کرتا ہوں جو اس وقت مذاہب کی خوبیوں پر مضمون پڑھیں گے.ان سب کی کوششوں کا آخر یہی نتیجہ نکلے گا کہ خدا ایک ہے آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب.وہ مشرقوں کا بھی ویسا ہی رب ہے (جس طرح مغربوں کا) اور یہ کہ ہم نے اس روحانی بلندی کو جو سب سے قریب کی ہے ستاروں سے منور کیا ہے اور ان کا یہ کام بھی مقرر کیا ہے کہ وہ ہر ایک اس شخص کے حملہ سے سچے دین کو بچائیں جو لوگوں کو حق سے دو رکرتا ہے اور خدا کی اطاعت سے باہر نکل گیا ہے
۱۱۵ اس کے بعد میں اس مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس پر بولنے کی مجھ سے خواہش کی گئی ہے یعنی احمدیت.لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس کے مذہبی پہلو پر روشنی ڈالوں میں احمدیت کی مختصر تاریخ اور اس کی موجودہ وسعت اور قوت کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں.احمدیہ سلسلہ کی بناء حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے (23 مارچ) 1889ء میں قریباً 54 سال کی عمر میں رکھی اور قادیان میں جو آپ کا وطن ہے اور جو این ڈبلیو ریلوے کے سٹیشن بٹالہ سے گیارہ میل شمال مشرق پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اس کا مرکز تجویز کیا.باوجود اس سخت مخالفت کے جو آپ کی تمام مذاہب ہند نے کی اور اس غیر ہمدردانہ بلکہ بعض اوقات مخالفانہ رویہ کے جو گورنمنٹ نے آپ سے برتا آپ کا سلسلہ تما م اکناف ہند میں بڑھنا شروع ہوا حتیٰ کہ آپ کی وفات کے وقت جو 1908ء میں ہوئی احمدیہ جماعت کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ گئی تھی اور یہ سلسلہ ہندوستان سے نکل کر عرب اور افغانستان میں بھی پھیل چکا تھا.آپ کی وفات کے بعد سلسلہ کے امام حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب منتخب ہوئے او رآپ کی وفات پر جو 1914ء میں ہوئی یہ عاجز جماعت کا امام منتخب ہوا.(ابتدائے اسلام کی طرح احمدیہ جماعت کا بھی ایک امام مقرر ہوتا ہے جسے جماعت منتخب کرتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود کی اولاد یا خاندان میں سے ہو جیسے کہ حضرت خلیفہ اول کوئی حسبی یا نسبی تعلق حضرت مسیح موعود سے نہیں رکھتے تھے اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ آپ کے خاندان میں سے نہ ہو (جیسا کہ یہ عاجز حضرت مسیح موعود کی فرزندی کی عزت رکھتا ہے) اس وقت یہ سلسلہ تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے ممبروں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے جن میں سے بڑا حصہ ہندوستان اور اس کے قریب کے علاقوں میں ہے.اس مخالفت شدید کے سبب سے جو اس سلسلہ کے افراد سے کی جاتی ہے بہت سے لوگ مخفی طور پر احمدی ہیں لیکن ظاہر طور پر شامل نہیں ہو سکتے چنانچہ ایسے لوگ ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مسلمان فرقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں.اس سلسلہ میں ہر قوم اور طبقہ کے لوگ شامل ہیں اعلیٰ اقوام کے بھی اور نام نہاد ادنیٰ اقوام میں سے بھی.چنانچہ پچھلے دو سال کے عرصہ میں ان قوموں میں سے جن کو لوگ ادنیٰ سمجھتے ہیں پنجاب اور یوپی میں تین ہزار کے قریب آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور ہر مہینے میں یہ جماعت بڑھ رہی ہے اسی طرح حیدر آباد کی ادنیٰ اقوام میں سے بھی پچھلے سال کے اندر کئی سو آدمی اس سلسلہ کی تربیت کے نیچے آیا ہے.
۱۱۶ ملکی لحاظ سے جماعت احمدیہ ہندوستان کے ہر صوبہ میں ہے کوئی صوبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں اس جماعت کے افراد نہ پائے جاتے ہوں.افغانستان کے دونوں حصوں یعنی پشتو بولنے والے اور فارسی بولنے والے دونوں علاقوں میں جماعت موجود ہے.ہندوستان کے جنوب کی طرف سے سیلون، برما، ملایا سٹریٹس سیٹلمنٹ میں بھی جماعت موجود ہے.سیلون سے دو اخبار بھی جماعت کے نکلتے ہیں ایک ملایا میں اور ایک انگریزی میں.چین میں تبلیغ کا سلسلہ باقاعدہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ ایک ترکی پارلیمنٹ کے ممبر کی ایک کتاب سے جو انہوں نے اپنی سیاحت کے متعلق لکھی ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی جماعت ہے گو اندرون ملک کی جماعت کا مرکز سے ابھی تک تعلق قائم نہیں ہوا.جزیرہ فلپائن اور سماٹرا کے کچھ لوگ بھی سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں.شمالی اور مغربی ایشیائی علاقوں میں سے ایران، بخارا، عراق، ولایت، موصل، عرب اور شام میں جماعت احمدیہ پائی جاتی ہے افریقہ کے علاقوں میں سے مصر، یوگنڈا، مشرقی افریقہ، زنجبار، جرمنی، جزیرہ ماریشس، نٹال (جنوبی امریکہ)، مراکش، الجزائر، سیر الیون، گولڈ کوسٹ (گھانا) اور نائیجیریا میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.اور جزیرہ ماریشس، نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ اور مصر میں باقاعدہ مشن بھی قائم ہیں اور ماریشس سے ایک اخبار سلسلہ کی تائید میں فرانسیسی زبان میں نکلتا ہے.یورپ کے علاقوں میں سے اب تک صرف انگلستان اور فرانس میں جماعت ہے اور انگلستان میں مشن بھی دس سال سے قائم ہے.امریکہ میں صرف تین سال سے مشن قائم ہوا ہے اور اس وقت یونائیٹڈ سٹیٹس میں ایک ہزار کے قریب آدمی سلسلہ میں داخل ہو چکا ہے.اسی جگہ سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی مشن کی طرف سے نکلتا ہے.یونائیٹڈ سٹیٹس کے علاوہ جزیرہ ٹرینیڈاڈ اور جنوبی امریکہ کی ریاست ہائے برازیل اور کوسٹوریکا میں بھی جماعت ہے.جزائر میں سے آسٹریلیا اس نعمت عظمیٰ میں حصہ دار ہے اور ہم اللہ تعالیٰٰ کے کلام کی بناء پر یقین رکھتے ہیں کہ ابھی زیادہ دن نہیں گذریں گے کہ سب دنیا اس نعمت سے حصہ لے گی.سلسلہ احمدیہ کے امتیازی مسائل ہر ایک شخص کےد ل میں طبعاً یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس قدر مذاہب اور سلسلوں کی موجودگی میں سلسلہ احمدیہ کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ لہٰذا میں مذہبی امور میں سے سب سے پہلے اس مسئلہ کو لیتا ہوں.ہر ایک شخص جو کسی الہامی مذہب سے تعلق رکھتا ہے اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ
۱۱۷ خدا تعالیٰ کی طرف سے وقتاً فوقتاً انبیاء آتے رہے ہیں دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے لوگ نہ پائے جاتے ہوں.دنیا کی ترقی انہی لوگوں سے وابستہ ہے او ران لوگوں کو علیحدہ کر کے دنیا میں تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر:25) کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی نبی نہ گذرا ہو.قدیم تاریخ کی ورق گردانی اور آثار قدیمہ کا تجسس ہمیں زیادہ سے زیادہ اس حقیقت کا معتقد بناتا جاتا ہے اور یہ تحقیق بنی نوع انسان میں یگانگت پیدا کرنے کا بہت بڑا موجب ہو رہی ہے جس کا سہرا قرآن کریم کے سر ہے جس نے اس حقیقت کو سب سے پہلے بیان کیا ہے.جب ہم ان انبیاء کی آمد کی غرض کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بعثت کا داعی ہمیشہ دنیا میں سے روحانیت کا مٹ جانا اور خدا تعالیٰ سے تعلق کا قطع ہو جانا رہا ہے.یہ لوگ ہمیشہ اس بادل کی طرح آتے رہے ہیں جو بارش کے ایک لمبے عرصہ تک بند رہنے کے بعد آتا ہے اور دنیا کو سرسبز و شاداب کر دیتا ہے.یہ لوگ خدا تعالیٰ کا وہ جواب ہوتے ہیں جو متلاشی دنیا کی پکار کے نتیجہ میں آسمان سے بھیجا جاتا ہے یا وہ نرسنگا ہوتے ہیں جو شکار کا پیچھا کرنے والے شکاریوں کو جب وہ جنگل میں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اکٹھا کرنے کے لئے وہ شکاری بجاتا ہے جس کے سامنے شکار ہوتا ہے.دنیا ا سکے ذریعہ سے پھر صداقت پر جمع ہوتی ہے اور منزل مقصود کی طرف قدم بڑھاتی ہے.یہ سلسلہ نبوت جس طرح ہمیشہ سے چلا آیا ہے ہمارے نزدیک اسی طرح آئندہ چلا جائے گا اور وہ کسی وقت بند نہ ہو گا کیونکہ عقل انسانی اس سلسلہ کے بند ہونے کے خیال کو رد کرتی ہے.اگر دنیا میں تاریکی اور خدا تعالیٰ سے دوری کے زمانے آتے رہیں گے تو یہ سلسلہ بند نہ ہو گا.اگر وقتاً فوقتاً لوگ اصل راستہ کو چھوڑ کر گمراہی کے گھنے جنگلوں میں راستہ کھوتے رہیں گے اور سچے راستہ کی طرف پہنچنے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہوتی رہی گی اور وہ ہدایت کی جستجو کرتے رہیں گے تو ایسے لوگوں کی آمد کا انقطاع بھی ناممکن ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت کی شان کے خلاف ہے کہ وہ درد کو تو پیدا کرے مگر علاج پیدا نہ کرے.تڑپ تو دے مگر ملاقات کے سامانوں کو مٹا دے.ایسا خیال اس سرچشمۂ رحم پر بدظنی ہے اور روحانی نابینائی کی علامت.اس عام قاعدہ کے ماتحت ہم لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اس وقت ایک ہادی اور رہنما کی ضرورت تھی جو دنیا کو خدا تعالیٰ کا راستہ دکھائے اور شک و شبہ کی زندگی سے نکال کر یقین اور وثوق کے مرتبہ تک
۱۱۸ پہنچائے.اے بھائیو! اگر دنیا کبھی کسی نبی کی محتاج تھی تو وہ آج اس سے بڑھ کر محتاج ہے.مذاہب کی جڑ آج کھوکھلی ہو رہی ہے اور دنیا میں تین ہی کے لوگ نظر آتے ہیں یا تو وہ جو مذہب کی ضرورت کو ہی خیرباد کہہ چکے ہیں اور خدا تعالیٰ کو یا تو بکلّی جواب دے چکے ہیں یا اس پر ان کو ویسا ہی ایمان ہے جیسا کہ پہاڑوں اور دریاؤں پر کیونکہ اس کا وجود ان کی روز مرہ کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالتا.اگر وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے تو بھی ان کے اعمال میں کوئی تغیر واقع نہ ہو اور اب جو وہ کہتے ہیں کہ خدا ہے تو اب بھی اس کااثر ان کے اعمال پر کچھ نہیں ہے.یہ لوگ یہاں تک کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم اپنی حریت کو خدا تعالیٰ کے لئے بھی نہیں چھوڑ سکتے اور اپنے وقار کو خدا تعالیٰ کے سامنے دعا اور عاجزی کر کے صدمہ نہیں پہنچانا چاہتے.دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے تو قائل ہیں اور اس کی طاقتوں پر بھی یقین رکھتے ہیں لیکن وہ اس پیاسے کی طرح ہیں جو ریگستان کے ٹیلوں کے درمیان راستہ بھول جاتا ہے او رمیلوں میل تک اسے پانی کا ایک قطرہ نہیں ملتا.جوں جوں وہ پانی کی تلاش کرتا ہے اس کی پیاس اور بڑھتی جاتی ہے اور اس کی گھبراہٹ ترقی کرتی جاتی ہے مگر اس کا پھرنا اور چکر لگانا اس کو نفع نہیں دیتا.وہ ایک سراب سے دوسرے سراب تک جاتا ہے اور بھی دور ہوتا جاتا ہے اور آخر موت کے قریب پہنچ جاتا ہے.تیسرا گروہ وہ ہے جو اپنی قسمت پر خوش ہے اور اپنی حالت پر قانع ہے مگر اس لئے نہیں کہ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی فطرت کے تقاضے پورے ہو چکے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ ہمت ہار چکا ہے اور خدا کے فضل سے مایوس ہو چکا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے فضل پہلوں پر ختم ہو چکے ہیں.میں اس کے سوتیلے بیٹے کی طرح ہوں جسے وہ اپنے مال کا وارث نہیں قرار دیتا اس لئے میرے لئے وہی کافی ہے جو پہلوں کے دستر خوان سے اٹھا اور جو ان کی مہربانی نے مجھ تک پہنچا دیا.مگر یہ تینوں حالتیں غیر طبعی ہیں نہ پہلے گروہ کی بے اعتنائی اس کو فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ دوسرے گروہ کی بے فائدہ جد و جہد اور نہ تیسرے گروہ کی قناعت.جو چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے وہ خدا کا عرفان ہے جو تمام تاریکیوں کو مٹا کر انسان اور خدا تعالیٰ کے درمیان سے سب پردے ہٹا دیتا ہےاو ر بندے اور خد اکو ایک جگہ جمع کر دیتا ہے اور مذہب کو ایسی صورت میں انسان کے سامنے پیش کرتا ہے کہ اس کا دل اسے قبول کر لیتا ہے اور اس کی عقل تسلی پا جاتی ہے اور یہ بات نہ آج تک نبیوں کے بغیر دنیا کو حاصل ہوئی ہے نہ آئندہ ہو سکتی ہے.
۱۱۹ اے بھائیو! ذرا غور تو کرو کہ اس وقت کونسا مذہب ہے جس کے متبع اس امر کے دعویدار ہوں کہ انہوں نے وہ کچھ پا لیا ہو جو پہلے نبیوں کے ذریعے سے دنیا کو ملا تھا؟ کیا یہ امر درست نہیں کہ لوگ اس امر پر قانع ہیں کہ انعامات پہلوں پر ہی ختم ہو چکے یا مذہب کو ہی جواب دے چکے ہیں یا یہ سمجھتے تو ہیں کہ ان کو سب کچھ مل گیا؟ مگر ان کی مثال اس معمول کی طرح ہے جو مسمریزم کے اثر کے نیچے بیسیوں غیر معقول امور کو تسلیم کرتا ہے لیکن دوسرے دیکھنے والوں کو کچھ بھی نظر نہیں آتا.اگر یہ سچ ہے اور ضرور ہے تو آج بھی دنیا کو اسی طرح ایک نبی کی ضرورت ہے جس طرح کہ پہلے زمانوں میں تھی اور اسی وجہ سے احمدی جماعت اس امر کی معتقد ہے کہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ سے کھلا ہے اور کھلا رہے گا اور یہ کہ موجودہ زمانہ نہایت زور سے ایک نبی کی ضرورت کی شہادت دے رہا ہے.مگر ہم لوگ اپنے عقیدہ کی بناء صرف زمانہ کی شہادت پر ہی نہیں رکھتے بلکہ پہلے نبیوں کی شہادت پر بھی ہمارے عقیدے کی بنیاد ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک مذہب کے پیشواؤں نے ایک آنے والے نبی کی بشارت دی ہے جیسے ہندوؤں میں نہہ کلنک اوتار کی پیشگوئی ہے جس کے وہ اب تک منتظر ہیں، مسیحیوں میں مسیح کی آمد ثانی کی، مسلمانوں میں مہدی اور مسیح موعود کی، زردشتیوں میں موسیو در بہمی کے آنے کی پیشگوئیاں ہیں.اگر آئندہ سلسلہ نبوت دنیا سے بند ہو چکا ہوتا تو یہ سب قومیں ایک آنے والے کے متعلق کیوں متفق ہوتیں؟ پھر ایک اور عجیب بات ہے جو ہم ان پیشگوئیوں میں دیکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ علامات جو ان موعود نبیوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں.سب کی سب پیشگوئیوں میں اس زمانہ میں بدیوں کی کثرت، بیماریوں کی زیادتی، ستاروں کا ٹوٹنا، سورج اور چاند گرہن کا لگنا اور لڑائیوں کا ہونا وغیرہ علامات بتائی گئی ہیں اور کام بھی ان موعودوں کا ایک ہی بتایا گیا ہے یعنی اس وقت ان کے ذریعہ سے سب دنیا پر صداقت پھیل جائے گی اور مذہب حقہ کو غیر معمولی طور پر دوسرے دینوں پر غلبہ ملے گا جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں ہوا.اب ایک طرف تو ان پیشگوئیوں کا اپنے وقت پر پورا ہو جانا بتاتا ہے کہ یہ پیشگوئیاں جھوٹی نہیں ہیں.دوسری طرف ان موعودوں کا مقررہ کام اس امر کو ناممکن قرار دیتا ہے کہ ایک ہی وقت میں اس قدر موعود اپنے اپنے مذہب کو سارے ادیان پر غالب کریں.پس لازماً یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ پیشگوئیاں ایک ہی شخص کے متعلق ہیں جو اس غرض کے لئے آئے گا کہ اپنی قوت قدسیہ
۱۲۰ سے سب ادیان کو ایک جگہ جمع کر دے اور سب قومیں اس کے ذریعہ سے سچا راستہ دیکھیں.لیکن جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب پیشگوئیاں ایک ہی موعود کی خبر دے رہی ہیں وہاں ان پیشگوئیوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس موعود کو ایسی خصوصیات بھی حاصل ہوں گی جن کے سبب سے تمام اقوام اس کو اپنا ہی سمجھیں گی.اس کو ہندوؤں سے بھی ایسا تعلق ہو گا کہ وہ اسے اپنا نہہ کلنک اوتار قرار دے سکیں گے اور فارسیوں سے بھی اسے ایسا تعلق ہو ا کہ وہ اسے اپنا موسیو در بہمی سمجھ سکیں گے اور مسلمانوں سے بھی اسے ایسے تعلق ہو گا کہ وہ اسے اپنا مہدی کہہ سکیں گے اور مسیحیوں سے بھی اسے ایسا تعلق ہو گا کہ وہ اسے اپنا مسیح مان سکیں گے اور یہ تعلق اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ مختلف نسبتوں کے ذریعہ سے مختلف قوموں کی طرف منسوب ہو.مثلاً کسی قوم کے ساتھ اسے مذہبی تعلق ہو، کسی قوم کے ساتھ نسلی تعلق ہو، کسی قوم کے ساتھ ملکی تعلق ہو اور کسی قوم کے ساتھ سیاسی اور تمدنی تعلق ہو حتیٰ کہ ہر قوم اس کو اپنا قرار دے سکے.ہم احمدی جماعت کے لوگوں کا یہ مذہب اور یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب باتیں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ میں جمع ہو جاتی ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مفاسد کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا ہے آپ اپنے دعویٰ کے مطابق مسیحیوں کے لئے مسیح تھے اور مسلمانوں کے لئے مہدی اور ہندوؤں کے لئے کرشن یا نہہ کلنک اوتار اور زردشتیوں کے لئے موسیو دربہمی.غرضیکہ آپ ہر ایک قوم کے موعود نبی تھے اور سب دنیا کو ایک مذہب پر جمع کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے آپ کے وجود میں اللہ تعالیٰٰ نے سب قوموں کو امیدوں اور آرزوؤں کو جمع کر دیا.آپ وہ صلح کا گنبد تھے جس میں ہر ایک قوم آ کر اپنے پیدا کرنے والے کے آگے جھکی.اور وہ کھڑکی تھی جس میں سے سب قوموں نے خدا کو دیکھا اور وہ نقطہ مرکزی تھے جس پر دائرہ کے سب خط آ کر جمع ہوئے.پس آپ کے ذریعہ سے دنیا کی صلح اور آشتی مقدر ہے آپ ایرانی النسل ہونے کے سبب سے زردشتیوں کے موعود تھے، ہندوستانی ہونے کے سبب سے ہندوؤں کے موعود تھے، مسلمان ہونے کے سبب سے مسلمانوں کے موعود تھے اور مسیح موعود تھے اور مسیح کا نام پانے کے سبب سے اور ان تمدنی نقائص کا علاج لانے کے سبب سے جو مسیحی ممالک میں پائے جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے مسیحی ممالک کی عام آبادی کی پیٹھ جھکی جاتی ہے اور مسیحیوں کی حکومت میں پیدا ہونے کے سبب سے اور مسیح کی عزت کو ان کے حملوں سے
۱۲۱ بچانے کے سبب سے جو ہزاروں سال سے اس پر کئے جاتے تھے مسیحیوں کے موعود کہلانے کے مستحق تھے اور انہی چار قوموں پر بس نہیں آپ دنیا کی ہر ایک قوم کی قدیم اخبار کو پورا کرنے والے اور ساری دنیا کی امیدوں کو برلانے والے تھے.کہا گیا تھا کہ آنے والا موعود مشرق سے ظاہر ہو گا چنانچہ آپ مشرق سے ظاہر ہوئے.اور کہا گیا تھا کہ مسیح کی آمد سے پہلے جھوٹے مسیح ظاہر ہوں گے.سو ایسا ہی ہوا کہ آپ کے دعویٰ سے پہلے کئی مسیحیت کے مدعی پیدا ہوئے جن میں سے بعض قریب تھا کہ بہت سے سمجھداروں کو بھی گمراہ کر دیتے.لڑائیاں ہوئیں، طاعون پڑی، قحط پڑے، مگر آخر وہ علامت ظاہر ہوئی جسے انجیل اور زردشتیوں کی کتاب جاپاسی نے تو ان عام الفاظ میں بیان کیا ہے کہ سورج اور چاند اندھیرے ہو جائیں گے مگر اسلامی کتب میں اس کو زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے یعنی بتایا گیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں سورج کو اس کی گرہن کی تاریخوں میں سے دوسری کو اور چاند کو اس کی گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ کو مہدی کے زمانہ میں گرہن لگے گا او ریہاں تک زور دیا گیا تھا کہ یہ علامت مہدی سے پہلے کسی مدعیٔ مہدویت کے لئے مقرر نہیں کی گئی.چنانچہ یہ نشان بھی پورا ہوا اور اس نشان نے تمام مدعیان مسیحیت اور مہدویت کے مقابلہ میں آپ کے دعوے کو ممتا زکر کے دکھایا.یہ گرہن 1894ء میں آپ کے دعوے کے چوتھے سال رمضان کے مہینہ میں عین انہی تاریخوں میں جو بتائی گئی تھیں لگا اور یہ عجیب بات ہے کہ گو کئی مدعی مہدویت اور مسیحیت کے پہلے گذرے ہیں کسی کےز مانہ میں یہ نشان ظاہر نہیں ہوا.آپ کے زمانہ میں وہ غیر معمولی حالت بھی پیدا ہوئی جو پہلی کتب میں بتائی گئی تھی اور اس زمانہ سے پہلے کبھی دنیا میں اس کا ظہور نہیں ہوا.یعنی کہا گیا تھا کہ اس زمانہ میں اس قدر امن بھی ہو گا کہ بچے سانپوں سے اور بکریاں بھیڑیوں سے بے خوف کھیلیں گی لیکن لڑائیاں بھی بکثرت ہوں گی گویا امن اور جنگ ایک ہی وقت میں دنیا میں پائے جائیں گے.چنانچہ یہ بات نہایت
۱۲۲ ممتاز طور پر آج کل دنیا میں نظر آتی ہے کہ ایک طرف تو حب الوطنی کے جذبات اس قدر ترقی پر ہیں کہ ان کے اثر کے ماتحت تمام اقوام کا اندرونی انتظام پہلے زمانوں کی عام حالت سے بدرجہا اچھا ہے اور وہ جھگڑے اور لڑائیاں اور لوٹ مار جو پہلے زمانوں میں ملکوں میں ہوتی تھی اب دنیا کے بیشتر حصہ سے مفقود ہے مگر اس کے مقابلہ میں بین الاقوام تعلقات بالکل خراب ہیں اور ہر قوم دوسری قوم سے خائف و ترسان ہے اور قومی حسد انتہاء کو پہنچ گیا ہے.ان کے علاوہ مسلمانوں میں آنے والے موعود کی نسبت نہایت تفصیل سے پیشگوئیاں موجود ہیں وہ سب اپنے اپنے رنگ میں پوری ہو چکی ہیں.مثلاً یہ کہ اس موعود کی پیدائش کے زمانہ میں ایک نئی سواری ایجاد ہو گی جس کے سبب سے اونٹ ترک کر دئیے جائیں گے چنانچہ ریل ایجاد ہو چکی ہے اور ایسی ایجاد ہو گی کہ تمام دنیا کی خبر ایک آن میں سنی جا سکے گی.چنانچہ تار ایجاد ہو چکی ہے.پھر لکھا تھا اس وقت عورتیں زیادہ ہو جائیں گی اور تجارتی کاروبار میں سے چیزوں کے فروخت کرنے کا کام عورتوں کے سپرد ہو گا.اور عورتوں کے لباس ایسے ہوں گے کہ ان کا جسم کا وہ حصہ جسے پہلے لوگ بھی خواہ وہ عورتوں کے پردہ کے قائل نہ تھے پردہ کے قابل سمجھا کرتے تھے ننگا نظر آئے گا.اور اس وقت تین بڑی حکومتیں تین بڑی حکومتوں سے لڑیں گی اور تین جو فاتح ہوں گی قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیں گی لیکن ایک شخص قسطنطنیہ سے بھاگ کر شام کی طرف چلا جائےگا اور وہاں سے جنگ کر کے اپنے علاقہ کو واپس لے لے گا.اسی طرح لکھا تھا کہ اس وقت نصاریٰ کو دیگر اقوام پر غلبہ ہو گا اور ملک عرب دوسرے صوبوں سے الگ ہو جائے گا اور عراق اور شام اور مصر کی حکومتیں الگ قائم ہو جائیں گی اور ایک قوم مہینوں کو چھوٹا کر دے گی.اسلامی شریعت کی مقرر کردہ حدود ترک کر دی جائیں گی.جؤا کثرت سے پھیل جائے گا پولیس کثرت سے مقرر ہو گی.عورتوں میں مردوں کے لباس کا رواج ہو جائے گا.مزدوروں کی حکومت ہو گی.امراء غرباء کے لئے اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالنے کو بوجھ خیال کریں گے، اسلامی حکومتیں مٹ جائیں گی، عرب کی دینی حالت بہت خراب ہو جائے گی، بے جان چیزیں بولیں گی، جس سے فونو گراف وغیرہ کی ایجاد کی طرف اشارہ ہے، ایسی سواریاں دریافت ہوں گی جو اس سے پہلے دنیا میں موجود نہ تھیں جس سے ہوائی جہاز وغیرہ کی طرف اشارہ ہے.دو سمندروں کے درمیان ایک خشکی جس کے ایک طرف مونگا پایا جاتا ہے اور دوسری طرف موتی، اس کو پھاڑ کر دونوں سمندروں کو ملا دیا جائے گا اور اس میں سے کثرت
۱۲۳ سے جہاز گذریں گے جو سویز اور پانامہ کی نہروں کی طرف سے صاف اشارہ ہے.پھر لکھا تھا کہ اس وقت کتابیں اور اخبارات کثرت سے شائع ہوں گے.علوم ہیئت کے بہت انکشاف ہوں گے، دریاؤں میں سے نہریں نکالی جائیں گی حتیٰ کہ اصل دریا قریباً خشک ہو جائیں گے، پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا، سفر کا رواج زیادہ ہو جائے گا، بعض ممالک کی اصل آبادی تباہ کر دی جائے گی ستی وغیرہ کی قدیم رسوم قانوناً بند کر دی جائیں گی وغیرہ وغیرہ.یہ سب پیشگوئیاں اس زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں.اسی طرح بتایا گیا تھا کہ یہ موعود و بیماریوں میں مبتلاء ہو گا ایک دھڑکے اوپر کے حصہ سے تعلق رکھے گی اور ایک نچلے دھڑ سے اور یہ کہ اس کا رنگ گندم گوں ہوگا، سر کے بال سیدھے ہوں گے اور یہ کہ اس کے کلام میں لکنگ ہو گی، کسانوں کے خاندان میں سے ہو گا، مسیحیت اور مہدویت کی دو شانوں کا جامع ہو گا چنانچہ اسی طرح ہوا.آپ کو دوران سر اور ذیابیطس کی دو بیماریاں تھیں رنگ گندم گوں اور بال سیدھے تھے اور آپ کے کلام میں خفیف لکنت پائی جاتی تھی اور بات کرتے وقت آپ کو ران پر ہاتھ مارنے کی عادت تھی.آپ کسانوں کے خاندان میں سے تھے اور قادیان کے باشندے تھے جسے عوام الناس کادی کے لفظ سے پکارتے ہیں.غرض جب سب پیشگوئیوں پر مجموعی حیثیت سے نظر ڈلیں تو سوائے اس زمانہ کے اور کسی زمانہ پر اور سوائے آپ کے وجود کے اور کسی شخص پر وہ چسپاں نہیں ہوتیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہی زمانہ اس موعود کے ظہور کا ہے جس کی خبر پہلے نبیوں نے دی تھی اور آپ ہی وہ موعود ہیں جن کی انتظار میں صدیوں سے لوگ بیٹھےتھے.اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان علامتوں میں سے بہت سی علامتوں کے پورا ہونے سے پہلے بانی سلسلہ احمدیہ نے بذریعہ خاص الہام کے ان کے پورا ہونے کی خبر دی تھی جیسے طاعون کی آمد، یورپ کی جنگ عظیم، زار روس کی معزولی اور روس سے آئندہ بادشاہت کا مٹ جانا اور زار روس اور اس کے خاندان کی قابل رحم حالت اور عالمگیر زلزلوں کا آنا، انفلوئنزا کا حملہ وغیرہ وغیرہ تو ہمارا یقین اور ایمان اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ہم اس امر پر ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں.اور ہر شخص جو انصاف پسندی سے کام لے گا اور فیصلہ میں جلدی نہ کرے گا بلکہ سوچ کر اور غو رکر کے فیصلہ کرے گا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ خدا تعالیٰ نے بانی سلسلہ احمدیہ میں تمام اقوام کی امیدوں کو پورا کر دیا ہے اور اس کی رحمت
۱۲۴ کا دریا دلوں کی خشک زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے اپنے کناروں سے اچھل کر بہہ پڑا ہے.پس مبارک ہے وہ جو اس پانی کو اپنے کھیت میں جمع کرتا ہے اور اِباء اور استکبار سے کام نہیں لیتا اور دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے.اس امر کے بیان کر چکنے کے بعد کہ احمدی جماعت دوسرے مذاہب یا فرقوں سے اس لئے جدا ہے کہ اس نے ان نشانات کو دیکھ کر جو آخری زمانہ کے مصلح کے لئے بطور علامت بتائے گئے تھے حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دعویٰ کو قبول کر لیا ہے اور وہ اب دوسری قوموں کی طرح کسی اور مصلح کی جو اس زمانہ کے لئے مقدر ہو منتظر نہیں ہے اب میں بتانا چاہتا ہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی آمد کی غرض کیا بتائی ہے؟ آپ فرماتے ہیں " وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں او ر سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے." "خدا تعالیٰ نے مجھے مطلع کیا ہے تا میں گمراہوں کو متنبہ کروں اور ان کو جو تاریکی میں رہتے ہیں روشنی میں لاؤں." "خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا تا میں اس خطرناک حالت کی اصلاح کروں اور لوگوں کو خالص توحید کی راہ بتاؤں چنانچہ میں نے سب کچھ بتا دیا ا ورنیز میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا
۱۲۵ ہے او رہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں.زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.حضر ت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعفِ ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خد اکی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی.اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی او رایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں.مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دور ہو گیا تھا سو میں انہی باتوں کا مجدد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے میں بھیجا گیا ہوں." پھر آپ فرماتے ہیں کہ آپ اس لئے دنیا کی طرف بھیجے گئے کہ تا: "دنیا کو اخلاقی اور اعتقادی اور علمی اور عملی سچائی کی طرف کھینچا جائے اور نیز یہ کہ وہ خاص کشش سے ایسے طور سے کھنچ جائیں کہ ان امور کی بجا آوری میں ان کو ایک قوت حاصل ہو." پھر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی اولاد میں سے ایک اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا، یعنی اس کے ذریعہ سے بہت سی قومیں اور جماعتیں اور ملک جو دوسری قوموں اور جماعتوں یا حکومتوں کے ظلم کے نیچے دبی ہوئی ہوں گی ظلموں سے نجات پائیں گی اور اپنی اپنی قیدوں سے آزاد کی جائیں گی اور خدا تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور کر کے ان کو راحت اور آرام کی زندگی نصیب کرے گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ آپ کا کام یہ ہے کہ اول "تمام قوموں پر اسلام کی سچائی کی حجت پوری کریں".دوم."اسلام کو غلطیوں اور الحاقاتِ بے جا سے منزہ کر کے وہ تعلیم جو روح و راستی سے بھری ہوئی ہے خلق اللہ کے سامنے رکھیں."سوم."ایمانی نور کو تمام قوموں کے مستعد دلوں کو بخشیں." ان تمام دعاوی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا کام کامل توحید کی اشاعت اور نیکی اور تقویٰ کا قیام اور دلوں میں خشیت اللہ کا پیدا کرنا اور خدا تعالیٰ سے بندوں کا تعلق مضبوط کرنا اور شک اور
۱۲۶ شبہ سے نکال کر یقینی ایمان لوگوں کو عطا کرنا اور دلوں کو بے اطمینانی کی حالت سے بچا کر سکون اور آرام دینا اور علوم آسمانی کو کھولنا اور اخلاقی اور روحانی اور علمی اور عملی مشکلات کو حال کرنا اور مظلوموں کو آسمانی حربوں کے ذریعہ سے ظلموں سے بچانا اور جن جماعتوں کے حق غصب ہو چکے ہیں ان کے حقوق واپس دلانا اور دنیا میں سے جنگ اور فساد کو دور کر کے باہمی صلح کرانا اور سب دنیا کو ایک دین اور ایک کلمہ پر جمع کرنا اور تمام اقوام تک سچائی کو پہنچانا اور اسلام کو الحاقی غلطیوں سے پاک کرنا اور اس کے سچے علوم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نشانات ظاہر کر کے لوگوں پر اس کے جلال کو ظاہر کرنا تھا.کیسا شاندار کام اور کیسا شاندار مستقبل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مدعی آج تک ایسا بھی گذرا ہے جو ان امور کے خلاف کہتا ہو؟ ہر ایک مدعی ہمیشہ دنیا کے سامنے ایسے ہی شاندار مستقبل اور ایسے ہی شاندار مقاصد رکھا کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بغیر اس کے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے اور اس زمانہ میں جبکہ اشاعت پر ہی ہر ایک کام کی بنیاد ہے ایسے خوشنما اعلان نہایت ہی ضروری ہیں.پس اگر صرف ان اعلانوں تک ہی آپ کے دعویٰ کی بنیاد رہتی تو آپ کا دعویٰ ہرگز قابل قبول نہ ہوتا اور دوسرے مدعیوں کے مقابلہ میں اسے کوئی خاص فوقیت حاصل نہ ہوتی لیکن جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا آپ نے ایسی تعلیم دی ہے اور وہ قواعد مقرر فرمائے ہیں کہ ہر ایک عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے وہ اغراض بوجہ احسن پوری ہو سکتی ہیں جو آپ نے اپنے آنے کا موجب قرار دی ہیں.مگر اس جگہ ایک سوال ہے اور میرے نزدیک ا س سوال کا سمجھنا لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے مگر اس کے سمجھنے کے بغیر احمدیت کی حقیقت بھی سمجھ میں نہیں آ سکتی اور وہ یہ ہے کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ علوم قرآن کریم کی اشاعت کے لئے آئے ہیں اور اپنے آپ کو ایک مسلمان قرار دیتے ہیں اور امت محمدیہ میں سے ایک فرد تو ان کی ضرورت اور سلسلہ کی اہمیت بحیثیت ایک جماعت کے کیا باقی رہ جاتی ہے؟ تب تو ان کی حیثیت ایک عالم یا ایک صوفی کی رہ جاتی ہے اور سلسلہ احمدیہ محض ایک علمی جماعت کے دوسرے درجہ کی حیثیت پر جا گرے گا لیکن یہ خیال صداقت سے بالکل دور ہو گا اور سلسلہ احمدیہ کے سمجھنے سے بالکل محروم کر دے گا.اصل بات یہ ہے کہ احمدیت کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو شریعت
۱۲۷ لاتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو اس شریعت کو قائم کرنے آتے ہیں اور جو نقائص مرور زمانہ سے مذہب میں پیدا ہو گئے تھے ان کو دور کرتے ہیں تمام مذہبی سلسلوں کا اس امر پر اتفاق ہے اور موسوی سلسلہ کے انبیاء اس فرق کی ایک کھلی مثال ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام شریعت لانے والے نبی تھی آپ کے زمانے میں ہارون اور آپ کے بعد یوشع اور ان کے بعد آنے والی نبی بشمولیت حضرت مسیح علیہم السلام سب کے سب موسیٰ کی شریعت کو قائم کرنے کے لئے آئے تھے.حضرت مسیح خود فرماتے ہیں "یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں." اس امر کے متعلق کہ موسیٰ کی شریعت آپ کے زمانہ تک اور آپ کے شاگردوں کے لئے بھی جاری تھی اس نصیحت سے جو آپ نے اپنے شاگردوں اور دوسروں کو کی ظاہر ہے یعنی "فقیہہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں اس لئے جو کچھ وہ تمہیں ماننے کو کہیں مانو اور عمل میں لاؤ لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں پر کرتے نہیں." بے شک مسیح کی بعض تعلیموں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ توریت سے مختلف ہیں لیکن اگر ہم توریت کو غور سے دیکھیں تو ان کا بیج ہمیں توریت میں نظر آتا ہے بلکہ خود حضرت مسیح نے ان تعلیموں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ تعلیمیں بھی نئی نہیں ہیں بلکہ وہی ہیں جو پہلے توریت میں بیان ہو چکی ہیں.چنانچہ آپ اس پہاڑی وعظ کے بعد جس کی نصائح کو توریت سے جدا سمجھا جاتا ہے فرماتے ہیں "توریت اور نبیوں کا خلاصہ یہی ہے." غرض انبیاء دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو نئی شریعت لاتے ہیں جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام اور ایک وہ جو پرانی شریعت کو قائم کرتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے خیالات کی ملونی سے وہ حقیقت سے دور ہو گئی جیسے کہ ایلیاہ، یسعیاہ، حزقیل، دانیال اور مسیح علیہم السلام.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ بھی مؤخر الذکر قسم کے نبیوں کی طرح ایک نبی ہونے کا تھا اور خصوصاً آپ اس امر کے مدعی تھے کہ جس طرح موسوی سلسلہ کے آخری خلیفہ حضرت مسیح ناصری تھے اسی طرح اسلام کے آخری خلیفہ آپ تھے اور اس وجہ سے احمدیت کو دوسرے مسلمان فرقوں کے مقابلہ پر بالکل اسی مقام پر سمجھنا چاہئے کہ جس پر یہودیت کے مقابلہ میں مسیحیت ہے.ہم لوگ یہ یقین کرتے ہیں کہ حضر ت محمد ﷺ حضرت موسیٰ کی اس پیشگوئی کے
۱۲۸ پورا کرنے والے تھے جو استثناء باب 18 آیت 18 میں بنی اسرائیل کے بہائیوں میں سے ایک موسیٰ جیسے نبی یعنی صاحب شریعت نبی کے آنے کے متعلق ہے آپؐ بھی ایک جدید شریعت لائے اور بنی اسرائیل کے بہائیوں یعنی بنی اسماعیل میں سے تھے.قرآن کریم آپ کے اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کے متعلق ان الفاظ میں دعویٰ کرتا ہے إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل:16) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو شریعت کے احکام پر تم سے اپنی نگرانی میں عمل کرا کے ان کو قائم کرتا ہے اسی طرح جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اب اگر آنحضرتﷺ موسیٰ کے مثیل تھے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مسیح ثانی جس کا وعدہ دیا گیا تھا وہ آپ کی شریعت کو ہی رائج کرنے والا ہو جس طرح مسیح ناصری توریت کے احکام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے آئے تھے اور اس کی جماعت کا اسلام سے وہی تعلق ہو جو ابتدائی صدیوں میں مسیحیت کا یہودیت سے تھا.اس تفصیل سے آپ لوگوں پر یہ امر تو اچھی طرح واضح ہو گیا ہو گا کہ اسلام اور احمدیت کا کیا تعلق ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ پھر احمدیت کی اہمیت کیا ہے؟ ایک امر کی طرف تو میں پہلے ہی اشارہ کر چکا ہوں کہ ایسے نبیوں کا ایک کام جو شریعت کے بغیر آتے ہیں یہ ہوتاہے کہ وہ مرورِ زمانہ سے جو غلط خیالات اس مذہب میں داخل ہو جاتے ہیں ان کو دور کر کے اصل حقیقت کو آشکار کرتے ہیں.اور یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے ضرورت کے وقت پرانی گمشدہ شے کو تلاش کر دینا ویسا ہی بڑا کام ہے جیسے کہ نئی چیز کا لانا.لیکن ہمارے نزدیک حضرت مسیح موعود کا کام اس سے بھی بڑا تھا مگر اس کام کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم لوگ قرآن کریم کے معارف پہلے زمانوں پر ختم نہیں ہو گئے بلکہ قرآن کریم خدا کا مکمل کلام ہے اور مکمل کلام کے لئے یہ شرط ہوتی ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کا فضل غیر محدود عجائبات کا خزانہ ہے جو وقت اور ضرورت پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کا قول بھی غیر محدود عجائبات کا خزانہ ہو جو ہر روحانی اور اخلاقی ضرورت کے وقت اس کا علاج بتائے.دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے اس کے اندر خدا تعالیٰ نئی نئی چیزیں نہیں پیدا کرتا لیکن اس کی ایک ایک چیز میں اس قدر عجائبات اور اسرار ہیں کہ ایک چیز بھی دنیا کی نہیں جس کی نسبت یہ کہا جا سکے کہ انکشافات ختم ہو گئے ہیں اور
۱۲۹ اب اس میں سے کسی نئی طاقت یا اس کے کسی نئے فائدے کا معلوم ہونا ناممکن ہے.انسانی جسم کے اسرار بھی ابھی تک پورے طور پر ظاہر نہیں ہو سکے کجا یہ کہ انسان اپنے غیر کے اسر ار کو بالاستیعاب دریافت کر سکتا.پس جب یہ حال اس قانون قدرت کا ہے جو ایک عارضی فائدہ اور عارضی نفع کے لئے بنایا گیا ہے تو کلام الٰہی کو جو معالج روحانی کا قائم مقام ہے کس قدر عجائبات اور اسرار اور فوائد پر مشتمل ہونا چاہئے اور اس کی مخفی طاقتوں کا خزانہ کیسا غیر محدود ہونا چاہئے.ہمارے نزدیک اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ایک عقلمند انسان کے نزدیک کامل کلام کے اندر اس خوبی کا پایا جانا ضروری ہے اور جس کلام میں یہ خوبی نہیں وہ ہرگز خدا کا کلام نہیں کہلا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مخالفوں کو جو قرآن کریم کے علوم کی نسبت یہ خیال کرتے تھے کہ وہ سب کے سب پہلے لوگوں پر ختم ہو چکے مخاطب کر کے یوں فرماتے ہیں."جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ وہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہو ملزم و ساکت و لاجواب کر سکتے ہیں وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں.اگر قرآن شریف اپنے حقائق و دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا.فقط بلاغت و فصاحت ایسا امر نہیں ہے جس کی اعجازی کیفیت ہر ایک خواندہ ناخواندہ کو معلوم ہو جائے کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے.جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا وہ علم قرآن سے سخت بے نصیب ہے.اے بندگان خدا! یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر ایک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا التزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے.کوئی شخص برہمو یا بدھ مذہب والا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کوئی ایسی الٰہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو.
۱۳۰ قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائبات و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو." یہ وہ نکتہ عظیمہ ہے جسے حضرت مسیح موعود نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.مسلمان یہ تو خیال کرتے تھے کہ قرآن کریم کامل ہے لیکن تیرہ سو سال تک ان کے ذہن اس طرف نہیں گئے کہ وہ صرف کامل ہی نہیں بلکہ ایک خزانہ ہے جس میں آئندہ زمانوں کی ضروریات کے سامان بھی مخفی رکھے گئے ہیں اور اس کی تحقیق اور تجسس سے بھی اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر علوم نکلیں گے جس طرح کہ نیچر پر غور کرنے سے علوم نکلتے ہیں.بانی سلسلہ احمدیہ نے اس نکتہ کے پیش کرنے سے روحانی عالم میں ایجاد کا ایک وسیع دروازہ کھول دیا ہے جس کا مقابلہ علوم سائنس کی دریافت نہیں کر سکتی.بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ نہیں کیا کہ ان مسائل کو جو مرور زمانہ سے بگڑ چکے تھے پھر اصلی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے قرآن کریم کو ایسی شکل میں دنیا کےسامنے پیش کیا کہ اس کی تمام وہ ضروریات ذہنی اور علمی جو اس وقت کے متغیر حالات کے سبب سے پیدا ہو رہی تھیں قرآن کریم سے پوری ہو گئیں اور آئندہ کے لئے بھی تمام مشکلات کے حل کی کنجی مل گئی.اس میں کیا شک ہے کہ دنیا اس وقت بعض صداقتوں اور بعض تمدنی مشکلات کے حل کے لئے پیاسے کی طرح حیران پھر رہی ہے.حتیٰ کہ بعض لوگ مذہبی کتب میں ان مشکلات کا حل نہ پا کر ان کتب سے ہی بیزار ہو گئے ہیں اور بعض لوگ نئی شریعتوں کے بنانے کی طرف مائل ہیں اور دنیا کی مصیبت کو اور بھی زیادہ کر رہے ہیں.لیکن جیسا کہ آپ لوگوں پر ابھی ظاہر ہو جائے گا ان تمام مشکلات کا حل اس تعلیم میں موجود ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے.وہ بیشک قرآن کریم میں موجود تھی مگر اس کے ایک حصہ کی تو یہ حالت تھی کہ جیسے صاف پانی میں کوئی باہر کی ناپسندیدہ آلائش شامل ہو جائے اور بعض حصہ کی یہ حالت تھی جیسے زیر زمین چشمہ بہہ رہا ہو لیکن ہمیں معلوم نہ ہو کہ یہاں پانی ہے آپ نے آمیزش والے پانی کو چھان کر صاف کیا اور زیر زمین چشمہ کا ہمیں پتہ دیا اور ہمیشہ کے لئے ہماری آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا اور تحقیق اور انکشاف کا ایک وسیع دروازہ کھول دیا مگر اس حد بندی کے ساتھ کہ اسلام کی وہ شکل بھی جو
۱۳۱ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قائم کی گئی تھی اور جسے اللہ تعالیٰٰ ہمیشہ محفوظ رکھنا چاہتا ہے محفوظ رہے اور جدید ضروریات کا سامان بھی مہیا ہوتا رہے.مذکورہ بالا حقیقت کے معلوم ہونے کے بعد اس امر کا سمجھنا بالکل آسان ہے کہ باوجود قرآن پر ایمان لانے کے اور مسلمان کہلانے کے احمدیہ جماعت موجودہ مسلمان فرقوں میں سے ایک فرقہ ان معنوں میں کہ جن معنوں میں عُرفاً فرقہ کا لفظ بولا جاتا ہے نہیں ہے بلکہ وہ اپنے دعویٰ کے مطابق آج سے تیرہ سو سال پہلے کا اسلام پیش کرنے والی جماعت ہے جو قرآن کریم کے غیر محدود علوم کا انکشاف کر کے اپنے دوسرے بہائیوں کو ان سے حصہ دینے کے لئے کھڑی ہوئی ہے.اس کا وجود کسی خاص خیال کی ارتقائی ترقی کا نتیجہ نہیں ہے نہ کسی خاص فرقہ کی طبعی رَو کی آخری موج بلکہ وہ ایک نیا ابال ہے جس نے دو سمت کا رخ کیا ہے ایک لہر اس کی تو ماضی کی طرف شدت سے نکل گئی ہے اور آج سے تیرہ سو سال پہلے کے زمانہ تک چلی گئی ہے اور دوسری لہر اس کی موجودہ اور آئندہ زمانوں کی ضروریات کا احاطہ کرتی ہوئی نکل گئی ہے.یہ ایک ایسی لہر ہے جس نے صرف مشرق اور مغر ب کو ہی نہیں ملایا بلکہ ماضی اور مستقبل کو بھی ایک جگہ جمع کر دیا ہے اور اب ہم بلا شبہ اور شک کے کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جن پر آخری اور مکمل شریعت نازل ہوئی آدم تکمیل شریعت تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کو اللہ تعالیٰٰ نے علوم قرآنیہ کی وسعت اور ہر زمانہ کی ضروریات کےعلاج پر مشتمل ہونے کی حقیقت کے اظہار کے لئے بھیجا ہے وہ آدم تکمیل اشاعت تھے جس طرح کہ پہلا آدم تکمیل انسانیت تھا.اس احمدی عقیدہ کا بیان کر دینا میرے مضمون کے لئے نہایت ہی ضروری تھا کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے احمدیت کسی جدید مذہب کا نام نہیں ہے اگر بلا اس تشریح کے میں احمدیت کی تعلیم اور اس کے اصول کو بتاتا تو چونکہ وہ قرآن کریم پر مبنی ہوتے آپ لوگوں کے لئے اس امر کا سمجھنا مشکل ہو جاتا کہ میں احمدیت کا ذکر کر رہا ہوں یا اسلام کا حالانکہ جیسا کہ آپ لوگوں نے اب معلوم کر لیا ہو گا احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کا نام ہے اور احمدیت سے مراد صرف وہ حقیقت اسلام ہے جو اس زمانہ کے موعود کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائی ہے.پس احمدیت کی تمام بناء قرآن کریم اور شریعت اسلام پر ہے مگر باوجود اس کے احمدیت دوسرے مسلمان فرقوں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ احمدیت اپنی تعلیم میں ان خیالات سے جو اس وقت مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں رائج ہیں بالکل مختلف ہیں.اس کے ذریعے سے بہت
۱۳۲ سی صداقتیں جو دنیا سے مفقود ہو چکی تھیں دوبارہ ان کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور بہت سی صداقتیں جو اس زمانہ سے خاص ہیں پہلے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھیں ان کو ظاہر کیا گیا اور بہت سے علوم قرآنیہ جو الفاظ کے نیچے مدفون چلے آتے تھے ان کو نکال کر علمی دنیا کو مالا مال کر دیا گیا ہے.پس جب میں اپنے مضمون میں یہ کہوں کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے تو اس سے مراد وہی تعلیم ہو گی جو احمدی نقطہ نگاہ کے مطابق ہے خواہ دوسرے لوگ اس کو قبول کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں اور جب میں یہ کہوں کہ احمدیت کی یہ تعلیم ہے تو اس سے مراد بھی وہ تعلیم ہو گی جو اسلام نے پیش کی ہے نہ کوئی جدید تعلیم.مگر پیشتر اس کے کہ میں ان تعلیمات اور خصوصیات کو بیان کروں جو احمدیت کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کر دیتی ہیں میں تمہیداً اس امر کو بیان کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ گو بانیانِ مذہبی کانفرنس کی اس کانفرنس کے قیام سے کچھ بھی غرض ہو میرے نزدیک ایسی کانفرنس کی سب سے بڑی غرض یہی ہونی چاہئے کہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کو اس امر کے موازنہ کرنے کا موقع ملے کہ کونسا مذہب ان کو اس مقصد کے حصول میں ممدّ ہو سکتا ہے جس مقصد کے لئے مذہب کی جستجو کی جاتی ہے.پس گو یہ ضروری نہیں کہ ان مضامین میں جو اس موقع پر پڑھے جاتے ہیں ہر اک حکم کو بیان کیا جائے مگر یہ ضروری ہے کہ ہر مذہب کی اصولی تعلیم کا ایک مختصر مگر مکمل نقشہ پیش کر دیا جائے جس سے لوگ اس امر کا اندازہ کر سکیں کہ اس مذہب میں تمام اہم ضروریات کو پور اکرنے کے سامان موجود ہیں اور صرف چند باتوں کو لے کر ان پر زور نہیں دے دیا گیا.دوسرا امر اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر اک مذہب کے قائم مقام اپنے مذہب کو پیش کریں نہ کہ اپنے خیال کو.اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو کبھی حق کو نہیں پا سکیں گے خیالات کوئی مادی اور ٹھوس چیز نہیں ہیں جن کو مختلف مذاہب کے پیرو تالوں میں بند کر کے رکھ چھوڑیں.جس وقت کسی خیال کا اظہار کیا جاتا ہے وہ ملک عام ہو جاتا ہے جو چاہے اس کو اختیار کر لے اور استعمال کرے.پس اگر ایسا کوئی علاج نہ نکالا جائے جس کے ذریعہ سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ خیالات جن کو کسی مذہب کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے وہ فی الواقع اسی کے ہیں اور لیکچرار نے ان خیالات کو دوسرے لوگوں سے چُرایا نہیں کبھی بھی مذاہب کا فیصلہ کرنے میں آسانی نہ ہو گی اور نہ صحیح موازنہ ہو سکے گا اور نہ کوئی نتیجہ نکلے گا بلکہ ان لوگوں کو نقصان پہنچے گا اور وہ خیال کرنے لگیں گے کہ سب مذاہب ایک سے ہیں حالانکہ صرف ایک مذہب میں وہ سچائی ہو گی
۱۳۳ اور دوسرے مذاہب اس سے خالی ہوں گے ہاں ان کے ہوشیار پیرو ان خیالات کو چرا کر اپنے مذہب کی طرف منسوب کر رہے ہوں گے.بانی سلسلہ احمدیہ نے اس نقص کو دور کرنے کے لئے ایک تجویز پیش کی ہے جسے وہ ہمیشہ اپنے مضامین میں مدنظر رکھتے تھے اور جس کے مدنظر رکھنے سے مذکورہ بالا خرابی بالکل دور ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے وکیل اپنے مذہب کی طرف جو امر منسوب کریں اس کا ثبوت وہ اپنی مذہبی کتب سے دیں یعنی اپنی الہامی کتاب سے یا اس شخص کی تشریح سے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہے.اس شرط پر عمل کرنے سے وہ اخفاء کا پردہ جو سچائی پر پڑا رہتا ہے بالکل اٹھ سکتا ہے اور حقیقت کھل سکتی ہے اور خوب ظاہر ہو سکتا ہے کہ کونسا مذہب کامل ہے اور کونسے مذاہب ناقص جن کے پیروان کو کامل ظاہر کرنے کے لئے دوسرے مذاہب کی تعلیم چرا کر اس کی طرف منسوب کر رہے ہیں.چونکہ ریلیجس کانفرنس کے بانیوں نے اس قسم کی کوئی شرط نہیں لگائی گو میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ جب ریلیجس کانفرنسیں ہوں تو ان میں یہ شرط رکھی جائے گی تاکہ لوگوں کے لئے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اس لئے دوسرے مذاہب کے قائم مقام تو اس شرط کا خیال غالباً اپنے مضامین میں نہیں رکھیں گے مگر میں اپنے لئے خود یہ قید مقرر کرتا ہوں کہ میں جو تعلیم اسلام اور احمدیت کی طرف منسوب کروں گا وہ وہی ہو گی جسے ہمارا مذہب پیش کرتا ہے نہ وہ جسے میں خود کہیں سے مستعار لے کر پیش کر دوں.میں اول تو ہر بات کا ثبوت اپنی مذہبی کتب سے پیش کرتا چلا جاؤں گا اور اگر بعض جگہ بسبب طوالت حوالہ کو چھوڑ دوں تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھ سے حوالہ کا مطالبہ کرے جس کی بناء پر میں نے اس تعلیم کو اسلام کی طرف منسوب کیا ہے.اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.سو یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب کی بڑی غرضیں چار ہیں.اول یہ کہ وہ انسان کو اس کے مبدأ کے متعلق علم دے یعنی اس کے پیدا کرنے اور اس کے وجود میں لانے والے کے متعلق اس کو صحیح عقائد بتائے تاکہ وہ اس خزانۂ قوت و طاقت سے فائدہ حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے او راپنی پیدائش کی غرض سے جسے پیدا کرنے والا ہی بتا سکتا ہے غافل نہ رہے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے چار باتوں کا بیان کرنا ضروری ہے.1.خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق اصل حقیقت کو بیان کرنا.
۱۳۴ 2.یہ بتانا کہ بندے کو خدا سے کیا تعلق ہونا چاہئے.3.یہ بتانا کہ کن اعمال سے بندہ اس تعلق کا اظہار کرے یا یہ کہ بندہ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا ذمہ دایاں ہیں.4.خدا تعالیٰ سے ملنے کا راستہ بتائے اور اس غرض کو اسی دنیا میں پورا کر کے دکھائے تاکہ انسان خدا تعالیٰ کے متعلق ظنی علم سے گذر کر یقین کے درجہ تک پہنچ سکے.دوسرا مقصد مذہب کا یہ ہے کہ وہ انسان کو کامل اخلاقی تعلیم دے.اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے بھی مندرجہ ذیل سات امور کا بیان کرنا ضروری ہے.(1)اخلاق حسنہ کیا ہیں (2) اخلاق سیئہ کیا ہیں (3) یہ کہ اخلاق حسنہ کے مختلف مدارج کیا ہیں (4) اخلاق سیئہ کے مختلف مدارج کیا ہیں (5) کسی امر کو بدی اور کسی کو نیکی کیوں قرار دیا گیا ہے (6) وہ ذرائع کیا ہیں جن کی مدد سے انسان اخلاق حسنہ کو اختیار کر سکتا ہے (7) وہ ذرائع کیا ہیں جن کی مدد سے انسان اخلاق سیئہ سے بچ سکتا ہے.اخلاق حسنہ کے بیان میں ان سات امور کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے بغیر اس کے یہ مقصد ہرگز پورا نہیں ہو سکتا.تیسرا مقصد مذہب کا بنی نوع انسان کی تمدنی ضروریات کا حل ہے کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے انسان کو مدنی الطبع پیدا کیا ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس کے لئے ایسے اصولی قواعد تجویز فرمائے جن کے ذریعہ سے دنیا میں امن اور امان قائم ہو اور ہر ایک طبقہ اور فرقہ کے لوگ اپنے حقوق کے اندر رہیں اور کوئی کسی کے حق کو دانستہ یا نادانستہ نہ دبا سکے اگر غور کیا جائے سوائے اللہ تعالیٰ کے سوسائٹی کے حقوق کو دوسری کوئی ہستی بیان ہی نہیں کر سکتی کیونکہ دوسرے تمام لوگ اپنے ذاتی فوائد کی وجہ سے اس وسعت نظر سے محروم ہوتے ہیں جو اس کام کے لئے ضروری ہے پس ان قواعد کا بیان کرنا جو تمدن انسانی کے لئے بمنزلہ اساس کے ہوں مذہب کے اہم فرائض میں سے ہے اور جو مذہب اس مقصد کو پورا نہیں کرتا وہ ہرگز مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہے.اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے مندرجہ ذیل امور پر روشنی ڈالنا مذہب کا فرض ہے.1.امور خانہ داری یعنی رشتہ داروں سے رشتہ داروں کے تعلقات اور ان کے باہمی حقوق پر کہ یہ تمدن انسانی کا پہلا ٹکڑا ہے.
۱۳۵ 2.ملکی اور سیاسی حقوق پر کہ کس احسن طریق پر ان کو ادا کیا جا سکتا ہے.3.آقا اور ملازم یا مالداروں اور غریبوں کے تعلقات پر.4.اس سلوک پر جو ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذہب کے لوگوں سے یا ایک بادشاہت کے لوگوں کو دوسری بادشاہت کے لوگوں سے کرنا چاہئے.چوتھا مقصد مذہب کا انسان کے انجام کا بیان کرنا ہے.یعنی یہ بتانا کہ انسان مرنے کے بعد کہاں جائے گا اس سے کیا سلوک ہو گا وغیرہ وغیرہ.اس مقصد کی تکمیل کے لئے مندرجہ ذیل امور کا بیان کرنا ضروری ہے.1.کیا موت کے بعد انسان کے لئے کوئی بقاء ہے؟ اگر ہے تو کس رنگ میں؟ 2.اگر کوئی بقاء ہے تو کیا اس بقاء کے ساتھ تکلیف یا خوشی کا کوئی سلسلہ وابستہ ہے؟ 3.اگر وابستہ ہے تو اس کی کیا کیفیت ہے؟ 4.آیا مرنے کے بعد بھی انسان کے لئے بدی سے نیکی کی طرف جانے کا کوئی راستہ کھلا ہے اگر ہے تو کس طرح؟ مذکورہ بالا چار مقاصدکے متعلق کسی مذہب کی تعلیم معلوم کر کے ہی اس کےد عویٰ کے متعلق صحیح نتیجہ نکالا جا سکتا ہے اور میں ان مقاصد کے متعلق احمدیت کی تعلیم کو اس امید اور یقین کےساتھ پیش کرتا ہوں کہ جب آپ لوگ انصاف سے اس پر غو رفرمائیں گے تو آپ پر ثابت ہو جائے گا کہ اگر ان چاروں مقاصد کو کوئی مذہب پورا کرتا ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہے.خدا تعالیٰ کے متعلق اسلام کی تعلیم جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں یہ مضمون چار سوالوں میں تقسیم ہے.پس میں ان چاروں سوالوں کو باری باری لے کر ان کے متعلق اسلام کی تعلیم کو بیان کرتا ہوں.(1)پہلا سوال.مقصد اول کے متعلق یہ ہے کہ اس مذہب میں خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق کیا تعلیم دی گئی ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام اللہ تعالیٰٰ کو ایک کامل ہستی بیان فرماتا ہے جس میں سب خوبیاں جمع ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی ابتداء ہی ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سب تعریف کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ وہ سب جہانوں کا پیدا کرنے والا او ران کو پالنے والا ہے.پس چونکہ ہر ایک چیز اس کی پیدا کی ہوئی اور اسی کی پرورش کی محتاج ہے اس لئے جو خوبیاں دنیا میں کسی اور چیز میں نظر آویں ان کی تعریف کا استحقاق
۱۳۶ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰٰ کو ہی حاصل ہے کیونکہ ان کو جو کچھ ملا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ہی ملا ہے.ایک خوبصورت نظارہ، ایک خوشبو دار پھول، ایک خوش ذائقہ کھانا، ایک نرم اور ملائم فرش، ایک دلکش آواز غرض جس قدر اچھی چیزیں ہیں جن کو محسوس کر کے حواس انسانی خوشی و راحت پاتے ہیں ان سب چیزوں کی خوبی خدا تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے.پھر فرماتا ہے الرَّحْمَان بندوں کو جس قدر ضروریات پیش آنی تھیں اور جس قسم کے سامانوں کی ان کو احتیاج ہونی تھی وہ سب خدا تعالیٰ نے بطور انعام اور فضل کے پیدا کر چھوڑی ہیں جیسے نور اور روشنی یا آگ اور پانی اور ہوا اور قسم قسم کی غذائیں اور دوائیں اور لکڑی اور لوہا اور پتھر.غرض انسان کی محنت اور کوشش کے لئے اس نے اس قدر چیزیں دنیا میں پیدا کر چھوڑی ہیں کہ وہ جس طرف بھی رخ کرے اسے اپنے مشغول کرنے اور اپنے علم اور کمال میں ترقی کرنے کا موقع میسر ہے حتیٰ کہ کوئی انسانی حاجت نہیں جس کا سامان خدا تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے پہلے پیدا نہیں کر دیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا نام قرآن کریم اَلرَّحِیْم بتاتا ہے کہ وہ تمام محنتوں اور کوششوں کے نتائج صحیح اور اعلیٰ پیدا کرتا ہے.جیسی جیسی کوئی محنت کرتا ہے اسی قدر اس کو بدلہ مل جاتا ہے.انسان کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی بلکہ ہمیشہ اس کے ثمرات پیدا ہوتے رہتے ہیں.پھر یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ جزاء و سزا کے وقت کا مالک ہے یعنی علاوہ ان نتائج کے جو اس کی طرف سے طبعی قانون کے ماتحت نکلتے رہتے ہیں یا علاوہ ان بدلوں کے جو ساتھ کے ساتھ ملتے رہتے ہیں اس نے ہر ایک کام کی ایک انتہاء مقرر کی ہے جس پر پہنچ کر اس کا آخری فیصلہ ہو جاتا ہے.نیک نیک بدلہ اور بد بدی کی سزا پا لیتے ہیں مگر یہ بدلے اور جزائیں اللہ تعالیٰٰ کی مالکیت کے ماتحت ہوتے ہیں اگر وہ چاہتا ہے تو معاف بھی کر دیتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نسبت آتا ہے کہ وہ قَدِیْر ہے اس نے ہر ایک چیز اور ہر ایک چیز کے اثر اور ہر ایک چیز کے نتائج کے اندازے مقرر کئے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے دنیا کا کارخانہ چل رہا ہے.اگر یہ اندازہ نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر آ جاتا کیونکہ لوگ بالکل کام چھوڑ بیٹھتے.کھانا پکانے والا کھانا پکانے کے لئے اس لئے آگ جلاتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ ضرور گرمی پیدا کرے گی اگر یہ قانون نہ ہوتا اور آگ کے جلانے کا کام مقرر نہ ہوتا یا پانی کے لئے بجھانے کا کام.کبھی آگ گرمی پیدا کرتی کبھی سردی، پانی کبھی آگ بجھاتاکبھی آگ لگاتا تو آج جس طرح لوگ ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں کبھی نہ اٹھاتے بلکہ نتائج کے یقینی ہونے کے سبب سے ہمت ہار کر
۱۳۷ بیٹھ جاتے اور ہلاک ہو جاتے.اسی طرح اس کی صفت بتاتی ہے کہ وہ علیم ہے ایک ایک ذرہ کا اس کو علم ہے وہ دلوں کے پوشیدہ راز اور پردوں کے اندر کی چھپی ہوئی باتیں بلکہ انسانی فطرت کے مخفی اسرار تک سے واقف ہے جن سے خود انسان بھی واقف نہیں ہوتا.زمین کے اندر مدفون یا پہاڑ کی چوٹی پر رکھی ہوئی چیزیں سب اس کے لئے یکساں ہیں.وہ پہلے زمانہ کے حالات بھی جانتا ے، حال سے بھی آگاہ ہے اور آئندہ زمانہ میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ بھی اسے معلوم ہے.وہ سمیع ہے یعنی سننے والا ہے مخفی سے مخفی بات کا اس کو علم ہے.آہستہ سے آہستہ کلام وہ سنتا ہے چیونٹی کی رفتار بھی اس کی شنوائی سے باہر نہیں او رانسانی رگوں کےاندر خون کے چلنے کی حرکت سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ بھی اس کی سماعت سے بالا نہیں ہے.وہ حَیّ ہے یعنی خود زندہ ہے اور دوسروں کو زندہ کرتا ہے.خالق ہے یعنی پید اکرتا ہے قَیّوم ہے یعنی دوسروں کو اپنی مدد سے قائم رکھتا ہے اور خود قائم ہے.صَمَد ہے کوئی چیز اس کی مدد اور نصرت کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتی.غَفُور ہے لوگوں کی خطاؤں کو بخشتا ہے.قَھّار ہے ہر ایک چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے جَبَّار ہے ہر ایک فساد کی اصلاح کرتا ہے وَھّاب ہے اپنے بنوں کو کو انعامات وافر سے حصہ دیتا ہے سَبُوح ہے کسی قسم کا کوئی عیب اس کے اندر نہیں پایا جاتا.قُدُّوس ہے تمام قسم کی پاکیزگیوں کا جامع ہے نیند اس کو نہیں آتی.تھکتا وہ نہیں ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.وہ مُھَیْمِن ہے ہر ایک چیز کا محافظ ہے ان صدمات سے اور وباؤں سے جن کا انسان کو علم بھی نہیں ہوتا اس کو بچاتا رہتا ہے.کتنی دفعہ وہ بیماریوں کی زد میں آ جاتا ہے یا حادثات کا شکار ہونے لگتا ہے کہ مخفی در مخفی سامان اس کو اس کے صدمہ سے بچا لیتے ہیں.بیماری کے پید اہوتے ہی جسم میں اس کے زہر کے مٹانے کے سامان بھی پیدا ہونے لگتے ہیں جب تک کہ انسان بالکل ہی غافل نہ ہو جائے اور قانون قدرت کے توڑنے پر مصر نہ رہے وہ بہت سے بد نتائج سے محفوظ رہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ (النحل:62) اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے غیر طبعی اعمال پر پکڑنے لگتا تو دنیا پر ایک حیوان بھی باقی نہ رہتا.غرضیکہ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (الحشر:25)سب نیک نام اس کو حاصل ہیں اور اس کی رحمت ہر ایک چیز پر غالب ہے.جیسے فرمایا وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(الأَعراف:157) میری رحمت ہر ایک دوسری شئے پر غالب ہے یعنی اللہ تعالیٰٰ کی صفات غضبیہ اس کی صفات رحمت کے ماتحت ہیں.اللہ
۱۳۸ اَحَد ہے یعنی کوئی چیز اس کی ہمسر نہیں ہے وہ وَاحِد ہے تمام اشیاء اس کے حکم سے نکلی ہیں.وہ سب کی ابتدائی کڑی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اور بہت سے نام قرآن کریم میں بیان فرمائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسے کامل خدا کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے جو ان دونوں خوبیوں کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے یعنی محبت اور خوف کے موجبات کو جن کے بغیر کبھی کامل تعلق پیدا ہی نہیں ہوتا.ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ کامل اطاعت او رکامل اتحاد ہمیشہ دو ہی ذریعوں سے ہوتا ہے محبت سے یا خوف سے.بیشک محبت کا تعلق اعلیٰ او راکمل ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی طبائع صرف خوف سے مانتی ہیں.پس جب تک کوئی مذہب صفات غضبہ اور صفات محبت دونوں پر زور نہ دے اور دونوں کو پیش نہ کرے کبھی وہ مذہب تمام دنیا کو نفع نہیں پہنچا سکتا.اگر اصلاح ہمارے مدنظر ہو تو ہم صرف یہ نہیں دیکھیں گے کہ اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کے لئے کسی کام کے کرنے کا کیا محرم ہوتا ہے بلکہ ہمیں اعلیٰ او ر ادنیٰ دونوں قسم کے لوگوں کے حالات کو مدنظر رکھنا ہو گا ورنہ ہم اصلاح کے کام میں ناکام رہیں گے.بلکہ حق تو یہ ہے کہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ تو خود ہی ہدایت کی طرف مائل ہوتے ہیں ہمیں زیادہ فکر ان لوگوں کی رکھنی پڑے گی جو ادنیٰ حالات میں گرے ہوئے ہیں اور ان کی فطرتیں مسخ ہو گئی ہیں اور وہ اپنے فرائض کو بھول گئے ہیں.ایسے لوگ اکثر اوقات سوائے شاذ و نادر کے خوف سے ہی مانتے ہیں اور جب تک ان کے سامنے نقصان کا اندیشہ موجود نہ ہو اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتے.پس وہ مذہب جو اللہ تعالیٰ سے تمام بندوں کا تعلق پید اکرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ فطرت کا لحاظ رکھے اور اسلام نے جس خوبی سے صفات الٰہیہ کے بیان کرنے میں اس توازن کو قائم رکھا ہے وہ یقیناً ہر ایک قسم کی طبائع کے علاج پر مشتمل ہے اور اس سے مکمل علاج اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا.اس نے خد اتعالیٰ کی صفات غضبیہ کو بھی پیش کیا ہے اور صفات رحمت کو بھی مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا دیا ہے کہ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الأَعراف:157) میری رحمت ہر اک چیز پر غالب ہے.آخر میری رحمت میرے غضب کو مٹا دیتی ہے کیونکہ میرا غضب بغرض اصلاح ہوتا ہے نہ دکھ دینے کے لئے.یہ تعلیم اللہ تعالیٰ کی ذات کی نسبت جیسی مکمل اور اعلیٰ ہے ظاہر ہے.جو غرض مذہب کی ہے وہ اس تعلیم سے بوجہ احسن پوری ہوتی ہے مگر پھر بھی یہ تعلیم امتیازی نہیں.جہاں تک میں سمجھتا
۱۳۹ ہوں اکثر مذاہب سوائے تھوڑے تھوڑے اختلافات کے لفظاً اسی تعلیم کو پیش کرتے ہیں اور سطحی نگاہ سے دیکھنے والا انسان حیران ہو جاتا ہے کہ پھر آپس میں اختلاف کوں ہے.لیکن بات یہ ہے کہ یہ دھوکا کہ سب مذاہب ایک ہی سی تعلیم پیش کرتے ہیں اس امر سے لگتا ہے کہ بہت لوگ فطرت انسانی کو اس فیصلہ کے وقت نظر انداز کر دیتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی فطرت میں یہ خاصہ رکھا گیا ہے کہ بعض امور کو وہ بِلا خارجی مدد کے قبول کر لیتی ہے یا رد کر دیتی ہے ایسے امور کو بدیہیات کہتے ہیں.گو بعض فلسفی ان کے بدیہی ہونے کے بھی منکر ہوں لیکن عوام الناس ان کے متعلق کوئی شبہ نہیں رکھتے کیونکہ وہ ان کی طبیعت ثانیہ ہو گئے ہیں.ایسے امور کے خلاف بات کہہ کر کوئی شخص کامیاب ہونے کی امید نہیں کر سکتا.انہی امور میں سے ایک یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان الا ما شاء اللہ اس امر پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک کامل وجود ہے جس میں کوئی نقص نہیں.اب اگر کوئی مذہب یہ دعویٰ کرے کہ نہیں خدا تعالیٰ میں بھی فلاں فلاں نقص ہے یا فلاں فلاں خوبی اس میں نہیں ہے تو کبھی بھی لوگ اس مذہب کی طرف توجہ نہ کریں.اس لئے مذاہب میں ان ناموں کے متعلق اس قدر اختلاف نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں بلکہ مذاہب کا اختلاف ان تفصیلات میں ہوتا ہے جو ان ناموں کی تشریح میں مختلف مذاہب کے پیرو کرتے ہیں اور اس اتحاد کی وجہ یہ نہیں کہ واقع میں سب مذاہب کی تعلیم اس بارے میں ایک ہے بلکہ اس کی وجہ وہ قلبی احساس ہے کہ لوگ ان ناموں کے سوا دوسرے ناموں کو سننے کے لئے تیار نہیں.پس مذاہب کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیشہ ان تفاصیل کو دیکھنا چاہئے جو ان ناموں کے متعلق مختلف مذاہب نے بیان کی ہیں.مثلاً مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اور اس کو اس کے دائرہ استعداد کے اندر ترقی دینے والا ہے مگر اس کی تشریح میں مختلف مذاہب میں بڑا فرق ہے چونکہ میں اس وقت احمدیت کی تعلیم کو بیان کر رہا ہوں میں اس صفت کے ماتحت جو اسلام نے تعلیم دی ہے اس کو بیان کر دیتا ہوں.یہ بات واضح ہے کہ اس صفت کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص جماعت کا خدا نہیں بلکہ وہ تمام مخلوق کا رب ہے اور اس وجہ سے اسے صرف پیدائش کی وجہ سے کسی خاص قوم سے تعلق نہیں ہو سکتا بلکہ سب انسان بحیثیت انسان ہونے کے اس کے لئے برابر ہیں.جس طرح وہ یورپ کے لوگوں کی ربوبیت کرتا ہے ایشیا کے لوگوں کی بھی کرتا ہے جس طرح امریکہ کے
۱۴۰ لوگوں کی ربوبیت کرتا ہے افریقہ کے لوگوں کی بھی ربوبیت کرتا ہے اور جس طرح وہ ان سب لوگوں کی جسمانی ربوبیت کرتا ہے روحانی بھی کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم اس اصل کے ماتحت یہ حیرت انگیز انکشاف کرتا ہے اور اس زمانہ میں کرتا ہے جبکہ قوم پرستی اور ملکی تعصبات کا دَور دورہ تھا جبکہ لوگ عام طور پر یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ دوسرے ممالک کے لوگوں میں نبوت کا خیال بھی پایا جاتا ہے یا نہیں.وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر:25) کوئی قوم دنیا کے پردے پر ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی نہ بھیجا ہو.پھر ایک دوسری جگہ فرماتا ہے وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ(النحل: 37) یعنی ہم نے یقیناً ہر ایک قو میں رسول بھیجے ہیں یہ پیغام دے کر اللہ کی عبادت کرو اور سرکش اور شریر لوگوں کی باتوں میں نہ آؤ.پس بعض لوگ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان لے آئے او ربعض اپنی گمراہی میں ہی پڑے رہے.پس جاؤ اور ساری دنیا میں پھر کر دیکھو تمہیں ہر قوم میں نبیوں کی خبر ملے گی اور ان لوگوں کا انجام جنہوں نے خدا کے نبیوں کی مخالفت کی معلوم ہو جائے گا.حدیث نبی کریم ﷺ میں بھی آتا ہے کہ بعض لوگوں نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا کبھی فارسی زبان میں بھی الہام ہوا ہے؟ آپ نےفرمایا ہاں فارسی زبان میں بھی خدا تعالیٰ نے ایک نبی پر کلام بھیجا تھا.رب العالمین کی صفت کے ماتحت جو اسلام نے یہ انکشاف کیا ہے اس کو دیکھو کہ کس طرح ایک جملہ سے جو ساری دنیا میں اور سب مذاہب کے پابندوں میں مشترک تھا کیسی نئی صداقت پید اکر دی ہے اور کس طرح تمام بنی نوع انسان میں اخوت کی روح پھیلا دی ہے.اس تعلیم کے ماتحت ایک مسلمان کو کسی مذہب کے بزرگوں سے پرخاش نہیں ہو سکتی کرشن، رامچندر، بدھ، زردشت، کنفیوشس اسی طرح ایک مسلمان کے نبی ہیں جس طر کہ موسیٰ او رمسیح.صرف یہ فرق ہے کہ ان کے نام قرآن کریم میں چونکہ آ گئے ہیں وہ ان کی نسبت زیادہ وثوق کے مقام پر ہیں اسلام کی پوزیشن اس ایک نکتہ ک وجہ سے کیسی اعلیٰ ہو گئی ہے.دنیا کے کسی گوشہ میں کسی علاقہ میں کسی نئے مذہب کا علم ہو کسی نبی کا پتہ لگے ایک مسلمان کا دل بجائے ایک نئے حریف کا خیال کر کے منقبض ہو جانے کے ایک نئے مصداق قرآن کی بشارت کی خبر سمجھ کر خوش ہو جاتا ہے کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کو رب العالمین ثابت کیا ہے او ربتایا ہے کہ اس کا فضل عرب اور شام سے ہی
۱۴۱ مخصوص نہیں.جس طرح اس کا دنیاوی سورج دنیا کے ہرگوشہ پر چڑھتا ہے اسی طرح اس کے کلام کا سورج بھی ہر قوم کو منور کرتا ہے.اس جگہ یہ شبہ پیدا کیا جا سکتا ہے کہ اگر ساری دنیا میں مذاہب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں تو پھر کیوں نہ سب کو ہی سچا سمجھ لیا جائے اور کیوں نہ یہ مانا جائے کہ جس مذہب پر چل کر کوئی خدا کو پانا چاہے پا سکتا ہے؟ اس شبہ کا جواب بھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ () وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (النحل:64-65) ترجمہ.ہمیں اپنی ذات کی ہی قسم ہم نے تجھ سے پہلے جس قدر امتیں گذر چکی ہیں سب کی طرف رسول بھیجے تھے مگر بعد میں لوگوں نے جو حق سے دور تھے ان کو اور کاموں میں ڈال دیااور آج ایسے ہی لوگ ان کے دوست ہیں اور ان کو دردناک عذاب پہنچے گا اور ہم نے تیری طرف کتاب نہیں بھیجی مگر صرف اس لئے کہ تُو ان کے سامنے ان امور کو بیان کرے جن میں کہ ان کے خیالات حق کے خلاف ہو گئے ہیں او رتاکہ وہ کتاب مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت بنے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی آمد سے پہلے ہی تمام پہلی کتب اور تعلیمیں مخلوط ہو گئی تھیں اور دوسرے لوگوں کے خیالات اور وساوس ان کے اندر شامل ہو گئے تھے.پس باوجود اس کے کہ ان کی اصل خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور اپنی موجودہ صورت میں قابل عمل نہ رہے تھے اور ان پر اس امر میں اعتبار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ ایک متلاشی کو خدا تک پہنچا دیں گے.اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق یہ بھی ایک سوال ہے کہ جس کا حل کرنا مذہب کتب کا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ نظر کیوں نہیں آتا؟ اب یہ کہہ دینا تو آسان ہے کہ ایک خدا ہے لیکن یہ مشکل ہے کہ خدا تعالیٰ کی مختلف صفات کو ثابت کیا جائے.قرآن کریم اس ذمہ داری کا اقرار کرتا ہے خدا تعالیٰ کی مختلف صفات کا ثبوت دیتا ہے مثلاً اسی امر کے متعلق کہ خدا تعالیٰ نظر نہیں آتا فرماتا ہے.لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الأَنعام:104) خدا تعالیٰ کو انسانی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں لیکن وہ خود انسانی آنکھوں کے پاس آتا ہے تاکہ وہ اسے دیکھیں اور وہ نہایت لطیف ہے کہ آنکھ کے دیکھنے سے قاصر ہے اور بندے کی حالت سے بھی خبردار ہے.
۱۴۲ کیسے مختصر الفاظ میں سارے سوال کو حل کر دیا ہے.لطیف چیز یں انسان کو نظر نہیں آتیں بجلی، ایتھر بلکہ خالص ہوا بھی انسان کو نظر نہیں آتی.پھر وہ خدا جو سب لطیف اشیاء سے بھی لطیف تر ہے اور مخلوق نہیں بلکہ خالق ہے کسی قسم کے مادہ سے نہیں بنا خواہ وہ کتنا بھی لطیف کیوں نہ ہو کس طرح نظر آ سکتا ہے؟ مگر ایک طرف وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کا بندہ اس کی ملاقات کا شائق ہے اور اس کے دیدار کے لئے تڑپتا ہے اس لئے وہ خود بندے کے پاس آ جاتا ہے اور اس کی نظر کے سامنے اپنے آپ کو کر دیتا ہے یعنی وہ اپنی قدرتوں اور اپنی فات کی جلوہ گری کے ذریعہ سے اپنی ذات کو بندہ پر ظاہر کرتا ہے اور اس طرح بندہ عقل کی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتا ہے.ثبوت ہستی باری تعالیٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ () الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ () الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ () ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ (الملك:2-5) بابرکت ہے وہ خدا جس کے قبضہ میں بادشاہت ہے اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے وہ خدا جس نے موت اور زندگی کو اس لئے بنایا ہے تاکہ یہ دیکھے کہ تم میں سے کون شخص اچھے عمل کرتا ہے یعنی اس نے زندگی کو عمل کے لئے اور موت کو جزاء کے لئے بنایا ہے کیونکہ اس دنیا میں کامل جزاء نہیں مل سکتی تھی تا وہ لوگ جو ابھی عمل کی جد و جہد میں پڑے ہوئے ہیں جزاء و سزا کو دیکھ کر ان کے لئے ایمان بے حقیقت نہ رہ جائے اور وہ خدا غالب ہے بخشنے والا ہے.وہی ہے کہ جس نے سات بلندیوں کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ایک دوسری کو مدد دے رہی ہے تو رحمان کی پیدائش میں کسی قسم کا فرق نہیں پائے گا تُو اپنی نظر پھیر کر دیکھ کیا تو کوئی کمی بھی دیکھتا ہے؟ پھر نظر کو پھرا اور پھر پھرا.مگر ہر دفعہ تیری نظر ناکام واپس آئے گی در آنحالیکہ وہ تھکی ہوئی ہو گی یعنی تمام کائنات پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ہر ضرورت کا جواب موجود ہے.ہر چیز جس جس قسم کی طاقتوں کو لے کر پیدا ہوئی ہے اسی قسم کے سامان اسے میسر ہیں تا ان طاقتوں کو استعمال کر سکے.اس دنیا پر پیدا ہونے والے باریک جَرم کی ضروریات کروڑوں کروڑ میل پر چکر لگانے والے ستارے کے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہیں.پس یہ دائرہ ضرورت اور اس کے ایفاء کا دیکھو اور اس سے معلوم کر لو کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جس نے ادنیٰ ادنیٰ ضروریات کا لحاظ رکھا ہے اور ہر ایک خواہش کے پورا ہونے کا اور ہر سچی جستجو کا سامان پیدا کیا ہے.
۱۴۳ صفات الٰہی کے متعلق یہ بھی سوال ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ رحمان ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے تو اس نے مختلف قسم کے درندے اور کیڑے مکوڑے کیوں پیدا کئے ہیں؟ اور تکلیفات اور بیماریاں کیوں بنائی ہیں؟ اسلام نے اس سوال کو بھی حل کیا ہے او رصرف رحمان کہہ کر نہیں چھوڑ دیا چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (الأَنعام:2) یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے آسمان او رزمین پیدا کئے ہیں اور جس نے ہر قسم کی تاریکیوں اور نور کو پید اکیا ہے پھر بھی وہ لوگ جو حقیقت کے منکر ہیں خدا کا شریک قرار دیتے ہیں.یعنی تمام قسم کی وہ چیزیں جو تکلیف دہ ہیں اور تاریکی کی فرزند کہلاتی ہیں جیسے سانپ، بچھو، درندے وغیرہ یا زہر وغیرہ یا بیماریاں تکلیف وغیرہ ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے رحم کے خلاف نہیں بلکہ اس کے رحم کو ثابت کرتی ہے اور ان کی حقیقت کو مدنظر رکھ کر خدا تعالیٰ کی حمد ثابت ہوتی ہے نہ کہ اس پر الزام لگتا ہے مگر باوجود اس کے جو لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ان چیزوں کی پیدائش کو خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور خدا کا ایک اور شریک مقرر کر دیتے ہیں کہ ایسی ضرر رساں چیزوں کا پیدا کرنے والا کوئی اور ہے.دیکھو کس صفائی سے حقیقت کے منہ پر سے پردہ اٹھایا ہے اور کیسا لطیف جواب دیا ہے کہ جن چیزوں کو ضرر رساں کہا جاتا ہے ان کی پیدائش ضرر رساں نہیں ہے بلکہ پیدائش کی غرض تو نیک ہی ہے اور انسان کے فائدے کے لئے ہے اور اسے ان کی پیدائش پر خدا تعالیٰ کی حمد ہی کرنی چاہئے.اس انکشاف کے ماتحت ان چیزوں پر غور کیا جائے جو ضرر رساں معلوم دیتی ہیں تو بات ہی بالکل اور نظر آتی ہے.زہر بے شک انسان کو مارتا ہے لیکن کس قدر بیماریوں میں سنکھیا اور کُچلا استعمال کیا جاتا ہے افیون دی جاتی ہے.کیا وہ لوگ جو سنکھیا اور کُچلے یا افیون سے مرتے ہیں زیادہ ہیں یا وہ لوگ جو ان کے ذریعہ سے بچتے ہیں؟ یقیناً ان ادویہ کے ذریعہ سے ہر سال لاکھوں آدمی مرتے مرتے بچتے ہیں.پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کیوں پیدا کی ہیں؟ اسی طرح سانپ، بچھو وغیرہ کا حال ہے ابھی تک خواص الاشیاء کے ماہرین نے ان کی طرف توجہ نہیں کی.ورنہ جب وہ توجہ کریں گے تو ان کو معلوم ہو گا کہ یہ جانور بھی طبعی طو پر نہایت مفید ہیں.علاوہ
۱۴۴ ازیں ان کی پیدائش جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے انسان کی پیدائش کے لئے پیش خیمہ تھی اور زمین کے اوپر جوّ کی صفائی میں حشرات الارض کا بھی ایک بہت بڑا حصہ ہے اور درحقیقت یہ جانور پیدائش انسانی کی پہلی کڑیاں ہیں نہ اس طرح جس طرح آج کل بعض لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ ان میں سے ہر ایک جانور زمین کے مختلف تغیرات پر دلالت کرتا ہے اور اس کی یادگار ہے.اسی طرح فرماتا ہے وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ () وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ (الشورى:30-31)خدا تعالیٰ کے انعامات میں سے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام چیزوں کی پیدائش بھی ہے اور وہ جب چاہے ان کو جمع کر سکتا ہے اور جو تکلیف تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے عمل کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ تو تمہاری بہت سی غلطیوں کے بد نتائج کو مٹاتا رہتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند، ستارے اور ان کے درمیان کی چیزیں پیدا کر کے زمین پر انسان کو حاکم بنا دیا ہے اب اگر وہ بعض سامانوں سے فائدہ نہ اٹھاویں یا بعض کو غلط استعمال کر کے نقصان اٹھاویں تو یہ ان کا اپنا قصور ہے.اللہ تعالیٰ تو جو کچھ کرتا ہے یہ ہے کہ ان کی غلطیوں کے بد نتائج سے ان کو بچا لیتا ہے.پس انسانی تکالیف خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ اس قانون قدرت کے غلط استعمال کے سبب سے ہیں جو انسانوں کے فائدے کے لئے بنایا گیا تھا.بیماریاں بھی اسی قوت مؤثرہ او رمتأثرہ کا نتیجہ ہیں جو انسانوں میں پیدا کی گئی ہے انسان کی تمام ترقیات اس کی ان قوتوں سے وابستہ ہیں.اگر اس میں قوت مؤثرہ اور متأثرہ نہ ہو تو انسان کبھی وہ نہ ہو جواب ہے وہ ایک عام قانون قدرت کے ماتحت ہر اک اردگرد کی چیز پر اثر کرتا ہے اور اس سے خود متاثر ہوتا ہے اور جب کسی وقت اس تاثیر یا تاثر میں قانون توڑ بیٹھتا ہے تو بیمار ہو جاتا ہے یا تکلیف اٹھاتا ہے پس بیماری کو خدا نے نہیں پیدا کیا بلکہ خدا نے اس قانون قدرت کو پیدا کیا ہے جس سے انسان کی ترقی وابستہ ہے.اس میں کمی بیشی کرنے پر انسان خود بیماری کو پیدا کرتا ہے اور بیماری جن قوانین کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اپنی جگہ چونکہ رحمت کا نتیجہ ہیں اس لئے بیماریوں وغیرہ کی پیدائش سے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.جو حال بیماری کا حال بعینہٖ وہی حال گناہ کا ہے.گناہ بھی بیماری کی طرح کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا فقط قانون قدرت کے خلاف یا قانون شریعت کے خلاف آگے بڑھ جانے یا پیچھے رہ جانے کا نام گناہ
۱۴۵ ہے.پس گناہ کی موجودگی میں بھی اللہ تعالیٰٰ کی رحمانیت اور اس کی قدوسیت پر اعتراض نہیں پڑ سکتا.قرآن کریم میں جس قدر نام گناہ کے آتے ہیں وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ جو یا افراط پر دلالت کرتے ہیں یا تفریط پر کوئی بھی ایسا نہیں جو اسمائے مثبتہ میں سے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک گناہ کی مستقل حقیقت کوئی نہیں بلکہ نیکی کے عدم کا نام گناہ ہے اور عدم بندے کے فعل کا نتیجہ ہوتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو چھوڑ دیتا ہے یا دوسرے کے حق کو اٹھا لیتا ہے تو وہ ایک چیز کو معدوم کرنے کا مرتکب ہوتا ہے نہ کہ اثبات کا.اس لطیف تعلیم کو جو قرآن کریم نے اس بارے میں دی ہے کہ باوجود ضرر رساں چیزوں کی موجودگی کے خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا دوسری کتب ہرگز پیش نہیں کرتیں اور نہ وہ اس طرح دعویٰ کے ساتھ دلیل دیتی ہیں.یہ صرف قرآن کریم کا کمال ہے کہ وہ نہ صرف خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کرتا ہے بلکہ ان کے متعلق ایسا تفصیلی علم دیتا ہے کہ دل اس کے ذریعہ سے محبت اور اطاعت کے جذبہ سے پُر ہو جاتا ہے اور دماغ سرشار ہو جاتا ہے اور آنکھیں مخمور ہو جاتی ہیں اور تمام شکوک و وساوس بالکل مٹ جاتے ہیں ورنہ اجمالی طور پر اسمائے الٰہی کا بیان کرنا کوئی کمال نہیں ہے.اسی طرح مثلاً خدا کی صفت رحم کے خلاف یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بڑوں کو تو خیر ان کے اعمال کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے بچوں وغیرہ کو کیوں تکلیف ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی مذکورہ بالا جواب میں آ گیا ہے یعنی خدا تعالیٰ نے ایک قانون بنایا ہے اور اس قانون میں یہ بات رکھی ہے کہ ہر ایک چیز دوسرے سے اثر قبول کرتی ہے.اگر یہ قانون نہ ہوتا تو انسان ناقابل تغیر ہوتا اور جب وہ تغیر کو قبول نہ کرتا تو اب جو وہ ترقیات قبول کر رہا ہے یہ بھی نہ کرتا اسی قانون کے ماتحت بچے وغیرہ اپنے ماں باپ سے اچھی باتیں بھی قبول کرتے ہیں اور بری باتیں بھی قبول کرتے ہیں.صحت بھی ان سے لیتے ہیں اور بیماری بھی.اگر بیماریاں یا تکالیف ان کو ماں باپ سے ورثہ میں نہ ملتیں تو اچھی طاقتیں بھی نہ ملتیں اور بجائے انسان کے ایک پتھر کا وجود ہوتا جو بُرے بھلے کسی اثر کو قبول نہ کرتا او رجو غرض انسان کی پیدائش کی ہے وہ باطل ہو جاتی اور انسان کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتی.باقی رہا یہ سوال کہ اس تکلیف کا جو ان کو اس قانون قدرت کی وجہ سے ملتی ہے ان کو کیا بدلہ ملے گا؟ کیونکہ گو قانون قدرت انسان کی ترقی کے لئے ہے مگر پھر
۱۴۶ بعض لوگوں کی غلطیوں کے سبب تکلیف تو پہنچ جاتی ہے.اس کا جواب ہماری شریعت یہ دیتی ہے کہ ہر اک وہ تکلیف جو انسان کو ایسے امور کی وجہ سے ملتی ہے جن میں اس کا اپنا دخل نہیں اس کا موازنہ کر لیا جائے گا اور انسان کی روحانی ترقیا ت کے وقت اس کو مدنظر رکھا جائے گا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ (الأَعراف:9) اس جزائے عظیم کے وقت ان امور کو مدنظر رکھا جائے گا جو کسی انسان کی ترقی میں حائل تھے اور جن میں اس کا کوئی دخل نہ تھا.ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ (النساء:96) یعنی مومنوں میں سے جو لوگ دین کی خدمت کرتے ہیں اور وہ جو نہیں کرتے وہ برابر نہیں ہو سکتے.مگر وہ لوگ جو خدمت میں اس لئے کوتاہی کرتے ہیں کہ ان کو کوئی طبعی نقصان پہنچ گیا ہے ان کے متعلق یہ حکم نہیں ہے.ان کی اس معذوری کو اللہ تعالیٰ مدنظر رکھے گا.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.ما یزال البلاء بالمومن و المومنۃ فی نفسہ و ولدہ و مالہ حتی یلقی اللہ و ما علیہ خطیئۃ مومن مرد ہو یا عورت اس کو کوئی طبعی تکلیف نہیں پہنچتی.خواہ نفس کے متعلق خواہ اولاد کے متعلق خواہ مال کے متعلق مگر اس کے بدلہ میں اس کی خطائیں کم ہوتی جاتی ہیں اور ان تکالیف کو برداشت کرنے کے سبب سے ان کی روح میں پاکیزگی کی ایک ایسی طاقت پیدا ہوتی جاتی ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰٰ سے ملیں گے تو اس وقت تک پاک ہو چکے ہوں گے.اس جگہ یہ دھوکا نہ لگے کہ یہ حکم صرف مومنوں کے لئے ہے فائدہ ہر اک کو اپنے حق کے مطابق پہنچتا ہے.قرآن کریم کا فیصلہ عام ہے حدیث میں چونکہ مسلمانوں کے سوال کے جواب میں یہ بات بتائی گئی ہے اس لئے ان کو مخاطب کیا گیا ہے.اب دیکھو ایک ہی صفت کی تشریح میں مذاہب میں کہاں سے کہاں تک اختلاف پہنچ گیا ہے.اسلام نے اس کا مفہوم اور لیا ہے اور بعض دوسرے مذاہب نے اور.انہوں نے صفت رحم کو قائم رکھنے کے لئے تناسخ کا مسئلہ پیش کیا ہے حالانکہ ایک ادنیٰ تدبیر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اسلام کی تشریح بالکل طبعی اور قانون قدرت کے مطابق ہے اور دوسری تشریح کی بناء ہمیں بعض ایسے مفروضہ امور پر رکھنی پڑتی ہے جو ثابت نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات عدل اور رحم بھی قابل توجہ ہیں.تمام مذاہب خدا تعالیٰ کو عادل بھی مانتے ہیں اور رحیم بھی لیکن تشریح میں بڑا اختلاف ہے اسلام کہتا ہے کہ ان دونوں صفات میں اختلاف
۱۴۷ نہیں ہے.یہ ایک ہی وقت میں عمل کر سکتی ہیں اور کرتی ہیں عدل رحم کے خلاف نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (الأَنعام:161) جو نیکی کرے گا اس کو دس گناہ بدلہ ملے گا اور جو بدی کرے گا اس کو اتنا ہی ملے گا جتنا اس نے عمل کیا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا.اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک کسی کو اس کے حق سے زیادہ اجر دے دینا ظلم نہیں ہے بلکہ اس کے حق سے زیادہ سزا دینا ظلم ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ ظلم کہتے ہیں کسی کو اس کے حق سے زیادہ سزا دے دینے یا اس کے حق سے کم اجر دینے یا اس کا حق کسی اور کو دے دینے کو.اور یہ کام کبھی اللہ تعالیٰٰ نہیں کرتا.نہ کبھی کسی کو اس کے حق سے زیادہ سزا دیتا ہے نہ اس کے اجر کو کم کر دیتا ہے نہ کسی کا حق کسی اور کو دے دیتا ہے بلکہ وہ جو کچھ کرتا ہے یہ ہے کہ ایک نادم اور پشیمان بندے کو جو اپنی غلطی کو محسوس کر کے اپنے بد اعمال کو ترک کر کے ایک دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتے ہوئے ہونٹوں اور چشمہ کی طرح جاری آنکھوں اور شرمندگی سے جھکی ہوئی گردن کے ساتھ اور آئندہ کے لئے کامل پاکیزگی اور طہارت کے خیالات سے جو متلاطم سمندر کی لہروں کی طرح جوش مار رہے ہوتے ہیں پُر دماغ سے اللہ تعالیٰ کے عرش پر جا کھڑا ہوتا ہے معاف کر کے نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دیتا ہے اور اس باپ کی طرح جس کا بچہ آوارہ ہو گیا تھا اور مدت کے بعد پشیمان ہو کر واپس گھر آیا تھا اور اپنے کئے پر ایسا پشیمان تھا کہ باپ کے سامنے آنکھیں نہیں اٹھا سکتا تھا.محبت کے جذبات سے لبریز ہو کر اپنے سینہ سے لگا لیتا ہے اور اس کو دھتکارتا نہیں بلکہ اس کے واپس لوٹنے پر خوشی کا اظہار کرتا ہے کیا باپ کے اس فعل پر دوسرے بیٹوں کو جو اپنے باپ کی خدمت میں لگے ہوئے تھے کوئی شکوہ کا موقع ہے؟ کیا ان کے لئے کسی اعتراض کی گنجائش ہے؟ بخدا نہیں اور ہرگز نہیں.بے شک سزا ایک بہت بڑا ذریعہ اصلاح کا ہے لیکن سچی ندامت اور حقیقی پشیمانی سے زیادہ سزا دوزخ کی آگ نہیں ہو سکتی.جو کام دوزخ کی آگ لاکھوں سالوں میں کر سکتی ہے سچی ندامت وہ کام منٹوں میں کر جاتی ہے اور جب کوئی شخص سچے طور پر اپنی بدیوں سے توبہ کر کے اور آئندہ اصلاح پر آمادہ ہو کر خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کا تقاضا ہے کہ اس پر رحم کرے.کیا رحیم و کریم خدا اپنے ایک عاجز بندے کو جو امید و آرزو کا مجسم نمونہ بن کر اور اپنے افعال سے بیزار ہو کر اس کی رحمت کے آستانے پر نڈھال ہو کر گر جاتا ہے دھتکار دے اور
۱۴۸ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟ نہیں بخدا ہرگز نہیں.سب سے آخر میں میں اس صفت کو لیتا ہوں جو سب صفات سے زیادہ مشہور ہے لیکن جس میں تفصیلاً سب سے زیادہ اختلاف ہے.یہ صفت احدیت کی صفت ہے.دنیا میں آج کل ایک مذہب بھی نہیں جو دو خداؤں یا اس سے زیادہ خداؤں کا قائل ہے.توحید کے مسئلہ پر اصولی طور پر سب مذہب متفق ہو چکے ہیں بلکہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیروؤں کے خلاف یہ حربہ چلاتے ہیں کہ یہ پوری طرح توحید کے قائل نہیں ہیں.میں نے بعض یورپین مصنفین کی کتب دیکھی ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان مشرک ہیں او رمیں نے سنا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں بہت سے لوگ جو اسلامی لٹریچر سے ناواقف ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان رسول کریم ﷺ کی پرستش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طبائع اس امر کو محسوس کرتی ہیں کہ اب ایک سے زیادہ خداؤں کا مسئلہ پیش کرنا بالکل ناممکن ہے.دنیا اس کو سننے کے لئے تیار نہیں مگر باوجود توحید کے لفظ پر سب مذاہب کے اجتماع کے توحید کے متعلق تمام میں اختلاف ہے اور کئی مذاہب ہیں جو توحید کے نام کے نیچے ہر قسم کا شرک چھپائے بیٹھے ہیں مگر اسلام شرک سے کلّی طور پر پاک ہے.اس نے ہر قسم کی مشرکانہ باتوں کا بکلّی استیصال کیا ہے اور شرک کی اصل حقیقت کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے کسی کو دھوکا نہیں لگ سکتا.چنانچہ قرآن کریم شرک کو چار قسم میں تقسیم کرتا ہے.ایک قسم شرک کی تو فرماتا ہے کہ ندّ بنانا ہے یعنی یہ یقین کر لینا کہ خدا کی طرح کوئی اور خدا بھی ہے جو اس کے ساتھ ذات میں شریک ہے.دوسرے شریک قرار دینا یعنی یہ خیال کرنا کہ کوئی ہستی اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے سب یا بعض میں اس کے ساتھ شریک ہے خواہ اس کو معبود بنایا جائے یا نہ بنایا جائے.مثلاً یہ سمجھ لیا جائے کہ فلاں انسان مخلوق پیدا کر سکتا ہے یا مردے زندہ کر سکتا ہے گو کسی شخص کو انسان قرار دے کر ہی یہ صفات اس کی طرف منسوب کی جائیں مگر یہ شرک ہو گا کیونکہ صرف نام کا فرق ہے حقیقتاً اس شخص کو خدا ہی قرار دیا گیا ہے.تیسری قسم کا شرک کسی کو الٰہ قرار دینا ہے یعنی کسی کی خدا کے سوا عبادت کرنی خواہ اس کو خدا نہ ہی سمجھا جائے یا خدا تعالیٰ کی صفات میں شریک قرار نہ دیا جائے جیسے کہ پرانے زمانہ میں بعض اقوام میں ماں باپ کی عبادت کی جاتی تھی.
۱۴۹ چوتھے کسی کو رب قرار دینا یعنی کسی بزرگ یا پیر کو ایسا سمجھ لینا کہ وہ بشریت کی غلطیوں سے بھی پاک ہے اور وہ جو کچھ حکم دے خواہ وہ کیسا ہی برا ہو اس کا ماننا ضروری ہے اور کسی بندہ کی بات کو خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو خدا تعالیٰ کی بات پر عملاً مقدم کرنا خواہ اعتقاداً اس کو خدا نہ سمجھے.قرآن کریم میں ان چاروں قسموں کے شرکوں کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے.قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران:65) یعنی اے اہل کتاب اس امر میں تو ہم سے اتفاق کرو جس میں تم اور ہم اجمالاً متفق ہیں یعنی صرف اس خدا کی جس کا شریک فی الجوہر کوئی نہیں عبادت کریں اور کسی کو اس کی صفات میں شریک نہ کریں اور بندوں میں سے کسی کی بات کو اس کے حکم پر مقدم نہ کریں.اگر یہ لوگ بات نہ مانیں تو کہہ دو کہ ہم تو اس رنگ میں خدا کے فرمانبردار ہو کر رہیں گے.غور کرو کس طرح تمام اقسام شرک خواہ بڑی ہوں خواہ چھوٹی اس مختصر سے کلام میں جمع کر دی ہیں.اس حکم کے ماتحت جب ایک مسلمان یہ کہتا ہے کہ وہ ایک خدا کا قائل ہے تو وہ اس لفظ کے وہی معنے لیتا ہے جو زبان میں اس فقرے کے معنے ہوتے ہیں.وہ سوائے ایک خدا کے کسی کی عبادت نہیں کرتا وہ اس کی صفات کسی اور کو نہیں دیتا وہ اس کو ہر ایک قسم کی رشتہ داریوں سے پاک قرار دیتا ہے.وہ اسے حلول اور اوتار بننے کی حالتوں سے بالا سمجھتا ہے وہ اسے موت اور بھوک اور پیاس کے جذبات سے خواہ بطور تنزل ہی کیوں نہ ہوں پاک سمجھتا ہے.اس کا ماتھا کسی اور کے آگے نہیں جھکتا.وہ اپنی امیدوں کا مأوٰی اور کسی کو نہیں بناتا.وہ دعاؤں میں اور کسی کو مخاطب نہیں کرتا.وہ خدا کے نبیوں کا بڑا ادب کرنے والا ہے لیکن وہ ان کو بھی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انسانوں جیسا انسان خیال کرتا ہے اور یہی تعلیم ہے جو اسلام اسے دیتا ہے اور جس پر عمر بھر چلنے کی اسے تاکید کرتا ہے.اب اجمالاً تو سارے ہی مذہب اس کےساتھ توحید باری کے اقرار میں متفق ہیں لیکن تفصیلات میں ہر ایک اپنا الگ الگ راستہ لے لیتا ہے اور سب مذاہب میں ایک عظیم الشان بُعد پیدا ہو جاتا ہے.خلاصہ یہ کہ اسلام کی تعلیم اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق نہایت مکمل ہے کیا بلحاظ اجمال کے اور کیا بلحاظ تفصیل کے اور اس تعلیم سے جو رغبت انسان کے دل میں اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے پیدا ہو سکتی ہے اور کسی مذہب کے ذریعہ وہ رغبت پیدا نہیں ہو سکتی.اور مزید خوبی یہ ہے کہ اسلام
۱۵۰ تفصیل کے ساتھ ہر اک صفت کا ذکر کرتا ہے اور اس کا جو اثر روزانہ زندگی کے حالات پر پڑتا ہے اسکو بیان کرتا ہے اور مختلف صفات کے آپس میں تعلقات اور اس کے اثر کی حد بندیوں کو بھی بیان فرماتا ہے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وجود بندہ کی عقل کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور اس کا دل خدا کی محبت سے لبریز ہو کر بہہ پڑتا ہے اور اس کے ساتھ صفات الٰہیہ کے بیان کرنے میں جو دوسرے مذاہب کو اشتراک ہے وہ صرف نام کا ہے نہ حقیقت کا حالانکہ اصل چیز حقیقت ہوتی ہے نہ کہ محض نام." دوسرا سوال خدا سے بندے کا تعلق "ذات و صفات باری کے متعلق جو اسلام کی تعلیم ہے اس کو مختصر بیان کر دینے کے بعد اب میں مقصد اول کے دوسرے سوال کو لیتا ہوں جو یہ ہے کہ بندے کو خد اسے کیا تعلق ہونا چاہئے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف کسی چیز کو مان لینا اور بات ہے تمام تعلیم یافتہ لوگ نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے وجود پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان سے تعلق سوائے ان چند لوگوں کے جو ان علاقوں کی مزید تحقیقات میں مشغول ہیں کسی کو نہیں ہے ان کے ذکر سے ان کے جذبات میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی لیکن ایک ایسے شخص کے ذکر سے جو ان سے کوئی حقیقی تعلق رکھتا ہے ان کے جذبات یک دم بھڑک اٹھتے ہیں.پس یہ بھی سوال ہے کہ کوئی مذہب اپنے پیروؤں سے خدا تعالیٰ کے متعلق کس قسم کے تعلق کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ اسی مطالبہ کے معیار پر کسی مذہب کی سچائی یا اس کی غلطی یا اس کی قبولیت یا اس کی ناکامی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.اگر وہ ایسا مطالبہ اپنے متبعین سے کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ صفات الٰہیہ پر حقیقی ایمان نہیں رکھتا اور اگر مطالبہ تو صحیح ہے لیکن اس کے پیرو اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتے تو ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب اپنے مقصد کے پورا کرنے میں ناکام رہا ہے.میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات پہلے بیان کر چکا ہوں اور جن پر تمام مذاہب قریباً متفق ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا اصل تعلق اللہ تعالیٰ سے ہی ہے کیونکہ ہمارے آرام اور ہماری ترقی اور ہماری کامیابی کے سب سامان اسی نے پیدا کئے ہیں.ہماری ہستی کے وجود میں لانے کا بھی وہی
۱۵۱ باعث ہے اور ہماری آئندہ زندگی بھی اسی کے فضل سے وابستہ ہے.اس سے بڑھ کر نہ ہمارے والدین ہو سکتے ہیں نہ ہماری اولاد، نہ ہمارے بہائی، نہ ہماری بیویاں، نہ ہمارے خاوند، نہ ہمارے دوست، نہ ہمارے اہل ملک، نہ ہماری حکومت، نہ ہمارا مل، نہ ہماری جائداد، نہ ہمارا عہدہ، نہ ہماری عزت، نہ خود ہماری جان کیونکہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے عطیوں کا ایک جزو ہیں اور وہ اس کُل کا معطی ہے.درحقیقت ان صفات کو بیان کرنے کے بعد جو اوپر بیان ہو چکی ہیں وہی مذہب سچا ہو سکتا ہے جو انسان سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ادب کو سب چیزوں کی محبت اور سب حاکموں کے ادب پر فوقیت دے اور خدا کی رضا کے لئے سب چیزوں کو قربان کرنا پڑے تو کر دے مگر خد اکی رضا کو کسی اور چیز پر قربان نہ کرے.وہ اس امر کا مطالبہ کرے کہ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں سب چیزوں سے زیادہ ہونی چاہئے اور اس کی یاد سب پیاروں کی یاد سے بڑھ کر ہونی چاہئے.اس کے وجود کو ایک دور کے ملک کے پہاڑ یا دریا کی طرح عالم موجودات کا ایک فرد نہیں سمجھ چھوڑنا چاہئے بلکہ اس کو ہر ایک زندگی کا سرچشمہ اور ایک امید کا مرکز اور ہر ایک نظر کا مطمح بنانا چاہئے.اسلام یہی تعلیم دیتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ(التوبة:24) اے ہمارے رسول! کہہ دے اگر تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد اور تمہارے بہائی بہنیں اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند یا تمہاری قوم یا تمہارے مال جن کو تم محنتوں سے کماتے ہو.یا تمہاری تجارتیں جن میں نقصان ہو جانے کا تمہیں خطرہ ہوتا ہے یا تمہارے گھر جن کو تم پسند کرتے ہو اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی رضا کے لئے کوشش کرنے کی نسبت تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو تم مومن نہیں ہو.تم انتظار کرو اس وقت کا جب خدا تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرے اور اللہ عہد شکن لوگوں کو کامیاب نہیں کرتا.ایک مسلمان ہرگز مسلمان نہیں کہلا سکتا جب تک اس کا اللہ تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق نہ ہو جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.اسے خدا کی رضا کے لئے ہر ایک دیگر چیز اور ہر ایک دوسرے جذبہ کو قربان کر دینا چاہئے.اس کی محبت ہر ایک دوسری چیز پر اسے مقدم ہونی چاہئے.ایک دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ محبت الٰہی کی علامت کا اس طرح ذکر فرماتا ہے الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا
۱۵۲ وَعَلَى جُنُوبِهِمْ (آل عمران:192) مومن صرف وہ لوگ ہیں جن کے دل پر خدا تعالیٰ کا ایسا رعب ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا نام ان کی مجلس میں آ جائے تو ان کے دلوں میں خشیت اللہ کی ایک لہر پیدا ہو جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا کلام ان کے سامنے پڑھا جائے تو ان کا دل ایمان سے بھر جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں یعنی ہر اک کام کا انجام پانا اسی کی مدد پر موقوف سمجھتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کو اسی کے فضل پر منحصر خیال کرتے ہیں.میں اس جگہ ایک شبہ کا ازالہ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں جو عام طور پر اسلام کی نسبت کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ اسباب سے انسان کو کوئی کام ہی نہیں لینا چاہئے اور اپنے کام خدا پر چھوڑ دینے چاہئیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض لوگوں میں ایسے خیالات پائے جاتے ہیں مگر اسلام کی ہرگز یہ تعلیم نہیں تمام قرآن ان آیات سے بھرا ہوا ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم نے انسان کے فائدے کے لئے پیدا کی ہیں.پس ان کو ترک کرنا اس کے منشاء کے مطابق کس طرح ہو سکتا ہے اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا (البقرة:190) اور ہر کام کے لئے ہم نے جو طریق مقرر کئے ہیں ان کے ذریعہ سے وہ کام کرو یعنی اسباب اور ذرائع بھی اللہ تعالیٰ کے پید اکردہ ہیں انہی کے کام کرنا چاہئے.اور فرمایا خُذُوا حِذْرَكُمْ (النساء:72) اے مسلمانو! تمام وہ سامان جن سے کامیابی ہو سکتی ہے اپنے پاس رکھو اور ایک جگہ فرمایا وَتَزَوَّدُوا (البقرة:198) جب سفر کو نکلو تو اپنے پاس سفر کا سامان ضرور رکھا کرو اسی طرح رسول کریم ﷺ کی نسبت آتا ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس یا آپ نے اس سے پوچھا کہ تُو نے اونٹ کس کے حوالے کیا ہے اس نے کہا یا رسول اللہ! میں نے خدا پر توکل کر کے اس کو چھوڑ دیا ہے.
۱۵۳ آپ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے.تو پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھ پھر خدا پر توکل کر آپ مطلب یہ ہے کہ توکل ترک اسباب کا نام نہیں بلکہ اس امر پر یقین کا نام ہے کہ خدا تعالیٰ ایک زندہ خدا ہے وہ دنیا کو پیدا کر کے خالی ہاتھ ہو کر نہیں بیٹھ گیا بلک اب بھی اس کا حکم دنیا میں چلتا ہے سب کاموں کے نتیجے اسی کے حکم سے نکلتے ہیں.وہ اس بندے کی جو اس پر یقین رکھتا ہے اس وقت حفاظت کرتا ہے جب وہ غافل ہوتا ہے اور اس حالت میں اس کے کام کی نگرانی کرتا ہے جب وہ سامنے نہیں ہوتا.غرض اس امر پر یقین کرنے کا نام کہ خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اور ان کی بے کسی کی حالتون میں ان کا ساتھ دیتا ہے او رباوجود سامانوں کی موجودگی کے اگر اس کا غضب نازل ہو تو کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی توکل ہے نہ ترک اسباب.گویا توکل ایک دلی حالت کو کہتے ہیں نہ کسی ظاہری عمل یا ترک عمل کو.اسی طرح ایک جگہ فرماتا ہے وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ (التوبة:72) اللہ تعالیٰ کی رضا سب سے مقدم ہے یعنی بندہ کو خدا تعالیٰ سے تعلق کی بنیاد کسی دنیوی یا اخروی انعام پر نہیں رکھنی چاہئے بلکہ جو چیز اس کے مدنظر ہونی چاہئے وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا ہے جب خدا تعالیٰ اس کا محبوب ہو تو اس کی رضا پر کسی اور چیز کو مقدم کرنا اپنی محبت کی ہتک کرنا ہے.مذکورہ بالا حوالوں سے جو صرف بطور نمونہ دئیے گئے ہیں یہ اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ اسلام بندہ سے خدا تعالیٰ سے کس قسم کا تعلق رکھنے کی امید کرتا ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے ہر ایک شخص جو خدا تعالیٰ کو فی الواقع مانتا ہے اس امر میں ہم سے متفق ہو گا کہ اگر کوئی خدا ہے تو اس سے ہمارا ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے." تیسرا سوال "یعنی کن اعمال سے بندہ اپنے تعلق باللہ کا اظہار کرے؟ یا یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ پر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں؟ دوسرے سوال کا جواب دینے کے بعد میں تیسرے سوال کو لیتا ہوں اس سوال کا جواب
۱۵۴ مختلف مذاہب نے مختلف طور پر دیا ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس سوال کے متعلق مختلف مذاہب کا پہلے سوالوں کی نسبت زیادہ اختلاف ہے.اسلام اس سوال کا یہ جواب دیتا ہے اور یہی طبعی جواب ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اس غرض کو پورا کرے جس غرض کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت تلاش کرے اور اس کا کامل عبد بنے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ () هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ () قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِنْ رَبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (غافر:65-67) یعنی اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو ایسا بنایا ہے کہ اس میں تمہاری ضرورتوں کے سب سامان مہیا ہیں اور آسمان کو تمہارے لئے موجب حفاظت بنایا ہے اور تم کو شکلیں دی ہیں اور ایسی شکلیں دی ہیں جو تمہارے لئے موجب حفاظت بنایا ہے اور تم کو شکلیں دی ہیں اور ایسی شکلیں دی ہیں جو تمہارے کام کے مطابق ہیں اور پاکیزہ رزق تم کو عطا کیا ہے یہ تمہارا خدا ہے پس کیا ہی برکت والا ہے یہ خدا جو صرف تمہارا ہی رب نہیں بلکہ سب مخلوقات کا رب ہے وہ زندہ ہے اور دوسروں کو زندگی بخشتا ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پس اس کو پکارو اس طرح کہ سوائے اس کے اور کسی کی عبادت نہ کرو.سب تعریف اس خدا کے لئے ہے جو سب مخلوق کا رب ہے.تو کہہ دے مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو بعد اس کے کہ میرے پاس میرے رب کے کھلے کھلے نشان آ چکے ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب جہانوں کے رب کا پورا فرمانبردار ہو جاؤں.ان آیا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قلبی تعلق کے علاوہ جس کا پہلے ذکر آ چکا ہے اپنے بندے سے ظاہری اعمال میں بھی اپنے احکام کی فرمانبرداری چاہتا ہے.یہ احکام جیسا کہ قرآن کرم سے معلوم ہوتا ہے کئی قسم کے ہیں مگر اس جگہ میں صرف ان احکام کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو عبادت سے تعلق رکھتے ہیں یعنی جن میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں اظہار عبودیت کو مدنظر رکھا گیا ہے.بنی نوع انسان کے ساتھ ان کا براہ راست تعلق نہیں.یہ اعمال اسلام نے پانچ قسم کے مقرر کئے ہیں.(1) نماز (2) ذکر (3) روزہ (4) حج (5) قربانی.اور ان پانچوں قسم کے احکام میں تمام مذاہب میں قریباً اشتراک پایا جاتا ہے یعنی ان میں ان پانچوں قسم کی عبادتوں کا وجود پایا جاتا ہے گو طریق عبادت مختلف ہیں.جدید تحقیق جو پرانے
۱۵۵ مذاہب کے متعلق ہو رہی ہے وہ اور نئے نئے مذاہب کو ان مذاہب کی صف میں لا کر کھڑا کر رہی ہے جن میں مذکورہ بالا پانچ قسم کی عبادات پائی جاتی ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جبکہ نئی تحقیقات اس امر کو ثابت کر رہی ہیں کہ ان عبادات کا پتہ سب مذاہب میں ملتا ہے خیالات کی جدید رَو اس طرف جا رہی ہے کہ ان عبادات کا کوئی فائدہ نہیں.خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے بندوں کو ان ظاہری شکلوں میں جکڑے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سے ظاہری عبادات کا اثر بہت کچھ مٹتا جاتا ہے اور اکثر مذاہب کے پیرو ظاہری عبادات کو بالکل ترک کرتے چلے جاتے ہیں.مگر اسلام جس طرح ہر زمانہ کی ضروریات کے لئے تعلیمات کا ذخیرہ رکھتا ہے اسی طرح اس کی یہ شان بھی ہے کہ اس کی قائم شدہ تعلیم بدلتی نہیں.وہ ایک چٹان کی طرح ہے جسے زمانہ کے سیلاب اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتے.وہ نیچر کی طرح نئے سے نئے انکشافات تو کرتا ہے مگر نیچر کی طرح اس میں یہ خاصیت بھی ہے کہ اس کا کوئی قانون بدلتا نہیں کیونکہ اس کے سب قوانین کی بنیاد عالم الغیب ہستی کی طرف سے حق اور حکمت پر رکھی گئی ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلق کی بنیاد دل پر ہے اگر دل گندہ ہو اور محبت سے خالی ہو تو ظاہر میں تنی ہی فروتنی دکھائی جائے یا اخلاص کا اظہار کا جائے اس کا کوئی فائد نہیں بلکہ ایسا فعل ایک لعنت ہے جو اپنے مرتکب کو تاریکی کے عمیق گڑھوں میں گرا دیتا ہے.قرآن کریم نہ صرف اس نکتہ کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اس پر خاص طور سے زور دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ () الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ () الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ (الماعون:5-7) یعنی خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو گا ان لوگوں پر جو عبادت تو کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت سے غافل ہیں اور صرف لوگوں کےد کھاوے کے لئے نماز پڑھ لیتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے کہ جو لوگ صدقات دکھاوے کے طو رپر دیتے ہیں مگر دل میں کوئی اخلاص نہیں ہوتا فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا (البقرة:265) ان کی حالت اس پتھر کی طرح ہوتی ہے جس پر مٹی جمی ہوئی ہو او رجب بارش اس پر پڑے تو بجائے اس کے کہ دانہ اگے وہ مٹی کو بھی بہا دیتی ہے اور دانہ اگنے کا احتمال بھی باقی نہیں رہتا.اس قسم کا صدقہ دینے والا بھی بجائے کسی فضل کا وارث ہونے کے اپنی حالت کو اور بھی خراب کر لیتا ہے پس اسلام کے نزدیک جب تک دل ساتھ نہ ہو اس وقت تک عبادت نفع نہیں دیتی لیکن اسلام اس امر پر زور دیتا ہے کہ دل کے ساتھ زبان او ر جسم بھی عبادت میں شامل ہونے چاہئیں.
۱۵۶ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے بالکل واضح طور سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کا کمال تین چیزوں یعنی دل اور زبان اور جوارح کے ایک ہو جانے سے پیدا ہوتا ہے جس شخص کا دل سچائی کو قبول نہیں کرتا اور زبان اور جوارح ایمان کا اظہار کرتے ہیں وہ بھی منافق ہے اور جس کا دل ایمان پر قائم ہے لیکن زبان اور جوارح مخالف ہیں وہ بھی جھوٹا ہے سچا وہی ہے جس کا دل بھی ایمان پر قائم ہو اور زبان اور جوارح بھی اس کے ساتھ شامل ہوں.ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی نسان کو کسی شخص سے پیار ہو تو اس کے سامنے آنے یا اس کا ذکر آ جانے سے اس کے چہرے پر فوراً ایک خاص قسم کا اثر محسوس ہوتا ہے اور ایک اجنبی شخص بھی جان لیتا ہے کہ اس کے دل میں اس دوسرے کی نسبت محبت ہے.ماں باپ اپنے بچوں کو پیار کرتے ہیں تو کیوں؟ کیا ان کے دل کی محبت کافی نہیں ہوتی؟ وہ اپنے بچہ کو کس لئے چومتے ہیں کس لئے اپنی گود میں اٹھاتے ہیں؟ لوگ اپنے دوستوں سے مصافحہ کیوں کرتے ہیں؟ یورپ کے لوگ جب بادشاہوں کے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو سر ننگا کر دیتے ہیں یا ان کے سامنے گھٹنا ٹیکتے ہیں.ایسا کیوں جاتا ہے؟ کیا ان مواقع پر دل کی محبت اور دل کا اخلاص کافی نہیں ہوتا؟ اگر کہا جائے کہ انسان چونکہ دلی حالت کو نہیں جانتا اس لئے اس کا دل کا حال بتانے کے لئے ظاہر میں بھی بعض نشانات ایسے قرار دئیے گئے ہیں جن سے کہ دل کی محبت کا اظہار کر دیا جاتا ہے اور ان کے ذریعہ سے دوسرے کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے.مگر یہ جواب درست نہیں کیونکہ ہر ایک شخص جانتا ہے کہ جب وہ اپنے بچہ کو پیار کرتا ہے یا اپنے کسی عزیز یا دوست کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے تو اس وقت اس کا یہ فعل اس خیال کے ماتحت نہیں ہوتا کہ وہ اس پر اپنی محبت کا اظہار کرے.کیا نوزائیدہ بچے کو جو باکل سمجھ نہیں رکھتا ماں پیار نہیں کرتی؟ یا سوئے ہوئے بچہ کو والدین بسا اوقات پیار نہیں کرتے؟ پس معلوم ہوا کہ محبت کو جسمانی علامات کے ذریعہ سے ظاہر کرنا ایک طبعی تقاضا ہے نہ کہ دل کی حالت جتانے کا ایک ذریعہ.پس جو شخص خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور فی الواقع اس کی طرف اس کے دل میں کشش ہے کس طرح ممکن ہے کہ اعمال اور زبان کے ذریعہ سے اس کی محبت ظاہر ہونے کی کوشش نہ کرے اور یہی غرض ہے کہ جو مذہب نے عبادات میں رکھی ہے.عبادت اس قلبی تعلق کا ایک ظاہری نشان ہے ا ور جو شخص سچے طور سے خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے وہ باوجود دوسری چیزوں کی محبت کو جسمانی علامات کے ذریعہ سے ظاہر کرنے کے عبادت کے متعلق کس طرح اعتراض کر سکتا ہے؟
۱۵۷ عبادت پر اعتراض درحقیقت محبت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.گو مذکورہ بالا وجہ عبادات کی حقیقت کے سمجھانے کے لئے کافی تھی مگر اسلام نے اس سے بڑھ کر حکمتیں عبادت میں مدنظر رکھی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ظاہری اعمال کا اثر باطن پر پڑتا ہے اور باطن کا ظاہر پر.چنانچہ فرماتا ہے وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج:33) جو شخص ان مقامات کا ادب کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوا تھا تو ایسا ہونا ہی چاہئے کیونکہ دل کی خشیت کا ظاہر پر اثر ہوتا ہے.اس جگہ دلی پاکیزگی کے ظاہر پر طبعی طور پر اثر پیدا کر دینے کا ذکر ہے.دوسری جگہ ظاہر ے باطن پر اثر ہونے کا یوں ذکر فرماتا ہے كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (المطففين:15) خبردار ہو جاؤ کہ ان لوگوں کے دلوں میں بوجہ ان کے ظاہری اعمال کے نقص پیدا ہو گیا ہے کہ پہلے یہ اپنے فوائد کے لئے ظاہری حق کے خلاف کرتے رہے آخر نتیجہ یہ نکلا کہ دل سے بھی حق کی محبت دور ہو گئی.علم سائیکالوجی کے ذریعہ سے مذکورہ بالا حقیقت آج کل بالکل یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے.میں نے ایک امریکن سائیکالوجسٹ کی کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک امریکن کالج کا پرنسپل جو پہلے نہایت لائق سمجھا جاتا تھا پرنسپل ہو کر نہایت ناقابل ثابت ہوا آخر اسے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اس کا منہ کھلا رہتا ہے اگر وہ منہ بند کرنے کی عادت ڈالے تو اس سے اس کے اخلاق پر بھی اثر پڑے گا اور طبیعت میں انتظام کا مادہ زیادہ ہو جائے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کرنا شروع کیا اور آخر اس کی بے استقلالی جاتی رہی اور وہ نہایت کامیاب پرنسپل ہو گیا.ہم روزہ مرہ کے معاملات میں بھی دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص غصہ کی شک بنائے تو تھوڑی دیر میں اس کے دل میں غصہ کے خیالات جوش میں آ نے لگتے ہیں.اگر غصہ کی حالت میں کسی کو گدگدی کر کے یا اور کسی طرح ہنسا دیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس کے دل کا غصہ بھی جاتا رہتا ہے.رونے کی شکل بنانے سے دل میں غم کے جذبات اور ہنسی کی شکل سے فرحت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں.اسی حکمت کو مدنظر رکھ کر شریعت اسلام نے نماز وغیرہ ظاہری عبادات مقرر کی ہیں کہ جب انسان ظاہر میں خشوع اور خضوع کی حالت اختیار کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کے دل میں ایک محبت کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور آخر وہ اس طرح خدا تعالیٰ کی طرف کھنچا جاتا ہے جس طرح کہ مقناطیس کی کشش سے لوہا کھینچا جاتا ہے.ایک حکمت ظاہری عبادت میں یہ بھی ہے کہ اس سے قومی روح پیدا ہوتی ہے بچے یہ سبق
۱۵۸ کہ اپنے بھائیوں سے اور رشتہ داروں سے محبت کرنی چاہئے انہی ظاہری تعلقات کو دیکھ کر سیکھتے ہیں جو وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے برتاؤ سے معلوم کرتے ہیں.اگر محبت اور غضب کے جذبات صرف قلب میں مخفی ہوتے تو کبھی بھی یہ عام رشتہ محبت کا جو رشتہ داروں میں پایا جاتا ہے پایا نہ جاتا کیونکہ دل کے خیالات کسی پر ظاہرنہیں ہوتے.بچہ کس طرح معلوم کر سکتا تھا کہ فلاں فلاں شخص سے میرے والدین کو یا دوسرے عزیزوں کو محبت کا تعلق ہے اور فلاں فلاں سے ان کو عداوت ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ سب ظاہری علامات سے ہی اسے معلوم ہوتا ہے اور اس طرح یہ جذبات نسلاً بعد نسلٍ محفوظ چلے جاتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کے اظہار کی ظاہری علامات نہ مقرر کی جائیں اور اس کی شان اور اس کے رتبہ کا اقرار کسی جسمانی علامت سے نہ کیا جائے اور متواتر نہ کیا جائے تو یقیناً آئندہ نسلوں کے دلوں میں جنہوں نے پہلےنقوش اپنے ماں باپ کے حالات سے لئے ہیں وہ محبت اور اخلاص خدا تعالیٰ کی نسبت پیدا نہیں ہو سکتا جو اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ بعض ظاہری علامات کو روز دیکھتے اور ان کے اثر کو قبول کرتے ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں میں ظاہری عبادات کی طرف سے بے رغبتی ہو رہی ہے ان میں دہریت اور خدا تعالیٰ سے بے پروائی کے خیالات بھی کثرت سے پھیلتے جاتے ہیں.پھر ایک فائدہ ظاہری عبادات کا یہ ہے کہ اس ذریعہ سے وہ تمام حصے انسان کے جو خدا تعالیٰ کے احسانوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اس کے احسانوں کا شکریہ ادا کرنے میں شامل ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کا احسان جسم پر بھی ہے اور روح پر بھی ہے.پس جب عبادت میں جسم اور روح دونوں کو شامل کر لیا جاتا ہے تو وہ عبادت مکملل ہو جاتی ہے بغیر اس کے وہ ادھوری رہتی ہے اور کبھی محفوظ نہیں رہ سکتی کیونکہ قلبی عبادت مغز کی طرح ہے اور مغز کبھی بغیر چھلکے کے محفوظ نہیں رہتا.چھلکا خود مقصود نہیں ہوتا مگر مغز کے قائم رکھنے کے لئے وہ بہت ضروری ہے.اگر کوئی شخص چھلکے کو لغو سمجھ کر پھینک دے تو وہ درحقیقت مغز کو بھی خراب کر دے گا.اس امر کو ثابت کر چکنے کے بعد کہ ظاہری عبادت بھی روحانیت کے قیام کے لئے ضروری ہے اب میں ان عبادات کا ذکر کرتا ہوں جو اسلام نے اپنے متبعین کے لئے مقرر فرمائی ہیں.سب سے بڑی عبادت تو نماز ہے جو گویا اسلامی عبادتوں کی جان ہے.پانچ وقت ایک مسلم کے لئے یہ فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر ان مقررہ قواعد کی رو سے جو اس کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے.پہلے وہ وضو کرتا ہے.یعنی ایک مقررہ طریق پر ہاتھ اور پاؤں
۱۵۹ دھوتا ہے.اس میں علاوہ طہارت اور صفائی کے فائدہ کے جس پر اسلام نے خاص زور دیا ہے روحانی فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس طرح ان تمام راستوں کی حفاظت ہو جاتی ہے جن کے ذریعہ سے خیالات پراگندہ ہوتے ہیں یعنی حواس خمسہ کان، ناک، آنکھ، منہ اور قوت لامسہ کے قائم مقام ہاتھ اور پاؤں کی.جو لوگ روحنایت کا درک رکھتے ہیں وہ اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ بوجہ قلت گنجائش میں تفصیل سے اس کو بیان نہیں کر سکتا.اسلام نے ان دونوں امور کی طرف خود اس کام کے نام سے اشارہ کیا ہے یعنی وضو کے لفظ سے جس کے معنی صفائی اور خوبصورتی کے ہیں.پس اس کا نام ہ دلالت کرتا ہے کہ اس فعل کےذریعہ سے ظاہری صفائی بھی ہو جاتی ہے جو باطنی صفائی کے لئے نہایت ضروری ہے اور اس سے نماز بھی خوبصورت ہو جاتی ہے یعنی اس کے ذریعہ سے خیالات پراگندہ ہونے سے بچ جاتے ہیں اور نماز میں وہ حقیقت پیدا ہو جاتی ہے جس کے لئے وہ ادا کی جاتی ہے.وضو کرنے کے بعد انسان قبلۂ رخ ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے جس سے اسے ابراہیمؑ کی قربانیوں اور ان کے نیک نتائج کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے.پھر وہ بعض مقررہ عبارات پڑھتا ہے جو تین روحانی امور پر مشتمل ہیں.اول خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید پر کہ اس سے خدا تعالیٰ کا صفاتی وجود اس کے سامنے آ جاتا ہے اور اس کا دل جوش محبت اور غلبۂ اخلاص سے حرکت میں آ جاتا ہے اور ایک خاص کشش اس کو اللہ تعالیٰٰ کی طرف پید اہو جاتی ہے.دوسرے اس اقرار پر کہ بندہ اپنی تمام ترقیات میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی مدد کا محتاج ہے اس سے اس کے دل میں اپنی کمزوریوں پر اطلاع ملتی ہے اور وہ اپنی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے تیسرے دعا پر کہ جو گویا اصل جڑ ہے نماز کی.اس کے ذریعہ سے انسان اللہ تعالیٰٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے اور اس کی محبت کی روح کو اپنے محبت کی روح پر ڈال کر اس سے وہ فیوض حاصل کرتا ہے جو روحانی طور پر بالکل اس مادۂ تناسل سے مشابہ ہیں جو ایک نر اور مادہ کے اجتماع سے پیدا ہوتا ہے اور ایک نئی مخلوق اس سے ظاہر ہوتی ہے غرض اسلامی نماز اپنے اندر ایسے کمالات رکھتی ہے کہ انسانی عقل اس کی خوبیوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے مگر شرط یہی ہے کہ ان شروط سے ادا کی جائے جو اسلام نے اس کے لئے مقرر کی ہیں ورنہ وہ کچھ اثر نہ کرے گی اور خواہ مخواہ نماز گزار نماز پر حرف گیری کرے گا.نماز کے ادا کرنے میں شریعت اسلام نے جو ظاہری علامات مقرر کی ہیں وہ بھی نہایت
۱۶۰ پُرحکمت ہیں یعنی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، رکوع کرنا، ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونا، سجدہ کرنا اور دو زانو بیٹھنا.یہ تمام حرکات وہ ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں کمال تذلل کے اظہار کے لئے اختیار کی جاتی ہیں.بعض ممالک میں لوگ انتہائی ادب کے اظہار کے لئے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، بعض جگہ ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں، مصر کے قدیم لوگ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر انتہائی ادب کا اظہار کیا کرتے تھے، ہندوستان میں سجدہ کا رواج تھا، یورپ میں گھٹنوں کے بل گرنے کا رواج ہے اسلام نے اپنی عبادت میں ان سب باتوں کو جمع کر لیا ہے.ان سب خوبیوں کے ساتھ یہ خوبی مل کر کہ نماز کے وقت جس کے لئے عام حکم یہی ہے کہ سب مسلمان مل کر نماز ادا کریں تاکہ اخوت کا جذبہ ترقی کرے.جس وقت بادشاہ اور ایک ادنیٰ مزدور پہلو بہ پہلو اکٹھے کھڑے ہوتے ہیں تو حقیقی طور پر دل محسوس کرتا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے بناوٹ نہیں.ایک ہستی کے سامنے سب لوگ کھڑے ہوئے ہیں جس کے حضور میں ایک بادشاہ بھی اپنی بادشاہت کا خیال بھول جاتا ہے او رایک معمولی آدمی کے پہلو میں آ کر کھڑا ہو جاتا ہے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام نے نماز کی تعلیم لالچ کے طور پر دی ہے کہ خدا تعالیٰ اس طرح ہمیں کچھ دے مگر یہ بالکل غلط ہے.اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اس خیال کو باطل کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلامی عبادات ایک دنیادار کی لالچی درخواستوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان کی دو بڑی غرضیں ہیں ایک تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ اور ان کا اقرار جو ایک صداقت کا اقرار ہے اور بغیر صداقت کے اقرار کے انسان انسان کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہو سکتا.دوسرے روحانی ترقی کا حصول.چنانچہ ان دونوں باتوں کا ذکر قرآن کریم میں یوں فرماتا ہے.فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة:153) اے لوگو! میری عبادت کرو تاکہ میں تم کو اپنی ملاقات کا شرف بخشوں اور میری نعمتوں کا شکریہ ادا کرو اور ناشکری نہ کرو یعنی عبادات کا ایک فائدہ تو روحانی ترقی ہے اور دوسرے احسانات باری تعالیٰ کا شکریہ.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےإِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنْكبوت:46) اسلامی نماز انسان کو بدیوں اور ناپسند باتوں سے بچاتی ہے.احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے بعض صحابہ نے پوچھا آپ اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں؟ تو آپ نےفرمایا افلا اکون عبدا شکورًا کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.قرآن میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:29) نماز کے ذریعہ سے دل مطمئن ہوتے ہیں اور وہ عرفان ملتا
۱۶۱ ہے جس سے شک کی حالت جاتی رہتی ہے پس نماز روحانی ترقیات کا ایک ذریعہ ہے جس طرح مادی دنیا میں مختلف کاموں کے حصول کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں.خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی نماز کی تعلیم زبردست حکمتوں پر مبنی ہے او راس کے اندر اس قدر خوبیاں جمع ہیں کہ دوسرے مذاہب کی عبادات میں اس قد رخوبیاں نہیں ہیں.وہ تمام ضروریاتِ عبادت پر مشتمل ہے اس لئے ایک ہی ذریعہ حصول تقویٰ کا ہے اور جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ظاہری عبادت کی ضرورت نہیں ان کی غلطی ہے.بھلا یہ کونسی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ابراہیم اپنے سارے تقویٰ کے ساتھ اور موسیٰ اپنی ساری قربانیوں کے ساتھ اور مسیح اپنی ساری فروتنی کے ساتھ اور محمد ﷺ باوجود اپنے جامع کمالات ہونے کے تو ظاہری عبادت کے محتاج رہے اور انہوں نے دل کی عبادت پر اکتفا نہ کی لیکن بعض ایسے لوگ جو رات اور دن دنیوی شغلوں میں مشغول رہتے ہیں اور خد اکی یاد کبھی ان کے دلوں میں بھول کر بھی نہیں گھستی ان کے لئے کافی ہے کہ وہ دل میں خدا تعالیٰ کو یاد کر لیا کریں.درحقیقت یہ ایسا خیال ہے جو یا تو نفس کی سستی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور نفس انسانی اس عذر کے ذریعہ سے اندرونی ملامت سے بچنا چاہتا ہے.یا پھر ایک بہانہ ہے جس کے ذریعہ سے بیرونی اعتراضوں کے مقابلہ میں اپنی بے دینی کو بعض لوگ چھپاتے ہیں.دوسری قسم عبادت کی ذکر ہے یہ عبادت اسلام نے اس حکمت کے ماتحت بتائی ہے کہ نماز جو خاص شکل اور خاص شرائط کے ساتھ اد اکی جاتی ہے اسے آدمی ہر وقت نہیں پڑھ سکتا مگر جس طرح انسان کا جسم تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد پانی کا محتاج ہوتا ہے اور بغیر پانی کے اس کے اندر ایک قسم کی تھکان اور خشکی محسوس ہونے لگتی ہے اسی طرح اس کی روح بھی روحانی پانی کی محتاج ہے کیونکہ دنیوی کاموں ا ور مادی امور کے پیچھے سارا دن پڑا رہنے کے سبب سے روح اپنی غذا سے محروم ہو جاتی ہے پس اس کے لئے اسلام نے یہ بتایا ہے کہ چاہئے کہ وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰٰ کی صفات کو یاد کر کے انسان ان پر غو رکر لیا کرے تاکہ اسے کلی طور پر دنیا میں ہی انہماک نہ رہے بلکہ خدا تعالیٰ بھی اس کو یاد آتا رہے اور قلب میں اس کی محبت کی چنگاری بھی سلگتی رہے.اس ذکر کے وقت فوائد بھی وہی ہیں جو اوپر بیان ہو چکے ہیں.تیسری قسم کی عبادت جس کا اسلام نے حکم دیا ہے وہ روزہ ہے.روزوں کا حکم بھی قریباً سب مذہب میں مشترک ہے مگر جس صورت اور جس شکل میں اسلام نے اس کوپیش کیا ہے اور محفوظ
۱۶۲ رکھا ہے وہ باقی مذاہب سے نرالی ہے.اسلام میں روزوں کی یہ صورت ہے کہ ہر بالغ عاقل کو برابر ایک مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے سوائے اس صورت کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اسے بیماری کا یقین ہو یا سفر پر ہو یا بالکل بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہو.ایسے لوگ جو بیمار ہوں یا سفر پر ہوں ان کے لئے حکم ہے کہ وہ دوسرے اوقات پر روزہ رکھیں اور جو بالکل معذور ہو گئے ہوں ان کے لئے کوئی روزہ نہیں.روزہ کی یہ صورت ہے کہ پو پھٹنے سے لے کر سورج کے غروب تک کوئی چیز کھائے نہ پئے نہ کم نہ زیادہ اور نہ مخصوص تعلقات کی طرف توجہ کرے.پَو پھٹنے سے پہلے چاہئے کہ کھانا کھا لے اور پانی پی لے تا جسم پر غیر معمولی بوجھ نہ پڑے صرف شام ہی کو کھانا کھا کر متواتر روزے رکھنے کو شریعت نے ناپسند کیا ہے.روزہ کی حکمتیں قرآن کریم نے یہ بتائی ہیں.لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ(البقرة: 186) تاکہ تم اللہ تعالیٰٰ کی بڑائی کا اظہار کرو اس وجہ سے کہ اس نے تم کو سچا راستہ دکھایا ہے اور تاکہ تم میں شکر کرنے کا مادہ پیدا ہو یعنی ایک فائدہ تو یہ مدنظر ہے کہ تم ان دنوں میں بوجہ سارا دن کھانے پینے کے شغلوں سے فارغ رہنے کے اور مادیت کی طرف سے توجہ کے ہٹ جانے کے اللہ تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرو گے.دوسرے یہ فائدہ مدنظر ہے کہ اس طرح بھوک کی تکلیف محسوس کر کے تمہارے دل میں شکر گذاری کا مادہ پیدا ہو گا.کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب تک اس کے پاس کوئی نعمت ہوتی ہے اس کی اسے قدر نہیں ہوتی جب چِھن جائے تو اس کی قدر محسوس ہوتی ہے.بہت سے آنکھوں واے آدمیوں کے کبھی ساری عمر ذہن میں نہیں آتا کہ آنکھیں بھی کوئی بڑی نعمت ہیں لیکن جب کسی کی آنکھیں جاتی رہتی ہیں تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ آنکھیں اللہ تعالیٰ کی کیسی نعمت ہیں.اسی طرح روزہ میں جب انسان بھوکا رہتا ہے اور اسے بھوک کی تکلیف محسوس ہوتی ہے.تو تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے کیسا آرام بخشا ہے اور یہ کہ اسے اس آرام کی زندگی کو نیک اور مفید کاموں میں صرف کرنا چاہئے نہ کہ لہو و لعب میں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ کی حکمت یہ ہے کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:22) تاکہ تم کو تقویٰ حاصل ہو یہ تَتَّقُونَ کا لفظ قرآن کریم میں تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے ایک دکھوں سے بچنے کے معنے میں، دوسرے گناہ سے بچنے کے معنوں میں اور تیسرے روحانیت کے اعلیٰ مدارج کے حاصل کرنے کے متعلق.پس اس لفظ کے ذریعہ سے تین حکمتیں اللہ تعالیٰ نے روزہ کی بیان
۱۶۳ فرمائی ہیں.پہلی حکمت یہ کہ انسان روزہ کے ذریعہ دکھوں سے بچ جاتا ہے بظاہر یہ امر قابل تعجب معلوم ہوتا ہے کہ روزے سے انسان دکھ سے بچے کیونکہ روزہ سے تو انسان اور بھی تکلیف پاتا ہے مگر جب غور سے دیکھا جائے تو روزہ درحقیقت انسان کو دو سبق دیتا ہے جس سے اس کی قومی حفاظت ہوتی ہے اول سبق تو یہ ہے کہ مالار لوگ جو سال بھر عمدہ سے عمدہ غذائیں کھاتے رہتے ہیں ان کو اپنے غریب بہائیوں کی تکلیفوں کا جو فاقوں سے دن گذارتے ہیں احساس بھی نہیں ہوتا نہ انہوں نے بھوک کی تکلیف کبھی دیکھی ہوتی ہے نہ بھوک کی تکلیف کا وہ اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن اسلام کے حکم کے ماتحت بڑے سے بڑے امراء کو روزے رکھنے پڑتے ہیں اور تب ان کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ بھوک کی تکلیف کیسی ہوتی ہے اور اپنے غریب بھائیوں کی حالت کا صحیح اندازہ ہو جاتا ہے اور ان کی ہمدردی کا جوش دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ قوم کی ترقی اور حفاظت ہوتا ہے اور قوم کی حفاظت درحقیقت فرد کی حفاظت ہی ہوتی ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ اسلام نہیں چاہتا کہ لوگ سست اور غافل ہوں اور تکلیف برداشت کرنے کی ان میں عادت نہ ہو بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں.اور روزے ہر سال مسلمانوں کے اندر یہ مادہ پیدا کر جاتے ہیں اور جو لوگ اسلام کے اس حکم پر عمل کرنے والے ہوں وہ کبھی عیاشی اور غفلت میں مبتلاء ہو کر ہلاک نہیں ہو سکتے.دوسرا امر کہ روزوں سے انسان گناہ سے بچتا ہے اس طرح متحقق ہوتا ہے کہ گناہ درحقیقت مادی لذات کی طرف جھکنے کا نام ہے اور یہ قاعدہ دیکھا گیا ہے کہ جب انسان کسی کام کا عادی ہو جائے تو وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتا.مگر جب اس میں یہ طاقت ہو کہ اپنی مرضی پر اس کو چھوڑ بھی دے تو پھر وہ خواہش اس پر غلبہ نہیں مارتی.جب کوئی شخص روزوں میں تمام ان لذتوں کو جو اس کو بعض اوقات گناہ کی طرف کھینچتی ہیں خدا کے لئے چھوڑ دیتا ہے اور ایک مہینہ تک برابر اپنے نفس پر قابو پانے کی عادت ڈالتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ان لالچوں کا مقابلہ آسانی سے کر سکتا ہے جو اسے گناہ کی طرف کھینچتی ہیں.تقویٰ کے قیام میں روزوں سے اس طرح مدد ملتی ہے کہ ان دنوں میں چونکہ رات کو کھانا کھانے کے لئے اٹھنا پڑتا ہے زیادہ عبادت اور دعاؤں کا موقع ملتا ہے اور دوسرے جب بندہ خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آرام کو چھوڑتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کی
۱۶۴ روح کو طاقت بخشتا ہے.چوتھی عبادت حج ہے اس عبادت کی بھی اغراض روزے اور نماز سے ملتی ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے اپنا وطن چھوڑنے کی عادت ڈالنی اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے الگ ہونے کا خوگر بنانا.علاوہ ازیں قرآن کریم نے خصوصاً یہ وجہ بتائی ہے کہ اس عبادت سے شعائر اللہ کی عظمت ہوتی ہے اور ان کی یاد تازہ ہوتی رہتی ہے.حج دراصل اس واقعہ کی یاد تازہ کرتا ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے اسماعیل کو جنگل میں چھوڑ دینے کے سبب سے پیش آیا.اور دوسرے خانہ کعبہ کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ سب سے پہلا گھر ہے جو خدائے واحد کی عبادت کے لئے بنایا گیا.پس حج میں جا کر انسان کے سامنے وہ نقشہ کھینچ جاتا ہے کہ کس طرح خدا کے لئے قربانی کرنے والے بچائے جاتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ عزت دیتا ہے اور حج کرنے والے کے دل میں خدا کا جلال اور اس کی ذات کا یقین بڑھتا ہے دوسرے وہ اپنے آپ کو اس گھرمیں دیکھ کر جو ابتدائے دنیا سے خدا تعالیٰ کی یاد کے لئے بنایا گیا ہے ایک عجیب روحانی تعلق ان لوگوں سے پاتا ہے جو ہزاروں لاکھوں سال پہلے اس روحانی سِلک میں پروئے چلے آتے رہے ہیں جس میں یہ شخص پرویا ہوا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت کا رشتہ جو سب کو باندھے ہوئے ہے خواہ پرانے ہوں خواہ نئے.علاوہ ازیں حج میں سیاسی فائدہ بھی ہے کہ ذی اثر لوگوں میں سے ایک جماعت سال میں جمع ہو کر تمام عالم کے مسلمانوں کی حالت سے واقف ہوتی رہتی ہے اور اخوت اور محبت ترقی کرتی ہے اور ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہونے او رآپس کے تعاون اور ایک دوسرے کی خوبیوں کے اخذ کرنے کا موقع ملتا ہے گو افسوس ہے کہ اس وقت اس غرض سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا.پانچویں عبادت قربانی ہے.بہت لوگ اسلامی قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور خیال کرتے ہیں کہ قربانی کا حکم اسلام نے اس لئے دیا ہے تاکہ قربانی، قربانی کرنے والے کا گناہ اٹھا لے لیکن یہ بات درست نہیں.اسلام ہرگز یہ تعلیم نہیں دیتا.قربانی قرب سے نکلی ہے قربانی درحقیقت ایک نہایت لطیف عملی زبان ہے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگا ہے.یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ دنیا میں کثرت سے تصویری اور عملی زبانوں کارواج ہے اور باوجود زبانوں کے ترقی کر جانے اور علم و ادب کے کمال کو پہنچ جانے کے یہ قدیم طریق اظہار خیالات کا اب تک دنیا
۱۶۵ میں قائم ہے اور اس کے اثر کو لوگ قبول کرتے ہیں.تمدن کے تمام شعبوں میں اس کا اثر پایا جاتا ہے مثلاً جب دو آدمی مصافحہ کرتے ہیں تو کوئی ان کو نہیں کہتا کہ تم لغو فعل کر رہے ہو اور نہ کوئی اتنا غور کرتا ہے کہ ہاتھ کے ملانے سے دونوں کو کیا خوشی ہوئی ہے.مگر بات یہ ہے کہ یہ ہاتھوں کا ملانا ایک تصویری زبان ہے جو قدیم رسوم کے اثر کے نیچے اب تک چلی جاتی ہے اور اب گو اس کی وجہ لوگوں کو معلوم نہیں مگر اس کا رواج چلا جا رہا ہے اور دنیا کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل ہے کیونکہ محبتوں کے قیام اور تعلقات کے اظہار میں مُمِدّ ہے.مگر پہلے پہل جب اس کا رواج ہوا تو اس طرح سے ہوا تھا کہ دو آدمی جب آپس میں اس امر کا معاہدہ کرتے تھے کہ ایک دوسرے کی مدد کرے گا اور حسب ضرورت اس کی طرف سے ہو کر لڑے گا تو چونکہ دماغ اور حملہ دونوں ہاتھوں کے ذریعہ سے ہوتے تھے اس لئے وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے تھے کہ اب جس پر تیرا ہاتھ اٹھے گا میرا اٹھے گا.اب ہم دونوں کے ہاتھ ایک ہو گئے ہیں حملہ اور بچاؤ دونوں صورتوں میں یہ جمع رہیں گے دیکھو شروع میں کیسے خطرناک معاہدہ کے لئے یہ رسم جاری کی گئی مگر اب عام محبت کے اظہار کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے مگر پھر بھی ایک حد تک دنیا کو اس سے فائدہ پہنچ رہاہے اور اس کو چھوڑنے کے لئے لوگ تیار نہیں.اسی طرح بوسہ کی رسم کی اصل وجہ بھی تصویری زبان ہے بوسہ درحقیقت چوسنے کی حرکت کے مشابہ ہے دراصل اس امر کے ذریعہ سے فطرت حیوانی (میں فطرت حیوانی ا س لئے کہتا ہوں کہ جانوروں میں بھی اس کاوجود پایا جاتا ہے) اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ میں اس شخص کے وجود کو جس کو میں بوسی دیتی ہوں اپنے سے جدا رہنے دینا نہیں چاہتی بلکہ چاہتی ہوں کہ یہ میرے جسم کا حصہ بن جائے.غرض اشارات کی زبان ہمارے روز مرہ کے کاموں میں استعمال ہو رہی ہے اور اس سے عظیم الشان فوائد حاصل کئے جا رہے ہیں انہی میں قربانی ہے.اگر غور کر کے دیکھا جائے تو جان کا قربان کرنا کوئی معمولی امر نہیں ہے اور طبیعت پر ایک گہرا اثر ڈالتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ذبح کرنے کے عادی ہو چکے ہیں دوسرے شخص کی طبیعت پر ضرور ذبح کرنے کا اثر ہوتا ہے اور اس وقت اس کے خیالات میں ایک وسیع ہیجان پیدا ہوتا ہے حتی کہ اسی کے اثر کے ماتحت بعض قوموں نے قربانی کو ظلم قرار دیا ہے.یہ ان کا فعل تو کمزوری کی علامت ہے مگر اس میں شک نہیں کہ قربانی کا اثر طبیعت پر ضرور ہوتا ہے اسی اثر کو پیدا کرنے کے لئے قربانی کو عبادت میں شامل کیا
۱۶۶ گیا ہے اور اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ قربانی کرنے والا اس امر کا اقرار گویا قربانی کے ذریعہ سے اشارہ کی زبان میں کرتا ہے کہ جس طرح یہ جانور جو مجھ سے ادنیٰ ہے میرے لئے قربان ہوا ہے اسی طرح میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر مجھ سے اعلیٰ چیزوں کے لئے مجھے جان دینی پڑے گی تو میں خوشی سے جان دوں گا.اب غور کرو کہ جو شخص قربانی کی اس حکمت کو سمجھ کر قربانی کرتا ہے اس کی طبیعت پر اس کا کس قدر گہرا اثر پڑے گا اور کس طرح وہ اپنے فرض کو یاد رکھے گا جو اس پر اس کے پیدا کرنے والے کی طرف سے عائد ہے؟ اس ذبح کی یاد ہمیشہ اس کے دل میں تازہ رہے گی اور اس کا دل اسے کہتا رہے گا کہ دیکھ تو نے اپنے ہاتھوں سے بکرے کو ذبح کر کے اس امر کا اقرار کیا تھا کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کے لئے قربان کی جاتی ہے پس تجھے بھی اس قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے جو صداقتوں کے قیام یا بنی نوع انسان کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے تجھے کرنی پڑے.اسی مضمون کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے جب وہ فرماتا ہے لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج:38) اللہ تعالیٰ کو نہ تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون لیکن اللہ تعالیٰٰ کو وہ ارادہ جو خشیت اللہ کو مدنظر رکھ کر تم نے کیا تھا وہ پہنچتا ہے یعنی اگر اس غرض کو پورا کرو گے جس کے لئے قربانی کی ہے تو قربانی کا فائدہ ہوگا ورنہ صرف گوشت کھانے اور خون بہانے کا کام تم سے ہوا ہے اور کوئی حقیقی فائدہ تم کو نہ ہو گا.اس بیان سے آپ لوگوں پر اچھی طرح واضح ہو گیا ہو گا کہ اسلام کے نزدیک قربانیوں کی ہرگز وہ وجہ نہیں ہے جو دوسری قوموں میں ہے.اسلام اس مقصد کو محفوظ رکھ رہاہے جس کی وجہ سے اس اشاروں کی زبان کو جاری کیا گیا تھا مگر دوسرے مذاہب اصل زبان کو بھول کر قربانی کے اور ہی مقصد تجویز کر رہے ہیں." مقصد اول کا سوال چہارم "مقصد اول کا سوال چہارم یہ ہے کہ کیا خدا بندہ کو مل سکتا ہے؟ اور کیا کوئی مذہب خدا سے ملانے کا دعویدار ہے اور خدا تعالیٰ سے بندہ کو ملا دیتا ہے؟
۱۶۷ یہ سوال جیسا کہ ظاہر ہے سب سے اہم ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو مذہب کا فائدہ اصل میں اسی سوال کے ساتھ وابستہ ہے.جو شخص بھی صحیفۂ فطرت کی صحیح راہنمائی سے گریز نہیں کرتا اور اس کی ہدایت سے آنکھیں بند نہیں کر لیتا اپنے دل میں محسوس کرتا ہو گا کہ اگر مذہب کی کوئی غرض ہے تو یہی کہ خدا سے ملنے کا راستہ بتائے بلکہ خدا سے ملا دے.باقی سب سوال اس سوال کے مبادی یا ضمنی سوال ہیں.اگر کوئی مذہب خدا تعالیٰ کی صفات بھی بیان کرے، اس کی توحید پر بھی خوب زور دے، خدا سے اخلاص کا تعلق رکھنے کے لئے بھی اپنے پیروؤں کو تاکید کرے، طریق عبادت بھی ان کو بتائے لیکن وہ اس امر پر آ کر بالکل خاموش ہو جائے کہ کیا وہ خدا کو ملا بھی سکتا ہے اور اسی دنیا میں ملا سکتا ہے تو اس کی سب پہلی تقریریں محض لفّاظی اور وقت کا ضیاع اور بنی نوع انسان سے ایک ہنسی اور تمسخر ہوں گی.اس مذہب کی مثال بالکل اس شخص کی ہو گی جو نقاروں اور بگل کےساتھ اعلان کرائے کہ ایک عظیم الشان دریافت ہوئی ہے لوگ جمع ہو جائیں تاکہ ان کو وہ بات سنائی جائے اور چاہئے کہ کوئی پیچھے نہ رہے کیونکہ وہ ایسی اہم دریافت ہے کہ دیسی دریافت کبھی نہ ہوئی تھی اور وہ ایسی دریافت ہے کہ سب انسانوں کے لئے اس کا سننا ضروری ہے اور وہ سب کے لئے مفید ہے اور اس کا فائدہ اس قدر زیادہ ہے کہ آج تک کسی چیز کا اس قدر فائدہ نہیں ہوا اور اس دریافت سے فائدہ نہ اٹھانا شقاوت اوربدبختی ہے.جب لوگ اس شخص کے اعلان پر دور اور نزدیک سے جمع ہو جائیں اور اشتیاق کی وجہ سے اپنے کام چھوڑ چھوڑ کرچلے آویں تو سب لوگوں کے جمع ہونے پر وہ شخص تقریر کرے کہ ایک نیا ملک دریافت ہوا جس میں اس قدر وسعت ہے کہ سب لوگ وہاں جا کر آرام سے بس سکتے ہیں.وہ دور بھی نہیں ہر ایک کے دروازے کے نزدیک ہے اس میں جگہ بہ جگہ چشمے پھوٹ رہے ہیں اور پھول اور پھل اور میوے کثرت سے ہیں اور ہر ایک چیز کی بہتات ہے حتیٰ کہ جو لوگ بھی اس میں بسیں وہ اپنے حصہ کی فراوانی کے سبب سے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے کو فضول سمجھیں گے کیونکہ وہاں ہر ایک کے پاس بہت کچھ ہو گا.اور میں کیا بتاؤں کہ وہاں کیسا آرام ہے اس کا چمکتا ہوا سورج جو اپنے نور سے سطح زمین کو منور کرتا ہے اور اس کا گھنا سایہ جو اس کی تمازت سے آرام دیتا ہے ایسے دلکش ہیں کہ اس سر زمین میں جا کر پھر کسی کو نکلنے کو دل نہیں چاہتا.جب لوگوں کا شوق تیز ہو جائے اور ان کی امیدیں وسیع ہو جائیں
۱۶۸ اور وہ کہیں کہ اچھا وہ ملک کہاں ہے کہ ہم وہاں جائیں اور اس کے میوے چکھیں اور اس کا پانی پیئں؟ تو وہ شخص کہے کہ ملک تو وہ ایسا ہی ہے مگر افسوس ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کس طرح وہاں جاتے ہیں.میں نے اپنے باپ دادا کی لائبریری میں ایک کتاب دیکھی تھی اس میں دیکھا تھا کہ ایک نیا ملک ہے پس میں نے نہ چاہا کہ آپ اس عظیم الشان دریافت کے علم سے ناواقف رہیں.آپ لوگ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس شخص کے ساتھ سامعین کیا سلوک کریں گے؟ مگر تعجب ہے کہ مذہب کے بارے میں لوگوں سے اسی قسم کا تمسخر کیا جاتاہے اور کوئی نہیں پوچھتا کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ خدا تعالیٰ کی طرف سے بلایا جاتا ہے مگر جب کوئی آئے تو ا س کو کچھ بھی نہیں ملتا.وہ جہاں تھا وہیں کا وہیں رہتا ہے صرف خلش اور حسرت کی زیادتی ہو جاتی ہے.کسی نے آج تک نہ سنا ہو گا کہ بِلا دیکھے کسی خیالی صنم سے کسی کو عشق ہو جائے.عشق تو حسن دیکھ کر ہوتا ہے نہ کہ محض حسن کا ذکر سن کر تو پھر اس قدر محبت جس کی امید کی جاتی ہے کہ بندہ خدا سے کرے بِلا خدا تعالیٰ کو دیکھنے کے کس طرح پیدا ہو سکتی ہے؟ محبت تو دل کے گداز ہو جانے کا نام ہے مگر جب آگ ہی نہ ہو تو کوئی چیز گداز کس طرح ہو گی؟ پہلے ضروری ہے کہ ایک سورج کی طرح چمکتا ہوا چہرہ ہوتا وہ اپنی روشنی کی گرمی سے دلوں کو گداز کرے تب اس کے نتیجہ میں محبت بھی پیدا ہو گی.پس کوئی مذہب سچا عشق خدا سے نہیں پیدا کرا سکتا جب تک کہ وہ خدا کی ملاقات کا رستہ نہیں کھولتا.زمانہ کی حالت کو دیکھ لو.آج کتنے لوگ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی الفت کو دل میں رکھتے ہیں یقیناً دس فیصدی بھی نہیں اور یہ دس فیصدی بھی وہ ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ خدا سے محبت ہے مگر حقیقتاً وہ قدیم رسوم اور باپ دادوں کی بنائی ہوئی راہ پر چل رہے ہیں.چاروں طرف دنیا میں تاریکی اور ظلمت ہی نظر آتی ہے خدا کے لئے قربانی کرنا لوگوں کے لئے مشکل ہے دین کے نام پر جو قربانیوں ہیں ان کے پیچھے بھی قوم پرستی کا جذبہ منڈلاتا نظر آتا ہے.ابھی اگزیبشن (Exhibition) ہو رہی ہے کس قدر دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے آ رہے ہیں مگر خدا کو دیکھنے کے لئے کوئی نہیں گھر سے نکلتا اس لئے کہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ نہ گھر میں نظر آتا ہے نہ باہر.پس جب لوگوں کو کچھ نظر ہی نہیں آتا تو وہ مجبور ہیں.دین کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کو آخرت پر نہیں چھوڑا جائے گا کیونکہ انسان دو دفعہ دنیا میں نہیں آتا اور یقیناً نہیں پھر اگر اس دنیا میں انسان کو کچھ نظر نہ آئے اور اگلے جہان میں اس کو معلوم ہو کہ وہ جس راستہ پر چل رہا تھا غلط
۱۶۹ تھا تو وہ کیا کرے؟ اور اگر بالفرض یہی بات ہو کہ نہ خدا ہے نہ کوئی زندگی ما بعد الموت تو بھی اس شخص کی زندگی ایک وہم کی نذر ہوئی.اس امر کا دعویٰ تو ہر مذہب کو ہے کہ بعد الموت خدا اس کے ذریعہ سے مل جائے گا لیکن ایسے بڑے اہم معاملہ کو کوئی شخص حسن ظنی پر کس طرح چھوڑ سکتا ہے؟ جو کچھ لوگوں کو بتایا جاتاہے وہ تو صرف یہ ہے کہ تم کو چاہئے کہ یوں کرو اور یوں کرو لیکن اصل میں تو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہمارے ان افعال کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کیاکرے گا؟ ہمارے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دروازہ پر دستک دے مگر سوال یہ ہے کہ جیسا کہ اس مقدس وجود نے جس نے آج سے انیس سو سال پہلے دنیا کو اپنی کرنوں سے منور کر دیا تھا اشارہ کیا ہے کہ وہ دروازہ ہمارے لئے کھولا بھی جائے گا؟ اگر وہ دروازہ کھولا نہیں جائے گا اور اگر ہماری دستک اس قسم کا اشارہ نہٰں رکھتی جس پر دروازہ کھولا جاتا ہے تو بتانے والے کیا بتایا؟ یونہی شور تو ہم خود بھی بغیر کسی کی دستگیری کے مچا سکتے تھے اس نے تو صرف یہ پوری ہونےو الی امیدیں ہمارے دلوں میں پیدا کر کے ہمیں اور بھی تڑپا دیا.اس کے بتانے کا فائدہ تو تب تھا کہ جب وہ ہمیں وہ اشارہ سکھاتا جس پر دروازہ کھل جاتا اور اسی دنیا میں کھل جاتا تاکہ پیشتر اس کے کہ ہمارے لئے واپس لوٹنے کا راستہ نہ رہے ہمیں یہ تسلی ہو جاتی کہ ہم صحیح راستہ پر چل رہے ہیں.اے بہنو او ربہائیو! خواہ تم کسی ملک کے ہو میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ اسلام یا دوسرے لفظوں میں احمدیت اس امر کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اس اشارہ کو سکھاتی ہے جس سے دروازہ کھولا جاتا ہے.نہیں نہیں وہ اس سے بڑھ کر اس امر کی مدعی ہے کہ وہ پہلے بھی کئی لوگوں کو اس کام میں پورا اتار چکی ہے.کئی ہیں جن پر خدا تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعہ سے دروازہ کھولا ہے اور وہ اسی زندگی میں ان کو مل گیا ہے.پس اگر آپ لوگ اس کی ملاقات کے متلاشی ہیں تو اس کی طرف آئیں کہ وہ آپ کی اس خواہش کو پورا کرے گی الا ما شاء اللہ.پیشتر اس کے کہ میں اس امر کی تشریح کروں کہ احمدیت کس طرح خدا تعالیٰ سے ملاتی ہے میں یہ بیان کر دینا ضروری سجھتا ہوں کہ خدا سے ملانے سے کیا مراد ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ خدا سے ملنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی مادی وجود ہے جس کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ امر ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو روحانی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے مگر جب میں کہتا ہوں کہ روحانی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو اس سے بھی
۱۷۰ میری مراد یہ نہیں کہ وہ خیال کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے جیسا کہ وہ لوگ جو اپنے دماغ کو خاص قسم کی مشقوں میں لگا دیتے ہیں کبھی کبھی خیال کر لیتے ہیں بلکہ میری مراد حقیقتاً دیکھنے سے ہے جس طرح کہ ہم سورج کو دیکھتے ہیں یا چاند کو دیکھتے ہیں یا اور چیزوں کو دیکھتے ہیں حتیٰ کہ ہمیں ان کے وجود میں کوئی شک نہیں رہتا.اگر دس کروڑ آدمی بھی ہمارے پاس آ کر کہے کہ سورج حقیقتاً ہمارے سامنے نہیں آیا بلکہ ہمیں خیال ہو جاتا ہے کہ سورج سامنے ہے تو ہم یہ سمجھیں گے کہ یہ دس کروڑ آدمی پاگل ہو گیا ہے مگر یہ کبھی خیال نہیں کریں گے کہ ہم نے سورج کو نہیں دیکھا اس لئے کہ ہم سورج کو ان طریقوں سے دیکھ چکے ہیں کہ جن طریقوں سے دیکھنے کے بعد شک پیدا ہی نہیں ہو سکتا.خیال اور واقع میں یہ فرق ہوتا ہے کہ خیال میں عام طور پر صرف ایک حِسّ شامل ہوتی ہے اور علم میں کئی حسیں شامل ہوتی ہیں.مثلاً جب کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ فلاں جگہ ایک شخص کھڑا ہے لیکن وہ فی الواقع کھڑا نہیں تو اگر وہ اس شخص کو پکڑنے کے لئے ہاتھ مارے گا تو اس پر ظاہر ہو جائے گا کہ اس کی غلطی تھی کیونکہ اس کے ہاتھ کو کچھ محسوس نہ ہو گا.مگر جب وہاں فی الواقع کوئی شخص کھڑ اہو گا تو قوت لامسہ بینائی کی طاقت کی تائید کرے گی اور اس کو ہاتھ مارنے سے کوئی ٹھوس چیز محسوس بھی ہو گی.گو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ واہمہ کئی حسوں پر بھی قبضہ کر لیتا ہے مگر یہ حالت جنون کی ہوتی ہے جس کا نقص خود ہی ظاہر ہو جاتا ہے.مگر اس دھوکے کی اصلاح کا بھی ایک راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص کو وہم ہو تو وہ اپنے وہم کے ماتحت خواہ خود کچھ بھی دیکھے مگر وہ دوسروں کو وہ چیز نہیں دکھا سکتا لیکن جب حقیقت ہوتی ہے تو وہ دوسروں کو بھی اس کا نشان دکھا سکتاہے پس جب میں کہتا ہوں کہ اسلام یعنی احمدیت خدا تعالیٰ سے انسان کو ملا دیتی ہےتو اس سے مراد میری قوت واہمہ کا عمل نہیں کہ اس کے ذریعہ سے تو آج بھی ہر ایک مذہب کے پیرو خدا سے مل رہے ہیں بلکہ میری مراد ایسی ہی یقینی ملاقات سے ہے جیسی کہ یقینی چیزیں ہوا کرتی ہیں یعنی کئی حواس اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے اثر لوگوں کو بھی دکھائے جا سکتے ہیں.مگر یہ بات ضرور ہے کہ رؤیت عرفان کی ہوتی ہے نہ کہ جسمانی آنکھ کی.اس امر کے ثبوت میں کہ اسلام سوال زیر بحث کا جواب اثبات میں دیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ملا دینے کا دعویٰ کرتا ہے مفصلہ ذیل آیات پیش کی جا سکتی ہیں.قرآن کریم کے شروع میں اللہ
۱۷۱ عالیٰ فرماتا ہےذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ(البقرة:3) یہ کتاب وہ موعود کتاب ہے جس کا وعدہ پہلی کتب میں دیا گیا تھا اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کتاب متقیوں کو راستہ دکھاتی ہے اور ان کے مقام سے ان کو اوپر لے جاتی ہے.مطلب یہ کہ باقی مذاہب تو صرف متقی بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ جو شخص ہمارے طریق پر چلے گا وہ متقی ہو جائے گا لیکن اسلام صرف متقی بنانے کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ متقی سے اوپر لے جاتا ہے.وہ صرف انسان کو وہی کام نہیں بتاتا جو اس کے ذمہ ہیں بلکہ جب وہ اسلام کے احکام پر عمل کر کے اپنی طرف سے تمام کوششیں کر چکتا ہے تو پھر اس کو اسلام اوپر لے جاتا ہے یعنی اللہ کی طرف سے بھی اس کی طرف توجہ ہوتی ہے اور محبت اور کوشش صرف ایک طرف سے نہیں رہتی بلکہ دونوں طرف سے اس کا ظہور ہونے لگتا ہے.اسی طرح ایک جگہ فرماتا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا () ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا (النساء:70-71) جو لوگ اللہ اور اس کے اس رسول یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی کامل فرمانبرداری کریں گے اللہ تعالیٰٰ ان کو چار مدارج عطا کرے گا جن کو وہ علیٰ قدر مراتب حاصل کریں گے.جو سب سے اعلیٰ درجہ کے فرمانبردار ہوں گے ان کو نبیوں کا درجہ عطا کرے گا اور جو ان سے کم ہوں گے ان کو صدیقوں کا یعنی مقرب لوگوں کا درجہ دے گا اور جو ان سے کم ہوں گے ان کو شہداء یعنی ان لوگوں کا کہ جن کی آنکھوں سے حجاب تو اٹھ گیا ہے مگر وہ اس مقام پر نہیں پہنچے کہ اَخص دوستوں میں سے کہلا سکیں اور جو ان سے بھی کم ہوں گے ان کو نیکوں کا یعنی وہ اپنے اعمال کو تو درست کر رہے ہیں مگر ابھی ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کھڑکی نہیں کھولی گئی.پھر فرمایا کہ یہ لوگ بطور مصاحبت کے اچھے ہیں.اگر انسان ان کی صحبت حاصل کرے تو وہ بھی اصلاح پا سکتا ہے یہ مدارج جن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ دیا گیا ہے خاص فضل کے طور پر ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے یعنی اللہ تعالیٰٰ اس امر سے آگاہ ہے کہ اسی کی پیدا کی ہوئی غیر محدود ترقی کی خواہش انسان کے اندر موجود ہے اور محبوب سے ملنے کی تڑپ ان کے اندر ودیعت کی گئی ہے پس اس خواہش کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے ضروری تھا.چنانچہ اس نے اپنے فضل کا سامان مہیا کر دیا ہے اب جو بندہ چاہے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.ایک اور جگہ پر فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا
۱۷۲ بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ () أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (يونس:8-9) ضرور وہ لوگ کہ انہیں ہم سے ملنے کی خواہش نہیں ہے اور مادی اسباب اور مادی ترقیات پر راضی ہو گئے ہیں اور اسی پر مطمئن ہیں دنیا مل جائے تو سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں ملنا تھا مل چکا اب ہمیں کسی اور چیز کی حاجت نہیں اور وہ لوگ جو ہمارے نشانا ت کو دیکھ کر بھی جو ہم اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے دکھاتے ہیں غفلت میں ہی پڑے رہتے ہیں یہ لوگ وہ ہیں کہ چونکہ حقیقی آرام کے سرچشمہ سے خود دور ہوئے ہیں ان کو کبھی سچی راحت نہیں ملے گی بلکہ اپنے اعمال کے نتیجہ میں روحانی طور پر تکلیف ہی پاتے رہیں گے.ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمن:47) جو لوگ اپنے رب کے درجہ کو سمجھ لیتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ان کو دو جنتیں دی جاتی ہیں یعنی ایک اس دنیا میں اور ایک مرنے کے بعد.اور ایک دوسرے مقام پر جنت کے اعلیٰ انعامات میں سے یہ انعام بیان فرماتا ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ () إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القيامة:23-24) بعض چہرے یعنی وہ لوگ جو جنت میں داخل ہوں گے بہت خوش ہوں گے کیونکہ وہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے اس جہان میں جنت مل جانے کے یہ معنے ہیں کہ اس جہان میں ان کو خدا تعالیٰ کا دیدار اور رؤیت نصیب ہو جائے گی اور اپنی روحانی آنکھوں سے اس کی صفات کا عرفان حاصل کر لیں گے اور ان کو اپنے نفس کے اندر جاری پائیں گے.ایک جگہ فرماتا ہے فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة:153) یعنی تم مجھے یاد کرو تو میں تم لو لقاء کے مقام پر ترقی دوں گا اور میرا شکر کرو اور میری نعمتوں کا کفران نہ کرو.یعنی جب دنیا کے آرام کے لئے میں نے اس قدر سامان بہم پہنچائے تو اس اصل خواہش کو جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے کیوں پورا نہیں کروں گا.اب یہ سوال ہوتا ہے کہ اس لقاء اور رؤیت کی اسلام کیفیت کیا بتاتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی لطیف چیز کی کیفیت بتانی تو طاقت انسانی سے بالا ہے.وہ کیفیت تو صرف دل کے سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے جو شخص اس کیفیت کو حاصل کرتا ہے وہی اس کو سمجھ سکتا ہے دوسرے شخص کو اس کا سمجھانا آسان کام نہیں ہے کیونکہ وہ نئی کیفیت ہے اور لوگ انہی کیفیات کو سمجھ سکتے ہیں جو ان پر طاری ہو چکی ہوں.مثلاً جس نے میٹھا کھایا ہے اس کو تو ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ میٹھے کا لطف کیا ہے.جب ہم یہ کہیں گے کہ فلاں چیز میں بہت میٹھا تھا فوراً اس شخص کے ذہن میں وہ کیفیت جو
۱۷۳ اس پر میٹھے کے کھانے سے طاری ہوتی ہے آ جائے گی لیکن وہ شخص جس نے کبھی میٹھا نہیں چکھا اسے میٹھا کی کیفیت سمجھانی ناممکن ہے سوائے اس کے کہ اسے اشاروں میں سمجھایا جائے مگر پھر بھی وہ اس حالت کو اچھی طرح نہیں سمجھے گا ہاں بعض اثرا ت جو میٹھے کے دوسری چیزوں پرپڑتے ہیں جیسے لَزُوْجَتْ اور رطوبت وغیرہ ان کے ذریعہ سے ہم اس کو یہ سمجھا سکیں گے کہ میٹھا نمکین وغیرہ سے علیحدہ قسم کا مزہ رکھتا ہے.اور اصل سمجھانے کا طریق یہی ہو گا کہ اسکے منہ میں ایک ڈلی میٹھے کی رکھ دی جائے اور کہا جائے کہ یہ میٹھا ہے.اسی طرح لقاء اللہ کی کیفیت بھی لفظوں میں نہیں سمجھائی جا سکتی ہاں چونکہ یہ مضمون انسان کے ایمان سے تعلق رکھتا ہے او را س پر انسان کی تمام روحانی ترقیات کا مدار ہے اس کے آثار اللہ تعالیٰٰ نے ایسے پیدا کر دئیے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے یہ بات خوب روشن ہو جاتی ہے کہ ایک زندہ خدا کی رؤیت اور اس سے تعلق فلاں شخص کو حاصل ہو گیا ہے بعینہٖ اسی طرح جس طرح کہ ایک دھات کی بنی ہوئی مشین کو جب بجلی سے جوڑ دیا جاتا ہے تو اس کے اندر ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ اب اس کا تعلق کسی بڑی طاقت کی چیز سے قائم ہو گیا ہے.قدیم سے اسی طرح لقاء اللہ کے آثار ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور اب بھی اسی طرح ہوتے ہیں.نوح، ابراہیم، موسیٰ، مسیح اور محمد صلوات اللہ علیہم اور باقی تمام نبیوں کے تعلق باللہ کا حال خدا تعالیٰ کی صفا ت کی جلوہ گری سے ہی ظاہر ہو اور نہ جو تعلق ان کو خدا تعالیٰ سے تھا اس کی کیفیت نہ ان کے زمانہ میں کوئی سمجھ سکا نہ اب سمجھ سکتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰٰ کی ذات وراء الوراء ہے اس کا تعلق اور اس کی رؤیت ہوتی ہی صفات کے انعکاس سے ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.تخلقوا باخلاق اللہ یعنی تم خدا سے ملنا چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کی صفات اپنے اندر جذب کرو اور اپنے اخلاق صفات الٰہیہ کے مطابق بناؤ.یاد رکھنا چاہئے کہ ان وجودوں سے تعلق جو وراء الوراء ہوں عرفان کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے اور عرفان جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے تین قسم کا ہوتا ہے اول علم الیقین یعنی کسی چیز کا پتہ صرف اس کے آثار سے ظاہر ہو خود نہ دیکھی ہو.اور دوسرا درجہ عرفان کا عین الیقین ہے کہ اس چیز کو خود بھی دیکھ لے صرف آثار تک بس نہ رہے لیکن ابھی اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہ ہو.تیسرا درجہ عرفان کا یہ ہے کہ اس کی حقیقت
۱۷۴ سے اس حد تک واقف ہو جائے جس حد تک کہ اس کے ابنائے جنس کے لئے اس کی حقیقت سے آگاہ ہونا ممکن ہے اور اس کے اثرات کو اپنی ذات پر پڑتا ہوا مشاہدہ کرے.ان تینوں علموں کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مثلاً دور سے دھواں دیکھے تو اسے یقین ہو جائے گا کہ وہاں آگ جل رہی ہے مگر پھر بھی اسے کامل یقین نہ ہو گا کہ بعض دفعہ آنکھ دھوکا کھاتی ہے اور گرد و غبار کو دھواں سمجھ لیتی ہے لیکن اگر وہ قریب ہو جائے گا اور آگ کو شعلے مارتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے تو اس کا یقین آگے بڑھ جائے گا مگر پھر بھی خود اس کے نفس کو آگ دیکھنے سے آگ کی پوری کیفیت نہ معلوم ہو گی.مگر وہ اگر اس کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھے اور اس کے جلانے کی کیفیت کو ملاحظہ کرے تو پھر اس کا یقین اپنے کمال کو پہنچ جائے گا گو ان تینوں قسم کے یقینوں کے پھر اور بھی مدارج ہیں لیکن بڑی تقسیم یہی ہے اور ان مدارج کے حصول کی خواہش طبیعت میں رکھی گئی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا اثر کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک بچہ بھی شاید دنیا میں ایسا نہ ہو گا جس نے کبھی نہ کبھی اس خواہش میں اپنا ہاتھ نہ جلایا ہو.مذکورہ بالا تینوں مدارج عرفان کو اسلام پیش کرتا ہے پہلا درجہ عرفان الٰہی کا یہ ہے کہ انسان اس کی صفات کے متعلق لوگوں سے سنتا ہے کہ وہ اس طرح ظاہر ہوا کرتی تھیں مثلاً پہلے بزرگوں کے واقعات کو پڑھتا ہے کہ ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا اس طرح کا معاملہ تھا تو اسکے دل میں ایک حد تک یقین پیدا ہوتا ہے کہ فی الواقع کوئی بات ضرور ہے.لیکن یہ یقین ایک عارضی جوش پیدا کر سکتا ہے زیادہ نہیں کیونکہ جب وہ خود اس کوچے کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور اس شخص کی طرح جو دور سے دھواں دیکھ کر آگ کی تلاش میں چل پڑتا ہے لیکن جس قدر دور چلتا جائے دھوں ہی دھواں اسے نظر آتا ہے آگ کا پتہ کچھ نہیں ملتا آخر مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور خیال کر لیتا ہے کہ یہ دھواں میری آنکھوں کا دھوکا ہے شاید کہ کوئی بادل کا ٹکڑا ہو یا کچھ اور.اسی طرح وہ شخص جو ان پرانے قصوں کے حاصل ہوئے ہوئے علم سے تسلی پا کر خود کوشش کرنے لگتا ہے آخر مایوس ہو جاتا ہے صرف وہی لوگ ان قصوں سے تسلی پاتے ہیں جو خود کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس وجہ سے ان کے یقین کے باطل ہونے کا ان کو موقع ہی نہیں ملتا مگر یہ حالت ہرگز قابل رشک نہیں.اسلام صرف پہلے ہی درجہ تک انسان کے عرفان کو محدود نہیں کرتا بلکہ جیسا کہ بتایا گیا ہے وہ
۱۷۵ تینوں قسم کے عرفان کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا رکھتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ جب بھی کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق قدم بڑھاتا ہے وہ اپنی کوشش کے مطابق عرفان پا لیتا ہے اور کوئی عرفان کا مقام نہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اب بند کر دیا ہو حالانکہ وہ پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا.میں بتا چکا ہوں کہ اصل عرفان تو وہ کیفیت خالص ہے جو انسان کے قلب میں پیدا ہوتی ہے اور وہ روحانی بینائی کی جدت ے جس سے وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ایک نئے رنگ میں رکھتا ہے اوروہ احساسات کی تیزی ہے جن سے انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی صفات میں لپٹا ہوا پاتا ہے.مگر جس طرح ہر ایک چیز کے کچھ آثار ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کے لقاء کے بھی کچھ آثار ہیں جن کے ذریعہ سے بندہ اس کے تعلق کو محسوس کرتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کے تعلق کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ جب کوئی چیز کسی دوسری چیز کے قریب ہوتی ہے تو اگر وہ دوسری چیز اپنے اندر کوئی خاص خصوصیت رکھتی ہے تو اس کا اثر اس پر بھی پڑتا ہے مثلاً آگ کے پاس بیٹھ کر انسان کو گرمی محسوس ہوتی ہے برف کے پاس بیٹھے تو اس کی سردی کا اثر اس پر پڑنے لگتا ہے خوشبودار چیز سے چھوئے تو اس کے کپڑوں میں سے بھی خوشبو آنے لگتی ہے یا بولنے والی ہستی سے قریب ہو جائےتو اس کی آواز کی پیدا کی ہوئی لہریں اس کے کان کے پردوں سے بھی ٹکرانے لگتی ہیں اور یہ اس بولنے والے کے علم سے حصہ لینے لگتا ہے.پس ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کا لقاء حاصل کرے تو کچھ آثار اس کی ذات میں ایسے پائے جائیں جو اس پر دالّ ہوں کہ اسے فی الواقع خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوا ہے ورنہ اگر منہ کے دعویٰ سے کچھ زیادہ نہ ہو تو ایک مکار فریبی اور راستباز خدا پرست کے دعوؤں میں کیا فرق رہے اور دوسرے لوگ لقاء کے مقام والے کو دیکھ کر کیا فائدہ حاصل کریں.اسلام نے تین مدارج لقاء کے بتائے ہیں جن کے آثار سے ان کی کیفیت معلوم ہو جاتی ہے.وہ ایک طرف تو لقاء ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ پر یقین بڑھانے کا ایک ذریعہ (1) پہلا درجہ دعا کی قبولیت کا ہے.(2) دوسرا درجہ کلام الٰہی کا ہے (3) تیسرا درجہ صفات الٰہیہ کے بندے کو اپنی آغوش میں ڈھانپ لینے کا ہے.پہلا درجہ یعنی دعا کی قبولیت کا پہلا درجہ یعنی دعا کی قبولیت کا: اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی ذات کا یقین دلانے کے لئے اور اپنے وجود کا علم دینے کے
۱۷۶ لئے اور اپنی طرف کھینچنے کے لئے دعا کا دروازہ کھولا ہے.یعنی خدا تعالیٰ سے اگر کوئی انسان دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے بشرطیکہ دعا اس طریق پر ہو اور اس حد تک ہو جس حد تک کہ دعا ہونی چاہئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (النمل:63) وہ کون ہے جو مضطر کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے او راس دعا کو قبول کر کے اس پکارنے والے کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور جو ظالم ہو اس کے ظلم کو دور کر کے اس مظلوم فریادی کو اس کی جگہ پر قائم کر دیتا ہے.کیا اس خدا کی طاقت کا کوئی اور بھی ہے؟ مگر تم لوگ نصیحت نہیں حاصل کرتے.اس درجہ کو اللہ تعالیٰ نے سب کے لئے کھلا چھوڑا ہے یعنی خواہ کسی مذہب کا آدمی ہو اس کی دعاؤں کو جب وہ سخت گھبراہٹ میں کی جائیں سنتا ہے اور اس طرح اس امر کا موقع دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی زندگی اور اس کے تعلق کو محسوس کریں اور شک و شبہ کی حالت سے نکلیں.اور اس میں کیا شک ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ عرفان ہر حالت کے لوگوں کو ملنا چاہئے کیونکہ انسان توجہ بھی تبھی کرتا ہے جب اس کے دل میں کسی چیز کی اہمیت پیدا ہو جاتی ہے.یہ مقام جیسا کہ میں نے بتایا ہے سب مذاہب کے لوگوں کے لئے کھلا ہے.ہر مذہب کے لوگ خدا سے دعا کر کے دیکھ سکتے ہیں وہ اس کا فائدہ محسوس کریں گے اور ان کو معلوم ہو گا کہ بہت سی مشکلات جن سے وہ پہلے تکلیف پاتے تھے دعا کے ذریعہ سے حل ہو جائیں گی.مگر یہ درجہ عرفان کا بہت ہی ناقص درجہ ہے مگر ہر وقت یہ شبہ انسان کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید جو کام دعا کےبعد ہو گیا ہے اس نے یوں بھی ہو ہی جانا تھا اور شاید جو مصیبت رک گئی اس نے یوں بھی رک جانا تھا کیونکہ بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ اتفاقات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ ہوتا ہوا کام رک جاتا ہے اور مشکل کام ہو جاتا ہے اور اس کے لئے دعا بھی کوئی نہیں کی گئی ہوتی بلکہ بعض اوقات وہ شخص جس سے یہ معاملہ گذرا ہوتا ہے دعا کا قائل ہی نہیں ہوتا.علاوہ ازیں اس درجہ میں ایک یہ بھی نقص ہوتا ہے کہ یہ بعض طبعی قوانین سے مشابہ ہے یعنی مسمریزم اور ہپناٹزم اور ان دونوں طبعی قوانین کے ذریعہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں اور کئی تکالیف رفع ہو جاتی ہیں.پس شبہ پڑتا ہے کہ شاید دعا اسی قسم کی کوئی چیز ہو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہ آتی ہو بلکہ صرف اجتماع توجہ کے سبب سے بعض نتائج پیدا
۱۷۷ ہو جاتے ہیں.گو یہ شبہات اس درجہ کی دعا کے متعلق پیدا ہو سکتے ہیں لکن پھر بھی بحیثیت مجموعی یہ ایک حد تک یقین کا ذریعہ ہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.میں نے جو یہ کہا ہے کہ اس درجہ کی دعا کے متعلق یہ شبہات ہو سکتے ہیں تو میرا یہ مطلب ہے کہ ایک درجہ دعا کا او رہے جو بالکل یقینی ہے مگر وہ اگلی قسم کے عرفانوں میں شامل ہے اس کا ذکر انہی کے ساتھ کروں گا.دوسرا درجہ عرفان کا کلام الٰہی ہے: اسلام اس درجہ کے متعلق خاص زور دیتا ہے دوسرے مذاہب عام طو پر اس دروازہ کو بند سمجھتے ہیں لیکن عقل اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ وہ خدا جو اپنے بندوں کو اپنی ہستی کا یقین دلانے کے لئے پہلے کلام کرتا تھا اب اس نے کلام کرنا بند کر دیا ہے.خدا تعالیٰ کی صفات تو ہمیشہ قائم رہتی ہیں.وہ تو نقص اور زوال سے پاک ہے پھر یہ خاموشی جو سینکڑوں سال سے شروع ہو کر اب ہزاروں تک پہنچنے والی ہے کیوں ہے؟ اگر وہ کلام نہیں کرتا تو کیونکر سمجھا جائے کہ وہ سنتا ہے؟ اور پھر کیونکر سمجھا جائے کہ اس کی باقی صفات درست ہیں؟ کیا کسی کا حق نہیں کہ اس کے کلام کے بند ہو جانے پر یہ سوال کرے کہ کیوں یہ نہ سمجھا جائےے کہ اب وہ دیکھتا بھی نہیں اور اس کا علم بھی جاتا رہا ہے اور وہ حفاظت بھی اب نہیں کر سکتا بلکہ دنیا کا کارخانہ اب آپ ہی آپ چل رہا ہے؟ اگر باقی صفات اس کی اسی طرح کام کر رہی ہیں کہ جس طرح پہلے کام کرتی تھیں تو اس کے کلام کا سلسلہ کیوں بند ہو گیا ہے؟ وہ وراء الوراء ہے اور اس کی ذات کا یقین دلانے کے لئے اس کی رؤیت تو ممکن ہی نہیں ایک اس کا کلام تھا جو لوگوں کو اس کے موجود ہونے کا علم دیا کرتا تھا اب یہ راستہ بھی اگر بند ہو گیا ہے تو پھر اس پر یقین دلانے کا اور کونسا راستہ کھلا ہے؟ اے بہائیو اور بہنو! اسلام کہتا ہے کہ یہ خیال کہ خدا کے کلام کا سلسلہ بند ہو گیا ہے درست نہیں.وہ اب بھی اسی طرح بولتا ہے جس طرح پہلے بولتا تھا وہ اب بھی اسی طرح اپنے بندوں کو یاد کرتا ہے جس طرح پہلے یاد کرتا تھابلکہ اس نے اپنی طرف ہدایت دینے کے لئے کلام کا سلسلہ بھی دعا کے سلسلہ کی طرح وسیع کیا ہوا ہے اور ایسے لوگوں کو بھی جو خدا کے دین سے دور ہو جاتے ہیں کبھی الہام ہو جاتا ہے تاکہ وہ راستبازوں کے کلام پر شک نہ کریں بلکہ ان کی صداقت پر گواہ ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ () نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (فصلت:31-32) وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ
۱۷۸ خدا ہمارا رب ہے پھر اس امرپر قائم ہو جاتے ہیں.کوئی مصیبت ان کو ڈراتی نہیں.ان پر فرشتے یہ کلام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور نہ اپنے نقصانات پر غم کھاؤ بلکہ خوش ہو اس جنت پر کہ جس کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے ہم تمہارے ورلی زندگی میں بھی دوست ہیں اور مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی دوست رہیں گے.اور تمہیں وہ چیز ملے گی جو تمہارے نفسوں کی خواہش ہے اور جو کچھ مانگو گے وہ ملے گا یعنی لقائے الٰہی کی خواہش جو مومنوں کی اصل خواہش ہوتی ہے اعلیٰ اور اکمل طورسے پوری ہو گی.اس آیت سے ظاہر ہے کہ اسلام کلام الٰہی کے نزول کا دروازہ کھلا سمجھتا ہے بلکہ اس کا وعدہ کرتا ہے اور یہ امر ظاہر ہے کہ جس سے خد اتعالیٰ براہ راست یا بذریعہ ملائکہ کلام کرے گا اس کا یقین اور ایمان اللہ تعالیٰ پر کس قدر بڑھ جائے گا اور اس کے دل کو کس قدر تقویت حاصل ہو جائے گی کیونکہ کلام سننا بھی ایک قسم کی رؤیت ہی ہے اگر جنگل میں کوئی دوست جدا ہو جائے او روہ ہمیں آواز دیدے کہ میں فلاں جگہ موجود ہوں تو ہمارا خطرہ اسی طرح دور ہو جاتا ہے جس طرح کہ دیکھ ینے سے.پس جس شخص سے اللہ تعالیٰٰ کلام کرے اس کے دل کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین ہو جانا چاہئے جیسا کہ دیکھی ہوئی چیز کا ہوتا ہے.اسلام کا یہ دعویٰ ہی نہیں بلکہ تیرہ سو سال سے برابر آج تک مسلمانوں میں ایسے انسان پیدا ہوتے چلے آئے ہیں کہ جن سے خدا نے کلام کیا ہے او ریہ امر تواتر کی حد تک پہنچا ہوا ہے.پس اس کے متعلق شک کرنا گویا سَفُسْطَہْ (وہم.مرتب) کا دروازہ کھولنا ہے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود پر خدا کا کلام نازل ہوا اور آپ کی قوت قدسیہ کے اثر سے اور ہزاروں آدمیوں کو اس جماعت میں سے خدا ک اکلام سننا میسر ہوا حتیٰ کہ میں سمجھتا ہوں کہ کم سے کم پچاس فیصدی احمدی ہوں گے جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کا کلام سنا ہو گا اور ان کے ایمان اور یقین کو اس سے تقویت حاصل ہوئی ہو گی.ایک بات اس جگہ یاد رکھنی چاہئے کہ خدا کے کلام سے مراد وہ تشریح نہیں ہے جو آج کل لوگ سمجھتے ہیں یعنی کوئی خیال نیک ان کے دل میں زور سے پڑ جائے تو وہ اسے الہامی الٰہی قرار دے لیتے ہیں بلکہ بعض لوگ ناواقفیت کی وجہ سے اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ کبھی خدا تعالیٰ کا کلام الفاظ میں نازل نہیں ہوا.بلکہ نبیوں کے دلی خیالات کا نام ہی کلام الٰہی رکھ لیا گیا ہے اسلام اس امر کا ہرگز قائل نہیں بلکہ اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ الہام الٰہی الفاظ میں
۱۷۹ نازل ہوتا ہے اور اسی طرح بندے سے خد اکا ہم کلام ہوتا ہے جس طرح کہ ایک انسان دوسرے انسان سے ہمکلام ہوتا ہے.ایسی ہی آواز پیدا ہوتی ہے جس طرح کہ انسانوں کے کلام میں پیدا ہوا کرتی ہے اور اسی طرح انسان آواز کو سنتا ہے جس طرح کہ وہ روز مرہ کلام سنتا ہے صرف فرق یہ ہے کہ الہامی آواز نہایت شاندار ہوتی ہے اور اس کے اندر رعب ہوتا ہے اور باوجود رعب کے اس کے اندر ایسی لذت اور راحت ہوتی ہے کہ انسان پر ایک ربودگی کی حالت طاری ہو جاتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ وہ گویا اوپر کی طرف کھینچا گیا ہے اور کوئی بڑی طاقت اس پر مستولی ہو گئی ہے تب کوئی لطیف کلام یا اس کے کانوں پر ڈالا جاتا ہے جسے وہ سنتا ہے یا اس کی زبان پر نازل کیا جاتا ہے جسے وہ پڑھتا ہے یا لکھا ہوا اس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے وہ یاد کر لیتا ہے مگر اس تمام عرصہ میں اس پر ایک حالت ربودگی طاری رہتی ہے تاکہ اس امر کا ثبوت رہے کہ یہ سب اس کا وہم اور خیال نہیں ہے بلکہ ایک بالائی طاقت کی طرف سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے.الہام کی ان اقسام کے علاوہ دو اور اقسام بھی ہیں جو بجائے الفاظ کے تصویری زبان میں نازل ہوتی ہیں.ان میں سے ایک قسم خواب کہلاتی ہے جو کامل نیند کے عرصہ میں ہوتی ہے اور اس میں کوئی امر بطور استعارہ کے کسی شکل میں دکھایا جاتا ہے جیسے مثلاً دودھ دکھایا گیا تو اس سے مراد علم ہو گا اور بھینس دکھائی گئی تو اس سے مراد وبا اور بیماری ہو گی.دوسری قسم کشف کی ہے جو اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کامل ہوش میں بعض وفات یافتوں سے روحانی ملاقات کر لیتا ہے یا بعض امور جو کہیں اور جگہ پر ہو رہے ہیں دیکھ لیتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے.اس قسم کے نظارہ کو اسلامی اصطلاح میں کشف کہتے ہیں یہ سب اقسام قرآن کریم سے ثابت ہیں مگر ان کا تفصیلی ذکر مضمون کو بہت لمبا کر دے گا.غرض یہ کہ اسلام الہام کی تشریح یہ نہیں کرتا کہ یونہی دل میں ایک خیال پیدا ہو جائے.ایسا خیال محض الہام کی نعمت سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور اگر اس کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو الہام کی حقیقت کچھ باقی ہی نہیں رہتی.خالی خیال اور تحریک قلبی تو دنیا کے ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اگر یہ الہام ہے توپھر جو خیال کسی کے دل میں پیدا ہو وہ اسے الہام قرار دے دسکتا ہے تب تو دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو الہام سے خالی ہو.کلام الٰہی تو وہ ہونا چاہئے جو یقین اور وثوق کی راہ پیدا کرے نہ کہ وساوس اور شبہات کا دروازہ کھولے.اور اگر الہام
۱۸۰ دل کے خیال یا تحریک کا نام ہو اور لفظی الہام نہ ہوتا ہو تب تو بہت سے لوگ اس مصیبت میں مبتلاء ہو جائیں گے کہ جو خیال ان کےدل میں پیدا ہو گا وہ اسے الہام سمجھ لیں گے.آخر اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے جو بات آتی ہے اس کے اندر اس قدر امتیاز تو ہونا چاہئے کہ محض خیال اور وہم اس کا مقابلہ نہ کر سکیں اور یہ نہ ہو کہ بِلا وجہ اور بِلا قصور لوگ گرفت میں آ جائیں.آخر وہ کونسا امتیاز ہو گا جس سے انسان یہ سمجھے کہ یہ میرے دل کا خیال ہے الہام نہیں یا یہ کہ الہام ہے دل کا خیال نہیں یا میری تحریر ہے خدا کی نہیں یا خدا کی ہے میری نہیں.اگر کہو کہ اس وقت ساتھ ہی یہ بھی خیال ہو گا کہ یہ اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے ہے میری طرف سے نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم دلی خیال کو الہام کہنے لگیں تو دماغ کو یہ خیال پیدا کرتے کونسی دیر لگے گی کہ یہ تیرا خیال نہیں بلکہ الہام ہے؟ درحقیقت اس قسم کا خیال نہ صرف مذاہب کے اعتبار کو کھونے والا ہے بلکہ وہم اور وسوسہ اور خدا پر جرأت کو سا قدر بڑھانے والا ہے کہ اس قسم کے خیال والوں کے لئے خطرہ ہے کہ وہ تھوڑے تھوڑے دھوکا سے ایک نیا مذہب بنا لیں اور حقیقت سے دور جا کر خود بھی ٹھوکر کھائیں اور دوسروں کو بھی ٹھوکر کھلائیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لفظی الہام کے متعلق بھی بعض لوگوں کو وسوسہ ہو سکتا ہے کیونکہ دماغ کے بعض نقص ایسے بھی ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان کو مختلف نظارے نظر آ جاتے ہیں بعض دفعہ الفاظ بھی سنائی دیتے ہیں.مگر اس کے ایک بچاؤ ہے اور وہ یہ کہ اس صورت الہام سے تو اسی کو دھوکا لگ سکتا ہے جو پاگل ہو اور اس کے دماغ میں نقص ہو لیکن صورت اول میں تو ایک تھوڑے سے وسوسہ سے بالکل سمجھدار آدمی اپنے خیالات کو الہام قرار دے سکتا ہے اور اس کے دھوکے کو دور کرنے کی کوئی صورت ہی اس کے پاس باقی نہیں رہتی.غرض جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ یہ وسوسہ کہ الہام دلی خیال کا نام ہے الہام سے دوری کے سبب سے ہوا ہے.اگر ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا الہام ایک دفعہ بھی ہوتا تو یہ اس دھوکے میں نہ پڑتے اور سمجھ جاتے کہ اللہ تعالیٰ پُر ہیبت اور ساتھ ہی دلکش آواز میں لفظوں میں کلام نازل کرتا ہے جسے اس کے بندے اسی طرح سنتے ہیں جس طرح دوسرے کلاموں کو اور اس میں کسی وہم یا خیال کا گمان نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کے فضل سے راقم مضمون بھی اس کا تجربہ کار ہے اور اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہے کہ خدا کا کلام الفاظ میں نازل ہوتا ہے محض خیال کے طور پر نہیں.اس جگہ پر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے نزدیک ہر ایک الہام یا خواب یا کشف
۱۸۱ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ اسلام اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ الہام یا خوابیں کئی اقسام کی ہوتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى () مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى () وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى () إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى () عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى(النجم:2-6) ہم اس بے جڑ بوٹی کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں جب وہ گر جائے یعنی جس طرح وہ بوٹی جس کی جڑھ نہ ہو اگر اونچی ہو تو گر جاتی ہے اسی طرح جو شخص نبوت کے دعویٰ میں جھوٹا ہوتا ہے خواہ الہام کا بنانے والا کواہ دھوکا خوردہ ہو.چونکہ اس کی تعلیم کی بنیاد ان روحانی علوم پر نہیں ہوتی جو کسی سلسلہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں اس لئے جب اس کی جماعت بڑھنے لگتی ہے تو اس میں انحطاط کے آثار پیدا ہونے لگ جاتے ہیں اور وہ بلند و بالا نہیں ہو سکتی یعنی ایک مستقل مذہب کی صورت اختیار کرنے سے پہلے اس کی تباہی شروع ہو جاتی ہے.وہ دوسرے مذاہب کے مقابل سر اونچا کر کے نہیں کھڑا ہو سکتابلکہ ایک فرقہ کی ہی صورت میں ہوتا ہے کہ اس کا سر نیچے ہو جاتا ہے.پھر فرماتا ہے تمہارا ساتھ گمراہ نہیں ہوا اور نہ وہ شرارت سے یہ دعویٰ کرتا ہے یعنی نہ تو اس کو دھوکا لگا ہے اور نہ یہ جانتے ہوئے کہ مجھے کوئی الہام نہیں ہوتا فریب سے الہام بناتا ہے اور نہ وہ اپنی خواہشات کے سبب سے کلام کرتا ہے یعنی ایسا نہیں ہوا کہ اس کی خواہشات نے اس کے سامنے بعض نظارے بنا کر دکھلائے ہوں اور وہ ان کو الہام سمجھ بیٹھا ہو بلکہ اس کو الہام ہوا ہے جو کسی اور طاقت نے کیا ہے مگر یہ شبہ نہ کرنا کہ شیطان کی طرف سے الہام ہوا ہے بلکہ اس کا الہام کرنےو الا وہ طاقتور خدا ہے جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے.پس وہ اپنی قوت اور طاقت کے اظہار سے اس امر کو ثابت کر دےگا کہ اس کا الہام سچا ہے.اور خدا کی طرف سے ہے اور اس کی جماعت بڑھے گی اور تنے والے درخت کی طرح اونچی ہو گی اور تمام طبائع اور علوم کے لوگ اس میں داخل ہوں گے اور زمانہ اس کو مٹا نہیں سکے گا اور وہ دوسرے کثیر التعداد مذاہب کے سامنے سر اونچا کر کے کھڑا ہو گا اور ان میں سے گِنا جائے گا.اس آیت میں الہام کی چار قسمیں بیان فرمائی ہیں ایک وہ الہام جس کے منبع کا پتہ لگانا انسان کے لئے مشکل ہوتا ہے یعنی جو دماغ کی خرابی کانتیجہ ہوتا ہے.دوسرے وہ الہام جو نفسانی خواہشات کا نتیجہ ہوتا ہے اور انسان سوچے تو معلوم کر سکتا ہے کہ جو خیالات میرے دل میں پیدا ہوتے تھے انہی کے مطابق میں نے نظارہ دیکھ لیا ہے تیسرے وہ الہام جو شیطانی ہوتا ہے یعنی جس میں روحانیت کے خلاف بے دینی اور بدی کی تعلیم ہوتی ہے اور چوتھے وہ الہام جو خدا تعالیٰ کی
۱۸۲ طرف سے نازل ہوتا ہے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ الہام کو اسلام خدا تعالیٰ کی ملاقات کا ایک ذریعہ قرار دیتا ہے تو ا س سے میری یہ مراد نہیں کہ ہر خواب اور الہام ایسا ہے.میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں اور قرآن کریم جدید تحقیق سے بہت پہلے خوابوں کے متعلق بیان فرما چکا ہے کہ ان کی دو قسمیں طبعی ہیں.ایک تو وہ جو دماغی خرابی کے نتیجہ میں آتی ہیں اور دوسری وہ جو خواہشات نفسانی کے نتیجہ میں آتی ہیں بلکہ میرا مطلب صرف ان الہامات سے ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور نفسانی یا خواہشات سے پیدا ہونے والے الہاموں سے ممتاز ہوتے ہیں.مگر بہرحال چونکہ الہامات کی اور اقسام بھی ہیں اس لئے عام الہام بھی عرفان کے لئے اس قدر مفید نہیں کیونکہ کامل عرفان کے لئے ذریعہ بھی ایسا یقینی ہونا چاہئے کہ جو اپنی ذات میں کامل ہو اور اس کے بعد شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ رہے.یا د رکھنا چاہئے کہ میں نے عام الہام کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ مذکورہ بالا شبہات صرف عام الہام کے متعلق ہی پیدا ہو سکتے ہیں ورنہ دعا کی طرح الہام اور وحی کا بھی ایک ایسا ہی درجہ ہے جو تیسری قسم کا عرفان پیدا کرتا ہے اور جسے اس تیسری قسم کے نیچے بیان کیا جائے گا ورنہ عام الہام دوسری قسم کا عرفان تو پید اکر سکتا ہے یعنی عین الیقین تک تو پہنچا دیتا ہے مگر اس سے اوپر نہیں لے جاتا.دونوں قسموں کے عرفانوں کو بیان کرنے کے بعد اب میں تیسری قسم کے عرفان کو بیان کرتا ہوں.اسلام اس قسم کے عرفان یعنی حق الیقین کے پیدا کرنے کا بھی دعویدار ہے اور اس پر بڑے زور سے اصرار کرتا ہے.چنانچہ مسلمانوں کا حکم ہے کہ پانچوں نمازوں میں دن رات میں کوئی چالیس پچاس دفعہ یہ دعا خدا تعالیٰ سے کیا کریں کہ اے خدا تُو ہمیں صراط مستقیم دکھا اور وہ صراط مستقیم دکھا جس پر پہلے لوگ گذر چکے ہیں جن پر تُو نے انعام کیا تھا.اور قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے کہ انعام والے لوگوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے نبوت کے مقام پر یا صدیقیت یا شہادت یا صالحیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے یعنی یا تو وہ نبی ہیں یا نبیوں کے قریب پہنچے ہوئے ہیں.یا وہ نبوت کے مقام کے قریب تو نہیں مگر ہیں خدا تعالیٰ کی صفات سے حصہ لینے والے اور اس رتبہ پر پہنچے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے عملی اثرات کو لوگوں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور اپنے تجربہ کی بناء پر لوگوں کو خد اتعالیٰ کی صفات کی طرف راہنمائی کر سکتے ہیں.یا وہ
۱۸۳ شہادت کے درجہ کی قابلیت پیدا کررہے ہیں ان مقامات میں سے پہلے تین مقامات ہی دراصل وہ مقامات ہیں جن پر پہنچ کر انسان شک و شبہ سے پاک ہو جاتا ہے.ہمیں کیا فائدہ ہے اس امر پر زور دینے کا کہ خدا تعالیٰ علیم ہے جب تک کہ اس کے علم کا ہم کو یقینی ثبوت نہیں ملتا؟ جب تک ہم اپنی آنکھوں سے اس کے علم کا مشاہدہ نہ کریں.ہم کس طرح تسلی سے بلکہ میں کہتا ہوں دیانتداری سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ فی الواقع علیم ہے.خدا تعالیٰ کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ کرتا ہے اگر ہم اس کا کوئی ثبوت نہیں دیکھتے کہ وہ زندہ کر سکتا ہے تو ہم کس طرح یقین سے بلکہ میں کہتا ہوں دیانتداری سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ فی الواقع مُردوں کو زندہ کرتا ہے.کہا جاتا ہے کہ وہ خالق ہے لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ ایک خاص قانون کے ماتحت سب کچھ ہو رہا ہے پھر ہم کس طرح مانیں کہ اس پیدائش میں خدا کا بھی کوئی دخل ہے او رہم کس طرح وثوق سے بلکہ میں کہتا ہوں دیانتداری سے کہہ سکتے ہیں کہ واقع میں خدا خالق ہے.پھر ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک چیز اس کےقبضہ میں ہے لیکن ب ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں انسان اس کی ذات کا بھی انکار کرنےو الے موجود ہیں پھر جبکہ ہم اس کے تصرف کا ظاہر میں کوئی نشان نہیں دیکھتے تو ہم کس طرح علم کی بناء پر بلکہ میں کہتا ہوں کہ دیانتداری سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو دنیا کی چیزوں پر تصرف حاصل ہے.یہی حال سب صفات کا ہے جب تک ہم اس امر کا یقینی ثبوت نہ رکھتے ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان صفات کا ظہور اس رنگ میں ہوتا ہے کہ ہم اس کو اتفاق کی طرف منسوب ہی نہیں کر سکتے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ صفات خدا تعالیٰ میں ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ جب کہ خدا تعالیٰ کی ذات تو نظر نہیں آتی اس کا علم اس کی صفات کے ہی ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے تو جبکہ ہمارے پاس کوئی یقینی ثبوت اس کی صفات کے ظہور کا نہ ہو ہم دیانتداری سے یہ بھی کب کہہ سکتے ہیں کہ کوئی خدا بھی موجود ہے اور جو کچھ دنیا میں ہو رہا ے یہ سب کچھ بے جان قانون قدرت کا جو کسی غیر معلوم پیچ در پیچ جوڑ کے ساتھ نہایت ہی مکمل طور پر چل رہا ہے نتیجہ نہیں ہے.اس شبہ کا ازالہ صرف اسلام ہی کرتا ہے.اس کی تعلیم پر چل کر ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو کہ صفات الٰہیہ کے مظہر ہوتے ہیں اور جو پہلے خود اپنی ذات پر صفات الٰہیہ کا پَرتَو ڈالتے اور پھر دوسروں کو اس کا نشان دکھاتے ہیں اور ہستی باری تعالیٰ کا کامل عرفان بخشتے ہیں.چنانچہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰٰ نے اس غرض کے لئے کہ لوگ اس کے وجود کو پہچانیں اور شک و شبہ کی زندگی
۱۸۴ سے پاک ہوں حضرت مسیح موعود کو بھیجا تھا جو کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے اس مقام پر پہنچے جس پر قدیم سے نبی پہنچتے چلے آئے ہیں بلکہ بہت سے نبیوں کے مقام سے بھی اوپر قرآن نے اس مقام تک آپ کی راہنمائی کی جس تک ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور مسیحؑ کو راہنمائی حاصل نہ ہوئی تھی اور آپ نے اپنی قوت قدسیہ سے خدا تعالیٰ کی صفات کو ایسے یقینی رنگ میں ثابت کیا کہ ہر ایک جو دیکھتا ہے حیران ہو جاتا ہے اور جو سنتا ہے دنگ رہ جاتا ہے.لاکھوں ہیں جو ان نشانات کے ذریعہ سے زندہ کئے گئے ہیں اور لاکھوں ہیں جو ان معجزات کے ذریعہ سے بیماریوں سے شفا دئیے گئے ہیں.آپ نے وہ درجہ عرفان کا پایا جس کے بعد کوئی شک او رشبہ باقی نہیں رہتا اور اس طرح خدا سے ملے کہ جس کے بعد کوئی دوری باقی نہیں رہتی اور ایسی پیوستگی حاصل کی کہ اس کے بعد کوئی افتراق نہیں اور خدا تعالیٰ کے رنگ میں ایسے رنگین ہوئے کہ اور کوئی رنگ آپ پر باقی نہ رہا.آپ دنیا سے بکلّی منقطع ہو کر اسی یار ازل کے ہو گئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ یار ازل آپ کا ہو گا.غرض اسلام کی تعلیم کا ایک ایک حکم آپ نے خود تجربہ کر کے دیکھا اور اس کو صحیح پایا اور اس کے نیک نتائج آپ نے محسوس کئے اور آپ پر خدا تعالیٰ نے اپنی صفات کی چادر ظلی طور پر اٹھائی اور آپ اس سے مزین ہو کر دنیا کی طرف واپس لوٹے تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف لے جائیں.آپ ہی کا حق تھا کہ آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف ے جاتے کیونکہ یہ قدیم سے سنت چلی آتی ہے کہ وہی اوپر جا سکتے ہیں کہ جو اوپر سے آتے ہیں.حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں "اور کوئی آدمی آسمان پر نہیں جاتا لیکن وہی جو آسمان سے آتا ہے" اور میں اس پر یہ زیادہ کرتا ہوں کہ کوئی شخص آسمان پر نہیں جا سکتا مگر وہ جو آسمان سے بھیجا جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود جن کو بطور عطیہ کے خدا تعالیٰ نے اپنے جلال کی چادر اڑھائی اور پھر دنیا کی ہدایت کے لئے دنیا میں واپس بھیجا آپ ہی کا حق تھا کہ لوگوں کو خدا تعالیٰ تک پہنچائیں.چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ایک ایک صفت کو اپنے وجود سے ظاہر کیا اور خدا تعالیٰ کو لوگوں سے قریب کر کے لوگوں کو خدا سے قریب کر دیا.قرآن کریم میں آتا ہے وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الأَنعام:104) خدا بندوں کی کمزوری کو دیکھ کر خود ان کے قریب ہوتا ہے.چنانچہ جس طرح قدیم زمانہ سے اس کی سنت ہے وہ اب بھی مسیح موعود پر ظاہر ہوا.اور اس کے ذریعہ سے اس نے اپنے آپ کو دوسری دنیا پر ظاہر کیا تا ثابت ہو کہ وہ خدا زندوں کا خدا ہے.وہ جس طرح ابرہام کا خدا تھا، موسیٰ کا خدا تھا، مسیح کا خدا تھا، آنحضرت ﷺ کا خدا تھا، اب بھی وہ ہمارا خدا ہے.اس نے ہم کو نہیں چھوڑا بلکہ ہم
۱۸۵ نے اپنی جہالت سے اس کو چھوڑا ہوا تھا.یہ تو مشکل ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ایک ایک صفت کے متعلق بیان کروں کہ کس طرح مسیح موعود نے عرفان کامل کے حصول کے بعد اس کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور ثابت کیا مگر میں بطور مثال کے چند صفات کو لے لیتا ہوں.اول ایک صفت جسے چھوٹے بڑے پیش کرتے ہیں علم کی صفت ہے.ہر مذہب کے لوگ کہتے ہیں کہ خدا علیم ہے ہر اک چھوٹی بڑی بات کو جانتا ہے مگر باوجود اس کے کوئی نہیں بتاتا کہ کیونکر معلوم ہو کہ خدا علیم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صفت کو عملی ثبوتون سے دنیا پر ثابت کیا.چنانچہ آپ نے ایسے علوم دنیا پر ظاہر کئے جن میں سے بعض دنیا کی نظروں سے مخفی تھے.بعض ایسے تھے کہ ان کا طریق حصول غیر معمولی تھا اور بعض ایسے تھے ک ان کا جاننا ہی انسانی طاقت سے بالا تھا.امرِ اول کی مثال تو مثلاً وہ تعلیم ہی ہے جو آپ نے دی ہے اور جس کا کچھ حصہ مختصراً بطور نمونہ کے میں اوپر ذکر کر چکا ہوں اور کچھ حصہ آگے بیان کروں گا اور امر دوم اور سوم کی مثالیں میں ذیل میں بیان کرتا ہوں.شاید آپ لوگوں میں سے اکثر اس امر سے ناواقف ہوں کہ آپ ہندوستان کے اس گوشہ کے رہنے والے تھے جس پر سکھ حکمران تھے جن کے زیر حکومت علم کا نام و نشان نہ ملتا تھا.آپ کسی مدرسہ میں نہیں پڑھے دس دن کے لئے بھی آپ نے کسی درسگاہ میں تعلیم نہیں حاصل کی.آپ کے والد صاحب نے معمولی مدرسوں کے ذریعہ سے چند ابتدائی کتب آپ کو پڑھوا دی تھیں مگر جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے مقام نبوت پر ممتاز کیا تو ایک ہی رات میں آپ کو عربی کا علم اس شان کے ساتھ سکھا دیا کہ عرب اور مصر کے علماء اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ گئے.آپ نے عربی زبان میں بڑی تحدی کے ساتھ کتب لکھی ہیں اور اپنے مخالفوں کو بار بار چیلنج دیا ہے کہ اگر وہ آپ کی تصنیفات کو انسانی علم کا نتیجہ بتاتے ہیں تو ان کے مقابلہ میں ویسی ہی کتب لکھ کر دکھا دیں.مگر باوجود بار بار چیلنج دینے کے او رمقابلہ کی دعوت دینے کے ایک شخص بھی مقابلہ پر نہیں آیا.نہ کوئی مصر کا عالم نہ عرب کا نہ ہندوستان کا.اب یہ نشان جو آپ سے ظاہر ہوا.اگر اللہ تعالیٰ کے علیم ہونے کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا عقل اس امر کو تسلیم کر سکتی ہے کہ محض وہم کے ساتھ ایک شخص ایسا کمال پیدا کر سکتا ہے؟ پنجاب کا ملک عرب سے اس قدر دور ہے اور علمی مراکز سے اتنے فاصلہ پر ہے کہ کوئی صورت امکان نہیں کہ آپ نے دوسرے لوگوں سے مل کر عربی سیکھ لی
۱۸۶ ہو.اور اگر سیکھ بھی لی ہو تو جبکہ پنجاب کی باقاعدہ درسگاہوں میں پڑھے ہوئے لوگ چند صفحے عربی کے نہیں لکھ سکتے تو آپ نے پنجاب میں بیٹھے بیٹھے چند دن کی صحبت میں عربی پر اس قدر عبور کہاں سے حاصل کر لیا کہ عربی میں پچیس کے قریب کتب لکھ دیں اور پھر سب علماء کو چیلنج بھی دیا مگر کوئی شخص مقابل نہیں آیا.بے شک بعض لوگ اپنی فصاحت و بلاغت میں بے نظیر سمجھے جاتے ہیں.جیسے شیکسپیئر، ڈنٹی وغیرہ.مگر ان کی مثال اس جگہ پیش نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ لوگ پہلے دعویٰ کر کے نہیں کھڑے ہوئے.پہلے تو خود ان کو بھی علم نہیں تھا کہ ان کی کتب کیا رتبہ پائیں گی مگر جب وہ کتب مشہور ہوئیں تو معلوم ہوا کہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں.جب چند آدمی دوڑتے ہیں تو ان میں سے کوئی نہ کوئی تو اول نکل ہی آتا ہے پس جو اول نکلے اس کا حق نہیں کہ وہ اس امر کو کوئی غیر معمولی کام قرار دے.مگر ایک کمزور اور نحیف آدمی جو اچھی طرح چل بھی نہ سکتا ہو وہ ایک دوڑ میں شامل ہو اور پہلے سے کہہ دے کہ میں اول رہوں گا اور پھر اول رہے تو اس کا اول رہنا بے شک ایک معجزہ ہو گا او رکسی بالا طاقت کی طرف منسوب کیا جائے گا.خدا تعالیٰ اسی طرح اپنی صفت علم کا اظہار کیا کرتا ہے چنانچہ اعمال باب 2 سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علم کا اظہار اسی طرح کیا تھا کہ ان کو دوسرے قبائل کی زبانیں سکھا دی تھیں.مگر فرق یہ ہے کہ ان کو جیسا کہ اعمال سے ظاہر ہوتا ہے یہودی قبائل کی زبانیں سکھائی گئی تھیں اور وہ انکے بولنے میں غلطیاں بھی کرتے تھے لیکن مسیح موعود کو غیر ملک کی زبان سکھائی گئی تھی اور ایسے کامل طور پر سکھائی گئی تھی کہ خود اہل زبان باوجود بار بار چیلنج دینے کے مقابلہ پر نہیں آ سکے.خدا تعالیٰ کے علیم ہونے کا ایک اور ثبوت جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے ظاہر ہوا.یہ مذہبی کانفرنس ہے جس کے لئے آج آپ لوگ جمع ہوئے ہیں آج سے چونتیس سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک کشف ہوا تھا جس میں ولایت میں آپ کے سلسلہ کی اشاعت کا ذکر تھا اس کشف کو آپ نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں جو 1891ء میں طبع ہوئی ہے شائع بھی کر دیا.اس کے الفاظ یہ ہیں."مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک ممبر پر کھڑا ہوں اور
۱۸۷ انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بتہ سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے او ر ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دیدی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہی لوگوں کو ملے.اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے." مضمون صاف ہے اور مطلب واضح ہے خدا تعالیٰ نے آج سے چونتیس سا ل پہلے اطلاع دی کہ آپ یورپ میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں گے اور آپ کی تقریریں اشاعت اسلام کا موجب ہوں گی اور آخر مغرب اسی طرح دین سے حصہ پائے گا جس طرح کہ آج وہ دنیا سے حصہ پا رہا ہے.بے شک اس خواب میں آپ نے اپنے آپ کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا لیکن نبی سے مراد اس کی امت ہوتی ہے او ران میں سے خاص طور پر اس کے خلفاء.پس اس خواب میں آپ کے یا آپ کے کسی خلیفہ کے انگلستان جا کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے گی اور لوگ احمدیت کو قبول کریں گے اور خدا کو ان کو برکت دے گا.اے بہائیو اور بہنو! اس رؤیا کے پور اہونے کو معمولی بات نہ سمجھو کیونکہ کسی چیز کی حقیقت اس کے پورے حالا ت کے معلوم ہونے سے ظاہر ہوتی ہے.ان حالات کو مدنظر رکھو جس وقت یہ خبر دی گئی تھی اور اس امر کو دیکھو کہ خبر دینے والا کون تھا؟ حالات تو یہ تھے کہ جس وقت یہ خبر دی گئی تھی اس وقت مسیحیت کا اس قدر غلبہ تھا کہ مسلمان مسیحیت سے بالکل مرعوب ہو چکے تھے.یورپ کے مصنف تو خیر لکھتے ہی تھے بعض مسلمان مصنف بھی یہ تسلیم کرنے لگ گئے تھے کہ اسلام مسیحیت سے سو سال کے عرصہ میں مغلوب ہو جائے گا.اور بعض لوگوں نے تو مذہبی ریفارم کے نام سے یہ تحریک شروع کر دی تھی کہ اسلام اور مسیحیت کی صلح کروا دی جائے اور یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مسیحیت بھی سچی ہے اور اسلام
۱۸۸ بھی سچا ہے اور دونوں میں تصادم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ اسلام مسیحیت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.اور بعض لوگوں نے یورپ کے سامنے ان مسائل کے متعلق جن کو یورپ قابل اعتراض سمجھتا تھا معذرت کرنی شروع کر دی تھی کہ اسلام کا وہ منشاء نہیں جو وہ خیال کرتے ہیں بلکہ اصل میں اسلام بھی وہی کہتا ہے جو وہ کہتے ہیں یا اس قسم کے عذر پیش کرنے شروع کر دئیے تھے کہ ا سلام ایسے تاریک زمانہ میں آیا تھا جب عرب کی حالت نہایت نزدیک تھی اس لئے ان لوگوں کی تدریجی اصلاح کے لئے بعض احکام دئیے گئے تھے جو اصل مقصود نہ تھے.اب مسلمان علماء کی مجالس ان کو منسوخ کر دیں گی یا یہ کہنے لگے تھے کہ رسول کریم ﷺ عرب کے قومی خیالات کا لحاظ کر کے انہی کے اعتقادات کے مطابق کلام کرتے تھے اور اصل میں آپ کی مراد اس سے اور ہوتی تھی.غرض مسلمانوں نے اپنے عمل اور اپنے قول سے اس امر کو تسلیم کر لیا تھا کہ اب اسلام کی زندگی چند روزہ ہے اور وہ حملہ تو الگ رہا دفاع کی بھی طاقت اپنے اندر محسوس نہیں کر تے تھے اور ہتھیار رکھنے پر آمادہ تھے اور صرف اسی امر کے منتظر تھے کہ زیادہ اچھی شرائط پر مسیحیت سے ان کی صلح ہو جائے اور ہمیں بالکل ہی وحشی نہ قرار دیا جائے.یہ تو قومی حالت تھی.خود پیشگوئی کرنے والے کا ی حال تھا کہ اس کے ساتھ کوئی جماعت نہ تھی اس نے مسیحیت کا دعویٰ ابھی نیا نیا کیا تھا اور اس کی وجہ سے سب دنیا اس کی مخالف ہو گئی تھی.حکومت اس کی مخالف تھی، رعایا اس کے مخالف تھی، مسیحی اس کے مخالف تھے، ہندو اس کے مخالف تھے اور وہ قوم جس کے مذہب کی تائید کے لئے وہ کھڑا ہوا تھا وہ بھی اس کے مخالف تھی اور سب سے زیادہ مخالف تھی دعویٰ اس کا بالکل نرالا تھا مسلمان ایک خونی مہدی اور ایک آسمان سے آنے والے مسیح کے منتظر تھے اوروہ پیش کرتا تھا کہ خونی مہدی نہیں بلکہ صلح کرنے والا مہدی مقرر ہے اور مہدی اور مسیح الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی شخص کے دو نام ہیں او رآسمان سے نہیں بلکہ اسی دنیا سے انہوں نے ظاہر ہونا ہے اور سب پر طُرہ یہ کہ وہ کہتا تھا کہ وہ موعود میں ہی ہوں جسے علم، رتبہ، عزت کسی بات میں بھی دوسروں پر فضیلت نہیں.پھر غیر ممالک میں جانے آنے اور وہاں شہرت پانے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اس کا حال یہ تھا کہ صرف چالیس پچاس آدمی اس کے ساتھ تھے جن میں سے سوائے دو کے جو کسی قدر آسودہ تھے باقی سب نہایت غریب اور شکستہ حالت کے آدمی تھے حتیٰ کہ ان کی ماہوار آمدنیاں پندرہ روپیہ سے بھی کم تھیں جن میں ان کو اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی سب ضروریات پوری کرنی پڑتی
۱۸۹ تھیں.ان چند غریبوں کی جماعت کے ساتھ وہ کھڑا ہوا اور مذکورہ بالا حالات میں وہ مغرب سے چھ ہزار میل کے فاصلہ پر ہندوستان میں سے جو انگریزوں کی حکومت میں شامل ہے اور اس وقت کے خیالات کے مطابق نہایت حقیر حیثیت میں تھا ایک ایسے صوبہ میں سے جو علمی حیثیت میں سب ہندوستان سے کم سمجھا جاتا ہے او رساحل سمندر سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر ہے اور ایک ایسے گاؤں میں سے جو ریل سے گیارہ میل کے فاصلہ پر ہے اور جہاں ڈاک بھی ہفتہ میں صرف دو بار آتی تھی اور سکول کا ایک مدرس کچھ الاؤنس لے کر ڈاک کا کام کر دیتا تھا اور جس جگہ علم کی انتہائی منزل ورنیکلر پرائمری تھی کیونکہ اس سے زیادہ تعلیم دینے والا کوئی سکول وہاں موجود نہ تھا.یہ سب نقشہ اس وقت کی قادیان کا ہے جس وقت یہ پیشگوئی شائع کی گئی تھی اس نے یہ اعلان کیا کہ خدا میری تعلیم کو مغرب میں پہنچائے گا اور سٹیجوں پر سے مری تعلیم پڑھ کر سنائی جائے گی اور مغرب کے لوگ اس کی صداقت کو قبول کریں گے اور میرے سلسلہ میں داخل ہوں گے اور ایسا ہی ہوا.اس کا سلسلہ ترقی کرتا گیا اور مغرب تک جا پہنچا ہر قسم کے لوگ اس میں داخل ہوئے اور آخر مغرب کی صداقت پسند ارواح کو بھی اس نے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا.مذہبی کانفرنس کی دعوت سب سلسلوں کے لئے تو ایک معمولی دعوت ہے جو ایسے موقع پر دی جاتی ہے کیونکہ آخر مذہبی کانفرنس نے بھی تو اپنی سٹیج کو رونق دینی تھی مگر ہمارے لئے اس کی حیثیت بالکل او رہے کیونکہ اس دعوت نے اس کشف کو جو بالکل مخالف حالات میں شائع کیا گیا تھا پورا کر دیا ہے.کیونکہ اگر یہ سلسلہ ایک طبعی راہ اختیار کرتا تو آج یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ لندن کی ریلیجنز کانفرنس اس کو دعوت دیتی.اسے کبھی کا فنا ہو جانا چاہئے تھا مگر خدا نے اس کشف کے مطابق اسے بڑھایا او رآخر اسی طرح ہوا جس طرح کہا گیا تھا اور ثابت ہوا کہ خدا علیم ہے وہ ایسے باتیں بتاتا ہے جن کا علم انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا اور اس وقت بتاتا ہے جب لوگ ان کو عقل کے خلاف سمجھتے ہیں.میں ان ثبوتوں میں سے جو آپ نے صفت علم کے ثبوت میں پیش کئے ایک اور ثبوت کے پیش کرنے سے نہیں رک سکتا کیونکہ وہ بھی یورپ سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا نہایت گہرا اثر یورپ اور امریکہ پر آج تک چلا آتا ہے اور وہ آپ کی وہ پیشگوئی ہے جو جنگ یورپ اور زار روس کے انجام کے متعلق تھی.یہ پیشگوئی مختلف اوقات میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے کی گئی ہے اور 1904ء سے 1908ء تک مکمل ہوئی ہے آپ فرماتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ
۱۹۰ ایک شدید زلزلہ آنے والا ہے جس کی نسبت آپ لکھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ زلزلہ سے یہ مراد ہو کہ زمین ہلے گی بلکہ اس سے مراد کوئی ایسی آفت ہو سکتی ہے جس سے جانوں کا نقصان ہو گا او رمکانات گریں گے اور خون کی ندیاں بہیں گی اور لوگوں میں سخت گھبراہٹ پڑے گی.پھر اس زلزلہ کی جو کیفیات آپ نے بتائی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت اس سے ایک جنگ عظیم مراد تھی کیونکہ آپ فرماتے ہیں مجھے بتایا گیا ہے کہ اس زلزلہ شدید کے وقت تمام دنیا میں گھبراہٹ پڑ جائے گی.مسافروں کے لئے وہ سخت تکلیف کا وقت ہو گا.(یہ شرط صاف ظاہر کرتی ہے کہ جنگ مراد ہے کیونکہ زلزلہ کا اثر مسافروں پر کوئی خاص نہیں ہوتا) ندیاں خون سے سرخ ہو جائیں گی.یہ آفت یکدم اور اچانک آئے گی لوگوں کو اس کی پہلے سے کچھ خبر نہ ہو گی اس صدمہ سے جوان بوڑھے ہو جائیں گے پہاڑ اپنی جگہوں سے اڑا دئیے جائیں گے بہت سے لوگ صدمہ سے دیوانے ہو جائیں گے سب دنیا پر اس کا اثر ہو گا.زا ر روس کی حالت اس وقت نہایت ہی زار ہو گی تمام حکومتیں اس کے صدمہ سے کمزور ہو جائیں گی جنگی بیڑے تیار رکھے جائیں گے اور کثرت سے ادھر ادھر چکر لگائیں گے تا دشمنوں کے بیڑے ان کو ملیں اوروہ ان سے جنگ کریں زمین الٹا دی جائے گی خدا تعالیٰ اپنی فوجوں سمیت اترے گا تا ان لوگوں کو ان کے ظلموں کی سزا دے.اس مصیبت کا اثر پرندوں پر بھی پڑے گا.عرب بھی اس وقت اپنے قومی فوائد کو مدنظر رکھ کر جنگ کے لئے نکلیں گے.ترک شام کے میدا ن میں شکست کھائیں گے لیکن اپنی شکست کے بعد پھر اپنی ضائع شدہ طاقت کا ایک حصہ واپس لے لیں گے یہ زلزلہ جس وقت ظاہر ہو گا اس سے کچھ عرصہ پہلے اس کے آثار ظاہر ہوں گے.مگر اللہ تعالیٰٰ ا س کو روک کچھ سال پیچھے ڈال دے گا.مگر یہ آفت پیشگوئی کے شیوع (اشاعت.مرتب) کے سولہ سال کے عرصہ میں آئے گی اور پھر یہ کہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے واقعہ ہونے کے بعد ہو گی.کس زور اور کس طاقت کے ساتھ یہ امور پورے ہوئے ہیں.وہ زلزلہ جس کی خبر دی گئی تھی.کیسی شدت کے ساتھ آیا اور اس نے کس طرح دنیا کو ہلا دیا؟ زلزلہ سے جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں زلزلہ ہی مراد نہ تھا یہ لفظ قرآن کریم میں جنگ کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور بہائیبل میں بھی جنگ کے لئے زلزلہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.کس طرح اس کی تمام تفاصیل پوری ہوئیں؟ کس طرح اچانک یہ جنگ چھڑی؟ تمام دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی.1905ء میں یہ پیشگوئی شائع کی گئی تھی پس پورے نوے سال بعد جنگ شروع ہوئی اور ہوئی بھی حضور علیہ السلام کی
۱۹۱ وفات کے بعد جو 1908ء میں واقع ہوئی ساری دنیا پر اس کا ایسا خطرناک اثر پڑا کہ کوئی اس کی زد سے نہیں بچا.جو حکومتیں اس جنگ میں شامل ہوئیں ان پر تو اس کا اثر ہونا ہی تھا.دوسری حکومتیں بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں رہیں.مسافروں کے لئے اس کا اثر ایسا سخت تھا کہ اس کا خیال کرنے سے دل کانپتا ہے جس وقت یہ جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت لڑنے والی قوموں کے جو لوگ مخالف قوموں کے ملکوں میں تھے وہ جس جس مصیبت میں مبتلاء ہوئے ہیں اور جن جن مشکلات میں پڑ کر بھاگے ہیں یا آخر قید ہوئے ہیں وہ ایک دردناک قصہ ہے ہزاروں تھے جن کو سالوں تک اپنے رشتہ داروں کی اور ان کے رشتہ داروں کی اطلاع نہیں ملی کہ وہ کس حال میں ہیں.پہاڑ اس طرح اڑائے گئے جس طرح ٹیلے اڑائے جاتے ہیں فرانس کی بعض پہاڑیان جو جنگ کے میدان میں تھیں قریباً برابر کر دی گئیں بارہا ایسی خونریزی ہوئی کہ عملاً خون کی ندیاں بہہ گئیں اور دریا سرخ ہو گئے کئی لوگ اس کے صدمہ سے قبل از وقت بوڑھے ہو گئے اور جیسا کہ کہا گیا تھا کہ بہت سے لوگ پاگل ہو گئے بلکہ پاگلوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ Shell Shock (جنگی جنون) ایک نئی بیماری قرار دی گئی.ہزاروں آدمی اس بیماری کا شکار ہوئے اور مہینوں بلکہ سالوں ناقابل کار ہو گئے.جنگی بیڑے اس کثرت سے چکر لگاتے پھر کہ تا اپنا شکار تلاش کریں کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا.زمین ایسی الٹائی گئی کہ اب تک فرانس اپنے تباہ شدہ علاقوں کو درست نہیں کر سکا پرندوں پر اس کا ایسا اثر پڑا کہ ان دنوں خبریں ہوئی تھیں کہ شور اور گولہ باری کی وجہ سے پرندے ہوا میں اڑنے لگ جاتے اور بیٹھ نہیں سکتے تھے اور بہت سے پرندے تھک کر زمین پر گر جاتے او رمر جاتے تھے.اس جنگ کے آثار مطابق پیشگوئی ایک وقت پہلے ظاہر ہو کر رک گئے تھے.یعنی جولائی 1911ء میں جبکہ جرمن نے اپنا جہاز پنتھر مراکو کے بندر AGADIR (غار) کی طرف بھیجا تھا کہ تا اس بندر پر قبضہ کرے.اگر انگریزی حکومت سے سختی سے دخل نہ دیتی اور بعض یورپین مدبر یہ خیال کر لیتے کہ اس وقت ان کے ملک جنگ کے لئے تیار نہیں ہیں.تو یہ جنگ بجائے 1914ء کے 1911ء میں ہی واقع ہو جاتی.جیسا کہ بتایا گیا تھا عرب بھی اس جنگ میں اتحادیوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور اپنے ملک کے مصالح کو مدنظر رکھ کر انہوں نے ترکوں سے علیحدگی کر لی.آخر بمطابق پیشگوئی جبکہ درّہ دانیال اور عراق میں تمام کوششیں ناکام رہیں حالانکہ یہی اصل محاذ جنگ سمجھے جاتے تھے مطابق پیشگوئی
۱۹۲ ترکوں کو شام میں شکست ہوئی اور جنگ کا خاتمہ ہوا.مگر پھر ترکوں کو مصطفیٰ کمال پاشا کے ذریعہ قوت حاصل ہوئی اور جیسا کہ خبر دی گئی تھی انہوں نے اپنی گم شدہ عزت کا ایک حصہ واپس لیا.مگر سب سے زیادہ ہیبت ناک حصہ اس پیشگوئی کا وہ ہے جو زار روس کے متعلق ہے تمام بادشاہوں سے قطع نظر کر کے زار روس کی نسبت خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اس کی حالت زار ہو گی یعنی وہ صر ف حکومت سے ہی علیحدہ نہیں کیا جائے بلکہ اور صدمہ بھی دیکھے گا یعنی نہ مرے گا اور نہ مارا جائے گا بلکہ زندہ رہے گا اور نہایت تکلیف وہ مصیبت میں مبتلاء رہے گا.کس طرح ایک ایک لفظ ایک ایک اشارہ اس پیشگوئی کا پورا ہوا ہے؟ پہلے اس کی حکومت گئی لیکن اس کی جان بچا لی گئی پھر ایک اور تغیر اور تنگی کے ساتھ کچھ دے دے کر اس کو مارا گیا.اس کی بیوی اور لڑکیوں کی اس کے سامنے ہتک کی گئی جبکہ وہ بالکل بے بس اور بے طاقت تھا.جسم ان مصائب کا خیال کر کے جو زار کو پہنچے کانپ جاتا ہے اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر ساتھ ہی اس خدائے علیم پر کس قدر یقین بڑھ جاتا ہے جس نے چودہ سال پہلے ان واقعات کی خبر دی تھی جب کہ ان واقعات میں س بہتوں کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.کیا یہ واقعات اس امر کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ اسلام کا خدا علیم خدا ہے.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو اسلام ہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے علیم خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور وہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے.صفات الٰہیہ میں سے دوسری صفت جو ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ہے اور جس پر اکثر مذاہب متفق ہیں وہ خلق کی صفت ہے.اکثر مذاہب دعویدار ہیں کہ وہ خدا جسے وہ پیش کرتے ہیں دنیا کا خالق ہے تمام انسان اور حیوان اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں.ایک ایک ذرہ اسی کا بنایا ہوا ہے مگر وہ کیا ثبوت ہے جسے وہ اس امر کی تائید میں پیش کرتے ہیں یقیناً کوئی بھی نہیں.ان کے دعویٰ کی بناء صرف امرپر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ دنیا کا خالق نہیں تو پھر او رکون ہے؟ مگر یہی دلیل دہریہ کے سامنے بھی موجود ہے وہ قوانین نیچر کا زیادہ گہرا واقف ہے کیونکہ اس کی دنیا اور اس کا دین صرف قوانین قدرت کا مطالعہ ہے وہ باوجود اس گہرے مطالعہ کے پھر اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ سب کارخانہ قدرت آپ ہی آپ چل رہا ہے.تو جب وہ لوگ جو اپنی عمر کو قانون قدرت کے مطالعہ پر ہی خرچ کرتے ہیں اس کی رہنمائی سے فائدہ نہیں اٹھا سکے تو دوسرے لوگ اس سے کیا
۱۹۳ نفع اٹھا سکتے ہیں اور اس پر کیا یقین کر سکتے ہیں؟ پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ جو بات اس قانون قدرت سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی خدا اس دنیا کا خالق ہونا چاہئے مگر ہونا چاہئے ایک ظن ہے یہ استدلال ہمیں یقین کے مقام تک ہرگز نہیں پہنچاسکتا.ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک بات جس کا سبب ہمیں معلوم نہیں ہوتا ہم عقل سے اس کا ایک سبب دریافت کرتے ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصل سبب اور ہی ہے اور ہمارے خیالات بالکل غلط ثابت ہو جاتے ہیں.پس کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ ہم چونکہ ابھی تک مادہ اور اس کی بناوٹ اور اس کی خصوصیات اور اس کے محرکات عمل سے پوری طرح واقف نہیں اس لئے یہ خیال کرتے ہوں کہ اس کارخانہ عالم کے چلانے کے لئے علاوہ قوانین قدرت کے کوئی اور مدبر بھی ہونا چاہئے لیکن درحقیقت مادہ کی بعض خصوصیات اور اس کے محرکات عمل ایسے ہوں جن کی وجہ سے وہ کسی بیرونی مدبر کا محتاج نہ ہو بلکہ خود بخود ہی سب کام کر سکتا ہو؟ پس جب ایسے احتمالات موجود ہیں تو یہ دلیل ہمیں کب تسلی دے سکتی ہے؟ تسلی وہی دلیل دے سکتی ہے جو ہونا چاہئے کے مقام سے بلند کر کے ہمیں ہے کے مقام تک پہنچا دے اور شک و شبہ کا احتمال مٹا دے اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت خلق کا ہم اپنی آنکھوں سے مطالعہ کر لیں اور کود دیکھ لیں کہ وہ پیدا کرتا ہے.مگر یہ یقین ہمیں کوئی مذہب دلانے کے لئے تیا رنہیں سوائے حضرت مسیح موعود کے جو ہمیں اس یقین کے مقام تک پہنچاتے ہیں اور اس عرفان سے ہمیں حصہ دیتے ہیں آپ ہمیں یہ نہیں کہتے کہ مان لو کہ کوئی خدا ہے اور وہ خالق ہے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ آؤ میں تمہیں خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہوا دکھا دوں اور اس امر کا یقین دلا دوں کہ نیچر نہیں بلکہ نیچر کا پیدا کرنے والا خدا پیدا کرتا ہے اس قسم کے ثبوت جو آپ نے دئیے ہیں گو بہت سے ہیں مگر مثال کے طو پر میں دو تین پیش کر دیتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ کسی شخص کے کسی کام کا سبب ہونے کا مکمل ثبوت تبھی مل سکتا ہے جب ہم اس کی طاقت کا دو طرح نمونہ دیکھیں ایک تو یہ کہ جب وہ چاہے تو وہ کام ہو جائے اور دوسرے یہ کہ جب وہ نہ چاہے تو نہ ہو.اگر صرف ایک پہلو ظاہر ہو.یعنی جب وہ چاہے تب وہ کام ہو جائے تب بھی ہمارے دل میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید اس کام کے مدبر ایک سے زیادہ ہوں اور وہ بھی اسی طرح اس کام کو کر سکتے ہوں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ یہ کام صرف فلاں شخص کر سکتا ہے تو ہمیں دو قسم کے ثبوت دینے چاہئیں.ایک تو یہ کہ ہم ثابت کریں کہ اس کام کے کرنے پر وہ
۱۹۴ قادر ہے اور دوسرے یہ کہ جب وہ اس کام کو نہ کرے تو وہ کام نہیں ہو گا.اس ثبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں خدا تعالیٰ کے خالق ہونے کے ثبوت میں اثبات او رنفی کے جو ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کئے ہیں پیش کرتا ہوں.پہلے میں اس امر کا ثبوت پیش کرتا ہوں کہ آپ نے کون سے ایسے نشانات دکھلائے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا خالق ہے؟ اور میں سب سے پہلے اس کے متعلق ایک صاحب کا اپنا بیان جو کتاب "سیرۃ المہدی" میں شائع ہوا ہے پیش کرتا ہوں.ان صاحب کا نام عطا محمد ہے اور یہ پٹواری کا کام کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں." جب میں غیر احمدی تھا اور ونجواں ضلع گرداسپور میں پٹواری ہوتا تھا تو قاضی نعمت اللہ صاحب خطیب بٹالوی جن کے ساتھ میرا ملنا جلنا تھا مجھے حضرت صاحب کے متعلق بہت تبلیغ کیا کرتے تھے.مگر میں پروا نہیں کرتا تھاایک دن انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا میں نے کہا اچھا میں تمہارے مرزا کو خط لکھ کر ایک بات کے متعلق دعا کراتا ہوں اگر وہ کام ہو گیا تو میں سمجھوں گا کہ وہ سچے ہیں.چنانچہ میں نے حضرت صاحب کو خط لکھا کہ آپ مسیح موعوداور ولی اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ولیوں کی دعائیں سُنی جاتی ہیں.آپ میرے لئے دعا کریں کہ خدا مجھے خوبصورت صاحب اقبال لڑکا جس بیوی سے میں چاہوں عطا کرے.اور نیچے میں نے لکھ دیا کہ میری تین بیویاں ہیں مگر کئی سا ل ہو گئے آج تک کسی کے اولاد نہیں ہوئی.میں چاہتا ہوں کہ بڑی بیوی کے بطن سے لڑکا ہو.[ان کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ وہ زیادہ عمر رسیدہ تھی اس لئے اس کے ہاں لڑکا ہونا اور بھی مشکل ہو گا] حضرت صاحب کی طرف سے مجھے مولوی عبد الکریم صاحب مر حوم کا لکھا ہوا خط گیا.[مولوی صاحب مرحوم جو جماعت احمدیہ کے عمائد میں سے تھا حضرت کے صیغہ ڈاک کے افسر تھے]کہ مولیٰ کے حضور دعا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو فرزند ارجمند صاحب اقبال خوبصوت لڑکا جس بیوی سے آپ چاہتے ہیں عطا کرے گا.مگر شرط یہ ہے کہ آپ زکریاؑ والی توبہ کریں.منشی عطا محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ان دنوں سخت بے دین اور شبابی کبابی راشی مرتشی ہوتا تھا.چنانچہ میں نے جب مسجد میں جا کر ملاّں سے پو چھا کہ زکریا والی توبہ
۱۹۵ کیسی تھی؟ تو لوگوں نے تعجب کیا کہ یہ شیطان مسجد میں کس طرح آگیا ہے.مگر وہ ملاں مجھے جواب نہ دے سکا پھر میں نے دھرم کوٹ کے مولوی فتح دین صاحب مرحوم احمدی سے پوچھا انہوں نے کہا کہ زکریا والی توبہ بس یہی ہے کہ بے دینی چھوڑ دو،.حلال کھاؤ،نماز روزہ کے پابند ہو جاؤاور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرؤ.یہ سُن کر میں نے ایسا کرنا شروع کر دیا شراب وغیرہ چھوڑ دی اور رشوت بھی بالکل ترک کر دی اور صلوٰۃ و صوم کا پابند ہو گیا.چار پانچ ماہ کا عرصہ گذرا ہو گاکہ میں ایک دن گھر گیا تو اپنی بڑی بیوی کو روتے ہوئے پایا.سبب پوچھا تو اس نے کہا پہلے مجھ پر یہ مصیبت تھی کہ میرے اولاد نہی ہوتی تھی آپ نے میرے پر دو بیویاں کی.اب یہ مصیبت آئی ہے کہ میرے حیض آنا بند ہو گیا ہے (گویا اولاد کی کوئی امید ہی نہیں رہی )ان دنوں میں اس کا بہائی امرتسر میں تھا نہ دار تھا چنانچہ اس نے کہا کہ مجھے میرے بہائی کے پاس بھیج دو کہ میں کچھ علاج کراؤں میں نے کہا وہاں کیا جاؤ گی یہیں دائی کو بلا کر دکھلاؤاور اس کا علاج کرواؤ.چنانچہ اس نے دائی کو بلوایااور کہا کہ مجھے کچھ دوا وغیرہ دو.دائی نے سرسری دیکھ کر کہا میں تو دوا نہیں دیتی نہ ہاتھ لگاتی ہوں.کیوں کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تیرے اندر بھول گیا ہے (یعنی تو تو باتجھ تھی مگر اب تیرے پیٹ میں بچہ معلوم ہوتا ہے.پس خدا نے تجھے (نعوذباللہ )بھول کر حمل کروا دیا ہے.مؤلف سیرۃ)اور اس نے گھر سے باہر آکر بھی یہی کہنا شروع کیا کہ خدا بھول گیا مگر میں نے اسے کہا کہ ایسا نہ کہو بلکہ میں بے مرزا صاحب سے دعا کروائی تھی."پھر منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ میں حمل کے پورے آثار ظاہر ہو گئے اور میں نے ارد گرد سب کو کہنا شروع کیاکہ اب دیکھ لینا کہ میرے لڑکا پیدا ہوگا اور ہوگا بھی خوبصورت مگر لوگ بڑا تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ایسا ہو گیا تو واقعی بڑی کرامت ہے.آخر ایک دن رات کے وقت لڑکا پیدا ہوا اور خوبصورت ہوا.میں اسی وقت دھرم کوٹ بگّا گیا جہاں میرے کئی رشتہ دار تھے اور لوگوں کو اس کی پیدائش سے اطلاع دی چنانچہ کئی لوگ اسی وقت بیعت کے لئے قادیان روانہ ہو گئے.
۱۹۶ مگر بعض نہیں گئے اور پھراس واقعہ پر ونجواں کے بھی بہت سے لوگوں نے بیعت کی اور میں نے بھی بیعت کرلی اور لڑکے کا نام عبد الحق رکھا.منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری شادی کو بارہ سال سے زائد ہو گئے تھے.اور کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی." یہ واقعہ کیسا بیّن اور واضح ہے اور کس طرح روز روشن کی طرح اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے او روہ خالق ہے.اگر کوئی خدا نہیں یا وہ خالق نہیں تو کس طرح ایک ایسے شخص کے ہاں جو بانجھ تھا جس نے تین بیویاں بارہ سال کے عرصہ میں کیں کہ اسکے ہاں اولاد ہو مگر ایک کے ہاں بھی اس عرصہ میں اولاد نہ ہوئی.مرزا صاحب کی دعا سے اولاد ہو گئی پھر ان شرائط کے ساتھ ہوئی جو سوال کرنے والے نے کئے تھے یعنی اس عورت سے ہوئی جو سب سے مُعَمّر تھی اور ہوا بھی لڑکا اور ہوا بھی خوبصورت.اگر کوئی خدا نہیں اور اگر وہ خالق نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟ اور اس نشان کی عظمت اور شان اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سائل کو قبل از وقت لکھ دیا گیا تھا کہ اس کی طلب کردہ شرطوں کے ساتھ اس کے ہاں اولاد ہو جائے گی.پھر اس واقعہ کی عظمت اس اثر سے معلوم ہوتی ہے کہ جو ان لوگوں پر ہوا جنہوں نے اس کو دیکھا اور اس وقت ہوا جب وہ امر واقع ہوا.اور اس واقعہ کا اثر جیسا کہ لکھا گیا ہے یہ ہوا کہ اس شخص نے بھی بیعت کر لی اور اس کے دوسرے بہت سے رشتہ دار اسی وقت رات کے وقت ہی اٹھ کر بیعت کرنے کے لئے قادیان چل پڑے اور اس گاؤں کے دوسرے لوگوں نے بھی بیعت کر لی.وہ شخص اور وہ لڑکا اور بہت سے لوگ جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا تھا باب تک بفضلہٖ تعالیٰ زندہ موجود ہیں اور ہر ایک شخص جو تحقیق کرنی چاہے ان سے پوچھ سکتا ہے.اس واقعہ کے علاوہ اور بہت سے اس قسم کے واقعات ہیں کہ بے اولادوں کو آپ کی دعا سے اولاد ہو گئی.مگر می سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی مثالوں میں سے یہی ایک کافی ہے ورنہ اصل میں تو حضرت مسیح موعود کا ہر ایک بچہ خواہ لڑکا ہو خواہ لڑکی پیشگوئی کے ماتحت ہوا ہے اور اور بہت سے لوگوں کو بھی آپ کی دعا سے اولاد عطا ہوئی ہے.اولاد کے بارے میں جو خَلق الٰہی پر ایک معتبر اور یقینی شہادت ہے میں خَلق کی قسم کا ایک اور معجزہ آپ کا پیش کرتا ہوں یہ معجزہ اس طرح ظاہر ہوا کہ آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ نے کچھ امور قضاء و قدر کے اہل دنیا کی نیکی بدی کے متعلق اپنے لئے اور اپنے دوستوں کے متعلق لکھے
۱۹۷ اور خواہش کی کہ خدا تعالیٰ ان امور کو اسی طرح ظاہر کرے.پھر آپ نے خد اتعالیٰ کو متمثل دیکھا اور وہ کاغذ اس کے سامنے رکھ دیا کہ تا وہ اس پر دستخط کرے.خدا تعالیٰ نے اس پر سرخ سیاہی سے دستخط کر دئیے.دستخط کرتے وقت قلم کی نوک پر جو سرخی زیادہ تھی اس کو اس نے جھاڑا اور اس کے چھینٹے آپ کے کپڑوں پر پڑے.اس وقت اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰٰ نے میری باتوں کو مان کر ان پر دستخط کر دئیے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ جاگ اٹھے.اس پر ایک شخص میاں عبد اللہ صاحب نے جو اس وقت آپ کے پاؤں دبا رہے تھے آپ کو آپ کے کپڑوں پر سرخ نشان دکھائے جو تازہ سرخ سیاہی کے تھے اور پوچھا کہ ابھی دباتے ہوئے میں نے یہ سرخی جو ابھی تازہ ہے کیونکہ ایک قطرہ کو میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ گیلی تھی دیکھی ہے یہ کیا امر ہے؟ کیا آپ نے کچھ دیکھا ہے؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو وہ کشف سنایا.یہ قطرے آپ کے کُرتے پر اور مولوی عبد اللہ صاحب گرد اور ریاست پٹیالہ جو اس وقت آپ کو دبا رہے تھے کی ٹوپی پر پڑے تھے.چنانچہ اس نشان کی یاد میں مولوی عبد اللہ صاحب نے وہ کُرتہ مسیح موعود سے لے لیا تاکہ اس نشان کی یادگار کے طور پر رہے اور آپ نے اس شرط پر ان کو دیا کہ وہ اپنی وفات کے وقت اس کو اپنے ساتھ ہی دفن کرنے کی وصیت کر جائیں تا بعد میں اس کے ذریعہ سے شرک نہ پھیلے.میں نےمولوی عبد اللہ صاحب سے جو اللہ تعالیٰٰ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہیں پوچھا ہے کہ آیا سیاہی وغیرہ کے گرنے کا وہاں کوئی ظاہری امکان بھی تھا.مگر وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کمرہ کی چھت بھی صاف تھی اور میں نے اس خیال سے کہ کہیں چھپکلی کی دم کٹ کر اس کے خون کے قطرے نہ گرے ہوں اسی وقت اوپر دیکھا بھی تھا مگر مجھے اوپر کوئی نشان نہیں ملا اور نہ چھت ایسی تھی کہ اس پر اس قسم کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی تھی اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس کمرہ میں بھی کوئی اور چیز نہ تھی نہ دوات نہ کوئی اور چیز.مولوی عبد اللہ صاحب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اب تک زندہ ہیں اور اس کُرتے کو انہوں نے اب تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور حلفی طور پر اس واقعہ کی گواہی دیتے ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ ہم لوگوں کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی واقع میں کوئی شکل ہے.یا یہ کہ وہ بھی دستخط کرتا ہے یا قلم اور سیاہی استعمال کرتا ہے یا یہ کہ کُرتے پر جو نشان پڑے تھے وہ فی الواقع اس سیاہی کے داغ تھے جو اللہ تعالیٰ نے استعمال کی بلکہ ہم تو جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے خدا تعالیٰ کو بے مثل مانتے ہیں اور تمثل اور حلول سے پاک سمجھتے ہیں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ
۱۹۸ آپ نے دیکھا وہ ایک کشف تھا خدا تعالیٰ کی صورت جو دکھائی گئی وہ تصویری زبان میں اس تعلیم کا تجسم تھا جو خدا تعالیٰ کو آپ سے تھا اور دستخط وغیرہ سے بھی یہی مراد تھی کہ آپ کا مدعا اور آپ کی خواہشات خدا تعالیٰ پوری کرے گا.اور سیاہی جو آپ کے کپڑوں پر گری بلکہ اس شخص پر بھی گری جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ بھی واقع میں خدا تعالیٰ جو آپ کے کپڑوں پر گری بلکہ اس شخص پر بھی گری جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ بھی واقع میں خدا تعالیٰ کے قلم کی سیاہی نہ تھی کیونکہ خدا تعالیٰ تو نہ قلم استعمال کرتا ہے نہ سیاہی بلکہ وہ رنگ خدا تعالیٰ نے اپنی صفت خلق کے ساتھ خارج میں پیدا کر کے گرا دیا تھا تا وہ آپ کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی ایک نشان ہو اور خدا تعالیٰ کی صفت خلق پر یقین کیا جا سکے اور لوگ سمجھ سکیں کہ اللہ تعالیٰ بلا ظاہری سامانوں کے اشیاء کو پیدا کر سکتا ہے اور اس کی صفت خلق آج بھی اسی طرح اپنا کام کر رہی ہے اور کر سکتی ہے جس طرح کہ ابتدائے پیدائش میں وہ کام کرتی تھی.اب میں ایک نشان آپ کا ایسا پیش کرتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح خدا پیدا کرتا ہےاسی طرح جب وہ حکم دیدے کہ یہ امر نہ ہو تو وہ نہیں ہو سکتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفت خلق کُلّی طور پر اللہ تعالیٰ میں ہی پائی جاتی ہے اور اس کے کسی غیر کو اس میں دخل نہیں ہے کیونکہ اگر غیر کو بھی حصہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کے باوجود کہ فلاں کام نہ ہو ان ہستیوں کے ذریعہ سے وہ کام ہو سکتا تھا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آپ کا ایک دشمن سعد اللہ نامی تھا جو لدھیانہ کے مشن سکول میں مدرس تھا سخت بدگو تھا.ہمیشہ آپ کے خلاف نظمیں اور مضمون شائع کرتا رہتا تھا اور ان میں ایسی گندی گالیاں دیتا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ شرفاء ان گالیوں کو خیال میں بھی لا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس کی نسبت فرماتے ہیں کہ شاید اور کسی شخص نے کسی نبی کو اس قدر گالیاں نہ دی ہوں گی.جس قدر کہ اس شخص نے مجھے گالیاں دی تھیں انہی گالیوں کے ساتھ یہ شخص یہ بھی شائع کرتا رہتا تھا کہ چونکہ مرزا صاحب نعوذ باللہ من ذالک جھوٹے ہیں اس لئے وہ تباہ ہو جائیں گے اور اپنی اولاد کی نسبت جو خبریں شائع کرتے ہیں وہ بھی پوری نہ ہوں گی اور وہ نامراد ہی رہیں گے.جب اس شخص کی گالیاں حد سے بڑھ گئیں اور بہتوں کے لئے یہ شخص ٹھوکر کا موجب ہوا تو حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ خدایا اس شخص کے لئے کوئی نشان ظاہر کی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا سن لی اور چونکہ یہ شخص ہدایت سے دور ہو چکا تھا اور خود
۱۹۹ اپنے لئے خدا کی رحمت کا دروازہ بند کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ یہ اسی تلوار سے مارا جائے جو یہ مسیح موعود کے خلاف چلاتا ہے اور اس نے آپ کو وحی کی إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُتیرا دشمن جو تیری نسبت کہتا ہے کہ تیری نسل قطع ہو جائے گی اس کی نسل قطع ہو گی اور وہ بے نسل رہ جائے گا.اب یہ عجیب بات ہے کہ جب یہ الہام آپ کو ہوا تو اس وقت اس شخص کے ہاں ایک لڑکا پہلے سے موجود تھا جس کی عمر چودہ سال کے قریب تھی اور یہ مولوی ابھی جوان ہی تھا اور اولاد کا سلسلہ آئندہ منقطع ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی.مگر اس نے جو خالق ہے اس الہام کے بعد اس شخص سے اپنی صفت خلق کا سایہ ہٹا لیا اور باوجود اس کے کہ اس شخص کی عمر ابھی تھوڑی ہی تھی اس کی نسل کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور گو وہ اس پیشگوئی کے بعد چودہ سال تک زندہ رہا مگر اس کے ہاں اولاد نہ ہوئی اور آخر جنوری 1907ء میں اس پیشگوئی کو سچا کرتا ہوا مر گیا.اگر نشان اس حد تک ہی رہتا تو بھی ایک بہت بڑا ثبوت خدا تعالیٰ کی خالقیت کا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس نشان کو اور بھی زیادہ کیا اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمنوں نے یہ دیکھ کر کہ آپ کا ایک نشان ظاہر ہو گیا.ایک طرف تو شور مچانا شروع کیا کہ مرزا صاحب نے تو کہا تھا کہ سعد اللہ ابتر رہے گا لیکن اس کے تو ایک لڑکا موجود ہے اور دوسری طرف اس لڑکے کی شادی کی کوششیں شروع کر دیں تاکہ اس کی اولاد ہو جائے اور مرزا صاحب پر جھوٹ کا الزام آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان حملوں کے جواب میں اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں لکھا کہ یہ لڑکا تو پیشگوئی سے پہلے ہی موجود تھا پس یہ لڑکا تو پیشگوئی کے خلاف نہیں ہو سکتا ہاں اگر اس کی اولاد ہو جائے تو بے شک اعتراض پڑ سکتا ہے مگر یہ یاد رکھو کہ اس کے ہاں اولاد نہ ہو گی اور سعد اللہ ضرور منقطع النسل ہو کر رہے گا چنانچہ آخر اسی طرح ہوا.یعنی گو مولوی سعد اللہ کے لڑکے کی شادی کر دی گئی لیکن اس کے اولاد نہ ہوئی آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمنوں نے آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اس کی ایک اور شادی کر دی کہ شاید اس سے اولاد ہو مگر باوجود اس کے بھی آج تک اس کے کوئی لڑکا نہیں ہوا.ایک جوان آدمی کی نسبت یہ لکھنا کہ اس کے اولاد نہ ہو گی ایک ایسابڑا معاملہ ہے کہ انسان کی طبیعت اس کا خیال کر کے بھی گھبراتی ہے چنانچہ آپ نے اپنی کتاب میں یہ لکھا تو آپ کا ایک مرید جو وکیل تھا اور جس کا ایمان بوجہ کمی بصیرت کے کمزور تھا اور آپ کی وفات کے بعد اسی
۲۰۰ طرح ٹھوکر کھا گیا جس طرح بعض مسیح ناصری کے حواریوں نے ٹھوکر کھائی تھی اس پر سخت معترض ہوا کہ ایسا آپ کیوں لکھتے ہیں؟ اگر اس کے اولاد ہو گی تو سخت مشکل ہو گی اور لوگوں میں بدنامی ہو گی اور شاید کوئی مقدمہ بھی دشمن کھڑا کر دے.مگر آپ نے اس کو یہی جواب دیا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ مجھے بتاتا ہے میں اس سے کیونکر منہ پھیر سکتا ہوں اور اس میں شک لا سکتا ہوں.تمہارا یہ اعتراض قلت ایمان کا نتیجہ ہے اور کچھ بھی نہیں چنانچہ ایسا ہی ثابت ہوا.اب دیکھو اگر وہ لڑکا بچپن میں مر جاتا تو شاید کوئی کہہ دیتا کہ یہ اتفاق تھا مگر پیشگوئی کے بعد پہلے تو باپ کی پندرہ سال تک اولاد بند رہی اور پھر جو لڑکا موجود تھا اس کی دو دفعہ شادی کی گئی مگر اولاد اس کے بھی پیدا نہ ہوئی.اگر خالق خدا نے ہی یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ دشمن کے منہ پر اس کی بد زبانی ماری جائے اور سرکش کو اس کے کئے کی سزا دی جائے تو یہ کس طرح ممکن تھا.اس نشان کو دیکھ کر اور بے تعصبی سے غور کر کے کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ اسلام کا خدا ایسا ہی خالق نہیں ہے جیسا کہ وہ ابتدائے آفرینش میں تھا؟ کیونکہ کیا ایسا نہیں ہوا کہ اس نے کہا کہ فلاں کےا ولاد ہو اور اس کے اولاد ہو گئی اور اس نے کہا کہ فلاں کے اولاد نہ ہو اور اسکے اولاد نہ ہوئی.پھر کون ہے جو اس نشان کو دیکھ کر تازہ ایمان نہ حاصل کرے اور اس کا دل یقین اور انشراح سے بھر نہ جائے؟ اور وہ "کوئی خالق ہونا چاہئے" کے شک اور گمان کے مقام سے بلند ہو کر "دنیا کا ایک خالق ہے" کے وثوق اور اطمینان کے مرتبہ تک نہ پہنچ جائے.فسبحان اللہ احسن الخالقین اب میں اللہ تعالیٰ کی ایک تیسری صفت کو لیتا ہوں جو مذکورہ صفات کی طرح مشہور صفت ہے اور جس سے چھوٹے بڑے سب واقف ہیں.یعنی صفت شفا.اس صفت پر تو لوگوں کو ایسا یقین ہے کہ کئی مذاہب کے پیروؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس صفت کا نمونہ دکھا سکتے ہیں چنانچہ بہت سے لوگ دعا سے مریضوں کا علاج کرنے کی طرف متوجہ ہیں.مگر ہر شخص جو عقل سے کام لے سمجھ سکتا ہے کہ یہ کام دعا یا خدا کی خاص تقدیر سے بالکل تعلق نہیں رکھتا کیونکہ اس قسم کی شفا کسی خاص مذہب کے لوگوں سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ایسے لوگ جو اس طرح شفا دیتے ہیں مسیحیوں میں بھی پائے جاتے ہیں ہندوؤں میں بھی یہودیوں میں بھی اور زردشتیوں میں بھی.پس یہ امر کسی مذہب کی صداقت کا ثبوت کس طرح کہلا سکتا ہے؟ اور کس طرح تعلق باللہ کا نشان سمجھا جا سکتا ہے.
۲۰۱ دوسرے یہ کہ اگر یہ تعلق باللہ کی علامت ہے تو ہم ان لوگوں سے دریافت کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ صفت شافی تو ان کی دعا کی وجہ سے حرکت میں آتی ہے اور مریض کو شفا بخشتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی باقی صفات ان کی دعا کے ذریعہ سے جوش میں نہیں آتیں؟ نہ خلق کی نہ علم کی نہ احیاء کی نہ حفاظت کی نہ اور دوسری صفات.جو لوگ کہ صفات الٰہیہ کے ظہور کے بالکل ہی منکر ہیں وہ تو خیر جواب دے بھی سکتے ہیں کہ خدا کی صفات ظاہر نہیں ہوتیں.لیکن جو شخص کہ ایک صفت کے متعلق دعویٰ کرتا ہے کہ میری دعا اور توجہ سے وہ ظاہر ہوتی ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس سوال کا بھی جواب دے کہ پھر باقی صفات کا اظہار خدا تعالیٰ کیوں نہیں کرتا؟ اصل بات یہ ہے کہ علاوہ دعا اور اس کی قبولیت کے انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک طبعی مادہ رکھا ہے کہ اس کی توجہ کا ایک مخفی اثر دوسرے انسان پر ہوتا ہےاو راس کے خیالات کی لہر اس کے معمول کے اندر جا کر اس کے اعصاب پر قبضہ پا لیتی ہے اور اس کے خیالات کو اپنے خیالات کے مطابق کر لیتی ہے اور جب معمول کے خیالات عامل کے خیالات کے مطابق ہو جاتے ہیں تو پھر ان خیالات کے اثر کے نیچے اس کے اندر ایک اچھی یا بری تبدیلی شروع ہو جاتی ہے جو عامل نے معمول کے اندر پیدا کرنی چاہی تھی مگر یہ اثرات قریباً قریباً اعصابی دور تک ہی محدود ہیں.مثلاً یہ تو ہو جائے گا کہ ایک شخص کی توجہ سے کسی کا بخار ٹوٹ جائے یا آنکھ کی سرخی جاتی رہے یا سر درد دور ہو جائے مگر مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ آتشک یا کوڑھ یا سِل وغیرہ کی بیماریاں دور ہو جائیں یہ طاقت مشق کرنے سے بہت بڑھ جاتی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ ضرور مقررہ قواعد کے ساتھ ہاتھ پھیرنے یا Suggestion (تجویز دینے سے ہی ایسے نتائج نکلیں.اصل امر تو توجہ کا قیام ہے.اگر توجہ کا قیام اور احساسات کا اجتماع کسی خاص امر کے متعلق ہو جائے تو خواہ دعا کے ہی رنگ میں ہو اس کا اثر ہو جاتا ہے.ہر اک شخص جو اس طرف توجہ کرے تھوڑی سی کوشش سے اس میں ترقی کر سکتا ہے بلکہ جو لوگ شراب اور سؤر کا استعمال کرتے ہیں وہ تو بہت ہی جلد اس علم کے ماہر ہو سکتے ہیں.مگر اس علم میں انسان خواہ کس قدر بھی ترقی کر جائے اسے روحانیت کی ترقی نہیں کہہ سکتے نہ خدا تعالیٰ کا کوئی غیر معمولی نشان قرار دیں گے.ہاں یہ کہیں گے کہ فلاں شخص نے خد اتعالیٰ کے بنائے ہوئے ایک قدرت کے قانون سے فائدہ اٹھایا ہے.خلاصہ یہ کہ آج کل جو لوگ شفا کے اس قسم کے شعبدے دکھاتے ہیں وہ ہرگز خدا کے نشانات نہیں کہلا سکتے اور نہ وہ کسی خاص مذہب سے مخصوص ہیں مگر جو نشانات خدا تعالیٰ کی صفت
۲۰۲ شافی ہونے کے ثبوت میں حضرت مسیح موعود نے دکھائے ہیں وہ بے شک ایسے ہیں کہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہے اور اس میں شفا دینے کی طاقت ہے چنانچہ مثال کے طور پر میں آپ کا ایک نشان پیش کرتا ہوں.جب آپ کے سلسلہ کی ترقی شروع ہوئی تو آئندہ نسلوں کو احمدی خیالات میں رنگین کرنے کے لئے اور ان کے اندر ملی جذبہ پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود نے قادیان میں ایک ہائی سکول اپنی جماعت کی طرف سے جاری کیا.اس اسکول میں احمدی جماعت کے طالب علم بہت دور دور کے علاقوں سے آتے تھے تاکہ دنیاوی تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم بھی پائیں.ان طالب علموں میں جو دور سے آئے ہوئے تھے ایک لڑکا عبد الکریم نامی ریاست حیدر آباد کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا اس لڑکے کو اتفاقاً دیوانے کتے نے کاٹ کھایا اور اس کو علاج کے لئے کسولی بھیج دیا گیا جہاں کہ پیٹیور انسٹی ٹیوٹ کی ایک شاخ ہے.لڑکا علاج کرا کے واپس آ گیا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ وہ خطرہ سے باہر ہو گیا ہے مگر قادیان میں واپس تے ہی اسے دیوانگی کا دورہ ہو گیا اور نہایت سخت تکلیف میں جو اس بیماری کا خلاصہ ہے وہ مبتلاء ہو گیا.گلے کے تشنج اور خوف کی زیادتی اور نیند کے اڑ جانے اور جنون کے دوروں کی وجہ سے جن میں اس کا دل تیمار داروں کو مارنے کو اور کاٹنے کو چاہتا تھا اور جس پر وہ بعد میں اس قدر پشیمان ہوتا کہ تیمار داروں کو کہتاکہ وہ اسے چھوڑ کر چلے جائیں تا وہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچاوے.اس کی حالت نہایت نازک ہو گئی.تب ہیڈ ماسٹر مدرسہ نے کسولی پیٹیور انسٹی ٹیوٹ کے انچارج ڈاکٹر کو تار دی کہ اب اس کے لئے کچھ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ مگر اس نے بجواب تار دی کہ Sorry nothing can be done for Abdul Karim افسوس ہے کہ عبد الکریم کے واسطے کچھ نہیں کیا جا سکتا." چونکہ وہ لڑکا دور سے آیا تھا اور جس علاقہ کاوہ لڑکا تھا اس میں تعلیم کا بہت ہی کم رواج تھا اور خیال تھا کہ اگر یہ مر گیا تو ان علاقں پر اس کا بد اثر پڑے گا آپ کے دل میں اس کی نسبت دعا کا ایک خاص جوش پیدا ہوا اور آپ نے اس کے لئے دعا کی.آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سنی اور وہ لڑکا جس کی نسبت خیال تھا کہ چند گھنٹوں میں مر جائے گا اور جس کی تشنج کی حالت نہایت شدید ہو گئی تھی حتیٰ کہ اس کو دیکھا نہیں جاتا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے اچھا کر دیا.جو لوگ علم طب سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ دیوانے کُتے کے مریض کو جب دورہ
۲۰۳ ہو جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں تب وہ ضرور مر جاتا ہے اور آج تک ایک کیس بھی ایسا نہیں ہوا کہ ایسا مریض بچ گیا ہو چنانچہ جب اس لڑکے کی شفا یابی کی خبر کسولی پہنچی تو وہاں سے ایک شخص نے یہ خط لکھا." سخت افسوس تھا کہ عبد الکریم جس کو دیوانے کتے نے کاٹا تھا اس کے اثر میں مبتلاء ہو گیا مگر اس بات کے سننے سے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ دعا کے ذریعہ سے صحت یاب ہو گیا.ایسا موقع جانبر ہونے کا کبھی نہیں سنا." یہ وہ شفا کی قسم ہے جو حقیقی شفا کہلا سکتی ہے اور جس سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ کوئی خدا ہے جس میں شفا دینے کی طاقت ہے اور وہ لوگ جو ایسی شفا کے نمونے دکھائیں اس امر کا حق رکھتے ہیں کہ کہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کو اس کی اصلی صورت میں اور یقینی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.حضرت مسیح موعود نے اور بھی بہت سے نشانات اس صفت کے ظاہر اور روشن کرنے کے لئے دکھائے ہیں مگر اس جگہ ان سب کو بیان نہیں کیا جا سکتا.ہاں یہ مضمون نامکمل رہے گا اگر میں اس چیلنج کا ذکر نہ کروں جو آپ نے پادری صاحبان کو دیا تھا آپ نے اس میں لکھا تھا کہ آپ لوگ مسیح اول کے پیرو ہیں جو نشانا ت دکھاتا تھا اور آپ لوگوں کو اس کا قائم مقام ہونے کا دعویٰ ہے اور مجھے محمد رسول اللہ ﷺ کے قائم مقام ہونے کا دعویٰ ہے پس میں آپ کو چیلنج دیتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ دعا میں اس طرح مقابلہ کر لیں کہ بعض خطرناک مریض جو عام طور پر اچھے ہونے کے قابل نہیں سمجھے جاتے ان کو لے کر بذریعہ قرعہ آپس میں برابر تعداد میں تقسیم کر لیا جائے پھر جو مریض میرے حصے میں آئیں ان کے لئے مین دعا کروں اور جو آپ لوگوں کے حصے میں آئیں ان کے لئے آپ دعا کریں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس فریق کے بیماروں کو اچھا کرتا ہے.مگر افسوس کہ پادری صاحبان اس مقابلہ پر نہ آئے.اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت قدوس بھی ہے یعنی وہ پاک ہے.اب اس صفت پر سب مذاہب ہی متفق ہیں لیکن کوئی ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ خدا تعالیٰ کی نسبت کیونکر معلوم ہو کہ وہ قدوس ہے.اول تو جو صفات اس کی بیان کی جاتی ہیں وہی مشتبہ ہیں ان سے ہم اندازہ کس طرح لگا سکتے ہیں کہ وہ قدوس ہیں؟ اگر اس امر کو نظر انداز بھی کر دیا جائے اور اس صفت کو مستقل طور پر الگ ہی تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کا ثبوت ہمیں کوئی نہیں ملتا.اس صفت کا ثبوت صرف
۲۰۴ ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ کوئی ایسے لوگ ہوں جو خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے اور اس کی لقاء کا رتبہ حاصل کرنے والے ہوں پھر ان کے وجود میں قدوسیت کی صفات کو جلوہ گر ہوتے ہوئے دیکھیں اور اگر یہ نہ ہو تو ایک طرف خدا تعالیٰ کی صفت قدوسیت مشتبہ رہتی ہے او ردوسری طرف اس امر کا بھی انکار کرنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے کبھی کسی کو قرب حاصل ہوا ہے کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گلاب کا پھول تھوڑی دیر کپڑوں سے لگا رہے تو تمام کپڑے اس کی خوشبو سے مہک جاتے ہیں کہ ایک گلاب کا پھول تھوڑی دیر کپڑوں سے لگا رہے تو تمام کپڑے اس کی خوشبو سے مہک جاتے ہیں اور ایک معطر انسان کے پاس تھوڑی دیر کوئی بیٹھ جائے تو اس سے بھی خوشبو کی لپٹیں آنے لگتی ہیں تو ہم کس طرح قبول کر سکتے ہیں کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کا مقرب تو بنا مگر اس نے خدا سے کچھ نہ پایا؟ اور اس کی اس خوشبو سے جو درحقیقت سب صفات کی جامع ہے یعنی قدوسیت کورا کا کورا ہی رہا؟ چونکہ یہ امر خلاف عقل ہے اس لئے وہی شخص خدا تعالیٰ کا مقرب سمجھا جا سکتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کا ثبوت مل سکتا ہے جو خدا سے قدوسیت حاصل کر کے خود قدوس ہو اور اپنی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے دنیا کے لئے نمونہ بنے.حضرت مسیح موعود کی زندگی کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس صفت کے بھی ثابت کرنے والے ہیں.آپ نے اپنے وجود سے خدا تعالیٰ کی صفت قدوسیت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان پر اس صفت کا انعکاس ایسے ہی رنگ میں ہو سکتا ہے جو بشریت کے مناسب حال ہو ورنہ وہ خدا بن جائے گا جو خلاف عقل ہے.مگر بشریت کے مطابق اس کا انعکاس اس کی شان کو کم نہیں کرتا بلکہ اپنے مقصد کو یعنی صفات باری کو پورے طور پر ثابت کرنے کے کام کو خوب اچھی طرح اد اکرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاس صفت کو بھی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اپنے وجود میں پیدا کیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن سے دشمن بھی اس امر کا مُقِرّ ہے کہ آپ میں کوئی عیب نہ تھا.اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے والا ہے کہ موعود جب دنیا میں آتے ہیں تو بوجہ مذہبی مخالفت کے لوگ ان پر کئی قسم کے عیب لگانے لگتے ہیں کیونکہ عداوت انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے اور خوبی کو بھی عیب کر کے دکھاتی ہے پس انبیاء کی زندگی کو جانچتے ہوئے ہمیشہ ان کے دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو لینا چاہئے کیونکہ اس وقت تک لوگوں کو ان سے ایسی خاص عداوت نہیں ہوتی کہ تعصب سے بالکل ہی اندھے ہو جائیں پس وہی زندگی ان کی قدوسیت کا معیار ہے.
۲۰۵ حضرت مسیح ناصری جو اللہ تعالیٰ کے ہادیوں میں سے ایک ہادی تھے اور اسی جماعت کے ایک فرد تھے جن میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں.آپ کی زندگی بھی جیسا کہ ضروری تھا نہایت پاکیزہ اور صاف تھی حتیٰ کہ آپ نے اپنے دشمنوں کو چیلنج دیا تھا کہ "کون تم میں سے مجھ سے گناہ ثابت کر سکتا ہے؟ " مگر یہ دعویٰ پہلی ہی زندگی کے متعلق ہو سکتا تھا.ورنہ نبوت کے بعد کی زندگی پر لوگ بوجہ تعصب سے اندھا ہو جانے کے معترض تھے چنانچہ خود حضر ت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں."ابن آدم کھاتا پیتا آیا اور وہ کہتے ہیں دیکھو کھاؤ اور شرابی آدمی.محصول لینے والوں اور گنہاگاروں کا یار." مسیح ایسا نہ تھا بلکہ ان لوگوں کی آنکھوں پر بوجہ تعصب پٹی بندھ گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھی قدوسیت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی اور نبوت سے پہلے زمانہ کی زندگی کے متعلق آپ کے سخت سے سخت دشمنوں ک شہادتیں موجود ہیں کہ اس پر کوئی عیب نہیں لگایا جا سکتا.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی جو دعویٰ کے بعد آپ کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہوا وہ آپ کی زندگی کے متعلق اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھتا ہے."اس کا مؤلف بھی (حضرت مسیح موعود کی ایک کتاب کا جو مسیحیت کے دعویٰ سے پہلے لکھی گئی تھی نام ہے) اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے." اس رائے میں سے حالی نصرت کے الفاظ قابل غور ہیں.ان کے یہ معنی ہیں کہ جو نمونہ اخلاق اور اعلیٰ چال چلن کا آپ نے دکھایا ہے وہ ایسا ہے کہ اس کو دیکھ کر لوگوں کو اسلام کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور وہ ایسا کامل نمونہ ہے کہ پہلے مسلمانوں میں بھی اس کی نظیر بہت کم پائی جاتی ہے.تمام مذاہب کے پیروؤں کو پہلے لوگوں کی عزت کے قیام اور ان کے درجہ کو بڑھا کر دکھانے کا جس قدر شوق ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک مولوی کے لئے یہ لکھنا کس قدر مشکل ہے کہ فلاں شخص پہلے مسلمانوں سے بھی بڑھ گیا ان مولوی صاحب کی شہادت اس وجہ سے اور بھی زیادہ عظمت رکھتی ہے کہ آپ قادیان کے پاس کے رہنےو الے تھے اور بچپن سے آپ کے واقف تھے اور آپس میں برابر ملاقات ہوتی رہتی تھی.
۲۰۶ یہ تو ایک اشد مخالف کی تحریری رائے ہے.اس رائے کے علاوہ بھی ہر اک شخص جو آپ کا جاننے والا ہے وہ آپ کی نیکی کا قائل اور معترف ہے.قادیان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ہندو بھی، آریہ بھی، سکھ بھی اور غیر احمدی مسلمان بھی.قادیان کے دروازہ بٹالہ میں مسیحیوں کا ایک بہت بڑا مرکز ہے یہ سب لوگ آپ کے سخت ترین دشمن ہیں بلکہ جس قدر دشنی ان لوگوں کو ہے اور کسی کو شاید نہ ہو گی کیونکہ نبی اپنے شہر اور اپنے علاقہ میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا مگر باوجود اس عدوت کے سب لوگ معترف ہیں کہ بچپن سے لے کر آخر عمر تک آپ کی نیکی اور تقویٰ ناقابل گرفت و اعتراض تھا.آپ کی صداقت پر لوگوں کو ایسا یقین تھا کہ آپ کے خاندان کے ساتھ جن لوگوں کے دیوانی مقدمات ہوتے تھے اگر وہ سمجھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں تو ہمیشہ یہ تجویز پیش کر دیتے ہیں کہ جو کچھ آپ کہہ دیں گے وہ ان کو منظور ہو گا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ کبھی خلاف حق بات نہیں کہیں گے خواہ اس میں آپ کا یا آپ کے رشتہ داروں کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو.ایک دفعہ آپ ایک مقدمہ ڈاک خانہ کی طرف سے چلایا گیا جس میں جرمانہ اور قید دونوں سزائیں مل سکتی تھیں.چونکہ ڈاک خانہ کے قواعد کی خلاف ورزی اس زمانہ میں کثرت سے ہوتی تھی ڈاک خانہ والے چاہتے تھے کہ ایک دو شخصوں کو سخت سزا ہو جائے تو آئندہ لوگ احتیاط کریں گے.اس لئے ڈاک خانہ کا انگریز افسر خود پیروی کے لئے آتا اور پورا زور دیتا کہ آپ کو سزا ہو جائے.اس مقدمہ کی بناء صرف اس شخص کی شہادت پرتھی جس نے آپ کا بھیجا ہوا پیکٹ کھولا تھا جس میں ایک خط تھا اور خط کا پیکٹ میں بھیجنا قوانین ڈاک کے مطابق جرم تھا.وکلاء نے کہا کہ بچنے کی صرف یہ صورت ہے کہ آپ کہیں کہ میں نے خط الگ بھیجا تھا.وہ شخص جس کے نام پیکٹ تھا چونکہ پادری تھا اور آپ سے مباحثات کر چکا تھا اور ایک رنگ میں آپ سے عداوت رکھتا تھا یہ عذر آپ کا یقینی طور پر قابل قبول تھا مگر آپ نے صاف انکا رکر دیا اور کہا کہ میں جھوٹ کس طرح بول سکتا ہوں میں نے واقع میں خط بھیجا ہے.گو یہ سمجھ کر اسے پیکٹ میں ڈال دیا تھا کہ وہ بھی مضمون پیکٹ کے متعلق تھا.مجسٹریٹ پر اس امر کا اس قدر اثر ہوا کہ باوجود ڈاک خانہ کے افسروں کے اصرار کے اس نے آپ کو بری کر دیا اور کہا کہ جو شخص قید ہونے کے خطرہ میں ہے اور منہ کے ایک فقرہ سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے لیکن کوئی پرواہ نہیں کرتا اور جھوٹ نہیں بولتا میں اسے ہرگز سزا نہیں دے سکتا.
۲۰۷ مجھے سب سے زیادہ ایک بوڑھے شخص کی شہادت پسند آیا کرتی ہے.یہ ایک سکھ ہے جو آپ کا بچپن کا واقف ہے وہ آپ کا ذکر کرکے بے اختیا ررو پڑتا ہے اور سنایا کرتا ہے کہ ہم کبھی آپ کے پاس آ کر بیٹھتے تھے تو آپ ہمیں کہتے تھے کہ جا کر میرے والد صاحب سے سفارش کرو کہ مجھے خدا اور دین کی خدمت کرنے دیں اور دنیوی کاموں سے معاف رکھیں.پھر وہ شخص یہ کہہ کر رو پڑتا کہ "وہ تو پیدائش سے ہی ولی تھے " ایک غیر مذہب کا شخص جس نے آپ کی زندگی کے سب دور دیکھے ہیں اور آپ کے راز سے پوری طرح واقف ہے اس کی یہ شہادت معمولی شہادت نہیں ہے اوراسی پر منحصر نہیں.ہر شخص جو جس قدر آپ کا زیادہ واقف ہے اسی قدر آپ کے اخلاق اور آپ کے تقویٰ اور آپ کی ہمدردی بنی نوع انسان کی تعریف کرتا ہے اور یہی معیار اعلیٰ اخلاق کا ہوتا ہے کہ اپنے اور بیگانے جو کسی شخص کی تمام زندگی کے حالات سے واقف ہوں وہ اس کی دیانتداری اور تقدس کی تعریف کریں.آپ نے خود بھی اپنے مخالفوں کو مسیح ناصری کی طرح ان الفاظ میں چیلنج دیا ہے مگر کوئی مقابل پر نہیں آیا."میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افتراء اور دروغ کا نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اس قدر مدت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر اک افتراء اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افتراء کرنے لگا." پھر فرماتے ہیں."کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا." ان شہادتوں اور دعووں سے ظاہر ہے کہ آپ کی زندگی نہ صرف عیوب سے پاک تھی بلکہ آپ کو ایسا تقویٰ نصیب تھا کہ آپ کےدشمن بھی گو آپ کے دعویٰ میں آپ کو غلطی پر قرار دیتے تھے مگر وہ آپ کے ذاتی تقویٰ اور طہارت کے متعلق متفق اللسان ہو کر گواہی دیتے
۲۰۸ تھے اور الفضل ما شھدت بہ الاعداء.پس آپ کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت بھی ظاہر ہوئی اور آپ کی حالت کو دیکھ کر ہمیں یہ یقین ہوا کہ جس خدا کا یہ بندہ ہے جس نے بچپن کے زمانہ سے آخر تک کوئی گناہ نہیں کیا کوئی اخلاقی یا روحانی کوتاہی نہیں دکھائی بلکہ سب اخلاق حسنہ پر کاربند رہا ہے اور تقویٰ کا زندہ نمونہ دکھایا ہے وہ خود کیسا پاک ہے سبحان اللہ و تعالٰی عما یصفون.ایک صفت اللہ تعالیٰ کی مُحِیِیْ بھی ہے یعنی مُردوں کو زندہ کرنے والا.انجیل میں اس قسم کے معجزات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ مسیح نے بہت سے مُردے زندہ کئے لیکن آج کون ہے جو مُردے زندہ کر کے دکھا سکتا ہے؟ پرانے قصے ہماری تسلی نہیں کر سکتے.ہم ا س صفت پر تبھی یقین کر سکتے ہیں جب ا س کا کوئی ثبوت اس دنیا میں بھی دیکھ لیں اور اللہ تعالیٰٰ کے فضل سے مسیح موعود علیہ السلام نے اس صفت کے متعلق عملی شہادت بہم پہنچا کر ہمارے ایمانوں کو تازہ کیاہے.پیشتر اس کے کہ میں اس قسم کے نشانوں کی کوئی مثال بتاؤں پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک وہ جن کا اس دنیا میں اپنے پورے جلال سے ظاہر ہونا بعض دوسری صفات کے مخالف پڑتا ہے پس ایک ایسی صفات کو اللہ تعالیٰ اس رنگ میں ظاہر نہیں کرتا جس رنگ میں کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی میں ظاہر ہوں گی مُردوں کے زندہ کرنے والی صفت بھی انہی میں سے ہے.اگر فی الواقع مُردے زندہ ہو کر دنیا میں واپس آنے لگیں تو ایمان کا کوئی فائدہ نہ رہے کیونکہ ایمان تبھی تک نفع بخش ہے جب تک اس میں کچھ اخفائ ہے اور جب وہ مرئی چیزوں کی طرح ظاہر ہو جائے تو اس کا کچھ فائدہ نہیں.کون ہے جو اس پر انعام دے کہ کوئی شخص سمندر کو سمندر اور سورج کو سورج سمجھتا ہے.جو باریک راز دریافت کرتے ہیں وہی انعامات کے بھی مستحق ہوتے ہیں.پس اصلی مُردے دنیا میں واپس نہیں لائے جاتے ہاں یہ مُردے زندہ کرنے کا نشان دو طرح ظاہر ہوتا ہے.یا تو روحانی مُردوں کو زندہ کر کے یا پھر ایسے بیماروں کو زندہ کر کے جن کی حالت جان کندن تک پہنچ گئی ہو.یا بظاہر مر گئے ہوں مگر درحقیقت مرے نہ ہوں.جیسا کہ حضرت مسیحؑ نے اس عورت کی نسبت جس کا ذکر متی باب 9 میں آتا ہے کہا کہ."کنارے ہو کر لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے.وے اس پر ہنسے" روحانی مُردے زندہ کرنے کے متعلق مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم میں سے ہر اک اس زندہ مثال ہے مگر میں دوسری قسم کے احیاء کی دو مثالیں اس جگہ بیان کرتا ہوں.
۲۰۹ آپ کا چھوٹا لڑکا مبارک احمد ایک دفعہ بیمار ہوا اور اس کی بیماری بہت سخت بڑھ گئی اور غش پر غش آنے لگے آخر اس کی حالت موت کی سی ہوگئی اور جو اوپر نگران تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ بالکل مر چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پاس کے کمرے میں دعا میں مشغول تھے کہ کسی نے آواز دی کہ اب دعا بس کر دیں کیونکہ لڑکا فوت ہو گیا ہے.آپ اٹھ کر وہاں آئے جہاں وہ لڑکا تھا اور آپ نے اس کے جسم پر ہاتھ رکھ کر توجہ کی تو دو تین منٹ میں یہ پھر سانس لینے لگ گیا.اسی طرح ایک دفعہ خان محمد علی خان صاحب جو نواب صاحب مالیر کوٹلہ کے ماموں ہیں اور ہجرت کر کے قادیان میں ہی آ بسے ہیں ان کے لڑکے میاں عبد الرحیم خان صاحب بیمار ہوئے ان کو ٹائیفائیڈ کی بیماری تھی دو ڈاکٹر اور حضرت خلیفہ اول مولوی نور الدین صاحب جو دیسی معالج تھے.آخر بیماری کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ مولوی صاحب نے بھی اور دوسرے ڈاکٹروں نے بھی کہہ دیا کہ اب اس مریض کی حالت بچنے والی نہیں یہ چند گھنٹے کا مہمان ہے علاج کی اب کچھ ضرورت نہیں.جب اس امر کی حضرت مسیح موعود کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اسی وقت اس لڑکے کے لئے دعا کی اور الہام ہوا کہ اس لڑکے کی موت آ چکی ہے تب آپ نے عرض کیا کہ اے خدا! اگر دعا کا وقت گذر چکا ہے اور اس لڑکے کی موت آ چکی ہے تو میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں.ا سکے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ (البقرة:256) کون ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور سفارش کرے مگر اس کے حکم اور اس کی اجازت سے؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس الہام پر میں نے دعا ترک کر دی مگر معاً دوبارہ الہام ہوا انک انت المجاز ہم تجھ کو شفاعت کی اجازت دیتے ہیں.اس پر آپ نے شفاعت کی اور اسی وقت باہر آ کر کہہ دیا کہ یہ لڑکا بچ جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰٰ نے میری شفاعت سے اس کو موت سے بچا دیا ہے.چنانچہ وہ فوراً ہی تندرستی کی طرف مائل ہو گیا اور کچھ دنوں میں اچھا ہو گیا.عبد الرحیم خان صاحب جن کے متعلق یہ معجزہ ظاہر ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہیں اور اس وقت انگلستان میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.آپ کے والد اور دوسرے گواہوں میں سے بھی اکثر لوگ زندہ موجود ہیں اور سب شہادت دے سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کی صفت احیاء کا مشاہدہ کیا ہے جب کہ وہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے ظاہر ہوئی.
۲۱۰ اللہ تعالیٰ کی مشہور صفات میں سےا یک صفت مالکیت کی بھی ہے تمام مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ وہ ذرہ ذرہ کا مالک ہے مگر یہ کہ وہ کس طرح مالک ہےا س کا ثبوت ملنے کے بغیر ہمارے لئے بالکل ناممکن ہے کہ ہم اس کی مالکیت پر یقین کریں کیونکہ ہم ظاہر میں تو دیکھتے ہیں کہ باقی سب مالکوں کے آثار مالکیت نظر آتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی مالکیت کے کوئی آثار دنیا میں نظر نہیں آتے.بے شک یہ کہا جا سکتا ہے اور واقع بھی یہی ہے کہ خد اتعالیٰ نے ایک قانون بنایا ہے اس کے ماتحت کارخانۂ عالم چل رہا ہے لیکن پھر بھی اگر کوئی آدمی دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کا مقرب ہو اس کے ہاتھ پر اس کی صفت مالکیت کا ظہور ہونا چاہئے تا اس کے مقرب ہونے کی دلیل پیدا ہو اور اس پر یقین آئے کہ فی الواقع خدا دنیا کا مالک ہے.ورنہ موجودہ صورت میں تو اگر ایک عام آدمی اٹھ کر کہہ دے کہ وہی سب دنیا کا مالک ہے اور جب اسے کہا جائے کہ پھر تجھ پر قوانین نیچر کیوں حکومت کرتے ہیں؟ تو وہ کہہ دے کہ یہ میرا ازلی قانون ہے کہ ایسا ہی ہو تو ایسے شخص کا کوئی جواب خدا پرستوں کےپاس نہیں رہتا.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ ایسے دعوے کر دیتے ہیں اور اپنے آپ کو خدا کہہ دیتے ہیں اور ان کو اس پر اس وجہ سے جرأت ہوتی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مالک ہونے کا بھی کوئی زندہ ثبوت دنیا میں موجود نہیں اس لئے ہمارے دعویٰ کو کوئی رد نہیں کر سکتا.جو اعتراض وہ ہماری خدائی پر کریں گے وہی دہرا کر ہم ان کے خدا پر کر دیں گے لیکن اگر فی الواقع خدا کی مالکیت کا کوئی ثبوت ہو تو ایسے لوگوں کو ہرگز جرأت نہیں ہو سکتی کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کا تمسخر کریں اور دنیا کو اس طرح دھوکا دیں.کیونکہ اس صورت میں وہ بندے جو خدا کے مقرب ہو کر اور اس کے فضل کی چادر اوڑھ کر آتے ہیں ان کو ان کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی مالکیت ظاہر ہو رہی ہے تم اگر خدا ہو تو ان سے بڑھ کر مالکیت کا ثبوت دو کیونکہ یہ نائب ہیں او رتم اصل ہونے کے مدعی ہو.یہ طریق تمام وساوس کے رد کرنے کا ایسا ہے کہ اس کا جواب ایسے لوگوں سے کچھ نہیں بن سکتا.ہمارا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر کے اس کی صفت مالکیت کا بھی اسی طرح اظہار کیا جس طرح اور صفات کا اور آپ نہ صرف اس امر پر شاہد ہوئے کہ اسلام انسان کو خدا تعالیٰ سے ملا سکتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی خدا تعالیٰ پر کامل ایمان لانے کا آپ نے راستہ کھول دیا.چنانچہ ایک مثال آپ کے اس قسم کے نشانات میں
۲۱۱ سے یہ ہے کہ جب ہندوستان میں طاعون پڑی اور اس کا سخت زور ہوا تو جس طرح طاعون کے نمودار ہونے سے پہلے آپ نے خبر دی تھی کہ اس ملک میں شدید طاعون (وباء) پڑے گی اسی طرح آپ نے اپنا ایک کشف یہ بھی لکھا کہ میں نے دیکھا کہ طاعون ایک مہیب جانور کی شکل میں جس کا منہ ہاتھی سے ملتا ہے چاروں طرف حملہ کرتی پھرتی ہے اور جب وہ ایک حملہ کر چکتی ہے تو میرے سامنے آ کر بیٹھ جاتی ہے اور اس طرح بیٹھ جاتی ہے جس طرح کوئی غلام مؤدب ہو کر بیٹھتا ہے اور اپنی فرمانبرداری کا اقرا رکرتا ہے.پھر آپ کو الہام ہوا کہ "آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے" یعنی طاعون نہ صرف ہماری بلکہ ہمارے غلاموں یعنی جو ہمارے ہی ہو جاتے ہیں اور اپنی مرضی کو ہمارے تابع کر دیتے ہیں ان کی بھی غلام ہے وہ ان کو کچھ نہیں کہے گی اور وہ اس سے محفوظ رہیں گے.پھر الہام ہوا کہ انی احافظ کل من فی الدار میں تیرے گھر میں جس قدر لوگ ہیں ان کو طاعون سے محفوظ رکھوں گا.آپ نے ان الہامات کو اسی وقت اخباروں او رکتابوں کے ذریعہ سے شائع کرا دیا ا وراپنے مخالفوں کو چیلنج دیا کہ وہ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو حق پر تو اپنے متعلق ایسی ہی خبر شائع کر کے دیکھیں کہ ان کے گھر یا ان کی ذات طاعون سے محفوظ رہے گی مگر کوئی شخص مقابلہ پر نہ آیا.تمام لوگ جو دنیا کے حالات سے مطلع رہنے کی کوشش کرتے ہیں جانتے ہوں گے کہ ہندوستان میں اٹھائیس سال سے سخت طاعون پھوٹا ہوا ہے اور 1901ءمیں تو جبکہ یہ الہامات حضرت مسیح موعو دکو ہوئے تھے اس کا زور نہایت ہی سخت تھا.اس وقت تک ستّر اسّی لاکھ آدمی طاعون سے مر چکا ہے اور ایک ایک سال میں تین تین لاکھ آدمی مرتا رہا ہے خصوصاً اس کا حملہ پنجاب پر سب سے زیادہ سخت پڑا ہے.اور تین چوتھائی بلکہ اس سے بھی زیادہ موتیں صرف پنجاب میں واقع ہوئی ہیں.ایسی سخت وباء کے ایام میں اور ایسے مبتلاء علاقہ کے رہنے والے شخص کا اس قسم کا دعویٰ کیسا نازک ہے اور خصوصاً جبکہ ایک شخص کے متعلق نہیں بلکہ ایک گھر کے متعلق ہو جس میں ستّر یا سو آدمی رہتا ہو پھر ایک سال کے متعلق نہیں بلکہ ایک لمبے عرصہ تک کے لئے ہو.کونسا انسان ہے جو اس قسم کی بات کا ذمہ لے سکے؟ اور کونسی انسانی طاقت ہے جو پھر اس ذمہ داری کو پور اکر سکے.پھر یہ بات بھی دیکھنے والی ہے کہ قادیان ایک چھوٹی سی بستی ہے اور اس وجہ سے گورنمنٹ
۲۱۲ کو اس کی صفائی کا بالکل خیال نہیں.اس کی گلیوں کی بری حالت کا اندازہ بھی یورپ و امریکہ کے رہنے والے نہیں کر سکتے.اس کی حالت ان شام کے قصبات سے ہرگز کم نہیں جہاں کہ عرصہ دراز سے طاعون اپنے گھر بنائے ہوئے ہے.آپ کا گھر بھی شہر سے باہر نہیں بلکہ شہر کے اندر تھا آپ کے مکان کے چاروں طرف لوگوں کے مکانات تھے پس خاص صفائی یا کھلی ہوا کی طرف بھی آپ کے گھر کی حفاظت منسوب نہیں کی جا سکتی.آپ کا گھر باقی حصۂ قصبہ سے نشیب میں ہے اور نصف شہر کی گندی نالیاں آپ کے مکان کے اردگرد سے گذرتی ہیں اور پاس ہی پچاس گز کے فاصلہ پر ایک تالاب تھا جس میں برسات کا پانی سال کے اکثر حصہ میں سڑتا رہتا تھا (میں تھا اس لئے کہتا ہوں کہ اب تالاب کا بیشتر حصہ بھرتی ڈال کر پُر کر دیا گیا ہے اور تالاب فاصلہ پر ہو گیا ہے) ایسے مقام اور ایسے گرد و پیش میں رہنے والے شخص کا اس قدر بڑا دعویٰ کوئی معمولی بات نہ تھی.یہ دعویٰ اگر معمولی رنگ میں بھی پورا ہوتا تو یقیناً خد اتعالیٰ کے مالک ہونے کی ایک زبردست دلیل ہوتا مگر خدا تعالیٰ نے اس نشان کو ایک زبردست نشان کرنے کے لئے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ انہوں نے اس کی شان کو بہت ہی بڑھا دیا.اس الہام کے شائع ہونے سے پہلے قادیان میں طاعون نہ آئی تھی اگر اسی طرح طاعون کا زمانہ گزر جاتا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ شاید اس علاقہ کی کوئی خصوصیت ہو گی کہ وہاں طاعون کے جَرم نشوو نما نہ پاتے ہوں اور اس امر کو دیکھ کر آپ نے دعویٰ کر دیا ہو مگر ادھر اس الہام کی اشاعت ہوئی ادھر خدا تعالیٰ نے طاعون کو قادیان میں بھیج دیا اور ایک سال نہیں دو سال نہیں متواتر چار پانچ سال قادیان پر طاعون کا حملہ ہوتا رہا.طاعون کے حملہ کی صورت بھی اگر طاعون دوسرے علاقہ میں رہتی لیکن آپ کے محلہ میں نہ آتی تو امر مشتبہ رہتا کیونکہ پھر بھی یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کوئی خاص انتظام صفائی کا کر لیا گیا ہو مگر طاعون اس محلہ میں بھی آئی جس میں آپ کا مکان تھا پھر اور قریب ہوئی اور آپ کے مکان کے دائیں اور بہائیں جو مکان تھے ان میں بھی آئی پہلو بہ پہلو دیوار طاعون نے حملہ کیا دائیں کیا بہائیں کیا آگے کیا پیچھے کیا مگر آپ کے گھر کو بالکل چھوڑ کر چلی گئی.اور آدمی تو الگ رہے کوئی چوہا تک اس کی زد میں نہ آیا گویا اس نظارہ کی مثال اس گھر کی سی تھی جو چاروں طرف سے مکانوں میں گھرا ہوا ہو اور ان کو آگ لگ جائے وہ تمام جل کر راکھ ہو جائیں مگر وہ مکان بیچ میں سے سلامت بچ جائے اور شعلے جس وقت اس کے قریب پہنچیں خود بخود بجھ جائیں اور یہ معلوم ہو کہ کوئی طاقت بالا ان پر غیر مرئی چھینٹے
۲۱۳ ڈال کر ان کو ٹھنڈا کر دیتی ہے.ایک سال نہیں دو سال نہیں متواتر پانچ سال تک قادیان میں طاعون پڑی اور ان سالوں میں پڑی جبکہ وہ ہندوستان میں فی ہفتہ تیس تیس چالیس چالیس ہزار آدمی کو لقمہ اجل بنا لیتی تھی مگر آپ کے مکان کے اردگرد گھوم کر چلی جاتی تھی.کبھی اس مکان کے کسی بسنے والے پر اس نے حملہ نہیں کیا حالانکہ اس پیشگوئی کی وجہ سے آپ کی جماعت کے کئی خاندان طاعون کے دنوں میں اس حفاظت سے حصہ لینے کے لئے آپ کے گھر میں آ کر بس جاتے تھے.اور اس کی آبادی اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ غیر وبہائی دنوں میں بھی اس قدر آبادی نقصان کا موجب ہوتی ہے کجا یہ کہ وباء کے دن ہوں.یہ وہ نشان مالکیت ہےجو آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیااور جس کے ذریعہ سے آپ نے ہر اک شخص جو تعصب سے خالی ہو کر سوچے منوا لیا کہ ایک کامل الصفات خدا ہے اور اس کا قرب بندے کو حاصل ہو سکتا ہے.ایک اور مثال مالکیت کی قسم کے نشان کی وہ ہے جو خود مغربی ممالک میں ظاہر ہوئی ہے.امریکہ کا رہنے والا ایک شخص ڈوئی نام تھا.اس شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ میں مسیح کی آمد ثانی کے لئے بطور ایلیا کے ہوں.اس کے دعویٰ کی مقبولیت اس قدر بڑھ گئی کہ کئی لاکھ آدمی اس کے ساتھ مل گیا اور اس نے شکاگو کے پاس ایک الگ شہر بنایاجس کا نام اس نے زائن رکھا.اس میں سے اس کا خیال تھا کہ نئے دین کی اشاعت ہو گی.اس شخص کا یہ دعویٰ تھا کہ اس کی دعا بلکہ چُھو دینے سے بیمار اچھے ہو جاتے ہیں اور وہ لوگوں کو دواؤں کے استعمال سے روکتا تھا.جب اس شخص کا دعویٰ کس قدر پھیلا تو اس نے اعلان کیا کہ خد انے اسے اس امر کے لئے بھیجا ہے کہ تا مسیح کے آنے سے پہلے مسلمانوں کو برباد کر دے.جب اس کا لیکچر حضرت مسیح موعود کو سنایا گیا تو آپ نے اسے چیلنج دیا کہ تجھ کو یہ دعویٰ ہے کہ تو اسلام کے برباد کرنے کے لئے کھڑا ہے اور مجھے یہ دعویٰ ہے کہ میں اسلام کی حمایت اور اس کو ترقی دینے کے لئے مبعوث ہوا ہوں پس چاہئے کہ مجھ سے دعا میں مقابلہ کر کے فیصلہ کرے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے تا خدا کا عذاب جھوٹے کو پکڑے اور دوسروں کے لئے حجت ہو.اب یہ ایک صاف بات ہے کہ اگر خدا واقع میں دنیا کا مالک ہے اور وہ ایک شخص کو اس لئے نازل کرتا ہے کہ تا وہ اس کے باغ کی حفاظت کرے اور ایک شخص اپنے طور پر آ جاتا ہے اور اس خادم سے بحث کرتا ہے کہ نہیں اس باغ کا رکھوالا تو اس نے مجھے مقرر کیا ہے تو اس کی صفت مالکیت کا تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ اپنے بھیجے ہوئے خادم کی مدد کرے اور دنیا کو بتائے کہ مالک کا نائب
۲۱۴ کون ہے؟ اور اس کی صفت مالکیت کے ظہور کے لئے کس کو بھیجا گیا ہے؟ یہ چیلنج ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی کو بھیجنے کے علاوہ امریکہ اور انگلستان کے اکثر اخباروں کو بھی بھیجا گیا تھا جس کا ایک فقرہ یہ تھا.میں عمر میں ستّر برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے (اور اس طرح میرے مقابلہ میں نسبتاً جوان ہے) لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہو گا بلکہ خدا جو (زمین و آسمان کا بادشاہ اور) احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور وہ صرف سچے مدعی کے حق میں فیصلہ کرے گا ……… خواہ وہ اس موت سے جو اس کا انتظار کر رہی ہے کتنا ہی بھاگنے کی کوشش کرے مگر اس کا بھاگنا بھی اس کے لئے موت سے کم نہیں اور آفت اس کے زائن پر ضرور نازل ہو گی کیونکہ اسے یا تو اس مقابلہ کے نتائج برداشت کرنے ہوں گے یا اس مقابلہ سے انکا رکے نتائج بھگتنے ہوں گے.اس مضمون کو کثرت سے امریکن اخبارات نے شائع کیا جن میں سے تیس اخبارات کی کاپیاں ہمیں ملی ہیں ممکن ہے کہ ان کے علاوہ اور اخبارات میں بھی اس کا ذکر ہو.ان میں سے بعض نے اپنی رائے بھی لکھی کہ ہمارے نزدیک یہ طریق فیصلہ انصاف پر مبنی ہے اور معقول ہے مؤخر الذکر اخبارات میں سے ایک سان فرانسسکو کا اخبار "گوناٹ" بھی ہے یہ چیلنج 1902ء کو دیا گیا تھا مگر ڈاکٹر ڈوئی نے اس کی طر ف کوئی توجہ نہ کی.پھر 1903ء میں اس چیلنج کو دہرایا گیا اور آخر امریکہ میں ہی اس کے خلاف یہ آواز اٹھائی گئی کہ وہ جواب کیوں نہیں دیتا.وہ خود اپنے اخبار کے دسمبر 1903ء کے پرچہ میں اس امر کا یوں اقرار کرتا ہے."ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے او رلوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا؟ مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا.(میں ان کو موقع دیتا ہوں کہ وہ اُڑ جائیں اور زندہ رہیں) مگر جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ اگر وہ مقابلہ پر آئے گا تو بہت جلد ہلاک ہو گا مگر بھاگے گا تو بھی وہ آفت سے نہیں بچے گا اور اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آئے گی اور ایسا ہی ہوا خدا نے
۲۱۵ اس شخص کو پکڑا اور صیحون میں اس کے خلاف بغاوت ہو گئی اس کی اپنی بیوی اور اس کا لڑکا اس کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے ثابت کیا کہ جبکہ یہ شخص پبلک میں شراب کے خلاف لیکچر دیا کرتا تھا علیحدگی میں خود شراب پیتا تھا اور بہت سے اعتراض لوگوں نے اس پر کئے اور آخر اس کو صیحون سے بے دخل کیا گیا اور یا تو وہ شہزادوں کی سی زندگی بسر کرتا تھا یا کھانے پینے کو بھی محتاج ہو گیا.اور ایک مزدور کی سی مزدوری اس کے گذارے کے لئے مقرر ہوئی.آخر اس پر فالج گرا اور وہ پَیر جس سے وہ خدا کے مسیح کو مچھروں کی طرح مَسلنا چاہتا تھا بے کار ہو گئے اور آخر مصائب کی برداشت نہ لا کر دیوانہ ہو گیا اور چند دن میں مر گیا.اس کی اس طرح موت پر بھی بہت سے امریکن اخبارات نے نوٹ لکھے اور اس پیشگوئی کا بھی ذکر کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق کی تھی ان میں سے ایک اخبار ڈنول گزٹ 7، جون 1907ء کے پرچہ میں لکھتا ہے."اگر احمد اور ان کے پیرو اس پیشگوئی کے جو چند ماہ ہوئے پوری ہو گئی نہایت صحت کے ساتھ پورے ہونے پر فخر کریں تو ان پر کوئی الزام نہیں" اب میں سب سے آخر میں مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی صفت باعث کو بیان کرتا ہوں.اس صفت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی اندرونی طاقتوں کو ابھار کر ان کو ایسا نشو و نما دیتا ہے کہ وہ کچھ کی کچھ ہو جاتی ہیں اور اس قدر فرق پیدا ہو جاتا ہے کہ جس طرح ایک مردے اور زندے میں فرق ہے.یہ صفت اس شکل میں صرف اسلام نے ہی بیان کی ہے گو ایک مخلوط سا خیال اس کے متعلق تمام اقوام میں بھی پایا جاتا ہے یہ صفت بھی کبھی ثابت نہیں ہو سکتی اگر اس کا زندہ نمونہ ہمیں کسی انسان میں نظر نہ آئے اور نہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی شخص خد اتعالیٰ کا کامل قرب حاصل کر چکا ہے جب تک اس صفت کا ظہور اس میں نہ ہو.بلکہ حق یہ ہے کہ چونکہ انبیاء دوسروں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتے ہیں اس لئے اس صفت کا ظہور سب سے زیادہ ضروری ہے جب تک وہ ایسی جماعت پیدا نہیں کرتے جو صفت باعث کے ماتحت اپنی پہلی مُردنی کو ترک کر کے زندہ نہیں ہو جاتی اور ایک چھوٹے حشر کا نمونہ ہم اس دنیا میں نہیں دیکھ لیتے نہ ہمارے دلوں کو اطمینان ہو سکتا ہےاور نہ انبیاء کی بعثت کی غرض پوری ہوتی ہے.اس نکتہ پر زور دینے کے لئے قرآن کریم نے انبیاء کی کامیابی کا نام قرآن کریم میں بار بار قیامت اور ساعت رکھا ہے جس سے بعض لوگوں نے نادانی سے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ شاید
۲۱۶ قرآن کریم بعث ما بعد الموت کا قائل ہی نہیں.یہ دھوکا ویسا ہی ہے جیسے کہ بعض اور لوگوں نے یہ سمجھ چھوڑا ہے کہ جہاں ساعت کا لفظ آئے اس کے معنے ضرور قیامت کے ہوتے ہیں حالانکہ قرائن کے ذریعہ سے بآسانی معلوم ہو سکتا ہے کہ کس جگہ اس سے بعث ما بعد الموت مراد ہے اور کس جگہ نبی کا اپنی غرض میں کامیاب ہو جانا اور ایک زندہ جماعت کے پیدا کرنے میں فلاح کا منہ دیکھنا مراد ہے.حضرت مسیح موعود نے اس صفت کا نمونہ بھی نہایت عمدگی اور کامیابی کے ساتھ دکھایا ہے اور اس زبردست معیار پر حضرت مسیحؑ ناصری نے بیان فرمایا تھا خوب کامیابی کے ساتھ آپ پورے اترے ہیں حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں."جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے پَر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑئے ہیں.تم انہیں ان کے پھلوں سے پہچانو گے کیا کانٹوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟ اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھے پھل لاتا اور برا درخت برے پھل لاتا ہے.اچھا درخت برے پھل نہیں لا سکتا.نہ برا درخت اچھے پھل لا سکتا ہر ایک درخت جو اچھے پھل نہیں لاتا کاٹا ا ورآگ میں ڈالا جاتا ہے.پس ان کے پھلوں سے تم انہیں پہچانو گے." اس معیار کے یہی معنے ہیں کہ ہر اک درخت اپنے مطابق پھل لاتا ہے.پس نبی وہی ہے جو نبوت کا رنگ علیٰ قدر مراتب اپنے متبعین میں پیدا کر دے اور خدا رسیدہ وہی ہےجو ہر اک کی استعداد فطری کے مطابق اسکو خدا تک پہنچا دے.اس معیار کے یہ معنے نہیں کہ کسی جماعت میں اخلاص اور قربانی ہو تو سمجھا جائے گا کہ مدعی سچا ہے اور خدا رسیدہ ہے کیونکہ قربانی کے صرف یہی معنے ہوتے ہیں کہ متبعین کو اپنے مقتداء کی زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں معلوم ہوئی جس کی وجہ سے وہ اسے جھوٹا خیال کریں.اب لوگوں کا کسی کو با اخلاق یا راستباز سمجھ لینا صرف دو باتیں ثابت کر سکتا ہے یا تو یہ کہ ان کو ا س کے حالات سے پوری طرح واقفیت نہیں یا اگر وہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کو اس کی زندگی کا ہر شعبہ دیکھنے کا موقع ملا ہے تو پھر صرف اس قدر ثابت ہو گا کہ وہ مقتداء مفتری نہیں ہے بلکہ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ راستباز ہے لیکن ہر شخص جو اپنے آپ کو راستباز سمجھتا ہے راستباز نہیں کہلا سکتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص کے دماغ میں کچھ نقص ہو اور ہو سکتا ہے کہ کسی ایسے عقیدہ کی وجہ سے
۲۱۷ جو اس جماعت میں پایا جاتا ہو جس سے وہ تعلق رکھتا تھا اس کو یہ خیال ہو گیا ہو کہ میں جو کچھ کہتا ہوں خدا تعالیٰ کی طرف سے کہتا ہوں اور یہ دھوکا ان قوموں میں جو لفظی الہام کےقائل ہیں بہت آسانی سے لگ سکتا ہے کیونکہ اگر ان میں سے کوئی شخص کسی موعود کے متعلق غور کر رہا ہو کہ وہ کب آئے گا اور بعض عام مشابہتیں جو سینکڑوں آدمیوں میں پائی جا سکتی ہیں اس کو اپنے اندر معلوم ہوں اور یہ خیال پیدا ہو جائے کہ شاید میں ہی وہ شخص ہوں تو بالکل قرین قیاس ہے بلکہ اغلب ہے کہ اگر ذرا بھی اسے کسی نہ کسی سبب سے رسوخ حاصل ہے تو وہ دیانتداری سے یہ خیال کر بیٹھے کہ جو مجھے خیال پیدا ہوا ہے یہ الہامی ہی تھا اوراس کے بعد جب وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ میں ہی وہ موعود ہوں تو چونکہ لفظاً الہام کی تو ضرورت ہی نہیں راستہ بالکل کھل جاتا ہے اپنے ہر خیال کو یہ شخص الہام اور خدا کا کلام سمجھ لے گا.پس صرف جماعت میں قربانی اور ایثار کا پیدا ہونا جو صرف نیک نیتی پر دلالت کرتے ہیں نہ کہ خدا کی طرف سے ہونے پر، کافی نہیں بلکہ صفات الٰہیہ کا جماعت میں پیدا ہونا ضروری ہے یعنی جس طرح وہ کامل انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے خدا تعالیٰ کی صفت علم اور خلق اور احیاء اور شفاء اور رزق اور مِلک وغیرہ کا مظہر تھا اسی طرح اس کی جماعت میں ایسے افراد پیدا ہو جائیں جو اس کی صحبت سے ایسی ہی صفات اپنے ظرف کے مطابق حاصل کر لیں اور گویا اس شخص کے ذریعہ سے مُردہ روحوں کا ایک حشر ہو جائے اور اسی دنیا میں قیامت آ کر قیامت کے منکروں پر ایک حجت ہو.حضر ت مسیح موعود کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس صفت کو اپنے وجود سے ثابت کر رہی ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا کا جلال رخصت ہو گیا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نئی روح دنیا میں پیدا کر دی ہے اور آپ کی جماعت میں سے ہزاروں انسان ایسے ہیں جنہوں نے آپ کی زندگی سے زندگی پائی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر کے اور اس سے ایک لطیف اتصال حاصل کر کے یقین اور وثوق کا مقام پایا ہے اور پھر اس کی صفات ان کے اندر بھی پید اہو گئی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہو گئے ہیں بلکہ میں کہوں گا کہ بیشتر حصہ احمدی جماعت کا ایسا ہے جس نے اپنے نفس میں معجزات کو دیکھا ہے کسی نے کم اور کسی نے زیادہ اور حضرت کا فیض آپ کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ جاری ہےاور جب تک خدا چاہے گا اور لوگ آپ کی تعلیم پر چلنے کی کوشش کرتے
۲۱۸ رہیں گے جاری رہے گا.ان شاء اللہ و ھو البر الرحیم مثال کے طور پر میں دو واقعات اپنی ذات کے ہی پیش کر دیتا ہوں ایک تو یہ کہ چار سال کا عرصہ ہوا کہ مجھے ایک احمدی ڈاکٹر کی نسبت اطلاع ملی کہ وہ عراق میں مارا گیا ہے اس ڈاکٹر کے والدین نہایت بوڑھے تھے اور چند دن پہلے ہی میرے پاس ملاقات کے لئے آئے تھے.گو اس کے چند ساتھیوں نے خط بھی لکھ دئیے تھے کہ فلاں جگہ عربوں نے حملہ کیا اور وہ مارا گیا مگر میرے دل میں اس کا اس قدر اثر ہوا کہ بار بار میرے دل سے یہ خواہش اٹھے کہ کاش وہ نہ مرا ہو اور بار بار دل سے دعا نکلے گو اس قدر اثر ہوا کہ بار بار دل سے دعا نکلے گو میں دل کو سمجھاؤں کہ کیا کبھی مُردے بھی زندہ ہوتے ہیں اب وہ کہاں سے زندہ ہو سکتا ہے.تمام دن میری یہی کیفیت رہی اور پھر رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ ڈاکٹر زندہ ہے.اس خواب پر مجھے سخت تعجب ہوا لیکن خواب میں ایسی کیفیت تھی کہ میں جانتا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے ہے گو میں یہ سمجھتا تھا کہ جب وہ مر چکا ہے تو اس کی تعبیر کچھ اور ہو گی اور وہ خواب اسی ڈاکٹر کے ایک رشتہ دار کو جو قادیان میں رہتا ہے میرے چھوٹے بہائی نے جا کر سنا دی اور اس نے گھر خط لکھا کہ اس طرح ان کو خواب آئی ہے.اس کے چند دنوں کے بعد ڈاکٹر موصوف کے ایک رشتہ دار کا خط آیا کہ اس کی تار آ گئی ہے کہ گھبراؤ نہیں میں زندہ ہوں.آکر معلوم ہوا کہ اس کو عرب لوگ قید کر کے لے گئے تھے چونکہ اس پارٹی کے قریباً تمام آدمیوں کو عربوں نے قتل کر دیا تھا اس لئے اس کو بھی مُردہ سمجھ لیا گیا.آخر اللہ تعالیٰ نے ادھر مجھ کو رؤیا میں اس کی زندگی کی خبر دی اور ادھر یہ سامان کر دئیے کہ انگریزی فوج کا ایک دستہ اس گاؤں کے قریب جا پہنچا جس میں اس کو عربوں نے قید کر رکھا تھا او رگاؤں والے ڈر کر بھاگے اور ڈاکٹر کو بچ نکلنے کا موقع مل گیا اور خدا تعالیٰ نے اس طرح اس کو دوبارہ زندگی عطا کر دی.دوسری مثال بالکل تازہ ہے پچھلے بارہ تیرہ سالوں سے طاعون جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ماتحت اور آپ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر ملک میں پھیلائی گئی تھی کم ہونے لگی اور دو تین سال پہلے تو اس میں اس قدر کمی آ گئی کہ گورنمنٹ کی طرف سے امید ظاہر کی گئی کہ اب طاعون شاید اگلے سال تک ملک سے باکل ہی نکل جائے مگر مجھے اس وقت رؤیا میں ایک طاعون کا مریض اور کچھ بھینسیں گلیوں میں دوڑتی ہوئی دکھائی گئیں اور بھینسوں کی تعبیر خواب میں وباء ہوتی ہے میں نے اسی وقت اس خواب کا اعلان کر دیا اور بتایا کہ معلوم ہوتا ہے پھر طاعون کی وباء سخت صورت میں ملک میں پڑنے والی ہے اور میرا یہ اعلان اخبار الفضل کے 24
۲۱۹ نومبر کے پرچہ میں شائع کر دیا گیا.اس خواب کو شائع کئے ابھی ایک ماہ ہی گذرا تھا کہ ملک میں طاعون کا حملہ شروع ہو گیا اور فروری سے تو خوب زور ہو گیا اور مارچ اپریل اور مئی میں ایسی شدت ہوئی کہ ایک ایک ہفتہ میں آٹھ ہزار سے تیرہ ہزار تک موتیں ہوئیں اور اس وقت تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ آدمی ہلاک ہو چکا ہے.حالانکہ پچھلے پانچ سالوں کی مجموعی ہلاکت بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.یہ مثالیں میں نے بطور نمونہ دی ہیں ورنہ سینکڑوں دفعہ مجھ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب کو ظاہر فرمایا ہے اور اسی طرح ہزاروں احمدی ہیں جن سے خد ا تعالیٰ یہ معاملہ کرتا ہے اور وہ معاملہ اس کی مختلف صفات کے ماتحت ہوتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ معاملات کسبی نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ حکیم ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اس لئے انسان کے منشاء پر ان امور کو نہیں چھوڑا کہ جب چاہے انسان خدا تعالیٰ کے علم یا اس کی قدرت یا اس کی شفاء یا اس کے احیاء یا خلق یا مِلک یا رزق کے خزانہ کو کھول لے یہ غیر معمولی سلوک اس کی خاص حکمت کے ماتحت ظاہر ہوتے ہیں اور محض اس کے فضل سے ہوتے ہیں.ہاں وہ اپنے فضل سے اپنے بندوں کا علم اور یقین اور عرفان بڑھانے کے لئے ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا رہتا ہے جو ان کو دوسرے لوگوں اور دوسری قوموں سے ممتاز کر کے دکھاتا ہے اور ہم لوگ یقین کرتے ہیں کہ اگر کوئی جماعت ہدایت کی طرف سچے طور پر مائل ہو تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی تسلی کے لئے اب بھی اپنی حکمت کا کاملہ کے ماتھت اپنی کسی صفت کا اظہار کر دے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کی ہدایت کو محبوب رکھتا ہے اور ان کی گمراہی اور اس سے دوری کو ناپسند رکھتا ہے.اس امر کے ثابت کر دینے کے بعد کہ اسلام خدا تعالیٰ کے متعلق کامل تعلیم دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ سے اسی دنیا میں ملا دیتا ہے اور یقین اور وثوق کے ایسے دروازے انسان کے لئے کھول دیتا ہے کہ شک اور شبہ کی اس کو گنجائش نہیں رہتی اور وہ نہایت خوشی سے موت کا منتظر رہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں نے حق پا لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا ایک ایک کر کے اسی دنیا میں مشاہدہ کر لیا ہے اور اب میرے لئے موت کے بعد کچھ نہیں مگر خیر اور بے انتہاء ترقیات.اب میں دوسرے مقاصد کی نسبت اسلام کی تعلیم لکھتا ہوں.
۲۲۰ مقصد دوم : اخلاق: اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ مقصد بھی پہلے مقصد کے تابع ہے کیونکہ جس شخص کو خدا تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل ہو جاتی ہے وہ بدی کے قریب بھی نہیں جاتا اور جس قدر کوئی شخص بدی میں ملوث ہوتا ہے اسی قدر وہ حجاب میں ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ (النساء:18) وہ لوگ جو گناہ کرتے ہیں بوجہ قلت معرفت کے یعنی گناہ کا اصل باعث معرفت کی کمی ہے.عقل انسانی بھی قرآن کریم کے اس دعویٰ ی تائید کرتی ہے کہ کوئی شخص دانا سمجھتے بوجھتے ہوئے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا.جسے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے مین زہر ہے وہ اسے کبھی نہیں کھاتا جسے یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں مکان کی چھت یقیناً اس وقت گر جائے گی جب وہ اندر داخل ہونے لگا گا وہ کبھی اس میں داخل نہیں ہو گا، جسے معلوم ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ کبھی اس میں ہاتھ نہیں ڈالے گا، جو جانتا ہو گا کہ فلاں غار میں شیر بیٹھا ہے وہ اس میں بِلا ہتھیار کے کبھی داخل نہ ہو گا پس جب لوگ آگ اور سانپوں اور شیروں اور زہروں سے اس قدر ڈرتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ اگر ان کو خدا تعالیٰ کا کامل عرفان ہو اور معلوم ہو کہ سب بدیاں اور بد اخلاقیاں زہروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر اور شیروں اور سانپوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے خطرناک تو وہ ان کے ارتکاب پر اس قدر دلیری کریں گے کہ گویا وہ ایک لذیذ طعام ہے کہ جن کے کھانے پر ان کی زندگی کا انحصار ہے؟ پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ ارتکاب بدی بوجہ جہالت اور کمیٔ عرفان کے ہے اور جو مذہب عرفان پید کر دے گا وہ گویا اپنے ماننے والوں کے لئے اخلاق کامل کے حصول کا دروازہ بھی کھول دے گا.مگر چونکہ اس مضمون کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اکثر لوگ اس سے دلچسپی رکھتے ہیں اور چونکہ بہت سے لوگ اجمالی نکتہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے بلکہ کسی قدر تشریح کے محتاج ہوتے ہیں میں اختصار کےساتھ اس مقصد کے متعلق جو اسلام کی تعلیم ہے اس کو بھی بیان کرتا ہوں.میں نے ذات باری کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کرتے ہوئے توجہ دلائی تھی کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق اجمالی بیانات میں مختلف مذاہب کا اتفاق ہمیں کوئی علمی نفع نہیں دیتا.جس امر کی دنیا کو ضرورت ہے وہ اسمائے الٰہیہ کی تفصیل ہے.پس صرف تفصیل میں اتفاق، اتفاق کہلا سکتا ہے
۲۲۱ اور جب تک کسی مذہب کی تفصیلی تعلیم اجمالی تعلیم کے مطابق نہ ہو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے متعلق صحیح تعلیم دیتا ہے کیونکہ اجمالی تعلیم میں راستی پر قائم رہنے پر وہ اس لئے مجبور ہے کہ فطرت انسانی اس امر کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف کوئی نقص منسوب کیا جائے مگر اس صورت میں کہ اس کو فلسفیانہ او رپیچ در پیچ تشریحات کے اند رچھپا کر پیش کیا جائے.پس جب تک کہ کسبی مذہب کی تفصیلات ان اسماء کے مطابق نہیں ہیں جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اس وقت تک نہ اس مذہب کا حق ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ ان صفات کو واقع میں تسلیم کرتا ہے جن کو وہ اجمالاً پیش کرتا ہے اور ہ اس اجمال سے کوئی دوسرا شخص یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ سب مذاہب میں اس امر میں اشتراک ہے.کوئی شخص پانی کا نام دودھ رکھ لے تو وہ دودھ نہیں بن سکتا جب تک کہ اس میں دودھ کی خاصیتیں بھی نہ پائی جائیں بعینہٖ اسی طرح اخلاق کا حال ہے.مذاہب کی اخلاقی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ مختلف مذاہب اجمالاً اخلاق کی نسبت کیا کہتے ہیں کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مذہب دنیا میں ایسا ہو گا کہ جو اپنے پیروؤں کو یوں کہے گا کہ تُو اگر خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے تو جھوٹ بول اور چوری کر اور ظلم کر اور لوگوں کا مال چھین اور جب کوئی شخص تیرے پاس امانت رکھے تو کبھی واپس نہ کیجیئو اور فحش اور بدگوئی کی عادت ڈال اور جھگڑے اور فساد اور اختلاف کا اپنے آپ کو خُوگر بنا.اور نہ میں خیال کرتا ہوں کہ کوئی مذہب ایسا ہو گا جو یہ کہے گا کہ تُو سچ نہ بول اور نرمی نہ کر اور محبت سے کام نہ لے اور اصلاح سے نفرت کر اور امانت نہ رکھ اور شرافت کو اپنے پاس نہ آنے دے اور وقار اور سکینت سے دور بھاگ اور شکر اور احسان کا مادہ اپنے دل میں پیدا نہ ہونے دے.جو مذہب بھی دنیا میں قبولیت حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور اپنے ہم چشموں میں اعزاز حاصل کرنا چاہتا ہے اسے یقیناً ان تمام اخلاق کے متعلق وہی تعلیم دینی پڑے گی جو سب مذاہب میں مشترک ہے اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو فطرت انسانی اس کا مقابلہ کرے گی اور چند دن میں وہ دنیا کے پردہ سے اٹھا دیا جائے گا.پس اس قسم کی تعلیم اگر کسی مذہب کی طف سے پیش ہو تو اس کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ تعلیم سب مذاہب میں مشترک ہے اور کسی مذہب کو اس پر فخر کرنے کا حق نہیں کہ وہ اس میں دوسرے مذاہب سے اشتراک رکھتا ہے اور نہ اس اشتراک سے ہم علمی طور پر کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اشتراب بوجہ مجبوری کے ہے نہ
۲۲۲ کہ کسی سچی کوشش اور محنت کے نتیجہ میں.مجھے بعض مذاہب کے پیروؤں پر جب وہ اپنے مذہب کی اخلاقی تعلیموں کو ایک جگہ جمع کر کے لوگوں میں پھیلاتے اور اس پر فخر کرتے ہیں اور ان کو اپنے مذہب کی سچائی کی دلیل قرار دیتے ہیں نہایت ہی تعجب ہوا کرتا ہے کیونکہ واقع یہ ہے کہ ان کو ان تعلیموں میں کوئی امتیاز حاصل نہیں.تمام مذاہب خواہ وہ کیسے ہی پرانے ہوں اور خواہ کیسے ہی غیر تعلیمیافتہ علاقوں میں اور زمانوں میں انہوں نے نشو و نما پایا ہو ان مسائل میں ان سے اشتراک رکھتے ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ جو قومیں مذۃب کو سمجھ بھی نہیں سکتیں اور تعلیم سے بالکل کوری ہیں اور وحشیوں میں گنی جاتی ہیں اگر ان کا عمل نظر انداز کر دیا جائے اور آرام سے بٹھا کر اور آہستگی سے ان میں اخلاق کے متعلق پوچھا جائے تا وہ گھبرا نہ جائیں تو وہ بھی اخلاق کے متعلق وہی امور بتائیں گی جو متمدن مذاہب پیش کرتے ہیں.پس اس امر پر اپنے مذاہب کی سچائی کی بنیاد رکھنا جو مذاہب علمیہ تو الگ رہے وحشی اقوام میں بھی مشترک ہے بالکل غیر معقول بات ہے.اخلاقی تعلیم کا مقابلہ کرنے کے لئے جن امور کو مدنظر رکھنا ضروری ہے وہ اخلاق کی تفاصیل، اخلاق کے اسباب، اخلاق کے حصول کے ذرائع، بدیوں سے بچنے کے ذرائع اور اس قسم کے اور امور ہیں.اس کے بعد میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اخلاق کی تعریف سمجھنے میں لوگوں کو بہت کچھ دھوکا لگا ہوا ہے او را سکی وجہ سے بھی صحیح موازنہ اخلاقی تعلیم کا نہیں ہو سکتا.عام طور پر لوگوں میں یہ احساس ہے کہ محبت اور عفو اور دلیری وغیرھا اچھے اخلاق ہیں اور غضب اور نفرت اور سختی اور خوف وغیرھا برے اخلاق ہیں حالانکہ یہ بات نہیں.یہ تمام امور طبعی ہیں اس لئے ان کو اچھا یا برا کہنا درست ہیں نہ محبت کوئی خلق ہے، نہ عفو کوئی خلق ہے، نہ دلیری کوئی خلق ہے، نہ سختی، نہ خوف، نہ نفرت کوئی خلق ہیں یہ سب انسان کے طبعی تقاضے ہیں بلکہ حیوان کے طبعی تقاضے ہیں.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب تقاضے جانورو ں میں بھی پائے جاتے ہیں جانور بھی محبت کرتے ہیں عفو کرتے ہیں، دلیری دکھاتے ہیں، سکتی کرتے ہیں، خوف کھاتے ہیں، نفرت کرتے ہیں مگر کوئی شخص نہیں جو یہ کہے کہ یہ گائے بہت اعلیٰ اخلاق کی ہے یا یہ بکری بہت ہی اچھے اخلاق رکھتی ہے یا یہ گھوڑا بہت ہی وسیع الاخلاق ہے.جانوروں کی تعریف کرتے ہوئے ہم انہی امور کو جو انسان میں پائے جاتے ہیں انہیں اخلاق فاضل قرار نہیں دیتے بلکہ ان کی طبعی عادات قرار دیتے ہیں.پس غور کا مقام ہے کہ یہ فرق کیوں ہے؟ جو باتیں انسان میں اخلاق فاضلہ ہیں کیوں وہی
۲۲۳ حیوانوں میں اخلاق فاضلہ نہیں کہلاتیں؟ اس کی وجہ صاف ہے کہ ہم فطرتاً جانتے ہیں کہ ان طبعی امور کا نام اخلاق نہیں ہے بلکہ اخلاق کچھ اور شئے ہیں اس وجہ سے ہم انسانوں کو بااخلاق کہتے ہیں او رجانوروں کو نہیں.اب یہ سوال ہے کہ وہ کونسا فرق ہے جس کی وجہ سے ایک انسان میں جب وہ امور پائے جائیں تو اخلاق فاضلہ کہلاتے ہیں اور جانوروں میں پائے جائیں تو اخلاق فاضلہ نہیں بلکہ طبعی تقاضے کہلاتے ہیں؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ طبعی تقاضے جب عقل اور مصلحت کے ماتحت آئیں تب ان کو اخلاق کہتے ہیں ورنہ نہیں.اور چونکہ انسان سے امید کی جاتی ہے کہ اس کے تمام کام عقل اور مصلحت کے ماتحت ہوں گے کیونکہ یہی خاصیتیں اس کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرنے والی ہیں اس لئے جب انسان ان تقاضوں کو استعمال کرتا ہے تو بطور حسن ظنی اس کو اخلاق کہا جاتا ہے ورنہ بسا اوقات ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کا فعل بھی طبعی تقاضے کے ماتحت ہو اور اس وجہ سے اخلاق میں شامل نہ ہو اور یہ امر کہ بعض لوگ ایسے نرم ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی کچھ کرے وہ کچھ نہیں بولتے اور بعض لوگ بالطبع ایسے ہوتے ہیں کہ ہر اک امر جس کا ارادہ کر لیں اس سے پیچھے نہیں ہٹتے.اب ان دونوں شخصوں کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ اخلاق کے ہیں کیونکہ ان دونوں سے یہ فعل کسی ارادے کے ماتحت سرزد نہیں ہوتے بلکہ وہ ایسا کرنے پر مجبورہوتے ہیں اسی طرح ایک شخص مثلاً جس کی زبان نہیں وہ کسی کو گالی نہیں دیتا.یا مثلاً جس شخص کے ہاتھ نہیں وہ کسی کو مارتا نہیں تو اس کو نہایت اعلیٰ اخلاق کا آدمی نہیں کہا جائےگا.غرض اخلاق کی تعریف یہ ہے کہ طبعی تقاضوں کو برمحل استعمال کیا جائے نہ یہ کہ طبعی تقاضوں کو استعمال کیا جائے.پس جب اخلاق کی تعریف ہمیں معلوم ہو گئی تو ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جو مذہب ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم نرمی کرو، یا یہ کہ دلیری کرو، یا عفو کرو، یا یہ کہ محبت کرو وہ ہمیں اخلاق نہیں سکھاتا بلکہ وہی باتیں سکھاتا ہے جو ہماری طبیعت میں پیدائش سے موجود ہیں.کیا جانور نرمی نہیں کرتے؟ کیا وہ دلیری نہیں دکھاتے کیا وہ عفو سے کام نہیں لیتے؟ کیا وہ محبت نہیں کرتے؟ کیا وہ ہمدردی نہیں کرتے؟ ہم نے تو بارہا دیکھا ہے کہ ہر ایک زخمی جانور کے پاس دوسرا جانور آ بیٹھتا
۲۲۴ ہے اور اس کو ایسے عجیب انداز سے دیکھتا ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے اور پھر بعض دفعہ اسے محبت سے چاٹنے لگتا ہے.پس اس قسم کی تعلیم ایسی ہی ہے جیسے کسی مذہب کا یہ تعلیم دینا کہ اے لوگو! کھانا کھایا کرو، یا پانی پیا کرو، نیند آئے تو سو جایا کرو ان طبعی تقاضوں کے پورا کرنے کے لئے کوئی شخص کسی مذہب کا محتاج نہیں ہے.ان تقاضوں کو اس کی فطرت خود پورا کرواتی ہے اور جو مذہب اس میں دخل دیتا ہے وہ گویا اپنی کمزوری کا اظہار کرتا ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اخلاق کی حقیقت سے واقف نہیں.کیا کوئی شخص کوئی ایسا ملک بتا سکتا ہے جہاں لوگ محبت نہ کرتے ہوں یا ہمدردی کا مادہ نہ رکتھے ہوں یا عفو کا ان میں رواج نہ ہو یا غرباء کو کچھ نہ دیتے ہوں؟ یا کوئی شخص ایسا بھی دنیا میں ہے کہ جو ان صفات کا اظہار نہ کرتا ہو اور ان سے خالی ہو؟ اگر نہیں تو مذہب کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر نرمی کرو، عفو کرو، دلیری کرو سے مذہب کی یہ مراد ہو کہ سختی نہ کرو، سزا نہ دو، خوف کا اظہار کسی صورت میں نہ کرو تو پھر بیشک یہ ایک نئی بات ہو گی مگر یہ امر بھی فطرت کے مخالف ہو گا.فطرت نے یہ باتیں انسان کے اندر رکھی ہیں اور ان کو کسی صورت میں چھڑوایا نہیں جا سکتا او رنہ ان کو چھوڑنا انسان کو نفع دے سکتا ہے کیونکہ جو باتیں فطرت میں پائی جاتی ہیں وہ ہمیشہ انسان کے لئے کارآمد ہوتی ہیں.ان کو چھڑوانا اس کی اخلاقی حالت کو گرا دیتا ہے نہ کہ اس میں خوبی پیدا کرتا ہے مثلاً یہ کہنا کہ نرمی ہی کرو سختی نہ کرو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ طالب علم کو استاد کبھی نہ دانٹے.ماں باپ بچوں کو کبھی تنبیہہ نہ کریں، حکومت اپنے باغیوں کا کبھی مقابلہ نہ کرے اور خوف نہ کھاؤ کے یہ معنے ہوں گے کہ خواہ غلط طریق پر چلے جا رہے ہو اس سے پیچھے نہ ہٹو اور انجام سے نہ ڈرو اور کسی نقصان کو خواہ دین یا مذہب کا ہی کیوں نہ ہو پروانہ کرو اور کوئی عقلمند نہیں کہہ سکتا کہ یہ اخلاق فاضلہ ہیں.غرض کہ اخلاق یہ ہیں کہ طبعی حالتوں کو ان کے محل اور موقع پر استعمال کیا جائے اور صرف طبعی حالتوں پر زور دینا عبث فعل ہے اور بعض طبعی حالتوں سے روکنا فطرت کے خلاف اور فساد اور خرابی پیدا کرنے کا موجب ہے.پس وہی مذہب اخلاق کی حقیقت کو سمجھتا ہے اور وہی مذہب اخلاق کی تعلیم دیتا ہے جو اس حقیقت کے ماتحت اپنے احکام کو رکھتا ہے نہ وہ جو صرف طبعی حالتوں کو دہراتا جاتا ہے.اور جہاں تک میرا علم جاتا ہے صرف اسلام ہی ہے کہ جس نے اس حقیقت کو
۲۲۵ سمجھا اور اخلاق کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (الشورى:41) اور بدی کا بدلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ جرم تھا پھر جب کوئی کسی کو نقصان پہنچائے اور وہ اس کے گناہ کو معاف کر دے اس طرح کہ اس سے اصلاح پیدا ہوتی ہو سا کا نتیجہ فساد نہ ہو تو ایسے شخص کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.یعنی جو جرم سے زیاہد سزا دے یا باوجود اس کے کہ عقلاً معلوم ہوتا ہو کہ مجرم کو سزا دی گئی تو اس کے اخلاق اور بھی بگڑ جائیں گے اور وہ اور بھی نیکی سے محروم ہو جائے گا محض دکھ دینے کے لئے اس کو سزا دیدے یا یہ کہ معلوم ہوتا ہو کہ اس شخص کو اگر معاف کیا تو گناہ پر اور بھی دلیر ہو جائےگا ا ور لوگوں کو نقصان پہنچائے گا معاف کر دے تو ایسا شخص ظالم ہو گا.اور خد ااس کے اس فعل کو پسند نہیں کرے گا.اب دیکھو کہ اسلام نے کس طرح اخلاق کی حقیقت کو پیش کیا ہے.پہلے بتایا ہے کہ جرم کی اسی قدر سزا دینا اصل حکم ہے گو یہ ایک طبعی تقاضا ہے کہ جس سے نقصان پہنچے اس کو اسی قدر نقصان پہنچایا جائے مگر فرمایا کہ انسان جو با اخلاق بنا چاہتا ہے اس کو اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ آیا سزا سے مجرم کی اصلاح ہوتی ہے یا عفو سے پھر اگر عفو سے اصلاح کا احتمال ہو تو چاہئے کہ عفو سے کام لے اور انتقام نہ لے اور اگر سزا سے اصلاح ہوتی ہو تو محض اپنے دل کی کمزوری کی وجہ سے اسے معاف نہ کر دے کیونکہ اس طرح وہ شخص اصلاح سے محروم رہ جائے گا اور یہ رحم نہیں ہو گا بلکہ ظلم ہو گا.اور جو شخص باوجود جاننے کے کہ سزا سے یا عفو سے زید کی اصلاح ہوتی ہے اس کے خلاف کام کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہو گا خواہ اس نے معاف ہی کیوں نہ کیا ہو کیونکہ یہ معافی معافی نہیں بلکہ اپنے ایک بہائی کے اخلاق کو دیدہ و دانستہ تباہ کرنا ہے.رسول کریم ﷺ نے اس مضمون کو اور الفاظ میں ادا کیا ہے.آپ فرماتے ہیں الاعمال بالنیات یعنی انسانی اعمال تو وہ ہیں جو ارادے سے اور نیت کے ماتحت کئے جائیں یعنی جو کام محض طبعی جوش کے ماتحت کیا جاتا ہے و ہ ہرگز انسانی عمل نہیں کہلا سکتا بلکہ وہ تو ایک حیوانی جذبہ ہو گا.اگر گھوڑا یا گدھا ان حالات میں ہوتا تو وہ بھی اسی طرح کرتا.پس جب تک فکر ور غور کے بعد کام کے تمام پہلوؤں کو دیکھ کر کوئی رائے نہ قائم کی جائے اور اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے وہ خلق یعنی انسانی فعل نہیں کہلا سکتا.مذکورہ بالا بیان سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ اسلام نے اخلاق کی حقیقت کو سمجھا ہے
۲۲۶ اور اس کے مطابق تعلیم دی ہے.پس وہی مذہب اخلاقی تعلیم میں اس کے مقابلہ پر آ سکتا ہے جو پہلے یہ ثابت کرے کہ اس نے بھی اخلاق کو سمجھا ہے اور اس کے مطابق تعلیم دی ہے ورنہ طبعی تقاضوں کا ذکر کر کے ان کا نام اخلاقی تعلیم رکھنا ظلم اور زبردستی ہے.یہ بیان کرنے کے بعد کہ اسلام کے نزدیک اچھے اخلاق کے معنے یہ ہیں کہ انسانی طبعی تقاضوں کو عقل اور مصلحت کے ماتحت استعمال کرے اور برے اخلاق کے یہ معنے ہیں کہ بِلا سوچے سمجھے بے محل اور بے موقع طبعی تقاضوں کو استعمال کرے.میں چند احکام کے متعلق بطور مثال اسلامی تعلیم پیش کرتا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ کس طرح ہر ایک طبعی تقاضے کو اسلام نے حد بندی کے نیچے رکھا ہے اور اس سے بہترین نتائج پیدا کئے ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے اخلاق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے یعنی اخلاق قلب اور اخلاق جوارح اور اس طرح اخلاق کے معیار کو بہت بلند کر دیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (الأَنعام:152) تم بدیوں کے قریب بھی نہ جاؤ نہ ان بدیوں کے جو لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں اور نہ ان کے جو بالکل مخفی ہیں اور لوگوں کی نظروں میں آ ہی نہیں سکتیں یعنی جن کا مرتکب دل ہوتا ہے.ان کے معلوم کرنے کا کوئی ظاہری سامان لوگوں کے پاس نہیں سوائے اس کے کہ کرنے والا خود ہی بتائے.اسی طرح فرماتا ہے وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ (البقرة:285) اگر تم ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یعنی اس کے مطابق عمل کرو تو بھی اور اگر تم اس کو جو تمہاے دلوں میں ہے چھپاؤ یعنی صرف دل کے خیالات تک محدود رکھو جوارح اس کے مطابق کوئی عمل نہ کریں تو بھی اللہ تعالیٰ اس کے متعلق تم سے سوال کرے گا یعنی دریافت کرے گا کہ تم نے کیوں دل میں بدی کو جگہ دی یا بدی پر عمل کیا؟ اعمال انسانی کو ظاہر و باطن کی دو قسموں میں تقسیم کرنے کے بعد اسلام نے ان کو پھر دو حصوں میں تقسیم کیا ہے یعنی ان میں سے بعض کو اچھا قرار دیا ہے او ربعض کو برا چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ(هود:115) خلق دو قسم کے ہیں ایک اچھے اور ایک برے اور اچھے خلق برے خلقوں پر غالب آ جاتے ہیں یعنی جو شخص اچھے اخلاق کو اختیار کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ برے اخلاق پر غالب آ جاتا ہے.پھر اچھے اوربرے خلقوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے یعنی وہ خلق جن کا اثر صرف اس کی ذات پر پڑتا ہے اور ایک وہ جن کا اثر
۲۲۷ دوسرے کی ذات پر ڈالنے کا ارادہ کیا جاتا ہے یا دوسرے کی ذات پر ان کا اثر ڈال دیا جاتا ہے.مذکورہ بالا تقسیموں سے آپ لوگوں نے اچھی طرح معلوم کر لیا ہو گا کہ اسلام نے اخلاق کو دوسرے مذاہب کی نسبت وسیع کر دیا ہے یعنی اخلاق کا دائرہ صرف دوسروں تک محدود نہیں رکھا بلکہ خود انسان کے نفس کو بھی اس کے اندر شامل رکھا ہے چنانچہ قرآن کریم صاف طور پر اس مسئلہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرماتا ہے کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (المائدة:106) اپنی جانوں کی خبر رکھو اور ان کے روحانی حقوق ادا کرو.حتیٰ کہ اگر کسی شخص کی نجات اس طرح ممکن سمجھی جاتی ہو کہ تم اپنے آپ کو گناہ میں ڈال لو تو ہرگز ایسا نہ کرو کیونکہ اگر کوئی شخص تمہاری ہدایت پر قائم رہنے او رنیکی کے اختیار کرنے میں گمراہ ہوتا ہو تو اللہ تعالیٰ تم پر اس وجہ سے ناراض نہیں ہو گا اور یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ تم نے کیون بدی کو اختیار کر کے اس شخص کو گناہ سے نہ بچا لیا.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ لنفسک علیک حق تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے یعنی صرف دوسرے لوگوں کا خیال ہی ضروری نہیں بلکہ اپنے نفس سے باطنی اور ظاہری نیکی کرنی یعنی اس کی روحانی اور جسمانی ربوبیت کا خیال رکھنا بھی تیری لئے ضروری ہے.اس تعلیم اسلام کے ماتحت جو شخص ظاہری تکبر کرتا ہے اسی کو بد اخلاقی نہیں کہا جائے گا بلکہ جو شخص ظاہری تواضع اور انکسار کا طریق برتتا ہے لیکن اپنے دل کے مخفی کونوں میں تکبر کا خیال چھپائے ہوئے ہے وہ بھی اسلام کے نزدیک بد اخلاق ہو گا کیونکہ گو اس نے دوسرے شخص کو دکھ نہیں دیا مگر اپنے نفس کو اس نے بگاڑ دیا اور ناپاک کیا چنانچہ قرآن کریم نے اس فرق کو مفصلہ ذیل آیت میں بیان فرمایا ہےلَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا(الفرقان: 22) ان لوگوں نے اپنے دل میں بھی تکبر کیا اور ظاہر میں بھی لوگوں پر اپنی بڑائی کو ظاہر کیا اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے دل میں کسی کی نسبت بد خیال رکھتا ہے اس کو بھی اسلام ایک بد اخلاقی قرار دے گا خواہ وہ اس خیال کو ظاہر کرے یا نہ کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (الحجرات:13) بعض دلی گمان بھی گناہ ہوتا ہے یعنی جب وہ بدظنی پر مبنی ہو اسی طرح ظلم و فساد خیانت وغیرہ کے خیالات یہ سب بد اخلاقیاں ہیں اور ایسے شخص کو جو ان کا مرتکب ہے گو جرأت کی کمی اور ساما ن کے میسر نہ آنے کے سبب سے ظاہر میں ان کے مطابق عمل نہیں کر سکتا وہ اسلام کے مطابق بد خلق ہے اور ہرگز اس کے ظاہر عمل کی بناء پر اسے نیک اخلاق والا نہیں سمجھا جائے گا.اسی
۲۲۸ طرح جو شخص دل میں لوگوں کے متعلق نیک خیالات رکھتا ہے ان کی بھلائی چاہتا ہے اور ان کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے اگر بوجہ سامان کی کمی یا موقع کے میسر نہ آنے کے ان خیالات کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تو نیک اخلاق والا سمجھا جائے گا.مگر اس قاعدہ میں ایک استثناء ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کے دل میں بد اخلاقی کے خیالات آتے ہیں مثلاً اپنے بہائیوں کی نسبت بد ظنی کا خیال پید اہوتا ہے یا تکبر کا یا حسد کا یا نفرت کا لیکن یہ شخص اس خیال کو دبا لیتا ہے تو یہ بد اخلاقی نہیں سمجھی جائے گی کیونکہ ایسا شخص درحقیقت بد اخلاقی کا مقابلہ کرتا ہے اور تعریف کا مستحق ہے.اسی طرح جس شخص کے دل میں ایک آنی خیال نیکی کا آئے یا آنی طور پر حسن سلوک کی طرف اس کی طبیعت مائل ہو لیکن وہ اس کو بڑھنے نہ دے تو ایسا شخص بھی نیک اخلاق والا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ جیسا کہ ثابت کیا جا چکا ہے اخلاق وہ ہیں جو ارادے کا نتیجہ ہوں لیکن مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں اچھے یا برے خیالات ارادہ کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ بیرونی اثرات کے نتیجہ میں بِلا ارادے کے پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم اس نکتہ کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے.وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ (البقرة:226) لیکن اللہ تعالیٰ تم کو صرف ان خیالات پر پکڑتا ہے جو ارادے اور فکر کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں نہ ان پر جو اچانک پیدا ہو جاتے ہیں ور تم ان کو فوراً دل سے نکال دیتے ہو.رسول کریم ﷺ اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ بد خیال اچانک پیدا ہو جانے پر جو شخص اس خیال کو نکال دیتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا ایسا شخص نیکی کا کام کرتا ہے اور اجر کا مستحق ہے آپ فرماتے ہیں من ھم بسیئۃ فلم یعملھا کتبھا اللہ عندہ حسنۃ کاملۃ اور اگر کسی شخص کے دل میں برا خیال پیدا ہو او روہ اس کو دبا لے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ایک پوری نیکی لکھے گا.یعنی بد خیالات کے دبانے کی وجہ سے اس کونیک بدلہ ملے گا.اس قسم کا امتیاز اللہ تعالیٰ نے ظاہری اعمال میں بھی مدنظر رکھا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى.الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ (النجم:32-33) اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اچھے بدلے دے گا جو کہ تمام بڑی بدیوں اور چھوٹی بدیوں سے بچتے ہیں گو ایسا ہوتا ہو کہ وہ کسی آنی جوش میں کسی گناہ کی طرف مائل ہو جاتے ہوں مگر فوراً ہی سنبھل کر اپنے قدم پیچھے کی طرف ہٹا لیتے ہوں.مطلب یہ کہ آنی یا فوری جوش کے ماتحت یا
۲۲۹ غفلت سے اگر کوئی شخص ٹھوکر کھاتا ہے لیکن جونہی کہ اس کا نفس اس امر کو محسوس کرتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں فلاں کام کرنے لگا ہوں تو جھٹ اس سے رک جاتا ہے اور اپنے نفس کو سلامتی کے کنارے کی طرف کھینچ لاتا ہے تو وہ بد اخلاق نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اس کا یہ فعل مستحسن ہو گااور وہ شخص اس سپاہی کی طرح ہوگا جو اپنے ملک کے لئے لڑ رہا ہے مگر ابھی فتح کا منہ اس نے نہیں دیکھا.اخلاق کے متعلق عملی طور پر اسلام کی تعلیم بتانے کے بعد میں چند اخلاق بطور مثال بیان کرتا ہوں کیونکہ یہ مضمون اس قد ر وسیع ہے کہ اگر اسے بالاستیعاب بیان کیا جائے تو بہت ہی لمبا وقت چاہتا ہے اور اپنے اس بیان میں دوسری ترتیبوں کو نظر انداز کر کے میں صرف اس امر کو مدنظر رکھوں گا جو اخلاق کی تعریف میں میں نے بیان کیا تھا یعنی اخلاق طبعی تقاضوں کے برمحل اور مناسب موقع پر استعمال کا نام ہے اور گو اس وجہ سے مجھے دوسری ترتیبوں کو نظر انداز کرنا پڑے گا مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ تقسیم زیادہ مؤثر اور مفید ہو گی.سب سے پہلے میں انسان کے طبعی تقاضوں سے رأفت اور نقم کو لیتا ہوں.انسان کے اندر اور جانوروں کے اندر بھی یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ عام طور پر دوسرے کو تکلیف پہنچانے سے احتراز کرتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف ان کے قلب پر ایک عجیب اثر پیدا کر دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس کی تکلیف کو خود محسوس کرنے لگ جاتے ہیں.ایک مریض بازار میں پڑا نظر آتا ہے تو قریباً تمام افراد کے دل میں اس کی نسبت ایک کشش اور درد محسوس ہونے لگتا ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو کوئی سخت شغل اپنی طرف مشغول کئے ہوئے ہو یا جن کو اس شخص سے کوئی تکلیف پہنچی ہوئی ہو.مؤخر الذکر حالت میں دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ ایسا شخص اس مصیبت زدہ کی حالت پر خوش ہوتا ہے اور یہ حالت نقم کی کہلاتی ہے.یہ حالت بھی ایک الگ جذبہ ہے اور ایسے وقت میں ظاہر ہوتی ہے جب کسی کو کسی سے کوئی تکلیف پہنچے اور اس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اس وقت انسان کا دل چاہتا ہے کہ میں اس تکلیف پہنچانے والے کو ایذاء دوں.اس جذبہ کے غالب آ جانے کے وجہ سے رأفت کا جذبہ دب جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ یہ شخص یہ خیال کرے کہ میرے ایذاء دینے سے اسے تکلیف ہو گی اور اس کو سوچ کر اس کے دل کو تکلیف ہو اور دوسرے کی نسبت رأفت محسوس ہو یہ اس خیال میں کہ دوسرے کو تکلیف ہو بعض دفعہ لذت محسوس کرنے لگتا ہے.
۲۳۰ یہ صورت نقم کی جب تک کہ کسی قانون کے ماتحت نہیں آتی کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے کبھی تو جسے تکلیف پہنچی ہوتی ہے وہ اس شخص کو سزا دینے پر جس سے اسے تکلیف پہنچی ہے قادر ہوتا ہے یا سمجھتا ہے کہ میں قادر ہوں.اس وقت تو وہ اسے کسی قسم کی تکلیف پہنچاتا ہے یا پہنچانی چاہتا ہے جس سے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تکلیف دینے والے کے دل کو بھی اسی طرح صدمہ پہنچے جس طرح کہ مجھے پہنچا ہے.اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جس نے تکلیف دی تھی وہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے یا اس کے عزیز رشتہ دار زیادہ طاقتور ہوتے ہیں یا مصیبت زدہ شخص سمجھتا ہے کہ حقیقی تکلیف پہنچانے کا اثر لوگوں پر اچھا نہیں پڑے گا وہ اسے برا سمجھیں گے یا اور کوئی وجہ ایسی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ اس کو حقیقی ضرر نہیں پہنچا سکتا یا نہیں پہنچانا چاہتا تو یہ اس وقت اپنی زبان سے اس کے خلاف بدکلامی یا عیب چینی کا حربہ استعمال کرتا ہے.لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس شخص سے اس کی مخالفت ہےوہ ایسا طاقتور ہے کہ زبان سے بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتا تو یہ اس سے کلام اور ملاقات ترک کردیتا ہے اور بعض دفعہ اس قدر سزا کی جرأت بھی نہیں رکھتاتو دل میں اس کی نسبت کینہ رکھتا اور ا سکی تکلیف پر خوش ہوتا اور اس کی کامیابیوں پر ناراض ہوتا ہے.پس نقم جو طبعی جذبہ ہے اس سے کئی اقسام کے افعال کراتا ہے ان افعال پر عقل کو قابو دے دینا اور آزادی سے اپنا کام کرنے کی اجازت نہ دینی اس کا نام اخلاق ہے اور اس کو عقل کی قید سے آزاد کر دینے اور بے محل استعمال کرنے کا نام بد اخلاقی ہے اس تقاضائے فطرتی کو اخلاق میں تبدیل کرنے کے لئے اسلام مندرجہ ذیل قیود بیان فرماتا ہے.اول قید یہ لگاتا ہے کہ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ (البقرة:195) جو شخص تم پر ظلم کرتا ہے تم اس کے بدلے میں اتنی ہی سزا اس کو دے سکتے ہو.یہ حکم عام ہے اور ایسے لوگوں کے لئے ہے جو علم اور عقل کے ایسے اعلیٰ درجہ کے مقام پر نہیں پہنچے کہ احکام کی باریکیوں کو سمجھ سکیں.جو لوگ ان سے زیادہ سمجھدار ہیں ان کی نسبت مندرجہ ذیل قیود مقرر فرماتا ہے فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (الشورى: 41) جو لوگ دوسرے کا گناہ معاف کر دیں اور درآنحالیکہ اس سے اصلاح مدنظر ہو ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اجر لے گا اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.یعنی جو لوگ اس وقت معاف کریں جبکہ معافی سے گناہ بڑھتا ہو یا اس وقت سزا دیں جبکہ سزا سے گناہ بڑھتا ہو وہ دونوں ظالم ہوں گے اور خدا تعالیٰ
۲۳۱ کو کو ظلم پسند نہیں گویا رأفت جس کا ظاہری نتیجہ عفو ہے اور نقم جس کا ظاہری نتیجہ سزا ہے دونوں کے لئے یہ قید لگا دی کہ جب عفو کا نتیجہ اس شخص کے لئے اچھا ہو جس سے قصور ہو گیا ہے تو اس وقت اس سے درگذر کرناچاہئے اور رأفت کے جذبہ کو اپنا کام کرنے دینا چاہئے اور جب سزا سے فائدہ ہو اور ظالم کی اصلاح ہو تو اس وقت سزا دینی چاہئے اور نقم کے جذبہ کو اپنا کام کرنے دینا چاہئے.دوسری صورت یہ تھی کہ ظالم طاقتور ہو اور مظلوم اس سے بدلہ نہ لے سکتا ہو یا کسی مصلحت کی وجہ سے بدلہ نہ لینا چاہتا ہو پس وہ زبان سے اس کی بد گوئی اور عیب چینی کر کے اپنا دل ٹھنڈا کرنا چاہے تو اس کی نسبت فرمایا وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات:12) تم کو ایک دوسرے کی عیب چینی کرنی جائز نہیں او رنہ گالیاں دینی جائز ہیں پس گویا عیب چینی اور گالیاں دینی بالکل منع کر دیں اور فرما دیا کہ غصہ کے وقت میں اور بدلہ کے طور پرعیب چینی اور گالیاں بالکل منع ہیں.اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں منع ہے؟ جو شخص اپنے نقصان کا بدلہ نہیں لے سکتا وہ کیوں عیب چینی کر کے اس شخص سے بدلہ نہ لے اور گالیاں دے کر دل خوش نہ کرے؟ تو اس کا جوب یہ ہے کہ گالیاں اس لئے منع ہیں کہ وہ جھوٹ ہیں اور جھوٹ اسلام پسند نہیں کرتا اور وہ فحش ہیں اور فحش کو اسلام پسند نہیں کرتا.اورعیب چینی سے اس لئے منع ہے کہ یہ سزا بجائے اصلاح کے فساد کا موجب ہوتی ہے کیونکہ جس کی بدیوں کو علی الاعلان بیان کیا جاتا ہے اس کی شرم اُڑ جاتی ہے اور وہ بے حیائی کا مرتکب ہونے لگتا ہے.تیسری صورت نقم کی یہ تھی کہ یہ شخص اس سے مقاطعہ کر لیتا ہے اور اس سے کلام ترک کر دیتا ہے اس صورت نقم کو بھی اسلام نے ناپسند کیا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لا یحل لمسلم ان یھجر اخاہ فوق ثلاث کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بہائی سے تین دن تک کلام ترک کر دے یعنی تین دن کے اندر اس کو چاہئے کہ اس سے کلام شروع کر دے.چوتھی صورت نقم یہ تھی کہ یہ دل میں کینہ یا بغض رکھے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ (الأَعراف:44) اور ہم نے مومنوں کے دلوں سے کینہ نکال دیا ہے یعنی مومن کا کام نہیں کہ کسی کی نسبت دل میں کینہ رکھے اس کے متعلق رسول کریم ﷺ
۲۳۲ فرماتے ہیں المؤمن لیس بحقود مومن کینہ توز نہیں ہوتا وہ اپنے دل میں کسی کی نسبت کینہ رکھتا.ان تمام قیود کے ذریعہ سے اسلام نے نقم کا ایک ہی ظہور جائز رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص سے اس قدر بدلہ لے لے جس قدر کہ اس نے اس کو نقصان پہنچایا ہے مگر اس کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ اگر اس جگہ حکومت ہے تو حکومت کے ذریعہ سے بدلہ لے خود ہی بدلہ نہ لے.ہاں اگر حکومت اس جگہ پر نہ ہو تو اسی قدر بدلہ لے سکتا ہے لیکن اصلاح اگر عفو سے ہو تو عفو مقدم ہو گا باقی طریقِ انتقام یعنی گالیاں دینا، عیب چینی کرنا، ترک کلام کر دینا، دل میں کینہ رکھنا ان سب کو اسلام نے ناجائز قرار دے دیا کیونکہ ان کے ذریعہ سے گناہ ترقی کرتا ہے اور فساد بڑھتا ہے اور اصلاح جو انتقام کی اصل غرض ہے مفقود ہو جاتی ہے.دوسرا طبعی تقاضا جو انسان کے اندر پایا جاتا ہے وہ محبت ہے تمام حیوانوں میں بھی اور انسانوں میں بھی ہم اس مادہ کو پاتے ہیں اور اس کے مقابلہ پر ایک طبعی تقاضا نفرت کا ہے.یہ دونوں طبعی تقاضے ہیں اور اپنے استعمال کے ذریعہ سے اخلاق بنتے ہیں ہم نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم ہر اک شئے سے محبت کرو اور نہ یہ کہ ہر اک سے نفرت کرو بلکہ ان کو حدود میں مقید رکھنے کے لئے قواعد کی ضرورت ہو گی.ہم دیکھتے ہیں کہ محبت فطرتاً اسی سے پیدا ہوتی ہے جو ہمارے لئے کارآمد ہوتی ہے یا ہمارے حواس میں سے کسی حس کو آرام اور لذت پہنچاتی ہے.اس وجہ سے طبعی طور پر محبت انہی اشیاء سے ہو گی جو اس غرض کو پورا کریں مگر یہ خلق نہ ہو گا کیونکہ اس قسم کی محبت سب جانور بھی کرتے ہیں.محبت خلق تبھی ہو گی جبکہ ایک تو اس میں مدارج کا لحاظ رکھا جائے یعنی جس سے زیادہ تعلق ہے اس سے زیادہ محبت کی جائے اور جس سے کم ہے اس سے پہلے کی نسبت کم محبت کی جائے.دوسرے محبت تب خلق ہو گی جب کہ اس میں احسان سابق کا خیال زیادہ مدنظر رکھا جائے بہ نسبت آئندہ کی امید کے کیونکہ سابق احسان کا خیال ایک ذمہ داری ہے اور آئندہ کی امید طمع.تیسرے یہ کہ صرف قریب کے نفع کو یا لذت کو مدنظر نہ رکھا جائے بلکہ دور کے فائدے یا نقصان کا بھی خیال کیا جائے.ان تین پابندیوں کے ساتھ محبت ایک خُلق ہے ورنہ نہیں چنانچہ اسلام نے ان تینوں پابندیوں کا ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ
۲۳۳ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة:24) کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ ماں اور اولاد اور بہائی بہنیں اور میاں یا بیوی اور تمہارا قبیلہ اور وہ مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے خراب ہونے سے تم ڈرتے ہو اور رہائش کی جگہیں یا وطن جن کو تم پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول اور دین کے لئے کوشش کرنے کی نسبت تم کو زیادہ پسند ہیں تو تم اس وقت تک انتظار کرو جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرے اور اللہ تعالیٰٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں.کس لطیف پیرایہ میں اس محبت کو جو خلق ہے حقیقت بیان کی ہے جس کا جس قدر درجہ ہے اسی قدر اس سے محبت کی جائے خدا تعالیٰ سے خدا کی شان کے مطابق رسول سے رسول کی شان کے مطابق دین سے اس کے رتبہ او راہمیت کے مطابق والدین سے ان کے درجہ کے مطابق اولاد سے ان کے تعلق کے مطابق غرض ہر ایک کے درجہ کو مدنظر رکھا جائے اگر ایسا نہیں تو وہ محبت نیک خُلق ہیں کہلائے گی بلکہ ایک طبعی جوش اور حیوانیت کہلائے گی.مثلاً اگر کوئی شخص اپنے والدین کو ایک عورت کی وجہ سے چھوڑتا ہے یا اپنے وطن کی آواز پر اپنے مال کی محبت کی وجہ سے کان نہیں دھرتا تو اس شخص کوہم ہرگز اس وجہ سے کہ وہ محبت کرتا ہے نیک نہیں کہیں گے اس نے بے شک محبت کی مگر عقل اور فکر کی حکومت سے آزاد ہو کر اس لئے کوئی اچھا خلق نہیں دکھایا.دوسری شرط محبت کے لئے یہ ہے کہ اس میں سابق احسان کو زیادہ مدنظر رکھا جائے بہ نسبت موجودہ لذت یا آئندہ کی امید کے.اس شرط کے ماتحت وہ محبت جو نیک خلق کہلائے گی وہ والدین کی محبت ہو گی نہ کہ اولاد کی محبت یعنی خالی ان سے پیار کوئی نیک خلق نہیں بلکہ محض ایک طبعی تقاضا ہے کسی ماں کو کہہ کر دیکھو کہ وہ اپنے بچہ کی خاطر تکلیف نہ اٹھائے دیکھو وہ اس پر خوش ہوتی ہے یاناراض.درحقیقت وہ جو کچھ کر رہی ہوتی ہے محض بقائے نسل کے طبعی تقاضے کے ماتحت کر رہی ہوتی ہے.اس کی محبت صرف ایک طبعی تقاضا ہے لیکن بچہ کا والدین سے پیار کرنا ایک خُلق ہے کیونکہ طبعی طور پر والدین اپنا کام کر چکے ہیں نیچر ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہتی تھی و ہ حاصل کر چکی ہے اب وہ ان کو نکما وجود سمجھتی ہے.پس جو شخص ان سے محبت کرتا ہے وہ ایک نیک
۲۳۴ خلق کی پیروی کر رہا ہے کیونکہ ان کے احسانات اس کے سامنے آ جاتے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ انہوں نے میرے ساتھ جب میں بے بس تھا نیک سلوک کیا تھا.آج میرا فرض ہے کہ میں خواہ کوئی بھی تکلیف اٹھاؤں ان کو آرام پہنچاؤں.اسلام نے اس امر کو مدنظر رکھ کر فرمایا ہے کہ جنت والدہ کے قدموں کے نیچے ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ اولاد کے قدموں کے نیچے ہے کیونکہ ہر شخص طبعاً اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے.سوائے اس کے کہ جس کے دماغ میں فرق ہو.مگر ہر شخص اپنے ماں باپ سے اس قدر محبت نہیں کرتا جس قدر محبت کے وہ مسحق ہیں بلکہ بہت سے لوگ دیکھے جاتے ہیں جو اپنے بوڑھے ماں باپ کو تکلیف میں دیکھنا پسند کر لیں گے لیکن اپنی اولاد کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پورا کرنے کی فکر میں رہیں گے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہہ کہ یہ ان کا فعل نیک خُلق کہلائے گا؟ تیسری قید محبت کی طبعی جذبہ کے لئے یہ ہے کہ قریبی نفع اور فائدہ کو نہ دیکھا جائے بلکہ دور کے فائدہ یا نقصان کو بھی دیکھا جائے.مثلاً ایک شخص ایک چیز کو پیار کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے مگر اس سے تعلق اور محبت اس کے دین یا خلق کو نقصان پہنچاتی ہے تو اس وقت اس سے محبت کرنا ایک طبعی جذبہ تو کہلائے گا مگر نیک خلق نہیں کہلائے گا کیونکہ اس محبت کا نتیجہ نیک نہیں بلکہ بد ہے.یا مثلاً ایک ماں اپنے بچہ کی بد عادات کو دیکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں کہتی کیونکہ اس کی محبت اسے مجبور کرتی ہے کہ اسے سزا نہ دے تو یہ محبت صرف طبعی جذبہ کہلائے گی.اخلاق کے ماتحت محبت تبھی آئے گی جبکہ وہ اس کو تنبیہہ کرے اور اسے نیکی کی طرف لائے کیونکہ اصل فائدہ اس کا اس موقع پر سزا پانے میں ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم:7) اے مومنو! اصل محبت یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ہلاکت سے بچاؤ.نفرت بھی محبت کے مقابلہ کا جذبہ ہے اور طبعی جذبہ ہےاور اس کا محل طبعی یہ ہے کہ جو چیز اپنے حواس کو ناپسند ہو یا جس کا نفع نہ ہو جو نقصان دیتی ہو اس سے دور رہنا یا اس کو اپنے سامنے سے ہٹانے کی کوشش کرنا.مختلف مذاہب اس جذبہ کو برا قرار دیتے ہیں اور اس پر فخر کرتےہیں کہ انہوں نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی لیکن یہ بات درست نہیں یہ ایک طبعی جذبہ ہے او راس کا محل اور موقع پر استعمال ناپسند نہیں بلکہ اچھا ہے.ہاں جب یہ حد سے زیادہ ہو یا حد سے کم ہو تب یہ جذبہ برا ہو جاتا ہے.اگر حد سے زیادہ ہو جائےتو اسے عداوت کہتے ہیں یعنی بوجہ نفرت اور
۲۳۵ انقباض ظلم پر آمادہ ہو جانا اور جب کم ہو تو اسے بے غیرتی کہتے ہیں یعنی باوجود اس کے کہ ایک چیز حیاء یا اکرام کے خلاف ہو پھر بھی اس کو دیکھ کر دل میں اس کے لئے نفرت یا انقباض محسوس نہ کرنا.پس نفرت بری چیز نہیں.نفرت تو ایک طبعی جذبہ ہے ہاں اس کا غیر محل استعمال برا ہے چنانچہ قرآن کریم میں بار بار عداوت کو برا قرار دیا گیا ہے ہمیشہ عداوت کو کفار اور سرکش لوگوں کی صفت بتایا ہے ایک جگہ بھی مومن کی نسبت نہیں کہاگیا کہ وہ دوسروں سے عداوت کرتا ہے.صرف دو تین جگہوں پر اللہ تعالیٰ اور مومنوں کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور ان تمام مقامات پر عربی محاورات کے مطابق اس سے مراد دشمن کی عداوت کا بدلہ دینے کے ہیں نہ کہ خود عداوت کرنے کے مگر اسلام جس طرح عداوت کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح نفرت کے بالکل مٹا دینے کو بھی ناپسند کرتا ہے کیونکہ غیرت بھی مومن کے اخلاق میں سے ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک بات کو ہم ناپسند کریں اور اس کے متعلق ہمارے دل میں انقباض پیدا نہ ہو.بدی کے معنے روحانی غلاظت کے ہیں جب ہم ظاہری غلاظت سے کسی کو ملوث دیکتھے ہٰں تو ہمیں اس کے اس فعل سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت میں اس کی طرف دیکھنے سے انقباض ہوتا ہے مثلاً کسی کے چہرے پر کوئی گندی چیز لگی ہوئی ہو.یا مثلاً اس نے ناک صاف نہ کیا ہو یا اس کے کپڑوں پر ناپاک چیزیں لگی ہوئی ہوں تو ایسا شخص جب ہمارے سامنے آتا ہے تو کیا ہم اس کو دیکھ کر اپنے دل میں ایک گِھن محسوس نہیں کرتے؟ خواہ وہ ہمارا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اور کیا ہمارے اس فعل کو برا سمجھا جاتا ہے یا دلی پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اگر کس کے بد فعل کو دیکھ کر ہمارے دل میں اس فعل سے نفرت پیدا ہو اور ہمارا دل منقبض ہو تو اسے برا کہا جائے؟ یہ تو ایک مستحسن فعل ہو گا اور تعریف کے قابل اور اس نفرت کو جو صحیح طور پر اور برمحل استعمال ہو گی ہم غیرت کے نام سے موسوم کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ نفرت کو برا قرار دینے والے لوگوں نے ایک حقیقت کو نہیں سمجھا اور وہ یہ کہ بد اور بدی میں فرق ہے انہوں نے اس امر پرتو غور کیا کہ بد کی بھی ہمیں خیر خواہی کرنی چاہئے لیکن یہ نہ سوچا کہ بد کی خیر خواہی کے ساتھ ہمیں بدی سے نفرت چاہئے.اگر ہم بد کی بدی سے نفرت نہیں کریں گے تو اس کی اصلاح کا جوش بھی ہمارے دل میں نہیں پیدا ہو گا.اسلام نے اس فرق کو بیان کیا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےلَا يَجْرِمَنَّكُمْ
۲۳۶ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة:9) یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس امر پر نہ اُکسائے کہ تم عدل چھوڑ دو نہیں بلکہ باوجود اس کی دشمنی کے تم اس سے عدل کا معاملہ کرتےرہو گویا دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تُو اپنے دشمن سے بھی دشمنی نہ کرو.اسی طرح فرماتا ہے لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ (الممتحنة:9) اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے جو تمہارے دین میں مخالف تو ہیں لیکن تم سے اس غرض سے کہ تم کو جبراً تمہارے دین سے پھرا دیں لڑتے نہیں اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالتے نہیں نیکی کرنے اور ان کے ساتھ عدل کرنے سے نہیں روکتا.یعنی تُو ان لوگوں سے بھی نیک سلوک کر گو وہ تیرے مذہبی دشمن ہیں لیکن دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ(هود:114) تم ان لوگوں کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں یعنی اسلا م پر قائم نہیں اب ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کفار سے نیک سلوک کرو دوسری طرف فرماتا ہے کہ تم ان کی طرف جھکو نہیں اس کے یہی معنے ہیں کہ دنیوی معاملات میں تو ان سے نیک سلوک کرو لیکن ان کے وہ اعمال جو تقویٰ اور طہارت کے خلاف ہیں ان سے نفرت کرو.ایک دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ (الحجرات:8) لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان کی محبت دی ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں خوبصورت کر کے دکھایا ہے او رکفر اور نافرمانی اور حد سے گزر جانے کے متعلق تمہارے دلوں میں کراہت کے جذبات پیدا کئے ہیں مگر ساتھ ہی رسول کریم ﷺ کی نسبت فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:4) شاید تو اس غم میں کہ خدا کے دین کے منکر صداقت کو قبول نہیں کرتے اپنے آپ کو ہلاک کر دے گا یعنی ان کی گمراہی کو دیکھ کر تیرے دل کو اس قدر صدمہ پہنچتا ہے کہ تو ان کی محبت کی وجہ سے خود ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ اسلام کے نزدیک بد کی تو بے شک خیر خواہی کرنی چاہئے مگر اس کی بدی کی حالت سے نفرت کرنی چاہئے تبھی اخلاق کامل ہوتے ہیں.اب میں ایک طبعی جذبہ کو لیتا ہوں اور یہ خواہش ترقی کا جذبہ ہے.انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے آگے نکل جائے بلکہ یہ جذبہ جانوروں تک میں بھی پایا جاتا ہے.دو
۲۳۷ گھوڑے آگے پیچھے سے آ رہے ہوں فوراً اگلا گھوڑا بھی دوڑ پڑے گا یہ ایک طبعی جذبہ ہے لیکن اس کی زیادتی اور کمی کئی قسم کی بد اخلاقیاں پیدا کر دیتی ہے اور اس کا صحیح استعمال کئی نیک اخلاق پیدا کر دیتا ہے.مثلاً جب اس ترقی کی خواہش کو انسان نیکیوں میں مقابلہ کے لئے صرف کرتا ہے تو یہ خواہش اس کو بہت کچھ فائدہ پہنچاتی ہے.طالب علم اسی کے ذریعہ سے علم میں ترقی کرتے ہیں اللہ تعالیٰٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة:149) اے مسلمانو! ایک دوسرے سے نیکی میں بڑھنے کی کوشش کرو.گویا اس طبعی جذبہ کو ایک قید کے ساتھ استعمال کر کے ایک نیک خلق پیدا کر دیا کہ نیک اخلاق میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی خواہش کرنا خود ایک نیک خلق ہے.مگر یہ جذبہ جب بد طور سے استعمال کیا جائے تو ایک تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے یعنی جب یہ خواہش حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ صرف میں آگے بڑھوں اور کوئی نہ بڑھے اس کو اسلام نے ناپسند کیا ہے قرآن کریم میں دعا سکھائی ہے وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (الفلق:6) میں خدا تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں حاسد کی شرارت سے جب وہ حسد کرے.اسی طرح ایک نقص اس خواہش کی وجہ سے یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان اس کی وجہ سے لوگوں کی خوبیوں کو عیب سمجھنے لگتا ہے یعنی کبھی تو اس کی یہ خواہش ہو جاتی ہے کہ دوسرے لوگوں کی اچھی چیزیں مجھے مل جائیں تاکہ میں بڑھا رہوں اور کبھی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کہ میں بڑھیا رہوں وہ دوسروں کے کمالات کو عیب دیکھنے لگتا ہے اور اسے عربی میں احتقار کہتے ہیں.اس کو بھی اسلام نے ناپسند کیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ (الحجرات:12) اے مومنو! تم میں سے کوئی جماعت دوسری جماعت کو حقیر نہ سمجھے شاید وہ تم سے اچھی ہو نہ عورتیں دوسری عورتوں کو حقیر جانیں شاید وہ ان سے اچھی ہوں.یہی خواہش جب اور زیادہ بڑھ جاتی ہے تو انسان ظاہر میں دوسرے کو گالیاں دیتا ہے اور اس کی نسب یا حسب میں طعن کرتا ہے.ان سب امور کو اسلام نے روکا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لا یرمی رجل رجلا بالفسق ولا یرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ان لم یکن صاحبہ کذالک یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی نسبت کوئی اخلاقی
۲۳۸ عیب یا دینی نقص منسوب کرے گا تو اس شخص میں جس پر وہ عیب لگایا ہے وہ عیب نہ ہو گا یعنی بطور گالی کے اس کو ذلیل کرنے کے لئے اس نے ایسی بات کہی ہو گی تو آخر گالی دینےو الے میں وہی عیب پیدا ہو جائے گا.ایک اور نقص اس طبعی جذبہ کو حد میں نہ رکھنے سے یہ ہوتا ہے کہ انسان میں افتخار کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.یعنی اس خواہش کی ترقی کا اس کے دماغ پر ایسا اثر پیدا ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کو اپنے عیوب اور اپنی کمزوریاں بھول جاتی ہیں اور یہ دوسروں سے اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیتا ہے اور اس پر ناز کرتا ہے.اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (النساء:37) اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا تکبر کرنے والے اترانے والے کو.اسی طرح ایک طبعی تقاضا بقائے نسل کا ہے اس کے متعلق اسلام نے حد بندیاں قائم کی ہیں اور فرمایا ہے کہ اس کو بھی سوچ اور سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے چنانچہ اس کے متعلق مندرجہ ذیل احکام دئیے ہیں.اول یہ کہ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ (الأحزاب:51) نکاح کرنے تمہارے لئے جائز ہیں.دوم یہ کہ لَا تَقْرَبُوا الزِّنَا(بنی اسرائیل:33) زنا کے قریب نہ جاؤ.یعنی اپنی بیویوں کے سوا دوسروں پر اپنی شہوت کو پورا نہ کرو.کیونکہ اس سے بھی طبعی تقاضے کی اصل غرض فوت ہو جائے گی.اب ایک یہ سوال تھا کہ جن کے لئے شادی کا انتظام نہ ہو سکتا ہو وہ کیا کریں؟ تو ان کے لئے فرمایا وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا (النور:34) چاہئے کہ وہ لوگ جن کو نکاح کا موقع میسر نہیں اپنی طاقتوں کو دبا دیں.یعنی ایسی احتیاطوں سے جو شہوات کو کم کرتی ہیں اپنے جوشوں کو کم کریں مگر زنا نہ کریں اور نہ یہ کریں کہ اپنی طاقتوں کو بالکل ضائع کر دیں جن کے ذریعہ سے بقائے نسل کا تقاضا پورا ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ گویا اپنی فطرت کو مسخ کریں گے اور اللہ تعالیٰ اس کو ناپسند کرتا ہے کہ فطرتی تقاضوں کو بالکل مٹا دیا جائے.اسی طرح فرمایا وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا (الحديد:28) یعنی بعض قوموں نے رہبانیت کا طریق ایجاد کیا کہ اس طرح وہ اپنے نفس کو بالکل پاک رکھیں گے مگر ہم نے ان کو اس کام کے لئے ہرگز نہیں کہا تھا بلکہ انہوں نے اپنے پاس سے یہ مسئلہ ایجاد کر لیا تھا.پس چونکہ یہ عہد ان کا غیر طبعی تھا اور فطرت کے تقاضوں کے خلاف تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ
۲۳۹ اس کی حفاظت نہ کر سکے اور نام ہی کی رہبانیت رہی.دیکھو کس خوبی سے اس جذبہ کی حد بندی کی ہے.ایک طرف اس کو نکاح کے ذریعہ سے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے.پھر نکاح کے باہر اس کے استعمال سے روکا ہے.نکاح نہ کرنے کے عہد کو بھی ناپسند کیا ہے کہ اس سے اس تقاضے کو گویا ہمیشہ کے لئے دبا دینا ہے ا ور اس غرض کو مفقود کر دینا ہے جس کے لئے یہ تقاضا یعنی بقائے نسل کی خواہش پیدا کی گئی تھی.اگر سب لوگ اس پر عمل کرنے لگیں تو کچھ ہی دنوں میں دنیا مفقود ہو جائے اور یہ بھی فرمایا کہ طبعی تقاضوں کو مٹانا ناممکن ہے کیونکہ حقیقت کو خیال اور ارادے سے نہیں مٹایا جا سکتا.اس کے ساتھ ہی یہ سوال تھا کہ پھر جن کو نکا ح کی توفیق نہیں وہ کیا کریں؟ تو فرمایا کہ ان کو عارضی طور پر اپنی خواہشات کو دبانا چاہئے مگر یہ جائز نہیں کہ اس خواہش کو بالکل مٹا دیں کیونکہ اس سے پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی ہے.اب دیکھو اسلام کے سوا کونسا مذہب ہے جس نے اس تقاضے کو ایک طبعی تقاضے سے جو ادنیٰ سے ادنیٰ جانور میں بھی پایا جاتا ہے خواہ وہ خوردبینی کیڑا ہی کیوں نہ ہو ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق تک جن کی بناء باریک فلسفیانہ مسائل پر ہے پہنچا دیا ہے.ایک طبعی تقاضا انسان کے اند راظہار ملکیت یا تصرف کا ہے اس تقاضے کے ماتحت وہ اپنے اموال کو خرچ کرتا یا بند کرتا ہے اس کے لئے بھی اسلام نے قیود لگائی ہیں.مثلاً اول قید یہ لگائی ہے کہ أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ (البقرة:268) جو مال تمہار اکمایا ہوا ہے اور اچھا مال ہے اس میں سے خرچ کرو.یہ نہیں کہ دوسروں کے اموال پر تصرف کر کے ان کو خرچ کرنے لگ جاؤ.دوسری قیود یہ گائی ہیں وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (بنی اسرائیل:27) (1) اپنے ما ل میں سے ان قریبیوں اور رشتہ داروں کو جن کی کفالت تیرے سپرد ہے ان کا حق دے.اس جگہ اس امر کا بھی اشارہ کیا ہے کہ اسلام کے نزدیک قریبی رشتہ داروں کی کفالت بڑے رشتہ داروں پر فرض ہے.(2)دوسرا حکم یہ دیا ہے کہ غریبوں اور مسکینوں پر بھی اس مال میں سے خرچ کرنا چاہئے یعنی ایک حصہ ان کو بھی دے.(3) تیسرا حکم یہ دیا کہ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا.تبذیر کے معنے عربی زبان میں دانہ ڈالنے کے یا پراگندہ کرنے یا امتحان لینے کے ہوتے ہیں.پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ خرچ کرتے وقت یہ
۲۴۰ نیت نہ رکھ کہ اس کے بدلے میں یہ لوگ بھی مجھ سے کوئی سلوک کریں گے.جس طرح زمیندار دانہ ڈالتے ہوئے امید رکھتا ہے کہ یہ بڑھ جائے گا اور میں کاٹوں گا اور نہ اپنے مال کو پراگندہ کر یعنی یہ نہ کر کہ سب مال لٹا کر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جا.یا یہ کہ سب مال اپنے پر خرچ کرے اور دوسروں کو نہ دے اور نہ مال اپنےرشتہ داروں یا غرباء کو اس طرح دے کہ وہ امتحان میں پڑیں.یعنی بجائے فائدہ کے ان کو نقصان ہو.وہ کاہل یا سست ہو جائیں یا سوال کی عادت ان میں پیدا ہو جائے یا عیاش ہو جائیں.اسی طرح اموال کے خرچ کرنے کے متعلق یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات:20) مسلمانوں کے اموال میں ان لوگوں کے لئے حق ہے جو بولنے سے محروم ہیں یعنی ان میں قوت گویائی نہیں او راپنی تکالیف کو بیان نہیں کر سکتے جیسے کہ جانور ہیں وہ اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے.پس چاہئے کہ اپنے صدقات میں سے ایک حصہ جانوروں کو بھی دیا جائے.یا جو جانور بیمار اور ضعیف ہوں ان کی خبرگیری کی جائے یا جو جانور گھر میں ہوں ان کے آرام کا خاص خیال رکھا جائے.اسی طرح اسلام نے صبر اور شکر اور احسان اور سچائی اور اعتماد اور میانہ روی اور وفاداری اور راز داری اور لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے اور اصلاح بین الناس اور خوف اور رجا قناعت اور ایثار اور مؤاسات اور حلم اور افادت او ر احیاء اور وعدہ کا پورا کرنا اور خوش چہرہ سے لوگوں سے ملنا اور وقار اور مہمان نوازی اور عیادت مریض اور امانت اور دیانت اور غم اور غیبت اور چغلی اور جھوٹ اور ایذاء رسانی اور تجسس اور لوگوں کی باتیں سننی اور لوگوں کے خطوط پڑھنے اور عیب ظاہر کرے اور دھوکا اور احسان جتانے اور بغاوت اور جسمانی عذاب دینے اور ریاء اور سمعت اور بیہودہ بکواس اور لغو قسموں کے کھانے او رخوشامد کرنے اور چوری اور قتل اور ظلم اور تجارت میں دھوکا کرنے او ر ایسے امور میں دخل دینے جن سے اس کا تعلق نہیں اور یتامیٰ اور بیواؤں کی خبرگیری اور بزدلی وغیرہ تمام اخلاقی امور کےمتعلق وہ صحیح تعلیم دی ہے جو افراط اور تفریط سے پاک ہے اور سچی پاکیزگی پیدا کرنے کا موجب ہے مگر اس جگہ اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا.خلاصہ یہ کہ تمام طبعی عادات کو اسلام نے قیود کے ساتھ اخلاق فاضلہ میں بدل دیا ہے اور اس نکتہ کو سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب نہیں سمجھا اور نہ اس نے پیش کیا ہے نہ کسی پہلے مذہب نے بعد میں بننے والے مذہب نے جن کی بنیاد گو قرآن کریم کی موجودگی میں رکھی گئی ہے
۲۴۱ مگر وہ ان خوبویں سے محروم ہیں جو قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں.مجھے افسوس ہے کہ میں تفصیل سے اس مضمون کو بیان نہیں کر سکتا ورنہ ایک ایک طبعی تقاضے کو اسلام نے انسانی ارادے اور عقل کے ماتحت لا کر اس سے اخلاقی تعلیم پیدا کر دی ہے اور دوسرے مذاہب کی طرح صرف طبعی تقاضوں یا ان کے کسی پہلو کا نام اخلاق رکھ کر اس پر زور نہیں دیا.اسلام نے درحقیقت اس پیچیدہ سوال کو حل کر دیا ہے جو اخلاق فاضلہ کے متعلق طبائع میں اٹھتا ہے اور اب تک اٹھ رہا ہے.یعنی یہ کہ اخلاق کی تعریف کیا ہے؟ کیونکہ اسلام یہ بتاتا ہے کہ اخلاق تمام طبعی تقاضوں کے درمیان صلح کرانے کا نام ہے جس طرح تمدن تمام بنی نوع انسان کے درمیان صلح کرانے کا نام ہے.وہی تعلیم اخلاق کہلا سکتی ہے جو تمام طبعی تقاضوں کے لئے کام کرنے کا راستہ نکالتی ہے اور ایسی قیود مقرر کرتی ہے کہ کوئی طبعی تقاضا دوسرے تقاضے کے علاقے میں نہ گھس جائے.نقم رأفت کی حدود میں نہ جائے اور رأفت نقم کی حدود میں نہ جائے محبت نفرت کے علاقہ میں نہ گھستے اور نفرت محبت کے علاقہ میں نہ گھسے.غرض یہ کہ سب طبعی تقاضے اپنے اپنے دائر ہ میں باقاعدہ چکر لگائی جس طرح کہ ستارے اپنے راستوں میں چکر لگاتے ہیں اور کوئی دوسرے کے لئے مانع نہ بنے بلکہ جس وقت اس کا علاقہ شروع ہو وہیں رک کر کھڑا ہو جائے گویا انسانی دماغ کو ایک حکومت فرض کیا جائے تو طبعی تقاضے اس میں بسنے والے لوگ ہیں اور اخلاق وہ قانون ہے جس کے ذریعہ سے ان میں امن قائم رکھا جاتا ہے.کیا ہی لطیف تعریف اور کیسا واضح بیان ہے.اخلاق کے مدارج: اب میں مقصد ثانی کے سوال ثانی کو لیتا ہوں یعنی اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ اسلام نے اخلاق کے مختلف مدارج کیا بیان کئے ہیں؟ یہ سوال جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے اخلاق کی پابندی کے لئے نہایت ضروری ہے اور ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ ظاہری تعلیم کے لئے کلاس بندی کی ضرورت ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو اگر مدارس اور کالجوں کی تعلیم کو اس طرح درجوں میں تقسیم نہ کیا جاتا تو بہت سے لوگ تعلیم سے محروم رہ جاتے کیونکہ بہت سے لوگ اس امر کا اندازہ نہ کر سکتے کہ انہوں نے کہاں تک
۲۴۲ تعلیم حاصل کرنی ہے اور بہت سے لوگ ہمت ہار بیٹھتے اور اس قدر کورس کو پڑھنا ناممکن خیال کر لیتے.پس جماعتوں میں پڑھائی کو تقسیم کرنا نہ صرف معلموں اور تعلیم کے منتظموں کے لئے مفید ہوتا ہے بلکہ خود تعلیم حاصل کرنےو الوں کے لئے بھی اس میں بہت سے فائدے ہوتے ہیں.اخلاق کی حالت بھی بعینہٖ ایسی ہی ہے بلکہ ہر تعلیم جو تمام بنی نوع انسان کے لئے ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے مدارج میں تقسیم کیا جائے تا مختلف استعدادوں کی طبائع اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اگر تعلیم ایسی ہو گی کہ صرف اعلیٰ درجہ کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں تو ادنیٰ اور اوسط درجہ کے لوگ اس سے محروم رہ جائیں گے اور اگر ایسی ہو گی کہ صرف اوسط درجہ کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں تو ادنیٰ درجہ کے لوگ اس سے محروم رہ جائیں گے اور اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے اس میں کوئی دلچسپی نہ ہو گی اور اگر ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے گا تو اوسط و اعلیٰ کے لوگوں کے لئے اس میں کوئی نفع نہ ہو گا اور اگر اس میں کوئی ترتیب مدنظر نہ ہو گی تو بھی اعلیٰ درجہ کے لوگ تو شاید ایک حد تک اس سے فائدہ اٹھا سکیں مگر باقی لوگ اس سے محروم رہ جائیں گے اور ہمتیں ہار بیٹھیں گے.اور اگر صرف خیالی اور نمائشی تعلیم ہو گی تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا.لیکچروں کی زینت اور سٹیجوں کی رونق کے لئے یہ تعلیم اچھی ہو گی مگر اس سے عملی فائدہ دنیا کو نہیں پہنچے گا.اس امر کی ضرورت ثابت کرنے کے بعد کہ دنیا کو صرف اخلاقی تعلیم کی ضرورت نہیں بلکہ عملی اور تدریجی اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے جو انسان کو کمال تک پہنچا سکے اب میں ان مدارج کا ذکر کرتا ہوں جو اسلام نے اخلاق کے متعلق جو خواہ اچھے ہوں خواہ برے بیان فرمائے ہیں.سو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے اخلاق کے متعلق دو قسم کی تعلیم دی ہے ایک اجمالی اور ایک تفصیلی.اجمالی تعیم میں تو نیک اور بد اخلاق کو ایسے مدارج میں تقسیم کر دیا ہے جن میں کہ تمام اخلاق داخل ہو جاتے ہیں اور اس تقسیم کے ذریعہ ہر ایک انسان اپنے لئے ایک راستہ بنا سکتا ہے اور بدیوں سے بچنے اور نیکیوں کے حصول کے لئے کوشش کر سکتا ہے.اس اصولی تعلیم کے علاوہ ایک تفصیلی تعلیم ہے جس میں تفصیل سے ہر ایک امر علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے اور ہر ایک قسم کے خلقوں کی ترتیب بیان کی ہے.اصولی تعلیم اخلاق کے مدارج کے متعلق قرآن کریم کی اس آیت میں مذکور ہے.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ
۲۴۳ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ(النحل: 91) اللہ تعالیٰ تم کو عدل اور احسان اور عزیزوں جیسے سلوک کا حکم دیتا ہے اور تم کو ان بدیوں سے جو انسان کے نفس سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے جو ظاہر ہوتی ہیں اور لوگوں کو بری لگتی ہیں اور ان سے جن سے لوگوں کو عملی تکلیف پہنچتی ہے روکتا ہے اور تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم دنیا میں نیک نام چھوڑو.اس آیت میں نیکیوں کے بھی تین مدارج بیان کئے ہیں اور بدیوں کے بھی تین مدارج بیان کئے ہیں کُل نیکیاں اور بدیاں انہی تین تین قسموں کے نیچے آ جاتی ہیں.نیکیوں کا پہلا درجہ عدل ہے یعنی برابری کا معاملہ جیسا کہ کوئی اس سے معاملہ کرے اور ویسا ہی یہ اس سے کرے یا جس قدر حسن سلوک اس سے کرے اتنا ہی حسن سلوک یہ اس سے کرے اور یہ بھی کہ خیالات میں عدل رکھے جس قسم کے خیالات یہ چاہتا ہے کہ لوگ میرے متعلق رکھیں ویسے ہی خیال یہ ان کی نسبت دل میں رکھے.غرض کہ ہر اک معاملہ میں برابری کو ملحوظ رکھے اور یہ نہ کرے کہ لوگ تو اس سے اچھا معاملہ رکھیں اور یہ ان سے برا معاملہ رکھے اور نہ یہ کہ خود تو لوگوں سے اچھے معاملہ کی امید رکھے اور آپ ان سے برا معاملہ کرنا چاہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لفظ عدل سے اس قسم کے بدلے بھی خارج ہیں جو ایسے امور پر مشتمل ہوں جو قطعی طور پر ناپسند ہوں مثلاً فحش کلامی یا بدکاری یا جھوٹ وغیرہ.عدل کے ماتحت اس کو یہ تو حق ہے کہ جرم کی اس قدر سزا دے جس قدر کہ اس سے کسی نے معاملہ کیا ہے مگر اسے یہ جائز نہیں کہ اگر جرم کسی فحش قسم کا ہے جس کا ارتکاب کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہوتا تو یہ بھی اسی قدر فحش کا مرتکب ہو جائے کیونکہ فحش زہر ہے اور زہر کے مقابلہ میں زہر کھا لینا گویا اپنا دہرا نقصان کر لینا ہے اور ایسا بدلہ بدلہ نہیں بلکہ عملی جہالت ہے.دوسرا درجہ نیکیوں کا اسلام احسان بتاتا ہے یعنی یہ کوشش کرے کہ جس قدر کوئی سلوک کرے خواہ مالی معاملات میں خواہ جسمانی میں خواہ علمی میں اس سے بڑھ کر یہ اس سے سلوک کرنے کی کوشش کرے اور اگر کوئی اس سے بد سلوکی کرے تو حتی الوسع یہ اس کو معاف کرے سوائےاس صورت کے کہ معافی فساد کا موجب ہو.یہ درجہ پہلے درجہ سے اعلیٰ ہے اور وہی شخص اس درجہ تک نیکی میں ترقی کر سکتا ہے جو پہلے عدل کے درجہ کو طے کر چکے اور اپنے نفس کو اس کا عادی بنا لے ورنہ ایک سطحی تغیر اس کی طبیعت میں ہو گا اور تھوڑی سی غفلت سے پھر نیچے گر جائے گا.
۲۴۴ تیسرا درجہ نیکیوں کا ایتایٔ ذی القربیٰ ہے یعنی ایسے رنگ میں دنیا سے معاملہ کرے کہ اسے یہ بالکل خیال نہ رہے کہ یہ لوگ مجھ سے کوئی نیک معاملہ کریں گے.جس طرح ماں اپنے بچہ سے یا باپ یا بہائی اپنے بچہ یا بہائی سے سلوک کرتے ہیں کہ وہ اسے ایک طبعی فرض سمجھتے ہیں.یا بہائی سے اس امر کی امید نہیں رکھتے کہ یہ ہمارے سلوک کا کوئی بدلہ دے گا اگر ماں باپ ساٹھ ستر سال کے ہوں اور بچہ دو تین سال کا ہو تو بھی وہ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ خدمت کرتے جس طرح کہ اگر وہ جوان ہوتے تو کرتے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ بچہ ہماری خدمت نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کے جوان اور کام کرنے کے قابل ہونے تک ہم مر چکے ہوں گے اور یہ ان کا فعل صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کو اس بچہ سے طبعی محبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس سلوک کو جو وہ بچہ سے کرتے ہیں احسان بھی نہیں سمجھتے بلکہ اپنا فرض خیال کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی شخص ان کے سامنے کہے کہ اس بچہ پر اس قدر احسان کرتے ہو؟ تو شاید وہ حیران ہو جائیں کہ احسان کیسا؟ ہم تو اپنے چہ کو پالتے ہیں تو یہ حالت جو ماں باپ یا قریبی رشتہ داروں کے سلوک کی ہوتی ہے یہ احسان سے بہت بڑھ کر ہوتی ہے.احسان میں پھر بھی انسان کو حس ہوتی ہے کہ وہ ایک نیک کام کر رہا ہے اور قریبیوں کے سلوک میں اس امر کا بالکل خیال بھی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی نیک کام کر رہے ہیں بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سلوک سے وہ خود اپنے نفس کو آرام پہنچا رہے ہیں اور اس میں ان کو لذت محسوس ہوتی ہے.اور یہ تیسرا درجہ نیکیوں کا سب سے اعلیٰ ہے اس درجہ میں انسان اس قدر ترقی کر جاتا ہے کہ اسے نیک اخلاق میں لذت آنے لگتی ہے اور وہ اپنے اوپر احسان سمجھتا ہے کہ مجھے لوگوں سے نیک سلوک کرنے کا موقع ملا.جس طرح کہ وہ لوگ جس کے ہاں اولاد ہوتی ہے یہ نہیں خیال کرتے کہ انہیں ایک بوجھ پڑ گیا ہے بلکہ خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰٰ کے فضل کو یاد کرتے ہیں.ایسے لوگ گویا دنیا کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں اور لوگوں کی تکلیف میں تکلیف پاتے ہیں اور ان کے سکھ میں سکھ اور باوجود اس کے وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ دنیا پر انہوں نے احسان کیا بلکہ خود ممنون ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم پر فضل ہوا اور ہمیں یہ کام کرنے کا موقع ملا بلکہ خواہش کرتے رہتے ہیں کہ کاش اس سے زیادہ کا کا موقع ملتا.جس طرح ماں باپ خواہش کرتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس زیادہ ہوتا تو بچوں کی اور بھی خاطر کرتے.بدیوں کے تین مدارج نیکیوں کے تین مدارج کے مقابل
۲۴۵ پر ہیں.یعنی عدل کے مقابل پر فحش.جس کے معنے ہیں بدی کے اور جب یہ لفط منکر کے ساتھ آئے تو اس کے معنے اس بدی کے ہوتے ہیں جو پوشیدہ ہو اور ظاہر پر اس کا اثر نہ ہو.جیسے دلی ناپاکی اور بد ارادے وغیرہ.یہ پہلا درجہ بدی کا ہے جس طرح عدل پہلا درجہ نیکی کا ہے.جب انسان کے اندر صحبت کے اثر سے یا بد تعلیمات کے پڑھنے سے یا بہیمی صفات کے ترقی کر جانے سے خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کا پہلا اثر دل پر ہی ہوتا ہے.دل میں برے برے خیال اٹھنے لگتے ہیں بدی کی طرف رغبت ہوتی ہے مگر فطرت اس کو دبا دیتی ہے اگر یہ خیالات مضبوط ہو چکے ہوں تو آخر وہ غالب آجاتے ہیں اور دل میں بدی کی گِرہ مضبوط طور پر پڑ جاتی ہے.اس پر پھر دوسرا درجہ بدی کا شروع ہوتا ہے اور یہ اعمال بد کرنے لگتا ہے جنہیں لوگ دیکھتے ہیں اور ناپسند کرتے ہیں اور ان کے طبائع پر اس کے یہ افعال گراں گزرتے ہیں.مگر یہ افعال زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں جو اس کی ذاتی ناپاکی پر دلالت کرتے ہیں جیسے جھوٹ بولنا بیہودہ بکواس کرنا اور اسی قسم کے اور اعمال اور ساتھ ہی یہ بھی بات ہوتی ہے کہ ابھی چند ہی بدیاں اس میں پائی جاتی ہیں بہت سی بدیوں کے ارتکاب سے یہ ڈرتا ہے اور اس کا دل ان پر جرأت نہیں کرتا اور گو بعض بدیاں یہ لوگوں کے سامنے کرتا ہے مگر پھر بھی اپنے دل میں حجاب محسوس کرتا ہے اور اپنی غلطیوں کے یاد دلانے پر ان کا اعتراف کر لیتا ہے.جب اس حالت پر خوش ہو جاتا ہے اور اس کی اصلاح کی فکر نہیں کرتا تو پھر یہ تیسرے درجہ پر جا پہنچتا ہے جسے بغی کہتے ہیں یعنی لوگوں کو نقصان پہنچانا اور قوانین اخلاق کا کھلا کھلا مقابلہ.بغی کے معنی بغاوت کے ہیں ا ور اس درجہ سے یہی مراد ہے کہ اس موقع پر پہنچ کر انسان گویا قوانین اخلاق سے بغاوت کرنے لگتاہے اور ان کی اطاعت کے جوئے کو بالکل گردن پر سے اتار کر پھینک دیتا ہے اور اپنی حالت پر فخر کرنے لگتا ہے اور اس میں اس کو لذت محسوس ہونے لگتی ہے اور اس کے دل پر ملامت کا کوئی اثر نہیں ہوتا.ان مدارج کے بیان کرنے سے اسلام نے طالبان اصلاح کے لئے کس قدر سہولت بہم پہنچا دی ہے ہر ایک شخص آسانی سے ان کے ذریعہ اپنی اخلاقی حالت کا اندازہ کر سکتا ہے نیک حالت کا بھی اور بد حالت کا بھی اور پھر اس کی اصلاح کی فکر کر سکتا ہے یا ترقی کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے.اور ہر حالت کا آدمی اپنے سامنے ایک مقصد پاتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا اس پر گراں نہیں گزرتا اور وہ اس سے مایوس نہیں ہوتا مثلاً اگر کسی شخص کو جو گناہ میں اس قدر بڑھا ہوا ہو کہ اخلاق کے قوانین کا احساس بھی اس کے دل میں نہ رہا ہو.اگر یہ کہا جائے کہ تُو ایسا نیک
۲۴۶ بن کر کہ ۴نیکی تیرا جزو ہو جائے اور رات دن لوگوں کی بہتری کی فکر میں لگا رہ تو یہ بات اس کے لئے کیسی اجنبی اور پھر کیسی مایوس کن ہو گی.وہ تو اس مقصد کو سن کر ہی گھبرا جائے گا اور مایوس ہو بیٹھے گا.لیکن اگر ہم اسے یہ کہیں کہ ہر ایک شخص جو نیکی کی طرف قدم اٹھاتا ہے گویا نیکیوں میں شامل ہوتا ہے تُو اگر بدی کو چھوڑ نہیں سکتا تو کم سے کم اس امر کو محسوس کر کہ تُو بدی کر رہا ہے اور اس پر فخر نہ کر تو یہ بات اس کے لئے زیادہ سہل الحصول ہو گی اور وہ بہت مستعدی سے اس کام پر لگ جائے گا اور جب اسکے دل میں گناہوں پر شرم اور ندامت محسوس ہونے لگے تو ہم اسے کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ایک درجہ نیکی کا پا لیا کیونکہ بڑی بدیوں کو چھوڑنا بھی ایک نیکی ہے اور اس کی ہمت جو اس تبدیلی سے بہت بڑھ جائے گی اس کی مدد سے ہم اسے آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے اور کہیں گے کہ اگر تو ابھی نیکی نہیں کر سکتا تو کم سے کم اپنے اعمال کو بدی سے بچا او رگو دل میں برے خیالات پیدا ہوں مگر ان پر کاربند نہ ہو اور کم سے کم یہ کوشش کر کہ لوگوں کے سامنے تجھ سے افعال بد نہ ہوں.تاکہ لوگون کو تیرے بد اعمال دیکھ کر جو تکلیف ہوتی ہے وہ نہ ہو.اور یہ کام اس کے لئے پہلے کام سے آسان ہو گا اور جب وہ اس کام کو بھی پورا کر لے گا تو اس کا حوصلہ اور بھی بڑھ جائے گا اور گو اس کا دل ابھی گندے خیالات کی آماجگاہ ہو گا مگر کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ہم اسے بھی نیکی کے ایک درجہ پر قائم کہیں گے کیونکہ وہ نیکی کی طرف قدم مار رہا ہے اور اس نے بدیوں کا بہت سا حصہ چھوڑ دیا ہے.تب ہم اسے اگلا قدم اٹھانے کی نصیحت کریں گےا ور اسے کہیں گے کہ چاہئے کہ اب تو اپنے دل کو بھی پاک کر اور اس نجات سے بھی بچ.اور اس میں کیا شک ہے کہ اب اس کے لئے یہ قدم اٹھانا پہلے سے بھی زیادہ آسان ہو گا اور وہ اس کام کو کر لے گا اور اس کا دل اس بچہ کی طرح صاف ہو جائے گا جس نے ابھی ہوش سنبھالا ہے یا اس تصویری آئینہ کی طرح ہو گا جس پر ابھی کوئی نقش نہیں لیا گیا.تب ہم اسے عدل کا مقام حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائیں گے اور اسی طرح آہستگی کے ساتھ وہ اس مقام پر جا پہنچے گا جو اس کی استعداد اور ہمت کے مطابق ہے.مگر اس طریق کو چھوڑ دو.اور تمہاری اصلاح کی ساری سکیم بالکل ملیا میٹ ہو جاتی ہے.بِلا ترتیب اور بِلا خیال مدارج جو وعظ کیا جائے گا وہ کبھی بھی نیک نتیجہ نہیں نکالے گا.اس کی مثال یہ ہو گی کہ ہم ایک طالب علم کو جو ابھی الف ب بھی نہیں جانتا ایم اے کا کورس رٹوانا شروع کر دیں یا ویبسٹر (WEBSTER) کی ڈکشنری اس کو حفظ کرانے لگیں اور یہ خیال کریں کہ جب اس کو پڑھ لے گا تو سب ہی کچھ پڑھ لے گا
۲۴۷ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ اس طریق تعلیم کی وجہ سے کچھ بھی نہیں پڑھے گا.کچھ اصطلاحات اس کو یاد ہو جائیں گی مگر وہ صرف طوطے کی طرح رٹی ہوئی ہوں گی.ان کا اثر اس کے دل پر کچھ بھی نہیں ہو گا اور اس کے اخلاق اس کی تعلیم کا نہیں بلکہ اس کے گرد و پیش کا نتیجہ ہوں گے جس میں وہ پرورش پا رہا ہے.قرآن کریم ترتیبی اور تدریجی تعلیم پر خاص طور پر زور دیتا ہے حتیٰ کہ فرماتا ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس کی یہ تعلیم نہ ہو کہ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ (آل عمران:80) ہو جاؤ ربانی.ربانی کہتے ہیں اس شخص کو جو تعلیم دیتے وقت پہلے چھوٹے علوم سکھاتاہے پھر بڑے اور تدریج اور ترتیب کو مدنظر رکھتا ہے.پس نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی امت کو اس امر کی تعلیم دے کر وہ علاج روحانی کرتے قت لوگوں کے مزاجوں اور لوگوں کی حالتوں کو دیکھ لیں اور ان کی عادتوں اور ایسی رسومات کو جو ان میں راسخ ہو چکی ہیں عمدگی سے چھڑائیں اور ایسے علوم جن سے وہ کورے ہیں آہستگی سے سکھائیں.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یوں مختلف مسائل کا سمجھنا ہر اک شخص کے لئے آسان ہے.پس سکھانے سے یہ مراد نہیں کہ بعض لوگوں سے بعض علوم کو مخفی رکھے بلکہ سکھانے سے مراد عمل کرانا ہے تاکہ ہر دفعہ ایک قریب کا مقصد سامنے ہو اور ہمت قائم رہے اور ایک دفعہ کی کامیابی دوسری اصلاح کے لئےاور بھی تیار کر دے.جس طرح کہ سب طالب علم جانتے ہیں کہ تعلیم کا کُل زمانہ کتنا ہے مگر کورسوں اور تدریج اور جماعتوں کی ترتیب کی وجہ سے اور تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد نتیجہ نکلتے رہنے سے ان کی ہمت بڑھتی رہتی ہے اور بوجھ کم معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ محسوس کرتے رہتے ہیں کہ ہم ترقی کر رہے ہیں.میں بتا چکا ہوں کہ اسلام علاوہ اجمالی تعلیم کے اخلاق کے متعلق ایک تفصیلی تعلیم بھی دیتا ہے اور برے یا نیک خلق یا اقسام خلق کی تقسیم بتاتا ہے جس سے ان کو اختیار کرنے یا چھوڑنے میں آسانی ہو لیکن چونکہ گنجائش اجازت نہیں دیتی میں اس اجمالی ترتیب پر ہی کفایت کرتا ہوں کہ عقلمند کے لئے اسلام کی خصوصیات سے واقف ہونے کے لئے اس قدر بھی کافی ہے.
۲۴۸ نیک اخلاق کو نیک یا بد اخلاق کو بد کہنے کی وجہ اس مسئلہ کے متعلق بھی اسلام کی تعلیم اجمالی اور تفصیلی ہے.اجمالی تعلیم تو یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات:57) میں نے بڑوں اور چھوٹوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری صفات کواپنے اندر پیدا کریں.پس اخلاق فاضلہ کے حصول کی پہلی غرض تو یہ ہے کہ اس کے بغیر اس منبع تقدیس سے انسان کو تعلق نہیں ہو سکتا جس کے بغیر انسان کی زندگی زندگی ہی نہیں ہے.وہ شریر اور بد خلق کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ یہ چاہتاہے کہ لوگ اس کی صفات پاکیزہ کو اپنے اندر پیدا کر کے اس کے سے ہو جائیں تا اس کا قرب حاصل ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا(الكهف: 8) ہم نے دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں پیدا کر کے انسان کو اس میں مقرر کیا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ انسانوں میں سے کون زیادہ خوبصورت عمل کرتا ہے یعنی کون کس قدر خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے.پس اصل وجہ تو بعض اخلاق کو نیک کہنے کی یہی ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کا پَرتَو اپنےا ندر رکھتے ہیں اور بعض اخلاق کو بد کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کے مخالف ہیں.اور اس میں کیا شک ہے کہ جو روشنی سے حصہ نہ لے گا وہ تاریک ہو گا اور جس جس قدر نور سے دور ہو گا اسی قدر ظلمت اس پر طاری ہو گی.مگر اس اجمالی تعلیم کے علاوہ اسلام نے مختلف اخلاق کے متعلق تفصیلی وجوہ بھی بیان کی ہیں جن سے لوگوں پر ان کے اچھے یا برے ہونے کی حالت کو منکشف کیا ہے تا لوگوں کو نیک اخلاق کی طرف رغبت پیدا ہو اور بد اخلاق کی طرف سے نفرت ہو جن میں سے بعض احکام کا ذکر ذیل میں کیاجاتا ہے.اعلیٰ اخلاق میں سے میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک خُلق رأفت کا برمحل استعمال ہے جسے عفو کہتے ہیں.اس خلق کی وجہ علاوہ اوپر بیان کر دہ وجہ کے قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (فصلت:35) جب کوئی شخص تیرے ساتھ بدی کرے اور تجھ پر ظلم کرے اور دکھ دے تو تُو اس کے ساتھ نرمی اور عفو کا برتاؤ کر کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لڑائی کی جڑ کٹ جائے گی اور وہ شخص تیرا گہرا دوست ہو جائے گا.کیا ہی لطیف اور جوش پیدا کرنے والی وجہ ہے انسان سزا اس لئے دیتا ہے کہ اگر سزا نہ دوں
۲۴۹ گا تو یہ شخص مجھے اور نقصان پہنچائے گا گویا ضرر سے بچنے کے لئے یا دوسرے لوگوں کو ضرر سے بچانے کے لئے یا دوسرے لوگوں کو ضرر سے بچانے کے لئے انسان سزا دیتاہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو تعلیم ہم تجھے دیتے ہیں یعنی اگر عفو سے کسی انسان کی اصلاح ہوتی ہو تو اس وقت عفو کرنا چاہئے.اگر تُو اس پر عمل کرے گا تو اس فائدہ سے جو تجھے سزا میں مدنظر رہتا ہے تجھے زیاہد فائدہ ہو گا کیونکہ سزا دینے میں ضرر سے بچنے کی توقع ہے تو برمحل عفو کے نتیجہ میں نفع کی امید ہے کیونکہ اغلب گمان ہے کہ وہ شخص اس سلوک سے متأثر ہو کر تیرا دوست اور مددگار بن جائے گا.اسی طرح احسان اور نیک سلوک اور لوگوں کی مدد کرنے کے متعلق فرماتا ہے.احسن کما احسن اللہ الیک تو لوگوں سے نیک سلوک کر اور ان کو اپنے مال اپنے علم اور اپنے رسوخ میں شریک کر کیونکہ تجھ پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا ہے.یعنی جن قوتوں اور طاقتوں سے تو نے کمایا ہے اور جن چیزوں کے ذریعہ سے تُو نے کمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور تجھے بطور احسان ملی ہیں پس جس طرح تجھ پر احسان کیا گیا ہے تو بھی احسان سے کام لے.مطلب یہ ہے کہ زمین یا کانیں اور جو چیزیں انسان کے لئے مال یا علم حاصل کرنے میں ممد ہوتی ہیں وہ سب اس کی پیدائش سے پہلے کی موجود ہیں اور سب ہی بنی نوع انسان اس میں حق رکھتے ہیں پس اگر کسی انسان کو اللہ تعالیٰ خاص موقع دے تو اس کے بدلہ میں اس کا فرض ہے کہ اس نعمت میں دوسرے بنی نوع انسان کو بھی شریک کرے.اسی طرح مثلاً ظلم سے روکنے کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ ظلم سے ظلم پیدا ہوتا ہے اور آخر سب ہی برباد ہوتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ () وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (الأَعراف:56-57) ظلم نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰٰ ظلم کو پسند نہیں کرتا اور اس ذریعہ سے بعد اس کے کہ زمین میں امن قائم ہو چکا ہو فساد نہ کرو.یعنی ظلم کا نتیجہ کبھی امن اور استحکام نہیں ہو گا.تم اگر ظلم اپنی طاقت کو بڑھانے کے لئے کرتے ہو تو یہ نتیجہ کبھی پیدا نہیں ہو گا کیونکہ ظلم طبائع میں جوش پیدا کرتا ہے اور لوگ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور اگر ظاہر میں نہیں تو باطن میں اس کے خلاف تدبیر کرتے ہیں اور امن جو ساری طاقت کا منبع ہے وہ جاتا رہتا ہے.حسد کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ایاکم و الحسد فان الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب حسد نہ کرو کیونکہ حسد انسان کے آرام کے
۲۵۰ سامان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے یعنی تم حسد تو اس لئے کرتے ہو کہ فلاں شخص کو مجھ سے زیادہ سکھ کیوں ہے؟ لیکن اس ذریعہ سے تم اپنے پہلے سکھ کو بھی برباد کر لیتے ہو اور اپنے آپ کو اور دکھ میں ڈالتے ہو.پھر اس کام کا فائدہ کیا جو تم کو اور تکلیف میں ڈال دیتا ہے.لوگوں کو حقیر جاننے کے متعلق فرماتا ہے.لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ (الحجرات:12) ایک قوم دوسری قوم کو حقیر نہ جانے کیونکہ زمانہ بدلتا رہتا ہے آج ایک قوم بڑی ہوتی ہے تو کل دوسری بڑھ جاتی ہے.آج ایک خاندان ترقی پر ہوتا ہے تو کل دوسرا ترقی کرتا جاتا ہے.اگر اس طرح ایک قوم دوسری قوم کو حقیر جانے گی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جب وہ برسر حکومت آئے گی بوجہ پچھلے اشتعال کے پہلی قوم کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے گی اوریہ ایک عجیب سلسلہ فساد کا پیدا ہوتا چلا جائےگا حالانکہ جس فعل کا یہ نتیجہ نکلے گا وہ بالکل بے فائدہ ہے کیونکہ جب ترقی کا میدان بدلتا رہتا ے تو ایک قوم کو کیا حق ہے کہ دوسروں کو حقیر سمجھے.زنا کے متعلق فرماتا ہے كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (بنی اسرائیل:33) اول تو یہ فعل فحش ہے یعنی اس سے دل میں ناپاکی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جرم کا احساس اور چوری کا خیال دل میں پیدا ہوتا ہے دوسرے یہ اس مقصود کے حصول کے لئے جس کے واسطے عورت اور مرد کے تعلقات قائم کئے جاتے ہیں غلط راستہ ہے کیونکہ شہوت کی اصل غرض تو بقائے نسل کی غرض پورا کرنا ہے.چونکہ نسل کو محفوظ رکھنا ضروری ہے اس لئے یہ خواہش انسان میں پیدا کی گئی ہے جو اسے اصل مقصود کی طرف مائل کرتی رہتی ہے اور ناجائز تعلقات سے تو اصل غرض برباد ہو جائے گی کیونکہ نسل محفوظ نہیں رہے گی یا مشتبہ ہوجائے گی.پس اس راستہ سے تو اصل مقصد نہیں مل سکتا اور اگر کبھی مل بھی جائے تو سیدھے راستہ کو ترک کر کے ٹیڑھا راستہ انسان کیوں اختیارکرے.بخل کے متعلق فرماتا ہے فمنکم من یبخل و من یبخل فانما یبخل عن نفسہ یعنی بعض لوگ تم میں بخل کے مرتکب ہوتے ہیں حالانکہ بخل کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ جو بخل کرتا ہے اس کا ضرر اور نقصان اسی کی جان کو پہنچتا ہے یعنی نہ وہ اچھی غذا کھاتا ہے نہ اچھا لباس پہنتاہے نہ عمدہ مکان میں رہتا ہے روپیہ جمع کرتا چلا جاتا ہے جس سے سوائے روپیہ کی حفاظت کی فکر کے اسے فائدہ کوئی نہیں ہوتا واقع میں اگر غور کیا جائے تو جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ ہمیشہ اپنی جان کو ہی دکھ میں ڈالتے ہیں اور ان کا روپیہ خود ان ہی کے لئے وبال ہوتا ہے.
۲۵۱ اسی طرح اسلام نے تمام احکام کی علتیں بتائی ہیں اور لوگوں کے لئے اخلاق پر عمل کرنے کا دروازہ کھول دیا ہے مگر سب احکام کے متعلق تفصیلاً اس جگہ بیان کرنا ناممکن ہے یہی مثالیں کافی ہیں اور ان کے بیان کرنے کے بعد میں سوال چہارم کو لیتا ہوں.اخلاق حسنہ کے حصول اور اخلاق سیئہ سے بچنے کے ذرائع یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ مذہب کا صرف یہ ہی کام نہیں کہ وہ ان اخلاق کو بتائے جن سے انسان کو بچنا چاہئے یا جن اخلاق کو اسے اختیار کرنا چاہئے بلکہ اس کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ ایسے ذرائع مہیا کرے یا بتائے جن کی مدد سے انسان بد اخلاق کو چھوڑ سکے اور نیک اخلاق کو اختیار کر سکے کیونکہ بغیر اس مقصد کے حصول کے ہماری سب کوششیں رائیگاں جاتی ہیں اور ہماری تحقیق ادھوری رہ جاتی ہے.دوسرے مذاہب کے لوگ اس سوال کا جو جواب دیں گے سو دیں گے میں اسلام یا دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ احمدیت کی طرف سے نہایت خوشی کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ اسلام نے اس غرض کو خوب عمدگی کے ساتھ پورا کیا ہے.پہلا ذریعہ جو اسلام اخلاق کی درستی کے لئے تجویز کیا ہے وہ صفات الٰہیہ کا ظہور ہے جس کے بغیر انسان کامل اخلاق کو حاصل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ انسان اپنے کاموں کی درستی کے لئے نمونہ کا محتاج ہے.نمونہ کے ذریعہ سے وہ اچھی طرح سیکھ سکتا ہے خالی کتابی علم اس کو نفع نہیں دے سکتا.اگر نمونے دنیا میں موجود نہ ہوں تو کُل علوم دنیا سے مفقود ہو جائیں.کوئی شخص طب، انجینئرنگ، کیمسٹری وغیرہ علوم کو محض کتابوں سے نہیں سیکھ سکتا ایسے علم حاصل کرنے کے لئے ایسے نمونوں اور تشریح کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے جن کو دیکھ کر یا جن سے پوچھ کر وہ ان علوم کی باریکیوں کو دریافت کرے.جو حال باقی علوم کا ہے وہی اخلاق کا ہے اخلاق بھی انسان کامل طور پر نہیں سیکھ سکتا جب تک کامل نمونہ اس کے سامنے موجود نہ ہو اور جب تک ایسے نمونے بار بار پیدا نہ ہوتے رہیں اور یہ نمونے ہوں بھی انسانوں میں سے کیونکہ جو شخص انسانوں میں سے نہیں ہے وہ ہمارے لئے نمونہ نہیں ہو سکتا.کیونکہ انسان کا دل غیر انسان کے عمل پر مطمئن نہیں ہو سکتا.ایک درخت ایک پتھر کا کام نہیں کر سکتا.کیونکہ انسان کا دل غیر انسان کے عمل پر مطمئن نہیں ہو سکتا.ایک درخت ایک پتھر کا کام نہیں کر سکتا.اسی طرح ایک انسان ایک غیر انسان کے نمونہ سے ہمت اور جرأت نہیں حاصل کر سکتا.پس ہمارا نمونہ انسانوں میں سے ہونا
۲۵۲ چاہئے او ر بار بار ایسے نمونےآنے چاہئیں تاکہ تمام نسلوں کو ان کے اعمال پر ڈھالنے کا موقع ملے.اسلام ان نمونوں کے بار بار آنے کا دعویٰ کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے.يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(الأَعراف:36) اے لوگو جب تم میں سے میں رسول بھیجوں جو تمہیں میرے نشانات اور تائیدات سنائے تو جو شخص اس کو دیکھ کر تقویٰ حاصل کرے گا اور اس کے ساتھ مل کر دنیا میں اصلاح کرے گاا س پر نہ کوئی خوف ہو گا نہ غم.اسی طرح ان نمونوں کے علاوہ ایک اور نمونے جو ان سے درجہ میں کم ہوتے ہیں مگر پھر بھی ایک پاک نمونہ ہوتے ہیں ان کی نسبت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اسلام میں ہر صدی پر ایک ایسا نمونہ آتا رہے گا آپ فرماتے ہیں.ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ علٰی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے سر پر ایسے شخص بھیجتا رہے گا جو دین کو نیا کرتے رہیں گے یعنی جو تعلیمات باطل انسانوں کی طرف سے شامل ہوتی رہیں گی ان کو دور کرتے رہیں گے چنانچہ ایسے مجددین اسلام میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں اور اس وقت جبکہ تاریکی بہت ہی بڑھ گئی ہے اسلام کی حفاظت اور رسول کریم ﷺ کے نمونے کے قیام کے لئے ایک نبی مبعوث ہوا ہے جس نے اپنے نمونہ سے ہزاروں لاکھوں کو زندہ کر دیا ہے.اگر غور کیا جائے تو اصل میں یہی ذریعہ سب سے اعلیٰ اور اکمل ہے اور دوسرے ذرائع اس کے ممد اور معاون تو ہو سکتے ہیں مگر اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کا اثر قطعی اور یقینی ہے اور ان کے اثرات بوجہ اس کے کہ ان کو استعمال کرنے میں ایسے لوگوں کا دخل ہے جو خود کامل استاد نہیں غلطی کا احتمال ہے.مگر چونکہ اس ذریعہ کا مہیا کرنا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے اسلام نے اور ذرائع بھی بیان کئے ہیں جن سے اعلیٰ اخلاق پیدا کئے جا سکتے ہیں اور برے اخلاق کو دو رکیا جا سکتا ہے ان میں سے بعض ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.دوسرا ذریعہ جو اسلام نے انسان کو اخلاق پر قائم کرنے کے لئے تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ اخلاق کو ان کی حقیقی ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے جس کی وجہ سے اخلاق پر ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ عمل کر سکتے ہیں چونکہ اس امر کو بھی ایک حد تک تشریح سے بیان کیا جا چکا ہے اس لئے اس جگہ اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.
۲۵۳ تیسرا ذریعہ اسلام نے یہ اختیار کیا ہے کہ اخلاق نیک کے اختیار کرنے اور بد اخلاق کے ترک کرنے کی عقلی اور عملی وجوہ بیان کی ہیں تا کہ علم کامل ہو اور اخلاق کے حصول کی کوشش کے لئے سچا جوش پیدا ہو سکے اس کو بھی اوپر بیان کیا جا چکا ہے.چوتھا ذریعہ جو اسلام نے اخلاق کی درستی کے لئے تجویز کیا ہے وہ اس کے نقطۂ نگاہ کا بدلنا اور اس کی مایوسی کو امید سے بدلنا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی بدیاں انسان سے اس لئے سرزد ہوتی ہیں کہ اس کے ذہن میں یہ بات جم جاتی ہے کہ وہ گناہ سے بچ ہی نہیں سکتا.جو قوم اس خیال کو اپنی نسل کے سامنے پیش کرتی ہے وہ اسے ہلاک کرتی ہے وہ اپنی آئندہ نسل کی دشمن ہے.جب تک کوئی شخص یہ یقین نہیں رکھتا کہ وہ ایک مقصد کو حاصل کر سکتا ہے وہ اسکے لئے پوری کوشش نہیں کر سکتا.جن قوموں میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ہمارے باپ دادے سب کچھ دریافت کر چکے وہ قومیں ایجادیں نہیں کر سکتیں اور جس قوم میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ اس میں ترقی کا مادہ ہی نہیں وہ ترقی کی طرف قدم ہی نہیں اٹھا سکتی.اسی طرح جن لوگوں کے ذہن میں یہ خیال مستحکم ہو کہ ہم کمزور ہیں اور اخلاق نیک حاصل نہیں کر سکتے اور بدیاں ہماری گُھٹّی مین پڑی ہوئی ہیں اور پیدائش سے ہمارے ساتھ ہیں ہم کبھی ان پر فتح نہیں پا سکتے وہ قوم گویا اپنے ہاتھوں سے خود ہلاک ہوئی.رسول کریم ﷺ نے اس مسئلہ پر خوب زور دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ کبھی کسی شخص کو مایوس نہیں کرنا چاہئے چنانچہ آپ فرماتے ہیں اذا قال الرجل ھلک الناس فھو اھلکھم یعنی جب کوئی شخص کسی قوم کی نسبت کہتا ہے کہ وہ تو اب تباہ ہو گئی تو اس قوم کا ہلاک کرنے والا وہی ہے یعنی کوئی مادی مصیبت اور تباہی ایسی سخت نہیں جس قدر کہ کسی شخص کے دل میں اس خیال کا بیٹھ جانا کہ ترقی کا دروازہ اس کے لئے بند ہو گیا ہے اور وہ اب دوسروں کے سہارے پر جا پڑا ہے.یہ کیسی عظیم الشان صداقت ہے اور کس قدر وسیع اثر رکھنے والی ہے.خلاصہ یہ کہ طبیعت میں مایوسی اور ناامیدی انسان کو مقابلہ سے باز رکھتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان ناکام اور نامراد ہو جاتا ہے.اسلام نے اس خیال کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا ہے اور اس طرح اخلاق میں ترقی کرنے کا راستہ انسان کے لئے کھول دیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التين :5) یعنی ہم نے انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ نہایت ہی عمدہ اور قابل نشو و نما قوتوں کو لے کر دنیا میں آتا
۲۵۴ ہے اسی طرح فرماتا ہے وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا () فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (الشمس:8-9) یعنی ہم نفس انسانی کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی اور بے عیب پیدائش کو بھی جس میں یہ خاص خوبی پائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسے مادے پیدا کر دئیے ہیں کہ وہ بدی اور نیکی میں تمیز کرنے کی توفیق رکھتی ہے.دیکھو کیسی اعلیٰ درجہ کی اور مطابق فطرت تعلیم ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ایک نہایت ہی پاکیزہ فطرت لے کر دنیا میں آتا ہے جو کس قدر بھی ملوث ہو جائے پھر بھی اس کی اصل پاک ہے اس لئے اگر وہ نیکی کی طرف متوجہ ہو تو یقیناً اپنے عیوب کو دور کرنے میں اور نیکی کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے.اس تعلیم سے اسلام نے انسان کا نقطہ نگاہ وہی بالکل بدل دیا ہے اور اس کی ہمت کو بلند کر دیا ہے.اسلام کے سوا باقی مذاہب یا اس مسئلہ میں بالکل خاموش ہیں یا پھر انسان کو ایسے بوجھوں کے ساتھ اس دنیا میں پہنچاتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال کے بغیر انہی کے بوجھ سے ڈوب جاتا ہے.مگر اخلاق کی درستی میں اگر کوئی تعلیم کامیاب ہو سکتی ہے تو وہی جو اسلام نے پیش کی ہے اسی تعلیم سے انسان کے دل سے مایوسی کا اثر دور ہوتا ہے اور یہی تعلیم اس کے حوصلے کو بڑھاتی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں ایک بے داغ فطرت لے کر آیا ہوں اور اس کو مجھے پاک رکھنا چاہئے نہ کہ ایک غلاظت آمیز طبیعت جس پر کچھ اور گند بھی لگ گیا تو کوئی پروا نہیں.مگر یہ تعلیم بھی کافی نہ تھی.پیدائش کا سوال ہی انسان کے راستہ میں روک نہیں ہے وہ پیدائش کےبعد عقل اور ہوش کے آنے تک کئی خلقتوں میں سے گذرتا ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ راستہ کی لالچوں اور رذیل خواہشوں سے اپنی پاک فطرت کو ملوث کر لیتا ہے اگر ایسے شخص کے لئے کوئی علاج مقرر نہیں ہے تو پھر بھی ایک معقول حصہ دنیا کا ایسا رہے گا جو نیکی سے محروم رہ جائے گا کیونکہ وہ خیال کر لے گا کہ جب ایک دفعہ ہمیں ناپاکی لگ گئی تو اب ہمیں پاکیزگی کے لئے کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے.پس جب تک یہ روک بھی دور نہ ہو مذہب اخلاق حسنہ کو قائم کرنے اور بدی کے مٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اسلام دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس روک کو دور کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس روک کو بہترین طور پر دور کرتا ہے کیونکہ وہ ان خطاؤں کے اثر دورکرنے کے لئے جو انسان سے پہلی ہو چکی ہیں توبہ کا دروازہ کھولتا ہے جسے دوسرے مذاہب بند کرتے ہیں اور اسے مایوسی کے نیچے سے بالکل چھڑا لیتا ہے.
۲۵۵ کیونکہ جب انسان کو معلوم ہو جائے کہ اس کے لئے ترقی کا دروازہ کھلا ہے اور یہ کہ اگر وہ اصلاح کر لے تو پھر بھی اس پاکیزگی کوحاصل کر سکتا ہے جس پاکیزگی کو حاصل کرنا اس کا فرض مقرر کیا گیا ہے تو وہ ہمت کبھی نہیں ہارتا اور ہمیشہ اپنی اصلاح کی فکر میں لگا رہتا ہے اور جوئندہ یابندہ کی مشہور مثل کے ماتحت آخر کامیاب ہو ہی جاتا ہے.بعض لوگ خیال کرتےہیں کہ توبہ کا دروازہ کھولنے سے بدی کا بھی دروازہ ساتھ ہی کھل جاتا ہے اور بجائے اخلاق میں ترقی کرنے کے انسان بد اخلاقی کے ارتکاب پر اور بھی دلیر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب چاہوں گا توبہ کر لوں گا اور خدا سے صلح کر لوں گا لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے.چاہوں گا تو یہ کر لوں گا کا خیال کبھی ایک علقمند انسان کے دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے کیامعلوم ہے کہ میں کب مروں اگر اچانک موت آ جائے تو توبہ کس وقت کرے گا؟ علاوہ ازیں توبہ کی حقیقت کو یہ لوگ نہیں سمجھے.توبہ کوئی آسان امر نہیں ہے اور انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ جب چاہے اپنی مرضی سے توبہ کر لے کیونکہ توبہ اس عظیم الشان تغیر کا نام ہے جو انسان کے قلب کے اندر پیدا ہو کر اس کو بالکل گداز کر دیتاہے اور اس کی ماہیت کو ہی بدل ڈالتاہے.توبہ کے معنے اپنے پچھلے گناہوں پر شدید ندامت کا اظہار کرنے اور آئندہ کے لئے پورے طور پر خدا سے صلح کر لینے اور اپنی اصلاح کا پختہ عہد کر لینے کے ہیں.اب یہ حالت یک دم کس طرح پیدا ہو سکتی ہے؟ یہ حالت تو ایک لمبی کوشش اور محنت کے نتیجہ میں پیدا ہو گی.ہاں شاذ و نادر کے طور پر یکدم بھی پیدا ہو سکتی ہے مگر جب بھی ایسا ہو گا کسی عظیم الشان تغیر کے سبب ہو گا.جو آتش فشاں مادہ کی طرح اس کی ہستی کو ہی بالکل بدل دے اور ایسے تغیرات بھی انسان کے اختیار میں نہیں ہیں.پس توبہ کی وجہ سے کوئی شخص گناہ پر دلیر نہیں ہو سکتا بلکہ توبہ اصلاح کا حقیقی علاج اور مایوسی کو دور کرتی ہے اور کوشش اور ہمت پر اکستای ہے اور یہ دھوکا کہ توبہ گناہ پر اکساتی ہے محض عربی زبان کی ناواقفیت اور اسلامی تعلیم سے بے رغبتی اور اس خیال کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے کہ توبہ اس امر کا نام ہے کہ انسان کہہ دے کہ یا اللہ میرے گناہ معاف کر.حالانکہ گناہوں کی معافی طلب کرنے کا نام توبہ نہیں بلکہ استغفار ہے.توبہ گناہوں کی معافی طلب کرنے کو نہیں کہتے بلکہ گناہوں کی معافی سچی توبہ کا صحیح نتیجہ ہے.
۲۵۶ پانچواں ذریعہ جو اسلام نے انسان کے اخلاق کی درستی کے لئے تجویز کیا ہے وہ بظاہر پہلے ذریعہ کے مخالف نظر آتا ہے مگر مؤید اور مطابق.اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے اس بد اثر کو مٹانے کی کوشش کی ہے جو مخفی طور پر ماں او رباپ سے بچہ اخذ کر لیتا ہے اس تعلیم کو پہلی تعلیم کے مخالف نہیں سمجھنا چاہئے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان پاکیزہ فطرت لے کر آتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ماں باپ کے اثر کے ماتحت بعض بدیوں کے میلان کو بھی لے کر آتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ فطرت اور میلان میں فرق ہے فطرت تو وہ مادہ ہے جسے ضمیر کہتے ہیں.یہ ہمیشہ پاک ہوتی ہے کبھی بد نہیں ہوتی خواہ ڈاکو یا قاتل کے ہاں بھی کوئی بچہ کیوں پیدا نہ ہو اس کی فطرت صحیح ہو گی مگر ایک کمزوری اس کے اندر رہے گی کہ اگر اس کے والدین کے خیالات گندتے تھے تو ان خیالات کا اثر اگر کسی وقت اس پر پڑے تو یہ ان کو جلد قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.جیسا کہ مرضوں کا حال ہے کہ جو بیماریاں پختہ ہوتی ہیں اور جزو بدن ہو جاتی ہیں ان کا اثر بچوں پر اس رنگ میں آجاتا ہے کہ ان بیماریوں کے بڑھانے والے سامان اگر پیدا ہو جائیں تو وہ اس اثر کو نسبتاً جلدی قبول کر لیتے ہیں.یہ اثر جو ایک بچہ اپنے ماں باپ سے قبول کر لیتا ہے ان خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے جو ماں باپ کے ذہنوں میں اس وقت جوش مار رہے ہوتے ہیں جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں.گو یہ اثر نہایت ہی خفیت ہوتا ہے اور بیرونی اثرات بیھ اس کو بالکل مٹا دیتے ہیں مگر اسلام نے اس باریک اثر کو نیک بنانے کابھی انتظام کیاہے اور وہ یہ کہ ماں باپ کو نصیحت کی ہے کہ جس وقت وہ علیحدگی میں آپس میں ملیں تو یہ دعا کر لیا کریں اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان ما رزقتنا اے خدا ہمیں بد وساوس اور گندے ارادوں اور ان کے محرک لوگوں سے محفوظ رکھ او رجو ہماری اولاد ہو اس کو بھی ان سے محفوظ رکھ.یہ دعا علاوہ اس اثر کے جو بحیثیت دعا کے اس میں پایا جاتا ہے ایک اور بہت بڑا اثر رکھتی ہے اور وہ یہ کہ والدین کے ذہنوں میں یہ خیالات کی ایک نئی او رعمدہ رَو چلا دیتی ہے جس کی وجہ سے اگر ان کے عام خیالات پوری طرح پاک نہ بھی ہوں تب بھی اس وقت پاکیزگی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.کیونکہ اول تو دعا اور اس مضمون کی دعا خود ہی خیالات کو نیکی کی طرف پھیر دیتی ہے دوسرے دیکھا گیا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کی نسبت یہ بہت خیال ہوتا ہے کہ گو ہم بد ہیں مگر
۲۵۷ ہماری اولاد نیک ہو.گو بعض والدین اس کے خلاف بھی ملتے ہیں مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد کو بد دیکھنا پسند نہیں کرتے.پس اس قریباً طبعی خواہش کی وجہ سے جب والدین اپنی اولاد کی نسبت ایسی دعا کریں گے تو ان کا قلب بہت ہی پاکیزہ تبدیلی حاصل کرے گا اور چونکہ بچہ پر قدرتی طور پر ہماری اولاد نیک ہو.گو بعض والدین اس کے خلاف بھی ملتے ہیں مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد کو بد دیکھنا پسند نہیں کرتے.پس اس قریباً طبعی خواہش کی وجہ سے جب والدین اپنی اولاد کی نسبت ایسی دعا کریں گے تو ان کا قلب بہت ہی پاکیزہ تبدیلی حاصل کرے گا اور چونکہ بچہ پر قدرتی طور پر اسی وقت کے خیالات اثر کر سکتے ہیں جس وقت بچہ کے اجزاء باپ کے جسم سے علیحدہ ہوتے ہیں اور ماں سے پیوستگی حاصل کرتے ہیں اس لئے یہ دعا جو ماں باپ کے ملنے کے وقت کے لئے سکھائی گئی ہے اگر ماں باپ کے اندر کوئی ناپاکی ہے تو اس کے بد اثرات سے بچہ کو بچا لے گی.چنانچہ رسول کریم ﷺ صاف طور پر اس فائدہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرماتے ہیں.فانہ ان یقدر بینھما ولد فی ذالک لم یضرہ شیطان ابدًا یعنی اللہ تعالیٰ ایسے بچوں کو جن کے والدین تعلق باہمی کے وقت یہ دعا پڑھ لیتے ہیں مسّ شیطان سے بچاتا ہے جس سے مراد آپ کے فقط یہ ہے کہ اس شیطانی اثر سے بچاتا ہے جو ماں باپ سے منتقل ہو سکتا تھا نہ کہ کلی طور پر کیونکہ اس دعا کا طبعی اثر ہرگز صحبت بد کے اثر سے یا اور دوسرے اثروں سے نہیں بچا سکتا.باقی رہا اس دعا کا ثر بحیثیت دعا کے تو وہ تو اس وقت ظاہر ہو گا جبکہ یہ دعا اس حد تک پہنچے گی جس حد تک پہنچ کر دعا قبولیت کا مقام حاصل کرتی ہے ورنہ خالی الفاظ کے دہرا دینے سے وہ اثر ظاہر نہیں ہو سکتا.چھٹا ذریعہ جو اسلام نے اخلاق کی درستی کے لئے اختیار کیاہے وہ ان راستوں کو کھولنا ہے جن کے ذریعہ سے ایسی تحریکات دل میں داخل ہوتی ہیں جو نیکی کی طاقت کو ابھارتی ہیں ان میں سے بعض اوپر بیان ہو چکی ہیں جیسے مثلاً دعا ہے، عبادت ہے، روزہ ہے، ذکر الٰہی ہے اس لئے ان ذرائع کو اس جگہ دہرانے کی ضرورت نہیں.پس میں تین اور راستوں کا بطور مثال ذکر کرتا ہوں.میں قرآن کریم کے اس حکم کو لیتا ہوں جو اس نے صحبت نیک کے متعلق دیا ہے.وہ فرماتا ہے كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة:119) اے مسلمانو! سچے لوگوں کی صحبت میں بیٹھا کرو.یہ ثابت شدہ بات ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے گرد و پیش کے حالات سے متأثر ہوتا ہے.پس جو شخص اپنی صحبت کے لئے نیک لوگوں کو اور اخلاق والے لوگوں کو چنے گا وہ بہت جلد اپنے اندر ایک عجیب تبدیلی دیکھے گا جو اسے کھینچ کر نیکی کی طرف لے جائے گی اور بد خیالات کے ترک کر دینے میں اس کو مدد دے گی.اسلام نے اس پر ایسا زور دیا ہے کہ ہمیشہ سے مسلمان اپنے وطن اور مال کو چھوڑ
۲۵۸ کر ایسے لوگوں کی صحبت میں جا کر رہتے ہیں جو ان کی طبائع پر نیک اثر ڈال سکیں اور ان کی مقناطیسی تأثیر کی مدد سے اپنے لمبے سفر کو طے کر لیتے ہیں اور اپنے شاہد مقصود کو پا لیتے ہیں.دوسرا راستہ جو اسلام نے نیکیوں کے حصول کے لئے کھولا ہے وہ احکام بھی ہیں جو حلال اور حرام سے تعلق رکھتے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت تک دنیا نے اس عظیم الشان صداقت کو محسوس نہیں کیاکہ انسان کی خوراک کا اس کے اخلاق پر نہایت ہی گہرا اثر پڑتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس صداقت کو محسوس نہیں کیا بلکہ اس امر میں اسلام پر لوگ نکتہ چینی کرتے ہیں حالانکہ یہ امربدیہیات سے ہے اور ہر روز اس کی صداقت کے نئے ثبوت ملتے جاتے ہیں.بہرحال دنیا کچھ بھی کہے قرآ ن کریم فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (المؤمنون:52) اے رسولو! پاک اشیاء کھاؤ.اس کے نتیجہ میں تم کو نیک عمل کرنے کی توفیق ملے گی.اس آیت سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ اس میں صرف نبیوں کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم کا قاعدہ ہے کہ اس میں نبیوں کو مخاطب کیا جاتا ہے اور مراد سب متبع ہوتے ہیں.مذکورہ بالا قاعدہ کے ماتحت اسلام نے کھانے پینے کے متعلق مختلف احکام دئیے ہیں جن کو لوگ رسم خیال کرتے ہیں لیکن قرآن کریم مدعی ہے کہ وہ اپنے اندر عظیم الشان حکمتیں رکھتے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ دنیا کے لوگ اس کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ جمادات کی جو خصوصیات ہیں یا نباتات کی جو خصوصیات ہیں ان کا اثر تو انسان پر پڑتا ہے مگر وہ اس امر کے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ حیوانات کا گوشت کھانے سے بھی کوئی اثر انسان پر پڑتا ہے حالانکہ جس طرح اور چیزوں کا اثر انسان کی طبیعت پر پڑتا ہے ان کا بھی پڑنا چاہئے اور کسی جانور کے خاص اخلاق اس کے کھانے والے میں ضرور پیدا ہونے چاہئیں.مگر میں امید کرتا ہوں کہ اب جلد لوگ اس حقیقت کو قبول کر لیں گے کیونکہ اب یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ بعض جانوروں کے کھانے سے انسان ننگا ہونے کی اور بعض کے استعمال سے اپنی طاقت کو ناجائز طور پر خرچ کرنے کی خواہش محسوس کرتا ہے جب یہ علم او ر ترقی کر گیا تو اسلام کا دعویٰ ثابت ہو جائے گا.خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا اصل کو تسلیم کر کے اسلام نے خوراک کے احکام کو ایک قانون پر مبنی رکھا ہے اور وہ قانون یہ ہے کہ چونکہ انسان کو اپنے تمام طبعی جذبات کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس لئے اسے ہر قسم کی غذائیں کھانی چاہئیں سوائے ان غذاؤں کے جن کے استعمال سے کوئی حد
۲۵۹ سے بڑھا ہوا ضرر جسمانی یا اخلاقی یا روحانی ہو چنانچہ اسی وجہ سے اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ ترکاری بھی اور گوشت بھی دونوں چیزوں کا استعمال کرنا چاہئے کیونکہ بعض اخلاق نباتات کے استعمال سے ترقی کرتے ہیں اور بعض حیوانات کے استعمال سے.جیسے کہ حلم اور نرمی اور ذکاوت اور استقلال نباتات کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں لیکن شجاعت اور وقار اور ہمت اور غیرت حیوانات کے استعمال سے زیادہ ہوتے ہیں.پس اسلام نے ہر اک قسم کی غذاؤں کے استعمال کا حکم دیا ہے تاکہ سب کے سب جذبات انسان کے اندر نشو و نما پاتے رہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ () قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ(الأَعراف: 32-33) اے مومنو! نیک اعمال کے حصول کے لئے تین باتوں کی ضرورت ہے ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کی عبادت ظاہر اور باطن کو درست کر ے کرو.دوسرے یہ کہ ہر قسم کے کھانے اور پینے کی چیزوں کو استعمال کرو اور ایک ہی طرف زور نہ دے دو تاکہ ہر قسم کے طبعی تقاضے تم میں نشو و نما پائیں.تُو ان سے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کو ظاہری صفائی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے یا یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کو باطنی صفائی کی طرف توجہ نہیں کرنا چاہئے یا یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کو ایک ہی قسم کی غذاؤں کے پیچھے پڑ جانا چاہئے کہہ دے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی زینت اور اس کے عطا کئے ہوئے عمدہ اور پاک کھانوں کو منع کرنے والے تم کون ہو؟ ہاں اس قاعدہ کے ساتھ کہ انسان کو ہر قسم کی غذائیں جو اس کے مختلف طبعی تقاضوں کو ابھارتی ہیں استعمال کرنی چاہئیں یہ بھی حد بندی لگا دی ہے کہ جو غذائیں جذبات کو ایسا ابھارتی ہیں کہ ان کو قابو میں رکھنامشکل ہو جاتا ہے یا جو صحت یا عقل یا اخلاق یا دین پر بد اثر ڈالتی ہیں ان کو استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ اصل غرض کو بالکل باطل کر دیتی ہیں.ان غذاؤں میں سے سب سے مقدم قرآن کریم نے مفصلہ ذیل چار غذاؤں کو رکھاہے جو چاروں چار اصول پر مبنی ہیں.فرماتا ہے قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (الأَنعام:146) کہہ دے کہ میں تو اپنی وحی میں کھانے والے پر حرام نہیں پاتا مگر یہ کہ جو مردہ ہو یا بہایا ہوا خون ہو.یا سؤر کا گوشت کیونکہ ان میں سے ہر ایک ضرر رساں ہے یا وہ
۲۶۰ چیز حرام ہے جو دین سے انسان کو باہر نکال دیتی ہے اور بے غیرتی پیدا کر دیتی ہے یعنی وہ چیز جس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام بلند کیا گیا ہو یعنی یا تو اسے کسی اور معبود کی خوشی کے خیال سے ذبح کیا گیا ہو یا خدا کےسوا کسی اور کا نام ذبح کے وقت لیا گیا ہو.پھر فرماتا ہے مگر جو مضطر ہو جائے اسے کوئی اورکھانا نہ ملے بشرطیکہ جان کے ایسے موقع پر نہ گیا ہو یا کھاتے وقت ضرور سے زیادہ نہ کھائے تو ایسا شخص اگر ان کھانوں کو کھا لے تو اللہ تعالیٰٰ اس کو ان کے بد اثرات سے بچا لے گا.اس آیت میں تین چیزوں مُردار اور خون اور سؤر کے گوشت کو طبعی نقصانات کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے اور آخری چیز کو دینی نقصان کی وجہ سے چنانچہ مردار اور خون تو بہت سے زہروں پر مشتمل ہے اور مردار کی نسبت اغلب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ بیماری یا زہر یا زہریلے جانوروں کے کاٹے سے مرا ہو یا بالکل بوڑھا ہو کر مرا ہو اور یہ سب حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں جانور کا گوشت کھانے کی قابلیت سے باہر ہو جاتا ہے اور اگر کسی سخت صدمہ سے مرا ہو تب بھی اس میں زہر پیدا ہو جاتا ہے پس درحقیقت کھانے کے قابل وہی گوشت ہوا ہے جو ذبح کئے ہوئے جانور کا ہو.خون بھی زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور صحت کے لئے مضر سؤر کا گوشت کئی عیب اپنے اندر رکھتا ہے اول تو سؤر کے گوشت میں بعض بیماری پائی جاتی ہیں.دوم یہ جانور طبعاً غلاظت پسند ہے سوم اس جانور میں ایک اخلاقی نقص ہے جو اور کسی جانور میں نہیں پایا جاتا پس اس کا استعمال جسمانی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے مضر ہے مگر چونکہ خوراج کی مضرتیں پوشیدہ ہوتی ہیں افسوس ہے کہ اب تک لوگ اس نقص کو محسوس نہیں کر سکے.مگرہم یقین کرتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں ہے جب اس جانور کو خوراک کے جانوروں میں سے بالکل نکال دیا جائے گا اور فطرت انسانی کو بے روک بڑھنے کا موقع دیا جائے گا.چوتھی چیز جو شرک کے طور پر ذبح کی جائے اور اس کے قربان کرنے کا باعث خدا تعالیٰ کے سوا او رہستیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہو.چونکہ اس میں خدائے وحدہٗ لا شریک کی ہتک کی جاتی ہے کہ اس کی صفات اور دوسری ہستیوں کو دی جاتی ہیں اس لئے اس کو استعمال کرنا انسان کو بے غیرت بناتا ہے بلکہ درحقیقت ایسے جانور کو کھانا دلی ناپاکی اور بے غیرتی کی علامت ہے پس اسلام نے اس کو بھی حرام کیا ہے.مذکورہ بالا چیزوں کے علاوہ جنہیں ممتاز طور پر بیان کیا گیا ہے اور بعض اشیاء بھی ممنوع قرار دی گئی ہیں اور ان کی مناعی کی حکمت بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے یعنی جسمانی یا اخلاقی
۲۶۱ نقصان.چنانچہ اسلام درندے جانوروں اور شکاری پرندوں اور اندھیرے اور غلاظت میں رہنے والے جانوروں او رحلال جانوروں میں سے غلاظت کا استعمال کرنے والے جانوروں کا گوشت منع کرتا ہے.پینے کی چیزوں میں سے شراب کو حرام فرمایا ہے کیونکہ یہ عقل پر پردہ ڈالتی اور باریک اعصاب کو جو ذہانت اور علم کو ترقی دینے والے ہیں صدمہ پہنچاتی ہیں اور گو اسلام اقرار کرتا ہے کہ شراب میں بعض فائدے بھی ہیں مگر فرماتا ہے کہ اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے اس لئے اس کو بالکل ترک کر دینا چاہئے.غرض اسلام نے اخلاق پر خوراک کےا ثر کو قبول کیاہے اور اس کو خاص قیود اور شرائط سے محدود اور مشروط کر کے اخلاق کے حصول کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے اور صرف وہی غذائیں استعمال کرنے کی اور اسی مناسبت سے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے جن سے اور جس حد تک ان سے اخلاق پر نیک اثر پڑتا ہے.تیسرا راستہ نیک اخلاق کے حصول کا اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ بچپن سے بچہ کے دل پر نیک باتوں کا اثر ڈالا جائے.درحقیقت اس نکتہ میں اسلام سب ادیان سے منفرد ہے.عام طور پر لوگوں نے یہ سمجھا ہوا ہے کہ شریعت کا اثر بچہ کے بالغ ہونے سے شروع ہوتا ہے.مگر اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بیشک جب بچہ بالغ ہو گا تبھی سے اس پر شریعت کی حجت ہو گی.مگر جو باتیں کہ عادت اور مزاولت سے تعلق رکھتی ہیں جب تک بچپن سے ان کی طرف بچہ کو توجہ نہ دلائی جائے گی وہ ان پر آسانی سے کاربند نہ ہو سکے گا اور ہمیشہ وہ اسے دوبھر معلوم ہوں گی.علاوہ ازیں اسلام ہمیں بچہ کی تربیت کا زمانہ وہ نہیں بتاتا جب بچہ کچھ ہوش والا ہو جاتا ہے بلکہ وہ ہمیں اس سے بہت پہلے لے جاتا ہے یعنی اس کی پیدائش کے وقت تک.چنانچہ اسلام حکم دیتا ہے کہ جس وقت بچہ پیدا ہو اسی وقت اس کے کان میں اسلام کے احکام جو اذان میں بیان ہیں ڈالے جائیں دائیں طرف بھی اور بہائیں طرف بھی اور اس میں علاوہ اور حکمتوں کے یہ حکمت بھی ہے کہ بعض دفعہ بچہ ایک کان سے بہرا ہوتا ہے پس دونوں طرف کان میں ان آوازوں کو ڈالنے سے وہ بہرحال سن لے گا سوائے اس صورت کے کہ وہ بالکل بہرا ہو.یہ حکم بظاہر ایک رسم معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس میں دو بڑے فوائد مخفی ہیں ایک تو والدین کو یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ پیدائش سے بچہ کے کان میں نیک باتیں ڈالنے لگیں اَور اس میں کیا شک ہے کہ جو والدین اسلام کے حکم کی حقیقت کو سمجھیں گے وہ بچہ کی تربیت کو اس کی
۲۶۲ پیدائش کے زمانہ سے ہی شروع کریں گے.یہ بالکل عقل کے خلاف ہو گا کہ وہ اس کے پیدا ہونے پر تو اس کے کان میں اسلام کے احکام ڈالیں لیکن پھر جب وہ بڑھنا شروع کرے تو اسے چھوڑ دیں حتیٰ کہ سال گذرنے پر پھر اس کی تربیت شروع کریں.بچہ ہر روز عقل میں ترقی کرتا ہے جس بچہ کو پیدائش کے وقت نیک باتوں کی تلقین کرنے کاہمیں حکم دیا گیا ہے اس کو بعد میں تلقین کرنے کا حکم پہلے سے بھی زیادہ سخت ہونا چاہئے پس اس حکم میں درحقیقت والدین کو نصیحت ہے.دوسرا اہم فائدہ اس حکم میں یہ ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ بچہ میں سمجھنے کی عقل تدریجی ہے اور اس کا زمانہ پیدائش سے شروع ہوتا ہے.درحقیقت وہ حالت جس کو لوگ سمجھ اور ہوشیاری کی حالت کہتے ہیں وہ یکدم کہیں سے نہیں آ جاتی وہ اسی علم سے پیدا ہوتی ہے جو بچہ پیدائش کے وقت سے جمع کر رہا تھا اوراس کے دماغ پر سے کوئی اثر اس کی پیدائش کے وقت مٹتا نہیں بلکہ نقش رہتا ہے اور خود گو بھلایا جائے مگر اپنا ورثہ عقل اور فہم کی صورت میں انسان کے پاس چھوڑ جاتا ہے.چنانچہ تجربہ اس امر پر شاہد ہے کہ بعض ایسے واقعات معلوم ہوتے ہیں کہ بعض آدمیوں پر اعصابی کمزوری کا حملہ ہو کر وہ خود رفتہ ہو گئے اور انہوں نے ایسی زبانیں بولنی شروع کر دیں جو ان کو معلوم نہ تھیں.سننے والوں نے اس کو غیر معمولی قرار دیا مگر آخر معلوم ہوا کہ وہ جو کچھ بولتے تھے وہ چند سنی ہوئی باتیں تھیں جو انہوں نے نہایت بچپن کی حالت میں جبکہ وہ پنگھوڑے میں پڑے ہوئے تھے ان زبانوں کے بولنے والوں سے سنی تھیں.جب دماغ کے حصہ موثرہ میں نقص پیدا ہو گیا تو حصہ متاثرہ کام کرنے لگا اور اس کے پرانے نقش سامنے آ نے لگ گئے.غرض اسلام کی یہ تعلیم نہایت ہی حکمت پر مبنی ہے اور اس پر عمل کر کے دنیا کے اخلاق کی درستی نہایت عمدگی سے ہو سکتی ے.ساتواں دروازہ جو اسلام نے اخلاق کی درستی کے لئے تجویز کیا ہے وہ ان دروازوں کا بند کرنا ہے جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اسلام کے اصول کے مطابق بدی باہر سے پیدا ہوتی ہے ورنہ انسان کا دل نیک ہے یعنی انسان کو ایک ایسی ضمیر دی گئی ہے جو اس امر کو پسند کرتی ہے کہ نیکی کی بجائے اور بدی سے اجتناب کیا جائے.تمام کے تمام انسان خواہ وہ کسی مذہب و ملت کے ہوں وہ اسی فطرت کو لے کر آتے ہیں.مگر خالی اس طاقت سے انسان کا کام نہیں چل سکتا کیونکہ ضمیر تو صرف اس کو یہ بتاتی ہے کہ نیکی کر اور بدی سے بچ باقی سوال یہ رہ جاتا
۲۶۳ ہے کہ فلاں کام نیک ہے یا فلاں بد اس کا فیصلہ عقل کرتی ہے اور عقل کے فیصلوں کی بنیاد ان علوم پر ہوتی ہے جو انسان اپنے حواس کی معرفت حاصل کرتا ہے.پس اگر ان خارجی اثرات کے قبول کرنے میں انسان غلطی کر بیٹھے گا تو لازماً وہ نیکی او ربدی کی تعریف میں بھی غلطی کرے گا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی ضمیر بھی دھوکا کھائے گی اور چونکہ وہ نیک کاموں کو بد سمجھے گی ان پر اسے ملامت کرے گی اور چونکہ بد کو نیک سمجھے گی ان پر اس کی تعریف کرے گی.پس یہ ضروری ہے کہ ان بد اثرات کو جنہیں انسان قبول کرتا ہے روکا یا کم کیا جائے.اسی طرح جو فوری جوش انسان کو بدی کا پیدا ہوتا ہے اس کا محرک بیرونی ہوتا ہے اس کا روکنا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر وہ رک جائے تو پھر انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے.مثلاً ایک شخص شراب پیتا ہے وہ اسی وقت بے تاب ہوتا ہے جب لوگوں کو شراب پیتے ہوئے دیکھتا ہے یا ان چیزوں کو دیکھتا ہے جو شراب کے پینے یا رکھنے میں مستعمل ہوتی ہیں یا ان وقتوں پر اسے اس کا خیال آتا ہے جن وقتوں میں وہ شراب پیا کرتا تھا.اب اگر ایک شخص کو ایسی جگہوں سے الگ رکھا جائے اور ان چیزوں کو جو اسے شراب کی یاد دلائیں اس کے سامنے سے دور رکھا جائے تو یقیناً کچھ مدت میں اس کی عادت جاتی رہے اور یہ اپنے نفس پر قابو پا لے گا.اسلام نے اس حقیقت کو اپنے احکام میں مدنظر رکھ کر ایسے احکام دئیے ہیں جن سے ان راستوں کو بند کر دیا ہے جن سے بدی یا بدی کا خیال پیدا ہوتا ہے.مگر تعجب ہے کہ ایسا علم النفس کامسئلہ جس کے پیش کرنے سے اسلام نے دنیا پر اپنے احسانات میں مزید اضافہ کیا ہے لوگوں کی مخالفت کے بڑھانے کا سب سے بڑا آلہ ثابت ہوا ہے اور وہ لوگ بھی اس کی حقیقت کو ابھی نہیں سمجھے جو علم دوست اور سچائی کے متلاشی ہیں.ان تمام تعلیمات کابیان کرنا جن سے اسلام نے گناہ کے دروازوں کو بند کیا ہے مشکل امر ہے مگر میں چند مثالیں اس کی پیش کرتا ہوں.پہلی مثال اس قسم کے احکام کی وہ احکام ہیں جو اسلام نے عفت کے قیام کے لئے دئیے ہیں چنانچہ اسلام صرف دوسرے مذاہب کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تو زنا نہ کر کیونکہ زنا نہ کر کوئی ایسا حکم نہیں جس کے سننے کے ہم محتاج ہیں.سوال یہ ہے کہ کس طرح انسان زنا سے بچے؟ اسلام اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ تو اس گناہ کے دروازے بند کر کےا س سے بچ سکتا ہے اور وہ دروازے آنکھ، کان اور جلد ہیں، کیونکہ زنا کی تحریک انسان کو انہی دروازوں سے ہوتی ہے.جب کوئی
۲۶۴ انسان حسن کو دیکھتا ہے یا حسن کی تعریف سنتا ہے یا خوبصورت آواز سنتا ہے یا ایک نرم اور ملائم جسم کو چھوتا ہے تو اگر وہ حسن یا اس کا ذکر یا آواز یا جسم اس کی خواہش کے مطابق ہوتا ہے تو اس کو اس کی طرف رغبت پیدا ہو جاتی ہے اور نتیجہ وہ انتہائی قرب ہوتا ہے جسے کُل دنیا کی عقلوں نے اخلاق اور سوسائٹی کے لئے ایک خطرناک زہر قرار دیا ہے پس اسلام نے اس دروازہ کو بند کرنے کے لئے حکم دیا ہے قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ () وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور:31-32) مومنوں کو کہہ دے اپنی آنکھوں کو نیچا رکھا رکیں اور ان تمام راستوں کی جن سے بدی کا خیال داخل ہوتا ہے حفاظت کیا کریں.یہ ان کے لئے بہت ہی نیکی پیدا کرنے کا موجب ہو گا.اللہ تعالیٰٰ اس کو خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں.اسی طرح مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچا رکھیں اور تمام ان راستوں کو جن سے بدی کا خیال داخل ہوتا ہے محفوظ رکھیں اور اپنی زنیت کو لوگوں پر ظاہر نہ کریں سوائے اس کے کہ خود بخود ظاہر ہو اور چاہئے کہ اپنی گردن سر اور منہ کو کپڑے سے ڈھانکیں اور اپنی زینت کو سوائے اپنے خاوندوں یا اپنے باپ دادوں یا اپنے خاوندوں کے باپ دادوں یا اپنی اولاد یا ااولاد کی اولاد یا اپنے خاوندوں کی اولاد یا ان کی اولاد یا اپنے بہائیوں یا اپنے بہائیوں کی اولاد یا بہنوں کی اولاد یا عورتوں یا غلاموں یا ایسے ملازم مردوں کے جو بالکل بوڑھے ہیں یا جن میں شہوانی مادے نہیں پائے جاتے.یا بچوں کے جو ابھی تک بقائے نسل کے تعلقات سے واقف نہیں کسی پر ظاہر نہ کریں اور چاہئے کہ ایسے طور پر پیر نہ ماریں کہ ان کی مخفی زینت اس سے ظاہر ہو اور اے مومنو! تم سب لوگ اللہ تعالیٰٰ کی طرف توجہ کرو تاکہ کامیاب ہو جاؤ.
۲۶۵ ان آیات میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان تمام راستوں کو مرد اور عورت بند کریں جن سے گناہوں کی تحریک انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.ان راستوں میں سے پہلا راستہ آنکھ ہے اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ نظر کو نیچا رکھیں.دوسرا راستہ کان ہے اس کے متعلق حکم دیا کہ عورت مرد اور مرد عورت کی آواز راگ وغیرہ کے طور پر نہ سنےاو ر بِلا وجہ اور بے تعلق عورتوں یا مردوں کے حسن کے قصے اور واقعات نہ سنیں.تیسرا راستہ جلد ہے اس کے متعلق حکم دیا کہ ایک دوسرے کو بِلا وجہ اوربِلا ضرورت طبعی چھوئیں نہیں چونکہ آنکھیں نیچی رکھنے کا فعل ایسا ہے کہ ایسے مقامات پر جہاں مرد اور عورت ضرورتاً جمع ہوتے ہوں جیسے کہ شارع عام ہے مشکل ہوتا ہے اس لئے عورتوں کو کہا کہ جب وہ باہر نکلیں تو اپنے سروں، سینوں اور منہ کے ایسے حصوں کو ڈھانپ لیں جو راستہ دیکھنے کے کام یا سانس لینے کے کام نہیں آتے.یہ احکام ایسے باحکمت ہیں کہ اگر کوئی بِلا تعصب اور بے تعلق ہو کر ان پر غور کرے تو ان کی خوبی کا اقرار کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ ان سے بدیوں کا قلع قمع کر دیا گیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کے لوگوں پر بوجہ ان کی عادت اور قدیم رسوم کے یہ خیالات شاق گزرتے ہیں مگر ان کی حیرت اور گھبراہٹ صرف اور صرف عادات اور رسوم کے سبب سے ہے ورنہ ان احکام پر عمل کرنا مرد اور عورت کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں.اسلام ہرگز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں.ابتدائے اسلام میں ہرگز مسلمان عورتیں ایسا نہیں کرتی تھیں بلکہ جنگوں میں شامل ہوتی تھیں زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں، علوم مردوں سے پڑھتی تھیں اور مردوں کو پڑھاتی تھیں، سواری کرتی تھیں ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی.صرف اس امر کا ان کو حکم تھا کہ اپنے سر، گردنیں اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو ڈھانپے رکھیں تا وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیں تو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام عملی کاموں سے الگ رہیں یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہوا ہے.جو پردہ آج کل مسلمانوں میں اکثر ممالک میں نظر آتا ہے یہ سیاسی پردہ ہے یعنی چونکہ بہت سے ممالک میں عورتوں کی عزت صرف روپیہ قرار دی گئی ہے جو عورت کی خطرناک ہتک ہے اس لئےمسلمانوں نے سیاستاً ایسے ممالک میں اپنے لئے بعض ایسی سیاسی قیدیں لگا لی ہیں جو ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کریں نہ اس لئے کہ ان کا مذہب ایسا حکم دیتا ہے
۲۶۶ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس حکم کو عورت کی ہتک کرنے والا خیال کرتے ہیں.مگر مجھے اس پر تعجب ہے اس لئے کہ پردہ آنکھیں نیچی رکھنے کے حکم کے لئے ایک ظاہری تدبیر ہے اور اس حکم میں مرد اور عورت دونوں کو شریک کیا گیا ہے.پس اگر ہتک ہے تو دونوں کی ہے نہ کہ عورت کی.کیونکہ حکم ایک کے لئے نہیں بلکہ دونوں کے لئے ہے.باقی رہا یہ سوال کہ عورت کو کیوں پردہ کے لئے کہا گیا ہے مرد کو کیوں نہیں کہا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام مرد اور عورت کے کام کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے عورت کا کام بچوں کی تربیت ہے اور مرد کا کام ان کے لئےسا مان معیشت بہم پہنچانا ہے.مرد کو اس کے کام کی نوعیت کی وجہ سے باہر رہنا پڑتا ہے پس مرد کا دائرہ عمل بازار اور سڑکیں ہیں اور عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہے اور شریعت نے ہر ایک کو اپنے دائرہ عمل کی جگہ میں آزاد کیا ہے اور دوسرے پر کچھ قیدیں لگا دی ہیں.مرد کو حکم ہے کہ جب وہ کسی کے گھر میں گھسے تو پہلے اجازت لے اور پھر جائے کیونکہ وہ عورتوں کی آزادی کی جگہ ہے.عورت کو باہر نکلنے پر مردوں سے اجازت لینے کا حکم نہیں دیا بلکہ صرف اس قدر احتیاط کر لینے کا حکم دیا ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت اسلام اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ جس طرح مرد گھر سے بے تعلق ہے اسی طرح عورت سڑکوں اور بازاروں سے بے تعلق نہیں اس لئے مرد پر اجازت کی شرط جو زیادہ سخت ہے لگائی گئی ہے اور عورت پر صرف اپنے ایک حصہ کو ڈھانک لینے کی.پس پردہ میں ہتک یا غیر ہتک کا کوئی سوال نہیں بلکہ اخلاق ترقی کا ایک زریں ذریعہ ہے اور اس کی مخالفت صرف بوجہ عادات اور رسوم ہے ورنہ میں نے ایسی عورتیں دیکھی ہیں جنہوں نے پردہ شروع کر دیا ہے اور وہ اس میں کوئی بھی تکلیف یا بے آرامی محسوس نہیں کرتیں.سوائے ابتدائی چند دنوں کی شرم یا بے آرامی کے جو طبعاً ہونی چاہئے.دوسری مثال بدی کے رستے بند کرنے کی شریعت اسلام کا میانہ روی کا حکم ہے یہ بات ظاہر ہے کہ طبعی جذبات کے کُلّی طور پر روک دینے سے وہ بغاوت کرتے ہیں اور آخر سب روکوں کو توڑ دیتے ہیں.طبعی جذبات کی مثال بالکل اس دریا کی ہے جس میں کبھی کبھی پانی اس کے پھیلاؤسے زیادہ ہو جاتا ہے.اگر ہم بند کر لگا کر اس پانی کو استعمال کر لیں تو یہ پانی ہمارے لئے فائدے کا موجب ہو جاتا ہے اگر یہ نہ کریں تو آخر وہ بے موقع ٹوٹتاہے.اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مسلمان کو اپنے تمام کاموں میں میانہ روی کی عادت ڈالنی چاہئے.یہ نہیں کہ ایک ہی طرف کا ہو جائے اگر
۲۶۷ وہ ایک طرف کا ہو جائے گا تو ضرور اس کے طبعی جذبات زور کر کے کناروں پر سے بہہ پڑیں گے مثلاً یہ کہ رہبانیت اختیار کرے یا اپنے سب مال لوگوں میں تقسیم کر دے اور اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی ضرورت کے لئے کچھ نہ رکھے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے شہوانی جوش کسی قت اس کو اس کے پاؤں پر سے اٹھا کر لے جاویں گے اور یہ حلال طریق کو چھوڑ کر حرام میں مبتلاء ہو گا.یا یہ ہو گا کہ اس کی ضروریات خور و نوش چونکہ سب مال کے لٹا دینے سے باطل نہیں ہو جائیں گی یہ اپنا مال لٹا کر یا سوال کرنے پر مجبور ہو گا جو بذات خودناپسند ہے اور یا پھر چوری اُچکّا پن کی طرف مائل ہو گا اور بجائے نیکی میں ترقی کرنے کے گناہ کا مرتکب ہو گا.پس شریعت اسلام نے یہ حکم دے کر کہ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا(البقرة:144) ہم نے تمہیں ایسی قوم بنایا ہے جس کے سب کام میانہ روی پر مبنی ہیں ان دروازوں کو جو گناہ کے ہیں بند کر دیا ہے.ایک راستہ بدی کا رسم اور عادات ہیں بہت سی بدیاں انسان اس وجہ سے کرتا ہے اور اسے اس کی عادت کے پورا کرنے کا سامان نہیں ملتا یا رسوم کی وجہ سے وہ بدی کرنے پر مجبور ہوتا ہے مثلاً اس کے پاس روپیہ کافی ہوتا نہیں اور ملک کی رسم چاہتی ہے کہ خاص قسم کا لباس پہنے وہ اس رسم کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے بدی اور گناہ سے روپیہ کماتا ہے.اسلام نے ان دونوں راستوں کو بند کر دیا ہے رسموں کو بھی اور عادتوں کو بھی.عادتوں کو تو اس طرح کہ جس قدر کھانے پینے کی چیزیں ایسی ہیں کہ وہ عادی بنا دیتی ہیں ان کو منع فرما دیا ہے.چنانچہ شراب اس کی پہلی مثال ہے جو بطور نظیر کے ہے ورنہ ہر اک چیز جو نشہ پیدا کرتی یا انسان کی طاقت کو ساکن کر کے ایک لذت کی حالت پیدا کر دیتی ہے اور آخر انسان کو اپنا عادی بنا لیتی ہے ان سے اسلام منع کرتا ہے.رسوم کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ ایک بوجھ ہیں جن کو قومی خوف کی وجہ سے انسان اٹھاتا ہے ورنہ وہ بوجھ طاقت سے بڑھ کر ہیں کیونکہ ان میں غریب اور امیر مقروض اور آزاد کالحاظ نہیں رکھا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اپنی خیالی عزت کی حفاظت اور اپنے ہم چشموں میں ذلیل نہ ہونے کی غرض سے گناہ اور بدی میں مبتلاء ہوں اور ظاہر کی خاطر باطن کو تباہ کر لیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰٰ رسول کریم ﷺ کی آمد کی ایک غرض ہی یہ بیان فرماتا ہے کہ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ(الأَعراف:158) یہ نبی حکم دیتا ہے اچھی باتوں کا اور روکتا ہے بری باتوں سے یعنی کامل شریعت لایا ہے.پھر فرماتا ہے یہ رسول کریم ﷺ حلال
۲۶۸ کرتا ہے پاک اور نفع رساں چیزوں کو اور حرام قرار دیتا ہے ان چیزوں کو جو بے فائدہ ہیں.یعنی اس کی شریعت بطور چٹّی اور سزا کے نہیں بلکہ ہر اک حکم اپنے اندر کوئی نفع یا ازالۂ ضرر رکھتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ جن کو یہ اتار ہی نہ سکتے تھے اگر اتارتے تو سزا ملتی اتارتا ہے یعنی رسوم جو کہ بوجھ بھی ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے انسان ان کو اتار نہیں سکتا کیونکہ جانتا ہے کہ قوم ناراض ہو جائے گی اوررہنا بھی مشکل ہو جائے گا.پھر فرماتا ہے کہ اور یہ رسولؐ وہ طوق اتارتا ہے جو انہوں نے پہنے ہوئے تھے یعنی ان عادات کو دور کرتا ہے جو بطور رسم کے تو نہ تھیں لوگ تو ان کے ترک کرنے پر سزا نہیں دیتے تھے مگر یہ خود ان کواتارنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے کس طرح ایک ایسی قوم میں سے جو شراب کی ایسی عادی تھی کہ آدھی رات کو اٹھ کر شراب پینا شروع کرتی تھی اور عشاء کے وقت تک شراب پیتی ہی جاتی تھی ایک حکم سے شراب کو مٹا دیا اور اس طرح مٹایا کہ پھر شراب نے بطور قومی شربت کے قدم نہ رکھ.اب اس وقت سائنس نے اس کی مضرتوں کو بہت ہی واضح کر دیا ہے اور عام طور پر ڈاکٹر اس کے مخالف ہوتے جاتے ہیں مگر پھر بھی بعض حکومتیں باوجود سخت کوشش کے اس کا رواج اچھی طرح نہیں مٹا سکیں.خلاصہ یہ کہ رسم اور عادات بھی گناہ کا مرتکب بنا دیتی ہیں.ایک شراب کو شراب، ایک افیونی کو افیون، ایک کوکین استعمال کرنے والے کو کوکین نہ ملے تو وہ بیسیوں جرم کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے جن پر وہ دسری کسی صورت میں بھی آمادہ نہ ہوتا.اوپرجو راستے گناہ کے بیان کئے گئے ہیں وہ بطور مثال کے ہیں مگر پھر بھی مضمون سمجھانے کے لئے کافی ہیں اس لئے چونکہ اخلاق کی تعلیم کے تمام ضروری پہلوؤں پر اجمالاً بحث ہو چکی ہے.اب اسلام کی اس تعلیم کے بیان کرنے کی طرف توجہ کرتا ہوں جو اس نے تمدن کے متعلق دی ہے.اسلام کی تعلیم تمدن کے متعلق: تمدن کے قوانین سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ قوانین مراد ہیں جن کے ذریعہ سے ان بنیادوں
۲۶۹ کو قائم کیا جائے جو سوسائٹی کے بنانے کے لئ ےضروری ہیں اور پھر وہ حقوق مراد ہیں جو بنی نوع انسان کو ایسے امور میں حاصل ہیں جن میں ان کے فوائد متحد ہیں اور اسی طرح وہ فرائض جو بنی نوع انسان کی مشترک ترقی کے لئے افراد کے ذمہ لگائے گئے ہیں.میں جب غور کرتا ہوں تو میرے نزدیک تمدن اخلاق کے ہی ایک حصہ کو جامۂ عمل پہنانے کا نام ہے.اخلاق اور تمدن میں درحقیقت یہی فرق ہے کہ علم اخلاق تو افراد کی پاکیزگی سے بحث کرتا ہے اور علم تمدن قومی پاکیزگی سے بحث کرتا ہے گویا اخلاق کا وہ نقطہ جو فرد سے وابستہ ہے ہم اسے اخلاق سے موسوم کرتے ہیں اور خلاق کا ہو نقطہ جو مجموعۂ افراد سے تعلق رکھتا ہے ہم اسے تمدن کہہ لیتے ہیں.جب ہم اخلاق کا ذکر کرتے ہیں تو ہم گویا یہ بحث کرتے ہیں کہ انسان کو اپنے نفس کو پاک بنانے کے لئے کیا اعمال کرنے چاہئیں؟ اور جب ہم تمدن کا ذکر کرتے ہیں تو گویا ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ مختلف افراد آپس میں محبت سے رہنے اور بحیثیت قومی، ترقی کرنے کے لئے کس طرح معاملہ کریں؟ پس صرف فرق یہ ہو گا کہ اول الذکر موقع پر ہم صداقت کی حقیقت پر بحث کریں گے اور ثانی الذکر موقع پر ہم اس صداقت کو مختلف افراد کے متعلق استعمال کرنے کے طریق پر بحث کریں گے.اس مفہوم کو بیان کر دینے کے بعد جو میں تمدن کا سجھتا ہوں میں اسلام کی تعلیم تمدن کے متعلق بیان کرتا ہوں.سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے علاوہ مختلف جگہ پر تمدن کے احکام بیان کرنے کے تمدن کے متعلق ایک مکمل سورۃ اتاری ہے جو مختصر مگر تمدن کی اقسام کے بیان کرنے اور اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلانے پر مشتمل ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری سورۃ یہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک آخری ترقی انسان کی جسمانی ضروریات کے متعلق تمدن میں درستی ہی ہے.اس سورۃ میں قرآن کریم میں تمدن کو اللہ تعالیٰٰ کی تین صفات کے ماتحت تین قسموں میں تقسیم کیاہے سب سے پہلے قسم تمدن کی اہلی تعلقات بیان کی ہے جو خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے ماتحت ہے.اس میں خاندان اور قوم کے تعلقات پر بحث اور ان کے آپس کے فرائض کو بیان کیا جاتا ہے.اہلی تعلقات میں وہ رشتہ داریاں بھی شامل ہیں جو نسبی یا صہری تعلقات کے سبب سے ہوتی ہیں اور وہ برادرانہ تعلقات بھی شامل ہیں جو بوجہ ایک ملک اور ایک علاقہ میں رہنے کے پیدا ہو جاتے ہیں.
۲۷۰ دوسری قسم تمدن کی بادشاہت اور ملکیت کے تعلقات کا بیان ہے یہ قسم بادشاہ اور رعایا او رمالک اور نوکر کے تعلقات پر بحث کرتی ہے اور یہ صفت خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کے ماتحت ہے.تیسری قسم تمدن کی یہ بیان کی ہے کہ ایک ملک کا دوسرے ملک سے اور ایک مذہب کا دوسرے مذہب سے کیا تعلق ہو اور کن قواعد پر ان کی بنیاد ہو؟ یہ قسم اللہ تعالیٰ کی صفت الوہیت کے ماتحت ہے.صفت ربوبیت خاندان اور برادری کے تعلقات پر روشنی ڈالتی ہے صفت مالکیت بادشاہت اور ملکیت پر روشنی ڈالتی ہے اور صفت الوہیت تمام بنی نوع انسان کے تعلقات اور مذہبی تعلقات پر روشنی ڈالتی ہے.اب میں تینوں اقسام کے متعلق اسلام کے الگ الگ احکام بیان کرتا ہوں.پہلا تعلق بقائے نسل کے قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں بیوی کا معلوم ہوتا ہے اس تعلق کی درستی پر خاندان کی اصلاح کا بہت کچھ دار و مدار ہے اور خاندانی تعلقات پر قومی تعلقات کا دار و مدار ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ وسیع ہوتا چلا جائے گا.اسلام میاں بیوی کے تعلق پر پہلی بحث تو یہ کرتا ہے کہ اس تعلق کی بناء اخلاق پر ہونی چاہئے نہ کہ ظاہری حسن و شکل پر یا مال و دولت پر.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے نکاح سے پہلے تقویٰ کا خیال کر لو اور آئندہ جس قسم کی اولاد اس تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہو گی اس پر غور کر لو.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں تنکح المرأۃ لاربع لمالھا و لحسبھا و جمالھا و لدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک.کوئی شخص تو حسب کی خاطر نکاح کرتا ہے کوئی نسب کی خاطر، کوئی خوبصورتی کی خاطر، کوئی مال کی خاطر اے مسلمان! خدا تجھے سمجھ دے تو دیندار اور نیک عورت سے شادی کیجیو.کیسی پاکیزہ تعلیم ہے اگر شادی کرتے وقت اس امر کو مدنظر نہ رکھا جائے کہ عورت یا مرد کا دماغ اور طبعی میلان اور ذہانت کیسے ہیں تو اول تو باہمی تعلقات ہی ٹھیک نہیں رہیں گے جس سے تمدن خراب ہو گا.دوسرے اولاد کبھی اچھی نہ پیدا ہو گی کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ کی ذہانت اور ان کے افکار کا اثر اولاد پر ضرور پڑتا ہے.ہوشیار ماں باپ کے لڑکے ہوشیار پیدا ہوتے ہیں اور بیوقوف ماں باپ کے بچے بیوقوف پیدا ہوتے ہیں چنانچہ یوجنکس (EUGENICS.علم اصلاح نوع انسانی) کے علم نے تو اب اس مضمون پر بہت کچھ
۲۷۱ روشنی ڈال دی ہے اور گو میرے نزدیک اس علم کے ماہرین استنباط نتائج میں حد سے بہت ہی بڑھ گئے ہیں لیکن پھر بھی اس حد تک ان کی بات درست ہے اور اسلام ان کی تاید کرتا ہے کہ ماں باپ کی دماغی قابلیتوں اور ان کے خیالات کا اثر ایک حد تک اولاد پر ضرور پڑتا ہے پس اس وجہ سے خاوند اوربیوی کا انتخاب ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے.پس شریعت اسلام نے پہلی بنیاد تو تمدن کی یہ رکھی کہ نکاح میں عقل اور فہم اور ذکا کو خوبصورتی اور مال اور خاندان پر ترجیح دیدی.میرا یہ مطلب نہیں کہ اسلام حسب نسب یا مال یا خوبصورتی کو بالکل ہی نظر انداز کرتا ہے بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ اسلام ان کو اصل مقصود قرار نہیں دیتا.اگر کوئی عورت مرد دیانتداری سے محض ذہانت اور اخلاق اور دین کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی خوبصورتی اور مال اور حسب و نسب بھی مل جاتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے مگر یہ امور مقصود نہیں ہونے چاہئیں.اگر شادیاں اس اصل پر ہونے لگیں تو ملک کی اخلاقی حالت کی درستی کے علاوہ آئندہ نسلیں نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی پیدا ہوں.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ علاوہ اسکے کہ میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کی نسبت تسلی کر لیں عورت کے رشتہ دار بھی تسلی کر لیں کہ واقع میں مرد ایسے اخلاق کا ہے کہ اس سے رشتہ کرنا عورت کے لئے بھی اور آئندہ نسل کے لئے بھی مفید ہو گا اور نکاح کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ مرد کی پسند ہو عورت کی منظوری ہو اور عورت کے باپ یا بہائی جو خاندان کا بڑا مرد ہو اس کی منظوری ہو اور اگر کوئی مرد خاندان میں نہ ہو تو حاکم شہر اس امر کی تسلی کرے کہ کسی عورت کو کوئی شخص دھوکا دے کر تو شادی نہیں کرنے لگا.عورت اور مرد میں اس وجہ سے فرق رکھا گیا ہے کہ مرد طبعاً ایسے امور میں حیا کم کرتاہے اور خود دریافت کر لیتا ہے اور عورت شرم کرتی ہے اوراس کے احساسات تیز ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ جلد دھوکا میں آجاتی ہے.پس اس کے لئے اس کے خاندان کے بڑے مرد کی تحقیق اور منظوری یا ایسے کسی آدمی کی عدم موجودگی میں حاکم شہر کی منظوری ضروری رکھی ہے.اگر اس حکم پر عمل کیا جائے تو وہ بہت سے دھوکے اور فریب جو شریف الطبع اعتماد کرنے والی عورتوں سے کئے جاتے ہیں یک دم دو رہو جائیں.چونکہ اسلام میں پردہ کا حکم ہے اس لئے نکاح کے ابتدائی امور طے ہو جانے اور دیگر امور میں تسلی ہو جانے پر مرد اور عورت کو آپس میں ایک دوسرے کو کھلے طور پر
۲۷۲ دیکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ اگر شکل میں کوئی ایسا نقص ہو جو بعد میں محبت کے پیدا ہونے میں روک ہو تو اس کا علم مرد اور عورت کو ہو جائے.شادی کے ساتھ ہی شریعت اسلام نے عورت کے لئے علیحدہ جائداد کا انتظام کیا ہے اور اس کو شادی کا ایک ضروری جزو قرار دیا ہے اسے اسلامی اصطلاح میں مہر کہتے ہیں.اس کی غرض یہ ہے کہ عورت کی ایک علیحدہ جائداد بھی رہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو قائم رکھ سکے اور اپنے طور پر صدقہ دے سکے یا صلہ رحمی کر سکے.گویا مہر کے ذریعہ سے پہلے دن سے ہی مرد سے یہ اقرار کرا لیا جاتا ہے کہ عورت اس امر کی حقدار ہے کہ اپنی الگ جائداد بنائےاور خاوند کو اس کے مال پر کوئی تصرف نہیں ہو گا.پھر عورت کا یہ حق مقرر کیا ہے کہ خاوند عورت کو بِلا کسی کھلی کھلی بدی کے سزا نہیں دے سکتا.اگر سزا دینی ہو تو اس کے لئے پہلے ضروری ہو گا کہ محلہ کے چار واقف مردوں کو گواہ بنا کر ان سے شہادت لے کر عورت واقعہ میں خلاف اخلاق افعال کی مرتکب ہوئی ہے.اس صورت میں بے شک سزا دے سکتا ہے.مگر وہ سزا تدریجی ہو گی چنانچہ فرمایا وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا.وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا(النساء:35-36) پہلے وعظ.اگر وہ اس سے متأثر نہ ہو تو کچھ عرصہ کے لئے اس سے علیحدہ دوسرے کمرے میں سونا.اگر اس کا اثر بھی عورت پر نہ ہو تو گواہوں کی گواہی کے بعد بدنی سزا کا دینا.جس کے لئے شرط ہے کہ ہڈی پر چوٹ نہ لگے اور نہ اس مار کا نشان پڑے.اور یہ بھی شرط ہے کہ سزا صرف فحش کی وجہ سے دی جاتی ہے نہ کہ گھر کے کام وغیرہ کے نقص کی وجہ سے.قطع تعلق کی صورت میں حکم ہے کہ وہ چار ماہ سے زیادہ کا نہیں ہو سکتا.اگر چار ماہ سے زیادہ کوئی خاوند اپنی بیوی سے الگ رہے تو اسے قانون مجبور کرے گا کہ عورت کے حقوق ادا کرے اور خرچ کی ادائیگی سے تو وہ ایک دن کے لئے بھی انکار نہیں کر سکتا.مرد پر فرض ہے کہ عورت کے کھانے پینے، پہننے اور مکان کی ضروریات مہیا کرے خواہ عورت مالدار اور مرد غریب ہی کیوں نہ ہو.اسی طرح مرد کو حکم ہے کہ عورت سے محبت اور پیار کا معاملہ کرے نہ حکومت اور سختی کا بلکہ قرآن کریم نے فرمایا کہ عورتوں سے صلح ہو یا جنگ دونوں صورتوں میں احسان کا ہی معاملہ کرو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا استوصوا بالنساء خیرًا
۲۷۳ عورتوں سے نیک معاملہ کرنے کے متعلق میری نصیحت کو یاد رکھو.اسی طرح فرمایا لا یفرک مومن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی منھا اٰخر خاوند اپنی بیوی سے نفرت نہ کرے اس وجہ سے کہ اس میں کوئی عیب ہے کیونکہ اگر اس میں کوئی عیب ہے تو کوئی خوبی بھی ہے.اسی طرح آپ نے فرمایا عورت کا حق اس کے خاوند پر یہ ہے کہ وہ جیسا کپڑا خود پہنے ویسا اسے پہنائے اور جیسا کھانا خود کھائے ویسا اسے کھلائے اور یہ کہ اسے گالی نہ دے اور اس سے الگ جا کر نہ رہے.پھر فرمایا کہ کسی مرد کے لئے جائز نہیں کہ دن رات عبادت یا دوسرے کاموں میں مشغول رہے اور اپنی بیوی کے حقوق کو نظر انداز کر دے.اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے وقت میں سے ایک حصہ اپنی بیوی کے لئے بھی فارغ کرے.اسی طرح فرمایا کہ خیارکم خیارکم لنساءھم تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں ان کے بالمقابل عورت کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے خاوند کی فرمانبردار رہے.اس کے مال کو ضائع ہونے سے بچائے.اس کی عزت کی حفاظت کرے اس کی اولاد کی اچھی طرح پرورش کرے.اگر عورت مرد کے تعلقات کسی وقت بگڑ جائیں تو حکم ہے کہ جس قدر ہو سکے صلح کی کوشش کریں.اگر آپس میں صلح نہ ہو سکے اور فساد بڑھتا ہی جائے تو اسلام کہتا ہے کہ ایک حَکم مرد کے عزیزوں یا عزیز نہ ہوں تو دوستوں میں سے، ایک عورت کے عزیزوں یا عزیز نہ ہوں تو اس کے خیر خواہوں میں سے مقرر کیا جائے دونوں مل کر نا اتفاقی کی وجوہ پر غور کریں.اگر ان کے نزدیک صلح ممکن ہو تو ان تجاویز کے ذریعہ سے جو ان کے ذہن میں ہوں صلح کرانے کی کوشش کریں اگر ان کے نزدیک صلح کی کوئی صورت ممکن نہ ہو یا ان کی تجاویز ناکام ہو جائیں تو پھر مرد کو اجازت ہو گی کہ وہ عورت کو طلاق دے دے یعنی اپنے نکاح کے فسخ کرنے کا اعلان کر دے اس اعلان فسخ نکاح کے لئے بھی شرائط مقرر ہیں مثلاً علی الاعلان ہو.اسی طرح پسند کیا گیا ہے کہ ایک ایک ماہ کے بعد تین دفعہ کر کے ہو تاکہ شاید اس عرصہ میں پھر دل درست ہو جائیں تو صلح کر لیں جس کا دروازہ آخری اعلان تک کھلا رکھا گیا ہے.اگر عورت کو خاوند سے شکایت ہو اور وہ الگ ہونا چاہے تو جس طرح ان کے نکاح کے وقت اس کے سب سے قریبی مرد رشتہ دار یا حاکم کی وساطت ضروری رکھی گئی تھی اس موقع پر بھی یہ شرط مقرر کی گئی ہے کہ وہ حاکم وقت کی وساطت سے خاوند سےعلیحدہ ہو.اگر حاکم دیکھے کہ اس کا
۲۷۴ دعویٰ حق بجانب ہے تو حکمًا خاوند سے اس کو الگ کر دے.جدائی کے متعلق یہ احکام ہیں کہ اگر خاوند نے کوئی جائداد عورت کو دی ہوئی ہے تو اگر طلاق اس کی طرف سے ہے تو وہ اپنے دئیے ہوئے مال کو بیوی سے واپس نہیں لے سکتا اور اگر حَکم طلاق کا فیصلہ کریں اور ان کے نزدیک قصور عورت کا ہو تو وہ اس سے ایک حصہ مال کا خاوند کو واپس دلا سکتے ہیں اور اگر عورت خود الگ ہونا چاہے تو قاضی اس سے ایسی کوئی جائداد جو خاوند نے اس کو دی تھی اور وہ اب تک موجود ہے خاوند کو واپس دلا دے گا.طلاق کی صورت میں جب تک مدت طلاق نہ گزر جائے خرچ اور مکان خاوند کے ذمہ ہو گا.عورت کے حقوق کو محفوظ کرنے کے لئے یہ بھی شرط لگا دی کہ اس کے رشتہ دار نکاح سے پہلے کوئی رقم نکاح کی شرط میں نہیں لے سکتے تا ایسا نہ ہو کہ عورتوں کے نکاح کے متعلق جو ان کو منظوری کا حق دیا گیا ہے وہ اس کو ناجائز طور پر استعمال کریں.چونکہ کئی مجبوریاں ایسی پیش آ جاتی ہیں جیسے بقائے نسل یا بقائے صحت یا ضروریات سیاسی وغیرہ جن میں سے ایک سے زیادہ شادیوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں کی بھی اجازت دی ہے مگر شرط یہ ہے کہ بیویوں میں انصاف قائم رکھا جائے.لباس میں، خوراک میں، جیب خرچ میں، تعلقات و سلوک میں بیویوں سے بالکل یکساں برتاؤ ہو.باری ایک ایک عورت کے پاس خاوند رہے اور اگر ایسا نہ کرے تو رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کا حال ایسا ہی ہو گا کہ گویا وہ آدھے دھڑ کے ساتھ اٹھا ہے.کثرت ازدواج پر عام طور پر اعتراض کیا جاتا ہے اور اسی طرح طلاق پر، لیکن عجیب بات ہے کہ مغرب طلاق کی وجہ سے خدا کے مقدسوں کو پانچ چھ سو سال گالیاں دینے کے بعد اس بات کا قائل ہو رہا ہے کہ طلاق کی بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ملک کا تمدن برباد ہو رہا ہے.کاش کہ وہ پہلے ہی سوچتا اور خدا کے برگزیدوں پر اعتراض کا خنجر نہ چلاتا اور کم سے کم بد کلامی نہ اختیار کرتا تا آج کی شرمندگی کا دن اسے میسر نہ آتا مگر افسوس ہے کہ یورپ اب بھی اسلام کے قانون کو جس میں سب پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے ایک طرف طلاق کو جس قدر ہو سکے روکا گیا ہے اور دوسری طرف آخری علاج کے طور پر اس کی اجازت بھی دی گئی ہے اختیار نہیں کرنا چاہتا اور خدا کی بات کو چھوڑ کر خود نئے قوانین بنانا چاہتا ہے جس کا نتیجہ ابھی سے خراب نکلنا شروع ہو گیا ہے اور طلاق کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی سے نکاح کا وہ تقدس جو اہلی
۲۷۵ زندگی کی روح رواں ہے برباد ہو رہا ہے اور خطرہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ بنیاد کھوکھلی ہو کر اوپر کی عمارت کو بھی صدمہ پہنچا دے.اب رہا کثرت ازدواج کا مسئلہ اس کی طرف ابھی تک مغرب نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی لیکن آخر اس کو ایسا کرنا پڑے گا کیونکہ قدرت کے قوانین کا مقابلہ دیر تک نہیں کیا جا سکتا.لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک عیاشی کا ذریعہ ہے لیکن اگر اسلام کے احکام پر غور کیا جائے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ عیاشی نہیں بلکہ قربانی ہے اور قربانی بھی عظیم الشان قربانی.عیاشی کسے کہتے ہیں؟ اسی کو کہ انسان اپنے دل کی خواہش کو پورا کرے مگر اسلامی احکام کے ماتحت ایک سے زیادہ شادیوں میں دل کی خواہش کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟ اسلام حکم دیتا ہے کہ ایک بیوہ خواہ کتنی بھی پیاری ہو اس کے ساتھ ظاہری معاملہ میں فرق نہ کرو.تمہارا دل خواہ اسے عمدہ کھانا کھلانے یا اس کے پاس نوکر رکھ دینے کو چاہتا ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتے جب تک کہ ایسا ہی سلوک دوسری بیوی سے نہ کرو.تمہارا دل خواہ ایک بیوی کے گھر کتنا ہی رہنے کو چاہتا ہو مگر اسلام کہتا ہے کہ تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتے جب تک اسی قدر تم دوسری بیوی کے پاس نہ رہو یعنی برابر کی باری مقرر کرو.پھر تمہارا دل ایک بیوی سے خواہ کس قدر ہی اختلاط کو چاہتا ہو.اسلام کہتا ہے بے شک تم اپنے دل کی خواہش کو پورا کرو مگر اسی طرح تمہیں اپنی دوسری بیوی کے پاس جا کر بیٹھنا ہو گا.غرض سوائے دل کے تعلق کے جو کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا سلوک، معاملہ، امداد، خیر خواہی کسی امر میں فرق کرنے کی اجازت نہیں ہے کیا یہ زندگی عیاشی کی کہلا سکتی ہے یا یہ قوم اور ملک کے لئے یا ان فوائد کے لئے جن کے لئے دوسری شادی کی جاتی ہے ایک قربانی ہے اور قربانی بھی کتنی بڑی قربانی؟ کیسا دکھ اور صدمہ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ جو لوگ اسلامی احکام سے ایک ذرہ بھر بھی واقفیت نہیں رکھتے وہ صرف یہ سن کر کہ رسول کریم ﷺ نے ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں یہ اعتراض کر بیٹھے ہیں کہ آپ کے اخلاق نعوذ باللہ بعد میں آکر خراب ہو گئے تھے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے ملک اور قوم کی بہتری کے لئے شادیاں کیں اورآپ کے انصاف کا حال پڑھ کر انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.چنانچہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ آپ کو عدل کا اس قدر خیال تھا کہ آپ مرض کے شدید بخار کی حالت میں دو آدمیوں کے کاندھے پر ہاتھ
۲۷۶ رکھ کر جب کہ آپ کے پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے ایک بیوی کے گھر سے دوسری بیوی کے گھر جاتے تھے.حتیٰ کہ وفات سے چند دن پہلے آپ کی بیویوں نے درخواست کی کہ آپؐ کو تکلیف ہوتی ہے آپؐ ایک ہی گھر میں آرام سے رہیں اور خود ہی انہوں نے عائشہؓ کا گھر تجویز کیا.بعض ایک سے زیادہ شادیوں کو ظلم قرار دیتے ہیں مگر یہ ظلم نہیں کیونکہ ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں جب شادی نہ کرنا ظلم ہو جاتا ہے.ایک عورت جو پاگل ہو جائے، کوڑھی ہوجائے، یا اس کی اولاد نہ ہو اس وقت اس کا خاوند کیاکرے؟ اگر وہ دوسری شادی نہیں کرے گا اور کسی بدکاری وغیرہ میں مبتلاء ہو گا تو یہ اس کا اپنی جان اور سوسائٹی پر ظلم ہو گا اور اگر وہ کوڑھی ہےتو اپنی جان پر ظلم ہو گا اگر اولاد نہیں ہوئی تو قوم پر ظلم ہو گا اور اگر وہ پہلی عورت کو جدا کر دے تو یہ حد درجہ کی بے حیائی اور بے وفائی ہو گی کہ جب تک وہ تندرست رہی یہ اسکے ساتھ رہا اور جب وہ اسکی مدد کی سب اوقات سے زیادہ محتاج تھی اس نے چھوڑ دیا.غرض بہت سے مواقع ایسے پیش آتے ہیں کہ دوسری شادی جائز ہی نہیں کہ یہ بہت کمزور لفظ ہے بلکہ ضروری نہی بلکہ ایک قومی فرض ہو جاتا ہے.میاں بیوی کے تعلقات کے بعد اولاد پیدا ہوتی ہے جو تمدن کی گویا دوسری اینٹ ہیں اولاد کے متعلق اسلام نے یہ حکم دیا کہ ان کی عمدگی سے پرورش کی جائے.والدین پر ان کا پالنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا فرض ہے ان کو خرچ کی تنگی کی وجہ سے مار دینا جیسا کہ وحشی قبائل میں روج تھا، بصورت لڑکیوں کے بوجہ تکبر کے مار دینا جیسا کہ کئی جنگی قوموں میں دستور تھا منع ہے.اولاد کی پیدائش کے متعلق حکم دیا کہ خاوند اگر چاہے کہ اسکے اولاد نہ ہو تو اس کے لئے عورت سے اجازت لینا ضروری ہو گا بغیر عورت کی اجازت کے اولاد کو روکا نہیں جا سکتا.پھر فرمایا کہ بچوں کو علم اور اخلاق سکھائے جائیں اور بچپن سے ان کی تربیت کی جائے تاکہ وہ بڑے ہو کر مفید بن سکیں.اولاد کے درمیان یکساں سلوک کرنے کا حکم دیا.بچپن میں ان کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق سلوک تو خیر اور بات ہے مگر جب وہ بڑے ہو جائیں تو حکم دیا کہ جو تحفہ دے وہ سب کو دے ورنہ کسی کو نہ دے.اولاد کو تربیت کی خاطر اگر مارنا پڑے تو حکم دیا کہ منہ پر نہ مارے کہ تمام آلاتِ حواس اس میں جمع ہیں اور ان کے نقصان سے بچہ کی آئندہ زندگی پر اثر پڑتا ے.لڑکیوں کی تربیت کے متعلق خاص حکم ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس کے گھر میں
۲۷۷ لڑکی پیدا ہو اور وہ اس کی اچھی طرح تربیت کرے تو اسکا یہ کام اس کو آگ سے بچانے والا ہو گا.یعنی لڑکیوں کی اچھی طرح تربیت کرنی اور ان سے حسن سلوک کے سبب سے اللہ تعالیٰ اس سے اچھا معاملہ کرے گا.اسی طرح آپؐ نےفرمایا جس شخص کے ہاں لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہوں یا اس کے ذمے بہائیوں یا بہنوں کی پرورش ہو اور وہ ان کو علم سکھائے اور اچھی طرح ان کی ضروریات زندگی کا انتظام کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس شخص کو جنت دے گا.یعنی وہ اس کام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید فضل کو جذب کرے گا نہ یہ کہ خواہ اور کوئی بدی کرے اس کا اثر اس کی روحانیت پر کوئی نہ ہو گا.اسی طرح فرمایا جس کے گھر لڑکی ہو اور وہ نہ اسے قتل کرے نہ اسے ذلیل کر کے رکھے نہ لڑکوں کو اس پر فضیلت دے تو خدا تعالیٰ اسے جنت دے گا.اولاد کی صحت کاخیال رکھنے کا خاص حکم دیا ہے رسول کرم ﷺ فرماتے ہیں اے لوگو! اپنے بچوں کو مخفی طور پر قتل کرو کیونکہ مرد کا عورت سے ایام رضاعت میں ملنا جوانی میں جا کر بچے کے قویٰ کو نقصان دیتا ہے یعنی ان دنوں میں اس کا اثر خاص طور پر ظاہر ہوتا ہے.اس ارشاد سے ایک عام قانون بچہ کی صحت کے خیال کا نکلتا ہے کیونکہ اس غرض کے لئے اگر شہوات طبعیہ کو روکنا پسند کیا گیا ہے تو دوسری قربانیاں تو اس سے ادنیٰ ہی ہیں.اہلی زندگی میں ایک سوال ورثہ کا ہے اس میں اسلام نے ایسی مکمل تعلیم دی ہے کہ تمام غیر متعصب لوگ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اس کی خوبی اور اس کی حکمت کو تسلیم کرتے ہیں.اول تو اسلام نے ورثہ کے معاملہ میں عورتوں کو بھی حصہ دار مقرر کیا ہے دوسرے والدین کو حصہ دار مقرر کیا ہے سوم خاوند اور بیوی کو حصہ دار مقرر کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رشتہ دار عقلاً ضرور وارث ہونے چاہئیں.علاوہ مذکورہ بالا ہدایتوں کے شریعت اسلام حکم دیتی ہے کہ وارثوں کو ان کے ورثہ سے محروم نہ کیا جائے.پس کوئی شخص اپنے مال سے وارثوں کو محروم نہیں کر سکتا ہاں مرنے والے کو یہ حق دیا ہے کہ اپنے مال میں سے ایک ثلث وصیت کر دے اس سے زیادہ مال وصیت کرنے کا کسی کو حق نہیں کیونکہ اس سے وارثوں کی حق تلفی ہوتی ہے.مگر ساتھ ہی یہ حکم ہے کہ وصیت وارث کے حق میں نہیں کی جا سکتی وارثوںکو وہی حصہ ملے گا جو ان کے لئے مقرر ہو چکا ہے.غیر وارث کو حصہ دیا جا سکتا ے.عورت کا حصہ مرد سے اکثر حالتوں میں نصف رکھا ہے جن میں برابر رکھا وہاں خاص
۲۷۸ حکمتوں کے ماتحت کیا گیا ہے بعض لوگ اس فرق میں بے انصافی دیکھتے ہیں حالانکہ عورتوں کے حقوق اب تک بھی محفوظ نہیں ہیں صرف اسلام ہی ہے جس نے عورتوں کو پورے حق دلائے ہیں.اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے ماں پر خرچ کی کوئی ذمہ داری نہیں رکھی تمام اخراجات مرد پر رکھے ہیں.اس وجہ سے مرد کی مالی ذمہ داری بہ نسبت عورت کے بہت زیادہ ہوتی ہے پس وہ زیادہ حصہ کا مستحق ہے پس وہ زیادہ حصہ کا مستحق تھا.بچوں کی پرورش بیوی کی پرورش مرد کے ذمہ ہے عورت اگر نکاح کرے گی تو اس کا اور اس کی اولاد کا خرچ اس کے خاوند کے ذمہ ہو گا.اگر نہ کرے گی جسے اسلام پسند نہیں کرتا تو وہ اکیلی جان ہو گی مگر مرد اگر نکاح کرے گا اور اسی کا اسلام اسے حکم دیتا ہے تو اسے اپنی بیوی اور بچوں کا خرچ برداشت کرنا ہو گا پس مرد کا عورت سے دگنا حصہ مرد کی رعایت کے طور پر یا عورتوں کی ہتک کے طور پر نہیں ہے بلکہ واقعات کو مدنظر رکھ کر یہ حکم دیا گیا ہے اور عورتوں کو اس میں ہرگز نقصان نہیں بلکہ وہ شاید پھر بھی فائدہ میں رہتی ہیں.اولاد پر والدین کے حقوق اس طرح مقرر فرمائے ہیں کہ وہ اپنے والدین کی عزت کریں ان کی فرمانبرداری کریں اور جب وہ ناقابل ہو جائیں تو ان کی ضروریات کے کفیل ہوں اور ان کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچنے دیں.ان سے تُرشروئی سے پیش نہ آویں بلکہ ان کے لئے دعائیں کریں ا ور خدا تعالیٰ سے ان کی بہتری کے لئے عرض کرتے رہیں.بہائیوں کا بہائیوں پر یہ حق مقرر فرمایا ہے کہ وہ اپنے لاوارث بہائیوں کو پا لیں اور اسی طرح اگر بہائی لاوارث ہوں تو ان کے وارث بنیں.دوسرے رشتہ داروں پر بھی یہی حق مقرر کیا گیا ہے کہ اگر بہائی بھی نہ ہوں تو باپ کی طرف کے رشتہ دار، وہ نہ ہوں تو ماں کی طرف کے رشتہ دار پرورش کریں اور ان کے لا وارث مرنے کی صورت میں ان کے وارث ہوں.خاندان کے بعد محلہ دار اور ہم وطن لوگوں کے تعلقات ربوبیت میں شامل ہیں.ان کے متعلق اسلام حکم دیتا ہے کہ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (النساء:37) اور اپنے والدین سے نیک سلوک کرو اور یتامیٰ سے اور مسکینوں سے اور قریب کے ہمسایہ سے اور دور کے ہمسایہ سے اور شریک فی العمل سے اور مسافر سے اور غلاموں سے.تمدن کی اساس مختلف لوگوں کے نیک تعلقات ہی ہیں اور خصوصاً غرباء کی خبرگیری جو گویا پیچھے رہے ہوں بہائی ہیں.اسلام نے ان سب لوگوں کے حقوق کو بیان کر کے تعلقات کو نہایت
۲۷۹ مضبوط بنیاد پر قائم کر دیا ہے.یتیم وہ ہیں جن کے ماں باپ نہیں ان کی خبرگیری کی ذمہ داری سوسائٹی پر رکھی کہ مالداروں کو چاہئے کہ ان کو اپنے بچوں کی طرح پالیں.دوسری ذمہ داری یہ رکھی کہ مساکین جو بوجہ مال نہ ہونے کے کوئی کام نہیں کر سکتے ان کی مدد کریں اور ان کو کام کا موقع دیں اس کے بعد ان لوگوں کو لیا جو مالدار ہیں.یعنی ہمسائے خواہ قریب کے ہوں خواہ دور کے یعنی گھر ے پاس جن کا گھر ہو یا شہر کے دور حصوں میں رہنے والے ہوں یا یہ کہ کسی دوسرے ہمسایہ شہر کے باشندے ہوں ان کی نسبت فرمایا کہ ان سے نیک سلوک کرو تاکہ محبت بڑھے اور تعلقات مضبوط ہوں.پھر فرمایا کہ شریک فی العمل یعنی جو لوگ ساتھ ملازم ہوں یا تجارت یا پیشہ میں شریک ہوں ان کا بھی خاص حق ہوتا ہے ان کی بھی خاص مدد کرنی چاہئے.اگرچہ میں مزدوروں اور پیشہ وروں کی مجالس کا تو قائل نہیں ہوں جو میرے نزدیک صرف یورپ کے تمدن کا نتیجہ ہیں اگر اسلامی تمدن کے قوانین کی اتباع کی جائے تو بِلا ایسی انجمنوں کے مزدوروں کے حقوق احسن طور پر ادا ہو سکتے ہیں مگر میرے نزدیک ایک قسم کی مؤاسات اور مشارکت کا اس حکم سے ضرور پتہ ملتا ہے اور اسلام ہمیں حکم دیتاہے کہ ایک پیشہ یا ایک کام کرنے والوں کو آپس میں خاص طور پر تعاون اور مدد سے کام لینا چاہئے.سب سے آخر میں یہ حکم دیا کہ مسافر جو اپنے عزیز رشتہ داروں سے دور ہے اس سے نیک سلوک بھی تمہارا فرض ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ غریب مسافر سے نیک سلوک کریں بلکہ ہر مسافر کے متعلق حکم ہے خواہ وہ کتنا بھی امیر کیوں نہ ہو.تاکہ دور و نزدیک محبت کا تعلق قائم ہو اور امن کی بنیاد رکھی جائے.بڑوں سے چھوٹوں کے تعلق کے متعلق اسلام حکم دیتا ہے کہ لیس منا من لم یرحم صغیرنا و لم یؤقر کبیرنا یعنی جو بڑا ہو کر چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور چھوٹا ہو کر بڑوں کا ادب نہ کرے وہ ہمارے طریق پر نہیں.اس حکم سے استاد اور شاگرد اور آقا اور ملازم اور اسی قسم کے اور سب تعلقات کے متعلق ایک اصولی ہدایت دی گئی ہے.عورت اور مرد کے عام تعلقات کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مردوں کو عورتوں کے آرام کا خیال رکھنا چاہئے چنانچہ رسول کریم ﷺ نماز کے بعد تھوڑی دیر بیٹھے رہتے تاکہ پہلے عورتیں آرام سے گزر جائیں.تب وہ گزر جاتیں تو پھر آپؐ اٹھتے اور دوسرے مرد بھی آپؐ کے ساتھ
۲۸۰ اٹھتے.سفر میں جب لوگ اونٹوں کو تیز کرتے تو آپؐ فرماتے کہ شیشوں کا بھی خیال رکھو یعنی عورتیں ساتھ ہیں وہ تمہاری طرح تکلیف برداشت نہیں کر سکتیں اس لئے آہستہ چلو تا ان کو تکلیف نہ ہو.خاوندوں کو حکم دیا کہ سفر سے واپس آتے ہوئے گھر میں اچانک نہ داخل ہوں بلکہ دن کے وقت اور پہلے سے مطلع کر کے آئیں تاکہ عوریں گھر کی اور بدن کی صفائی کا اہتمام کر لیں.عورتوں کے متعلق یہ بھی حکم دیا کہ ان کو ان کے بچوں سے جدا نہ کیا جائے جس میں ایک عام قاعدہ بتایا ہے کہ عزیزوں اور رشتہ داروں کو آپس میں جدا نہ کرنا چاہئے بلکہ ان کوآپس میں ملنے کا موقع دیتے رہنا چاہئے.آپس کے تعلقات کو قطع کرنے والے سب امور سے منع فرمایا ہے مثلاً یہ کہ کوئی کسی شخص پر الزام نہ لگائے اور اگر کوئی بدکاری کا الزام لگائے اور اس کو ثابت نہ کر سکے تو اسے سخت سزا دی جائے.اسی طرح حکم دیا کہ نکاح پر نکاح کی درخواست نہ دے.اگر معلوم ہو جائے کہ کوئی شخص کسی جگہ رشتہ کی تحریک کر رہا ہے تو گو اسے معلوم ہو کہ اگر میں درخواست دوں تو مجھے کامیابی کی زیادہ امید ہے اس وقت تک خاموش رہے جب تک پہلی درخواست کا فیصلہ نہ ہو جائے." عام شہریت کے أصول ایک مسلمان شہری کے جو کام اسلام نے مقرر کئے ہیں اب میں ان میں سے بعض کا ذ کر کرتا ہوں.ایک حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ ہر ایک آدی محنت کر کے کھانے اور سست نہ بیٹھے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.بہترین رزق وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے مہیا کرے اور فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ کی محنت سے اپنارزق پیدا کرتے تھے.۲۴.ایک فرض مسلم شہری کا اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ وہ سوال نہ کرے.رسول کریم ﷺ اس امر کے متعلق خاص طور پر خیال رکھتے تھے اور ہمیشہ سوال سے لوگوں کو منع کرتے رہتےتھے.۵.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا سوال صرف تین شخصوں کو جائز
أ۳۸ امیت لینی حقیقی اسلام ۲۱۹ ہے.ایک اس شخص کو جو فقر سے نکلنے کی بہت کوشش کرتا ہے مگر اسے کوئی کام ہی نہیں ملایا وہ بالکل کام کرہی نہیں سکتا.دوسرے وہ شخص جس پر کوئی الی چٹی پڑ گئی ہو جو اس کے خیال و گمان سے باہر تھی پی ایسے شخص کے لئے چندہ جمع کیا جاسکتا ہے اور تیسرے ان لوگوں کے لئے سوال جائز ہے کہ جن پر کوئی قومی جرمانہ آپ اور لین کسی شخص نے کوئی خون وغیرہ کر دیا ہو اور قوم پر تاوان پڑ گیا ہو تو وہ لوگ سوال کر سکتے ہیں.ایک فرض مسلم شہری کا یہ ہے کہ جو شخص اس کے سامنے سے آنے اسے الدم علم کے ، جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالی کی طرف سے تم پر سلامتی ہو گویا بروقت تعلقات فی مابین کی درستی کی کوشش کر رہے.پھر جو شخص آگاہ والے اور وہ واقف اور دوست ہو تو مسلم شہری کا فرض یہ ہے کہ اس سے مصافہ کرے.اسی طرح مسلم شہریوں کے یہ فرائض مقرر کئے گئے ہیں کہ جو لوگ اپنے محلے کے یارو سرے واقفوں میں سے پیار ہوں ان کی عیادت کے لئے جائیں اور ان کی تستی اور تشتی کریں گھر میں میں تو پہلے اجازت لے لیں.السلام علیکم کہیں اگر گھر میں کوئی ہو اور جواب دے کہ اس وقت نہیں مل سکتا تو بلا ملال کے واپس چلے جائیں.اگر کوئی نہ ہو تو بھی واپس چلے جائیں.۳۸.اگر ان کے سامنے کوئی شخص کوئی ایسی بات کہہ دے جو کسی دوسرے شخص کے خلاف ہو تو اس کو دبا دیں اور اس شخص تک نہ پہنچائیں جس کو کی گئی ہے ورنہ رسول کریم القلع فرماتے ہیں کہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ بات ای نے کی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ کہنے والے کی مثال تو ایسی تھی کہ اس نے تیربارا اور لگا نہیں اور جس نے اس کو وہ پنچادی جس کے حق میں کی گئی تھی اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس نے تیر اٹھا کر اس شخص کے سینے میں چبھودیا.اسی طرح مسلم شہریوں کا یہ فرض ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے اس کے جنازے کی تیاری میں مدد دیں اور قبر تک لے جائیں اور دفنائیں ۲۲۰ لیکن سب کے جانے کی ضرورت نہیں اگر | بقدر ضرورت آدمی چلے جائیں تو یہ کافی ہو گا.لیکن اگر کوئی بھی نہ جائے تو سب گنہگار ہونگے اس فرض کی ادائیگی کا مسلمان اس قدر خیال رکھتے تھے کہ صحابہ کے زمانہ کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرمذاہب کے لوگوں تک کے جنازوں کے ساتھ مسلمان جاتے تھے.اسی طرح مسلم شہریوں کا فرض ہے کہ انکی باتیں جو وقار کے خلاف ہوں اور لوگوں کو ۲۱۸
تکلیف دینے والی ہوں نہ کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مسلمان بازاروں اور گلیوں میں وقار کے ساتھ چلتے ہیں.رسول کریم ا نے کسی شخص کو دیکھا کہ ایک جوتی پہنے ہوئے چل رہا ہے تو آپ نے اسے منع فرمایا اور فرمایا کہ یا آدی دونوں جوتیاں پنے یا ایک بھی نہ پہنے.۲۲.مسلم شہریوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ راستوں یا لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں میں کوئی غلاظت نہ پھینکیں اور ان کو گندہ نہ کریں رسول کریم نے فرمایا ہے کہ اس شخس پر خدا کی نارا تسلی نازل ہوتی ہے جو راستوں میں پاخانہ کرتا ہے یا درختوں کے نیچے جہاں لوگ آکر بیٹھتے ہیں.اسی طرح مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ راستوں اور پلک جملوں کو صاف رکھنے کی کوشش کرے اور جس قدر مدد ان کے صاف کرنے میں دے سکتا ہے دے.چنانچہ رسول کریم فرماتے ہیں جو شخص راستہ میں سے لوگوں کو ایذاء دینے والی چیزیں بناتا ہے اس پر خدا کا فضل نازل ہوا ہے.مسلم شہری کا ایک یہ بھی فرض ہے کہ اگر وہ چیزیں فروخت کرے تو ضرر رساں چیزوں کو فروخت نہ کرے.مثلا سنی ہو گی یا موسم کے لحاظ سے پکاریاں پیدا کرنے والی چیزوں کو اس کے لئے یہ کہنا کافی نہیں کہ لوگ جان کر اور سوچ سمجھ کر ان چیزوں کو لیتے ہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ ووخورلوگوں کی صحت کا خیال رکھے اور ان چیزوں کو فرولت ہی نہ کرے.مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ پلک جگہوں پر بلند آواز سے لڑے اور جھگڑے نہیں اور لوگوں کے امین اور آرام میں خلل نہ ڈالے اور اس کا یہ بھی فرض ہے کہ ایک نہیں کہ جن کو لوگ استعال کرتے ہیں ان کو گندہ نہ کرے.مثلا کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے یا اور کوئی غلاظلمت ان میں نہ دیکھے اور اس کا یہ بھی فرض ہے کہ گندم کلا م منہ پر نہ لاس اور نہ پیک مجموں پر کوئی ایسا فعل کرے جو لوگوں کو ایذاء دیتا ہو.مثلا نشانہ بپھرے یا اور ایک ہی کوئی حرکت نہ کرے.پھرا سلام ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ایک مسلم شهری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اچھی باتیں سکھاتا رہے اور بد باتوں سے روکتا رہے مگر نرمی اور محبت سے سکھائے آلوگ جوش میں آکر ان سے اور بھی دور نہ ہو جائیں اور مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو علم سکھائے اور جو کچھ اسے معلوم ہو اسے چھپائے نہیں بلکہ لوگوں تک اس کا فائدہ عام کرے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی علم کو چھپاتا ہے او ر باوجود لوگوں کے پوچھنے کے
۳۸۳ امنیت لینی حقیقی اسلام ظاہر نہیں کرتا اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ کی لگام ہوگی ۲۲۴ اس علم کا یہ مطلب نہیں کہ جو ایجادیں وغیرہ لوگ کریں ان کو لوگوں پر ظاہر کر دیں اور خود فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ علم کو دنیا سے ضائع نہ ہونے دیں اور اس کو چھپائیں نہیں ورنہ فائدہ اٹھانا جائز اور درست ہے اور پیٹنٹ یا رجسٹری کے رواج سے تو علوم کی حفاظت کا ایک دروازہ کھل ہی گیا..مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ بہادر بنے لیکن ظالم نہ ہو.وہ نہ کزوروں پر نہ عورتوں پر نے بچوں پر نہ اور کسی پر ظلم کرے بلکہ وہ جانوروں تک پر ظلم نہ کرے چنانچہ لکھا ہے کہ عبد الله جو حضرت عمر خلیفہ ثانی کے لڑکے تھے انہوں نے ایک دفعہ چند نوجوانوں کو دیکھا کہ زندہ جانوروں پر نشانہ بنا رہے ہیں.جب ان لوگوں نے آپ کو دیکھا تو بھاگ گئے آپ نے فرمایا خدا ان پر ناراض ہوا جنہوں نے یہ کام کیا.میں نے رسول کریم سے سنا ہے آپ نے فرمایا خدا اس پر ناراض ہوا جس نے کسی جاندار چیز کو نشانہ بنایا لینی باندھ کر ۴۲۵ بار وغیرہ تو ڑ کر.ورنہ یوں شکار اسلام میں منع نہیں.اسلام کا یہ حکم کیسا لطیف ہے جس کی تیرہ سو سال سے تعلیم دی جاتی رہی ہے جو ابھی بعض متمدن ممالک کے ڈشوں میں داخل نہیں ہو گی کیونکہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا بعض مغربی ممالک میں زنده کبوتروں پر نشانے پکانے کی ایک کرلی تھی اور بعض جگہ اسے جرا رو کناپڑا تھا.اسی طرح لکھا ہے کہ رسول کریم ا نے ایک گدھے کو دیکھا کہ اس کے منہ پر داغ دیا ہوا تھا آپ نے اسے نہایت ناپسند فرمایا اور فرمایا کہ منہ پر جانور کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے آئندہ داغ ران پر دیا جائے ۲۴ اور آپ ان کے علم سے ہی ران پر داری دینے کا رواج چلا.ای طرح آپ نے دیکھا کہ کسی نے تھری کے بچوں کو پکڑ لیا.آپ نے فرمایا کہ اس طرح اسے بچوں کی وجہ سے تکلیف نہ دو.فورا چے اڑا دو اور آپ نے فرمایا کہ جانوروں پر رقم کرنے اور بھوک میں کھلانے اور پیاس میں پیلانےپر بھی خد اتعالی رحم کرتا ہے.۲۴..پھر مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالے چنانچہ رسول کریم ا نے فرمایا کہ جس علاقہ میں کوئی وبہائی بیکاری ہو وہاں کے لوگ دوسرے شہروں میں نہ جائیں اور دوسرے لوگ اس علاقہ میں نہ آئیں.کیا ہی لطيف حکم ہے جسے آج قرنطینہ کے نام سے ایک نئی ایجاد قرار دیا جا رہا ہے.حالا نکہ اس حکم کی ابتداء اسلام سے ۲۲ :::
شروع ہوئی ہے.اگر اس علم پر لوگ عمل کریں تو نہ قرنطینہ کے قیام کی ضرورت رہتی نہ سرکاری گرانیوں کی.خود بخودہی وبائیں دب سکتی ہیں.مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ جس وقت وہ اپنے ہمسایہ کو مصیبت میں اور مشکل میں دیکھے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے مال سے اسے بقدر ضرورت قرض دے اور اس وقت جبکہ وہ مصیبت میں مبتلاء ہے اس سے یہ حساب نہ کرنے بیٹھے کہ مجھے اس کے بدلہ میں کیا دے گا کیونکہ اس کے اخلاق وسیع اور اس کا حوصلہ بلند ہونا چاہئے.اسے تکلیف اور دکھ کے اوقات میں لوگوں کا مدد گار ہونا چاہئے اور اپنے بہائیوں کی مدد سے اپنا فرض سمجھنا چاہئے.اسے محنت سے اپنی روزی کھانی چاہئے نہ کہ مرز روپے قرض دے کر اور لوگوں کو ان کی تکلیف کے وقت اپنے قبضہ میں لا کر یا اسراف کی عادت پیدا کر کے.مسلم شہری کا ایک یہ بھی فرض ہے کہ وہ قومی اور ملکی فرائض کے لئے قربانی کرنے کے لئے کی تیار رہے اور اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے.کیونکہ رسول کریم ا نے فرمایا ہے کہ من قتل دون ما له فهو شهيد ۲۴۹.جو جو شخص اپنے مال کی حفاظت کے لئے مارا جاتا ہے وہ خدا کے حضور میں مقبول ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم لوگ کیوں لڑنے سے انکار کرتے ہو حالانکہ تمہارے بہائی اور بہنیں دوسرے لوگوں کے ظلم کے نچے دبے ہوئے ہیں.*۲۳۰ مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ کسی کو ہلاک ہو نا دیکھے تو اس کو بچائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا گیا ہے کہ اس پر سخت عذاب اور خدا تعالی کی بار انستگی نازل ہوئی.رسول کریم نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل ہو ا ہوا دیکھتا ہے اور خاموش کھڑا رہتا ہے او راس کے بچانے کے لئے کوشش نہیں کر اور خدا کی لعنت کے نیچے ہے.* ۲۳۰۷.پس ڈوپٹوں کو بچانا الوں کو بجھا دونوں کانوں کے پٹے مکانوں کے گرنے‘ ریلیوں کے کرانے اور بجلیوں کے گرنے کے وقت لوگوں کی مدد کرنی اور ہر ایک مصیبت میں جس میں اس کی مد و لوگوں کی جان بچا سکتی ہے ان کی جان کو بچانا ایک مسلم کا فرض ہے اور نہ وہ خدا کے حضور میں جوابدہ ہو گا اور وہ خدا کے فضل کو بھی حاصل نہیں کرے گا.اسی طرح ایک مسلم شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے بہائی کی طرف نسی کے ساتھ بھی ہتھیار کا منہ نہ کرے.یہ حکم رسول کریم ا نے لوہے کے ہتھیاروں کے متعلق دیا ہے ۲۳.پس ۴۳۰
بارود سے چلنے والے ہتھیاروں کے متعلق تو اور بھی اسے یہ علم چسپاں ہوتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اس حکم پر عمل نہ کرنے کے سبب سے سینکڑوں آدمیوں کی محض غلطی سے جا نہیں جاتی رہتی ہیں.پھر مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ کبھی مت نہ ہارے اور مایوس نہ ہو بلکہ مصائب اور تالیف میں ایک پہاڑ کی طرح کھڑا رہے.وارث کی آند حمیاں چلیں اور آفات کی موجیں اٹھ اٹھ کر اس سے کرائیں مگر وہ مقابلہ سے نہ گھبرائے بلکہ ان کو دبانے کی کوشش کرے.یہاں تک کہ یا تو اسے موت آجائے یا روان مشکلات کو ڑے کر کے اپنے لئے کامیابی کا راستہ کھول لے.به پزولی سے اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے خود کشی نہیں کرتا کیونکہ اس کا نہ ہب اسے اس بزدلی سے روکتا ہے اور نڈر اور بہار رہنے کی تعلیم دیتا ہے.یہ ہے ایک مسلم شہری.مگر اس وقت میری مراد مسلم شہری سے وہ مسلم نہیں جو اپنے مذہب کو بھول کر مغرب کی طرف ایک اے کی طرح دیکھ رہا ہے بلکہ اس مسلم سے میری مراد وہ مسلم ہے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے کا تھا اور جسے اب پھر مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں لائے ہیں.یتامیٰ کے متعلق احکام عام مسلم شری کے فرائض کی چند مثالیں بیان کرنے کے بعد اب میں وہ احکام بیان کرتا ہوں جو تمدن کا ایک زبردست جزو ہیں لیکن عام طور پر لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے میری مراد ان احکام سے ان کے حقوق ہیں.کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جس کے بانی کا پورا انتظام نہ ہو.اسلام نے اس شاخ تمدن کے احکام کو بھی نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے.یتامیٰ کے لئے حکم ہے کہ انکا کوئی گارڈین مقرر کیا جائے جو قریبوں کی موجودگی میں سب سے قریبی رشتہ دار ہونا چاہئے ان کے اموال کو بالکل محفوظ رکھا جائے.جو گارڈین مقرر ہو اگر غریب ہو تو بقدرات اسے کچھ معاوضہ دیا جائے اگر امیر ہو تو مفت کام کرے.تیموں کو جاہل نہیں رکھنا چاہئے بلکہ جو پیشہ ان کے مناسب حال ہو ان کا آبہائی پیشہ یا جس کی طرف ان کو خاص رغبت ہو ان کو سکھایا جائے.ان کے اخلاق کا خاص طور پر خیال رکھا جائے نہ تو اس قدر آزاد رکھا جائے کہ ان کے اخلاق اڑ جائیں اور نہ اس قدر سختی کی جائے کہ ان کے علی توکی بالکل دب جائیں اور ترقی کرنے کاباره ی بالکل جاتا رہے.ان سے معاملہ کرتے ہوئے محبت اور پیار کے پلو کو خاص طور پر مد نظر رکھا جائے کیونکہ ان کے دل نرم ہوتے ہیں اور وہ اس نعمت سے جو سب سے زیادہ
قیمتی ہے لیکن والدین کی محبت اس سے محروم ہوتے ہیں.جب وہ بالغ ہو جائیں تو اس وقت سے حکومت ان کی عقل اور تجربہ کا خیال رکھنا شروع کرے اور اگر ان میں اپنے مال کی حفاظت کی صلاحیت رکھے اور جس وقت رکھے ان کے مال ان کے سپرد کر دے لیکن اگر ان کی عقل میں فتور معلوم ہو یا عقل میں اس قدر کمزوری معلوم ہو کہ وہ اپنے اموال کی حالت ہی نہیں کر سکتے تو ان کو ان کی جانداو نہ دی جائے بلکہ وہ پرا پر زیر نگرانی رہے اور اس میں سے ان کے کھانے کپڑے وغیرہ کے ضروری اخراجات ادا کئے جایا کریں.لین دین کے معاملات تمدنی معاملات میں سے ایک اہم شاخ آپس کے لین دین کے تعلقات بھی ہیں کیونکہ ہمیشہ انسان پر ایسے وقت آتے رہے ہیں کہ وہ ان اوقات میں دوسروں سے مدد لینے کا محتاج ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کی یہ حالت عارضی ہوتی ہے وہ اس مدد کو واپس بھی کرنا چاہتا ہے اس حالت کا علاج اسلام نے قرض یا رہن بتایا ہے.لینی چاہئے کہ جو شخص امداد کا محتاج ہو اس کو مالدار لوگ حسب ضرورت اور قابلیت ادائیگی قرض میں خواہ کوئی چیز رکھ کر بابر تھی.اس کے لئے اسلام نے یہ نظم دیئے ہیں کہ قرض کے معاملے کو کمرے میں لایا جائے اور یہ امر اختیاری نہیں بلکہ اسلام نے اس کو فرضی مقرر کیا ہے کیونکہ تمدن کی خرابی میں بہت کچھ دخل قرضوں کے جھگڑوں کا بھی ہوتا ہے.اور فرمایا کہ اگر قرض لینے والا ان پڑھ ہے تو وہ دوسرے سے لکھوائے اور اس تقریر پر کم سے کم دو گواہوں کی گواہی ثابت ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ قرض کی ادائیگی کے لئے وقت مقرر کیا جائے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ اس وجہ سے فساد پڑ جاتا ہے کہ قرض دینے والا سمجھتا ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں روپے واپس مل جائیں گے اور لینے والا خیال کرتا ہے کہ میں جلد کی روپیہ مہیا نہیں کر سکتا.کچھ فرمایا کہ قرض لینے والے کو چاہئے کہ وقت پر قرض ادا کر دے لیکن اگر ان واقعات کے زریہ سے جو اس کے اختیار میں نہ تھے وہ قرض ادا کرنے پر قادر نہیں تو پھر قرض دینے والے کو چاہنے کہ میعاد کو بوهارے اور اس پر سہولت کا زمانہ آنے تک وصولی کو پیچھے ڈال دے.لیکن اگر قرض وصول کرنے والے کو خود بھی سخت ضرورت پیش آجائے تو چاہئے کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص اس جگہ کے صاحب مقد ر ست لوگوں سے چندہ جمع کر کے قرضہ ادا کردے.مگر شرط یہ ہے کہ قرضہ لینے والے کو کوئی بھی مجبوری ہو اس کی کسی غفلت یا شرارت کا دخل نہ ہو اور اگر کوئی قرض لینے والا مرجائے بیاس کے کہ قرض ادا کرے تو اس کی جائیداد میں سے قرض ادا :
کیا جائے اور اگر جائیداد بھی نہ ہو تو رشتہ دار اس کا قرض ادا کریں اور اگر رشتہ دار بھی نہ ہوں تو حکومت اس کا قرض ادا کرے.حکومت کو خاص حالات میں قرضوں کی ادائیگی کا زمہ دار قرار دے کر اسلام نے قرض کے طریق کو نہایت آسان کر دیا ہے.اس علم کی وجہ سے مالدار لوگوں پر اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنا بہت آسان ہو گیا ہے.اس علم سے لوگ ناجائز فائدے بھی حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ اول تو کوئی شخص پسند نہیں کرے گا کہ وہ اپنا روپیہ کسی کو اس خیال سے وید سے کہ اگر یہ بے جائد او کے مر گیا تو مجھے روپیہ حکومت دے گی.دوسرے چو نکہ حکومت یہ دیکھے گی کہ قرض ضروریتھا اور جائز تھا اور مرنے والا کی مجبوریوں کی وجہ سے اس کوارا نہیں کر سکا.قرض دینے والے کو یہ خطرہ بھی لگارہے گا کہ شاید میرا روپیہ نہ ملے اور وہ حقیقی ضروریات پر ہی قرض دے گا.ایسے اموال فروخت نہ کریں جو نا قص مصالحے سے بنے ہوئے ہوں اور ان کو معلوم ہو کہ یہ ناقص ہیں گو ان کی شکل اچھی ہو.اسی طرح یہ بھی منع ہے کہ ظاہری نقص کو چھپا کر رکھے مثلا اگر غلہ گیلا ہو گیا ہے تو جائز نہیں کہ اوپر کلک غلہ رکھ کر کیسے غلہ کو چھپالے.اور اسی طرح سے جائز نہیں کہ مثلا پھٹے ہوئے تھان کے ناقص حصہ کو دبا کر رکھے بلکہ چاہئے کہ نقص کو گالک پر ظاہر کردے.اور اگر کوئی بلا نقص کے اظہار کے سودا فروخت کرتا ہے تو گاہک کا حق ہو گا کہ مال واپس کر کے اپنی قیمت لے لے.اور پھر ایک ہدایت یہ ہے کہ سودا ہو چکنے کے بعد اور مال وصول کر لینے اور روپیہ دینے کے بعد بیع نخ نہیں ہو سکتی.اسی طرح یہ علم ہے کہ مال کی دو قیمتیں مقرر نہ کرے مثلا یوں نہ کرے کہ ہوشیار آدمی کو زیادہ مال دے اور بچہ یا ناواقف کو کم کیو نکہ گو اس کا اختیار ہے کہ جو چاہے اپنے مال کی قیمت مقرر کرے مگر اس کو یہ نہیں جس سے جو قیمت چاہے لے لے.ہاں اگر کوئی خریدار ایسا ہے کہ اس سے کوئی خاص ذاتی تعلق ہے تو اس کے ساتھ رعایت کر سکتا ہے جیسے رشتہ دار یا استادیا کوئی ہمسایہ اجر و غیره - اسی طرح اسلام علم دعا ہے کہ تاجر جب کسی چیز کو فروخت کرتے تو بات اسے لکھ لے یا اس میں گواہ مقرر کرنے تک ایسا نہ ہو کہ ایک شخص پہلے کسی کے پاس ایک چیز فروخت کرے اور پھر خریدار پر چوری کا الزام لگادے یا قیمت کی وصولی کا دعوی دوبارہ کر دے یا چوری کی چیز فروخت کردے.اور جب خریدار پکڑا جائے تو اجر اس کے پاس پینے سے انکار کر دے.پس اسلام ان
سب باتوں کو روکتاہے.اسی طرح اسلام علم دیا ہے کہ جو چیز کوکی خریدے اس کو بغیر وزن گئے یار کے دوسرے کے آگے فروخت نہ کرے کیونکہ اس میں جھگڑوں کا دروازہ کھلتا ہے.کیونکہ خرید میں چونکہ دو والے پڑ جائیں گے پر ایک پینے والوں میں سے ہی کہے گا کہ میں نے تو چزا بھی دی تھی دوسرے نے خراب کردی ہوگی.پس اسلام کہتا ہے کہ دو تاجر متواتر سے دیکھے اور وزن کے کوئی چیز فروخت نہ کریں.اسی طرح اسلام حکم دیتا ہے کہ جھوٹے مقابلہ سے قیمت نہ بڑھائی جائے مثلا یہ نہ کیا جائے کہ ہر ایک اپنے ساتھی کو سکھا کر کھڑا کر دے اور وہ ایک چیز کے زیاد و نام دینے پر تیار ہو جائے اور اس طرح گاہ کو یہ بتایا جائے کہ اب اس چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے اور لوگ اسے زیادہ قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہیں اور یہ نیلام کے وقت جھوٹی پولی و لوا کر میت کو بڑھایا جائے.اسی طرح اسلام یہ حکم دیا ہے کہ باہر سے آنے والے تاجروں کو شہر سے باہر جا کر نہ طلاجائے بلکہ پہلے ان کو منڈی میں آنے دیا جائے ان کو اصل بھاؤ معلوم ہو جائے اور نہ ان کو کوئی نقصان ہو اور نہ خرید و فروخت میں کوئی نار ہو.اسی طرح اسلام سے حکم دیا ہے کہ غیر معین اشیاء کی خرید و فروخت نہ کی جائے بلکہ چیز کو دیکھے کر خریدا جائے خواہ خودخواه اپنے کسی ایجنٹ کی معرفت.یہ نہ کیا جائے کہ جوئے کی طرح چیزیں خریدی جائیں.مثلا اس طرح نہ کریں کہ فیصلہ کر لیں کہ جس تھان کو کنکری لگ جائے وہ ایک پہلے سے مقرر کی ہوئی قیمت پر خریدار کا ہو جائے گا اور نہ اسی فلم کے ذرائع کو استعمال کر کے خرید و فروخت کریں.اس علم سے اسلام نے دو غیر طبی طریق جو لاٹری کے نام سے موسوم ہے اس کو بالکل روک دیا ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ طریق واقع میں فطرت کہ کے مخالف نہیں؟ یہ طریق یقینا ایکجوئے کی قسم ہے اور ایسا ہی براہے جیسے کہ جو ئےط کی کوئی ادنی سے ادنی قسم.کانفرنسوں محلوں اور دعوتوں کے متعلق احکام اور ثواب برادرانہ تعلقات آپس کے برادرانہ تعلقات جو خاندانی تعلقات کہلا سکتے ہیں اور جن کی اقسام میں اس وقت بیان کر رہا ہوں ان میں سے ایک تم مجالس اور دعوتوں کے آداب بھی ہیں.برادری کے اکثر کام کا نفر نسوں، مجلسوں اور دعوتوں
کے ڈر سے ہی ملے ہوتے ہیں اور ان اجتماعوں کا انسانی تمدن پر ایک نہایت وسیع اور گہرا اثر پڑتا ہے.پس میں اس حصہ کے متعلق جو احکام اسلام نے دیئے ہیں ان کو بھی بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں.دعوتوں کے متعلق تو اسلام کے احکام یہ ہیں کہ جو لوگ دعوت میں لائے جائیں ان کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے دعوت کو قبول کریں کیونکہ دعوت محبت کی زیارتی کے لئے ہوتی ہے اور بے عمل انکار میت کو قطع کرتا ہے.پھر علم ہے کہ دعوت کے موقع پر کوئی شخص بن بلائے نہ جائے اور کوئی شخص کسی کے ساتھ چلا جائے تو چاہئے کہ جس کے ساتھ دو جائے وہ پہلے صاحب خانہ سے اجازت لے لے.اسی طرح یہ علم ہے کہ کھانے کے وقت سے پہلے جاکر لوگ نہ بیٹھیں بلکہ مقررہ وقت پر جائیں کھانے کے وقت صفائی کا خیال رکھیں باتھ ر ہو کر میں حرم کے ساتھ نہ کھائیں اور اپنے آگے سے کھائیں کھانا کھاتے وقت کھانے کی مذمت نہ کریں کہ اس قسم کی تعریف کریں کہ اس سے رزالت اور خوشامد نچتی ہو جب کھانا کھا لیں تو ہاتھ دھوئیں اور دعا کریں جس میں صاحب خانہ اور اس کے رشتہ داروں کے لئے جنہوں نے اس کھانے کے تیار کرنے میں تکلیف اٹھائی تھی اللہ تعالیٰ سے فضل اور برکت طلب کریں.اگر صاحب خانہ کی طرف سے ایسی کوئی درخواست یا التجا نہ ہو تو وہاں بیٹھے نہ رہیں بلکہ جلد فارغ ہو کر رخصت ہو جاویں.کانفرنسوں اور مجالس کے متعلق اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ صرف تین قسم کی انجمنیں اور کانفرنسیں مفید ہوسکتی ہیں.اول من امر بصدقة ۲۳۲.جن انجمنوں کا کام غرباء کی خبر گیری اور حاجتمندوں کی حاجت روائی ہو.دوسرےاو معروف جو علوم اور فنون کی تحقیق اور ترون اور تعلیم اور اشاعت کی غرض سے بنائی گئی ہوں اور تیسرے او اصلاح بین الناس ۲۳۳.جو قاروں اور جھگڑوں کے مٹانے کے لئے بنی ہوں خراما الى فساروں سے دور کرنے کے لئے خوا ہ ملکی خواہ قومی ‘خواه بین الا قوای فسادوں کے دور کرنے کے لئے خواہ ملکوں یا قوموں کے سیاسی انتظامات چلانے کے لئے کہ وہ بھی اصلاح کا ہی کام کرتے ہیں ان کانفرنسوں اور انجمنوں کے انتظامات کے متعلق اسلام یہ تعلیم دیتا ہے.اول جب اس تم کی کوئی مجلس ہو تو چاہئے کہ سب لوگ اس امر کو مد نظر رکھیں کہ اس جگہ پر بہت سے لوگ جمع
ہوں گے اور ایسی جگہوں میں کثرت انفاس سے بو پیدا ہو جاتی ہے اس کو ہم اور نہ بڑھائیں وہ کوئی بدبودار چیز کھا کر جس سے منہ میں سے بو آنے لگتی ہو جیسے پیاز سن و غیره یا حقہ اور سگریٹ وغیرہ کیا تم کی چیزیں استعمال کر کے نہ جائیں تا باقی ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو.دوسرے ایسے موقع پر خوب صفائی کر کے اور نمادهو کر اور اگر ہو سکے تو خوشبو لگا کر جانا چاہئے تاکہ طبیعت میں نشاط پیدا ہو اور ہوا صاف ہو.تیسرے مجلس کا حلقہ بڑا بنا کر بیٹھیں تم ایک دوسرے کے تخت سے لوگ تکلیف نہ اٹھائیں.چوتھے یہ کہ جس کو کوئی متعدی مرض ہو وہ ان جگہوں میں نہ جائے جن میں لوگ جمع ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح ان لوگوں کو اس مرض کے لئے کا خطرہ ہوتا ہے اس علم کی اس قدر تاکید ہے کہ حضرت عمر نے ایک کوڑھی کو حج بیت اللہ سے روک دیا اور کہا کہ اپنے گھر میں زیادہ بیٹھا کرو اختلاط کی تہوں میں نہ جایا کرو تاکہ لوگوں کو بیماری نہ لگے.پانچویں جب کوئی شخص کلام کرنے کے لئے کھڑا ہو تو لوگوں کو چاہئے کہ اس کی طرف منہ کر کے توجہ سے کلام سنیں اور اس کی بات کو قطع نہ کریں اور دوران تقریر میں شور نہ کریں خواہ وہ کس قدر ہی طبیعت کے بر خلاف کیوں نہ ہو.چھٹے یہ کہ جب بولیں آہنگی اور وقار سے بولیں.اسی طرز پر کام نہ کریں کہ لوگ مجھے ہی نہ سکیں.ساتھ میں یہ کہ جب مجلس میں کوئی اور شخص آجائے تو اس کے لئے جگہ بنادیں.آٹھویں یہ کہ اگر کسی شخص کو کوئی ضرورت پیش آجائے تو وہ اجازت لے کر جائے بلا اجازت صد روہاں سے باہر نہ نکلے.نویں یہ کہ جب کوئی شخص عارضی طور پر جائے اور پھر اس کے واپس آنے کا ارادہ ہو تو اس کی جگہ پر کوئی اور نہ بیٹھے.د سویں یہ کہ وہ شخص جو آس پاس بیٹھے ہوں اور یہ معلوم ہو کہ یہ کسی غرض سے پاس بیٹھے ہیں تو خواہ ان کے درمیان کوئی بلکہ غالی بھی ہو وہاں نہ بیٹھے.گیارویں ہے کہ جس مجلس میں تین آدمی ہوں وہ ایسی حالت میں آپس میں کلام نہ کریں کہ تیسرے آدمی کے دل میں وسوسہ پیدا ہو کہ یہ شاید میرے متعلق بات کرتے ہیں.
۲۹۱ بارھویں یہ کہ کلام ترتیب سے کریں یکدم باتیں شروع نہ کریں.تیرھویں یہ کہ جب کلام شروع کریں صدر کو مخاطب کریں.یہ مختصر نقشہ ان تمدنی احکام کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے یا آپ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہم نے اسلامی تعلیم سے اخذ کیا ہے پس یہ سچا اسلامی تمدنی نقشہ ہے اور ساتھ ہی خالص احمدی نقشہ ہے.اپنی زندگی کے متعلق اسلامی تمدنی احکام بیان کر چکنے کے بعد اب میں ان احکام کو بیان کرتا ہوں جو اسلام نے حکومت اور رعایا کے تعلقات یا امراء اور غرباء کے تعلقات کے متعلق بیان فرمائے ہیں.تمدن کی دوسری قسم یعنی حکومت اور رعایا ،امیر اور غریب کے متعلق احکام جب میں یہ کہتا ہوں کہ امیر اور غریب تو میری مراد اس سے وہ فاقہ زدہ لوگ نہیں ہیں جو لوگوں کے صدقہ اور احسان پر پَلتے ہیں بلکہ اس سے میری مراد وہ لوگ ہیں جو اس قدر سرمایہ نہیں رکھتے کہ بنی نوع انسان کے کسی حصہ کو اپناما تحت بنا کر رکھ سکیں اور میں نے امیر اور غریب کے الفاظ جان بوجھ کر چنُے ہیں اس لئے کہ جو مضمون میں آگے بیان کرنے لگا ہوں و ہ انہی ناموں سے اچھی طرح بیان ہو سکتا ہے.اس ہینڈنگ کے ماتحت سب سے پہلے یہ سوال ہوا ہے کہ اسلا م حکومت کی کیا تعریف کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک حکومت اس نیابتی فرد کا نام ہے جس کو لوگ اپنے مشترکہ حقوق کی نگرانی سپرد کرتے ہیں.اس مفہوم کے سوا اسلام میں اور کوئی مفہوم اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق نہیں اور سواۓ نیابتی حکومت کے اسلام اور کسی حکومت کا قائل نہیں.قرآن کریم نے اس مفہوم کو ایک نہایت ہی عجیب لفظ کے ساتھ ادا کیا ہے اور وہ لفظ امانت ہے.قرآن کریم حکومت کو امانت کرتا ہے یعنی وہ اختیار لوگوں نے کسی شخص کو دیا ہو نہ وہ جو اس نے خود پیدا کیا ہو یا بطور ورثہ کے اس کو مل گیا ہو.یہ ایک ہی لفظ اسلامی حکومت کی تمام کیفیات کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے."قرآن کریم میں حکومت کا ذکر بادشاہ سے شروع کر کے رعایا کی طرف نہیں چلایا گیا بلکہ ملک
۲۹۲ کے لوگوں سے شروع کر کے حاکم کی طرف لےجایا گیا ہے.میرے نزدیک اس کا پورا لطف حاصل نہیں ہو گا جب تک میں اس آیت کو ہی پیش نہ کر دوں جس میں اسلامی حکومت اور اس کے فرائض کو نہایت ہی مختصر لیکن محیط الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا(النساء:59) اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ حکومت کی امانتوں کو ان کے حق دار لوگوں کے سپرد کرو اور جب اے حاکمو! تم حاکم ہو جاؤ تو انصاف کے ساتھ حکمرانی کرو.اللہ تعالیٰ جس امر کی تم کو نصیحت کرتا ہے وہ بہت اچھی ہے اور اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے.اس آیت میں پہلے تو عامۃ الناس کو مخاطب کیا ہے کہ حاکم بنانا تمہارے اختیار میں ہے تمہارے سوا اور کوئی شخص حاکم بنانے کا مجاز نہیں گویا ورثہ کے ذریعہ سے کوئی شخص حاکم نہیں بن سکتا.کسی شخص کو حق نہیں کہ محض کسی کا بیٹا ہونے کے سبب سے لوگوں کی گردنوں پر حکومتوں کا جؤا رکھے.دوسرا امر یہ بتایا کہ حکومت کے حقوق ایک قیمتی چیز ہیں جس طرح کہ امانت قیمتی ہوتی ہے پس کسی ایسے شخص کے سپرد نہ کرنا جو اس کے قابل نہ ہو بلکہ اسی شخص کے سپرد کرنا جو دیانتداری سے اس امانت کو محفوظ رکھے.تیسرا حکم یہ دیا ہے کہ چونکہ حکومت کوئی مستقل چیز نہیں بلکہ ان حقوق کو کسی شخص کے سپرد کر دینے کا نام ہے جن کو بوجہ بہت سے لوگوں کے اشتراک کے لوگ فرداً فرداً ادا نہیں کر سکتے اس لئے اس کو امانت خیال کرنا چاہئے کیونکہ وہ حقوق و فرائض جن کے مجموعے کا نام حکومت ہے کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں بہ حیثیت مجموعی جماعت ان کی مالک ہے.چوتھا حکم حاکم کو یہ دیا گیا ہے کہ جو کچھ تم کو دیا جاتا ہے وہ چونکہ بطور امانت کے ہے اس کو اسی طرح محفوظ بِلا خراب یا تباہ کرنے کے اپنی موت کے وقت واپس دینا ہو گا یعنی حکومت کی پوری حفاظت اور اہل ملک کے حقوق کی نگرانی رکھنی ہو گی اور یہ تمہارا اختیار نہ ہو گا کہ اس حق میں کوئی نقصان کر دو.پانچواں امر اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ حکام کو چاہئے کہ دوران حکومت میں لوگوں کے حقوق کو پوری طرح ادا کریں اور کسی قسم کا فساد پیدا نہ کریں.اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اس معاملہ میں کمزوری دکھائیں گے اور دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی پھر
۲۹۳ بادشاہت کی طرف رجوع کریں گے مگر فرماتا ہے کہ جو نصیحت ہم نے کی ہے کہ وراثت کی بادشاہت کے قریب بھی نہ جاؤ بلکہ انتخاب کے ساتھ بہترین دماغوں کو حکومت کے لئے منتخب کیا کرو.وہی اچھی اور مفید ہے اور اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے یعنی دنیا کی مصیبتوں کو دیکھ کر اور ان کی دعاؤں کو سن کر ہم نے یہ طریقِ حکومت تم کو بتایا ہے پس اس کی ناقدری اور ناشکری نہ کرنا.مذکورہ بالا آیت سے یہ تو واضح ہو گیا کہ اسلامی حکومت انتخابی ہوتی ہے اور ساتھ ہی نیابتی بھی.یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ بادشاہ ملک کے لوگوں کا ان کی مجموعی حیثیت میں نہ بحیثیت افراد نائب ہے مگر اب میں اسلامی حکومت کا ایک مختصر نقشہ کھینچ دیتا ہوں جس سے اس کے تمام پہلو ذہن میں مستحضر ہو سکیں.اسلام کایہ حکم ہے کہ مسلمان مل کر ایک ایسے شخص کو جسے وہ اس کام کے لائق سمجھیں منتخب کریں کہ وہ حکومت کی باگ اپنے ہاتھ میں لے.اس شخص کا انتخاب مغربی ممالک کے پریذیڈنٹوں کی طرح چند سال کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ساری عمر کے لئے ہوتا ہے اور اس انتخاب کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ہی اس کو اس منصب سے برخواست کر سکتا ہے یعنی اسے وفات دے کر.اس شخص کے ہاتھ میں تمام وہ طاقتیں اور اختیارات ہوتے ہیں جو حکومت کو حاصل ہوتے ہیں مگر اس شخص کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی ساری عمر کو ملک کی بہتری کے لئے صرف کر دے نہ کہ اپنی بڑائی کے حصول کے لئے.اس کا حق بیت المال پر سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ اپنے ملک کی ضروریات پر صرف کرے اپنے لئے وہ آپ گذارہ مقرر نہیں کر سکتا بلکہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی مجلس شوریٰ اس کے لئے گذارہ مقرر کرے.اس کا فرض ہے کہ ایک مجلس شوریٰ کے ذریعہ سے ملک کی عام رائے کو معلوم کرتا رہے اور جب ضرورت ہو عام اعلان کر کے تمام افراد سے ان کی رائے دریافت کرے تاکہ اگر کسی وقت ملک کے نمائندوں اور ملک کی عام رائے کی مخالفت ہو جائے تو ملک کی عام رائے کا علم ہو سکے.اس سے امید کی جاتی ہے کہ کثرت رائے کا احترام کرے لیکن چونکہ یہ ہر قسم کی سیاسی جنبہ داری سے بالا ہو چکا ہے اور حکومت میں ا س کو ذاتی کوئی فائدہ نہیں اس لئے اس کی رائے کی نسبت یقین کیا گیا ہے کہ بالکل بے تعصب ہو گی اور محض ملک و ملت کا فائدہ اسے مدنظر ہو گا اور اس لئے بھی کہ ملک کی عام رائے کا نائب ہونے کے سبب سے یہ ایمان لایا جاتا ہے اور اسلام وعدہ کرتا ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے
۲۹۴ خاص نصرت حاصل ہو گی پس اس کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ کسی خاص ضرورت سے جو نہایت اہم ہو مشیر کاروں کی کثرت رائے کے فیصلہ کو رد کر دے تو وہ ایسا کر سکتا ہے.پس وہ خود مختار ہے ان معنوں میں کہ وہ شوریٰ کے فیصلہ کو مسترد کر سکتا ہے اور وہ پابند ہے ان معنوں میں کہ وہ اسلام کے مقرر کردہ نظام کے ماتحت ہے جسے بدلنے کا اسے اختیار نہیں اور وہ مجبور ہے اس پر کہ بغیر مشورہ کے کوئی فیصلہ نہ کرے اور اس پر کہ حکومت کو موروثی ہونے سے بچائے اور وہ منتخب ہے ان معنوں میں کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے ذریعہ سے اسے منتخب کرواتا ہے اور نیابتی حیثیت رکھتا ہے ان معنوں میں کہ اس سے امید کی جاتی ہے کہ سوائے کسی غیر معمولی ضرورت کے اہم امور میں کثرت رائے کے خلاف نہ جائے اور یہ کہ اس کو اپنی ذات کے لئے بیت المال پر کوئی تصرف نہ ہو اور وہ آسمانی طاقت رکھتا ہے ان معنوں میں کہ اس کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ خدا تعالیٰ کی خاص نصرت اسے حاصل ہوتی ہے.ان اصول کے علاوہ باقی تفاصیل شوریٰ کے انتخاب اور گورنروں کے انتخاب کے متعلق ضروریات وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے جان بوجھ کر چھوڑ دی ہیں تاکہ انسانی دماغ کو فروعات میں اپنے طور پر غور کرنے اور ترقی کرنے کا موقع ملے جو خود انسانی عقل کے ارتقاء کے لئے ضروری امرہے.قرآن کریم فرماتا ہے اے مسلمانو! ہر ایک تفصیل رسول سے نہ پوچھا کرو کیونکہ بعض باتیں خدا تعالیٰ خود چھوڑ دیتا ہے تا تمہارے اجتہاد کے لئے بھی ایک میدان باقی رہے اگر سب باتیں قرآن ہی بتا دے اور تمہاری دماغی ترقی کے لئے کوئی میدان نہ چھوڑے تو یہ امر تم کو تکلیف اور دکھ میں ڈالنے کا موجب ہو گا اور تمہاری ترقیات کے لئے حارج.بے شک حکومتوں کے اور طریق بھی دنیا میں موجود ہیں لیکن ہر اک شخص جو اسلامی طریق حکومت پر غور کرے گا اس کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اس سے بہتر او رکوئی طریق نہیں.اس طریق میں ایک طرف تو بہترین نیابتی طریق حکومت شامل ہے اور دوسرے اس کو پارٹی فیلنگز سے بھی بالکل بالا کر دیا گیا ہے کیونکہ اسلامی حاکم کسی خاص پارٹی کی مدد یا نصرت کا محتاج نہیں ہوتا.پس وہ صرف ملکی فائدہ کو مدنظر رکھتاہے.عمر بھر کے لئے مقرر ہونے کے سبب سے بہترین دماغ ناقابل عمل اور متروک نہیں کئے جاتے بلکہ ملک کا ایک ایک شخص آخر تک ملک کی خدمت میں لگا رہتا ہے.گورنروں کا انتخاب گو خلیفہ کے اختیار میں ہے مگر اس میں بھی لوگوں کی عام رائے کا خیال
۲۹۵ رکھنا ضروری سمجھا گیا ہے.ہم لوگوں کے نزدیک یہی طریق حکومت حقیقی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جوں جوں لوگ احمدیت میں داخل ہوتے چلے جائیں گے اپنی مرضی سے بِلا کسی جبر کے خود اس طریق حکومت کی عمدگی کو تسلیم کر لیں گے اور بادشاہ بھی ملک کے فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے موروثی حقوق کو خوشی سے ترک کر دیں گے اور اپنے حق کو اسی حد تک محدود رکھیں گے جس حد میں کہ ملک کے دوسرے افراد کے حقوق محدود کئے گئے ہیں.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے صرف روحانی خلافت دے کر بھیجا تھا اس لئے آئندہ جہاں تک ہو سکے آپ کی خلافت اس وقت بھی جب کہ بادشاہتیں اس مذہب میں داخل ہوں گی سیاسیات سے بالا رہنا چاہتی ہے.وہ لیگ آف نیشنز کا اصلی کام سر انجام دے گی اور مختلف ممالک کے نمائندوں سے مل کر ملکی تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرے گی اور خود مذہبی، اخلاقی، تمدنی اور علمی ترقی اور اصلاح کی طرف متوجہ رہے گی تاکہ پچھلے زمانہ کی طرح اس کی توجہ کو سیاست ہی اپنی طرف کھینچ نہ لے اور دین و اخلاق کے اہم امور بالکل نظر انداز نہ ہو جائیں.جب میں نے کہا جہاں تک ہو سکے تو میرا یہ مطلب ہے کہ اگر عارضی طور پر کسی ملک کے لوگ کسی مشکل کے رفع کرنے کے لئے استمداد کریں تو ان کے ملک کا انتظام نیابتاً خلافت روحانی کرا سکتی ہے مگر ایسے انتظام کو کم سے کم عرصہ تک محدود رکھا جانا ضروری ہو گا." (احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوار العلوم جلد 8 صفحہ291-295) حقوق و فرائض حکومت اسلامی "اسلامی حکومت کی شکل بیان کرنے کے بعد اب میں ان حقوق کو بیان کرتا ہوں جو اسلام حکومت کو دیتا ہے اور ان فرائض کو بھی جو اسلام حکومت پر عائد کرتا ہے.سب سے پہلا فرض جو اسلام حکومت پر مقرر کرتا ہے یہ ہے کہ حکومت رعایا کے فوائد اور منافع اور ضروریات اور اتفاق اور اخلاق اور حفاظت اور معیشت اور مسکن کی ذمہ دار ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ الامام راع و ھو مسئول عن رعیتہ و الرجل راع فی اھلہ و مسئول عن رعیتہ و المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا و مسئولۃ عن رعیتھا و الخادم راع فی مال سیدہ و مسئول عن رعیتہ فکلکم راع
۲۹۶ و مسئول عن رعیتہٖ تم میں سے ہر ایک مثل گڈریے کے ہے اور ان لوگوں یا چیزوں کے متعلق پورا ذمہ دار ہے جو اس کے سپرد کئے گئےہیں بادشاہ کے سپرد ایک جماعت کی گئی ہے اور وہ ان کا ہر طرح ذمہ دار اور جوابدہ ہے اور ہر مرد کے سپرد ایک خاندان ہے اور وہ اس خاندان کا ذمہ دار اور جوابدہ ہے اور عور ت کے سپرد اولاد کی تربیت اور گھر کی حفاظت ہے اور وہ اس کی ذمہ دار اور جوابدہ ہے اور نوکر کے سپرد اس کے آقا کی جائداد اور مال ہے اور وہ اس کا ذمہ دار اور جوابدہ ہے.اس حکم سے ظاہر ہے کہ اسلام نے بادشاہ کو مثل گڈریے کے قرار دیا ہے جس کے سپرد مالک ایک ریوڑ کرتا ہے پس جس طرح اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسے بکھرنے اور پراگندہ نہ ہونے دے، بھیڑیے کے حملہ سے بچائے، اس کی صحت کا خیال رکھے، خوراک کا خیال رکھے، مکان کا خیال رکھے، غرض ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھے اسی طرح حکومت اسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے لوگوں کو تفرقہ اور فساد اور ایک دوسرے کے خلاف ظلم اور بیرونی حملوں سے بچائے اور ان کی تمام ضروریات کا فکر رکھے خواہ وہ علوم کے متعلق ہوں، خواہ تربیت کے، خواہ خوراک کے، خواہ رہائش کے، خواہ صحت کے، خواہ اور کسی قسم کی ہوں.یہ تعلیم تو عام ہے اس کے علاوہ تفصیلی فرائض یہ ہیں کہ اسلامی حکومت اس امر کی ذمہ وار رکھی گئی ہے کہ وہ ہر ایک شخص کے لئے خوراک لباس اور مکان مہیا کرے.یہ ادنیٰ سے ادنیٰ ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا حکومت کے ذمہ ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ چیز ہی جس کی حفاظت اس کے سپرد کی گئی ہے زندہ نہیں رہ سکتی.مکان اور خوراک کے بغیر جسمانی زندگی محال ہے اور لباس کے بغیر اخلاقی اور تمدنی زندگی محال ہے.اصولی احکام جن کو میں پہلے بیان کر چکا ہوں ان کا جو مفہوم مسلمانوں نے سمجھا اور جس طرح ان پر تفصیلی ضروریات کے مطابق عمل کیا وہ میرے نزدیک مثالوں سے اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ انسانی ضروریات کا ان لوگوں کے لئے مہیا کرنا جو ان کو مہیا نہیں کر سکتے اسلامی حکومت کا فرض ہے اس کے متعلق حضرت عمر کا ایک واقعہ نہایت ہی مؤثر اور کاشفِ حقیقت ہے.ایک دفعہ حضرت عمر خلیفہ ثانی باہر تجسس کر رہے تھے کہ کسی مسلمان کو کوئی تکلیف تو نہیں مدینہ دار الخلافہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں مرار نامی ہے وہاں دیکھا کہ ایک طرف
۲۹۷ سے رونے کی آواز آ رہی ہے ادھر گئے تو دیکھا ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں.اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے اس نے کہا کہ دو تین وقت کا فاقہ ہے کھانے کو کچھ پاس نہیں بچے بہت بیتاب ہوئے تو خالی ہنڈیا چڑھا دی تو یہ بہل جائیں اور سو جائیں.حضرت عمرؓ یہ بات سن کر فوراً مدینہ کی طرف واپس آئے آٹا ، گھی، گوشت اور کھجوریں لیں اورایک بوری میں ڈال کر اپنے خادم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دے.اس نے کہا حضور میں جو موجود ہوں میں اٹھا لیتا ہوں آپ نے جواب دیا بے شک تم اس کو تو اٹھا کر لے چلو گے مگر قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا؟ یعنی ان کی روزی کا خیال رکھنا میرا فرض تھا اور اس فرض میں مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے اس لئے اس کا کفارہ یہی ہے کہ میں خود اٹھاکر یہ اسباب لے جاؤں اور ان کے گھر پہنچاؤں.چونکہ سارے ملک کی خبر ملنی مشکل ہوتی ہے اس لئے اسلامی حکومت میں یہ انتظام ہوتا تھاکہ سب ملک کی مردم شماری کی جاتی تھی اور پیدائش اور موت کے رجسٹر مقرر کئے گئے تھے اور ان کی غرض آجکل کی حکومتوں کی طرح حکومت کے خزانوں کا بھرنا نہیں بلکہ خزانوں کا خالی کرنا ہوتی تھی.ان رجسٹروں کے ذریعے سے ملک کی عام حالت معلوم ہوتی رہتی تھی اور جو لوگ محتاج ہوتے ان کی مدد کی جاتی.مگر اسلام جہاں غرباء کی خبرگیری کا حکم دیتا ہے وہاں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں سستی اور کاہلی کو بھی مٹاتا ہے.ان وظائف کی یہ غرض نہ تھی کہ لوگ کام چھوڑ بیٹھیں بلکہ صرف مجبوروں کو یہ وظائف دئیے جاتے تھے ورنہ سوال سے لوگوں کو روکا جاتا تھا.ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک سائل دیکھا اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی آپ نے اس سے آٹا لے کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور فرمایا اب مانگ.اسی طرح یہ ثابت ہے کہ سوالیوں کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا.دوسرا فرض حکومت کا عدل کاقائم کرنا ہے.حکومت کا کام ہے کہ قضاء کا اعلیٰ درجہ کا انتظام کرے اسلام نے اس کا خاص طور پر حکم دیا ہے اور قضاء کے لئے یہ احکام مقرر کئے ہیں کہ وہ کسی کی رعایت نہ کریں، رشوت نہ لیں، ان کے پاس کوئی سفارش نہ کی جائے اور نہ وہ سفارش کو قبول کریں، شہادت اور ثبوت پر مقدمہ کا فیصلہ کریں، شہادت اور ثبوت مدعی سے طلب کریں ورنہ مدعا علیہ سے قسم لیں، شہادت کے موقع پر دیکھ لیں کہ شہادت دینےوالے لوگ ثقہ اور
۲۹۸ معتبر ہیں جھوٹے اور اوباش نہیں ہیں.قاضیوں کے متعلق حکم دیا کہ وہ لائق اور کام کے قابل ہوں قاضیوں کے فیصلہ کے متعلق یہ حکم دیا کہ گو قاضی غلطی کر سکتا ہے مگر چونکہ فی ما بین اختلافات کا فیصلہ انسانوں نے ہی کرنا ہے جو غلطی سے پاک نہیں ہیں اور چونکہ اگر جھگڑا کسی جگہ پر جا کر ختم نہ ہو تو فساد بڑھتا ہے اس لئے قاضیوں کے فیصلہ کو سب فریق کو قبول کرنا ہو گا خواہ اس کو غلط مانیں یا صحیح.اور جو شخص اس امر میں چون و چرا کرے اور قضاء کے فیصلہ کی ہتک کرے وہ ہرگز ایک مسلم شہری نہ سمجھا جائے کیونکہ وہ نظام سلسلہ کو درہم برہم کرتا ہے.کمزوروں اور ناسمجھوں کو اپنے حقوق کے سمجھنے میں مدد دینے کے لئے مفتیوں کا ایک سلسلہ جاری کیا جو قانون کے واقف ہوں مگر شرط یہ رکھی کہ یہ مفتی صرف حکومت ہی مقرر کر سکتی ہے اپنے طور پر کوئی شخص مفتی نہیں بن سکتا.ان فیصلوں کا اجراء حکومت کے اختیار میں رکھا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان کے اجراء میں رحم یا لحاظ سے کام نہ لیا جائے خواہ کوئی بڑا آدمی ہو خواہ چھوٹا.حتیٰ کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی چوری کرے تو میں اس کو بھی سزا دینے سے دریغ نہیں کروں گا.حضرت عمرؓ نے اپنے لڑکے کو ایک جرم میں خود اپنے ہاتھ سے کوڑے لگائے.ایک فرض حکومت کا یہ مقرر کیا گیا ہے کہ ملک کی عزت اورآزادی کی حفاظت کرے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو! سرحدوں پر ہمیشہ مضبوط چوکیاں بنائے رکھو.جو دوسری حکومتوں کے مقابلہ میں ملک کی حفاظت کریں اور امن اور جنگ میں برابر استقلال سے اس امر کا تعہد کرو.ایک فرض حکومت کا حفظان صحت کا خیال ہے چنانچہ راستوں اور پبلک جگہوں وغیرہ کی صفائی کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰٰ رسول کریم ﷺ کو حکم دیتا ہے وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدثر:6) علاوہ قلبی اور جسمانی صفائی کا خیال رکھنے کے گندگی اور غلاظت کو عام طور پر دور کر یعنی اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ پبلک صفائی کا خیال رکھے.رسول کریم ﷺ ہمیشہ صحابہ کو مقرر فرماتے تھے کہ وہ آوارہ کتوں کو مار دیں تا ان کے جنون کی وجہ سے لوگوں کو نقصان نہ پہنچے.ایک فرض اسلامی حکومت کا یہ ہے کہ وہ ملک کی تعلیم کا انتظام کرے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے فرض میں سے ایک فرض تعلیم مقرر فرمایا ہے فرماتا ہے
۲۹۹ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعة:3) احکام ضروریہ اور ان کی حکمت کا سکھانا اس رسول کا کام ہے.کتاب سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صرف قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم میں علم ہیٔت، علم نباتات، علم تاریخ، علم الاخلاق، علم طب، علم حیوانات وغیرہ کا ذکر ہے اور ان کی طرف توجہ دلائی ہے پس کتاب کےسکھانے میں ان علوم کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ہر مسلمان پر علم پڑھنا فرض ہے او ر آپؐ ہمیشہ اس امر کا خیال رکھتے تھے.بدر میں جو پڑھے لکھے لوگ قید ہوئے آپؐ نے ان سے معاہدہ کیا کہ بجائے روپیہ دے کر آزاد ہونے کے وہ مسلمان بچوں کو پڑھائیں.ایک فرض حکومت اسلام کایہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد کرے جو پیشہ تو جانتے ہیں لیکن ان کے پاس کام کرنے کو روپیہ نہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اسلامی بیت المال میں سے ایک حصہ ایسے لوگوں کے لئے مقرر کیا ہوا ہے.ایک فرض یہ ہے کہ وہ اندرونی امن کو قائم رکھے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسلامی حکومت کا فرض مقرر کرتا ہے کہ وہ امن کو قائم رکھے اور سخت مذمت ان لوگوں کو بیان کرتا ہے جو لوگ فساد کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ ایسے حاکم جن کی غفلت یا ظلم سے فساد پھیلتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور میں سخت مجرم ہیں رسول کریم ﷺ نے اسلامی حکومت کا یہ نقشہ کھینچا ہے کہ ایک عورت اکیلی سینکڑوں میل کا سفر کرتی چلی جائے اور اس کو کسی قسم کا خطرہ نہ ہو.ایک فرض اس کا یہ مقرر کیا گیا ہے کہ وہ ملک کی خوراک کا انتظام رکھے ابتدائی خلفاء کے زمانہ میں اس امر کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور خلفاء خود خوراک کے جمع رکھنے کا تعہد کرتے تھے اور جب غلہ کی کمی ہوتی تھی تو ہر شخص کے لئے پرچی جاری کرتے تھے جس کے ذریعہ سے وہ سرکاری سٹوروں میں سے غلہ خرید سکے تا ایسا نہ ہو کہ بعض لوگ زیادہ غلہ جمع کر لیں اور باقی محروم رہیں.۳۰۰
۳۰۰ ایک فرض یہ مقرر کیا ہے کہ راستوں کی درستی کا خیال رکھیں تاکہ سفروں اور ادھر سے اُدھر جانے میں آسانی ہو چنانچہ ابتدائی زمانہ اسلام میں جبکہ گاڑیاں نہیں تھیں صرف پیدل چلتے تھے یہ حکم تھا کہ راستے کم سے کم بیس فٹ چوڑے بنائے جائیں مگر یہ ایک اصول بتایا گیا ہے کہ راستے چوڑے رکھوانے چاہئیں اس زمانہ میں چونکہ گاڑیاں اور موٹریں بکثرت چلتی ہیں اس لئے آج کل اسی نسبت سے راستوں کو زیادہ چوڑا رکھوانا ضروری ہو گا.ایک یہ فرض مقرر کیا ہے کہ بادشاہ ملک کے اخلاق کی نگرانی رکھے اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے ملک کی اخلاقی حالت کو اچھا کرتا رہے اور خراب نہ ہونے دے.بالآخر ایک یہ فرض اسلام نے حکومت کا رکھا ہے کہ يُزَكِّيهِمْلوگوں کو بلند کرے اونچا کرے یعنی ان کی ہر قسم کی ترقی کو مدنظر رکھے اس عام حکم میں تمام زمانوں کی ضرورتوں کو شامل کر لیا ہے جو علوم جدیدہ بھی معلوم ہوں ان کو ملک میں رائج کرنا اور تحقیق و تجسس کی طرف لوگوں کو مائل کرنا جو تمدنی سوالات نئے پیدا ہوں ان کو شریعت کے دائرہ کے اندر حل کرنا یہ اسلامی حکومت کا فرض ہے." رعایا کے فرائض حکومت کے ان فرض کے مقابلہ کی رعایا کے بھی اسلام نے فرائض مقرر کئے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ رعایا کے لوگ اپنی حکومت کے خیر خواہ رہیں، اس سے تعاون کریں اور اس کے احکام کی پوری طرح فرمانبرداری کریں خواہ وہ ان کے منشاء کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں.مگر شریعت نے اسلامی حاکم کو سیاستاً کو ایک فوقیت دی ہے بحیثیت انسان اس کو کوئی علیحدہ رتبہ نہیں دیا.اس کو یہ حق ہے کہ ملک کی بہتری کے لئے بعد مشورہ کے احکام جاری ہے مگر اس کا یہ حق نہیں کہ ذاتی طور پر لوگوں پر حکومت کرے بلکہ اگر ذاتی معاملات میں خلیفہ اور کسی شخص کا جھگڑا ہو جائے مثلاً کسی مالی معاملہ میں اختلاف ہو جائے تو اسے اسی طرح عدالت سے اپنا فیصلہ کرانا ہو گا جس طرح دوسرے لوگ فیصلہ کراتے ہیں اور اس کو کوئی خاص رعائت حاصل نہ ہوگی.حضرت عمر ؓخلیفہ ثانی کا ایک دفعہ ایک جھگڑا ابی بن کعبؓ سے ہو گیا تھا.قاضی کے پاس معاملہ پیش ہوا.انہوں نے حضرت عمر ؓکو بلوایا اور آپ ؓکے آنے پر اپنی جگہ ادب سے چھوڑی.حضرت عمرؓ فریق مخالف کے پاس جا بیٹھے اور قاضی سے فرمایا کہ یہ پہلی بے انصافی ہے جو آپ نے کی ہے اس وقت مجھ میں اور میرے فریق مخالف میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے تھا.۲۴ مگریہ دعادی انہی امور کے متعلق چل سکتے ہیں جو خلافت کے کام سے علیحدہ ہوں.آقا اور ملازمین کے تعلقات اسلام سے پہلے آقا اور ملازم کی حیثیت ایک بادشاہ اور رعایا کی حیثیت ہی سمجھی جاتی تھی اور اس وقت بھی باوجود خیال کے بدل جانے کے عملاً یہی نظارہ ہمیں نظر آتا ہے مگر اسلام اس کا علاج ہمیں بتاتا ہے.وہ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ ایک آقا جس طرح روپیہ دیتا ہے اسی طرح ایک نوکر اپنا وقت اور اپنی
۳۰۱ جان دیتا ہے اس لئے لوگوں کا حق نہیں کہ وہ ان سے جابر بادشاہوں والا سلوک کریں اور جب کہ اسلام نے بادشاہوں کے ان حقوق کو بھی منسوخ کر دیا جو عادتاًور رسماًان کو حاصل تھے تو پھر آقا اور ملازم کے ان غیر منصفانہ تعلقات کو وہ کب جائز رکھ سکتا تھا جو اسلام سے پہلے دنیا میں قائم تھے.چنانچہ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ آقا اپنے ملازم کو گالی نہ دے اور نہ مار ے بلکہ ملازم تو الگ رہا غلام کے متعلق بھی اسلام یہی حکم دیتا ہے کہ نہ اس کو گالی دی جائے اور نہ مارا جائے (اس جگہ ضمنًا میں اس امر کا بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی احکام غلامی کے متعلق بھی لوگوں کو سخت غلط فہمی ہے.اسلام اس طرح غلامی کو جائز نہیں قرار دیتا جس طرح کہ دوسرے مذہب جائز قرار دیتے ہیں.اسلامی احکام کی رُو سے کسی قوم میں سے غلام بنانا صرف اسی وقت جائز ہوتا ہے (۱) جبکہ وہ اس لئے کسی دوسری قوم سے لڑے کہ اس سے جبرا اس کانذ ہب چھڑا دے (۲) جبکہ وہ لوگ جن کو غلام بنایا گیا ہو عملا ًاپنی ظالمانہ اور خلاف انسانیت جنگ میں شامل ہوں (۳) جبکہ وہ لوگ جن کو غلام بنایا گیا ہو اس مظلوم قوم کا جس سے وہ اس کی جان سے پیاری چیز مذہب چھڑانا چاہتے تھے خرچ جنگ ادا کرنے کے لئے تیار نہ ہوں.اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی جنگ دنیاوی ہو یا وہ شخص جس کو غلام بنایا گیا ہے جن میں شامل نہ ہو یا جنگ میں توشامل ہو مگر خرچ جنگ میں سے اپنا حصہ ادا کرنے کے لئے تیار ہو تو ایسے شخص کو غلام بنانے یا غلام رکھنے کو اسلام ایک خطرناک جرم قرار دیتا ہے.اور ہر ایک شخص خیال کر سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس لئے تلوار اٹھاتا ہے کہ دوسرے سے جبرا ًاس کا مذہب چھڑوا دے جس کی نسبت اس دوسرے شخص کا یہ یقین ہے کہ وہ نہ صرف اس کے اس دنیا میں کام آنے والا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ہمیشہ اسی مذہب نے اس کو ابدی ترقیات دلانی ہیں اور پھر جب پکڑا جائے تو اس خرچ کو ادا کرنے سے وہ خود یا اس کی قوم کے لوگ انکار کر دیں جو اس قوم کو کرنا پڑا تھا جس پر ایسا ظالمانہ حملہ کیا گیا تھا تو وہ ضرور اس امر کا مستحق ہے کہ اس کی آزادی اس سے چھین لی جائے.اسلام در حقیقت ایسے شخص کو جو مذہب بزور شمشیر پھیلانا چاہتا ہے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ پر دوسرے کے عقائد میں دخل دینا چاہتا ہے انسانیت سے خارج قرار دیتا ہے اور بنی نوع انسان کے لئے اسے ایک خطرناک وجود قرار دیا ہے اس لئے اس وقت تک کہ اس کے اندر حقیقی ندامت پیدا ہو اسے اس کی آزادی سے محروم کرتا ہے )ایک صحابی فرماتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے ہمارے پاس ایک لونڈی تھی ہم میں سے سب سے چھوٹے بھائی نے اس کے ایک تھپڑ مار دیا.رسول کریم
۳۰۲ ﷺنے حکم فرمایا کہ اسے آزاد کر دو.اسی طرح ایک اور صحابی فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ایک غلام کو مارنے لگا مجھے اپنے کچھ سے ایک آواز آئی جسے میں پہچان نہ سکا اتنے میں میں نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ چلے آرہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اے ابو مسعود! جس قدر مجھ کو اس غلام پر مقدرت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ تجھ پر خدا کو مقدرت حاصل ہے وہ کہتے ہیں ڈر کے مارے میرے ہاتھ سے کو ڑا جاپڑا اور میں نے کہا یا رسول الشاہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر تو اسے آزاد نہ کرتا تو آگ تیرا منہ جھلستی اسی طرح رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے نوکر سے وہ کام نہ لے جو وہ کر نہیں سکتا اور اگر زیادہ کام ہو تو خود ساتھ لگ کر کام کرائے.25.اسی طرح آپؐ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا نوکر کھانا پا کر اس کے سامنے رکھے تو اصل حق تو یہ ہے کہ وہ اسے ساتھ بٹھا کر کھلائے اگر ایسا نہ کر سکے تو کم سے کم اس میں سے اس کو حصہ دیدے کیونکہ ان کی تکلیف تو اسی نے اٹھائی ہے.۴۵.مزدوری کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری اس کو ادا کردی جائے ۲۵۲؎.اور اس کے حق کے متعلق فرماتے ہیں کہ جو شخص مزدور کو اس کا حق ادا نہیں کر تا قیامت کے دن میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا.۲۵۳.جس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اگر کوئی ملک مزدور کی مزدوری نہ دے تو حکومت کا فرض ہے کہ اس کو دلوائے.اسی طرح ایک حق مزدور کا شریعت نے یہ مقرر کیا ہے کہ اگر اس کو مزدوری کافی نہیں دی جاتی تو وہ حکومت کے ذریعہ سے اپنی دادرسی کرائے اور اگر مزدور سیاسی یا تمدنی حالات کی وجہ سے مجبور ہوں کہ اس آقا کے ساتھ کام کریں تو حکومت کا فرض ہو گا کہ دونوں فریق کا حال سن کر مناسب فیصلہ کرے.امراء اور غرباء اور حکام کے تعلقات اور اختیارات پر ایک اجمالی نظر یہ ایک اہم سوال ہے کہ مختلف لوگوں کے حقوق کا توازن کس طرح قائم رکھا جائے ؟ اور
۳۰۳ اس وقت کے تمدن کے سب سے پیچیدہ مسائل یہی ہیں اس لئے میں ان مسائل پر ایک اجمالی نظر ڈالتا ہوں تا کہ اسلام نے ان مشکلات کا جو حل تجویز کیا ہے وہ آپ لوگوں کے ذہن میں آجائے.یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ تمام دنیا خواہ زمین ہو ،خواہ سورج ،خواہ چاند، خواہ ستارے یہ سب انسان کے فائدے اور نفع کے لئے پیدا کئے گئے ہیں پس یہ سب چیزیں اسلامی اصول کے ماتحت تمام بنی نوع انسان کے درمیان مشترک ہیں اور سب بحیثیت مجموعی ان کے مالک ہیں.مگر اس اصل کے ساتھ ایک او راصل بھی ہے جسے اسلام پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ یہ دیکھے کہ کون کیسا عمل کرتا ہے اور یہ کہ خدا تعالی نے انسان کی فطرت کے اندر یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ مقابلہ کرکے دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ خود اسلام اس مقابلہ کی طرف رغبت دلاتا ہے اور فرماتا ہے فاستبقوا الخيرات اے مسلمانو! ایک دوسرے سے نیک کاموں میں مقابلہ کرو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کو شش کرو.جب مقابلہ ہو گا اور کوئی آگے نکل جائے گا اور کوئی پیچھے رہ جائے گا تو لاز ماً کوئی زیادہ انعام لے جائے گا اور کوئی کم فائدہ حاصل کرے گا اور کوئی بالکل محروم رہ جائے گا میں اس فرق کو اسلام تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ فرق ہماراہی پیدا کیا ہوا ہے اور اس پر تم کو آپس میں چِڑنا نہیں چاہئے.ولا تتمنوا مافضل الله به بعضکم على بعض اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر جو فضیلت دی ہے اس کے متعلق اپنے دل میں یہ خیال نہ کرو کہ ہم دوسروں سے چھین لیں.مطلب یہ کہ خداتعالی کے کام حکمت والے ہوتے ہیں خداتعالی نے بلاوجہ ایسا نہیں کیا بلکہ کارخانہ عالم اسی سے چلتا ہے اوراسی طرح چل سکتا ہے اگر تم اس نظام میں خلل ڈالو گے یعنی وہ لوگ جو اس طرح مقابلے میں آگے بڑھ گئے ہیں ان کو ان کے انعامات سے محروم کرو گے تو یہ سب مقابلہ اور کوششیں بند ہو جائے گی اور ساتھ ہی دنیا کی ترقی بھی بند ہو جائے گی.مگر لوگوں کا حق قائم رکھ کر پھر فرماتا ہے کہ اسے وہ لوگو وچن پر خدا تعالی نے فضل کیا ہے اور تم کو ترقی دی ہے تمہارا فرض ہے کہ تم ان بھائیوں کو جو پیچھے رہ گئے ہیں آگے بڑھا ؤ اور ان کواپنے ساتھ شامل کرو کیونکہ تم کو خیال رکھنا چاہئے کہ جس مال پر تم قابض ہو اس میں در حقیقت ان غرباء کا بھی حصہ تھاپس آگے نکل جانے کی وجہ سے تم کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ ان غرباء کو محروم
۳۰۴ کردو بلکہ تم کو یہی خوشی اپنا انعام سمجھنا چاہئے کہ تمہارے کئی بھائی جو تمہاری ہی طرح اس دنیا کے حصہ دار ہیں تمهارے ذریعہ سے پرورش پارہے ہیں اور خداتعالی نے تم کو اس درجہ پر پہنچایا ہے کہ تم بھی اس کی طرح اس کی مخلوق کی ربوبیت کرو.فرماتا ہے واتوھم من مال الله الذي أتكم ۲۵۷.اور دو محتاجوں کو خدا تعالی کے مال سے جو اس نے تم کو دیا ہے لیکن بطور امانت تمهارے پاس ہے ورنہ اس میں دوسروں کاحق شامل ہے.ان اصول سے آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے اسلام کے نزدیک افراد کا مقابلہ نہایت ضروری ہے اور اس مقابلہ کو زندہ رکھنے کے لئے دیانتداری سے وہ لوگ جو کہ علما میں ان کے پاس رہنا ضروری ہے ہاں چونکہ اس میں علاوہ ان کی محنت کے دوسرے لوگوں کے حقوق شامل ہیں کیونکہ سب بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے زمین اور اس کے اندر کی چیزیں پیدا کی گئی ہیں اس لئے چاہئے کہ وہ لوگ کچھ رقم بطور حق ملکیت باقی حصہ داروں کو ادا کردیں.مگر جب اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس مقابلہ کا جاری رکھنا دنیا کی ترقیات کے لئے ضروری ہے تو ساتھ ہی ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں تو پھر مقابلہ کے راستوں کا سب بنی نوع انسان کے لئے کھلا رکھنا بھی نہایت ضروری ہے اور اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ جو امور ایسے ہوں کہ ان کے سبب سے عام مقابلہ بند ہو کر چند محدود لوگوں میں مقابلہ آجائے اور باقی سب لوگ مقابلہ سے خارج کئے جاکر صرف تماشا دیکھنے والے بن جائیں ان کی اصلاح کی جائے.اسلام اس سوال کی اہمیت تسلیم کرتا ہے اور اس کا جواب اثبات میں دیتا ہے اور مندرجہ ذیل طریق تجویز کرتا ہے جس سے (۱) مقابلہ بھی جاری رہتا ہے.(۳) جو لوگ ترقی کریں اور خاص محنت کریں ان کو ان کی محنت اور کوشش کا پھل بھی مل جاتا ہے اور افراد کی ملکیت قائم رہتی ہے (۳) جس قدر حصہ ان آگے نکل جانے والوں کی ترقی میں باقی لوگوں کی مملوکہ اشیاء یا ان کی محنتوں کا تھا وہ بھی لوگوں کو بلایا جاتا ہے (۴) تمام بنی نوع انسان کے لئے ترقی کا دروازہ کھلا رہتا ہے کسی خاص قوم یا خاص خاندانوں میں محدود نہیں رہتا بلکہ ادنی ٰ سے ادنی ٰآدمی کے لئے بھی اعلی ٰسے اعلیٰ ترقی حاصل کرنے کا موقع موجود رہتا ہے اور کسی جماعت کو نسلاً بعد نسل دوسرے لوگوں پر حکومت حاصل نہیں ہوتی (۵) تمام بنی نوع انسان کی ضروریات بھی بلا تکلیف پوری ہوتی رہتی ہیں.وہ طریقے ہیں.اول.اسلام اس امر کامد عی ہے کہ جس قدر اشیاء دنیا میں موجود ہیں ان میں سب بنی نوع
۳۰۵ انسان شریک ہیں اور اس وجہ سے دنیا میں حقیقی ملکیت کوئی نہیں.زید کے پاس جو کچھ ہے وہ اسکی ملکیت ان معنوں میں نہیں کہ دوسروں کا اس میں بالکل حصہ ہی کوئی نہیں بلکہ اس کی ملکیت وه اس وجہ سے کہلاتی ہے کہ اس کا حصہ دو سروں کی نسبت زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ اس نے محنت کر کے اس کو حاصل کیا ہے ورنہ اس میں اور لوگوں کے حصے بھی شامل ہیں چنانچہ اسلام امراء کے مال میں غرباء کا حق قرار دیا ہے في أموالهم حق السائل والمحروم امراء کے مال میں ان کا جو بول سکتے ہیں یعنی انسانوں کا بلکہ ان حیوانوں کا بھی جو نہیں بول سکتے بطور حق کے حصہ ہے.اسی طرح فرماتا ہے قریبیوں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو ان کے حق د و ؎۲۵۸ پس وہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ کو بند رکھنا درست نہیں کیونکہ اس طرح لوگ اپنے حق سے محروم رہ جاتے اور وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ روپیہ کو یا خرچ کریں یا کام پر لگائیں کیونکہ دونوں صورتوں میں لوگ اس روپیہ سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے.اگر وہ خرچ کرے گا تو بھی روپیہ چکر کھانے لگے گا اور لوگوں کو فائدہ ہو گا اور اگر کسی کام پر لگائے گا تو بھی کچھ لوگ بطور ملازمت کے فائدہ اٹھائیں گئے اور کچھ وہ لوگ جن سے لین دین ہوا فائدہ اٹھائیں گے.اگر کوئی شخص ایسا نہ کرے تو اس کے حق میں فرماتا ہے ان الله لا يحب من كان مختا لا؟ فخورا الذين يبخلون ويامرون الناس بالبخل ويكتمون مااتهم الله من فضله وأعتدنا للكفرين عذابا مھينا ۲۵۹.اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا متکبروں اور اترانے والے لوگوں کو جو روپیہ بند کر کے رکھ چھوڑتے ہیں اور لوگوں کو بھی کہتے ہیں کہ تم بھی ایسا ہی کرو اور جو کچھ خدا نے اپنے فضل میں سے دیا ہے اس کو چھپا چھوڑتے ہیں ان کو ایسا نہیں چاہئے.اگر یہ اس نصیحت کو قبول نہ کریں گے تو ان کو رسوا کرنے والا عذاب آئے گا.لیکن اگر وہ اس طرح اپنے اموال کو چھپاتے اور جمع کرتے چلے جائیں گے تو ان کی قوم ذلیل ہو جائے گی اور وہ بھی ساتھ ہی ذلیل ہوں گے.اب دوسری صورت جو اموال کے خرچ کرنے کی ہے اس میں یہ نقص ہو سکتا تھا کہ لوگ اپنی جانوں پر سب روپیہ خرچ کر دیں اور اسراف سے کام لیں.اس کا علاج اسلام نے یہ کیا ہے کہ ہر خم کی عیاشیوں کو روک دیا ہے.اسلام کھانے میں اسراف کو، پہننے میں اسراف کو، مکان بنانے میں اسراف کو، غرض کہ ہر چیز میں اسراف کو منع کرتا ہے.اس وجہ سے ایک مسلمان جو اسلام کے احکام پر عمل کرتا ہے اپنی ذات پر اس قدر روپیہ خرچ ہی نہیں کر سکتا کہ جس سے
۳۰۶ دوسرے لوگوں کے حقوق تلف ہو جائیں.لیکن چونکہ ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ باوجود اسلام کے اس حکم کے کہ روپیہ جمع نہ کیا کریں بلکہ اس کو خرچ کریں یا کام میں لگائیں روپیہ جمع کرتے رہیں اور چونکہ خالی اس حکم سے لوگوں کے وہ حقوق جو تمام اموال میں اسلام تسلیم کرتا ہے پوری طرح ادا نہیں ہو سکتے تھے اس لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ جس قدر جائیداد کسی انسان کے پاس سونے چاندی کے سکّے یا أموال تجارت کی قسم سے ہو اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو اس پر حکومت اس سے اڑھائی فیصدی ٹیکس سالانہ لیا کرے جو ملک کے غرباء اور محتاجوں پر خرچ کیا جائے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے جو الفاظ اس صدقہ کی غرض کے متعلق استعمال فرمائے ہیں ان میں آپ صاف طور پر ظاہر فرماتے ہیں کہ یہ مال اس غرض سے امراء سے لیا جاتا ہے کہ ان کے اموال میں غرباء کا حصہ شامل تھا.آپ فرماتے ہیں ان الله افترض عليهم صدقة في أموالهم توخذ من اغنيائهم وترد على فقرائهم ۲۱.اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غرباء کی طرف لوٹائی جائے گی.”لوٹائی جائے گی “ کے الفاظ صاف طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ اس ٹیکس کو غرباء کاحق سمجھا گیا ہے اور یہ قرار دیا گیا ہے کہ امراء کی دولت میں غرباء کے حقوق اور ان کی محنت بھی شامل ہے مگر چونکہ ان کے حقوق کا معین اندازه مشکل تھا اس لئے ایک قاعدہ مقرر کردیا کہ جس کے مطابق ان سے زکوۃ لے لی جایا کرے.یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ٹیکس جسے زکوة کہتے ہیں آمدن پر نہیں ہے بلکہ سرمایہ اور نفع سب کو ملا کر اس پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح اڑھائی فیصد در حقیقت بعض دفعہ نفع کا پچاس فیصدی بن جاتا ہے اس حکم کی موجودگی میں کوئی شخص مال کو بے وجہ جمع نہیں رکھ سکتا کیونکہ اس صورت میں اس کا مال تھوڑے ہی عرصہ میں ٹیکس کی ادائیگی میں ہی خرچ ہو جائے گا.قرآن کریم میں بھی اس امر کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ زکوة کی غرض در حقیقت امراء کے مالوں کو پاک کرتا ہے یعنی ان کے مالوں میں جو ملک کے دوسرے لوگوں کی محنت اور ان کے حقوق کا ایک حصہ شامل ہوگیا ہے اس کو ادا کر کے خالص ان کا حق علیحد ہ کردینے کے لئے یہ ٹیکس لگایا جاتا ہے.چنانچہ الله تعالی فرماتا ہے خذ من اموالهم صدقة تطھرھم و تزکیھم \".لوگوں کے مالوں سے صدقہ لے اور اس طرح ان کو پاک کر یعنی ان کے مال اس ذریعہ سے ہر قسم کی ملونی سے پاک ہو جائیں گے اور دوسروں کے حق ان سے الگ ہو جائیں گے پھر فرماتا ہے چاہئے
۳۰۷ کہ یہ مال جو امراءسے وصول کئے جائیں ان سے غرباء کو ترقی کی طرف لے جایا جائے.زکوٰۃ کے حکم سے اسلام نے ان تمام حقوق کو ادا کردیا ہے جو امراء کے مال میں غرباء کی طرف سے شامل تھے اور اس طرح سرمایہ دار اور مزدور میں صلح کرادی ہے کیونکہ علاوہ مناسب مزدوری کے جو کار کن حاصل کرتے ہیں اسلام ان کے اور ان کے غریب بھائیوں کی خاطر امراء سے اڑھائی فیصد ٹیکس کل جائد اد پر وصول کرتا ہے.گو اس ٹیکس کی وصولی سے مالی پہلوتو حل ہو جاتا ہے مگر یہ سوال رو جا تا ہے کہ امراء نے غرباء یا درمیانی درجہ کے لوگوں کے لئے ترقی کا کوئی راستہ کھلا چھوڑا ہی نہیں پھر وہ ترقی کس طرح کریں؟ اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کا حق ہے کہ ان کے لئے ترقی کا راستہ کھلا رکھا جائے وہ اس امر کو ناپسند کرتا ہے کہ کوئی شخص دوسروں کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے ایک دو ڑ جو کئی آدمیوں میں ہو رہی ہو اس میں ہر ایک شخص یکساں ہمدردی کے ساتھ ہر اک دوڑنے والے کو دیکھے گا مگر اس کے ساتھ کسی کو ہمدردی نہیں ہو سکتی جو آگے ہو کر اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے کہ کوئی دوسرا آگے نہ بڑھ سکے.اگر اس کو جائز رکھا جائے تو مقابلہ وہیں بند ہوجائے گا اور چند لوگ جو پہلے آگے نکل چکے ہیں سب ترقیات اپنے ہی ہاتھ میں رکھیں گے اور کسی دوسرے کو حصہ نہ دیں گے.اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور اس نے اس نقص کی جڑ کو کاٹ کر ترقی کا راستہ سب کے لئے کھول دیا ہے.ٍاگر غور کیا جائے تو اس نقص کے باعث کہ بعض ملکوں میں چند گھرانوں میں تمام ترقیات محدود ہو گئی ہیں تین ہیں.(1) جائداد کا تقسیم نہ ہونا بلکہ صرف بڑے لڑکے کے قبضہ میں رہنا اور مال کے متعلق باپ کو اختیار ہوتا ہے جس قد رچا ہے جس کو چاہے دے دے.(۴) سود کی اجازت جس کی وجہ سے ایک ہی شخص یا چند افرا د بغیر محنت کے جس قدر چاہیں اپنے کام کو وسعت دے سکتے ہیں.(۳) منافع کی زیادتی.ان تین نقائص کی وجہ سے بہت سے ممالک میں لوگوں کے لئے ترقیات کے راستے بالکل محدود ہو گئے ہیں.جائدادیں جن لوگوں کے قبضہ میں ہیں اور اس وجہ سے غرباء کو جائدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں.سود کی وجہ سے جو لوگ پہلے ہی اپنی ساکھ بٹھا چکے ہیں وہ جس قدر چاہیں
۳۰۸ روپیہ لے سکتے ہیں.چھوٹے سرمایہ دار کو ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں منافع کی زیادتی کی وجہ سے دولت ایک آبشار کی طرح چند لوگوں کے گھروں میں جمع ہو رہی ہے.اسلام نے ان نقائص کے مٹانے کے لئے تین ہی علاج کئے ہیں.اول ورثہ کے تقسیم کئے جانے کا حکم دیا ہے کسی شخص کا اختیار نہیں کہ اپنی جائداد کی ایک شخص کو دے جاوے تاکہ ایک طبقہ کے پاس دولت محفوظ رہے.اسلام حکم دیتا ہے کہ مطابق شریعت تمام اولاد ماں باپ بیوی کا خاوند یا بھائیوں بہنوں میں پر مرنے والے کی جان اور تقسیم ہو جانی چاہئے.اس تقسیم کے بدلنے کا کسی کو اختیار نہیں.اس علم کی وجہ سے ایک اسلامی شریعت پر چلنے والے ملک میں ایک شخص جو بڑی ترقی کر جاتا ہے اس کی اولاد محض اس کی ترقی کے سہارے پر نہیں بیٹھ سکے گی بلکہ اس کی جائیداد چونکہ چھے سات جگہ تقسیم ہو جائے گی مکان بھی اور زمینیں بھی اور مال بھی اسلئے سب کو پھر نئے سرے سے محنت کرنی پڑے گی اور چونکہ زمینیں تقسیم ہوتی چلی جائیں گی دو تیننسلوں میں وہ اپنے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جائیں گی کہ ایک معمولی مزدور بھی ان میں سے ایک حصہ خریدنے پر قادر ہو سکے گا اور اپنی آئندہ ترقی کی بنیاد اس پر رکھ سکے گا غرض تقسیم جائداد کے سبب سے کوئی نسلی دیوار نہیں کھڑی ہو سکے گی.دوسری روک غرباء کے راستہ میں سورہے سور کے زرینہ سے وہ تاجر جو پہلے سے ساکھ بٹھا چکے ہیں جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے سکتے ہیں.اگر ان کو اس طرح رو پیہ نہ مل سکتا تو وہ یا تو دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے یا اپنی تجارت کو اس پیمانہ پر نہ بڑھا سکتے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے روک بن سکیں اور ٹرسٹس اور ایسوی ایشنز قائم کر کے دوسرے لوگوں کے لئے ترقی کا دروازہ بالکل روک دیں.نتیجہ یہ ہوا کہ مال ملک میں مناسب تناسب سے تقسیم رہتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ مال جمع نہ ہو سکتا.جو ملک کی اخلاقی ترقی کے لئے ملک اور غرباء اور درمیانی طبقہ کے لوگوں کے لئے متباہی کا موجب ہوتا ہے.تیسری صورت جو نفع کی زیادتی کی تھی اس کا اسلام نے ایک تو اس ٹیکس کے ذریعہ سے انتظام کیا ہے جو غرباء کی خاطر امراء سے لیا جاتا ہے اس ٹیکس کے ذریہ سے اتنی رقم امراء سے لے لی جاتی ہے کہ ان کے پاس اس قدر روپیہ اکٹھاہی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کے زور سے ملک کا سارا روپیہ جمع کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جس قدر روپیہ ان کے پاس ہو گا اس میں سے ہر
۳۰۹ سال ان کو غریبوں کا ٹیکس ادا کرنا ہو گا.دوسرے شریعت نے یہ انتظام کیا ہے کہ غرباء میں سے ہوشیار اور ترقی کرنے والے لوگوں کو اس ٹیکس میں سے اس قدر سرمایہ دیا جائے کہ وہ اپنا کام چلا سکیں اس ذریعہ سے نئے نئے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع ملے گا اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں رہے گا.تیسرے اسلام نے ان تر کیبوں سے منع کردیا ہے جن کے ذریعہ سے لوگ ناجائز طور پر زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں.چنانچہ اسلام اس امر کو گناہ قرار دیتا ہے کہ کوئی شخص تجارتی مال کو اس لئے روک رکھے کہ تا اس کی قیمت بڑھ جائے اور وہ زیادہ قیمت پر فروخت ہو.پس اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹرسٹس کی قسم کے تمام ذرائع جن سے نفع کو زیادہ کیا جاتا ہے اسلامی تعلیم کے مطابق ناجائز ہوں گے اور حکومت ان کی اجازت نہ دیگی.اب ایک سوال ہی رہ جاتا ہے کہ اگر سود بند کیا جائے گا تو تمام تجارتیں تباہ ہو جائیں گی مگریہ امر درست نہیں مانت سود سے کبھی تجارتیں تباہ نہ ہوگی.اب بھی سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ اس وجہ سے سود کا تعلق تجارت سے ہے کہ مغربی ممالک نے اس طریق کو نشوونما دیا ہے اگر وہ اپنی تجارتوں کی بنیادر شروع سے سود پر نہ رکھتے تو نہ آج یہ بے امنی کی صورت نظر آتی اور نہ تجارتوں سے سود کا کوئی تعلق ہو تا.آج سے چند سو سال پہلے مسلمانوں نے ساری دنیاسے تجارت کی ہے اور اپنے زمانہ کے لحاظ سے کامیاب تجارت کی ہے مگر وہ سود بالکل نہیں لیتے تھے.وہ بوجہ سود نہ لینے کے ادنی ٰ،ادنی ٰ غرباء سے روپیہ شراکت کے طور پر لیتے تھے اور ملک کے اکثر حصہ کو ان تجارتوں سے فائدہ پہنچا تھا.پس سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ سود پر چونکہ ان کی بنیاد رکھی گئی ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سود پر چل رہی ہیں.بے شک شروع میں دقتیں ہو نگی لیکن جس طرح سودپر بنیاد رکھی گئی ہے اسی طرح اس عمارت کو آہستگی سے ہٹایا بھی جاسکتا ہے.ٍسود اس زمانہ کی وہ جو نک ہے جو انسانیت کا خون چوس رہی ہے زراء اور درمیانی درجہ کے لوگ بلکہ امراء بھی اس ظلم کا شکار ہو رہے ہیں مگر بہت سے لوگ اس چیتے کی طرح جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی زبان پر پتھر رگڑ رگڑ کر کھا گیا تھا ایک جھوٹی لذت محسوس کر رہے ہیں جس کے سبب سے وہ اس کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے اور اگر چھوڑنا چاہتے ہیں تو سوسائٹی کا بہاؤ ان کو الگ ہونے نہیں دیتا.
۳۱۰ اس کے دو خطرناک اثر ملکوں کے امن کے خلاف پڑ رہے ہیں.ایک اس کے ذریعہ سے دولت محدود ہاتھوں میں جمع ہو رہی ہے.دوسرے اس کی وجہ سے جنگیں آسان ہو گئی ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کا کوئی انسان بھی اس جنگ عظیم کی جو پچھلے دنوں ہوئی ہے جرأت کر سکتا تھا اگر سود کا دروازہ اس کے لئے کھلا نہ ہوتا؟ جس قدر روپیہ اس جنگ پر خرچ ہوا ہے مختلف ممالک اس روپے کے خرچ کرنے کے لئے کبھی تیار نہ ہوتے اگر اس کا بوجھ براہ راست ملک کی آبادی پر پڑ جاتا.اس قدرعرصہ تک جنگ محض سود کی وجہ سے جاری رہیں ورنہ بہت سی سلطنتیں تھیں جو اس عرصہ سے بہت پیشترجس میں پچھلی جنگ جاری رہی جنگ کو چھو ڑبیٹھتیں کیونکہ ان کے خزانے ختم ہو جائے اور ان کے ملک میں بغاوت کی ایک عام لہر پیدا ہو جاتی.یہ سودہی تھا جس کی وجہ سے اس وقت تک لوگوں کو بوجھ محسوس نہیں ہوا لیکن اب کمریں اس کے بوجھ کے نیچے جھکی جارہی ہیں اور غالبا ًکئی نسلیں اس قرضہ کے اتارنے میں مشغول چلی جائیں گی.اگر سود نہ لیا جا تاتو جنگ کا نتیجہ وہی ہوتا جو اب ہوا ہے یعنی وہی اقوام جیت جاتی جواب جیتی ہیں.مگر فرانس اس قد ر تباہ نہ ہوتا، جرمنی اس طرح برباد نہ ہوتا، آسٹریا اس طرح ہلاک نہ ہو تا، انگلستان پر یہ بار نہ پڑتا ،اول تو جنگ چھیڑنے ہی کی حکومتوں کو جرأت نہ ہوتی اور اگر جنگ چھڑ بھی جاتی تو ایک سال کے اندر جو ش مدھم ہو کر کبھی کی صلح ہوچکی ہوتی اور آج دنیا شاہراہ ترقی پر چل رہی ہوتی.حکومتیں آجکل آلاتِ جنگ کے کم کرنے پر زور دے رہی ہیں.یہ بھی ایک اچھی بات ہے مگر آلات تو ارادے کے ساتھ فور اًہی بن جاتے ہیں.جس چیز کے توڑنے کی ضرورت ہے وہ سود ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ سودجنگ کے پید اکرنے کا موجب ہے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں.پس جنگیں خواہ اند رونی ہوں خو او بیرونی تبھی بند ہوں گی اور ملکوں میں امن تبھی قائم ہو گا جب سود کے رواج کو تمدن کے دائرہ سے باہر نکال دیا جائے گا.بے شک تب دودھ کی نہریں چلیں گی اور امیر غریب پر ظلم نہیں کر سکے گا اور بادشاہتیں بادشاہتوں پر چڑھائی کرنے سے ڈریں گی اور تبھی جنگ کی طرف مائل ہوں گی جب ان کو یقین ہو گیا کہ ان کے ملک کی عزت خطرہ میں ہے اور یہ کہ لوگ اس کے بچانے کے لئے ہر اک قربانی کے لئے تیار ہیں.حاکم اپنا دل خوش کرنے کے لئے کبھی جنگ نہیں کر سکیں گے.ایک نقص اور ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کے ہاتھ میں مال زیادہ جمع ہوتا ہے اور وہ
۳۱۱ کانوں کی دریافت ہے اس کا علاج اسلام نے یہ کیا ہے کہ کانوں میں سے پانچواں حصہ گورنمنٹ کا مقرر کیا ہے اور جو مال کانوں کے مالک جمع کریں اور اس پر سال گزر جائے اس پر زکٰوۃ الگ ہے گویا اس طرح حکومت کانوں میں حصہ دار ہو جاتی ہے اور غرباء کے لئے ایک کافی رقم مل جاتی ہے جس سے ان کے حقوق ادا کئے جا سکتے ہیں.اگر کوئی شخص جس کی زمین میں سے کان نکلی ہو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق نہ رکھے تو چونکہ گورنمنٹ کا بھی اس میں حصہ ہے گو ر نمنٹ مناسب معاوضہ دے کر اسے خرید سکتی ہے یا اور کسی کے پاس اس کے حصہ کو فروخت کرنے کی اجازت دے سکتی ہے اس طرح کانوں کی وجہ سے جو نظام تمدن میں نقص ہے وہ بھی دور ہو جاتا ہے.حکومتوں کے آپس کے تعلقات حکومتوں اور رعایا اور امراء اور غرباء کے تعلقات کے بیان کرنے کے بعد اب میں ان تعلیمات کو بیان کرتا ہوں جو اسلام نے بین الاقوامی تعلقات کے متعلق دی ہیں."یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیمات کا مطمح نظر تو یہ ہے کہ دنیا میں ملکی حکومتوں کو اڑا کر ساری دنیا میں ایک ہی حکومت قائم کر دی جائے تا لڑائیوں اور جھگڑوں کا خاتمہ ہو جائے.اسلام مختلف ممالک کو اس قدر اندرونی آزادی دیتا ہے کہ اسلامی سیاسیات کے ماتحت وہ نہایت آسانی سے اپنی قومی اغراض اور خصوصیات کو پورا کر سکتے ہیں اور پھر بھی ایک کُل کا جزو بن سکتے ہیں.مگر اسلام اس مقصد کے حصول کے لئے کسی قسم کی جسمانی جد و جہد کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسے صرف لوگوں کی اپنی رائے اور ارادے پر چھوڑ دیتا ہے اور مسلمانوں کو بھی پابند نہیں کرتا.جب تک دنیا میں یہ روح پیدا نہ ہو کہ لوگ مقامی امور کو اپنی اپنی مرضی کے مطابق طے کر کے باقی امور میں ایک ہو جائیں اور لڑائی کی طرف میلان اور ایک دوسرے کے خلاف تیاریاں اور جوش اعلیٰ مقاصد کے لئے قربان کر دئیے جائیں اس وقت تک ہمیں موجودہ حالت پر قانع رہنا چاہئے اور میں اس کے مطابق جو قانون اسلام نے مقرر کئے ہیں ان کو بیان کرتا ہوں.دیکھا جاتا ہے کہ تمام لڑائیاں اور جھگڑے ایک دوسرے کے ملک پر طمع کی نظر رکھنے یا آپس میں ایک دوسرے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش سے پیدا ہوتے ہیں.اسلام اس کے متعلق یہ دو حکم دیتاہے جو اس سلسلہ جنگ و جدال کو بالکل مٹا دیتے ہیں.اول فرماتا ہے وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ
۳۱۲ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى (طه :132)اور اے مسلم! تو اپنی آنکھوں کو دنیاوی منافع کی طرف جو تمہارے سوا دوسری اقوام کو ہم نے دئیے ہیں تاکہ ان کے اعمال کی آزمائش کریں اٹھا اٹھا کر نہ دیکھ اور تیرے رب نے جو تجھے دیا ہے وہی تیرے لئے اچھا ہے اور زیادہ دیر تک رہنے والا ہے یعنی مرنے کے بعد بھی وہی کام آئے گا اور جو دوسری اقوام پر تعدی کر کے مال لو گے تو وہ نفع نہیں دے گا او رنہ قائم رہے گا.دوسرا باعث اس قسم کے ناجائز فوائد اٹھانے کا آپس کی دشمنیاں ہوتی ہیں.کوئی قومی مغائرت یا نفرت دل میں ہوتی ہے یا کسی وقت کسی قوم سے کوئی تکلیف پہنچی ہوتی ہے پھر صلح بھی ہو جاتی ہے اور معاملہ رفع دفع بھی ہو جاتا ہے مگر ایک قوم اس کو دل میں رکھ لیتی ہے اور آہستہ آہستہ دوسری حکومت کو کمزور کرتی چلی جاتی ہے اور دباؤ یا دھوکے سے اس سے ناجائز فوائد اٹھانے شروع کر دیتی ہے تاکہ اسے نقصان پہنچائے.اسلام اسے ناپسند کرتا ہے اور صرف سچائی کامعاملہ کرنے کی اجازت دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدة: 9) اے مومنو! اپنے تمام کاموں کو خدا کے لئے کرو.اور انصاف سے دنیا میں معاملہ کرو اور کسی قوم کی دشمنی تم کو اس امر پر نہ اکساوے کہ تم عدل کا معاملہ نہ کرو تم بہرحال انصاف کا معاملہ کرو یہ بات تقویٰ کے مطابق ہے اللہ تعالیٰٰ کو اپنی ڈھال بناؤ.اللہ تعالیٰٰ اس سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے.ان دونوں احکام کے ماتحت کوئی حقیقی مسلمان حکومت، بین الاقوامی تعلقات کو خراب کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی کیونکہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ دوسری قوموں کے مالوں اور حکومتوں کی طرف کبھی طمع کی نگاہ نہ ڈالیں اور نہ صرف یہ کہ من حیث الفرد با اخلاق ہوں بلکہ چاہئے کہ من حیث القوم بھی با اخلاق ہوں.باہمی معاہدات کے متعلق اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ معاہدات کی اس قدر پابندی کرو کہ جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے اس سے جس جس قوم کامعاہدہ ہے وہ بھی اگر عملاً جنگ میں شامل نہ ہو تو خواہ وہ ایک برسر جنگ قوم کا حصہ ہی ہو تو اس سے جنگ نہ کرو.ایک قوم جو معاہدہ کر چکی ہے اگر اس سے شرارت کا خطرہ ہے تو حکم دیتا ہے کہ باوجود اس کی شرارت کے یہ نہ کرو کہ اچانک اس پر حملہ کر دو اور موقع سے فائدہ اٹھاؤ بلکہ اس کو پہلے نوٹس دو کہ ہم معاہدہ کو ختم کرتے ہیں کیونکہ
۳۱۳ تمہاری طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے.اس کا اعلان کر کے پھر بھی اگر وہ باز نہ آئیں تو پھر بے شک جنگ کرسکتے ہو یونہی نہیں.مگر امن کے قیام کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ہر ایک ملک جنگ کے لئے تیار رہے تا شریر اور کمینہ دشمن اس کی کمزوری کو دیکھ کر اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہے.پس فرمایا کہ خود تو دوسرے کے ملک سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہو لیکن دوسری اقوام جب تک موجود ہیں جنگ کا خطرہ ہے پس اپنے طور پر دفاع کے لئے پوری طرح تیار رہو تا تمہاری کمزروی دوسرے کو جنگ کی تحریک نہ کر دے.اگر جنگ ہو جائے تو اس وقت کے لئے حکم دیتا ہے کہ عورتوں، بچوں اور اپنی عمر کو مذہبی کاموں کے لئے وقف کر دینے والوں اور بوڑھوں کو کچھ نہ کہو، صرف ان لوگوں کو مارو اور لڑائی میں مارو جو جنگ کر رہے ہوں اور اگر کوئی ہتھیار دے اور کہے کہ میں نہیں لڑتا تو پھر اس کو قتل کرنا ناجائز ہو گا.کسی ملک کا بے فائدہ نقصان بھی نہ کرو جب تک کوئی بھی صورت دشمن کے زیر کرنے یا اپنے بچانے کی ہے اس کے کھیتوں اور درختوں اور مکانوں کو بچاؤ اور بِلا سبب اس غرض سے نقصان نہ پہنچاؤ کہ بعد میں ان کی حکومت کمزور رہے گی.اور اگر کوئی قوم صلح کا پیغام دے تو اس خیال سے کہ اس کے دل میں شرارت ہے وہ صرف وقفہ چاہتی ہے صلح سے انکار نہ کرو بلکہ جب تک شرارت ظاہر نہ ہو جنگ کو مٹانے اور صلح کرنے کی کوشش کرو.جھگڑوں کو مٹانے کے لئے ایک عجیب حکم دیا ہے جسے آج لیگ آف نیشنز کی شکل میں دیکھتے ہیں لیکن ابھی تک یہ لیگ ویسی مکمل نہیں ہوئی جس حد تک کہ اسلام اس کو لے جانا چاہتا ہے اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الحجرات:10) یعنی گر دو قومیں مسلمانوں میں سے آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی آپس میں صلح کرا دو.یعنی دوسری قوموں کو چاہئے کہ بیچ میں پڑ کر ان کو جنگ سے روکیں اور جو وجہ جنگ کی ہے اس کو مٹائیں اور ہر ایک کو اس کا حق دلائیں لیکن اگر باوجود اس کے ایک قوم باز نہ آئے اور دوسری قوم پر حملہ کر دے اور مشترکہ انجمن کا فیصلہ نہ مانے تو اس قوم سے جو زیادتی کرتی ہے سب قومیں مل کر لڑو یہاں تک کہ خدا کے حکم کی طرف وہ لوٹ آئے یعنی ظلم کا خیال چھوڑ دے.پس اگر وہ اس امر کی طرف مائل ہو جائے تو ان دونوں قوموں
۳۱۴ میں پھر صلح کرا دو مگر انصاف اور عدل سے اور مروت سے کام لو.اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اس آیت میں بین الاقوامی صلح کے قیام کے لئے مندرجہ ذیل لطیف گُر بتائے ہیں.سب سے اول جب دو قوموں میں لڑائی او رفساد کے آثار ہوں معاً دوسری قومیں بجائے ایک یا دوسری کی طرفداری کرنے کے ان دونوں کو نوٹس دیں کہ وہ قوموں کی پنچائت سے اپنے جھگڑنے کا فیصلہ کرائیں.اگر وہ منظور کر لیں تو جھگڑا مٹ جائے گا.لیکن اگر ان میں سے ایک نہ مانے اور لڑائی پر تیار ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں.اور یہ ظاہر ہے کہ سب اقوام کا مقابلہ ایک قوم نہیں کر سکتی ضرور ہے کہ جلد اس کو ہوش آ جائے اور وہ صلح پر آمادہ ہو جائے.پس جب وہ صلح کے لئے تیار ہو تو تیسرا قدم یہ اٹھائیں کہ ان دونوں قوموں میں جن کے جھگڑے کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی صلح کرا دیں.یعنی اس وقت اپنے آپ کو فریق مخالف بنا کر خود اس سے معاہدات کرنے نہ بیٹھیں بلکہ اپنے معاہدات تو جو پہلے تھے وہی رہنے دیں.صرف اسی پہلے جھگڑے کا فیصلہ کریں جس کے سبب سے جنگ ہوئی تھی اس جنگ کی وجہ سے نئے مطالبات قائم کر کے ہمیشہ کے فساد کی بنیاد نہ ڈالیں.چوتھے یہ امر مدنظر رکھیں کہ معاہدہ انصاف پر مبنی ہو یہ نہ ہو کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اس لئےاس کے خلاف فیصلہ کر دو بلکہ باوجود جنگ کے اپنے آپ کو ثالثوں کی ہی صف میں رکھو فریق مخالف نہ بن جاؤ.ان امور کو مدنظر رکھ کر اگر کوئی انجمن بنائی جائے تو دیکھو کہ کس طرح دنیا میں بین الاقوامی صلح ہو جاتی ہے سب فساد اسی امر سے پیدا ہوتا ہے کہ اول تو جب جھگڑا ہوتا ہے دوسری طاقتیں الگ بیٹھی دیکھتی رہتی ہیں اور جب دخل دیتی ہیں تو الگ الگ دخل دیتی ہیں.کوئی کسی کے ساتھ ہو جاتی ہے او رکوئی کسی کے ساتھ اور یہ جنگ کو بڑھاتا ہے گھٹاتا نہیں.اگر دوسری طاقتیں آپس میں مل کر بغیر اپنے خیالات کے اظہار کئے کے پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ حکومتوں کی پنچائت کے ذریعہ اس جھگڑے کو طے کیا جائے اور سب مل کر متفقہ طور پر ایک کو نہیں دونوں کو یا جس قدر حکومتیں جھگڑ رہی ہوں سب کو توجہ دلائیں کہ لڑنے کی ضرورت نہیں بین الاقوامی مجلس میں اپنے خیالات پیش کرو اور انصاف کے اس اصل کو مدنظر رکھیں کہ وہ پہلے سے کوئی خیالات نہ قائم کر لیں جس طرح جج فریقین کی باتیں سننے سے پہلے کوئی رائے قائم نہیں کرتا
۳۱۵ پھر دونو فریق کی بات سن کر ایک فیصلہ کریں جو فریق تسلیم نہ کرے سب مل کر ا س سے لڑیں اور جب وہ زیر ہو جائے تو اس وقت اپنے مطالبات اپنی طرف سے نہ پیش کریں بلکہ پہلے ہی جھگڑے کو سلجھا دیں.کیونکہ اگر ایسے موقع پر شکست خوردہ قوم کو لوٹنے کی تجویز ہوئی اور ہر ایک قوم نے مختلف ناموں سے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو لازماً ان فائدہ اٹھانے والی قوموں میں آپس میں بھی تباغض اور تحاسد بڑھے گا اور جس قوم کو وہ زیر کریں گی اس کے ساتھ بھی نیک تعلقات پیدا نہیں ہو سکیں گے اور مجلس بین الاقوام سے دنیا کی حکومتوں کو سچی ہمدردی بھی پیدا نہیں ہو سکے گی.پس چاہئے کہ اس جنگ کے بعد صرف اسی جھگڑے کا تصفیہ ہو جس پر جنگ شروع ہوئی تھی نہ کہ کسی اور امر کا.اب رہا یہ سوال کہ جو اخراجات جنگ پر ہوں گے وہ کس طرح برداشت کئے جاویں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اخراجات جنگ سب قوموں کو خود برداشت کرنے چاہئیں اور یہ بوجھ ہرگز زیادہ نہیں ہو گا.اول تو اس وجہ سے کہ مذکورہ بالا انتظام کی صورت میں جنگیں کم ہو جائیں گی اور کسی قوم کو جنگ کرنے کی جرأت نہیں ہو گی.دوسرے چونکہ اس انتظام میں خود غرضی اور بو الہوسی کا دخل نہ ہو گا سب اقوام اس کی طرف مائل ہو جائیں گی اور مصارف جنگ اس قدر تقسیم ہو جائیں گے کہ ان کا بوجھ محسوس نہ ہو گا.تیسرے چونکہ اس انتظام کا فائدہ ہر اک قوم کو پہنچے گا کیونکہ کوئی قوم نہیں جو جنگ میں مبتلاء ہونے کے خطرہ سے محفوظ ہو اس لئے انجام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خرچ موجودہ اخراجات سے جو تیاری جنگ کی نیت سے حکومتوں کو کرنے پڑتے ہیں کم ہوں گے اور اگر بفرض محال کچھ زائد خرچ کرنا بھی پڑے تو جس طرح افراد کا فرض ہے کہ امن عامہ کے قیام کی خاطر قربانی کریں اقوام کا بھی فرض ہے کہ قربانی کرکے امن کو قائم رکھیں.وہ اخلاق کی حکومت سے بالا نہیں ہیں بلکہ اس کے ماتحت ہیں.میرے نزدیک سب فساد اسی اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم کی پیش کردہ تجویز سے کیا جاتا ہے (1) یعنی آپس کے انفرادی سمجھوتوں کی وجہ سے جو پہلے سے کئے ہوئے ہوتے ہیں.حالانکہ ان کی بجائے سب اقوام کا ایک معاہدہ ہونا چاہئے.(2) جھگڑے کو بڑھنے دینے کے سبب سے.(3) حکومتوں کے جنبہ داری کو اختیار کر کے ایک فریق کی حمایت میں دخل دینے کے سبب
۳۱۶ سے.(4) شکست کے بعد اس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد اٹھانے کی خواہش کے پیدا ہو جانے کے سبب سے.(5) امن عامہ کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہونے کے سبب سے.ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بیٹھی رہے.اصل بات یہ ہے کہ کبھی بین الاقوامی جھگڑے دور نہ ہوں گے جب تک اقوام بھی اپنے معاملات کی بنیاد اخلاق پر نہ رکھیں گی جس طرح کہ افراد کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاموں کی بنیاد اخلاق پر رکھیں اسی طرح حکومتوں کو بھی اخلاق کی نگہداشت کی طرف توجہ دلانی چاہئے.فساد بعض اسباب سے پیدا ہوتے ہیں.پہلے ان کی اصلاح کرنی چاہئے پھر خود جھگڑے کم ہو جائیں گے اور اگر باوجود اس اصلاح کے کسی وقت کوئی جھگرا پیدا ہو جائےتو اس کےد ور کرنے کے لئے اسلامی اصول پر ایک انجمن اصلاح بنانی چاہئے جو ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے.وہ وجوہ جن سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں چند اخلاقی نقص ہیں.(1)یہ کہ حکومتوں اور رعایا کے تعلقات درست نہیں.اگر اسلامہ نقطہ نظر کو مدنظر رکھا جائے کہ ہر ایک ملک کی رعایا کا فرض ہے کہ یا تو اس حکومت سے تعاون کرے جس کے ماتحت وہ رہتی ہے یا اس ملک کو چھوڑ کر چلی جائے تا دوسروں کا بھی امن برباد نہ ہو تو کبھی کسی قوم کو دوسری قوم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہو کیونکہ کوئی قوم اس امر کو پسند نہیں کرے گی کہ ایک بنجر ملک پر قبضہ کرے.اور (2) یہ نقص ہے کہ مختلف حکومتوں کو یہ یقین ہے کہ ان کی قومیں صرف اس خیال سے کہ وہ ان کی حکومتیں ہیں ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں اس لئے وہ بے خوف ہو کر دوسری قوموں پر حملہ کر دیتی ہیں اگر مندرجہ ذیل اصل جسے اسلام نے پیش کیا ہے قبول کیا جائے کہ تو اپنے بہائی کی مدد کر.اگر وہ مظلوم ہے تو دوسروں کے ظلم سے اسے بچا او راگر وہ ظالم ہے تو اس کو اپنے نفس کے ظلم سے بچا.تو جنگوں میں بہت کچھ کمی آ جائے.اس وقت قومی تعصب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اپنی قوم کا سوال پیدا ہوتا ہے تو سب لوگ بلا غور کرنے کے ایک آواز پر جمع ہو جاتے ہیں اور
۳۱۷ یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہماری حکومت کی غلطی ہے تو ہم اس کو سمجھا دیں.غرض ایک طرف غداری اور ایک طرف قومی تعصب جنگوں کا بہت بڑا موجب ہیں.اور ان کا دور ہونا نہایت ضروری ہے.دنیا جب تک اس گُر کو نہیں سمجھے گی کہ حب الوطنی اور حب الانسانیت کے دونوں جذبات ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا.اسلام نے کیا چھوٹے سے فقرے میں اس مضمون کو ادا کر دیا ہے انصر اخاک ظالمًا او مظلومًا یعنی تو اپنے بھائی کی خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم مدد کر.مظلوم کی اس طرح کہ اسے دوسروں کے ظلم سے بچا اور ظالم کی اس طرح کہ تُو اس کو ظلم کرنے سے بچا.کیا لطیف پیرایہ میں حب الوطنی اور حب الانسانیت کے جذبات کو جمع کر دیا ہے.جب کوئی شخص اپنے ہم قوموں کو دوسری قوموں پر ظلم کرنے اور ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتا ہے تو وہ حب الوطنی کے خلاف کام نہیں کرتا کیونکہ اس سے زیادہ حب الوطنی اور کیا ہو گی کہ اپنے ملک کے نام کو ظلم کے دھبہ سے بچائے اور پھر ساتھ ہی وہ حب الانسانیت کے فرض کو بھی ادا کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے آشکار کرتا ہے کہ خود زندہ رہو اور دوسروں کو زندہ رہنے دو (3) تیسرا اخلاقی نقص یہ ہے کہ قومی برتری کا خیال بہت بڑھ گیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ (الحجرات:12) کوئی قوم دوسری قوم کو حقیر نہ سمجھے.شاید وہ کل کو اس سے اچھی ہو جائے اور فرماتا ہے تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران:141) یہ دن ترقی و تنزل کے بدلتے رہتے ہیں ایک قوم جو ترقی کی طرف جا رہی ہو دوسری قوموں کو حقیر سمجھ کر فساد کا بیج نہ ڈالے کہ کل شاید اس کی باری آئے جسے آج حقیر سمجھا جا رہا ہے.جب تک کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم سب ایک ہی جنس سے ہیں اور یہ کہ ترقی تنزل سب قوموں سے لگا ہوا ہے کوئی قوم شروع سے ایک ہی حالت پر نہیں چلی آئی اور نہ آئندہ چلے گی کبھی فساد دور نہ ہو گا.لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ قوموں کو زیر و زبر کرنے والے آتش فشاں مادے دنیا سے ختم نہیں ہو گئے.نیچر جس طرح پہلے کام کرتی چلی آئی ہے اب بھی کر رہی ہے پس جو قوم دوسری قوم سے حقارت کا معاملہ کرتی ہے وہ ظلم کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر چلاتی ہے."
۳۱۸ مذہبی تعلقات ایک اہم سوال تمدن میں مذ ہبی تعلقات کا ہے اس کے متعلق میں اس قد رکہنا چاہتاہوں کہ اسلام سب مذاہب سے زیادہ مذہبی رواداری کا قائل ہے (1) مثلاً اسلام حکم دیتا ہے کہ کسی مذہب کے بزرگوں کو گالیاں نہ دو.(۲) اسلام اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ سب اقوام میں نبی گزرے ہیں پس سب مذاہب ابتداءً الله تعالی کی طرف سے ہی آئے ہیں اسی وجہ سے کسی مذہب کو بُکلی خراب نہیں کہا جاسکتا.ٍ (۳) اسلام کہتا ہے کہ مذہب کے لئے جنگ جائز نہیں کیونکہ راستی اور جھوٹ میں امتیاز ہو چکا ہے.اب وہی زندہ ہو گا جو سچائی سے زندہ ہوتا ہے اور وہی مرے گا جسے سچائی مارتی ہے یہ ایک غلط خیال ہے کہ اسلام دین کو تلوار سے پھیلانے کی اجازت دیتا ہے.اسلام تو صاف طور پر کہتا ہے کہ ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور اس وقت تک لڑو جب تک وہ تم سے لڑتے ہیں.کیا جو مذہب اس امر کی تعلیم دیتا ہے وہ تلوار کا مؤیّد کہلا سکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے تلوار سے اسلام کو مٹانا چاہا خدا نے ان کو تلوار سے ہی مٹادیا اور دفاع کے طور پر تلوار چلانا ہر گز ناپسندیدہ نہیں ہو سکتا.اگر اسلام تلوار سے پھیلا تھا وہ تلوار چلانے والے کہاں سے آئے تھے؟ اور جس مذہب نے اسے تلوار چلانے والے پیدا کر لئے تھے کہ جنہوں نے اپناسب کچھ قربان کر کے باوجود سارے ملک کی مخالفت کے اس کو دنیا میں قائم کر دیا اس مذہب کے لئےیہ کیا مشکل تھا کہ وہ دلائل کے زور سے دوسرے لوگوں سے بھی اپنی صداقت منوالیتا.یہ الزام اس مذہب پر جس نے سب سے پہلے رواداری کی تعلیم دی ہے ایک سخت ظلم ہے اور خدا تعالی نے اسی وجہ سے مسیح موعود علیہ السلام کو بغیر تلوار کے دنیامیں بھیجا ہے کہ تا آپ کے ذریعہ سے اسلام کو دنیا میں پھیلا کر یہ ثابت کرے کہ اسلام اپنی صداقت کے ذریعہ سے پھیل سکتا ہے اور زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ دنیا دیکھ لے گی کہ وہ سچ مُچ پھیل گیا.تمدن کے متعلق اس تعلیم کے بیان کرنے کے بعد جو اس زمانہ کے موعود کی معرفت ہمیں ملی ہے میں اس حصہ تعلیم کے بیان کرنے کی طرف توجہ کرتا ہوں جو حالات مابعد الموت کے متعلق اسلام نے دی ہے.
۳۱۹ سوال چہارم حالات مابعد اموت "جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کے بعد اگ رکوئی سوال دنیا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو وہ "حالات ما بعد الموت" ہیں اور واقع میں جو مذہب کہ ما بعد الموت کے حالات پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا وہ ایک جسم بے جان ہے.اسلام نے اس مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا ہے بلکہ اس قدر زور دیا ہے کہ دوسری اقوام نے اس کے اس اصرار کو بھی اس کے خلاف بطور حربہ کے استعمال کیا ہے.مگر یہ مسئلہ جس قدر اہم ہے اسی قدر باریک اور قابل غور بھی ہے.ہم کبھی ایسے مسائل کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ الہام کی روشنی ہمیں ان کی طرف ہدایت نہ دے کیونکہ جو اس دنیا میں ہے وہ اس دنیا کے حالات معلوم نہیں کر سکتا مگر اس ہستی کے ذریعہ سے جس کے لئے سب جگہیں یکساں ہیں یہ دنیا اور وہ دنیا ان کے علاوہ اور جس قدر دنیائیں ہیں سب اس کے لئے آئینہ ہیں کوئی چیز نہیں جو اس سے مخفی ہو.پس وہی اس جگہ کا حال بتلا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس قدر لوگوں نے اپنی عقل سے ما بعد الموت حالات کو بیان کرنا چاہا ہے انہوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے او ردوسروں کو بھی ٹھوکر دی ہے.کوئی تو بعث بعد الموت کے بالکل منکر ہو گئے ہیں، کوئی اسے بالکل اس دنیا کی طرح ایک دوسری دنیا خیال کرتے ہیں، کوئی اس کو مان کا ارواح کو انعام اور جزاء کے لئے واپس دنیا میں لاتے ہیں کوئی اور مختلف خیالات اس کے متعلق پیش کرتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق جو تعلیم دی ہے وہ ایسی عجیب اور ایسی جدید اور ایسی اعلیٰ ہے کہ یکدم عقل اس سے تسلی پاتی ہے اور فطرت اس کی سچائی کو قبول کرتی ہے اور قانون قدرت اس کی تصدیق کرتا ہے اور جن کو مشاہدہ نصیب ہو وہ اس کی حقیقت کو بعینہٖ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور یقین کا مرتبہ حاصل کرتے ہیں.درحقیقت جس طرح مذہب کے دوسرے حصوں میں آپ کی تعلیمات نے جن کی بنیاد یقیناً قرآن کریم پر ہے ایک حیرت انگیز انکشاف پیدا کیا ہے اسی طرح اس حصہ میں بھی ایک پوشیدہ حقیقت کو آپ نے ظاہر کیا ہے اور ایک سربستہ راز کو کھول کر دنیا پر ایک عظیم الشان راز کھولا ہے.مگر چونکہ اگلا عالم لوگوں کی نظر سے بالکل مخفی ہے مختصر تشریح اس کی حقیقت بیان کرنے کے لئے کافی نہیں اور لمبی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں اس لئے میں اس جگہ ایک مختصر خاکہ کھینچنے پر کفایت
۳۲۰ کروں گا.کیونکہ نامکمل تشریح سے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ صرف اس علم کے متعلق آپ کی تعلیم کا ایک سر و پا انسان کے ذہن میں آ جائے پھر جس کے دل میں پیاس ہو گی وہ مزید تحقیق کر سکتا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ ما بعد الموت کے متعلق بحث و تدقیق کے ساتھ ہی انسان کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ کیا روح کوئی چیز ہے؟ اگر ہے تو کیا؟ اس کے متعلق اسلام کا جواب یہ ہے کہ روح فی الواقع ایک چیز ہے جس کے ذریعہ سے انسان ان لطیف علوم کو حاصل کرتا ہے جن کو حواس ظاہری سے انسان حاصل نہیں کر سکتا.وہ خدا اور انسان کے تعلق کا مقام ہے اور اس کے جلال کا تخت گاہ.اسے جسم سے ایسا عجیب تعلق ہے کہ اسکی مثال اور کسی چیز میں نہیں پائی جاتی وہ دماغ کی قوت متفکرہ اور دل کی قوت منفعلہ کے ذریعہ سے انسانی جسم کی ظاہری قوتوں پر اپنا اثر ڈالتی ہے.اسی وجہ سے وہ اس قدر ظاہری حرکات سے متاثر نہیں ہوتی جس قدر کہ افکار اور جذبات سے.کیونکہ اس کا علاقہ زیادہ تر انہی دو جگہوں سے ہے.سائنس اب تک اس تعلق کو معلوم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جو روح اور قلب میں ہے مگر صاحب تجربہ لوگ جانتے ہیں کہ روح کا قلب سے ایک باریک تعلق ہے جہاں سے دماغ کی طرف وہ تعلق بعض مخفی ذرائع سے اس طرح منتقل ہو جاتا ہے جس طرح کہ تیل بتی کے ذریعہ سے اوپر چڑھ جاتا ہے اور دماغ کے اعصاب آگے اسے قبول کرکے اس قابل بناتے ہیں کہ اس میں سے ایسی روشنی پیدا ہو جسے لوگ دیکھ سکیں اور ایک حقیقت کا اقرار کریں.یہ روح جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں باہر سے نہیں آتی بلکہ رحم مادر میں جسم انسانی کی پرورش کے ساتھ ساتھ یہ بھی پیدا ہوتی جاتی ہے اور درحقیقت جسم میں سے نکلا ہوا ایک خلاصہ ہے اس کی مثال شراب کی سی ہے جس طرح جَو یا انگور اور ایسی ہی چیزوں میں سے جب ان کو ایک خاص ترکیب سے سڑایا جائے شراب نکل آتی ہے اسی طرح جسم رحم مادری میں کچھ ایسی کیفیات سے گذرتا ہے کہ اس میں سے ایک لطیف جوہر نکل آتا ہے جسے روح کہتے ہیں.جب یہ جوہر جسم سے اپنا تعلق کامل کر لیتا ہے تو اس وقت انسانی قلب حرکت کرنے لگتا ہے اور انسان زندہ ہو جاتا ہے جسم سے نکلنے کے بعد اس جوہر کا وجود ایسا ہی مستقل ہوتا ہے جیسے شراب کا.غرض اسلام کے نزدیک روح مخلوق ہے اور جس وقت بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت وہ پیدا ہوتی ہے اور اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانی روح پیدا ہونے کے بعد ضائع نہیں
۳۲۱ جاتی اس کے بعد اس کے سامنے ایک غیر منقطع زمانہ ہے.جس حالت کو موت کہتے ہیں وہ روح کے جسم سے الگ ہونے کا ہی نام ہے جس کا لازمی نتیجہ دل کی دھڑکن کا بند ہونا اور جسم انسانی کا بے کار ہو جانا ہے.اسلامی اصول کے مطابق روح اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے ہمیشہ جسم کی محتاج ہے اور جب کبھی جسم اس کی طاقتوں کے اظہار کے ئے ناقابل ہو جاتا ہے وہ اسے چھوڑ دیتی ہے.جس وقت جسم روح کو چھوڑتا ہے اس کا نام موت ہے جس کے معنے بے حرکت ہو جانے کے ہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص مر گیا تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ اس کی روح اس کے جسم سے جدا ہو گئی ورنہ روح فنا نہیں ہوتی بلکہ زندہ رہتی ہے.اور اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کو قبول کرتا ہے اور اس کی طاقتوں پر یقین رکھتا ہے تو وہ یہ یقین ہی کب کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام کارخانۂ عالم اسی لئے بنایا ہے کہ انسان اس میں پیدا ہو کر کچھ دنوں کھا پی کر یا اس دنیا کے اسرار قدرت دریافت کر کے فنا ہو جائے؟ یہ خیال کہ کوئی عاقل ہستی یہ تمام کارخانہ عالم یہ سورج، چاند، ستارے، زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں اور قدرت کے باریک در باری اسرار بنا کر اس پر ایک ایسے انسان کو پیدا کرے گی جو صرف ساٹھ، ستر یا سو سال زندگی بسر کر کے فنا ہو جائے گا ایک ایسا خیال ہے جسے عقل دھکے دیتی ہے.انسان کے لئے اس قدر کائنات کا پیدا کرنا اور اس پر عقل کے ذریعہ سے اسے حکم بخشنا، چاہتا ہے کہ اس کے لئے ا س محدود زندگی کے علاوہ کچھ اور مقصد بھی مقرر کیا گیا ہے.اسلام کہتا ہے کہ وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو دائمی زندگی دی جائے اور دائمی ترقیات کا راستہ اس کے لئے کھولا جائے.سورۃ مومنون میں اللہ تعالیٰٰ زمین و آسمان کی پیدائش اور قدرت کے کارخانہ اور انسان کی طاقتوں کا ذکر فرما کر دریافت کرتا ہے کہ باوجود اس کے تم خیال کرتے ہو کہ صرف اسی دنیا کی زندگی ہے اور موت کے بعد کوئی اور حیات نہیں؟ پھر آخر میں سوال کرتا ہے أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ () فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ(المؤمنون :116-117) کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بطور کھیل کے پیدا کیا ہے؟ اور ایک دائمی زندگی کا سلسلہ اور دائمی ترقیات کا سلسلہ جو بعد الموت جاری رہے گا تمہارے لئے مقرر نہیں کیا؟ ایسا نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ بلند شان والا ہے اور سچا بادشاہ ہے وہ بِلا غرض اور بلا حکمت کام کوئی نہیں کرتا پھر وہ ایک ہی خدا ہے اور نہایت پاکیزہ اور دلوں میں عزت پیدا کر دینے والی صفات کا مالک ہے پس یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے دنیا کو پیدا نہیں کیا یا اس نے تو پیدا کیا ہے
۳۲۲ مگر اس کی کوئی اہم غرض نہیں رکھی.اس حقیقت کے اظہار کے بعد کہ اسلام کے نزدیک مرنے کے بعد بھی انسانی زندگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام اس زندگی کی جو حقیقت ہمیں بتاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلا جہان کوئی نئی دنیا نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا تسلسل ہے.یہ نہیں کہ ہر انسان مر کر کسی وقت تک مردہ پڑا رہے گا اور پھر اس کو زندہ کر کے اس کی نیکی اور بدی کے مطابق اس کو کسی اچھی یا بری جگہ میں رکھا جائے گا بلکہ درحقیقت انسانی روح اپنی پیدائش کے ساتھ ہی ایسی طاقتوں کو لے کر آتی ہے کہ اس کے بعد اس کے لئے فنا حرام ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی صفت قیوم اس کو اپنے سایہ کے نیچے لے آتی ہے اس وجہ سے وہ ہلاکت سے محفوظ ہو جاتی ہے.پس موت ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف انتقال کا نام ہے ا س سے زیادہ اور کچھ نہیں.اور اس انتقال کی ضرورت قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ اگر موت نہ ہوتی تو انسانی روح کامل ترقیات بھی حاصل نہیں کر سکتی تھی کیونکہ انسان کی پیدائش ایسے طریق پر کی گئی ہے کہ جب کسی امر کا کامل انکشاف اس پر ہو جائے تو پھر وہ غلط راستہ پر نہیں چلتا اور کامل انکشاف کے بعد کسی ثواب کا ملنا بھی عقل کے خلاف ہے.ہم کسی کو اس لئے انعام نہیں دیتے کہ وہ سورج کو جب وہ نصف النہار پر ہوتا ہے مانتا ہے یا رات اور دن کا قائل ہے لیکن ہم مثلاً ایسے طالب علم کو جو امتحان میں بیٹھ کر باریک سوالوں کو حل کرتا ہے انعام دیتے ہیں.یا ایسے لوگوں کو جو باریک اسرارِ قدرت کو دریافت کرتے ہیں معزز اور مکرم سمجھتے ہیں اور ان کے درجہ کو بلند کرتے ہیں.پس انعام صرف خاص محنت اور پوشیدہ باتوں کے نکالنے پر ملتا ہے اور ایسے کاموں کے کرنے پر ملتا ہے جن میں انسان کو ہمت اور قوت سے کام لینا پڑے لیکن اگر انسانی ترقیات کا دروازہ اسی دنیا میں شروع ہو جاتا تو بعد میں آنے والی نسلیں ان لوگوں کو دیکھ کر جو اچھے کام کر کے بہت اعلیٰ ترقیات کو حاصل کر رہے ہوتے اور ان لوگوں کو دیکھ کر جو انبیاء کی مخالفت کی وجہ سے سخت آفات میں مبتلاء ہوتےخدا تعالیٰ کی ہستی پر اور انبیاء کی سچایئ پر ایسا یقین کر لیتیں کہ آئندہ ان کے لئے ابتلاء اور امتحان کا کوئی موقع ہی نہ رہتا اور وہ مستحق بھی نہ رہتیں.پس یہ ضروری تھا کہ ایمان کو اور اس کے ثمرات کو ایک حد تک ظاہر کیا جائے اور ایک حد تک مخفی رکھا جائے تاکہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے لئے محنت کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو دنیا کی لذت میں انہماک کرنے والے ہیں ایک دوسرے سے ممتاز ہو جائیں اور اپنی اپنی قابلیت اور قربانی کے مطابق انعام یا سزا پائیں.
۳۲۳ غرض موت کی حکمت ان حالات کو انسان کی نظروں سے مخفی رکھنا ہے جو اس کے اعمال کے نتیجہ میں اس کو پیش آتے ہیں تاکہ وہ فکر اور غور اور عقل اور خشیت اللہ سے کام لے کر حقیقت تک پہنچے اور اس کی روح میں وہ آزاد قابلیت پیدا ہو جو صرف ایسی ہی کوشش کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتی ہے.دوسری غرض موت کی یہ ہے کہ انسانی روح ان قابلیتوں کو پیداکر سکے جن کے بغیر اعلیٰ ترقیات حاصل نہیں ہو سکتیں.انسانی جسم ایسا کثیف ہے کہ دنیا کی لطیف چیزوں کا بھی مشاہدہ نہیں کر سکتا کجا یہ کہ ان کی باریک طاقتوں کو دیکھ سکے جو اس دنیا کے مادے کی نسبت زیادہ لطیف مادوں سے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک قسم کے روحانی اجزاء سے بنا ہوا ہے.پس روح کو جسم سے جدا کر کے موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ان لطیف امور پر واقف ہو جو اس کی بے انتہاء ترقیات کے لئے ضروری ہیں پس جب روح جسم سے جدا ہوتی ہے تو اسی وقت وہ ایک اور سڑک پر قدم مارنے لگتی ہے اور یہ نہیں کہ اس کو کسی خاص وقت تک کسی خاص کوٹھڑی میں بند کر کے رکھ چھوڑا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے امتحان کے نتیجہ کا انتظار کرے.دراصل یہ خیال عقلی ڈھکوسلوں کا نتیجہ ہے.بعض لوگوں نے انسانی زندگی کو ایک امتحان سے تشبیہ دے کر اس کی پوری صورت بعد الموت کے حالات میں بھی پیدا کر دی اور جس طرح امتحان کے بعد پرچوں کے دیکھنے تک ایک وقفہ ہوتا ہے انسان کی موت کے بعد ایک وقفہ تجویز کیا ہے اور پھر ایک دن مقرر کیا ہے جس دن کہ ان پرچوں کا نتیجہ سنا دیا جائے گا اور کوئی فیل ہو جائے گا اور کوئی پاس.لیکن گو یہ بات تو درست ہے کہ انسانی زندگی کو امتحان کے ایام سے بھی ایک مشابہت ہے مگر یہ درست نہیں کہ امتحان کی سب صورتیں اس پر منطبق ہوتی ہیں اس کی مشابہت اس قدر انسانی طریقہ امتحان سے نہیں جس قدر کہ قانون قدرت کے ترقی بخش طریق عمل سے ہے.چنانچہ اسلام بعد الموت زندگی کی ابتدائی زندگی سے تشبیہ دیتا ہے یعنی جس طرح انسان نے نطفہ بلکہ نباتی اور حیوانی زندگی سے رحم مادر میں ترقی کی اور پھر پیدا ہونے کے بعد ایک کمزوری کے زمانہ میں سےگزرا جس میں اس نے اس دنیا کے علوم اور عادات کو سیکھا اسی طرح وہ مرنے کے بعد مختلف حالات میں سے گزرے گا.چنانچہ قرآن کریم جو لفظ رِحم کے متعلق استعمال فرماتا ہے وہی اس مقام اور اس حالت کے متعلق استعمال فرماتا ہے جس مقام اور جس حالت میں انسان بعد الموت رکھا جاتا ہے.پس مرنے کے بعد انسانی روح کی پہلی حالت اس
۳۲۴ نطفہ کی طرح ہوتی ہے جو رِحم مادر میں قرار پاتا ہے اور ان اعمال کے مطابق جو دنیا میں انسان نے کئے ہوتے ہیں اس کے اندر ایک تغیر پیدا ہونا شروع ہوتا ہے اور جس طرح رحم مادر میں بچہ نشو و نما پاتے پاتے ایک ایسی حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ اس میں سے ایک اور روح پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح انسانی روح مختلف حالات میں سے گزرتے گزرتے ایک ایسا تغیر پیدا کرتی ہے کہ اس کے اندر ایک اور روح جو اس دنیا کی زندگی کی روح سے بہت اعلیٰ و ارفع اور زیادہ قوتیں اور تیز احساس رکھتی ہے پید اہو جاتی ہے اور پہلی روح اس کے لئے بمنزلہ جسم کے ہو جاتی ہے جس کے ذریعہ سے انسان ان ا مور کو جن کو انسان روحانی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا جسمانی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کیونکہ وہاں جسم اپنی لطافت میں اس دنیا کی روح کی سی کیفیت رکھتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک نئے تغیر کے ماتحت وہ اسی روح سے تیار ہوتا ہے.اس تغیر کے بعد ایک اور تغیر روح میں پیدا ہوتا ہے جسے اس دنیا کی چیزون سے بچہ کی پیدائش کے واقعہ سے تشبیہ دے سکتے ہیں.یہ وہ تغیر ہے جسے "حشر اجساد" کے نام سے موسوم کرتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ زمانۂ قبر میں انسان کی نئی زندگی کے مناسب حال جسم اور روح تیار ہو گئے ہیں جس طرح کہ رحم مادر میں جب بچہ کامل ہو جاتا ہے اور روح پیدا ہو جاتی ہےتو پھر وہ باہر آ جاتا ہے اسی طرح گویا وہاں وہ اس حالت قبر سے باہر آ جائے گا.اس حشر اجساد کے بعد ایک دوسرا زمانہ اسلام یوم حشر کا بتاتا ہے جسے بچپن کی عمر سے تشبیہ دینی چاہئے جس میں وہ اپنے علم اور اپنی عقل کو اپنی نئی زندگی کے لئے ترقی دیتا اور بڑھاتا ہے.اس زمانہ میں روحوں کی قوتیں اس زمانہ سے جو زمانہ قبر کہلاتا ہے زیادہ نشو و نما یافتہ ہوتی ہیں.مگر پھر بھی وہ کامل نہیں ہوتیں.مگر اس دن کے اثرات اور تغیرات کے بعد وہ کامل ہو جاتی ہیں اور ان کی حالت اس بالغ بچہ کی طرح ہو جاتی ہے جو اب دنیا کی کیفیات کو پورے طور پر محسوس کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے.اس حالت کمال کو آخری فیصلہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں جس کے بعد انسان اس آخری حالت کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے.جسے جنت یا دوزخ کے نام سے پکارا جاتا ہے.ان تینوں زمانوں میں انسان اپنی روحانی حالت کے مطابق سکھ یا دکھ پاتا رہتا ہے یعنی پہلی پیدائش کے زمانہ میں بھی جنت یا دوزخ کے دکھ یا سکھ اپنے احساسات کے مطابق پہنچتے رہتے ہیں اس زمانہ میں بھی جو یوم حشر کہلاتا ہے اور بچپن کی عمر سے مشابہ ہے وہ دکھ یا سکھ جس سے اس
۳۲۵ نے اس دنیا میں مناسبت پیدا کر لی تھی پاتا رہتا ہے گو قبر کی حالت سے زیادہ.اور پھر آخر میں جب اس کی نئی پیدائش بالکل مکمل ہو جاتی ہے تو اس کی آخری حالت اس دنیا کے جوان انسان کے مشابہ ہوتی ہے جس نے اپنے احساسات اور ادراکات کو کامل کر لیا اور اسے اس آخری اور دکھ یا سکھ کے کامل احساسات والی حالت کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے جسے جنت یا دوزخ کہتے ہیں.پس زندگی کا زمانہ کبھی ختم نہیں جزاء و سزا میں کوئی وقفہ نہیں.صرف نئی حالتوں کے ساتھ مطابق حاصل کرنے کے لئے روح کو دو ایسے زمانوں میں سے گزرنا پڑتا ہے جو آخری اور مکمل حالت سے ادنیٰ درجہ کے ہیں لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ضروری ہیں.انسانی روح برابر ترقیات کی طرف قدم مارتی چلی جاتی ہے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتی چلی جاتی ہے.قرآن کریم فرماتا ہے الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ بَلَى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ () فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (النحل:29-30) الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (النحل:33) وہ لوگ جن کی فرشتے روح قبض کرتے ہیں درآنحالیکہ وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے وہ لوگ فرشتوں کو صلح کا پیغام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے.وہ کہیں گے کہ ہاں ہاں تم برے کام کرتے تھے.اللہ تعالیٰٰ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.جاؤ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اور اس میں رہو.پس تکبر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے.اور جن لوگوں کی فرشتے اس حالت میں روح قبض کریں گے کہ وہ پاک ہوں گے اور فرشتے ان کو کہیں گے تم پر سلامتی ہو.جاؤ اپنے اعمال کے سبب سے جنت میں داخل ہو جاؤ.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں انما القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر النار ایک قبر جنت کا باغیچہ ہوتی ہے اور ایک قبر دوزخ کا گڑھا ہوتی ہے.پس معلوم ہوا کہ انسانی روح برابر زندگی کی حالت میں رہتی ہے اور اس سڑک پر مرنے کے ساتھ ہی چل پڑتی ہے جو اس نے اپنے اعمال سے اپنے لئے تیار کی تھی.مذکورہ بالا حدیث میں جو قبر کا لفظ آیا ہے اس سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ اس سے وہ مٹی کی قبر مراد ہے جس میں جسم رکھا جاتا ہے نہیں بلکہ ا س سے مراد وہ مقام ہے جس میں ارواح رہتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس:22) ہر انسان کو خدا تعالیٰ مار کر
۳۲۶ قبر میں ڈالتا ہے.اب یہ بات ظاہر ہے کہ ہر اک شخص قبر میں داخل نہیں کیا جاتا بلکہ بہت سے لوگ جلائے جاتے ہیں بعض کو جانور کھا جاتے ہیں بعض سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں.پس اس قبر سے مراد وہ مقام ہے جہاں ارواح رہتی ہیں نہ یہ قبر جس میں بے جان جسم پڑا ہوتا ہے تا افتراق و تحلیل کے ابدی قانون کو اپنے اوپر پورا کرے.ثواب و عذاب اخروی جسمانی ہیں یا روحانی؟ : ا اس امر کے بتانے کے بعد کہ اسلام انسانی روحانی کی ما بعد الموت حالت کیا بتاتا ہے.اب میں اس سوال کے متعلق اسلام کی تعلیم بتانا چاہتا ہوں کہ اگلے جہاں کی نعمتیں یا سزائیں جسمانی ہیں یا روحانی؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کے نزدیک اگلے جہان کی کیفیات جسمانی بھی ہیں اور روحانی بھی.جسمانی تو وہ ان معنوں میں ہیں کہ روح انسانی معاً ترقی کر کے اپنے لئے ایک جسم تیار کر لے گی.پس وہاں کی لذات اور تکالیف اسی طرح مرئی صورت میں متمثل ہوں گی جس طرح کہ اس دنیا میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں اور روحانی ان معنوں میں کہ وہ اس مادہ کی نہیں ہوں گی جس مادہ کی اس دنیا کی چیزیں ہیں اور یہ ہو بھی کب سکتا ہے کیونکہ اس دنیا سے روح کو دوسرے جہان میں منتقل تو اسی وجہ سے کیا گیا ہے کہ وہ ان لطیف طاقتوں کو حاصل کرے جن کے ذریعہ سے وہ ان لطائف کو معلوم کر سکے جن کو یہ جسم معلوم نہیں کر سکتا.اب اگر وہاں اسی قسم کے میوے اور اسی قسم کے دودھ اور اسی قسم کے شہد ہوتے ہیں اور اسی قسم کی آگ اور اسی قسم کا دھواں ہونا ہے جیسے کہ اس دنیا میں ہے تو روح کو جسم سے جدا کرنے کی کیا ضرورت تھی.پھر تو چاہئے تھا ک جسم ہی کے ساتھ اس کو اٹھا لیا جاتا اور جبکہ وہاں کا جسم بھی موجودہ روحانی حالت کے مشابہ ہے تو اس کی غذائیں دودھ اور شہد اور اس کی سزا آگے اور گرم پانی کس طرح بن سکتے ہیں.کیا اس وقت انسانی روح یہاں کی آگ اور یہاں کے پانی اور یہاں کے میووں کو استعمال کر سکتی ہے کہ وہاں وہ ان کو استعمال کر سکے گی.غرض یہ درست نہیں کہ مرنے کے بعد انسان اسی دنیا کی قسم کی چیزوں سے عذاب یا ثواب دیا جائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ وہاں لطیف روحانی اجسام کے ساتھ بعض چیزیں متمثل ہو کر انسان کے سامنے پیش ہوں گی.بدوں کے سامنے سزا کی چیزیں اور نیکوں کے سامنے نیکی کی چیزیں.کیونکہ زندگی کی حقیقت کامل طور پر محسوس نہیں ہو سکتی جب تک لطیف چیز اپنی لطافت کے
۳۲۷ مطابق ایک جسم نہ رکھے.ہر اک روح ایک جسم کی محتاج ہے.ادنیٰ روح کثیف جسم کی اور اعلیٰ روح لطیف جسم کی.پس چونکہ ارواح وہاں بھی ایک جسم رکھیں گی یہ بات ضروری ہے کہ ان کے سامنے چیزیں اسی طرح محسوسات خارجیہ کے ذریعہ سے پیش ہوں جس طرح کہ اس دنیا میں پیش ہوتی ہیں مگر چونکہ وہ جسم روحانی ہوں گے اور اس قسم کے نہیں ہوں گے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ متمثلات بھی اس دنیا کی چیزوں کے مقابلہ میں روحانی ہوں.لیکن جس طرح اس دنیا میں علاوہ جسمای کیفیتوں کے ایک روحانی کیفیات بھی ہوتی ہیں اسی طرح اس دنیا کی اس اعلیٰ اور نئی پیدا شدہ روح کے لئے اس دنیا کی روحانی حالتوں سے اعلیٰ روحانی حالتیں ہوں گی.ثواب کی بھی اور عذاب کی بھی.پس اگلے جہان کی نعمتیں بھی اور عذاب بھی جسمانی اور روحانی ہوں گے.اسی طرح جس طرح اس دنیا میں سکھ اور سکھ کی حالت جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی ہوتی ہے لیکن اس دنیا کی حالتیں اس دنیا کی حالتوں سے اعلیٰ ہوں گی.وہاں کی جسمانی حالت یہاں کی روحانی حالت کے مشابہ ہو گی اور روحانی حالت بہت ہی ارفع اور اعلیٰ ہو گی.قرآن کریم بے شک ما بعد الموت حالات کے متعلق سزا کے لئے آگ اور سردی اور طوقوں وغیرہ کا ذکر کرتا ہے اور انعام کے طور پر سایوں اور پانیوں اور دودھ اور شہد کا ذکر کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجدة:18) یعنی کوئی نفس نہیں جان سکتا کہ اس کے لئے بسبب اس کے اعمال کے کس قسم کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان مہیا کیا گیا ہے؟ اسی طرح حدیث میں ہے کہ جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنیں اور نہ انسان کا ذہن ان کا اندازہ کر سکتا ہے.اب اگر وہاں اسی دنیا کی نعمتیں ہوں گی تو گو وہ کیسی ہی اعلیٰ ہوں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان ان کا اندازہ نہیں کر سکتا.پس یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ نعمتیں بالکل ہی اور قسم کی ہیں اور اسی طرح وہاں کے عذاب بھی.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ جنتیوں کے سامنے جب جنت کے میوے رکھے جائیں گے تو وہ کہیں گے هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ (البقرة:26) یہ تو وہ نعمت ہے جو ہمیں پہلے دی گئی تھی.اللہ تعالیٰ اس قول کے متعلق فرماتا ہے وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا (البقرة:26) وہ ملتی جلتی
۳۲۸ چیزیں دئیے جائیں گے.یعنی وہ چیزیں دنیا کی سی چیزیں نہیں ہوں گی مگر اپنی ظاہری شکلوں میں ان سے مشابہ ہوں گی.اصل بات یہ ہے کہ روح گو جسم کی طرح جسمانی چیزوں کو استعمال نہیں کرتی لیکن جسم سے سرور سے حصہ ضرور لیتی ہے اور اسی طرح جسم کی تکالیف سے حصہ لیتی ہے.پس چونکہ دنیاوی چیزوں سے وہ مانوس ہے اس کی خوشی اور اس کے رنج کو مکمل کو کرنے کے لئے وہاں کی چیزیں دنیاوی چیزوں کی شکل میں متمثل ہوں گی.قرآن کریم نے ما بعد الموت کی روحانی حالتوں کے سمجھنے کے لئے ایک لطیف مثال دی ہے اس سے انسان اچھی طرح اس جہان کی کیفیت کو اس حد تک کہ اس دنیا کی قوتوں کے ساتھ سمجھ میں آ سکتی ہے سمجھ سکتا ہے.فرماتا ہے اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الزمر: 43) اللہ تعالیٰ روح قبض کرتا ہے لوگوں کی موت کے وقت اور جو نہیں مرتا اس کی نیند میں.پس روک رکھتا ہے اس روح کو جس پر موت کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اور واپس کر دیتا ہے دوسری کو ایک مدت مقررہ تک کے لئے.اس میں بہت سے نشانات ہیں اس قوم کے لئے جو فکر کرتی ہیں.یعنی خواب کی حالت میں بھی روح کا تعلق جسم سے عارضی طور پر الگ ہوتا ہے اور اس پر انسان ما بعد الموت کا قیاس کر سکتا ہے چونکہ یہ علیحدگی عارضی ہوتی ہے اس لئے دماغ کے ساتھ اس کا تعلق قائم رہتا ہے اور اس وجہ سے انسان ان کیفیتوں کو یاد رکھ سکتا ہے جو روح کو جسم سے علیحدگی کے وقت پیش آتی ہیں.اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ فکر کرنے والے ہیں ان کے لئے اس میں بہت بڑے فوائد ہیں.یعنی وہ اس کے ذریعہ سے روح کی کیفیت اور ان کے اعمال اور ما بعد الموت کے حالات کو سمجھ سکتے ہیں.اب خواب کی حالت پر غور کر کے دیکھو.اس میں گو جسم آرام سے سویا ہوا ہوتا ہے مگر انسان اپنے آپ کو دوسری شکلوں میں دیکھتا ہے اور مختلف جگہوں کی سیر کر لیتا ہے اور جن چیزوں کو دیکھتا ہے وہ جسم رکھتی ہیں مگر ان کا جسم ویسا نہیں ہوت جس قسم کا کہ ان مادی چیزوں کا.ہاں کبھی کبھی وہ جسم ایسا کامل ہو جاتا ہے کہ اس کے آثار جسم پر بھی نمودار ہو جاتے ہیں اور جو صاحب تجربہ ہیں وہ اسے جانتے ہیں.میں نے خود اس کا کئی بار مشاہدہ کیا ہے چنانچہ ایک دفعہ میں روزے میں تھا اور مجھے پیاس کی سخت تکلیف تھی جب وہ تکلیف حد سے بڑھ گئی تو میں نے دعا کی اور میں
۳۲۹ نے دیکھا کہ معاً ایک غنودگی کی حالت مجھ پر طاری ہوئی اور ایک پیاس بجھانے والی چیز میرے منہ میں ڈالی گئی.یہ کیفیت ایک سیکنڈ کی تھی اس کے بعد وہ حالت بدل گئی اور میں نے دیکھا کہ وہ پیاس کی حالت بالکل جاتی رہی اور یوں معلوم ہوا کہ جس طرح خوب پانی پی لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے بہت سے تجربات لکھتے ہیں حتیٰ کہ آپ نے عین بیداری میں روحانی جسم کے ساتھ حضرت مسیح ناصری کو دیکھا ہے اور بہت دیر تک ان سے مسیحیت کی خرابیوں اور ان کی اصلاح کے متعلق گفتگوئیں کی ہیں اور ایک دفعہ تو آپ نے ان کے ساتھ مل کر کھانا بھی کھایا ہے.اب یہ باتیں ان لوگوں کے لئےجو ان علوم سے واقف نہیں ایک وہم اور دماغ کی خرابی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں مگر جو لوگ صاحب تجربہ ہیں اور روحانی علوم کے ماہر ہیں وہ ان کیفیتوں کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ میری مراد روحانی علوم سے اس جگہ دماغی کیفیات نہیں ہیں جو مسمریزم وغیرہ کے ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہیں.وہ بالکل الگ چیز ہیں اور ان کا روحانی حالتوں سے کچھ تعلق نہیں ہے روحانی حالتوں کی کیفیات ہی اور ہیں.غرض یہ کہ خواب کا عالم اور کشف کا عالم، عالم اخروی کے لئے بطور مثال کے ہے اور اس پر انسان اس عالم کا قیاس کر سکتا ہے جس طرح خواب میں سب چیزیں روحانی ہوتی ہیں مگر پھر ایک جسم بھی رکھتی ہیں اسی طرح اگلے جہاں میں ہو گا کہ وہاں کی چیزیں جسم تو رکھیں گی لیکن وہ جسم روحانی ہو گا اور ان کے علاوہ ان سے اعلیٰ کیفیات خالص روحانی ہوں گی.قرآن کریم اس واقعہ کی حقیقت یہ بیان کرتا ہے کہ اسی دنیا کے اعمال متمثل ہو کر وہاں انسان کے سامنے آئیں گے وہاں کا پانی نہیں ہو گا مگر اس دنیا کا عمل بر شریعت.اور دودھ نہیں ہو گا مگر علم الٰہی جو اس دنیا میں حاصل کیا گیا تھا اور میوے نہیں ہوں گے مگر وہی لذت اور سرور جو خدا تعالیٰ کی اطاعت میں روح اس دنیا میں محسوس کرتی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا () اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا(بنی اسرائیل:14-15) ہر ایک انسان کے ساتھ اس کے عمل لگے چلے جاتے ہیں وہ کبھی اس سے جدا نہیں ہوتے گو ان کے اثرات مخفی ہوتے ہیں لیکن قیامت کے دن ہم ان اعمال کو اس طرح کر دیں گے گویا وہ ایک کتاب ہے جسے وہ کھول کر پڑھ رہا ہے یعنی اس وقت وہ اپنے اثرات کو ظاہر کر دیں گے اور ایک ایک عمل جو انسان نے اس دنیا میں کیا تھا وہ اپنا نتیجہ وہاں ظاہر کرے گا اور اس دنیا کی زندگی کو اپنے مطابق ڈھا لے گا.پھر فرماتا
۳۳۰ ہے ہم انسان سے کہیں گے اب اپنی کتاب پڑھتا رہ یعنی ان اعمال کے مطابق ترقی یا تنزل حاصل کر اور ان کا نتیجہ بھگت.ہمیں تیرا حساب لینے کی ضرورت نہیں.تیرا نفس خود تجھ سے حساب لیتا رہے گا.یعنی جو اثرات تیرے اعمال نے پیدا کئے ہیں وہ تیرے لئے سزا کےطور پر بھی اور انعام کے طور پر کافی ہیں ہمیں کسی نئی سزا اور جزاء کے دینے کی ضرورت نہیں.دیکھو یہ آیت کس وضاحت سے بتاتی ہے کہ اگلے جہاں کی نعمتیں اور سزائیں اسی دنیا کے اعمال کے تمثلات ہیں.ایک دوسری جگہ قرآن کریم فرماتا ہےإِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا () عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا(الإِنْسان:6-7) نیک لوگ وہاں ایسے پیالوں سے پیئں گے جن کا اثر کافوری ہو گا یعنی وہ ناجائز جوشوں کو دبانے والے ہوں گے.ایسے چشموں سے وہ پیالے بھرے جائیں گے جو چشمے کہ مومنوں نے بڑی محنت سے پھوڑے ہیں.یعنی دنیا میں جو عمل وہ کرتے رہے ہیں وہی بطور مثال اس وقت چشموں کی صورت میں ظاہر ہوں گے وہ کوئی الگ شئے نہیں.اسی طرح قرآن کریم فرماتا ہے.وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى (بنی اسرائیل:73) جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا ہو گا یعنی جس نے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھوں سے نہیں دیکھا وہاں چونکہ یہی روح بمنزلہ جسم کے ہو گی وہ اپنے آپ میں اندھوں کی قسم کی ایک کیفیت محسوس کرے گا.ایک اور جگہ فرماتا ہے وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى () قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا () قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (طه:125-127) ایسا شخص جو اس دنیا میں میری یاد سے بے پرواہ رہتا ہے اور مجھے تلاش کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ ایسی زندگی بسر کرے گا جو اس کی روحانی طاقتوں کو بالکل محدود کرتی چلی جائے گی اور آخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کی روح جب اپنی طاقتوں کو مکمل کر لے گی اور وہ وقت آئے گا جو دوسری روحانی زندگی کے لئے بمنزلہ پیدائش کے ہے تو وہ اندھا ہو گا گویا نئی پیدائش میں وہ اندھا ہی پیدا ہو گا.تب وہ گھبرا کر کہے گا کہ خدایا یہ کیا ہوا؟ کہ میں تو اُس دنیا میں سوجاکھا تھا اب تو نے مجھے اندھا کیوں پیدا کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اسی طرح تو نے میرے کلام کو ترک کر دیا تھا پس میں نے بھی تجھے تیرے اعمال کے مطابق نتیجہ نکلنے کے لئے چھوڑ
۳۳۱ دیا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ اگلے جہاں کا اندھا پن اس دنیا کے روحانی اندھے پن کے سبب سے ہو گا.پس صاف ثابت ہے کہ اسلام کے نزدیک اگلے جہاں کے تمام دکھ اور سکھ کے سامان گو ایک قسم کا جسم رکھیں گے مگر ہوں گے اس دنیا کے اعمال کے تمثلات نہ کہ کوئی نئی چیز.تفصیلی طور پر بھی جو چیزیں اگلے جہان کی بتائی ہیں ان سے یہ امر معلوم ہوتا ہے.چنانچہ قرآن میں فرماتا ہے کہ جنت میں ایک قسم کی شراب ملے گی مگر فرماتا ہے کہ وہ شراب ایسی ہو گی کہ دل کو پاک کرے گی.اب یہ امر ظاہر ہے کہ جسمانی چیز دل کو پاک نہیں کر سکتی پس شراب سے مراد وہی محبت الٰہی ہے جو اس دنیا میں انسان کو خدا تعالیٰ سے حاصل تھی وہی اگلے جہاں میں شراب کی شکل میں دکھائی جائے گی جس طرح کہ خواب میں انسان روحانی حالتوں کو جسمانی شکلوں میں دیکھتا ہے چنانچہ جب اس شراب کو انسان پئے گا تو چونکہ محبت الٰہی ہی اس شکل میں متمثل ہو گی کوئی مادی شراب نہ ہو گی اس لئے اس سے دل پاک ہوں گے اور خد اکی محبت اور بھی بڑھے گی.خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے اگلے جہان کی نعمتوں اور اگلے جہان کی سزاؤں کو جہاں جسمانی قرار دیا ہے وہاں ان کو ساتھ ہی روحانی بھی قرار دیا ہے اور درحقیقت یہی اصلی اور صحیح کیفیت ہے.جن لوگوں کو اصل حقیقت معلوم نہ تھی انہوں نے یا تو ان کو جسمانی ہی قرار دے دیا ہے یا صرف قلبی کیفیات سمجھ لیا ہے حالانکہ دونوں امور عقل کے خلاف ہیں.نہ وہاں جسمانی چیزیں ہو سکتی ہیں اور نہ خالص قلبی احساسات اس غرض کو پورا کر سکتے ہیں اور نہ کوئی لطیف شئے جو مخلوق ہو بغیر ایک اپنی نسبت کثیف جسم کے رہ سکتی اور اپنی طاقتوں کا اظہار کر سکتی ہے." اگلے جہان کے عذاب اور ثواب کہاں اور کس صوت میں ہونگے؟ "ایک سوال یہ ہے کہ عالم آخرت کے عذاب اور ثواب کہاں ہوں گے؟ اور کس صورت میں ہوں گے؟ اس سوال کا جواب اسلام نہایت ہی لطیف پیرایہ میں دیتا ہے جس کے مقابلہ میں دوسرے ادیان بالکل خاموش ہیں.اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دوزخ درحقیقت ان عذابوں کا نام ہے جو حواسِ سبعہ کے ذریعہ سے محسوس ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَهَا
۳۳۲ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ (الحجر:45) دوزخ کے سات دروازے ہوں گے اور ان سات دروازوں میں سے ہر اک میں سے دوزخی کا ایک حصہ گزرے گا.لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم، دوزخی ہو یا جنتی ہر اک انسان کو مکمل ظاہر کرتا ہے یہ نہیں بتاتا کہ اس کے ٹکڑے کئے جائیں گے.اس لئے سات دروازوں سے انسان کا ایک ایک ٹکڑا داخل ہونا درحقیقت اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ دوزخ کو سات حواس کے ذریعہ سے انسان محسوس کرے گا پس گویا سات دروازوں کے ذریعہ سے وہ دوزخ میں داخل ہو گا اور ہر اک دروازہ میں سے اس کا ایک حصہ داخل ہو گا یعنی ایک حصہ بینائی کے ذریعہ سے، ایک حصہ شنوائی کے ذریعہ سے، ایک حصہ قوت شامہ کے ذریعہ سے، ایک حصہ قوت ذائقہ کے ذریعہ سے، ایک حصہ قوتِ لامسہ کے ذریعہ سے، ایک حصہ قوت حاسہ کے ذریعہ سے جسے سنس آف ٹمپریچر کہتے ہیں یعنی حس حرارت اور حسِ برودت کے ذریعہ سے اور ایک قوت فاعلیہ کے ذریعہ سے جسے مسکولر سنس کہتے ہیں.ان سات حسوں سے انسان تمام گناہ کرتا ہے یا تو آنکھ کے ذریعہ سے گناہ کرتا ہے کہ یہ چیزوں کو دیکھتا ہے یا بدی کی نگاہ ڈالتا ہے یا کان کے ذریعہ سےگناہ کرتا ہے کہ غیبتیں سنتا ہے فحش سنتا ہے یا ناک کے ذریعہ سے گناہ کرتا ہے کہ جس چیز کو نہیں سونگھنا چاہئے تھا اسے سونگھتا ہے یا ذائقہ کے ذریعہ سے گناہ کرتا ہے کہ ایسی چیزوں کو کھاتا ہے جو نہیں کھانی چاہئے تھیں یا لامسہ کے ذریعہ سے گناہ کرتا ہے کہ نرم بستر اور فرشوں کی خواہش اس کو بنی نوع انسان کے لئے مشقت اٹھانے میں روک ہوتی ہے یا پھر گرمی اور سردی کے ڈر کے مارے نیک کاموں میں سستی کرتا ہے اور یا سستی اور غفلت کے سبب سے اپنے جسم کو تھکان سے بچانے کے لئے نیک کاموں کو ترک کر دیتا یا ادھورا چھوڑ دیتا ہے.غرض سات ہی حواس ہیں جو انسان سے بدی کراتے ہیں اور یہی سات حواس انسان سے نیکیاں بھی کراتے ہیں.پس جہنم کے سات دروازوں سے جن کے ذریعہ سے انسان جہنم میں داخل ہو گا وہی سات حواس مراد ہیں جن کے واسطہ اور سبب سے انسان دنیا میں گناہ کرتا تھا عالم آخرت میں یہی اس کے عذاب چکھانے کا موجب ہوں گے کیونکہ بوجہ بدی کی عادت ہونے کے ان سات جسمانی حواس کے مقابلہ میں سات روحانی حواس کمزور اور بیمار ہو جائیں گے اور بیماری کی وجہ سے وہ اس دکھ اور عذاب کو محسوس کریں گے جو اگلے جہان میں غلط کاروں کے لئے مقرر ہے.چنانچہ ان ساتوں قسم کے عذاب کا قرآن کریم میں ذکر ہے.رؤیت کے عذاب کے متعلق
۳۳۳ فرماتا ہے وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ (البقرة: 166) کاش منکرین اس وقت کا نظارہ اپنے ذہنوں میں لا سکیں جب وہ عذاب کو دیکھیں گے.یعنی ایسے نظرے ان کو دکھائے جائیں گے جن کی وجہ سے ان کو تکلیف معلوم ہو گی رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ سانپ اور بچھو اور اسی قسم کی اور چیزیں ان کو نظر آئیں گی.قوت سامعہ کے عذاب کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا(الفرقان:13) جب وہ دوزخ کے سامنے آئیں گے تو اس کی تیز آواز اور چیخ سنیں گے یعنی اس کے شعلوں کی آواز نہایت ڈراؤنے طور پر نکلے گی جو خود ایک عذاب ہو گی.چھونے کے عذاب کے متعلق فرماتا ہے لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ(الأَعراف:42) ان کو اس جگہ بستر اور اوڑھنے بھی عذاب کے ہی ملیں گے یعنی ان کی قوت لامسہ بھی عذاب پا رہی ہو گی.اسی طرح فرماتا ہے وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا (الفرقان:14) جس وقت وہ جہنم میں ایک تنگ جگہ پر ڈالے جائیں گے جکڑ کر اس وقت ہلاکت کی دعا کریں گے.گرمی اور سردی کے عذاب کے متعلق فرماتا ہے فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ(ص:58) اس عذاب کو چکھو گرمی اور سردی کا عذاب.مسکولر سنس کے عذاب کے متعلق فرماتا ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ () عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (الغاشية:3-4) اس دن کچھ منہ ذلیل ہوں گے محنت کریں گے اور تھکیں گے نتیجہ کچھ نہ نکلے گا.غرض کہ ساتوں حواس کے عذاب قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں.اور اس سے مراد ان کے ساتوں روحانی حواس کے خراب ہو جانے سے ہے جس کے باعث وہ عذاب میں مبتلاء ہوں گے چونکہ انہوں نے اس دنیا میں خدا کی نعمت یعنی حواس کو برے طور پر استعمال کیا تھا اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ روحانی زندگی میں ان کے حواس بالکل بیمار ہوں گے اور ہر چیز ان کے لئے عذاب بن جائے گی.انہی حواس کو جن لوگوں نے نیک طور پر استعمال کیا گیا ہو گاان کےلئے وہ آرام کا موجب ہو جائیں گے.کیونکہ صحیح استعمال سے چیز کی طاقت بڑھ جاتی ہے.چنانچہ نیکو کاروں کے جو انعام
۳۳۴ قرآن کریم نے بتائے ہیں وہ بھی ان ساتوں حواس سے تعلق رکھتے ہیں ہر حسّ کو لذت حاصل ہو گی کیونکہ وہ تندرست ہو گی کیا تم دیکھتے نہیں کہ سورج کی خوشگوار روشنی جو آنکھوں کے لئے طراوت کا موجب ہوتی ہے اور دل اس سے فرحت حاصل کرتا ہے وہ بیمار آنکھ والے کے لئے کیسی تکلیف دہ ہوتی ہے اور وہ ا س سے کس قدر دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے حتیٰ کہ اگر اس کو جلد نہ روکا جائے تو قریب ہوتا ہے کہ بیمار کی آنکھ ہی ماری جائے یا وہ بیہوش ہو جائے.اسی طرح دیکھتے نہیں کہ وہ خوشگوار اور خوبصورت آواز جو طبائع کے لئے نہایت سرور بخش ہوتی ہے اس شخص کے لئے جس کے کانوں میں نقص ہو یا سر درد ہو کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے وہی آواز جو بعض دوسروں کو نئی زندگی بخشتی ہے وہ ایسے لوگوں کی جان کے لئے وبال اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہے.پھر کیا نہیں دیکھتے کہ انہی حواس کے نقص کی وجہ سے وہ ناک جو خوشبو سونگھنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے جب اس کی حس ذکی ہو جاتی ہے ہر خوشبو کو سونگھ کر تکلیف اٹھاتا ہے اور بعض لوگوں میں تو یہ نقص اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ عطر کی خوشبو سونگتے ہی بیمار ہو جاتے ہیں اور ان کے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے حالانکہ خوشبو ایک اعلیٰ درجہ کی نعمت ہے.پھر کیا نہیں دیکھتے کہ منہ کا مزہ جو انسان کے لئے ایک بہت بڑا انعام ہے جب خراب ہو جاتا ہے تو میٹھے کو کڑوا اور نمکین کو سخت شور محسوس کر کے انسان کے لئے کس قدر تکلیف کا موجب ہو جاتا ہے اور ہر چیز کی لذت کو خراب کر دیتا ہے بلکہ ایک عذاب بنا دیتا ہے.پھر کیا نہیں دیکھتے کہ جب لمس کی حس میں فرق پڑ جاتا ہے تو نرم گدے جو دوسروں کے لئے آرام کا باعث ہوتے ہیں ایسے شخص کو پتھر سے زیادہ سخت اور کانٹوں کے بچھونے معلوم ہوتے ہیں اور آدمی ان پر پڑا لوٹتا ہے.پھر کیا نہیں دیکھتے کہ گرمی سردی کی حسّوں میں جب نقص پیدا ہو جاتا ہے تو وہی سردی جو دوسرے لوگوں کے لئے راحت دے رہی ہوتی ہے ایسے شخص کے لئے آگ بن جاتی ہے اور وہ اپنے اوپر سے کپڑے اتار اتار کر پھینک رہا ہوتا ہے اور یہی شکایت کرتا ہے کہ میں جل گیا حالانکہ پاس کے لوگ سردی محسوس کرتے ہیں.پھر کیا نہیں دیکھتے کہ گرمی کے موسم میں جس کی گرمی کی حِس کو کسی بیماری کی وجہ سے صدمہ پہنچ جاتا ہے وہ سردی کے مارے کانپنے لگتا ہے اور کپڑے اوڑھتا ہے حالانکہ دوسرے لوگ برف کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور پنکھے جھلتے ہیں.اسی طرح کیا نہیں دیکھتے کہ جن لوگوں کی حس عاملہ خراب ہو جاتی ہے ان کو وہی چلنا پھرنا جو دوسروں کے اندر نشاط پیدا کرتا ہے عذاب معلوم ہوتا ہے اور دو قدم چلنے سے پاؤں پھول جاتے ہیں.غرض یہ سب
۳۳۵ نظارے اس دنیا میں موجود ہیں اور انسان ان نظاروں سے دوزخ کی کیفیت کو اچھی طرح معلوم کر سکتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح نیکی ایک مستقل وجود کا نام ہے اور بدی اس کے غلط استعمال کا نام ہے اسی طرح نعمائے الٰہی اصل ہیں اور عذاب اس خرابی کا نتیجہ ہےجو انسان خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے.رسول کریم ﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ! جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت کا پھیلاؤ آسمان اور زمین کے برابر ہے تو پھر دوزخ کہاں ہے؟ آپؐ نے فرمایا جب دن آتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے؟ یہی حال جنت اور دوزخ کا ہے.اب یہ مراد اس قول سے نہیں ہو سکتی کہ ایک زمانے میں سب لوگ دوزخ میں ہوں گےاو رایک زمانہ میں سب لوگ جنت میں.جس طرح ایک وقت رات آتی ہے اور دوسرے وقت دن.بلکہ مراد یہ ہے کہ رات بھی ساری دنیا پر آتی ہے اور دن بھی ساری دنیا پر چڑھتا ہے مگر وہ جو سورج کے نیچے آ جاتے ہیں ان کے لئے دنیا پر دن ہو جاتا ہے اور دوسروں کے لئےرات.اسی طرح وہ لوگ جو خدا کے فضل کے نیچے آ جائیں گے ان کے لئے وہ جگہ جنت ہوجائے گی دوسروں کے لئے دوزخ.پس جو لوگ خدا تعالیٰ کے فضؒ سے حواس سبعہ درست رکھتے ہوں گے وہ جنت کی لذتیں محسوس کریں گے اور جو لوگ ان حواس کو خراب کر چکے ہوں گے ان کے لئے یہی نعمتیں عذاب اور سخت عذاب ہوں گی.نیک تو اسی قدر گرمی محسوس کرے گا جو اس کے لئے خوشی کا موجب ہو گی.لیکن بد ایسی شدید آگ محسوس کرے گا کہ وہ اپنے شعلوں سے اس کو جھلس دے گی جس طرح ایک بیمار آگ دیکھتا ہے اور اس کی گرمی بھی محسوس کرتا ہے.نیک ٹھنڈے پانی کے مشابہ روحانی نعمتوں کو حاصل کرے گا لیکن جب بد کو پانی ملے گا وہ اس کو ایسا سخت گرم پائےگا کہ اس کے منہ کو جھلس دے گا.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ہر شخص کے لئے جنت اور دوزخ میں جاتے ہیں وہ جنتیوں کے حصے کی جگہ بھی لے لیتے ہیں اس سے بھی یہی مراد ہے کہ جنتی سب راحت کو لے لیتا ہے اور سزا یافتہ سب عذاب کو.یہ محاورہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی نعمت سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو وہ دوسرے کو کہتا ہے تُو نے بھی میرا حصہ لے لیا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰٰ دوزخ کے متعلق فرماتا ہے وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا (مريم:72) پھر فرماتا ہے ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا (مريم:73) ہر ایک شخص دوزخ میں وارد ہو گا.پھر ہم متقیوں کو اس کے عذاب سے بچا لیں گے
۳۳۶ وارد بھی ہوں گے اور بچیں گے بھی.اس کے یہی معنی ہیں کہ جنتی اپنے حواس کی درستی کی وجہ سے ہر اک چیز کو اپنے لئے راحت بنا لے گا چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو کہے گا کہ دوزخ میں چھلانگ مار جب وہ اس میں کودے گا تو وہ اسے بالکل آرام دہ معلو ہو گی.پس اگلے جہان کا ثواب اور عذاب ان کیفیات کا نام ہے جسے وہ روحانی جسم محسوس کرے گا جو اگلی دنیا میں ملے گا اور یہ کیفیات نتیجہ ہوں گی حواس سبعہ کے صحیح یا غلط استعمال کا.ہاں ایک امر ہے اور وہ یہ کہ دوزخی لوگ اپنی جگہوں میں محصور ہوں گے مگر جنتی آزاد ہوں گے جس طرح بیمار بستر پر لٹایا جاتا ہے اور تندرست آزاد پھرتا ہے کیونکہ دوزخ ایک قید خانہ ہے اور جنت ایک سیر گاہ.پس دوزخ ایک محدود مقام کا نام ہے اور جنت غیر محدود ہے.دوزخی اپنے علاقہ سے نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ ایک بیمار کی طرح بستر پر لٹایا ہوا ہے لیکن جنتی جہاں چاہے جائے اس کے لئےہر مقام جنت ہے اگر وہ اس مقام میں بھی داخل ہو جو دوزخیوں کے لئے آگ کا کام دیتا ہے تو اسے وہ بھی گلزار ہی معلوم ہو گا مگر چونکہ دوزخی تکلیف میں ہوں گے اور تکلیف کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے اس لئے ان کو ایک لطیف پردہ کے ذریعہ سے جنتیوں کی آنکھ سے پوشیدہ رکھا جائے گا سوائے اس کے کہ وہ خود خواہش کر کے دیکھنا چاہیں تاکہ طبیعت پر تکلیف کی حالت دیکھ کر ملال نہ آئے اور جنتی ایک دوسرے کے مدارج سے بھی غافل رہیں گے.پھر ہر اک اپنی ہی حالت سے واقف ہو گا.ہاں جب خدا تعالیٰ چاہے گا کہ کسی کو ترقی دے تو وہ اسے اوپر کے شخص کے درجہ کی حالت سے آگاہ کرے گا اور جب اس کے دل میں تمنا پیدا ہو گی تو اس کو وہ درجہ مل جائےگا.کیا عذاب اور ثواب دائمی ہونگے؟ کیا عذاب اور ثواب دائمی ہوں گے؟: ایک سوال عالم آخرت کے متعلق یہ ہے کہ کیا عذاب اور ثواب دائمی ہیں؟ اسلام اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ جزائے نیک تو دائمی ہو گی مگر عذاب دوزخ دائمی نہیں ہو گا.کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ سب انسان اس لئے پیدا کئے گئے ہیں تا خدا تعالیٰ کی صفات کا کامل مظہر بنیں.پس اگر کچھ لوگ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں پڑے جلتے رہیں تو وہ کامل مظہر کب اور کس طرح بنیں گے؟ قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جنت کی نعمتیں نہ کٹنےوالی اور نہ ختم ہونے والی ہوں گی مگر دوزخ کی سزاؤ کا یہ حال نہ ہو گا بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ماتحت اور اس کے فضل سے وہ آخر مٹا دی جائیں گی.کیونکہ قرآن فرماتا ہے کہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے.پس ایک عرصہ تک جب خدا کے غضب کو بدکار بھگت لیں گے جو اس قدر لمبا عرصہ ہو گا کہ اسے انسانی کمزوری
۳۳۷ کے لحاظ سے ابد کہہ سکتے ہیں تب خدا کی رحمت جوش میں آ جائے گی.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.یأت علٰی جھنم زمان لیس فیھا احد و نسیم الصبا تحرک ابوابھا ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جہنم خالی ہو جائے گی اور اس کے دروازوں کو ہوا ہلائے گی.یعنی کوئی شخص عذاب میں مبتلاء نہیں رہے گا.اصل میں یہ خیال کہ دوزخی ہمیشہ میں عذاب میں رہیں گے اس حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ خدا عذاب کیوں دے گا؟ جیسا کہ میں پہلے میں بتا چکا ہوں اسلام کا دعویٰ ہے کہ انسان اپنی بد اعمال سے خود عذاب پیدا کرتا ہے ورنہ خدا تعالیٰ رحم کرنے والا ہے.وہ سزا دینا نہیں چاہتا مگر چونکہ انسان اپنی روحانی قوتوں کو خراب کر لیتا ہے وہ ان انعامات کے محسوس کرنے کے قابل نہیں ہو گا جو اگلے جہان میں ملیں گے پس وہ عذاب چکھے گا.مگر خدا تعالیٰ کے رحم نے ایک یہ قانون بھی مقرر کیا ہوا ہے کہ بیماری میں ہی علاج نکل آتا ہے.پس جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج ہو جاتے ہیں ان عذابوں سے جو انسان اگلے جہان میں محسوس کرے گا بدکاروں کی اصلاح ہو جائے گی اور وہ نعمائے جنت کو محسوس کرنے کے قابل ہو جائیں گے تب ان کو جنت میں داخل کر دیا جائےگا اور خدا کی رحمت مکمل ہو گی اور انسان کی پیدائش کی غرض پوری ہو گی اور انسان وہیں جا پہنچے گا جہاں کے لئے وہ پیدا کیا گیا تھا.کیا جنت میں عمل ہو گا یا عمل ختم ہو جائے گا؟: ایک اور اہم سوال ہے جس کا جواب دئیے بغیر ما بعد الموت حالت کا بیان نامکمل رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس ابدی زندگی میں انسان کیا کرتا ہے؟ کیا اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں؟ اور وہ اب ایک بوڑھے آدمی کی طرح کھانے پینے میں ہی مصروف رہتا ہے یا کچھ کرتا بھی ہے؟ اسلام اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ عمل ہی انسان کی زندگی ہے.عمل سے انسان کو الگ کر دینا گویا اس کی زندگی کو باطل کر دینا ہے او رزندگی بلا عمل درحقیقت موت سے بدتر ہے.اگر بے عمل کی زندگی بھی کوئی اچھی چیز ہوتی تو اس دنیا میں بھی آرام طلب لوگ سب سے بہتر سمجھے جاتے.مگر جس شخص نے کام کی لذت دیکھی ہے وہ جانتا ہے کہ اصل لذت اور سرور کام کرنے اور ترقی کرنے میں ہے خالی بیٹھ رہنا ایک مختلّ الحواس انسان کے لئے گو اچھا ہو مگر صحیح الدماغ آدمی کبھی اس کو اچھا نہیں سمجھ سکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نُورُهُمْ
۳۳۸ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التحريم:9) مومنوں کا نور بعد الموت ان کے آگے آگے چلے گا اور دائیں بھی چلے گا اور کہتے جائیں گے کہ خدایا ہمارے نور کو مکمل کر اور ہماری موجودہ کمزوریوں کو دور کر.تُو ہر ایک چیز پر قادر ہے.یعنی برابر مومن آگے کو ترقی کرتا چلا جائے گا اور نئے نئے مدارج اس کو نظر آئیں گے جن کے حصول کے لئے وہ کوشش اور خواہش کرے گا.اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ (الحجر:49) مومنوں کو وہاں تھکان نہیں ہو گی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کام تو ہو گا مگر اس کے نتیجہ میں تھکان اور ملال پیدا نہیں ہو گا اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ () ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً () فَادْخُلِي فِي عِبَادِي () وَادْخُلِي جَنَّتِی (الفجر:28-31) اے نفس! جو میری ذات کے متعلق مطمئن ہو گیا اور جس کے دل میں میری نسبت کوئی شک نہیں رہا.اب تُو اپنے رب کی طرف لوٹ اس طرح کہ تو اپنے رب سے خوش ہے اور تیرا رب تجھ سے خوش ہے پس اب تُو میرے غلاموں میں داخل ہو جا اور میرا غلام بن کر اس مقام میں داخل ہو جا جو میرے سائے کے نیچے آیا ہوا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کا اس مقام پر کام پرتَو پڑتا ہے اس آیت سے ظاہر ہے کہ گو بندہ اس دنیا میں بھی کام کرتا ہے مگر اصل کام کا زمانہ بعد الموت کا ہے.مومن کامل غلام اسی وقت بنتا ہے کیونکہ اسی وقت اس کو اللہ تعالیٰٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کرنے کا پورا موقع ملتا ہے پس وہاں کام زیادہ ہو گا نہ کہ بند ہو جائے گا.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں یلھمون التسبیح و التحمید جنت میں مومنوں کو نئی نئی تسبیحیں اور تکبیریں الہام کی جائیں گی.اس سے یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ نئے الفاظ میں خدا کی تسبیح اور تکبیر سکھائی جائے گی.کیونکہ یہ کام تو انسان خود بھی کرتا رہتا ہے.بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ کی پاکیزگی اور اس کی بڑائی پر دلالت کرنے والی صفات اس کو الہام سے بتائی جائیں گی تاکہ وہ کوشش کر کے ان صفات کا بھی مظہر بنے.شاید کسی کو یہ خیال گزرے کہ نئی صفات کونسی ہوں گی؟ کیا اب وہ صفات معلوم نہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اسی قدر علم حاصل کر سکتا ہے جس قدر کہ اس کے حواس اس کو سکھا سکتے ہیں اس لئے ہمارے موجودہ علم ہمارے حواس تک محدود ہیں پس ان علموں کی نسبت یہی کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حوا س کو مدنظر رکھ کر یہ علوم کامل ہیں مگر جب نئے حواس انسان
۳۳۹ حاصل کرے گا تو نئی صفات کے سمجھنے کی بھی اس کو توفیق ملے گی اور خدا تعالیٰ چونکہ غیر محدود ہے انسان اس حصول علم اور معرفت میں ترقی کرتا رہے گا اور نئی نئی صفات اس پر ظاہر ہوں گی اور وہ ان کو اپنے نفس میں پیدا کرنے کے لئے کوشش کرے گا پس ہر نیا علم ایک نیا دورِ عمل جاری کرے گا اور اسی طرح ہوتا چلا جائے گا اور روز بروز انسان کا یہ عرفان کہ خدا تعالیٰ غیر محدود ہے زیادہ ہوتا چلا جائے گا.خلاصہ یہ کہ جنت بھی دار العمل ہے جس طرح یہ دنیا دار العمل ہے بلکہ اس سے بڑھ کر.صرف فرق یہ ہے کہ اس دنیا میں تو انسان کو نیچے گر جانے کا اور فیل ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے وہاں انسان اس خطرہ سے محفوظ ہو جائے گا گویا یہ دنیا روحانی علوم میں ایک مدرسہ کی نسبت رکھتی ہے جس میں فیل اور پاس دونوں ہی صورتیں ہیں لیکن وہ جہان ایسا ہے جیسے کوئی شخص سب امتحان پاس کر کے تحقیقات علمی میں لگ جاتا ہے محنت تو یہ شخص بھی کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ طالب علم سے زیادہ لیکن اس میں اور طالب علم میں یہ فرق ہے کہ اسے فیل ہونے کا دھڑکا تھا لیکن اسے وہ دھڑکا نہیں." مذکورہ بالا بیان سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام کے نزدیک جنت کی اصل خوشی اور اصل نعمت ترقی روحانی ہی ہے نہ کہ وہ سِفلی لذات جو اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے بڑی نعمت جنت میں خدا کی رضاہوگئی اور سب سے بڑی خوشی رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں رؤیت الہٰی کی ہوگی.۳۰۰.حاصل کلام یہ کہ ایک مسلمان کی جنت صحیح علم کے حصول اور پھر اس کے مطابق صحیح عمل کرنے اور ان دونوں کے ذریعہ سے خداتعالی کا قرب اور اتّصال حاصل کرنے کا نام ہے اور اس سے بڑا اور کوئی مقصد پیش نہیں کیا جاسکتا.اب میں ان تمام سوالوں کے متعلق احمدیت کی تعلیم بیان کر چکا ہوں.جن کے متعلق صحیح تعلیم بیان کرنامذاہب کا کام ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جو لوگ غور اور فکر سے میری باتوں کی طرف متوجہ ہوں گے وہ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اس سے بہتر اور کوئی تعلیم نہیں ہو سکتی اور خصوصا ًاس کی یہ خوبی کہ یہ خدا تک عملاً انسان کو پہنچا دیتی ہے سب باتوں اور بحثوں کا خاتمہ کر دیتی ہے.انسان دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا؟ اسی لئے کہ وہ خد اسے ملے.پس وہی مذہب ہمارے کام کا ہے جو خدا سے ہمیں ملاتا ہے نہ کہ وہ جو صرف باتوں سے ہمیں خوش کرنا چاہتا ہے.
۳۴۰ مسیح موعودؑ کی تعلیم کا اثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بیان کر چکنے کے بعد میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس تعلیم کا اثر آپ کی جماعت پر کیا ہوا ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خیالات ِموجو دہ کا آئینہ نہ تھے بلکہ زمانہ کی رَو اور اس کے میلان کے بالکل خلاف تعلیم لے کر آئے تھے.اگر غور سے دیکھا جائے تو اس زمانہ میں خیالات کی رَو دوجہات کی طرف مائل ہے.ایک تو یہ ہے کہ خدا تعالی اور بندہ کے در میان کوئی گہرا تعلق نہیں ہونا چاہئے بلکہ انسان کو آزادی ملنی چاہئے.چنانچہ تمام جدید مذاہب اور قدیم مذاہب اپنے آپ کو اس رَو کے مطابق بنا رہے ہیں اور عبادات کی حقیقت کو بدل کریا ان میں کمی کر کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں.دوسری رَواس زمانہ میں یہ چل رہی ہے کہ لوگ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ تمدنی بنیاد جو پچھلے کئی سو سال میں دنیا میں قائم ہوئی ہے اس میں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے.یہ اس لئے کہ وہ تمدن اعلیٰ اور اکمل ہے بلکہ اس لئے کہ لوگ اس کے عادی ہو چکے ہیں اور اب وہ اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.نئے اور پرانے سب مذاہب اپنی تعلیمات کو اس تمدن کے مطابق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، چنانچہ سود، پرده، کثرت ازدواج ایسے تمام امور کے متعلق تمام مذاہب اپنی پوزیشن کو صاف کرنے کی فکر میں ہیں اور اپنی تعلیم کو رائج الوقت تمدنی خیالات کے مطابق بنا رہے ہیں، مگر بر خلاف تمام لوگوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم کی بنیاد خالص مذہب پر رکھی ہے اور رائج الوقت خیالات پر ان کی بنیاد نہیں رکھی.پس آپ حقیقی معنوں میں مصلح تھے نہ کہ زمانہ کے منہ میں نے کی مانند.کہ جو کچھ وہ بجانا چاہتا تھا آپ نے اس کو بلند آواز سے کہہ دیا.آپ نے زمانہ کی دونوں موجوں کا مقابلہ کیامذہبی آزادی کا بھی اور تمدنی غلامی کا بھی.آپ نے نہ تو عبادات میں کمی کی نہ ان کو ا ڑ ایا بلکہ آپ نے اسلام کے قدیم حکم کی طرف دنیا کو توجہ دلائی اور عبادات کی حقیقت کو لوگوں پر ظاہر کیا اور ان کے دلوں میں عبادت کا سچاجوش پیدا کر کے خداتعالی سے ان کے تعلق کو مضبوط کیا.نہ صرف فرض نمازوں کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی بلکہ نوافل پر کار بند ہونے کی بھی
۳۴۱ رغبت دلا ئی کیونکہ عبادت کی نہیں بلکہ ترقیات روحانیہ کاذریعہ ہیں.روزے جو اس زمانہ میں دوسرے مذاہب سے تو بالکل مفقود ہو گئے تھے مسلمانوں میں سے بھی تعلیم یافتہ لوگوں میں ان کا بالکل رواج نہ رہا تھا آپ نے ان کی ضرورت کو بھی روحانی اور جسمانی دلائل سے ثابت کیا اور ان کی طرف لوگوں کو تو جہ دلائی - اسی طرح ذکر ،حج اور قربانی کی حقیقت کو روشن کر کے ان پر کاربند ہونے کی تعلیم دی.تمدنی غلامی سے بھی آپ نے لوگوں کو چھڑایا اور اس بھیڑ چال کی غلطی ان پر ظاہر کی جس میں وہ مبتلاء تھے اور اسلامی تمدنی تعلیم کی خوبی کو ظاہر کیا ،سود کی برائی کو ظاہر کیا ،پردہ کی خوبیوں کو واضح کیا کثرت ازدواج کی ضرورت کو ثابت کیا ،طلاق کی اہمیت کو بیان کیا، غرض وہ مسائل جن کے متعلق لوگ زمانہ کی رَو کو دیکھ کر بول نہیں سکتے تھے ان کے متعلق على الاعلان اسلامی تعلیم کو پیش کیا اور زمانہ کے خیالات کی پرواہ نہیں کی.میں اس جگہ ان پرانے وساوس اور شبہات کا جو غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں رائج تھے اور جن کا آپ نے مقابلہ کیا اس جگہ ذکر نہیں کرتا کیونکہ کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ خود ان کی اصلاح کر رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم کا جو آپ نے زمانہ کی رَو کے خلاف دی یہ اثر ہوا کہ لاکھوں آدمی جو زمانہ کی رَو میں بہے جاتے تھے ان کو ہوش آگئی اور وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے سوچا اور اسلامی تعلیم کو سب تعلیموں سے افضل پایا.وہ لوگ جو پہلے دہریت اور مادہ پرستی کا شکار تھے جو خداتعالی کی عبارت تو کیا کرنی تھی اس کے وجود کے ہی منکر ہو رہے تھے ان کو آپ نے تہجد گزار اور ذاکر بنا دیا.ان کے دماغ مغربی تعلیم سے روشن ہیں اور ان کے فکر جدید افکار پر محتوی مگر ان کے دل محبت الہٰی سے لبریز ہیں اور ان کے ماتھے خداتعالی کے حضور میں جھکے رہتے ہیں.رات اور دن وہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں بسر کرتے ہیں اور باوجود اعلی درجہ کی تعلیم کے وہ دین کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں.تمدن کی غلامی سے بھی آپ نے بہت سے لوگوں کو چھڑا کر عقل کے حُریت خیز میدان میں لا کھڑا کیا ہے.باوجود زمانہ کی مخالفت کے آپ کی جماعت تمدنی اصلاح میں مشغول ہے اور اس کی عمارت کو طلبِ فرحت اور عیاشی کی بنیادوں سے ہٹا کر اصلاح اور عفّت اور اخلاق پر کھڑا کر رہی ہے.
۳۴۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذہبی روانگی پیدا نہیں کی اور نہ مذہب کو اپنی ذات کی محبت کے گرد لپیٹ کر لوگوں کی توجہ کو ایک ہی نقطہ پر جمع کردیا ہے جیسا کہ ان لوگوں کا قاعدہ ہے جو باقی نیک خصلتوں کو نظرانداز کر کے صرف قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرنا چاہتے ہیں بلکہ آپ نے ہر ایک چیز کو اس کے مرتبہ کے مطابق پیش کیا ہے اور انسانی عقل کو ہر ممکن طریق سے زندہ رکھنے کی بلکہ ترقی دینے کی کوشش کی ہے.مگر باوجود اس کے آپ کی جماعت میں یہ مادہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنی جان اور اپنا مال خداتعالی کے راستہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.ان کی مثال صحابہ ؓرسول کریم ﷺ کی ہے جن کی نسبت قرآن کریم فرما ہے.منهم من قضی نحبه ومنهم من ينتظر ۳۰.ان میں سے بعض نے اپنے ارادہ کو پورا کر دیا اور خدا کی راہ میں جان دے دی ہے اور بعض اس وقت کے منتظر ہیں.چنانچہ افغانستان میں دو موقعے احمدیوں کو جان قربان کرنے کے ملے ہیں جن میں انہوں نے نہایت ثبات سے جانیں دی ہیں.دو موقعوں سے میری مراد یہ ہے کہ جن دو موقعوں پر ان کو کہا گیا ہے کہ تم توبہ کر لو مگر انہوں نے توبہ نہیں کی ورنہ احمدیت کی وجہ سے مارے تو وہاں کئی آدمی گئے ہیں جن کی تعداددس سے کم نہ ہوگی.ان آدمیوں میں سے زیادہ اہم شہادت سید عبد اللطیف صاحب کی ہے.آپ افغانستان کے بہت بڑے عالم تھے اور آپ کو ایسا درجہ حاصل تھا کہ امیر حبیب اللہ خان ۳۰۲؎ صاحب کی تاج پوشی کی رسم آپ ہی نے ادا کی تھی.آپؓ کو جب سلسلہ احمدیہ کی خبر لی تو آپ نے کتب سلسلہ منگوا کر پڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئے.اس کے بعد ملاقات کا شوق پیدا ہوا اور حج کی نیت سے افغانستان کے امیر سے اجازت لی اور راستہ میں قادیان بھی ٹھہرنے کا ارادہ کیا.قادیان آکر ان پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ انہوں نے کہا کہ مجھے اب آگے نہیں جانا چاہئے بلکہ یہاں رہ کر دین کی معلومات بڑھانی چاہئیں.چنانچہ وہ ہیں ٹھہر گئے اور کئی مہینے ٹھہر کر واپس وطن گئے اور جاتی دفعہ کہہ گئے کہ میرا ملک مجھے بلاتا ہے تااپنے خون سے اس کی اصلاح کا راستہ کھولوں اور میں اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی دیکھتا ہوں.ملک میں جاتے ہی امیر نےطلب کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ احمدی ہو گئے ہیں؟ انہوں نے اقرار کیا.اس پر بہت بڑی بحث کے بعد علماء کے فتوی ٰکے ماتحت ان کے قتل کا فیصلہ کیا گیا.بار بار امیرنے بلا کر ان کو توبہ کی تحریک کی مگر انہوں نے انکار کیا اور آخران کو زمین میں گڑھا کھود کر آوهادفن کیا گیا اور امیر خود مع الشكر
۳۴۳ میدان میں آیا اور شہر کے لوگ بھی اکٹھے ہوئے اور سنگسار کرنے کی تجویز ہوئی.آخری وقت میں امیر پھر ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ صاحبزادہ صاحب! اب بھی موقع ہے آپ اپنے عقیده سے توبہ کرلیں مگر انہوں نے جواب دیا کہ توبہ کس بات سے ؟ میں نے حق کو پالیا ہے اور میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا.یاد رکھو کہ میرے مرنے کے بعد پہلی جمعرات کو قیامت آجائے گی اور میں جیاٹھوں گا.جب امیر مایوس ہوگیا تو اس نے واپس آکر سید الشہداء پر پتھر پھینکا اور چاروں طرف سے لوگو ں نے نے پتھر پھینکنے شروع کئے مگر صاحبزادہ صاحب استقلال سے کھڑے رہے یہاں تک کہ پتھروں کی ضربوں سے ان کا سر پاش پاش ہو گیا اور گردن جھک گئی.ظالم برابر پتھر مارتے چلے گئے حتیٰ کہ سر تک پتھروں کا ایک بڑا ڈھیر جمع ہو گیا اور اس صادق مومن کی پاکیزہ روح اپنے پیدا کرنے والے سے جاملی.تب لوگ واپس اپنے گھروں کو چلے گئے مگر ان کی لاش پر پہرہ مقرر کر دیا گیا تا کہ کوئی شخص ان کو دفن نہ کردے.مگر خد اکابدلہ نزدیک تھاوہ قیامت جس کی انہوں نے خبر دی تھی اچانک آگئی اور پہلی جمعرات کو غیر معمولی طور پر خلاف توقع اور خلاف پچھلے تجربہ کے کابل میں سخت ہیضہ پھوٹا اور سخت موت پڑی جس سے شاہی خاندان میں سے بھی بعض جانوں کا نقصان ہوا.ان واقعات کو ایک بے تعلق انگریز انجینئر مسٹر مارٹن (FRANK A.MARTIN) دی انجینئر اِنچیف افغانستان نے اپنی کتاب "أنڈر دی ابسولیوٹ امیر‘‘۳۰۳.(UNDER THE ABSOLUTE AMIR) میں نہایت سادگی سے بیان کیا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے.گو بوجہ سلسلہ سے ناواقفیت کے بعض باتیں انہوں نے غلط لکھ دی ہیں مگر پھر بھی ان کی تحریر نہایت مؤثر ہے خصوصاً اس صورت میں کہ ایک بے تعلق آدمی کی لکھی ہوئی ہے.صاحبزاده عبداللطیف صاحب سے پہلے ان کے شاگرد مولوی عبد الرحمن صاحب کو گلا گھونٹ کر مار دیا گیا تھا ان کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ سلسلہ احمدیہ سے تعلق رکھتے تھے.ان دو قتلوں کے علاوہ جو حکومت کی طرف سے ہوئے ہیں لوگوں نے کئی احمدی قتل کئے ہیں.چنانچہ پچھلے ماہ میں دو احمدیوں کو لوگوں نے مار دیا ہے.علاوہ قتل کے دو سری تکالیف تو ہمیشہ ہی احمدیوں کو پہنچائی جاتی ہیں جنہیں وہ نہایت بہادری سے برداشت کرتے ہیں.چنانچہ اسی سال کے دوران میں خوست کے علاقہ میں جو بغاوت ہوئی ہے اس میں جب باغیوں نے ہز میجسٹی دی امیر کی افواج کے خلاف کچھ زور چلتا ہوا نہ دیکھا تو احمدیوں کے دو گاؤں جلا دیئے اور بہانہ یہ کیا کہ یہ لوگ امیر کو
۳۴۴ ورغلاتے ہیں.سال میں دو تین دفعہ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ عوام بعض متعصب مقامی افسروں کو ملا کر جس جس احمدی پر زور چلے اسے گرفتار کر لیتے ہیں اور بعض کو منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرکے شہر میں پھراتے ہیں، بعض کو مارتے ہیں، بعض کو قید میں ڈال دینے ہیں اور جُرمانہ وصول کر کے چھوڑتے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ پچّیس سال سے احمد ی یہ مصائب برداشت کرتے چلے آرہے ہیں خداتعالی کے فضل سے ان کے ایمان متزلزل نہیں ہیں بلکہ وہ ترقی کر رہے ہیں.یہ امر جذبہ شکر کے خلاف ہو گا اگر میں اس جگہ یہ اظہار نہ کردوں کہ ہز میجسٹی امیر امان اللہ صاحب جب سے سلطنتِ افغانستان پر متمکن ہوئے ہیں انہوں نے ان مظالم کو بالکل مٹا دیا ہے جو احمدیوں کے خلاف حکومت کی طرف سے ہوتے تھے اور گو بوجہ اس کے کہ ابھی افغانستان انتظام و درستی کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہے وہ ان کے لئے حقیقی امن قائم کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے.مگر ہم امید کرتے ہیں کہ گورنمنٹ افغانستان اسی انصاف کی روح کے ساتھ کام کرتی رہی تو کچھ عرصہ تک افغانستان میں احمدیوں کے لئے گورنمنٹ کے علاوہ کام مقامی اور رعایا سے بھی امن ہو جائے گا.یہ تو افغانستان کے لوگوں کی قربانی ہے مگر ہندوستان کے احمدیوں کا حال کم نہیں ہندوستان میں انگریزی حکومت ہے اس لئے یوں تو مار نہیں سکتے مگر جھوٹ اور فریب سے ہر جگہ احمدیوں کو تکلیف دی جاتی ہے اور وہ سب تکلیفوں کو خوشی سے برداشت کرتے ہیں.قتل بے شک ایک بڑا ابتلاء ہے لیکن صبر آزما مصیبت وہ ہے جو آہستہ آہستہ آتی ہے.ہندوستان کے احمدیوں کو اس سے حصہ ملا ہے بلکہ نوے فیصدی احدی ان حالات میں سے گزرتے ہیں.بہت ہیں جن کے جسم ان نشانوں سے پُر ہیں جو ان کو احمدیت قبول کر کے ماریں کھا کر لگے ہیں ،بہت سے لوگ گھروں سے نکالے گئے ، بعض چھوٹے چھوٹے بچوں کو والدین نے نکال دیا مگر ثابت قدم رہے، بعض دفعہ ایک گاؤں میں ایک ہی احمدی ہو تا ہے اور سب لوگ اس کو مل کر مارتے ہیں پھر پولیس کی تفتیش پر کوئی اس کی تائید میں گواہی دینے والا نہیں ہوتا ،کئی جگہوں پر قبرستانوں میں احمدیوں کو مردے دفین نہیں کرنے دیتے، بعض جگہ لاشیں لوگوں نے باہر نکال کر پھینک دیں، گر میوں کے دنوں میں کنؤوں سے پانی لینے سے روک دیا اور کئی کئی دن اس شدید گرمی میں کہ پارہ حرارت ایک سو پند رہ تک سایہ میں ہو جاتا ہے پڑوں اور بچوں کو پیاسا رہنا پڑا، کئی جگہ ان کی دکانوں سے سووا نہیں لیا جا تا او ران کے کھیت برباد کر دیئے جاتے ہیں، ان کے لیکچروں اور وعظوں کے موقعوں پر
۳۴۵ پتھر مارے جاتے ہیں شور کیا جاتا ہے ، کئی جگہ ان کی بیویوں کو ان سے جبراً چھین کر ان کا دو سری جگہ نکاح کر دیا گیا ہے، بچوں کو والدسے جدا کر لیا گیا ہے ،عورتوں کو ان کے خاوندوں نے مار کر گھر سے نکال دیا ہے.سرکاری ملازمتوں میں چونکہ دوسرے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ان میں بھی احمدیوں کو دِق کیا جا تا ہے اور ہمیشہ وہ مصائب میں مبتلا رہتے ہیں' وکلاء اور ڈاکٹروں کا بھی جہاں بس چلتا ہے بائیکاٹ کیا جاتا ہے عام پیشہ وروں کا تو حال ہی نا قابل بیان ہے ان کو تو سخت تکلیف دی جاتی ہے حتی ٰ کہ سینکڑوں ہیں جو غیراحمدی ہونے کی حالت میں اچھے آسودہ حال تھے مگر آج وہ نان ِشبینہ کے محتاج ہیں.مگر حضرت مسیح موعود ؑنے کچھ ایسی روح اس جماعت میں پھونک دی ہے کہ وہ دلیری سے ان مصائب کو برداشت کرتی ہے مگر اپنے ایمان کو نہ چھوڑتی ہے نہ چھپاتی ہے بلکہ علی الاعلان اس کو ظاہر کرتی رہتی ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اعلی ٰنمونہ دکھاتی رہتی ہے.احمدی افراد اپنے لباس و اطوار میں دوسرے لوگوں سے جدا نہیں ہیں مگر حضرت مسیح موعود ؑ علیہ السلام کی تعلیم نے ان پر کچھ ایسا اثر کیا ہے کہ باوجود لباس وغیرہ میں تغیرنہ ہونے کے عام طور پر لوگ ان کو پہچان لیتے ہیں اور اس کی وجہ ان کے وہ اعلی ٰاخلاق ہیں جن کے ذریعہ سے وہ دوسروں سے ممتاز نظر آتے ہیں.ان کی زبانوں کا گالیوں اورفحش باتوں سے پاک ہونا، ان کا دوسروں کی خاطر تکلیف اٹھانا اور ایثار سے کام لینا ان کا دھوکے اور فریب سے بچنایہ ان کو ہر مجلس میں ممتاز کر کے دکھا دیتا ہے اور وہ آدمی بھی جو احمدی کیر یکٹر سے واقف ہو لیکن ایک احمدی كاذاتی واقف نہ ہو اسے رہیں یا جلسه با دو سری اجتماع کی جگہوں میں پہچان لیتا ہے.جاہل سے جاہل احمدی بھی کہیں نظر آئے تو اس کی عقل تیز اور اس کی بحث کی قابلیت غیر معمولی نظر آئے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نے اس جماعت کے بنانے میں یہ عظیم الشان معجزہ دکھایا ہے کہ ایک طرف تو احمدی آپ کی تعلیم کے ماتحت اس انتہائی بے دینی اور بے پرواہی کو چھوڑ کر چودنیامیں نظر آتی تھی خداتعالی اور اس کے رسولوں اور اس کے کلام کی محبت میں سرشار نظر آتا ہے.وہ اپنے وجود کو اب صرف ایک آئینہ سمجھتا ہے جو خداتعالی کی صفات کے انعكاس کے لئے بنایا گیا تھا.اس کا دن اور اس کی رات خداتعالی کی یاد اور اس کی عبارت میں صرف ہوتے ہیں وہ اس دنیوی مقابلہ کے زمانہ میں اپنے کاموں کا حرج کر کے روحانی فیوض کے حصول میں مشغول نظر آتا ہے مگر دوسری طرف اسی تعلیم کے اثر سے وہ دنیا کے مخت
۳۴۶ ترین معقول لوگوں میں سے ہے وہ کسی بات کو بِلا دلیل ماننے کے لئے تیار نہیں ہر اک بات کو دلیل سے مانتا ہے اور دلیل سے منوانا چاہتا ہے.وہ علوم جدیدہ کادشمن نہیں بلکہ ان کا مؤید ہے اوران کو دین کا مخالف نہیں بلکہ دین کا خادم سمجھتا ہے.غرض وہ ہر بات میں اپنی حریّت کو قائم رکھتا ہے وہ نہ اپنے باپ دادوں کی سنی سنائی بات کو مانتا ہے اور نہ ہر مدعی علم کے دعوی ٰکو تسلیم کر لیتا ہے اور ہر جد یہ بات پر فدا ہو جاتا ہے بلکہ ہر بات کو علم اور عقل سے موازنہ کر کے دیکھتا ہے اور ہر اک حقیقت کو اسی مقام پر رکھتا ہے جو اسے خدا تعالی نے بخشا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عجیب اثر اپنی جماعت میں یہ پیدا کر دیا ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگ علم حاصل کرنے میں دوسرے لوگوں سے غیر معمولی طور پر بڑھ گئے ہیں.ہندوستان کی دوسری آبادی کی نسبت اس جماعت کے لوگ تعلیمی نسبت میں بہت زیادہ ہیں حالا نکہ بوجہ غربت مدارس کا کوئی الگ انتظام نہیں ہے.بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بڑھاپے میں تعلیم حاصل کی ہے.عورتوں میں تعلیم کا اس قدر چرچاہے کہ قادیان کے بہت سے گھرمد رسے معلوم ہوتے ہیں.ستّر ستّر برس کی عورتیں قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھ رہی ہیں.ہر عمر کے لوگوں کا اک جمگھٹا مردوں میں سے بھی اور عورتوں میں سے بھی قادیان میں لگا رہتا ہے جو مختلف صوبوں سے اور ملکوں سے قادیان میں تعلیم دین حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں.غرض دنیا میں اگر کہیں مغرب و مشرق مع نظر آتے ہیں تو وہ قادیان ہی ہے کیونکہ دوسری جگہوں میں اگر مغربی تعلیم ہے تو دین جو مشرق سے پیدا ہوا ہے ندارد ہے- اور اگر دین ہے تو علوم جدید سے بے پرواہی ہے جن کا سرچشمہ آجکل مغرب ہے لیکن احمدی جماعت اور خصوصاً قادیان میں جو مرکز سلسلہ ہے یہ دونوں چیزیں اکٹھی نظر آتی ہیں.یہاں باوجود مسٹر کِپلنگ (MR.KIPLING) ؎کے مخالف دعویٰ کے مغرب و مشرق اکٹھے نظر آتے ہیں.ایک طرف تو علوم جدیدہ کی تحصیل اور ان میں ترقی کرنے کا جوش ہے اور دوسری طرف مذہب سے اخلاص اور اس کی تعلیمات پر یقین اس درجہ پر پہنچا ہوا ہے کہ اس کے لئے جان اور مال اور وطن کی قربانی ایک حقیر شئے نظر آتی ہے اور مذہب کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو اس کی اصل شکل اور صورت میں احتیاط سے پورا کیا جاتا ہے.احمدیوں میں عورتوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو جائز قیود سے آزاد کرنے کا بھی خاص خیال پایا جاتا ہے مگر باوجود اس کے وہ مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے.ان میں مذہبی روا
۳۴۷ داری تمام اقوام سے زیادہ ہے وہ ان جھگڑوں کو جو بعض مذہبی رسوم کی ادائیگی کے متعلق مختلف اقوامِ ہند میں ہوتے رہتے ہیں بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں اور لوگوں کو سمجھاتے رہتے ہیں وہ اپنی مساجد میں سخت ترین دشمنان اسلام کو بولنے کا موقع دیدیتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے اور اپنی سناتے ہیں.ایک عظیم الشان تبدیلی جو احمدی جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کردی ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا احساس ہے.ہر اک احمدی اپنے مال کو خداتعالی کی امانت خیال کرتا ہے جو لوگ سلسلہ کی تربیت کے نیچے آ چکے ہیں وہ ماہوار سولھواں حصہ دینی کاموں کے لئے بطور چند دیتے ہیں.اس چندہ کے علاو و خاص چندوں میں بھی ان کو حصہ لینا پڑتا ہے جن کو اگر جمع کردیا جائے تو ہر ایک احمدی جو سلسلہ تربیت کے نیچے آچکا ہے اپنے اپنے اخلاق کے مطابق اپنی آمد کے تیسرے حصہ سے دسویں حصہ تک چندہ میں دیتا ہے اور یہ انکی قربانی لوگوں کی نظروں میں ایسی عجیب ہے کہ بعض لوگ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ جماعت بھی امیر ہے اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جماعت کو گورنمنٹ مدد دیتی ہے حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ نہ مدد دیتی ہے نہ دے سکتی ہے اور ہماری جماعت نہایت ہی غریب ہے اور شاید اس سے غریب اور کوئی جماعت ہندوستان میں نہیں.مگر ہم میں سے ہر ایک اپنی ضرورتوں کو قربان کرکے دنیا کی دینی، اخلاقی اور علمی ضرورتوں کی اصلاح کے لئے اس قدر چنده دیتا ہے کہ دوسری اقوام میں اس سے دس گنی آمدنی والے لوگ بھی اس قدر رو پیہ بنی نوع انسان کی ہمد ردی کے لئے خرچ نہیں کرتے اور اس قربانی میں ان کی عورتیں مردوں سے کم نہیں ہیں.انہوں نے اپنے ایثار سے ثابت کردیا ہے کہ دنیا کے پردے پر ایسی عورتیں بھی ہیں جو زیور اور کپڑے کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے جیتی ہیں.چنانچہ پچھلے سال میں نے جرمن میں مسجد بنانے کی تحریک کی اور صرف عورتوں سے چندہ طلب کیا اور میں نے دیکھا کہ بیسیوں عورتوں نے اپنے زیور اور اپنے اعلیٰ کپڑے تک فروخت کر کے اس کام کے لئے دیدیئے اور جس قدر قم ان سے طلب کی گئی تھی اس سے دگنے سے بھی زیادہ چندہ جمع کر دیا.غرض سلسلہ احمدیہ کا اثر افراد سلسلہ پر ایسا گہرا اور ایسا نمایاں ہے کہ اس کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.چنانچہ سلسلہ کے اشدّ ترین دشمن بھی اس کا اقرار کرتے ہیں مگر وہ اس تغیر کو اس پر دہ کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ دکھانے کے لئے اور منافقت سے ہے.مگر
۳۴۸ کیسی مبارک یہ منافقت ہے جس نے بیماروں کو چنگا کر دیا ہے اور مردے زندہ کر دیئے ہیں.کاش یہ منافقت دنیا کے ہر گوشہ میں نظر آتی.سلسلہ احمدیہ کا جو اثر اس کے افراد پر ہے اس کو اجمالی طور پر بیان کرنے کے بعد میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں اور تمام بھائیوں اور بہنوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ :.اے بھائیو اور بہنو!خدا نے ہمیں اس لئے پیدا کیا ہے تاہم اس کے جلال کے مظہر ہوں اور تا اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کریں جب تک ہم اس مقصد کو پورا نہ کریں ہم ہرگز کامیاب نہیں کہلا سکتے.ہماری دنیاوی ترقیات کیا ہیں؟ ایک مشغلہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں.یہ تمام ترقیات ہمارے کس کام کی اگر ہم خدا کو اپنے پر ناراض کر لیتے ہیں؟ اور ابدی ترقیات کے راستے اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں.اگر ہم دنیا کے سب سے بڑے موجد بھی ہیں لیکن اس علم کی طرف توجہ نہیں کرتے جس کے ذریعہ سے ہم ابدی زندگی میں نور حاصل کر سکیں تو ہماری مثال اس طالب علم کی ہے جو سارا دن کھیلتا رہتا ہے اور اس پر خوش ہو جاتا ہے کہ اس نے مقابلہ میں اپنے حریف کو پچھاڑ لیا لیکن وہ اس مقابلہ کی فکر نہیں کرتا تو اس کی ساری زندگی کو سدھارنے والا ہے.زندگی وہی ہے جو نہ ختم ہونے والی ہو اور راحت و ہی ہے جو نہ مٹنے والی ہو اور علم وہی ہے جو ہمیشہ بڑھتارہے پس ابدی زندگی اور دائمی راحت اور حقیقی علم کی طرف توجہ کرو تادو نوں جہان کا آرام پاؤ اور اسی طرح خدا تعالی کو خوش کرو جس طرح کہ دنیا کے لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہو.اے بھائیو اور بہنو! خدا تعالی نے تمهاری پریشان حالت کو دیکھ کر آپ تمہارے لئے رحمت کا دروازہ کھولا ہے اور خود تم کو بلانے کے لئے آیا ہے پس اس کے اس احسان اور اس کی محبت کی قدر کرو اور اس کی نعمتوں کو ردّ نہ کرو اور اس کے احسانوں کو حقیر سمجھ کر ان سے منہ نہ پھیرو کہ وہ خالق ہے اور مالک ہے اور اس کے آگے کسی تکبر کرنے والے کا تکبر نہیں چلتا.بدھو اور اس کے فضل کے دروازے میں داخل ہو جاؤ اس کی رحمت تم کو اپنی آغوش میں لے لے اور اس کے فضل کی چادر تم کو اپنے اندر لپیٹ لے.اے انگلستان کے رہنے والو! خدا نے تم کو دنیا میں عزت دی ہے مگر اس عزت کے ساتھ تمہاری ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ ہراک جو زیا دہ احسان سے نیچے ہوتا ہے زیاد ہ ذمہ وار ہوتا ہے.خدا نے تم کو سینکڑوں سالوں سے سمندروں کی حکمرانی عطا کی ہوئی ہے.تمہارا ملک
۳۴۹ سمندروں کی ملکہ کہلاتا ہے مگر کیا تم نے کبھی اس بادشاہ کی طرف بھی توجہ کی جو سب عزتوں کا سرچشمہ ہے اور جس کی عنایت کی ایک نگاہ نے تم کو اس مرتبہ تک پہنچایا ہے.کیا تم نے کبھی معرفت کے سمندر کی بھی جستجو کی؟ جو ہر اس شخص کے دل میں لہریں مارتا ہے جو اس کی تلاش کرے آہ! تم شمال کی طرف گئے اور جنوب کی طرف گئے اور تم نے زمین پر ایک ایک چُلو پانی کو چھان مارا اور سب گہرائیوں کو دریافت کیا مگر افسوس کہ ابھی تک معرفت کے سمندر کی تہہ معلوم کرنے کے لئے تم نے کبھی غوطہ نہیں مارانہ اس کی دریافت کے لئے وفد بھیجے.تم نے جزیروں کی تلاش میں اور خشکیوں کی جستجو میں زمین کا چپّہ چپّہ دیکھ مارا اور تمہارے بیڑوں نے ہر اک طرف کا رخ کیا مگر تم بھی اسی یار کی جستجو میں نہ نکلے جو ان سب زمینوں کا پیدا کرنے والا اور سب جزیروں کا بنانے والا ہے کیا یہ بھی دانش ہے کہ درخت سے گرے ہوئےبُورکو تو جمع کیا جائے لیکن پھل کو چھوڑ دیا جائے؟ اسے بھائیو!میں تم کو بشارت دیتا ہوں کہ خدا کی رحمت آج اسی طرح جوش میں آئی ہوئی ہے جس طرح آج سے سینکڑوں سال پہلے وہ جوش میں آئی تھی جس طرح وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں جوش میں آئی تھی، مسیح ناصری علیہ السلام کے وقت میں جوش میں آئی تھی ،داؤد کے وقت میں جوش میں آئی تھی ،موسیٰ کے وقت میں جوش میں آئی تھی ،اسحقٰ کے وقت میں جوش میں آئی تھی ابراہیم ؑکے وقت جوش میں آئی تھی، نوح ؑکے وقت میں جوش میں آئی تھی اور اس کی معرفت کا سورج اسی طرح آج بھی چڑھا ہے جس طرح کہ پہلے نبیوں کے زمانہ میں چڑھا کر تا تھا.پس باہر نکلو اور گھروں کی بند ہوا کی بجائے عالم روحانی کی وسیع فضاء میں خدا کی رحمت کی ٹھنڈی اور معطر ہوا سو نگھو اور اس کی معرفت کے سورج کی خوشگوار روشنی اور چمک سے اپنی آنکھوں کو منور کرو کہ یہ دن روز روز نہیں چڑھا کرتے.میں تمہیں ہی نہیں بلکہ سب ان قوموں کو جو انگریزی حکومت کے جھنڈے کے نیچے آرام کی زندگی بسر کرتی ہیں کہتا ہوں کہ دیکھو خدا نے اپنی برکت کا ہاتھ تمہارے سروں پر رکھا ہے تم ادب کے گھٹنے اس کے سامنے جھکادو.میں ویلیز کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اے ویلز !تُو اپنی محنت اور جانفشانی پر نگاہ کر اور دیکھ کہ تیری محنت میں سے کس قدر حصہ خدا کے لئے ہے اور اسے سکاٹ لینڈ! تو اپنی آزاد زندگی پر فخر
۳۵۰ کرتا ہے کیا تُونے خدا کی باتوں کے بھنے اور قبول کرنے میں بھی ویسی ہی آزادی دکھائی ہے جیسی کہ دوسرے امور میں ؟ اور اے آرلینڈ کے لوگو! تمہاری حب الوطنی اور جوش ضرب المثل ہیں مگر کیا تم نے اس محبت کا کچھ حصہ خدا کے لئے بھی نکالا؟ کیا اس کے پانے کے لئے کبھی تم نے ویسا ہی جوش دکھایا جیسا کہ اپنے ملک کی حکومت کے لئے ؟ اے نو آبادیوں کے لوگو! کہ تم نو آبادیوں کے بسانے میں ایک خاص ملکہ رکھتے ہو اور نئی زمینوں کو شوق سے بساتے ہو مگر اب تک تم اس عرفان کے جزیرے کو جو علم کے سمندر سے نکلا ہے بسانے میں کیوں غافل ہو؟ میں پھر کہتا ہوں.دیکھو!خدا نے برکت کاہاتھ تمہارے سروں پر رکھا ہے اپنے ادب کے گھٹنے اس کے سامنے جھکادو کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے.اپنے سروں کو اس کے سامنے کرو تاوہ اسی طرح ان کو دین کی برکتوں سے ممسوح کرے جس طرح کہ اس نے انہیں دنیا کی برکتوں سے ممسوح کیا.خداتعالی کی نعمتیں محدود نہیں ہوتیں.وہ ہر اک ملک اور ہر اک قوم کا خدا ہے اور اس کا سچا پرستار بھی شکلوں اور حد بندیوں کے چکر میں بندھنا پسند نہیں کرتا.وہ بے شک اپنی قوم اور اپنے ملک کا خیر خواہ ہوتا ہے لیکن اس کی نظر قوم اور ملک سے بالا جاتی ہے.و ہ ان حد بندیوں سے بہت اوپر رہتا ہے.وہ تمام بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہو تا ہے.اور سب انسانوں میں اس برادرانہ تعلق کا نشان پاتا ہے جو رب العالمین خدا کی مخلوق ہونے کے سبب سے ان میں پایا جا تا ہے اس کے لئے کالے اور گورے، مغربی اور مشرقی اپنے اور غیر اس کی نظر میں بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہوتے ہیں.ہر اک کی خیر خواہی اس کے دل میں راسخ اور ہر اک کی محبت اس کے قلب میں موجزن ہوتی ہے.وہ در حقیقت رب العالمین خد ا کا سچا مظہر ہو تاہے.پس میں اپنے خطاب کو کسی خاص قوم تک محدود نہیں رکھتانہ کسی خاص ملک تک بلکہ میں سب دنیا کے لوگوں کو اس خدا کے پیغام کی طرف بلاتا ہوں جس نے اپنی تقسیم میں کسی قوم سے بخل نہیں کیا.جس نے اپنی رحمت کے دروازے ہر اک ملک کے لوگوں کے لئے یکساں طور پر کھلے کے ہیں اور کہتا ہوں کہ اے امریکہ اور یورپ کے لوگو ! اے آسٹریلیا اور افریقہ کے لوگو ! اے ایشیا کے باشندو !!! خواب غفلت کو ترک کرو اور آنکھیں کھولو.خدا کی محبت کا سورج قادیان کی گمنام سرزمین سے چڑھا ہے تا ہر اک کو اس ازلی بادشاہ کے پیار کی یاد دلائے جو اسے
۳۵۱ اپنے بندوں سے ہے شکوک و شبہات کی تاریکیاں مٹ جائیں.تا غفلت اور بے پرواہی کی سردیاں دور ہوجائیں.تافسق اور فجور اور ظلم اور خونریزی اور فساد اور ہر قسم کی بدیوں کے راہزن جو انسان کے متاعِ ایمان اور دولتِ امن کو ہر وقت لوٹنے کی فکر میں رہتے تھے بھاگ جائیں اور تاریک غاروں میں جا چھپیں جو ان کی اصل جگہ ہے.تاپاک دل اور پاک نفس بندے جو دنیا میں بمنزلہ فرشتوں کے ہیں اس کی روشنی کی مدد سے اس سانپ کا سر کُچلیں جس نے حوّااور آدم کی ایڑی کو ڈسا تھا اور شیطان کی زہریلی کچلیوں کو توڑیں اور اس کے شر سے دنیا کو ہمیشہ کے لئے بچا لیں.ہاں اے مشرق و مغرب کی سرزمین سے بہنے والو!سب خوش ہو جاؤ اور افسردگی کو دلوں سے نکال دو کہ آخر وہ دولھا جس کی تم کو انتظار تھی آگیا.آج تمہارے لئے غم اور فکر جائز نہیں آج تمہارے لئے حسرت و اندوہ کا موقع نہیں بلکہ خرمی و شادمانی کا زمانہ ہے مایوسی کا وقت نہیں بلکہ امیدوں اور آرزوؤں کی گھڑیاں ہیں.پس تقدیس کے سنگھار سے اپنے آپ کو زینت دو اور پاکیزگی کے زیوروں سے اپنے آپ کو سجاؤ کہ تمهاری دیرینہ آرزوئیں بر آئیں اور تمهاری صدیوں کی خواہشیں پوری ہوئیں.تمہارا رب خود چل کر تمہارے گھروں میں آگیا اور تمہارا مالک آپ تمهاری رضامندی کا طالب ہوا.آؤ آؤ! کہ ہم سب اپنے بچوں والے تنازعات کو بھول کر اس کے فرستادہ کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں اور اس کی حمد کے ترانے گائیں او رثناء کے قصیدے پڑھیں اور اس کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑ لیں کہ پھر وہ یا ریگانہ بھی ہم سے جدا نہ ہو.۱ٰمین وأخر دعوانا أن الحمد لله رب العلمين الصفت : ۳ تا ۸ ۴- فاطر : ۲۵ متی باب ۲۴ آیت ۲۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعدہ ۱۸۷۲ء مرقس باب ۱۳ آیت ۲۲ ۲۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوع ۱۸۷۰ء ، دارقطنی کتاب العيدين باب صفة صلوة الخسوف والكسوف وهيئتهما جلد ۲ صفر ۹۵ مطبوع قاہره ۱۹۹۹ء مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفر ۴۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۳۵۲ بخاری کتاب الفتن باب خروج النار مسلم کتاب الایمان باب نزول عيسى ابن مريم حاكما لشريعة نبينا صلى الله عليه وسلم بحارالانوار مؤلفه الشيخ محمد باقر المجلسی جلد ۵۴ صفحه ۲۸۵ مطبوعه بيروت لبنان ۱۹۸۳.ابن ماجه کتاب الفتن باب اشراط الساعة کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۳ روایت نمبر۳۹۹۳۹ مطبوعہ طلب ۱۹۷۵ء مسلم کتاب اللباس باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات مسلم کتاب الفتن باب في فتح قسطنطينية مسلم کتاب الفتن باب تقوم الساعة والروم اكثر الناس مسلم کتاب الفتن باب لاتقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من بخاری کتاب الفتن باب خروج النار کنز العمال جلد 13 صفحه ۵۳ مطبوعه حلب ۱۹۷۵.۱۹۹۲۸ کنز العمال جلد 13 صفحه ۵۴ روایت ۳۹۹۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵.۲۰ کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۳ روایت ۳۹۹۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵.۲۱ ابن ماجه كتاب الفتن باب اشراط الساعة ۲۲ کنز العمال جلد 13 صفحه ۵۴ روایت ۳۹۹۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ ۲۳ ابن ماجه كتاب الفتن باب اشراط الساعة ۲۳ بخاری کتاب الفتن باب قول النبي صلى الله عليه وسلم ويل للعرب من ۲۵ مشکوة باب اشراط الساعة الفصل الثاني مطبوعہ لاہور ۱۹۸۳ء ۲۶ مسلم کتاب الایمان باب نزول عيسى ابن مریم حاكما لشريعة نبينا محمدصلى الله عليه وسلم ۲۷ الرحمن : ۲۰ تا ۲۵ (۲۸) التكوير : اا (۲۹) التكوير : ۱۲
۳۵۳ :البروج : ۹ بخاری کتاب الفتن باب خروج النار التكوير : ۹ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة باب ذکر الدجال بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال لوائح الانوار البهية وسواطع الاسرار الاثرية مؤلفه شيخ محمد بن احمدالسفارینی جلد ۲ صفحه ای مطبوع مصر ۱۳۴۴ + اقتراب الساعة مؤلفہ نواب نور الحسن خان صفحہ ۶۳ مطبوی مطبع مفید عام آگرہ ۱۳۰۱ھ مشکوة باب اشراط الساعة الفصل الثاني مطبوعہ لاہور ۱۹۸۳ء لوائح الانوار البهية وسواطع الاسرار الاثريه مؤلفہ شیخ محمد بن احمد السفارینی جلد ۲ صفاء مطبوع مصر ۳۲۴ احد + اقتراب الساعة مولفه نوا نورالحسن خان صفحہ ۱۳ مطبوعہ مطبع مفید عام آدر: ۰۱ اشارات فریدی (مؤلفہ خواجہ غلام فرید صاحب جدد ۳ مفہ مطبع مفید عام گره ۱۳۲۰ه ابن ماجه کتاب الفتن باب شدة الزمان لیکچر لاہور صفیہ ۳۳ روحانی خزائن جلد۲۰ ص ۱۸۰ کتاب البریہ صفحہ۲۷۲ حاشیه روحانی خزائن جلد کتاب البريه منه ۲۷۳ حاشیه روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۹۱ ۳۴ ریویو آف ریلیجنز (اردو) جلدا شماره 1 جنوری ۱۹۰۴ء صفه ۳ تذکرہ صفحہ ۳۹.ایڈیشن چهارم ومفهوما) متی بابہ آیت یا نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوع ۱۸۷۰ءمارتھ انڈیا بائبل سوسائی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء
۳۵۴ ۵۲ المزمل : ۱۶ ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ ۱۵۵ تا ۱۵۸.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ ۲۵۵ ۵۴ الفاتحة : ۲ (۵۵) النحل : ۶۳ (۵۹) الحشر : ۲۵ ۵۷ الاعراف : ۱۵۷ (۵۸) النحل : ۳۷ وہ ایں مشت خاک راگرنہ بخشم چه کنم» کوثر النبی - مؤلفہ حافظ عبد العزيز ملتانی صفحه ۵۵۵ النحل : ۶۵،۶۴ (۹۱) الانعام : ۱۰۴ (۹۴) الملک : ۲تا ۵ ۹۳ الأنعام : ۲ (۹۴) الشوری : ۳۱،۳۰ (۹۵) الأعراف : 9 ۹۹ النساء : ۹۶ ترمذی ابواب الزهد باب ما جاء في الصبر على البلا.۱۸ الأنعام : ۱۶۱ (۹۹) آل عمران : ۶۵ (20) التوبة : ۲۴ أل عمران : ۱۹۲ (۲) الانفال : ۳ (23) البقرة : ۱۹۸ م النساء : ۷۲ (25) البقرة : ۱۹۸ ، ترمذی شرح امام ابن عربی مالكی جزء ۹ صفحه ۳۲ مطبوعه بيروت أبواب صفة القيامة باب ما جاء في التوكل ، التوبة : ۷۲ (28) المؤمن : ۶۵ تا ۶۷ (49) الماعون : ۵ تا 4 ۸۰ البقرة : ۲۶۵ (۸۱) الحج : ۳۳ (۸۲) المطففين : ۱۵ (83) البقرة : ۲۶۵ (۸۵) العنكبوت : ۴۶ ۸۹ بخاری کتاب التهجد باب قيام النبي ملم بالليل حتى ترم قدماء ۸۷ الرعد : ۲۹ (۸۸) البقرة : ۱۸۶ (۸۹) البقرة : ۱۸۴ أن أول بيت وضع للناس للذي ببكة...(آل عمران : ۹۷) او الحج : ۳۸ (۹۴) البقرة : ۳ (93) النساء : ۷۰،۷۱ ۹۴ یونس : ۹،۸ (۹۵) الرحمن : ۴۷ (۹۹) القيامة : ۲۳ ۲۴ او البقرة : ۱۵۳ PSYCHOLOGY AT
۳۵۵ ۹۸ وو النمل : ۶۳ (۱۰۰) حم السجدة : ۳۲،،۳۱ (101) النجم : ۲ تا ۶ یوحنا باب 3 آیت ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء.آیت کے الفاظ یہ ہیں اور کوئی آسان پر نہیں گیا، سوا اس شخص کے جو آسمان پر سے اتر» ۰۳، الانعام : ۱۰۴ ** ۰۳) شیکسپیئر وليم Shakespeare William (1616-1564ء) انگریز شاعر اور ڈرامہ نگار ۵۶۴اء میں سترات فورڈ Strat Ford میں پیدا ہوا.۱۵۸۸ء میں لندن چلا گیا اور وہاں ایک نو آموز کے طور پر ان سے وابت ہو گیا.۱۵۸۹ء کے قریب اس کے پہلے ڈرامے کا حصہ اول سنج پر کھیلا گیا اس کے بعد یہ مسلسل ڈراے لکھتا رہا.بات سے باہر تار ، اسکے لکھے ہوئے ڈراموں کی تعدار ۳۸ قرار دیتے ہیں.ان میں وہ رات بھی شامل ہیں جو اس نے کسی دوسرے ڈرامہ نگار کی شراکت میں لکھے.شیکسپیئر کے ڈراموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مصنف عظیم ترین زنده بارید تابلوں میں سے ہے.شیکسپیئر کے ڈراموں میں وہ بیش بہا خزانہ محفوظ ہے جو اس عظیم شاعر اور ڈرامہ نگار نے دنیا کو دیا.ان ڈراموں کے اشعار جو کبھی پر شکوہ کبھی غنائی اور بھی حیرت انگیز طور پر ظریفانہ ہوتے ہیں حسن و خوبی میں لاثانی ہیں.شیکسپیئر کا فن تمام آن ادبی کمالات سے جو تصور میں آسکتے ہیں بالاتر ہے.اس کے بعد آنے والے تمام ادیب اور شعراء اسکے اسلوب فن سے متاثر ہوئے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا حصہ اول صفحہ ۸۲ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) DANTE ( ۱۳۲۱-۶۱۲۹۵ء) اٹلی کا مشہور شاعر.The Divine Comedia اس کا مشہور منظوم کلام ہے جسکی وجہ سے یہ دنیا کے چھ عظیم ترین مصنفین میں شمار ہوتا ہے (انسائیکلوپیڈیا برٹینا جلد صفحہ ۳۹۴۲ مطبوعہ ۱۹۵۰ء) **۰۴ ازالہ اوہام حصہ حصہ دوم صفوم ۲۷۲۷۹ روحانی خزائن جلد۳
۳۵۶ ۱۰۵ براہین احمدیہ حصه پنجم صفہ ا۱۵۲۵ حاشیه روحانی خزائن جلدا۲ ۱۰۲ الزلزال : ۲ ۱۰۷ سموئیل، باب ۱۴ آیت ۱۵ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۳ء ۱۰۸ سيرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۳۹ ۲۴۱ مطبوعہ ۱۹۳۵ء قاریان ۱۰۹ سرمہ چشم آریہ صفحہ ۱۳۲ حاشیه روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ۱۸۰ حاشیہ (مضمون) تذکرہ صفحہ ۲۹۵.ایڈیشن چہارم تتمہ حقيقة الوحي.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفی ۳۸۰ تا ۴۸۴ (مفوما) تذکرہ صفہ ۹۸۴.ایڈیشن چہارم ۱۲ ته حقيقة الوحی- روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۴۸۲ ۱۳) تحفہ غزنویہ صفحہ ۲۹ روحانی خزائن جلدها صفحہ ۵۵۹ (مفہو) يوحنا باب ۸ آیت ۴۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء متی باب ، آیت ۱۹ برٹش اینڈ قارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۳۳ء ۱۱۲ اشاعة السنة جلد نمبرہ صفہ ۱۹۹ جون ) اگست ۱۸۸۴ء کے آئینہ کمالات اسلام به روحانی خزائن جلد۵ صفہ سے ۲۹ ۲۹۹ (مفہوم) W8 تریاق القلوب صفحه ۱۵۵ روحانی خزائن جلد ۵، صفحہ ۲۸۳ ۱۱۹ تذكرة الشهادتين صفه ۹۴ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفه ۶۴ متی باب و آیت ۲۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء تذکرہ صفحہ ۴۹۵.ایڈیشن چهارم ۱۳۲ تذکرہ صفحہ ۴۹۹.ایڈیشن چہارم ۱۲۳ نزول المسيح صفحہ ۳۹.روحانی خزائن جلد 8، صفه ۵ام (مضمون) ۴۴) تذکرہ صفحہ ۳۹.ایڈ یشن چتارم ۱۳۵ تذکرہ صفحہ ۴۳۴.ایڈیشن چہارم ۱۲۹ ریویو آف ریلیجنز اردو تبر۱۹۰۲ء جلد نمبرو صفه ۳۴۴۳۳۳ (مضمون) تت حقيقة الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صف ۵۰۰ حاشیہ (مفون) r
۳۵۷ ۲۸، تتمہ حقيقة الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفر و۵۰ ۱۲۰ متی بابا آیت ۱۵ تا ۲۰ ارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۳۰، النساء : ۱۸ (۱۳۱) الشوری : ۴۱ ۱۳۲ بخاری باب كيف كان بد.الوحي الى رسول الله صلى الله عليه وسلم ۱۳۳ - الانعام : ۱۵۲ (۱۳۳) البقرة : ۲۸۵ (۱۳۵) هود : ۱۱۵ ۱۳۲ المائدة : ۱۰۹ ۱۳۷ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفر ۱۳۸ - الفرقان : ۲۲ (۱۳۹) الحجرات : ۱۳ (۱۴۰) البقرة : ۲۴۹ ۱۴۱ بخاری کتاب الرقاق باب من هم بحسنة أو سيئة ۱۴۲ النجم : ۳۳،۳۲ (۱۳۳) البقرة : ۱۹۵ (133) الحجرات : ۱۴ ۱۴۵ ترمذی ابواب البر و الصلة باب ما جاء في كراهية الهجر للمسلم ۳۶، الحجر : ۴۸ ، الجامع الصغير الجزء الثانی صفحه ۱۸۰ حاشیہ مطبع الخيرية مصر ۱۳۲۱ه ۴۸، التوبة : ۲۴ (39)) التحريم : 4 (۱۵۰) المائدة :۹ ۵۱، الممتحنة : ۹ (۱۵۲) هود : ۱۱۴ (۱۵۳) الحجرات : ۸ ۱۵۴ الشعراء : 2 (۱۵۵) البقرة : ۱۴۹ (۱۵۶) الفلق : ۲ ۱۵۷ الحجرات : ۱۲ (۱۵۸) مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفا۱۸ ۵۹، الشماع : 3 (۱۹۰) الاحزاب : ا۵ (۱۹۱) بنی اسرائیل : ۳۳ ۱۹۴ النور : ۳۴ (۹۴)) الحديد : ۲۸ (۱۹۴) البقرة : ۲۹۸ ۱۹۵ بنی اسرائیل : ۲۷ ۲ (۱۹۱) الذریت : ۲۰ (19) النحل : ۹۰ ۱۶۸ ال عمران : ۸۰ (20) الكهف : ۸ ) لحم السجدة : ۳۵ (۱۷۴) القصص : ۷۸ (۱۷۳) الأعراف : ۵۷۵۹ ما ابوداؤد کتاب الادب باب في الحسد ۷۵) الحجرات : ۱۲ ( ۱۹) بنی اسرائیل : ۳۳ (1) محمد : ۳۹ ۸ے، الاعراف : ۳۹:
۳۵۸ ابوداؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة ۱۸۰ مسلم کتاب البر و الصلة والادب باب النهي عن قول هلک الناس التين : ۵ (۱۸۲) الشمس : ۹،۸ ۱۸۴۱۸۳ بخاری کتاب التوحيد باب السوال باسماء الله تعالى والاستعاذة بها ۱۸۵ التوبة : ۱۱۹ (۱۸۶) المؤمنون : ۵۲ (۱۸) الأعراف : ۳۳۳۲ ۸۸، الانعام : ۱۴۱ (۱۸۹) النور : ۳۲۳۱ (۱۹۰) البقرة : ۱۴۴ 191 الاعراف : ۱۵۸ ۱۹۲ بخاری کتاب النکاح باب الاكفلم في الدين وقوله.....الخ ۹۴، کنزالعمال جلد1، صفحه ۳۲ روایت نمبر۴۴۹۵۵ مطبوعہ لب اے ۱۹ء ۱۹۵ مسلم کتاب الرضاع باب الوصية بالنساء ۹۷، ابوداؤد کتاب النکاح باب في حق المرأة على زوجها ۱۹۷ بخاری کتاب الصوم باب حق الاهل في الصوم ۱۹۸ ابن ماجه كتاب النكاح باب حسن معاشرة النساء ۹۹) سنن نسانی کتاب النکاح باب كراهية تزويج الزناة (اى النساء خير) ترمذی أبواب النکاح باب ماجاء في التسوية بين الضرائر ۲۰۱ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي مسلم ووفاته ۲۰۲ المؤطا کتاب الطلاق باب ما جاء في العزل ۲۰۳ بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله و معانقته ۲۰۳ ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في النفقات على البنات ۲۰۵ ابن ماجه کتاب النکاح باب الغيل ۲۰۲ النساء : 34 ۴۰۷ بخاری کتاب الشركة باب الشركة في الطعام والنهد والعروض ۲۰۸ ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء في رحمة الصبيان ۲۰۹ بخاری کتاب الصلوة باب صلوة النساء خلف الرجال
۳۵۹ ۲۱۰ مسلم کتاب الفضائل باب رحمته سم النساء وامره بالرفق بهن ۲۱۸ بخاری کتاب النکاح باب طلب الولد ۴۱۲ ابوداود کتاب الطلاق باب من احق بالولد ۲۱۳ بخاری کتاب النکاح باب لايخطب على خطبة اخيه حتى ينكح او يبدع ۲۱۴ بخاری کتاب البيوع باب كسب الرجل وعمله بيده ۲۱۵ بخاری کتاب الزکوة باب الاستعفاف عن ۲۱۷ نسانی کتاب الزکوة باب من يسال ولايعطى (فضل من لايسال الناس شينا) ۲۱۷ بخاری کتاب الاستئذان باب افشاء السلام ۲۱۸ بخاری کتاب الاستئذان باب التسليم ثلاثا والاستئذان ۲۱۹ بخاری کتاب الشركة باب الشركة في العظام والنهد والعروض ۲۲۰ بخاری کتاب الجنائز باب الأمر باتباع الجنائز و باب من انتظر حتى ۲۲۱ مسلم کتاب اللباس باب اشتمال الصماء والاحتباء في ثوب واحد ۲۲۲ ابن ماجه كتاب الطهارة وسنتها باب النهي عن الخلاء على قارعة الطريق ۲۴۳ بخاری کتاب الاذان، باب فضل التهجير الى الظهر ۲۲۴ مقدمه ابن ماجه باب من سئل عن علم فكتمه ۲۲۵ مسلم کتاب الصيد والذ بانح باب النهي عن صبر البهائم ۲۲۹ مسلم کتاب اللباس باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه و وسمه فيه ۲۲۷ ابوداود کتاب الجنائز باب الأمراض المكفرة للذنوب ۲۲۸ بخاری کتاب الطب باب ما يذكر في المطاعون ۴۲۹ بخاری کتاب المظالم والقصاص باب من قتل دون ماله فهو شهيد ۲۳۰ ومالكم لا تقاتلون في سبيل الله والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا اخرجنا من هذه القرية الظالم اهلها..(النساء : ۷۲)
۳۶۰ ۲۳۱ مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن الاشارة بالسلاح الى مسلم النساء : ۱۱۵.النساء : ۵۹ ۳۳۳۴۲ ۲۳۵ پایها الذين آمنوا لاتسئلوا عن اشياء ان تبد لكم تسؤكم.اشياء ان تبد لكم تسؤكم......(المائدة : ۱۰۲) ۴۳۲ بخاری کتاب الجمعة باب الجمعة في القرى والمدن ۲۳۷ کنزالعمال جلد ۲، صفحہ ۹۳۹۹۳۸ روایت ۷۸ ۳۵۹ مطبوعہ مطلب ۱۹۷۴ء ۲۳۸ ’’لست سانلا انت تاجر تجمع لاهلک“ تاريخ عمر بن الخطاب (عربی) مؤلفہ ابي الفرج عبدالرحمان بن على بن محمد بن الجوزی صفحہ ۱۷۰ مطبوعہ ا۱۹۳ء ۲۳۹ بخاری کتاب الحدود باب اقامة الحدود على الشريف والوضيع ۲۴۰ کنز العمال جلد صفحه ۱۹۵۹۹۴ روایت ۳۶۰۱۴ مطبوعه حلب ۱۹۷۴.۲۳۱ أل عمران : ۲۰۱(۲۴۴) المدثر:۶ ۲۴۳ مسلم کتاب المساقات والمزارعة باب الأمر بقتل الكلاب و بیان نسخه ۲۳۴ الجمعة : ۳ ۲۴۵ مقدمه ابن ماجه باب فضل العلماء والحث على طلب العلم ۲۲۰ الفاروق حصہ دوم (سوانح عمری مؤلفہ شبلی نعمانی صفحه ۴۵ مطبوع ۱۸۹۸ء ۴۴۸ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفیے ۴۴ ۲۵۰۲۴۹ ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء في الإحسان إلى الخدم ا۲۵ بخاری کتاب العتق باب اذا اتاه خادمه بطعامه ۲۵۳۲۵۲ ابن ماجه كتاب الرهون باب اجرالاجراء ۲۵۴ البقرة : ۱۴۹ (۲۵۵) النساء : ۳۳ (۲۵۹) النور : ۳۴ ۳۵۷ الذریت : ۲۰ (۲۵۸) الروم : ۳۹ (۲۵۹) النساء : ۴۸۳ ۲۹۰ بخاری کتاب الزکوة باب وجوب الزكوة
۳۶۱ ۲۹۴ الحجرت : ۱۰ ۲۹۵ بخاری کتاب المظالم باب اعن اخاک ظالما أو مظلوما ۲۹۹ أل عمران : ۱۴۱ (۲۹) المؤمنون : ۱۱۷،۱۱۶ (۲۶۸) النحل : ۳۰،۲۹ ۲۹۹ النخل : ۳۳ ۲۷۰ ترمذی ابواب صفة القيامة باب في صفة اواني الجنة ۲ عبس : ۲۲.السجدة : ۱۸ ۲۷۳ ابن ماجه كتاب الزهد باب صفة الجنة ۲۷۵ البقرة : ۲۶ (۲۷۹) الزمر: ۴۳ (۲۷۷) بنی اسرائیل: ۱۴ الدهر : ۶،۷ (۲۷۹) بنی اسرائیل : ۷۳ (۲۸۰) له : ۱۴۵تا ۱۲ ۲۸۱ الحجر : ۴۵ ۲۸۲- البقرة : ۱۶۶ ۲۸۳ درمنثور جلد ۴ صفحه ۲۳۹ زیر آیت ويوم نبعث من كل امة شهيد وجئنا...........بیروت ۱۹۹۰ء ۲۸۴ الفرقان : ۱۳ ۲۸۵- ابراهيم : ۱۸،۱۷ ۲۹۰ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۴۲ ۲۹۱ بخاری کتاب الجنائز باب موعظة المحدث عند القبر وتعود اصحابه حوله ۲۹۴ ترمذی شرح ابن عربی مالكی جزء ۱۰ صفحه ۱۳ مطبوعه بیروت أبواب ج نم باب ما جاء أن للنار نفسين وماذكر من النار من اهل التوحيد ۲۹۵ کنزالعمال جلد ۴، صفحه ۵۲ روایت ۳۹۵۰۹ مطبوع علب ۱۹۷۵ء میں روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ”ياتي على جهنم يوم ما فيها من بني ادم احد تخفق ابوابها ۲۹۹ التحريم :۹.(۲۹) الحجر : ۴۹ (۲۹۸) الفجر: ۲۸تا۳۱ ۲۹۹ مشکوة کتاب الرویا باب منفة الجنة ۳۰۰ ترمذی ابواب صفة الجنة باب ما جاء في رؤية الرب تبارک و تعالی
۳۶۲ ۳۰ الاحزاب : ۲۴ ۳۰۲ امیر حبیب اللہ خان.والی افغانستان.اپنے والد عبدالرحمن ٰکی وفات کے بعد یکم اکتوبر ۱۹۰۱ء میں مسند نشین ہوا.اسی کے عہد میں ڈیورنڈ لائن کا تعین کیا گیا اور برطانیہ نے افغانستان کو آزادی دینے کا وعدہ کیا.۲۰.فروری ۱۹۱۹ء کو اس نے وادی النگار (ALINGAR) میں قلعہ السراج (لغمان) کے قریب ’’گوش“ میں پڑاؤ ڈال رکھا تھا کہ اسے قتل کر دیا گیا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ ۷ ۵۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد۷ صفحہ ۸۸۷۸۸۷ مطبوعہ دانش گاہ پنجاب لاہور) UNDER THE ABSOLUTE AMIR , BY FRANK A.MARTIN P203'204 PUBLISHED IN 1907, ۳۰۴ جوزف ڈیارڈ کپلنگ (Kipling Joseph Rudyard) برطانوی شہری.۳۰ دسمبر۱۸۶۵ء کو برطانوی والدین کے ہاں بمبئی میں پیدا ہوا.اور ۱۸ جنوری۱۹۳۶ء کو لندن میں وفات پائی.ناولسٹ، شاعر اور کہانی نویس، بالخصوص بچوں اور برطانوی سپاہیوں کے متعلق اس کی کہانیوں اور نظموں کو بہت شہرت حاصل ہوئی.۱۹۰۷ء میں ادب کا نوبل انعام لینے والاکا نوبل انعام لینے والا یہ پہلا انگریز تھا.The New Encyclopaedia Britannica vol.5 Edition 15t p828)
۳۶۳ دورہ یورپ یاد ِ ایّام از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۳۶۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی على رسوله الكريم یاد ِ ایّام (الفضل کے بڑے سائز کے پہلے پرچہ کیلئے تحریر فرموده مضمون) زندگی کے دور ۱۹۱۳ء میں میری زندگی کا ایک نیا دَور شروع ہوا.جس طرح ۱۸۸۹ء۱۸۹۸ء، ۱۹۰۰ء، ۱۹۰۸ء اور بعد ۱۹۱۴ء میں میری زندگی کے نئےدور شروع ہوئے.سن پیدائش و بیعت ۱۸۸۹ ء میں پیدا ہوا.۱۸۹۸ء میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی.گو بوجہ احمدیت کی پیدائش کے میں پیدائش سے ہی احمدی تھا.مگر یہ بیعت گویا میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر حرکت پیدا ہونے کی علامت تھی.۱۹۰۰ء کا قابل یاد گار سال ۱۹۰۰ ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جُبّہ لایا تھا.میں نے آپ سے وہ جُبّہ لے لیا تھا.کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے.میں اسے پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں کے نیچے لٹکتے رہتے تھے.جب میں گیارہ سال کا ہوا اور ۱۹۰۰ءنے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالی پر کیوں ایمان لاتا ہوں.اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے.میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہپر سوچتا رہا آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے.وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی.جس طرح ایک بچہ کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی یہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا.میں
۳۶۶ اپنے جاموں میں پھولا نہیں سماتا تھا.میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصے تک کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو اُس وقت میں گیارہ سال کا تھا آج میں پینتیس ۳۵ سال کا ہوں مگر آج بھی میں اس دعاکو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میں آج بھی میں کہتا ہوں.خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کوئی شک پیدا نہ ہو.ہاں اُس وقت میں بچہ تھا.اب مجھے زیادہ تجربہ ہے اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو.حضرت مسیح موعودؑ کا ایک جُبّہ بات کہاں سے کہاں نکل گئی.میں لکھ رہا تھا کہ حضرت موعود علیہ السلام کا ایک جُبّہ میں نے مانگ لیا تھا.اب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضُحیٰ کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا.اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور متبرک ہے.یہ پہلا إحساس میرے دل میں خداتعالی کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا.پہن لیا.نماز کے متعلق گیارہ سالہ زندگی میں عزم تب میں نے اس کو ٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھادروازہ بند کردیا.اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اسی میں خوب رویا، خوب رویا، خوب رویا او را قرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا.اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا.اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی.گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے زمانہ کےابھی باقی تھے.کاش !یہ عزم مجھ میں اب بھی ہو تا.میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتاہے.میں کیوں رویا مجھے نہیں معلوم میں کیوں رویا.فلسفی کہے گااعصابی کمزوری کا نتیجہ تھا.مذہبی کہے گا تقویٰ کا جذبہ تھا.مگر میں جس سے یہ واقعہ گذرا کہتا ہوں مجھے معلوم نہیں میں کیوں رویا.ہاں یہ یاد ہے کہ اُس وقت میں اس امر کا اقرار کرنا تھا کہ پھر کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا.وہ رونا کیسا بابرکت ہوا.وہ افسردگی کیسی راحت بن گئی.وہ آنسو کیا تھے؟ جب اس کا خیال کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹیریا کے دورہ کا نتیجہ نہ تھے پردہ کیا تھے.میرا خیال ہے وہ شمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کاگِر ایا ہوا پسینہ تھے.وہ مسیح موعود ؑکے کسی فقرہ یا کسی نظر کا نتیجہ.اور اگر یہ نہیں تو میں
۳۶۷ نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے.۱۹۰۶ءکا زمانہ اس کے بعد ۱۹۰۶ء آیا.مولوی عبد الکریم صاحب بیمار ہوئے.میری عمر سترہ سال کی تھی.اور ابھی کھیل کود کا زمانہ تھا.مولوی صاحب بیمار تھے.اور ہم سارا دن کھیل کود میں مشغول رہتے تھے ایک دن یخنی لے کر میں مولوی صاحب کے لئے گیا تھا.اس کے سوا یاد نہیں کہ کبھی پوچھنے بھی گیا ہوں.اس زمانہ کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب فوت ہی نہیں ہو سکتے.وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد فوت ہوں گے.مولوی عبد الکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی.ایک دوسبق ان کے پاس الف لیلہ کے پڑھے پھر چھوڑ دیئے.اس سے زیادہ ان سے تعلق نہ تھا.حضرت مسیح موعود کادایاں اور بایاں فرشتہ ہاں اُن دنوں میں یہ بحثیں خوب ہوا کرتی ھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں فرشتہ کون سا ہے اور بایاں کون سا ہے.بعض کہتے مولوی عبد الکریم صاحب دائیں ہیں.بعض حضرت استازی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں.علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اُس وقت طاقت ہی نہ تھی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس محبت کی وجہ سے جو حضرت لیفہ اول مجھ سے کیا کرتے تھے میں نورالدینیوں میں سے تھا.ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے بھی دریافت کیا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی.مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات اور اس کا اثر غرض مولوی عبد الکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا.سوائے اس کے کہ میں ان کے پُر زور خطبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت ِمسیح موعود علیہ السلام کا معتقد تھا.مگر جونہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی.میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا.وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے گزر گئی.جس وقت میں نے آپ کی وفات کی خبر سنی مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی-دوڑ کر اپنے کمرے میں گھس گیا.اور دروازے بند کر لئے.پھر ایک بے جان لاش کی طرح چارپائی پر گر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.وہ آنسونہ تھے ایک دریا تھا.دنیا کی بے ثباتی، مولوی صاحب کی محبت ِمسیح اور خد مت ِمسیح کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے.دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے کاموں میں یہ بات ساہاتھ بٹاتے تھے.اب آپؑ کو بہت تکلیف ہوگی.اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑ جاتا تھا.
۳۶۸ اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک دریا بہنے لگتا تھا.اس دن میں نہ کھانا کھاسکانہ میرے آنسو تھمے.حتی کہ میری لااُبالی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میری اس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تعجب ہوا.اور آپ نے حیرت سے فرمایا.محمود کو کیا ہو گیا ہے اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا.یہ تو بیمار ہو جائے گا.زندگی میں سب سے زیادہ تغیر کس طرح پیدا ہوا خیر مولوی عبد الکریم صاحب کی وقت نے میری زندگی کے ایک نئے دور کو شروع کیا.اس دن سے میری طبیعت میں دین کے کاموں میں اور سلسلہ کی ضروریات میں دلچسپی پیدا ہونی شروع ہوئی اور وہ بیج بڑھتا ہی چلا گیا.سچ یہی ہے کہ کوئی دنیاوی سبب حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب کی زندگی اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات سے زیادہ میری زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا موجب نہیں ہوا.مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا ان کی روح مجھ پر آپڑی.حضرت مسیح موعود کاسال وصال ۱۹۰۸ ء کا زکر میرے لئے تکلیف دہ ہے وہ میری کیا احمدیوں کی زندگی میں ایک نیا دَور شروع کرنے کا موجب ہوا.اس سال وہ ہستی جو ہمارے بے جان جسموں کے لئے بمنزلہ روح کے تھی اور ہماری بے نور آنکھوں کے لئے بمنزلہ بینائی کی تھی.اور ہمارے تاریک دلوں میں بمنزلہ روشنی کے تھی.ہم سے جُدا ہو گئی.یہ جُدائی نہ تھی ایک قیامت تھی.پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.اور آسمان اپنی جگہ پر سے ہل گیا.اللہ تعالیٰ گواہ ہے.ُاس وقت نہ روٹی کا خیال تھا.یہ کپڑے کا.صرف ایک خیال تھا کہ اگر ساری دنیا بھی مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دے تو میں نہیں چھوڑوں گا.اور پھر اس سلسلہ کو دنیا میں قائم کروں گا.میں نہیں جانتا.میں نے کس حد تک اس عہد کو نباہاہے مگر میری نیت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اس عہد کے مطابق میرے کام ہوں.۱۹۱۳ء کا افسوس ناک سال اس کے بعد ۱۹۱۳ء آیا.مسیح موعود علیہ السلام سے بُعد اور نورِنبوت سے علیحدگی نے جو بعض لوگوں کے دلوں پر زنگ لگا دیا تھا.اس نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا.اور بظاہر یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ پاش پاش ہو جائے گا.نہایت تاریک منظر آنکھوں کے سامنے تھا.مستقبل نہایت خوفناک نظر آتا تھا.بُہتوں کے دل بیٹھے جاتے تھے.کئی ہمتیں ہار چکے تھے.ایک طرف وہ لوگ تھے جو سلسلہ کے کاموں کے سیاہ و
۳۶۹ سفید کے مالک تھے.دوسری طرف وہ لوگ تھے جو کسی شمار میں ہی نہ سمجھے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو عہد میں نے کیا تھا وہ بار بار مجھے اندر ہی اندر ہمت بلند کرنے کے لئے اُکساتا تھا.مگر میں بے بس اور مجبور تھا.میری کوششیں محدود تھیں.میں ایک پتے کی طرح تھا نے سمندر میں موجیں ِادھر سے اُدھر لئے پھریں.سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت ”بدر“ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا ’’الحکم‘‘ اول توٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا.اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں.بہت گراں گذرتا تھا.” ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.میں بے مال و زر تھا.جان حاضر تھی.مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لا تا- اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے ان کی سُستی کو جھاڑے.ان کی محبت کو اُبھارے ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا.اس کی خواہش میرے لئے ایسی تھی جیسے ثریا کی خواہش، نہ وہ ممکن تھی نہ یہ - آخر دل کی بے تابی رنگ لائی.امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی اُفقِ مشرق سے دکھائی دینے لگی.حرم اول کا بے نظیر ایثار خدا تعالی نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ ؓکے دل میں رسول کریمﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوۓ کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دیا اور خصوصا ًاس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اُس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا.اپنے دو زیور مجھے دے دیئے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کردیں ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کھڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیز ہ ناصرہ بیگم سَلَّمَھَا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے.میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا.الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازه رکھے گا.اور میرے لئے تو اس کا ہر اک پرچہ گوناگوں کیفیات کا پیدا کرنے والا ہو تا ہے.بارہا وہ مجھے جماعت کی وہ حالت یا دولا تا ہے جس کے لئے اخبار کی ضرورت تھی بارہا وہ مجھے اپنی بیوی کی
۳۷۰ وہ قربانی یاد دلاتا ہے جس کا مستانہ میں اپنے پہلے سلوک کے سبب سے تھانہ بعد کے سلوک نے مجھے اس کا مستحق ثابت کیا.وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنا کر نہ دی تھی اور جن کو بعد میں اِس وقت تک میں نے صرف ایک انگوٹی بنوا کر دی ہے انکی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے.اگر ان کی اور قربانیاں اور اگر ہمدردیاں اوراپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کر دوں تو ان کا یہ سلوک مجھے شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہے اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق اُلٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا.کیا ہی یہ سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کار کن ہوتی ہے.اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی کیا ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے.لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگراس گلاب کا کسی کو خیال نہیں آتا جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا.میں حیران ہوا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا.اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روز مرہ پڑھنے والا فتنہ کس طرح دُور کیا جاسکتا.حضرت اماں جان کے احسان دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے دل میں پیدا کی.اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپے میں بکیِ الفضل کے لئے دے دی.مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے.اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصے میں آیا ہے.اور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے.دوسری ماؤں کے بچے بڑے ہو کر ان کی خد مت کرتے ہیں.مگر ہمیں یا تو اس کی توفیق ہی نہیں ملی کہ ان کی خدمت کر سکیں.یا شکر گزا ردل ہی نہیں ملے جو ان کا شکریہ ادا کر سکیں.بہرحال جو کچھ بھی ہو اب تک احسان کرنا انہیں کے حصے میں ہے.اور حسرت و ندامت ہمارے حصے میں.وہ اب بھی ہمارے لئے تکلیف اٹھاتی ہیں اور ہم اب بھی کئی طرح ان پر بار ہیں.دنیا میں لوگ یا مال سے اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں یا پھر جسم سے خد مت کرتے ہیں.کم سے کم میرے پاس دونوں نہیں-مال نہیں کہ خدمت کر سکوں.یا شاید احساس نہیں کہ سچی قربانی کر سکوں.جسم ہے مگر کیا جسم ؟ صبح سے شام تک جس کو ایک نہ ختم ہونے والے کام میں مشغول رہنا پڑتا ہے کہ راتوں کو بھی.پہلی بار منت کے اٹھانے کے سِوا اور کوئی صورت نہیں.میں جب سوچتا ہوں حسرت و ندامت کے آنسوبہاتا ہوں کہ خدایا میرے
۳۷۱ جیسا نکما وجود بھی دنیا میں کوئی ہو گا جس نے خودتو بھی کسی پر احسان نہیں کیا.مگر چاروں طرف سے لوگوں کے احسانات کے نیچے دبا ہوا ہے.کیا میں صرف احسانوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے ہی دنیا میں پیدا ہوا تھا.خداتعالی کے فضل باپ ملا تو وہ کہ اس پر احسان کرنے کا خیال تو کُجا احسان کا بدلہ دینے کی امید بھی علامتِ جنون ہے.والدہ ملیں تو وہ کہ پیدائش سے اس وقت تک ان کی طرف سے احسان ہی احسان ہیں.اور یہاں کسی بدلے کا خیال بھی ایک نہ پوری ہونے والی امیدوں کا سلسلہ.بیوی اللہ تعالیٰ نے وہ دی کہ اس نے ہر تکلیف میں محبت اور دلجوئی سے کام لیا.اور بغیر اس کے کہ میں نے اسے آرام دیا اور میرے لئے اس نے قربانی اور ایثار کا نمونہ دکھایا.اب ایک جماعت کا امام بنایا تو اپنے لوگوں کو ماتحت بنا دیا جو اپنے ایثار اور اپنے اخلاص اور اپنی محبت کے اظہار سے ہمیشہ شرمندہ ہی کرتے رہتے ہیں.ان کی دینی قربانیاں میرے لئے قابل رشک – اور ان کا مذہبی جوش جو میرے لئے لائقِ اقتداءہے.پھر میں کسی مرض کی دوا دنیا میں پیدا کیا گیا ہوں.اے کاش! میں بھی کسی کام کا ہوتا.اے کاش میں بھی کسی کے احسان کا بدلہ احسان سے دے سکتا.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی امداد تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خان صاحب ہیں آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کیلئے دی.پس وہ بھی اسی رَو کے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے "الفضل" کے ذریعہ سے چلائی حصہ دار ہیں.اور الائون اور میں سے ہونے کے سبب سے اس امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس قسم کے کام لے.اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کی مصائب سے محفوظ ومامون رکھ کر اپنے فضل کے دروازے ان کے لئے کھولے.’’ الفضل" نام کس نے رکھا اور غرض اس طرح روپیہ کا انتظام ہو گیا.تو حضرت خليفة المسیح اول سے میں نے اختیار کی اجازت مانگی اور نام پوچھا.آپ نے اخبار کی اجازت دی.اور نام ” الفضل" رکھا.چنانچہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوانام ” الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا.اسی زمانہ میں ’’پیغام صلح ‘‘لاہور سے شائع ہوا.تجویز پہلے میری تھی مگر "پیغام صلح‘‘’’ الفضل\" سے پہلے شائع ہوا.کیو نکہ ان لوگوں کے پاس سامان بہت
۳۷۲ تھے.الفضل کی اشاعت کا ایک خاص معاون جب الفضل نکلا ہے اُس وقت ایک شخص جس نے اس اخبار کی اشاعت میں شاید مجھے سے بھی بڑھ کر حصہ لیا وہ قاضی ظہور الدین صاحب اکمل ہیں اصل میں سارے کام وہی کرتے تھے.اگر ان کی مددنہ ہوتی تو مجھے اس اخبار کا چلانا مشکل ہو تا.رات دن انہوں نے ایک کردیا تھا.اس کی ترقی کا ان کو اس قدر خیال تھا کہ کئی دن انہوں نے مجھ سے اس امر میں بحث پر خرچ کئے کہ اس کے ڈیکلریشن کے لئے مجھے منگل کو نہیں جانا چاہیے.کیونکہ یہ دن نامبارک ہو تا ہے.مگر مجھے یہ ضد کہ برکت اور نحوست خداتعالی کی طرف سے آتی ہے.مجھے منگل کو ہی جانا چاہیے.تا یہ وہم ٹوٹے.میرا خیال ہے اس امر میں مجھے قاضی صاحب پرفتح ہوئی.کیونکہ میں منگل کو ہی گیا اور خدا تعالی کے فضل سے ڈیکلریشن بھی مل گیا.جس کی نسبت قاضی صاحب کو یقین تھا کہ اگر میں منگل کو گیا تو کبھی نہیں ملے گا.اور اخبار بھی مبارک ہوا.بعد میں اگر ایک مینجر رکھ لیا گیامگر شروع میں قاضی صاحب کی مینجری کا بھی بہتر کام کرتے تھے اور مضمون نویسی میں بھی میری مد و کرتے تھے.الفضل کے دوسرے مددگار دومد د گار اور بھی تھے ایک صوفی غلام محمد صاحب اور ایک ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر.صوفی صاحب اس وقت اردو اچھی نہیں لکھ سکتے تھے.اور میرا خیال ہے کہ میری ظالمانہ جرح و تعدیل سے ان کی زبان میں بہت کچھ اصلاح ہوتی ہے.مگر زیاد ہ مدد قاضی صاحب کی ہی تھی.کیونکہ اُس وقت میرے دوستوں میں سے جو شخص صحیح مشورہ اخبار کے متعلق دے سکتا تھاوہ قاضی اکمل صاحب ہی تھے.’’ الفضل ‘‘کی مخالفت آخر "الفضل" نكلا.اور دشمن نے جب دیکھا.کہ خدا نے صداقت کے اظہار کے لئے بھی ایک دروازہ کھول دیا ہے.تو اس کی مخالفت اور بھی چمک ا ٹھی.حضرت خلیفۃ المسح نے جب پہلا نمبر’’ الفضل‘‘ کاپڑھا تو فرمایا کہ ’’پیغام‘‘ ابھی میں نے پڑھا ہے.’’الفضل‘‘ بھی.مگر یہاں شتان بینھما یعنی کُجا وہ کُجا یہ.یہ تو ایک مُبَصّر کی رائے تھی.مگر ہر شخص مُبصر نہیں ہوتا.چاروں طرف سے اس کی مخالفت کی آوازیں اُٹھنی شروع ہوئیں.اور میں نے سمجھا کہ جماعت اس وقت ’’ الفضل‘‘ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.مگر میں اس امر کے لئے تیار تھا کہ ” الفضل" کی مخالفت ہوگی اور یہی وجہ تھی کہ دو
۳۷۳ تین ہزار روپے پہلے جمع کر کے میں نے اخبار کے نکالنے کا ارادہ کیا تھا.ہر پرچہ جو نکلتا مخالفت کی ایک لہر پیدا کر دیا.اور اس کے خلاف جس قدر ممکن ہو سکتا جھوٹ اور فریب سے کام لیا جاتا.اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں.ہاں یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ اس وقت یہ امر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود کا قائم کرده ایمان کیا مضبوط تھا.جماعت کی توجہ الفضل کی طرف باوجود مخالفت کے جماعت کی توجہ آہستہ آہستہ ’’الفضل ‘‘کی طرف پھرنی شروع ہو گئی.اور تھوڑے ہی دنوں میں باوجود " پیغام‘‘ کی مخالفت اور ”بدر“ کی پیغام کے حق میں غیر جانبدارانہ ہمد ردی کے’’ الفضل‘‘ کی خریداری بڑھنےلگی.’’الحکم ‘‘ان دنوں اول تو نکلتا ہی کم تھا دوسرے اس وقت اس کو صاحبانِ پیغام نے اس قدر بدنام کر دیا ہوا تھا کہ اس کی تائید مخالفوں کی مخالفت سے زیادہ خطرناک تھی.اور ہمارے شیخ صاحب باوجود ایک عقلص دل رکھنے کے گورنمنٹ کے ایجنٹ فری میسن خفیہ سازشوں کے بانی، دشمنان سلسلہ کے ہتھیار اور نہ معلوم کن کن ناموں سے مشہور تھے.ایک نوجوان الفضل کا دفتر اس وقت نواب محمد علی خان صاحب کے مکان میں تھا.اور وہیں مرزا محمد اشرف صاحب جواب محاسب صدر انجمن احمدیہ میں رہا کرتے تھے.ان کے پاس اس وقت ان کے وطن کا ایک نوجوان رہتا تھا.جس کی مونچھیں اور ڈارھی ابھی نہ نکلی تھیں.یہ نوجوان ایک اور نوجوان سے مل کر مین دفتر " الفضل" کے سامنے بیٹھ کر " پیغام صلح ‘‘کی تائید اور " الفضل" کی غلطیوں پر پڑے زورسے بحثیں کیا کرتا تھا.ہمارے قاضی صاحب کو اس کی یہ حرکت بہت ناپسند تھی.اور وہ مجھے بعض دفعہ کہتے کہ "الفضل" کے دفتر میں ایسی گفتگو سخت مُضر ہے.مگر میرے دل میں ان نوعمر نوجوان کی یہ بات دو متضاد جذبات پیدا کیا کرتی تھی.میں اس کے ناواقفی کے اعتراضوں کو ناپسند بھی کرتا اور اس کے فعل کو کہ عین دفتر "الفضل" کے دروازہ کے سامنے بیٹھ کر وہ اس بحث کو چھیڑتا تھا.استعجاب کی نگاہ سے بھی دیکھتا تھا.یہ نوجوان بعد میں قادیان سے چلایا گیا.اور اس نے’’ پیغام صلح ‘‘ میں ہمارے مخالف بعض مضامین بھی لکھے.اس وقت اسے یہ معلوم نہ تھا کہ غیب نے اس کے لئے کیا مقدر رکھا ہوا ہے.قدرت اس کو کسی اور راہ پر چلانا چاہتی تھی.اور وہ قدرت کے ہاتھوں سے بچ کر کہاں جا سکتا تھا.آخر گرفتار ہوا اور میری بیعت کی.اور کچھ دنوں کے بعد اسی دفتر میں جن کے دروازہ پر بیٹھ کر وہ
۳۷۴ " الفضل ‘‘اور نام کا مقابلہ کیا کرتا تھا اور \" پیغام صلح کی پالیسی کو ترجیح دیا کرتا تھا.وہ داخل ہو گیا.اور آج اس کی ایڈ یٹری کے عہدہ پر ممتاز ہے.آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ نوجوان میاں غلام نبی صاحب بلانوی ایڈیٹر الفضل تھے.خدا کی قدر تیں بھی عجیب ہیں.سفر کہاں سے شروع ہوا اور کہاں آکر ختم ہوا والأموربخواتيمها خدا کے عطا کردہ نئے کارکن ۱۹۱۴ ء کا دور جو میرے لئے بھی افضل کے لئے اور ساری جماعت کے لئے بھی نیا دور تھا.وہ تو غالباً بہتوں کو یاد ہو گا.اس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقت کو دنیا پر واضح طور پر ظاہر کیا.ہمیں نئے نئے کارکن عطا کئے.حافظ روشن علی صاحب، مکرم میر مراسحقٰ صاحب، عزیزم مرزا بشیراحمد صاحب، شیخ عبد الرحمن صاحب مصری، چودھری صاحب ماسٹر محمد الدین صاحب، صوفی غلام محمد صاحب، ماسٹر نیر صاحب اسی دور جدید کی یادگار ہیں.اور کیا پودے جڑیں پکڑرہے ہیں.اللهم زد فزد- الفضل کو ترقی مبارک ہو ’’ الفضل‘‘ نے بھی اس عرصہ میں کئی رنگ بدلے ہیں.اور اب وہ پھر اپنے پرانے سائز پر چھپنا شروع ہوا ہے.خداتعالی یہ ترقی مبارک کرے.ترقی اس لئے کہ گو سائز اس کا پرانا ہو اگر اب وہ ہفتہ میں دو بار نکلے گا.اور پہلے وہ ہفتہ میں ایک بارنکلتا تھا.تغیرات سے پاک صرف ایک ہستی ہے چیزیں بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں.آدمی پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں.کام شروع ہوتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں.کہیں ترقی ہے کہیں تنزل ہے.کہیں خوشی ہے کہیں رنج ہے.مگر ایک ہستی ہے جو ان سب تغیرات سے پاک ہے.وہی وارث ہے سب کی.جب دوست اور اولاد انسان کو بُھلادیتے ہیں.جب پسینہ کی جگہ خون بہانے والے لوگوں کے دلوں میں ایک ہلکے نقش کی طرح ایّامِ سلف کی بار باقی رہ جاتی ہے اُس وقت وہی ہستی اس کی یاد کو تازہ رکھتی ہے پس اصل میں وہی وارث ہے.نیک کام کاقیام کہتے ہیں نیک کام دنیامیں قائم رہتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ نیک کام قائم ہوتا ہے مگر یہ غلط ہے کہ دنیامیں قائم رہتا ہے.کئی نیک کام ہیں جو دنیا سے غائب ہو گئے اور بھُلادیئے گئے ہیں.کئی نبی ہیں جن کے نام تک ہمیں معلوم نہیں.نیک نام
۳۷۵ اس ہستی کے پاس قائم رہتا ہے جو اصل وارث ہے.ھوالأول والأخر.انسان کو اسی نے پیدا کیا اور آخر اسی کے پاس وہ جاتاہے.اور اسی کے ذریعہ سے اس کے کام اور اس کی ذات قائم رہتی ہے.ابتداءً بھی اسی نے پیدا کیا تھا.انجام بھی صرف اسی کے ہاتھ میں ہے پس وہی اول ہے وہی آخر ہے.وہی مورث ہے وہی وارث ہے.وہی فوق ہے وہی تحت ہے.واللطيف الخبير ، وعلى كل شئ قدير للمحتاجين نصیر ومع شوكته وجبروته وسلطانه لعبادہ الضعفاء و وزیر عليه توكلت واليه أنيب و لدعوته أجیب وارجو منه الكرم والعناية والغفران والسماحة وهذا ھومطابق لشانه ومقتضى لطفه واحسانه لانه هورب العلمين وارحم الرحمين خاکسار میرزا محموراحمد (الفضل ۴ - جولائی ۱۹۲۴ء) الحديد : ۴ ٢ الانعام : ۱۰۴
۳۷۷ دوره یورپ (۱۹۲۴ء) از سیدناحضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۳۷۹ امام جماعت احمدیہ کا عزم یورپ (تحریر فر مودہ جون ۱۹۲۴ء) أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر ان صلاتی ونسکی ومحياي ومماتي لله رب العلمين احمدیہ جماعتوں سے مشورہ اور اس کا نتیجہ برادران! السلام عليكم انگلستان کی مذہبی کانفرنس کی دعوت کے جواب کے متعلق میں نے آپ لوگوں سے مشورہ کیا تھا کہ مجھے اس دعوت کا جواب کیا دینا چاہئے ؟اس چٹّھی کا جواب قریباً ایک سو گیارہ یاباره انجمنوں کی طرف سے آیا ہے جن میں سے سو کے قریب تو اس امر کی تائید میں ہیں کہ مجھے خود جانا چاہئے.اور باره انجمنیں اس امرکی تائید میں ہیں کہ مجھے نہیں جانا چاہئے.جماعتوں میں سے اتنی بڑی تعداد کا جانے کا مشورہ دینا الہیٰ تصرف کے ماتحت معلوم دیتا ہے.استخاره مگر میں نے مناسب سمجھا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے استخارہ بھی کر لیا جائے اور چالیس آدمیوں سے زیادہ کو استخارہ کے لئے مقرر کیا.بعد استخارہ جب ان لوگوں سے مشورہ لیا گیا تو اٹھارہ کے قریب آدمی جانے کے مخالف تھے اور چوبیس کے قریب جانے کی تائید میں تھے.دو تین کی رائے درمیان میں تھی اس کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا کہ مجھے خودہی جانے کی تیاری کرنی چاہئے کیونکہ ہر ایک طریق مشورہ میں جانے کا مشورہ دینے والوں کا پہلوان لوگوں پر جو نہ جانے کا مشورہ رہے ہیں غالب رہا ہے.گو ابھی تک میری اپنی طبیعت یکسو نہیں ہے لیکن زیاده دیر کرنے سے کوئی فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ایسے سفروں کے لئے کافی عرصہ پہلے سے تیاریاں ضروری ہوتی ہیں.
۳۸۰ دوره یورپ مشکلات میرے لئے جو مشکلات ہیں ان میں سے ایک تو میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں یعنی میری مالی مشکلات جن کی موجودگی میں اور بوجھ اٹھانا طبیعت پر ایک حد تک گراں گذرتا ہے.دوسرے میری صحت بہت خراب رہتی ہے اور اتنے لمبے سفر اور اس کی مشقتوں کو برداشت کرنا میرے لئے شاید ایک بار گراں ثابت ہو کیونکہ اس قدر کثیرا خراجات کے برداشت کرنے کے بعد اگر وقت کو پوری طرح استعمال نہ کیاجائے اور زیادہ سے زیادہ کام نہ کیا جائے تو یہ ایک اسراف ہو گا جس کو میری طبیعت پسند نہیں کرتی.تیسرے قادیان سے اس قدر عرصہ تک اتنے فاصلہ پر رہتا کہ جو گویا ایک نئی دنیا ہے مجھے ناپسند ہے.چوتھے اپنی صحت کی خرابی اور عمر کی ناپائداری کا خیال کرکے طبیعت ایک تکلیف محسوس کرتی ہے.پانچویں میری دو بیویاں اس وقت حاملہ ہیں اور دونوں کو اسقاط کا مرض ہے اور بچے ان کو سخت تکلیف سے ہوتے ہیں یہاں تک کہ جان کی فکر پڑ جاتی ہے اور ان کے وضع حمل کا زمانہ وہی ہے جو اس سفر میں خرچ ہو گا.میری غیر حاضری کا خیال ان کی طبائع پر قدرتاًیک بوجھ ہے.دینی فرائض سب سے مقدم ہیں مگر باوجود ان مشکلات کے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ میرے نفس کے آرام پر اور میرے عزیزوں کی خواہشات پر میرے وہ فرائض جو دین اور ملت کے متعلق ہیں مقدم ہیں.میں جو کچھ جانتا ہوں وہ میں ظاہر نہیں کر سکتا اگر وہ آپ کو معلوم ہوتا تو شاید بُہتوں کے دل رحم او رہمدردی سے بھر جاتے.مگر میں ایک خدا پر ایمان لاتا ہوں جو على كل شئ قدیر ہے اس نے باوجود میری کمزوریوں اور خطاؤں کے مجھے نہیں چھوڑا.وہ ہر میدان میں میرے ساتھ رہا اور ہر مشکل میں میری اس نے مدد کی.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اپنے رحم سے اپنی تقدیر کو بھی بدل دے گا اور اپنے فیصلہ کو بھی اُلٹ دے گا اور میری بے بسی پر رحم فرمائے گا اور میں تو کہتا ہوں کہ ان صلاتی ونسکی ومحياي ومماتي للہ رب العلمين- علیہ توکلت واليه انیب.روانگی کب ہوگی اس کے بعد میں اس امر کی اطلاع دوستوں کو دینا چاہتا ہوں کہ اگر بعد میں خدا تعالی کی مشیّت کسی اور رنگ میں ظاہر نہ ہوئی تو انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں ۵ا.جولائی کو بمبئ سے روانہ ہونا ہو گا.قادیان سے روانگی کی تاریخ سے اور گاڑی سے بعد میں اطلاع دی جائے گی.
۳۸۱ دوره یورپ رسول کریمؐ کی ایک پیشگوئی پورا کرنے کا ارادہ ارادہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی اس پیشگوئی کو جو مسیح موعودؑ کے زمانہ کے متعلق ہے اور جس کی تاویل حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام نے یہ فرمائی ہے کہ مسیح موعود یا اس کا کوئی خلیفہ دمشق کو جائے گا اس سفر میں پورا کرنے کی کو شش کی جائے اور راستہ میں چند دن کے لئے دمشق بھی ٹھہرا جائے.گو اس کے لئے اپنے راستہ سے ہٹ کر جانا ہو گا مگر چونکہ ایسے مواقع بروز بروز نہیں مل سکتے اس لئے جہاں تک ہو سکے اس سفرسے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی ضروری ہے اور سلسلہ کی صداقت کا ایک نشان قائم کرنا تو عین سعادت مندی ہے.خلیفہ کا مرکز میں رہنا ضروری ہے اس کے بعد میں احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بعض احباب نے اپنے مشورہ کی بناء اس امر پر رکھی ہے کہ مذہبی کانفرنس نے چونکہ بلایا ہے اس لئے وہاں ضرور جانا چاہئے اور یہ خیال کیا ہے کہ گویا اس سفر کے ساتھ ہی یورپ فتح ہو جائے گا اور ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام میں داخل ہو جائیں گے.میرے نزدیک اس امر پر اور اس امید پر مشورہ دینا درست نہ تھا.میں نے پہلے بھی بارہا بیان کیا ہے کہ خلیفہ دورہ کرنے والا واعظ نہیں کہ وہ جس جگہ لیکچر دینے کی ضرورت ہو وہاں جائے.وہ ایک سپاہی نہیں کہ لڑنے کے لئے جائے بلکہ ایک کمانڈ رہے جس نے سپاہیوں کو لڑوانا ہے.کسی مذ ہبی کانفرنس کی درخواست پر اس کا باہر جانایا محض لیکچر دینے کے لئے اس کا مرکز سے نکلنا درست نہیں.یہی طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا اور یہی آپ سے پہلے امت محمدیہ کے خلفاء کا رہا ہے.پس میں طبعاً اس خیال کے مخالف ہوں کہ کسی مذہبی کانفرنس کے بُلاوے پر مرکز کو چھوڑوں.ایک دوست نے خوب لکھا ہے کہ اگر اگلے سال اس سے بڑی مذہبی کانفرنس ہو گئی تو پھر کیا ہم اپنے خلیفہ سے درخواست کریں گے کہ وہ اب وہاں جائے.یہ بات بالکل درست ہے مذہبی کانفرنسیں تو ہر سال ہو سکتی ہیں اور لوگوں کی توجہ اگر مذہب کی طرف پھر جائے تو بہت بڑے بڑے پیمانوں پر ہو سکتی ہیں مگر ان کی وجہ سے خلیفہ وقت اپنے مرکز کو نہیں چھوڑ سکتا ورنہ اس کے لئے مرکز میں رہنا مشکل ہو جائے گا.ایک مشہور جر من مدبّر فلاسفر کا یہ قول مجھے نہایت پسند ہے اور بہت ہی سچا معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام کے افروں کو بالکل کام سے الگ اور فارغ رہنا چاہئے تاکہ وہ یہ دیکھتے رہیں کہ کام کرنے والے فارغ نہیں ہیں.اگر وہ خود
۳۸۲ دوره یورپ کام میں لگ جائیں گے تو دوسرے کام کرنے والوں کی نگرانی نہیں کر سکیں گے.اس کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی کارکنوں کو صرف نگرانی کا کام کرنا چاہئے جزئی کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے.یہ بات اور محکموں کے متعلق بھی درست ہوتی ہے مگر خلافت کے متعلق تو بہت ہی درست ہے.میں اپنے تجربے کی بناء پر جانتا ہوں کہ خلافت ایک مردم کش عہدہ ہے.اس کا کام اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اگر خدا تعالی کا فضل اس کے ساتھ نہ ہو تو یقیناً ایک قلیل عرصہ میں اس عہده پر متمکن انسان ہلاک ہو جائے مگر چونکہ خدا تعالی اس عہد ہ کا نگران ہے وہ اپنے فضل سے کام چلادیتاہے.غرضیکہ و عظوں اور لیکچروں کے لئے باہر جانا خواہ وہ کسی عظیم الشان مذہبی کانفرنس کی دعوت ہی پر کیوں نہ ہو خلفاء کے کام کے خلاف بلکہ مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آئنده امریکہ جاپان وغیرہ ممالک میں مذہبی کانفرنسیں ہوں اور وہاں کے لوگ دعوت دیں.اگر وہاں بھی جاویں تو ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جا تا ہے اور اگر نہ جاویں توقومی تعصب کی وجہ سے ان ملکوں کے لوگ اس کو اپنی ہتک خیال کریں گے اور تبلیغ سلسلہ میں رکاوٹ پیدا ہوگی.مغربی ممالک کے لوگ قومی عزت کا اس قدر احساس رکھتے ہیں کہ جن امور کو ہم لوگ بالکل معمولی خیال کرتے ہیں وہ اسے اپنی زندگی اور موت کا سوال سمجھ بیٹھتے ہیں.پس میں مذہبی کانفرنس کی دعوت کے جواب میں جانے کے مخالف ہوں اور اس امر میں جو لوگ نہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں ان سے متفق ہوں.سفر کے نتیجہ کے متعلق خیال اسی طرح میں اس امر کا بھی قائل نہیں ہوں کہ ایک ایسے مختصرسفر کے نتیجہ میں کسی عظیم الشان فتح کی امید کی جائے.یورپ کے لوگ تو ہم سے ہر بات میں مختلف ہیں اور مذہب اور تمدن اور اخلاق اور عادات غرض کسی بات میں ہم سے نہیں ملتے.لاہور اور دہلی حضرت مسیح موعودؑ کو بھی جانے کا اتفاق ہوا ہے اور مجھے بھی.ان مقامات پر ہمارے چند روزہ قیام سے کونسا غیر معمولی تغیر پیدا ہو گیا.نہ ہزا روں آدمی سلسلہ میں داخل ہو گئے کہ لوگوں کے خیالات میں کوئی نمایاں تبدیلی ہوئی.رسول کریمﷺ مختلف قوموں کے وفود سے تیرہ سال تک ملتے رہے اور انہوں نے کوئی اثر قبول نہ کیا.پس جب اپنے ہم قوم جو بیسیوں باتوں میں ہم سے متفق ہیں اسی قد رجلدی متاثر نہیں ہوتے بلکہ ایک لمبی صحت اور بار بار کی صیقل کے محتاج ہوتے ہیں تو اس قدر روحانی بُعد رکھنے والے لوگ کب ظاہری سامانوں کو دیکھتے ہوئے چند دن کی صحبت اور لیکچر اس قدر متاثر ہو سکتے ہیں
۳۸۳ دوره یورپ کہ فوراً سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں جماعت میں داخل ہو جائیں.غیر معمولی تغیرات خدا کی مشیّت کے ماتحت ہوتے ہیں میں اس امر کا منکر نہیں کہ ایسے غیر معمولی تغیرات بھی ہوتے ہیں مگر وہ کسی انسان کی صحبت یا کسی لیکچر سے نہیں ہوتے بلکہ خدائے قادر کے زبردست ہاتھ سے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی اور لاہور اور لدھیانہ کئی کئی ہفتے رہے مگر وہاں کوئی اثر نہ ہوا لیکن جہلم کا سفر جو ایک مقدمہ کی وجہ سے پیش آیا تھا اس سے پہلے خدا تعالی کی طرف سے الہام ہوا کہ تُواس سفرمیں خدا کی نصرت دیکھے گا اور تین دن کے سفر میں گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی.پس ایسے تغیرات تو پیدا ہوتے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ہوتے ہیں نہ کہ کسی بڑے یا چھوٹے انسان کے جانے سے اور ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت پر حاکم نہیں کہ خودہی فیصلہ کر لیں کہ وہ ضرور یوں ہی چاہے گا اس لئے ہمیں فلاں کام کر لینا چاہئے.پس ہمیں اس امید پر بھی اپنے مشورہ کی بنیاد نہیں رکھنی چاہئے.اگر اللہ تعالیٰ کی یہ مشیّت ہے کہ وہ اس وقت کوئی نشان د کھائے تو خود بخود کفر کی دیواریں ٹوٹنی شروع ہو جائیں گی ورنہ بظا ہر حالات چند ہفتوں کی رہائش میں ایک شخص کا ہدایت پا جانا بھی ایک بہت بڑا کام معلوم ہوتا ہے.مغربی ممالک میں عظیم الشان تغیر ہو گا اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالی کا منشاء مغربی ممالک میں کوئی عظیم الشان تغیر پیدا کرنے کا ہے رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی مغرب سے سورج کے نکلنے کی اس پر دلالت کرتی ہے.حضرت مسیح موعود ؑکی رؤیا کہ مغربی ممالک کے لوگ اس جماعت میں خاص طور پر داخل ہوں گے اس پر شاہد ہے اور میں نے بھی دو رؤیا دیکھی ہیں جن کو میں اس تجویز سے بہت پہلے سنا چکا ہوں وہ بھی مغرب میں ہماری فتح پر دلالت کرتی ہیں.تغیرات یورپ کے متعلق ایک رؤیا چنانچہ پہلی رؤیا تو کوئی تین چار سال کی ہے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کی ہے میں نے اسی وقت قادیان کے دوستوں کو سنادیا تھا.اس رؤیا میں میں نے دیکھا کہ میں لنڈن میں ہوں اور ایک ایسے جلسہ میں ہوں جس میں پارلیمنٹ کے بڑے بڑے ممبر اور نواب اور وزراء اور دوسرے بڑے آدمی ہیں.ایک دعوتی قسم کا جلسہ ہے اس میں میں بھی شامل ہوں مسٹر لائیڈ جارج ۲؎ سابق وزیراعظم اس میں تقریر کر رہے ہیں.تقریر کرتے کرتے ان کی حالت بدل گئی اور انہوں نے ہال
۳۸۴ دوره یورپ میں ٹہلنا شروع کر دیا اور ایسی گھبراہٹ ان کی حرکات سے ظاہر ہوئی کہ سب لوگوں نے یہ سمجھا کہ ان کو جنون ہو گیا ہے.سب لوگ قطاریں باندھ کر کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ جلد جلد ادھر سے ادھر ٹہلتے ہیں اتنے میں لارڈ کرزن ۳؎ صاحب نے آگے بڑھ کر ان کے کان میں کچھ کہا اور وہ ٹھہر گئے اور آہستہ سے لارڈ کرزن صاحب کو کچھ کہا.انہوں نے باقی لوگوں سے جو ان کے گردتھے وہی بات کہی اور سب لوگ دوڑکر ہال کے دروازے کی طرف چلے گئے اور باہر سڑک کی مشرقی جانب جھانکنا شروع کیا.ان کے اس طریق پر مجھے اور بھی حیرت ہوئی.قاضی عبد اللہ صاحب میرے پاس کھڑے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور یہ لوگ دروازے کی طرف کیوں دوڑے اور کیا دیکھتے ہیں؟ قاضی صاحب نے مجھے جواب دیا کہ مسٹر لائڈ جارج نے لارڈ کرزن سے یہ کہا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں کہ میں اس وجہ سے ٹہل رہا ہوں کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ مرزا محموداحمدؑ امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے اور وہ ہٹتے ہٹتے اس جگہ کے قریب آگیا ہے اور یہ لوگ اس بات کو سن کر دروازے کی طرف اس لئے دوڑے تھے کہ تادیکھیں کہ لڑائی کا کیا حال ہے.جب میں نے یہ بات ان سے سنی تو میں دل میں کہتا ہوں کہ ان کو اس قدر گھبراہٹ ہے اگر ان کو معلوم ہو کہ میں خود ان کے اندر موجود ہوں تو یہ مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے یہ خیال کر کے میں بھی دروازے کی طرف اسی طرح بڑھا جس طرح وہ لوگ دیکھنے کے لئے گئے تھے اور وہاں سے خاموشی سے سڑک کی طرف نکل گیا.اس پر میری آنکھ کھل گئی.دوسری رؤیا دوسری رؤیا اسی سال کی ہے.مگر ولایت جانے کی تحریک سے دو تین ماہ پہلے کی ہے.یہ خواب بھی میں نے اسی دن دوستوں کو سنا دی تھی جن میں سے ایک مفتی محمد صادق صاحب بھی ہیں.میں نے دیکھا کہ میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں جس طرح کہ کوئی شخص تازه وارد ہوتا ہے اور میرا لباس جنگی ہے.میں ایک جرنیل کی حیثیت میں ہوں اور میرے پاس ایک اور شخص کھڑا ہے اس وقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی جنگ ہوئی ہے اور اس میں مجھے فتح ہوئی ہے اور میں اس کے بعد میدان کو ایک مدبر جرنیل کی طرح اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ اب مجھے اس فتح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح حاصل کرنا چاہئے.ایک لکڑی کا موٹا شہتیر زمین پر کٹا ہوا پڑا ہے ایک پاؤں میں نے اس پر رکھا ہوا ہے اور ایک پاؤں زمین پر ہے جس طرح کوئی شخص کسی دُور کی چیز کو دیکھتا ہے تو ایک پاؤں کسی اونچی چیز پر رکھ کر
۳۸۵ دوره یورپ اونچاہو کر دیکھتا ہے اسی طرح میری حالت ہے اور جسم میں عجیب چُستی اور سُبکی پاتاہوں جس طرح کہ غیر معمولی کامیابی کے وقت ہوا کرتا ہے اور چاروں طرف نگاہ ڈالتا ہوں کہ کیا کوئی جگہ ایسی ہے جس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ اتنے میں ایک آواز آئی جو ایک ایسے شخص کے منہ سے نکل رہی ہے جو مجھے نظر نہیں آتامگر میں اسے پاس ہی کھڑا ہوا سمجھتا ہوں اور یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ میری روح ہے.گویا میں اور وہ ایک ہی وجود ہیں اور وہ آواز کہتی ہے ”ولیم دی کنکرر‘‘ یعنی ولیم فاتح - ولیم ایک پرانا بادشاہ ہے جس نے انگلستان کوفتح کیا اس امر کے بعد میری آنکھ کھل گئی.جب میں نے دوستوں کو یہ خواب سنائی تو مفتی صاحب نے ولیم کے معنے لغت انگریزی سے دیکھے اور معلوم ہوا کہ اس کے معنے ہیں پختہ رائے والا پکے ارادہ والا یا دوسرے لفظوں میں أولوا العزم پس گویا ترجمہ یہ ہوا أولوا العزم فاتح.ان خوابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغربی ممالک کے لئے ایک نیک ارادہ مقدر ہے اور یہ کہ غالباًٍوه کسی میرے سفر کے ساتھ وابستہ ہے.غالبا ًاس لئے کہ بعض دفعہ خواب میں جس شخص کو دیکھا جائے اس کے قائم مقام مراد ہوتے ہیں.مگر باوجود ان خوابوں کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نتائج اس سفر کے معا ًساتھ وابستہ ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ بیج سَفر میں بو یا جائے نتیجہ بعد میں نکلے.فیصلہ کی بناء ظاہری حالات ہیں خلاصہ یہ کہ گو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین کامل رکھتے ہیں مگر ہمیں کبھی خدا تعالی کی مشیّت پر حکومت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور شرک سے پاک رہنا چاہئے.کیونکہ یہ دونوں امور خدا تعالی کی غیرت کو بھڑکاتے ہیں.ہمیں اپنے فیصلہ کی بنیاد تو ظاہری حالات پر رکھنی چاہئے پھر دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالی کی مشیت اس فیصلے کو علاوہ اس ضرورت کے پورا کرنے کے جس کی وجہ سے وہ کیا گیا ہے دوسری برکات کا موجب بھی بنائے.اغراض سفر میرے نزدیک جن اغراض کے لئے اس سفر کی ضرورت ہے ان میں سے ایک تو حضرت مسیح موعودؑ کی رؤیاکو پورا کرنا ہے آپ کا اپنے آپ کو وہاں دیکھنا چاہتا ہے کہ آپ کا کوئی جانشین ان علاقوں میں جائے.دوسرے یہ دینی ضرورت اس کی داعی ہے کہ ہماری جماعت کا کام ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنا ہے اور چونکہ ساری دنیا کو اسلام کے حلقہ میں لا ناہمارا فرض ہے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق ہم ایک مکمل نظام تجویز کریں
۳۸۶ دوره یورپ جس کے متعلق ہم دیانت داری سے یقین کر سکیں کہ یہ ہماری غرض کو پورا کردے گا اور جو فرض ہم پر ہے وہ اس سے ادا ہو جائے گا.باقی رہا اللہ کا فضل سووہ اس کے اختیار میں ہے اور جب ہم اپنا کام کر چکیں تو ہمیں امید کرنی چاہئے کہ وہ فضل بھی نازل ہو گا کیونکہ یہ کام اسی کا ہے نہ ہمارا.اس نظام کے مقرر کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ خلیفہ وقت مغربی ممالک کی حالت کو وہاں جا کر دیکھے کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ مقابلہ مغربی خیالات سے ہے اسلام اپنی دلیلوں میں سب مذاہب پر غالب ہے لیکن مغرب کی عادتوں اور اس کے تمدن نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ اسلام سے اس قدر مختلف ہے جس قدر کہ دن رات سے مختلف ہے وہ دونوں ایک جگہ بالکل جمع نہیں ہو سکتے.یورپ اسلام کے عقائد کو تسلیم کرنے کے لئے تو آج تیارہے لیکن وہ اپنی عادتوں کو چھوڑنے کے لئے بالکل تیار نہیں.اور نہ صرف یہ کہ وہ خود اس کام کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ ایشیا اور افریقہ کو بھی اپنا ہم خیال بنا کر اسلام کو دنیا سے بالکل خارج کرنا چاہتا ہے.ان لوگوں کی طرز اور ان کی رہائش ہم سے ایک جُداگانہ ہے کہ گھر بیٹھے ان کے متعلق فیصلہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ زمین پر بیٹھے چاند کے حالات پر رائے زنی کی جائے بلکہ اس سے زیادہ مشکل.کیونکہ چاند کے حالات تو دُور بین سے نظر آسکتے ہیں مگر یہاں ایک زندہ قوم کی اصلاح کا سوال ہے جس کی ظاہری شکلوں پر نہیں بلکہ اس کے دلی خیالات اور تعصّبات کے متعلق ہم نے فیصلہ کرنا ہے.مغرب کی تبلیغ پر خرچ ہم اس وقت تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد روپیہ مغرب کی تبلیغ پر خرچ کر چکے ہیں اور پندرہ سولہ ہزار روپیہ ہرسال خرچ کرتے ہیں جو کچھ اس کثیر خرچ کا نتیجہ اس وقت تک نکلا ہے اس کی نسبت ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ کچھ بھی نہیں کیونکہ ملکوں کی اصلاح دیر سے ہوتی ہے مگر ہم دیانت داری سے یہ بھی تو نہیں کہہ سکتے کہ اس تحریک کا آخروہی نتیجہ نکلے گا جو ہم چاہتے ہیں.اور کم سے کم ایک کام کے متعلق ہم کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ ہم صحیح راستہ پر چل رہے ہیں اور اس کا آخری نتیجہ ضرور اچھا ہی نکلے گا الأماشاء الله مگربوجہ اس کے کہ خلیفہ وقت نے جو آخری کڑی ہے اس کام کو خود دیکھ کر اس سکیم کو تجویز نہیں کیا جس پر مغرب میں عمل ہونا چاہئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم نے ایک یقینی فیصلہ کر لیا ہے.پس مغربی ممالک میں تبلیغ کے کام کو اگر ہم نے جاری رکھنا ہے اور اگر اس پر جو روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کی خدا تعالی کو جواب دہی سے عہدہ برآ ہونا ہے تو ضروری ہے کہ خود خلیفہ وقت ان
۳۸۷ دوره یورپ علاقوں میں جا کرا نکی مشکلات کو دیکھے اور وہاں کے ہر طبقہ کے لوگوں سے مشورہ کر کے ایک سکیم تجویز کرے جس پر چلنے کیلئے سب مبلغین کو مجبور کیا جائے.ہراک دن جو اس سکیم کے بغیر گزرتا ہے وہ ہمارے روپیہ کو ضائع کر رہا ہے.آج سے دو سال بعد اگر ہم ایسی سکیم تیار کریں اور وہ سکیم موجودہ طریق عمل کے خلاف ہو تو گویا اس دو سال کا تیس چالیس ہزار روپیہ ضائع گیا.فروعی تغیرات تو ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے لیکن اصول اگر طے ہو جاویں تو پھر چنداں خطرہ نہیں رہتا.اس وقت تو بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک امر کے متعلق میں مبلغوں کو لکھتا ہوں اور وہ جواب دیتے ہیں کہ آپکو یہاں کے حالات معلوم نہیں ہیں اور اکثرایسا ہوا ہے کہ بعد میں میری ہی رائے درست نکلی ہے.اگر مجھے وہاں کے حالات معلوم ہوتے تو نہ اس طرح مجھے لکھ سکتے اور نہ میں ان کی بات کو قبول کرتا - پس ان ضروریات کو مد نظر رکھ کر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مذہبی کانفرنس کی تحریک کو ایک خدائی تحریک سمجھ کر اس وقت باوجود مشکلات کے اس سفر کو اختیار کروں.مذہبی کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی ممالک کی تبلیغ کیلئے ایک مستقل سکیم تجویز کرنے اور وہاں کے تفصیلی حالات سے واقف ہونے کے لئے، کیونکہ وہ ممالک ہی اسلام کے راستہ میں ایک دیوار ہیں جس دیوار کا تو ڑنا ہمارا مقدم فرض ہے.پس مذہبی کانفرنس کو میں جانے کا موجب نہ قرار دیتا ہوں اور نہ اس کے لئے جانے کو پسند کرتا ہوں ہاں یہ سمجھتا ہوں کہ اس دعوت کے ذریعہ سے خداتعالی نے ہمیں ہمارا فرض یاد دلایا ہے.بڑے کام بڑی قربانیاں چاہتے ہیں ہمارے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے کام بھی قربانیاں چاہتے ہیں.وہ مذہب جو ایک ملک میں بند رہتے ہیں کبھی دنیا میں غالب نہیں آتے.ہند و تعداد میں دیکھ لو کہ چوبیس کرو ڑہیں یعنی ساری دنیا کے مسلمانوں کے برابر لیکن باوجود اس کے ان کو ہندوستان سے باہر کوئی عزت حاصل نہیں اور ہندومذہب مذہبی حیثیت نہیں رکھتا.اسی وجہ سے کہ یہ مذہب صرف ہندوستان میں ہے باہر نہیں.مذاہب کی ترقی کا راز ان کا دنیا میں پھیل جاتا ہے.ایک تھوڑی تعداد رکھنے والے لیکن دنیا میں پھیلے ہوئے مذہب کے لئے زیادہ موقع ہے کہ وہ دنیا میں پھیل جائے بہ نسبت اس مذہب کے جس کی تعداد زیادہ ہے لیکن وہ ایک ملک سے تعلق رکھتا ہے.پس اگر ہم اپنا فرض اشاعت مذہب کے متعلق ادا کرنا چاہتے ہیں تو تمام ممالک کی تبلیغ ہمیں مد نظر رکھنی چاہئے اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسی مکمل سکیم ہم تجویز کریں جس میں تمام اصولی امور کو مد نظر رکھ لیا جائے ورنہ بہت سارو پیہ ضائع جائے گا اور بار بار اپنے انتظام کو بدلنا ہو گا.(الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۴ء)
۳۸۸ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر مجمع البحرین (تحریر فرموده ۲تا ۹ جون ۱۹۲۴ء) (اس مضمون کا انگریزی ترجمہ ۲۳ ستمبر ۱۹۲۴ء کو مذ ہبی کانفرنس وسئبسلے لندن میں پڑھا گیا) ضروری ہے کہ پہلے میں خدا کے لااِنتہاء فضلوں کا اقرار کروں جس نے ہمیں وہ قویٰ بخش جن کے ذریعے سے ہم اس کو پورے طور پر پالیتے ہیں اور اس سے ہم کلام ہو سکتے ہیں اور میں بے شمار بار اس کی حمدوثناء کرتاہوں کہ اس نے ہمارے لئے علم کی ایسی راہیں کھول دی ہیں جو ہمیں اس کو پا لینے کی طرف لے جاتی ہیں اور اس نے ہم کو ایسا راستہ بتایا جس پر چل کر ہم اس سے تعلق جوڑ سکتے ہیں.سلسلے کی بنیاد اور اس کی موجودہ طاقت ٍ سلسلہ احمدیہ کوئی پرانا سلسلہ نہیں یہ صرف چونتیس سال کے عرصے کا ہے.۱۸۸۹ء میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے خدا کے صریح حکم کے ماتحت اس کی بنیاد ڈالی.آپ وہ مہدی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں جس کی بعثت کی خبر حضرت محمد ﷺنے پہلے سے دی تھی اور مسیح ہونے کا دعویٰ فرماتے تھے جس کے متعلق انجیل اور بعض اسلامی کتب میں پیشگوئی ہے.اور پھر موعود مصلح کا جس کے آخری زمانے میں ظہور کے متعلق تقریباً تمام انبیاء نے پہلے سے بتا دیا تھا.آپ کو ابتداء ہی میں تمام فرقوں اور جماعتوں کی شدید اور زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ کی آواز ثابت قدمی سے آگے نکلی اور اسے بڑھتی ہوئی کامرانی حاصل ہوئی.مسلمان جن کو اس اسلام کے جری کی بعثت پر خوش ہونا چاہئے تھا اس کے اشد ترین دشمن ہوۓ اور ہیں.علمائے اسلام نے اس کے خلاف فتوے جاری کر دیئے کہ یہ جھوٹا ہے اور ملحد ہے اس کی
۳۸۹ دوره یورپ کتابیں پڑھنایا اس سے باتیں کرنا بلکہ یہاں تک کہ اس سے مصافحہ کرنا ایسے زبوں جرائم ہیں کہ ان کے مرتکب کو دائره اسلام سے خارج کر دینے کے لئے کافی ہیں.باوجود ہر قسم کی مخالفت کے لوگوں کے قلوب سلسلہ کے مقدس بانی کی طرف کھنچے جانے لگے اور جو کوئی بھی آپ سے ملتا آپ کی کتابیں پڑھتا وہ آپ کی صداقت سے بے حد متاثر ہوتا حتّیٰ کہ اس وقت جبکہ ۱۹۰۸ء میں آپ نے وفات پائی (اپنے مسیحیت کے دعوے کے ۱۸ برس بعد) آپ کے پیروؤں کی تعداد چالیس کَس سے ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئی اور آپ کے سلسلے نے ہندوستان کے غیر ممالک مثلًا افغانستان' برما ،سیلون اور افریقہ میں بھی پیرو پیدا کر لئے.آپ کی وفات کے بعد آپ کے پہلے جانشین استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین کے زمانہ میں سلسلہ بدستور ترقی کرتا چلا گیا اور پھر خلیفہ اول کی وفات کے بعد جبکہ (یہ مضمون )لکھنے والا اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ کاامام مقرر کیا گیا توسلسلہ اور بھی سرعت سے پھیل رہا ہے.اس وقت انگلینڈ، جرمنی ،اضلاع متحده امریکہ، مغربی افریقہ ،گولڈ کوسٹ، مصر “فارس ،بخارا، ماریشس اور آسٹریلیا میں با قاعدہ مشن کام کر رہے ہیں اور ہندوستان سے باہر افغانستان ، بخارا فارس ،عراق، عرب حجاز ،سیریا، مصر الجیریا، زنجبار ،کینیا، یوگنڈا نٹال (جنوبی امریکہ) گولڈ کوسٹ (گھانا)، سیرالیون ،نائیجیریا، سیلون برما، سٹریٹ سیٹلمنٹ ،جزائر فلپائن ،ماریشس آسٹریلیا، فرانس، انگلینڈ ،ہالینڈ ،اضلاع متحده امریکہ،ٹرینیڈاڈ اور کوسٹاریکا میں احمدیہ جماعتیں پائی جاتی ہیں.ایک انگریزی رسالہ اور پانچ اردو اخبارات و رسائل سلسلہ کے مرکز سے شائع ہوتے ہیں.ایک بنگالی رسالہ بنگال سے نکلتا ہے ایک انگریزی اور ایک تامل اخبار سیلون سے شائع ہوتے ہیں ایک فرانسیسی اخبار ماریشس سے شائع ہوتا ہے اور ایک سہ ماہی رسالہ امریکہ سے شائع ہوتا ہے.جماعت کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے اور اس میں تمام اقوام و مذاہب کے لوگ شامل ہیں.عیسائی ،سکھ ،ہندو، یہودی، زرتشتی اور اسلام کے مختلف فرقوں کے لوگ سلسلہ میں شامل ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں.اطلاع متحده امریکہ میں تبلیغ کا کام صرف تین سال ہوئے شروع کیا گیا تھا اور اس قلیل عرصہ میں وہاں ایک ہزار سے کچھ اوپر افراد سلسلہ میں داخل ہو گئے.سلسلہ کا تعلق اسلام سے ٍ احمدیت اسلام سے وہی نسبت رکھتی ہے جو کہ عیسائیت اپنی ابتداء میں یہودیت سے رکھتی تھی.جیسا کہ میں نے پہلے بیان
۳۹۰ دوره یورپ کیا ہے احمد علیہ السلام کے دعاوی میں سے ایک دعویٰ یہ تھا کہ آپ مسیح موعود ؑہیں اس بات کو ذہن میں رکھ کر ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ احمدیت خود اسلام ہی ہے نہ کہ اس کی شاخ.مسیح موعود کسی نئے قانون یا شریعت کے حامل نہ تھے بلکہ صرف اسلام کی حقیقی تعلیم کے شارح نے جس طرح یہودی مذہب کی تعلیم اس لئے متروک ہو گئی تھی کہ اس کو بدعات اور تحریفات سے پُر کر کے موسیٰ کی اصل تعلیم کہا جاتا تھا اسی طرح مسیح موعود کے زمانے میں اس تعلیم کو جسے اسلام کی طرف منسوب کیا جا تا تھااصل اسلامی تعلیم سے کوئی مماثلت نہ تھی.مسیح موعود کے دعوی ٰکی اصلیت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسیح موعود کے دعوے کی اصل حقیقت کو بیان کردیا جائے چونکہ عیسائی اور مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام ابھی تک آسمانوں میں کہیں زندہ بیٹھے ہیں اور وہ اس دنیا میں ایک مقررہ وقت پر واپس تشریف لاویں گے اس لئے جب انہیں مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خبر دی جاتی ہے تو وہ یہ گمان کیا کرتے ہیں کہ احمدی مسئلہ تناسخ کے قائل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روح آپ میں حلول کر آئی ہے.دعویٰ موعود سے آپ کی صرف یہ مراد تھی کہ آپ عیسی علیہ السلام کی صفت (خصلت )و قوت کے حامل ہیں.اس نزول ثانی کے سوال کو خود عیسیٰ نے حل کر دیا ہے یہودیوں کا یہ اعتقاد تھا کہ مسیح کے آنے سے پہلے الیاس ( ایلیا) کا دوبارہ ظہور ہو گا اور یہ ملاکی نبی کی کتاب میں مذکور ہو چکا تھا کہ یہ (ایلیا) و الیاس کانزول ثانی مسیح کی آمد کی علامت ہے.لکھا تھا :.’’دیکھو خداوند کے بزرگ اورہولناک دن کے آنے سے بیشتر میں ایلیانبی کو تمهارے پاس بھیجوں گا".۴؎ مگر جیسا کہ ظہور پذیر ہوا.عیسیٰ علیه السلام مبعوث ہو گئے لیکن کوئی الیاس آسمانوں سے نہ اترا جب عیسیٰ علیہ السلام کو اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ.’’کیونکہ سب نبیوں اور توریت نے یو حنا کے وقت تک آگے کی خبر دی اور الیاس جو آنے والا تھا یہی ہے.چاہو تو قبول کرو" – ۵؎ عیسیٰ علیہ السلام نے اس طرح تشریح کی کہ جب پیشگوئیاں کسی نبی کا آسمان سے دوبارہ نزول
۳۹۱ دوره یورپ بتائیں تو ایسے نزول کا در حقیقت یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس نبی کا مثیل نبی.پس اسی طرح مسیح کی دوبارہ آمد کی تاویل کرنی پڑے گی.یہ تعبیر صرف اس نتیجہ پر مبنی نہیں ہے جو ایک خاص مثال لے کر نکالا گیا بلکہ اس کو ثابت کرنے کے لئے یہ صریح شہادت بھی ہے کہ عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی سے ہمیشہ اپنے سوا کسی اور نبی کی آمد مراد لیتے رہے.آپ فرماتے ہیں.’’اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہ کہوگے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے ۶؎ یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ صرف وہی لوگ مسیح کو دوبارہ دیکھ سکیں گے جو یہ اعتقاد رکھیں کہ آنے والا اس کے نام پر ظاہر ہو گا لیکن جو اس عقیدہ سے وابستہ ہیں کہ وہی عیسیٰ دوباره آنا چاہئے وہ انتظارہی کرتے چلے جائیں گے اور ان کا انتظار بے سود ہو گا.اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا مسیح کے نزولِ ثانی کے متعلق جو کچھ بھی لکھا گیا تھا احمد علیہ السلام کے زمانے اور آپ کے ہاتھوں پر پورا ہوا.یہ کہا گیا تھا کہ جنگیں ہوں گی.چنانچہ جنگیں کثرت سے ہوئیں اور ایسے پیمانے پر ہوئیں کہ پہلے کبھی نہ ہوئی تھیں خصوصاً آخری جنگِ عظیم.کہا گیا تھا کہ وبائیں پھیلیں گی اور باوجود دنیا کی عظیم الشان ترقی کے جو اس نے علم حفظِ صحت میں کی انفلوئنزا او ر طاعون نے بے مثال تباہیاں برپا کیں.کہا گیا تھا کہ زلزلے آئیں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس صدی کے دوران میں جو زلزلوں کی کثرت اور شدت مشاہدہ کی گئی ہے اس سے دو چند زمانہ میں بھی پہلے نہ دیکھی گئی تھی.کہا گیا تھا کہ قحط پڑیں گے اور باوجود ذرائع ارسال و ترسیل کے اس قدر ترقی یافتہ ہونے کے زمین کے بعض حصوں کو شدید ترین قحط دیکھنے پڑے.پھر پیشگوئیوں کے مطابق آسمان کے اختیارات کمزور کئے گئے گویا روحانی حکومت اپنی انتہاءپر ہے اور لوگوں نے روحانی امور کے متعلق پرواکر نابالکل ترک کر دیا.تمام یہ پیشگوئیاں جنہوںنے مسیح کی بعثت کی خبر دی صاف بتا رہی ہیں کہ موجودہ زمانہ ہی ہے جس میں مسیح کو ظاہر ہونا چاہئے.زمانے کی شہادت کہ یہی وقت ہے مسیح کے ظہور کا متذکرہ بالا پیشگوئیوں کے علاوہ دنیا کی حالت خود ایک نبی کے نزول کا تقاضا کر رہی ہے کیونکہ آج ہم اس روشنی اور اس ایمان کو کہاں دیکھ سکتے ہیں جس کا
۳۹۲ دوره یورپ انبیاء علیهم السلام کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.آج کون ہمیں وہ نشانات اور معجزات دکھاسکتا ہے جو لوگ انبیاء علیھم السلام اور ان کے صحابہ کے ہاتھوں پر دیکھا کرتے تھے.ہم ہر ایک مذہب کی کتابوں میں لکھا ہوا تو بہت کچھ پاتے ہیں لیکن اس کا علم ہم کو کہاں سے ملے.وہ غیب گوئی کا انعام کہاں ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کو حاصل تھا.وہ نشان کہاں ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کے حواری دکھایا کرتے تھے.ہر ایک مذہب کی کتاہیں زنده خد اکا تذکرہ کرتی ہیں لیکن کیا وہ زنده خداآج بھی زندہ ہے کیا وہ آج بھی اپنے چاکروں سے وہی تعلقات رکھتا ہے جو یہودا (یہوا) موسیٰ کے پیروؤں کے ساتھ رکھا کرتا تھا.یا جو آسمانی باپ اپنے حواریوں سے رکھتا تھا ،یا جو یزدان زرتشتیوں سے، یا اللہ مسلمانوں سے رکھا کرتا تھا.اگر نہیں تو اس تبدیلی کی طرف کوئی وجہ منسوب کی جائے ؟ اور کیا یہ تبدیلی خدامیں ہوئی ہے یا انسان میں ؟ہم دیکھتے ہیں کہ اس غرض سے کہ اس سوال کے حل سے اعراض کیا جائے اور یہ قبول کرتے ہوئے کہ یہ تبدیلی واقع ہوئی ضرور ہے مختلف مذاہب کی الہامی کتب کی عبارات کو ترمیم کرنے کی خواہش کی گئی ہے اور عبارات کی طرف ایسے معانی منسوب کئے گئے ہیں جن کے الفاظِ عبارت متحمل نہیں.لیکن ہم ان حداقتوں کا کیسے انکار کر سکتے ہیں جو متفق طور پر تمام مذاہب صد ہا برسوں سے مانتے چلے آئے ہیں.اگر خدا اپنے خادموں سے پہلے وقتوں میں ہم کلام ہوا کرتا تھا تو آج وہ ان سے کیوں نہیں بولتا.اگر یہ اس کی عادت تھی کہ وہ تکلیف ,شک یا غلطی کے وقت اپنی ہدایت بھیجا کرتا تھا تو وہ آج لوگوں کے لئے راہنمائی کا دروازہ کیوں نہیں کھولتا کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تمام مذاہب باطل ہو گئے اور اب ان میں کوئی صداقت باقی نہیں مل سکتی کہ ان میں سے کسی پر عمل کر کے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکتا یا یہ ممکن ہے کہ سچامذہب تو دنیا میں موجود ہے لیکن لوگ اس پر عمل نہیں کرتے اور اس لئے وہ روحانیت میں کوئی ترقی نہیں کر سکتے.ان میں سے کوئی بھی خیال ہم قبول کریں یہ سوال اٹھے گا کہ کیوں خدا ایک نیامذ ہب الہام نہیں کر دیتا؟ اگر اس کے نزدیک ضرورت ہے کیوں وہ ایک مصلح نہیں مبعوث کردیا جو لوگوں کو صحیح راستے کی طرف لے جائے تاکہ اس کا قرب حاصل کریں اور اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کریں.یہ بات ناقابل قبول ہے کہ بنی نوع انسان کو گناہ اور دنیاپرستی کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھ کر وہ رحیم و مشفق خد ابے پر واہ ر ہے اور ان کی راہنمائی اور ہدایت کے لئے کوئی انتظام نہ کرے.
۳۹۳ دوره یورپ يقيناً خد ا ایک باپ اور ایک ماں سے زیادہ مہربان و رحیم ہے کیو نکہ ماں اور باپ صرف ایک ذریعہ ہوتے ہیں بچہ کی ولادت کا.لیکن خدانہ صرف خالق ہے بلکہ انسانی زندگی کا مقصد ومدعا ہے بچہ اور والدین کا رشتہ عارضی ہے لیکن بندے اور خدا کا رشتہ ابد الآباد تک قائم رہنے والا ہے.بہرکیف اگر وہ اپنے خاوموں کے لئے ان کی آزمائشوں میں د رد مند و مہربان ہے اور پھر بھی ان کی راہنمائی کے لئے کوئی تدبیر نہیں کرتا تو ہمیں یا تو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ اس میں بنی آدم کو صداقت کی طرف ہدایت دینے کی طاقت ہی نہیں اور یا یہ کہ خدا سے جوڑ پیدا کرنا انسانی پیدائش کی غرض ہی نہیں لیکن یہ ہر دو پہلو عقل سلیم نہیں کرتی.یہ گمان کرنا کہ وہ جس نے اس کائنات کو پیدا کیا اس میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ جنسِ بشر کی روحانی ہدایت کے سامان مہیا کر سکے بالکل بیہو وہ خیال ہے.کل کے خالق میں لازمی ہے کہ جزو کے خلق کی طاقت ہو.اگر ہم کسی خالق کا وجود قبول کرتے ہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ قطعی اور کامل قدرت والا ہے اور اس کے لئے کوئی چیز غیر ممکن نہیں اور وہ ہر چیز کو سوائے ایسی کے جو اس کے تقدس اور کمالیت کے متعارض ہو بنا سکتا ہے.نہ ہی ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ انسان صرف اس دنیاوی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے کیونکہ اس صورت میں ہمیں مجبور اً یہ ماننا پڑے گا کہ اس کامل حکیم و علیم خدا نے اس کائنات عظیم کو لغو پیدا کیا.کبھی کوئی مشین اس غرض کے لئے نہیں بنائی گئی کہ وہ صرف اپنے آپ میں چلتی ہے ہر ایک مشین کسی خاص مطلب کے لئے تیار کی جاتی ہے.اگر پیدائشِ انسان کی غرض صرف کھانا پینا اور سونا ہوتی تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کو بھی اس لئے پیدا کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے آرام و آسائش کو بر قرار رکھے.اگر ایک فرد ِبشر کی پیدائش کی کوئی غرض مد نظر نہیں تو پھر آپس میں ایک دوسرے سے تعاون زندگی کا مقصد قرار نہیں دیا جا سکتا.علاوہ بریں ہمیں فرض کرنا پڑے گا کہ جتنے راستباز سیریا، عرب، فارس، ہند میں خواہ کسی ملک میں بھی ظاہر ہوئے نعوذ بالله تمام کاذب او رملحد تھے.کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ ایسے انسان جو بوجہ بنی آدم کی ذہنی ،اخلاقی اور روحانی ترقی کے موجب ہونے کے واجب الاحترام میں اور جنہوں نے لوگوں کے قلوب پر ایسا اثر چھوڑا ہے کہ مرورِ زمانہ اسے نہیں مٹا سکا وہ سب مجنون تھے اور اپنے ہی خیالات کے ڈھکوسلوں کو ایسی چیزیں بکھتے تھے جن میں زیست ہے اور جن کی عالم میں کچھ ہستی ہے.اگر ایسا نہیں اور یقینا ًنہیں تو اس نتیجہ سے گریز کی کوئی راہ نہیں کہ دنیا میں کوئی مذہب ضرور چاہئے جو بندے کو خدا کی طرف لے جائے.
۳۹۴ دوره یورپ اگر دوسری طرف ہم دیکھیں کہ تمام مذاہب ایسا کامل انسان پیدا کرنے سے قاصر ہیں جیسا کہ وہ گذشتہ زمانوں میں پیدا کرتے تھے اور یہ کہ اب وہ خدا اور بندے کے درمیان وہ رشتہ قائم کرنے سے عاجز ہیں جو پہلے وقتوں میں ان کے درمیان ہوتا تھا تو کیوں خدا دنیا کے سامنے وہ صحیح مذہب اس طور سے نہیں پیش کر دیتا کہ جسے اس کی قدرت و طاقت کا ثبوت شمار کیا جائے تاوه مذہب لوگوں کے دلوں میں ایسی تبدیلی پیدا کردے جس کا پیدا کر دینامذہب کا واحد مقصد ہے.مختصر یہ کہ جس طور سے بھی ہم اس معاملہ پر نظر کریں ہمیں مجبوراً اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ دنیا کی موجودہ حالت بلند آواز سے کسی الہٰی ہدایت یافتہ معلم کو پکار رہی ہے اور کے انسانوں کی رو حیں مضطرب عاشقین کی مانند تمنّا و آرزو سے آسمان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور وہ اپنے درد سے بھرے ہوئے دلوں اور پانی بہاتی ہوئی آنکھوں سے کمال عاجزی سے التجاکررہی ہیں کہ ترس کھا اور ہم پر اپنے فضل اور رحم کے دروازے کھولدے اور ہمیں بھی وہ کچھ دے جو ہمارے اسلاف کو دیا اور ہماری روحانی ترقی کو دور کرتے ہوئے اور ہماری آنکھوں کو نا بینائی اور دلوں کو نجاست سے صاف کرتے ہوئے اس ابدی زندگی کی طرف راہنمائی کر جو پیدائشِ انسان کی غرض و غایت ہے.مسیح موعود نے اسلام کو دوبارہ زندہ کیا میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ مسیح موعود کسی نئے مذہب کے لانے والے نہ تھے بلکہ آپ اسلام کی خدمت کرنے ،اس کو نئی زندگی دینے، اس کی اشاعت کرنے اور بنی آدم کو اسلام کی معرفت،، خدا کی طرف لے جانے کے لئے بھیجے گئے تھے میں اب یہ بیان کروں گا کہ یہ کس طرح عمل میں لایا گیا.سب سے پہلا سوال جس کامذ ہب کے ساتھ تعلق ہے تو حید الہیٰ ہے اگر کوئی مذہب خدا کے وجود کی کامل شناخت نہیں کروا سکتا تو وہ مذہب کہلانے کا ہی مستحق نہیں.مسیح موعود کی بعثت کے وقت توحید الہٰی پر تیّقن دنیا سے بکلّی نابود ہو چکا تھا.اس میں شک نہیں کہ ہر ایک مذہب وحدت الہٰی بیان کرنے کامد عی ہے لیکن اس مسئلے کا صحیح مفہوم آج سے پہلے کبھی ضبط نہیں ہوا.لفظ تو حیدِالہیٰ یا تو گونا گوں مشرکانہ خیالات پر حاوی تھا یا زیادہ سے زیادہ ایک خدا کی ہستی پر محض عقیدۃًً استعمال کیا جاتا تھا لیکن ظاہر ہے کہ خدا نے انبیاء صرف اس واسطے نہیں مبعوث کئے تھے کہ وہ اس اصول کی اشاعت کردیں کہ خدا ایک ہے اس کے سوا دوسرا نہیں کیونکہ صرف اس
۳۹۵ دوره یورپ اصل کو مان لینا انسان کی زندگی پر کوئی گہرا اثر نہیں ڈال سکتا.غرض یہ تھی کہ انسان اس طرح مسئلہ توحید الہٰی کے ماتحت اپنی زندگی کو مرتب کرے کہ وہ اسے اخلاقی اور روحانی تکمیل تک پہنچائے.یا یوں کہو کہ وہ کسی چیز یا ہستی کے ساتھ اس محبت سے بڑھ کر محبت نہ رکھے جو وہ خدا سے رکھتا ہے اور وہ کامل بھروسہ اور کامل اعتماد خدا پر رکھے اور اس کے ماسوا کسی چیز یا ہستی کو اپنے معاملات پر کسی قسم کا مختار نہ خیال کرے.ایسا شخص جو وحدت خدا پر ان معنوں سے اعتقادرکھتا ہے اور اس پر کاربند ہوتا ہے لاَ جَرَم ایک اخلاقی تغیر کو اپنے اندر دیکھے گا.وہ کبھی کسی اور چیز یا انسان کی محبت کو اس محبت پر ترجیح نہیں دے گا جو وہ خدا سے رکھتا ہے اور اس سے زیادہ وہ اور کسی شئے سے نفرت نہیں کرے گا جتنی کہ خدا سے دور ہو جانے کے خیال سے.ایسے انسان کے لئے گناہ کا ارتکاب غیر ممکن ہو جاتا ہے اور یہی وہ سچا مسئلہ توحید الہٰی ہے جو مذہب کی تعلیم کا اصل مقصد ہے نہ کہ خدا کی ہستی پر محض زبانی اقرا ر جو نہ تو خدا کو راضی کر سکتا ہے اور نہ ہی انسان کی زندگی پر کوئی عملی اثر ظاہر کر سکتا ہے.اس بنیادی اصل کو قائم کر دینے کے بعد مسیح موعود نے شرک کی تمام ان اقسام کو جڑ سے اُکھاڑ کر مٹا دیا جو مذہب میں داخل ہو گئی تھیں.مسئلہ توحید الہٰی کے بعد وہ سوال جو سب سے زیادہ انسانی زندگی پر اثر رکھتا ہے وہ بندے اور اس کے بنانے والے کے درمیان کے رشتہ سے متعلق ہے میں اپنے بنانے والے کے سامنے کیا ہوں اور اس کی میرے ساتھ اس ذاتی محبت کی کیا غرض ہے جو اس نے میری پیدائش کے لمحے سے میرے ساتھ رکھی ہوئی ہے یہ سوال ہیں جو انسان کی زندگی کے ہر شعبہ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں ان سوالات کا صحیح فہم انسان کے لئے نیکی کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان سوالات کے متعلق غلطی اس کے لئے ترقی کے دروازے بند کردیتی ہے.ان سوالات کے متعلق مسیح موعودنے دیکھا کہ بنی آدم غلط رستے پر چل رہے ہیں اور آپ نے ان سوالات کا میں مفہوم بتا کربنی نوع انسان کو بے حد ممنون احسان کردیا ہے.آپ نے بتایا کہ انسانی پیدائش کی غرض لا محدود ترقی کرنا ہے اور اسی لئے یہ امرغير ممکن الفہم ہے کہ خدا نے خودہی اس غرض کو باطل کردیا ہو جس کے لئے انسان کو پیدا کیا تھا.انسان زنجیروں سے بندھا ہوا پیدا نہیں ہوا کہ وہ ان کو توڑ نہیں سکتا بلکہ خدا اس پر کبھی بھی ترقی کی راہیں بند نہیں کرتا.یہ خود انسان ہی ہے جو خود اپنے فعل سے ایسا کرلیتا ہے نہیں بلکہ انسان اس طرح اپنے آپ پر دروازے بند کرلیتا ہے تو خدا ایسے سامان کرتا ہے کہ وہ اس کے لئے پھر کھول دیئے جائیں.پھر آپ نے بتایا کہ تمام انسان خدا سے یکساں رشتے
۳۹۶ دوره یورپ رکھتے ہیں اور وہ کسی کے ساتھ سوتیلے باپ والا سلوک نہیں کرتا.بڑے سے بڑے نبی اور مصلح بھی بلحاظ رشتہ الہٰی بنی آدم میں سے کسی سے زیادہ نہیں اور کامیابی کے دروازے جو ان کے لئے کھلے تمام انسانوں کے لئے کھلے ہیں.تمام انبیاء را ہبر کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی خدا اور اس کی مخلوق کے در میان بحیثیت توسط کے نہیں کیونکہ خدا کو انبیاء کی بہبودی اور ان کی جن کی طرف وہ بھیجے جاتے ہیں یکساں محبوب ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بوجہ اپنے اخلاص اور نیکی کے دو سروں سے خدا کا زیادہ قرب حاصل کرلے لیکن وہ کتنا بھی قریب ہو جائے یا کتناہی امتیاز حاصل کرلے وہ دوسرے کے لئے ترقی کے دروازے بند نہیں کر سکتا.ہر فردبشر کے لئے ہر وقت روحانی ترقی کے بلند ترین مقام تک پہنچنے کے لئے راہ کھلی ہے آسمان کے دروازے ہر شخص کے لئے جو کھٹکھٹاتا ہے کھلے ہیں.ازاں بعد آپ نے وہ غلط خیال دور کیا جو تمام لوگوں میں عام ہو چکا تھا کہ خدا کے فضل اور رحم کا انکشاف صرف گزشتہ زمانوں سے ہی وابستہ تھا اور اب اس کی عنایات کے دروازے لوگوں پر مسدود ہیں.آپ نے بتایا کہ ایسا خیال گناہ اور گستاخی کے مترادف ہے کہ خدا کی صفات میں سے کوئی صفت کسی زمانہ میں معطل بھی ہو جاتی ہے.ایک زندہ مشین کو زندگی کی علامات ظاہر کرنی چاہئیں جیسا کہ ایک مخلوق وجود کی یہ علامت ہے کہ وہ اپنے سسٹم کے اندر ہمیشہ زندگی بخش مواد جذب کرتا رہتا ہے ایسے ہی ہے ایک زندہ خالق کی نشانی ہے کہ وہ اپنی مخلوقات پر اپنی زندگی بخش صفات کا پَرتو ڈالتا ہے.اگر کوئی زندہ خدا موجود ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس کی صفات کا تیز اثر دنیا میں لگاتار مشاہدہ کر سکیں.ایک خطرناک غلطی جو مسیح موعود کی بعثت کے وقت دنیا میں موجود تھی اور جس نے تمام مذاہب کی بنیادوں کو ایسے کھالیا کہ مذہب کا مغزہی بکلّی محرّف ہونے لگا اور جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ انسانی دماغ کے خیالات اور وہموں کو وحی الہٰی کی روشنی خیال کیا جانے لگا یہ وحی کی ایک بالکل نادرست تعریف کی گئی تھی جس کو عام لوگ ماننے لگ گئے.مسیح موعود نے اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر بتایا کہ وحی صاف الفاظ میں بھیجی جاتی ہے اور اس کے بھجنے کا طریق ایسایقینی اور بِلاشُبہ ہے جیسے کہ ایک آدمی کاد و سرے سے کلام کرنا.آپ نے بتایا کہ جب تک وحی الفاظ میں نہ بھیجی جائے وہ شک سے پاک نہیں ہو سکتی اور وہ کامل یقین تک
۳۹۷ دوره یورپ نہیں لے جاسکتی کیونکہ اگر معمولی القاء ہی وحی ہے تو ہر ایک آدمی اپنے آپ کو ملہم خیال کر سکتا ہے چنانچہ مفہومِ وحی میں اس غلطی کے بعد واقع میں کئی نظیریں ایسی ملتی ہیں.وحی کی اس تشریح سے مسیح موعود نے دنیا پر ایک بہت بڑا احسان کیا کیونکہ آپ نے اس طریقہ سے مذہب پر اس خطرناک حملے کو روکنے کے لئے ذریعہ مہیا کردیا جو تمام الہامی کتب کی سند کو ان غلط معنوں کی وجہ سے برباد کر رہا تھا کہ وحی صرف القاء ہے اور خدا کی کامل شناخت کے حصول کے لئے ایسی یقینی امید پیدا کردی جو راہ میں بھٹکے پھرنے والوں کے قدموں کو لازما ًتیز کردیگی.ٍ ایک اور ضروری سوال جو خدا کی ذات کے ساتھ تعلق ہے اور جو اس رشتہ پر جو بندے اور خدا کے درمیان اور جو بندے اور بندے کے درمیان ہے یکساں اثر رکھتا ہے یہ ہے کہ کونسی قومیں وحی حاصل کرنے والی رہی ہیں اور کن اصولوں پر خدا نے انہیں وحی لینے کے لئے چُنا.اس سوال کے عمل کے بغیر وہ اصلاح جو مسیح موعود نے الوہیت کی حقیقت کے متعلق دوسرے سوالوں کو حل کر کے کی ہے ادھوری رہتی ہے.اس سوال کے متعلق آپ نے بتایا کہ جب کہ خدا کل کائنات کا آقا ہے تو اس کی ہدایت کسی خاص قوم میں محدود نہیں ہو سکتی.جب وہ تمام بنی نوع انسان کامالک ہے اور ان تمام کو اس نے سوچنے کے لئے فہم بخشے ہیں تو ان میں سے کسی کو بھی وہ اپنی ہدایت سے محروم نہیں رکھ سکتا جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہے ان من امة الا خلا فیھا نذیر کہ کوئی قوم نہیں جس کے اندر نذیر نہ آیا ہو.خدا نے اپنے رسول تمام اقوام میں بھیجے اور ہر زمانے میں بھی اور جس طرح کہ سورج تمام دنیا کو روشن کردیا ہے وحی کے نور سے بھی زمین کے تاریک سے تاریک کونے کو روشن رکھا.اس اصول کے ماتحت آپ نے ہندوستان کے انبیاء کرشن، رام چندر، بدھ اور فارسی نبی زرتشت کی صداقت ثابت کی اور ان کے دعاوی کے انکار کو خدا کی عالمگیر ربوبیت کے انکار کے مترادف قرار دیا.آپ نے قرآن کریم سے یہ ثابت کیا کہ نہ صرف وہ آدمی خدا کے نیک بندے تھے جن کی خدمات جو انہوں نے بنی آدم کی کیں تاریخ میں درج ہیں بلکہ خدا کی صفات اور اس کا کلام اس امرکی شہادت دیتا ہے کہ ہر ایک قوم میں خواہ اس کی روایت محفوظ ہوں یا نہ ہوں نبی آئے اور یہ کہ انبیاء کی معرفت ہد ایت کاملنا انسانی حق ہے جو خدا کبھی بھی نظرانداز نہیں کر سکتا.
۳۹۸ دوره یورپ یہ امر کہ کس حد تک اس اصول نے تمام قوموں کے لئے خدا کے ساتھ محبت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور انسانوں کے اندرونی تعلقات کو اخوت و یگانگت کی بنیاد پر رکھ دیا ہے اور تمام مذاہب کے بانیوں اور راستبازوں کو ہتک و اہانت سے محفوظ کر دیا ہے کسی طویل بیان کو نہیں چاہتا کیونکہ ہرایک عقلمند آسانی سے یہ بات سمجھ سکتا ہے.دوسری طرف مسیح موعودنے بتایا کہ انسانی عقل نے آہستہ آہستہ نشوونماپائی ہے اور اس کی ترقی کے مختلف مدارج ہیں.وہ کامل علیم خدا ان درجات ترقی کے مطابق ہمیشہ اپنی تعلیم بھیجتا رہا حتی کہ وہ وقت آیا کہ جب انسانی عقل کامل نشو و نما پاچکی اور بنی آدم کے مختلف فرقوں کے آپس میں میل جول کے ذرائع اس حد تک پایہ تکمیل کو پہنچ گئے اور دنیا کی ترقی میں اس درجہ کو جاپہنچی کہ تمام کی تمام واحد ملک اور واحد قوم ظاہر ہونے لگی اس درجہ پر خدا نے اس آخری اور مکمل الہامی شریعت یعنی قرآن کریم کے ساتھ آخری شرعی نبی یعنی محمد ﷺ کو بھیجا جو ہر زمانے کی ضرورت کے مطابق اپنے اندر تعلیم رکھتاہے.مسیح موعود نے اس بات کی تشریح کر دینے میں دو راندیشی سے کام لیا اور اس امر پر زور دیا کہ یہ مسئلہ کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں سے قرآن سب سے آخری اور مکمل ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتاکہ انسان عقلی ترقی کے آخری درجہ پر پہنچ چکا ہے اور آگے نہیں چل سکتا کیونکہ انسانی دماغ ترقی کے راستے پر ہمیشہ ہمیش ترقی کرنے والا ہے اس دنیا میں بھی اور آخری دنیا میں بھی.اس کے برخلاف آپ نے بتایا کہ کتاب جتنی مکمل ہوگی اتناہی اسے علمی ترقی میں زیادہ امداددینی چاہئے.ایک الہامی کتاب کے مضامین کے پرکھنے کے لئے آپ نے جو حیرت انگیز کسوٹی پیش کی اور جس نے تمام ان لوگوں کے رویے کو بدل دیا جو الہامی کتب کے متعلق صداقت کے متلاشی تھے وہ یہ تھی کہ خدا کا کلام خدا کے کام کی مانند ہونا چاہئے جس طرح اس کے کام ان لامحدود بھیدوں کا خزانہ ہیں جن کو ابتدائے آفرینش سے آج تک انسان نہیں پاسکا اسی طرح اس کا کلام بھی نہ ختم ہونے والے علم و دانائی کا خزانہ ہونا ضروری ہے.اس کے ماتحت آپ نے ثابت کیا کہ قرآن کریم مادی دنیا کے خزانوں سے کہیں زیادہ خزانے اپنی اندر رکھتا ہے اور وہ ان تمام پر کھولے جاتے ہیں جو ان کی تلاش کرتے ہیں.وہ کتاب جو اپنے اندر ایسی مکمل تعلیم رکھتی ہو، جو ہر زمانے کی ضرورتوں کے مطابق ہے اور جو تمام خرابیوں کا علاج مہیا کرے اور جو ہر زمانے میں اخلاقی و روحانی نشوونما کے ذرائع بہم
۳۹۹ دوره یورپ پہنچاۓ وہ خود خدا کی ارسال کردہ کتاب ہی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ انسانی نشوونما کے فلسفہ کو بیان کرتی ہے اور یہ انسانی لیاقت سے بالا تر ہے کہ وہ ہر وقت تبدیل ہوتے رہنے والی ہستی کے نشوونما کے فلسفہ کا پورا پورا علم حاصل کر سکے.اسلام کی تعلیم پر اکثر حرف گیری ہوا کرتی ہے لیکن جیسا کہ مسیح موعود نے ثابت کر دکھایا تمام اعتراضات جو اسلام پر کئے جاتے ہیں یا تو قلت تدبر یا ذاتی خیالات کو معقولیت پر فوقیت دینے کا نتیجہ ہوتے ہیں.اسلام ایک ایسا طریقہ تعلیم پیش کرتا ہے کہ اگر اس کو ایسے عقل اور غور کےفیصلہ پر چھوڑ دیا جائے جو آبائی روایات یا ذاتی خیالات سے غیر متاثر ہوں تو ایک شخص معلوم کرے گا کہ انسان کی روحانی ترقی کے لئے اس سے بہتراور کامل کوئی شریعت نہیں.یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام مذہب کو بزور شمشیر پھیلانے کی اجازت دیتا ہے حالانکہ قرآن صاف کہہ رہاہے ’’دین میں کوئی جبر نہیں کیونکہ ہدایت کو گمراہی سے بالکل کھول دیا گیا ہے اور ہر شخص دونوں میں فرق کر سکتا ہے" ۸؎ ہاں مسلمانوں کو صرف ان لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اسلام کو برباد کر دینے یا مسلمانوں کو اس سے جبراًمر تد کرنے کی غرض سے ان سے جنگ کرتے ہیں اور مسلمانوں کو جنگ کی صرف اتنے وقت تک اجازت ہے جب تک دشمن جنگ صرف اس غرض کو پیش نظر رکھ کر کرتا ہے جب دشمن جنگ کو ختم کردینا چاہے تو انہیں بھی ختم کردینی چاہئے اور ان کو پیغام صلح کبھی صرف غصہ کی وجہ سے نامنظور نہیں کرنے چاہئیں یا اس انتقام کی خواہش کی وجہ سے کہ ہم دشمن کو پِیس دیں تا آئندہ بے فا ئد ہ جان کا نقصان نہ ہو.تمام جنگیں جو نبی کریمﷺ نے کیں دفاعی تھیں اور وہ ان دشمنوں کے ساتھ کی گئی تھیں جنہوں نے اپنے گھر اسلام کو نیست و نابود کر دینے کیلئے چھوڑ دیئے.غلامی اور اسلام پھر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام غلامی کا مؤیّد ہے حالانکہ اسلام اس کا سب سے بڑاا دشمن ہے اور اس نے غلامی کے ان تمام طریقوں کا خاتمہ کردیا ہے جو ایامِ اسلام سے پہلے رائج تھے.اسلام ان لوگوں کو غلام بنالینے سے منع کرتا ہے جو بلا وجہ پکڑ لئے جائیں یا صرف اس لئے کہ وہ دشمن کی قوم یا گروہ میں سے ہیں یا جو دنیاوی جنگوں میں قیدی لئے جائیں.اسلام صرف ایسے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت دیتا ہے جو ایسی جنگ میں گرفتار
۴۰۰ دوره یورپ کئے جاتے ہیں جو دشمن نے اس غرض سے کی کہ تلوار کے زور سے ایک مذہب کی قبولیت کو روکا جائے یا اس سے مرتد ہونے پر مجبور کیا جائے.اور اس میں کیا شک ہے کہ ایسی کوشش ایک ایسا جرم ہے جو اس کے مرتکب کو دائرہ انسانیت سے خارج کردیتا ہے وہ لوگ جو ایک شخص کی جسمانی آزادی کے چِھن جانے پر اظہار نفرت کرتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے کہ جس کو سزاملی ہے وہ بروزِ شمشیر اس بات کی کوشش میں تھا کہ لوگوں کو جبراً خدا کی عبادت سے روکا جائے اور انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی رو حیں شیطان کے اختیار میں دیدیں.اگر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا تولکھوکھہا انسان صداقت کو چھوڑ دینے پر مجبور ہو جاتے اور ابدی تاریکی میں مبتلاء ہو جاتے کیا ایسا آدمی اس قابل ہے کہ اسے اس کی آزادی واپس کر دی جائے ؟ یہاں تک کہ وہ اپنے جُرم پر نادم نہ ہو اور اپنے فعل پرسچے دل سے افسوس نہ کرے.کیونکہ غلامی کیا ہے؟ اس کا مطلب انسان کی آزادی کو اس وقت تک قید کر لینا ہے کہ وہ اپنے حصہ کی ذمہ داری اور اپنے حصہ کے اخراجاتِ جنگ کو ادا کردے کیا کوئی اخلاقی یا ملکی وجہ ہے جو جنگی قیدیوں کو لینے سے روکے.اسلام اجازت دیتا ہے کہ ہر ایک جنگی قیدی کو جو غلام بنایا گیا ہے اختیار ہے کہ وہ جنگ کے مصارف کا اپنا حصہ ادا کر کے اپنی آزادی خرید لے.پس اگر ایک غلام اپنی غلامی کو اپنی آزادی سے بُرا سمجھتا ہے تو کیوں وہ خود یا اس کے رشتہ دار یا اس کے ہم وطن اس کی آزادی اس کے حصے کے ان اخراجات جنگ کو ادا کر کے نہیں خرید لیتے جو اس مظلوم قوم کو مجبوراً برداشت کرنے پڑے اور جس کامذ ہب انہوں نے کوشش کی کہ جڑ سے اُکھاڑ دیا جائے.حُرمتِ سود پھر اسلام کی تعلیم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ سود لینے اور دینے سے منع کرتا ہے.حالانکہ سود دنیا کے اخوت و تمدن کی قدرتی بناء پر قائم نہیں بلکہ اس کو خود ایسا بنا لیا گیا ہے تھوڑا سا غور ظاہر کر دے گا کہ جیسے قرآن کریم کہتا ہے سو دہی مو جو دوہ وقت کی کثرت سے جنگوں کا موجب ہے.اگر ایک گورنمنٹ سود پر قرض نہ لے سکے تو وہ بھی جنگ میں شریک نہ ہو سکے کیونکہ کوئی جنگ روپے کے بغیر نہیں ہو سکتی خصوصاً اس زمانے میں ایک بڑی جنگ بہت بڑی مالی قربانیوں کو چاہتی ہے اور اگر ایک گورنمنٹ ضروری رقم روپیہ کی سودوالے قرضے کے ذریعے سے نہ حاصل کر سکے تو وہ کبھی بغیر گہرے غور و فکر کے ایک ایسی کثیر مصارف والی اور تباہ کن جنگ میں حصہ نہ لے.انکم ٹیکس کا بوجھ اور لوگوں کو محسوس ہونے لگتا ہے اور
۴۰۱ دوره یورپ وہ ہر ایک ایسے ممکن ذریعے کو استعمال کرنے کے بغیر جس سے جنگ کی ضرورت ٹل جائے کبھی ایک بڑی جنگ میں پڑنے کے لئے اور اپنے اوپر اتنے کثیر مصارف ڈالنے کے لئے تیار نہ ہوں.اسی طرح اگر سود لینا اور دینا بند کردیا جائے تو کسی ملک کی تمام دولت صرف چند ہاتھوں میں اکٹھی نہ ہو جائے بلکہ وہ یکساں اور عام طور پر ساری قوم میں منقسم رہے جیسا کہ اسلامی ممالک میں ہوا کرتا تھا.حرفت و تجارت کے منتظمین اور ڈائریکٹر پھر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعدادسے نفع کے حصہ دینے کی شرط پر روپے لینے کے لئے مجبور ہو جائیں اور اس طرح دوسرے لوگوں کے لئے ان کے کام میں ایک قسم کی شرکت کی صورت پیدا ہو جائے.تعدّدازواج پھر تعدد ازدواج کے متعلق اسلامی تعلیم کے اوپر اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن بہت سے جو اخلاقی، ملکی ،تمدنی، نسلی اور مالی سوالات اٹھتے ہیں ان کا تسلی بخش حل تعدد ازدواج ہی سے حاصل ہوتا ہے مثلاً وہ شخص کیا راہ اختیار کرے جس کی اتفاقاً ایسی عورت کے ساتھ شادی ہو جائے جو مجنون یا دائم المریض ہو گیا وہ اسے اپنے بچوں کی ماں ہونے دے اور اسی طرح تکلیف و مرض کا ایسا ترکہ پیچھے چھوڑے.جو نسل انسانی کی بد خواہی کے مترادف ہے یا کیا وہ بے اولاد رہے اور اسی طرح اپنے ملک کو نقصان پہنچائے یا کیا وہ بد معاشوں کی زندگی اختیار کرے اور اپنے اور اپنی قوم کے اخلاق کو نقصان پہنچائے یا کیا اس کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ایسے وقت میں طلاق دے دے جب اس کی تکلیف اور بے کسی اس کے ساتھ کمال مہربانی اور حفاظت کا مطالبہ کرتی ہے اوراسی طرح رحم او را خلاق کے جذبات سے بے حس ہو جائے؟ طلاق اس طرح طلاق کے مسئلہ کے متعلق اسلام کے معترضین اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ بعض حالات میں ایسا ہو سکتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج آپس میں ایسے بکلّی متعارض ہوتے ہیں کہ ان دونوں کو مل کر رہنے کے لئے مجبور کرنا گویا آگ اور پانی کے ملاپ کی کوشش کرنا ہے جو کہ یقیناً دونوں کی تباہی کا موجب ہے.اسلامی تعلیم پر ایسے اور تمام اس قسم کے اعتراضات لاعلمی کا یا کم فہمی کا نتیجہ ہیں کیونکہ اسلامی تعلیم کی بنیاد باقی تمام مذاہب کے مقابلہ میں بڑھ کر رحم اور حکمت پر مبنی ہے اور ہر زمانے کی ضرورتوں اور مشکلوں کا پورا اور مکمل حل پیش کرتی ہے.
۴۰۲ دوره یورپ اخلاقی تعلیم کوئی مذہب کامل ہونے کامدعی نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسانی اخلاق کے متعلق وہ اپنے اندر مفصل ہدایات نہ رکھے اس لئے کہ اگرچہ اخلاق روحانیت کاحصہ نہیں تاہم روحانیت کا وہ پہلا قدم ہیں اور کامل اخلاق کے بغیرانسان کامل روحانی ترقی حاصل نہیں کرسکتا مسیح موعود نے اخلاق کے متعلق حیرت انگیز اصل قائم کئے ہیں اور ان اصولوں کے مطالعہ سے ایک انسان چونک کر یہ ماننے کے لئے تیار ہو جاتا ہے کہ مسیح موعود سے پہلے دنیا اخلاقی قوانین کی تلاش میں محض تاریکی میں بھٹکی پھرتی تھی.پہلا اصل اخلاق کی تعریف سے متعلق ہے آپ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اخلاقی اوصاف کی حقیقت میں ایک غلطی کی گئی ہے جو انسان کو ایک خطرناک غلط فہمی کی طرف لے گئی ہے اور جو مذہبی کتب میں طویل لیکن بے سود بحثوں کی موجب ہے.لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے رہے کہ حیوانیت اور اخلاق کے درمیان ایک وسطی حالت بھی ہے.حیوانیت انسان کی اس حالت کا نام ہے جس میں وہ بو جہ ناقص تربیت، مرض ،عادت ،لا علمی یا بد مزاجی کے خالص نفسانی خواہشات کے ماتحت خالص ذاتی اغراض کے لئے عمل پیرا ہوتا ہے اور دوسروں کے احساسات کا اسے کچھ خیال نہیں ہوا لیکن یہ انسان کی طبعی حالت نہیں کیونکہ انسان کو بہت سے طبعی احساسات بخشے گئے ہیں جو اسے دوسروں کے ساتھ نیکی کرنے کی تحریک کرتے ہیں اور جن کو لوگ غلطی سے اعلیٰ اخلاق خیال کرتے ہیں.مثلا ًدوسرے لوگوں کو مصیبت میں پاکر ایک شخص طبعاً درد محسوس کرتا ہے اور ہمد ردانہ سلوک کی طرف مائل ہوتا ہے.وجہ یہ ہے کہ انسان کو متمدن پیدا کیا گیا ہے اور یہ جذبات ایک سوسائٹی کے جزو کے لئے ضروریات میں سے ہیں.محبت اور نفرت پر دو یکساں طبعی احساسات ہیں اور اس لئے ان میں سے کسی کو بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اچھا ہے اور یہ بُرا.کیونکہ اگر اس میں سے ایک کو اچھا کہیں اور دوسرے کو برا تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ خدا نے بھی ہماری فطرت میں جبلّی طور پر رکھدی ہے.علاوہ بریں ہمارا تجربہ اس قاعدہ کی تردید کرتا ہے کیونکہ بعض چیزوں مثلاً ظلم یا بد کاری کے خلاف جذباتِ نفرت ایک بڑی قابل تعریف بات ہے لیکن اگر ہرایک جذب نفرت کو بدی تصور کر لیا جائے تو بدی سے نفرت کرنا بجائے خود ایک گناہ ہو جائے گا اور یہ صریح بیہودگی ہے.اس لئے مسیح موعودنے بیان کیا کہ مذہب کا پیروؤں کو صرف مہربانی کرنے یا درگزر کرنے یا محبت کرنے یا احسان کرنے یا فضول خرچی سے پرہیز کرنے کی ترغیب دینا تو ہمارے طبی جذبات کو محض گِن دینا ہے اور یہ کسی
۴۰۳ دوره یورپ قسم کی اخلاقی ہدایت نہیں کہلاسکتی.صرف وہی مذہب اخلاقی ہدایت دینے کامدعی ہو سکتا ہے جو ایسے قوانین بتائے جن سے طبعی جذبات کے استعمال پر پورا اختیار حاصل ہو سکے یا یوں کہو کہ بعض طبی جذبات کو استعمال میں لانے اور بعض کو دبا لینے کو اخلاق نہیں کہاجاسکتا بلکہ مناسب موقع پر تمام طبعی جذبات کا اراد تاً او ر قصداً استعمال اور نامناسب موقع پر ان کا دبالینا اصل میں اخلاق ہیں.دوسرا اصل جو آپ نے کسی مذہب کی اخلاقی تعلیم کے متعلق رکھا ہے یہ ہے کہ ہر ایک اخلاقی قوت کے استعمال کے لئے مناسب موقع بتادینے کے علاوہ مذہب کو بُرے اور اچھے اخلاق کے مختلف مدارج کی تشریح کرنی ہے جو کہ ہر طبعی جذبہ کے مناسب یا غیر مناسب استعمال کا نتیجہ ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے کو چھوڑتا ہے تو بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے یا وہ ایسے رستوں پر گامزن ہونگے جو انہیں کبھی بھی مقصد کی طرف نہیں لے جا سکتے.ان کی مثال اس طالب علم کی سی ہوگی جو اس خواہش ہے کہ انگریزی زبان آجائے آکسفورڈ ڈکشنری کو حفظ کرنے لگ جائے.تیسرا اصل جو آپ نے رکھایہ تھا کہ مذہب کو ان وجوہ کی تشریح کرنی چاہئے جن پر اس کے احکامِ اخلاق کی بناء ہے کیونکہ بغیر ان کے سمجھنے کے ایک شخص اس ذوق کو اپنے اندر محسوس نہیں کرے گا جو اعلی ٰاخلاقی حالت کے حصول کے لئے اس کو ضروری کو شش قائم رکھنے میں درکارہے.چوتھی بات جو آپ نے قائم کی ہی تھی کہ مذہب کے لئے نیکی اور بدی کے منبع کا علم دینا ضروری ہے اور لوگوں کو یہ سکھانا چاہئے کہ بدی کی طرف میلان کی راہوں کو کیسے بند کردیا جائے؟ اور کس طرح نیکی کی راہوں کو کھولا جائے کیونکہ بدی نہیں نابود ہو سکتی جب تک کہ بدی کے میلان کو نابود نہ کیا جائے.اور اس وقت تک کہ مذہب اپنی اخلاقی تعلیم کے پہلو کے متعلق تفصیل بیان نہیں کرتا ،نا مکمل رہے گا.محض قواعد کا مجملاً بیان کچھ امداد نہیں دے سکتا جب تک کہ ان کا عملی استعمال نہ بیان کیا جائے.مسیح موعود نے اخلاقی تعلیم کے متعلق یہ قواعد نہ صرف قائم کردیئے ہیں بلکہ آپ نے تفصیل سے ثابت کردیا کہ قرآن کریم انسان کی اخلاقی نشوونما کی ان تمام صورتوں کی تو ضیح کرتا ہے اور اس طرح یہ ثابت کیا کہ اسلام ہی صرف انسان کا صحیح اخلاقی رہنماہے.
۴۰۴ دوره یورپ کامل مذہب کا ایک یہ کام بھی ہے کہ وہ ایسے اصول بتائے جو انسان کی زندگی کے تمدنی شعبوں کی تنظیم کریں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے انتظامِ ملک اور تہذیب پایہ تکمیل کو پہنچے اور تمام دنیا میں امن و انتظام قائم ہو جائے.مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی تعلیم کے اس شعبہ کو بھی بیان کیا اور اس میں دنیا کے لئے وہ حیرت انگیز صداقتیں ظاہر کردیں جو اس میں چھپی ہوئی تھیں اور اس تعلیم کے متعلق جو غلط فہمیاں تھیں ان کی تصحیح کر دی.اسلام بادشاہ اور رعایا کے حقوق و فرائض ،انصاف کی آزادی ،انسان کے حقوق کا احترام، آقا اور نوکر کے تعلق اور ان کے جھگڑوں کا طریق فیصلہ، ایک مسلمان شہری کے فرائض غرباء کے حقوق اور مختلف مذاہب اور مختلف قوموں کے آپس میں تعلقات کی نسبت بڑی تفصیل سے بحث کرتا ہے.بادشاہ اور رعایا کے تعلقات کی بابت مسیح موعودنے بیان کیا کہ (۱) گورنمنٹ پبلک کی خادم ہوتی ہے اور اس کو ہمیشہ اپنے آپ کو ایسا ہی خیال کرنا چاہے آپ خود روحانی حکومت کے مالک تھے اور آپ اپنے متعلق فرماتے ہیں ’’میرے واسطے کر مت رکھو کیونکہ میں تو خد مت کے لئے کھڑا کیا گیا ہوں‘‘ ۹؎ ان الفاظ میں آپ نے حکومت کے دو بڑے اصولوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ایک یہ کہ وہ جو حکومت کرنے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں وہ پبلک کے خادم ہوتے ہیں اور یہ کہ اپنے فرض کی بجا آوری میں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنا آرام قربان کردیں اور اپنا تمام وقت رعایا کی خدمت میں صرف کردیں.آپ یہ عربی ضرب المثل عموماً فرمایا کرتے تھے کہ قوم کا امیر قوم کا خادم ہوتا ہے ۱۰؎ یعنی یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے آرام کو قربان کر کے دوسروں کے آرام کے لئے ذرائع بہم پہنچائے (۲) جیسا کہ قرآن کہتا ہے ملک کا طرز حکومت ضروری ہے کہ رعایا کے مشورے کے ساتھ چلایا جائے مسیح موعود و تمام امور میں اپنے پیروؤں سے مشورہ لیا کرتے تھے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنی رائے دینے کی خوشی سے اجازت ہوتی تھی گو بعض اوقات آپ ان سے اختلاف رکھتے تھے.یہ اس لئے کہ آپ کے پیرو مشورہ کی اہمیت کو سمجھیں اس طرح آپ نے اس صحیح جمہوریت کی روح کو تازہ کیا جس کو دنیا میں سب سے پہلے پیش کرنے والا اسلام تھا.(۳) آپ نے یہ بتایا کہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے قومی جھگڑوں کا ثالث ہو کر فیصلہ کرے جن کی وجہ سے بد نظمی پیدا ہونے کا احتمال ہو اور وہ امن عامہ میں خلل انداز ہوں.آپ اکثر قومی فسادات کی طرف گور نمنٹ کو متوجہ فرمایا کرتے تھے اور آپ نے ان کو فرو
۴۰۵ دوره یورپ کرنے اور امن عامہ اور ضبط برقرار رکھنے کی غرض سے گورنمنٹ کی ثالثوں کے ذریعے جھگڑے کے امور کو بحث میں لا کر فیصلہ کرنے کی تجویز پیش کی.لیکن آپ کبھی بھی ضمیر کی آزادی یا لوگوں کے حقوق میں کسی قسم کی دخل اندازی پسند نہیں فرماتے تھے.واقعہ میں اسلام افراد کے حقوق کا اس حد تک احترام کرتا ہے کہ وہ حکومت کو حکم دیتا ہے کہ ایک مزدور کو اس کے کام کی پوری پوری اُجرت دینا اس پر فرض ہے.جہاں ایک طرف مسیح موعود نے غرباء کے حقوق پر خاص زور دیا اور تعلیم دی کہ ہمیں ان کو اپنے بھائی خیال کرنا چاہے دوسری طرف آپ نے یہ بھی سکھایا کہ ایک آدمی کو اپنے آپ کو اس سے محروم نہیں کر دینا چاہئے جو اس نے اپنے قویٰ کو استعمال کر کے حاصل کیا.آپ سمجھتے تھے کہ مقابلہ کی روح جو کہ لیا قتوں یا قابلیتوں میں اختلاف کا نتیجہ ہے دنیا کی ترقی کے لئے ضروری ہے لیکن دوسری طرف امراء پر واجب قرار دیا کہ وہ ایک خاص حصہ اپنے اموال کا جو کہ اسلام نے مقرر کردیا ہے حکومت کے سپرد کریں جسے حکومت غرباء کی بہبودی میں صرف کرے اور انہیں اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کی بجائے فاضلہ رو پیہ ایسے کاموں میں لگانا چاہئے جو عوام کے لئے نفع رساں ہوں یاکہوں کو ان کو اس سرور کے مقابلے میں جو دولت کے اکٹھا کرنے میں حاصل ہوتا ہے اس سرور کو ترجیح دینی چاہئے جو اس کو بانٹ دینے سے حاصل ہو اس لحاظ سے اسلام کی تعلیم بے نظیر ہے.اسلام پرائیویٹ ملکیت ِمال کے اصول کاحامی ہے لیکن وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ کوئی شخص بغیر ان سرچشموں کی امداد کے جو تمام انسانوں کی یکساں ملکیت ہیں امیر نہیں ہو سکتا اور اس واسطے اسلام صاف طور پر حکم دیتا ہے کہ امراء کی دولت کا ایک خاص حصہ علیحدہ کردیا جائے اور وہ حکومت کی معرفت غرباء کی بہبود کے لئے بطور اس امداد کے معاوضے کے خرچ ہو جائے جو تمام ایسے منبعوں سے حاصل کی گئی تھی.اسلام حکومت کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ غرباء کو ان کی ضروریات زندگی او رذرائع تعلیم بہم پہنچائے.ملکوں کے باہمی تعلقات کے متعلق اپنے بیان کیا کہ وہ کبھی اطمینان بخش بناء پر قائم نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اقوام اور حکومتیں بھی ایسے ہی اخلاق کی پابند ہیں جیسے کہ افراد.واقعہ میں قومی خساروں کی کثرت اس تمام غلط اصول کا نتیجہ ہے کہ حکومتوں کو ان اخلاق پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت نہیں ہے جو ایک فرد کے لئے ضروری ہیں.دنیا کے امن کے لئے آپ اس کو بھی ضروری خیال فرماتے تھے کہ ہر ایک حکومت کی رعایا
۴۰۶ دوره یورپ اپنی حکومت سے تعاون کرے.لوگوں کو اپنے حقوق کے مطالبہ یا ان کی حفاظت کے لئے تدابیرکرنے کے خلاف کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن ایسا کرنے میں انہیں ایسی روش اختیار نہیں کرنی چاہئے جو امن عامہ میں نقص پیدا کرنے والی ہو یا گورنمنٹ کی طاقت کو صدمہ پہنچانے والی ہو یا جو اخلاقی نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض ہو.پھر آپ سمجھتے تھے کہ تاوقتیکہ ایسے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو سچے دل سے کسی مذہب کے معتقد ہیں مذ ہبی اختلافات کا لامحالہ پیدا ہو نگے اس لئے آپ کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں امن لانے کے لئے خدا نے آپ کو بھیجا ہے تاانسان آپ کی معرفت انجام کار ایک ہی مذہب کے نیچے جمع ہو جائیں اوراس طرح ظاہری اور باطنی امن قائم ہو جائے موجودہ حالات کے سنوارنے کے لئے آپ نے مندرجہ ذیل تجاویز کیں.۱.مختلف مذاہب کے بانیوں کو یا لیڈروں کو اس طریقہ سے یاد نہ کیا جائے جو ان کے پیروؤں کے احساسات کو صدمہ پہنچائے.۲.مذہب کی تبلیغ میں ہر ایک مذہب کے مبلّغ کو اپنے مذہب کی صرف خوبیاں بیان کرنے تک محدود رہنا چاہئے اور کسی دوسرے مذہب پر حملہ نہیں کرنا چاہیے.دوسرے مذاہب کے نقص بیان کر دینا کسی کے اپنے مذہب کی صداقت کی دلیل نہیں.مذہب کی صداقت صرف اپنی خوبیوں کے ظاہر ہونے سے معلوم ہو سکتی ہے نہ کہ دوسرے مذاہب کے نقائص کے بیان سے.۳.کسی مذہب کے پیروؤں کو اپنے مذہب کی طرف ایسا مسئلہ یا تعلیم منسوب نہیں کرنی چاہئے جس کا ان کے نوشتوں سے براہ راست استنباط نہیں کیا جاسکتا.دعویٰ اور دلیل ہر دو، مذہب کو اپنی الہامی کتاب سے پیش کرنے چاہئیں.اس اصل کی سختی سے پابندی کے بغیر کسی مذہب کی خوبیوں کے متعلق صحیح فیصلہ کرنا غیر ممکن ہے کیونکہ ایسی قید کی غیر موجودگی میں دنیا یہ معلوم نہیں کر سکتی کہ وہ تعلیم جو کسی مذہب کی طرف منسوب کی گئی ہے وہ خود اس کے نو شتوں سے لی گئی ہے یا وہ دوسرے مذاہب کے مطالعہ سے حاصل کرلی گئی ہے یا وہ زمانے کے موجودہ رو یہّ خیال سے نکال لی گئی ہے.۴.مختلف مذاہب کے حامیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم کو مجمل بیان تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس پر تجربہ کر کے وہ نتائج واضح کرنے چاہئیں جو اس پر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوتے ہیں تالوگ فیصلہ کر سکیں کہ وہ تعلیم کسی نتیجہ پر لے جاتی ہے یا نہیں.
۴۰۷ دوره یورپ حیات بعد الموت جب سے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ موت کے بعد ایک زندگی کا معتقد چلا آیا ہے اور ہر ایک مذہب نے انسان کی زندگی کا علم دیا ہے.پہلا سوال جو اس امر کے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ بعد الموت زندگی کس طرح ظہور پذیر ہوگی؟ اس کا جواب جو مسیح موعود نے دیا تھا کہ زندگی بعد الموت میں انسان مادی جسم کے ساتھ نہیں ہو گا کیونکہ حشرجسم کا نہیں بلکہ روح کا ہو گا.مادی جسم صرف اس دنیا کے لئے ہے اور یہاں ہی ختم ہو جائے گا اگلے جہان میں روح کے ایک روحانی جسم دیا جائے گا جو روحانی سُرور اور روحانی تکلیف کی حِسّ رکھے گا.دوسرا سوال یہ ہے کہ موت کے بعد زندگی کب شروع ہونگی ؟ اس کا جوب جو مسیح موعودنے دیایہ تھا کہ موت کے بعد زندگی معاًموت کے بعد شروع ہو جاتی ہے نہ کہ ہزارہا سال کے وقفہ کے بعد کسی مقررہ دن پر.بلکہ یہ زندگی تین درجوں پر منقسم ہے پہلادرجہ قبر کادر جہ کہلاتا کا ہے اور اس کی انسان کی زندگی کے اس درجہ سے مشابہت ہے جو کہ رحم میں گذرتی ہے اس درجہ میں روح کئی صوری تبدیلیوں کے نیچے گذرتی ہے اور اس کی نئی طاقتیں اور قویٰ نشو و نما پانے لگتے ہیں.حتی ٰکہ رحم میں ایک بچہ کی طرح جس کی روح ایک خاص حد تک نمو حاصل کرلیتی ہے وہ ایک اور روح میں جگہ پالیتی ہے اور خود اس نئی روح کے لئے جسم کا کام دینے لگ جاتی ہے یا یوں کہو کہ روح ایک نئی پیدائش حاصل کرتی ہے.اور دوسرا درجہ شروع ہوتا ہے جس کو حشر (قیامت )کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جس کوبچہ کی ولادت سے مشابہت دی جاسکتی ہے اور اس درجہ میں روح دو سری زندگی کی حالتوں کا مشاہدہ کرنے لگتی ہے لیکن ابھی اس کا ان حالتوں کا احساس بچے کی طرح غیر مکمل ہوتا ہے.جب یہ درجہ ختم ہو جاتا ہے تو تیسرا درجہ شروع ہوتا ہے جسے ایک بچہ کی بلوغت سے مشابہت دی جاسکتی ہے.اس درجہ میں روح زندگی بعد الموت کی حالتوں کو پورے طور پر محسوس کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور تب وہ بہشت یا دوزخ میں رکھ دی جاتی ہے.تیسرا سوال یہ ہے کہ بہشت و دوزخ کی کیا حقیقت ہے؟ آپ کا جواب یہ تھا.بہشت و دوزخ دونوں ایک وجود کے دو پہلو ہیں جن میں آدمی موت سے قبل کی زندگی مطابق سرور اور غم کا مشاہدہ کرتا ہے.یہ مادی نہیں ہیں کیونکہ یہ ہمارے مادی اجسام سے محسوس نہیں کئے جاسکتے نہ ہی انہیں کلی طور پر غیرمادی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس زندگی میں بھی آدمی ایک روحانی جسم رکھے گا جو
۴۰۸ دوره یورپ اس کی نئی ترقی یافتہ روح کے لئے جسم کا کام دے گا اس لئے زندگی بعد الموت کے سرور اور غم اس روحانی جسم کے ان قویٰ کے مطابق ہوں گے جو انسان کو اس زندگی میں دیئے جائیں گے.چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا بہشت و دوزخ ابدی ہیں یا ایک مقررہ میعاد تک؟ آپ کا جواب یہ تھا کہ روح کو ابدی زندگی دی جائے گی اور بہشت انسان کے لئے لامحدود ترقی کے دروازے کھولے گا.لیکن چونکہ انسان کو کامل کرنے کی غرض سے پیدا کیا گیا ہے اس لئے دوزخ کی سزا ابدی نہیں ہو گی کیونکہ اگر دوزخ ابدی ہو تو انسان کی پیدائش کی غرض باطل ہوتی ہے اس لئے کہ بعض لوگ ہمیشہ کے لئے غیر مکمل حالت میں رہیں گے.اصل بات یہ ہے کہ دوزخ ایک ہسپتال کی مثال ہے جہاں انسان ان روحانی امراض سے صحت یاب کیا جاتا ہے جو اس کو اس دنیا کے اعمال کے نتیجے میں لاحق ہوگئیں اور جن کی وجہ سے وہ بہشت کے سرور کا حظ اٹھانے کے نا قابل ہو گیا تھا.مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت مختصر یہ کہ مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے ہر پہلو کی ان تمام غلطیوں کو دور کردیا جو اس میں داخل ہوگئی تھیں اور دنیا کے سامنے قرآن کی اصل تعلیم پیش کی جس میں کسی نقص کا امکان نہیں ہوسکتا.اس جگہ جائز طور پر ایک سوال کیا جا سکتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ذاتی ثبوت کیا ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح موعود کے لئے تمام وہ ثبوت موجود ہیں جن سے گذشتہ انبیاء کی صداقت منوائی جاتی تھی.اور آپ نے وہ تمام معجزات دکھانے جو پہلے انبیاء نے دکھائے تھے.ایک نبی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس کی اپنی زندگی کمال درجہ کی خالص اور پاک ہو.اس سے میری یہ مراد نہیں کہ صرف لوگوں کو اس کے عیوب کا علم نہ ہو کیونکہ ہزا رہا لوگ ایسے ہوں گے جن کے متعلق کوئی بدی ثابت نہیں کی جاسکتی بلکہ میری مرادایسی نیکی ہے جس کی لوگ شہادت دیں اور جس کی بناء پر وثوق سے نہ صرف یہ اقرار ہو سکے کہ وہ شخص کبھی کسی بدی کا مرتکب نہیں ہوا بلکہ یہ کہ اس سے کسی بدی کا سرزد ہو ناممکن ہی نہیں.یسوع مسیح اپنی صداقت کے ثبوت میں فرماتے ہیں ’’کون تم میں سے مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے اگر میں سچ کہتا ہوں تو تم مجھ پر ایمان کیوں
۴۰۹ دوره یورپ نہیں لاتے‘‘ ۱۱؎ اس سے مسیح کی صرف یہ مراد نہیں تھی کہ میری نسبت کوئی جھوٹ ثابت نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ تھی کہ تم خوب جانتے ہو کہ میری زندگی ایسی ہے کہ ایسی بات کا کہنا میرے لئے ناممکن ہے جو سچی نہ ہو.مسیح موعود نے اس سے زیادہ صاف اور زیادہ پُر زور دعویٰ فرمایا ہے خدا نے آپ کو کہا کہ اپنے دشمنوں سے پوچھ کہ میری تمام زندگی کو دیکھتے ہوئے کبھی تم کیوں مجھے ملحد کہنے سے نہیں رُکتے.اور پھر تنبیہ کے طور پر خدا فرماتا ہے انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ لوگ (تجھے )دیکھتے ہیں اور پھر بھی دیکھنے کے لئے آنکھیں نہیں رکھتے ۱۲؎ یعنی تیری زندگی کی حیرت انگیز پاکیزگی کو دیکھتے ہوئے یہ کس طرح تیرے دعویٰ میں شک کرتے ہیں.اس وحی کے موافق مسیح موعود نے اپنے دشمنوں کو ایک چیلنج دیا لیکن کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی آپ کے اشد ّترین دشمنوں نے بھی اقرار کیا کہ آپ کی زندگی برابر نیکی اور پاکیزگی سے مملوّ تھی.آپ کے سب سے بڑے دشمن مولوی محمدحسین بٹالوی جس نے آپ کے خلاف علماء سے فتوی ٰکفرحاصل کرنے کے لئے تمام ہندوستان کا دورہ کیا اور جس نے گورنمنٹ اور لوگوں کو آپ کے خلاف اکسانے میں تمام انسانی اخلاق کو بالائے طاق رکھ دیا اپنے رسالہ اشاعتہ السنّہ میں آپ کے متعلق لکھتا ہے.’’میں اس کو (یعنی مسیح موعود کو )بچپن سے جانتا ہوں اس نے اپنے وقت سے، مال سے، قلم سے، زبان سے اور اپنے نمونے سے ایسے استقلال سے اسلام کی امداد اور خدمت کی ہے کہ اس کی مثال اس اسلام کی آخری تیرھویں صدی میں ملنی ناممکن ہے ۱۳؎ یہ زندگی اور اخلاق کی بے مثال پاکیزگی آپ کے د عویٰ کی صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے.آپ کے دعویٰ کی صداقت کا ایک اور زبردست ثبوت یہ ہے کہ تمام الہامی کتب اس بات پر متفق ہیں کہ ایک کاذب کبھی ترقی نہیں کر سکتا.بائبل کہتی ہے.’’لیکن وہ نبی جو میرے نام پر کوئی لفظ ایسا کہے گا جو میں نے اسے کہنے کا حکم نہیں دیا.یا وہ دوسرے خداؤں کے نام پر بات کرے گا تو وہ نبی بھی مارا جائے گا".۱۴؎
۴۱۰ دوره یورپ ایسے ہی قرآن کریم بھی فرماتا ہے توتقول علينا بعض الأقاويل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنامنه الوتين - ها \" اگر وہ اپنی کسی بات کو ہماری طرف منسوب کرے جو ہم نے اسے نہیں کہی تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیں اوراس کی رگِ جان کاٹ دیں.یہ آیات بتاتی ہیں کہ اگر ایک آدمی کچھ اقوال خودبنالے اور پھر دنیا کے سامنے ان کو خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے نام سے پیش کرے تو وہ کبھی ترقی نہیں پا سکتا اور قبل اس کے کہ اس کی تحریک دنیا میں مضبوط قدم پکڑلے وہ اُکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے.اس کسوٹی سے مسیح موعود کے دعویٰ کو دیکھ کر ہمیں آپ کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے کیونکہ آپ نے پہلی وحی کا دعوی ٰچالیس سال کی عمر میں کیا اور اس دعویٰ کی اشاعت کے بعد چونتیس یا پینتیس سال زندہ رہے.آپ کو ایک بڑھتی ہوئی جماعت دی گئی اور آپ عام عرصئہ زندگی سے زیادہ زندہ رہے.بہنو اور بھائیو! کیا عقل یہ تسلیم کر سکتی ہے کہ وہ زند ہ خدا ایک شخص کو عمد اًاجازت دے کہ وہ کچھ اقوال خود بنائے اور ان کو خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کہہ کر لوگوں میں شائع کرے اور وہ اسی طرح بلا روک بغیر سزا پانے کے مخلوق کو گمراہی کی طرف لے جائے.اگر ایسا ہو تو پھر ایمان کی کو نسی حفاظت ہو سکتی ہے اور نیکی کا بچاؤ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ مسیح موعود ؑکے نشان پھر آپ کے دعویٰ کے ثبوت میں وہ حیرت انگیزنشان بیان کئے جاسکتے ہیں جو خدا نے آپ کے ہاتھوں پر اسی طرح ظاہر کئے جس طرح کہ پہلے نبیوں کے ہاتھوں پر ظاہر کیا کرتا تھا.یہ نشان لاکھوں کی تعداد میں ہیں لیکن میں یہاں مثال کے طور پر صرف چند ان میں سے پیش کرتا ہوں جن کے ثبوت کے لئے کسی ظاہری شہادت کی ضرورت نہیں.پہلی مثال میں آپ کے علمی معجزہ کی لیتا ہوں.باوجود اس بات کے کہ آپ پنجاب کے ایک چھوٹے سے غیر معروف گاؤں کے باشندے تھے اور کبھی کسی سکول یا مکتب میں نہیں بیٹھے تھے آپ نے یہ اعلان کیا کہ خدا نے مجھ کو عربی زبان کا غیر معمولی علم اور کامل ملکہ عطا کیا ہے جس کا وہ لوگ بھی مقابلہ نہیں کرسکتے جن کی مادری زبان عربی ہے.اس اعلان کے مطابق آپ نے عربی زبان میں کئی کتابیں لکھیں اور شائع کیں اور اپنے مخالفین کو جن میں عرب، مصر اور سیریا کے لوگ بھی شامل تھے چیلنج دیا کہ اگر تم کو میرے دعویٰ کی صداقت پر شک ہے تو تم بھی عربی کی ایسی کتابیں لکھ کے دکھاؤ جو علمی طرزِ فصاحت حسنِ انشاء او ر بلاغت کے نقط خیال سے
۴۱۱ دوره یورپ میری کتابوں کا مقابلہ کر سکیں لیکن آج تک کسی کو یہ چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہیں پڑی.پھر آپ کی پیشگوئیاں ہیں جو آپ نے اپنے مشن اور انجام کار اپنی فتح کے متعلق شائع کیں اور جو ایسے طور پر پوری ہوئیں کہ انسان کے ذہن میں نہیں آسکتا.جب آپ نے اپنا دعویٰ شائع کیا تو آپ بالکل گمنام تھے اس میں شک نہیں کہ آپ ایک معزز خاندان سے تھے لیکن جدّی جائید ادکا بڑا حصہ آپ کے والد کی وفات کے وقت ضائع ہو چکا تھا.قادیان جو آپ کا مسکن تھا ایک چھوٹا سا اورگمنام گاؤں تھااس گاؤں میں خلوت کی زندگی بسر کرتے ہوئے آپ نے اعلان کیا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ میرے نام کو عزت دے گا اور میرے سلسلے کو پھیلائے گا اور وہ لوگوں کے دلوں میں میری ایسی محبت ڈال دے گا کہ بہت سے لوگ اپنے وطن چھوڑ کر چلے آئیں گے اور قادیان میں ہی بو دو باش اختیار کرلیں گے اور یہ کہ میرے دشمن نیست و نابود کر دیئے جائیں گے اور میرے ماننے والوں کی تعداد تمام ممالک میں بڑھتی چلی جائے گی حتی ّٰکہ تین صدیوں کے اندر اندر بنی آدم کا کثیر حصہ میری جماعت میں داخل ہو جائے گا.آپ نے یہ پیشگوئیاں اس وقت کیں جبکہ آپ کا ایک مرید بھی نہ تھا اور گورنمنٹ اور رعایا ہر دو آپ کے مخالف تھے ایک شخص ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی صحیح اہمیت کا اندازہ نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ ان وجوہات کو نہ دیکھے جو عموماً کسی مذہب کی ترقی کا باعث ہو سکتی ہیں اور ان مشکلات پر نظر نہ کرے جو احمدیت کو در پیش تھیں اور ابھی تک ہیں.و ہ اسباب جو عام طور پر کی مذہب کی کامیابی کے ممد ہو سکتے ہیں یہ ہیں.اول وہ مذہب ایسے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو پہلے کسی مذہب کے معتقدنہ ہوں.دوم اس کو ایسے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو پیری مریدی کے شدائد سے تنگ آگئے ہوں.سوم اس کی رائج الوقت خیالات سے مطابقت ہو.چہارم یہ امر کہ اس مذہب کابانی پہلے ہی قوم میں ممتاز حیثیت رکھتا ہو یا وہ ایسے خاندان سے ہو جو بوجہ اپنی دینداری کے لوگوں کی نظروں میں محترم ہو- پنجم یہ کہ اس مذہب کی جائے پیدائش کوئی بڑا پایہ تخت - ششم یہ امر کے لوگوں کو اس کی پیروی میں کوئی دنیوی فوائد کے حصول کی امید ہو.ہفتم اپنی شریعت کے قوانین پر وہ سختی سے پابندی نہ کرواتا ہو.ہشتم و ہ ایسی رسوم و عادات کی تائید کرے جو اس کے پیروؤں کو اس کی تعلیم کا صحیح اندازه کرنے سے روکیں.مسیح موعود ایسی حالت میں نہ تھے کہ آپ نے ان اسباب میں سے کسی سے بھی فائدہ اٹھایا
۴۱۲ دوره یورپ ہو.آپ کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے آپ کو پہلے ہی کسی مذہب کی طرف منسوب کرتے تھے اور وہ اپنے اپنے مذہب کے کامل ہونے پر فخر کرتے تھے.دوئم جیسا کہ پیری مریدی کا سلسلہ عموماً لوگوں کے اوپر اختیارات کھو چکا تھا تو مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر پورے طور سے مطمئن تھے.سوئم آپ کی تعلیم رائج الوقت خیالات کے خلاف تھی.چہارم- آپ اپنے دعوے سے پہلے قوم میں کوئی ممتاز حیثیت نہ رکھتے تھے نہ ہی آپ ایسے خاندان سے تھے جس کو لوگ اس کی گذشتہ دینداری کی وجہ سے عزت کی نظر سے دیکھتے ہوں یا جسکے متعلق کسی دینداری یا روحانیت کی امیدیں لوگوں کے دلوں میں موجزن ہوں.پنجم آپ ایک ایسے صوبے کے چھوٹے اور ایک گمنام گاؤں میں پڑے تھے جس میں کوئی تمدنی، عقلی، تاریخی یامذہبی کشش کی بات نہ تھی.ششم آپ ہر قسم کی پولیٹیکل تحریک سے الگ رہتے تھے اور وہ لوگ جو آپ کے پیرو بنے انہیں کسی دنیوی فائدہ کی امید نہیں ہو سکتی تھی بلکہ بر خلاف اس کے انکو کئی قسم کی قربانیاں کرنی پڑتی تھیں اور ان کو کئی مصائب کا سامنا کرنا پڑتا تھا.ہفتم.آپ اپنے پیروؤں کی زندگیوں میں ایک مکمل تبدیلی کرنا چاہتے تھے اور صرف زبانی اقراروں سے مطمئن نہیں ہوتے تھے گویا صرف نام کا مرید بن جانا قبول نہیں ہوتا تھا.ہشتم.آپ نے کبھی کسی ایسی چال کو اختیار نہیں کیا جس کے استعمال سے لوگوں میں قبولیت حاصل کی جائے اس لئے با و جود ان باتوں کے وہ ترقی جو آپ کے سلسلے کی آپ کی قبل ازوقت شائع شدہ پیشگوئیوں کے موافق آپ کی صداقت کا آخری ثبوت ہے.ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے ایسی پیشگوئیوں کی اشاعت کرنا جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ظاہر کرتا ہے کہ بلحاظ ان حالات کے جن میں یہ پیشگوئیاں شائع کی گئیں وہ خارقِ عادت تھیں اور اگر ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ وہ پوری ہو گئیں تو یہ ہمارے لئے آپ کی صداقت کا نہایت زبردست ثبوت ہے.ان پیشگوئیوں میں سے اکثر پوری ہو چکی ہیں اور جو باقی ہیں وہ اپنے وقت پر پوری ہونے والی ہیں.قادیان جو اُس وقت ایک گمنام گاؤں تھا اب تمام دنیا میں مشہور ہے.وہ جو صدی کا ثُلث، پہلے تنہا تھا اب تمام ملکوں میں اور تمام اقوام میں اپنے پیرو ہونے کا دعوی ٰکر سکتا ہے جو ہر فرقہ اور نسل سے کھنچے چلے آئے ہیں.آپ کا نام بلند کیاگیا اور آپ کے دشمن بھی اس کو
۴۱۳ دوره یورپ احترام سے یاد کرتے ہیں.آپ نے اسلام کو دوبارہ ایساز ندہ کیا کہ آج کسی مذہب یا کسی تحریک کے حامی اپنی خوبیاں دکھا کے اسلام کو شرمندہ نہیں کر سکتے اور اسلام آج تمام دنیا کے مذاہب میں عزت اور جلال کے ساتھ اپنا سر اٹھاتا ہے احمدیہ مشن قائم ہو رہے ہیں اور احمدی جماعت کے لوگ دنیا کے تمام حصوں میں مل سکتے ہیں.مسیح موعود کی صداقت خدا کی زبردست نشانیوں کے ذریعے قائم ہو رہی ہے ،قادیان اب ہرملک سے زائرین کا مرجع ہے، ایک ہزار پانچسو سے اوپر آدمی دنیا کے مختلف حصوں سے وہاں جا کر آباد ہو چکے ہیں، تقریبا ًتین سو سے زیادہ مہمان روزانہ مسیح موعود کے دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں.کیا دنیا میں کسی سلسلے کی ایک بھی ایسی مثال ہے جس نے ان مشکلات اور ان حالات میں جن کی اوپر تفصیل کی گئی ہے اسی تیز اور حیرت انگیز ترقی کی ہو اور جس کی ترقی کی اس کے بانی نے ایسی صاف صاف پہلے سے خبر دی ہو-مذاہب نے ترقیات حاصل کی ہیں اور ان کو مشکلات سے لڑ نا پڑا ہے لیکن ان میں سے ایک کو بھی خواہ وہ سچا ہو یا جھو ٹاایسی مشکلات میں جن کا اس سلسلہ کو سامنا کرنا پڑا اسی کامیابی بھی حاصل نہیں ہوئی جیسی کہ سلسلہ احمدیہ نے حاصل کی.سلسلہ ابھی اپنی طفولیت میں ہے اور وہ جو اس وقت تک حاصل کیا گیا ہے وہ صرف اس کا سایہ ہے جو آگے آرہاہے.علاوہ بریں مسیح موعودنے لکھو لکھہا ایسے نشانات دکھائے کہ مردے زندہ کئے گئے، بہرے سننے لگے.اندھے دیکھنے لگے ، لنگڑے چلنے لگے.،مجزوم چنگے کئے گئے اور وہ جنکے حواس ٹھیک نہ تھے تندرست کئے گئے اور وہ خدا کے سامنے عاجز بچوں کی طرح ہو گئے.آپ نے جنگ عظیم، زار کے مصائب ، ترکوں کی شکست، انفلوئنزا کا پھوٹ نکلنا، زلزلوں کی کثرت اور بہت سے اور حادثات کی پہلے سے خبر دی جو تمام اپنے مقررہ وقت پر پورے ہو چکے ہیں.ایک طرح سے خود یہ کانفرنس آپ کی پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی کو پورا کرتی ہے۱۸۹۲ء میں آپ نے اپنی کتاب ازالہ اوہام شائع کی جس میں آپ نے اپنی ایک رؤیا بیان کی جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ لندن میں ایک سٹیج پر کھڑے ہیں اور اسلام پر ایک تقریر فرمارہے ہیں اور بعد ازاں آپ نے چند پر ندے کپڑے آپ نے اس کی یہ تعبیر کی کہ آپ کی تعلیم کی لنڈن میں تبلیغ کی جائے گی اور آپ کی معرفت لوگ اسلام میں داخل ہوئے.مضمون ختم کرنے سے پہلے یہ کہدینا چاہتا ہوں جو کہ بعض لوگوں کو روایت پر خواہ اس کے
۴۱۴ دوره یورپ ثبوت کے لئے کتنی ہی قاطع شہادت کیوں نہ ہو کبھی اطمینان نہیں ہوتا اس لئے خدا نے ایسے لوگوں کی تسلی اور یقین کے لئے بھی ذرائع مہیا کئے ہیں ان میں سے ایک جیسا کہ مسیح موعود نے بیان فرمایا یہ ہے کہ ایسا شخص مسلسل چالیس روز تک دل کو تعصب سے بالکل خالی کر کے ہر روز سونے سے قبل خدا سے مندرجہ زیل دعا کرے."اے خدا یہ شخص جو دعویٰ کرتا ہے کہ خدا نے مجھے اس غرض کے لئے بھیجا ہے کہ دین ِالہٰی اسلام کو اس کی صحیح شکل میں پیش کر کے اور اس طرح لوگوں کو اس کے قبول کرنے کی ترغیب دلا کر دنیا میں اس کو برقرار کروں اگر واقعی تیرا بھیجا ہوا ہے تب میں جو بوجہ حالات سے لاعلمی کے اس کی صداقت کے متعلق صحیح فیصلہ کرنے کے ناقابل ہوں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اسے برحق! جو تمام صداقتوں کا سرچشمہ ہے اور اے ہادی! جو تمام ہدایتوں کا منبع ہے اور اے رحیم ! جو اپنی مخلوق کو تکلیف میں دیکھنا گوارا نہیں کر سکتا تو مجھ پر اس کی صداقت روشن کردے.‘‘ ۱۷؎ اگر ایک شخص چالیس دن اس طرح سچے دل سے دعا کرتا رہے توخد ایقیناً اس چالیس روز کے عرصہ کے اندر اندر اس کا دل صداقت کے لئے کھول دے گا اور مسیح موعود کی صداقت کے لئے اسے کوئی نشان دکھادے گا.چونکہ یہ اطمینان کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جو کہ تمام تر خدا کے ہاتھ میں ہے اور دعا کے جواب میں ہے یقیناً ایک تلاش کرنے والے کے دل کو کامل یقین اور ایمان کی طرف لے جائے گا.میں مغرب میں سچ سے پیار کرنے والوں سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس نہایت ہی ضروری امر کے فیصلہ کرنے کے لئے اس معقول اور درست طریق کو خوشی سے اختیار کریں گے کیونکہ ایسی صورت میں اس شبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص کا دل دوسرے آدمی کی خوش کلامی یا ہوشیاری سے مرعوب ہو گیا کیونکہ یہ ایک اپیل ہے جو مخلوق کی طرف سے اپنے خالق کی خدمت میں کی گئی ہے اور اس کا فیصلہ اس الرحم الراحمين منصف کے ہاتھ میں ہے جس کے فیصلہ کے بعد اور کوئی زیادہ سچا اور زیادہ معقول فیصلہ نہیں.مختلف مذاہب کے قائم مقاموں (لیڈروں )کے لئے آپ نے ایک اور طریقہ پیش کیا وہ یہ کہ بیس آدمی جومہلک امراض میں مبتلاء ہوں تجریہ کے لئے چن لئے جائیں پھروہ قرعہ اندازی سے آپ کے اور کسی ایک مذہب کے وکیل کے درمیان تقسیم کر دیئے جائیں اور پھر وہ دونوں اپنے
۴۱۵ دوره یو رپ اپنے حصے کے مریضوں کی صحت کے لئے دعا کریں.آپ کا دعوی ٰتھا کہ اگر یہ طریق فیصلہ اختیار کیا جائے تو آپ کو اپنے مخالف پر یقیناً کھلی کھلی ایسی فتح دی جائے گی کہ دنیا اس اقرار کے لئے مجبور ہو جائے گی کہ آپ کے ساتھ خدا کی نصرت کا ہاتھ تھا.۱۸؎ لیکن یہ سوال ہو سکتا ہے کہ مسیح موعود تو وفات پا چکے ہیں اب اس طریق کو استعمال کرکے آپ کے دعاوی کے متعلق فیصلہ کیسے ممکن ہو سکتاہے.اس کے جواب میں میں یہ مزیدبتائے دیتا ہوں کہ نبی ایک نمائش کے لئے نہیں بھیجا جاتا وہ تمام دنیا کے لئے رحمت ہوتا ہے اور نہ صرف خوشی کی خبر کا بلکہ فیوض و برکات کا لانے والا ہوتا ہے.آپ کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اپنے بعد ایک ایسی جماعت چھوڑی جس کی معرفت خدا اب بھی اپنے نشان ظاہر کرتا ہے.پس اگر ایک ایسی قوم جس کے حق کو قبول کرنے سے حق کی مزید اشاعت ہو سکتی ہو نشان دیکھنا چاہتی ہے تو گو مسیح موعود وفات پا چکے ہیں مجھے کامل یقین ہے کہ خدا آپ کے پیروؤں کے ہاتھوں پر ایسانشان دکھادے گا کیونکہ وہ اپنے چاکروں سے شفقت کرنے والا ہے اور ہمیشہ ان کو تاریکی سے روشنی کی طرف لے جانا پسند کرتا ہے.احمدیت کے ان اصولوں کی اس ضروری کیفیت کے بیان کردینے کے بعد میں ان کو جو موجود ہیں اور ان کی معرفت ان تمام کو جو مشرق اور مغرب میں رہتے ہیں یہ پیغام پہنچا دینا چاہتا ہوں بہنو اور بھائیو! خدا کی روشنی تمہارے لئے چمک اٹھی ہے اوروہ جس کو دنیا بوجہ مرورِ زمانہ ایک عجیب فسانہ خیال کرنے کی تھی تمہاری عین آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے.خدا کا جلال ایک نبی کے ذریعے تم پر ظاہر کیا گیا ہے ہاں ایسانبی جس کی بعثت کی خبر نوح ؑسے لے کر محمدﷺ تک تمام انبیاء نے پہلے سے دی تھی خدا نے آج تمہارے لئے پھر یہ امر ثابت کردیا کہ میں صرف انکا خد انہیں جو مرچکے ہیں بلکہ ان کا بھی خدا ہوں جو زندہ ہیں.اور نہ صرف ان کا خدا ہوں جو پہلے گزر چکے ہیں بلکہ ان کا بھی خدا ہوں جو آئندہ آئیں گے.پس تم اس روشنی کو قبول کرو اور اپنے دلوں کو اس سے منور کرلو.بہنو اور بھائیو!یہ زندگی عارضی ہے لیکن یہ خیال کر ناغلطی ہے کہ اس کے بعد فناہے.فنا تو کوئی چیزہی نہیں.روح کو فنا کے لئے نہیں بلکہ ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اپنی پیدائش کے لمحے سے لے کر انسان ایک نہ ختم ہونے والے رستے پر چلنا شروع کردیتا ہے اور سوائے اس کے کہ موت اس کی رفتار کی تیزی کا ذریعہ ہو اور کچھ نہیں.یہ کیا بات ہے کہ تم جو چھوٹے چھوٹے مقابلوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی لگاتار کوشش میں لگے رہتے ہو اس بڑے مقابلہ کو نظرانداز
۴۱۶ دوره یو رپ کر رہے ہو جس میں ماضی، حال اور مستقبل کی تمام پشتوں کو لازماً حصہ لیناپڑے گا.کیاتم کو معلوم نہیں کہ مشرق میں ایک فرستاده مبعوث کیا گیا اور خدا نے اس کے ذریعے سچائی کو تمہارے دروازوں تک پہنچا دیا ہے.تم سچے دل سے اس فضل کا شکریہ ادا کرو جو تم پر کیا گیا تاتم پر زیادہ فضل نازل کئے جائیں اور تم اس کی رحمت کو لینے کے لئے آگے دو ڑو تا تمہارے لئے اس کی محبت ایک جوش مارے.یہ کیا بات ہے کہ تم جو تمام ان نیند آور چیزوں کو جو دماغ میں سُستی پیدا کریں نفرت سے دیکھتے ہو کس طرح ایسی چیز سے مطمئن ہو جو نفع رساں نہیں اور روح کی خواہشات کو دبانے والی ہے.تم بتوں کے سامنے جھکنے سے تو انکار کرتے ہو پھر کس طرح تم ایسے بت کے آگے جُھکتے ہو جس میں زندگی کی کوئی علامت نہیں.آؤاور اس ربانی شراب زندگی کو پیئوجو خدا نے تمہارے لئے مہیا کی یہ ایسی شراب ہے جو عقل کو ہلاک کرنے والی نہیں بلکہ اس کو مضبوط کرنے والی ہے.خوش ہو جاو.اے دُلہن کی سہیلیو اور خوشی کے گیت گا کیونکہ دولہا آپہنچا ہے.وہ جس کی تلاش تھی مل گیا ہے.وہ جس کا انتظار کیا جا رہا تھا یہاں تک کہ انتظار کرنے والوں کی آنکھیں مد هم پڑ گئی تھیں اب تمہاری آنکھوں کو منور کر رہا ہے.مبارک ہے وہ جو خدا کے نام پر آیا.ہاں مبارک ہے جو خدا کے نام پر آیا.وہ جو اس کو پا لیتے ہیں سب کچھ پالیتے ہیں اور وہ جو اس کو نہیں دیکھ سکتے وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے.وأخر دعواناان الحمد للہ رب العلمين
۴۱۷ دوره یو رپ پاکیزگی اختیار کرو تا تمہارے ذریعہ خدا اپناقدس ظاہر کرے عدن کے قریب جہاز سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا پہلا مکتوب جماعت احمدیہ کے نام (تحریر فرموده ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء) أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر برادران جماعت؟ السلام عليكم آج جہاز عدن کے قریب ہو رہا ہے.صبح چار بجے خشکی پر جہاز لگے گا.طوفان کے علاقہ سے جہاز خدا کے فضل سے نکل آیا ہے.اور اب ہموار پانیوں میں چل رہا ہے.مسافر جو کئی دنوں سے کمروں میں بند تھے اب باہر نکل کر سیر کر رہے ہیں اور خوشگوار ہوا اور عمدہ موسم کے لطف اٹھا رہے ہیں.کچھ تو تاش میں مشغول ہیں جس کے ساتھ جوئے کا شغل بھی ہے، کچھ شراب کے گلاس اُڑا رہے ہیں، کچھ صحن میں بنچوں پر لاتیں پھیلا کر ہوا کھارہے ہیں، کئی سو بھی گئے ہیں، رات کا وقت ہے اور رات بھی خاصی گذر گئی ہے.مجھے لوگ کہتے ہیں کل رات آپ کم سوئے تھے اب سو جائے.مگر عدن قریب آرہا ہے اور جہاز وہاں تھوڑی دیر ٹھہرے گا.اگر میں اس وقت اپنا قلم رکھ دیتا ہوں تو پھر مجھے عدن کے بعد ہی کچھ لکھنے
۴۱۸ دوره یو رپ کا موقع ملے گا.اسی لئے میں ان دوستوں کی نصیحت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اور ان کاشکریہ ادا کرتے ہوئے یہی کہتا ہوں کہ خط نصف ملاقات ہوتی ہے.میں خدا کی مشیّت کے ماتحت اپنے دوستوں کی پوری ملاقات سے تو ایک وقت تک محروم ہوں پس مجھے آدھی ملاقات کا تو لطف اُٹھانے دو.مجھے چھوڑو کہ میں خیالات و افکار کےپَر لگا کر کاغذ کی ناؤ پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور رہنما مد فون ہے.اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت دوستوں کی جماعت رہتی ہے.ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جائے، مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں اور میرے خیالات تھوڑی دیر کے لیے خالص اسی سرزمین کی طرف پرواز کر کے مجھے دیارِ محبوب سے قریب کردیں.لوگوں کو آرام کرنے دو، کھیلنے دو ،شراب پینے دو، میری کھیل اپنے آقا کی خدمت ہے اور میری شراب اپنے مالک کی محبت ہے اور میرا آرام اپنے دوستوں کا قرب ہے، خواہ خیال سے ہی کیوں نہ ہو.کہتے ہیں کہ کسی چیز کی قدر اس کے کھو ئے جانے سے ہی ہوتی ہے میں نے اس سفر میں یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا.وہ دوست جو پہلے اس خیال کے اثر کے نیچے کہ اِدھر میں ولایت گیا اور اُدھر یورپ فتح ہوا، اصرار کر رہے تھے کہ ضرور میں خود ولایت جاؤں اور اس فتح کے دن کو ان کے قریب کردوں.جس دن کہ میں روانہ ہو رہا تھا ،ماہی بے آب کی طرح بے تاب ہورہے تھے اور کئی افسوس کررہے تھے کہ ہم نے جانے کا مشورہ کیوں دیا.میں بھی جس نے باوجود اس امر کے علم کے کہ موسم سخت ہے اور طوفان کے دن ہیں ارادہ کرلیا تھا کہ اس موقع پر ضرور مغرب کا سفر کروں اور اسلام کی اشاعت کی سکیم تجویز کروں، دل میں محسوس کرتا تھا کہ جدائی کا ارادہ کرلینا تو آسان ہے مگر جدا ہونا خواہ چند دن کے لیے ہی ہو سخت مشکل ہے.آہ ! وہ اپنے دوستوں سے رخصت ہونا ،ان دوستوں سے جن سے مل کر میں نے عہد کیا تھا کہ اسلام کی عظمت کو دنیا میں قائم کروں گا اور خدا تعالی کے نام کو روشن کروں گا.ہاں ان دوستوں سے جن کے دل میرے دل سے اور جن کی روحیں میری روح سے اور جن کی خواہشات میری خواہشات سے اور جن کے ارادے میرے ارادوں سے بالکل متحد ہوگئے تھے حتیّٰ کہ اس شعر کا مضمون ہم پر صادق آتا تھا کہ من تُو شدم تُو من شدی من تن شدم تُو جاں شدی عکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
۴۱۹ دوره یو رپ کیسا اندوہناک تھا ،کیسا حیرت خیز تھاوہ دل جو اس محبت سے ناآشنا ہے جو مجھے احمدی جماعت سے ہے اور وہ دل جو اس محبت سے نا آشنا ہے جو احمدی جماعت کو مجھ سے ہے وہ اس حالت کا اندازہ نہیں کر سکتا.اور کون ہے جو اس درد سے آشنا ہو جس میں ہم شریک ہیں کہ وہ اس کیفیت کو سمجھ سکے.لوگ کہیں گے کہ جدائی روز ہوتی ہے اور علیحدگی زمانے کے خواص میں سے ہے.مگر کون اندھے کو سورج دکھائے اور بہرے کو آواز کی دلکشی سے آگاہ کرے.اس نے کب لِلہ اور فی اللہ محبت کا مزہ چکھا کہ وہ اس لطف اور درد کو محسوس کرے.اس نے کب اس پیالہ کو پیا کہ وہ اس کی مست کر دینے والی کیفیت سے آگاہ ہو.دُنیا میں لیڈر بھی ہیں اور ان کے پیروبھی ،عاشق بھی ہیں اور ان کے معشوق بھی، محب بھی ہیں اور ان کے محبوب بھی مگر ہرےکُلے را رنگ و بُوئے دیگر است کب ان کو اُس ہاتھ نے تاگے میں پرویا جس نے ہمیں پرویا.آہ! نادان کیا جانیں کہ خدا کے پروئے ہوؤں اور بندوں کے پروئے ہوؤں میں فرق ہوتے ہیں.بندہ لاکھ پروئے پھر بھی سب موتی جداکے جدا رہتے ہیں مگر خداکے پرؤئے ہوئے موتی کبھی جدا نہیں ہوتے.وہ اس دنیا میں بھی اکٹھے رہتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی اکٹھے ہی رکھے جاتے ہیں.پھران کے دلوں کے اتّصال اور ان کے قلوب کی یگانگت پر کسی اور جماعت اور تعلق کا قیاس کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے.غرض کہ اس سفرنے اس پوشیده محبت کو جواحمدی جماعت کو مجھ سے تھی اور جو مجھے ان سے تھی نکال کر باہر کر دیا اور ہمارے چُھپے ہوۓ راز ظاہر ہو گئے.اور ان کا ظاہر ہونے کا حق بھی تھا.نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفلہا اے عزیزو! آپ سے دور ہوں ،جسم دور ہے مگر روح نہیں.میرا جسم کاذرّہ ذرّہ اور میری روح کی ہر طاقت تمہارے لیے دعامیں مشغول ہے اور سوتے جاگتے میرادل تمہاری بھلائی کی فکر میں ہے.میں اپنے مقصد کے متعلق جہاز میں ہی ایک حصہ کا فیصلہ کر چکا ہوں اور اپنے وقت پر اس کو ظاہر کروں گا.مگر میں آپ کو یقین دلانا چاہتاہوں کہ مجھے جس قدر ہندوستان میں یقین تھا کہ اگر اسلام پھیل سکتا ہے تو آپ لوگوں کے ذریعہ سے.اب اس سے بہت زیادہ یقین ہے.آہ !تم ہی وہ خدا کا عرش ہو جس پر سے خداتعالی حکومت کر رہا ہے.تم کو خدا نے نور دیا ہے جبکہ دنیا اندھیروں میں ہے ،تم کو خدا نے ہمت دی ہے جبکہ دنیا مایوسیوں کا شکار ہورہی ہے، تم کو خداتعالی نے برکت دی ہے جبکہ دنیا اس کے غضب کو اپنے پر نازل کرتی ہے.اور کیوں نہ ہو تم خدا کی
۴۲۰ دوره یو رپ پاک جماعت ہو تمہارے دل اس کے عرش ہیں - آہ!اندھی دنیا کو کیا معلوم ہے کہ جب ایک احمدی ان کے محلّہ میں پھرتا ہے تو وہ خداتعالی کا سورج ہے جو اس کے ظلمت کدہ کو منور کر رہا ہے مگر اندھے کو روشنی کون دکھائے.خوبصورت چہرہ بد صورت کے مقابلہ پر ہی زیادہ بھلا معلوم ہوتا ہے اور میں دنیا کو دیکھ کر اس جماعت کی خوبصورتی کو دیکھتا ہوں.کاش !لوگ میری آنکھیں لیتے اور پھر دیکھتے.کاش لوگوں کو میرے کان ملتے اور پھر وہ سنتے.تب وہ تم میں وہ کچھ دیکھتے جس کے دیکھنے اور سننے کی انہیں امید نہ تھی.مگر ہر امر کے لئے ایک وقت ہوتا ہے.وہ دن آتے ہیں کہ جب مسیح موعود کی قوت قدسیہ کو لوگ دیکھیں گے.کاش! ہم بھی اس دن کو جو خدا کے پہلوان کی فتح کا دن ہو گا دیکھیں.اے عزیزو! اب میں اپنے خط کو ختم کرتا ہوں مگر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صاف کپڑے کی نگہداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے.میلے پر اور میل بھی لگ جائے تو اس کا پتہ نہیں لگتا.پس اپنے آپ کو صاف رکھو تاقدوس خدا تمہارے ذریعہ سے اپنے قدس کو ظاہر کرے.اور اپنے چہرہ کو بے نقاب کرے اتحاد ،محبت ،ایثار، قربانی ،اطاعت ہمدردی بنی نوع انسان ، عفو، شکر ،احسان اور تقویٰ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خداتعالی کا ہتھیار بننے کے قابل بناؤ.ی اد ر کھو!تمہاری سلامتی سے ہی آج دین کی سلامتی ہے اور تمہاری ہلاکت سے ہی دین کی ہلاکت.دنیا تم کو تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر مجھے اس کافکر نہیں.اگر تم خدا کو ناراض کر کے خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرلو تو دنیا تم کو ہلاک نہیں کر سکتی.کیونکہ خدا نے تم کو بڑھنے کے لئے پیدا کیا ہے نہ ہلاک ہونے کے لئے.لکھنے کو تو بہت کچھ جی چاہتا تھا مگراب دوبجنے کو ہیں.پس میں اس خط کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ بھی ہو اور ہمارے ساتھ بھی.آمین.خاکسار مرزا محموداحمد ۲۲جولائی ۱۹۲۴ء (الفصل 9-اگست۱۹۲۴ء)
۴۲۱ دوره یو رپ اغراض سفر کی اہمیت و مشکلات پورٹ سعید کے قریب جہاز سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا دوسرا مکتوب گرامی (تحریر فرموده ۲۸ جولائی ۱۹۲۴ء) أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر برادران جماعت ِاحمدیہ! السلآم عليكم حفظكم الله عن کل شرونصركم الله في كل مؤطن وزاد كم مجد اوکثرکم عدداء ما زلتم تحت ظل حمایتہ وشمس عنايته - افرا تفری میں سفر کی تیاری آج ہمیں قادیان سے چلے چود ہ(۱۴) دن ہو گئے ہیں یعنی پورے دور ہفتے گزر چکے ہیں.مگر ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ہم کس حال میں ہیں.جس افرا تفری میں اس سفر کی تیاری ہوئی ہے شاید اس کی مثال پہلے دنیا میں نہ ملتی ہو.چھ ہزار میل کا سفر اور صدیوں کی تبلیغ کے لئے سکیم بنانے کی تجویز ،اور حالت یہ ہے کہ سفر کے شروع ہونے تک کسی بات کے سوچنے کا موقع نہیں ملا.مذاہب کانفرنس کے
۴۲۲ دوره یو رپ متعلق ہمیں مئی میں علم ہوا ہے.اسکے بعد میں نے مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اس میں مضمون بھیجنا چاہیے.اطلاع نامکمل تھی اس لئے سیکرٹری کو تار دی گئی اور اس کا جواب ۲امئی کے قریب ملا.پھر مشورہ کیا گیا اور بعض لوگوں کی اس تجویز پر بھی غور کیا گیا کہ مجھے خود جانا چاہیے.اس مشورہ کے نتیجہ کے بعد میں نے باہر کے دوستوں سے بھی مشورہ پوچھا اور چونکہ مسلم لیگ کا اجلاس تھا اور اس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے تعلقات کا سوال پیش تھا جس کا اثر خود ہماری جماعت پر اور اسلام کی ترقی پر بھی پڑتا تھا اس لئے میں اس کام میں مشغول ہوگیا.تیئس تاریخ تک میں اس کام سے فارغ ہوا.مذہبی کانفرنس کے لئے مضمون لکھنا اور چوبیس کو میں نے مضمون لکھنا شروع کیا.جو اس قدر وسیع ہوگیا کہ اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا.یعنی ساڑھے چارسَو کالم تک پہنچ گیا.دو دن میں بیمار رہا ،کل بارہ دن میں چھ جون تک یہ مضمون ختم ہوا.چونکہ میں مضمون اردومیں لکھتا ہوں اور دوسرے دوست اسے انگریزی میں ترجمہ کرتے ہیں.اس لئے میرے لئے ایسے مضامین کے متعلق کئی کام ہوتے ہیں - اول مضمون کا لکھنا، دوسرے اس کی نظر ثانی کرنا اور غلطیوں کا درست کرنا ،حوالوں کا لگانا وغیرہ.تیسرے جو ترجمہ انگریزی میں ہو اہو اس کو سننا اور اس کا اُردو کے مضمون سے مقابلہ کر کے دیکھنا کہ آیا ترجمہ صحیح بھی ہوگیا ہے یا نہیں اور مطلب کو واضح کرتا ہے یا نہیں.ساتھ ساتھ دوسرے ساتھی جو انگریزی کے واقف ہوتے ہیں، مضمون کی انگریزی زبان میں بھی مناسب اصلاح کرتے چلے جاتے ہیں بالعموم یہ اصلاح اور مقابلہ بھی اتناہی وقت لیتا ہے جتنا کہ اصل مضمون کی تصنیف.نظر ثانی بھی بہت ساوقت لیتی ہے.اس قدر لمبے مضمون کے متعلق جو دقّت ہوسکتی تھی وہ سمجھ میں آسکتی ہے.مضمون لکھنے کے دنوں میں بھی مجھے بسا اوقات رات کے بارہ بارہ بجے تک اور بعض دفعہ تو دو دو بجے تک بیٹھنا پڑتا تھا.اس شدید گرمی کے موسم میں جبکہ ان کو کام بھی مشکل ہوتا ہے، رات کے وقت لیمپ کی روشنی میں بارہ بارہ بجے تک کام کرنا سخت مشکل کام ہے اور میرے جیسے کمزور صحت کے آدمی کے لئے تو ناممکن معلوم ہوتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت بخش دی اور کام ہوگیا.اس کے بعد نظر ثانی کاکام شروع ہوا اور پھر ترجمہ کے مقابلہ اور اصلاح کا.چونکہ مضمون کے لکھنے کے دنوں میں ملاقاتوں اور ڈاک کے کام کو ہلکا کردیا تھا.اس لئے اب وہ کام بھی جمع ہوگیا.پس نصف دن اس کے لئے لگانا ہے اور نصف مضمون کے لئے.اور اسوجہ سے یہ نظر
۴۲۳ دوره یو رپ ثانی کا کام لمبا ہو گیا اور میرے لئے آرام کا کوئی موقع باقی نہ رہا.مجھے ان دنوں میں بالکل معلوم نہ ہوتا تھا کہ دن کب ہوتا ہے اور رات کب ، کیونکہ میرے لئے یہ دونوں چیزیں برابر تھیں اور اس وجہ سے مجھے سفر کے لئے پروگرام بنانے کا بھی کوئی موقع نہیں ملتا تھا.نظر ثانی اور ترجمہ اور اس کی اصلاح کا کام جس میں چوہدری ظفراللہ خان صاحب ،مولوی شیر علی صاحب اور عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب نے رات اور دن کو ایک کردیا.فجزاهم الله احسن الجوار ۲جولائی کو جاکر ختم ہوا.دوسرا مضمون لکھنے کی تجویز اور اس عرصہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ جو مضمون لکھا گیا ہے وہ اس طرز کا ہے کہ اس کا کوئی حصہ پڑھ کر سنانا مناسب نہیں اور سارا مضمون کی صورت میں بھی پڑھا نہیں جاسکتا.اس لئے ایک نیا مضمون لکھا جائے جو مختصر ہو اور پہلے مضمون کو بطور کتاب شائع کر دیا جائے.اس فیصلہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ دو تاریخ کو فارغ ہوتے ہی مجھے نئے مضمون کی تصنیف میں مشغول ہونا پڑا.دوسے نو(۹) جولائی تک یہ مضمون لکھا گیا.اس کی نظر ثانی ہوئی اور اس کا ترجمہ ہوا اور اس کی صحت ہوئی.یہ مضمون بھی سَو کالم کا تھا اور اس سے دوست اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان سات دنوں میں ہمیں ہرگز ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں مل سکتی تھی.دودن نو اور دس کی درمیانی رات کے گیارہ بجے یہ مضمون ختم ہوا اور ۱۲ تاریخ کو ہم نے جاناتھا.پس دس اور گیارہ دوتاریخیں تھیں جو مجھے فراغت کی ملیں.ان تاریخوں میں بھی مجھے کسی سکیم پر غور کرنے یا گھر کے کاموں کے لئے فرصت نہیں مل سکتی تھی.اپنے بعد قادیان میں انتظام کا فیصلہ کرنا، لائبریری میں سے بعض کتب کا نکالناجو سفر کے لئے ضروری تھیں،دوسرے لوگوں کی کتب کو واپس کرنا اس کام پر یہ دودن خرچ ہو گئے.مزار مسیح موعودؑ اور تڑپادینے والے خیالات جس دن صبح کے وقت چلنا تھا اس دن رات کے ایک بجے میں اپنے بعد کام کے چلانے کے متعلق ہدایات لکھنے سے فارغ ہوا.اور یہ صبح عبد السلام والد حضرت خلیفہ اول کو جو بیمار تھے دیکھ کر اس آخری خوشی کو پورا کرنے چلا گیا جو اس سفر سے پہلے میں قادیان میں حاصل کرنی چاہتا تھا.یعنى أقائی و میدی واختي و مموری وحبيبي ومرادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لئے.ایک بے بس عاشق
۴۲۴ دوره یو رپ اپنے محبوب کے مزار پر عقیدت کے دو پھول چڑھانے اور اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں دعاکر دینے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے.سو اس فرض کو ادا کرنے کے لئے میں وہاں گیا مگر آہ! وہ زیارت میرے لئے کیسی افسردہ کن تھی.اس میں کوئی شک نہیں کہ مردے اس مٹی کی قبر میں نہیں ہوتے بلکہ ایک اور قبر میں رہتے ہیں.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس مٹی کی قبر سے بھی ان کو ایک تعلق رہتا ہے اور پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسانی دل اس قُرب سے بھی جو اپنے پیارے کی قبر سے ہو ایک گہری لذت محسوس کرتا ہے.پی ہے جدائی میرے لئے ایک تلخ پیالہ تھا اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا.میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ہاں ان خواہشات میں سے جن کا خیال کرکے بھی میرے دل میں سرور پیدا ہو جاتا تھا ، ایک یہ خواہش تھی کہ جب میں مر جاؤں تو میرے بھائی جن کی محبت میں میں نے عمر بسرکی ہے اور جن کی خدمت میرا واحد شغل رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے عین قدموں کے نیچے میرے جسم کو دفن کردیں تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولا مجھ پر بھی رحم فرماوے.ہاں شاید اس قرب کی وجہ سے وہ عقیدت کیش احمدی جو جذبہ محبت سے لبریزدل کولےکر اس مزار پر حاضر ہو میری قبر بھی اس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ؎ اے خانا برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی اور وہ کوئی کلمہ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے جس سے میرے رب کا فضل جوش میں آکر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامن رحمت میں چھپالے.آہ! اس کی غنا میرے دل کو کھائے جاتی ہے اور اس کی شان احدیت میرے جسم کے ہر ذرہ پر لرزہ طاری کردیتی ہے.پس میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ جسمانی قرب رُوحانی قرب کا موجب بن جائے.اللہ تعالیٰ کا فضل تو سب ہی کچھ کر سکتا ہے.مگر اپنی شامت اعمال اور صحت کی کمزوری دل کو شکارِ اوہام بنادیتے ہیں.پس میری جدائی حسرت کی جدائی تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میری صحت جو پہلے ہی کمزور تھی، پچھلے دنوں کے کام کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئی ہے.میرے اندر اب وہ طاقت نہیں جو بیماریوں کا مقابلہ کر سکے.وہ ہمت نہیں جو مرض کی تکلیف سے مستغنی کردے.ادھر ایک تکلیف دہ سفر درپیش تھا جو سفر بھی کام ہی کام کا پیش خیمہ تھا اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر دل ڈرتا تھا اور کہتا تھا کہ شاید کہ یہ زیارت آخری ہو.شاید وہ امید حسرت میں تبدیل ہونے والی ہو.سمندر پار کے مردوں کو کون لاسکتا ہے.ان کی قبر یا سمندر کی تہہ اور مچھلیوں کا پیٹ ہےیا
۴۲۵ دوره یو رپ دیار ِبعیده کی وہ سرزمین جہاں مزار ِمحبوب پر سے ہو کر آنے والی ہوا بھی تو نہیں پہنچ سکتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک وہم تھا.کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ہی امیدوار ہیں اور میں تو کبھی اس سے مایوس نہیں ہوا.کیونکہ میں اس کا بندہ ہوں اور میرا یہ حق ہے کہ میں اس سے مانگوں اور وہ میرا رب ہے اور اس کی شان ہے کہ وہ مجھے دے.مگر ’’عشق است و ہزار بد گمانی‘‘.عشق اور محبت و ہم پیدا کیا ہی کرتے ہیں.اور خصوصا ًاس قدر لمبا سفر اور ایسی تکلیف کا سفر اور صحت کی خرابی، ایسے قوی موجبات ہیں کہ جن کے سبب سے ایسے تم بالکل طبعی ہیں.روانگی کی گھڑی غرض حسرت واندوہ سے میں اس مقام سے جدا ہو اور گھر پہنچا.صرف ایک ایک دو دو منٹ مجھے اپنی بیویوں سے ملنے کے لئے ملے.اور اتنا ہی وقت حضرت والد مکرمہ اور ہمشیرگان سے ملاقات کے لئے.چلتے ہوئے اپنے بعض بچوں کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا.میں یہ بھی نہیں دیکھ سکا کہ میرے ساتھ کیا اسباب ہے.آیا کوئی ضروری چیز رہ تو نہیں گئی.خود فرصت نہ دیکھ کر اپنے دو عزیزوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ ایک نظر ڈال لیں اور فہرست بنالیں مگر کام کی کثرت کی وجہ سے ان سے فہرست لینا بھی بھول گیا.راستہ میں دو دن دوستوں کی ملاقاتوں میں صرف ہوئے اور ان دنوں میں بھی آرام کا موقع نہیں ملا.بمبئی پہنچے تو معلوم ہوا کہ جہاز دوسرے دن صبح ہی چلنا ہے اس رات بھی دوبجے تک کام کیا اور صبح سوار ہو گئے.سمندر کا شدید طوفان جہاز بندر سے نکلاہی تھا کہ ایسا شدید طوفان آیا کہ الامان! ہمارے سب ساتھی سوائے بھائی جی اور چوہدری فتح محمد صاحب کے بیمار ہو گئے.اور کسی قدر طاقت چوہدری علی محمد میں رہی.باقی ہم سب صاحب فراش تھے.مجھے قَے نہیں آئی، باقی اکثر کو قیئیں بھی بہت سی آئیں اور بعض کو کم.اکثر ساتھی تین دن تک پاخانہ ،پیشاب کے لئے بھی اُٹھ کر نہیں جا سکے.سر بستر سے اٹھانا مشکل تھا.کھانے کی مشکلات اور ادھر یہ مصیبت کہ بہت سے ٹکٹ بے خوراک کے تھے.اور بمبئی میں شام کو پہنچنے کی وجہ سے کھانے کا سامان نہیں خریدا جاسکا تھا.پس بیماری پر مزید تکلیف کھانے کا سامان نہ ہونے کی تھی.جن کے ٹکٹ کھانے کے بھی تھے وہ بھی معذور تھے یا تو کھایانہ جاتا تھا اور اگر کھانے لگتے تو خوراک مناسب نہ تھی.گوشت عام طور
۴۲۶ دوره یو رپ پریاسؤر کا یا گردن مروڑے ہوئے مرغ کا ہوتا تھا یا ایک تھالی گائے کے گوشت کی جو وہ بھی ہندوستانی طریق خوراک کے خلاف.یہ گوشت چونکہ بمبئی کا خریدا ہوا تھا اس کا کھانا تو جائز تھا مگر وہ عام طور پر کھٹاس میں پکایا ہوا ہوتا تھا.جس کی وجہ سے ہمارے لئے کھانا اس کا بہت مشکل تھا.باقی ابلے ہوئے آلو اور اُبلی ہوئی پھلیاں تھیں.جن کو بِلا اعتراض کے کھایا جاسکتا تھا.ان حالات میں جو تکلیف تمام قافلہ کو پہنچی اس کا اندازہ ہمارے دوست نہیں کر سکتے.دوستوں کی حالت اوردل توڑدینے والانظاره بعض کمزور طبیعت دوست تو رو پڑے اور بعض کو میں دیکھتا تھا کہ ان کے چہروں پر جُھریاں پڑگئیں اور بوڑھے معلوم ہونے لگے میں کسی وقت ہمت کر کے دوستوں کی ہمت بڑھانے کے لئے کمرے سے نفس پر زور کر کے باہر چلا جاتا تو سب دوست خوشی سے میرے گرد اکٹھے ہو جاتے.مگر جس طریق سے وہ اکٹھے ہوتے تھے وہ خود دل کو توڑ دینے والا تھا.ست جو میرے ساتھ تین چار دن پہلے اچھے بھلے اور تندرست سوار ہوئے تھے جب میں دیکھا کہ وہ گھٹنوں کے بل گِھسٹتے ہوئے جس طرح اپاہج چلتا ہے میری طرف آتے تھے اور آکر میرے پاس اس طرح لیٹ جاتے جس طرح زخمی پڑے ہوئے ہوتے ہیں تو میرا خداہی جانتاہے کہ میرے دل پر اس نظارہ کا کیا اثر ہوتا تھا.یہ حالت چار دن تک تو بہت شدت سے رہی اور پانچویں دن بھی کافی سخت تھی گو زور کم ہونا شروع ہو گیا تھا.طوفان ان پانچ دنوں میں ایساسخت رہا کہ جہاز کے عادی ملاح بھی نصف کے قریب بیمار ہوگئے اور افسراس قدر گھبرا گئے کہ جب کپتان جہاز سے پوچھا گیا کہ عدن کب پہنچیں گے.تو اس نے ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف اٹھادیئے اور آنکھیں آسمان کی طرف اٹھادیں جس کا مطلب یہ تھا کہ خداہی پہنچائے گا.لہر اتنی اونچی تھی کہ میں جہاز کی اوپر کی چھت پر لیٹا ہوا تھا اور کمرے کے اندر تھا کہ ایک درباره گز اُونچی اٹھ کر چھت پر آگری.اور کمرہ کے اندر مجھ پر آکر گری جس سے میں تر بہ تر ہوگیا ،کئی تختے ٹوٹ گئے.میری طبیعت پر پہلی سخت اور بعد کی تکلیف کا یہ اثر ہوا کہ میرا حلق بالکل بیٹھ گیا دن میں تین دفعہ دوائی لگائی جاتی ہے اور کئی دفعہ پلائی جاتی ہے مگر کوئی اثر نہیں.گلے میں شدید درد ہے اور ساتھ ہی بخار بھی شروع ہوگیا ہے.ہلکاہلکا بخار دن بھر رہتا ہے.سر میں بھی درد رہتا ہے اور طبیعت روز بروز گُھلتی جاتی ہے اور آگے کام کا پہاڑ نظر آتا ہے اور سفر کی شدائد ابھی باقی ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:
۴۲۷ دوره یو رپ ؎ جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ:.؎ٍ کو جو کام کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے اغراض سفر جس کام کے لئے میں جارہا ہوں وہ اپنی نوعیت میں بالکل نرالا ہے.ایسا نرالا کہ اب تک ہمارے بعض دوست بھی اس کو نہیں سمجھے.میں نے سنا کہ ایک دوست ریل میں ایک غیر احمدی کو سمجھارہے تھے کہ ان کے ولایت جانے کی غرض تبلیغ اسلام ہے.حالانکہ گو تبلیغ اسلام ہر اک کا فرض ہے اور میرا بھی مگر جیسا کہ میں نے بوضاحت لکھا ہے تبلیغ کے لئے باہر جانا خلیفہ کے لئے درست نہیں.اس کا اصل کام تبلیغ کی نگرانی ہے.اس کا مبلّغ کے طور پر باہر جانا سلسلہ کے لئے ایسی خطرناک مشکلات پیدا کر سکتا ہے جن سے باہر نکلنا مشکل ہوجائے.پس یہ سفر تبلیغ کے لئے نہیں ہے بلکہ تبلیغ کی مشکلات کو معلوم کرنے اور ایسا مقامی علم حاصل کرنے کے لئے ہے جو آئندہ مغربی ممالک میں تبلیغ کرنے کے لئے مُمِدّ ہو.اور ان خطرناک آفات کو معلوم کرنے اور ان کا علاج دریافت کرنے کے لئے ہے جو مغربی ممالک میں اسلام کے پھیلنے کے ساتھ میں پیدا ہونے والی ہیں.اور جن کو اگر پہلے سے مدنظرنہ رکھا گیاتو اسلام کا مغرب میں پھیلنا ہی اسلام کی تباہی کا موجب ہو گا.کام کی مشکلات ان مشکلات کاندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ مالک جو اسلامی کہلاتے ہیں وہ بھی یورپ کی تہذیب کے اثر کے نیچے پردہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں ،عورت اور مرد کے اکٹھے ناچ کاان میں رواج پایا جاتاہے ،سودعام ہو چکا ہے.جب یہ اثر یورپ کے لوگوں نے صرف ملاقات سے ان مسلمان قوموں پر ڈال دیا ہے جو نسلاً بعد نسلِ مسلمان چلی آتی ہیں اور جو اس سے پہلے اسلامی احکام کی عادی ہو چکی تھیں تو کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ یہ قومیں مسلمان ہو کر ان عادات کو چھوڑ دیں گی.لیکن اگر یہ مسلمان ہو کر ان عادات کو قائم رکھیں تو یقیناًدوسری اسلامی دنیا جو اس وقت تک اسلامی احکام پر قائم ہے ان کو مسلمان بھائی خیال کر کے اپنی پہلی حالت کو بدل دے گی.کیونکہ یورپ کو دنیا کے خیالات پر ایسی حکومت ہے کہ وہ مسمریزم سے مشابہ معلوم ہوتی ہے.جب یورپ مسلمان ہو اتو مسلمانوں پر اس کے خیالات کا اثر اور بھی بڑھ جائے گا اور جس بات کو یورپ معمولی کہے گا وہ بھی معمولی سمجھنے لگیں گے.
۴۲۸ دوره یو رپ وجاہت کا اثر وجاہت کا دنیا میں بڑا اثر ہوتا ہے اپنے اندر ہی دیکھ لو خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو وجاہت حاصل تھی.جماعت کے ایک حصہ کو انہوں نے کس طرح تباہ کردیا.بعض لوگ واقعہ میں مخلص تھے اور حضرت مسیح موعود کے دعووں پر ایمان رکھتے تھے.مگر ان کی وجاہت کے اثر کے نیچے جن باتوں کو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہیں انہوں نے بھی کہہ دیا ٹھیک ہے.اگر یورپ کے مالدار اور فلاسفر مسلمان ہو گئے اور دنیا کی شان و شوکت نے مسلمانوں کی آنکھوں کو چُندھیادیا.تو اس وقت اگر یورپ کے نو مسلموں نے کہا کہ پردہ سے مراد خداتعالی کی یہ پردہ نہیں ہو سکتا تھابلکہ اس سے مراد صرف اس وقت کی ضرورتوں کا پورا کرنا اور بعض فسادوں سے بچنا تھا تو تمام عالم اسلام کہے گا کہ سبحان اللہ کیا نکتہ نکالا ہے.اور اگر اس نے یہ کہا کہ سود سے مراد بھی صرف وہ قرض ہے جو مصیبت زدہ لیتا ہے اس کو بے شک سود کہہ دینا چاہیے.لیکن جو روپیہ لوگ تجارتوں اور جائدادوں کے بڑھانے کے لئے لیتے ہیں اس پر کیوں روپیہ قرض دینے والا نفع نہ لے یہ سود نہیں تو سب لوگ کہیں گے کہ واہ واہ نہایت پُر حکمت بات نکالی ہے.پس ہم دو آگوں میں ہیں اگر ہم یورپ کو مسلمان نہیں کرتے تب اسلام خطرہ میں ہے اور اگر ہم اسے مسلمان کرتے ہیں تب بھی اسلام خطرہ میں ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ اس مسئلہ پر جس قدر بھی غور کیاجائے عقل حیران ہوتی جاتی ہے.ہر ممکن پہلوسے غور کریں اور کوئی ایسی تدبیر نکالیں جس سے یہ دقّتیں دور ہوں.اور مغربی ممالک اسلام کو قبول بھی کرلیں اور اسلام کی اصلی شکل کو بھی نقصان نہ پہنچے.کام کے نظام اور کام میں فرق چونکہ مسلمانوں میں سے عموماً اور ہندوستان سے خصوصاً حکومت جاتی رہی ہے.اور اس وجہ سے ہی حکومت کی روح بھی نہیں رہی اس لئے لوگ ان باتوں کے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہے.وہ اس امر کو تو سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی کام عارضی طور پر کر کے ہم اس سے فائدہ اٹھالیں لیکن وہ اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ کام کے کرنے کے طریق کا فیصلہ کیا جائے.ان کے نزدیک یہ بات ہر شخص فورا ًسمجھ سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایشیائی لوگ ہمیشہ اپنی کوششوں میں ناکام رہتے ہیں.مغربی لوگ جو کام شروع کرتے ہیں پہلے اس کام کے سب پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں اور اس کی مشکلات کو حل کرنے کی تدبیریں سوچتے ہیں پھر اس کام کو کرتے ہیں اور اس وجہ سے اکژ کامیاب بھی ہوتے ہیں جب تک یہ مرض ایشیائیوں کے دل سے دُور نہ ہوگی کہ
۴۲۹ دوره یو رپ ایک منٹ کے فکر کے بعد جو خیال ان کے دل میں آجائے وہ سکیم نہیں کہلاتی.بہت سی باریک باتیں ہوتی ہیں جو لمبے غور اور بڑے تجربہ سے معلوم ہوتی ہیں اس وقت تک وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ایک عام بیماری ہمارے ملک میں یہ عام بیماری ہے کہ ایک شخص جو عمر بھر کسی کام میں صرف کر دیتا ہے، اس کی رائے کے مقابلہ میں ایک ناتجربہ کار آدمی جھٹ اپنی رائے کو پیش کر دے گا اور سمجھ لے گا کہ دو منٹ بات سن کر میں نے سب باتیں معلوم کرلی ہیں.اور یہ بیماری اس خیال کا نتیجہ ہے کہ وہ کام کے نظام اور کام میں فرق نہیں سمجھ سکتے.کام معمولی آدمی بھی کر سکتے ہیں مگر کاموں کا نظام صرف بہت بڑے ماہر بہت غور کے بعد تجویز کر سکتے ہیں.ایک عمارت کا نقشہ ایک ماہر فن تجویز کرتا ہے اور بنا ایک مستری بھی لیتا ہے.سفر کی غرض پر انگریزوں کو تعجب خلاصہ یہ کہ ہمارے کام کی مشکلات میں سے ایک یہ مشکل ہے کہ اس کی اہمیت کے لوگ نہیں سمجھ کئے.حتیّٰ کہ ابھی اپنی جماعت کے بعض لوگ بھی اس کو نہیں سمجھ سکتے.مگر یورپ کے لوگ فورا ًسمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کاموں کے عادی ہیں.اس قدر عرصہ سے ہم یورپ میں تبلیغ کر رہے ہیں کبھی اس پر انگریزوں نے تعجب نہیں کیا.لیکن میرے سفر کی غرض معلوم کر کے تمام تعجب کر رہے ہیں.مکرمی ذوالفقار علی خاں صاحب ایک کام کے لئے پچھلے دنوں شملہ گئے تھے وہاں گورنمنٹ کے مختلف انگریز دوزراء سے ان کی گفتگو ہوئی ،وہ شوق سے اس سفر کی غرض دریافت کرتے اور جب غرض کو معلوم کرتے تو سخت حیرت کا اظہار کرتے اور میری نسبت پوچھتے کہ کیا وہ اس کام کو ممکن خیال کرتے ہیں بلکہ ایک وزیر نے تعجب سے کہا کہ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یورپ مسلمان ہو کر پردہ کو بھی تسلیم کرلے گا یہ کبھی نہیں ہو سکتا.جہاز پر جو انگریز اس کو سنتا ہے، سخت تعجب کرتا ہے.ایک انگریز سے بعض دوستوں کی گفتگو ہوئی جب اس نے سفرکی وجہ سنی تو حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ کیا آپ کو ’’کے نیوٹ‘‘ کا قصہ معلوم ہے؟ انہوں نے کہا.ہاں! تو کہنے لگا یہ ویسی ہی بات ہے ایک بادشاہ کا قصہ کے نیوٹ ایک انگریز بادشاہ تھا.اس کو خدا تعالی نے بہت اقبال دیا تھا.ایک دن سمندر کے کنارے بیٹھا تھا اس کے درباریوں نے خوشامد کے طور پر کہنا شروع کیا کہ تمہاری حکومت تو زمین اور سمندر بھی مانتے ہیں.وہ دانا بادشاه
۴۳۰ دوره یو رپ تھا اس نے اپنی کُرسی سمندر کے کنارے پر بچھائی اور وہاں بیٹھ گیا.وہ وقت مَد کا تھا جس وقت سمندر جوش میں آتا ہے اور وہ میل میل خشکی پر چڑھ جاتا ہے.لہریں اٹھنے لگیں اور پانی کُرسی کے گرد اونچا ہونے لگا.کے نیوٹ ظاہر میں غصہ کی شکل بنا کر لہروں کو حکم دیتا کہ پیچھے ہٹ جاؤ مگر پانی بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ بادشاہ کے ساتھیوں کو جان کا خطرہ پیدا ہو گیا.اس وقت بادشاہ اٹھ کر خشکی کی طرف آیا اور درباریوں سے کہا کہ دیکھا تم کس قدر جھوٹ کہتے تھے.قصہ کا مطلب اس کا یہ مطلب تھا کہ جس طرح ’’کے نیوٹ" بادشاہ کے حکم سے باوجود اس کے اقدار کے سمندر پیچھے نہیں ہٹتا تھا اسی طرح یورپ کو ایشیائی طریق کا مسلمان بنانا ممکن ہے.وہ کسی تدبیر سے اس کو قبول نہیں کر سکتا.مگر ادھر تو اس سفر پر انگریزوں کو اس قدر تعجب ہے ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ محض تبلیغ پر انہوں نے کبھی تعجب نہیں کیا.وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ منہ سے اسلام کا اقرار کرا کے اسلام سے ایک ظاہری تعلق تو یورپ کا پیدا کرایا جاسکتا ہے مگر اسلام کے تمدن کا ان کو عادی بنا دیناممکن ہے.یورپ کے اسلامی تمدن کو قبول نہ کرنے کا خطرہ مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اگر یہی بات ہو کہ یورپ اسلام کو قبول کر لے مگر اس کے تمدن کو قبول نہ کرے تو یہ کیسی خطرناک بات ہوگی.اسلام جو تیرہ سو سال سے بالکل محفوظ چلا آیا ہے اس کی شکل کس طرح بدل جائے گی.اور مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی غرض کس طرح باطل ہو جائے گی.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پھر یورپ میں تبلیغ کے کام کو چھوڑو.کیونکہ یورپ کی غیر معروف بے کس آدمی کا نام نہیں جو اپنے گھر میں بیٹھا رہتا ہے.اس کو اگر ہم اکیلا چھوڑ دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں.یورپ ایک زندہ طاقت کا نام ہے جس کی مثال اس ریچھ کی ہے جسے چھوڑنے کے لئے مسافر تو تیار تھا مگروہ مسافر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا.یورپ کامذہب، یورپ کا تمدن، یورپ کا علم دنیا کو کھا رہا ہے اور کھاتاچلاجارہا ہے.ہمارا اسکو چھوڑ دینا یہ مطلب رکھتا ہے کہ ہم اسے چھوڑ دیں کہ وہ اسلام کا جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسکو بھی کھاجائے اور ہماری ترقی کا میدان بالکل تنگ ہو جائے.ہم جس قدر آدمیوں کو ایک سال میں احمدی بناتے ہیں اس سے کئی گنا لوگوں کو یورپ اپنا شکار بنا لیتا ہے اور پھر یورپ کی تصنیف کردہ کتب ہمارے بچے بھی پڑھتے ہیں اور ان سے متاثر ہونے کے خطرہ میں ہیں پس یہ بالکل ناممکن ہے کہ ہم یورپ کو چھوڑدیں.
۴۳۱ دوره یو رپ یوروپین تمدن چھوڑنے میں مشکلات اب دوسری صورت یہ ہے کہ ہم یورپ میں سرنگ لگانی شروع کردیں اور اس کے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں.مگر یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایک دن میں چار پانچ کروڑ لوگ مسلما ن ہو جائیں.اور ان کا الگ انتظام قائم ہو جائے وہ الگ اپنی سوسائٹی قائم کر لیں.لیکن اگر ایک ایک دو دو کر کے لوگ مسلمان ہوں تو وہ یورپ میں رہ کر یورپ کے تمدن کو چھوڑنا چاہیں بھی تو نہیں چھوڑ سکتے.مثلاً پردہ ہے.اول تو وہاں برادری اور دوستوں کے طنز کی برداشت ہی نَو مسلم کے لئے ناممکن ہے اور اگر وہ تیار ہو تو پھر وہاں کے حالات روک ہیں.پردہ کرنے والے ملکوں میں مکان ایسے بنائے جاتے ہیں کہ عورتیں گھر میں رہ کر بھی ہوا کھا سکیں، صحن ضرور ساتھ ہوتے ہیں مگر یورپ میں الگ صحن کا رواج نہیں ،صرف کمروں میں لوگ رہتے ہیں.اب یہ خیال کرنا کہ ایک نَو مسلمہ رات اور دن ایک کمرہ میں بیٹھی رہے بالکل عقل کے خلاف ہے.پھر ایک اور سوال یہ ہے کہ وہاں گذارہ اس قدر گراں ہے کہ مرد کو ساراون محنت کرنی پڑتی ہے اور وہ گھر کے کام میں عورت کی مدد نہیں کر سکتا.عورت اگر سودا نہ لائے تو گھر کا کام چل نہیں سکتا.وہ پردہ کرے تو گھر کا سودا کس طرح لائے.بے شک وہ نقاب سے کام لے سکتی ہے اور عورت کو سودا خریدنا منع نہیں ہے مگر پھر ایک اوردقّت ہے اور وہ یہ کہ یورپ ہندوستان کی طرح نہیں.وہاں گلیوں میں اس قدر موٹر چلتا رہتا ہے کہ جب تک آنکھیں پھاڑ کر اور ہوشیار ہو کر آدمی نہ چلے، اس کی جان ہر وقت خطرہ میں ہے.ایک ایک شہر میں سینکڑوں آدمی ہر سال موٹروں کے نیچے آکر مر جاتے ہیں.پس نقابیں پہن کر عورتوں کا پھرنا نہایت خطرناک اور موجب ہلاکت ہے.چند مسلمان ہونے والی عورتوں اور مردوں کے لئے حکومتیں اپنے قانون نہیں بدلیں گی، مکانوں والے اپنے مکان نہیں توڑ ڈالیں گے، پھر وہ لوگ کریں تو کیا کریں.یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ سینکڑوں دقّتیں ہیں جو مغرب کی تبلیغ کے راستہ میں ہیں اور جن میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ ان میں مغربی نَو مسلم مجبور ہوتا ہے، پس یہی ہو گا کہ وہ اسلام کو قبول کر کے بھی اپنی رسموں کو نہیں چھوڑے گا اور مسلمان ہونے کے بعد جب وہ وہی کام کرتا رہے گا جو وہ پہلے کرتا تھا تو آہستہ آہستہ اس میں یہ خیال پیدا ہو جائے گا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام ایک بدلی ہوئی صورت میں یورپ میں قائم ہو جائے گا اور ان سے آگے وہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا.جس طرح یورپ نے مسیحیت کو تباہ کیا تھا الا بالله \" و اسلام کو بھی دوستی
۴۳۲ دوره یو رپ کے جامہ میں تباہ کر دے گا.پس ہم دوآگوں میں ہیں.اور ہماری مثال وہی ہے کہ’’ نہ جانے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ – اس مشکل کا علاج سوچنے کے لئے یا وہاں کے مقامی حالات معلوم کرنے کے لئے تاکہ مُبلّغوں کی سختی سے نگرانی ہو سکے اور جہاز کو چٹانوں میں سے بہ حفاظت گذارا جاسکے اس سفر کی ضرورت پیش آئی ہے.اور غالباً اب آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ کیسی مشکل غرض ہے.سوائے خدا تعالی کی مدد کے ہم اس مشکل کو حل نہیں کر سکتے.مسلمان بنانا آسان ہے مگر اسلام کو ان سے بچانا مشکل ہے اور اس وقت میرے سفر کی یہی غرض ہے.یورپ میں اشاعت اسلام کے متعلق خطره یورپ کے واقف کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے یورپ ضرور اسلام لائے گامگر وہ ساتھ ہی اسلام کو بگاڑ دیگا اور اس کی شکل کو بالکل مسخ کردے گا.بالکل ممکن ہے کہ یورپ میں چاروں طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں آنے لگیں اور سب کے گرجوں کی جگہ مساجدبن جائیں لیکن یہ فرق ظاہر کا ہو گا.لوگ تثلیٹ کی جگہ توحید کو دعویٰ کریں گے، مسیح کی جگہ رسول کریم ﷺکی عزت زیادہ کریں گے، مسیح موعود پر ایمان لائیں گے، گرجوں کی جگہ مسجدیں بنائیں گے، مگران میں وہی ناچ گھروہی عورت اور مرد کا تعلق، وہی شراب ،وہی سامانِ عیش نظر آئیں گے.یورپ یہی رہے گا، گو وہ بجائے عیسائی کہلانے کے مسلمان کہلائے گا.میری عقل یہی کہتی ہے کہ حالات ایسے ہی ہیں مگر میرا ایمان کہتا ہے کہ تیرا فرض ہے کہ تُو اس مصیبت کو جو اگر اسلام پر نازل ہوئی تو اس کو کچل دے گی ،دور کرنے کی کوشش کر.غور کر اور فکر کر اوردعاکر.پھر غور کر اور فکر کر اوردعاکر.اور پھر غور کر اور فکر کر اوردعاکر.کیونکہ تیراندا بڑی طاقتوں والا ہے.شاید وہ کوئی درمیانی راہ نکال دے اور اس پانی کو جو اسلام کے سامنے ایک نئے رنگ میں کھڑی ہے دور کر دے.غیر احمدیوں کے لئے یہ وِقّت ہے کہ یورپ اپنی مخالفت سے ان کو تباہ کردے گا.ہمارے لئے یہ مشکل ہے کہ یورپ اپنی دوستی سے ہمارے دین کو برباد کر دے گا.وہ تو اپنی حالت پر خوش ہیں، ہم لوگ خوش نہیں ہو سکتے.ان کو حکومتوں کی فکر ہے اور ہمیں اسلام کی پس ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں اور یورپ کی تبلیغ کے لئے ہر قدم جو اٹھائیں اس کے متعلق پہلے غور کرلیں.اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک کہ وہاں کے حالات کا عینی علم حاصل نہ ہو.پس اسی وجہ سے باوجود صحت کی کمزوری کے میں نے اس سفرکو اختیار کیا ہے.
۴۳۳ دوره یو رپ جماعت کے لئے انذار اگر میں زندہ رہا تو میں انشاءالله اس علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا.اگر میں اس جدوجہد میں مر گیا تو اےقوم! میں ایک نذیر عُریان کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا.اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا.جس خدا نے مسیح موعود کو بھی چاہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا.پس کوشش نہ چھوڑنا، نہ چھوڑنا، نہ چھوڑنا ،آہ نہ چھوڑنا.میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر اک حکم ناقابل تبدیل ہے، خواہ چھوٹا ہو ،خواہ بڑا.جو چیز سنت سے ثابت ہے وہ ہرگز نہیں بدلی جاسکتی.جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے کاش وہ پیدا نہ ہو گا.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ تم دنیا کے حالات سے آنکھیں بند کر لو اور بعض نادانوں کی طرح کہہ دو کہ پھر یورپ کی تبلیغ پر لاکھوں روپیہ صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے.یورپ سب سے بڑا دشمن اسلام کا ہے.وہ مانے نہ مانے تمهاری کوشش کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو تم کو اسے نہیں چھوڑنا چاہئے.اگر تم دشمن پرفتح نہیں پاسکتے تو تمہارا یہ فرض ضرور ہے کہ اس کی نقل و حرکت کو دیکھتے رہو تو وہ تمہاری غفلت سے فائدہ اٹھا کر تم پر فتح نہ پالے.اور پھر میں کہتا ہوں کہ یہ کسی کو کس طرح معلوم ہوا کہ یورپ آخر اسلام کو قبول نہیں کرے گا.یورپ کے لئے تو اسلام کا قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام کو قبول کرے کہ اسلام ہیکو نہ بدل دے.پس ہم اگر یورپ کو چھوڑ دیتے ہیں تو ہماری مثال اس کبوتر کی ہوگی جوبلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب میں محفوظ ہو گیا ہوں.یہ ہو سکتا ہے کہ ہم کو جب تک صحیح راستہ معلوم نہ ہو ان لوگوں کے مسلمان بنانے پر زیادہ زور نہ دیں.مگر یورپ میں ایسے مشن رکھنے جو ہر وقت حالات کو تاڑتے رہیں اور موقع کے منتظر رہیں نہایت ضروری ہے.قرآن کریم حکم دیتا ہے ورابطوا ہمیشہ دشمن کی سرحد پر اپنے آدمی رکھو جو ان کی نقل و حرکت کو دیکھتے ہیں.جس دن مسلمانوں نے اس حکم سے غفلت کی اسی دن سے وہ تباہ ہونے لگے اور اگر تم بھی روپیہ کے خرچ سے ڈر کر یا کسی اور سبب سے ایسا کرو گے تو تم بھی تباہ ہو گئے.خداتم کو بچائے اور تمہار احافظ و ناصر ہو.مسیح موعود ؑکے قائم مقام کے سفریورپ کا ذکر قرآن میں میں آخر میں اسی امر کے بیان کرنے
۴۳۴ دوره یو رپ سے بھی نہیں رک سکتا کہ یورپ کی طرف مسیح مو عودیا آپ کے کسی جانشین کا اس غرض سے سفر کرنا جس غرض سے میں نے سفر کیا ہے، قرآن کریم میں بھی مذکور ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے سفر کے بغیر اسلام کی حفاظت کامل نہیں ہوسکتی.یہ ذکر سورة کہف میں ہے جس میں اللہ تعالی ذوالقرنین کی نسبت فرماتا ہے.فَاَتْبَعَ سَبَبًاحَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا۬-قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَیُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا وَ اَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَ اﰳلْحُسْنٰىۚ- وَ سَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًاذوالقرنین ایک راستہ کی طرف چلا یہاں تک کہ وہ مغرب کے ملکوں میں پہنچ گیا.اور دیکھا کہ یہ ممالک جہاں سورج ڈوبتا ہے ایک گدلے چشمے کی طرح ہیں جس میں پانی تو ہے مگر بُوار اور گنده جو استعمال کے قابل نہیں رہا.اور اس نے اس چشمہ کے پاس ایک قوم دیکھی جس کی نسبت ہم نے ذوالقرنین سے کہا کہ ان کے متعلق کوئیفیصلہ کر.یا تو یہ فیصلہ کرے کہ یہ تباہ کردیئے جائیں اور یا تو ان سے ایسا سلوک کر کہ ان کی حالت اچھی ہوجائے.ذوالقرنین نے جواب میں کہا کہ جو ظلم کرنے والا ہو گا اس کو تو میں عذاب دوں گا اور پھر وہ خدا کی طرف لوٹایا جائے گا یعنی مرجائے گا.اور اس کو ایساسخت عذاب ملے گا جو کسی کو کم ہی ملا ہوگا اور جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے گا، پس اس کو نیک جزا ملے گی اور ہم اسے اپنے احکام سہولت کے ساتھ آسانی کے ساتھ سمجھائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں کہ ذوالقرنین آپ کا نام ہے.اور گدلے چشمہ سے مراد مسیحی تعلیم ہے.جوہے تو خداتعالی کی طرف ہے مگر اب وہ خراب ہوگئی ہے اور استعمال کے قابل نہیں.مغرب کے لوگ اس چشمہ کے پاس ہیں.یعنی اس گندی تعلیم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں کرتے.پس جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کے مطابق ذوالقرنین آپ ہیں اور مغربی ممالک سے مراد یورپ و امریکہ کے لوگ ہیں جو مسیحیت کے چشمہ پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود ؑیا ان کے کسی جانشین کو مغربی ممالک کا سفر کرنا ہو گا.کیونکہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ فَاَتْبَعَ سَبَبًاحَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ ذوالقر نین ایک ملک کی طرف گیا جو مغرب میں تھا.پس یہ سفر قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے
۴۳۵ دوره یو رپ مطابق ہے.نبیوں کے جانشین چونکہ نبیوں کے قائم مقام ہوتے ہیں ان کا کام نبیوں کا کام ہی کہلاتا ہے.پس خلیفہ مسیح موعود کا جانا ایسا ہی ہے جیسے کہ خود مسیح موعود کا جانا.پس یہ سفر در حقیقت ایک پیشگوئی کے ماتحت ہے جو ایسی اہم ہے کہ قرآن کریم میں اس کو بیان فرمایا گیا ہے.ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر تبلیغ کے لئے نہیں بلکہ تبلیغ کے متعلق اصول طے کرنے اور علم حاصل کرنے کے لئے کیا جائیگا.کیونکہ اگر تبلیغ کے لئے سفر ہوتا تو یہ نہ کہا جاتا کہ اب خواہ ان کو ہلاک کر ،خواہ ان کی بھلائی کی تدبیر کر.کیونکہ جو شخص تبلیغ کے لئے جاتا ہے یہ سمجھ کر جاتا ہے کہ یہ لوگ بچائے جانے کے قائل ہیں.یہ کہ وہ جاتا تو تبلیغ کے لئے ہے اور سوچنے لگ جاتا ہے کہ میں ان کو ہلاک کر دوں.پس صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعودؑ یا آپ کا جانشین خالی الذہن ہو کر جائے گاا ور وہی جا کر فیصلہ کرے گا کہ ان لوگوں سے کیا کیا جائے.اور اللہ تعالی اسکو اختیار دے گا کہ وہ کامل غور اور فکر کے بعد جو چاہے کرے.خواہ تو ان کو اپنے کفر میں چھوڑ دے تاکہ اس دنیامیں کفر کے عذاب میں مبتلا رہیں اور اگلے جہان میں دوزخ اور خدا تعالی سے بُعد کے عذاب میں مبتلا ہوں.اور یا پھر ان میں تبلیغ کو جاری کرنے کا فیصلہ کرے اور ان کی بہتری کی تجویز کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نتیجہ پر وہ پہنچے وہ بَین بَین ہو گا.اور اس میں مختلف حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف تدابیر کو اختیار کیا جائے اور فیصلہ کیا ہوگا ،اسے الله تعالی نے مخفی رکھا ہے.اور چونکہ ابھی وقت نہیں آیا، وہ مجھ پر ظاہر نہیں ہے، اس لئے میں اس کا اعلان نہیں کر سکتا.ہاں اصول اللہ تعالیٰ نے بتادیئے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں کہ وہ مجھ سے یہ کام لے اور اس پیشگوئی کا ظِلّی طور پر مجھے مصداق بننے کا موقع دے.غرض اے بھائیو! مسیح موعود یا ان کے کسی جانشین کا مغربی ممالک میں جانے اور وہاں جاکر ان کے متعلق آئندہ تبلیغ کے متعلق رائے قائم کرنے کی خبر قرآن کریم میں دی گئی ہے.اور گویا تمام سفر کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے جو اس وقت پیش آیا ہے.سفریورپ مسیح موعود کی صداقت کا نشان اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے.کیونکہ یہ سفر بالکل خدا تعالی کی مشیت کے ماتحت ہوا ہے.کسے چند ماہ پہلے اس سفر کا خیال بھی تھا اور پھر کس کو معلوم تھا کہ اس تحریک کے ہونے کے بعد با وجود سخت طبیعت میں بیزاری ہونے کے میں اسی سفر پر جانے پر راضی ہو جاؤں گا.اور جماعت کی نوے فیصدی رائے یعنی ہردس
۴۳۶ دوره یو رپ انجمنوں میں سے نو (۹) انجمنیں اس امر کی رائے دیں گی کہ مجھے ولایت جانا چاہیے.اور پھر کس کو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ اس قدر جلد سامان بھی جمع ہو جائے گا.پس احباب کو چاہئے کہ سفر کی جو غرض ہے اور جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے ،اس کو یاد رکھیں.کیونکہ اس کے یاد رکھنے میں ہی اسلام کی نجات ہے اور اس کے بُھلا دینے میں اسلام کی تباہی.اگر آپ لوگ اس کام کی اہمیت کو جو میں نے اوپر بیان کی ہے یاد رکھیں گے تو اس کے خطرات کے ازالہ کی طرف بھی آپ کو توجہ رہے گی.اور اگر آپ صرف زید اور بکر کے مسلمان کرنے کی خوشی میں رہیں گے تو سخت خطرہ ہےکہ ایمان برباد ہوجائے اور اسلام مٹ جاۓ العياذ بالله – سفر کی غرض کو پورا کرنا خدا ہی کا کام ہے اے بھائیو! اصل غرض سفر کی تفصیل سے بیان کر دینے کے بعد میں آپ سے پوچھتاہوں کہ کیا اس غرض کو پورا کرنا انسان کا کام ہے؟ اس انگریز نے سچ کہا.جس نے اس سفر کو سمندروں کی لہروں پر حکومت کرنے کے خیال کے مترادف بتایا.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام ایسا ہی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے.اور اس کے کئی نتائج بظاہر کم سے کم ایک صدی کا وقت چاہتے ہیں سوائے اس کے کہ خداتعالی رحم کر کے ہماری زندگیوں میں یہ نظارہ ہمیں دکھادے کہ مغرب میں اسلام پھیلے اور اسلام اس طرح پھیلے کہ وہ لوگ اسلام کو اپنے مطابق نہ بنائیں بلکہ اسلام کے مطابق خود بن جاویں.اور ایسی سکیم تیار ہو جائے کہ جس کے بعد اس بات کا خطرہ نہ رہے کہ مغربی تمدن اسلام کے اندر تغیّر کر سکے گا.پس اس کام کے لئے آپ لوگ جس قدر دعائیں کریں تھوڑی ہیں.بے شک آپ لوگ یہ دعا کریں کہ اس سفر میں تبلیغ کا بھی کوئی پہلو پورا ہو جائے تو کچھ حرج نہیں.مگر اصل زور دعا میں اس امر پر ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ وہ تدبیریں سمجھادے کہ جن کی مدد سے یورپ کو حقیقی طور پر اسلام میں داخل کیا جاسکے.اور اسلام پورپ کے تمدن کے ایسے اثر سے جو اسلام کی حقیقت کے خلاف ہو محفوظ رہے.دعا کی تحریک پھر میں کہتا ہوں کہ اپنی دعاؤں میں ہم تیرہ (۱۳) آدمیوں کو جو سفر جارہے ہیں یاد رکھیں جن میں سے نو(۹ )تو وہ ہیں جو جماعت کے خرچ پر وفد کے طور پر جارہے ہیں اور ہم چار آدمی اپنے خرچ پر سفر کررہے ہیں.غرض سب کی ایک ہی ہے کہ خداتعالی کوئی کام لے لے اور عاقبت بخیر ہوجائے اور وہ یا ریگانہ خوش ہو جائے.طبیعت میری بہت کمزور
۴۳۷ دوره یو رپ ہے اور سفرسخت ہے.کام اس سے بھی زیادہ مشکل ہے.اس وقت بھی بخار کی حالت میں مضمون لکھ رہا ہوں ہڈیاں کھو کھلی ہوئی ہیں، دماغ میں طاقت نہیں رہی، ہاتھ رہے جاتے ہیں، خدا ہی ہے جو اس کام سے فارع فرماکر خیریت سے دیار محبوب میں پہنچائے.بس اب میں خط کو ختم کرتاہوں کہ اس وقت میری یہ حالت ہے دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانیئے کیا یاد آیا جماعت کے لئے دعا اے میری عزیز قوم اور اے خدا کے فرستادہ کی مقدس جماعت! تمہاری بہبودی اور بہتری کا خیال میرے دل کو ہر وقت فکر مند رکھتا ہے.اور تمہاری محبت ہمیشہ مجھے بد گمانیوں میں مبتلا رکھتی ہے کہ* عشق است وہزار بدگمانی- اے کاش میں اپنی آنکھوں سے تم کو وہ کچھ دیکھ لوں جو میں دیکھنا چاہتاہوں.اے کاش تمهارا ایمان اور تمہارا یقین اور تمہارا ایثار اور تمہارے اخلاق اور تمہارا دن اور تمہارا علم اور تمہارے عمل اور تمہاری قربانیاں ایسی ہوں بلکہ اس سے بڑھ کر جو میں دیکھنی چاہتاہوں.اے کاش تم زمانہ کی دست بُرد سے محفوظ رہو.اے کاش تم ہر قسم کے فتنوں سے بچے رہو.خداتعالی تم میں ہمیشہ وہ لوگ پیدا کرتا ہے جن کے دل تمہاری خیر خواہی اور محبت کے جذبات سے پُر ہوں.اور جن کے افکار تمہاری بہتری کی تجاویز میں مشغول.تم یتیموں کی طرح کبھی نہ چھوڑے جاؤ اور سورج تم پرلاوارثی کی حالت میں کبھی نہ چڑھے.تم خدا کے پیارے ہو اور خدا تمہارا پیارا ہو- اے خدا !تُوایسا ہی کر اور زندگی اور موت میں مجھے ایسا ہی رکھ.خاکسار مرزا محموداحمد (الفضل ۱۶- اگست ۱۹۲۴ء)
۴۳۸ دوره یو رپ سمندر پار کی آواز مصر اور فلسطین کے حالات کا تجزیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا تیسرا مکتوب گرامی أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر قل إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العلمين برادران جماعت احمدیہ ! زادكم الله علما و عرفاناورفعكم عزاو شانا السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا ایک بھائی پسناجہاز کے ایک چھوٹے سے کمرے میں لیٹے لیٹے آپ کا ایک بھائی جو تعلیم میں آپ میں سے ہزاروں سے کم اور عمر میں آپ میں سے سینکڑوں سے چھوٹا تھا.مگر خدا نے اپنی شان کے اظہار کے لئے اور اپنی قوت کے اعلان کے لئے
۴۳۹ دوره یو رپ اس کو جماعت کا خلیفہ بنادیا آپ لوگوں کو یہ خط لکھ رہا ہے.لیٹے لیٹے اس لئے کہ ایک تو جہاز کا ڈاکٹر اسے اجازت نہیں دیتا کہ وہ زیادہ اٹھے.اور دوسرے چودہ (۱۴)ونوں کے لگاتار دوستوں نے اور متواترفاقوں نے اس میں اتنی ہمت بھی نہیں چھوڑی کہ وہ اُٹھ کر خط لکھے.آپ بیتی ٍمیں بیت المقدس میں تھا کہ مجھے اسہال آنے شروع ہوئے وہ دوسری تاریخ تھی آج پندرھویں تاریخ ہے ہر قسم کے علاج کئے گئے ہیں مگر ایسا افاقہ جسے افاقہ کہا جاسکے ،حاصل نہیں ہوا.آٹھ سے دس اسہال روزانہ کا تو اکثر معمول رہا ہے.اگر بعض دفعہ اسہال کم ہوئے تو فوراً زہر سر کو چڑھ کر طبیعت اور بھی کمزور ہو جاتی تھی.اب کل سے اس قدر فرق ہے کہ باوجود اس کے کہ اسہال چار پانچ آتے ہیں، زہریلے مادے جسم میں داخل ہو کر سر اور دل پر بد اثر نہیں ڈالتے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاز کے ڈاکٹر نے دو دفعہ دن میں انیمه بتایا ہے یہ تو آپ بیتی ہے.اب میں مختصراًسفر کے متعلق کچھ لکھتا ہوں تفصيلاً؟ آپ لوگ دوسرے لوگوں کی رپورٹوں میں پڑھ لیں گے.ضرورت مضمون نویسی وقائع نگاری میرا کام نہیں اور نہ میں ایسی بیماری کی حالت میں ادھر توجہ کر سکتا ہوں کہ اصل مضمون بھی نہ رہ جائے.نہ میں ایسے مضامیں پر کچھ لکھ سکتا ہوں جن پر بحث کرنے کا مقام شورٰی کی مجلس ہے نہ کہ اخبارات کے کالم.مگر میں ایسے اہم امور پر خودلکھنا چاہتا ہوں جو نہ اِخفاء چاہتے ہیں اور نہ دوسرے وقائع نگاروں سے متعلق ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر سب سے پہلے تو الله تعالی کا شکر اداکرتاہوں کہ اس نے اس وقت تک اس سفر کو نہایت مبارک اور کامیاب بنایا ہے.اور میں اس کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ اس سے بھی زیادہ کامیاب بنائے گا.در حقیقت اس وقت تک جو کامیابی ہوئی ہے، وہ میرے تمام ہمراہیوں کے واہمہ اور خیال سے بہت بڑھ کر ہے.ہم میں سے بڑے سے بڑے پرواز کرنے والے شخص کو بھی اس قدر کامیابی کی امید نہ تھی.اور در حقیقت اس کامیابی کو دیکھ کر ہر اک شخص انگشت بدنداں تھا.میرے لئے تو وہ سر تا پا معجزہ تھی.کیونکہ میں قبل از وقت امیدیں لگانے کا عادی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی ان باتوں سے روکتا ہوں.مصری علماء کی مخالفت پورٹ سعید سے اتر کر میں نے مناسب سمجھا کہ شام جانے سے پہلے دو دن کے لئے قاصر ہو آویں - عزیزم شیخ محمود نے اخبارات
۴۴۰ دوره یو رپ کے ایڈیٹروں کی آمد کی خبر دے دی تھی مگر سوائے دوتین اخبارات کے کسی نے اس خبر کو نہ چھاپا جس کی وجہ وہ مخالفت ہے جو مصری علماء کے دلوں میں ہماری نسبت پیدا ہورہی ہے.وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر اسلامی ترقی کا مرکز بننے کا ہماراحق ہے.ازہر کے سوا ان کو کچھ نظر نہیں آتا- اور واقعہ میں علوم ظاہری میں سب دنیا میں اب ازہر ہی لے دے کے مسلمانوں کے پاس ہے.اور اسی وجہ سے شام، فلسطین ،عراق، ایران اور عرب اسی کی طرف نگاه رکھتیں ہیں.اگر کوئی مامور خدا تعالی کی طرف سے آیا ہے تو ازہر اپنی عزت کا خاتمہ سمجھتا ہے.ازہریوں کے ذہن میں یہ بات نہیں آسکتی کہ نبی ذلیل کرنے نہیں بلکہ لوگوں کو معزّز بنانے کے لئے آتے ہیں مگر یہ عقل ان کو کون دے.اور جب تک یہ عقل ان میں پیدا نہ ہو ان کی اصلاح کس طرح ہوسکتی ہے.اس وقت تک کہ یہ بات ان کی سمجھ میں آوے ان کی طرف سے مخالفت ضروری ہے.یورپین تہذیب کی تباہی اور مصر ہم قاہرہ میں صرف دو دن ٹھہرے اور قاہرہ بمبئی سے بڑا شہر ہے.مغربی تعریف جو تہذیب کی ہے اس کے لحاظ سے ہندوستانی شہروں سے تہذیب میں بدرجہا بڑھ کر ہے.ساری دنیا کے آدمی آپس میں ملتے ہیں.یورپ، امریکہ، افریقہ ،ایشیاء اس میں اس طرح جمع ہیں جس طرح ناف میں پیٹ کی چاروں طرفیں جمع ہو جاتی ہیں.اور اس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کے اخلاق پر مغربی تعلیم کا بہت بُرا اثر پڑا ہے.میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے.مگر میرادل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برابر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے.اور اب میں اسی بناء پر کہتا ہوں کہ یورپ نے اس امر میں ایسا ہی دھوکا کھایا ہے.جیسا کہ فرعون نے.مصرجب خداتعالی کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گا جس طرح حضرت موسیٰؑ فرعون کی تباہی میں.بے شک اس وقت یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے.قاہرہ میں کام کی تقسیم میں نے قاہرہ پہنچتے ہی جو ملک مصر او ردالالخلافہ ہے اور عام طور پر لوگوں میں مصر کے نام سے مشہور ہے، اس بات کا اندازہ لگا کر کہ
۴۴۱ دوره یو رپ وقت کم ہے اور کام زیاد ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کردیا.ایک سے اخبارات و جرائد کے مدیروں کے ملنے میں مشغول ہوا.اور دو سراپاسپورٹوں اور ڈاک کے متعلق کام میں لگ گیا ،تیسرا سفر کی بعض ضرورتوں کے مہیا کرنے میں.قاہرہ میں گرانی قاہرہ نہایت گراں شہر ہے تین بکسوں کےتالے خراب تھے.ان کے درست کرانے پر سترہ روپے لئے ہندوستان میں ایک روپیہ سے زائد غالباً نہ لگتا.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہاں کا تمدن بالکل یورپ کی طرح کا ہے.اور اگر ہم یہاں مضبوط مشن قائم کریں تو اس پر اسی قدر خرچ ہو گا جیسا کہ یورپین بِلاد کے مشنوں پر.ریل کا قلی سارے ملک مصر میں بلکہ فلسطین اور شام میں بھی پانچ آنے فی بکس ریل سے اتارنے کے لیتا ہے.ہمارے ملک میں دو پیسے تھے.اب سنا ہے ایک آنہ ہو گیا ہے.میں نے کئی لوگوں کو دوپیسہ پر بھی لڑتے ہوئے دیکھا ہے.یہاں پانچ آنے لیکر بھی بخشیش کاسوال درمیان ہی میں رہتا ہے.مگر ایسا نہ ہو کوئی صاحب اس بات کو پڑھ کر ادھر کا رخ کر بیٹھیں کہ یہ مزدوری اچھی ہے.بے شک مزدوری اچھی ہے مگر صرف انہی ملکوں کے باشندوں کے لئے.ہندوستانی غرباء یہاں بہت تنگ حال ہیں اور ان کو مزدوری نہیں دی جاتی.اِدھر اُدھرلوگوں کے ساتھ پھر کر گزارہ کر لیتے ہیں.اور ہندوستان کے لئے موجب عار ہیں.ایک فن کا آدمی میرے نزدیک یہاں کماسکتا ہے اوروہ دھوبی ہے.یہاں کے لوگ ہندوستانی دھوبیوں کا فن نہیں جانتے.بھٹی کا طریق رایج نہیں.سوائے انگریزی کارخانوں کے.دھلائی پانچ آنے سے آٹھ آنے تک قمیص پاجامے کی قسم کے کپڑوں کی ہے.کوٹ وغیرہ کی اور بھی زیاده - خلاصہ یہ ہے کہ یہ علاقے تبلیغ کے لئے بہت روپیہ چاہتے ہیں مگر اسی طرح جب ان میں تبلیغ کامیاب ہوجائے تو اشاعت اسلام کے لئے ان سے مدد بھی بہت مل سکتی ہے.اور یورپ سے تبلیغ میں آسان ہے.کیونکہ اسلام کی طرف منسوب ہیں اور اسلام سے محبت پہلے سے ہے.مصر کی پارٹیاں میں لکھ چکا ہوں کہ میں نے بعض دوستوں کو اخبارات کے ایڈیٹروں کے پاس بھیجا تھا.مصر میں تین پارٹیاں ہیں.ایک سعید زغلول پاشاکی جو موجودہ وزیراعظم ہیں.ایک وطنیوں کی اور ایک حزب الاحرار کی.ان میں سے وطنی جن کے لیڈر عبد العزیز پاشا ویلش ہیں جو سعید زغلول پاشا کے قتل کی سازش کی تحقیقات کی ضمن میں قید میں، ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں.کیونکہ یہ لوگ اخبار اللواء کی یاد گار ہیں جس نے حضرت
۴۴۲ دوره یو رپ مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی تھی.اور جس کے جواب میں آپ نے الھدیٰ لکھی تھی.انکی پارٹی پہلے سب سے طاقتور تھی اب بہت کمزور ہے.دوسری پارٹیوں کو بہ حیثیت پارٹی ہم سے مخالفت نہیں مگر عوام کی آواز کی اتباع سب اپنا فرض سمجھتے ہیں.حتی کہ مسیحی اخبار کیونکہ بغیر اس کے بِکری ناممکن ہے.اخبارات کی طرف سے مدد کا وعدہ جن اخبار نویسوں سے ہمارے دوست ملے انہوں نے آئنده ہر طرح مدد کرنے کا وعدہ کیا.حتی ّٰکہ وطنی اخباروں نے بھی.بلکہ بعض نے مضامین بھی لکھے ہیں.خصوصا ًمسیحی اخبار مقطم اور انگریزی اخبار ایجپشین گزٹ کے ایڈیٹروں نے تو خاص طور پر وعدہ کیا اور مضمون لکھے بھی.امید ہے آئندہ ان اخبارات میں سلسلہ کا ذکر ہوتا رہے گا.اور مخالف اخبارات کا جواب دینے کے لئے موافق اخبارات بھی موجود رہیں گے.ازہر کی خلافت کمیٹی سے ملاقات علاوه مذکوره با لوگوں کے جن سے ملنے ہمارے لوگ خود جاتے رہے بعض لوگ گھر پر بھی ملنے آتے رہے.چنانچہ جامع ازہر کے ماتحت جو خلافت کمیٹی بنی ہے اور جس کا منشاء یہ ہے کہ آئندہ سال مارچ میں ایک عظیم الشان جلسہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا کرکے اس میں یہ فیصلہ کرے کہ کون شخص خلیفہ ہونا چاہیے ،اس انجمن کے پریزیڈنٹ اور سیکرٹری اور بعض اور دوسرے لوگ ملنے کے لئے آئے اور خلافت کے متعلق تذکرہ کرتے رہے.ہم نے جہاں تک ہو سکا ان کو ہندوستانی لوگوں کے خیالات بتادیئے اور اپنی بے تعلقی کا بھی ذکر کردیا.مگر وہ لوگ اپنے خیالات میں کچھ ایسے منہمک تھے کہ باوجود اچھی طرح سمجھادینے کے پھر بھی جو خیالات کہ ہم نےدوسرے مسلمان فرقوں کی طرف منسوب کرکے بیان کئے تھے انہوں نے ہماری طرف ان کو منسوب کر کے اخبارات میں شائع کرادیا.دوسرے دن پھر وہی لوگ ملنے آئے مگر میں گھر پر نہ تھا.یہ جماعت از ہر کے ماتحت کام کر رہی ہے.اس واسطے نیم سرکاری ہی سمجھنی چاہیے.مصر کے ایک مشہور صوفی اس کے بعد مصر کے ایک مشہور صوفی سید ابو العزائم صاحب ملنے آئے.یہ صاحب مصر کے بہت بڑے پیر ہیں.اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں.زبان نہایت ہی صاف ہے اور نہایت بے تکلفی سے فصیح عربی بولتے ہیں.مغربی بلاد سے ہجرت کر کے مصر میں آئے تھے.کسی گاؤں میں
۴۴۳ دوره یو رپ ٹھہر کر تعلیم و تدریس کا کام شروع کیا.بعض امور پر ناراض ہو کر حکومت برطانیہ کے قائم مقاموں نے ان کو قاہرہ میں نظر بند کر دیا.اور اب وہ دوسرے فریق کے رئیس اور سردار ہیں کہ وہ بھی خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک اجلاس عام کامحرک و مؤیّد ہے.خلیفہ کی تعیین اور مسلمانان ہند کی طرف نظر ٍٍجہاں تک باتوں سے معلوم ہوتا ہے دونوں فریق اپنے دل میں کسی نہ کسی شخص کی تعیین کر چکے ہیں جس کی تائید وہ اس جلسہ میں جمع ہونے والے لوگوں سے کروانا چاہتے ہیں مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تاکہ دوسرے مسلمان علیحدہ نہ ہو جائیں.بہر حال اتنی بات ثابت ہے کہ ایک فریق ملک نواز والئی مصر کی خلافت کا خواہاں ہے اور دوسرا فریق اس امر میں ان کی مخالفت پر آمادہ ہے.ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف دونوں جماعتوں کی نگاه ہے.میرے نزدیک یہ دونوں فریق ہی ایک غلط راہ پر چل رہے ہیں.اور اپنا وقت ضائع کررہے ہیں سیاسی امور میں بھی کوئی قوم ایک ہاتھ پر جمع نہیں ہوسکتی.جب تک فی الواقع اس کی زیرِ حکومت نہ ہو.مختلف حکومتوں کے ماتحت رہنا اور ایک شخص کے ہاتھ پر سیاسی طور پر جمع ہو جانا ایک احمقانہ خیال ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا.مسلمان صرف روحانی خلیفہ کے ہاتھ پر جمع ہو سکتے ہیں آج اگر یک ہاتھ پر مسلمان جمع ہوسکتے ہیں تو صرف روحانی خلیفہ کے ہاتھ پر.کیونکہ اس کے ہاتھ پر جمع ہونے سے کوئی حکومت مانع نہیں ہوگی یا کم از کم اس کو منع کرنے کا حق نہ ہو گا اور اگر منع کرے گی تو سب دنیا میں ظالم کہلائے گی.سیاسی معاملات کاحال بالکل الگ ہے.کوئی حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی اور ہر حکومت حق بجانب ہوگی اگر وہ اجازت نہ دے کہ اسکی رعایا کی دوسرے شخص کی سیاسی امور میں فرمانبرداری کرنے کا عہد کرے.در آنحالیکہ وہ شخص جس کے ہاتھ پر اس کی رعایا مجتمع ہو اس کے قبضہ سے باہر اور اس کے تصرّف سے الگ ہو.دو اور معززین کاملا قات کے لئے آنا علاوه ان لوگوں کے درد اور معزز آدمی بھی ملنے کے لئے آئے لیکن افسوس کہ بوجہ باہر ہونے کے مجھے ان سے ملنے کا موقع نہ ملا.ان میں سے ایک تو ترکی ریئس تھے جو اپنا ملک چھوڑ کر لئے مصر میں آئے تھے کہ وہاں عربی علوم کی خدمت کروں گا اور کوئی بھی خدمت کر سکو
۴۴۴ دوره یو رپ گا.میں نے ان کے گھر پر بھی بعض دوستوں کو ملنے کے لئے بھیجا.انہوں نے سلسلہ سے بہت ہی ہمدردی ظاہر کی اور سلسلہ پر غور کرنے اور ہر طرح سے امداد کرنے کا وعدہ کیا.انہوں نے شکایت کی کہ مصر میں آکر پہلی عربی بھی بھول گیا اور دین تویہاں ہی نظر نہیں آتا.دوسرے صاحب ایک وکیل تھے ان کے گھر پر بھی میں نے اپنے بعض ساتھیوں کو بھیجا.انہوں نے بہت ہی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ میں تین گھنٹے مکان پر انتظار میں بیٹھارہا مگر ملاقات کا موقع نہ ملا اور مصریوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی کہ مصر میں احمد یہ مشن کو مضبوط کیا جائے.اور یورپ کو مسلمان بنانے کی بجائے مصر کو یورپ کے پیچھے جانے سے بچانے کی کوشش پر زور دیا جائے.انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر واپسی پر مصر میں قیام کا موقع ملے تو میں اپنے دوستوں کو جمع کر کے آپ کے امام کو دعوت دوں گا.اور ہم لوگ مل کر اسلامی روح کی مصر میں اشاعت کی کوشش کریں گے.اور یہ بھی کہا کہ میں احمدیت کے مسائل سے بہت متفق ہو چکاہوں.غالباً آپ لوگوں کی ولایت سے واپسی تک میں بیعت میں شامل ہو جاؤں گا.چونکہ گرمی کا موسم ہے تمام عمائد اور علماء ملک کے ٹھنڈے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں اس لئے اور زیادہ لوگوں سے ملنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا.مصر کے احمدی مجھے جو مصر میں سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ وہاں کے احمدیوں کی ملاقات کے نتیجہ میں تھی.تین مصری احمدی مجھے ملے اور تینوں نہایت ہی مخلص تھے.دو ازہر کے تعلیم یافتہ اور ایک علوم جدیدہ کی تعلیم کی تحصیل کرنے والے دوست.تینوں نہایت ہی مخلص اور جوشیلے تھے اور ان کے اخلاص اور جوش کی کیفیت کو دیکھ کر دل رقّت سے بھر جاتا تھا.تینوں نے نہایت درد دل سے اس بات کی خواہش کی کہ مصر کے کام کو مضبوط کیا جائے.ایک مصلح کے امیدوار بدوی ایک بات عجیب طور پر وہاں معلوم ہوئی اور یہ کہ قاہرہ کے ارد گرد کے بدوی علاقے نہایت تڑپ ہی کے ساتھ ایک مصلح کے امیدوار ہیں.بعض لوگوں نے جب سلسلہ کے حالات سُنے تو خواہش کی کہ اگر ہمارے علاقہ میں کوئی آدمی پندرہ بیس روز بھی آکر رہے تو ہزاروں آدی سلسلہ میں داخل ہونے کو تیار ہیں.
۴۴۵ دوره یو رپ بیت المقدس میں قیام دودن کے قیام کے بعد ہم دمشق کی طرف روانہ ہوئے مگر چونکہ راستہ میں بیت المقدس پڑتا تھا ،مقامات انبیاء دیکھے بغیر آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور دو دن کے لئے وہاں ٹھہر گئے.بوجہ کثرت زائرین کے اس شہر کا اکژ متولیوں اور خادموں سے بھرا ہوا ہے.بڑے سے بڑے آدمی کو دیکھ کر شبہ رہتا ہے کہ کہیں اس کی غرض مانگنا ہی تو نہیں.یہودیوں کی قابل ِرحم حالت یہودی قوم کی قابل رحم حالت جو یہاں نظر آتی ہے کہیں اور نظر نہیں آتی.بیت المقدس کا سب سے بڑا معبد جسے پہلے مسیحیوں نے یہودیوں سے چھین لیا تھا اور بعد میں مسیحیوں سے چھین کر مسلمانوں نے اسے مسجد بنا دیا.اس کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہفتہ میں دودن برابر دو ہزار سال سے یہودی روتے چلے آتے ہیں.جس دن ہم اس جگہ کو دیکھنے کے لئے گئے وہ دن اتفاق سے ان کے رونے کا تھا.عورتوں اور مردوں، بوڑھوں اور بچوں کا دیوار کے پیچھے کھڑے ہو کر بائبل کی دعائیں پڑھ پڑھ کر اظہارِ عجز کرنا، ایک نہایت ہی افسردہ کن نظارہ تھا.چھوٹے چھوٹے بچے بلک بلک کر دیوار سے چمٹ رہے تھے اور بالکل یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کسی تازہ وفات یافتہ عزیز کی قبر کو کوئی فارغ الصبر چمٹتا ہے.ایک دس بارہ سالہ لڑکی کو میں نے دیکھا وہ دیوار کے ساتھ چمٹی چلی جاتی تھی اور اپنی گالوں کو اس کی مٹی سے ملتی تھی اور دو اینٹوں کے درمیان ایک سوراخ تھا اس کے اندر وہ اپنی ناک کو گھسیڑ دیتی تھی اور پھر یوں دیوارسے چمٹ جاتی تھی کہ گویا چاہتی تھی کہ زندہ ہی اس دیوار کے اندر گھس جائے.مجھ پر اس نظارہ کو دیکھ کر بہت ہی گہرا اثر ہوا اور میرے دل نے محسوس کیا کہ یہ لوگ اس بات کے حق دار ہیں کہ اس پرانے معبد کی زمین کا ایک حصہ ان کو بھی دیا جائے تو وہ اس جگہ اپنا معبد بنا کر اپنے طریق پر خدا کی عبادت کر سکیں.مگر اس سے بھی زیادہ ایک اور چیز میرے دل کو بے چین کر رہی تھی کہ ان مسلمانوں کا کیا حال ہوگا جنہوں نے حضرت مسیح موعود کا انکار کر کے اپنے آپ کو مثیل یہود بنا لیا.عالم تصور میں ان کے جُرموں کا خیال کر کے بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور میرا دل رحم سے پسیجے جاتا تھا.مگر افسوس کہ خود اس قوم کو جو خدا کے غضب کو بھڑکا رہی ہے ایک ذرہ بھر بھی فکر میں اور وہ نہایت اطمینان سے اپنی حالت پر قناعت کے بیٹھی ہے.
۴۴۶ دوره یو رپ بیت المقدس کے قابل دید مقام بیت المقدس کی جگہوں میں سے مندرجہ ذیل مقالات قابل ذکر ہیں.ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسف ؑکی قبور اور وہ مقام جس پر حضرت عمر ؓنے نماز پڑھی اور بعد میں اسکو مسجد بنا دیا گیا.اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے مقامات جو اختلافی ہے اور ان کی صلیب کا مقام جو وہ بھی اختلافی ہے.وہ جگہ جہاں یہودی عالموں نے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا، وه مقام جہاں پیلا طوس عدالت کرتا تھا، وہ مقام جہاں سے کھڑے ہو کر اس نے ان کی صلیب کا حکم سنایا اور اپنی براء ت کا اظہار کیا اور پھر وہ جبل زیتون جس پر چڑھ کر بزعم مسیحیاں وہ آسمان کی طرف اُڑ گئے.فلسطین میں یہودیوں کی نئی آبادی بیت المقدس اس وقت فلسطین کا دار الخلافہ ہے اور فلسطین جنگ عظیم کے بعد انگریزی حکومت کے ماتحت اس شرط پر کیا گیا ہے کہ وہ اس ملک کو کچھ عرصہ کے اندر خود مختارانہ حکومت کرنے کے قابل بنادیں.چونکہ ایام جنگ میں یہودیوں نے برطانیہ کی بہت مدد کی تھی اور مختلف طرزوں میں بہت بڑا حصہ لیا تھا.مسٹريفوڈ نے جو دوران جنگ میں اہم عہده ہائے وزارت پر فائز رہے ہیں ،وزارت خارجیہ کے زمانے میں یہودیوں سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ جنگ کے فتح ہونے پر وہ ان کے فلسطین میں آباد ہونے کے لئے ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں گے اور یہودیوں کی اس امر میں مدد کریں گے کہ وہ فلسطین میں جو ان کا آبائی ملک ہے ،کثرت کے ساتھ آباد ہو سکیں.اس وعدہ کے پورا کرنے کے لئے برطانیہ نے جنگ کے خاتمہ پر سر ہربرٹ سموئیل کو جو یہودی النسل اور یہودی المذہب ہیں لیکن انگلستان کے باشندے ہیں، فلسطین کا گورنر مقرر کیا اور مسٹریفوڈ کا وعدہ پورا کرنے کی بھی تاکید کی.مسلمانوں اور مسیحیوں کو یہ بات ناگوار گزری اور ملک کی اکثر آبادی انہی دونوں قوموں کا مجموعہ ہے اسی (۸۰) فی صدی کے قریب مسلمان ہیں ،ر۷افی صدی کے قریب عیسائی اور تین فی صدی کے قریب یہودی ہوں گے.مگر باوجود مسلمانوں اور عیسائیوں کی مخالفت کے یہودیوں کو فلسطین میں بنانے کے لئے حکومت برطانیہ نے پوری سعی کی اور اب یہودیوں کی آبادی ۱۰ فیصدی کے قریب ہو گئی ہے.چار ہزار کے قریب آکر یہودی نئے بسے ہیں.یہودی چونکہ بڑے بڑے مالدار ہیں انہوں نے کروڑوں روپیہ چندہ کر کے فلسطین میں جائیدادیں خرید لی ہیں اور
۴۴۷ دوره یو رپ غریب یہودیوں کو وہاں لا لا کر بسارہے ہیں.زمین مفت دیتے ہیں اور کام چلانے کے لئے روپیہ دیتے ہیں اور پھر اس روپیہ کو قسط وار وصول کر لیتے ہیں.اس طرح سے غرباء کے اس ملک میں آباد ہونے اور ترقی کرنے کا بہت عمدہ موقع ہے مگر چونکہ امراء جو کہ لاکھوں کروڑوں روپیہ امریکہ اور یورپ میں کمارہے ہیں، اپنی جگہوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور غرباء جو اس جگہ بسائے جاتے ہیں ان میں سے کافی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی غربت کی وجہ ان کی بیچارگی نہیں بلکہ ان کی سُستی ہے.اس لئے یہ سکیم جیسی کہ امید تھی ،کامیاب ثابت نہیں ہوئی اور کئی یہودی خاندان واپس جارہے ہیں.مگر باوجود اس کے ریلوں میں یہودی ہی یہودی نظر آتے ہیں، سٹیشنوں پر یہودی ہی یہودی نظر آتے ہیں اور بقیہ نوے فیصدی آبادی کا پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں ہے.صرف جب انسان شہروں اور قصبوں میں گُھستا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے.مسلمان اور عیسائی یہودیوں کی اس جدوجہد کے مقابلہ میں بہت سخت کوشش کر رہے ہیں اور بظاہر متفق ہیں.ان کی کوششوں کو اُکسانے والی ایک یہ بھی بات ہے کہ حکومت کے عہدوں پر عام طور پر یہودی قابض ہیں، مسلمان تو بہت ہی کم نظر آتے ہیں ہاں عیسائی کسی قدر ہیں.مسلمانوں کے حصے میں صرف پولیس، فوج اور چپڑاس ہی ہے.یہودیوں کے خلاف مسلمانوں کی کوششیں میں نے جہاں تک غور کیا ہے عیسائیوں کا مسلمانوں سے اتفاق حقیقی اتفاق نہیں ہے.کیونکہ یہودیوں کے ہاتھ جو زمینیں بیچی ہیں وہ عیسائیوں نے بیچی ہیں.مسلمانوں اور عیسائیوں نے حکومت کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے.اور ایک پارلیمنٹ کی شکل کی ایک مجلس بنائی ہوئی ہے جو تمام ایسے کاموں کو جن میں حکومت کادخل نہیں خود سرانجام دیتی ہے.اور گویا حکومت کے اندر ایک دوسری حکومت انہوں نے بنالی.اکثر وہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں.میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے.مگر میرے نزدیک ان کی یہ رائے غلط ہے.یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے.اور جو بھی اس وقت تک ان کو ہوئی ہے وہ ان کے ارادے میں تذلّل پیداکرنے کا موجب نہیں ہو سکتی اور زیادہ تر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام ان کے لئے بالکل نیا تھا.یہودی تجارت پیشہ ہیں ،ان کے لئے بستیوں کا آباد کرنا اور زراعت کروانا بالکل ایک نئی بات ہے.پس پہلی کوشش میں اگر ان کو کچھ ناکامی ہوئی ہے تو قابل تعجب نہیں.اور قرآن شریف کی
۴۴۸ دوره یو رپ پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے بعض الہامات سے معلوم ہوتاہے کہ یہودی ضرور اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جائیں گئے ہیں میرے نزدیک مسلمان رؤساکا یہ اطمینان بالآخران کی تباہی کاموجب ہوگا.مسلمانان ِفلسطین کو مشورہ جہاں تک میرا خیال ہے مسلمانوں کو یہودیوں اور عیسائیوں سے ایک ایسا سمجھوتہ کر لینا چاہیے جس سے یہودیوں کو اس ملک میں بسنے کا بھی موقع مل جائے اور مسلمانوں کی برتری بھی ہمیشہ کے لئے قائم رہ جائے.میں نے اس امر کے لئے ایک سکیم سوچی ہے.مگر اس کا اس جگہ پر بیان کرنا اصل مضمون سے باہر جاتا ہے.اس وجہ سے میں اس کو یہاں بیان نہیں کرتا.فلسطین کے ہائی کمشنر سے ملاقات فلسطین کے گورنر ہائی کمشنر کہلاتے ہیں.اصل ہائی کمشنر آج کل ولایت گئے ہوئے ہیں.ان کی جگہ سر گلبرٹ کلیٹن کام کر رہے ہیں.میں ان سے ملا تھا.ایک گھنٹہ تک ان سے ملکی معاملات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.وہ انگریزی النسل ہیں اور مسلمانوں سے ہمد ردی رکھتے ہیں.انہوں نے آئندہ ملک کی ترقی کے متعلق جو سکیم تیار کی ہے وہ میرے نزدیک بہت ہی مفید ہو سکتی ہے.مگر افسوس ہے کہ وہ جلدی ملازمت سے ریٹائر ہونا چاہتے ہیں.ممکن ہے ان کے بعد دوسرے لوگ اس سکیم کو عمدگی سے نہ چلاسکیں.مسلمانوں کو عام طور پر یہ شکایت تھی کہ تعلیمی معاملات میں ہمیں آزادی نہیں.میں نے اس امر کے متعلق ان سے گفتگو کی.اور انہوں نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کی یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے مجھے بتایا کہ ایک دن پہلے ہی انہوں نے ایک تجویز وزارت برطانیہ کے غور کے لئے بھیجی ہے جس میں انہوں نے چاہا ہے کہ ایک سب کمیٹی بنادی جائے جس کو تعلیمی معاملات میں بہت کچھ اختیارات دے دیئے جائیں.سرکلیٹن صاحب کو پہلی ملاقات میں ہمارے سلسلہ سے بھی بہت دلچسپی ہو گئی.اور گو ہم نے دوسرے دن روانہ ہوا تھا مگر انہوں نے اصرار کیا کہ ڈیڑھ بجے ہم ان کے ساتھ کھانا کھائیں.چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دوسرے دن بھی ان کے ساتھ گفتگو رہی اور فلسطین کی حالت کے متعلق بہت سی معلومات مجھے ان سے حاصل ہوئیں.
۴۴۹ دوره یو رپ حیفامیں شوقی آفندی کا مکان وغیرہ فلسطین سے چل کرہم حیفا آئے جہاں سے کہ دمشق کے لئے گاڑی بدلتی ہے.رات حیفامیں ٹھہرنا پڑاچو نکہ دس بجے سے پہلے کوئی گاڑی نہ جاتی تھی ،صبح گاڑی لے کر میں سیر کے لئے گیا.اور مجھے معلوم ہوا کہ بہائیوں کے لیڈر مسٹر شوقی آفندی عکّہ کو چھوڑ کر حیفا میں آن بسے ہیں اور گویا کہ وہ سب حدیثیں جو عکّہ کی زیارت کے متعلق سنائی جاتی تھیں ،ان کا زمانہ ختم ہوگیا.ہم ایک سڑک پر آرہے تھے ،میں معلوم ہوا کہ اس کے پاس چند قدم پر ہی مرزا عباس علی صاحب عُرف عبد البہا کامکان ہے.میں نے پہلے پڑھا ہوا تھا کہ کسی امریکن نے ایک مکان ان کو دیا ہوا ہے مگر مجھ کو معلوم نہ تھا کہ مرزا عباس علی صاحب بھی اکثر اوقات حيفامیں ٹھہرا کرتے ہیں اور عکّہ کا صرف نام ہی تھا.میرے بعض ساتھیوں نے شوق ظاہر کیا کہ وہ مکان پر جاکر ان لوگوں میں سے بعض سے ملاقات کریں.چنانچہ مولوی رحیم بخش صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور میاں شریف احمد صاحب مکان دیکھنے کر چلے گئے.شوقی آفندی تو وہاں موجود نہ تھے ان کے چھوٹے بھائی اور بعض رشتہ دار بچے موجود تھے.گھر پر ایک دو نوکروں سے سوا کوئی نہ تھا.نہ کوئی علماء کی جماعت تھی نہ انتظام تھا جس سے معلوم ہو سکے کہ انبیاء کی پیشگوئیاں پوری کرنے کے لئے وہاں کوئی مسلمان موجود رکھا گیاہے کہ زائرین آئیں اور فائدہ حاصل کریں.معلوم ہوا کہ شوقی آفندی اکثر حصہ اوقات کا یورپ میں خرچ کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کے لئے آکر حیفا میں ٹھہرتے ہیں ،عکّہ کی زیارت کا ان کو بہت کم موقع ہے.مرزا عباس علی صاحب عُرف عبد البہاکی قبر بھی حیفا میں ہے.شوقی آفندی صاحب سیاه پتھروں کا ایک نیا مکان بنوارہے ہیں.جس کی تعمیر ہونے کے بعد کہتے ہیں کہ وہ اپنے ناناکا مکان چھوڑ کر اس میں بودوباش اختیار کریں گے.بہائیوں کی حیفا اورعكّہ میں تعداد شوقی آفندی کے والد زندہ ہیں مگر وہ مکان پر ہمارے آدمیوں کو نہیں ملے.کسی نوکر نے بتایا تھا کہ وہ پاس کے کمرے میں ہیں.میاں شریف احمد صاحب نے شوقی آفندی کے چھوٹے بھائی اور مکان کی تصویر لے لی-باوجود عرب میں رہنے کے ان لوگوں کی زبان زیادہ تر فارسی ہی ہے.شہر میں دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ سارے حیفاء میں کوئی بیس کے قریب بہائی ہیں اور پچیس
۴۵۰ دوره یو رپ تیس عکّہ میں ہیں.یہ بھی لوگوں نے بتایا کہ مرزا عباس علی صاحب جمعہ کی نماز مسلمانوں کے ساتھ مل کر پڑھا کرتے تھے.اور لوگ لطیفہ کے طور پرذکر کرتے تھے کہ بہائی لوگ جب نماز کے موقع پر مسلمانوں میں گھر جائیں تو نماز ادا کر لیتے ہیں مگر کبھی ان کو وضو کرتے نہیں دیکھا.شوقی آفندی صاحب کے مکان کے دیکھنے سے طبیعت پر یہی اثر پڑتا ہے کہ بہائی لیڈر پرانی گدیوں کے نقش قدم پر ہے.اس کی ذات کے باہر کوئی ایسا انتظام نہیں ہے.جس کے ذریعہ سے قوم کی اخلاقی اور مجلسی تربیت کا انتظام کیا جاوے.شوقی آفندی کا باپ جب ہم مشین پر آئے تو دوصاحب ایرانی شکل و شباہت کے ہمارا پتہ پوچھتے ہوئے پہنچے.ان میں سے ایک کی نسبت لوگوں نے ہمیں بتایا کہ شوقی آفندی کے باپ ہیں.انہوں نے ہمارے بعض ساتھیوں سے معلوم کیا کہ ہمارے مکان پر کون لوگ گئے تھے.میں نے معلوم کیا تو پتہ لگا کہ مولوی رحیم بخش صاحب گئے تھے.میں نے ان کو کہہ دیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میں آپ کے مکان پر گیا تھا مگر باوجود ان کے بتانے کے وہ میرے پاس آئے اور دریافت کیا کہ کیا آپ میرے مکان پر گئے تھے جب میں نے بتایا کہ میں نہیں گیا تھا بلکہ میرے ساتھیوں میں سے اور شخص گیا تھا تو انہوں نے چاہا کہ ہم لوگ وہاں ٹھہریں.لیکن میں نے ان کو بتایا کہ ہمارا پروگرام مقرر ہوچکا ہے اور ہم معذور ہیں ٹھہر نہیں سکتے.اتنے میں ریل کے چلنے کا وقت ہوگیا اور میں سٹیشن میں داخل ہوگیا.عکّہ کاملاحظہ دمشق سے واپسی کے وقت میں نے ارادہ کیا کہ عكّه کو بھی دیکھتے چلیں.چونکہ بیروت سے حیفاتک ریل نہیں ہے.ہمیں دمشق سے آتے ہوئے وہ سفر موٹروں میں کرناپڑا.موٹر کرایہ کرتے وقت ہم نے موٹر کمپنی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ ایک گھنٹہ تک ہم عکّه میں ضرور ٹھہریں گے کیونکہ ہمیں وہاں کام ہے.مگر ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب ہم عکّه پہنچے.کیونکہ جب ہم نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بہائیوں کا مرکز کہاں ہے تو سب لوگ حیرت سے ہمارا منہ دیکھنے لگے کہ عکّه میں بہائی کہاں.آخر بڑی مشکل سے معلوم ہوا کہ بہائی اس علاقہ میں بہائیت کے نام سے نہیں بلکہ عَجمیّت کے نام سے مشہور ہیں.بہائیوں کا مرکز مگرہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب ہمیں معلوم ہوا کہ عجمی بہائی بھی عکّه میں نہیں رہتے بلکہ عكّه سے تین چار میل پرے ایک گاؤں ہے
۴۵۱ دوره یو رپ جس کا نام منشیا ہے، اس میں رہتے ہیں.اور خود اس علاقہ کا نام جس میں وہ لوگ رہتے ہیں بہجہ ؟ جب ہم نے وہاں جانا چاہاتو موٹر والوں نے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ ہم سے اقرار عكّه کا تھا ہم آپ کو عكّه لے آئے ہیں دوسرے گاؤں میں ہم نہیں جاسکتے.کیونکہ وہ یہاں سے دس میل پر ہے.آخر ان کو انعام کے وعدے سے راضی کیا.ایک نوجوان عكّه کا رہبر بنا اور بہائیوں کے مرکز کی طرف روانہ ہوئے.ٍموٹر دس بارہ منٹ میں وہاں پہنچی.پیدل راستہ جیسا کہ عكّه کے لوگوں نے بھی بیان کیا اور خود بہائیوں نے بھی تسلیم کیا ،آدھ گھنٹہ سے کم کا نہیں ہے.میرے نزدیک وہ مقام عكّه سے اتنے فاصلہ پر ہے جتنی قادیان سے نہر.اگر تتلے کے گاؤں میں رہنے والے آدمی قادیان کے باشندے کہلا سکتے ہیں تو منشیا کے رہنے والے بھی عکّه کے باشندے کہلا سکتے ہیں.اور اگر تین میل کے فاصلہ کے گاؤں میں بسنے والے آدمی دنیا میں کبھی بھی کسی دوسرے گاؤں کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو بے شک بہائیوں کا مرکز بھی عکه کی طرف منسوب ہو سکتا ہے.پس اگر ایسا نہیں تو بہائیوں کا یہ دعوی ٰکہ ان کا مرکز عکّه میں ہے ،نہایت قابل افسوس اور خلاف واقع دعوی ہے.مجھے نہایت ہی تعجب ہوا کہ کس دلیری کے ساتھ بہائی لوگ عکه کے متعلق جو روایات ہیں، انکو اپنے اوپر چسپاں کرتے ہیں.شروع میں چند سال مرزا حسین علی صاحب معروف بہ بہاء الله عکّه میں نظر بند کئے گئے تھے.لیکن کچھ سال ہی کے بعد ترکی گورنمنٹ نے ان کے لئے آزادی دے دی.اور ان کو کسی دوسری جگہ میں رہنے کی اجازت دے دی.چنانچہ انہوں نے بہجه کو پسند کر لیا.اور وہیں وہ رہے اور وہیں فوت ہوئے اور وہیں وہ دفن ہوئے.ان کی قبر بہجہ میں ہے نہ کہ عکّه میں.اور جس مکان وہ میں فوت ہوئے وہ بھی بہجه میں ہے.ان کے بعد مرزا عباس على صاحب کچھ دنوں کے لئے عكّه میں جا کر رہے گو باقی سارا خاندان بہجہ میں ہی رہا.پھر مرزا عباس علی صاحب بھی حیفا چلے گئے، عكّه میں صرف دو بہائی ہیں اور کوئی دوسَو گھر کی آبادی کا گاؤں ہے.اس لئے یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ بڑے شہروں کے پاس کے گاؤں بھی انہی کی طرف منسوب ہوتے ہیں.دو سو گھر کی آبادی کا گاؤں کبھی بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ اس کی طرف تین چار میل کے فاصلہ کے ایک گاؤں کو منسوب کیاجائے اور اس کو اس کا جزو قرار دیا جائے.
۴۵۲ دوره یو رپ بہجہ میں عباس علی کے بھائی سے ملاقات بہجه میں ہم نے مرزا محمد علی صاحب سے جو مرزا عباس علی صاحب کے چھوٹے بہائی ہیں معلوم کیا کہ نہ کوئی ڈاک کا انتظام ہے اور نہ کثرت سے مہمان آتے ہیں.کبھی کبھار کوئی مہمان آیا تو مکان کے ایک گوشہ میں ٹھہر جاتا ہے.ورنہ عام طور پر تماشہ کے لئے لوگ آتے ہیں جو دو ایک گھنٹہ تک ٹھہر کر چلے جاتے ہیں.جب بہائیوں کی تعداد کے متعلق ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ صحیح تعداد تو نہیں بتائی جاسکتی مگر جو کچھ بہائی ہیں وہ ایران ہی میں ہیں.پھر کچھ امریکہ میں ہیں، باقی ملکوں میں یونہی تھوڑے تھوڑے آدمی ہیں اور جو تعداد بتائی جاتی ہے اس میں بہت مبالغہ ہے.غرض حیفاور عكّه جانے سے ہمیں بہت کچھ فائدہ ہوا.ہمارے کئی دوست کہتے تھے جس شخص کو بہائیت کی طرف میلان ہو اس کو یہاں لانا چاہئے.اور پھر پوچھنا چاہیے کہ ۸۰ سال میں تمہاری تو یہ ترقی ہے اور حضرت مسیح موعودؑکی تیس سال میں وہ جو تم قادیان میں دیکھتے ہو.(باقی انشاء الله آئنده) خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل ۳ استمبر ۱۹۲۴ء)
۴۵۳ دوره یو رپ اہلِ لندن کے نام پیغام (یہ پیغام ۷ ستمبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل لندن میں پڑھا گیا) أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر شکریہ بہنو اور بھائیو! میں آپ کی اس تکلیف کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو آپ نے آج مجھے ملنے کے لئے آنے میں برداشت کی ہے- غرض سفر اس کے بعد میں چاہتا ہوں کہ مختصراً اس غرض کو بیان کردوں جس کے لئے میں دور کا سفر اختیار کر کے انگلستان پہنچا ہوں- میرے مشاغل اور میری ذمہ داریاں مجھے مرکز سے دور جانے کے راستہ میں مانع ہیں اور در حقیقت میرا چند دنوں کے لئے بھی مرکز سے اس قدر فاصلہ پر جانا کہ مرکز سے فوری مشورہ میں دقّت ہو کام میں سخت حرج واقع کرتاہے مگر باوجود ان مشکلات کے جو میں نے سفر اختیار کیا ہے تو سیر وسیاحت کی غرض سے نہیں بلکہ اس ہمدردی کی وجہ سے جو میں بنی نوع انسان سے محسوس کرتاہوں- میری سیر کا تو یہ حال ہے کہ جب انگلستان کے لوگ مجھے ملنے کے لئے آتے ہیں اور انگلستان کے متعلق مجھ سے رائے پوچھتے ہیں تو مجھے یہی جواب دینا پڑتا ہے کہ مجھے آپ کا ملک دیکھنے کا موقع نہیں ملا کہ میں کوئی تفصیلی رائے دے سکوں کیونکہ اس وقت تک تو اکثر دنوں میں مجھے ہوا خوری کے لئے بھی باہر جانے کا موقع نہیں ملا- میری سیر و ہی کام ہے جس کے لئے میں آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں ایسے طریقوں کو دریافت کروں جن کی مدد سے اپنے مغربی بھائیوں اور بہنوں کو وہ پیغام پہنچا سکوں جو خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے بھیجا ہے- واقعات ہمارے مخالف ہیں اور ہر ایک مقام پر ہمارے راستہ میں مشکلات ہیں اور میرا اس جگہ آنا ہی اس امر پر شاہد ہے کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مشکلات حد سے بڑھی ہوئی ہیں مگر باوجود اس کے میں مایوس نہیں ہوں- میری سب کوششیں اس محبت کی وجہ
۴۵۴ دوره یو رپ سے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے مخلصانہ کام کا نتیجہ اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ مشنری جو میری طرف سے ان ممالک میں کام کرتے ہیں یا کریں گے وہ بھی اسی روح سے کام کریں گے اور میں اس امر کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ جو کام محبت، اخلاص اور استقلال سے کیا جائے وہ بے نتیجہ رہے-محبت محبت پیدا کرتی ہے اور ہماری گہری محبت جو اس ملک کے لوگوں سے ہے اور جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ اپنے ملک سے ہزاروں کوس دور اپنے بال بچوں سے علیحدہ کسی دنیوی فائدہ کیلئے نہیں بلکہ تمام دنیاوی امیدوں کو قطع کر کے اس ملک میں کام کریں وہ ضرور ایک دن اس ملک کے لوگوں کے دلوں پر اثر کر کے رہے گی اگر ایسا نہ ہوتو یقیناً یہ ہماری محبت کی کمی کے باعث ہوگا یا اخلاص کے نقص کے باعث.مشرق میں کیا تبدیلی ہوئی؟ شائد آپ لوگ حیران ہوں گے کہ وہ مشرق جس کی طرف مغرب مشنری بھیج رہا تھا اور بالکل غیر متمدن تھا آج اس میں کیا تبدیلی ہوگئی کہ مغرب کی طرف مشنری بھیجنے لگا- یہ آپ کی اس حیرت کا جواب وہی دے سکتا ہوں جو ایران کے دربار میں محمدرسول اﷲ ﷺ کے ایک صحابی نے دیا تھا جب اس سے اس قسم کا سوال کیا گیا تھا- اس نے کہا کہ بے شک جو عیب ہماری طرف منسوب کئے جاتے ہیں ہم میں وہ سب موجود تھے بلکہ ان سے بھی زیادہ اور بے شک ہم ایسے ہی کم ہمت تھے جیسا کہ آپ نے بیان کیا مگر خدا تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول مبعوث کر کے ہماری حالت کو بدل دیا اور ہماری ہمت کو بلند کر دیا ہے- اب ہم وہ نہیں جو پہلے تھے اور اب ہمیں وہ چیزیں تسلی نہیں دے سکتیں جو پہلے دیا کرتی تھیں.اے بہنو اور بھا ئیو! ہماری بھی یہی حالت ہے- آج سے ۳۴ چونتیس سال پہلے (دین حق) کی حالت ایسی ہی تھی کہ اس کے بہترین محافظ اس کی طرف سے لجاجت کے ساتھ معذرت کیا کرتے تھے.مگر چونتیس سال گزرے کہ خدا تعالیٰ نے ایک رسول کو ہم میں مبعوث کیا.اس رسول کو جس کی مختلف ناموں سے پہلے انبیاء نے خبر دی تھی- کسی نے اس کا نام مسیح رکھا تھا، کسی نے مہدی، کسی نے کرشن، کسی نے میسیودر بہمی- اس نے اﷲتعالیٰ کے حکم سے مردہ قوموں پر زندگی کا پانی چھڑکا اور وہ خدا کی نازل کردہ روح سے زندہ ہوگئے اور سینکڑوں سالوں کے قبرستانوں کو چھوڑ کر آبادیوں اور شہروں میں پھیل گئے تاکہ خدا کے جلال کے لئے شہادت ہوں اور اس کی لازوال طاقتوں پر دلالت کریں-
۴۵۵ دوره یو رپ ہماری ہر حرکت خدا کے حکم کے ماتحت ہے پس ہم جو کچھ کرتے ہیں اپنی طرف سے نہیں کرتے بلکہ خداتعا لیٰ کا حکم ہمیں چلاتا ہے- ہماری ہر ایک حرکت اور ہماری ہر ایک کوشش اس کے خاص منشاء کے ماتحت ہے اور گویا ہماری مثال اس بانسری کی ہے جو ویسی ہی آواز نکالتی ہے جیسی آواز کہ اس کے پیچھے گانے والا نکالتاہے- ہم خدا کے منہ میں ایک بانسری ہیں جو اس کی آواز کو دنیا میں پہنچاتے ہیں اور اس لئے ہم کبھی مایوس نہیں ہوتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی آواز کبھی نیچی نہیں ہوتی- نہ تکلیفیں ہمیں خائف کرتی ہیں اور نہ موت ہم کو ڈراتی ہے- جیسا کہ افغانستان میں آپ لوگوں نے سنا ہوگا کہ حکومت ہمارے آدمیوں کو سنگسار کرتی ہے اور رعایا ان کو قتل کرتی اور ان کے گھروں کو جلاتی ہے مگر باوجود اس کے کہ ۲۴ چوبیس سال سے یہی سلوک ہم سے ہوتا چلا آرہا ہے- ہم نے اس ملک کو نہیں چھوڑا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری ترقی اس ملک میں روز بروز ہوتی ہی جاتی ہے.ہمارا مشن غرض ہمارا مشن ایک محبت اور خیر خواہی کا مشن ہے اور ہماری ایک ہی غرض ہے کہ جس طرح ہم نے خدا تعالیٰ کو پالیا ہے ہمارے دوسرے بھائی بھی اس کو پالیں اور اس سے دوری کی زندگی بسر نہ کریں اور ہم اس ملک میں مسیح کی آمد ثانی کی منادی کرنے آئے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک اس کے قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں- وہ دنیا کا نجات دہندہ ہے اور جب تک لوگ اس کے دامن کے نیچے نہ آویں گے اور اپنی زندگی کو اس تعلیم کے مطابق نہ کریں گے جو (دین حق) نے بیان کی ہے اور جس کی صحیح تشریح کرنے کے لئے مسیح موعود کو بھیجا گیا ہے اس وقت تک موجودہ فسادات دور نہ ہوں گے اور جھگڑے اور لڑائیاں برابر دنیا کے امن کو برباد کرتے چلے جائیں گے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اس سرچشمہ قدوسیّت سے دور رہیں گے جس کا قرب حاصل کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.انسان کی پیدائش کی غرض اے بہنو اور بھائیو! انسان کی پیدائش کی اگر کوئی غرض ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے وصال ہے پھر کس طرح دل تسلی پاسکتے ہیں جب تک وہ اس کا وصال حاصل نہ کریں.میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ وید کو پڑھنے والا جب وید کو پڑھتا ہے یا توریت کو پڑھنے والا توریت کو پڑھتا ہے یا انجیل کو پڑھنے والا انجیل کو پڑھتا ہے یا قرآن کو پڑھنے والا قرآن کو پڑھتا ہے اور ان کے
۴۵۶ دوره یو رپ ورقوں میں سے خالق ِارض وسماء کی شیریں آواز کی گونج کو جو اُن لوگوں پر نازل ہوئی جو آج سے ہزاروں سال پہلے گزرے، سنتاہے تو اس کے دل میں خواہش نہیں پیدا ہوتی کہ میں بھی خدا کے قریب ہوں اور اس کی دلکش آواز کو سنوں اور اس کی محبت کو انہیں لوگو ں کی طرح حاصل کروں- یا اس کے دل میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ جب اس زمانہ کے لوگ بھی خدا تعالیٰ ہی کی مخلوق ہیں تو کیوں ان سے خدا تعالیٰ کا سلوک ویسا ہی نہیں جیسا کہ پچھلے لوگوں سے تھا.خدا کا فیضان ہمیشہ جاری ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے خواہشات کے پیدا نہ ہونے کا سبب یہ خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کا فیضان پچھلے زمانہ پر ختم ہوگیا.مگر اے بہنو اور بھائیو! یہ خیال اس محبت کرنے والے رب پر بدظنی ہے جس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی اور کوئی نہیں ہے- میں اپنے تجربہ کی بنا پر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسیح موعود ؑکے تعلق کے واسطہ سے اب بھی انسان انہیں فیوض کو دیکھتا ہے جس کو پچھلے لوگ دیکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اب بھی اس طرح کھلے ہیں جس طرح پہلے زمانہ میں کھلے تھے- جماعت احمدیہ کی کامیابی پس مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں.بے شک ہماری باتیں اس زمانہ کے لحاظ سے عجیب ہیں اور عقل نہیں مانتی کہ اس زمانہ میں یہ باتیں پھیل جائیں گی مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی آواز اُٹھی ہے ایسے ہی حالات میں اُٹھی ہے اور اسی طرح اس کا بلند ہونا ناممکن سمجھا گیا جب حضرت مسیح علیہ اسلام نے بنی اسرائیل کو خدا کا پیغام پہنچایایا جب محمد ﷺ نے لوگوں کو اﷲکی طرف بلایا- اس وقت کون تسلیم کرتا تھا کہ یہ لوگ کامیاب ہوجائیں گے مگر آخر وہ کامیاب ہوکر رہے کیونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف سے بولتے تھے جو تمام دنیا کا بادشاہ ہےاسی طرح اب یہ مشکل معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کامشن کامیاب ہو جائے گا مگر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے خبر دے چھوڑی ہے ایسا ہی مقدر ہے اور ایسا ہی ہو کر رہے گا.مبارک کون ہے؟ مگر مبارک ہیں وہ جو تعصب کو نظر انداز کر کے سنجیدگی سے اس شخص کی آواز پر کان دھرتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے- یہ دعویٰ معمولی نہیں ہے خصوصاً اس حالت میں کہ اس دعویٰ کی تصدیق کے آثار ظاہر ہوچکے ہیں اور میں امید کرتاہوں کہ سب بہنیں اور بھائی جو اس وقت جمع ہیں خواہ کسی ملک اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں پوری توجہ سے اس سلسلہ کی حقانیت کے متعلق غور کرنا شروع کریں گے
۴۵۷ دوره یو رپ اور اگر ان پر حق کھل جائے تو اس کو دلیری سے قبول کریں گے اور دوسروں کو بھی حق کی طرف بلائیں گے تا ان کا نام سابقون میں لکھا جائے اور سابقون میں شامل ہونا کوئی معمولی بات نہیں- ایسے لوگ اس دنیا میں بھی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اور ان کا نام قائم رکھا جاتا ہے اور دوسری زندگی میں بھی یہ لوگ خاص ترقیات حاصل کرتے ہیں- مکرر شکریہ اور دعا میں ایک دفعہ پھر آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے محبت سے میری باتوں کو سنا ہے اور اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلائے اور جھوٹ کی تاریکی کا پردہ چاک کرے تا اس کا روشن چہرہ دنیا پر ظاہر ہو اور علم اور عرفان سے لوگوں کے سینے معمور ہوجائیں- واٰخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین مرزا محمود احمد (الفضل ۷.اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۴۵۸ دوره یو رپ پہلا انگریزی لیکچر (یہ لیکچر حضرت خلیفۃ المسیح نے ۹ستمبر۱۹۲۴ء کی رات کو ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر ’’ صدر مجلس، بہنو اور بھائیو! گو آج آپ ایک اور لیکچر کے سننے کے لئے جمع ہوئے ہیں مگر مسٹر کے این داس گُپتا ڈائرکٹر آف دی یونین آف دی ایسٹ اینڈویسٹ نے چونکہ مہربانی سے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں بھی چند منٹ کے لئے بولوں میں بھی اپنے چند خیالات کا اظہار کرتا ہوں- سوسائٹی کی غرض سے اتفاق میں سمجھتا ہوں کہ اس سوسائٹی کی اصل غرض کے سوا اور کوئی مضمون ایسا لطیف نہیں ہوگا جس کے متعلق میں آج آپ لوگوں کے سامنے کچھ کہوں.اس سوسائٹی کی غرض جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے مشرق ومغرب کے درمیان اتفاق ہے اور اس غرض سے مجھے خاص طور پر دلچسپی ہے کیونکہ میں جس بزرگ کی پیروی پر فخر کرتا ہوں اور جس کی نیابت کا عہدہ خدا تعالیٰ نے محض بندہ نوازی سے مجھے عطا فرمایا ہے اس کا دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے اس لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ تمام دنیا سے فساد کو دور کرے اور سب لوگوں میں محبت اور پیار کی روح پھونکے- اس کے عہدوں میں سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا ہوئے ایک ’’سلامتی کا شہزادہ‘‘ بھی تھا کیو نکہ وہ سب دنیا کو سلامتی دینے کے لئے آیا تھا- پس مجھے اور ہر ایک میرے ہم مذہب کو اس امر کو دیکھ کر کہ کوئی جماعت اس غرض کے پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے جس کے لئے ہماراامام بھیجاگیا تھا نہایت ہی خوشی پہنچتی ہے- پس طبعاً مجھے آپ کی ایسوسی ایشن سے ایک اُنس ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کے کام میں برکت دے اور آپ کی ہمتوں کو بلند کرے.
۴۵۹ دوره یو رپ مرکزی ہستی کی طرف بڑھو بہنو اور بھائیو! میں ایک بات کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو یقیناً آپ کے کام میں ممد ہو گی اور جس کے بغیر حقیقی کامیابی مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کو اس ہستی کی طرف قدم بڑھانا چاہیئے جو تمام عالم خلق کے لئے بطور مرکز کے ہے- ایک دائرہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ تمام بُعد مرکز سے بُعد کی وجہ سے ہوتے ہیں اور جوں جوں ہم مرکز کے قریب ہوتے جائیں خواہ ہم کسی جانب سے بھی کیوں نہ چلے ہوں ہم دوسرے کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہوتے چلے جاتے ہیں حتیّٰ کہ اگر ہم مرکز تک پہنچنے کی توفیق پالیں پھر تو ہم میں کوئی جدائی رہتی ہی نہیں- ٍ اس تمام عالم خلق کا مرکز خدا ہے اور بغیر اس کی کامل محبت کے اور اس کے قُرب کے ہم حقیقی اتحاد پیدا نہیں کرسکتے- جھگڑے تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب کہ ہم اس کی طرف سے منہ موڑلیتے ہیں- اس کی کامل محبت ہمارے دلوں کو نفرت اور حقارت کے جذبات سے با لکل خالی کردیتی ہے- لوگ ضرب المثال کے طور پر بھائیوں کی محبت کو پیش کرتے ہیں مگر یہ محبت کس سبب سے ہے؟ اسی لئے کہ ان کے وجود میں لانے والی ہستی ایک ہے- اولاد کا ماں سے یا باپ سے تعلق ان کے باہمی تعلقات کو مضبوط کردیتا ہے- اسی طرح جب لوگ خدا تعالیٰ کی محبت کو دوسری باتوں پر ترجیح دیں گے تو ان کے باہمی تعلقات مضبوط ہوں گے اور وہ محسوس کریں گے کہ جب ان سب کا پیدا کرنے والا ایک ہے اور وہ ایک ہی ہستی کے دامن رحمت کے سایہ کے نیچے بیٹھے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی نسبت نفرت اور حقارت کے جذبات کو پیدا ہونے دیں.دنیا میں امن کس طرح ہو سکتا ہے دنیا کا امن دنیا کے لوگوں کے ذریعہ سے نہیں ہو سکتا کیونکہ صلح کرنے والا یا مغربی ہو گا یا مشرقی اور اس وجہ سے ایک یا دوسری قوم اس کی کوششوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھے گی- صلح اس ہستی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی ہے بلکہ سب جہتوں سے پاک ہے- اسی ذات کی طرف قدم بڑھانے سے ہم درحقیقت ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور جو اس کی طرف سے آئے وہی ہم کو جمع کر سکتا ہے کیونکہ وہ جو آسمان سے آتا ہے وہ مشرقی یا مغربی نہیں کہلا سکتا بلکہ جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی مشرق و مغرب کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں.بِلاوجہ جھگڑا فساد میں سخت حیران ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ بِلا وجہ بے سبب قومیں آپس میں کیوں عداوت کرتی ہیں- رہائش کی جگہ کے اختلاف اور دلی منافرت اور
۴۶۰ دوره یو رپ عداوت کا آپس میں کیا تعلق ہے- کیا کوئی ملک ہے جو سب دنیا کی آبادی کو جمع کر سکا ہے- کیا یورپ یا اس کے مختلف بِلاد امریکہ، افریقہ اور ایشیا کی آبادی کو جگہ دے سکتے ہیں- کیا افریقہ، امریکہ یا ایشیا دوسرے براعظموں کی آبادی کو سنبھال سکتے ہیں- اگر نہیں تو جو بُعد محض ضرورت کی وجہ سے ہے اور جس کا علاج کسی کے پاس نہیں اس کے سبب سے اس قدر جھگڑا اور لڑائی کیوں ہے- میں مذہبی، تمدّنی اور علمی اختلاف کو دیکھتا ہوں تو بھی وجہ اختلاف کی نظر نہیں آتی- اگر کوئی قوم دوسری قوموں سے مذہبی، تمدنی یا علمی ترقی میں بڑھی ہوئی ہے تو اس کو دوسری قوموں کو اُبھارنے کی کوشش کرنی چاہیئے نہ کہ اس سے نفرت کرنی چاہیئے- ایک گرے ہوئے بھائی کی حالت دیکھ کر ایک شریف آدمی کے دل میں اظہار ہمدردی پیدا ہوتا ہے یا اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے.دوستی تو وہی ہے جو تکلیف کے وقت میں ظاہر ہو نہ وہ جس کا اظہار آرام اور راحت کے زمانہ میں کیا جائے- پھر جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے قوموں کی ترقیات اور ان کے تنزل دَوری نہیں- آج ایک قوم ترقی کرتی ہے کل دوسری- کون سی قوم ہے جس نے شروع دنیا سے علم کی مشعل کو اونچا رکھا ہو-پھر کس قوم کا حق ہے کہ وہ دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے- دنیا کی ہرایک قوم ایک دوسرے کی شاگرد ہے- باری باری سب ہی استاد اور شاگرد کی جگہیں تبدیل کرتے چلے آئے ہیں پھر یہ اختلاف اور منافرت کیوں ہے اس وجہ سے کہ لوگ اپنے آپ کو اس دنیا میں محدود سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے جہات کا اختلاف اور حالتوں کا تغیر ان کے قلوب پر برا اثر ڈالتا ہے- جس دن دنیا کا یہ نقطہ نگاہ بدلا اسی دن سے صلح اور امن کا دور دورہ شروع ہوجائے گا- ہمارا مقام بہنو اور بھائیو! آؤہم اپنی نظر کو ذرا اونچا کریں اور دیکھیں کہ ہم صرف اسی دنیا کے ساتھ جو سورج کے گرد زمین کی گردش کی وجہ سے مشرق ومغرب میں منقسم ہے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ہماری جگہ بہت وسیع ہے- ہم اس خدا سے تعلق رکھتے ہیں جو تمام عالم کا پیدا کرنے والا ہے- پس ہمارا مقام سورج سے بھی اونچا ہے اور مشرق ومغرب ہمارے غلام ہیں نہ کہ ہم مشرق ومغرب کے غلام- ہم سمجھدار ہو کر ان باتوں سے کیوں متاثر ہوں جو صرف نسبتی اور وہمی ہیں- مشرق ومغرب کا سوال لوگوں کے امن کو برباد کررہا ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ وہ مغرب کہاں ہے جو کسی دوسری جہت سے مشرق نہیں اور وہ مشرق کہاں ہے جو کسی دوسری جہت سے مغرب نہیں؟ آؤ ہم اپنے آپ کو ان وہموں سے اونچا ثابت کریں اور اس مرکز خلق کی طرف توجہ کریں کہ جو سب کو جمع کرنے والا ہے.(الفضل ۷.اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۴۶۱ دوره یو رپ انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی لندن سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا چوتھامکتوب گرامی (تحریر فرموده مورخہ ااستمبر ۱۹۲۴ء) أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر قل إن صلاتي ونسکی و محیای و مماتي لله رب العلمين برادرانِ جماعت احمدیہ! السلام عليكم مصروفیت ٍالحمد للہ کہ کام اچھی طرح ہو رہا ہے، تبلیغ عمدگی سے جاری ہے.کیونکہ گواصل کام ہمارا اور ہے مگر جو فارغ وقت ملے اس میں تبلیغ کی طرف بھی توجہ کی جاتی ہے.احباب سب اپنے کاموں میں مشغول ہیں.اور بعض دفعہ ہوا خوری کے لئے باہر جانے کا بھی دوستوں کو موقع نہیں ملتا.یہی حال میرا ہے.رات کے دودوبجے تک مجھے تو جاگنا پڑتا ہے مگر دل خوش ہے اور قلب مطمئن ہے کہ موت بھی ہوگی تویار کی راہ میں ہوگی.اور اے عزیزو!اس زندگی کا کیا فائدہ جو تن پروری میں خرچ ہو-اس دنیا میں تو کسی نے رہنا نہیں، کوئی پہلے مرگیا کوئی پیچھے مرگیا ،بات تو ایک ہی ہے.پھر کیوں نہ اُسی زندگی کے آرام کی طرف خیال رکھے جو نہ ختم
۴۶۲ دوره یو رپ ہونیوالی ہے.کاش!اس امر کی مجھے سچی توفیق مل جائے.طبّی مشورہ ٍمکرمی ومعظمی ڈاکٹر میر اسمعیل صاحب نے مجھے طبی طور پر مشورہ دیا ہے کہ میں صحت کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے کچھ عرصہ تک زیادہ سوؤں مگر ان کو کیا معلوم ہے کہ یہاں باقاعدہ دویا تین بجے سونے کاموقع ملتا ہے اور غالباً آنے والے دنوں میں کام اور زیادہ بڑھ جائے گا.کیونکہ اب انشاء الله مختلف لیکچروں اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے.اور چونکہ مجھے اردو میں مضمون لکھنا پڑتا ہے تاکہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے اس لئے وقت بہت ہی لگتا ہے.انسان دوگھنٹہ میں جس قدر مضمون بیان کر سکتا ہے اس کو چھ سات دنوں میں لکھ سکتا ہے.پس اس مشکل کی وجہ سے کام بہت بڑھ رہا ہے.لیکچروں کا پروگرام انشا الله تم ان کو میرالیکچر’’ پیام آسمانی‘‘ پر پورٹ سمتھ نامی شہر میں ہو گا.اس کے بعد پانچ دن کولنڈن میں انیس 19 تاریخ کو "حیات بعد الموت‘‘ پر لیکچر ہو گا.تیئس (۲۳) کو اس کانفرنس میں لیکچر ہے جو یہاں آنے کا محرّک ہوگئی ہے.گو موجب نہیں.چھبیس (۲۶) کو ایک لیکچر ہندوستان کے موجودہ حالات پر ایک سیاسی انجمن کی درخواست پر قرار پایا ہے.پھر انتیس (۲۹) کو ایک نوجوانوں کی انجمن میں رسول کریم ﷺکی زندگی پر لیکچر ہے.انشاء التعالیٰ احباب کو مختلف مقامات پر بھیجنا میرایہ منشاء ہے کہ کام زیادہ وسیع کرنے کے لئے مختلف احباب کو انگلستان کے مختلف شہروں میں پھیلادوں اس سے خرچ تو کچھ زیادہ ہو جائے گا مگر انشاء الله کام بہت وسیع ہو جائے گا اور آواز دور دور تک پھیل جائے گی.دشمن کی ہنسی اور تمسخر گو دشمن ہنسے گا اور تمسخراُڑائے گامگر میں اس کی ہنسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس بات کے اظہار سے نہیں رُک سکتا کہ خدا تعالی کے فضل سے انگلستان کی روحانی فتح شروع ہو چکی ہے.میرا منشاء خواجہ صاحب کی طرح یہ نہیں کہ چونکہ انگلستان سَو اخباروں نے یا اس سے بھی زیادہ اخباروں نے سلسلہ کے متعلق تعریفی الفاظ میں نوٹ لکھے ہیں پس معلوم ہوا کہ انگلستان مسلمان ہوگیا ہے.بلکہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ ایک روحانی امر ہے جس کو صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جن کی روحانی آنکھیں ہوں.
۴۶۳ دوره یو رپ انگلستان کے متعلق رؤیا اور اس کا پورا ہونا آپ لوگوں کو معلوم ہےکہ اس بادشاہ نے جس کے قبضہ میں تمام عالم کی باگ ہے مجھے رؤیامیں بتایا تھا کہ میں انگلستان میں گیا ہوں اور ایک فاتح جرنیل کی طرح اس میں داخل ہوا ہوں.اور اس وقت میرا نام و لیم فاتح رکھا گیا..میں جب شام میں بیمار ہوا اور بیماری بڑھتی گئی تو مجھے سب سے زیادہ خوف یہ تھا کہ کہیں میری شامتِ اعمال کی وجہ سے ایسے سامان نہ پیداہو جاویں.کہ خدا تعالی کا وعدہ کسی اور صورت میں بدل جائے اور میں انگلستان میں پہنچ ہی نہ سکوں.اور اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ میں اس خواب کی بناء پر یقین رکھتا تھا کہ انگلستان کی روحانی فتح صرف میرے انگلستان جانے کے ساتھ وابستہ ہے.لیکن آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں انگلستان پہنچ گیا ہوں اور اب میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.آسمان پر اس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا علان زمین پر بھی ہوجائے گا.دشمن ہنسے گا اور کہے گا یہ سیلے ثبوت دعویٰ تو ہراک کر سکتا ہے مگر اس کو ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو نہیں دکھ سکتا.آتھم کے متعلق جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی اور وہ مصلحت الہٰی کے ماتحت اور رنگ میں پوری ہوئی تو سب ہندوستان میں اس پر تمسخر کیا گیا.اس وقت کے نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی اس کا ذکر ہو اور انہوں نے بھی اس کے غلط ہونے کی تائید میں رائے دی.ان کے پیر خواجہ غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ چاچڑاں والے اس وقت دربار میں موجود تھے.اس بات کو سن کر جوش میں آگئے اور فرمایا کہ جو یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی وہ غلط کہتا ہے.آتھم مر چکا.مجھے وہ مردہ نظر آرہا ہے.دنیا کے کیڑوں کو وہ زندہ نظر آتا ہے.انگلستان کے فتح ہونے کی شرط پوری ہوگئی ٍ میں بھی کہتا ہوں انگلستان فتح ہو چکا ،خدا کا وعدہ پورا ہوگیا.اس کی فتح کی شرط آسمان پر یہ مقرر تھی کہ میں انگشتان آؤں ،سومیں خدا کے فضل سے انگلستان پہنچ گیاہوں.اب اس کارروائی کی ابتداء إنشاءالله شروع ہوجائے گی.اور اپنے وقت پر دوسرے لوگ بھی انشاء الله دیکھ لیں گے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ سچ ہے.نادان لوگ نہیں جانتے کہ بعض امور کا تعلق بعض خاص شخصوں کی ذات سے وابستہ ہوتا ہے.اور انگلستان میں ترقی اسلام کا سوال خدا تعالی کی قضاء میں میرے انگلستان آنے کے ساتھ متعلق تھا.
۴۶۴ دوره یو رپ مسیح موعودؑ کو جو رؤیادکھائی گئی اس میں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کے ولایت جانے پر یہ فتح شروع ہوگی اور مجھے بھی یہی دکھایا گیا.اور چونکہ نبیوں کے خلیفہ ان کے ہی وجود سمجھے جاتے ہیں اس لیے دونوں خوابوں کا مطلب ایک ہی تھا.حضرت مسیح موعودؑ کی رؤیا سے مراد بھی ان کے جانشین کے انگلستان جانے سے تھی.اور میری رؤیا سے مراد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ولایت جانے سے بھی ہیں جبکہ مسیح موعودؑ اپنے روحانی جانشین کے ذریعہ سے انگلستان پہنچ گئے تو اب انشاء الله اس فتح کا دروازہ بھی کھول دیا جائے گا جو کہ ہمیشہ سے مقدر ہے.خداتعالی کی سنت ہے کہ جب کسی پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو پھر اس کی طرف توجہ دلادیا کرتا ہے.اور میں سمجھتاہوں کہ میں نے جو خواب میں دیکھا کہ میں انگلستان میں گیا ہوں اس سے مراد یہی تھی کہ مسیح موعودؑ کی ’’ ازالہ اوہام‘‘ والی رؤیا کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.فالحمد لله اليري آرانا ما وعدنا على إيمان المسيح عليه السلام مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کا اعتراض اور اس کا جواب ٍمولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کو اعتراض ہے کہ اس سفر پر اس قدر خرچ کیوں کیا ہے.اور غالباً اسی وجہ سے اعتراض ہے کہ ان کو خیال ہے میں نے یہ سفر سیر و سیاحت کی وجہ سے اختیار کیا ہے.میں ان کو بتانا چاہتاہوں کہ یہ درست نہیں.افسوس ہے کہ اب یہ امر مشکل ہے ورنہ میں ان کو کہتا کہ میرے خرچ پر میرے ساتھ چلیں اور میری زندگی کا مطالعہ کریں.اور پھر مؤمنانہ طور پر تجربہ کے بعد میرے متعلق رائے دیں.اگر وہ ساتھ ہوتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ خود غیر احمدی لوگ اور انگلستان کے واقف لوگ بھی ہمیں نصیحت کرتے ہیں کہ اس قدر کام اچھا نہیں ہے.صحت کا خیال بھی رکھنا چاہیے.آج لنڈن پہنچے بیس دن ہو گئے ہیں.اور ہمارے نزدیک لنڈن ابھی ویسا ہی ہے جیسا کہ ہندوستان میں تھا.نہ ہمیں اس کی عمارتوں کا پتہ ہے اور نہ اس کے عجائبات کا.جو کچھ ہمیں معلوم ہے وہ یہاں کے آدمی ہیں جو ملنے کے لئے آجاتے ہیں یا وہ نظارہ ہے جو ہوا خوری کے لئے جاتے ہوئے راستہ میں نظر آجاتا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ مولوی محمد علی صاحب باوجود سخت دشمنی اور تعصّب کے یہ امید نہیں کریں گے کہ ہم لوگ اگر چوتھے پانچویں دن سیر کے لئے نکلیں یا پٹنی کے مکان کی طرف جمعہ کی نماز کے لئے جاویں تو ہمیں آنکھیں بند کر کے چلنا چاہیے کہ کہیں ہمارا سفر تفریح کا سفر نہ بن جائے.
۴۶۵ دوره یو رپ بہر حال میں ان کو بتانا چاہتاہوں کہ اگر اس سفر میں ہم کوئی بھی کام نہ کرتے اور سیریں ہی کرتے رہتے، تب بھی یہ سفر قابل اعتراض نہ تھا کیونکہ یہ دو پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے تھا.ایک آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی جو دمشق کے متعلق تھی اور ایک حضرت مسیح موعودؑ کی جو انگلستان کے متعلق تھی.پس اگر ہم لوگ اپنے روپیہ سے بغیر اس کے کہ مولوی صاحب سے روپیہ کا مطالبہ کریں اور بغیر اس کے کہ غیر احمدیوں سے کچھ مانگیں (وہ چونکہ مولوی محمد على صاحب کے دا تاہیں.ان سے مانگنے کا اثر بھی لوٹ کر مولوی محمد علی صاحب کے خزانہ پڑتا ہے) اس سفر کو بعض پیشگوئیوں کے پورا کرنے کے لئے اختیار کریں تو اس پر ان کو کیا اعتراض سکتا ہے.ٍمیں سمجھتا ہوں مولوی محمد علی صاحب جس طرح خود میرے معاملہ میں اپنی عقل کو فراموش کر دیتے ہیں اسی طرح باقی لوگوں کو بھی سمجھتے ہیں.میں نے انگلستان آنے کا ارادہ نہیں کیاجب تک کہ سَو میں سے نوّے جماعتوں نے مجھے یہاں آنے کا مشورہ نہیں دیا.پس اگر یہ سفر ناجائز تھاتو اعتراض جماعتوں پر پڑتا ہے نہ مجھ پر.وہ یہ تو کہہ سکتے تھے کہ دیکھو کیسا نادان ہے کہ لوگوں نے ناواقفیت سے مشورہ دیا اور وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا.مگر یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس کو کسی نے روکا کیوں نہیں.کیا مولوی صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کے مضمون میں ایسا مقناطیسی اثر ہے کہ وہ مسمریزم کے اثر کی طرح سب کچھ بُھلادیتاہے اوراپنی مرضی منوالیتا ہے.جن لوگوں نے مہینہ بھر پہلے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں ضرور انگلستان جاؤں اور کسی تکلیف کا بھی خیال نہ کریں.کیا وہ ایک مہینہ کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے قوم کا روپیہ کیوں برباد کیا اور کیوں انگلستان چلا گیا.اور پھر وہ قوم کا روپیہ برباد کرنے کا الزام مجھ پر دے سکتے ہیں جو جانتے ہیں کہ میں نے اپنی ذات کے لئے کوئی روپیہ نہیں لیا.اور جو اپنے خطوں میں اس پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ میں اپنی ذات کے اخراجات بھی جماعت کے خزانہ سے لوں.میں مولوی محمد علی صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ احمدی جماعت کچھ بھی ہو وہ اس قدر عقل سے دور نہیں ہو گئی کہ اس قسم کی مجنونانہ باتیں کرنے لگ جائے.خدا کے سوا کسی کی پرواہ نہیں ٍمگر میں ان سے دریافت کرتاہوں کہ اگر ان کے مضمون کا اثر ہو جائے تو پھر کیا ہو گا.یہی نا کہ لوگ میری بیعت سے منحرف ہوکر ان سے جا ملیں گے.سو میں اس کے متعلق ایک وفعہ کہہ دینا چاہتاہوں
۴۶۶ دوره یو رپ کہ میں آدمیوں کا بھوکا نہیں میں اپنے رب کی نگاہ کا بھوکاہوں.اے نادان مولوی! تُو اپنی طرح مجھے مت خیال کر.احمدی جماعت کیا ہے ایک مٹھی بھر جماعت ہے.اگر ساری دنیا میرے ساتھ ہو اور مجھے چھوڑ دے تومیں اپنے خدا پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا.اور جب خداتعالی میرے ساتھ ہے تو مجھے انسانوں کے آنے یا جانے کی کیا پرواہ ہے.جو انسان میری بیعت کرتا ہے وہ اپنے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے ،مجھ پر اس کا احسان نہیں بلکہ میرے ذریعہ سے خداتعالی اس پر احسان کرتا ہے.جو شخص مجھے کوئی تحفہ دیتا ہے وہ مجھ پر احسان نہیں کرتا بلکہ خداتعالی اس ذریعہ سے اس پر احسان کرتا ہے.تم میں سے کون ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کبھی اس سے کچھ ما نگاہو.سوائے اس کے کہ بطور قرض کے کسی سے کوئی رقم لی ہو.کوئی ہے جو مجھ پر دنایت کا الزام لگا سکے؟ کوئی ہے جو مجھ پر خيانت ثابت کرسکے؟ کوئی ہے جو میری طرف لالچ یاحرص کو منسوب کر سکے ؟ اگر کوئی شخص دنیا کے پردہ پر اس قسم کا موجود ہے تو میں اس کو قسم دیتا ہوں اس ہستی کی جس کے ہاتھ میں اس کی جان ہے کہ وہ خاموش نہ بیٹھے اور مجھے دنیا کی نظروں میں ذلیل کرے.اگر میں احمدیت سے عذر کرنے والا ہوں، اگر میں لوگوں کے مال کھانے والا ہوں، اگر میں لالچ اور حرص کی مرض میں چاہوں تو میری مدد کرنے والا ،میرے راز پر پردہ ڈالنے والا خدا اور اس کے دین کا دشمن ہے.اور جس قدر جلد وہ اپنی اصلاح کرے، اسی قدر اس کی روحانیت کے لئے یہ امرا چھاہوگا.جماعت کے روپیہ کا امین زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، موت ہراک کو آنیوالی ہے.پس میں اس امر کا اعلان کرتاہوں کہ خواہ مجھ میں کوئی قصور ہوں، کوئی غلطیاں ہوں، میں جماعت کے روپیہ اور اس کے سامان کا اس رنگ میں امین رہا ہوں کہ اس سے زیادہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کر سکتا ہوں.بعض دوست مجھے بطور ہدیہ کے روپیہ بھیجتے ہیں اور میرے نام منی آرڈر ارسال کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جب ان کے نام روپیہ بھیجا ہے تو کچھ لکھنے کی کیا ضرورت ہے.میں اس روپیہ کو بھی کبھی نہیں لیتا.میرے نام سے سب منی آرڈر دفتر محاسب میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں رجسٹروں میں درج ہو کر میرے پاس آتے ہیں.پس میرے حالات پر کوئی پردہ نہیں.وہ رجسٹر اور وہ کوپن اس امر پر شاہد ہیں کہ ایسار وپیہ بھی خزانہ جماعت میں داخل ہوتا ہے.میں اس کو ہاتھ نہیں لگا تا.میں بے شک ضرورت کے وقت خزانہ سلسلہ سے روپیہ قرض لے لیتا ہوں اور پھر حسب توفیق ادا کر دیتا ہوں.
۴۶۷ دوره یو رپ اس کا میں مقِرّ ہوں اور میں اسے جائز سمجھتاہوں اور اس کا کئی بار اظہار کر چکا ہوں.اس کے سوا مجھے جماعت کے روپیہ سے کوئی تعلق نہیں.میں امیر آدمی نہیں ،بسا اوقات مجھے بیماری میں دواؤں اور ضروری لباس با اور ضروریات کے لئے سامان میسّر نہیں ہوتا تو میں نفس پر تکلیف برداشت کرلیتاہوں مگر اپنی حالت کو بھی ایسا نہیں بناتا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت ہے.کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ یہ بھی ایک رنگ سوال کا ہے.اگر باوجود ان حالات کے کوئی شخص میری طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جن سے میں ایسا ہی دور ہوں جیسا کہ نور ظلمت سے تمہیں اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو تاہوں.اور اس سے عرض کرتاہوں کہ اے میرے خدا!اے میرے خدا میں تیرا عاجز بندہ ہوں اور اپنے گناہوں کا مقرّ.میں اپنی خطاؤں کی معافی کی امید میں ان لوگوں کے ظلموں کو معاف کرتا ہوں.تو ان کی خطاؤں کو بھی معاف فرما اور میرے قصوروں سے بھی درگذر کر.اور میرے دل کو صبر کی طاقت ہے کہ روح تو خوش ہے مگر جسم تکلیف محسوس کرتا ہے.مولوی نعمت اللہ صاحب کی شہادت مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے ان الزامات کے جواب میں جو انہوں نے میرے سفر کے متعلق اب تک کئے ہیں آخری بات کہہ کر میں اس تکلیف دہ واقعہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو کابل میں ہوا ہے.مولوی نعمت اللہ صاحب کی شہادت معمولی بات نہیں ہے.کیونکہ افغانستان کے پہلے فعل اگر جہالت کے ماتحت تھے تو یہ دیدہ دانستہ ہے.اب أفغانستان کی گورنمنٹ ہمارے اصول سے اچھی طرح واقف ہوگئی ہے.اور اس کا یہ فعل نہایت قابل افسوس ہے.مگر مسلمان لڑنے کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے لئے قربان ہونے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے ہمیں اپنے یالات کی رَو کو صلح اور امن کی طرف پھیرنا چاہیے نہ کہ بُغض اور فساد کی طرف.بد پر رحم اور بدی سے نفرت ہمیں یہی تعلیم ہے کہ ہم کو چاہیے کہ بد پر رحم کریں اور بدی سے نفرت کریں.بدی کو مٹائیں اور بد کو بچائیں.پس ہمیں افغانستان کی گورنمنٹ اور اس کے فرمانروا کے خلاف دل میں بُغض نہیں رکھنا چاہئے بلکہ دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اب بھی ان کو ہدایت ہے.بے شک یہ کام مشکل ہے.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ صبر مشکل ہے.ہمیں جیسا کہ میں تار میں لکھ چکا ہوں اپنی پوری توجہ اس کام کے
۴۶۸ دوره یو رپ جاری رکھنے کے لئے کرنی چاہیے جس کی خاطر مولوی نعمت اللہ صاحب نے جان دی ہے اور ہمیں ان لوگوں کی یاد کو تازہ رکھنا چاہئے تاکہ ہمارے تمام افراد میں قربانی کا جوش پیدا ہو.شہیدوں کے کتبے ٍ میری رائے ہے کہ جس قدر سلسلہ کے شہید ہوں ان کے نام ایک کتہ پر لکھوائے جائیں اور اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کی طرف لگوایا جائے تا وہ ہر ایک کی دعامیں شامل ہوتے رہیں.اور ہر ایک کی نظر ان کے ناموں پر پڑتی رہے.فی الحال اس کتبہ پر مولوی شہزادہ عبداللطیف صاحب اور مولوی نعمت الله صاحب کا نام ہو.اگر آئندہ کسی کو یہ مقام عالی عطا ہو تو اس کا نام بھی اس کتبہ پر لکھا جائے.تذکرة الشہداء ٍاسی طرح ایک کتاب تیار ہو جس میں تاریخی طور پر تمام شہداء کے حالات جمع ہوتے رہیں تاآئندہ نسلیں ان کے کارناموں پر مطلع ہوتی رہیں.اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں.افغانستان میں تبلیغ کا سوال اسی طرح ہمیں افغانستان میں تبلیغ اسلام کے سوال پر خاص غور کرنا چاہیئے.وہاں کھلی تبلیغ کا دروازہ تو سرِدست بند ہے.مگر ہمیں اس ملک کو ایک دن کے لئے بھی نہیں چھوڑنا چاہیے.چاہئے کہ ہمارے مخلص دوست اپنے اپنے علاقوں میں جاکر وہاں سے بااثر خاندانوں کے نوجوانوں کو ہندوستان میں لاویں پھر قادیان میں ان کو کچھ عرصہ تک رکھاجاۓ اور ان کو سلسلہ سے واقف کر کے چھ سات ماہ کے بعد ان کے وطن واپس کردیا جائے.جو شخص ایک ماہ بھی قادیان میں رہے گا اس کا بغیر احمدی ہونے کے واپس جانا بظاہر خلاف توقع ہے.اور ہمیں یہی امید کرنی چاہیئے کہ ان میں سے سو فیصدی ہی احمدی ہو کر جائیں گے.یہ لوگ جب واپس جاویں گے تو اپنے اپنے علاقہ کے لئے مبلغ کا کام دیں گے.اور صرف اپنے رشتہ داروں میں تبلیغ کریں گے.اس طرح چند سال میں ہی ایک معقول تعداد نو احمدیوں کی أفغانستان میں پیدا ہوجائے گی.یہ ضروری ہے کہ ایسے لوگ مختلف علاقوں اور شہروں سے آئیں تا ایک ہی وقت میں سب طرف احمدیت کا اثر پھیل جائے.اس کے لئے ہمیں تین چار آدمی مقرر کرنے چاہئیں جو ہر وقت افغانستان میں چکر لگاتے رہیں.میں امید کرتاہوں کہ اگر افغانستان کے باشندوں میں سے جو اس کام کے پہلے حقدار ہیں ،اس بات کے لئے آدمی نہ ملیں تو پنجابیوں کو اور خصوصا ًسرحدوں کو اس کام کے لئے تیار ہو جانا چاہیے.
۴۶۹ دوره یو رپ چوہدری ظفراللہ خانصاحب بیرسٹر ایٹ لاء کی کابل جانے پر آمادگی میں نہایت خوشی سے اعلان کرتاہوں کہ بغیر اس تجویز کے علم کے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنے نام کو اس لئے پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ صرف نام دینے کے لئے ایسا نہیں کرتا بلکہ پورا غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مجھے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیئے.حضرت خلیفتہ المسیح کی دلی تڑپ افسوس کہ میری ذمہ داریاں مجھے اجازت نہیں دیتیں اور نہ میری کوئی بالغ اولاد ہی ہے کہ وہ میری دلی تڑپ کو پورا کرے.اس لئے میں خون دل پی کر خاموش ہوں.اور چونکہ کسی کو دل کھول کر دکھایا نہیں جاسکتا اس لئے اپنی حالت کا اظہار بھی نہیں کر سکتا ورنہ خدا شاہد ہے اس کی راہ میں مرنے کی خواہش میں مرا ہر ذره تن جھک رہا ہے التجا ہو کر اے عزیزو!اب وقت تنگ ہے اور میں آپ سے رخصت ہو تاہوں.طبیعت میری ابھی تک بیمار ہے.اسہال اور پیچش سے آرام نہیں، کھانسی بھی شروع ہے مگر میں اپنے رب کے ہاتھ میں ہوں اور آپ کو بھی اسی کے سپرد کرتاہوں- نعم المولى ونعم النصیر والسلام خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل ۴- اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۴۷۰ دوره یو رپ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم پیغام آسمانی (فرموده ۱۴ستمبر ۱۹۲۴ء بمقام پورٹ سمتھ (انگلینڈ)بوقت پونے سات بجے شام) جناب صد رجلسہ! بہنو اور بھائیو! السلام عليكم ٍ ’’میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روح کے حق میں ہو وہ معاف نہ کیا جائے گا...اور جو کو ئی روح القدس کے بر خلاف کوئی بات کہے گا وہ اسے معاف نہ کی جائے گی.نہ اس عالم میں نہآنے والے ہیں.۲۱؎ ان الفاظ میں خدا تعالیٰ کے ایک مقدس نبی نے ان لوگوں کو جو ایک آسمانی پیغام کا انکار کر رہے تھے آج سے انیس سو سال پہلے مخاطب کیا تھا اور ان الفاظ کا زور اور طاقت آج بھی ایسا ہی قائم ہے- روح القدس کیا ہے؟ ان تمام روایات کو اگر الگ کر دیا جائے جو قوت واہمہ نے روح القدس کے لفظ کے گرد جمع کردی ہیں تو روح القدس وہ فرشتہ ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام حضرت مسیح کے پاس لایا تھا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی مراد مذکورہ بالا الفاظ سے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ہر قسم کا گناہ اور کفر انسان کو بخشا جائے گا مگر وہ کفر اور گناہ جو خدا کے کلام کے خلاف ہوگا نہیں بخشا جائے گا- ابن آدم یعنی مسیح کی ذات کے خلاف اگر کوئی شخص کہے گا تو اس کی معافی کی امید ہے مگر جو شخص اس پیغام کے خلاف کچھ کہے گا جو ابن آدم لایا ہے وہ اس دنیا میں بھی سزا پائے گا اور اگلے جہان میں بھی.خدا کے کلام کی خلاف ورزی کا نتیجہ یہ فقرے ایک زبردست صداقت اپنے اندر رکھتے ہیں- ایسی صداقت جس کے اندر ایک شائبہ بھی غلطی کا نہیں- اگر ذرا بھی غور کر کے دیکھا جائے تو عقل اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ
۴۷۱ دوره یو رپ اگر کوئی خدا ہے اور اگر وہ دنیا کی اصلاح کے لئے کوئی پیغام بھیجتا ہے اور اگر اس کا پیغام واقع میں دنیا کے فائدہ کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے نہ کہ بے معنی اور بے فائدہ باتوں پر تو جو شخص اس کلام کا انکار کرے یا اس کی طرف سے منہ پھیرے ضرور اسے اپنے عمل کا خمیازہ بھگتنا چاہیے- ہم کسی شخص کو کسی جگہ کا راہ بتادیں اور وہ باوجود ہماری ہدایت سے بے پروائی کرنے کے بے تکلّف اور بے تکلیف کے منزل مقصود پر پہنچ جائے تو یقیناً ہماری ہدایت کی غلطی ثابت ہوگی اگر ہماری ہدایات درست ہوتیں تو وہ شخص کبھی بغیر ٹھوکریں کھانے اور اپنی اصلاح کرنے کے منزل مقصود پر نہ پہنچ سکتا- اسی طرح اگر خدا کا کلام بھی کسی ہدایت پر مشتمل ہوتا ہے تو یقیناً ا س کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں انسان کو دکھ پہنچنا چاہیے نہ اس لئے کہ خدا ایک کینہ رکھنے والی ہستی ہے بلکہ اس لئے کہ خلاف کرنے والے نے اس راستہ پر قدم مارا جو تکلیفوں اور دکھوں کا راستہ تھا- خدا کا کلام اس لئے دنیا میں نہیں آتا کہ وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کا امتحان لے بلکہ اس لئے آتا ہے کہ تا وہ لوگوں کو اس راستہ کی خبر دے جو منزل مقصود تک پہنچنے کا صحیح راستہ ہے.پیغام آسمانی کی اہمیت میری غرض اس تمام تمہید سے یہ ہے کہ پیغام آسمانی کوئی معمولی بات نہیں کہ انسان اس کی طرف سے منہ پھیر لے اور کچھ ضرر نہ پائے بلکہ وہ طبعی قانون کی طرح ایک روحانی قانون ہے جس کی خلاف ورزی روحانی صحت سے انسان کو محروم کردیتی ہے جس طرح زہر کھا کر کوئی شخص اس کے اثر سے بچ نہیں سکتا اسی طرح خدا کے کلام کا انکار کرکے بھی انسانی روح اس کے بد اثر ات سے بچ نہیں سکتی- اس کے مطابق عمل کرنا اس پر احسان نہیں بلکہ اپنی جان پر احسان ہے اور اس کی خلاف ورزی سے خدا تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں بلکہ اس میں ہمارا اپنا نقصان ہے.پیغام آسمانی کی ضرورت پیغام آسمانی کی اہمیت کے بتانے کے بعد میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ چونکہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرے اور تقدس اور کمال پیدا کرے اس لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے پیغام اس کو ملتے رہیں جو اس کی توجہ کو قائم رکھیں اور اس کی دلچسپی کو باطل نہ ہونے دیں- یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ خدا تعالیٰ جس کی نسبت ہم یقین رکھتے ہیں کہ منبع علم وحکمت ہے وہ انسان کو ایک خاص غرض کے لئے پیدا کرکے پھر اس کو چھوڑ دے گا کہ اب جو چاہے وہ کرتا پھرے اور اس طرح اپنے کام کو خود باطل کر دے گا- پھریہ بھی
۴۷۲ دوره یو رپ اسی نتیجہ کی تصدیق کرتا ہے- کوئی ملک کوئی قوم ہمیں ایسی نظر نہیں آتی جس میں الہام الٰہی کا خیال کسی نہ کسی وقت نہ پایا جاتاہو اور جس میں ایسے لوگوں کا پتہ نہ لگتا ہو جو الہام کے مدعی تھے- ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب جھوٹے تھے یا یہ کہ سب کے سب اعصابی مرضوں کے شکار تھے کیونکہ دنیا کے اخلاق اور اس کے تمدن کا نقطہ مرکزی یہی لوگ نظر آتے ہیں اور ان کو الگ کرکے دنیا بالکل خالی نظر آتی ہے- قرآن کریم اس مضمون کے متعلق فرماتا ہے- وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ ۲۲؎ کوئی قوم نہیں جس میں نبی نہ گزرا ہو اور یہی امر صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے- وہ خدا جس نے انسان کو ایسی طاقت کے ساتھ پیدا کیا ہے جو اسے ترقیات کے بلند مقام تک لے جاسکتی ہیں اس کو ایسی قوتوں کے ساتھ پیدا کرکے یونہی نہیں چھوڑ سکتا تھا اور وہ خدا جس کی نظر میں سب بنی نوع انسان ایک ہیں اور وہ سب سے یکساں محبت کرتا ہے باقی سب اقوام کو چھوڑ کر ایک قوم کو اپنی وحی سے مخصوص نہیں کرسکتا تھا- اگر ہم ایک رحیم خدا پر ایمان لائیں گے تو ساتھ ہی ہم کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ہر اک زمانہ میں اپنا پیغام دنیا کی طرف بھیجتا ہے ورنہ ہم اپنے ایمان میں متضاد باتوں کو جمع کرنے والے بنیں گے.موجودہ زمانہ میں پیغام آسمانی کی ضرورت جب ہم اس نتیجہ پر پہنچ جاویں کہ خدا تعالیٰ کا کلام جب بھی اس کی ضرورت ہو نازل ہونا چاہیے تو گویا ہم خدا کے پیغام کو قبول کرنے کے مقام کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہیں اور اپنے دل کی ایک کھڑکی کو کھول دیتے ہیں مگر ابھی ہمارے لئے ایک قدم اُٹھانا اور باقی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ہمارے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیغام آنے کی ضرورت ہے؟ اگر ضرورت ثابت ہوجائے تو ہمارا دل خدا کے پیغام کو سننے کے لئے بالکل تیار ہوجاتا ہے- چونکہ ہم اس کے قانون کو جب دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ضرورت ہے وہاں اس کے پورا ہونے کے سامان بھی موجود ہوتے ہیں اگر ضرورت ہے تو ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو پورا بھی کیا ہو- اے بہنو اور بھائیو! غور کرکے دیکھو کہ خدا کے کلام اور اس کے پیغا م کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ کیا یہی نہیں کہ لوگوں کو اس کی ذات کی نسبت کامل یقین ہو اور وہ اس کی کامل محبت اور اس کے کامل عرفان کے ذریعہ سے اپنے نفس کی اصلاح کرنے پر قادر ہوں ؟اور ایسی طاقتیں حاصل کرلیں جن کے ذریعہ سے اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کے وصال کو پالیں جو انسانی پیدائش کی اصل غرض ہےپھر غور کرو کہ کیا یہ باتیں دنیا میں پائی جاتی ہیں؟ کیا اس زمانہ کے لوگ فی الواقع خدا پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ان کے دلوں میں اس کی ویسی ہی محبت ہے جیسی کہ
۴۷۳ دوره یو رپ ہونی چاہیے اور وہ اس کے احکام کو اپنے اعمال پر اسی طرح حاکم بناتے ہیں جس طرح کہ ان کو حاکم بنانا چاہیے ؟اور کیا فی الواقع ان کو وہ روحانی طاقتیں حاصل ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کے واصل باﷲہونے کا علم ہوتا ہے- میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے ہر اک نے کم از کم بائیبل پڑھی ہوگی یا اس کے بعض حصوں کو دیکھا ہوگا- آپ لوگ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ لوگ جن کا بائیبل میں ذکر ہے کیا آج بھی پائے جاتے ہیں؟ کیا آج بھی اﷲتعالیٰ ان کے لئے اس قسم کے نشانات دکھاتا ہے؟ اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں بلکہ دنیا خدا تعالیٰ پر ایمان سے خالی ہےدہریت کا زور ہے- بجائے خدا تعالیٰ سے محبت ہونے کے روپیہ اور مال اور عزت سے محبت ہے- بجائے بنی نوع انسان کی ہمدردی کرنے کے لوگ ایک دوسرے کا حق مارنے کی فکر میں رہتے ہیں- بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ہاتھ پر نشان دکھائے خدا تعالیٰ کا اپنا وجود ہی مخفی ہورہا ہے- صرف اور صرف جسمانی لذتوں کے حصول کی فکر میں لوگ مشغول ہیں اور مذہب کے احکام کو تو ظاہری شکل کہہ کر ٹال دیتے ہیں لیکن کالر اور نکٹائی اور بوٹ اور لباس کی اور بہت سی اقسام اور کھانے کے طریق وغیرہ کے متعلق اپنے خود ساختہ قوانین کی اس قدر پابندی کررہے ہیں کہ گویا انسانی حیات کا واحد مقصد ہی وہی کام ہیں ذرا سے غور سے بھی انسان معلوم کرسکتا ہے کہ آسمانی احکام کو ظاہری شکل اور قشر کہنے سے ان کی یہ غرض نہیں ہے کہ ظاہری شکل اور قشر کی ضرورت نہیں بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ خدا کے احکام کو منسوخ کرکے وہ خود قواعد بنانا چاہتے ہیں- یہ انکار درحقیقت قانون کا نہیں ہے بلکہ قانون بنانے والے کے حق کا ہے- اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان حالات میں اس بات کی ضرورت ہے یا نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تازہ پیغام بندوں کو آئے تا کہ وہ محسوس کریں کہ ان کا خدا زندہ خدا ہے اور طاقتور خدا ہے اور یہ نہیں کہ دیر تک کام کرکے تھک گیا ہے اور جنت کے کسی گوشہ میں سورہا ہے.موجودہ زمانہ کا پیغامبر ضرورت پیغام کو ثابت کرنے کے بعد میں اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں اور آپ کو بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو چھوڑا نہیں اور وہ ان کی ضروریات کو بھولا نہیں بلکہ اس نے اسی طرح اپنے ایک برگزیدہ کے ذریعہ سے دنیا کی ہدایت کے لئے پیغام بھیجا ہے جس طرح کہ اس نے نوحؑ- ابراہیمؑ- موسیؑ- داؤدؑ- مسیحؑ- کرشنؑ- رامچندر- بدھ- کنفیوشس- زرتشت اور محمد ﷺ کی معرفت پیغام بھیجا
۴۷۴ دوره یو رپ تھا- اس پیغام بر کانام احمدؑ تھا اور جو لوگ اس کے پیغام کو قبول کرکے اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں وہ اسی طرح خدا کے فضل کے وارث ہوتے ہیں جس طرح کہ پہلے نبیوں کے ماننے والے خداکے فضل کے وارث ہوتے رہے ہیں- میں اسی پیغمبر کا ماننے والا ہوں اور اس کا خلیفہ ثانی ہوں اور اس محبت کی وجہ سے جو اس پیغمبر نے ہمارے دلوں میں بنی نوع انسان کے متعلق بھر دی ہے آپ لوگوں کو اس کا پیغام سنانے آیا ہوں.موجودہ زمانہ میں خدا کا پیغام وہ پیغام کیا ہے ؟ میں اس کو حضرت مسیح موعود کے الفاظ ہی میں بیان کر دیتا ہوں.(1) "اے سننے والو!سنو!! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم اسی کے ہو جاؤ.اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو.نہ آسمان میں نہ زمین میں.ہمارا خداوہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا.اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتاتھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اس کی تمام صفات ازلی ابد ی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی.وہ وہی واحد لا شریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں.‘‘ ۲۳[؎ (۲) ” میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ آدمی ہلاک شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے اور اس نفس سے جہنم بہت قریب ہے جس کے تمام ارادے خدا کے لئے نہیں ہیں بلکہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دنیا کے لئے.پس اگر تم دنیا کی ایک ذرہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں.اس صورت میں تم خدا کی پیروی نہیں کرتے بلکہ شیطان کی پیروی کرتے ہو.تم ہرگز توقع نہ کرو کہ ایسی حالت میں خدا تمہاری مدد کرے گا بلکہ تم اس حالت میں زمین کے کیڑ ے ہو اور تھوڑے ہی دنوں تک تم اس طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس طرح کے کیڑے ہلاک ہوتے ہیں.اور تم میں خدا نہیں ہو گا بلکہ تمہیں ہلاک کر کے خدا خوش ہوگا.لیکن اگر تم اپنے نفس سے در حقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہو گا.اور وہ گھر بابرکت ہو گا جس میں تم رہتے ہوئے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوئی جو تمہارے گھر کی دیوار میں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہو گا جہاں ایسا
۴۷۵ دوره یو رپ آدمی رہتا ہو گا.اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض تم خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خد ا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤگے تو میں سچ مچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے‘‘ ۲۴؎ پھر آپ فرماتے ہیں.(1) ’’سمجھ لو کہ تمہارا خدا ایک ہی ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ - نہ زمین میں نہ آسمان میں.تمہیں اپنے مدعا کے حصول کے لئے ان ذرائع سے منع نہیں کیا جاتا جو خداتعالی نے تمہارے لئے مہیا کئے ہیں.مگر وہ جو خدا کو چھوڑتا ہے اور محض مادی اشیاء پر اعتماد کرتا ہے وہ اس خدا کے ساتھ اَور کو شریک ٹھہرا تا ہے جس پر ہمارا کُلّی بھروسہ ہونا چاہے".۲۵؎ (۲) ” خیال مت کرو کہ خدا کی وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.اور روح القدس اب اتر نہیں سکتا بلکہ پہلے زمانوں میں ہی اُتر چکا قرآن شریف پر شریعت ختم ہو گئی مگروحی ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ سچے دین کی جان ہے جس دین میں وحی الہٰی کا سلسلہ جاری نہیں وہ دین مردہ ہے اور خدا اس کے ساتھ نہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہرا یک دروازہ بند ہو جاتا ہے مگر روح القدس کے اترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہوتا.تم اپنے دلوں کے دروازے کھول دو تا وہ ان میں داخل ہو.تم اس آفتاب سے خود اپنے تئیں دُور ڈالتے ہو جب کہ اس شُعاع کے داخل ہونے کی کھڑکی کو بند کرتے ہو.اے نادان! اٹھو اور اس کھڑکی کو کھول دے.تب آفتاب خود بخود تیرے اندر داخل ہو جائے گا.جبکہ خدا نے دنیا کے فیضوں کی راہیں اس زمانہ میں تم پر بند نہیں کیں بلکہ زیادہ کیں.تو کیا تمہارا ظن ہے کہ آسان کے فیوض کی راہیں جن کی اس وقت تمہیں بہت ضرورت تھی وہ تم پر اس نے بند کردی ہیں ہرگز نہیں بلکہ بہت صفائی سے وہ دروازہ کھولا گیا ہے‘‘ ۲۶؎ (۳) تمام دنیا کا وہی خدا ہے جس نے میرے پر وحی نازل کی.جس نے میرے لئے زبردست نشان دکھلائے.جس نے مجھے اس زمانہ کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا.اس کے سوا کوئی خدا نہیں نہ آسمان میں نہ زمین میں.جو شخص اس پر ایمان نہیں لا تاوه
۴۷۶ دوره یو رپ سعادت سے محروم اور خذلان میں گرفتار ہے.ہم نے اپنے خدا کی آفتاب کی طرح روشن و حی پائی.ہم نے اسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی نہیں.کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا.کیا ہی زبردست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا‘‘ ۲۷؎ (۴) دیکھو !میں یہ کہہ کر فرضِ تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو.دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے‘‘ ۲۸؎ ٍ (۵) "یہ مت سمجھو کہ صرف منہ سے چند الفاظ کہہ دینے سے تم اپنی ہستی کے مقصد کو پالو گے.خداتعالی تمہاری زندگیوں میں مکمل تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے.‘‘ ۲۹؎ ٍ (۶) ’’اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.اور کسی پر تکبر نہ کروگو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمد رد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ - بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں.ببہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں.سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ انکی تحقیر.اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی خد مت کرو نہ خود پسندی سے ان پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقوی ٰاختیار کرو.اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ - اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو.اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے.چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.۳۰؎ (۷) تم بھی انسان ہو جیسا کہ میں انسان ہوں.اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے.پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیده ہو جاؤ گے.۳۱؎
۴۷۷ دوره یو رپ یہ وہ پیغام ہے جو اس زمانہ کا پیغامبر لایاہے اور اس پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل امور ہمیں معلوم ہوتے ہیں.خدا کی کامل توحید کا اعتقاد یہ کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی کامل توجہ کی طرف بلاتا ہے اس طرح نہیں کہ لوگ کہیں کہ وہ ایک خدا ہے اس طرح تو پہلے بھی بہت سے لوگ کہتے ہیں بلکہ اس طرح کہ ہمارے ہر اک کام اور خیال پر خدا کی توحید کی حکومت ہو- ہم اپنا تو کل صرف خدا تعالیٰ پر رکھیں- ہم اسباب کو استعمال کریں مگرساتھ ہی یقین رکھیں کہ تمام نتائج اﷲتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں- کسی چیز کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت پر غالب نہ ہو، نہ وطن کی نہ مال کی نہ رشتہ داروں کی نہ اپنی خواہشات اور لذتوں کی- نہ کسی چیز کی نفرت خدا تعالیٰ کی محبت کے تقاضوں پر غالب ہو- ہم کسی چیز کی نفرت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے احکام کو نظر انداز نہ کردیں- غرض ہمارا ہر اک عمل خدا تعالیٰ کے لیے ہوجائے اور اس کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہ رہے- یہی وہ توحید ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جو دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے کیونکہ یہ صرف پتھروں کے بتوں سے ہی ہمیں نجات نہیں دلاتی بلکہ خواہشات اور نفرت کے بتوں سے بھی ہم کو نجات دلاتی ہے اور دنیا میں بھی امن قائم کردیتی ہے.نجات کا واحد ذریعہ قرآن ہے دوسرا ضروری امر جو اس پیغام میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی نجات کا واحد ذریعہ قرآن کریم کا بتایا ہوا قانون ہے- اس میں ہر اک ضروری امر کو جو روحانیت اور اخلاق سے تعلق رکھتا ہے- بیان کردیا گیا ہے- وہی ایک تعلیم ہے جس پر عمل کرکے انسان خدا کی رضا کو حاصل کرسکتا ہے- پس دنیا کو اپنی مشکلات کے حل کرنے کے لئے اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے.خدا کا پیغام بند نہیں تیسرا ضروری امر جو اس پیغام میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ ایک مکمل قانون کے بیان ہوجانے کے یہ معنے نہیں کہ خدا کا پیغام آنا آئندہ کے لئے بند ہوجائے- خدا کا پیغام صرف شریعت کے قانون پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ وہ صرف لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے آتا ہے- خدا تعالیٰ کا یہی کام نہیں کہ وپ شریعت کے احکام بیان کرے بلکہ وہ فرماتا ہے کہ میں جب کبھی بھی لوگ مجھ سے دور ہوجائیں ان کو اپنی طرف بلاتا ہوں- خدا کا
۴۷۸ دوره یو رپ اپنے بندوں سے کلام کرنا محبت کی ایک علامت ہے اور وہ اپنی محبت کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں کرتا کیونکہ اگر انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو پالے اور اس کی رضا حاصل کرلے تو پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ملنے کا دروازہ بند کردیا جائے- یہ کہنا کافی نہیں ہوسکتا کہ انسان مرنے کے بعد خدا کو مل جائے گا کیونکہ اگر دنیا میں صرف ایک ہی مذہب اور ایک ہی خیال ہوتا- تب تو یہ جواب کچھ تسلی دے بھی سکتا تھا مگر دنیا میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مذہب ہیں اور سب اس امر کے مدعی ہیں کہ ان پر چل کر انسان خدا تعالیٰ سے مل سکتا ہے تو اگر خدا تعالیٰ کے ملنے کا علم مرنے کے بعد ہوتا ہے تو اس دنیا میں جو دارالعمل ہے انسان کے پاس سچائی دکھانے کا کونسا موقع رہا اور آخرت میں سچائی کے معلوم ہونے کا کیا فائدہ؟ وہاں سے انسان دوبارہ تو نہیں آسکتا کہ اپنی اصلاح کرے پس وہاں کا علم نفع بخش نہیں ہوسکتا- پس ضروری ہے کہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی رضا کے معلوم ہوجانے کا کوئی یقینی ذریعہ موجود ہو اور وہ ذریعہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفات کی جلوہ گری ہے- چنانچہ آپ کا دعویٰ تھا کہ یہ باتیں اسی طرح جس طرح پہلے نبیوں کو حاصل تھیں مجھے حاصل ہیں اور مجھے اﷲتعالیٰ نے اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ میں دنیا کو اس یقینی ایمان کا پتہ دوں جس کے بغیر انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا اور ان کے دلوں میں ایسی کامل محبت پیدا کروں جس کے بغیر انسان سچی قربانی نہیں کرسکتا.ہر انسان روحانی ترقی کر سکتا ہے چوتھی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نبی بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہوتا ہے- اس کے وجود کو ایک عام طبعی قانون سے بالا کوئی کرشمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ خدا تعالیٰ نے سب انسانوں کویکساں طاقتیں دی ہیں اور ہر انسان کی ترقی کے لئے دروازہ کھلا رکھا ہے.جو بھی خدا تعالیٰ کے لئے کوشش کرے اعلیٰ ترقیات کو حاصل کرسکتا ہے اور معرفت کے دروازے اس کے لئے کھولے جاسکتے ہیں- پس کسی انسان کو اپنی پوشیدہ طاقتوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان کو استعمال کرکے روحانی ترقیات کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق پیدا کرنے اور اس سے کامل یگانگت پانے کی جدوجہد میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے.مذہب کا کام پانچویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مذہب کی یہ غرض نہیں کہ وہ ہم کو دنیا سے علیٰحدہ کردے اور خدا تعالیٰ سے ملنے کی یہ شرط نہیں کہ ہم دنیا سے قطع تعلق کرلیں بلکہ مذہب کاکام یہ بتاناہے کہ ہم کس طرح دنیا میں رہ کر پھر خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا
۴۷۹ دوره یو رپ کرسکتے ہیں- خدا تعالیٰ اس طرح نہیں ملتا کہ ہم دولت اور مال اور تعلقات کو چھوڑ دیں بلکہ اس طرح ملتا ہے کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اس سے تعلق مضبوط رکھیں- خواہ خوشی کا موقع ہو خواہ رنج کا، خواہ ترقی کی حالت ہو خواہ تنزل کی- خواہ نفع ہو خواہ نقصان ہوجائے ہر حالت میں ہم اس کی طرف توجہ رکھیں اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں اور اس کی محبت بڑھائیں اور اس کے حضور میں دعائیں کرنے میں کوتاہی نہ کریں- بہادر وہ نہیں ہوتا جو لڑائی سے بھاگ جائے بلکہ بہادر وہ ہے جو میدان جنگ میں ثابت قدم رہے.نیکی اور بدی کیا ہے؟ چھٹی بات یہ نکلتی ہے کہ نیکی اس کا نام نہیں کہ ہم نیک اعمال کریں اور نہ بدی اس کا نام ہے کہ ہم بد اعمال کریں بلکہ نیکی اور بدی دل کی نیک اور بد حالت کا نام ہے اور نیک اعمال اور بداعمال درحقیقت نیکی اور بدی کے اثمار ہیں- ہمارا یہ کام نہیں ہونا چاہیے کہ ہم صرف علامات اور آثار کو مٹائیں بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم بدی کے مَیلان کو مٹا ئیں اور نیکی کا مَیلان پیدا کریں کیونکہ قلب کی صفائی اصل صفائی ہے اور جوارح کی صفائی اس کے تابع ہے.گناہ زہر ہے ساتویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کوئی علمی یا ذہنی ترقی انسان کو عمل سے آزاد نہیں کرسکتی- خدا تعالیٰ کا قانون چٹّی نہیں ہے کہ ہم اس سے کسی وقت بھی آزاد ہوسکیں- وہ طبعی قانون کی طرح سبب اور نتیجہ کے اصول پر مبنی ہے اس پر عمل کئے بغیر ہم روحانی ترقی حاصل نہیں کرسکتے- گناہ اس لئے گناہ نہیں کہ خدا نے اس سے منع کیا ہے بلکہ خدا نے اس سے اس لئے روکا ہے کہ وہ ایک روحانی زہر ہے- پس شریعت انسان کو گناہ گار نہیں بناتی بلکہ گناہ سے بچنے میں مدد دیتی ہے جس کو پہلے سے خبر دے دی جائے وہ پہلے سے مقابلہ کے لئے تیار ہوجاتا ہے نہ کہ خبردار کرنے سے انسان گڑھے میں گر جاتا ہے- حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں گناہ ایک زہر کی طرح ہے یعنی جس طرح زہر سے اس لئے روکا جاتا ہے کہ وہ مضر ہے اسی طرح سے گناہ سے روکا گیا ہے- زہر ڈاکٹر کے منع کرنے کی وجہ سے مُہلک نہیں بنتا- اسی طرح گناہ خدا تعالیٰ کے منع کرنے کی وجہ سے مُہلک نہیں بنتا.بنی نوع انسان سے ہمدردی آٹھویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے ہی تعلق نہیں مضبوط کرنا چاہیے بلکہ بنی نوع انسان سے بھی اپنے تعلقات کو مضبوط کرناچاہیے اور ایسے کاموں سے بچنا چاہیے جو فساد اور جھگڑے کا موجب
۴۸۰ دوره یو رپ ہوتے ہیں اور چاہیے کہ جو نعمتیں اسے ملیں ان سے بجائے حکومت اور غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے اپنے سے کمزور لوگوں کی خدمت کرے.خدائی پیغام یہ وہ پیغام ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعودؑ لائے ہیں اور ہر ایک شخص ادنیٰ سے غور سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ پیغام کیسا اہم اور کیسا ضروری ہے- یہ پیغام امید کا پیغام ہے امن کا پیغام ہے اور حکمت کا پیغام ہے- اگر دنیا اس پیغام کی طرف توجہ کرے تو اس کی تمدنی اور روحانی دونوں حالتوں کی اصلاح ہوجائے- یہ پیغام انسان کی طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے- مسیح موعود یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی عقل سے یہ باتیں تم کو سناتا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں تم کو وہ کچھ کہتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ میں تم کو سناؤں اور خدا تعالیٰ کے پیغام سے زیادہ اہم اور کونسا پیغام ہو سکتا ہے.ہمیں کیونکر تسلی حاصل ہو سکتی ہے؟ اے بہنو اور بھائیو! اگر انسان کو خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو وہ کبھی قصّوں اور کہانیوں پر تسلی نہیں پاسکتا- ہمیں اپنی مذ ہبی کتابوں میں یہ پڑھ کر کہ پرانے زمانہ میں خدا تعالیٰ اس طرح بولا کرتا تھا کیا تسلی ہوسکتی ہے- اگر وہ پچھلے زمانوں میں نشان دکھایا کرتا تھا اور اب وہ ایسے نشان نہیں دکھاتا تو ہمیں اس سے کس طرح محبت ہوسکتی ہے- اس کے تویہ معنے ہیں کہ پرانے زمانے کے لوگ خدا کے پیارے تھے اور ہماری طرف اس کو کوئی توجہ نہیں- کیا یہ خیال محبت پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے یا نفرت- کیا ایسے خدا سے کوئی شخص تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے جو خدا اپنا دروازہ ہمارے منہ پر بند کرتا ہے؟ ہم یہ بھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ جب کہ انسان روز بروز علمی ترقی کی طرف جارہا ہے، خدا تعالیٰ کی قوتیں باطل ہورہی ہیں کیونکہ گو ہم یہ نہیں مان سکتے کہ خدا تعالیٰ کی قوتیں ترقی کررہی ہیں مگر ہم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اس کی صفات میں ضعف پیدا ہورہا ہے- اس کا کمال اس کے غیر متبدّل ہونے میں ہے- تبدیلی خواہ بہتری کی طرف ہو خواہ تنزّل کی طرف نقص پر دلالت کرتی ہے اور نقص سے اس کی ذات پاک ہے.فطرت انسانی اس امر پر گواہی دے رہی ہے کہ اسے اوپر سے کوئی ہدایت ملنی چاہیے اور سپرچول (Spirtual) سوسائیٹیاں جو ہزاروں کی تعداد میں دنیا میں قائم ہو چکی ہیں اس امر پر شاہد ہیں کہ انسان اس دنیا کے علم پر قانع نہیں مگر کیا ہم یقین کرسکیں گے کہ ہمارے آباء کی
۴۸۱ دوره یو رپ روحیں تو ہمیں ترقی کی طرف لے جانے کی فکر میں ہیں مگر وہ ہستی جو سب روحوں کی خالق ہے اور جس نے ہمیں اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ہم اس کا قرب حاصل کریں ہماری ترقی کی کوئی فکر نہیں کرتی اور ہمارے لئے اپنے سے ملنے کا کوئی راستہ نہیں کھولتی؟ ہرگز نہیں- اگر کسی کو ہماری ترقی کا فکر ہوسکتا ہے- اگرکسی کو ہم سے ملاقات کا خیال ہوسکتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے- بے شک خدا تعالیٰ سے یگانگت کے لئے شرطیں ہونی چاہئیں- بے شک اس سے وصال کے لئے بندہ میں ایک خاص قسم کی پاکیزگی کا وجود ہونا ضروری ہے- بے شک اس کا دروازہ کھلنے سے پہلے ہماری طرف سے دستک ملنی چاہیے مگر بہرحال اس کا دروازہ کھلنے کا امکان ہر وقت موجود رہنا چاہیے.اور مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام لایا ہے کہ یہ امکان موجود ہے اگر تم چاہو اور میری بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق عمل کرو تو آج بھی تم میرے کلام کو اسی طرح سن سکتے ہو جس طرح کہ پہلے لوگ سن سکتے تھے اور آج بھی تمہارے لئے میں اپنی طاقتوں کو اسی طرح ظاہر کرسکتا ہوں جس طرح پہلے لوگوں کے لئے کیا کرتا تھا.خدا اور بندے میں صلح یہ پیغام کیسا اُمید افزا ہے- کس طرح بندے اور خدا تعالیٰ کے درمیان صلح کرانے والا ہے- مجھے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر میں اس بات کے کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس پیغام کے ذریعہ سے مسیح موعودؑ نے خدا تعالیٰ اور بندوں کے درمیان صلح کرادی ہے اور ثابت کردیا ہے کہ آج کل کے لوگ خدا تعالیٰ سے سوتیلے بیٹے کاسا تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ ان سے ایسی محبت کرتا ہے جیسا کہ سگے بیٹے سے کی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود کا دعویٰ حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ معمولی دعویٰ نہیں- آپ کا دعویٰ ہی آپ کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ یہ کہنا تو آسان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں مگر یہ کہنا کہ میں ہر اک شخص کو خدا تعالیٰ تک پہنچا سکتا ہوں نہایت مشکل ہے- اول الذکر ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی صحت اور عدم صحت صرف دلیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور دلیلوں میں بہت کچھ اُتار چڑھاؤ کئے جاسکتے ہیں مگر ثانی الذکر دعویٰ جس کا تعلق مشاہدہ سے ہے اور مشاہدہ کرادینا آسان کام نہیں مگر مسیح موعودؑ نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا بلکہ ہزاروں آدمیوں نے آپ کی تعلیم پر چل کر خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ لیا اور اس کے کلام کو
۴۸۲ دوره یو رپ سنا اور وہ آپ کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل ہیں- کیا کوئی جھوٹا شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کی اتباع سے لوگ اسی طرح خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں جس طرح کہ پہلے لوگ پہنچا کرتے تھے- کیا ایسے شخص کا دعویٰ تھوڑے ہی دنوں میں جھوٹاثابت ہو کر اس کی رسوائی اور ذلت کا موجب نہیں ہوگا؟ اہل پورٹ سمتھ کے لئے بشارت اے پورٹ سمتھ کے لوگو! میں تمہارے لئے ایک بشارت لایا ہوں- ایک عظیم الشان بشارت یعنی خدا کا پیغام کہ اس نے تم کو چھوڑا نہیں- اس کی رحمت کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں- ان میں داخل ہونا تمہارے اپنے اختیار میں ہے- اس کی بتائی ہوئی شریعت پر عمل کرو اور اسی زندگی میں ایک زندہ خدا کی طاقتوں کو دیکھ لو- سب مذاہب اُدھار پر لوگوں کو خوش کرتے ہیں مگر مسیح موعودؑ جو چیز پیش کرتا ہے وہ نقد ہے- مرنے کے بعد نہیں بلکہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ سے یگانگت کا وہ وعدہ دیتا ہے- وہ باتیں جن کو تم حیرت اور استعجاب سے بائیبل میں پڑھتے تھے آج اس کے ذریعہ سے ممکن ہوگئی ہیں- تجربہ کرو اور دیکھ لو- خدا کی طرف سے پکارنے والا مسیح موعودؑ کی زندگی تمہارے لئے ایک نمونہ ہے اور قرآن شریف تمہارے لئے ایک کامل راہ نما ہے- کیا یہ امر لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں کہ آج سے ۳۴چونتیس سال پہلے ایک شخص نے جنگل سے آواز دی کہ دیکھو خدا کی طرف سے پکارنے والے کو سنو! ایک منادی کی آواز کو- خدا کی رحمت کے دروازے کھولے گئے ہیں- وہ اپنی مخلوق کی بہتری کی طرف متوجہ ہوتا ہے- وہ میرے ذریعہ سے سب دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا چاہتا ہے- وہ دنیا کو شک اور شبہ کی زندگی سے نکال کر یقین کا پانی پلانا چاہتا ہے- شہروں کے لوگ ہنسے- بستیوں کے لوگوں نے تیوری چڑھائی ،حکومتوں نے اسے حقارت سے دیکھا، رعایا نے اس سے تمسخر کیا مگر اس کی آواز باوجود ہر قسم کی مخالفتوں کے بلند ہونی شروع ہوئی- وہ باریک بانسری کی آواز بلند ہوتے ہوتے ایک بگل کی آواز بن گئی اور سونے والے گھبرا گھبرا کر بیدار ہونے لگےایک نے یہاں سے ایک نے وہاں سے اس آواز کی طرف دوڑنا شروع کیا- وہ منادی ایک سے دو ہوا اور دو سے چار حتیّٰ کہ چونتیس سال کے عرصہ میں اس کی جماعت کی تعداد ایک ملین کے قریب پہنچ گئی اور پچاس ملکوں میں اس کے ماننے والے پیدا ہو گئے.
۴۸۳ دوره یو رپ جماعت احمدیہ کی ترقی کیوں کر ہوئی یہ ترقی بے روک ٹوک نہیں ہوئی لوگ پھولوں کی سیجوں پر چل کر اس تک نہیں پہنچے بلکہ بہتوں کو اس کے ماننے کی وجہ سے گھر چھوڑنے پڑے، خاوندوں کو بیویوں سے جُدا ہونا پڑا اور بیویوں کو خاوندوں سے علیٰحدہ ہونا پڑا، باپ کو بیٹوں نے الگ کردیا اور بیٹوں کو والدین نے گھر سے نکال دیا، ظالم حکومتوں نے اس کی طرف متوجہ ہونے والوں کو گرفتار کیا اور مجبور کیا کہ اس پر ایمان نہ لائیں ورنہ ان کو قتل کیا جائے گا مگر وہ پیچھے نہ ہٹے اور مرنے میں انہوں نے وہ لذت محسوس کی جو دنیا کی اور کسی چیز میں نہیں ہے- وہ ہنستے ہنستے ظالموں کے سامنے سر بلند کرکے کھڑے ہوگئے اور سنگدل قاتلوں نے ان پر پتھربرسانے شروع کئے- ایک ایک پتھر جو اُن پر گرا اس کو انہوں نے پھو لوں کی طرح سمجھا، ایک ایک اینٹ جو ان پر پڑی اسے انہوں نے شگوفہ خیال کیا جس طرح دولھا دلہن کو لے کر خوشی خوشی اپنے گھر جاتا ہے اسی طرح وہ مسیح موعودؑ کی محبت کو لے کر اپنے مولیٰ کے سامنے حاضر ہوگئے اور انہوں نے یہی یقین کیا کہ نہایت عمدہ سودا ہوا.ان راستوں سے گزر کر جانا کوئی معمولی بات نہیں مگر مسیح موعودؑ کی آواز کچھ ایسی دلکش تھی کہ جن کے کان کھلے تھے اس میں طاقت ہی نہ رہی کہ وہ اس کا انکار کرسکے- اس نے دلوں کو شکوک اور شبہات سے دھودیا اور قلوب کو یقین اور ایمان سے بھر دیا اور ان لوگوں کو جنہوں نے اس کی تعلیم پر چل کر خدا تعالیٰ کی شیریں آواز سن لی تھی اس کی باتوں میں شبہ ہی کیا رہ سکتا تھا.زمین آسمان بدل جاویں تو بدل جاویں ایسے لوگوں کے دل تو نہیں بدل سکتے.خدا کی پُر لذت آواز سننے کا تجربہ اے بہنو اور بھائیو! میں یہ باتیں سنی سنائی نہیں کہتا بلکہ میں نے خود مسیح موعودؑ کے طفیل خدا تعالیٰ کی پُر لذت آواز کو سنا ہے اور اس کے محبت والے کلام سے مسرور ہوا ہوں اسی طرح جس طرح کہ مسیحؑ کے حواریوں نے اس کلام کوسنا تھا بلکہ ان سے بھی زیادہ، اور میں نے خدا تعالیٰ کی زبردست قوتوں کو دیکھا ہے- اس نے میری خاطر اپنے جلال کو ظاہر کیا اور میری ایسے مقامات پر مدد کی جہاں کوئی انسان مدد نہیں کرسکتا اور مجھے میرے دشمنوں کے حملوں سے اس وقت بچایا جب کہ کوئی شخص مجھے بچا نہیں سکتا تھا.مجھے ایسے امور کے متعلق قبل از وقت خبریں دیں جن کو کوئی انسان دریافت نہیں کرسکتا تھا.پھر اسی طرح ہوا جس طرح کہ اس نے مجھے کہا تھا.پس میری آنکھوں نے مسیح موعودؑ کی صداقت کو دیکھ لیا اور میرے دل نے اس کی سچائی کو
۴۸۴ دوره یو رپ محسوس کیا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر اک جو اس سے تعلق پیدا کرے گا اور اس کی محبت کو دل میں جگہ دے گا یہی باتیں دیکھے گا جو میں نے دیکھیں بلکہ شاید اپنی محبت کے مطابق مجھ سے بھی بڑھ کر.خدا کے کلام کے شائق اے وہ لوگو! جو اپنے بیٹوں یاوالدین یا خاوندوں یا بیویوں یا دوستوں کے پیغام سننے کے لئے شوق سے لپکتے ہو کیا خدا تعالیٰ کے پیغام کی طرف سے منہ موڑ لو گے اور کیا خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہوئے پھر بھی اس کی بات کی طر ف توجہ نہ کروگے- کیا پہلے نبیوں کے تجربہ کو بُھلا دوگے اور ان سے بالکل فائدہ نہ اُٹھاؤ گے- ایسانہ ہو کہ تمہارا نفس تم کو دھوکا دے اور تم سے کہے کہ دیکھو اس شخص کو جو خدا کا پیامبر بنتا ہے، دیکھو اس کو جو مشرق کے غیر متمدن علاقوں کا رہنے والا ہے اور جس کے پاس کوئی طاقت نہیں اور جو ایک غیر ملکی حکومت کے ماتحت رہتا تھا اس کو یہ رتبہ کہاں سے نصیب ہوا اور اس کو خدا نے کیوں چنا- یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے کام نرالے ہیں اور اس کی قدرتیں عجیب- وہ ہمیشہ اسی پتھر کو چنا کرتا ہے جسے معمار ردّ کرکے پھینک دیا کرتے ہیں اور اسی کو کونے کا پتھر بنا کر اسے ایسی طاقت دیتا ہے کہ جس پر گرتا ہے وہ بھی چکنا چُور ہوجاتا ہے اور جو اس پر گرتا ہے وہ بھی چکناچُور ہوجاتا ہے- وہ کون سا نبی آیا ہے جسے لوگوں نے ایسی باتیں نہیں کہیں؟ اور وہ کونسا نبی آیا جو باوجود ذلیل سمجھا جانے کے آخر کامیاب نہیں ہوا- پس اے بھائیو! ان باتوں کو دیکھو جو وہ کہتا ہے اور اس پیغام کی طرف کان دھرو جو وہ لایا ہے اور پھر ان نصرتوں کا مشاہدہ کرو جو خدا کی طرف سے اسے حاصل ہوئیں اور اس کے قبول کرنے کے لئے بڑھو کیونکہ اسی میں برکت ہے.رکاوٹوں کو دُور کرو ایسا نہ ہو کہ تمہاری رسمیں اور تمہاری عادتیں تمہارے رستہ میں روک بنیں- رسمیں روز بدلتی رہتی ہیں اور عادتیں ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں- پس کیا خدا کے لئے رسموں اور عادتوں کو نہیں چھوڑوگے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے احکام سخت ہیں اور عمل میں مشکل مگر کیا وہ خیال کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی یگانگت یونہی منہ کی باتوں سے مل جائیں گی؟ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا وہ خلاف عقل ہیں ؟ کیا وہ فساد پھیلانے والی ہیں- کیا وہ سچی طہارت پیدا نہیں کرتے؟ اگر ایسا نہیں تو کیا وہ محض اس لئے کہ اسلام کے بعض احکام ان کی
۴۸۵ دوره یو رپ پرانی عادتوں کے خلاف ہیں اپنے اوپر خدا کی رحمت کے دروازوں کو بند کرلیں گے ؟اور اس کی یگانگت کی رحمت کو ردّ کردیں گے- کیا قربانی کے بغیر بھی کوئی نعمت مل سکتی ہے؟ تم ایک ہی وقت میں اپنے نفس کی ادنیٰ خواہشوں کو اور خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے- خدا موت کے بعد ملتا ہے سب مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ موت کے بعد ملتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ اس موت کے بعد ملتا ہے جو انسان اپنے نفس کی خواہشات پر خدا کی خاطر وارد کر لیتا ہے.انگلستان کے متعلق خدا نے کیا دکھایا اے لوگو! اس بات سے مت ڈرو کہ لوگ تم پر ہنسیں گے یا تم کو پاگل سمجھیں گے- کبھی کسی نے سچائی کو ابتداء میں قبول نہیں کیا کہ اسے لوگوں نے پاگل نہیں سمجھا- کیا موسیٰ کے ماننے والے اور مسیح پر ایمان لانے والے پاگل نہیں سمجھے گئے ؟مگر کیا آخر وہی پاگل دنیا کے راہنما نہیں بنے؟ میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس پر جھوٹ بولنے والے کے متعلق تمام آسمانی کتب متفق ہیں کہ وہ ہلاک کیا جاتا ہے کہ مجھے اﷲتعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ پر انگلستان کی روحانی فتح ہوئی ہے- پس آج نہیں تو کل انگلستان مسیح موعودؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کی طرف لَوٹے گا.مگر مبارک وہ ہے جو اس کام میں سب سے پہلے قدم اُٹھاتا ہے کیونکہ جو شخص حق کے قبول کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے دوسرے لوگ جو اس کے پیچھے آتے ہیں اس کے برابر نہیں ہوسکتے- اس کے لئے دُہرا اجر ہے ایمان لانے کا بھی اور دوسروں کے لئے محرک بننے کا بھی- پس کیا اے اہل پورٹ سمتھ! جو ساحل سمندر پر بستے ہواس اجر کو جو انگلستان کے شہروں میں سے کسی نہ کسی کے قبضہ میں آنے والا ہے لینے کے لئے تم آگے نہیں بڑھو گے- بے شک سچائی کو لوگ آہستہ آہستہ قبول کرتے ہیں مگر وہ آخر غالب آکر رہتی ہے- حضرت مسیح موعودؑ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جس طرح مسیح اول کے بعد تین سوسال میں مسیحیت نے غلبہ حاصل کرلیا تھا اسی طرح تین سوسال کے اندر کے سلسلہ کو غلبہ حاصل ہوجائے گا مگر وہ غلبہ پہلے غلبہ سے زیادہ مکمل ہوگا کیونکہ اُس وقت تو مسیحیت روم کا سرکاری مذہب بناتھا لیکن اِس وقت احمدیت تمام دنیا کے قلوب پر تصرف حاصل کرے گی-
۴۸۶ دوره یو رپ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں یہ بے شک غیب کی خبریں ہیں مگر دنیا آپ کی ہزاروں پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھ چکی ہے اور ماضی مستقبل پر گواہ ہے- کیا یہ عجب نہیں کہ آج سے چونتیس سال پہلے حضرت مسیح موعودؑ اس وقت جب کہ اکیلے تھے یہ پیشگوئی اپنی ایک کتاب کے ذریعہ شائع کی تھی کہ آپ کی تعلیم انگلستان جلد ہی پہنچنے والی ہے اور وہاں کے کئی لوگ اسے عنقریب قبول کرنے والے ہیں اور آج تم دیکھتے ہو کہ ان کے متبعین کی ایک جماعت تمام انگلستان میں صداقت کا اعلان کرتی پھرتی ہے اور کئی لوگ اس وقت تک سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں- پس خدا کے کاموں کو عجیب نہ سمجھو کہ اس کی قدرت کے آگے سب کچھ آسان ہے.اے سچائی کے طالبو! اور اے خدا تعالیٰ سے لقا کی سچی تڑپ رکھنے والو! میں اپنے تجربہ کی بنا پر آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ خدا سے لقا کا ذریعہ سوائے مسیح موعودؑ کی اتباع کے اور کوئی نہیں- آج سب دروازے بند ہیں سوائے اس کے دروازے کے، اور سب چراغ بجھے ہوئے ہیں سوائے اس کے چراغ کے- پس اس دروازہ سے داخل ہو جس کو خدا تعالیٰ نے کھولا ہے اور اس چراغ سے روشنی لو جسے اس نے جلایا ہے اور خداکے جلال کو اپنی آنکھوں سے دیکھو اور اس کے قرب کو اپنے دلوں سے محسوس کرو.کامیابی کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ ہاں یہ یاد رکھو کہ دو کشتیوں میں پیررکھنا کبھی فائدہ نہیں دیتا- بغیر قربانی کے کوئی ایمان نفع بخش نہیں! جو شخص اپنے آرام اور اپنی آسائش اور اپنے وقت اور اپنی عادات اور اپنی رسوم کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا وہ کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتا اور جو شخص یہ سب کچھ کر لیتا ہے اس کو کوئی چیز تباہ نہیں کر سکتی- مسیح موعودؑ فرماتے ہیں..تم خدا تعالی کی رضا کو ہرگزحاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم اپنی خوشیاں، اپنی لذات ،اپنی حیثیت، اپنا مال و جان ترک نہ کردو اور اس کی راہ میں ہر ایک ایسی مشکل کامقابلہ نہ کرو جو تمہارے سامنے موت کا نظارہ پیش کرتی ہے اور اگر تم تمام مشکلات کا مقابلہ کرو تو خدا تعالی تم کو ایک پیارے بچے کی طرح گود میں لے لے گا.اور تمہیں ان راستبازوں کا وارث بنائے گا جو تم سے پہلے گذرے اور ہر ایک برکت اور رحمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.مشرق سے ایک راستباز دیکھو !خدا نے یسعیاہ ۳۲؎ نبی کی پیشگوئی کے مطابق مشرق سے ایک راستباز کو برپا کیا ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ اپنی
۴۸۷ دوره یو رپ مرضی کو تمہارے تک لایا ہے- کیا میں امید رکھوں کہ تم اس کو دلی شوق سے قبول کروگے اور اس کے پیغام کے لئے مغربی ممالک میں پہلے جھنڈے بردار ہوگے؟ اور میں تم کو اسی علم کے ماتحت جو خدا تعالیٰ نے مجھ کو دیا ہے تم کو یقین دلاتا ہوں کہ تب قومیں تم سے برکت پائیں گی اور آئندہ آنے والی نسلیں تم پر برکتیں بھیجیں گی اور تم خدا میں ہوکر غیر فانی ہوجاؤ گے- (الفصل ۱۸- اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۴۸۸ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم ہندوستانی طلباء کاایڈریس اور اس کا جواب (۱۵.ستمبر ۱۹۲۴ء کو چار بچے شام حضرت خلیفۃ المسیح اور آپ کے خدام کو ہندوستانی طلباء کی طرف سے چائے کی دعوت چودھری غلام حسین صاحب کی سیادت میں دی گئی.اس دعوت میں مسلمان طلبائے ہند کی ایک کثیر تعداد شریک تھی اور بعض ہندو احباب بھی تھے اور کچھ نومسلم خواتین بھی.طلباء کی طرف سے ایک ایڈریس انگریزی زبان میں حضرت صاحب کو پیش کیا گیا جس کو مسٹر سہگل ایک ہندو نوجوان نے پڑھا.مسٹر سہگل لاہور کے ایک مشہور اور ممتاز خاندان کے چشم و چراغ ہیں.انہوں نے ایڈریس کے پڑھنے کے بعد کہا کہ میں اگر چہ ہندو ہوں مگر اس ایڈریس کو پڑھنے اور پیش کرنے کی عزت کو میں بہت بڑی عزت سمجھتا ہوں.ایڈریس کے پڑھے جانے کے بعد حضرت صاحب نے اس کا جواب اردو میں دیا اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے انگریزی دان حاضرین کے لئے مرتجلاًاس کا ایسالطیف خلاصہ سنایا کہ ہر زبان پر عش عش تھا.(عرفانی) ہندوستانی طلباء کا ایڈریس یور ہولی نس! ہم صدق دل سے جناب کو ایک ممتاز ممبراسلام ہونے کی حیثیت میں آج یہاں تشریف فرمائی پر خوش آمدید کہتے ہیں.۱.ہم سب جو یہاں حاضر ہیں آج جناب کے یہاں رونق افروز ہونے پر بہت فخر کرتے ہیں اور ہم جناب کے خد مت اسلام کے لئے یورپ تشریف لانے کو نہایت ہی قدرو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس عظیم الشان کام میں جناب کی ہر کامیابی کے لئے صدق دل سے دعا کرتے ہیں.۲.آج یورپ ایک عالمگیر مذہب کے لئے بہت حاجتمند ہے اور اسلام ہی اکیلا مذہب ہے جو اس صورت میں تسلی کا موجب ہو سکتا ہے کیونکہ عیسائیت ( جو آج چرچ سکھاتا ہے.) یورپین
۴۸۹ دوره یو رپ اقوام پر سے اپنا اثر کھو چکی ہے.۳.یورپ میں صداقت مذہب کے لئے بہت بڑی تلاش ہے.یہ قابل افسوس ہے کہ عیسائیت جیسا کہ اب سکھائی جاتی ہے قابلِ عمل درآمد نہیں کیونکہ اس کی تعلیمات انسان کو اپیل نہیں کر سکتیں اور اس لئے وہ اس کی عملی زندگی میں رونما نہیں ہو سکتیں ہی یہ بائیبل انسانی زندگی کے لئے مکمل ضابطہ پیش نہیں کرتی جو کہ اسلام کی خاص خوبصورتی ہے.۴- کچھ شک نہیں حضرت اقدس اس امر سے واقف ہیں کہ تمام مغرب میں موجودہ عیسائیت سے تنفّروبغاوت کے آثار نمایاں ہیں.مثلا ًروس ایک زمانہ میں آرتھوڈکس عیسائی ملک تھا اور ہمیشہ مسلمان ممالک سے خالصتہً مذ ہبی اغراض کے لئے نہ کہ ملکی اغراض کی خاطر لڑتا رہا.اس نے اب کھلم کھلا ظاہر کر دیا ہے کہ عیسویت طبعی زندگی کی تمام ضروریات کی ارتقائی طریق پر تسلّی نہیں کر سکتی.یہی وجہ ہے کہ کمیونزم نے مضبوط جگہ حاصل کرلی ہے.یہ حالت صرف روس میں ہی نہیں ہے بلکہ دوسرے ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی کی بھی یہی حالت ہے بلکہ خود انگلستان کا بھی یہی حال ہے جہاں ایسی ہی تحریک پاؤں جمارہی ہے.یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مہذّب مغرب اسلامی تعلیمات کی روحِ سادگی کو لے کر ان پر عمل کر رہا ہے اگرچہ اسے یہ معلوم نہیں کہ یہ اسلامی تعلیمات ہیں.۵.اب وقت آگیا ہے جب کہ اسلام اپنی اصفیٰ اور اجلیٰ صورت میں مغرب کے سامنے پیش کیا جائے گا.بد قسمتی سے اسلام کو بعض پچھلے خود غرض اور متعصّب لوگوں نے اپنی اغراض کے لئے غلط رنگ میں رنگین کیا ہے.مگر جہاں تک موجو و یورپ کا سوال ہے اس کے باشندے ارتقاء پسند اور تعلیم یافتہ ہیں.ہم کو ہر طرح یقین ہے کہ اگر اسلام ان کے سامنے اصلی صورت میں پیش کیا جائے (جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے پیش کیا ہے) تو انہیں اس کے قبول کرنے میں کوئی تامل نہ ہو گا ہم بہت جلد مغرب کو ہمدردانہ مذہب کا مطالعہ کرتے پائیں گے.۶.ہم حضرت پر اس امر کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں تک ہمارا اس ملک میں تجربہ ہے اس ملک کے لوگ مذہب کے متعلق تفصیلی مضامین پر بہت کم دلچسپی لیتے ہیں اور اس کے مختلف فرقوں کے متعلق تو بہت ہی کم، اس لئے ہم صدق دل سے التماس کرتے ہیں کہ جناب آنے والی مذہبی کانفرنس میں اسلام کو اس کی پاکیزہ صورت و مفہوم میں پیش کریں گے.
۴۹۰ دوره یو رپ ۷.اسلام جمہوریت کی تعلیم دیتا ہے اس لئے ہمیں امید ہے کہ یو ر ہولی نس اتحادِہند کے کام میں ہر قسم کی مدد کریں گے.ہندوستان کا اتحاد ایسا ضروری مسئلہ ہے کہ اس کی ساری ترقی اور بہبودی اس سے وابستہ ہے.اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دن جلد آوے کہ ہندوستان دنیا کی آزادا قوام میں اپنی اصلی جگہ کو حاصل کرلے.۸- ہم جناب کی اس تکلیف فرمائی کے لئے شکر گزار ہیں کہ یہاں ہمارے درمیان تشریف لائے.آخر میں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اسلام کا حافظ و ناصر ہو اور جناب کے نقش قدم کو اپنے رحم سے بے خطا صراط مستقیم کی طرف لے جائے.ایڈریس کا جواب از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی برادران! السلام عليكم ورحمة الله وبرکاتہ مجھے انگریزی میں بولنے کا موقع نہیں ملا.میں نے انگریزی میں بولنے کی اس سفر میں کوشش کی ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ میرے مخاطب ہندوستانی طلباء ہیں میں اس ایڈ ریس کا جواب اردو میں دوں گا اور ایسے لوگوں کے لئے جو اردو نہیں سمجھ سکتے خواہ وہ چند ہی ہوں عزیزی چودھری ظفراللہ خاں صاحب انگریزی میں میرے جواب کا خلاصہ سنادیں گے.جو خواہشات آپ نے اس ایڈ ریس میں بیان کی ہیں میں انہیں سن کر بہت خوش ہوا.ان کی روح کے ساتھ مجھ کو ہمدردی ہے اور میں آپ سے اتفاق رکھتا ہوں.اسلام ایک ایسامذ ہب ہے کہ اگر کوئی شخص تعصّب سے پاک ہو کر عقل سے کام لے تواس کی فطرت اسے مجبور کرے گی کہ وہ اسلام کو قبول کرے.اسلام کل دنیا کے لئے آیا ہے اور وہی عالمگیرمذہب ہے.خدا تعالی نے انسان کو عقل اور قوت فیصلہ ہی لئے دی ہے کہ اگر وہ اس سے کام لے تو وہ ہدایت کو پالیتا ہے اور اگر اس سے دُور بھی چلا گیا ہو تو اتنادور نہیں ہو جاتا کہ اس کی اصلاح ناممکن ہو بشرطیکہ خدا تعالی کی دی ہوئی قوتوں کو بے کار اور معطّل نہ چھوڑ دے.یاد رکھو جو سچے طور پر کوشش کرتا ہے وہ مقصد کو پالیتا ہے اور راستہ سے بھٹک جانے کے باوجود بھی واپس
۴۹۱ دوره یو رپ آسکتا ہے.خدا تعالی نے قرآن شریف میں یہ اصول بتایا ہے.والذين جاهدوا فينا لنھدینھم سبلنا.۳۳ یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ضرور ان پر اپنی راہوں کو کھول دیتے ہیں.خدا تعالی کا یہ قانون بالکل درست اور تجربہ سے صحیح ثابت ہو چکا ہے اور عقل اس کی تائید کرتی ہے.پس کامیابی کے لئے کوشش شرط ہے اور وہ کوشش اس طریق پر ہو جو خداتعالی نے بتایا ہے اور وہ یہی ہے کہ خداداد عقل سے کام لو.اسلام کی سچائی عقل اور تجربہ سے ثابت ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اسلام کو اصلی صورت میں پیش کیا جائے گا تو وہ یورپ ، ایشیا، افریقہ، امریکہ غرض ساری دنیا میں یقیناً پھیلے گا اس لئے کہ وہ کل دنیا کے لئے آیا ہے اس کے سوا ئےاور کوئی مذہب نہیں ہے جو عالمگیر ہو اور قرآن شریف میں اس کے تمام دنیامیں پھیل جانے اور تمام ادیان پر غالب آنے کی پیشگوئی موجود ہے چنانچہ آتا ہے.ھوالذی ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره علے الدين كله یعنی خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے.اور اس کی غرض یہی ہے کہ اس دین کو کل ادیان پر غالب کردے اور تمام ادیان کو ایک دین پر جمع کردے.ہم کو یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور یہ بھی ایک ثابت شد ہ امرہے کہ اس کے لئے یہی زمانہ ہے اور ہماری ساری کوشش اسی مقصد کے لئے ہے.آپ نے یہ خواہش پیش کی ہے کہ میں اسلام کو صحیح اور سچی شکل میں پیش کروں.میں اس سے بالکل متفق ہوں اورمتفق ہی نہیں بلکہ اگر اسلام کو اس کی حقیقی شکل میں پیش نہ کیا جاوے تو وہ اسلام نہیں بلکہ کچھ اور ہو گا.اور ہماری غرض تو یہی ہے کہ اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھائیں اور بدقسمتی سے جو حالت اس کی تبدیل کر دی گئی ہے اور اس کی صحیح تعلیمات کو اعتقادی اور عملی غلطیوں سے بدل دیا گیا ہے اسے پھر دنیا میں ظاہر کیا جائے لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ تفاصیل کے بیان میں اگر انسان کو کوئی اختلاف نظر آئے تو اس کو معقولیت کے ساتھ دیکھنا چاہئے بِلا غور کئے اس کو اختلاف قرار دے دینا غلطی ہو گی.بعض اختلاف ایسے ہوتے ہیں جو قدرتی ہوتے ہیں- مثلا دو بھائیوں یا بہن بھائی میں باوجود یہ کہ وہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں فرق نظر آئے گا اور ہوتا ہے.آواز میں، قد و قامت میں ،خیالات اور مذاق میں مگر یہ اختلاف ان کو اس ایک حقیقت سے کہ وہ بھائی ہیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں جدا نہیں کر دیتا.اسی طرح میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالی نے ارادہ کیا ہے کہ اسلام کا حقیقی چہرہ ہم
نوارالعلوم جلد ۸ ۴۹۲ اور یور.دنیا کو دکھائیں اور یہی کام ہم کر رہے ہیں ممکن ہے تفاصیل میں کوئی اختلاف نظر آئے مگر روح وہی ہے جس سے میں اتفاق کرتا ہوں اور میں خوش ہوں کہ آپ نے یہ خواہش پیش کی ہے میں اس ایڈریس کو سن کر اور بھی خوش ہوا ہوں کہ اشاعت اسلام کا سوال آپ لوگوں کے زیرِ نظر ہے اور ہم تو اسی کام کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور اسی سوال کے لئے میں نے یہ سفر کیا ہے مجھ کو اس بات سے اور بھی خوشی ہوتی ہے کہ ایس ایڈریس کو پڑنے والے صاحب ہندو ہیں.میں نے ابھی کہا ہے کہ جو شخص طلب صادق کے ساتھ حق کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور کوشش کرتا ہے اس پر حقیقت کھل جاتی ہے اور وہ راہ پا لیتا ہے.جیسا کہ خدا تعالی فرماتا ہے.والذين جاهدوافينا لنهدينهم سبلنا یعنی جو پورے طور پر کوشش کرتے ہیں ہم کو اپنی ذات کی قسم ہے کہ سچائی کی طرف سے کھینچ کر لاتے ہیں.جب انسان اس روح کو لے کر کوشش کرتا ہے تو نتیجہ بابرکت ہوتاہے.غرض میں آپ کی ان نیک خواہشوں کو جو اشاعت اسلام کے موافق ہیں بہت خوشی اور قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ مجھ سے آپ منافقانہ رنگ کی امیدنہ رکھیں.جس تعلیم کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حق ہے اور وہی حق ہے جس کے بغیر اسلام کامیاب نہیں ہو سکتا میں اُسی کو پیش کروں گا.اور دنیا کی کوئی چیز اور طاقت اس حق کے پیش کرنے سے مجھ کو روک نہیں سکتی اس لئے کہ سب سے پیاری چیز میرے لئے وہی ہے.پس میں پھر کہتا ہوں کہ آپ کی ایسی نیک خواہشوں کی قدر کرنے کے باوجود آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ مجھ سے یہ امید نہ رکھیں کہ میں منافقت کاپارٹ پلے (Part Play) کروں گا.میں ہمیشہ سے اس امر کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آزادی ضمیر کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرے کچھ پرواہ نہیں اگر وہ میرے خلاف بھی ہو.میں نے اپنے خلاف سخت سے سخت خیالات کے اظہار کو بھی خوشی سے سنا ہے.ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں.بارہ سال کے قریب ہوتے ہیں جب میں حج کے لئے آیا تھا تو اس جہاز میں تین بیرسٹر بھی تھے جو ہندوستان سے آ رہے تھے انہوں نے امتحان پاس کر لیا تھا.ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کا بیٹا ہوں ان سے جہاز پر مذہب کے متعلق گفتگو ہوتی رہی اور اس سلسلہ میں وہ حضرت صاحب کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرتے رہے مگر میں نے ظاہر نہ ہونے دیا تاکہ ان کو اپنے خیالات کے اظہار میں روک نہ ہو اور وہ اپنے اعتراضات کو چُھپائیں نہیں.میں ان کے اعتراضات کا جواب دیتا
۴۹۳ وورو رپ رہا.آخری دن ان کو معلوم ہوا کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کا بیٹا ہوں تو انہوں نے معذرت کی.میں نے ان کو کہا آپ کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق تھا.غرض میں آزادانہ اظہار رائے کو ہمیشہ عزت اور قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں.ہندوستان کے متعلق جس خواہش کا اظہار آپ نے کیا ہے اس کے متعلق میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص اس کا خواہشمند نہیں ہے کہ ہندوستان آزاد ہو.خاندانی ٹریڈیشن کے لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے تو ہمارے خاندان نے سات سو سال تک اپنے علاقہ میں حکومت کی ہے جو میرے دادا صاحب پر آکر ختم ہو گئی اس لئے ہمارے خاندان میں حکومت کی روایتیں موجود ہیں.مجھ کو تعجب ہوتا ہے جب لوگ ہم کو گورنمنٹ کا خوشامدی کہتے ہیں حالانکہ کوئی شخص کبھی بھی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ہم نے گورنمنٹ سے کبھی کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی خواہش کی ہو ، گورنمنٹ کے بعض افسروں نے یہ کہا بھی ہے کہ کیوں یہ لوگ خواہش نہیں کرتے.ہمارے خاندان میں گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں کی چھٹیاں موجود ہیں جن میں ہمارے خاندان کے امتیازات کا اعتراف ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ ہم نے کبھی ان چٹھیات کو ویسٹ پیپر (ردی کاغذ) سے زیادہ نہیں سمجھا اس لئے کہ کبھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ ان کو پیش کرکے کوئی اجر لیں.اب جو خدمات ہمارے سلسلہ نے کی ہیں ان کے بدلہ میں بھی کچھ نہیں چاہتے.اور میں ہتک سمجھتاہوں کہ گورنمنٹ ہم کو کوئی خطاب دے یا کوئی او ر اجر دے.مجھ کو ایک مرتبہ ایک بڑے آدی نے خط لکھا کہ اگر آپ کو ہزہائی نس کا خطاب دیا جائے تو آپ کا کیا خیال ہے.میں نے اس کو لکھا کہ میں اس کو اپنی ہتک سمجھتا ہوں.غرض ہم نے کبھی گورنمنٹ کی خوشامد نہیں کی اور میں اس سے کسی خدمت کا معاوضہ لینا خواہ وہ ہمارے بزرگوں نے کی یا ہمارے سلسلہ نے اب کی ہے ہتک سمجھتا ہوں.میں نے گورنمنٹ کی جو تائید کی ہے وہ اس لئے کہ اسلام جو تعلیم دیتا ہے اس پر عمل کرنا میرا فرض ہے.اور میں بحالات موجودہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جب تک ہندوستان ایک نہ ہو گا اور ہندو مسلمانوں میں حقیقی اتفاق و اتحاد نہ ہو گا ہندوستان کی ترقی نہ ہوگی.اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس کا مخالف ہوں کہ زبان سے ہم اتحاد کا شور مچائیں اور دل سے مختلف ہوں جیسا کہ واقعات اور حالات نے ہندو مسلم اتحاد کی حقیقت کو کھول دیا ہے.یہ بات میں آج آپ کے سامنے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میں عرصہ سے اس حقیقت کو واضح کر رہا ہوں.میرے خیالات
دارالعلوم جلد ۸ ۴۹۴ دورہ یو رپ کی مخالفت بھی ہوئی مگر آج واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جب تک دل ایک نہ ہوں کچھ نہیں ہو گا.پہلے ضروری ہے کہ ایسے اصول طے کر لئے جائیں کہ ہندو مسلمانوں میں حقیقی اتحاد ہو جائے.میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میں مانگنے کا قائل نہیں.میں چار پانچ برس کی عمر سے اپنے واقعات کو یاد رکھتا ہوں.اور میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے اپنے باپ سے بھی کچھ نہیں مانگا تھاپس میں مانگنے کا حامی نہیں ہوں- اگر ہم اتحاد پیدا کر لیں اور وہ اتحاداخلاص کے ساتھ ہو تو میں دعوی سے کہتا ہوں کہ سلف گورنمنٹ خود مل جائے گی مانگنے کی ضرورت نہ ہوگی.مگر اس اتحاد کے لئے کوشش نہیں کی گئی.ہندو مسلمانوں کے اتحاد کو صحیح اصول پر قائم کرنے کے لئے کبھی کوشش نہیں ہوئی اور جس نے کی اس کی مخالفت کی گئی.جن تین بیرسٹروں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک ہندو کا میاب بیرسٹر نے جو لاہور میں شاید کام کرتا ہے اس وقت اپنے مسلمان دوست سے کہا تھا کہ اگر میرے لڑکی ہوئی تو تمہارے لڑکے کو دوں گا اور ایسا ہی مسلمان کہتا تھا.مگر اب یہ حالت ہے کہ لاہور والے کسی سے ملتے نہیں اور دوسرے دوجو ملتان میں غالباً کام کرتے ہیں وہ اس سوسائٹی کے ممبر ہیں جو تفرقہ ڈلواتی ہے.غرض آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے میں ان کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں.پس آپ اس کے مطابق عمل کریں اور ان نیک خواہشات کو رکھتے ہوئے اگر غلط راستے پر بھی چلیں گے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو فائدہ ہو گا بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ کام کرو گے.یہ کہہ کر میں اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالی آپ کو بھی ان کوششوں اور جذبات اور خواہشوں کو کامیاب بنانے کی تو فیق دے اور مجھ کو اور میرے متبعین کو بھی.(الفضل۲۶-اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۴۹۵ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی عظیم قربانی (۱۷ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لندن میں معزز انگریزوں اور ہندوستانیوں کی جو میٹنگ حکومت کابل کے سنگدلانہ فعل کے خلاف منعقد ہوئی تھی اس میں حضرت خلیفة المسیح الثانی نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے متعلق حسب ذیل مضمون پڑھا تھا أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر شکریہ: پریذیڈنٹ! بہنواور بھائیو! میں آپ لوگوں کاشکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ نے ہمارے صدمہ میں ہم سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے- آپ لوگ یہ تو پڑھ چکے ہوں گے کہ مولوی نعمت اﷲاحمدی کو اکتیس ۳۱ اگست کے دن کابل گورنمنٹ نے سنگسار کرایا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے احمدیت کو کیوں قبول کیا ہے مگر آج آپ لوگوں کو اختصار کے ساتھ اس واقعہ کی تمام کیفیت سناناچاہتا ہوں تاکہ آپ لوگوں کو معلوم ہوکہ یہ فعل کیسا ناروا تھا- شہید مرحوم کے حالات: مولوی نعمت اﷲخان کابل کے پاس ایک گاؤں کے رہنے والے تھے- احمدی ہونے پر ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ سلسلہ کی تعلیم بھی حاصل کریں اور قادیان چلے آئے جہاں وہ احمدیہ دینی کالج میں داخل ہوئے- وہ ابھی کالج ہی میں تعلیم پارہے تھے کہ کابل کے احمدیوں کی تعلیم کے لئے ان کو وہاں بھیجنا پڑا- چنانچہ ۱۹۱۹ء میں وہ وہاں چلے گئے اور چونکہ افغانستان میں احمدیوں کے لئے امن نہ تھا مخفی طور پر اپنے بھائیوں کو سلسلہ کی تعلیم سے واقف کرتے رہے- اس عرصہ میں گورنمنٹ افغانستان نے کامل مذہبی آزادی کا اعلان کیا اور ہم نے سمجھا کہ اب احمدیوں کو اس علاقہ میں امن ہوگا مگر پیشتر اس کے کہ وہاں کی جماعت کے لوگ اپنے آپ کو علی الاعلان ظاہر کرتے مناسب سمجھا گیا کہ
۴۹۶ گورنمنٹ سے اچھی طرح دریافت کر لیا جائے.ارکان حکومت کابل کے مواعید: چنانچہ جب محمود طرزی صاحب سابق سفیر پیرس کی قیادت میں افغان گورنمنٹ کا ایک مشن برٹش گورنمنٹ سے معاہدہ صلح کرنے کے لئے آیا تو اس وقت میں نے ان کی طرف ایک وفد اپنی جماعت کے لوگوں کا بھیجا تاکہ وہ ان سے دریافت کرے کہ کیا مذہبی آزادی دوسرے لوگوں کے لئے ہے یا احمدیوں کے لئے بھی- اگر احمدیوں کے لئے بھی ہے تو وہ لوگ جو اپنے گھر بار چھوڑ کر قادیان میں آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو چلے جاویں- محمود طرزی صاحب نے میرے بھیجے ہوئے وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان میں احمدیوں کو اب کوئی تکلیف نہ ہوگی کیونکہ ظلم کا زمانہ چلا گیاہے اور اب اس ملک میں کامل مذہبی آزادی ہے- اسی طرح دوسرے ممبران وفد نے بھی یقین دلایا- ان لوگوں میں سے جو اپنے ملک کو چھوڑ کر قادیان آگئے ہیں ایک نوجوان نیک محمد بھی ہے جو احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پاکر چودہ سال کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر چلا آیا تھا- اس نوجوان کا والد غزنی کے علاقہ کا رئیس تھا اور غزنی کا گورنر بھی رہا ہے- یہ نوجوان بھی وفد کے ساتھ تھا- اس کو دیکھ کر کئی ممبران وفد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا کہ ایسے ایسے معزز خاندانوں کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جُدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں یہ بہت بڑا ظلم ہے جو ہز میجسٹی امیر امان اﷲخان کے وقت میں نہ ہوگا اور ایشیائی طریق پر اپنے سینوں پر ہاتھ مار کرکہنے لگے کہ تم واپس وطن کو چلو دیکھیں تم کو کون ترچھی نظر سے بھی دیکھتا ہے- اس ملاقات کے نتیجہ میں ہمارا وفد اپنے نزدیک نہایت کامیاب واپس آیا مگر مزید احتیاط کے طور پر مَیں نے چاہا کہ امیر افغانستان کو اپنے عقائد سے بھی مطلع کردیا جائے اور ہماری امن پسند عادت سے بھی آگاہ کردیا جائے تاکہ پھر کوئی بات نہ پیدا ہو اور میں نے مولوی نعمت اﷲخان کو ہدایت کی کہ وہ محمود طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں اور ان سے بعض احمدیوں پر جو ظلم ہوا ہے اس کا تذکرہ کریں اور امیر کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں- محمود طرزی صاحب نے ان احمدیوں کی تکلیف کا تو ازالہ کرادیا اور اس امر کی اجازت دی کہ جو خط امیر کے نام آئے وہ اس کو غور سے پڑھیں گے- اس موقع پر ہمارے مبلغ نے اپنے آپ کو جس طرح گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کردیا تھا پبلک پر بھی ظاہر کردیا- چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برابر آرہی تھیں کہ احمدیوں پر برابر ظلم ہورہا ہے- ان کو بلاوجہ قید کرلیا جاتا ہے پھر ان سے روپیہ لے کر
۴۹۷ ان کو چھوڑا جاتا ہے اس لئے میں نے اپنے صیغہ دعوۃوالتبلیغ کے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس کے متعلق افغانستان گورنمنٹ سے خط وکتابت کریں- چنانچہ انہوں نے ایک چٹھی وزیر خارجیہ افغانستان کو لکھی اور ایک جمال پاشا ۳۶؎ ترکی مشہور جرنل کو جو سیکرٹری دعوت وتبلیغ کے ذاتی طور پر واقف تھے اور اس وقت افغانستان میں تھے، ان سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی اس امر کے متعلق افغانستان کی گورنمنٹ سے سفارش کریں- اس چٹھی کے جواب میں وزیرخارجیہ افغانستان کی ایک چٹھی مئی ۱۹۲۱ء میں آئی جس میں لکھا تھا کہ احمدی اسی طرح اس ملک میں محفوظ ہیں جس طرح دوسرے وفادار لوگ- ان کو احمدیت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ دی جاوے گی اور اگر کوئی احمدی ایسا ہے جسے مذہب کی وجہ سے تکلیف دی جاتی ہو تو اس کانام اور پتہ لکھیں گورنمنٹ فوراً اس کی تکلیف کو دور کرے گی- اس کے کچھ عرصہ بعد خوست کے علاقہ میں بعض احمدیوں کو پھر تکلیف ہوئی تو احمدیہ جماعت شملہ کی لوکل شاخ نے سفیر کابل متعینہ ہندوستان کو اس طرف توجہ دلائی اور ان کی معرفت ایک درخواست گورنمنٹ کابل کو بھیجی جس کا جواب مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۲۳ء کو سفیر کابل کی معرفت ان کو یہ ملا کہ احمدی امن کے ساتھ گورنمنٹ کے ماتحت رہ سکتے ہیں- ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا- باقی وفادار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی- اس خط میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ معاملہ ہزمیجسٹی امیر کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ان کے مشورہ سے جواب لکھا گیا ہے- شملہ کی لوکل احمدی انجمن کی درخواست میں احمدی عقائد کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا تھا اور گورنمنٹ افغانستان نہیں کہہ سکتی کہ ان کو پہلے احمدی عقائد کا علم نہ تھا- اس طرح متواتر یقین دلانے پر کابل اور اس کے گرد کے احمدی ظاہر ہوگئے مگر علاقوں کے لوگ پہلے کی طرح مخفی ہی رہے کیونکہ گورنمنٹ افغانستان کا تصرف علاقوں پر ایسا نہیں کہ اس کی مرضی پر پوری طرح عمل کیا جائے- وہاں لوگ قانون اپنے ہی ہاتھ میں رکھتے ہیں اور بارہا حکام بھی لوگوں کے ساتھ مل کر کمزوروں پر ظلم کرتے رہتے ہیں- احمدیوں پر مصائب: ہم خوش تھے کہ افغانستان میں ہمارے لئے امن ہوگیاہے کہ ۱۹۲۳ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو افغانستان کی گورنمنٹ نے قید کرلیا ہے جن میں سے ایک کا بیٹا بھی ساتھ قید کیا گیا ہے- ان دو میں سے ایک تو کچھ دے دلا کر اپنے بیٹے سمیت چُھٹ گیا لیکن دوسرا میری قادیان سے روانگی تک قید تھا اور مجھے نہیں معلوم کہ اس
۴۹۸ کا اب کیا حال ہے.دوسرا جو آزاد ہو گیا تھا اس کو ایام گرفتاری میں اس قدر مارا گیا کہ وہ آزاد ہونے کے بعد ۱۴ دن کے اندرفوت ہو گیا.مولوی نعمت اﷲکی سنگساری: شروع جولائی میں مولوی نعمت اﷲخان صاحب کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا کہ کیا وہ احمدی ہیں- انہوں نے حقیقت کو ظاہر کردیا اور ان کو بیان لے کر چھوڑ دیا گیا- اس کے چند دن کے بعد ان کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر علماء کی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا جس نے ۱۱.اگست کو ان سے بیان لیا.کہ وہ احمدکو کیا سمجھتا ہے- انہوں نے اپنے عقائد کا اظہار کیا جس پر علماء کی کونسل نے ان کو احمدی قرار دے کر مرتد قرار دیا اور موت کا فتویٰ دیا- اس کے بعد ۱۶ ؍اگست۲۴ء کو ان کو علماء کی اپیل کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے پھر بیان لے کر ماتحت عدالت کے فیصلہ کی تائید کی اور فیصلہ کیا کہ نعمت اﷲکو ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے -۳۱؍اگست کو پولیس نے ان کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا اور وہ ساتھ ساتھ اعلان کرتی جاتی تھی کہ اس شخص کو ارتداد کے جرم میں سنگسار کیا جائے گا- لوگوں کو چاہیے کہ وہاں چلیں اور اس نیک کام میں شامل ہوں.اسی دن شام کے وقت کابل کی چھاؤنی کے ایک میدان میں ان کو کمر تک زمین میں گاڑا گیا اور پہلا پتھر کابل کے سب سے بڑے عالم نے مارا- اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی یہاں تک کہ وہ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے- ان کی لاش ابھی تک اس پتھروں کے ڈھیر کے نیچے پڑی ہے اور اس پر پہرہ لگا ہوا ہے- اس کے بوڑھے باپ نے جو احمدی نہیں ہے گورنمنٹ سے درخواست کی کہ وہ اس کو لاش دے دیں تاکہ وہ اس کو دفن کردے مگر گورنمنٹ نے اس کی لاش کو دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے- مولوی نعمت اﷲکی استقامت: کابل گورنمنٹ نے مولوی نعمت اﷲخان کو سنگسار کرنے سے پہلے باربار احمدیت کو چھوڑ دینے کی صورت میں آزادی کا انعام پیش کیا مگر مولوی نعمت اﷲشہید نے ہر دفعہ اسے حقارت سے ردّ کردیا اور ضمیر کی آزادی کو جسم کی آزادی پر ترجیح دی- جب ان کو سنگسار کرنے کے لئے گاڑا گیا تب پھر آخری دفعہ ان کو ارتداد کی تحریک کی گئی مگر انہوں نے جواب دیا کہ جس چیز کو میں حق جانتا ہوں اس کو زندگی کی خاطر نہیں چھوڑسکتا- جس وقت ان کو گلیوں میں پھرایا جارہا تھا اور ان کی
۴۹۹ دورہ یورپ سنگساری کا اعلان کیا جارہا تھا- اس وقت کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بجائے گھبرانے کے مسکرارہے تھے گویا کہ ان کی موت کا فتویٰ نہیں بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جارہی ہے.شہید مرحوم کی آخری خواہش اور اس کے متعلق افغان حکام کا شکریہ: جب ان کو میدان میں سنگسار کرنے کے لئے لے گئے تو انہوں نے اس وقت ایک خواہش کی جسے افغان حکام نے منظور کرلیا اور ہم اس کے لئے اس کے ممنون ہیں- وہ خواہش یہ نہ تھی کہ وہ اپنی ماں کو دیکھ لیں یا اپنے بوڑھے باپ کو ایک دفعہ مل لیں بلکہ یہ خواہش تھی کہ اس دنیا کی زندگی کے ختم ہونے سے پہلے ان کو ایک دفعہ اپنے رب کی عبادت کرنے کا پھر موقع دیا جائے- حکام کی اجازت ملنے پر انہوں نے اپنے رب کی عبادت کی اور اس کے بعد ان کو کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہو سو کرو- کابل کی سرکاری اخبار کابیان: کابل کا نیم سرکاری اخبار جس سے شہادت کے واقعات کا اکثر حصہ لیا گیا ہے اپنی ۶؍ستمبر کی اشاعت میں حالات شہادت لکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’مولوی نعمت اﷲبڑے زور سے احمدیت پر پختگی پر مصر رہا اور جس وقت تک اس کا دم نہیں نکل گیا سنگساری کے وقت بھی وہ اپنے ایمان کو بآواز بلند ظاہر کرتارہا‘‘- ایک چھوٹاسا زخم انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے لیکن اس شخص کا خیال کرو جس پر چاروں طرف سے پتھر پڑ رہے تھے مگر اسے صرف ایک ہی دُھن تھی کہ جس امر کو وہ سچ یقین کرتا تھا وہ اسے مرنے سے پہلے پھر ایک دفعہ اپنے برادرانِ وقت کے کانوں تک پہنچاوے.دیگر واقعات: ایسوشی ایٹڈ پریس کا پشاور کا ۴؍ستمبر کا تار جو ہندستان کے سب اخبارات میں چھپا ہے اس میں بتایا گیاہے سنگساری سے پہلے مولوی نعمت اﷲشہید کو قید خانہ میں بھی کئی قسم کے عذاب دئیے گئے تھے- ہندوستان کا سب سے وسیع الاشاعت اینگلو انڈین روزانہ پانیئرّ لکھتا ہے کہ یہ معاملہ معمولی نہیں بلکہ نہایت اہم ہے- وہ اپنے تازہ ایشو میں یہ بھی لکھتا ہے کہ امیر نے نعمت اﷲخان کو صرف آرتھوڈکس پارٹی کے خوش کرنے کے لئے قتل کیا ہے- کابل کی آمدہ خبروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گورنمنٹ کابل نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ بھی احمدیوں سے ایسا ہی معاملہ کرے گی اور وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ملک کاقانون مرتد سے ایسے ہی سلوک کا مطالبہ کر تا ہے) مگر گورنمنٹ کی اپنی چٹھّیاں اس امر کی تردید کر رہی
۵۰۰ ہیں- یہ تمام واقعات مجھے قادیان سے میرے نائب نے بذریعہ تار مختلف تاریخوں پر بھیجے ہیں اور ان کی معلومات کا ذریعہ کابل کے اخبارات ہیں جن میں سے اکثر واقعات لئے گئے ہیں- تین خون اے بہنو اور بھائیو! گویہ واقعہ اپنی ذات میں بھی نہایت افسوسناک ہے مگر یہ واقعہ منفرد نہیں ہے- یہ تیسرا خون ہے جو گورنمنٹ افغانستان نے صرف مذہبی اختلاف کی بنا پر کیا ہے- سب سے پہلے مولوی عبدالرحمن صاحب۳۷؎ کو امیر عبدالرحمن خان نے احمدیت کی بنا پر گلا گھونٹ کر مروادیا- پھر صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب ۳۹؎ کو جو خوست کے ایک بڑے رئیس تھے اور تیس ہزار آدمی ان کے مرید تھے اور علم میں ان کا ایسا پایہ تھا کہ امیر حبیب اﷲخان ۴۰؎ کی تاجپوشی کے موقع پر انہوں نے ہی اس کے سر پر تاج رکھا تھا- امیر حبیب اﷲخان نے سنگسار کروادیا.اور باوجود اس عزت کے جو اُن کو حاصل تھی ان کو پہلے چار ماہ تک قید رکھا اور زمانہ قید میں طرح طرح کے دکھ دیئے لیکن جب انہوں نے اپنے عقائدکو ترک نہ کیا تو ان پر سنگساری کا فتویٰ دیا اور حکم دیا کہ ان کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈالی جائے اور پھر اس رسی سے گھسیٹ کر ان کو سنگسار کرنے کی جگہ تک لے جایا جائے- مسٹر مارٹن اپنی کتاب انڈر دی ایبسولیوٹ میں ان کی شہادت کا واقعہ لکھتے ہوئے اس امر پر خاص طور سے زور دیتے ہیں کہ ان کے قتل کا اصل سبب احمدیہ جماعت کی وہ تعلیم ہے کہ دین کی خاطر جہاد جائز نہیں ہے- امیر ڈرتا تھا کہ اگر یہ تعلیم پھیلی تو ہمارے ہاتھ سے وہ ہتھیار نکل جائے گا جو ہم ہمیشہ ہمیشہ ہمسایہ قوموں کے خلاف استعمال کیا کرتے ہیں- ۴۱؎ ایک بے تعلق آدمی کی یہ شہادت ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے آدمی محض مذہب کی خاطر نہیں مارے جاتے بلکہ وہ اس لئے بھی قتل کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ اس امر کی تعلیم دیتے ہیں کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے ہندوؤں مسیحیوں اور دوسرے مذہب والوں کو مارنا یا ان کے خلاف لڑنا درست نہیں- پس وہ اپنی خاطر جان نہیں دیتے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی خاطر جان دیتے ہیں.قتل کو پولیٹیکل رنگ دینے کی کوشش: مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ أفغان گورنمنٹ کے بعض سفیر اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس قتل کو پولیٹیکل رنگ دیں مگر وہ ان واقعات کو کہاں چھپا سکتے ہیں کہ اس قتل سے پہلے وہ دو ہمارے آدمی محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے قتل کرچکے ہیں اور مسٹر مارٹن ایک غیر جانبدار کی شہادت موجود ہے- پھر اس واقعہ کو وہ کہاں چھپا سکتے ہیں کہ کابل کے بازاروں میں اس
۵۰۱ اس امر کا اعلان کیا گیا ہے کہ مولوی نعمت اﷲخان کو ارتداد کی وجہ سے سنگسار کیا جائے گا اور آخر میں کابل کے نیم سرکاری اخبار حقیقت کو وہ کہاں لے جائیں گے جس نے مقدمہ کی پوری کارروائی چھاپ دی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ شہید مرحوم کے سنگسار کئے جانے کا باعث اس کا مذہب تھا.اور پھر وہ اس تمام خط وکتابت کو کہاں چھپادیں گے جو کابل گورنمنٹ نے زور دیا ہے کہ ڈاکٹر فضل کریم کو لیگیشن (legation)سے واپس کردیا جائے کیونکہ وہ احمدی تھے یہ تمام واقعات بتا رہے ہیں کہ افغان گورنمنٹ مذہبی طور پر احمدیوں سے عداوت رکھتی ہے.یا ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اس کو عداوت ہے اور یہ کہ مولوی نعمت اﷲخان کے قتل کی وجہ صرف ان کی احمدیت تھی.افغان گورنمنٹ ہمدردی کی محتاج ہے: شہادت کے حالات کے متعلق میں اور کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر میں مضمون کے ختم کرنے سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ باوجوداس لمبے عرصہ کے ظلم کے مَیں اپنے دل میں افغان گورنمنٹ اور اس کے حکام کے خلاف جذبات نفرت نہیں پاتا- اس کے فعل کو نہایت بُرا سمجھتا ہوں مگر میں اس سے ہمدردی رکھتا ہوں اور وہ میری ہمدردی کی محتاج ہے- اگر کوئی شخص یا اشخاص اخلاقی طور پر اس حد تک گر جائیں کہ ان کے دل میں رحم اور شفقت کے طبعی جذبات بھی باقی نہ رہیں تو وہ یقینا ًان لوگوں سے جو صرف جسمانی دکھوں میں مبتلا ہیں ہماری ہمدردی کے زیادہ محتاج ہیں- میں نے آج تک کسی سے عداوت نہیں کی اور میں اپنے دل کو اس واقعہ کی بناء پر خراب کرنا نہیں چاہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے سچے متبع بھی اسی طریق کو اختیار کریں گے- میں کسی ایسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوتا جو اظہار ِغیظ وغضب کی خاطر منعقد کی گئی ہو- میں جانتا ہوں کہ ظلم نہ ظلم سے مٹتے ہیں اور نہ عداوت سے- پس میں نہ ظلم کا مشورہ دوں گا اورنہ عداوت کے جذبات کو اپنے دل میں جگہ دوں گا- مٹنگ میں شمولیت ک اغراض میں صفائی سے کہتا ہوں کہ میری اغراض اس میٹنگ میں شمولیت سے یہ ہیں- اول: اس امر کا اظہار کہ امیر کے اس فعل کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے- یہ فعل اسلام کے بالکل بر خلاف ہے- اسلام کامل مذہبی آزادی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ حق اور باطل ظاہر امور ہیں پس کسی پر زبردستی کرنے کی کوئ وجہ نہیں- ہر شخص کے لئے تو اس کا اپنا دین ہے.
۵۰۲ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جو لوگ مرتد ہوئے ان کو کسی نے نہیں قتل کیا صرف اس وقت تک ان سے جنگ کی گئی جب تک کہ انہوں نے حکومت سے بغاوت جاری رکھی- پس کسی شخص کو حق نہیں کہ وہ اس فعل کو اسلام کی طرف منسوب کرے- ایسے افعال ہر مذہب کے لوگوں سے ہوتے رہتے ہیں- دوم: اس امر کا اظہار کہ ہم لوگ امیر کے اس فعل کو درست نہیں سمجھتے اور اس اظہار کی یہ غرض ہے کہ جب کسی شخص کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کے فعل کو دنیا عام طور پر نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اس کی آئندہ اصلاح ہوجاتی ہے- پس بِلا جذبات عداوت کے اظہار کے جن کو میں اپنے دل میں نہیں پاتا، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کابل گورنمنٹ کا یہ فعل اصول اخلاق ومذہب کے خلاف تھا اور ایسے افعال کو ہم لوگ ناپسندیدہ سمجھتے ہیں- یہ افعال ہمیں اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے- نہ پہلے شہیدوں کی موت سے ہم ڈرے ہیں اور نہ یہ واقعہ ہمارے قدم کو پیچھے ہٹا سکتا ہے- چنانچہ اس دل دہلا دینے والے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مجھے تار کے ذریعہ سے بائیس آدمیوں کی طرف سے درخواست ملی ہے کہ وہ افغانستان کی طرف مولوی نعمت اﷲخان کا کام جاری رکھنے کے لئے فوراً جانے کو تیار رہیں.اور ایک درخواست یہاں انگلستان میں چوہدری ظفراﷲخان صاحب بار ایٹ لا ایڈیٹر انڈین کیسز نے اسی مضمون کی دی ہے- پس جو غرض ان قتلوں سے ہے وہ ہر گز پوری نہ ہوگی- ہم آٹھ لاکھ آدمیوں میں سے ہر ایک خواہ مرد ہو خواہ عورت خواہ بچہ اس راستہ پر چلنے کے لئے تیار ہے جس پر نعمت اﷲخان شہید نے سفر کیا ہے.اب میں اس امید پر اس مضمون کوختم کرتاہوں کہ مذہبی آزادی کے دلدادہ اس موقع پر وہ کم سے کم خدمت کرکے جو آزادی کی راہ میں وہ کرسکتے ہیں اپنے فرض سے سبکدوش ہوں گے.یعنی اس فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں گے- قومیں الگ ہوں، حکومتیں الگ ہوں مگر ہم سب انسان ہیں ہماری انسانیت کو کوئی نہیں مار سکتا- ہماری ضمیر کی آزادی کو کوئی نہیں چھین سکتا- پس کیا انسانیت اس وقت ظلم پر اپنی فوقیت کو بالا ثابت کرکے نہیں دکھائے گی؟ (الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۲۴)
۵۰۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم لندن میں ہندوستانی طلباء سے گفتگو (۲۰ستمبر۱۹۲۴ء شام چار کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے مسلمان ہندوستانی طلباء کو چائے پر بلایا گیا.اس موقع پر طلباء سے جو سوال وجواب ہوئے وہ درج ذیل ہیں.) غیر مسلم حکمرانوں کی فرمانبرداری ایک طالب علم:- میں آپ سے یہ دریافت کرناچاہتاہوں کہ مسلمانوں کو غیر مسلم حکمران قوم کا کس حد تک لائل LOYAL) ہونا چاہیئے.حضرت اقدس:.میں اس سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ سے اصولی طور پر ایک بات پو چھتاہوں ممکن ہے اس سوال میں ہی اس کا جواب بھی آجائے.آپ یہ بتائیں کہ اگر مسلمان حکومت ہو تو مسلمانوں کو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کس حد تک کرنی ضروری ہے.طالب علم:- جب تک وہ مسلمان حکومت درست رہے، عدل و انصاف کے قوانین پر عمل کرے اور رعایا کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اس کاوفادار رہنا ضروری ہے.اگر وہ ان باتوں کو چھوڑ دے اور غلطیاں کرے تو نہیں.حضرت اقدس :.بہت ٹھیک ہے جب تک وہ نیک رہے اس وقت تک اطاعت اور فرمانبرداری ضروری ہے.تویہی اصول حکومت کی اطاعت کی حد کا ہو گیا.اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کیا قید رہی.
۵۰۴ طالب علم:- آخر وہ مسلمان ہیں.حضرت اقدس:- آپ نے جب یہ اصل قائم کیا کہ جب تک مسلمان حکمران نیک کام کریں ان کی اطاعت کرنی چاہئے تو پھر اس اصل کو مخصوص تو نہیں کر سکتے کہ یہ صرف مسلمانوں کے متعلق ہے اور غیر مسلم کی حکومت اگر عدل وانصاف بھی کرے تو اس کی اطاعت نہ کی جائے.حکومت میں اپنے پرائے کا سوال نہیں ہوتا بلکہ حقوق اور رعایا کا سوال ہوتا ہے.دیکھو اس ملک میں انگریزوںہی کی حکومت ہے.مگر کیا انگریز اس وجہ سے خوش ہوجائیں گے کہ ہمارے بھائی حکمران ہیں؟ نہیں بلکہ وہ اپنے حقوق مانگیں گے.آئر لینڈ کا قضیہ آپ کے سامنے ہے تو حکومت میں جو سوال معرض بحث میں آتا ہے وہ رعایا کے حقوق کا سوال ہوتا ہے.طالب علم :.انگریزوں کا غیر ہونا آپ نے بھی تسلیم کرلیا ہے کیونکہ آپ ان کو دعوتِ اسلام دیتے ہیں.جب ان کے سامنے اسلام پیش کیا جاتا ہے تو وہ غیر ہوئے.حضرت اقدس:.دعوت اسلام تو ہمارا فرض ہے ہم مسلمانوں کو بھی دعوت دیتے ہیں.میں تو کہتا ہوں کہ حکومت کے ساتھ اس بات کا کوئی تعلق نہیں.سوشل حقوق الگ ہوتے ہیں مذہبی الگ اور حکومت کے الگ اور ان میں جُداجُدا احکام ہوتے ہیں.دیکھو انسان مختلف جوارح اور اعضاء کا مجموعہ ہے.ہاتھ پاؤں وغیرہ سب کے سب مجموعی طور پر ایک حیثیت رکھتے ہیں مگر ان کے کام الگ الگ ہیں.اسی طرح سوشل اور پولیٹیکل معاملات کا بھی ایک جد اجد ادائرہ ہے.اگر ہم ان کو ملا کر بحث کریں گے تو غلط راستے پر جا پڑیں گے.ہرایک دائرہ کے اندر رہ کر غور ہو سکتا ہے.گورنمنٹ اور رعایا کے متعلق جو احکام ہیں ان کو اس نظر سے دیکھو ،سوشل اصولوں پر اسے نہ پرکھو یا کسی اور نقطہ خیال سے اس پر بحث نہ کرو.آپ نے خود ایک اصل بتایا ہے کہ حکومت جب تک نیکی کے کام کرتی ہے، رعایا کی خبر گیری ،انصاف اور عدل کے اصولوں پر ہوتی ہے اور ان کے حقوق محفوظ ہیں تو ایسی حکومت کی اطاعت اور اسی سے وفاداری کرنی چاہئے.پس جب تک حالات میں تغیر نہ ہو اس اصول کو کیوں چھوڑا جائے.مذہب میں سیاست ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ سیاست کو دخل دیا جائے.احکام اسلامی میں یہ بھی ایک اصل ہے کہ ان میں حالات کے بدلنے کے ساتھ استثناء ہو جاتا ہے.مثلا ًوضو کرنے میں ہاتھ دھونا ضروری ہے لیکن جس شخص کے ہاتھ ہی نہ ہوں اس کے لئے ہاتھ دھونا ضروری نہیں.میں جہاں تک سمجھتا ہوں آپ کا یہ سوال اصل سوال نہیں بلکہ آپ کے دل میں جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ فارن
۵۰۵ (FOREIGN) حکومت کیوں حکومت کرتی ہے؟ (اس پر طالب علم مذکور نے کہا کہ ہاں اصل سوال یہی ہے) میں اس سوال کا بھی جواب اصولی طور پر دیتا ہوں آپ مانتے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں نے بھی دوسروں پر حکومت کی ہے.حضرت ابو بکر صدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوئے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا اسوہ تھے اور ان کے بعد اسلامی حکومت کا دائرہ اور بھی وسیع ہوتا گیا.یہاں تک کہ ایران ،مصر،شام اور دُور تک اسلامی حکومت پہنچ گئی.اب اگر کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر حکومت کرنے کا حق نہیں تو سوال ہوتا ہے کہ پھر مسلمانوں کو دوسروں پر حکومت کرنے کا کیا حق تھا؟ اور دوسری قوموں پر اسلامی حکومت کی بنیاد خود آنحضرت ﷺ کے وقت میں پڑی ہے.اس لئے ہم یہ کہنے کے مجاز نہیں کہ یہ طریق غلط تھا.اب فرض کرو کہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں عراق و شام کہتے کہ ہم تمہارے علاقہ میں نہیں رہتے اور فرض کرو کہ خالد اور ابو عبیدہ کی جگہ میں اور آپ ہوتے اور ہم سے یہ سوال کیا جاتا کہ ہم آپ کے ماتحت نہیں رہنا چا ہتے آپ اپنے ملک کو چلے جائیں تو ہمارا کیا جواب ہوتا.(اس موقع پر طالب علم مذکور سوچ میں پڑ گیا لیکن خلیفہ عبد ا لحکیم صاحب جو خلیفہ رجب الدین صاحب لاہوری کے بھتیجے اور خواجہ کمال الدین صاحب کے رشتہ دار تھے بول اُٹھے) ان کو سیکنڈری پوزیشن دو جیسے انگریز ہندوستان میں ہیں وہ غلامی پیدا کرتا ہے.مفتوح سے زیادہ ذلیل پوزیشن کسی کی نہیں ہوتی.اس کے تمام امور میں غلامی پیدا ہو جاتی ہے.جیسے اوڈوائر نے پیروں کو جمع کر لیا اور وہ سب کے سب اس کے دروازے پر پہنچے.اور جس قسم کا ایڈریس اس نے جواب چاہا دے دیا( یہ فقرے کچھ ایسے طور پر خلیفہ عبد ا لحکیم صاحب نے ادا کئے جن سے طنز کا رنگ نمایاںتھا) حضرت نے ہنستے ہوئے فرمایا:.ہم تو اس موقع پر نہ تھے.آپ کہتے ہیں ایسا ہوا شاید آپ ہوں گے، آپ کے کہنے سے مان لیتے ہیں.پروفیسر صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ جھٹ بول اٹھے.نہیں نہیں میری مراد آپ سے نہیں تھی اور آپ ان میں شریک نہ تھے.حضرت:- یہاں تو اصول کا سوال ہے اور اصولاًاس کو حل کرنا چاہئے.میں پوچھتا ہوں کہ کسی وجہ سے کسی قوم نے حملہ کر کے دوسری قوم کو فتح کرلیا تو کیا آپ کے نزدیک ایسے اسباب ہو سکتے ہیں کہ جس کوفتح کیا ہے اس کو ہمیشہ مفتوح رکھے.
۵۰۶ پروفیسر عبدالحکیم:.ایک قوم ہے جو ہمیشہ تنگ کرتی ہے گھروں پر آکر حملہ کرتی ہے تو پھر ہماری قوم کا حق ہے کہ سیلف ڈیفینس (SELF DEFENCE) حفاظت خود اختیاری کے طور پر اس مفتوح رکھیں.میں ان جنگوں کو جو اسباب صداقت پر مبنی ہوں جائز سمجھتاہوں امپیریل اِزم کو جائز نہیں سمجھتا.حضرت:.کیا ایسی صورت میں یہی جائز ہے کہ ان پر قبضہ رکھا جاوے یا اسی قدر کافی ہے کہ شکست دے دی جاوے.عبدا لحکیم..جیسی صورت ہو اس کے موافق عمل کیا جاتا ہے.جیسے جرمنی کے متعلق کیا گیا ہے.کابل کوفتح کرنا آسان ہے مگر کابل پر حکومت مشکل ہے یہ ایک ضرب المثل ہے.حضرت:- خیر کابل کی حکومت کی مشکلات تو پہاڑی علاقہ کی وجہ سے ہیں یہ بحث نہیں.آپ کے اس جواب سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ بعض اسباب اور وجوہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے مفتوح قوم کو دبائے رکھنا جائز ہے.عبدا لحکیم:- ہاں بشرطیکہ ان کو تباہ نہ کیا جائے.حضرت:.کہاں تک دبایا جائے؟ اس کی حد بندی کون کرے گا اور کون جج ہو گا.عبدالحکیم.زبردست اپنا فیصلہ آپ کرتا ہے ،اپنا حج آپ ہوتا ہے ،اس کا سَو سات بیس کا ہوتاہے.حضرت:.اگر یہ اصول درست ہے تو آپ کے پوائنٹ آف ویو (POINT OF VIEW) سے یہ سوال حل ہو گیا.انگریزوں نے اپنا فیصلہ آپ ہی کرلیا.عبدا لحکیم:.نہیں یہاں تو موریلٹی (MORALITY) کے پوائنٹ آف ویو سے دیکھا جاوے گا- (اخلاقی نقطہ نگاہ سے) حضرت:.موریلٹی کے پوائنٹ آف ویو میں بھی تو اختلاف ہے توجب اخلاقی نقطہ نگاہ مختلف ہوئے تو پھر کس پہلو پر فیصلہ ہو گا.عبدا لحکیم- میں تو یونہی در میان میں آگیا.(یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے.اور حضرت کا سلسلہ کلام پھر سے طالب علم سے شروع ہوا) حضرت:- بہتر، پھر وہی سوال آیا کہ اگر حضرت ابو بکرؓ کا زمانہ ہو اور غیر مسلم علاقے بغاوت کریں.اور کہیں کہ ہم آپ کے ماتحت نہیں رہنا چاہیے آپ کو کوئی حق نہیں تو پھر آپ
۵۰۷ کیا ایڈوائز (ADVISE) کریں گے کیا مشورہ دیں گے.پہلا طالب علم:- جب وہ لوگ چاہیں گے کہ ہم یہ حکومت نہیں چاہتے تو انکو چاہیے کہ آزاد کردیں اور ان پر سے اپنی حکومت اٹھالیں.حضرت:.تو اب یہ اصل قائم ہوا کہ جب کوئی قوم اپنی غیر قوم حکمران کو کہے کہ ہمارا علاقہ خالی کردو تو خالی کردینا چاہیئے.اب ہم واقعات سے دیکھتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد کا کیا عمل ہے؟ انہوں نے تو کسی علاقہ کو نہیں چھوڑا.اس اصل کو قائم کر کے اب آگے چلایئے.(اس موقع پر طالب علم مذکور نے تو کوئی جواب نہ دیا.اور پھر پروفیسر عبد ا لحکیم صاحب نے دخل دیا) عبد الحکیم:.جنرل تھیوری یہ ہے کہ کسی قوم کا حق نہیں کہ دوسری قوم پر اپنی اغراض کے لئے حکومت کرے خواہ وہ قوم کوئی ہی ہو، ہاں اس کی اصلاح کے لئے حکومت کرے.حضرت:- اُس قوم کے ارادہ اور مرضی کے موافق یا اس کے خلاف.عبدا لحکیم:.اس کا فیصلہ مشکل ہے حکومت کے افعال کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ فعل جائز ہے یاناجائز.حضرت :.جب فیصلہ مشکل ہے تو جائز ناجائز کافیصلہ کون کرے گا.جس حکومت کو کہاجاوے کہ ناجائز ہے اس کا ہر فعل ناجائز ہوگا.کیا ہندوستانی حکومت کے قابل ہیں.عبدالحکیم.اصل بات یہ ہے کہ کیا آپ ہندوستانیوں کو حکومت کے قابل سمجھتے ہیں؟ حضرت: مجھ سے جو سوال ہوا ہے میں نے اس کا جواب بارہا دیا ہے.کل کے خطبہ جمعہ میں بھی اس سوال کا جواب آگیا ہے.میں نے ہمیشہ کہا ہے اور انگریزوں کو کہا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ ہندوستانی حکومت کے قابل نہیں.میں نے اس سوال پر غور کیا ہے اور میں اس کے دلائل رکھتا ہوں کہ ہندوستانی ہندوستانیوں پر حکومت کر سکتے ہیں.ہاں اگر یہ سوال ہو کہ ہندوستانی فرانس یا انگلستان پر حکومت کر سکتے ہیں؟ تو ہم کہیں گے ہرگز نہیں.لیکن یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہندوستانی ہندوستان پر حکومت کر سکتے ہیں یا نہیں.ہر ایک ملک کے باشندے اپنے ملک پر حکومت کر سکتے ہیں.کیا افغان افغانستان پر حکومت نہیں کرتے ؟ کیا وہ ہندوستانیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں؟ آپ نے خوشامد پر بہت زور دیا ہے (خلیفہ عبدا لحکیم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ گورنمنٹ کی خوشامد کی جاتی ہے.اس کی طرف اشارہ ہے.عرفانی) کی وجہ سے آپ کا یہ خیال
۵۰۸ ہو گا.ہم تو کسی کی خوشامد نہیں کرتے خواہ وہ کوئی ہو.ہم نے گورنمنٹ کو ہمیشہ اس کی غلطیوں سے آگاہ کیا ہے اور صاف صاف کُھلے الفاظ میں اس کو بتایا ہے.ہمارے ایڈریس اس پر شہادت دے رہے ہیں اور تمام افسروں کو معلوم ہے کہ ہم نے ہمیشہ ان کی غلطیاں ظاہر کی ہیں.خوشامد وہ شخص کرے جس کو گورنمنٹ سے کچھ لیناہو.ہم تو ان کو سلام کرنے کے لئے بھی نہیں جاتے.اور کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ہم نے کبھی کسی قسم کی خواہش ان سے کی ہو.میں اگر کبھی کسی سے ملا ہوں تو میری غرض بعض ان غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوئی ہے جو ملکی مفاد اور ملکی امن کے خلاف ہوتی ہیں نہ کوئی ذاتی غرض.آپ لاہور کے رہنے والے ہیں اور آپ کے خاندان کے لوگ اس بات کو اچھی طرح جان سکتے ہیں.کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ہم نے کوئی فائدہ اٹھایا ہے یا اس کی خواہش کی ہے.عبدا لحکیم..کیا آپ کا وفد لارڈ ریڈنگ کے پاس گیا تھا.حضرت:.ہاں.عبدا لحکیم:.کیا غرض تھی.حضرت:.اس کے لئے ہمارا ایڈریس واضح ہے.ہم نے اس کو بتایا تھا کہ ہم کو آپریٹ(Co- OPERATEکرسکتے ہیں اور ان کو غلطیوں سے بھی آگاہ کرنا تھا جو حکومت کی طرف سے ہوتی ہیں.عبد ا لحکیم.مطلب یہ ہے کہ آپ ریڈنگ کے پاس گئے اور اس کو رعایا پَروَر اور حُریت پَروَر کہتے ہیں.حضرت:- آپ نے یہ کہاں سے نکالا ہے کہ ہم حُریت پَروَر کہتے ہیں یا اس قسم کے اور الفاظ استعمال کرتے ہیں.ہمارا ایڈ ریس موجود ہے.بغیر دیکھے اور معلوم کرنے کے ایک بات کہنا جس کی اصلیت نہ ہو پسندیدہ بات نہیں ہوتی.عبدا لحکیم :- آپ نے پبلک کی شکایتوں کا بھی ذکر کیا ہے؟ حضرت:.میں تو ابھی کہہ چکا ہوں کہ ہمیشہ ہم نے حکومت کی غلطیاں ظاہر کی ہیں اور اسی ایڈریس میں موجود ہیں.عبد ا لحکیم :- میں نے پڑھا نہیں.حضرت:.پھر بغیر پڑھنے کے اس قسم کے اعتراض درست نہیں ہیں.ہم کسی انسان کی خوشاید
۵۰۹ کر سکتے اور حقیقت کے اظہار سے کوئی چیز ہم کو روک نہیں سکتی.ابھی ڈائر کے مقدمہ میں شہادت کا سوال تھا.ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ ہم ڈائر کی غلطیوں کا بھی اظہار کریں گے.غرض ہم نے کسی موقع پراظہارِ حقیقت سے پرہیز نہیں کیا ہے.عبدا لحکیم:.میں ایک دفعہ شملہ پر تھاوہاں ایک احمدی نے کہاتھا کہ گورنمنٹ کی وجہ سے ہم مسلمانوں کی پناہ میں ہیں.حضرت:- اگر واقعات ایسے ہوں تو پھر اعتراض کیا ہے.کیا آپ اس کو جائز سمجھتے ہیں کہ کسی احمدی کی لڑکی کو پکڑ کر کنجروں کو دے دیا جاوے کہ اس کو گانا سکھاؤ.اور اس سے بڑھ کر کوئی ظلم اور بے حیائی ہو سکتی ہے کہ ایک عورت کی لاش کو قبر سے نکال کر کتوں کے سامنے پھینک دیا اور بعض اخباروں نے اس فعل کی تحسین کی اور کسی مسلمان سے نہ ہو سکا کہ ان پر اظہار افسوس کر تا.اختلاف کے سوال کو چھوڑ کر یہ کیسی ہے رحمی اور بد اخلاقی ہے.اسی رمضان میں ایک شخص کو پانی تک لینے نہ دیا اور سخت دکھ دیئے اور پکڑ کر بند کردیا کہ وہ اپنی شکایت بھی نہ کر سکے.قصور میں ہماری جماعت کو جس طرح پر دُکھ دیا گیاوہ ایک تازہ مثال ہے.آئے دن مختلف مقامات مسلمان محض اختلاف کی وجہ سے ہماری جماعت کو تکلیف دیتے ہیں پھر ان حالات میں اگر اس نے یہ کہا توکیا غلط ہے؟ عبدالحکیم.حالات اس قسم کے ہیں تو آپ اور آپ کی جماعت کا یہ فرض ہے کہ اپنی حفاظت اس طریق پر کریں.مسئلہ خلافت کی وجہ سے بھی مخالفت ہوئی ہے.سلطنت ترکی سے ہمدردی حضرت:.خلافت کے سوال کے متعلق سن لو.جب لکھنؤ میں خلافت کانفرنس کا پہلا جلسہ ہوا ہے تو مولوی عبد الباری صاحب نے مجھے دعوت دی اور بلایا.میں نے دیکھا کہ میرے جانے سے کوئی فائدہ نہیں.یہ لوکسی کی صحیح بات کو مان نہیں سکتے.تاہم میں نے ایک رسالہ لکھا اور ایک وفد بھیجا.رسالہ میں میں نے بتایا کہ خلافت ترکی کا سوال پیش نہ کیاجاوے ،کیونکہ مسلمانوں کے بعض فرقے اس کو نہیں مانتے.سلطان ترکی کے سوال کو رکھا جاوے جس کے ساتھ ہر مسلمان کو ہمدردی ہے.اور میں نے یہ بھی لکھا کہ ترکوں اور اسلام کے متعلق جو غلط فمیاں یورپ اور امریکہ میں پھیلائی گئی ہیں ان کو دور کیا جاوے.میں نے خود اس کام کے لئے اپنی طرف سے مبلّغ دینے کا وعدہ کیا جو ان غلط فہمیوں کو دُور کریں.اس وقت اس کی طرف کسی نے خیال نہ کیا لیکن بعد میں جب شیعہ اور
۵۱۰ اہلحدیث اور دوسرے لوگوں نے جو خلافت کے قائل نہیں مخالفت کی تو اب ان کے بعض لیڈر تسلیم کرتے ہیں کہ جو طریق میں نے بتایا تھا وہی صحیح تھا.اور اب جس حالت میں یہ مسئلہ آگیا ہے وہ آپ کو معلوم ہے.میں نے ہر موقع پر اپنی طاقت کے موافق مدد دینی چاہی ہے لیکن یہ ہم سے نہیں ہوسکتا تھا کہ ہم مذہب کو قربان کردیں.مذہب کے لئے ہم ہر ایک قربانی کر سکتے ہیں مگر اس صداقت کو ہم نہیں چھوڑ سکتے جو خدا کی طرف سے آئی ہے.(حضرت کی اس تقریر کا بہت اثر ہوا اور پروفیسر عبدا لحکیم صاحب کہنے لگے کہ یہ بالکل درست ہے.میں جب قسطنطنیہ میں تھا اور سید امیر علی اور سرآغاخان صاحب کی طرف سے خلافت کی تائید میں خیالات کا اظہار ہوا تو لوگ کہتے تھے کہ یہ خود تو خلافت کے قائل نہیں.) پہلا طالب علم نے میری سمجھ میں تو آپ کی پوزیشن آگئی ہے اور جو اعتراضات آپ پر ملک کی آزادی کے متعلق ہوتے ہیں وہ درست نہیں یہ بات بالکل صاف ہو گئی ہے.مسلمانوں کو کافر کہنا ایک طالب علم :.کہتے ہیں کہ آپ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں؟ حضرت:- آپ عیسائیوں کو کافر کہتے ہیں تو کیا ان کا حق ہے کہ آپ کو مار دیں؟ طالب علم..لا إله إلا الله محمد رسول الله اسلام کا خلاصہ ہے.پھر جب کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے تواحمدی اس کو کافر کیوں کہتے ہیں؟ حضرت :.ایک بات میں آپ سے پوچھتا ہوں.اگر کوئی شخص یہی کلمہ پڑھتاہو مگر یہ کہے کہ میں موسیٰؑ علیہ السلام کو نبی نہیں مانتا وہ نعوذبا لله مفتری تھے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ طالب علم :.کا فرہی ہوگا.(اس موقع پر پروفیسر عبدالحکیم صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا اور کہا.) عبدا لحکیم:.اس میں ایک مغالطہ ہے.آنحضرت ﷺشریعت کو کامل کر گئے اور اب کوئی چیز دین کے لئے باقی نہیں اس لئے میں اس بات کے لئے مجبور نہیں ہوں کہ کسی دوسرے کو نبی یا نیک سمجھوں.اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺکو مانتا ہو اور موسیٰؑ کاغلام نہ ہو تو میرے خیال میں وہ مسلمان ہو گا.حضرت:.آپ کے خیال کو میں نہیں پوچھتا.دوسرے مسلمان اس کو مسلمان نہیں مانتے اور نہیں مانیں گے جو حضرت موسیٰؑ کا انکار کرے.
۵۱۱ طالب علم :.یہ بالکل درست ہے.عبدا لحکیم.سارے قرآن میں یہ ذکر نہیں کہ آنحضرت ﷺکے بعد کوئی رسول آئے گا.حضرت:.یہ بحث تو الگ رہی کہ ذکر ہے یا نہیں.لیکن فرض کرو کہ ایک شخص کا خیال ہے کہ رسول آئے گا تو اس کو کیا کہو گئے.عبدالحکیم :.کیا وہ شریعت کو مکمل سمجھتا ہے؟ حضرت:- ہاں وہ مکمل سمجھتا ہے.اور باوجود اس کے وہ مانتا ہے کہ ایک رسول آیا ہے.یہ خیال غلط ہے یا صحیح مگر وہ مانتا ہے تو اس رسول کا جو انکار کرے اس کو وہ کیا کہے گا اور اس کا کیا حق ہے.عبدالحکیم :- ہاں اس کا حق ہے کہ وہ نہ ماننے والے کو کافر کہے.حضرت :.تو پھر معلوم ہوا کہ یہ سوال نہیں کہ کافر کیوں کہتے ہو بلکہ سوال یہ ہو گا کہ کہاں لکھا ہے کہ رسول آۓ گا-(اس پر حضرت اقدس نے سورہ اعراف کا تیسرا رکوع نکال کر پڑھا اور سوال کیا کہ اس میں یا بنی آدم کا جو خطاب ہے، یہ کس زمانہ کے لوگوں کیلئے ہے.) پروفیسر عبدالحکیم:.وہ جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے یا آئندہ آئیں گے.حضرت:.بہت اچھا اب آگے چلئے چوتھے رکوع میں فرماتا ہے.یبني ادم اما یا تینکم رسل منکم يقصون عليكم أياتي ۴۲؎ اس میں کون لوگ مراد ہیں؟ پروفیسر عبدا لحکیم :- وہی جو موجود تھے یا جو آئندہ ہوں گے.حضرت:.پھر یہ آیت کیا ثابت کرتی ہے؟ پروفیسر عبدالحکیم:.اس آیت سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء آئیں گے.میں نے جب اس کوپڑھاتھاتویہی سمجھا تھا کہ رسول آئیں گے.حضرت:- پھر قرآن مجید سے یہ تو ثابت ہے کہ رسول آئیں گے پھر جو شخص کسی رسول کو مانتا ہے کہ آگیا ،کیا اس کو یہ حق نہیں کہ اس کے نہ ماننے والوں کو کافر کہے؟ پروفیسر عبدا لحکیم..ہاں اس کا حق ہے.وہی طالب علم :.مگر میں نے مولوی محمد علی صاحب کے ترجمہ قرآن مجید میں یہ معنی نہیں پڑھے.حضرت:.اس کا مجھ سے کیا تعلق میں تو آپ ترجمہ کرتاہوں اور ترجمہ صاف ہے.میں مولوی محمد علی صاحب کی اتباع نہیں کرتا.اور میں تعلّی سے نہیں کہتا بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں
۵۱۲ کہ ان سے زیادہ عربی جانتا ہوں.پروفیسر عبدا لحکیم :- (طالب علم کو مخاطب کر کے اس آیت سے یہی ثابت ہے اور اس میں بحث فضول ہے.پہلا طالب علم:- کیا پہلوں میں سے بھی کسی نے یہ معنی کئے ہیں اور کسی کا ایسا عقیدہ ہے؟ حفرت:.یہ سوال معقول ہے.یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دکھائیں چنانچہ مولانا روم ،ابن عربی ،دیوبندمدرسہ کے بانی مولانا محمد قاسم اجرائے نبوت کے قائل ہیں.طالب علم :..مرزا صاحب پر کونسی کتاب نازل ہوئی؟ حضرت:.ہر رسول کے لئے کتب شرط نہیں.شریعت کامل اور ختم ہو چکی ہے.پہلے ایسے رسول بنی اسرائیل میں آتے رہے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.پروفیسر عبد الحکیم مگر حضرت مرزا صاحب تو اپنی رسالت کا انکار کرتے ہیں.من نیستم رسول و نیاوروه ام کتب حضرت:- یہ تو آپؐ کی رسالت کو ثابت کرتا ہے کہ میں ایسارسول نہیں جو کتاب لایا ہو.عبدا لحکیم :.نہیں وہ تو کہتے ہیں کہ رسول بھی نہیں اور کتاب بھی نہیں لایا.حضرت:.آپ کو واوؤعطف سے غلطی لگتی ہے-واؤ مخاطب کے لئے دلیل کے طور پر بھی آتا ہے اور اس کا دوسرا مصرع پڑھو.ہاں ملہم استم وز خداوند منذرم اور نذیر قرآن مجید میں رسول کے لئے آیا ہے.عبد ا لحکیم:.قرآن مجید کسی نبی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتا.حضرت:- قرآن مجید میں تو لکھا ہے تلک الرمل فضلنا بعضهم على بني -۴۳؎ عبدا لحکیم :- قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ نے کہا ہے کہ مجھے کسی پر فضیلت نہیں.حضرت:.قرآن مجید آپ کے سامنے ہے نکال کر دکھادیں اور قرآن مجید آنحضرتؐ کا کلام نہیں یہ خدا کا کلام ہے.دوسرا طالب علم:- آپ مسلمان کو پھر کافر تو کہتے ہیں؟ حضرت :.لوگ کافر کے معنے یہ کرتے ہیں کہ وہ جہنم میں چلا جائے گا ،ہم یہ نہیں کہتے یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں اس میں جہنم کا سوال نہیں.یہ خدا کا کام ہے.یہ ایک ریلیجس ٹرم ہے.وہ انکار
۵۱۳ کرتا ہے اس لئے کافر کہلاتا ہے (حضرت صاحب نے حقیقۃ الوحی سے اس کے متعلق حوالہ جات دکھائے).طالب علم:- کافر کی تشریح ہو گئی ہے یہ درست ہے.سیاسی مسائل پر گفتگو ایک طالب.ہم کس طرح اپنے حقوق حاصل کریں.حضرت:- ہمارا طریق یہ ہے کہ ہم قانون کے ماتحت اپنے حقوق لیتے ہیں.اگر نہ لے سکیں اور مذہبی مداخلت ہو تو پھر اس ملک کو چھوڑ دینا چاہیے.یہ آسان طریق ہے.ملک میں ره کر قانون شکنی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.اور جب تک لاء (LAW) ہے اس کا احترام کرنا چاہیے.کیونکہ اگر ایک دفعہ قانون شکنی کی عادت ڈال دوگے تو پھر قانون کا احترام اور اطاعت اٹھ جائے گی.جب وہ قانون درست نہ ہو تو ان سے اس کے تبدیل کرانے کی کوشش کرو.اگر کامیابی نہ ہو تو اس سے باہر چلے جاؤ.طالب علم :.ہاں یہی درست طریقہ ہے.حضرت:- ہمارے خلاف دو قسم کا پر سی کیوشن( PERSECUTION) ہے.اول مسلمان ہمارے مخالف ہیں.دوم ہندو مسلمان کی مخالفت کی وجہ سے بحیثیت مسلمان ہماری مخالفت کرتے ہیں.اب آپ ہی بتائیں کہ ہم کیا طریق اختیار کریں.میں نے ہر موقع پرمسلمانوں کو صحیح مشورہ دیا ہے.اور مسلمانوں کے مفاد میں ان سے کو آپریٹ (O- COPERATE) کیا ہے مگر وہ خود فائدہ نہ اٹھائیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے.ابھی مسلم لیگ کے موقع پر جب انہوں نے مجھے دعوت دی تو میں نے اپنے خیالات کا اظہار تحریری طور پر کردیا.طالب علم:- ہجرت کی جو تحریک ہوئی تھی اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ حضرت:- میں نے ہجرت کے موقع پر گورنمنٹ کو لکھا تھا کہ وہ اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرے.اگر وہ روکے گی تو پھر وہ ملک میں رہ کر بھی جنگ کر سکتے ہیں مگر جو لوگ ہجرت کر کے گئے نہ تو وہ کسی اصول اور قانون کو مد نظر رکھ کر گئے اور نہ کسی کی سیادت میں گئے.ایک بے أصول جوش کے ماتحت یہ کام کیا گیا جس کا نقصان بہت زیادہ ہوا.سرحد والے اپنی جائدادیں نہایت ہی نقصان کے ساتھ بیچ کر چلے گئے اور آگے کوئی خبر گیراں نہ ہوا.جس کا نتیجہ بے چینی ہوا اور تکالیف میں مبتلا ہو کر ناکام واپس ہوئے.اور اس تحریک کی ناکامی نے اس کو بے اثر کردیا.اگر یہ تحریک صحیح اصول پر آرگنائزڈ(ORGANIZED) ہوتی تو یقیناً مؤثر ہوتی.
۵۱۴ عبدا لحکیم:.قوم کی قوم تو ہجرت نہیں کرسکتی.کانسٹیٹیوشنل (CONSTITUTIONAL) طریق پر آپ سے متفق ہوں.حضرت:.میں اس حد تک موافق ہوں جو لاء کے خلاف نہ ہو ورنہ انارکی پیدا ہوگی.اور اس سے سخت نقصان ہو گا جس وقت تک یہ احساس رہے کہ لاء(LAW) کی تعمیل کرنا ہے اس وقت تک امن قائم ہے.اور امن کے ساتھ ہم ایسے قوانین کو جو نقصان رساں ہوں تبدیل کراسکتے ہیں.عبد الحکیم:.اگر قانون ایمان کے خلاف ہو.حضرت : اگر ایسی حالت پیدا ہو جائے تو ہمارا یہی ایمان ہے کہ ملک سے باہر چلے جانا چاہئے.اگر اس کو تبدیل نہیں کراسکتے پھر نکل جانے میں اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے کہ کھانے کو ملے گا یا نہیں.میں تو جماعت میں اسلام کے لئے ایک غیرت کی عملی سپرٹ ( SPRIT) پیدا کرتا ہوں.میری بیوی کا بھائی آیا ،میں اس کے لئے شوق سے منتظر تھا.دروازہ کھول کر اسے دیکھا کہ اس نے ٹوپی پہنی ہوئی ہے.مجھے اس سے رنج ہوا کہ اس نے کیوں پہنی.تین دن تک میں اس سے نہیں ملا.جب تک کہ اس نے مجھے لکھ کر نہیں دے دیا کہ میں اسلام کے قومی کیریکٹر کا پابند رہوں گا.میں نے فیشن کی تقلید کرنے والوں کی اپنے کل کے خطبہ جمعہ میں مثال دی ہے کہ وہ اس فیشن کے ایسے غلام ہیں جیسے ایک کُتا میم کے پیچھے پیچھے دوڑتاہے.میں اپنی جماعت میں جو روح پیدا کررہاہوں تم اسے سمجھو تو تمہارے یہ خیالات نہ رہیں.میری جماعت میں کوئی شخص اپنے مقدمات عدالت میں نہیں لے جاتا بلکہ شریعت کے فیصلہ کے موافق قاضیوں سے لے کراناہے.(اس پر ایک شخص نے طنزاً کہا کہ چماروں میں بھی ایسا ہی ہے.حضرت نے یہ سن کر فرمایا کہ) یہ اس لئے ہے کہ تم ان سے عبرت سیکھو جن کو تم چمار کہتے ہووہ اس معاملہ میں تم سے بہتر ہیں.(سب نے متفق ہو کر کہا کہ یہ بالکل درست ہے) ایک طالب علم :.میں نے سنا ہے کہ انڈیا آفس والے آپ کو بُلا کر پوچھتے ہیں کہ ہندوستان پر کیسے حکومت کریں.حضرت : یہ غلط ہے کہ مجھ سے یہ پوچھا گیا.
۵۱۵ تعدّد ازدواج طالب علم:- ایک سوال کرتا ہوں قرآن شریف نے کہاں تک اجازت دی ہے.کہ ایک سے زیادہ شادیاں کریں.حضرت :.قرآن شریف نے چار تک حکم دیا ہے اگر عدل نہ کر سکے تو پھر ایک ہی کرے.ہرایک بیوی کو برابر باری دے اور برابر مال دے.میں نے اپنی جماعت کے لئے حکم دے دیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ شادی کر کے عدل نہیں کرے گا تو میں اس کو سزا دوں گا جو قومی بائیکاٹ ہوگا.سوال:- محبت برابر نہیں ہوسکتی.حضرت:.کیا ایک شخص اپنے متعدد بچوں نے محبت کرتا ہے یا نہیں.یہ خیال صحیح نہیں.اپنے عمل سے انسان مساوات رکھ سکتا ہے.اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ یہ عیش نہیں بلکہ ایک بہت بڑی قربانی ہے جبکہ وہ دوسری بیوی سے بھی ویسی ہی محبت کرے گا.سوال :.کیا یہ جائز ہے کہ عورت کا ولی یا اگر عورت بالغ ہو تو خود شادی کے وقت یہ شرط کرے کہ اس کا شوہر دوسری شادی نہ کرے گا.حضرت:- ہمارے نزدیک یہ جائز ہے.سوال:.لونڈیوں کی تو کوئی حد نہیں.حضرت:.ہم اس کو جائز نہیں سمجھتے.عبدالحکیم :- اب تک مکہ میں اس کا رواج ہے کہ لونڈیاں فروخت ہوتی ہیں.حضرت:.اگر ہمارا اختیار ہو تو سب سے پہلے اس کو منسوخ کریں.اگر وہ لونڈی کہہ دے کہ وہ جنگی قیدی نہیں ہے تواسے حق ہے کہ اپنے حق کی بناء پر آزاد ہو جائے.حضرت عمر ؓکے عہد میں ایک قوم کو آزاد کردیا گیا تھا.عبدا لحکیم:.غلام کی کمائی کس کی ہوگی ؟ حضرت:- جس دن وہ آزاد ہو جاوے اس کی کمائی الگ ہو جائے گی.قرآن مجید سے تو ثابت ہوتا ہے کہ جب وہ آزاد ہونا چاہے فورا ًاسے آزاد کرنا چاہیے.اور اگر اس کے پاس روپیہ نہ ہو تو گورنمنٹ روپیہ دیکر آزاد کرائے.عبد الحکیم:.تعدّد ازواج کے متعلق میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ ایک عورت نے جب شادی کی تو اس کے شوہر کی ایک سَوروپیہ آمدنی تھی.اب اگر وہ چار کرے تو اس کے حصے میں پچیس
۵۱۶ روپے آئیں گے کیا ہے اس پر ظلم ہوگا یا نہیں؟ حضرت:- عورت اگر سمجھتی ہے کہ ظلم ہے تو اس کو اسلام نے خلع کرا لینے کا حق دیا ہے.علاوہ ازیں کیا اس کے ساتھ مرد کی ضروریات میں بھی کمی ہوگی یا نہیں؟ اور پھر اگر ایک عورت کے ہی چار بچے ہو جائیں تو وہ رقم تقسیم ہوجائیگی یا نہیں؟ عبدا لحکیم: معمولی آمدنی کا آدمی جب دوسری شادی کرتا ہے تو بچوں کے اخراجات میں بھی کمی ہو جاتی ہے اور ان بچوں پر ظلم ہوا ہے اور اس خاندان کا کلچرکمزور ہو جاتا ہے.حضرت:- اس کا جواب دو طرح ہے.اول تو اگر بچے زیادہ ہو جائیں تو آپ کے اصول کے موافق اس کثرت سے ہی کلچر کمزور ہو گا اور پہلے بچے پر ظلم ہو گا.اس لئے اولاد پر کنٹرول ہونا چاہیے اور یہ طریق غلط ہے.دوسرے اسلام نے تعلیم کا بار حکومت پر رکھا ہے.حکومت کو یہ بار اُٹھانا چاہیئے کیونکہ وہ بچے قومی طاقت کا جزو ہیں.عبدالحکیم :- کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم دلانا قوم کا حق ہے.حضرت:- ہاں.حضرت:.گورنمنٹ کو ٹیکس بڑھانے پڑیں گے اور لوگ جب تعلیمی بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد سمجھیں گے تو اولاد بڑھے گی.حضرت:.گورنمنٹ پر تعلیمی بار سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سب بوجھ اٹھائے.بلکہ جس قدر والدین اٹھائیں ان پر ڈالا جائے باقی حکومت کو اٹھانا چاہیئے.اور اس کے لئے اگر ٹیکس لگانے پڑتے ہیں تو وہ قوم کی مشترکہ ضروریات اور بہتری کے لئے ہیں، اس میں حرج کیا ہے؟ عبدا لحکیم :- میرا سوال حل ہوگیا.مبلّغین کا شادی کرنا ایک شخص:- میں اس کو پسند نہیں کر تاکہ آپ کے مشنری یہاں آکر شادی کریں.حضرت :میں مبلّغین کے لئے یہ جائز نہیں رکھتا کہ وہ باہر جاکر شادی کریں.کیونکہ اگر وہ روپیہ کمانے کے لئے جاتے ہیں تو ان کی بیوی کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ وہ روپیہ کماکر لائے گا.لیکن جب وہ تبلیغ کے لئے آتا ہے تو اسکی بیوی اس کے اس نیک مقصد کے لئے خود بہت بڑی قربانی کرتی ہے.اس لئے اگر وہ آکر شادی کرتا ہے تو وہ اس قربانی کی ہتک کرتا ہے جو اس کی بیوی نے کی
۵۱۷ ہے.پس اس کو بھی قربانی کرنی چاہیے اور میں نے بہ قاعده بنادیا ہے.سائل:.یہ بہت ہی اچھا قانون ہے.ایک اور شخص.اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ شادی کرلے اور پہلی بیوی کو شکایت ہو تو وہ کیا کرے.حضرت:.میں اپنی جماعت میں اگر ایسا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے اچھا اور برابر کا سلوک نہیں کرتا تو خواہ اس کی بیوی شکایت بھی نہ کرے میں دخل دیتا ہوں اور بازپُرس کرتاہوں.ایک شخص نے ایسا کیا اور اس کی بیوی نے بھی شکایت نہیں کی تھی مگر میرے علم میں جب اس کا سلوک آیا تو میں نے فوراً اس پر نوٹس لیا.تعدّد ازدواج اور یتامیٰ عبدالحکیم: تعدّد ازواج کے سلسلہ میں ایک اور سوال ہے جہاں قرآن مجید نے اس کا علم دیا ہے وہاں یتامیٰ کا ذکر ہے.اس سے کیا تعلق؟ دوسرے مسلمانوں نے اس کو عام کس طرح کرلیایعنی چار کی حد بندی کیو نکر کی جس انداز میں قرآن نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ معیّن نہیں کرتا بلکہ غیر معیّن ہے.حضرت:.بعض لوگوں نے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ حد بندی نہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ حد بندی کردی ہے اس لئے وہی معنی مقدم ہوں گے جو آنحضرتﷺنے کئے ہیں.یتامیٰ کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے.اس کے متعلق مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص کو دس یتیم بچے مل گئے.اگر اس کے اپنے اور بچے بھی ہوں تو ایک عورت کہاں تک خدمت کر سکے گی ایسے موقع پر ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کرلے تاکہ سب کی ہو سکے.یہ ایک صورت ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ خود ان یتامیٰ کی ماں سے شادی کرلے تاکہ وہ ان یتامیٰ کی پرورش میں پوری دلچسپی لے سکے.کیونکہ ممکن ہے کہ پہلی بیوی کو انٹرسٹ (NTHEST) نہ ہو تو یہ تعلق اور جو ڑاس آیت کا ہے.اور اس سے مقصد یتامیٰ کی صورتوں میں سے ایک کثرت ازدواج ہے.حضرت جابرؓ کا واقعہ احادیث میں ہے کہ انہوں نے بڑی عمر کی عورت سے شادی کی.اور آنحضرت ؐنے دریافت کیا تو انہوں نے وجہ یہ بتائی کہ میری بہنیں چھوٹی عمر کی تھیں، یہ ان کی خبر گیری کر سکے گی.غرض یتامیٰ کے ساتھ دوسری شادی کا تعلق ہے.عام اس کو اس طرح پر
۵۱۸ کرلیا کہ فانکحوا کو یا حکم قرار دیں گے یا اجازت.تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ایسی صورت میں حکم ہے دوسری صورت میں اجازت.یتامیٰ کی حفاظت کے سوال کو مد نظر رکھ کر جب شادی ہوتی ہے تو عورت کا حق تلف نہیں ہوتا.پھر اصل اشیاء کی حِلّتِ اسلام کے اس حکم کے ماتحت کہ یتامیٰ کی حالت کے لئے شادی کر سکتا ہے اس سے حِلّتِ ثابت ہوتی ہے.عبدالحکیم.میں تو یہ سمجھتاہوں کہ دوسری شادی کرنا سزا ہے.حضرت:.سزا نہیں قربانی ہے.عبد الحکیم:.کیا ایسے شخص کو جو گذارا نہ کر سکتا ہو اور وہ دوسری شادی کرے آپ سزادیں گے.حضرت:- میں یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ شادی کے لئے مجھ سے اجازت لی جاوے.لیکن اگر میرے نوٹس میں ایسی بات آئے کہ وہ عدل نہیں کرسکتا یا حدودِ شرعیہ کو توڑتا ہے تو میں اس پر ایکشن لوں گا.( الفضل۳۰-اکتوبر ۱۹۲۴ء )
۵۱۹ کانفرنس مذاہب میں کامیاب لیکچر اور اس کا اثر لندن سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کانچواں مکتوب گرامی أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر برادران ! السلام عليكم.جیسا کہ آپ لوگوں کو تاروں سے معلوم ہوچکا ہو گا، خداتعالی کے فضل سے لیکچر بہت کامیاب ہوا.اور جس قدر آدمی ہمارے لیکچر میں تھے اور کسی لیکچر میں نہ تھے، جگہ باقی نہ رہی تھی اور لوگوں نے نہایت غور سے سنا اور بعد میں سر تھیوڈور مارہسن اور دوسرے لوگوں نے مبارک بادیں دیں.اور آدھ گھنٹہ تک مختلف دوستوں کو گھیرے کھڑے رہے اور باتیں کرتے رہے.الله تعالی کے فضل سے اس علاقہ میں اس قدر شہرت اسلام کی ہوگئی ہے اور احمدیت کانام مشہور ہوگیا ہے کہ اگر آئندہ محنت سے کام کیا جائے تو بہت بڑی کامیابی کی امید ہے.میر صاحب کی وفات کی خبر سے کل سے طبیعت افسردہ ہے اور ادھر کل ایک لیکچر ہے.اس * )حضرت میرناصر نواب صاحب (مرتب)
۵۲۰ کے لئے مضمون لکھ رہا ہوں اس لئے طبیعت میں عجیب قسم کی بے چینی ہے.کام چھوڑا نہیں جاسکتا اور طبیعت کا ضعف اور متواتر پریشان کرنے والی خبروں کا اثر چاہتا ہے کہ کام میں وقفہ کیاجائے.اللہ تعالیٰ ہی اپنا رحم فرما ئے،مجھے کچھ دن اسہال سے آرام رہاتھاکل سے پھر اسہال شروع ہو گئے ہیں اور بخار تیز ہوگیا ہے.بھوک بالکل بند ہو گئی ہے اور کھانسی کی بھی شکایت ہے.میں نے چلنے سے پہلے کہاتھا کہ آپ لوگوں کو وہ کچھ معلوم نہیں جو مجھے معلوم ہے.اگر آپ لوگوں کو معلوم ہوتا تو آپ مجھ پر رحم کرتے.سو آپ نے اب دیکھ لیا ہے کہ برابر افسردہ کرنے والی خبریں چلی آرہی ہیں.میں دیکھ رہا تھا کہ افسردگی اور غم کے دن آئے ہیں.اور ان دنوں میں قادیان سے باہر جانا مجھ پر سخت دوبھر تھا.میں نے بعض ایسے نظارے دیکھے تھے جن کی تعبیر یہ تھی کہ غموم پیش آنے والے ہیں.دو تین دفعہ ایسی خوابیں دیکھیں کہ جن سے معلوم ہو تاتھاکہ میر صاحب جلد فوت ہونے والے ہیں.اسی طرح بعض اور امور بھی رؤیا میں دیکھے.خدا تعالیٰ کرے کہ بقیہ اخبار ِغم خوشی سے بدل جائیں اور یہ اس کی قدرت سے بعید نہیں.ٍقادیان میں ہیضہ کی شکایت ،بھیرہ کاواقعہ ،قادیان کے بعض دوستوں پر مقدمہ، نعمت الله صاحب شہید کاواقعہ ،مرکزی مالی حالت کی خرابی ،میر صاحب کی وفات ،بابو فضل کریم صاحب کی وفات، قادیان کے کئی دوستوں اور بعض عزیز بچوں کی وفات کی خبریں ان دنوں بارش کی طرحپہنچیں ہیں.اوپر سے اپنی طبیعت کی بیماری اور کام کی کثرت نے ان کے اثر کو اور بھی زیادہ کردیا ہے.اس وقت بھی کہ مضمون لکھ رہاہوں بخار کی گرمی سے جسم پھنکاجارہاہے اور سردرد کر رہا ہے.نادان دشمن اعتراض تو کرتا ہے مگر اس کو کیا معلوم جو مجھے معلوم تھا اور ہے.اگر اسے وہ سب تکالیف معلوم ہوتیں جو مجھے معلوم تھیں وہ اپنے گھر سے قدم باہر نہ نکالتا.مگر افسوس! کہ بعض لوگ پیدائشی اندھے ہوتے ہیں.اور اپنی بینائی پر افسوس کرنے کی بجائے دوسروں پر تمسخر کرتے ہیں.خدا کرے کہ آئندہ کی آفات اور غموم سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے کہ اور رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے.والسلام خاکسار مرزا محموداحمد (الفضل ۱۶.اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۵۲۱ ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد پیدا کرنے کے ذرائع (اس لیکچر کا انگریزی ترجمہ ڈنچ ہال لندن میں مؤرخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء کو پڑھ کر سنایا گیا) أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد کے پیدا کرنے کے ذرائع صدر جلسہ، بہنواور بھائیو! گو میں ایک ایسا آدمی ہوں جس کی زندگی دینی کاموں کے لئے وقف ہے لیکن سیاست گومذہب میں داخل نہیں مگر کئی پہلوؤں سے اس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور چونکہ دنیا کے امن کا قیام مذہب کی سب سے بڑی غرضوں میں سے ہے جو کبھی قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ سیاسی امن بھی قائم نہ ہو- اس لئے میں نہایت ہی خوش ہوں کہ مجھے ہندوستان کے موجودہ حالات اور ان کے علاج کے متعلق بولنے کا موقع ملا ہے.میرا کسی پولیٹیکل پارٹی سے تعلق نہیں پیشتر اس کے کہ میں اپنے مضمون کو شروع کروں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے ہندوستان کی کسی پولیٹیکل جماعت سے تعلق نہیں ہے- بہت سے لوگ ہمیں گورنمنٹ کا خوشامدی کہتے ہیں لیکن جو شخص بھی ہمارے حالات سے واقف ہے جانتا ہے کہ ہماری پالیسی ایک آزاد پالیسی ہے- ہم جیسا موقع ہو گورنمنٹ کی پالیسی پر یا قوم پرستوں کی پالیسی پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے.مگر ہاں ہمارا یہ اصل ہے کہ ہمیں کبھی ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے کہ ملک کی قائم شدہ گورنمنٹ کے لئے کام کرنا مشکل ہوجائے ورنہ ہم گورنمنٹ سے نہ کسی انعام کے امیدوار ہوتے ہیں نہ پسند کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ملکی خدمات کے بدلے میں لوگوں کو انعام دے کیونکہ اس سے
۵۳۲ نیک نیتی کی خدمت کی روح مرجاتی ہے اور ملک کو انجام کار نقصان پہنچتاہے.ہندوستان کی جغرافیکل حالت اس تمہید کے بعد میں سب سے پہلے ہندوستان کی جغرافیکل اور سوشل حالت بیان کرنی چاہتا ہوں کیونکہ بغیر اس حالت کے علم کے کوئی شخص ہندوستان کے متعلق صحیح اندازہ نہیں لگاسکتا- ہندوستان ایک ایسا ملک ہے- جس کے شرقی اور شمالی طرف چینی حکومت ہے اور شمال مغربی طرف افغانستان کی حکومت- چینی حکومت گو خود ایسی نہیں ہے کہ اس کے ہندوستان پر حملہ کی امید کی جائے مگر چینی سرحد پر ایسی ریاستیں موجود ہیں کہ جو جنگی نسل کے لوگوں سے آباد ہیں اور اگر ہندوستان کسی وقت کمزور ہو جائے تو بعید نہیں کہ وہ ہندوستان کے بعض حصوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں جس طرح کہ وہ پہلے بھی کرتی رہی ہیں- افغانستان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کے لوگوں کو یہ یقین ہے کہ ہندوستانی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور پرانی روایات ان کے جوشوں کو قائم رکھتی ہے- افغان اپنے دل سے اس بات کو نہیں نکال سکتے کہ ہمیشہ ہندوستان شمالی حملہ آوروں کے حملوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا ہے- پس اگر ہندوستان میں حکومت طاقتور نہ ہو تو ہندوستان ہر وقت بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ نہیں ہے- ان حملوں کے علاوہ جو خشکی کی طرف سے ہوسکتے ہیں سمندر کی طرف سے بھی ہندوستان محفوظ نہیں ہے- او یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہندوستان میں حکومت کے کمزور ہونے پر سولھویں اور سترویں صدی کی دست درازیوں کا زمانہ پھر نہ آجائے گا اور بعض چھوٹے چھوٹے علاقے وسیع ہونے والی حکومتوں کے لئے بیج کاکام نہ دیں گے.قومی حالت قومی حالت ہندوستان کی یہ ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک محتلف قوموں کا جال پھیلا ہوا ہے- باہر سے آنے والی قوموں میں سے پٹھان سب سے زیادہ ہیں پھر سید ، مغل اور قریشی ہیں- ان کے علاوہ اور چھوٹی چھوٹی قومیں بھی ہیں- خود ہندوستان کی بہت سی قومیں ہیں- برہمن، راجپوت، مرہٹے، جاٹ گوجر، بنئے، ارائیں، کشمیری، ککے زئی- ان میں سے اکثر قوموں میں پھر تقسیم ہے یعنی مسلمان اور ہندو کی- ان قوموں کے علاوہ شودریا نجس اقوام بہت سی ہیں جیسے چوڑھے، چمار، گونڈ، بھیل، ناسودراز وغیرہ- یہ تمام قومیں ابھی تک اپنی علیحدہ ہستی کو قائم رکھے چلی جاتی ہیں اور ان میں ایسا قومی اتحاد ہے کہ کوئی خارجی اثر اس کو مٹا نہیں سکتا- ہندوستان کے الیکشن اس قدر لیاقت یا اصول کی بنیاد پر نہیں ہوتے جس قدر کہ قومیت کی بنیاد پر- جب کوئی شخص کسی لوکل یا امپریل
۵۲۳ انسٹی ٹیوٹ کی ممبری کے لئے کھڑا ہوتاہے سب سے پہلا سوال اس کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس علاقہ میں اس کی قوم کے اس قدر آدمی ہیں کہ اس کو جیتنے کی امید ہو- پچھلے الیکشن میں ہمارے ضلع سے سات آٹھ آدمی امیدوار کھڑے ہوئے تھے مگر وہی لوگ آخر تک رہ سکے جو قومی ووٹ رکھتے تھے- راجپوتوں نے راجپوت امیدوار کو گوجروں نے گوجروں کو اور پٹھانوں نے پٹھان امیدوار کو ووٹ دیئے- استثناء ہوتے ہیں مگر قانون یہی ہے.مذہبی حالت مذہبی حالت یہ ہے کہ ہندومسلم کا سوال ہمیشہ زور پر رہتا ہے گو بعض لوگ ایسے ہوں کہ ملکی فائدہ کو قومی فائدہ پر مقدم کریں مگر کثرت سے لوگ ایسے ہی ہیں کہ مذہبی تعصب کو دور نہیں کرسکتے- گورنمنٹ کے ہر صیغہ میں چھوٹے عہدوں کے متعلق جو مقامی طور پر دیئے جاتے ہیں یہ بات نظر آئے گی کہ مذہبی تعصب رونما ہوگا- مسلمان چونکہ تعلیم میں پیچھے رہ گئے تھے اس لئے لازماً سرکاری ملازمت میں بھی کم تھے- اب تعلیم یافتہ مسلمان بہت کثرت سے مل سکتے ہیں مگر ان کو ملازمت نہیں مل سکتی کیونکہ قومی تعصب ہمیشہ راستہ میں حائل ہوجاتا ہے- پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی باون فیصد سے بھی زیادہ ہے مگر سرکاری ملازمتوں میں وہ تیس فیصدی کے بھی حصہ دار نہیں ہیں- ٹیکنیکل کالجوں میں بھی ان کو داخلہ کا موقع نہیں ملتا جس وقت انگریزی حکومت کا سوال ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ عمدہ گورنمنٹ ،سلف گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتی.مگر جس وقت ملازمتوں کا سوال ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اصل معیار لیاقت ہے- کسی قوم کو بحیثیت قوم کے حکومت میں کوئی حق نہیں ہے مگر لیاقت کی تعریف ایسی غیر معین ہے کہ دوسری قوموں کے آدمی اس کا وجود اپنی ذات میں ثابت ہی نہیں کرسکتے- غرض سوائے نہایت محدود جماعت کے باقی لوگوں میں سخت تعصب کے آثار پائے جاتے ہیں.زبان کا سوال زبان کا سوال بھی نہایت پیچیدہ ہے- سلف گورنمنٹ کے لئے ایک سرکاری زبان کا ہونا ضروری ہے- ہندوستان میں بیسیوں زبانیں ہیں- علاوہ اردو کے جو پنجاب، یوپی، بہار، حیدرآباد، صوبہ سرحدی میں تو اچھی طرح سے بولی اور سمجھی جاتی ہے باقی ہندوستان کے صوبوں میں بھی کم وبیش اس کا رواج ہے- ہندی زبان ہے، بنگالی ہے، سندھی ہے، تامل ہے، ٹیلگو ہے، مالاباری ہے، اُڑیا ہے، کشمیری ہے، پشتو ہے، مرہٹی ہے، گجراتی ہے ان سب زبانوں میں سے اردو اور ہندی زبانوں کے متعلق اختلاف ہے کہ کونسی زبان ملکی زبان ہونی چاہیے- ہندو پورا زور لگاتے ہیں کہ ہندی زبان کو ملکی زبان قرار دیا جائے اور مسلمان اس بات پر مصر ہیں کہ
۵۲۴ اردو زبان اصلی قرار دی جائے اور اسی اختلاف میں پھر قومی اور مذہبی تعصب کا دخل ہے- ہندی کا زیادہ رواج ہندوؤں میں ہے اور اردو کا مسلمانوں میں- اگر ملک میں ہندی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا جاوے تو اکثر مسلمانوں کو ملازمت سے علیٰحدہ ہونا پڑے- کچھ دنوں سے بنگالی کی نسبت بھی کہا جاتا تھا کہ وہ بھی سرکاری زبان ہونے کی امیدواری کی خواہش رکھتی ہے- رواداری کا فقدان یہ تمام اختلافات مل کر ہندوستان کی طاقت کو نقصان پہنچا رہے ہیں مگر افسوس کہ ان اختلافات کو مٹانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ ان کو بڑھایا جاتا ہے- رواداری بالکل نہیں ہے- مختلف مذہب توالگ رہے خود ایک مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والوں میں ایک دوسرے سے انصاف کی امید نہیں ہوتی- ابھی ایک احمدیہ مشنری کو افغانستان میں صرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کیا گیا ہے- مجھے پرسوں ہی گورنمنٹ آف انڈیا کی تار ملی ہے جس میں انہوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ خالص مذہبی مخالفت کی وجہ سے مارا گیا ہے.مگر انسانی ہمدردی کا یہ حال ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی کالج دیو بند کے پروفیسروں نے جلسہ کرکے امیر افغانستان کو تار دیا ہے کہ اس نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے اور اس سے امید کی ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح کرے گا.ان اختلافات کی وجہ سے قومی فوائد کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے- مثلاً سود کا لین دین قریباً سب کا سب ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے- اس کا بہت بڑا اثر غربا پر پڑتا ہے جو مسلمان ہیں- گورنمنٹ بھی چاہتی ہے کہ کچھ اس کا تدارک ہو- مسلمان بھی چاہتے ہیں کہ یہ مصیبت ان کے گلے سے اُترے لیکن ہندو زمیندار بھی جو خود اس بلا کے پنجہ میں پھنسے ہوئے ہیں ہر ایک اس کوشش کا مقابلہ کرتے ہیں جو سود کو محدود کرنے کے لئے ہو اس لئے کہ اس کا زیادہ فائدہ مسلمانوں کو پہنچتا ہے- اس وقت سود کا ایسا خطرناک بوجھ جو غربا پر ہے کہ بعض دفعہ سو روپیہ لے کر لوگوں کو چار پانچ ہزار دینا پڑتا ہے- گورنمنٹ نے کوآپریٹو بنکوں کا سلسلہ شروع کیا ہے مگر اس کا زیادہ فائدہ پنجاب کے بعض علاقوں کو پہنچا ہے- یوپی، بہار وغیرہ کے علاقوں میں اب تک اس بلا سے لوگوں کو نجات نہیں ہوئی.ہندو برات اگر باجہ بجاتی ہوئی مسلمانوں کی مسجد کے سامنے سے گزر جائے تو وہ اس کو مارنے کو دوڑ پڑتے ہیں اور اگر مسلمان کسی ہندو مندر کے پاس سے اس طرح گزریں تو ہندو ان پر حملہ کرتے ہیں- محرم اور عید پر ہندو لڑپڑتے ہیں اور دسہرہ اور دیوالی پر مسلمان اور وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ
۵۲۵ فلاں پروسیشن فلاں گلی سے کیوں گزرا اور فلاں شخص اپنے کھانے کیلئے گائے کا گوشت کیوں لایا- دوسمجھدار قوموں کا ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے لڑنا کیا قابل تعجب نہیں ہے؟ ہندوستان زبردست جنگی طاقت کا محتاج ہے ان حالات کو دیکھ کر لازماً ماننا پڑتا ہے کہ ہندوستان ابھی مکمل سلف گورنمنٹ کے لئے تیار نہیں ہے- وہ ابھی ایک ایسی قوم کی مدد کا محتاج ہے جو اول تو زبردست جنگی طاقت رکھتی ہو- تاکہ اسے خشکی اور تری کے حملوں سے بچائے کیونکہ بوجہ جنگی سامانوں کی عدم موجودگی کے اور فنون جنگ سے ناواقفی کے ہندوستان ابھی اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتا.دوسرے وہ قوم ہندوستان سے باہر کی ہو تاکہ مختلف اقوام کے درمیان تو ازن کو قائم رکھ سکے اور کسی قوم کو اس کے خلاف یہ شکایت پیدا نہ ہو کہ وہ کسی کی رعایت کرتی ہے اور میرے نزدیک انگریزوں سے زیادہ اور کوئی قوم اس کے لئے مناسب نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ہندوستان کو جانتے ہیں اور ہندوستانی ان کو جانتے ہیں.دوسرا رخ یہ تصویر کا ایک رخ ہے مگر کبھی نتیجہ صحیح نہیں نکلتا جب تک کہ تصویر کے دونوں رخ نہ دیکھے جائیں- اس لئے ہم کو ہندوستان کے حالات کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے- ہندوستان میں اب مغربی تعلیم کا چرچا پھیلتا جاتاہے- وہ لوگ جو پہلے اس کو گناہ سمجھ کر اس کے قریب نہیں جاتے تھے اب ضرورت سے مجبور ہوکر اس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں- مغربی تعلیم کے ساتھ ہی مغرب کی سیاسی آزادی اور اقتصادی ترقی اورعلمی فروغ کا خوشنما منظر بھی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آرہا ہے- وہ جو کچھ کہ کتب میں پڑھتے ہیں اس کو جب اپنے گردوپیش نہیں دیکھتے تو قدرتاً ان کے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے اور جس طرح اس شخص کا حال ہوتا ہے کہ جو اپنا کام دوسروں سے کرانے کا عادی ہوتا ہے اور جب کام اس کے نزدیک خراب ہو تو بغیر اس امر پر غور کرنے کے کہ حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے وہ کام خراب ہوا ہے وہ اس کام کے کرنے والے کو برا کہنے لگتا ہے- اسی طرح ہندوستانیوں کے دلوں میں گورنمنٹ کے خلاف جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی سُستی کی وجہ سے کام درست نہیں ہوتے- پھر جبکہ وہ مغربی قوموں کی ترقی کے ساتھ ان کے حکومتی نظام پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کو یقین ہوجاتا ہے کہ مغرب کی ترقی کا اصل باعث اس کا نیابتی طریقہ حکومت ہے اور ان کے دلوں میں بھی ترقی کی اُمنگ پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی یورپ کی قوموں کی طرح حکومت میں دخل حاصل ہو
۵۲۶ اور یہ ان کی خواہش طبعی ہے- ان پر اس دلیل کا کچھ اثر نہیں ہوتا کہ تمہارا ملک تعلیم میں کم ہے کیونکہ وہ فوراً جواب دیتے ہیں کہ جس وقت مغربی ممالک کو آزادی حاصل ہوئی ہے اسی وقت کی نسبت ہماری تعلیم مغربی لوگوں سے کم نہیں ہے- دوسرا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ تعلیم ہمارے ہاتھ میں نہ تھی اگر تعلیم کم ہے تو اس کی جواب دہ گورنمنٹ ہے نہ کہ ہم- اسی طرح تو ایک قوم کو تعلیم میں پیچھے رکھ کر ہمیشہ کی غلامی میں رکھا جاسکتا ہے.اہل مغرب سے میل جول مگر تعلیم سے بھی زیادہ اثر کرنے والی چیز ان کا وہ بڑھنے والا تعلق ہے جو مغرب سے ان کو پیدا ہورہا ہے- جوں جوں ہندوستانی باہر نکلتے ہیں وہ مغربی طرز حکومت کو عملی صورت میں دیکھ کر اس قسم کی حکومت اپنے ملک میں بھی جاری کرنی چاہتے ہیں- آج ہزاروں لاکھوں آدمی ہندوستان کا مغربی ممالک میں پھیلا ہوا ہے حالانکہ ایک وقت وہ تھا کہ ایک ہندو اگر ملک سے باہر آتا تھا تو اس کی قوم اس کو فوراً قوم سے خارج کردیتی تھی کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان سے باہر جانے میں ہندو اپنے مذہب سے الگ ہوجاتا تھا- آج کوئی مغربی ملک نہیں جہاں ہندوستانی کے باشندے عارضی یا مستقل رہائش نہیں رکھتے- باہر آنے والے لوگ جو خیالات کہ ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ان کو واپس جا کر یا خطوں کے ذریعہ سے باقی ملک میں پھیلاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ روزمرہ ان لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے جو نیابتی حکومت کے خواہش مند ہیں.یہ لوگ جو ہندوستان سے باہر جاتے ہیں ان کے خیالات سے تین طرح متاثر ہوتے ہیں- اول باہر کی حکومتوں کو دیکھ کردوسرے اس وجہ سے کہ بعض جگہ پر ہندوستانیوں سے اچھا معاملہ نہیں کیا جاتا اور ان کے دلوں میں اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری اپنی حکومت ہوتی تو ہمیں اس طرح ذلیل نہ کیا جاتا اور اگر کوئی ہمیں ذلیل کرنے والی بات کربھی بیٹھتا تو فوراً ہماری حکومت ہماری مدد کرتی- تیسرے بعض مغربی حکومتو ں کے لوگ انگریزی حکومت سے عداوت کی وجہ سے ہندوستانیوں کے قومی جوش کو اُبھارنے کے لئے ہمیشہ ان ہندوستانیوں کو جو ان کے ملک میں جاتے ہیں یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تم لوگ کب معزز ہوسکتے ہو جن پر ایک چھوٹے سے جزیرہ کے لوگ حکومت کر رہے ہیں- دنیا میں دلیلیں اس قدر گہرا اثر نہیں کرتیں جس قدر کہ طعنے اثر کرتے ہیں اور یہ طعنے بہت سے ہندوستانیوں کے دلوں میں گہرے زخم پیدا کرچکے ہیں.
۵۲۷ گذشتہ جنگ کا اثر مگر سب سے زیادہ ہندوستانیوں کے خیالات کو بدلنے والی پچھلی جنگ ثابت ہوئی ہے- انگریزوں سے سب سے زیادہ ملنے کا موقع تعلیم یافتہ لوگوں کے بعدہندوستانی سپاہی کو ملتا تھا.مگر وہ ان روایات کے ماتحت جو نسلاً بعد نسلٍ چلی آتی ہیں انگریز سپاہی کی برتری کو تسلیم کئے چلا آتا تھا اور انگریز سپاہی اس سے الگ بھی رکھا جاتا تھا اور جو نئے سپاہی آتے تھے وہ اپنے سے پہلے سپاہیوں سے مل کر عام طور پر ہندوستانی سپاہی سے الگ رہنے کے عادی ہوجاتے تھے مگر اس جنگ نے نقشہ ہی بدل دیا- ہندوستان سے ایک وقت میں پانچ لاکھ آدمی کے قریب غیر ممالک میں رہا- اسے پہلے فرانسیسوں میں رہنے کا موقع ملا جنہوں نے موقع کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ان کی خوب خاطر کی- پھر اس کی جگہ کو بدل تو دیا گیا مگر پھر بھی کثرت سے انگریز سپاہیوں کے ساتھ اسے رہنے کا موقع ملا جو انگلستان سے تازہ وہاں گئے تھے اور ہروقت کے ساتھ رہنے اور جنگ کے خطرناک دنوں کے اثر کی وجہ سے اپنے ریزرو کو قائم نہیں رکھ سکتے تھے- پس ہندوستانی سپاہی جو پہلے صرف اطاعت اور ادب سے واقف تھا اسے معلوم ہوا کہ میرے بھی کچھ حقوق ہیں اور ہندوستانی طریق حکومت کے علاوہ دنیا میں اور بھی طریق حکومت ہیں- یہ لاکھوں آدمی جو ملک کے گوشہ گوشہ کے قائمقام تھے جب جنگ سے واپس گئے تو انہوں نے ان علاقوں میں بھی جہاں کہ تعلیم کی وجہ سے لوگ اس امر کے سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے کہ دنیا میں ایک سے زیادہ طریق حکومت بھی ہیں ان خیالات کو پھیلا دیا اور ہندوستان کی کثیر آبادی مغربی ممالک کے طریق حکومت کی باریکیوں سے واقف نہ تھی اور نہ ہے مگر اس امر کو خوب سمجھ گئی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں کے ذریعہ سے ملک پر حکومت کی جائے اور یہ کہ ساری دنیا کے پردے پر اسی حکومت کوبہتر سمجھا جاتا ہے.جنگ کا ایک اور بھی اثر ہوا- اس جنگ سے پہلے عام ہندوستانی یہ خیال کرتا تھا کہ انگریزوں کے برابر اور کوئی قوم نہیں- اس کے نزدیک سب دنیا مل کر بھی انگریزوں کو پریشان نہیں کرسکتی تھی اور وہ اس خیال پر ایسا مضبوط تھا کہ اس کے نزدیک انگریزوں سے حکومت ہند کا مطالبہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے چاند لینے خواہش کرنا لیکن جنگ میں جب اس کے گھر پر افسروں نے متواتر آنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اس وقت سرکار پر سخت مصیبت ہے ان کو سرکار کی مدد کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دینا چاہیے- جرمن نے بِلاوجہ سرکار انگریزی سے لڑنا شروع کردیا ہے.تو تمام ملک کی ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ دنیا میں
۵۲۸ ایک ہی حکومت نہیں ہے بلکہ اور بھی ہیں اورجوں جوں ریکروٹنگ پر زور دیا جانا شروع ہوا لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بڑھتا گیا کہ جرمنی کی حکومت انگریزوں سے زیادہ زبردست ہے اور یہ کہ ہندوستان ایسا کمزور نہیں ہے- اس وقت انگلستان اپنے بچاؤ کے لئے اس کی مدد کا محتاج ہے- جنگ سے پہلے لوگ اس قدر اخبار پڑھنے کے عادی نہ تھے لیکن جب ہرقصبہ سے لوگ جنگ پر جانے شروع ہوگئے تو ان کے عزیزوں ، رشتہ داروں نے قدرتاً اخباروں کامطالعہ شروع کیا تاکہ ان کو جنگ کے حالات معلوم ہوتے رہیں اور دل کو ایک حد تک تسلی رہے- اس اخباری مطالعہ سے ان کی عام علمیت میں بھی اضافہ ہوا مگر جنگی نقصانات کے حالات پڑھ کر اور یہ دیکھ کر کہ سب طرف سے جرمنی کا ہی شور ہے ان کے دلوں میں یہ خیال اور بھی مضبوط ہوگیا کہ انگریزی حکومت ایسی مضبوط نہیں جیسی کہ وہ سمجھتے تھے بلکہ ان کے توہمات نے جرمنی کی طاقت کے ایسے نقشے کھینچ دیئے کہ ان کو سن کر انسان حیران ہوجاتا ہے- پھر ان اخباروں کے ساتھ ساتھ وہ قومی آزادی کے مضمون بھی پڑھتے رہتے جو اخباروں میں چھپتے تھے اور اس سے ان کی سیاسی دلچسپی ترقی کر گئی- عوام الناس پر تو یہ اثر پڑا- تعلیم یافتہ طبقہ پر جنگ کا یہ اثر پڑا کہ جنگ کے دوران میں اس مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا گیا کہ کسی حکومت کو حق نہیں کہ وہ کسی ملک کی آبادی کی مرضی کے خلاف اس پر حکومت کرے اور اس پر اس قدر زور دیا گیا کہ یہ اصل ایک ازلی مذہبی اصل کی طرح مقدس ہوگیا- ہندوستان کے بعض ہوشیار سیاسی لیڈروں نے خوب پھیلا پھیلا کر اس اصل کو شائع کیا اور اس موقع کی انتظار بڑے شوق سے کرنے لگے جبکہ اس اصل کو استعمال میں لایا جائے گا.خلاصہ یہ کہ جنگ کے دوران میں ہندوستان کا سیاسی مطلع بالکل بدل گیا- اور دوسرے طبعی حالات سے مل کر اس نے ہندوستان میں ایسا تغیر پیدا کردیا ہے کہ انسان اس کو دیکھ کرحیران رہ جاتا ہے- اس تغیر نے لوگو ں کے اندر سلف گورنمنٹ کی ایک پوشیدہ خواہش پیدا کردی جس کے اُبھر نے کے لئے کسی تحریک کی ہی ضرورت تھی- جنگ کے بعد کی حالت جنگ کے ختم ہوتے ہی ایسے سامان پیدا ہونے لگے کہ یہ تحریک بھی پیدا ہوگئی- جنگ کے بعد لاکھوں آدمی جو جنگی کاموں پر مقرر تھے فارغ ہوگئے اور ان کو اپنے گھروں میں واپس آکر کام نہ ملے جن سے ان کا ایسا گزارہ ہوسکتا جس کے اب وہ عادی ہوچکے تھے- دوسرے ریکروٹنگ کے وقت لوگوں کو بہت
۵۲۹ امیدیں دلائی جاتی تھیں کہ ان کو بہت سے فوائد ہوں گے اور چونکہ چند سال پہلے سرگودھا اور لائل پور میں آبادی کی خاطر گورنمنٹ نے لوگوں کو مربعے دیئے تھے حتیّٰ کہ بعض دفعہ اس وجہ سے دیئے تھے کہ فلاں شخص نے گاؤں میں چیچک کا ٹیکا لگوایا تھا- ہر ایک شخص جو جنگ کو جاتا تھا اسے یہ امید تھی کہ وہاں سے آتے ہی اسے کم سے کم ایک مربع زمین کا ضرور ملے گا- گورنمنٹ کے پاس اس قدر زمین نہ تھی کہ سب کو خوش کرسکے اس لئے واپس آنے والے سپاہیوں میں بے چینی پیدا ہوگئی- اسی طرح جب صلح کی تجویز شروع ہوئی اور تعلیم یافتہ ہندوستانی جو یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ صلح کے ہوتے ہی بہت کچھ ہندوستان کو مل جائیں گے اس امید کے بر نہ آنے پر برافروختہ ہوگئے- اگر مختلف ناموں کے ماتحت بعض اور ڈومینیز کو فائدہ نہ پہنچتا تو یہ ہندوستانیوں کو اس قدر محسوس نہ ہوتا مگر چونکہ گو لفظاً اقرار نہ کیا جاتاہو مگر فی الواقع جنگ میں تعاون کی وجہ سے بہت سی نوآبادیوں کو فائدہ پہنچا اور اس کا اثر ہندوستان پر بہت ہی برا پڑا اور اس کا نقطہ نگاہ بالکل بدل گیا- حصول سَوَراج کی خواہش رولٹ ایکٹ ۴۴؎ اور تحریک خلافت ایسے بہانے بن گئے جن کی وجہ سے پوشیدہ خواہشات جو ملک میں پیدا ہورہی تھیں بیدار ہوگئیں اور ایک سرے سے دوسرے تک لوگ سلف گورنمنٹ کی نہ پوری ہونے والی امید کے حصول کے لئے کھڑے ہوگئے اور تمام مذکورہ بالاامور نے اس خواہش میں عوام الناس کو بھی شامل کردیا میرے نزدیک ہندوستان میں امن کبھی قائم نہیں ہوسکتا جب تک انگلستان کے لوگ ان امور کو مدنظر نہ رکھیں جو ہندوستان میں بے چینی پیدا کرنے کا موجب ہیں اور وہاں کی اصل حالت سے واقف ہوں.اور میں آپ لوگوں کو بڑے زور سے اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب سلف گورنمنٹ کی تحریک صرف شہروں اور تعلیم یافتہ لوگوں تک محدود نہیں ہے.بلکہ یہ تحریک گاؤں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں پھیل گئی ہے- عورتیں جو ہندوستان میں بہت ہی کم تعلیم رکھتی ہیں وہ بھی اس سے واقف ہوگئی ہیں- چونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جنگ نے ہر ایک گاؤں کو طلباءپا لیٹکس کا ایک سکول بنادیاہے- یہ بالکل درست ہے کہ عوام الناس اس امر کی حقیقت کو نہیں سمجھتی کہ سلف گورنمنٹ کی حقیقت کیا ہے مگر اس امر سے اس حقیقت میں کوئی فرق نہیں آتا کہ ملک کا بیشتر حصہ اس تحریک سے متفق ہے- وہ سَوَراج کو ۴۵؎ کوجانتا ہے یا نہیں جانتا مگر وہ اس کو حاصل ضرور کرنا چاہتا ہے-
۵۳۰ موجودہ حالت میں سب سے بڑی تباہی ان حالات کو جب دیکھا جائے تو مجبوراً ماننا پڑتا ہے کہ ہندوستان کی اس خواہش کا کچھ علاج ضرور ہونا چاہیے ورنہ قیام امن مشکل ہوگا.مگر میں جو حالات پہلے حصہ مضمون میں بتلا آیا ہوں وہ اس کے مخالف ہیں کہ ہندوستان کو موجودہ وقت میں سَوَراج ملے- جو قومیں اس وقت ایک دوسرے سے انصاف نہیں کرسکتیں اور ایک معمولی سے اشتعال پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار ہوجاتی ہیں وہ اس وقت کیا کریں گی جب انگریز واپس جاویں اور ان کو کامل اختیارات حاصل ہوجائیں- میرے نزدیک ہندومسلمان بھی اپنے دلوں میں اس امر پر خوب سمجھتے ہیں لیکن ان میں سے کم سے کم اک حصہ اپنے دلوں مں اس امر پر خوش ہے کہ ہم طاقتور ہیں- انگریزوں کے باہر نکلتے ہی ہم حکومت پر قابض ہوجائیں گے- مسلمانوں کو اپنی طاقت اور ہمسایہ مسلمان حکومتوں پر گھمنڈ ہے- ہندوؤں کو اپنی تعداد اور بعض ہمسایہ بدھ حکومتوں پرگھمنڈ ہے- نہایت دبی آوازوں میں ہم گو رکھا اور سکھ سپاہی اور پٹھان سپاہی کی طاقت اور قابلیت کے موازنے سنتے ہیں اور میرے نزدیک ہندو قوم اب ایسی منظم ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کے دعوے ایک ورثہ میں ملے ہوئے خیال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے- پس میرے نزدیک موجودہ حالات میں سب سے بڑی تباہی ہندوستان کے لئے یہی ہوسکتی ہے کہ انگریز اپنا قدم وہاں سے ہٹالیں- سلف گورنمنٹ اچھی چیز ہے مگر وہ سلف گورنمنٹ جو سلف ڈسٹرکشن کی طرف لے جائے ہرگز قابل پسند نہیں.مگر ہمارا یہ فیصلہ کہ اس وقت کے سوشل حالات ہندوستان کو سلف گورنمنٹ دلانے کی تائید نہیں کرتے کافی نہیں ہوسکتا کیونکہ خواہش پیدا ہوچکی ہے اور عام بھی ہوچکی ہے اور اگر اس خواہش کو کسی طرح ٹھنڈا نہ کیا گیا تو اس سے مایوسی پیدا ہوگی.اور اس کے نتیجہ میں پھر مایوسی کا نتیجہ یا ہلاکت نفس ہوتی ہے یا ہلاکت غیر- پس سلف گورنمنٹ دی جائے یا نہ دی جائے دونوں صورتوں میں ہلاکت ہندوستان کا منہ تک رہی ہے اور برٹش ایمپائر کے بہی خواہوں کا فرض ہے کہ وہ اس کا علاج سوچیں کیونکہ ہندوستان کی ہلاکت میں ایمپائر کی ہلاکت ہے اور برٹش ایمپائر کے بدخواہ ابھی سے اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں.ریفارم سکیم بعض لوگ کہتے ہیں کہ مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارم سکیم ۴۶؎ اس کا علاج ہے- میرے نزدیک جن اصول پر اس رپورٹ کی بنیاد ہے اور جس نیت سے یہ تیار کی گئی ہے وہ قابل تعریف ہے.مگر میرے نزدیک اس سکیم میں بعض اصولی غلطیاں ایسی رہ گئیں
۵۳۱ کہ یہ سکیم اپنی موجودہ حالت میں ہندوستان کی بیماری کا علاج نہیں ہے میرا یہ مطلب نہیں کہ اس سے زیادہ اختیارات ہندوستانیوں کو دینے چاہئیں جو یہ سکیم دیتی ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جس طریق سے اختیار دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں بلکہ ان سے فساد پیدا ہوتا ہے- جس وقت اس سکیم کو رائج کیا گیاہے اس وقت اس کے متعلق میری رائے بھی لی گئی تھی اور میں نے جو رائے اس وقت دی تھی گو اس وقت کے حالات کے ماتحت کہ حکام میں ایک تسلی کی روح پھیلی ہوئی تھی قبولیت کے قابل نہیں سمجھی گئی تھی.مگر بعد کے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ میری رائے درست تھی- ریفارم سکیم نے ایک یہ اصل قرار دیا ہے کہ ہندوستانی ایلیکٹڈ (Elected) ممبر کونسلوں میں زیادہ ہونے چاہئیں- میرے نزدیک یہ غلط اصل تھا اور ایجی ٹیشن کی بنیاد یہیں سے رکھی گئی ہے- میں نے اعتراض کیا تھا کہ ضرور ہے کہ مختلف موقعوں پر ہندوستانی ممبر گورنمنٹ کی رائے کے خلاف ہوں جب وہ خلاف ہوں گے اور گورنمنٹ کے مسودہ کو رد کردیں گے یا اس کی رائے کے خلاف کوئی مسودہ پاس کریں گے اور گورنمنٹ اس کو قبول نہ کرے گی تو یقیناً ملک کے لوگ ہندوستانی ممبروں کے ساتھ ہوں گے اور اسی سے ایجی ٹیشن پیدا ہوگا اور اگر اس ایجی ٹیشن کے ذریعہ گورنمنٹ اس کو قبول کرلے گی تو گویا وہ خود اس اصل کو باطل کر دے گی کہ ابھی کچھ عرصہ کے لئے ہندوستانی کامل سلف گورنمنٹ کے قابل نہیں ہیں- ویٹو صرف اس جگہ کام دیتا ہے جہاں یہ تسلیم کرلیا جاتاہے کہ گو دارالنواب حکومت کی قابلیت رکھتا ہے- لیکن کسی غیر معمولی موقع کے خیال سے ویٹو کا دروازہ کھلا رکھاجاتا ہے اور چونکہ وہ شاذونادر ہوتا ہے اس لئے اس پر ملک اس قدر برافروختہ نہیں ہوتا مگر جہاں اعلیٰ اتھاریٹز اس امر کو تسلیم کرتی ہیں کہ ابھی دارالنواب حکومت کے قابل نہیں وہاں اس کو اختیار دے کر ویٹو سے بد نتائج کو روکنے کی کوشش کرنا گویا خود فساد پیدا کرنا ہے- غرض ویٹو کا طریق اسی وقت بغیر فساد پیدا کرنے کے کام دے سکتا ہے جب کہ واضعانِ قوانین اس امر کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ جن لوگوں کے خلاف اس کو استعمال کرنا ہے وہ فیصلہ کرنے کی پوری قابلیت رکھتے ہیں اور ان کے فیصلہ کے خلاف اس کو استعمال کرنے کا موقع یا توبالکل نہیں ملے گا یاشاذونادر کبھی ملے گا.اسی طرح ایجی ٹیشن کا دروازہ بھی اسی وقت کھولا جاسکتا ہے جب کہ وہ حکام جن کے خلاف اس کو استعمال کیا جائے رائے عامہ کے ماتحت بدلے جاسکتے ہوں- اس وقت بے شک
۵۳۲ دورہ یورپ ایجی ٹیشن ایک عمدہ ذریعہ ہے عام رائے کے نفاذ کا مگر جب کہ حکام عام رائے کے ماتحت تو بدلے نہ جا سکتے ہوں پھر ایجی ٹیشن سوائے ریولیوشن اور کیا نتیجہ پیدا کرسکتا ہے- جب حکام عام رائے کے ماتحت ہوتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ عام رائے صحیح ہے یاغلط بلکہ جو عام رائے ہو وہ اس کی اتباع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں نہیں تو کام سے علیٰحدہ ہو کر ان لوگوں کو موقع دیتے ہیں جو عام رائے سے متفق ہیں.مگر جو حکام عام رائے کے ماتحت نہیں وہ اگر دیانت دار ہوں تو عام امور کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کیا وہ بات ملک کے لئے مفید بھی ہے یا نہیں اگر وہ کسی بات کو ملک کے لئے مضر پاتے ہیں تو اس کو رد کردیتے ہیں- ایسے لوگوں کے خلاف اگر ایجی ٹیشن ہو اور حکام اور عام رائے میں اتفاق رائے نہ ہوسکے تو اس کا لازمی نتیجہ ریولیوشن ہوگا- میرے نزدیک ریفارم سکیم بناتے وقت اس امر کو اس کے واضعین نے بالکل نظر انداز کردیا ہے اور انگلستان کی موجودہ حالت پر قیاس کرکے ایجی ٹیشن کو ریولیوشن کا ذریعہ سمجھ لیا ہے حالانکہ ہندوستان میں ملک کی عام رائے کو گورنمنٹ کے مقرر کرنے یا الگ کرنے میں کوئی دخل نہیں ہے- اس وجہ سے وہاں ایسا طریق حکومت جو لازماً ایجی ٹیشن پیدا کرتا ہو یقیناً رنجش یا ریولیوشن ان دومیں سے ایک نتیجہ پیدا کرے گا.کیا ہونا چاہئے تھا؟ میری رائے یہ تھی اور اب بھی ہے کہ کونسلوں میں کثرت رائے گورنمنٹ ممبروں کی ہونی چاہیے تھی لیکن گورنر جنرل اور گورنروں کو ہدایت ہونی چاہیے تھی کہ جب ایسے معاملات پیش ہوں جن کی نسبت گورنمنٹ سمجھتی ہو کہ کوئی فیصلہ بھی کونسل کرے وہ اس پر عمل کرسکیں گے- ان میں گورنمنٹ ممبر ووٹ نہ دیں اور پبلک رائے پر اس معاملہ کو چھوڑ دیں جو معاملات زیادہ اہم نہ ہوں لیکن ان کا اثر گورنمنٹ پر بھی پڑتا ہو.ان میں گورنمنٹ ممبروں کو آزاد چھوڑ دے کہ وہ اپنی ذاتی رائے کے مطابق عمل کریں اور جس امر میں گورنمنٹ یہ سمجھے کہ وہ اپنے نقطہ نگاہ کو نہیں بدل سکتی ان میں کثرت رائے سے جو اس کی ہوگی فیصلہ کرے- اس امر کو نہیں بھولنا چاہیے کہ انسانی فطرت ہر وقت زندہ رہتی ہے اور عقل اور دلیل اس پر پورے طور سے غالب نہیں آسکتی ملک پر اس کا اثر بالکل اَور پڑتا ہے کہ اس کی منتخب کردہ جماعت ایک فیصلہ کرے اور اس کو ردّ کردیا جائے اور اس کا اثر اَور پڑتا ہے کہ ایک کونسل جس میں خواہ گورنمنٹ کے ممبر ہی ہوں کثرت رائے سے ایک مسودہ کو ردّ کردے یا پاس کردےدوسرا نقص ریفارم سکیم میں یہ رہ گیا ہے کہ اس میں کامل اختیار ہندوستانیوں کو کسی
۵۳۳ صیغہ میں بھی نہیں ملے اور جرح کرنے کا اختیار ہر صیغہ میں مل گیا ہے- بغیر ذمہ داری کے تنقید کرنا بالکل آسان ہوتا ہے- ذمہ داری انسان کو بہت محتاط بنادیتی ہے- نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندوستانیوں کے لئے تسلی کی صورت کوئی پیدا نہیں ہوئی اور رنج کی صورتوں کے نکلنے کے لئے دروازہ کھول دیا گیا ہے- میر امشورہ یہ تھا کہ دوصیغے مثلاً تعلیم اور جنگلات یاتعلیم اور کوئی اَور صیغہ کلی طور پر ہندوستانیوں کو سپرد کردیا جائے صوبوں میں بھی اور مرکزی حکومت میں بھی ان صیغوں میں ہندوستانی وزراء، گورنران اور گورنر جنرل سے مل کر کام کریں اور وزراء پورے طور پر کونسلوں کے ماتحت ہوں- اگر کونسلیں وزراء کے کام پر خوش نہ ہوں وہ کام سے علیٰحدہ ہوجائیں.جس طر ح کہ مغربی ممالک میں ہوتا ہے- اس کے کئی فائدے تھے- اول تو یہ کہ ہندوستانیوں کو بغیر حکومت کو کوئی معتدبہ نقصان پہنچانے کے حکومت کا تجربہ ہوجاتا- دوسرے ان کو یہ تسلی ہوتی کہ بعض صیغوں میں ان کو اپنی لیاقت اور حسن انتظام کا موقع مل گیا ہے- تیسرے ملک کو بھی ممبران کونسل کے کام دیکھنے کا موقع ملتا اور صحیح اصول پر سیاسی پارٹیوں کی نشو ونما کا راستہ کھل جاتا- اب چونکہ ذمہ داری کوئی نہیں صرف تنقید ہی ان کاکام ہے اس لئے سب ملک ان کے کام کی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے ہندوستانی ہونے کے سبب سے ان کی تائید کرنے لگتا ہے- چوتھے وزراء چونکہ کونسلوں کے سامنے ذمہ دار ہوتے ان کو اپنے ہم خیال بنانے اور ان کو ساتھ ملائے رکھنے کا خیال رہتا اور مختلف خیالات میں توازن قائم رہتا- اب یہ ہوتا ہے کہ وزراء گو ملکی ہوتے ہیں مگر چونکہ کونسل کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے اس لئے دوسروں کی دلجوئی اور ان کو اپنے ساتھ رکھنے کی پوری کوشش نہیں کرتے اور اس کا بداثر گورنمنٹ کی نیک نامی پر پڑتا ہے- پانچواں زبردست یہ فائدہ تھا کہ اس سے غیر ذمہ دارانہ تنقید کا دروازہ آسانی سے بند کیا جاسکتا تھا- اسی وقت اور انہیں معاملات میں مؤثر تنقید کاموقع کونسلوں کو دیا جاتا جب اور جن معاملات کی نسبت خیال کیا جاتا کہ ان کو ہندوستانیوں کے سپرد کردینے میں کوئی حرج نہیں.آئندہ سلف گورنمنٹ کی ترقی کے مدارج اختیارات کی زیادتی میں نہ ہوتے بلکہ صیغوں کی زیادتی میں ہوتے- رفتہ رفتہ پھر جو صیغے محفوظ سمجھے جاتے وہ ہندوستانیوں کو دے دیئے جاتے- اس طرح گورنمنٹ اور رعایا کے تعلقات بھی درست رہتے اور فرقوں کوآپس میں نیک سلوک کرنے کا موقع ملتا.
۵۳۴ اب کیا کیا جائے؟ مگر چونکہ ایک اصول پر ریفارم سکیم کی بنیاد پڑچکی ہے اور ان سے اس کو ہٹانا شاید اصول سیاست کے خلاف سمجھا جائے.اس لئے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک مندرجہ ذیل امور قابل غور ہیں جن کے علاج سے موجودہ شورش میں کچھ کمی ہوسکتی ہے- پیشتر اس کے کہ میں علاج بتاؤں میں موجودہ شورش کی نسبت آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں- اس وقت ہندوستان میں حد اعتدال سے باہر دو پارٹیاں ہیں اور یہ دونوں پارٹیاں عدم تعاون کے عنوان کے نیچے کام کرتی ہیں- ان میں سے ایک مسٹر گاندھی کی پارٹی ہے جس کا یہ خیال ہے کہ گورنمنٹ سے کلی طور پر عدم تعاون کرنا چاہیے- نہ کونسلوں میں جانا چاہیے، نہ اس کے اسکولوں میں داخل ہونا چاہیے، نہ اس کی عدالتوں میں جانا چاہیے- دوسری پارٹی کے لیڈر داس اور نہرو ہیں اول الذکر بنگال کے اور ثانی الذکر یوپی کے مشہور وکیل ہیں- ان کی پارٹی کا یہ خیال ہے کہ ہمارے نان کو آپریٹ کرنے سے گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا جب کہ دوسرے لوگ ایسے موجود ہیں جو گورنمنٹ سے کوآپریٹ کرنے کے لئے تیار ہیں- اس لئے ان کے نزدیک ایسی کو آپریشن جس کا آخری نتیجہ مؤثر نان کو آپریشن ہوجائے جائز ہے اور اس اصل کے ماتحت یہ لوگ کونسلوں میں داخل ہوئے ہیں اور ان کی ایک غرض تو اس سے یہ ہے کہ انگلستان کے لوگوں پر ثابت کردیں کہ یہ امر غلط ہے کہ ملک کی رائے ان کے خلاف ہے- چنانچہ کثرت سے ان لوگوں کے نامزد کردہ ممبر کامیاب ہوئے ہیں سوائے پنجاب کے جہاں ان کو بہت ہی کامیابی ہوئی ہے- دوسری غرض ان کی یہ ہے کہ جو لوگ گورنمنٹ سے کوآپریٹ کرنا چاہتے ہیں ان کو جہاں تک ہوسکے کونسلوں سے نکال دیں تاکہ گورنمنٹ اور رعایا کا تعلق کمزور ہوجائے- تیسری غرض ان کی یہ ہے کہ کوآپریٹرز کو نان کوآپریشن پر مجبور کریں اور وہ اس طرح کہ جب کوئی ایسا موقع آئے کہ جس میں ان کی رائے اعتدال پسندوں سے مل جائے تو اس وقت گورنمنٹ کو شکست دے کر اس کے غیر مقبول ہونے کو ظاہر کریں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کونسلوں میں داخل ہونے کے بعد جو لوگ پہلے اشتراک فی العمل کے حامی تھے مگر اب ان کے داخل ہونے کے سبب سے چونکہ ان کی اور نان کوآپریٹروں کی خدمات کا مقابلہ کرنے کا ملک کو موقع ملتا ہے اس لئے وہ اس پالیسی کو اختیار نہیں کرسکتے اور ان کو اپنی عزت اور اپنے نام کے
۵۳۵ خیال سے مجبوراً اس پہلی سودا کرنے والی پالیسی کو ترک کرنا پڑا ہے- نتیجہ اس کا یہ ہوا ہے کہ ریفارم سے جو فائدہ مدنظر تھا وہ نکلتا نظر نہیں آتا جیسا کہ سی پی، بنگال اور امپیریل کونسل کے واقعات سے ظاہر ہے- اگر گورنمنٹ باربار پرانی کونسلوں کو منسوخ کرکے نئے انتخاب کرے گی تو تب بھی ان لوگوں کا فائدہ ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی توجہ اس پارٹی کی طرف اور بھی پھرے گی اور اگر گورنمنٹ کونسلوں کو موقوف کر کے خود کام کرے گی تب بھی ان کا فائدہ ہے کیونکہ اس صورت میں ہ پارٹی لوگوں سے کہے گی کہ دیکھ ہندوستان کو کوئی اختیارات نہیں دیئے گئے تھے.جب کوئی بات گورنمنٹ کی رائے کے خلاف ہوئی اس نے کونسلوں کو ہی توڑدیا.پس اختیارات صرف دکھاوے کے تھے.میرے نزدیک موجودہ حالات میں گورنمنٹ کے لئے اصل میں تو یہی راستہ کھلا ہے کہ ریفارم سکیم کی اصلاح کرکے اس کے بدنتائج سے محفوظ ہو.لیکن اگر یہ قابل عمل نہ سمجھاجائے تو پھر یہ چاہیے کہ جس ذریعہ سے لوگوں کو کامیابی ہوئی ہے اسی ذریعہ کو گورنمنٹ بھی اختیار کرلے اور وہ ذریعہ جو انہوں نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ وہ پبلک کے پاس اپیل کرتے ہیں- گورنمنٹ کو بھی یہی ذریعہ اختیار کرنا چاہیے اور یہ موقع سب سے بہتر ہےاس وقت ملک کے لوگوں میں بین الاقوام فسادات کی وجہ سے یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ ان کو برطانوی گورنمنٹ کی ابھی ضرورت ہے- پس اس وقت اگر گورنمنٹ عوام الناس کی طرف توجہ کرے تو وہ ملک کو اس سڑک پر ڈال سکتی ہے جس سے وہ کامیابی کا منہ دیکھ سکے- مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ گورنمنٹ کچھ مدت سے سوئی ہوئی ہے جس وقت ہندو مسلمانوں میں فسادات شروع ہی ہوئے تھے مَیں نے پچھلے سال کے نومبر میں پنجاب گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی کہ ملک میں فساد ہمیشہ نہیں رہ سکتا.کچھ دن فساد ہوگا پھر لوگ اکٹھے ہوجائیں گے اور مسٹر گاندھی اس موقع کو کبھی نہیں جانے دیں گے اور لوگ یہ خیال کریں گے کہ اصل خیر خواہ ملک کے مسٹر گاندھی ہیں- پس گورنمنٹ کو چاہیے کہ اس وقت خود دخل دے کر ہندو ستان کے جھگڑے کو ختم کردے اور میں نے اس کے لئے اپنی جماعت کی خدمات بھی پیش کی تھیں کہ ہم پہلے طرفین کے خیالات معلوم کرکے ابتدائی کام کرسکتے ہیں.اگر ایسا ہوجاتا تو یقیناً لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جاتی کہ گورنمنٹ ملک کی سچی بہی خواہ ہے اور عوام الناس جو اِن جھگڑوں سے دل ہی دل میں تنگ ہیں اس کو ایک احسان سمجھتے مگر گورنمنٹ نے مجھے یہ جواب دیا کہ اگر ہم صلح
۵۳۶ کرانے کی کوشش کریں گے تو لوگ اس کو بدنیتی پر محمول کریں گے- ایک حقیقی فائدہ کو نظر انداز کرکے ایک خیالی خطرہ کی اتباع کرنا صرف بُزدلوں کی علامت ہے- اب مسٹر گاندھی نے فاقہ کشی کا ڈراوا دیا اور یقیناً ملک کے اکثر لوگ محسوس کریں گے کہ گورنمنٹ فساد چاہتی تھی مگر مسٹر گاندھی نے اپنی جان کی قربانی دے کر ملک کو بچایا.انگریز افسر کیسا ہو گو بہت سی باتیں ہیں جن کی اصلاح سے موجودہ حالت کو بدلا جاسکتا ہے مگر ان کو ایک لیکچر میں بیان نہیں کیا جاسکتا- اس لئے میں صرف ایک بات کو بیان کردیتا ہوں اور وہ گورنمنٹ سے نہیں بلکہ اقوام سے تعلق رکھتی ہے.میرے نزدیک اس وقت سب سے زیادہ جو اس فساد کی اصلاح میں مدددے سکتا ہے وہ فرد ہے نہ کہ گورنمنٹ- انگریز افسر جو ہندوستان کو بھیجا جاتا ہے اس کے ذہن میں اس بات کو خوب اچھی طرح ڈالنا چاہیے کہ اب ہندوستان کے احساسات بدل گئے ہیں اب ایک حاکم باپ کی طرح حکومت نہیں کرسکتا اب وہ ایک بھائی کی طرح اپنی بات منوا سکتا ہے- آج سے پہلے ہندوستانی انگریز افسر کو ماں باپ کہتا تھا اب وہ باہر کے خیالات سے متاثر ہوکر اس کو بھائی کی شکل میں دیکھنا چاہتاہے اور چاہیے کہ انگریز افسر جو ہمیشہ اپنے ملک کے فوائد کو مدنظر رکھ کر ضرورت زمانہ کے مطابق اپنے حالات بدلتا رہا ہے اب برادرانہ سلوک کو اختیار کرے اور عوام الناس میں مل کر رہے- وہ لوگوں سے زیادہ تعلق پیدا کرے- وہ اپنی افسریت کے خیال کو ترک کرکے اصرار اور سمجھانے سے کام لے وہ ان کی دعوتوں، ان کی مجلسوں اور ان کی خوشیوں اور غمیوں میں شامل ہو اور اس پرانے ریزرو کو جس کا وہ وہ عادی رہا ہے ترک کردے تاکہ ہندوستانی اسے صرف اپنا خیر خواہ ہی نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنے میں سے ہی ایک خیال کریں.انگلستان کے اخبارات کیا کریں اسی طرح چاہیے کہ انگلستان کے لیکچرار اور اخبار اپنی تقریروں اور تحریروں میں ہندوستانیوں کے احساسات کاخیال رکھیں بعض معمولی باتیں بڑے نتائج پیدا کردیتی ہیں- میرے نزدیک اس قدر ایجی ٹیٹر کو کسی اور چیز نے فائدہ نہیں دیا جس قدر کہ بعض انگریزی لیکچراروں کی تقریروں اور بعض نامہ نگاروں کی تحریروں نے- ایک ہندوستانی جس وقت یہ پڑھتا ہے کہ اس کے ہم وطنوں کو بُرا کہا جاتا ہے یا ان کی نسبت یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ملک کی رائے ان کے ساتھ نہیں ہے تو طبعاً وہ ان کی طرف کھِنچ جاتاہے اور اگر وہ پہلے ان کا مخالف تھا تو اب ہمدرد ہو جاتا ہےپس میں آپ لوگوں
۵۳۷ سے یہ درخواست کروں گا کہ ہندوستانی طبیعت کا زیادہ مطالعہ کریں اور اپنی تقریروں اور تحریروں اور سلوک میں ہندوستانیوں کے احساسات کا ٰخیال رکھیں- مجھے تعجب آتا ہے جب کہ انگریزوں سے میں یہ سنتا ہوں کہ ہندوستانی انگریزوں کی طبیعت کا مطالعہ نہیں کرتے- میں مانتا ہوں کہ یہ درست ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ انگریز ہندوستانی کی طبیعت کا بہت ہی کم مطالعہ کرتے ہیں.جس قوم کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ہو اس کا فرض ہے کہ وہ پہلے قدم اُٹھائے- پس چاہیے کہ برطانیہ کے لوگ ہندوستانیوں کی طبیعت کا گہرا مطالعہ کریں پھر ان سے ہمدردانہ معاملہ کریں اس سے لازماً ہندوستانیوں کی بدظنیاں دور ہوجائیں گی اور طبائع اس امر کے لئے تیار ہوجائیں گی کہ ٹھنڈے دل سے ان اختلافات کے دور کرنے کیلئے باہم بیٹھ کر غور کر سکیں جن کی موجودگی دونوں قوموں کو تکلیف دے رہی ہے.اگر تھوڑی سی احساسات کی قر بانی، اگر تھوڑا سا جذبات کو دبانا ہندوستان کے ہیرے کو جو برٹش تاج کی زینت رہا ہے مگر اس وقت اپنی جگہ سے ہل رہا ہے پھر اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم کردے تو کیا آپ لوگ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے؟ مجھے یقین رکھنا چاہیے کہ ضرور ہوں گے.)الفضل یکم نومبر ۱۹۲۴ء)
۵۳۸ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیم (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کالیکچرجو ۲۸ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو لندن میں بزبان انگریزی پڑھا گیا) أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر صدر جلسہ ! میرے عزیز نوجوانان ِانگلستان!بہنو اور بھائیو!!!مجھے نہایت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے اس شخص کے حالات اور تعلیم بیان کرنے کا موقع دیا ہے جو انسانوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور عزیز ہے اور جو نہ صرف بڑی عمر کے لوگوں کا راہنما ہے بلکہ چھوٹے بچوں کا بھی راہنماہے.ہر انسان کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور کئی نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھ کر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے.میں آج رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی اور آپؐ کی تعلیم کے متعلق اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے روشنی ڈالوں گا کہ نوجوان اور بچے اس سے کیا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟ آپ ﷺکی جائے پیدائش تیرہ سو سال سے زیادہ کاعر صہ ہوا کہ ۲۰ اپریل ۵۷۱ء کو عرب کے ملک میں بحیرہ احمر کے مشرقی کناروں کے قریب ساحل سمندر سے ۴۰ میل کے فاصلہ پر مکّہ نامی گاؤں میں ایک لڑکا پیدا ہوا.ایک معمولی بچہ اس قسم کا کچھ بچہ جس قسم کے بچے کہ دنیا میں روز پیدا ہوتے ہیں مگر مستقبل اس کے لئے اپنے إخفاء کے پردہ میں بہت کچھ چھپائے ہوئے تھے.اس بچہ کی والدہ کا نام آمنہ تھا اور باپ کا نام عبداللہ اور دادا کا نام عبد المطلّب.اس بچہ کی پیدائش اسکے گھر والوں کے لئے دلوں میں دو متضاد جذبات پیدا کررہی تھی، خوشی اور غم کے
۵۳۹ جذبات.خوشی اس لئے کہ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جس سے ان کی نسل دنیا میں قائم رہے گی اور نام محفوظ رہے گا.اور غم اس وجہ سے کہ وہ بچہ اپنی ماں کو ایک نہایت ہی محبت کرنے والے خاوند کی اور اپنے دادا کو ایک نہایت ہی اطاعت گزار بیٹے کی جو اپنے بچہ کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ چکا تھا یا ددلا رہا تھا.اس کی شکل اور شباہت ،اس کا سادگی سے مسکرانا، اس کا حیرت سے اس نئی دنیا کو دیکھنا جس میں وہ بھیجا گیا تھا غرض اس کی ہر ایک بات اس نوجوان خاوند اور بیٹے کی یاد کو تازہ کرتی تھی جو سات ماہ پہلے اپنے بوڑھے باپ اور جوان بیوی کو داغ جدائی دے کر اپنے پیدا کرنے والے سے جاملا تھا، مگر خوشی غم پر غالب تھی کیونکہ اس بچہ کی پیدائش سے اُس مرنے والے کانام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا.دادا نے اس بچہ کا نام جو پیدائش سے پہلے ہی یتیم ہو چکا تھا مُحمد رکھا اور اس یتیم بچہ نے اپنی والدہ اور اپنے چچا کی ایک خادمہ کے دودھ پر پرورش پانی شروع کی.آپ ؐکی پرورش مکہ کے لوگوں میں رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو گاؤں کی عورتوں کو پرورش اور دودھ پلانے کے واسطے دے دیتے تھے کیوں کہ وہ سمجھتے تھےکہ بچہ کی پرورش شہر میں اچھی طرح نہیں ہوسکتی اور اس طرح صحت خراب ہو جاتی ہے.مکہ کے ارد گرد کے تیس چالیس میل کے فاصلہ کے گاؤں کے لوگ وقتاً فوقتاً شہر میں آتے اور بچوں کو لے جاتے اور جب وہ پال کر واپس لاتے تو ان کے ماں باپ پالنے والوں کو بہت کچھ انعام دیتے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد جب یہ لوگ آئے تو ان کی والدہ نے بھی چاہا کہ آپ کو بھی کسی خاندان کے سپرد کر دیں مگر ہر ایک عورت اس بات کو معلوم کر کے کہ آپ یتیم ہیں آپ کو لے جانے سے انکار کردیتی.کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ بِن باپ کے بچہ کی پرورش پر انعام کون دے گا.اس طرح یہ آئندہ بادشاہوں کا سردار ہونے والا بچہ ایک ایک کے سامنے پیش کیا گیا اور سب نے اس کے لے جانے سے انکار کردیا.آپﷺ کی دائی حلیمہ کا عجیب و غریب واقعہ مگر خدا تعالی کی قدرتیں بھی عجیب ہوتی ہیں.اس نے اس مبارک بچہ کی والدہ کا دل رکھنے کے لئے اور اس بچہ کے گاؤں میں پرورش پانے کے لئے اور سامان کر چھوڑے تھے.یہ لوگ جوبچے لینے کے لئے آئے تھے ان میں سے غریب عورت حلیمہ
۵۴۰ نامی بھی تھی.جس طرح محمد(ﷺ) ایک ایک عورت کے سامنے کئے جاتے تھے اور رد کردیئے جاتے تھے اسی طرح وہ عورت ایک ایک گھر میں جاتی تھی اور رد کردی جاتی تھی چونکہ وہ غریب تھی اور کوئی شخص پسند نہ کرتا تھا کہ اس کا بچہ غریب کے گھر پرورش پا کر تکلیف اٹھائے.یہ عورت مایوس ہوگئی تو اپنے ساتھ والوں کے طعنوں کے ڈر سے اس نے ارادہ کیا کہ وہ آپ کو ہی لے جائے چنانچہ وہ آپ کو ہی ساتھ لے گئی.آپ ﷺ کی والدہ کی وفات جب آپ نے کچھ ہوش سنبھالی تو آپ کی دائی آپ کو آپ کی ماں کے پاس چھوڑ گئی وہ آپ کو اپنے ماں باپ کے گھر مدینہ لے گئیں اور وہاں کچھ عرصہ رہ کر جب مکہ کی طرف واپس آرہی تھیں تو راستہ میں ہی فوت ہو گئیں اور محمدﷺ چھ سال کی عمر میں اپنی ماں کی محبت بھری گود سے بھی محروم رہ گئے.کسی نے آپ کو مکہ آپ کے دادا کے پاس پہنچا دیا جو دوسال کے بعد جب آپ آٹھ سال کے ہوۓ فوت ہو گئے اور آپ کو آپ کے چچاابو طالب نے اپنی کفالت میں لے لیا.اس طرح یکے بعد دیگرے اپنے محبت کرنے والوں کی گود سے آپ جدا ہوتے رہے حتّٰی کہ آپ جوانی کو پہنچے.غریب گھرانے میں پرورش جن گھروں میں اپنے پرورش پائی وہ امیر گھرنہ تھے وہاں میز بچھ کر کھانا نہیں ملتا تھا بلکہ مالی، حالی اور ملکی رواج کے ماتحت جس وقت کھانے کا وقت آتا بچے ماں کے گرد جمع ہو کر کھانے کے لئے شور مچا دیتے اور ہر ایک دوسرے سے زیادہ حصہ چھین لے جانے کی کوشش کرتا.آپ کے چچا کی نوکر بیان کرتی ہے کہ آپؐ کی یہ عادت نہ تھی جس وقت گھر کے سب بچے چھینا جھپٹی میں مشغول ہوئے آپ ایک طرف خاموش ہو کر بیٹھ جاتے اور اس بات کی انتظار کرتے کہ چچی خود ان کو کھانا دے اور جو کچھ آپ کو دیا جا اسے خوش ہو کر کھا لیتے.صادق اور امین جب آپ کی عمر بیس سال کی ہوئی تو آپ ایک ایسی سوسائٹی میں شامل ہوئے جس کا ہر ایک ممبر اس امر کی قسم کھاتا تھا کہ اگر کوئی مظلوم خواہ کسی قوم کا ہو اسے مدد کے لئے بلائے گا تو وہ اس کی مدد کرے گا یہاں تک کہ اس کا حق اس کومل جائے اور اس نوجوانی کی عمر میں آپ کا یہ مشغلہ تھا کہ جب کسی شخص کی نسبت معلوم ہوتا کہ اس کا حق کسی نے دبا لیا ہے تو آپ اس کی مدد کرتے یہاں تک کہ ظالم مظلوم کا حق واپس کردیتا.آپ کی سچائی، امانت اور نیکی اِس عمر میں اس قدر مشہور ہوگئی کہ لوگ آپ کو صادق اور امین کہا
۵۴۱ کرتے تھے.حضرت خدیجہؓ سے شادی جب اس نیکی کا چرچا بہت ہونے لگا تو ۲۵سال کی عمرمیں آپ کو مکہ کی ایک مالدار تاجر عورت خدیجہ نے نفع پر شراکت کا فیصلہ کر کے تجارت کے لئے شام کو بھیجا اور آپ کے ساتھ ایک غلام بھی گیا.اس سفر میں آپ کی نیکی اور دیانتداری کی وجہ سے اس قدر نفع ہوا کہ پہلے خدیجہ کو کبھی اس قدر نفع نہ ملا تھا اور آپ کے نیک سلوک اور شریفانہ برتاؤ کا ان کے غلام پر جس کو انہوں نے ساتھ بھیجا تھااس قدر اثر ہوا کہ وہ آپ کو نہایت ہی پیار کرنے لگا اور اس نے حضرت خدیجہؓ کو سب حال سنایا.ان کے دل پر بھی آپ کی نیکی کا اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے آپ سے شادی کی درخواست کی اور آپ نے اسے منظور کرلیا.اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر ۴۰ سال کے قریب تھی اور آہ کی عمر صرف ۲۵ سال.۴۷؎ غلاموں کو آزاد کرنا خدیجہؓ نے نکاح کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جس قدر مال ان کے پاس تھا اور غلام ان کی خدمت میں تھے پیش کردیئے اور کہا کہ یہ سب کچھ اب آپ کا ہے اور آپ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کر دیا اور اس طرح اپنی جوانی میں وہ کام کیا جو اس سے پہلے بوڑھے بھی نہیں کر سکتے تھے.گوشہ تنہائی میں عبادت کی عادت آپ اپنے ملک کی خرابیوں کو دیکھ کر بہت افسرده رہتے تھے اور بالعموم شہرسے تین میل کے فاصلہ پر "حرا" نامی پہاڑ کی چوٹی پر ایک پتھروں کی غار میں بیٹھ کر اپنے ملک کی خرابیوں اور شرک کی کثرت پر غور کیا کرتے تھے اور اس جگہ ایک خدا کی پرستش کیا کرتے تھے.اس عبادت میں آپ کو اس قدر لطف آتا تھا کہ آپ کئی دفعہ کئی کئی دن کی غذا گھر سے لے کر جاتے تھے اور کئی کئی دن اس غار میں رہتے تھے.۴۰ سال کی عمر میں الہام الہٰی کانزول آخر جب کہ آپ ۴۰ سال کی عمر کے تھے آپ پر خدا کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ خدا تعالی کی عبادت کر اور اس سے علم کی ترقی اور روحانی عزت اور اُن علوم کے حصول کے لئے دعا کر جو پہلے دنیا کو معلوم نہ تھے.آپ ؐکی طبیعت پر اس وحی کا ایسا ثرہوا کہ آپ گھبرا کر گھر آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ
۵۴۲ کہا کہ مجھے ایسا الہام ہوا ہے.میں ڈرتا ہوں کہ یہ میری آزمائش ہی نہ ہو.حضرت خدیجہؓ جو آپ کی ایک ایک حرکت کا غور سے مطالعہ کرتی تھی اس بات کو سن کر جواب دیا کہ نہیں ہرگز نہیں ،یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالی اس طرح آپ کو ابتلاء میں ڈالے.حالا نکہ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں اور جو لوگ کام نہیں کر سکتے ان کی مدد کرتے ہیں اور آپ سے وہ اخلاق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اور کسی سے ظاہر نہیں ہوتے اور آپ مہمانوں کی خوب خاطرو مدارات کرتے ہیں اور جو لوگ مصائب میں مبتلا ہیں ان کی مدد کرتے ہیں.۴۸؎ یہ اُس عورت کی رائے ہے جو آپ کی پہلی بیوی تھی اور جو آپ کے تمام اعمال سے واقف تھی اور اُس سے زیادہ سچا گواہ اور کون ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انسان کی حقیقت ہمیشہ تجربہ سے معلوم ہوتی ہے اور تجربہ جس قدر بیوی کو خاوند کے حالات کا ہوتا ہے دوسرے کو نہیں ہو سکتا مگر آپ کی تکلیف اس تسلی سے دور نہ ہوئی اور حضرت خدیجہؓ نے یہ تجویز کی کہ آپ میرے بھائی جو بائیبل کے عالم ہیں سے ملیں اور ان سے پوچھیں کہ اس قسم کی وحی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ ورقہ بن نوفل یہودی کا تصدیق کرنا چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے اور ورقہ بن نوفل سے جو حضرت خدیجہؓ کے رشتے میں بھائی تھے جاکر پہلے ان کو سب حال سنایا.انہوں نے سن کر کہا کہ گھبرائیں نہیں تمہیں اسی طرح خدا تعالی کی طرف سے وحی ہوئی جس طرح کہ موسیٰؑ کو ہوا کرتی تھی اور پھر کہا کہ افسوس کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں کاش! کہ میں اس وقت جوان ہوتا جب خدا تعالی تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کرے گا اور تیری قوم تجھے شہر سے نکال دے گی.رسول کریم ﷺ جو رات دن دنیا کی بہتری کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور سب اہل شہران سے خوش تھے اس امر کو سن کر حیران ہوئے اور حیرت سے دریافت فرمایا کہ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا ہاں! کبھی کوئی شخص اس قدر بڑے پیغام کو لے کر نہیں آیا جو تُو لایا ہے کہ اس کی قوم نے اس پر ظلم نہ کیا ہو اور اس کو دکھ نہ دیا ہو.اس سلوک اور محبت کی وجہ سے جو آپ لوگوں سے کرتے تھے اس محبت کے سبب سے جو آپ کو ہر ایک آدمی کے ساتھ تھی اور اس خدمت کے ماتحت جو آپ اپنے شہر کے غرباء کی کرتے تھے.یہ بات کہ شہر کے لوگ آپ کے دشمن ہو جائیں گے آپ کو عجیب معلوم ہوئی مگر مستقبل آپ کے لئے کچھ اور چھپائے ہوئے تھا.
۵۴۳ توریت کی پیشگوئی پوری ہوئی اس واقعہ کے چند ہی ماہ کے بعد آپ کو پھر وحی ہوئی جس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ سب لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلائیں اور بدی کو دنیا سے مٹائیں اور شرک دور کریں اور نیکی اور تقویٰ کو قائم کریں اورظلم کو دور کریں- اس وحی کے ساتھ آپ کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا گیا اورآپ کے ذریعہ سے استثناء باب۱۸ آیت۱۸ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ ’’میں تیرے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا‘‘- آپ بنواسماعیل میں سے تھے جو بنو اسرائیل کے بھائی تھے اور آپ اسی طرح ایک نیا قانون لے کر آئے جس طرح کہ حضرت موسیٰ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے.دعویٰ نبوت پر یگانے بیگانے ہوگئے رسول کریمؐ کو نبوت کا عہدہ ملنا تھا کہ یکدم آپ کے لئے دنیا بدل گئی- وہ لوگ جو پہلے محبت کرتے تھے نفرت کرنے لگے اور جو عزت کرتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے جو تعریف کرتے تھے مذمت کرنے لگے اور جو لوگ پہلے آپ کو آرام پہنچاتے تھے تکلیف پہنچانے لگے.مگر چار آدمی جن کو آپ سے بہت زیادہ تعلق کا موقع ملا تھا وہ آپ پر ایمان لے آئے یعنی خدیجہؓ آپ کی بیوی، علیؓ آپ کے چچازاد بھائی اور زیدؓ آپ کے آزاد کردہ غلام اور ابوبکرؓ آپ کے دوست.اور ان سب کے ایمان کی دلیل اس وقت یہی تھی کہ آپ جھوٹ نہیں بول سکتے- ان چاروں میں سے حضرت ابوبکرؓ کا ایمان لانا عجیب تر تھا.جس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ آپ نبوت کا دعویٰ کریں اس وقت حضرت ابوبکرؓ مکہ کے ایک رئیس کے گھر میں بیٹھے تھے- اس رئیس کی لونڈی آئی اور اس نے آکر بیان کیا کہ خدیجہ ؓکو آج معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے- وہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند اسی طرح نبی ہیں جس طرح حضرت موسیٰ تھے- لوگ تو اس خبر پر ہنسنے لگے اور اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو پاگل قرار دینے لگے مگر حضرت ابوبکرؓ جو رسول کریمؐ کے حالات سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے اسی وقت اُٹھ کر حضرت رسول کریمؐ کے دروازہ پر آئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے؟ آپ نے بتایا کہ ہاں اﷲتعالیٰ نے مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے- حضرت ابوبکرؓ نے بغیر اس کے کہ اور کوئی سوال کرتے جواب دیا کہ مجھے اپنے باپ کی اور ماں کی قسم! کہ تونے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں نہیں مان سکتا کہ تُو خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولے گا- پس میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول
۵۴۴ ہیں- اس کے بعد ابوبکرؓ نے ایسے نوجوانوں کو جمع کرکے جو اُن کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے سمجھانا شروع کیا اور سات آدمی اَور رسول کریمؐ پر ایمان لائے- یہ سب نوجوان تھے جن کی عمر ۱۲سال سے لے کر پچیس سال تک تھی- ایمان لانے والوں پر مصائب کے ہجوم سچائی کا قبول کرنا آسان کام نہیں- مکہ کے لوگ جن کا گزارہ ہی بتوں کے معبودوں کی حفاظت اور مجاورت پر تھا وہ کب اس تعلیم کی برداشت کرسکتے تھے کہ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم دی جائے؟ جونہی ایمان لانے والوں کے رشتہ داروں کو معلوم ہوا کہ ایک ایسا مذہب مکہ میں جاری ہوا ہے اور ان کے عزیز اس پر ایمان لے آئے ہیں.انہوں نے ان کو تکلیف دینی شروع کی- حضرت عثمانؓ کو ان کے چچا نے باندھ کر گھر میں قید کردیااور کہا کہ جب تک اپنے خیالات سے توبہ نہ کرے میں نہیں چھوڑوں گا اور زبیرؓ ایک اَور مومن تھے ان کی عمر پندرہ سال کے قریب تھی.ان کو بھی ان کے رشتہ داروں نے قید کردیا اور ان کو تکلیف دینے کے لئے جس جگہ ان کو بند کیا ہوا تھا اس میں دھواں بھر دیتے تھے مگر وہ اپنے ایمان پر پختہ رہے اور اپنی بات کو نہ چھوڑا- ۵۱؎ ایک اورنوجوان کی والدہ نے ایک نیا طریق نکالا- اس نے کھانا کھانا چھوڑ دیا اور کہا کہ جب تک تو اپنے آباء کی طرح عبادت نہیں کرے گااس وقت تک میں کھانا نہیں کھاؤں گی مگر اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں دنیا کے ہر معاملہ میں ماں باپ کی فرمانبرداری کروں گا مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں ان کی نہیں مانوں گا کیونکہ خدا تعالیٰ کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے- غرض سوائے ابوبکرؓ اور خدیجہؓ کے آپ پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والے سب نوجوان تھے جن کی عمریں پندرہ سال سے پچیس سال تک کی تھیں- پس یوں کہنا چاہیے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جنہوں نے بوجہ یتیم ہونے کے نہایت چھوٹی عمر سے اپنے لئے راستہ بنانے کی مشق کی جب ان کو خدا تعالیٰ نے مبعوث کیا تو اس وقت بھی آپ کے گرد نوجوان ہی آکر جمع ہوئے- پس اسلام اپنی ابتداء کے لحاظ سے نوجوانوں کا دین تھا.اہلِ مکّہ کوعلی الاعلان تبلیغ چونکہ ہر ایک نبی کے لئے عام تبلیغ کرنی ضروری ہوتی ہے آپؐ نے ایک دن ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر مختلف گھرانوں کا نام لے کر بلانا شروع کیا- چونکہ لوگ آپ پر بہت ہی اعتبار رکھتے تھے سب لوگ جمع ہونے شروع ہوگئے اور جو لوگ خود نہ آسکتے تھے انہوں نے اپنے قائم مقام بھیجے تاکہ سنیں کہ آپ کیا کہتے ہیں-
۵۴۵ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ اے اہل مکہ! اگر میں تم کو یہ ناممکن خبر دوں کہ مکہ کے پاس ہی ایک بڑا لشکر اُترا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ یہ بات بظاہر ناممکن تھی کیونکہ مکہ اہل عرب کے نزدیک متبرک مقام تھا اور یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی قوم اس پر حملہ کرنے آئے گی اور پھر یہ بھی بات تھی کہ مکہ کے جانور دور دور تک چرتے تھے اگر کوئی لشکر آتا تو ممکن نہ تھا کہ جانور چَرانے والے اس سے غافل رہیں اور دوڑ کر لوگوں کو خبر نہ دیں.مگر باوجود اس کے کہ یہ بات ناممکن تھی سب لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی بات ضرور مان لیں گے کیونکہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے- آپ نے فرمایا کہ جب تم گواہی دیتے ہو کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا تو میں تم کو بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ میں اس کا پیغام تم کو پہنچاؤں اور یہ سمجھاؤں کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا- یہ بات سنتے ہی لوگ بھاگ گئے اور کہا کہ یہ شخص پاگل ہوگیا ہے یا جھوٹا ہے- تمام شہر میں شور پڑ گیا اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے تھے ان پر نہایت سختیاں ہونے لگیں- بھائی نے بھائی کو چھوڑ دیا،ماں باپ نے بچوں کو نکال دیا،آقاؤں نے نوکروں کو دکھ دینا شروع کیا، چودہ چودہ پندرہ پندرہ سالہ نوجوانوں کو جو کسی رسم ورواج کے پابند نہ تھے بلکہ مذہب کی تحقیق میں اپنی عقل سے کام لیتے تھے اور اسی لئے جلد آپ پر ایمان لے آتے تھے.ان کے ماں باپ قید کردیتے اور کھانا اور پانی دینا بند کردیتے تاکہ وہ توبہ کرلیں مگر وہ ذرہ بھی پرواہ نہ کرتے تھے اور خشک ہونٹوں اور گڑھے میں گھسی ہوئی آنکھوں سے اﷲتعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے.یہاں تک کہ ماں باپ آخر اس ڈر سے کہ کہیں مر نہ جائیں ان کو کھانا پینا دے دیتے.نوجوانوں پر تو رحم کرنے والے لوگ موجود تھے مگرجو غلام آپ پر ایمان لائے ان کی حالت نہایت نازک تھی.اور یہی حال دوسرے غرباء کاتھا جن کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا- غلاموں کو لوہے کی زرہیں پہنا دیتے تھے اور پھر ان کو سورج کے پاس کھڑا کر دیتے تھے تاکہ موسم گرم ہو کر ان کا جسم جھلس دے (یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ عرب کا سورج تھا نہ کہ انگلستان کا) بعض کی لاتوں میں رسیاں ڈال کر ان کو زمین پر گھسیٹتے تھے- بعض دفعہ لوگ لوہے کی سیخیں گرم کرکے ان سے مسلمانوں کا جسم جلاتے تھے اور بعض دفعہ سوئیوں سے ان کے چمڑوں کو اس طرح چھیدتے تھے جس طرح کہ کپڑا سیتے ہیں مگر وہ ان سب باتوں کو برداشت کرتے تھے اور عذاب کے وقت کہتے جاتے تھے کہ وہ ایک خدا کی پرستش کو نہیں چھوڑ سکتے- ایک عورت جو نہایت ہی پختہ مسلمان تھی اس کے پیٹ میں نیزہ مار کر
۵۴۶ اس کو ماردیا.آپ پر لوگوں کے ظلم خود رسول کریمﷺ کو بھی لوگ بہت دکھ دیتے تھے گو ڈرتے بھی تھے کیونکہ آپ کے خاندان کی مکہ میں بہت عزت تھی- لوگ آپ کو گالیاں دیتے بعض دفعہ نمازمیں جب آپ سجدہ کرتے تو سر پر اوجھڑی ڈال دیتے- کبھی سر پرراکھ پھینک دیتے- ایک دفعہ آپ سجدہ میں تھے کہ ایک شخص آپ ؐکی گردن پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا اور دیر تک اس نے آپ کو اسی طرح دبائے رکھا- ایک دفعہ آپ عبادت کے لئے خانہ کعبہ میں گئے تو آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹنا شروع کردیا.۵۲؎ مگر باوجود ان مخالفتوں کے آپ تبلیغ میں لگے رہتے اور ذرہ پرواہ نہ کرتے- آپ کا تعلیم دینا جہاں بھی لوگ بیٹھے ہوتے آپؐ وہاں جا کر ان کو تعلیم دیتے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اس کے سوا کوئی شخص معبود نہیں- نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی- نہ اس کے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی کا بیٹاہے- نہ زمین میں نہ آسمان میں اس کا کوئی شریک نہیں - اس پر ایمان لانا چاہیے اور اسی سے دعائیں مانگنی چاہئیں- وہ لطیف ہے اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتااس میں سب طاقتیں ہیں- اسی نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور جب لوگ مرجاتے ہیں تو ان کی روحیں اسی کے پاس جاتی ہیں اور ایک زندگی ان کو دی جاتی ہے.اور چاہیے کہ اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کرے اور اس سے تعلق کو مضبوط کریں اور اس کے قریب ہونے کی خواہش کریں اور اپنے خیالات اور اپنی زبان کو پاک کرں - جھوٹ نہ بولے- قتل نہ کرے، فساد نہ کرے،چوری نہ کرے، ڈاکہ نہ مارے، عیب نہ لگائے- طعنہ نہ دے، بدکلامی نہ کرے،ظلم نہ کرے، حسد نہ کرے اور اپنے وقت کو اپنے آرام اور عیاشی میں صَرف نہ کرے بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اور بہتری میں اور محبت اور اُنس کی اشاعت کرے- مشرکوں کی حالت کا نقشہ یہ تعلیم تھی جو آپ دیتے مگر باوجود اس کے کہ یہ تعلیم اعلیٰ درجہ کی تھی لوگ آپ پر ہنستے- مکہ کے لوگ سخت بُت پرست تھے اور سینکڑوں بت بنا کر انہوں نے اپنے معبد میں رکھے ہوئے تھے جس کے سامنے وہ روزانہ عبادت کرتے تھے اور جن کے آگے باہر سے آنے والے لوگ نذرانے چڑھاتے تھے جن پر کئی معزز خاندانوں کا گزارہ تھا- ان لوگوں کے لئے ایک خدا کی عبادت بالکل عجیب تعلیم تھی ،وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ کیوں انسان کی شکل میں یا کسی پتھر کے بُت میں ظاہر نہیں ہوسکتا- وہ
۵۴۷ ایک نہ نظر آنے والے خدا کا تخیّل ناممکنات سے سمجھتے تھے- پس جب وہ آپ کو دیکھتے ،ہنستے اور کہتے کہ دیکھو اس شخص نے سب خداؤں کو اکٹھا کردیا ہے کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ کئی خداؤں کے ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں- پس محمد ﷺ جو کہتے ہیں کہ ایک ہی خدا ہے اس سے مراد ان کی یہ ہے کہ انہوں نے اب سب خداؤں کو اکٹھا کرکے ایک ہی بنادیا ہے.اور اپنی اس غلط فہمی کی بے ہودگی کو آپ کی طرف منسوب کرکے خوب قہقہے لگاتے- بعث بعد الموت کا عقیدہ بھی ان کے لئے عجیب تھا وہ ہنستے اور کہتے کہ یہ شخص خیال کرتا ہے کہ جب ہم مر جائیں گے تو پھر زندہ ہوں گے.صحابہؓ کاحبشہ کو ہجرت کرنا جب مسلمانوں کی تکلیفیں بہت بڑھ گئیں تو رسول کریمﷺ نے صحابہؓ کو اجازت دے دی کہ وہ حبشہ کو جو اس وقت بھی ایک مسیحی حکومت تھی ہجرت کرکے چلے جاویں- چنانچہ اکثر مسلمان مردوعورت اپنا وطن چھوڑ کر افریقہ کو چلے گئے- مکہ والوں نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا- بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیجا کہ ان لوگوں کو واپس کردیں تاکہ ہم ان کو سزادیں- مسیحی بادشاہ بہت ہی منصف مزاج تھا- جب اس کے پاس وفد پہنچا تو اس نے دوسرے فریق کابھی بیان سننا پسند کیا اور مسلمان دربارشاہی میں بلائے گئے- یہ واقعہ نہایت ہی دردناک ہے- ہم قوموں کے ظلموں سے تنگ آکر اپنے وطن کو خیرباد کہنے والے مسلمان ابی سینیا کے بادشاہ کے دربار میں اس خیال سے پیش ہوتے ہیں کہ اب شاید ہم کو ہمارے وطن واپس کرایا جائے گا اور ظالم اہل مکہ او ر بھی زیادہ ظلم ہم پر کریں گے- جب وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے پوچھا کہ تم میرے ملک میں کیوں آئے ہو؟ مسلمانوں نے جواب دیا کہ اے بادشاہ ہم پہلے جاہل تھے اور ہمیں نیکی اور بدی کا کوئی علم نہ تھا بُتوں کو پوجتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید سے ناواقف تھے- ہر اک قسم کے برے کام کرتے تھے،ظلم، ڈاکہ، قتل، بدکاری ہمارے نزدیک معیوب نہ تھے- ابھی اﷲتعالیٰ نے محمد(ﷺ)کو مبعوث کیا- اس نے ہمیں ایک خدا کی پرستش سکھا ئی اور بدیوں سے ہمیں روکا اِنصاف اور عدل کا حکم دیا، محبت کی تعلیم دی اور تقویٰ کا راستہ بتایا ٍ تب وہ لوگ جو ہمارے بھائی بند ہیں انہوں نے ہم پر ظلم کرنا شروع کیا اور ہم کو طرح طرح کے دکھ دینے شروع کئے- ہم آخر تنگ آکر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور تیرے ملک میں آئے ہیں- اب یہ لوگ ہمیں واپس لے جانے کے لئے یہاں بھی آگئے ہیں- ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اپنے خدا کے پرستار ہیں.
۵۴۸ شاہِ حبشہ کا واپس کرنے سے انکار اورصحابہ ؓ کی مدد کرنا اس تقریر کا بادشاہ پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو واپس کرنے سے انکار کردیا مکہ کے وفد نے درباریوں سے ساز باز کرکے پھر بھی دوسرے دن بادشاہ کے سامنے وہی سوال پیش کیا اور کہا کہ یہ لوگ حضرت مسیحؑ کو گالیاں دیتے تھے- بادشاہ نے پھر دوبارہ مسلمانوں کو بلایا- انہوں نے جو اسلام کی تعلیم مسیحؑ کے متعلق ہے بیان کی کہ ہم ان کو خدا تعالیٰ کاپیارا اور نبی مانتے ہیں ہاں ہم انہیں کسی طرح بھی خدائی کے قابل نہیں جانتے.کیونکہ ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ ایک ہے اور اس بات پر درباری جوش میں آگئے اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کو سزا دے مگر بادشاہ نے کہا کہ یہی میرا عقیدہ ہے اور اس عقیدہ کی وجہ سے ان لوگوں کو ظالموں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتا- پھر درباریوں سے کہا کہ مجھے تمہارے غصہ کی بھی پرواہ نہیں ہے- خدا کو بادشاہت پر ترجیح دیتا ہوں.اہل مکہ کا آپ کے چچا کو تنگ کرنا اہل مکہ نے رسول کریم ﷺکو اور زیادہ تکلیفیں دینی شروع کیں اور آخر آپ کے چچا کو جو مکہ کے بڑے رئیس تھے اور ان کی وجہ سے لوگ آپ کو زیادہ دکھ دینے سے ڈرتے تھے کہا کہ آپ کسی اور رئیس کا لڑکا اپنا لڑکا بنالیں اور محمدﷺکو ہمارے حوالے کردیں تا ہم اس کو سزادیں- انہوں نے کہا یہ عجیب درخواست ہے تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے لڑکوں کو لے کر اپنا مال ان کے حوالے کردوں اور اپنے لڑکے کو تمہارے حوالہ کردوں کہ تم اسے دکھ دے کر ماردو- کیا کوئی جانور بھی ایسا کرتاہے کہ اپنے بچہ کو مارے اور دوسرے کے لڑکے کو پیار کرے؟ جب اہل مکہ ناامید ہوئے تو انہوں نے درخواست کی کہ اچھا آپ اپنے بھتیجے کو یہ سمجھائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر اس قدر زور نہ دیا کرے اور یہ نہ کہا کرے کہ بُتوں کی پرستش جائز نہیں اَور جو کچھ چاہے کہے- چنانچہ آنحضرتؐ کو ان کے چچا نے بلا کر کہا کہ مکہ کے رؤسا ایسا کہتے ہیں کیا آپ ان کو خوش نہیں کرسکتے؟ رسول کریم ﷺنے جواب دیا کہ آپ کے مجھ پر بہت احسان ہیں مگر آپ کے لئے اپنے خدا کو نہیں چھوڑ سکتا.اگر آپ کو لوگو ں کی مخالفت کا خوف ہے تو آپ مجھ سے الگ ہوجائیں مگر میں اس صداقت کو جو کہ مجھے خدا سے ملی ہے ضرور پیش کروں گا- یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنی قوم کو جہالت میں مبتلا دیکھوں اور خاموش بیٹھا رہوں.
۵۴۹ تبلیغ توحید سے روکنے کی ایک اور کو شش جب اہل مکہ کو اس سے بھی نا اُمیدی ہوئی تو انہوں نے ایک رئیس کو اپنے میں سے چُنا اور اس کی معرفت آپ کو کہلا بھیجا کہ آپ یہ بتائیں کہ ملک میں یہ فساد آپ نے کیوں مچا دیا ہے- اگر آپ کی یہ غرض ہے کہ آپ کوعزت مل جائے تو ہم سب شہر میں سے آپ کو معزز قرار دے دیتے ہیں- اگر مال کی خواہش ہے تو ہم سب شہر کے لوگ اپنے مالوں کا ایک ایک حصہ الگ کرکے آپ کو دے دیتے ہیں جس سے آپ سارے شہر سے زیادہ امیر ہوجائیں گے- اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں- اگر شادی کی خواہش ہے تو جس عورت سے آپ چاہیں آپ کی شادی کرادی جائے گی.مگر آپ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم نہ دیں-۵۳؎ جس وقت وفد نے یہ پیغام آپ کو آکر دیا آپ نے فرمایا کہ دیکھو اگر سورج کو میرے ایک طرف اور چاند کو میرے دوسری طرف لا کر کھڑا کر دویعنی یہ دنیا کا مال تو کیا ہے اگر چاند اور سورج کو بھی میرے قبضہ میں دے دو تب بھی میں اس تعلیم کو نہ چھوڑوں گا.مخالفین کا تبلیغ میں روکیں ڈالنا اور مقاطعہ کرنا اُس وقت تک کُل اسّی ۸۰ آدمی رسول کریمﷺ پر ایمان لائے تھے مگر جب مکہ کے ظلموں کی خبر باہر پہنچی تو لوگوں نے تحقیقات کے لئے مکہ آنا شروع کیا- اس پر اہل مکہ بہت گھبرائے اور انہوں نے شہر کی سڑکوں پر پہرے مقرر کردیئے کہ کوئی رسول کریمؐ سے مل نہ سکے اور ارادہ کیا کہ آپ کو قتل کردیں- اس پر آپ کے چچا اور دیگر رشتہ دار آپ سمیت ایک وادی میں چلے گئے تاکہ آپ کی حفاظت کریں- پس جب اس طرح بھی کام چلتا نہ دیکھا تو سب اہل مکہ نے معاہدہ کرلیا کہ رسول کریمؐ اور آپ کے خاندان اور تمام مسلمانوں کا مقاطعہ کیا جائے اور کوئی شخص ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز فروخت نہ کرے اور نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق کیا جائے اور نہ ان سے کبھی صلح کی جاوے جب تک وہ آپ کو قتل کے لئے نہ دے دیں- مکہ ایک اکیلا شہر ہے اس کے ارد گرد چالیس میل تک کوئی شہر نہیں- پس یہ فیصلہ سخت تکلیف دہ تھا- مکہ والوں نے پہرے لگا دیئے کہ کوئی شخص ان کے ہاتھ کوئی کھانے کی چیز فروخت نہ کرے اور برابر تین سال تک اس سخت قید میں آپ کو رہنا پڑا- راتوں کے اندھیروں میں
۵۵۰ پوشیدہ طور پر جس قدر غلہ وہ داخل کرسکتے تھے کر لیتے تھے مگر پھر بھی اس قدر نگرانی میں وہ لوگ کہاں تک انتظام کرسکتے تھے- بہت دفعہ کئی کئی دن جھاڑیوں کے پتّے اور شاخوں کے چھلکے کھا کر ان کو گزارا کرنا پڑتا تھا- ایک صحابی کہتے ہیں کہ ان تکلیف کے دنوں میں سب کی صحتیں خراب ہوگئیں اور بہت دست لگ گئے- ہفتہ نہیں دوہفتہ نہیں تین سال متواتر وہ بہی خواہ بنی نوع انسان اپنے ماننے والوں کے ساتھ صرف اس لئے دکھ دیا گیا کہ وہ کیوں خدائے واحد کی پرستش اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے مگر اس نے ان تکالیف کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی- تین سال کی متواتر تکلیف کے بعد بعض رؤسا مکہ کی انسانیت اس ظالمانہ فعل پر بغاوت کرنے لگی اور انہوں نے اس معاہدہ کو جو رسول کریمؐ کے خلاف کیا گیا تھا چاک کردیا اور آپ اس وادی سے نکل کر باہر آگئے مگر آپ کے بوڑھے چچا اور وفادار بیوی ان صدمات کے اثر سے نہ بچ سکے اور کچھ دنوں کے بعد فوت ہوگئے.اہلِ طائف کو تبلیغ اہل مکہ کی بے پروائی کو دیکھ کر آپ نے عرب کے دوسرے شہروں کی طرف توجہ کی طرف توجہ کی اور طائف کے لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے گئے- طائف مکہ سے ۶۰ ساٹھ میل کے فاصلہ پر ایک پُرانا شہر ہے- اس شہر کے لوگوں کو جب آپ نے خدا کا کلام سنایا تو وہ مکہ والوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئے پہلے انہوں نے گالیاں دیں پھر کہا شہر سے نکل جاویں - جب آپ واپس آرہے تھے تو بدمعاشوں اور کتّوں کو ان کے پیچھے لگا دیا- پتھر پر پتھر چاروں طرف سے آپ پر پڑتے تھے اور کتے پیچھے دوڑتے تھے سر سے پاؤں تک آپ خون سے تر بہ تر تھے.مگر اس وقت ان ظالموں کی نسبت جو خیالات آپ کے دل میں موجزن تھے وہ ان الفاظ سے ظاہر ہیں جو اس سنگساری کے وقت آپ کی زبان پر جاری تھے- آپ خون اپنے جسم سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے خدا ! ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ میں جو کچھ ان لوگوں کو کہتا ہوں وہ سچ ہے اور درست ہے اور یہ جو کچھ کررہے ہیں اچھا سمجھ کر کررہے ہیں اس لئے تو ان پر ناراض نہ ہواور ان پر عذاب نہ کر بلکہ ان کو سچائی کے قبول کرنے کی توفیق دے- تکلیف کے وقت میں کیسے محبت سے بھرے ہوئے الفاظ کہے گئے ہیں- کیا ان سے بڑھ کر انسانی ہمدردی کی مثال کہیں مل سکتی ہے؟ حج کے موقع پر اہل مدینہ کا تعلیم حاصل کرنا سچ چھپا نہیں رہتا- آپ کی تعلیم کی خبریں باہر مشہور ہوئیں اور یثرب
۵۵۱ نامی ایک شہر کے لوگ (جسے اب مدینہ کہتے ہیں) حج کے لئے مکہ آئے تو آپ سے بھی ملے- آپ نے ان کو اسلام کی تعلیم دی اور ان لوگوں کے دلوں پر ایسا گہرا اثر کیا کہ انہوں نے واپس جاکر اپنے شہر کے لوگوں سے ذکر کیا اور ستّر ۷۰ آدمی دوسرے سال تحقیق کے لئے آئے جو سب اسلام لے آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ ان کے شہر میں چلے جائیں مگر آپ نے اس وقت ان کی بات پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا- ہاں وعدہ کیا کہ جب ہجرت کا موقع ہوگا آپ مدینہ تشریف لائیں گے- مدینہ کی طرف ہجرت جب اہل مکہ کو معلوم ہوا کہ اب باہر بھی آپ کی تعلیم پھیلنی شروع ہوئی ہے تو انہوں نے ہر قبیلہ میں سے ایک آدمی چُنا تاکہ سب مل کر آپ کو رات کو قتل کردیں اور یہ اس لئے کیا کہ اگر آپ کی قوم اس کو ناپسند کرے تو وہ سب قوموں کے اجتماع سے ڈر کر بدلہ نہ لے سکیں- آپ کو اﷲتعالیٰ نے پہلے سے بتادیا تھا- آپ اسی رات مکہ سے نکل کر ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں کے لوگوں پر اسلام کی تعلیم کاایسا اثر ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں قریباً سب مدینہ کے لوگ اسلام لے آئے اور آپ کو انہوں نے اپنا بادشاہ بنالیا اور اس طرح وہ کونے کا پتھر جسے اس کے شہر کے معماروں نے ردّ کردیا تھا مدینہ کی حکومت کا تاج بنا.زمانہ ترقی میں حضور ﷺ کا اُسوہ اس ترقی کے زمانہ میں بھی آپ نے اپنا شغل تعلیم اور وعظ ہی رکھا اور اپنی سادہ زندگی کو کبھی نہیں چھوڑا- آپ کا شغل یہ تھا کہ آپ لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی تعلیم دیتے- اخلاقِ فاضلہ اور معاملات کے متعلق اسلامی احکام لوگوں کو سکھلاتے- پانچ وقت نماز خود آکر مسجد میں پڑھاتے- (مسلمانوں میں بجائے ہفتہ میں ایک مرتبہ عبادت کرنے کے پانچ دفعہ روز مسجد میں جمع ہو کر عبادت کی جاتی ہے) جن لوگوں میں جھگڑے ہوتے آپ فیصلہ کرتے- ضروریات قومی کی طرف توجہ کرتے جیسے تجارت، تعلیم، حفظان صحت وغیرہ اور پھر غرباء کے حالات معلوم کرتے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے حتیّٰ کہ جن لوگوں کے گھروں میں کوئی سودا دینے والا نہ ہوتا ان کے لئے سودا لادیتے- پھر باوجود ان سب کاموں کے کبھی بچوں کے اندر قومی روح پیدا کرنے کے لئے ان میں جا کر شامل ہوجاتے اور ان کو ان کی کھیلوں میں جوش دلاتے- جب گھر میں داخل ہوتے تو اپنی بیویوں سے مل کر گھر کا کام کرنے لگتے اور جب رات ہوتی اور سب لوگ
۵۵۲ آرام سے سوجاتے تو آپ آدھی رات کے بعد اُٹھ کررات کی تاریکی میں اﷲتعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے یہاں تک کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سُوج جاتے.حضرت رسول اکرم ﷺ کی تعلیم کا خلاصہ جو مذہبی تعلیم آپ دیتے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا:.( ۱)آپ اس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے باقی جو کچھ بھی ہے خواہ فرشتے خواہ انسان سب اس کی مخلوق ہیں- یہ عقیدہ اﷲتعالیٰ کی ہتک ہے کہ وہ انسانوں کے جسم میں آجاتا ہے یا اس کی کوئی اولاد ہوتی ہے یا وہ بتوں میں داخل ہوجاتا ہے وہ ان سب باتوں سے پاک ہے- وہی زندہ کرتاہے اور وہی مارتا ہے.جس قدر مصلح گزرے ہیں سب اس کے بندے تھے، کسی کو الوہیت کی طاقتیں حاصل نہ تھیں- سب کو اسی کی عبادت کرنی چاہیے اور صرف اسی سے دعائیں مانگنی چاہئیں- اسی پر اپنے تمام کاموں میں بھروسہ رکھنا چاہیے.( ۲)یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسانوں کو ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی اور اخلاقی اور تمدنی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے- وہ ہمیشہ دنیا میں اس غرض کو جاری رکھنے کے لئے نبی بھیجتا رہاہے اور ہر قوم میں بھیجتا رہا ہے- آپ اس امر کے سخت مخالف تھے کہ نبوت کو کسی ایک قوم میں محدود رکھا جاوے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ پر جانب داری کا الزام آتا ہے جس سے وہ پاک ہے اور دنیا کی ہر قوم کے نبیوں کی تصدیق کرتے تھے.( ۳)آپ اس امر پر زور دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ کی ضروریات کے مطابق اپنا کلام نازل کرتا رہا ہے اور آپ کا دعویٰ تھا کہ آخری زمانہ کی اصلاح کے لئے اﷲتعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے اور اس بنا پر آپ قرآن کریم کو سب پہلی کتابوں سے مکمل سمجھتے تھے اور اس کی تعلیم کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے.( ۴)آپ کو یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی ہستی کا یقین دلانے کے لئے ہمیشہ اپنے بندوں سے کلام کرتاہے اور ان کے لئے نشان دکھاتا رہتا ہے اور آپ دعویٰ کرتے تھے کہ جو لوگ بھی آپ کی تعلیم پر عمل کریں گے وہ اپنے تجربہ سے ان باتوں کی صداقت معلوم کریں گے اور میں اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل درست ہے- میں نے خود بھی اسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی باتیں سنی ہیں جس طرح موسیٰؑ اور مسیحؑ کے زمانہ کے لوگ سنتے تھے اور خدا تعالیٰ نے کئی دفعہ مجھے ایسے نشان دکھائے ہیں جو انسانی طاقت سے بالا تھے.
۵۵۳ ( ۵)آپ کہتے تھے کہ سچے مذہب کی علامت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی زندگی کے سامان کرتا ہے اور فرماتے تھے کہ اسلام کو انسانی خیالات کی تعدّی سے محفوظ رکھنے کیلئے اﷲتعالیٰ ہمیشہ اپنے نبی بھیجتا رہے گا جو اس کی حفاظت کریں گے- چنانچہ ابھی ایک نبی احمدؑ ہندوستان میں اسی غرض سے ظاہر ہوا ہے اور میں اس کا خلیفہ ہوں اور میرے ساتھی اس کی جماعت میں سے ہیں.( ۶) آپ فرماتے تھے کہ باوجود مذہبی اختلافات کے لوگوں کو آپس میں محبت سے رہنا چاہیے اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے جھگڑنا نہیں چاہیے کیونکہ اگر کسی کے پاس سچائی ہے تو اسے لڑنے کی کیا ضرورت ہے وہ سچائی کو پیش کرے، خودہی لوگ متاثر ہوں گے- چنانچہ آپ اپنی مسجد میں عیسائیوں کو بھی عبادت کرنے کی اجازت دیتے تھے اور یہ ایسی وسیع حوصلگی ہے کہ اُس وقت کے لوگ تو الگ رہے آج کل کے لوگ بھی اس کی مثال نہیں پیش کرسکتے.( ۷) آپ اس امر پر بہت زور دیتے تھے کہ انسانی زندگی کے دوپہلو ہیں- ایک روحانی اور ایک جسمانی.اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ایسے وابستہ ہیں کہ الگ نہیں ہوسکتے- جسمانی حصہ روحانی پر اثر ڈالتا ہے اور روحانی جسمانی پر- پس آپ کی تعلیم میں اس امر پر خاص زور تھا کہ بغیر دلی پاکیزگی کے ظاہری عبادتیں فائدہ نہیں دے سکتیں اور یہ بھی کہ ظاہری عبادتوں کے بغیر خیالات کی بھی تربیت نہیں ہوسکتی.اس لئے کامل تربیت کے لئے انسان کو دونوں باتوں کا خیال رکھنا چاہیے.۸)آپ انسان کی اخلاقی حالتوں کے متعلق یہ تعلیم دیتے تھے کہ سب انسان پاک فطرت لے کر پیدا ہوتے ہیں اور جو خرابی پیدا ہوتی ہے وہ پیدائش کے بعد غلط تعلیم یا تربیت سے پیدا ہوتی ہے- پس آپ بچوں کی نیک تربیت اور اعلیٰ تعلیم پر خاص طور پر زور دیتے تھے.۹) آپ اس امر پر بھی زور دیتے تھے کہ اخلاق کی اصل غرض انسان کی اپنی اور دوسرے لوگوں کی اصلاح ہے- پس اخلاق فاضلہ وہی ہیں جن سے انسان کا نفس اور دوسرے لوگ پاکیزگی حاصل کریں- پس آپ کبھی ایک تعلیم پر زور نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیشہ ہر چیز کے سب پہلوؤں کو بیان کرتے تھے.مثلاً یہ نہیں کہتے تھے کہ نرمی کرو، عفو کرو، بلکہ یہ فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص تم کو تکلیف دے تو یہ سوچو کہ اس شخص کی اصلاح کس بات میں ہے- اگر وہ شخص شریف الطبع ہے اور معاف کرنے سے آئندہ ظلم کی عادت کو چھوڑ دے گا اور اس نمونہ سے
۵۵۴ فائدہ حاصل کرے گا تو اسے معاف کردو.اور اگر یہ دیکھو کہ وہ شخص بہت گندہ ہوچکا ہے اور اگر تم اسے معاف کرو گے تو وہ یہ سمجھ لے گا کہ اس شخص نے مجھ سے ڈر کرمجھے سزا نہیں دی یا نہیں دلوائی اور اس وجہ سے وہ بدی پر دلیر ہوجائے گا اور اَور لوگوں کو بھی دکھ دے گا تو اسے اس کے جرم کے مطابق سزادو.کیونکہ ایسے شخص کو معاف کرنا دوسرے نا کردہ گناہ لوگوں پر ظلم ہے جو ایسے شخص کے ہاتھ سے تکلیف اُٹھارہے ہیں یا آئندہ اُٹھا سکتے ہیں.۱۰) آپ کی یہ بھی تعلیم تھی کہ کبھی کسی دوسری حکومت پر حملہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جنگ صرف بطور دفاع کے جائز ہے اور اس وقت بھی اگر دوسرا فریق اپنی غلطی پر پشیمان ہو کر صلح کرنا چاہے تو صلح کرلینی چاہیے.۱۱) آپ کی یہ تعلیم بھی تھی کہ انسان کی روح مرنے کے بعد برابر ترقی کرتی چلی جاوے گی اور کبھی فنا نہ ہوگی حتیّٰ کہ گناہ گار لوگ بھی ایک مدت اپنے اعمال کی سزا بھگت کر خدا کے رحم سے بخشے جائیں گے اور دائمی ترقی کی سڑک پر چلنے لگیں گے.کفار کی مدینہ پر چڑھائی اہل مکہ نے جب دیکھا کہ مدینہ میں آپ کو اپنی تعلیم کے عام طور پر پھیلا نے کا موقع مل گیا ہے اور لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگے ہیں تو انہوں نے متواتر مدینہ پر چڑھائیاں کرنی شروع کیں مگر ان لشکرکشیوں کا نتیجہ بھی ان کے حق میں بُرا نکلا اور رسول کریمؐ کی اس سے بھی برتری ثابت ہوئی کیونکہ گو بڑی بڑی تیاریوں کے بعدمکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کیا اور مسلمان ہردفعہ تعداد میں ان سے کم تھے، عموماً ایک مسلمان تین اہل مکہ کے مقابلہ پر ہوتا تھا، مگر پھر بھی غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور اہل مکہ کو شکست ہوئی- بعض دفعہ بے شک مسلمانوں کو عارضی تکلیف بھی پہنچی مگر حقیقی معنوں میں کبھی شکست نہ ہوئی.اور ان لشکرکشیوں کے دو نتیجے نکلے- ایک تو یہ کہ بجائے اس کے کہ رسول کریم ﷺ تباہ ہوتے آپ سارے عرب کے بادشاہ ہوگئے اور دوسرا یہ کہ ان لڑائیوں میں آپ کو کئی ایسے اخلاق کے دکھانے کاموقع ملا جو بغیر جنگوں کے مخفی رہتے اور اس سے آپ کی اخلاقی برتری ثابت ہو گئی- اس طرح یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ آپ نے کیسی وفاداری اور قربانی کی روح ایک مُردہ قوم مین پھونک دی تھی.
۵۵۵ جنگِ اُحد کا دردناک واقعہ چنانچہ مثال کے طور پر میں اُحد کی جنگ کا واقعہ بیان کرتا ہوں- مدینہ آنے کے تین سال بعد کفار مکہ نے تین ہزار کا لشکر تیار کرکے مدینہ پر حملہ کیا- مدینہ مکہ سے دوسومیل کے فاصلہ پر ہے- دشمن اپنی طاقت پر ایسا نازاں تھا کہ مدینہ تک حملہ کرتا ہوا چلا آیا اور مدینہ سے آٹھ میل پر اُحد کے مقام پر رسول کریمؐ اس کو روکنے کے لئے گئے- آپ کے ساتھ ایک ہزار سپاہی تھے- آپ نے جو احکام دیئے اس کے سمجھنے میں ایک دستہ فوج سے غلطی ہوئی- نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو پہلے فتح ہوچکی تھی دشمن پھر لوٹ پڑا اور ایک وقت ایسا آیا کہ دشمن نے زور کرکے مسلمانوں کو اس قدر پیچھے دھکیل دیا کہ صرف رسول کریمﷺ دشمنوں کے نرغے میں رہ گئے- آپ نے جرأت اور دلیری کا یہ نمونہ دکھایا کہ باوجود اس کے کہ اپنی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی مگر آپ پیچھے نہ ہٹے اور دشمن کے مقابلہ پر کھڑے رہے- جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے اور وہیں کھڑے ہیں تو انہوں نے یک دم حملہ کرکے آپ تک پہنچنا چاہا لیکن صرف چودہ آدمی آپ تک پہنچ سکے- اس وقت ایک شخص نے ایک پتھر مارا اور آپ کا سر زخمی ہوگیا اور آپ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئے اور آپ کو بچاتے ہوئے کئی اور مسلمان قتل ہو کر آپ پر جاگرے اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ آپ شہید ہوگئے ہیں- وہ لوگ ایک عاشق کی طرح تھے کئی لوگ میدان جنگ میں ہی ہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے اور رونے لگے- ایک مسلمان جس کو اس امر کا علم نہ تھا وہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ رسول کریم ﷺتو شہید ہوگئے ہیں- اس نے کہا آؤ! اس سے بڑھ کر لڑنے کا موقع کب ہوگا جہاں وہ ہمارا محبوب گیا ہے وہیں ہم جائیں گے- یہ کہہ کر تلوار ہاتھ میں لے کر دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑا اور آخر مارا گیا- جب اس کی لاش کو دیکھا گیا تو ستّر زخم اس پر لگے ہوئے تھے.۵۴؎ ایک وفادار صحابی کا واقعہ جو لوگ آپ کے پاس تھے انہوں نے جب آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے سے نکالا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں- اس وقت پھر لشکر اسلام جمع ہونا شروع ہوگیا اور دشمن بھاگ گیا- اس وقت ایک مسلمان سپاہی اپنے ایک رشتہ دار کو نہ پاکر میدان جنگ میں تلاش کرنے لگا.آخر اسے میدان جنگ میں اس حالت میں پایا کہ اس کی دونوں لاتیں کٹی ہوئی تھیں اور سب جسم زخمی تھا اور اس کی آخری حالت معلوم ہوتی تھی- اس کو دیکھتے ہی اس زخمی نے پوچھا کہ رسول کریمﷺ کا کیا حال ہے- اس نے
۵۵۶ کہا کہ آپ خیریت سے ہیں یہ بات سن کر اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور سن کر کہنے لگا کہ اب میں خوشی سے جان دوں گا- پھر اس عزیز کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میری ایک امانت ہے وہ میرے عزیزوں کوپہنچا دینا اور وہ یہ ہے کہ ان سے کہنا کہ محمدؐ رسول اﷲخدا تعالیٰ کی امانت ہے اس کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے- دیکھنا اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا.اور یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے جان دے دی- ۵۵؎ ایک وفادار مؤمن عورت کا واقعہ یہ تو مردوں کی وفاداری کا حال ہے عورتیں بھی اس سے کم نہ تھیں- مدینہ میں بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ آپ شہید ہوگئے ہیں اور سب عورتیں اور بچے شہر سے نکل کر میدان جنگ کی طرف گھبرا کر چل پڑے تھے- اتنے میں ان کو اسلامی لشکر ملا جو خوشی سے آپ سمیت واپس لوٹ رہا تھا- ایک عورت نے ایک سپاہی سے آگے بڑھ کر پوچھا کہ رسول اﷲﷺکا کیا حال ہے؟ اسے چونکہ معلوم تھا کہ آپ خیریت سے ہیں اس نے اس کی پرواہ نہ کی اور اسے کہا کہ تیرا باپ مارا گیا ہے- اس عورت نے کہا کہ میں تجھ سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھتی میں محمد ﷺ کی بابت پوچھتی ہوں- اس نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور کہا کہ تیرے دونوں بھائی بھی مارے گئے ہیں- اس نے پھر چِڑ کر کہا کہ میں تجھ سے بھائیوں کے متعلق نہیں پوچھتی - اس نے کہا کہ وہ تو خیریت سے ہیں- اس پر اس عورت نے کہا کہ الحمداﷲ اگر آپ زندہ ہیں تو سب دنیا زندہ ہے- مجھے پرواہ نہیں کہ میرا باپ مارا گیا ہے یا میرے بھائی مارے گئے ہیں- ۵۶؎ یہ اخلاص اور یہ محبت اس کامل نمونہ کے بغیر جو آپ نے دکھایا اور اس گہری محبت کے بغیر جو آپ کو بنی نوع انسان سے تھی کس طرح پیدا ہوسکتا تھا؟ حضور کی استقامت اورصحابہ کی بطور نمونہ ایک اور مثال اسی طرح ایک دفعہ اسلامی لشکر ایک پہاڑی میں سے گزررہا تھا جس کے دونوں طرف دشمن کے تیر انداز چھپے ہوئے تھے- مسلمانوں کو اس جگہ کا علم نہ تھا- ایک تنگ سڑک درمیان سے گزرتی تھی- جب اسلامی لشکر عین درمیان میں آگیا تو دشمن نے تیر مارنے شروع کئے- اس اچانک حملہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ گھوڑے اور اونٹ ڈر کر دوڑ پڑے اور سوار بے قابو ہوگئے- رسول کریم ﷺ چارہزار دشمن تیراندازوں کے اندر صرف ۱۶آدمیوں سمیت رہ گئے باقی سب لشکر پراگندہ ہو گیا- آپ نے اپنے
۵۵۷ گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دشمن کی طرف بڑھنا شروع کردیا.جو ساتھی باقی رہ گئے تھے وہ گھبرا گئے اور اُتر کر آپ کے گھوڑے کی باگیں پکڑلیں اور کہا.کہ حضور! اس وقت دشمن فاتحانہ بڑھا چلا آرہا ہے اسلامی لشکر بھاگ چکا ہے-آپ کی جان پر اسلام کا مدار ہے پیچھے ہٹئے تاکہ اسلامی لشکر کو جمع ہونے کا موقع ملے- آپ نے فرمایا کہ میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو اور پھر بلند آواز سے کہا.میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں، کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے؟ یہ کہہ کر دشمن کے لشکر کی طرف ان سولہ ۱۶ آدمیوں سمیت بڑھنا شروع کیا جو آپ کے ساتھ رہ گئے تھے مگر دشمن آپ کو نقصان نہ پہنچا سکا- پھر آپ نے ایک شخص کو جو بلند آواز والا تھا کہا کہ بلند آواز سے کہو.کہ اے اہل مدینہ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے- ایک صحابی کہتا ہے کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ اس وقت سخت ڈرے ہوئے تھے اور بھاگے جاتے تھے- ہم ان کو واپس موڑتے تھے اور وہ مڑتے نہ تھے- جس وقت یہ آواز آئی اس وقت یکدم ہماری حالت ایسی ہوگئی کہ گویا ہم مُردہ ہیں اور خدا کی آواز ہمیں بلاتی ہے- وہ کہتا ہے کہ اس آواز کے آتے ہی مَیں بے تاب ہوگیا.مَیں نے اپنے اونٹ کو واپس لے جانا چاہا مگر وہ باگ کے کھینچنے سے دُہرا ہوجاتا تھا مگر مڑتا نہ تھا میرے کان میں یہ آواز گونج رہی تھی کہ خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے- جب میں نے دیکھا کہ اونٹ مجھے دُور ہی دُور لئے جاتا ہے تو میں نے تلوار نکال کر اس کی گردن کاٹ دی ۵۷؎ اور پیدل دیوانہ وار اس آواز کی طرف بھاگ پڑا اور بے اختیار کہتا جاتا تھا کہ حاضرہوں حاضر ہوں- وہ کہتا ہے یہی حال سب لشکر کاتھا.جو سواری کو موڑ سکا وہ اس کو موڑ کر آپ کے پاس آگیا اور جو سواری کو نہ موڑ سکا وہ سواری سے کود کر پیدل دوڑ پڑا.جو یہ بھی نہ کرسکا اس نے سواری کو قتل کردیا اور آپ کی طرف دوڑ پڑا.اور چند ہی منٹ میں سب لوگ اس طرح گرد جمع ہوگئے جس طرح کہ کہتے ہیں کہ مُردے اسرافیل کے صُور پر قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوں گے.جنگ کے متعلق حضورﷺ کی ہدایات آپ لڑائی میں ہمیشہ تاکید کرتے تھے کہ مسلمان کبھی پہلے خود حملہ نہ کرے ہمیشہ دفاعی طور پر لڑے اور یہ کہ عورتوں کو نہ ماریں، بچوں کو نہ ماریں، پادریوں کو نہ ماریں، بوڑھے اور معذوروں کو نہ ماریں، جو ہتھیار ڈال دیں ان کو نہ ماریں، درخت نہ کاٹیں، عمارتیں نہ گرائیں،قصبوں اور گاؤں کو نہ لُوٹیں اور اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی نے ایسی غلطی کی ہے تو اس پر سخت ناراض ہوتے.۵۸؎
۵۵۸ فتح مکہ کے بعد حضور کا سلوک اپنے دشمنوں سے جب اﷲتعالیٰ نے آپ کو اہل مکہ پر فتح دی تو مکہ کے لوگ کانپ رہے تھے کہ اب نہ معلوم ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا- مدینہ کے لوگ جنہوں نے خود ان تکلیفوں کو نہ دیکھا تھا جو آپ کو دی گئیں مگر دوسروں سے سنا تھا وہ آپ کی تکلیف کا خیال کرکے مکہ کے لوگوں کے خلاف جوش میں بھرے ہوئے تھے.مگر آپ جب مکہ میں داخل ہوئے تو سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ اے لوگو! آج میں ان سب قصوروں کو جو تم نے میرے حق میں کئے ہیں معاف کرتاہوں تم لوگوں کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی.۵۹؎اگر جنگیں نہ ہوتیں اور آپ کو بادشاہت نہ ملتی تو آپ کامل نمونہ کس طرح دکھاتے؟ اور انسانی اخلاق کے اس پہلو کو کس طرح دکھاتے؟ اخلاق کے دونوں پہلوؤں کا ذکر غرض کہ جنگوں نے بھی آپ کے اخلاق کے ایک پہلو پر سے پردہ اُٹھایا اور آپ کی صُلح اور امن سے محبت اور آپ کے رحم کو ظاہر کیا کیونکہ سچا رحم کرنے والا اور عفو کرنے والا وہی ہے جسے طاقت ملے اور وہ رحم کرے اور سچا سخی وہی ہے جسے دولت ملے اور وہ اسے تقسیم کرے- آپ کو خدا تعالیٰ نے ظالم دشمنوں پر فتح دی اور آپ نے ان کو معاف کر دیا- آپ کو اس نے بادشاہت دی اور آپ نے اس بادشاہت میں بھی غربت سے گزارا کرکے اور سب مال حاجت مندوں میں تقسیم کرکے اس بات کو ثابت کردیا کہ آپ غربا ءکی خبرگیری کی تعلیم اس لئے نہیں دیتے تھے کہ آپ کے پاس کچھ تھا نہیں بلکہ آپ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے.مرض الموت میں آپ کی آخری نصیحت آپ نے زندگی کے ہر ایک لمحہ کو خدا کے لئے تکلیف اُٹھانے میں خرچ کیا ہے اور گویا آپ روز ہی خداکے لئے مارے جاتے تھے- ۶۳سال کی عمر میں آپؐ نے وفات پائی اور بیماری کی حالت میں بھی آپ کو یہی خیال تھا کہ کہیں لوگ میرے بارے شرک نہ کرنے لگیں- چنانچہ بیماریِ موت میں آپ باربار گھبرا گھبرا کر فرماتے تھے کہ خدا تعالیٰ بُرا کرے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت کی جگہیں بنالیا ہے.یعنی ان نبیوں کو الوہیت کی صفات دے کر ان سے دعائیں وغیرہ مانگتے ہیں جس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان ایسا نہ کریں- اسی طرح شرک کی تردید کرتے ہوئے آپ اپنے پیدا کرنے والے سے جاملے.
۵۵۹ آپ ؐکی بعثت کا نتیجہ باوجود اس کے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرستش کرتے ہیں حقیقت یہ ہے سب سے زیادہ شرک مٹانے والے محمدﷺ ہیں- انہوں نے اپنی سب عمر اسی کام میں خرچ کی ہے اور دنیا میں جو خیالات توحید کے نظر آتے ہیں وہ سب ان کی اور ان کے متبعین کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہیں-
۵۶۰ دورہ یورپ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم کانفرنس مذاہب کے اختتام پر لیکچر (فرموده مؤرخہ ۳-اکتوبر ۱۹۲۴ء) سرڈیزن راس! بہنو اور بھائیو! میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے انگلستان کے بعض علماء کے دل میں تحریک پیدا کی کہ ایسی کانفرنس منعقد کریں کہ مختلف مذاہب کے نمائندے اپنے اپنے مذہب کے متعلق اظہار خیالات کریں اور اس طرح پر ہر مذہب کے لوگوں کو غور کرنے کا موقع ملے کہ کس بات یا امر میں دوسرے مذاہب آپس میں اتحاد رکھتے ہیں اور وہ خیال یا ظنوں پر بنیاد نہیں رکھتے.میں اولاً اس کانفرنس کا بنیادی خیال رکھنے والے سرر اس کا عام ڈیلیگیٹس (DELEGATES) اور سامعین کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور پھر مسٹر لافٹس ہیرر اور مس شارپلز اور ایگزیکٹو کمیٹی کے دوسرے ممبروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ یہ کانفرنس ہے.اس کے بعد میں اس بات کی امید ظاہر کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اس کانفرنس کا موقع ملے گا کیونکہ ایک خیال پیدا کر کے چھوڑ نہیں دینا چاہئے.انسان کا یہ کام نہیں کہ ایک بچہ پیدا کر کے پھر اس کو جنگل میں چھوڑ دیا جاوے اس لئے ضروری ہے کہ تحریک جو پیدا ہوگئی ہے اسے جاری رکھا جاوے اور زیادہ وسعت کے ساتھ اس کو پھیلایا جاوے تاکہ دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو.میں امید کرتا ہوں کہ ہر مذہب کے لوگ اس موجودہ کانفرنس کو زیادہ مفید اور وسیع بنانے کے لئے ہمیشہ جدوجہد کریں گے کیونکہ یہ ایک ایسا کاز (CAUSE) ہے جس کے لئے سب کی مشترک کوشش کی ضرورت ہے اور رفتہ رفتہ یہ ایک نقطہ پر جمع ہونے کا سب سے بڑاذریعہ ہو جائے گی حقیقی اتحاد پیدا کر سکے گی.میں نے دیکھا ہے کہ اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے بعض لوگ فرانس اور ویلزسے
۵۶۱ آئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کانفرنس کامیاب ہوئی ہے.لیکن میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس سے اصلی فائدہ اسی وقت مرتب ہو گا جب کہ تمام مذاہب کے نمائندے اور لیڈر ان تمام خیالات پر پوری توجہ کریں جو یہاں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے بیان کئے ہیں ورنہ دوسرے لوگوں کو یہ خیال ہو سکتا ہے کہ سب اپنی جگہ درست ہیں اس سے امن قائم نہیں ہوتا.ضروری چیز جس سے بناءِ محبت قائم ہوگی وہ یہی ہے کہ ہم مفید اور کامل تعلیم کو اختیار کریں.میں ایک مسلم احمدی ہوں اور کامل یقین سے جو تجربہ اور معرفت سے پیدا ہوا ہے کہتا ہوں کہ اسلام حق ہے اور اس کے میرے پاس زبردست دلائل ہیں لیکن باوجود اس کے میرا یہ حق نہیں ہے کہ میں یہ کہوں کہ دوسرے کے خیالات نہ سنیں بلکہ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کے عقائد اور تعلیم کو سن کر ہم غور کریں کہ ہم اس راستے کو پالیں جو خدا کی مرضی کے موافق ہے نہ اپنے ارادے کے ماتحت ہوں یہ اپنی نفسانیت کی پیروی ہو گی.میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے تمام لیکچروں کو اسی نیت سے سنا ہے اور میں نے ہر ایک پر غور کیا ہے.یہ بات آج مجھ میں پیدا نہیں ہوئی.میں گیارہ برس کی عمر کا تھا جب میں نے سوچا کہ کیا مجھے اس لئے احمدی ہونا چاہئے کہ میرا باپ اس سلسلہ کا بانی ہے.میں اس پر غور کرنے کے لئے الگ چلا گیا اور میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر یہ حق نہیں تو میں اس کی مخالفت کروں گا مگر خدا نے مجھ پر اس حقیقت کو کھول دیا کہ یہ سلسلہ حق ہے اور خدا نے اس کو قائم کیا ہے اور اب کوئی چیز مجھ کو اس سے الگ نہیں کر سکتی.پس دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ جو کچھ انہوں نے سنا ہے اس پر غور کریں اور اس طرح پر اپنے وقت اور روپیہ کو مفید بنائیں.میں سرراس اور ان کی کمیٹی کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ اس کا نفر نس کو وسیع اور مضبوط کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں میں اور میرے متبعین اس سے زیادہ مدد دینے اور ہاتھ بٹانے کو تیار رہیں گے جو اس مرتبہ کی ہے.مجھ کو اس کانفرنس میں یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ نقط خیال کس طرح بدل جاتا ہے.اب تک قرآن مجید کی تکذیب کی جاتی تھی اور اس پر یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اس میں پہلے مذاہب کی صداقتیں کیوں ہیں.حالانکہ قرآن مجید کا دعویٰ ہے تھا کہ اگه به ۶۰؎ کوئی صداقت اور حق بھی ہو وہ قرآن مجید میں موجود ہے.لیکن اب اس کانفرنس میں یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ جو بھی سچی بات کہے وہ حق ہے اور اسی صداقت کو قوی کرنا چاہئے.نقطہ نگاہ کے تبدیل ہونے سے کہاں سے کہاں آ پہنچے ہیں اور اگر اس طرح غور
۵۶۲ کریں گے تو قرآن کریم کی سچائیوں کو اعلیٰ مقام پر پالیں گے.مذہب کی دوغرضیں ہیں.ایک خدا سے اتحاد دو سرا خدا کے بندوں سے اتحاد.اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ ہم میں دونوں باتیں پیدا ہوں اور دونوں قسم کے اتحاد ہم کو نصیب ہوں اور یہ بات ہم اپنے حال سے ثابت کریں نہ صرف باتوں سے.میں اپنے نفس کو بھی کہتا ہوں اور حاضرین کو بھی وہ جلد اتحاد کرلیں تاکہ مسٹررڈیارڈ کپلنگ ۶۱؎ کا یہ مقولہ کے مشرق اور مغرب کبھی نہیں مل سکتے ان کی زندگی میں ہی غلط ثابت ہو اور وہ خود ہی اس کے متعلق ایک دوسری نظم لکھ جاویں.انگلستان کو ایسا شاعر کب ملے گا اس لئے جلدی کرنی ہوچا ہئے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ان ارادوں میں ہم کو کامیاب کرے.میں پریزیڈنٹ صاحب سے اس امر میں متفق نہیں ہوں کہ ایک فرم نے اس کانفرنس کی رو ئداد چھاپنے کا وعدہ کر لیا ہے اس لئے ہم گو نہ بے فکر ہو گئے ہیں اس لئے میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کتاب کے خریدنے کے لئے کوشش کریں تاکہ وہ جلد شائع ہو جاوے.تقریر کے بعد تقریر کے بعد سرراس نے فرمایا.میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا سوائے اس کے کہ ان برکات سے حصہ لینے پر زور دوں جو ہولی کوارٹرزسے آئی ہیں.اس پر کانفرنس کا آخری جلسہ ختم ہوگیا.الحمد لله على ذالک.(الفضل ۶ نومبر ۱۹۲۴ء)
۵۶۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم لندن مشن کے متعلق ہدایات (۴ - اکتوبر ۱۹۲۴ء حضرت صاحب چند خدام کے ساتھ مولوی عبدالرحیم صاحب د رد ایم اے کو لندن مشن کی چابی عطاء فرمانے کیلئے ازراہ ِشفقت خود پٹنی تشریف لے گئے.پٹنی پہنچنے پر آپ نے لمبی دعا کروائی اور دعا کے بعد اپنے ہاتھ سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو کلید عطا فرمائی اور حسب ذیل ہدایات مبلغ ثانی کو فرمائیں.) میاں غلام فرید صاحب! آپ نے مولوی صاحب کی اطاعت میں کام کرنا ہے ساری ترقی اور برکات اپنے افسروں کی اطاعت میں ہیں.میں جانتا ہوں کہ طبائع میں اختلاف ہوتا ہے اور یہ قدرتی امر ہے اعلی ٰسے اعلی ٰ محبت کے تعلقات میں بھی رنج پیدا ہو جاتا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا باوجود اس محبت کے جو ان کو آنحضرت ﷺسے تھی ایک دفعہ آپ سے ناراض ہو گئیں لیکن وہ ایسی ناراضی نہ تھی کہ اس سے نافرمانی پیدا ہوتی بلکہ ان کے اخلاص و اطاعت میں زیادتی ہی ہوتی رہی اس لئے اگر اختلاف بھی ہو تو بھی کبھی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی نافرمانی کی جاوے بلکہ محبت کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہئے جو وہ سپرد کریں کیونکہ یہ کام خدا کا کام ہے نہ کسی انسان کا.دوسری بات یہ ہے کہ اطاعت کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں نشاط نہ ہو خداتعالی نے مومنین کی صفات میں یہ فرمایا ہے.لايجدوا في أنفهه جا تا ثيت ۶۲؎ یعنی آنحضرت ﷺکے فیصلہ پر وہ راضی ہو تے ہیں اور اس فیصلہ پر ان کے قلب میں کوئی تنگی نہیں پیدا ہوتی بلکہ وہ خوشی اور نشاط کے ساتھ اسے تسلیم کرتے ہیں.یہ اصول بتادیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی زندگی میں اپنے افسروں کی اطاعت کس طرح کرنی چاہئے کہ اس اطاعت میں نشاط ہو.تسلیم کامل جب ہی ہوتی ہے جبکہ اطاعت کے ساتھ نشاط اور شرح صدر ہو اور یہ بات ایمان
۵۶۴ سے پیدا ہوتی ہے.غلطی کا امکان تو ہر شخص سے ہوتا ہے.خداتعالی کی ذات کے سوا اور کون ہے جس سے غلطی کا امکان نہ ہو.بشریت کے لحاظ سے یہ ہر شخص سے ممکن ہے اور جہاں غلطی کا امکان ہو وہاں انسان اگر اطاعت کرتا ہے تو حقیقت میں ایمان کی وجہ سے ہی کرتا ہے اور وہ ایمان اس میں نشاط پیدا کر دیتا ہے.اگر سینہ میں تنگی ہو تو اپنی کمزوری ہے.آنحضرت ﷺکو احد کی جنگ میں تکلیف ہوئی اور اس لڑائی میں منافقوں نے جو مشورہ دیادراصل وہ صحیح ثابت ہوا.مگر صحابہ کی جو رائے تھی وہ اس کے خلاف تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر مجارٹی (MAJORITY) کے فیصلہ کو ترجیح دے دی آپ کے اس طرز عمل سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں.اول یہ کہ غلطی کا امکان ہر شخص سے ہے.دوم افسریا مجارٹی جس بات کا حکم دیں اس کی تعمیل کی جاوے اور نشاط سے کی جائے قرآن مجید اس بات پر زور دیتا ہے اور کامیابی کی روح اسی سے پیدا ہوتی ہے.ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھو کہ انسان اپنے وطن اور عزیزوں سے دور آتا ہے ہر قسم کی قربانی کرتا ہے پھر اس کی محنت اور کام کا کوئی نتیجہ نکلنا چاہئے.جو لوگ یہاں کام کرتے رہے ہیں ان سے بعض کوتاہیاں ہوتی رہیں اور اس وجہ سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرکز میں پورا احساس نہ ہو لیکن اب انشاء اللہ یہ نہیں ہو گا.مرکز میں احساس قدر تاً اب بہت زیادہ ہو گا اس لئے اب یہ کام زیادہ نتیجہ خیز نہ ہو تو یہ مبلّغین کی غلطی ہوگی اور وہ اس کے ذمہ دار اور جوابدہ ہوں گے اس لئے کہ یہ ممکن نہیں کہ صحیح طریق پر کوشش ہو اور کوئی نتیجہ نہ نکلے.مولوی عبد الرحیم صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ جس کے ساتھ کام کرنا ہو اس کے جذبات کا خیال رکھیں.محبت کے ساتھ ان سے کام لیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بے جا طور پر کسی بات کو نظرانداز کردیا جائے.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ کا کام ہے.اگر اس میں ذرا بھی غفلت سے کام لیا جاوے تو بہت بڑا نقصان پہنچ جاتاہے.اور میں یہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی بات آپ کے منشاء کے خلاف کرے تو آپ اس کو کہہ نہیں سکتے میں اس کو بُزدلی کہتا ہوں.یہ بات نہیں ہونی چا ہے.یہ ذاتی کام نہیں کہ اس میں انسان اگر نظرانداز کر دے تو کچھ بات نہیں مگر اس سےسلسلہ کے انتظام پر اثر پڑتا ہے.ذمہ داری یہ ہے کہ انسان کام لے.اخلاق کا کمال یہ نہیں کہ کام نہ ہو تا ہو اور افسر خاموش رہے.ایسے موقع پر یہی اخلاق ہے کہ اپنے ماتحت سے باز پُرس کرے مگر اس میں اخلاق اور محبت کے پہلو کو ترک نہ کرے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر
۵۶۵ اس کا کوئی نقص ہے اور وہ ماتحت کام نہ کرتا ہو تو اس کی اطلاع فوراً مرکز کو کرنی چاہے اوربتانا چاہئے کہ کیا نقص ہے؟ یہاں کے انچارج ہمیشہ ایک غلطی کرتے رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ایک مستقل چیز سمجھتے رہے ہیں.سلسلہ کو بھی ایسی اطلاع نہیں دی جس سے معلوم ہو کہ کیا غلطی ہو رہی ہے.لکھا تو یہ لکھ دیا کہ فلاں سے غلطی ہوئی اللہ معاف کرے مگر یہ نہ بتایا کہ کیا غلطی ہوئی.گویا وہ خود ہی ایک مستقل چیز تھے مرکز کے لئے ضروری نہیں کہ اس سے واقف ہو.یہ غلطی پہلوں نے کی ہے آئنده نہیں ہونی چاہئے.مبلغ کا فرض ہے کہ ہر حالت کا اور ایک ایک بات کا نقشہ بھیجے خواہ مخالف کے متعلق ہو یا موافق کے اور ان کا فرض ہے کہ اپنی موافق اور مخالف ہر قسم کی کوششوں کا علم رکھیں.رسول الله ﷺاس قدر خیال رکھتے تھے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے بعض کا قول نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے.ھو اذن ۳ نبی کریم ﷺ تو کان ہی کان ہیں یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ نبی کریمؐ کس قدر محتاط اور باخبر تھے اور آپ کا یہ نمونہ اسی لئے ہے کہ مومن اسی طرح ہوشیار اور باخبر رہے.لوگوں کو یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ یہ جھوٹ ہے غلط ہے وہ اس سے زیادہ چاہتے ہیں.سنی سنائی بات نہ ہو واقعات سے اس کی تائید ہو.غرض کوئی بات ہومخالف ہو یا موافق وه مرکز میں لکھنی چاہئے بغیر اس کےصحیح ہدایات نہیں مل سکتیں اور کام کا نقصان ہوتا ہے پس پہلے اگر یہ غلطی ہوئی ہے تو آئندہ نہیں ہونی چاہئے.مبلّغ کے فرائض میں یہ بات بھی ہے کہ وہ سوشل ہو اور لوگوں سے اپنے تعلقات کو بڑھائے.اس معاملہ میں بھی اب تک مبلّغین سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے سوسائٹی کے اعلی ٰطبقہ کو چھوڑ دیا اور انہوں نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور کوشش ہی نہیں کی کہ ان سے ملیں اور اپنے تعلقات کو بڑھائیں.کسی کام کی عمدگی کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کے کام کو کیا سمجھتے ہیں اور جس قسم کی سوسائٹی میں وہ کام کرتا ہے اس پر اثر پڑتا ہے.آنحضرت ﷺنے دیکھا کہ ایک مسلمان دشمن کے سامنے اکڑ کر چلتا تھا آپ نے فرمایا کہ اکڑ کر چلنا اچھا نہیں مگر اس کا چلناخد ا کو پسند ہے.؎ بعض اوقات دکھانا بھی ضروری ہوتا ہے.غرض تعلقات کے بڑھانے میں سوسائٹی کے اعلیٰ
۵۶۶ طبقہ کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے اعلی ٰسوسائٹی سے تعلق ہو تو انسان کے اثر کادائرہ بڑھ جاتا ہے اور با رسوخ ہو کر کام زیادہ وسعت سے کر سکتا ہے اور ان تعلقات کا بڑھانا بھی کام سمجھا جائے گا.یہاں جو لوگ پولیٹکل یا سوشل حالت کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے سمجھے جاتے ہیں اگر وہ ہمارے مبلغین کو بلائیں یا ان کے ہاں آئیں تو لوگ محسوس کریں گے کہ سوسائٹی پر ان کا رعب اور ادب ہے.خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو یا روحانیت کے لحاظ سے اور پھر یہ لوگ خواہ مسلمان نہ ہوں لیکن ان کے ذریعہ سے مدد ملتی ہے.ہندوستان میں دیکھا ہے کہ جن بڑے شہروں میں بااثر ہندوؤں یا غیر احمدی مسلمانوں کے ہمارے لوگوں سے سوشل تعلقات ہیں وہاں ہماری جماعت کو لیکچروں کے متعلق آسانی ہوتی ہے اور لیکچر ہو جاتے ہیں.میری مراد اعلی ٰطبقہ سے چوٹی کا طبقہ ہے اس سے تعلقات پیدا کرو.ایک سوسائٹی کے آدمی ہوتے ہیں انہوں نے کوئی ملکی یا علمی کام نہیں کیا ہو تا مگروہ ہر سوسائٹی میں دخل رکھتے ہیں.بعض اوقات پولیٹیکل آدمیوں سے بھی زیادہ ان کا رسوخ ہوتا ہے لوگوں کو ان کے اثر سے فائدہ پہنچتا ہے اور وہ فائدہ پہنچاتے ہیں اس لئے ان کے اثر کا حلقہ وسیع ہو جاتا ہے.پس ایسے لوگوں سے تعلقات بڑھانا اپنے کام کو وسیع کرنا ہے.دوسرے درجہ پر پولیٹکس والے ہیں.سوسائٹی میں گوان کا درجہ اول نہیں مگر ان کا اثربہت زیادہ ہو تاہے.تیسرے اخباری یا علمی مذاق کے لوگ ہیں جو مصنف ہوتے ہیں ان میں بھی چوٹی کے آدمی چُن لئے جاویں.خبریں پہنچانے والی ایجنسیوں کے سوا سائیکلوجی اور دوسرے علم کے ماہرین سے تعلقات بڑھائے جائیں.چونکہ یہ علمی مذاق کے لوگ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں ان کے ذریعہ انسان ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے کام کو تقویت ہوتی ہے.سب سے قابل آدمی وہ ہے جو خوش مذاق ہو، رونی شکل والا سوسائٹی میں مقبول نہیں ہو سکتا.علمی سوسائٹیوں میں ہیو مر( زنده دلی) کے بغیر انسان ترقی نہیں کر سکتا ہے.ایسی مجلسوں میں اختلاف ہوتا ہے اپنی بات کہتاہی جاوے اور دوسروں کی بھی بغیر کبید گی اور کشیدگی کے سن لے.اس طرز پر بات ہو کہ چڑے نہیں اور ناراض نہ ہو اختلاف ہو تب بھی سنے.مبلغ جب مختلف سوسائٹیوں میں تعلقات کو بڑھاتا ہے تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملا قاتوں
۵۶۷ میں ایسار ہے کہ لوگ اعتراض نہ کر سکیں اور وہ اپنے کریکٹر کو مضبوط رکھے اس کا آخر اثر ہوتا ہے.پھر جن باتوں پر یورپ اعتراض کرتا ہے بار بار ان کو پیش کیا جاوے مثلاً کثرت ازدواج کا مسئلہ ہے ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو اس کے مؤید ہیں بعض اخبارات میں فرضی نام سے مضمون لکھ دیتے ہیں ایسے لوگوں سے اسی اخبار کی معرفت خط و کتابت ہو سکتی ہے اور پھر تعلقات بڑھا کر ان کے پیچھے پڑو جو اس کے مؤید ہوں.ان سے اس قسم کی سوسائٹیاں بناؤ ایسی سوسائٹیاں خودغلط فہمیوں کو دور کردیں گی اور ان اصولوں کو توڑ دیں گی جو ہماری راہ میں روک ہو سکتے ہیں.مذہبی نقطہ خیال کو مد نظر رکھ کر عیسائیوں کو کہہ سکتے ہیں کہ اگلے نبیوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں اور بعض قومی ضروریات اس کی متقضی ہوتی ہیں، جب کچھ لوگ پیدا ہو جائیں گئے تو وہ آپ دوسروں سے بحث کریں گے.ٍ عیسائی مذہب میں جو یہ فرقے یونیشیرین وغیرہ پیدا ہوئے ہیں یہ اسی طرح ہوئے ہیں.اگر اس طریق پر عمل ہو تو کچھ عرصہ کے بعد ہمارا سوشل رسوخ بڑھ جائے گا اور لوگ باتیں سننے لگیں گے.اسی طرح طلاق کا مسئلہ ہے.اس مسئلہ کے ماہر جو قانون دان ہیں یا قانون ساز کمیٹیوں کے ممبر ہیں ان سے ملو اور ان کو اسلام کی مکمل تعلیم مسئلہ طلاق کے متعلق بتاؤ.جب وہ اس مسئلہ کے سارے پہلوؤں کو دیکھیں گے تو اسلام کی تعلیم کو مکمل اور ہر طرح قابل عمل اور ضروری یقین کرنے لگیں گے.اس طرح پر جو غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں وہ دور ہو جائیں گی اور جب ایک علمی اور قانون دان طبقہ کی طرف سے اس کی تائید اور تصریح ہوگی تو آسانی ہو جائے گی.غرض اپنے کام کے متعلق پہلے سے غور کرو کہ کس طرح پر وہ زیادہ مفید اور با اثر ہو سکتا ہے.کام کرنے والے کی نگاہ ایک طرف نہ ہو بلکہ اسے چاہئے کہ چاروں طرف نگاہ رکھے جرنیل کا یہی کام ہے.جو لوگ یہاں تحقیق ، تعلیم یا تبادلہ خیالات کے لئے آئیں ان کے متعلق اس امر کا خاص طور پر خیال رکھا جاوے کہ کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے ان کو یہ احساس ہو کہ ہماری ہتک کی گئی ہے بلکہ ان سے اخلاق اور تکریم سے پیش آؤ کہ یہ ہمارا فرض ہے.اگر کوئی بات ان کی ناپسند بھی ہو تو اپنے اخلاق سے اسے درست کرو.ظاہری صفائی کا خاص طور پر خیال رکھا جاوے اسلام اس کی ہدایت کرتا ہے اور یہاں تو یہ حالت ہے کہ اس کا دوسروں پر اثر پڑتا ہے.ہمارے ملک میں تو
۵۶۸ جس قدر کوئی غلیظ ہولوگ اسے صوفی کہہ دیں گے مگریہاں یہ بات نہیں.پنجاب میں ایک شخص کو تبلیغ کی جاتی تھی اور اسے کچھ توجہ بھی تھی مگر پرنس آف ویلز کے جانے پر جب کہ میں بھی لاہور گیا تو اس نے مجھے دیکھا.اس کے بعد جب اس کو تبلیغ کی گئی تو اس نے کہا میں کیسے مان لوں کیونکہ اس نے توبانات کا کوٹ پہنا ہوا تھا.کوٹ تو سرج کا تھا اور اس نے یہی سمجھ لیا کہ ایسا کوٹ پہننے سے خدا سے تعلق نہیں ہوتا.بہت سے لوگ حضرت صاحب پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ پلاؤ کھاتے ہیں.قادیان میں ایک ہندوڈپٹی تھا اس نے حضرت خلیفہ اول کو کہا کہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات میں پوچھنا چاہتا ہوں.مولوی صاحب نے کہا پوچھئے.تو اس نے کہا کہ سناہے مرزا صاحب بادام روغن استعمال کرتے ہیں.مولوی صاحب نے کہا کہ ہمارے ہاں حلال ہے.میرا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی حالت اور ہے.وہاں لوگ خدا پرستی اور کمال کا اندازہ ایسی چیزوں سے کرتے ہیں جن کا ان باتوں سے تعلق نہیں اور وہاں صفائی کا نہ ہونا معیوب نہیں سمجھتے مگر یہاں یہ حالت نہیں اس لئے مکان کی اور باغ کی اور اپنی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے.یہ صرف اس لئے ضروری نہیں کہ یہاں ان باتوں کا اثر پڑتا ہے بلکہ اسلام نے خود اس کو ضروری قرار دیا ہے میں ان ظاہری امور کا خیال رکھو.اگر کسی امر میں افسر ماتحت میں اختلاف ہو تو ماتحت کا فرض ہے کہ وہ افسر کے احکام کی اطاعت اور تعمیل کرے.البتہ اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے اختلاف کے متعلق بطور اپیل پیش کرے.شکایت کے طور پر نہ ہو.جو بِلاوجہ پیش کرتا ہے وہ غیبت کرتا ہے اس سے بچو - اسی طرح بعض اوقات افسردیکھتا ہے کہ ماتحت با قاعدہ کام نہیں کرتا یا اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ لکھتا ہے کہ میں شکایت نہیں کرتا مگر وہ ایسا کرتا ہے یہ بُزدلی کی بات ہے صاف طور پر لکھنا چاہئے.ایسا ہی ماتحت جب لکھے تو وہ مثال اور واقعات کی بناء پر لکھے.یونہی کسی بات کا بِلاوجہ معقول پیش کر دینا قابل غور نہیں ہو گا.افسر کو چاہئے کہ جرأت سے کام لے.جب تک جرات سے کام نہ ہو وہ نہیں ہو سکتا.بُزدلی سے یہی نہیں کہ کام نہیں ہوتا بلکہ خراب ہوتا ہے اور فساد بڑھتا ہے.باقی کام کی تفاصیل اور ہدایات بتادی جائیں گی.مبلّغ کا فرض ہو گا کہ ہمارے جو طالب علم آتے ہیں ان کو شریعت کی پابندی کرائے دل نہ
۵۶۹ چِڑائے.چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی خیال رکھا جاوے.بعض وقت انسان پر ایسے آتے ہیں کہ وہ بہت نرم ہوتا ہے اور اس پر اثر ہوتا ہے.دہریوں پر بھی ایسے وقت آجاتے ہیں اس لئے کبھی یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ یہ معمولی بات ہے یا کیا فائدہ ہو گا.ان کا محبت اور اخلاق سے مذ ہبی پابندی کا خیال رکھا جاوے.اس کے بعد لندن کے مبلغ کی موزونیت پر من وجع تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور حضرت اس کے متعلق ضروری فیصلہ فرماتے رہے اور مبلّغین کو یہاں کے لوگوں سے کام لینے کے طریق پر مختصر ہدایات دیتے رہے.پھر نیچر کی تعریف کا سوال جو کانفرنس میں بھی اٹھا تھا پیش ہوا.حضرت نے فرمایا : نیچروہ قانون ہے جس کے ذریعہ ہر چیز اپنی بناوٹ اور ساخت کے مطابق کام کرتی ہے.نیچر گورننگ چیز نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو یہ سائنس دان خدا کی کبھی کوئی نیچر بتاتے مگر ایسا نہیں ہے.لاء (قانون) اصل چیز کی بناوٹ سے پیدا ہوتا ہے.ہر چیز کے دوسری چیزوں سے مل کر جو افعال سرزد ہوتے ہیں وہ اس کی نیچر ہے.حضرت خلیفۃ المسیح کو لا إله إلا الله کے معنی یہ سمجھائے گئے تھے کہ خدا تعالی کے سوا کسی چیز کی حیثیت مستقل نہیں اور یہ درست ہے کہ دنیاکی ہر چیز دوسری چیز سے کوئی نہ کوئی نسبتی تعلق رکھتی ہے.قرآن شریف میں خدا تعالی نے اسی اصول کو بتایا ہے ومن کل شيئ خلقنا زوجين فلو ۶۵؎ اس میں اسی نسبتی تعلق کی طرف اشارہ ہے.غرض نیچر بذات خود کوئی گورننگ چیز نہیں ہے جنہوں نے ایسا سمجھا ہے غلطی کھائی ہے.بیعت اس کے بعد افریقہ کے مسٹراشوڈی نے بیعت کی اس نے پہلے سے تحریری بیعت کی ہوئی تھی مگر آج اسے یہ سعادت نصیب ہوئی آگے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بھی بیعت کی.(الفضل ۱۱.نومبر ۱۹۲۴ء)
۵۷۰ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم مکتوب بنام ایڈ یٹر الفضل (تحریر فرموده ۸-اکتوبر ۱۹۲۴ء) اس ہفتہ کی ولایتی ڈاک سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایده الله تعالی کی طرف سے خاکسار کے نام جو خط موصول ہوا ہے.وہ حضور نے میرے ایک عریضہ کے جواب میں رقم فرمایا ہے میں نے اپنے خط میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے واقعہ سنگساری کے متعلق حضور کے تاربنام دول یورپ اور جمعیۃ الا قوام پر بعض غیراحمدی اخبارات کے شوروشر کا ذکر کیا تھا.نیز میں نے لکھا تھا کہ بعض اخبارات نے کابل کی حمایت میں احمدیوں کو مرتد قرار دیکر واجب القتل ٹھہرایا ہے.علاوہ ازیں میں نے اس مراسلت کا ذکر کیا تھا.جو بہائیوں کے اخبار "میرزا عزیز اللہ خان پرائیویٹ سیکرٹری شوقی ربانی حیفا ‘‘کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حیفا تشریف لے جانے کے متعلق شائع ہوئی.اور جس میں انگور کا خوشہ دینے.مذہبی بات چیت کرنے کے لئے کہنے اور ٹھہرنے کی دعوت دینے کا ذکر کرنے کے بعد لکھا تھا.ٍ ’’دو محترم شخص ان کے پاس سٹیشن پر دعوت لے کر گئے.مگر خلیفہ قادیانی نے محض اپنے خادم کے ذریعہ گفتگو کی.اور خود ان سے دو کلمے مہربانی کے بھی نہیں کہے.اور ان کے طریق وواد کے مقابلہ میں کچھ ملاطفت بھی ظاہر نہیں کرتے" اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا:.’’ہم کو جماعت قادیان کے اس اخلاقی مظاہرہ پر بے حد تعجب ہے مگر شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ صبح کی نامرادی کا اثر ابھی ان کی طبیعت پر باقی تھا.جس کی تفصیل یہ ہے کہ جناب مرزا بدیع نے جو سرکاری دفتر میں ایک معزز عہدے پر ممتاز ہیں کہا کہ ایک گاڑی آج صبح سرکاری دفتر میں آئی.اور رئیس قادیان کے سیکرٹری نے مجھ سے پوچھا کہ کیا قدس سے حیفا کے حاکم کو اطلاع نہیں دی گئی کہ رئیس قادیان سے ملاقات اور ان کا احترام کریں تو میں نے تحقیق کر کے جواب دیا کہ
۵۷۱ ایسی کوئی اطلاع نہیں آئی.پھر وہ واپس چلے گئے.حقیقت حال یہ ہے" مذکورہ بالا مور کے متعلق جو میں نے خلاصتہً عرض کئے ہیں.حضور نے نہایت ہی شفقت اور ذره نوازی سے اپنی انتہائی مصروفیت اور علالت طبع کے باوجود حسب ذیل مکتوب گرامی میرے نام ارسال کیا فرمایا ہے.جس پر مختلف عنوان میں نے خود لگائے ہیں.(ایڈیٹر) عزیز مکرم! السلام عليكم - آپ کا خط ملاغیر احمدیوں کا شور کہ مسیحی حکومتوں سے کیوں مرافعہ کیا گیا ہے فضول ہے.اول وہ تو خود ترکوں کے متعلق ان سے مرافعہ کرتے رہے ہیں.دوسرے انہوں نے اس قتل( مولوی نعمت اللہ خان صاحب کا قتل.مرتب) کی داد دے کر اپنے اندرونہ کو ظاہر کردیا ہے.کیا ان بھیڑیوں سے مرافعہ کیا جاتا.اور اگر ان لوگوں کے نزدیک مرتد کی سزا قتل ہے تو پھر ان کو ایسے ہی معاملہ اور سلوک کی غیروں سے بھی امید رکھنی چاہیئے.اگر مسیحی اور دوسری حکومتیں یہی معاملہ مسلمان ہونے والوں سے کریں تو مسلمان جو تعداد میں مسیحیوں اور بدھوں سے کم ہیں ان کے لئے ترقی کاکون سامید ان رہ جائے اور کوئی سچادین کس طرح ترقی کرے؟ اگر یہ سلوک درست ہے تو اہل مکہ جو کچھ مسلمانوں سے کرتے تھے عین انصاف کے مطابق تھاکیونکہ وہ بھی اپنے دین کو سچاسمجھ کر ایساکرتے تھے.اگر مسلمانوں کا حق ہے کہ چونکہ ان کا دین سچا ہے اس لئے اس سے مرتد ہونے والے کی سزا قتل ہے تو پھر ہر ایک قوم جو اپنے دین کو سچا سمجھتی ہے اس کا یہی حق ہو گا.اور اس سے اسلام پر جس قدر تباہی آئے گی وہ ظاہرہی ہے کیونکہ مسلمان زیادہ تر غیر حکومتوں کے ماتحت ہیں.اگر مسلمان مرتد ہوتے رہیں تو ان کو عام طور پر مسلمان قتل نہیں کر سکیں گے لیکن اگر غیر لوگ مسلمان ہوں گے تو ان کو دوسری حکومتیں کر سکیں گی.پس اسلام کی ترقی کا راستہ مسدود ہو جائے گا اور اس کی تباہی کا راستہ کھلا رہے گا.میں سمجھتا ہوں کہ غیراحمدی اس فتویٰ پر اسی وجہ سے مُصّر ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ دوسرے لوگ اس فتویٰ کے مقابلہ کی وجہ سے ہمارے خلاف یہ ہتھیار نہیں استعمال کریں گے کیونکہ وہ تہذیب ظاہری میں ترقی یافتہ ہیں.مگر کیا یہ شرافت ہے کہ ہم اس لئے کسی کو نقصان پہنچائیں کہ وہ بالمقابل ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا اس سبب سے نہیں کہ وہ کمزور ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اس فعل کو خلاف انسانیت سمجھتا ہے.بعض اخباروں کا یہ لکھنا کہ شہید مرحوم خوست کے باغیوں کا سرغنہ تھا کس قدر جہالت پر دلالت کرتا ہے.ابھی چند ماہ ہوۓ کہ خوست کے باغیوں نے دواحمدیوں کے گاؤں
۵۷۲ جلادیئے.زمیندار بھی لکھتا ہے کہ احمدیوں نے خوست میں یہ مشہور کر کے کہ امیر احمدی ہوگیا ہے، بغاوت پھیلو ادی.باغی امیر کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں کہ وہ احمدیوں کے اثر کے نیچے ہے.اور باوجود اس کے ایک ذمہ دار اخبار لکھتا ہے کہ وہ خوست کے باغیوں کا سرغنہ تھا.یہ ایسی ہی بات ہے جس طرح کوئی اخبار یہ لکھ دہے کہ مصطفٰے کمال پاشا یونانی سازشیوں کا سرغنہ ہے.جو خط میرا بہائیوں کے متعلق شائع ہوا ہے اس کا پچھلا حصہ بھائی جی (شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی )سے لکھوایا تھا.ان سے لکھنے میں غلطی ہوگئی ہے.اس میں لکھا ہے کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ مولوی رحیم بخش صاحب گئے تھے تو میں نے ان کو کہا کہ ان لوگوں سے جاکر ملیں.لیکن میں نے ان کو یہ لکھوایا تھا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ لوگ آئے ہیں تو میں نے مولوی رحیم بخش صاحب کو کہا کہ وہ جاکر ان سے ملیں.کیونکہ یہ تو مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ مولوی رحیم بخش صاحب وہاں گئے ہیں.ٍ اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم صبح کے وقت سیر کو چلے.راستہ میں میں نے گاڑی والے سے پوچھا کہ کیا یہاں بہائی رہتے ہیں.اس نے کہاں ہاں اسی سڑک پر رہتے ہیں اور راستہ میں ایک مکان دکھایا کہ یہ ان کا ہے.جب ہم سیر سے واپس آرہے تھے تو بعض دوستوں نے چاہا کہ وہاں جاکر ان کی حالت کو دیکھیں.میں نے سڑک پر گاڑی کھڑی کروالی.اور مولوی رحیم بخش صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور میاں شریف احمد صاحب اندر چلے گئے.وہاں سے وہ واپس آئے اور انہوں نے بتایا کہ مردانے مکان میں صرف بچے تھے.ہم نے ان میں سے شوقی کے بھائی کی تصویر لے لی ہے اور مکان کی.اور یہ کہ نوکر کہتاتھا کہ ٹھہرو.ہم نے کہاجب شوقی آفندی صاحب یہاں نہیں تو ہم نے کیا ٹھہرنا ہے.نوکر نے وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کہا کہ شوقی آفندی کے والد اندر ہیں مگر وہ نہ آئے.اس کے بعد ہم ہوٹل کو اور پھر سٹیشن کو واپس آگئے.کیونکہ دمشق کی گاڑی کا وقت قریب تھا.اور ہم حیفا میں رات صرف اس وجہ سے ٹھہرے تھے کہ گاڑی دوسرے دن دس بجے چلنی تھی.جب ہم سٹیشن پر پہنچے تو ابھی اندر نہ گئے تھے کہ کسی شخص نے مجھے بتایا کہ شوقی آفندی کے والد آئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ مرزا صاحب کے خلیفہ جو ہمارے مکان پر گئے تھے وہ کہاں ہیں؟ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے مولوی رحیم بخش صاحب کو کہا کہ آپ ان سے جا کر ملیں اور بتائیں کہ میں گیا تھا کہ ان کی غلط فہمی دور ہوجائے.اس کے بعد میں سٹیشن میں داخل ہونے
۵۷۳ کے لئے بڑھا تو ایک صاحب جن کی نسبت بعد میں معلوم ہوا کہ شوقی آفندی صاحب کے والد تھے مجھ سے ملے اور پوچھا کہ آپ ہمارے مکان پر گئے تھے.میں نے کہا کہ نہیں.میرے سیکرٹری اور بعض اور دوست گئے تھے.کیا انہوں نے آپ کو بتایا نہیں میں نے ان کو آپ کی طرف بھیجا تھا.انہوں نے کہا کہ نہیں مجھے نہیں ملے.میں نے اِدھر اُدھر دیکھاتو مولوی صاحب پاس نہ تھے کسی نے بتایا کہ وہ اندر چلے گئے ہیں.اس کے بعد شوقی صاحب کے والد نے کہا کہ مکان پر چلئے اور کچھ ٹھہریئے.میں نے ان کو بتایا کہ ہم گھرسے ولایت کے لئے نکلے ہیں.جہازوں کے ٹکٹ لئے ہوئے ہیں.وقت پر نہ پہنچنے سے ہزاروں کا نقصان ہوتا ہے.راستہ میں حسب پروگرام پندرہ دن کے لئے اُترے ہیں کہ دمشق جائیں اور تبلیغ کریں اس میں سے اب کل آٹھ دن باقی ہیں.ہم یہاں کس طرح ٹھہر سکتے ہیں.اور دمشق کے سفر کو جس کی خاطر ہم ادھر آئے ہیں کیو نکر چھوڑ سکتے ہیں.آپ ہمیں معذور سمجھیں.اس پر وہ اصرار کرنے لگے کہ نہیں یہاں ضرور ٹھہریئے.میں نے ان کو بتایا کہ دیکھئے اسباب ریل میں رکھا ہوا ہے آدمی سوار ہو چکے ہیں.وقت کی پابندی ہے ہم کس طرح ٹھہر سکتے ہیں.اتنے میں آدمی آیا کہ میں چلنے والی ہے چلئے.میں معذرت کر کے اندر چلاگیا.یہ ان کی دعوت کی حقیقت ہے اور تبلیغ کے موقع کی اصلیت.انگور کے خوشہ کا واقعہ یہ ہے کہ جب تم ہوٹل میں پہنچے تو ایک خوشہ انگور کا میں نے اپنے کمرہ میں دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیسا ہے؟ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جو لوگ شوقی صاحب کے مکان پر گئے تھے ان کو تحفہ کے طور پر انہوں نے دیا تھا.میں نے اسی وقت ان کو بلا کر کہا کہ آپ نے خوا مخواہ اعتراض سر لیا ہے.میں ان لوگوں کو جانتاہوں یہ خوشہ طعنہ بن کر رہے گا.اس کو میرے پاس سے لے جاؤ.تم کو نہ لینا چاہیے تھاورنہ بدلہ دینا چاہیے تھا.انہوں نے کہا کہ ہم معذرت کرتے تھے مگر نوکر نے کہا کہ آپ اس کو لے جاویں.میں نے کہا کہ یہ لوگ تو مجاوروں کی طرح ہیں آپ کو زائر سمجھے ہوں گے بطور تبرک کے دے دیا.ڈپٹی گورنر حیفا کے متعلق جو بات لکھی ہے وہ بھی سرتاپا جھوٹ ہے.سر کلیٹن صاحب ایکٹنگ گورنر فلسطین نے میری دعوت کی اور خود ہی کہا کہ حیفا کے نائب گورنر کو وہ فون کریں گے کہ ہر طرح آپ کے آرام کی فکر کریں آپ ان کو اطلاع دے دیں.اسی طرح انہوں نے اور اپنے دوستوں کے نام دمشق اور روم کے لئے چٹّھیاں لکھ کر دیں.جن میں سے ایک بوجہ برطانیہ کے وزیر اٹلی صاحب کی عدم موجودگی کے اب تک ہمارے پاس ہے.جب ہم حیفا پہنچے تو چو نکہ انتظام
۵۷۴ سب ہم کر چکے تھے ہمیں ان سے مدد کی کوئی ضرورت نہ پیش آئی.جب ہم سیر کو جارہے تھے کہ ان کی عدالت بھی راستے میں آگئی.میں نے مولوی رحیم بخش صاحب سے کہا کہ گو ضرورت کوئی نہیں مگر اخلاق چاہتے ہیں کہ آپ ان سے مل آئیں تاکہ ان کو اگر اطلاع ملی ہے تو یہ شکایت نہ ہو کہ مجھ سے ملے نہیں.مولوی صاحب ان سے ملے.انہوں نے بتایا کہ چونکہ کل اتوار تھا.اور اتوار کو تار وغیرہ سب بند ہوتے ہیں اس وجہ سے گورنر صاحب اطلاع نہ دے سکے ہوں گے.اس کے بعد پوچھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ جو میرے متعلق کام ہو بتایا جائے.مولوی صاحب نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انتظام سب ہوچکا ہے.پھر نائب گورنر صاحب نے ان سے کچھ ناشتہ کرنے کی درخواست کی.انہوں نے معذرت کی اور چلے آئے.یہ حقیقت اس واقعہ کی ہے.اس کے بعد واپسی پر جب شیخ یعقوب علی صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب پیچھے رہ گئے تو انہی نائب گورنر صاحب نے ان کے لئے خاص انتظام کیا ،جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت تھی وہ بھی دیا اور فون کر کے مجھے ایک درمیانی سٹیشن کے افسر کی معرفت ان کے متعلق پوری اطلاع دی.جن مرزابدیع صاحب کی نسبت یہ واقعہ منسوب کیا جاتا ہے اگر اس کا اصلی نام بہائی شائع کردیں تو دنیا کو خود ان کی بات کی حقیقت معلوم ہوجائے گی.میری طبیعت نہایت کمزور ہوگئی ہے.کہیں کمزور ہوگئی ہیں اور سینے میں درد ہے.بھوک بالکل بند ہوگئی ہے.خاکسار مرزا محموداحمد (الفضل یکم نومبر ۱۹۲۴ء)
۵۷۵ لندن کے نومسلموں کو پیغام احمدیت (فرموده ۱۲.اکتوبر ۱۹۲۴ء) أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر ہمشیرگان و برادران السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ‘میں نے آج آپ کو ایک تو اس لئے تکلیف دی ہے کہ اب چند دنوں میں مَیں اور میرے احباب جانے والے ہیں آپ لوگوں سے پھر ایک دفعہ ملاقات ہوجائے اور دوسرے ایک اور ضروری اور اہم غرض کے لئے بلایا ہے جس کا بیان کرنا ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض کے لئے تکلیف کا موجب ہو لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا بیان کرنا مجھ پر فرض ہے اس لئے میں اس کے بیان کرنے سے نہیں رُک سکتا اور میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ جماعت جس کا مَیں اس وقت امام ہوں ایک علیٰحدہ نام سے پکاری جاتی ہے اور اس کا انتظام دوسری اسلام کی طرف منسوب ہونے والی جماعتوں سے بالکل الگ ہےیہ فرق اور یہ اختلاف کس وجہ سے ہے ؟ کیا کسی ایک عقیدہ کے اختلاف کی وجہ سے ؟کیا عبادت کی کسی تفصیل کے اختلاف کی وجہ سے ؟ نہیں ہرگز نہیں- اگر یہ اختلاف ہوتا تو میں ہرگز اس اختلاف کی وجہ سے ایک علیحدہ نام کے نیچے کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا کیونکہ میرے نزدیک اتحاد جماعت تمام اجتہادوں پر مقدم ہے- ہر ایک اجتہاد خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس قابل ہے کہ اسے اتحاد کی خاطر نمایاں نہ ہونے دیا جائے.پس اس اختلاف کی وجہ کوئی اجتہادی امر نہیں ہے بلکہ اس کا موجب یہ ہے کہ احمدی جماعت کے بانی کا یہ دعویٰ تھا کہ بوجہ اس کے کہ مسلمان اپنے عقیدوں اور اپنے عملوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے بالکل دُور ہوگئے تھے- خدا تعالیٰ نے اپنی قدیم سنت کے مطابق آپ کو نبی بنا کر بھیجا تاکہ حقیقی اسلام کو قائم کریں اور اس سچی روح کو دلوں میں پیدا کریں جس کے بغیر کوئی مذہبی ترقی ہو نہیں سکتی-
۵۷۶ پس چونکہ آپ نبی تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے ذریعہ سے ایک نئی جماعت بنائی جاتی جس طرح کہ ہمیشہ سے نبیوں کے زمانہ میں نئی جماعتیں بنائی جاتی رہی ہیں- پس خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں دین کی ترقی حضرت مسیح موعودؑ بانی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ وابستگی کے ساتھ معلّق کردی ہے اور اس سلسلہ کے بغیر اسلام کے زندہ رہنے کی کوئی اُمید نہیں ہے- انسانی عقل انہیں واقعات کے متعلق سوچ سکتی ہے جن کے سب اسباب سامنے موجود ہوں مگر خدا تعالیٰ اس غیب سے واقف ہے جس تک انسان کی نظر نہیں پہنچ سکتی- پس فیصلہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ وہی ہے جو مَیں نے اوپر بیان کیا ہے.اے ہمشیرگان وبرادران! آپ لوگوں نے اس مذہب کو چھوڑ کر جس پر آپ کے باپ دادا چل رہے تھے ایک نئے مذہب کو اختیار کیا ہےآپ کی یہ قربانی قابل قدر ہے مگر آپ کو معلوم ہے کہ اسلام کیا ہے ؟ اسپلام کے معنی کامل طور پر سپرد کردینے کے ہیں اور جب تک کہ انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے کامل طور پر سپرد نہیں کردیتا وہ نام میں تو مسلم ہوتا ہے مگر حقیقت میں مسلم نہیں ہوتا مگر کیا نام حقیقت کے مقابلہ میں کوئی حقیقت رکھتا ہے ؟ کوئی نام نفع نہیں بخشتا جب تک اس کے ساتھ حقیقت بھی نہ ہو- پس جب کہ خدا تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس وقت وہ ان لوگوں کے ذریعہ سے اسلام کو فتح اور غلبہ دے جواحمدیت سے منسوب ہیں تو پھر اگر ہمارا یہ دعویٰ کہ ہم خدا تعالیٰ کو سب کچھ سپرد کرچکے ہیں سچا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہیں جو اس زمانہ میں بلند کی گئی ہے.تمام نبی اور تمام قانون اسی لئے عزت کے مستحق ہوتے ہیں کہ وہ اس ہستی کی طرف سے آتے ہیں جو کبھی غلطی نہیں کرتی- اگر نوحؑ کے زمانہ میں نوحؑ کی آواز پرلبیک کرنا ضروری تھا.اگر ابراہیم ؑ کے زمانہ میں ابراہیم ؑ کی آواز پر میں پر لبیک کہنا ضروری تھا تو صرف اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بولتا تھا- اور موسٰیؑ کے زمانہ میں اورپھر مسیحؑ کے زمانہ میں ان کی زبان پر لبیک کہنا ضروری تھا تو صرف اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنی طرف بلاتے تھے ورنہ یہ لوگ ہمارے جیسے آدمی تھے- اگر خدا تعالیٰ کی آواز ان کے پیچھے نہ ہوتی تو ان کو کوئی رتبہ حاصل نہ تھا- پس اصل آواز خدا کی ہے خواہ وہ کسی منہ سے نکلے اس کا قبول کرنا ضروری ہے اور اس کی طرف سے بے پروائی کرنے سے کبھی روحانی ترقی حاصل نہیں ہوسکتی-
۵۷۷ پس اب جبکہ خدا تعالیٰ مسیح موعودؑ میں ہوکر بولا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کی آواز کی طرف توجہ کریں اور اپنی مرضی کو اس کی مرضی پر مقدم نہ کریں.اے ہمشیرگان وبرادران! آپ لوگوں نے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک قدم اُٹھایا ہے مگر کیا جب آپ کو معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کی رضا دوسرے قدم کے اُٹھانے کے بعد مل سکتی ہے تو کیا آپ دوسرا قدم نہیں اُٹھائیں گے اور صرف اس امر پر کفایت کریں گے کہ جو ہم نے کرنا تھا کرلیا- بے شک آپ کا حق ہے کہ آپ اس امر پر غور کریں کہ مدعی کا دعویٰ سچا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ثابت ہوتو اس سے جھوٹوں والا سلوک کریں اور اگر وہ پاگل ثابت ہوتو اس سے پاگلوں والا سلوک کریں- یہ آپ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ اگر وہ سچا ہے تو بھی ہمیں اس کے قبول کرنے کی ضرورت نہیں- اس کا بغیر کسی جدید قانون کے آنا ہرگز اس امر کا ہمیں مجاز نہیں کردیتا کہ ہم اسے قبول نہ کریں- یوشعؑ، داؤدؑ، سلیمانؑ، یوحناؑ، مسیحؑ بغیر کسی قانون کے آئے تھے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے ان پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا- حق یہ ہے کہ نبی صرف نئی شریعت کے بیان کرنے کے لئے نہیں آتے بلکہ بسا اوقات وہ نئی روح کے پیدا کرنے کے لئے ہ ی آتے ہیں اور اس کے لئے ضرورت ہے کہ لوگ ان سے تعلق پیدا کریں- پس خدا تعالیٰ اپنی رضا کو ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے وابستہ کردیتا ہے تا لوگ مجبور ہوں کہ ان کا ساتھ دیں اور اس طرح وہ اتحاد پیدا ہو اور وہ روح پیدا ہو جس کے پیدا کرنے کے لئے ان کو بھیجا گیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اختلاف بُری چیز ہے لیکن کون نبی آیا ہے جس کے آنے سے یہ ظاہراً اختلاف نہ پیدا ہوا ہو- کیا موسٰیؑ کے وقت میں کیا مسیحؑ کے وقت میں کیا نبی کریمؐ کے وقت میں اختلاف پیدا نہیں ہوا؟ کیا پھر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے ان نبیوں کو دعویٰ کرنے پر مجبور نہیں کیا- ہم دنیا میں ایک ڈاکٹر کو اس امر کا اہل سمجھتے ہیں کہ وہ جب سمجھے کہ ہمارے جسم کو چیرنے کی ضرورت ہے اسے چیرنے دیں کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری صحت اس چیرنے پھاڑنے سے وابستہ ہے مگر کیا یہ امر تعجب کے قابل نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو اس کا اہل نہیں سمجھتے اور اس کے فیصلہ پر اعتراض کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس نے اختلاف کے سامان کیوں پیدا کئے.مگر حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نبیوں کے ذریعہ سے اختلاف پیدا نہیں کرتا بلکہ اختلاف کو ظاہر کرتاہے- نبی سورج کی طرح ہوتے ہیں ان کے آنے سے دلوں کی حالت ظاہر ہوجاتی ہے جس طرح سورج کے نکلنے سے رنگوں کا اختلاف ظاہر ہوجاتا ہے- کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سورج بُری چیز ہے کیونکہ اس کے نکلنے
۵۷۸ سے دنیا کی یکرنگی جاتی رہی اور مختلف رنگ نظر آنے لگے ہیں اور کئی چیزوں کی مَیل اور گندگی ظاہر ہوگئی ہے- اگر سورج کے نکلنے پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اختلاف مہیا نہیں کرتا بلکہ اختلاف کو ظاہر کرکے اس کے دور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس قدر نبی آئے ہیں پہلے ان کے زمانہ میں اختلاف ہوا ہے پھر ان کے ذریعہ سے اتحاد قائم ہوا ہے- اگر وہ نہ آتے تو اتحاد بھی کبھی نہ ہوتا- غرض اے عزیزو! اگر ایک مدّعی کی سچائی ظاہر ہوجائے تواس قسم کے شُبہات کی وجہ سے اس کے ماننے میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے- کیا آپ دیکھتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ نے کیا کچھ کیا ہے کہتے ہیں کہ مسلمان بیس کروڑ سے زیادہ ہیں مگر کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ان بیس کروڑ کو اسلام کی خدمت کی وہ توفیق نہیں ملتی جو مسیح موعودؑ کی پیدا کردہ قلیل جماعت کررہی ہے- یہ امر اس امر کا ظاہر ثبوت ہے کہ اسلام کا مستقبل مسیح موعودؑ کے ساتھ وابستہ ہے اور ہر شخص جو اسلام سے انس رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ اس کی جماعت میں داخل ہوکر اس ذمہ داری کو پورا کرے جو ہر فردِ بشر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہے.بے شک تکالیف ہوں گی اور لوگوں کے طعنے بھی سُننے ہوں گے مگر ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والوں کے لئے یہ باتیں لازم رہی ہیں اور آپ اس سے بچ نہیں سکتے- اِن قربانیوں کے مقابلہ میں جو ہمیں سچائی کے قبول کرنے میں کرنی پڑتی ہیں اس عظیم الشان نتیجہ کو نہیں بھولنا چاہئے- جو اِن قربانیوں کے بعد نکلے گا اور اگر کوئی نتیجہ بھی نہ نکلے تو کیا ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم جو کچھ منہ سے کہتے یادل میں سمجھتے ہیں اس کی سچائی کو اپنے عمل سے ثابت کردیں ؟ اے عزیزو! میں نے خدا تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچا دیا ہے اور اب میں خدا تعالیٰ کے سامنے بری الذمہ ہوں- میں جب اﷲتعالیٰ کے سامنے اپنی دنیاوی زندگی کو پورا کرکے حاضر ہوں گا تو اس سے کہوں گا کہ اے میرے رب میں نے تیرا پیغا م کھلے لفظوں میں سنادیا تھا آگے اس کا منوانا میرے اختیار میں نہ تھا- جو لوگ آپ میں سے ایسے ہوں کہ ابھی ان پر مسیح موعودؑ کی سچائی نہ کھلی ہو ان کو میں اس ذریعۂ تحقیق کی طرف توجہ دلاتا ہوں جسے مسیح موعودؑ نے تجویز کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ متواتر کئی دن تک خدا تعالیٰ سے دعا کرکے سوئیں کہ اے خدا !اگر یہ شخص سچا ہے تو اس کی سچائی ہم پر کھول دے.اور اگر وہ ایسا کریں گے تو یقینا ًان پر خدا تعالیٰ مسیح موعودؑ کی سچائی ان کے دل پر کھول دے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو گمراہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ ان
۵۷۹ کی ہدایت چاہتا ہے اور خدا کے فیصلہ سے اچھا فیصلہ اور کیا ہوسکتا ہے.اے عزیزو! اب میں اس دعا پر اس پیغام کو ختم کرتا ہوں.کہ اﷲتعالیٰ آپ کے دلوں کو کھول دے اور سچائی کو قبول کرنے کی توفیق دے تاکہ آپ کی محنتیں ضائع نہ جائیں اور تا ایسا نہ ہو کہ ایک طرف تو آپ اپنے عزیزوں سے مذہب کی خاطر قطع تعلق کریں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے بھی آپ کا تعلق پیدا نہ ہو- اللّٰہم آمین.اے اﷲتو ان لوگوں کو بھی جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں اپنی مرضی کے سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق دے اور ان کو بھی جو دنیا کے چاروں گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اسی طرح تیری مخلوق ہیں جس طرح ہم ہیں تو رحم کرنے والا مہربان ہے- آمین.سوال و جواب حضرت صاحب کا پیغام پڑھا جانے کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح اردو میں اس کا جواب دیتے اور چودھری ظفراللہ خان صاحب فوراً ترجمان کی حیثیت سے اسے انگریزی میں بیان کرتے.(1) ایک سپرچُولِسٹ نے پردہ کے متعلق سوال کیا.آپ نے فرمایا :- (1) اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیئے ہیں وہ کسی اور مذہب نے نہیں دیئے.اسلام عورت کی بہت عزت کرتا ہے وہ ان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ مسجدوں میں جاکر عبادت کریں لیکچرسن سکیں اس وقت پردہ کی ضرورت مسلمان عورتوں کے لئے ایک پولٹیکل پردہ کا رنگ رکھتی ہے.حکمران قوم کی حالت اور ہوتی ہے.اگر کوئی شخص کسی مسلمان عورت کی ہتک کرے تو اس کا کیا انتظام ہو سکتا ہے.جو عورتیں کاروباری زندگی رکھتی ہیں ان کے لئے پردہ کے حدود اور ہوں گے.عورت کو اسلام نے جس حصہ کے چھپانے کی اجازت دی ہے اس کو قائم رکھ کر وہ اپنے تمام کاروبار سرانجام دے سکتی ہے اور اس کا جس قدر رواج ہو گاسوسائٹی کی اخلاقی حالت ترقی کرے گی.(۴) قرآن مجید خدا تعالی کا کلام ہے.آنحضرت ﷺ کا نہیں.قرآن مجید چو نکہ خدا تعالی کی آخری اور کامل کتاب ہے اس لئے اس میں وہ تمام تعلیمات موجود ہیں جو ہر زمانہ کے لئے مفید اور ضروری ہیں.چونکہ خدا تعالی عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ انسان کی کیا ضروریات کسی زمانہ میں ہوں گی اس کی اخلاقی اور روحانی ترقیات کے لئے جو کچھ بھی ضروری ہے وہ سب موجود ہے.
۵۸۰ (۳) کاروباری زندگی میں عورتیں پردہ کی رعایت رکھ کر مردوں سے کو آپریٹ کر سکتی ہیں.(۴) ہمارا فرض یہی ہے کہ خدا تعالی کے احکام لوگوں تک پہنچادیں اور ان کو سمجھادیں ہم عمل پر ان کو مجبور نہیں کر سکتے.معقولیت کے ساتھ سمجھاسکتے ہیں کسی حکم کی حکمت اور فوائد دلیل سے بتا سکتے ہیں لیکن یہ کہ ہم اس پر عمل کراو یں یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں.ہاں یہ میں کہتا ہوں کہ اگر معقولیت کے ساتھ سن لینے کے بعد بھی ایک حق کا انکار کریں گے تو خدا کی طرف سے ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ انہیں اس کو تسلیم کرنا پڑے گا.(۵) انسان کی آزادی کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے ایک گھوڑے کے گلے میں رسی پڑی ہوئی ہو اور وہ بہت لمبی ہو اور وہ اِدهر اُد هر چرتا پھرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آزاد ہے لیکن جب اس رسی کے انتہائی درجہ تک پہنچتا ہے تب اسے معلوم ہو تا ہے کہ وہ آزاد نہیں بلکہ پابند ہے یہ خیال صحیح نہیں کہ انسان آزاد ہے اس آزادی کی ایک انتہاء ہے.(۶) جولوگ خدا تعالی کے ماننے والے ہیں وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ قیامت ہوگی اور دنیا کا انجام ہو گا تو اس صورت میں ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی نہ کوئی آخری قانون ہے اور یہ قدرتی بات ہے.یہی ہم کہتے ہیں کہ وہ آخری قانون قرآن مجید ہے.انسان جس قدر ترقی کرے قرآن مجید اس کی ضروریات کے لئے کافی ہے.ایک پروفیسر صاحب سے گفتگو معمولی رسمی گفتگو مزاج پُرسی وغیرہ سے شروع ہوئی.اس نے دریافت کیا کہ آپ پیرس میں کب تک ٹھہریں گے.آپ نے فرمایا ایک ہفتہ کے قریب ٹھہرنے کا ارادہ ہے.پھر اس نے پوچھا کہ ہندوستان کے سِوا آپ کا سلسلہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے.آپ نے فرمایا ہندوستان تو سلسلہ کا مرکز ہی ہے اس کے علاوہ تمام دنیا میں میری جماعت پھیلی ہوئی ہے.مغربی افریقہ ,ماریشس ،سیلون ،افغانستان ،بخارا، ایران، چین، سماٹره، مصر، انگلستان ،امریکہ بیلجیئم ، ہالینڈ، روس، جرمنی، آسٹریلیا غرض ہر حصئہ دنیا میں یہ جماعت پھیلی ہوئی ہے اور خدا کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.میں نے شام (سیریا) کا سفر کیا ہے دمشق میں یہ حالت تھی کہ ہروقت کئی کئی سو آدمی کا مجمع رہتا تھا.ہوٹل والے نے آخر دروازے بند کر دیئے اور پولیس کو بلایا.لوگ ہوٹل کے نیچے کثیر تعداد میں جمع رہتے اور پولیس سے جا کر اجازت لے لے کر آتے تھے اور جب میں وہاں سے بیروت کے لئے روانہ ہو اتو باوجود یہ کہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی بہت بڑا مجمع سٹیشن پر ہو گیا.
۵۸۱ حضرت مرزا صاحب کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جس طرح پر حضرت موسیٰؑ،، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت عیسیٰ عليهم السلام نبی تھے اسی طرح مسیح موعود بھی نبی تھے.ہاں ان کے متعلق ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ یہ نبوت ان کو آنحضرت ﷺکی کامل اتباع اور فرمانبرداری کے طفیل ملی تھی اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ وہ مسیح موعود ہے جس مسیح کی آمد کا و عدہ عیسائیوں کو دیا گیا تھایا اسلام میں جس کی بشارت تھی وہ مرزا احمدہی تھے اب کوئی اور موعود نہیں آئے گا اور مسیح کی قوت و روحانیت میں آئے تھے یہ نہیں کہ مسیح کی روح ان میں آگئی تھی پس ہم حضرت مسیح موعود کے متعلق دو باتوں پر ایمان رکھتے ہیں ایک یہ کہ وہ نبی تھے دوسرے وہ مسیح کی سپرٹ اور طاقت لے کر آئے تھے.جب انسان کو خدا بنایا گیایعنی مسیح کے متعلق لوگوں نے مبالغہ کر کے اس کو خدا قرار دیا تو خدا تعالی کی غیرت نے تقاضا کیا کہ وہ دنیا پرمسیح کی حقیقت کو واضح کرے چنانچہ اس نے آنحضرت ﷺ کے ایک خادم اور متبع کو یہ عزت دی کہ وہ مسیح موعود ہوا اور نبی اللہ ہو کر آیا تا کہ مسیح کی پوزیشن واضح ہو جائے.ایک عورت کے سوال کا جواب اس مقام پر ایک عورت نے سوال کیا.کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ یہ سپرٹ پھر آئے گی؟ حضرت صاحب :.موعود کا جہاں تک تعلق ہے وہ پورا ہو چکا ہے ہاں اس کی روح اور قوت میں کوئی اور بھی آسکتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یحییٰ کا آنا تھا کہ وہ ایلیا کی روح اور قوت لے کر آئے.حضرت مسیح سے خود یہ سوال ہوا ہے.یہودیوں کا ملا کی نبی کی کتاب کے وعدہ کے موافقت یہ عقیدہ تھا کہ ایلیا دوبارہ آئے گا ۶۶؎ چنانچہ انہوں نے جب مسیح کادعو یٰ سناتوانہوں نے مسیح سے ایلیا کے آنے کے متعلق پوچھا.مسیح نے یہی جواب دیا کہ وہ آنے والا تو آچکا ہے اور وہ یو حنا بپتسمہ دینے والا ہے.۶۷؎ مسیح نے اس طرح پر دو سری آمد کا خود فیصلہ کر دیا کہ کسی کے دوبارہ آنے سے خود اس کاہی آنا مراد نہیں ہوتا بلکہ کوئی دوسرا شخص اس روح اور قوت سے آتا ہے.ایسا ہی مسیح نے متی کی انجیل میں یہ بھی کہا کہ تم مجھے دوبارہ نہ دیکھو گے ۶۸؎ اور پھر کہا ہے مبارک ہے وہ جو آپ کے نام سے آئے.اس میں بھی مسیح نے بتادیا ہے کہ مسیح کی دو بارہ آمد سے مراد روحانی آمد تھی نہ کہ خود اپنا آنا.جو لوگ یہ خیال کر بیٹھے ہیں کہ مسیح دو بارہ آئے گا وہ غلطی پر ہیں.اگر قیامت تک بھی انتظار کریں تو وہ نہیں آئے گا.آنے والا آچکا اور مبارک وہ جو اس کو قبول کرتا ہے کیونکہ وہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہو گا اور میں اسی آنے والے کا دوسرا خلیفہ
۵۸۲ ہوں جس طرح پر پیٹر( پطرس) دو سرا خلیفہ تھا.ہم یقین رکھتے ہیں کہ نبی کی روح ہمیشہ اپنے متبعین میں کام کرتی رہتی ہے.جو شخص نبی کی کامل اتباع کرے گا وہ ان برکات کو پالے گا جو اس نبی کو دیئے جاتے تھے اور اس کے ہاتھ پر نشان ظاہر ہوں گے.مسیح نے بھی اسی لئے اپنے حواریوں کو کہا تھا کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو تو پہاڑ تمہارے کہنے سے اپنی جگہ سے ہل جائیں گے.۶۹؎ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جو برکات دنیا کو دیئے گئے وہ اب بھی موجود ہیں.ہم میں ہزاروں ایسے ہیں جو ان برکات سے حصہ لیتے ہیں میں خود اس معاملہ میں تجربہ کار ہوں خدا تعالی کی طرف سے برکات اور فضل آتے ہیں.خدا تعالی نے اکثر نشانات میرے ہاتھ پر ظاہر کئے ہیں اور قبل ازوقت اس نے مجھ کو بعض امور کی اطلاع دی اور میری دعاؤں کوسنا اور قبول فرمایا.میں ان میں سے دو واقعات بتاتا ہوں.(حضرت اقدس نے اس مقام پر ڈاکٹر مطلوب خان کی وفات کی خبر اور اس کی وجہ سے اس کے بوڑھے والدین کے تصور سے اپنے قلب کی کیفیت اور پھر اس کی خارق عادت زندگی کی بشارت کا ملنا اور اس کے زندہ رہنے کی خبر اور کیفیت کا ملنا بیان کیا.عورت نے سن کر کہا.کہ في الحقیقت یہ عجیب رؤیا ہے.پھر حضرت نے پلیگ کے متعلق واقعہ بیان کیا کہ ) گورنمنٹ نے اعلان کر دیا کہ اب پلیگ بالکل دور ہو گئی ہے اور اب اندیشہ نہیں.مگر خدا تعالی نے مجھے بتایا کہ پلیگ کا دور ہ ہو گا اور خطرناک ہو گا.چنانچہ میں نے قبل ازوقت اس کے متعلق ایک خطبہ پڑھاجو اخبارات میں شائع ہو گیا اس وقت کہیں پلیگ کا نام و نشان نہ تھا.لیکن بعد میں جب یہ بھی رؤیا شائع ہو چکی تو کچھ عرصہ کے بعد اس کا خطرناک دورہ ہوا اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب آدمی اس سے ہلاک ہوئے.میں نے انگلستان کے متعلق بھی ایک رؤیا دیکھا کہ میں ایک سمندر کے کنارہ پر ایک جرنیل کی حیثیت سے اُتر رہا ہوں اور خدا نے میرا نام ولیم دی کا نکرر (فاتح ولیم )رکھا اس وقت یہاں آنے کا خیال بھی نہ تھا.پھر خدا تعالی نے اس کے لئے عجیب سامان پیدا کئے.مذہبی کانفرنس کی طرف سے دعوت دی گئی.تب میں نے اپنی جماعت سے مشورہ کیا مرکز سے میرا باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہے.جماعت کی تنظیم اور تربیت بہت بڑا کام ہے.مختلف محکموں کے سیکر ٹریوں کو ہدایات دینا اور ان کے کام کی نگرانی دنیا کے ہر حصہ کے خطوط کا پڑھنا اور ان کے جوابات کے لئے
۵۸۳ ہدایات یہ اتنا بڑا کام ہے کہ بعض اوقات میں صبح سے لے کر آدھی رات سے زیادہ تک کام کرتا ہوں.جماعت نے مجھے یہاں خود آنے کا مشورہ دیا اور خدا نے اس کے لئے آپ سامان پیدا کئے اور میرا یہاں آنا ہوا ہے اور اس کا جو نتیجہ او راثر ہے وہ ظاہر ہے.پہلی بات جو لوگوں کو سلسلہ احمدیہ کے متعلق روکتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اسے ایک گمنام تحریک سمجھتے تھے مگر میرے آنے کے بعد یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ عظیم الشان تحریک ہے.اب لوگوں کے دل کُھل گئے ہیں اور اس کے سننے کے لئے تیار ہیں.مجھے انگلستان کے بڑے بڑے آدمیوں نے کہا ہے کہ یہاں پچاس فیصدی سے زیادہ لوگ آپ کی تحریک سے واقف ہو گئے ہیں یہ سن کر پروفیسر نے اور اس کی سیکرٹری نے کہا کہ آپ نے موقع عظیم حاصل کرلیا.(اس کے بعد حافظ صاحب نے نیر صاحب کے اعلان کے موافق تلاوت کی اور پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا.) احمدیوں سے غیراحمدیوں کا سلوک ایک سپر چولسٹ :- میں نے جناب سے بہت باتیں کی ہیں مگر میں ایک سوال اور پوچھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کا رویہ احمدیہ موومنٹ کی طرف کیسا ہے جو ایسی موومنٹ ہے کہ سُرعت کے پھیل رہی ہے.حضرت صاحب :- ہماری جماعت کا۷ ۹ یا ۹۸فیصدی حصہ مسلمانوں میں سے ہی آیا ہے اور باقی ۲ یا ۳ فیصدی وہ لوگ ہیں جو غیر اقوام سے آئے ہیں.جو لوگ مسلمانوں میں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور جو غور و فکر کرتے ہیں وہ ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور ہر طبقہ کے لوگ ہمارے ساتھ ملے ہیں علمائے اسلام ،تاجر ، زمیندار،گر یجویٹس و غیره - جو لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں یا تو وہ اپنی ذاتی اغراض اور مفاد کی بناء پر کرتے ہیں اور بعض ناواقفیت کی وجہ سے.جن لوگوں کا اختلاف ناواقفیت کی وجہ سے ہوتا ہے وہ واقفیت ہونے پر ہماری طرف آرہے ہیں.اور نفس مخالفت کوئی چیز نہیں جب کوئی نیا نبی آتا ہے تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی ہے مگر اس مخالفت میں اس کا کامیاب ہونا اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہوتا ہے.اسی طرح ہماری مخالفت بھی ہوئی اور بہت ہوئی مگر خدا تعالی نے جیسا کے بانی سلسلہ حضرت مسیح موعود کو پہلے سے خبر دی تھی کہ مخالفت ہوگی اور باوجود مخالفت کے خدا کامیاب کرے گا ایسا ہی ہوا.ہر قسم کے لوگوں نے مخالفت کی اور خدا تعالی نے ہر جگہ ہماری تائید کی اور
۵۸۴ اب یہ حالت ہے کہ جو مخالف ہیں وہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ جماعت اسلام کی خدمت اور اشاعت کرنے میں اپنی نظیر آپ ہے اور جمات کی عملی حالت کے دوسروں کے مقابلہ میں اعلیٰ ہونے کا بھی اقرار کرتے ہیں تعلیم یافتہ طبقہ ہماری طرف آرہا ہے.افریقہ میں اشاعت اسلام ایک اور شخص:- میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ افریقہ میں بمقابلہ عیسائیت کے اسلام کیوں سُرعت سے پھیل رہا ہے.حضرت صاحب :.اصل بات یہ ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام انسان ایک ہی حالت میں ہوں ان کے اندر انقلاب ہوتے رہتے ہیں.کسی مذہب کی حقیقی کامیابی کے لئے ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ہر طبقہ کے لوگوں کی اصلاح کی قوت ہو ،اس کی تعلیم معقول اور مؤثر ہو اور قابل عمل ہو.پھراس تعلیم کے ثمرات اور نتائج ہمیشہ نظر آ سکیں.اور یہ اصلاح کسی ایک طبقہ کی نہیں بلکہ ادنی ٰ اور اعلی ٰسب کی اصلاح کر سکے اور ہر طبقہ کے لوگوں کو اس سے اوپر لے جا سکے.عیسائیت حقیقی اصلاح نہیں کر سکتی اور اس لئے عملاً وہ ناکام ثابت ہو چکی ہے.اس میں ایک حصہ پر زور دیا گیا اور دوسری اخلاقی قوتوں کو چھوڑ دیا گیا ہے.مثلاً ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے مگر ہر شخص جو عیسائی بھی ہے یہ سمجھتاہے کہ یہ تعلیم عمل کے قابل نہیں.غرض عیسائیت ایسی ناکام ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ قومی حیثیت سے عیسائی ہیں وہ مذہبی طور پر عیسائی نہیں برخلاف اس کے اسلام انسان کی تمام اخلاقی قوتوں کی تربیت کرتا ہے اور اس کی روحانیت کو نشو و نما دیتا ہے اور اس تعلیم کے ثمرات موجود ہیں.اس کے اصول ایسے سادہ اور فطرت کے مطابق ہیں کہ ہر شخص اگر تعصّب نہ کرے ان کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے.غرض اسلام اپنی تعلیم کے کمال اور اس کی آسانی اور اس کے مؤ ثر ہونے کی وجہ سے اور اس لحاظ سے کہ وہ تمام قوتوں کی تربیت کرتا ہے کامیاب ہے اور عیسائیت اس کے مقابلہ میں ناکام ہے.امریکہ میں تبلیغ ایک دوسرا شخص اسلام :.مجھے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں آپ نے مشنری بھیجا ہے اور وہاں جماعت ترقی کر رہی ہے.کیا آپ مجھے مطلع کریں گے کہ اب کیا حالت ہے.جواب : پچھلے سال وہاں تین سو آدمیوں نے بیعت کی ہے اور اسی طرح رفتارِ ترقی ہے.کل یہاں تین آدمیوں کے خطوط میرے پاس امریکہ سے آئے ہیں.امریکہ کے تین مختلف شہروں کے
۵۸۵ بڑے آدمی ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر میں امریکہ جاؤں تو وہ ہر طرح مدد کرنے کے لئے تیار ہیں.ایک خط بوسٹن سے آیا ہے دوسرانیویارک سے اور تیسرے کا پتہ اس وقت یاد نہیں.مگر میں سلسلہ کی اہم مرکزی ضروریات کی وجہ سے نہیں جاسکتا تاہم اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں لوگوں کو بہت توجہ ہو رہی ہے.قرآن اور بائبل کا مطالعہ تیسرا شخص:- اگر انسان تعصّبات سے الگ ہو کر قرآن اور بائبل کا مطالعہ کرے اور مقابلہ کرنا جاوے تو کیا اس طرح پر مطالعہ کرنے سے اس پر آنحضرت ﷺ کی فضیلت مسیح پر کھل جائے گی اور مسیح موعود کی فضیلت بھی.حضرت صاحب :.محض پڑھ لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.مطالعہ سے پہلے ایک تو اس مقصد کو قائم کر لینا چاہئے جس کے لئے اس نے مطالعہ شروع کیا ہے.دوسرے ایک معیار مقرر کرنا ہو گا کہ فضیلت اس کے لحاظ سے ثابت ہوگی.اگر مطالعہ کرنے والا صحیح نقطہ خیال کو مد نظر رکھے گا تو و ہ صحیح نتیجہ کو پا لے گا.آنحضرت ﷺکی فضیلت مسیح پر بہت طریقوں سے ثابت ہے اور واضح ہے کیا بلحاظ تعلیم کے کیابلحاظ تعلیم کے اثرات کے.اگر ایک ایک بات لی جاوے اوراس میں مسیح کی تعلیم اور اس کے اثرات کو دیکھیں اور بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اور اس کے نتائج کو دیکھیں تو حیرت انگیز فرق اور امتیاز معلوم ہوتا ہے اور انسان کو ماننا پڑتا ہے کہ آنحضرت ﷺ افضل ہیں.حضرت مسیح کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے مگر آنحضرت ﷺایک دائمی شریعت اور کامل قانون اور کتاب لے کر آئے اور پھر حضرت مسیح کی تعلیم اخلاقی صرف ایک پہلو پر زور دیتی تھی قطع نظر اس کے کہ اس سے کوئی اصلاح ہو سکتی ہو یا نہ ہو مگر آنحضرت ﷺنے جو تعلیم دی ہے وہ یہی نہیں کہ تمام پہلوؤں کی تربیت کرتی ہے بلکہ وہ ایسی کامل ہے کہ وہ اصلاح کی قوت اپنے اندر رکھتی ہے پھر مسیح یہی نہیں کہ کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس نے اقرار کیا کہ کوئی نئی بات لے کر نہیں آیا جیسا کہ پہاڑی وعظ میں اس نے اقرار کیا ہے.پس اس غرض کے لئے متقابل مطالعہ شروع کرنے سے پہلے معیار ِصداقت و فضیلت قائم کرنا چاہئے اور ایک ایک بات لے کر دیکھا جاوے.قرآن اور بائبل کا آپ مقابلہ کریں گے تو صاف کھل جائے گا کہ قرآن کریم کی تعلیم بہت اعلیٰ ہے اور یہ صرف ایک محدود قوم اسرا ئیل
۵۸۶ کی گم شده بھیڑوں کے لئے آیامگر آنحضرت ﷺکی دعوت عالمگیر تھی وہ کل نوعِ انسان کے لئے ہمیشہ کے لئے نبی ہو کر آئے.مسیح موعود کا مسیح سے افضل ہونے کا مسئلہ بھی مشکل نہیں قرآن کریم ایک اصل بتاتا ہے کہ مذہب سوسائٹی کی ترقی کے ساتھ ترقی کرتا ہے اور ایک قسم کا ارتقاء مذہب میں بھی ہوتا رہتا ہے اور وہ ارتقاء خداتعالی کے خلفاء کے ذریعہ ہوتا ہے جو خداتعالی سے وحی پا کر پیش کرتے ہیں.پس جو پہلے کے بعد آئے گا وہ یقیناً اس سے اس حالت موجودہ کے لحاظ سے افضل ہوگا.لیکن احمد کی فضیلت دراصل انحضرت ﷺ ہی کی فضیلت ہے کہ آپ کی تعلیم اور اس کے اثر سے اس کے غلاموں میں مسیح کے مقام کو پالیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ جاتا ہے.نبی دو قسم کے ہوتے ہیں یا تو شریعت لے کر آتے ہیں اور یا وہ پہلے نبی کے متبع ہوتے ہیں.؎ شریعت چونکہ آنحضرت ﷺ پر ختم ہو گئی اور آپ ایسی کامل شریعت اور کتاب لائے کہ اب قیامت تک کی انسانی، اخلاقی اور روحانی ترقیات کے لئے اس میں اثر اور قوت موجود ہے اسی لئے آئندہ خدا کے روحانی فضل اور برکت کو آنحضرت ﷺ کی اتباع کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا اور حضرت احمد نے آپ ہی سے پایا اور اب احمد کے متبّعین احمد کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر ان برکات اور فضلوں کو حاصل کر رہے ہیں.اور وہ برکات اب مسیح کے متبعین میں نہیں ہیں.ان کو بارہا اس مقابلہ کے لئے حضرت مسیح موعود نے بُلایا اور کوئی سامنے نہیں آیا اور اب بھی نہیں آسکتا.پس مسیح موعود کے ثمرات جاری ہیں اور مسیح کے ختم ہو چکے اس سے مسیح کی پوزیشن سمجھ میں آجاتی ہے.مسیح موعود اور حضرت مسیح کی روح ایک سپرچولسٹ:.کیا مسیح موعوداحمد میں مسیح کی روح آگئی تھی یا اس کے روح کے اثر کے نیچے مسیح موعود کام کرتے تھے؟ حضرت صاحب :.ہم تناسخ کے قائل نہیں ہیں کہ یہ تسلیم کریں کہ مسیح کی روح مسیح موعود میں آگئی اور نہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ان کی روح کے اثر کے نیچے وہ کام کرتے تھے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو روح چلی جاتی ہے وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آتی اور نہ اس روح میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ دوسرے پر اثر ڈال سکے ہم تو خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ نبیوں سے کلام کرتا ہے اور جب وہ کسی شخص کو کسی پہلے شخص کے نام پر بھیجتا ہے تو اس کی روح میں ہی وہ قوت اور
۵۸۷ اثر پیدا کر دیتا ہے اور وہ اس سے پہلے شخص سے مشابہ ہو جاتا ہے.چونکہ پہلے شخص کے ساتھ اس کو مشابہت ہوتی ہے اس لئے اس کو بھی اس سے ایک تعلق ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود کی روح کو حضرت مسیح کی روح سے مشابہت تامہ ہے ایسی کہ گویا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں.حضرت مسیح موعودنے مسیح کو کشف میں بحالت بیداری دیکھا اور مسیح نے حضرت مسیح موعود سے مل کر کھانا کھایا ایسا ہی آنحضرت ﷺ کو آپ نے بارہا دیکھا اور آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی شدید اور قوی تعلق ہے کہ گویا آپ ہی کے خاندان کے ایک فرد اور بمنزلہ اولاد کے ہیں.ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام ارواح کی ہد ایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے.ایک پیغمبر اگر اپنی اخلاقی اور روحانی طاقتوں میں دوسرے سے مشابہ ہو تو ان کو باہم ایک تعلق ہوتا ہے او روہ پیغمبر دوسرے جہان میں اس کے مقاصد اور اغراض کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہے.احمد کے متعلق ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ مسیح کو ان کے ساتھ ایسا ہی تعلق ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں.ایک عورت کے عجیب سوالات (ایک عورت نے حضرت کو اس قدر محنت کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت سے سوال کیا.) عورت :- آپ ہندوستان جا کر خوش ہوں گے؟ حضرت صاحب.میں اپنے کام میں جا کر خوش ہوں گا کیونکہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر میں بہت اور بہتر کام کر سکوں گا.میری خوشی کا یہی موجب ہے ورنہ ہندوستان جانایا یہاں آنا کوئی خوشی کا موجب نہیں میری ساری خوشی کام کرنے میں ہے.عورت - کیا آپ کام کرنا بہت پسند کرتے ہیں؟ حضرت صاحب :- یہ میرے متبعین سے پوچھو.میں صبح سے لے کر آدھی رات تک کام کرتا ہوں.لوگوں کو سلسلہ کی تعلیم دیتا ہوں انتظام جماعت کے جو افسر اور دفاتر میں ان کی نگرانی کرتا ہوں اور ان کو ہدایات دیتا ہوں.کئی سو خطوط روزانہ دنیا کے مختلف حصوں سے آتے ہیں ان کو خود پڑھتا ہوں اور جواب کے لئے سیکرٹریوں کو ہدایات دیتا ہوں.عورت - کیا آپ آدمیوں سے ملتے ملتے تھک جاتے ہیں؟ حضرت صاحب :.کیا کوئی عزیزوں سے تھک جاتا ہے کیا تُو تھک جاتی ہے.میری خوشی اور آرام تو ان لوگوں سے ملنے ہی میں ہوتی ہے.وہ خدا کے لئے آتے ہیں پھر میں خدا کے مہمانوں
۵۸۸ سے تھک جاؤں جو میری خوشی کا سرچشمہ ہے؟ عورت:-یہ طاقت آپ کو کہاں سے ملتی ہے؟ حضرت صاحب :.اس سے جو ساری طاقتوں کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ میراخد اہے.عورت: کیا یہ صرف آپ کا خیال ہی ہے؟ حضرت صاحب :.خیال کیا ہوتا ہے یقین اور امر واقعہ ہے.میں تم سے باتیں کر تاہوں اس کو کیا خیال کہہ سکتا ہوں.پھر جب میں نے خدا کا کلام خودسنا ہے اور اس سے باتیں کی ہیں تو میں اس کا نام خیال کیسے رکھ سکتا ہوں.کام کرنے کا یہ طریق ہمارے امام نے بتایا ہے اور اس نے کر کے دکھایا ہے.خدا تعالی نے اس کو ایسے وقت میں جب وہ اکیلا تھا فرمایا کہ لوگ تیرے پاس کثرت سے آئیں گے ان سے تھکنا نہیں پس میں نے اس کو دیکھا کہ ہزاروں آدمی آتے اور وہ کبھی نہ گھبراتا اور نہ تھکتا.پھر خدا نے جب وہ جماعت میرے سپرد کی کیا میں اس سے گھبرا سکتا ہوں ہم کو ہمارے امام نے اپنے عمل سے کام کرنا ہی نہیں سکھایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ ہم دوسروں کے لئے جیئیں.عورت:- آپ کتنی مرتبہ نماز پڑھتے ہیں؟ حضرت صاحب :- پانچ وقت.لیکن اگر کوئی دینی کام ہو اور اس کی وجہ سے مصروفیت ہو یا اور ایسے مجبوری کے اسباب ہوں تو دو نماز یں ملا کر بھی پڑھ سکتے ہیں.عورت - کیا آپ مذہب میں متعّصب ہیں.(اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ جو آپ کے مذہب کو نہیں مانتے.ان سے نفرت کرتے ہیں یا ان پر سختی کرتے ہیں) حضرت صاحب :- میں متعّصب کیونکر ہو سکتا ہوں اور کسی مخالف سے نفرت کیسے کر سکتا ہوں.میں تو چاہتا ہوں کہ سب کے سب حق کو قبول کریں اگر میں نفرت کروں تو میری بات کیو نکر سنیں گے.میں ان لوگوں سے جنہوں نے مان لیا پیار کرتا ہوں کہ وہ میرے عزیز ہیں اور میں ان لوگوں سے جنہوں نے نہیں مانا پیار کرتا ہوں کہ وہ بیمار ہیں اور میری ہمدردی کے زیادہ مستحق ہیں میرے لئے نفرت کا کوئی موقع ہی نہیں.میری جماعت کے لوگ دکھ اٹھاتے ہیں دکھ دیتے نہیں.ابھی افغانستان میں ایک واعظ کو وہاں کی حکومت نے سنگسار کرا دیا.اس سے پہلے بھی دو شہید ہوئے اور جگہ بھی لوگ تکلیف دینے ہیں ہم صبر کرتے ہیں اور ان سے ہمد ردی کرتے ہیں کہ وہ نادان ہیں.
۵۸۹ عورت:.میں مانتی ہوں کہ ایک خدا ہے بس یہ کافی ہے کچھ اور جاننے کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت صاحب: جب ایک خدا مانتی ہو تو اس کے حکم کے موافق عمل کرنے کی ضرورت ہے.اگر کوئی حکم نہیں مانتی ہو تو پھر خدا کے ماننے کادعوی ٰصحیح نہیں ہے.کیا ہو سکتا ہے کہ بادشاہ کا اقرار کر کے یہ کہہ دو کہ اس کے قانون کی کیا ضرورت ہے؟ عورت:.مجھے اس تکلیف میں پڑنے کی ضرورت نہیں؟ حضرت صاحب :- نہیں اس کی ضرورت ہے.کیا صرف پانی کا علم رکھ کر پیاس بجھ جائے گی ضروری ہے کہ پانی پی کر پیاس بجھاؤ - خدا تعالی کو جب مان لیا ہے تو اس کے احکام کی تعمیل کرو کہ تم اس کی رضاء کی برکات کو حاصل کر سکو.ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہئے جب تم ایک مذہب کو سچامان لو تو پھر اس کی اتباع لازمی ہوتی ہے.خداتعالی نے مجھے آپ کہا کہ اسلام سچامذ ہب ہے.عورت - کیا تم ایسا خیال کرتے ہو؟ حضرت صاحب : میں نے ابھی کیا ہے کہ میں نے اس کو دیکھا ہے اس سے باتیں کی ہیں اس نے قبل از وقت مجھے بہت سی باتیں بتائی ہیں اور وہ پوری ہوئی ہیں (پلیگ وغیرہ کے متعلق رویا سنائے اس سلسلہ کلام میں صفائی کا ذکر آیا.حضرت نے فرمایا) بے شک ہمارے مکان ایسے صاف نہیں جیسے یہاں کے ہیں.اس کی وجہ اور اسباب اور ہیں.وہاں جھکڑچلتے ہیں، آندھیاں آتی ہیں وہ صفائی رہ نہیں سکتی لیکن ہمارے جسم تم سے زیادہ صاف ہیں اور طہارت اور لطافت اسلام کی خاص تعلیم ہے کیا آپ دیانتداری سے کہہ سکتی ہیں کہ ہم لوگ لندن کے لوگوں سے زیادہ صاف نہیں.جس قدر ہم نظافت کا خیال رکھتے ہیں آپ لوگ نہیں رکھ سکتے اس لئے کہ ہم کو مذہب نے یہی تعلیم دی ہے.عبادت کے لئے صاف لباس اور صاف جسم ضروری ہے ہر نماز کے ساتھ وضو ضروری ہے (پھر اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ والدین کا فرض ہے کہ اپنی اولاد کو غلطیوں اور بدیوں سے آگاہ کریں جن میں مبتلاء ہو کر وہ برباد ہو جاتے ہیں اور وہ دوسروں سے ان کو سیکھتے ہیں.اگر ان کو تعلیم دی جاتی تو وہ محض سبق سمجھتے لیکن جب تعلیم نہ ہو تو پھر دوسروں سے وہ عمل کے طور پر سیکھتے ہیں.اخلاقی تعلیم بطور سبق کے ہو اور اس میں ان آفات سے بھی بچنے کی تعلیم ہو جو ان کو اخلاقی طور پر تباہ کر دیتی ہیں.(الفضل ۱۸- نومبر ۱۹۲۴ء)
۵۹۰ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم مذہبی مسائل پر گفتگو (۱۶- اکتوبر ۱۹۲۴ء حضرت مصلح موعود ایک نومسلمہ خاتون مسزپرل (موتی بیگم )کی دعوت چائے پر چند خدام کے ساتھ ان کے مکان واقع ڈلچ (لندن) تشریف لے گئے.اس موقع پر مسز پرل او را نکی ایک دوست نے بعض سوالات کے جنکے حضور نے نہایت مدلّل جواب دیئے) مسئلہ کفرواسلام موتی بیگم : کیا میں آپ کے نقطہ خیال سے مسلمان ہوں؟ حضرت صاحب :.میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں اب بھی کہتا ہوں کہ چونکہ آپ خدا کے نبی کا اقرار نہیں کرتی ہیں خدا کی نظر میں مسلمان نہیں تم خود اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہو.سوال:- بہت سے لوگ جو مسلمان ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے نزدیک غیراحمدی مسلمان نہیں؟ حضرت صاحب:.میں کہتا ہوں یہ تو قرآن شریف کا فیصلہ ہے جو خدا کے کسی نبی کا انکار کرے وہ کافر ہو تا ہے یہ قرآن شریف کا فیصلہ ہے کہ ہر شخص جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے وہ خدا کے سب نبیوں پر ایمان لائے اور ان میں بلحاظ نبوت کے تفریق نہ کرے.سورة بقرہ میں خداتعالی نے مسلم کے ایمان کے ارکان بتاتے ہوئے کہا کہ وہ لا تفيق بي أحدث شيله ۷۰؎ کا عقیدہ رکھتے ہیں.پس مسلم کی سچی تعریف یہی ہے کہ جو تمام ان وحیوں پر ایمان لائے جو خدا کی طرف سے آتی ہیں.تم یہ نہیں کہہ سکتی ہو کہ ان کو علم نہیں اور جو شخص جہالت سے کسی وحی کا انکار کرے اس پر اس کا اطلاق نہ ہو گا.کیا انگلستان کے دیہات میں یا یہاں دوسرے لوگ اسلام سے واقف نہیں صاف ظاہر ہے کہ نہیں.تو کیا تم ان کو کافر کہوگی یا مسلمان ؟ موتی بیگم :- کافر.
حضرت صاحب:.پھر یہ مسئلہ صاف ہے جب ایک شخص انکار کرتا ہے اور مانتا نہیں خواہ کسی وجہ سے نہیں مانتا وہ کافر کہلائے گا.ہاں کا فر کے مفہوم میں یہ بات داخل نہیں کہ وہ سزا بھی ضرور پائے گا.سزا دینا یہ ہمارا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کسی کے انکار کی کیا وجہ ہے.آیا جان بوجھ کر اس نے انکار کیا ہے یا جہالت اور نادانی سے یا وہ دیوانہ ہے.غرض اس کا بہترین علم خدا ہی کو ہے اور سزا جزاء اسی کے ہاتھ میں ہے.ایک شخص اگر ناوا قفی کی وجہ سے انکار کر رہا ہے تو کسی سزا کا مستحق نہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص غلطی سے آپ کے گھر میں آ گیا وہ کسی چوری کی نیت یا شرارت سے نہیں آیا تو آپ اس کو سزانہ دیں گی کیونکہ وہ جانتانہ تھا.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کافر ہے تو ہم اس کے عذاب کا سوال ہاتھ میں نہیں لے لیتے.لوگ غلطی سے ان دونوں باتوں کو ملادیتے ہیں.ہم ان کو یہ کہتے ہیں کہ اس نے خدا کے ایک نبی کا انکار کیا ہے.اگر وہ مسیح موعود کا انکار اسی وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کو علم نہیں کہ وہ مسیح موعود اور خد اکانبی ہے تو اس ناواقفی کی وجہ سے وہ مستوجب سزا نہیں لیکن جو جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں یا غور کرناہی نہیں چاہتے وہ اپنی لاعلمی سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں اس لئے وہ سزا کے قابل ہیں.پس جب ہم کافر کہتے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ عذاب دیا جائے گا.یہ خدا کا کام ہے ہمارا نہیں.بہت سے ہندو ،یہودی، عیسائی‘ زرتشتی ایسے ہو سکتے ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کافر تو ہوں گے.لیکن ہم نہیں کہیں گے کہ وہ اس امر میں قابل مؤاخذہ ہیں یہ فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.ہمارے راستہ میں یہ ایک مشکل ہے کہ لوگ کافر کی حقیقت سے واقف نہیں اور جو ہم بیان کرتے ہیں اس کو نہ تو سمجھتے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.تم خوددیانتداری سے اس شخص کو جو آنحضرتﷺ کو نہیں مانتا (خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو) مومن نہیں کہہ سکتی ہو پس جب کہ تم خود کہتی ہو کہ ابھی میں نے مسیح موعود کو قبول نہیں کیا.میں تم سے پوچھتا ہوں کہ اس کا نام کیا رکھا جاوے.یہ دوسری بات ہے کہ تم نے جان بوجھ کر ایسا کیاہے یالا علمی کی وجہ سے؟ اس پر موتی بیگم خاموش ہو گئی اور اس کے چہرہ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس معقول بات کو سمجھ گئی ہے.اس نے ایک دوسری مِس کو پیش کیا کہ یہ میری دوست ہیں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہیں.
۵۹۲ اسلام کیاہے مِس:.میں اسلام سے محض نا واقف ہوں کیا آپ اس کو بیان کریں گے ؟ حضرت صاحب:.میں اسلام کو احمدی نقطہ نگاہ سے بیان کروں گا کیونکہ میرے اعتقاد میں حقیقی اسلام وہی ہے جو خد اکانبی لایا ہے اور جس کو خدا نے اسی غرض سے بھیجا ہے.اس نے ہم کو بتایا ہے کہ اسلام خدا کی کامل فرمانبرداری کا نام ہے.دنیا میں کوئی ایسامذہب نہیں ہے جو کہے کہ خدا کے کامل فرمانبردار نہ بنو.ہرعیسائی، زرتشتی، یہودی یہی کہتا ہے مگر صرف کہہ دینے سے کام نہیں بنتا دیکھنا یہ ہے کہ ان تعلیم کا اثر اور ثمر کہاں پایا جاتا ہے.اسلام اور دوسرے مذاہب میں یہ فرق ہے کہ دوسرے مذاہب یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالی پہلے بولتا تھا مگر اب خاموش ہے مگر اسلام یہ کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے اپنے بندوں سے کلام کرتا آیا ہے اور اب بھی کرتا ہے.اس نےہمیشہ اپنے نبیوں کو بھیجا اور اب بھی بھیجا ہے جو لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے ہیں جب انسان ان کو قبول کرتا ہے اور ان کا انکار نہیں کرتا تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کا فرمانبردار ہے.بہت سے لوگ اپنے مذہب کو اس لئے مانتے ہیں کہ وہ اس گھر میں پیدا ہوئے اور ۹۹ فیصدی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں.عیسائی یا ہندو یا مسلمان اس لئے اس مذہب کو مانتے ہیں کہ وہ ایسے والدین کے گھر میں پیدا ہوئے.مگر خدا تعالی ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو تحقیقات اور غور کے بغیر کسی مذہب کو قبول کرتے ہیں.یہ صرف ایک رسم و عادت ہے.خدا تعالی یہ نہیں چاہتا اس لئے وہ اپنے نبی کو بھیجتا ہے تاکہ حقیقت ظاہر ہو.آپ کے سامنے ایک انگور کا خوشہ ہے اور تم کہتی ہو کہ انگور ہے تو معلوم ہوا کہ تم انگور کو جانتی ہو لیکن اگر یہ دعوی کرو کہ میں انگور کو جانتی ہوں مگر جب سیب سامنے کر دیا جاوے تو اس کو کہہ دو کہ انگور ہے تو یہ بات کھل جائے گی کہ تم انگور اور سیب میں تمیز نہیں کر سکتیں.اسی طرح ایک شخص گذشتہ نبیوں کو مانتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خدا کے نبیوں پر ایمان لایا لیکن جب دوسرا سچانبی آیا اور اس کے سامنے اس کا دعویٰ پیش کیا گیا تو انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ مفتری ہے.تب معلوم ہو تا ہے کہ وہ سچے اور جھوٹے نبی میں فرق نہیں کر سکتا اور نہیں سمجھتا اور پہلے کو بھی نہیں مانتا اس لئے خدا ہمیشہ نبی بھیجتا ہے تاکہ انسان کی مخفی قوتوں کا اظہار ہوتا ہے.اسلام حقیقی معنوں میں اس مذہب پر بولا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ ہمیشہ نبی آتے ہیں تاکہ حقیقت نبوت معلوم ہو اور خدا کی ہستی پر تازہ بتازه ایمان پیدا ہو کر اس کو یقین اور مسرت کے مقام پر پہنچا دے.
۵۹۳ تم کہتی ہو کہ ہم یسوع کو مانتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ امتحان کا وقت نہیں آیا تھا اس لئے تم ایساکہتی ہو مگر جب زنده نبی آتا ہے اور اس کا انکار کرتی ہو تو معلوم ہوا کہ پہلے کو بھی نہیں مانتی ہو.لیڈی:- اسلام کے اصول کیا ہیں؟ أصول اسلام حضرت صاحب:- ہمیشہ خدا کی مرضی کے تابع ہونا چاہئے جو کچھ خدا کہے اس کی کامل فرمانبرداری کا نام اسلام ہے.اصول اسلام کی تفصیل یہ ہے.(۱) خدا ہے اور ایک ہی خدا ہے.اس پر ایمان لانا.دوم خدا تعالی کی صفات کاملہ پر ایمان لانا.سوم یہ کہ خدا زنده خدا ہے.اگرچہ بظاہر کوئی ایسامذہب نہیں جو یہ کہتا ہو کہ خدا مردہ ہے لیکن زبان سے کہہ دینا اور چیز ہے مگر جب اعتقادات کو دیکھیں گے تو یہی معلوم ہو گا کہ وہ مردہ خد ا کو پیش کرتے ہیں.مثلا ًعیسائی مذہب ہی کو لے لو اول تو انہوں نے ایک عاجز انسان کو خدا قرار دیا جس کو یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا اور عیسائیوں کے عقیدہ کے موافق وہ مر گیا بلکہ تین دن جہنم میں بھی رہا اس کے علاوہ کسی عیسائی سے پوچھو کہ وہ خدا جس پر تم ایمان رکھتے ہو اب کسی سے کلام کرتا ہے.کوئی ایسا شخص ہے جو یہ کہے کہ عیسائی مذہب کے طفیل سے خدا میرے ساتھ کام کرتا ہے.حتی کہ بشپ آف کنٹربری اور پوپ بھی یہ دعوی ٰنہیں کر سکتے.خدا تعالی نے آدم ،نوح، ابراہیم، موسیٰ عليهم السلام کے زمانہ میں ان سے کلام کیا اور پھر مسلمانوں کے عقیدہ کے موافق اس نے آنحضرت ﷺ سے کلام کیا لیکن اب کیوں خاموش ہے.کوئی عیسائی پادری اس کا جواب نہیں دیتا اس سے معلوم ہوا کہ عملاً اور اعتقادا ًوہ یہی مانتے ہیں کہ خدا مردہ ہے.لیکن اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اسلام بتلاتا ہے کہ خدا تعالی ہمیشہ سے اپنے بندوں سے کام کرتا آیا ہے اور اب بھی کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا جب کہ اس کی باقی صفات زندہ ہیں تو کلام کرنے کی صفت معطّل نہیں ہو سکتی اس لئے ہم کہتے ہیں کہ زندہ خدا پر ایمان رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس نے کلام کیا اسی طرح جیسے وہ مسیح سے بولا تھا یا دوسرے نبیوں سے بولا تھا اور اب مسیح موعود کے بعد بھی آپ کی جماعت میں ہزاروں آدمی اس نعمت سے حصہ رکھتے ہیں اور میں خود بھی تجربہ کار ہوں اگرچہ میں نبی نہیں ہوں اور دوسرے نبی ہیں.پھر اس طرح پر خدا تعالی کی طرف سے جو وحی اور الہام ہوتا ہے اس پر ایمان ہو اور اس
۵۹۴ بات پر ایمان ہو کہ خدا تعالی نے دنیا کی ہدایت کے لئے نبیوں کو بھیجا ہے اور آخری نبی جس کے ذریعہ شریعت کو کامل کیا وہ محمدﷺ ہیں.آئنده نبوت کا سلسلہ جاری ہے لیکن کوئی نئی شریعت نہ آئے گی اور نبوت کا یہ مقام آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اور محبت کے بغیر کسی کو حاصل نہ ہو گا اس دروازے سے داخل ہو کر یہ انعام ملے گا.اسی طرح اس بات پر ایمان ہو کہ خدا تعالی ہماری دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے.پھر اس بات پر ایمان ہو کہ اعمال کی جزا و سزا ہے اور خدا تعالی نے اشیاء کے اندازے مقرر کر دیئے ہیں جو اعمال ہم کرتے ہیں اچھے یابُرے ان کے لئے ہم جوابدہ ہیں وہ ہم خود کرتے ہیں اس لئے ان کا بدلہ پائیں گے.اعمال کے جزا و سزا کے بھی مدارج ہیں.اسلام تعلیم دیتا ہے کہ خدا سے محبت کرو اور ایسے اصولوں کے موافق کرو کہ خدا ئی تمام صفات کا ظہور تم میں ہو جاوے گویا خدا کی تصویر ہو جائے.خدا تعالی نے بائبل میں جو کہاہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا اس کا یہی مطلب ہے کہ انسان ان اخلاق اور صفات کو اپنے اندر لے جو خد اتعالی کی وہ مانتاہے.پھراسلام سکھاتا ہے کہ تمام دنیا سے محبت کریں اور کامل اخلاقی زندگی بسر کریں.پھر اسلام تعلیم دیتا ہے کہ مرنے کے بعد بعث ہو گا اور روح زندہ رہے گی اور یہ زندگی رہے گی یہاں تک کہ وہ اس کمال کو پہنچ جاوے جو اس دنیا میں حاصل نہیں ہو سکا.محدود زندگی غیر محدود خدا کی شان کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ انسان کی روزانہ ترقی خدا کی لامحدود طاقتوں کو ظاہر کرتی ہے اس لئے مرنے کے بعد بھی ترقی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا.بعض باتوں سے عام طور پر اسلام یہودیت اور عیسائیت سے ملتا ہے مگر بعض میں نہیں.یہودیت یا عیسائیت کی اصل تعلیمات بطور ابتدائی تعلیمات کے ہیں مگر اسلام نے آکر تمام تعلیمات کو کامل کر دیا اور اصل حقیقت کو پیش کر دیا.مثلا ًاسلام کہتا ہے اخلاقی زندگی بسر کرو.دوسرے مذاہب بھی یہ تعلیم تو دیتے ہیں لیکن آپ کسی گرجا میں جاویں یا کسی لیکچرار کا لیکچرسنیں وہ چند باتیں پیش کر کے کہے گا کہ یہ اخلاقی تعلیم ہے.اسلام اتنا ہی نہیں کرتا وہ اس اخلاقی تعلیم کی حقیقت کو بیان کرے گا ان اسباب اور ذرائع کو بتائے گا جن کے اختیار کرنے سے وہ اخلاقی قوتیں نشوونماپا سکیں.وہ ان اثرات کو بیان کرے گا جو اس سے سوسائٹی پر ہوتے ہیں.یہ کہہ دینا کہ تم سب سے محبت کرو بظاہر ایک تعلیم اخلاق کی ہے اور ضرور ہے مگر صرف اتنا کہہ دینے سے کام نہیں چل سکتا.سب سے کس طرح محبت کی جائے اس کے کیامدارج ہوں
۵۹۵ گے بظاہر ایک فعل ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ محبت کا رنگ نہیں رکھتا لیکن حقیقت میں وہ محبت ہوگا.اسلام اس تمام حقیقت کو اپنی اخلاقی تعلیم کے اندر رکھے گا.مثلاً آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اپنے بھائی کی ظالم ہو یا مظلوم مدد کرو.صحابہ نے پوچھا کہ مظلوم کی تو مدد ہو سکتی ہے ظالم کی کس طرح کریں فرمایا کہ اس کو ظلم سے روک دو.اب ظالم کے ساتھ محبت کا طریق الگ ہو گا.غرض ہر اخلاقی تعلیم کی تفاصیل میں جب ہم جانتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جو تعلیم دی ہے وہ سب مذاہب کی تعلیم کے مقابلہ میں معقول اور مکمل ہے.اسلام یہی بتائے گا کہ کسی بُرے کام سے محبت نہ کرو.اخلاقی تعلیم لیڈی:- میں نے کسی مذہب میں نہیں سنا کہ ہر چیز سے خواہ بُری ہو یا اچھی محبت کرو.بلکہ اچھی باتوں سے محبت کرو ہی کی تعلیم ہے.حضرت صاحب:- یہ سواۓ اسلام کے کہیں نہیں ملے گا.یہ تفصیل چاہتا ہے میں مختلف مذاہب کی تعلیمات بتا سکتا ہوں کہ ان میں کس طرح پر ان باتوں کو داخلِ اخلاق کیا گیا ہے جو نہایت شرمناک ہیں بلکہ ان کو نجات کا ذریعہ بتایا گیا ہے.میں دعویٰ سے یہ بات کہتا ہوں کہ اسلام کے سوا اخلاقی تعلیم کو کامل طور پر کسی مذہب نے بیان نہیں کیا.کیا انجیل میں ہے؟ لیڈی:.مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہرمذ ہب میں ہے.حضرت صاحب:- خیال سے کچھ نہیں ہوتا.یہاں خیالی طور پر کسی بات کے پیش کرنے سے کچھ نہیں بنتا واقعات بیان کرنے چاہئیں.یہ جُد ا بات ہے کہ جب قرآن کریم نے کوئی امر بیان کیاتو دو سرا بھی کہہ دے کہ ہاں یہی ہے.مگر اسے اپنی کتاب سے اسی طریق پر پیش کرنا چاہئے.مثلا ًبہائی لوگ بعض باتیں پیش کرتے ہیں جب ہم نے ان کو بتایا کہ یہ مغربی خیالات کا اتباع ہے تو وہ یہ اقرار نہیں کرتے کہ وہاں سے لیا ہے اپناذاتی خیال کہہ دیتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم نے جب اخلاقی تصریحات کو مکمل طور پر پیش کر دیا تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں یہ بات ہے لیکن جب ان سے پوچھا جاوے کہ دکھاؤ کہاں بیان کیا ہے تو پھر چُپ ہو نا پڑتا ہے.اسی طرح میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ انجیل یا بائبل سے نکال کر دکھائیں.میں مثال کے طور پر انجیل کی ایک تعلیم پیش کرتا ہوں.انجیل کہتی ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیردو۷۱؎ بظاہر یہ بڑی خوبصورت تعلیم معلوم ہوتی ہے لیکن جب علم النفس پر غور کیا جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعلیم ناقابل عمل ہے اور اس سے ہمیشہ
۵۹۶ فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسے انسان ملتے ہیں جو ایسے سلوک سے دلیر ہوتے ہیں اور ان کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے.بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اس سلوک سے فائدہ اٹھائیں.دوسری طرف عمل کے معیار پر یہ کبھی بھی صحیح ثابت نہیں ہوتی.مثلًا روز مرہ کے واقعات کو چھوڑ کر گذشتہ جنگ میں جو عیسائیوں کے درمیان شروع ہو ئی کیا اس پر عمل کیا جاسکتا تھا.جر من اگر ایک مقام مانگتے اور فرنچ یا انگریز کہہ دیتے کہ نہیں ایک کیا تم پیرس اور لندن بھی لے لو بلکہ بر خلاف اس کے ان کا خوب مقابلہ کیا گیا اور ان کو عملاً شکست دے دی تو معلوم ہوا کہ یہ تعلیم اصلاح کی قوت اور اثر اپنے اندر نہیں رکھتی.برخلاف اس کے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے.جزاؤ سیئة مثلها فمن عفا وأصلح فأجره على الله ۷۲؎یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے.اس حصہ میں تعزیراور تادیب کے قانون کو بتا دیا.جو شخص بدی کرے اس کو اسی قدر سزادی جائے لیکن اگر عفو موجبِ اصلاح ہو تو جو شخص عفو کرتا ہے اور ایسے محل پر کہ وہ موجب اصلاح ہو گا تو اس کا اجر اللہ کے ہاں سے پائے گا.قرآن شریف نے سزا اور عفو دونوں کو محل اصلاح قرار دیا ہے.یعنی اگر عفو بدی پر دلیری پیدا کرتا ہے اور جرأت دلا تا ہے تو ایسے لوگ جن کی اصلاح بغیر سزا کے نہیں ہو سکتی ان کو سزادولیکن جن لوگوں کی حالت اس کے خلاف ہو ان پر عفو کا اثر ہوتا ہو اور وہ اس سے اصلاح پا سکتے ہوں تو ان کو عفو کر کے اصلاح کا موقع دو.یہ حقیقی تعلیم ہے جو علم النفس اور اصول اصلاح کے موافق عملاً جاری ہو سکتی ہے.اب آپ مقابلہ کر کے دیکھیں کہ انجیل کی تعلیم کو اس سے کیا نسبت.میں کہتا ہوں کہ ایسی جامع تعلیم دنیا کی کسی کتاب میں نہیں.(الفضل۲۰- نومبر ۱۹۲۴ء)
۵۹۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم تختہ جہازپرلیڈی لِٹن سے گفتگو (۱۳ نومبر ۱۹۲۴ء کو عرشہ جہاز پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور لیڈی لِٹن کے مابین جو گفتگو ہوئی اُسے بعد میں محترم شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے اپنے الفاظ میں مرتب کیا.مرتب) تختہ جہاز پر لیڈی لٹن سے گفتگو لیڈی لٹن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے متعلق انتظار فرمایا حضرت خلیفۃ المسیح :- دنیا کے تمام بڑے مذاہب آخری زمانہ میں خدا تعالی کی طرف سے ایک موعود کے آنے کے منتظر ہیں.مسلمان یقین کرتے ہیں کہ آخری زمانہ میں امام مہدی آئیں گے اور ایسا ہی ان کا یقین ہے کہ مسیح موعود آئے گا.عیسائیوں کا اعتقاد ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰؑ آئیں گے.ہندوؤں کا اعتقاد ہے کہ کرشن آئیں گے اور بدھوں کا عقیدہ ہے کہ موسیودربہمی آئے گا.اور جہاں تک ان پیشگوئیوں کے متعلق غور اور تحقیقات کی گئی ہے وہ تمام قومیں ان کے ظہور کا یہی وقت قرار دیتی ہیں.حضرت مسیح موعود کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ان وعدوں کے موافق ظاہر ہوئے ہیں.انہوں نے یہ دعویٰ خدا سے وحی پا کر کیا اور بتایا کہ یہ مختلف اشخاص آنے والے نہ تھے بلکہ دراصل ایک ہی شخص کے متعلق پیشگوئیاں ہیں.اس کے کام کے لحاظ سے اس کے یہ مختلف نام ہیں ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ خدا کی طرف سے نبی ہو کر آئے ہیں.لیڈی لِٹن.انہوں نے ایسا دعوی ٰکب کیا؟ حضرت:- الہام کا سلسلہ ۲۵ برس کی عمر میں شروع ہو گیا تھا مگر جب وہ ۴۰ سال کے ہوئے تو خدا تعالی نے ان کو مامور کیا کہ وہ دنیا کی اصلاح کریں.انہوں نے ۱۸۹۰ء میں مسیح موعود ہونے کا
۵۹۸ دعوی ٰکیا اور ۱۹۰۸ء میں وفات پائی.لیڈی لِٹن کا ایک ہمراہی :.ان کی زندگی میں ماننے والوں کی تعداد کیا تھی، اب کیا ہے؟ حضرت:.شروع میں جب انہوں نے دعویٰ کیا تو صرف چالیس آدمی تھے پھر ان کی وفات تک ۵ لاکھ کے قریب آدمی شامل ہوئے اور اب یہ جماعت ایک ملین کے قریب ہے.لیڈی لٹن:.کیا ان کے دعویٰ کرنے پر لوگوں نے مخالفت نہیں کی؟ حضرت:- بہت سخت مخالفت ہوئی ہماری جماعت کی ہر مذہب کے لوگوں نے مخالفت کی.حکومت کو بھی بد ظن کیا گیا.جماعت کے لوگوں کو جو فرداً فردا ًتکالیف دی گئیں وہ نہایت سخت اور دل ہلا دینے والی تھیں.گھروں سے نکال دیا گیا ،جائدادیں چھین لی گئیں ،پانی بند کر دیا گیا.ہمارے ہاں عامطور پر نلوں کا سلسلہ نہیں ہے، کنوؤں سے پانی نکالا جاتا ہے.ان کو پانی سے روک دیا گیا اور چھوٹے چھوٹے بچے پیاسے تڑپتے رہے مگر پانی نہیں دیا.ان کے ہاتھ عام خوردنی اور روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء فروخت کرنی بند کر دی گئیں.ہر طرح سے ان کا بائیکاٹ کر دیا.زندوں کے ساتھ ہی نہیں، مردوں کے ساتھ بھی دشمنی کی گئی.لاش نکال کر کُتوں کے سامنے پھینک دی گئی اور لاش بھی ایک عورت کی.اور افغانستان میں خود حکومت نے تین آدمیوں کو مروا دیا.ایک کو گلا گھونٹ کر اور دو کو سنگسار کر کے.ایک بھی ا۳-اگست ۱۹۲۴ء کو سنگسار کر دیا گیا ہے.لوگوں نے بھی ایک درجن سے زیادہ آدمیوں کو ہلاک کر دیا ہے اور بعض کے مکانات کو جلا دیا.غرض ہر جگہ ہر قسم کی تکلیف دی گئی ہیں مگر باوجود ان تمام مخالفتوں اور اذیتوں کے یہ جماعت ترقی کر رہی ہے.لیڈی لٹن:.کیا ان کا مذہب یونیورسل (Universal) تھا؟ حضرت:- وہ کوئی نیا مذہب لے کر نہ آئے تھے بلکہ وہ اسلام کی طرف دنیا کو دعوت دیتے تھے.جن معنوں میں یونیورسل مذہب کی اصطلاح آج کل بولی جاتی ہے وہ درست نہیں ہے.اسلام خود ایک یونیورسل مذہب ہے.اس لحاظ سے وہ دنیا کو یونیورسل مذہب کی طرف بلاتے تھے ، پہلے جس قدر نبی آۓ وہ خاص قوم کے لئے، خاص وقت کے لئے آتے تھے مگر اسلام تمام دنیا کے لئے اور ہمیشہ کے لئے ہے، اسی کی طرف وہ بلاتے تھے.لیڈی لٹن :.اساسی اصول کیا ہیں؟ حضرت:- اساسی اصول وہی اسلام کے ہیں مگر حضرت مسیح موعود نے ان کی حقیقت کو ظاہر کیا.مثلاً پہلا اصل یہ ہے کہ خدا تعالی کی ہستی اور اس کے ایک ہونے پر یقین ہو.یہ یقین ایسا ہونا
۵۹۹ چاہئے کہ انسان کے اعمال و افعال میں اس کا پورا رنگ پایا جاوے.اور وہ خدا تعالی کی صفات کا مظہر ہو جاوے.بہت سے لوگ یہ اقرار تو کرتے ہیں کہ وہ خدا پر اور اس کے ایک ہونے پر ایمان لاتے ہیں لیکن جب امتحان کا وقت آتا ہے تو فیل ہو جاتے ہیں ان کے افعال اس کی تائید نہیں کرتے اور نہ اس ایمان کے ثمرات ان میں پائے جاتے ہیں جس ایمان کے ثمرات نہ ہوں وہ ایک خشک درخت کی طرح ہے جو کاٹ کر جلانے کے قابل ہوتا ہے.خدا تعالی کی وحدانیت پر ایمان انسان کے اندر ایک پاک تبدیلی کر دیتا ہے.اور جس جس قدر یہ یقین ترقی کرتا ہے انسان خدا کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی صفات کا مظہر ہوجاتا ہے.حضرت مسیح موعودؑیہی ایمان اور یقین پیدا کرتے تھے انہوں نے صرف یہ نہیں کہا کہ خدا دیکھتا ہے یا بولتا ہے بلکہ اپنے متبعین کو اپنے عمل سے دکھادیا اور خود ان میں یہ قوت پیدا کردی کہ وہ خدا کو بولتے ہوئے سن لیں.غرض پہلی تعلیم ان کی خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت کے متعلق یہ تھی کہ ایک غیر متنرلزل اور خدانمایقین پیدا کریں.اور کامل طور پر حقوق اللہ کی شناخت ہو.دوسری بات آپ نے یہ تعلیم کی کہ انسان با اخلاق انسان کو کیونکر بنتاہے.اس کے لئے آپ نے اول اخلاق کی حقیقت بتائی کہ اخلاق محض اس کا نام نہیں ہے کہ انسان کسی سے نرمی سے پیش آتا ہے یا سختی کرنے سے خاموش ہو رہتا ہے.کیونکہ طبعی طور پر یہ باتیں جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں.ایک بکری کتنی نرم ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں کہتا کہ بکری بڑی بااخلاق ہے.اخلاق حقیقت میں طبعی قوتوں کی تعدیل اور بر محل استعمال کا نام ہے.انہوں نے بتایا کہ جس قدر قویٰ انسان کو دیئے گئے ہیں یہ سب اخلاقی قو تیں اور اخلاق ہیں.انسان کے اندر اخلاقی روح پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑنے اولا ًاخلاق کی حقیقت بتائی.پھر یہ سمجھایا کہ اخلاق میں انسان کی ترقی تدریجی ہوتی ہے.جس طرح پر وہ جسمانی طور پر ترقی کرتاہے تو تدریجی ترقی ہوتی ہے.ایک دن کا بچہ ایک دن میں ہی ایک پختہ مغز انسان کی طرح نہیں ہوجاتا.اس لئے اخلاقی ترقی کے مدارج ہیں.اور اخلاق کے مختلف شعبے ہیں اور ہر شعبہ میں ترقی کے لئے خاص اصول اور قواعد ہیں-مثلاً پاک بازی اور عفّت کے لئے جب اسلام تعلیم دیتا ہے تو وہ ان امور کی اصلاح سے شروع کرےگاجو عفّت کے خلاف گناہوں کے مبادی ہوتے ہیں.اور پھر اخلاقی تعلیم میں قرآن مجید صرف یہی نہیں کہتا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو بلکہ وہ ہر حکم ، ہرامرونہی کے وجوہ و عِلل بتاتا ہے.اور دلائل کے
۶۰۰ ساتھ اپنے حکم کو مؤکد کرتا ہے.قرآن شریف کی اصطلاح میں حکمت ہے.اس طرح پر جب انسان اخلاقیات میں ترقی کر کے با اخلاق انسان بن جاتا ہے تو پھر اسے باخدا انسان بنانے کے لئے تعلیم دیتا ہے.اور اسے ایسے مقام پر پہنچادیتا ہے کہ وہ خدا سے قرب حاصل کرکے اس سے کلام کرتا ہے.اور اس سے وہ باتیں سرزد ہوئی ہیں جو لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوتی ہیں اور حقیقت میں خدا کی قدرتوں کا نمونہ.پھر آپ نے حیات بعد الموت کی حقیقت بیان کی اور بتایا کہ انسان کی روحانی ترقی کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے.اس مسئلہ کے سمجھانے کے لئے آپ نے اول یہ سمجھایا کہ روح کہیں باہر سے نہیں آتی بلکہ وہ پیدا ہوتی ہے اور جسم ہی سے پیدا ہو جاتی ہے مگر باوجود اس کے وہ جسم نہیں ہوتی.جیسے شراب اگرچہ انگور سے بنائی جاتی ہے مگر شراب کو انگور نہیں کہا جاتا.روحانی ارتقاء ہوتا رہتا ہے اور جب انسان فوت ہوجاتا ہے تب بھی روح اپنی منازل کو طےکرتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کامل درجہ کو پالیتی ہے.حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی آکر بتایا کہ یہ خیال جو غلطی سے مسلمانوں میں پھیلا ہوا ہے کہ مرنے کے بعد ارواح کسی ایک مقام پر رکھی جاتی ہیں صحیح نہیں ہے بلکہ جس طرح انسان ماں کے رحم میں ہوتاہے اور وہیں مختلف مدارج طے کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ پھر ایک وقت آجاتاہے کہ پھر وہ باہر آجاتا ہے.اسی طرح قبر بھی ایک قسم کارحم ہی ہے مرنے کے بعد ساری روح کو ایک اور جسم جو اس جسم کے مقابلہ میں روحانی ہوتا ہے مل جاتا ہے.گویا اس جسم کی روح اس روح کا جسم ہو جاتی ہے.اور اس طرح پر اور اپنے ارتقاء کی منازل کو طے کرتی ہے.اور اگر اس میں کوئی نقص اور کمزوریاں ہوتی ہیں تواس اعلیٰ مقام لقاء اللہ کے پانے کے لئے تیار کرنے کے واسطے دوزخ میں بطور علاج کے جاتی ہے.دوزخ ایک ہسپتال کی طرح ہے.حضرت مسیح موعودؑنے بتایا کہ اسلام نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ہمیشہ دوزخ ہی میں وہ لوگ رہیں گے جن کو روز میں داخل کیا جائے گا بلکہ دوزخ محض ایک ہسپتال ہے.لوگ اس میں سے شفاء پاکر نکل آئیں گے تاکہ وہ خداکے فیوض کو حاصل کرنے کی قابلیت حاصل کر لیں.اس طرح پر حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام ہی کو پیش کیاہے اوراس کی حقیقت اور فلسفہ کو معقولی طور پر ہی نہیں بلکہ خدا کی تائیدات سے ثابت کردیا ہے کہ اسلام جس خدا کی طرف دعوت چاہے وہ مردہ خدا نہیں بلکہ زندہ خداہے اور جس طرح وہ پہلے نبیوں سے بولتا تھا آج بھی یہ عزت
۶۰۱ اور نعمت اسلام کے کامل اتباع سے ملتی ہے.اور میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ؑاسلام کی اس سچائی کا خود ایک ثبوت تھے.اور ان کی وفات کے ساتھ یہ ثبوت ختم نہیں ہو گیا بلکہ آج بھی زنده ہے.اور آپ کے متبعین میں یہ نعمت اب تک موجود ہے اور ہمیشہ پائی جائے گی (اس مقام پر لیڈی لٹن کے ایک ہمراہی لڑکے نے سوال کیا) لڑکا:- روح اور خدا کے متعلق ہم ہندو لوگ بھی مانتے ہیں امتیازی بات کیا ہے؟ اگر ہندواِزم اور اسلام میں ان مسائل کے متعلق خفيف فرق ہو تو قابلِ لحاظ نہیں ہو تا.حضرت:.یہ بات درست نہیں ہے کہ خفيف فرق قابل لحاظ نہیں ہوتا.اگر چہ میں تو یہ مانتاہی نہیں کہ خفيف فرق ہے بلکہ اسلام اور موجودہ ہندو اِزم میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن آپ کی بات مان کر میں کہتا ہوں کہ خفيف فرق جس کو آپ کہتے ہیں قابل ِلحاظ نہیں ہو تاعموماً بڑے بڑے نتائج پیدا کرتا ہے.یہاں تک کہ زندگی اور موت کے نتائج پیدا ہوجاتے ہیں.ایک ہی چیز ہے اس کی مقدار ایک حد تک تریاق ہے اور اس میں ذراسا اضافہ ہو جائے تووہی تریاق سمّی کیفیت اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے.میں ایک ڈاکٹر کے پاس طبی مشورہ کے لئے گیا اس نے مجھے نکس و امیکا ۷ بوند اور سوڈابائی کارب ۶گرین بتائے اور کہا کہ نہ اس سے کم ہو نہ زیادہ.اب بظاہر اس کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ اگر ۷ کی بجائے ۸یا۶کی بجائے پانچ کردی جاویں تو کوئی بڑا فرق نہیں.مگر اس نے کہا کہ اگر اس سے کچھ بھی کم یا زیادہ ہو تو فائدہ نہیں ہو گا.اور یہ بات بالکل درست تھی.امتیازات اور فرق مقدار کے لحاظ سے بعض وقت نظر نہیں آتے مگر کیفیت اور اثر کے لحاظ سے بہت بڑے ہوتے ہیں.اسلام اور ہندو ازم میں جو سب سے بڑا امتیازی نقطہ ہے وہ یہی ہے کہ اسلام اس خدا کی طرف بلاتا ہے جو ہمیشہ بولتا ہے اور کلام کرتا ہے.جس طرح پر وہ ہمیشہ سے دیکھتا اور سنتا ہے اور آج بھی اس میں ایسے لوگ ہیں جو خدا سے کلام کرتے ہیں مگر ہندواِزم کوئی ایسا شخص نہیں کر سکتا.ایک دوسرا لڑکا.ہندواِزم کی بابت آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت:- ہندواِزم اپنی ابتدائی منزل میں اس زمانہ کی ضرورت کے موافق ایک خدائی تعلیم تھی مگرامتدادِ زمانہ سے اس کی شکل بدلتی گئی اور وہ حقیقت اس سے دور ہوگئی.وہی لڑکا: پھر اب اس کے ماننے کی کیوں ضرورت نہیں؟ حضرت:.اول تو وہ حقیقت جاتی رہی، انسانی تصرّفات نے اس کو بگاڑ کر کچھ اور ہی بنا دیا.
۶۰۲ دوسرے وہ تعلیم اس زمانہ کے حسب حال تو ہو سکتی تھی.آج نہیں جُوں جُوں انسانی عقل و فہم ترقی کرتا گیا اور اس کی ضرورتیں بدلتی گئیں، خدا تعالی کی تعلیم اس کے حسب حال ملتی گئی یہاں تک کہ انسان بلوغ کے درجہ تک پہنچ گیا اور خدا نے اسلام ایک کامل دین دنیا کو دے دیا.ایک اور لڑکا:- روح جو اس وقت تھی اور جو روح آج ہے، کیا اس میں فرق ہے؟ حضرت: بہ حیثیت روح کے فرق نہیں.وہی لڑکا.پھر وہ تعلیم کیوں اس کے حسب حال نہیں؟ حضرت:- ایک بچہ کی روح اور بالغ انسان کی روح میں کوئی فرق ہے؟ لڑکا: نہیں.حضرت:.تو کیا تم اس بچہ کو وہی ہدایات دے سکتے ہو جو ایک بالغ کو دیتے ہو؟ لڑكا: نہیں.حضرت:.کیوں جب کہ دونوں کی روح برابر ہیں؟ لڑکا:- یہ تو نئی انٹیلیکچول فیکلٹیز (Intellectual Faculties) کا فرق ہے.حضرت:.پھر جب آپ اس فرق سے یکساں ہدایات نہیں دے سکتے تو روحانی ارتقا کے ساتھ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو تعلیم اس کے ابتدائی درجہ میں موزوں تھی آج وہی دی جاوے.ایک بچہ کے کپڑے خواہ نئے ہی ہوں وہ جوان آدمی کے قابل نہیں ہوتے.لیکن جہاں یہ حالت ہو کہ وہ پھٹ کر بوسیدہ ہو گئے ہوں، وہ ایک جوان آدمی کے استعمال میں کس طرح آسکتے ہیں.یہی حال ہندو اِزم کی اس تعلیم کا ہے.(اس پر وہ لڑکا تو خاموش ہو گیا اور ایک دوسرا ہندو نوجوان بولا) ہندو نوجوان: فیکلٹیز (FACULTIES) کا سوال نہیں صرف روح کا سوال ہے.حضرت : فیکلٹیز کو روح سے الگ کس طرح کرو گے؟ وہی لڑ کا: اس وقت تو زمانہ اور بھی ترقی کر گیا ہے.،پھر اسلام کی تعلیم کس طرح کافی ہو سکتی ہے؟ حضرت:- یہ تو واقعات سے ثابت ہے.اسلام کی تعلیم اس زمانہ کے لئے کافی ہے.آپ کوئی بات پیش کریں میں دکھادوں گا کہ اسلام کی تعلیم اس ضرورت کو پورا کرتی ہے.اسلام نے شراب کی حُرمت کا حکم دیا ہے.اب اس زمانہ کے لوگ اس کی ضرورت کو تسلیم کر رہے ہیں یا نہیں.وہی لڑکا:- ہندو مذہب نے بھی یہی تعلیم دی ہے.
۶۰۳ حضرت:.آپ کو معلوم نہیں رگ وید میں تو شُرتیوں کی شُرتیاں اس کی تائید میں ہیں؟ وہی لڑکا: نہیں.حضرت:- میں نے رگ وید کا ترجمہ پڑھا ہے اور آپ بغیر پڑھنے کے کہتے ہیں کہ نہیں.لڑکا.بدھ مذہب میں عہد لیتے ہیں کہ نشہ نہیں پیوں گا.حضرت:.صرف مونکس (Monks) سے، عوام سے نہیں.لیڈی لٹن کا ہمراہی لڑکا:.کیا آپ رِی ان کار نیشن (Reincarnation) کے قائل ہیں؟ حضرت:.نہیں.اس پر لیڈی لٹن نے کہا کہ قرآن شریف سنائیں.چنانچہ حضرت کے حکم سے حافظ صاحب نے تلاوت کی اور مثنوی کے کچھ شعر سنائے اور آج کی ملاقات ختم ہوگئی.(الفضل۱۳دسمبر، ۱۹۲۴ء)
۶۰۴ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم سفر یورپ میں غیر معمولی کامیابی (۲۴- نومبر ۱۹۲۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں اہل قادیان کی طرف سے عصر کی نماز کے بعد بیت اقصیٰ میں جو سپاس نامہ مولانا مولوی شیر علی صاحب نے پیش کیا اسے سننے کے بعد حضورنے حسب ذیل تقریر فرمائی.) جو مضمون ابھی ابھی مولوی شیر علی صاحب نے اہالیان قادیان جماعت احمدیہ کی طرف سے پڑھ کر سنایا ہے میں اس کے جواب میں سب احباب کو جزاكم الله أحسن الجزاء اپنی طرف سے اور اپنے ہمراہیانِ سفر کی طرف سے کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ میرے ان الفاظ کو قبول فرما کر حقیقی طور پر آپ لوگوں کو نیک جزاء دے.اس سفر کے متعلق جو باتیں بیان کی گئی ہیں میرے نزدیک ان میں سے ایک نہایت ہی اہم بات جو ہمیں معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے نفوس کو اس طرح نہیں سمجھتے تھے جس طرح اس سفر میں سمجھا.میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا تھا اور اس بات کا میں نے کئی بار اظہار بھی کیا کہ میں اپنے دل میں جماعت احمدیہ کے متعلق ایسی محبت اور اُلفت پا تا ہوں کہ میں نہیں مان سکتا کہ کوئی باپ بھی اپنے بیٹوں سے اس طرح محبت رکھتا ہو مگر اس سفر میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ خدا تعالی نے میرے دل میں جماعت کی وہ محبت رکھی ہے کہ اسے باپ کی محبت سے نسبت بھی نہیں دی جا سکتی کیونکہ درحقیقت وہ محبت ظل ہے حضرت مسیح موعود کی محبت کا اور حضرت مسیح موعود کی محبت ظل ہے خدا تعالی کی محبت کا اس وجہ سے یہ محبت کا سلسلہ ماں باپ کی محبت سے جداگانہ ہے.وہ عارضی تعلق کی وجہ سے پیدا ہوتا اور یہ دائمی تعلق کی وجہ سے.اور جو فرق عارضی اور دائمی چیزوں میں ہوتا ہے وہی فرق خدا تعالی اور ماں باپ کی محبت میں ہے.اور جو فرق عارضی اور دائمی چیزوں کے اظلال میں ہوتا ہے وہی فرق انبیاء اور ان کے اظلال اور ماں باپ کی محبت کے
۶۰۵ اظلال میں ہوتاہے.دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے اندازے نہیں لگائے جاسکتے.مثلاً بہت قیمتی چیز جان سمجھی جاتی ہے.یا بعض کے نزدیک مال ہے یا جن کے نزدیک عزت.مگر کئی چیزیں ایسی ملیں گی جن پر جان، مال اور عزت قربان کر دی جاتی ہے پھر ان چیزوں کے بھی آگے مدارج ہیں.دس، بیس، پچاس ، سَو چیزیں ایسی ہوں گی جن کے لئے جان قربان کی جائے گی مگر ان سب کو برابر نہیں کہہ سکتے.بعض ایک درجہ پر ہوں گی، بعض دوسرے درجہ پر بعض تیسرے درجہ پر ،حتی کہ بعض میں سینکڑوں ہزاروں اور لاکھوں گنا فرق ہو گا.اسی طرح باوجود یکہ ماں باپ کی محبت کامل ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نمونہ یا معیار ہے تمام تعلقات کی محبت کا.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالی قرآن کریم میں اپنے اور رسولوں کے متعلق اور رسول کریم ﷺ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک خدا اور رسول سے ماں باپ سے زیادہ محبت نہ کرے ادھر قرآن شریف میں خدا تعالی فرماتا ہے.جیسا سلوک تم سے کوئی کرتا ہے ویسایا اس سے زیادہ اچھامو من کرے ، ۷۳؎ اور جب یہ ایک عام مومن کی شان ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک رسول امتی سے تو یہ امید رکھے کہ وہ اللہ اور رسول سے ماں باپ سے بڑھ کر محبت کرے مگر رسول امتیوں سے ماں باپ سے کم محبت کرے.رسول کی محبت بد رجہ اولیٰ ماں باپ کی محبت سے بڑھ کر ہوگی.اور اس کے یہ معنی ہوئے کہ ہر رسول اپنے امتیوں سے ایسی محبت رکھتا ہے کہ ماں باپ کی محبت اس کی محبت کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی.ادھر خداتعالی فرماتا ہے کہ بہتراور بڑھ کر بدلہ دو- اور ادھر کہتا ہے کہ رسول سے ماں باپ سے زیادہ محبت کرو.پس جب امتی کے لئے یہ حکم ہے تو رسول کی محبت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب امتی سے ماں باپ سے زیادہ رسول سے محبت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے تو رسول کی محبت اس سے بہت ہی زیادہ ہونی چاہئے.اور یہ اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا کوئی معیارہی نہیں ہے.یہ راز مجھ پر اس سفر میں کھلا ہے اور جس طرح مجھ پر یہ راز کھلا ہے اور یہ نکتہ معلوم ہواہے کہ انبیاء اور ان کے اظلال کی محبتیں اور قسم کی ہوتی ہیں ماں باپ کی محبت جیسی نہیں ہوتیں.اسی طرح جماعت کے بہت سے افراد پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ خلیفہ سے جو محبت اور جو تعلق انہیں ہے وہ پہلے معلوم نہ تھا.اس سفر کے دوران میں سینکڑوں خطوط مجھے ایسے ملے ہیں جن میں لکھا تھاکہ ہمیں آپ سے بڑی محبت تھی مگر ہم اس محبت کو ایسا نہیں سمجھتے تھے جیسااب معلوم ہوا ہے
۶۰۶ آپ کے بغیر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کھو کھلی ہوگئی ہے.پس اس سفر سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ ہواہے کہ ہم نے اپنے قلوب کو پڑھا ہے اور اس طرح پڑھا ہے جیسا آج تک کبھی نہیں پڑھا تھا اور اس مطالعہ سے ہمارے ایمان میں بھی ترقی ہوئی ہے اور جماعت کے اتحاد میں بھی.اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے دشمنوں کے لئے یہ محبت اور اُلفت حیرت اور حسد کا موجب ہو گی اور ہو رہی ہے مگر یہ ہمارے بس کی بات نہیں.بعض لوگ جن کی اولاد نہیں ہوتی جب ماں باپ کو بچہ سے پیار کرتے دیکھتے ہیں توچِڑتے ہیں اور کہتے ہیں کون نہیں جانتاماں باپ کو بچوں سےمحبت ہوتی ہے پھر دوسروں کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے.مگر یہ حسد ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماں باپ کا بچوں سے پیارا نہیں بُرا لگتا ہے.ان کا دل جلتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کیا لاڈ ہے.پس کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی قسمت میں ہی یہ نہیں ہوتا کہ ان سے بھی کوئی محبت کرے یا وہ کسی سے محبت کریں.ان کے دل سخت اور محبت سے خالی ہوتے ہیں.ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو لوگوں کی کشش کا باعث ہو اور لوگ ان کی طرف جھکیں اور جب وہ کسی کی طرف لوگوں کو جھکتے اور محبت کرتے دیکھتے ہیں تو چِڑتے اور جلتے ہیں.اس موقع پر بھی ایسے لوگ تلملا ئیں گے اور جلن سے مجبور ہو کر کہیں گے کہ یہ تو شرک ہے حالانکہ شرک خداتعالی کی محبت میں کسی کو شریک کرنا ہوتا ہے نہ کہ خدا تعالی کی محبت کے حصول کے لئے کسی سے محبت کرنا شرک ہے.خدا تعالی کی بعض صفات ایسی ہیں جن میں کوئی شریک نہیں ہو سکتا اور بعض ایسی ہیں جن میں سب انسان شریک ہوتے ہیں.مثلاً پانی پلانا ہے خداتعالی بھی پانی پلا تا ہے اور بندہ بھی.اب اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ مجھے پانی پلاؤ اور اس پر دوسرا کہے کہ چونکہ اس نے ایک انسان کو کہا ہے کہ پانی پلاؤ اس لئے یہ مشرک ہوگیا ہے تو یہ کہنے والے کو پاگل ہی کہا جائے گا.لیکن جسمانی مردہ کو زندہ کرنا خدا تعالی کی ایسی صفت ہے جس میں کوئی انسان شریک نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اگر یہ کہا جائے کہ فلاں انسان مردہ کو زندہ کر سکتا ہے یا اس نے کیا ہے تو یہ شرک ہو گا.کیونکہ یہ بات خداتعالی نے خاص اپنے لئے رکھی ہے.اب دیکھو خداتعالی سے محبت کرنے کا بندوں کو حکم ہے.مگر خدا تعالی یہی نہیں کہتا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کی مخلوق سے بھی محبت کرو اور رسول کریم ﷺفخر کرتے ہیں کہ تین چیزیں مجھے سب سے زیادہ پسند ہیں اور ان سے میں محبت کرنا ہوں.چنانچہ فرماتے ہیں.حبب إلى من دنیا کم ثلاث – الظیب،والنساء و قرة عيني في الصلوة ؟ ۷۴؎ کہ مجھے ایک تو خوشبو کی محبت ہے.ایک عورتوں کی اور ایک نماز کی.اب اگر
۶۰۷ غور سے دیکھا جائے تو ان تین چیزوں کی کامل محبت رسول کریم ﷺمیں پائی جاتی ہے.اور اس قد ر پائی جاتی ہے کہ اس کی نظیر اسلام کے سوا اور کسی نہ مذہب میں نہیں ملتی.طِیب سے مراد خوشبو اور صفائی ہے.اور نبی کریم ﷺسے پہلے کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں صفائی پر اس قدر زور دیا گیا ہو جس قدر اسلام نے دیا ہے.پہلے مذاہب میں یہی کمال سمجھا جاتا تھا کہ انسان میلا اور گندا ہے.آج تک کئی پادری ناخن تک نہیں اُترواتے اور جتنی زیاد ہ غلاظت ان کے ناخنوں میں ہو اتنے ہی زیا دہ خدا رسیدہ سمجھے جاتے ہیں وہ سالہا سال تک نہاتے نہیں.لیکن محمد ﷺ فرماتے ہیں.طِیب یعنی صفائی نہایت ضروری ہے او راس بات کو آپ نے ہی قائم فرمایا اور اس سے محبت کرتے تھے.پھر فرماتے ہیں مجھے عورتوں کی محبت ہے یہاں نساء کا لفظ ہے.ازواج کا نہیں.یعنی بیویوں کا ذکر نہیں بلکہ عام عورتوں کا ذکر ہے.اور آپ فرماتے ہیں کہ کوئی مذہب نہیں آیا جس نے عورتوں کے حقوق اور فوائد کی اس طرح نگہداشت کی ہو جس طرح میں کرتا ہوں.پہلے مذاہب نے عورتوں کے حقوق دبائے ہوئے ہیں کوئی ان سے ہمد ردی نہیں کرتا مگر میں ان کے حقوق قائم کروں گا اور میں ان کی ترقی کا بھی اسی طرح خیال رکھوں گا جس طرح مردوں کی ترقی کا.پھر فرمایا ز عيني في المملوة کے نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے.یہ بھی خاص امتیاز ہے جو اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلہ میں حاصل ہے.دنیا میں کوئی قوم نہیں جس میں نماز کی طرح عبادت میں باقاعدگی رکھی گئی ہو.پچھلے تمام مذاہب ظاہری حرکات پر زور دیتے رہے یا ان میں عبادت کے اوقات اتنے فاصلہ پر رکھے گئے ہیں کہ روحانیت کمزو ر ہو جاتی ہے مگر صرف اسلام ہی ایک ایسامذ ہب ہے کہ جس کے ماننے والوں کو ایک دن میں پانچ وقت عبادت کے لئے بلایا جاتا ہے اور کوئی مذہب ایسا نہیں ہے.عیسائی اور ہندو ہفتہ میں ایک بار عبادت کے لئے جاتے ہیں، ممکن ہے ان میں سے بعض لوگ رات دن عبادت کرتے ہوں مگر یہ اجتماعی عبادت کا ذ کر ہے.ایک دن میں کئی بار عبادت کرنے کا حکم رسول کریم ﷺنے ہی دیا ہے.پھر صلوٰۃ کے معنی دعا کے بھی ہیں اور اس طرح رسول کریم ﷺنے دعا پر زور دیا ہے.دوسرے مذاہب کی عبادتوں میں ظاہری باتوں پر زور دیا گیا ہے اور ان کے ذریعہ عبادت میں لذت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.مثلا ًآریوں اور عیسائیوں میں گانا بجانا ہو تا ہے.مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مجھے ایسی عبادت عطا ہوئی ہے کہ اسی میں لذت ہے اور ایسی لذت ہے جس کا کوئی مذہب مقابلہ نہیں کر سکتا.
۶۰۸ پس یہ محبت ہے جو رسول کریم ﷺ کو دی گئی.اب کیا رسول کریم ﷺخوشبو ،عورتوں اور صلوٰۃ محبت کرنے کی وجہ سے (نعوذ بالله) مشرک ہو گئے تھے ہرگز نہیں.بات یہ ہے کہ محبت ایسی چیز ہے جو مشترک رکھی گئی ہے اور نہ صرف یہ پسند کیا گیا ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ محبت کرو.حتی کہ یہ مومن کے لئے نشان رکھا گیا ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسروں کے لئے پسند کرے جس کے معنی یہ ہیں کہ سب سے محبت کرے.پھر رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو تاکہ محبت بڑھے.۷۵؎ تو محبت کا پیدا کرنا اسلام کی اغراض میں سے ہے.اور اس کے متعلق اعتراض حقیقت سے دور ہے.ایسا اعتراض کوئی سمجھدار اور تعلیم یافتہ انسان کس طرح کر سکتا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ حسد سب کچھ کرالیتا ہے.وہ کچھ اور توکرہی نہیں سکتا اس لئے وہ اعتراض کر کے اپنا دل ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے.خدا تعالی نے اس سفر میں جو نشان دکھائے ہیں ان کی طرف بھی اس مضمون میں اشارہ کیا گیا ہے.میں سمجھتاہوں گو ہمارے دوستوں کو تفصیلی طور پر حالات سفر کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں اور گوبعض دوستوں نے عمدگی سے اطلاعات پہنچانے کی کوشش کی ہے اگر چہ ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور افسوس ناک غلطیاں ہوئی ہیں مگر جو دیکھنے والوں نے نظارہ دیکھا ہے وہ سننے سے معلوم نہیں ہو سکتا.راستہ میں میں احباب کو کہتا تھا تم لوگ تو اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ بیٹھے تھے.کیونکہ جو تمهارے متعلق کچھ کرتا اس سے مطالبہ کرتے تھے کہ اس نے یوں کیوں نہ کیایوں ہو نا چاہئے تھا.یہ نتیجہ تھا ان کامیابیوں کا جو خدا تعالی نے دیں.مجھے ایک شخص نے جو انگلستان کے ایک اخبار سے تعلق رکھتا تھا کیا اور بعض اور نے بھی کہا کہ آپ لوگ اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے جو کامیابی آپ لوگوں کو یہاں ہوتی ہے اور جس طریق سے پر یس نے آپ کو مد د دی ہے.مگر ہمارے دوست جو بیان اخبارات میں دیکھتے ہیں خیال کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ہونا چاہئے تھا.حالانکہ جس طرح ہمارے متعلق اخبارات نے توجہ کی ہے کبھی کسی بادشاہ کے متعلق بھی نہیں کی.ہمیں بتایا گیا کہ یہاں کے اخبارات کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے لئے تین چار دفعہ سے زیادہ ذ کر نہیں کرتے اور پھر نہیں پوچھتے کہ کون ہے.مگر آپ دو ماہ یہاں رہے اور ہر موقع پر آپ کے متعلق اخبارات نے مضامین شائع کئے ہیں.اور اسی طرح آپ کے کام میں مدد دی یہ بالکل غیر معمولی بات ہے.انگلستان کے اخبارات کی جو طاقت ہے اس کا یہاں اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا.ایک دکاندار نے بتایا کہ وہ چھوٹے سے اشتہار کا چار لاکھ روپیہ سالانہ دیتے ہیں.اور وہاں کے
۶۰۹ اخبارات میں چار پانچ چھ سات صفحے اشتہارات کے ہوتے ہیں.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کتنے لاکھ روپیہ ان کو اشتہاروں کا ملتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کتنا طاقتور سمجھتے ہیں.مگر باوجود اس کے ہر موقع پر بڑے بڑے اخباروں کے نامہ نگار اور مضمون نویس آتے اور ایسے رنگ میں مضمون شائع کرتے کہ معلوم ہوتا انہیں ہم سے پوری ہمدردی ہے.ہمارے قیام انگلستان کے زمانہ کا پہلا حصہ بھی خراب تھا اور پچھلا بھی خراب ہو گیا تھا.پہلا تو اس لئے کہ اس وقت انگلستان میں تعطیلات کا موسم تھا اور لوگ باہر گئے ہوئے تھے.ایک بڑے آدمی نے بتایا کہ ان دنوں ۶۰ فیصدی لندن کی آبادی شہر سے باہر ہے.اس وقت شہر میں غرباء رہ گئے ہیں.ورنہ وزراء ،پارلیمنٹ کے ممبر اور امراء سب صحت افزا مقامات پر چلے گئے ہیں.ہم نے بھی دیکھا کہ جس محلّہ میں ہم رہتے تھے سوائے ہمارے مکان کے آدھ آدھ میل تک اِدھر اُدھر کو ئی مکان نہ کھلتا تھا.دوست کہتے کہ ایک آدمی ہمارے قریب ہی رہتا ہے میں نے پندرہ بیس دن کے بعد دیکھا اور وہ بھی ہماری طرح باہرہی کا تھا.ایسے وقت میں لوگوں کو ہماری طرف توجہ کرنا بالکل غیر معمولی بات تھی.اس کے بعد جب لوگ لندن میں آنے لگے تو معاً خطرہ پیدا ہو گیا کہ پارلیمنٹ ٹوٹنے والی ہے چنانچہ یہی بات ہوئی.اور جس طرح ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ کٹائی کے دنوں میں زمینداروں کو کسی رشتہ دار کا جنازہ پڑھنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی یہی حال وہاں الیکشن یا اس وقت جب پارلیمینٹ ٹوٹنے والی ہو، ہوتا ہے.اس وقت اگر کسی کی ماں بھی مرجائے تو توجہ نہیں کرتے.ایک ایک دن میں بیس بیس پچّیس پچّیس تقریریں کرتے ہیں.اگرچہ تقریر دس بارہمنٹ کی ہوتی ہے.موٹر پر بیٹھ کر دوڑتے پھرتے ہیں اور جا بجا تقریریں کرتے ہیں.ایسے وقت میں یہ ان کی حالت ہوتی ہے.مگر ایسے ایام میں بھی جب ہمارے آدمیوں نے بڑے بڑے آدمیوں سے ملنا چاہا تو باوجود اس کے کہ وزارت سخت خطرہ میں تھی انہوں نے آمادگی ظاہر کی.اور ایک بہت بڑے لا رڈ نے جو بہت با اثر ہیں ہمارے ایک ساتھی کو چِٹھّی لکھی کہ ان سے گفتگو کرے اسی طرح دوسری سیاسی پارٹیوں نے ہم سے ملنے کی خواہش کی.حتی کہ وزیراعظم نے بھی لکھا.گو پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کی وجہ سے اسے وقت نہ مل سکا.غرض یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہاں جو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انگریز ہندوستانیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں وہاں پر معلوم ہو تا تھا کہ ہمارے سوا وہ کسی کی عزت ہی نہیں کرتے.ہماری طرف ان لوگوں کے متوجہ ہونے کی مثال یہاں کے حالات کے رو سے اس قسم کی مثال ہو سکتی ہے کہ کسی جگہ کُشتیوں کا اکھاڑہ لگا ہو جہاں دیہاتوں
۶۱۰ کے جاٹ اور سکھ گئے ہوئے ہوں، شراب کی بوتلیں لنڈھا رہے ہوں اس مجمع کے پاس وعظ ہو رہا ہو اور لوگ کھیل کو چھوڑ کر اور بوتلیں تو ڑ کر ادھر آ جائیں.یہ مثال کسی قدر اس حالت کے مشابہ ہو سکتی ہے جو ہمارے متعلق لندن میں ہوئی.جس قسم کی یہ عجیب حالت خیال کی جا سکتی ہے وہ اس وقت تھی جب وہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوتے تھے.اسی طرح جہاں جہاں سے ہم گزرے عجیب حالت پیدا ہو جاتی.بڑے بڑے ملکوں میں طویل عرصہ میں بھی عام پہنچانا مشکل ہوتا ہے مگر ہماری شہرت بجلی کی کی تیزی کے ساتھ ہو جاتی ا.ٹلی میں ہم تین دن ٹھہرے.وہاں کا سب سے بڑا اخبار جس کی آٹھ لاکھ اشاعت ہے اور جو دس مختلف شہروں سے نکلتا ہے.اس کے ایڈیٹر کو جب ہمارے آدمی ملنے کے لئے گئے تو اس نے کہا کہ سب سے پہلے مجھے ملا قات کا موقع دیا جائے خواہ رات کو ہی دیا جائے.چنانچہ وہ وقت مقرر کرا کے ۱۱ بجے رات کے آیا اور بارہ ۱۲ بجے تک گفتگو کر کے گیا.اور صبح ہی اس نے بہت زور دار مضمون لکھا.اٹلی میں میں نے پوپ سے ملنا چاہا تھا مگر جب انگریزی قائم مقام کے ذریعہ پوچھا تو اس نے کہاچو نکہ میرا مکان بن رہا ہے اس لئے ان دنوں ملاقا تیں بند ہیں.اخبار مذ کور کے ایڈیٹر نے پوچھا کیا آپ پوپ سے ملیں گے جب میں نے اسے پوپ کا جواب بتایا تو اس نے کہا آپ کیوں ملنا چاہتے ہیں.میں نے کہا اس لئے کہ چونکہ وہ معزّز آدمی ہے اس لئے ہم اس کے سامنے تحفہ پیش کر کے اس کا احترام کرتے.اس نے پوچھا.کیا تحفہ ؟ میں نے کہا ہمارے نزدیک سب سے بڑا تحفہ اسلام ہے وہی پیش کرتے.اس نے اپنے مضمون میں اس کا بھی ذکر کیا اور لکھا تعجب ہے ایک سردار آتا اور پوپ سے ملنا چاہتا ہے مگر پوپ کہتا ہے چونکہ مکان کی مرمت ہو رہی ہے اس لئے مل نہیں سکتا.اب ہمیشہ ہی اس کا مکان زیر مرمت رہے گا.یہ کتنا طاقتور فقرہ ہے جو ایک عیسائی اخبار او ر اس قد ر بارسوخ اخبار پوپ کے متعلق لکھتا ہے.گویا وہ ایک طرح سے بد دعا کرتا ہے کہ پوپ کا مکان کبھی بھی مکمل نہ ہو گا جبکہ زیر مرمت ہی رہے گا.اسی طرح آتی دفعہ سٹیشن سے ایک اخبار کو ٹیلی فون کیا.جواب آیا ابھی وقت مقرر کریں ہما را نامہ نگار آتا ہے چنانچہ وہ آیا اور ایک گھنٹہ تک گفتگو کی اور حالات قلم بند کر کے لے گیا.پیرس میں اس سے بھی عجیب حالت ہوئی.ایک بڑا زبردست اخبار تھا جس کا ایڈ یٹر دو دفعہ ملا اور کئی ایڈ یٹروں کو موقع نہ دیا جا سکا کیونکہ وقت نہ تھا.انہیں صرف خبر ملنے کی دیر ہوتی تھی کہ ان میں خود ملاقات کی تڑپ پیدا ہو جاتی.پیرس میں ایک کپتان ہوٹل میں آیا اور پوچھنے لگا کہ خلافت
۶۰۱ وفد کونساہے.عرفانی صاحب نے اسے بتایا کہ خلافت و فد تو کوئی نہیں.میں نے کہا اگر آپ کی مراد کسی ایسے وفد سے ہے جو ترکوں کی خلافت سے تعلق رکھتا ہو تو وہ کوئی نہیں اور اگر اس سے کوئی اور خلیفہ اور اس کا وفد مراد ہے تو میں ہوں.کہنے لگا اسی سے ملنا ہے اور حالات دریافت کرنے ہیں.چنانچہ وہ دیر تک پوچھتا رہا.پر دہ اور تعدّد ازدواج اور دیگر ان مسائل کے متعلق جن پر یورپ میں اعتراض کئے جاتے ہیں.دلائل سن کراُ چھل پڑتا اور کہتا یہی تعلیم ہے جو دنیا کو در حقیقت پاک کر سکتی ہے.میرا جس وقت یورپ کو جانے کا فیصلہ ہو اور مجھے وہ خواب یاد آیا.جس میں میں نے اپنے آپ کو ولیم دی کنکر ر دیکھا تھا.دوران سفر میں خطرہ تھا کہ کسی شامت اعمال کی وجہ سے لندن پہنچنا نا ممکن نہ ہو جائے.دمشق میں جب میں سخت بیمار ہو گیا تو یہی خطرہ تھا لیکن جب میں نے انگلستان کے ساحل پر قدم رکھا تو سمجھ گیا کہ اب خدا کے فضل سے یہ فتح ہو گیا.چنانچہ میں نے اسی وقت مضمون لکھا.جو ” الفضل“ میں شائع ہو گیا.اس میں میں نے لکھ دیا تھا کہ انگلستان کی روحانی فتح شروع ہو گئی ہے.یہ میں نے پہنچتے وقت ہی لکھا تھا.کامیابیاں بعد میں شروع ہوئیں جب میں انگلستان پہنچ گیا تو اس وقت نہ پہنچنے کا ڈر نہ تھا اور خواب کے پورے ہونے کے آثار ایسے نظر آ رہے تھے اور خدا تعالی نے اس قدر کامیابی دی کہ اب مخالفین بھی ہماری کامیابی کو اپنی طرف منسوب کر رہے ہیں.چنانچہ مجھے راستہ میں ہی خط ملا کہ کانفرنس مذاہب میں جو کامیابی خدا نے ہمیں دی اسے خواجہ کمال الدین صاحب اپنی طرف منسوب کر رہے ہیں.بعض کو ان کی یہ بات بُری معلوم ہو ئی مگر حافظ روشن علی صاحب کا یہ فقرہ مجھے بہت پسند آیا کہ کیا ہوا؟ شیر کا مارا گید ڑ کھایا ہی کرتے ہیں.ہمیں سب سے پہلی جب کامیابی مصر میں حاصل ہوئی.میرا خیال تھا کہ یہ اسلامی ملک ہے سرسری نظر سے اس کو بھی دیکھتا جاؤں.وہاں پہنچتے ہی لوگوں کی ہماری طرف ایسی توجہ ہو ئی کہ خلافت کی دونوں پارٹیاں آئیں.ایک پارٹی کے آدی کہیں کہ ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.اور دوسری کے کہیں ہمارے ساتھ.ان کو ہماری مخالفت یاد نہ رہی.اس سے ہم کو یہ اندازہ لگانے کا موقع مل گیا کہ ایسے ذرائع بھی ہیں کہ ان ملکوں میں انسان پہنچ سکتا ہے.وہاں کے لوگوں نے ہمیں بہت ڈرایا کہ یہاں تمہیں کامیابی نہیں ہو سکتی.ایک اخبار کے ایڈیٹر کو دوست ملنے گئے وہ چودھری فتح محمد صاحب سے کہنے لگا یہ ہندوستان نہیں ہے کہ تم لوگ کامیابی حاصل کر لو.اب ہم
۶۱۲ تیرہ سو سال کے پرانے اسلام کی طرف واپس جانا نہیں چاہتے جس سے بڑی مشکل سے آزادی حاصل کی ہے.آپ مصر سے ہاتھ دھو بیٹھیں یہاں کوئی آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہیں.چودھری صاحب نے کہا ہم ضرور کامیاب ہوں گے اور کوئی تکلیف اور روک ہمیں حراساں نہیں کر سکتی.اس پر اس نے کہا اگر یہ ارادے ہیں تو ضرور کامیابی ہو گی.وہاں دو ہی دن میں معلوم ہو گیا کہ قلوب میں ایک تحریک ہے اور دو معزّز اور بااثر آدمیوں نے کہا کہ اگر آپ ٹھہریں توبیعت کر لیں.ایک تو تُرک تھا جس نے کہا کہ میں یہاں دین کے لئے آیا تھا مگر معلوم ہوا کہ یہ لوگ دین کو چھوڑ چکے ہیں.میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہوں.فلسطین میں بھی خدا نے عجیب سامان پید اکئے - ہم سٹیشن پر اترے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ آپ نواب صاحب ہیں؟ میں نے کہا نہیں.وہ کسٹم کا افسر تھا.وہاں لے گیا.پھر اس نے پوچھا کہ آپ نواب صاحب ہیں؟ ہم نے کہا ہم نواب نہیں ہیں.اس نے کہا کہ ہمارے پاس گو ر نمنٹ کی طرف سے چِٹھی آئی ہوئی ہے.ہم بار بار انکار کرتے.اور وہ کہتا کہ کچھ نہ پوچھو نواب صاحب ہی ہیں.اس طرح ہم کسٹم کی تکلیف سے بچ گئے اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گئے.آخر معلوم ہوا کہ محمد اسماعیل صاحب بنگال کے ایک شخص تھے ان کے لئے کسی نے خط لکھا تھا وہ تو نہ آئے اور اس تاریخ ہم پہنچ گئے اور اس طرح تکلیف سے بچ گئے باوجود نواب ہونے سے انکار کرنے کے.اس افسر نے ان کا نام بھی بتایا اور کہا کیا آپ کا نام محمد اسماعیل ہے.میں نے کہا نہیں.میرا نام تو محموو احمد ہے کہنے لگا مجھے بھول گیا ہو گا، بڑے افسر کے پاس چلیں.وہاں گئے تو اس نے بھی ہماری بات نہ مانی.پھر بیت المقدس میں جاتے ہی اس قسم کے سامان پیدا ہو گئے کہ ملکی کونسل کے پر یذیڈنٹ نے چائے پر بلایا اور اس موقع پر اس نے کچھ ہوشیار ممبروں کو بھی بلایا ہوا تھا.اس طرح اعلیٰ لوگوں سے ملاقات اور تبلیغ کا موقع مل گیا.پھر گورنر سے ایک دن ملاقات ہوئی.اس نے دعوت کی اور بہت دلچسپی کا اظہار کیا اور اس نے اپنے ایک دوست کو چِٹھّی لکھی کہ یہ بہت اعلیٰ دماغ کے انسان ہیں ان سے مل کر فائدہ اٹھاؤ - ان لوگوں میں دستور ہے کہ عورت گھر کی مالک سمجھی جاتی ہے اور مجلس میں اعلی ٰجگہ پر بیٹھتی ہے.مگر اس نے خلاف عادت اس خیال سے کہ ہم نے کہلا بھیجا تھا کہ ہم عورتوں سے مصافحہ نہیں کریں گے.دوسری طرف عورت کو بٹھایا.اس کے سیکرٹری نے کہا بھی کہ اِدھر بیٹھئے مگر گورنر نے کہا نہیں اُدھر جگہ ہے اور اس طرف بٹھایا.اس نے ہما را بہت ہی ادب و احترام کیا اور کہا کہ میں گو ر نر حیفہ کو فون کروں گا کہ آپ کو کسی قسم کی
۶۱۳ تکلیف نہ ہو.اس کے متعلق بہائیوں نے کہا ہے کہ ہم کسی مرزا بدیع سے مدد مانگنے گئے تھے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.گورنر نے ہمارے ان آدمیوں کی بہت مدد کی جو پیچھے رہ گئے تھے.اسی طرح جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھہرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی مشکل سے انتظام ہوا مگردو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی.میں بہت گھبرایا اور دعا کی کہ اے اللہ پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہو گی.اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں تُو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما، جب میں یہ دعا کر کے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے ” عبدمکرم ‘‘ یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی.اس سے میں نے سمجھا کہ تبلیغ کا سلسلہ یہاں کھلنے والا ہے.چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے کود وسوسے لے کر باره سَوتک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے اس سے ہوٹل والاڈر گیا کہ فسادنہ ہو جائے.پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا فساد کا خطرہ ہے.میں یہ دکھانے کے لئے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا.چند ایک نے گالیاں بھی دیں لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے اور ” هذا اي الهيئ\" کہتے اور سلام کرتے.مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں ہماری ذمہ داری ہے اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا.اس پر ہم نے برٹش کونسل کو فون کیا اور اس نے انتظام کیا.گورنر نے اپنے بھائی کو بھیجا جس نے مجمع کو دیکھ کر کہا کہ یہ لوگ فسادی نہیں ملنے کے شوق سے آئے ہیں.میں نے کہا کہ ہمیں ان کی طرف سے تکلیف نہیں بلکہ پولیس کی طرف سے ہے جس نے بند کر دیا ہے.اس پر ایسا انتظام کر دیا گیا کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے اور عجیب حالت تھی.ایک بڈھا بہت بڑا ر ئیس آیا اور کہنے لگا کہ آج مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ آئے ہیں آپ مجھے سمجھائیں.میں نے اسے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ لوگ جگہ تو دیتے نہیں ،رہیں کہاں.کہنے لگا ابھی میں آپ کی رہائش کا انتظام کر تا ہوں.ایک اور نے رقعہ لکھا کہ میں صبح سے ملاقات کے لئے بیٹھا ہوں مگر مجھے موقع نہیں ملا.اب یہ رقعہ لکھتاہوں کہ میں حضرت مسیح موعود پر ایمان لایا.آپ مجھے جہاں تبلیغ کے لئے بھیجیں، جانے کے لئے تیار ہوں.میں عربی، ترکی اور فارسی جانتا ہوں.بیس سال تک پڑھاتا رہا ہوں.ایران، ترکی ،عرب جہاں کہیں تبلیغ کے لئے جانے کو تیار ہوں.اب میری آخری عمر ہے اس لئے چاہتا ہوں کہ خدا کے لئے کام کروں.غرض عجیب رنگ تھا کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے کا پیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا
۶۱۴ لکھتے جاتے.اگر کوئی لفظ.رہ جاتا تو کہتے ا أشتاد ذرا ٹھہریئے یہ لفظ رہ گیا ہے.گویا انجیل کا وہ نظارہ تھا جہاں اسے استاد کر کے حضرت مسیح ؑکو مخاطب کرنے کا ذکر ہے.اگر کسی مولوی نے خلاف بولنا چاہا تو وہی لوگ اسے ڈانٹ دیتے.ایک مولوی آیا جو بڑا بااثر سمجھا جاتا تھا.اس نے ذرا ناواجب باتیں کیں تو تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈانٹ دیا اور کہہ دیا کہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کرو ہم تمہاری باتیں سننے کے لئے نہیں آئے.اس پر وہ چلا گیا اور رؤوسا معذرت کرنے لگے کہ وہ بیوقوف تھا اس کی کسی بات پر ناراض نہ ہوں.یہ ایک غیر معمولی بات تھی.پھر منارۃُ البيضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا.ایک مولوی عبد القادر صاحب سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منا رہ کہاں ہے جس پر تمهارے نزدیک حضرت عیسیٰؑ نے اترنا ہے ، کہنے گئے.مسجد امویہ کا ہے.لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلّہ میں ہے.ایک اور نے کہا حضرت عیسیٰ آکر خود بتائیں گے.اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے دیکھ تو چلیں.صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی.اس وقت میں اور ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے.جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منارہ ہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے.میں نے کہا یہی وہ منارہ ہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے.یہی وہاں سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا.مسجد امویہ والے منار نیلے رنگ کے تھے.جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دوہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہو گئی.کہتے ہیں " ہو نہار بروا کے چکنے چکنے بات."خدا نے ابتداء سے ہی ایسے اسباب پید اکئے کہ خاص اشارات ظاہر ہونے لگے جہاز میں دوست میرے آگے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے.جہاز کا ڈاکٹر آیا اور ہمیں دیکھتا رہا.پھر اس نے سب کو گنا.گننے کے بعد تھوڑی دیر سوچتا رہا.پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ مسیح اور اس کے بارہ حواری.ایسے فقرات خدا تعالی کی طرف سے کی زبان پر جاری ہوتے ہیں.پھر میں سمجھتا ہوں کہ مساجد مذہبی ترقی سے بہت بڑا تعلق رکھتی ہیں وہ مساجد نہیں جو ضد کی وجہ سے دس بیس قدم کے فاصلے پر بنائی جائیں بلکہ وہ جو محض خدا کی عبادت کے لئے بنائی جائیں وہ جماعت کی ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں.خدا تعالی فرماتا ہے ان اول بیت وضع للناس للذی ببكة مبرکاوهدی للعلمين ۷۶؎ کہ دنیا میں گھر پہلے بنناہی مسجد کے ذریعہ شروع ہوا اور خدا
۶۱۵ نے یہ بھی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے.اس سفرمیں خدا نے لندن میں مسجد بنانے کی بھی توفیق دی.اور یہ عجیب بات ہے کہ انگلستان میں پہلے ایک مسجد ہے مگر وہ ایک عیسائی نے بنائی ہے جو و و کنگ کی مسجد ہے اور غیر مبائعین کے ہاتھ میں ہے جو اسس على التقوی ۷۷؎ نہیں ہے پس پہلی مسجد انگلستان میں ہماری ہی ہے جس کی بنیاد مسلمان نے رکھی ہے.اس پر یہ کتبہ لگایا گیا ہے.أعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھو الناصر قل ان صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي للہ رب العلمين.۷۸؎ میں میرزا بشیر الدین محموراحمد خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمد یہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے خدا کی رضاء کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خداتعالی کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج۲۰.ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں.اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لئے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے.اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفٰی خاتم النبين ﷺ اور حضرت احمد مسیح موعود نبی الله پرو زونائب محمد عليهما الصلوة والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے اے خد اتُو ایسا ہی کر.19.اکتوبر ۱۹۲۴ء" اور ہم نے ساری جماعت کی خوشی کے لئے ایک طرف میری اصلی تحریر کا فوٹو اور دوسری طرف انگریزی ترجمہ گھروں میں رکھنے کے لئے تیار کرایا ہے ، جو احباب چاہیں دفتر میں چھپے پڑے ہیں (قیمت ۱۲ آنہ ہے) خدا کی قدرت ہے.میری ایک نظم تھی جس میں مسجد بنانے کا ذکر "ہم ہم" کے ساتھ تھا.یعنی اس کا بنانا میری طرف منسوب تھا.آخر خدا تعالی نے توفیق دی اور اس مسجد کی بنیاد رکھ دی گئی.اسی سفر میں سلسلہ کی عظمت کا جو اثر ہوا اس کو الفاظ ادا نہیں کر سکتے جس کسی علاقہ سے ہم
۶۱۶ گذرے وہاں سے یہی آواز آئی کہ ہم آپ کو جانتے ہیں.ہالینڈ میں چودھری ظفراللہ خان صاحب گئے ایک شخص کو تبلیغ کر رہے تھے.سلسلہ گفتگو میں میرا فوٹو نکال کر دکھایا.وہ کہنے لگا یہ تصویر میں نے دیکھی ہوئی ہے.برلن سے ماسٹر مبارک علی صاحب نے ایک اخبار بھیجا جس نے سارے صفحہ پر میری پورے قد کی تصویر شائع کی ہے.امریکہ میں بھی تصویر چھپ رہی ہے.اسی طرح اٹلی میں، بغداد میں اور دیگر ممالک میں تصویر میں اور مضامین شائع ہوئے اور اس ذریعہ سے شُہرت ہوئی.آتے ہوئے جہاز میں سوئٹزرلینڈ کے قنصل کی بیوی بھی تھی.ہمارے دوستوں سے اس کی گفتگو ہوئی جب فوٹو دکھایا گیا تو کہنے لگی یہ تو دیکھا ہوا ہے.پوچھا کس طرح؟ تو اس نے کہا کہ سینما میں ، غرض اس قدر شُہرت ہو گئی ہے کہ اب ہمارا بچہ بھی چلا جائے تو سمجھیں گے کہ اس کے پیچھے زبردست جماعت ہے.چنانچہ اس کا پتا اس طرح معلوم ہوا کہ کابل کے خلاف پروٹسٹ کے جلسہ میں تین پادری شامل ہوئے جو بہت بااثر تھے.ایک نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت آتا ہے ہے جبکہ حکومتیں احمدیوں کے قبضہ میں ہوں گی.اس وقت یہ لوگ جو بنی نوع انسان کے لئے تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں ان کی نسلیں دیکھیں گی اور فخر کریں گی کہ ہمارے باپ دادے وہ تھے کہ لوگ انہیں بات بھی نہ کرنے دیتے تھے اور انہیں قتل کرتے اور ہر قسم کے دکھ دیتے تھے آج ہم ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں بادشاہ ہیں.اسی طرح پروفیسر براؤن چو عربی اور فارسی کے عالم ہیں ان کے لئے کے لئے شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری، حافظ روشن علی صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد جنہیں اب بھی بعض لوگ رحیم بخش کہتے ہیں بھیجا تو وہ کہنے لگا میں نے سمجھا تھا کہ کانفرنس مذاہب چند پاگلوں کے خیال کا نتیجہ ہے مگر جب آپ لوگوں کے حالات اخبارات میں پڑھے تو افسوس ہوا کہ میں اس میں شامل ہونے سے محروم رہا.اس نے کہا کہ میں آپ کے سلسلہ کی کتابیں پڑھوں گا.اس نے بتایا کہ آج ۱۲ بجے سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں حالانکہ ۴ بجے ملاقات کا وقت مقرر تھا.وہ آمد ورفت کا کرایہ دینے کے لئے اصرار کرتا رہا اور بڑی محبت سے اس نے رخصت کیا.پھر مسجد کے موقع پر ایسے ایسے لوگ آئے کہ جن کی امید نہ تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے شاہی کارروائی ہوتی ہے اور مختلف سلطنتوں کے وزراء آتے ہیں.بعض کی بعد میں چِٹّھیاں آئیں کہ افسوس ہم مجبوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے.ایک اخبار نے مجمع کی تصویر شائع کی اور لکھا کہ افسوس ہمارا قائم مقام شامل نہ ہو سکا مگر کارروائی شائع کی جاتی ہے.ایک سلطنت کے نما ئندہ
۶۱۷ نے مبلغ مانگے.ایک اور نمائندہ نے یہ تحریر کا نمونہ مانگا.حالانکہ بڑے آدمیوں کے لئے مانگنا بہت مشکل کام ہوتا ہے.اس نے کہا کہ مجھے دو کاپیاں دی جائیں.ایک اپنے دوست کو دوں گا اور ایک اپنے ملک کی یونیورسٹی کو.زیکو سلوویکیا ( CZECHOSLOVAKIA) کے قائم مقام پر حیرت ہی ہو گئی مجھے بتایا گیا تھا کہ بڑا مغرور ہے.مجھے دیکھ کر جب وہ ملا تو اس نے بتایا.فلاں ہوں.اور کہنے لگا کہ میں بہت بد قسمت ہوں کہ یہ عمرآگئی اور مذہب کے متعلق کچھ نہیں سنا اور آج پہلا دن ہے کہ یہ باتیں سنی ہیں.ایک پادری تھا کہنے لگا میں بہت خوش قسمت ہوں کہ آج اسلام کے متعلق یہ بیان سن لیا وہ آخر تک کھڑاہی رہا.جب اسے موقع ملتا مجھ سے بات کرنے لگ جاتا.اس نے اپنے پتہ کا کارڈ دیا اور کہا کہ میری عزت افزائی ہوگی اگر قبول کیا جائے گا اور حالات سلسلہ معلوم کرنے کا اشتیاق ظاہر کیا.گویا جس طرح خدا قلوب کو کھول دیتا ہے اس طرح کی حالت تھی پھر جیسا کہ مولوی شیر علی صاحب نے اشارہ کیا ہے.پریذیڈنٹ جلسہ کانفرنس نے تین چار دفعہ کہا اور گھر میں بھی آ کر کہا کہ اسلام زندہ مذہب ہے اور سلسلہ احمدیہ اس کا زندہ ثبوت ہے.میں نے اس سفر میں جو اصول تبلیغ تجویز کئے ہیں ان میں سے کچھ مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو لکھ کر دے آیا ہوں اور کچھ لکھ رہا ہوں.فی الحال بیان کرنے مناسب نہیں کیونکہ بعض سے دشمن فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور نقصان پہنچا سکتے ہیں.وہاں کے لوگوں میں عجیب محبت کا جوش دیکھا.جب ہماری واپسی کی تیاری ہونے لگی.تو کئی لوگ سوال کرتے کہ یہاں ٹھہرتے کیوں نہیں اور جب میں کہتا کہ مرکز سلسلہ میں کام ہے تو جیسے سوکنوں کا رشک ہوتا ہے کہتے کیا آپ ہندوستان کو ہمارے ملک کی نسبت زیادہ پسند کرتے ہیں.اس کا میں یہی جواب دیتا کہ چونکہ خدا نے ہندوستان میں سلسلہ کا ہیڈ کوارٹر بنا دیا ہے اس لئے جانا ضروری ہے.واپس آتے ہوئے رستہ میں ایک امریکی کا خط ملا ہے جس میں لکھا ہے کیا انگلستان ہم سے زیادہ مستحق ہے کہ خدا کا پیغام سنے اور ہم نہ سنیں.کیا وہی اس بات کا مستحق تھا کہ وہاں سے ظلمت دور ہو اور ہم مستحق نہیں.کیا آسمانی پانی اسی کے لئے تھا ہمارے لئے نہیں.اسی طرح کے کئی فقرے اس نے لکھے ہیں.غرض ہر طرف عجیب قسم کا جوش پیدا ہو گیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ آج ہی کٹنگ آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بعد بھی تذکرہ ہو رہا ہے.پیرس پہنچنے کا بھی تار ولایت کے
۶۱۸ اخباروں میں چھپاہے.میرے نزدیک اس سفرے بڑے بڑے فوائد کے علاوہ جن میں بعض کا ذکر مولوی شیر علی صاحب نے کیا ہے بعض چھوٹے فوائد بھی ہوئے ہیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ میرے سفر پر جانے پر کئی نئے شاعر پیدا ہو گئے ہیں.خصوصاً ہماری ہمشیرہ شاعرہ ہو گئی ہیں.یہ بھی علمی ترقی ہے.دوسرے یہ بھی علمی ترقی کی علامت ہے کہ الفضل کا خاص نمبر شائع ہوا ہے.پہلے ہمارے اخبارات کے جو خاص نمبر شائع ہوتے وہ تو ایسے خاص بلکہ اخص ہوتے کہ شاید ہی کوئی ان سے مزا حاصل کرتا ہو.مگر الفضل کے اس پرچہ میں ا چھی اچھی نظمیں اور مضامین شائع ہوئے ہیں.یہ بھی پہلے کی نسبت ترقی ہے.میں نے اس سفر پر جاتے وقت کہا تھا کہ احباب نام لکھ دیں ان کے لئے دعا کی جائے گی چنانچہ دوستوں نے نام لکھ دیئے.اس تحریک میں سب سے زیادہ حصہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا ہے.جو روز سب کے نام لکھ کر دے دیتے اور یوں بھی یاد دلاتے رہے.میں نے نیت یہ کی تھی کہ ۴۰ دفعہ کم از کم اس سفر میں احباب کے لئے دعا کروں گا.مگر خدا کے فضل سے پچاس بلکہ اس سے بھی زیادہ وفعہ دعا کرنے کا موقع ملا اور جنہوں نے نام نہیں لکھوائے تھے ان کو بھی چھوڑا نہیں بلکہ سب کے لئے دعا کرتا رہا ہوں.اس سفر کے دو بڑے اہم سوال بھی حل ہو گئے اور ان کی وجہ سے سب سے بڑی خوشی حاصل ہوئی.ایک تو یہ کہ کہا جاتا کہ مغرب میں مسیح موعود کا ذکر سِّم قاتل ہے.مگر ہم پر اس سفر کی وجہ سے یہ کُھلا ہے کہ سوائے حضرت مسیح موعود کے ذکر کے مغرب کی مرضوں کا کوئی علاج ہی نہیں.وہ لوگ پرانی چیزوں کو لاش کی طرح سمجھ کراسی طرح چیرتے پھاڑتے ہیں جس طرح مردہ کو چِیرا جاتا ہے.کیونکہ وہ تازہ چیز کو دیکھتے اور اسی کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت سمجھتے ہیں.جہاز کاہی واقعہ ہے.ہمارا ہم سفر ایک بہت بڑا تاجر تھا جو میرے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھا کرتا تھا.میں نے اسے لیکچر مہوتسودیا - کہ پڑھو.دوسرے دن کہنے لگا.میں نے پڑھا ہے مگر میرا ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ کیا آپ جیسا سنجیدہ اور روشن دماغ انسان بھی یہ خیال کر سکتا ہے کہ الہام ہو سکتاہے میں نے کہا کہ میرا سنجیدہ اور روشن دماغ ہو نا ہی مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں تسلیم کروں کہ الہام ہوتا ہے.کہنے لگا کس طرح؟ میں نے کیا.دیکھو اگر سورج نکلا ہوا ہو اور ایک شخص دکھاوے تویہی کہیں گے کہ نکلا ہوا ہے.اسی طرح اگر حضرت مرزا صاحب یہی کہتے کہ الہام ہوتا ہے اور ہمیں
۶۱۹ نہ دکھاتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ان کو غلطی لگ گئی ہے.مگر انہوں نے کہا کہ اگر اسلام کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تمہیں بھی الہام ہو سکتا ہے.پھر ہم نے اس پر عمل کیا اور ہمیں الہام ہوا.اب ہم کیونکر اس کا انکار کر سکتے ہیں.یہ سن کر وہ کہنے لگا تو یہ بڑے غور کی بات ہے.گویا وہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب کو پڑھ کر متاثر ہوا کیونکہ اس نے آپ کی زندگی نہ دیکھی تھی.مگر میرے ساتھ کام کر کے اس طرح نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ مجھے وہ دیکھ رہا تھا.پس مغرب کے لوگوں میں کوئی چیز اگر یقین پیدا کر سکتی ہے تو وہ نمونہ ہے اور اس شخص کے حالات جس کو دیکھا ہو.کچھ ہندوستانیوں سے گفتگو ہوئی کہنے لگے.کیوں نہ کہا جائے کہ مرزا صاحب کے دماغ میں نقص تھا.میں نے کہا کیا تم میرے دماغ میں نقص سمجھتے ہو؟ کہنے لگےنہیں.میں نے کہا کہ مجھے بھی الہام ہوئے ہیں.اس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے.تو لوگوں پر سب سے زیادہ اثر کرنے والی بات یہی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نعوذ بالله مداری کی طرح نہیں آئے تھے کہ تماشہ کر کے چلے گئے بلکہ وہ فیوض جو انہیں حاصل تھے ہمارے لئے بھی چھوڑ گئے.اسی سفر پر جاتے وقت میں نے کہا تھا کہ بعض رنج دہ اور افسوناک باتیں مجھے بتائی گئی ہیں چنانچہ ان چار ماہ میں اس قدر افسوس ناک واقعات ہوئے ہیں کہ اگر گذشتہ دس سال کے ایسے واقعات کو جمع کیا جائے تو بھی اس قدر نہیں ہو سکتے.سفر شام کے متعلق بھی میں نے رؤیا دیکھی تھی کے ساتھیوں کو کچھ مشکلات پیش آتی ہیں.چنانچہ جب حیفہ آۓ تو عرفانی صاحب اور چودھری فتح محمد صاحب بہائیوں کو ملنے کے لئے چلے گئے حالانکہ آدھ گھنٹہ تک گاڑی آنے والی تھی اور وہ آخری گاڑی تھی جس کے ذریعے جہاز پر پہنچ سکتے تھے مگر وہ چلے گئے اور پھر گاڑی سے رہ گئے.حیفہ کے گورنر نے سپیشل گاڑی کے ذریعہ انہیں بھجوایا اور ہر طرح مدد کی.مگر اس گاڑی کا انجن خراب ہو گیا اور وہ ره گئے اور ثابت ہو گیا کہ باوجود کوشش اور سعی کے وہ بات پوری ہوئی جو مجھے بتائی گئی تھی اور ظاہری سامان بے کار ثابت ہوئے.یہ نظارے ہیں جنہوں نے اس سفر میں بھی یقین دلا دیا کہ حضرت مسیح موعود کے تعلق سے وہ باتیں حاصل ہوسکتی ہیں جن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام دعویدار تھے.دوسرا سوال یہ حل ہوا کہ میں اس خطرہ کو اپنے دل میں لے کر گیا تھا کہ یورپ اسلام کی ننگی تعلیم کو قبول نہیں کر سکتا اور آیا اس یقین کے ساتھ ہوں کہ یقینا ًقبول کر سکتا ہے.ایسی باتیں جن پر اہل یورپ اعتراض کرتے ہیں جب حقیقی شکل میں معقولیت کے ساتھ ان کے سامنے بیان کی
۶۲۰ گئیں تو وہ ان کی صداقت کا اعتراف کرتے گو ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ ابھی ہم ان کو قبول نہیں کر سکتے.سوسائٹی اور رسم و رواج کی وجہ سے انہیں قبول کرتے ہوئے ڈر آتا ہے.غرض اس سفرمیں ایسی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ جو انسانی وہم و خیال سے بالا تر ہے اور جس بات کی طرف میں سرزمین ِہند پر قدم رکھتے ہوئے جماعت کو توجہ دلاتا آیا ہوں اور آج بھی دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا تعالی کی طرف سے ہی ساری کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور وہی حقیقی شکریہ کا مستحق ہے.اور جماعت کو تیار ہو جانا چاہئے کہ خدا نے جوبیج بویا ہے اس کی آب پاشی کریں.یہ بیج میسّر نہ آسکتا تھا اگر اس سفر کے بغیر کوشش کرتے رہتے.لیکن خداتعالی نے ایسے سامان کر دیئے کہ بیج میسّر آ گیا.اب جب کہ بیج اس نے بو دیا ہے اگر ہم اپنے اعمال اور قربانیوں کا پانی نہیں دیں گے تو بار آور نہیں ہو گا.کیا کوئی بیج بغیرپانی کے اُگ سکتا ہے،ہرگز نہیں.اسی طرح اس بیج کے متعلق سمجھنا چاہئے.میں نے اس مجلس شوریٰ میں جس میں سفر یورپ کا سوال پیش ہوا تھا کہا تھا کہ اگر سفر کیا گیا تو پھر ان ممالک کی طرف بہت توجہ کرنی پڑے گی اور بہت سارو پیہ خرچ کرنے کی ضرورت ہوگی.یہ نہیں ہو سکتا کہ میں جاؤں ،بیج بویا جائے اور پھر آب پاشی نہ کروں اور بیج کو بھی ضائع کر دوں.دیکھو جو زمیندا ردانہ بو کر پانی نہیں دیتا اس کا بویا ہوا دانا بھی ضائع ہو جاتا ہے.مگر جو پانی دیتا ہے وہ وہی دانہ نہیں لاتاجو بوتا ہے بلکہ اس سے بیسیوں گنے زیاده لاتا ہے.پس بیج بونے کے بعد اس کی حفاظت اور آب پاشی کی ضرورت ہوتی ہے.اور یہ خود سمجھ لو کہ جوبیج ساری دنیا میں بکھیر اگیا اس کے لئے کتنے پانی اور کس قدر نگہداشت کی ضرورت ہے.پس اس سفر میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ آئندہ قربانیوں کا پیش خیمہ ہیں.یہی وہ پیغام ہے جس کی طرف میں نے آج صبح اشارہ کیا تھا اور یہی وہ پیغام ہے جس کی طرف میں اس وقت جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.جماعت کو اب پہلے کی نسبت بیسیوں گنا زیادہ کام اور زیادہ قربانیاں کرنا چاہئیں.اب کام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے.جو اس قدر وسیع علاقہ میں پھیلایا گیا ہے کہ ہم اسے پانی نہیں دے سکتے اور انتہائی زور لگا کر بھی نہیں دے سکتے.مگر یہ خدا تعالی کی سنت ہے کہ جب کوئی جماعت اس کے رستہ میں اپنا پورا زور اور ساری قوت صرف کر دیتی ہے تو پھر خدا تعالی اپنی تائید اور نصرت بھیج کر وہ کام کردیتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کو کوئی کہے تمہارے پاس جتنے پیسے ہیں وہ دے دو باقی میں اپنے پاس سے ڈال کر تمہیں فلاں چیز لے
۶۲۱ دوں گا.خداتعالی اپنے بندوں کے ساتھ اسی طرح کرتا ہے.جو بندے اپنا سب کچھ دے ڈالتے ہیں ان کی کی خداپوری کر دیتا ہے.لیکن جو اپنے پاس رکھ لے اسے خاص مدد نہیں دیتا.حضرت خلیفۃ المسیح اول سناتے کہ ایک ہندوستانی ایک عرب کے پاس گیا اور جا کر کہا میں بہت بھوکا ہوں اور میرے پاس کچھ نہیں ہے مجھے کچھ کھانے کو دو.اس کا تر بوز کا چھوٹا سا کھیت تھاجس میں سے اس نے سب اچھے اچھے تربوز اسے کھلادیئے.جب وہ کھاچکا تو اسے کہا کھڑا ہو جا اوراس کی تلاشی لی.ہندوستانی کو اس پر بہت تعجب ہوا اور اس نے کہا.یہ تم نے کیاگیا.عرب نے کہامیں نے جو کچھ تمہیں کھلایا وہ تو مہمان نوازی کے فرض کو ادا کیا لیکن چونکہ یہ کھیت میرے بال بچوں کے لئے سال کی خوراک تھی.رؤوسا کے پاس میں تربوزلے جاتا اور گزارہ چلا تا.اب یہ فصل ماری گئی ہے اس لئے میں نے تلاشی لی کہ تامعلوم کروں تُو نے سچ کہایا جھوٹ.اگر سچ ثابت ہو گیا تو خیال کر لیتا کہ اگر کھیت اُجڑ گیا ہے تو کیا ہوا ایک مہمان کی تو جان بچالی لیکن اگر ایک پیسہ بھی تمہارے پاس سے نکل آتا تو میں تجھے قتل کردیتا کہ تُونے اسے بچایا اور میرے بیوی بچوں کا قاتل بنا.خداتعالی بھی اپنے بندوں سے اسی رنگ میں سلوک کرتا ہے.جب وہ اس کی راہ میں اتنی قربانی اور اس قدر ایثار کریں کہ ان کے پاس کچھ نہ رہے تو پھر خواہ کروڑوں کروڑ روپیہ کی ضرورت ہو تو خود مہیا کردیتا ہے.لیکن اگر قربانی میں کسر رہے تو خدا کی نصرت بھی نہیں آتی.پس میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس سفر میں جو کامیابیاں ہوئی ہیں ان کے شکریہ کو عملی جامہ پہنائیں.اس وقت جو مالی مشکلات درپیش ہیں ، انہیں دور کرنے کی کوشش کریں.اب پہلے سے بھی زیادہ توجہ ،اخلاص، محبت اور اتحاد کی ضرورت ہے.اس کے لئے جماعت کو ابھی سے کوشش شروع کر دینی چاہئے.آخر میں مضمون ختم کرنے سے پہلے میں اس سفر کے ساتھیوں کے متعلق بھی یہ اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہو سکا انہوں نے کام کیا.انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے بھی ہوئی ہیں.میں ان پر بعض اوقات ناراض بھی ہوا ہوں مگر میری ناراضگی کی مثال ماں باپ کی ناراضگی کی سی ہے.جو ان کی اصلاح اور اس سے بھی زیادہ پُرجوش بنانے کے لئے ہوتی ہے.مگر انہوں نے اچھے کام کئے اور بڑے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور میرے نزدیک وہ جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں.خصوصا ًاس لئے کہ میرے جیسے انسان کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا.
۶۲۲ جب کام کا زور ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انسان مشین کی طرح کام کرے.نہ اپنے آرام کا اسے خیال آئے نہ وقت بے وقت دیکھے.جب اس طرح کام لیا جائے تو بعض اوقات اچھے سے اچھے کام کرنے والے کے ہاتھ پاؤں بھی پھول جاتے ہیں.مگر انہوں نے اخلاص سے کام کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعائیں کی جائیں.پھر میں سمجھتا ہوں ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیز خصوصیت سے جماعت کی دعاؤں کے اور شکریہ کے مستحق ہیں.واقفیت کی وجہ سے انہوں نے اس سفر میں بہت کام کیا ہے.ان کے اندر بعض کمزوریاں ہیں.لیکن میرا تجربہ ہے کہ وہ اکیلے چار پانچ آدمیوں کا کام کرتے ہیں بشرطیکہ گھبرا نہ جائیں اور جب گھبرا جائیں تو پھر ایک آدمی کا کام بھی نہیں کر سکتے.ان کی وجہ سے بھی سلسلے کے کاموں میں بہت کچھ مدد ملی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ برادرانہ حسن سلوک کے خلاف ہو گا اگر میں اس پہلے موقع پر جو مجھے اظہار خیالات کا اس سفر کے بعد ملاہے ،ان کی خدمات کا اظہار نہ کروں.ان کی غلطیاں میں بیان کرتا رہا ہوں اور اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ ان میں بعض کمزوریاں ہیں.مگر اس سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ مجھے ان کی خدمات کا اعتراف نہیں ہے.ان کی غلطیاں تربیت کا نقص ہے مگر اخلاص میں کوئی کمی نہیں.اور اخلاص کے لحاظ سے تو جماعت کا کوئی فرد چُن لیا جائے.وہ ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کرے گا جو قابل رشک ہو گا.مگر ابھی تربیت کی کمی ہے.گویا ہمارے پاس ہیرے موجود ہیں مگر انہیں تراشنے کی ضرورت ہے.اخلاص تو ہماری جماعت کے ہر فرد میں حضرت مسیح موعود کی قوت قدسیہ کی وجہ سے ایسا ہے کہ جو پہاڑ کی طرح ہے.اور کوئی چیز اسے جُنبش نہیں دے سکتی.مگر تربیت کی نہایت ہی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلیں اس نقص سے محفوظ ہو جائیں.اور یہ کام وقت چاہتا ہے.مجھے اگر خداتعالی نے موقع دیا تومیں و رنہ جب خدا چاہے گا یہ کام ہو جائے گا.اور اُس وقت ایک ایک آدمی بیس بیس آدمیوں کا کام کر سکے گا.اس وقت میں نے اہم باتیں نہیں چھیڑیں کیونکہ یہ خوشی کا جلسہ ہے.اور سنجیدہ باتیں دوسرے موقع پر بیان کی جائیں گی اس وقت تو اوپر اوپر کی باتیں بیان کی ہیں.اب میں دعا کرتا ہوں کہ جو کوتاہیاں اس سفر میں ہم سے ہوئی ہیں ،خدا انہیں معاف کرے اور جو کوتاہیاں تم سے پیچھے ہوئی ہیں انہیں بھی معاف کرے.دین و دنیا میں کامیاب فرمائے.اخلاق اور عادات میں تربیت حاصل کرنے کی توفیق بخشے.ہمیں مکمل انسان بنائے.اور ایسے مکمل جیسا کہ اس کی منشاء ہے کہ انسان ہوں اور جیسا کہ قرآن کریم کی تعلیم چاہتی ہے.اور اس
۶۲۳ دنیا میں بھی اور آخرت میں اس کی رحمت کے سایہ کے نیچے رہیں وہ کبھی ہم سے ناراض نہ ہو.ہم اس کے ہوں اور وہ ہمارا ہو.ہمیں اس سے محبت ہو اور اسے ہم سے.ہمیں اس سے ایسا پیار ہو جس کی کوئی نظیر نہ ہو.اور اس کو بھی ہم سے ایساپیار ہو کہ دنیا کی کسی قوم کو وہ ہم پر ترجیح نہ دے(آمین) (الفضل ۴- دسمبر ۱۹۲۴ء)
۶۲۴ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم احمدی افغانانِ قادیان کے ایڈ ریس کا جواب (فرموده۲۶- نومبر ۱۹۲۴ء) اس وقت جو ایڈریس میں ہماری جماعت کے افغان بھائیوں کی طرف سے پڑھا گیا ہے اس کے اس حصہ کے متعلق جس میں ہماری واپسی پر خوشی کا اظہار کیاگیا ہے اور آئندہ کے متعلق دعا کی گئی ہے میں اپنی طرف سے بھی اور اپنے ہمراہیان سفر کی طرف سے بھی جزاكم الله احسن الجزا.کہتے ہوئے اس حصہ کی طرف توجہ کرتا ہوں جو نہایت ہی اہم ہے اور نہایت ہی عظیم الشان امر کے متعلق ہے کیا بلحاظ واقعہ کی نوعیت کے اور کیا بلحاظ وقتی کیفیات کے.یعنی مولوی نعمت اللہ خاں صاحب شہید کا واقعہ.بعض واقعات دنیا میں اس رنگ کے ہوتے ہیں کہ وہ ایک وقت میں بہت بڑا اثر رکھتے ہیں مگر بعد میں ان کا اثر باقی نہیں رہتا.اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جو اپنے زمانہ میں تو معمولی سمجھے جاتے ہیں لیکن بعد میں عظیم الشان تغیر پیدا کردیتے ہیں.اور ایک واقعات وہ ہوتے ہیں کہ اپنے وقت میں بھی اور بعد میں بھی عظیم الشان اثر چھوڑتے ہیں.پہلی قسم کے واقعات کی مثال یعنی ایسے واقعات جو اپنے زمانہ میں دنیا کو ہلا دیتے اور تہلکہ ڈال دیتے ہیں مگر بعد میں ان کا کچھ بھی اثر نہیں رہتا جھوٹے مدعیوں کی مثال ہے.ایسے لوگوں میں سے جو اپنی ہوشیاری ،اپنی ذکاوت اور اپنی منصوبہ بازیوں سے ایک شور برپا کر دیتے ہیں اور دنیا سمجھتی ہے کہ عالَم کو ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ہلا دیں گے.کچھ عرصہ کے بعد ان کا سارا زور شور مٹ جاتا ہے ،حالات بالکل بدل جاتے ہیں ،سمند ر ساکن ہو کر چادر کی طرح ہو جاتا ہے گویا طوفان تھا جو آیا او ر گذر گیا.اور دوسری قسم کے واقعات کی مثال یعنی جو اپنے زمانہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے لیکن آہستہ آہستہ ان میں ترقی ہوتی جاتی ہے اور عظیم الشان اثر پیدا کر دیتے ہیں، سچے مدعیوں کی مثال ہے.یہ جب پیدا ہوتے ہیں تو ان کی حالت اور
۶۲۵ آواز اسی کمزور ہوتی ہے کہ اکثر لوگ خیال کرتے ہیں ایسے و عد ے کرنا جنون ہے.لیکن وہ اس گولہ کی طرح یا اس پتھر کی طرح ہوتے ہیں جو برفانی پہاڑ کی چوٹی سے گرتا ہے.نئی نئی برف پڑی ہوتی ہے اس لئے نرم نرم برف اس کے ساتھ چمٹنی شروع ہو جاتی ہے جس سے وہ بڑا گولہ بن جاتا ہے.اور جوں جوں وہ نیچے آتا جاتا ہے اور برف اس کے ساتھ چمٹتی جاتی ہے.حتی کہ اس میں ایسی حرارت، ایسی بجلی، ایسی کشش اور ایسا جذب پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ پتے، شاخیں بلکہ درخت بھی لپیٹتا جاتا ہے.اور پھر اس میں اس قدر قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ گاؤں کے گاؤں اپنے ساتھ کھینچنے لگتا ہے.خدا تعالی کی طرف سے آنے والے نبیوں کی یہی کیفیت ہوتی ہے.ابتداء میں دنیا ان کے دعوی ٰکو سن کر حیران ہوتی اور خیال کرتی ہے کہ کیا یہ تغیر پیدا کر سکیں گے ؟ مگر روز بروز ان کی طاقت بڑھتی جاتی اور دن بدن ان میں زیادہ سے زیادہ جذب پیدا ہوتا جاتا ہے.وہ ابتداء میں ایک بیج کی طرح ہوتے ہیں اور اس بیج کی طرح جسے ہوا بھی اُڑا کر لے جا لگتی ہے یا اس تنکا کی طرح مجھے چھوٹا بچہ بھی اٹھا کر توڑ سکتا ہے.مگر کون جانتا ہے کہ جب وہ خدا کے الہام کے پانی کے نیچے آتے ہیں تو اس قدر قوت اور طاقت ان میں پیدا ہو جاتی ہے کہ ساری دنیا بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.ان کی مثال سپنچ کی سی ہوتی ہے.وہ اس طرح اپنے ارادوں اور خواہشوں کو اپنے اندر سے نکال دیتے ہیں جس طرح سپنچ اپنے اندر کے مادہ کو نکال کر خالی ہو جاتا ہے.وہ اس وقت ایک خالی برتن کی طرح ہوتے ہیں.جب خدا تعالی کے الہام کی بارش کے نیچے کھڑے ہوتے ہیں اور اس پانی سے بھرنے شروع ہو جاتے ہیں چونکہ ان کے جسم کا ہر ذره خالی برتن کی طرح ہوتا ہے اس لئے اس قدر بھرتے ہیں کہ ان کا اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ایسے عظیم الشان تغیر پیدا کرتے ہیں کہ دنیا حیران ہو جاتی ہے.تیسری قسم کے واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جو اپنے وقت میں بھی عظیم الشان اثر پیدا کرتے ہیں اور بعد میں بھی ان کی ایک مثال شہیدوں کی شہادت ہے.یہ اپنے وقت میں بھی دنیا میں شور پیدا کردیتی ہے اور بعد میں بھی.کیونکہ خدا تعالی نے فطرت انسانی میں یہ بات رکھی ہے اور جب تک انسان زندہ ہے اور اس کے جذبات اور احساسات زندہ ہیں، خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس میں یہ بات پائی جائے گی کہ وہ ظلم اور تعدی کو ناپسند کرتا ہے اور فطرت جب تک مرتی نہیں کوئی مذہب اسے دبا نہیں سکتا.ہند و مذہب با وجود بت پرستی کی تعلیم کے ،عیسائیت باوجود کفارہ کے مسئلہ کے ،یہودیت با وجود انبیاء پرستی کے، زرتشتی مذہب با و جو د نار اور
۶۲۶ آب پرستی کے یا اور مذاہب با وجود قسم قسم کی بدعات اور حیاسوز تعلیمات کے انسانی فطرت کو دبا نہیں سکے.اور جب کہیں ظلم اور تعدی ہوگی ہر انسان کے دل سے یہ آواز نکلے گی کہ اس کو برداشت نہیں کرنا چاہئے.اور جب بھی ظلم و ستم کے واقعات دنیا میں رونما ہوں وہ ایک عالمگیر ہیجان اور جوش پیدا کر دیتے ہیں.ایسے اوقات میں ایک دوسرا فریق بھی نمایاں ہو جا تا ہے اور وہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرتیں مر جاتی ہیں اور فطرت اس وقت تک نہیں مرتی جب تک کوئی انسان اس سے بالکل دوسری طرف نہ نکل جائے.انسانی فطرت آگ کی طرح ہوتی ہے اور جو آگ کے پاس کھڑا ہو ضروری ہے کہ گرمی محسوس کرے اس لئے جو فطرت کے پاس کھڑا ہوتا ہے اسے بھی وہ کھینچ لیتی ہے لیکن جو دور نکل جاتے ہیں ان پر اثر نہیں ہوتا.ایسے لوگوں میں ظلم و جور کے واقعات سے ہیجان پیدا ہوتا ہے مگر وہ بالکل دوسری قسم کا ہوتا ہے.جب وہ انسانی خون گرا ہوا دیکھتے ہیں تو اور خون گرانا چاہتے ہیں.پس ایسے واقعات سے دونوں قسم کے لوگوں میں جوش اور ہیجان پیدا ہو جاتا ہے، جن کی فطرتیں مردہ نہیں ہوتیں ان میں اس لئے جوش پیدا ہوتا ہے کہ ظلم و ستم ہوا.اور جن کی فطرتیں مردہ ہوتی ہیں وہ زیادہ ظلم کے خواہشمند ہوتے ہیں کیونکہ ان کی مثال اس چیتے کی سی ہوتی ہے جس کے منہ میں ایک دفعہ انسانی خون لگ جائے تو وہ ہمیشہ اس کا منتظر رہتا ہے.اسی طرح وہ لوگ بھی چاہتے ہیں کہ اور ظلم کریں.مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت اسی قسم کے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے.جس نے اس وقت دنیا میں شور اور تہلکہ مچا دیا ہے.حتّیٰ کہ وہ لوگ جو ہمارے مذہب کے مخالف ہیں، وہ بھی ایسے رنگ میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس طرح کوئی احمدی بھی نہیں کر سکا.لندن میں جب اس ظلم کے خلاق اظہار نفرت کا جلسہ ہوا تو اس جلسے میں یکے بعد دیگرے تین معزز اور با اثر پادریوں نے تقریریں کیں.ان میں سے ایک نے کہا انیس سو سال ہوئے جب حضرت مسیح آئے تھے.اس وقت ان کے حواریوں نے جو قربانیاں کیں ان کی مثال اگر کہیں نظر آتی ہے تو اس زمانہ کے احمدیوں میں.اسی طرح سب نے نہایت زور دار تقریریں کیں.اور انہوں نے کہا کہ یہ شہادت صرف احمدیت کے لئے نہیں بلکہ اس اصول کی خاطر ہے کہ انسان سچائی کو کسی دوسرے کے کہنے اور جبر کرنے پر نہیں چھوڑ سکتا.اس قسم کی تقریر یں کرنے والے وہ لوگ تھے جو رسول کریم ﷺ سے بھی بڑھا کر حضرت مسیح کو مانتے ہیں.اور اگر حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے تو بھی انہیں ایسی عظمت دیتے ہیں کہ کسی اور انسان کو ان کے مساوی نہیں سمجھتے.ان کا یہ تسلیم کرنا کہ
۶۲۷ حضرت مسیح کے زمانے کی قربانیوں کا نمونہ سوائے احمدیوں کے اور کہیں نہیں ملتا، اس امر کا اعتراف کرنا ہے کہ ویساہی انسان اس زمانہ میں پیدا ہوا ہے جس کی تربیت سے ویسے ہی شہید پیدا ہو رہے ہیں جیسے حضرت مسیح کی تعلیم سے پیدا ہوئے تھے.اور یہ انسان حضرت مسیح کے مشابہ ہے، گویا ان لوگوں نے زبان سے تو حضرت مسیح موعود کی صداقت کا اعتراف نہیں کیا مگر جب انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح کے زمانہ کی قربانیوں کا نمونہ جماعت احمدیہ میں نظر آتا ہے تو حضرت مسیح موعود کے مثل مسیح ہونے کا اقرار کرلیا.یہ تو اس واقعہ کا مو جو دہ اثر ہے.آئندہ کے لئے میرے نزدیک یہ واقعہ اور بھی زیادہ اثر اہمیت پیدا کرنے والا ہے اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی ایک پیشگوئی بھی ہے.جس کی طرف اب میرا خیال نہیں گیا بلکہ جب وہ شائع کی گئی تھی ،اسی وقت میرا یہی خیال تھا جو اب ہے.وہ پیشگوئی یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تذکرة الشہاد تین صفحہ ۵۵ میں سید عبد اللطيف صاحب شہید کے واقعہ شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.”میں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ جو نہایت خوبصورت اور سرسبز تھی ہمارے باغ میں سے کاٹی گئی ہے.اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے.تو کسی نے کہا اس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے، اس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی تھی اور پھر دو بار اُگے گی.اور ساتھ ہی مجھے یہ وحی ہوئی کہ کابل سے کاٹا گیا.اور سید هاہماری طرف آیا‘‘.۷۰؎ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو یہ الہام صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے بعد ہوا اور اس میں ایک خبر دی گئی ہے.جب یہ الہام لکھا گیا اس وقت بھی اور بعد میں بھی جتنی دفعہ میں نے اسے پڑھا یہی سمجھا کہ یہ اور واقعہ کے متعلق ہے صاجزادہ صاحب مرحوم کے متعلق نہیں ہے کیونکہ وہ تو شہید ہو چکے تھے.اور جب شہید ہوئے ہماری طرف ہی تھے اس وجہ سے میرا خیال تھا کہ کوئی اور واقعہ ہو گا.چنانچہ اب جب کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا واقعہ ہوا تو خداتعالی نے سامان بھی ایسے پیدا کئے کہ وہ مقبرہ بہشتی جس کے بنانے کی یہ غرض ہے کہ جماعت کے صلحاء اس جگہ جمع ہوں، اس میں شہید کا کتبہ لگا دیا گیا.اور اس طرح ثابت ہوگیا کہ موجودہ زمانہ میں صلحاء جہاں جمع ہیں وہاں اسے لایا گیا.پھر حضرت مسیح
۶۲۸ موعود کو جو رؤیا دکھائی گئی وہ بھی عجیب ہے اس میں آپ کو سرو کی شاخ دکھائی گئی اور کہا گیا کہ اسے اس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی تھی.اس سے بھی ظاہر ہے کہ سرو کی شاخ اور تھی اور اس سے پہلے ایک بیری کاٹی گئی تھی.سرو کی شاخ اور بیری کا درخت بھی اپنے اندر عجیب حکمت رکھتے ہیں، بیری جو پہلے کاٹی گئی تھی.اس سے مراد سید عبد اللطیف صاحب تھے.انہیں بیری قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ پھل دار یعنی صاحب اولاد تھے اور سرو کی شاخ سے یہ مراد تھی کہ بیری کے بعد جو شاخ کاٹی جائے گی وہ پھل دار نہیں ہوگی، چنانچہ مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی ابھی تک شادی بھی نہ ہوئی تھی کہ شہید کر دیئے گئے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سرو کی شاخ جو کاٹی گئی ،اس سے مراد وہی تھے.پھر الہام کے یہ الفاظ کہ’’ کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا ‘‘ یہ بھی عجیب ہیں.بائبل میں آتا ہے کہ جب حضرت لوط کی قوم کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ تباہ ہونے والی ہے تو انہوں نے خدا تعالی کے حضور عرض کی.’’کیا تُو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا.شاید پچاس صادق اس شہر میں ہوں.کیا تُو اسے ہلاک کرے گا.اور ان پچاس صادقوں کی خاطر جو اس کے درمیان ہیںِ، اس مقام کو نہ چھوڑے گا.ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں.یہ تجھ سے بعید ہے کہ تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کرے گا.اور خداوند نے کہا.کہ اگر میں سدوم میں شہر کے درمیان پچاس صادق پاؤں تو میں ان کے واسطے تمام مکان کو چھوڑوں گاتب ابرہام نے جواب دیا اور کہا.کہ اب دیکھ میں خداوند سے بولنے میں جرأت کی.اگرچہ میں خاک اور راکھ ہوں.شاید پچاس صادقوں سے پانچ کم ہوں کیا ان پارٹی کے واسطے تُو تمام شہر کو نیست کرے گا اور اس نے کہا اگر میں وہاں پینتالیس پاؤں تو نیست نہ کروں گا.پھر اس نے اس سے کہا کہ شاید وہاں چالیس پائے جائیں.تب اس نے کہا کہ میں ان پالیسی کے واسطے بھی نہ کروں گا.پھر اس نے کہا میں منت کرتا ہوں کہ اگر خداوند خفانہ ہوں.میں پھر کہوں شاید وہاں تیس پائے جائیں.وہ بولا کہ اگر میں وہاں تیس پاؤں تو میں یہ نہ کروں گا.پھر اس نے کہا.دیکھ میں نے خداوند سے بات کرنے میں جرأت کی.شاید وہاں بیس پائے جائیں.وہ بولا میں بیس کے واسطے بھی اسے نیست نہ کروں گا.تب اس نے کہامیں منت
۶۲۹ کرتا ہوں کہ خداوند خفانہ ہوں.تب میں فقط اب کی بار پھر کہوں.شاید وہاں دس پائے جائیں.وہ بولا.میں اس کے واسطے بھی اسے نیست نہ کروں گا.۸۰‘‘؎ اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ نیک بندوں کے اپنی قوم سے تعلقات قائم رہتے ہیں.اور ان کی وجہ سے قوم عذاب الہیٰ سے بچ سکتی ہے حضرت مسیح موعود کے الہام میں ’’جو کاٹا گیا" کے الفاظ ہیں.ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کے لئے ایک وقفہ ہے جس کے بعد اس کے لئے عذاب مقد ر ہے اور نہ شہید اپنی قوم سے کاٹے نہیں جاتے بلکہ ان کا تعلق قائم رہتا ہے.یہ قطع تعلق وقفہ پر دلالت کرتا ہے اور اس سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ کچھ وقفہ ہو جس میں آب پاشی ہو.اور اور شاخیں پیدا ہوں.پھر اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ دو شاخیں یہاں تیار ہوں کیونکہ یہ کہایا ہے کہ اس شاخ کو یہاں لگاوو - اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں سکیم یہاں سے تیار کر کے بھیجنی پڑے گی.پس یہ رؤیا نہ صرف ایک عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ الہام نہ صرف ایک اور واقعہ شہادت کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ایک وقفہ ہو گا اور اس بارے میں یہاں سکیم تیار کرنی چاہئے اب موجودہ زمانہ میں ایسا ہی ہے.گو مولوی نعمت الله خان صاحب شہید کا واقعہ ایسا دردناک واقعہ ہے کہ جب بھی اس کی طرف خیال کیا جاۓ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے.لیکن اگر کام کرنے والا انسان ہو تو اس کا فرض ہے کہ اپنے جذبات کو سنبھالے اور انہیں قابو میں رکھے.اسی طرح اگر کسی قوم نے کام کرنا ہو تو اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے جذبات اور احساسات کو روک کر رکھے.آنکھوں کے آنسوخد اتعالی نے ایسا پانی پیدا کیا ہے کہ جو دل کی آگ کو بجھائے مگر جب انسان کامنشاء یہ ہو کہ دل کی آگ کو بجھانا نہیں بلکہ اور زیادہ بھڑکانا ہے تو ضروری ہے کہ آنسوؤں کو روکے.بے شک بچہ کی موت پر انسان رو سکتا ہے کیونکہ بچہ کی یاد کو قائم رکھنے والی کوئی چیز نہیں اور اس وجہ سے اس کی موت نے جو آگ پیدا کی ہے، اسے بجھنے دینا چاہئے.اسی طرح میاں بیوی کے مرنے پر اور بیوی میاں کے مرنے پر رو سکتے ہیں اور اپنی آنکھ کے آنسوؤں سے جدائی کی آگ کو کم کر سکتے ہیں.مگر وہ شخص جس نے خدا کو جان دی اور جو خدا کے رستہ میں ماراگیا،اس کے نام اور کام کو بھی نہیں بُھلایا جا سکتا اس کایاد رکھنا ہمارا فرض اور بہت بڑا فرض ہے اور جن لوگوں نے نہیں ،میں اس بات کا قائل نہیں جن خیالات اور احساسات نے ،جس گندی تربیت
۶۳۰ نے، جن غلط عقائد نے اس کے قتل کی تحریک کی اگر ان خیالات، اس تربیت اور ان عقائد کو مٹانا ہمارا فرض ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس واقعہ کو ہر وقت یاد رکھیں.اور اس کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے اندر جوش پیدا کریں اور پھراس جوش کو دبائیں نہ کہ آنسوؤں کے ذریعہ نکل جانے دیں.اس واقعہ کے متعلق ہماری مثال اس ہنڈیا کی سی ہو جس کے نیچے آگ جل رہی ہو.اوپر سے ڈھکنا بند ہو اور سارا جو ش اس کے اندر محفوظ ہو نہ یہ کہ ڈھکنا اٹھا دیا جائے اور جوش نکل جائے.پس چونکہ نعمت اللہ خاں صاحب شہید کی شہادت دین کی خدمت کے لئے ہوتی ہے اس لئے باوجود طبائع میں جوش اور طبیعت کے رقّت کی طرف فطر تاً مائل ہو جانے کے جہاں ایسا موقع ہو، وہاں اس جوش اور رقّت کو دبانا چاہئے.ورنہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم اس جوش کو مٹانا چاہتے ہیں جو اس واقعہ نے پیدا کیا ہے.دیکھو دوران لڑائی میں کوئی شخص نہیں روتا - خواہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا بیٹا ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہو.یا اس کا بھائی ریز ہ ریزہ ہو رہا ہو.یا اس کے باپ کی گردن دشمن اتار رہا ہو - ہاں لڑائی کے بعد اس کے آنسو نکلیں گے کیونکہ آنسو اس بات کی علامت ہیں کہ کام ہو چکا، اب آرام کا وقت ہے.پس ہمیں اپنے آنسوؤں کو اس وقت تک روکنا چاہئے جب تک ہم اس واقعہ کے حقیقی انتقام سے فارغ نہ ہولیں جس کا لینا ہر ایک مومن کا فرض ہے.دیکھو خدا تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے.ولاتحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء ام ۸۱؎ شہید مرتا نہیں.جہاں خدا تعالی کے اس کلام میں ایک نہایت لطیف امر کی طرف اشارہ ہے وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جن کے کام کی شراکت کرتے ہوئے شہید جان دیتا ہے وہ چونکہ اس کے کام کو جاری رکھتے ہیں اس لئے وہ زندہ ہوتا ہے.وہ آنسوؤں سے اس کی یاد بھلانا اور اس کے کام کے نقش کو مٹانا نہیں چاہتے.اس آگ کو جو اس کی شہادت نے پیدا کی، اس جلن کو جو اس کی جدائی نے پیدا کی اوراس سوزش کو جو اس کے فراق نے پیدا کی مٹانا نہیں چاہتے کیونکہ جہاں وہ آگ، وہ جلن اور وہ سوزش تکلیف دہ ہے وہاں وہ ہمتوں کو بلند کرنے والی ، حوصلوں کو بڑھانے والی اور کام میں مدد دینے والی ہے.وہ اس کی شہادت کے ساتھ زندگی میں ہی خود شہادت قبول کرتے ہیں.وہ اپنے نفس کے جذبات کو مارتے اور آنسو بہا کر اپنے نفس کو آرام نہیں دینا چاہتے تب ان میں وہ جوش ،وہ ار ادہ او ر وہ قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کے ساتھ تمام بڑے بڑے کام دنیا میں کئے جاتے ہیں.ان کی مثال انجن کی سی ہوتی ہے جس میں سٹیم
۶۳۱ جمع ہو کر بڑے بڑے کام آتی ہے لیکن اگر سٹیم کو نکل جانے دیا جائے تو وہ انجن جو بہت سی گاڑیوں کو کھینچتا ہے ،خود بھی نہیں ہل سکتا.پس ہمیں اپنے جوشوں اور جذبات کا مفید استعمال کرنا چاہیے نہ کہ آنسوبہا کر آرام حاصل کرنا چاہئے.یاد رکھو کہ وہ پانی جو بہہ گیا وہ بہہ گیا لیکن جسے روک لیا جائے وہ بڑے بڑے عظیم الشان کام کرتا ہے.پس یہ جذبات جو واقعہ شہادت سے ہمارے اندر پیدا ہوئے ہیں ،ان سے فائدہ اٹھانا چاہے.اور وہ خیالاتِ ناپاک‘ وہ عقائدِ باطلہ اور وہ تربیتِ خراب جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں ان کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جانا چاہئے.میرے نزدیک کابل کے علماء یا امیر امان اللہ خاں صاحب یا امیر حبیب اللہ خان صاحب، یا امیر عبدالرحمنٰ خان صاحب مولوی نعمت اللہ خان صاحب ،صاحبزاده سید عبد اللطيف صاحب اور ملّا عبد الرحمٰن صاحب کے قتل کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کے اصل قاتل وہ گندے خیالات اور وہ غلط عقیدے اور وہ خراب تربیت ہے جو ان لوگوں کی ہوئی.اگر ان باتوں کو بدل دو تو کیا اس کے ساتھ ہی یہ لوگ بھی بدل نہ جائیں گے.یہی مولوی جو بڑے زور شور سے اس قتل کی حمائت کر رہے ہیں اگر آج عیسائی ہوتے اور انہیں سکھایا جاتا کہ نیک نامی ایک اچھی چیز ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہے تو کیا یہی کابل کے علماء اس قتل کے خلاف آواز نہ اٹھاتے.اسی طرح اگر یہی امیر امان اللہ خان صاحب ان وحشیانہ خیالات سے جُدا ہو جائیں یا امیر حبیب اللہ خان صاحب ان سے جُدا ہو جاتے تو کبھی مولوی نعمت اللہ خان صاحب اور سید عبد اللطيف صاحب کے قتل کی اجازت نہ دیتے.پس ان شہیدوں کے قاتل امیر امان اللہ خان صاحب اور امیر حبیب اللہ خاں صاحب یا علماء کابل نہیں ہیں بلکہ ان کے قاتل وہ جہالت اور وہ غلط خیالات ہیں جو اس ملک میں پھیلے ہوئے ہیں.مگر باوجود اس کے ہمارے اندر انتقام کی خواہش پر بھی موجود ہے اور ہونی چاہئے اور ہمارا جوش پھر بھی بڑھتا ہے اور بڑھنا چاہئے.کیونکہ وہ چیز جو ہمارے بھائیوں کو مارنے والی ہے وہ موجود ہے اور اس کو مٹانا ہمارے لئے ضروری ہے انتقام ایک ایسا جذبہ ہے جو خدا تعالی نے انسان میں اس کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے مگر اس کے لئے نہایت ضروری امر یہ ہے کہ معلوم کیا جائے انتقام کس سے لینا ہے.اس بات کا پتہ لگائے بغیر اگر عام طور پر اس جذ بہ کا استعمال کیا جائے تو انسان خود مجرم بن جاتا ہے.دیکھو اگر ایک شخص جس کے باپ کو کسی نے مار دیا ہو بغیراپنے باپ کے قاتل کا پتہ لگائے کسی
۶۳۲ اور کو قتل کر دے تو اسے اس لئے بُرا نہیں سمجھا جائے گا کہ اس سے بدلہ کیوں کیا بلکہ اس لئے برا سمجھا جائے گا کہ اس نے غیر سے بدلہ لیا.اسی طرح ان مظالم میں جو ہمارے بھائیوں پر کابل میں ہوئے ہمارے مد نظر کوئی انسان نہیں جس سے ہمیں انتقام لینا ہے کیونکہ وہ تو بندہ ہے چند ناپاک اور غلط خیالات کا.وہ تو ہتھیار ہے غلط اور نادرست عقائد کا.اور کیا کبھی کسی نے تلوار سے بھی بدلہ لیا ہے.نہیں بلکہ تلوار چلانے والے سے بدلہ لیا جا تا ہے.پس ہمارا مجرم وہ جہالت ہے جس میں ہمارے بھائیوں کے قاتل مبتلاء ہیں ہمارا مجرم وہ غلط عقائد ہیں جن کی وجہ سے وہ ایسے فعل کر رہے ہیں پس انتقام ایک نہایت اعلیٰ درجہ کاجذ بہ ہے اور ہم اس جذبہ کو مٹانے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں خواہ ساری دنیاہی اسے بُرا کیوں نہ کہے اور ہمارے جو بھائی کابل میں شہید کئے گئے ہیں ان کا انتقام لینا ہم پر فرض ہے.مگر آدمیوں سے نہیں بلکہ وہ انتقام ان بد خیالات اور ان جہالتوں سے لینا ہے جو کابل میں پھیلی ہوئی ہیں.اور وہ انتقام یہی ہے کہ ان غلط خیالات اور بد عقائد کو مٹائیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں.اور جب تک ہم ایسا نہ کریں اس وقت تک ہم یہ کہنے کے مستحق نہیں ہیں کہ ہمیں ان شہیدوں سے تعلق ہے اور ان کے مرنے پر افسوس کرتے ہیں.کیو نکہ وہ چیز جو ان کے قتل کی وجہ ہے اسے سامنے دیکھ کر خاموش رہنے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمیں اپنے شہیدوں سے اُنس اور محبت نہیں ہے.پس یہ ہمارا فرض ہے اور ہماری غیرت کا تقاضا ہے کہ اس وقت تک آرام نہ کریں جب تک ان چیزوں کو مٹا نہ لیں جو ہمارے بھائیوں کے قتل کا باعث ہیں.اس کی طرف میں اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں.مگر یہ وہ انتقام ہے جس کے لئے کابل یاخوست جانے کی ضرورت نہیں.ہندوستان سے باہر نکلنے کی حاجت نہیں بلکہ اس کے لئے اپنے گاؤں، اپنے محلّہ اپنے گھر بلکہ اپنے نفس سے بھی باہر جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مقصد اس کے دل، اس کے گھر، اس کے محّلہ اور اس کے ملک میں بھی موجود ہیں.یا زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہہ دوں کہ صاحبزادہ سید عبد اللطيف صاحب اور مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے قاتل کابل میں ہی نہیں ہیں، بلکہ انسان کے اپنے نفس میں اپنے رشتہ داروں میں، اپنے محلّہ میں اپنے شہر میں موجود ہیں.پس یہ کسی افغان کاہی فرض نہیں کہ ان شہیدوں کا انتقام لے.وہ شخص ہمارے ساتھ افغان ہونے کی حیثیت سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ احمدی ہونے کی حیثیت سے تعلق رکھتے تھے.اس وجہ سے وہ افغان نہ تھے بلکہ احمدی تھے.اس لئے جو بھی احمد ی ہے وہ ان کا رشتہ دار ہے پس انتقام لینے کے لئے ہماری جماعت کا کوئی فرد یہ
۶۳۳ نہیں کہہ سکتا کہ میں پٹھان نہیں، میں پشتو نہیں جانتا.اس امر کی ضرورت اس وقت ہوتی جب ہمارے شہیدوں کے پٹھان قاتل ہوتے.امیر امان اللہ خان صاحب قاتل ہوتے.ان کے قاتل تو روحانیت کی کمی، اسلام کے بُعد اور جہالت کی فراوانی ہے اور یہ ہر جگہ موجود ہے، اسے قتل کرنا چاہئے.پس ہرایک احمدی کا فرض ہے کہ ان خونوں کا انتقام لے.اور ہرایک احمدی کے سامنے یہ قاتل موجود ہیں.اگر وہ انہیں قتل نہیں کرتا تو اسے اپنے شہیدوں سے کوئی ہمدردی نہیں.اور اگر قتل کرتا ہے تو گھر بیٹھے بدلہ لے لیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے وہاں سے اس کا خاص تعلق ہوتا ہے وعا ہر جگہ ہی ہو سکتی ہے لیکن جہاں کوئی مدفون ہو وہاں دعا کرتے وقت خاص جوش پیدا ہوتا ہے.اسی طرح مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا واقعہ جہاں ہوا ہے وہاں کے ساتھ اسے ایسا تعلق ہے کہ جو کبھی جدا نہیں ہو سکتا.اور جب بھی کابل کانام ،مولوی نعمت اللہ خان صاحب کا نام اور امیر امان اللہ خان صاحب کا نام ہمارے کانوں میں پڑے گاہمارے جذبات کے باریک تاروں کو ہلا کر ایسی آواز پیدا کرے گا جو نہایت ہی رقّت آمیز اور درد انگیز ہو گی اس لئے اس علاقہ کی طرف خاص توجہ کرنی چاہے.مگر جو لوگ اس طرف نہیں جاسکتے ان کی میں ادھر توجہ مبذول کراناچاہتا ہوں کہ ان کے گھروں میں ان کے محلوں میں، ان کے شہروں میں قاتل موجود ہیں ان کی طرف توجہ کریں.میں نہیں سمجھ سکتا کوئی شخص اپنے آپ کو انسان کہلاتے ہوئے آدم کی اولاد میں اپنے آپ کو شامل کرنے کا مستحق ہو سکتا ہے جب تک اس کے جذبات اور احساسات ایسے نہ ہوں کہ وہ ان کے ذکر کو تازہ رکھے جنہوں نے اس کی خاطر اپنے خون کو پانی کی طرح بہایا اور اپنے سر کو کٹایا.اپنے سارے وقت اور سارے آرام و آسائش کو کلّی طور پر اس دنیا سے منقطع کر لیا ہو.ایسے انسانوں کی یاد کو اگر کوئی شخص تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد تازہ نہیں کرتا تو یقیناً وہ دنیا کی ادنی ٰ ترین مخلوقات سے بھی بدتر ہے کیونکہ کُتے میں بھی وفا پائی جاتی ہے.اور بہت سے ایسے واقعات سنے جاتے ہیں کہ کوئی شخص مارا گیا تو اس کا کتا بھوکا پیاسا اس کی لاش کے پاس پڑا پڑا مرگیا.جب کتے میں بھی اس قدر وفا پائی جاتی ہے تو انسان میں وفا کیوں نہ ہو ، پس اگر ہم اپنے آپ کو انسان ثابت کرنا چاہتے ہیں تو وہ جنہوں نے ظاہر طور پر جان دے دیا اپنے قلوب پر موت وارد کی.یعنی خواہ انہوں نے جسمانی قربانی کی، خواہ اپنے ہر قسم کے آرام اور خواہش کو قربان کر کے شہیدوں
۶۳۴ میں داخل ہو گئے ان کی یاد کو تازہ رکھیں.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.خصوصاً ان لوگوں کو جن سے ہمارے شہداء کو جسمانی اور وطنی تعلق تھایعنی افغانستان کے باشندوں کو.میں نے بتایا ہے ہم ان ملکوں کو چھوڑ نہیں سکتے جہاں ہمارے شہیدوں کا خون یا پسینہ بھی گرا ہے.اور احساسات کو کوئی چیز کاٹ نہیں سکتی.جب بھی یہ چار حرف ک.ا.ب.ل مل کر ہماری آنکھوں کے سامنے آئیں گے ہمارا دل خواہ کتنا غفلت میں کیوں نہ ہو اس میں ایک ہیجان پیدا ہو جائے گا اس لئے اس ملک کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور اسے بھی مد نظر رکھنا چاہئے.مگر جو لوگ وہاں نہیں جا سکتے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ لوگوں نے جو زندگیاں وقف کر دی ہیں ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے.وہ اپنے گھروں میں رہ کر بدلہ لے سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس وقت میں ان دوسرے امور کے متعلق جو ایڈ ریس میں بیان کئے گئے ہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور اسی پر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں اور دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں کے انتقام کی سچی توفیق عطا فرمائے جنہوں نے دین کی خدمت میں جائیں دی ہیں خواہ جسمانی طور پر خواہ ذہنی اور فکری طور پر.اور ہمارا یہ انتقام انہی چیزوں سے ہو جو اصل قاتل ہیں نہ ان لوگوں سے جو ہتھیار کے طور پر ہیں جن سے مجھے کم از کم کسی قسم کابغض نہیں ہے.(الفضل۱۱-ودسمبر ۱۹۲۴ء)
۶۳۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم کارکنانِ نظارت اور صدر انجمن احمدیہ کے ایڈریس کا جواب (فرموده۲۶-نومبر ۱۹۲۴ء) اس وقت جو ایڈ ریس کارکنان ِنظارت اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پڑھا گیا ہے اس کے جواب میں میں اپنی طرف سے اور ہمراہیانِ سفر کی طرف سے وہی فقرہ کہتا ہوں جو رسول کریم ﷺایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ جزاكم الله أحسن الجزاء چونکہ آج اس سے قبل مجھے دو موقعوں پر بولنا پڑا ہے اور کھانسی کی شدت کی وجہ سے میں زیادہ نہیں بول سکتا اس لئے مجھے یہ تو نہیں کہنا چاہئے کہ میں اس وقت کچھ زیادہ کہنا نہیں چاہتا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ زیادہ کہہ نہیں سکتا مگر اتنا ضرور کہتا ہوں کہ وہ کامیابی جو سلسلہ احمدیہ کو اس سفر میں حاصل ہوئی ہے اگر اس میں انسانی کوششوں کا کچھ دخل ہے اگر چہ اتنے تھوڑے وقت میں اتنے بڑے کام اور ایسے عظیم الشان نتائج جو رونما ہوئے ہیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کہہ سکتے کہ انسانی کوششوں کا اس میں دخل ہے لیکن چونکہ خدا تعالی نے بعض فضل بھی انسانی تدابیر کے جواب میں رکھے ہیں اس لئے اگر اس تھوڑی بہت حرکت اور کوشش کو مد نظر رکھا جائے جو جماعت کی طرف سے کی گئی ہے تو یہ کہناسچائی پر پردہ ڈالنا ہو گا کہ وہ سعی اور محنت جو خدا تعالی کے اس فضل کا جاذب ہوئی ہے وہ صرف میرے اور میرے ہمراہیاں سفر کے کاموں تک محدودہے.اگر ہم غور سے دیکھیں تو ہمیں وضاحت یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ دنیا میں بہت سے کام،
۶۳۶ بہت ہی کامیابیاں، بہت سی فتوحات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا سہراتو بعض کے سر بندھتا ہے مگران کے جذب کرنے اور حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی کوششیں ملی ہوتی ہیں.اور قوانین قدرت کے ماتحت نیچی چیزیں اوپر کی چیزوں کے نیچے چُھپی رہتی ہیں.پس ہمیں اس کامیابی میں جو ہمیں سفر یورپ میں حاصل ہوئی اگر کچھ انسانی کو شش کا دخل ہے تو اس میں آج ایڈریس پیش کرنے والے بھی شامل ہیں.مجھے ہمیشہ کو رل ریف (CORAL REEF) کا خیال کر کے تعجب آیا کرتا ہے.بعض جزائر کی نسبت دریافت ہوا ہے کہ وہ حقیقی مٹی سے نہیں بنے بلکہ کورل ریف سے بنے ہیں.تین چھوٹے چھوٹے کیڑوں کے مجموعہ سے وہ جزائر بنے ہیں.جن میں اب آدمی بستے ہیں.وہ کیا ہیں وہ خشکی جو سمند ر کا مقابلہ کر رہی ہے، جو بنی نوع انسان کو اپنی پیٹھ پر سوار کئے ہوئے ہے وہ چھوٹے چھوٹے کیڑوں کے کام کا نتیجہ ہے گویا وہ جزیرہ جسے ان میں بسنے والے لوگ اپنا وطن کہتے ہیں نہایت چھوٹے چھوٹے اور حقیر کیڑوں کے ایک دوسرے پر جانیں دے دینے کا نتیجہ ہے.ایک پر ایک کیڑا گر تا ہے اور اس طرح کروڑوں کروڑ مرتے جاتے ہیں تاکہ وہ زمین بنائیں جس پر وہ انسان جسے خدا تعالی نے اپنی قدرت اور اپنے جلال کے اظہار کے لئے پیدا کیا ہے بسے.اس جلال کے اظہار کے متعلق کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیڑوں کا بھی حصہ ہے؟مگراس میں اس کیڑے کا بھی دخل ہے جو سب سے پہلے مر کر سمندر کی تہہ میں گیا جز یرہ میں بسنے والے عام لوگ اس کا دخل نہیں جانتے مگر اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس کا دخل ہے.اگر وہ جان نہ دیتا اور اس کے اوپر دوسرے کیڑے اس طرح نہ مرتے جاتے تو کوئی انسان اس جگہ نہیں رہ سکتا تھا جہاں جز یرہ بنا او ر وہاں اپنے پیدا کرنے والے کے جلال کا اظہار نہیں کر سکتاتھا.اسی طرح تمام سلسلوں میں ہوتا ہے.ہر طبقہ کے لوگ اپنے اپنے رنگ میں کام میں لگے ہوتے ہیں اور ہر شخص ان کامیابیوں کا حصہ دار ہوتا ہے جو حاصل ہوتی ہیں.مگر ان میں سے بہت سے ہوتے ہیں جو اپنے قائم مقاموں کے پردہ میں یا اپنے سے زیادہ حیثیت رکھنے والوں کی چادر میں چھپے رہتے ہیں مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ان کا کام باطل ہو جاتا ہے اور ان کا حق جاتا رہتا ہے.دیکھو اگر سورج کی موجودگی میں ستارے چمکتے نہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ موجو د ہی نہیں.اگر لیمپ کے مقابلہ میں جگنو روشن نہیں ہوتا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ اس میں روشنی ہی نہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ روشن چیز سامنے آگئی اور اس روشنی میں جگنو کی روشنی بھی شامل ہو گئی.ہزار روپیہ میں اگر کوئی ایک پیسہ ڈالے تو لوگ اس پر ہنسیں گے مگر
۶۳۷ اس میں کیا شک ہے کہ اس ایک پیسہ سے ہزار روپیہ کی قیمت بڑھ گئی.اور کوئی فلسفی اور کوئی حساب دان یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ قیمت نہیں بڑھی.اسی طرح سورج کے سامنے دوسرے اجرام فلکی کی روشنیاں مدھم ہو جاتی ہیں اور اور سورج ہماری دنیا کو روشن نہیں کر سکتے بوجہ بہت زیا رو دور ہونے کے مگر اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ سورج کی روشنی میں ان کا بھی حصہ ہے.پس ہر ایک فتح جوہمارے سلسلہ کو حاصل ہوتی ہے اور ہر ایک کامیابی جو ہماری جماعت کو ملتی ہے خواہ اس کے متعلق اس بات کا اظہار ہو یا نہ ہو یا اس کی قدر ہو یا نہ ہو.خواہ اس کا احساس ہو یا نہ ہو مگر ہر فرد جو سلسلہ کے لئے اپنی انگلی بھی ہلاتا ہے خواہ وہ کسی مقام پر کھڑا ہو - پانی بھرنے والا سقّہ ہو یا صفائی کرنے والا چوہڑا وہ بھی اس کامیابی اور فتح میں شریک ہے اور ایسا ہی شریک ہے جیسے اعلیٰ کام کرنے والا.گو درجہ اور مقدار کے لحاظ سے فرق ہو گا.ایک شخص جو کسی گاؤں کی زمین میں سے ۹۹۹۹ - ایکڑ کامالک ہے مقدار کے لحاظ سے اس شخص سے فرق رکھے گا جو ایک گز زمین کا مالک ہے مگرمالک دونوں کو کہا جائے گا.پس میں اس وقت اس صداقت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا جو اکثر اوقات یا ہمیشہ اکثر لوگوں کی نظر سے یابُہتوں کی نظر سے پوشیدہ ہوتی ہے.کسی شاعر نے کسی اور موقع کے لئے کہا ہے مگر میں اس موقع پر بھی اسے چسپاں کرتا ہوں کہ بہت سے پھول ایسے ہوتے ہیں جو اپنی خوبصورتی اور خوشبو کے لحاظ سے ان پھولوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں جو کسی حسین کے سینہ یا سر جگہ پاتے ہیں مگر وہ اس لئے بغیر قدر کئے مرجھا جاتے ہیں کہ قدر کرنے والے کی نگاه ان پر نہیں پڑتی.اسی طرح بات سی خدمتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو زیادہ اخلاص سے کی جاتی ہیں اور اپنے اپنے اندر زیادہ قربانی اور زیادہ ایثا ر کا رنگ رکھتی ہیں مگر ایسے حالات میں کی جاتی ہیں کہ طبی طور پر لوگوں کی توجہ نہیں کھینچ سکتیں حالانکہ وہ بھی ایسی ہی قیمتی ہیں جیسی کہ وہ کوشش جو مینار پر چڑھ کر ایسے رنگ میں کی جاتی ہے کہ ہر ایک کی نظر اس پر پڑتی ہے.ٍاس وقت میری منشاء یہ نہیں ہے کہ اس ایڈ ریس کے جواب میں کوئی لمبی تقریر کروں بلکہ یہ ہے کہ ایک اہم مقصد کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاؤں اور وہ یہ ہے کہ دنیا کی نظروں میں اور انسان کی نظر سے بہت سی باتیں پوشیدہ رہ سکتی ہیں اور رہتی ہیں مگر ایک اور ہستی ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی اس کے لئے ہر رات کھلی ہوئی کتاب ہے.وہ دل کے بھیدوں اور دماغ
۶۳۸ کے اندر پوشیده نتیوں سے واقف ہے وہ کونوں میں چُھپ کر اندھیرے میں کئے جانے والے کاموں سے آگاہ ہے اس کی نگاہ جس طرح اس شخص کے کاموں پر پڑتی ہے جو کروڑوں آدمیوں کے سامنے کوئی کام کرتا ہے اسی طرح اس کے کاموں پر بھی ہوتی ہے جو خلوص دل اور پاک نیت سے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر کرتا ہے اور وہ ہستی موازنہ کرنا جانتی ہے.حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے خداتعالی کی نظر مقدار پر نہیں بلکہ اخلاص پر ہوتی ہے.ایک امیر جس کے پاس کروڑ روپیہ ہے اگر دس ہزار روپیہ خدا کی راہ میں دیتا ہے اور ایک غریب جس کے پاس دس روپے ہیں پانچ خدا کے لئے دے دیتا ہے توگو انسانوں کی نظر میں دس ہزار روپے زیادہ ہیں مگر خدا کی نظر میں پانچ روپے زیادہ ہوں گے کیونکہ پانچ روپے دینے والے نے اپنا آدھامال دے دیا.آپ لوگوں کو میں جو کچھ اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس بات کو دیکھ کر کہ ہم لوگ جو کام کرتے ہیں وہ پوشیدہ اور مخفی رہنے والے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آتے کسی قسم کی کو تاہی اور سستی سے کام نہیں لینا چاہئے.کیونکہ جس ذات سے ہمارا تعلق ہے اس پر جس طرح بڑے لوگوں کا اور مختلف صیغوں کے نا ظروں کا کام ظاہر ہے اسی طرح تمہارا بھی ظاہر ہے اور وہ موازنہ جانتا ہے.پھر بہت چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کھری سمجھی جاتی ہیں مگر کھوٹی ہوتی ہیں.اور بات ایسی ہوتی ہیں جو کھوٹی کہی جاتی ہیں مگر کھری ہو تی ہیں.پس تم اپنے کاموں میں خلوص اور نیتوں میں پاکیزگی پیدا کرو.ممکن ہے تم میں سے کسی کے کام کے نتیجہ میں جسے وہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر کرے اور جسے کسی نے نہ دیکھا ہو اسلام کی آخری قتح حاصل ہو.فرض کرو اسلام کی کامیابی کے لئے دس کروڑ اور ایک نمبر کی ضرورت ہے.دس کروڑ ور تو باقی جماعت نے حاصل کر لئے اور ایک شخص نے ایک نمبر حاصل کیا.اب کیا یہ ایک نمبر حقارت کی نظر سے دیکھا جائے گا.ہرگز نہیں کیونکہ کامیابی کے لئے ایک کروڑ نمبر کافی نہ تھے بلکہ ایک کروڑ ایک نمبر کی ضرورت تھی اور اس وجہ سے کامیابی کا سہرا اس ایک نمبر حاصل کرنے والے کے سر ہو گا کیونکہ اگر وہ نہ ہوتا تو کامیابی نہ ہوتی.پس تم لوگ اپنے کاموں میں اخلاص اور نیتوں میں پاکیزگی اختیار کرو اور یہ کبھی خیال نہ کرو کہ لوگ تمہارے کاموں کو دیکھتے ہیں یا انہیں سب کا معاملہ خدا تعالی سے ہے اور کوئی اس سے پوشیدہ نہیں ہوگی.جس نیت اور جس اخلاص سے کوئی کام کیا ہو گا اس کا بدلہ ویساہی ملے گا اور کسی کی محنت ضائع نہ جائے گی اس لئے افسردگی کی کوئی وجہ نہیں اور لوگوں کی بے توّجہگی کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے.میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ کہنے کی اس وقت مجھ میں
۶۳۹ طاقت نہیں ہے.اور میں اس دعا پر تقریر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہماری جماعت کے ہر ایک شخص کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اخلاص اور پاکیزہ نیت سے پورا کرے تاکہ جب وہ خدا کے حضور پیش ہو تو کہہ سکے کہ جو کام میرے سپرد کیا گیا تھا اسے میں نے کیا جہاں تک میری طاقت تھی.(الفجل ۱۹- پارچ۱۹۲۵ء)
۶۴۰ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی على رسولہ الكريم ساکنانِ محلّہ دارالرحمت کے سپاسنامہ کا جواب (فرموده۷ ۲- نومبر ۱۹۲۴ء) میں اس ایڈریس کے جواب میں جو محلّہ داران ساکنان دارالرحمت کی طرف سے پڑھا گیا ہے اپنی اور اپنے ہمرا ہیان سفر کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کر تا ہوں.اور جزاکم الله کہتے ہوئے اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے ان محلوں کی آبادی سے بہت محبت ہے.کیونکہ ان علاقوں میں آبادی کے لئے زمین کی تقسیم کا سوال سب سے پہلے میرے ہی دل میں آیا تھا جب میں اس نے یہ ارادہ کیا اس وقت بہت سے دوست جن سے میں نے اس کا ذکر کیا خیال کرتے تھے کہ یہ کام نہایت مشکل ہے.لیکن اس وقت کے حالات کے ماتحت میرے دل میں دو خیال تھے.ایک یہ کہ قرآن کریم کا پہلا مترجم پارہ صرف ہمارے ہی خاندان کے خرچ سے چھپے جس کی آمد سے دوسرا پارہ شائع ہو اور اسی طرح سارا قرآن چھپ جائے اس کے لئے میں نے چاہا کہ اپنی زمین فروخت کر کے روپیہ بہم پہنچاؤں.دو سرا خیال یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی وسعتِ قادیان کے متعلق پوری نہیں ہو سکتی جب تک قادیان کی پرانی آبادی کی چار دیواری سے باہرنہ نکلا جائے.چونکہ عام لوگ نمونہ کو دیکھ کر کام کیا کرتے ہیں اس لئے اگر با ہر مکان نہ بنائے جائیں گے تو اوروں کو بھی مکان بنانے کی تحریک نہ ہوگی.ان دو خیالات کے ماتحت میں نے یہ کام شروع کیا تھا لیکن پہلے ہی دن مجھے معلوم ہو گیا کہ اس میں کامیابی حاصل ہوگی.پہلی دفعہ تین ایکٹر زمین فروخت کرنے کے لئے منتخب کی گئی.لوگوں کا خیال تھا اور میرا بھی یہی خیال تھا کہ کچھ عرصہ میں یہ زمین فروخت ہو گی مگر اس تین ایکٹر کے لئے دو تین دن میں ہی درخواستیں آگئیں اور ابھی اور
۶۴۱ لوگ خواہش رکھتے تھے اس لئے اور کھڑے دیئے گئے.لیکن باہر آبادی کا سلسلہ شروع کرنے میں ایک اور روک بھی تھی اور وہ یہ کہ اگر باہر آبادی ہوئی تو چو نکہ ہم ہی یہاں کے مالک نہیں ہیں بلکہ اور بھی ہیں اس لئے دو نقص پیدا ہوں گے ایک یہ کہ ہندو جو ابھی تک باہر نہیں نکلے ہمارے مکان دیکھ کر باہر نکلیں گے.اس طرح غیروں کی آبادی بھی بڑھ جائے گی.اور دوسرا یہ کہ جب کہ آبادی کے قابل اکثر زمین غیروں کے پاس ہے (اس وقت ہمارے پاس آبادی کے قابل زمین صرف چھ سات ایکڑ تھی) اور لوگوں کو جب باہر آبادی کی خواہش ہوگی تو وہ دوسروں سے قیمتاً زمین خریدیں گے جو مہنگی دیں گے اور اس طرح ہماری جماعت کا نقصان ہو گا کیونکہ وہ جنہیں ہماری آبادی بڑھانے سے تعلق نہیں ان کی یہ خواہش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ روپیہ وصول کریں.میرے ان خیالات کی تصدیق اس طرح ہو گئی کہ یہی زمین جہاں یہ محلّہ آباد ہے مرزا اکرم بیگ صاحب سے ایک سکھ نے خرید لی اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ اس سے بہت فائدہ ہو گا.اسے بہت سمجھایا گیا کہ تم سے ہمارے پرانے تعلقات چلے آتے ہیں اور تم سے کوئی زمین نہیں خریدے گا مگر وہ یہی کہتا تھا مجھے یقین ہے کہ قادیان کی آبادی بڑھے گی اور یقینا ًمجھ سے یہ زمین خریدی جائے گی.اسی بناء پر میں یہ نہیں کہ سکتا کہ میں نے زمین خرید ی ہے بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے سونا خریدا ہے.اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ خواہ کچھ ہو اس زمین کو خرید لیا جاوے.چنانچہ جس طرح بھی ہوا کو شش کر کے اور جیسا کہ ایڈریس میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ہم نے گھر کے زیورات تک فروخت کر کے یہ زمین خریدی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کوشش کا یہ نتیجہ ہوا کہ دو محلے آباد ہو گئے.ایک طرف دارالفضلاور دوسری طرف دار الرحمت.پھر بقیہ زمین کے متعلق بھی خدا نے روک دور کر دی اور وہ ہمیں دلا دی.اب قادیان کی زمین ہمارے پاس ہے یا دیگر احمدیوں کے پاس.اس لئے وہ خطرہ نہیں رہا جو پہلے تھا کیونکہ احمدی غیروں کو زمین نہیں دیں گے.اور مجھے یقین ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں پر جو قادیان کی ترقی کے متعلق ہیں یقین رکھتے ہیں وہ کبھی ایسی قیمت نہیں رکھیں گے جو ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے میں روک ہو.چونکہ اس وقت میری توجہ ایک اور معاملہ کی طرف پھری ہوئی ہے جس کا مجھ پر سخت بوجھ ہے اس لئے میں اس ایڈریس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اس کی طرف توجہ کرتا ہوں.مجھے یہاں آتے ہوئے معلوم ہوا ہے کہ بجائے کم ہونے کے طاعون بڑھ رہی ہے اور احمدی
۶۴۲ محلوں میں بھی اس کے آثار پائے جاتے ہیں.موت ہمیشہ آتی ہے لوگ مرتے ہیں بعض دفعہ اچانک موتیں بھی ہوتی ہیں لیکن طاعون کی موت کے ساتھ چو نکہ ایسی بات لگی ہوئی ہے کہ یہ عذاب کی خبر کے طور پر آئی ہے اس لئے گو بعض احمدیوں کا فوت ہو جانا حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے منافی نہیں مگر چونکہ شماتتِ اعداء کا باعث ہو سکتا ہے اس لئے طاعون کے خیال سے ہر ایک احمدی کے دل پر بوجھ ہوتا ہے اور قدر تاً گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ شامت اعمال یا کسی اور حكمت الہٰی سے دوسروں کی شماتت کا نشانہ نہ بنے.میں اس اجتماع سے جو اس خبر کے سننے کے بعد جلد سے جلد مجھے میسّر آیا ہے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کو تاکید کرتا ہوں کے علاوہ اس کے کہ بہت دعاؤں سے کام لیں اور میں بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہماری جماعت کے مردوں، عورتوں، چھوٹوں، بڑوں سب کو بچا کر اپنے فضل کے نیچے رکھے ظاہری صفائی کی طرف بھی خیال رکھیں کیونکہ وبائی امراض کا غلاظت سے بہت بڑا تعلق ہے خصوصاً طاعون کا.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہر محلّہ کے لوگ فورا ًخواہ اسی وقت، خواہ صبح کو اپنے اپنے محلّہ کی صفائی کا انتظام کریں.مجھے افسوس ہے کہ قادیان میں آئے ہوئے تین دن گزر گئے اور کسی نے خبرنہ دی.اگر پہلے خبر ملتی تو اسی وقت اس طرف توجہ کی جاتی.اب جس قدر جلدی ہو سکے اس طرف توجہ کی جائے.تمام گھروں میں ہدایات دے دی جائیں کہ گھروں میں یا گھروں کے پاس کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے.ایک دوائی منگوائی گئی ہے جو گھروں میں تقسیم کی جائے گی.اس کے متعلق ڈاکٹر صاحبان جو ہدایات دیں ان پر لفظاً عمل کیا جائے.ایسے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نین ،کا فور اور جدوار کی گولیاں کھاتے تھے ان کا استعمال کیا جائے.اپنے جسم کو زخم لگنے یا سخت تھکان سے بچایا جائے.سردی سے حفاظت کی جائے پاؤں کے ننگے ہونے سے بہت احتیاط کی جائے.پاؤں کو گرم رکھا جائے.ایسی جگہوں یا ایسے گھروں میں جہاں کسی کو بخار وغیرہ ہو چُھپایانہ جائے.اور ڈاکٹر جو ہدایات دیں ان پر عمل کیا جائے.بالآخر پھر میں یہ کہتا ہوں کہ دعائیں کرو خداتعالی سب کو اس سے محفوظ رکھے.یہ دعائیں اپنی جماعت کے لئے ہی نہ ہوں بلکہ دوسروں کے لئے بھی ہوں.خدا تعالی ان پر بھی رحم کرے.(الفضل ا٣-مارچ۱۹۲۵ء)
۶۴۳ (۱) الانعام : ۱۶۳ (۲ )لائیڈ جارج LLOYD GEORGE(۱۹۳۵-۶۱۸۹۳ء)انگریز مد بّر ۱۸۹۰ء کے بعد ۵۴ سال تک پارلیمنٹ کا آزاد خیال استعمار دشمن رکن رہا.جنوبی افریقہ میں جنگ کی مخالفت کی.۱۹۱۹ء میں پیرس کی صلح کانفرنس میں شریک ہونے والے چار بڑوں میں سے ایک تھا.دوسری عالمی جنگ سے قبل دشمنوں کو رعایت دینے کی پالیسی کی مخالفت کی.۱۹۲۲ء میں انگریز و ترکوں کے مخدوش حالات میں وزیر اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہوا.) (The New Encyclopaedia Britannica (Micropaedia) vol.VI-P.284 15th Edition) ۳کرزن NATHANIEL GEORGE CURZON۱۹۲۵-۶۱۸۵۹ء) 1st MARQUIS OF KEDLESTON (۳)کرزان جارج نیتھیل ،مارکوس اول کرزن آف کیڈلسٹن.برطانوی مدبّر' ہندوستان کے وائسرائے (۶۱۸۹۹-۱۹۰۵ء) کی حیثیت سے اصلاحات نافذ کیں.شمال مغربی سرحد میں امن قائم کیا.دہلی میں ایڈورڈ ہفتم کی تخت نشینی کا شاندار دربار منعقد کیا.کمانڈر انچیف لارڈ کچنر سے اختلاف کی بناء پر وائسرائے کے عہدے سے استعفی ٰدے دیا.(THE ENCYCLOPAEIDA BRITANNICA VOI-VII P.665 ELEVENTH EDITION: CAMBRIDGE 1911) 4)) ملاکی باب ۴ آیت ۵ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۵)متی باباا آیت ۱۳ نارتھ انٹی بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۶)متی باب ۲۳ آیت ۳۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۷، فاطر: ۲۵ ۸ لا إكراه في الدين قد تبين الرشد من الغي...............( البقرة : ۲۵۷) ۹و نمے باید مرا یک ذره تماۓ ایں دیا.مشه از بهریا کری که ماموریم خد مت را (در ثمین فارسی ص ۳۵ طبع بار اول ضیاء الاسلام پریس ربوه) ۱۰.”سيد القوم خادمهم“کنزالعمال جلد اصفہما روایت نمبرے ا۵ےامطبوعه علبه۹۷اء ۱۱" يوحنا باب ۸ آیت۴۶نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعه ۱۸۷۰ء
۶۴۴ ۱۲ ” ينظرون الیکوهم لايبصرون» تذکره صفحه ۷۸.ایڈیشن چہارم ۱۳ اشاعة السنه نمبر۶ جلد صفر ۱۶۹،۱۷۶( مفهو) ۱۴ استثناء باب ۱۸ آیت۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء میں آیت کے الفاظ یہ ہیں.لیکن وہی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کیے جس کے کہنے کا میں نے اسے علم نہیں دیا.یا اور معبودوں کے نام سے کئے تو وہ بھی قتل کیا جاوے.۱۵ا الحاقة : ۴۵ تا۴۷ (16) ازالہ اوہام حصہ دومص۷۷ ۲ روحانی خزائن جلد ۳ صنم ۳۷۷(مضمون) ۱۸ تحفہ غزنویہ صفحہ ۲۹ روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ ۵۵۹(مضمون) ۱۹ الكهف : ۸۶تا۸۹ ۲۰ سعید زغلول پاشا.پیدائش ۱۸۵۷ء وفات ۱۹۲۷ء ۲۱ متی باب ۱۲ آیت ۳۲۳۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۲۲ فاطر : ۲۵ ۲۳ رساله الوصیت ص۱۱.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۹ ۲۴ رسالہ الوصیت صفحہ ۱۰۹- روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۳۰۸۳۰۷ ۲۶ کشتی نوح ص ۲۷،۲۶.روحانی خزائن جلد واصفحہ ۲۴-۲۵ ۲۷ کشتی نوح ص ۲۲ - روحانی خزائن جلد ۱۹ ۲۸ کشتی نوح ص ۲۰- روحانی خزائن جلد ۹ اسلحہ ۱۸ ۲۹ کشتی نوح صفحہ ۱۲- روحانی خزائن جلد۱۹ ص۱۲ ( مفهوما) ۳۰ کشتی نوح صفحہ ۱۴،۱۳- روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲،۱۱ ۳۱ رسالہ الوصیت ص ۱۰- روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۳۰۸ ۳۲ کس نے اس راستباز کو یورپ کی طرف سے برپا کیا“ يسعياه بابام آیت ۲نارتھ انڈیابائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۳۳ العنكبوت : ۷۰ ۳۴ الصف : ۱۰
۶۴۵ ۳۵ امیر امان الله خان (۱۸۹۲-۱۹۶۰ء) شاو افغانستان امیر حبیب اللہ خان کا تیسرا بیٹا جو ۱۹۱۹ء میں اپنے باپ کے قتل کے بعد افغانستان کا حکمران بنا- ۱۹۲۶ء میں امان اللہ خان نے امیر کی بجاۓ "شاه ‘‘کالقب اختیار کیا.اس کے خلاف جب شورش ہوئی تو یہ کابل سے قندھار چلا گیا.۱۹۲۹ء میں اٹلی روما چلا گیا اور وہیں وفات پائی.نادر شاہ کے قتل کے بعد ان کا بیٹا محمد ظاہر شاہ بادشاہ یا تو اس کی میت روم سے کابل منگوائی گئی.(اردو انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ ۷ ۱۲ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء) ۳۶ جمال پاشا.احمد جمال ۱۸۷۲ء میں استنبول میں پیدا ہوا.فوج میں بطور کپتان متعین ہوا.۱۹۱۱ ء میں بغد اد کاوالی مقرر کر دیا گیا بعدہ لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ دیا گیا - ۱۹۱۴ء میں وزارت بحریہ اس کے سپرد کر دی گئی اس نے گریہ کو مؤثر و مضبوط بنایا.۱۹۱۸ء میں فرار ہو کر برلن اور وہاں سے سوئٹزرلینڈ چلا گیا.قیام یورپ کے دوران میں اس نے افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی ملازمت قبول کرلی.۱۹۲۲ء میں کر کن لالیان (KEREKIN LALAYAN) اور سرگورتیان (SERGO VARTAYAN)نامی دوار منوں نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا.پہلے ’’تغلس“ اور پھر کچھ دن بعد ”ارزر‘‘روم میں دفن کیا گیا اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد۷ صفحہ ۳۶۹ مطبوعہ لاہو را ۱۹۱ء) مولوی عبدالرحمن صاحب - شهادت وسط ۱۹۰۱ء ۳۸ امیر عبدالرحمن (۱۸۴۴ء.یکم اکتوبر ۱۹۰ء) امیر محمد افضل خان کا بیٹا اور امیر دوست محمد خان کاپو -۱۸۸۰ء میں برسراقتدار آیا.اس کے عہد میں ۱۸۹۳ء میں چترال سے بلوچستان تک ایک سرحدی خط متعین کیا گیا جسے ڈیورنڈ (Our and Lino) کہتے ہیں.یہ ایک سخت گیر | حکمران تھا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ حضرت صاجزاده عبد اللطيف صاحب.تاریخ شهادت ۱۴-جولائی ۱۹۰۳ء (تاریخ احمدیت۹۵۹۹۵۸( مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ۴۰ امیر حبیب اللہ خان (عہدحکومت ۱۸۷۲-۱۹۱۹ء) والی افغانستان.اپنے والد امیر عبدالرحمن کی وفات کے بعد یکم اکتوبر ۱۹۰۱ء میں مسند نشین ہوا.۲۰ فروری ۱۹۱۹ء کو اس
۶۴۶ نے وادی النگار (Alingar) میں قلعہ السراج (نعمان) کے قریب ’گوش‘‘ میں پڑاؤ ڈال رکھا تھا کہ اسے قتل کر دیا گیا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ۵۳۷ مطبوعہ لاہور ،اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۷صفحہ ۸۸۶،۸۸۷۱ مطبوعہ دانشگاه پنجاب لاہور) UNDER THE ABSOLUTE AMIR BY FRANK A.۴۱MARTIN P.203 Published in 1907.۴۲ الاعراف : ۳۶ ۴۳ البقرة : ۲۵۴ ۴۴ رولٹ ایکٹ.1919ء میں جنگ ِعظیم کے بعد ہندوستان میں تحریک آزادی کی ایک لہر پیدا ہوئی.جسے روکنے کیلئے جسٹس رولٹ کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم ہوئی.کمیٹی کی رپورٹ پر ایسا قانون بنایا گیا جسکی رو سے حکومت کو تخریبی کارروائیاں روکنے کیلئے وسیع اختيارات مل گئے.اس قانون کو رولٹ ایکٹ کا نام دیا گیا.۴۵ سَوَراج : حکومتِ خوداختیاری ۴۷ مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارم سکیم.جنگ عظیم اول میں حکومت برطانیہ نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا.جب جنگ ختم ہوئی تو ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجیشیشن کا رنگ اختیار کر گئے.لارڈ چیمسفورڈ جو لارڈ ہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے نے مسٹر مانٹیگو (MONTEGUE) کی معیّت سے ہندوستان کے سیاستدانوں اور مدبّروں سے تبادلہ خیالات کر کے ایک ’’مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم " بنائی جو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء" کے نام سے شائع ہوئی.اس کا نفاذ ۱۹۲۱ء میں ہوا جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیاگیا.۴۷الاصابة في تمييز الصحابة جلد۴ صفحہ ۲۸۲۲۸۱ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۳۲۸ه ۴۹،۴۸ بخاری باب کیف کان بدء الوحي الى رسول الله صلى الله عليه وسلم ۵۰، تاریخ الخلفاء للسيوطي صفحه۳۵ نورمحمداسح المطابع کارخانہ تجارت کتب آرام ۵۱، الاصابة في تمييز الصحابة جلد ا صفحہ ۵۴۵ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۳۲۸ه
۶۴۷ ۵۲ بخاری کتاب بنیان الكعبة باب ما لقي النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه من المشركين ۵۳ سیرت ابن ہشام (اردو) جلد احصہ اول صفحہ ۱۷۲ ۵۴ بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد ۵۵ اسدالغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفی۳۷۱ ۵۶ سیرت ابن ہشام (اردو) جلد احصہ دوم صفحہ ۸۴ ۵۷ سیرت ابن ہشام (عربی) جلد ۳ صفر و ذکر غزوة حنين ۵۸ مسنداحمدبن حنبل جلدہ ضخمه ۳۵۸ ۵۹ کنزالعمال جلد •اص ۴۹۸حدیث نمبر۲۰۱۵۸ ۶۰ البينة :۴ ۶۱ جوزف رڈیارڈ کپلنگ KIPLING JOSEPH RUDYARD( برطانوی شہری) ۳۰.دسمبر۱۸۹۵ء کو برطانوی والدین کے ہاں بیٹی میں پیدا ہوا اور ۱۸.جنوری ۱۹۳۹ء کو لندن میں وفات پائی.ناولسٹ شاعر اور کہانی نویں بالخصوص بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے اور برطانوی سپاہیوں کے متعلق اس کی کمائیوں اور نظموں کو بہت شہرت حاصل ہوئی.اسے ۱۹۰۷ء میں ادب کے نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا.(The New Encyclopaedia Britannica Vol.5 Edition 15th P.828 ۱۲ النساء : ۶۶ ۹۳۳التوبة : ۶۱ ۶۴ اسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير جلد ۳ صفحہ ۳۵۲ باب السين والميم مطبوعہ داراحياء بيروت ۲۵ اذریت : ۵۰ ۶۶ملاکی باب ۴ آیت ۴،۵ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۶۷متی باب ۱۱ آیت ۱۱ تا ۱۶ بائبل سوسائٹی انار کلی مطبوعہ لاہور ۱۹۹۴ء ۶۸متی باب ۲۳ آیت ۳۹ بائبل سوسا کی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۶۹متی باب۱۷ آیت۲۰ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۷۰ البقرة : ۲۸۶
۶۴۸ ۷۱متی باب 5 آیت ۳۹ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۷۲ الشوری : ۴۱ ۷۴ نسائی کتاب عشرة النساء باب حب النساء میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں حبب الي من الدنيا النساء والطيب وجعلت قرة عينی فی الصلوة“ ۷۵- مؤطا امام مالک کتاب الجامع باب ما جاء في المهاجرة مطبوعہ کتب خانہ دارالاشاعت بندر روڈ کراچی.۷۶ أل عمران: ۷۷ ،، التوية : ۱۰۸ ۷۸ الانعام : ۱۶۳ ۷۹تذكرة الشہادتين ص۷ ۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۵۷ ۸۰ پیدائش باب ۱۸ آیت ۳۲،۳۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوی ۱۸۷۰ء ۸۱ أل عمران : 1۷0