Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
ا خطاب جلسہ سالانہ (۲۷ دسمبر ۱۹۲۲ء) از سیدنا حضرت مرزاشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۳ بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم خطاب حضرت فضل عمرخليفة المسیح الثانی (فرموده ۲۷.دسمبر ۱۹۲۲ء بعد از نماز ظہرو عصر اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهدان محمداعبده ورسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العلمين الرحمن الرحيم مالك يوم الدين اياك نعبد واياك نستعين اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غيرالمغضوب عليهم ولا الضالین امین.واقعات ماضی پر نظر شکر الہٰی اس ذات باری تعالیٰ کا شکر اور احسان،فضل اور کرم کہ جس نے پھر ہمیں اس سال محض اس ذات باری کا شکر اور احسان ، فضل اور کرم کہ جس نے پھر میں اس سال محض اپنی عنایت اور شفقت کے ماتحت اس کے ذکر کو تازہ کرنے کے لئے اس جگہ پر اس مبارک وقت میں جمع ہونے کا موقع دیا ہے جس وقت کو اس کےبھیجے ہوئے مرسلؑ نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا.آج ان رخصتوں کے ایام میں جو ایک مسیحی گورنمنٹ کی طرف سے اپنی قومی اور مذہبی ضروریات کی وجہ سے تمام ہندوستان میں دی جاتی ہیں کوئی اپنی کسی غرض کو پورا کرنے کے لئے جا رہا ہے، کوئی ملکی حقوق حاصل کرنے کے لئے جا رہا ہے ،کوئی عہدہ لینے کے لئے افسروں کے پاس ڈالیاں لے جا رہا ہے ،کوئی شادی بیاہ کا انتظام کر رہا ہے، کوئی سیرو تفریح کے لئے جا رہا ہے صرف ایک ہی جماعت ہے جو اپنے تمام کاموں اور اپنی تمام ضرورتوں کو ملتوی کر کے محض كلمۃ اللہ کے لئے خدا تعالی کے برگزیدہ کے مقرر کردہ مقصد اور دعا کی خاطر یہاں جمع ہوئی ہے.اللہ کے لئے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کے مقرر کردہ مقصد اور مدّعا کی خاطر یہاں جمع ہوئی ہے.
۴ ہم بھی انہی لوگوں کا گوشت و پوست ہیں جو آج دنیاوی مشاغل میں مشغول ہیں اور جن کی ساری ہمت اور ساری کوشش دنیاہی کے لئے خرچ ہو رہی ہے مگر ہم محض خدا تعالی ٰکے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.ہمارا آج خدا تعالی ٰکے لئے اوقات خرچ کرنا ہماری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض خدا تعالیٰ کافضل ہے اور خدا تعالی ٰجس پر چاہتا ہے فضل کرتا ہے پس ہم پراس کے فضل اور احسان کا شکر ضروری ہے.اس کے بعد اے بھائیو!میں آپ لوگوں کو اس کام کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کام کے لئےہم نے کمریں کسی ہیں.چونکہ پہلے کام آئندہ کے لئے ایک تحریص او را رہاص کا موجب ہوجاتے ہیں اس لئے میں آپ لوگوں کو واقف کرنے کے لئے اور ضروریات سلسلہ کو محسوس کرانے کے لئے ان کاموں کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو ہو رہے ہیں.مجلس مشاورت میں نے پچھلے سال سے سالانہ مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی ہے.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑا ہے کہ مجلس مشاورت میں کم احباب شریک ہوئے.وہ جلسہ نہیں تھا کہ سارے لوگ آتے مگر مجلس مشاورت تھی اس لئے ہر جماعت کی طرف سے ایک ایک قائم مقام آنا چاہئے تھا مگر بہت کم آئے اور کم جماعتوں نے اپنے اس فرض کو محسوس کیا.دیکھو کیا عجیب بات ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ لوگ جمہوریت کے لئے آواز اٹھارہے ہیں اور شکایت کی جاتی ہے کہ حکمران ان کی آواز سنتے نہیں میں تمہیں خود مشورہ لینے کے لئے اور ضروریات سلسلہ بتانے کے لئے بلاتا ہوں مگر کئی ہیں جو نہیں آتے.ایک تو ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ حکمران ہم سے مشورہ نہیں لیتے لیکن ایک ہم ہیں کہ کہتے ہیں مشوره وو مگر لوگ آتے نہیں.ایک غلط خیال کا ازالہ میں سمجھتا ہوں یہ کسی سستی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک غلط خیال کی وجہ سے ہے اور وہ خیال یہ ہے کہ جب ہم ایک ہاتھ پر بک چکے ہیں تو پھر ہمیں کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے جس طرح ہمیں کہاجاۓ گااسی طرح ہم کریں گے.یہ ٹھیک ہے کہ جس کے ہاتھ پربک چکے ہو اس کی طرف سے جب کوئی حکم ہو تو اسی طرح کرنا چاہئے جس طرح کہا جائے مگر جب مشورہ کے لئے کہا جائے تومسور ہ دو کیونکہ یہ بھی اسی کا حکم ہے.پس جب مشورہ کے لئے بلایا جائے تو آپ لوگوں کو چاہئے کہ آئیں خواہ اس کے لئے اپنے مالوں اور وقتوں کی قربانی کرنی پڑے.جس وقت مال کی قربانی کی ضرورت ہو اس وقت مالی قربانی کرنی چاہئے
۵ لیکن جب وقت کی قربانی کی ضرورت ہو تو اس کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے.مشورہ کی ضرورت اور اہمیت رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے کوئی خلافت نہیں کہ جس میں مشورہ نہ ہو اور میں یہ مشورہ لیتا ہوں اور مشورہ کی قدر کرتا ہوں.پہلے قادیان کے احباب سے مشورے ہوتے رہتے تھے مگر اب میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلے کو وسیع کیا جائے اور باہر کے احباب سے بھی مشورہ لیا جائے اور کم از کم سال میں ایک موقع تو ایسا ہو جس میں ساری جماعت کے نمائندوں سے مشورہ لیا جائے.اس کے بہت فوا ئد ہیں اور میں نے اس تقریر میں جو کانفرنس کے موقع پر کی تھی ان فوائد کو بیان کیا تھا پس احباب کو اس مجلس میں ضرور شامل ہونا چاہئے.تبلیغ کے لئے حلقے تبلیغ کو باقاعدہ کرنے کے لئے اس سال میں نے تبلیغ کے حلقے مقرر کئے تھے.بے شک ہر جگہ اور ہر ضلع میں ہم فی الحال آدمی مقرر نہیں کر سکتے تھے مگر پھر بھی جتنے آدی اس کام کے لئے فارغ ہو سکتے تھے اور جن کو مقامی طور پر کام نہ تھا ان کو مقرر کیا گیا.یعنی دو مبلغ اس کام کے لئے مقرر کئے گئے ایک مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اور دورے مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری.آئندہ سال امید ہے کہ مبلغین کی جماعت سے جونئے آدمی نکلیں گے ان کو مقرر کیا جائے گا اور سلسلہ تبلیغ کو اور وسیع کر دیا جائے گا.میرا ارادہ ہے اگر یہ ار ادہ خدا تعالی ٰکی منشاء کے مطابق ہو کہ جس طرح کمشنریاں ہوتی ہیں اسی طرح تبلیغ کے حلقے مقرر کر دیں اور انتظام یہ ہو کہ ان حلقوں میں جو آدمی مقرر کئے جائیں وہ اس علاقہ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر تبلیغ کا کام کریں اور جب زیادہ آدمی مل جائیں تو پھر ان علاقوں کو ضلعوں میں اور پھر تحصیلوں میں تقسیم کر کے ان میں مبلغ لگا دیئے جائیں اور اس طرح تبلیغ کا ایسا جال پھیلا دیا جائے کہ کوئی جگہ ایسی نہ ہوجہاں ہمارے آدمی نہ پہنچ سکیں.تبلیغ کے متعلق جو یہ نیا انتظام مقرر کیا گیا ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جن علاقوں میں یہ مبلغ مقرر کئے گئے ہیں ان میں بیداری پیدا ہو گئی ہے اور وہاں کے لوگ تبلیغ میں حصہ لینے لگ گئے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کئی لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہو گئی ہے جو آئنده داخل سلسلہ ہونے کی تیاری کررہی ہے.بے نفس مبلّغین کت لئے دعا میں خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسے بے نفسی سے کام کرنے والے آدمی دئیے ہیں اور میں دعا
۶ کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کےاخلاص میں اور ترقی دے اور اور ایسے ہی آدمی دے.اس کےساتھ ہی میں آپ لوگوں سے بھی چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالی ٰان کو اورکام کرنے کی توفیق دے.دیکھو گجرات با گوجرانوالہ کے علاقہ میں جو مبلغ گیا اس کا یہ فرض نہ تھاکہ تبلیغ کرتا بلکہ ہمارا بھی یہ فرض تھاکہ ہم بھی تبلیغ کے لئے جاتے اس لئے احسان فراموشی ہوگی اگر ہم ان مبلغوں کی قدر نہ کریں اور ان کے لئے دعا نہ کریں کہ خد تعالی ٰان کی تبلیغ کے اعلیٰ ثمرات پیدا کرے.اللہ تعالیٰٰ ایسے لوگ ہمیں کثرت سے دے اور اعلی ٰسے اعلی ٰدرجہ کے مخلص او ربے نفس انسان اس مقصد کے لئے پیدا ہوں.تحفہ شہزادہ ویلز اور اس کا اثر پچھلے سال میں نے وعدہ کیا تھا کہ شہزادہ ویلز کے آنے پران کی خدمت میں جماعت کی طرف سے تحفہ پیش کیا جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ ٰکے فضل سے اس وعدہ کو پورا کرنے کی مجھے توفیق ملی اور ایک کتاب لکھ کر پیش کی گئی.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کتاب میں ایسارنگ آگیا ہے کہ عیسائیوں میں تبلیغ کا ایک اعلیٰ طریق پیدا ہو گیا ہے اور باہر سے ایسے خط آرہے ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ عیسائیوں پر اس کا بڑا اثر ہو رہا ہے اور جہاں تک معلوم ہوا ہے پرنس آف ویلز پر بھی اس کا اثر ہوا ہے.چنانچہ ایک غیراحمدی اخبار نے لکھا بھی ہے.بے شک حکومت کا اثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے پرنس آف ویلز فوراً مسلمان ہو جائیں گے مگر صداقت اپنا اثر ضرور کرتی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اس کا اثر ضرور ہو گا خواہ جلد ہو بدیر.اگر حضور شہزادہ ویلز پر اس کا اثر نہ ہوا تو ان کی اولاد اور ان کے ملک پر اس کا اثر ہو گا اور ضرور ہو گا کیونکہ مومن کا کوئی کام ضائع نہیں جاتا اور جس خلوص اور نیک نیتی سے میں نے یہ کتاب لکھی ہے اس سے مجھے امید ہے کہ ضرور اس کا نتیجہ پیدا ہو گا.چنانچہ ولایت سے خط آئے ہیں کہ جن لوگوں کو یہ کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی ان پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ گویا بجلی گر پڑی اور انہوں نے اعتراف کیا کہ بہت ہی اعلی ٰکتاب ہے اور ضرور لوگوں پر اثر کرے گی.جن لوگوں نے یہ کہاوہ معمولی آدمی نہیں بلکہ بڑے بڑے لوگ ہیں اور بعض دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت کی گئی ہے.تحفہ شہزادہ ویلز کا اثر امریکہ میں مفتی محمد صادق صاحب امریکہ سے لکھتے ہیں کہ یہاں اس کتاب نے بہت ہی اثر کیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا
۷ ہے کہ گویا آپ نے یہاں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کراس کتاب کو لکھا ہے.تحفہ ویلز کا اثر جرمنی میں مولوی مبارک علی صاحب کا برلن سے خط آیا ہے کہ میں نےایک یونیورسٹی کے پروفیسر کو یہ کتاب دی وہ اسے پڑھ کر اس قد رخوش ہوا کہ اس نے کہا افسوس میں بوڑھا ہو گیا ہوں اگر میں جوان ہوا تو اپنی ساری عمراس کتاب کی اشاعت میں لگا دیتا یہ پروفیسر کئی زبانوں کا ماہر ہے اور اس نے کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ عیسائی ممالک میں اس کے ذریعے تبلیغ کا راستہ کھل جائےگا.مصر میں تبلیغی مشن اس سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کے سلسلے میں ایک نیا مشن مصرمیں جاری کیا گیا ہے جہاں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک طالب علم کے ذریعہ جماعت پیدا کر دی ہے.مصروہ سرزمین ہے جہاں خدا تعالی ٰکے کئی انبیاء ؑپیدا ہوئے اور وہاں رہے وہاں خدا تعالیٰ کا کلام لوگوں کو سنایا گیا اور بڑی بڑی برکات لوگوں پر ہوئیں.کوئی عجب نہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں یہ مقام عنایت کر دے اور وہ برکات جو مصر کے فتح ہونے سے تعلق رکھتی ہیں وہ ظاہر ہوں.اس لئے میں دعا کی تحریک کرتا ہوں احباب دعا کریں کہ خدا تعالی ٰاس سرزمین میں ہمیں جلد کامیابی عطا کرے.روسی علاقہ میں مبلّغ پھر روس میں ایک آدمی کو بھیجا گیا ہے.میں نے تحریک کی تھی کہ کچھ ایسے لوگ ہوں جو ہم سے اخراجات لئے بغیر تبلیغ کے لئے نکل جائیں اور وہ شخص ہم سے بغیر ایک پیسہ خرچ لئے چلا گیا ہے.میں اس کے لئے بھی دعا کے لئے کہوں گا اور کوئٹہ تک توریل پرگیا ہے اور اس سے آگے روس تک چار پانچ سو میل کا سفر پیدل کر کے پہنچا ہے.حالانکہ اس علاقہ میں سردی اس شدت کی پڑتی ہے کہ ہاتھ پاؤں گر جاتے ہیں.دوست اس کی کامیابی کے لئے بھی دعا کریں.کامیابی آہستہ آہستہ ہوتی ہے ان باتوں کے بیان کرنے کے بعد میں دوستوں کو اس ترٖف توجہ دلاتا ہوں کہ فور ًاکوئی چیز نہیں مل جاتی بلکہ آہستہ آہستہ ملتی ہے مگر بہت لوگ ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں.بعض دفعہ ایک انسان کمزور ہوتا ہے مگر اس میں ترقی کی طاقت ہوتی ہے اور بعض دفعہ اس میں ترقی کی طاقت معلوم ہوتی ہے مگر اصل میں وہ کمزور ہوتا ہے.مثلاً جب کسی پر بیماری کا حملہ ہوا ہو تو اس
۸ کی اس وقت کی حالت بیماری کے بعد کی حالت سے مضبوط اور قوی ہوتی ہے مگرا چھی کونسی حالت ہوتی ہے بیماری سے پہلے یا بعد کی؟ ہر شخص یہی کہے گا کہ بعد والی کیونکہ پہلی حالت پر بیماری حملہ کرنے والی تھی مگر دوسری حالت ایسی تھی کہ طاقت پیدا ہو رہی تھی.پس بیماری کے حملہ سے قبل گو زیادہ طاقت تھی مگر اس وقت ایسامو اد پیدا ہو رہاتھا کہ بیماری حملہ کرے اور بیماری سے بعد کی حالت گو کمزور تھی مگر چونکہ طاقت ترقی کی طرف مائل تھی اس لئے پہلی حالت سے یہ اچھی تھی مگر اکثر لوگ اس بات کو مد نظر نہیں رکھتے.تبلیغ کے معاملہ میں ایک غلطی تبلیغ کے معاملہ میں بھی ایک غلطی ہوئی ہے جب کثرت سے احمدی ہونے لگے تو سمجھ لیا گیا کہ اب کام ہو گیا اور لوگ سست ہو گئے حالانکہ اس وقت جو لوگ احمدی ہو رہے تھے وہ پہلے سالوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا.آج اگر بہت سے لوگ احمدی ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلے سالوں کی کوشش کا نتیجہ ہے نہ کہ اس سال کا.اور اب اگر تبلیغی کوششوں میں سست ہو گئے تو کئی سال کے بعد اس کا نتیجہ نکلے گا اس لئے ضروری ہے کہ احمدی تبلیغ اس طرح جاری رکھیں کہ اس میں وقفہ نہ ہو تاکہ نقصان نہ ہو.ورنہ اگر ایک وقت کی ترقی دیکھ کر یہ سمجھ لیا گیا کہ اب کسی کوشش اور سعی کی ضرورت نہیں تو نہ صرف وہ ترقی رک جائے گی جو پچھلی کوششوں کے نتیجہ میں ہو رہی تھی کہ آئندہ انحطاط شروع ہو جائے گا.تبلیغ کاخاص جوش اب میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں زندگی پیدا ہو گئی ہے اور اس سال سے تبلیغ کا خاص جوش پایا جاتا ہے اور امید ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کو کچھ عرصہ لگے گا مگر پھر ترقی کا سلسلہ بہت وسیع ہو جائے گا.پس ضروری ہے کہ تبلیغ کے اس سلسلہ کو استقلال اور سرگرمی کے ساتھ جاری رکھا جائے اوراس میں کوتاہی نہ ہو.پیشتر اس کے کہ میں آج کا اصل مضمون شروع کروں.ایک اور اہم معاملہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ایک مقدمہ میں گواہی اس سال مجھے ایک گواہی پر جانا پڑا جو گورداسپور میں ہوئی.اس میں یہ سوال مجھ سے پوچھا گیا کہ آیا آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں اور یہ قرآن کی تعلیم ہے؟ میں نے وکیل کو جو مجھ پر جرح کر رہا تھا کیا قرآن کریم میں یہ نہیں آیا.اس نے کہا کیا یہ لفظ قرآن میں نہیں کہ رسول الله آخری نبی ہیں؟ میں نے کہا نہیں.اس پر اس
۹ نے سوال کو بدل کر کہا.کیا ’’ختم الینیّن کوئی لفظ قرآن میں ہے؟ میں نے کہانہیں.اس نے کہاکیا قرآن کریم میں آنحضرت ﷺکے متعلق کوئی ایسی آیت ہے جس کے معنی غیراحمدی یہ کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور وہ کیا ہے؟ اس کے متعلق میرا جواب یہ تھا کہ یہ غیراحمدیوں سے پوچھئے کہ وہ کس آیت سے یہ مطلب نکالتے ہیں.آخر وکیل نے کہااچھا آپ ہی بتا دیں کہ وہ کونسی آیت ہے جس کے معنی غیراحمدی آخری نبی کرتے ہیں؟ میں نے کہاوَلكن رسول اللہ و خاتم النبین کی آیت ہے اس نے کہا کیا اس میں یہ معنی پائے جاتے ہیں کہ رسول کریم آخری نبی ہیں؟ میں نے کہا نہیں.بعض لوگ خاتم ان کے معنی آخری نبی کرتے ہیں مگر رسول کریم ﷺکی بیوی (حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اس کا انکار کرتی ہیں.وکیل کا ان سوالات سے یہ ثابت کرنے کا منشاء تھا کہ رسول کریمﷺ کے بعد کوئی نبی آنے کا عقیدہ نیا نکلا ہے پہلے نہیں تھا اور نیا عقیدہ کفر ہے اس لئے نکاح ٹوٹ گیا اور میں نے یہ بتانا تھا کہ اصل عقیدہ یہی تھانبی کے نہ آنے کا عقید ہ بعد میں بنا.جب وکیل نے پوچھا کہ کیا خاتم ابن کے معنی آخری نبی نہیں ہیں ؟ تو میں نے کہالغت میں اس کے معنی آخری نبی کے نہیں.آخری نبی کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کا اعتراض یہ عبارت جب مولوی محمد على صاحب کو پہنچی تو انہوں نے جھٹ ایک مضمون لکھ کر اخبارات میں شائع کرایا.کیونکہ ان کو تو ہر وقت ہی شوق کا رہتا ہے کہ کوئی بات ہو جس پر اعتراض کریں- رات دن اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی موقع اعتراض کرنے کا ہاتھ آئے خواہ حقیقتاً اعتراض ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو.ان کی تو وہی حالت ہے جو حضرت صاحب غیراحمدی مولویوں کی فرمایا کرتے تھے کہ مولوی ڈاک کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب کوئی بات معلوم ہو اور اس پر اعتراض کریں حتی ٰکہ پروف کی چوری کرنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا تا کہ کتاب کے شائع ہونے سے پہلے ہی اعتراض کردیں.مولوی محمد علی صاحب کے متعلق پروف کی چوری تو معلوم نہیں ہوئی مگراتنا معلوم ہے کہ یہاں سے بڑے شوق سے رپورٹ منگواتے رہتے ہیں.ہاں دفتر سے ایک رسید بک چوری کی گئی تھی جس کا تعلق مولوی صاحب سے تھا.میں نے جو بیان دیا اس کے لکھنے میں مجسٹریٹ صاحب سے غلطی ہو گئی.انہوں نے میرا بیان نے مجھے دکھایا اور نہ سنایا.انہوں نے یہ لکھ دیا کہ لغت میں یہ معنی نہیں لکھے.جس کا مطلب یہ نکلتا
۱۰ تھا کہ لغت کی کسی کتاب میں خاتم النبین کے معنی آخری نبی نہیں لکھے حالانکہ لغت سے میری مراد زبان تھی نہ کہ کتب لغت.تاج العروس اور سب کتابوں میں لغت کے یہی معنی لکھے ہیں اور یہی حقیقی معنی ہیں اور یہی معنی میری مراد تھے کیونکہ کتب میں آخری معنی ہونے کاتومیں اقرار کر رہا تھا گو عوام لغت کا لفظ کتاب پر بھی بولتے ہیں.مگر میرے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے لغت کا لفظ زبان کے معنوں میں بولا ہے اور اگر اس وقت میری یہ مراد نہ ہوتی تو میرے بالمقابل ایک مولوی تھااس نے یہی اعتراض کیوں نہ کر دیا جو مولوی محمد علی صاحب کرتے ہیں مگر وہ جانتا تھا کہ ان کی یہ مراد نہیں.اصل بات یہ ہے کہ لغت کی کتابیں لکھنے والوں نے اپنے عقیدے سے متاثر ہو کر خاتم النبین کے معنی آخری نبی لکھ دیئے ہیں ورنہ زبان میں اس کے یہ معنی نہیں.کسی جگہ بھی زبان میں اس کا استعمال نہیں آتا.غرض مولوی صاحب نے ’’لغت میں نہیں لکھے‘‘ کے الفاظ لے کر جو میری زبان سے نہیں نکلے تھے اور شور مچا دیاکہ دیکھو یہ غلط اور جھوٹ کہا ہے.مولوی صاحب کو یہ موقع ہاتھ آگیا کہ لغت کی کتابوں میں تو خاتم النبین کے معنی آخری میں لکھے ہیں مگر یہ کہتے ہیں نہیں لکھے.اس بارے میں انہوں نے بڑا شور مچایا اور اخباروں میں مضمون چھپوایا.جب مولوی صاحب کا مضمون یہاں آیا در شیخ عبدالرحمان صاحب مصری نے مسجد میں سنایا کہ ایسا مضمون آیا ہے تو میں نے سمجھا الفضل میں غلط چھپ گیا ہو گا.میں نے تو یہ نہیں کہاتھا کہ لغت میں آخری کے معنی نہیں لکھے میں نے تو کہا تھا یہ معنی لغت میں نہیں ہیں.اس پر ایڈ یٹرالفضل کو فکر پڑی اور وہ اخبار کا فائل لائے جس میں دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ الفضل میں ٹھیک چھپا ہے.اسی طرح لاہور میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو ڈاکٹر اقبال صاحب نے یہی اعتراض جو مولوی صاحب نے کیا ہے بتایا اور کہا کہ میاں صاحب اس کا کیا جواب دیں گے ؟ تو چودھری صاحب نے کہا کہ اس شہادت کے موقع پر میں ساتھ تھا وہاں انہوں نے ”لفت میں ‘‘کہا تھا.’’ لغت میں نہیں لکھے ‘‘نہیں کہاتھا.چودھری صاحب عربی زبان کے اعلیٰ ماہر نہیں ہیں مگر انہوں نے بھی ڈاکٹر اقبال صاحب کو جواب دیتے ہوئے وہی بات بیان کی جو میں نے کہی تھی اور انہیں بھی وہی بات یاد رہی جو صحیح تھی.مولوی محمد علی صاحب کو جواب میں نے ان کو کہا تھا کہ لغت میں مرکب الفاظ کے معنی میں دیکھے جاتے مفردات کے دیکھے جاتے ہیں.مثلاًگر کوئی سرکے معنی لغت میں دیکھے گا تو وہاں لکھے ہوں گے مگر کوئی کہے لغت میں زید کا سرکے معنے
۱۱ دکھاؤ تو یہ کہاں سے دکھائے جائیں گے لیکن یاد رہنا چاہئے کہ اضافت سے کسی لفظ کے معنی بدل نہیں جایا کرتے.پس خاتم کے معنی خاتم النبین میں اور نہیں ہو جائیں گے بلکہ وہی رہیں گے جو لغت میں ہیں.پھر کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے خاتم النبین محاورہ ہو اور اس کے معنی محاورہ میں آخری نبی لئےجاتے ہوں مگر یہ محاورہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب اہل عرب میں نبوت کا عقیدہ ہی نہیں تھا تو وہ محاورہ کس طرح بناتے اور اگر ان میں یہ محاورہ تھا تو مولوی علی صاحب کو ثابت کرنا چاہئے کہ عتبہ، شیبہ، ابو جہل وغیرہ یا ان کے آباء يا عرب کے دوسرے کفاریہ محاو رہ بولا کرتے تھے اگر نہیں تو یہ محاور ہ کیونکربنا؟ پس اہل عرب اگر یہ لفظ بولتے تھے اور سمجھتے تھے کہ خاتم کالفظ جب نبی کے ساتھ مل جائے تو اس کے معنی آخری نبی کے ہوتے ہیں تو یہ مولوی صاحب کا فرض ہے کہ وہ اہل عرب کے کلام سے اس کی نظیر پیش کریں لیکن اگر اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی تو کیو نکر خاتم کے وہ معنی لئے جاسکتے ہیں جو لغت کے خلاف ہیں.ہاں یہ محاوره قرآن کریم کے بعد کابن سکتا ہے مگر یہ قرآن کا مفسر نہیں ہو سکتا کیونکہ بعد کا محاورہ پہلے کلام کا مفسر نہیں ہوا کرتا.مولوی محمد علی صاحب کا چیلنج منظور میرے اس جواب پر کہ لغت میں آخری نبی خاتم النبین کے معنی نہیں ہیں مولوی محمد علی صاحب نے مجھے ایک چیلنج دیا ہے ان کے مضمون کے ایک حصہ کا جواب تو شیخ عبدالرحمان صاحب مصری نے بیان کیا ہو گا اور چھپ کر شائع ہو جائے گا مگر چیلنج جو انہوں نے دیا ہے اس کو میں قبول کرتا ہوں.ـ مولوی صاحب لغت سے خاتم القوم نکال کر کہتے ہیں کہ میں یہ ثابت کروں کہ خاتم کی اضافت کسی جاندار جماعت کی طرف ہو تو اس کے معنی مہر کے ہوں گے.مگر یہ معنی کہیں کبھی نہیں ہو سکتے.مولوی صاحب لکھتے ہیں خاتم القوم کے معنی اس قوم کا آخری آدمی ہی ہوتے ہیں اور اگر غور کیا جائے تو خاتم القوم کے اور معنی ہو بھی کیا سکتے ہیں.یہ مطلب تو ہو سکتا ہی نہیں کہ ساری قوم نے ایک مہر بنوا کر رکھ چھوڑی ہو.پس یہ محاوره بتاتا ہے کہ خاتم النبین کے معنی صرف آخری نبی ہی کے لئے رہ جاویں گے.مولوی صاحب کا مطلب یہ ہے کہ خاتم القوم محاورہ ہے اور خاتم النبین بھی اسی طرح کا ایک
۱۲ جملہ ہے اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ خاتم کے معنی ہیں جیسا کہ خاتم القوم میں خاتم کے معنی مہر نہیں لئے جاسکتے اس لئے اس کے معنی آخری کے ہی ہیں اور نہیں ہو سکتے.میں مولوی صاحب کے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں.حضرت مسیح موعودؑ کی شہادت اور اس کے متعلق اس شخص کی شہادت پیش کرتا ہوں جن کی صداقت کی تصدیق خدا تعالیٰ نے کی اور اس شخص کی بھی اس تقریر سے پیش کرتا ہوں جس کی نسبت خداتعالی ٰنے کہا کہ یہ ٹھیک ہے اور الہامی ہے.وہ کون شخص ہے وہی ہے جس کو خدا تعالی ٰنے مسیح اور مہدی قرار دیا اور جس کا دروازه چھوڑ کر مولوی صاحب چلے گئے اور اب ادھر ادھر پھر رہے ہیں وہ حضرت مسیح موعودؑ ہیں.آپ خطبہ الہامیہ کے شروع میں لکھتے ہیں وانی علمتھا الھاما من ربی و کانت ایة ؟ کہ یہ خطبہ مجھے خدا تعالی ٰنے الہاماً سکھایا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے.خطبہ الہامیہ وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام کے طور پر نازل ہوا اور جو لوگ یہاں رہتے تھے وہ جانتے ہیں کہ الہامی کلام صفحہ اڑ تیس تک کا ہے.حضرت مسیح موعودؑ کو الہام بتایا گیا تھا کہ عربی میں تقریر کرو روح القدس تمہارے ساتھ کھڑا ہو کر تمہارے منہ میں الفاظ ڈالے گا اس عید کے دن آپ نے خطبہ پڑھا اور وہ مطبوعہ کتاب خطبہ الہامیہ کے اڑتیس صفحہ تک ہے جس کا آخری فقره وسوف ينبئهم خبير ہے.پس یہ وہ خطبہ ہے جو الہام کے طور پر اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے نازل ہوا اور یہ صاف بات ہےکہ خدا تعالیٰ مولوی محمد علی صاحب سے اس زبان کو زیادہ جانتا ہے جس میں قرآن نازل ہوا اورقرآن کو خوب سمجھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ خاتم کے کیا معنی ہیں اور کس طرح استعمال ہوتا ہے.اس خطبہ کے صفحہ پنیتیس پر یہ کلام ہے.وانی علی مقام الختم من الولایة کما کان سیدی المصطفیٰ علی مقام الختم من النبوة و انہ خاتم الانبیاء وانا خاتم الاولیاء لا ولی بعدی الا الذی ھو منی وعلی عھدی.حضرت مسیح موعودؑ بذریعہ الہام فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ خاتم الانبیاء تھے مگر میں خاتم الاولیاء ہوں.یہاں خاتم کا لفظ ہے جو اولیاء یعنی ولیوں کی جماعت کی طرف مضاف ہے.اب کیا نعوذ باللہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد سب کا فرہی کافر ہوں گے جن میں مولوی محمد علی صاحب بھی شامل ہیں کیونکہ اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی مومن کو کہتے ہیں.یہ تو مولوی علی صاحب بھی
۱۳ کہتے ہیں کہ مجدد آتے رہیں گے.پھر کیا نعوذ باللہ وہ کافر ہوں گے؟ پھر مولوی صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد میں سے آج نہ سہی کسی اور وقت میں ایک ایسا بھی انسان ہو گاجو صاحب وحی ہو گا کیا وہ بھی ولی نہ ہوگا؟ پس ماننا پڑے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ولی نہ ہوگاجو حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت سے باہر ہو گا اور وہی ولی ہو گا جو آپ کی جماعت میں سے ہوگا.چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ خود بھی یہی معنی کرتے ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں لا ولی بعدی الا الذی ھو منی وعلی عھدی کوئی ولی نہ ہوگا مگر وہی جو میری جماعت میں سے ہو گا اس سے مولوی صاحب کا دعوٰی باطل ہو گیا.پھرده ولی کی نسبت تو کہہ دیں گے کہ چلو مسیح موعود کے بعد کو کیوں نہیں اگر ایک اور بھی شہادت ہے جس کی تکذیب کر کے غالباً مولوی صاحب کو اپنے خاندان پر بھی ہاتھ صاف کرنا پڑےگا اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے آپ کو خاتم الاولاد کہہ کر خاتم کے معنی آخری نہیں کرتے.لیکن اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ معنی ہوں تو پھرا نہیں یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اب کسی کے ہاں کوئی اولاد نہیں پیدا ہوتی اور مولوی صاحب کے ہاں جو اولاد ہے وہ بھی یا تو وہم اور قشطه ہے یا پھر آخر کے انہیں اور معنی کرنے پڑیں گے.یہاں اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ خاتم الاولاد سے حضرت مسیح موعودؑ کامنشاء کیا ہے کیونکہ بحث یہ ہے کہ خاتم جب کسی انسانی جماعت کی طرف مضاف ہو تو اس کے معنی مہر کے ہوتے ہیں یا آخری کے اور جب کہ حضرت مسیح موعودؑ کے استعمال سے ثابت ہو گیا کہ اس کے معنی مہر کے ہوتے ہیں تو مولوی صاحب کادعویٰ باطل ہو گیا کہ اس کے معنی آخری کے ہی ہوتے ہیں.مولوی محمد علی صاحب کی اپنی شہادت مگر حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے ان کو پسند نہیں آتے اس لئے ان کے اپنے حوالے پیش کرتاہوں.انہوں نے جو ترجمہ قرآن شائع کیا ہے اس سے میں نے بتایا تھا کہ خاتم کے معنی انہوں نے مہرکے ہی کئے ہیں.اب میں ان کی کتاب ”النبوۃ في الاسلام“ جس پر انہیں سب سے زیادہ ناز ہے وہ پیش کرتا ہوں اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑکو خاتم الخلفاءمانا ہے اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ کے بعد بھی مجدد آئیں گے اور ایک آپ کی اولاد میں سے بھی ہو گا * پس میں نے ان کے سامنے ان کے اپنے حوالے بھی پیش کردیئے حضرت مسیح موعود ؑکی اس عربی کتاب کا حوالہ بھی دکھادیا جس کے لئے خد اتعالیٰ نے شہادت دی ہے.
۱۴ مولوی محمد علی صاحب کو چیلنج پھر میں ان کو چیلنج دیتا ہوں اور پہلے بھی دیا ہوا ہے جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا کہ خاتم کے معنی’’ آخری‘‘ لغت سے دکھادیں، اہل عرب کی زبان سے دکھادیں اور کوئی ایک محاورہ ہی بتادیں جس میں خاتم آخری کے معنی میں استعمال ہوا ہو مگر شرط یہ ہے کہ زبان میں اس کا استعمال د کھائیں.جماعت احمدیہ کے فرائض اور ذمہ داریاں ہماری ذمہ داریاں اب میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری ذمہ داریاں بہت بڑی ہیں اور جماعت کو اپنی ذمہ داریوں کے متعلق سوچنا چاہئے.میں نے بارہا اس کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس وقت تک دلا تا رہوں گا جب تک خدا تعالی ٰتوفیق دے کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے.جب تک کوئی اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نہیں سمجھتا اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا.دیکھو اگر کوئی آپ لوگوں کو کسی جگہ بھیجے اور یہ نہ بتائے کہ کیا کرنا ہے تو وہاں جا کر آپ وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکیں گے اور اگربتادے کہ فلاں کام کرنا ہے اور آپ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں تو پھر بے شک اس کام کو کر سکیں گے.پس مومن کے لئے ضروری ہے کہ اپنے فرض اور ذمہ داری کو سمجھے ورنہ کامیابی نہیں ہوسکتی.لوگوں کی قابل افسوس حالت دیکھو اس وقت ہماری جماعت کے اکثر کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی و بازده علاقہ میں ہو.بیماری کے متعلق یاد رکھو کہ انسان کی کئی حالتیں ہوتی ہیں.بعض لوگ تو اس حالت میں ہوتے ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں ہو تا کہ ان کی روح بیمار ہے یا نہیں.ان کی حالت ایسی ہے جیسے بعض اوقات کسی کو بیماری ہوتی ہے مگر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسے جن چمٹ گیا ہے اور اسے نکالنے کے لئے مریض کو مار مار کرمارہی دیتے ہیں.ابھی امرتسرمیں ایک واقعہ ہوا ہے.ایک شخص بیمار ہو گیا اسکا جن نکالتے ہوۓ اسے مار مار کر مار دیا گیا.اب پولیس جن نکالنے والوں کی تلاش میں ہے.حال ہی میں میرے پاس افریقہ سے ایک خط آیا ہے اس شخص نے جوسُنا کہ یہ لوگ ایسے ہیں جو غیر مسلموں کو تبلیغ کرتے ہیں اور انگریز بھی مسلمان ہو جاتے ہیں تو اس نے سمجھا کہ یہ ضرور جنوں پر قابو رکھتے ہوں گے.چنانچہ اس نے مجھے لکھا ہے کہ میں نے سنا ہے آپ انگریزوں کو
۱۵ مسلمان کرتے ہیں مجھے بھی نو ردیں اور وہ یہ کہ جن میرے قبضہ میں آجائے اور کوئی ایساٹوٹابتائیں جس سے غیب کی خبریں معلوم ہو جائیں اور پھر اس ٹوٹا کی قیمت بھی پوچھی ہے کہ کیا لیتے ہیں ؟ یہ با تیں میں نے اس لئے بتائی ہیں تامعلوم ہو جائے کہ لوگوں کی حالت کہاں تک پہنچی ہوئی ہے اور بعض جاہل ایسے ہیں جو مرض کو بھی نہیں سمجھ سکتے.ابھی چند دن ہوئے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا میرے لڑکے کو جن چڑھ گیا ہے اور وہ جن سکھ ہے جو کہتا ہے کہ ایک دیگ پکا کر میرے لئے نیاز چڑھاؤ-اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتا گیا ہے کہ خلیفہ صاحب سے پوچھ لینا اس پر میں نے ڈاکٹر( حشمت اللہ )صاحب کو بھیجا.کہ جا کر جن نکال آئیں.جب ڈاکٹر صاحب گئے تو وہ لڑکا اسی سکھ کا نام لے اس کے سوا کچھ نہ کہے.ڈاکٹر صاحب نے اسے گد گدانا شروع کیا اور وہ بولنے لگ گیا.دراصل یہ ایک بیماری ہوتی ہے بچے بھی جو قصے سنتے ہیں ان کو اپنے اوپر وارد کر لیتے ہیں.اب اگر کسی پر یہ ثابت کر دیں کہ اس کو جن نہیں چڑھا بلکہ بیماری ہے تو وہ علاج کی طرف توجہ کرے گا لیکن اگر اس پریہی بات ظاہر نہیں تو اسے علاج کی طرف بھی توجہ نہ ہوگی لیکن علاج کی طرف بھی توجہ ہو جائے تب بھی یہ سوال رہ جاتا ہے کہ علاج اس مرض کا کیا ہے؟ مثلاً بعض لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی دوائیاں گرم خشک ہوتی ہیں ان کو استعمال نہیں کرنا چاہئے.حضرت خلیفہ اول سناتے تھے ایک رئیس کالڑ کا بیمار تھا مجھے اس کے علاج کے لئے بلایا گیا ایک اور طیب صاحب بھی آئے ہوئے تھے میں نے گھروالوں سے پوچھا مریض کو تھرما میٹر لگایا گیا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بتایا نہیں لگایا میں نے کہا کہ لگا کر دیکھ لیں.میری یہ بات اس طبیب نے بھی سن لی وہ کہنے لگابس میں اب جاتا ہوں انگریزی دوائیں گرم خشک ہوتی ہیں مریض کو تکلیف ہوگی اور نام میرا ہوگا.میں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ یہ کوئی دوائی نہیں بلکہ آلہ ہے جو بغل میں یا منہ میں رکھ کر حرارت کا اندازہ لگایا جاتا ہے مگر وہ یہی کہتا رہا کہ انگریزوں کی ہر چیز گرم خشک ہوتی ہے.بیماری کا علم کافی نہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جہالت کی وجہ سے بیماری کا علم ہو جانے پر ہی انسان صحیح علاج سے محروم رہ جاتا ہے.لیکن علم کے بعد بھی ایک مرحلہ انسانی تدبیر کا باقی رہ جاتا ہے یعنی اس علم کا استعمال کرتا.مثلا ًکسی شخص کو اگر معلوم ہو جائے کہ کونین ملیریا کی اعلیٰ درجہ کی دوائی ہے تو اس علم سے اس کا بخار نہیں دور ہو جائے گا بخارا سی وقت اترے گا جب مریض کو نین کھائے گا.پس کسی بات کا علم ہو جانا بھی کافی نہیں جب
۱۶ تک اس پر عمل نہ کیا جائے مگر دین کے معاملہ میں لوگوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ کسی دینی بات کا سمجھ لینا ہی کافی ہے.حالانکہ لوگ دنیا کے کسی معاملہ میں یہ کافی نہیں سمجھتے.جب دنیا کے معاملات ہی میں محض علم ہونا کافی نہیں ہو تا تو دین کے معاملہ میں کس طرح کافی ہوسکتا ہے؟ دینی بات کا صرف سمجھ لینا کافی نہیں پس یہ غلط خیال ہے کہ ہم نے فلاں بات کو سمجھ لیا ہے اوریہی کافی ہے.دین کے معاملہ میں اکثرلوگ تودین سے واقف ہی نہیں ہوتے اور جو واقف ہوتے ہیں ان میں سے بھی ا کثر صرف سمجھ لیناکافی سمجھتے ہیں جو بڑی خطرناک غلطی ہے.دیکھو یہ مان لینا کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اس کی طرف سے رسول آتے ہیں اس زمانہ میں اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو بھیجایہ تو علم ہے مگر کیا صرف یہ مان لینے سے کوئی خدا کا مقرب بن سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.جس طرح یہ معلوم ہو جانے سے کہ ہسٹیر یا ایک مرض ہے وہ مرض دور نہیں ہو سکتی ،جس طرح یہ سمجھ لینے سے کہ تھرما میٹر بخار معلوم کرنے کا آلہ ہے بخار کا درجہ معلوم نہیں ہو سکتا اور جس طرح یہ پتہ لگ جانے سے کہ کونین سے بخار اتر جاتا ہے بخار نہیں دور ہو سکتا اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑکو صرف مان لینے سے نجات نہیں ہو سکتی جب تک آپؑ کے احکام پر بھی عمل نہ کیا جائے.خدا تعالی ٰکو واحد ماننا کافی نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ملنے کے راستہ پر عمل نہ کیا جائے' رسول کریم لا کو ماننے سے فائدہ نہیں ہو سکتا جب تک آپ ؑکے احکام پر عمل نہ کیا جائے اور حضرت مسیح موعود ؑکو مان لینے سے فائدہ نہیں ہو سکتا جب تک آپ ؑکے احکام بھی نہ مانے جائیں.میں یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ کو واحد ماننا، رسول کریم ﷺکی صداقت کا اعتراف کرنا اور حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانا بے فائدہ ہے یہ بھی بڑے کام کی چیز ہے اور بہت اعلیٰ درجہ کی نعمت ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ صرف اتنا ہی کافی نہیں جب تک ایمان کے ظہور کی علامات نہ ہوں اس وقت تک انسان مومن نہیں ہو سکتا.علم کے مطابق عمل بھی کرو اس لئے سب سے پہلی نصیحت تو میں آپ لوگوں کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب خدا نے آپ لوگوں کو ایمان دیا ہے یعنی علم دیا ہے تو اس علم کے مطابق عمل بھی کریں.جیسے ہسٹیر یا والے کو جب معلوم ہو جائے کہ یہ بیماری ہے تو اس کا علاج کرے گا، بخار والے کو جب معلوم ہو جائے کہ کونین اس کے لئے مفید ہے تو وہ کو نین کھاۓ گا اسی طرح انسان کو جب اپنی روحانی بیماری کا احساس ہو جائے اور اس کا
۱۷ علاج بھی معلوم ہو جاۓ تو اس کے علاج کی طرف توجہ بھی کرنی چاہئے.دوسروں کا بھی علاج کرو لیکن یہیں ہمارا فرض ختم نہیں ہو جاتا کیونکہ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں اپنا ہی علاج کر کے ہم آئندہ کے لئے محفوظ نہیں ہو جاتے.بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں جیسے انفلو ئنزا آسٹریلیا میں یہ ایک خط کے ذریعہ پھیل گیا اور بعض انفرادی ہوتی ہیں اور جس طرح جسمانی و بائیں متعدی ہوتی ہیں اسی طرح روحانی وبائیں بھی متعدی ہوتی ہیں اس لئے جب تم کسی ایسے شخص کے پاس جاؤ گے جو ایسی روحانی بیماری میں مبتلاء ہو گا تو ڈر ہے کہ تم کو بھی وہ نہ لگ جائے.پس صرف اپنا علاج ہی کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ دوسروں کے بھی علاج کرو.اگر ملک میں طاعون یا انفلوئنزا پھیلا ہو تو اس سے تمہیں مطمئن نہیں ہونا چاہئے کہ تم ابھی تک اس سے بچے ہوۓ کیو نکہ ڈر ہے کہ اگر آج طاعون نہیں ہوئی تو کل ہو جائے اور اگر آج صبح انفلوئنزا نہیں ہو اتو شام تک ہو جائے.پس جب تک متعدی بیماریاں ملک میں ہوں اس وقت تک ڈر ہے کہ تم کو بھی نہ لگ جائیں کیونکہ تمہیں دوسروں سے ملنا ہوتا ہے اور اس طرح تم بھی ان کی زد کے نیچے رہتے ہو.پس صحت حاصل کرنے کے بعد انسان کی دوسری ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کا بھی علاج کرے.حفظ ما تقدم تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ صرف دنیا سے بیماری کو دو رہی نہ کیا جائے بلکہ اس کی بھی تدبیر کی جائے کہ بیماری ملک میں آئندہ پیداہی نہ ہو.متمدن اقوام اسی کو کافی نہیں سمجھتیں بلکہ وہ کچھ اور بھی کرتی ہیں اور وہ یہ کہ حفظ ماتقدم کا انتظام کرتی ہیں تا کہ پھر بیماری ہی نہ ہو.پس تیسری ذمہ داری ہماری یہ ہے کہ ہم ایسا انتظام کر جائیں کہ آئنده روحانی امراض نہ پھیلیں.یہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اس طرح کہ ہم اپنی اولاد کو ان بیما ریوں سے محفوظ کر جائیں.وہ آگے اپنی اولاد کو اور وہ اپنی اولاد کو اسی طرح یہ سلسلہ چلتا جائے.غرض ہمیں چاہئے کہ پہلے ہم اپنی بیماریوں کو دور کریں پھر اپنے ہمسایوں کی بیماریوں کو دور کریں پھر سارے ملک کی بیماریوں کو اور پھر ساری دنیا کی بیماریوں کو اور اسی پر بس نہ کریں حفظ ماتقدم کا بھی انتظام کر جائیں اور یہ ہم اسی طرح کر سکتے ہیں کہ اپنی اولاد کو محفوظ کر جائیں اور وہ اس طرح کہ ان کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا انتظام کریں تاکہ ان میں امراض نہ پیدا ہوں اور اس طرح شیطان کو ہمیشہ کے لئے مار دیں.یہی حضرت مسیح موعودؑ کا مشن تھا کہ وہ شیطان کو مار دے گا اور جب تک ہم یہ نہ کریں ہمارے چندے، ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے حج ،ہماری زکوٰتیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں
۱۸ اور اگر ہم نے اس مشن کو پورا کرلیا تو سمجھ لو کہ ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا.روحانی اور جسمانی بیماریوں میں فرق یہ بات اچھی طرح یاد رکھو کہ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ روحانی بیماریوں کا علاج آہستہ آہستہ ہو جائے گا یہ بہت خطرناک خیال ہے.میں نے بتایا ہے کہ روحانی اور جسمانی بیماریوں میں مشارکت ہے مگر ان میں بہت بڑا افتراق بھی ہے اور وہ یہ کہ جسمانی بیماری میں اگر مرض معلوم ہو جائے اور اس کا علاج نہ کریں تو گودیر تک علاج نہ کرنے کے سبب سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ بیماری بھی ہو جائے یا زیادہ دیر تک علاج نہ کرنے کے سبب سے شازونادر صورتوں میں لاعلاج ہو جائے مگر یہی نہیں ہو گا کہ کسی کی بیماری اس لئے لاعلاج ہو جائے کہ اس نے بیماری کے معلوم ہو جانے پر کیوں علاج نہیں کیا.خوا ہ بیماری کا علم ہونے پر کوئی علاج نہ کرے مگر جب بھی وہ علاج شروع کرنا چاہے کر سکے گا لیکن روحانی بیماری میں یہ ہوتا ہے کہ جب بیماری کا علم ہو جائے اور پھر علاج نہ کیا جائے بیمار پر عذاب نازل کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اس کے علاج میں دقتیں پیش آجاتی ہیں.تو روحانی بیماری کا علم ہو جانے کے بعد علاج نہ کرنے سے بیماری مضبوط ہو جاتی ہے اور علاج کا موقع ہی بعض دفعہ نہیں ملتا اور علاج بھی بے اثر ہو جاتا ہے.پس روحانی بیماریوں کے علاج سے ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے.روحانی حالتیں اور ان کے متعلق احتیاتیں اب میں یہ بتاتا ہوں کہ روحانی حالتیں تین ہوتی ہیں اور ان کے لئے تین احتیاطوں کی ضرورت ہے.اول یہ کہ وہ علاج جو اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے دوسرے وہ علاج جو دو سروں سے تعلق رکھتا ہے اور تیسرے وہ علاج جو آئندہ کے متعلق ہوتا ہے.اپنے نفس کے علاج کے لئے پہلی بات جو ضروری ہے وہ اجتناب عن المعاصی یعن گناہوں کا ترک کر دینا ہے.اس کی بالکل ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کو کوئی مرض لگ گیا ہو اور وہ اس کا علاج کرائے یہ معاصی بھی تین قسم کے ہوتے ہیں.صرف اپنی ذات سے تعلق رکھنے والے معاصی اول وہ بیماریاں جو اپنی ذات کی پاکیزگی کے خلاف ہوتی ہیں یعنی وہ بیماریاں جن کا اپنی ذات سے ہی تعلق ہوتا ہے غیر پر ان کا اثر نہیں پڑتا ان میں سے موٹی موٹی بیماریاں یہ ہیں.
۱۹ (1) بد ظنی اس میں دوسرے سے کوئی مشارکت نہیں ہوتی اپنی ذات میں یہ خرابی ہوتی ہے.اس کا خطرناک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نگاہ میں نیکی کی عظمت مٹ جاتی ہے چنانچہ کہتے ہیں جو کسی کو بد ظنی سے جھوٹا کہتا ہے اس کے اند ر ضرور جھوٹ کی مرض ہوگی.وجہ یہ کہ جو شخص خود کسی بات کو اہم نہیں سمجھتا وہ دوسرے کے متعلق جھٹ کہہ دیتا ہے کہ یہ بھی اس طرح کرتا ہوا اور بد ظنی کا نتیجہ یہ پیدا ہوا ہے کہ الزام لگاتے لگاتے گناہوں کی عظمت اس کے دل سے جاتی رہتی ہے اور وہ خود ان میں مبتلاء ہو جاتاہے.غرض بد ظنی ایک ذاتی گناہ ہے اس کو مٹانا چاہئے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان کو گناہ میں مبتلاء جاتا ہے.(۲) جھوٹ یہ وہ جھوٹ ہے جس میں کسی اور پر الزام نہ لگایا جائے.جھوٹ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک یہ کہ کوئی کہے میں فلاں جگہ گیا تھا وہاں میں نے اس قسم کا درخت و یکھا تھا حالا نکہ نہ وہ گیا ہو اور نہ اس نے درخت دیکھا ہو.اس جھوٹ کا اثر دوسروں پر نہیں پڑتا یہ اس کا ذاتی گناہ ہے کیونکہ جو اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ حقائق اشیاء سے بے بہرہ ہو جاتا ہے اور اس کے نفس سے اچھے اور برے کا امتیاز اٹھ جاتا ہے اس لئے میں احباب کو تاکید کروں گا کہ ذاتی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے اس کو بھی ترک کر دیں.بہت لوگ اس میں مبتلاء پائے جاتے ہیں بہت لوگ بڑے بڑے معاملات میں جھوٹ نہیں بولتے مگرایسی باتوں میں جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے اور کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ چھوٹا جھوٹ ہے.جھوٹ جھوٹ ہی ہے خواہ چھوٹا ہویا بڑا اور خطرناک گناہ ہے.چھوٹا جھوٹ بھی ایسا ہی ہے جیسے بڑا جھوٹ اور سارے جُرم جرم ہی ہیں بلکہ مثل تو یوں مشہور ہے کہ کسی نے پوچھا تھا اونٹ کی کیا قیمت ہے اور اس کے بچہ کی کیا؟ جواب ملا.اونٹ کی چالیس اور بچے کی بیالیس کیو نکہ وہ اونٹ بھی ہے اور اونٹ کا بچہ بھی.تو چھوٹا جھوٹ اس لئے خطرناک ہوتا ہے کہ انسان اس کے ارتکاب پر جرأت کرلیتا ہے.پس تم لوگ آئندہ کے لئے عہد کرو کہ تمہاری زبان پر سواۓ راستی کے کچھ نہ آئے.بعض لوگ کہتے ہیں یو نہی زبان سے یہ بات نکل گئی مگر میں یہ کہتا ہوں خواہ کوئی تمہاری جان بھی نکال دے تمہاری زبان سے ایک لفظ بھی جبراً نہیں نکلوا سکتا پھر جھوٹ کیوں کہو.اگر کوئی بات تم نہیں بتانا چاہتے تو صاف کہدو کہ نہیں بتاتے اور سچائی اور راستی کو اپنا شعار بنالواور عمد کر لو کہ آج سے کوئی ایسا لفظ تمہاری زبان پر جاری نہ ہو جو حقیقت کے خلاف ہو.
۲۰ (۳) کینہ تیسرا جرم کینہ ہے.جب ایک شخص کسی کے متعلق برائی دیکھتا ہے تو اسے وہیں نہیں بھلا دیتا بلکہ دل میں رکھ لیتا ہے.مگر جب تک یہ جرم دل سے نہ نکلے نفس پاک نہیں ہو سکتا اور اسے دل میں رکھنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.کینہ نفس کا ایک گند ہے اور اس کو دل میں رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کو ئی جیب میں پاخانہ رکھے.اس گند سے فائدہ کیا؟ ہرایک کام کسی فائدہ اور ضرورت سے کیا جاتا ہے مگر کینہ رکھنے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ فائدہ تو کچھ میں ہاں نقصان ہوتا ہے.جب کسی کے متعلق برائی اپنے دل میں رکھو گے تو اس پر کڑ ھو گے اور جب کڑھو گے تو طبی مسئلہ ہے کہ بیمار ہو جاؤ گے - ویکھوجب بچے ایک دوسرے سے چڑتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے ایسا نہ کرو.مگر عجیب بات ہے بچوں کو سمجھانے والے خوددوسروں کا کینہ دل میں رکھ چڑ تے ہیں اور اس طرح ان کی طبیعت میں چِڑچِڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور بد خلقی پیدا ہو جاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے دوسرے کو نقصان پہنچانے کے خیال سے کوئی اپنی ناک کاٹ لے مگر اس سے دوسروں کا کیا نقصان ہو گا.پس یاد رکھو کہ کینہ جیسی لغو چیز اور کوئی نہیں مگر اکثر لوگ اس میں مزا حاصل کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہ کہتے ہی.کوئی چیتاتھااس کوتازه گوشت نہیں کھلایا جاتا تھا.ایک دفعہ اس کے قریب سل پڑی ہوئی تھی جس پر ان نے زبان لگائی اور خون نکل آیا.اس تازہ خون کو اس نے چوس لیا اور اس کا اسے ایسا مزہ آیا کہ وہ برابر اپنی زبان سل پر رگڑتا رہا اور زبان کا خون چوستا رہا اور مزہ لیتا رہا آخر اس کی زبان ہی کٹ گئی.اس طرح کینہ رکھنے والے کی حالت ہوتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے کو نقصان پہنچارہاہے اگر دراصل وہ اپنی ہی جان کو کھا رہا ہوتا ہے مومن کو چاہئے کہ اس عیب کو اپنے پاس نہ آنے ہے یہ ایک باطنی گند ہے اس کو دور کر دینا چاہئے کیونکہ اس سے انسانی صحت اور اخلاق تباه ہوتے ہیں.(۴) جہالت چہارم ایک ذاتی عیب جہالت ہے.یاد رکھو کہ علم کے بغیر کوئی کام دنیا میں میں چلتا اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بغیر علم کے نہیں آسکتی.میرا تو یہ خیال ہے کہ علم توبری سے بری بات کا بھی اچھاہی ہوتا ہے.دیکھو پولیس والے کس طرح چوری کا سراغ نکالتے ہیں اسی طرح کہ وہ جانتے ہیں چوراس طرح چوری کرتے ہیں تو کوئی علم بر انہیں ہوتا بلکہ اس کا برا استعال برا ہوتا ہے.پس علم حاصل کرنے کے لئے ہر مومن کی کوشش کرنی کا ہے.رسول کریم ﷺکی طرف ایک قول منسوب ہے.کہ اطلبوا العلم ولو كان بالصين
۲۱ ** کہ اگر مومن کو چین میں بھی جا کر علم حاصل کرنا پڑے تو کرے.پس میں کہوں گا کہ ایک ذاتی مرض جہالت ہے اس کے دور کرنے کے لئے علم حاصل کرو.پچھلے سال میں نے بتایا تھا اب بھی نہایت افسوس کے ساتھ اس کا ذکر کرنا پڑا ہے کہ پچھلے سال شہری لوگوں کو تین تین سیر روپیہ کا آٹا لے کر کھانا پڑا مگر باوجود اس کے انہوں نے چندہ میں کمی نہ کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے کمی کردی سلسلہ کا کام نہ چلے کامگردیہاتیوں نے اپنے چندے کم کر دیئے.اگر چہ اس سال غلہ کم پیدا ہو امگر انہوں نے مہنگا بیچ لیا.اس کے بعد سال رواں میں اور بھی کم ان کی طرف سے چندہ آیا مگر شہریوں نے چندہ خاص میں ایک ایک ماہ کی آمدنی دے دی.بہت سے دیہاتیوں نے کیوں نہ دی.یہ نہیں کہ ان میں اخلاص نہیں بلکہ یہ وجہ ہے کہ انہیں سلسلہ کی ضروریات کا علم نہیں اور اسی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ کہتے ہوں کہ ان روپیہ جو جمع ہوتا ہے جاتا کہاں ہے؟ شاید کچھ لوگ آپس میں بانٹ لیتے ہوں گے مگر شہری اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اصل میں ہمارے پاس روپیہ کی کمی ہے ورنہ ہم کام کو اور ترقی دے سکتے ہیں.پس شہری چو نکہ اس کام کو جانتے ہیں جو ہو رہا ہے وہ زیادہ شوق سے حصہ لیتے ہیں مگر دیہاتی جہالت کی وجہ سے نہیں جانتے اور باوجود ایمان کے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں تو جہالت بڑی خطرناک مرض ہے.دنیاوی علم بھی روحانیت کے لئے ضروری ہے.رسول کریم ﷺ کو اس کا اتنا خیال تھا کہ جنگ بدر کے موقع پر جو لوگ قید ہو کر آئے اور وہ غریب تھے آپ نے ان کا فدیہ یہ مقرر فرمایا کہ ان میں سے جو پڑھے لکھے ہیں وہ دس دس لڑکوں کو پڑھاویں.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو علم کے متعلق کتنا خیال تھا.پس ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو چاہئے کہ علم حاصل کرے اور جہالت سے نکلنے کی کوشش کرے.(۵) سستی پانچویں باطنی بیماری سستی بھی ہے.بہت لوگ اس میں مبتلاء پائے جاتے ہیں یہ بیماری روحانیت کو کھا جاتی ہے.اخلاص ہو مگر چستی نہ ہو تو اخلاص میں کچھ کام نہیں دے گا.چستی کہیں باہر سے نہیں آتی نہ چست انسان کو باہر سے کوئی خاص مدد ملتی ہے بلکہ اس کا اپنا ارادہ ہو تاہے جس سے وہ کامیاب ہوتاہے.سستی کی وجہ سے انسان عبادتوں سے محروم ہو جاتا ہے‘نمازوں سے محروم ہو جاتا ہے اور کئی باتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور اپنے اوقات کو صحیح طور پر استعمال نہیں کر سکتا.ایک چست آدمی سست کے مقابلہ میں چار گنا زیادہ کام کر سکتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ سست آدمی اپنا وقت بالکل
۲۲ ہی ضائع کردے.گو سستی معمولی بات سمجھی جاتی ہے مگر اس کی وجہ سے جتنے عمل ضائع ہوتے ہیں وہ ان سے زیادہ ہوتے ہیں جو تم کرتے پس چاہئے کہ تم ہر کام چستی سے کرو.تمہارے ذمہ بہت بڑا کام ہے اگر کوئی شخص سستی کرتا ہے تو وہ دوسروں کی گمراہی کا ذمہ دار ہے اور اگر ایک ایسا شخص پانچ سو کو ہدایت پہنچا سکتا ہے وہ دو سو کو پہنچاتا ہے اور باقی کو اپنی سستی کی وجہ سے چھوڑدیتا ہے تو ان کے متعلق وہ جواب دہ ہے.اسی طرح اگر ایک شخص روز تہجد کے لئے اٹھ سکتا تھا مگر سستی کی وجہ سے نہ اٹھے تو وہ کس قدر نقصان اٹھاتا ہے روحانیت اور قرب الٰہی میں جو ترقی تہجد کے ذریعہ کر سکتا تھا اس سے محروم ہو جائے گا.حضرت عمرؓکو چستی اس قدر خیال ہوتا تھا کہ ایک دفعہ ایک شخص سرنیچے ڈالے آرہا تھا حضرت عمر ؓنے اس کو دیکھا اور اس کی ٹھوڑی کے نیچے مکا مار کر کہا کہ کیا اسلام مر گیا ہے کہ تو اس طرح چلتا ہے؟'پس سستی ایک عیب ہے مومن کو چاہئے کہ اپنی چال ڈھال اور شکل و شباہت سے یہ مت ظاہر ہونے دے کہ وہ سست ہے بلکہ یہ ظاہر کرے کہ وہ ہر کام کا اہل ہے.ایک دفعہ ایک شخص اکڑ کر چل رہا تھا رسول کریم ﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا خدا تعالی ٰکو یہ چال نا پسند ہے مگر اس وقت اس کا چلناخد ا کو پسند ہے کہ اس سے دشمن پر اثر پڑتا ہے.پس تم اپنی شکلوں اور اپنی چال ڈھال سے یہ ظاہر کر دو کہ تم چست ہو اس سے تمہارے کاموں میں بڑی ترقی ہوگی.(۶) بزدلی چھٹی بیماری بزدلی ہے یہ ایک خطرناک گناہ اور عیب ہے.عام طور پر لوگ اس کے متعلق احساس نہیں رکھتے مگر یاد رکھو مومن بزدل نہیں ہوتے اور ایمان اور بزدلی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا ایک واقعہ ہے.گورداسپور میں آپ کا مقدمہ تھا ایک شخص نے جو مخالف تھاگر آپ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس نے سنا کہ مجسٹریٹ کا ارادہ بلا وجہ اذیت دینے اور ہتک کرنے کا ہے.اسے غیرت آئی کہ آپ مسلمان ہیں اور اسلام کی طرف سے لڑنے والے ہیں اس لئے اس نے آپ کو کہلا بھیجا کہ ہندوؤں نے مجسٹریٹ پر زور دیا ہے کہ یہ موقع ہے کہ لیکھرام کے قتل کا بدلہ لیا جائے اور خواہ ایک ہی دن قید ہو ضرور قید کر دیا جائے اور مجسٹریٹ جو ہندو ہے اس نے وعدہ کر لیا ہے اس لئے کوئی انتظام کرلو.یہ بات جب خواجہ کمال الدین صاحب کو معلوم ہوئی تو ان کو بڑا خوف پیدا ہوا.وہ گھبرائے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑکے پاس آئے اور آکر یہ بات سنائی آپ اس وقت لیٹے
۲۳ ہوئے تھے اٹھ بیٹھے اور فرمایا.خواجہ صاحب! آپ کو کیا پتا ہے خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنا آسان ہیں.میں خدا کا شیر ہوں کوئی ہاتھ ڈال کر تو دیکھے؟ مومن نرم مزاج ہوتا ہے انگریزوں نہیں ہو گا اور سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرتا تم بھی بزولی کو اپنے دلوں سے نکال دو.بعض کہیں گے کہ وہ تو بزدل نہیں مگرمیں بتاتا ہوں کہ کس طرح کسی کی بزدلی اور بہادری کا پتہ لگتا ہے.(۱) مثلاً وہ کسی جگہ ملازم ہے لیکن وہ لوگوں کو تبلیغ کرے تو افسر ناراض ہوتا ہے اس ڈر کی وجہ سے اگر وہ تبلیغ کرنے سے رکتا ہے تو بزدل ہے اگر دلیر ہوتا تو کبھی کسی کے ڈر کی وجہ سے تبلیغ سے نہ رکتا.اگر ایک سپاہی چند روپوں کے بدلے میں میدان جنگ میں جان دے دیتا ہے تویہ شخص یوں نہیں کہہ سکتا کہ نوکری جاتی ہے تو جائے مگر میں تبلیغ سے نہیں رک سکتا.کیا وہ خدا کے لئے نوکری نہیں قربان کر سکتا؟ اگر نہیں کر سکتا تو معلوم ہوا کہ وہ بزدل ہے دلیر نہیں ہے.(۴) اسی طرح اگر کوئی شخص رسوم اور بدعتوں کو لوگوں کے ڈر کی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتاتو بزدل ہے.(۳) اگر کوئی چندہ دینے سے اس لئے ڈرتا ہے کہ اس کے مال میں کمی آجائے گی تو وہ بزدل ہے کیونکہ بزدل کی یہ تعریف ہے کہ جو کام اس کے ذمہ لگایا گیا ہو اسے ڈر کر چھوڑ دے.اس تعریف کے ماتحت اگر تم اپنے نفوں کا مطالعہ کرو گے تو تمہیں بآسانی معلوم ہو جاۓ گا کہ تم بزدل ہو یا نہیں اور جو اپنے آپ کو بزدل پاۓ اسے چاہئےکہ بزدلی کو چھوڑ دے اور بہادر بنے.(۷)فخرادر خیلاء پھر فخر اور خیلاء بھی ایک مرض ہے اس سے بھی انسان کی روح پہلی سے گر جاتی ہے کیونکہ فخر کرنے والا دوسروں کو حقیر قرار دیکر خود بڑا بننا چاہتا ہے مگر خود گر جاتا ہے.بظا ہر فخرکر نا معمولی بات معلوم ہوتی ہے اور لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ کیا ایسے موقع پر ہم جھوٹ بولیں اور بات نہ کہیں ؟ مگر یاد رکھنا چا ہیے کہ فخریہ جو کچھ کہا جائے وہ سچ نہیں ہو سکتا اور آج تک فخر کرنے والے بھی ایسے نہیں ہوئے جو دوسروں کو گرا کر اپنے آپ کو بڑا نہ بنانا چاہیں.ایسے انسان جو اپنے متعلق سب کچھ کہتے ہیں مگر ان کے لئے کوئی نہیں کہہ سکتاکہ فخر کرتے ہیں وہ صرف نبی ہی ہوتے ہیں.پس سوائے نبیوں کے اور کوئی ایسا انسان نظر نہیں آیا کہ جو فخربھی کرے اور دوسروں کو حقیر بھی نہ کرے اس لئے یہ بھی ایک مرض ہے اس سے بھی بچنا چاہئے.
۲۴ (۸) بے غیرتی پھر بے غیرتی بھی گناہ ہے.مومن کے اندر غیرت ہونی چاہئے اس کے ماتحت ہر کام کرنے کے لئے اسے تیار رہناچا ہیے.بے غیرتی کے یہی معنی نہیں ہیں کہ بعض اخلاقی باتوں میں جن میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بے غیرتی دکھائی گئی ہے بے غیرتی کی جائے بلکہ تمام کاموں میں بے غیرتی ہو سکتی ہے.مثلاً لوگ اسلام پر عمل کریں اور ایک شخص ان کو سنتار ہے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرے تو یہ بھی بے غیرتی ہے.جب لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو پھر کیوں دین کے لئے غیرت نہ دکھائی جائے.ایسے لوگوں کو جب کہا جائے کہ تم نے بے غیرتی دکھائی ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے کوئی حیاء کے خلاف کام نہیں کیا مگر اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے حیاسو زکام کی غلط تشریح کرلی ہے.دین کے لئے غیرت و کھانا بھی ایک مسلمان کا فرض ہے.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کروں گا کہ جہاں بھی جس کام کے لئے آپ کھڑے ہوں اس میں جو روکیں پیدا ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اس وقت تک صبر نہ کریں جب تک ساری روکیں دور نہ ہو جائیں.غیرت کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑکا ایک واقعہ ہے.لاہور میں آریوں کا جلسہ تھا جس میں حضرت خلیفہ اول کو امیر بنا کر آپ نے چند لوگوں کو اس میں شمولیت کے لئے بھیجا تھا میں بھی گیا تھا.اس میں حضرت مسیح موعودؑ کا مضمون پڑھا گیا تھا اس کے بعد آریوں نے بھی مضمون سنایا جس میں رسول کریم ﷺ کو سخت گالیاں دی گئی تھیں.میری اگرچہ اس وقت چھوٹی عمر تھی تاہم میں وہاں سے چلنے لگا کہ گالیاں نہ سنوں مگر ایک شخص نے مجھے پکڑ لیا اور کہا کہ باہر جانے کا راستہ نہیں ہے یہیں بیٹھے رہیں.مجھے ابھی تک افسوس ہے کہ میں کیوں بیٹھا رہا اور کیوں نہ چلا آیا.جب جلسہ کے بعد حضرت خلیفہ اول قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود ؑنے جلسے کے حالات سنے تو آپؑ سخت ناراض ہوئے اور مولوی صاحب کو بار بار فرماتے کہ کیوں آپ وہاں بیٹھے رہے آپ تو عالم تھے آپ کو ایسی مجلس سے فوراً چلے آنا چاہئے تھا.کئی مجلسوں میں آپ ؑیہی ذکر فرماتے رہے آخربہت سی بارانگی کے بعد آپؑ نے معاف فرمایا.غرض مومن میں غیرت ہونی چاہئے.دیکھو بے غیرتی نے ہی پیغامیوں کو تباہ کیا ہے.خواجہ صاحب نے کہیں لیکچر دیا اور لوگوں نے اس کی تعریف کردی تو پھر وہ خواہ حضرت مسیح موعودؑ کو کافر کہتے اس کی بھی پرواہ نہ کی جاتی اور کوئی حرج نہ سمجھا جاتا.اس طرح ان لوگوں میں بے غیرتی پیدا ہو گئی اور اس کی وجہ سے ان کے اندر سے ایمان کھل گیا.پس یاد رکھو کہ جن و جودوں کی
۲۵ عزت و تکریم تمہارا فرض ہے اور دن عقائد و مسائل کی حفاظت ضروری ہے کسی مجلس میں اگر کوئی ان کی ہتک کرتا ہے تو وہاں سے اٹھ جانا چاہئے اور جس کام پر تمہیں مقرر کیا جائے اس میں اگر کوئی روکیں پیدا کرتا ہے تو ان کا مقابلہ کرو اور کام کو پورا کر کے دکھاؤ - ویکھو ایک چھوٹی سی قوم سکھ ہے میں اس کی تعریف نہیں کرتا کہ اس نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ اچھا ہے مگر اس نے کیسی جرأت د کھائی ہے ان کی اس جرأت سے دل لذت محسوس کرتا ہے.انہوں نے ماریں کھائیں تکلیفیں اٹھائیں، جیل خانوں میں گئے مگر یہی کہتے رہے کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے مقدس مقام غیروں کے قبضہ میں ہوں.ہم قانونی لحاظ سے نہیں کہتے کیونکہ ہمیں اصل حالات معلوم نہیں کہ وہ کہاں تک حق بجانب ہیں مگر ان کی غیرت قابل تعریف ہے اور ان کا اس قدر تکالیف برداشت کر نادل میں سرور پیدا کرتا ہے.پس تم کو باغیرت بننا چاہیے اور ہر بات میں ایسی غیرت و کھانی چاہئے کہ دشمن بھی تمہاری غیرت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو.(9) ناشکری یہ بھی ایک ذاتی عیب ہے.اس کی وجہ سے انسان ترقی سے محروم ہو جاتا ہے.میرے نزدیک مسلمانوں کی تباہی کا بڑا باعث ناشکری ہی ہے.خدا تعالیٰ نے رسول کریمﷺا کے ذریعہ انہیں یہ نعمت عطا کی کہ ان میں نبی پیدا کیا مگر اس کو انہوں نے رد کر دیا اور رسول کریم ﷺ کے درجہ کو گھٹا کر مسیحؑ کو بڑا بنانا شروع کر دیا.اس وجہ سے عذاب میں مبتلاء کئے گئے.مسلمان آنحضرت اﷺکے امتنان اور احسان کو بھول گئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو بھی اصل منعم نے بھلا دیا اور وہ ذلیل ہوگئے.پس ضروری ہے کہ جنہوں نے ہم تک دین پہنچایا اور جن کی قدر اور عزت کرنا ضروری ہے ان کے شکر گزار ہوں.اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو قدر دانی کی عادت ڈالو.رسول کریمﷺ فرماتے ہیں من لم يشکر الناس لم يشكر الله جس نے انسانوں کا شکر نہ کیاوو خد اکابھی شکرگزار نہیں ہوتا.گویا قابل شکریہ انسانوں کا شکر گزار ہو اتنا ضروری ہے کہ ایسانہ کرنے سے انسان خدا کا شکر گزار بھی نہیں ہو سکتا پس آپ کوناشکرگزار نہیں ہونا چاہئے.(۱۰) خودکشی یہ بھی ایک ذاتی عیب ہے گو اس کے متعلق سوال ہو گاکہ کی ہماری جماعت یہ عیب پایا جاتا ہے؟ اگر چہ ایسا نہیں ہے لیکن پچھلے سال میرے پاس ایک خط آیا تھا جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ بعض لوگ خیال رکھتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے.ہات
۲۶ یہ ہے کہ خودکشی خدا تعالیٰ سے مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ انسان جب یہ خیال کر لیتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا اور میں مشکلات سے مخلصی نہیں پا سکتا تو وہ خودکشی کرلیتا ہے.ایسا انسان خدا کا خانہ خالی سمجھ لیتا ہے اور خیال کرلیتا ہے کہ اب خدا کچھ نہیں کر سکتا اسی لئے یہ ایساگناہ ہے جو کبھی معاف نہیں ہو سکتا کیونکہ جب انسان نے اپنے آپ کو مار ڈالا تو توبہ کب کر سکتا ہے اور کب یہ گناہ معاف ہو گا؟ شرک جیسا گناہ بھی توبہ کرنے سے معاف ہو سکتا ہے مگر خود کشی کا گناه معاف نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے کرنے کے بعد توبہ کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی.ایک دفعہ میں نے سوچنا شروع کیا کہ وہ کون سا گناہ ہے جو معاف نہیں ہو سکتا تو مجھے یہی گناہ ایسا نظر آیا.اپنی ذات کے علاوہ دوسروں پر بھی اثر ڈالنے والے معاصی یہ موٹے موٹے ذاتی گناه میں نے بیان کر دیئے ہیں.اب دوسرے گناہ جو دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن سے بچنا ضروری ہے ان میں سے موٹے موٹے گناتا ہوں.(1) خیانت ایسے گناہ جن کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے ان میں سے ایک خیانت ہے.جب کوئی دوسرے پر اعتماد کر کے اپنا مال اس کے پاس رکھتا ہے اور وہ اس میں خیانت کرتا ہے تو یہ حد درجہ کی ہے شرمی ہے.میں نے ایساخائن کوئی احمدیوں میں نہیں دیکھا کہ جس نے کسی کا روپیہ لے کر دینے سے کلی طور پر انکار کر دیا ہو اور یہ خدا کا فضل ہی ہے مگر اور قسم کی خیانتیں پائی جاتی ہیں.مثلاً ایک شخص دوسرے کا روپیہ خرچ کرلیتا ہے اور جب وہ مانگتا ہے تو کہتا ہے کہ جب میرے پاس ہو گا تو دے دوں گا مگر سوال یہ ہے کہ دوسرے کے پاس روپیہ کوئی رکھتا تو اس لئے ہے کہ جب ضرورت ہوگی لے لونگا پھر کیوں اسے ضرورت کے وقت نہ دیا جائے؟ اس قسم کی خیانت دیکھی جاتی ہے اور یہ بھی خطرناک گناہ ہے کسی کے یہ کہہ دینے سے کہ جب روپیہ ہو گا دے دونگا خیانت کا جرم کم نہیں ہو جاتا.جس کا روپیہ تم نے خرچ کر لیا اس کو تو ضرورت کے وقت نہ ملنے کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے اگر اسے یہ کہہ دیا جاتا کہ روپیہ نہیں دیتا تو بھی اس کا نقصان ہو تا.پس اس کا تو دونوں صورتوں میں نقصان ہوتا ہے اس لئے یہ کہہ دینا کہ جب ہو گا دے دیا جائے گا جر م کو کم نہیں کرتا.نفس کی پاکیزگی کے لئے ضروری ہے کہ اگر کوئی آپ کے پاس روپیہ رکھتا ہے تو جب مانگے اسے دے دو.میرے نزدیک تو خیانت کا یہ مفہوم ہے کہ آپ کا ایک نہایت عزیز بیما ر پڑا ہے اور خطرہ ہے کہ اگر اس کا علاج نہ کیا تو مر جائے گا اس
۲۷ وقت اگر تمہارے پاس امانت کا روپیہ پڑا ہے اور روپیہ والا مانگتا ہے مگر آپ اس میں سے بیمارپر خرچ کر لیتے ہیں اور اسے نہیں دیتے تو یہ خیانت ہے.آپ کا فرض یہ ہے کہ روپیہ جس کا ہے اسے دے دیں اور مریض کو خدا پر چھوڑ دیں پھر خواہ وہ مرے یا جئے.پس کبھی کسی کے مال میں خیانت نہ کرو خواہ کسی قدرہی ضرورت کیوں نہ ہو اور خیانت کے مفہوم کو وسیع سمجھو محدود نہ کرو.(۲) تہمت ایک عیب تہمت ہے کسی پر تہمت لگانا بہت بڑا عیب ہے.کسی کے متعلق اپنے دل میں برا خیال رکھنا بد ظنی ہے اور اس کا بیان کرنا تہمت ہے.دیکھو تو سہی اگر تمہیں کسی مجسٹریٹ کے متعلق معلوم ہو کہ اس نے فلاں کو بغیر تحقیقات سزادے دی ہے توکتنا برا لگے گا مگر ذرا اپنے متعلق دیکھو ایک بات کو لے کر دوسرے کے متعلق یونہی فیصلہ کر دیتے ہو کہ فلاں ایسا ہے.کسی کو چور، ڈاکو، زانی،فاسق، فا جر کہہ دینا اس کو سزا دینا ہے کیونکہ اس طرح تم اس کی عزت کو گراتے ہو.تم ایک غلط فیصلہ کرنے والے مجسٹریٹ پر ناراض ہوتے ہو مگر خود وہی غلطیاں کرتے ہو ان باتوں کو بھی چھوڑ دو.(۳) ظلم ایک گناہ ظلم ہے یہ گناہ بہت وسیع طور پر پھیلا ہوا ہے.بعض دفعہ اس کو دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ بالشویک طریق اسی کا طبعی نتیجہ ہے.امیر غریب پر، بادشاه فقير پر،آقا نوکر پر، افسر ماتحت پر، بڑا چھوٹے پر، زبردست کمزور پر ظلم کرتا ہے اور ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کاحق لےلے حالانکہ مومن کا کام یہ ہے کہ اپنا دوسرے کو دے دے اور اگر اس درجہ پر نہیں تو کم از کم دو سرے کا حق تو تلف نہ کرے.مگر عجیب بات ہے کہ ایک شخص پندرہ سال کام کرتا ہے اور تنخواہ لیتا ہے مگر جب وہ ملازمت چھوڑ دیتا ہے تو بھی اس پر اس لئے ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس نے ہمارا فلاں کام نہ کیا بڑا نمک حرام ہے.مگر نمک توتم نے بھی اس کا کھایا وہ تمہارا کام کرتا رہا اس کے بدلہ میں تم نے بھی اسے فائدہ پہنچایا.گاؤں میں نجار، معمار وغیرہ کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ان کے حقوق تلف کرنا بھی ظلم ہے پس عورتوں کے حقوق، نوکروں کے حقوق، گاؤں میں کام کرنے والوں کے حقوق اور ان کے علاوہ اور بھی جس کے حقوق ہوں ان کا تلف کرنا بہت بڑا گناہ ہے اس سے بچنا چاہئے.(۴) دھوکا ایک عیب دھوکا ہے.ایک شخص کسی پر اعتبار کرتا ہے مگر وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے یہ بھی بڑا گناہ ہے.بعض لوگ دھوکا دیکر کسی کی چیزلے لیتے ہیں
۲۸ اور اگر پتہ لگ جائے تو کہہ دیتے ہیں ہم نے تو ہنسی کی تھی مگر ایسی ہنسی جائز نہیں جو جھوٹ ہو اور جس کی وجہ سے دوسرے کو نقصان پہنچ جائے.پس ہر قسم کے دهو كاسے بچنا چاہئے خصوصاً ہنسی کے نام سے جو دھوکا کیا جاتا ہے اس سے.کیونکہ عام طور پر لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی جائز نہیں.(۵) قتل پانچواں گناہ قتل ہے.یہ بھی خطرناک جرائم میں سے ہے اس سے دوسرے کو ایسا نقصان پہنچایا جاتا ہے جس کا کوئی تدارک نہیں ہو سکتا کیونکہ قاتل مقتول کے نیک اعمال کو ضائع کر دیتا ہے.ہماری جماعت میں جان سے قتل کر دینے کا عیب تو خدا کے فضل سے نہیں ہے مگر ان کے یہی معنی نہیں کہ کسی کو جان سے مار دیا جائے بلکہ اور بھی ہیں.مثلا اگر کوئی کسی سے ایسے رنگ میں ناراض ہوا یا نقصان پہنچاتا ہے کہ وہ برباد ہو جاتا ہے تو یہ بھی قتل ہے اگر تم کسی کو اس طرح مارتے ہو کہ مارڈالنے کی نیت نہیں مگر وہ مرجاتا ہے تو یہ بھی قتلی ہے.اس کی بھی سزا رکھی گئی ہے اس لئے کہا ہے کہ تم کسی کے مارنے کے لئے ہاتھ ہی نہ اٹھاؤ سوائے خود حفاظتی کے موقع کے.(۶) چوری ایک چوری کا عیب ہے.گجرات اور گوجرانوالہ کے اضلاع میں لوگ جانوروں کی چوری کو چوری نہیں تھے.کہتے ہیں دوسرے ہمارے جناورلے جاتے ہیں اور ہم ان کے لئے آتے ہیں مگر یہ بھی چوری ہے.جیسے سیندھ لگاکر زیوریا روپیہ نکال لینا چوری ہے اسی طرح جانور نکال کر لے جانا بھی چوری ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم اس طرح نہ کریں تو تباہ ہو جائیں گے دوسرے ہمارے جانور لے جائیں گے اور ہم خالی ہاتھ بیٹھے رہیں گے مگر مکہ والے بھی رسول کریمﷺ کویہی کہتے تھے.خداتعالی ٰان کو زجر کرتا ہے کہ جب خدا کے لئے ایسا کرو گے تو کیوں لُٹ جاؤ گے.پس تم میں سے بھی کوئی حضرت موعودؑ کے پاک اور صاف جبہ پر داغ نہ لگائے.دیکھو ہر ایک عیب عیب ہی ہے مگر بعض کمینہ عیب ہوتے ہیں.ایک عیب شہوت کی وجہ سے کیا جاتا ہے وہ بھی عیب ہی ہے مگر اس کے کرنے والےکا عذر بھی تو ہے.مگر کمینہ عیب اس سے بھی برا ہوا ہے اور اس قسم کی چوری کا عیب کمینہ اور خسیس عیب ہے اس کی محرّک کوئی ضرورت طبعی نہیں.تم اس کے لئے احمدیت کو بد نام نہ کرو.اگر تم اس سے بچو گے تو خدا تعالی ٰتمہارا مدد گار ہو گا.ہمارے گھوڑے چوری ہو گئے اور جن کو پکڑا گیا وہ قسمیں کھا کر چھوٹ گئے اور ہم نے ان کی بات مان لی.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ
۲۹ وہی چور تھے.ان میں سے ایک جلدی مرگیا اور دوسرا کسی اور جرم میں پکڑا گیا اور اس نے سزا پائی.تمہیں چاہئے کہ جس طرح دوسرے لوگ چوری میں مشق کرتے ہیں تم سراغ رسانی میں مشق کرو اور چوروں کو پکڑو خواہ وہ ہندوستان کے دوسرے کنارے چلے جائیں.اپنی سستی کی وجہ سے اپنے ایمانوں کو کیوں ضائع کرتے ہو.(۷) مار پیٹ اسی طرح ایک عیب مار پیٹ ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار پیٹ کرنے لگ جاتے ہیں.بعض دفعہ کہتے ہیں فلاں نے گالی دی تھی اس لئے ہم نے مارا.میں کہتا ہوں اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہو کہ گالی دے لو اور اگر کسی نے گندی گالی دی ہے تو تم بھی نہیں کر سکتے صرف یہ کہہ دو کہ تو جھوٹا ہے اور یہ کہنا ٹھیک بھی ہے کیونکہ وہ جو گالی دیتا ہے وہ جھوٹ ہی ہوتا ہے.بعض لوگ اگر ماریں نہ تو یہ کہہ دیتے ہیں میں یوں تمہاری خبر لوں گا، میں تمہارا سر پھوڑ دوں گا، مار دوں گامگر یہ ارادہ جرم بھی جرم ہے اگر مارنا نہیں تو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کہتے ہیں کسی شخص کی کتیا نے بچے دیئے.ایک شخص اس سے ایک بچہ مانگنے گیا.کتیاوالے نے کہا بچے تو سب مر گئے ہیں لیکن اگر زندہ بھی ہوتے تو میں تم کو نہ دیتا.اس نے کہایہ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس طرح جب مارنانہیں تو ایسے الفاظ کہنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے.اس قسم کی ایک لڑائی کا ابھی تک مجھ پر اثر ہے.میں بازار گیا تو دو ہندو آپس میں لڑ رہے تھے بچپن کی عمر کی وجہ سے میں اس نظارہ کو شوق سے دیکھنے لگا.وہ ایک دوسرے کو یہی کہتے رہے کہ مار ڈالوں گا مگرمارا کسی نے نہیں اور آخر چپ ہو کر بیٹھ گئے.آج تک اس واقعہ کا مجھ پراثر ہے.مجھے یاد ہے کہ مجھے غصہ آتا تھا کہ اگر مارنا ہے تو ماریں یونہی منہ سے کیوں کہہ رہے ہیں.اس طرح دهمکی دینا بھی ایک عیب ہے.کیونکہ اس طرح دوسرے کو جوش دلایا جاتا ہے ممکن ہے یہ تو منہ سے ہی کہتار ہے اور دو سرامار بیٹھے.(۸) گالی دینا ٍ گالی دینا بھی عیب ہے.اس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے.یہ طبعی بات ہے کہ انسان اپنے متعلق بری بات خواہ غلط ہو نہیں سننا چاہتا.اس سے اسے تکلیف ہوتی ہے اس سے بچنا چاہئے.بعض لوگوں کو تو گالیاں دینے کی اس قدر عادت ہوتی ہے کہ ایسی چیزوں کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں جو بے جان ہوتی ہیں یا گالیوں کو سمجھ نہیں سکتیں.مثلاًذ را جوتی نہ ملے تو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں یا جانور کو گالیاں دینی شروع کردیتے ہیں.ایسے
۳۰ لوگ بچوں کے سامنے گالیاں دیتے رہتے ہیں جس سے بچوں کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں.تمہیں چاہئے کہ تم مومن بنو اور کوئی ایسالفظ زبان پر جاری نہ ہو جو فحش ہو.(9) ناواجب طرفداری ایک عیب ناواجب طرفداری بھی ہے جو کثرت سے پایا جاتا ہے.دو آدمی لڑ رہے ہوں جن میں سے ایک سے کسی کا کچھ رشتہ ہو تو وہ بغیر تحقیقات کے اپنے رشتہ دار کی مدد کرنے لگ جاتا ہے حالانکہ یہ مومن کا کام نہیں ہے.ممکن ہے وہی ظالم ہو جس کی طرفداری کر رہا ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے انصر أخاك ظالم او مظلوما کہ اپنے بھائی کی مدد کروہ ظالم ہو یا مظلوم.پوچھا گیا مظلوم کی تو مدد ہوئی ظالم کی مدد سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا.ظالم کی یہ مدد ہے کہ اس کو ظلم کرنے سے بچا! تو ناواجب طرفداری سے بچنا چاہئے اس سے انسان بڑے بڑے گناہوں میں مبتلاء ہو جاتا ہے.میں اپنے متعلق سناتاہوں.ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور اچھی باتیں سناتا ہے کہ فلاں نے مجھ سے یہ کیا وہ کیا اور وہ کہتا ہے کہ میں بھی اس کی باتیں سن کر اس شخص سے ناراض ہو جاؤں گا جس سے وہ ناراض ہے.مگر جب میری طرف سے وہ کوئی ایسی بات نہیں دیکھتا اور میں اسے کہتا ہوں کہ اچھامیں تحقیقات کروں گا تو کئی ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو جا کر کہتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ کو بھی سنایا مگر اس نے بھی کچھ نہ کیا.حالانکہ میرا فرض یہ بھی ہے کہ میں دوسرے کے بیان کو بھی سنوں.مگر چو نکہ بیجا طرفداری کی مرض اس قدر بڑھی ہوئی ہے اس لئے وہ مجھ سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ میں بھی ایسا ہی کروں.(۱۰) رشوت ایک عیب رشوت بھی ہے اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ اس میں مبتلاء ہیں.یاد رکھو کہ ہر ایک ملازم پر اللہ تعالیٰ ٰاور اس کی طرف سے جس کا وہ لازم ہے فرض ہے کہ اپنی ملازمت کے حقوق ادا کرے اور رشوت لینے اور دینے والا دونوں گنہگا ر ہیں.رسول کریم ﷺنے اس کو بہت بڑاعیب قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں بھی آتا ہے وتدلوابها الى الحكام - اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ جھوٹے مقدمے عدالتوں میں نہ لے جاؤ اور یہ بھی کہ رشوت کے ذریعے اپنے کام نہ کر اؤ.مجھے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بعض محکموں والے اس عیب سے بری نہیں ہیں.ہر ایک محکمہ والے اور خاص کر نہر اور پولیس کے محکمہ والوں کو اس سے بچنے کے لئے خاص کوشش کرنی چاہئے.ایک شخص نے مجھے خط لکھا کہ میں احمدی ہو نا چاہتا ہوں مگر میں چونکہ رشوت لیتا رہا ہوں
۳۱ اس لئے احمدی ہو کر احمدت کو بدنام کرنا نہیں چاہتا.جن سے میں نے رشوت لی ہے احمدی ہونے سے پہلے ان کو ادا کر دینا چاہتا ہوں.اس کے پاس چھ سات سو روپیہ تھا وہ اس نے دیدیا پھراس نے پوچھا رشوت تو میں نے چار پانچ ہزار کی ہو گی مگر میرے پاس اور روپیہ نہیں کیا میں جدی جائداد بیچ کر ادا کر دوں؟ میں نے اسے کہاجدی جائداد تو رشوت کے روپیہ سے نہیں بنی اس لئے اگر نہ دو تو حرج نہیں مگر اس نے لکھا کہ بہتر کونسی بات ہے ؟ میں نے لکھا بہتر تو یہی ہے کہ جن سے رشوت لی ہے ان کو واپس کردو چنانچہ اس نے اپنی جائدادگر و رکھ کر رشوت واپس کردی.جو شخص اس عیب میں مبتلاء ہو اس کو ایسی ہی حالت پیدا کرنی چاہئے.دیکھو اگر ایک نہرکا پٹواری پانی چھوڑنے سے پہلے رشوت لیتا ہے تو جب وہ تبلیغ کرے گا اس کا کیا اثر ہو گا؟ ایک طرف تو وہ مالی طور پر دوسروں کو نقصان پہنچائے گا دوسری طرف اس کے اس فعل سے احمدیت کی اشاعت میں روک پیدا ہوگی اور اس کو دو گناہ ہوں گے.(۱۱)سود لینا اسی طرح سود لینا بھی بڑا حرام ہے اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں سے بعض لے لیتے ہیں.سولینا مرتے کو مارنا ہوتا ہے کیونکہ جو پہلے ہی غربت کی وجہ سے قرض لیتا ہے اس سے سود لیا جاتا ہے.سوددینا بھی عیب ہے مگر لینا اس سے بھی زیادہ عیب ہے غریب اور نادار سے ہمدردی ہونی چاہئے نہ کہ اس پر ظلم کرنا چاہئے؟ خدا تعالیٰ کے متعلق معاصی گناہوں کی تیسری قسم وہ گناہ ہیں جو ہستی باری تعالی ٰسے تعلق رکھتے ہیں.ا.شرک اس قسم کے گناہوں میں سے ایک گناہ شرک ہے.یہ گناہ عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے اور بعض مردوں میں بھی وہ سجدہ کرنے لگ جاتے ہیں.آج ہی ایک شخص نے باوجود روکنے کے سجده کرہی دیا.اسی طرح عورتوں میں سے بھی کئی اس کا ارتکاب کرتی ہیں.ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کو چاہئے کہ کلی طور پر اس کو اپنے دلوں سے نکال دیں اور شرک ہراس توکل کا نام ہے جو خدا کے سوادو سروں پر کیا جائے.٢- كفر پھر کفر کا گناہ بھی خدا تعالی ٰسے تعلق رکھتا ہے مگر کفریہی نہیں ہے کہ کوئی شخص سارے نبیوں کو نہ مانے بلکہ قدر اور قیامت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے.اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ رسولوں اور ملائکہ پر تو ایمان رکھے مگر قیامت پر نہ رکھے تو وہ کفر کا مرتکب ہو گا.
۳۲ اسی طرح کوئی شخص خدا تعالی ٰرسولوں ملائکہ اور قیامت پر ایمان رکھے مگر ان کی حقیقت پر ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ بھی مومن نہیں ہو سکتا.پس ان کی حقیقت پر ایمان لاؤ کہ تم کو فائدہ ہو- ہر ایک بات جوخد اتعالی ٰ،ملائکہ ، رسولوں اور قیامت اور قدر کے متعلق ہو مگر تم اس کو پھیر کراپنی منشاء کے ماتحت لاتے ہو اور اس کی ایسی تشریح کرتے جس سے ان کی حقیقت بالکل مٹ جاتی ہے اور صرف مجاز باقی رہ جاتا ہے تو یہ کفر ہے.اس تم کی سب باتوں سے بچنا چاہئے.٣- كلام الہٰی کے متعلق شبہات پھر خدا تعالی ٰکی طرف سے جو کچھ نازل ہو اس کے متعلق شبہات کرنا بھی گناہ ہے مگر عام لوگ وساوس اورشبہات اپنے دل میں رکھتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ناانصافی ہے اگر کوئی شبہ ہو تو اس کو حل کرنا اور اپنے دل سے دور کر دینا چاہئے.کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ شبہات کا حل تلاش کرنے سے تمارے عقائد پر زد پڑے گی اگر یہ بات ہے تو ایسے مذہب کو چھوڑ دو ورنہ تحقیقات کر کے دور کرو.۴.مایوسی اسی طرح مایوسی بھی گناہ ہے اور خدا تعالی ٰپر بہت بڑا اتہام ہے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو مصائب کے وقت خیال کر لیتے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا مگر مومن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے.اگر تلوار بھی کسی کی گردن پر رکھی ہو اور دشمن اس سے پوچھے کہ اب بھی تو اس سے رہا ہو سکتا ہے یا نہیں؟ تو مومن یہی کہے کہ اب بھی رہا ہو سکتا ہوں.بعض اوقات بظاہر انتہائی ناکامی سمجھی جاتی ہے مگر اس حالت میں بھی کامیابی ہو جاتی ہے اور بعضاوقات انسان خیال کرتا ہے کہ میری کامیابی میں کوئی شبہ ہی نہیں مگر وہ ناکام ہو جاتا ہے.بچپن میں ہم مدرسہ کی کتابوں میں ایک واقعہ پڑھا کرتے تھے.ایک آدمی تھا جو بہت امیر ہو گیا اس کے بڑے اچھے کھیت تھے جن میں بہت پیداوار ہوتی تھی.ایک دن وہ بڑا خوش ہو رہا تھا کہ اس نے چائے منگوائی ابھی اس نے پی نہ تھی کہ اس کو کسی نے آکر کہاسؤر کھیت خراب کر رہا ہے اس نے چائےنہ پی اور ہتھیار لے کر سؤر کو مارنے کیلئے چلا گیا.مگر سؤر نے اس پر ایساحملہ کیا کہ اسے مارہی دیا اور وہ چائے نہ پی سکا.یہ واقعہ تو امید میں نا امیدی کی مثال ہے.مگر خدا تعالی ٰبظا ہرنا امیدی کی حالت میں جس طرح اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے اس کی بھی حیرت انگیز مثالیں ہیں.ایک دفعہ رسول کریمﷺ لشکرسے علیحدہ ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے کہ ایک کافر آیا اور آپ ؐکی تلوار
۳۳ اٹھالی.تلوار کھینچ کر اس نے آپؐ کو جگایا اور کہنے لگابتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے لیٹے لیٹے فرمایا مجھے اللہ بچاسکتا ہے.اس آواز کا اثر اس پر بجلی کی طرح ہوا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی.آپؐ نے اس کا امتحان لینے کے لئے کہ میرے الفاظ کا اس پر بھی کچھ اور ہوا ہے یا نہیں.تلوار اٹھائی اور پوچھابتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہہ دیا آپؐ ہی بچائیں تو بچا سکتے ہیں.گویا اس نے یہ سن کر بھی کچھ نہ سیکھا.آپؐ نے اسے کہایہ نہ کہو.خداہی تم کو بھی بچاسکتا ہے اور چھو ڑدیا.ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میرے حساب کی پڑتال ہونے والی ہے اور کچھ ایسی فرو گذاشتیں ہو گئیں ہیں کہ ان کی وجہ سے مجھے بہت سا روپیہ بھرنا پڑے گا حالانکہ واجب الاداء نہیں ہے آپ دعا کریں کہ خدا تعالی ٰمجھے بچائے.میں نے اس کے لئے دعا کی اور مجھے معلوم ہوا کہ دعا قبول ہوگئی ہے.اور میں نے اس کو لکھ دیا کہ مایوس نہ ہو خداتعالی ٰتمہیں بچالے گا.پھر جب تحقیقات مکمل ہو چکیں اور اس کے ذمہ روپیہ نکالا گیاتو اعلیٰ افسرنے بلا کاغذات کے دیکھنے کے لکھ دیا کہ اس تحقیقات کو داخل دفتر کر دو.پس مایوس کبھی نہ ہونا چاہیے خواہ کیسی مشکلات میں گھر جاؤ – ذاتی گناہ بندوں اور خدا سے بھی تعلق رکھتے ہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ذاتی گناہ جو میں نے بتائے ہیں وہ نمبر۲ اور نمبر۳ کے بھی گناہ ہوتے ہیں یعنی وہ دوسروں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور خدا تعالی ٰکے متعلق بھی گناه ہوتے ہیں.مثلاً جوشخص کوئی ذاتی گناہ کرتا ہے وہ ایک رنگ میں دوسروں کے متعلق بھی گناہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کابھی.جیسے متعدی امراض ہوتی ہیں اگر ایک کو طاعون ہو تو اس کی ذات کو یہ مرض ہوتا ہے مگر اس کی وجہ سے دوسروں کو بھی طاعون ہو سکتی ہے.اسی طرح اگر ایک شخص میں عیب ہو تو اس کے عیب کا اثر ہم پر ہمارے بچوں اور بیویوں پر بھی پڑ سکتا ہے.پس ذاتی گناه کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ دوسروں کو کیا؟ میں اپنی ذات کے متعلق یہ گناہ کرتا ہوں.دوسروں کو بھی کچھ ہے کیونکہ اس کے ذاتی گناہ کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے.اکتسابِ عملِ خیر اس وقت تک جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ مختلف قسم کے گناہوں سے بچنے کے متعلق ہے اور یہ روحانیت کے لئے ضروری ہے.اب دوسری بات بیان کرتا ہوں جو روحانیت پر اثر ڈالنے والی ہے اور وہ اکتسابِ عملِ خیرہے.
۳۴ گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا الگ الگ ہیں نیکی کرنا الگ الگ ہیں عام لوگ ہی نہیں سمجھ سکتے کہ گناہ سے بچنا اور.نیکی کرنا الگ الگ باتیں ہیں.وہ سمجھتے ہیں ایک ہی بات ہے مگر کسی کا حق نہ مارنا اور کسی کو اپنے پاس سے کچھ دے دینا دونوں باتیں ایک کس طرح ہو سکتی ہیں؟ حضرت مسیح موعودؑ سناتے ہیں.ایک شخص کسی کے ہاں مہمان آیا میزبان نے اس کی بڑی خاطر کی لیکن اس کی بیوی چونکہ بیمار تھی اس لئے اس نے یہ خیال کر کے کہ پوری پوری خاطر تواضع نہیں ہو سکی.جب مہمان جانے لگا تو معذرت کی کہ مجھے افسوس ہے میں آپکی اچھی طرح خاطر نہیں کر سکا.آگے مہمان انہی لوگوں میں سے تھا جو برائی نہ کرنا اور نیکی کرنا ایک ہی سمجھتے تھے وہ کہنے لگا آپ مجھ پر کوئی احسان نہ جتائیں.میزبانوں کی عادت ہوتی ہے کہ مہمانوں پر احسان جتانے لگ جاتے ہیں.اگر آپ نے میری خاطر کی ہے تو میں نے بھی کوئی معمولی کام نہیں کیا.جس کمرہ میں ٹھہرا ہوا تھا اس میں آپ کا اتنا اسباب پڑا تھا تم ہر وقت میرے پاس نہ رہتے تھے اگر میں اس سامان کو آگ لگا دیتا تو پھر تم کیا کرتے؟ یہ نیکی کرنے اور بدی نہ کرنے کو ایک ہی سمجھنے کی مثال ہے.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں وہ ترقی سے محروم ہو جاتے ہیں.چونکہ ارادہ ہے کہ اس لیکچر کو اسی وقت ختم کردوں اور چونکہ میں بیمار رہا ہوں.اسی ماہ کی۲۱-۲۰ تاریخ کو جلاب لیا تھا اور ابھی تک ہاتھ پر فالج کی طرح کا اثر ہے اور کل کے لیکچر کے لئے بھی نوٹ بھی لکھنے ہیں اس لئے لیکچر کو اور مختصر کئے دیتاہوں اور نفس کی نیکیاں گنادیتاہوں.ذاتی نیکیاں نفس کی نیکیاں سے ہیں.شجاعت چستی، علم ،تواضع ، غیرت ، شکر، حسن ظنی، دلی خیر خواہی نہ کہ عملی خیر خواہی ،یہ نیکیوں کی جان ہیں اور ذاتی نیکیاں ہیں.بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والی نیکیاں اب میں بنی نوع سے تعلق رکھنے والی نیکیاں بیان کرتا ہوں :.۱.ہمدردی اور خیر خواہی یعنی دل میں بھلائی چاہنایعنی کسی کے پاس جا کر اسے بتانا کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے.اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے.اس سے ٹوٹی ہوئی ہمتیں
۳۵ بندھ جاتی ہیں اور انسان کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے.اگر کسی کو ایک ہزار روپیہ دے دوتو اس سے اتنافائدہ نہیں ہوتا جتنا مصیبت کے وقت ہمدردی کے اظہار سے ہوتاہے.۲.سخاوت یہ ان اعلی ٰدرجہ کی نیکیوں میں سے ہے جو دوسروں سے تعلق رکھتی ہیں.۳.تعلیم دینا تعلیم بھی ایسی ہی نیکی ہے.اس سے یہ مراد ہے کہ لوگوں کو علم پڑھایا جائے.لوگوں میں یہ بہت بڑا عیب ہو گیا ہے کہ بغیر کچھ لئے کسی کو نہیں پڑھاتے اور جب میں سنتا ہوں کہ کوئی بغیر کچھ لئے کسی کو پڑھانا نہیں چاہتا تو مجھے بہت صدمہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول بھی ڈیوٹی مانگنے پر ناراض ہوا کرتے تھے.ہر ایک مومن کو چاہئے کہ کچھ نہ کچھ مفت ضرور پڑھایا کرے.اگر کوئی مدرس ہے تو اسے نوکری کے علاوہ مفت بھی پڑھانا چاہئے.۴.تربیت تربیت بھی ان احسانوں میں سے ایک احسان ہے جو انسان دوسروں پر کر سکتا ہے اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے.۵.علاج معالجہ یہ بڑا فائدہ پہنچانے کی چیز ہے.حضرت مسیح موعودؑ اس کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتے تھے.ایک دفعہ گھرمیں حضرت مولوی صاحب کا ذکر آیاتو آپؑ ان کا نام لیکر دیر تک الحمد للہ کرتے رہے.اور فرمایا مولوی صاحب بھی اللہ تعالیٰ ٰکی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں ان کے ذریعے کئی غریبوں کا علاج ہو جاتا ہے.علاج تودو سروں کا ہوتا تھا مگر شکر آپؑ کر رہے تھے.یورپ کے لوگ جو متمدن لوگ ہیں انہوں نے اس قسم کی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جن کے ممبر فرسٹ ایڈ سیکھتے ہیں یعنی ابتدائی طریق علاج - اگر کسی کو کوئی تکلیف پہنچے یا کوئی حادثہ ہو جائے تو قبل اس کے کہ ڈاکٹر آۓ وہ فوری طور پر کچھ نہ کچھ علاج معالجہ کرتے ہیں.مگر مجھے افسوس آتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس طرح نہیں کرتے.ہماری جماعت کے لوگوں کو سب کاموں میں حصہ لینا چاہئے.مثلا ًکسی کو چوٹ لگے تو اس کی مدد کرنا، ڈوبتے کو بچانا، مصیبت کے وقت امداد دینا ہر جگہ اس قسم کا انتظام ہونا چاہئے.یورپ کے لوگ تو اس قسم کی باتیں محض اپنے نفس کے ماتحت کرتے ہیں پھر کس قدر افسوس ہے اگر مسلمان خدا تعالی ٰسے سن کر بھی یہ کام نہ کریں.مصیبت میں دوسروں کے کام آنا مومن کی شان ہے اور تم کو شش کرو کہ یہ روح تم میں پیدا ہو جائے.
۳۶ ۶.کام کاج اسی طرح کام کاج بھی ایسی بات ہے.یہ بھی ایک قسم احسان کی ہے اور سخاوت سےعلیحدہ ہے.اس سے غریبوں سے مؤانست اور محبت پیدا ہو جاتی ہے.اور ان سے تعلق ہوتا ہے.ایسے کاموں کو انعام سمجھنا چاہیے جیسے جلسہ کے کام کاج ہیں.میں نے اپنے بچے ناصراحمد کو جلسہ کے چھوٹے موٹے کام کرنے کے لئے بھیجاتھاگرچہ افسروں نے اسے دفتر میں لگالیا.میرے خیال میں اسے مہمانوں کو روٹی کھلانے پر لگانا چاہیے تھایا اس سے بھی کوئی ادنٰی کام ہو تو اس پر لگاناتھاپھر وہ ترقی کرتا کر تا آگے بڑھے.بہت لوگ ایسے کاموں سے بچتے ہیں مگر ایسا نہیں کرناچاہیے.ایسے کاموں سے اخلاق پر بہت عمدہ اثر ہوتا ہے اور بہت سی نفس کی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں.کئی امیر ایسے ہوتے ہیں جو روپیہ تو دے دیتے ہیں لیکن کام کاج کرنے کے لئے اگر کہا جائے تو نہیں کر سکتے.آنحضرتﷺ خود دو سروں کے کام کردیا کرتے.صحابہؓ کی زندگیوں میں بھی اس کے بہت سے نمونے ملتے ہیں.پس یہ عادت بھی ڈالو کہ دوسروں کے چھوٹے موٹے کام کردیا کرو.یہ باہم محبت بڑھانے کا بہت عمدہ ذریعہ ہے.۷.مظلوم کی امداد پھر ایک نیکی مظلوم کی امدادہے.رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے.کہ بعض ملک اس لئے تباہ ہو گئے کہ ان میں معلوم کی امدادنہ کی جاتی تھی"-- اور آپؐ نے عیسائیوں کی یہ خوبی بیان فرمائی ہے کہ اگر بادشاہ ظلم کرنے لگے تو اسے روک دیتے ہیں..۸.تہمت كاذبّ ایک نیکی یہ بھی ہے کہ تہمت كاذبّ کیا جائے.یعنی اگر کوئی کسی پر تہمت لگائے تو اس کو ردّ کر دینا چاہئے.یہ بھی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے.اور تہمت کی تائید کرنا پڑا گناہ ہے.سورۃ نور میں مومن کا خاصہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تہمت کا ذبّ کرتا ہے اور کہتا ہے سبحنک ھذا بهتان عظیم ه پس مومن کو حسن ظنی کر نی چاہیے نہ کہ بد ظنی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ حسن ظنی کی کہ جو بات کسی نے سنائی اسے مان لیا اور بیان کرنے والے کو جھوٹا نہ سمجھا مگر ہم کہتے ہیں اس طرح تم نےبدظنی ہی کی.جو شخص موجود نہ تھا اس کے خلاف بات سن کر یقین کرلینا بدظنی ہے.دیکھو زید نے ایک شخص کی شکایت تمہارے پاس آکر کی اور وہ تمہارے پاس موجود نہیں اب اگر تم زید کی بات سن کر اس پر یقین کر لیتے ہو اور جس کے متعلق وہ بات ہے اس کا بیان نہیں سنتے تو یہ بد ظنی ہے اور کسی کا عیب بیان کرنا شریعت کا جرم ہے اس لئے ایسی بات کو مان لینا حسن ظنی نہیں.ایسے موقع پر یہی ضروری ہے کہ
۳۷ جس کا جرم تمہارے نزدیک ثابت نہیں اس کو بری سمجھو اور جو کسی کاعیب بیان کرتا ہے اس کا جرم تمہارے نزدیک ثابت ہے.پس تہمتوں کو دور کر بھی نیکی ہے.تم ہمیشہ تہمت کاذب ّکرواس سے حسن ظنی پیدا ہوتی ہے.۹.خوش چہرہ سے ملنا لوگوں سے خوش چہرہ سے ملنا بھی نیکی ہے اور اس کا بڑا اثر ہوتا ہے.قرآن کریم نے بھی اس کو خاص طور پر بیان کیا ہے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجھ سے مصافہ کرنے والا میرا ہاتھ مروڑ دیتا ہے مگر میں اس وقت بھی مسکراتا ہوں تا کہ اس کو رنج نہ پہنچے.پس یہ ایک ایسی نیکی ہے جس سے دوسری بہت سی نیکیاں پیدا ہوتی ہیں اور بہت سی بدیاں دور ہو جاتی ہیں.۱۰.محبت سے کلام پھرمحبت سے کلام کرنا بھی نیکی ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی کاکام کر دیں گے مگر محبت سے بات نہیں کر سکیں گے ایسے لوگوں کے لئے محبت سے بات کرنا بھی نیکی ہے.بر مکی وزیر کے متعلق ایک شخص لکھتا ہے کہ میرے باپ اور اس کے باپ کی باہمی دشمنی تھی مجھے ایک حاجت پیش آئی چونکہ اس کی داد و دہش عام تھی اس لئے میں بھی اس کے پاس گیا اور اپنی حاجت بیان کی.وہ نہایت تُرش رُو ہو کر اٹھ گیا اور اس نے میری بات بھی نہ پو چھی لیکن میں جب واپس آگیا تو میں نے دیکھا کہ خچریں روپوں سے لدی ہوئی اس نے میرے ہاں بھیج دیں.ان پر اتنا روپیہ تھا کہ قرضہ اتار کر بھی میرے پاس بچ رہا.دیکھو اس نے روپیہ تو بھیج دیئے اور یہ بڑی نیکی کی مگر اس سے محبت کے ساتھ بات نہ کر سکا اور اسلامی نقطہ خیال سے اس نے یہ گناہ کیا.۱۱.دوسروں کے حقوق اور مال کی حفاظت ٍلوگوں کے خون اور مال کی حفاظتکرنا بھی نیکی ہے.عام لوگ اس میں بھی کوتاہی کرتے ہیں اور اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا.مثلا ًکسی کا کھیت جانور چر رہے ہوں اگر کھیت والا وہاں نہیں تو اس کی حفاظت کرنانیکی ہے اور مومن کا فرض ہے کہ اس وقت خود اس کھیت کا مالک بن جائے اور اس کی حفاظت کرے کیونکہ دراصل تو خدا ہی کاہے.۱۲.یتامیٰ اور بیواؤں سے سلوک یہ بھی کی ہے.یتامیٰ سے وہ مراد ہیں جن کے وارث اٹھ گئے ہوں.بندے تو سارے خداہی
۳۸ کے ہیں اس لئے جو یتیم رہ گیاوہ گویا خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ بے نگران ہو کے رہ گیا.پھر کیا خدا کے دوسرے بندے کا جو نگرانی کر سکتا ہے یہ فرض نہیں کہ خدا کے اس بندہ کی جو حفاظت کا محتاج ہے حفاظت کرے؟ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک آقا کے کئی نوکر ہوں اور ایک نوکر اونٹ چراتا ہو مگر وہ موجود نہ ہو تو کیا اس وقت دوسرے نوکر کا فرض نہیں ہے کہ آقا کے اونٹ کی حفاظت کرے؟اس کا فرض ہے کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ جس کےسپرداونٹ تھا اس کے ذمہ اس کی حفاظت ہے بلکہ وہ اپنا یہ فرض سمجھے کہ اس کی حفاظت کرنی ہے.اسی طرح یتامیٰ کی پرورش اور حفاظت ہر ایک مومن کا فرض ہے اور یہ بڑی نیکی ہے.اسی طرح بیوہ عورتوں کی اعانت بھی ضروری ہے.اب میں وہ نیکیاں بیان کرتا ہوں.جو خداتعالی کے متعلق ہیں.خداتعالی ٰسے تعلق رکھنے والی نیکیاں نماز، روزه ،حج،زکوٰۃ اور دین کے لئے چند ه دینا ایسی نیکیاں ہیں جو خدا تعالی ٰکے متعلق ہیں بہت لوگ ان میں سستی کر جاتے ہیں.۱.نماز ٍاس میں ناغہ قطعاً جائز نہیں ہے.اگر کوئی انسان اس میں ایک بھی ناغہ کرتا ہے تو اسے توبہ کر کے نئے سرے سے مسلمان بننا پڑے گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم گھر پر پڑھ لیتے ہیں مگروہی نماز فائدہ دے سکتی ہے جو جماعت کے ساتھ پڑھی جائے.گھر پر نماز پڑھنے والے کو رسول کریم ﷺ نے منافق قرار دیا ہے.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ احمدیوں کے متعلق بھی بعض جگہ شکایت ہے کہ وہ با قاعدہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے.یہاں بھی دو تین شخص ایسے ہیں جو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے ان کے لئے بھی اور باہر کے لوگوں کے متعلق بھی کہا گیاہے کہ سختی سے انتظام کیا جائے اور اگر وہ اپنی حرکت سے باز نہ آئیں تو ان کو اس کی سزا دی جائے.احمدیت سے الگ کرنا اور بات اور جماعت سے الگ کرنا اور بات ہے.احمدیت سے ہم کسی کو نہیں نکال سکتے کیونکہ احمدیت تو ایمانیات اور عقائد سے تعلق رکھتی ہے اور جب تک کوئی شخص ان عقائد کا اقرار کرتا ہے اسے کس طرح نکالا جا سکتا ہے؟ لیکن جماعت سے ہم الگ کر سکتے ہیں اور اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم اعلان کر دیں کہ اس کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں.پس باجماعت نماز کی پابندی کرو اور اسے بہت ضروری سمجھو.
۳۹ ۲- روزه ۳ - حج ۴- چنده اسی طرح روزہ اور حج میں بہت لوگ سستی کرتے ہیں.زکوٰۃ کی ادائیگی میں بھی بہت پابندی نہیں کرتے.چنده بھی سارے اچھی طرح ادا نہیں کرتے.زمینداروں نے تو چند ہ میں اس سال بہت سستی اختیار کرلی ہے ایک ضلع جس نے پچھلے سال چھ ہزار چنده و یا تھااس سال اس نے چار اور پانچ ہزار کے در میان دیا ہے مگر وہ یاد رکھیں ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں.علاوہ آئنده چندہ وصول کرنے کے پچھلا بھی وصول کریں گے.میری نیت یہ ہے کہ جنہوں نے چندہ خاص میں حصہ نہیں لیا ان سے سوایا چندہ وصول کیا جائے کیونکہ انہوں نے تساہل کیا ہے اور تساہل اسی طرح دور ہو سکے گا.حضرت مسیح موعود ؑایک بزرگ کے متعلق سناتے تھے کہ ان سے کسی نے پوچھا.ز کو ٰۃ کتنے مال پر دینی چاہے انہوں نے کہا تمہارے لئے چالیس روپیہ پر ایک روپیہ اور میرے لئے چالیس پر اکتالیس روپے اور یہ اس لئے کہ میں نے کیوں چالیس روپے اپنے پاس جمع کئے.پس جن لوگوں نے وقت پر مطلوبہ چندہ ادا نہیں کیا ان سے اب سوایا لیا جائے گا اور ان کو شوق سے ادا کرنا چاہئے.یہ خدا کے مقرر کردہ فرائض ہیں ان میں کوتاہی کیسی؟ اور تم یہ مت سمجھو کہ تمہارے مال ضائع جاتے ہیں.ایک ایک پائی جو تم دیتے ہو خدا کے بنک میں جمع ہو رہی ہے جو سودد رسود کے ساتھ تمہیں ملے گی.سود کو خدا تعالی ٰاپنی غیرت کے مقابلہ میں لاتا ہے کہ صرف میں ہی غنی ہوں اور میں ہی سود دے سکتا ہوں اور کوئی چونکہ غنی نہیں بلکہ سب فقیر ہیں اس لئے اورکوئی سود نہیں دے سکتا اور اگر کوئی سودی لین دین کرتا ہے تو گناہ کرتا ہے.پس ڈرو نہیں اور گھبراؤ نہیں دو دن قریب ہیں بلکہ دروازہ پر ہیں جب ملک تم کو دیئے جائیں گے اور بادشاہ سلسلہ میں داخل ہوں گے.اس بات کا مجھے کوئی فکر نہیں ہاں ڈر ہے تو اس بات کا کہ وہ لوگ جواب دین کے لئے قربانی کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور چندے دینے میں پیچھے ہیں وہی آگے ہوں گے اور کہیں گے ہمیں بھی ان انعامات میں سے حصہ دو.جیسا کہ رسول کریمﷺ کے وقت میں ہوا.پس خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے فضل آنے والے ہیں اور یقینا وہ آئیں گے اس لئے ان دنوں سے فائدہ اٹھاؤ اور خدمات دین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو.بے شک اپنے مربعے بڑھا.مگر خدا تعالیٰ کے ہاں بھی مربعّے پیدا کرو.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰٰ کے متعلق جو نیکیاں اور اللہ تعالیٰ ٰکے متعلق جو بدیاں بیان کی گئی ہیں.یہ سمجھانے کے لئے کی گئی ہیں ورنہ یہ نہیں کہ ان بد یوں سے خدا تعالیٰ کو کوئی
۴۰ نقصان پہنچتا ہے یا ان نیکیوں سے اس کا کوئی فائدہ ہے یہ سب کچھ بندوں کے لئےہی ہے.محبت الہٰی تیسری چیز جو انسان کے لئے ضروری ہے وہ محبت الہٰی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم خود مرض سے محفوظ رہیں اور دوسرے یہ کہ دوسروں کو محفوظ رکھیں اور ان کے لئے مرض کا سدباب کر دیا جائے کہ اس کے پیدا ہونے کا خطرہ نہ رہے اس کے بعد جو ضروری امر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی محبت پیدا ہو - یہ آئندہ کے لئے برائیوں کا سدباب کردیتی ہے اور روحانی ترقیات کے لئے محبتِ الہٰی کا ہونا ضروری ہے.صرف نماز روزه ہی کافی نہیں بلکہ محبت الہٰی ہونی چاہئے.اور جتنی یہ محبت تیز ہو گی اتنی ہی برائیوں کی آگ سرد ہو جائے گی اور یہ محبت اتنی تیز ہونی چاہئے کہ خدا تعالی ٰکے سوا اور کوئی سامنے ہی نہ آئے اور اس وقت تک صبرنہ آۓ جب تک خدا تعالیٰ کو نہ پالیا جائے.ایک دوسرے کا تعاون مگر یاد رکھو یہ تینوں باتیں اس وقت تک نہیں ہو سکتیں جب تک ایک دوسرے کی مدد نہ کی جائے اور جب تک آپس میں تعاون نہ ہو.اس کی موٹی مثال یہ دیکھ لو کہ جو جذبات انسانوں میں پیدا کئے گئے ہیں وہ جانوروں میں نہیں ہیں.مثلاً ایک گھوڑی کا بچہ جب بڑا ہو جائے تو وہ اپنی ماں سے بلا حجاب کے مل لے گا یا اسے گھوڑی سے علیحدہ کر دو اور کہیں لے جاؤتو چند دن گھوڑی اس کو یاد کرے گی مگر پھر بھول جائے گی.لیکن اگر انسان کا بچہ کوئی لے جائے تو ماں باپ ساری عمر روتے رہیں گے.جیسے حضرت یعقوب ؑحضرت یوسفؑ کو یاد کرتے رہے.مرنے والے بچے کے متعلق ماں باپ ساری عمر نہیں روتے رہیں گے اور اس کے متعلق انہیں صبر آجائے گا کیونکہ سمجھیں گے کہ وہ خدا کے پاس چلا گیامگر جو گم ہو گیا ہو اس کے متعلق روتے رہیں گے کیونکہ خیال کریں گے نہ معلوم وہ کیسی دکھ کی حالت میں ہو.اس قسم کے جذبات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالی ٰنے ایک دوسرے سے تعاون کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے.دینی طور پر اس کی مثال یہ ہے کہ خدا تعالی ٰایک نبی بھیجتا ہے تاکہ لوگوں میں ان کی وجہ سے تعاون کا احساس رکھے.پس یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں.ان کو تم بھی حاصل نہیں کر سکتے جب تک ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو.یہ صحیح ہے کہ انتظامی پابندی پہلے پہل بری لگا کرتی ہے اور تکلیف دہ معلوم ہوتی ہے لیکن
۴۱ جب اس کے عادی ہو جائیں تو نہ صرف یہ کہ وہ تکلیف دہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے فوائد محسوس ہونے لگتے ہیں.دیکھو یورپ کے لوگ متقی نہیں لیکن چونکہ ان کو انتظام اور ضابطہ کی عادت ہوتی ہے اس لئے ہر کام وہ انتظام کے ماتحت کریں گے.اگر سٹیشن پر آئیں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ ایک قطار میں کھڑے ہوتے جائیں گے اور ٹکٹ لینے میں خواہ کتنی دیر کے پہلے کھڑے ہونے والوں سے آگے نہیں بڑھیں گے.ہمارے ہاں چونکہ ان انتظام کے ماتحت کام کرنے کی مشق نہیں ہوتی اس لئے گو وه متقی زیادہ ہوتے ہیں مگر کام میں گڑ بڑڈال دیتے ہیں.وجہ یہ کہ تربیت نہیں ہوتی اور یہ احساس نہیں ہوتا کہ انتظام کی قدر کرنی ہے تو تربیت کا بڑا اثر ہوتا ہے اور یہ بغیر تعاون کے نہیں ہو سکتا اس لئے تعاون ضروری ہے.مگر ایک تعاون بے قاعدہ ہوتا ہے.مثلاً ایک گھر کے سارے آدمی کہہ دیں کہ ہم سب پہرہ دیں گے یہ تعاون تو ہو گامگر بے قاعده اوراس سے فائدہ نہ ہو گا کیونکہ جب سارے کے سارے ایک کام میں لگ جائیں گے باقی کام نہ ہو سکیں سکے لیکن اگر انتظام کے ساتھ تعاون کریں گے تو کوئی کسی کام کو کرنے کا کوئی کسی کو اور اس طرح سب کام ہو جائیں گے.پس تعاون کے لئے ضروری ہے کہ سب مل کر ایک انتظام کے ماتحت ایک دوسرے کی مدد کریں اسی لئے یہاں مختلف محکمے بنائے گئے ہیں اور جب تعاون کیا جائے گا تو اس کے لئے قانون بھی بنانے پڑیں گے اور قانون ابتداء میں برے لگا کرتے ہیں.کیونکہ ان کی وجہ سے بعض ایسی پابندیاں کرنی پڑتی ہیں جن کی طبیعت عادی نہیں ہوتی.تربیت چھوٹی عمرمیں ہو آج میں نے عورتوں میں جو لیکچر دیا ہے اس میں ان کو بتایا کہ بچوں کی چھوٹی عمرمیں ہی تربیت کرو ورنہ بعد میں ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی.اور امریکہ کا ذکر کیا کہ وہاں ایک صاحب مسلمان ہوئے ہیں وہ فوج کے افسرتھےان کے بچے عیسائی ہیں انہوں نے ناصراحمدکو لکھا ہے کہ اگر میرے بچوں کے نام تمہار اخط آئے گاتو ان پر اثر ہو گا تم ان کو خط لکھو اور یہ بھی لکھا ہے کہ میں تمهاری تصویروں کے مطابق نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر ایک جگہ بہت مشکل پیش آتی ہے اور وہ التحیات بیٹھنے کی حالت ہے.میں نے انگریز نو مسلموں کو نماز سکھانے کے لئے جو کتاب لکھی ہے اس میں نماز کی مختلف حالتوں میں ناصر احمد کے فوٹو دیئے گئے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر ان کے مطابق نماز ادا کریں اسی وجہ سے اس نے ناصراحمدکو خط لکھا.جن لوگوں کو بچپن سے اس حالت میں بیٹھنے کی عادت نہیں ہوتی ان کو تکلیف ہوتی ہے.تو کسی بات کا عادی ہونا بھی ضروری ہے.بے شک ابتداء میں غلطیاں بھی ہوتی
۴۲ ہیں اور قانون بھی مشکل نظر آتا ہے مگر اس وجہ سے نظام سے ڈرنا نہیں چاہیے اور انتظام کے ماتحت کام کرنا چاہئے.منتظمین کو ہدایت لیکن جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ لوگ انتظام کی قدر کریں اسی طرح انتظام کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ لوگوں کی مشکلات اور ان کے جذبات کا خیال رکھیں.ہر جگہ امور عامہ کا صیغہ ہو جو لوگوں کی نگرانی رکھے، اشاعت اسلام کا محکمہ ہو ، تعلیم و تربیت کا محکمہ ہو.شروع شروع میں اس انتظام میں دقتیں ہوں گی اور لڑائیاں جھگڑے بھی زیادہ ہوں گے مگر آخر میں انتظام اچھا ہو جائے گا اور کام خوش اسلوبی سے چلنے لگ جائے گا.ججوں کے لئے مشکلات اس وقت تو ججوں کو بعض اوقات فیصلہ میں بھی دقت پیش آتی ہے.کچھ عرصہ کی بات ہے کہ ایک لڑکی کی شادی اس کی ماں نے اس کی نابالغی کی حالت میں کردی تھی بالغ ہونے پر لڑکی نےفسخ نکاح کی درخواست محکمہ قضاء میں دی.اس عورت نے قاضی کے متعلق خیال کر لیا کہ فیصلہ میرے خلاف کرے گا وہ اس کے گھرگئی اور جا کر کہہ دیا کہ مجھے تمہارا فیصلہ منظور نہ ہو گا.جج بھی نیا تھا اس نے کہہ دیا کہ اگر تمہیں میرا فیصلہ منظور نہیں تو میں اس مقدمہ کی تحقیقات میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا اتا - میں نے اسعورت کو بہت سمجھایا کہ جج کر فیصلہ کرنے دو مگروہ یہی کہتی رہی کہ فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہئے یعنی طلاق ملنی چاہئے.فیصلہ تویہی ہونا تھا کیونکہ میرے نزدیک اسی حالت میں لڑکی کو اختیار ہے کہ خاوند کے گھر جانے سے قبل طلاق لے لے.مگر انتظام کا تقاضا یہ تھا کہ فیصلہ ہونے سے قبل اسے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ تمہارے حق میں ہی فیصلہ ہو گا کیونکہ اعلی ٰجج کو حق نہیں ہوتا کہ عدالت ماتحت کے فیصلے سے پہلے اپنے خیالات کا اظہار کر دے تاکہ ان پر اس کی رائے کا اثر نہ ہو.اس پر اس عورت نے اپنے کسی رشتہ دار کو جو غیراحمدی تھاخط لکھا اور اس نے مجھے لکھا کہ تم بڑے ظالم ہو وغیرہ وغیرہ.تو اس قسم کی دقتیں شروع میں ہوتی ہیں مگران کی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.بعض لوگ جوشیلے اور فسادی ہوتے ہیں اور وہ انتظام کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.کچھ مدت کے بعد سب انتظام درست ہو جائے گا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی اس قسم کی وقتیں پیش آجاتی تھیں.ایک دفعہ ایک مسلمان رسول کریم ﷺ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر
۴۳ گیا.آپ نے اس کے خلاف فیصلہ کیا.پھر وہ حضرت عمرؓکے پاس لے گیا اور اس طرح وہ اپنے عمل کے لحاظ سے منافق ہوگیا کہ کہلاتا تو مسلمان ہی تھا.کارکنوں کو نصیحت اس قدر کہنے کے بعد سیکرٹریوں اور دوسرے کارکنوں کو نصیحت کرتاہوں کہ لوگوں سے اخلاق اور نرمی سے پیش آؤ-ہمارے پاس حکومت نہیں ہمیں جو کچھ ملا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام سے ملا ہے اور آپؑ فرماتے ہیں.’’منہ از بہرما کرسی کہ ماموریم خدمت را‘‘ جب حضرت مسیح موعودؑ یہ فرماتے ہیں.تو ہمیں بھی اپنے آپ کو لوگوں کا خادم ہی سمجھنا چاہیے پس افسروں کو چاہئے کہ ان کانفس مومنانہ نہ ہو.میں نے ان لوگوں کی خدمت کے لئے مقرر کیا ہے اس لئے انہیں اپنے بھائیوں کے معاملات پیار اور محبت سے سلجھانے چاہئیں اور اخلاق برتنے چاہئیں.اور دوسروں کو چاہئے کہ اپنے کارکن بھائیوں پر بد ظنی نہ کریں اور انہیں انتظام قائم رکھنے میں مدددیں.خد متِ دین کے لئے کمربستہ ہو جاؤ غرض میں آپ لوگوں سے التجاء کرتاہوں کہ آپس میں بھائیوں کی طرح رہو اور دین کی خدمت کے لے کمر بستہ ہو جاؤ.جو کام ہمارے سپردہو اسے خدا کافضل سمجھو اور یادر کھوخدا ہمارامحتاج نہیں ہمارے کام وہی آئے گا جو ہم یہاں کرجائیں گے.پس اے عزیزو! پھر اس کے کہ خدا کی رحمت کے دروازے بند ہو جائیں ان میں داخل ہو جاؤ.تم کلی طور پر خدا کے لئے ہو جاؤ خدا کے لئے سب کام کرو خدا کے لئے مرو اور خدا کے لئے جیئو - خداتعالی ٰمیرے بھی ساتھ ہو اور آپ کے بھی ساتھ - آمین.۱- الفاتحہ: ۱ تا ۷ ۲- لاخلافة الاعن مشورۃ کنزالعمال جلد۵صفحہ ۶۴۷۸ روایت ۱۴۱۳۶، مطبوعہ حلب۱ ۱۹۷ء ۳.تکملہ مجمع بحار الانوار جلد۴ صفحہ ۸۵ مطبویه مطبع العلى المنشی نو تر ۳۱۴اه ۴- خطبہ الہامیہ ٹائٹل پیج.روحانی خزائن جلد۱۶ ۵- خطبہ الہامیہ صفحہ ۷۳- روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۷۳
۴۴ ۶.خطبہ الہامیہ صفحہ ۶۹،۷۰.روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۶۹،۷۰ ۷.۷.کنزالعمال جلد۱۰صفحہ ۱۳۸ ۱۳۸ روایت ۲۸۶۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱.۸.مسند احمد بن حنبل جلدا صلہ ۲۴۷ پر روایت کے الفاظ یہ ہیں \"عن ابن عباس قال كان ناس من الاسرى يوم بدر له يكن لهم فداء فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم فداء هم ان يعلموا اولاد الانصار الكتابة ۱۰- اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد اسفہ ۳۵۴ مطبوم روت لبنان ۳ام.مسند احمد بن حنبل جلد منم ۲۸.بخاری ابواب المظالم والقصاص باب اعن اخاك ظالما أو مظلوما ۱۳- \"الراشي والمرتشي في النار\" کنزالعمال جلدا مفہ - روایت ۵۰، مطبوعہ طلب ۱۹۷۹ء- لعنة الله على الراشي والمرتشی\" کنزالعمال جلد منی - روایت ۵۰۷۸ منبع حلب ۱۹۷۹ ۱۴- البقرة : ۱۸۹ ۱۵.بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع 12.۱۸- النور : ا -19 ۲۰- آئینہ کمالات اسلام سنہ ۵۵-روانی خزائن جلد۵
۴۵ نجات (تقریر۲۸ دسمبر ۱۹۲۲ء) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسیح الثانی
۴۷ بسم الله الرحمن الرحيم محمد صلی علی رسوله الكريم نجات (تقریر حضرت فضل عرخلیفہ المسیح الثانی فرموده ۲۸ دسمبر۱۹۲۲ءبر موقع جلسہ سالانہ) أشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشیطن الرجيم - بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العلمين الرحمن الرحيم مالك يوم الدين اياك نعبد و اياك نستعين إهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالین – امين قد افلح المؤمنون الذين هم في صلاتهم خاشعون و الذين هم عن اللغو معرضون والذين هم للزكوة فاعلون والذين هم لفروجهم حفظون الا على ازواجهم أو ما ملكت أيمانهم فانهم غير ملومين فمن ابتغى وراء ذلك ، فاولئک هم العدون والذين هم لا منتهم وعهدهم راعون والذين هم علی صلوتهم يحافظون اولئک هم الوارثون الذين يرثون الفردوس هم فيهاخلدون مضمون کی اہمیت میرا ارادہ اللہ تعالیٰ ٰکی تو فیق اور فضل کے ماتبت آن ایک ایسے مضمون پر بولنے کا ہے جو گو اس مضمون کی اہمیت کو ذاتی طور پر نہیں پہنچ سکا جس کے متعلق پچھلے سال میں نے تقریر کی تھی یعنی ہستی باری تعالیٰ کے مضمون کو اور اس سے کوئی مضمون بالا ہو ہی نہیں سکتا مگر اس میں بھی شک نہیں کہ وہ مضمون جس کے متعلق میں آج بیان کروں گا وہ ذات باری تعالیٰ کے مضمون کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے متعلق اہم مضامین میں سے ایک ہے اور اگر خدا تعالیٰ کو الگ کر کے انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو سب سے بڑا مضمون ہے.
۴۸ مسئلہ نجات وہ مضمون کیا ہے؟ وہ نجات کا مضمون ہے.دراصل انسان کو جو سب سے بڑی چیز مطلوب ہے وہ نجات کی ہے.دنیا کی وہ چیزیں جو بڑی شاندار نظر آتی ہیں.اگر نجات نہیں تو کچھ بھی نہیں.مشہور ہے جان ہے توجہان ہے.ایک بیمارجو درد سے تڑپ رہا ہو وہ ستاروں اور جوّپر غور کر کے لطف نہیں اٹھا سکتا، وہ سبزہ زار کودیکھ کرکر حظ نہیں حاصل کرسکتا،وہ مختلف علوم سے دلچسپی نہیں لے سکتا کیونکہ وہ خود دکھ میں ہے.یہی مضمون ہے جو میرے ان اشعار میں سے ایک میں اداکیاگیا ہے جو کل پڑھے گئے ہیں.وہ شعر ہے.: خلق و تکوین جہاں راست پہ سچ پوچھو تو بات تب ہے کہ مری بگڑی بنائے کوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ میں منتا ہوں خدا خالق ہے مگر میرے نقطہ خیال سے زمین و آسان کا بناناتب ہی فائدہ مند ہے جب کہ میری بگڑی بھی وہ بنا دے.اگر یہ نہیں تو زمین و آسمان کابنا نا مجھ پر اثر نہیں ڈال سکتا.تو یہ مضمون جو آگے میں بیان کرنے لگا ہوں ہمارے نقطہ نگاہ سے سب سے اہم ہے.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اسے غور سے سنیں گے کیونکہ وہ ان کی نجات سے تعلق رکھتا اور نجات کے لئے مفید ہے.مضمون کا علمی اور عملی پہلو اس میں شک نہیں کہ جب کسی مضمون کو بیان کیا جاتا ہے تو اس کا علمی پہلو بھی لیا جاتا ہے اور عملی پہلو بھی.عملی پہلو بیان کرنے کی اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی مضمون علمی پہلو بیان کرنے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا.کسی کام کو کرنے کے لئے کئی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایک تو یہ کہ اس کے کرنے کا شوق ہو.ایک ہی کام کو کئی لوگ کرتے ہیں مگر کچھ ہی لوگ اس میں بڑھتے اور امتیاز حاصل کرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو بڑھتے ہیں ان کو اس کام کے کرنے کا شوق ہوتا ہے اور دوسروں کو نہیں ہوتا.جن کو شوق ہوتا ہے وہ پورے طور پر اس کے کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دوسرے ایسا نہیں کرتے لیکن شوق علم کی تکمیل سے ہی پیدا ہوتا ہے.دیکھو جس شوق سے ایک کا لج کالڑ کا پڑھتا ہے سکول کا لڑکا نہیں پڑھتا.عام طور پر کالج کا لڑکا فارغ پھرتا نظر آتا ہے حالانکہ اس کے کورس کی کتابیں حجم کے لحاظ سے سکول کے لڑکے کی کتابوں سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ شوق کی وجہ سے جلدی علم حاصل کرتا ہے بہ نسبت سکول کے لڑکے کے اس لئے وہ فرصت نکال لیتا ہے.
۴۹ پس کسی بات کا شوق پیدا کرنے کے لئے چونکہ اس کے عملی پہلو پر روشنی ڈالنا ضروری ہوتا ہے اس لئے میں اس مضمون کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا.یعنی اس کا علمی پہلو بھی بیان کروں گا اور عملی بھی.درس القرآن کے متعلق اعلان مگر پیشتر اس کے کہ اصل مضمون شروع کروں ایک بات بتانا ضروری سمجھتاہوں اور وہ بھی نجات کاہی حصہ ہے اور وہ یہ کہ اس سال جو احمدیہ کانفرنس ہوئی تھی اس میں اس سوال پر کہ جماعت کو علم کس طرح پڑھایا جائے میں نے کہا تھا کہ ایک ماہ میں پندرہ پارے قرآن کریم کے پڑھادوں گا اور پھر اگلے سال باقی پند رہ پارے پڑھا کر پڑھنے والوں کو اس بات کے لئے تیار کر دوں گا کہ اپنے اپنے مقامات پر درس جاری کر سکیں.اس تجویز کے مطابق اس سال سو کے قریب احباب پڑھنے کے لئے آئے تھے.یہ تعداد بلحاظ اس کے کہ پہلا سال ہونے کی وجہ سے تیاری کا کم موقع ملا بہت کچھ تسلی کا باعث ہے اور جس شوق سے آنے والوں نے پڑھا ہے وہ ایسا تسلی بخش تھا کہ جس سے بہت ہی خوشی ہوئی.میں روزانہ سات گھنٹے کے قریب پڑھاتا تھا.اس کے علاوہ صرف و نحو مولوی سرور شاه صاحب پڑھاتے تھے.میر محمد اسحاق صاحب نے بھی ضروری لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا جو روزانہ ہوتے تھے پھر پڑھنے والوں کا روزانہ امتحان لیا جاتا تھا.جس کا یہ مطلب ہے کہ انہیں سات گھنٹے سبق پڑھ کر پھر اس کو یاد بھی کرنا ہوتا تھا اور اس کے علاوہ اور مضامین کی بھی تیاری کرنی ہوتی تھی.میں نے سنا اور مجھے معلوم ہواہے کہ ان گرمی کے دنوں میں احباب راتوں کو دیر تک سبق یاد کرتے رہتے تھے.اس طرح دس پارے ایک ماہ میں ہو سکے پند رہ نہ ہو سکے مگر میں نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ سال انشاء اللہ بیسں پورے کر دوں گا.اس موقع پر میں نے اس بات کا اس لئے کہ کیا ہے کہ پہلے پر آنے والے احباب یہ بات سن لیں اور ابھی اسے پڑھنے کی تیاری کرلیں.قرآن کریم کے اس طرح پڑے سے جس قدر فائدہ ہو سکتا ہے وہ اور طرح نہیں ہو سکتا.اور بہت لوگ جو کہتے ہیں کہ قادیان کے روزانہ درس سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے ان کے لئے میں نے سال میں ایک مہینہ خاص درس کے لئے رکھ دیا ہے اور اس طرح دو سال کے دو مہینوں میں سارا قرآن ختم کردینے کا انتظام کیا گیا ہے.دیکھو اب یہ کتنی آسان بات ہوگئی ہے.فی الحال اس درس میں شامل ہونے کے لئے میں زیادہ زور انہیں کے متعلق دیتا ہوں جو اس سال آئے تھے وہ اگلے
۵۰ سال بھی آئیں.پھر اس سے اگلے سال اور آئیں.میری نیت یہی ہے کہ ہر سال ایک مہینہ اس طرح درس کے لئے رکھا جائے تاکہ اس طرح آہستہ آہستہ ساری جماعت قرآن کریم پڑھ لے.پھر یہ بھی نیت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چا ہے تواس درس کو شائع بھی کر دیا جائے اس کے لئے نوٹ لکھ لئے گئے ہیں اور ان کی درستی کا کچھ کام شروع کر دیا گیا ہے.کچھ انشاء اللہ جلسہ کے بعدکروں گا اور اس طرح کی حصہ شائع ہو جائے گا مگر اس کے شائع کرنے کا خیال کر کے احباب ہےنہ سمجھ لیں کہ وہ اس کو پڑھ لیں گے اور یہی ان کے لئے کافی ہو گا.دیکھو قرآن کریم بھی موجود ہے مگر لوگ اس کو پڑھ نہیں سکتے.میرے لوٹ قرآن کریم سے بڑھ کر نہیں ہوں گے پھران سے پورا پورا فائدہ کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے.بات یہ ہے کہ جو زبانی پڑھانے کا اثر ہوتا ہے وہ کتاب کے پڑھنے سے نہیں ہوا.پھر زبانی پڑھاتے وقت توجہ اور دعا بھی علم کے ساتھ شامل ہوتی ہے اور ہے اور یہ اثر کتاب میں کم ہوتا ہے.پھرذاتی خیالات کا جو یہ فا ئد ہ ہوتاہے کہ فلاں آدمی کے لئے کون سے سوال حل کرنے چاہئیں اور فلاں کے لئے کون سے وہ نہیں ہو سکتا.پھر پڑھنے والوں کو جو سوال پیدا ہوتے ہیں وہ پیش کرتے ہیں اور ان کو حل کیا جاتا ہے.ان فوائد کو مد نظر رکھ کر دوستوں کو چاہئے کہ درس میں حاضری میں سستی نہ کریں.نجات فطرت انسانی میں داخل ہے اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.پہلی بات نجات کے متعلق یہ ہے کہ نجات فطرت انسان میں داخل ہے اور نجات کی اہمیت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ یہ فطرت انسانی میں موجود ہے اور فطرت میں وہی مسائل داخل ہوتے ہیں جو نہایت اہم ہوتے ہیں تاکہ ان کے متعلق شریعت کا غیر شریعت کا سوال ہی نہ ہو.جیسے ہستی باری تعالی ٰکا خیال بھی فطرت انسانی میں داخل ہے.جن قوموں میں کوئی الہامی کتاب نہیں پائی جاتی ان میں بھی یہ خیال پایا جاتا ہے اور دنیا کی کوئی قوم اس خیال سے خالی نہیں ہے.پس اہم امورہی فطرت میں رکھے جاتے ہیں.نجات کے فطرت میں ہونے کا ثبوت اب یہ سوال کہ فطرت میں کس طرح نجات رکھی ہوئی ہے؟ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس قدر مذاہب ہیں ان کے پیروؤں میں نجات کا خیال کسی نہ کسی رنگ میں پایا جاتا ہے.جس طرف جس گوشہ میں چلے جاؤ خدا تعالیٰ کی ہستی کا خیال پایا جاتا ہے.حبشیوں میں چلے جاؤ تو ان میں بھی یہ خیال موجود ہے.آسٹریلیا میں چلے جاو تو وہاں کے قدیم باشندوں میں بھی یہ خیال پایا جاتا ہے اور میں نے
۵۱ تمام دنیا کے گوشوں کی کتابیں اس بات کومد نظر رکھ کر پڑھی ہیں کہ آیا کوئی علاقہ ایسا ہے جہاں خدا تعالی ٰکے ماننے کا خیال نہیں تو مجھے یہی معلوم ہواہے کہ سب جگہ ہے.نجات کا خیال تمام انسانوں میں پایا جاتاہے اسی طرح تمام علاقوں میں نجات کا خیال پایا جاتا ہے.عیسائیوں کا تو مدار ہی اسی مسئلہ پر ہے.ہندوؤں میں جا کر دیکھو تو وہ اسے مکتی اور مو کھش کہتے ہیں اور اسے ضروری مانتے ہیں.یہودی مذہب کی کتایں جب پڑھتے ہیں تو بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات ضروری ہے انسان کو چاہئے کہ اسے حاصل کرے.گو نجات کالفظ جو عربی ہے وہ نہ ہو مگر اس قسم کے الفاظ کہ خدا کے غضب سے بچنا چاہئے اور اس کا قرب حاصل کرنا چاہتے ضرور پائے جاتے ہیں.پھر ایرانیوں اور زرتشتیوں کی کتابوں میں بھی یہی پایا جاتا ہے.پھر نہایت پر انے مذاہب یعنی مصری اور جاپانی وغیرہ لوگوں میں بھی نجات کا مسئلہ پایا جاتا ہے.سات سات ہزار سال کے پرانے آثار ملے ہیں ان سے پتہ لگا ہے کہ وہ لوگ مردوں کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں اور قیمتی اشیاء اس لئے رکھ دیا کرتے تھے کہ وہ عذاب سے بچ جائیں.گویا نجات کا خیال ادنیٰ سے ادنی ٰمذاہب میں بھی پایا جاتاہے.نجات کا خیال خداکے خیال سے زیادہ پھیلا ہواہے ٍمگر عجیب بات یہ ہے کہ جب اور تحقیقات کرتے ہیں تو خدا تعالی ٰکے وجود کے خیال سے بھی اس کو آگے نکلا ہواپاتے ہیں کیونکہ بعض ایسی قومیں ہیں جنہوں نے خدا کو چھوڑ دیا ہے مگر نجات کو مانتی ہیں کہ یہ ضروری ہے.چنانچہ ہندوؤں میں بدھ اور جینی ایسی ہی قومیں ہیں.بدھ پہلے خدا کے قائل تھے مگر موجودہ بدھ نہیں وہ کہتے ہیں ہمیں نہ یہ پتہ ہے کہ خدا ہے اور نہ یہ کہ خدا نہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے بھی واسطہ نہیں کہ خداہے یا نہیں اصل بات یہ ہے کہ نجات حاصل کرنی چاہئے.گویا انہوں نے خدا کو چھوڑ دیا مگر نجات کو نہیں چھوڑا کیونکہ یہ بات ان کے اپنے دکھوں سے تعلق رکھتی ہے.ان سے بڑھ کر جینی ہیں.وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ خدا کو کی نہیں ہے مگر وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ انسانی روحوں کاسب سے بڑا مقصد نجات حاصل کرنا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ نجات فطرت کا مسئلہ ہے اور ایسے متفقہ طور پر لوگ اسے مانتے ہیں کہ کسی حالت میں ان سے یہ الگ نہیں ہو سکتا.پس جب کہ اس کے متعلق اسی تڑپ لگی ہوئی
۵۲ ہے کہ چاہے کوئی خدا کو بھی مانے یا نہ مانے مگر اس کو ضرور مانتا ہے پھر جو قوم خدا کو بھی مانتی ہو اس کی اس کے حصول کے لئے کتنی ذمہ داری ہے؟ اس زمانہ میں دیوسماجی ایک فرقہ ہے.اور وہ دہریہ ہیں مگر وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی روح ترقی کر جاتی اور اعلی ٰمراتب حاصل کرلیتی ہے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ یورپ کے دہریہ بھی نجات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں.وہ کسی مذہب کے قائل نہیں مگر وہ بھی کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد روح ترقی کرتی ہے اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ مرنے کے بعد روح آرام حاصل کرے.وہ نجات کی تعریف مختلف کرتے ہیں مگر یہ سب مانتے ہیں کہ ہم نجات میں نہیں ہیں اسے حاصل کرنا چاہئے.بدھ کی نجات کے لئے کوشش پرانے زمانے میں نجات کے لئے جو کوششیں کی گئی ہیں ان میں سے ایک عجیب واقعہ ہے جو طبیعت پر بڑاثر کرتا ہے.اور وہ بدہ کا واقعہ ہے بدھ کے معنی ہیں جاگا ہوا اور نیند سے اٹھ بیٹھا.لکھا ہے کہ بدھ راجہ کا بیٹا تھانجومیوں نے اس کے متعلق کہا کہ یا تو یہ بڑا معلم ہو گا یا بڑا بادشاہ ہو گا- (یاد رکھنا چاہنے کے ایسے واقعات میں بات دی جھوٹی باتیں بعد میں مل جاتی ہیں)- اس کے باپ نے سوچا کہ میرا یہی ایک بیٹا ہے میں اس کو معلم نہ بننے دوں بلکہ یہ بادشاہ بنے.اس کے لئے اس نے نجومیوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کو ایسے لوگوں کے ملنے نہ دو جن کا رجحان علم کی طرف ہو- اس پر اس کے باپ نے ایک قلعہ بنایا اور اس میں ایسے نوکررکھے جو ہر وقت خوش و خرم رہیں.ان میں سے اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو اس کو ہٹا دیا جا - اسی طرز پر اس کی پرورش کی اور کوئی غمناک بات اس کے سامنے نہ ہونے دی حتیّٰ کہ وہ جوان ہو گیا اور اس وقت تک اسے کبھی دکھ کا پتہ نہ لگنے دیا گیا (یہ تو مبالغہ ہے اگر دوسروں کے دکھ اسے معلوم نہ ہونے دیئے.تو کیا اس عمر میں اسے خود بھی کوئی دکھ اور تکلیف نہ ہوئی ہوگی؟) آخر کہتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ کو کہا کہ میں اندر رہتے رہتے تنگ آگیا ہوں اور باہر نکلنا چاہتا ہوں.باپ نے اس کی بات کو مان لیانگر نوکروں سے کہا کہ اسے شہر میں نہ لاؤشہر کے با ہرباہر ہی پھیراؤ - ایک امیراس کی رتھ ایک سڑک پر لے گیامگرعجیب بات یہ ہوئی کہ ایک بیمار مسافراسی سڑک پر بیٹھاتھاجس کو لوگ شہر میں نہ رہنے دیتے تھے وہ اس کو ملا- اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ پہلے تو ٹالنے کی کو شش کی گئی مگر اس کے اصرار پر آخر بتایاگیا کہ یہ ایک بیمار ہے جسے شہر سے نکالا گیا ہے.یہ بات سن کر اس پر اتناثر ہوا کہ وہ وہیں سے واپس
۵۳ نجات گھر چلا گیا (معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالی ٰکا ہی انتظام تھا ورنہ اگر اسے عام طور پر مصیبت زدہ لوگوں سے ملنے دیا جاتا تو اس پر اس قدر اثر نہ ہوتا) پھر دوسری دفعہ اس نے باہر جانے کی اجازت حاصل کی اور باہر گیا اس دفعہ اس نے ایک اند ھادیکھا اس سے بھی وہ بہت متاثر ہوا اور دیر تک سوچتا رہا.اسی طرح وہ پھر باہر گیا اور پھر کوئی اور مصیبت زدہ دیکھا.آخر ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک سنیا سی جا رہا ہے اس سے پوچھا تو کون ہے اور کہاں جاتا ہے؟ اس نے کہا میں سنیاسی ہوں اور نجات حاصل کرنے کے لئے جارہاہوں.دنیا میں جو دکھ ہوتے ہیں ان سے بچنے کے لئے دنیا کو چھوڑ کر جا رہا ہوں.اس نے کہا کیوں نہ میں بھی ان دکھوں سے بچنے کے لئے کوشش کروں.اس کے متعلق کچھ عرصہ تک وہ سوچتا رہا.آخر اس کے گھربچہ پیدا ہوا.اس کا اس پر یہ اثر ہوا کہ اس نے کا پہلے تو مجھ پر ہی دکھ تھے اب اس بچہ پر بھی ہوں گے.اسی دن اس نے نوکر کو ایک گھوڑا تیار کرنے کے لئے کیا اور سوتی ہوئی بیوی اور بچے کو پیار کر کے گھر سے باہر نکل گیا.باہر آکر گھوڑا نوکر کو دے دیا اور کہاجا میرے باپ کو کہہ دے کہ میں نجات کی تلاش کو جاتا ہوں.وہاں سے چل کر وہ ایک جگہ جس کا نام راجہ گرہی تھا آیا.یہ ایک مشہور جگہ تھی وہاں بڑے بڑے عالم اکٹھے ہوئے ہوئے تھے وہاں اس نے دیکھا کہ ایک پہاڑی پر کچھ بر ہمن اپنے اپنے علم پڑھاتے ہیں.ایک برہمن سے وہ فلسفہ پڑھنے لگا.پڑھتے پڑھتے آخر اس نے کہا کہ یہ برہمن باتیں تو بہت کرتا ہے مگر مجھے نجات تونہ ملی ان باتوں کا مجھے کیا فائدہ ہے.اس پر اس نے استاد کو کہہ دیا کہ میں اب تجھ سے نہیں پڑھتا اور ایک اور کے پاس چلا گیا وہ صوفی منش آدمی تھاخود عبادت کرتا اور دوسروں کو کراتا تھا.اس کے پاس رہنے لگا اور عبادت کے طریق سیکھے اور پھراورساتھیوں کو لے کر جنگل میں جاکر عبادتیں کرنے لگ گیا.اس قدر عبادتیں اور فاقے کئے یعنی روزے رکھے کہ آخر ایک دن بیہوش ہو کر گر گیا.ایک زمیندار عورت ادھر سے جاری تھی وہ اسے اٹھوا کرلے گئی اور جاکر خدمت کی.آخر اسے ہوش آئی اور اس نے سوچنا شروع کیا کہ میں نے فلسفہ پڑھامگر نجات نہ ہوئی.میں نے عبادت کی مگر نجات نہ ہوئی.کہتے ہیں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے دل کی کھڑکی کھلی.یہ الہام تھا جو اسے ہوا اس میں اسے بتایا گیا کہ ایک درمیانہ راستہ ہے اور اس میں نجات ہے.آخر اس کو تسلی ہو گئی اور اس طرح اس نے نجات کے لئے کوشش کی.(دراصل وہ نبی تھا اور خدا تعالی ٰکا قائل تھا حضرت مسیح موعودؑ کی تحریروں سے بھی معلوم ہوتا ہے) اس کا یہ واقعہ بہت ہی اثر انگیز ہے کہ کس طرح اس کے دل میں نجات کے لئے تڑپ پیدا ہوئی اور اس کے
۵۴ نجات لئے اس نے کیا کیا کوششیں کیں.رسول کریمؐ کے نبوت سے پہلے حالات رسول کریم ﷺ کی زندگی کے حالات نبوت کے بعد کے مصنفوں نے لکھے ہیں لیکن افسوسں کہ نبوت سے پہلے کے حالات نہیں لکھے.اگر وہ حالات لکھتے تو معلوم ہوتا کہ کس طرح آپ ؐکے دل میں تڑپ تھی اور آپؐ کی طرح عبادتیں کرتے اور نہ معلوم ان حالات کا کتنا بڑا اثر ہوتا.یہ شکوہ ہے مجھے پرانے مصنفوں پر کہ انہوں نے رسول کریمﷺکے پہلے حالات نہ لکھے.نجات کیا ہے؟ غرض نجات کا مسئلہ فطری مسئلہ ہے اور ہرشخص چاہتا ہے کہ نجات حاصل کےمگر سوال یہ ہے کہ نجات کیا چیزہے؟ عجیب بات ہے کہ جس طرح ساری دنیا کے فرقوں کا اس امر پر اتحاد ہے کہ کسی چیز سے بچنا چاہئے یعنی نجات حاصل کرنی چاہئے اسی طرح اس امر میں سب کو اختلاف ہے کہ نجات ہے کیا؟ اس سے ایک عظیم الشان بات معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نجات فطری امر ہے مگر اس کا بتاناالہام کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور جوسچا الہام پاۓ گاوہی نجات کی صحیح تعر یف گا لوگ غلط خیالات دورائیں گے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ لوگ نجات کے متعلق کیاکیاغلط خیالات دوڑاتے ہیں.برہمنوں کے نزدیک نجات کی تعریف برہمنوں نے کہاہے کہ بات یہ ہے کہ سکھ دکھ سے انسان بچ کر خدا میں جذب ہو جائے یعنی اس میں شامل ہو جائے.ان کے نزدیک آرام بھی ایک کمزوری ہے اور کمزوری کی وجہ سے آرام کا احساس ہوتاہے.بدھوں کے نزدیک نجات کی تعریف بدھوں کے نزدیک نجات بالکل اورہے، پده اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں جو کھ ہیں ان سے انسان کو بچنا ہوچا ہیے.وہ کہتے ہیں جو نوں میں پڑنے سے چمٹ جانا اور خواہشات کا مٹ جانا نجات ہے.پھر وہ کہتے ہیں ہر ایک خواہش دوزخ ہے اور یہی جونوں کو پیدا کرتی ہے جب یہ نہیں رہتی تو انسان جونوں میں نہیں آتا اوریہی نجات ہے.چینیوں کے نزدیک نجات کی تعریف جینیوں کے نزدیک نجات یہ ہے کہ انسان جو نوں سے چھٹ کراعلیٰ طاقتیں حاصل کرلے.وہ خدا
۵۵ کے قائل نہیں.ان کے نزدیک نجات یہ ہے کہ روح جو نوں سے بچ جائے اور پھر اعلیٰ طاقتیں پیدا کر کے خدا کی مثل ہو جائے.یہودیوں کے نزدیک نجات کی تعریف یہودیوں کے نزدیک بعد الموت عذاب سے چھٹ جانا یا اسی دنیا میں یہوواہ کا عذاب نہ دینا نجات ہے.وہ یہوواہ خدا کو کہتے ہیں.مسیحیوں کے نزدیک نجات کی تعریف مسیحیوں کے نزدیک گناہ کی سزا سے بچ جانا اور گناہ سے جانا نجات ہے.زرتشتیوں کے نزدیک نجات کی تعریف زرتشتیوں کے نزدیک گناہ کی سزا سے بچ جانا ہے.وہ کہتے ہیں جب انسان گناہ کی سزاسے بچ گیا تو اس کی نجات ہو گئی.شنٹو ازم کے نزدیک نجات کی تعریف شنٹو ازم یعنی جاپان کا اصل مذہب ان کے نزدیک گناہوں کی سزا سے بچپنا نجات ہے.یہ چونکہ بہت قدیم مذہب ہے اس لئے اس کی پوری تاریخ معلوم نہیں ہو سکتی مگر ان میں رسم ہے کہ مسلمانوں کی طرح قضاء عمری ادا کرتے ہیں.ہاں ایک فرق ہے کہ مسلمان ایک دفعہ ادا کرتے ہیں اور یہ دو دفعہ.اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ گناہوں کی سزا سمجھتے ہیں ورنہ قضاء کیوں ادا کرتے.جدید فلسفہ یورپ کے نزدیک نجات کی تعریف جدید فلسفہ یورپ کے نزدیک نجات یہ ہے کہ انسان جہالت سے بچ جائے وہ کہتے ہیں انسانی روحیں کوشش کر رہی ہیں کہ جہالت سے نکل جائیں اسی لئے زمانہ ترقی کرتاجارہاہے.اسلام کے نزدیک نجات کی تعریف اسلامی نجات کے متعلق چونکہ آگے بحث ہوگی اس لئے یہاں بیان نہیں کی جاتی.کیا بنی نوع کا مقصد نجات ہے یا اس سے بڑھ کر؟ اب اس امر پر بحث کی جاتی ہے کہ کیا نجات بنی نوع کا مقصدہے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی اور مقصد ہے جس کی تلاش کرتی ہے.میں جب قرآن کریم کو دیکھتا ہوں تو مجھے نجات پر اتنا زور نظر نہیں آتا جتنا ایک اور امرپر اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
۵۶ اسلامی نقطہ نگاہ کی رو سے نجات ادنیٰ ہے اور وہ مقصد اعلیٰ.وہ کیا ہے؟ وہ وہی ہے جو ان آیات میں بتایا گیا ہے جو میں نے ابتداء میں پڑھی ہیں یعنی فلاح – اسلام کہتا ہے اصل کامیابی بچ جانا نہیں اور تکلیف اور دکھ سے بچ جانا کوئی بڑی بات نہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں بڑا بہادر جرنیل ہے جو دشمن سے بچ کر بھاگ آیا.بھاگ آنا بھی کسی موقع پر اچھی بات ہوتی ہے مگر اس سے اعلیٰ بات یہ ہے کہ دشمن کو پکڑ بھی لے.اسلام نجات کی بجائے فلاح بتاتاہے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ صرف نجات کے حصول کی کوشش نہ کرو بلکہ فلاح کے لئے کوشش کرو اور نجات اسی میں آجاتی ہے.کیونکہ جب انسان دشمن کو مار کر اس پر کامیابی حاصل کرے گا تو اس کے حملے سے بھی بچ جائے گا.ایک ایسا شخص جس کو بھوک نہیں وہ اس کی تکلیف سے بچاہوا ہے.مگر ایک ایسا شخص جس نے ایسا کھانا کھایا جس سے جسم نے طاقت حاصل کی تو وہ بھوک سے بھی بچا ہوا ہو گا.تو کامیابی میں نجات آپ ہی آجاتی ہے اسی لئے اسلام نے انسان کا اصل مقصد فلاح کو قرار دیا ہے.ہاں کبھی کبھی نجات کا لفظ فلاح کے لئے بولتے ہیں عام محاورہ کی وجہ سے کیونکہ عام لوگ نجات ہی کالفظ استعمال کرتے ہیں.پس نجات فلاح کے نیچے کا درجہ ہے اور جس کو فلاح حاصل ہوگئی اسے نجات بھی حاصل ہو گئی کیونکہ جو شخص تین سیڑھیاں چڑھ گیاوه دو آپ چڑھ گیا.فلاح کیا ہے؟ اب میں بتاتا ہوں کہ فلاح کیا ہے؟ میں نے اسلام کی نجات کی تعریف نہیں کی کیونکہ اسلام فلاح کو پیش کرتا ہے نجات کو پیش نہیں کر تااس لئے میں اب فلاح کی تعریف کرتا ہوں.اسلام کے نزدیک قلاح یا دوسرے لفظوں میں نجات کیا ہے؟ اسلام کرتا ہے.یہ نجات نہیں کہ تم دوزخ کی سزا سے بچ جاؤ گے بلکہ انسان جس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کو حاصل کرلینا فلاح ہے اور چونکہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ خدا سے ملے اس لئے نجات یہ ہے کہ خدا تعالی ٰکے ملنے کی جو تڑپ اور آگ انسان کے دل میں لگی ہوئی ہے اس سے بچ جاۓ اور خدا تعالیٰ سے مل جائے.انسان کے اندر ایک تڑپ رکھی گئی ہے الست بربكم قالوابلی میں جس کی طرف اشارہ ہے.اس تڑپ کا پورا ہو جاتا اور اس سےبچ جانا نجات ہے.اس تڑپ سے انسان بچ کس طرح سکتا ہے؟ جس طرح عاشق معشوق سے مل کرہی تڑپ سے بچ سکتا ہے نہ کہ
۵۷ کسی اور طرح سے اسی طرح خدا تعالیٰ کو مل کر نجات ملتی ہے.اسلامی فلاح اور ہندوؤں کی نجات میں فرق یہاں ایک شبہ پیدا ہوا ہے اور شاید بعض لوگوں کو پیدا ہوا ہو کہ کیا نجات کی یہ تعریف ہندو مذہب کی نجات سے تو نہیں ملتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہندومذہب نجات کی جو تعریف کرتا ہے وہ فلاح نہیں ہو سکتی کیونکہ ہندوؤں کے نزدیک خدا کاملنا یہ ہے کہ انسان میں کوئی حسں نہ رہے.مگر فلاح کے معنی میں لے لیا اور پالیا اور اس کے لئے حس کی ضرورت ہے کیونکہ جس نے حس کھو دی اس نے تو سب کچھ کھو دیانہ کہ کچھ پایا اس لئے ہندومذ ہب جس امر کو نجات قرار دیتا ہے وہ فلاح نہیں کہلا سکتی.فلاح وہ ہے جو اسلام نے پیش کی ہے کہ سب کچھ پالیا.ہندو مذہب کی نجات توایسی ہے کہ کوئی شخص بیمار ہو اور مرجائے تو کہے لوکالیف سےچھٹی ہوئی.یہ ہندوؤں کے نزدیک نجات ہے مگر ہم یہ نہیں کہتے کیونکہ یہ تو مٹ جانا ہے نہ کہ کچھ حاصل کرنااہم نجات اس کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندر خدا کی طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں.خدا کی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں اور اسے دا ئمی حیات دے دیتی ہیں.یہ دا ئمی نجات ہے فنانہیں.اب آپ لوگوں نے اسلامی نجات کی تقریب سمجھ لی ہو گی اور یہی سب سے اعلیٰ نجات ہے.نجات کی اقسام اب میں یہ بتاتا ہوں کہ نجات کی کتنی اقسام ہیں؟ پہلی قسم کی نجات نجات کی ایک پہلی قسم ہے ہے ادنیٰ کہنا چاہئے اور وہ دنیاوی عذاب سے نجات ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانچ قسم کی نجات ہے.(۱) جسمانی عذاب سے نجات.یعنی ایسی تکلیفوں سے بچ جانا جن کا اثرجسم انسانی پر پڑتا ہے جیسے بیماریاں وغیرہ (۲) دو سری نجات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ مالی مشکلات سے بچ جانا.(۳) تیسری نجات قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے کہ عذاب الهون - یعنی ذلت اور رسوائی کا عذاب جس میں انسان کی عزت پر حملہ ہوتا ہے اس سے بچ جانا.(۴) چو تھی نجات قرآن کریم سے حسرات کے عذاب سے بچ جانا معلوم ہوتی ہے یعنی احساسات کے عذاب سے بچنا.اس میں اور عزت کے متعلق عذاب میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان اپنے خلاف ایک بات دیکھتا ہے مگر اس کو مٹا نہیں سکتا اور اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے.جیسا کہ آتا ہے يوم يعض الظالم على
۵۸ يديه (۵) پانچویں نجات خیالات کی پراگندگی کے عذاب سے بچنا ہے.ایسا انسان کسی بات پر قائم نہیں رہ سکتا.کوئی تکلیف اس کو نہیں ہوتی مگر اس کے خیالات میں اجتماع نہیں ہوتا.دوسری قسم کی نجات دوسری قسم کاعذاب بد عقائد با ضمیر کا عذاب ہے یعنی ضمیر انسان کو ملامت کرتی ہے.ایک بات پر وہ قائم ہو تا ہے اور کہتا ہے کہ یہ یوں ہے مگر اندرسے ضمیر اسے کہتی ہے تو جھوٹ بول رہا ہے.یہ ضمیرکا عذاب ہے اس سے بچ جانا دوسری قسم کی نجات ہے.تیسری قسم کی نجات تیسری قسم کاعذاب قرآن کریم سے گناہ یا بر اعمال کاعذاب معلوم ہوا ہے.اس سے بچ جانا تیسری قسم کی نجات ہے.چوتھی قسم کی نجات چوتھی قسم کا عذاب میلان گناہ کا عذاب ہے.ایک انسان عملاً گناہ نہیں کرتا مگر اس میں میلان گناہ ہوتا ہے.اس کا دل اس قدر مر چکا ہوتا ہے کہ اسے گناہ میں لذت آنے لگتی ہے.یہ میلان گناہ کا عذاب ہے اس سے جانا بھی نجات ہے.پانچویں قسم کی نجات یہ ہے کہ گناہ کے طبعی نتائج سے انسان بچ جائے.طبعی سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو لاٹھی مارتا ہے اس کے دونتیجے نکلیں گے ایک تو یہ کہ دوسرا شخص اس سے لڑے گا اور ایک یہ کہ اس کے ہاتھ کی ورزش ہوگی یہ طبعی نتیجہ ہے.تو گناہ کے میں نتیجہ سے بچ جانا نجات ہے.یعنی انسان ایک گناہ کر تا ہے پھر اس سے آگے گناہ کرنے کی خواہش پیداہوتی ہے اس سے بچ جاتا ہے.چھٹی قسم کی نجات یہ ہے کہ انسان گناہ کے شرعی نتیجہ سے بچ جائے گا مثلاًاس نے چوری کی اور خدا نے کہا اس کا بیٹا مرجائے.یہ شرعی سزا ہے ورنہ چوری کرنے سے بچے کے مرنے کا تعلق نہیں.ساتویں قسم کی نجات یہ قسم نجات کی اصل ہے اور باقی اس کی شاخیں ہیں اور وہ یہ ہے کہ بعد الہٰی سے انسان نجات پا جائے.خدا تعالی ٰکے ملنے کی جو خواہش اس کے دل میں ہے وہ پوری ہو جائے.اس نجات میں سب قسم کی نجاتیں آجاتی ہیں جیسے کہتے ہیں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں اسی طرح اس نجات میں سب نجاتیں شامل ہیں.اسی درجہ میں جا کر انسان تک کے عذاب سے
۵۹ نجات نجات پا جاتا ہے کیونکہ جب انسان نے خدا کو دیکھ لیا تو ہر قسم کا شک وشبہ دور ہوگیا.کیا نجات ممکن ہے؟ یہ سات اقسام نجات کی ہیں.اب میں بتاتا ہوں کہ کیا نجات ممکن ہے؟ یہ سوال انسانی نقطہ نگاہ سے ایک بڑا اہم سوال ہے کہ کیا ایساہو سکتا ہے؟ اس سوال کے دو پہلو ہیں.ایک پہلو تو یہ ہے کہ کیا نجات اس دنیامیں ممکن ہے؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا نجات کسی وقت بھی ممکن ہے؟ پہلے سوال کا جواب ہندو نقطہ خیال سے نفی میں ہے کیونکہ جب وہ جون میں آنے کو عذاب کہتے ہیں تو ان کے نزدیک اس دنیامیں نجات کیسی؟پھر اس لحاظ سے بھی ان کا جواب نفی میں ہے کہ وہ نجات کہتے ہیں دکھ سکھ سے بچ جانے کو مگر یہ تو اس دنیامیں لگے ہی رہیں گے اس لئے ان کے خیال کی روسے اس دنیامیں نجات بھی نہیں ہوسکتی.بدھ نقطہ نگاہ سے بھی اس دنیامیں نجات ناممکن ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں اس جسم سے چھوٹ جانا نجات ہے.اسی طرح جینی کہتے ہیں اس لئے ان کے لحاظ سے بھی اس دنیامیں نجات نا ممکن ہے.زرتشتی نقطہ نگاہ سے اس کا یہ جواب ہو گا کہ یہ سوال ہی عبث ہے کیونکہ نجات تو آخرت کے عذاب سے بچنے کا نام ہے.یہودی نقطہ نگاہ سے یہوواہ کے عذاب سے اس جہان میں جانا ممکن ہے.مسیح نقطہ نگاہ سے نجات کا ایک حصہ اس دنیا میں مل سکتاہے اور ایک نہیں.جو کہ اس دنیا میں مل سکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان گناہ سے بچ جاۓ اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ گناہ کے نتیجہ سے بچ جائے.یہ آگے جا کر ہوگا.اسلام کے نزدیک بھی اس کے دو جواب ہوں گے.اسلامی نقطہ نگاہ سے فلاح کی کئی تعریفیں ہیں ان میں سے کچھ اس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ آئندسے.اسلام یہ کہتا ہے کہ جتنی باتیں اس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں وہ اس دنیا میں حاصل ہو سکتی ہیں اور جو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں وہ وہاں جاکر حاصل ہوں گی.سوال دوم کا جواب یہ ہے کہ سارے مذاہب کہتے ہیں کہ نجات ممکن ہے.یہاں پھر سب مذہب کا اتحاد ہوگیا.اب میں تفصیلی طور پر بیان کرتا ہوں کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے نجات کس کس چیز سے ہو سکتی ہے.
۶۰ نجات (۱) کیادنیوی عذاب سے نجات مل سکتی ہے؟ ہندوستانی نقطہ نگاہ سے (اس سےمراد جینی - بدھ - ہندو وغیرہ ہیں) نہیں ہو سکتی کیونکہ جب تک انسان جون میں ہے وہ عذاب میں رہے گا.یہودی اور عیسائی نقطہ نگاہ سے ہو سکتی ہے مگر اسلام نے اس میں اور بھی وسعت دی ہے اور الگ الگ بتایا ہے کہ دنیا میں دو قانون جاری ہیں.ایک طبعی.مثلاً پانی پیا اور پیاس بجھ گئی اور ایک شرعی کے خدا کا عذاب کسی رنگ میں ظاہر ہو.اسلام کہتا ہے کہ طبعی قانون کے مطابق جو تکالیف انسان کو پہنچتی ہیں وہ عذاب نہیں کیونکہ عذاب میں خدا تعالی ٰکی ناراضگی داخل ہوتی ہے مگر طبعی تکالیف میں خدا کی ناراضگی شامل نہیں ہوتی اس لئے وہ عذاب ہی نہیں بلکہ وہ انسان کے لئے ضروری ہیں جیسا کہ میں آگے چل کربتاؤں گا.طبعی تکالیف کیوں آتی ہیں؟ اسلام کہتا ہے (۱) طبعی تکالیف انسان میں مدارج پیدا کرنے لئے آتی ہیں پس جبکہ وہ تکالیف عذاب ہی نہیں تو ان سے نجات کیسی؟ وہ تو مدارج میں ترقی کے لئے آتی ہیں.اگر وہ تکالیف نہ ہوتیں تو انسان میں مدارج بھی نہ ہوتے.مثلاً سارے انسان محنتیں کرتے ہیں اگر ان کی محنتوں میں فرق نہ ہوتا تو پھر ان کے مدارج کا فرق کس طرح ہوتا؟ ایک عالم ہے اور ایک جاہل-پس مدارج کیوں ہیں؟ ان تکالیف کی وجہ سے ہی تو معلوم ہوا کہ دنیاوی تکالیف عذاب نہیں.جس قدر کوئی زیادہ تکالیف اٹھاتا ہے اسی قدر لوگ اسے بڑا بناتے ہیں پس بعض تکالیف مدارج کی ترقی کے لئے آتی ہیں.(۲) بعض تکالیف طبعی کام کی خلاف ورزی کی وجہ سے آتی ہیں اور عذاب شرعی احکام کی خلاف ورزی کی سزا کو کہتے ہیں.یہ کوئی نہ کہے گا کہ اگر کوئی زیادہ کھانا کھالے تو وہ ایک اور جون میں ڈالا جائے گا.پس جب طبعی قانون کی خلاف ورزی عذاب نہیں تو اس کے لئے نجات بھی نہیں.(۳) عذاب وہ ہوتا ہے جس سے انسان چاہتا ہے مگر بعض طبعی تکالیف تو ایسی ہوتی ہیں کہ خود انسان ان کو چاہتا ہے.جیسے ماں بچہ کو لے کر رات کو کھڑی رہتی ہے اس کو کہو کہ سوجاتو اگر وہ مہذب نہیں تو جھاڑو لے کر پیچھے پڑ جائے گی کہ مجھے بچہ کو آرام پہنچانے سے روکا جاتا ہے یا دیکر مجمعوں میں لوگوں کو تکالیف پہنچتی ہیں.یہاں ہی دیکھ لو کس طرح پچکے جاتے ہیں.کیا اس وجہ
۶۱ نجات سے بھاگ جاتے ہیں؟ پس عذاب وہ ہوتا ہے جس کو انسان ہٹانا چاہتا ہے مگر دنیا کی بہت کی ایسی تکلیفیں ہیں کہ جن کو انسان خودلینا چاہتا ہے اور ان سےہٹنانہیں چاہتا.کسی موجد سے کہو تم کیوں مصیبت میں مبتلاء ہو تکالیف اٹھا کر ایجادیں کر رہے ہو؟ کیا اس بات سے وہ محنت کرنا چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ چھڑانے کی تحریک کرنے والے کو جاہل کہے گا کیونکہ اس کو اس تکلیف میں بھی مزا آرہا ہو تا ہے.جب یہ صورت ہے تو پھر طبعی تکالیف کو عذاب کس طرح مان لیا جائے.پس ان کو عذاب نہیں کہہ سکتے.ایک اعتراض کا جواب اس جگہ ایک اعتراض پڑ سکتا ہے اور وہ یہ کہ یہ بھی تو عذاب ہے کہ کاموں میں کامیابی کے حصول کے لئے تکلیف رکھ دی گئی ہے اور چونکہ کام کرنے ضروری ہیں اس لئے انسان ان تکالیف کو بھی بُھگت رہا ہے.مگر یہ اعتراض درست نہیں.کیوں؟ اس لئے کہ اگر یہ دقتیں اور تکلیفیں نہ ہوتی تو محبتیں بھی نہ ہوتیں.اگر ماں کو بچہ کی پرورش کی تکلیف نہ ہوتی تو ان میں محبت بھی نہ ہوتی.پس یہ تکالیف تو محبت اور موانست کے بڑھانے کے لئے ہیں.پھر اگر علم کے حصول میں محنت نہ ہوتی تو لوگوں کے مختلف مدارج کس طرح ہوتے؟ مارکونی اور ایڈیسن کو جو شہرت حاصل ہے وہ کس طرح ہوتی؟ایک چوہڑہ بھی ایساہو تا جیسے وہ ہوتے.پھر اگر زندگی کو دیکھا جائے تو یہ نام ہی ہے چند تکالیف کے اٹھانے اور ان سے ثمرات حاصل کرنے کا.پس جس چیزکانام زندگی ،مزا اور لطف ہے اس کو عذاب کس طرح کہا جاسکتا ہے؟ پس وہ تکالیف ہیں.مگر عذاب نہیں ہیں.پھر بعض دنیاوی تکالیف شرعی قانون کے ماتحت آتی ہیں.عربی میں ان کو ابتلاء کہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ابتلاء برے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے اس لئے میں ان تکالیف اور ابتلاؤں کو الگ الگ کردیتا ہوں.ایک قسم کی تکالیف انعام کے طور پر آتی ہیں اور ایک قسم کی عذاب کے طور پر.چنانچہ دیکھ لو مختلف قوموں کے جتنے بڑے بزرگ گذرے ہیں ان کی زندگیاں مشکلات میں ہی گزری ہیں.ہندو کہتے ہیں اس دنیا کی مشکلات عذاب ہیں.ہم کہتے ہیں حضرت کرشنؑ اور رام چندرؑ تو پاک اور نیک انسان تھے ان کو دوسروں کی نسبت کیوں زیادہ تکالیف اٹھانی پڑیں؟ ان کو تو بالکل نہیں ہونی چاہئیں تھیں مگر ماننا پڑے گا کہ دنیا کی تکالیف بزرگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ اٹھانی پڑتی ہیں اور یہ عذاب نہیں ورنہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ وہ سب سے زیادہ
۶۲ نجات مغضوب تھے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ سب سے زیاده ابتلاء نبیوں پر آتے ہیں.اور رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی زندگیوں سے معلوم ہواہے کہ یہی درست ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی بات ہے کہ ان کے لئے تکالیف انعام کا باعث تھیں اور مخالفین پر جو تکلیفیں آئیں وہ عذاب تھیں.مصائب بطور انعام اب یہ سوال ہو گا کہ مصائب انعام کس طرح ہوسکتی ہیں؟ اس کے متعلق یاد رکھا جائے کہ مومنوں پر مصائب کے آنے کی چار غرضیں ہوتی ہیں.(۱) جب کوئی مصیبت مومن پر آتی ہے تو اس لئے کہ مومن کو اپنے ایمان کا پتہ لگ جائے.شاید بہت سے لوگ حیران ہوں گے کہ اپنے ایمان کا اپنا اپنے آپ کو لگنے کا کیا مطلب ہوا؟ اس کو تو ہرانسان جانتا ہے مگر جب میں بتاؤں گاتو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسی کی بات ہے اس کے لئے میں ایک قصہ سناتاہوں جو پہلے بھی کئی بار سنایا گیا ہے.ایک عورت جس کانام محسنی تھا.اس کی لڑکی بیمار تھی.ماں اس کے لئے دعا کرتی رہی کہ یہ بچ جاۓ اور اس کی بیماری مجھے لگ جائے اور میں مرجاؤں.ایک دن رات کے وقت گائے کھل گئی اورایک برتن میں اس نے منہ ڈالا جس میں اس کا سرپھنس گیا.وہ برتن کو اٹھائے اندر گئی اسے دیکھ کر اس عورت نے سمجھا کہ یہ ملک الموت جان نکالنے کے لئے آیا ہے.یہ خیال کر کے وہ کہنے کی ”ملک الموت من نہ محسنی ام من کے پیرزال محنتی ام» - اے ملک الموت میں محسنی نہیں ہوں میں تو ایک بڑھیا مزدوری پیشہ ہوں.پھر لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ محسنی وہ لیٹی ہے.لیکن میری جان نہ نکال اس کی نکال لے.وہ پہلے تو اپنی محبت کے تقاضا سے دعا کرتی رہی کہ اس کی بجائے میں مرجاؤں لیکن جب اس نے سمجھا کہ وقت آگیا.تو ہمت ہار گئی اور اسے معلوم ہوا کہ اس کی محبت سچی نہ تھی بلکہ جھوٹی تھی.میں اس کے متعلق ایک عام اور موٹی مثال دیتا ہوں.لڑائی کی خبریں اخبار میں پڑھتے وقت ہر انسان سمجھتا ہے کہ اگر میں لڑائی میں ہوں تو اس طرح بہادری دکھاؤں اور اس طرح دکھاؤں.لیکن خبروں کو سن کر اپنی بہادری کے خیالی پلاؤ پکانے والے لوگوں میں سے ہی بھرتی ہو کر لوگ جنگ میں جاتے ہیں اور وہاں ان کی حالت الٹ ثابت ہوتی ہے.بات یہ ہے کہ انسان کو بعض اوقات اپنا نفس دھوکا دے رہا ہوتا ہے.اور جب وقت آتا ہے تو حقیقت کھل جاتی ہے.
۶۳ نجات مشہور ہے کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو بڑا بہادر سمجھتا تھا اپنی کلائی پر شیر کی تصویر گدوانے لگا.جب گودنے والے نے گودنا شروع کیا.اور اسے تکلیف ہوئی تو کہنے لگا.کیا گود رہے ہو؟ اس نے کہاشیر کی دم گود رہا ہوں.کہنے لگا اگردم نہ ہو.تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟”اس نے کہاہاں شیرتو رہتا ہے.کہنے لگا اچھا اس کو چھوڑ دو اور آگے گودو - پھروه کان گودنے لگا تو اس نے پوچھا گیا گودتے ہو؟ اس نے بتایا.کہنے لگا کان نہ ہوں تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ گودنے والے نے کہارہتاہے.کہنے لگا اچھا اسے بھی جانے دو اور آگے گودواس طرح جو عضو گودنے لگتا اس کے متعلق یہی کہہ کر چھڑا دیا اور آخر بغیر گدواۓ اٹھ کر چلا گیا.یہی حال عام انسانوں کا ہوتا ہے.ایک شخص سمجھتاہے کہ میں بڑا پکامومن ہوں.اور یہ وہ بناوٹ ہے اور جھوٹے طور پر نہیں کہتا بلکہ اس کو یقین ہو اہے اور وہ دل سے کہہ رہا ہوتا ہے مگر جب وقت آتا ہے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ میرا دعویٰ درست نہ تھا.بائبل میں آتا ہے کہ حضرت مسیحؑ نے ایک شخص کے متعلق کہایہ مجھے دشمنوں کے ہاتھوں میں پکڑائے گا.یہ سن کر وہ شخص رو پڑا مگر تھوڑی دیر کے بعد چند روپے لے کر اس نے پکڑوا دیا..گویا جب روپے اس کے سامنے آئے تو اسے اس سے محبت کی حقیقت معلوم ہوئی جو وہ حضرت مسیحؑ سے رکھتا تھا.پس خدا تعالیٰ ابتلاء کے ذریعہ انسان کو بتاتا ہے کہ تیری کیا حالت ہے اور جب مومن پر مشکل گھڑی آتی ہے اور اسے اپنے اندر کسی قسم کی کمی اور کمزوری معلوم ہوتی ہے تو وہ اس کے دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے.جیسے مثلاً چنده خاص کی تحریک سے جو اس میں حصہ لینے کے متعلق اپنے دل میں قبض محسوس کرے وہ اس کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جائے.یہ ادنیٰ درجہ تھاجب مومن اس سے اوپر ترقی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو تکالیف میں ڈال کر دوسروں کود کھانا چاہتا ہے کہ دیکھو میرا یہ بندہ کیسا صابر اور کیسا شکر گذار ہے.حضرت ایوبؑ کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ شیطان نے خدا سے کہا کہ تیرے بندے نافرمان ہیں.خدا تعالیٰ نے کہاایسا نہیں ہے.شیطان نے کہا جن پر تو انعام کرتا ہے وہ اس انعام کی وجہ سے تیری نافرمانی نہیں کرتے.ورنہ دراصل وہ شکر گزار اور فرمانبردار نہیں ہیں.خدا تعالیٰ نے کہا دیکھ میرا بندہ اب ایسا نہیں ہے.شیطان نے کہا مجھے اس کا امتحان لینے کی اجازت دیجئے میں اس سے تمام انعام چھین لوں ھپر معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیسا ہے.خدا تعالیٰ نے اجازت دے دی اور ان کا سب عیال و اموال مرنے اور تباہ ہونے لگا.جانورمال وغیرہ اور اولاد سب تباہ و
۶۴ نجات گئے اور مرگئے مگر وہ خدا تعالیٰ کی حمدہی کرتے رہے.آخر ان کا جسم بھی تکلیف میں مبتلاء ہوگیامگر پھر بھی ان کی زبان سے ناشکری کا محکمہ نہ نکلا.یہ ایوب ؑکا واقعہ اس امر کی مثال کے طور پربیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی بندہ کو ابتلاء میں اس پر اس کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں پر اس کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے ڈالتاہے.غرض خدا تعالی ٰدنیا میں لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ میرے بندے منہ سے ہی شکرگذاری نہیں کرتے بلکہ ہر حالت میں شکر گزار ہوتے ہیں اپنے پاک بندوں پر ابتلاء لاتا ہے.تیسری غرض ایسی مشکلات کی مدارج کی ترقی ہوتی ہے.ابتلاء اس لئے نازل ہوتا ہے کہ بنده کو خواہش ہوتی ہے کہ نیکی کا کام اور تو رہا نہیں اب میں کیا کروں؟ خدا تعالیٰ اس پر ابتلاء نازل کر کے اس کے لئے کام نکالتا ہے اور اس وجہ سے اس پر تکلیف آتی ہے.چوتھی غرض ان مشکلات کی یہ ہوتی ہے کہ ان کے ذریعہ اس بندے خدا تعالیٰ اپنی محبت اور تعلق کا اظہار کرتا ہے.یہ آپ لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گی مگرہے یہ سچی بات – خدا تعالیٰ دشمن کو چھوڑ دیتا ہے کہ میرے فلاں بندے کو دکھ دیتا جا جب وہ بہت بڑھ جاتا ہے تو اس وقت اس کو پکڑ لیتا ہے.مثلاً ابو جہل رسول کریم ﷺ کو دکھ دیتاجب اتنا بڑھ گیا کہ لوگوں نے یہ خیال کرنا شروع کردیا کہ محمد ﷺ کچھ نہیں کر سکتا تو اس وقت خداتعالی ٰنے ابو جہل کو پکڑ لیا اور بتا دیا کہ اس طرح خدا کے محبوب کا مقابلہ کرنے والا تباہ ہوا کرتا ہے اور اس طرح جس شان سے ابو جہل پر عذاب آیا اگر مخالفت کے پہلے دن ہی ابو جہل کو مارا جاتا تو یہ شان ظاہر نہ ہوتی.ابتلاءاور عذاب میں فرق اب میں یہ بتاتا توں کے عذاب اور ابتلاء میں کیا فرق ہے.(۱) عذاب کا نتیجہ ہلاکت اور تباہی ہوتی ہے مگر ابتلاء کا یہ نتیجہ نہیں ہوا.تکلیفیں تو دونوں طرح ہی آتی ہیں.رسول کریم ﷺکے متعلق ہی دیکھ لو بار ہاایسا ہوا ہے کہ آپ دشمن کے نرغے میں اکیلے پھنس گئے مگر پھر اللہ تعالیٰ ٰنے آپ کو بچالیا مگرابوجہل ایک ہی دفعہ فوجوں سمیت ابتلاء میں ڈالا گیا لیکن ہلاک ہوگیا اور زندہ نہ نکل سکا.(۲) عذاب کے نتیجہ میں نقصان کی زیادتی ہوتی ہے اورابتلاء میں نفع کی زیادتی ہوتی ہے.ابتلاء کی مثال توایسی ہوتی ہے جیسے ربڑ کے گیند کو جتنے زور سے پھینکا جائے وہ اتناہی اونچااٹھتاہے مگر عذاب میں انسان گر کر اوپر نہیں اٹھ سکتا.
۶۵ نجات (۳) عذاب بھی انسان پر نازل کیا جاتا ہے اس کے دل میں مایوسی اور گھبراہٹ ہوتی ہے مگر جس پر ابتلاء نازل ہوتا ہے اس کے دل میں اطمینان اور تسلی ہوتی ہے.جب عذاب نازل ہوتا ہے تو مغضوب کہتا ہے ہائے میں ہلاک ہو گیایا اگر وہ اس ابتلاء سے گھبراتا نہیں تو اس کے دل میں کبر اور خود پسندی کے جذبات جوش مارنے لگتے ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے کون ہلاک کر سکتا ہے؟ لیکن جب ابتلاء آتا ہے تو انسان کہتا ہے کوئی پرواہ نہیں میں کمزور اور بے کس ہوں لیکن میرے بچانے والا طاقتور ہے اور وہ خدا تعالی ٰپر یقین میں اور بھی ترقی کر جاتا ہے اور خدا تعالی ٰپر اس کی حسن ظنی بہت بڑھ جاتی ہے.(۴) عذاب کے دور کرنے کی انسان جب کوشش کرتا ہے : ٹھوکریں کھاتا جاتا ہے مگر جس پر ابتلاء آتا ہے اس کا فہم رسا ہو جاتا ہے اور وہ بات کو خوب سمجھنے لگ جاتا ہے.رسول کریم ﷺکے متعلق ہی دیکھ لو کفار آپؐ کا کھوج لگاتے لگاتے غار حرا تک پہنچ گئے اور وہاں جاکر کھوجی نے کہہ دیا کہ یا تو وہ آسمان پر چلا گیا ہے اور یا یہیں ہے.ان میں کھوجی کی بات کا بڑ الحاظ کیا جاتا تھا اس لئے رسول کریم ﷺ کی جان اس وقت سخت خطرہ میں تھی مگر رسول کریم ﷺ کو ذرہ بھی گھبراہٹ نہ ہوئی.آپﷺ نے باوجود اس کے کہ آپ ﷺکی جان کفار کو اصل مطلوب تھی اور ابو بکرؓ کو صرف اس لئے تلاش کرتے تھے کہ وہ آپ کی مدد کرتے تھے.آپ ﷺنے ابوبکرؓ تسلی دینی شروع کی اور کہاکہ لاتحزن ان الله معنا \"ڈرو نہیں الله تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اسی طرح کلل ہی میں نے سنایا تھا آپؐ سوئے ہوئے تھے کہ ایک کافر نے آپ کی تلوار اٹھالی اور آپ کو قتل کرنا چاہا لیکن آپؐ ذرا بھی نہ گھبرائے اور اس کے سوال پر کہ اب آپؐ کو کون بچا سکتا ہے؟ نہایت تسلی سے جواب دیا کہ ”الله - اس غیر معمولی حالت اطمینان کو دیکھ کر اس کافر پر اس قد ردہشت طاری ہو گی کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی.(۵) پانچواں فرق یہ ہے کہ ابتلاء میں انسان کو احساس بلاء نہیں ہوتا جب ابتلاء آتا ہے تو انسان ان تکالیف کو حقیر سمجھتا ہے اور ان میں لذت محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کے دل میں خیال ہوتا ہے کہ میں ادنیٰ چیز کو اعلی ٰپر قربان کر رہا ہوں.مثلا ًاگر اس کا مال جاتا ہے تو کہتا ہے خدا کے لئے ہی جاتا ہے اس لئے کیاپرواہ ہے.یا اگر اس کا بیٹا مرجاتا ہے تو کہتا ہے خداہی کے لئے ہے اس کا کیا غم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی ایک واقعہ ہے مبارک احمد سے آپ ؑکو بڑی محبت تھی اور اس کی بیماری میں آپ نے بڑی تیمارداری کی.اس سے حضرت خلیفہ اول تک
۶۶ نجات کو بھی یہ خیال تھا کہ اگر مبارک احمد فوت ہو گیا تو حضرت مسیح موعودؑ کو بڑاصدمہ ہو گا.آخری وقت حضرت مولوی صاحب اس کی نبض دیکھ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو کہا مشک لائیں اور چونکہ اس کی نبض بند ہو رہی تھی.آپ اس خیال کا کہ اس کی وفات سے حضرت مسیح موعود ؑکو بہت صدمہ ہو گا اس قدر اثر ہوا کہ آپ کھڑے کھڑے زمین پر گر گئے مگرجب حضرت مسیح موعودؑ کو معلوم ہوا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے اسی وقت نہایت صبر کے ساتھ دوستوں کو خطوط لکھنے لگ گئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے مگر اس امر پرگھبرانا نہیں چا ہیے یہ اللہ تعالیٰ کی ایک مشیت تھی جس پر ہمیں صبر کرنا چاہئے اور پھر باہر آکر مسکرا مسکرا کر تقریر کرنے لگے کہ مبارک احمد کے متعلق خدا تعالیٰ کاجو الہام تھاوہ پورا ہو گیا.چنانچہ آپ کا شعربھی ہے.بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر غرض ابتلاء میں دکھ کی حقیقت معلوم ہوتے ہوئے اس کا اثر قلب پر ہمت شکن نہیں ہوتاکیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ میں ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کر رہا ہوں.بعض اوقات سخت عذاب میں بھی احساس تکلیف مٹ جاتا ہے مگر یہ اختلال حواس کی وجہ سے ہوتا ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے ایک عورت دکھائی اور اس سے پوچھا تمهارے فلاں رشتہ دار کا کیا حال ہے؟ اس نے ہنس کر بتایا وہ تو مرگیا ہے.اس طرح ایک دو اور رشتہ داروں کے متعلق پوچھا اور وہ ہنس ہنس کر بتاتی رہی- وہ معرفت کے لحاظ سے اس طرح نہیں کرتی تھی بلکہ اس کو بیماری تھی اس میں غم محسوس کرنے کی حس ہی باقی نہ رہی تھی.(۱۶) چھٹا فرق یہ ہے کہ عذاب میں روحانیت کم ہو جاتی ہے مگر ابتلاء میں زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ عذاب میں خدا تعالیٰ سے دوری ہو جاتی ہے مگر ابتلاء میں اور زیادہ توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے.یہ موٹے موٹے چھ فرق ابتلاء اور عذاب میں ہیں.پس یہی ہے کہ دنیاوی تکالیف سے بھی نجات ملتی ہے مگر یہ غلط ہے کہ سب دنیاوی تکالیف عذاب ہوتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ کچھ کالیف عذاب ہوتی ہیں کچھ طبعی نتائج ہوتے ہیں اور کچھ انسان کی روحانیت کی ترقی کے لئے ہوتی
۶۷ نجات طبعی تکالیف سے نجات تکالیف دنیاوی کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ طبی تکالیف سے نجات نہیں ہوسکتی.مثلاً یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان تپ وغیرہ سے بچ جائے ہاں کبھی جب یہ طبعی تکالیف بہت بڑھ جاتی ہیں تو اس وقت اگر انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھکے تو خدا ان سے بھی نجات دے دیتا ہے مگر یہ کلی طور پر نہیں ہوتا بعض میں ہو سکتاہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وإذا سالک عبادی عتی عنی فانی قريب أجيب دعوة الداع اذا دعان.’’ کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.لکل داء دواء.کہ ہربیماری کی دوا ہے تو یہ تکالیف دعاسے بھی دور ہو جاتی ہیں اور علاج سے بھی.کیا ضمیر کے عذاب سے نجات ہو سکتی ہے اب یہ سوال ہو سکتاہے کہ کیا ضمیر کے عذاب سے بھی نجات مل سکتی ہے؟ یہ ایک ایسی بات ہے کہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کرنے والی ہے.دوسرے مذاہب اس عذاب کو پیدا کرتے ہیں مگر اسلام اس کو دور کرتاہے.مثلاً عیسائیوں میں کفارہ کا مسئلہ ہے اور آریوں میں نیوگ کا مسئلہ - ان مسائل کی وجہ سے جو جلن ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے وہ ان کے مذہب نے پیدا کی ہے اور اسلام ان مسائل کی تردید کر کے اس جلن کو دور کرتا ہے.اسلام اس کے لئے ایسا علاج کرتا ہے کہ کہتا ہے دوسروں سے جا کر پوچھ لو کہ میں اپنے ماننے والوں کو کیسا آرام دیتا ہوںر بمايود الذين كفروالو كانوا مسلمين..بہت دفعہ کافر اپنے دلوں میں حسرت کرتے ہیں کہ کاش وہ ان مسائل کے ماننے والے ہوتے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہو جائیں اس سے انہیں کون روکتا تھا ؟بلکہ یہ یہ مطلب ہے کہ وہ خواہش کرتے تھے کہ کاش یہ عقیدے جو مسلمانوں کے ہیں ہمارے ہوتے.وہول میں کڑھتے تھے کہ ہمارے مذہب کی ایسی تعلیم کیوں نہ ہوئی جیسی اسلام کی ہے.مثلاً آریہ کہتے ہیں کہ نیوگ کی تعلیم اگر ویدوں کی بجائے قرآن میں ہوتی تو ہم مسلمانوں کی کیسی خبر لیتے اور آج جو اعتراض میر قاسم علی صاحب ہم پر کرتے ہیں وہ ہم ان پر کرتے.تو قرآن کریم اس ضمیر کے عذاب سے بھی نجات دلاتا ہے.پادری فنڈر جو اسلام کا سخت دشمن تھا.حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا ایک حوالہ دیا ہے اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے دل میں کیسا کڑھتا تھا.وہ کرتا تو اسلام پر حملہ ہے مگر لکھتا ہے کہ جہاں عیسائیت نہیں پہنچی وہاں کے لوگوں سے اگر خدا پوچھے گاتویہی پوچھے گا کہ تم نے اسلامی خدا کو کیوں نہیں مانا؟ کیونکہ عیسائیت کا
۶۸ نجات خداان کی سمجھ سے باہر تھا.بد اعمال سے نجات اب یہ سوال ہے کہ کیا بد اعمال سے بھی نجات ہوتی ہے یا نہیں؟ سوائے اسلام کے سب مذاہب عملاً اس نجات کے منکر ہیں.عملاًلفظ میں نے اس لئے کہا کہ بعض مذ اہب قولاً تو اس امر متفق ہیں مگر عملاًنہیں.مثلاًمسیح حضرت مسیح ؑ کو پاک کہتے ہیں مگر ان سے پہلے نبیوں کو پاک نہیں کہتے بلکہ ناپاک کہتے ہیں.مگر مسیح توان کے نزدیک خدا کا بیٹا تھا نہ کہ انسان اس لئے ان کے نقطہ خیال سے کوئی انسان بھی پاک نہ ہواپس معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک کوئی انسان اس دنیا میں گناہوں سے نجات نہیں پاسکتا.مگر اسلام ایک انسان کو پیش کرتا ہے اور ایک کو ہی نہیں ہزاروں لاکھوں کو پیش کرتاہے اور گناہوں سے نجات کے تین مدارج مقرر کرتا ہے.اسلام رسول کریم ﷺکے متعلق کہتا ہے کہ لوگوں کو کہہ دے فقدلبثت فیکم عمرا من قبله افلا تعقلون.رسول کریم ﷺکا یہ دعوٰی مخالفین کے سامنے پیش کرتا ہے کہ اے محمد ؐ! ان کو کہہ دے کہ میں تم میں ہی پیدا ہوا تم میں ہی جوان ہوا اور تم میں ہی بڑھاپے کو پہنچا تم ہی بتلاؤ کیا تم میرا کوئی عیب پکڑ سکتے ہو؟ پھر اگر رسول کریم ﷺ کی یہی حیثیت ہوتی کہ آپ ؐنے کوئی گناہ نہ کیا ہوتا اگر آپ ؐکی نیکیاں بھی نہ ہوتیں تو وہ کہہ دیتے کہ ہمیں کیا پتہ ہے تم پہلے کیسے تھے ہم تمہارے گناہ تلاش نہیں کرتے رہے مگر رسول کریم ﷺ کا وجود ان کے سامنے نمایاں تھا اور آپؐ کی نیکیوں کے وہ قائل تھے اس لئے کچھ نہ کہہ سکے.یہاں سے ایک شخص محمد نصیب پیغامیوں میں چلا گیا ہے اس نے لکھا کہ میں نے اتنی عمر قادیان میں گزاری ہے کیا کسی کو میرے گناہ کا پتہ ہے؟ ہم کہتے ہیں یہاں تمہاری ہستی ہی کیا تھی کہ کسی کو تمہارے عیب کی طرف توجہ ہوتی.یوں تو ایک چوہڑا بھی اٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ کوئی میراعیب تو بتاو؟ تو اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا.بلکہ آپؐ یہ فرماتے ہیں کہ میری ایسی نمایاں زندگی تھی کہ نہ صرف یہ کہ میں گناہوں سے بچا بلکہ میں نے ایسے اعلیٰ کام کئے اور زندگی کا ایساپا کیزه نمونہ دکھایا کہ تم خود اعتراف کرتے ہو.گناہوں سے پاک ہونے کی دوسری مثال حضرت ابراہیمؑ کی بیان کرتا ہوں.قرآن کریم میں آتا ہے ماکان ابراهيم يهودیا ولانصر انیاولكن كان حنیفا مسلماخدا کی طرف جھک گیا اور ایسا جھکا کہ بائبل کی روسے مسیح کا تو شیطان امتحان لینے کے لئے گیا.مگر ان کے
۶۹ نجات پاس تک نہ پھٹکا.پھران کے متعلق صديقانبیاآیا ہے.اور صدیق اس کو کہتے ہیں جو دل میں بھی ویساہوجیسا ظاہر میں.یہ تو وہ وجود ہیں جن کے متعلق ثابت ہے کہ گناہ سے پاک ہیں مگر قرآن کریم سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے وجودبھی گناہ سے پاک ہو سکتے ہیں جو پہلے گنہگار تھے.چنانچہ فرماتا ہے.یايها الذين امنواان تتقوا یجعل لكم فرقانا ويکفر عنكم سياتكم ويغفرلکم والله ذوالفضل العظيم ۲۲ یعنی اے مسلمانو! اگر تم اللہ تعالیٰ ٰکاخوف رکھو اور اس سے مدد مانگو تو وہ تمہارے لئے تمهاری مشکلات میں سے نکلنے کا راستہ بنا ویگا اور تمہاری بد عادتوں کو دور کر دے گا اور پچھلے گناہ بھی بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے.اہل بیت نبوی کے متعلق بھی فرماتا ہے.انمايريد اللہ ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا.۲۳.اللہ تعالیٰٰ کا اس کے سوا اور کوئی منشاء نہیں کہ تمہاری تکالیف کو دور کردے اے اہل بیت !اور تم کو خوب اچھی طرح پاک کردے.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی رو سے اس دنیا میں بھی انسان پاک ہو سکتا ہے.میلان گاہ سے نجات اب یہ سوال ہے کہ کیا میلان گناہ سے بھی نجات ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اسلام میلان گناہ کو بھی دور کر سکتا ہے.عیسائیوں کو اس بات کا بڑا دعوی ٰہے کہ اس بات کو ہمارے مذہب نےہی بیان کیا ہے اور کسی نے بیان نہیں کیامگر عجیب بات یہ ہے کہ وہ یہ اعتراض تو کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ اس مسئلہ کو جس طرح اسلام نے بیان کیا ہے اس طرح عیسائیت نے بھی بیان نہیں کیا.نبی تو الگ رہے خدا تعالیٰ عام مومنوں کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ ان کا میلان گناہ بھی مٹادیا جاتا ہے.سورہ محمدؐ میں آتا ہے.والذين امنوا وعملوا الصلحت و امنوا بما نزل على محمد وهو الحق من ربهم کفرعنهم سياتهم وأصلح بالهم ۲۴ کہ اسلام کا خداوه خدا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لاتے اور عمل صالح کرتے ہیں خدا ان کی بدیوں کو مٹادیتا اور ان کے دلوں کو درست کر دیتا ہے.ان کے ظاہری عمل ہی درست نہیں ہو جاتے بلکہ ان کے قلوب بھی پاک ہو جاتے ہیں اور گناہ کا میلان تک جاتا رہتا ہے.پس رسول کریم ﷺتو الگ رہے آپؐ کے خدام کی نسبت بھی خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ان کے دل صاف کردیتا ہوں.
۷۰ نجات ایک حدیث کا مطلب اس جگہ ایک حدیث کے متعلق یاد رکھنا ہے کہ صوفیاء اس کے متعلق بڑے چکر میں پڑے ہیں اور اسے حل نہیں کر سکے.حدیث ہے.اذا سمعتم بجبل زال عن مکانہ فصدقوہ واذا سمعتم برجل تغیر عن خلقہ فلا تصدقوابہ یعنی جب یہ سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو یہ ٹھیک ہو سکتا ہے مگر جب یہ سنو کہ کسی نےاپنی طبیعت کو چھوڑ دیا تو یہ غلط ہے.اس کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ جب کوئی انسان طبیعت کوچھوڑ نہیں سکتا تو پھر میلان گناہ بھی نہیں جاسکتا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جو آیا ہے کہ طبیعت کےچھوڑنے کو تسلیم نہ کرو اس کے دو معنی ہیں.ایک تو قدلبث فيكم عمرا سے حل جاتےہیں یعنی رسول کریم ﷺنے بتایا کہ کبھی یہ نہیں ماننا ہے کہ یکدم کسی کی طبیعت بدل گئی رات کو ایک شخص پاکباز سویامگرصبح کو اٹھ کر خدا پرافتراءکرنے لگ جائے ہے یہ کبھی نہیں ہوسکتا.ایسے تغیرات لمبے عمر صہ کے بعد ہوا کرتے ہیں.دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ انسان گندے سے نیک نہیں سکتا اور نیک سے گندہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اصول اخلاق بدل نہیں سکتے.مثلاً جو شخص نرم طبیعت کو ہووہ سخت نہیں ہو سکتا اور جو سخت طبیعت کا ہے وہ نرم طبیعت کا نہیں ہو سکتا.یا مثلا ًجو شخص طبعی طور پر سیاست سے میلان رکھتا ہے وہ عمدہ جرنل نہیں ہو سکتا اور جو کلی طور پر جنگی معاملات کی طرف میلان رکھتا ہے وہ سیاست کی طرف جھک نہیں سکتا.غرض مشق سے ، محنت سے، عادت سے خواہ کسی قدرہی کوئی دوسرے پیشہ کی طرف توجہ کرے وہ ایسا اعلیٰ اس فن میں نہیں هو سکتاجس قدر کہ وہ اس فن میں ہو سکتا ہے جس سے وہ طبعی میلان رکھتا ہے.اور اس میں یہ سیاسی سبق دیا ہے کہ جب حکومت مسلمانوں کے ان کو چاہئے افسر مقرر کرتے وقت ان کی طبائع کود یکھ لیا کریں کہ ان کامیلان کس طرف ہے.ورنہ سے مراد نہیں کہ نیک بد اور بد نیک نہیں ہو سکتا کیونکہ اول تو یہ تعلیم قرآن کے خلاف ہے پھر مشاہدہ کے خلاف ہے.اور یہ بات بھی ہے کہ نیکی بدی خلق نہیں ہے.نیکی بدی تو طبعی اخلاق کےصحیح یابد استعمال کا نام ہے اور اس حدیث میں ان طبعی قوتوں کے بدلنے کو مشکل قرار دیا ہے جو انسان کی پیدائش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں نہ کہ ان کےصحیح یا غلط استعمال کو.
۷۱ نجات غرض اس حدیث میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نیک بد اور بد نیک نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کہ جو خلق کفر میں نمایاں ہوں گے وہی اسلام میں بھی نمایاں ہوں گے.مثلاًجو کفرمیں سختی کرتا تھا وہ اسلام میں بھی اس صفت کو زیادہ استعمال کرے گا گو نیک طور پر.یاجو کفرمیں نرم طبیت رکھتاتھاوه اسلام میں بھی اسی طبیعت کار ہے گا گو وہ نرمی کو نیک طریق پر استعمال کرنے لگے گا.مثال کے طور پر حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر ؓکے لو.حضرت عمرؓ حالت کفر میں سخت طبیعت تھے اور حضرت ابو کر اسلام سے پہلے کبھی نرم طبیعت کے نے اسلام نے ان دونوں کو نیک تو بنا دیا اور تقویٰ کی اعلیٰ راہوں پر تو چلا دیا لیکن ان کی طبیعتوں کو نہیں بدلا.حضرت عمرؓ اسلام میں بھی اپنی اسی طبیعت پر قائم رہے جس پر کفرمیں تھے اور اسی طرح حضرت ابوبکرؓلیکن فرق یہ تھا کہ اسلام سے پہلے ان کی سختی اور نری غلط طور پر استعمال ہوتی تھیں یا ہو سکتی تھیں مگر اسلام میں آکر وہ اعلی ٰمقاصد میں استعمال ہونے لگیں.عمرؓ سخت کے سخت ہی رہے اور ابوبکرؓ نرم کے نرم.لیکن دونوں اپنی حالت کو چھوڑ کرنیکی کا مجسمہ بن گئے پس اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ طبیعت نہیں بدل سکتی یا یہ کہ مشکل سے بدل سکتی ہے اس لئے جہاں تک ہو سکے طبیعت کے مطابق کسی کو کام سپرد کرنا چاہئے.گناہ کے طبعی نتیجہ سے نجات نجات کے متعلق ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا گناہ کے طبعی بتیجہ سے نجات ہوسکتی ہے؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہو سکتی ہے.چنانچہ آتا ہے اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ اَنَّ عَلَیْهِمْ لَعْنَةَ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا۫-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ بعض انسان گناہ میں ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان پر خدا اور ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت پڑنے لگتی ہے.اس کے اند ر ہمیشہ رہے ہیں اور ان سے عذاب کم نہیں کیا جاتا اور نہ ان کو مہلت ملتی ہے مگرتوبہ سے یہ بات بدل جاتی ہے اور انسان گناہ کی طبعی سزاسےبچ جاتا ہے یعنی لعنت یا خدا سے دوری ہے.یاد رکھنا چاہے کہ اس آیت میں گناہ کی طبعی سزا کی ذکر ہے جو خدا تعالی ٰسے دور ہو جانا یا گناہوں میں بڑھ جانا ہے نہ کہ شرعی سزا کا جو دوزخ یا دوسری تکالیف ہیں.
۷۲ نجات گناہ کے شرعی اثر سے نجات اب یہ سوال ہے کہ کیا گناہ کے شرعی اثر سے بھی نجات ہوتی ہے؟ قرآن کریم کہتا ہے ہاں ہو سکتی ہے.چنانچہ سورة ز مرمیں آتا ہے.قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ\" خدا تعالی ٰفرماتا ہے.اے میرے بندو! گھبراتے کیوں ہو کہ اب گناہگار ہو گئے ہیں.اگر تم نے کوئی گناہ بھی نہیں چھوڑاسب کرلئے ہیں تو بھی میں سب گناہ معاف کر سکتا ہوں کیونکہ میں گناہ معاف کرنے والا ہوں.حقیقی نجات اب یہ سوال ہے کہ کیا حقیقی نجات انسان کو مل سکتی ہے؟ دیگر مذاہب کے لوگ کہتے تو ہیں کہ ہمارے مذہب میں بھی اسکی نجات ہے مگر کوئی پیش توکرے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببکم الله ۲۸-اگر تم الله سے محبت رکھتے ہو.تو محمدﷺ سے محبت کرو تم خدا کے محبوب ہو جاو گے.اور خدا کا پیارا ہو جانا اور اس کا مقرب ہو جاناہی حقیقی نجات ہے.اس آیت سے بھی بڑھ کرحقیقی نجات کے ملنے کے متعلق مندرجہ ذیل آیت میں زور دیا گیا ہے.اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ۳۹.یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور و رلی دنیا پر راضی ہو گئے ہیں اور اس پر ان کو اطمینان حاصل ہو گیا ہے اور وہ لوگ جو ہمارے نشانوں سے غافل ہو گئے ہیں وہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کا ٹھکانا ان کے اعمال کے سبب سے جہنم ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی نجات یعنی لقاء الہیٰ کے منکر کو سخت سزا سے ڈرایا گیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام نجات کے لئے کس قدر زوردیتاہے.نجات روحانی ہے یا جسمانی؟ ایک سوال یہ ہے کہ نجات روحانی ہے یا جسمانی؟ یہ بھی مختلف مذاہب میں بحث طلب امر ہے مگر یہ بحث ایک خطرناک دھوکا سے پیدا ہوتی ہے.دھو کایہ لگا ہے کہ لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ ہم اس کانام ہے جو مرئی ہو اور جو چیز نظر نہ آئے وہ روح ہے جس سے جسم میں حرکت پیدا ہوتی ہے مگر یہ تعريف بالکل غلط اور ناقص ہے.اصل میں جسم کا لفظ ایک نسبتی حقیقت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی تعریف یہ ہے کہ جسم وہ شے ہے جس میں اس سے الطف چیز رہتی ہے اور جس کے بغیروہ لطیف شئے رہا نہیں سکتی.گویا جسم وہ برتن ہے جس میں ایک الطف بطور اتحاد کے رہتی
۷۳ نجات ہے اور وہ الطف چیز روح ہے.پس کوئی مخلوق روح جسم کے بغیر نہیں رہ سکتی اور یہ بھی غلط ہے کہ نجات یا عذاب جسم کو ہو گایا روح کو؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس پتلے کے ساتھ عذاب یا نجات ہو گی وہ بہت بے وقوفی کی بات کہتے ہیں کیونکہ یہ تو بدلتا رہتا ہے.پھر کس عمر کے جسم کے ساتھ نجات یا عذاب ہو گا اس جسم کے ساتھ جو بیس برس کی عمر میں تھایا جو تیس برس کی عمرمیں تھا.اور دوسرے لوگ جو کہتے ہیں کہ چونکہ یہ جسم نہیں ہو گا اس لئے نجات ياعذاب بھی جسمانی نہیں بلکہ صرف روحانی ہوں گے وہ بھی سخت غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول بھی خلاف عقل ہے.کیا اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے کالا کوٹ نہیں پہناہوا تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ ننگاہے؟ ہرگز نہیں.اغلب ہے کہ اس نے کوئی اور کپڑا پہناہو اسی طرح اگر یہ جسم میں ہو گا تو کیا ہوا کوئی اور جسم ہو گا.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی روح جسم کے بغیر نہیں ہو سکتی.چنانچہ آتا ہے ومن كل شئ خلقنا زو جين لعلکم تذکرون ۳۰ کہ ہم نے ہرچیز کو جو ڑاجو ڑا کر کے پیدا کیا ہے تاکہ تم اس قانون کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرو.یعنی یہ قانون ایک اور بالامر کی طرف دلالت کرتا ہے اور وہ وحدت باری ہے.اللہ تعالیٰ ٰنے اپنی ذات کے ثبوت اور اپنی وحدت کی حفاظت اور اس کی حقیقت کو اشتباه سے بچانے کے لئے یہ قانون بنا دیا ہے کہ کوئی چیزمخلوق میں سے ایسی نہیں جو مفرو ہو کر زندہ رہ سکے بلکہ ہر چیز اپنے قیام کے لئے کسی اور چیز کی حاجت مند ہے اس کے لئے بمنزلہ جسم کے ہے اور یہ قانون مخلوق سے کسی حالت میں بھی الگ نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس کو کسی شرط سے محدود نہیں کیا گیا.پس اگلے جہان میں بھی ہرانسان کا ایک جسم ہو گا ایک روح ہو گی اور عذاب اور انعامات جسمانی و روحانی دونوں طرح کے ہوں گے.ہاں مگر قرآن اور حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگلے جہان میں یہ جسم نہ ہو گا کیو نکہ اس جسم کے متعلق آتا ہے کہ یہ نعمائے جنت کو محسوس ہی نہیں کر سکتا جن میں سے سب سے بڑی نعمت رویت الہیٰ ہے ، پس وہاں یہ جسم نہیں جائے گا کہ کوئی اور ہو گا.اس بات کے موئد بعض نئے علوم بھی ہیں.سپرچولزم (SPIRITUALISM) کے تجارب سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روح ہمیشہ ایک جسم میں رہتی ہے.میں اس سپر چولزم کا قائل نہیں کہ اس کے ذریعہ مردوں کی رو حیں بلوائی جاتی ہیں مگر میں اس کا قائل ہوں کہ روحیں چلتی
۷۴ نجات پھرتی نظر آجاتی ہیں.اگلے جہان کے جسم کے متعلق معلوم یہ ہوتا ہے کہ قبر میں روح انسانی ترقی کرتے کرتے ایسانشوونما پیدا کرے گی کہ اس میں سے ایک اعلیٰ جو ہر پیدا ہو جاۓ گا جو اس روح کے لئے بمنزلہ روح کے ہوگا اور موجودہ روح اس کے لئے بمنزلہ جسم کے ہو جائے گی.یہ نئے روح اور جسم جنت اور دوزخ کی نعمتوں یا عذابوں کو محسوس کرنے کے قابل ہوں گے.چونکہ قبر کی نسبت وہی لفظ آئے ہیں جو رحم کے لئے آتے ہیں اس لئے وہ روح کے لئے رحم کے طور پر ہے جس میں ردح ترقی کرتی ہے اور اس کو نیا جسم حاصل ہوتا ہے.اب یہ سوال ہو سکتاہے کہ جب یہ روح اور جسم ہی بدل جائے تو پھر عذاب و ثواب کیسا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کےبدلنے سے شکل کا بدلتا ہے ورنہ ان میں مشار کت چلی جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو نطفہ میں وہ کیڑا جس سے پچہ بنتا ہے اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ خوردبین سےہی نظر آتا ہے لیکن اگر باپ میں سال ہو تو بسا اوقات بچے کو بھی ہو جاتی ہے کیونکہ سل کا اثر اس نطفے.کے کیڑے کے ذریعہ بچہ میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اسی طرح روح اور جسم جونئی شکل میں اختیار کرتے ہیں وہ اپنے حالات کو اس اس نئی شکل کی طرف منتقل کرتے چلے جاتے ہیں.کہتے ہیں سات سال میں انسان کا پہلا جسم بدل جاتا ہے مگر باوجود اس کے بدصورت بد صورت ہی رہتے ہیں اور حسین حسین ہی.یہ نہیں ہوتا کہ بد صورت سات سال کے بعد حسین ہو جائے.اور حسین بد صورت بن جائے.وجہ یہ ہے کہ جسم بدلنے کے لئے جو نیاذ ره آتا ہے وہ اسی طرح اس جسم میں رکھا جاتا ہے جس طرح پہلاذرہ ہوتاہے اس لئے اگر جسم پر کسی جگہ زخم وغیرہ کا کوئی نشان ہو تو وہ اسی طرح رہتا ہے.اسی طرح روح بھی احساسات کامادہ منتقل کرتی چلی جائے گی.اور ہر تغیر پہلے کے احساسات کو لیتا جائے گا اس لئے خواہ روح کی کو بھی شکل بدل جائے وہ پہلے عذابوں یا انعاموں کا مستحق ہو گا.اور اگر ہم یہ مان لیں کہ متغیرشکل کو پہلی سے کوئی مشارکت نہیں رہتی تو پھر زندگی کیارہی.پھر تو ماننا پڑے گا کہ پہلی چیز مرگئی اور کو ئی نئی چیز پیدا ہوئی ہے.نجات دائمی ہے یا عارضی ایک ہی سوال ہے کہ نجات دائمی ہے یا عارضی ؟ ہندووں کا اس کے متعلق عجیب عقیدہ ہے.وہ کہتے ہیں نجات دائمی نہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں جب روحیں نجات پا جاتی ہیں تووہ خدامیں مل جاتی ہیں اور اس کے پیٹ میں چلی جاتی ہیں.خدا ایک لمبے عرصہ تک سوتا رہتا ہے پھر جب اٹھتاہے اسے قے آتی ہے اور روحیں
۷۵ نجات اس کے پیٹ سے نکل آتی ہیں اور پھر دنیا کے چکروں میں چل پڑتی ہیں اور اس طرح دنیا چلتی رہتی ہے.اب دیکھ لو تعلیم یافتہ ہندو اس عقیدہ کو دیکھ کر بھی کہتے ہوں گے کہ ربمايود الذين کفروالوكانوامسلمين.مسلمالوں کا کیا اچھا عقیدہ ہے.ہمارے باپ دادا کیسے تھے انہوں نے کیوں نہ یہی عقیدہ لے لیا.گویا ان کے نزدیک نجات یہی ہے کہ خداکے پیٹ میں روحیں پڑی رہیں اور جب ہضم نہ ہوں توقے ذریعہ نکل آئیں.آریہ لوگ اس رنگ میں نجات نہیں مانتے کیو نکہ وہ خدا میں جذب ہو جانے کے عقیدہ کے قائل نہیں لیکن وہ بھی اس امر کے قائل ہیں کہ ایک عرصہ تک نجات پاجانے کے بعد رو حیں پھر جنت میں سے نکال دی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ ٰان کے ایک گناہ کے بدلہ میں جو بغیر بدلے کے رکھ چھوڑے گا ان کو پھر جونوں کے چکروں میں ڈال دے گا.ہندو مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے نزدیک نجات دائمی ہے جیسے مسیحی، یہودی زر نشتی وغیرہ.قرآن کریم میں اس عقیدہ کو بہت واضح کیا گیا ہے.فرماتا ہے الذين امنوا و عملوا الصلحت فلهم اجر غيرممنون کہ وہ لوگ جو مومن ہیں.نیک عمل کرنے والے ہیں.ان کونہ گننے والا انعام ملے گا.یعنی ہمیشہ کا.پس اسلامی نقطہ نگاہ سے نجات ہمیشہ کے لئے ہوگی.محدود اعمال کاغیرمحدود بدلہ اس عقیدہ پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے.اور وہ یہ کہ محدود اعمال کا غیر محدود انعام کس طرح مل سکتاہے؟ اس کے متعلق اول تو ہم سے کہتے ہیں کہ تم کہتے ہوا عمال اور انعام میں مناسبت ہونی چاہیے مگر یہ بات تو تمہارے عقیدہ سے بھی غلط ثابت ہو جاتی ہے کیونکہ تم مانتے ہو کہ اربہا سال تک روح کو نجات ملے گی اور پھر اس کو جونوں میں ڈالا جائے مگر عمل تو اس کے چند سال کے ہوں گے اتنا عرصہ اسے نجات کیوں دے دی گئی؟» اعمال کے لحاظ سے نجات بھی تھوڑا عرصہ ہی چاہیے تھی اور اگر چند سال کے عمل کے بدلہ میں اربوں سال نجات مل سکتی ہے تو غیرمحدود نجات کیوں نہیں مل سکتی؟ اور اس پر کیوں اعتراض ہو سکتا ہے.کیا صرف محدود اور غیرمحدودکے الفاظ کی وجہ سے؟ دوسرے یہ کہ جب روح خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کے لئے کھڑی ہے اور وہ کہتی ہے کہ اگر مجھے خداتعالی ٰاس جسم میں ہمیشہ رکھے گا تو ہمیشہ فرمانبردار رہوں گی اگر اس کو موت دے دی
۷۶ نجات گئی تو اس کا اس میں کیا قصور ہے اس کو تو ابدی نجات ملتی ہے.تیسرے یہ کہ نجات ذاتی پاکیزگی کا نام ہے اور جب پاکیزگی حاصل ہو گئی تو پھر اس سے گرانا سخت بے انصافی ہے جب تک ذات میں برا تغیر نہ ہو عذاب میں نہیں ڈالا جاسکتا اور وہاں براتغیر ہو نہیں سکتا کیونکہ اعمال ختم ہو گئے ہیں یہ غلط ہے کہ نجات محدود ہوگی.کیانجات سب کاحق ہےیا بعض کا؟ اب یہ سوال ہے کہ کیا نجات سب انسانوں کا ہے بعض کا؟ یہودیوں کے نزدیک خاص کاہی حق ہے.وہ کہتے ہیں صرف یہودی نجات پائیں گے.ہندووں کے نزدیک ہر ایک انسان نجات پاسکتا ہے مگر وہ جو اپنے اعمال کے زور سے پائے.ان کے نزدیک فضل کوئی چیز نہیں ہے گویا وہ یہ مانتے ہیں کہ ہر شخص نجات پاسکتا ہے مگر یہ نہیں کہتے کہ ہرایک پاتا بھی ہے.مسیحیوں کے نزدیک ہر شخص نجات پاسکتا ہے مگر جس نے اس دنیا میں نہ پائی وہ پھر نہیں پاسکتا.پارسیوں اور مسلمانوں کا خیال آپس میں ملتا ہے.پارسی کہتے ہیں ہرشخص نجات پائے گا صرف آگے پیچھے کا فرق ہو گا.بعض لوگ عذاب کو پاکر نجات پائیں گے اور بعض پہلے ہی یہی اسلام کا عقیدہ ہے.قرآن کریم نے اس کا ذکر مندرجہ ذیل آیات میں کیا ہے.پہلی آیت جو اصل اصول ہے اس میں بندہ کی پیدائش کی غرض سے بیان کرتا ہے کہ ما خلقت الجن والانس الا ليعبدون.۳۲- انسان اور جن کو پیداہی عبادت کے لئے کیا گیا ہے.پس جب انسان پید اہی اس غرض کے لئے کیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ ہر بندہ اس غرض کو پورا کرنے والوں میں شامل ہو جائے اور یہی نجات ہے.دوسری جگہ یوں تشریح کی ہے کہ فادخلی فی عبدی وادخلی جنتی ۳۳ میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ- اس سے معلوم ہوا کہ بندہ بننے کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسان جنت میں داخل ہو جائے.پس جب کہ ہر ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے ہندو بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے ضرور ہے کہ کسی نہ کسی وقت اس کو وہ پورا کرنے والا ہو جائے اور جب بھی وہ اس کو پورا کرے گا ضرور ہے کہ دوسرے قاعدے کے مطابق اپنے آقا کی جنت میں داخل ہو جائے اوریہی نجات ہے.پھر فرماتا ہے.وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ
۷۷ نجات ۳۳.اس میں اللہ تعالیٰ ٰفرماتا ہے.اگر کسی نے ذرہ بدی با نیکی کی ہوگی تو اس کا محاسبہ کیا جائے گا اب بدی کی وجہ سے جب انسان جہنم میں چلا گیا اور ابدالاباد تک اسی میں رہا تو نیکیوں کا بدلہ کب پائے گا؟اس لئے ضروری ہے کہ وہ نجات پائے.یہاں آریوں سے اسلام کا عجیب مقابلہ پڑتا ہے انہوں نے عجیب عقیدہ بنایا ہے کہ وہ کہتے ہیں پرمیشور پر ایک روح کا ایک گناہ رکھ چھوڑتا ہے اور نجات پہلے دے لیتا ہے پھراس گناہ کی وجہ سے سزادیتا ہے.گویا اسلام تو یہ کہتا ہے کہ خدا گناہوں کی سزا پہلے دیتاہے اور پھر نجات دیتا ہے مگر آریہ کہتے ہیں انعام پہلے دیتا ہے اور عذاب پیچھے تاکہ روح ابدی نجات نہ پا جائے.اب یہ دیکھنا ہے کہ اعلیٰ مذہب کونساہے اور کس کا عقید و اعلیٰ درجہ کا ہے- ہرا یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ گناہ کی چھپار کھنایہ سخت کینہ توزی کی علامت ہے اور ایسی ہی عادت ہے جیسے کہ بنئے روپیہ قرض دیکر بہت سارو پیہ تو وصول کر لیتے ہیں اور کچھ تھوڑا ساباقی رکھتے ہیں پھر اس کو چند سالوں کے بعد سود سمیت بہت بڑھا کر وصول کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ٰکی طرف ایسی بات منسوب کرنی سخت ظلم ہے.لیکن اس کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم کہ جس شخص کو ضرورہی سزا دینی ہو اس کو پہلے اس کے برے عملوں کی سزا دی جائے اس کے بعد اس کی نیکیوں کا بدلہ دینا شروع کیا جائے تاکہ وہ ابدی نجات پا جائے.کیسی رحم کی تعلیم اور کس قدر خوبصورت عقیدہ ہے؟ مذکورہ بالا آیات کے علاوہ اور آیات بھی نجات کے عام ہونے پر دلالت کرتی ہیں.چنانچہ اللہ تعالی ٰدوزخ کے متعلق فرماتا ہے.واما من خفت موازینہ فامہ ھاویة ۳۵ کہ جن کو سزا دی جائے گی ان کی ماں ہاویہ ہو گی وہ اس کے پیٹ میں ڈالے جائیں گے.ماں کے پیٹ میں بچہ کیوں رکھا جاتا ہے ؟ اس لئے کہ اس دنیا میں زندہ رہنے کی طاقت آجائے اور اس کی کمزوری دور ہو جائے اسی طرح جہنم رکھا گیا ہے تاکہ وہاں انسان کی کمزوری دور ہو جہنم کو خد اتعالیٰ نے ظلمت قرار دیا ہے اور رحم کو بھی ظلمت کہاگیا ہے اور جس کی آنکھیں خراب ہوں اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے اندھیرے میں رکھا جائے تاکہ اس کی آنکھوں میں نور کو دیکھنے کی طاقت آجائے.پھر فرماتا ہےفَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ
۷۸ نجات ۳۶.جو شقی ہو گئے وہ آگ میں ڈالے جائیں گے جس میں سے شدت کی وجہ سے آوازیں نکلیں گی.وہ اس میں اس وقت تک رہیں گے جب تک آسمان و زمین رہیں گے سوائے اس کے کہ تیرا رب کچھ اور ارادہ کرے.میرا رب اپنے ارادہ کو پورا کرنے والا ہے.اور وہ لوگ جو سعید ہوں گے وہ جنت میں رہیں گے جب تک کہ آسمان اور زمین میں سوائے اس کے کہ تیرا رب کچھ اور چاہے مگر یہ نعمت ان کی کاٹی نہیں جائے گی اور کبھی اس سے ان کو محروم نہیں کیاجائے.یہاں سعید اور انسانوں کی حالت کامقابلہ کیا ہے.جہنمیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم ان کو جہنم سے نکال سکتے ہیں اور ہمارے ارادہ کو کون روک سکتا ہے لیکن مومنوں کے لئے فرماتا ہے کہ اگرچا ہیں تو ان کو بھی نکال سکتے ہیں مگر ہم نے یہی چاہاہے کہ ان کے انعام کو کبھی ختم نہ کریں، اس مقابلہ سے معلوم ہوا ہے کہ دوزخیوں کو جہنم سے نکلنے کی امید دلائی گئی ہے لیکن جنتیوں کو اس انعام کے کبھی نہ ہٹانے کے وعدہ سے مطمئن کیاگیا ہے.پھر فرماتا ہے قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۳۷ میں عذاب پہنچاؤں اس کو جس کو عذاب کے لائق سمجھوں گا اور میری رحمت وسیع ہے کل چیزوں پر عذاب بھی اس کے حلقہ میں ہے.اور میں فرض کر دوں گا رحمت کو ان پر جومتقی ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور میری آیات پر ایمان لاتے ہیں.میں اس آیت کی بجائے خود تشریح کرنے کے ابن عربی کا ایک لطیفہ اس آیت کے متعلق بیان کرتا ہوں.وہ لکھتے ہیں سہیل ایک بزرگ گزرے ہیں ان کا شیطان سے مقابلہ ہوا.سہیل نے کہا کہ تو کبھی نہیں بخشا جائے گا.شیطان نے اپنی تائید میں مندرجہ بالا آیت پڑھی اور نتیجہ نکالا کہ آخر میں بھی بخشا جاؤں گا.انہوں نے کہا یہاں قید بھی ہو گئی ہوئی ہے کہ میں اپنی رحمت کو مومن اور متقی بندوں کے ساتھ مخصو ص کروں گا.شیطان نے کہاخدا تعالیٰ کے لئے قید نہیں ہوتی قيد تو بندوں کے لئے ہوتی ہے.اس پر سہیل کہتے ہیں میں شرمندہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ جیت گیا.یہ تو خیر ایک لطیفہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ جو امور اس جگہ بیان کئے گئے ہیں بطور شرط کے نہیں ہیں بلکہ اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جنت میں جانے والے لوگ دو قسم کے ہوں گے.
۷۹ نجات ایک بطورحق کے اس میں داخل ہوں گے یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جو ہر طرح دنیا میں اللہ تعالیٰٰ کی رضاء کو حاصل کرتے رہے اور ایک وہ لوگ جو بطور رحم اور بخشش کے جنت میں داخل کئے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ کی آیت میں.حق سے مراد یہ نہیں کہ حقیقی طور پر مومن کاحق ہو گا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰنے اپنے فضل سے مومن کا یہ حق مقرر کردیا ہے دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ پہلے یہ فرماتا ہے کہ میں جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا.اور پھر فرماتا ہے میری رحمت وسیع ہے اور پھر کافروں کو کہتا ہے کہ دیکھو جب میں ہر ایک کو اپنی رحمت رہنے کے لئے تیار ہوں تو کیا محمد ﷺکو ہلاک ہونے دوں گا جب ہلاک ہونے والوں کو بچانے کے لئے تیار ہوں تو اس کو کیوں ہلاک ہونے دوں گا؟ اسی طرح حدیث میں آتا ہےیاتی علی جهنم زمان ليس فيها احد و نسیم الصباء تحرك ابوابها ۳۸.ترجمہ : ایک زمانہ جہنم پر ایسا آئے گا کہ ہوا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی گویا سب لوگ جہنم سے نکل چکے ہوں گے اور اس لئے اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور عذاب کی جگہ اس کے مقام پر بھی رحمت کی ہوائیں چل پڑیں گی.اور وہ مقام عذاب کا نہیں رہے گا.اسی طرح حدیث شفاعت میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ شفاعت سے کچھ لوگوں کو نکالے گا.آخر خدااپنی مٹھی ڈالے گا اور جس قدر اس کی مٹھی میں لوگ آئیں گے سب کو نکالے گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی مٹھی سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی.پھر عقلی دلیل یہ ہے کہ خدا تعالی ٰکی صفات دو قسم کی ہیں.ایک غضب والی.دوسری رحمت والی.صفات غصنیہ صرف بندے کے فعل کے جواب میں ظاہر ہوتی ہیں اور صفات رحمت بندے کے فعل کے بغیر بھی ظاہر ہوتی ہیں.جیسے خدا تعالیٰ نے انسان کو ناک، کان ،منہ دیا ہے یہ کسی فعل کے نتیجہ میں نہیں دیا بلکہ اپنی رحمت سے دیا ہے.پس رحمت کی صفت و سیع ہے اور جب کہ یہ صفت اپنے غرض میں اس قدر وسیع ہے ضروری ہے کہ اپنے طول میں بھی وسیع ہو.یعنی ایک زمانہ آئے کہ یہ صفات غضبیه سے آگے نکل جائے اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ آخر سب لوگ معاف کردیئے جائیں.
۸۰ نجات کافر کی نجات اس مسئلہ پر اعتراض کیا جاتاہے کہ ہر چیز اپنی حقیقت میں ترقی کرتی چلی جاتی ہے.پس جو شخص بیان سے کافر مرا ضروری ہے کہ وہ مرنے کے بعد کفرمیں ترقی کرے اور چونکہ وہ کفر میں ترقی کرے گا اس لئے اس کی نجات نہیں ہو سکے گی.اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بلا علاج کے مرض ترقی کرتی ہے مگر علاج سے رک جاتی ہے اور جہنم علاج ہی ہے اس لئے مرنے کے بعد وہ مرض جس میں کوئی انسان دنیامیں مبتلاءہے بڑھتا نہیں بلکہ دو ر ہو تا ہے اور اس طرح نجات پا جاتا ہے.اس پر عیسائی دو اعتراض کرتے ہیں.ایک تو یہ کہ ہم کہتے ہیں دوزخ علاج نہیں ہے کیونکہ مرنے کے بعد ہر ایک انسان کو خدا کی قدرت، اس کا حلال اور حقیقت معلوم ہو جائے گی.پس اگر جہنم علاج ہوتی تو اس انکشاف کے بعد انسان کو دوزخ میں نہیں ڈالنا چاہئے کیونکہ اس کو عرفان حاصل ہو گیا لیکن چونکہ باوجود اس عرفان کے انسان دوزخ میں ڈالا جاتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اس میں بطور علاج نہیں بلکہ بطور سزاڈ الاجائے گا.اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارایہ مذہب نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ قیامت کو کفار کو عرفان حاصل ہو جائے گا.عرفان نہیں بلکہ ان کو یقین حاصل ہو گا اور یقین اور شئے ہے اور عرفان اور شئے.صرف یقین سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی بلکہ عرفان سے بچتی ہے.یہ بات کہ یقین اور عرفان میں فرق ہے میں اپنے پاس سے نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہے.چنانچہ ایک طرف تو قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ امر ثابت ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طاقتوں پر کفار کو یقین ہو جائے گا اور وہ سمجھ لیں گے کہ اب ہم بچ نہیں سکتے.دوسری طرف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ من كان في هذه أعمى فهو في الاخرة اعمى.یعنی جو اس دنیا میں خدا تعالی ٰکا عرفان.نہیں رکھتا اور اس کو اپنے دل کی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتاآخرت میں بھی نہیں دیکھ سکے گا.اسی طرح فرماتا ہے.کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون ۴۱.یعنی کفار قیامت کے دن اللہ تعالیٰٰ کی رویت حاصل نہیں کریں گے.ان دونوں باتوں کے ملانے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک یقین اور عرفان میں فرق ہے وہ اس امر کر تومدعی ہے کہ کفار کو خدا تعالی ٰکی قدرتوں پر یقین آجائے گا اور اپنی غلطیوں کا علم ہوجائے گامگروہ اس امر کا انکار کرتا ہے کہ ان کو اس کا عرفان حاصل ہو جائے گا بلکہ فرماتا ہے کہ باوجود اس یقین کے وہ اگر دنیا میں اندھے تھے تو آخرت میں بھی اندھے کے اندھے ہی رہیں گے.
۸۱ نجات اگر کوئی شخص ادنیٰ تدبر سے کام لے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کی یہ تفریق درست ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی ٰکی رؤیت اور اس کا لقاء محض یقین سے نہیں ہوتا بلکہ بعض خاص روحانی طاقتوں کے حصول سے ہوتا ہے.خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھنے والے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں لیکن ان کو وہ برکات نہیں ملتیں جن کی اس مذہب کی طرف سے امید دلائی جاتی ہے.ان تمام مذاہب میں سچامذہب بھی ہے اس کے پیروؤں کا بھی یہی حال ہے یہ فرق کیوں ہے؟ اس لئے کہ صرف یقین ہو جانے سے کسی کام کے کرنے کی قابلیت نہیں حاصل ہو جاتی قابلیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آہستہ آہستہ اس یقین کے متعلق انسان اپنے اعمال کو بتاتا ہے پھر اس کو ایک خاص نور عطا ہوتا ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھتاہے.پس خالی یقین سے انسان میں قابلیت نہیں پیدا ہو جاتی.جس طرح کہ ایک آنکھ کے بیمار کو یہ یقین کہ اس کی آنکھ بیمار ہے گو علاج کی طرف تو توجہ دلادے گا لیکن اس سے اس کی آنکھ اچھی نہیں ہو جائے گی.اسی طرح ایک شخص جو اس دنیا میں اپنی روحانی قابلیت کھو بیٹھا ہے اس کو یہ یقین کہ خدا تعالی ٰکی طرف سے جو کلام نازل ہو اتھادرست تھا اپنے علاج کی طرف متوجہ کردے گامگراس میں خدا تعالیٰ کو دیکھنے اور اس کے فضلوں کو محسوس کرنے کی قابلیت نہیں پیدا کرے گا.یہ قابلیت ایک لمبے عرصہ تک دوزخ میں رہنے کے بعد اور پرانے زنگوں کے جل جانے اور متواتر الله تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے اور ان کے اثر کو اپنے اندر قبول کرنے کے بعد پیدا ہوگی اور اسی کا نام عرفان ہے.یعنی پہچان لینا.عدل کا لفظ لغت میں کیوں آیا؟ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے اگر دوزخ علاج ہے تو یہ رحم ہو گا اور اس طرح سزا بھی رحم ہو گئی پھر عدل کا لفظ کہاں سے لغت میں آیا ہے؟ ہم کہتے ہیں یہ بھی ان لوگوں کو دھوکالگا ہے.اول یہ دعوی کہ عدل کالفظ چو نکہ لغت میں آیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ خدا بھی عدل کرے یہ غلط ہے کیا ہرلفظ خدا تعالیٰ کے متعلق بنایا گیا ہے؟ اگر یہ درست ہے تو زنا‘ جھوٹ، فریب وغیرہ الفاظ کہاں سے بن گئے ہیں؟ اسی طرح کیاخدا ظلم کرتا ہے کہ یہ لفظ لغت نے وضع کیا ہے ؟ چونکہ یہ کام بندے کرتے ہیں اس لئے یہ الفاظ پیدا ہو گئے ہیں.دوم - عدل کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی کو اس کے اعمال کے مطابق ضرور سزادی جائے بلکہ
۸۲ نجات اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کو اس کے اعمال سے زیادہ سزا نہ دی جائے اس لئے ہم کہتے ہیں خدا عدل کرتا ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اعمال سے زیادہ کسی کو سزا نہیں دیتا.سوم - اگر سزا کے سوال کو بالکل ہی نظرانداز کردیا جائے تو بھی عدل کے لفظ کی ضرورت باقی رہتی ہے اور خدا تعالیI عادل کہلا سکتا ہے کیونکہ اگر کوئی کسی کو خدمت کا پورا بدلہ نہیں دیتا تو یہ بھی عدل کے خلاف ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ٰجو کہ کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں کرتاوہ عادل کہلا سکتا ہے.گناہ پر دلیری ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ کیا اس سے گناہ پر دلیری تو نہیں ہوتی؟ حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک جگہ میں نے بیان کیا کہ گنہگار کی بھی آخر کار نجات ہو جائے گی.ایک شخص نے کہا مولوی صاحب! اگر یہ بات ہے تو پھر تو بڑا مزاہے خوب دل کھول کر گناہ کر لیں آخر نجات ہو جائے گی خواہ سزا کے بعدہی ہووہ ریس آدمی تھا حضرت مولوی صاحب نے فرمایا چلو بازار چل کر دس جوتیاں کھالو اور پھر دس روپیہ لے لینا.وہ کہنے لگا یہ تو نہیں.آپ نے فرمایا کیا تم دوزخ کا عذاب برداشت کر لو گے ؟ اور دس جوتیاں برداشت نہیں کرسکتے.پس یہ غلط ہے کہ اس طرح گناہ کرنے پر جرأت ہو جاتی ہے.جب کہ انسان معمولی تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتا تو کس طرح ممکن ہے کہ کروڑوں اربوں سالوں کے عذاب کو اس خیال پر اپنے اوپر نازل کرنے کہ آخر نجات تو ہوہی جائے گی.نجات حاصل کرنے والے کی علامتیں نجات کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح معلوم ہو کہ انسان نجات حاصل کر رہا ہے ؟ میں اس کے لئے چند علامتیں بتاتا ہوں.پہلی علامت یہ ہے جو ایک حدیث میں آئی ہے جو حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے.آپ فرماتی ہیں.رسول کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے.اللهم اجعلني من الذين اذا احسنوااستبشرواواذاو اساءوا استغفروا.اے خدا مجھے ان لوگوں میں سے بنا کہ اگر ان سے اچھی بات سرزد ہو تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر بری بات سرزد ہو تو اسے ناپسند کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں.پس ایک علامت تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص معلوم کرنا چاہے کہ وہ نجات کی طرف جا رہا ہے یا عذاب کی طرف تو دیکھے کہ کیا جب اس سے نیکی سرزد ہوتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اگر بدی ہوتی
۸۳ نجات ہے تو استغفار کرتا ہے یا نہیں؟ اگر بدی کر کے اس کی یہ حالت ہوتی ہے تو وہ باوجو دبدی کرنے کے نجات کی طرف جارہاہے.دوسری علامت یہ ہے کہ انسان بدی کو اپنے نفس سے نہ چھپائے.قرآن کریم میں آتا ہے وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ۳۳.اللہ تعالی ٰفرماتا ہے اور جو لوگ ایسے ہیں کہ جب ان سے کوئی بدی ہو جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہوں کو معاف بھی کون کر سکتا ہے اور اپنے کئے پر وہ لوگ جان بوجھ کر مصر بھی نہیں ہوتے.ایسے لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان کو اپنے رب کی طرف سے معافی عطا ہو گی اور الی جنتوں میں وہ رکھے جائیں گے کہ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور کام کرنے والوں کا اجر بہت ہی اچھا ہو گا.اس آیت سے معلوم ہوا ہے کہ جس شخص کے دل میں گناہ کے بعد سچی ندامت پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے نفس کی اصلاح میں پورے طور پر لگا رہتا ہے اور اس کا دل گناہ کر کے اپنی حرکات کو درست ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتاوہ نجات کے راستے پر چل رہا ہے.میں ان امور کا پایا جانا بھی نجات کی ایک علامت ہے.تیسری علامت یہ ہے کہ نیکی کرکے طبیعت میں فخر،عجب اور تکبرنہ پیدا ہو- اگر نیکی کر کے ایسا نہیں ہوتا تو یہ سمجھے کہ نجات کی طرف جا رہا ہے کیونکہ نجات کے معنی قرب الہیٰ کے ہیں اور تکبر اور خود پسندی تب ہی پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنے سے چھوٹوں میں گھرا ہوا ہو اگر اپنے سے بڑوں کے قرب میں ہو تو اس کے دل میں اپنے کاموں پر فخر اور تکبر نہیں پیدا ہو سکتا.پس نیکی پر فخراور عجب نہ کرنا علامت ہے اس بات کی کہ وہ نجات کی طرف جا رہا ہے.چوتھی علامت یہ ہے کہ ریاء نہ ہو.یعنی یہ خواہش نہ ہو کہ لوگوں کے دکھانے کے لئے کوئی کام کرے.پس اگر کوئی شخص اللہ کے لئے کام کرتا ہے تو سمجھے کہ نجات کی طرف جارہا ہے کیونکہ نجات اس کام سے ہوتی ہے جو خدا کے لئے کیا جائے اور جو کام جس کے لئے کیا جائے اسی کو دکھانے کی خواہش دل میں ہوتی ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ ٰکے سوا دوسروں کو اپنے کام دکھانے کی خواہش نہیں وہ یقینا اللہ تعالیٰ ٰکے لئے کام کر رہا ہے اور نجات کی طرف جا رہا ہے.
۸۴ نجات پانچویں علامت یہ ہے کہ دیکھے کہ اس کے دل میں لوگوں کی ہمدردی بڑھتی جارہی ہے یا نہیں؟ اگر یہ ترقی کر رہی ہے توسمجھے کہ نجات کی طرف جا رہا ہے.وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ ماں باپ سے جدا ہو تو چھوٹے بچے بھی اس کو مارنے لگ جاتے ہیں اور ماں باپ کے سامنے بڑے بھی نہیں مار سکتے.نجات کے معنی خدا تعالیٰ کے پاس جانے کے ہیں اور جوں جوں کوئی نجات کے قریب ہو گا خدا کے قریب ہو جائے گا اور خدا کے دوسرے بندوں کو تکلیف دینے کی بجائے ان سے محبت کا خیال اس کے دل میں بڑھتا جائے گا.چھٹی علامت یہ ہے کہ خدا کے کام کو اپناکام سمجھے.یعنی دین کے کام کو اپنا فرض سمجھے.دین کا نقصان ہوتا دیکھ کر اس کو اتناہی صدمہ ہو جتنا اپنا نقصان ہونے پر ہو.جیسے یہاں ہی پچھلے ونوں نقصان ہوا.ایک شخص روپیہ لا رہا تھا جو قومی روپیہ تھا مگر اس سے گم ہو گیا.اس پر اگر کوئی ہنسی کرتا ہے تو اس کی حالت خراب ہے.پس دینی نقصان کو اپنا نقصان سمجھنابھی ایک علامت ہے.- ساتویں علامت یہ ہے کہ اس کے لئے معرفت کی کھڑکی کھولی جاتی ہے اور وہ اپنے دل میں خوشبوئے اتصال پاتا ہے یہ اندرونی احساس ہے.آٹھویں علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کا ذکر سن کر اس کا دل ڈر جاتا ہے خواہ کتنے ہی جوش اور غصہ میں ہو خدا تعالیٰ کا جب نام آجائے تو ٹھہر جاتا ہے اور سوچ لیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت کے خلاف تو کام نہیں کرتا؟ اگر کوئی دیکھے کہ خواہ کتنے ہی جوش میں ہوں خد اکانام آنے پر رک جاتا ہوں اور بلا غور کئے کے آگے نہیں بڑھتاتو سمجھ لے کہ یہ ایمان کی علامت ہے اور یہ کہ وہ نجات کی طرف جارہاہے.نویں علامت یہ ہے کہ اپنی بدیوں پر اطلاع ملنے لگ جائے.جب انسان خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے تو چھوٹی چھوٹی بدیاں بھی نظر آنے لگ جاتی ہیں اور ساتھ ہی ان کی دلیل بھی معلوم ہو جاتی ہے.دسوی علامت یہ ہے کہ ایسے انسان کے لئے نیکیوں کی باریک درباریک راہیں کھولی جاتی ہیں.کئی نیکیاں جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہوتی وہ اسے معلوم ہو جاتی ہیں.گیارھویں علامت یہ ہے کہ ایسا انسان ہر حالت میں اللہ تعالیٰٰ کی قضاء پر خوش ہوتا ہے.اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی مشکل کے آنے پر تدبیریں نہیں کرتا.تدبیریں کرتا ہے لیکن اگر وہ نہ
۸۵ نجات چلیں تو مایوس نہیں ہوتا بلکہ خوش ہی رہتا ہے وجہ ہے کہ جس کوکسی کی دوستی پر اختیار ہو اس کے متعلق وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اسے ہلاک کرے گا.کیا بچہ ماں کے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ وہ مار دے گی؟ ہرگز نہیں اسی طرح جو انسان خداتعالی ٰکی گود میں اپنے آپ کو بچہ کی طرح سمجھتا ہے وہ یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ خواہ اس پر کس قدر مشکلات اور مصائب آئیں خدا اسے تباہ نہیں ہونے دے گا.نجات سے دور جانے والے کی علامتیں اب اگر کوئی یہ معلوم کرنا چاہئے کہ کیا میں نجات سے دور جا رہا ہوں تویہی باتیں الٹ دیکھ لے.مثلاً (۱) بدی کرے اور اس پر ندامت نہ ہو اور نیکی کرے توخوشی نہ ہو.(۲) یہ کہ نفس کمزوری اور برائی پر پردے ڈالے گا اور اس کو برائی قرار نہیں دے گا.(۳) اگر کوئی نیکی کرے تو نفس اس پر عجب اور فخر کرے.(۴) اس کے اعمال میں ریاء ہو گا.(۵) لوگوں سے ہمدردی کی بجائے اس کے دل میں بغض بڑھتا جائے گا اور ایسا انسان نجات نہیں پاسکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ قدوس ہے اور نجات خد اتعالیٰ سے ملنا ہے اس لئے جو شخص اپنے دل میں کینہ رکھتاہے وہ کس طرح نجات پا سکتا ہے.یاد رکھنا چاہے دو صفات ایسی ہیں جن میں سے ایک کا کم استعمال برائی ہے اور زیادہ استعمال نیکی اور دوسری صفت کا کم استعمال اچھا ہے اور زیادہ استعمال برا.مثلاًٍ غضب کا استعمال جائز ہے مگر بلا وجہ جائز نہیں اور رحم بلا سبب بھی جائز ہے.اس سے معلوم ہوا کہ غضب کی صفت مقیّد ہے اس کا استعمال ہر جگہ جائز نہیں لیکن دوسری صفت ایسی ہے کہ اس کا استعمال اکثر اوقات ضروری ہے اور بعض اوقات جائز اور بہت ہی قلیل موقعوں پر نا جائزہے.پس اگر کوئی شخص دیکھے کہ بری صفت اس کے ساتھ لگی رہتی ہے اور اچھی صفت بہت کم ظاہر ہوتی ہے تو سمجھے کہ میں گندا ہو گیا ہوں اور نجات سے دور جارہا ہوں (۶) اگروه خد اکے کام کو اپنا کام نہ سمجھے.مثلاً کوئی دینی نقصان ہو جائے مگر بجائے اس کے کہ اس پر اسے غم ہو وہ طعنے دے اور ہنسی تمسخر کرے تو وہ نجات سے دور جارہا ہے.منافقوں کے متعلق آتا ہے کہ لڑائیوں کے وقت جب مسلمانوں کا نقصان ہوتا تو وہ طعنے دیتے اور ہنسی تمسخر کرتے مگر جہاں محبت ہو وہاں ایسا نہیں کیا جاتا.دیکھو اگر کسی کالڑ کا کوٹھے پر سے گر پڑے تو وہ لڑکے پر اعتراض کرنے شروع کر دیتا ہے اس سے تمسخر کرتا ہے یا روتا ہے؟ وہ روتا ہے اعتراض نہیں کرتا.پس جس سے محبت ہو اگر اس کا نقصان ہو تو اعتراض کا انسان کے دل میں خیال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ رنج اور غم اور
۸۶ نجات صدمہ پہنچتا ہے.دیکھو اگر کسی کا بچہ جل جائے تو اس وقت ماں بچے کو یہ نہیں کہتی کہ میں نہ کہتی تھی آگ کے پاس نہ جاؤ بلکہ اس وقت سواۓ صدمہ کے اس کے دل میں اور کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا (۷) معرفت کی کھڑکی کھولنے کی بجائے اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ دینی علوم اسے نہیں سوجھتے.پس انسان سمجھے کہ میں نیچے جا رہا ہوں (۸) غصہ اور جوشی کی حالت میں خدا تعالی ٰکا نام سن کر ڈر نہ پیدا ہو (۹) موٹی موٹی بدیاں بھی جب اس کی نظرسے چھپتی جائیں تو سمجھے کہ نجات سے دور جارہا ہوں (۱۰) نیکیوں کا دروازہ کھلتا نظر نہ آۓ (۱۱) خدا کی قضاء پر رنج ہو.نجات یافتہ کی علامتیں اسی جگہ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ پچھلی علامتوں سے انسان یہ تو معلوم کر سکتا ہے کہ میں نجات کی طرف جا رہا ہوں لیکن اسے یہ کیونکر معلوم ہو کہ وہ نجات حاصل کر چکاہے گو اس کایہ جواب ہو سکتا ہے اور ہے کہ پہلی باتیں جو بیان کی گئی ہیں جب وہ کثرت سے اور شدت سے پیدا ہو جائیں تو انسان سمجھ لے کہ نجات حاصل ہوگئی ہے لیکن انسانی فطرت چاہتی ہے کہ قیاس سے بڑھ کر علم اسے حاصل ہو اور اس فطرتی تقاضا کو صرف اسلام ہی پورا کرتا ہے اور کوئی مذہب نہیں کرتا.نجات یافلاح اللہ تعالیٰ ٰسے تعلق پیدا کر لینے کا نام ہے اور نجات کا یقین کسی کو تب ہی ہو سکتا ہے کہ اسے خدا تعالی ٰکی دوستی اور محبت کے آثار نظر آنے لگ جائیں.دیکھو اگر کوئی شخص یہاں بیٹھا ہو اور اسے کہا جائے کہ بادشاہ تم پر خوش ہے تو اسے کس طرح معلوم ہو گا؟اسی طرح کے بادشاہ کی خوشنودی کی اسے چٹھی آجائے یا اس لیے کہ بادشاہ سے وہ خود ملے اور وہ اسے بتائے.پس دوستی کا تعلق دو طرح ہی معلوم ہو سکتا ہے (۱) قولی طریق سے (۲) عملی طریق سے.یعنی یا تو خدا تعالی ٰاپنے منہ سے کہہ ہے کہ میں تمہارا دوست ہوں یا اپنے عمل سے اس بات کو ظاہر کر دے اور جس کو یہ بات حاصل ہو جائے اس کو سمجھناچاہیے کہ اسے نجات کا اصل مقام حاصل ہو گیا ہے ورنہ ڈر ہے کہ اسے نجات کے متعلق وھو کاہی لگار ہے اور اگلے جہان میں جاکر حقیقت کا پتہ لگے.اسلام خدا تعالی ٰکا قولی ثبوت تو یہ پیش کرتاہےکہ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.ه خدا تعالی ٰفرماتا ہے جب مومن ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے اس دعوی ٰہے کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے کوئی ان کو ہٹا نہیں سکتا وہ مضبوط ہو کر اپنے مقام پر ہمیشہ کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں تو اس وقت ان پر ملائکہ یہ کہتے ہوئے نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور
۸۷ نجات غم نہ کرو اور خوش ہو جاؤاس جنت پر جس کا تم کو وعدہ دیا جا رہا ہے.دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس کو خدا تعالیٰ الہام کے ذریعہ بتا دیتا ہے کہ تم نجات پا گئے اور ملائکہ فور۱ً اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر اس کی خدمت میں لگ جاتے ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ جبریل کو فرماتا ہے کہ میں فلاں انسان سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو\"..پھر جبریل دوسرے فرشتوں کو کہتا ہے کہ فلاں آدمی سے محبت کرو اور وہ کرنے لگ جاتے ہیں.پس یہ خدا تعالی ٰکے تعلق اور دوستی کا قولی ثبوت ہے کہ ایسے انسان کو اس دنیا میں الہام ہوتا ہے اور فرشتوں کا نازل ہو نا ایسا ہی ہے کہ جب آقا کسی پر مہربان ہو تو اس کے نوکر اس شخص کو راہ چلتے بھی سلام کرتے اور اس کی عزت کرنے لگ جاتے ہیں.فرشتے چو نکہ خدا تعالی ٰکے دربار کے نوکر ہیں اس لئے جس سے خدا راضی ہوتا ہے اس کے پاس وہ دوڑے آتے ہیں کہ کوئی کار لا ئقہ بتائیے جسے ہم سر انجام دیں.الہام ربانی اور شیطانی میں فرق اس کے متعلق ایک اور سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ الہام تو شیطانی بھی ہوتے ہیں پھر کس طرح معلوم ہو کہ فلاں الہام ربانی ہے اور فلاں شیطانی ؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ الہام الہیٰ اور شیطانی الہام میں بہت سے فرق ہیں لیکن ان میں سے ایک موٹا فرق میں اس جگہ بتادیتا ہوں.قرآن کریم میں شیطان کے متعلق آتا ہے وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا جو شخص شیطان کو دوست بنا لیتا ہے وہ سخت نقصان اٹھاتا ہے اور گھاٹا پاتا ہے کیونکہ شیطان ایسے لوگوں سے بڑے بڑے وعدے کرتا ہے اور بڑی بڑی تمنائیں ان کے دلوں میں پیدا کرتا ہے لیکن شیطان جو وعدے بھی ان سے کرتا ہے وہ محض دھوکادہی کے لئے ہوتے ہیں ان کے ساتھ کوئی عملی ثبوت نہیں ہوتا.شیطانی الہام میں بہت کچھ کہا جاتا ہے.مثلاً یہ کہ تو نبی اور رسول ہے خدا کا پیارا ہے مگر اس کو ملتا کچھ بھی نہیں.اس کے خلاف خدا تعالیٰ بتاتا پیچھےاور کرتا پہلے ہے.اپنے پیارے انسان کو پہلے علوم اور معرفت دیتاہے پھر کہتا ہے کہ تونبی ہے تاکہ دھوکا نہ لگے جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے پہلے اعمال سے ظاہر ہے.شیطانی الہام جن لوگوں کو ہوتے ہیں ان کی ایک مثال بیان کرتا ہوں.عبداللہ تیما پوری مدعی مأموریت ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ مجھے جب ماموریت ملنے لگی تھی اس وقت میں نے حضرت مسیح موعودؑ کی استادی کاحق یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ وہ
۸۸ نجات آدھاکام حضرت صاحب ؑکی اولاد کے سپرد کرے.پس میں اب آپ کے یہ حصہ سپرد کرتا ہوں آپ میرے ساتھ مل جائیں اور آدھاحق آپ لے لیں.خواہ تیماپور چلے جائیں میں اس علاقہ میںرہوں خواہ آپ یہاں رہیں اور مجھے کہیں میں تیماپور چلا جاتا ہوں.میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ مجھے حضرت مسیح موعود ؑکا کام پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے تو کیا آپ کو خدا تعالیٰ نے کچھ طاقتیں بھی دی ہیں جن کو دیکھ کر انسان آپ پر یقین کر سکے ؟ وہ کہنے لگے ہاں بڑے بڑےوعدے کئے ہیں.میں نے کہا وعدوں پر آپ کو کون مانے کچھ ملا بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ پیشگوئیاں تو اپنے وقت پر ہی پوری ہو نگی.میں نے کہا اللہ تعالیٰٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنےماموروں کو دعویٰ سے پہلے ایک ایسی طاقت ہے کہ لوگ ان کی برتری تسلیم کر لیتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے ساتھ اس طرح ہوا، حضرت صالحؑ کی نسبت آتا کنت فینا مرجوا ، تجھ پر سب قوم کو بڑی بڑی امیدیں تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے براہین لکھوا کر بڑے بڑے مخالفین سے تعریف کروالی اس کے بعد پھران کو مقام مأموریت پر کھڑا کیا.اگر نشان پہلے نہ ہو تو اس کے ہے معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰٰ اپنے بندوں کو کافر بنا کر پھرایمان کی طرف لانے کی تدبیر کرتا ہے.وہ پوچھنے لگے پھر کیا ثبوت میرے پاس ہونا چاہیے؟ میں نے کہا آپ حضرت مسیح موعود ؑکے کام کی تکمیل کے دعویدار ہیں حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب براہین احمدیہ بظاہر نامکمل پڑی ہے آپ اس کتاب کو مکمل کر دیں اور انہی علوم کے معیار پر جو اس میں ہیں کتاب میں لکھ دیں پھر کوئی مانے یا نہ مانے میں تو آپ کو مان لوں گا اس پر وہ بالکل خاموش ہو گئے.یہ ایک مثال میں نے سنائی ہے اس امر کی کہ شیطانی الہاموں کے ساتھ وعدے ہی وعدے ہوتے ہیں اور آئندہ پورا ہونے کی امید دلائی جاتی ہے.اللہ تعالیٰٰ پہلے سامان کر کے پھراس کو آئندہ کے وعدے دیتا ہے یا اعلان وحی کی اس وقت اجازت دیا ہے جب ان میں سے کچھ حصہ پورا ہو کر لوگوں میں حجت ہو چکا ہوتاہے.ایک اور واقعہ اس ققسم کا حضرت مسیح موعودؑ کے وقت کا ہے.ایک دفعہ ایک شخص حضرت مسیح موعودؑ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھےیہی آوازیں آتی رہتی ہیں کہ تو محمدہے، توعیسیٰ ہے، تو رسول ہے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰٰ کسی سے تمسخراور مخول نہیں کیا کرتا بلکہ شیطان کرتا ہے کیا جب تم کو عیسیٰ کہاجاتا ہے تو وہ نشانات بھی دیئے جاتے ہیں جو حضرت عیسیٰؑ کوملے تھے؟ یا جب محمد ﷺ) کہا جاتا ہے تو کیا آپؐ کا علم بھی دیا جاتا ہے؟ کہنے لگا دیا تو کچھ نہیں جاتا صرف الفاظ ہی
۸۹ نجات سنائی دیتے ہیں.آپؐ نے فرمایا پھر یہ تو تم سے مخول کیا جاتا ہے جو شیطان کرتا ہے.پس شیطانی اور خدائی الہام میں یہ فرق ہے.خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اب خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت بیان کرتا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس مومن کو جو خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر ترقی کرتا چلا جاتاہے پیچھے نہیں ہٹتا.فرشتے آکر کہتے ہیں نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ۴۸ ہم تمہارے دوست ہیں اس دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی اور تم کو آخرت میں جو کچھ تمہارے نفوس خواہش کریں گے ملے گا اور تم جو کچھ وہاں مانگو گے ملے گا.پس فعلی شہادت خدا تعالی ٰاس طرح دیتا ہے کہ ایسے بندوں کو اس دنیا میں مدددیتاہے.یہ شہادت کئی طریق سے دی جاتی ہے.(۱) ایسے شخص کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کی بات کو مانتا ہے.اس جگہ دو سوال پیدا ہوتے ہیں میں ان کا جواب دے دینا مناسب سمجھتا ہوں.اول سوال اس فقرہ سے یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں کی سب دعائیں سنی جاتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں سب دعائیں نہیں قبول کی جاتیں بلکہ بعض دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور بعض نہیں قبول کی جاتیں.دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھرانہی کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور دوسروں کی نہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہیں.دعائیں اللہ تعالیٰ ٰہر شخص کی قبول کرتا ہے خواہ وہ کافر سے کافرہی کیوں نہ ہو.ان دونوں سوالوں کے جواب سے ایک تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نہ ان لوگوں کی سب دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور نہ ان کو ہی خصومیت حاصل ہے کہ ان کی بعض دعائیں قبول کی جاتی ہیں تو پھر ان میں اور دوسروں میں فرق کیا ہے ؟ اور ان کو دوسرے لوگوں پر کیا امتیاز حاصل ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی دعاؤں کی قبولیت اور دوسرے لوگوں کی قبولیت میں بہت سے فرق ہیں اور وہ یہ کہ ایسے انسان کی دعائیں کثرت سے سنی جاتی ہیں اور دوسروں کی کوئی کوئی اور یہی دوست اور غیردوست میں فرق ہوتا ہے.کبھی تو غیردوست کی بات بھی مان لی جاتی ہے مگر دوست کی دوست اکثر باتیں مانتا ہے.(۲) اس کو بعض اوقات دعا کی قبولیت الہام یا قلبی اثر کے ذریعہ بتا دی جاتی ہے مگر دوسرے باوجو و قبولیت دعا کےشک کے مقام پر رہتے ہیں اوروہ وثوق کے مقام پر ہوتا ہے.
۹۰ نجات (۳) جب مقابلہ ہوتا ہے تو ایسے انسان کی دعا سنی جاتی ہے اور دوسروں کی رد کی جاتی ہے یہ بھی دوست سے دوست کے سلوک کی مثال ہے.یوں تو ہر ایک شخص ہر کسی کی بات مان لیتا ہے لیکن اگر اس کے دوست کے مقابلے میں اگر کوئی بات منوانا چاہے تو پھر نہیں مانتا.اسی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے سب مذاہب کے پیروؤں کو چیلنج دیا تھا کہ سب مل جاؤ اور مل کر دعا کے ذریعہ مقابلہ کرو پھر معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کس کی دعاسنتا ہے اور کس کی رد کرتاہے.(۴) اس کی دعاؤں کی قبولیت خارق عادت طور پر ہوتی ہے جو عام طبعی قانون کو توڑ ڈالتی ہے.جیسے حضرت مسیح موعودؑ کی دعاسے ایک لڑکا عبدالکریم دیوانے کتے کے کاٹنے پر بیمار ہو کر بچ گیاحالا نکہ ڈاکٹرمانتے ہی نہیں کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے.(۵) جس طرح ایک دوست چاہتا ہے کہ دوست اس سے کچھ مانگے اسی طرح خدا تعالیٰ ایسے انسان کو موقع دیتا ہے کہ وہ کچھ مانگے اور پھر اسے دیا جائے.حضرت مسیح موعود ؑکا الہام ہے چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج اس کا مطلب یہی ہے کہ مانگو.دو سری فعلی شہادت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کو مدد اور نصرت دیتا ہے مگر اس سے مراد مال و دولت ،حکومت و سلطنت نہیں بلکہ یہ ہے کہ جس مقصد کو لیکر وہ کھڑا ہوتا ہے اس میں کامیابی عطا کرتا ہے.ایسے لوگوں کو دنیا کے مال و اسباب اور حکومت وغیرہ کی تڑپ ہی نہیں ہوتی بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے تڑپ ہوتی ہے اور یہ پوری ہو جاتی ہے.ایسے انسانوں کے متعلق یہ خیال کرنا کہ ان کو مال کیوں نہیں ملتا،حکومت کیوں نہیں ملتی، ایسا ہی امرہے جیسے کوئی بچہ خیال کرے کہ فلاں شخص کی لوگ عزت کرتے ہیں اس کو لڈو کیوں نہیں دیتے یا کھلونے کیوں نہیں دیتے؟ کہتے ہیں کچھ دیہاتی بیٹھے بحث کر رہے تھے کہ بادشاہ کیا کھاتا ہو گا؟ کوئی کہے فلاں چیز کھاتا ہوگا کوئی کہے نہیں فلاں چیز کھاتا ہو گا.ایک بڈھاجو دیر تک خاموش بیٹھاسنتا رہا تھا آخر اس سے نہ رہا گیا اور بے اختیار ہو کر بولا تم لوگ کیسے بے وقوف ہو کہ ان کھانوں کا نام لیتے ہو.بادشاہ نے ایک کو ٹھڑی گڑ کی اور اور ایک ادھر بھروا کر رکھی ہو گی ادھر جاتا ہو گا ایک بھیلی اٹھا کر کھالیتا ہو گا.
۹۱ نجات ادھر جاتا ہو گا تو ایک بھیلی اُٹھاکر کھالیتا ہوگا.اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں کی خدا نے کیا مدد کی کہ اسے نہ مال ملانہ حکومت ملی وہ ایسا ہی ہے جیسے وہ شخص جس نے کہا تھا کہ بادشاہ کے گھرگڑ بھرا پڑا ہوگا.خدا تعالی ٰکے پیارے ان باتوں سے بہت اوپر نکل چکے ہوتے ہیں اور ان کی اصل نصرت اور مدد یہی ہوتی ہے کہ ان کا جو مقصد ہوتا ہے وہ پورا ہو جاتا ہے.قرآن کریم کی روسے مال کاملنا کوئی کامیابی نہیں.خداتعالی ٰفرماتا ہے.ایحسبون انما نمدھم بہ من مال وبنين – نسارع لهم في الخيرت بل لا يشعرون ۵۰ کیا گمان کرتے ہیں یہ لوگ کہ مال اور بیٹے جو ان کو دیئے گئے ہیں یہ ان کی خوشی کا باعث ہوں گے یہ تو جانتی نہیں کہ خدا کی محبت کیا چیزہے.پس اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ باوجود ساری دنیا کی مخالفت کے اس تعلیم کو جسے لے کر وہ آتے ہیں دنیا میں پھیلا دیتے ہیں حالانکہ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ تعلیم دنیا میں پھل ہی نہیں سکتی.تیری فعلی شہادت یہ ہے کہ اگر ایسے انسان کے دشمن شرارت سے باز نہ آئیں تو ہلاک کئے جاتے ہیں.جب دشمن مخالفت میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پیاروں کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰٰ ان کے دشمنوں کو ہلاک کردیتا ہے.چوتھی فعلی شہادت یہ ہے کہ ایسے انسان سے نیک لوگ محبت کرنے لگ جاتے ہیں.اس کی وجہ ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے.ایک انسانوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے اور جب خدا تعالی ٰاپنے کسی پیارے سے بہت کرتا ہے تو وہ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب خدا تعالی ٰکسی سے پیار کرتا ہے فرشتوں کو اس سے پیار کرنے کا حکم دیتا ہے وہ آگے اوروں کو کہتے ہیں اور ہوتے ہوتے جو لوگ زمین میں نیک ہوتے ہیں ان کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے.یہ مقام نجات کا جس میں انسان کو پورے طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ نجات پاگیا صرف اسلام میں ہی ہے غیرمذاہب والے اس کا دعوی بھی نہیں کرتے.پس ثابت ہوگیا کہ اسلام ہی یقینی نجات دے سکتا ہے اور دوسرے مذاہب اس سے ادنی ٰدرجہ کی نجات بھی نہیں دے سکتے کیونکہ ہر بات کے لئے نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان میں نجات یافتہ کا کوئی نمونہ ہیں.پس وہ نجات دینے سے محروم ہیں.
۹۲ نجات مدارج کے لحاظ سے نجات کی قسمیں اب یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مدارج کے لحاظ سے نجات کی دو قسمیں ہیں ایک کو غیر حقیقی کہناچا ہیے اور دوسری کو حقیقی.غیرحقیقی وہ نجات ہے جس میں اس قدر پختگی حاصل نہیں ہوتی کہ انسان اپنی جگہ سے نیچے گرنے سے محفوظ کہلا سکے اس کے متعلق خطرہ ہوتا ہے کہ اس مقام سے گر جائے.اس حالت کا نقشہ قرآن کریم میں اس طرح کھینچا گیا ہے وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُۚ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِۚ-اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْؕ-ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ خد اتعالیٰ فرماتا ہے.ان کو سنااس شخص کا حال جس کو ہم اپنے نشان دیتے ہیں (یہ نجات پرہی ملتے ہیں) پھروہ اس طرح ہمارے نشانوں کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے جس طرح سانپ اپنی کینچلی اتار کر پھینک دیتا ہے اور خالی کا خالی نکل جاتا ہے.اس وقت شیطان اس کے پیچھے ہو لگتا ہے اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہو جاتا ہے.اگر ہم پسند کرتے (یعنی یہ دیکھتے کہ یہ ہماری نصرت کے استحقاق کو کھونہیں بیٹھا) تو اسے انہی نشانوں کے سہارے اس مقام پر لے جاتے جہاں وہ اس خطرہ سے محفوظ ہو جاتا.مگروه زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہشات کامطیع ہو گیا اور اس کی مثال کتے کی سی ہو گئی جس کے پیچھے دو ڑو تو بھی اپنی زبان نکال لیتا ہے اور نہ دوڑوتو بھی.یعنی اس کے اخلاق پھر اس طرح گر جاتے ہیں کہ وہ مقابلہ ہو یا نہ ہو بے وجہ لوگوں پراپنی زبان دراز کرتا رہتا ہے.ان آیات سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں.(1) بعض انسان آیات کے حصول کے بعد بھی گر جاتے ہیں.(۲) اس گرنے کا سبب ان کے نفس سے پیدا ہوتا ہے.شیطان ان کے گرنے کے بعد آتا ہے نہ کہ شیطان کے سبب سے وہ گرتے ہیں.وہ ایسے مقام پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ شیطان وہاں نہیں جاسکتا.وہاں ان کانفس ہی ہو تا ہے جو انہیں نیچےگراتا ہے.(۳) ان کے گرنے کے بعد شیطان ان کے پیچھے پڑ جاتا ہے کیونکہ اس وقت وہ اس کے اثر کے حلقہ میں آجاتے ہیں.(۴) یہ گرنا دنیاوی اغراض اور فوائد کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ اخلدالى الأرض سے ظاہر ہے.
۹۳ نجات (۵) ایسے لوگوں کے اخلاق بہت بگڑ جاتے ہیں.اب بھی دیکھو جن لوگوں کو احمدیوں میں سے ابتلاء آیا ہے ان میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں.ہم انہیں کچھ کہیں یا نہ کہیں وہ ہمیں گالیاں دیتے جاتے ہیں.میں اگر کچھ لکھوں تو بھی مولوی محمد علی صاحب گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور اگر نہ لکھوں تو بار بار چھیڑتے ہیں کہ بولتا کیوں نہیں؟ اس آیت سے یہ بھی نتیجہ ہے کہ ایسا بھی مقام ہے کہ جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا مگر نفس وہاں بھی ساتھ جاتا ہے.حقیقی نجات نجات حقیقی کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے قل إن صلاتي ونسكي ومحیاي ومماتی لله رب العلمین.اے محمدﷺ تو کہہ دے کہ میری نماز، میری قربانی ،میری زندگی ،میری موت سب اللہ ہی کے لئے ہے جو رب العالمین ہے.میرا ان میں کوئی دخل نہیں.یہ حقیقی نجات ہے.پہلی آیت سے پتہ لگتا ہے کہ نفس نیچے لانے والا ہوتا ہے مگر یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ خدا کا ہی ہو جاتا ہے حتیٰ کہ نفس بھی اپنا نہیں رہتا- یہی مقام ہر انسان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ نفس سے کیا مراد ہے.نفس کالفظ جو برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس سے مراد وہ ملکہ بدی کا ہے جو بدیاں کر کر کے انسان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے ورنہ نفس جو فطرت کانام ہے وہ اور شئے.مختلف مذاہب کے نزدیک نجات آرین مذہب کے نزدیک یہ دنیا دوزخ ہے اور جب اس سے علیحدگی ہوگی تو نجات ہو جاتی ہے کیونکہ وہ لوگ یہ مانتے ہیں کہ جو نیں عذاب ہیں اور ان کے نزدیک تمام اعمال کی سزااسی دنیامیں ملتی ہے.بدھوں کا نقطہ خیال یہ ہے کہ دنیا دکھ کی جگہ ہے لیکن انسان کے دل میں خواہشات پیدا ہو کراس کو بار بار دنیا میں لاتی ہیں اور ان خواہشات کے ترک کر دینے سے اس عذاب سے بچ جاتا ہے جینیوں کے نزدیک یہ ہے کہ دنیا میں انسان اس لئے آتا ہے کہ بعض روحوں کو مادہ چمٹ جاتاہے اور دنیا میں آنے کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کانٹوں میں کپڑا پھنس جائے.ایک طرف سے چھڑایا جاۓ تو دوسری طرف پھنس جائے سب طرف سے چمٹ جانا مکتی ہے لیکن ان کے نزدیک اس
۹۴ نجات دنیا کے علاوہ اور جنمیں بھی ہیں جہاں انسان دو جوانوں کے درمیان رکھا جاتا ہے.برہمن مذہب کے نزدیک اعمال کے اثر سے انسان دنیا میں آتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ ان کے نزدیک بھی علاوہ اس دنیا کے اور مقامات بھی عذاب کے ہیں.ان میں اور جینیوں اور بد ھوں میں یہ فرق ہے کہ جینی مادہ کے بوجھ کے سبب سے ہر خواہشات کے سب سے اس دنیا میں آنامانتے ہیں لیکن بر ہمن مذ ہب والے اعمال کی جزاء کے لئے واپسی مانتے ہیں اور خدا تعالی ٰکی طرف اسے منسوب کرتے ہیں.یورپ کے نئے لوگ بھی تناسخ کے تو قائل ہیں لیکن وہ اسے عذاب نہیں قرار دیتے بلکہ اس کو ترقی کا میدان سمجھتے ہیں پس ان کے نزدیک نجات میں مل جاتی ہے.یہودی مذہب عیسائیت‘ زرتشتی مذہب اور اسلام یہ پاگذاہب ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں اعمال کر جا اور اس کالی بدلہ اکئے جان میں اس کو ہے گو جزاءاسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے.تناسخ ان خلاصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے مذاہب میں سے ایک معتد بہ حصہ اس امر کا قائل ہے کہ انسان عذاب اس دنیا میں تناسخ کی شکل میں پالیتا ہے.پس اس عقیدہ پر ایک تنقیدی نظرڈالنا ضروری ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ جو مذاہب تناسخ کو مانتے ہیں وہ کہتے ہیں انسان جو مختلف حالات میں پیدا ہوتے ہیں.مثلاً کوئی امیر ہوتا ہے کوئی غریب، کوئی صحیح و سالم ہوتا ہے کوئی لنگڑا لولا ،کوئی عقلمند ہوتا ہے کوئی بے وقوف، کوئی چست ہوتا ہے کوئی سست ، کوئی طاقت ور ہوتا ہے کوئی کمزور، غرض انسانوں کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں اور بلحاظ جسم، عقل اور متعلقات کے انسانوں میں فرق ہوتا ہے.یعنی بعض طاقتور ہوتے ہیں اور بعض کا جسم کمزور ہوتا ہے، بعض کی عقل تیز ہوتی ہے اور بعض کی کمزور،بعض مالدار ہوتے ہیں، بعض غریب، پھربعض بیماروں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں بعض تند رستوں کے ،بعض عالموں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں بعض جاہلوں کے ،بعض مالداروں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں بعض غریبوں کے، غرض یہ تین قسم کے تفاوت یعنی جسمانی، عقلی اور مالی ہمیں بنی نوع انسان میں ملتے ہیں یہ تو ابتداء کا حال ہے.درمیانی زندگی میں بھی ہمیں کئی تفاوت نظر آتے ہیں.بعض لوگ بلا سبب اور بلاوجہ ناکا میابی کا منہ دیکھتے ہیں بعض معمولی کوشش سے کامیاب ہو جاتے ہیں.انجام میں بھی یہی تفاوت ہے بعض لوگ اپنے کاموں کو ختم کرکے مرتے ہیں.بعض لوگ
۹۵ نجات اعلیٰ مقاصد اور ترقی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے اچانک مرجاتے ہیں اور ان کے اچھے کام بغیر ختم ہونے کے درمیان ہی میں رہ جاتے ہیں.اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے تو اس کا کیا مطلب ہے اور کیا توجیه؟ ان اختلافات کی تین وجہیں بیان کی جاسکتی ہیں.(۱) انسان اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے اس حالت اختلاف میں پیدا کیا جاتا ہےیہی اس کی وجہ ہے.(۲) یا یہ کہ یہ اختلاف والدین سے ورثہ ملتاہے.(۳) پچھلے اعمال کا نتیجہ ہے.ان توجیہوں میں سے کوئی درست ہے؟ ان میں سے پہلی اور دوسری بات کے متعلق ہم کہتے ہے کہ یہ قانون قدرت کے خلاف ہیں کیونکہ ان کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ گویا انسان کو اپنے اعمال پر مقد رت نہیں ہے.اگر خدا نے انسان کو ان مختلف حالتوں میں بلا سبب پیدا کر دیا ہے یا انسان کو تفاوت ماں باپ سے ورثہ میں ملتا ہے تو اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ انسان کو اپنے اعمال پر قدرت نہیں کیونکہ خدا کا فعل یا اس کے ماں باپ کی حالت اسے بعض خاص حالتوں پر مجبور کر کے چلاتی ہے.اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس کو سزا کیوں ملے گی؟ جب خدا نے ایک انسان کو اچھا یا برا بنایا تو پھر اس کی جزاء یا سزا کیسی؟ ایک شخص کو خدا نے شریروں میں پید کیا اور وہ شریر ہوا.ایک کو نیکوں میں پیدا کیا وہ نیک ہوا پھرایک کو سزا اور دوسرے کو انعام کیسا؟ آپ ہی اچھا یا برا پیدا کیا پھر یہ عجیب بات ہو گی اگر سزا بھی اور انعام بھی دے گا اور اگر کہا جائے کہ خود انہیں ایسا پیدا کرتا بلکہ یہ باتیں اسے ورثہ میں ملتی ہیں.تب بھی اس کے یہی معنی ہوں گے کہ انسان مجبوری کی حالت میں ہے اور جب وہ مجبور ہے تو اس پر الزام کیسا؟ اور اس کے لئے انعام یا سزا کیوں؟ کیونکہ اعمال میں اس کا دخل ہی نہ تھا.دوسرا اعتراض یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ماننے سے خدا کے انصاف پر الزام آتا ہے کہ کیوں اس نے اپنے بندوں میں تفاوت کیا.اس کا تعلق چاہتا تھا کہ وہ سب سے ایک ساہی معاملہ کرتا.تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ہر بات جو اس دنیا میں ہمیں نظر آتی ہے وہ بلا سبب نہیں پس یہ کہہ دینا کہ یہ تغیرّ اس لئے ہے کہ خدا نے یونہی چاہا درست نہیں.کوئی ظاہری یا عقلی سبب اس کا موجود ہونا چاہئے جو سوائے تناسخ کے اور نہیں ہوسکتا.
۹۶ نجات چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں کوئی بات بلاسبب نہیں اسی طرح کوئی بات بلانتیجہ بھی نہیں.لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ جو شخص کی اہم کام کو ادھورا چھوڑا کر مرجاتا ہے وہ اس لئے مرجاتا ہے کہ خدا نے یونہی چاہاتو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس شخص کی زندگی بے نتیجہ رہی اور یہ بات عام قانون قدرت کے خلاف ہے.پس اس قسم کے حادثات کابھی ایک ہی حل ہے کہ وہ لوگ تناسخ کی وجہ سے ان حالتوں میں مر جاتے ہیں تاکہ دوسری شکل میں اپنی ترقی کو جاری رکھیں.ان تمام اعتراضات کو پیش کرکے تناسخ کے ماننے والے کہتے ہیں کہ چونکہ دوسری وجوہ تو دلا ئل سے ردہو جاتی ہیں اس لئے تیسری یہی وجہ ماننی پڑے گی کہ انسان کے پچھلے اعمال کے سبب یہ سب اختلاف ہے.ان کے اس دعو یٰ کو یورپ کے بعض لوگوں کے بیانات سے بھی تقویت مل جاتی ہے جو ان کا نام تجربہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم روحوں سے باتیں کر لیتے ہیں اور ان سے سوالات حل کرا لیتے ہیں.روحوں سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تناسخ درست ہے.یہ لوگ سپرچولسٹ (SPIRITUALIST) کہلاتے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں ان کا آج کل بڑا زور ہے.ابطال تناسخ یہ خلاصہ ہے قائلین تناسخ کے دلائل کا.اب میں ان باتوں کے جواب دیتا ہوں-(ا) اس ساری عمارت کی بنیادہی شک پر ہے.ہر مسئلہ کی بنیاد علم پر ہوتی ہے مگر تناسخ کا مسئلہ ایسا ہے جو شک سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص رات کو کہیں جارہا ہو ایک اور شخص اسے دیکھے اور کہے کہ چونکہ یہ رات کو گلیوں میں جا رہا ہے اور رات کو گلی میں پھرنے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے اس لئے یہ ضرور چور ہے.مگر یہ خیال اس کا شک ہو گا ممکن ہے کہ وہ چور ہو اور ممکن ہے کہ وہ کسی ضروری کام کے لئے جا رہا ہو.مثلاً کوئی گھر میں بیمار ہو اور یہ ڈاکٹر کو بلانے جاتا ہو یا ریل کا وقت ہو اور یہ گاڑی میں سوار ہونے جاتا ہو.یا مثلا ًکوئی شخص ایک وسیع مکان بنانے کے ایک اور شخص آکر دیکھے اور کہے چونکہ یہ بہت بڑا مکان بنا رہا ہے اور اس کے گھر کے آدمی اتنے نہیں ہیں جن کے لئے اتنے وسیع مکان کی ضرورت ہو اور ایسا مکان بنانے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے جو یہ ہے کہ یہ شخص منصوبہ باز ہے.اس جگہ اس کے ساتھی جو اس کے ساتھ سازش میں شریک ہیں جمع ہوا کریں گے اور یہ سمجھ کر اس کو گرفتار کرانے کی کوشش
۹۷ نجات کرے.تناسخ کو ماننے والوں کا طریق بالکل اسی کے مشابہ ہے.وہ کہتے ہیں انسانوں کی حالتوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کی کوئی وجہ ہونی چاہئے اس کے بعد آپ ہی آپ اس کی یہ وجہ گھڑ لیتے ہیں کہ یہ پچھلی جون میں جیسے کام کرتےتھے ویسے ہی آج ان کو بد لے ملتے ہیں پس تناسخ درست ہے.ہم کہتے ہیں یہ تو ٹھیک ہے کہ اس کی کوئی وجہ ہونی چاہئے مگر یہ کس طرح معلوم ہوا کہ اسکی یہی وجہ ہے کہ تناسخ کے باعث ایسا ہوا ہے.اس کی بھی کوئی دلیل ہو نی چا ہیے کہ صرف تناسخ کے سبب سے ایسا ہوتا ہے.تناسخ کو ثابت کرنے کے لئے صرف یہ ثابت کردیناکافی نہیں کہ انسانوں کے اختلاف کی کوئی وجہ ہونی چاہئے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ثابت کیا جائے کہ تناسخ ہی اس کی وجہ ہے.اب میں تفصيلاً ان کے اعتراضات کے جواب دیتا ہوں.پہلا اعتراض یہ تھا کہ اگر یہ مانا جائے کہ خدا تعالی ٰنے لوگوں کو مختلف الحالات ہی پیدا کیا ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ انسان کو اپنے اعمال پر قدرت نہیں کیونکہ جب اس کو بلا سبب کم طاقتیں دے کر بھیجاگیا ہے تو وہ کم ہی کام کرے گا اور پھر مواخذہ کے نیچے آجائے گا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ نتیجہ جو نکالا گیا ہے درست نہیں.مقدرت اس سے جاتی نہیں رہتی.مقدرت اس صورت میں جاتی رہتی اگر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ فرماتا کہ زیادہ عمل کرنے والے کو زیا دہ اجر ملے گا اور کم والے کو کم مگر یہ خدا تعالی ٰنے فیصلہ نہیں کیا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا كُنَّا غَآىٕبِیْنَ وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۵۳ یعنی ہم اپنے علم سے لوگوں کے سامنے ان کے تمام حالات بیان کریں گے اور ہم کبھی بھی ان لوگوں سے غائب نہیں ہوتے اور اس دن وزن حق ہو گا.پس جو شخص کہ ایسا ہو گا کہ اس کا بوجھ زیادہ ہو گا وہ کامیاب ہو جائے گا.اس آیت سے معلوم ہوا کہ اعمال کی بناء پر نہیں بلکہ وزن کی بناء پر نجات ہو گی اور وزن سے مراد تمام امور کا خیال ہے جن کی بناء پر کسی امر کی قیمت لگائی جاتی ہے.پس جب کہ ہر اک انسان کے اعمال کو دیکھتے وقت اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ اس نے کن حالات میں ،کن مشکلات میں یا کن اثرات کے لیے یہ کام کیا تھا تو مقدرت میں فرق تو نہ آیا کیونکہ ایک غریب آدمی ایک امیر کے برابر اخلاص رکھتا ہے اور اپنی طاقت کے مطابق دینی خدمات بجا لاتا ہے اور اس کے اخلاص کو وزن کر کے نہ کام کو اللہ تعالیٰ ٰبدلہ دیتا ہے تو پھر عدم
۹۸ نجات مقدرت کا الزام کہاں باقی رہا.مدارج کے اختلاف کا جو اثر عمل پر پڑتا ہے یا سمجھ پر پڑتا ہے اس کا خدا تعالیٰ اندازہ کرکے ہی جزاءدیتاہے.مقدرت کا فرق تب اعتراض بنا کہ اگر فیصلہ خدا تعالی ٰنے جو ذره ذره کو جانتا ہے نہ کرنا ہوتا بلکہ انسانوں نے کرنا ہوتا جو بوجہ علم کی کمی کے صحیح موازنہ نہیں کر سکتے کہ کسی شخص کے کاموں میں کہاں تک اس کے حالات کا دخل ہے اور کہاں تک اس کے اپنے ارادہ کا دخل ہے.در حقیقت یہ اعتراض پیداہی اللہ تعالیٰ ٰکی طاقتوں کے غلط اندازہ سے ہوا ہے اگر خدا تعالیٰ کی صفات کو مد نظر رکھا جاتا اور انسان کی طاقتوں پر اس کی طاقتوں کا خیال نہ کیا جاتا تو یہ دھوکا کبھی نہیں لگ سکتا تھا.پس یہ درست ہے کہ انسانوں کی حالتوں میں اختلاف ہے.ایک کمزور، ایک طاقتور، ایک اعلیٰ علمی قابلیتوں والا ایک موٹے دماغ کا ،ایک بہت سے سامان رکھتا ہے،.ایک تہی دست ہے، ایک ایسے لوگوں میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، ایک ایسا ہے جو گمراہوں میں پیدا ہوتا ہے لیکن ساتھ یہ بھی درست ہے کہ جس طرح ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مختلف لوگ مختلف حالات میں پیدا ہوتے ہیں یہ بات اس پیدا کرنے والے کو بھی معلوم ہے اور ہم سے بڑھ کر معلوم ہے.اور پھر مزید برآں یہ بات ہے کہ وہ ان تمام اختلافوں اور ان کے اثر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس کو کس قدر اور کس قسم کابدلہ دینا چاہئے.پس یہ اعتراض کوئی اعتراض نہیں.اس امر کی مثالیں کہ ان طبعی روکوں کا جن کو انسان نے پیدا نہیں کیا لحاظ رکھ لیا جائے گا قرآن کریم اور احادیث سے بہت سی ملتی ہیں.ایک دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةًؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا دَرَجٰتٍ مِّنْهُ وَ مَغْفِرَةً وَّ رَحْمَةًؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۵۴ مومنوں میں سے ایسے شخص جن کو کوئی طبیعی روک نہیں اور باوجود اس کے گھروں میں بیٹھ رہتے ہیں اور وہ جو خدا تعالی ٰکے راستہ میں مالوں اور جانوں کی قربانیاں کرتے ہیں برابر نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ ٰنے ان لوگوں کو جو اپنے مالوں اور جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرتے ہیں مذکورہ بالا قسم کے گھر بیٹھ رہنے والوں پر درجہ میں بلند کیا ہے اور ہر اک سے اللہ تعالیٰ نے نیکی کا وعدہ کیا اور اللہ نے مجاہدوں کو گھر بیٹھنے والوں پر بہت
۹۹ نجات بڑے اجر کے ساتھ فضیلت دی ہے.اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف وہ لوگ مجاہدوں سے درجہ میں کم ہوں گے جو طاقت رکھتے ہوئے سستی کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو طاقت نہیں رکھتے وہ اگر دل سے خواہش رکھتے ہوں تو اللہ کے رستہ میں جہاد کرنے کے لئے نکلنے والوں کے برابرہی ہیں.پس معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ پر ایک انسان کی مجبوریوں کو مد نظر رکھے گا اور ان کا لحاظ رکھ کر بدلہ دے گا.حدیثوں میں اس کی تصریح موجود ہے.چنانچہ بخاری اور مسند احمد میں انسؓ کی روایت ہے کہ ان بالمدینة اقواما ماسرتم من سير ولا قطعتم من وادا الا وهم بالمدینة يارسول الله قال حبسهم العذر ۵۰ یعنی ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک جنگ کے لئے جارہے تھے راستہ میں آپ نے فرمایا کہ کچھ لوگ مدینہ میں ایسے ہیں کہ تم کوئی سفرطے نہیں کرتے اور نہ کوئی وادی طے کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں (یعنی تمہارے برابر ثواب پا لیتے ہیں) صحابہ ؓ نےکہایا رسول الله باوجود اس کے کہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں؟ آپ ؐنے فرمایا ہاں کیو نکہ ان کو عذر نے روکا ہوا ہے (ور نہ دل سے وہ چاہتے تھے کہ جنگ میں ساتھ جائیں) اس حدیث سے کسی وضاحت سے ثابت ہوا ہے کہ اسلام کے نزدیک اختلاف حالات کو سزاء جزادیتے وقت اللہ تعالیٰٰ مد نظر رکھے گا.حتی ٰکہ ایک اگر عذر کی وجہ سے گھر بیٹھ رہتا ہے تو وہ انہی لوگوں کے ساتھ سمجھاجاتا ہے جو جہادمیں حصہ لیتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-مَا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ الله تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو ان احکام کو پورا کرنے کی جو لوگ طاقت نہیں رکھنے ان سے پوچھا نہیں جائے گا اور نہ ان سے جو مریض ہوں اور نہ ان سے جن کے پاس روپیہ نہیں جب کہ ان کے دل میں نیت ہو کہ اگر یہ عذر نہ ہوں تو ہم بھی ایسا ہی کریں.اسی طرح آتا ہےلن ینال الله لحومها ولا دماؤها ولكن يناله التقوی منکم *۵۷.پہلی آیت میں جن عذروں کا ذکر ہے وہ جسمانی ہیں.اس آیت میں مالی کمزوریوں کے متعلق فرماتا ہے یہ نہ سمجھنا کہ فلاں نے اتنا مال دیا ہے اور ہم نے اس سے اتنازیا دہ دیا ہے خدا کو مال نہیں پہنچتا بلکہ وہ چیز پہنچتی ہے جو دلوں میں ہوتی ہے.جس کے پاسن تقوی ہو اس کی اٹھنی بھی
۱۰۰ نجات اس شخص کے سو روپیہ سے زیادہ قد ر رکھتی ہے جو تقوی سے خالی ہو.پس یہ کہا کہ ایک شخص مالدار ماں باپ کے ہاں پیدا ہو کر زیادہ ثواب حاصل کر سکتا ہے جب کہ ایک دوسرا شخص غریب والدین کے ہاں پیدا ہو کر ثواب سے محروم رہ جاتا ہے غلط ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے حضور غریب کا ایک پیسے مالدار کی بہت بڑی رقم کے برابر سمجھا جائے گا اگر ان دونوں نے اپنی اپنی طاقت کے مطابق صدقہ دے دیا ہے.پس نہ امیر کی رعایت ہے نہ غریب پر ظلم ہے.اس جگہ یہ اعتراض پڑ سکتا ہے کہ مان لیا کہ جزا سزا پر اس اختلاف حالات کا کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن اس میں کیا شک ہے کہ اس اختلاف حالات سے ایک کو تکلیف ہوتی ہے دوسرے کو آرام ملتا ہے.خداتعالی ٰایسا کیوں کرتا ہے؟ گو اس اعتراض کا تناسخ سے کوئی تعلق نہیں لیکن میں اس کا بھی جواب دے دیتا ہوں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس انتظام کے ماتحت بعض کو تکلیف ہوتی ہے اور بعض آرام سے رہتے ہیں لیکن یہ تکالیف قانون قدرت کے ماتحت آتی ہیں نہ کہ قانون شریعت کے ماتحت مگر با و جود اس کے احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رحیم و کریم خدا نے بندہ کی اس تکلیف کا بھی خیال رکھا ہے.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے عن ابي هريرة قال قال رسول الله ما يزال البلاء بالمؤمن والمؤمنة في نفسه وولده وماله حتی يلقي الله تعالى وماعليه خطيئة **ه.یعنی خدا پر ایمان لانے والے کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی خواہ اس کی جان کے متعلق، خواہ اولاد، خواہ مال کے متعلق کہ اس کے بدلہ میں جب وہ خدا سے ملتا ہے تو اس کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ قانون قدرت کے ماتحت بھی جو تکالیف پہنچ جاتی ہیں ان کا بدلہ انسان کو مل جاتا ہے اور جب بہتربدلہ مل گیا تو اعتراض نہ رہا.اب بتاؤ جو شخص لنگڑا ہو اسے اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس وجہ سے میں جنت کے قریب ہو گیا ہوں تو وہ ضرور کہے گا کہ مجھے اس حالت کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ اخروی انعامات اعلیٰ ہیں.حدیثوں میں آتا ہے کہ کچھ صحابیؓ کفار کے مظالم کی وجہ سے حبشہ چلے گئے تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ امن ہو گیا ہے تو واپس آگئے.ان میں سے ایک شخص کو ایک رئیس نے اپنی پناہ میں لے لیا.وہ جس کو پناہ میں لیا گیا تھا اس نے ایک دن دیکھا کہ ایک کافر ایک مسلمان کو مار رہا ہے اس نے جا کر ائیس کو کہہ دیا کہ میں آئندہ آپ کی پناہ میں نہیں رہتا میں یہ نہیں برداشت کر سکتا کہ دوسرے مسلمان ماریں کھائیں اور میں آپ کی پناہ کی وجہ سے بچار ہوں اس کی پناہ سے نکلنے کے بعد ایک دن کفار ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شاعر نے اپنے شعر سنانے شروع کئے جن
۱۰۱ نجات میں سے ایک شعریہ تھا.الا کل شیء ما خلا الله باطل و كل نعیم لا محالة زائل ترجمہ !سنو ہر ایک چیز سوا اللہ کے ہلاک ہونے والی ہے اور ہر ایک نعمت آخر ضرور ضائع ہو ہوجانے والی ہے.اس پر اس صحابیؓ نے کہا یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں.چونکہ عربوں میں بڑوں کا ادب بہت کیا جاتا تھا اس شاعر نے بہت شور مچایا اور کہا کہ اے مکہ کے شرفاء ! تم میں پہلے تو مہمان کو اس طرح ذلیل نہیں کیا جاتا تھا.اس پر طیش میں آکر ایک کافر نے اسی صحابیؓ کو زور سے مُکامارا کہ اس کی ایک آنکھ کو سخت صدمہ پہنچا.اس مجلس میں وہ شخص بھی بیٹھا ہوا تھا جس نے اس صحابی کو اپنی پناہ میں لے رکھا تھا اس نے کہا میری پناہ میں سے نکلنے کا کیا نتیجہ نکلا اب بھی وقت ہے تو میری پناہ میں آجا.صحابیؓ نے کہامیری ایک آنکھ کو اگر تکلیف ہوئی تو کیا پرواہ ہے کیا تو سمجھتا ہے کہ میں اس سے تیری پناہ میں آجاؤں گا؟ میری تو دوسری آنکھ بھی انتظار کر رہی ہے کہ خدا کی راہ میں اس کو بھی وہی دکھ پہنچے جو پہلی کو پہنچا ہے.اس واقعہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں کو یقین ہو کہ ہماری تکالیف کا نیک بدلہ ملنے والا ہے وہ ان تکالیف کو تکالیف ہی نہیں سمجھتے.بغیر تناسخ کے خد اکے عدل پر اعتراض پڑ تاہے دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر یہ نہ تسلیم کیا جائے کہ اختلاف حالات پچھلے اعمال کے بدلہ میں تھا تو اس سے خدا تعالی ٰکے عدل پرحرف آتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک اگر رو حیں آزاد شئے ہیں اور کہیں سے پکڑ کر خدا تعالیٰ نے انسان کے جسم میں ڈال دی ہیں تو بے شک اس کے انصاف پر حرف آتا ہے.لیکن اگر روحیں انسانی جسم سے ہی پیدا ہوتی ہیں اور بیٹے کی روح اس نطفہ سے ہی پیدا ہوتی ہے جو باپ سے پیدا ہوتا ہے تو اس میں ان قوتوں کا پیدا ہونا جو باپ میں تھیں اور اس کا پیدا ہو کر ان حالات کا وارث ہونا جو باپ کو میسرتھے ایک قدرتی امر ہے اس میں کوئی ظلم نہیں اور جب کہ عقل سلیم صریح طور پر اس امر کی تصدیق کرتی ہے تو اعتراض صرف بے عقلی کا نتیجہ رہ جاتا ہے.دوم یہ کہ جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے پرایک تغیر کا بدلہ انسان کو مل جاتا ہے.پس جب کہ دنیوی تکالیف کابدلہ بھی انسان کو مل جائے گا تو اس تغیر کے سبب سے خدا تعالیٰ پر اعتراض کیونکر وارد ہوا؟
۱۰۲ نجات ہر اک بات کا کوئی سبب ہونا چاہئے تیسرا اعتراض یہ تھا کہ دنیا کی ہر اک بات کا کوئی سبب ہونا چاہے پھر اس اختلاف حالات کا کیا سبب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ انسانی ترقی کے لئے ضروری تھا کہ ہر ایک چیز کچھ اثر اپنے اندر رکھے اور کچھ تاثیر.اگر یہ دونوں قوتیں مٹادی جائیں تو کل کارخانہ عالم تباہ ہو جاتا ہے.پس ان دونوں قوانین کے ماتحت جو بچہ ماں باپ کے ہاں پیدا ہوتا ہے وہ ان کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور اس تغیر کا سبب یہی ہے کہ جن کے گھر میں وہ پیدا ہوا تھاوہ ان حالات میں گذر رہے تھے.ایک شخص جو زہر کھاتا ہے مرجاتا ہے اور اگر اس کو کوئی زہردیتاہے تو بھی وہ مرجاتا ہے اسی طرح جو بچہ جس باپ کے جسم سے بنتا ہے اپنے سرچشمہ کی طاقتیں بھی حاصل کرنا ہے.اگر سرچشمہ کمزور ہے تو وہ بھی کمزور ہوتا ہے اگر سرچشمہ طاقتور ہے تو وہ بھی طاقتور ہوتا ہے.پس یہ عام قد رتی سبب ہی اس تغیر کا سبب ہے.ادھورے رہ جانے والے کاموں کاا جر چوتھا اعتراض یہ تھا کہ ایک کام کرتے کرتے انسان مرجاتا ہے وہ کام پورا نہیں ہو گا اس میں بے فائدہ محنت کرنی پڑتی ہے.اگر یہ پچھلے اعمال کی وجہ سے نہیں ہوتا تو کیوں خدا وہ کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرتب نہیں ہوا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی انسان کو خاص حکم سے نہیں مارتا بلکہ انسان عام قانون قدرت کی نافرمانی سے یا عام قانون قدرت کی زد میں بلا جانے بو جھے آکر مرتا ہے.مگر اسلام سے بتاتا ہے کہ اس صورت میں جس نیک کام کو کرتے کرتے انسان مرجاتاہے اور وہ کام ادھورا رہ جاتا ہے وہ اس کے اعمال میں پورا لکھا جاتا ہے اور بغیر اس کام کے کرنے کے اس کا اجر مل جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی نیکی کا کام کر رہا ہو اور قانون طبعی کے ماتحت اسے موت آجائے تو خدا اس کام کو اس کے حق میں لکھ دے گا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص جس نے بہت سے گناہ کئے تھے اس نے توبہ کرنی چاہی.اس نے ننانوے قتل کئے تھے ایک شخص سے اس نے پوچھامیں توبہ کر کے اپنے گناہ بخشوا سکتا ہوں یا نہیں؟ اس نے کہا نہیں.اس کو بھی اس نے قتل کر دیا پھر اس کو پشیمانی ہوئی اور خیال آیا شاید میری توبہ قبول ہو جائے.اسے معلوم ہوا کہ فلاں جگہ ایک شخص رہتا ہے اس سے پوچھنا چاہے اس کی طرف چل پڑامگر رستہ میں ہی مر گیا.حدیث میں آتا ہے کہ اس کے متعلق دوزخ اور بہشت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا - دوزخ کے فرشتے کہتے کہ اس نے توبہ نہیں
۱۰۳ نجات کی اس لئے اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور بہشت کے فرشتے کہتے کہ چونکہ یہ توبہ کرنے کے لئے روانہ ہو چکا تھا اس لئے بہشت میں جانا چاہئے.اس پر اللہ تعالیٰ کہے گاکہ جاؤ دونوں طرفیں نا پو.پھر جس طرف جا رہا ہو گا اس کو کھینچ کر چھوٹا کر دے گا اور اس طرح وہ بہشت میں چلا جائے گا..یہ ایک مثال ہے اور اس کے یہ معنی نہیں کہ واقعہ میں زمین کھینچ دی گئی تھی بلکہ یہ مراد ہےکہ خدا تعالی ٰنے اس شخص کو توبہ کرنے والوں میں شامل کرلیا اور جنت کا وارث بنادیا.پس جس عمل پر کوئی انسان مرتا ہے خواہ وہ ادھورا ہی رہے اس کا بدلہ اس کو مل جائے گا اور اس کا وہ کام ضائع نہیں جائے گا.مردوں کی شہادت کہ تناسخ حق ہے ٍپانچواں اعتراض یہ تھا کہ مردوں کی روحوں سے بلوا کر پوچھا گیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ تناسخ حق ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات ہی درست نہیں کہ مردوں کی روحیں اس طرح بلوانے سے آجاتی ہیں.انسان کے اندر ایک روحانی طاقت ہے جب کوئی شخص اس کو خاص طور پر استعمال کرتا ہے وہ عجیب عجیب نظارے دکھاتی ہے.اس کے ماتحت جو لوگ روحوں کے بلوانے کی طرف توجہ کرتے ہیں ان کو رو حیں معلوم ہونے لگتی ہیں اور بعض دفعہ تو ان کی شکلیں نظر آنے لگتی ہیں لیکن حقیقتاً کوئی روح نہیں آتی کیونکہ تجربہ سے معلوم ہواہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پر روحوں کو بلوایا گیا اور سب جگہ ایک ہی روح نے جواب دیا.اس طرح یہ بھی تجربہ ہواہے کہ ایک مذہب والے کو روح کچھ جواب دیتی ہے اور دوسرے مذہب والے کو بھی جواب دیتی ہے حالانکہ اگر روح في الواقعی آئی تو ایک وقت میں اگر ایک ہی روح کو کئی جگہ بلوایا جاتا تو ایک جگہ وہ آتی اور باقی جگہوں پر کوئی چیزنہ آتی اسی طرح چاہئے تھا کہ روحیں سب کو ایک ہی جواب دیتیں حالانکہ وہ مختلف جواب دیتی ہیں.پس معلوم ہوا کہ یہ سب غلط فہمی کا نتیجہ ہے اپنے ہی خیال کو روح سمجھ لیا گیا ہے.تناسخ پر اعتراض تناسخ کے ماننے والوں کے ان موٹے موٹے اعتراضوں کا جواب دینے کے بعد اب ہم خود تناسخ کے مسئلہ کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا؟ یہ بالکل خلاف عقل ہے کہ ایک بات رد ہو جانے سے دوسری بات آپ ہی آپ ثابت ہو جائے.اگر ایک امرکی کئی توجیہہ ہو سکتی ہیں تو صرف ایک توجیہہ کے رد ہو جانے سے دوسری توجیہات رد نہیں ہو سکتیں.پس جب تک تناسخ کو رد نہ کیا جائے محض دوسرے
۱۰۴ نجات خیالات کو رد کرنے سے یا ان پر اعتراضات کرنے سے تنا سخ ردّنہیں ہو سکتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تناسخ کوئی دلیل بھی نہیں.تناسخ کے ماننے والوں کا سارا دارومدار اس امر ہے کہ وہ دوسرے خیالات پر اعتراض کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کا عقیدہ ثابت ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر غور کیا جائے تو یہ عقیدہ عقل سے اور مشاہدہ سے اور خود ہندوؤں کے عمل سے بالکل خلاف عقل ثابت ہوتا ہے.مثلاً (۱) ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ہندو عقیدہ کے روسے یہ دنیا ایک عذاب کا مقام ہے اور اس سے چُھٹ جانا نجات ہے.پھر بھی اگر ہندوؤں میں سے کوئی مرجائے تو اس پر افسوس کرتے ہیں اور روتے ہیں حالانکہ اگر یہ دنیا ایک عذاب ہے اور اس کی گرفت سے نکل جانااصل مقصد ہے تو چاہئے کہ مرنے والوں پر خوش ہوں کہ انہوں نے ایک منزل طے کرلی اور خصوصاً بچوں کی موت پر تو بہت ہی خوشی ہونی چاہئے کہ انہوں نے بلا کسی گناہ کے اپنی اس جون کو طے کر لیا مگر مرنے والوں پر ہندوؤں کا ماتم بتاتا ہے کہ وہ ایک طرف تو ان حوادث کو قانون قدرت کا اثر سمجھتے ہیں اور دوسری طرف تناسخ کی تائید پر اصرار کے ساتھ کمربستہ ہیں جو خلاف عقل ہے.(۲) ہندوؤں کے نزدیک نجات نام ہے اس جسم سے چُھٹنے کا کیو نکہ سکھ دکھ جسم سے تعلق رکھتے ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس جسم میں آنا ایک سزا ہے.چنانچہ ان کے عقائد سےثابت ہوتا ہے کہ جب انسان ادنیٰ حالت میں آتا ہے تو جونوں کے چکر میں پھنستا ہے اور جب ترقی کرتا ہے تو اس چکر سے آزاد ہو جاتا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے وہ اولاد کی خواہش کرتے ہیں.گویا ایک طرف تو اس دنیا میں جیٗو کا آنا سزا کا موجب سمجھتے ہیں اور دو سری طرف اس امر کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے گھر بھی کچھ قیدی آویں گویا وہ اولاد کی خواہش کر کے جیوؤں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں.(۳) پھر تناسخ کے عقیدہ پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ پہلی دفعہ روحوں کو جسم میں کیوں داخل کیا گیا تھا.یہ کونسا انصاف تھا کہ ان کو جونوں کے چکر میں پھنساکر تکلیف دی جاتی؟ ہندو یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلے انسان پیدا کیا گیا تھا جو اچھی حالت ہے کیونکہ ان کے عقیدہ کے رو سے خواہ انسان بنایا جائے خواہ کچھ بنایا جاۓ روحوں کی اطمینان کی حالت جونوں سے الگ ہو کر سکھ دکھ کے احساس سے بچ جانا ہے.پس اس دنیا میں خواه انسان بنا کر بھیجا جائے یہ ایک عذاب ہے اور دکھ ہے یہ دکھ بلاوجہ کیوں دیا گیا؟
۱۰۵ نجات (۴) تناسخ کے عقیدہ کو مان کر ایک مشکل یہ پیش آجاتی ہے کہ کیا خدا تعالی ٰنے سب روحوں کو پہلے ہی موقع پر اکٹھا انسانوں کی جون میں بھیجا تھایا آہستہ آہستہ دنیا میں بھیجا؟ اگر کہو کہ پہلے ایک ہی دفعہ سب روحوں کو انسان بنا کر بھیجا پھر جوگناہگارتھے ان کو جانور بنادیا اور اس کو تاریخ غلط ثابت کر رہی ہے.تاریخ بلا شک و شبہ اس امر کو ثابت کرتی ہے کہ انسانی نسل دنیا میں بڑھتی جاتی ہے جو آج سے ہزار سال پہلے آبادی تھی اب اس سے بہت زیادہ ہے.وہ ہزار سال پہلے کی آبادی سے زیادہ تھی پس یہ بات تو درست نہیں ہو سکتی.اگر کہا جائے کہ آہستہ آہستہ روحوں کو دنیا میں بھیجا جاتا ہے تو یہ انصاف کے خلاف ہے کیونکہ پہلی دفعہ دنیا میں آنے والی سب روحیں یکساں ہونی چاہئیں مگر جب دنیاکا سلسلہ جاری ہو گیا تو ماننا پڑے گا کہ کوئی امیر کے گھر میں پیدا ہوگی کوئی غریب کے گھرمیں اور یہ بقول ہند و صاحبان ظلم ہو گا.(۵)تناسخ کے عقیدہ کو مشاہدہ باطل کرتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اس قدر جانور ہیں کہ اگر انسان بنا دیا جائے تو زمین پر تِل دھرنے کی جگہ نہ رہے بلکہ اگر ان کی لاشیں اوپر نیچے رکھ دی جائیں.تب بھی میلوں میل اونچے لاشوں کے پہاڑ بن جائیں.پس اگر یہ سچ ہے کہ پہلے یہ سب روحیں انسان تھیں پھر گناہ کی وجہ سے جانور بن گئیں تو اس قدر آدمی دنیا میں رہ کیونکر سکتے تھے ان کو تو کھڑے ہونے کو بھی جگہ نہیں مل سکتی تھی.اگر کہو کہ آہستہ آہستہ دنیا میں آئے تو اس کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے کہ پھر برابری نہ رہتی اور وہی بے انصافی کا جواب آریہ مذہب پر آجا تاجودو سروں پر لگاتے ہیں.(۶) سائنس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا حیوان اس طرح پھیلے ہیں کہ پہلے ادنیٰ جانور بنے پھران سے اعلیٰ پران سے اعلی ٰپھرانسان بنا اور یہ بات عقل کے مطابق ہے کیونکہ ہم دنیامیں دیکھتے ہیں کہ تمام قانون قدرت ایک ارتقائی تدریج ہے.پس تناسخ کا عقیدہ اس حقیقت کے خلاف ہونے کے سبب سے باطل ہے.ہم ڈارون تھیوری کے قائل نہیں ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ انسان کسی اور جانور سے بن گیا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زمین نے آہستہ آہستہ ایسی صفائی اختیار کی کہ اس میں انسان رہ سکے.پس ضرور تھا کہ پہلے ادنیٰ جانور پیدا ہوتے جو کثیف ہوا میں رہ سکتے اور اگر پہلے جانور ہوئے ہیں تو پھر تناسخ کا عقیدہ باطل ہے کیونکہ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ ٰنے مکتی خانہ سے نکال کر پہلے روحوں کو جانور بنایا جو ظلم ہو گا.(۷)تناسخ کی ابتداءہی تناسخ کو رد کرتی ہے کیونکہ یہ خیال کیا گیا ہے کہ گناہ کی وجہ سے دنیا
۱۰۶ نجات میں اختلاف پیدا ہوا کہ کوئی غریب بنا کوئی امیر، کوئی عقلمند بنا کوئی بے وقوف ،کوئی بد صورت بنا کوئی خوبصورت لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو گناه تفاوت اور اختلاف سے پیدا ہوتا ہے ایک شخص کے پاس ایک ایسی چیز نہیں ہوتی جو دوسروں کے پاس ہوتی ہے تو وہ اس کی خواہش کرتاہے اور حسد یالالچ میں مبتلاء ہو جاتا ہے پھر چوری وغیرہ میں مبتلاء ہو جاتا ہے پھر قتل وغیرہ کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے یا زنا اور بدکاری میں مبتلاء ہوتا ہے.لیکن اگر پہلے سب انسان ایکس ی شکل کے، ایک سی عقل کے، ایک سے مال کے، ایک سی عزت کے پیدا ہوئے تھے تو گناہ کیونکہ پیدا ہوا؟ کسی کو کسی کے خلاف جوش و غصہ پیدا کیونکر ہو سکتا تھا؟ ٍ (۸) آٹھواں اعتراض یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو ماننا ہو گا کہ جس قدر تکالیف انسان کو دنیا میں پہنچتی ہیں یہ سب پچھلے اعمال کی سزا اور ان کا بدلہ ہیں.اگر یہ درست ہے تو چاہئے کہ جو اس دنیا میں زیادہ مالدار ہو وہ پہلے جنم میں زیادہ نیک ہو اور جسے اس دنیا میں کالیف پہنچیں وہ پچھلے جنم میں نہایت گناہ گار اور گندا ہو.جیسا کہ ہندوؤں کا خیال بھی ہے کہ وہ عورتیں اور اندھے اور لولے لنگڑے انسان اور غریب اور بھوکے مرتے لوگ پچھلے جنموں کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر لوگ دنیا کے مصلح گذرے ہیں خواہ ان کو نبی کہو ،مامور کہو، او تار کہو، وہ سب لوگ بہت سی تکالیف میں رہے.ہندووں کے بزرگوں رام چندرؑ جی اور کرشنؑ جی کو دیکھ لو ان کے راستہ میں سخت تکالیف آئیں.تناسخ کی رو سے ماننا پڑے گا کہ ان لوگوں کی پچھلے جنموں کی زندگی بہت بری تھی.مگر کیا کوئی عقلمندمان سکتا ہے کہ جس قدر لوگ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے ہیں وہ سب کے سب پہلی زندگی میں برے لوگ تھے؟ عقل یہی فیصلہ کرے گی کہ وہ مسئلہ باطل ہے جو ان کو بد عمل قرار دیتا ہے یہ لوگ بدنہ تھے.(۹) ایک اعتراض یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی قسم کے جانور دنیا سے مٹتے چلے جاتے ہیں اگر تناسخ صحیح ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ بعض گناہ ہو نے دنیا سے بند ہو گئے ہیں حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں گناہ نئے سےنئے نکلتے آتے ہیں.(۱۰) دسواں اعتراض یہ ہے کہ ہندو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ملک میں چارہ نہ رہنے کی وجہ سے اور گائیوں کو ذبح کر دینے کے سبب سے گائیں دنیا میں کم ہو گئی ہیں اور اس کا الزام گورنمنٹ پر دیتے ہیں.لیکن اگر یہ سچ ہے کہ تناسخ کے اثر کے نیچے بعض رو حیں گائے کی جون میں آتی ہیں تو پھر لوگوں کے ذبح کرنے سے گائیں کم کیوں ہو جاتی ہیں ؟ جب ان کے اعمال چاہتے
۱۰۷ نجات ہیں کہ وہ گائے کی شکل میں رہیں تو اول تو کسی کو ان کے ذبح کرنے پر قدرت ہی نہیں ہونی چاہئے اور اگر یہ قدرت ہو تو چاہئے کہ وہ پھر جلد سے جلد دوباره جنم گائے کی شکل میں لیں اور جس جگہ گائیں زیادہ ذبح ہوں وہاں گائیوں کی اولاد بہت بڑھ جائے اور جلدی جلدی بچے ہونے لگیں.مگر یہ درست نہیں جس قدر جانورذبح کئے جائیں وہ اپنی مدت پوری کرنے کے لئے واپس نہیں آتے بلکہ کہیں غائب ہو جاتے ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ تناسخ کا عقیدہ بالکل عقل کے خلاف اور قانون قدرت کے مخالف ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس خلاف عقل عقیدہ کو مان کر اس کے ماننے والوں نے عجیب عجیب خلاف عقل باتوں کو تسلیم کیا ہے جس پر ایک عقلمند انسان سواۓ افسوس کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا.چنانچہ بدھوں میں سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدھ متعدد دفعہ مختلف جونوں میں اس دنیا میں آیا ہے.چنانچہ چار دفعہ اس نے برہما کاجنم لیا ،بیس دفعہ اند ر کا، ایک بار خرگوش کا،تراسی بار سنیاسی کا، اٹھاون مرتبہ بادشاہ کا ،چوبیس مرتبہ برہمن کا، ایک بار قمار باز کا، اٹھارہ مرتبہ بند رکا، چھ بار ہاتھی کا،گیاره مرتبہ ہرن کا، ایک مرتبہ کتے کا، چار بار سانپ کا ،چھ مرتبہ چوہے کا، ایک بار مینڈک کا، دو مرتبہ مچھلی کا، پینتالیس باروہ درخت بنا،دو مرتبہ سور اور دو مرتبہ چوروغیرہ وغیرہ.یہ تاریخ بدھ جی کی جیسی قابل مضحکہ، قابل نفرت، قابل نفرین ہے خودہی ظاہر ہے ایک نیک اور پاکباز بزرگ انسان کی نسبت اس قسم کی تاریک تاریخ منسوب کرنے کی جرأت صرف تناسخ کے عقیدہ نے دلوائی ہے ورنہ ہرگز ممکن نہ تھا کہ کوئی امی جرأت کرتا- ان لوگوں کو اگر کہا جائے تمہارا باپ سؤر ہے تو فور اً لڑپڑیں لیکن ایک مقدس بزرگ کو سؤ ربنانے سے نہیں شرماتے.کیا نجات مل جانے پر اعمال کی ضرورت نہیں رہتی: اب میں اس سوال کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں کہ کیا نجات مل جانے پر عمل چھوٹ جاتے ہیں.مثلا ًجس طرح جب بیمار اچھا ہو جاتا ہے تو علاج چھوٹ جاتا ہے.کیا اسی طرح جو نجات حاصل کرلیتا ہے اس کو اعمال کی ضرورت نہیں رہتی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس سوال سے بہت بڑا نقصان لوگوں کو پہنچا ہے.ہندو کہتے ہیں کہ اگر نجات مل جائے تو اسی دنیا میں عمل چھٹ جائیں گے.اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ رشی چونکہ نجات یافتہ ہوتے ہیں اس لئے وہ خواہ کچھ کریں ان پر کوئی دوش نہیں ہو تا اور ہر بات ان کے لئے جائز ہو جاتی ہے.بعض نادان مسلمان کہتے ہیں ایک شریعت ہے اور ایک طریقت.شریعت کے چکر میں جو پڑاہو
۱۰۸ نجات اس کے لئے ضروری ہے کہ عمل کرے.مگر جب طریقت حاصل ہو جائے تو پھر عمل کی ضرورت نہیں رہتی.اس سوال کا پہلے تو اسلامی جو اب دیتاہوں پھر عقلی جواب دوں گا.کہاجا سکتا ہے کہ جب اسلامی نقطہ نگاہ سے مانا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہی نجات مل جاتی ہے تو پھرا عمال کی کیا ضرورت رہتی ہے؟ چنانچہ اباحتیوں نے اس امر کو مد نظر رکھ کر شریعت اور طریقت کی اصطلاحات نکالی ہیں.لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺسے کہا کہ آپ کو تو خدا تعالی ٰنے سب کچھ معاف کر دیا پھر آپ ؐتہجد کی نماز میں اس قدر کیوں کھڑے ہوتے ہیں کہ آپؐ کے پاؤں سوج جاتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اس سے معلوم ہوا کہ عمل خدا تعالی ٰکے ملنے کے لئے ہی نہیں کئے جاتے بلکہ شکریہ کے طور پر بھی کئے جاتے ہیں.اور جب رسول کریم ﷺ جیسا انسان بھی جو سب نیکوں کا سردار ہے اعمال سے مستغنی نہیں ہوتا اور لوگ کس طرح مستغنی ہو سکتے ہیں؟ خدا کی حقیقت سے ناواقفیت یہ خیال دراصل تین باتوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.اول یہ کہ ایسے لوگ خدا تعالی ٰکی ذات کو نہیں سمجھتے اور اسے کوئی محدود چیز سمجھ لیتے ہیں اور یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انسان پر ایک ایسا زمانہ بھی آتا ہے کہ اسے خدا مل جاتا ہے اور اسے کسی اور کام کی ضرورت نہیں رہتی.حالا گلہ خدا کے ملنے کا یہ مطلب ہے کہ عرفان حاصل ہو اور عرفان کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ برابر بڑھتا چلا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہو رب زدني علما \"اے میرے رب میرے علم کو اور بڑھا اور میرے عرفان کو اور ترقی دے.اور ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیا کے معمولی علم بھی ختم نہیں ہوتے پھر خدا تعالیٰ کی معرفت کس طرح ختم ہو سکتی ہے؟ ایک دفعہایک شخص آیا اور مجھ سے پوچھنے لگا اگر دریا کے پار ہونا ہو اور انسان کشتی میں سوار ہو اور کشتی کنارے پر پہنچ جائے تو پھر اسی میں بیٹھے رہنا چاہیے یا اتر جانا ہے؟ میں نے اس کا مطلب سمجھ لیا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ اعمال بطور کشتی کے ہیں اور کناره خدا ہے جب خدا مل گیا تو پھراعمال کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے اسے کہا اگر دریا کا پاٹ ختم ہونے والا ہو تو انسان کنارے پر پہنچ کر اتر جائے لیکن اگر دریا غیر محدود پاٹ کا ہو تو اگر وہ اترے گا تو ڈوبے گایہ سن کر وہ پھرنہ بولا.پس چونکہ ہم اس ہستی کی تلاش میں ہیں کہ جس کا عرفان کبھی ختم نہیں ہوتا پھر اس کے
۱۰۹ نجات حصول کے لئے جو اعمال کئے جاتے ہیں ان کو چھوڑنے کا کیا مطلب؟ خداتعالی ٰنے روح کو ابدی اسی لئے بنایا ہے کہ تاوہ یہ سمجھے کہ خدا کا عرفان کبھی ختم نہ ہو گا.روح کو خداتعالی ٰابدی زندگی دیکر کہے گا کہ میرا عرفان حاصل کر.مگر جب عرفان کبھی ختم نہ ہو گا تو روح کو پتہ لگے گا کہ ذات باری غیر محدود ہے ورنہ جو موجودہ علم انسان کو اللہ تعالیٰٰ کی نسبت ہے اس سے ان طاقتوں کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو اللہ تعالیٰٰ میں پائی جاتی ہیں.اعمال کی حقیقت سے ناواقفیت دوسری جہالت ان لوگوں کی یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے اعمال کی حقیقت کو نہیں سمجھا.اعمال صرف خدا کو پا لینے کے لئے ہی نہیں ہوتے بلکہ عبودیت کے اظہار اور اظہار شکریہ کے لئے بھی ہوتے ہیں.جس کو خدا مل گیا اور فرض کر لو کہ خدا کے عرفان کی حد اس نے معلوم کرلی اور اس حد کو پہنچ گیاتب بھی وہ اعمال چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ پھر وہ شکریہ کے اظہار کے لئے عمل کرے گا.یہ ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص اپنے شاگرد کو اپنا سارا علم پڑھادے مگر شاگر وہ پھر بھی اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھے گا.اپنی حقیقت سے ناواقفیت تیسری جہالت یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے اپنی حقیقت بھی نہیں سمجھی.کیا وہ نہیں جانتے کہ مخلوق ہر وقت تازه غذا کی محتاج ہوتی ہے.عبودیت کے ذریعہ انسان عرفان کے مقام پر جب پہنچتا ہے تو پھر اسے یہ بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اس مقام پر اپنے آپ کو قائم رکھے جیسے ایک مضبوط آدمی کو ضرورت ہوتی ہے کہ اپنی طاقت قائم رکھنے کے لئے غذا کھاتا رہے.پس جس طرح ایک انسان مضبوط ہو کر کھانا کھانا چھوڑ نہیں دیتا اسی طرح عرفان کے مقام پر پہنچ کر عبودیت کو چھوڑ نہیں سکتا.پس عبادت کبھی نہ چھوٹے گی نہ یہاں اور نہ وہاں.بلکہ وہاں زیادہ بڑھ کر عبودیت کا اظہار کیا جائے گا.ہاں دنیا ایسی جگہ ہے کہ جہاں انسان اس مقام سے گر بھی سکتا ہے اور اس میں ترقی بھی کر سکتا ہے مگر وہ ایسی جگہ ہے کہ وہاں اپنے مقام سے گرے گا نہیں او ر بڑھتاہی جائے گا.- الفاتحة : انا ۲-المومنون : ۲ تا۱۲ ٣- زبور باب۵۱ آیت ۱۴تا۱۲ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۴.الاعراف :۴ ۵- الأنعام : ۹۳
۱۱۰ نجات - الفرقان : ۲۸.Marconi aslialno (۱۹۳۷-۱۸۷۴ء) اطالوی موجود پولونیا میں اسکی مواصلات کا نظام قائم کیا ایتھرکی شعاعوں میکانیات پر قابو پایا اور عملی طور پر ثابت کیا کہ کسی طرح ان شعاعوں کو پیدا کر کے فاصلہ پر لاسکی مواصلات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۱۹۰۹ء میں اس کی خدمات کے صلے میں طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۳۷۸ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء) ۸- Thomas Ala Edison (۱۹۳۱-۴۱۸۴۷ء) امریکن موجد.ابتدائی اخبارات میں خودکار برقی پیام رسانی کا ٹرانسسٹر اور رسیور اور ۱۸۹ء میں بلب ایجاد کیا.اس نے تیرہ سو(۳۰۰) مختلف اياد است پینٹ کرا رکھی تھیں (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد اسلحہ ۲ امطبویه ۱۹۸۷ء).مسند احمد بن حنبل جلدا صفر ۳۹۹ متقی باب ۲۹ آیت ۲۴۲۱ بائبل سوسائی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۲ء (مضمون) - متھی باب ۲۹ آیت ۵۰.۴۷ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء - ايوب بابا آیت باب ۲ آیت و بائبل سوسائٹی انار کی لاہور مطبوم 1943ء (مضمون) ۱۳- التوبة : ۴۰ ۱۴- بخاری کتاب الجھارباب من علق سیفه بالشجر في السفر عندالقائلة ۱۵- البقرة : ۱۸ 11- مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء واستحباب التداوی - الحجر : ۳ ۱۸- یونس : ا 19-ال عمران : ۹۸ ۴۰.متی باب ۴ آیتا.بائبل سوسائٹی انار کلی ملبویہ ۱۹۹۴ء مریم: ۲۲ ۲۳- محمد: ۳ ۲۲- الأنفال : ۳۰ ۲۳- الاحزاب : ۳۴ ۲۵.مسند احمد بن حنبل جلد۱ صفر ۴۴۳ ۲۶- أل عمران : ۸۸ تا۹۰ ۲۶-الزمر : ۵۳ ۲۸-ال عمران : ۲۹- يونس : ۰۸ ۳۰-الذریت : ۵۰ ۳- التين : 2 ۳۲- الذریت : ۵۷ ۳۳- الفجر : ۳۳۰ ۳۴- الانبياء : ۴۸ ۳۵- القارعة : ۱۰۹ ۳۶- هود : •اتا۱۰۹ ۳- الأعراف : ۱۵ ۵:
انوارالعلوم جلد اا نبات ۰۴۰ ۳۱ : م.النساء : ۱۲۱۱۲۰ ۳۸.کنز العمال جلد ۳، صفحه ۵۲ روایت ۳۹۵۰۹ مطبوی صلب ۱۹۷۵ء میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں \"ياتي على جهنم يوم مافيها من بني ادم احد تخفق أبوابها ۳۹.بخاری کتاب التوحید باب قول الله وجوه يومئذ ناضرة الی رتها ناظره ۴۰.بنی اسرائیل : 3 - المطففين : ۵ ۳۲.مسند احمد بن حنبل جلد صفر ۱۲۹ ۴۳- آل عمران : ۱۳۷۱۳۹ ۳۴-لحم السجدة : ۳۱ ۴۵.مسند ام بن منبل جلد۵ صفحہ ۴۶۳.2- هود : ۹۳ ۴۸- حم السجده : ۳۲ ۴۹.تذکرہ صفحہ ۱۹۹- ایڈیشن چا ۵۰- المومنون : ۹۷۹۹ أ۵.الاعراف: ۱۹ ۵۲ - الانعام: ۱۳) ۵۳ - الأعراف:۶۸ ۵۳ - النساء:۹۹۹ ۵۵- مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۰۳ پر اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں \"ان بالمدينة القوماما سرتم مسيرا ولا قطعتم واديا الأكانوا معكم فيه قالوا يا رسول الله بالمدينة قال وهم بالمدينة جسهم العذر ۵۶- التوبة : و ۵۷ - الحج : ۳۸ **۵۷- ترمذی ابواب الزهدباب في الصبر على البلاء ۵۸- سیرت ابن هشام على جلد ۲ منہ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء ۵۹- مسلم کتاب التوبة باب توبة القاتل وان كثر قتله 10.بخاری کتاب التهجدباب قيام النبي الليل حتی ترم قدما....الخ وهم ۳۸ : الا.طه ۱۱۹ :
۱۱۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم 1 تقاریرِ ثلاثہ فرمود رد فعل عمرخلیفۃ المسیح الثانی) تقريرِ اول (جلسہ لجنہ اماءاللہ منعقده مورخہ ۵- فروری ۱۹۲۳ء) علم دماغی ترقی کا موجب ہوتا ہے میں نے پچھلے جلسے کے ایک موقع پر یہ بات بیان کی تھی کہ علم کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ مختلف علوم کے متعلق ایسے لوگوں کے لیکچر ہوتے ر ہیں جو ان کے ماہر ہوں.خواه یہ علوم دینی ہوں یا دنیاوی.کیونکہ ہر قسم کا علم انسان کی دماغی ترقی کا موجب ہوتا ہے.بعض دفعہ انسان مذہبی طور پر ایک رتبہ حاصل کرلیتا ہے مگر دنیاوی علوم نہ جاننے کے باعث ذلیل ہوتاہے.حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی شخص کا جو بزرگ مشہور تھا واقعہ بیان کرتے تھے کہ بادشاہ کے درباریوں میں سے کوئی اس کا معتقد تھاوہ ہمیشہ بادشاہ کو تحریک کرتا تھا کہ اس بزرگ کے پاس چلومگر بادشاہ ہمیشہ اس کو ٹلادیتاتھا.بارہا ر کے کہنے پر ایک بار بادشاہ کو خیال آیا کہ چل کر دیکھیں توسہی بزرگ کہلاتا ہے اس میں کیا کمال اور بزرگی ہے.چنانچہ بادشاہ وہاں پہنچااس کو خیال ہوا کہ بادشاہ پر کچھ اثر ڈالنا چاہئے اور اس کے لئے اس نے مناسب سمجھا کہ کچھ نصیحت کروں اور اس طرح پر علم کا اظہار کروں تاکہ اس کی عقیدت میں ترقی ہو.اس خیال پر اس نے اپنی تقریر کا سلسلہ شروع کیا اور کہا کہ بادشاہوں کو لازم ہے کہ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کریں اور ان پر ظلم نہ کریں.مسلمان بادشاہوں میں سے ایک سکند ر بادشاہ تھاجو رسول الله ﷺ سے ہزار سال پہلے گزرا تھا.بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو اس کاچہره متغیر ہوا اور اس کو معلوم ہوا کہ یہ شخص محض جاہل ہے اور اٹھ کر چلا گیا.اس شخص کو نفس کی خواہش نے ہلاک کیا اور ضروری علم کے نہ جاننے کی وجہ سے ذلیل ہوا.اگرچہ یہ کوئی ضروری بات نہیں کہ کوئی بزرگ ہو تو اسے یہ بھی معلوم ہو کہ سکند ر کون تھا
۱۱۶ تقارير ثلاثہ مگر اس شخص نے اپنے نفس کی بڑائی کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ وہ تاریخ سے بھی واقف ہے ایک ایسی بات کہی جو اس کی ذلت کا باعث ہو گئی اس لئے کہ وہ غلط تھی پس ایسے علوم سے انسان کو کم از کم واقفیت ہونی چاہئے.اس لئے میں نے بتایا تھا کہ مختلف اوقات میں علمی امور پر تقریر میں ہوتی رہیں تاکہ سب ممبر واقف ہو جائیں اور یہ علوم خواہ دینی ہوں یا دنیوی.اور یہ بھی بتایا تھا کہ مردوں کو بعض وقت معلوم نہیں ہوتا کہ کون سے مسائل ہیں جو عورتوں کے لئے ضروری ہیں اس لئے میں نے تجویز کیا کہ ایک لیکچرایسا ہو کہ اس میں بتا دیا جائے کے علوم کون سے ہیں تب عورتیں خود فیصلہ کر سکیں گی کہ وہ کس کس علم کے متعلق تفصیل سے سننا چاہتی ہیں.جیسے اگر کسی شخص کو شہروں کے دیکھنے کی خواہش ہو.مثلاً دہلی ہے تو وہ اس کے دیکھنے کے لئے آرزو کرے گا اس لئے کہ اس نے دوسرے بڑے شہروں جیسے لنڈن، پیرس، کا نام نہیں سنا اور نہ ان کی وسعت اور خوبصورتی کے متعلق کچھ معلوم ہے حالا نکہ لنڈن، پیرس، برلن بہت بڑے شہر ہیں مگر چونکہ ان کے متعلق علم نہیں.اس لئے دہلی کے دیکھنے کی تو خواہش کریں گے حالانکہ وہ ان شہروں سے کچھ نسبت ہی نہیں رکھتا.اسی طرح عورتیں اسی وقت معلوم کریں گی جب ان کے سامنے علوم کی ایک فہرست رکھ دی جاتے ہیں میرا یہ لیکچر صرف علوم کی تعریف کے متعلق ہو گا میں بتاؤں گا کہ دنیا میں کیا کیا علوم ہیں.علم کے مفہوم کی وسعت علم کےمعنے میرے نزدیک یہ نہیں کہ جو سچاہی ہو میرے نزدیک علم کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ فی الحقیقت وہ سچے اور مکمل ہوتے ہیں اور بعض نہ سچے ہوتے ہیں اور نہ مکمل ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان کو علم کہا جاسکتاہے اور بعض ابھی معرضِ تحقیق میں ہوتے ہیں مگر علم کہلاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو پڑھنا ہوتا ہے مگر عمل اور کام کرنا نہیں ہو تا اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں صرف کام کرنا پڑتا ہے اور ہاتھ کا زیادہ دخل ہوتا ہے.پس میں اس مضمون میں صرف علوم کی فہرست بتاؤں گا تاکہ اندازہ کر لیں کہ کس قدر علم کی ضرورت ہے اور اسی طرح پر اس فہرست میں وہ علوم بھی لوں گا جو سچے اور درست ہیں اور وہ علوم بھی لوں گا جو درست نہیں.ایسے بھی جو عقل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے بھی جو صرف علم سے تعلق رکھتے ہیں.عام طور پر علوم دو قسم کے ہوتے ہیں.مذہبی یا دینی اور دنیاوی.پہلے میں مذہبی علوم لوں گا.
۱۱۷ مذہبی علوم مذہبی علوم کے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مذہب کیا چیز ہے اور کن باتوں میں مختلف مذاہب میں باہم اختلاف ہوا ہے.مذہب پر اگر غور کریں تو تین باتوں کی وجہ سے اختلاف ہوا ہے.اس کے متعلق بھی میں تفصیلات نہیں بیان کروں گا بلکہ مذاہب کے مختلف پہلو بیان کروں گا.مختلف مذاہب میں تین اصول ہیں جن پر اختلاف ہوا ہے.اول انسان کس طرح دنیا میں آیا؟ دوم کس غرض کے لئے دنیا میں آیا؟ سوم اس بات پر کہ کہاں جائے گا؟ یہی تین باتیں ہیں جن کی وجہ سے اختلاف ہوا اور مختلف مذاہب پیدا ہو گئے.ان ہرسہ امور کے متعلق جس قدر مسائل ہیں ہم ان کے گرد چکر لگائیں گے.اشتراکِ مذہب نئے علوم کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور سوال بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ مذاہب کا باہم کس حد تک اشتراک ہے یعنی وہ کن باتوں میں باہم ملتے ہیں اور کن خیالات کے دائروں کے اندروہ پیدا ہوتے ہیں؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس زمانہ کے لوگ مذہب سے الگ ہو کر سمجھتے ہیں کہ وہ جھوٹ ہے اس غرض کے لئے انہوں نے یہ خیال نکالا ہے کہ کن باتوں میں مذاہب ملتے ہیں اور کن باتوں میں اختلاف ہے؟ پھران دو باتوں کو مد نظر رکھ کر یہ کہتے ہیں کہ ان کے باہر سے آنے کی ضرورت نہیں یہ اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے الہام کی ضرورت نہیں.پہلی بات کے متعلق کہ کن باتوں میں ملتے ہیں وہ ان کو مشترک سچائیاں کہہ کر الہام کی ضرورت کا انکار کرتے ہیں اور دوسرا حصہ کہ کن دائروں کے اندر وہ خیالات پیدا ہوئے ہیں اس کے متعلق وہ ہرقسم اور ملک کی پہلی حالت کو لیتے ہیں اورپھر ان کے مذہب کو لیتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ یہ ان خیالات کا نتیجہ ہے اور اس طرح پر کہتے ہیں کہ خدا تعالی ٰکی طرف سے آیا ہوامذہب نہیں.یہ جدید تحقیقات مذاہب کے علم کے متعلق ہیں اور اس علم کو موازنہ مذاہب یا کمپیریٹو ریلجن (Comparative Religion) کہتے ہیں.یہ اصول علوم ہیں مذاہب کے متعلق.مذہب اسلام تفصیلی طور پرمذہبی علوم یہ ہیں کہ (۱) ایک علم اسلام کا ہے اسلام مذاہب میں سے ایک مذہب ہے پس انسان اس کی تحقیقات کرے.مذہب مسیحی (۲) دو سرامذہب مسیحیت ہے.جب تحقیقات مذاہب ہوگی تو یہ سوال ہو گا کہ مسیحیت کیا ہے؟ جب علمی تحقیقات ہونگی تو اس کے فرقوں کو دیکھنا ہو گا.اس
۱۱۸ کے چار بڑے فرقے اصول کے لاظ سے ہیں.اول.رومن کیتھولک:.ان کا عقیدیہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے خلیفہ پیٹر (پطرس) تھے.پطرس حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری اور خلیفہ تھے اس کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ روم میں رہے.وہ ( کیتھو لک) کہتے ہیں کہ جب روم میں گئے تو ان کو قائم مقام مقرر کیا تھا اس لئے وہ ان کا خلیفہ تھا.روم کے پادریوں کا سب سے بڑا افسر جس کو پوپ کہتے ہیں اس کو وہ پطرس کا جانشین اور خلیفہ سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ باقی جس قدرپادری ہیں وہ اس کی اطاعت کریں.اگر وہ اس کی اطاعت نہیں کرتے تو مسیح کی بھی نہیں کرتے.غرض وہ حضرت مسیح کی خلافتِ متواترہ کا اقرار کرتے ہیں.میں اس وقت یہ بحث نہیں کروں گا کہ یہ غلط ہے یا صحیح بلکہ مجھ کو تو صرف یہ بتا ناہے کہ یہ بھی ایک علم ہے.پھر وہ لوگ حضرت مریم کی طرف بھی کچھ خدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب کوئی بزرگ مرجاتا ہے تو اس کی قبر یا لاش سے دعا کرتے ہیں.سائنس کے طریق پر بعض لاشوں کو محفوظ رکھتے ہیں اور بزرگوں کی قبروں پر یا جہاں انہوں نے دعائیں کی ہوں جاتے ہیں.انتظامی طور پر وہ خلیفہ کو مانتے ہیں اور مذہبی لحاظ سے ان کا خیال ہے کہ حضرت مسیح ؑ اور مریم اور دوسرے بزرگوں کی قبریا مقامات مقدسہ پردعاکی جائے تو قبول ہوتی ہے.ان میں ایک رسم عشاءِ ربانی کی ہے.کہتے ہیں کہ مسیح نے اپنی گرفتاری سے پہلے شراب یا انگور کا رس اور روٹی کا ٹکڑالے کرپیا اور حواریوں کو دیا اور اس کی تعبیرا پنے گوشت اور خون سے کی.یہ اس کی نقل کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں یعنی وہ ڈبل روٹی کو گوشت اور شراب کو اس کا خون یقین کرتے ہیں رومن کیتھو لک کے ماتحت بہت بڑا علاقہ ہے اور رومن کیتھو لک پرانے طریق کے عیسائی ہیں.دوسرا فرقہ گریک چرچ (Greek Church) ہے گریک چرچ کے معنے ہیں یونانی گرجا.یہ لوگ پانچویں مسیحی میں جدا ہو گئے.یو نانیوں میں بت پر ستی زیادہ تھی یہ لوگ رومیوں کے اس خیال کو صحیح نہیں سمجھتے کہ پوپ مسیح قائم مقام ہے اس لئے وہ پوپ سے الگ ہوگئے.ان کا بڑا پادری پٹیری یادک کہلاتا ہے جو قسطنطنیہ میں رہتا ہے اس کو بھی پوپ کی طرح و ہ مسیح کا قائم مقام نہیں سمجھتے.
۱۱۹ تیسرامذہب پروٹسٹنٹ.پروٹسٹنٹ کےمعنے ہیں مقابل میں اظہار نفرت یا اظہار علیحد گی.ان لوگوں نے پوپ سے علیحدگی کا اظہار کر دیا.رومن کیتھو لک سے یہ لوگ نکل کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہرشخص آزاد ہے پوپ کچھ نہیں ان کے ہاں بھی گرجا ہے اور وہ اسے بادشاہ کے ماتحت سمجھتے ہیں.یہ تو انگلستان کا حال ہے یورپ کے باقی ممالک والے گرجے کے ماتحت سمجھے جاتے ہیں جن میں عام لوگوں کی بھی رائے ہوتی ہے.ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح کی صلیب کے سامنے یا کسی بزرگ یا مریم کے بت کے سامنے جھکنا جائز نہیں اور انجیل کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کرنا جائز ہے بر خلاف رومن کیتھو لک والوں کے جو کہتے ہیں کہ انجیل اصلی زبان میں پڑھنی چاہیے چو تھافرقہ یونی ٹیرین ہے جو ایک خدا کو مانتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ خدایا خدا کا بیٹا نہیں مانتے بلکہ ان کو آخری اور بڑانبی یقین کرتے ہیں.عیسائیت کے یہ بڑے بڑے فرقے بیان کئے ہیں ان میں چھوٹے چھوٹے اور بھی بہت سے فرتے ہیں لیکن بڑے بڑے فرقے یہی ہیں.یہودی مذہب (۳) تیسرامذہب یہودیت ہے.یہ لوگ حضرت موسی علیہ السلام کی امت ہیں اور تو رات کو مانتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کو جھوٹا یقین کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایک آنے والے مسیح کی پیشگوئی ضرور ہے مگرمسیح ابن مریم کا دعوی غلط ہے وہ کہتے ہیں مسیح سے پہلے ایلیا نبی آسمان سے آۓ گا.ملاکی نبی تک سب کو مانتے ہیں البتہ حضرت سلیمان کو بھی بڑا کہتے ہیں اور حضرت داؤدکو نبی مانتے ہیں.اصل مذہب کی بنیادتو رات رکھتے ہیں.یہودی مذہب کے دو فرقے ہیں.ایک صدوقی دوسرے فریسی صدوقی سیاسی فرقہ ہے اور آزاد خیال ہے.ان کا یہی خیال تھا کہ بائیبل ہر شخص سمجھ سکتا ہے اس لئے وہ حالات زمانہ کے ماتحت بائیبل کے معنی کرلیتا تھا اور یہ فرقہ چونکہ سیاسی تھا بادشاہوں کی مدد پر تھا.بادشاہوں کو بھی اپنی حکومت چلانے کے لئے ان کی ضرورت تھی اس لئے وہ بھی ان کی مدد کرتے اور آزادی دے دیتے تھے تا کہ حسب مطلب معنے کر لیں.در حقیقت یہ ایک سیاسی فرقہ تھا اس فرقہ کو کسی حد تک اہل حدیث کی مانند کہہ سکتے ہیں.دوسرا فرقہ فریسی حنفیوں کی مانند ہے.یہ کہتے ہیں کہ بزرگوں کے اقوال کی بھی تقلید ضروری ہے اور دوسرے ملکوں کے فتح کرنے کے خلاف تھے بلکہ اپنے ملک کو محدود رکھنا چاہتے تھے.
۱۲۰ چونکہ صدوقی فرقہ ایک سیاسی فرقہ تھا اس لئے یہودیت کی تباہی کے ساتھ وہ مٹ گیا.ہندومذہب (۴) چوتھا ہندو مذہب ہے.دراصل یہ کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے آنے سے پہلے جو لوگ ہندوستان میں موجود تھے وہ ہندو کہلاتے تھے ان میں موٹے موٹے فرقے یہ ہیں.سب سے زیادہ اور سب سے قدیم سناتن و کرم ہے کہ بہت پرانامذہب ہے اور وید پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں.ان کا عقیدہ ہے کہ وید کے بعد کوئی نئی شریعت اور کتاب نہیں آئی ہے بلکہ اوتاروں کے ذریعہ وید کا علم آتا ہے.کرشن اور رام چندر کو او تار مانتے ہیں.اس مذہب کا زیاده مداربت پرستی پر ہے اور تین بڑے دیو تابرہما ،وشنو اور شو کو مانتے ہیں اور بھی چھوٹے چھوٹے بہت سے دیو تاؤں کو مانتے ہیں مگر سب سے بڑے یہی ہیں.آگے پھر ان میں مذہبی فرقے ہیں.بعض برہما کو بڑا بتاتے ہیں اور بعض وشنو کو اور بعض شو کو.برہما پیدائش کا دیوتا ہے‘شو آرام اور دولت کا، اور دشنو ہلا کت کایعنی موت کا.پھر ان فرقوں میں ایک اہم فرقہ ہے جو کرشن جی کو ماننے والا ہے وه و ید کو خاص طرزپرمانتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ کرشن جی نے گیتا میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ وید کو پڑھ کر نہیں آتا اس لئے وہ گیتاہی کو پڑھتے ہیں.وہ گیتا کے علم کو مکمل سمجھتے ہیں اور ویدوں پر اس کو فضیلت دیتے ہیں اس لئے وہ ایک نیاہی فرقہ ہے.پھر ایک اور فرقہ ان میں ویدانتی یا ویدانت کہلاتا ہے.اس فرقہ والے سمجھتے ہیں کہ سب کچھ خداہی ہے.وہ کہتے ہیں کہ دنیا کو ایک خدا کا خیال ہے اور ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سب کچھ ہمیشہ سے ہے.اور اگر یہ ہمیشہ سے نہیں تو پھر کہاں سے آگیا.پس یہ خد اکاخیال ہے اور در حقیقت یہ کچھ نہیں.پھر ایک فرقہ وام مارگ ہے ان کا عقیدہ عملی طور پر یہ ہے کہ ساری روحانی ترقی عیاشی پر موقوف ہے.یہ لوگ کثرت سے پھیلےہؤئے ہیں.پھر ایک مذہب آریہ مذہب ہے یہ او تاروں کو نہیں مانتے اور یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالی ٰنے روح اور مادہ کو پیدا نہیں کیا بلکہ یہ دونوں چیزیں بھی ہمیشہ سے مستقل طور پر ہیں.اپنے وجود کے لئے خدا تعالی ٰنے ان چیزوں کو لے کر جوڑ جاڑ دیا جس طرح کمہار مٹی لے کر برتن بنادیتا ہے.اور یہ مذہب نجات کے متعلق کہتا ہے کہ جو کچھ ملتا ہے وہ صرف کرموں کا پھل ہے اور اس کو تناسخ یا آواگون کا عقیده بتاتے ہیں کہ انسان بار بار اپنے عملوں کی جزا سزا بھگتنے کے لئے اسی دنیا میں بار بار آتارہتا ہے اور کبھی اس کو ہمیشہ کی نجات نہیں مل سکتی.
۱۲۱ بدھ مذہب (۵) انجواں مذہب بدھ مذہب ہے.لوگوں کا خیال ہے کہ سب سے زیادہ تعداداسی مذہب کی ہے یہ مذہب پیدا تو ہندوستان میں ہوا مگر اب اس کے ماننے والوں کی بڑی تعداد ہندوستان سے باہر ہے چین اور جاپان وغیرہ میں اسی مذہب کے ماننے والےکثرت سے ہیں.اس مذہب کا بانی بدھ ایک راجہ کا بیٹا تھا.انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی یاد کی.وہ کہتے ہیں کہ خواہشات کے مٹادینے کا نام نجات ہے اور خواہشات کا مٹانادینا ہو جانا ہے.یہی اس مذہب کا بڑا امتیاز ہے.وہ ہر قسم کی خواہشات ہی کو مٹا دینا چاہتے ہیں اس لئے وہ روزہ نہیں رکھتے اور دوسری قسم کی عبادات کو بھی مٹا دیا کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی خواہش ہے اور خواہش کے مٹادینے کا نام فنا ہو تا ہے اور یہی نجات ہے.جینی مذہب (۶) چٹھامذہب جین مت ہے.اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد ہندوستان میں دو اڑھائی کروڑ ہوگی.وہ کہتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں چند پاک روحیں مل کردنیا پر حکومت کرتی ہیں اور باقی تمام ارواح ترقی کرتی ہیں اور اسی ترقی میں کبھی کوئی وقت آجاتا ہے کہ وہ نجات پا جاتی ہیں.انسان کی روح کو مادہ لگ گیا ہے جب وہ مادہ جھڑ جاتا ہے تو وہ نجات پا جاتی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی کا کانٹا کپڑے کو لگ جائے اوراس کانٹے کو الگ کردیا جائے ان کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ جب تک وہ مادہ جھڑتا نہیں رو حیں بار بار آتی رہتی ہیں اور بار بار آنے کا نام تناسخ ہے.یہ عقیدہ سب میں ہے.زرتشتی مذہب (2) ساتواں زرتشتی مذہب کا علم ہے.یہ مذہب پانچ ہزار برس پہلے ایران میں پیدا ہوا تھا.بعض کا خیال ہے یہ ہندومذ ہب سے بھی پہلے کا ہے.زرتشت ایک شخص ہے جس پر یہ مذہب نازل ہوا.اس مذہب کے عقائد اسلام سے ملتے ہیں.اعمال میں وضو، تیمم، نماز بھی پائی جاتی ہے اور دوزخ اور بہشت کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں.ان لوگوں کا سب سے بڑا اختلاف دوسرے مذاہب سے یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا جلوہ آگ اور سورج کو یقین کرتے ہیں اس لئے اس کی عام طور پر پوجا کرتے ہیں.اس کے بعد پانی اور ہو ا عناصر کے بھی پرستار ہیں.عملی طور پر دوسرے مذاہب کے بعض اعمال سے بہت بڑا اختلاف ہے.مثلاً ہندو مردوں کو جلاتے ہیں اور مسلمان، عیسائی، یہودی سب دفن کرتے ہیں.
۱۲۲ یہ لوگ جن کو زرتشتی یا پارسی کہتے ہیں نہ جلاتے ہیں نہ دفن کرتے ہیں بلکہ گدوں کو کھلاتے ہیں.اس کام کے لئے انہوں نے ایک جگہ بنائی ہوئی ہے جس کو وغمہ کہتے ہیں.انگریزی میں اس کا جو نام ہے اس کا ترجمہ ہے "مینار خاموشی" جو لوگ اس میں مردوں کو رکھتے ہیں اور یہ کام کرتے ہیں ان کو باہر نکلنے نہیں دیتے.سکھ مذہب (۸) آٹھواں مذہب سکھ مذہب ہے.اس مذہب کے بانی گورو نانک صاحبؒ کے عمل اور کام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کو اچھاجانتے ہیں.ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندو بزرگوں کو بھی ا چھا جانتے ہیں.ان میں کوئی شریعت نہیں.انکی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب ہے اسی کو یہ مانتے ہیں مسلمانوں سے اختلاف اور عداوت کی وجہ سے ان سے الگ ہو گئے ہیں.عام طور پر اس مذہب میں اخلاقی تعلیم ہوتی ہے.بہادر بنو.جھوٹ نہ بولو.وغیرہ.اس کے دو بڑے فرقے ہیں.ایک اکالی دوسرے اوا سی- اواسی پرانے ہندو بزرگوں کو بھی مانتے ہیں اور اکالی کہتے ہیں کہ سکھ نیا مذہب ہے ہندوؤں سے تعلق نہیں.آجکل اس فرقہ کابہت زور ہے اور چھوٹے چھوٹے بہت سے فرقے اس مذہب میں ہیں.جاپانی مذہب (9) نواں مذہب شنٹوازم ہے جو جاپان مذہب ہے.ان میں نہ شریعت ہے نہ کوئی قانون ہے.اخلاقی باتیں ہوتی ہیں اور وہ روح کی طاقتوں کے قائل ہیں.مردوں کی روحوں کی پرستش کرتے ہیں.مذہب فلسفہ (۱۰) دسواں مذہب فلفسہ کا ہے.یہ شک وشبہ کامذہب ہے.دہریہ بھی اسی میں داخل ہے.یورپ میں ان کو اگناسٹک (Agnostic) کہتے ہیں اس کے معنی ہیں.’’میں نہیں جانتا‘‘ اس مذہب کی بنیاد محض و ہم پر ہے.ان کے سوا کچھ نئے مذہب پیدا ہوئے ہیں.ان میں سے ایک بابی مذہب ہے اس کا عقیده ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد ایک نیا رسول صاحب شریعت آیا ہے.اس مذہب کا بانی ایک شخص محمد علی باب تھا جس کے نام سے منسوب ہو کر یہ لوگ بابی کہلاتے ہیں پھر اس کے بعد اس کا ایک خلیفہ بہاء اللہ اس کا جانشین ہوا اور اس کے نام سے منسوب ہو کر اس مذہب کا نام بہائی ہوگیا اور اب یہ لوگ اپنے آپ کو اسی نام سے ہی پکارا جانا پسند کرتے ہیں.اس مذہب کا خیال ہے کہ حضرت امام حسین کی اولاد میں سے ایک امام غائب ہو گیا تھاجواب
۱۲۳ تک زندہ ہے وہ امام غائب ایک شخص کو اپنا قائمقام پاتا ہے وہ اس کا جانشین ہوتا ہے گویا وہ امام غائب اور دوسرے لوگوں کے درمیان ایک واسطہ اور باب ہوتا ہے.باب دروازہ کو کہتے ہیں.ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ باب معصوم ہوتا ہے اس سے غلطی اور خطا نہیں ہوتی کیونکہ وہ امام مہدی کا آئینہ ہوتا ہے اور یہ بھی ان کا عقیدہ ہے کہ مہدی کو علم غیب حاصل ہے.محمدعلی باب ماراگیا.کہتے ہیں کہ اس نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میرا جانشین ایک صبح ازل ہو.دراصل یہ ایک لقب تھاجو محمد علی کے بعد اس کے جانشین مرزایحییٰ نے اپنا رکھ لیا.یہ میرزا یحییٰ بہاء اللہ کا بھائی تھا.یہ فرقہ چونکہ حکومت اِیران کے خلاف تھا اور باب بھی شاہی حکم سے مارا گیا تھا.صبح ازل نے جب دیکھا کہ اس کے سرگرم اور جوشیلے مرید قتل ہو رہے ہیں تو بہت گھبرایا اور بغداد کو بھاگ آیا جہاں اس نے آکر خوف سے گوشہ نشینی اختیار کرلی.اس موقع کو اس کے بھائی بہاء اللہ نے جس کا اصل نام میرزا حسین علی تھاغنیمت سمجھا اور بہاء اللہ کا لقب اختیار کر کے اپنا کام کرنے لگا اب صبح ازل تو بیٹھا رہ گیا اور بہائی فرقہ بڑھ گیا.یہ فرقہ ایک ایسا فرقہ ہے کہ جس کا مذہب اور عقیدہ عملی طور پر یہ پایا جاتا ہے کہ جو یورپ والے کہیں وہی تعلیم اپنی بتادیتے ہیں.خواجہ صاحب کا ساطریق ہے کہ جو تعلیم یافتہ لوگوں نے کہہ دیاوہی اسلام ہے.بہائیوں کا عملی طریق یہی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں کے خیالات کو لیکر اور کچھ اخلاقی تعلیم پیش کر دیتے ہیں.برہمومذہب (۱۱) گیارہواں مذہب یا دوسرا جدید مذہب برہمو مذہب ہے.یہ عقلی مذہب ہے اور کہتے ہیں ہمارے عقیدہ کی بنیاد عقل پر ہے.یہ لوگ دعا بھی کرتے ہیں مگر دعا کی قبولیت کے قائل نہیں.وہ کہتے ہیں کہ دعاسے صرف خدا کی محبت بڑھتی ہے.تھیا سوفی مذہب تیسرا جدید مذہب تھیا سوفی ہے.اس مذہب کو بڑهانیوالی ایک عورت ہے اور آج کل اس کی سردار بھی ایک عورت ہے جس کا نام اینی بسنٹ ہے.اس کا عقیدہ ہے کہ انسانی رو حیں واپس آتی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ صداقت بیشک ہے مگروه نہ توکسی خاص عقید ہ سے مخصوص ہے نہ کسی عام انسان سے.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان خدا کو دیکھ لیتا ہے مگر کسی مذہب کی پیروی سے نہیں بلکہ انسانی تدبیراور فکر کے ساتھ.یونی ٹیرین مذہب چوتھا جدید مذہب یونی ٹیرین یعنی نفع کا مذہب ہے.یہ کہتے ہیں کہ مذاہب جھوٹے ہیں.جس چیزمیں سب سے زیادہ نفع ہو وہی اچھی
۱۲۴ ہے یہ مذہب دہریت کی ایک شاخ ہے.دیو سماج مذہب پانچواں جد ید مذہب دیو سماج ہے یہ بھی د ہریہ ہے اس کا بانی خدا کا تو انکار کراتا ہے مگراپنی پوجا کراتا ہے وہ کہتا ہے کہ ارواح ترقی کر کے اپنا اثر ڈالتی ہیں.دراصل یہ مذہب جین مت سے نکلا ہے.سپرچو لزم مذہب چھٹا جد ید سپرچو لزم ہے اس مذہب کے ماننے والے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد روحیں اس دنیا میں آتی ہیں اور اس جہان کی خبریں دیتی ہیں.حالانکہ اصل تو یہی ہے کہ یہ معلوم کرنا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا.ان کے علاوہ ہزاروں قدیم و جد یدمذہب ہیں مگر ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے.مذاہب کے اس مختصر تذکرہ کے بعد اب میں اسلام کو لیتا ہوں جس کو میں نے بیان تو سب سے پہلے کیا تھا مگر اسے چھوڑ دیا تھا اس لئے کہ وہ عظیم الشان ہے.اسلامی علوم علوم اسلامی میں سے پہلی بات علم العقائد ہے اور علم العقائد میں سب سے اہم مسئلہ ہستی باری تعالیٰ ہے.یہ معمولی علم نہیں بلکہ اس میں بڑی بڑی بحثیں ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰٰ نظر آسکتا ہے یا نہیں؟مل سکتا ہے یا نہیں ؟ یا ملنے کے کیا نشان ہیں ؟ بندوں سے کس طرح تعلق رکھتا ہے؟ ان سے اپنی محبت یا غضب کا کس طرح اظہار کر تاہے؟ہمارا اور خدا کا کیا تعلق ہے؟ غرض ہستی باری تعالیٰ کی کئی شاخیں ہیں.میں نے پچھلے سال اس مسئلہ پر سالانہ جلسہ کے موقع پر تقریر کی تھی اور نو گھنٹے تک تقریر کی تھی.عام طور پر لوگ ہستی باری تعالیٰ کو نہیں سمجھتے.پھر اس کے ساتھ صفات باری تعالی ٰکا عقیده ہے اور اس کے متعلق بھی بہت سے پہلو ہیں.صفات باری تعالی ٰکا آپس میں کیا تعلق ہے.سب مسائل اسی میں آتے ہیں.دوسرا مسئلہ ملائکہ کا ہے.اس کی بھی بہت سی شاخیں ہیں.ملائکہ ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا چیز ہیں؟ اور انسان سے ان کا کیا تعلق ہے؟ اگر کوئی تعلق ہے تو کیا ہے؟ اور انسان کا اس میں کہاں تک دخل ہے اور وہ کس طرح ملائکہ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے؟ پھرملا ئکہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں یا نہیں؟ اس مسئلہ پر بھی میری مفصل تقریر شائع ہو چکی ہے جو سات آٹھ گھنٹے تک ہوئی تھی.تیسرا مسئلہ وحی اور الہام کا ہے.اس کے بھی مختلف پہلو ہیں.خدا کا کلام کس طرح ازل
۱۲۵ ہوتا ہے یعنی لفظوں میں نازل ہوتا ہے یا خواب کی صورت میں اس کا مضمون نازل ہوتا ہے؟ خراب ہو تو اس کی تعبیر کس طرح کی جاتی ہے اور کس طرح معلوم ہو کہ یہ خدا تعالی ٰکی طرف سے ہے؟ یہ بہت وسیع مضمون ہے.چوتھا علم.علم العقائد میں نبوت اور رسالت ہے.اس کے بھی مختلف پہلو ہیں.اصلاح کے لئے جو آتے ہیں کیا وہ خدا ہوتے ہیں یا آدمی ہوتے ہیں؟ کس غرض کے لئے آتے ہیں؟ کس حد تک وہ کام کر کے جاتے ہیں؟ ان کی صداقت کی کیا علامات ہوتی ہیں؟ ان کی زندگیاں کیا اثر رکھتی ہیں؟ یہ بھی ایک وسیع علم ہے پانچواں علم.علم العقائد میں دعا ہے.یہ مضمون بھی بہت وسیع علم ہے دعا کیا چیز ہے؟ دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوتی ہے تو کس طرح؟ ساری قبول ہوتی ہے یا تھوڑی؟ اور اگر قبول ہوتی ہے تو اس کے کیا نشانات ہیں؟ اور کس طرح معلوم ہو کہ دعا قبول ہوگئی ؟ پھر یہ کہ کن الفاظ اور کس حالت میں دعا قبول ہوتی ہے؟ غرض دعا کے مختلف پہلو اور سوال ہیں.چھٹا علم.علم العقائد میں تقدیر کا ہے.یہ علم بھی بڑا وسیع اور نازک ہے.اس کے مختلف پہلو ہیں.مثلاً کیا انسان کو خد اتعالی ٰنے ایسا پیدا کیا ہے کہ جس قدر اعمال وہ کرتا ہے سب خداہی کراتا ہے یا انسان کا بھی اس میں اختیار ہے ؟ اگر انسان کادخل نہیں تو پھر اسے سزا کیوں دیتا ہے؟ اس کے متعلق بھی میری تقریر سالانہ جلسہ پر ہو چکی ہے.ساتواں علم.علم العقائد میں بعث بعد الموت ہے.یہ علم بھی بڑا وسیع ہے اور اس کے مختلف پہلو ہیں.کیا مرنے کے بعد انسان زندہ ہو گا؟ پھر اگر زندہ ہو گاتویہی جسم ہو گایا صرف روح ہوگی؟ اور اٹھے گا تو کس طرح؟ اگر صرف روح ہوگی تو کیونکر اٹھے گا جسم ہو گا تو کیونکر؟ پہلے لوگ جو مرچکے ہیں کیا وہ اٹھ چکے ہیں یا باقی ہیں؟ کیا بعد میں آنے والے بھی اسی کے ساتھ شامل ہو جائیں گے؟ آٹھواں علم.علم العقائد میں مسئلہ نجات یافلاح ہے.اس مسئلہ پر ایک اسی سال میں نے تقریر کی ہے.اس میں میں نے اس کے مختلف پہلوؤں کو کھول کر بیان کیا ہے کہ نجات کیا چیز ہے اور کیا وہ مرنے کے بعد ہوگی یا اسی زندگی میں؟ پھر مرنے کے بعد جو انعام ہو گا وہ مٹ جائے گا یا ہمیشہ رہے گا؟ ایسا ہی سزا کے متعلق کہ وہ ہمیشہ رہے گی یا ایک وقت خاص تک.غرض اس کے مختلف پہلو ہیں اور ان پر میری تقریر میں بحث ہے.
۱۲۶ علوم اسلامی میں دوسرا علم قرآن کریم ہے کیونکہ یہ وحی الہیٰ ہے.قرآن کریم بجائے خود بہت سے علوم کا مجموعہ ہے اور اس کے کئی حصے ہیں.اول متن پڑھنا اور اس کو سمجھناہے دوم علم تفسیر.اس سے یہ مطلب ہے کہ پہلے لوگوں نے کیا معنے کئے ہیں.تفسیروں کے علم میں بیسیوں تفسیریں ہیں اور ایک ایک تفسیر بہت جلدوں میں لکھی گئی ہے یہاں تک کہ ایک تفسیر دو سو جلدوں میں ہے.غرض سینکڑوں جلدیں مختلف تفسیروں کی ہیں اور بہت سی ان میں سے چھپ چکی ہیں اور بہت ہیں جو ابھی نہیں چھپی ہیں.پھر علوم قرآنیہ میں تیسرا علم اصول تفسیر کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف کے معنے اور تفسیر کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے یہ ایک مستقل علم ہے.۴ - پھرایک قرآن کریم کے متعلق علم قراءت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺنے بعض الفاظ کو کسی جگہ سات سات طرز پر پڑھا ہے اور بعض دس دس طرز پر بھی پڑھا ہے یہ علم قرات سے معلوم ہوا ہے اور جو لوگ اس کے عالم میں وہ جانتے ہیں یہ علم صرف قبائل کے لحاظ سے ہے.عربوں کے مختلف قبیلے اپنے لب ولہجہ کے لحاظ سے جس طرح پرادا کرسکتے تھے ان کی آسانی کے لئے نبی کریم ﷺاجازت دیتے تھے.پانچواں علم.علم تجوید - اس علم میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کو ادا کرتے وقت ٹهہرناکہاں ہے اور کہاں لمبا کرنا ہے اس میں اعراب اور مدّکے قواعد ہوتے ہیں.چھٹا علم.جمع القرآن ہے.اس علم میں اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ قرآن مجید آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں لکھا گیا یا نہیں اور لکھا گیا تو سارا لکھا گیا؟ اہل یورپ نے جمع قرآن پر اعتراضات کئے ہیں اس علم کے ذریعہ ان اعتراضات کا جواب دیا جا تا ہے.ساتواں علم.تاریخ نزول و ترتیب قرآن کریم ہے.قرآن مجید کی آیات اس وقت تو ملی جلی ہیں.اس علم کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آیت کس وقت اتری.یہ ایک مستقل علم ہے.آٹھواں علم، حل لغت قرآن بالقرآن ہے.قرآن کریم اپنے الفاظ کے معنی خود کرتا ہے.یہ علم بھی ایک مستقل علم ہے.غرض قرآن کریم کے متعلق یہ آٹھ علم ہیں.تیسرا علم علوم اسلامیہ میں سے علم الحدیث ہے اس کی بھی کئی شاخیں ہیں.(1) خود حدیث ہے نبی کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ حدیث ہے اس کا ایک حصہ وہ
۱۲۷ ہے جس کو روایت کہتے ہیں.جیسے ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے ایساسنایا حضرت ابو بکر ؓکا کہنا کہ میں نے رسول الله ﷺ سے سنا.یا کسی اور صحابی کاایساکہناروایت ہے اور اس روایت کو حدیث کہتے ہیں.(۲) دوسرا حصہ اصول حدیث ہے جس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حدیث کس طرح پر لکھی گئی.اس کے اصول بیان کئے ہیں.اس علم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کتنی قسم کی حدیثیں ہوتی ہیں.بعض صحیح ہوتی ہیں بعض کمزور ہوتی ہیں.پران اقسام حدیث کے در جے بتائے جاتے ہیں.یعنی کہاں تک کوئی حدیث اثر رکھتی ہے.اس علم کی ایک شاخ اور نکل آئی ہے وہ اسماءالرجال ہے اس علم میں یہ بحث ہے کہ فلاں راوی صادق ہے یا کیساہے، اس کا حافظ کیساہے، وہ ملا بھی ہے یانہیں غرض راویوں کے حالات پربہت کھول کھول کر بحث کی جاتی ہے اور ان ساری باتوں کا اثر حدیث پر جاپڑتا ہے.چوتھا حصہ حدیث کے متعلق تاریخ حدیث ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ حدیث کے لکھنے کا خیال کیونکر پیدا ہوا اور کس زمانہ میں حدیث کی تحریر شروع ہوئی مؤلفین نے حدیث کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ بھی کہ اس میں کیا کیا ترقیاں ہوئیں.پانچواں حصہ علم حدیث کے متعلق شرح حدیث ہے.جس طرح قرآن کریم کی تفسیرکی گئی ہے اسی طرح پر حدیث کی شرح لکھی گئی ہے.چھٹا حصہ موضوعاتِ حدیث کا ہے.اگرچہ یہ بجث اسماء الرجال میں بھی آجاتی ہے مگر بعض نے مستقل طور پر اس علم کو لیا ہے اور موضوع احادیث کو جمع کیا ہے.چوتھا علم.علوم اسلامی میں فقہ کا علم ہے اس کے بھی کئی حصہ ہیں ایک تو خودفقہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وضواس طرح کرنا چاہئے نماز اس طرح پڑھنی چاہئے.اس طرح زکوٰۃ، روزه نکاح ،حج اور دوسرے مسائل لین دین، ورثہ وغیرہ کے متعلق حدیث میں بھی مسائل آتے ہیں مگر متفرق طور پر فقہ میں تمام مسائل کو ایک جگہ جمع کر کے بتادیا ہے.فقہ کے علم کے ماتحت بھی کئی علم ہیں.ان میں سے ایک اصول فقہ ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ فقہ کیوں کر بنائی جاتی ہے.لین کن کن طریقوں پر اس کی بنیاد رکھی جاتی ہے.پھر آگے اس میں اختلاف ہو گا.کوئی کہے گا یہ بات قرآن کریم کے مطابق ہو.ایانی کوئی کہے گا کہ قیاس اور عقل کو بھی دخل ہو گا.
۱۲۸ کالے جائیں.پھر صرف و نحو کا دخل ہو گا.اس کے لحاظ سے یہ معنے ہوں گے پھر اس سے بھی اختلاف ہو گا.غرض اصول فقہ میں یہ بحث ہوگی کہ کس طرح مسائل نکالے جائیں.فقہاء کے موٹے موٹے فرقے یہ ہیں.حنفی.شافعی.مالکی.حنبلی.حنفی زیادہ زور قرآن مجید سے اجتہاد کر کے مسائل کے ماننے پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں جو عقل سے ثابت ہوں وہ مانیں گے اور حدیث پر زور نہیں دیتے.یہ مسئلہ ان کو بھول جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺکا فہم سب سے برتر ہے.یہ حالت اب ان لوگوں کی ہے اور نہ پہلے لوگوں کا عمل قرآن مجید اور احادیث ہی پر تھاامام ابو حنیفہ اولیاء اللہ میں سے تھے.شافعیؒ عقل کی طرف زیادہ جاتے ہیں.مالکی بھی عقل پر زور دیتے ہیں مگر حدیث پر بھی شافعی مذہب سے زیادہ زور دیتے ہیں.امام مالک ؒکی مؤطابہت معتبر کتاب ہے.امام حنبل سب سے زیادہ زور حدیث پر دیتے ہیں.پانچواں فرقہ اہل حدیث کا ہے وہ بالکل حدیث پر چلتے ہیں اور عقل کو نہیں مانتے وہ کمزور حدیث کو بھی مقدم کر لیتے ہیں حالانکہ ضرورت تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے ثابت شدہ ہو یعنی قرآن مجید کے خلاف نہ ہو اور عقل بھی اس کو نہ ردّکرے.پھر فقہ سے تعلق رکھنے والا تیسرا علم فتاوی سے تعلق رکھتا ہے علماء نے مسائل ضروریہ کے متعلق جو فتاوی دئیے ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے.پانچواں علم ،اسرار شریعت کا ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے روزہ کیوں رکھا جاتا ہے غرض احکام شریعت کے وجوه بیان کرنا اسرار شریعت ہے.اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کس حد تک اسرار شریعت معلوم ہو سکتے ہیں اور کسی حد تک بیان کر سکتے ہیں.چھٹا علم ،اصول شریعت ہے.یعنی شریعت کی کیا کیا بنیاد ہے مثلاً خد اتعالیٰ کی وحی سے نازل شده علوم ہوتے ہیں یا وہ اصول جو رسول کی معرفت بتائے جاتے ہیں کسی حد تک ان کے بیان کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی حد تک اجازت ہے یہ تفصیل ہوئی یعنی شریعت کے اصولوں کے بیان کرنے میں کس حد تک رسول کے اختیار میں ہے اور کسی حد تک اس کو دوسرے لوگوں پر رکھا گیا ہے.ساتواں علم، اختلاف المذاہب کا ہے.اس علم کے ذریہ معلوم ہو گا کہ مسلمانوں کے
۱۲۹ مختلف فرقوں میں جو اختلافات ہیں وہ کس قوم کے ہیں.عقائد کے لحاظ سے مسلمانوں میں جو فرقے ہیں ان میں ایک دوسرے کے عقائد کے لحاظ سے کیا اختلاف ہے.مثلا ًایک سُنی کہلاتے ہیں جن میں حنفی.شافعی،مالکی،حنبلی سب داخل ہیں دوسرے شیعہ ہیں.سُنیوں اور شیعوں کا بڑا اختلاف مسئلہ خلافت کے متعلق ہے.مسئلہ خلافت کے متعلق پھر بحث ہوگی کہ خلافت ہے یا نہیں.ہے تو کس حد تک ماننا ضروری ہے اور پھر خلافت انتخاب سے ہوگی یا اولادسے؟ دوسرا مسئلہ اختلاف کا یہ ہے کہ قرآن مجید کی وحی لفظوں میں ہے یا یہ خیالات اور اس کا مضمون وحی ہوا؟اسی ضمن میں خدا تعالیٰ کی صفات پر بحث ہے کہ کیاخد ا کلام کر سکتا ہے یا اس کا بولنا اور سننا اورہے؟ تیسرا اختلاف اس بات پر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کے مقابلہ میں رسول کا بھی کوئی حق ہوتاہے یا نہیں؟ یہ اصول ہیں جو خلفاء کے ماننے والے لوگوں میں اور جو خلفاء کے متعلق اختلاف کرتے ہیں قابل غور ہیں.دوسرا فرقہ خارجیوں کا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد کوئی خلافت نہیں وہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ چاہئے تھی اور یہ بھی ان کا خیال ہے کہ گناہ کے بعد ضرور جہنم میں جانا ہو گا.شفاعت نہ ہوگی ان کے فرقہ کی اصل بنیادیہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد نعوذبالله غلطی کی جو خلیفہ مقرر کیا.خوارج حضرت علی کرم اللہ وجہ کے وقت میں ہوئے ہیں.تیرا فرقہ معتزلی ہے.عمربن عمیر نے بنایا ان کا خیال ہے کہ عقل خدا نے دی ہے اس سے کام لیا جائے یہ لوگ صفات ،تقدیر اور کلام کے منکر ہیں.چوتھا فرقہ شیعہ کا ہے.ان کا عقیدہ یہ تھا کہ امت میں ایک شخص ہو جو امام ہو اور یہ آپؐ کی اولاد کا حق تھا.آنحضرت اﷺکے بعد حضرت علیؓ اور پھر حضرت علی ؓکی اولاد کا حق ہے.یہ فرقہ خصوصیت سے خلفاء کادشمن ہے اور نعوذ باللہ ان کو ٹھگ قرار دیتا ہے.پانچواں فرق نیچری ہے.ان کا طریقہ ہے کہ یورپ کے علوم کے ماتحت اسلام کو کرنا چاہتے ہیں.یہ بڑی غلطی ہے کہ بندے کے علم کے موافت خدا کا کلام - نیچریوں کا بظاہر عقید ہ تو یہ ہے کہ خدا کا کلام خدا کے فعل سے الگ نہ ہو مگر جب تطبیق کرنے لگتے ہیں تو خدا کے کلام کی بجائے انسان کے کلام سے کرتے ہیں.یہ فرقہ معتزلہ سے ملتا ہے.
۱۳۰ اس میں بھی چھٹا فرقہ اہل قرآن کا ہے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول کا کام صرف ڈاکئے کا کام ہے اس کی کیا حقیقت اس لئے وہ حدیث کو رد کردیتے ہیں اور ہر بات قرآن کریم سے نکالتے ہیں اور اس وجہ سے کوئی نماز کی دو رکعت نکالتا ہے کوئی تین.یہ موٹی موٹی باتیں فرقوں کے متعلق بیان کی ہیں اور اس میں اس پر میں بحث نہیں کروں گا کہ ہر فرقہ کے دلا ئل کس حد تک غلط ہیں یا صحیح ہیں.ساتواں فرقہ.حقیقی اسلام احمدیت ہے.امت کے متعلق کھنے والی یہ باتیں ہیں:.اول.حضرت صاحبؑ کا کیا دعویٰ تھا پھر یہ کہ نبوت کا دعویٰ تھا یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد نبی آسکتا ہے یا نہیں؟ روم - د عویٰ کے بعد یہ سوال آتا ہے کہ آپ کا دعویٰ مسیح موعود کا تھا.اس دعویٰ کے ضمن میں یہ بات آئے گی کہ مسیح ابن مريم ؑفوت ہو گیا ہے یا نہیں؟ اگر فوت ہو گیا ہے تو کیا کوئی مسیح امت میں آنے والا ہے؟ اور اگر فوت نہیں ہو اتوکیا وہ مسیح ابن مریمؑ آۓ گا؟ اور اگر وہ آئے تو اس کی آمد کااثر آنحضرت ﷺ کی نبوت پر کیا ہو گا؟ تیسری بات یہ کہ احمدیت کی کیا غرض ہے؟ کیا اس سلسلہ کی ضرورت تھی تو کیا وہ ضرورت احمدیت کے آنے سے پوری ہوگئی؟ پھر حضرت صاحب ؑکے متعلق یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر وہ نبی یا رسول تھے تو کیا ان میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو خدا تعالی ٰکے نبیوں اور رسولوں میں ہوتی ہیں یا یہ کہو کہ جن معیاروں پر نبی یا رسول کی صداقت ثابت ہوتی ہے وہ بھی ان معیاروں پر پورے اترتے ہیں؟ اور یہ بھی کہ وہ معیار کیا ہیں؟ پھرا یک علم ہے پیشگوئی کی حقیقت کے متعلق.پیشگوئی کیا ہوتی ہے؟ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیاں کس قسم کی تھیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں کسی قسم کی ہیں؟ پھر یہ بات بھی دیکھنی ہوگی کہ حضرت صاحب کی جماعت کا پہلے فرقوں سے کیا تعلق ہے؟ پھرنئے جھگڑوں میں یہ ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت ہوگی یا خارجیوں کے طریق پر پارلیمنٹ؟ آئند ہ احمدیت کی ترقی کا کیا نظام ہے اور اسی میں افراد کی کی ذمہ داری ہے؟ آٹھواں فرق تصوف کا ہے.مختلف لوگوں نے اس کے مختلف معنے کئے ہیں.کسی نے صفائی قلب کے معنے کئے ہیں کسی نے کچھ.عام طور پر یہ مراد لی جاتی ہے کہ جس سے صفائی قلب پر بحث
۱۳۱ ہو.کس طرح پر اللہ تعالیٰ ٰسے تعلق اور قرب پیدا ہوتا ہے؟ بڑے بڑے اولیاء اللہ گزرے ہیں.تصوف میں دوسری بات تاریخ تصوف ہے.یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا اور کن لوگوں نے اس کو جاری کیا ؟ کیا اغراض تھے اور کیا کام کیا ؟مختلف زمانوں میں کس کم کے تغیرات تصوف میں ہوئے؟ تیسری بات اہل تصوف کے متعلق مذاہب تصوف ہیں جس میں اس بات پر بھی غور کیا جاتا ہے کہ آیا ان میں بھی اختلاف ہے اور اختلاف ہے تو کس قسم کاہے ؟ مختلف سلسلے پائے جاتے ہیں جیسے قادری، چشتی ،سہرو ردی، تقشبندی.اصل اختلاف تو پایا نہیں جاتا مگر بعض باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ اختلاف زیادہ تر مجاہدات کے متعلق ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا جیسارنگ ان لوگوں نے اپنے علاقے کا دیکھا اور قسم کے امراض میں ان کو مبتلاء پایا اسی قسم کے علاج تجویز کئے.جیسے ڈاکٹر مختلف طریق سے علاج کرتے ہیں.کبھی بخار کے بیمار کو کونین دیتے ہیں اور کبھی جلاب دیتے ہیں.ان بڑے فرقوں کے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے فرقے ہیں.انہی اہل تصوف میں ایک فرقہ ملاحدہ بھی ہے جو شریعت کو مٹاتے ہیں.وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم طریقت کے مقام پر ہیں یا ایسی باتیں کرتے ہیں اگر کوئی شخص کشتی پر سوار ہو تو کنارے پر جا کر اترے یا کشتی میں ہی بیٹھا رہے؟ یہ لوگ اس قسم کی لغو باتیں کر کے دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں.ایک ملامتی فرقہ ہے یہ بھی گندہ ہے.اصل میں تو یہ برے نہیں ہوتے مگروہ سمجھتے ہیں کہ ریاء سے تباہی ہوتی ہے اور اس کا علاج اس طرح پر کرتے ہیں کہ بعض ایسے کام کرنے لگتے ہیں جن سے دوسرے لوگوں میں بدنام ہو جائیں.مثلا ًرات کو کسی فاحشہ عورت کے گھر میں جاسوتے ہیں اور وہاں جا کر تہجد پڑھتے رہے ہیں.لیکن یہ ایسا طریق ہے کہ اس کا خطرہ زیادہ ہے.بعض لوگ اس طریق کو اختیار کر کے ہلاک ہو جاتے ہیں اور مختلف قسم کی گندگیوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں کہ اس سے نفس موٹا نہیں ہوتا مگر دراصل اس کا اثر اکثر خراب ہو تا ہے.نواں علم علم القضاء ہے.اس سے یہ مراد ہے کہ کسی رنگ میں امور متنازعہ کا فیصلہ کرنا چاہئے.گواہ کا بیان کس طرح پر ہو؟ اس پر جرح کس طرح پر ہو؟ کیا امور اس کی شہادت کے وزن کے لئے ضروری ہیں؟ قاضی کا علم ،واقفیت اور تقوی ٰوطہارت کیسی ہو؟ دوسرا حصہ اسی
۱۳۲ علم کے متعلق تاريخ القضاء ہے.کس کس طرح یہ محکمہ مکمل ہوا اور کون سے بڑے قاضی اسلام میں گزرے ہیں؟ دسواں علم، علم الفرائض والمیراث ہے.میراث کے قوانین اگر چہ فقہ میں شامل ہیں مگر یہ مستقل علم ہے کیونکہ اس کا اثر سیاست اور قوم پر آکر پڑتا ہے.گیارہواں علم، علم الادعیہ والاذکار ہے.اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس کس وقت اور کون کونسی دعائیں اور اذکار کرنے چاہیں.بار ھواں علم، علم السیر ہے.اس علم کے ذریعہ بڑے بڑے صحابہ اور دوسرے بزرگان کے حالات کا علم ہوتا ہے.ٍتیرھواں علم، علم اخلاق ہے.کس طرح بری عادتوں اور ادنٰی اخلاق کو ترک کر کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور عادات حاصل کئے جاتے ہیں.اس میں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جو اخلاقی امراض انسان میں پیدا ہوتے ہیں ان کے اسباب کیا ہیں اور کیوں ان امراض کو امراض سمجھا جاتا ہے.چودھواں علم، علم الکلام ہے.اس علم سے یہ مراد ہے کہ غیرمذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی فوقیت کس طرح پر ثابت کیجاتی ہے اور اصول اسلام کو دلائل سے ثابت کیا جاتاہے.اسی علم کلام میں ایک شاخ علم بحث ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دوسرے مذاہب جو اسلام کے مقابلہ میں ہیں ان کے عقائد یا اصول کو کیونکر غلط ہیں.مثلاً عیسائیت کا یہ مسئلہ کہ خدا تین ہیں یا خدا مجسم ہے کیوں صحیح نہیں؟ یا ہندووں کے عقیدے کیوں درست نہیں؟ اس علم بجث کے پھردو حصّے ہیں.ایک حصہ وہ ہے جس میں دوسروں کی تردید دلائل سے ہوتی ہے.دوسرا اصول علم کلام ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ معیار صداقت کیا ہے؟ کس طرح دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے یہ سب باتیں اصول علم کلام میں بیان کی جاتی ہیں.سولہواں علم، سیاستِ اسلامیہ ہے.حکومت کا کیا انتظام ہو رعایا اور حکومت کے کیا تعلقات ہیں حکومت پر رعایا کے کیا حقوق ہیں اور رعایا پر کیا؟ یہ بہت وسیع علم ہے حکومت کس طریق سے کی جائے دوسری حکومتوں سے اس کے کیا تعلقات ہیں؟ غرض یہ سولہ موٹے موٹے علوم ہیں اور ان کی شاخیں ملا کر تو بہت بڑی تعداد ان علوم کی ہو جاتی ہے.دنیاوی علوم میں اگلے ہفتے میں بیان کروں گا.انشاء الله العزيز-
۱۳۳ تقریر دوم (جلسہ لجنہ اماءالله منعقده مورخہ اا.فروری ۱۹۲۳ء) میں نے پچھلے ہفتہ مذہبی علوم کے متعلق تقریر کی تھی اس میں مذہبی علوم کے نام اور ان کی مختصر کیفیت بیان کی تھی اور اس میں بتایا تھا کہ مذہبی علوم میں ان مختلف عنوانوں کے نیچے بحث کی جاتی ہے یا اس مذہب کی یہ حقیقت ہے.میری غرض اس سے یہ نہ تھی کہ وہ علم کیا ہے اور کیسا ہے بلکہ صرف اتنا بتاناہے کہ اس قسم کا ایک علم ہے اس مطلب کے بیان کرنے کے لئے جس قدر ضروری تھابیان کیا اور اب بھی ایسا ہی کروں گا اس سے زیادہ بیان کرنا موضوع سے باہر لے جاتا ہے.آج میرا منشاء یہ ہے کہ دنیاوی علوم کے متعلق بیان کروں کہ وہ کتنے قسم کے ہیں اور کیا کیا ہیں اور اگر کسی علم کی کوئی اندرونی تقسیم ہے تو وہ بھی بیان کروں کہ کن کن مسائل پر اس میں بحث ہوتی ہے.میں نے پہلے بھیجا تھا اور آج بھی بتاتا ہوں کہ علم سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ سچے ہی ہوں.بعض باتیں جہالت بھی ہوتی ہیں مگر عام طور پر وہ ایک علم کی ذیل میں آجاتی ہیں.جس طرح مذاہب میں (مذاہب ہی کہنا چاہئے کیونکہ اصل میں تو ایک ہی مذہب ہے جو اسلام ہے میں نے ہندو مذہب اور دوسرے مذاہب کا ذکر کیا ہے حالانکہ میری غرض اس سے یہ نہ تھی کہ یہ مذاہب خدا تک پہنچاتے ہیں کیونکہ خدا تک پہنچانے والا صرف ایک ہی مذہب ہے جو اسلام ہے لیکن اسلام کی خوبی اور کمال کے جاننے کے لئے دوسرے مذاہب کا بھی مختصر علم تو ہو کہ وہ کیا ہیں؟ دنیاوی علوم اسی طرح آج جب میں دنیاوی علوم کے نام لوں گا تو یہ مطلب نہیں ہو گا کہ واقعی ہر ایک علم ہے.صرف یہ مطلب ہوگا کہ بعض اس کو علم کہتے ہیں.جیسے اسلام کے مقابلہ میں ہندوؤں کے عقائد بتانے سے یہ فرض ہے کہ یہ معلوم ہو جائے اس میں کیا
۱۳۴ نقص اور کمزوری ہے.اسی طرح جہالت کے علوم سے واقف ہونا ضروری ہے کہ اس کے معلوم ہونے سے جہالت ثابت کر سکتے ہیں اور کم از کم ان کے نزدیک ہم نہ جائیں گے جب اس کی برائی کا علم ہو گا.اب میں نمبروار دنیاوی علوم بتاتا ہوں.(۱) دنیاوی علوم میں سب سے پہلا علم جس کو تمام علوم کی بنیاد یا برتن یا طرف کہنا چاہئے وہ زبان کا علم ہے جب تک زبان کا علم نہ ہو انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا نہیں سکتا.اس زبان کے علم کے یہ معنے نہیں کہ انسان اپنے خیالات دوسروں تک کسی ذریعہ سے پہنچاسکتاہے یہ آگے تین طرز پر تقسیم ہوتاہے.علم اللسان اول.وہ زبان جو لفظ کے ذریعہ بتائی جاتی ہے جو منہ کی حرکات سے آواز پیدا ہوتی ہے یا منہ سے کوئی بات انسان بیان کرتا ہے جس کو دوسرے انسان کانوں سے سن کر سمجھتے ہیں جیسا کہ میں اب بول رہا ہوں اور تم اس کو سن رہے ہو تقریری زبان کہلاتی ہے.دوم.علم زبان کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جس کو تحریری زبان کہتے ہیں یعنی اپنے مطالب اور خیالات کو لکھ کر پیش کرنا.وہ الفاظ جو ہم بولتے ہیں ان کے لئے کچھ اشارات اور نقوش مقرر ہوتے ہیں ان کے ذریعے سے ظاہر کیا جاتا ہے ہے تم کو معلوم ہے کہ ہر بات لکھ کر پیش کر سکتے ہیں.سوم.ایک زبان اشارات سے تعلق رکھتی ہے اس میں نہ بولا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے بلکہ اشارات ہوتے ہیں جیسے تار آتا ہے.تاردینے والا کچھ اشارات کرتا ہے اور لینے والا ان اشارات کو سمجھتا ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ ایک دفعہ ٹک ٹک ہو گا تو یہ حرف ہو گا دو دفعہ ہو گا تو یہ حرف ہو گا.پھروہ ان اشارات سے کئی سو میل کے فاصلہ پر سے مطلب سمجھ لیتا ہے.یا پرانے زمانہ میں جانوروں یا مختلف قسم کی شکلوں کے بنانے سے اپنا مطلب ظاہر کر دیا کرتے تھے.مثلاً کتے سے یہ مطلب ہوگا یا شیر سے یہ مطلب ہو گا.مصر میں یہی زبان بولی جاتی تھی اور یہ تصویری زبان کہلاتی تھی لوگ اس سے مطلب سمجھ لیتے تھے.اشاراتی زبان ایسی اشاراتی زبان میں وہ اشارات وغیرہ کی زبان بھی داخل ہے جو مثلاً گونگوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے وہ اپنے تمام خیالات اشارات سے ہی ظاہر کرتے ہیں.یا لڑائیوں میں جھنڈیوں اور شیشوں سے کام لیتے ہیں.گو نگا اپنی بھوک پیاس کو ظاہر کرتا ہے یا سر پر ہاتھ رکھ کر اور آنکھیں بند کر کے بتاتا ہے کہ سونا ہے.یہ اشارات ہم دیکھتے
۱۳۵ ہیں.اشارات کی زبان سے بڑے بڑے کام لئے جاتے ہیں.تار کی ساری زبان اشارات پرہی موقوف ہے.لاہور سے بحثالہ کس طرح لفظ پہنچے گا؟ مگر تار کے ذریعہ بحثالہ تو کیا لنڈن اور دنیا کے تمام حصوں میں خبر پہنچائی جاتی ہے.اسی طرح جیسے میں نے کیا فوجوں میں کام کیا جاتا ہے.یہ سے اشارہ کرتے ہیں یا جھنڈی سے بتاتے ہیں اور دوست کو روشنی سے اشارہ کرتے ہیں کہ دشمن کمزور ہے یا زبردست ہے.کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت ہے یا گولہ بارود کی حاجت ہے.غرض بہت بڑے بڑے کام اس اشارتی زبان سے لئے گئے ہیں.اگر صرف الفاظ یا تحریر تک ہی زبان محدود ہوتی تو کام رک جاتے.غرض علم زبان سب سے مقدم ہے اور (یہ تینوں علوم جدا جدا ہیں مگر تقسیم علوم زبان ہے اور یہ تینوں اس کی مختلف شاخیں ہیں اور اپنے اندر وہ بھی ایک وسیع علم رکھتی ہیں.زبان کے علم کے نیچے بعض اور مستقل علوم میں ان کا تعلق گو زبان میں سے ہے مگر عملی تقسیم میں ان کو الگ قرار دیا ہے اس لئے میں بھی اسے دوسرا علم کہتا ہوں.علم بلاغت کی (۲) دوسرا علم علم بلاغت ہے.یہ زبان سے تعلق رکھتا ہے.بلاغت میں محض اظہار خیالات ہی مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہوتا ہے جیسے بچہ روٹی کو توتی کہتا ہے یا ایک غیر زبان کا آدمی یا انگریز کہتا ہے.کھاناما نگتا ہے.مطلب تو اس سے سمجھ میں آتا ہے مگر زبان صحیح نہیں ہوتی.زبان کا علم تو صرف اس قدر ظاہر کرتا ہے کہ خیالات ظاہر کردیئے مگربلا غت کا علم اس سے بڑھ کر تین باتوں پر بحث کرے گا.باتیں کتنی اقسام کی ہوتی ہیں.مثلاً ایک شخص کو کہیں کہ بڑا بہادر ہے لیکن شیر چونکہ بڑا بہادر ہوتا ہے اس لئے جب کہا جائے کہ فلاں شخص شیر ہے تو پڑا اثر ہوتا ہے.اس طرح پر گویا اس میں استعارات اور مجاز سے بھی بحث ہوتی ہے.ایک شخص کی نسبت کیا جائے کہ غصہ ہوگیا تو اتنا اثر نہیں ہوتا لیکن جب کہیں کہ آگ بگولا ہو گیا تو اس کا بڑا اثر ہوتا ہے.اس طرح پر گویا غيرلفظ بول کر اور مفہوم بن جاتا ہے اس علم بلاغت میں ایک بحث یہ ہوتی ہے کہ کلام خوبصورت کس طرح بنایا جاتا ہے.اس علم کی بدولت انسان اچھی طرح بولنے یا کہنے لگتا ہے.جیسے کہتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا اعلی ٰدرجہ کی تقریر کرتا ہے یا بہت عمدہ لکھتا ہے تو یہ خوبی اس علم کےذریعہ پیدا ہوتی ہے.غرض علم ِبلاغت میں یہ باتیں ہوتی ہیں.
۱۳۶ علم لُغت (۳) تیسرا علم، علم لُغت ہے یعنی لفظوں کے معنی.یہ خود بہت بڑا علم ہے اور بہت وسیع ہے.زبان تو ہر شخص بول لیتا ہے.مثلا ًایک شخص کہتا ہے کہ تکلیف ہے توہر شخص اس تکلیف کے انداز کو نہیں جانتا لیکن لغت بتائے گی کہ کس کس جگہ یہ لفظ بولا جاتا ہے.اسی محل کے لحاظ سے جب تکلیف کا لفظ بولا جائے گاتوسننے والا فوراً اس کے اندازه کا ایک علم حاصل کرلے گایہی علم ہے جوسب الفاظ کا احاطہ کرتا ہے یہ خود ایک مستقل علم ہے.اگرچہ علم زبان سے ہی وابستہ ہے مگر اب مستقل علم کی حیثیت اختیار کرگیا ہے.خط و کتابت (۴) چوتھاعلم انشاء یا خط و کتابت ہے.اس میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح عمدگی سے اپنے خیالات کو تحرير اًظاہر کیا جاتاہے.خط و کتابت اور کتاب لکھنے میں فرق ہے.کتاب لکھنے والایہ سمجھتا ہے اور ہوتا بھی یہی ہے کہ وہ سب کے لئے لکھ رہا ہے.اور خط ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والا ایک شخص کو لکھتا ہے اور جو اس کو پڑھتا ہے وہ جانتا ہے کہ مجھے لکھا ہے اور گویا وہ سامنے بیٹھ کر باتیں کر رہا ہے.اس طرح پر یہ علم ایک مستقل اور بڑا علم ہے اور اس علم نے اس زمانہ میں بڑی ترقی کی ہے.بڑے بڑے کا لج اسی غرض کے لئے کھولے گئے ہیں جہاں علم انشاء یا خط و کتابت کا علم سکھایا جاتا ہے.پھراس خط و کتابت کی بہت سی قسمیں ہیں.تاجروں کی خط و کتابت کس قسم کی ہو؟ افسروں اور ماتحتوں کی خط و کتابت کے کیا مراتب ہونے چاہئیں اس غرض کے لئے مدرسہ اور کالج کھولے گئے ہیں.ان میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح خط کو زیادہ موثر بنایا جاتا ہے اور اس میں حفظ مراتب کے آداب اور امتیاز کو بھی سکھایا جاتا ہے.اخبار نویسی (۵) پانچواں علم اخبار نویسی کا علم ہے.انگریزی میں اس کو جرنل ازم (Journalism) اور عربی میں صحافت کہتے ہیں.یہ علم بھی بڑا وسیع علم ہے.ہمارے ملک میں تو نہیں مگر یورپ اور امریکہ میں اس کے بڑے بڑے مدرسے ہیں جن میں اخبار نویسی کا فن سکھایا جاتا ہے.اس فن کی بہت سی شاخیں ہیں.کس طرح اخبار کالیڈ ر لکھا جائے.خبروں کو کس طرح چنا جائے اور کس طرح پر ان کی ترتیب ہو.عنوان کیسے قائم کئے جائیں کہ اخبار پڑھنے والے پر اس کا فوری اثر ہو اور وہ اس کے مضمون کو عنوان ہی سے سمجھ لے.کس طرح پر ایک مضمون یا واقعہ کو لکھا جائے کہ وہ اپنے مفید مطلب ہو سکے.مثلاً زید اور بکر لڑتے ہیں.زیر کا دوست ایسے طور پربیان کرتا ہے کہ زید مظلوم تھا اور بکر کے دوست اپنے طور پر کہ بکر
۱۳۷ مظلوم سمجھا جائے.غرض یہ بڑا علم ہے اور اس کی مختلف شاخیں ہوتی ہیں جن میں سے بڑی یہ ہیں کہ کس طرح پر اخبار مفید او روچپ ہو سکے اور ایک کی راۓ کاوہ آئینہ ہو جائے اور وہ اپنا اثر ڈال سکے.پھر اخبارات کی حد بندی ہوتی ہے مثلاً بعض مذہبی اخبار ہوتے ہیں بعض تجارتی بعض کی خاص جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی اغراض میں بھی ان کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں.علم الجو و اللّطائف (۶) چھٹا علم جواسی زبان کے نیچے آتا ہے علم الجو واللطائف ہے اس علم میں اس بات سے بحث کی جاتی ہے کہ کسی طرح پر ہجو کمال کو پہنچ جائے اور اس میں زبان اور تحریر کی خوبی بھی اعلیٰ درجے کی ہے.اسی طرح ایسالطیفہ ہو کہ سب بے اختیار ہنس پڑیں.اس فن میں جو لوگ کمال حاصل کرتے ہیں بعض وقت وہ ایسی ہجو کرتے ہیں کہ فوراً اثر ہوتا ہے.اسی طرح لطائف کا علم ہوتا ہے.ایک شخص بیان کرتا ہے سننے والے بے اختیار ہو جاتے ہیں وہ ہنسی کو ضبط نہیں کرسکتے.غرض یہ ایک مستقل علم ہے.واعظ خاص طور پر اس سے کام لیتے ہیں.قصہ نویسی (۷) ساتواں علم ،قصہ نویسی کا علم ہے.اس کی دو شاخیں ہوتی ہیں.ایک مختصر قصہ یا کہانی لکھنی.دو سر المباناول لکھنا.پھر ان میں جُد اجُد ابحث ہے.قصوں اور ناولوں کے مختلف اقسام ہیں.قصہ نویسی کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ سے پڑھنے والوں پرایک خاص قسم کا اثر ڈالا جائے بعض ناول ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں صرف ایسے واقعات کاذ کر ہوتا ہے جو محبت سے تعلق رکھتے ہیں.یا سراغ رسانی کے متعلق ہوتے ہیں.پھر بعض ایسے ہوتے ہیں جن کا انجام غم پر ہوتا ہے اور بعض کا خوشی پر پھر جو باتیں چھوٹے قصوں میں ضروری ہوتی ہیں بڑوں میں وہ نہیں ہوتیں.بعض بڑا ناول لکھتے ہیں اور بعض کہانی اور فسانہ لکھتے ہیں.علم تقریر (۸) آٹھواں علم بھی علم زبان کے متعلق ہے اور یہ بھی ایک مستقل علم ہے.اس کو علمِ خطابت کہتے ہیں یعنی تقریر کرنے کا علم.لیکچر دینے کا فن.اس علم میں اس بات سے بحث ہوگی کہ مقرریعنی تقریر کرنے والا ایسی تقریر کر سکے کہ سننے والوں کی توجہ لیکچرارہی کی طرف ہو اور اس کے کلام اور بیان میں ایسا اثر اور قوت ہو کہ اگر سننے والے اس کے خلاف بھی ہوں تو بھی مؤید ہو سکیں.اس علم میں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح پر مقرّر کو اپنے
۱۳۸ مضمون کی تقسیم اور ترتیب کرنی چاہئے اور کس طرح پر اپنے کلام میں قوت اور اثر پیدا کرنا ہوگا.مضمون نویسی (9) نواں علم مضمون نویسی کہنا چاہئے جس کو انگریزی میں ایسے رائٹنگ (Essy Writing) اور ہماری زبان میں مضمون کہتے ہیں.یہ مضمون نویسی، اخبار نویسی کے علاوہ ایک علم ہے اس میں بعض کیفیتوں اور جذبات کا ذکر ہوتا ہے.مثلاً محبت پر جب مضمون لکھا جائے گا تو اس کی کیفیت اور حقیقت بیان کرنی ہوگی.اس میں ان امور پر بحث ہوگی جو محبت کے اثر کو قوی بناتے ہیں اور پھر اس کے نتائج کو بیان کرنا ہو گا اسی طرح اگر نفرت پر لکھنا ہے تو اس کی ساری کیفیت کا ایک نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیا جائے.صرف و نحو (۱۰)دسواں علم، جو زبان کے متعلق ہے وہ صرف و نحو کا علم ہے.صرف کے معنے ہیں الفاظ کے ہیر پھیراور صیغوں کا علم بتانا بحیثیت الگ الگ لفظ کے مثلا ًکھانا ایک لفظ ہے.اس سے کھایا.کھاتا کھائے گا وغیرہ مختلف الفاظ جو بنتے ہیں ان کی بابت یہ علم دینا کہ وہ کس طرح بنتے ہیں اور ان کے ان تغیرّات کا کیا اثر ہوتا ہے مضمون میں کیا تغیّر ہوتا ہے اور صورت میں گیا تغیرّ آتا ہے.ان میں سے ہر ایک سے کیا مراد ہوگی- کیا وہ واحد ہے جمع ہے؟ مؤنث کے لئے کیا آتا ہے؟ مذکر کے لئے کیا بولتے ہیں؟ نحو کا علم یہ بتاتا ہے کہ الفاظ مل کر کیا مفہوم بتاتے ہیں.الفاظ کی ترتیب اور ترکیب کی طرح ہونی چاہئے.پہلے کسی لفظ کو لانا ہو گا اور آخر میں کون سا؟ اور الفاظ کے اس طرح ترتیب دینے سے ان کے مفہوم اور مطلب میں کیا اثر پڑتا ہے ؟ جیسے میں نے روٹی کھائی.کھائی روٹی میں نے وغیرہ.نحوکے علم کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں درست جملہ کونسا ہو گا.پھر ہر ایک زبان کی نحوی ترتیب الفاظ کو اپنے قاعدہ کے موافق بتاۓ گی.جس ملک میں کوئی شخص پیدا ہوتا ہے اور اس کی مادری زبان یا ملکی زبان جو بھی ہو وہ اس میں درست بولے گا لیکن غیر زبان کو بغیرنحو کے علم کے وہ صحیح طور پر نہیں بول سکے گا اس کے لئے نحو کا جاننا ضروری ہوگا.دیکھو ہمارے ملک میں ایک زمیندار جٹ عورت بھی کبھی یہ نہ کہے گی.روٹی کھائی میں نے.بلکہ وہ میں نے روٹی کھائی ہی کہے گی جو درست ہے لیکن جو اس ملک میں پیدا نہیں ہوئے ایک انگریز ،عرب یا ایرانی ضرور غلط بول دے گا جب تک وہ نحو سے واقف نہ ہوگا.عربی زبان میں علم نحو یہ بھی بتاتا ہے کہ زیر ،زبر ،پیش کا کیا مطلب ہے عربی زبان میں نے کو
۱۳۹ وغیرہ الفاظ کے قائمقام زبر اور زیر ہی ہو جاتے ہیں اور ان سے ہی ان کے مفہوم کا کام نکل آتا ہے.علم التعلیم (۱۱) گیارھواں علم، زبان کے متعلق علم التعلیم ہے علم التعلیم سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کو سمجھانا کس طرح ہے لیکچراور ہوتا ہے.لیکچر کے ذریعہ ہم خیال بنانا ہو ہے.مگر تعلیم سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو کچھ ہمیں آتا ہے وہ دوسرے کو سکھانا ہے.لیکچر میں صرف متفق کرنا ہوتا ہے تعلیم میں یہ مقصد ہوتا ہے کہ تفاصیل سے آجائے اور دوسرا اس کو سیکھ جائے.پھر اس علم التعلیم کے بہت حصے ہیں اور مختلف شاخیں ہیں یہ ایک مستقل علم ہوگیا ہے.علم الشعر (۱۴) بارھواں علم، علم الشعرہے اس علم میں یہ باتیں داخل ہیں کہ شعر کہنے کی غرض کیا ہے ،شعر میں کیاخوبی ہے اور شعر کتنی قسم ہوتا ہے.علم اوزان الشعر (۱۳) تیرواں علم، علم اوزان الشعرہے یعنی شعر کا وزن بیان کرنا علم الشعرمیں جو قسم شعرکی بیان کی جاتی ہے اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ غزل ہے ربا عی ہے وغیرہ اور وزن شعر میں یہ بتایا جائے گا کہ شعر کا وزن درست ہے یا نہیں جب شعر کے اوزان کا علم آجاتا ہے تو جو لوگ شعر نہیں کہہ سکتے وہ بھی بناسکتے ہیں.علم التشہیر (۱۴) چودھواں علم جو زبان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ علم التشہیر ہے یعنی اشتہار دینے کا علم.اس علم کی بھی بہت سی قسمیں اور شاخیں ہیں.یورپ اور امریکہ میں اس علم کے مدرسے ہیں جہاں علم التشہیر سکھایا جاتا ہے.اشتہار کیوں دینا چاہئے.کسی طرح دینا چاہئے کس قدر دینا چاہئے یہاں لوگ اشتہار دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آج، ہی آرڈر آنے شروع ہو جائیں مگر یورپ اور امریکہ میں لوگ اشتہار دیتے ہیں اور اس قدر دیتے ہیں کہ بعض اوقات سرمایہ کا بہت بڑا حصہ مال کے خریدنے کی بجاۓ اشتہار پر خرچ کردیتے ہیں.اس میں ایک حصہ عنوان ہے.اسی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اشتہار میں عنوان کس طرح قائم کیا جائے.بذریعہ تصویر اشتہار دیا جائے تو وہ دائیں طرف ہو یا بائیں طرف غرض خاص فن ہے اور جو اس علم کے ماہر ہیں وہ بہت بڑی بڑی رقمیں لے کر اشعار لکھتے ہیں.علم موسیقی (۱۵) پندرھواں علم، علم موسیقی ہے یعنی گانے کا علم.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ گانا کس طرح چاہئے اونچی اور نیچی آواز کس طرح نکالنی چاہئے.باجے کو اگر ساتھ ملایا جاۓ تو آواز میں کسطرح موافقت پیدا کی جائے.اسی طرح اس میں یہ بھی آتا ہے کہ
۱۴۰ آواز کس طرح پر خوشی اور غم و افسردگی پیدا کرتی ہے.کوئی آواز میں ہمت و جرأت ہوتی ہے.یہ ایسا علم ہے کہ جذبات ابھر سکیں.ایک شخص جو روپیہ خرچ نہیں کر سکتا ایک عمده گانے والا اس میں ایسی کیفیت پیدا کر سکتا ہے کہ سب روپیہ اس سے لے لے یا بزدل بنادے یا ہمت پیدا کردے.یہ خاص فن ہے اس میں صرف آواز کے اونچے نیچے کرنے سے جذبات ابھرتے ہیں اور یہ بہت ہی نازک فن ہے.چونکہ اس میں بعض نقائص ہیں اس لئے اسلام نے جائز نہیں رکھا.ڈرامانویسی (۱۷) سولہواں علم ڈرامہ نویسی ہے.ڈرامہ وہ حصہ جس کو عملی طور پر کرنا ہوتا ہے ناٹک میں جہاں بادشاہ ،وزیر یا ڈاکٹر لکھا ہے تو اس میں بن کر دکھایا جاتا ہے عملی طور پر جب ڈرامہ کر کے دکھایا جائے تو اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے پھر اس کے کئی حصے ہیں.جب اس کو سٹیج پر کر کے دکھایا جاتا ہے تو دلچسپ ہوتا ہے.کتابوں میں سرسری طور پر پڑھیں تو بعض اوقات بہت خشک معلوم ہوتا ہے.ڈرامہ نویس ان باتوں کا خیال رکھتا ہے کہ ان کی تصنیف میں ایک اثر اور جذب ہو اور سٹیج پر کرتے وقت اس میں کوئی ایسی بات نہ پیدا ہو جو بے لُطفی اور کمزوری کا موجب ہو.میں نے علوم کی اس تقسیم میں کوئی لمبی تقسیم نہیں کی کیونکہ ایسی تقسیم ایک لمباعرصہ چاہتی ہے بلکہ میں نے اس تقسیم میں سرسری طور پر جو جو علم میرے سامنے آگیا اس کو بیان کر دیا ہے.کھانے پینے کے علوم (۱۷) سترہواں علم علم الاغذیہ والا شربہ ہے.اس میں یہ بتایا ہے کہ کون سی غذائیں کھانے کے قابل ہیں.صحت کے لئے کس قسم کی غذا مفید ہوتی ہے اور کس قسم کی غذاؤں کا خراب اثر صحت پر پڑتا ہے.پھر اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سردی یا گرمی میں کس کس کم کی غذائیں استمال کرلی جائیں.بیمار ہو جائے تو اس کی إذا کا خاص اہتمام کس طریق پر کیا جاتا ہے اور اس کی غذاؤں میں کن امور کومد نظر رکھنا چاہئے.پھر جسم کے خاص اعضاء پر کس قسم کی اغذ سے اپنا خاص اثر ڈالتی ہیں.مثلا ًدماغ کی کمزوری یا دل کی کمزوری میں کیا استعمال کرنا چاہے معدہ کمزور ہو تو کیا کھانا چاہئے.یہ بہت بڑی تفصیل ہے اور اسی کا ذکر اور بیان اس علم میں ہو تا ہے.اور اسی میں ان اشیاء کا ذکر آتا ہے کہ پینے کے قائل کیا کیا چیزیں ہیں.تندرستی میں کیا اور بیماری میں کیا.اور پھر مختلف بیماریوں میں مختلف قسم کے شربت یا عرق دیئے جاتے ہیں.بہت سی
۱۴۱ بیماریوں میں بعض چشموں کے پانی مفید ہوتے ہیں اور ایسا ہی بعض تیل جیسے مچھلی کا تیل وغیرہ.غرض اس علم میں بہت بڑی تفصیل ہے اور یہ تندرستی اور بیماری اور مختلف ملکوں کی اشیاء خوردنی او ر نوشیدنی کے علم پر حاوی ہے.سینے پرونے و کھانا کھانے کے علوم.(۱۸) اٹھارواں علم وہ ہے جو سینے پرونے سے تعلق رکھتا ہے.اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ کپڑے اور فیتہ کو کس طرح لگایا جائے کہ اس کا خاص اثر دیکھنے والے پر ہوتا ہے.یورپ نے اس فن میں بہت ترقی کی ہے اور اس کے لئے باقاعدہ اسکول اور کالج بنائے ہیں جماں کے تعلیم یافتہ او راس فن کے صاحبِ کمال بعض اوقات ہزا رہزا ر دو دو ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے ہیں.علم الالوان یعنی رنگوں کا علم دراصل اسی میں داخل ہے.کس رنگ کے ساتھ کس قسم کا فیتہ لگانا ہے کونسی جگہ اونچی ہو اور کہاں کس قسم کی شکل رکھنی چاہئے.غرض اس فن کو بہت بڑی وسعت دی گئی ہے.(۱۹) انیسواں علم جو اس کا حصہ ہے وہ کانٹے کافن ہے اس کے بھی الگ کالج ہیں اور آج یہ علم بہت ترقی کر گیا ہے یعنی کپڑا کاٹا کس طرح جاتا ہے.کس قسم کی کاٹ زیادہ خوبصورت ہو سکتی ہے اور کس طرح کاٹنے سے کپڑا کم خرچ ہو یا ضائع نہ ہو.(۲۰) بیسواں علم کھانا پانے کا علم ہے.اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ آٹا گوندھ کر پکالیا بلکہ جب اس کو علمی شکل دی جاتی ہے تو اس میں بہت سی باتیں داخل ہوتی ہیں اور اس میں یہ طبی باتوں کو اپنے اندر رکھتا ہے اس علم کے ماہر کو علم الاغذیہ والا شربہ کاماہر ہونا بھی ضروری ہے.وہ دیکھے گا کہ کس حد تک ایک چیز کو گلانا چاہئے جو صحت کے لئے مفید ہو ،ہضم میں ممد ہو،غذائیت پید کرنے میں کار آمد ہو پھر جہاں ایک طرف اسے طبی پہلو کو مد نظر رکھنا ہے دوسری طرف زبان اور ذائقہ کے پہلو کو بھی زیر ِنظر رکھنا ہے.کون کون سی چیز کیا اثر رکھتی ہے.کھٹا اور میٹھا اگر ملائیں تو کس نسبت سے کہ دونوں ذائقے اپنی جگہ قائم رہ کر دو سرا لطیف ذائقہ پیدا کر سکیں اور پھر اگر وہ ملا کر کھائے جائیں تو کیا اثر کرتے ہیں.غرض ایک ایک چیز کے متعلق کافی علم ہونا ضروری ہے.اس کے خواص اور اثرات سے واقفیت لازمی ہے یہ علوم خصوصیت سے
۱۴۲ عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں.تربیت اولاد (۲۱) اکیسواں علم تربیت اولاد کا ہے.یہ علم بہت ضروری ہے اور عورتوں کے ساتھ اس کا خاص تعلق ہے کیونکہ اولاد کی تربیت اور تعلیم کا جس قدر تعلق ماں سے ہے مردوں سے اتنا نہیں ہوتا.ابتدائی تعلیم و تربیت سب ماں ہی کی گود اور اثر میں ہوتی ہے.اس علم میں ہے بتایا جاتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کس حد تک کاسختی یا نرمی کرنی چاہئے ان کو غلطیوں یا بد عادتوں سے بچانے کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے.ان میں اچھی عادتیں پیدا کرنے کے کیا طریق ہیں.ان کے حوصلہ اور ہمت کو بلند کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے.غرض ان کی جسمانی اور اخلاقی تربیت اور ترقی کے لئے تمام ضروری باتوں کا علم اس میں داخل ہے.یہ علم بھی یورپ اور امریکہ میں مستقل علم کی حیثیت سے سکھایا جاتا ہے.طبی علوم (۲۳) بائیسواں علم ،طبّ ہے یہ طب کا علم بہت وسیع ہو گیا ہے اس لئے کہ ہر شخص بیمار ہوتا ہے اور علاج کراتا ہے اور مختلف قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں اس لئے بہت سے لوگ اس کی تحقیقات میں لگ گئے اور یہ علم وسیع ہوتا چلا گیا.اس کی دو وسعتیں ہیں.ایک تحقیقات امراض کے سلسلہ میں دوسری علاج الامراض کے رنگ میں پھر ان دونوں شاخوں کے اندر ایک اور سلسلہ وسیع ہوتا چلا گیا.طبّ کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک ان میں سے طبّ یونانی ہے.یونان یو رپ ہی کا علاقہ ہے.اس طبّ اصلیت یہ ہے کہ چیزوں کے اثرات دریافت کئے جاتے ہیں اور پھر ان کو اس قسم کی بیماریوں میں استعمال کرتے ہیں.مثلاً ایک چیز بلغم نکالتی ہے.جب بلغم کی تکلیف ہو تو وہ دیتے ہیں.جیسے بنقشہ ایک قسم طب کی دید ک ہے.ویدک اور یونانی میں فرق ہے.ویدک ہندی طب ہے اور اس میں کشتہ جات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اصل چیز کا چو ہردینا زیادہ مفید ہے.تفصیلات میں اور بھی بہت فرق ہے مگر میں نے موٹی بات بتادی ہے.پھر ایک قسم علاج بالماء ہے.اس کو انگریزی میں بایڈ رو پیتھی کہتے ہیں.اس میں تمام امراض کا علاج پانی کے ذریعہ کرتے ہیں.کبھی پانی پلا کر کبھی غسل کے ذریعہ.پھر غسل کی مختلف صورتیں ہیں.کبھی صرف چھینٹے دیتے ہیں کبھی گرم یا ٹھنڈے پانی میں تو لئے بھگو کر رکھتے ہیں اور بدن کو صاف کرتے ہیں.کبھی پورا غسل دیتے ہیں.غرض تمام امراض کا علاج پانی سے کرتے ہیں.
۱۴۳ ایک قسم علاج کی علاج بالشعاع ہے یعنی سورج کی روشنی سے علاج کرتے ہیں.سورج کی روشنی مختلف رنگوں سے مل کر نئی کیفیتیں اور مختلف اثرات پیدا کرتی ہے.اس علاج کے ماہر سبز، سرخ یا اور رنگوں کی شیشیاں لے کر ان میں پانی ڈالتے ہیں اور پھر اسے بطور دوا استعمال کرتے ہیں.اس علاج کی بھی کئی صورتیں ہیں.کبھی سورج کی شعاعوں میں بحثھا کر بعض امراض کاعلاج کرتے ہیں.ایک قسم علاج کی علاج بالبرق ہے.بجلی کے ذریعہ مختلف امراض کا علاج کرتے ہیں.اس غرض کے لئے مختلف قسم کے آلات بنائے گئے ہیں اور ہر مرض میں اس کے مناسب حال آلہ لگا کر علاج کریں گے.مثلا ًگلے میں درد ہے تو ایک آلہ لگا کر اسے بجلی سے دور کریں گے یا جوڑوں میں درد ہے تو بجلی کے ذریعہ اس کی اصلاح کریں گے.یہ بھی ایک بہت بڑا علم ہوگیا ہے.ایک قسم علاج کی ہومیو پیتھی ہے جس کو علاج بالمثل کہتے ہیں اس قسم کا علاج کرنے والے کہتے ہیں کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اور وہ مختلف امراض میں مبتلاء ہوتا ہے اس کو ان بیماریوں سے شفا پانے کے لئے ایک ایساگر بتادیا ہے کہ اس کے استعمال سے فائدہ ہو تا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس چیز سے بیماری پیدا ہوتی ہے اس کی قلیل مقدار دینے سے وہ دور ہو جاتی ہے.مثلاً افیون قبض کرتی ہے لیکن جب افیون نہایت ہی قلیل مقدار میں دی جائے تو وہ قبض کشاہو جاتی ہے.اس غرض کے لئے انہوں نے کیمیاوی ترکیب سے ہر چیز کی تاثیر کو نکال لیا ہے کو نین جو ہے یہ ایک بوٹی کاسَت ہے یہ بوٹی بنگال میں ہوتی ہے مگر لوگوں کو معلوم نہیں.ایک بایوکیمک کہلاتی ہے اس کے اند رطبّ والوں نے یہ بحث کی ہے کہ انسان باره نمکوں سے بنا ہے.پس انہوں نے کیمیاوی طور پر خون کو دیکھا ہے وہ کہتے ہیں جو بیماری پیدا ہو اس قسم کی چیز دی جائے.اس میں ایک ویکسین ہوتا ہے اور ایک سیرم.ویکسین یہ ہے کہ جیسے ہلکے کتے کاکاٹا ہوا ہو تو اسی کا زہر دے کر پچکاری کردیں گے.سیرم یہ ہوتا ہے کہ جب کو کئی بیماری ہو تو اس میں دور کرنے کا جو مادہ ہوتا ہے اسے لے کر محفوظ رکھتے ہیں اور پھراس قسم کے مریضوں میں اسے داخل کرتے ہیں.ایک قسم طبّ کی آٹوینی ہے یعنی اپنے ہی خون سے علاج کرتے ہیں.جو بیمار آئے گا اسی کا خون لے کر علاج کریں گے.ایک علاج بالتوجہ ہوتا ہے.اس میں صرف توجہ سے علاج کرتے ہیں دوائی نہیں ہوتی.
۱۴۴ توجہ کرنے والے کے جسم سے ایک چیز نکلتی ہے جو بیماری پر اثر کرتی ہے.یہ کبھی قلیل مقدار میں ہوتی ہے کبھی کثیر مقدار ہیں.علوم ِحساب تاریخ و جغرافیہ (۲۳) تیئیسواں علم حساب ہے.اس کی دو صورتیں ہیں ایک بذریعہ اعداد دو سر ابذریعہ حروف جس کو الجبرا کہتے ہیں.اس میں حروف کا حساب لگایا جاتا ہے.بعض باتیں حساب سے نہیں پتہ لگتیں مگر الجبر اسے پتہ لگ جاتا ہے.ایک جیومیٹری ہے.اس میں یہ بحث ہوتی ہے کہ ایک جگہ ہے اس کی آپس میں کیا نسبت ہے.مثلا دائرہ ہے اس کا کیا ثبوت ہے.سید ھاخط کس طرج بنایا جاتا ہے.زاویے کی کیا قیمت ہوتی ہے اس علم میں خطوط کے ذریعہ بڑے بڑے حساب حل ہوتے ہیں.اس علم کے ذریعہ سے تعمیر مکانات میں بڑی مدملتی ہے.پھر اس کے ذیل میں ایک ٹرگنامیٹری یعنی علم مثلث ہے جس میں ان کی طاقتوں پر بحث ہوتی ہے اور پھر ایک لوگارسم ہے جس میں خیالی قیمت لگا کر بعض لمبے اور پیچیدہ حساب دو چار ہندسوں سے نکال لیتے ہیں.یہ علوم بہت بڑی تفصیل چاہتے ہیں.خلاصہ ان کا بیان نہیں کیا جاسکتا اس لئے صرف نام بتا دیتے ہیں.(۲۳) چوبیسواں علم تاریخ ہے.یعنی پچھلے لوگوں کے حالات بیان کرنا.یہ پا نچ قسم کاہے.سیاسی، علمی،مذہبی ، قومی ،جنگی ،تاریخی.سیاسی تاریخ سے یہ مراد ہے کہ کسی قوم کی سیاست پر بحث کرنا.اس میں تاریخی واقعات کو بیان کر کے ان اسباب پر بھی بحث ہوگی جو سیاسی تغیرات کا موجب ہوئے.مثلا ًفلاں قوم نے فلاں ملک پر فلاں سن میں حملہ کیا اور وہ ہار گئے تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا جائے گا کہ اندرونی انتظام کیا تھے رعایا اور بادشاہ کے تعلقات کیا تھے؟ علمی تاریخ میں اس امرسے بحث ہوگی کہ کیا علوم آتے تھے.ان میں گیا ترقی ہوئی.کون سے جدید علم اس نے پیدا کئے.قومی تاریخ میں اس کا بیان ہو گا کہ وہ قوم جس کی وہ تاریخ ہے کہاں سے نکلی اور اس میں کیا قبائل تھے.اس کی کیا تقسیم ہے.کہاں کہاں پھیلی اور اس کے حالات میں کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں.جنگی تاریخ میں اس امر کا بیان ہو گا کہ جنگی حیثیت سے اس قوم میں کیا تغیرات آئے.یہ حصہ
۱۴۵ تاریخ کا سیاسی تاریخ سے بالکل الگ ہے.سیاسی میں انتظامی امور پر بحث ہوتی ہے جنگی میں اس قسم کی شجاعت ،بزدلی اور فنون جنگ سے واقفیت یا عدم واقفیت اور جنگی ضروریات میں ایجادات اور سامان حرب کی حیثیتوں پر بحث ہوگی.پھر اس تاریخ کے علم کے ساتھ بعض اور علوم بھی تعلق رکھتے ہیں.وہ گویا علم التواریخ کی شاخیں ہیں.چنانچہ دوسرا علم اس کا جو تاریخ سے تعلق رکھتا ہے وہ فلسفہ تاریخ ہے.اس کے معنے پہ ہیں کہ کوئی تاریخ جو لکھی جائے اس میں کیا قوانین مدّنظر ہوں.یا تاریخ کے کیا فوائد ہیں.تاریخ نویسی کے کیا اصول ہیں اور مورخ کو کن باتوں کو مدّ نظر رکھنا چاہئے.ایسا ہی تاریخ کے فن کی تدریجی ترقیوں اور حالات پر بحث ہوگی.تیسرا علم جو اس کی شاخ ہے وہ ذرائع تاریخ ہے اس میں یہ باتیں بھی داخل ہوتی ہیں کہ کسی ملک یا قوم کی صنعتوں اور روایات سے پتہ لگاتے ہیں.ایسا ہی اس قوم کے مذہب اور عقائد اور رسوبات سے بھی پتہ لگاتے ہیں.غرض مؤرخ مختلف ذرائع اور اسباب سے تاریخ کا پتہ لگاتے ہیں.(۲۵) پچیسواں علم جغرافیہ ہے جغرافیہ کا علم زمانہ کے موجودہ نقشہ پر بحث کرتا ہے کہاں دریا ہیں کہاں پہاڑہیں.جغرافیہ کی پانچ قسمیں ہیں ایک مدنی ہوتی ہے جس میں شہروں کی نسبت بیان ہوتا ہے ایک سیاسی جغرافیہ ہے اس میں اس بات پر بحث ہوگی کہ کسی پہاڑ دریا یا شہر کی سیاسی حیثیت کیا ہے.اردگرد کے شہروں پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے اس سیاسی جغرافیہ میں اس امر پر بھی بحث ہوتی ہے کہ کس ملک پر کس قوم کا قبضہ ہے اور کس حد تک سیاسی حالات اس کے موافق ہیں یا مخالف ہیں.ایک تجارتی جغرافیہ ہوتا ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس ملک میں کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں اور ان چیزوں کا نکاس کس طرح ہوتا ہے اور وہاں دوسرے ممالک سے کیا کیا چیزیں آتی ہیں اور کہاں کہاں سے آتی ہیں جیسے مثلا ًہندوستان میں گیہوں اور روئی ہوتی ہے اور یہ گیہوں اور روئی یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں جاتی ہے.ایک قسم جغرافیہ کی طبی یا فضائی جغرافیہ ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بارش کیا چیز ہے شبنم کیوں کربنتی ہے اولے اور برف کس طرح بنتے ہیں.ایک قسم جغرافیہ کی نقشہ کا علم ہے.اس میں دنیا کے نقشے بنانا داخل ہے.
۱۴۶ علوم تعمیروسنگ تراشی و مصوری (۲۶) چھبیسواں علم ، تعمیر کا علم ہے.اس علم کے تین حصے ہیں.ایک یہ کہ عمارت کس طرح بنانی چاہئے.پھر اس کی مختلف شاخیں ہیں.بنیادیں کس طرح بھرنی چاہئیں.مختلف اونچائیوں کے لحاظ سے کس قسم کا مصالحہ استعمال کیا جائے.عمارت کس طرح مضبوط ہو.مختلف آفات بارش، زلزلہ ،بجلی وغیرہ سے کس طرح حفاظت ہو یہ خود ایک وسیع علم ہے اور اس کے لئے خاص قسم کے انجینئرنگ کے کالج ہیں.دوسرا حصہ اس علم کا تاریخ تعمیر ہے.اس میں یہ بیان ہو گا کہ کس طرح فن تعمیر میں ترقی ہوئی؟ تیسرا حصہ اس علم کا یہ ہے کہ تاریخ تعمیر کے ساتھ مختلف اقوام کے فن تعمیر کا مقابلہ کیا جائے.ہندوستانی کیسے بناتے تھے، عربوں کا فن تعمیر کیسا تھا.دونوں میں کیا فرق تھا، کون بہترتھا، دوسرے ملکوں میں اس فن نے کیا ترقی کی تھی، ان کا باہم مقابلہ کر یا پھر کس قوم نے کس سے کیا سیکھا.یہ ایک وسیع تار یخ تعمیر ہے اور بہت دلچسپ ہے.(۲۷) ستائیسواں علم.سنگ تراشی اور مجسمہ سازی ہے.پتھروں کو دوسری شکلوں میں تراشنا اور ان سے انسانوں‘ حیوانوں یا دوسری چیزوں کے مجسمے یا بت بنانا.اس کی بھی دو شاخیں ہیں.ایک خود سنگ تراشی دوسرے تاریخ ِسنگ تراشی.سنگ تراشی کی تاریخ میں مختلف فرقوں نے اس فن میں کیا کیا ترقیاں کیں اور کس کس طرح اس فن میں ترقی کی.اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے.(۲۸) اٹھائیسواں علم مصوّری ہے اور اس مصوّری میں تین چیزیں داخل ہیں.نفسِ مصوّری - تاریخ ِمصوری اور فلسفہ تصویر.نفس مصوّری میں تو یہی بحث ہوگی کہ مصوّر کی کیا ضروریات ہیں.کس قسم کا سامان اس کے پاس ہونا چاہئے.اور تصویر کے وقت کن باتوں کو اسے مد نظر رکھنا چاہئے جس سے تصویر میں خوبی اور اثر پیدا ہو.یہ بہت وسیع علم ہے اور ایک خاص فن ہے.مصوّر انسانی جذبات اور کیفیات کو مجسم کر کے دکھادیتا ہے.مثلا ًرنج و راحت ،افسردگی کے نظارے نہایت عمدگی سے دکھادیتا ہے.ایسا ہی دنیا کے فانی ہونے کی تصویر جب ایک لائق مصور کھینچ کر دکھائے گاتو طبیعت پر نقش ہو جاتا ہے.شاعر
۱۴۷ جذبات اور کیفیات کو الفاظ میں دکھاتا ہے مگر مصور تصویر کھینچ کر اور مجسم بنا کر دکھادیتا ہے.تاریخ مصوری میں پھروہی بات ہوگی کہ اس فن نے کس طرح پر ترقی کی.مختلف قوموں میں یہ علم کس طرح جاری ہوا اور کیا کیا اس میں ایجادات ہوتی گئیں.اس زمانہ میں تو اس فن نے اس قدر ترقی کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے.فلسفہ تصویر میں تصویر کی حقیقت اور غایت کا بیان ہو گا.(۲۹) انتیسواں علم، علم العکس ہے.یہ بھی دراصل ایک قسم مصوری ہی کی ہے اس میں فوٹولینا اور تاریخ فوٹوگرافی داخل ہے.فوٹو لینے میں کن چیزوں کی ضرورت ہے کس اصول پر فوٹو لیا جاتا ہے.کن اجزاء سے تصویر بنتی ہے تاریخ فوٹوگرافی میں بیان کیا جائے گا کہ کس طرح پر علم العکس پیدا ہوا.اور کس کس طرح ترقی کرتا چلا گیا.(۳۰) تیسواں علم صنعت ہے.صنعت کا لفظ اپنے اند روسعت رکھتا ہے.میں تفصیل بیان نہیں کر سکتا صرف نام لے دیتا ہوں.لکڑی کی صنعت، لوہے، پیتل وغیرہ دھاتوں کی صنعت پھریہ مختلف قسم کی صنعتیں ہیں اس میں تاریخ صنعت بھی لازمی ہے.علم ِ لہوولعب (۳۱) اکتیسواں علم ، لہوولعب کا علم ہے.ہمارے یہاں لہوولعب کا لفظ بڑا سخت لفظ ہے اور لہو و لعب کو پسند نہیں کیا جاتا مگر میں نے بتادیا ہے کہ بعض اوقات جہالت کو بھی علم کہتے ہیں.انگریزوں کے ہاں اس علم کو امیوزمنٹ کہتے ہیں یعنی وہ علم جس سے انسان کا دل خوش ہوتا ہے اس کی دو بڑی شاخیں ہیں.اند رون خانہ مشاغل کہ گھر میں بیٹھ کر انسان ان سے لطف اٹھا ہے.دوسرے بیرون خانہ یعنی گھر سے باہر جا کر کیا کھیلیں.اس علم میں اس پر بڑی بحث ہے کہ کس قسم کی کھیلیں انسانی اعضاء پر کس قسم کا اثر ڈالتی ہیں.ہاتھ پٹھے کس طرح مضبوط ہوتے ہیں.دل و دماغ اور پھیپھڑوں پر کس قسم کی کھیلوں کا اثر ہوتا ہے.ان دو کے علاوہ ایک اور شاخ بھی اس علم کی ہے جو ہمارے تمدّن میں علم نہیں سمجھا گیا مگر انگریزی تمدّن میں وہ علم ہے اور وہ علم الرّقص ہے.اس علم کے ذریعہ جسم کے مختلف اعضاء پر ایک خاص اثر ڈالا جاتا ہے اور مختلف قسم کی حرکات کا انہیں عادی بنالیا جاتا ہے.
۱۴۸ چوتھا علم جواسی لہوولعب کی ایک شاخ ہے وہ الصوت یعنی آواز کا علم ہے.اس میں ایک شخص ایسے طور پر بات کر سکتا ہے کہ لوگ دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ وہ نیچے سے بولتا ہے مگروہ اوپر سے بولتا ہو گا.اسی طرح آگے پیچھے یا دائیں بائیں سے بولتا ہے.بعض لوگ ایسے حالات کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں.اس علم میں آواز کو آگے پیچھے دور نزدیک کرنے سے خاص اثر پیدا ہوتا ہے.اس تبدیلی آواز کی ایک شاخ جانوروں کی بولیاں بولنا بھی ہے.شکاری اس سے کام لیتے ہیں اور ان کو بہت مدد ملتی ہے.جانور سمجھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بول رہا ہے اور وہ آواز سن کر اکٹھے ہوجاتے ہیں.پانچواں علم اس فنِ لہو و لعب میں شعبدہ بازی ہے.مختلف کیمیاوی تر کیبوں سے مختلف چیزیں بنا دیتے ہیں اور وہ اصل چیزوں کی سی صورت اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے جیسے سانپ یاشیر بنانا.ایسا ہی مختلف قسم کے نقشے اوردھو کے ہوتے ہیں.چھٹا علم ہاتھ کی صفائی، دھوکا کہلاتا ہے.ایسی پھرتی سے ہاتھ چلاتے ہیں کہ دھوکا لگتا ہےیہ کھیل عام طور پر معاش کے کھیل میں ہوتا ہے.ساتواں علم چیستانوں کا ہے پہیلیوں کی طرح اس میں بتایا جاتا ہے کہ یہ بھی دو قسم کا ہے.ایک زبانی دو سرا عملی.عملی چیستانیں ایسی ہوتی ہیں کہ لوہے کے چھلّے وغیره گورکھ دھندے رکھ دیتے ہیں ان کو کھولنا ہوتا ہے.علم قدامت و تمدّن (۳۲) بتیسواں علم، علم القدامت ہے.اس علم میں بتایا جاتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں انسانوں کی کیا حالت تھی.مثلاً ننگے رہتے تھے یا کپڑے پہنتے تھے.اور کپڑے اگر پہنتے تھے تو کس قسم کے تھے.غرض اس طرح پر پرانے حالات پر اس علم میں بحث ہوتی تھی.اس کا ایک حصہ علم اللّسان ہے.یعنی آیا وہ زبان سے الفاظ بولتے تھے یا اشارات سے کام لیتے تھے.خیالات کا اظہار کس طرح کرتے تھے.اور اسی میں ایک حصہ علم الدّراہم ہے یعنی سکے نکال کر باتیں دریافت کرتے ہیں.اور ایسا ہی تیسری شاخ علم التعمیر ہےیعنی پرانی عمارتوں سے بھی پتہ لگتا ہے.چوتھی
۱۴۹ ایک شاخ اور بھی ہے جو تعمیر کے علاوہ ہے اور اس میں دیگر آثارقدیمہ سے پتہ لگایا جاتا ہے.(۳۳) تینتیسواں علم، علم التمدّن ہے جو نہایت اہم علم ہے.اس میں کئی علوم سے بحث ہوتی ہے.(۱)رعایا کے حقوق حکومت پر کیا ہیں.یعنی کونسی با تیں جو رعایا بادشاہ سے طلب کرے.(۲).حقوق على الرعایا.یعنی رعایا کو کونسی باتیں ماننی ضروری ہیں اور حکومت کے رعایا پر کیا کیا حقوق ہیں.۳- حقوق الاخوان على الاخوان یعنی انسان کے انسان پر.بھائی کے بھائی پر کیا حقوق ہیں.۴- حقوق الوالدين على الاولاد یعنی ماں باپ کے حقوق اولاد پر کیا ہیں.مثلاً اس میں یہ بھی بحث کریں گے کہ باپ بچہ کو مارے یا نہ مارے اور مارے تو کس حد تک.غرض والدین کو أولاد کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کرنا چاہئے اور اولاد کو کیا طریق اختیار کرنا ضروری ہے.۵.حقوق الرجال على النساء- مردکے عورتوں پر کیا حقوق ہیں..آئندہ نسل کی بہتری کس طرح ہو سکتی ہے.اس میں یہ بھی داخل ہے کہ عمدہ اخلاق والی اور مضبوط اولاد کس طرح پر ہو..مالک اور مزدور کے کیا حقوق ایک دوسرے پر ہیں.مزدور کس حد تک آزاد ہے اور کس حد تک پابند اور نوکر کامالک کے مال میں کس حد تک حصہ ہے.یہ بڑی بحث ہے اور سرمایہ داروں اور نوکروں کے تعلّقات اور حقوق کا علم اس وقت بہت وسیع ہوگیا ہے اوران حقوق کی حفاظت نہ کرنے یا ان کے نہ سمجھنے کے سبب سے بڑے بڑے فتنے اور فساد کھڑے ہو جاتے ہیں.مزدوروں کی جماعت کو لیبر پارٹی کہتے ہیں آج کل بڑے زوروں پر ہے علم سیاست (۳۴) چونتیسواں علم سیاست ہے.اس کی بہت شاخیں ہیں.بڑی بڑی یہ ہیں.۱.حکومت اور ملازمین.حکومت کا اپنے ملازمین پر کیا حق ہے اور کہاں تک اختیار ہے.ملازمین کے کیا حقوق ہیں.
۱۵۰ حدود حکومت یعنی حکومت ملک کی آزادی میں کس حد تک دخل دے سکتی ہے.کہاں تک بادشاہت رہتی ہے.۳.طریق حکومت.اس کی پھر کئی شاخیں ہیں.(1) غیرمحدود سلطنت جس میں بادشاہ کے اختیارات محدود نہیں.(۲) محدود سلطنت.اس میں حکومت کے پورے اختیارات نہیں ہوتے.بادشاہ رعایا کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتے.(۳) حکومتِ نواب یعنی قائم مقاموں کی حکومت.۴- حکومتِ فردی.یعنی ایک ہی شخص حکومت کرے جس کو شاہی حکومت بھی کہتے ہیں.۵.حکومتِ عوام یعنی عام لوگوں کی مرضی سے حکومت.اس میں ایک بحث یہ ہے کہ آیا عام لوگوں کی حکومت بہتر ہے یا اس سے نقصان ہوتا ہے.۵.حکومتِ عقلاء چند عقلمندوں پر حکومت چھوڑ دی جائے.- حکومت ِامراء.چونکہ سب سے زیادہ نقصان انقلاب حکومت پر امراء کا ہوتا ہے اس لئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ امراءکا حق ہے کہ وہ حکومت کریں.پھر اس میں یہ بحث ہے کہ آیا یہ مفید ہے یا نہیں.۰۸ حکومتِ پنجائتی.حکومت پنجائتی میں ایک حکومت نہیں ہوتی بلکہ حکومت کو پھیلادیا جاتاہے جیسے آج کل روس کی حکومت کو کہاجاتا ہے.ہر جگہ اپنی حکومت ہے.بادشاد ہو تا ہے اس کا اتناہی کام ہوتا ہے کہ وہ دیکھ لے کہ آپس میں نہ لڑیں یا باہر سے دشمن آوے تو اس کا انتظام کریں.یہ ایسی حکومت ہوتی ہے کہ قادیان کی اپنی ہو.دہلی کی اپنی.لاہور کی اپنی.گویا ہر شہرکی اپنی حکومت ہوتی ہے...حکومتِ شیوخ ہے.اس میں بوڑھے تجربہ کار لوگ حکومت کرتے ہیں.عربوں میں یہی طریق حکومت تھا.چالیس برس سے اوپر کی عمر کے لوگوں کا انتخاب کر لیا جاتا تھا.۱۰.دسویں تاریخ اسلامی حکومت ہے کہ وہ ان میں سے کسی میں شامل نہیں ہے کہ اس نے سب سے لیا ہے اور تمام خوبیوں پر مشتمل ہے.محدود، غیر محدود، امراء ،عقلاء،نیابتی اور شیوخ سب کو اس نے جمع کیا ہے اس لئے بہترین حکومت ہے.
۱۵۱ بحث.حکومت اور مذہب کے تعلقات کیا ہیں.کس حد تک مذہب کو بادشاہت کے ماتحت رہنا ہوا ہے اور کس حد تک بادشاہت کو.۱۴- بحث یہ ہے کہ حکومت میں عورتوں کا کس قد رد خل ہے.۱۳- بحث نو آبادیات کے متعلق ہے کہ کس طرح قائم کی جائیں.نو آبادیوں اور ملکوں کے کیا تعلقات ہوں.۱۴- بحث، دوبادشاہوں کے تعلقات کس قسم کے ہوں.۱۵.بحث، تعلقات بین الا قوام.مختلف قوموں کے باہمی تعلقات کس قسم کے ہوں.ان میں باہم تنازعات ہوں تو فیصلہ کس طرح ہو.ہرایک ان میں اپنے قائم مقام چنتا ہے.اس کے متعلق کچھ اصول ہیں اور وہ قانون بین الا قوامی کہلاتا ہے اس کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں.۱۶- بحث ، نیابتی حکومت کرنے والے آپ حاکم ہیں یا نہیں.اس میں بتایا گیا ہے کہ نیا بتی حکومت والے دراصل حاکم نہیں بلکہ ان کو نیابت مل گئی ہے جیسے عراق کا بادشاہ ہے.دراصل اس کی حکومت لیگ آف نیشنر کے سپرد ہے.اور لیگ نے اسے انگریزوں کے سپرد کر دیا ہے.۷ا- بحث ،دو حکومتوں کے علاقے کی حد بندی ہے.اس میں بحث ہوگی کہ کون سے ایسے قوانین ہوں کہ جس سے حد بندی ہو سکے.اس میں دیکھا جائے گا کہ کس قوم کے لوگ بستے ہیں اور کس کو فلاں حصہ دیا جائے گا نقصان ہو گا.۱۸- بحث یہ ہوگی کہ حکومت کا انتظام کس طرح پر ہو.اس کی پھر بہت سی شاخیں ہیں.(1) ایک نظام مرکزی ہے.بعض کہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی اختیارات دیئے جائیں.جیسے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب، برمایوپی وغیرہ کو اختیارات دیئے.گور نربناد ئیے.پھر ہر ایک صوبہ میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنز وغیرہ ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ تمام اختیارات مرکز کوہی رہیں.گویا نظام مرکزی کے متعلق دوحصے ہیں.کل اختیارات مرکز کو ہوں یا دوسروں کو بھی ہوں.تیسری بحث اس میں پولیس کے متعلق ہے کہ کیا اختیارات ہوں.چوتھامحکمہ تجسسّ کا ہے جس کو سی آئی ڈی کہتے ہیں جس کے ذریعہ حالات کا علم ہوتارہے.پانچواں محکمہ جنگلات ہے.جنگلات کو کس حد تک محفوظ رکھا جائے اور کس حد تک جنگلات کو کاٹ کر زرعی آبادیوں کی صورت میں منتقل کیا جائے بہت سی تفاصیل اس میں ہیں.
۱۵۲ چھٹا محکمہ ،محکمہ تعلیم ہے.یہ بہت وسیع ہے اس میں یہ بحث ہوگی کہ تعلیم کس طرح ہو.مفت یا قیمت پر.انتظام تعلیم کس طرح پرہو - پھرلازم ہو یا اختياری- پھراس صیغہ کی بات سی شاخیں ہیں.زنانہ تعلیم.مردانہ تعلیم مختلف علوم کی تعلیم.ساتواں محکمہ ، علاج انسانی اور حیوانی.ڈاکٹر اور ویٹرنری ڈاکٹر.پھراسی میں ایک محکمہ حفظان صحت کا ہوتا ہے.پھراس میں طبعی تعلیم کے ذرائع اور اسباب پر بحث ہے.آٹھواں محکمہ خزانہ کاہے.نواں محکمہ انتظامی ہے.جیسے ڈپٹی کمشنر تحصیلدار وغیرہ.دسواں محکمہ فصل قضاء یا عدالت کا ہے.جج اور قاضی کس طرح مقرر ہوں.گیارہواں محکمہ مال کا ہے.اس میں زمینداروں کے تمام معاملات سے بحث ہوتی ہے.با رھواں محکمہ ڈاک کا ہے.تیرواں محکمہ انہار کاہے.چودھواں محکمہ ریلوے کا ہے.پند رھواں محکمہ آبکا ری کا ہے.اس میں شراب اور دیگر منشیات کی نگرانی کرنا ہے ناجائز طور پر کشید اور فروخت نہ ہو.سوالہواں محکمہ تعمیرات کا ہے.سترھواں محکمہ ٹکسال اور سکہ جات کا ہے.اس میں سکہ بنانے کا علم ہوتا ہے.روپیہ کس قدر بنوانا چاہیے پیسہ کس قدر چاہیے.دوسرے سکے جو ضروری ہیں.پھر یہ بھی اس میں بتایا جائے گا کہ جعلی سکوں کی شناخت کا کیا علم ہے.اٹهار ھواں محکمہ رجسٹری کا ہے.بعض معاملات میں فساد ہو جاتے ہیں اس لئے معاملات خرید و فروخت اور دستاویزات ضروریہ کی رجسٹری کا قانون جاری کردیا جاتا ہے تا کہ سرکاری تصدیق ہو جائے.انیسواں محکمہ تجارت کا ہے.اس محکمہ کے ذریعہ سرکار دیکھتی ہے کہ ملک کی تجارتی ترقی کس طرح ہو سکتی ہے.اس ملک کی کونسی تجارتیں ہیں جو دوسرے ممالک میں پھیل سکتی ہیں.بیسواں محکمہ فوج کا محکمہ ہے.یہ بڑا وسیع علم ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ کس قسم کے ہتھیاروں کی ضرورت ہے ، کتنی فوج ہو، کس قسم کی ہو وغیرہ وغیرہ.
۱۵۳ اکیسواں محکمہ.تعلقات بیرونی کا محکمہ ہے جس کو صیغہ خارجہ کتے ہیں.اس کا کام یہ ہو تا ہے کہ وہ دیکھے کہ باہر والوں سے کیا تعلقات ہوں.بائیسواں محکمہ حفظان صحت کا محکمہ ہے.اس کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ لوگ کس طرح تندرست رہیں، شہروں اور دیہات کی صفائی کس طرح ہو، آب و ہوا درست ہے تاکہ صحت در نسل پیدا ہو.تیئسواں محکمہ وضع قوانین ہے.اس کا کام ہے کہ ملک کی انتظامی اور اقتصادی ضروریات کے لئے قانون بناتا رہے اور مفید اور مضر قوانین کا خیال رکھے.چوبیسواں محکمہ بحری ہے.اس محکمہ کا کام ہوتا ہے کہ سمندروں کے متعلق تمام ضروریات کا انتظام کرے اور اس کے متعلق بحری قوانین کی پابندی کرے.پچیسواں محکمہ آب و ہوا ہے.اس میں بحث ہوگی کہ بارشوں کا کیا حال ہے.برف باری کہاں ہوگی.قبل ازوقت حسابات لگائے جاتے ہیں.اگرچہ ابھی تک یہ کہ پورا ترقی یافتہ نہیں مگر پھر بھی بہت مفید ہے.چھبیسواں محکمہ ہوا ہے.یہ اس سے الگ ہے.اس کے کا تعلق قضاء سے ہے.ہوائی جہازوں کا علم اور ان سے متعلق ضروری انتظام ہو تا ہے.ستائیسواں محکمہ ٹیکس ہے.جو لوگ روپیہ کمائے ہیں ان سے کتنا ٹیکس لیا جائے.اٹھائیسواں محکمہ کسٹم ہے.کس چیز پر کس قدر ٹیکس لیا جائے جو باہر سے آتی ہیں.یہ بہت وسیع محکمہ ہے.انتیسواں محکمہ شارواعداد کا ہے.مختلف قسم کے اعداد جمع کئے جاتے ہیں.مثلاً زراعت کے صیغہ کے اعداد ہوں گے کہ کس قدر رقہ میں بڑی بڑی اجناس بوئی گئی ہیں.ریلوے کے متعلق ہوں تو کس قدر مسافروں نے سفرکیا.کس قدر آمدنی ہوئی وغیرہ.اس محکمہ سے بڑا فائدہ ہوتاہے.تیسواں محکمہ.بحار و بنادر ہے.سمندروں اور بندرگاہوں کے متعلق انتظام.بندرگاہیں وقتی ضرورتوں کے ماتحت کس قدر وسیع ہوں کہ جہاز آسانی سے آجاسکے وغیرہ.اکتیسواں محکمہ، آثار قدیمہ ہے.پرانے آثار کی عمارت.تحقیقات اور حفاظت.بتیسواں محکمہ.محکمہ وزارت ہے.
۱۵۴ تینتیسواں محکمہ اشاعت ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے کاموں سے لوگوں کو آگاہ کرے یا غیر ملکوں میں حکومت کے متعلق بد ظنی نہ پھیلے.چونتیسواں محکمہ تاریخ نویسی ہے جو حکومت کی ضروری تاریخ لکھتا رہے.پینتیسواں محکمہ حفاظت و ترقی حرفت و صنعت ہے یعنی صنعتیں ملک میں جاری ہیں ان کی حفاظت کی جائے اور ان کی ترقی کی تدابیر کی جائیں.چھتیسواں محکمہ زراعت ہے.اس کی ترقی کی تجاویز سوچیں.مختلف قسم کے آلات اور بیج مہیا کئے جائیں اور لوگوں کو ان سے واقف کیا جائے.زراعت علمی طریق پر کی جائے.سینتیسواں محکمہ.بند و بست ہے جس میں اراضیات کی پیمائش اور مالیہ کی پیشی کے متعلق ایک خاص انتظام اور قواعد ہوتے ہیں.اڑتیسواں محکمہ میونسپلٹی ہے.مقامی پیچایتوں کا تقرر اوران کی نگرانی وغیرہ.غرض اس قسم کے محکمے ہوں تو حکومت چلتی ہے.ایشیا ئی حکومتوں کی تباہی کایہی موجب ہوا کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کی گئی.یہاں ابھی اس قدر محکمے قائم نہیں ہوئے.غرض اگر یہ محکمے ہوں تو حکومت چلتی ہے پھر ان محکمہ جات کے متعلق جو اندرونی تفاصیل ہیں ان کا سلسلہ بجاۓ خودوسیع ہے.اصول ِتعلیم و علم ِحساب (۳۴) چونتیسواں علم ، تعلیم ہے.اس میں (۱) اصول تعلیم کہ تعلیم کس طرح دی جائے.(۴) کون سے علوم مدارس میں پڑھائے جائیں.ان میں کیا نسبت ہویعنی نصاب تعلیم اور پھراس کے لئے اوقات کی تقسیم مثلاًتاریخ اتنے گھنٹے جغرافیہ اس قدر گھنٹے ہفتہ میں پڑھایا جائے.(۳) سکولوں کا انتظام کس طرح ہو.(۳) طريق تعلیم (۵) تاریخ تعلیم (۲) نظام تعلیم جیسے پرائمری یا سکنڈری تعلیم، ہائی سکول اور کالج وغیرہ کس طرح قائم کئے جائیں (ء) تعليم معلمین.استاد کس طرح پیدا کئے جائیں.(۸) ورزشی تعلیم کسی حد تک ہو.(9) اخلاقی تعلیم اور مذہبی تعلیم.پھر آیا مذہبی تعلیم الگ ہو یا ساتھ ہو.اگر ساتھ ہو تو تلف مذاہب کے طالب علموں کی مذہبی تعلیم کا کیا انتظام ہو.(۱۰) تعمیرمدارس.مدرسہ کی عمارتوں کا خاص فن ہے جس سے طلباء
۱۵۵ کی صحت اور زمین پر خاص اثر پڑتا ہے غرض یہ ایک بڑا وسیع علم ہے.(۳۵) پینتیسواں علم حساب ہے.کس طرح حساب رکھاجائے.(۳۶) چھتیسواں علم محاسبہ کا ہے.اس میں ہے بتایا جاتا ہے کہ کسطرح حساب کے رجسٹروں کی پڑتال کی جائے.(۳۷) سینتیسواں علم نقشہ نویسی ہے.(۳۸) اڑتیسواں علم انجنیئرنگ ہے.اس کی مختلف شاخیں ہیں.مثلا اس میں ڈاٹوں کا الگ علم ہے.کسی قسم کی ڈاٹ کسی قدروچن اٹھاسکتی ہے.وغیرہ.(۳۹) انتالیسواں علم رسم و عادت ہے.یہ بھی مستقل علم ہے اور اس علم کی کئی شاخیں ہیں جس میں فلسفہ رسم و عادات تاریخ رسوم و غیره داخل ہیں.علوم اللّباس والاقتصاد (۴۰) چالیسواں علم، علم اللباس ہے.اول لباسوں کی تاریخ پھر مختلف ملکوں اور قوموں کے لباس کی ضروریات.اس کی طبی اغراض اور موسموں کے لحاظ سے تقسیم.سب باتیں داخل ہیں.(۴۱) اکتالیسواں علم، علم المجر مین ہے.اس کی بھی بات کی شاخیں ہیں.جرائم کے اسباب.مجرموں کی اصلاح کے طریق.سزا کی حد اور اس کا مقصد طریق سزا.کوئی سزا زیادہ محسوس اور موثر ہوگی.(۴۲) بیالیسواں علم، علم الاقتصادہے.اس میں ملک کی مالی حالت کے متعلق علم بتایا جاتا ہے کہ کس طرح خرچ کرنا چاہئے.اس کے ضمن میں سخاوت اور بخل پر بحث ہو گی.پھر اس میں ایک بحث ایکسچنج تبادلہ سکہ کا ایک علم ہے اس نے آجکل لوگوں کو بہت گھبرا رکھا ہے.پھراس علم میں ایک شاخ ضرب سکہ کا علم ہے.پھر قرض پر بحث ہے.تجارت اندرونی اور بیرونی پر بحث ہوگی کہ کس طرح ترقی ہوسکتی ہے.پھر تجارت کی بحث میں اور کئی ضمنی بحثیں آجاتی ہیں.طریق تجارت.آزاد یا ماخوذ تجارت.برابر ٹیکس والی تجارت کریں یا زیادہ والی.پھراس
۱۵۶ میں ایک بحث مزدوروں کے متعلق ہوتی ہے.مزدوروں کی انجمنوں پر غور ہو گا اور ان کے حقوق اور اثر سے بحث ہوگی کہ ان کا کیا اختیار ہو.ان کا انتظام کس طرح ہو.مالک اور مزدوروں کی انجمنیں باہم کس طرح مل کر کام کریں تاکہ اس کے فوائد زیادہ ہوں پھر اس میں سٹرائگ کے متعلق بحث ہوگی کہ ہونی چاہیے یا نہیں.اس عرصہ میں کھانے کا کیا انتظام ہو.تعطیلی کارخانہ - اس کے متعلق مالک کیا طریق اختیار کرے گا اور اس کا کیا اختیارہے کہ نوکروں کو نکال کر کارخانہ بند کردے.حقوق مزدوران.آیا مزدوروں کو اپنے حقوق مانگنے کی اجازت ہے یا نہیں ہے تو کس حد تک-غرباء اور ان کاا نتظام.ایک بحث اس علم میں یہ ہے کہ مالک زمین کے کیا حقوق ہیں ؟ ایک بحث یہ ہے کہ کارخانوں میں باہم اتحاد کس حد تک لازمی ہے.ایک بحث یہ ہے کہ کارخانے کس طرح بنائے جائیں جس سے مزدوروں کی صحت پر برا اثر نہ پڑے.پھر ایک بحث یہ ہے کہ کمپنیوں کا قیام کس طرح ہو.پھر مال کا کیا اثر ہوتا ہے.ٹیکس اور اس کی حد بندیاں بیمہ اور اس کا اثر - شرکت فی النفع.نفع اور اس کی تقسیم.قیمتیں کس طرح گھٹتی بڑھتی ہیں.یہ شاخیں ہیں علم اقتصاد کی.منطق.فلسفہ اور علم ہیئت (۴۳) تینتالیسواں علم منطق ہے.دو باتوں کو ملا کر صحیح نتیجہ نکال لینا.اس علم میں یہی سکھایا جاتا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ہر انسان حیوان ہے.زید انسان ہے معلوم ہوا کہ زید حیوان ہے.اس طرح پر وہ بتاتے ہیں کہ مختلف باتوں سے صحیح نتائج کس طرح نکالتے ہیں.اس کے دو حصے ہوئے ہیں.ایک عام مثالوں سے نتائج پیدا کرتے ہیں.ایک صورت یہ ہے کہ خاص حالت سے عام قانون بنا لیتے ہیں.(۴۴) چوالیسواں علم فلسفہ ہے.اس کے معنے ہیں حقيقة الاشياء اس میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ مادہ کیا چیز ہے؟ وقت کیا چیز ہے؟ دنیا کا انتظام کسی چیز پر چل رہا ہے؟مادہ کس طریں پیدا ہوتا ہے؟ خد اکیا ہے.اس علم کا خلاصہ کیا؟ کیوں؟ کس طرح؟ کے تین الفاظ میں آجاتا ہے.اس کے جوابات جو نکلتے ہیں وہ فلسفہ بتاتا ہے.خاص طور پر مادہ اور وقت پر بحث کی جاتی ہے.
۱۵۷ (۹۴۵) پینتالیسواں علم سائیکالوجی یا علم النفس ہے.انسان میں کیا کیا داخل ہے اور وہ کس طرح پیدا ہوتا ہے.انسانی عقل اور جانوروں کی عقل میں کیا فرق ہے.اس قسم کی بحث اس علم میں ہوتی ہے.(۴۶) چھیالیسواں علم علم الاخلاق ہے.اخلاق کیا ہیں.وہ اچھے ہیں یا برے ہیں.(۴۷) سینتالیسواں علم.خواص قانون قدرت.کبھی یکدم سردی ہو جاتی ہے کبھی گرمی تغیرات کیوں ہوتے ہیں.(۴۸) اڑتالیسواں علم ،علم الرّوایات ہے.(۳۹) انچاسواں علم، علم اللسان ہے کس طرح تغیّرات زبان میں ہوتے ہیں.اس علم کے ماتحت (۱) مقابلہ زبان ہے عربی سنسکرت عربی انگریزی ،فارسی علی وغیرہ زبانوں کا باہم مقابلہ کرنا.کو نسے الفاظ ملتے ہیں ؟ کیا تغیرات ہوتے ہیں ؟ (۲) تحقیق اللسان.اس میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کامل زبان کو نسی ہے.(۳) تغیرات اللسان کا علم بھی اس میں داخل ہے.(۵۰) پچاسواں علم ،علم الہیت ہے.ستاروں کی بحث ہے.گردش فلکی ،حقیقت سیارگان، کیوں چلتے ہیں ان کے اثرات زمین پر کیا ہیں.ان کی رفتار اور گردش کس قسم کی ہے.اس گردش کا اثر خود ان کی ذات پر کیا ہوتا ہے.پھر اسی میں تمام سیارگان پر بحث ہوگی.اس کے ساتھ ہی ان کے طریق پیدائش پر بحث ہے کہ چاند کس طرح بن گیا.اور پھراسی علم میں علم النور پر بھی روشنی ڈالنی ہوگی کہ روشنیاں کس طرح پر ہوتی ہیں.
۱۵۸ تقریر سوم (جلسہ لجنہ اماءالله منعقده ۵- مارچ ۱۹۲۳ء) پچاس علوم بیان کر چکا ہوں چند اور باقی ہیں ان کو اب بیان کر دیتا ہوں.علم سائنس وطبقات الارض ۵۱ واں علم فزکس کہلاتا ہے.یہ حقیقت ہے اس علم کی جس کو ہمارے ملک میں سائنس کہتے ہیں اس کے کئی حصے ہیں.ایک حصہ کانام فزکس ہے.اس علم میں اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ آواز کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ روشنی.گرمی.سردی کیا چیز ہیں؟ سیال چیزیں کیاہیں؟ پھراس علم کے ماتحت یہ بحث بھی ہوتی ہے کہ بجلی کیا ہے؟ مقناطیس کیا ہے؟ ذرّات کیا ہیں؟ مادہ میں کیا کیا تو تیں ہیں؟ اس کی کتنی صورتیں ہیں ؟ ٹھوس، مائع اور گیس کے جد اجد اکیا خواص ہیں؟ جس قدر مشینیں ایجاد ہوتی ہیں وہ اس علم سے بنتی ہیں.غرض یہ علم سیال، گیس، آواز روشنی ،مقناطیس،ذرات اور اجزائے مادہ پر بحث کر تا ہے.اس کی وجہ سے ایجادیں ہوتی ہیں.مثلا ً ریل کا انجن اسی علم سے بنا.کہ گرمی کی کیا طاقت ہے؟ کس طرح اس طاقت کو پیدا کیا جا تا ہے اور کس طرح بند کیا جاتا ہے؟ اسی علم نے بجلی کی روشنی پیدا کی اور پھر اسی علم سے بتایا جاتا ہے کہ کس طرح بجلی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاتی ہے.پھر اسی علم کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر تار کے بھی بجلی جاسکتی ہے؟ کوئی حرکت ضائع نہیں جاتی.پھرذرّات کا علم ہے جس سے ترقی کر کے ٹیکانکلا ہے.غرض مشینوں کا کام گیس ،سیال، اور مقناطیس کے ذریعہ چل رہا ہے اور یہ تمام اس علم کا نتیجہ ہیں اور ایجادات میں اس کا بڑا دخل ہے.پھر اس علم کا ایک حصہ عملی کہلاتا ہے یعنی علم کتابی کو کس طرح استعمال کر کے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ایک کینیکل کہلاتا ہے.مشینوں پر کیا اثر پڑ تا ہے.۵۲ وان علم کیمسٹری ہے یہ وہی ہے جس کو پرانے زمانہ میں کیمیا کہتے تھے.دو چیزیں ملا کر تیسری چیز پیدا ہونے پر اس علم میں بحث کی جاتی ہے.غرض یہ علم بتاتا ہے کہ مختلف چیزیں مل کر کوئی نئی چیز پیدا کرتی ہیں اور اس کے خواص میں کیا تبدیلیاں ہو جاتی ہیں.
۱۵۹ اسی علم طب کی بنیاد ہے.مثلاً کو نین دوسری چیزوں سے مل کر کیا اثر کرتی ہے.طب کی بنیاد اور سائنس کے شُعبدے اسی پر موقوف ہیں.یہ بھی علمی اور عملی ہوتی ہیں.پھر اس علم کے ایک حصے میں جسمانی چیزوں کے تجربات کئے جاتے ہیں.ایک خاص حصہ انسان کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے.کیمسٹری میں اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ خون کے کیا أجزاء ہیں.پھر دوحصے اس کے اور ہیں جو نباتات اور جمادات سے تعلق رکھتے ہیں.۵۳ واں علم جیالوجی ہے.اس کو علم طبقات الارض بھی کہتے ہیں.اس علم کی کئی شاخیں ہیں.اسی علم کی شاخوں میں سے ایک حصہ وہ ہے جو دنیا کے لئے مفید ثابت ہو رہا ہے.وہ زلزلہ کا علم ہے.زلزلہ سے دنیا کی بڑی تباہی ہوتی ہے.۱۹۰۵ء میں جو زلزلہ پنجاب میں آیا تھا اس میں بیس ہزار کے قریب لوگ ضائع ہوئے تھے.اس علم کے ذریعہ سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے اور اس ذریعہ سے قبل از وقت علم پاکر ہلاکت سے بچ سکتے ہیں.اسی علم میں جو زلزلہ کے متعلق ہے زمین کی حرکات پر بحث ہوتی ہے.اس سے عام حرکت مراد نہیں ہے بلکہ ایسی حرکت مراد ہے جیسے بعض اوقات انسان کے جسم کے اندر کوئی حصہ پھڑکنے لگتا ہے.اسی طرح زمین کی غیر معمولی حرکات کا پتا اس علم سے لگ جاتا ہے.شملہ میں ایک آلہ لگا ہوا ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ کہاں زلزلہ آیا ہے اور کتنے میل کے فاصلہ پر آیا ہے.جاپان نے اس علم میں بہت ترقی کی ہے اس آلہ کو ٹیلوگراف کہتے ہیں.اس کے نگر ان جو ہیں ان میں ایک احمدی محمد یوسف نام بھی مقرر ہوئے ہیں.اسی آلہ کو میں نے دیکھا ہے اس کمرہ میں داخل ہوتے ہی ستون حرکت کرنے لگتا ہے.باریک سے باریک حرکت کا پتہ لگ جاتا ہے.دوسرا حصہ جو اس علم کا ہوتا ہے وہ طبقات الارض سے تعلق رکھتا ہے.وہ زمین کے مختلف حصوں کو دیکھ کر بتاتا ہے کہ یہ کب بنا.مثلا یورپ کا علاقہ بہت بعد کا بنا ہوا ہے اور ایشیاءاس قال ہو گیا تھا کہ اس پر آدمی آباد ہو سکیں.اسی علم کے ذریعہ کانوں کا علم ہوتا ہے.لوہا وغیرہ کب بنے.یہ چیزیں ایک مادے سے بنی ہیں.کوئلہ اور ہیرا ایک ہی چیز ہے صرف زمانہ کا فرق ہے.اس فرق نے ایک کی قیمت اتنی بنادی ہے.ایک تولہ لاکھوں روپیہ کو آئے گا اور دوسرا کئی من دس بیس پچاس روپیہ کو آجائے گا حالانکہ دونوں ایک ہی چیز ہیں.اسی علم کے ماتحت علم الاوزان ہے لینی و زنوں کا علم.ہوا ،روشنی ،رطوبت اور خشکی کا علم
۱۶۰ بھی اسی کے ماتحت ہے کہ ان کا کیا اثر ہوتا ہے.اسی طرح بارشوں اور ہواؤں کا علم معلوم ہو جاتا ہے.اس علم میں یہ بحث بھی کی جاتی ہے کہ پتھروں کی کیا قسمیں ہیں.کس طرح ان کے خواص معلوم ہوتے ہیں.کن حالات میں ان کی قیمتوں کا اندازہ ہوتا ہے.عام پتھر سے لے کر ہیرے کا بحث آجاتی ہے.پیدائش ِاجسام و علم الاقدام ۵۴ واں علم، پرائمی ٹالوجی.پیدائش ابتدائی کا علم ہے اس میں اس بات پر بحث ہوگی کہ پہلے پیدائش کس طرح پر ہوئی پھر اس میں آگے چل کر اس پر بحث ہوگی کہ نباتات کس طرح پیدا ہوئی.شروع ہی سے آم یا امرودتھے یا یہ کوئی اور پھل تھے اور ترقی کرتے کرتے آم او را مرود ہو گئے ؟ نباتات کی ابتدائی پیدائش کے ماہر کہتے ہیں کہ پہلے سبزہ ذرہ سا تھا پھر اس سے ترقی کرتے کرتے اس کی شاخیں ہوئیں پھرشاخ درشاخ سلسلہ چلا گیا اور ہزاروں لاکھوں قسمیں ہو گئیں جیسے آدم کی اولاد ایک تھی پھر کوئی کہیں چلا گیا اور کوئی کہیں.کوئی گورا ہو گیا اور کوئی کالا.اسی طرح نباتات کے متعلق کہتے ہیں کہ ابتداء میں ایک ذرہ سا تھا پھراسی علم کے ماتحت جانوروں کے متعلق بحث ہوتی ہے اور پھر ان کی موٹی تقسیم دو طرح کی ہے.ظہری اور غیر ظہری یعنی وہ جن کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور وہ جن کی ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی.پھر اس ترقی کے مدارج پر بحث ہے کہ کس کس طرح ترقی ہوئی.۵۵ واں علم ، بایو لوجی ،یعنی حیات جسمانی کا علم ہے.جسم کی زندگی پر اس علم کے ذریعہ بحث ہوتی ہے.مثلاً ہاتھ حرکت کرتا ہے وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں ایک حیات ہے روح ایک الگ چیز ہے جس میں ایک حیات ہوتی ہے پھر اسی حیات کے بھی مدارج ہوتے ہیں.یہ ایک بہت باریک اور وسیع علم ہے.علم الارتقاء میں اس پر بحث ہوگی.کس طرح پر ایک جانور سے دوسرا بن جاتا ہے.علم الارتقاء کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان ایک کیڑا ہوتا ہے وہی ترقی کرتے کرتے کوئی بندر بن گیا اور کوئی کچھ اور.پھر آخر ترقی کرتے کرتے انسان بن گیا.یہ لوگ ایک نیا سلسلہ چلاتے ہیں.ان کا خیال ہے کہ ترقی کرتے کرتے وہ کیڑا بند ربنا اور پھر اس سے ترقی
۱۶۱ کر کے ایک اور جانوربنا.پھر اس سے انسان بن گیا.یہ علم الارتقاء کہلاتا ہے یہ علم بجائے خود ایک بحث طلب چیزہے مگراس علم والوں نے اس علم سے ایک فائدہ اٹھایا کہ چھوٹی چیزوں کو بڑی بنالیا.مثلاً کدو بہت بڑا بنالیا اور بعض نے مزے کی چیزیں بنالیں.ایک مزے کا انگور تھا اس میں ترقی کر کے کچھ اور تبدیلی کرلی.نباتات کی ترقی میں اس علم سے بہت فائدہ اٹھایا گیا ہے.اسی علم میں یہ بحث بھی آتی ہے کہ باپ سے بیٹے کو کیاورثہ آتا ہے یعنی بیٹاباپ سے کن کن خصائل وعادات وغیرہ کولیتا ہے.کس طرح سے ایک خاندان اپنی خاص بات اپنی اولادمیں منتقل کرتا چلا جاتا ہے.۵۶ واں علم - علم الا قوام ہے.مختلف قوموں میں آپس میں کیا تعلق ہے اور کسی حد تک ان میں تقریق وامتیازہے.ایک طرح سے تمام اقوام ایک ہی ہیں کیونکہ ایک آدم کی اولاد ہیں مگر مختلف ملکوں میں چلے جانے اور رہنے سہنے سے اختلاف ہو گیا.یورپ کے لوگوں کا دماغ خاص قسم کا ہے.ایشیاء کے لوگوں کے قوی اور رنگ کے ہیں.افریقہ والے اور قسم کے.پھر میدانوں میں رہنے والے اور پہاڑوں کے رہنے والوں میں جدا امتیاز ہے.یہ آب و ہوا اور تمدن کے اثر کے سبب ہوتا ہے یہاں تک کہ چمڑوں اور ہڈیوں کی بناوٹ میں فرق ہو جاتا ہے.اس علم کے ماہر ایک ہڈی کو دیکھ کربتادیتے ہیں کہ وہ کس قوم کا آدمی ہے.غرض یہ علم بھی بہت وسیع ہے اور اس میں آئے دن ترقی ہو رہی ہے.علم نباتات و حیونات ۵۷ واں علم، علم النباتات ہے.یہ علم بھی آج کل بہت ترقی کرگیا ہے.نباتات کے کیا اعمال ہیں؟ نباتات زندہ ہیں یا نہیں؟ اور وہ سنتے اور دیکھتے ہیں یا نہیں ؟ ان میں حِس ہوتی ہے یا نہیں ؟ قوتیں ہوتی ہیں یا نہیں ؟ ان پر رنج و راحت کا اثر ہوتا ہے یا نہیں ؟ پھر ان باتوں کے معلوم کرنے کے کیا طریق ہیں.اس علم کا ایک بہت بڑا ماہر ایک ہندوستانی ڈاکٹروں بوس ایک بنگالی ہے.اس سے یورپ میں جاکر اپنے تجربوں سے ثابت کردیا ہے کہ نباتات میں بھی حس اور زندگی ہے اور وہ انسان کی طرح مختلف جذبات سے متاثر ہوتے ہیں ،سنتے ہیں، چلتے ہیں ،ان میں غصہ بھی ہوتا ہے اور وہ خبررسانی کرتے ہیں، ان میں شرم اور حیا بھی ہوتی ہے اور ان کو بھوک اور پیاس بھی لگتی ہے.پھراس علم میں نباتات کی اقسام پر بحث ہوتی ہے اور یہ بھی کہ مختلف آب و ہوا میں کس قسم کے پودے ہوتے ہیں اور کس قسم کے نباتات کن ملکوں میں نہیں ہو سکتے.ان کے امراض کیا
۱۶۲ ہیں؟ اور ان کے اسباب اور علاج کیا؟ پھراسی علم میں ایک بحث علمی ترکیب سے ہوگی.مفردات کو لے کر بحث کریں گے کہ یہ فلاں چیز کی رشتہ دار ہے.بعض اوقات ایک پودے کی شکل نہیں ملتی مگر وہ رشتہ دار ہوتا ہے.مثلاً گنا او رکانا(سر کنڈا) کو ایک ہی قوم سے بتاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سرکنڈا ترقی کرتے کرتے گناہوگیا.۵۸ واں علم ،علم الحيوانات ہے.اس میں جانوروں کے متعلق بحث ہوگی اور اس علم میں حیوانات کے اعمال پر بحث ہوتی ہے.باریک باریک ذرات کے کیاکام ہیں؟ ریڑھ کی ہڈی والوں کی کیا کیفیت ہے؟ پھر اس میں تقسیم بلادکے لحاظ سے بحث کریں گے کہ کون سے جانور کس ملک میں پائے جاتے ہیں اور کس ملک میں وہ نہیں پائے جاتے اور کیوں ہیں غرض یہ بھی ایک وسیع علم ہے.۹۵ واں علم، کان کنی کا علم ہے.اس کی کئی شاخیں ہیں.کانوں کا دریافت کرنا.ان میں روشنی اور ہوا کا پہنچانا.پہلے زمانہ کے لوگ ترقی نہ کرسکتے تھے اور وہ نہیں جانتے تھے کہ زمین کے اندر کس قسم کے خزانے بھرے ہوئے ہیں.کان کنی کے علم نے اب بہت ترقی کی ہے.کانیں زمین کے اندر ہوتی ہیں وہاں روشنی اور ہوا کا پیدا کرنا ایک خاص علم کو چاہتا ہے جس کے ذریعہ وہاں کام کرنے والے کام کر سکیں اور آگ لگنے یا دم گھٹنے کے حادثات بھی پیدا نہ ہوں ۶۰ واں علم، علم العناصرہے.اس میں عناصراوردھاتوں کے متعلق بحث کی جاتی ہے.علوم ِجراحی والا دویہ والامراض ۶۱ واں علم، علم التشریح ہے.اس میں بتایا جاتا ہے کہ نان یا جانداروں کے جسم کی کیا حقیقت ہے.اس علم کے ذریعہ ہی ان کو معلوم ہوتاہے کہ فلاں ہڈی کہاں ہے یا فلاں ہڈی کس مقام پر ہے اور اس کی کیسی شکل ہے؟ اس علم کے ذریعہ علاج میں بڑی مددملتی ہے اور اب اس علم نے بہت ترقی کی ہے اور مختلف قسم نے اور علوم اس کی مدد کے لئے پیدا ہو گئے ہیں.۶۲ واں علم، علم الادويہ ہے.دواؤں کی کیا تاثرات ہیں.زیادہ یا کم مقدار میں وہ کیا اثر کرتی ہیں.کسی خاص بیماری میں ان کی تاثیر کیا ہے.یہ ایک مستقل علم ہے اور بہت وسیع
۱۶۳ ہو رہا ہے.۶۳ واں علم، علم الجراحة ہے.یعنی جراحی کا علم - ہڈیوں کو جوڑنا، چیرادینا یا دوسرے جانوروں کی ہڈیاں لے کر انسان کی بعض ہڈیوں کی جگہ لگادینا.۶۴ واں علم، علم نرسری ہے.اس میں بتایا جاتا ہے کہ بیمار کی تیمار داری کس طرح کرنی چاہیئے بیمار کا مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے.یہ علم بتائے گا کے بیمار کے مزاج کو مد نظر رکھ کر کہاں ہم کو غصہ دکھانا چاہئے اور کہاں نرمی کا برتاؤ کیا جائے.بعض وقت اندر غصہ ہوتا ہے مگر ظاہر میں نرمی کا برتاؤ کرنا پڑتا ہے اور بعض وقت سختی اور غصہ کا اظہار ضروری ہوتا ہے.ایک دفعہ ایک ڈاکٹر نے ایک مریض پر میرے سامنے غصے کا اظہار کیا میں نے کہا یہ کیا کرتے ہیں.اس نے کہا کہ یہ بھی ضروری ہے اس لئے اس علم کو الگ کر دیا گیا ہے اور یہ ایک خاص پیشہ ہوگیا ہے.نرسیں الگ ہوتی ہیں.بیمار کا اٹھانا بٹھانا، کھانا کھلانا وغیرہ تمام امور کی وہ نہایت عمدگی سے نگہداشت کرتی ہیں.۶۵ واں علم.جو پہلے نیا علم نہ تھا.اب وہ نیا اور مخصوس ہو گیا ہے.یہ علم عورتوں کی خاص بیماریوں اور علاج کا علم ہے.بعض ادویات ایسی ہیں جو عورتوں پر خاص اثر کرتی ہیں اس لئے عورتوں کی مخصوص بیماریوں کا ایک جدا اور مستقل علم ہو گیا ہے.۶۶ واں علم.بچوں کی مخصوص بیماریوں اور علاج کا علم ہے.۶۷ واں علم - عام علم الامراض ہے.اس علم الامراض میں یہ بحث ہوتی ہے کے امراض سے کیا مراد ہے؟امراض کیونکر پیدا ہوتی ہیں ان کے اسباب اور علامات اور علاج کیا ہیں؟ علم زراعت و مسمریزم و علم قیافہ ۶۸ واں علم، علم زراعت ہے.اس میں یہ بحث ہوتی ہے کہ کوئی چیز کس وقت بونی چاہیے.زمین کو کس طرح تیار کیا جائے.بونے کے بعد اس کی حفاظت اور پرورش کا کیا طریقہ ہے پھراسی میں یہ بحث آتی ہے کہ کونسی چیز کس ملک میں پیدا ہوتی ہے اور وہ چیز دوسرے ممالک میں کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے.یہ بہت ہی وسیع علم ہے اس کے لئے خاص قسم کے مدرسے اور کالج بنائے گئے ہیں.۶۹ واں علم مسمریزم ہے.اس علم کی کئی شاخیں ہیں.(ا) ایک علاج الامراض (۲) دوسرے دور بین یعنی دور کی بات معلوم کرنا.ایک بند کمرے یا الماری میں کوئی چیز ہو تو اس کو دیکھ لینا (۳) تیسرا علم اس کے تحت میں خبر رسانی ہے.یہاں بیٹھے ہوئے دوسرے مقام پر جودور
۱۶۴ فاصلہ پر ہو اپنی خواہش کر ڈال دینا.یہ ابھی ابتدائی حالت میں ہے.(۴) چوتھا علم جو اس کی شاخ ہے وہ روح کو دور بھیج دینا ہے.اس سے انسانی روح مراد نہیں بلکہ اس سے مراد دماغ کا وہ حصہ ہے جو اثرقبول کرتا ہے جس کو متاثر دل کہتے ہیں.وہ باہر جاتا ہے اور دوسروں کو نظر آجاتا ہے.(۵) پانچواں حصہ اصلاح الاخلاق ہے جس کے ذریعہ بد عادتوں کو چھڑا دیا جاتا ہے جیسے چور کی عادت وغیرہ چھڑائی جاتی ہے.۷۰واں علم، روحوں کو بلانے کا علم ہے.بڑے بڑے سائنسدان اس علم کو پڑھ رہے ہیں جو اور علوم کو چھوڑ کر اس طرف آرہے ہیں مگر دراصل یہ وہم ہوتا ہے.عیسائیوں کو عیسائیوں کی اور ہندوؤں کو ہندووں کی بات بتائی جاتی ہے.ایک آدمی پر توجہ ڈالی جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ مجھ پر روح آگئی ہے.کبھی الگ آتی ہے اور وہ اپنے آنے کی علامت بتاتی ہے.مثلاً کبھی کرسی الٹ دی یا کوئی اور فعل کردیا.روح تو نہیں آتی مگر یہ علم ہے اور صحیح علم ہے.۷۱ واں علم، علم القیافہ ہے.اس علم کے جاننے والے شکل دیکھ کر بناوٹ سے یہ بتادیتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کے عادات اور خصائل کا ہے.اس میں کس قسم کے خواص ہیں.دھوکا، دغا محبت ،و فاوغیرہ جذبات کا اندازہ ہو جاتا ہے.اس علم کی ایک شاخ علم البشر ہ ہے.چہرہ کی بناوٹ سے بتادینا کہ اس کے اخلاق کس کام کے ہیں.کانوں اور آنکھ کے فرق سے، ہونٹ ناک وغیرہ کی بناوٹ، لمبائی اور موٹائی سے ہرم کے اخلاقی کا پتہ دے دیا جاتاہے.دوسرا حصہ اس علم کا علم الرأس ہے جس کو سرکا علم بھی کہتے ہیں.یہ زیادہ بہترحالت میں ہے جس قدر اخلاق ہیں.قتل ،خونریزی وغیرہ ان کا تعلق دماغ کے مختلف حصوں سے ہے.خدا تعالی ٰنے دماغ کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے اور انسان کے مختلف جذبات اور اخلاق کے لئے الگ الگ حصے ہیں.جھوٹ، سچ، فریب، محبت وغیرہ کے لئے اس میں جداجدا کمرے ہیں.پس اس علم کے ذریعہ سر کی پیمائش کر کے بتادیا جاتاہے کہ اس میں کو نساماده زیادہ ہے.مثلا ًحرص کایا قناعت کا، غضب کایا برداشت کا.اس علم کا کمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر دماغ کے بعض حصوں کا اپریشن کر کے کم و بیش کردیا جائے تو اس سے اخلاقی اصلاح میں بھی مدد مل سکتی ہے.یہ علم ترقی کر رہا ہے.
۱۶۵ ۷۲ واں علم.علان بالمشورہ ہے.یہ مسمریزم کے سوا ایک الگ چیز ہے.اس میں بغیراپنا زور یا توجہ صرف کرنے کے یو نہی کہے کہ تم بیمار نہیں ہو.خیال کے ساتھ جسم میں اثر ہو جاتاہے اور اگر کسی بخار کے مریض کو کہا جائے کہ بخار نہیں تو اترنے لگتا ہے.یہ ایک علم ہے یونہی کہہ دینے سے اثر نہیں ہو تا.نجوم.جفر.رمل.طلسمی علوم ۷۳ واں علم، علم النجوم ہے کہ وہ علم الہیت نہیں جو پہلے بتایا تھا یہ علم و جہالت والاعلم ہے.ایک حد تک اس میں صداقت بھی ہے جیسے سورج کا کیا اثر ہوتا ہے.اس علم میں اتنی ترقی نہیں ہوئی کہ یہ باتیں معلوم ہو سکیں.یہ علم تو سچاہے.خداتعالی ٰنے کواکب میں تاثیر رکھی ہیں مگر جس طریق پر لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں وہ غلط ہے.لوگ اس کو غیب کاذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور غیب کی خبریں بتانے کادعوی ٰکرتے ہیں یہ غلط ہے.غیب کا علم اللہ تعالیٰ ٰنے اپنے پاس رکھا ہے.۷۴ واں علم ،علم الجفر ہے اس میں ہندسوں کے ذریعہ آئندہ کی خبریں معلوم کرتے ہیں.۷۵ واں علم.معلم الرمل ہے.لکیروں کے ذریعہ حالات معلوم کرتے ہیں.۷۶ واں علم.علم الاستخارہ ہے.یہ وہ اسلامی علم نہیں جس کو استخارہ کہتے ہیں بلکہ یہ وہ ہے کہ تسبیح لے کر بیٹھے رہتے ہیں اور اس کے دانوں سے ایک نتیجہ نکالتے ہیں.بعض عورتیں نپولین کا فالنامہ دیکھتی ہیں.یہ ڈھکوسلے ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ہوتی.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے نجوی کہہ دیتے ہیں لڑکی نہ لڑکا.۷۷ واں علم، طلسم کا علم ہے.اس کو جادو بھی کہہ رہے ہیں.دراصل یہ علم علاج بالمشوره ہی کی شاخ ہے.پڑھ کر کوئی چیز دے دیتے ہیں یا ہندسے لکھ کر کوئی کاغذ کا ٹکڑا بطور تعویزدے دیتے ہیں.۷۸ واں علم ،علم التسخیر ہے.جس کے ذریعہ دوسروں کو یا جنوں کو قابو کیا جاتا ہے.یورپ والے بھی اس میں مبتلاءہیں.۷۹واں علم جس نے دنیا میں تباہی مچائی ہے وہ علم کیمیاہے.یہ سونا بنانے کا خبط ہے.بہت لوگ اس خبط سے تباہ ہوئے ہیں.بعض احمدی بھی اس مرض میں مبتلاء تھے مگر اب وہ اس میں
۱۶۶ مبتلاء نہیں.ایک مولوی دہلی سے یہاں آیا اس نے مجھ کو کہا کہ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول) تو سونا بنایا کرتے تھے اب آپ کو خوب بتاتے ہوں گے مجھ کو بتادو.میں نے بہت سمجھایا مگر میں نے دیکھا کہ اس کو اثر نہ ہوا.۸۰ واں علم، اس علم میں یہ بحث ہوتی ہے کہ کیسی کیسی اقوام کے اجتماع سے اولاد ہوتی ہے.بغیر نر و مادہ کے لئے کے بھی اولاد ہوسکتی ہے یا نہیں.اگر ہو سکتی ہے تو کس طرح؟ اس علم کے ذریعہ یہ ثابت ہوا کہ نرومادہ کے ملنے کے بغیر بھی اولاد ہو سکتی ہے.۸۱ واں علم ،جانوروں کے پالنے کا علم ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ مرغی ،گائے ،بھینس وغیرہ کے پالنے کے کیا طریق ہیں؟ کیا خوراک دی جائے جس سے وہ موٹی ہوں یا دودھ زیادہ دیں یااولاد اچھی ہو.اس علم میں مختلف طریقوں پر بحث ہوگی اور تجارتی اصولوں کو مد نظر رکھ کر بھی بحث ہوتی ہے.۸۲ واں علم ،الائبریری کا علم ہے.اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کونسی کتابیں اکٹھی رکھنی چاہئیں.یہ ایک مستقل علم ہے.بعض کتابیں مختلف علوم سے تعلق رکھتی ہیں.اس علم نے تقسیم کردیا ہے کہ کس کتاب کو کس علم میں رکھا جائے.اور یہ بھی اس میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح کوئی کتاب آسانی سے نکالی جاسکتی ہے.یہ علوم کی ایک فہرست ہے اب ان علوم کے متعلق مضامین سننے ہیں.تم خود غور کرو میں بھی بتاؤں گا.
۱۶۹ تحریک شدھی ملکانا بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم اعلان بابت فتنہ ارتداد ۷.مارچ عصر کے بعد درس القرآن سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حسب ذیل تقریر فرمائی.جماعت احمدیہ کا اخلاص و ایثار میں نے پچھلے جمعوں کے خطبات میں اس بات پر خصوصیت سے تقریریں کی ہیں کہ ہماری جماعت کے اخلاص، دینی قربانی اور ایثار کا نمونہ اور کہیں نہیں پایا جاتا اور میں نے امید ظاہر کی تھی اور سچے طور پر ظاہر کی تھی کہ اگر ہماری جماعت کے لوگوں کو اسلام کے لئے جانیں پیش کرنے کی بھی ضرورت پڑے گی تو وہ اس سے دریغ نہ کریں گے.میری یہ امید بلاوجہ نہ تھی اور نہ بلا ضرورت تھی.بلا وجہ تو اس لئے نہیں کہ ہماری جماعت کی عورتیں جو گودین کے متعلق اخلاص اور محبت میں بہت بڑھی ہوئی ہیں لیکن علمی لحاظ سے مردوں سے بہت پیچھے ہیں ان کے متعلق خطرہ ہو سکتا تھا کہ شاید ان کے لئے قربانی نہ کر سکیں لیکن جب ان کا موقع آیا تو انہوں نے قربانی اور ایثار کا بے نظیر نمونہ پیش کیا.راجپوتوں کا ارتداد اور میری امید بلا ضرورت اس لئے نہ تھی کہ ایک بات جس کے تعلق میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا.ہماری جماعت کے لوگوں کی جانی قربانی کے لئے تیار ہونے سے ہی ہو سکتی تھی.وہ ضرورت جس پر میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے غور کر رہا تھا اور اس کے متعلق سوچ رہا تھا وہ سلسلہ ارتداد ہے جو یو.پی میں شروع ہو گیا
۱۷۰ ہے.اس علاقہ میں ایک قوم جو ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے اس میں آہستہ آہستہ آریوں نے ارتداد کے پھیلانے کی کوشش شروع کی ہوئی تھی اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ قریب ہے وہ تمام کی تمام قوم آریہ ہو جائے.وہ لوگ ہندو نہیں کہلاتے بلکہ ملکانے کہلاتے ہیں اور ان میں بعض رسوم مسلمانوں کی پائی جاتی ہیں.مثلاً وہ مسلمان مولویوں سے نکاح پڑھواتے ہیں مگر پنڈتوں سے بھی نکاح پڑھوا لیتے ہیں.ان میں سے بعض ختنہ کراتے ہیں اور بعض نہیں کراتے.بعض مردوں کو دفن کرتے ہیں اور بعض جلاتے ہیں.کھانے پینے میں مسلمانوں سے چھوت چھات رکھتے ہیں.سروں پر بودی رکھتے ہیں.ان لوگوں کی حالت چونکہ معلوم نہ تھی اس لئے میں نے ۱۴ و ۹۱۵ء میں ان کا حال معلوم کرنے کے لئے یہاں سے دو تین آدمیوں کو بھیجاتھا.عبد الصمد صاحب پٹیالے والے کو اور فلاسفرصاحب کو اور غالباً اسی علاقے میں بدرالدین صاحب کو جواب لنگر میں کام کرتے ہیں مگر ان لوگوں نے ایسی کم ہمتی دکھائی کہ یونہی چند وورے کر کے واپس آگئے اور صحیح حالات کا پتہ لگا کر نہ لائے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اس طرف سے خاموش ہو کر بیٹھ رہے اور دوسرے لوگوں کو تو اس کی فکر ہی نہ تھی مگر آریوں نے آہستہ آہستہ کوشش جاری رکھی اوراب یہ حالت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ سارے لوگ آریہ ہونے والے ہیں اور آج ہی وہاں سے جو آدمی ہو کر آیا ہے وہ بتاتا ہے کہ ان کی ایسی حالت ہو گئی ہے کہ ایک گاؤں میں کچھ لوگ انہیں سمجھانے کے لئے جانے لگے تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ اگر کوئی یہاں آیا تو ہم اسے قتل کردیں گے.ایسے موقع پر غیر احمدیوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں گے فضول ہے.چنانچہ آنے والے آدمی نے بتایا ہے کہ جب ان لوگوں نے قتل کی دهمکی دی تو غیراحمدی جو روانہ ہوئے تھے واپس آگئے حالانکہ میں سمجھتاہوں قتل ہی ایسے علاقے میں تبلیغ اسلام کے لئے نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اور ضروری ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ایک دو تین آدمی قتل ہوجائیں تو اس ساری قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں.اول تو یہ بات ہی باطل ہوتی ہے کہ وہ لوگ تبلیغ کرنے والوں کو قتل کردیں گے لیکن اگر ایک کو قتل کریں تو دوسرا اس کی جگہ چلا جائے اور دوسرے کو قتل کردیں تو تیسرا روانہ ہو جائے تو وہ لوگ ضرور ارتدادسے بچ جائیں گے کیونکہ اس طرح ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم کوئی ایسی قیمتی چیز کھونے لگے ہیں جس کے لئے یہ لوگ جانیں دینے کے لئے تیار ہیں او ر دے رہے ہیں.
۱۷۱ ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاؤ میں نے اس کے متعلق ایک سکیم تیار کی ہے چونکہ اس وقت یہاں لوگ تھوڑے ہیں اس لئے ارادہ ہے کہ جمعہ میں اس سکیم کا اعلان کروں.لیکن چونکہ مرکز کے لوگوں کازیادہ استحقاق ہے کہ قربانی کریں اور یہ زیادہ مستحق ہیں کہ قربانی کے لئے تیار ہونے کا انہیں سب سے پہلے علم ہو اور سب سے پہلے اخلاص کا اظہار کریں اس لئے یہاں کی جماعت کو میں نے پہلے سنادیا ہے جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے تیار رکھیں.یہ ہماری جماعت کے لئے اس قسم کا پہلا موقع ہے.الفضل ۱۲-مارچ۱۹۲۳ء)
۱۷۲ تحریک شدھی ملکانا أعوذ بالله من الشيطن الرحيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر ساڑھے چار لاکھ مسلمان ارتداد کے لئے تیار ہیں ’’وکیل‘‘ امرتسر کی دعوت کا جواب ملک کے گوشہ گوشہ میں جو آواز آج گونج رہی ہے اور جس سے سب مسلمان کہلانے والوں کے دل پاش پاش ہو رہے ہیں اور جو اس پراگندہ ہیں اس سے مجھے اور احمدی جماعت کو ناواقفیت نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارا تو کام ہی دن رات تبلیغ اسلام ہے.مگر چونکہ ہم دوسرے لوگوں سے امداد طلب نہیں کیا کرتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خواہ اسلام کے لئے کیساہی مفيد معاملہ ہو ہمارے ہاتھوں سے اس کا سرانجام پانا ہمارے بھائیوں کو شاق گذرا کرتا ہے اور احمدیت اور غیر احمدیت کا سوال جھٹ درمیان میں آکود تا ہے اس لئے میں نے مناسب نہیں سمجھا اور نہ ضرورت سمجھی کہ اس فتنہ کے متعلق جو کچھ ہم کوشش کر رہے تھے اس کا اعلان کریں لیکن چونکہ روزانہ ’’ وکیل‘‘ امرتسر کے ۸- مارچ ۱۹۲۳ء کے پرچہ میں زیر عنوان "علمائے اسلام کہاں ہیں‘‘ ایک مضموں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مسلمان لیڈروں کو اس فتنہ ارتداد کے انسداد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مجھے بھی مخاطب کیا گیا ہے اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس اعلان کے ذریعہ سے اس شبہ کا ازالہ کردوں جو ایڈیٹر صاحب "وکیل" کے دل میں پیدا ہوا ہے اور ساتھ ہی بعض ان باتوں کا بھی جواب دیدوں جو ’’روزانہ وکیل‘‘ نے بِلا کافی غور کئے کے ہماری طرف منسوب کردی ہیں.فتنہ ارتداد کے متعلق ہماری کوشش مجھے جونہی یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک قوم کی قوم ارتداد کے لئے تیار ہے اسی وقت میں نے
۱۷۳ دفتر کو ہدایت کی کہ اس امر کے متعلق پوری تحقیق کریں کیونکہ یہ شبہ قوی تھا کہ آریہ لوگ اس امرکی کماحقہ، اشاعت کبھی نہیں کریں گے.چنانچہ پہلےمختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کی گئی اور ضروری حالات معلوم کرنے کے بعد فروری میں دو آدمی ابتدائی تحقیقات کے لئے بھیج دیئے گئے جن میں سے ایک مولوی محفوظ الحق صاحب علی مولوی فاضل تھے جن کے والد صاحب اس علاقہ میں بطور واعظ اور بطور پیر دورے کرتے رہے ہیں اور خود بھی وہ اسی علاقہ کے قریب کے رہنے والے ہیں اور اس وجہ سے اس جگہ کے لوگوں کے بھی اور اس علاقہ کی بھی واقفیت رکھتے ہیں.دوسرے صاحب عزیزم عبد القدیر صاحب بی اے تھے جنہوں نے خدمت اسلام کے لئے زندگی وقف کی ہوئی ہے اور باوجود اللہ تعالیٰ ٰکے فضل سے لائق اور ہوشیار ہونے کے صرف تیس روپیہ گذارہ لے کردین کی خد مت میں مصروف ہیں.ان لوگوں کی طرف سے رپورٹ پہنچنے پر کہ حالت بہت مخدوش ہے اور فوری تدارک کی ضرورت ہے میں نے ایک سکیم تیار کی ہے جس سے میرے نزدیک کامیابی کی امید ہو سکتی ہے.الا ماشاء الله ان واقعات سے ایڈیٹر صاحب وکیل کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ ہماری جماعت خاموش نہ تھی.اور نہ میں اس فتنہ کی طرف سے بے پروا تھا.ہمارے دو آدمی پہلے ہی جا چکے ہیں اور آئندہ کے لئے ایک وسیع پیمانہ پر انتظام ہو رہا ہے.سلسلہ احمدیہ کی خدماتِ اسلام میں خوش ہوں کہ اس زمانہ میں جب کہ اسلام کی زندگی کی اس قدر پرواہ نہیں کی جاتی جس قدر کہ دنیاوی متاع اور دنیاوی حقوق کی روزانہ وکیل نے تبلیغ اسلام کی طرف توجہ کی ہے اور اس کی اہمیت کو سمجھا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ وکیل نے اپنے جوش میں سلسلہ احمدیہ کی خدمات کو نظرانداز کر دیا ہے اور ایسے رنگ میں سلسلہ کا ذکر کیا ہے جس سے پڑھنے والوں کو دھوکا لگتا ہے کہ گویا دو سرے لوگوں کی طرح ہماری جماعت بھی اس فرض سے غافل ہے حالانکہ اس زمانہ میں صرف ہماری جماعت ہی اس فرض کو ادا کر رہی ہے.ہمارے غریب اور امیر سب کے سب اپنی بساط کے مطابق دین کی خدمت کے لئے اپنے مال قربان کر رہے ہیں.اور ان پڑھ اور عالم تمام کے تمام اپنی قدرت کے موافق اشاعت اسلام میں حصہ لے رہے ہیں.ہندوستان میں اسلام پر حملہ کرنے والوں کے سامنے اگر کوئی جماعت ہوتی ہے توہماری.بیرونی ممالک میں اسلام کی طرف سے دفاع اگر کوئی کرتا ہے تو ہم.پس باوجود اس کے ایڈیٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’ہمارے مذہبی رہنما اس
۱۷۴ کشاکشی میں اپنی جانیں لٹارہے ہیں کہ فلاں مباحثہ میں ہم نے کتنے غیراحمدیوں کو احمدی بیایا‘‘ کب درست ہو سکتا ہے اور کس حد تک اس سے صحیح واقعات پر روشنی پڑتی ہے.ہم احمدی ہیں اور ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰٰ کے مرسل حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانا اس زمانہ کی سب بیماریوں کا علاج ہے اور زمانہ ہمارے اس قول کی تصدیق کر رہا ہے.پس ہم بے شک غیراحمدیوں کو احمدی بناتے ہیں.اور ان کے احمدی بننے پر خوش ہوتے ہیں مگر یہ کہنا کہ ہمارا سب زور صرف غیر احمدیوں کو احمدی بنانے پر خرچ ہوتا ہے اور اسلام کے مصائب سے ہم آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں واقعات کے صریح مخالف ہے.اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک کام کرنے والی جماعت کے کام پر پردہ ڈالا جائے.ہمیں شکوہ ہے اور بجا شکوہ ہے کہ ہماری مخالفت میں ہمارے بھائی اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ ہماری خدمات ِاسلام بھی ان کو بری لگتی ہیں اور سوائے شاذ و نادر لوگوں کے اور وہ بھی شاذو نادر موقعوں کے کوئی ان کو خدمات ِاسلام قراردینے کے لئے بھی تیار نہیں.معزز وکیل نے جب کہ دشمنان اسلام کے لئے ایک عام دعوت دی تھی ضروری تھا کہ اس کا عملی ثبوت دیا اور دوسرے غافل اورسست فرقوں کے ساتھ احمدیوں کو نہ ملاتا مگر افسوس ہے کہ روزانہ وکیل نے نہ صرف احمدیہ جماعت کو دوسروں سے ملا کر بیان کیا ہے بلکہ ان کا خصوصیت سے ایسے پیرایہ میں ذکر کیا ہے جس سے پڑھنے والے کو دھوکالگتا ہے اور وہ سمجھتاہے کہ خانہ جنگی پر اپنی تمام قوت صرف کردینے والوں میں سے احمدی جماعت ایک نمایاں جماعت ہے.اگر ایسے نازک وقت میں بھی جیسا کہ اس وقت اسلام پر آرہا ہے اور ایسی عام تحریک کے وقت بھی جماعت احمدیہ کے اس نیک ذکر کو چھوڑ کر جس کی وہ مستحق ہے اس کا ذکر برے پیرایہ میں کیا جائے توامن کے وقت کسی نیک سلوک کی میں کب امید ہو سکتی ہے.میرا ہرگز اس سے یہ منشاء نہیں کہ ہم اس سلوک سے گھبراتے ہیں یا اس کی وجہ سے ہم کام سے پیچھے رہنا چاہتے ہیں کہ واقعہ یوں ہے کہ بہت دفعہ اسلام کی خدمت اور اس کی حفاظت کی خاطر دوسرے مسلمان کہلانے والے لوگوں سے ہمیں سخت سے سخت ایذاء بھی پہنچ جاتی ہے پھر بھی ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنا کام کئے جاتے ہیں.ہم اسلام کے فدائی ہیں اور اس کی خاطر اپنے مال، اپنی جانیں اور اپنی عزت و آبرو تک قربان کرنے سے ہمیں دریغ نہیں بلکہ ہم کو اگر ایسا کوئی موقع مل جائے تو ہم فخر سمجھتے ہیں.پس لوگ ہمیں کچھ کہیں.خواہ ہمارے حفاظتِ اسلام کے کام کو حقیر سمجھیں.خواہ ہمارے کاموں پر پردہ ڈالیں ہم اپنے کام میں سستی
۱۷۵ نہیں کر سکتے کیونکہ جب وہ ہمارا اور صرف ہمارا کام ہے اور اس کام پر ہمارے آقا اور ہمارے خالق نے ہمیں خود مقرر فرمایا ہے تو دوسروں کی بد سلوکی ہم پر کیا اثر ڈال سکتی ہے.مگر ہمیں اس امر پر افسوس ضرور آتا ہے کہ ایک طرف تو زمانہ کی نازک حالت کو محسوس کیا جاتا ہے مگر دوسری طرف ہماری مخالفت یا ہمارے مخالفوں کاڈر بہت سے لوگوں کو حق کے کہنے سے باز رکھتا ہے.کاش کہ مسلمان اس نازک حالت کو محسوس کر کے اپنی اندرونی اصلاح کریں اور ان کے دل اس صلاحیت کو اختیار کر لیں جس سے اللہ تعالیٰ ٰکی نصرت ملتی ہے اور اس کا فضل جذب کیا جاتا ہے.فتنہ ارتداد اور ہم اس ضمنی بات کے بیان کردینے کے بعد جس کا بیان کرنا ایک تو اس غلط فہمی کے دور کرنے کے لئے ضروری تھا جو وکیل کے منقولہ بالا فقرہے پیدا ہوتی تھی اور دوسرے خود مسلمانوں کی روحانی حالت کی اصلاح کی طرف توجہ دلانے کے لئے ضروری تھا اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں ان رپورٹوں ہے جو ہمارے وفد نے بھیجی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ سے اور بعض خاص طریقوں کے اختیار کرنے سے جن کا بیان کرنا اس جگہ مناسب نہیں آریوں نے ملکانہ قوم پر ایک خاص اثر پیدا کر لیا ہے.اور اس قوم کی حالت نازک ہے دو ہزار کے قریب لوگ شدھ ہو چکے اور باقی لوگ باوجود سمجھانے کے رکتے ہوئے نظر نہیں آتے.میں نے اس قوم کی حفاظت کے لئے جس کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہوتی ہے ایک خاص سکیم سوچی ہے جس پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ ٰکے فضل سے امید ہے کہ ایک حد تک فتنہ کی تو موجودہ حالات کے باوجود بھی روکی جاسکتی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد اس کا بد اثر اللہ تعالیٰ ٰکے فضل کے ماتحت کلی طور پر دور کیا جاسکتاہے بلکہ یہی فتنہ اسلام کے لئے موجب رحمت ہو سکتا ہے.مگر جیسا کہ پچھلا تجربہ بتاتا ہے ہمارے لئے اس سکیم پر عمل کرنا بہت سی مشکلات رکھتا ہے.ہم نے اس وقت تک جو پورے طور پر اس کام پر ہاتھ نہیں ڈالا اور جو بات اب بھی ہمیں روک رہی ہے یہ ہے کہ جس وقت ہمارے کارکن اس کام کی غرض سے میدان میں آئے تمام مسلمان کا رکن آریوں اور ملکانوں کو چھوڑ کر ہمارے پیچھے پڑ جاویں گے اور بجائے فائدہ کے سخت نقصان پہنچے گا.ہماری بے جامخالفت یہ بات میں یونہی نہیں لکھتا.لمبا تجربہ اسی پر شاہد ہے ایڈیٹر صاحب وکیل کے گھر کاواقع ہے.دو سال ہوئے میراامرتسر میں لیکچر ہوا.لیکچر کا مضمون مسیحیت کے خلاف تھا دورانِ لیکچر میں نے یہ امر بیان کیا کہ مسیحیت کو اس امر پرنازہے
۱۷۶ کہ ہمارے ہاں خدا کو باپ قرار دے کر انسان اور خدا میں ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم کردیاہے مگر یہ دعویٰ باطل ہے کہ کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے خدا تعالیٰ کو اس قسم کے نام سے یاد نہ کیا ہو.چنانچہ مختلف مثالیں دیتے ہوئے میں نے بتایا کہ ہندوؤں میں خدا تعالیٰ کو ماں سے تشبیہ دی گئی ہے اور ماں کا رشتہ باپ سے زیادہ محبت کا ہوتا ہے.اور پھر بتایا کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کو خودباپ اور ماں تو نہیں کہا کیونکہ یہ الفاظ اس حقیقی تعلق کو نہیں بتاتے جو بندہ اور خدامیں ہونے چاہیں لیکن یہ ضرور بتاتا ہے کہ خدا تعالی ٰکا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور اس تعلیم میں اسلام مسیحیت اور ہندو مذہب دونوں سے بہت بالا ہے.اس پر ایک مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر شور مچا دیا کہ یہ بات کہاں لکھی ہے اس کا حوالہ دو.ایک جماعت امرتسر کے لوگوں کی ان کے ساتھ مل گئی اور لیکچر گاہ میں شور پڑگیا.باوجو د بار بار سمجھانے کے مولوی صاحب باز نہ آۓ اور انہوں نے لوگوں کو اکسانا شروع کردیا کہ اس جگہ بیٹھو ہی نہیں فوراًیہاں سے چل دو اورنہ جانے والوں پر فتوے لگانے شروع کئے مسلمانوں میں سے تو کئی لوگ اٹھ کر چلے گئے.مگر ہندو لوگ بیٹھے رہے.اس پر ایک مولوی صاحب نے بڑے زور سے کہنا شروع کیا کہ اسے ہندوؤ! تمہیں شرم نہیں آتی کہ یہ تمہارے مذہب کی ہتک کر رہاہے اور پھر تم یہاں بیٹھے ہو وہ ہتک کیا تھی وہ میرا یہ فقرہ تھا کہ اسلام کی تعلیم اس بارے میں مسیحیت بلکہ ہندومذہب سے بھی اعلی ٰہے.سینکڑوں مسلمان وہاں موجود تھے مگر کسی نے اس بات کو برا نہ منایا نہ کسی اخبار نے اس بے ہودگی پر نوٹس لیا.کیوں؟ آہ! صرف اس لئے کہ ہماری مخالفت میں اگر اسلام کو بھی قربان کرنا پڑے تو اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.ایک مثال بالکل تازہ ہے.ابھی دہلی میں ہمارا جلسہ ہوا ہے اور جس تاریخ کو وکیل نے ہمیں اس امر کی دعوت دی ہے کہ ہم اسلام کی حفاظت کے لئے باہر نکلیں اسی تاریخ دہلی میں ہمارا ایک مباحثہ آریوں سے ہو رہا تھا.اس دن ہماری مخالفت کے نشہ میں سرشار مسلمان کہلانے والوں کی ایک جماعت آریہ واعظ کے ساتھ مل کر پنڈال میں داخل ہوئی اور اس کی تائید کے لئے ڈنڈے اور سوٹے ساتھ لائی - مباحثہ کے شروع میں ایک نظم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی پڑھی گئی جس میں آریوں کی اس دشنام دہی کا ذکر ہے جو وہ تمام بانیان مذاہب کے متعلق کرتے ہیں اور اس کا ایک شعر ہے
۱۷۷ تحریک شدھی ملکانا جتنے نبی تھے آئے موسی ہوا یاکہ عیسٰی مکا ہیں یہ سارے ان کی ندا یہی ہے جس وقت یہ شعر پڑھا گیا آریہ لیکچرار نے اشتعال دلانے کے لئے کہہ دیا کہ دیکھو مسلمانو! تمہارے نبیوں کو گالیاں دیتے ہیں اس پر سخت شور پڑگیا.ایک شخص نے آگے بڑھ کر قاسم علی خان صاحب رامپوری پر جونظم پڑھ رہے تھے بڑے زور سے لٹھ مارا اور اگر میزپر لگ کرلٹھ ٹوٹ نہ جاتا اور ان کو لگ جاتا تو شاید خونی ہو جا - باوجود بعض شریف فیراحمدیوں کے سمجھانے کے کہ یہ تو آریوں کا ذکر ہے کہ وہ ایسا کہتے ہیں نہ کہ خود حضرت مرزا صاحب کا قول ہے لوگ شورش سے باز نہ آئے اور مباحثہ ملتوی ہوگیا.کچھ عرصہ ہوا کہ ایک معزز ہندوصاحب ہمارے ذریعہ سے مسلمان ہوئے.انہوں نے سنایا کہ ایک مولوی صاحب جموں میں ان کو مل کر بڑے زورسے سمجھاتے رہے کہ اگر احمدیہ اسلام سے توان کو ہندو مذہب میں ہی رہنا چھا تھا اب تو انہوں نے اپنی عاقبت بالکل ہی خراب کرلی ہے.یہ تو ہندوستان کے واقعات ہیں.ایک بڑے خاندانی اور معزز امریکن تاجر جو مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعہ سے احمدی ہوئے ہیں انہوں نے ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ وہ کچھ امریکن لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے کہ انہوں نے اسلام کے بعض عیوب بیان کئے اس پر انہوں نے احمدی نقطہ خیال سے ان اعتراضات کے جواب دیئے.ایک بنگالی مسلمان جو ایک عرصہ سے امریکہ میں تجارت کی غرض سے گئے ہوئے ہیں انہوں نے اس نو مسلم بھائی کی یہ مدد کی کہ جھٹ ان مسیحیوں کو کہنا شروع کردیا کہ یہ سب جھوٹ ہے یہ تواحمدیوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں اصل بات وہی ہے جو تم کہتے ہو.آخربات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ اس نے کہہ دیا کہ یہ تو ناواقف ہے میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں مرزا غلام احمد ایک ٹھگ اور دوکاندار آدمی تھا (نعوذ بالله من ذلك) ان لوگوں کی باتوں میں نہ آؤ- وہ امریکن نو مسلم لکھتا ہے کہ خواہ تم برا مانو یا اچھا سمجھو مجھے اس کی یہ حرکت کہ اس نے بلاوجہ حضرت مرزا صاحب کو گالیاں دینی شروع کردیں ایسی بری معلوم ہوئی کہ میں نے اس کی گردن پکڑ لی اور اس کو مارکر کارخانہ سے باہر نکال دیا.احمدیوں کی مخالفت میں مسجد ویران کرلی ڈیٹرائٹ ملک امریکہ میں بعض ترکوں نے ایک مسجد بنائی تھی مفتی محمد صادق صاحب
۱۷۸ اس وقت وہاں تھے.وہ مسجد کئی لاکھ روپیہ کے خرچ سے بنائی گئی تھی اور بڑی شاندار تھی.مفتی صاحب نے اس کی آبادی کی کوشش کی اور وہ مسجد بہت آباد ہو گئی.کچھ عرصہ کے بعد لوگوں میں احمدیت کا پورا اکھاڑ پھینکنے کی لہر پیدا ہوئی.مسجد بنانے والوں اور بعض دوسرے لوگوں نے مفتی صاحب کی سخت مخالفت شروع کردی آخر ان کو وہ جگہ چھوڑنی پڑی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مقناطیس نہ رہا تو لوہا پھر لوہے کا لوہا ہو گیا.لوگوں نے مسجد میں آنا چھوڑ دیا نمازیں چھٹ گئیں اب ایک مشہور مسیحی رسالہ مسلم ورلڈ میں ہنسی اُڑائی گئی ہے کہ ڈیٹرائٹ کی بہت بڑی مسجد کے متعلق اس کے بنانے والوں نے اعلان کردیا ہے کہ چونکہ مفتی صاحب کے چلے جانے کے بعد وہ مسجد ویران ہو گئی ہے اس لئے مجبورا ہم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ چونکہ مسجد کا مسجد کی صورت میں بیچنا مناسب نہیں ہے اس لئے مسجد کو گرا کر اس کی زمین فروخت کردیں.جب مفتی صاحب کام کرتے تھے اور محمد آباد تھی تب تو امت کے جرم میں ان کا مقابلہ کیا گیا ان کو تنگ کیاگیا اور وہاں سے چلے جانے پر مجبور کیا گیا لیکن جب مسجد ویران ہو گئی تو احمدی کارکنوں کی قدر معلوم ہوئی.اور پھر بھی یہ نہیں کیا کہ ان کو کام کے لئے بلایا جاتا بلکہ خانہ خدا کو گرا کر مسیحیوں کے پاس فروخت کردینے کا اعلان کردیا.اب خواہ وہاں شراب خانہ یاجوئے خانہ ہی کوئی کیوں نہ بتادیں.کانپور کی مسجد کے کل خانہ پر اس قدر شور تھا اب اپنے ہاتھوں ایک مسجد کو گرا کر فروخت کرنے کی تجویز ہے.امریکہ میں اسلام کو جو فتوحات حاصل ہو رہی ہیں جس طرح سینکڑوں آدمی اسے قبول کررہے ہیں اس حال کو جس جلے دسے مسلمان کہلانے والے پڑھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ احمدیوں کے ہاتھ سے ہو رہا ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ احمدی رپورٹوں کو تو سوائے ایک دو اخبارات کے کسی نے بھولے سے شائع نہیں کیا لیکن ہمارے رسالہ ہے جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے اور باقاعدہ افغانستان میں جاتا ہے امان افغان نے اگر یہ خبر لکھ دی کہ امریکہ میں مبلغین اسلام کے ذریعہ کثرت سے مسیحی مسلمان ہو رہے ہیں تو جھٹ زمیندار جیسے پرچہ نے بھی اس کو شائع کر دیا.گویا احمدیت کانام ہی ایسا تلخ تھاکہ ان اخبار کے شائع کرنے میں روک تھا.فتنہ ارتداد کے متعلق ہمارا درد جب بغض اس قدر بڑھا ہوا ہے اور جب دل اس قدر پھٹے ہوئے ہیں تو ہمیں کیا تسلی ہوسکتی ہے کہ جس وقت ہمارے مبلّغ اس علاقہ میں جاویں.اس وقت سب سے زیادہ دشمنی ان کو خود مسلمان کہلانے
۱۷۹ والوں کی جانب سے نظر آوے.اور سب سے زیادہ تکالیف وہ انہیں کی طرف سے پاویں.ہم تکالیف سے نہیں ڈرتے ہم دشمنی کی پرواہ نہیں کرتے.ہم نے کب پہلے کسی مولوی یا سجادہ نشین یا لیڈر کی مخالفت کی پرواہ کی کہ اب اس کی پرواہ کریں گے لیکن اس وقت سوال نہایت نازک ہے.جب ایک ایک آدمی کا سوال ہوتا ہے.جب مستقبل اپنی وسعت کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتا ہے ہم کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ آج نہیں کل ہم غالب آجاویں گے.زمانہ ہمارے سامنے پڑا ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں لیکن اس وقت جس امر کی فکر ہے وہ یہ ہے کہ ایک خاص قوم ایک قلیل عرصہ میں اسلام کو ترک کر کے ہندومذہب کو اختیار کرنے والی ہے.بے شک وہ ہماری جماعت میں سے نہیں اس کا اپنے رسمی اسلام کو چھوڑ دینانہ ہمارے لئے موجب عار ہے اور نہ ہمارے کاموں میں روک.لیکن پھر بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اب وہ اپنے آپ کو غلامانِ اسلام میں سے سمجھتی ہے اور پھر اسلام اور سردار اسلام کو گالیاں دے گی.یہ اشتراک ہمیں اس درد سے علیحدہ نہیں رکھ سکتا اور ہم ڈرتے ہیں کہ اگر اس میدان میں ہمارے پہنچنے سے تفرقہ وشقاق کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دورہی رہیں تاہو تا ہوا کام بھی رک نہ جانے اور بجائے فائدہ کے نقصان نہ ہو.اگر ہمارے جانے پر مولوی صاحبان بجائے خوش ہونے کے ان لوگوں کو یہ تلقین کرنے لگیں کہ ان کی بات ماننے سے تو ہندو ہو جا نا زیادہ اچھا ہے.یا یہ کہ ہمارے مبلّغوں کو اپنی طرف الجھالیں اور ادھر ادھر کی بحثوں پر مجبور کردیں تو اس کا نہایت سخت خطرناک اثر پڑے گا اور اس قوم کی ہلاکت میں کوئی شبہ باقی نہ رہے گا.میں اس واقعہ کو نہیں بھول سکتا کہ ۱۹۱۳ء میں دیو سماجیوں نے فیروز پور میں خدا کے ماننے والوں کا ناک میں دم کیا ہوا تھا.وہاں کی احمدیہ جماعت نے مجھے لیکچر کے لئے بلوایا اور میرا لیکچر خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں تھا.ایک صاحب نے بیس دن تک محلّوں میں لیکچر دیا کہ اس کے لیکچر کوسننے نہ جانا.پھر خیال کر کے کہ اب اس قدر تاکید کے بعد کون مسلمان لیکچروں میں جاوے گاخولیکچر کو سننے کے لئے آگئے.جب کسی نے پوچھا کہ مولانا یہ کیا؟ تو کہنے لگے کہ میں تردید کی خاطرلیکچر کے نوٹ لینے آیا ہوں.اس سوال پر کہ لیکچر تو اس بات پر ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہے اور اس کے منکر جھوٹے ہیں کیا آپ اس کی تردید کریں گے ؟ ایسے دم بخود ہوئے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں- یہی حال ملکانہ قوم کے قصبات میں نہ ہو.تبلیغ کے مختلف طریق ہوتے ہیں.ان میں تبلیغ کرتے ہوئے کئی باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جو غیراحمدی علماء کے نقطہ خیال کے مخالف ہوں گی.میں ڈرتا ہوں کہ وہ
۱۸۰ اس وقت آریوں کو چھوڑ کر ہمارے پیچھے پڑ جاویں گے دوسرے موقع پر تو ہم ان کی مخالفت کوپر پشہ کے برابر بھی وُقعت نہیں دیتے مگر اس موقع پر یہ امران کا اس قوم کے لئے تباہی کا موجب اور دشمنوں کے لئے ثات کا باعث ہو گا.اس روک کا ذکر کردینے کے بعد جو ہمارے راستہ میں حائل ہے میں سمجھدار طبقہ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ فی الواقع اس موقع کی اہمیت کو سمجھتے ہیں تو پھر انکو چاہئے کہ اس امر کا علاج کر لیں.اور یا پھر اگر مولوی صاحبان کی طرف سے کوئی فتنہ اٹھے تو سمجھ لیں کہ اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ہم تو انشاء الله تعالی ٰباوجود ان کی مخالفت کے بہت کامیابی حاصل کریں گے لیکن کام کو سخت نقصان ضرور پہنچے گا.اسلام سے محبت رکھنے والوں سے خطاب اس کے بعد میں اس کام کی اہمیت کی طرف تمام ان لوگوں کو توجہ دلانی جانتا ہوں جو اسلام سے محبت رکھتے ہیں.ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قوم جس پر اس وقت آریوں کے دانت ہیں گو ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے لیکن اس قوم کے پیچھے ایسی ہی حالت کے ایک کروڑ آدمی اور ہیں جو جلد یا بدیران مرتدین کی اقتداء کریں گے.پس یہ مت خیال کرو کہ ساڑھے چار لاکھ آدمی اسلام سے مرتد ہونے لگا ہے بلکہ جیسا کہ ہماری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے یہ سلسلہ بہت وسیع ہے اور ایک کروڑ آدمی پر اس حملے کی زدپڑتی ہے.اس کی تفصیلات میں اس وقت پڑ ناخود اس کام کے لئے مضر ہے مگر خطرہ نہایت سخت ہے اور اگر آج کچھ نہ کیا گیا تو کل اس کا علاج بالکل ناممکن ہوجائے گا.مسلمان ہی نہ خیال کریں کہ نہایت آسانی سے وہ ان قوموں کو ارتداد سے روک لیں گے.سولہ سال سے ان قوموں میں بعض نہایت ناواجب اور مخفی ذرائع سے کام کیا جارہا تھا اور اب ان قوموں کے دماغ میں ہندو خیالات موجزن ہو رہے ہیں.جس طرح ایک پیدائشی مسلم کی نسبت ایک نو مسلم میں جوش زیادہ ہوتا ہے اسی طرح اس قوم میں سخت جوش ہے.جب تکؤ ایک لمبی اور باقاعدہ جنگ نہ کی جائے گی (سعی اور تبلیغ کی نہ کہ تلوار کی) اس وقت تک ان علاقوں میں کامیابی کی امید رکھنا فضول ہے.اس کام پر روپیہ بھی کثرت سے خرچ ہو گا اور جن لالچوں سے ان لوگوں کو قابو کیا جا رہا ہے ان کا مقابلہ بھی ضروری ہوگا.روپیہ کے ساتھ روپیہ کے دیانتدارانہ طور پر خرچ ہونے کا بھی سوال ہے.اس کا بھی نہایت مناسب انتظام کرنا ضروری
۱۸۱ ہو گا ورنہ ان کوار تدادسے روکتے روکتے اور ہزاروں کو اسلام سے بد ظن کر دیا جائے گا.ہندو اپنی پرانی کوششوں کے با وجو دوس لاکھ روپیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں.مسلمانوں کو نیا کام شروع کرنا ہے ان کے لئے بیس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے جس کا ایک ایک پیسہ اس تحریک اور اس کے متعلقہ کاموں پر خرچ ہونا چاہیے نہ یہ کہ جمع کرنے والوں کی جیبوں میں چلا جائے.ہم پچاس ہزار روپیہ اس کام کے لئے جمع کریں گے میں اس کام میں اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ماتحت ہر طرح کی مدد دینے کے لئے تیار ہوں.ہماری جماعت قلیل اور پھر کمزور ہے.ہندوستان میں آٹھ کروڑ آدمی مسلمان کہلاتے ہیں.ہماری پانچ لاکھ کی جماعت سب کی سب ہندوستان میں ہی فرض کرلی جائے تب بھی ہماری جماعت کے حصہ میں بیس لاکھ روپیہ کا ایک سو ساٹھواں حصہ آتا ہے یعنی تیراں ہزار روپیہ کے قریب.جب اس امر کو دیکھا جائے کہ کروڑ پتی تو الگ رہے ہماری جماعت میں ایک آدمی بھی لاکھ پتی نہیں ہے اور نہ کوئی والئی ریاست ہے تو ہمارا حصہ تقسیم مال کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف دو تین ہزار روپیہ بنتا ہے.پھر ہماری جماعت کی عورتیں اس وقت جرمنی میں مسجد بنانے اور وہاں تبلیغ اسلام کا کام جاری کرنے کے لئے پچاس ہزار روپیہ کی فکر میں ہیں اور میں ہزار روپیہ اس کام کے لئے دے چکی ہیں پس اس وقت وہ چندہ میں حصہ نہ لے سکیں گی اور گویا ہماری نصف جماعت صرف حصہ لے سکے گی.مگر پھر بھی اس موقع کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی غریب جماعت کی طرف سے جو پہلے ہی چندوں کے بار کے نیچے دبی ہوئی ہے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر دوسرے لوگ بقیہ رقم مہیا کر لیں تو ہم پچاس ہزار روپیہ یعنی کل رقم کا چالیسواں حصہ انشاء اللہ اس کام کے لئے جمع کردیں گے.میں سردست یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ روپیہ کسی طرح خرچ کیا جائے گا کیونکہ یہ امرکل دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کے مشورہ کے بعد اور روپیہ کی حفاظت کے کامل اطمینان کے بعد طے پاسکتا ہے.مگر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ فتنہ ارتداد کو روکنے کے لئے اور اسلام کی حفاظت و اشاعت کے لئے اس قدر رقم ہم لوگ انشاء اللہ جمع کریں گے.ہم کس قدر مبلغ دیں گے علاوہ ازیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق کے ماتحت ہماری جماعت تیس آدمی تبلیغ کا کام کرنے کے لئے دے گی جن کے اخراجات وہ موعو در قم میں سے خود برداشت کرے گی اور اگر اس رقم سے زیادہ خرچ ہو گا تو بھی وہ خود اپنے مبلغوں کا کل خرچ ادا کرے گی.اور میں یہ بھی وعدہ کرتا
۱۸۲ ہوں کہ اگر زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہوئی توہماری جماعت انشاء الله سینکڑوں تک ایسے آدمی مہیا کرے گی جو تبلیغ عمر بھر کا تجربہ رکھتے ہوں گے گو عرف عام کے لحاظ سے مولوی نہ کہلا سکیں.دوسرے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے اپنی طرف سے ان وعدوں کا اعلان کرنے کے بعد میں دوسری جماعتوں کو جو ہمیں ہندوؤں اور عیسائیوں سے زیادہ کافر قرار دینے کی فکر میں لگی رہتی ہیں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس میدان عمل میں جلد آویں کہ اس موقع پر اگر انہوں نے ایثار سے کام نہ لیا تو ان کا مسلمان کہلانے اور زندہ قوم کہلانے کا کوئی حق نہ ہو گا.اہل حدیث ہماری نسبت آٹھ دس گنے زیادہ ہیں اور بڑے بڑے مالدار لوگ ان میں شامل ہیں.پچھلے سال مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے قادیان کے جلسہ کے موقع پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے یہ دعوی ٰکیا تھا کہ امام جماعت احمدیہ کلکتہ تک ان کے ساتھ چل کر دیکھ لے اور معلوم کرلے کہ کس پر ہر جگہ پھول پڑتے ہیں اور کس پر پتھر.میں کہتا ہوں عقل مند مقابلہ اور مبارزہ کے لئے بھی کوئی مفید موقع تلاش کرتا ہے.اب ان پر پھول برسانے والوں کے اخلاص کے امتحان کا موقع ہے.ہماری جماعت سے دس بیس گنے زیادہ نہیں جو رقم کہ ان کی تعداد اور ان کے تموّل کو مد نظر رکھ کر اہل حدیث کے ذمہ لگتی ہے صرف چار گنے اس نازک موقع کے لئے اہل حدیث سے جمع کر دیں اور اسی نسبت سے کام کرنے والے آدمی مہیا کردیں.اہل حدیث کی جماعت دو لاکھ روپیہ اور ایک سو بیس آدمی اس کام کے لئے پیش کرے.شیعہ لوگ اس جماعت سے بھی زیادہ ہیں اور بہت مالدار ہیں.وہ پانچ لاکھ روپیہ اور دو سو آدمی اس کام کے لئے پیش کریں.حنفی سب جماعتوں سے زیادہ ہیں وہ ساڑھے بارہ لاکھ روپیہ اور پانچ سو آدمی اس کام کے لئے پیش کریں.اگر اس وقت مختلف فرقے جو اسلام کا دعوی ٰکرتے ہیں اپنے گھروں میں بزدلوں کی طرح بیٹھ رہے تو دنیا پر ثابت ہو جائے گا کہ ان کا دعوی ٰاسلام صرف دکھاوے کا ہے حقیقتاً ان کو اسلام سے کوئی بھی دلچسپی نہیں.میرے نزدیک ہر جماعت کے سربر آوردہ لوگوں کو چاہئے کہ فوراً اپنے اپنے لوگوں کی طرف سے مطلوبہ رقم کا اعلان کر دیں اور پھر ایک مقررہ مقام پر جمع ہو کر کام کی تفصیل اور انتظام پر غور کر لیا جائے.اب اس امر کا وقت نہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا وقت ضائع کیا جائے.اب کام کا وقت ہے.دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھ کر جب تک کام نہ کیا جاوے گا اس وقت تک ہرگز کامیابی نہ ہوگی.اگر میرے اس اعلان کے بعد بجاۓ کام شروع کردینے کے اس پر اشتہار بازی شروع
۱۸۳ ہو گئی تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کام کرنے کی روح مرگئی ہے اورول اسلام سے بیزار ہو چکے ہیں.میں نے اپنی سکیم کی تفصیلات کو طے کرنے کے لئے اور وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے چودھری فتح محمد صاحب ایم اے ناظر تالیف و اشاعت کو چھو خود را جپوت ہیں اور کئی سال تک انگلستان میں تبلیغ کا کام کر چکے ہیں اور اس وقت اشاعت اسلام کے صیغہ میں میرے سیکرٹری ہیں.ان علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے بھیجا ہے.ان کی رپورٹ پر ہم تو انشاء اللہ اپنے رنگ میں کام شروع کردیں گے پھرذمہ داری دوسرے لوگوں پر ہوگی کیونکہ اس کام کو جب تک منظم صورت میں نہ کیا گیا جلدی اور وسیع نتائج پیدانہ ہوں گے سربر آوردہ لوگوں کے لئے پرائیویٹ چھٹی چونکہ اس کام کو جب تک متعلق بعض ا مور ایسے ہیں کہ ان کا عام طور پر شائع کردینا تبلیغ کے راستہ میں روک ہو گا اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ ہر جماعت کے سرآور وہ لوگوں میں ایک پرائیویٹ چٹھی کے ذریعہ اس کام کی بعض تفاصیل کو پیش کروں جسے میں انشاء اللہ تعالیٰٰ چند دنوں تک شائع کرنے کے قائل ہو سکوں گا.یہ چٹھی صرف ایسے لوگوں میں شائع کی جائے گی جو کسی جماعت پر اثر رکھتے ہیں اور جن کی نسبت یہ معلوم ہوا کہ دیانتداری سے اس بوجھ کے اٹھانے میں حصہ لینا چاہتے ہیں.ایڈیٹران اخبارات سے درخواست آخر میں میں تمام ایڈیٹران اخبارات سے جن کے پاس یہ اعلان پہنچ درخواست کرتاہوں کہ وہ اس اعلان کو اپنے اخبار میں شائع کردیں تاکہ تمام ان لوگوں کو جو اس کام سے دلچسپی رکھتے ہیں اطلاع ہو اور تاشاید خوابیده دلوں میں کوئی بیداری پیدا ہو.ورنہ ہم تو حجت پوری کر ہی چکے.واخر دعونا أن الحمدلله رب العلمين خاکسار میرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ مورخہ ۹-مارچ ۱۹۲۳ء) قاریان دارالامان ضلع گورداسپور (الفضل ۱۲.مارچ ۱۹۲۳ء)
۱۸۴ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلی علی رسوله الكريم ملکانے جانے والے وفد سے خطاب ۱۲-مارچ ۱۹۲۳ء بعد نماز ظہر جب جماعت احمدیہ کا پہلاوفد بطور ہراول راجپوتانے کی طرف زیر امارت چودھری محمد صاحب سیال ایم اے ناظر تالیف و اشاعت و سابق مبلغ اسلام و بلادِ یورپ روانہ ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح اس وفد کو الوداع کرنے کے لئے قادیان کی سڑک کے موڑ تک تشریف لے گئے.قادیان کی احمدی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی ہمرکاب تھا.جب حضور موڑ کے کنویں پر پہنچے تو ممبران وفد کو اپنے سامنے بیٹھنے کا حکم دیا اور پھر حسب ذیل تقریر فرمائی :.سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں اپنے ان دوستوں کو جو اس وقت محض اللہ تعالیٰ ٰکی رضا کے لئے اور محکمہ اسلام کے اعلاء کے لئے سفر پر جارہے ہیں اور تبلیغ اسلام کے مبارک مقصد کو زیر ِنظر رکھ کر اور خدا پر توکل کر کے یہاں سے روانہ ہو رہے ہیں ان کو اور جو ان دوستوں کو چھوڑنے آئے ہیں اس سورۃ کے مضمون پر جو میں نے اس وقت تلاوت کی ہے تو جہ دلاتا ہوں:.بعض کہتے ہیں کہ سورة فاتحہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور بعض کہتے ہیں مکہ میں.مگر تحقیق کی روسے یہی ثابت ہوا ہے کہ یہ سورۃ دو دفعہ نازل ہوئی ہے.اس ایک دفعہ مکہ میں اور ایک دفعہ مدینہ میں اس سورت کا ہے اس کام سے تعلق ہے.تمام دنیاہماری مخالف ہے.دنیا کے پاس جس قدر مال و دولت اور آدمی ہیں اگر ان آدمیوں میں ایسا ہی اخلا ص ہو جیسا کہ ہم میں ہے ہم تو ان کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.یہ اللہ کا ہم پر فضل ہے کہ گو ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہیں لیکن ہمارے لوگ جس جوش سے اٹھتے ہیں اس کی اس وقت کوئی نظیر نہیں مل سکتی.وہ جو ہماری مخالف جماعتیں ہیں اگر اسی جوش و اخلاص سے خدا کی راہ میں تبلیغ اسلام کے لئے چندہ دیں تو اس چندہ کے لئے بنکوں میں رکھنے کے لئے جگہ نہ رہے.ہندوستان میں مسلمان آٹھ کروڑ بتائے جاتے ہیں لیکن ان میں اسلام کے لئے اس جوش و اخلاص کا نام و نشان بھی نہیں جو ہماری چند لاکھ کی جماعت میں ہے.
۱۸۵ ہمیں محض اللہ تعالیٰٰ کے فضل اور اسی کی مہربانی سے یہ رتبہ حاصل ہے ورنہ ہماری حالت نہایت نا تو ان ہے.غور کرو جن پر آریوں کا حملہ ہے وہ احمدی نہیں بلکہ غیراحمدی ہیں اس لئے وہ عام مسلمانوں کے بھائی بند ہیں.مگر ان میں کچھ جوش نہیں البتہ گھبراہٹ ہے.ابھی راستہ میں مرد خان نائب ایڈیٹر الفضل سے ذکر کرتا آرہا تھا انہوں نے کہا مسلمان اخباروں کی آواز نہایت دھیمی اور مایوسانہ ہے مگر اس کے مقابلہ میں آریوں کی آواز میں زور ہے.میں نے کہا مسلمانوں کی اس وقت تو ایسی ہی حالت ہے جیسا کہ مفتوح اور مغلوب ہو اور اپنے فاتح سے منتیں کرے کہ مجھے چھوڑ دو اس لئے ان کی آواز ایسی ہی ہونی چاہئے.اور آریوں کی یہ حالت ہے کہ جیسے ایک ظالم و جابر کسی بچے کو نیچے دبوچ کے سمجھے کہ جب چاہوں گا اس کا گلا دبا دوں گا.مسلمانوں اور آریوں دونوں کی آوازیں بتاتی ہیں کہ ان میں بڑا فرق ہے.مسلمانوں کی آواز تو ایسی ہے کہ گویا وہ اپنے آپ کو آریوں کے رحم پر سمجھتے ہیں اور آریوں کی آواز ایسی ہے جو ایک فاتح اور غالب کی ہوتی ہے اور وہ دشمن کو اپنے رحم پر سمجھتا ہے.اس وقت ہماری جماعت کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم ان مظالم سے مسلمانوں کو بچائیں گے مگر بظاہر ہماری مثال اس جانور کی ہے جو رات کو الٹا سوتا ہے.کہتے ہیں کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اگر آسمان گر پڑے تو میں اپنے پاؤں سے تھام لوں مسلمانوں میں خواہ کتنے نقص ہوں مگر وہ اسلام کے نام لیوا ہیں.مخالفوں کی تعداد ستائیس کروڑ ہے اور مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ بے پرواہ ہیں.دنیاوی حالات کو دیکھ کر ہمیں گھبرانا چاہئے.لیکن یہ سورہ اس حالت میں ہماری ہمت بندھاتی ہے کہ غالب تمہیں ہوئے.جس وقت آنحضرت ﷺ مکہ میں تشریف رکھتے تھے اس وقت آپ کو وہاں کھلے طور پر نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ تھی.مسلمان عورتیں گرم ریت پر لٹائی جاتی تھیں اور ان کی شرم گاہوں میں نیزے مارے جاتے تھے.مسلمان پتتے ہوئے پتھروں پر لٹائے جاتے تھے.اور ایسے ایسے عذاب دے کر ان کو اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا تھا.وہ ایسا وقت تھا کہ مسلمان گلیوں میں بھی نہ پھر سکتے تھے اور نا چاران کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی.اس وقت اللہ تعالیٰٰ محمد ﷺکو کہتا ہے الحمد اللہ پڑھ اور آپ نے پڑھا اور سچے دل سے پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰٰ میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں.میرے اردگرد تو خوشیاں ہی خوشیاں ہیں کوئی رنج نہیں کوئی
۱۸۶ دکھ نہیں.کوئی وجہ نہیں کہ میں الحمد للہ رب العلمين نہ کہوں.کیا کوئی خیال کر سکتاہے کہ اس وقت ان حالات میں کوئی اور خوش ہو سکتا تھا ہر گز نہیں.مگر جہاں ابتداء الحمد سے ہوئی وہاں اخیر بھی اخر دعوهم أن الحمد للہ رب العلمين پر ہے چنانچہ خدا کے فضلوں نے ثابت کردیا کہ کون راستی پر تھا.اور کس کو طاقت اور قدرت حاصل ہوئی تھی.آپ کے مخالف اور مخالفتیں سب اڑ گئیں اور سکھ مسلمانوں کے لئے ہی رہ گیا ہے.دنیاوی راحت میں دوسرے بھی شریک تھے لیکن روحانی راحت اور آرام کا مسلمانوں کے سوا کہیں پتہ نہ تھا.کیونکہ گو وہ اپنے کو چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا دیکھتے تھے مگر اپنے دل کو مطمئن پاتے تھے اس لئے کہ خدا کی مددانہی کے شامل حال تھی.آج مسلمان مخالفوں کے مقابلہ میں میدان میں نہیں جاتے ہاں دشمنوں کے ساتھ مل کر ہمیں زخمی کرتے ہیں مگر تم نے اسلام کے لئے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جانا ہے اور یاد رکھو کامیاب وہی ہو گا جس کو خدا پر بھروسہ اور یقین ہو گا اور پھر وہ مخالفوں کے مقابلہ میں کام کرے گا.تمہارے دلوں میں ایمان اور اطمینان ہونا چاہئے دل کا ایمان و اطمینان کی مشکلات کے وقت مہارے کام آئے گا.اس وقت تمہاری بھی وہی حالت ہے جو ابتداء میں مسلمانوں کی تھی.وہ ایک قلیل جماعت تھے اور لوگ ان کو قلیل جماعت سمجھتے تھے لیکن و ہ بزدل نہ تھے کیونکہ مسلمان بزول نہیں ہوتے ان کے دل میں ایمان اور خدا کی مدد پر ان کو بھروسہ ہو تا ہے.ایک دفعہ مخالفین کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد نہایت قلیل تھی.مسلمان افسرنے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ مدد کیجئے.وہاں مدد کے لئے سچاہی موجو دنہ تھے.حضرت عمرؓ نے ایک سپاہی بھیجا اور لکھ دیا کہ میں فلاں سپاہی کو بھیجتا ہوں جو ایک ہزار سپاہی کے برابر ہے.کیا تم خیال کرتے ہو اس وقت کمانڈر نے کیا کہا ہو گا.کیا اس نے سر پیٹ لیا ہو گا کہ کیسے خلیفہ ہیں میں مدد کے لئے لکھتا ہوں اور وہ ایک آدمی بھیجتے ہیں.نہیں یہ نہیں بلکہ جس وقت وہ ایک آدمی اسلامی لشکر میں پہنچا.تو مسلمانوں نے اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے اور بڑی خوشی سے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور انہوں نے یقین کیا کہ اب دشمن ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہرسکے گا کیونکہ ان کی نظر اپنی قلت پر نہ تھی بلکہ خدا کی قوت پر تھی.انہوں نے سمجھا کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جو خدا کا مقابلہ کرتا ہے وہ ضرور ہلاک ہوگا.پس تم بھی یقین کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اور تم اس نبی کے ہاتھ پر بیع ہو چکے ہو جس
۱۸۷ سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا تمہارا اس وقت مقابلہ ہندوؤں سے ہے اس لئے اس بات کو بھولو مت کہ مسیح موعود علیہ الصلوة السلام کرشن بھی ہیں اور یہ کرو کشتیر کا میدان ہے.پس خدا پر توکل کرو فتح تمہی کو ہوگی.اپنے ایمان کو مضبوط کرو کہ تم ہی جیتو گے اور تمہارادشمن مغلوب ہو گا کیونکہ تم کو خدا توکل ہے اپنی طاقت پر نہیں.یہ خوب یاد رکھو کہ انکسار اختيار کرو دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے.اگر تعداد کو دیکھا جائے تو تم اس کے مقابلہ میں چٹنی سے بھی کم ہو.ہاں تم میں اور ان میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ تمہارے ساتھ خداہے.تم خدا کا پیغام لے کر جاؤگے اور خدا کے دین کی حفاظت کے لئے جاؤگے اس لئے تم اپنی تعداد کا مت خیال کرو کہ تھوڑی ہے بلکہ خدا کی طرف دیکھو کیانعوذ باللہ خدا ایسا بے غیرت ہے کہ تم اس کے لئے مقالہ کو نکلو مگروہ تمہیں تباہ ہونے دے اور دیکھتا رہے اور کچھ نہ کرے نہیں.خدا تعالی ٰبڑاغیور ہے وہ تمہاری ضرور مدد کرے گا.جب تم دشمن کے مقابلہ میں جاؤ گے تو وہ ہر وادی میں ہر ایک شہر اور جنگل اور میدان میں تمہارے ساتھ ہو گا اور جس کے ساتھ خدا ہو کیا وہ بھی ہلاک ہوسکتا ہے نہیں.اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرو.علم عقل محنت ہوشیاری کوئی چیزبھی کام نہیں آتی جب تک کہ خدا تعالی ٰکی مدد شامل حال نہ ہو.میں نے تمہارے لئے ہدائتیں لکھی ہیں وہ ہر ایک مبلغ کو مل جائیں گی.چودھری صاحب کو ان کی ایک نقل دیدی گئی ہے ابھی وہ مکمل نہیں ہوئیں.ان کو روز پڑھو کوئی دن نہ گذرے جو تم ان کو نہ پڑھو پھر ان کو پڑھ کر صرف مزانہ لو بلکہ ان پر عمل کر کے دکھاؤ - اگر تم ایسا کرو گے تو دیکھوگے خدا کی نصرت تمہیں کس طرح کامیاب کرتی ہے.جس شہر میں جاؤ اس دعا کو پڑ هو جو نبی کریم ﷺنے سکھائی ہے.میں نے اس دعا کا تجربہ کیا ہے بڑی جامع اور مبارک دعاہے.جویہ ہے:.اللهم رب السموات السبع وما أظلن ورب الأرضين السبع وما اقللن ورب الشياطين وما اضللن و رب الریاح وما ذرینفانا نسئلک خیر هذه القرية وخير أهلها و خير مافيها ونعوذبک من شرھا و شر اهلهاومافيها.- اللهم بارک لنا فيها اللھم وارز قناجناھا حببناالى اهلاوحبب صالحی اھلهاالینا اس دعا کے یہ معنے ہیں.اے اللہ !جو سات آسمانوں کا رب ہے اور ان چیزوں کا رب ہے جو
۱۸۸ ان کے نیچے ہیں.یا جن پر سایہ ڈالتے ہیں.اے اللہ !جو سات زمینوں کا رب ہے اور ان چیزوں کا جو ان کے اوپر ہیں.اور شیطانوں کے رب اور ان کے جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے.اور ہواؤں کے رب اور ان کے جن کو یہ بکھیرتی ہیں.اے اللہ! ہم تجھ سے اس گاؤں کی بھلائی اور اس کے اہل کی بھلائی چاہتے ہیں اور ہر اس چیز کی بھلائی جو اس میں ہے اور ہم پناہ مانگتے ہیں اس گاؤں کی بدی سے اور اس کے رہنے والوں کی بدی سے اور ہر اس چیز کی بدی سے جو اس میں ہے اے اللہ ! ہمیں اس گاؤں میں برکت دے اے اللہ ! ہمیں یہاں نفع نصیب کر اور ہماری محبت یہاں کے رہنے والوں کے دلوں میں ڈال اور یہاں کے نیک لوگوں کی محبت ہمیں دے.اس دعا کو پڑھنے کے بعد شہر میں داخل ہو - ہمیشہ نرمی اور بہت سے کام کرو.اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ - نماز وغیرہ میں ایسے مواقع پر ستی ہوتی ہے اس کی کو پاس نہ آنے دو.عبادت خدا کا پہلاحق ہے اس کو پہلے بجالا و نماز ضرور پڑھو.خداکے حقوق و احکام ادا کر کے بندوں کے حقوق ادا کرو.دعاؤں پر بہت زور دوافسر کی اطاعت کرو.یہ بات شرطوں میں بھی ہے پس اطاعت کرو.جب تک تمهاری طاقت میں ہو اور جب تمہاری طاقت سے باہر ہو ترا فسربالا سے کہہ سکتے ہو مگر کوئی شخص اطاعت سے انکار نہ کرے.نفس کو مار کر بھی افسر کی اطاعت کرو ایسے موقع پر ہر قسم کی اطاعت کرنا بڑی قربانی ہے.یاد رکھو ایسے مواقع پر اطاعت سے ذرا منہ پھیرنا ہلاکت کا باعث ہوتا ہے.احد کے موقع کا حال سب جانتے ہیں اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں.دیکھو تھوڑی سی نافرمانی نے کیسی ہلاکت مچادی تھی پس ہر حال میں اطاعت کرو.لباس اور خوراک میں جہاں تک ہو سکے سادگی اختیار کرو.میں خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ رات دن دعاؤں میں مشغول رہو.توکل سے بھی الہٰی مدد آتی ہے.مگر خدا سے مانگنے سے بھی مدد آتی ہے کیونکہ خدا خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ مجھ سے مانگتا ہے.وہاں کے لوگوں کو اعلیٰ نمونہ د کھاؤ- میں نے جو نصائح دی ہیں ان پر عمل کرو آپس میں محبت اور پیارے رہو تا دیکھنے والے کو معلوم ہو کہ تم ایک دوسرے پر فدا ہو- اگر وہ تم میں یہ بات نہ دیکھیں گے تو ان پر سلسلہ کے متعلق برا اثر ہو گا.کو ئی لیکچراراتنا اثر نہیں کرتا جتنا نیک اور اچھا نمونہ اثر کرتا ہے.اگر تم اعلیٰ نمونہ د کھاؤ تو خواہ ملكانہ لوگ تمہاری باتیں سنیں یا نہ سنیں اور ہزاروں لوگ سلسلہ میں داخل ہوں گے.پس اپنے اخلاق اعلی ٰدکھاؤ قربانی اور ایثار کے موقع پر قربانی کرو اور لوگوں کی سخت کلامی کے مقابلہ میں سخت کلامی مت کرو.
۱۸۹ ایسے موقع پر قرآن کریم کہتا ہے کہ جوش ہو تو ہٹ جاؤ فساد کی راہوں سے بچو.ہم لوگ جو یہاں ہیں تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور کریں گے اور دوسرے لوگ تیار ہیں جو جلد تمهارے پاس آئیں گے.جو لوگ جاتے ہیں ان کے لئے دعا کی ضرورت ہے.جو لوگ یہاں ہیں ان کے دل میں جوش ہونا چاہئے کہ ہم بھی جائیں اور خد مت اسلام کریں.سب لوگ دعا کرو کہ جانے والوں کی زبانوں میں تاثیر ہو.بڑے بڑے لیکچر فضول ہوتے ہیں اگر ان میں اثر نہ ہو.جانے والے دعا کے مستحق ہیں ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ یہ خدمت کر سکیں.اور اپنے نفسوں کی اصلاح کرو اور اپنے آپ کو تیار کرو کہ جس طرح یہ خد مت دین کے لئے جاتے ہیں تم بھی جاؤ – اسلام کی حالت کو دیکھو اور غور کرو کہ اسلام پر کیساوقت ہے اسلام سے ایسی محبت کرو جو ماں کو بچے سے بھی نہیں ہوتی.اس کے لئے ہر ایک قسم کے خطرات برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.بچپن میں میں نے ایک قصہ پڑھا تھا کہ ایک عورت کے بچے کو ایک جانور اٹھا کر لے گا.وہ عورت اس کے پیچھے پیچھے گئی اور ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئی لیکن جب بچہ لے کر اس کو اطمینان ہوا تو وہ اتر نہ سکتی تھی.بڑی مشکل سے لوگوں نے اتاری.یہ ماں کی محبت ہی تھی جو اسے چوٹی پر لے گئی.کیا اسلام کی اتنی بھی قد ر تمہارے دلوں میں نہیں ہونی چاہئے جو ماں کو بچے سے ہوتی ہے.اسلام خطرات میں گھرا ہوا ہے اس لئے تم سستیوں کو چھوڑ دو اور خدمتِ اسلام کے لئے تیار ہو جاؤ- خواہ کو ئی کیسی عزیز ہو مگر خدمت ِاسلام سے تمہارے لئے روک نہ ہو.تمهارا عزم یہ ہو نا چاہئے کہ ہم کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کریں گے اور تمام روکوں کے پردے چاک کرکے جائیں گے اور اسلام کی خدمت بجالائیں گے.مگر یہ نہیں ہو سکتا جب تک اخلاص نہ ہو.(الفضل ۱۹- مارچ ۱۹۲۳ء)
۱۹۰ تحریک شدھی ملکانا اعوذ بالله من الشيطن الرحيم بسم الله الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھو الناصر راجپوتوں کے ارتداد کا فتنہ روکنے کی ہمیں کیوں ضرورت ہے؟ ۱۴-مارچ ۱۹۲۳ء کو بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حسب ذیل تقریر فرمائی حضور نے سورة کہف کا گیارہواں رکوع تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:.میں نے آج تمام احباب کو خاص طور پر اطلاع کراکے اس لئے جمع کیا ہے کہ اس فتنہ اورار تداد کے متعلق جو ہندوستان میں جاری ہے بعض باتیں دوستوں کو بتانی چاہتا ہوں اور اس فتنہ کے متعلقہ مالی انتظام کے متعلق بھی بعض تجاویز پیش کرنی چاہتا ہوں.پیشتر اس کے کہ مالی تجاویز کو پیش کروں میں اس سوال کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہوا ہے اور جن حالات میں سے ہماری جماعت گذر رہی ہے ان کی وجہ سے پیدا ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ کیا فتنہ ارتداد کے روکنے کی ہمیں ضرورت ہے؟ یہ سوال ہے جو بہت سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور ہمارے ساتھ غیراحمدیوں کا جو سلوک ہے اور جس رنگ میں وہ ہمارے ساتھ معاملہ کرتے ہیں اس کی وجہ سے قد رتًا پیدا ہونا چاہئے.مرتد ہونے والے احمدی نہیں ہیں مرتد ہونے والے احمدی نہیں ہیں بلکہ وہ اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کی ذمہ داری اور جس کی امانت میں وہ سینکڑوں سال رکھے گئے مگر اس قوم نے باوجود ادعاۓ اسلام کے ان کے متعلق اتنا
۱۹۱ کبھی تو نہیں کیا کہ اسلام کا عملی اور روحانی رنگ تو الگ رہا ظاہری اسلام ہی سکھادیتی اور شعائر اسلام کی موٹی موٹی باتیں ہی بتادیتی ایسی قوم جس نے ادھر تو اپنے گھرسے ایسی بے رخی اور بے توجہی برتی کہ لاکھوں انسان جو مسلمان کہلاتے رہے مگر انہیں اسلام کی ہوا بھی تو چھونہ گئی تھی ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی اور ادھر اس کے مولوی قادیان کو فتح کرنے کو آۓ ہیں.ہم آریوں سے جنگ کریں تو ہماری پیٹھ میں چھری مارنے کے لئے تیار رہتے ہیں.ہم اگر عیسائیوں سے مقابلے کریں تو جھٹ ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.ہم اگر ممالک غیر میں تبلیغ اسلام کے لئے گئے تو جھٹ ہمارے خلاف ٹریکٹ لکھ کر شائع کرتے ہیں اور ہماری ہر تبلیغی کوشش میں رکاوٹ ڈالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.غرض انہوں نے اپنے قول اور فعل سے ثابت کردیا کہ وہ ہمیں آریوں، عیسائیوں یہودیوں بلکہ دہریوں سے بھی بد تر بکھتے ہیں.ایک احمد ی جو بڑا مخلص احمدی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑکے پرانے دوستوں میں سے ہے جب وہ احمدی ہو اور پہلے اس کا چال چلن کوئی اچھانہ تھا اور اس کے باپ نے اس سے تعلق قطع کیاہواتھا مگر جب اسے کسی ذریعہ سے احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی تو اس کے باپ نے جو پہلے اس کی مالی مدد نہ کیا کرتا اسے کہامیں تمہارے لئے ایک معقول رقم مقرر کرتا ہوں اسے خواہ تم شراب میں صرف کرو خواہ کنچییاں نچوایا کرو یا کسی اور ایسے ہی کام میں استعمال کرو مگر احمدی نہ بنو.ایک اور جگہ ایک لڑکا احمدی ہونے لگا تو اس کے رشتہ داروں نے اسے کہا کہ اس سے تو یہ بہتر ہے کہ تم عیسائی ہو جاؤ اور احمدی نہ ہو.خدا کی قدرت وہ چونکہ احمدیت سے اچھی اچھی طرح واقف نہ ہوا تھا اس لئے احمدی ہونے سے تو رک گیا مگر عیسائی ہو گیا.اس وقت اس کے رشتہ داروں کو فکر پڑی اور وہ احمدیوں کے پاس آئے کہ اسے تم احمدی بنالو - احمدیوں نے اسے سمجھایا اور احمدیت کے مقابلے میں عیسائیت کہاں ٹھہر سکتی تھی وہ احمدی ہو گیا.غرض ان لوگوں کے طریق اور رویہّ سے بخوبی ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ہمیں ہزار درجہ دوسروں کی نسبت برا سمجھتے ہیں.ان کے نزدیک کوئی آریہ ہو جائے، عیسائی ہوجائے‘ دہریہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں مگر احمدی نہ بنے عیسائیوں اور آریوں کا کوئی کام ہو تو اس کے متعلق بڑے بڑے تعریفی مضامین لکھتے ہیں.دیانند کے رشی نمبر میں بڑے بڑے مسلمان کہلانے والے لمبے چوڑے ترینی مضامین لکھیں گے لیکن اگر کوئی کے خیران کے منہ سے نہیں نکلتا تو حضرت مرزا صاحب اور آپ کے خدام کے
۱۹۲ متعلق نہیں نکلتا- و ہ دیانند جس کے قلم کی تیز دھارنے کسی نبی کو بھی نہ چھوڑا جس نے ہر نبی کو دغاباز، مکار، شہوت پرست، لوگوں کے مال کھاجانیوالا وغیرہ وغیرہ کہا.وہ دیانند جس نے قرآن کریم پر بسم اللہ سے لیکر والناس تک اعتراض کئے اور اعتراض بھی وہ جن میں سنجیدگی اور متانت کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا.مشہور لیڈر مضمون لکھتے ہیں کہ بڑا اچھا تھا اور بڑا اعلیٰ کام اس نے کیا مگر کسی بڑے آدمی کی زبان اور قلم سے کبھی کسی نے علی الاعلان حضرت مرزا صاحب کی تعریف سنی اور دیکھی ہے؟ ہرگز نہیں ہمارے اخباروں کو پڑھنا بھی تو وہ پسند نہیں کرتے اور ہمارے آقا حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق وہ باتیں جو آریہ اور عیسائی بھی تسلیم کرتے ہیں وہ بھی تو وہ نہیں تسلیم کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں گئے تو مولویوں نے فتوی دیا کہ جو ان کے لیکچرمیں جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا لیکن چونکہ حضرت مرزا صاحب کی کشش ایسی تھی کہ لوگوں نے اس کوی کی بھی کوئی پرواہ نہ کی تو راستوں پر پہرے لگا دیئے گئے تاکہ لوگوں کو جانے سے رو کیں- اور سڑکوں پر پتھر جمع کر لئے گئے کہ جونہ رکے گا اسے ماریں گے.پھر جلسہ گا ہ اسے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لیجاتے کہ لیکچرنہ سن سکیں.بی ٹی صاحب جو اس وقت سیالکوٹ میں سٹی انسپکٹر تھے اور پھر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو گئے تھے اب معلوم نہیں ان کا کیا عہدہ ہے ان کا انتظام تھاجب لوگوں نے شور مچایا اور فساد کرنا چاہا تو چونکہ حضرت صاحب کی تقریر اس نے بھی سنی تھی وہ حیران ہوگیا کہ اس تقریر میں حملہ تو آریوں اور عیسائیوں پر کیا گیا ہے اور جو کچھ مرزا صاحب نے کہا ہے اگر وہ مولویوں کے خیالات کے خلاف بھی ہو تو بھی اس سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا اور اگر وہ باتیں سچی ہیں تو اسلام کا سچاہونا ثابت ہوتا ہے پھر مسلمانوں کے فساد کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اگر چہ وہ سرکاری افسر تھا مگر وہ جلسہ میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا خدا مرگیا اس پر مسلمانو!تم کیوں غصے ہوتے ہو.غرض ان لوگوں کا ہم سے یہ سلوک ہے اور بادی النظر میں یہی نظر آتا ہے کہ اگر ان میں سے لوگ آریوں میں جاتے ہیں تو ہمیں کیا.مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ خیال غلط ہے حضرت مسیح موعودؑنے ان کے متعلق یہاں تک فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ِایناں نگاه دار کاخر کنند دعو ٰئے حُب پیمبرم
۱۹۳ بات یہ ہے کہ ایک ہوتی ہے عداوت اور ایک ہوتی ہے حقیقت.عداوت میں بے شک یہ لوگ آریوں سے عیسائیوں سے سکھوں سے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بڑھ کر ہیں مگر حقیقت میں سب سے زیا دہ ہمارے قریب ہیں.ہمارے لیکچرہوتے ہیں اس میں آریہ ،عیسائی وغیرہ شور نہیں ڈالتے بلکہ بعض اوقات وہ مدد بھی دیتے ہیں مگر جانتے ہو نتیجہ کیاہوتاہے آریہ تو آریہ ہی گھر چلے جاتے ہیں اور عیسائی عیسائی ہی واپس لوٹ جاتے ہیں مگر یہ جو ہمیں مارتے بھی ہیں گالیاں بھی دیتے ہیں لیکچر کے روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اگر ان کو موقع ملے تو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کریں انہیں میں سے ہمارے ساتھ شامل ہوتے ہیں یہاں سے لوگ جو بیٹھے ہیں ان میں کتنے ہیں جو آریوں اور عیسائیوں سے آئے اور کتنے ہیں جو ان لوگوں سے آئے جو دشمنی اور عداوت میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں.بات یہی ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں ہمارے بہت قریب ہیں اور ان کے ساتھ بہت سی باتوں میں ہمارا اشتراک ہے رسول کریم ﷺ کو یہ لوگ مانتے ہیں قرآن کریم کو یہ لوگ مانتے ہیں اور ان پیشگوئیوں کو یہ لوگ جانتے ہیں جن میں مسیح موعود کے آنے کا ذکر ہے مگر دوسرے لوگ حقیقت کے لحاظ سے ہم سے بہت دور ہیں.اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھو کہ کوئی قوم بڑھ نہیں سکتی جو دو تین صدیوں میں دنیا کو گھیر نہیں لیتی.اسلام نے دنیاپر قبضہ پہلی ہی دو تین صدیوں میں کیا عیسائیت نے بھی پہلی ہی تین صدیوں میں دنیا کو گھیرا، بدھ مذہب نے بھی پہلی تین صدیوں میں دنیا کو قبضہ میں کیا ،زرتشتی مذہب نے بھی پہلی تین صدیوں میں ہی دنیا کو گھیرا، سکھوں نے بھی پہلی تین صدیوں میں ہی قبضہ جمایا.غرض کہ کوئی قوم اور کسی مذہبی ریفارمر کی جماعت ایسی نہیں جس نے پہلی تین صدیوں میں کامیابی حاصل نہ کی ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبیوں کے قرب کی وجہ سے جو اخلاص لوگوں میں ہوتا ہے وہ بعد میں نہیں ہوتا.دیکھو قرآن کریم تو اب بھی وہی موجود ہے جو رسول کریم ؐکے وقت میں تھا مگر اب کیوں یہ مسلمانوں پر وہ اثر نہیں کر تا جو رسول کریم ؐکے قرب کے زمانہ میں کرتا تھا.رسول کریم ﷺکے چھوٹے چھوٹے فقرہ پر جس طرح صحابہ کرام ؓ مذبوح جانور کی طرح تڑپ اٹھتے تھے آج آپ کے بڑے سے بڑے ارشاد پر بھی ان کی یہ حالت کیوں نہیں ہوئی.اس وقت قرآن کریم کی چھوٹی سے چھوٹی سور ت اثر پیدا کرتی تھی آج سارا قرآن کھول کرپڑنے سے بھی وہ اثر نہیں پیدا ہوا اس کی وجہ یہی ہے کہ ان لوگوں کو رسول کریم ﷺاسلام کا قرب حاصل تھا جو ان لوگوں کو حاصل نہیں ہے.تو پہلے لوگ جو کام کرنا چاہیں کر لیتے ہیں اور پچھلے لوگ
۱۹۴ محروم رہ جاتے ہیں.پس اگر ہماری جماعت بھی کامیاب ہونا چاہتی ہے اگر ہماری جماعت بھی ان پیشگوئیوں کی حامل بننا چاہتی ہے جو حضرت مسیح موعود سے تعلق رکھتی ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ ہم پہلی صدیوں میں دنیا پر چھا جائیں اور ہمارے کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی کان اور ایساذ خیرہ ہو جسے ہم اپنے اندر شامل کر سکیں اگر ایسا نہ ہو تو ہم کامیاب نہیں ہوسکتے.اگر عقل و فکر سے کام لیکر اس پر غور کیا جائے تو سمجھ میں آجائے گا کہ تین صدیوں میں ہی ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور اگر ہم لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو انہی لوگوں کو جو اس وقت ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں.پس ہماری کامیابی کی جڑ اور راز یہی مسلمانوں کی حالت ہے جو ہمارے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ یہی سب سے زیادہ ہماری ترقی میں ممّد اور معاون ہے اور ان کو جانے دینے کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ آسانی اور سہولت سے ہمارے ہاتھ میں آسکتے ہیں ان میں سے چار پانچ لاکھ کو ہم جانے دے رہے ہیں اور یہ اتنی ہی تعداد نہیں ہے.اب تو آریہ بھی ان کی تعداد ۳۳.۳۲ لاکھ مان رہے ہیں.شرد ھانند نے اپنی ایک تقریر میں اتنی تعداد تسلیم کی ہے اور یہ آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعداد ظاہر کرتے ہیں تاکہ مسلمان زیادہ نہ گھبرا جائیں.اور واقف کار ان لوگوں کی تعداد ایک کروڑ بتاتے ہیں.اتنی بڑی تعداد جو افغانستان کی ساری آبادی سے دوگنی ہے اس کو ضائع ہونے دینا قطعاً ہوشیاری اور دانائی کے خلاف ہے.پھر حضرت مسیح موعود کا طریق ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر آپ یہ نہ کہتے کہ یہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں انہیں تباہ ہونے وو.وہ لوگ بھی ہم سے دشمنی اور عداوت کریں ہمیں دکھ اور تکالیف دیں مگر یہ بھی تو یاد رکھو کہ اوروں کی نسبت یہی لوگ آسانی سے ہمارے قابو میں آسکتے ہیں.ہماری اصل غرض یہی ہے کہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ ہو جائے اور یہ لوگ چونکہ اس کام کے ہونے میں سب سے زیادہ ممدّ ہیں اس لئے ان کا بچانا ہمارا فرض ہے.کتاب جنگ مقدس جس میں آتھم کے ساتھ مبا حثہ چھپاہے یہ حضرت مسیح موعود ؑکا مباحثہ اس وقت ہوا جبکہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا اعلان کردیا تھا اور مولوی آپ کے کافر ہونے کا اعلان کر چکے تھے اور فتوے دے چکے تھے کہ آپ واجب القتل ہیں.وہ امن جواب جماعت کو حاصل ہے اس وقت ایسا بھی نہ تھا بلکہ اب مجھے ان مقامات پر جہاں تھوڑے احمدی ہیں اور ان کا جو حال ہے ایسا ساری جماعت کا حال تھا اور ہر جگہ یہی حالت تھی.ایسے موقع پر ایک غیر
۱۹۵ احمدی کا عیسائی سے مقابلہ ہوتا ہے اس نے حضرت صاحب سے درخواست کی تھی کہ آپ مقابلہ کریں اس پر آپ جھٹ کھڑے ہو گئے.آپ نے اس وقت یہ نہ کہا کہ عیسائی ہمارے ایسے دشمن نہیں ہیں جیسے غیراحمدی ہیں بلکہ آپ مباحثہ کے لئے چلے گئے اور قادیان سے باہر چلے گئے.یہ تو اس وقت کا ذکر ہے جب مخالفت زوروں پر تھی اور دعوے کی ابتداء تھی لیکن اب اس وقت کا ذکر سناتا ہوں جب دعویٰٰ اپنے کمال کو پہنچ گیا تھا اور مخالفت کم ہو گئی تھی.عیسائیوں کو ۱۹۰۶ء میں خاص جوش پیدا ہوا اور انہوں نے بڑے زور سے تبلیغ شروع کی.بریلی میں کوئی شخص تھا.عیسائیوں نے ينابيع الإسلام کتاب کے ذریعہ اسے خراب کرنا چاہا.اس کے دل میں اس کتاب کو پڑھ کر اسلام کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے.اس نے حضرت صاحب کو اطلاع دی اور لکھا کہ یہ کیسی باتیں ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں.حضرت صاحب نے اس کو جواب نہ تھا بلکہ اس کے جواب میں ایک کتاب لکھی جس کا نام چشمہ مسیحی ہے اور جس سے نبوت کے مسئلہ میں ہمیں بڑی مدد ملتی ہے.یہ کتاب اس غیراحمدی کو عیسائیت سے بچانے کے لئے لکھی گئی.پس حضرت مسیح موعودؑ کا طریق عمل بتا رہا ہے کہ ہمارا ایسے موقع پر کیا طریق عمل ہوناچاہیے.اصل بات یہ ہے کہ ہماری جنگ کادائره حضرت مسیح موعودؑ کوماننے اور نہ ماننے کی حد تک ہی محدود نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے وسیع ہے.ہمارے سلسلہ کی بنیاد مسیح موعودؑ سے ہی نہیں رکھی گئی بلکہ آج سے تیرہ سو سال قبل رکھی گئی تھی کیونکہ مسیح موعودؑ کے مبعوث ہونے کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا تھا.پس غیراحمدیوں کا اپنے ساتھ برا سلوک اور برا معاملہ دیکھ کر اور ان کی عداوت اور دشمنی کو دیکھ کر یہ مت سمجھو کہ جب ان پر تباہی اور بر بادی آئے تو ہمیں چپ ہو کے بیٹھ رہنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں کی یہ حالت ہی ہماری ترقی اور کامیابی کی بنیاد اور جڑ ہے اور اسی صورت میں ہی ہماری کامیابی کے سامان ہیں.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص بڑا تیرنے والا ہے وہ سمندروں میں تلاطم کے وقت کودتاور ڈوبنے والوں کو بچاتا ہو مگر ایک نادان اسے جھوٹا اور دغاباز کہتا ہو اور گالیاں دیتا ہو اور کہے کہ اسے تو تیرنا آتاہی نہیں اس وقت بادشاہ اس کی بکواس سُنے اور کہے یہ محض ایک محسن اور لوگوں کی جانیں بچانے والے کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے اور اسے پکڑ کر سمندر میں پھینک دے اس وقت کیا اس تیراک کا یہ کام ہو گا کہ کہے یہ چونکہ مجھے گالیاں دیتا تھا اس لئے میں اسے نہیں بچاؤں گا اگر وہ اس
۱۹۶ طرح کرے گا تو اپنے آپ کو جھو ٹا ثابت کرے گا کہ اسے تیرنا تو آتا نہیں یونہی کہتا تھا کہ بڑا تیراک ہوں.ایسے موقع پر اس کا یہ فرض تھا کہ فوراً کود پڑے اور ڈوبنے والے کو بچا کر اس سے اقرار کرائے کہ میں سچاہوں تو جو کچھ میری نسبت کہتا تھا وہ جھوٹ تھا.ایسا ہی اب غیراحمدی ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ کیا کر سکتے ہیں ان کے سب دعوے جھوٹے ہیں.ایساتوہوا ہے کہ عیسائیوں وغیرہ کے مقابلہ میں ہماری کامیابی کو دیکھ کر بعض جگہ غیر احمدیوں نے ہماری تائید کی ہے مگر ہماری کامیابی کا ایسانظارہ ان کے سامنے کبھی نہیں آیا کہ جس کو دیکھ کر ان کی عقلیں حیران ہو گئی ہوں اور انہوں نے دیکھا ہو کہ کوئی قوم کی قوم جو ہلاک ہورہی ہو اس کو بچانے کی ہم نے تجویز کی ہو مگر اب خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے ایسا موقع دیا گیا ہے اور اس وقت وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ احمدی کہاں ہیں؟ کیوں فتنہ ارتداد کو روکنے کے لئے کھڑے نہیں ہوتے.کوئی ان سے پوچھے احمدیوں کو تو پہلے ہی اسلام سے خارج کر چکے ہو پھرده جہاں بھی ہوں ان سے تمہیں کیا مگر ان کا ہمیں بلانا اور اس موقع پر امداد کے لئے شور مچانا بتاتا ہے کہ ان کے دل مانتے ہیں کہ اگر کوئی جماعت خد مت اسلام کر سکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نصرت کسی جماعت کو مل سکتی ہے تو وہ احمدی جماعت ہی ہے.پس جب یہ ایسا موقع ہے کہ ہمارا سخت ترین دشمن بھی ہر طرف سے مایوس ہو کر ہماری طرف نگاہیں ڈال رہا ہے اور گھبرا کرا کر پوچھ رہا ہے کہ احمدی کہاں ہیں اور وہی احمدی جن کو یہ لوگ مرتدوں اور کافروں سے بھی بد تر کہتے تھے انہیں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ وہ کیوں ہماری مدد کے لئے نہیں آتے تو اس موقع کو جانے نہیں دینا چاہئے.اسے زریں موقع کو جانے دینا جو ہماری زندگی میں ہمیں میسر ہوا ہے نہایت ہی افسوسناک بات ہوگی کیونکہ آج ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم ان لوگوں پر ثابت کردیں کہ آج تک تم لوگوں نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ظالمانہ تھا اور ہمارے خلاف تمهاری جتنی باتیں تھیں وہ سب جھوٹی تھیں اور اب ہم ان سے فوری طور پر اقرار کرا سکتے ہیں کہ ہمارے مقابلہ میں تم لوگ ناراستی پر تھے.کہتے ہیں زندگی میں ہر انسان کو ایک خاص موقع ملا کر تا ہے اور اگر ہم اس کو سمجھیں تو ہمارے لئے یہ ایسا ہی موقع ہے.نہ اس لئے کہ ایک قوم تباہ ہونے لگی ہے جسے نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس لئے کہ اس قوم کو تباہ ہونے سے مسیح موعود کی جماعت ہی بچا سکتی ہے.پس خوب اچھی طرح سن لو کہ ایسے موقعے بار بار نہیں ملا کرتے.ممکن ہے پھر بھی کبھی ایسا موقع آجائے مگر اس کا آنا ایسا ہی مشکل ہے جیسے ایک نبی کو ماننے سے محروم رہنے والوں کے لئے
۱۹۷ دوسرے نبی کا آنا.تو ایسے مواقع شاز و نادرہی ملا کرتے ہیں ہمیشہ پس نہ اس وجہ سے ہمیں اس فتنہ کے انسداد کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ محمدﷺ کے خدام اس میں مبتلاءہوئے ہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے اس میں مبتلاءہو گئے ہیں.ہماری جماعت جو الگ ہوئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کوئی نئی جماعت ہے بلکہ یہ اس لئے الگ ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو اسلام اور محمدﷺ سے اپنا تعلق جتاتے ہیں مگر سچا تعلق نہیں رکھتے ان سے الگ ہو جائے.اگر یہ لوگ اپنا کوئی ایسانام رکھ لیں کہ اس کا اسلام سے تعلق نہ ظاہر ہو تو پھر ہم احمدی نہ کہلائیں تو گویا ہم اسلام سے اپنا تعلق ممتاز طور پر ظاہر کرنے کے لئے احمدی کہلاتے ہیں یا یوں کہو کہ ان کو ممتاز کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں بھی آتا ہے.پس یہ امتیاز کو ثابت کرنے کا موقع ہے.احمدی ہم اس لئے کہلاتے ہیں کہ ان لوگوں سے الگ ہو جائیں تاکہ ان کی وجہ سے ہمارے مقابلہ میں کوئی اسلام پر طعن نہ کرے.ورنہ ہمارانام تو وہی ہے کہ سچامسلم.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس موقع پر خاموش نہ رہیں.پھر عقلاً بھی اس کے بڑے بڑے اعلیٰ نتائج ثابت ہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ لوگ ہمارے لئے خزانہ اور کان کے طور پر ہیں جس پردشمن قابو پانا چاہتا ہے کبھی کوئی یہ پسند نہ کرے گا کہ اس کی کسی چیز پر اگر دشمن نے قبضہ کیا ہو تو اسے چور چرا کر لے جائیں کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ میری چیزہے اور میرے پاس اسے آنا چاہئے.حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی رنگ کا ایک فیصلہ کیا تھا.ان کے پاس دو عورتیں مقدمہ لائیں.ان میں سے ایک کے بیٹے کو بھیڑیا کھاگیا تھا اس کا خاوند کہیں گیا ہوا تھا اور بعد میں ہی اسے بچہ پیدا ہوا تھا اس نے سمجھا خاوند آکرنا راض ہو گا اور چونکہ وہ اپنے بچے کو پہچانتا نہیں اس لئے دوسرے بچے کو ہی اپناسمجھ لے گا اس پر اس نے دوسری عورت کا بچہ اٹھا کر اپنا بنالیا.یہ جھگڑا جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس گیا تو انہوں نے کہا اچھا اس کا فیصلہ اس طرح کرتاہوں کہ بچے کوآدھا آدھاکر کے دونوں کو دے دیتا ہوں.جس ماں کا بچہ نہیں تھا اس نے تو کہا ہاں یہ ٹھیک انصاف ہے ایسا ہی ہونا چاہئے.اس نے سمجھا میرابیٹاتو مرہی گیا ہے مگر اس کا بھی تو زندہ نہ رہے گا.لیکن جس کا بچہ تھا اس نے کہہ دیا کہ یہ میرا بیٹاہی نہیں اسی کا ہے اسے دے دیا جائے اور اس طرح اس نے بچہ کو مرنے سے بچالیا.تو مسلمان کہلانے والے گو خراب ہیں لیکن ہمارے لئے دوسروں سے بات اقرب خزانہ
۱۹۸ ہیں.باقیوں کے متعلق تو ابھی یہ حالت ہے کہ ان تک پہنچنے کے لئے پہاڑوں کو تراش تراش کر دروازے بنانے کی ضرورت ہے اس لئے ہمیں اور صرف میں ہی ان لوگوں کی فکر ہونی چاہئے جو مرتد ہو رہے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ غیراحمدی وہاں جاکر جو کچھ بھی کوشش کررہے ہیں اتنا کرنا بھی ان کا حق نہیں کیونکہ اصل میں جن کا خزانہ لٹ رہا ہے وہ ہم ہی ہیں ہمارا وہ خزانہ اور ذخیرہ ہے ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہئے.پس ہر ایک احمدی کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس امت کادا روغہ مقرر کیا ہے اور جس طرح دا روغہ اور دوسرے لوگوں کے فرائض میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے فرائض میں فرق ہے.خدا تعالی ٰکے مامور کو ماننا خود خد مت اسلام کیلئے مامور ہو جانا ہے.جیسے کہتے ہیں ہر کہ خدمت کرو او مخدوم شد - خدا تعالیٰ تو اسے مقرر نہیں کرتا مگر خدا کے مامور کو ماننے کی وجہ سے وہ مامور ہو جاتا ہے تو ہم خد مت اسلام کے لئے مامور ہیں نہ اس لئے کہ الہام کے ذریعہ خدا نے ہمیں کہا ہے بلکہ اس لئے کہ ہم نے خود اس کے ایک مأمور کو مانا ہے.پس جب ہم خدمت اسلام کے لئے مامور ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ اسلام سے بالکل جدا ہونے والوں کو بچائیں اور اگر کوئی اس کام کا اہل ہے تو وہ ہم ہی ہیں.پس اگر کسی کے دل میں خیال ہو کہ ہمارا کیا حرج ہے ہم کیوں ان لوگوں کو بچائیں تو وہ اس خیال کو نکال دے.اور سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع اس لئے دیا ہے کہ دوسروں پر ہماری فوقیت ثابت کرنا چاہتا ہے اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے.اس امر کی ضرورت بتادینے کے بعد کہ ہمارے لئے یہ موقع نہایت اہم ہے نہ صرف مذہبی لحاظ سے ہی بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی اس میں ہمارے لئے بڑے فوائد ہیں اس وقت میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ ایسے مواقع ہر روز نہیں ملا کرتے.جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے دو اس موقع کو نہ جانے دے.شیطان سے مقابلہ کرنا ہماری جماعت کے ذمہ لگایا گیا ہے اور شیطان ہماری بغل میں بیٹھا ہے.بیشک عیسائیت کا فتنہ بہت شدید ہے مگر اس کیلئے کوئی چونکہ بہت دور سے آتے ہیں اس لئے وہ اپنے ہجوم اور کثرت سے غلبہ حاصل نہیں کرتے بلکہ اور ذرائع استعمال کرتے ہیں.مگر ہندو جو ہمارے پاس بیٹھے ہیں بیس بائیس کروڑ ان کی تعداد ہے اس لئے ان کا فتنہ بہت سخت ہے.میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ فتنہ ایک دو ماہ کی بات ہوگی اور میں نہیں جانتا کہ کتنے آدمیوں کی اس کے لئے ضرورت ہوگی یہ حالات بتائیں گے.مگر میں یہ جانتا ہوں کہ جب تک ایسے کافی آدمیوں کے
۱۹۹ نام ہمارے پاس نہ ہوں جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہو اس وقت تک ہم اطمینان سے کام نہیں کر سکتے.ممکن ہے ہمیں سینکڑوں آدمی بھیجنے پڑیں.ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا وفد روانہ ہو.کیونکہ اس وقت تک ہم نے چلنا ہے جب تک کہ دشمن تھک کر اور ہار کر نہ بیٹھ جائے.بچپن کی ایک مثال مجھے یاد ہے گو وہ کچھ اچھی نہیں لیکن اس سے مطلب ضرور حل ہو جاتا ہے.چھوٹی عمر میں میں اس جگہ کھڑا تھا جہاں اب لنگرخانہ ہے اور مہمان خانہ کے پاس جو لا ہوں کے جو گھر ہیں ان کے قریب سے دو آدمیوں نے کنکوّے چڑھائے وہ آپس میں لڑا رہے تھے.وہ دونوں ڈور چھوڑتے جاتے تھے اور کنکوے بہت دور نکل گئے.میری تو نظر بھی کمزور تھی جب میری نظر سے غائب ہو گئے تو میں نے دوسرے لڑکے سے جو میرے ساتھ تھا پو چھا اتنے دور کیوں چلے گئے ہیں.اس نے کہایہی مقابلہ ہے جو بھی ڈور دینے میں بڑھ جائے گا وہ جیت جائے گا تو ایسا مقابلہ جو در پیش ہے اس کے لئے استقلال ہی سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.اور یاد رکھو کہ باطل کبھی مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ باطل کے معنی ہلاک ہونے والے کے ہیں.قائم حق ہی رہتا ہے کیونکہ حق کے معنے قائم رہنے کے ہیں.لیکن اس کے لئے استقامت ضروری ہے.جیسے حضرت مسیح موعود بھی فرمایا کرتے تھے.الإستقامة فوق الكرامة - اگر ہم استقلال د کھائیں گے تو وہ لوگ اسی طرح تھک کر واپس آجائیں گے، جس طرح نان کو اپریشن والے تھک کر اپنے اپنے کاموں پر واپس آرہے ہیں.وکیل اپنی وکالت شروع کر دیں گے.پڑھانے والے اپنے سکولوں میں چلے آئیں گے.لیکچرار گھروں کو واپس آجائیں گے اور جو جماعت میدان سے ہٹے گی نہیں وہ احمدی جماعت ہی ہو گی.اس وقت ہمارے سامنے جو کام ہے وہ بہت بڑا کام ہے لیکن ہندوستان کیا اگر ساری دنیا سے بھی مقابلہ ہو تو بھی ہمیں کیا پرواہ ہے.جب ہماری مدد کرنے والا خدا تعالیٰ ہے تو ہم نے خدا تعالیٰ کے سہارے پر پڑنا ہے.لیکن یاد رکھو خدا تعالیٰ کی مدد بھی اس وقت تک نہیں آتی جب تک استقامت نہ اختیار کی جائے کیونکہ استقامت کی وجہ سے خدا کی مدد آتی ہے.جب تک یہ رنگ ہماری جاعت دکھانے کیلئے تیار نہ ہو.جب تک سارے کے سارے لوگ ہی فیصلہ نہ کرلیں کہ جب تک دشمن کو مقابلہ سے نہ ہٹائیں گے اس وقت تک نہ ہٹیں گے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے.پس چاہیے کہ جس کے دل میں اب تک اس کام میں شامل ہونے کی تحریک نہ ہوئی
۲۰۰ ہو وہ اب تیار ہو جائے.اور سمجھ لو کہ اس کام کیلئے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں.وہاں سے رپورٹیں آئی ہیں کہ ان لوگوں میں بالکل علم نہیں.مولوی محفوظ الحق صاحب نے لکھا ہے کہ وہ لوگ تو بات بھی نہیں سمجھ سکتے.وہاں علمی مسائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں.وہاں تو صاف اور سادہ لفظوں میں باتیں بار بار پیش کرنے کی ضرورت ہے جیسے مسمریزم والے کہتے ہیں کہ سوجا.سو جا.تو معمول سو جاتا ہے اسی طرح اگر ان لوگوں کو بار بار حق سنایا جائے تو کیوں ان پر اثر نہ کرے گا.دیکھو عیسائی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے کہتے سنواہی لیتے ہیں حالانکہ وہ کھاتا پیتاسو تا رہا اوربقول ان کے لوگوں نے اس کو مار بھی دیا.ایسا انسان کس طرح خدا کا بیٹا ہو سکتا ہے لیکن باوجود اس کے لوگ مان ہی لیتے ہیں.پس اگر ایسی بے وقوفی کی بات لوگ مان سکتے ہیں کہ مسیح خدا کا بیٹا تھاتو جاہل لوگ جنات کو کیوں نہیں مان سکتے.اگر ایک بات بارہا رکہنے سے عقلمند ہو کر جہالت کی بات مان لیتے ہیں تو عقل کی بات جاہل انسان سے کیوں نہیں منوائی جاسکتی.پس ہمیں ایسے آدمی چاہئیں جو محنت اور اخلاص سے کام کر سکیں.جو یہ اقرار کریں کہ دن رات لوگوں کو سمجھاتے اور دین کی باتیں سناتے رہیں گے.ایسے لوگ اگر ایک لفظ بھی نہ جانتے ہوں گے تو کامیاب ہوں گے.پس جو شخص انتظام کی پابندی کر سکتا ہے فرمانبرداری اختیار کر سکتاہے غصہ کو دبا سکتا ہے وہ کام کر سکتا ہے خواہ وہ اپنانام بھی لکھنانہ جانتا اس لئے اپنے آپ کو پیش کرنے میں جلدی کرو.اب روپیہ کا سوال ہے.اس کے متعلق بعض لوگوں کے دل میں خیال پیدا ہوا ہے کہ جب آریہ راجپوتوں کو روپیہ دیکر آریہ بنا رہے ہیں اور مسلمان بھی ان کو روپیہ دیکر اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں تو کیا ہمیں بھی اسی کام کیلئے روپیہ جمع کرنا چاہئے.ہمارے مبلّغ تو اپنے خرچ پر جائیں گے پھرروپیہ کی کیا ضرورت ہے مگر ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی تبلیغ کہ روپیہ دیگر لوگوں کو اپنے اندر داخل کیا جائے میرے نزدیک تبلیغ نہیں بلکہ اپنی ذلت اور شکست کا اقرار کرنا ہے.ہمیں اس کام کیلئے نہ تو روپیہ کی ضرورت ہے اور نہ اس کیلئے ہم روپیہ صرف کرنا چاہتے ہیں مگر باوجود اس کے دوسروں سے ہمیں کم روپیہ کی ضرورت نہیں بلکہ ان سے زیادہ کی ضرورت ہے.ان میں بڑے بڑے مالدار ہیں ان میں کروڑپتی بھی ہیں پھر ان کی تعداد بہت زیادہ ہے.اگر وہ تھوڑا تھوڑا چندہ بھی دیں تو بہت بڑا چندہ جمع کر سکتے ہیں اور آسانی سے دولت جمع کر سکتے ہیں لیکن اس کا استعمال وہ اس طرح کریں گے کہ کچھ آپس میں بانٹ لیں گے اور پھر ان لوگوں میں تقسیم کردیں گے.پس ان کو روپیہ کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی ہمیں ہے کیونکہ ان کے اتنے مبلّغ
۲۰۱ نہیں ہوں گے جتنے ہمارے ہوں گے اور باوجود اس کے کہ ہمارے مبلّغ آنریری ہوں گے پھر بھی ہمیں بہت سے اخراجات کرنے پڑیں گے.کیونکہ ہمیں ایک ایسا محکمہ بنانا ہو گا کہ جس کے ماتحت تبلیغ کا کام ہو سکے.ہمارے نئے نئے آدمی جو جائیں گے ان کو نہ وہاں کے لوگوں کی طبائع کا علم ہوگا ،نہ ان سے واقفیت ہوگی، نہ وہاں کام کرنے کے رنگ اور طریق سے آگاہ ہوں گے،نہ ان سے دوستیاں ہوں گی ،نہ ان کا رعب جما ہوا ہو گا ایسی حالت میں اگر ایک جماعت مبلغین کی جائے جو تین ماہ کے بعد واپس آجائے اور پھر نئی جماعت چلی جائے تو گویا سارا سال تجربہ ہی ہوتا رہے گا اور کچھ کام بھی نہیں ہو سکے گا اس لئے ضروری ہے کہ ایک جماعت ایسی مستقل وہاں رہے جو کام کی نگرانی کرتی رہے اور جو میدان میں کام کے خاتمے تک وہیں رہے.یہ جماعت وہاں کے حالات اور طریق تبلیغ سے واقفیت حاصل کرے لوگوں سے واقفیت پیدا کرے.یہ جماعت جو چھ ماه.سال یا دو سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ وہاں رہے گی اس کے متعلق یہ خیال کرنا کہ خرچ کئے بغیر رہ سکے گی اس کی طاقت اور قوت سے بالاخیال ہے اور جب خدا تعالیٰ بھی انسانی قوتوں کا خیال رکھتا ہے تو کیا بندوں کو اس قانون کا لحاظ نہیں رکھنا چاہئے جو خدا نے بنایا ہے اور جو یہ ہے کہ انسان کھانے پینے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ اس کے بیوی بچے اور دوسرے لواحقین کھانے پینے کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں.یہ درست ہے کہ جو لوگ وہاں کام کریں گے وہ خدا تعالی ٰکے لئے ہی کرتے ہیں لیکن جو خدا کیلئے کام کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ آسمان سے کھانا نہیں بھیجا کرتا بلکہ مومنوں کے قلوب میں ہی الہام کرتا ہے کہ ان کے کھانے پینے کا انتظام کریں.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے.ینصرک رجال نوحي إليهم کہ تم کو وہ لوگ مدد دیں گے جن کو ہم وحی کریں گے.پس خدا تعالیٰ اپنے بندوں کیلئے آسمان سے روٹی نہیں اتارا کرتا.بلکہ دوسروں کو الہام کرتا ہے کہ ان کیلئے سامان کریں اور ہماری کیاہی خوش قسمتی ہوگی اگر ہم خدا تعالیٰ کے الہام کے موردبن جائیں.پھر کئی لوگ بعض مجبوریوں کی وجہ سے تبلیغ کیلئے نہیں جاسکتے.خواہ ان کی مجبوریاں اچھی ہی ہوں مگر ان کے دل کو صدمہ تو ضرور پہنچتا ہے.مثلاً میں ہی ہو- اگرچہ میں نے سارا کام کرانا ہے اور میدان جنگ میں فوج کو لڑانے والے کا یہی کام ہوا کرتا ہے کہ مقام جنگ سے پرے ہٹ کر فوج کو دیکھتا رہے تاکہ انتظام قائم رہے اور جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں مددپہنچائے اور سوائے ایسے موقع کے جنگ میں شامل نہ ہو جب یہ سمجھے کہ اگر میں نہ پہنچا تو ساری سپاه تباہ ہو
۲۰۱ جائے گی.ایسی حالت کے علاوہ کمانڈر کا لڑائی میں شامل ہونا نہایت خطرناک ہوتا ہے اس لئے میں تو وہاں نہیں جاسکتا.مگر میرے قلب میں جو جوش اور احساسات ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے بھی تو کوئی موقع ہونا چاہئے اور وہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مالی امداد سے اس کام میں حصہ لیا جائے.پس کئی ایسے لوگ جو طاقت نہیں رکھتے کہ وہاں جائیں کیونکہ ان کو مجبوریاں درپیش ہیں.یا کئی ایسے لوگ جن میں ابھی اتنی ہمت نہیں کہ مال اور جان دونوں دے سکیں مگر تھوڑی سی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اس طرح وہ ان رجال میں شامل ہو سکتے ہیں جن کے متعلق خدا تعالی ٰنے فرمایا ہے.توجتي اليهم ہم آپ ان پر وحی کرتے ہیں.گویا خدا تعالیٰ آپ ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور یہ کوئی معمولی شرف نہیں ہے.دیکھو لوگ دنیا کے بادشاہوں کے مخاطب بننے کے لئے اور یہ کہلانے کے لئے کہ فلاں سے بادشاہ نے کلام کی لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں.پھر کیا ہماری جماعت کے لوگ جو خدا تعالی ٰکے سچے پرستار ہیں وہ توي الثوم میں شامل ہونے کے لئے روپوؤں کی کچھ پرواہ کریں گے.یا خدا کے مخاطب بننے کو معمولی بات سمجھیں گے.پس وہ لوگ جو وہاں مستقل طور پر کام کریں گے ان کے گذارہ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.اور یہ معقول جماعت وہاں بھیجنی ہوگی کم از کم دس پندرہ آدمی تو ضرور ہوں گے ان کے اخراجات کیلئے کافی روپیہ کی ضرورت ہے.پھر انہوں نے رپورٹیں بھیجنی ہیں‘ تاریں دینی ہیں، لٹریچر شائع کرنا ہے اس کے لئے بھی روپیہ کی ضرورت ہے ، یا جب ایسا ہو کہ بعض لوگ ہمارے ساتھ ملنے لگیں اور تعلیمِ اسلام کو قبول کرلیں تو ان کے ہاں مدرسے جاری کرنے ہوں گے اس کے لئے بھی خرچ کی ضرورت ہے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جو لوگ تعلیم اسلام کو مانیں ان کو ہونہی چھوڑ کر چلے آئیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے مدرسے جاری کرنے ہوں گے.پھراخباروں میں مضامین شائع کرنے کے لئے لوگوں کے حالات دریافت کرنے کے لئے اخراجات کی ضرورت ہوگی.پس چو نکہ ہمارا اکلام خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت وسیع ہو گا اس لئے ہمارا خرچ بھی زیادہ ہو گا.دوسرے لوگ تنخواہوں وغیرہ پر زیادہ روپیہ خرچ کریں گے مگر ان کے مبلغ تھوڑے ہوں گے اور ہم تنخواہوں پر روپیہ خرچ نہیں کریں گے لیکن ہمارے مبلغ چونکہ زیادہ ہوں گے اس لئے ہمیں جو انتظام کرنا پڑے گا اس پر زیادہ خرچ کرنا ہو گا.پھر ہمیں
۲۰۳ ایسے اخراجات بھی کرنے ہوں گے جو وہ لوگ نہیں کرتے کیونکہ وہ تو ایسی جگہوں پر ہی خرچ کرتے ہیں جہاں نام و نمود ہو مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں.ہم محض دین کیلئے خرچ کریں گے اور جس طرح دین کو فائدہ پہنچے گا اس طرح خرچ کریں گے اس لئے میرا اندازہ ہے کہ اخراجات کی پہلی قسط پچاس ہزار کی ہے.اگر دشمن کو اسی پر شکست ہو گئی تو فبھا.ورنہ اور.پھراور – پھراور روپیہ جمع کرنا ہو گا.انہی دنوں میں ہماری جماعت کی عورتوں کے ذمہ ۵۰ ہزار روپیہ لگایا گیا ہے جس کا زیادہ حصہ انہوں نے اسے دیا ہے.ہماری جماعت کے مرد بیشک بہت چندے دیتے رہے ہیں لیکن مرد مردہی ہیں اور عورتیں عورتیں ہیں.اس وقت میں مردوں اور عورتوں کا اخلاص کے لحاظ سے مقابلہ نہیں کر رہا بلکہ مالی لحاظ سے کر رہا ہوں اور اس میں کیا شک ہے کہ مرداس لحاظ سے عورتوں سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں عورتوں کے پاس زیور ہوتے ہیں مگر وہ ماہوار آمدنی میں سے قلیل حصہ نکال کر بنتے ہیں لیکن مرد چو نکہ آمدنی کے ذرائع رکھتے ہیں.اس لئے وہ عورتوں کی نسبت زیادہ دے سکتے ہیں.ہماری جماعت کو اس طرف بہت جلدی توجہ کرنی چاہئے.لندن میں مسجد بنانے کا کام ضروری تھا.لیکن اگر وہ ایک دو سال بعد میں بھی ہو جاتا کوئی ایسی بات نہ پیدا ہو سکتی تھی جو نقصان کا باعث ہوتی.چنانچہ ایک سال کے بعد ہی مسجد کے لئے جگہ خریدی گئی مگر اس وقت جو کام درپیش ہے.یہ ایسا نہیں ہے کہ اسے پیچھے ڈال سکیں.یہ فوری ہونے کی وجہ سے نہایت اہم ہے.اس لئے اس کے لئے جتنی قربانی کی جائے.تھوڑی ہے.پس گو اس کے مصارف وہ نہیں جو دوسرے لوگوں کے ہیں مگر باوجود اس کے ان سے کم ہمیں روپیہ کی ضرورت نہیں ہے.اس وقت پچاس ہزار کی رقم ایسی ہے جو کم از کم ہمیں چاہئے.میں نے اس خیال سے کہ مشورہ سے جو کام کیا جائے وہ اچھا ہوتا ہے چندہ کے سوال کو کانفرنس پر اٹھا رکھا ہے کہ اس وقت باہر کے لوگ بھی آجائیں گے اور وہ بھی مشورہ میں شریک ہو جائیں گے.اس چندہ کے متعلق دو خیال ہیں.ایک تو یہ کہ خاص خاص لوگوں سے یہ چندہ جمع کیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس کو عام چندہ رکھا جائے.کانفرنس کے موقع پر مشورہ کے بعد جس طرح خدا تعالیٰ سمجھاۓ گا ہو گا لیکن فی الحال خرچ کے لئے جو ضرورت ہے اس کا فوری انتظام ہوناچاہئے.اور اخراجات کے علاوہ اس وقت جو ایک خرچ در پیش ہے وہ یہ بھی ہے کہ اس علاقہ کے کم
۲۰۴ از کم ان ضلعوں کے لوگوں کو مشورہ کے لئے بلانا ہو گا.کیا وہ لوگ جو مشورہ کے لئے آئیں گے ان کو ہمارے آدمی کہہ دیں گے کہ کھانا بازار سے کھاؤ- پھر وہ لوگ جو ہمارے کام کو دیکھنے کی غرض سے آئیں گے یا ہمیں کسی قسم کی مدد اور واقفیت بہم پہنچانے کے لئے آئیں گے ان کے کھانے پینے کاہمیں انتظام کرنا ہو گا.ان کے لئے ہمارا لنگر ہو گا اور یہ اخراجات معمولی نہ ہوں گے بلکہ بہت زیادہ ہوں گے.پس چو نکہ روپیہ کی فوری ضرورت ہے اور کانفرنس کے منعقد ہونے میں ابھی دیر ہے.اس لئے ارادہ ہے کہ قادیان میں چندہ کی تحریک کی جائے.اور ایسے رنگ میں کی جائے کہ کانفرنس کے مشورہ پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے.اور وہ یہ کہ عام تحریک نہ ہو بلکہ جو لوگ ایک خاص رقم دے سکتے ہیں ان سے لی جائے.پھر اگر کانفرنس میں فیصلہ ہو جائے کہ سب لوگ چندہ دیں تو اس تحریک سے کوئی حرج نہ ہو گا.اور اگر یہ فیصلہ ہو کہ خاص رقم لی جائے اور یہاں عام چندہ لیا گیا تو اس سے باہر والوں کو صدمہ ہو گا کہ قادیان میں تو عام چندہ کیا گیا اور ہمیں اس میں شامل ہونے کا موقع نہ دیا گیا اس لئے یہی تجویز ہے کہ قادیان والے ایسے لوگ جو کم از کم سو روپیہ دے سکیں وہ دیں اور جلدی دیں.اس مجلس میں ایسے لوگ نام نہ لکھائیں بلکہ بعد میں لکھائیں کیونکہ نماز( مغرب )کا وقت ہو گیا ہے اور نماز تو عشاء کے ساتھ ملا کر بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ یہ بھی دینی کام ہے مگر اس طرح تقریررک جائے گی.یہ سو روپیہ کی ر قم بتانے کے یہ معنی ہیں کہ اس سے کم دینے والے شامل نہ ہوں مگر یہ نہیں کہ جو اس سے زیادہ دے سکتے ہیں وہ زیادہ بھی نہ دیں.میں یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل سمجھتا ہوں کہ اس نے ایک موقع پر میرے دل میں ایک خاص بات ڈالی تھی اور اس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا ہے.جب حضرت مسیح موعودؑ فوت ہوئے تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ آپ لوگ آپ پر طرح طرح کے اعتراض کریں گے اور بڑے زورکی مخالفت شروع ہو جائے گی اس وقت میں نے سب سے پہلا کام حضرت مسیح موعود ؑکے سرہانے کھڑے ہو کر جو کیا وہ یہ عہد تھا کہ اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا ره جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کامقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا.جب تک یہی ارادہ اور یہی عزم لیکر ہماری جماعت کا ہر ایک شخص کھڑا نہ ہو کامیاب نہیں ہو سکتا.ممکن ہے اسے دوسرا کوئی ساتھی نہ ملے تو کیا ایسی صورت میں وہ خاموش ہو کر بیٹھ رہے گا.دیکھو اگر ایک عورت کا بچہ ڈوب رہا ہو تو کیا وہ کنارے پر اس لئے خاموش بیٹھی رہے گی کہ دس
۲۰۵ بیس آدمی جو کنارے پر کھڑے ہیں اس کے بچہ کو بچالیں گے ہرگز نہیں بلکہ اگر ہزار آدمی بھی موجود ہو گا تو بھی وہ پانی میں ہاتھ ڈالے گی اور بچے کو بچانے کی کوشش کرے گی.تو کام کرنے والے اسی طرح کام کیا کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں ہم نے کام کرنا ہے اور کسی نے نہیں کرنا.جب یہ ارادہ او ریہ عزم ہو تو پھر کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.پس میں اس چندہ کیلئے تحریک کرتا ہوں جو لوگ توفیق رکھتے ہیں کہ سو روپیہ دے سکیں دیں اس سے زیاده خواہ کوئی لاکھ روپیہ دے دے گو ہماری جماعت میں اتنار و پیہ دینے والا کوئی نہیں.پس پورے زور اور ساری قوت سے اس بوجھ کو اٹھائیے تب کام ہو گا اور اگر اس وقت تھوڑے لوگ اس بوجھ کو اٹھالیں گے تو دوسرے وقت رو سرے لوگ اٹھاسکیں گے.پس آپ لوگوں نے پورے زور کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھانا ہے اور باہر کے لوگوں کے لئے نمونہ بننا ہے.اس وقت میں نے جورکوع پڑھا ہے اس کے متعلق اب کچھ بیان کرتا ہوں.میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ اس وقت معاً میرے دل میں ڈالا گیا کہ ایسے فتنہ کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب سے بھی اس کا پتہ مل گیا ہے.اس رکوع (سورہ کہف کا گیارہواں) میں بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین ایک بادشاہ تھا اس کے حالات پیشگوئی کے طور پر بیان کئے گئے ہیں.براہین احمدیہ حصہ پنجم کے آخری صفحات میں حضرت صاحب نے بیان فرمایا ہے کہ ذوالقرنین سے مراد مسیح موعود ہے جو صدیوں کے سروں کو جوڑے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے وقت سب صدیاں ملتی ہیں اور حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ذوالقرنین میں ہوں.خدا تعالی ٰفرماتا ہے.وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِؕ تم سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں.قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا کہہ دے میں اس کا کچھ حال تاتاہوں.یعنی یہ کہ مسیح موعودؑ آئے گا.اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا \".ہم اس کو دنیا میں مبعوث کریں گے.اور ہر قسم کے سامان اسے دیں گے یعنی وہ مسلمان جن سے تبلیغ میں سہولت ہوگی.چنانچہ اس زمانہ میں مطیع ،ڈاک خانہ،تار، ریل، اخباریں وغیرہ ایسے ہی سامان ہیں.فَاَتْبَعَ سَبَبًا - وہ ایک راستہ پر چلے گا.حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ پہنچے گا جہاں دلدل والے چشمہ میں سورج ڈوب رہا ہو گا.حضرت مسیح موعود براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرماتے ہیں کہ یہ عیسائی لوگوں کی حالت بیان کی گئی
۲۰۶ ہے کہ جو بگڑے ہوۓ چشمہ کی طرح ہیں ان میں سورج ڈوب رہا ہے.کسی وقت ان کے پاس مصفّی پانی تھا مگر اس وقت خراب ہو گیا ہو گا اور ان کی تعلیم بالکل بگڑ چکی ہوگی.وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا۬ؕ ایسی بگڑی ہوئی تعلیموں کے پاس ایسی قوم کو پائے گا.زمانہ کے حالات کے ماتحت کہہ سکتے ہیں کہ اس قوم میں ہندو بھی شامل ہیں.حضرت مسیح موعود نے ان کو بھی اہل کتاب قرار دیا ہے مگر ان کے متعلق ایک بات رہ جاتی ہے اور وہ سورج کے ڈوبنے کی ہے کہ پھر ان میں سورج کس طرح ڈوبا اس کے متعلق اگر ظاہری معنی لئے جائیں تو یہ ہیں کہ ہندو بھی مغرب سے ہی آئے ہیں.پھر سورج ڈوبنے سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس قوم کا خاتمہ اور انتہاء ہو جائے گی ان کا چشمہ گندا ہو چکا ہو گا نو ر اور معرفت مٹ چکی ہوگی.قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا.اللہ تعالیٰٰ نے ذوالقرنین کو کہا چاہے توتران کو عذاب دے.حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے تو انکے لئے عذاب کی دعاکر اور چاہے تو ان کو ہدایت دے سید ھارستہ بتلا.الاما من ظلم وتعنيه ثم يزالی رته فيعذبه عذاب انگڑا.وہ کہے گاجو کوئی ظلم کرے گا اسے عذاب دیا جائے گا پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور اسے عذاب ملے گا.قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَیُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرً وَ اَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَ اﰳلْحُسْنٰىۚ ا اور جو کوئی ایمان لائے گا اور اچھے عمل کرے گا مسیح موعود ان کے لئے دعا کرے گا اور ان کو اچھا بدلا ملے گا.وَ سَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرً اور وہ ان کو کہے گا آسان اور اچھی بات جو ہم اسے کہیں گے.یعنی دوسرے لوگ تو کہیں گے کہ کافروں کو تلوار سے قتل کردینا چاہے مگر وہ کہے گا: نرمی سے معاملہ ہونا چاہئے.ہاں اگر کوئی ظالم تلوار اٹھاتا ہے تو اس کے مقابلہ کے لئے تم بھی تلو ار اٹھاؤ..ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا(89)حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًا پھر وہ ایک اور قوم کی طرف جائے گا جو اس جگہ ہوگی جہاں سے سورج چڑھتا ہو گا اور وہ دیکھے گا کہ اس قوم اور سورج کے درمیان کوئی روک نہیں.حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مسلمان ہیں ان کا چشمہ تو خراب نہیں ہوا اور سورج چڑھاہواہے یعنی قرآن کریم موجود ہے مگر یہ ظاہر پرست ہو گئے ہیں اصل فائدہ نہیں اٹھاتے.۲ پھر اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ جب سورج چڑھتا ہے تو گرمی سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور
۲۰۷ چونکہ ان لوگوں کو اسلام سے ظاہری تعلق ہو گا اس لئے اس تعلق کی وجہ سے ان کو دکھ اور تکالیف پہنچیں گی اور ان سے ان کو کوئی بچانے والانہ ہو گا.ان کے اندر حقیقی اسلام نہیں ہو گا کہ خدا تعالیٰ بچائے اور ظاہر میں چونکہ مسلمان کہلاتے ہوں گے اس لئے دوسرے لوگ ان کو تکالیف اور دکھ پہنچائیں کے ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا(92)حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًاۙ-لَّا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًا.پھروہ آگے چلے گا اور وہاں ایک تیسری قوم ہوگی.یہ وہ قوم ہے جس کا آج کل جھگڑا پڑاہواہے وہ وہاں پہنچے گا جہاں غیرمذاہب اور اسلام کی سرحد ملتی ہے وہاں ایسی قوم ہوگی جو بالکل جاہل ہو گی اور ایسی جاہل ہوگی کہ نہ اسلام کو سمجھتی ہوگی نہ کسی اور مذہب کو.گویا وہ بھی ہندوؤں کے قریب ہوگی کہ مسلمانوں کے.چنانچہ وہ لوگ ایسے ہی ہیں.ختنہ کراتے ہیں مگر گائے کا گوشت نہیں کھاتے.نکاح پڑھواتے ہیں مگر بت بھی گھروں میں رکھے ہوئے ہیں.لَّا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًا جو ان کے متعلق آیا ہے بالکل اسی کا ترجمہ وہ فقره ہے جو مولوی محفوظ الحق صاحب نے ان لوگوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بات تک نہیں سمجھ سکتے.قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰۤى اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُمْ سَدًّا ان لوگوں میں جو تعلیم یافتہ ہوں گے اور ہیں جو شورمچا رہے ہیں کہ ان لوگوں کو بچاؤ وہ شور مچائیں گے.یا یہ بھی اس کا مطلب ہے کہ پہلی قوم کے لوگ کہیں گے کہ اے ذوالقرنین یا اس کی جماعت یاجوج و ماجوج ان لوگوں کو کھینچے لئے جارہے ہیں ان کو بچاؤ - ہندو بھی یاجوج و ماجوج میں شامل ہیں.وہ لوگ یعنی مسلمان حضرت مسیح موعود کی جماعت کو کہیں گے کہ یاجوج و ماجوج فسادمچارہے ہیں ان سے ان لوگوں کو بچاؤ خرچ ہم دیتے ہیں ہندوؤں اور ان کے درمیان روک کھڑی کردو.چنانچہ غیراحمدی لکھ رہے ہیں کہ احمدی کیوں ان لوگوں کو نہیں بچاتے.قَالَ مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ رَدْمًا وہ کہے گا تمہاری مدد پر بھروسہ کرنالغو ہے.خداتعالی ٰنے مجھے نکتہ سمجھایا ہے اور وہی میری مدد و نصرت کرے گا اور وہی ان لوگوں کو بچا سکتاہے اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِؕ ہاں تم ظاہری شوکت سے مدد دے سکتے ہو.اس سے اگر مدد دو تو تمہارے لئے موجب ثواب ہوگی لیکن اصل فتح خدا تعالیٰ ہی کی نصرت اور جذب دعاسے ہوگی.میرے پاس تم اپنے لوہے کےٹکڑے لاؤ یعنی مجھے دو چیزوں کی ضرورت ہے.ایک تو قلموں کی چونکہ یہ ہولڈروں سے لکھ سکتا ہے جو لوہے کے ہوتے ہیں اس لئے لوہے کے ٹکڑے سے یہی
۲۰۸ مراد ہیں یہ مجھے دیدویعنی غیرمذاہب کے مقابلہ میں نے لکھنے دو.مجھے خدا نے اسلام کی حفاظت کا طریق سمجھایا ہے میں اس سے کام لوں گا.اور دوسرے قَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًاﭤ پیسے لا کر ہمیں دیدو تم لکھنا پڑھنا چھوڑ دو تمهارے مولوی ان لوگوں کو اور خراب کردیں گے.تم قلمیں روک لو اور زبانیں بند کرلو باقی تمہارے پاس جو پیسے ہیں اگر چاہو تو ان سے مدد کردو.وَ مَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا.پھریا تو دشمن چڑھتا چلا آرہا تھا اور درمیانی قوم کو کھا رہا تھا.اس قوم کو درمیانی قرار دینے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے راستہ میں یہ روک ہے اگریہ ہی نہ رہی تو پھرباقی مسلمانوں کی بھی خیر نہیں.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ احمدی اس دشمن کے راستہ میں دیواریں بنائیں گے اس کو مسلمانوں پر غالب ہونے سے روک دیں گے.پس کا میابی احمدی قوم کو ہی ہوگی.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان آیات میں ملکانہ ترم کاہی ذکر ہے.سب جگہ ایسی قو میں موجود ہیں کہ وہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں مگر غیروں سے ان کا تعلق ہے ایسی قوموں کو غیر کھانا چاہیں گے.ان کی حفاظت اگر ہوگی تو حضرت مسیح موعود کی جماعت کے ذریعہ ہی ہوگی.اوروں کی حفاظت ان کے لئے اور زیادہ مضر ثابت ہوگی.ان کا کام یہی ہے کہ اپنی قلمیں اس جماعت کے حوالہ کر دیں اور اپنے سکے اس کے آگے ڈال دیں کہ یہی ان کے پاس دینے والی چیزیں ہیں.ایمان عرفان اور دلا ئل تو ان کے پاس ہیں ہی نہیں اگر دے سکتے ہیں تو روپیہ ہی دے سکتے ہیں.یہ ایک پیشگوئی ہے جو ان تمام قوموں کے متعلق ہے جن کی حالت ملکانوں جیسی ہے اور اس پیشگوئی میں یہ بھی خوش خبری ہے کہ جلد یا بدیر کامیابی مسیح موعود کی جماعت کو ہی ہوگی.بعض دفعہ دشمن کو درمیانی خوشی حاصل ہو جاتی ہے مگروہ عارضی ہوتی ہے.جیسا کہ رسول کریم ﷺ کو جب مکہ سے آنا پڑا.توکفار بڑے خوش ہوئے ہوں گے کہ ہم غالب آگئے لیکن د راصل رسول کریم کامکہ سے آناہی ان لوگوں کی تباہی اور بربادی کا سامان تھا جس کا انہیں بہت جلد علم ہو گیا.پس اگر ہمیں درمیان میں مشکلات پیش آئیں اور بظاہر کا میابی دشمن کو نظر آۓ توکوئی گھبرانے کی بات نہیں انجام کار ہماری جماعت کو ہی فتح حاصل ہوگی اور مسلمانوں کو بھی کہنا پڑے گا کہ ہم قلمیں دے دیتے ہیں ہمیں ان دشمنوں سے تم ہی بچاؤ - (الفضل ۲۲.مارچ ۱۹۲۳ء)
۲۰۹ أعوذ بالله من الشیطن الرحيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ..ھو الناصر ایک کروڑ مسلمان ارتداد کی چوکھٹ پر امام جماعت احمدیہ کی طرف سے پیغامِ اتحاد میں اپنے اشتہاربعنوان’’ ساڑھے چار لاکھ مسلمان ارتداد کیلئے تیار ہیں‘‘ اس بات کا اعلان کر چکا ہوں کہ ملکانوں اور دیگر اقوام جاٹ گو جر وغیرہا کے ارتدار کے فتنہ کے روکنے کیلئے احمدی جماعت ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور یہ بھی وعدہ کر چکا ہوں کہ اگر مختلف فرقہ جات سنی، شیعہ ،اہلحدیث اپنے فرض کو اور کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے مال اور اپنی تعداد کے تناسب سے اس کارِ خیر میں حصہ لینے پر آمادہ ہوں تو میں بھی اپنی جماعت کی طرف سے تیس مبلغ اور پچاس ہزار روپیہ اس کام کے لئے مہیا کرنے کاوعدہ کرتا ہوں.آج میں اس اشتہار کے ذریعہ سے تمام ان لوگوں کو جو اس کام سے دلچسپی رکھتے ہیں مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے اس وعدہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میں نے عملی کارروائی شروع کردی ہے اور سرِدست میں نے اپنی جماعت سے ڈیڑھ سو آدمی مانگتے ہیں جو تین تین ماہ کیلئے فتنہ ارتداد کے روکنے کے لئے اپنی جانیں وقف کریں اور باوجود اس کے کہ میری شرائط وقف کنند گان کے لئے نہایت سخت تھیں میں خوشی سے اظہار کر تا ہوں کہ میرے اعلان کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر ایک سو ساٹھ آدمی کی درخواستیں میرے پاس پہنچ چکی ہیں.اور جو کہ بعد کی رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ کام اس سے بھی زیادہ سخت ہے جو سمجھا گیا تھا اور موقع اس سے بھی زیادہ نازک ہے جو پہلے خیال کیا گیا تھا اور چونکہ یہ درخواستیں جو میرے پاس پہنچی ہیں ان میں سے اکثر یعنی ایک سو چالیس ۱۴۰ صرف قادیان کی ہی ہیں اور بیرونی جماعتوں کو بوجہ دیر سے خبر ملنے کے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کا موقع نہیں ملا جس سے ان کے دلوں کو صدمہ پہنچے کا اس لئے میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ڈیڑھ سو کی تعداد کو بڑھا کر میں تین سو آدمی کا مطالبہ کروں
اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ یہ مطالبہ ایک دو ہفتے میں ہی پورا ہو جائے گا.یہ لوگ جو تین ماہ کیلئے اپنی زندگی وقف کر رہے ہیں ان کیلئے میں نے کو شرطیں مقرر کی ہیں.اور ان میں سے ہر ایک ان شرطوں کے ماتحت اپنے آپ کو وقف کر رہا ہے.وہ شرطیں یہ ہیں: ۱.وہ آمدورفت کا کرایہ خوددیں گے.۲ - وہ ان تین ماہ میں جن میں تبلیغ کا کام کریں گے اپنے کھانے پینے کا بھی خرچ اور برداشت کریں گے.۳.اس زمانہ کارکردگی میں اپنے اہل و عیال کے اخراجات کیلئے بھی کسی قسم کی مدد کے طلبگار نہیں ہوں گے.۴- اپنے افسروں کی ماتحتی ایسے ہی طریق پر کریں گے ہے کہ فوجی سپاہی اپنے افسروں کی فرمانبرداری کرتے ہیں خواہ کیساہی مشکل کام ان کے سپرد ہو اور خواہ کیسی ہی سختی کا معاملہ ان سے کیا جائے تو اس کی پرواہ نہیں کریں گے.۵.وہ پیدل چلنے، بھوکے رہنے ،ننگے پاؤں چلنے ، جنگلوں میں سونے اور اپنے مخالفوں کے مظالم سہنے کیلئے ہر طرح تیار ہوں گے.ان شرطوں کے قبول کرنے والے لوگ ہی صرف اس کام کیلئے مفید ہو سکتے ہیں اور میرے نزدیک دوسرے فرقوں کو بھی چاہئے کہ ایسے ہی آدمی مہیا کرنے کی کوشش کریں ورنہ جو لوگ بہ نیت حصول ِملاز مت اس کام کیلئے آگے بڑھے وہ چنداں مفید نہ ہوں گے.ہمارے وفد میں تنخواہ دار لوگ صرف وہی ہوں گے جو مستقل طور پر وہاں رہیں گے.ایسے لوگ چونکہ ایک لمبے عرصہ تک وہاں رکھے جائیں گے ان سے اپنا خرچ برداشت کرنے کی شرط نہیں کی گئی کیونکہ یہ ایسی بات ہے جس کا پورا کرنا ان کیلئے ناممکن ہے.مگر یہ تنخواہ بھی بالکل نام کی تنخواہ ہے مثلاً تین گریجوایٹس جو گھربار والے ہیں بن بیاہے نہیں وہ صرف میں تیس تیس روپے ماہوار پر کام کرتے ہیں.وہ لوگ جن کی درخواستیں اس وقت تک میرے پاس آ چکی ہیں ہر طبقہ کے ہیں ان میں دو درجن کے قریب مولوی ہیں، جاگیردار بھی ہیں، بیرسٹر بھی ہیں، لیڈر بھی ہیں‘دو ایم اے اور ایک درجن سے زیادہ گر یجوایٹس ہیں.کچھ لوگ سنسکرت کے واقف ہیں، ایڈیٹر انِ اخبار ہیں، تاجرہیں، زمیندار ہیں، سرکاری ملازم ہیں غرض ہر قسم کے لوگوں پر
۲۱۱ یہ جماعت مشتمل ہے اور میں اللہ تعالیٰ ٰکے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ یہ لوگ جو اس طرح قربانی کر کے اپنے گھروں سے نکلیں گے نہایت اخلاص اور سچائی سے کام کریں گے اور ان کا اخلاص دوسرے لوگوں کے دلوں پراثر کے بغیر نہیں رہے گا.اس جماعت سے اکیس آدمی اس کام کیلئے میں روانہ کر چکا ہوں اور دو آدمی براہ راست اس وفد کے ساتھ جا کر شامل ہو چکے ہیں گویا اس وقت تئیس آدمی اس ہماری جماعت کی طرف سے اس میدان مقابلہ میں کام کر رہے ہیں.چند دن تک انشاء اللہ چالیس یا پچاس آدمی اور روانہ کیا جائے گا وما توفيقي إلا بالله العلى العظيم روپیہ کے متعلق بھی میں نے سردست قادیان کی جماعت میں تحریک کردی ہے اور یہاں کا چندہ کسی قدر باہر کے چود سے ملا کر جوبلا تحریک آیا ہے ساڑھے چار ہزار تک پہنچ گیا ہے.چونکہ مارچ کے آخر اور اپریل کے اول ایام میں ہماری جماعت کی مجلس شوری ہوگئی میں نے عام چنده کی اپیل کو اس وقت تک کیلئے ملتوی رکھا ہے تاکہ یہ معلوم کریں کہ آیا ایک ایک سو ۱۰۰ کی رقم ڈال کر ذی استطاعت لوگوں سے یہ چندہ وصول کرنا زیادہ مناسب ہو گا یا ہے کہ عام جماعت میں تحریک کی جائے مگر میں امید کرتا ہوں کہ انشاء الله اپریل میں ایک معقول رقم اس کام کیلئے ہم لوگ جمع کر لیں گے.ان واقعات کے لکھنے کے بعد میں ان تمام لوگوں کو جو اس کام سے دلچسپی رکھتے ہیں تو جہ ولا تاہوں کہ سستی کا وقت نہیں.جہاں تک ہو سکے جلد کام کیلئے نکلیں کہ اس وقت کی غفلت صدیوں تک خون کے آنسو رلائے گی اور کوئی تعجب نہیں کہ مسلمانوں کو خدانخواستہ سارے ہندوستان میں یا اس کے بعض حصوں میں اسپین و الارو زبددیکھنا نصیب ہو.برادران ِوطن کے ارادے ظاہر ہیں وہ اس امر کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہندوستان میں جائز و ناجائز طریقوں کو استعمال کر کے ایک ہی مذہب قائم رکھا جائے اور وہ ہندو وھرم - مسلمان اخبارات اس حالت کو دیکھ کر شور مچارہے ہیں لیکن عملی کاروائی اب تک کوئی نہیں کرتا.جہاں تک اخبارات سے معلوم ہوتا ہے سارے ہندوستان کا چند مل کر آریوں کی کل جماعت کے چندہ کے برابر بھی نہیں ہے بلکہ بغیر تحریک کے احمدی جماعت میں جس قدر چندہ ہو گیا ہے اس کے برابر بھی دوسرے لوگوں کا چنده نہیں ہوا.یہی حال مبلغوں کا ہے.شد ھی کا شور سنتے ہی سینکڑوں لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے اب سب پراگندہ ہو چکے ہیں چند ایک آدمی قوم کی اشک شوئی کیلئے وہاں موجود ہیں.
۲۱۲ ساند ھن کی پنچایت ایک مبارک تحریک تھی اور اس کا فوری نتیجہ راجپوتوں پر بہت اچھا ہوا.مگر جبکہ اس پنچایت کے اثر سے شدھی کی تیز رو میں کچھ رکاوٹ پیدا ہوئی اس سے تین خطرناک نتیجے بھی پیدا ہو گئے ہیں (۱) بہت سے لوگ اس کانفرنس کا حال پڑھ کر سست ہو گئے ہیں بلکہ اس میں شامل ہونے والے بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ سب کچھ کر چکے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ شدھی سینکڑوں کی تعداد میں اب بھی جاری ہے ماده اسی طرح موجود ہے پھرخالی تلوے سہلا دینے سے مرض کس طرح دور ہو سکتی تھی.جو لوگ واپس ہوئے تھے ان میں سے بھی بعض واپس ہونے سے انکاری ہیں اور پھر جنیو پہنے پھر رہے ہیں.(۲) کام کرنے والے لوگوں میں آپس میں اختلاف ہو گیا ہے.صدارت اور بریزیڈ نسی کا جھگڑا ایک لانیخل عُقدہ بن گیا ہے.نام و نمود کا سوال بلاۓ بیدرمان کی طرح پیچھے پڑ رہا ہے.انجمن نمائندگان سے بعض انجمنیں خود جدا ہو چکی ہیں اور بعض کو خود انہوں نے اپنے میں سے الگ کر دیا.(۳) آریہ لوگ ہوشیار ہو گئے ہیں کہ ابھی ملکانہ قوم میں ایک عنصرایسا موجود ہے جو اس تحریک سے پورا متاثر نہیں اس لئے ان کی کوششیں پھر زیرِ سطح چلی گئی ہیں اور اخفاء کی چادر انہوں نے اوڑھ لی ہے.نہ وہ اس قدر نمائش سے کام کرتے ہیں نہ شد ھی کا پورا حال بتاتے ہیں جس طرح پہلے کرتے تھے لیکن ان کی کوششیں آگے سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور وہ اس کام کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ کرنے کی فکر میں ہیں.انہوں نے اس مقصد کی تکمیل کیلئے کل ہندو فرقوں میں اتحاد پیدا کرنے کا سوال نہایت زور سے اٹھادیا ہے اور اس تحریک سے ہرممکن فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں.سناتنی چینی آریہ وغیرہ مسلمانوں میں یہ خطرناک سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ یہ لوگ بنیں گے کیا.سنی بنیں گے شیعہ بنیں گے ' چکڑالوی بنیں گے، احمدی بنیں گے.آخر کیا بنیں گے ؟ مگر آہ کوئی نہیں سوچتا کہ جب تک ان جھگڑوں کا فیصلہ ہوتا رہے گا اس وقت تک یہ قابل رحم لوگ جن پر مسلمانوں کے دست تغافل سے پہلے ہی بہت کچھ ظلم ہو چکا ہے محمد رسول اللہﷺ کو گالیاں دینے والے اور قرآن کریم کی ہتک کرنے والے اور خدائے واحد کے نام پر ہنسی اڑانے والے بن جائیں گے.کیا ان کے لئے اس قدر کافی نہیں کہ وہ مسلم کہلائیں گے اور مالک ارض وسما کی عبودیت کا دم بھریں گے، محمد رسول اللہ کی رسالت کا اقرار کریں گے، احمدی، حنفی،اہل حدیث، شیعہ‘ چکڑالوی نیچری جو کچھ بنیں گے اس سے اچھے رہیں گے جو وہ اب بن رہے ہیں اور جو کچھ وہ بن جائیں گئے اگر جلد ان جھگڑوں کو بالائے طاق نہ رکھ دیا گیا.
۲۱۳ مجھے افسوس آتا ہے کہ اب تک بھی مسلمان اختلاف کے ہوتے ہوئے اتحاد کے مسئلہ کو نہیں سمجھے.میں نے خلافت کے اختلاف کے وقت بڑے زور سے توجہ دلائی تھی کہ ایک حد تک اختلاف کی موجودگی میں بھی متحده اغراض کے لئے اتفاق ہو سکتا ہے.اس وقت میری نہ مانی آخر شیعہ ،احمدی، آغاخانی اور کئی فرق اس تحریک سے الگ رہے اور بعد میں سب کو ماننا پڑا کہ حد سے بڑھا ہوا جوش در حقیقت شیرازہ کو برباد کرنے والا تھا.مگر اب اس معاملہ میں پھر وہی سوال پیدا ہو رہا ہے مگر شکر ہے کہ اس وقت صرف محدود دائرہ اس مرض میں مبتلاء ہے.کثرت سے لوگ جو اسلام کا درد دل میں رکھتے ہیں اس امر کو سمجھ چکے ہیں اور چاروں طرف سے میں آوازیں سنتاہوں کہ اس وقت ایک غرض پر سب کو اکٹھا ہو جانا چاہئے.بعض راجپوت ہماری جماعت سے اپیل کر رہے ہیں کہ خواہ کچھ بنا لو مگر آریہ ہونے سے ان لوگوں کو بچالو.یہ آواز یں ان لوگوں کے دل سے نکل رہی ہیں جو دل میں اخلاص اور تڑپ رکھتے ہیں.لاہور میں ابھی ایک مجلس اس غرض کے لئے انجمن حمایت اسلام کی طرف سے منعقد ہوئی ہے.بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی بلوایا تھا مگر ان کی کو ئی چٹھی مجھے نہیں ملی.اس انجمن میں ایک ریزولیوشن یہ پاس کیا گیا ہے کہ جو دوسروں کو کافر کہیں وہ اس انجمن میں داخل نہ ہو سکیں گئے.مجھے حیرت ہے کہ اس وقت تو یہ سوال تھا کہ جو لوگ مل کر کام نہ کرنا چاہتے ہوں ان کو کس طرح ساتھ ملایا جائے.نہ کہ کن کن لوگوں کو ہم ساتھ نہ ملائیں گے.جس کام کی ابتداء یہ ہے اس کی انتہاء کیا ہو گی.مگر میں حیران ہوں کہ اس انجمن میں پھر ممبر کون ہو گا.کیا سنی علماء اس کے ممبر ہوں گے.وہ تو سب کے سب احمدیوں کو کافر کہتے ہیں ابھی جمعیتہ العلماء کی طرف سے ایک فتوی احمدیوں کے کفر کی نسبت شائع ہوا ہے.لاہوری احمدی جماعت کے ایک ممبرکی نسبت سناگیا ہے کہ اس کی یہ تحریک تھی مگر کیا وہ اس کے ممبر ہو سکتے ہیں.ان کا یہ فتویٰ ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود کو اور احمدی جماعت کو کافر کہتے ہیں وہ کافر ہیں.اور چونکہ اہلِ سنت علماء نے ایسافتوی دیا ہے، اس لئے ان کے عقیدہ کی رو سے کم سے کم ایسے علماء اور انکے متبع کافر ہوئے.پھر ایک ایک مولوی نے دوسرے مولوی پر کفر کافتویٰ دیا ہوا ہے.پس یا تو یہ شرط صرف چند جماعتوں کو الگ کرنے کے لئے اور فتنہ ڈلوانے کے لئے مقرر کی گئی ہے.یا پھر اگر دیانت داری سے اس پر عمل کیا گیا تو اس شرط کے ماتحت اس نوزانیده انجمن کاہی خاتمہ ہو جائے گا اور سب کام اس ایک
۲۱۴ شرط کی تعمیل میں قربان کر دیا جائے گا.غرض کام کو جس ڈھب پر چلایا جا رہا ہے وہ نہایت مضر ہے اور آنے والے خطرہ کو محسوس کر کے میں پھر ایک دفعہ سب اسلام کا درد رکھنے والوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں ان مخمصوں میں نہ پڑو وقت کو ضائع ہونے سے بچاؤ، ورنہ پھر پچھتاؤ گے میں نے آپ لوگوں کو ہجرت کے متعلق مشورہ دیا آپ نے نہ مانا اور مجھے اپناد شمن خيال کیامگر بعد میں پچھتانا پڑا.میں نے کالجوں وغیرہ کے بائیکاٹ سے منع کیا آپ نے اسے بے غیرتی خیال کیا آخر اس تحریک کو نقصان اٹھا کر چھوڑنا پڑا.میں نے غیر ممالک میں وفدبھیجنے کی تجویزبتائی اس کو آپ نے نہ مانا آخر اس کا نقصان اٹھانا پڑا.میں نے حکومت ترکیہ کی حفاظت کی تحریک کا لیڈر مسٹر گاندھی کو بنانے سے منع کیا اور سمجھایا کہ اس میں اسلام کی ہتک ہے اور یہ کہ اس کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندو آپ کو کھا جائیں گے آپ نے اس کو نہ مانا اب آپ اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں.ہر موقع پر آپ نے مجھے اور احمد یہ جماعت کو اپنا دشمن خیال کیا اور اپنی ترقی پر حاسد سمجھا.مگر اے عزیز و اوراے قوم کے رئیسو! میں آپ لوگوں کا دشمن نہیں ہوں.خدا کی قسم آپ کاور و میرے دل میں ہے اور آپ کی محبت میرے سینہ میں.آپ لوگوں کی ہمدردی سے میں بے تاب ہوں ورنہ ایسے پر خطر اوقات میں سب دنیا کو اپنادشمن بنا لینے کی مجھے کیا ضرورت تھی.میں آپ کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس کے حصول کے لئے ہر ایک قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.میں پھر اخلاص اور محبت سے کتابوں کے متفقہ طور پر اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ - اس وقت یہ سوال جانے دیں گے جو راجپوت لوگ بچ جائیں یا جو ہندو مسلمان ہوں وہ آپ کو کیا کہیں گے.اس وقت ایک سوال مد نظر رکھیں کہ وہ خدا اور اس کے رسول کو کیا کہیں گے.یہی وقت آزمائش ہے اس وقت ذاتی عداوتوں کو اس محبوب کے لئے قربان کر دو جو آپ کا تو باپ ہی تھا کافروں کی نسبت بھی اس کے دل میں یہ درد تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لعلک باخع نفسک الا يكونومؤمنین ۲۸ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مختلف فرقوں کے رؤساء نہ معلوم کہ اسی اہمیت کو سمجھیں اور کب اس کے لئے کوئی عملی صورت پیدا کریں میں اپنی طرف سے پیش قدمی کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ ہم اس کام کے لئے ہر اس شخص سے مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور قرآن کریم کو مانتا ہے.ہما را با قاعدہ کام شروع ہے اور ایک تفصیلی نظام کے ماتحت اس کو پھیلایا گیا ہے.اگر کوئی شخص ان شرائط کے ماتحت جو اوپر بتائی گئی ہیں،
۲۱۵ ہمارے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہو تو ہم اس کو ساتھ ملانے کے لئے تیار ہیں.اس وقت کسی سنی سے تو مباحثہ ہونے کا نہیں کہ شیعہ شیعیت کے متعلق وعظ کرے گانہ کسی غیراحمدی سے مقابلہ ہے کہ ایک احمدی وہاں وفات مسیح پر لیکچر دے گا.ہاں بعض سوال ایسے آجاتے ہیں کہ جہاں انسان کو اپنے خیالات کا اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے.آریوں سے بحث میں کسی اسلامی عقیدہ کی تشریح کرنی پڑتی ہے یا ان کے کسی اعتراض کو رد ّکرنا ہو تو اس وقت ہرشخص بےشک اپنے عقیده کاہی اظہار کرے گا اور اس کو اس سے روکنا گویا بد دیانتی سکھاتا ہے.پس ہم اس سے ہرگز نہیں رکیں گے.اگر ایک شیعہ ان کو شیعہ بنادے یا ایک اہل قرآن ان کو اپنا ہم عقیده بنا دے تو ہم ہرگز اس سے اس کو منع نہیں کریں گے.یا ایک حنفی یا اہل حدیث حنفیوں یا اہل حدیث کے خیالات کا اظہار ایسے مواقع پر کرے تو اسے ہرگز برا نہیں منائیں گے.صرف ضرورت اس امرکی ہوگی کہ محدود حلقوں میں انتظام کے ماتحت اپنے جوش کو قابو میں رکھتے ہوئے اخلاص اور ایثار کے ساتھ کام کریں اور جو شخص اس طرح کام کرنے کے لئے تیار ہو ہمارا مرکزی نظام اس کی ہر ایک قسم کی مدد کرے گا.صرف ان شرائط کی پابندی ان سے چائی جائے گی جو اوپر بیان ہو چکی ہیں اور جو احمدیوں کے لئے بھی رکھی گئی ہیں اور جو کسی عقیدہ کے متعلق نہیں ہیں بلکہ مالی اور انتظامی ہیں اور ہر عقلمند تسلیم کرے گا کہ کام کی بہتری کے لئے ضروری ہیں.ہر ایک جو اس طرح کام کرنے کے لئے تیار ہے چاہئے کہ مجھے اطلاع دے اور یہ بھی بتائے کہ کس سہ ماہی میں وہ کام کرنے کے لئے تیار ہے.مناسب ہد ایات سے اس کو مطلع کیا جائے.اے عزیزو ! یہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا وقت نہیں.اپنی غفلت کو چھوڑ دو.اسلام کے احسانات کو یاد کرو اور اپنے مال اور اپنی جان کو اس خطرہ کے دور کرنے کے لئے خرچ کر دو کہ نہ یہ مال انسان کے کام آتا ہے نہ یہ جان کام آتی ہے.کام صرف وہ قربانی آتی ہے جو انسان محض الله کیلئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے.وہی اس دنیا میں کام آتی ہے اور وہی اگلے جہاں میں.میں نے اپنی طرف سے اتحاد کا پیغام دیدیا ہے اب اس کا قبول کرنا یارد کرنا آپ کے اختیار میں ہے اےمختلف اقوام کے روساء اور لیڈ رو! میں آپ کو بھی ہوشیار کرتا ہوں کہ اس وقت لوگوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اگر آپ نے پیش قدمی نہ کی تو آپ یاد رکھیں کہ
۲۱۶ لوگ آپ کا زیادہ انتظار نہیں کریں گے آپ کو اپنے مقام چھوڑنے پڑیں گے اور دل میں درد رکھنے والے لوگ اپنے ایثار کابار ان لوگوں کے سامنے لا کر ڈال دیں گے.جو درحقیقت اس کام کے اہل ہیں اور جو اسلام کو ہر ایک چیزسے زیادہ پیار کرتے اور ہر ایک چیز اس پر قربان کرتے اور قربان کرنے کے لئے تیار رہتے اور اسی میں لذت اور سرور پاتے ہیں.میں اس اعلان کے ذریعہ سے اپنے فرض کو ادا کر چکا ہوں.اب کوئی خواہ اس پیغام کو قبول کرے یانہ،متحدہ کوشش سے کام کرے، یا تفرقہ سے کام کو بگاڑے، ہر قسم کی مدد کے لئے آگے پڑھے یا بز دلی یا بخل سے پیچھے ہٹ جائے، دین کو مقدم کرے یا دنیا کو ،خدا کی رضاکو چاہے، اپنے نفس کے آرام کو ہم تو اسی کام کیلئے پیدا کئے گئے ہیں، اور اسی کام میں لذت محسوس کرتے ہیں.خدا پر ہمارا توکل ہے اور اسی کی ذات پر ہمارا بھروسہ - ہندو قوم کیا چیز ہے اگر سب دنیا بھی پیغام اسلام کے پہنچانے میں ہمارے راستے میں روک ہوگی تو ہم اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں چھوڑے گا اور ہلاک نہیں ہونے دے گا بلکہ مدد کرے گا اور اپنے فضل کو ہمارے لئے نازل کرے گا.اور یہی چیز ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور جس کے بعد ہر ایک چیز حقیر ہو جاتی ہے.واخر دعونا ان الحمد لله رب العلمين خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ۲۳-ارچ ۱۹۲۳ء (الفضل ۲۶-ارچ ۱۹۲۳ء)
۲۱۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم بیس اور احمدی خدّامِ دین کی ضرورت (فرمودہ ۲۴-مارچ ۱۹۲۳ء بوقت بمقام مسجد مبارک قادیان) میں نے اس وقت سب احباب کو خاص طور پر جس ضروری امور کے لئے جمع کیا ہے وہ اس تبلیغ کے متعلق ہے جو مسلمان ملکانا راجپوتوں میں سلسلہ ارتداد کے روکنے کے لئے شروع کی گئی ہے.فتنہ بڑھ رہا ہے میں نے پہلے ہی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰٰ کے احسان اور فضل کے ماتحت یہ فتنہ ہماری تربیت کا موجب ہو گا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ایک قسم کی نہیں ہوتی ہرقسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے جس طرح عبادتوں میں اللہ تعالیٰ ٰنے ہرقسم کی عبادتوں کا حصہ رکھا ہے.اوقات کی قربانی ہوتی ہے جسم کی قربانی ہوتی ہے یہ نماز کی عبادت ہے.روزے کی عبادت میں کھانے پینے مردو عورت کے تعلقات کی قربانی ہوتی ہے حج میں مال ودولت آرام اور وطن کی.پھر قربانیاں کئی قسم کی ہیں.بعض فرائض کے ذریعہ کی جاتی ہیں بعض نوافل کے ذریعہ.فرائض حکم کے ماتحت اور نوافل مرضی کے ماتحت بجالائے جاتے ہیں.یہ ایمان کو سنبھالنے والی چیزہے.جب تک نوافل کی قربانی نہ ادا کی جائے اس وقت تک ایمان کی تکمیل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں مرضی کا دخل ہے.اور جب تک نوافل ادا نہ ہوں مرضی کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ فرائض کی ادائیگی عادت کے ماتحت بھی ہو سکتی ہے.لوگ پنجوقتہ نماز پڑھتے ہیں اگر وہ دوسرے اوقات میں نماز نہیں پڑھتے تو ان کے شوق کا اظہار نہیں ہو سکتا بلکہ اس سے محض رسم و عادت کا گمان ہو گا.اگر کوئی شخص محض ایک مہینہ کے روزے رکھتا ہے اور باقی سال میں اور روزے کبھی نہیں رکھتا تو وہ بھی قربانی اور عبادت کا شائق نہیں معلوم ہوا.اگر صرف زکوٰۃدیتا ہے ار صدقہ نہیں کرتا تو اس کو محض عادت سمجھا جائے گا.اگر ایک شخص توفیق ہونے اور صحت اور امنِ راہ کے ہوتے ہوئے صرف ایک ہی حج کرتا ہے اور پھر اس کے دل میں شوق نہیں ہوتا کہ وہ حج ادا کرے تو اس کا حج عات یا اثرات کا نتیجہ خیال کیا جائے گا.اسی طرح مالی قربانی بھی ہے.لوگ قربانی کرتے ہیں مگر فرائض
۲۱۸ کے طور پر اگر وہ دوسرے اوقات میں اور دوسری دینی ضروریات کے وقت قربانی نہیں کرتے تو اس کی زیادہ قدر نہیں ہوگی بلکہ سمجھا جائے گا کہ یہ قربانیاں جو کرتے ہیں رسماً کرتے ہیں.حقیقی قربانی اسی وقت ہو گی جو ہردینی ضرورت کے وقت کی جائے اور دل کے شوق اور جوش کے ساتھ کی جائے اور جس کے کرنے کی دل میں ایک لہر پیدا ہو.پس ایمان کی تکمیل کے لئے نوافل کی ضرورت ہے آگے نوافل بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.جس میں سے ایک ہی ہیں جس کو فرض کفایہ کہاجاتا ہے.یہ ایک لحاظ سے نفل ہوتے ہیں ایک لحاظ سے فرض.فرض کفایہ نفل اور فرض سے مرکب ہوتا ہے.فرض قوم کے لحاظ سے کہ اگر کوئی نہ کرنے تو ساری قوم گنہگار اور نفل ہوتا ہے افراد کے لحاظ سے کہ قوم کا کوئی فرد کرے تو ساری قوم کاکام سمجھا جائے گا.مگر فرض کفایہ کی ادائیگی میں کئی لوگ غافل ہو جاتے ہیں.مثلاً بغیرنام لئے کے کہا جائے کوئی پانی لاؤ تو ممکن ہے کوئی ایک بھی نہ جائے اور اگر نام لے کر کہا جائے کہ فلاں ستون اٹھالا تو وہ شخص ستون اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے گا.جب عام بات ہو تو بعض أوقات اس خیال کے ماتحت سب ہی لوگ خاموش بیٹھے رہتے ہیں کہ دوسرا چلا جائے گا.یہی وقت ہوتا ہے کہ اس خیال کو چھوڑا جائے اور ہر شخص اپنے آپ کو اس آواز کا مخاطب سمجھے تب قربانی ہوتی ہے اور ہر شخص اس میں حصہ لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا سامان کیا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اسلام کی اشاعت ہویہ وقت ہے کہ ہماری جماعت خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھے، اب تک ہماری جماعت نے جو قربانی کی تھی وہ مالی قربانی تھی.مگر تبلیغ کے لئے اوقات کی قربانی پورے طور پر نہ ہوئی تھی.اب اسلام ہرقسم کی قربانیاں چاہتا ہے.اب ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس آواز کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھے.میرا خیال ہے کہ اب ہمیشہ جماعت پر چندہ مال کی طرح چنده اوقات تبلیغ کے لئے مقرر کیا جائے.اور جماعت کا چالیسواں حصہ ہمیشہ تبلیغ میں لگا ہے.مگر یہ آئندہ کی بات ہے سردست میرے پاس دو سو درخواستیں مسلمان ملکانہ راجپوتوں کو ارتدادسے بچانے کا کام کرنے کے لئے پہنچ چکی ہیں.آج ہمیں وہاں سے تار پہنچاہے انہوں نے فوراً بیس آدمی طلب کئے ہیں.پچیس وہاں پہلے جا چکے ہیں.اگر وہ چاہیں تو سوآدمی بھی ہم سے طلب کر سکتے ہیں اور نہیں معلوم اس پہلی سہ ماہی میں وہ کتنی دفعہ اور بیس بیس آدمیوں کا مطالبہ کریں گے.یہ کام نہیں ہوسکتا جبتک سب آدمی
۲۱۹ اس کام کے لئے تیار نہ ہو جائیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کے مطالبہ سے زیادہ آدمی اس وقت وہاں جانے کو تیار ہوں گے وقت اتنا نہیں ہے کہ ہم باہر والوں سے خطاب کریں.ابھی تک باہر سے درخواستیں آئی بھی کم ہیں.کیونکہ ابھی تک باہر میرے اعلان کی اشاعت کم ہوئی ہے.ہم پر اللہ تعالیٰٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایک نبی کا زمانہ دیا.بڑے بڑے بزرگ ہوئے ہیں مگر ایک احمدی کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے ایک نبی کا چہرہ دیکھا ہے.حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانیؒ اپنے تقوی وطہارت سے ایک احمدی سے افضل ہیں مگر ایک پرانے احمدی کو چو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے ایک نبی کو دیکھا ہے یہ ان پر اس کو فضیلت حاصل ہے.یہ ایک مستقل فضیلت ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے بعد بزرگوں سے افضل ہیں.ممبران وفد ثانی کے اسماء پس مجھے ایسے بیس آدمیوں کی ضرورت ہے خواہ انہوں نے اب تک نام لکھوایا ہو خواہ نہ لکھوایا ہو وہ اب اپنے نام پیش کریں جو آج عصر کی نماز کے بعد قادیان سے روانہ ہو جائیں.وقت جو گذر جائے پھر نہیں آتا ممکن ہے ایک رات جو غفلت کی ہو وہی زنگ لگادے.پس چاہئے کہ وہ شام سے پہلے پہلے چلے جائیں جو شام سے پہلے جاسکتے ہیں.وہ بولیں.اس پر ۱۱۹ درخواستین پیش ہوئیں.مگر جن احباب کو منتخب کیا گیا ان کے اسماء حسب ذیل ہیں:.۱.حضرت مولوی شیخ عبدالرحیم صاحب(سابق سردار جگت سنگھ دفعدار) اتالیق صاحبزادگان حضرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کو ٹلہ قادیان دارالامان.امیروفد ۲.جناب مولوی چوہدری عبدالسلام خان صاحب فاضل ہندولٹریچر کاٹھ گڑھی.٣.جناب منشی غلام نبی صاحب ایڈیٹر اخبار الفضل (حوالدارٹریٹوریل فورس) ۴- جناب مولوی عبد الصمد صاحب پٹیالوی مصنف"نہہ کلنک او تار‘‘ ۵.مولوی ظل ّ الرحمن صاحب بنگالی مہاجر ۶.مولوی محمد امین صاحب تاجر کتب قاریان مہاجر ۷..مولوی رحمت علی صاحب بنگالی مہاجر ۸- مفتی عبد القادر صاحب کپور تھلوی مہاجر
۲۲۰ ۹.منشی محمد دین صاحب ملتانی- مہاجر ۱۰.میاں محمد دین صاحب زرگر مہاجر قادیان ۱۱.میاں محمد شفیع صاحب زرگر مہاجر قادیان ۱۲.چوہدری نثار احمد صاحب سٹیری کویسٹ (لارنس نائک ٹیٹوریل فورس) ۱۳- ہادی علی خاں صاحب نائک (ٹریٹوریل فورس) برادر زادہ میسرز محمد علی شوکت على ۱۴- شیخ محمد ابراہیم علی صاحب پسرجناب شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم ۱۵- محمداعجازالحق خاں صاحب سب اوور سیئر پسرڈاکٹر محمد طفیل خاں صاحب بٹالوی ۱۶- میاں غلام محمد صاحب ڈنگوی مہاجر ۱۷.میاں عبداللہ صاحب کشمیری دوکاندار قادیان ۱۸- چوہدری محمد حسین صاحب چوہدری والہ ۱۹.منشی محمد عامل صاحب بھاگلپوری مہاجر ۲۰- میاں محمد الدین صاحب مسافر برادر جناب ماسٹر خیر الدین صاحب پی.ایس.سی ۲۱- ایوب خاں صاحب ۲۲- سید عزیز الرحمان صاحب بریلوی مہاجر یہ فہرست سنانے کے بعد فرمایا میں دعا کرتا ہوں ان کے لئے جو جائیں گے اور ان کے لئے بھی جنہوں نے پیش کیا ،مگرجا نہیں سکتے ان کی نیت کا بدلہ اللہ ان کو دے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں جو ہر ایک وادی میں جہاں سے تم گزرتے ہو تمہارے ساتھ ہوتے ہیں اور ہر ایک حال میں تمہارے ساتھ رہتے ہیں صحابہ نے عرض کیا حضور وہ کون ہیں.فرمایا یہ تمہارے وہ بھائی ہیں جو کسی عذر کی وجہ سے نہیں جاسکے \" پس ان بھائیوں کے لئے جن کے دل میں ہے کہ جائیں مگر جا نہیں سکتے خواہ ان کو ابھی بھیجا نہیں جانا یا ان کو عذرات ہیں وہ دعا کے مستحق ہیں.اب جانے کا موقع ہے سب کو تیار ہونا ہے پھر فرمایا یہ نبیس * آدمی ہیں جو عصر کی نماز کے بعد رخصت ہوں گے سب کے لئے جو جا رہے ہیں جو وہاں ہیں یا جو جانے کو تیار ہیں دعا کی جائے.بھائی عبدالرحیم صاحب آگرہ تک وفد کے امیر ہوں گے اور وہاں جا کر چوہدری صاحب کے سپرد کریں گے اب بھی دعا کرتا ہوں اور عصر کے بعد دعا کروں گا.(الفضل ۲۹- مارچ ۱۹۲۳ء) *پہلے ہمیں آدمی ہی بھیجنے کی تجویز تھی پھر بائیس کو تیار کرنے کا حکم دیا گیا اور بائیس ہی روانہ ہوئے.
۲۲۱ بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم دشمن کی شرارت کا مقابلہ نہ کروماریں کھاؤ اورہاتھ نہ اٹھاو ۲۴ -مارچ ۱۹۲۳ء کو جو دو سرا وفد علاقہ ارتداد کی طرف روانہ ہوا اس کو رخصت کرتے ہوئے موڑ پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : کہتے ہیں کہ جب خد ادیتاہے تب دیتاہے چھپڑر پھاڑ کر انسان کوشش کرتا ہے مگر اس کو کچھ نہیں ملتا مگر جب اللہ تعالیٰ ٰدیتا ہے تو اپنے فضل سے چھپر چھاڑ کر دیتا ہے.ابھی میں نے جب سورہ فاتحہ کی تلاوت کی تو میرے دل میں ڈالا گیا کہ تم ہی مستحق ہو جو کہو کہ الحمدللہ رب العلمين ۳۰ جو لوگ آج سے پہلے ہمیں کہتے تھے کہ تم جہاد کے منکر ہو وہ جہادسے محروم ہیں اور اللہ تعالیٰٰ نے ہمیں جہاد کا موقع دیدیا - وہ خدا کو ناراض کر کے جہاد کرنا چاہتے تھے محروم رہے ہم خداکے لئے اس جہاد کے منکر تھے جس کے وہ قائل تھے ہمیں اللہ نے موقع دیا.اگر لوگوں کو زبردستی مارنا اور تلوار کا استعمال کرنا اسلام میں جائز ہوتا اور اس سے خدا خوش ہوتا تو میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ ہمیں اپنی جان کی کچھ بھی پرواہ نہ ہوتی اور اگر سچائی کے خلاف ظالمانہ عمل خدا کو نعوذ باللہ پسند ہوتا تو ہم ضرور کرتے.مگر ہمارے خدا کو یہ پسند نہ تھا اس لئے ہم وہ کرتے تھے.ہاں اب ہمیں اس قسم کے جہاد کا موقع دیا گیا ہے کہ خدا کے دین کی حفاظت کی کوشش کریں اور وعظ و نصیحت سے دین پھیلائیں.جو لوگ اس کام کے لئے جاتے ہیں اور ان کو اس خدمت کا موقع ملا ہے وہ خوش قسمت ہیں.یہ مت سمجھو کہ تم کسی خطرے میں جاتے ہو.یا تم پر کوئی بوجھ ڈالا گیا ہے یا تم کوئی قربانی کرتے ہو یہ اللہ ہی کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں یہ موقع دیا ہے اور ایسے مواقع خوش قسمتی سے نصیب ہوتے ہیں.جن کے دل میں یہ خواہش ہے وہ خوش نصیب ہوتے ہیں.ہم سے جو کام ہوتا ہے اس میں ہماری برائی نہیں یہ اللہ کا فضل ہے.آج وہ بھی تو لوگ ہیں جن کو حکومت کی
۲۲۲ اور لیڈری کی فکر ہے.ہم بھی ان میں سے ہیں ان کے بھائی بند ہیں رشتہ دار ہیں.ان کے دلوں میں یہ بات نہیں جو تمہارے دلوں میں ہے.ہم اللہ کے فضل ہیں جنہوں نے ہمیں کو نواز دیا ورنہ ہم بھی وہی ہیں جو دو ہیں.پس خدا کے حضور دعائیں کرتے ہوئے اخلا ص کے ساتھ اس کام کے لئے جاؤ یہ موقعے ہر روز نہیں مل گئے.میں نے پہلے بھی کہا ہے اب پھرکہتا ہوں کے افسروں کی اطاعت کرنا خواہ کیسے سخت احکام ہوں اور تکلیف ہو- ایک صحابی کو رسول کریم ﷺنے ایک جگہ بھیجا انہوں نے وہاں جا کر کہا کہ میں جو حکم دوں گا وہ کر نا ہو گا.جہاں جہاں جوافسر ہوں ان کی اطاعت ضروری ہے.بھائی جی حضرت مولوی شیخ عبدالرحیم صاحب) راستہ میں امیر ہیں.راستہ میں ہر ایک کام ان کے حکم کے ماتحت کرو.وہاں چوہدری صاحب ہیں.اور پھر ضرورت کے مطابق جس کو وہ مناسب سمجھیں گے افسر اور ماتحت بنائیں گے.تمہارا فرض ہو گا ہر ایک افسرکی اطاعت کرو.اس افسرکے حکم کو میرا حکم سمجھو اور میرا عحکم خدا کا حکم جو کیونکہ میں جو کچھ کہتا ہوں خدا کے دین کی خدمت کے لئے کہتا ہوں اپنے نفس کیلئے نہیں کہتا.پس افسروں کی پوری اطاعت کرو.جوشوں کو قابو میں رکھو.اگر تمہارے راستہ میں تکالیف آئیں تو نہ گھبرؤد.تمہیں مخالف ماریں یا جو چاہیں تکلیف پر تکلیف دیں تم مبر سے کام لو کہ اسی میں تمہاری فتح ہے دشمن کی سختی کا نرمی سے جواب دو - ہمارے دل میں قانون کا ادب ہے اگر وہ لوگ فساد کریں گے تو ممکن ہے حکام کو دخل دینا پڑے.اور پھر ہمارے لئے دقّت ہو.ان لوگوں کیلئے دقّت نہیں کیونکہ وہ وہاں کے رہنے والے ہیں ان کی آبادی وہاں ۸۰ فیصدی ہے.پس اگر وہاں فتنہ فساد ہو تو آریوں کے حق میں مفید ہو گا ان کے آدمی وہیں کے ہیں وہیں رہیں گے اس لئے تم مار یں کھاؤ صبر کرو.تم ماریں خدا کیلئے کھاؤ اور جواب نہ دو پھر خدا تمہاری مدد کرے گا.یہ چیز ہے جس سے فتح ہوتی ہے.روس کے ایک بادشاہ نے دربان کو حکم دیا کہ کسی کو اندر نہ آنے دو.ایک امیر جو بہت بڑا عہدہ رکھتا تھا آیا اور اس نے اندر جانا چاہا دربان نے اسے روکا کہ بادشاہ کی طرف سے داخلہ کی ممانعت ہے.اس نے کہا تم مجھے جانتے ہو میں کون ہوں.دربان نے جواب دیا ہاں میں جانتا ہوں آپ فلاں ڈیوگ ہیں.اس نے کہا کہ پھر کیوں روکتے ہو.اس نے جواب دیا اس لئے کہ بادشاہ کا حکم ہے.ڈیوک نے اس کو مارنا شروع کیا.وہ مار کھاتا رہا مار کر کہا ہٹ جاو - وہ ہٹ گیا.ڈیوک داخل ہونے لگا وہ دروازہ میں کھڑا ہوگیا.ڈیوک نے پھر مارنا شروع کیا.غرض تین چار دفعہ ایسا ہوا - بادشاہ نے
۲۲۳ یہ سب ماجرا دیکھا آخر کہا کہ یہ کیا ہے.ڈیوک نے غصہ سے بادشاہ کو کہا کہ دوران مجھ کو اندر آنے سے روکتا ہے.بادشاہ نے اس سے پوچھا تم جانتے ہو یہ کون ہے جواب دیا ہاں.پو چھا تم نے روکا عرض کیا ہاں کیوں روکا اس لئے کہ حضور کا علم تھا اور بادشاہ کا علم سب سے بڑا ہے.بادشاہ نے.ڈیوک سے پوچھا اس نے کہا تھا کہ میں بادشاہ کے حکم سے روکتا ہوں اس نے جواب دیا کہ ہاں.بادشاہ نے کہا ٹلسٹائے تم اس کو مارو.ڈیوک نے کہا یہ نہیں مار سکتا.کیونکہ مجھے فلاں فوجی عہده.حاصل ہے.بادشاہ نے اس کو وہ عہده دیدیا - اور کہامارو.اس نے کہا کہ میں نو اب ہوں.محض ایک عہدیدار مجھے نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا.کونٹ ٹلسٹاۓ اسے مارو.غرض اگر ایک دربان بادشاہ کا حکم ماننے کے باعث تھوڑی دیر مار کھانے سے معمولی دربان سے امیر اور نواب بن سکتا ہے تو کیا اگر ہم خدا کے لئے کوڑے کھائیں اور دشمنوں سے دکھ دیئے جائیں اور پھر مقابلہ نہ کریں تو خدا ہمیں اجر نہیں دے گا ضرور دے گا.پس ماریں کھاؤ اور مارنے والوں کے لئے دعائیں کروسختی کا جواب سختی سے نہ دو کہ یہ ہمارے اغراض کے منافی ہے.لوگوں میں روحانیت اور محبت سے اشاعت کرو، اللہ پر بھروسہ کرو' دعائیں کرو-دعا ستخاره داخلہ شہرمیں پہلے بتا چکا ہوں.بھائی جی لکھ دیں گے جن کو یاد نہیں.اس دعا کا مفہوم یہ ہے.کہ اے خدا جو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا رب ہے اور ان کا جو ان کے نیچے اور اوپر ہیں.ہمیں یہاں کے شہروں اور فتنوں سے بچا.یہاں نیکوں کی محبت ہمارے دل میں ڈال.اور ہماری محبت ان کے دل میں ڈال.یہاں کی برکتوں سے ہمیں حصہ ہے.یہ مبارک اور جامع دعا ہے.جس کا بارہا تجربہ ہوا.یہ دعانہایت مفید ہے اس لئے اس دعاکو خاص طور پر پڑھا کرو.جب شہر میں داخل ہو.علاوہ اپنے کام کے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کرو جو دیگر ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں اور ان کے لئے جو کسی مجبوری کے باعث فی الحال نہیں جا سکے.جو کمزور ہیں اللہ تعالیٰ ٰان کی کمزوریاں دور کرے.قاعدہ ہے کہ جب عزیز جد ا ہوں تو تحفہ دیا جاتا ہے.میں نے سوچا کہ کیا تحفہ ہونا چاہئے.میرے خاندان کے لوگوں نے ۴۳روپے بطور صدقہ دیئے ہیں جو راستہ میں رات بھی کئے جائیں اور وہاں کی بعض خاص دینی ضروریات میں بھی صرف کئے جائیں اس پر موجودہ احباب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں حصہ لیا.یہ رقم دو سو روپیہ کے قریب ہو گئی جو امیروفد کے سپرد کر دی گئی.بعد میں حضور نے دعا فرمائی.(الفضل ۲-اپریل ۱۹۲۳ء)
۲۲۴ تحریک شدھی ملکانا بسم الله الرحمن الرجيم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکريم نمائندگان مجلس مشاورت سے خطاب (فرموده یکم اپریل ۱۹۲۳ء) میرے خطبے اور تقریروں میں یہ بات آ چکی ہے کہ اس فتنے کی صورت میں خدا نے اپنے سلسلہ کے لئے سامان پیدا کیا ہے.جب تک خدا کی سلسلوں کی ترقی کے لئے عام اور غیر معمولی حالات نہ ہوں اس وقت تک جماعت ترقی نہیں کرسکتی.رسول کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے وہ اسلام جو عام حالات میں چار سو سال میں پھیلتا اس نے ہجرت کے بعد بہت ترقی کی.عرب میں اس واقعہ نے ایک آگ سی لگا دی.مکے والوں نے کہا کہ مدینہ جائیں اور وہاں مسلمانوں کو خراب کریں وہ چڑھ کر آئے اور ان کو شکست ہوئی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکے والوں کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ملک والوں کو ملائیں.وہ لوگ عرب میں پھیل گئے اور انہوں نے اسلام کے مٹانے کے لئے پورے سامان کئے پہلے باقی عرب کے لوگ اس کو گھر کی لڑائی خیال کرتے تھے لیکن جب مدینہ پر چڑھ کر آنے سے مکے والوں کو شکست ہوئی تو ان کو اورادھر توجہ ہو گی اور وہ مکے والوں کے ساتھ متفق ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور اس طرح اسلام ان کے گھروں میں گھس گیا.پھر رسول کریم ﷺکے بعد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓکے زمانہ میں بیرونی سلطنتوں یعنی ایرانیوں اور رومیوں نے کہا کہ مسلمانوں پر حملہ کریں اور مسلمانوں کو عرب کی زمین سے مٹا دیں.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دل میں ڈالا کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے اپنے وطنوں سے نکلیں چنانچہ ایرانیوں اور رومیوں کے حملوں کو دیکھ کر مجبور اًان کے مقابلہ کے لئے نکلنا پڑا.یہ اللہ تعالیٰ ٰکی ایک تدبیر تھی.مسلمان جو اپنے گھروں سے اپنے قوی دشمن سے جان بچانے کے لئے نکلے تھے دشمن پر فاتح ہوئے اور دشمن کے ملک ان کے ملک ہو گئے یہ ایک تدبیر تھی جس سے اللہ تعالیٰٰ چاہتا تھا کہ مسلمان دنیا کو فتح کریں.آج ہمارے لئے ان غیر معمولی سامانوں سے بعض پیدا کئے گئے ہیں.ہندو تبلیغ کرتے ہیں اور انہوں نے ہزاروں مکانوں کو شدہ کر لیا ہے.ایسے خطرناک اور روح فرسا حالات ہیں کہ ان
۲۲۵ سے روح کا نتی ہے اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کے عام مسلمان اس فرض سے غافل ہیں.لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ اس وقت کیا کریں کس طرح کریں اور ان کا فرض کیا ہے.میں نے تاریخ میں ایک واقعہ پڑھا تھا.جس وقت وہ مجھے یاد آتا ہے تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک دفعہ عیسائیوں نے مسلمانوں کی سرحد پر چھاپہ مارا اور ایک عورت کے رشتہ داروں کو پکڑ کر لے گئے اس وقت اس عورت نے مسلمان بادشاہ کا نام لیا اور کہا کہ وہ کہاں ہے اگر مسلمان اس طرح اس ملک میں غیر محفوظ ہیں تو وہ کیا کرتا ہے.ایک مسلمان نے یہ پیغام سنا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچادیا.گو اس وقت مسلمانوں کی سلطنت کمزور ہو رہی تھی مگر ان میں ایمان باقی تھا.بادشاہ نے جونہی اس عورت کا پیغام سنااس نے تلور را ٹھالی اور لبیک لبیک کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور وہ پہنچا اور اس عورت کے رشتہ داروں کو چھڑالیا.جب ایک عورت کے لئے جو کلمہ پڑھتی تھی ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے جسم کو ہلاکت سے بچائے تو جب ہم یہ دیکھیں کہ محمدؐ رسول اللہ کو ماننے والوں کی رو حیں ہلاکت کی طرف لے جائی جارہی ہیں اس وقت ہماری ذمہ داری کتنی بڑھ جاتی ہے.کیا ہم اس لئے پیچھے رہیں گے کہ وہ غیر احمدی ہیں.کیا ہم اس لئے ان کو ارتداد سے بچانے نہ جائیں گے کہ ان کے مولوی ہمیں کافر اور ہمارے آقامسیح موعود کو دجال کہتے اور ہمیں ہر ایک کا نقصان جو وہ پہنچا سکتے ہوں‘ پہنچانا عین ثواب خیال کرتے ہیں ،ہرگز نہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم اشاعت اسلام کے لئے کھڑے ہوں اور اس راہ میں جو بھی قربانی کرنی پڑے وہ کریں.نہ صرف ان مسلمانوں کو ارتدارسے بچائیں بلکہ ان کو بھی اسلام میں لائیں جو ان کو اسلام سے چھین کر لے جانے کے درپے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ضرب ہے.اس سے مسلمانوں کو بیدار ہونا چاہئے.ہم کو چاہئے کہ ملکانوں کو ارتداد سے بچائیں اور ہندوؤں کو اسلام میں داخل کریں اب ہماری جماعت کے اخلاص و کھانے کا موقع ہے.اب تک ہمیں جان قربان کرنے کے موقع نہیں ملے تھے مگر اب یہ دروازے کھل گئے ہیں.ان پر افسوس ہو گاجو داخل نہ ہوں.خدا کی طرف سے ایک دفعہ دروازے کھلا کرتے ہیں جو انکار کر دیں وہ محروم ہو جایا کرتے ہیں.حضرت موسیٰؑ کی قوم کے لئے اللہ تعالیٰ ٰنے الہام کا دروازہ کھولا مگروہ لوگ ابتلاؤں سے ڈر گئے اس لئے ان کو الہام سے محروم
۲۲۶ کر دیا گیا.خدا نے کلام کا پہاڑ پر زلزلہ آیا وہ ڈر گئے حالانکہ نعمتیں مشکلات ہی کے بعد ملا کرتی ہیں.ایک بیر کاٹنے کے بغیر نہیں ملتا گلاب کا پھول ملتا ہے مگر ہاتھ میں جب کانٹاچبھ چکے.جب یہ ادنی ٰچیزیں بھی مشکلات کے بعد ملتی ہیں تو خدا کس طرح آرام سے مل سکتاہے.پس جو خد اسے ملنا چاہتا ہے اس کو کانٹوں کی نہیں تلواروں کے زخموں کی برداشت پیدا کرنی چاہئے.جو خدا کو چاہتا ہے وہ تلوار کے گھاؤکھانے کے لئے تیار ہو وہ جان دینے کے لئے تیار ہو.فی الحال تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنے کا مطالبہ ہے ممکن ہے کہ ان سے اس سے زیادہ وقت کی قربانی کا مطالبہ کیا جائے.وہ جنہوں نے پچاس ہزار دینا ہے ممکن ہے کہ وقت پر ان کو وہ سب کچھ دینا پڑے جو ان کے پاس ہو.لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم کیا دیں گے اپنا کچھ بھی نہیں ہو گا جو ہو گاخد ا کا ہو گا.ہم بیعت کے وقت اقرار کر چکے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اس لئے اگر ضرورت ہوئی تو سب کچھ دیں گے اوراب امتحان کا وقت ہمارے سامنے صرف ملکانوں کا سوال نہیں سارے ہندوستان کو مسلمان بنا لینے کا سوال ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا الہام ہے.ہے کرشن رودر گوپال تیری مہماگیتامیں لکھی ہے گیتا میں آپ کا ذکراسی لئے تھا کہ آپ کے ذریعہ ہندووں میں تبلیغ اسلام خدا نے تین ہزار سال پہلے ہمارا فرض ٹھہرادیا ہے کہ ہم ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کریں.ہمیں اس وقت تک ہندوستان میں کام کرنا ہے جب تک تمام ہندوستان میں متحدہ طور پر یہ آواز بلند نہ ہو : ”غلام احمد کی جے۳۲-۴ اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک ہندو اقوام بحیثیت جماعت کے اسلام میں داخل نہ ہوں.اگر ہم ساری دنیا کو بھی مسلمان بنا لیتے اور اس طرف توجہ نہ کرتے تو ہمارا فرض ادا نہ ہوتا.پس وقت ہے کہ جو لوگ جس قدر قربانی کر سکتے ہیں کریں اور تیار رہیں کہ ابھی ان کو اور بھی خدمت اور قربانی کے مواقع ملیں گے.اسلام پر یہ نازک وقت ہے یہ ہنسی کا وقت نہیں جس طرح ماں مرجاتی ہے اور نادان بچہ اس کے منہ پر طمانچہ مارتا ہے کہ ماں اٹھ تو کیوں مخول کرتی ہے اگر اس کو معلوم ہو کہ ماں مخول نہیں کرتی بلکہ مرگئی ہے تو اس کا کیا حال ہو گا تم خود سمجھ لو اسی طرح اسلام پر دشمن کا جو حملہ ہے اگر اس کو پورے طور پر سمجھ لیا جائے تو کوئی قربانی اس کے انسداد کے لئے مسلمان اٹھا نہ رکھیں.پس وقت ہے کہ کام کیا جائے میں جانتا ہوں کہ ہمارے لوگوں میں جتنا اخلا ص ہے اتنا علم نہیں.جب تک دوسروں کو اس خطرہ کی اہمیت کا علم نہ دیا جائے وہ قربانی کے لئے تیار نہیں ہو سکتے.پس جو یہاں موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ اپنے اپنے مقامات پر جائیں اور جماعتوں کو اس فتنہ کی اہمیت سے آگاہ کریں اور
۲۲۷ دیگر مسلمانوں کو بھی بتائیں.اس وقت جو رقم چندہ کی رکھی گئی ہے و اقل سو روپیہ ہے.جن لوگوں کو خدا نے سودیا ہے وہ سودیں اور جن کے پاس زیادہ ہے وہ زیادہ دیں اس معاملہ کی اہمیت کو سمجھیں اور پھر جس قد ر کی خد ا نکو توفیق دے وہ دیں.(الفصل ۱۶- اپریل ۱۹۲۳ء)
۲۲۸ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنے ہمسایہ ہندوؤں کو تبلیغ اسلام کریں میں اس کام میں ہر طرح کی مدد دینے کے لئے تیار ہوں (تحریر فرموده حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ۴- اپریل ۱۹۲۳ء) اس وقت پوپی میں جو راجپوتوں کے ارتداد کا سلسلہ شروع ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس نے مسلمانوں کی آنکھوں پر سے پردہ اٹھادیا ہے اور دو باتیں ان پر خوب اچھی طرح روشن ہو گئی ہیں.اول یہ کہ وہ اپنی حالت پر بلاوجہ اور بلا سبب خوش اور مطمئن تھے حالانکہ ایک کمزور سے کمزور دشمن ان کی غفلت اور دین سے بے پروائی سے فائدہ اٹھا کر ان کے گھروں کی دیواروں میں سیندھ لگا رہا تھا.دوم یہ کہ تبلیغ اسلام کے فرض سے جو سب فرائض سے اہم تھاوہ بالکل غافل رہے ہیں اور ان کو جلد اس فرض کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اگر میری یہ رائے درست ہے تو ہمیں اس فتنہ پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے سوتوں کو جگایا اور اس فتنہ کو اس شعر کامصداق سمجھنا چاہئے کہ ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آں گنج کرم بنہاده اند ملکانا راجپوتوں کی اصلاح کا کام بےشک کہ ایک اہم کام ہے اور جس قدر بھی اس کی طرف توجہ کی جاوے کم ہے لیکن سب کے سب لوگ نہ اس کام کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے ہیں اورنہ سب چھوڑیں گے.اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اس امر کو کافی سمجھیں گے کہ انہوں نے اس
۲۲۹ فعل سے ہمدردی ظاہر کر دی ہے.یا یہ کہ کچھ ر قم اس کام میں بطور چندہ کے دید ی ہے.یقیناً اگر وہ ایسا کریں گے تو اپنے عمل سے ثابت کر دیں گے کہ ان کو اسلام سے کچھ بھی ہمدردی نہیں ہے اور وہ اس کے دکھ کو اپنا دکھ خیال نہیں کرتے اور اس کی ترقی ان کے نزدیک ان کی ترقی نہیں ہے.صرف اس صورت میں ان کا جوش حقیقی جوش کہلا سکتا ہے اور ان کے ایمان کا ثبوت مل سکتا ہے اگر وہ اس سے بڑھ کر تبلیغ اسلام میں حصہ لیں اور ثابت کر سکیں کہ ان کے دل میں اسلام کی محبت پانی کے اوبال کی طرح جوش نہیں مارتی بلکہ ایک پہاڑ کی طرح راسخ ہے.بہت سے لوگ حیران ہوں گے کہ اس بات کے حصول کا کیا طریق ہو سکتا ہے لیکن میں ان کو بتاتا ہوں کہ یہ بات بالکل سہل ہے اور وہ اس طرح کہ ہندؤمذہب کا فتنہ صرف یو پی کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ اگر مسلمان آنکھیں کھولیں اور دیکھیں تو ہندو ان کی دیوار بدیوار ہندوستان کے ہر صوبہ میں بس رہے ہیں.اور جس طرح ہمارا یہ فرض ہے کہ یو.پی کے راجپوتوں کو ارتداد سے بچائیں اسی طرح ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہر ایک شخص ہندوؤں کو خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں مسلمان بنائے.پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اگر وہ تبلیغ اسلام کے لئے راجپوتانہ نہیں جاسکتا.تو اپنے شہر کے ایک یا ایک سے زیادہ ہندوؤں کو چُن لے اور ان کو اسلام کی طرف لانے کی کوشش کرے.اسلام ہمیشہ تبلیغ کے ذریعہ سے پھیلاہےاور ہمارا ذاتی تجربہ ہے اب بھی اس کی یہ طاقت اسی طرح محفوظ ہے جس طرح پہلے تھی.پس اس امر سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کہ یہ کام کس طرح ہو گا.استقلال اور صحیح ذرائع کے استعمال سے یہ کام بخوبی ہو سکتا ہے اور جو اس کام کو شروع کریں گے وہ دیکھ لیں گے کہ یہ کام ذرا بھی مشکل نہیں.اب ایک سوال رہ جا تا ہے اور وہ یہ کہ مسلمان عام طور پر نہ تو اسلام سے ہی واقف ہیں کہ ہندوؤں کے اعتراض کا جواب دے سکیں اور نہ ہندوؤں اور خصوصاً آریوں کے لڑ یچرسے واقف ہیں کہ ان کے سامنے ان کے مذہب کے نقص ظاہر کر سکیں پس وہ تبلیغ کیونکر کریں اور کسی طرح ہندوؤں پر ان کے مذہب کی کمزوری اور اسلام کی برتری ثابت کریں.اس سوال کا حل میں نے یہ سوچا ہے کہ میں چند ایسے علماء کو جو ان دونوں پہلوؤں سے خوب اچھی طرح واقف ہیں مقرر کر دوں جو تمام ایسے شہروں اور قصبات میں جہاں کے لوگ اس کام کے لئے تیار ہوں جا کر ان دونوں مضمونوں کے متعلق لوگوں کو خوب اچھی طرح واقف کرا دیں.یہ لوگ تمام ضروری کتب ساتھ لے کر جاویں گے اور ایک جلسہ کرکے بطور لیکچر کے نہیں بلکہ بطوردرس کے
۲۳۰ ضروری مضامین بقید نام کتاب و مطیع و صفحہ سامعین کو نوٹ کرا ویں گے جو بعد میں ان نوٹوں کی مدد سے باآسانی ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کر سکیں گے.یہ بات ایک تعلی نہیں بلکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ اس کام کو جس طرح ہمارے علماء کرسکتے ہیں دوسرے لوگ نہیں کرسکتے.پس دوسرے مذاہب کے نقائص ظاہر کرنے اور اسلام کی خوبیوں کے اظہار کے لئے اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا کہ احمدی علماء سے ان دونوں امور کے متعلق معلومات حاصل کی جاویں.پس میں اس اعلان کے ذریعہ سے تمام اہالیان پنجاب کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ ان میں سے جو لوگ اس دعوت اسلام کے حملہ میں شریک ہو کر جہادا کبر کے ثواب میں حصہ لینا چاہیں وہ بہت جلد مجھے اطلاع دیں میں علاہ کے کرایہ اور دیگر اخراجات کے متعلق ان سے کہ طلب نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ خود اپنے مرضی سے اس کام میں حصہ لینا چاہیں.میں صرف ان سے یہ مطالبہ کروں گا کہ وہ ایک باقاعدہ انتظام کے ماتحت اپنی اپنی جگہوں پر اس کام کو شروع کردیں اور اپنے منتخب کردہ سیکرٹری یا امیر کی معرفت مجھے پندرہ روز اپنے کام کی اطلاع دیتے رہیں تاکہ اس کی ترقی کا مجھے علم ہے اور وقتا ً فوقتاً ان کو مفید مشورہ دے سکوں اور ان کے جوش کو قائم رکھ سکوں.ضروری ہے کہ ایسی درخواستیں با قاعدو انجمنوں ایسے لوگوں کی طرف سے آویں جس کا نام اس امر کی کافی ضمانت ہو کہ وہ درخواست سنجیدگی اور مستقل ارادہ سے کی گئی ہے اور یہ کہ لوگ اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے.میں اس موقع پر یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے اہل ہنود میں تبلیغ کا کام پہلے سے بہت زیاده زور سے شروع کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ ٰکے فضل سے بہت سی کامیابی کی امید ہے.اے عزیزو!یہ دنیا چند روزہ ہے اور آخر الله تعالی ٰسے واسطہ پڑنے والا ہے یہاں کے آرام ایک خواب سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے.پس خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دو اور پورے طور پر اس سے فائدہ اٹھا- آپ لوگوں میں سے بہت ہوں گے جو اس تجویز کی اشاعت سے پہلے خیال کرتے ہوں گے کہ ہم کس طرح اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں.میں نے اس سوال کو آپ کے لئے حل کر دیا ہے اور اس کے پورا کرنے کے سامان آپ کے لئے بہم پہنچا دیئے ہیں اور اس کام کے لئے میں آپ سے ایک پیسہ طلب نہیں کرتا.سوائے اس کے کہ آپ خود اپنی خوشی سے ان اخراجات کا کوئی حصہ ادا کر دیں.پس آپ کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کی حجت آپ پر پوری ہو چکی ہے، اور میں امید کرتا
۲۳۱ ہوں کہ اب آپ ان جو شوں کو پورا کر لیں گے جو پہلے ابھرا بھر کر بیٹھ جاتے تھے اور سامانوں کے موجود نہ ہونے کے سبب سے ان کے پورا ہونے کی کوئی راہ نہ تھی.خدا آپ کے ساتھ ہو اور حق کے سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے اور اس کے پھیلانے کی آپ کو توفیق عطا فرمائے.خاکسار محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور ۴- اپریل ۱۹۲۳ء الفضل ۱۲-اپریل ۱۹۲۳ء)
۲۳۲ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ..ھوالناصر ہدایات برائے مبلغین مکرمی! السلام عليكم ورحمه اللہ وبرکاتہ چونکہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ انسداد فتنہ ارتداد کے لئے وقف کیا ہے میں چند ہدایات اس کام کے متعلق آپ کو دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے افسروں کے احکام کے ماتحت پوری طرح ان ہدایات پر عمل کریں گے.وہ ہدایات یہ ہیں:.۱.الله تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے نیک نیت اور محض ابتغاًء بوجه الله اس کام کا ارادہ کریں.۲.گھرسے نکلیں تو دعا کرتے ہوئے اور رب ادخلني مدخل صدق و اخرجني مخرج صدق واجعلني من لدنك سلطانانصيرا ۳۴.کہتے ہوئے نکلیں اور بہت استغفار کرتے جائیں کہ خدا تعالی ٰکمزوریوں پر پردہ ڈال کر خد مت دین کا کوئی حقیقی کام لے لے.٣- سورہ فاتحہ اور درود کا بہت ورد رکھیں.نمازوں کے بعد تسبیح ، تحمید اور تکبیر ضرور کریں اور کچھ دیر خاموش بیٹھ کر ذکرالہٰی کریں کہ ایسے اوقات میں یہ نسخہ و نور قلب پیدا کرنے میں بہت مفید ہو تاہے.۴- الف.بھاشا کے الفاظ سیکھنے اور ان کے استعمال کرنے کی طرف خاص توجہ کریں کہ تبلیغ کا آلہ زبان ہے زبان نہ آتی ہو توتبلیغ بے اثر ہو جاتی ہے.پس بھاشا جو ان لوگوں کی زبان ہے
۲۳۳ اس کے سیکھنے کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے.اس میں جس قدر کوشش کریں گے اسی قدر تبلیغ زیادہ موثر ہوگی اور جس قدر تبلیغ موثر ہوگی اسی قدر ثواب کا زياده موقع ملے گا.(ب )اسی طرح جس قوم سے مقابلہ ہو اس کے مذہب اور طریق سے پوری واقفیت نہ ہو تو مقابلہ مشکل ہوتا ہے پس اگر آریوں کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو تو مرکز سے ان کے متعلق ضروری معلومات اور حوالوں کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کر لیں اور اسلام پر ان کے اعتراضوں کے جواب بھی اور ان کو بار بار پڑھ کر یاد کرتے رہا کریں.۵.راستہ میں لوگوں سے ہرگز فخریہ طور پر باتیں نہ کرتے جاویں.فخرانسان کو نیکی سے محروم کردیتا ہے اور سیاستاً بھی اس کا نقصان پہنچتا ہے دشمن کی توجہ اس طرف پھر جاتی ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتاہے.۶- اگر پہلے سے آپ کی جگہ مقرر ہے تو ہر جگہ مقرر ہے اس جگہ جا کر مبلغ سے چارچ با قاعدہ لے لیں اور اس سے سب علوم ضرور یہ حاصل کر لیں اور اگر جگہ مقرر نہیں تو پھر مرکز میں جا کرافسر اعلیٰ سے ہدایات حاصل کریں.۷.جس قصبہ میں داخل ہوں جس وقت وہ نظر آوے مندرجہ ذیل مسنون دعا کم سے کم تین دفعہ خشوع و خضوع سے پڑھیں نہایت مجرّب اور مفید ہے.اللھم رب السموات السبع وما اظلن ورب الأرضين السبع وما اقللن ورب الشياطين وما اضللن ورب الرياح وما ذرین فانا نسئلک خير هذه القرية وخير اهلها وخير مافيها ونعود بك من شر هذه القرية وشر اھلها وشر مافيها ۳۵- اللهم بارك لنا فيهاوارزقنا جناھا و حببنا الى أهلها وحبب صالحی اهلها الينا.آمین.کم سے کم تین دفعہ سمجھ کر یہ دعا مانگو رسول کریم ﷺ سے یہ مروی اور میرا اس کے متعلق وسیع تجربہ ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.اے اللہ! جو سات آسمانوں کا رب ہے اور ان کا بھی جن پر یہ سایہ کئے ہوئے ہیں.اور جو ساتوں زمینوں کا رب ہے اور ان کا بھی جن کو یہ اٹھائے ہوئے ہیں اور شیطانوں کا بھی اور ان کا بھی جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں اور ہواؤں کا بھی اور ان چیزوں کا بھی جن کو وہ اڑاتی ہیں ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی طلب کرتے ہیں اور اس کے باشندوں کی بھلائی بھی طلب کرتے ہیں اور ہر اس چیز کی بھلائی بھی جو اس میں پائی جاتی ہے.اور ہم اس ہستی کی ہر ایک برائی سے پناہ مانگتے ہیں اور اس بستی میں رہنے والوں کی برائی سے بھی پناہ مانگتے ہیں اور اس بستی
۲۳۴ کی ہر ایک بری شے سے پناہ مانگتے ہیں اے خدا! اس بستی میں ہمارے قیام کو با بر کت کر اور اس کی نعمتوں اور بارشوں سے ہمیں متمتع کر.اور ہماری محبت اس جگہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈال او ر ہمارے دل میں اس جگہ کے نیک لوگوں کی محبت پیدا کر.۸.سفر سے نکلتے ہی اپنے پاس ایک پاکٹ بک رکھیں جس میں سب ضروری امور لکھتے چلے جاویں.کم سے کم دو کارڈ اور ایک لفافہ اور پنسل وچا قو بھی ہر وقت ساتھ رہیں.۹.جس حلقہ میں کام کرنا ہے وہاں پہنچتے ہی ان امور کو دریافت کریں:.(1) وہ کس ضلع میں ہے (۲) کس تحصیل میں ہے (۳) وہ کس تھانہ میں ہے (۴) اس کا ڈاک خانہ کہاں ہے (۵) اس میں کوئی مدرسہ بھی ہے یا نہیں (۱) اس میں کوئی شفاخانہ بھی ہے یا نہیں (2) اس ضلع کا ڈپٹی کمشز کون ہے اور اس کے اخلاق اور معاملہ کیسا ہے ؟ (۸) اس تحصیل کے تحصیل دار نائب تحصیلدار کون ہیں اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں (۹)اس تھانہ میں تھانیدار اور اس کے اوپر انسپکٹر کون ہے.اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسا ہیں (۱۰) اس گاؤں میں اگر پولیس میں مقرر ہے تو وہ کون ہے اور اس کے اخلاق اور معاملہ کیا ہے.(1) اس کے پوسٹ آفس کا انچارج کون ہے اور چھٹی رساں کون ہے اور ان کا طریق اس تحریک شد ھی میں کیسا ہے.(۱۲) ڈاک وہاں کتنی دفعہ دن یا ہفتہ میں آتی ہے.(۱۳) مدرس کون لوگ ہیں اور وہ اس تحریک میں کیا حصہ لیتے ہیں (۱۳) ڈاکٹر کون ہے.اور اس تحریک میں کیا حصہ لیتا ہے.(۱۵) اس میں کوئی مسجد ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو امام ہے یا نہیں.اگر ہے تو اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ ۱۰.حلقہ کا افسر ڈپٹی کمشنر تحصیل کا انچارج تحصیلدارسے، تھانہ کا انچارج تھانہ دارسے ملنے کی کوشش کرے اور بغیر اپنے کام کی تفصیل بتائے اس کی دوستی اور ہمدردی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.مذکورہ بالا دوسرے لوگوں سے بھی اپنے تعلقات اچھے بنانے کی کوشش کرے.یاد رکھنا چاہئے کہ جس قدر نقصان یا فا ئد ہ چھوٹے لوگوں سے جیسے پولیس مین چِھٹی رسان وغیرہ سے سے اس قدر بڑے لوگوں سے نہیں پہنچ سکتا.۱۱.جس گاؤں میں جائے اس کے مالک اور نمبردار اور پٹواری کا پتہ لے.اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرے اور ان سے مدد کی درخواست کرے مگر یہ
۲۳۵ بات صاف صاف کہہ دے کہ مددسے مراد میری چندہ نہیں بلکہ اخلاقی اور مشورہ کی مدد ہے.تاکہ وہ پہلے ہی ڈر نہ جائے.اگر کوئی شخص مالی مدد دینا بھی چاہے تو شروع میں مدد لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ ابھی آپ مجھ سے اور ہمارے کام سے واقف نہیں جب واقف ہو کر اسے مفید سمجھیں گے اور ہم لوگوں کو دیانتدار پاویں گے تب جو مدد اس کام کے لئے آپ دیں گے اسے ہم خوشی سے قبول کر لیں گے.اگر وہ غیر مسلم ہوں تب بھی ان سے تعلقات دنیاوی پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ میل ملاقات کا بھی ایک لحاظ ہوتا ہے.۱۲- کوئی مالی مدد دے تو اسے اپنی ذات پر نہ خرچ کرے بلکہ اس کی رسید با قاعدہ دے اور پھر اصل رسید مرکزی حلقہ سے لا کر دے تالوگوں پر انتظام کی خوبی اور کارکنوں کی دیانتداری کا اثر ہو.۱۳- سادہ زندگی بسر کرے اور اگر کوئی دعوت کرے تو شرم اور حیا سے کھانا کھاوے کوئی چیز خود نہ مانگے اور جہاں تک ہو سکے دعوت کرنے والوں کو تکلف سے منع کرے اور سمجھاوے کہ میری اصل دعوت تو میرے کام میں مدد کرنا ہے.مگر مستقل طور پر کسی کے ہاں بِلا قیمت ادا کرنے کے نہ دکھاوے.۱۴- دورہ کرتے وقت جو جو لوگ اسے شریف نظر آویں اور جن سے اس کے کام میں کوئی مددمل سکتی ہے ان کا نام اور پتہ احتیاط سے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کرے تا بعد میں آنے والے مبلغوں کے لئے آسانی پیدا ہو.۱۵.جن لوگوں سے اسے واسطہ پڑتا ہے خصوصاً افسروں بڑے زمینداروں یا اور دلچسپی لینے والوں کے متعلق غور کرے کہ ان سے کام لینے کا کیاڈھب ہے اور خصوصیت سے اس امر کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کرے کہ کس کس میں کون کون سے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں جن کے ابھارنے سے وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.۱۶.جن لوگوں سے کام لینا ہے ان میں سے دو ایسے شخصوں کو کبھی جمع نہ ہونے دو جن میں آپس میں نِقار ہو.اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگوں سے ہوشیاری سے دریافت کر لو کہ ان معززین کی آپس میں مخالفت تو نہیں اگر ہے تو کس کس سے ہے جن دو آدمیوں میں مقابلہ اور نِقار ہو.ان کو اپنے کام کے لئے کبھی جمع نہ کرو بلکہ ان سے الگ الگ کام لو اور کبھی ان کو محسوس نہ ہونے دو کہ تم ایک سے دوسرے کی نسبت زیادہ تعلق رکھتے ہو
۲۳۶ تمهاری نظر میں وہ سب برابر ہونے چاہئیں اور کوشش کرو کہ جس طرح ہو سکے ان کا نِقار دور کر کے ان کو کلمہ واحد پر اسلام کی خدمت کے لئے جمع کردو.۷ا- جس جگہ جاؤ وہاں کے لوگوں کی قوم ان کی قومی تاریخ اور انکی قومی خصوصیات، ان کی تعلیمی حالت ،ان کی مالی حالت اور ان کی رسومات کا خوب اچھی طرح پتہ لو اور پاکٹ بک میں لکھ لو- اور جہاں تک ہو سکے ان سے معاملہ کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھو کہ جن باتوں کو وہ ناپسند کرتے ہیں وہ ان کی آنکھوں کے سامنے نہ آویں.۱۸.جس قوم میں تبلیغ کے لئے جاؤ اس کے متعلق دریافت کر لو کہ اس میں سے سب سے زیاده مناسب آدمی کونسا ہے جو جلد حق کو قبول کرے گا اس سے پہلے ملو.پھر اس سے اس ئیس کا پتہ لو جس کا لوگوں پر سب سے زیاده اثر ہے پھر اس سے ملو اور اسی کی معرفت پہلے قوم کو درست کرنے کی کوشش کرو.۱۹.جب کسی قوم میں جاؤ تو پہلے یہ دیکھو کہ اس قوم کو ہندومذہب سے کون کونی مشارکت ہے اور اسلام سے کون کونسی مشارکت ہے اور ان کو اپنی کاپی میں نوٹ کرلو.پھر ان باتوں سے فائدہ اٹھا کر جو ان میں اسلام کی ہیں ان میں اسلام کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرو اور ان اسلامی مسائل کی خوبی پر خاص طور پر زور دو جن پر وہ پہلے سے کاربند ہیں اور جن کے وہ عادی ہو چکے ہیں.۳۰.جب ایسی جگہ پر جاؤ جہاں کے لوگ اسلام سے بہت دور ہو چکے ہیں اور جو اسلام کی کھلی تبلیغ کو بھی سنناپسند نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو جاتے ہی کھلے طور پر تبلیغ نہ کرنے لگو بلکہ مناسب ہو تو اپنا مقصد پہلے ان پر ظاہر نہ کرو اگر کوئی پوچھے تو بے شک بتادومگر خود اپنی طرف سے کوئی چرچانہ کرو کیونکہ اس طرح ایسے لوگوں میں شد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.۲۱-الف اردگرد کے مسلمانوں کو یہ باتیں سمجھانے کی کوشش کرو کہ مسلمانوں کی عدم ہمدردی اور سختی سے یہ لوگ تنگ آکر اسلام کو چھوڑ رہے ہیں.اسلام کی خاطر آپ لوگ اب ان سے اچھی طرح معاملہ کریں اور خوش اخلاقی اور احسان سے پیش آویں اور سمجھائیں کہ ان کا ہندو ہونا نہ صرف ہمارے دین کے لئے مضر ہو گا بلکہ اس کا یہ نتیجہ بھی ہو گا کہ ہندو آگے سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچائیں گے.(ب) یہ بھی سمجھائیں کہ اس فتنہ کو کیسے نہیں روکا جاسکتا اور اسے روکنے کا فائدہ بھی
۲۳۷ کچھ نہیں.میں چاہئے کہ محبت کی دھار سے ان کی نفرت کی کھال کو چیرا جائے اور پیار کی رسی سے ان کو اپنی طرف کھینچا جائے.۲۲- وہ لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں پس کبھی ان سے علمی بحثیں نہ کرو بالکل موٹی موٹی باتیں ان سے کرو.موٹی موٹی باتیں یہ ہیں آریہ مذہب کے بانی نے کرشن جی کی (جن کی وہ اپنے آپ کو اولاد کہتے ہیں اور ان سے شدید تعلق رکھتے ہیں جو بڑے بزرگ تھے ،ہتک کی ہے.نیوگ کا مسئلہ خوب یاد رکھو اور ان کو سمجھاؤ کہ تم راجپوت ہو کر ایسی تعلیم کے پیچھے جاسکتے ہو.مرکز میں ستیارتھ پرکاش رہے گی اگر حوالہ مانگیں تو دکھا سکتے ہو.ان کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے آباء و اجداد کو زبردستی مسلمان کر لیا گیا تھا.ان سے کہو کہ راجپوت تو کسی سے ڈرتا نہیں یہ بالکل جھوٹ ہے اس بات کو ماننے کے تو یہ معنے ہوں گے کہ تمہارے باپ دارا راجپوت ہی نہ تھے.کیا اس قدر قوم راجپوتوں کی اس طرح دھرم کو خوف یالالچ سے چھوڑ سکتی تھی.کہو کہ یہ بات برہمنوں نے راجپوتوں کو ذلیل کرنے کے لئے بنائی ہے.پہلے ان لوگوں نے تمہاری زمینوں کو سود سے تباہ کیا اب یہ لوگ تمہاری قومی خصوصیت کو بھی مٹانا چاہتے ہیں.یہ بنئے تو اپنے ایمان پر قائم رہے اور تم راجپوت بہاد رہو کر بادشاہوں سے ڈر گئے یہ جھوٹ ہے تمہارے باپ داداوں نے اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیاتھا.ان کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنی قوم سے آملوان کو سمجھاؤ کہ لاکھوں راجپوت مسلمان ہو چکے ہیں.پس اگر ملنا ہے تو یہ ہندو مسلمان ہو کر تم سے مل جاویں اور یہ ملاپ کیسا ہوا کہ قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر دور کے تعلق والوں سے جاملو.ان کو بتاؤ کہ کرشن جی کی ہم مسلمان تومہما کرتے ہیں اور ان کو اوتار مانتے ہیں لیکن آریہ ان کی ہتک کرتے ہیں اور ان کو گالیاں دیتے ہیں.تمہارے سامنے کچھ اور کہتے ہیں اور الگ کچھ اور کہتے ہیں.ان کو یہ بتاؤ کہ ہندو تو تم کو ہندو کر کے بھی چھوت چھات کرتے ہیں اور کریں گے چند لوگ لالچ دلانے کو تمہارے ساتھ کھاپی لیتے ہیں ورنہ باقی قوم تم سے برتاؤ نہیں کرے گی چاہو تو چل کراس کا تجربہ کرلو لیکن مسلمان قوم کو اپنا بھائی بکھتے ہیں.
۲۳۸ ان کوبتاؤ کہ یہ آریہ جو آج تم کو چھوت چھات کی تعلیم دیتے ہیں.دوسری جگہوں میں جاکرنیچ قوموں میں شد ھی کرتے ہیں اور چماروں کو ساتھ ملاتے ہیں اس کے حوالے یاد رکھو (جیسے جموں میں شدهی ہو رہی ہے )لیکن ایسی طرز پر بات نہ کرو کہ گویا تم چھوت چھات کے قائل ہو بلکہ اس بات کا اظہار کرو کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام لے رہے ہیں.ان کو بتاؤ کہ یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں اس کا امتحان اس طرح ہوسکتا ہے کہ مسلمان عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ سود کی شرح محدود کر دی جائے اور قانون انتقالِ اراضی پاس کیا جائے مگر ہندو اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں (ان دونوں قانونوں کو اچھی طرح سمجھ لو) ان دونوں باتوں کا ان کو فائدہ سمجھاؤ اور کہو کہ ان کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ جو آریہ یا ہندو آۓ اسے کہو کہ اگر تم سچ مچ ہمارے خیر خواہ ہو تو یہ دونوں قانون پاس کراؤ پھر ہم سمجھیں گے کہ تم ہمارے خیرخواہو.۲۳- اپنے دل کو پاک کر کے اور ہر ایک تکبرسے خالی کر کے بیماروں اور مسکینوں کے لئے دعا کرو.اللہ تعالیٰٰ تمہاری ضرور سنے گا.انشاء اللہ میں بھی انشاء اللہ تمہارے لئے دعا کروں گا تا خدا تعالیٰ تمہاری دعاؤں میں برکت دے.۲۴- اپنی زبان کو اس بات کا عادی بناؤ کہ ان بزرگوں کو جن کو فی الواقع ہم بھی بزرگی ہی سمجھتے ہیں ایسے طریق پر یاد کروجو ادب او را خلاص کا ہو.۲۵.کھانے پینے پہننے میں ایسی باتوں سے پرہیز کرو جن سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے الگ جو چاہو کرو لیکن ان کے سامنے ان کے دل کو تکلیف دینے والی بات نہ کرو کے علاوہ تمہارے کام کو نقصان پہنچانے کے یہ بد اخلاقی بھی ہے.۲۹- ہر ایک کام تدریجی طور پر ہوتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ وہ ایک دن میں پکے مسلمان ہو جائیں گے جو لوگ مسلمان ہو جائیں گے وہ آہستہ آہستہ پختہ ہوں گے پس یک دم ان پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہ کریں تین چار ماہ میں خود ہی درست ہو جائیں گے پہلے تو صرف اسلام سے محبت پیدا کرو اور نام کے مسلمان بنا ؤمگر یہ بھی نہ کرو کہ اسلام کی کوئی تعلیم ان سے چھپاؤ کیونکہ اس سے بعد میں ان کو ابتلاء آوے گایا وہ ایک نیاہی دین بنالیں گے.۲۷- لباس وغیرہ ان کے بیٹے ہیں ویسے ہی رہنے دو اور ابھی چوٹیاں منڈوانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں.یہ باتیں ادنی ٰدرجہ کی ہیں جب وہ پکے مسلمان ہو جائیں گے خود بخود ان
۲۳۹ سب باتوں پر عمل کرنے لگیں گے.۲۸- جس جگہ پر جاؤ وہاں خوش خلقی سے پیش آؤ اور بیکسوں کی مدد کرو اور ُدکھیاروں کی ہمدردی کرو کہ اچھے اخلاق سو(۱۰۰) واعظ سے بڑھ کر ہوتے ہیں.۲۹- جس جگہ کی نسبت معلوم ہو کہ وہاں کسی شخص کو مناسب مدد دے کر باقی قوم کو سنبھالا جاسکتا ہے تو اس کی اطلاع افسرحلقہ کو کرو مگر یاد رکھو کہ اس طرف نہایت مجبوری میں توجہ کرنی چاہئے جب کوئی چارہ ہو ہی نہیں اسی صورت میں یہ طریق درست ہو سکتا ہے.مگر خود کوئی وعدہ نہ کرو نہ کوئی امید دلاؤ - امداد کسی رنگ میں دی جا سکے گی یہ افسروں کی ہدایت میں درج ہو گا اس معاملہ کوافسر حلقہ کے سپرد رہنے دو.۳۰.کھانے ،پینے پہننے میں بالکل سادہ رہیں اور جس جگہ افسرحلقہ مناسب سمجھے وہاں کا مقامی لباس پہن لیں اور جس جگہ وہ مناسب سمجھے ایک چادرہی پہن لو.اگر ضرورت ہو تو گیروا رنگ دلوالو.یاد رکھو کہ لباس کا تغیراصل نہیں.لباس کا تغیر اسی وقت برا ہوتا ہے جب انسان ریاء کے لئے یا کسی قوم سے مشابہت کی غرض سے پہنتا ہے.تمهاراتغیر لباس تو عارضی ہو گا اور جنگ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہو گا.پس تمهارا طریق قابل اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ تم سادھو يا فقيریا صوفی کہلانے کے لئے ایسا طریق اختیار نہیں کرو گے اور چند دن کے بعد پھر اپنا لباس اختیار کر لو گے اس لباس کی غرض تو صرف دشمن اسلام کے حملہ کا جواب دینا ہوگی.۳۱- کبھی اپنے کام کی رپورٹ لکھنے اور پھر اس کو دفتر مطلقہ میں بھیجنے میں سستی نہ کرو.یاد رکھو کہ یہ کام تبلیغ کے کام سے کم نہیں ہے.جب تک کام لینے والوں کو پورے حالات معلوم نہ ہوں وہ ہرگز کام کام کو اچھی طرح نہیں چلا سکتے ہیں جو شخص اس کام میں سستی کرتا ہے وہ کام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے.۳۲- د شمن تمہارے کام کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر طرح کی تدابیر کو اختیار کرے گا تمہاری ذرا سی بے احتیاطی کام کو صدمہ پہنچاسکتی ہے.پس فتنہ کے مقام سے دور رہو اور ایسی مجلس میں نہ جاؤ جس میں کوئی تہمت لگ سکے.کسی شخص کے گھر میں نہ جاؤ جب تک تجر بہ کے بعد ثابت نہ ہوجائے کہ وہ دشمن نہیں دوست ہے.کھلے میدان میں لوگوں سے باتیں کرو.۳۳.غصہ کی عادت ہمیشہ ہی بری ہے مگر کم سے کم اس سفر میں اس کو بالکل بھول جاؤ کسی وقت غصہ
۲۴۰ میں آکر ایک لفظ بھی سخت تمہارے منہ سے نکل گیا تم کسی کو د ھمکی دے بیٹے یا کسی کو مار بیٹھے تو اس کا فائدو تو کچھ بھی نہیں اگر آریہ لوگ اس کو اس قدرت شہرت دیں گے کہ ہمارے مبلغوں کو ان کے حملوں کے جواب دینے سے فرصت نہ ملے گی اور سلسلہ کی سخت بدنامی ہوگی.پس گالیاں سن کر دعا دو اور عملاً دو اور جوش دلانے والی بات کو سن کر سنجیدگی سے کہہ دو کہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم میں اس کا جواب دینے سے مانع ہے.تم پھر بھی اس کے خیر خواہ ہی رہو.اپنے مخالف سے بھی کہو کہ تم اس کے دشمن نہیں ہو بلکہ تم باوجود اس کی عداوت کے اس کے خیر خواه ہو کیو نکہ تم کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے مقرر فرمایا ہے.اگر کوئی مار بھی بیٹھے تو اس کی پرواہ نہ کرو.یاد رکھو کہ لوگ بزدل کو حقیر جانتے ہیں اوروہ فی الواقعہ حقیر ہے لیکن تکلیف اٹھا کر صبر کرنے والا اور اپنے کام سے ایک بال کے برابر نہ ہٹنے والا بزدل نہیں وہ بہاد رہے.بزدل وہ ہے جو میدان سے بھاگ جاتایا اپنی کوششوں کو سست کردیتا ہے جو مار کھاتا اور صبر کرو اور اپنے کام کو جاری رکھتا ہے وہی در حقیقت بہادر ہے کیونکہ بہادری کا پتہ تو اسی وقت لگتا ہے جب اپنے سے طاقتور کا مقابلہ ہو اور پھر بھی انسان نہ گھبرائے..۳۴ میں نے بار بار آہستگی کی تعلیم دی ہے.اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مہینوں اور برسوں میں کام کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدم بقدم چلو.جب قدم مضبوط جم جائے تو پھر دوسرے قدم کے اٹھانے میں دیر کرنا اپنے وقت کا خون کرنا اور اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے.اگر گھنٹوں میں کام ہوا ہے تو گھنٹوں میں کرواکر منٹوں میں کام ہوتا ہے تو منٹوں میں کرو صرف یہ خیال کر لو کہ اس کی رفتار ایسی تیز نہ ہو کہ خود کام ہی خراب ہو جائے یا آئندہ کام پر اس کا بد اثر پڑے.۳۵- ایسے علاقوں میں رات نہ گذاروجہاں فتنہ کا ڈر ہو.اگر وہاں رات بسر کرنی ضروری ہو تو شہر میں نہ رہو شہر سے باہر کسی پرانے مکان یا کسی جھونپڑے میں یا اس کے کسی گاؤں میں رہو صبح پھر و ہیں آجاؤ – یہ بزدلی نہیں حکمت عملی ہے.۳۶-اس عرصہ میں اگر پرانے ہندوؤں کو تبلیغ کر سکو تو اس موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دو مگر سوائے ان لوگوں کے جن کا کام بحث کرنا مقرر کیا گیا ہے دوسرے لوگ بحث کے کام میں حصہ نہ لیں بلکہ فردا فردا اور الگ الگ تبلیغ کریں.
۲۴۱ ۳۷.ا ردگرد کے ہندوؤں کے خیال معلوم کر کے جو شد ھی کے بر خلاف ہوں ان میں بھی غیر معلوم طور پر اس تحریک کے خلاف جوش پیدا کرنے کی کوشش کرو.۳۸.یہ کوشش کرو کہ شادی ہونے والے راجپوتوں پر ثابت ہو جائے کہ ہندو قوم بحیثیت قوم ان کے ساتھ اپنے لوگوں والا برتاؤ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور کسی تدبیر سے ایسے لوگوں کو جو اس بات کو دیکھ کرشد ھی کی بے ہودگی کو سمجھ سکیں ان لوگوں سے ملاؤ جوشد ھی شدہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تیار نہیں.۳۹.ان ظلموں اور شرارتوں کی یا جبرکی خوب خبرر کھو جو آریہ لوگ شدھی کے لئے کرتے ہیں اور جہاں جہاں ایسی مثالیں معلوم ہوں ان کا پورا حال معلوم کر کے گواہوں اور مخبروں کے نام سمیت اپنے حلقہ کے دفتر میں ضرور اطلاع دواس سے اس کام میں بہت مدد مل سکتی ہے.اگر کسی جگہ کے متعلق معلوم ہوجائے کہ وہاں آریوں نے بندوقیں اور تلواریں لے کر جمع ہونا ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے تو اس کی اطلاع ضرور قبل ازوقت دفتر کودو تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے.۴۰- راجپوت یا دیگر اقوام جن میں شدھی ہورہی ہے ان میں سے اسلام کا درد رکھنے والے لوگوں کے ساتھ خاص تعلق پیدا کرو اور ہمیشہ ان سے دوستی اور تعلق بڑھانے کی کوشش کرتے رہو.۴۱.محنت سے کام کرو اور وقت کو ضائع نہ ہونے دو.دن میں کئی کئی گاؤں کی خبر لے لینی چاہئے چلنے پھرنے کی عادت ڈالو اور کم ہمتی کو پاس نہ آنے دو.۴۲- ہدایت زریں میرالیکچر تبلیغ کے طریق پر ہے.وہ حلقوں میں اور صدر میں رکھا ہوا ہو گا اس کو خوب اچھی طرح پڑھ لو کیونکہ اس میں تبلیغ کے متعلق بعض عمدد گر ُجو اس جگہ درج نہیں ملیں گے.۴۳.بعض شعر جن میں آریہ مذہب کی حقیقت پر روشنی ڈالی جائے گی اور بعض نظمیں مسائل کے متعلق اپنے پاس رکھو اور گاؤں کے چند نوجوان لوگوں کو یاد کرا دو بار بار بار ان سے بلند آواز سے پڑھواکروہ سنو.اس سے ان میں جوش پیدا ہو گا.۳۴- اصل چیز جو ارتداد سے روک سکتی ہے وہ روحانیت ہے.پس ان میں سنجیدگی اور قناعت کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ اس کے بغیر سب کوششیں رائیگاں ہیں.
۲۴۲ ۴۵- جہاں تک ہو سکے ان کو زائد وقت میں تعلیم دینے کی کوشش کرو.لفظ لفظ پڑھ کر بھی انسان کچھ عرصہ میں پڑھ جاتا ہے.وہ اردو جاننے لگیں تو اس سے بھی اس فتنہ کا بہت حد تک ازالہ ہو جائے گا.۴۶- ایسے تمام علاج جو مقامی واقفیت سے ذہن میں آویں ان سے اپنے حلقہ کے افسر کو اطلاع دو تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے.۴۷.ایسے نوجوان جو ذہین ہوں اور تعلیم کا شوق رکھتے ہوں اور تعلیم کی خاطر چند دنوں کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے ہوں ان کی لاش رکھو اور پتہ لگنےپر ان کے نام اور پتہ اور جملہ حالات سے افسرحلقہ کو اطلاع دو.۴۸.جس بات کو مخفی رکھنے کے لئے کہا جائے اس کو پوری طرح مخفی رکھوحتیٰ کہ با اجازت اپنے آدمیوں پر بھی ظاہر نہ کرو کہ ایسا کرنا بد دیانتی اور سلسلہ کی خیانت ہے.۴۹- آریوں کے طریق عمل اور ان کے مبلغوں کی نقل و حرکت اور ان کے انتظام کا نہایت ہوشیاری اور غور سے مطالعہ کرو اور جب کوئی بات اس کے متعلق معلوم ہو تو فورا اس کے متعلق افسرحلقہ کو اطلاع دو- اس امر میں سستی تبلیغ کے لئے مضر اور اس میں کوشش تبلیغ کے لئے بہت مفید ہوگی.۵۰.مجھے خط براہ راست آپ لکھ سکتے ہیں مگر یہ خط رپورٹ نہیں سمجھا جائے گا.رپورٹ وہی سمجھی جائے گی جو افسروں کے توسط سے مجھ تک آئے گی.۵- اس عہد کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو آپ نے میرے ہاتھ پر بیعت کے وقت کیا تھا اب اس تحریک کے وقت کیا ہے.اور ان ہدایات کو بار بار پڑھتے رہیں اور پوری طرح بِلا سرِمو ُکے فرق کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰٰ اس میں آپ کا مدد گار ہو.۵۲- جب دوسرے بھائی کو چارج دیں تو ان تمام لوگوں سے اس کو ملادیں جو واقف ہو چکے ہیں اور جن سے کام میں مدد ملنے کی امید ہے اور ان لوگوں سے آگاہ کر دیں جن سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور سارے علاقہ کی پوری خبر اس کو دیں اور اپنی نوٹ بک سے وہ سب باتیں جو میں پہلے بتا چکا ہوں اس کو نقل کروادیں تاکہ وہ بغیر محنت کے کام کو آگے چلا سکے اور ایک دفعہ ساتھ مل کر اس کو دورہ کرا دیں.پھر دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اور خدا تعالی ٰکی حمد کرتے ہوۓ کہ اس نے خدمت کا موقع دیا واپس آجاویں اور آنے سے پہلے اپنے حلقہ کے
۲۴۳ مرکز میں آکر رپورٹ کریں کہ میں فلاں شخص کو چارج دے چکا ہوں.اور جو معلومات وہ چاہیں ان کو بہم پہنچا کر اور ان کی اجازت سے مع الخیر واپس ہوں.خدا آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار میرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی قادیان دارالامان.ضلع گورداسپورا۲- اپریل ۱۹۲۳ء
۲۴۴ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم احمدی مجاہدین سے خطاب (فرموده ۲۰.جون ۱۹۲۳ء) تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج سے تین مہینے پہلے ہم لوگ اسی راستہ پر اس پہلے وفد کو چھوڑنے آئے تھے جو علاقہ ملکانہ میں تبلیغ کے لئے روانہ ہوا تھا.ان لوگوں کی کیا حالت تھی اور کیا ہو گی ان پر کیا گذری انہوں نے کیا کام کیا اس کے متعلق چند ہدایتیں دینے کے بعد ذکر کروں گا.پہلے چند ہدایتیں دینا چاہتا ہوں جن کا یاد رکھنا آپ لوگوں کے لئے ضروری ہے.پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ کوئی ہدایت مفید نہیں ہو سکتی جب تک اس پر عمل نہیں کیا جاتا.قرآن کریم میں ساری ہدایتیں ہیں.لیکن اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے مفید نہیں.بلکہ قرآن نقصان دہ ہو رہا ہے اس لئے نہیں کہ قرآن میں کوئی نقص آگیا ہے بلکہ اس لئے کہ لوگ خراب ہو گئے اور اس کی طرف توجہ نہیں رہی.مصر کے ایک عالم نے لوگوں کی حالت پر تمسخر کرتے ہوئے اور یہ بتانے کے لئے کہ لوگ کس طرح قرآن شریف کو مانتے ہیں لکھا ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں قرآن کا کوئی فائدہ نہیں مگر ان کو کیا معلوم ہے قرآن کے بڑے فوائد ہیں دیکھو یہ فائدہ کیا کم ہے کہ ساری عمر قرآن نہ پڑھو لیکن جب مرجاؤ تو قبر پر قرآن پڑھا جاتا ہے پھر یہ کیا کم فائدہ ہے کہ اسے خوبصورت غلافوں میں لپیٹ کر زینت کے طور پر گھر میں رکھا جاتا ہے اور جب کوئی شخص کسی غلط بات کو نہ مانتا ہو تو اس کو جھوٹی بات کا یقین دلانے کے لئے قرآن کو ہاتھ میں لے کر یقین دلایا جاتا ہے تو اس طرح قرآن باوجود مفید ہونے کے لعنت کا طوق ہو گیایہ بہترین چیز تھی مگر اس کے غلط استعمال سے نقصان ہو رہا ہے.اسی طرح دیکھو رسول کریم ﷺ بشارت عظمیٰ تھے مگر کن کے لئے ان کے لئے جو مانتے ہیں مگر ابو جہل کیلئے تو بشارت نہ تھے اس کے لئے آپ انذار تھے.پس ہدایت و ہی مفید ہو سکتی ہے جو عمل میں آئے لیکن افسوس ہے کہ اکثرلوگ
۲۴۵ نصائح مزے لینے کے لئے پڑھتے ہیں اور اس پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان کو یہ سوچناچا ہیے کہ ہم ان نصیحتوں کو کس طرح اپنی روزانہ زندگی پر وارد کر سکتے ہیں.آپ لوگوں کو کچھ ہدایتیں مطبوعہ دی گئی ہیں کچھ زبانی سنادی گئی ہیں یا سمجھادی جائیں گی ان سب کے مطابق اپنی زندگی بناؤ.اگر تم ان ہدایتوں کے مطابق کام کرو گے تو انشاء اللہ کامیاب ہوگئے.بہت سے لوگ الفاظ کو پڑھتے ہیں اور ان پر سے یونہی گذر جاتے ہیں غور نہیں کرتے کہ ان کے نیچےکون سے معنے ہیں وہ الفاظ کو دیکھتے ہیں مگر ان کے معنوں کو نہیں دیکھتے کم الفاظ کو پڑھوان کے مطلب کو سمجھو اور ان مطالب کو اپنی زندگی کے اوپر حاوی کرو.بہت سی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر اپنے اندر بہت سے معانی رکھتی ہیں اور ان کے بڑے اثرات ہوتے ہیں.میں جب چھوٹا بچہ تھا تو یہ پڑھ کر حیران ہوتا تھا کہ نیوٹن نے جو کام کیا ہے اسے بڑا کیوں کہا جاتا ہے.نیوٹن نے کشش ثقل معلوم کی تھی.وہ باغ میں بیٹھا ہوا تھا اس نے دیکھا کہ ایک سیب شاخ سے گرا ہے اس نے غور کیا کہ یہ سیب اوپر جانے کی بجائے نیچے کی طرف کیوں آیا ہے اس امرپر غور کرتے کرتے اس نے کشش ثقل کا پتہ لگا لیا.مجھے جب بڑے ہو کر معلوم ہوا کہ اس دریافت سے علوم میں لانتہاء ترقی ہوئی ہے تو نیوٹن کی دریافت کی قدر معلوم ہوئی.اس بات کی دریافت سے علوم کی ترقی ہزاروں گنی ہو گئی ہے.دیکھوبات معمولی تھی مگر اس کے اثرات کتنے اہم ثابت ہوئے.دوسری ہدایت یہ ہے کہ مومن بزدل نہیں ہو تا چونکہ ہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ فساد نہ کرو اس لئے خیال آتا ہے کہ بعض لوگوں میں بزدلی نہ پیدا ہو جائے یاد رکھو کہ مومن وسط میں رہتا ہے.ایک ہوشیار عورت وہ نہیں جو خاوند کے یہ کہنے پر کہ آج کھانے میں نمک زیادہ ہے دوسرے وقت بالکل پھیکا کھانا پکا لائے.اس پر تو وہ ضرور ہے کہے گا کہ کیا پھیکا ہے اور اس وقت عورت کا یہ کہنا فضول ہو گا کہ پہلے کہتے تھے نمک زیادہ ہے اب کہتے ہیں کم ہے کیونکہ خاوند نے جب زیادہ نمک معلوم کیا تو زیادہ کہا اور جب کم معلوم کیا تو کم کہا.پس جس طرح عورت کا اعتراض غلط ہے اسی طرح "فساد نہ کرو" کی تعلیم سے یہ نتیجہ نکالنا کہ بزدلی اختیار کرو غلط ہے’’ فساد نہ کرو“ کے صرف یہ معنے ہیں کہ بلاوجہ لڑائی میں نہ پڑو لیکن اگر دین کے لئے جان دینے کی بھی ضرورت ہو تو اس وقت جان دینا ذلّت اور فساد نہیں ہو گا.کیا صحابہ فسادی تھے کہ ضرورت کے وقت جان دیدیتے تے نہیں.پس یاد رکھو کہ چونکہ ایثارو
۲۴۶ قربانی کے بغیرکبھی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی اس لئے کبھی کسی خطرے اور کسی بیوی سے ہوی قربانی سے نہ ڈرو.آپ کبھی فسادنہ کھڑا کر وہاں اگر ایسے سامان ہو جائیں کہ جان کا خطرہ ہو تو جان کی پروابھی نہ کرو.ایسی حالت میں اپنی جگہ سے نہ ہٹنے پر خدا تمہاری حفاظت کرے گا.بعض حالات میں غلطی سے لوگوں سے ایسافعل سرزد ہوا ہے جس کا خواہ وہ کچھ نام رکھیں مگر وہ بزدلی نظر آتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے.یاد رکھو بہادری کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے اور بزدل کوئی کام نہیں کر سکتا.کسی جماعت اور کسی قوم نے ترقی نہیں کی جب تک اس نے بزدلی کو چھوڑ کر بہادری سے کام نہیں لیا.انگریزوں کو دیکھو جنگلوں اور پہاڑوں میں بیس بیس سال گذار دیتے ہیں.ایک امریکن نے بیس سال جنگل میں اس لئے گذار دیئے کہ وہ بندروں کی زبان دریافت کرے اور یہ معلوم کرے کہ آیا ان کے محض اشارے ہوتے ہیں یا ان اشاروں کے کچھ معنے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ بیس سال بندروں میں رہنے سے اس نے دریافت کیا کہ بندروں کی بھی زبان ہے.جب ایک شخص بیس سال اسی غرض کے لئے جنگلوں اور بندروں میں گزار دیتا ہے کہ ان کی زبان دریافت کرے تو کیا ہم خدا کے دین کی حفاظت اور تبلیغ کے لئے تین ماہ جنگلوں میں بسر نہیں کرسکتے.وہ لوگ خواہ کچھ بھی ہوں مگر بندروں سے زیادہ تو غیرجنس نہیں.تیسری نصیحت یہ ہے کہ تم اپنے افسروں کی کامل اور مکمل فرمانبرداری اختیار کرو خواہ تم اپنے آپ کو افسرسے اعلی ٰسمجھو لیکن اس کی اطاعت اسی طرح کرنی ہوگی جس طرح ایک بادشاہ کی ایک چوڑھا اورچمار کر تا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کرو کیونکہ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.اس کی پروا نہ کرو کہ افسر ادنی ٰہے اور تم اعلیٰ ہو یا جو کام تمہیں دیا گیا ہے وہ ادنی ٰ ہے کیونکہ جو کام خدا کے لئے کرتا ہے اس کی شان نہیں کم ہوتی بلکہ خدا اس کو اٹھاتا ہے.پس کسی کام کو ادنیٰ نہ سمجھو اور کبھی افسر کی اطاعت سے منہ نہ موڑو یہاں تک کہ اپنی مدت گذار کر واپس آجاؤ - وہاں رہو اطاعت کرو اور ہر ایک کام کرو جس کا تمہیں افسر حکم دے.چوتھی نصیحت یہ ہے کہ لوگوں سے باتیں کرنے اور ملاقات کرنے کی عادت ڈالو یہ نہ ہو کہ ایک مقام پر مہینوں پڑے رہو اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات بھی نہ کر سکو.بعض دوست جو لائق تھے مخلص بھی تھے اور دین سے واقف بھی تھے محض کم گوئی کے باعث لوگوں
۲۴۷ سے میل جول نہ بڑھا سکے.اس کے مقابلہ میں یہاں کے ایک مستری ہیں جو پڑھے لکھے تو واجبی ہیں مگر ان کو یہ فن آتا ہے کہ ایسے طریق پر آریوں وغیرہ سے گفتگو کرتے ہیں کہ دشمن خاموش ہو جاتا ہے.ایک مقام پر ہمارے ایک دوست مقیم تھے وہاں ایک مولوی صاحب گئے اور جس مسجد میں ہمارے دوست مقیم تھے اس کے مصلی پر کھڑے ہو گئے کہ نماز پڑھائیں-ہمارے دوست نے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی اس پر مولوی صاحب نے شور مچادیا کہ یہ کافر ہے اس نے ہمارے پیچھے نماز نہیں پڑھی.دوسرے گاؤں میں جب ہمارے ان مستری صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے نہایت معقولیت سے موٹے طریق پر اس بات کو اس طرح لوگوں کے ذہن نشین کر دیا کہ مولوی صاحب کو حق ہی نہ تھا کہ وہ اس مسجد میں آکر نماز پڑھاتے جب کہ اس جگہ کا امام موجود تھا.اسی طرح جس گاؤں میں وہ مسلم ہیں وہاں کچھ آریہ پریچر (Preacher )بھی گئے وہ کسی ضرورت سے گاؤں سے باہر گئے ہوئے تھے.جب آریوں نے گفتگوکرنی چاہی تو گاؤں والوں نے کہا کہ ہمارے ایک بھائی ہیں جو باہر گئے ہوئے ہیں وہ آئیں جو وہ فیصلہ کریں گے اسی کے مطابق ہم عمل کریں گے.ادھر گاؤں والوں نے ان کو بلوایا انہوں نے آکر پہلے تو کھانے وغیرہ کے متعلق آریوں سے پوچھا اور پر گفتگو کرنی چاہی.آریوں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ برادری کا معاملہ ہے آپ ہی ان کو سمجھائیں کہ مان جائیں.ان کا ایک بھائی با ہر گیا ہوا ہےآئے تو ہم اپنی برادری کو ملالیں گے اور ہم ان سے اس بات کی معافی لیں گے کہ آج تک ہم نے ان کو اپنے سے علیحدہ رکھ کر ان پر ظلم کیا.مستری صاحب نے ملکانوں کو کہا کہ وہ آپ کے بھائی صاحب کہاں گئے ہیں ان کو بلاؤ تاکہ پنڈت جی کی بات پر غور کریں.ملکانوں نے کہاوه بھائی تو آپ ہی ہیں اور اس پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا.آگے بحث لمبی ہے اس کے دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے.غرض یہ میل ملاپ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ملکانوں پر یہ اثر پیدا کرنا ہے خواہ وہ کتنے ہی دور بھاگنے والے لوگ ہوں ان کو آہستہ آہستہ میل ملاپ کے ذریعہ درست کر لیا جاسکتاہے.پانچویں نصیحت یہ ہے کہ بار بار مرکز کو نہ چھوڑو.اجنبیت یا لوگوں کی بے رخی وغیرہ سے گھبرانا فضول ہے ساری عمر میں سے یہ صرف ۹۰ دن ہیں جو دین کے لئے وقف کئے گئے ہیں اگر ان کو بھی یونہی کھو دو گے تو پھر یہ فعل کس طرح پسندیدہ ہو سکتا ہے.ہاں جو پاس کے
۲۴۸ گاؤں ہوں ان میں ضرور جاؤ لیکن بغیر خاص علم یا نہایت اشد ضرورت کے اپنے مرکز کو ہرگز نہ چھوڑو.میری چھٹی نصیحت یہ ہے کہ جس گاؤں میں تم متعین ہو اس کے اردگرد کے گاؤں کو بھی اپنا ہی علاقہ سمجھو.ہمارے پاس اتنے آدمی نہیں کہ ہر ایک چھوٹے بڑے گاؤں میں ایک ایک مبلغ لگادیں اس لئے تم جس مرکزی گاؤں میں مقیم ہو اس کے اردگر و علاقوں میں ضرور جاؤ اگر اس گاؤں میں کوئی کام نہ ہو تو سیر کے لئے ہی چلے جاؤ اور وہاں کے متعلق واقفیت بہم پہنچاؤ.ساتویں نصیحت یہ ہے کہ چونکہ وہاں پر آریوں کے ایجنٹ ہیں جو مبلغوں کو غفلت میں ڈال کر اپنا کام کرنا چاہتے ہیں اس لئے ان سے بالخصوص ہوشیار رہو تم کسی پر اگر خدا کے لئے شبہ کرو گے تو ثواب کے مستحق ہوگئے اور وہ شخص اگر بد نیت نہیں ہو گانیک ہو گا تو اس کو اس لئے ثواب ہو گا کہ اس پر خدا کے لئے شبہ کیا گیا.میری آٹھویں نصیحت یہ ہے کہ دعاؤں پر خصوصیت سے زوردو جو کام دعا سے ہو سکتا ہے وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں ہو سکتا.دوست و آشنا جدا ہوں گے مگر خدا جدانہ ہو گا.ایک میاں اور بیوی خواه ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے ہوں اور بیوی کے پیٹ میں قولنج کا درد ہو تو قبل اس کے کہ وہ اپنے خاوند کو اطلاع دے اس کی دعا کو خداسنے گا اور اس کی تکلیف کو دور کردے گا.کیونکہ وہ علیم ہے.اس نے اپنی علم سے وہ سامان رکھے ہیں جو اس مرض کو دور کر سکتے ہیں.پس خدا سے دعا کرو اور اسی پر بھروسہ کرو سامان بھی اسی کے فضل سے میسر آتے ہیں.نویں نصیحت یہ ہے کہ مومن ہوشیار ہوتا ہے.مخالف کو وہ جواب دو جو مخاطبوں کے لئے مفید ہو.ایک کے ملکانوں میں آریوں نے اعتراض کیا کہ اسلام تو وہ مذہب ہے جو بہن بھائی کی شادی کرا دیتا ہے (چچا تایا کے بچوں کی) اب اگر ایسے موقع پر علمی طور پر بحث کی جائے تو کم مفيد ہوگی اس لئے ہمارے دوستوں نے اللہ کے فضل سے یہ جواب دیا کہ اسلام میں تو بہن بھائیوں کی شادی نہیں ہوتی البتہ ہندو مذہب میں ہوتی ہے کیونکہ تناسخ میں ممکن ہے بہن یا کوئی اور قریبی رشتہ دار اگلے جنم میں بیوی بن جائے.پس وہ بات کرو جو مخاطب کے لئے
۲۴۹ مفید ہو غلط نہ ہو اسلام کے مطابق ہو مگر ہو ایسی عام فہم کہ سننے والوں کے لئے مفید ہو.دسویں نصیحت یہ ہے کہ ہمد ردی سے جو کام ہو سکتا ہے وہ بغیر ہمد ردی کے نہیں ہو سکتا لیکن ہمدردی کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم ان میں آئندہ کے لئے کوئی لالچ پیدا کر دی بلکہ یہ ہیں کہ ان کی ضرورت کے وقت جس قدر تم مدد کر سکتے ہو کرو.جسمانی طور پر امداد دو.اور اگر تمہارے پاس کچھ ہو تو جس طرح اپنے وطن میں غرباء کی امداد ضرورت کے وقت کرتے ہو ان کی بھی کرو آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہ کرو کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے کیونکہ لوگوں نے ان کو لالچ دے کر خراب کر دیا ہے.اگر ہم بھی وعدہ دیں گے اور اس سے ان میں لا لچ پیدا ہو گا تو ان کی اصلاح مشکل ہو جائے گی.گیارہویں نصیحت یہ ہے جو کام کرو اس کی یادداشت رکھو اور افسر کو با قاعد ہ اطلاع دو – خواہ روزانہ خواہ ہفتہ وار اس نوٹ بک کافائدہ کو آئندہ کام کرنے والے مبلغوں کو بھی ہو گا.اس کے بعد میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں کہ ہمارے جو بھائی پہلے گئے وہ کس حال میں گئے تھے انہوں نے وہاں کیا کام کیا.اور کس طرح انہوں نے آریوں کی سولہ سالہ محنتوں کا مقابلہ کیا.جب ہمارے آدمی گئے ہیں تو وہ ایسا وقت تھا جب کہ شردھانند صاحب نے علی الاعلان کیا تھا کہ ملکانالوگ پاسے پرند کی طرح چو نچ کھولے بیٹھے ہیں کہ ان کے منہ میں کوئی پانی چوائے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جائیں اور ان کو ہندود ھرم میں ملالیں.اس وقت مسلمانوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ملکانوں کی آبادی کہاں کہاں ہے.صرف ہدایت الاسلام کو چند دیہات کا علم تھا اور وہ اس کو چھپائے بیٹھی تھی.مسلمانوں کو نہیں معلوم تھا کہ کن کن ضلعوں میں ان کی آبادی ہے اور ریلوے کہاں تک ہے اور راستے کیا ہیں.حالانکہ وہ بہت وسیع علاقہ تھا.ملکا نہ علاقہ اسی طرح ہے ہے جالندھر، لاہور، راولپنڈی وغیرہ کی کمشنریوں کو ملا دیا جائے.پھریو.پی کی آبادی بھی پنجاب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے.پچاس میل کے علاقہ میں وہ پھیلے ہوئے ہیں.اس کی مثال اسکی جو کہ اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا ہوا ہے کہ پنجاب میں سیدہ ہاں کہاں ہیں تو اس کے لئے کتنا مشکل کام ہے.بعض علاقوں میں ریل کم ہے یا نہیں ہے.ایسی عدالت میں ہمارے بھائی وہاں گئے اور ان میں سے بعض نے ستر ستر میل کا پیدل سفر طے کیا گویا وہ بیس بیس گھنٹے چلتے رہے ہیں اور پھر جب وہ گئے تو بعض علاقوں میں ان کوڈا کو خیال کیا گیا جن میں خیال کیا گیا کہ یہ ان کے بچے بھگالے جائیں گے.اس حالت میں وہ ان کی بات کب سن سکتے تھے وہ بجائے ان کی بات سننے کے ہر وقت ان کی
۲۵۰ حرکات پر ہی نظر رکھتے ہوں گے.پھرا جنبیت وغیرہ کی وجہ سے بعض مقامات سے ہمارے مبلغوں کو نکال بھی دیا گیا.وہ کئی کئی دن سڑکوں پر پڑے رہے اور ان کو قات کرنے پڑے.بعض کو مہینہ مہینہ بھر چنے چبا کر گزارہ کرنا پڑا.رمضان کے مہینہ میں لوگ کس طرح اپنے گھروں میں سامان کرتے ہیں مگر اس مہینہ میں ہمارے مبلغوں کو ستوؤں پر گذارا کرنا پڑا.وہ لوگ چھوت چھات کرتے تھے ان کا کھانا پکانے کے لئے بھی تیار نہ تھے اور ہماری تاکید تھی کہ ان سے مت مانگو اور لحاظ میں بھی ان سے کوئی خد مت نہ لو.پھرادھر آریوں کی کوششیں تھیں ادھر علماء دیو بند و غیره بھی ہماری مشکلات میں اضافہ کر رہے تھے.وہ لوگوں کو کہتے تھے کہ ان کے ساتھ ملنے سے بہتر ہے کہ آریہ ہو جاؤ.غرض ایسی ایسی بے شمار مشکلات تھیں جن میں وہ لوگ گئے اور انہوں نے ان مشکلات میں کام کیا.انہوں نے جو کام کیا ہے اور جن حالات میں کیا ہے ان کو پڑھ کر اور ان کی قربانی کو دیکھ کر رقت آتی ہے.انہوں نے اصل مشکلات کا مقابلہ کیا ہے اب اگر تم کو فتح حاصل ہو تو اس فتح کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی ہے اور اس فتح کا سہرا اصل میں ان ہی کے سر ہو گا اس لئے ضروری ہے کہ تم ان کے کام کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ چاہیے کہ تم ان کے شکر گزار ہو کہ ابتدائی مشکلات کو انہوں نے تمہارے لئے صاف کر دیا ہے.آتا ہے مث تم يشكر الناس لم شکرالله جو لوگوں کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر گذار نہیں ہوسکتا اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم ان کا شکر ادا کرو.میں تو بے تعلق کی طرح ہوں میرے لئے جیسے وہ ہیں ویسے ہی تم ہو.میرا تم سب سے ایک جیسا رشتہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تمہارے ذریعہ جو کامیابی ہوگی اس میں ۹حصے ان کے ہوں گے اور ایک حصہ تمهارا کیونکہ وہ ان تمام ابتدائی مشکلات کو حل کر چکے ہیں جو ابتداء میں ہوا کرتی ہیں.پس تمهارے لئے اب وہ مشکلات نہیں ہوں گی.انہوں نے جو آسانیاں پیدا کی ہیں ان کو تم استعمال میں لا ؤاس لئے جس جگہ جاؤ ان کے کام کی قدر کرو ان کے لئے دعا کرو اور اپنے لئے اور اس کام کے لئے بھی دعا کرو.اس کے بعد میں نصارئح کو ختم کرتا ہوں.پہلے جو وفود کو صدقہ کی رقوم دی جاتی تھیں اس میں علاوہ راستہ میں خیرات کرنے کے وہاں کے خیراتی امور کے لئے بھی رقم فراہم ہو جاتی تھی مگراس کے لئے اب ہم نے علیحدہ انتظام کیا ہے اس لئے اب جو صدقہ دیا جا تا ہے وہ تھوڑاہے اور صرف اس لئے ہے کہ راستہ میں وفد کی طرف سے صدقہ کیا جائے( اس پر حضورے اپنے گھر کی طرف سے کچھ رقم بطور صدقہ دی اور دوسرے احباب نے بھی کچھ نقدی پیش کی.)یہ صدقہ راستہ میں
۲۵۱ فقراء و مساکین وغیرہ میں تقسیم کردیا جائے.اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور دعا کے بعد فرمایا خدا کرے اب آئندو جو وفد جائیں وہ مکانوں کو ارتدادسے بچانے کے لئے نہیں بلکہ ان کی تربیت کرنے کے لئے جائیں.(الفضل ۳-جولائی ۱۹۲۳ء)
اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ – ھوالناصر تبلیغ ملکانا کے لئے روپیہ کی ضرورت تمام احباب کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں ایک مسلمان کہلانے والی قوم آریہ لوگوں کا شکار ہو کر اسلام کو خیرباد کہہ رہی ہے.اس قوم کی اپنی حالت گو بہت گری ہوئی ہے اور موجودہ حالت میں وہ اسلام کے لئے باعث طاقت ثابت نہیں ہو رہی.جبکہ سب سے اہم سوال جو ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مثال بھی ارتداد کی ایسی قائم ہو گئی کہ فوج در فوج لوگ اسلام سے خارج ہو جائیں تو اسلام کی شوکت کو ایسا صدمہ پہنچے گاکہ اس کا ازالہ انسانی طاقت سے بالا ہو جائے گا اور آج جو کام لا کھوں سے ہو سکتا ہے پھر کروڑوں روپیہ سے بھی نہ ہو سکے گا.جس طرح آج سے کچھ پہلے جو کام چند پیسوں کے خرچ سے ہو سکتا تھا اب ہزاروں روپوں کے خرچ سے بھی نہیں ہو سکتا.پس اس رو کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خاموش و ہی شخص رہ سکتا ہے جس کا دل اسلام کے دردسے بالکل خالی ہو یا جو درد تو رکھتا ہو لیکن اس کو قوموں کے اتار چڑھاؤ کے علم اور قلوب کے تغیرات کے لوازموں سے بالکل واقفیت نہ ہو اور یہ مصیبت پہلی مصیبت سے کم نہیں ہے.اس وقت ہماری جماعت کے ۸۰ آدمی اس علاقہ میں کام کر رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے نہایت کامیاب کام کر رہے ہیں.اور کوئی جماعت ہندوستان کی ایسی نہیں جو آدمیوں یا انتظام کے لحاظ سے ہماری جماعت کا مقابلہ کر سکے بلکہ تمام دوسری جماعتیں متفقہ طور پر بحیثیت مجموعی بھی ہماری جماعت کے کام کا مقابلہ نہیں کر سکیں.الحمدلله على ذلك لیکن احباب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے وسیع پیمانے پر کام بلا خرچ کے نہیں ہو سکتا اور ہزا روں روپیہ ماہوار کے خرچ سے ہی اتنی بڑی جماعت کے کام کو منظّم رکھا جاسکتا ہے ورنہ باوجود
۲۵۳ اس قدر آدمیوں کے کام کا اثر بالکل کم ہو جائے اور نتیجہ بالکل مایوس کن ہو - پس احباب کو چاہئے کہ اس فنڈ کو مضبوط کرنے کی طرف خاص توجہ کریں اور ہر ممکن قربانی سے دریغ نہ کریں کہ ایسے کام کے مواقع کم ملا کرتے ہیں.ہمارے بہت سے احباب اس دھوکے میں ہیں کہ جب کام کرنے والے وقف کنندگان ہیں جو اپنے خرچ پر کام کر رہے ہیں تو پھر اس جگہ کیا خرچ ہونا ہو گا یہ خیال ناواقفیت حال کا نتیجہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اصل کام وقف کنندگان سے لیا جاتا ہے پھر بھی ایک مناسب تعداد مستقل آدمیوں کی مرکزی دفتر کے چلانے اور نگرانی کے لئے رکھنی پڑتی ہے اور اسی طرح خاص مقامات کی اہمیت کے سبب وہاں مستقل طور پر آدمی رکھنے پڑتے ہیں وہ اس خرچ کے علاوہ ڈاک اور اشتہارات اور مدارس اور مساجد اور سفرخرچ عملہ نگرانی اور تقسیم لٹریچر وغیرہ کے اخراجات اس قدر کثرت سے ہیں کہ انگلستان امریکہ اور جرمنی کے مشترکہ تبلیغی اخراجات سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور چونکہ عام چندہ سے پہلے ہی کام بہ مشکل چل سکتے ہیں اس خرچ کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کے لئے الگ چندہ نہ ہو.پس چاہئے کہ احباب اس خیال کو دل سے نکال دیں اور جو لوگ صاحب توفیق ہیں اور سویا سو سے زیادہ چندہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں اس چندہ میں جلد شامل ہو کر خدا تعالیٰ سے ثواب حاصل کریں اور اسلام کی عزت کے قائم کرنے میں ممدّ اور معاون ہو کر مجاہدین کے گروہ میں شامل ہوں کہ مجاہد وہی ہے جو ہر اس ضرورت کے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسلام کو پیش آئے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ جو اس چندہ میں شامل ہو سکتے تھے ابھی تک شامل نہیں ہیں اور بہت سے لوگ جو زیادہ دے سکتے تھے سو روپیہ دے کر خاموش ہو گئے ہیں.میں ابھی ان لوگوں کو موقع دینے کے لئے خاموش ہوں ورنہ ہزاروں دل غریب مخلصوں کے سینوں میں اس شوق سے دھڑک رہے ہیں کہ کب عام اجازت دی جائے اور ہم اپنی قلیل متاع کو خد مت اسلام کے لئے نچھاور کر دیں.اے عزیزو! کیسے شرم کی بات ہے کہ وہ لوگ جو طاقت رکھتے ہوں اس امر کڑھیں کہ کیوں ہم سے مانگا جاتا ہے اور وہ جو بہت ہی محدودذرائع رکھتے ہیں اس امر پر تکلیف محسوس کریں کہ ہمیں قربانی کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا.اب بھی سبقت کا موقع ہے آپ لوگوں سے رعایت کر کے اور اس ثواب میں شریک کر کے پچھلے زنگوں کو دور کرنے کے لئے میں نے آپ کے بھائیوں کو روکا ہے.مگر مخلصوں کے ریلے کو زیادہ حد تک نہیں
۲۵۴ روکا جاسکتا.ان کا اخلاص ہرایک روک کر اپنے آگے سے اٹھا کر پھینک دیتا ہے پس جلدی کرو کہ یہ موقع ثواب کا ہاتھ سے نہ نکل جائے.میں تو دیکھتا ہوں کہ اب بھی بعض غرباءاس روک کو توڑ کر آگے آگئے ہیں یعنی کئی ایسے لوگوں نے جو دس دس پندرہ پندرہ روپیہ کی آمد والے تھے انہوں نے اپنا بعض سامان بیچ کر سو روپیہ چندہ دیا ہے تا کہ پیچھے نہ رہیں رحمه الله عليهم فانھم عباد لا یفوقوھم احد فی عمل صالح خاکسار مرزا محموداحمد حضرت خلیفۃ المسیح کا خوشنودی نامہ بنام مجاہدین علاقہ ارتداد علاقہ ارتداد میں مجاہدانہ خدمات سرانجام دینے کے بعد واپس آنے والوں کو جو خوشنودی نامہ حضرت خلیفة المسیح الثانی نے عطا فرمایا اس کی نقل حسب ذیل ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم مکرمی (نام مجاہد) اسلام عليکم السلام علیم و تشدد کا اللہ تعالیٰٰ کے فضل و کرم کے ساتھ اپناوقف کردہ وقت پورا کر کے آپ واپس آرہے ہیں.یہ موقع جو خدمت کا اللہ تعالیٰ ٰنے آپ کو دیا ہے اس پر آپ جس قدر خوش ہوں کم ہے اور جس قدر الله کا شکر ادا کریں تھوڑاہے.ایسی سخت قوم اور ایسے نامناسب حالات میں تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں اور ان حالات میں جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت بڑا ہے.آپ لوگوں کے کام کی دشمن بھی تعریف کر رہا ہے اور یہ جماعت کی ایک عظیم الشان فتح ہے اور میری خوشی اور مسرت کا موجب.اللہ تعالیٰٰ آپ کے اس کام کو قبول فرمائے.میں آپ لوگوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں اور انشاء اللہ دعا کرتا رہوں کا.امید ہے آپ لوگ اس کام کو بھی یاد رکھیں گے جو واپسی پر آپ کے ذمہ ہے اور جوملکانہ کی
۲۵۵ تبلیغ سے کم نہیں یعنی اپنے ملنے والوں اور دوستوں میں اس کام کے لئے جوش پیدا کرتے رہنا کیونکہ اس سے بڑی مصیبت اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی محنت آبیاری کی کمی کے سبب سے برباد ہو جائے.مومن کا انجام بخیر ہو تا ہے اور اسے اس کے لئے خود بھی کوشش کرنی پڑتی ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانی ) قادیان دارالامان پنجاب-۲۵-جون ۱۹۲۳ء (الفضل ۱۰- جولای ۱۹۲۳ء)
۲۵۶ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم مجاہدین علاقہ ارتداد کے ورودِ قادیان پر حضور کاخطاب ۲- جولائی کو مبلغین کا وہ وفد جو علاقہ ارتداد میں اپنا عرصہ ختم کر چکا ہے ۹ بجے کے قریب قادیان پہنچا.قصبہ سے باہر مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباءمعہ اساتذہ اور دیگر اصحاب بڑی تعداد میں جمع تھے جنہوں نے أهلا وسهلا کے بلند نعروں کے ساتھ وفد کا استقبال کیا.وفد آگے آگے اور باقی سب اصحاب ان کے پیچھے قصبہ میں داخل ہوئے.ارکان و فدسیدھے مسجد مبارک میں آئے اور وضو کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حضور پیش ہوئے.حضور نے ہر ایک سے مصافحہ کیا اس کے بعد آنے والے اصحاب نے دو دو رکعت نماز ادا کی.حضور نے اس موقع پر سورہ فاتحہ کی تلاوت کرکے حسب ذیل تقریر فرمائی: وہ وفد جو اس وقت کے حالات کے ماتحت پہلا وفد تھا گو اس سے بھی پہلے بعض جماعتیں مکانوں کی طرف جا چکی تھیں.یہ وفد اس لحاظ سے پہلا تھا کہ جو پہلے وفد گیا تھا اس کے متعلق خیال تھا کہ موقع اور محل کی تحقیق کرے گا.اس وفد کے متعلق میں نے اسی جگہ تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ جو آج ہی جانا چاہے وہ روانگی کے لئے تیار ہو جائے.اس وقت جس قدر آدمیوں کی ضرورت تھی اس سے زیادہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور پیشتر اس کے کہ اس دن کی شام ہوتی ان کو ہم نے یہاں سے روانہ کردیا.جانے والے لوگ جس نیت اور جس ارادہ سے گئے اور جس رنگ میں انہوں نے خدا کے دین کی خدمت کے لئے کام کیا اس کا بدلہ تو اللہ تعالیٰٰ ہی دے سکتا ہے اور اسی سے یہ معالمہ تعلق رکھتا ہے.نہ تو ہم میں سے کسی کی طاقت ہے کہ ان کے اخلاص کا اندازہ لگاۓ اور نہ ہی طاقت ہے کہ اس کی قیمت ادا کر سکے کیونکہ اسلام کی قیمت سوائے اس کے جس سے اخلاص ہو کچھ نہیں ہو سکتی.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا حضرت مسیح ایک نہایت سفید چبوترے پر اس طرح کھڑے ہیں کہ ایک پاؤں اوپر کی سیڑھی پر ہے اور ایک نچلی پر اور آسمان کی طرف اس طرح ہاتھ
۲۵۷ پھیلائے ہیں گویا کچھ مانگ رہے ہیں.اس وقت آسمان سے ایک شکل اترنی شروع ہوئی ہے جو عورت کی شکل تھی اس کے لباس کے ایسے ایسے عجیب رنگ تھے جن میں سے بعض دنیا میں کبھی دیکھے ہی نہیں گئے.اس کو دیکھ کر میں نے سمجھا کہ حضرت مریمؑ ہیں.جب وہ نیچے پہنچی تو اس نے حصرت مسیح ؑکے اوپر اپنے بازو پر کی طرح پھیلا دیئے.اور جیسے ماں بچہ کے سرپر پیار سے ہاتھ رکھتی ہے.اسی طرح اپنے ہاتھ حضرت مسیح کے سر پر رکھ دیئے.اور پیار سے بیمثال محبت کے ساتھ اس کی طرف جھک گئی اور حضرت مسیح بھی اس کی طرف اس طرح جھک گئے جس طرح بچہ پیار لینے کے لئے ماں کی طرف جھکتا ہے.نظاره ایسالطیف اور قلب پر اثر کرنے والا تھا کہ میرے سارے جسم کے روئیں روئیں میں اثر کر گیا.اور اس وقت یہ فقرہ میری زبان سے جاری ہو گیا.Love Creats Love محبت کا بدلہ محبت ہی ہے.یعنی محبت کی قیمت یہی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کے دل میں محبت پیدا ہو جاتی ہے.وہ مریمؑ کیا تھی.میرے نزدیک وہ محبت کی مثال تھی کہ جب انسان کے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے تو اس کے لئے آسمان سے نازل ہوتی ہے.اور مسیح ہر وہ انسان ہے جو خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی خدمت کے لئے گھرسے نکلتا ہے.چونکہ محبت کا بدلہ خودوہی و جو د ہو تا ہے جس سے محبت کی جاتی ہے اس لئے جو شخص خدا کیلئے اخلاص کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے اس کو کوئی بندہ کس طرح بدلہ دے سکتا ہے.بندہ تو اسے خواہ اپنا سب کچھ بھی دیدے تو بھی حق ادا نہیں کر سکتا.پس کوئی انسان نہ تو کسی کے اخلاص کا اندازہ لگا سکتا ہے اور نہ اخلاص کا بدلہ دے سکتا ہے لیکن ایک بات ہم کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جو لوگ خد مت دین کے لئے نکلے ان کے لئے دعائیں کر سکتے ہیں اور اس طرح ان کے کام میں شریک ہو سکتے ہیں.رسول کریمﷺ ایک دفعہ جب جنگ کو جا رہے تھے تو فرمایا.سنو کسی وادی میں سے تم نہیں گذرتے کہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو مدینہ میں رہتے ہوئے تمهارے ساتھ نہیں ہوتے.کسی لڑائی میں تم شامل نہیں ہوتے کہ وہ اس میں شریک نہیں ہوتے اور تمہارے لئے کوئی اجر نہیں جو اس میں ان کا حصہ نہ ہو.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ یہ کس طرح؟ فرمایا.اس لئے کہ وہ لوگ عذر اور مجبوری کی وجہ سے پیچھے رہتے ہیں ورنہ ان کے دل تمہارے ہی ساتھ ہوتے ہیں.پس وہ جو کسی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں وہ ان کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں جو میدان میں کام کرنے کے لئے گئے جبکہ ان کے دل ان کے ساتھ شریک ہوں.وہ ان کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں جبکہ دعائیں ان کے ساتھ پھر
۲۵۸ رہی ہوں اس لئے ایک نصیحت تو میں ان لوگوں کو جو نہیں جاسکے یہ کرتا ہوں کہ جانے والوں کے لئے دعائیں کرتے رہیں دوسرے آنے والوں کی مثال دیکر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش نہیں کیا.ان میں سے کئی ایسے ہوں گے جو سمجھتے ہوں گے کہ شاید ہم یہ کام کر سکیں یا نہ.اور خود ان میں سے بھی بعض کو یہی شک ہو گا جو واپس آگئے ہیں مگر جب وہ گئے اس وقت سے اب بہترحالت میں آئے ہیں.اس تین ماہ کےعرصہ میں اگر وہ یہاں رہتے تو آج جو حالت ان کی ہے اس کی بجائے کیا ہوتی اس میں کوئی فرق نہ ہوتامگر آج جبکہ وہ واپس آئے ہیں.اس حالت سے ان کی حالت بہتر ہے کیونکہ اگر نہ جاتے تو ان کی حالت یہ ہوتی کہ خدا کے وعدہ کو پورا کرنے کے منتظر ہوتے.مگر اب ایسے ہیں کہ فمنهم من قضى نحبه ۳۰ جنہوں نے خدا کے وعدہ کو پورا کر دیا ہے اگر نہ جاتے تو ان کی حالت میں کچھ فرق نہ ہوتا.اور اگر گئے تو دنیاوی لحاظ سے ان کا کوئی ایسا نقصان نہیں ہوا جو ناقابل تلافی ہو.مگر جانے پر خدا تعالیٰ کی رضازائد حاصل ہو گئی جو اگر یہاں رہے تو حاصل نہ ہو سکتی.اس بات کی طرف توجہ دلا کر میں ان لوگوں کو جو ابھی جانے کے لئے تیار نہیں ہوئے بلکہ سوچ رہے ہیں کہتا ہوں ویکھ لو جانے والوں کو کیا نقصان پہنچا کچھ بھی نہیں ہاں ثواب کے مستحق ہو گئے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو بزدلی اور تردّد کی وجہ سے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں.وہ اسی خیال میں پڑے رہتے ہیں کہ ابھی اور سوچ لیں دیکھ لیں کیا ہوتا ہے اسی تردد میں وقت گذرجاتا ہے.پس میں ان لوگوں کو مخاطب کر کے دوبا تیں کہتا ہوں جو گئے نہیں اور نہ جانے کیلئے تیار ہوئے ہیں مگر ہماری جماعت میں شامل ہیں.اول یہ کہ اگر وہ کسی عذر کی وجہ سے مثلا ًخرچ نہ ہونے کی وجہ سے یا بیمار ہونے کے باعث یا کسی ایسی خد مت کے سپرد ہونے کے سبب کہ وہ بھی دین کاہی کام ہے اور اس سے فراغت نہیں ہو سکتی جو لوگ نہیں جاسکتے وہ بھی جانے والوں کے ساتھ ثواب میں شامل ہیں.ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے داماد کو جنگ پر جانے سے اس لئے روک دیا کہ آپ کی بیٹی بیمار تھی اور اس کی خبر گیری ضروری تھی.یہ بات اس کو شاق گذری تو آپ نے ٍفرمایا تم بھی ثواب میں ایسے ہی شریک ہو جیسے جنگ پر جانے والے ،گو یہ دنیاوی کام تھا جس کی وجہ سے اسے پیچھے رہنا پڑا لیکن چونکہ رسول الله ﷺکے حکم کے ماتحت تھا اس لئے وہ بھی ثواب میں شریک سمجھا گیا.اسی طرح وہ لوگ جو ہمارے حکم سے رہ رہے ہیں ان کو بھی ایسا ہی ثواب ملے گا جیسا وہاں جانے والوں کو کیونکہ درحقیقت ثواب اطاعت میں ہے نہ کہ اپنی مرضی
۲۵۹ کے ماتحت کوئی کام کرنے میں.دوسرے یہ کہ جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو پیش نہیں کیا اور غفلت سے رہ گئے ہیں وہ دیکھیں کہ ان میں اور ان میں جو وہاں کام کر کے واپس آئے ہیں کیا فرق ہے.کیا وہ کنگال ہو گئے.ہیں اور یہ مالدار بن گئے ہیں کیا ان کی جائیدادیں ضائع ہو گئی ہیں اور انہوں نے اپنی جائیدادیں بڑھالی ہیں، کیا وہ کمزور اور نحیف ہو گئے ہیں اور یہ طاقتور اور زور آور بن گئے ہیں.کچھ بھی نہیں ہوا.دنیاوی لحاظ سے وہ بھی ویسے ہی ہیں جیسے یہ مگردینی لحاظ سے خدا کے خاص فضل کے وارث ہو گئے ہیں اور دوسروں کو نہ دنیا کا فائدہ ہوانہ آخرت کا اور ان کی مثال وہی ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھرکے رہے اب میں ان کو مخاطب کرتا ہوں جو واپس آئے ہیں اور ان کو بتاتا ہوں کہ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کے کرنے سے پچھلی کو تاہیاں معاف ہو جاتی ہیں.ان کاموں میں سے ایک جہاد بھی ہے جو محض خدا کی راہ میں جہاد کے لئے ہے خدا تعالیٰ اس کے پچھلے قصور اور کوتاہیاں معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ جب خدا کے لئے اپنا وطن اپنے عزیز اور اپنا آرام چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی پہلی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے.اگرچہ ہمارا جہار وہ چادر میں جیسا کہ پہلوں نے کیا اسی وجہ سے مجھے رقت آگئی تھی.ہماری مثال تو اس بچہ کی سی ہے جو مٹی کا گھر بنا کر کہتا ہے بے محل ہے‘رسی کمر میں باندھ کر کہتا ہے کہ میں فوجی افسروں ہوں،چھوٹی سی کسوٹی پکڑ کر کہتا ہے کہ یہ تلوار ہے، میلے کچیلے کپڑوں میں سٹول پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے میں بادشاہ ہو گیا.ہماری مثال بھی ایسی ہے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ بعض ہندو جو گوشت نہیں کھاتے وہ بوٹیوں کی شکل کی پڑیاں بناکر کھاتے اور انہیں بوٹیاں سمجھتے.مجھے اس بات پر رونا آتا ہے کہ ہمیں وہ جہاد میسر نہیں جو پہلوں نے کیا مگر اپنے دلوں کو خوش کرنے کے لئے چھوٹی باتوں کا نام جہاد رکھ لیا ہے.لیکن اگر ہمارے دلوں میں اس جہاد کا شوق ہے جو پہلوں نے کیا ،اگر ہمارے دلوں میں اس بات کی تڑپ ہے کہ ہم دین کے لئے قربانی کریں اور کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائیں تو وہ ندا جوان سامانوں کو مہیا کرنے والا ہے جن کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم وہ جہاد نہیں کرسکتے اس نے چونکہ ہمارے لئے وہ سامان مہیا نہیں گئے اس لئے ہمیں اس ثواب سے محروم نہ رکھے گا جو چمار کا سامان ہونے کی وجہ سے ہو سکتا تھا.تو جہاد کے لفظ نے اپنی کوتاه عملی اور اپنے دائرہ عمل کی تنگی کو میرے سامنے لاکر کھڑا کردیا
۲۶۰ جس سے میرا دل پگھل گیا مگر بہرحال یہ بھی تو بادشاہ بن کر خوش ہو ہی لیتا ہے چلو نام کی مشارکت کی وجہ سے ہی ہم بھی خوش ہوئیں اور لہو لگا کر شہیدوں میں مل جائیں.پس اس کو بھی ہم جہاد کہہ سکتے ہیں.گو وہ ایسا جہاد نہ ہو جیسا کہ پہلوں نے کیا اور جو جہاد کے لئے نکلیں ان کے لئے خدا کی سنت ہے کہ ان کے پچھلے گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کردیتا ہے اور کہتا ہے انہوں نے جب میری خاطر سب کچھ چھوڑ دیا تو میں بھی ان کے گناہوں کو چھوڑتا ہوں.آپ لوگ بھی چونکہ جہاد پر گئے تھے اس لئے خدا نے آپ کانیا حساب کھولا ہے.اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ایک قلم سے تمہاری پچھلی تمام کو تاہیوں اور سستیوں کو مٹادیا ہے اسی طرح میں بھی تمہیں ایک ہی بات کہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اب تمهارانیا حساب شروع ہوا ہے پیچھے جو کچھ خدا تعالیٰ کا تمهارے ذمہ تھا وہ مٹ گیا اور بالکل سفید کاغذ ہو گیا اب تم اس کو ذراسی احتیاط اور کوشش سے ہمیشہ کے لئے صاف رکھ سکتے ہو.کسی میں بے جاخود پسندی ہوتی ہے ،کسی میں بیجابزدلی ہوتی ہے، کسی میں بیجاسختی کرنے کی عادت ہوتی ہے، کسی میں بے جا تکبر ہوتا ہے، کسی میں دوسروں کا حق مارنے کی بد عادت ہوتی ہے، کسی میں او ر بیجا خواہشات ہوتی ہیں ان سب بیجا باتوں کو خدا نے ایک ہی بجا سے مٹادیا ہے اب تمہارے لئے موقع ہے کہ دوبارہ کوئی ایسی بات نہ ہونے دو.دیکھو اگر کوئی سوار گھوڑ دوڑ میں پیچھے رہ جائے اور آگے نکل جانے والے سوار ٹهہرجائیں تو اس کے لئے موقع ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ مل جائے اسی طرح تمہارے لئے موقع ہے کہ تم روحانیت میں تیزی کے ساتھ بڑھ جاؤ - تم خدا کیلئے اپنے گھروں سے نکلے تھے خدا نے تمہارے حساب کو جو اس کا تمهارے ذمہ تھا مٹا دیا اور تم ایسے ہی ہو گئے جیسے کوئی انسان نہا کر میل کچیل سے صاف ہو کر نکل آئے.اس بات سے تم فائدہ اٹھاؤ اور آئندہ کے لئے احتیاط کرو گے اب تم پر کسی قسم کی ناپاک چھینٹیں نہ پڑیں.پس تمہارے لئے میری یہی مختصرسی نصیحت ہے اور یہی سب باتوں کی جامع ہے.تم نے جو کچھ کیا اس کا بدلہ خدا تعالیٰ ہی دے گا.ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے دل تمہارے ساتھ تھے جب تم گئے اور ہمارے دل تمهارے ساتھ تھے جب تم وہاں رہے اور ہمارے دل تمهارے ساتھ ہیں جب تم واپس آئے اسی طرح ہماری دعائیں تمہارے ساتھ تھیں جب تم گئے ہماری دعائیں تمہارے ساتھ تھیں جب تم رہے اور ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں.جب تم آئے ہر گھڑی اور ہر قدم پر ہم تمہارے ساتھ شریک تھے اس لئے خدا سے امید ہے کہ ہمیں بھی ثواب سے محروم نہ رکھے گا کیونکہ ہم اس لئے یہاں رہے
۲۶۱ کہ یہاں رہ کر وہاں جانے کی نسبت زیادہ خدا کے دین کی خدمت کر سکیں.تم نے اپنے عمل سے کام کیا جس کو ہم نے اپنی نیت سے کیا اس لئے ہم ایک ہی میدان میں کھڑے تھے.انسانی دعائیں اور تدبیریں جو ہم کر سکتے ہیں کیں اور انسان جس قدر بلند کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اتناکیالیکن ہمارے لئے اصل خوشی کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اب خدا نے تم سے نیاحساب شروع کر دیاہے اس لئے اس نئی کاپی کو صاف رکھنے کی کوشش کرو تاکہ مرنے کے وقت تمہاری حالت ویسی ہو.جیسے ایک عربی شاعر نے کہا ہے.انت الذی ولدتک امک باکیا والناس حولك يضحكون سرورا فاحرص على عمل تكون اذابكو في وقت موتك ضاحكا مسرورا شاعر کہتا ہے کہ وہ ہے کہ جب پیدا ہو اتو رو رہا تھا اور لوگ خوشی سے ہنس رہے تھے.کہ ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے.اب تم کو چاہئے کہ لوگوں سے اس کا بدلہ لے اور مومن شریفانہ بدل لیتا ہے پس تو اس طرح بدلہ لے کہ ایسے عمل کر کے جب مرنے لگے تو توہنس رہا ہو کہ میں اپنی ذمہ داری کو پورا کر کے چلا ہوں اور لوگ رو رہے ہوں کہ ایسا نفع رساں انسان ہم سے جدا ہو رہاہے.پس تم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایسے ہی بن جاؤ یہی ساری نصائح کی جڑھ اور تمام کامیابیوں کا گر ہے.اب میں دعا کرتا ہوں دوسرے احباب بھی کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو آئندہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق دے اور جن سے کوتاہیاں ہوتی ہیں ان کی کوتاہیاں معاف کرے اور جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے نہیں جا سکے ان کی نیتوں کے مطابق ان سے سلوک کرے.(الفضل۶ - جولائی ۱۹۲۳ء)
۲۶۲ بسم الله الرحمن الرحيم محمد صلی علی رسوله الكريم مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطاب (فرموده ۱۰- جولائی ۱۹۲۳ء بمقام مسجد مبارک قادیان) پچھلا طریق یہی رہا ہے کہ جو دوست ملکانا کے علاقہ میں تبلیغ کے لئے جاتے رہے ہیں ان کو گاوں سے باہر جا کر وداع کیا جاتا رہا ہے.آج بھی یہی ارادہ تھا لیکن ظہر کی نماز کے بعد مجھے بخار کی تکلیف ہو گئی گو کو تین کھانے سے اس وقت کچھ افاقہ ہے کیونکہ مجھے بہت تیز بخار ہوا کرتا ہے اور اب اتنی تیزی نہیں ہے لیکن احتیاطاً یہی مناسب سمجھا گیا کہ اس مسجد میں ہی دعا کر کے جانے والوں کو رخصت کر دیا جائے.اس میں شبہ نہیں سنت طریق یہی ہے کہ باہر جا کر رخصت کیا جائے.مجھے رسول کریم ﷺ کے متعلق تو اس وقت کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں کہ رخصت کرنے کے لئے آپ باہر تشریف لے گئے ہوں مگر خلفاء کے متعلق یاد ہے کہ وداع کرنے کے لئے باہر جاتے تھے اور کوئی عجب نہیں کہ رسول کریم اﷺکا بھی کوئی واقعہ معلوم ہو جائے.یہ ایک ضروری اور بابرکت امر ہے مگر میں سمجھتا ہوں آج باہر نہ جانے سے جو کمی ہوگی وہ اس مسجد کی برکت سے پوری ہو جائے گی کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کا اس مسجد کے متعلق الہام ہے کہ جو کام اس میں کیا جائے گا وہ بابرکت ہو گا اس لئے باہر جا کر رخصت کرنا جو صحابہ اور خلفاء کی سنت ہے اس پر آج عمل نہ کرنے سے جو کسر رہ جائے گی وہ اس مسجد میں وداع کرنے کی برکت سے دور ہو جائے گی.میں نے وہاں کام کرنے والوں کے لئے کچھ ہدایات لکھی ہیں امید ہے کہ وہ آپ لوگوں کو مل گئی ہوں گی اور آپ ان پر عمل کریں گے.میں نے پچھلے وفد کو بتلایا تھا کہ بعض باتیں بہت معمولی معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں اور بعض بڑی ہوتی ہیں اور ان کے نتائج بہت معمولی ہوتے ہیں مگر بہت چھوٹی چھوٹی باتوں سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں اور بہت چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑھ جاتی ہیں.بعض دفعہ ایک لفظ منہ سے نکلا ہوا ایک قوم کو ترقی کے کمال پر پہنچادیتا
۲۶۳ ہے اور بعض دفعہ ایک لفظ نکلا ہواہلاکت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے.بعض دفعہ ایک خیال انسان کی نجات کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور ایک خیال اس کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے تو چھوٹی چھوٹی باتوں کے ثمرات بہت بڑے بڑے نکلتے ہیں.انسان سمجھتاہے فلاں بات کا کیا نتیجہ نکلے گایا سمجھتا ہے معمولی نتیجہ نکلے گامگرنہ اس کا نتیجہ معمولی ہوتا ہے اور نہ وہ بے نتیجہ ہوتی ہے.پس کسی بات کے متعلق یہ خیال نہ کرو کہ معمولی ہے.میں نے بعض لوگوں کو حیرت سے کہتے سنا ہے اور مجھے ان کی حیرت پر حیرت آتی تھی مگر ان کے علم اور عقل کو دیکھ کر دور ہو جاتی تھی.وہ حیرت سے پوچھتے کہ ٹریننگ سکول میں کیا سکھلاتے ہیں؟ وہاں بچوں سے بعض خاص سلوک کرنے سکھائے جاتے ہیں طرز تعلیم بتائی جاتی ہے اس کے لئے بعض ایسی موٹی موٹی باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی کہہ سکتا ہے ان سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے مگر وہ بہت مفید ہوتی ہیں اور ان سے بہت اعلیٰ نتائج نکلتے ہیں.اسی طرح صحت کے متعلق ہم دیکھتے ہیں بہت چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے لئے سخت نقصان رساں ثابت ہوتی ہیں.مثلاً پنجابیوں کو اگر کہا جائے گھر میں ہر جگہ نہیں تھوکنا چاہے تو وہ کہیں گے اس میں کیا حرج ہے اور پنجاب میں تو ایک مثل بھی ہے جو لوگوں کی پہلی حالت کا خوب نقشہ کھینچتی ہے کہتے ہیں ’’پرایا گھر تھکنے دا بھی ڈر‘‘ یعنی دوسرے کے گھر میں تھوکتے ہوئے بھی ڈر آتا ہے گویا ان کے نزدیک یہ بہت معمولی بات ہے حالانکہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ تھوکناسخت خطرناک ہے اور اپنے گھر میں بھی نہیں تھوکنا چاہئے.مگر ان کے خیال میں یہ تھا کہ اپنے گھر میں تو جتنا کوئی چاہے پاخانہ بھرے مگر دوسرے کے گھر نہیں تھوکنا چا ہئے.کیونکہ ممکن ہے اس نہایت معمولی سی بات پر وہ ناراض ہو جائے حالانکہ تھوکنا نہایت خطرناک اور سخت مضر ہے.لاکھوں ایسے انسان ہوتے ہیں جن کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مسلول ہیں اور نہ دوسروں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو سل ہے مگر ان میں کیڑے ہوتے ہیں جو ان کی عمدہ صحت کی وجہ سے ان پر اپنا اثر نہیں کر سکتے مگر ان کے جسم سے نکل کر اوروں پر جواِن جیسے مضبوط نہیں ہوتے حملہ کر سکتے ہیں.قادیان میں ہی ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ ایک شخص کی ایک بیوی کو سل ہوئی وہ فوت ہو گئی.پھر دوسری آئی اس کو بھی سل نہ تھی نہ اس کے خاندان میں کسی کو سلِ تھی مگر خاوند کے ہاں آکروہ مسلول ہو گئی اور مرگئی.پھر تیسری آئی اس کو بھی سل ہو گئی.ایسے لوگوں کو جرمزکیریر ( GERMS CARRIER کہتے ہیں ان کی اپنی صحت تو اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ان پر جر مزاثر نہیں کر سکتے مگر وہ تھوک کے ذریعہ دوسروں تک پہنچادیے ہیں.
۲۶۴ اب یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگرنتائج ایسے خطرناک نکلتے ہیں کہ لاکھوں جانیں اس سے ضائع ہوتی ہیں.پس بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.یہ ہدایات جو آپ لوگوں کو دی جاتی ہیں اس خیال سے دی جاتی ہیں کہ سب کو پڑھو اور یہ نہ دیکھو کہ ان میں سے چھوٹی کون سی ہے اور بڑی کو نی سی یہ سب ضروری ہیں.اگر کوئی ضروری نہ ہوتی تو درج ہی نہ کی جاتی اور پہلے ہی چھوڑ دی جاتی.یہ وہی رکھی گئی ہیں جن پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ کامیابی محال ہے.اس کے بعد میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری کامیابی ذر یعہ دعاہی ہے.ان ہدایتوں میں بھی اس کا ذکر ہے.مگر میں پھرکہتا ہوں کہ ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور ساری دنیا ہماری دشمن ہے.لوگ کہتے ہیں اگر ایک دشمن ہو تو اس کا مقابلہ کیا جائے دو ہوں تو ان کا کیا جائے.دس بیس کا کس طرح کیا جاسکتا ہے.مگر ہمارے ہزار دو ہزار آدمی دشمن نہیں بلکہ جتنی جماعتیں اور جتنے فرقے ہیں اتنے ہی ہمارے دشمن ہیں.اپنے بھی دشمن ہیں اور پرائے بھی دشمن ہیں اور ہماری مثال ایسی ہی ہے کہ ایک فوج جو دوسروں کی امداد کے لئے لڑائی پر جاتی ہے اس پر وہی لوگ حملے شروع کردیتے ہیں جن کی مدد کے لئے گئی تھی.اس وقت وہ مسلمان جن کی مدد کے لئے ہم علاقہ ارتداد میں گئے تھے وہ بھی ہم پر حملہ کر رہے ہیں اور جن کا مقابلہ درپیش ہے یعنی آریہ وہ بھی حملہ آور ہیں اور انہوں نے اس خیال سے کہ اگر احمدی مبلغ نہ آتے تو ہم بہت جلدی اور بڑی آسانی سے ملکانوں کو مرتد کر لیتے انہوں نے آکر کیوں ہمارے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کردی ہیں دوسرے مقامات پر ہمارے آدمیوں کو تکالیف پہنچانی شروع کر دی ہیں.اور ایسے دفاتر سے جہاں آریوں کا قبضہ و تصّرف ہے معمولی معمولی باتوں پر احمدیوں کو نکال رہے ہیں.غرض ہمارے چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں اور اس وقت ہماری حالت احد کے مردوں جیسی ہے جن کے متعلق ایک صحابی کہتے ہیں ہمارے پاس اتنا بھی کپڑا نہ تھا کہ جس سے ہم مردوں کو ڈھانپ سکتے.اگر سر کی طرف ڈھا نپتے تو پاؤں ننگے ہو جائے.اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سرننگا ہو جاتا.ہماری حالت ایسی ہی ہے اگر سرڈھا نپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں اور اگر پاؤں ڈھانپتے ہیں تو سرننگا ہو جاتا ہے.ہماری کوششوں میں بہت سے نقص صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ کافی سرمایہ نہیں ہے اور ہمارے پاس کافی سامان نہیں.دیکھنے والا تو کام کا نقص کہتا ہے مگر کام کرنے کانقص نہیں بلکہ سرمایہ کی کمی کانقص ہوتا ہے.مثلاً ہمارے افسر کی حیثیت ایک
۲۶۵ کلرک سے زیادہ نہیں ہوتی.جب یہ حالت ہو تو وہ افسر کس طرح ان افسروں کی طرح تجاویز سوچ سکتا ہے جو خود کلرکوں کی نگرانی بھی نہیں کرتے اس کے لئے نگران سپرنٹنڈنٹ اور ہوتے ہیں افسر بڑے بڑے معاملات پر غور کرتا رہتا ہے.پس ہمارے لئے اس قدر مشکلات ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی نصرت شامل حال نہ ہو تو ہم کچھ بھی نہ کر سکیں.ہم نے ہندوستان سے باہر جو تبلیغی کام شروع کر رکھے ہیں وہاں اس قدر خرچ ہو رہا ہے کہ اسی کے لئے خاص چندے کرنے پڑتے ہیں.مگر اب ملکانہ تبلیغ کے اخراجات اتنے کئے جارہے ہیں کہ سب بیرونی تبلیغی کاموں سے زیادہ ہیں.سب نظارتوں کا تین ہزار کے قریب ماہوار خرچ کا اندازہ ہے.مگر اس اکیلے کام کا اتنا خرچ ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ حسابات کی بڑی سختی سے نگرانی کی جاتی ہے اور مبلّغ آنریری ہیں.ادھر جماعت کی یہ حالت ہے کہ اس پر چندہ کا اتنابار ہے کہ دنیا میں اس کی دوسری کوئی مثال نہیں پائی جاتی.دوسرے لوگ بھی چندہ جمع کرتے ہیں مگر مستقل طور پر اتنا چنده دیں جتنا ہماری جماعت مستقل طور پر دیتی ہے اس کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی.مگر باوجود اس کے ہماری جماعت جتنا چندہ دے رہی ہے وہ ہمارے کاموں کے لئے کافی نہیں اس کے لئے ہم جس قدر زور دے سکتے تھے دے چکے ہیں.اس سے زیادہ جماعت میں برداشت کرنے کی طاقت نہیں.ایسی صورت میں اگر یہ انسانی کام ہوتا تو سواۓ اس کے کہ جس طرح ایک چیز پر جب زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو وہ اپنی طاقت کی آخری حد پر پہنچ کر پھٹ جاتی اورٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے یہی ہمارا حال ہو مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں بلکہ خدا کا کام ہے.اور ہمارے نقصوں ہماری کمزوریوں اور ہماری سے مسلمانوں کی وجہ سے خراب نہیں ہو گا بلکہ جب یہی بے سامانیاں اپنی آخری حد کو پہنچ جائیں گی تو خدا تعالیٰ کی خاص مدد اور نصرت نازل ہوگی کیونکہ خدا تعالی ٰجب دیکھے گا کہ ان کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے دے دیا اور اب ان کے پاس کچھ نہیں تو میرا خزانہ جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی اس کو ان کے لئے کیوں نہ کھول دوں.انہوں نے جب سب کچھ کھوکر دین کی خدمت کی ہے تو میں سب کچھ رکھ کر کیوں نہ ان کی مدد کروں.پس یہی وقت ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کی خاص مدد نازل ہوتی ہے.ہماری جماعت کے متعلق ہمیشہ یہی ہوتا رہاہے اور ہوتا رہے گا جب تک ہم خدا کی رضا کے لئے کام کرتے رہیں گے.میری خلافت کے اس آٹھ نو سال کے عرصہ میں کیسے کیسے خطرناک حملے پیغامیوں اور غیر احمدیوں نے کئے مگر جب یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ اب تباہ ہو جائیں گے اسی وقت خدا تعالی ٰکی طرف سے ایسی نصرت نازل ہوئی کہ یہ
۲۶۶ معلوم ہونے لگا دشمن کا حملہ کچھ بھی نہ تھا.پس ہماری کامیابی کا رستہ ایک ہی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہے.مگر جب کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی انتہائی طاقت خرچ کر دے لیکن اگر ایسانہ کرے اور پھر خدا کی مددمانگے تو خدا تعالی ٰکی غیرت اس کے خلاف بھڑکتی ہے.دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ جس میں اپنا عجز اور انکسار ہوتا ہے اور دوسرے وہ جس میں خدا کی رحمت کو جذب کرنا ہو تا ہے.قسم اول کی دعائیں تو انسان ہر وقت کر سکتا ہے کہ میرے رستے میں کوئی روک نہ پیدا ہو مجھے کامیابی نصیب ہو.مگر دوسری قسم ایسی ہے کہ اس وقت کی جاسکتی ہے جب اپنے پلے کچھ نہ رہے.دیکھو اگر ایک شخص یہ کہہ کر کسی سے مانگے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن اس کے پاس سے مال نکل آئے تو اس سے کیا سلوک کیا جائے گا.اور اسی طرح جو شخص اپنی پوری قوت اور ساری طاقت صرف کئے بغیر خدا کی نصرت اور مدد کا طالب ہوتا ہے اس سے یہی سلوک ہوتا ہے وہ خدا کی نصرت حاصل کرنے کی بجائے اس کا غضب اپنے اوپر واردکرلیتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ ایک ہندوستانی عرب سے آرہا تھاراستہ میں اس نے ایک عرب سے کہا مجھے کھانے کو کچھ دو مگر مجھے سے اجر کی امید نہ رکھو کیونکہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے.یہ سن کر عرب کا چہرہ متغیر ہو گیا اور اٹھا اور اٹھ کر اپنے تربوزوں کے کھیت میں گیا تربوز توڑے اوردیکھے پھر توڑے اور دیکھے اور جو عمدہ نکلے وہ اس شخص کو کھلاتا جائے جب اس کا پیٹ بھر گیا تو اس نے اس کے کپڑے اتروا کر تلاشی لی اور کہا اب جاؤ.اس نے اس کی وجہ پوچھی تو عرب نے کہا جب تونے آکر کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے تو میں نے یہ کھیت چو میرے بیوی بچوں کا سہارا تھا تیری خاطر برباد کردیا اور جو بہتر سے بہتر تربوز تھاوہ تجھے کھلایا اب ہمارا اللہ ہی حافظ ہے.اگر تیرے پاس سے ایک پیسہ بھی نکل آتا تو میں تجھے قتل کر دیتا کہ میں نے مہمان نوازی میں کسر نہیں رکھی تونے کیوں جھوٹ بولا.تو جو شخص اپنے پاس کچھ رکھ کر خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں وہ غضب کا مستحق ہوتا ہے لیکن اگر کوئی خالی ہاتھ خداتعالی ٰکے حضور جاتا ہے تو کبھی خالی نہیں آتا.اگر اس کی درخواست سنت اللہ کے خلاف نہ ہو اور اگر کوئی بات خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے خلاف نہیں تو ناممکن ہے کہ خالی ہاتھ واپس آئے.اور ایسے میں اگر ایک سو نہیں ایک ہزار میں اگر ایک لاکھ بھی جائیں گے تو اپنی دعا قبول کرا کر آئیں گے.
۲۶۷ پس تم دعاؤں پر زور دو مگر یہ بھی یاد رکھو کہ دعائیں اسی وقت قبول ہوتی ہیں جب اپنی طرف سے پورے زور اور طاقت سے کام کیا جائے لیکن اگر تم محنت نہیں کرتے یا سوچ سمجھ کر کام نہیں کرتے تو تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی.وعائیں جب قبول ہوتی ہیں جب کوئی اپنے کام کے متعلق سوچے اور اپنی طرف سے پوری پوری محنت کرے اس کے بعد جب کچھ نہ بنے تو خدا تعالیٰ غیب سے کامیابی کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور عین اس وقت جب انسان ناکامی کو دیکھتا ہے کامیابی کے بادل اسے سامنے سے لہراتے نظر آتے ہیں.یہ دونوں باتیں کافی ہیں اگر تم ان پر عمل کروگے.اس کے بعد میں وہ شرائط دُ ہرادیتا ہوں جو اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والوں کے لئے رکھی گئی تھیں.پہلے کچھ ایسے لوگ چلے گئے جن کے پاس کافی خرچ نہ تھا اور انہیں دفتر سے مانگنا پڑا.کچھ ایسے لوگ چلے گئے جنہوں نے وعدہ تو کیا تھا کہ ہر قسم کی تکالیف برداشت کریں گے مگر برداشت نہ کیں.پھر ایسے بھی گئے کہ جو ان کے پاس خود آگیا اس کو تو پڑھادیا اور جو نہ آیا اس کی انہوں نے خبر نہ لی اور نہ اس کے پاس گئے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ روحانی معالج اور جسمانی ڈاکٹر کی حالت میں بڑا فرق ہے.جسمانی مریض تو خود ڈاکٹر کے پاس آتے ہیں اور روحانی ڈاکٹر کو خود ان کے پاس جانا اور ان کا علاج کرنا ہوتا ہے.پھر جس نے اپنے افسروں کی فرمانبرداری پورے طور پر نہیں کی حالا نکہ اقرار یہ ہے کہ فوجی سپاہیوں کی طرح فرمانبرداری کریں گے.اور جانتے ہو فوجی سپاہی کی فرمانبرداری کرتے ہیں.جن میں ایک توپ خانہ فوج کے پیچھے ہوتا ہے جس کی ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر اپنے سپاہی پیچھے بھاگیں تو انہیں وہیں بھون ڈالے.میں نے ایک دوست سے جو جنگ پر گئے تھے پوچھا کیا اب بھی بہاد ری ظاہر کرنے کا موقع ہو تاہے.اس نے کہا وہاں تو یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر ذرا پیچھے ہٹے تو اپنے توپ خانہ والے مارڈالیں گے اس لئے اگر دشمن سے لڑتے ہوئے مریں گے تو پنشن تو ہو جائے گی جس سے بال بچوں کا گذارہ چل سکے گا اس لئے یہی بہتر ہے کہ دشمن کا مقابلہ کرتے رہیں اور جو کچھ ہو اسے برداشت کریں اس وقت دلیری یا بزدلی کا سوال ہی نہیں ہوتا.ان سپاہیوں کا اگلے دشمن سے جانا تو آسان ہوا ہے مگر پچھلے توپ خانہ سے بچنا نا ممکن.تو اس سختی کے ساتھ وہاں کام لیا جاتا ہے اور یہ لوگ پند رہ پند رہ، بیس بیس روپے کے لئے کام کرتے ہیں.مگر جو لوگ خدا کے لئے نکلے ہوں ان کو کس قدر مشکلات برداشت کرنی چاہئیں.جب کوئی سپاہی پہرہ پر کھڑا ہو تو اس کو اتنی بھی اجازت نہیں ہوتی کہ کسی چیز سے ٹیک لگائے.پھر کئی کئی وقت
۲۶۸ فاقے کرنے پڑتے ہیں.ابھی ایک جہاز ڈوب گیا ہے اس سے جو لوگ بچے انہیں بیس دن تک قانہ سے رہنا پڑا.اس سے معلوم ہوا کہ اس قدر فاقہ برداشت کرنے کی انسان میں طاقت ہے.اور جب مجبوری میں اتنا فا قہ کیا جاسکتا ہے تو خدا کے لئے کیوں نہیں کیا جا سکتا.پس تم لوگ ایسی فرمانبرداری سے کام کرو جیسے فوجی سپاہی کرتے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ایسی فرمانبرداری دکھاؤ جیسی صحابہ دکھاتے تھے کیونکہ فوجی سپاہی توپ خانے کے ڈر سے کام کرتے ہیں مگر صحابہ کو تو اس کا ڈر نہیں ہوا تھا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صحابی جن کا نام ضرار تھاجب د شمن کے مقابلے میں نکلے تو بھاگے بھاگے واپس آگئے.جس کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلے تھے اس نے بیس مسلمان مار دیئے تھے.سمجھا گیا کہ اس کے ڈر سے واپس بھاگ آئے ہیں لیکن جب پھر گئے اور واپس آنے کی وجہ پوچھی گئی تو کہامیں بغیر زرہ کے لڑا کرتا ہوں مگر آج زرہ پہنی ہوئی ہے جب میں مقابلہ پر گیا تو مجھے اس قدر صد مہ ہوا کہ اگر اس حالت میں میں مارا گیا تو سخت گرفت میں آؤں گا کہ آج کافر سے ڈر کر میں نے زرہ پہن لی اس لئے میں دوڑتا ہوا گیا اور اب اتار کر آیا ہوں اور دشمن کو انہوں نے قتل کر دیا.تو سپاہی کی لڑائی صحابی کی لڑائی کے مقابلہ میں نہیں آسکتی سپاہی لالچ اور ڈر کے لئے لڑتا ہے لیکن صحابی خدا کے لئے لڑتا ہے.تمہاری اطاعت صحابہ جیسی ہونی چاہئے اور ان کی اطاعت ایسی تھی کہ جو مخلص تھے وہ کسی حالت میں بھی نا فرمانبرداری نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺنے مسجد میں لوگوں کو فرمایا بیٹھ جاؤ.عبد الله بن مسعود گلی میں سے گزر رہے تھے ان کے لئے یہ حکم نہ تھا لیکن جب ان کے کان میں یہ آواز پڑی تو وہیں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے چل کر مسجد میں آئے پھر ایک مومن میں فرمانبرداری ایک نہایت ضروری امر ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس جماعت کے لئے جو کوئی ہو ورنہ لاکھ میں سے ایک بھی ایسا چانس نہیں کہ وہ کامیاب ہو سکے.پس تم لوگ اپنے افسروں کی کامل فرمانبرداری سے کام کرو اور اس بات کو خوب یاد رکھو میاں غلام رسول صاحب ریڈر پشاور جو یہاں پڑھتے بھی رہے ہیں اس وجہ سے سابق ہونے کے خیال سے اس وفد کا میں نے ان کو امیر مقرر کیا ہے.رستہ میں جس طرح کہیں اور جو انتظام کریں سب کو اس کی پابندی کرنی چاہے - اور وہاں پہنچ کر امیروفد چو دہری فتح محمد صاحب سیال ہیں ان کی اطاعت فرض ہے پھر وہ جس کے سپرد کریں ان کی اطاعت ضروری ہے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تم کو بھی اور جو دوست جا چکے ہیں ان کو بھی کامیابی کا سہرا عطا فرمائے.(الفضل ۰ ۲- جولائی ۱۹۲۳ء)
۲۶۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريم مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطاب (فرمودہ ۱۴- ستمبر ۱۹۳۳ء) آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ہماری جماعت کا تیسرا وفد یعنی تیسرے وقت کا وفد علاقہ ارتداد میں جا رہا ہے.کہتے ہیں کہ تین کا عد د مکمل ہوتا ہے اس لئے کہ وہ طاق بھی ہوتاہے اور پھر اپنے اندر اتحاد بھی رکھتا ہے.طاق ہونے کی وجہ سے خدا تعالی ٰکی ذات سے اشتراک رکھتا ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ و ترہے اور اس وتر کو پسند کرتاہے.تین کا عدد دونوں باتوں کو جمع رکھتا ہے.تین وتر ہے اس لئے ایک سے مشابہ ہونے کی وجہ سے وحدانیت پر دلالت کرتا ہے.اس میں دو بھی ہیں اور ایک بھی اس لئے اجتماع پر دلالت کرتا ہے.کیا تعجب ہے کہ اس تین پر ہی خدا تعالی ٰاس جنگ کا خاتمہ کر دے اور چوتھے وقت میں اس صورت میں وفد نہ بھیجنا پڑے.یہ فال کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ مومن کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جنگ ختم ہو جائے کیونکہ مومن جب تک زندہ ہے، جنگ چلی ہی جائے گی.پس ہم یہ تو نہیں چاہتے کہ جنگ ختم ہو جائے اور کبھی بھی نہیں کہہ سکتے کہ جنگ ختم ہو گئی کیونکہ مسلمان کے لئے جنگ کے ختم ہو جانے کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ ہتھیار ڈرلتا ہے ورنہ اس کی جنگ کبھی ختم نہیں ہو سکتی.وجہ یہ ہے کہ مسلم کی جنگ شیطان سے ہے اور جب تک دنیا ہے شیطان بھی رہے گا.چنانچہ آتا ہے.جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيمة ؟ پس جب قیامت تک کافروں پر غلبہ رہے گا تو یہ معلوم ہوا قیامت تک کافر بھی رہیں گے.اور جب کافر رہیں گے تو شیطان بھی رہے گا اس لئے اس سے جنگ بھی جاری رہے گی.اس میں شک نہیں کہ مسیح موعود کے متعلق آیا ہے کہ وہ شیطان کو قتل کرے گا مگر اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعود شیطان کا زور توڑ دے گا.عربی میں قتل کے معنے زور توڑ دینے کے بھی ہیں مثلاً شراب کو قتل کر دینے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس میں پانی ملا کر اس کے زور کو کم کردیا.پس مسیح موعود کے متعلق
۲۷۰ جو آتا ہے کہ شیطان کو قتل کرے گا اس کا یہ مطلب ہے کہ عیسائیت کے زور کو توڑ دے گا عیسائیت کی بنیاد کو اُکھیڑ دے گا.اس وقت عیسائی میں نے ہماری دنیاوی ترقی عیسائیت کی صداقت کا ثبوت ہے چنانچہ اس زمانہ میں کہتے ہیں ایسی زبردست اور با حکومت قوم جو ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے.مسیح موعود کا یہ کام ہو گا کہ اس کے زور کو توڑ دے گا ورنہ کفر تو قیامت تک رہے گا.پس ہم جنگ سے نہیں ڈرتے اور یہ ناممکنات کے لئے امیدیں لگاتے ہیں کیونکہ اس قسم کی امید رکھنا کفر ہے اس لئے ہم یہ تو امید نہیں رکھتے کہ جنگ ختم ہو جائے بلکہ یہ امید رکھتے ہیں کہ جنگ کی نوعیت بدل جائے اور نوعیت بدلتی رہتی ہے جس سے اس میں حصہ لینے والوں کی ہمتیں بڑھتی رہتی ہیں.دیکھو ایک قسم کا کھانا بھی انسان روز نہیں کھا سکتا کیونکہ انسان اکتا جاتا ہے.اسی طرح ایک قسم کی جنگ بھی چونکہ اکتادیتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس کی نوعیت بدلتا رہتا ہے.آج اگر اس قوم سے جنگ ہے توکل اورسے.پس ہم امید رکھتے ہیں کہ خدا تعالی ٰاس جنگ کی نوعیت کو بدل دے اور ہم اس علاقہ سے فارغ ہو کر کسی اور علاقہ میں جائیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جس کام کے لئے وہ چلے ہیں اس کے لئے اسی رنگ میں جب تک کوشش نہ کریں گے جو ضروری ہے اس وقت تک کامیاب نہ ہوں گے.پہلے دیکھا گیا ہے کہ جانے والے یہاں سے ہدایات لوٹ کر کے لے گئے مگر وہاں جاکر ان پر پورا پورا عمل نہیں کیا گیا.میں نے سب سے ضروری نصیحت جانے والوں کو یہ کی تھی کہ جہاں اور جس مقام پر رہو وہاں کے لوگوں سے واقفیت اور دوستانہ تعلقات پیدا کرومگر معلوم ہوا کہ بعض لوگ ایک گاؤں میں دودو ماہ تک رہے اور جب انسپکٹر نے جا کر ان سے پوچھا تو کہہ دیا کہ یہاں کے چار پانچ آدمیوں سے واقفیت پیدا کی ہے.گویا وہ صرف چار پانچ آدمیوں کو ہی تبلیغ کرتے رہے اور باقی سب کو نظرانداز کر دیا.وہ مبلغ جو کسی گاؤں میں تبلیغ کے لئے مقرر کیا جاتا ہے وہاں کا اگر ایک آدمی بھی ایک بچہ بھی ایسا رہ جاتا ہے جس کے ساتھ اس نے باتیں نہ کیں، واقفیت نہ پیدا کی، تبلیغ نہ کی تو وہ کامیاب نہیں کہلاسکتا.جہاں جہاں مبلّغ بھیجے جاتے ہیں وہ کوئی شہر تو نہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں اور اگر کوئی بڑا گاؤں ہو تو وہاں مبلغ بھی زیادہ رکھے جاتے ہیں اور اس طرح سو ڈیڑھ سو آدمی ایک مبلّغ کے حصہ میں آتا ہے اتنے لوگوں سے جو شخص واقفیت نہیں پیدا کر سکتا وہ کام کیا کر سکتا ہے.دیکھو باہر کے جو لوگ یہ خیال کر کے آتے ہیں کہ قادیان میں وہ لوگ رہتے ہیں جنہوں نے
۲۷۱ حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت پائی‘ آپ کے پاس رہے، دین کے لئے قربانیاں کر کے آئے اور سب کچھ چھوڑ کر خدمت کے لئے قادیان میں آبیٹھے ان سےملیں اور تعارف پیدا کریں اور دو تین دن میں واقفیت پیدا کر کے چلے جاتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ یہ نیت کر کے آتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے واقفیت پیدا کرنی ضروری اور فائدہ مند ہے.اگر مبلغ بھی اسی طرح نیت کر کے دیہات میں جائیں تو ایک ہفتہ کے اندر اندر واقفیت کیا دوستی بھی پیدا کر سکتے ہیں.یہ سخت غفلت ہے کہ ایک آدمی جائے اسے ہدایات دے دی جائیں جنہیں وہ لکھ لے یا یاد کرنے مگر وہاں جا کر ان پر عمل نہ کرے.اگر کوئی شخص وہاں جاتا اور خاموشی سے اپنا وقت گذار کر آجاتا ہے تو اس کے جانے کا کیافائده - پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ جو نصائح دی جائیں( امید ہے آپ لوگوں کو بھی ہدایات کی ایک ایک کاپی دے دی گئی ہوگی) ان پر پورا پورا عمل کرو.ہرایک شخص میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ سمجھ سکے کہ اسے کیا کام کرتا ہے اور کس طرح کرنا ہے یہ کام کروانے والوں کا فرض ہے کہ اسے بتائیں کہ اس طرح کام کرنا ہے اور کام کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ جو کچھ بتایا جائے اسے سمجھے اور اس کے مطابق کام کرے.پس سب سے بڑی نصیحت یہی ہے کہ جو ہد ایات تمہیں دی گئی ہیں ان پر عمل کرو.اس کے بعد میں جانے والوں کو اور دوسروں کو جو بیٹھے ہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دین کا معاملہ ایسا ہم معاملہ ہے کہ اس کے لئے مومن کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا -دیکھو جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اور آج بھی خطبہ میں بیان کیا ہے علاقہ ارتداد میں ملکانوں کا سوال نہیں بلکہ اسلام کا سوال ہے.جس قدر مرتد ہو چکے ہیں ان سے زیادہ تعداد میں مسلمان عیسائی ہو کر گمراہ ہو چکے ہیں مگر اس پر اس قدر حیرت اور استعجاب نہیں ہوا.وجہ یہ ہے کہ وہ افراد عیسائی ہوئے ہیں اور یہ ایک قوم کی قوم مرتدہورہی ہے جس سے یدخلون في دين الله افواجا کی بجائے یخرجون من دين الله افواجا کا نظارہ ہے.اور اس طرح وہ رعب جس کے متعلق رسول کریم اﷺنے فرمايا تبال کہ مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے اس کے مٹنے کا ڈر ہے رسول کریم ﷺکے رعب سے مراد آپ کے مذہب اور آپ کی امت کا رعب ہے نہ یہ کہ آپؐ کی ذات کارعب.اگر یہ ہوتا تو آپ کا ذاتی رعب ہو جاتا اور ذاتی رعب تو اور لوگوں کو بھی حاصل تھا کیا سکند ر کا رعب اپنے زمانہ میںنہ تھا اور کیا اب انگریزوں کا رعب نہیں ہے.تو رسول کریم ﷺکے رعب سے مراد یہ تھی کہ آپ کو ایسارعب دیا گیا جو آپ کی وفات کے بعد قائم رہے گا جو یہی ہے کہ آپ کے مذہب اور
۲۷۲ امت کا رعب ہے اور سوائے آپ کی ذات کے اور کونساوجود ہے جو مر گیا ہو اور اس کا رعب قائم ہو سوائے رسول کریم ﷺکے اور کسی کا نہیں.آج بھی آپ کی تعلیم اور آپ کے مذہب سے دنیا ڈر رہی ہے.یورپ اب بھی یہی کہتا ہے کہ پین اسلام ازم یعنی اتحاد اسلام سے ڈرنا چاہئے.تو اسلام کا رعب اب بھی قائم ہے اور یہ رسول کریمﷺ کا معجزہ ہے جو اسلام کی تائید میں دیا گیا ہے.لیکن اب اگر قوموں کی قو میں اسلام سے نکلنی شروع ہو جائیں تو یہ مفہوم ہو گا کہ مسلمانوں کی بد اعمالی کی وجہ سے رعب مٹا دیا گیا.پس ہماری طرف آوازملکانوں کی نہیں آرہی بلکہ اسلام کی آواز آرہی ہے اور اسلام ہمیں بلا رہا ہے کہ آؤ آکر میری حفاظت کرو.ہم نے یہ کام اس لئے نہیں شروع کیا کہ ملکانا قوم کو بچانا ہے بلکہ اس لئے شروع کیا ہے کہ اسلام کو محفوظ کرنا ہے اس لئے کوئی یہ نہ کہے کہ ملکانے حریص اور لالچی ہیں اس لئے ان کی اصلاح مشکل ہے.خواہ یہ لوگ کتنے ہی حریص اور لالچی ہوں مگر ان بدوؤں سے تو زیادہ نہیں ہو سکتے جن کی اصلاح کے لئے رسول کریم ﷺ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا اور جنہوں نے ایک دفعہ جب رسول کریمﷺ جنگ سے واپس آرہے تھے آپ کے گلے میں کپڑاڈال کر کھینچا اور کہا ہمیں مال کیوں نہیں دیتے.مگر میں نے کسی مبلّغ سے یہ نہیں سنا کہ کسی ملکانہ نے اس کے گلے میں رسی ڈال کر اس لئے کھینچا ہو کہ روپیہ دو.پس اگر ان بدوؤں کے لئے رسول کریمﷺ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں ، مسلمانوں کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں ، مسلمانوں کے اموال کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں تو ان ملکانوں کے لئے کیوں ہم اپنی جانوں اور مالوں کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے ہیں.بدو خواہ کیسے ہی لالچی تھے مگر چونکہ اسلام کے لئے اجتماع اور مرکز بنانا ضرور تھا اس لئے رسول کریم ﷺکہتے چاہے کوئی اسلام کی ایک بات ہی سمجھے، مسلمان سمجھاجائے آگے وہ خود سب کچھ سیکھ جائے گانہ یہ کہ چونکہ وہ لوگ لالچی اور بہت گرے ہوئے تھے اس لئے آپ نے ان کی اصلاح کے لئے کوشش ہی نہ فرمائی.آپ نے کوشش کی اور محض لا اله الا الله محمد رسول اللہ سمجھنے پر ان کو داخل اسلام کر لیا.پس جو کچھ رسول کریم ﷺ نے بدوؤں کے لئے قربان کیا وہ ہم نہیں کر رہے بلکہ اس سے بہت ہی کم کر رہے ہیں پھر اس سے بھی کوتاہی کرنا کس قدر افسوس ناک امر ہے.اس بات کو خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ یہ کسی قوم کا سوال نہیں نہ کسی قوم کی آواز ہے بلکہ اسلام کی آواز ہے اور اس کو سن کر کس طرح کوئی مومن خاموش رہ سکتا ہے دیکھو ابھی یونان میں اٹلی والوں کے کچھ آدمی مارے گئے ہیں اس وجہ سے ساری اٹلی یونان کے خلاف کھڑی ہو
۲۷۳ گی.اتحادیوں نے انہیں کہا کہ اتنا غصہ نہ دکھاؤ تمام تصفیہ کردیں گے لیکن انہوں نے کہا اس میں چونکہ ہماری ہتک کی گئی ہے اس لئے جب تک یونان والے ہماری شرائط نہ مانیں گے ہم نہیں چھوڑیں گے.اس میں شبہ نہیں کہ اٹلی والوں نے حد سے زیادہ تیزی دکھائی ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ ان کی زندگی کی علامت ہے اور انہوں نے یونان سے حسب منشاء شرطیں منوالی ہیں.اسلامی سلطنت کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے.معتصم باللہ کے زمانہ کا ذکر ہے ایک مسلمان عورت کو ایک عیسائی بادشاه د کھ دے رہا تھا اور طنزاً کہہ رہا تھا کہ دیکھو معتصم بالله ابلق گھوڑے پر سوار تمہاری مدد کو آرہا ہے.یہ بات ایک مسلمان نے سنی اور جا کر بادشاہ کو بتائی.اس وقت اگرچہ بادشاہت کو تنزل تھا مگر بادشاہ نے کہا کہ میں ابھی اس عورت کو بچانے کے لئے جاؤں گا.آدمیوں کو چلنے کا حکم دے دیا اور کہاسب ابلق گھوڑوں پر سوار ہوں.اس کے اپنے گھوڑے کا رنگ ابلق تھا اسی کی طرف عیسائی نے اشارہ کیا تھا.بادشاہ نے کہا ابلق گھوڑوں پر ہی سوار ہو کر وہاں جائیں گے.پس لشکر گیا اور جا کر اس عورت کو چھو ڑالا يا - دیکھو ایک عورت کے لئے اور وہ بھی اس زمانہ میں جب کہ مسلمان عیش و عشرت میں پڑے ہوئے اور تنزّل میں گرے ہوئے تھے اس قدر غیرت د کھلائی تو کیا وہ قوم جو ایک نبی کی امت کہلاتی اور دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑی ہوئی ہے وہ ایک قوم کے لئے غیرت نہ دکھلائے گی؟ ایک تازہ واقعہ ہوا ہے.ایک رپورٹ آئی ہے کہ ایک جگہ آریوں نے شدھی کا دن مقرر کیا.اور وہاں گھی وغیرہ سامان پہنچا دیا.جن لوگوں نے مرتد ہونا تھا ان کے گھرانہ کی ایک عورت اس بات پر مصر تھی کہ میں مسلمان ہی رہوں گی.جب سامان آگیا تو مقررہ دن گھروالے گھبرائے کہ اگر یہ عورت مرتد نہ ہوئی تو ہماری بد نامی ہوگی.آگے کوئی کہتا ہے کہ وہ کچھ کھا کر مرگئی اور کوئی کہتا ہے کہ اسے ان لوگوں نے مار کر مار و یا اگر وہ کچھ کھاکر مری ہے تو گو اسلام میں خود کشی گناہ ہے مگر اسی کے لئے جو اس بات کو جانتا ہو وہ بیچاری کہاں جانتی ہوگی.پس اگر اس نے زہر بھی کھایا ہے تو بھی اس نے اسلام کے لئے جان دی- اور اگر اسے مارمار کرماردیا گیا تو بھی ان بہت سے مسلمانوں سے بہترہی رہی جو گھر میں بیٹھے رہے اور فتنہ ارتداد کے مقابلہ کے لئے نہ نکلے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علاقے ملکانہ میں اس کی روحیں ہیں جو اسلام کے لئے جان دے رہی ہیں اور ان کا بچانا ہمارا فرض ہے اگر ایسی روح ایک بھی ہو.مگر اب تو کئی ثابت ہو رہی ہیں تو ہمارا
۲۷۴ فرض ہے کہ ان کو بچائیں.پس دوستوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اسلام کا سوال ہے اس نظر سے اس کام کو دیکھنا چاہئے.تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہو- اگر یہ بات سمجھ لی جائے تو میرا خیال ہے فتنہ ارتدار بہت جلد رک سکتاہے.اس کے بعد پھر میں ان دوستوں کو چھو جانے والے ہیں کہتا ہوں کہ چونکہ یہ اسلام کا سوال ہے اس لئے اس کے لئے اسی رنگ میں قدم ڈالیں جو ضروری ہے اور ہرقسم کی کو تاہی سے بچیں.کیونکہ ذرا سی کو تاہی بھی بہت خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے.آپ لوگ ہدایات کو پڑھیں اور بار بار پڑھیں اور خصوصیت سے دعاؤں پر زور دیں کیونکہ خدا تعالیٰ دعا کرنے پر ایسے ایسے سامان کامیابی کے پیدا کردیتا ہے جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوئے.چونکہ خدا تعالی ٰکا ہاتھ سب سے بڑا ہے اس لئے کوئی طاقت اس کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ ہو.چونکہ یہ اللہ تعالیٰٰ کا کام ہے اس لئے وہ خود مدد کرے گا اور غیب سے ایسے سامان کردے گا جو وہم میں بھی نہیں آسکتے.دیکھواحمدیت کی اشاعت کے کیسے کیسے سامان خدا تعالیٰ کر رہا ہے بخارا میں پتہ لگا کہ وہاں جماعت ہے.اب پتہ لگا ہے چین میں بھی احمدی جماعت ہے اور آج ایک جزیرہ کے متعلق خط آیا ہے کہ وہاں کا ایک آدمی آیا ہے جس نے بیان کیا کہ وہاں بڑی جماعت ہے مگر حکومت کے ڈر کی وجہ سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتی.کوئی مد راسی اس جزیرہ میں گیا تھا جس کے ذریعہ احمدیت کا علم ان لوگوں کو ہوا.اور وہ لوگ عقائد سے بھی خوب واقف ہیں حتی کہ مسئلہ نبوت کے متعلق جو اختلاف ہوا اس سے بھی.گویا ان لوگوں کو جو آدمی ملاوه پیغامی اختلاف کے بعد ملا.پس جب خدا تعالی کٰی طاقتیں بخارا ،مصر ،عرب، ایران، چین وغیرہ میں احمدیت کی تائید میں ظاہر ہو رہی ہیں تو علاقہ ملکانہ میں کیوں نہ ظاہر ہوں گی مگر ضرورت یہ ہے کہ جانے والے سچی کوشش کریں اور دعاؤں میں لگے رہیں.لیکن یا تو دعاؤں میں کوتاہی کی جاتی ہے یا سچی کوشش نہیں کی جاتی اس لئے دیر ہو رہی ہے.یا پھرممکن ہے کوشش بھی پوری کی جاتی ہو دعائیں بھی عاجزی اور انکساری سے کی جاتی ہوں لیکن منشاء الہٰی یہ ہو کہ اس میدان میں ساری جماعت کے لوگوں کو لا کر ہوشیار کر دے اس لئے نہ دعائیں سنتا ہو اور نہ کوششوں کا نتیجہ پیدا کرتا ہو.اگر ایسا ہے تو یہ اس کا رحم ہے اور فضل ہے بہرحال ہمارا کام یہ ہے کہ دعائیں کریں.تم لوگوں کو چاہئے کہ دعائیں کرتے جاؤ اور اپنے افسروں کی پوری اطاعت کرو اور یہ نیت رکھ کر جاؤ کہ یہ کام
۲۷۵ ہمارے زمانہ میں ختم ہو جائے.ان ہدایات پر جن کا ایک حصہ اصل اور ایک ضمیمہ ہے (الفضل۲۵- ستمبر ۱۹۲۳ء) پورا پورا عمل کرو.آگرہ تک چوہدری حاکم علی صاحب کو امیر قافلہ مقرر کر تا ہوں وہاں جا کر چوہدری فتح محمد صاحب امیر ہوں گے.وہ جہاں لگائیں وہاں کام کرو.اور جس کام پر لگایا جائے وہی کرو اور جہاں تک تمہاری طاقت میں ہو کرو اس سے زیادہ کے لئے خدا بھی نہیں پوچھے گا.اس کے بعد دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ٰتمهارے ہاتھ پر فتح دے.(الفضل ۲۵- ستمبر۱۹۲۳ء)
۲۷۶ بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہو نصلی علی رسوله الكريم میدان ارتداد میں مبلغین کی اشد ضرورت (فرموده ۵- نومبر۱۹۲۳ء) ۵- نومبر تیسری سہ ماہی کے تیسرے وفد کے علاقہ ارتداد کو روانہ ہونے پر حضرت خلیفتۃ المسیح الثانی نے گاؤں سے باہر ایک کھیت میں حسبِ ذیل تقریر فرمائی اس دفعہ ملکانا میدان کی طرف آپ لوگ جو جارہے ہیں چوتھے وفد کے راول کے طور پر ہیں.تیسرے وفد کے بعض لوگ جن کی مد تیں پوری ہوگئی ہیں یا ہونے والی ہیں آپ لوگ ان کے قائم مقام بن کر جارہے ہیں اور اب گویا ۹ ماہ کے قریب اس کام کو شروع کئے ہو گئے ہیں جو علاقہ ملکانہ میں کیا جا رہا ہے.پہلا وفد جب گیا تھا اس وقت گو خد اتعالی ٰنے مجھے یہ بات بتادی تھی اور بارہا میں نے اس کو بیان بھی کردیا تھا لیکن باقی جماعت میں اس کے متعلق احساس پیدا نہیں ہوا تھا کہ کب عظیم الشان طور پر ہمیں یہ کوشش کرنی پڑے گی اور اس کے لئے کتنی قربانیوں کی ضرورت ہوگی.اس وقت بہت لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ پہلی سہ ماہی میں ہی ہمیں فتح حاصل ہوجائے گی اور بعض تو ایسے جلد باز تھے کہ انہوں نے علاقہ ارتداد میں جانے کے ۲۰.۲۵دن ہی بعد خط لکھنے شروع کردیئے کہ ہمیں اتنے دن کام کرتے ہو گئے ہیں مگر ابھی تک یہ لوگ ارتداد سے واپس نہیں ہوئے.گویا وہ سمجھتے تھے کہ جاتے ہی ان کو مسلمان کر لیں گے اور اس میں کچھ بھی دیر اور وقت نہ لگے گاحالا نکہ جو لوگ اپنامذ ہب بدلتے ہیں وہ دو حالتوں کے بغیر نہیں بدلتے.اول تو یہ کہ یا توان کو یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ فلاں مذہب سچا ہے اس لئے اس کو قبول کر لیتے ہیں.ایسے لوگ بحیثیت قوم اس وقت تک واپس نہیں لوٹ سکتے جب تک ان کے لئے پورا زور نہ صرف کیا جائے اوران کے مشکوک اور شبہات کو دور نہ کردیا جائے.دوسرے اپنا مذہب کوئی اس وقت چھوڑتا ہے جب تقوی و طہارت، عفت اور خوف خدا اس کے دل سے بالکل مٹ جاتا ہے اور طمع ولا لچ حرص و ہوا اس کے دل پر پورا پورا قبضہ کرلیتی
۲۷۷ ہے اور وہ انسانیت سے خارج ہو کر درندہ بن جاتا ہے پس ایسا انسان بھی جس کے سینے سے ایمان نکل جاتا ہے اور لالچ اور حرص کے سامان اس کو اپنی طرف بلا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ سامان بھی نہ ہوں تو وہ اس وقت تک واپس نہیں آسکتا جب تک یا تو اس کی طرف سے بہترلالچ اور طمع کے سامان اس کے لئے نہ مہیا کئے جائیں اور یا اس کے اندر ایمان نہ پیدا کردیا جائے.بہرحال ملکانے ضرور اپنے پہلے دین کو برا سمجھ کر چھوڑتے ہیں یاحرص اور لالچ کی وجہ سے چھوڑتے تھے دونوں صورتوں میں ان کا فور اً لوٹنا ناممکن تھا اس لئے جن لوگوں نے ان کے فوراً لوٹنے کی امیدیں لگائیں ان کی امیدیں چونکہ طبعی تقاضا کے خلاف تھیں اس لئے پوری نہ ہوئیں.پہلا وفد جس وقت گیا اس وقت مشکلات ہی مشکلات تھیں.پھر دوسرا وفد روانہ ہوا اس وقت بھی مشکلات تھیں گو ان لوگوں سے کچھ کچھ تعلقات پیدا ہو گئے تھے اور وہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ یہ لوگ ہمیں چھوڑ کر نہیں چلے جائیں گے جس طرح اور مولوی آتے اور چکر لگا کر چلے جاتے تھے اور یہی بات ان کو مرتد کررہی تھی.وہ کہتے تھے کہ جب ہمیں کوئی دین نہیں سکھاتا اور دنیا ہمارے پاس ہے نہیں اور ہندوؤں میں ملتی ہے تو ہم کیوں نہ ہندووں میں جاملیں.ہمارے مبلغوں نے بتایا کہ کئی لوگ مرتد ہوئے مگر روتے روتے.ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا دین تو اسلام ہی سچاہے مگر ہم کو کسی نے نہیں سکھایا اور دنیا میں ہندوؤں میں ملتی ہے اس سے کیوں روکتے ہو یہ تو لے لینے دو.گویا وہ اپنے آپ کو مجبوری میں پاتے تھے اس لئے کہ دین کا تو ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں اور جو چیز ملتی ہے اس سے روکا جاتا ہے.مگر جب ہمارے آدمی گئے اور ان کو معلوم ہوا کہ اور لوگوں کی طرح یہ یو نہی بھاگ جانے والے نہیں ہیں بلکہ مستقل رہنے والے ہیں تو ان کو خوشبو آئے گی کہ یہ لوگ ضرور دین سکھادیں گے.جب یہ صورت پیدا ہوئی اور امید کی کہ وہ اسلام قبول کر لیں گے تو اس وقت مولویوں کو فکر پڑی کہ آر یہ ان لوگوں کو لے جاتے تو بھی ہمارے ہاتھ سے گئے تھے اب اگر احمدی لے جائیں گے تو بھی ہمارے ہاتھ سے گئے اس لئے وہ ہماری مخالفت میں کھڑے ہو گئے.وہ دین کی خاطر تو اس علاقہ میں گئے نہیں تھے اگر دین کی خاطر جاتے تو جب ملکا نے ہمارے ذریعہ اسلام قبول کرنے لگے تھے وہ کہتے اگر یہ احمدیوں کےذریعہ اسلام میں رہتے ہیں تو بھی رہیں.اور اگر ہمارے ذریعہ اسلام میں واپس آتے ہیں تو بھی آئیں.مگر چونکہ ان کے مد نظر اسلام نہ تھا اس لئے ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے وہ دیہہ دیہہ گئے اور جا کر لوگوں کو کہا کہ احمدی تو آریوں سے بھی بدتر ہیں.ان کی باتیں سننے اور ماننے کی
۲۷۸ بجائے تمہارا آریہ ہو جانا اچھا ہے.گو ان لوگوں نے کہا کہ ہم تو ان میں کوئی بری بات نہیں دیکھتے اور نہ یہ ہمیں کوئی بری بات بتاتے ہیں مگر مولویوں نے کہان سے بات کرنا بھی کفر ہے اور یہ کفر بھی ایسا ہے کہ آریہ ہو جانے سے بد تر ہے اس لئے باتو تم سب آریہ ہو جاؤ یا اگر اسلام پر قائم رہنا چاہتے ہو تو ان کو اپنے گاؤں سے نکال دو.اس طرح یہ دوسرا فتنہ ہمارے لئے پیدا ہو گیا.اس پر ہمیں ان لوگوں کو سمجھانا پڑا کہ ہم مسلمان ہیں خدا تعالی ٰکو ایک مانتے ہیں رسول کریم ﷺ کی رسالت کے قائل ہیں قرآن کریم کو مانتے ہیں.پس پہلے وفد نے اگر ملکانوں کے دلوں سے یہ شبہات مٹاۓ کہ ہم تمہیں چھوڑ کر نہیں چلے جائیں گے تو دوسرے وفد نے یہ شکوک دور کئے کہ ہم تم لوگوں کو مسلمان بنانے آئے ہیں کافر بنانے نہیں آئے.پھر تیسرا وفد جس وقت گیا اس وقت موقع تھا کہ اس کی ضرب کا اثر پڑے اور نتیجہ نکلے یعنی وہ لوگ اسلام قبول کر لیں کیونکہ ایسے سامان خدا تعالیٰ نے پیدا کررہے تھے.تیسری سہ ماہی کے وفد کے روانہ ہونے کے وقت میں نے جو تقریر کی تھی اس میں اس طرف اشارہ بھی کردیا تھا اور جانے والوں کو بتا دیا تھا کہ اگر تم پورے زور اور اخلاص سے کام کرو گے تو تمہارے لئے فتوحات کے دروازے کھل جائیں گے چنانچہ خدا تعالیٰ نے میری بات پوری کردی اور اس وقت تک دو بڑے گاؤں میں جن میں سے ایک اپنی شرافت کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے اور دوسرا آثار قدیمہ کی وجہ سے ملکانوں میں عام رتبہ رکھتاہے ان کا اکثر حصہ اسلام میں واپس آگیا ہے یعنی ایک تو آنور کا قصبہ ہے جس کے قریب کرشن جی پیدا ہوئے تھے.وہاں ایک پہاڑی ہے جس کو مقدس سمجھا جاتا ہے اس کے پاس دور دور سے لوگ آتے اور بعض لیٹ لیٹ کر اس کے گرد چکر لگاتے ہیں توان آثار کو ملکانے قد ر اور عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں.دوسرا گاؤں جس کے لوگ شرافت کے لئے اور فہمیدہ ہونے کے لحاظ سے عزت رکھتے ہیں اسپارہے.اس کا بھی بڑا حصہ اسلام کو قبول کر چکا ہے اور یہ اب عام رو چل گئی ہے.مگر اس کے ساتھ ہی دقتیں بھی پیدا ہو گئی ہیں اور وہ یہ کہ جو جماعتیں وہاں آریوں کے خلاف لڑ رہی تھیں ان میں مزید بھرتی کی طاقت نہیں رہی اور عین اس وقت جبکہ فتوحات ہورہی ہیں ہمارے دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی لوگ ہٹنے شروع ہو گئے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ کام جنگی طریق سے ہو رہا ہے اور جس طرح جنگ میں لڑنے والے فوج کے دائیں اور بائیں سے ہٹنے والوں کی
۲۷۹ وجہ سے اس کو نقصان پہنچتا ہے اسی طرح یہاں ہمارے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ ان علاقوں کو جہاں دوسرے مولوی کام کر رہے تھے انہوں نے چھو ڑنا شروع کردیا ہے.بعض نے تو اپنے آدمی کم کردیئے ہیں بعض جماعتوں کے آدمیوں کا کام صرف کھا ناپینایاہنسی مذاق کر کے وقت گذار د ینا رہ گیا ہے بعض جماعتوں کے اوپر کے کام کرنے والے تھک گئے ہیں اور وہ اپنا قدم پیچھے ہٹارہے ہیں.اس طرح ہمارا دایاں بازو خالی ہو رہا ہے اور بایاں بھی مگر ہم سمجھتے ہیں خدا کے فضل سے درحقیقت ہمارے لئے یہ مشکلات نہیں بلکہ کامیابی کے ذرائع ہیں کیونکہ جب اور لوگ تھک کر آجائیں گے تو اسوقت ہمیں جو کامیابی ہوگی وہ اور بھی نمایاں ہو گی.پس دوسرے لوگوں کا تهک کرپیچھے ہٹ جانا اور مشکلات سے گھبرا کر کام کو چھوڑ دینا کر نے گھبراہٹ کا موجب نہیں ہو سکتا.ہاں اگر گھبراہٹ ہو سکتی ہے تو یہ کہ جس قدر کام کرنے والوں کی ضرورت ہے اس قدرنہ مل سکیں اور میں دیکھتا ہوں کہ لوگ آپ پہلے کی طرح جوش و خروش کے ساتھ آگے نہیں بڑھتے.بعض تو کہتے ہیں یہ لمبا کام ہوگیا ہے ہم کب تک اسے کرتے رہیں گے مگر یاد رکھو مومن کا یہ حال نہیں ہوتا کیونکہ مومن کے لئے دنیا میں آرام کرنے کی کوئی صورت نہیں.مومن کا آرام اس کی موت کے بعد ہی ہے او راسی کا نام مستقرہے.مومن کی منزل مقصود مرنے کے بعد ہی ہے.پس جب یہ صورت ہے تو خود سوچ لو کہ جو خاص منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے بیٹھ جاتا ہے وہ کب منزل تک پہنچ سکتا ہے.مثلاً ایک شخص نے بٹالہ جانا ہو مگر وہ وڈالہ جا کر بیٹھ رہے تو ناکام ہی رہے گاہاں جو شخص وڈالہ جانا چاہتا ہے وہ اگر وہاں جا کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ منزل پر پہنچ گیا اور بٹالہ جانے والا و ڈالہ پہنچ کر نہیں کہہ سکتا کہ فلاں جویہاں پہنچ کر اپنے مقصد میں کامیاب سمجھا گیا تو مجھے کیوں نہ کامیاب سمجھا جائے کیونکہ اس کی منزل مقصودو ڈالہ ہے نہ کہ وڈالہ اسی طرح جب مومن کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالی ٰمل جائے اور وہ اس طرح مل سکتا ہے کہ انسان مرنے تک اس کے ملنے کے لئے کام کرنا جائے تو وہ شخص جو مرنے سے پہلے اس کام کو چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے وہ کس طرح خدا تعالی ٰکو مل سکتا ہے.پس یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ مومن کے لئے یہ دنیا آرام کرنے کی جگہ نہیں اس کے لئے آرام کی جگہ وہی ہے جب اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ اسے بلا لیتا ہے کہ آاور آکر میرے فضل کے نیچے آرام کر.جو لوگ اس کام کے متعلق سست ہوئے اور پیچھے ہٹ رہے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ان کے ایمان
۲۸۰ کی کمزوری ہے.نوکر کھا کرتے ہیں کہ کام ہی کرنا ہے جو کام ہو گا وہی کریں گے میں مومن کاحال ہونا چاہئے اگر خدا تعالیٰ ملکانوں میں ہی ہمیں فتح دیدے اور ان کو ہی ہمارے ذریعہ ہدایت ہو جائے تو ہمیں انہی لوگوں میں کام کرنے سے کیا عذر ہو سکتا ہے.ان لوگوں کو ہدایت خواه اب ہو خواہ ہماری نسلوں کے ذریعہ ہم نے کام ہی کرنا ہے اور وہ کرتے جانا چاہئے.جو لوگ ست ہو گئے ہیں یہ ان کے ایمان کی کمزوری ہے.انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہی کام کا اصل وقت ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے ایک مامور کا زمانہ ہے.کئی لوگ اپنے دل میں یہ حسرت لے کر مرگئے کہ کاش ہمرسول کریمﷺ کے زمانہ میں ہوتے تو خد مات کرتے مگر خدا تعالیٰ نے ہماری حسرتوں کو نکالنے کا ہمیں موقع عطا کر دیا ہے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ہم رسول کریم ﷺکا زمانہ پاتے تویہ کرتے کیونکہ ہمارے لئے حضرت مسیح موعود نے رسول کریم ﷺکا زمانہ آکر دکھا دیا.اب بھی اسی طرح جہاد کا زمانہ ہے جس طرح رسول کریم ﷺکے وقت تھا اب بھی اسی طرح دشمنوں کا مقابلہ درپیش ہے جس طرح اس وقت تھا، اب بھی اسی قدر تکالیف موجود ہیں جس قدر اس وقت تھیں، آج بھی ایسے ہی خطرات ہیں جیسے اس زمانہ میں تھے، آپ بھی جان کی اسی طرح قربانی کی جاسکتی ہے جس طرح اس زمانہ میں کی جاتی تھی کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں تبلیغ کرنے والوں کو جان کے قطرے ہیں، اب بھی اسی طرح مال خرچ کرنے کا وقت ہے جس طرح اس زمانہ میں تھا اور ایسے ہی اعلیٰ مقاصد میں خرچ کر سکتے ہیں جیسے مقاصد کے لئے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں خرچ ہوتا تھا.پس خداتعالی ٰنے ہمارے لئے کامیابی کے دروازے کھول دیئے ہیں اور حسرتیں نکالنے کے سامان کر دیئے ہیں اب بھی اگر کوئی سستی کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے.جو دوست اس وقت جارہے ہیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایسا کام ہے جس کے مقابلہ کا اور کوئی کام نہیں ہے اور صرف ملکانوں میں ہی تبلیغ کے متعلق میں یہ نہیں کہہ رہا بلکہ جہاں بھی کوئی اس کام کے لئے جاتا ہے وہ ایسا ہی ہے.اگر کوئی امریکہ جاتا ہے جہاں کے لوگ تعلیم یافتہ اور علم والے ہیں تو اس کا درجہ اس مبلّغ سے بڑا نہیں جو جاہل اور بے علم لوگوں میں جاکر تبلیغ کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک اس مبلّغ کا درجہ جو بادشاہوں کو تبلیغ کرنے کے لئے جاتا ہے اس مبلغ کے درجہ سے مساوی ہے جو غریبوں اور فقیروں کو تبلیغ کے لئے نکلتا ہے کیونکہ تبلیغ بیان کرنے کا نام ہے اور یہ جاہل کے سامنے بھی کیا جا تا ہے اور عالم کے سامنے بھی.بادشاہ کے سامنے
۲۸۱ بھی اور گدا کے سامنے بھی تو میری مراد ہر جگہ کی تبلیغ سے ہے مگر علاقہ مکانہ میں ایسی تبلیغ ہے جو جنگی تبلیغ ہے اور یہ بابرکت زمانہ ہے اس سے آپ لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے.آپ لوگ دعائیں کرتے جائیں اور بہت دعائیں کریں یہ فتوحات کا وقت ہے.اس وقت جس طرح بعض آسانیاں بھی ہیں اسی طرح بعض مشکلات بھی ہیں.آسانیاں تو یہ ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں نے جو کام کیا ہے اس کی وجہ سے فتوحات کے دروازہ میں بآسانی داخل ہو سکتے ہیں.اور مشکل یہ ہے کہ تمہاری ذراسی سستی اور کوتاہی سے سارا کام خراب ہو سکتا ہے.پس گو تمہارا کام تو آسان ہے مگرذمہ داری بڑھی ہوئی ہے تم آسانی سے پہلے مبلّغوں کی محنتوں کے پھل کھا سکتے ہو مگرذراسی غفلت سے سب کئے کرائے کو تباہ بھی کر سکتے ہو.تم خدا کے حضور عاجزی اور زاری کرتے ہوئے جاؤ اور بہت دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تم کو اس کام کا اہل ثابت کرے اور اپنی برکات سے مستفیض کرے.باقی ان ہدایات پر پورا پورا عمل کرو جو مطبوعہ تم کو دی گئی ہیں.مجھے یہ معلوم کر کے بہت افسوس ہوا کہ ایک شخص کئی ماہ ایک گاؤں میں رہتا ہے مگر جب انسپکٹر جاکر گاؤں کے آدمیوں کے نام اور حالات پوچھتا ہے تو وہ بتانہیں سکتا.میرے نزدیک جو مبلّغ کسی گاؤں میں رہتا ہے وہ اگر وہاں کے ایک آدمی سے بھی واقفیت پیدا کرنے میں سستی کرتا ہے اور چلا آتا ہے تو وہ ناکام ہے اس کا کام سب سے اور ایک ایک فرد سے واقفیت پیدا کرنا ہے.سو ڈیڑھ سو کے قریب آدمیوں سے زیادہ سے زیادہ چار دن کے اندر اندر واقفیت پیدا کی جاسکتی ہے.آپ لوگ اس بات کو اپنا فرض سمجھیں اور جہاں مقرر کئے جائیں وہاں کے تمام لوگوں سے جلد جلد واقفیت پیدا کریں.پھرایسے رنگ میں ان کو تبلیغ کریں کہ جس سے اخلاص اور محبت ٹپکے.سست انسان دوسرے کو بھی سست کردیتا ہے اور چست دو سرے میں بھی چستی پیدا کرلیتا ہے.یہ ممکن نہیں کہ اخلاص ہو، جوش ہو، تڑپ ہو اور پھر تبلیغ کا اثر نہ ہو.کہتے ہیں افسرده دل، افسرده کنند انجمنے را اور یہ بالکل صحیح بات ہے اگر رونی صورت والا کسی مجلس میں آجائے تو دوسروں کو بھی غمگین بنادے گا اور اگر خوش طبع انسان غمگین مجمع میں آجائے تو ان کو بھی خوش کردے گا-اسی طرح جو انسان اخلاص سے کام کرنے والا ہو وہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے.پس اگروہ لوگ ایمان سے خالی بھی ہو گئے ہیں تو بھی اگر تم پورے جوش اور اخلاص سے کام کرو گے تو ان کے دلوں میں گرمی پیدا ہو جائے گی.پس آپ لوگ اخلاص سے کام کریں اور اپنے افسروں کی
۲۸۲ اطاعت کریں.کام میں کامیابی اسی وقت ہو سکتی ہے جب پوری پوری اطاعت کی جائے ممکن ہے وہ افسرجوتم پر مقرر ہو علم میں تجربہ میں کم ہو.مگر انتظام میں یہ نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس میں اطاعت ضروری سمجھی جاتی ہے.پس اپنے افسروں کی اطاعت کرو دعائیں کرو اور اخلاص سے کام کرو.چونکہ سورج ڈوب گیا ہے اس لئے اسی پر ختم کرکے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.(الفضل ۱۳- نومبر ۱۹۲۳ء) الجامع لاحكام القران للقرطبي الجزء الاول منه۵ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۵۸ء - يونس : 11 ۳ تذکرہ صفحہ ۵۰- ایڈیشن چہارم م.مستدرک للحاکم جلدا صفحہ ۴۴۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ۵- اتحاف السادة المتقين بشرح احیاء علوم الدين للزبيدي الجزء الرابع صفحه ۳۳۰ ۶.درثمین فارسی ص ۱۰۷ ۸- تذکرہ سنہ ۵۰ ای پیشن چهارم براہین احمدیہ حصہ پنجم مسخہ ۱۳۱- روحانی خزائن جلد ااسنہ ۳۴ 10.الكهف : ۸۴ - الكهف : ۸۵ ۱۱- الكهف : ۸۹ - الكهف : ۸ ۱۲- الكهف : ۸۷ ۱۳.الكهف : ۸۷ ۱۴- الكهف ۱۵- الكهف : ۸۹ ۱۶- الكهف : ۸۹ ۱۷- الكهف : ۹۴۹۰ ۲۰.براہین احمدیہ حصہ پنجم سنہ ۱۳۲ روحانی خزائن جلداس سنہ ۱۳۲ مفه) ۲۱- الكهف : ۹۴ ۲۲- الكهف : ۴ ۴۳ - الكهف : ۹۵ ۲۴- الكهف : ۹۹ ۲۵- الكهف : ۹۷ ۲۶- الكهف : ۹۷ ٢- الكهف : ۹۸ ۲۸ - الشعراء : ۴ ۲۹- ابن ماجه كتاب الجهاد باب من حبسه العذر عن الجهاد ۳۰- الفاتحة : ۲ ۳۱- در سال ۳۸۰- این چہارم ۳۲- گری صفحہ ۷۴۳- این چہارم
۲۸۳ ۳۴- بنی اسرائیل ۳۵.مستدرک للحاکم جلد اص۴۴۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ۳۱- اتحاف السادة المتقين بشرح احیاء علوم الدين للزبيدي الجزء الرابع من ۳۳۰ ٣- نیوشن سر آئزک (۱۹۴۲-۱۷۲۲ء) Newton Sir Isic انگریز ماہر طبیات ریاضیات و قلفہ اس نے روشنی کا جسیمی یا خردی نظریہ قائم کیا.انعکاسی دوربین ایجاد کی.حرکت کے کلیوں کی بھی تدوین کی ( 305.The New Encyclopaedia Britannica , Micropaedia vol.VI , P) ۳۸.مسنداحمدبن حنبل جلد ۳ صفحہ ۳۲ ۳۹.ابن ماجه كتاب الجهاد باب من حبسه العذر عن الجهاد ۴۰- الاحزاب : ۲۴ ام بخاری کتاب المناقب باب مناقب عثمان ۴۳- بخاری کتاب المغازی باب من قتل المسلمين يوم احد منهم الخ -۴۴ ۴۵.الاصابة في تمييز الصحابة مئولفة ابن حجر جلد ۲ صفر ۳۰ الطبعة الاولى ۱۳۲۸ه ۴۹- بخاری کتاب الدعوات باب لله تعالى مائة اسم غير واحد ۴۷- ال عمران : ۵۹ ۴۸- النصر : ۳ ۴۹.بخاری کتاب الصلوة باب قول النبي صلى الله عليه وسلم جعلت لى الارض مسجدا وطهورا ۵۰- بخاری کتاب الادب باب التبسم والضحك
۲۸۵ بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفۃ المسیح الثانی
۲۸۷ بإلشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ ۱۹۱۹ ء کا واقعہ ہے جسے میں پہلے بھی بعض مجالس میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک احمدی دوست اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے جو انگریزی فوج میں ملازم تھے اپنی فوج کے ساتھ ایران میں گئے وہاں سے بالشویکی فتنہ کی روک تھام کے لئے حکام بالا کے حکم سے ان کی فوج روس کے علاقہ میں گھس گئی اور کچھ عرصہ تک وہاں رہی.یہ واقعات عام طور پر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں کیونکہ اس وقت کے مصالح یہی چاہتے تھے کہ روسی علاقہ میں انگریزی فوجوں کی پیش دستی کو مخفی رکھا جائے.اس دوست کا نامفتح محمد تھا اور یہ فوج میں نائک تھے ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص فوج میں احمدی ہو گیا اور اس کو ایک موقع پر روسی فوجوں کی نقل و حرکت کے معلوم کرنے کے لئے چند سپاہیوں سمیت ایک ایسی جگہ کی طرف بھیجا گیا جو کیمپ سے کچھ دور آگے کی طرف تھے.وہاں سے اس شخص نے فتح محمد صاحب کے پاس آکر بیان کیا کہ ہم لوگ شہر سے باہر ایک گنبد کی شکل کی عمارت میں رہتے تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس عمارت کے اندر ایسے آثار ہیں جیسے مساجد میں ہوتے ہیں لیکن کرسیاں بچھی ہوئی ہیں.جو لوگ وہاں رہتے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ یہ جگہ تو مسجد معلوم ہوتی ہے پھر اس میں کرسیاں کیوں بچھی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ مبلّغ ہیں اور چونکہ روسی اور یہودی لوگ ہمارے پاس زیادہ آتے ہیں وہ زمین پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لئے کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں.نماز کے وقت اٹھادیتے ہیں.ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں.اس پر اس دوست کا بیان ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ چونکہ یہ مذہبی آدمی ہیں میں ان کو تبلیغ کروں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہوگئے ؟ انہوں نے کہا کہ جس طرح اور انبیاؑء فوت ہو گئے ہیں اسی طرح وہ فوت ہو گئے ہیں.اس پر میں نے پوچھا کہ ان کی نسبت تو خبر ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے.انہوں نے کہا کے ہاں اسی.
۲۸۸ بإلشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ امت میں سے ایک شخص آجائے گا.اس پر میں نے کہا کہ یہ عقیدہ تو ہندوستان میں ایک جماعت جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مانتی ہے اس کا ہے اس پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ بھی اسی کے ماننے والے ہیں.فتح محمد صاحب نے جب یہ باتیں اس نو احمدی سے سنیں تو دل میں شوق ہوا کہ وہ اس امرکی تحقیق کریں.اتفاقاً کچھ دنوں بعد ان کو بھی آگے جانے کا حکم ہوا.اور وہ روسی عشق آباد میں گئے.وہاں انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا یہاں کوئی احمدی لوگہیں.لوگوں نے صاف انکار کیا کہ یہاں اس مذہب کے آدمی نہیں ہیں.جب انہوں نے یہ پوچھا کہ عیسی علیہ السلام کو وفات یا فتہ ماننے والے لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تم صابیوں کا پوچھتے ہو وہ تو یہاں ہیں چنانچہ انہوں نے ایک شخص کا پتہ بتایا کہ وہ درزی کا کام کرتا ہے اور پاس ہی اس کی دوکان ہے.یہ اس کے پاس گئے اور اس سے حالات دریافت کئے اس نے کہا کہ ہم مسلمانہیں یہ لوگ تعصب سے ہمیں صابی کہتے ہیں جس طرح رسول کریم ﷺ کے دشمن ان کے ماننے والوں کو صابی کہتے تھے.انہوں نےبوجہ مخالفت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی مماثلت پر ایک شخص اسی امت کا مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور وہ ہندوستان میں پیدا ہوگیا ہے اس لئے یہ لوگ ہمیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.شروع میں ہمیں سخت تکالیف دی گئیں روسی حکومت کو ہمارے خلاف رپورٹیں دی گئیں کہ یہ باغی نہیں ہیں اور ہمارے بہت سے آدمی قید کئے گئے لیکن تحقیق پر روسی گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ ہم باغی نہیں ہیں بلکہ حکومت کے وفادار ہیں تو ہمیں چھوڑ دیا گیا.اب ہم تبلیغ کرتے ہیں اور کثرت سے مسیحیوں اور یہودیوں میں سے ہمارے ذریعہ سے اسلام لائے ہیں لیکن مسلمانوں میں سے کم نے مانا ہے زیادہ مخالفت کرتے ہیں.جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ فتح محمد صاحب بھی اسی جماعت میں سے ہیں تو بہت خوش ہوا سلسلہ کی ابتداء کا ذکراس نے اس طرح سنایا کہ کوئی ایرانی ہندوستان گیا تھا وہاں اسے حضرت مسیح موعود کی کتب ملیں وہ ان کو پڑھ کر ایمان لے آیا اور واپس آکر یزد کے علاقے میں جو اس کا وطن تھا اس نے تبلیغ کی کئی لوگ جو تاجروں میں سے تھے ایمان لائے وہ تجارت کے لئے اس علاقہ میں آئے اور ان کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو حال معلوم ہوا اور ہم ایمان لائے اور اس طرح جماعت بڑھنے لگی.یہ حالات فتح محمد صاحب مرحوم نے لکھ کر مجھے بھی چونکہ عرصہ زیادہ ہوگیا ہے اب اچھی طرح یاد نہیں کہ واقعات اسی ترتیب سے ہیں یا نہیں لیکن خلاصہ ان واقعات کا یہی ہے گوممکن
۲۸۹ بإلشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ ہے کہ بوجہ مدت گذر جانے کے واقعات آگے پیچھے بیان ہو گئے ہوں.جس وقت یہ خط مجھے ملا میری خوشی کی انتہاء نہ رہی اور میں نے چاہا کہ اس جماعت کی مزید تحقیق کے لئے فتح محمد صاحب کو لکھا جائے کہ اتنے میں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے مجھے اطلاع ملی کہ سرکاری تار کے ذریعہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ فتح محمد صاحب میدان جنگ میں گولی لگنے سے فوت ہو گئے ہیں.اس خبر نے تمام امید پر پانی پھیر دیا اور سردست اس ارادہ کو ملتوی کردینا پڑا.مگر یہ خواہش میرے دل میں بڑے زور سے پیدا ہوتی رہی اور آخر ۱۹۲۱ء میں میں نے ارادہ کرلیا کہ جس طرح بھی ہو اس علاقہ کی خبرلینی چاہئے.چونکہ انگریزی اور روسی حکومتوں میں اس وقت صلح نہیں تھی اور ایک دوسرے پر سخت بدگمانی تھی اور پاسپورٹ کا طریق ایشیائی علاقہ کے لئے تو غالباً بندہی تھایہ وقت در میان میں سخت تھی اور اس کا کوئی علاج نظر نہ آتا تھا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی اس کام کو کرنا چاہئے اور ان احباب میں سے جو زندگی وقف کر چکے ہیں ایک دوست میاں محمد امین صاحب افغان کو میں نے اس کام کے لئے چنا اور ان کو بلا کر سب مشکلات بتادیں اور کہدیا کہ آپ نے زندگی وقف کی ہے اگر آپ اس عہد پر قائم ہیں تو اس کام کے لئے تیار ہو جائیں.جان اور آرام ہر وقت خطرہ میں ہوں گے اور ہم کسی قسم کا کوئی خرچ آپ کو نہیں دیں گے آپ کو اپنا قُوت خود کمانا ہو گا.اس دوست نے بڑی خوشی سے ان باتوں کو قبول کیا اور اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے اور سلسلہ کی تبلیغ کے لئے بلا زاد راہ فوراً نکل کھڑے ہوئے.کوئٹہ تک تو ریل میں سفر کیا سردی کے دن تھے اور برفانی علاقوں میں سے گزرنا پڑتا تھا مگر سب تکالیف برداشت کر کے بلاکافی سامان کے دو ماہ میں ایران پہنچے اور وہاں سے روس میں داخل ہونے کے لئے چل پڑے.آخری خط ان کا مارچ ۱۰۲۲ءکا لکھا ہوا پہنچا تھا اس کے بعد نہ وہ خط لکھ سکتے تھے نہ پہنچ سکتا تھا مگر الحمد للہ کہ آج ۹- اگست کو ان کا اٹھارہ جولائی کا لکھا ہوا خط ملا ہے جس سے یہ خوشخبری معلوم ہوئی ہے کہ آخر اس ملک میں بھی احمدی جماعت تیار ہوگئی ہے اور باقاعد و انجمن بن گئی ہے.اس دوست کو روسی علاقہ میں داخل ہو کر جو سنسنی خیز حالات پیش آئے وہ نہایت اختصار سے انہوں نے لکھے ہیں لیکن اس انتظار میں بھی ایک صاحبِ بصیرت کے لئے کافی تفصیل موجود ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کے تجربات سے دوسرے بھائی فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاص میں ترقی
۲۹۰ بإلشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ کریں گے اور اسلام کے لئے ہر ایک قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ حقیقی کامیابی خدا کی راہ میں فنا ہونے میں ہی ہے.چونکہ برادرم محمد امین خان صاحب کے پاس پاسپورٹ نہ تھا اس لئے وہ روسی علاقہ میں داخل ہوتے ہی روس کے پہلے ریلوے سٹیشن قبضه پر انگریزی جاسوس قرار دیئے جا کر گرفتار کئے گئے.کپڑے اور کتابیں اور جو کچھ پاس تھاوہ ضبط کر لیا گیا اور ایک مہینہ تک آپ کو وہاں قید رکھا گیا.اس کے بعد آپ کو عشق آباد کے قید خانہ میں تبدیل کیا گیا.وہاں مسلم رو سی پولیس کی حراست میں آپ کو براستہ سمرقند تاشقند بھیجا گیا اور وہاں دو ماہ تک قید رکھا گیا اور بار بار آپ سے بیانات کئے گئے یہ ثابت ہو جائے کہ آپ انگریزی حکومت کے جاسوس ہیں اور جب بیانات سے کام نہ چلاتو قسم قسم کی لالچوں اور دھمکیوں سے کام لیا گیا اور فوٹو لئے گئے تا عکس محفوظ رہے اور آئندہ گرفتاری میں آسانی ہو اور اس کے بعد کوشکی سرحد افغانستان پر لیجایا گیا اور وہاں سے ہرات افغانستان کی طرف اخراج کا حکم دیا گیا مگر چونکہ یہ مجاہد گھر سے اس امر کا عزم کر کے نکلا تھا کہ میں نے اس علاقہ میں حق کی تبلیغ کرنی ہے اس نے واپس آنے کو اپنے لئے موت سمجھا اور روسی پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا اور بھاگ کر بخارا جا پہنچا.دو ماہ تک آپ وہاں آزاد رہے لیکن دو ماہ کے بعد پھر انگریزی جاسوس کے شبہ میں گرفتار کئے گئے اور تین ماہ تک نہایت سخت اور دل کو ہلا دینے والے مظالم آپ پر کئے گئے اور قید میں رکھا گیا اور اس کے بعد پھر روس سے نکلنے کا حکم دیا گیا اور بخار اسے مسلم روسی پولیس کی حراست میں سرحد ایران کی طرف واپس بھیجا گیا.اللہ تعالیٰ اس مجاہد کی ہمت میں اور اخلاص اور تقوی میں برکت دے.چونکہ ابھی اس کی پیاس نہ بجھی تھی اس لئے پھر کا کان کے ریلوے سٹیشن سے روسی مسلم پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا اور پاپیا دہ بخارا پہنچا.بخارا میں ایک ہفتہ کے بعد ان کو گرفتار کیا گیا.اور بدستورِ سابق پھر کا کان کی طرف لایا گیا اور وہاں سے سمرقند پہنچایا گیا.وہاں سے آپ پر چھوٹ کر بھاگے اور بخارا پہنچے اور ۱۳.مارچ ۱۹۲۳ء کو پہلی دفعہ بخارا میں اس جماعت کے مخلصین کو جو پہلے الگ الگ تھے اور حسب میری ہدایات کے ان کو پہلے آپس میں نہیں ملایا گیا تھا ایک جگہ اکٹھا کر کے آپس میں ملایا گیا اور ایک احمدیہ انجمن بنائی گئی اور باجماعت نماز ادا کی گئی اور چندوں کا افتتاح کیا گیا وہاں کی جماعت کے دو مخلص بھائی ہمارے عزیز بھائی کے ساتھ آنے کے لئے تیار تھے لیکن
۲۹۱ بإلشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ پاسپورٹ نہ مل سکے کے سبب سے سردست رہ گئے.اس وقت امین خان صاحب واپس ہندوستان کو آرہے ہیں اور ایران سے ان کا خط پہنچا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے واپس لائے اور آئندہ سلسلہ کی بیش از پیش خدمات کرنے کا موقع دے.میں ان واقعات کو پیش کرکے اپنی جماعت کے مخلصوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ تکالیف کیا ہیں جو ملکانہ میں پیش آرہی ہیں پھر کتنے ہیں جنہوں نے ان ادنی ٰ تکالیف کے برداشت کرنے کی جرات کی ہے؟.اے بھائیو! یہ وقت قربانی کا ہے کوئی قوم بغیر قربانی کے ترقی نہیں کر سکتی.آپ لوگ سمجھ سکتےہیں کہ ہم اپنی نئی برادری کو جو بخارا میں قائم ہوئی ہے یونہی نہیں چھوڑ سکتے ہیں آپ میں سے کوئی رشید روح ہے؟ جوان ریوڑسے دور بھیڑیوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو اور اس وقت تک ان کی چوپانی کرے کہ اس ملک میں ان کے لئے آزادی کا راستہ الله تعالی ٰکھول دے.واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمين خاکسار میرزا محمود احمد(خلیفۃ المسیح الثانی ) ۹.اگست ۱۹۲۳ء (ریویو آف ریلیجز ستمبر ۱۹۲۳ء)
۲۹۳ پیغامِ صلح ( موجودہ مشکلات کا حل) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی
۲۹۵ پیغامِ صلح بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم موجودہ مشکلات کا صحیح حل یعنی ہندووں، مسلمانوں میں کیونکر اتحاد ہو سکتا ہے (حضرت فضل عمر خليفة المسیح الثانی کی ایک تقریر جو حضور نے ۱۴ نومبر ۱۹۲۳ء کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک بہت بڑے مجمع میں بریڈلا ہال لاہور میں فرمائی.) سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.مسلمان موجودہ مشکلات میں نہیں گھبراتا گو ہمارے ملک کی اس وقت جو حالت ہے اور جس قسم کےفتنے اور فساداس میں پیدا ہورہے ہیں وہ ہر ایسے شخص کو جس کے دل میں اپنے ملک اور اپنے وطن سے ذرّہ بھی الفت اور محبت ہو سکتی ہے متفکّر کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن میں ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتا ہوں جس نے اپنی ابتداء الحمد للہ رب العلمين سے شروع کر کے امید کا ولولہ پیدا کر دیا ہے.اور میں اس کتاب سے مذہبی تعلق رکھتا ہوں جس نے مسلمانوں کو یہ یہ کہکر واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمينوه انجام پر بھی خدا تعالی ٰکی حمد ہی کرنے والے ہونگے میرے دل میں امید کی کبھی نہ ختم ہونے والی لہر پیدا کردی ہے اس لئے گو موجوده حالات نہایت ہی تاریک ہیں مگر میں امید سے بھرا ہوا دل رکھتا ہو ایقین رکھتا ہوں کہ اگر آج نہیں تو کل ملک میں امن ہو جائے گا اور اگر اس وقت نہیں تو پھر دوسرے وقت میں لوگ فتنہ و فساد اتفاقی اور بے اتحادی کی راہ چھوڑ کر صلح اور آشتی کی طرف آجائیں گے.
۲۹۶ پیش آمده مشکلات کاحل میرا آج کا لیکچر جیسا کہ اس اشتہار سے ظاہر ہے جو اس لیکچرکے متعلق شائع ہوا اس امر پرہے کہ ہمارے ملک میں موجوده مشکلات جواتحاد و اتفاق کے متعلق پیدا ہو گئی ہیں اور وہ رو کیں جو صلح و آشتی میں رونما ہیں وہ کس طرح دور ہو سکتی ہیں اور ان کا حل کیا ہے اور ہندوستان کی مختلف قوموں میں کس طر ح صلح اور اتحاد ہو سکتا ہے.اور اس کے متعلق مسلمانوں کا کیا فرض ہے.مضمون کا تعلق تمام قوموں سے میں سمجھتا ہوں یہ ایسا مضمون ہے جو ان تمام جماعتوں سے تعلق رکھتا ہے جو ہندوستان میں رہتی ہیں یعنی اس کا تعلق ہندووں، سکھوں، مسلمانوں وغیرہ سب سے ہے اور پھریہی نہیں میں ان جماعتوں میں گورنمنٹ کو بھی شامل کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی ایک جماعت ہے جس کا ہمارے ملک کے نفع ونقصان سے تعلق ہے مارے نقصان کے ساتھ اس کا نقصان وابستہ ہے اور ہمارے نفع کے ساتھ اس کا نفع وابستہ ہے.مذہبی نقطہ خیال چونکہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو سیاسی معامات میں اپنا سارا وقت صرف کرتے ہیں بلکہ میرا وقت مذہبی معاملات میں صرف ہوتا ہے اس لئے میں اس بارے میں وہی نقطہ پیش کروں گا جومذ ہب سے تعلق رکھتا ہے.فتنے سے بچو کہ وہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے سب سے پہلے سامعین کی توجہ اس طرف پھیرنا چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ فتنہ کا باعث افراد کے وہ معاملات ہوتے ہیں جنہیں قومی سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ افراد کے معاطات ایسے نہیں ہوتے جیسے قومی معاملات ہوتے ہیں.افراد کے معاملات کو قومی بنا لینے کی وجہ سے فتنہ پرداز لوگوں کو موقع ملتا ہے کہ قوموں میں فتنہ اور فساد پیدا کر دیں اور اتحادو اتفاق نہ ہونے دیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے الفتنة اشدمن القتل قتل بہت برا فعل سمجھا جاتا ہے اور قاتل کو لوگ نہایت بری نظر سے دیکھتے ہیں مگر ہماری کتاب بتاتی ہے کہ بے شک قاتل بہت برا ہوتا ہے اور قتل بہت برا فعل ہے مگر فتنہ بہت ہی برا فعل ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والا بہت ہی برا ہوتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس سے لاکھوں اور اربوں جانیں چلی جاتی ہیں لیکن قتل سے ایک یا چند جانیں ضائع ہوتی ہیں.ایک فتنہ پرواز شخص ایسی بات کردیتا ہے کہ جس سے قومیں لڑ پڑتی ہیں اور جماعتوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا ہے.فتنہ باز لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو معمولی بات
۲۹۷ کہی تھی مگر ان کا معمولی بات کہنا ایک زہر ہے جس کا دور دور تک اثر پھیلتا ہے اور پھر اس سے خطرناک قتل شروع ہو جاتا ہے جس سے لاکھوں اور کروڑوں انسان موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں.تو فتنہ شروع میں چھوٹا نظر آتا ہے مگر اس کا انجام بہت بڑا ہوتا ہے اسی لئے اسلام نے قتل سے بھی منع کیا ہے مگر فتنہ سے اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ منع کیا ہے.افسوس کی بات ہے کہ عام طور پر لوگ قتل سے تو بچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فتنہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے.اگر ان کے سامنے کسی قتل کا ذکر کریں تو وہ کہیں گے کہ افسوس کے لوگ اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے مگر خود فتنہ کے لئے تیار ہو جائیں گے اور نہ صرف تیار ہوں گے بلکہ فتنہ کھڑا کردیں گے اس لئے ضرورت ہے کہ لوگوں کو فتنہ کی مضّرت اور نقصان سے آگاہ کیا جائے کیونکہ جب لوگ یہ نہ سمجھیں کہ فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر برا فعل ہے اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا.ملک کی موجودہ حالت آج ہمارے ملک کی ایسی حالت اور ایسا رنگ نظر آرہا ہے کہ کوئی دو جماعتیں آپس میں محبت کرتی ہوئی نظر نہیں آتیں.آج سے پہلے محبت کی ایک لہر تھی جو ملک میں پھیلی ہوئی تھی.مسلمان ہندوؤں کو بھائی سمجھتے تھے اور ہندو مسلمانوں کو بھائی کہتے تھے سکھ دونوں کو بھائی قرار دیتے تھے مگر آج یہ حالت ہے کہ ہر قوم دوسرے کے خلاف کھڑی ہے اور ایک قوم دوسری کی دشمن بنی ہوئی ہے جس سے ملک کی ترقی بہت پیچھے جا پڑی ہے.ہم فتنہ پرداز نہیں کچھ لوگ ہمارے متعلق خیال کرتے ہیں کہ ہم فتنہ کا موجب ہیں اور ہم اتحاد و اتفاق میں رخنہ اندازی کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم سے زیادہ فتنہ کا کوئی دشمن نہیں ہے اور ہمارے دل سے فتنہ سے زیادہ کوئی چیز دور نہیں ہے ہم جس چیز کو برا سمجھتے ہیں وہ وہ ہے جس کے نتیجہ میں فتنہ پیدا ہوتا ہے ورنہ جس امر کے متعلق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے ملک اور اپنے وطن کے لئے مفید ہے اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے اور ہر طرح کی تکالیف اٹھانے کے لئے لبیک کہنے کو ہم تیار ہیں.ہماری باہمی مخالفت سے غیر فائدہ اٹھارہے ہیں.یہ فتنہ جو اس وقت ملک میں پھیلا ہوا ہے اس کا کانتیجہ ہوا ہے یہ کہ دشمن ہم پر ہنس رہے ہیں اور وہ جو ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے وہ نفرت اور حقارت سے
۲۹۸ دیکھ رہے ہیں.اگر قومی جذبہ کوئی چیز نہ بھی ہو تو اس حقارت اور نفرت کو ہی دیکھ کر ہر ایک شخص کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو نا چا ہے کہ فتنہ مٹ جائے مگر افسوس ہے کہ اس طرف کوئی تو جہ نہیں کی جاتی اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ فتنہ کیوں پیدا ہوا ہے وہ کیا اسباب ہیں جو اس کے پیدا ہونے میں کام کر رہے ہیں اور کس طرح یہ مٹ سکتا ہے ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہو رہا ہے کہ جو ذرائع اختیار کئے جارہے ہیں وہ چونکہ ایسے نہیں ہیں جو فتنہ کو مٹانے کا موجب ہوں اس لئے فتنہ بڑھتا جا رہا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ اس فتنہ کے اوقات میں بہت سی قو میں ہیں جو ناجائز فائدہ اٹھارہی ہیں.چنانچہ مردم شماری کے وقت جو کچھ ہوا ہے اگر اور حالات ہوتے تو اس کے متعلق ایک شور پڑ جاتا مگر آپس کی ناچاقی اورنا اتفاقی کی وجہ سے کسی کو اس کا خیال بھی نہیں آیا.ادنی ٰ اقوام پہلے یا تو علیحدہ د کھائی جاتی تھیں یا ہندوؤں میں شمار کی جاتی تھیں یہ بھی غلطی تھی کہ ان کو ہندوؤں میں شامل کیا جاتا تھا کیونکہ ان کامذہب علیحدہ ہے اور ان کو علیحدہ ہی دکھانا چاہیے تھا مگر گذشته مردم شماری میں ادنی ٰ اقوام ساری کی ساری عیسائیوں میں دکھائی گئی ہیں اور سارے پنجاب میں صرف چند ایک ادنی ٰاقوام کے لوگ بتائے گئے ہیں.حالانکہ اڑھائی سو کے قریب چھوڑھے قادیان میں ہی میں اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اور جگہوں میں بھی کسی قدر ہو نگے مگرکچھ لوگوں نے اپنے ذاتی فوائد (کونسلوں میں انتخاب وغیرہ )کے لئے ان کو اپنے میں شامل کرنا ہے.پس اس قسم کے شوروشر میں جو ہندو مسلمانوں میں برپا ہے دوسرے لوگ ایسے فائدے حاصل کر لیتے ہیں.اس عدمِ اتحاد کاذمہ دارمذہب نہیں غرض اس وقت ملک کا امن بالکل برباد ہو چکاہے.بھائی بھائی سے لڑ رہا ہے اور وہ لوگ جن کوایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک اور قوم کی ترقی کے لئے کوشش کرنی چاہیے تھی آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں.اس کی وجہ مذہبی اختلافات نہیں ہو سکتے کیونکہمذہبی اختلافات کا تو یہ مطلب ہے کہ ایک مذہب والے خدا تک پہنچنے کا اور طریق سمجھتے ہیں اور دوسرے مذہب والے اور.اگر خدا ہے اور یقینا ًہے تو ممکن نہیں کہ خدا ایسا کرنے سے خوش ہے کہ ایک مذہب والے دوسرے مذہب والوں کو مارتے اور ان کے گلے کاٹتے پھر یں.اگر خدا ہے اور میں یقین ہی سے نہیں بلکہ اپنے مشاہدہ سے کہتا ہوں کہ ہے تو اس کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے سے بھائی بھائی جیسا سلوک کریں اور بھائی بھائی جیسا تعلق رکھیں.میں یہ
۲۹۹ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ کامنشاء اس سے زیادہ گہرا تعلق رکھنے کا نہیں بلکہ یہ تو میں نے بطور مثال کہا ہے.ورنہ خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے سے محبت کریں.اسلام کی تعلیم آپس کے سلوک کے متعلق قرآن کریم نے صاف طور پر بتادیا ہے کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے آپ کے تعلقات اور سلوک میں کوئی فرق نہیں آنا چاہئے.چنانچہ آتا ہے.وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ-اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ- خدا تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمان ! اگر تیرے ماں باپ مشرک ہوں تو تجھے نہیں چاہئے کہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے ان سے کوئی سلوک نہ کرے.ان سے ہر طرح کا اچھا سلوک کر اور ان کے احکام کی اطاعت کر ہاں شرک کے معاملہ میں ان کی بات نہ ماننا کیونکہ تیری عقل نے اس بارے میں اور فیصلہ کیا ہے اور ان کی عقل نے اور مگردنیاوی معاملات میں تیرا فرض ہے کہ تو ان سے نیک سلوک کرے.تو شرک جس کو اسلام نے بدترین گناہ قرار دیا ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی کہا ہے کہ اگر تیرے ماں باپ مشرک ہوں تو بھی ان سے تعلق منقطع نہ کر بلکہ ان سے حسن سلوک کر اور اچھے تعلقات رکھ.یہ تو قرآن کریم کا حکم ہے اب ہم رسول کریم ﷺ کے متعلق دیکھتے ہیں.ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ کی لڑکی کے پاس جو رسول کریم ﷺکی بیوی کی بہن تھیں ان کی والدہ آئی تو انہوں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ میری ماں آئی ہے اور چاہتی ہے کہ میں اس سے کچھ سلوک کروں مگروہ کافر ہے کیا میں اس سے سلوک کر سکتی ہوں.آپ ؐنے فرمایا:."ہاں کر یہ دنیاوی معاملہ ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے.پھرحضرت عمر ؓجیسے انسان جن کے متعلق مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ خشونت والے تھے اور اپنی پہلی حالت میں تلوار لے کر رسول کریم ؐکو قتل کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے.ان کے متعلق آتا ہے کہ رسول کریم اﷺنے ان کو ایک جُبہ دیا جوریشمی تھا.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے ایک دفعہ آپ کو ریشمی جُبہ دیا تھا مگر آپ نے اس کو پسند نہ فرمایا تھا اب مجھے آپ نے ریشمی جُبہ دیا ہے کہ میں اس کو پہن لوں.آپ نے فرمایا میں نے پہننے کے لئے نہیں دیا کسی کو تحفہ دید و یا بیچ ڈالو.اس پر انہوں نے اپنے اس بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا اور کافر تھادے
۳۰۰ دیا.مذہب دنیاوی معاملات میں مانع اتحاد نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے تعلقات اور سلوک منقطع نہیں ہو جاتا بلکہ اس لڑائی کے زمانہ میں کافر رشتہ داروں سے سلوک کئے جاتے تھے.پس مسلمانوں کی طرف سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ ہمیں ان سے مذہبی اختلاف ہے اس لئے ہم ان سے دنیاوی معاملات کے متعلق اتفاق نہیں رکھ سکتے اور اس بارے میں ہماری ان سے صلح نہیں ہو سکتی کیونکہ کوئی مذہب بھی یہ نہیں کہے گا کہ دنیاوی معاملات میں دوسرے مذاہب کے لوگوں سے انکار نہ کرو بلکہ ان سے لڑتے جھگڑتے رہو.یہ بات فطرت صحیحہ کے خلاف ہے جو مذہبی تعلیم دیگا اس کو لوگ چھوڑ دیں گے مگر اس کی یہ بات نہ مانیں گے.ہندو مسلمانوں میں کیوں اتحاد قائم نہیں رہا.پس جبکہ مذہبی اختلاف دنیاوی معاملات میں اتحاد کے خلاف نہیں اور نہ روک ہے تو سوال ہو تا ہے کہ پھر کیوں ہندووں مسلمانوں میں فساد ہے.ایک طرف تو دنیاوی ضروریات ان کو مجبور کرتی ہیں کہ آپس میں اتفاق و اتحاد رکھیں اور مل کر رہیں اور دوسری طرف ہر ایک مذہب یہ کہتا ہے کہ ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو تو کیوں ان میں فساد ہوتے ہیں اور یوں ان کا اتحاد قائم نہیں رہتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں میں جو اتحاد اور صلح ہوئی تھی وہ اسکی بنیاد پر نہ تھی جو ہمیشہ قائم رہتی بلکہ وقت ضرورتوں اور جو شوں سے فائدہ اٹھاکر صلح کی گئی تھی اور جو کام اس طرح کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ ہمیشہ خراب نکلتا ہے ایسا ہی اس صلح کے متعلق ہوا.جب لوگوں میں جوش نہ رہا توصلح بھی نہ رہی.اگر ایسا نہ کیا جاتا اور صلح کسی مضبوط بنیاد پر کی جاتی تو یہ صلح کم از کم اتنے وقت تک تو چلتی تے وقت دنیا میں صلح چلاکرتی ہے.بھائی بھائی میں صلح ہوتی ہے اور ٹوٹ بھی جاتی ہے.قو میں آپس میں صلح کر تی ہیں اور پھرلڑائی بھی کرتی ہیں مگر ان کی صلح اتنی جلدی نہیں ٹوٹتی.جتنی جلدی ہندو مسلمانوں کی صلح ٹوٹی.دیکھو مرنے کو تو ہر ایک انسان مرجاتا ہے لیکن جب کوئی جوانی کی عمریں مرتا ہے تو اس کے متعلق بہت زیادہ افسوس کیا جاتا ہے اسی طرح اگر ہندو مسلمانوں کی صلح اپنا وقت گزار کر ٹوٹتی تو اتنا افسوس نہ ہوتا لیکن چونکہ یہ قبل ازوقت ٹوٹ گئی اس لئے زیادہ افسوس کے قابل ہے.
۳۰۱ صلح ٹوٹنے کی وجہ اول اور اس کے ٹوٹنے کی وجہ یہی ہے کہ اس کی بنیاد وقتی جوش پرتھی اور جوش نہ رہنے پر اسی طرح گرگئی جس طرح اگر ایک بیمار آدمی کو عظیم الشان خوشخبری سنائی جائے تو پہلے اگر وہ دوسروں کے سہارے کھڑا ہوتا ہے تو اس وقت خود بخود کھڑا ہو جائے گا مگر اس کے بعد اس کو پہلے سے بھی زیادہ کمزوری محسوس ہوگی اسی طرح وقتی جوش کی وجہ سے ہندو مسلمان اکٹھے ہو گئے مگر پھر ایک دوسرے سے لڑنے لگ گئے اور پہلے سے بھی زیادہ لڑنے لگ گئے.صلح قائم نہ رہنے کی ایک اور وجہ پھراس صلح کے قائم نہ رہنے کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کی نیتیں درست نہ تھیں.کچھ عرصہ ہوا اسی جگہ میں نے ایک لیکچر دیتے ہوئے بیان کیا تھا کہ جب نیتیں نیک نہ ہوں اس وقت تک صلح نہیں ہو سکتی اور اگر ہو جائے تو قائم نہیں رہ سکتی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس کے متعلق میں صرف مسلمانوں پر الزام نہیں لگاتا اور اسی طرح صرف ہندوؤں پر بھی الزام نہیں لگاتا میرے نزدیک دونوں پر یہ الزام لگتا ہے.جو کہ ہمیں ان معاملات سے الگ سمجھا جاتا ہے اس لئے ہم سے دونوں جماعتوں کے لوگ تعلق رکھتے ہیں اور دونوں جماعتوں کے لوگ ملتے ہیں جنہوں نے اصل حقیقت بتادی اس لئے میں دونوں کے متعلق کہتا ہوں کہ ان کی نیتیں درست نہ تھیں.ہم سے ایسے ہندو ملے جنہوں نے کہا کہ مسلمان بیرونی ممالک کے مسلمانوں پر اپنی اطاعت کا انحصار رکھتے ہیں مگر سوراجیہ مل لینے دوہم ان کی خبر لے لیں گے اسی طرح ہم سے اپنے مسلمان ملے جنہوں نے کہا ہندوؤں کو اپنی کثرت کا گھمنڈ ہے مگر انگریزوں کو نکل جانے دو پھر ہم ان کو سیدھا کرلیں گے.پس دونوں کی نیتیں درست نہ تھیں اور صلح چونکہ نیتوں کی صفائی کے بغیر نہیں ہو سکتی اس لئے نہ ہوئی.صلح کی تین نہ قائم رہنے والی بنیادیں اب میں وہ بنیادیں بیان کرتا ہوں جن پر صلح رکھی گئی تھی.وہ تین ہیں (۱) ہے کہ سوراج قلیل عرصہ میں مل جائے گا.(۲) خلافت ترکی کی قائم ہو جائے گی.(۳) مذہبی اختلافات کو درمیان سے مٹادینے کی کوششیں اور یہ تجویز کہ ان اختلافات کو بالکل مٹادو اور کبھی یادہی نہ کرو کہ ہندو مسلمانوں میں کوئی مذہبی اختلاف ہے.ان میں سے دو پہلی باتیں تو بطور مقصد کے تھیں اور تیسری ذریعہ کے طور پر مگرتینوں ایسی
۳۰۲ تھیں کہ جو یا تو اس وقت سے تعلق رکھتی تھیں یا ایسی غلط بنیاد پر تھیں کہ قائم نہ رہ سکتی تھیں.سوراج ایک سال کے اند ر نا ممکن تھا مثلاً یہ کہنا کہ سوراج ایک سال کے اندر اندر مل جائے گا اس کا کو کی یقین ہی نہیں کر سکتا تھا سوائے ان لوگوں کے جو سیاسیات میں دخل نہیں رکھتے تھے.ان ایام میں کئی جوشیلے طالب علموں نے مجھ سے پوچھا کہ ایک سال میں سوراج مل جانا کیوں نا ممکن ہے؟ اس وقت ان کو سمجھانا مشکل تھا.مگر میں دیکھتا تھا کہ یہ بات غلط ہے اور ضرور غلط ثابت ہوگی.جرمنی کی حکومت کو کئی سلطنتیں مل کر مٹانا چاہتی تھیں اور اس کے لئے پانچ سال صرف ہوئے اور پھر بھی اس کے سارے ملک پر اتحادی قبضہ نہ کر سکے.جب وہ حکومت نہ مٹ سکی تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایسی حکومت جس نے جرمنی پر فتح حاصل کی اس کو ایک سال میں ہندوستانی ہندوستان سے نکال دیں.پھر کیوں یہ کہا گیا کہ ایک سال میں سوراجیہ حاصل ہو جائے گا.بات یہ ہے کہ لمبے وعدہ پر لوگ کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اتنے سال کون قربانی کرے مگرا یک آدھ سال کے لئے اگر کہا جائے تو زمیندار بھی کہہ دیتے ہیں کہ چلو اس سال کھیتی نہ کی تو نہ سہی اور جو کہا جائے ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اسی لئے سوراج کے حصول کے لئے ایک سال کا عرصہ رکھا گیا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں بڑا جوش پیدا ہوگیا اور انہوں نے اس قدر قربانیاں کیں جو اس سے پہلے کبھی نہ کی تھیں مگر جب سال ختم ہوگیا اور سوراجیہ نہ ملا تو ان میں مایو سی پیدا ہو گئی.اس وقت کہا گیا کہ سوراجیہ کے لئے کچھ شرطیں تھیں جن کو پورا نہیں کیا گیا اس لئے وہ حاصل نہیں ہوا اگر چہ جب اعلان کیا گیا تھا اس وقت کوئی شرطیں نہ لائی گئی تھیں.بعد میں لگائی گئیں مگر لگائی گئیں.اس وقت بھی ۹۰ فیصدی لوگ یہی سمجھتے رہے کہ کوئی شرط نہیں ہے اور جو شرطیں لگائی گئی تھیں وہ ایسی تھیں کہ خود شرطیں لگانے والے بھی یہی سمجھتے تھے کہ وہ اتنے قلیل عرصہ میں ہرگز پوری نہیں ہو سکیں گی.مثلا ًکہا گیا کہ اگر سارا ملک تیار ہو جائے تو سوراجیہ مل جائے گا مگر یہ ایسی شرطیں تھیں جو کبھی پوری نہ ہو سکتی تھیں.ان تھوڑے عرصہ میں تو سلطنتیں بھی کسی ملک کے سارے لوگوں کو ایک کام کے لئے تیار نہیں کر سکتیں پھر یہ لوگ کس طرح کر سکتے تھے.انگریز پانچ سال کے عمر میں اپنے ملک کے صرف ایک حصہ کو جبری بھرتی کے لئے تیار کر سکے پھرسوراجیہ حاصل کرنے والے سارے ہندوستان کو اتنے عرصہ میں کس طرح تیار کر سکتے تھے.مگر یہ جانتے ہوئے انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ایک سال میں سو راجیہ حاصل
۳۰۳ ہو جائے گا یہ محض لوگوں میں جوش پیدا کرنے کے لئے تھا.خلافت کا مسئلہ دوسرا مسئلہ خلافت کا مسئلہ تھا.اس سے لوگوں میں جوش پیدا کیا گیا اور اس سے خوش کرنے میں بہت مدد بھی ملی.اس کے متعلق میں آگے چل کر بیان کروں گا.ہم پہلے ہندوستانی پھر ہندو یا مسلم ہیں یہ ایک خوشکن مگر بے معنی اور مضر فقرہ ہے تیرا مسئلہ اختلاف کا تھا جس کے متعلق کہا گیا کہ مذہبی اختلافات کو مٹا دینا چاہئے اور کہا گیا کہ پہلے ہم ہندوستانی ہیں اور پھر ہندو یا مسلمان اس لئے مذہبی اختلاف کو چھوڑ دینا چاہئے.میں پہلے یہ بیان کر چکا ہوں کہ باو جود مذہبی اختلاف کےصلح اور اتحاد ہو سکتا ہے اور مذہب صلح میں روک نہیں ہو سکتا مگر اس میں شبہ نہیں کہ مذہب کی وجہ سے ایسے فساد پیدا ہوتے ہیں کہ جن کے دور کئے بغیر صلح نہیں ہو سکتی.مگر کہا گیا کہ ان باتوں کو بالکل بھول جاؤ کیونکہ ہم لوگ پہلے ہندوستانی اور پھر ہندو یا مسلمان ہیں لیکن یہ فقرہ ایسا تھا جس کا مطلب کوئی نہ سمجھ سکتا تھا اور یہ اسی قسم کے فقروں کی طرح تھا جو بظاہر خوشنما نظر آتے ہیں لیکن عملاً ان کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی جیسے انجیل کایہ فقرہ ہے کہ اگر کوئی داہنی گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی اس کی طرف پھیردے کو یہ بڑا خوشنمافقرہ ہے مگر اس پر کوئی عمل نہیں کر سکے گا.مصر کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی پادری کھڑاوعظ کر رہا تھا اور اپنے وعظ میں رسول کریم ﷺکو گالیاں دے رہا تھا اس پر ایک مسلمان کو غصہ آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پادری کے منہ پر ایک تھپڑ مارا.پادری نے کیا کیا یہی اسلامی تعلیم ہے اور اسے مارنے لگا.مسلمان نے کہا اس وقت میں نے انجیل کی تعلیم پر عمل کیا ہے آپ کو چاہئے کہ دوسرا گال بھی میری طرف کر دیں تاکہ میں اس پر بھی تھپڑ مار دوں.پادری نے کہا اس وقت میں تمہاری تعلیم پر عمل کروں گا اور اس کا بدلہ لونگا انجیل کی تعلیم پر عمل نہیں کروں گا.اور دنیا میں ایسے مواقع آتے ہیں جبکہ سزا دینی ضروری ہوتی ہے اور اسلام کی یہی تعلیم ہے لیکن بظاہر انجیل کا یہ فقرہ بڑا خوشنمالگتا ہے جس پر عمل نہیں کیا جاسکتا.اسی طرح یہ فقرہ تھاجو بڑی کثرت سے استعمال کیا جا تا تھا کہ ہم پہلے ہندوستانی ہیں اور پھر ہندو یا مسلمان.مگر اس کا مطلب کیا تھا کیا یہ پہلے ہندوستان نے پیدا کیا اور پھر ہندو یا مسلمان بنامگر یہ غلط ہے اور وقت کے لحاظ سے یہ فقرہ درست نہیں ہو سکتا کیونکہ مذہب کا تعلق خدا سے ہو تا ہے اور
۳۰۴ خدا پہلے پیدا کر دیتا ہے پھر ملک سے تعلق پیدا ہوتا ہے.باقی رہی فضیلت کہ یہ کہنے والا کہتا ہے میں مذہب کو ادنی ٰسمجھتا ہوں اور ہندوستانیت کو اعلیٰ یہ بھی غلط ہے کیونکہ مذہب کے مقابلے میں وطنیت کچھ حقیقت نہیں رکھتی.ہندو اگر یہ فقرہ کہتے تھے تو اور بات ہے مگر مجھے مسلمانوں پر حیرت آتی تھی کہ وہ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں.اگر سوال درجہ کا ہے کہ کس کو قبول کرو تویہ صاف بات ہے کہ مذہب پر ملک کو ترجیح نہیں دی جاسکتی.اور اگر کوئی کہتا ہے کہ مذہب ملک کی محبت میں روک ہے تو یہ بھی نہیں ہو سکتا اس لئے کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ہندوستانی پہلے ہوں اور پھر مسلمان - اور اگر کوئی یہ کہتا ہے اور مذہب پر ملک کو تر جیح دیتا ہے اور اگر یہ کہتا ہے کہ مذہب وہاں ختم ہو جاتا ہے اور آگے وطنیت شروع ہوتی ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ مذہب کہتا ہے کہ نہ میں یہاں ختم ہوتاہوں اور نہ وہاں اس لئے یہی کہا جاسکتاہے کہ میں مسلمان ہندوستانی ہوں کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ حب الوطن من الاثمان *۸ کہ وطن کی محبت ایمان میں داخل ہے.ایسی اعلیٰ تعلیم کے ہوتے ہوئے کسی اور فقرہ کے ایجاد کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب بانی اسلام علیہ الصلوٰۃ السلام کا ارشاد ہے کہ وطن سے محبت کرنا اسلام میں داخل ہے تو کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اپنے وطن کی محبت اس کے دل میں نہ ہو.پس میں اگر وطن کے لئے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہوں تو مجھے کسی بے معنی فقرہ کے ایجاد کی ضرورت نہیں.میں پہلے بھی بیچ بھی اور بعد میں بھی مسلمان ہی ہوں اور اس حالت میں قربانی کر سکتا ہوں.پس مسلمانوں کے لئے اس فقرہ کے ایجاد کی قطعا ًضرورت نہیں تھی.یہ وہ تین باتیں تھیں جن پر اتحاد کی بنیاد رکھی گئی اور یہ تینوں عارضی اور غیر طبعی تھیں.عارضی اتحاد کے بعد اختلاف کے موجبات اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس اتحاد کے اختلاف کا موجب کیا ہوا.اول تو یہ کہ مسئلہ خلافت کا حل عجیب طرح ہو گیا.خداتعالی ٰنے ترکوں کو یو نانیوں پر فتح دی اور یورپین طاقتوں نے سمجھ لیا کہ اگر اب ہم یونان کی طرف داری کرتے ہیں تو خطرناک جنگ شروع ہو جاتی ہے.یہ طاقتیں چو نکہ پہلے ہی جنگ سے تھکی ہوئی تھیں اس لئے انہوں نے صلح کرادی ادھر ترکوں نے خلیفہ کے اختیارات کافیصلہ کر دیا اور کہہ دیا کہ خلیفہ کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں اس طرح اس سوال کا عمل ہو گیا کہ خلیفہ کے لئے سیاست ضروری ہے.پہلے یہ عمل کسی کے خیال میں نہ تھا کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں خلافت کے متعلق جوش نہ رہا.
۳۰۵ دوسری بات یہ ہوئی کہ جب مقررہ مدت میں سوراج نہ ملا تو لوگ لیڈروں سے بد ظن ہو گئے وہ سمجھے کہ ہم سے بے فائدہ قربانیاں کرائی گئی ہیں اور بلاوجہ خراب کیا گیا ہے.تیسری وجہ یہ ہوئی کہ کانگریس میں اصولی غلطیاں پیدا ہو گئیں.دنیا میں دو قسم کی حکومتیں ہوتی ہیں ایک شخصی اور رو ری قوی یعنی جمہوری ان کے سوا اور کوئی طریق حکومت ایسا نہیں ہوا جس سے لمبے عرصہ تک کام چلایا گیا ہو مگر کا نگرس حکومت نے انفرادی یعنی شخصی رہی اور نہ جمہوری - جمہوری تواس لئے نہ رہی کہ مسٹر گاندمی کے مقابلہ میں کانگرین میں کوئی بول نہ سکتا تھاجو وہ چاہتے تھے وہی کانگریس سے منواتے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس جسے جمہوری سمجھا جاتا تھا وہ ٹوٹ گئی اور لوگ شخص کے پیچھے چل پڑے اس طرح شخصی حکومت ہو گئی.اب شخصی حکومت میں قائم مقام کا ہونا ضروری تھا جیسا کہ بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا نامزد کیا جاتا ہے اور اگرپریذیڈنٹ ہوتا ہے تو اس کا بھی قائم مقام تجویز کیا جاتا ہے مگر کانگریس میں گو شخصی حکومت قائم ہوگئی تھی لیکن کوئی قائم مقام نہ بنایا گیا تھا اور چونکہ لوگوں کو مسٹر گاندھی کی ذات سے تعلق تھااس لئے کسی اور سے ان کو ایسا تعلق نہ پیدا ہو سکا.اگر لوگوں کو عہدہ سے تعلق ہوتا تو عہدہ کی عزت کی جاتی.اور جو اس عہده پر مقرر ہو اس کی ویسی ہی عزت کی جاتی جیسے پہلے کی.مثلاً روزولٹ امریکہ کا پریذیڈنٹ تھا تو لوگ اس کی عزت کرتے تھے جب وہ نہ رہا اور اس کی جگہ دو سرا ہوا.تو اس کی عزت کرنے لگے کیونکہ اس میں عہدہ پریزیڈنٹ کی عزت تھی نہ کہ کسی کی ذاتی عزت.اگر مسٹر گاندھی کی عزت ڈکٹیٹر یا پریزیڈنٹ ہونے کی وجہ سے ہوئی تو ان کی جگہ جو بھی مقرر ہوا اس کی بھی عزت کی جاتی اور اس کا بھی اسی طرح حکم مانا جاتا جس طرح مسٹر گاندھی کالوگ مانتے تھے لیکن چونکہ ان کی عزت ان کی ذات کی وجہ سے کی جاتی تھی اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ جب حکومت نے ان کو لوگوں سے علیحدہ کردیا تو ان کے قائم مقام کو لوگوں میں وہ عزت حاصل نہ ہو ئی جو ان کی تھی.اور ادھر کانگریس کی جمہوریت ٹوٹ چکی تھی اس لئے کانگر یس کی طاقت تتّربتّر ہو گئی.اگر ان کی شخصیت نہ قائم کی جاتی اور اگر شخصیت قائم کی جاتی تو بطور عہدہ کے ہوتی تو ان کے علیحدہ ہوتے ہی دوسرا شخص ان کی جگہ مقرر کیا جاتا اور لوگ اس کو ماننے لگ جاتے.مگرایسانہ کیا گیا جس کا نتیجہ خطرناک نکلا.چوتھی بات یہ ہوئی کہ جو لوگ تکالیف اٹھاتے اور مشکلات برداشت کرتے رہے تھے ان کو آہستہ آہستہ مشکلات بڑی نظر آنے لگیں.پہلے مسلمانوں نے خیال کیا کہ ہم سب کچھ قربان
۳۶۰ بات یہ ہے کہ ہمیں تو الفاظ سے کوئی تعلق نہیں.جس بات میں خدا اور اس کے رسول کی عزت ہو، ہمیں تو وہی پسند ہے.ہم کبھی ایک منٹ کے لئے بھی اس امر کو جائز نہیں سمجھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا شخص آئے جو آپؐ کی رسالت کو ختم کردے اور نیا کلمہ اور نیا قبلہ بنائے اور نئی شریعت اپنے ساتھ لائے یا شریعت کا کوئی حکم بدل دے یا جو لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکال کر اپنی اطاعت میں لے آئے یا آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے باہر ہو یا کچھ بھی فیض اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط کے بغیر ملا ہو، اگر ایسا کوئی آدمی آئے تو ہمارے نزدیک اسلام باطل ہو جاتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے جو وعدے تھے جھوٹے ہوجاتے ہیں.لیکن ہم اس امر کو بھی کبھی پسند نہیں کر سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو ایسا سمجھا جائے کہ گویا آپؐ نے تمام فیوض الٰہی کو روک دیا ہے اور آپؐ بجائے دُنیا کی ترقی میں ممد ہو نے کے اس کے راستہ میں روک بن گئے ہیں اورگویانعوذ باللہ من ذالک آپ ؐ بجائے دُنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچا نے کے اسے وصول الی اللہ کے اعلیٰ مقامات سے محروم کر نے والے ہیں.جس طرح پہلا خیال اسلام کے لئے تباہ کرنے والا ہے، اسی طرح یہ دوسرا خیال بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایک خطرناک حملہ ہے، اور ہم نہ اُسے قبول کرتے ہیں اور نہ اسے برداشت کرسکتے ہیں ، ہمارا یقین ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے رحمت تھے.اور ہمارا پکا یقین ہے کہ یہ بات ہر ایک آنکھ رکھنے والے کو نظر آرہی ہے.آپؐ نے آکر دنیا کو فیوض سماوی سے محروم نہیں کردیا بلکہ آپؐ کے آنے سے اللہ تعالیٰٰ کے فیوض کی روانی پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی ہے.اگر پہلے وہ ایک نہر کی طرح بہتے تھے تو اب ایک دریا کی طرح بہتے ہیں، کیونکہ پہلے علم اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا اور علم کامل کے بغیر عرفانِ کامل بھی حاصل نہیں ہو سکتا اور اب علم اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے.قرآن کریم میں وہ کچھ بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کی کتب میں بیان نہیں کیا گیا تھا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل لوگوں کو عرفان میں زیادتی حاصل ہوئی ہے اور عرفان میں زیادتی کی وجہ سے اب وہ اُ ن اعلیٰ مقامات پر پہنچ سکتے ہیں جن پر پہلے لوگ نہیں پہنچ سکتے تھے اور اگر یہ ایمان نہ رکھا جائے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر کیا فضیلت رہ جاتی ہے.پس ہم اس قسم کی نبوت سے تو منکر ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آزاد ہو کر حاصل ہو تی ہو، اور اسی وجہ سے ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح ناصریؑ کی آمد سے مُنکر ہیں مگر ہم اس قسم کی نبوت کی نفی نہیں کر سکتے جس سے رسول
۳۰۷ ہندو کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ مختلف فرقے ہیں جو اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں.کچھ عرصہ ہوا اخبار لیڈر میں ہندو مذہب کے متعلق مضامین چھپے تھے جو مختلف لوگوں نے لکھے تھے ان میں سے ایک نے لکھا تھا کہ کئی مذاہب کو جمع کر کے ہندومذ ہب بنادیا گیا ہے.تو ہندو خود کوئی مذہب نہیں ہے اگر مسلمان ہندوستان سے مٹ گئے تو ان کی آپس میں لڑائی شروع ہو جائے گی کیا مسلمانوں سے پہلے ان میں لڑائیاں نہ ہوتی تھیں؟ بدھوں اور جینیوں میں کس قدر لڑائیاں ہوئیں.مختلف فرقوں نے ایک دوسرے کو کس بے دردی سے قتل کیا اور اس طرح قتل کیا کہ بعض قوموں کا ایک آدمی بھینہ چھوڑا.پس اگر مسلمان اور انگریز ہندوستان سے نکل جائیں تو ہندو کمانے والے آپس میں لڑیں گے اس لئے یا تو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ ہندوؤں کا بھی کوئی ایک ہی فرقہ ہندوستان میں رہے.ورنہ یاد رکھنا ہوا ہے کہ مسلمانوں سے ہندوستان خالی کرا دینے سے صلح نہیں ہوسکتی.دراصل صل نیتوں کی صفائی سے ہی ہو سکتی ہے اور کسی طرح نہیں ہو سکتی.چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنازعات اس کوشش کا کیا نتیجہ ہوا جو ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کے مٹانے کے لئے شروع ہوئی یہ کہ مسلمانوں نے سمجھا ہمارامذہب مٹنے لگا ہے اس وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو مذہب بنا کر لڑنےلگے.کہیں جلوس پر لڑائی ہوئی، کہیں تعزیئے پر، کہیں اذ ان پر اسی طرح ہندوؤں نے کہا کہ اگر تمہارےتعزئیے نکلتے ہیں تو ہم باجے بجائیں گے اور مسجدوں کے پاس سے گذریں گے.اگر ان باتوں پر کوئی غور کرے تو حیران رہ جائے کہ یہ بڑے آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں یا بچے.باجوں کے مسجدوں کے پاس بجنے میں کیا بات ہے اور ان کے روکنے میں کیا؟ ان کا بجانا اور روکنا دونوں بچوں والی باتیں ہیں.میرے نزدیک توتعزئیے مذہب میں شامل نہیں مگر جو تعزئیے بناتے ہیں وہ بھی ان کو مذ ہب کا جزو نہیں سمجھتے.پس اول تو یہ مذہب کا جزو نہیں اور اگر ہوں تو ان کے ایک رستہ سے گذرنے میں کونسی فضیلت ہو سکتی ہے اور دوسرے رستہ میں گذرنے میں کونسی ہتک ہو سکتی ہے.اسی طرح با جابجا نا مذہب کا فرض نہیں اور یہ بات تو بالکل ہی سمجھ میں نہیں آتی کہ جب کسی قوم کا معبد آئے تو ضرورہی اس کے پاس با جا بجانا چاہئے.ایسی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی عقلیں ٹھکانے نہیں رہیں اور یہ بچوں کی سی باتیں کرنے لگ گئے ہیں.
۳۰۸ سنگٹھن پھر ایک اور تاریک جو ان فسادوں کی وجہ سے نہیں بلکہ پہلے کی تھی اس کو اب زیاده زور حاصل ہو گیا اور وہ سنگٹھن کی تحریک ہے.کہا جا تا ہے کہ یہ تحریک ہندو مسلمانوں کے موجودہ فسادات کی وجہ سے شروع ہوئی مگر جو شخص پنڈت مالویہ صاحب کے حالات سے واقف ہو گا اسے معلوم ہو گا کہ جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا ہے اسی وقت سے اس تحریک میں لگے ہوئے ہیں.ہاں پہلے ان کی کوئی بات نہیں سنا تھا مگر ان کے واقعے انہوں نے فائده اٹھایا اور ہندووں کو اس کے لئے تیار کر لیا ہے.مسلمان اس تحریک سے بدک گئے اور انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہندوؤں کی یہ کمیٹیاں جو الگ بن رہی ہیں یہ ہمارے خلاف اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے بنی ہیں یہ نہیں بننی چاہئیں.فسادات کے بعد اس تحریک کے زور پکڑ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو یہی خیال آیا کہ یہ فسادات کے بعد شروع ہوئی ہے.مگر دراصل یہ پہلے کی شروع ہے جن حالات کے ماتحت اس میں زور آیا ہے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے مسلمانوں کے خلاف کہہ سکتے ہیں.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اس تحریک پر ناراض ہوں اور یہ کہیں کہ ہندو کیوں اس پر عمل کرتے ہیں.تحریک شدھی ٍشدھی کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ یہ ہندوؤں نے شروع کی اور مسلمانوں میں اس کی وجہ سے بھی نارضگی پیدا ہوئی مگر میں قطعا نہیں سمجھتا کہ مسلمان شد هی پر ناراض کیوں ہیں.ہندوؤں کا شدھی کو جاری کرایسا ہی ہے جیسے مسلمانوں کادو سروں کو مسلمان بنانا.پس اگر کوئی دوسروں کو اپنےمذہب میں داخل کرتا ہے تو ہم ناراض کیوں ہوں.عیسائی ہندوؤں سے زیادہ لوگوں کو عیسائی بنا رہے ہیں ان سے کوئی ناراض نہیں ہوتا پھر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان ہندووں سے شدھی کی وجہ سے کیوں ناراض ہیں.میں نے بارہا اپنی گفتگوؤں اور تقریروں میں ذکر کیا ہے کہ شدھی پر ناراض ہونے کی مسلمانوں کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے.بعض لوگ کہتے ہیں چونکہ ان کے مذہب میں کسی کو داخل کرنے کی اجازت نہیں اسی لئے مسلمان ناراض ہیں مگر میں کہتا ہوں اس پر تو ان کے پنڈتوں کو ناراض ہوناچا ہیے نہ کہ ہمیں.یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی ہندو مسلمانوں سے اس بات پر لڑے کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے.میرے نزدیک مسلمانوں کو شدھی پر قطعاًء ناراض نہیں ہونا چاہئے اور میں تو اس کو نہایت ہی پسند کرتا ہوں کیونکہ جب تک کسی قوم میں یہ ولولہ نہ ہو کہ دوسروں کو اپنے اندر داخل کرے اس وقت تک وہ بھی دو سروں میں داخل نہیں ہو سکتی.اب جبکہ ہندوؤں میں یہ ولولہ پیدا ہو رہا ہے
۳۰۹ کہ دوسروں کو اپنے اندر داخل کریں تو وہ بہ نسبت اس کے جلدی مسلمان بنا لئے جائیں گے کہ وہ پہلی حالت میں رہتے.پس میں شدھی کی تحریک پر ناراض نہیں ہوں اور نہ اسے ناپسند کرتا ہوں ہاں اس کے لئے جو ناجائز ذرائع اختیار کئے گئے ہیں ان کو ضرور ناپسند کرتا ہوں.شدھی کا باقاعدہ مقابلہ سب سے پہلے ہم نے شروع کیا چونکہ میں وہ انسان ہوں جس نے سب سے پہلے شدھی کے مقابلہ میں باقاعدہ کمانڈر مقرر کیا جس کے ماتحت ہروقت کم از کم ایسے سو آدمی کام کررہے ہیں کہ جس کو وہ جہاں کھڑا کرے وہیں کھڑے رہتے ہیں اور جہاں بٹھاۓ وہیں بیٹھے رہتے ہیں خواہ کیسی ہی مشکلات اور تکالیف ان کو پیش آئیں اس لئے شدھی کے متعلق جو حالات مجھے معلوم ہیں وہ اور کسی کو معلوم نہیں ہیں.بعض لوگوں نے اس تحریک میں بھی ناجائز ذرائع استعمال کئے پھر میں نے ’’بعض ‘‘کہا ہے کیونکہ بعض ہندو شدھی کے خلاف بھی ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ اگر ان کو ان ذرائع کا علم ہو تو انہیں ناپسند کریں گے.ہندوؤں نے شدھی میں ناجائز ذرائع اختیار کئے ذرائع کئے تو بعض نے ناجائز ذرائع استعمال کئے وہ ذرائع کیا تھے وہ کئی قسم کے تھے مثلاً (۱) اس بات پر لیکچردیئے گئے کہ مسٹر گاندھی کو مسلمانوں نے اپنالیڈ رمان لیا ہے اور یہ بات اس قدر مشہور ہو چکی تھی کہ وہ لوگ جو پہاڑوں میں رہتے ان تک بھی پہنی ہوئی تھی اس لئےملکانے بھی تسلیم کر لیتے کہ ہاں مسلمانوں نے مسٹر گاندھی کو اپنا لیڈر مان لیا ہے.پھر ان کو کہا جاتا انہوں نے کہا ہے کہ تب تک ہندوستان کی حکومت نہیں مل سکتی جب تک تمام ہندوستانیوں کا ایک مذہب نہ ہو جائے.اس امر کے لئے سب سے پہلے ان راجپوتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی تجویز کی گئی ہے جو پہلے ہندو تھے.اب یہ بات جب ان لوگوں نے سنی جو عام طور پر جاہل اور ناواقف تھے تو وہ ہندو بننے کے لئے تیار ہو گئے اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں ہندو بننے میں کیا عذر ہو سکتا ہے.دوسرا ناجائز طریق یہ اختیار کیاگیا کہ مسلمانوں کے بزرگوں کے جھوٹے مظالم ان لوگوں کو سنانے شروع کردیئے اور انہیں کہا گیا کہ مسلمان بادشاہوں نے تم کو زور اور جبر سے اور تمہارے باپ دادا کے گلے پر تلوار رکھ کر ان کو مسلمان بنایا تھا اب جبکہ انگریزوں کی حکومت ہے اور کوئی تم پر جبر نہیں کر سکتا تو تمہیں چاہئے کہ پھر ہندو بن جاؤ.اب جو مسلمان ہی دیکھے گا کہ
۳۱۰ ہمارے بادشاہوں کو اس طرح گندہ اور ظالم کر کے دکھایا جاتا ہے تو اس کو غیرت آئے گی اور چونکہ نہ صرف عالمگیر اورنگ زیب کے زمانہ میں بلکہ سب مسلمان بادشاہوں کے زمانہ میں شروع سلطنت اسلامیہ سے ہندو مسلمان ہوتے چلے آئے ہیں اس لئے سب مسلمان بادشاہوں پر زبردستی مسلمان بنانے کا الزام لگایا گیا اور ان کو ظالم اور جابر قرار دیا گیا.اس کے متعلق میں نے اپنے ان مبلّغوں کو جو ملکانوں میں کام کرتے تھے لکھا کہ تم ان لوگوں کو کہو کہ اگر یہ بات درست ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے تمہارے باپ دادوں کو جبرا مسلمان بنالیا تھا جو راجپوت تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ باقیوں کو انہوں نے جبرا ًمسلمان نہ بنایا.اس پر آریوں کو بہت مشکل پیش آئی اور انہوں نے یہ ڈھنگ بنایا کہ ملکانوں کو کہنے لگے ایک دفعہ مسلمان تمهارے باپ داروں کو لڑنے کے لئے لے گئے تھے اور کنویں میں تھوک کر ان کو اس کا پانی پلادیا تھا اس پر قوم نے ان لوگوں کو چھیک دیا تھا اور وہ مسلمان بن گئے.تیسرا طریق یہ اختیار کیا گیا کہ شدھی کا مطلب مسلمانوں سے چھوت چھات کرنا بتایا گیا اس سے مسلمانوں کو غصہ آئے گا یا نہ آئے گا کہ ہم سے نفرت کرائی جاتی ہے اور تم کو ذلیل سمجھا جاتا ہے.اگر ملکانوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دی جاتی تو غصہ کی کوئی وجہ نہ تھی مگر اس کے بجائے مسلمانوں سے نفرت سکھائی گئی.پانچویں یہ کہ لالچ سے شدھی کی گئی شدھ ہونے کے لئے روپیہ دیا گیا.ہمارے پاس ایسے آدمیوں کے نام اور پتے اور ثبوت موجود ہیں ان کو شدھ ہونے کے لئے روپیہ دیئے گئے.ایک آدمی نے بتایا کہ میں چار پانچ سو روپیہ شادی پر خرچ کر چکا ہوں اب چار سو روپیہ اور چاہئے مگر ساہو کار کہتا ہے کہ شدھ ہو جاؤ تو دو نگا.کیا تم یہ روپیہ دے سکتے ہو ہم نے کہا کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں ہے.اس پر وہ روتا ہوا چلا گیا کہ اب میں مجبور ہوں مجھ پر الزام نہ لگانا کہ کیوں شدھ ہو گیا.پھر ان لوگوں سے ہمارے آدمیوں پر مظالم کرائے گئے ایک شخص چو سیشن جج ریڈ رہیں ایک گاؤں جس کا نام "سپار‘‘ ہے اس میں رہتے تھے ان پرجھونپڑا گرا دیا اور گھسیٹتے گھسیٹتے گاؤں سے باہر نکال دیا.اس کے متعلق مقدمہ ہوا اور ملزموں نے جھوٹ بولنے پر کمر باندھ لی.اس پر عدالت بار بار کہتی کہ آریہ تو کہتے ہیں ہم نے ان کو شدھ گیا ہے کیا شدھ ہو کر یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں.عدالت نے ان لوگوں کو مجرم قرار دیا اور سزا دی.
۳۱۱ اسی طرح ایک گاؤں ہے جو اردگرد کے علاقہ پر اثر رکھتا ہے اس کے دو با اثر آدمیوں کو تحصیلدار نے بلا کر کہا کہ تمہارے گاوں میں فلاں کنواں جو سرکاری روپیہ سے بنا ہے اس کے متعلق میں کہدوں گا کہ چونکہ اس کا پانی کھاری نکلا ہے اس لئے روپیہ نہ وصول کیا جائے تم سارے گاؤں کو شدھ کرادو- وہ سرکردہ لوگ تھے انہوں نے اس گاؤں کے لوگوں کو شدھ کرادیا.اب تحصیلدار نے جو کچھ کہا تھا اس کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ گاؤں والوں نے اس کو ان کے متعلق درخواست دی.ادھر تحصیلدارنے سفارش کی کہ ان سے روپیہ نہ لیا جائے اور ادھر یہ روایت ہے کہ اس شرط پر شدھ ہونے کے لئے کہا گیا تھا.ایک اور جگہ ہمارے مبلّغ ارتداد کو روکنے کے لئے گئے وہاں کے لوگ دوبارہ مسلمان ہوگئے لیکن وہاں تھانیدار نے جا کر لوگوں کو کہا کہ تم مجرموں میں شامل کر لئے جاؤ گے اس پر ان لوگوں نے ڈر کر کہدیا کہ ہم مسلمان نہیں ہوئے.اس کے علاوہ اس علاقہ میں ایسے مضامین اور ٹریکٹ اسلام کے خلاف شائع کئے گئے جو اس قدر گندے تھے کہ مسلمان ان کو سن بھی نہیں سکتے تھے.ان میں رسول کریم ﷺ اور اسلام کو ایسی گندگی اور ناپاک گالیاں دی گئیں ہیں کہ کوئی شریف انسان ان کو پڑھ نہیں سکتا.اس سے مسلمانوں کو جس قدر صدمہ پہنچاجائز تھا.اسی طرح سنگھٹن کے انتظام کو فسادات کے ساتھ ایسا قریب کر دیا گیایعنی ملتان وغیرہ کے واقعات سے اتنا قریب شروع کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ ہمارے مٹانے اور نقصان پہنچانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے.اگر ملتان کے فساد کے متعلق ہندو دھواں دھار تقریریں نہ کرتے تو ملتان کا فساد ملتان تک ہی محدود رہتامگراس فساد کو ہندوؤں نے اتنا پھیلایا اور مالابار کے واقعات کو اس کے ساتھ اس طرح ملا دیا کہ مسلمانوں نے سمجھا ہندو ہم کو ذلیل اور برباد کرنا چاہتے ہیں.اس پر ستم یہ ہوا کہ دونوں قوموں میں صلح کرانے والے خود ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس طرح کوئی صلح کرانے والانہ رہا.اس طرح فسادات اور جھگڑے پیدا ہو گئے.اختلافات مٹانے کے لئے ناکام کوششیں اب ان اختلافات کو مٹانے کے لئے جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ یہ ہیں کہ.سول نافرمانی (۱) گورنمنٹ کے خلاف جوش پیدا کر کے سول نافرمانی کی جائے لیکن ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب آپس میں لڑائی ہو تو گو ر نمنٹ کے خلاف کون کھڑا
۳۱۲ ہو سکتا ہے.ایسے جوش اس وقت پیدا کئے جاسکتے ہیں جبکہ گورنمنٹ سے کوئی امید نہیں ہوتی مگر جب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ہمارا مقد مہ گورنمنٹ کے پاس پہونچے گا تو لوگ کس طرح گورنمنٹ کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں.اول تو ہم اسی کے خلاف ہیں کہ سول نافرمانی کی جائے مگر یہ موقع تو ایسا ہے کہ قطعاً اس کے خلاف ہیں.شدھی روک دی جائے دوسری کوشش یہ کی گئی ہے کہ شدھی کی تحریک اور اس کے مقابلہ کی کوششوں کو روک دیا جائے.حال میں کانگریس کا جو اجلاس دہلی میں ہوا تھا اس میں یہ بات پیش ہوئی تھی مگر ہم حیران تھے کہ کس طرح روک سکتے ہیں سب سے زیاده شد ھی کے مقابلے میں ہمارے آدمی کام کر رہے ہیں ہم سمجھوتہ کئے بغیر کس طرح اس تجویز کو پاس کر سکتے ہیں.جن ایام میں کانگر یس ہو رہی تھی قادیان میں ہماری ایک مجلس ہو رہی تھی جس میں میں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ ان سمجھوتہ کرنے والوں نے ایک بات کو نظر انداز کیا ہے مگر جب وہ فیصلہ کرنے لگیں گے تب انہیں معلوم ہو گا کہ کیاغلطی کر رہے ہیں.یہ کہہ کر میں گھر گیا تو مجھے ایک تارملاجو مسٹر محمد علی، حکیم اجمل خان، اور ڈاکٹر انصاری کی طرف سے تھا جس میں لکھا تھا کہ شدھی کے متعلق سمجھوتہ کرنے کے لئے اپنے قائم مقام بھیجیں.اس پر میں نے آدمی بھیج دیئے جب ہمارے آدمی گئے تو معلوم ہوا کہ وہی بات ہو ئی جو میں نے کہی تھی.یہ قرار پا چکا تھا کہ دونوں قومیں اپنے آدی علاقہ ارتداد سے واپس بلالیں اور صرف یہ سوال باقی تھا کہ پہلے کون بلائے اور کون لوگ اول اس علاقہ کو خالی کریں.مولوی صاحبان نے یہ کردیا تھا کہ ہمارے آدمی واپس آجائیں گے.اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ احمدیوں کا کیا ہو گا؟ اس پر مسٹر شردھانند نے کہا کہ احمدی بھی اپنے آدمی بلالیں.اگر ان کے آدمی واپس آجائیں گے تو ہم بھی اپنے آدمی بلالیں گے ورنہ نہیں.اس وقت سمجھوتہ کرنے والوں کو ہمارا خیال پیدا ہوا اور ہمارے قائم مقاموں کو بلایا گیا.اس پر میں نے اپنے آدمیوں کو بھیج دیا.جنہوں نے جا کر کہا کہ کسی مذہب کی اشاعت کو نہیں روکا جاسکتا.اگر شد ھی کو روکا جائے گا تو ہندو اسلام کی اشاعت کو بھی روکیں گے اس لئے یہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ ناجائز ذرائع جو استعمال کئے جاتے ہوں ان کو روکنا چاہئے.اس کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جائے جو تحقیقات کرے کہ کسی فریق نے کیا کیا ناجائز ذرائع استعمال کئے ہیں.اس تجویز کی پنڈت مالویہ اور لالہ شرد ھانند صاحب نے مخالفت کی مگر مسلمان لیڈروں کو اس امر کی اہمیت معلوم ہو چکی تھی انہوں نے زور دیا اور کیٹی
۳۱۳ بنائی گئی گو افسوس ہے کہ ابھی تک اس کمیٹی میں کچھ کام نہیں ہوا.اب اگر شدھی کو روکنے کی تجویز پاس ہو جاتی تو اس سے اسلام کو بڑا بھاری نقصان پہنچتا.اور تم جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام غیرمذہب کے لوگوں کو اپنی صداقت اور حقانیت کے زور سے کھینچتا ہے یہ جھوٹا ہو جاتا کیونکہ ہندوؤں کے سامنے عملاً مان لیا جاتا کہ ایسا نہیں ہو سکتا یہ اسلام کے لئے نہایت نازک موقع تھاجو ہمارے زور دینے کی وجہ سے ٹل گیا.تحقیقات کی جائے فساد کا بانی کون ہے؟ تیسری تجویز یہ کی گئی ہے کہ تحقیقات کی جائے فساد کا بانی کون ہے اور کس کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے ؟ یہ تجویز سب سے ضروری تجویز تھی مگر بعد از وقت تھی کیونکہ مسلمان لیڈر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ ابتداء مسلمانوں نے کی ہے اور زیادتی ان کی ہے ایسی صورت میں اس قسم کی کمیٹی کے بنانے سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا.یہ بہت اچھا کام تھا بشرطیکہ ہندو مسلمان لیڈر اپنی رائے محفوظ رکھتے اور پھر واقعات سے جو کچھ ثابت ہوتا اسے پیش کرتے.سول گارڈ بنائے جائیں چو تھی تجویز یہ کی گئی کہ سول گارڈ بنائے جائیں جو فسادات کو روکیں یہ ضروری تھی مگر لیڈروں کا آپس میں صلح کرنا اس کے لئے ضروری تھا.موجودہ حالت میں یہ سب تجویزیں ایسی ہیں جن سے صلح نہیں ہوسکتی.صلح کی حقیقی تجویزیں اب میں وہ تجویزیں پیش کرتا ہوں جو اسلام سے مستنبط ہوتی ہیں اور جن سے صلح ہوسکتی ہے.مسلمان اپنے آپ کو مضبوط کریں.پہلی چیز جس سے صلح ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو مضبوط کریں میں پنڈت مدن موہن مالویہ صاحب کی اس رائے سے بالکل متفق ہوں کہ جب تک کوئی قوم خود محفوظ نہیں ہوتی دوسری قوم سے صلح قائم نہیں رکھ سکتی.پس میں ان کی اس رائے کے خلاف میں ہوں بلکہ متفق ہوں مگر یہ کہتا ہوں کہ ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں کو زیادہ مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور صلح کے لئے مضبوط ہونا روک نہیں بلکہ ضروری ہے.دیکھو فرانس اور انگلینڈ میں صلح ہے تو
۳۱۴ کیا انہوں نے اپنے جنگی بیڑے توڑ دیئے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان صلح کے لئے مضبوط ہونے کی ضرورت نہ سمجھیں اس کے بغیر نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے.ہمیں خود مضبوط ہونا چاہے اور ہندوؤں کے مضبوط ہونے پر برا نہیں ماننا چاہئے.یہ نادانی کی امید ہے کہ چونکہ صلح ہو گئی ہے اس لئے ہندو اپنی تیاری چھوڑ دیں اسی طرح یہ بھی نادانی کی توقع ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو مضبوط نہ بنائیں.قرآن کریم تو مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ یايها الذين امنواخذوا حذرکم فانفرواثبات او انفرواجميعا **۸ تمہیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے اور اپنی حفاظت کے سامان کرنے چاہیں.میرے نزدیک جو شخص غیرمسلح ہو کر صلح کرتاہے وہ سوالی ہے اور سوالی سے صلح کے کیا معنی.صلح مسلح ہی کی ہوتی ہے.پس اگر ہم تیار نہیں ہماری قوم محفوظ نہیں اور صلح کے لئے جاتے ہیں تو یہ صلح کی درخواست نہیں بلکہ سوال ہے اور اپنے عجز کا اظہار ہے.پس مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ مضبوط ہوں اور اس کے لئے آرگنائزیشن کی ضرورت ہے.مسلمانوں نے مسلم لیگ کو جو توڑا یا توڑنے کی طرح بنا دیا یہ سخت غلطی کی ہے ایسی لیگ ضرور ہونی چاہئے جو مسلمانوں کی قومی طور پر محافظ ہو ان کے حقوق کی حفاظت کرے ان کی ملازمتوں کا خیال رکھے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ایک چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے مگر میں کہتا ہوں کہ ہندو جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھے ہوئے ہیں جب وہ یہ باتیں کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں.جب ہندو باوجود مال میں، دولت میں ،تجارت میں، ملازمتوں میں زیادہ ہونے کے کہتے ہیں کہ ملازمتوں کے حقوق، کالجوں، میں داخلہ کے حقوق، کونسلوں میں انتخاب کے حقوق ان کو زیادہ ملیں تو کیوں مسلمان ان باتوں میں کوشش نہ کریں؟ مسلمان تمدنی طور پر آزاد ہوں دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو تمدنی طور پر اپنے آپ کو آزاد کرلینا چاہئے.پچھلے دنوں ایک ہندو لیڈر نے جو غالباًبپن چندرپال نے لکھا تھا کہ مسلمانوں کو ہم تین ماہ کے اندر اند ردرست کر سکتے ہیں.یہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ مسلمانوں نے اپنی قومی زندگی کے سارے ذرائع دوسروں کے سپرد کردیئے ہیں.اور کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی اور نہ زندہ رہنے کاحق رکھتی ہے جسے دوسری قوم اگر مقاطعہ کرے تو وہ زندہ نہ رہ سکے.مسلمانوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے اور دوسرے کی محتاجی سے اپنے آپ کو آزاد کر لینا چاہئے.اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت
۳۱۵ ہے ہندووں سے چھوت چھات ان میں سے ایک چھوت چھات بھی ہے اس سے ہندووں نے علاقہ ارتداد میں بڑا نقصان پہنچایا ہے.ہندو ملکانوں سے کہتے دیکھو مسلمان ہمارے ہاتھ کا کھاپی لیتے ہیں مگر ہم ان کے ہاتھ کا نہیں کھاتے اس لئے ثابت ہوا کہ یہ لوگ ہم سے ذلیل ہیں اور اپنے آپ کو ذلیل سمجھتے ہیں.اس پر کئی گاؤں والوں نے میں خطوط لکھے کہ اگر مسلمان اپنے آپ کو ذلیل نہیں سمجھتے تو وہ چھوت چھات کردیں.آخر ہم نے یہ حکم دیدیا.میں مقاطعہ اور بائیکاٹ کو ناپسند کرتا ہوں مگر ہندو جو ہم سے چھوت چھات کر رہے نہیں کیا وہ ہمیں بائیکاٹ کر رہے ہیں؟ پھر وہ کہتے ہیں چھوت چھات کی تحریک کرنا فساد پھیلانا ہے مگر کیا ہندو فساد کے لئے ہم سے چھوت چھات کرتے ہیں.اگر ہندووں کے چھوت چھات کرنے کے باو جود کہا جاتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے آپس میں بھائی بھائی ہیں ایک مکان کی دیواریں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اگر مسلمان بھی چھوت چھات کریں تو یہ لڑائی کا موجب بن جاتی ہے؟ پس یہ بالکل غلط ہے کہ چھوت چھات کرنا فساد کا باعث ہے بلکہ یہ خود حفاظتی کے لئے ضروری ہے.دیگر تجاویز اسی طرح مسلمان صنعت و حرفت کی طرف توجہ کریں.ڈاکٹری اور وکالت و غیره کے پیشوں میں مسلمانوں کی کافی تعداد کو اسی طرح بینکوں میں مسلمان پیچھے ہیں ان میں ترقی کرنی چاہئے.میں سودی لین دین کے خلاف ہوں کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مگر میں نے غور کیا ہے کہ اگر قوم تیار ہو تو سود کے بغیر بینک چل سکتا ہے.اسی طرح ہندوستان کی تجارت ایکسپورٹ اور امپورٹ جو کلی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے اس شعبہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.علاوہ ازیں کمیشن ایجنسیوں میں بھی مسلمان پیچھے ہیں بلکہ صفر کے برابر ہیں.ان کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.پس اگر مسلمان گھٹنوں کے بل گر کر معافی مانگنا اور ذلیل ہو کر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو اور بات ہے ورنہ اگر چاہتے ہیں کہ عزت و آبرو کی زندگی بسر کریں تو ان کمیوں کو پورا کریں.پہلے مسلمان آپس میں اتحاد کریں تیسری بات یہ ہے کہ مسلمان سیاسی اور مذہبی اختلافات کو نظرانداز کر کے آپس میں اتحاد واتفاق پیدا کریں.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھ لیں کہ دنیا کے سارے مسلمان ایک ہیں اور سب کا
۳۱۶ اتحادہو نا چاہئے مگر افسوس کہ مسلمانوں میں رواداری کامادہ ابھی تک پیدا نہیں ہوا-ذرازذراسے اختلافات پر اپنی مجالس سے مخالف خیال والوں کو نکال دیتے ہیں.خلافت کے معاملہ کو ہی دیکھو اس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ ذرا اتنا کر دو کہ یہ مت کہو کہ سارے مسلمان سلطان ترکی کو خلیفہ مانتے ہیں بلکہ یہ کہو کہ اکثر حصہ مانتا ہے اور سارے کے سارے مسلمان سلطنت ترکی سے ہمدردی رکھتے ہیں.اس پر ہم بھی تمہارے ساتھ ملنے کے لئے تیاری ہیں اور دوسرے مسلمان بھی جو خلیفہ نہیں مانتے اس تحریک میں شامل ہو جائیں گے مگر اس کی پرواہ نہ کی گئی اور خلیفہ نہ ماننے والوں کو الگ کردیا گیا گر یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے سے الگ کرنے سے کسی قوم کو طاقت نہیں ہوا کرتی بلکہ اپنے اندر جذب کرنے سے طاقت حاصل ہوتی ہے.اگر خلافت کمیٹی والے میرامشورہ قبول کرتے اور تما مسلمانوں کی متفقہ کوشش سے کام کرتے تو موجودہ صورت سے یقیناً زیادہ کامیابی ہوتی.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے کسی فرقہ کوجدانہ کریں اسی طرح سیاسی اختلاف کی وجہ سے بھی علیحدہ کرنے کی پالیسی کو چھوڑ دیں.دیکھو انگلینڈ کی پارلیمنٹ میں ہر خیال کے ممبر جمع ہوئے ہیں یا نہیں؟ مسلمان بھی اسی طرح ترقی کر سکتے ہیں کہ اپنی انجمن میں ہر قسم کے خیالات کے مسلمانوں کو شامل کریں اور سب لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونا چاہئے، مثلاً یہی الیکشن کا معاملہ ہے اس میں ایسا موقع بھی آیا ہے کہ ہماری جماعت کا ایک آدمی ایک حلقہ سے کھڑا ہوا.مگر دوسرا شخص اس سے زیادہ لائق اور موزوں کھڑا ہوا.تو ہم نے اپنے آدمی کو کھڑا نہ ہونے دیا اور دوسرے شخص کو اپنے ووٹ ویئے.اگر ایسی ہی رواداری سب مسلمانوں میں پائی جائے تو بہت فوائد کا موجب ہو سکتی ہے.مگر اب اس قدر عدم رواداری پائی جاتی ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ سچے لیڈر مسلمانوں کو نہیں ملتے.آج جس لیڈر کو سر پر اٹھایا جاتا ہے کل اسے گالیاں دی جاتی ہیں.مثلاً مسٹر جناح ہی ہے یا راجہ صاحب محمود آباد ایک زمانہ تھا جب مسلمان ان کی بہت بڑی قدر کرتے اور ان کو اپنا لیڈر سمجھتے تھے مگر اب یہ حالت ہے کہ ان کو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے.اس کے مقابلہ میں ہندوؤں کو دیکھو پنڈت مالویہ صاحب متواتر چارسال سے اس پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں جو کا نگریس نے تجویز کی ہے لیکن ہندو ان کی اسی طرح قدر کرتے ہیں جس طرح پہلے کرتے تھے پھر خود مسٹر گاندھی ان کی عزت کرتے تھے.پس ہندوؤں نےاپنے لیڈروں کی قدر قائم رکھی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ وہ ہندو لیڈ راب گورنمنٹ کو کہہ رہے ہیں کہ ہندو ہمارے ساتھ ہیں مگر مسلمان لیڈر یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جنہوں نے شوروشر
۳۱۷ میں حصہ نہیں لیا ان کو مسلمانوں نے ایساتنگ کیا اور اس قدر نظروں سے گرایا کہ ان کی کچھ وقعت ہی باقی نہ رہنے دی اور اس طرح مسلمان نقصان اٹھارہے ہیں.مسلمانوں میں مذہبی روح پیدا ہو چوتھی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں مذہبی روح اور جذبہ پیدا کیا جائے.میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان مذہب سے بہت دور جارہے ہیں جبکہ سیاسی طور پر مذہب سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں.چاہئے کہ مسلمان خود بھی مذہبی جذبات پیدا کریں اور اپنے بچوں میں بھی مذہبی روح پیدا کریں.تبلیغ ِاسلام پر زور دیا جائے پانچویں بات یہ ہے کہ تبلیغ اسلام پر زور دیا جائے.نیچر میں یہ قانون ہے کہ جو چیزبڑھنے کی طاقت رکھتی ہے اسے اگر روک دیا جائے تو وہ گرنے لگ جاتی ہے اور دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں بتائی جاسکتی جس نے بڑهنا بند کر دیا ہو اور وہ کم نہ ہونے لگ گئی ہو.ہرایک چیز جو پڑھنے سے رک جائیگی ضرور کم ہوگی یہی وجہ ہے کہ جب سے مسلمانوں نے بڑھنا چھوڑ دیا ہے اسی وقت سے کم ہو رہے ہیں.پس میں مسلمانوں سے کہوں گا کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتے ہیں اور دین کی اشاعت کریں وہ اس پر ناراض نہ ہوں کہ ہندو اپنے مذہب کی اشاعت کرتے ہیں بلکہ خود تبلیغ دین کریں اور دوسرے لوگوں کو اسلام میں داخل کریں.قرآن کریم نے تبلیغِ دین ہر ایک مسلمان کا فرض قرار دیا ہے چنانچہ آتا ہے.کنتم خيرامة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنکر و مسلمانوں کی بڑائی اور فضیلت کی وجہ یہی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی طرف لائیں.غرباء کی خبر گیری کی جائے چھٹی بات یہ ہے کہ غرباء کی خبر گیری کی جائے.یہ تمدنی طور پر نہایت ضروری امر ہے کیونکہ جب تک تمام قوم کے افراد میں محبت اور تعلق نہ ہو اس وقت تک کوئی قوم بڑھ نہیں سکتی مگر میں افسوس کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ مسلمانوں میں ایسے امراء ہیں جن کو اپنی جان کی تو فکر ہے مگر غرباء کی کوئی پرواہ نہیں.ایسی انجمنیں اور سوسائٹیاں ہونی چاہئیں جو غرباء کو کام سکھائیں اور پھر ان کے لئے کام نکالیں.اپاہجوں کی امداد ہو ساتویں بات یہ ہے کہ قوم میں جو ایسے لوگ ہیں جو کوئی کام نہیں کر سکتے.مثلا ًاپا ہج،لوے ، لنگڑے وغیرہ ان کے لئے خاص انتظام کیا جائے.اسی طرح یتیم بچوں کی پڑھائی اور تربیت کا انتظام کیا جائے رسول کریم ﷺ اور اسلام
۳۱۸ کو ایسے لوگوں کا اس قدر خیال تھا کہ زکوۃ کا حکم اسی قسم کے اخراجات کے لئے دیا گیا.چنانچہ معاذ کو جب رسول کریم ﷺنے ایک صوبہ کا حاکم بنا کر بھیجا تو یہ حکم دیا کہ ان الله افترض عليهم صدقه في أموالهم تؤخذ أغنيائهم وترد علی فقرائهم شد خدا تعالیٰ نے ہر مالدار پر صدقہ فرض کیا ہے امیروں سے لیا جائے اور غریبوں کو دیا جائے میں اسلام نے غرباء کی خبر گیری کو جزواعظم قرار دیا ہے.یہ خود حفاظتی کے متعلق تجاویز میں اب میں یہ بتاتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں صلح کیونکرہوسکتی ہے.صلح کرنے کی خواہش ہے توسب فرقوں سے ہونی چاہئے اول یہ کہ صلح تب تک نہیں ہو سکتی جب تک سب سے نہ ہو.اگر صلح سے مراد کوئی منصوبہ ہے تو اور بات ہے ورنہ اگر حقیقت میں صلح کرنے کی خواہش ہے تو سب فرقوں سے صلح ہونی چا ہئے.گورنمنٹ بھی ایک فریق ہے اوران فرقوں میں گورنمنٹ کو بھی شامل کرتا ہوں اب گورنمنٹ انگریزی ہمارے ملک کا ایک جزو ہے اس کو علیحدہ کر کے یہ سمجھنا کہ صلح قائم رہ سکے گی بالکل غلط ہے کیونکہ جب یہ کوشش کی جائے گی کہ کسی فرقہ کو علیحدہ کرکے صلح کی جائے تو وہ فرقہ اپنا سارا زور اس صلح کے توڑنے میں صرف کردے گا.پس اس وقت تک صلح قائم نہیں رہ سکتی جب تک سب کی صلح نہ ہو اور جب تک گورنمنٹ بھی اس میں شامل نہ ہو.میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ جو کچھ کرتی ہے سب ٹھیک کرتی ہے میرے نزدکی بعض اوقات گورنمنٹ سخت غلطیاں کرتی ہے اور ایسے موقع پر خود میں نے ایسے ایسے سخت الفاظ میں گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے کہ جو ضروری تھے (سخت سے مراد گالیاں نہیں کیونکہ اس سے اسلام منع کرتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ وضاحت اور صفائی سےگورنمنٹ کی غلطی پیش کی گئی) اور میں نے دیکھا ہے بالعموم گورنمنٹ نے ان باتوں کو منظور کرلیا ہم گورنمنٹ کے خوشامدی نہیں پس میں خوشامدیوں میں سے نہیں ہوں اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کی خوشامد کریں.کیونکہ میرے نزدیک خوشامدی انسان ہی نہیں ہو تا حیوان ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی گرا ہوا.اور میں یہ
۳۱۹ بھی نہیں سمجھتا کہ گورنمنٹ غلطیوں سے پاک ہوتی ہے غلطیوں سے محفوظ صرف خداہی کی ہستی ہوتی ہے.نبی بھی غلطی کر سکتا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺہی فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص میرے پاس آئے جو اپنی چرب زبانی کی وجہ سے دوسرے کاحق مارے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو وہ یہ نہ سمجھے کہ چونکہ میں نے فیصلہ کیا ہے اس لئے دوسرے کا حق اس کے لئےجائز ہو گیا بلکہ وہ اس کے لئے آگ کا ٹکڑا ہو گا پس جب دنیاوی معاملات میں نبی بھی غلطی کر سکتا ہے تو ائمہ بھی کر سکتے ہیں اور جب ائمہ کر سکتے ہیں تو عام انسان بھی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.انگریز بھی چونکہ انسان ہیں اس لئے وہ بھی غلطیاں کرتے ہیں مگر وہ چونکہ ہمارے ملک کا حصہ ہیں اس لئے ایسے طور پر اپنے حقوق قائم کرنے چاہیں کہ ان کو علیحدہ نہ کریں اور اگر ان کو علیحده کریں گے تو وہ اس اتحاد کو توڑنے کی کوشش کریں گے جو ان کے خلاف کیا جائے گا پھر اس سےایک اور خطرناک نتیجہ پیدا ہو گا اور وہ یہ کہ بد امنی پیدا ہوگی.اب ہی دیکھ لو کیا نتائج نکل رہے ہیں پہلے تو کہاجا تا تھا کہ لوگ کیوں سول نافرمانی نہیں کرتے.مگر میں سمجھتا ہوں ناگپور میں ہندو جو کچھ کر رہے ہیں اس کے متعلق یہی کہا جا تا ہو گا کہ وہ سول نافرمانی نہ کریں.اب اگر ناگپور میں ہندو اس بات پر سول نافرمانی کر کے گرفتار ہوتے گئے کہ مسجد کے پاس باجانہ بجانے کا جو حکم ہے اس کی خلاف ورزی کریں تو آخر گورنمنٹ ان کو چھوڑ د یگی پھر مسلمان نافرمانی کرنا اور گرفتار ہونا شروع کردیں.پھر گورنمنٹ ان کو پکڑے گی.اس طرح گورنمنٹ کی تو وہی حالت ہوگی جو کہتے ہیں کہ ایک شخص کی ایک لڑکی کمہار کے گھر بیاہی ہوئی تھی اور دو سری مالی کے گھر.جب بارش آتی تو وہ کہتا اگر بارش برس گئی تو ایک لڑکی نہیں اور نہ پری تو دوسری نہیں.پس سول نافرمانی کی وجہ سے ایسے حالات بھی پیش آسکتے ہیں اور اس طرح کبھی امن نہیں ہو سکتا.اب اگر ناگپور میں دو نو فریق باری باری نافرمانی شروع کردیں اگر مسلمانوں کی بات گورنمنٹ مانے تو ہندو نافرمانی کریں جیسا کہ کررہے ہیں اور جب ہندووں کی مانے تو مسلمان شروع کر دیں تو کس طرح صلح ہو سکتی ہے.جب تک مذہبی صلہ نہیں ہوتی ملکی صلح بھی نہیں ہو سکتی دوسری بات صلح کے لئے یہ ہے کہ جب تک مذہبی صلح نہ ہوگی ملکی صلح نہ ہو سکے گی.جو لوگ مذہب کو ماننے والے ہیں وہ بھی ایسی صلح میں شامل نہ ہو سکیں گے جس سے مذہب خطرہ میں پڑتا ہو.مذہبی صلح سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ
۳۲۰ سارے مسلمان ہندو ہو جائیں یا سارے ہندو مسلمان ہو جائیں.بلکہ اس کا طریق یہ ہے کہ سب مذاہب والے ایک دوسرے کے مذاہب کے بزرگوں کا احترام کریں.اس میں شبہ نہیں کہ ہندوستان ہم کو جمع کر سکتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ محمدﷺ اس کی ذات والاصفات سے بڑھ کر ہمارے نزدیک ہندوستان کی پوزیشن نہیں.رسول کریم اﷺسے ہمیں جو تعلق ہے وہ ہندوستان کے تعلق سے بہت بڑھ کر ہے اور آپ سے تعلق رکھتے ہوئے بھی ہم ہندوستان سے تعلق رکھ سکتے ہیں.اگر آپ کا ادب اور احترام قائم نہ رکھا جائے تو مسلمانوں کو کوئی چیز جمع نہیں کرسکتی.ہرمذہب کے بانی اور پیشوا کی عزت کرو اگر کہو کہ یہ صلح کیونکر ہوسکتی ہے تو میں بتاتا ہوں کہ اسلام نے اس کا طریق بتادیا ہے اور میں اسلام کے اس طریق پر عمل کرنے والا کھڑا ہوں.کسی مذہب کا بانی اور پیشوا ہو میں اس کی عزت اور احترام کرتا ہوں.اگر کوئی ہندو کہے کہ کیا تم را مچند ر کو مانتے ہو؟ تو میں کہوں گا میں ان کو نبی مانتا ہوں کیوں اس لئے کہ قرآن کریم کہتاہے ان من امة الأخلافيهانذیرا کہ ہر قوم میں خدانبی بھیجتا رہا ہے پس اگر میں یہ کہوں کہ رام چندرجی اور کرشن جی جھوٹے تھے تو اس سے قرآن مجید غلط ٹھہرتا ہے.پس قرآن مجید نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے کہ ہر ایک مسلمان دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی عزت کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے بے عزتی کرنے کے لئے نہیں.یہ تو مسلمانوں کا حال ہے اب میں ہندوؤں سے پوچھتا ہوں (اس پوچھنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ مجھے جواب دیں بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنے دلوں میں غور کریں اور سوچیں )کہ کیا وہ بھی اس کے لئے تیار ہیں.اگر تیار ہوں تو پھر ایسی مضبوط صلح ہو سکتی ہے کہ جو عمر بھر نہیں ٹوٹ سکتی.اس کے متعلق میں یہ نہیں کہتا کہ ہندو یونہی اس بات کو مان لیں بلکہ یہ کہتا ہوں کہ عقل و فکر سے کام لے کر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا ساری دنیا کے انسان خدا کے بندے نہ تھے اگر تھے اور ضرور تھے تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہندوستان میں تو اپنے نبی بھیجے اور دوسرے ممالک میں نہیں بھیجے.ضرور ہے کہ وہاں بھی بھیجے ہوں پس میں یہ نہیں کہتا کہ ہندو منافقت سے رسول کریم اﷺکی رسالت کا اقرار کریں بلکہ ان میں ان کی عقلوں سے اپیل کرتا ہوں کہ کیا سچی بات نہیں کہ خداتعالی ٰنے دنیا کی ہدایت کے لئے آپ کو بھیجا؟
۳۲۱ عیب لگانا چھوڑ دو اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں پیش کرو اور اگر اس کے لئے بھی تیار نہیں ہیں توپھریہ کریں کہ ہندو اور مسلمان اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں.کیا کوئی ایسامذ ہب ہے کہ جس میں کوئی خوبی نہیں بلکہ وہ اس لئے قائم ہے کہ دوسرے مذاہب جھوٹے ہیں.ایسامذہب جس میں کوئی بھی خوبی نہیں ہو ایک منٹ کے لئے بھی قائم نہیں رہ سکتا.ہر ایک مذہب کا دعوٰی تو یہ ہے کہ ساری خوبیاں اسی میں ہیں اور کوئی دو سراب اس کی خوبیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جب یہ دعوی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مذہب کے پیرو اس کی خوبیاں بیان نہ کریں.اسلام اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیا ہے کہ اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ اے مسلمانو! حکمت کی باتیں کرو اور اپنے رب کے احسن اصول پیش کرو تمہیں دیگر مذاہب پر اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں کیا تم خدا کو بتانا چاہتے ہو کے فلاں مذہب کے لوگوں میں یہ نقائص ہیں خدا خوب جانتا ہے کہ کون اس کے رستے سے بھٹکا ہوا ہے اور کون سیدھے رستہ پر ہے پس تم اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرو.پس اگر ہندوصاحبان یہ نہ مانیں کہ رسول کریم ﷺخداسچے نبی تھے تو یہ اقرار تو کریں کہ وہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں گے اور اسلام پر اعتراض نہیں کریں گے.اگر یہی مان لیں تو اتحاد کے لئے یہ بھی کافی ہے.ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مرزا صاحب (علیہ الصلوة والسلام) نے اس امر کو بہت عرصہ قبل پیش کیا تھا مگر افسوس کہ ملک نے توجہ نہ کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک اتحاد نہ ہو سکا اور نہ آئندہ اس وقت تک ہو سکے گا جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے گا.کم از کم دو سرے مذہب کے بزرگوں کو گالیاں نہ دو تیسرے اگر کوئی کہے کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا تو بھی ہم اتفاق و اتحاد کے لئے تیار ہیں اور وہ اس اقرار پر کہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں مت دو.ان کو جھوٹا، فریبی مکار اور دغاباز مت کہو نہ یہ کہو کہ انہوں نے بے وقوفی اور کم عقلی کی تعلیم دی ہے اور اس قسم کے ٹریکٹ نہ شائع کرو جیسے محمد کا کچا چٹھاوغیرہ کے نام سے شائع کئے گئے ہیں جن میں سوائے گالیوں اور لغو اعتراضات کے کچھ نہیں ہوتا.ہمارا تو سب کچھ خدا اور اس کا رسول ہی ہے
۳۲۲ اگر خدا اور رسول کے متعلق اس قسم کی بدزبانی جاری رکھی جائے گی تو مسلمان قطعا ًاتحاد نہیں کر سکیں گے.اب تو یہ حالت ہے کہ اسلام اور پانی اسلام کے متعلق اس قدر گالیاں دی جاتی اور اتنی بد زبانی کی جاتی ہے کہ ایسی ایک ماہ کی گالیوں کو جمع کرنے سے ایک سوصفحے کا رسالہ تیار ہوسکتا ہے اسی حالت میں کس طرح امید ہو سکتی ہے کہ اتحاد ہو جائے گا.اسلام کی تو یہ تعلیم ہے کہ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍؕکہ ان بتوں وغیرہ کو گالیاں نہ دو جن کو مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں اگر ان کو گالیاں دوگے تو وہ بھی اللہ کو گالیاں دیں گے.دیکھو یہ کیسی مصلح اور اتحاد کی تعلیم ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو کیسا اعلیٰ اتحاد قائم ہو سکتا ہے.دوسرے مذاہب پر اعتراضات کے اصول اس شرط کی آگے دو شقیں ہیں ایک تو یہ کہ مسلّمہ اصول پر اعتراض نہ کئے جائیں.قرآن کریم کی تعلیم ہے.وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍؕ-قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَهَا وَ تُخْفُوْنَ كَثِیْرًاۚ میں ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کبھی خدا کا کلام نازل نہیں ہو اگر وہ یہ تو دیکھیں کہ موسیٰ پر توریت نازل ہوئی تھی گویا وہ اپنے مسلمہ اصل پر اعتراض کرتے تھے جس سے خداتعالی ٰنے روکا ہے.دوسری شق یہ ہے کہ قصے کہانیوں کی بناء پر اعتراض نہ کئے جائیں بلکہ اس مذہب کے مسلّمہ اصول پر اعتراض کریں.اس امر کو بھی قرآن کریم نے پیش کیا ہے فرماتا ہے وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-وَ یُجَادِلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ مَاۤ اُنْذِرُوْا هُزُوًاہم نے رسول مبشر اور مندر بنا کر بھیجے ان کا جو لوگ انکار کرتے وہ جھوٹ بول کر کرتے تاکہ دوسرے لوگ ان کو قبول نہ کریں.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کہتاہے سچا اعتراض بے شک کرو مگر جھوٹ نہ بولو.پس اگر ایسا طریق اختیار کیا جائے کہ جو بات کسی مذہب کے مسلمہ اصول میں نہ پائی جائے اس پر اعتراض نہ کیا جائے اور جو پائی جائے اس پر اعتراض ہو تو بہت کچھ امن کی صورت پیدا ہو سکتی ہے.
۳۲۳ کسی اہل مذہب سے اس کے مذہب کا مسلّمہ اصل چھوڑنے کا مطالبہ نہ کرو چوتھی بات یہ ہے کہ مذہب کے لوگوں سے ان کا کوئی مسلّمہ مذہبی اصل نہ چُھڑایا جائے.اب ہندو مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دو مگر سوال یہ ہے کہ گائے اگر متبرک ہے تو ہندوؤں کے نزدیک ہے مسلمان اس کا گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیں.جب اسلام ان کو اس کی اجازت دیتا ہے یہ مطالبہ قطعاً جائز نہیں ہے.ایسی حالت میں اسلام کی تعلیم دیکھو مسلمانوں نے کفار سے ایک معاہدہ لکھایا جس میں آنحضرت ﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ لکھا کفار نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم تو ان کو رسول اللہ نہیں مانتے اس لئے یہ الفاظ نہیں ہونے چاہئیں.جب یہ بات رسول کریم ﷺکے سامنے پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا ہے یہ الفاظ کاٹ دو، حالا نکہ صحابہ کو ایسا کرنا گوارا نہ تھا.اسی طرح ایک صحابی کہتے ہیں میں نے ایک یہودی کو یہ کہتے سنا کہ خدا نے موسیٰ کوسب پر فضیلت دی ہے یہ سن کر مجھے غصہ آگیا اور میں نے اسے مارا.جب رسول کریم ﷺکو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا تم نے کیوں اسے مارا وہ تو اپنا عقیدہ بیان کر رہا تھا۸.پس ہم مسلمان تیار ہیں کہ ہندوؤں سے کوئی ایسی بات نہ چھڑائیں جو ان کے عقیدہ میں داخل ہواسی طرح ہندوؤں کو چاہئے کہ ہم سے کوئی ایسی بات نہ چُھڑائیں جو ہمارے لئے جائز ہو ورنہ دیکھو کس طرح مشکل پیش آسکتی ہے.کل کوئی ایسا فرقہ نکل آئے جو کہے کہ بکرے کی عظمت کرو تو کیا ہم اس کا گوشت کھانا بھی ترک کردیں گے ؟اسی طرح ایک ایسا فرقہ نکل آئے جو کہے کہ گائے کا دودھ پینا چھوڑ دو کیونکہ اس سے بچہ کو تکلیف ہوتی ہے تو کیا ہم دودھ پینا بھی چھوڑ دیں گے؟ در حقیقت یہ طریق ہی غلط ہے.کسی مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں کو اپنے اصول کے پابند نہ کریں ورنہ اتحاد نہیں ہو سکتا.اس طرح تو ہو سکتا ہے کہ کل کو ہندو یہ بھی کہدیں کہ ہندوستان چونکہ ہمارا متبرک ملک ہے اس لئے مسلمان اس سے نکل جائیں اور یہ بات یو نہی نہیں کہی گئی بلکہ خطرہ ہے کہ ہندو کسی وقت یہ کہدیں گے کیونکہ ستیارتھ پرکاصفحہ ۵۹ ایڈیشن چہارم میں لکھا ہے.’’ جوشخص وید اور عابد لوگوں کے مطابق بنائی ہوئی کتابوں کی بے عزتی کرتا ہے اس وید
۳۲۴ کی برائی کرنے والے منکر کوذات، جماعت اور ملک سے نکال دینا چاہئ‘‘..اس تعلیم کے مطابق ممکن ہے کل ہندو کہدیں کہ ویدوں کی تعلیم کو مان لو ورنہ یہ ملک چھوڑ دو پس کہاں تک کوئی ان کی باتیں مانتا جائے گا.بہتر یہی ہے کہ مسلمان پہلے قدم پر ہی کھڑے ہو جائیں اور فیصلہ کر لیں.وہ مسلمان جنہوں نے گائے کی قربانی ترک کرنے کی تحریک کرتے وقت اس قسم کی غلطی کی تھی وہ اب زور دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو خوب قربانی کرنی چاہئے مگریہ بھی ان کی غلطی ہے کیونکہ ہندوؤں سے ضد کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہیں اس لئے میں نے گذشتہ عیدالضحیٰ کے موقع پر اعلان کر دیا تھا کہ پہلے جو مسلمان گائے کی قربانی کرتے تھے وہ بھی اپ کے نہ کریں تا ہندو یہ نہ کہیں کہ ہمارا دل دکھانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے.تو کسی مذہب کے لوگوں سے اس کا مذہبی اصل چھڑانے کی قطعا ًکوشش نہیں کرنی چاہئے.ہر دوسری قوم کے حقوق کا احترام کرے اسی طرح دنیاوی امور کے متعلق اتحاد کی بعض شرطیں ہیں.مثلاً یہ کہ ہر قوم دوسری قوم کے حقوق تسلیم کرے.عجیب بات ہے کہ ہندو یہ تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو سوراج لے کر دیں گے مگر مسلمانوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے حقوق نہیں دینا چاہتے.پھر کس طرح مان لیا جائے کہ جب کالجوں میں داخلہ میونسپلٹیوں میں ممبری اور ملازمتوں میں ضروری حقوق نہیں دیتے تو سوراج دیں گے.جو ایک روپیہ نہیں دے سکتا اس سے یہ توقع کیونکر ہو سکتی ہے کہ ہیرے دیدے گا.پس یہ ضروری امر ہے کہ ہر ایک قوم کے حقوق تسلیم کئے جائیں.میرے نزدیک مسلم لیگ اور کانگریس نے ہندو مسلمانوں کے حقوق کے متعلق جو سمجھو تہ کیا تھا وہ بھی ٹھیک نہ تھا.جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں تو ان کو کم حقوق دیئے گئے ہیں لیکن جہاں ان کی آبادی زیادہ ہے وہاں بھی آبادی کے لحاظ سے حقوق نہیں دیئے گئے اس لئے سب سے ضروری بات حقوق کی صحیح تعیین ہے.مجرموں کو بِلالحاظ فرقہ مجرم قرار دو دوسری ضروری بات یہ ہے کہ اگر کہیں ہندو مسلمان میں جھگڑا ہوتوجوفریق قصور وار ہو اور جس کی زیادتی ہو اس کو پکڑا جائے تب تک کسی قوم سے صلح نہیں ہو سکتی جب تک قوم مجرم قرار نہ دے.اب یہ ہوتا ہے کہ اگر میں مسلمانوں کی غلطی ہوئی ہے تو مسلمان ان کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اگر ہندو غلطی کرتے ہیں تو ہندو ان کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.مثلاً اگر
۳۲۵ شام آباد اور آرامیں ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کئے تو ہندوؤں نے ان کو نظرانداز کر دیا اور اگر مالا بار میں مسلمانوں کی طرف سے زیادتی ہوئی تو لیکچروں اور تقریروں کے ذریعہ اس کو پھیلانا شروع کردیا.اس طرح اپنے مظالم بھول جاتے ہیں اور دوسروں کے یاد رکھتے ہیں.غرباء کے حقوق کی حفاظت کی جائے تیسری بات یہ ہے کہ غرباءکے حقوق کی حفاظت کی جائے.کانگریس میں ہر پارٹی اور خیال کے نمائندے لئے جائیں چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ کانگریس کو وسیع کر کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں کو داخل کیا جائے.اب تو یہ حالت ہے کہ جس سے مخالفت ہو اس کو کانگریس سے علیحدہ کردیا جاتا ہے مگر یہ طریق درست نہیں ہے.کانگر یس تب ہی سارے ملک کی قائم مقام ہو سکتی ہے کہ خیالات کے اختلاف کی پروا نہ کرکے ہرقسم کے خیالات والوں کو اپنے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیا جائے حتی کہ ان کو بھی جن کو خوشامدی سمجھاجاتا ہے اور جو گورنمنٹ کے ملازم ہیں ان کو بھی شمولیت کا موقع دیا جائے.اگر ان کے خیالات اچھے اور مفید ہوں تو کیوں نہ ان کو مانا جائے.ورنہ جب تک کا نگر یس موجودہ شکل میں ہے اور جب تک اختلاف والوں کو نکالنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے اس وقت تک سارے ملک کی کانگریس نہیں کہلا سکتی.دیانتداری پر مبنی ان تجاویزِ صلح پر عمل کر کے فائدہ اٹھاؤ میرے نزدیک یہ تجاویز ہیں جن سے ہندو مسلمانوں میں صلح اور اتحاد ہو سکتا ہے اور میں سمجھتاہوں ان کے متعلق کسی فریق کو یہ کہنے کا موقع نہیں ہے کہ کسی فرقہ کی پاسداری کی گئی ہے یا تعصب سے کام لیا گیا ہے.میں نے دیانتداری سے یہ تجاویز بیان کر دی ہیں.آخر میں میں نے ان ذمہ داریوں کو یاد دلا کر جو حب الوطنی ،اخلاق، روح اور انسانیت کی طرف سے آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں اپیل کرتا ہوں کہ ان تجاویز پر غور کرو.اللہ تعالی ٰہمیں اور دوسرے سب لوگوں کو ان راہوں پر چلنے کی توفیق دے جن سے امن و امان قائم کر سکیں.
۳۲۶ ا.الفاتحة : ۲ ۲-يونس : ا ۳-البقرة : ۱۹۲ ۴- العنكبوت : ۹ ۵- بخاری کتاب الادب باب صلة الوالد المشرک.بخاری کتاب اللباس باب الحريرللنساء.لوقا بابا آیت ۲۹- بائبل سوساکٹ لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۸۶- موضوعات على القاری (اسرارالمرفوعة منم ۳۸ ۸۶۶- النساء : ۲ ۹- ال عمران : 1 10.بخاری کتاب الزکوة باب وجوب الزكوة.بخاری ابواب المظالم والقصاص باب اثم من خاصم في باطل وهويعلمه ۱۴.فاطر : ۲۵ ۱۳- النحل : ۱۲۹ ۱۳- الانعام : ۱۰۹ ۰۵.الانعام : ۹۲ ۱۹- الكهف : ۵۷.بخاری کتاب الصلح باب کهف يكتب هذاماصالح فلان ابن فلان................الخ ۱۸- بخاری کتاب الديات باب اذالطم المسلم بھودیاعند الغضب ۱۹.ستیارتھ پرکاش منم ۱۰۰-ایڈیشن بهتر مطبوعہ لاہور ۱۹۳ء
۳۲۷ دعوة الا میر از سیدنا حضرت مرزابشیر الدین محموداحمد خليفۃ المسيح الثانی
۳۲۹ دعوة الا میر أعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلى علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هوالناصر از طرف عبدالله الضعیف میرزا بشیرالدین محمود احمد خليفة المسیح و امام جماعت احمدیہ بطرف اعلىٰ حضرت امیر امان اللہ خان بہادر بادشاو افغانستان و مالک محروسہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ؛ جناب من! یہ چند اوراق جو جناب کی خدمت میں جناب کے علو مرتبت کے خیال سے فائدہ عام کی نیت سے طبع کرا کر ارسال ہیں- میں امید رکھتا ہوں کہ جناب باوجود کم فرصتی کے ان کے مطالعہ کی تکلیف گوارا کریں گے اور مجھے ممنون احسان بنائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخروئی حاصل فرمائیں گے- اس مکتوب کے لکھنے کی دو غرضیں ہیں (۱) ایک یہ کہ آپ تک میں اس آواز کو پہنچا دوں جو اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے دنیا کو مرکز محمدیت پر جمع کرنے کے لیے بلند ہوئی ہے اور (۲) یہ کہ جناب کہ زیر سایہ جماعت احمدیہ کے کچھ افراد رہتے ہیں ان کے عقائد اور حالات سے جناب کو آگاہ کروں تاکہ ان کے متعلق کوئی امر جناب کی خدمت میں پیش ہو تو جناب اپنے ذاتی علم سے اس میں فیصلہ کرنے کے قابل ہوں جناب من! بیشتر اس کہ میں کوئی اور بات کہوں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ
۳۳۰ دعوة الا میر کسی نئے مذہب کی پابند نہیں ہے بلکہ اسلام اس کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا موجب شقادت خیال کرتی ہے- اس کا نیا نام نئے مذہب پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ اس کی صرف یہ غرض ہے کہ یہ جماعت ان دوسرے لوگوں سے جو اسی کی طرح اسلام کی طرف اپنے آپکو منسوب کرتے ہیں` ممتاز حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش ہو سکے- اسلام ایک پیارا نام ہے جو خود خدا تعالیٰ امت محمدیہ کو بخشا ہے اور اس نام کو ایسی عظمت دی ہے کہ متعلق وہ پہلے انبیاء کے ذریعے پیشگوئیاں کرتاچلا آیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ھو سمکم المسلمين من قبل وفي هذا یعنی اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے` پہلی کتابوں میں بھی اور اس کتاب میں بھی- چنانچہ جب ہم پہلی کتب کو دیکھتے ہیں تو یسعیاہ میں یہ پیشگوئی اب تک درج پاتے ہیں کہ ’’تو ایک نئے نام سے کہلائے گا جسے خداوند کا منہ خود رکھ دے گا – ‘‘؎۲ پس اس نام سے زیادہ مقدس نام اور کونسا ہو سکتا ہے جسے خود خدا نے اپنے بندوں کے لئے چنا اور جسے اس قدر بزرگی دی کہ پہلے نبیوں کی زبان سے اس کے لئے پیشگوئیاں کرائیں اور کون ہے جو اس مقدس نام کو چھوڑنا پسند کر سکتا ہے؟ ہم اس نام کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور اس مذہب کو اپنی حقیقی حیات کا موجب - مگر چونکہ اس زمانے میں مختلف لوگوں نے اپنے اپنے خیال کی طرف رجوع کر کے اپنے مختلف نام رکھ لئے ہیں` اس لئے ضروری تھا کہ ان سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لئے کوئی نام اختیار کیا جاتا - اور بہترین نام اس زمانے کی حالت کو مد نظر رکتے ہوئے احمدی ہی تھا` کیونکہ یہ زمانہ رسول کریم ﷺکے لائے ہوئے پیغام کی اشاعت کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰٰ کی حمد کی اشاعت کا زمانہ ہے - پس آپ کی صفت احمدیت کے ظہور کے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نام سے بہتر کوئی امتیازی نام اس وقت نہیں ہو سکتا تھا - غرض ہم سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایسی بات کو جس کا ماننا ایک سچی مسلمان کے لیے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں اور وہ شخص جو باوجود تمام صداقتوں کی تصدیق کرنے اور اللہ تعالیٰٰ کے تمام احکام کو ماننے کے ہم پر کفر کا الزام لگاتا ہے اور کسی نئے مذہب کے ماننے والا قرار دیتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے - انسان اپنے منہ کی بات پر پکڑا جاتا ہے نہ کہ اپنے دل کے خیال پر - کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا ہے؟ جو شخص کسی
۳۳۱ دعوة الا میر دوسرے پر الزام لگاتا ہے کہ جو کچھ یہ منہ سے کہتا ہے وہ اس کے دل میں نہیں ہے` وہ خدائی کا دعوی کرتا ہے کیونکہ دلوں کا جاننے والا صرف اللہ اس کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے- رسول کریم ﷺسے زیادہ عارف کون ہوگا - آپ اپنی نسبت فرماتے ہیں.انكم تختصمون الى وانما انا بشرولعل بعضكم ان یكون الحن بحجته من بعض فان قضیت لاحد منکم بشی من حق اخیه فانما اقطع لہ قطعة من النار فلا یاخذ منہ شیئا یعنی تم میں سے بعض لوگ میرے پاس جھگڑا لاتے ہیں اور میں بھی آدمی ہوں - ممکن ہے کہ کوئی آدمی تم میں سے دوسرے کے نسبت عمدہ طور پر جھگڑا کرنے والا ہو` پس اگر میں تم میں سے کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں تو میں اسے ایک آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں اسے چاہیے کہ اسے نہ لے - اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اسامہ بن زید ؓ کو رسول کریم ﷺنے ایک فوج کا افسر بنا کر بھیجا - ایک شخص کفار میں سے ان کو ملا جس پر انہوں نے حملہ کیا` جب وہ اس کو قتل کرنے لگے تو اس نے محکمہ شہادت پڑھ دیا - مگر باوجود اس کے انہوں نے اسے قتل کر دیا - جب رسول کریم ﷺکو یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺنے ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا ہے اس پر اسامہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ وہ ڈر سے اسلام ظاہر کرتا تھا آپ ﷺنے فرمایا الا شققت عن قلبہ تونے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہ دیکھا - یعنی تجھے کیا معلوم تھا کہ کہ اس نے اظہار اسلام ڈر سے کیا تھا یا سچے دل سے کیونکہ دل کا حال انسان سے پوشیدہ ہوتا ہے - غرض فتوی منہ کی بات پر لگایا جاتا ہے نہ کہ دل کے خیالات پر کیونکہ دل کے خیالات سے صرف اللہ تعالیٰٰ آگاہ ہوتا ہے اور جو بندہ کسی کے دل کے خیالات پر فتوی لگاتا ہے وہ جھوٹا ہے - اور اللہ تعالیٰ کے حضور قابلِ مواخذہ ہے - پس ہم لوگ یعنی جماعت احمدیہ کے افراد جبکہ اپنے آپکو مسلمان کہتے ہیں تو کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ یہ فتوی ہم پر لگائے کہ ان کا اسلام صرف دکھاوے کا ہے ورنہ یہ دل سے اسلام کے منکر ہیں یا رسول کریم ﷺنہیں مانتے اور کوئی نیا محکمہ پڑھتے ہیں یا نیا قبلہ انہوں نے بنا رکھا ہے - اگر ہماری نسبت اس قسم کی باتیں کہنی جائز ہیں تو ہم پر اس قسم کے الزامات لگانے والوں کی نسبت ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ظاہر میں اسلام کا دعوی کرتے ہیں اور اپنے گھروں میں جاکر یہ لوگ حضرت رسول کریم ﷺکو اور اسلام کو نعوذ باللہ گالیاں دیتے ہیں ` مگر ہم
۳۳۲ دعوة الا میر لوگ کسی مخالفت کی وجہ سے حق کو نہیں چھوڑ سکتے - ہم کسی پر فتوی اس بناء پر نہیں لگاتے کہ یہ ظاہر کچھ اور کرتا ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہے - بلکہ ہم شریعت کے حکم کے ماتحت اسی بات پر بحث کرتے ہیں جسے انسان آپ ظاہر کرتا ہے - اس کے بعد میں جناب آپ کے سامنے اپنی جماعت کے عقائد پیش کرتا ہوں ` تاکہ جناب غور فرما سکیں کہ ان عقائد میں کونسی بات خلاف اسلام ہے - ۱ - ہم لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مو جود ہے اور اس کی ہستی پر ایمان لانا سب سے بڑی صداقت کا اقرار کرنا ہے نہ کہ وہم و گمان کی اتباع - ۲- ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰٰ ایک ہے` اس کا کوئی شریک نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں` اس کے سوا باقی سب کچھ مخلوق ہے - اور ہر آن اس کی امداد اور سہارے کی محتاج ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی نہ باپ نہ ماں نہ بیوی نہ بھائی وہ اپنی توحید اور تفرید میں اکیلا ہے.۳ - ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰٰ کی ذات پاک اور تمام عیوب سے منزّہ ہے اور تمام خوبیوں کی جامع ہے - کوئی عیب نہیں جو اس میں پایا جاتا ہو اور کوئی خوبی نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہو - اس کی قدرت لا انتہا ہے اس کا علم غیر محدود` اس نے ہر ایک شے کا احاطہ کیا ہے اور کوئی چیز نہیں جو اس کا احاطہ کر سکے، وہ اول ہے وہ آخر ہے وہ ظاہر ہے وہ باطن ہے، وہ خالق جمیع کائنات کا اور مالک ہے کل مخلوقات کا ، اس کا تصرف نہ پہلے کبھی باطل ہوا نہ اب باطل ہے نہ آئندہ باطل ہو گا ،وہ زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں ،وہ قائم ہے اس پر کبھی زوال نہیں ،اس کے تمام کام ارادے سے ہوتے ہیں نہ کہ اضطراری طور پر ،، اب بھی وہ اسی طرح دنیا پر حکومت کر رہا ہے جس طرح کہ وہ پہلے کرتا تھا` اس کی صفات کسی وقت بھی معطل نہیں ہوتیں ،وہ ہر وقت اپنی قدرت نمائی کر رہا ہے.۴ - ہم یقین رکھتے ہیں ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور یفعلون ما یومرون کے مصداق ہیں` اس کی حکمت کاملہ نے انہیں مختلف قسم کے کاموں کے لیے پیدا کیا ہے وہ واقع میں موجود ہیں` ان کا ذکر استعارۃ نہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اسی طرح محتاج ہیں جس طرح کہ انسان یا دیگر مخلوقات اللہ تعالیٰٰ اپنی قدرت کے اظہار کے لیے ان کا محتاج نہیں وہ اگر چاہتا تو بغیر ان کو پیدا کرہنے کے اپنی مرضی ظاہر کرتا` مگر اس کی حکمت کاملہ نے اس مخلوق کو پیدا کرناچاہا اور وہ پیدا ہو گئی` جس طرح سورج کی روشنی کے ذریعہ سے انسانی آنکھوں کو منور کرنے
۳۳۳ دعوة الا میر اور روٹی سے اس کا پیٹ بھرنے سے اللہ تعالیٰ سورج اور روٹی کا محتاج نہیں ہو جاتا اسی طرح ملائکہ کے ذریعہ سے اپنے بعض ارادوں کے اظہار سے وہ ملائکہ کا محتاچ نہیں ہو جاتا - ۵ - ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور اپنی مرضی ان پر ظاہر کرتا ہے یہ کلام خاص الفاظ میں نازل ہوتا ہے اور اس کے نزول میں بندے کا کوئی دخل نہیں ہوتا نہ اس کا مطلب بندے کا سوچا ہوا ہوتا ہے نہ اس کے الفاظ بندے کے تجویز کئے ہوتے ہیں` معنی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور الفاظ بھی اسی کی طرف سے - وہی کلام انسان کی حقیقی غذا ہے اور اسی سے انسان زندہ رہتا ہے اور اسی کی ذریعہ سے اسے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے - وہ کلام اپنی قوت اور شوکت میں بے مثل ہوتا ہے اور اس کی مثال کوئی بندہ نہیں لا سکتا وہ علوم کے بے شمار خزانے اپنے ساتھ لاتا ہے اور ایک کان کی طرح ہوتا ہے جسے جس قدر کھودو اسی قدر اس میں سے قیمتی جواہرات نکلتے چلے آتے ہیں بلکہ کانوں سے بھی بڑھ کر - کیونکہ ان کے خزینے ختم ہو جا تے ہیں مگر اس کلام کے معارف ختم نہیں ہوتے - یہ کلام ایک سمندر کی طرح ہوتا ہے جس کی سطح پر عنبر تیرتا پھرتا ہے اور جس کی تہ پر موتی بچھے ہوئے ہوتے ہیں - جو اس کے ظاہر پر نظر کرتا ہے اس کی خوشبو کی مہک سے اپنے دماغ کو معطر پاتا ہے اور جو اس کے اندر غوطہ لگاتا ہے دولت علم و عرفان سے مالا مال ہو جاتا ہے - یہ کلام کئی قسم کا ہوتا ہے کبھی احکام و شرائع پر مشتمل ہوتا ہے کبھی مواعظ و نصائح پر` کبھی اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا ہے - اور کبھی اپنی ناپسندیدگی کا علم دیتا ہے ، اور کبھی پیار اور محبت کی باتوں سے اس کے دل کو خوش کرتا ہے ،کبھی زجر و توبیخ سے اسے اس کے فرض کی طرف متوجہ کرتا ہے کبھی اخلاق فاضلہ کے باریک راز کھولتا ہے - کبھی مخفی بدیوں کا علم دیتا ہے - غرض ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور وہ کلام مختلف حالات اور مختلف انسانوں کے مطابق مختلف مدارج کا ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں نازل ہوتا ہے اور تمام کلاموں سے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کئے ہیں قرآن کریم اعلیٰ و افضل اور اکمل ہے اور اس میں جو شریعت نازل ہوئی ہے اور جو ہدایت دی گئی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہے کوئی
۳۳۴ دعوة الا میر آیندہ کلام اسے منسوخ نہیں کرے گا- ۶- اسی طرح ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی دنیا تاریکی سے بھر گئی ہے اور اور لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے ہیں اور بلا آسمانی مدد کے شیطان کے پنجے سے رہائی پانا ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے اللہ تعالیٰٰ اپنی شفقت کاملہ اور رحم بے اندازہ کے سبب اپنے نیک اور پاک اور مخلص بندوں میں سے بعض کو منتخب کر کے دنیا کی راہنمائی کے لیے بھیجتا ہے - جیسا کہ وہ فرماتا ہے و ان من امة الأخلا فيهانذیر یعنی کوئی قوم نہیں ہے جس میں ہماری طرف سے نبی نہ آچکا ہو اور یہ بندے اپنے پاکیزہ عمل اور بے عیب رویہ سے لوگوں کے لیے خضر راہ بنتے ہیں اور ان کے ذریعے سے وہ اپنی مرضی سے دنیا کو آگاہ کرتا رہتا ہے جن لوگوں نے ان سے منہ موڑا وہ ہلاکت کو سونپے گئے اور جنہوں نے ان سے پیار کیا وہ خدا کے پیارے ہو گئے اور برکتوں کے دروازے ان کے لیے کھولے گئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں اور اپنے سے بعد آنے والوں کے لیے وہ سردار مقرر کئے گئے اور دونوں جہانوں کی بہتری ان کے لیے مقدر کی گئی - اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ خدا کے فرستادے جو دنیا کو دنیا کو ظلمت کی بدی سے نکال کر نیکی کی روشنی کی طرف لاتے رہے ہیں` مختلف مدارج اور مختلف مقامات پر فائز تھے اور ان سب کے سردار حضرت محمد مصطفٰے ﷺتھے جن کو اللہ تعالیٰ نے سید ولد آدم قرار دیا کافة للناس مبعوث فرمایا اور جن پر اس نے تمام علوم کاملہ ظاہر کئے اور جن کی اس نے اس رعب و شوکت سے مدد کی کہ بڑے بڑے جابر بادشاہ ان کے نام سنکر تھرا اٹھتے تھے اور جن کے لیے اس نے تمام زمین کو مسجد بنا دیا` حتیٰ کہ چپہ چپہ زمین پر ان کی امت نے خدائے واحدہ لا شریک کے لیے سجدہ کیا اور زمین عدل و انصاف سے بھر گئی بعد اس کے وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی - اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر پہلے انبیاء بھی اس نبی کامل کے وقت میں ہوتے تو انہیں اس کی وساطت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا جیسا اللہ تعالیٰ فرماتا واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب و حکمة ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ ) ( اور جیسا کہ پیغمبر ﷺنے فرمایا ہے کہ لو کان موسی و عیسی حیین لما وسعھما الا اتباعی - اگر موسی اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا -
۳۳۵ دعوة الا میر ۷ - ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی مشکلات کو ٹالتا ہے وہ ایک زندہ خدا ہے جس کی زندگی کو انسان ہر زمانے میں اور ہر وقت محسوس کرتا ہے - اس کی مثال اس سیڑھی کی نہیں جسے کنواں بنانے والا بناتا ہے اور جب وہ کنواں مکمل ہو جاتا ہے تو سیڑھی کو توڑ ڈالتا ہے کہ وہ اب کسی مصرف کی نہیں رہی اور کام میں حارج ہوگی' بلکہ اس کی مثال اس نور کی ہے جس کے بغیر سب کچھ اندھیرا ہے اور اس روح کی ہے جس کے بغیر ہر طرف موت ہی موت ہے اس کے وجود کو بندوں سے جدا کر دو تو وہ ایک جسم بے جان رہ جاتے ہیں یہ نہیں ہے کہ اس نے کبھی دنیا کو پیدا کیا اور اب خاموش ہو کر بیٹھ گیا بلکہ وہ ہر وقت اپنے بندوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے عجز و انکسار پر توجہ کرتا ہے اور اگر وہ اسے بھول جائیں تو وہ خود اپنا وجود انہیں یاد دلاتا ہے اور اپنے خاص پیغام رسانوں کے ذریعے ان کو بتاتا ہے کہ انی قریب اجیب دعوة الداع اذا دعان فلیستجیبوالی ولیومنوا بی لعلھم یرشدون )سورہ البقرہ ۳۲ ع( میں قریب ہوں ہر ایک پکارنے والے کی آواز کو جب وہ مجھے پکارتا ہے سنتا ہوں - پس چاہیے کہ وہ میری باتوں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پائیں - ۸ - ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص الخاص تقدیر کو دنیا میں جاری کرتا رہتا ہے - صرف یہی قانون قدرت اس کی طرف سے جاری نہیں جو طبعی قانون کہلاتا ہے` بلکہ اس کے علاوہ اس کی ایک خاص تقدیر بھی جاری ہے جس کے ذریعے وہ اپنے قوت اور شوکت کا اظہار کرتا ہے اور اپنی قدرت کا پتہ دیتا ہے یہ وی قدرت ہے جس کا بعض نادان اپنی کم علمی کی وجہ سے انکار کر دیتے ہیں اور سوائے طبعی قانون کے اور کسی قانون کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے قانون قدرت کہتے ہیں` حالانکہ وہ طبعی قانون قانون تو کہلا سکتا ہے مگر قانون قدرت نہیں کہلا سکتا` اس کے سوا اس کے اور بھی قانون ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے پیاروں کی مدد کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو تباہ کرتا ہے بھلا اگر ایسے کوئی قانون موجود نہ ہوتے تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ ضعیف اور کمزور موسیٰ فرعون جیسے جابر بادشاہ پر غالب آجاتا - یہ اپنے ضعف کے باوجود عروج پاجاتا اور وہ اپنی طاقت کے باوجود برباد ہو جاتا` پھر اگر جوئی اور قانون نہیں تو کس طرح ہو سکتا تھا کہ سارا عرب مل کر محمد رسول اللہ ﷺکی تباہی کے درپے ہوتا مگر اللہ تعالیٰ آپکو ہر میدان میں غالب کرتا اور ہر حملہ دشمن سے محفوظ
۳۳۶ دعوة الا میر رکھتا اور آخر دس ہزار قدوسیوں سمیت اس سرزمین پر آپ ﷺچڑھ آتے جس میں سے صرف ایک جانثار کی معیت میں آپ کو نکلنا پڑا تھا - کیا قانون طبعی ایسے واقعات پیش کر سکتا ہے ہر گز نہیں - وہ تو ہمیں یہی بتاتا ہے کہ ہر ادنیٰ طاقت اعلیٰ طاقت کے مقابل پر تور دی جاتی ہے اور ہر کمزور طاقتور کے ہاتھوں ہلاک ہوتاہے - ۹ - ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان پھر اٹھایا جائیگا اور اس کے اعمال کا اس سے حساب لیا جائیگا - جو اچھے اعمال کرنے والا ہوگا اس سے نیک سلوک کیا جائے گا اور جو اللہ تعالیٰٰ کے احکام کو توڑنے والا ہوگا اے سخت سزا دی جائیگی اور کوئی تدبیر نہیں جو انسان کو اس بعثت بچا سکے` خواہ اس کے جسم کو ہوا کے پرندے یا جنگل کے درندے کھا جائیں - خواہ زمین کے کیڑے اس کے ذرے ذرے کو جد کر دیں اور پھر ان کو دوسری شکلوں میں تبدیل کر دیں اور خواہ اس کی ہڈیاں تک جلا دی جائیں` وہ پھر بھی اٹھایا جائیگا اور اپنے پیدا کرنی والے کے سامنے حساب دیگا - کیونکہ اس کی قدرت کاملہ اس امر کی محتاج نہیں کہ اس کا پہلا جسم ہی موجود ہو تب ہی وہ اس کو پیدا کر سکتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہی کہ وہ اس کے باریک سے باریک ذرہ یا لطیف حصہ روح سے بھی پھر اس کو پیدا کر سکتا ہے اور ہی گا بھی اسی طرح - جسم خاک ہو جاتے ہیں مگر ان کے باریک ذرات فنا نہیں ہوتے نہ وہ روح جو جسم انسانی میں ہوتی ہے خدا کے اذن کے بغیر فنا ہو سکتی ہے – ۱۰.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے دین کے مخالف اگر وہ ان کو اپنی رحمت کاملہ سے بخش نہ دے` ایک ایسے مقام پر رکھے جائیں گے جسے جہنم کہتے ہیں اور جس میں اگ اور شدید سردی کا عذاب ہوگا جس کی غرض محض تکلیف دینا نہ ہو گی بلکہ ان میں ان لوگوں کی آئندہ اصلاح مدنظر ہو گی` اس جگہ سوائے رونے پیٹنے اور دانت پیسنے کے ان کے لیے کچھ نہ ہو گا حتیٰ کہ وہ دن آجائے جب اللہ تعالیٰ کا رحم جو ہر چیز پر غالب ہے ان کو ڈھانپ لے اور یاتی على جهنم زمان ليس فيها أحد ونسيم الصباء تحرک ابوابها - کاوعدہ پورا ہو جائے.۱۱- اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لانے والے ہیں اور اس کے احکام پر جان و دل سے ایمان لاتے ہیں اور انکسار اور عاجزی کی راہوں پر چلتے ہیں اور بڑے ہو کر چھوٹے بنتے ہیں - اور امیر ہوکر.
۳۳۷ دعوة الا میر غریبوں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں اللہ کی مخلوک کی خدمت گزاری کرتے ہیں اور اپنے آرام پر لوگوں کی راحت کو مقدم رکھتے ہیں اور ظلم اور تعدی اور خیانت سے پرہیز کرتے ہیں اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہوتے ہیں اور اخلاق رزیلہ سے مجتنب رہتے ہیں وہ لوگ ایک ایسے مقام پر رکھے جائیں گے جسے جنت کہتے ہیں آڑ جس میں راحت اور چین کے سوا دکھ اور تکلیف کا نام و نشان تک نہ ہوگا - خدا تعالیٰ کی رضا انسان کو حاصل ہوگی اور اس کا دیدار اسے نصیب ہوگا اور وہ اس کے فضل کی چادر میں لپیٹا جا کر اس کا ایسا قرب حاصل کرے گا کہ گویا اس کا آئنہ ہو جائیگا اور صفات الٰہیہ اس میں کامل طور پر جلوہ گر ہو نگی - اور اس کی ساری ادنیٰ خواہشات مٹ جائیں گی اور اس کی مرضی خدا کی مرضی ہو جائے گی اور وہ ابدی زندگی پاکر خدا کا مظہر ہو جائے گا - یہ ہمارے عقیدے ہیں اوران کے سوا ہم نہیں جانتے کہ اسلام میں داخل کرنے والے عقائد کیا ہیں - تمام آئمہ اسلام انہیں باتوں کو عقائد اسلام قرار دیتے چلے آئے ہیں اور ہم ان سے اس امر میں بکلی متفق ہیں-
۳۳۸ دعوة الا میر ہمارا دوسرے لوگوں سے اختلاف شاید جناب عالی حیران ہوں کہ جب سب عقائد اسلام کو ہم مانتے ہیں تو پھر ہم میں اور دوسرے لوگوں میں کیا اختلاف ہے اور بعض علماء کو ہمارے خلاف اس قدر جوش اور تعصب کیوں ہے اور کیوں وہ ہم پر کفر کا فتوی لگاتے؟ سو اے امیر والا شان! اللہ تعالیٰ آپ کو شرور دنیا سے محفوظ رکھے اور اپنے فضل کے دروازے آپ کے لیے کھول دے! اب میں وہ اعتراض بیان کرتا ہوں جو ہم پر کئے جاتے ہیں اور جن کے سبب ہمیں اسلام سے خارج بیان کیا جاتا ہے- ۱ - ہمارے مخالفوں کا سب سے پہلا اعتراض تو ہم پر یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح ناصری ؑ کو وفات یافتہ مانتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس طرح ہم حضرت مسیح کی ہتک کرتے ہیں اور قرآن کریم کو جھٹلاتے ہیں اور رسول کریم ﷺکے فیصلے کو رد کرتے ہیں` لیکن گو یہ بات تو بالکل حق ہے کہ ہم حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں` لیکن یہ درست نہیں کہ ہم اس طرح مسیح ؑ کی ہتک کرتے ہیں اور قرآن مجید کو جھٹلاتے ہیں اور رسول کریم ﷺکے فیصلے کو رد کرتے ہیں کیونکہ ہم جس قدر غور کرتے ہیں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزامات ہم پر مسیح ؑ کے وفات یافتہ ماننے سے عائد نہیں ہوتے بلکہ اس کے خلاف اگر ہم ان کو زندہ مانیں تب یہ الزامات ہم پر لگ سکتے ہیں- ہم لوگ مسلمان ہیں اور بحثیت مسلمان ہونے کے ہمارا خیال سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے رسول ﷺکی عزت کی طرف جاتا ہے اور گو ہم سب رسولوں کو مانتے ہیں` لیکن ہماری محبت اور غیرت بالطبع اس نبی ؐکی لیے زیادہ جوش میں آتی ہے جس نے ہمارے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا اور ہمارے بوجھوں کو ہلکا کرنے کے لیے اپنے سر پر بوجھ اٹھایا اور ہمیں مرتا ہوا دیکھ کر اس نے اس قدر غم کیا کہ گویا خود اپنے اوپر موت وارد کرلی اور ہمیں سُکھ پہنچانے کے لیے ہر قسم کے سکھوں کو ترک کیا اور ہمیں اوپر اٹھانے کے لیے خود نیچے کو جھکا- اس کے دن
۳۳۹ دعوة الا میر ہماری بہتری کی فکر میں صرف ہوئے اور اس کی راتیں ہمارے لیے جاگتے کٹیں- حتیٰ کہ کھڑے کھڑے اس کے پاوں سوج جاتے اور خود بے گناہ ہوتے ہوئے ہمارے گناہوں کو دور کرنے کے لیے اور ہمیں عذاب سے بچانے کے لیے اس نے اس قدر گریہ و زاری کی کہ اس کی سجدہ گاہ تر ہوگئی اور اس کی رقّت ہمارے لیے اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینے کی آواز ابلتی ہوئی دیگ سے بھی بڑھ گئی- اس نے خدا تعالیٰ کے رحم کو ہمارے لیے کھینچا اور اس کی رضاء کو ہمارے لیے جذب کیا اور اس کے فضل کی چادر ہم کو اڑھائی اور اس کی رحمت کا لبادہ ہمارے کندھوں پر ڈال دیا اور اس کے وصال کی راہیں ہمارے لیے تلاش کیں اور اس سے اتحاد کا طریق ہمارے لیے دریافت کیا اور ہمارے لیے وہ سہولتیں بہم پہنچائیں کہ اس سے پہلے کسی نبی نے اپنی امت کی لیے بہم نہ پہنچائی تھیں- ہمیں کفر کے خطاب نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں بہ نسبت اس کے ہم اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے پالنے والے اور اپنے زندگی بخشنے والے اور اپنی حفاظت کرنے والے اور رزق دینے والے اور اپنے علم بخشنے والے اور اپنے ہدایت عطا کرنے والے خدا کے برابر مسیح ناصری کو درجہ دیں اور یہ خیال کریں کہ جس طرح وہ آسمانوں پر بلا کھانے اور پینے کے زندہ ہے` مسیح ناصری بھی بلا حوائج انسانی کو پورا کرنے کے آسمان پر بیٹھا ہے- ہم مسیح علیہ السلام کی عزت کرتے ہیں مگر صرف اس لیے کہ وہ ہمارے خدا کا نبی ہے` ہم اس سے محبت کرتے ہیں مگر صرف اس لیے کہ خدا سے اسے محبت تھی اور خدا کو اس سے محبت تھی- اس سے ہمارا سب تعلق طفیلی ہے- پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی خاطر ہم اپنے خدا کی ہتک کریں اور اس کے احسانوں کو فراموش کر دیں اور مسیحی پادریوں کو جو اسلام اور قرآن کے دشمن ہیں مدد دیں اور ان کو یہ کہنے کا موقع دیں کہ دیکھو وہ جو زندہ آسمان پر بیٹھا ہے کیا وہ خدا نہیں- اگر وہ انسان ہوتا تو کیوں باقی انسانوں کی طرح مر نہ جاتا` ہم اپنے منہ سے کسطرح خدا تعالیٰ کی توحید پر حملہ کریں اور اپنے ہاتھ سے کیونکر اس کے دین پر تبر رکھدیں` اس زمانے کے مولوی اور عالم جو چاہیں ہمیں کہیں اور جس طرح ہم سے سلوک کریں اور کروائیں- خواہ ہمیں پھانسی دیں` خواہ سنگسار کریں ہم سے تو مسیح کی خاطر خدا نہیں چھوڑا جاسکتا اور ہم اس گھڑی سے موت کو ہزار درجہ بہتر سمجھتے ہیں جب ہماری زبانیں یہ کفرکا کلمہ کہیں کہ ہمارے خدا کے ساتھ وہ بھی زندہ
۳۴۰ دعوة الا میر بیٹھا ہے جسے مسیحی خدا کا بیٹا کہہ کر خدائے قیوم کی ہتک کرتے ہیں اگر ہمیں علم نہ ہوتا تو بیشک ہم ایسی بات کہہ سکتے تھے` مگر جب خدا کے فرستادہ نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور اس کی توحید اور اس کے جلال اور اس کی شوکت اور اس کی عظمت اور اس کی قدرت کے مقام کو ہمارے لیے ظاہر کر دیا تو اب خواہ کچھ بھی ہو ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی بندہ کو اختیار نہیں کر سکتے اور اگر ہم ایسا کریں تو ہم جانتے کہ ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا کیونکہ سب عزتیں اور سب مدارج اسی کی طرف سے ہیں` ہمیں جب صاف نظر آتا ہے کہ مسیح کی زندگی میں ہمارے رب کی ہتک ہے تو ہم اس عقیدہ کو کیونکر صحیح سمجھ تسلیم کر لیں اور گو ہماری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ کیوں مسیح کی وفات ماننے سے اس کی ہتک ہو جاتی ہے جب اس سے بڑے درجہ کے نبی فوت ہوگئے اور ان کی ہتک نہ ہوئی تو مسیح علیہ السلام کے فوت ہو جانے سے ان کی ہتک کس طرح ہو جائیگی` لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی وقت ہمیں اس بات سے چارہ نہ ہو کہ یا خدا تعالیٰ کی ہتک کریں یا مسیح علیہ السلام کی تو ہم بخوشی اس عقیدے کو تسلیم کرلیں گے جس سے مسیح علیہ السلام کی ہتک ہوتی ہو مگر اس کوہر گز تسلیم نہیں کریں گے جس میں خدا تعالیٰ کی ہتک ہوتی ہو اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام بھی جو اللہ تعالیٰ کے عشاق میں سے تھے کبھی گوارا نہ کریں گے کہ ان کی عزت تو قائم کی جائے اور اللہ تعالیٰٰ کی توحید کو صدمہ پہنچایا جائے` لن یستنکف المسیح ان یکون عبداللہ ولاالملئکة المقربون- ) ہم خدا کے کلام کو کہاں لے جائیں اور جس منہ سے وکنت علیھم شھیداما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم وانت علیٰ کل شی ء شھید ) ( کی آیت پڑہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے خود حضرت مسیح ناصری کی زبانی بیان فرمایا ہے کہ مسیحی لوگ مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد بگڑے ہیں- ان کی حیات میں وہ اپنے سچے دین پر ہی قائم رہے ہیں` اسی منہ سے یہ کہیں کہ حضرت مسیح ؑ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں` ہم خدا تعالیٰ کے کلام یٰعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی ومطھرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامہ ) ( کو کس طرح نظر انداز کر دیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع ان کی وفات کے بعد ہوا` بیشک وہ جو خدا سے زیادہ فصیح زبان جاننے کے دعویدار ہیں کہہ دیں کہ اس نے متوفیک کو جو حضرت مسیح ؑ کی وفات کی خبر دیتا ہے پہلے بیان کر دیا ہے اصل میں رافعک پہلے چاہیے تھا` مگر ہم تو اللہ تعالیٰ کے
۳۴۱ دعوة الا میر کلام کو تمام کلاموں سے افصح جانتے ہیں اور ہر غلطی سے مبرا سمجھتے ہیں` ہم مخلوق ہو کر اپنے خالق کی غلطیاں کیونکر نکالیں اور جاہل ہوکر علیم کو سبق کیونکر دیں` ہم سے کہا جاتا ہے کہ تم یہ کہو کہ خدا کے کلام میں غلطی ہو گئی مگر یہ نہ کہو کہ خود ہم سے خدا کا کلام سمجھنے میں غلطی ہو گئی` مگر ہم اس نصیحت کو کس طرح تسلیم کر لیں کہ اس میں ہمیں صریح ہلاکت نظر آتی ہے- آنکھیں ہوتے ہوئے ہم گڑھے میں ہم کس طرح گر جائیں اور ہاتھ ہوتے ہوئے زہر کے پیالے کو منہ سے کیوں نہ ہٹائیں- خدا تعالیٰ کے بعد ہمیں خاتم الانبیاء محمد مصطفےﷺسے محبت ہے اور کیا بلحاظ اس کے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو سب نبیوں سے بڑا درجہ ہے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمیں جو کچھ ملا ہے آپ ﷺ ہی سے ملا ہے اور جو کچھ آپﷺنے ہمارے لیے کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی اور کسی انسان نے خواہ نبی ہو یا غیر نبی ' ہمارے لیے نہیں کیا - ہم آپﷺسے زیادہ کسی کو اور انسان کو عزت نہیں دے سکتے- ہمارے لیے یہ بات سمجھنا بلکل ناممکن ہے کہ حضرت مسیح ناصریؑ کو زندہ آسمان پر چڑھا دیں اور محمد رسول اللہﷺ کو زیر زمین مدفون سمجھیں اور پھر ساتھ یہ بھی یقین رکھیں کہ آپ مسیحؑ سے افضل ہیں' کس طرح ممکن ہے وہ جسے اللہ تعالیٰ نے ذرا سا خطرہ دیکھ کر آسمان پر اٹھا لیا' ادنیٰ درجہ کا ہو اور وہ جس کا دور دور تک دشمنوں نے تعاقب کیا مگر خدا تعالیٰ نے اسے ستاروں تک بھی نہ اٹھایا' اعلیٰ ہو- اگر فی الواقع مسیح علیہ السلام آسمان پر ہیں اور ہمارے سردار اور آقا زمین میں مدفون ہیں تو ہمارے لیے اس سے بڑھ کر کوئی موت نہیں اور ہم مسیحیوں کو منہ بھی نہیں دکھا سکتے' مگر نہیں یہ بات نہیں' خدا تعالیٰ اپنے پاک رسولﷺسے یہ سلوک نہیں کرسکتا- وہ احکم الحاکمین ہے- یہ کیونکر ممکن تھا کہ آنحضرتﷺکو سید ولد آدم بھی بناتا اور پھر مسیح علیہ السلام سے زیادہ محبت کرتا اور ان کی تکالیف کا زیادہ خیال رکھتا- جب اس نے محمد رسول اللہﷺکی عزت کے قیام کے لیے ایک دنیا کو زیر زبر کر دیا اور جس نے آپﷺ کی ذرا سی بھی ہتک کرنی چاہی اسے ذلیل کردیا تو کیا یہ ہو سکتا تھا کہ کہ خود اپنے ہاتھ سے وہ آپﷺکی شان کو گراتا اور دشمن کو اعتراض کا موقع دیتا- میں تو جب یہ خیال بھی کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہﷺتو زیر زمین مدفون ہیں اور حضرت مسیح ناصریؑ آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میری جان گھٹنے لگتی ہے اور اسی وقت میرا دل پکار اٹھتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا نہیں کر سکتا- وہ محمد رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ محبت
۳۴۲ دعوة الا میر کرنے والا تھا وہ اس امر کو ہر گز پسند نہیں کر سکتا تھا کہ آپ ﷺتو فوت ہو کر زمین کے نیچے مدفون ہوں اور حضرت مسیح علیہ السلام زندہ رہ کر آسمان پر جا بیٹھیں- اگر کوئی شخص زندہ رہنے اور آسمان جا بیٹھنے کا مستحق تھا تو وہ ہمارے نبی کریمﷺ تھے اگر وہ فوت ہو گئے ہیں تو کل نبی فوت ہو چکے ہیں- ہم محمد رسول اللہﷺکی اعلیٰ شان اور آپ کے ارفع درجہ کو دیکھتے اور مقام کو پہچانتے ہوئے کس طرح تسلیم کر لیں کہ جب ہجرت کے دن جبل ثور کی بلند چٹانوں پر حضرت ابو بکرؓ کے کندھوں پر پاوں رکھ کر آپﷺ کو چڑھتا پڑا تو خدا تعالیٰ نے کوئی فرشتہ آپ کے لیے نہ اتارا` لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودی پکڑنے آئے تو اس نے فوراً آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور چوتھے آسمان پر آپ کو جگہ دی` اسی طرح ہم کیونکر مان لیں کہ جب غزوہ احد میں آنحضرتﷺکو دشمنوں نے صرف چند احباب میں گھرا پایا تو اس وقت تو اللہ تعالیٰٰ نے یہ نہ کیا کہ آپﷺ کو کچھ دیر کے لیے آسمان پر اٹھا لیتا اور کسی دشمن کی شکل آپﷺ کی سی بدل کر اس کی دانت تڑوا دیتا` بلکہ اس نے اجازت دی کہ دشمن آپﷺ پر حملہ آور ہو` آپﷺ کالمیت زمین پر بے ہوش ہوکر جا پڑیں اور دشمن نے خوشی کے نعرے لگائے کہ ہم نے محمد رسول اللہﷺکو قتل کر دیا ہے` لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اسے یہ بات پسند نہ آئی کہ ان کو کوئی تکلیف ہو اور جونہی کہ یہود نے آپ پر حملہ کرنیکا ارادہ کیا اس نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا اور آپ کی جگہ آپ کے کسی دشمن کو آپ کی شکل میں بدل کر صلیب پر لٹکوادیا- ہم حیران ہیں کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ ایک طرف تو آنحضرتﷺسے محبت کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف آپﷺکی عزت پر حملہ کرتے ہیں اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جو لوگ آپﷺ کی محبت سے مجبور ہو کر آپﷺ کی پر کسی کو فضیلت دینے سے انکار کر دیتے ہیں` ان کو دکھ دیتے ہیں ان کے اس فعل کو کفر قرار دیتے ہیں` کیا کفر محمد رسول اللہﷺکی عزت کے قائم کرنے کا نام ہے- کیا بے دینی آپ کے حقیقی درجے کا اقرار کا نام ہے` کیا ارتداد آپﷺسے محبت کو کہتے ہیں؟ اگر کفر ہے اگر یہی کفر ہے اگر یہی بے دینی ہے` اگر یہ ارتداد ہے تو خدا کی قسم ہم اس کفر کو لوگوں کے ایمان سے اور اس بے دینی کو لوگوں کی دینداری سی اور اس ارتداد کو لوگوں کے ثبات سے ہزار درجہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور اپنے آقا اور سردار حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے ساتھ ہمنوا ہو کر بلا خوف ملامت اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ
۳۴۳ دعوة الا میر بعد از خدا بعشق محمدﷺمخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم سب کو آخر ایک دن مرنا ہے اور اللہ تعالیٰٰ کے حضور میں پیش ہونا ہے اور اسی کے ساتھ معاملہ پڑنا ہے پھر ہم لوگوں سے کیوں ڈریں؟ لوگ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں` ہم اللہ تعالیٰٰ سے ہی ڈرتے ہیں اور اسی سے محبت کرتے ہیں اور اس کے بعد سب سے زیادہ محبت اور ادب ہمارے دل میں آنحضرت ﷺکا ہے- اگر دنیا کی ساری عزتیں اور دنیا سارے تعلقات اور دنیا کے تمام آرام آپﷺ کی لیے ہمیں چھوڑنے پڑیں تو یہ ہمارے لیے آسان ہے` مگر آپﷺ کی ذات کی ہتک ہم برداشت نہیں کر سکتے` ہم دوسرے نبیوں کی ہتک نہیں کرتے مگر آنحضرت ﷺکی قوت قدسیہ اور آپﷺ کے علم اور آپﷺ کے عرفان اور آپﷺ کے تعلق باللہ کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کبھی بھی نہیں مان سکتے کہ آپﷺ کی نسبت کسی اور نبی سے اللہ تعالیٰٰ کو زیادہ پیار تھا اور اگر ہم ایسا کریں تو ہم سے زیادہ قابل سزا اور کوئی نہیں ہوگا` ہم آنکھیں رکھتے ہوئے اس بات کو کس طرح باور کرلیں کہ عرب کے لوگ جب محمد رسول اللہﷺسے کہیں کہ اوترقي في السماء ولن تؤمن الرقيك حتى تنزل علينا کتابا نقرءہ.یعنی ہم تجھے نہیں مانیں گے جب تک کہ تو آسمان پر نہ چڑھ جائے اور ہم تیرے آسمان پر چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے جب تک تو کوئی کتاب بھی آسمان پر سے نہ لائے` جسے ہم پڑھیں` تو اللہ تعالیٰٰ آپ سے فرمائے کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرً الرَّسُوْلًا.ان سے کہہ دے کہ میرا رب ہر کمزوری سے پاک ہے میں تو صرف ایک بشر اور رسول ہوں` لیکن حضرت مسیحؑ کو وہ آسمان پر اٹھا کر لے جائے` جب محمد رسول اللہﷺکا سوال آئے تو انسانیت کو آسمان پر چڑھنے کے مخالف بتایا جائے` لیکن جب مسیح ؑ کا سوال آئے تو بلا ضرورت ان کو آسمان پر لے جایا جائے- کیا اس سے یہ نتیجہ نہ نکلے گا کہ مسیح علیہ السلام آدمی نہ تھے بلکہ خدا تھے- نعوذباللہ من ذالک یا پھر یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ رسول کریم ﷺسے افضل تھے مگر جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آنحضرت ﷺسب رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں تو پھر کس طرح عقل باور کر سکتی ہے کہ آپ تو آسمان پر نہ جائیں بلکہ اسی زمین پر فوت ہوں اور زمین کے نیچے دفن ہوں` لیکن مسیح علیہ السلام آسمان پر چلے جائیں اور ہزاروں سال تک زندہ رہیں- پھر یہ سوال صرف غیرت کا ہی نہیں بلکہ رسول کریم ﷺکی صداقت کا بھی سوال ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ لوکان موسی وعیسیٰ حيین لماوسعهما اتباعی.اگر موسیٰؑ و
۳۴۴ دعوة الا میر عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو میری اطاعت کے سوا ان کو کوئی چارہ نہ تھا` اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو پھر آپ کا یہ قول نعوذباللہ باطل ہو جاتا ہے کیونکہ آپﷺ " لوکان " کہہ کر اور موسیٰ کے ساتھ عیسیٰ کو ملا کر دونو ں نبیوں کی وفات کی خبر دیتے ہیں- پس نبی کریم ﷺکی شہادت کے بعد کس طرح کوئی شخص آپﷺ کی امت میں سے کہلا کر یہ یقین رکھ لکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اگر وہ زندہ ہیں تو آنحضرتﷺکی صداقت اور آپﷺ کے علم پر حرف آتا ہے- کیونکہ آپﷺ تو ان کو وفات یافتہ قرار دیتے ہیں- رسول کریم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے اس مرض میں جس میں آپﷺ فوت ہوئے` فرمایا کہ ان جبریل کان یعارضنی القران في كل عام مرة و انه عارضني بالقران العام مرتین و آخبرنی ان عیسی ابن مریم عاش عشرین و مائة سنة ولا ارانی الآذاهبا على رأس الستین.یعنی جبرائیل ہر سال ایک دفعہ مجھے قرآن سناتے تھے مگر اس دفعہ دودفعہ سنایا ہے اور مجھے انہوں نے خبردی ہے کہ کوئی نبی نہیں گذرا کہ جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی ہوئی ہو اور یہ بھی انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ عیسی بن مریم ایک سو بیس سال کی عمر تک زنده رہے تھے.پس میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی.اس روایت کا مضمون الہامی ہے کیونکہ اس میں رسول کریم ﷺ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بیان فرماتے بلکہ جبرائیل علیہ السلام کی بتائی ہوئی بات بتاتے ہیں جو یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال کی تھی.پس لوگوں کا یہ خیال کہ آپ بتیس تینتیس سال کی عمرمیں آسمان پر اٹھائے گئے تھے غلط ہوا کیونکہ اگر حضرت مسیح ؑ اس عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے تھے تو آپ کی عمر بجائے ایک سو بیس سال کے رسول کریم ﷺکے زمانے تک قریبا چھ سو سال کی بنتی ہے اور اس صورت میں چاہئے تھا کہ رسول کریم ﷺ کم سے کم تین سو سال تک عمرپاتے مگر آنحضرت ﷺ کا تریسٹھ سال کی عمر میں فوت ہو جان اور الہاماً آپ ؐکو بتایا جانا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک سو بیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے ثابت کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور آسمان پر آپ کا بیٹھا ہو نا رسول کریم ﷺ کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے اور آپ ؐکے الہامات اسے رد کرتے ہیں اور جب امرواقع یہ ہے تو ہم لوگ کسی کے کہنے سے کس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کے قائل ہو سکتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کو چھوڑ سکتے ہیں.
۳۴۵ دعوة الا میر کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ۱۳۰۰ تیرہ سو سال کے عرصہ میں صرف انہیں پر کھلا ہے اور پہلے بزرگ اس سے واقف و آگاہ نہ تھے مگر افسوس کہ معترض اپنی نظر کو صرف ایک خاص خیال کے لوگوں تک محدود کر کے اس کا نام اجماع رکھ لیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اسلام کے اول علماء خود صحابہؓ ہیں اور بعد ان کے علماء کا سلسلہ نہایت وسیع ہوتا ہوا سب دنیا میں پھیل گیا ہے- صحابہؓ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ سب نہ یک زبان ہمارے خیال سے متفق ہیں اور یہ ہو بھی کب سکتا تھا کہ وہ عشاق رسولﷺآپ کی شان کے مزیل عقیدہ کو ایک دم کے لیے بھی تسلیم کرتے وہ اس بارہ میں ہم سے متفق ہی نہیں ہیں بلکہ رسول کریمﷺکی وفات کے بعد سب سے پہلا اجماع ہی انہوں نے اس مسئلہ پر کیاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں چنانچہ کتب احادیث اور تواریخ میں یہ روایت درج ہے کہ رسول کریم ﷺکی وفات کا صحابہؓ پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ گھبرا گئے اور بعض سے تو بولا بھی نہ جاتا تھا اور بعض سے چلا بھی نہ جاتا تھا اور بعض اپنے حواس اور اپنی عقل کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بعض پر تو اس صدمہ کا ایسا اثر ہوا کہ وہ چند دن میں گھل گھل کر فوت ہو گئے` حضرت عمرؓ پر اس صدمہ کا اس قدر اثر ہوا کہ آپؓ نے حضورﷺ کی وفات کی خبر کو باور ہی نہ کیا اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسول کریمﷺفوت ہو چکے ہیں تو میں اسے قتل کر دوں گا- آپﷺ تو حضرت موسیٰ کی طرح بلائے گئے ہیں` جس طرح وہ چالیس دن کے اندر واپس آگئے تھے اسی طرح آپﷺ کچھ عرصہ کے بعد واپس تشریف لائیں گے اور جو لوگ آپﷺ الزام لگانے والے ہیں اور منافق ہیں ان کو قتل کریں گے اور صلیب دیں گے اور اس قدر جوش سے آپؓ اس دعوے پر مصر تھے کہ صحابہؓ میں سے کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ آپؓ بات کو رد کرتا اوت آپؓ کے اس جوش کو دیکھ کر بعض لوگوں کو تو یقین ہو گیا کہ یہی بات درست ہے` آنحضرتﷺفوت نہیں ہوئے ان کے چہروں پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے اور یا تو سر ڈالے بیٹھے تھے یا خوشی سے انہوں نے سر اٹھا لیے- اس حالت کو دیکھ کر بعض دور اندیش صحابہؓ نے ایک صحابی کو دوڑایا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کو جو اس وجہ سے کہ دومیان میں آنحضرتﷺکی طبعیت کچھ اچھی ہو گئی تھی آپﷺ کی اجازت سے مدینہ کے پاس ہی ایک گاوں کی طرف گئے ہوئے تھے- جلد لے آئیں وہ چلے ہی تھے کہ حضرت ابوبکرؓ ان کو مل گئے` ان کو ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور جوش سے گریہ کو ضبط نہ کر سکے- حضرت ابوبکرؓ سمجھ گئے کہ معاملہ کیا ہے اور
۳۴۶ دعوة الا میر ان صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول کریم ﷺفوت ہو گئے ہیں` انہوں نے کہا حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جو شخص کہے گا کہ رسول کریم ﷺفوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن تلوار سے اڑا دوں گا` اس پر آپؓ آنحضرتﷺکے گھر تشریف لے گئے` آپﷺ کے جسم مبارک پر جو چادر پڑی تھی اسے ہٹاکر دیکھا اور معلوم کیا کہ آپﷺ فی الواقع فوت ہو چکے ہیں` اپنے محبوبﷺ کی جدائی کے صدمے سے ان کے آنسو جاری ہو گئے اور نیچے جھک کر آپﷺ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا کہ بخدا اللہ تعالیٰٰ تجھ پر دو ۲ موتیں جمع نہیں کرے گا- تیری موت سے دنیا کو وہ نقصان پہنچا ہے جو کسی نبی کی موت سے نہیں پہنچا تھا` تیری ذات صفت سے جانا ہے اور تیری شان وہ ہے کہ کوئی ماتم تیری جدائی کے صدمے کو کم نہیں کر سکتا` اگر تیری موت کو روکنا ہماری طاقت میں ہوتا تو ہم سب اپنی جانیں دے کر تیری موت کو روک دیتے- یہ کہہ کر کپڑا پھر آپﷺ کے اوپر ڈال دیا اور اس جگہ کی طرف لے آئے جہاں حضرت عمرؓ صحابہؓ کا حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان سے کہہ رہے تھے کہ آنحضرتﷺفوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں وہاں آکر آپؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا آپ ذرا چپ ہو جائیں مگر انہوں نے آپکی بات نہ مانی اور اپنی بات کرتے رہے- اس پر حضرت ابوبکرؓ نے ایک طرف ہو کر لوگوں سے کہنا شروع کیا رسول کریم ﷺ در حقیقت فوت ہو چکے ہیں` صحابہ کرامؓحضرت عمرؓ کو چھوڑ کر آپ کے گرد جمع ہو گئے اور پھر بالآخر حضرت عمرؓکو بھی آپؓکی بات سننی پڑی` آپؓ نے فرمایا:: وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُ انک میت وانھم میتون - يايها الناس من كان يعبد محمدا فان محمدا قد مات و من كان یعبد الله ان الله حی لا یموت یعنی محمدﷺ بھی ایک رسول ہیں- آپؐ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں` پھر اگر آپﷺ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاوگے- تحقیق تو بھی فوت ہو جائے گا اور یہ لوگ بھی فوت ہو جائیں گے- اے لوگو! جو کوئی محمد ﷺکی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدﷺفوت ہو گئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے اور وہ فوت نہیں ہوتا- جب آپؓ نے مذکورہ بالا دونوں آیات پڑہیں اور لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺفوت ہو چکے ہیں تو صحابہؓ پر حقیقت آشکار ہوئی اور وہ بے اختیار رونے لگے اور حضرت عمرؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ جب آیات قرآنیہ سے حضرت ابوبکرؓنے آپﷺ کی ثابت کی تو مجھے
۳۴۷ دعوة الا میر یہ معلوم ہوا کہ گویا یہ دونوں آیتیں آج ہی نازل ہوئی ہیں اور میرے گھٹنوں میں میرے سر کو اٹھانے کی طاقت نہ رہی- میرے قدم لڑکھڑا گئے اور میں بے اختیار شدت صدمہ سے زمین پر گر پڑا- اس روایت سے تین امور ثابت ہوتے ہیں- اول یہ کہ رسول کریم ﷺکی وفات پر سب سے پہلے صحابہؓ کا اجماع اسی امر پر ہوا تھا کہ آپﷺ سے پہلے سب انبیاء فوت ہو چکے ہیں` کیونکہ اگر صحابہؓ میں سے کسی کو بھی شک ہوتا کہ بعض نبی فوت نہیں ہوئے تو کیا ان میں سے بعض اسی وقت کھڑے نہ ہو جاتے کہ آپ آیات سے جو استدلال کر رہے ہیں یہ درست نہیں` کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو چھ سو سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں- پس یہ غلط ہے کہ آنحضرتﷺسے پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں اور جب کہ ان میں سے بعض زندہ ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آنحضرتﷺزندہ نہ رہ سکیں- دوم یہ کہ تمام انبیائے سابقین کی وفات پر ان کا یقین کسی ذاتی خیال کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس امر کو وہ قرآن کریم کی آیات سے مستنبط سمجھتے تھے` کیونکہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو کوئی صحابی تو اٹھ کر کہتا کہ گو یہ صحیح ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں مگر اس آیت سے جو آپ نے پڑھی ہے یہ استدلال نہیں ہوتا کہ آپﷺ سے پہلے تمام فوت ہو چکے ہیں- پس صدیق اکبرؓ کا آیت فقد خلت من قبلہ الرسل سے جمیع انبیائے سابقین کی وفات کا ثبوت نکالنا اور کل صحابہؓ کا نہ صرف اس پر خاموش رہنا بلکہ اس استدلال سے لذت اٹھانا اور گلیوں اور بازاروں میں اس کو پڑھتے پھرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ سب اس استدلال سے متفق تھے- تیسرا امر اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی اور نبی کی وفات کا ان کو یقین تھا یا نہیں مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا انہیں یقینا کوئی علم نہ تھا` کیونکہ جیسا کہ تمام صحیح احادیث اور معتبر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ سخت جوش کی حالت میں تھے اور باقی صحابہؓ سے کہہ رہے تھے کہ جو کہے گا کہ رسول کریم ﷺفوت ہو گئے ہیں میں اس کا سر اڑا دوں گا اس وقت اپنے خیال کے ثبوت میں حضرت موسیٰ ؑ کے چالیس دن پہاڑ پر چلے جانے کا واقعہ تو وہ پیش کرتے تھے مگر حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر چلے جانے کا واقعہ انہوں نے ایک دفعہ بھی پیش نہ کیا- اگر صحابہ ؓ کا عقیدہ یہ ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ جا بیٹھے ہیں تو کیا حضرت عمر ؓ یا ان کے ہم خیال صحابی ؓ اس واقعہ کو اپنے خیال کی تائید میں پیش نہ کرتے؟ ان
۳۴۸ دعوة الا میر کا حضرت موسی ؑ کے واقعہ سے استدلال نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کوئی ایسا واقعہ تھا ہی نہیں حضرات صحابہ ؓ کے اجماع کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے متعلق اہل بیت نبویؐ کا بھی اتفاق ہے- چنانچہ طبقات ابن سعد کی جلد ثالث میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی وفات کے حالات میں حضرت امام حسن ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ ﷺ فرمایا ایھا الناس قد قبض اللیلة رجل لم یسبقہ الاولون ولا یدرکہ الاخرون قد کان رسول اللہ یبعث المبعث فیکتنفہ جبرائیل من یمینہ و میکائیل من شمالہ فلا ینشئی حتی یفتح اللہ لہ وما ترک الا سبع مائہ درھم اراد ان یشتری بھا خادما ولقد قبض فی اللیلہ التی عرج فیھا بروح عیسی بن مریم لیلہ سبع و عشرین من رمضان- یعنی اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اس کی بعض باتوں کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنے والے پہنچیں گے- رسول ﷺ اسے جنگ کے لیے بھیجتے تھے تو جبرائیل اس کے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل بائیں طرف پس وہ بلا فتح حاصل کئے واپس نہیں ہوتا تھا اور اس نے صرف سات سو )۷۰۰( درہم اپنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے اس کا ارادہ یہ تھا کہ ایک غلام خریدے اور وہ اس رات کو فوت ہوا ہے جس رات کو عیسی بن مریم کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی تھی یعنی رمضان ستائیسویں تاریخ کو- اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے نزدیک بھی حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر ان کا خیال نہ ہوتا تو امام حسن ؓ یہ کیوں فرماتے کہ جس رات حضرت عیسی ؑ کی روح آسمان کو اٹھائی گئی تھی` اسی رات کو حضرت علی رصی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے- صحابہ کرام اور اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بعد کے بزرگ بھی ضرور وفات مسیح ؑ کے ہی قائل ہوں گے کیونکہ وہ لوگ قرآن مجید اور کلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ اور آرائے اہل بیت کے شیدا تھے` اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اقوال خاص طور پر محفوظ نہیں رکھے گئے` لیکن جو کچھ بھی پتہ چلتا ہے وہ اسی امر کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کا مذہب بھی یہی تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہو گئے ہیں` چنانچہ مجمع البحار میں ہے کہ قال ما لک مات یعنی امام مالک رحمتہ اللہ فرماتے ہیں
۳۴۹ دعوة الا میر کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں- غرض قرآن کریم اور احادیث کے علاوہ اجماع صحابہ ؓ اور آرائے اہل بیت اور اقوال آئمہ سے بھی ہمارے ہی خیال کی تصدیق ہوتی ہے- یعنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے` پس ہم پر یہ الزام لگانا کہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ رکھ کر حضرت مسیح علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں اور قرآن کریم اور احادیث آنحضرت ﷺکا انکار کرتے ہیں درست نہیں- اور اس کے رسول کی عزت کو ثابت کرتے ہیں- اور خود حضرت مسیح علیہ السلام کی خدمت کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی کبھی پسند نہیں گے کہ ان کو ایک ایسے مقام پر جگہ دی جائے کہ جس سے توحید باری تعالیٰ کو صدمہ پہنچتا ہو اور شرک کو مدد ملتی ہو اور سرور انبیاء ﷺکی ہتک ہوتی ہو- اب اے بادشاہ! آپ خود ہی غور کرکے دیکھ لیں کہ کیا ہمارے مخالف اس اعتراض میں حق پر ہیں یا ہم؟ کیا ان کا حق ہے کہ ہم سے ناراض ہوں یا ہمارا حق ہے کہ ان سے ناراض ہوں کیونکہ انہوں نے ہمارے خدا کا شریک مقرر کیا اور ہمارے رسول کی ہتک کی اور اپنے بن کر دشمنوں کی طرح حملہ آور ہوئے- دوسرا اعتراض ہم پر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم لوگ دوسرے مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف اسی امت میں سے ایک شخص کو مسیح موعود مانتے ہیں حالانکہ یہ امر احادیث نبوی کے خلاف ہے کیونکہ ان سے معلوم ہوتا ہے کا حضرت مسیح آسمان سے نازل ہوں گے- یہ بالکل درست ہے کہ ہم لوگ بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب ساکن قادیان ضلع گورداسپور صوبہ پنجاب ملک ہندوستان کو مسیح موعود اور مہدی مسعود سمجھتے ہیں` مگر جبکہ قرآن کریم اور احادیث اور عقل سلیم سے یہ امر ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو پھر ہم نہیں سمجھتے کہ ہمارا یہ عقیدہ قرآن کریم اور احادیث بھی اس پر شاہد ہیں اور جبکہ احادیث نبویہ سے ایک موعود کی جسے ابن مریم کہا گیا ہے آمد کی خبر معلوم ہوتا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا موعود اسی امت کا ایک فرد ہوگا نہ کہ مسیح ناصری علیہ السلام جو فوت ہو چکے ہیں-
۳۵۰ دعوة الا میر کہا جاتا ہے کہ اگر قرآن کریم اور احادیث سے حضرت مسیح ؑکی وفات بھی ثابت ہو تی ہو تب بھی احادیث میں چونکہ مسیح ابن مریم کے آنے کی خبردی گئی ہے انہیں کی آمد پر یقین رکھنا چاہئے کیونکہ کیا اللہ تعالیٰ قادر نہیں کہ ان کو پھر زندہ کر کے دُنیا کی اصلاح کے لئے بھیج دے اور ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم گویااللہ تعالیٰٰ کی قدرت کے مُنکر ہیں ، مگر بات یہ نہیں بلکہ اس کے بالکل برخلاف ہے.ہم خدا تعالیٰ کی قدرت کے انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی قدرت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت مسیح ناصریؑ کو خدا تعالیٰ زندہ کر کے نہیں بھیجے گا بلکہ اسی اُمت کے ایک فرد کو اس نے مسیح موعود بنا کر بھیج دیا ہے.ہم نہیں سمجھ سکتے اورنہ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی شخص بھی جو پورے طور پر اس امر پر غور کرے گا ، تسلیم کر ے گا کہ مسیح کادوبارہ زندہ کر کے بھیجنا اللہ تعالیٰٰ کے قادر ہونے کی علامت ہے.ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جو دولتمند ہوتا ہے وہ مستعمل جامہ کو اُلٹوا کر نہیں سلوایا کرتا بلکہ اُسے اتار کر ضرورت پر اورنیا کپڑا سلواتا ہے.غریب اور نادار لوگ ایک ہی چیز کو کئی کئی شکلوں میں بدل بدل کر پہنتے ہیںاور اپنی چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں.کب اللہ تعالیٰٰ کا ہاتھ ایسا تنگ ہوا تھا کہ جب اس کے بندوں کو ہدایت اور رہنمائی کی حاجت ہوئی تو اسے کسی وفات یا فتہ نبی کو زندہ کر کے بھیجنا پڑا، وہ ہمیشہ بندوں کی ہدایت کے لئے انہیں کے زمانے کے لوگوں میں سے کسی کو منتخب کر کے ان کی اصلاح کے لئے بھیجتا رہا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک ایک دفعہ بھی اس نے ایسا نہیں کیا کہ کسی پچھلے نبی کو زندہ کر کے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا ہو، اس امر پر تب وہ مجبور ہو جب کسی زمانے کے لوگوں کے دلوں کی صفائی اُ سکی قدرت سے باہر ہو جائے اور اس کی حکومت انسانوں پر سے اُٹھ جائے، لیکن چونکہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اس لئے یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک وفات یافتہ نبی کو جنت سے نکال کر دنیا کی اصلاح کے لئے بھیج دے.وہ قادر مطلق ہے.جب اس نے مسیح علیہ السلام کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان پید اکردیا تو اس کی طاقت سے یہ بعید نہیں کہ ایک اور شخص مسیح علیہ السلام جیسا بلکہ اُن سے افضل پیدا کر دے.غرض مسیح ناصری نبی کے دوبارہ دُنیا میں آنے کا انکار ہم اس وجہ سے نہیں کرتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر نہیں سمجھتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر سمجھتے ہیں کہ وہ جب چاہے اپنے بندوں میں سے کسی کو ہدایت کے منصب پر کھڑا کر دے اور اس کے ذریعے سے
۳۵۱ دعوة الا میر گم گشتگان راہ کو اپنی طرف بلائے اور جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا بلکہ ضرورت کے موقع پر کسی پچھلے نبی کو لائے گا غلطی پر ہیں.وَمَا قَدَرُو االلّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ.(سورہ الزمر: ۶۸ ) علاوہ اس امر کے مسیح ناصری کے دوبارہ واپس آنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حرف آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پربھی حرف آتا ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی دوبارہ دُنیا میں واپس آنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلی تمام امتیں جب بگڑتی تھیں تو اُن کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں میں سے ایک شخص کو کھڑا کر دیتا تھا‘ مگر ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں جب فساد پڑیگا تو اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰٰ پہلے انبیاء میں سے ایک نبی کو واپس لائے گا خود آپ ؐکی اُمت میں سے کوئی فرد اس کی اصلاح کی طاقت نہیں رکھے گا.اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں تو ہم یقیناً مسیحیوں اور یہودیوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں کم نہ ہوں گے، کیونکہ وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ پر معترض ہیں اور اس عقیدے کے ساتھ ہم بھی آپ ؐکی قوت قدسیہ پر معترض ہو جاتے ہیں.جب چراغ جل رہا ہو تو اس سے اور چراغ یقینا روشن ہو سکتے ہیں‘ وہ بجھا ہوا چراغ ہوتا ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہیں ہو سکتا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کوئی زمانہ ایسا بھی آنا ہے کہ اس کی حالت ایسی بگڑ جائے گی کہ اس میں سے کوئی شخص اس کی اصلاح کے لئے کھڑا نہیں ہو سکے گا تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان بھی نعوذ باللہ من ذالک ختم ہو جائے گا، کون مسلمان اس بات کو نہیں جانتا کہ جب تک اللہ تعالیٰٰ کو حضرت موسیٰ ؑ کا سلسلہ چلانا منظور تھا اس وقت تک آپؑ ہی کے اتباع میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو آپؑ کی امت کی اصلاح کرتے رہے، لیکن جب اسے یہ منظور ہوا کہ آپ کے سلسلے کو ختم کر دے تو اس نے آپ کی قوم میں سے نبوت کا سلسلہ بند کر کے بنواسمٰعیل میں سے نبی بھیج دیا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی موسوی سلسلے سے آئے گا تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰٰ نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے کو بھی ختم کر دے گا.اور کوئی اور سلسلہ جاری کرے گا اور نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم ؐ کی قوتِ قدسیہ اس وقت کمزور ہو جائے گی اور آپ ؐ کا فیضان کسی اُمتی کو بھی اس امر کے لئے تیار نہ کر سکے گا کہ وہ آپؐ سے نور پا کر آپؐ کی اُمت کی اصلاح کر ے اور اُسے راہ راست پر لاوے.افسوس ہے کہ لوگ اپنے لئے تو ضرورت سے زیادہ غیرت دکھاتے ہیں اور کسی قسم کا
۳۵۲ دعوة الا میر عیب اپنی نسبت منسوب ہونا پسند نہیں کرتے‘ لیکن خدا کے رسول کی طرف ہر ایک عیب دلیری سے منسوب کرتے ہیں اس محبت کو ہم کیا کریں جو منہ تک رہتی ہے مگر دل میں اس کا کوئی اثر نہیں اور اس ولولے کو کیا کریں جو اپنے ساتھ کوئی ثبوت نہیں رکھتا.اگر فی الواقع لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تو ایک منٹ کے لئے بھی پسند نہ کرتے کہ ایک اسرائیلی نبی آکر آپؐ کی اُمت کی اصلاح کرے گا ‘کیا کوئی غیرت مند اپنے گھر میں سامان ہوتے ہوئے دوسرے سے مانگنے جاتا ہے یا طاقت ہوتے ہوئے دوسرے کو مدد کے لئے بُلاتا ہے.وہی مولوی جو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم ؐ کی امت کے لئے اور اس کو مصائب سے بچا نے کے لئے مسیح ناصری علیہ السلام آئیں گے، اپنی ذاتوں کے لئے اس قدر غیر ت دکھا تے ہیں کہ اگر بحث میں ہار بھی رہے ہوں تو اپنی ہار کا اقرار نہیں کرتے اور کسی دوسرے کو اپنی مدد کے لئے بلانا پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی خود بخود اُن کی مدد کے لئے تیار ہو جائے تو اس کا احسان ماننے کے بجائے اُس پر ناراض ہو تے ہیں کہ کیا ہم جاہل ہیں کہ تُوہمارے منہ میں لقمہ دیتا ہے ‘ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کس بے پروائی سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ؐ کی مدد کے لئے ایک دوسرے سلسلے سے نبی بلوایا جائے گا اور خود آپؐ کی قوت قدسیہ کچھ نہ کر سکے گی.آہ! کیا دل مر گئے ہیں یا عقلوں پر پتھر پڑ گئے ہیں، کیا سب کی سب غیرت اپنے ہی لئے صرف ہو جاتی ہے اور خدا اور اس کے رسول کے لئے غیرت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا ، کیا سب غصہ اپنے دشمنوں پر ہی صرف ہو جاتا ہے اور خدا اور اس کے رسول پر حملہ کرنے والوں کے لئے کچھ نہیں بچتا.ہم سے کہا جاتا ہے کہ کیوں تم ایک اسرئیلی نبی کی آمدکے منکر ہو‘ مگر ہم اپنے دلوں کو کہاں لے جائیں اور اپنی محبت کے نقش کس طرح مٹائیں ہمیں تو محمد رسول اللہ ؐ کی عزت سے بڑھ کر کسی اور کی عزت پیاری نہیں‘ ہم تو ایک منٹ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کے ممنون احسان ہوں ‘ہمارا دل تو ایک منٹ کے لئے بھی اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتا کہ قیامت کے دن جب تمام مخلوق ازا بتداء تا انتہاء جمع ہو گی اور علی رؤس الاشہاد ہر ایک کے کام بیان کئے جائیں گے اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مسیح اسرائیلی کے احسان سے جھکی جارہی ہوگی اور تمام مخلوق کے سامنے بلند آواز سے فرشتے پُکار کر کہیں گے کہ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیقوّتِقدسیہ جاتی رہی تو اس وقت مسیح اسرائیلی نے ان پر احسان کر کے جنت میں سے نکلنا اپنے لئے پسند کیا اور دنیا میں جا کر ان کی
۳۵۳ دعوة الا میر مت کی اصلاح کی اور اسے تباہی سے بچا یا‘ ہم تو اس امر کو بہت پسند کرتے ہیں کہ ہماری زبانیں کٹ جائیں بہ نسبت اس کے کہ ایسی ہتک آمیزبات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کریں اور ہمارے ہاتھ شل ہو جائیں بجائے اس کے کہ ایسے کلمات آپ کے حق میں تحریر کریں ‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰٰ کے محبوب ہیں‘آپؐ کی قوّتِ قدسیہ کبھی باطل نہیں ہوسکتی.آپؐ خاتم النبیّیّن ہیں.آپ ؐ کا فیضان کبھی رُک نہیں سکتا‘ آپؐ کا سرکسی کے احسان کے آگے جھک نہیں سکتا بلکہ آپؐ کا احسان سب نبیوں پر ہے.کوئی نبی نہیں جس نے آپؐ کو منوایا ہو اور آپ ؐ کی صداقت آپ کے منکر وں سے منوائی ہو‘ لیکن کیا لاکھوں کروڑوں انسان نہیں جن سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی انبیاء کی نبوت منوائی ہے.ہندوستان میں آٹھ کروڑ مسلمان بیان کئے جاتے ہیں‘ ان میں سے بہت ہی تھوڑے ہیں جو بیرونی ممالک کے رہنے والے ہیں‘ باقی سب ہندوستان کے باشندے ہیں جو کسی نبی کا نام تک نہ جانتے تھے مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام پر ایمان لے آئے ہیں.اگر اسلام ان کے گھروں میں داخل نہ ہوا ہوتا تو آج وہ ان نبیوں کو گالیاں دے رہے ہو تے اور اُن کو جھوٹے آدمیوں میں سے سمجھ رہے ہوتے جس طرح کہ ان کے باقی بھائی بندوں کا آج تک خیال ہے.اسی طرح آفغانستان کے لوگ اور چین کے لوگ اور ایران کے لوگ کب حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو مانتے تھے ‘ان سے ان انبیاء کی صداقت کا اقرارآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کرایا ہے.پس آپ کا سب گزشتہ نبیوں پر احسان ہے کہ ان کی صداقت لوگوں پر مخفی تھی.آپؐ نے اس کو ظاہر فرمایا‘ مگر آپؐ پر کسی کا احسان نہیں.آپؐ پر اللہ تعالیٰٰ وہ دن کبھی نہیں لائے گا جب آپؐ کا فیضان بند ہو جائے اور کوئی دوسرا نبی آکر آپؐ کی امت کی اصلاح کرے‘ بلکہ جب کبھی بھی آپؐ کی امت کی اصلاح کی ضرورت پیش آئے گی.اللہ تعالیٰ آپ ہی کے شاگردوں میں سے اور آپؐ ہی کے امتیوں میں سے ایسے لوگ جنہوں نے سب کچھ آپؐ ہی سے لیا ہوگا اور آپؐ ہی سے سیکھا ہو گا مقررر فرمائے گا تا کہ وہ بگڑے ہوؤں کی اصلاح کریں اور گمشدوں کو واپس لائیں اور اُن لوگوں کا کام آپؐ ہی کاکام ہوگا‘ کیونکہ شاگرد اپنے استاد سے علیحدہ نہیں ہوسکتا اور امتی اپنے نبی سے جدا نہیں قرار دیا جا سکتا، ان کی گرد نیں آپؐ کے احسان کے آگے جھکی ہو ئی ہوں گی اور ان کے دل آپؐ کی محبت کی شراب سے لبریزہوں گے اور ان کے سرآپؐ کے عشق کے نشے سے سرشار ہوں گے.
۳۵۴ دعوة الا میر غرض کسی نبی کے دوبارہ آنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے اور اس سے آپؐ کا وہ ودرجہ باطل ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰٰ نے آپؐ کو دیا ہے اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللّٰہَ لاَیُغَیِّرُمَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُ وْا مَا بِاَنْفُسَھِمْ ط (سورۃ رعدآیت.آیت ۱۲) اللہ تعالیٰٰ کسی کو کوئی نعمت دیکر چھین نہیں لیا کرتا جب تک کہ خود ان کے اندر کوئی خرابی نہ پیدا ہو جائے.اب اس عقیدے کو مان کر یا تو نعوذباللہ یہ ماننا پڑتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہے یا پھر یہ مانناپڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ توڑ دیا اور باقی لوگوں سے تو وہ یہ سلوک کرتا ہے کہ ان کو نعمت دے کر واپس نہیں لیتا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے اس کے خلاف سلوک کیا ہے اور یہ دونوں باتیں کُفر ہیں کیونکہ ایک میں خدا تعالیٰ کا انکار ہے اور دوسری میں اس کے رسولؐ کا.پس ان وجوہ سے ہم اس قسم کے عقائد سے بیزار ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام جن کی آمدکا وعدہ دیا گیا ہے اسی امت میں سے آنے والے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا اختیار ہے کہ جسے چاہے کسی مقام پر ممتاز کر دے.احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والامسیح اسی امت میں سے ہوگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا الْمَھْدِیُّ اِلاَّ عِیْسٰی (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شِدّۃ الزّمان مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ ء)سوائے عیسیٰ کے اور کوئی مہدی نہیں.دوسری طرف فرماتے ہیں کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَانَزَلَ اِبْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم) تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا.ان دونوں ارشادات نبویؐ کو ملا کر دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ان کے سوا کوئی اور مہدی نہیں اور وہ اس امت کے امام ہوں گے مگر اسی امت میں سے ہوں گے کہیں باہر سے نہ آئیں گے.پس یہ خیال کہ مسیح علیہ السلام کوئی علیحدہ وجود ہوں گےور مہدی علیحدہ وجود، باطل خیال ہے اور لَا الْمَھْدِیُّ اِلاَّ عِیْسٰی کے خلاف ہے.مومن کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے آقا کے اقوال پر غور کرے اور جو تضاد اُسے بظاہر نظر آئے اسے اپنے تدبر سے دور کرے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ یہ فرمایا ہے کہ پہلے مہدی ظاہر ہوں گے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے جو مہدی کی اتباع میں نماز ادا کریں گے.اور دوسری دفعہ یہ فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام ہی مہدی ہیں، تو کیا ہمارا یہ کام ہے کہ آپ کے قول کو رد کریں یا یہ کام ہے کہ دونوں پر غور کریں.اگر دونوں اقوال میں کوئی اتحاد کی صورت ہو تو اس کو اختیار کر لیں اور اگر کوئی ادنیٰ تدبر بھی کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گاکہ ان دونوں
۳۵۵ دعوة الا میر قوال میں اتحاد کی صورت یہی ہے کہ لَا الْمَھْدِیُّ اِلاَّ عِیْسٰی دوسری حدیث کی تشریح ہے یعنی پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسیح علیہ السلام کے نزول کی خبر ایسے الفاظ میں دی تھی جس سے یہ شُبہ پڑتاتھا کہ دو علیحدہ علیحدہ وجود ہیں اس کو لَا الْمَھْدِیُّ اِلاَّ عِیْسٰی والی حدیث سے کھول دیااور بتادیا کہ وہ کلام استعارۃً تھا ، اس سے صرف یہ مراد تھی کہ اُمت محمدیہ کا ایک فرد پہلے دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا جائیگا،لیکن کسی رسول کا مقام اسے نہیں دیا جائے گا.لیکن بعد میں عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی پیشگوئی بھی اسی کے حق میں پوری کی جائے گی اور وہ عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کرے گا، اس طرح گویا اُس کے دو مختلف عہدوں کے اظہار کا وقت بیان کیا گیا ہے.یعنی پہلے عام دعویٰ اصلاح ہو گا اور پھر دعویٰ مسیحیت ہو گا اور پیشگوئیوں میں اس قسم کا کلام عام ہوتا ہے بلکہ اگر اس قسم کے استعار ے پیشگوئیوں سے علیحدہ کر دئیے جائیں تو ان کا سمجھنا ہی بالکل ناممکن ہو جائے.اگر یہ معنی ان احادیث کے نہ کئے جائیں تو دو باتوں میں سے ایک ضرورماننی پڑے گی اور وہ دونوں ہی خطر ناک ہیں.یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ لَا الْمَھْدِیُّ اِلاَّ ِعْیسٰی والی حدیث باطل ہے اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ مہدی کا کوئی الگ وجود نہیں بلکہ مسیح اور مہدی کے درجات کا مقابلہ کیا گیا ہے اور بتایا گیاہے کہ اصل مہدی تو مسیح ہی ہوں گے.دوسرا مہدی تو اُن کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.جس طرح کہہ دیتے ہیں کہ لاَ عَالِمَ اِلاَّ فُلاَ نٌ اور اس ے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے سوا کوئی عالم ہی نہیں، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے علم میں دوسروں سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس کے مقابلہ میں ان کا علم حقیر ہو جاتا ہے اور یہ دونوں معنی خطر ناک نتائج پید اکرنے والے ہیں کیونکہ ایک حدیث کو بلا وجہ باطل کر دینا بھی خطرناک ہے اور خصوصاً ایسی حدیث کو جو اپنے ساتھ شواہد بھی رکھتی ہے اور یہ کہنا کہ مہدی مسیح کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہ رکھیں گے ان احادیث کے مضامین کے خلاف ہے جن میں انہیں امام قرار دیا گیا ہے اور مسیح کو ان کا مقتدی.غرض سوائے ان معنوں کے کہ امتِ محمدیہ میں ایک ایسے وجود کی خبر دی گئی ہے جو پہلے مصلح ہو نے کا دعویٰ کر ے گا اور بعد کو مسیح موعود ہو نے کا، ان احادیث کے اور کوئی معنی نہیں بن سکتے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے سار ادھوکا اس امر سے کھایا ہے کہ حدیث میں نزول کا لفظ ہے اور اس لفظ سے سمجھ لیا گیا ہے کہ مسیح اول ہی دوبارہ دنیا میں نازل ہو ں گے حالانکہ نزول کے
۳۵۶ دعوة الا میر وہ معنی نہیں ہیں جو لوگ سمجھتے ہیں ، بلکہ جب ایک ایسی چیز کی پیدائش کا ذکر کرتے ہیں جو مفید ہو یا پھر ایک ایسے تغیر کا ذکر کرتے ہیں جو بابر کت ہو یا جلالِ الٰہی کا ظاہر کرنے والا ہو تو اسے عر بی زبان میں نزول کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ.(توبہ آیت- ۲۶) اور پھرفرماتا ہے.ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ م بَعْدِالْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا (اٰل عمران آیت- ۱۵۵) اور فرماتا ہے وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ (زمر آیت- ۷) اور فرماتا ہے.قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا سًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ ورِیْشًا ط وَلِبَا سُ التَّقْوٰی لا ذٰلِکَ خَیْرٌ ط ذٰلِکَ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ (اعراف آیت-۲۷) اور فرماتا ہے.وَاَنْزَلْنَا عَلَیکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ط( بقرۃ آیت-۵۸)اور فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ للِنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ ط اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (حدید آیت-۲۶) اور فرماتا ہے وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِیْ الْاَرْضِ وَلٰکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآئُ ط اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ م بَصِیْرٌ (شوریٰ آیت-۲۸) اب یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ سکینت دل میں پیدا کی جاتی ہے.نیند دماغ کے فعل کا نام ہے اور چار پائے اور لباس اور کھیتیاں اور بٹیر اورلوہا اور دنیا کی باقی سب چیزیں ایسی ہی ہیں جو اسی زمین پر پیدا ہو تی ہیں.آسمان سے اتر تی ہوئی نہ کسی نے دیکھی ہیں اور نہ اُ ن کا آسمان سے اتر نا قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ صاف طور پر قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَجَعَلَ فِیْھَارَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبَارَکَ فِیْھَاوَقَدَّ رَ فِیْھَا اَقْوَاتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِاَیَّا مٍ ط سَوَاءًٓ لّلِسَّا ئِلِیْنَ ( سورۃ حٰمٓ سجدہ آیت -۱۱)یعنی ہم نے زمین میں اس کی سطح پر پہاڑ پیدا کئے اور زمین میں بہت سے سامان پیدا کئے اور ہر قسم کی غذا ئیں بھی اس میں پیدا کیں.یہ سب کام زمین کا پیدا ہونا پھر اس میں ہر قسم کے سامانوں اور جانوروں کا پیدا ہو نا چار زمانوں میں اختتام کو پہنچا اور یہ بات ہر قسم کے سائلوں کے لئے برابر ہے.یعنی یہ مضمون گو بڑے بڑے مسائلِ طبعیہ اور دقائق علمیہ پر مشتمل ہے جو کچھ تو اس زمانے میں ظاہر ہو چکے ہیں اور کچھ آئندہ زمانوں میں ظاہر ہوں گے اور نئے نئے سوال اس کے متعلق پیدا ہوں گے.مگر ہم نے اس کو ایسے الفاظ میں ادا کر دیا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اور ہر زمانے کے آدمی اپنے اپنے علم اور اپنے اپنے زمانے کی علمی ترقی کے مطابق اس میں سے صحیح جواب پا لیں گے جو اُن کے لئے موجب تشفّی ہوگا.غرض قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب اشیاء جن کا قرآن کریم میں اَنْزَلْنَا کے لفظ کے ساتھ ذکر ہوا ہے.آسمان پر سے نازل نہیں ہوئیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی زمین میں
۳۵۷ دعوة الا میر پیدا کیا ہے.پس اسی طرح آنے والے مسیح کی نسبت بھی لفظ نزول اس کے مقام کے اجلال اور اس کے درجہ کی عظمت کے لئے استعمال ہوا ہے نہ کہ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ فی الواقع آسمان سے اُترے گا.چنانچہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور سب مُفسّر اس سے آپؐ کے شرف کا اظہار مراد لیتے ہیں اور وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپؐ مکہ مکرمہ میں قریش کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے اور آپؐ کے والد کا نام عبد اللہ تھا اور آپؐ کی والدہ کا نام آمنہ تھا.وہ آیت جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کا ذکر ہے، یہ ہے.قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا لا رَّسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیَاتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط (سورہ الطلاق آیت ۱۲-۱۱)یعنی اللہ تعالیٰٰ نے تم پر ذکر یعنی رسول نازل کیا جو تمہیں اللہ کی کھلی کھلی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے تاکہ مومنوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاوے.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک ہی لفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور مسیح علیہ السلام کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس کے معنی اور کر دئیے جاتے ہیں اور مسیح کی نسبت اس کے اور معنی کر دئیے جاتے ہیں ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی زمین پر پیدا ہو ئے اور آپؐ کی نسبت نزول کا لفظ استعمال کیا گیا تو کون سے تعجب کی بات ہے اگر یہی لفظ آنے والے مسیح کی نسبت استعمال کیا جائے اور اس سے مراد اس کی پیدائش اور بعثت ہو.تیسرا شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ حدیثوں میں آنے والے کا نام عیسیٰ ابن مریم رکھا گیا ہے.پس اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہی بعینہٖ دوبارہ تشریف لائیں گے.لیکن یہ معترض خیال نہیں کرتے کہ کثرت سے ان کے شعروں میں عیسیٰ کا لفظ دوسرے لوگوں کی نسبت استعمال ہو تا ہے مگر اس کو یہ قابل اعتراض نہیں سمجھتے ، لیکن اللہ تعالیٰٰ کے کلام میں اگر ایک شخص کانام بھی عیسیٰ رکھ دیا گیا تو اس پر تعجب آتا ہے.پھر روزانہ سخی لوگوں کی نسبت حاتم طائی اور فلسفیانہ دماغ رکھنے والوں کی نسبت محقق طوسی اور استخراج مسائل کا مادہ رکھنے والوں کی نسبت فخررازی کا لفظ استعمال کرتے ہیں.مگر ابن مریم کے الفاظ ان کے دلوں میں شبہات پید اکردیتے ہیں.اگر ابن مریم کے الفاظ تعیین کے معنی دیتے ہیں تو کیا طائی اور طوسی اور رازی تعیین کے معنی نہیں دیتے ، پھر اگر باجود ان الفاظ کے استعمال کے ان کی یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ شخص
۳۵۸ فی الواقع طے کے قبیلے کا ایک فرد ہے یا طوس یا رےکا رہنے والا ہے تو ابن مریم کے الفاظ سے کیوں یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ آنے والا عیسیٰ ابن مریم نبی اللہ ہو گا جو آج سے انیس سو سال پہلے گزر چکا ہے ، حالانکہ طےؔاور طوسیؔ اور رازیؔ ایسے اسماء نہیں ہیں کہ جو مجاز اً کسی اور معنی میں استعمال ہو ں، لیکن مریم ایک ایسانام ہے جسے ایک خاص حالت کے اظہار کے لئے قرآن کریم میں استعمال کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے.وَضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا اِمْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِندَکَ بَیْتاً فِیْ الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہِ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ oلا وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہِ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ (سورۃ تحریم آیت ۱۳-۱۲) یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کی مثال فرعون کی بیوی سے دیتا ہے جبکہ اس نے کہا کہ اے میرے رب میرے لیے جنت میں ایک گھر اپنے قرب میں بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کاموں سے بچا لے اور مجھے ظالم قوم کے پنجے سے چھُڑا لے اور یا مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دیتا ہے جس نے اپنے سور اخوں کی حفاظت کی.پھر ہم نے اس کے دل پر اپنا کلام نازل کیا اور اس نے ہماری باتوں اور ہماری کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبردار لوگوں میں سے ہوگئی ، پس جبکہ مومن کی ایک حالت کا نام اللہ تعالیٰ مریمی حالت رکھتا ہے اور ایسے مومن کو مریم کہتا ہے تو اگر کسی موعود کی نسبت اللہ تعالیٰ ابن مریم کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو کیا اس کے یہی معنی نہ ہوں گے کہ وہ اس مریمی حالت سے ترقی کرتے کرتے عیسوی حالت تک پہنچ جائے گا.اس کی ابتدائی زندگی تو مریم کی طرح پاک اور بے عیب ہوگی اور اس کی آخری زندگی عیسیٰ علیہ السلام کی طرح رُوح القدس سے مؤید ہوگی اور دنیا کی اصلاح اور صداقت کے قائم کرنے میں صرف ہو گی.قرآن کریم کے معانی پر تدبر کرنا اور اس کے مطالب کے سمندر میں غوطہ لگا کر معارف کے موتی نکالنا تو اس زمانے کے علماء کے لئے تو حرام ہی ہوگیا ہے، اگر وہ انہیں علوم پر نظر کرتے جو علماء رُوحانی نے قرآن کریم پر غور کر کے اور انبیاء کی زندگی پر نظر کر کے اور ان کی باتوں کی طرف توجہ کرکے استنباط کئے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھد یئے ہیں تب بھی یہ لوگ ٹھوکر نہ کھاتے.حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی اپنی کتاب عوارف المعارف میں لکھتے ہیں کہ ایک ولادت ولادتِ جسمانی کے علاوہ ہوتی ہے جسے ولادتِ معنوی کہتے ہیں اور اس کی تائید میں اور
۳۵۹ بھی کسی کا نہیں خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول نقل کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں.یَصِیْرُالْمُرِیْدُ جُزْئَ الشَّیْخِ کَمَا اِنَّ الْوَلَدَ جُزْئُ الْوَالِدِ فِیْ الْوِلَادَۃِالطَّبْعِیَّۃِ وَتَصِیْرُ ھٰذِہٖ الْوِلَادَۃُ اٰنِفًا وِلَادَۃً مَعْنَوِیَّۃً کَمَا وَرَدَ عَنْ عِیْسٰی صَلَوٰتُ اللہِ عَلَیْہِ لَنْ یَلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمَآءِمَنْ لَّمْ یُوْلَدْ مَرَّتَیْنِ فَبِالوِلَادَۃِ الْاُوْلٰی یَصِیْرُ لَہٗ اِرْتِبَاطٌ بِعَالَمِ الْمَلَکِ وَبِھٰذِہٖ الْوِلَادَۃِ یَصِیْرُ لَہٗ اِرْتِبَاطٌ بِالْمَلَکُوْتِ.قَالَ اللہُ تَعَالٰی وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ المُوْقِنِیْنَ (عوارف المعارف مؤلفہ شیخ شہاب الدین سہروردی جزاوّل صفحہ ۴۵)یعنی مُرید شیخ کا جزو ہو جاتا ہے جس طرح ولادت طبعی میں بیٹا باپ کا جزو ہو تا ہے اور یہ ولادت اس وقت ولادتِ معنوی ہو جاتی ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے روایت ہے کہ کوئی شخص آسمان کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دودفعہ پیدا نہ ہو، پھر شیخ اپنی طرف سے فرماتے ہیں کہ پہلی ولادت سے تواُسے طبعی دنیا سے تعلق پید اہو جاتا ہے اور دوسری ولادت سے اسے روحانی دنیا سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰٰ بھی فرماتا ہے کہ اسی طرح آسمان ااور زمین پر جو غلبہ ہمیں حاصل ہے ہم ابراہیم کو دکھا تے تھے تا کہ وہ یقین کرنے والے لوگوں میں سے ہو جائے.اِنْتَہٰی قَوْلُ الشَّیْخِ.مذکورہ بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ شیخ شہاب الدین صاحب سہر و ردی کے نزدیک ہر انسان کے لئے ایک ولادتِ معنوی ضروری ہے اور وہ اس کی تائید میں ایک تو قرآن کریم کی آیت پیش کرتے ہیں اور دوسرے حضرت مسیح کا ایک قول پیش کرتے ہیں.پس جب ولادتِ معنوی ایک ضروری شے ہے اور حضرت مسیح اسے روحانی ترقی کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں تو کیا مثیل مسیح کے لئے ہی اس ولادت کا وجود محال اور ناممکن ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح کا دوبارہ زندہ ہو کر آنا اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے کلام کے خلاف ہے اور اس کے رسول کی عظمت کے منافی ہے اور اس کی باتوں کے صریح مخالف ہے اورجن باتوںپر اس عقیدے کی بناء رکھی گئی ہے وہ قلّتِ تدبّر سے پیدا ہوئی ہیں اور کمیٔ فکر کا نتیجہ ہیں.اصل بات یہی ہے کہ اسی امت میں سے ایک شخص کو مسیح کے رنگ میں رنگین ہو کر آنا تھا اور وہ آبھی چکا اور اس کے فیض سے بہتوں نے ہدایت پائی اور بہت گم گشتہ راہ سیدھے راستہ پر آگئے.چوتھا اعتراض ہم پر یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سلسلۂ وحی اور سلسلۂ نبوت کو جاری سمجھتے ہیں.یہ اعتراض بھی یا تو قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے یا عداوت و دشمنی کا.اصل
۳۶۱ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بالاہوتی ہو.اے امیر ! اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو مہبط انوار بنائے اور آپ کے سینے کو حق کی قبولیت کے لئے وسیع کرے.وہی نبوت پہلے نبی کے سلسلے کو ختم کر سکتی ہے جو شریعت والی نبوت ہو اور وہی پہلے نبی کی شریعت کو منسوخ کر سکتی ہے جو بِلا واسطہ حاصل ہو، لیکن جو نبوت کہ پہلے نبی کے فیض سے اور اس کی اتباع سے حاصل ہو اور جس کی غرض پہلے نبی کی نبوت کی اشاعت ہو اور اُ س کی عظمت اور اُ س کی بڑائی کا اظہار ہو، وہ پہلے نبی کی ہتک کرنے والی نہیں بلکہ اس کی عزت کو ظاہر کرنے والی ہے اور اس قسم کی نبوت قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور عقلِ سلیم اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس اُمت میں حاصل ہو سکتی ہے اور اگر یہ نبوت اس اُمت کو حاصل نہ ہو تو پھر اس امت کو دوسرے نبیوں کی اُمتیوں پر کوئی فضیلت نہیں رہتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ محدث حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں بھی بہت سے گزرے ہیں.(بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر بن الخطاب ) پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ بھی انسان کو محدثیت کے مقام تک ہی پہنچا سکتی ہے تو پھر آپؐ کو دوسرے انبیاء پر کیا فضیلت رہی اور آپؐ سید وُلد آدم اور نبیوں کے سردار کیونکر ٹھہرے.خیر الرسل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپؐ میں بعض ایسے کمالات پائے جائیں جو پہلے نبیوں میں نہیں پائے جاتے تھے اور ہمارے نزدیک یہ کمال آپؐ میںہی ہے کہ پہلے انبیاء کے امتی اُن کی قوتِ جذب سے صرف محدثیت کے مقام تک پہنچ سکتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی مقام نبوت تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور یہی آپ کی قوتِ قدسیہ کا کمال ہے جو ایک مومن کے دل کو آپؐ کی محبت اور آپؐ کے عشق کے جذبہ سے بھر دیتا ہے.اگر آپؐ کے آنے سے اس قسم کی نبوت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے تو پھر آپؐ کی مدد دنیا کے لئے ایک عذاب بن جاتی ہے اور قرآن کریم کا وجود بے فائدہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ آپؐ کی بعثت سے پہلے تو انسان بڑے بڑے درجوں تک پہنچ جاتا تھا مگرآپؐ کی بعثت کے بعد وہ اُن درجوں کے پانے سے روک دیا گیا اور یہ ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم سے پہلی کتب تو نبوت کا درجہ پانے میں مُمّد ہوا کرتی تھیں یعنی اُن کے ذریعہ سے انسان اس مقام تک پہنچ جاتا تھا جہاں سے اللہ تعالیٰ اُسے نبوت کے مقام کی تربیت کے لئے چُن لیتا تھا ،لیکن قرآن کریم پر عمل کر کے انسان اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، اگر فی الواقع یہ بات ہو تو اللہ تعالیٰ سچے پرستاروں کے دل خُون ہو جائیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جائیں کیونکہ وہ تو رحمۃ للعالمین
۳۶۲ اور سید الانبیاء کی آمد پر یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب ہماری روحانی ترقیات کے لئے نئے دروازے کھُل جائیں گے اور اپنے محبوب رب العالمین کے اور بھی قریب ہو جائیں گے،لیکن نتیجہ نعوذ باللہ من ذالک یہ نکلا کہ آپؐ نے آکر جو دروازے پہلے کھلے تھے اُن کو بھی بند کر دیا.کیا کوئی مومن رسول کریم ؐ کی نسبت اس قسم کا خیال ایک آنِ واحد کے لئے بھی اپنے دل میں آنے دے سکتا ہے ؟کیا کوئی آپؐ کا عاشق ایک ساعت کے لئے بھی اس عقیدہ پر قائم رہ سکتاہے؟ بخدا آپؐ برکت کا ایک سمندر تھے اور روحانی ترقی کا ایک آسمان تھے جس کی وسعت کو کوئی نہیں پا سکتا.آپؐ نے رحمت کے دروازے بند نہیں کر دئیے بلکہ کھول دئیے ہیں اور آپؐ میں اور پہلے نبیوں میں یہ فرق ہے کہ ان کے شاگرد تو محدثیت تک پہنچ سکتے تھے اور نبوت کا مقام پانے کے لئے ان کو الگ تربیت کی ضرورت ہوتی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی میں ایک انسان نبوت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے اور پھر بھی آپ ؐ کا اُمتی رہتا ہے اور جس قدر بھی ترقی کرے آپؐ کی غلامی سے باہر نہیں جا سکتا.اس کے درجہ کی بلندی اسے اُمتی کہلانے سے آزاد نہیں کر دیتی بلکہ وہ اپنے درجہ کی بلند ی کے مطابق آپؐ کے احسان کے بار کے نیچے دبتا جاتا ہے کیونکہ آپ ؐ قرب کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جس تک دوسروں کو رسائی نہیں ہوئی اور آپؐ نے اس قدر بلندی کو طے کر لیا ہے جس تک دوسروں کا ہاتھ بھی نہیں پہنچا اور آپؐ کی ترقی اس سُرعت سے جاری ہے کہ واہمہ بھی اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے.پس آپؐ کی اُمت نے بھی آپؐ کے قدم بڑھانے سے قدم بڑھایا ہے اور آپؐ کے ترقی فرمانے سے ترقی کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقام جو اوپر بیان ہوا ہے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس قسم کی نبوت کا سلسلہ آپؐ کے بعد جاری سمجھیں کیونکہ اس میں آپؐ کی عزت ہے اور اس کے بند کر نے میں آپؐ کی سخت ہتک ہے.کون نہیں سمجھ سکتا کہ لائق استاد کی علامت یہ ہے کہ اس کے لائق شاگرد ہوں اور بڑے بادشاہ کی علامت یہ ہے کہ اس کے ماتحت بڑے بڑے حکمران ہوں.اگر کسی استاد کے شاگرد ادنیٰ درجے کے ہیں تو اسے کوئی لائق استاد نہیں کہہ سکتا اور اگر کسی بادشاہ کے ماتحت ادنیٰ درجے کے لوگ ہوں تو اسے کوئی بڑا بادشاہ نہیں کہہ سکتا.شہنشاہ دُنیا میں عزت کا لقب ہے نہ کہ ذلّت اور حقار ت کا.اسی طرح وہ نبی ان نبیوں سے بڑا ہے جس کے اُمتی نبوت کا مقام پاتے ہیں اور پھر بھی اُمتی ہی رہتے ہیں.
۳۶۳ درحقیقت یہ غلطی جس میں اس وقت کے مسلمان پڑ گئے ہیں ( اس وقت میں اس لئے کہتا ہوں کہ پہلے بزرگوں کی کتب اس غلط عقیدے کے خلاف ظاہر کر رہی ہیں جیسے حضرت محی الدین ابن عربیؒ ، حضرت ملا علی قاری اور علامہ ابن قیم کی کتب ، حضرت مولانا روم ؒکی مثنوی، حضرت مجدد الف ثانی ؒشیخ احمدسر ہندی کے مکتوبات وغیرہ )اس سے پیداہوئی ہے کہ انہوں نے نبوت کے معنی سمجھنے میں غلطی کی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ نبی وہی ہوتا ہے جو کوئی جدید شریعت لائے یا پہلی شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کر ے یا پہلے نبی کی اطاعت سے باہر ہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ باتیں نبی کے لئے ضروری نہیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نبی ان تینوں قسموں میں سے کسی ایک میں شامل ہواور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص میں یہ تینوں باتیں نہ ہوں.نہ وہ کوئی جدید کتاب لائے نہ پہلی شریعت کے کسی حکم کو منسوخ کرے اور نہ نبوت اسے براہِ راست ملے اور پھر بھی وہ نبی ہو، کیونکہ نبوت ایک خاص مقامِ قرب کا نام ہے جس مقام پر فائز شخص کا یہ کام ہو تا ہے کہ وہ دنیا کی اصلاح کرے اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لائے اور مُردہ دلوں کو زندگی بخشے اور خشک زمین کو شاداب کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کلام لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہو اہو، اسے لوگوں تک پہنچائے اور ایک ایسی جماعت پیدا کرے جو اپنی زندگیوں کو حق کی اشاعت میں لگا دے اور اس کے نمونے کو دیکھ کر اپنے دلوں کی اصلاح کرے اور اپنے اعمال کودرست کرے.غرض نبوت کی نفی نبوّت کے مفہوم کو غلط سمجھنے سے پید اہوئی ہے ورنہ بعض اقسام کی نبوتیں تو بجائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گھٹا نے کے آپؐ کی شان بڑھانے والی ہیں.کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَا لِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَا تَمَ النَّبِیِّیْنَ.(سورہ احزاب آیت -۴۱)کہ محمدﷺ تم میں سے کسی مر دکے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں پس اب کوئی نبی نہیں آسکتا، لیکن قرآن کریم کھول کر نہیں دیکھا جاتا کہ اللہ تعالیٰٰ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ بِفَتْحِ’’ تَا‘‘ فرماتا ہے نہ بِکَسْرِ ’’تَا‘‘.اور خَاتَمَ بِفَتْحِ ’’تَا ‘‘کے معنی مہرکے ہوتے ہیںنہ کہ ختم کردینےکے اور مہر تصدیق کے لئے لگائی جاتی ہے پس اس آیت کے تویہ معنی ہوں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی مُہر ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں خاتم النّبیّین کے معنی نبیوں کی مہر والے نبی کے ہی کئے ہیں اور اس آیت کی تشریح میں وہ احادیث نقل کی ہیں جن سے معلوم
۳۶۴ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر ایک مُہر نبوت تھی.(بخاری کتاب المناقب باب خاتم النّبوّۃ ) کاش! لوگ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرتے تو اُن کو یہ دھوکا نہ ہوتا ، اگر وہ یہ دیکھتے کہ اس آیت میں مضمون کیا بیان ہو رہا ہے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ پہلے اس آیت میں یہ بتا یا گیاہےکہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں اور پھر اس کے بعد لٰکِنْلا کر رسول اور خاتم النّبیّین کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اب یہ بات ظاہر ہے کہ لٰکِنْ ازالۂ شبہ کے لئے آیا کرتا ہے اور یہ بات ہر ایک مسلمان جانتا ہے کہ پہلے فقرے سے یہی شُبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سورہ کوثر میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَا لْاَبْتَرُ o(سورۃ الکوثر -آیت ۴) تیرا دشمن ہی ابتر ہے تو ابتر نہیں اور یہاں خود تسلیم فرماتا ہے کہ آپؐ کی نرینہ اولاد نہ ہوگی پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے لفظ لٰکِنْ استعمال فرماکر بتا یا کہ اس بیان سے بعض لوگوں کے دلوں میں ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے اس کا ہم ازالہ کردیتے ہیں اور وہ اس طرح کہ گو جسمانی طور پر یہ مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں تو بھی یہ ابتر نہیں کہلا سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰٰ رسول ہے.پس اس کا روحانی سلسلہ وسیع ہو گا اور اس کی روحانی اولادبے انتہا ء ہوگی پھر وخاتم النبیین فرماکر پہلے مضمون پر اور ترقی کی کہ نہ صرف بہت سے مومن اس کی اولاد میں ہوں گے بلکہ یہ نبیوں کی بھی مہر ہے اس کی مُہر سے انسان نبوت کے مقام پر پہنچ سکے گا.پس نہ صرف معمولی آدمیوں کا یہ باپ ہوگا بلکہ نبیوں کا بھی باپ ہوگا.غرض اس آیت میں تو اس قسم کی نبوت کا دروازہ کھولا گیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے نہ کہ بند کیا گیاہے.ہاں اس نبوت کا دروازہ بیشک اس آیت سے بندکر دیا گیا ہے جو نئی شریعت کی حامل ہو یا بِلا واسطہ ہو، کیونکہ وہ نبوت اگر باقی ہو تو اس سے آپؐ کی روحانی اَبُوّت ختم ہو جائے گی اور اس کی اس آیت میں نفی کی گئی ہے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلٰوۃ بمسجدی مکّۃ والمدینۃ )اور اسی طرح یہ فرمایا.لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ.(مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب الوفاء بیعۃالخلیفۃ الاوّل فالاوّل ) پس ان احاد یث کی رُو سے آپ ؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا مگر افسوس کہ یہ لوگ آخر الانبیاء تو دیکھتے ہیں، مگر مسلم کی حدیث میں جو اس کے ساتھ ہی وَاِنَّ مَسْجِدِیْ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِ (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلٰوۃ بمسجدی مکۃ والمدینۃ )آیا ہے اسے نہیں دیکھتے.اگر فاِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِکے معنی ہیں کہ آپؐ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں تو وَاِنَّ مَسْجِدِیْ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِ کے بھی یہ معنی ہوں گے کہ مسجد نبوی کے بعد کوئی مسجد نہیںبنوائی جا سکتی،لیکن وہی لوگ جو فَاِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِکے الفاظ سے استدلال کر کے ہر قسم کی نبوت کی نفی کر دیتے ہیں.وہ وَاِنَّ مَسْجِدِیْ
۳۶۵ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِکے الفاظ کی موجود گی میں نہ صرف اور مسجد یں بنوارہے ہیں بلکہ اس قدر مساجد تیار کر وارہے ہیں کہ آج بعض شہروں میں مساجد کی زیادتی کی وجہ سے بہت سی مساجد ویران پڑی ہیں.بعض جگہ تومسجدوں میں بیس بیس گز کا فاصلہ بھی بمشکل پایا جاتا ہے اگر اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ کے آنے کے باعث کوئی انسان نبی نہیں ہو سکتا تو اٰخِرُ الْمَسَاجِدِکے بعد دوسری مسجدیں کیوں بنوائی جاتی ہیں.اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ مسجدیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی مسجد یں ہیں کیونکہ اُن میں اسی طریق پر عبادت ہو تی ہے جس طریق کی عبادت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوائی تھی.پس بوجہ ظلّیت کے یہ اس سے جُدا نہیں ہیں.اس لئے اس کے آخر ہونے کی نفی نہیں کرتیں.یہ جواب درست ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ اسی طرح فاِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِکے باوجودایسے نبی بھی آسکتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور ظل کے ہوں اور جو بجائے نئی شریعت لانے کے آپؐ ہی کی شریعت کے متبع ہوں اور آپؐ کی تعلیم کے پھیلانے ہی کے لئے بھیجے گئے ہوں اور سب کچھ اُن کو آپؐ ہی کے فیض سے حاصل ہوا ہو.اس قسم کے نبیوں کی آمد سے آپ کے آخر الانبیاء ہونے میں اسی طرح فرق نہیں آتا جس طرح آپؐ کی مسجد کے نمونے پر نئی مساجد کے تیار کرانے سے آپؐ کی مسجد کے آخر المساجد ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا.اسی طرح لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ کے بھی یہ معنی نہیں کہ آپؐ کی بعثت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا بلکہ اس کے بھی یہ معنی ہیںکہ ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپؐکی شریعت کو منسوخ کرے.کیونکہ بعد وہی چیز ہو سکتی ہے جو پہلی کے ختم ہونے پر شروع ہو.پس جونبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تائید کے لئے آئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبی نہیں کہلا سکتا.وہ تو آپؐ کی نبوت کے اندر ہے بعد تو تب ہو تا جب آپؐ کی شریعت کا کوئی حکم منسوخ کرتا.عقلمند انسان کا کام ہوتا ہے کہ ہر ایک مضمون پر پورے طورپرغور کرے اور لفظوں کی تہ تک پہنچے.غالباً انہیں لوگوں کے متعلق اسی قسم کے دھوکے میں پڑجانے کا ڈر تھا جس کے باعث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قُوْلُوْا اِنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَآئِ وَلاَ تَقُوْ لُوْ ا لاَ نَبِیَّ بَعْدَہٗ( تکملہ مجمع بحار الانوار جلد ۴ صفحہ ۸۵ مطبوعہ مطبع العالی المنشی نولکشور ۱۳۱۴ھ)یعنی اے لوگو! یہ تو کہو کہ آپؐ خاتم النبیّین تھے مگر یہ نہ کہو کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، اگر حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں آسکتا تھا تو آپؐ نے لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہنے سے لوگوں کو کیوں روکا اور اگر اُن کا خیال درست نہ تھا تو کیوں صحابہؓ نے ان کے قول کی
۳۶۶ تردیدنہ کی.پس اُن کالَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہنے سے روکنا بتا تا ہے کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی تو آسکتا تھا مگر صاحب شریعت نبی یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آزاد نبی نہیں آسکتا تھا اور صحابہؓ کا آپؓ کے قول پر خاموش رہنا بتا تا ہے کہ باقی سب صحابہ ؓ بھی ان کی طرح اس مسئلہ کو مانتے تھے.افسوس لوگوں پر کہ وہ قرآن کریم پر غور نہیں کرتے اور خود ٹھو کر کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ٹھوکر کھلاتے ہیں اور پھر افسوس ان پر کہ وہ اُن لوگوں پر جو ان کی طرح ٹھوکر نہیں کھاتے ، غصے ہوتے ہیں اور انہیں بے دین اور کافر سمجھتے ہیں مگر مومن لوگوں کی باتوں سے نہیں ڈرتا.وہ خدا کی ناراضگی سے ڈرتا ہے.انسان دوسرے کا کیا بگاڑ سکتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرے گا کہ اس کو مار دے مگر مومن موت سے نہیں ڈرتا.اس کے لئے تو موت لقائے یار کا ذریعہ ہوتی ہے.کاش! اگر وہ قرآن کریم پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ ایک وسیع خزانہ ہے اور ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جو انسان کی تما م ضروریات کو پُورا کرنے والا ہے.اس کے اندر روحانی ترقیات کی اس قدر راہیں بیان کی گئی ہیں کہ اس سے پہلے کی کتب میں ان کا عُشرِ عَشِیر بھی بیان نہیں ہوا اور اگر انہیں یہ بات معلوم ہو جاتی تو وہ کنویں کے مینڈک کی طرح اپنی حالتوں پر خوش نہ ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرنے میں قدم مارتے اور اگر وہ لفظوں کی بجائے دلوں کی اصلاح کی قدر جانتے تو ظاہر علوم کے پڑ ھ لینے پر کفایت نہ کرتے بلکہ خدا تعالیٰ سے تعلق پید اکرنے کی کوشش کرتے اور اگر یہ خواہش ان کے دِل میں پیدا ہو جاتی تو پھر ان کو یہ جستجو بھی پیدا ہو تی کہ قرآن کریم نے کس حدتک انسان کے لئے ترقی کے راستے کھولے ہیں اور تب انہیں معلوم ہو جاتا کہ وہ ایک چھلکے پر خوش ہو کر بیٹھ رہے تھے اور ایک خالی پیالہ مُنہ کو لگا کر مست ہو نا چاہتے تھے.کیا وجہ ہے کہ وہ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں، لیکن ان کے دل میں کبھی یہ خواہش نہیں پیدا ہوتی کہ وہ انعام جو اس کے اندر بیان کئے گئے ہیں ہمیں بھی ملیں.وہ رات دن میں پچاس دفعہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَا طَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ(سورۃ الفاتحہ آیت ۷.۶)پڑھتے ہیں، لیکن ان کے دل میں یہ خیال نہیں پیدا ہوتا کہ وہ کونسا انعام ہے جو ہم طلب کررہے ہیں.اگر وہ ایک دفعہ بھی سمجھ کر نماز پڑھتے تو ان کا دل اس فکر میں پڑجاتا کہ صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اور صِرَاطََ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم سے کیا مراد ہے اور پھر ان کی توجہ خود بخود سورہ النساء کی ان آیات کی طرف پھر جاتی کہ وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَا
۳۶۷ يُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِيْتًا o وَّاِذًا لَّاٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرًا عَظِيْمًاoوَّلَهَدَيْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًاoوَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًاoذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِــيْمًاo (سورۃ النساء آیت ۷۱-۶۷) یعنی اگر لوگ اسی طرح عمل کرتے جس طرح ان سے کہا جاتا ہے تو اُن کے لئے اچھا ہوتا اور ان کے دلوں کو یہ بات مضبوط کر دیتی اور اس صورت میں ہم ان کو بہت بڑا اجر دیتے اور ہم ان کو صراط مستقیم دکھادیتے اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر ہم نے انعام کیا ہے.یعنی نبیوں میں اور صدیقوں میں اور شہیدوں اور صلحاء میں.اور یہ لوگ نہایت ہی عمدہ دوست ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ خوب جاننے والا ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ منعم علیہ گروہ کا راستہ دکھانے سے مراد نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صلحاء کے گروہ میںشامل کرنا ہے.پس جبکہ اللہ تعالیٰٰ نے اپنے رسولؐ کی معرفت ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم قریباً چالیس دفعہ دن میں اس سے صراطِ مستقیم کے لئے دعا کریں اور وہ خود صراطِ مستقیم کی تشریح یہ کرتا ہے کہ نبیوں، صدیقوں ، شہداء اور صلحاء کے گروہ میں شامل کر دیا جائے تو کس طرح ممکن ہے کہ اس امت کے لئے نبوت کا دروازہ من کل الوجوہ بند ہو.کیا یہ ہنسی نہیں بن جاتی اور کیا اللہ تعالیٰٰ کی شان تمسخر سے بالا نہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ایک طرف تو ہم پر زور دے کہ مجھ سے نبیوں ، صدیقوں ،شہداء اور صلحاء کے انعامات مانگو اور دوسری طرف صاف کہہ دے کہ میں نے تو یہ انعام اس امت کے لئے ہمیشہ کے واسطے روک دیا، حاشا و کلّا، اللہ تعالیٰٰ کی ذات تمام عیبوں سے پاک ہے اور تمام بدیوں سے منزّہ ہے.اگر اس نے یہ انعام روک دیا ہو تا تو وہ کبھی سورۂ فاتحہ میں منعم علیہ گروہ کے راستے کی طرف راہنمائی کی دعانہ سکھا تا اور پھر کبھی اس راستہ کی تشریح یہ نہ فرماتا کہ ہمارے اس رسول کی اتباع سے انسان نبیوں کے گروہ میں بھی شامل ہو جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ سورۂ نساء کی آیت میں مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ ہے نہ کہ مِنَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِم پس اس سے یہ مراد ہے کہ اس امت کے افراد نبیوں کے ساتھ ہوں گے نہ کہ نبیوں میں شامل ہوں گے.لیکن اس اعتراض کے پیش کر نے والے یہ نہیں سوچتے کہ اس آیت میں صرف نبیوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہی صدیقوں ،شہداء اور
۳۶۸ صلحاء کا بھی ذکر ہے اور اگر مع کی وجہ سے اس آیت کے وہ معنی ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو پھر ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑیگا کہ اس امت میں کوئی صدیق بھی نہیں ہو گا بلکہ صرف بعض افراد صدیقوں کے ساتھ رکھے جائیں گے اور شہید بھی کوئی نہیں ہوگا، صرف بعض لوگ شہداء کے ساتھ رکھے جائیں گے اور صالح بھی کوئی نہیں ہوگا صرف کچھ لوگ صلحاء کے ساتھ رکھے جائیں گے یادوسرے الفاظ میں یہ کہ اس امت کے تمام افراد نیکی اور تقویٰ کے تمام مدارج سے محروم ہوں گے صر ف انعام میں ان لوگوں کے ساتھ شامل کر دئیے جائیں گے جو پہلی امتوں میں سے ان مدارج پر پہنچے ہیں.لیکن کیا کوئی مسلمان بھی اس قسم کا خیال دل میں لاسکتا ہے.اس سے زیادہ اسلام اور قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کیا ہوگی کہ امت محمدیہ میں سے نیک لوگ بھی نہ ہوں بلکہ صرف چند آدمی نیک لوگوں کے ساتھ شامل کر کے رکھ دئیے جائیں.غرض اگر مَعَ کے لفظ پر زور دے کر نبوت کا سلسلہ بند کیا جائے گا تو پھر اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے صدیقیت اور شہادت اور صالحیت کا دروازہ بھی بند کرنا پڑے گا.اصل بات یہ ہے کہ مَعَ کے معنی یہی نہیں ہوتے کہ ایک جگہ یا ایک زمانے میں دو ۲ چیزوں کا اشتراک ہے بلکہ کبھی مَعَ درجہ میں اشتراک کے لئے بھی آتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،اِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ فِیْ الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا oاِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَھُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓۗئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا o(النسآء ۱۴۷-۱۴۶)یعنی تحقیق منافق دوزخ کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تو ان کاکسی کو مددگار نہیں پائے گا مگر ان میں سے وہ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے تو بہ کر لی اور اصلاح کرلی اور اللہ تعالیٰ کو خوب مضبوط پکڑ لیا اور اپنے دین کو محض اللہ ہی کے لئے کر دیا اور عمل صالح کرنے والوں اور اللہ تعالیٰٰ ہی کے ہو کےرہنے والوں اور اطاعت کو خاص کر لینے والوں کی نسبت مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.پس اگر مَعَ کے معنی اس جگہ ساتھ کے لئے جائیں تو اسکے یہ معنی ہوں گے کہ باوجود اِن سب باتوں کے وہ مومن نہیں بنیں گے بلکہ صرف مومنوں کے ساتھ رکھے جائیں گے اور یہ بات بالبداہت باطل ہے.پس مَعَ کے معنی کبھی درجہ کی شراکت کے بھی ہوتے ہیں اور انہیں معنوں میں اُوْلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہ عَلَیْھِمْ کی آیت میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.قرآن کریم کے اور بھی بہت سے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نبوت کا دروازہ اس
۳۶۹ امت میں کُھلا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ظلّ ہو اور آپؐ کی نبوت کی اشاعت کے لئے اور آپؐ کی غلامی اور اطاعت سے حاصل ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰٰ سورۂ اعراف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی اُمت کے ذکر کے دوران میں فرماتا ہے.قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ o وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ oيَابَنِيْ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ(الاعراف آیت ۳۶-۳۴)یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے رب نے مجھ پر صرف بری باتیں جو خواہ ظاہری طور پر بری ہوں خواہ باریک نگاہ سے اُن کی برائی معلوم ہو، حرام کی ہیں اور گناہ میں مبتلاہونا اور سرکشی کرنا جو بلاوجہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰٰ سے شرک کرنا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی دلیل نازل نہیں کی اور اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ایسی باتیں کہنا جن کی صدا قت کا تم کو علم نہیں ہے حرا م کیا ہے اور ہر ایک جماعت کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب ان کا وقت آجاتا ہے وہ اس سے ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں.اے بنی آدم! اگر تمہارے پا س میرے رسول آویں جو تم ہی میں سے ہوں اور تمہیں میرے نشان پڑھ پڑھ کر سنا ئیں تو جو لوگ تقویٰ کریں گے اور اصلاح کریں گے، اُن کو نہ آئندہ کا ڈر ہوگا اور نہ پچھلی باتوں کا غم ہوگا، اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اس امت میں سے بھی نبی آئیں گے،کیونکہ امت محمدیہ کے ذکر میں اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہاے پاس نبی آویں تو اُن کو قبول کرلینا، ورنہ دُکھ اٹھاؤگے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں اِمَّا کا لفظ آیا ہے اور یہ شرط پر دلا لت کرتا ہے کیونکہ حضرت آدم ؑ کے واقعہ خروج کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے علاوہ ازیں اگر اس کو شرط بھی سمجھ لیا جائے تو بھی اس سے یہ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت کا سلسلہ بند نہیں، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے کہ جس امر کی وہ آپ نفی کر چکا ہو اس کو شرط کے طور پر بھی بیان کرے.قرآن کریم کے شواہد کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کا دروازہ مطلقاً مسدود نہیں ، چنانچہ آنے والے مسیح کو آپؐ نے باربار نبی کے لفظ سے یاد فرمایا ہے(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدّجّال وصفتہٗ ومامعہٗ ) اگر آپؐ کے بعد کسی قسم کی نبوت بھی نہیں ہو سکتی تھی تو آپؐ نے مسیح کونَبِیُّ اللہ ِکہہ کر کیوں پکارا ہے.
۳۷۰ چوتھا اعتراض ہم پر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم جہاد کے منکر ہیں.مجھے ہمیشہ تعجب آیا کرتا ہے کہ اس قدر جھوٹ انسان کیونکر بول سکتا ہے کیونکہ یہ بات کہ ہمارا جہاد کے منکر ہیں،بالکل جھوٹ ہے ، ہمارے نزدیک تو بغیر جہاد کے ایمان ہی کامل نہیں ہو سکتا،تمام ضعف جو اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاہے اور ایمان کی کمزوری بلکہ اس کا فقدان جو ان میں نظر آرہا ہے یہ سب صرف جہاد میں سستی کرنے کی وجہ سے ہے.پس یہ کہنا کہ ہم جہاد کے منکر ہیں ہم پر افتراء ہے.جب قرآن کریم کے بیسیوں مقامات پر جہاد کی تعلیم دی گئی ہے تو بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے اور قرآن کریم کے شیدائی ہونے کے ہم جہاد کے منکر کس طرح ہو سکتے ہیں، ہاں ہم ایک بات کے سخت مخالف ہیں اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر خونریزی اور فساد اور غداری اورڈاکہ زنی اور غارتگری کی جائے.کیونکہ اس سے اسلام کے خوشنما چہرے پر نہایت بد نما داغ لگ جاتا ہے.ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ حرص اور طمع اور نفسانیت اور ذاتی فوائد کی خاطر اسلام کے مقدس احکام کو بگاڑا جائے.غرض ہم جہاد کے منکر نہیں ہیں بلکہ اس بات کے مخالف ہیں کہ کوئی شخص ظلم اور تعدی کا نام جہاد رکھ دے.اے امیر! آپ اس امر کو سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے محبوب پر کوئی حرف گیری کرے تو مُحبِّ کو یہ امر کس قدر برا معلوم ہوتا ہے اور وہ شخص جو اس حرف گیری کا محرک ہو اسے اس پر کسقدر طیش آتا ہے، ہمیں بھی ان لوگوں پر شکوہ ہے جو اسلام کو اپنے نام سے بدنام کرتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان کہلا کر اسلام سے دشمنی کرتے ہیں، آج دنیا اسلام کو ایک غیر مہذب مذہب اور اسلام کے رسول ؐ کو ایک جابر بادشاہ خیال کرتی ہے.کیا اس لئے کہ اس نے رسول کریمؐ کی زندگی میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو خلاف ِ تقویٰ یا خلاف دیانت ہے.نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ مسلمانوں نے اپنے اعمال سے اس کے دماغ میں بعض ایسی باتیں داخل کردی ہیں کہ وہ ان کو ایک دم کے لئے بھی بھلا نہیں سکتی.میرے نزدیک ان خطر ناک مظالم میں سے جو رسول مقبول ؐ پر کئے گئے ہیں ، ایک یہ ظلم ہے کہ خود مسلمانوں نے آپؐ کو جو رحم مجسم تھے ایک چیونٹی کو بھی ضرر دینا پسند نہیں کرتے تھے دشمنانِ اسلام کے سامنے ایسی شکل میں پیش کیا ہے کہ ان کے دل آپؐ سے متنفر ہو گئے ہیں اور ان کے دماغ آپؐ کے خلاف خیالات سے بھر گئے ہیں.میں چاروں طرف سے جہاد جہاد کی آواز سنتا ہوں ، مگر وہ کونسا جہادہے جس کی طرف خدا
۳۷۱ اور اس کا رسولؐ لوگوں کو بلاتے تھے اور آج کو نسا جہاد ہے جس کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے قرآن کریم جس جہاد کی طرف ہمیں بُلاتا ہے وہ تو یہ ہے کہ فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْ ھُمْ بِہٖ جِھَا دًا کَبِیْرًا (الفرقان آیت -۵۳) یعنی کافروںکی بات نہ مان اور اس قرآن کے ذریعہ سے کفار کے ساتھ ایک بہت بڑا جہاد کر مگر آج کیا مسلمان اسی جہاد بالقرآن کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں.کس قدر لوگ ہیں جو قرآن کریم ہاتھ میں لے کر کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں ، کیا اسلام اور قرآن میں کوئی بھی ذاتی جو ہر نہیں.جس سے وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں، اگر یہ بات سچ ہے تو پھر اسلام کے سچا ہونے کا کیا ثبوت ہے.انسانوں کے کلام لوگوں کا دل قابو میں کر لیتے ہیں مگر صرف خدا ہی کا کلا م ایسا بے اثر ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کے دل فتح نہیں ہو سکتے اس لئے تلوار کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو منوایا جائے مگر آج تک نہیں دیکھاگیا کہ تلوار کے ساتھ دل فتح کئے جا سکے ہوں اور اسلام تو اس بات پر لعنت بھیجتا ہے کہ مذہب ڈر یا لالچ سے قبول کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِذَا جَآء کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللہِ وَاللہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاللہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُونَo (سورہ منافقون آیت -۲)یعنی منافق جب تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے مگراللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں.اگر اسلام کے پھیلانے کے لئے تلوار کا جہاد جائز ہو تا تو کیا وہ لوگ جو اسلام لے آئے تھے مگر دل میں منافق تھے ، ان کا ذکر قرآن کریم ان الفاظ میں کرتا جو اوپر بیان ہوئے ہیں کیونکہ اس صورت میں تو یہ لوگ گویا قرآنی تعلیم کا نتیجہ ہوتے کون امید کرسکتا ہے کہ تلوار کے ساتھ وہ مخلص لوگوں کی جماعت پیدا کرے گا.پس یہ بات غلط ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے سے غیر مذاہب والوں کو اسلام میں داخل کرنے کا حکم دیتا ہے ، اسلام تو سب سے پہلا مذہب ہے جو یہ کہتا ہے کہ مذہب کے متعلق آزادی ہونی چاہئے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرہ آیت -۲۵۷)دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوگئی ہے.پس ہر ایک شخص دلائل کے ساتھ حق کو قبول کرنے یا رد کرنے کا حق رکھتا ہے.اسی طرح فرماتا ہے.وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ o(البقرہ آیت -۱۹۱)اور دین کی لڑائی ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.مگر یہ خیال رکھو کہ زیادتی نہ کر بیٹھو.پس جب کہ اسلام صرف ان سے دینی جنگ
۳۷۲ کرنے کا حکم دیتا ہے جو دین کے نام سے مسلمانو ں سے جنگ کریں اور مسلمانوں کو جبراً اسلام سے پھیرنا چاہیں اور ان کے متعلق بھی یہ حکم دیتا ہے کہ زیادتی نہ کرو بلکہ اگر وہ باز آجائیں تو تم بھی اس قسم کی لڑائی کو چھوڑ دو.تو پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کا حکم ہے کہ غیر مذاہب والوں سے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے جنگ کرو.اللہ تعالیٰ تو مختلف مذہبوں کے مٹا نے کے لئے نہیں بلکہ مختلف مذاہب کی حفاظت کے لئے جنگ کا حکم دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ o الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُولُوا رَبُّنَا اللہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَّنصُرُہُ إِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ o(الحج آیت ۴۱-۴۰) یعنی اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو جن سے بلاوجہ جنگ کی جاتی ہے جنگ کی اس لئے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰٰ ان کی مدد پر قادر ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے گھروں سے بلا قصور نکالے گئے ہیں.ان کا کوئی قصور نہ تھا سوا اس کے کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہما را رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ذریعہ سے بعض کا ہاتھ نہ روکتا تو مسیحیوں کے معبد اور راہبوں کے خلوت خانے اور یہود کی عبادت کی جگہیں اور مسجد یں جن میں اللہ تعالیٰٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے گرادی جاتیں اور اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، اللہ تعالیٰ طاقتور ہے، غالب ہے.یہ آیات کس قدر کھلے الفاظ میں بتاتی ہیں کہ مذہبی جنگیں تبھی جائز ہیں جبکہ کوئی قوم رَبُّنَا اللہُ کہنے روکے یعنی دین میں دخل دے اور ان کی غرض یہ نہیں کہ دوسری اقوام کے معابد ان کے ذریعہ سے گرائے جائیں اور ان سے ان کا مذہب چُھڑوایا جائے یا ان کو قتل کیا جائے بلکہ ان کی غرض یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے تمام مذاہب کی حفاظت کی جائے اور سب مذاہب کے معابد کو قائم رکھاجائے اور یہی غرض اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے کیونکہ اسلام دنیا میں بطور شاہد اور محافظ کے آیا ہے نہ کہ بطور جابر اور ظالم کے.غرض جہاد جس کی اسلام نے اجازت دی ہے، یہ ہے کہ اس قوم کے خلاف جنگ کی جائے جو اسلام سے جبراًلوگوں کو پھیرے یا اس میں داخل ہو نے سے جبراً باز رکھے اور اس میں داخل ہونے والوں کو صرف اسلام کے قبول کرنے کے جرم میں قتل کرے، اس قوم کے سوا دوسری قوم سے جہاد نہیں ہو سکتا، اگر جنگ ہو گی تو صرف سیاسی اور مُلکی جنگ ہوگی جو دو مسلمان قوموں
۳۷۳ میں بھی آپس میں ہو سکتی ہے.یہ ظالمانہ جنگ جو بعض دفعہ ڈاکے اور خونریزی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتی بد قسمتی سے غیرمذاہب سے مسلمانوں میں آئی ہے ورنہ اسلام میں اس کا نام و نشان تک نہیں تھا اور سب سے زیادہ اس عقیدے کی اشاعت کا الزام مسیحیوں پر ہے جو آج سب سے زیادہ اس کی وجہ سے مسلمانوں پر معترض ہیں.قرون وسطی میں اس حکم کی مذہبی جنگوں کا اس قدر پر کہا تھا کہ سارا یورپ اسی قسم کی جنگوں میں مشغول رہتا تھا اور ایک طرف یہ مسلمانوں کی سرحدوں پر اسی طرح چھاپے مارتے رہے تھے جس طرح آج نیم آزار سرحدی قبائل ہندوستان کی سرحدوں پر حملے کر رہے ہیں اور دوسری طرف یورپ کی ان قوموں پر حملے کر رہے تھے جو اس وقت تک مسیحیت میں داخل نہیں ہوئی تھیں اور ان ظالمانہ حملوں میں خدا تعالی کی خوشنودی سمجھتے تھے.معلوم ہوتا ہے جیسا کہ قاعدہ ہے غصے میں آ کر انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے مسلمانوں نے مسیحیوں کی ان حرکات سے متاثر ہو کر خود بھی انہیں کی طرح چھاپے مارنے شروع کر دیئے ہیں اور اپنے مذہب کی تعلیم کو آخر کار بالکل ہی بھلا بیٹھے ہیں حتی کہ وہ زمانہ آگیا که وی جو ان کے استاد تھے ان پر اعتراض کرنے لگ گئے.مگر افسوس یہ ہے کہ باوجود اعتراضوں کے پھر بھی مسلمان نہیں سمجھتے.آج ساری دنیا میں اسلام کے خلاف ہی بہتھیار استعمال کیا جاتا ہے مگر مسلمانوں کی آن میں نہیں کھاتیں اور دو برابر دشمن کے ہاتھ میں تلوار پڑا رہے ہیں کہ اسے لو اور اسلام پر عملگرو وہ نہیں دیکھتے کہ یہ ظالمانہ جنگیں جن کانام جهاد رکھا جاتا ہے اسلام کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچا رہی ہیں.وہ کو ان کی طاقت ہے جس نے اس ہتھیار کے ذریعے پانی ہو.جنگ میں تعداد کام نہیں آیا کرتی بلکہ بہتر اور انتظام اور تعلیم اور سامان اور جوش اور دوسری قوموں کی بر روی کام آتی ہے.پاش پروئی ہوئی تو میں ان أمور کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتوں کو شکست دے دیتی ہیں اور اگر یہ باتیں نہ ہوں تو بڑے بڑےاگر کبھی کمزور اور بے فائدہ ہوتے ہیں.میں بہتر ہوتا کہ مسلمان اپنی حفاظت کیلئے ان سامانوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے نہ کہ جہاد کے غلط معنی لے کر اسلام کو بدنام کرتے اور خود بھی نقصان اٹھاتے کیونکہ جب لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ کوئی قوم اپنے مذہب کی آڑ میں دنیاوی جنگیں کرتی ہے تو سب اقوام اس کی مخالفت میں اکٹھی ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ اس سے ایک ایا خطرہ محسوس کرتی ہیں جس سے عادل سے عادل حکومت بھی محفوظ نہیں رہ سکتی ہر
۳۷۴ ایک غیرمذہب کی حکومت خیال کر لیتی ہے کہ میں اس سے کتنا ہی اچھا معاملہ کروں مجھے اس سے امن حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی جنگ ظلم یا فساد کی بناء پر نہیں بلکہ مذہب کے اختلاف کی بناء پر ہے.غرض ہم جہادکے منکر نہیں ہیں بلکہ جہاد کے ان غلط معنوں کے مخالف ہیں جن سے اس وقت اسلام کو سخت صدمہ پہنچا ہے اور ہمارے نزدیک مسلمانوں کی ترقی کا راز اس مسئلے کے سمجھنے میں مخفی ہے اگر وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جہاد۱؎ کبیر قرآن کریم کے ذریعہ ہو سکتا ہے ، نہ کہ تلوار سے اور اگر وہ سمجھ لیں کہ مذہب کا اختلاف ہرگز کسی کی جان یا اس کے مال یا اس کی آبرو ۲؎ کو حلال نہیں کر دیتا تو ان کے دلوں میں اسی قسم کے تغیرات پیدا ہو جائیں جن سے خود بخود ان کے سیدھے راستے پرقدم مارنے کی طرف توجہ ہو اور وہ لَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى ۚ وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ o(سورہ البقرہ آیت -190)کے ارشاد پر عمل کرکے ترقی کے صحیح اصول کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں.اے بادشاہِ افغانسان! جس طرح آ پ کے نام میں امان کی طرف اشارہ ہے اسی طرح خدا کرے کہ آپ کے ذریعہ سے ملک افغانستان اور سرحدوں پر امن قائم ہو.میں نے اصولی طورپر آپ کو جماعت احمدیہ کے عقائد اور ان پرجو اعتراض کئے جاتے ہیں اور ان کے جو جواب ہیں، بتا دئیے ہیں اور اب میں چاہتا ہوں کہ مختصر اً بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمدصاحبؑ کے دعوے اور اس کے دلائل کے متعلق بھی کچھ بیان کروں.تا اللہ تعالیٰ کے سامنے سُرخرو ٹھہروں کہ میں نے اس کا پیغام آپ کو پہنچا دیا تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کے منشاء پر اطلاع پا کر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریںاور اللہ تعالیٰٰ کے فضلوں کے وارث ہوں اور اس کی محبت کو جذب کریں.
۳۷۵ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسَّلام کا دعویٰ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلق اللہ کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور یہ کہ آپ وہی مسیح ہیں جن کا ذکر احادیث میں آتا ہے اور وہی مہدی ہیں جن کا وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دیا گیا ہے اور آپ ان تمام پیشگوئیوںکے پورا کرنے والے ہیں جو مختلف مذاہب کی کتب میں ایک مصلح کی نسبت جو آخری زمانے میں ظاہر ہو گا مذکور ہیں اور یہ کہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نصرت اور تائید کے لئے بھیجاہے اور قرآن کریم کا فہم آپؑ کو عنایت کیا ہے اور اس کے معارف اور حقائق آپ پر کھولے ہیں اور تقویٰ کی باریک راہوں پر آپ کو آگاہ کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان اور عظمت کے اظہار کا کام آپ کے سُپرد کیا ہے اوراسلام کو دیگر ادیان پر غالب کرنے کی خدمت آپؑ کو سونپی ہے اور آپ کو اس لئے دُنیا میں بھیجا ہے تا کہ دُنیا کو بتائے کہ وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے اور لوگوں کا ان سے دُور رہنا اور غافل رہنا اسے پسند نہیں.اسی طرح آپ کا یہ دعویٰ تھا کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ ساری دنیا کو آپ کے ہاتھ پر جمع کرے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام ادیان کے گزشتہ بزرگوں کی زبان سے آخری زمانے میں اسی مذہب کے ایک گزشتہ نبی کی دوبارہ بعثت کی پیشگوئی کرادی تھی تا کہ قومی منافرت خاتم النبیّین علیہ السلام پر ایمان لانے میں روک نہ ہو.ان پیشگوئیوں میں درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی مأمور کی خبر دی گئی تھی تا اس کے ذریعے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق ہو کر تمام ادیان آپ کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں.چنانچہ یہ سب پیشگوئیاں آپ کے وجود سے پوری ہو گئیں اور آپ مسیحیوں اور یہودیوں کے لئے مسیح‘ زردشتیوں کے لئے مسیودربہمی اور ہندوؤں کے لئے کرشن کے مثیل ہو کر نازل ہوئے تا تمام اہلِ مذاہب پر انہیں کی کتب سے آپ کی صداقت ثابت ہو اور پھر آپ کے ذریعے سے اسلام کی صداقت معلوم ہو کر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقۂ غلامی میں باندھے
۳۷۶ جائیں.آپ کے دعوے کے دلائل آپ کے دعوے کومختصر الفاظ میں بیان کر دینے کے بعد میں اصولاً اس امر کے متعلق کچھ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک مامور من اللہ کے دعوے کی صداقت کے کیا دلائل ہوتے ہیں اور پھر یہ کہ ان دلائل کے ذریعے سے آپ کے دعوے پر کیا روشنی پڑتی ہے کیونکہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک شخص فی الواقع مامور من اللہ ہے اور اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے تو پھر اجمالاًاس کے تمام دعاوی پر ایمان لانا واجب ہو جاتا ہے کیونکہ عقل سلیم اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کا مأمور بھی ہو اور لوگوں کو دھوکا دیکر حق سے دُور بھی لے جاتا ہو، اگر ایسا ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے علم پر ایک سخت حملہ ہو گا اور ثابت ہو گا کہ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک اس نے اپنے انتخاب میں سخت غلطی کی اور ایک ایسے شخص کو اپنا مأمور بنا دیا جو دل کا ناپاک اور گندہ تھااور بجائے حق اور صداقت کی اشاعت کے اپنی بڑائی اور عزت چاہتا اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر اپنے نفس کو مقدم کرتا تھا.علاوہ اس کے کہ یہ عقیدہ عقل سلیم کے خلاف ہے قرآن کریم بھی اس کو باطل کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُوْنُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللہِ وَلٰـکِن کُوْنُواْ رَبَّانِیّٖنَ بِمَا کُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْکِتَابَ وَبِمَا کُنتُمْ تَدْرُسُوْنَ o وَلَا یَأْمُرَکُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَئِکَۃَ وَالنَّبِیّٖنَ أَرْبَاباً أَیَأْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُوْنَo(آل عمران آیت ۸۱-۸۰)یہ نہیں ہو سکتاکہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ کتاب اور حکم اور نبوت دیکر بھیجے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ بسبب اس کے کہ تم اللہ تعالیٰٰ کا کلام لوگوںکو سکھاتے اور پڑھتے ہو اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا آدمی لوگوں سے یہ کہے کہ فرشتوں یا نبیوں کو ربّ سمجھ لو کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ وہ کوشش کر کے لوگوں کو مسلمان بنائے اور پھر ان کو کافر کر دے.غرض اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مدعی مأمور یت فی الواقع سچا ہے یا نہیں؟ اگر اس کی
۳۷۷ صداقت ثابت ہو جائے تو اس کے تمام دعاوی کی صداقت بھی ساتھ ہی ثابت ہو جاتی ہے اور اگر اس کی سچائی ہی ثابت نہ ہو تو اس کے متعلق تفصیلات میں پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہوتا ہے.پس میں اسی اصل کے مطابق آپ کے دعوے پر نظر کرنی چاہتاہوں.تا جناب والا کو ان دلائل سے مختصراً آگاہی ہو جائے جن کی بناء پر آپؑ نے اس دعوے کو پیش کیا ہے اور جن پر نظرکرتے ہوئے لاکھوں آدمیوں نے آپکو اس وقت تک قبول کیا ہے.پہلی دلیل ضرورت ِزمانہ سب سے پہلی دلیل جس سے کسی مأمور کی صداقت ثابت ہوتی ہے وہ ضرورت زمانہ ہے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ بے محل اور بے موقع کوئی کام نہیں کرتا.جب تک کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اسے نازل نہیں کرتا اور جب کسی چیز کی حقیقی ضرورت پیدا ہو جائے تو وہ اسے روک کر نہیں رکھتا انسان کی جسمانی ضروریات میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے مہیا نہ کیا ہو.چھوٹی سے چھوٹی ضرورت اس کی پوری کردی ہے.پس جبکہ دنیاوی ضروریات کے پورا کرنے کا اس نے اس قدر اہتمام کیا ہے تو یہ اس کی شان اوراس کی رفعت کے منافی ہے کہ وہ اس کی روحانی ضروریات کو نظر انداز کر دے اور ان کے پورا کر نے کے لئے کوئی سامان پیدا نہ کرے حالانکہ جسم ایک فانی شے ہے اور اس کی تکالیف عارضی ہیں اور اسکی ترقی محدود ہے اور اس کے مقابلے میں انسانی روح کے لئے ابدی زندگی مقرر کی گئی ہے اور اس کی تکالیف ایک ناقابلِ شمار زمانے تک ممتد ہو سکتی ہیں اور اس کی ترقی کے راستے انسانی عقل کی حد بندی سے زیادہ ہیں جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی صفات پر اس روشنی کی مدد سے نظر ڈالے گا جو قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہے وہ کبھی اس بات کو باور نہیں کرے گا کہ بنی نوع انسان کی روحانی حالت تو کسی مصلح کی محتاج ہو لیکن اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے کوئی ایسا سامان نہ کیا جائے جس کے ذریعے سے
۳۷۸ اس کی احتیاج پوری ہو سکے اگر ایسا ہو تو انسان کی پیدائش ہی لغو ہو جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o وَمَا خَلَقْنٰھُمَا اِلاَّ بِالْحَقِّ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ ھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ o(یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونو کے درمیان جو کچھ ہے اس کو یوں ہی بلا وجہ بطور کھیل کے نہیں پیدا کیا بلکہ ہم نے اسے غیر متبدل اصول کے ماتحت پیدا کیا ہے ، لیکن اکثر لوگ اس بات سے ناواقف ہیں.پس حقیقت یہی ہے کہ جب کبھی بھی بنی نوع انسان کی روحانی حالت گر جاتی ہے ور کسی مصلح کی محتاج ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایک مصلح بھیج دیتا ہے جو لوگوں کو راہ راست کی طرف لاتا ہے اور ان کی اندرونی کمزوری کو دور کرتا ہے.گو اللہ تعالیٰ کی صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات عقلاً بھی نا ممکن ہوتی ہے کہ ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو لا وارث چھوڑ دے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں صراحتًا بھی بیان فرما دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ عِنْدَناَ خَزَآئِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(الحجر آیت -۲۲)ہر ایک چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اسے نازل نہیں کرتے مگر خاص اندازوں کے ماتحت.یعنی ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰٰ ضرورت کے ماتحت نازل کرتا ہے نہ اس کے کام بے حکمت ہیں کہ بِلا ضرورت کسی چیز کو ظاہر کرے اور نہ اس کے ہاتھ تنگ ہیں کہ ضرورت پر بھی ظاہر نہ کر سکے.اور اسی طرح فرماتا ہے وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہٗ ط وَاِنْ تَعُدُّ وْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْ ھَا (ابراہیم آیت -۳۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر وہ چیز جو تم نے مانگی تم کو عنایت کردی ہے.اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے.اس آیت میں مانگنے سے مراد حقیقی ضرورت ہی ہے.کیونکہ ہر چیز جسےبندہ مانگتا ہے اسے نہیں مل جاتی، مگر یہ ضرور ہے کہ ہر ایک حقیقی ضرورت جس کی طرف احتیاج انسان کی فطرت میں رکھی رگئی ہے یا ہر احتیاج جس کا اثر انسان کی غیر محدود زندگی پرپڑ تا ہے اس کے پورا ہونے کا سامان اللہ تعالیٰٰ ضرور کرتا ہے.یہ تو عام قانون ہے مگر ہدایت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ فرماتا ہے کہ جب اس کے بندے ہدایت کے محتاج ہوں تو وہ ضرور ان کے لئے ہدایت کے سامان مہیا کر تا ہے بلکہ اس نے یہ کام اپنے ہی سپرد کر رکھا ہے دوسرے کو اس میں شریک ہی نہیں کیا چنا نچہ فرماتا ہے اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی(اللیل آیت -۱۳)بندوںکو ہدایت دینا ہم نے اپنے اوپر فرض کر چھوڑا ہے اور اس کا م
۳۷۹ کا انصرام اپنی ہی ذات کے متعلق وابستہ رکھا ہے.قرآن کریم ضرورت زمانہ کے مطابق لوگوں کی ہدایت کے سامان پیدا کرنے کو نہ صرف واجب ہی قرار دیتا ہے بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایساانتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بندوں حق ہوتا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پراعتراض کرتے کہ جب اس نے ان کے پاس ہادی نہیں بھیجے تووہ ان سے جواب کیوں طلب کرتا ہے اور ان کو عذاب کیوں دیتا ہے.چنا نچہ سورہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَوْ أَنَّا أَہْلَکْنَاہُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِہِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَیْْنَا رَسُولاً فَنَتَّبِعَ آیَاتِکَ مِنْ قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزٰی یعنی اگر رسول کی بعثت سے پہلے ہم ان پر عذاب نازل کردیتے تو یہ ہم پر اعتراض کرتے کہ جب ہم گمراہ تھے اور ہدایت کے محتاج تھے تو تُونے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی تیرے احکام کو قبول کر لیتے اور اللہ تعالیٰٰ ان کے اس اعتراض کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا رد نہیں کرتا بلکہ اس مضمون کو قرآن کریم کے متعدد مقامات پر بیان کر کے اس کی اہمیت کو ثابت فرماتا ہے.اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرورت کے موقع پر ہادی بھیجے بغیر عذاب نازل کر نے کو ظلم قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے.یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِیْ وَیُنذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہَـذَا قَالُوْا شَہِدْنَا عَلَی أَنفُسِنَا وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَنَّہُمْ کَانُواْ کَافِرِیْنَoذَلِکَ أَن لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَأَہْلُہَا غَافِلُونَo(اے جنوں اور انسانوں کی جماعتو! کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں ہمارے احکام پڑھ پڑھ کر سناتے تھے اور تم پر جو یہ دن آنے والا تھا اس سے تمہیں ڈراتے تھے.انہوں نے کہاہم اپنے خلاف آپ گواہی دیتے ہیں اور انہیں ورلی زندگی نے دھوکا دے دیا اور انہوں نے اپنے خلاف آپ گواہی دے دی کہ وہ کافر تھے.یہ (رسولوں کا بھیجنا اور کفار پر حجت قائم کرنا) اس لئے کیا کہ تیرا خدا شہروں کو اس حالت میں کہ لوگ غافل تھے، ظالمانہ طور پر ہلاک نہیں کر سکتا تھا.ان آیات کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا ہوشیار کر دینے کے کسی قوم پر حجت قائم کر دینا اور اس کی ہلا کت کا فتویٰ لگا دینا ظلم ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی قوم ہدایت کی محتا ج ہو اور اللہ تعالیٰٰ اس کے لئے ہادی نہ بھیجے ، لیکن قیامت کے دن اسے سزا دیدے کہ تم
۳۸۰ نے کیوں احکام الٰہی پر عمل نہیں کیا تھا تو یہ ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ ظالم نہیں، پس ممکن نہیں کہ لوگ ہدایت کے محتاج ہوں لیکن وہ ان کی ہدایت کا سامان نہ کرے.پیچھے جو مضمون گزرا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی رو سے جب کسی زمانے کے لوگ ہدایت کے محتا ج ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کا سامان پیدا کرتا رہتا ہے ، لیکن قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عام قاعدے کے علاوہ امت محمدیہ سے اس کا ایک خاص وعدہ بھی ہے وہ یہ ہے.اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجرآیت أ۱۰) ہم نے ہی اس تعلیم کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.اب حفاظت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو حفاظت ظاہری اور ایک حفاظت معنوی.جب تک دونوں قسم کی حفاظت نہ ہو کوئی چیز محفوظ نہیں کہلا سکتی،مثلاً اگر ایک پرندے کی کھال اور چونچ اور پاؤں محفوظ کر لئے جائیں اور اس میں بھُس بھر کر رکھ لیا جائے تو وہ پرندہ زمانے کے اثر سے محفوظ نہیں کہلا ئے گا.اسی طرح اگر اس کی چونچ ٹوٹ جائے، پاؤں شکستہ ہو جائیں بال نُچ جائیں تو وہ بھی محفوظ نہیں کہلا سکتا، ایک کتاب جس کے اندر لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ عبارتیں زائد کر دی ہوں یا اس کی بعض عبارتیں حذف کردی ہوں یا جس کی زبان مُردہ ہوگئی ہو اور کوئی اس کے سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتا ہو، یا جو اس غرض کے پورا کرنے سے قاصر ہوگئی ہو جس کے لئے وہ نازل کی گئی تھی محفوظ نہیں کہلا سکتی، کیونکہ گو اس کے الفاظ محفوظ ہیں مگر اس کے معانی ضائع ہوگئے ہیں اور معانی ہی اصل شے ہیں.الفاظ کی حفاظت بھی صرف معنی کی حفاظت ہی کے لئے کی جاتی ہے.پس قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اس کے الفاظ اور اس کے مطالب دونوں کی حفاظت ہے.اس وعدے کے ایک حصے کو پورا کرنے کے یعنی قرآن کریم کی ظاہری حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو سامان کئے ہیں ان کا مطالعہ انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے جب تک قرآن کریم نازل نہ ہوا تھا، نہ عربی زبان مدوّن ہوئی تھی ، نہ اس کے قواعد مرتب ہوئے تھے نہ لغت بھی نہ محاورات کا حاطہ کیا گیاتھا، نہ معانی اور بیان کے قواعد کا استخراج کیا گیا تھا اور نہ تحریر کی حفاظت کا سامان ہی کچھ موجود تھا.مگر قرآن کریم کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے مختلف لوگوں کے دلوں میں القاء کر کے ان سب علوم کو مدون کروایا اور صرف قرآن کریم ہی کی حفاظت کے خیال سے علم صرف و نحو اور علم معانی و بیان اور علم تجوید اورعلم لغت اور علم محاورہ زبان اور
۳۸۱ علم تاریخ اور علم قواعد، تدوین تاریخ اور علم فقہ وغیرہ علوم کی بنیاد پڑی اور ان علوم نے اسی قدر زیادہ ترقی حاصل کی جس قدر کہ ان علوم کی حفاظت کا قرآن کریم سے تعلق تھا، چنانچہ ظاہری علوم میں سے صرف و نحو اور لغت کا تعلق حفاظت قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور ان علوم کو اس قدر ترقی حاصل ہوئی ہے کہ یورپ کے لوگ اس زمانے میں بھی عربی صرف و نحواور لغت کو سب زبانوں کی صرف و نحو اور لغت سے اعلیٰ اور زیادہ مدون خیال کرتے ہیں.ان علوم کی ترقی کے علاوہ حفاظت قرآن کریم کے لئے ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے دل میں حفظِ قرآن کی خواہش پیدا کر دی گئی اور اس کی عبارت کو ایسا بنایا گیا کہ نہ نثر ہے نہ شعر جس سے اس کا یاد کرنا بہت ہی آسان ہوتا ہے.ہر شخص جسے مختلف قسم کی عبارتوں کے حفظ کرنے کا موقع ملا ہے جانتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کا حفظ کرنا سب عبارتوں سے زیادہ سہل اور آسان ہوتا ہے غرض ایک طرف اگر قرآن کریم ایسی عبارت میں نازل کیا گیا ہے کہ اس کا حفظ کرنا نہایت آسا ن ہوگیا ہے تو دوسری طرف لاکھوں آدمیوں کے دل میں اس کے حفظ کر نے کی خواہش پید اکر دی گئی ہے اور نمازوں میں قرآن کریم کی تلاوت فرض کر کے ہر مسلمان کے ذمے اس کے کسی نہ کسی حصے کی حفاظت مقرر کر دی گئی ہے حتیٰ کہ اگر قرآن کریم کے سب نسخوں کو بھی نعوذ باللہ من ذالک کوئی دشمن تلف کر ڈالے تب بھی قرآن کریم دنیا سے مٹ نہیں سکتا.یہ چند مثالیں جو میں نے بیان کی ہیں اس امر کے ثابت کر نے کے لئے کافی ہیں کہ قرآن کریم کی حفاظت ظاہری کے لئے اللہ تعالیٰٰ نے بہت سے ذرائع پیدا کر دئیے ہیں جن کی موجود گی میں اس کا ضائع ہو جانا بالکل نا ممکن ہو گیا ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب الفاظ کی حفاظت کے لئے جو مقصود با لذات نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے اس قدر سامان مہیا کئے تو کیا ممکن ہے کہ وہ معانی کو یونہی چھوڑ دے اور ان کی حفاظت نہ کرے؟ ہر شخص جو عقل ودانش سے کام لینے کا عادی ہے اس سوال کا یہی جواب دے گا کہ نہیں یہ بات ممکن نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰٰ نے ظاہری حفاظت کا سامان کیا ہے تو باطنی حفاظت کا سامان اس سے کہیں زیادہ ہوگا اور یہی بات درست ہے.آیۂ کریم اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ میں دونوں ہی قسم کی حفاظت کا ذکر ہے.لفظی بھی اور معنوی بھی اور معنوی حفاظت کاسب سے بڑا جزویہ ہے کہ جب لوگ ہدایت قرآنیہ سے دور ہوجائیں اور قرآن کریم
۳۸۲ کا نور سمٹ کر الفاظ میں آجائے اور لوگوں کے قلوب اس کے اثر اور تصرف سے خالی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰٰ اپنے پاس سے ایسے سامان پیدا کرے جن کے ذریعے سے اس کے اثر کو پھر قائم کرے اور اس کے معانی کو پھر ظاہر کرے اور ایک قصے کو مردنی حالت سے نکال کر ایک کامیاب نسخے کی زندگی اور تازگی بخشے.چنانچہ ان معنوں کی احادیث صحیحہ سے بھی تصدیق ہوتی ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّ اللہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُلَھَا دِیْنَھَا ۱؎ (ابوداؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی المائۃ)اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر ضرور ایسے آدمی کھڑے کرتا رہے گا جو اس کے دین کی اس کے فائدہ اور نفع کے لئے تجدید کرتے رہیں گے.یہ حدیث در حقیقت اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْن َکی تفسیرہے اور آیت کے مضمون کے ایک حصے کو عام فہم الفاظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیا ہے تا کہ ظاہر پرست اور کم فہم لوگ اس آیت کے معانی کو صرف ظاہر پر محمول نہ کریں اور دین اسلام کی حفاظت کے ایک زبردست ذریعے کو نظر اندازکر کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے ٹھو کر کا موجب نہ ہوں.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بعثت کا وقت جو ان مفاسد کی اصلاح کے لئے آویں گے اور جو قرآن کریم کے مطالب اور معانی نہ سمجھنے سے اور کلام الٰہی سے دور ہو جانے کی وجہ سے پیداہوں گے، صدی کا سر ہوگا.گویا قرآن کریم کی حفاظت کے لئے قلعوں کی ایسی زنجیر بنا دی گئی ہے کہ کبھی بھی اسلام ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہ سکتا جو یا تو کسی مجدد کے صحبت یافتہ ہوں یا صحبت یافتوں کے صحبت یافتہ ہوں اور اس طرح وہ خرابی جو دیگر تما م ادیان میں پیدا ہوچکی ہے کہ ان کا مطلب بگڑ کر کچھ کا کچھ ہوگیا ہے اس سے اسلام بالکل محفوظ ہے اور وعدے کے مطابق بالکل محفوظ رہے گا.خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱)طبعی یا روحانی ضروریات انسان کی اللہ تعالیٰ ضرور پوری کرتا ہے خصوصاً روحانی ضروریات کو جو بوجہ اپنے وسیع اثر اور بڑی اہمیت کے طبعی ضروریات پر مقدم ہیں اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے تو پیدائش عالم کا فعل لغو ہو * وقد اتفق الحافظ على تصحيح هذا الحدیث منهم الحكم في المستدرک والبيهقي في المدخل.
۳۸۳ جائے.(۲) یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا وعدہ بھی کیا ہے کہ جب بندہ ہدایت کا محتاج ہوگا تو وہ اسے ہدایت دے گا.(۳) اگر وہ ایسانہ کرے تو بندے کا حق ہے کہ اس کے فعل پر اعتراض کرے(۴) اگر وہ ضرورت کے وقت ہدایت نہ بھیجے اور لوگوں کو سزا دے جو گمراہ ہوگئے ہوں، تو یہ ظلم ہو گا اور خدا ظالم نہیں (۵) مسلمانوں کی اصلاح کے لئے اس قسم کے آدمی ہمیشہ بھیجتے رہنے کا جو مطالب قرآنیہ کی حفاظت کر نے والے ہوں ، خاص طور پر وعدہ ہے(۶)احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کم سے ہر صدی کے سر پر ضرور ظاہر ہوں گے.اے بادشاہِ افغانستان! اب اللہ تعالیٰ آپ کے سینے کو اپنی باتوں کے قبول کر نے کے لئے کھول دے! آپ غورفرمائیں کہ کیا اس وقت زمانہ کسی مصلح ربانی کا محتاج نہیں ہے یا نہیں ؟ احادیث تو یہ بتاتی ہیں کہ عام طور پر ایک صدی کے سر پر اس قسم کی احتیاج ضرور پیدا ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے کوئی شخص مبعوث ہو کر مطالب قرآنیہ بیان کرے اور دین اسلام کی صحیح حقیقت لوگوں پر آشکار کرے اور اس وقت صدی کا سر چھوڑ کر صدی نصف کے قریب گزر چکی ہے ، لیکن ہم ان احادیث کوبھی نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف واقعات کو دیکھتے ہیں کہ کیا اس وقت کسی مصلح کی ضرورت ہے یا نہیں.اگر اس وقت مسلمانوں اور دیگر اقوام کی حالت ایسی عمدہ ہے کہ وہ کسی ربانی مصلح کی محتاج نہیں تو ہمیں کسی مدعی کے دعوےپر کان دھرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر اس کے برعکس مسلمان کی حالت پکا رپکار کرکہہ رہی ہو کہ اگر اس وقت کسی مصلح کی ضروت نہیں تو پھر کبھی بھی کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہوئی ، یا اگردشمنان اسلام کی دشمنی اور اسلام کے مٹانے کی کوشش حد سے بڑھی ہوئی ہو تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آنا چاہئے جو اسلام کو پھر اس کی اصلی شکل میں پیش کر کے دشمنان اسلام کے حملوں کو پسپا کرے اور مسلمانوں کو سچا اسلام سمجھا کر اور ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کرکے اسلام کی قوت احیاء کو ظاہر کرے.ان سوالوں کے جواب کہ اس وقت مسلمانوں کی حالت کیسی ہے اور ان کے دشمنوں کی چِیرہ دستی کس حد تک بڑھی ہوئی ہے، میرے نزدیک دو نہیں ہو سکتے، ہر ایک شخص جو کسی خاص مصلحت کو مد نظر رکھ کر حقیقت کو چھپانانہیں چاہتا یا انسانیت سے اس قدر دور نہیں ہو گیا کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا، اس امر کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس وقت مسلمان عملاً اور عقیدتاً اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہیں اور اگر کسی زمانے کے
۳۸۴ لوگوں کے حق میں یہ آیت لفظاً لفظاً صادق آسکتی ہے کہ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًاo(الفرقان آیت -۳۱)تو وہ اس زمانے کے لوگ ہیں.آج یہ سوال نہیں رہا کہ لوگوں نے کونسی بات اسلام کی چھوڑی ہے بلکہ سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اسلام کی کونسی بات مسلمانوں میں با قی رہ گئی ہے.کسی نے سچ کہاہے کہ’’ مسلمان در گورو مسلمانی در کتاب‘‘.اسلام کا نشان صرف قرآن کریم اور احادیث صحیحہ اور کتب آئمہ میں ملتا ہے.اس کا نشان لوگوں کی زندگیوں میں کہیں نہیں ملتا.اول تو لوگ تعلیم اسلام سے واقف ہی نہیں اور اگر واقف ہونا بھی چاہیں تو ان کے لئے اسلام سے واقف ہونا قریباً نا ممکن ہو گیا ہے.کیونکہ اسلام کی ہر چیز ہی مسخ کر دی گئی ہے.اللہ تعالیٰٰ کی پاک ذات کے متعلق ایسے عقائد تراشے گئے ہیں کہ جن کو تسلیم کر کے سُبحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ(بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالٰی وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ)زبان سے نکالنا ایک راستباز انسان کے لئے مشکل ہے.ملائکہ کی نسبت ایسی باتیں بنائی گئی ہیں کہ الامان! وہ ہستیاں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o (سورۃ النحل آیت.۵۱)کہیں ان کو خدا پر اعتراض کرنے والا قرار دیا جاتا ہے.کہیں انسانی بھیس میں اتار کر ناپاک عورتوں کا عاشق بنایا جاتا ہے.نبیوں کی طرف جھوٹ اور گناہ کی نسبت کر کے ان کی ذات سے جو رشتہ محبت ہونا چاہئے ، اسے ایک ہی وار سے کاٹ دیا جاتا ہے اور کلام الٰہی کو شیطانی دست بُرد کا شکار بنا کر اسے بالکل ہی ساقط از اعتبار کر دیا جاتا ہے.شراب اور جنت اور دوزخ کی وہ کیفیت بیان کی جاتی ہے کہ یا تو یہ عقائد شاعرانہ نازک خیالی بن جاتے ہیں یا پھر عجیب مضحکہ خیز کہا نیاں ہو جاتے ہیں.دوسرےانبیاء تو خیر دور کے لوگ تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کہیں زینب کی محبت کا قصہ اور کہیں چوری چوری ایک لونڈی سے تعلق کر نے کا واقعہ اور اس قسم کے اور بعید از اخلاق واقعات کو منسوب کر کے آپؐ کی کامل اور حامل اخلاق فاضلہ ذات کو بد شکل کرکےدکھا یا جاتا ہے اور کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰنُ(مجمع البحار مؤلفہ شیخ محمد طاھر جلد۱ صفحہ ۳۷۲ ، مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۹۱)کی اس شہادت کو جو آپؐ کی سب سے زیادہ محرمِ راز(حضرت عائشہ ؓ) کی شہادت ہے، نظر انداز کیا جاتا ہے.نسخ کا مسئلہ ایجاد کر کے اور قرآن کریم جیسی کامل کتاب میں اپنے دل سے اختلاف نکال کر اس کی بہت سی آیات کو بلا شارع کی نص کے منسوخ قرار دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک فکر کرنے والے آدمی کے لئے اس کی کوئی آیت بھی قابل عمل اور قابل اعتبار باقی نہیں چھوڑی جاتی.ایک وفات یافتہ موسوی نبی کو واپس لا کر امتِ محمدیہ کی ناقابلیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
۳۸۵ کی بے کسی کا اظہار کیا جاتا ہے.یہ تو عقائد کا حال ہے، اعمال کی حالت بھی کچھ کم قابل افسوس نہیں.پچھتر ۷۵ فی صدی نماز روزہ کے تارک ہیں، زکوٰۃ اول تو لوگ دیتے ہی نہیں اور جو دیتے ہیں ان میں سے جو اپنی خوشی سے دیتے ہوں وہ شاید سو ۱۰۰میں سے دو نکلیں.حج جن پر فرض ہے وہ اس کا نام نہیں لیتے اور جن کے لئے نہ صرف یہ کہ فرض نہیں بلکہ بعض حالات میں ناجائز ہے وہ اپنی رسوائی اور اسلام کی بدنامی کرتے ہوئے حج کے لئے جا پہنچتے ہیں اور جو تھوڑے بہت لوگ ان اعمال کو بجا لاتے ہیں وہ اس طرح بجا لاتے ہیں کہ بجائے ان احکام کی اصل غرض پوری ہونے کے ان کے لئے تو شاید وہ احکام موجب لعنت ہو تے ہوں گے، دوسروں کے لئے بھی باعث ذلت ہوتے ہیں، نماز کا ترجمہ تو عربی بولنے والے ملکوں کے سوا شاید ہی کوئی جانتا ہو، مگر وہ بے معنے نماز بھی جو لوگ پڑھتے ہیں ، اسے اس طرح چٹی سمجھ کر پڑھتے ہیں کہ رکوع اور سجدے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنا تو کفر ہی سمجھا جانے لگا ہے.روزہ اول تو لوگ رکھتے نہیں اور جو لوگ رکھتے ہیں تو جھوٹ اور غیبت سے بجائے موجب ثواب ہونے کے وہ ان کے لئے موجب عذاب ہوتا ہے.ورثہ کے احکام پسِ پشت دالے جاتے ہیں.سود جس کا لینا خدا سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے ، علماء کی مدد سے ہزاروں حیلوں اور بہانوں کے ساتھ اس کی وہ تعریف بنائی گئی ہے اور اس کے لئے ایسی شرائط لگا دی ہیں کہ اب شاید ہی کوئی سود کی لعنت سے محفوظ ہو، مگر باوجود اس کے مسلمانوں کو رفاہت اور دولت حاصل نہیں جو غیر اقوام کو حاصل ہے.اخلاقِ فاضلہ جو کسی وقت مسلمانوں کا ورثہ اور ان کا حق سمجھے جاتے تھے اب مسلمانوں سے اس قدر دور ہیں جس قدر کُفر اسلام سے.کسی زمانے میں مسلمانوں کا قول نہ ٹلنے والی تحریر سمجھا جاتا تھا اور اس کا وعدہ ایک نہ بدلنے والا قانون ، مگر آجکل مسلمان کی بات سے زیادہ کوئی اور غیر معتبر قول نہیں ملتا اور اس کے وعدے سے زیادہ اور کوئی بے حقیقت شے نظر نہیں آتی.وفا بے نام ہوگئی.راستی کھوئی گئی.حقیقی جرأت مٹ گئی.غداری جھوٹ ، خیانت اور بزدلی اور تہوّر نے اس کی جگہ لے لی.نتیجہ یہ ہوا کہ سب دنیا دشمن ہے.تجارتیں تباہ ہو گئی ہیں ، رُعب مٹ گیا ہے.علم جو کسی وقت مسلمانوں کا رفیق تھا اور ان کی رکاب ہاتھ سے نہ چھوڑتا تھا آج ان سے کوسوں دور بھاگتا ہے.
۳۸۶ دعوۃالامیر صوفیاء کا حال خراب ہے.وہ دین کو بے دینی اور قانون کو اباحت بنا رہے ہیں، علامء شقاق و مخالفت پھیلا نے کے علاوہ اپنے اقوال کو خدا اور رسول کے اقوال ظاہر کر کے اسلام اور مسلمانوں کی جڑیں کا ٹنے میں مشغول ہیں.امراء گو دوسری اقوام کے امراء کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے، مگر پھر بھی اپنی تھوڑی سی پونجی اور دولت پر اس قدر مغرور ہیں کہ دین سے ان کا کوئی سروکار ہی نہیں، دینی کاموں میں حصہ لینا تو در کنار ، ان کے دلوں میں دین کا ادب تک باقی نہیں رہا.یورپ کے امراء میں مسیحیت کے مبلغ مل سکتے ہیں مگر مسلمان امراء میں دین کے ابتدائی مسائل جاننے والے بھی بہت کم ملیں گے ، حکام کا یہ حال ہے کہ رشوت ستا نی اور ظلم ان کا شیوہ ہے، وہ حکومت کو خدمت کا ایک ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ خدائی کا کوئی جزو خیال کرتے ہیں.بادشاہ اپنی عیاشی میں مست ہیں اور وزراء غدّاری اور خیانت میں.عوام الناس وحشیوں سے بد تر ہو رہے ہیں اور لاکھوں ہیں جو ترجمہ جاننا تو الگ رہا کلمہ تو حید اور کلمۂ رسالت کے الفاظ تک منہ سے ادا نہیں کر سکتے.وہ اسلام جو ایک اژدھے کی طرح دیگر ادیان کو کھاتا جارہا تھا آج وہ مردہ کی طرح پڑا ہے اور کتے اور چیلیں اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، اپنے کاموں اور اپنی ضروریات کے لئے سب کو روپیہ مل جاتا ہے مگر دین کی ضروریات اور اس کی اشاعت کے لئے ایک پیسہ نکالنا دو بھر ہے.بیہودہ بکواس اور لطیفہ گوئیوں اور دوستوں کی مجالس مقرر کر نے کے لئے کافی وقت ہے مگر خدا کا کلام پڑھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچا نے کے لئے ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز نہ پڑھنے والے کو نہیں، جماعت میں نہ شریک ہونے والے کو نہیں بلکہ صرف عشاء اور صبح کی جماعت میں شریک نہ ہونے والے کو منافق قرار دیتے ہیں اور باوجود رحم مجسم ہونے کے فرماتے ہیں وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ اٰمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبُ ثُمَّ اٰمُرَ بِا لصَّلٰوۃِ فَیُؤَذَّنُ لَھَا ثُمَّ اٰمُرَ رَجُلاً فَیَؤُمُّ النَّاسَ ثُمَّ اُخَالِفَ اِلٰی رِجَالٍ فُاُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ (بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلوٰۃ الجماعۃ)مجھے اسی خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرا دل چاہتا ہے کہ لکڑیاں اکٹھی کروں، پھر نماز کے لئے اذان کا حکم دوں پھر اپنی جگہ کسی اور کو امام مقرر کروں پھر ان لوگوں کے گھروں پر جا کر جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے مکینوں سمیت مکانوں کو جلادوں، لیکن آج مسجد میں قدم رکھنا تو بڑی بات ہے عیدین کے سوا کروڑوں مسلمانوں کو نماز کی ہیفرصت نہیں ملتی اور اِن میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو بلا شروط نماز کے پورا کرنے کے محض دکھاوے کے لئےنمازشروع
۳۸۸ دعوۃالامیر کر دیتے ہیں اور وضو کے مسائل تک سے بھی واقف نہیں ہوتے.خلاصہ کلام یہ کہ اسلام آج لاوارث ہو رہا ہے ، ہر ایک کا کوئی نہ کوئی وارث ہے اور اس کا کوئی وارث نہیں.بالفاظِ امام الزمان مسیح موعود ؔ ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی حالت ان دنو ں یہ ہے:.مے سزد گوخوں ببارد دیدہ ہر اہل دین بر پریشاں حالی اسلام قحط المسلمیں دین حق را گردش آمد صعبناک و سہمگیں سخت شورے اوفتاد اندر جہاں از کفر وکیں آنکہ نفسِ اوست از ہر خیر و خوبی بے نصیب مے تراشہ عیب ہا در ذات خیر المرسلیں آنکہ در زندان ناپاکی ست محبوس و اسیر ہست درشان امام پاکبازان نکتہ چیں تیر بر معصوم مے بارد خبیث بد گُہر آسماں را مے سزد گر سنگ بارد بر زمیں پیش چشمان شما اسلام درخاک اوفتاد چیست عذرے پیش حق اے مجمع المتنعّمین ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید دینِ حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین مردم ذی مقدرت مشغول عشرتہائے خویش خرم و خنداں نشستہ بابُتانِ نازنیں عالماں را روز و شب باہم فساد از جوشِ نفس زاہداں غافل سراسر از ضرورت ہائے دیں ہر کسے از بہر نفسِ دونِ خود طرفے گرفت طرفے دیں خالی شدو ہر دشمنے جست از مکیں ایں زمانے آنچناں آمد کہ ہر ابنُ الجہُول از سفاہت می کند تکذیب ایں دین متیں صد ہزاراں ابلہاں ازدیں بروں و برند رخت صد ہزاراں جاہلاں گشتند صید الماکریں بر مسلماناں ہمہ ادبار زیں رہ اوفتاد کز پئے دیں ہمتِ شاں نیست باغیرت قریں گر بگردد عالمے از راہِ دینِ مصطفےٰ ؐ ازرہِ غیرت نمی جنبند ہم مثلِ جنیں فکر ایشاں غرق ہر دم دررہِ دنیائے دوں مالِ ایشاں غارت اندر راہ نسوان وبنیں ہر کُجا در مجلسے فسقِ است ایشاں صدرِ شاں ہر کُجا ہست از معاصی حلقۂ ایشاں نگیں با خرابات آشنا بیگانہ از کوئے ہدیٰ نفرت از اربابِ دیں بامے پرستاں ہمنشیں ایں دو فکر دین احمدؐ مغزِ جانِ ماگداخت کثرتِ اعدائے ملت قلت ِ انصار دیں اے خدا ذود آ و برما آبِ نصرت ہا ببار یا مرا بردار یا رب زیں مقام آتشیں اے خدا نور ہدیٰ از مشرقِ رحمت برار گمرہاں راچشم کُن روشن زآیاتِ مبیں چوں مرا بخشیدہ صدق اندریں سوز و گداز نیست امیدم کہ ناکامم بمیرانی وریں
۳۸۸ دعوۃالامیر کاروبارِ صادقاں ہرگز نماند ناتمام صادقاں را دستِ حق باشد نہاں در آستین (درثمین فارسی صفحہ ۹۶طبع بار اوّل ضیاء الاسلام پریس) غرض زمانے کی حالت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح آنا چاہئے اور وہ بھی بہت بڑی شان کا، جو اسلام کو اپنے قدموں پر کھڑا کرے اور کُفر کا دلائل قاطعہ سے مقابلہ کرے اور براہین کی تلوار سے اس کو کاٹے اور صدی کے سر پر تمام دنیا میں سے صرف ایک ہی شخص نے اسلام کی حمایت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے جانے کا دعویٰ کیا ہے یعنی بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے، اس لئے ہر دانا اور عقلمند کا کام ہے کہ ان کے دعوے پر غور کرے اور اس کو سر سری نظر سے دیکھ کر منہ نہ پھیرلے ورنہ اسے ایک قدیم قانون الٰہی کا منکر ہونا پڑے گا اورخدا تعالیٰ کے اے امیر! اَیَّدَکَ اللّٰہُ بِنَصْرِہٖ الْعَزِیْزِ.بعض لوگ اس جگہ شُبہ پیدا کیا کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ کامل وجود تھے اس لئے آپ ؐ کے بعد اب کسی مصلح اور راہنما کی ضرورت نہیں.اب قرآن کریم ہی مصلح ہے اور اس کی قوت قدسیہ ہی راہنما ہے یہ خیال ان لوگوں کا بظاہر تو نہایت خوبصورت نظر آتا ہے مگر اس پر غور کیا جائے تو قرآن کریم اور حدیث اور عقل اور مشاہدات کے صریح خلاف معلوم ہوتا ہے.قرآن اور حدیث کے خلاف اس لئے کہ ان میں صاف طور پر آئندہ زمانوں میں مجددین اور مامورین کی بعثت کی خبر دی گئی ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مجدد کا مبعوث ہونا یا مامور کا کھڑا کیا جانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ہونے کے خلاف ہو تا تو آپ ؐ کو سب نبیوں کا سردار بنا نے والا خدا اور کمال تک پہنچا نے والا آقا خود ہی کیوں آئندہ زمانے میں مجددین اور مامورین کی بعثت کا وعدہ دیتا.کیا وہ اپنے کام کو آپ توڑتا اور اپنے قول کو آپ رد کرتا؟ اور پھر کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ زمانے میں مجددین اور مامورین کی آمد کی اطلاع دیتے؟ کیا آپؐ کے کمال سے آپؐ کی نسبت ہم زیادہ واقف ہیں کہ آپ ؐ تو اپنے بعد بہت سے مجددین کی خبر دیں اور بعض مامورین کی آمد کی اطلاع دیں، لیکن ہم اسے آپؐ کی شان کے خلاف سمجھیں.اور یہ خیال عقل کے اس لئے خلاف ہے کہ عقل ہمیں بتاتی ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مجدد یا مامور کو نہیں آنا تھا تو چاہئے تھا کہ مسلمانوں کی حالت کبھی بھی خراب نہ ہوتی اور وہ ہمیشہ نیکی اور تقویٰ پر قائم رہتے ، لیکن واقعات اس کے صریح خلاف ہیں.عقل اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ مسلمانوں میں خرابی تو رُونما ہو اور ان کی حالت بد سے بدتر ہو.
۳۸۹ دعوۃالامیر جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح نہ آئے.اگر اسلام سے اسی قسم کا سلوک ہونا ہے تو یہ اس بات کی علامت نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کامل وجود ہیں بلکہ اس امر کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ہلاک کرنا چاہتا ہے ، اگر آئندہ مجددین اور مأمورین کا سلسلہ بند کر دیاگیا ہے تو اس کی ظاہری علامت یہ ہونی چاہئے تھی کہ مسلمان گمراہی اور ضلالت سے بالکل محفوظ ہو جاتے اور آج بھی ان کو ہم ویسا ہی دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ ؓکے وقت میں، لیکن جب روحانی تنزّل موجود ہے تو ضروری ہے کہ روحانی ترقی کے سامان بھی موجود ہوں.دوم یہ کہ اگر بوجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ہونے کے اب آپؐ کے مظاہر نہیں آسکتے تو اللہ تعالیٰ جو تما م کمالات کا سر چشمہ ہے اور حیّ وقیوم ہے اس کے مظاہر دنیا میں کیوں آتے ہیں ، اصل بات یہ ہے کہ جو چیز آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے اسے یاد دلانے کے لئے اور اس کا اثر دلوں میں ثابت کر نے کیلئے مظاہر کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ہونے کے باوجود آپؐ کے بعد آپؐ کے مظاہر اور بروزوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کو آپؐ کی یاد دلائیں اور آپؐ کے نمونے کو قائم کریں.مشاہدے کے یہ امر اس لئے خلاف ہے کہ ہمیں اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد گزرا ہے بیسیوں ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف تھے اور جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ تجدیددین کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں اور یہ لوگ ہمیں اسلام کا اعلیٰ نمونہ نظر آتے ہیں اور اسلام کی اشاعت اور اس کے قیام میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ معلوم ہوتا ہے.جیسے کہ حجرت جنید بغدادی ، حضرت سید عبد القادر جیلانی ، حضرت شہاب الدین سہر وردی ، حضرت بہاؤالدین نقش بندی، حضرت محی الدین ابن عربی، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وغیرھم رحمھم اللہ اجمعین ، پس ایسے لوگوں کے وجود اور ان کے کام کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مصلح کی ضرورت نہیں.حق یہ ہے کہ آپؐ کے بعد بھی مصلح آسکتے ہیں اور آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے اور اس وقت حالاتِ زمانہ ایک بہت بڑے مصلح کی خبر دے رہے ہیں اور چونکہ اس قسم کے مصلح ہونے کے مدعی حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود ہی ہیں، اس لئے یہ امر ان کے صدقِ دعویٰ کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.
۳۹۰ دعوۃالامیر دوسری دلیل شہادتِ حضرتِ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا تھا کہ یہ زمانہ ایک مصلح کو چاہتا ہے اور چونکہ اور کوئی مدعی اسلام کی شوکت کے اظہار کا نہیں ہے اس لئے حضرت اقدسؑ مرزا صاحبؑ کے دعوے پر غور کرنے پر ہم مجبو رہیں، لیکن چونکہ حضرت اقدسؑ ؑ کا دعویٰ صرف ایک مصلح ہونے کا نہیں ہے بلکہ آپ کا دعویٰ موعود مصلح ہونے کا ہے یعنی آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ مسیح موعود اور مہدی مسعود ہیں اس لئے اس دعویٰ کی تائید مزید کے لئے میں ایک اور شہادت پیش کرتا ہوں اور یہ شہادت سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور بنی نوع انسا ن میں سے آپؐ کی شہادت سے زیادہ اور کس کی شہادت قابل قبول ہو سکتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کا عقیدہ اسلامی زمانے سے شروع نہیں ہوا بلکہ یہ عقیدہ امت موسویہ میں سینکڑوں سال بعثت محمد یہ سے پہلے کا رائج ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام نے اس عقیدے کے بعض ایسے امور کو منضم کر دیا ہے جن کی وجہ سے یہ عقید ہ اسلام کے اہم عقائد میں شامل ہو گیا ہے اور وہ باتیں یہ ہیں: ۱.مسیح موعود کے زمانے میں ایک مہدی کے آنے کی خبر دی گئی ہے جسے گو دوسری احادیث میں لَا الْمَھْدِیُّ اِلَّاعِیْسٰی (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدّۃ الزّمان مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ ء )کہہ کر مسیح موعود کا ہی وجود قرار دیدیا گیا ہے ، مگر اس پیشگوئی کی وجہ سے مسلمانوں کو مسیح کے وجود سے ایسی قومی وابستگی ہوگئی ہے جیسے کہ ایک اپنے ہم ملت بزرگ سے ہونی چاہئے.۲.مسیح کی آمد کو اسلام کی ترقی کا ایک نیا دور قرار دیا گیا ہے اور اسی کی آمد کے وقت تک دیگر ادیان پر غلبہ اسلام کو ملتوی کیا گیا ہے.۳.مسیح ؑاور مہدی ؑ کو ایک قرار دیکر مسیح ؑکی آمد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد قرار دیا گیا ہے اور اس کے دیکھنے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور اس طرح عاشقانِ رسالت مآب کے دل میں مسیح ؑکا ولولہ انگیز شوق پیدا کر دیا گیا.
۳۹۱ دعوۃالامیر ۴.ایک خطرناک اور پُر آشوب زمانہ جس کی خبر نہایت مُنذر الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور جو اپنے ہیبت ناک اثرات سے اسلام کی جڑوں کو ہلا دینے والا ثابت ہونے والا تھا.اس کی آفات کا ازالہ اور آئندہ ہمیشہ کے لئے اسلام کے محفوظ کرد ینے کا کام مسیح موعودؑ کے سپرد بتا یا گیا تھا.پس مسیح موعود کا انتظار مسلمانوں کو اسی طرح ہورہا تھا جیسا کہ ایک رحمت کے فرشتے کا ہونا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ کَیْفَ تَھْلِکُ اُمَّۃٌ اَنَا فِیْ اَوَّلِھَا وَ الْمَسِیْحُ فِیْ اٰخِرِھَا (کنزالعمال (مؤلّفہ علّامہ علاؤالدّین علی المتقی بن حسام الدین الھندی البرھان النوری المتوفّٰی ۹۷۵ھ )جلد ۱۴ صفحہ ۲۶۹ روایت ۳۸۶۸۲مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ءمیں’’المسیح ‘‘ کی بجائے ’’عیسٰی بن مریم‘‘کے الفاظ ہیں) وہ امت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں مسیح ہوگا.بہی خواہانِ اسلام کو مسیح علیہ السلام کی آمد کے لئے بے تاب کر رہے تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ اس کی آمد کے بعد اسلام چاروں طرف سے مضبوط دیواروں میں گھر کر شیطانوں کے حملوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے گا.ان چاروں باتوں نے مل کر مسیح کی آمد کے مسئلے کو مسلمانوں کے لئے ایک اصولی سوال بنا دیا تھا.اور ممکن نہ تھا کہ ایسا زمانہ جو ایک طرف تو عاشقانِ رسالت مآب کو اپنے محبوب کے روبرو کرنے والا تھا، خواہ ظلیت اور مما ثلت کے پردے ہی میں سہی اور دوسری طرف اسلام کو حشرانگیز صدمات سے نکال کر حفاظت اور امن کے مقام پر کھڑا کرنے والا تھا، بلا کافی پتے اور نشان دہی کے چھوڑ دیا جاتا.یہ تو نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے کہ ماموروں اور مرسلوں کے زمانے اور ان کی ذات کی طرف ایسے الفاظ میں رہنمائی کی جائے کہ گویا متلاشی کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دیا جائے کیونکہ اگر اس طرح کیا جاتا تو ایمان بے فائدہ ہو جاتا او رکافر اور مومن کی تمیز مٹ جاتی.ہمیشہ ایسے ہی الفاظ میں ماموروں کی خبر دی جاتی ہے جن سے ایمان اور شوق رکھنے والے ہدایت پا لیتے ہیں.اور شریر اپنی ضد اور ہٹ کے لئے کوئی آڑ اور بہانہ تلاش کر لیتے ہیں ، چڑھے ہوئے سورج کا کون انکار کر سکتا ہے؟ مگر اس پر ایمان لانے کا ثواب اور اجر بھی کون دیتا ہے؟ پس ایک حد تک راہنمائی اور ایک حد تک اخفاء ضرور کیا جاتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے.مسیح موعودؑ کے زمانہ کی خبروں میں بھی اسی اصل کو مد نظر رکھا گیا ہے.اس کے زمانے کی خبریں ایسے الفاظ میں دی گئی ہیں جس قسم کے الفاظ میں تمام گزشتہ انبیاء کے متعلق خبریں دی جاتی رہی ہیں، مگر پھر بھی ایک سچے متلاشی اور صاحب بصیرت کے لئے وہ ایک روشن نشان سے کم
۳۹۲ دعوۃالامیر نہیں.وہ جس نے کسی ایک نبی کو بد لائل مانا ہو اور صرف نسلی ایمان پر کفایت کئے نہ بیٹھاہو، اس کے لئے ان نشانات سے فائدہ اٹھا نا کچھ بھی مشکل نہیں، مگر وہ لوگ جو بظاہر سینکڑوںرسولوں پر ایمان لاتے ہیںلیکن در حقیقت ایک رسول کو بھی انہوں نے اپنی تحقیق سے نہیں مانا، ان کے لئے کسی راستباز کا ماننا خواہ وہ کتنے ہی نشان اپنے ساتھ کیوں نہ رکھتا ہو ، نہایت مشکل ہے ، ان لوگوں کا اپنا ایمان درحقیقت کوئی وجود نہیں رکھتا، ان کا ایمان وہی ہوتا ہے جو ان کے علماء یا مولوی کہہ دیں یا جو باپ دادا کی روایات ان کے کانوں تک پہنچی ہوں ، پس چونکہ انہوں نے کسی ایک رسول کو بھی اس کی اپنی شکل میں نہیں دیکھا ہوتا.رسول کا پہچا ننا ان کے لئے ناممکن ہے اور اسی وقت یہ کسی رسول کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ پہلے اپنی نظر کی اصلاح آسمانی ہدایت کے سُرمہ سے کر لیں اور انسانی اقوال اور رسوم کی تقلید کے خمار کو اپنے سر سے دور کردیں.اس مختصر تمہید کے بعد میں ان نشانات کو بیان کرتا ہوں جو مسیح موعود کے زمانے کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں.میرے نزدیک اگر کوئی ان نشا نات پر بے تعصبی سے غور کر یگا تو اس کے لئے مسیح موعودؑ کے زمانے کی تعیین کر لینا ذرا بھی مشکل نہ رہے گا مگر پیشتر اس کے کہ اِن نشانات پر غور کیا جائے اس امر کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ امت اسلامیہ کے اندر تفرقہ رونما ہونے کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اپنے مقاصد کے حصول کی غرض سے جھوٹی احادیث بھی بہت سی بنا کر شائع کر دی ہیں جن سے ان کی غرض یہ ہے کہ کسی طرح ہمارا فرقہ سچا ثابت ہو جائے مثلاً بہت سی احادیث ایسی ملیں گی جن میں مہدی کے زمانے کی خبر دی گئی ہے مگر ان کے الفاظ اس قسم کے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ ماضی کے کسی اختلاف کا فیصلہ اپنے حق میں کرانا ان سے مقصود ہے.ایسی روایات میں سے گو بعض سچی بھی ہوں مگر پھر بھی ان کے متعلق محقّق کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے اور کم سے کم ان احادیث کی تائید یا تردید پر اس کے دعوے کی بنیاد نہیں ہو نی چاہئے.مثلاً بہت سی احادیث بنو عباس کے زمانے کی اس قسم کی ملتی ہیں جن میں بظاہر تو مہدی کے زمانے کی علامات بتائی گئی ہیں ، مگر درحقیقت بتا یا یہ گیا ہے کہ عباسیوں کی تائید میں خراسان میں جو بغاوتیں ہوئی تھیں، وہ خُدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں اور اس کی مرضی کے مطابق تھیں.ان احادیث کا بطلان واقعات نے آپ ہی ثابت کر دیا ہے.اس زمانے پر ایک ہزار سال سے زائد گزر گئے ، مگر ان علامات کے بموجب کوئی مہدی ظاہر نہ ہوا، اسی طرح اور بہت سی روایات ہیں جن میں علاماتِ مہدی کو
۳۹۳ دعوۃالامیر پچھلے واقعات کے ساتھ اس طرح خلط کرکے بیان کیا گیا ہے کہ جب تک ان واقعات کو جو بطور علاماتِ مہدی بیان کئے گئے ہیں، لیکن ہیں زمانہ گزشتہ کے‘ الگ نہ کر دیا جائے حقیقت حال سے آگاہی نہیں ہوسکتی، ان لوگوں نے جو تاریخ اسلام سے ناواقف تھے، ان احادیث سے بہت دھوکا کھایا ہے اور آئندہ زمانے میں بعض ایسے امور کے وقوع کے منتظر رہے ہیں جو ان احادیث کے بنائے جانے سے بھی پہلے واقعہ ہو چکے ہیں اور ان کو علامات مہدی میں شامل کرنے کی وجہ صرف اپنے اپنے فرقہ کی سچائی ثابت کرنا تھی.پس علامات مہدی پر غور کرتے ہوئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان علامات الگ کر لیں جو کسی واقعہ کی طر ف اشارہ نہیں کرتیں، تا اس گڑھے میں گرنے سے بچ جاویں جو بعض خود غرض لوگوں نے اپنی اغراض کوپورا کرنے کے لئے کھودا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خد اتعالیٰ کی بے انتہاء رحمتیں اور درود ہوں ،آپؐ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کی علامات بیان کرتے وقت ایک ایسے طریق کو مد نظر رکھا ہے جس کو یاد رکھتے ہوئے انسان بڑی آسانی سے دھوکا دینے والے کے دھو کے سے بچ جاتا ہے اور وہ یہ کہ آپؐ نے مسیح و مہدی کے زمانے کے متعلق جو علامات بتائی ہیں ان کو زنجیر کے طور پر بیان کیا ہے جس کی وجہ سے ملاوٹ کرنے والے کی ملاوٹ کا پورا پتہ لگ جاتا ہے اگر آپؐ اس قسم کی مثلاً علامت بتاتے کہ اس کا یہ نام ہوگا اور فلاں نام اس کے باپ کا ہوگا تو بہت سے لوگ اس نام کے دعوے کرنے کے لئے تیار ہو جاتے.پس آپ نے اس قسم کی علامتیں بیان کر نے کے بجائے جن کا پورا کرنا انسانوں کے اختیار میں ہے اس قسم کی علامتیں بیان فرمائی ہیں جن کا پورا کرنا نہ صرف یہ کہ انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ وہ سینکڑوںسال کے تغیرات کے بغیر ہوہی نہیں سکتیں.پس کوئی انسان بلکہ انسانوں کی ایک جماعت نسلاً بعد نسلٍ کو شش کر کے بھی ان حالات کے پید اکرنے پر قادر نہیں ہوسکتی دوسری بات علامات مہدی کے بیان کرنے میں یہ مد نظر رکھی گئی ہے کہ بعض علامتیں ان میں ایسی بیان کر دی گئی ہیں جن کی نسبت یہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ یہ علامات سوائے مہدی کے زمانے کے اور کسی وقت اس کی آمد سے پہلے ظاہر نہ ہوں گی.پس ان اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے جب وہ زمانہ ہمیں معلوم ہوجائے جس کے ساتھ مسیح موعو اور مہدی معہود کاکام متعلق ہے اور جب وہ علامات پوری ہو جائیں جن کی نسبت بتا یا گیا ہے کہ سوائے مہدی کے زمانے کے کسی وقت ان کاظہور نہیں ہو سکتا اور جب زمین و آسمان کے بہت
۳۹۴ دعوۃالامیر سے تغیرات جن کا پیدا کرناانسان کے اختیار میں نہیں اور وہ بطور علامات مہدی کے بیان کئے گئے ہیں ظاہر ہو جائیں تو اس وقت کو مہدی و مسیح کا زمانہ سمجھ لینے میں ہمارے لئے کوئی بھی مشکل نہیں.اس وقت اگر بعض علامات ایسی معلوم ہوں جو اس وقت تک پوری نہیں ہوئیں تو ہمیں دوباتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنا ہوگا، یا یہ کہ وہ علامات جو پوری نہیں ہوئیں ، علامات مہدی تھیں ہی نہیں بلکہ بعض بے رحم لوگوں کی دست اندازی کے سبب سے ان کو علاماتِ مہدی میں شامل کر دیا گیا تھا یا یہ کہ ان کے معنی سمجھنے میں ہم سے غلطی ہو گئی ہے درحقیقت وہ تعبیر طلب تھیں.اس کے بعد میں یہ بیان کر دینا ضروی سمجھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامات مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانے کے متعلق بیان فرمائی ہیں ان پر ایک ادنیٰ تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ فرداً فرداًمسیح و مہدی کے زمانے کی علامتیں نہیں ہیں بلکہ تمام مل کر ایک کامل اور ذوالوجوہ علامت بنتی ہیں.مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ مہدی کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کے زمانے میں امانت اُٹھ جائے گی (کنزالعمال جلد ۱۴ صفحہ ۲۲۵ روایت ۴۸۴۹۵مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ء )یا یہ کہ اس وقت جہالت ترقی کر جائے گی.(ابن ماجہ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ)اب اگر ان علامات کو مستقل علامتیں قرار دیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ جب امانت دنیا سے اُٹھ جائے ، اس وقت مہدی کو ضرور ظاہر ہو جانا چاہئے یا علم کے اُٹھ جانے پر مہدی کو ضرور ظاہر ہو جانا چاہئے حالانکہ اس تیر ہ سو( ۱۳۰۰ )سال کے عرصے میں مسلمانوں پر کئی اُتار چڑھاؤ کے زمانے آئے ہیں.کبھی ان میں سے علم اٹھ گیا، کبھی امانت لیکن مہدی ظاہر نہیں ہوا.پس معلوم ہوا کہ یہ علامتیں مستقل علامتیں نہیں ہیں، بلکہ وہ سب علامتیں مل کر جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر بیان فرمایا ہے نہ کہ بعض لوگوں نے اپنے دل سے بنا کر انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے.مہدی موعود کے زمانے کی علامتیں ہیں.ایک ایک علامت اور زمانوں میںبھی پائی جا سکتی ہے.مگر متعدد علامتیں مل کر مہدی کے زمانے کے سوا اور کسی زمانے میں نہیں پائی جا سکتیں.کسی زمانے کے پہچاننے کا بھی وہی طریق ہے جو کسی ایک آدمی کے پہچاننے کا طریق ہے.جب ہمیں کسی ایسے شخص کا پتہ کسی کودینا ہو جس کو اس نے پہلے نہیں دیکھا اور جس کا وہ واقف نہیں تو اس کا یہی طریق ہے کہ ہم اس کی شکل اور اس کے قد اور اس کے رنگ اور اس کی عادات اور اس کے کمالات اور اس کے متعلقین کے نشانات اور اس کے گھر کا نقشہ وغیرہ بتا
۳۹۵ دعوۃالامیر دیتے ہیں مثلاًیہ بتا دیں کہ اس کا قد لمبا ہے اور رنگ سفید ہے اور جسم نہ دُبلا ہے نہ موٹا اور ماتھا چکلا ہے اور ناک بالا ہے اور آنکھیں موٹی موٹی اور ہونٹ موٹے ہیں اور ٹھوڑی بڑی ہے اور وہ عربی کا مثلاً عالم ہے اور مسلمانوں میں سے ہے اور اسکی قوم کے لوگ مثلاً اس کے دشمن ہیں اور اس کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں.اس کا گھر اس شکل کا ہے اور اس کے ارد گرد کے گھر اس اس شکل کے ہیں، اگر اس قدر علامات بتا کر ہم کسی شخص کو کسی گاؤں میں بھیجیں تو اس شخص کا پہچان لینا اور باوجود لوگوں کے دھوکا دینے کے اس کا دھوکا نہ کھانا بالکل سہل امر ہے اگر کوئی خاص زمانہ بتا نا ہو تو اس کے پہچنوانے کا یہی طریق ہے کہ اس زمانے میں مثلاً آسمانی کروں کی کیفیت اور ان کا مقام بتادیا جائے.زمین کے اندر تغیرات جو اس وقت ہونے والے ہوں وہ بتا دیئے جاویں، اس وقت کے جو سیاسی حالات ہوں وہ بتا دئیے جاویں، اس وقت کی تمدنی حالت بتا دی جاوے، اس وقت کی مذہبی حالت بتا دی جائے.اس وقت کی علمی حالت بتا دی جائے‘ اس وقت کی عملی حالت بتا دی جائے‘ اخلاقی حالت بتا دی جائے‘ اس وقت کے تعلقات مابین الاقوام بتادئیے جاویں، اس وقت کے تَرفُّہ یا اس وقت کی غربت کی حالت بتا دی جائے اور اس زمانے کے میل ملاپ کے طریق اور سفر کے ذرائع پر روشنی ڈال دی جائے، اگر ان حالات کو بیان کر دیا جائے اور پھر ایک شخص جس کو پہلے سے اس زمانے کے حالات بتا دئیے گئے ہیں اس زمانے کو پالے تو یقینا وہ اس زمانے کودیکھتے ہی پہچان لے گا اور اس کا پہچاننا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا بلکہ یہ شناخت کاطریق ایسا ہوگا کہ اس میں شُبہ کی گنجائش ہی نہ رہے گی.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود اور مہدی مسعود کی شناخت کے لئے اس کے زمانے کا نقشہ کھینچ دیا ہے تا اسلامی فرقوں کے اختلاف کے وقت لوگ ایسی روایات نہ بنالیں جن کی وجہ سے مسیح موعود ؑ اور مہدی مسعودؑ کا پہچاننا مشکل ہو جائے.چنانچہ گو لوگوں نے جھوٹی علامتیں تو بنائی ہیں مگر وہ اس نقشے پر چونکہ کچھ بھی تصرف نہیں رکھتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا.اس لئے ان کی کوششیں بالکل رائیگاں گئی ہیں اور اب بھی جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نقشے پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالے تو ا س کی زبان سے بے اختیار نکل جائے گا کہ یہی مسیح موعود اور مہدی مسعود کا زمانہ ہے.مسیح موعود کے زمانے کے مذہبی حالات:.اب میں ایک ایک سلسلہ علامات کو لے کر بعض بعض علامات بیان کرتاہوں جن سے
۳۹۶ دعوۃالامیر معلوم ہو گا کہ اس زمانے کے سوا مسیح کا نزول اور کسی زمانے میں نہیں ہو سکتا اور ان سلسلوں میں سب سے پہلے مسیح موعود کے زمانے کے مذہبی حالات کو لیتا ہوں.مذہبی حالت کسی زمانے کی دوطرح بیان کی جا سکتی ہے ایک تو اس وقت کے مذاہب کے ظاہری اعداد و شمار سے اور ایک اس وقت کے لوگوں پر مذہب کا جو اثر ہو اسے بیان کر کے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعودؑ کے زمانے کی ان دونوں حالتوں کو بیان فرما دیا ہے.میں ان دونوں حالتوں میں سے پہلے مذاہب کے ظاہری نقشہ کو لیتا ہوں کیونکہ یہ زیادہ ظاہر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں کہ اس وقت مسیحیت کا بہت زور ہوگا.چنانچہ مسلم میں روایت ہے کہ قیامت اس وقت آئے گی جب کہ اکثر اہل ارض روم ہوں گے ۱؎ اور جیسا کہ علمائے اسلام کا اتفاق ہے.روم سے مراد نصاریٰ ہیں، کیونکہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں رومی ہی نصرانیت کے نشان کے حامل اور اس کی ترقی کی ظاہری علامت تھے.یہ پیشگوئی اس امر کو مد نظر رکھ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اِذَاھَلَکَ کِسْرٰی فَلاَ کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَاِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ.وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتُنْفِقُنَّ کُنُوْزَھُمَا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء اذا ذھب کسریٰ فلا کسریٰ بعدہ) نہایت عظیم الشان نظر آتی ہے کیونکہ رومی حکومت کے اس قدر استیصال کے بعدکہ قیصر کا نام ونشان مٹ جائے.پھر نصاریٰ کا غلبہ ایک حیرت میں ڈال دیتے والی خبر تھی، مگر خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں.قیصر کی حکومت مطابق اخبار نبویہ کے مٹ گئی اور ایک عرصہ کے بعد خالی خطاب قیصر کا جو قسطنطنیہ کے بادشاہ کو حاصل تھا.فتح قسطنطنیہ پر وہ بھی مٹ گیا اور اسلام دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل گیا مگر دسویں صدی ہجری سے فیج اعوج کا زمانہ پھر شروع ہو گیا ور آہستہ آہستہ مسیحیت نے ان ممالک سے ترقی کرنی شروع کی ، جہاں کہ اس وقت جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیحیت کی دوبارہ ترقی کی خبر دی تھی ا س کا نام تک بھی نہ پایا جاتا تھا اور ایک سو سال کے عرصے سے تو کُل رُوئے زمین پر مسیحی حکومتیں اس طرح مستولی ہیں کہ اہل الارض الروم کی خبر کے پورا ہونے میں کوئی شُبہ نہیں رہا.اس پیشگوئی کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ بعض علمائے اسلام نے اس کی نسبت لکھا ہے کہ یہ علامت سب علامات پوری ہوجانے کے بعد پوری ہوگی، چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحب اپنی کتاب حجج الکرامہ میں بحوالہ رسالہ حشر یہ لکھتے ہیں:.’’چوں جملہ علامات حاصل شود قوم نصاریٰ غلبہ کنندہ بر ملک ہائے بسیار متصرف شوند.‘‘(حجج الکرامۃ فی اٰثار القیامۃ صفحہ ۳۴۴ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ )
۳۹۷ دعوۃالامیر پس علاوہ دوسری علامات سے مل کر زمانہ مسیح موعود کی طرف اشارہ کرنے کے یہ خبر اپنی ذات میں بھی بہت کچھ راہنمائی کا موجب ہے.مسیحیت کی اس ترقی کے مقابل اسلام کی حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں کہ بَدَ ئَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَ سَیَعُوْدُ غَرِیْبًا فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب بدء الاسلام غریباً) اسلام اس زمانے میں بہت ہی کمزور ہوگا بلکہ دجال والی حدیث میں تو فرماتے ہیں کہ بہت سے مسلمان دجال کے پیرو ہو جائیں گے (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی فتنۃ الدّجال ) چنانچہ اب ایسی ہی حالت ہے مسلمان اس شان و شوکت کے بعد جس نے ان کو دنیا کا واحد مالک بنا رکھا تھا آج ایک بیکس اور یتیم بچے کی طرح ہیں کہ بلا بعض مسیحی طاقتوں کی مدد کے ان کو اپنا وجود قائم رکھنا تک مشکل ہے.لاکھوں مسلمان اس وقت مسیحی ہوگئے ہیں اور برابر مسیحی ہو رہے ہیں.اندرونی مذہبی حالت: دنیا کے مذاہب کی طاقت کے علاوہ مسیح موعود کے زمانے میں جو ان کی باطنی حالت ہونے والی تھی اسے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے چنانچہ اس وقت کے مسلمانوں کی حالت کا نقشہ آپ نے اس طرح کھینچا ہے.اس وقت لوگ قدر کے منکر ہو جائیں گے چنا نچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ قدر کا انکار کریں گے (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۹۰ )اور اس انکار قدر سے مراد یقینا مسلمانوں کا انکار ہے کیونکہ دوسری قومیں تو پہلے ہی اس مسئلے پر ایمان نہیں رکھتی تھیں.یہ مرض جس زور سے مسلمانوں میں رونما ہو رہا ہے اس کے بیان کی حاجت نہیں، علوم جدیدہ کے دلدادہ مسلمان یورپ کے جاہل مصنّفین کے اعتراض سے ڈر کر صاف صاف قدر کا انکار کر رہے ہیں اور اس مسئلہ مُہمہ کی عظمت اور اس کے فوائد اور اس کی صداقت سے بالکل ناواقف ہو رہے ہیں.دوسرا تغیر مسلمانوں میں آپؐ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لوگ زکوٰۃ کو تاوان سمجھیں گے.(ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی اشراط الساعۃ ) یہ بھی حضرت علیؓ سے البزار نے نقل کیا ہے (حجج الکرامۃ فی اٰثار القیامۃ صفحہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ) چنانچہ اس وقت جبکہ مسلمانوں پر چاروں طرف سے آفات نازل ہو رہی ہیں اور زکوٰ ۃ کے علاوہ بھی جس قدر صدقات وخیرات وہ دیں کم ہیں.اکثر مسلمان زکوٰۃ کی ادائیگی سے جو اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے فرض ہے، جی چُراتے ہیں اور جہاں اسلامی احکام کے ماتحت زکوٰۃ لی جاتی ہے وہاں تو بادلِ نخواستہ کچھ ادا بھی کر دیتے
۳۹۸ دعوۃالامیر ہیں مگر جہاں یہ انتظام نہیں ،وہاںسوائے شاذو نادر کے بہت لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے اور جو اقوام زکوٰۃ دیتی بھی ہیں وہ اسے نمود کا ذریعہ بنا لیتی ہیں اور اس رنگ میں دیتی ہیں کہ دوسرا اسے زکوٰ ۃ نہیں خیال کرتابلکہ قومی کاموں کے لئے چندہ سمجھتا ہے.ایک تغیر مسلمانوں کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ قوم جو ہر ایک عزیز سے عزیز شے کو خدا اور رسول کے اشارہ پر قربان کر دیتی تھی اور دنیا اس کی نظروں میں ایک جیفے سے زیادہ حقیقت نہ رکھتی تھی.وہ دنیا کی خاطر دین کو فروخت کرے گی(ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء ستکون فتنۃ کقطع اللیل المظلم ) اور یہ تغیر اس وقت ایسی کثرت سے ہو رہا ہے کہ ایک اسلام سے محبت رکھنے والے کا دل اسے دیکھ کر پگھل جاتا ہے علماء اور صوفیاء اور امراء اور عوام سب دنیا کودین پر مقدم رکھ رہے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ دنیاوی فوئد کے لئے دین اور مفادِ اسلام کو قربان کر رہے ہیں.ایک تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت ابن عباسؓابن مردویہ (حجج الکرامۃ فی اٰثار القیامۃ صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ۹۲۷) نے یہ بیان کیا ہے کہ اس زمانے میں نماز ترک ہو جائے گی ، چنانچہ یہ تغیر بھی پیدا ہو چکا ہے.تعداد کے لحاظ سے کل مسلمان کہلانے والے لوگوں میں سے ایک فی صدی بمشکل پانچوں نمازوں کے پابند نظر آویں گے.حالانکہ نماز عملی ارکان میں سے اول رکن ہے اور بعض علماء کے نزدیک ایک کا تارک کافر ہے.اس وقت مساجد بہت ہیں، لیکن ان میں نمازی نظر نہیں آتے، بلکہ بہت سی مساجد میں جانور رہتے ہیں اور ان کی بے حپرمتی کرتے ہیں، مگر مسلمانوں کو ان کی آبادی کی فکر نہیں.ایک تغیّررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت لوگ نماز بہت جلد جلد پڑھا کریں گے، چنانچہ ابن مسعودؓ کی روایت سے ابو الشیخ نے اشاعۃ (حجج الکرامۃ فی اٰثار القیامۃ صفحہ ۲۹۶مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ء) میں بیان کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پچاس آدمی نماز پڑھیں گے اور ان میں سے کسی کی ایک نماز بھی قبول نہ ہوگی.(حجج الکرامۃ فی اٰثار القیامۃ صفحہ ۲۹۶مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ء) اس کا مطلب یہی ہے کہ جلدی جلدی نما ز یں پڑھیں گے.باطن کی قبولیت تو کسی بات کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی کیونکہ اس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں ہو سکتا اور ظاہری علامات میں سے جن سے عدم قبولیت نماز کا حال معلوم ہوتاہے سب سے ظاہر نمازکا جلد جلد پڑھنا ہی ہے کہ جلد جلد نماز اد کرنے والے سے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نمازنہیں ہوئی، پھر دُہرا (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی وصف الصلوٰۃ) یہ تغیر بھی اس وقت پایا جاتا ہے جولوگ نما زپڑھتے ہیں وہ نما زکو اس قدر جلد جلد ادا کرتے ہیں کہ یوںمعلوم ہوتا ہے کہ جیسے مرغ چونچیں ماررہا ہے اور نماز کے
۳۹۹ دعوۃالامیر بعدلمبے لمبے وظیفے پڑھتے رہتے ہیں.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرماتے ہیں کہ اس وقت قرآن اٹھ جائے گا اور صرف اس کا نقش باقی رہ جائے گا.(مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ ۳۸مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی۱۳۶۸ھ) یہ علامت بھی اس وقت پوری ہو چکی ہے.قرآن کریم موجود ہے مگر اس پر غور اور تدبّر کوئی نہیں کرتا عجیب بات ہے کہ سوائے جماعت مسیح موعود علیہ السلام کے دنیا بھر میں قرآن کریم کہیں نہیں پڑھا جا تا.بعض اچھے اچھے مولوی فقہ اور حدیث کے ماہر قرآن کریم کے ترجمہ سے تعلق نہیں رکھتے اور اس پر غور اور تدبّر کرنا حرام جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ چند پچھلے علماء نے جو معنے کلام الٰہی کے کر دئیے ہیں ان کے سوا اب کلام الٰہی میں کچھ باقی نہیں ہے.حالانکہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تفسیر قرآن کا دروازہ کھُلا رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اب وہ بند ہو گیا ہو اور اس کے معارف کی کھڑکی بند کردی گئی ہو.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری زمانے کی نسبت بروایت ابن عباسؓ ابن مردویہ نے یہ بیان کی ہے کہ اس زمانے میں لوگ ایک طرف تو قرآن کریم سے بے توجہی کریں گے دوسری طرف اس کے ظاہری سنگھار اور آرائش میں ایسے مشغول ہوں گے کہ زری کے غلاف اس پر چڑھائیں گے.(حجج الکرامۃ فی آثار القیامۃ صفحہ ۲۹۷مطبوعہ بھوپال۱۲۰۹ھ) یہ علامت بھی پوری ہو رہی ہے.مسلمان قرآن کریم کے پڑھنے سے تو بالکل غافل ہیں اور اس کو کھول کر دیکھنا حرام سمجھتے ہیں ، لیکن زری کے غلاف چڑھا کر قرآن کریم گھروں میں انہوںنے ضرور رکھ چھوڑے ہیں اور اس کی ظاہری آرائش اس قدر کرتے ہیں کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اس قسم کی آرائش کرنے کا ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ وہ لوگ کیا بلحاظ تقویٰ او رکیا بلحاظ وجاہت دنیاوی ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر تھے.ایک تغیر مسلمانوں کی اندرونی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت مساجد کو آراستہ کریںگے (کنزل العمال جلد ۱۴روایت ۳۹۷۲۶مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ء) اور یہ تغیّر بھی اس وقت پایا جاتا ہے.مسلمان دوسری اقوام کی نقل میں اپنی مساجد کو اس قدر آراستہ کرتے ہیں او ربیل بوٹے بناتے ہیں اور جھاڑ فانوس سے ان کو سجاتے اور خوبصورت پردے ان کی دیواروں پر لٹکاتے ہیں کہ بہ نسبت سادہ اسلامی عبادت گاہ کے بالفاظ حدیث وہ بُت خانوں کے زیادہ مشابہ ہیں.(حجج الکرامۃ فی آثار القیامۃ صفحہ ۲۹۷مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ) ایک تغیّر اس زمانے کے متعلق آپ ؐنے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت عرب کے لوگ
۴۰۰ دعوۃالامیر دین سے بالکل دور جاپڑیں گے اور وہ دین جو ان کے ایک آدمی پر نازل ہوا اور ان کے ملک میں اس نے تربیت پائی اور ان کے ملک سے پھیلا اور ان کی زبان میں جس کی الہامی کتاب اتری اور اب تک اسی زبان میں پڑھی جاتی ہے بلکہ اسی کے سبب سے ان کی زبان زندہ ہے وہ اسے چھوڑ دیںگے اور باوجود عربی بولنے کے دین اسلام سے بے بہر ہ ہوں گے اور قرآن کریم ان کو نفع نہ دے گا ، بلکہ ان کے دل ویسے ہی عرفان سے خالی ہوں گے جیسے کہ ان لوگوں کے جو قرآن کریم کے سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے، چنانچہ دیلمی نے حضرت علیؓ سے روایت بیان کی ہے کہ اس وقت لوگوں کے دل اعاجم کی طرح ہوں گے اور زبان عربوں کی طرح (حجج الکرامہ فی آثار القیامۃصفحہ ۲۹۷مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ) یعنی عربی بولیں گے، لیکن دین عربی کا ان کے دل پر اثر نہ ہوگا، اس وقت یہ تغیر بھی پیدا ہے ، عربوںکودین سے اس قدر بُعد اور دوری ہے کہ ان لوگوں سے کم ان کو دین سے ناواقفیت نہیں ہے جو قرآن کریم کو نہ خود سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان کو سمجھانے والا کوئی میسر ہے.ایک تغیر عظیم مسلمانوں کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت عرب سے مذہبی آزادی اس قدر اٹھ جائے گی کہ وہاں نیک آدمی ہر نہیں ہو سکیں گے.چنانچہ حضرت علیؓ سےد یلمی نے روایت کی ہے کہ ان میں نیک لوگ پوشیدہ ہو کر پھریں گے (حجج الکرامہ فی آثار القیامۃصفحہ۲۹۵مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ) یہ تغیّر بھی اس وقت عرب میں پیدا ہے، وہاں کے لوگوں میں مذہبی رواداری بالکل باقی نہیں رہی.اپنے خیالات اور رسوم کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی جان ان سے محفوظ نہیں ہے.گویہ آفت دیگر اسلامی ممالک میںبھی نمودار ہے ، مگر عرب پر بالخصوص افسوس ہے کہ وہاں فریضہ حج اد ا کرنے کے لئے ہر ایک ذی مقدرت انسان کو بحکم الٰہی جانا پڑتا ہے.پس ان کے تغیر حالت سے راستی کو نقصان پہنچتا ہے اور فریضہ حج کی ادائیگی کی صرف یہی صورت رہ جاتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے انسان خاموشی سے اس فرض کو ادا کر کے واپس آجائے.اِلاَّ مَا شَآ ئَ اللہُ.کا ش! اللہ تعالیٰ عرب کے لوگوں کو ہدایت دے اور وہ پھر اسی طرح علم الاسلام کے حامل ہوں جس طرح کہ تیرہ سو ۱۳۰۰ سال پہلے تھے.اخلاقی حالت:.مذہبی تغیرات کے بعد میں وہ علامات بتا تاہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ مسیح موعود کی اخلاقی حالت کے متعلق بیان فرمائی ہیں.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت فحش کثرت سے پھیل جائے گا بلکہ تفحّش کثرت سے پھیل جائے گا.لوگتفحّش پر ناز کریں گے.(ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی اشراط الساعۃ) چنانچہ اب شیبہ کی روایت ہے کہ
۴۰۱ دعوۃالامیر علامات قرب قیامت میں سے ایک ظہور فحش وتفحّش بھی ہے اور اسی طرح انس بن مالک سے مُسلم میں روایت ہے کہ اشراطِ ساعت میں سے ایک طہور زنا ہے اور بوہریرہ ؓ سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے کہ اس وقت ولد الزنا کثرت سے ہو جائیں گے یہ سب قسمیں فحش کی ہم اس وقت دنیامیں موجود پاتے ہیں.علاوہ بڑی بد کاری کے ہم دیکھتے ہیں کہ یورپین تہذیب نے ایسا رنگ اختیار کر لیا ہے کہ اسلام نے جن امور کو فحش قرار دیا ہے وہ اس کی سوسائٹی کے نزدیک تہذیب کا جز وبن گئے ہیں.مثلاً غیر عورتوں کی کمروں میں ہاتھ ڈال کر ناچنا، عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنی،غیر عورتوں کو ساتھ لیکر سیروں کو جانا وغیرہ وغیرہ.اس زمانے سے پہلے ان باتوں کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.نہ عرب میں نہ کسی اور ملک میں ہندوستان باوجود سب آثار شرک کے اس فحش سے پاک تھا.ایران باوجود عیش پسندی کی روایات کے اس فحش سے مبرّا تھا.مسیحیت کا سہار ا رومی قوم باوجود اخلاقاً مُردہ ہونے کے اس قسم کی ہوا وہوس کی غلامی سے محفوظ تھی.اگر آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تفصیلی نقشہ پہلے لوگوں کے سامنے بیان کر دیا جاتا تو وہ کبھی تسلیم نہ کرتے کہ کسی قوم کی قوم میں باوجو د دعوائے تہذیب یہ حرکات کی جاسکتیں اور تہذیب و شائستگی کا جز و سمجھی جاسکتی ہیں.پہلے زمانے میں بھی ناچ اور تماشے ہوتے تھے، لیکن یہ کوئی تسلیم کر نے کے لئے تیار نہ تھا کہ شریف اور تمدن کی جڑ کہلانے والے خاندانوں کی بہو بیٹیاں اس فعل کو اپنا شُغل بنائیں گی اور یہ بات موجب فخر ہوگی اور عورت کی قدر و منزلت کو بڑھا دے گی اور اس کی شرافت میں کچھ نقص پیدا نہ ہو نے دے گی.علاوہ اس فحش کے جو عام ہے بڑا فحش یعنی زنا بھی اس وقت کثرت سے ہے کہ اب وہ اکثر بِلاد میں جن میں مسیحیت کااثر ہے بطور ایک نفسانی کمزوری کے نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ ایک طبعی فعل اور روز مرہ کا شغل خیال کیا جاتا ہے.بیشک کنچنیاں پہلے زمانوں میں بھی ہوتی تھیں مگر یہ کس کے ذہن میں آسکتا تھا کہ کسی وقت حکومت عورتوں کو بڑی بڑی تنخواہیں دے کر فوجوں کے ساتھ رکھے گی تا فوجی سپاہیوں کی ضروریات پوری ہوں اور ان کو چھاؤنیوں سے باہر جانے کی تکلیف نہ ہو، کون یہ خیال کر سکتا تھا کہ عورت اور مرد کے تعلقات ایسے وسیع ہو جائیں گے کہ عورت کا مرد کے گھر پر جانا ایک اخلاقی گناہ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ انسانی حریت کا ایک جزو قرار دیا جائے گا.اور نکاح کو اس کی ذہنی غلامی کی علامت سمجھا جائے گا.جیسا کہ آج فرانس اور امریکہ کے لاکھوں آدمیوں کا خیال ہے اور یہ بات کس کے ذہن میں آسکتی تھی کہ کسی وقت
۴۰۲ دعوۃالامیر نہایت سنجیدگی سے اس پربحثیں ہوں گی کہ نکاح ایک دقیا نوسی خیال ہے.ہر مرد اس عورت سے جسے وہ پسند کرے تعلق قائم کرکے اولاد پیدا کر سکتا ہے اور عورت ایک قیمتی مشین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جس سے پورا کام لے کر ملک کو فائدہ پہنچانا چاہئے ، جیسا کہ آج کل بعض سو شلسٹ حلقوں کا اورخصوصاً بولشویک حلقوں کا خیال ہے.جب فحش کی یہ حالت ہو تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ ولد الزنا کس کثرت سے ہوں گے کیونکہ جب تک ملک میں زنا ایک عیب سمجھا جائے.لوگ ایسی اولاد پیچھے چھوڑنا پسند نہیں کرتے جسے ولد الزنا ہونے کا طعنہ دیاجائے، لیکن جس سو سائٹی میں زنا کے وجود سے ہی انکار کیا جائے اور نکاح کو مذہب کی بے جا دست اندازی تصور کیا جائے.اس میں ایسی اولاد سے کیا شرم ہو سکتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایسی سوسائٹی میں ایسی اولاد کے سوا دوسری اولاد مل ہی کہاں سکتی ہے.چنانچہ اوپر کے بیان کردہ خیالات کے لوگوں میں ایسی ہی اولاد یں پیدا کی جاتی ہیں اور اسے کچھ عیب نہیں سمجھا جاتا.مگر ان کے علاوہ دوسرے لوگ جو نکاح کو کم سے کم ایک قدیم رسم کر کے چھوڑ نا نہیں چاہتے.ان میں بھی اولاد الزنا کی تائید میں اس وقت اس قسم کا جوش پایا جاتا ہے کہ بڑے بڑے فلا سفراِن کو ملک کے لئے ایک نعمت اور ذریعہ حفاظت قرار دے رہے ہیں اور ایسی اولاد کو والدین کا وارث بنانے کی تائید میں بڑے زور سے تحریک کر رہے ہیں اور بصورت دیگر حکومت کو انہیں اپنا بچہ تصور کر کے ان کی خاص غور وپرداخت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں.جب حالات یہ ہوں تو اولاد الزنا کی ان علاقوں میں جو کچھ کثرت ہو سکتی ہے.اس کی مثال پہلے زمانوں میں ملنی تو کیا معنی، یہ بھی قیاس نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے زمانوں کے لوگ اس قسم کی حالت کا تصور بھی کر سکتے تھے.ایک تغیر اس زمانے کی اخلاقی حالت کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت شراب کا استعمال بہت بڑھ جائے گا.چنانچہ انسؓ بن مالک سے مسلم میں روایت ہے کہ اشراطِ ساعت میںسے ایک یہ بھی ہے کہ یُشْرَبُ الْخَمْرُ شراب بہت پی جائے گی اور ابو نعیم نے حلیہ میں حذیفہ بن الیما نؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراط ساعت میں سے ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ اس وقت راستوں میں شراب پی جائے گی شراب کی جو کثرت اس زمانے میں ہے وہ کسی بیان کی محتاج نہیں.یورپ میں
۴۰۳ دعوۃالامیر شراب جس قدر پی جاتی ہے اس قدر پانی نہیں پیا جاتا، پہلے زمانوں میں بھی لوگ شراب پیتے تھے مگر بطور عیش کے یا دو اکے ، لیکن آج کُل دنیا کے ایک بڑے حصے میں شراب بطور غذاء اور پانی کے پی جاتی ہے.خصوصاً یہ علامت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ راستوں میں شراب پی جائے گی.یہ اس زمانے کو پہلے زمانوں سے ممتاز کر دیتی ہے.پہلے زمانوں میں چونکہ شراب سامانِ تعیش میں سے سمجھی جاتی تھی اور اس کے مہیا کرنے کے لئے وہ کوشش نہ کی جاتی تھی جو اَب کی جاتی ہے.خاص خاص مقامات پر دکانیں ہوتی تھیں.جہاںسے لوگ شراب خرید لیتے تھے، مگر اب تو یہ حال ہے کہ شراب پانی کی جگہ استعمال ہوتی ہے اس لئے اس کا قریب قریب کے فاصلے پر سڑکوں پر مہیا کر نا ضروری ہو گیا ہے، چنانچہ یورپ میں سڑکوں کے کنارے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر شراب کی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں تا مسافروں کا حلق سُوکھا نہ رہ جائے اور ریلوں کے ساتھ شراب کا انتظام کیا جاتا ہے اور خواہ کھانے کا انتظام ہو یا نہ ہو مگر انتظار کے کمروں میں شراب ضرور تیار رکھی جاتی ہے.لنڈن جیسے شہروں میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر شراب اور پانی کے گلاس ایک قیمت پر فروخت ہوتے ہیں، مگر پانی پینے کی غرض سے نہیں بلکہ دیگر حاجات پوری کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے.کثرت شراب کی حالت کا نقشہ اس قصے سے اچھی طرح ذہن نشین ہو سکتا ہے جو ہماری جماعت کے ایک مبلغ انگلستان کو پیش آیا.ان کا صاحبِ مکان ان کی نیک چلنی اور خوش معاملگی کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے ایک دن بڑی محبت سے کہا میں آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں جسے آپ خوب یاد رکھیں.اس سے آپ کی صحت بہت اچھی رہے گی اور وہ یہ ہے کہ آپ اس ملک میں پانی بالکل نہ پیئں.میرے باپ نے ساری عمر میں ایک دفعہ پانی پیا تھا، وہ اسی دن مر گیا اور میں نے اب تک کبھی پانی نہیں پیا.جب ہمارے مبلغ نے کہا کہ وہ توشراب کا ایک قطرہ بھی نہیں پیتے پانی ہی پیتے ہیں تو وہ نہایت حیران ہوا اور اس بات کا ماننا اسے بہت مشکل معلوم ہوا.ایک اخلاقی تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے متعلق یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت جوئے کی کثرت ہوگی، چنانچہ حضرت علیؓ سے ویلمی میں مروی ہے کہ قیامت کے قرب کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس وقت لعبِ میسر (جوئے کا کھیل) زیادہ ہو جائے گا.یہ تغیر اس وقت جس حد تک رونما ہو رہا ہے اس کے بیان کی حاجت نہیں، قمار بازی یورپ اور امریکہ کے لوگوں کا نہ صرف مشغلہ ہے بلکہ ان کے تمدن کا ایک جزو لا ینفک ہو گیا ہے.ہر ایک
۴۰۴ دعوۃالامیر زندگی کے شعبے میں جوئے کا کسی نہ کسی صورت میں دخل ہے.معمولی طریق جوئے کا تو مجالس طعام کے بعد کا ایک معمولی مشغلہ ہےہی لیکن اس کے سوا بھی لاٹریوں کی وہ کثرت ہے کہ یوں کہنا چاہئے کہ تجارت کا بھی ایک چوتھا ئی حصہ جوئے کی نذر ہو رہا ہے.ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سب لوگ جوا کھیلتے ہیں اور کبھی کبھی نہیں قریباً روزانہ اور جؤا کی کلبیں شاید سب کلبوں سے زیادہ امیر ہیں.اٹلی کی کلبمانٹی کارلو میں جو امراء کے جوئے کا مقام ہے،بعض اوقات ایک ایک دن میں کروڑوں روپیہ بعض ہاتھوں سے نکل کر جوئے کے ذریعہ سے بعض دوسرے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے ، غرض اس قدر کثرت جوئے کی ہے کہ یہ کہنا نادرست نہ ہوگا کہ تمدن جدید میں سے جوئے کو نکال کر اس قدر عظیم الشان خلا پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے کسی اور چیز سے پُرنہیں کیا جا سکتا.بِلا خوف انکار و ردّ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے زمانوں میں سے کوئی زمانہ بھی لے لیا جائے اس کی ایک سال کی قمار بازی اس زمانے کی ایک دن کی قمار بازی سے بھی ہزاروں حصہ کم رہے گی، لائف انشورنش ، فائر انشورنس ،تھفٹ انشورنس بیسیوں قسم کے بیمے ہی ہیں جن کے بغیر آج کل لوگوں کا کام نہیں چل سکتا اور جن کے نام سے بھی پہلے لوگ ناواقف تھے.ایک تغیّر اخلاقی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا تھا کہ اس وقت نفسِ زکیہ مارا جائے گالوگ اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں.مگر بات صاف ہے ، اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت پاک نفس انسان کا تلاش کرنا نا ممکن ہو جائے گا.اب اس امر کو دیکھ لیجئے.مسیح موعود ؑ کے اثر کو الگ کر کے کُل دنیا پر نظر ڈال جائیں نفسِ زکیہ کہیں نہ ملے گا.یا تو مسلمانوں میں ایک ایک وقت میں لاکھوں باخدا انسان ہوتے تھے یا اس ضرورت و مصیبت کے وقت ایک اہل اللہ کا ملنا نا ممکن ہے.بیشک بڑے بڑے سجادہ نشین اور علماء اور مشائخ اور متصوف موجود ہیں جن کے ہزاروں لاکھوں مرید ہیں ،لیکن نفس زکیہ کوئی نہیں، ان میں سے ایک کا بھی خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں.اپنی طرف سے ورد اور وظائف کرنے تو پاکیزگی کی علامت نہیں ہیں.پاکیزگی کی تو یہ علا مت ہے کہ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کر لیں اور اللہ تعالیٰٰ ان کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرے اور اپنی غیرت کو ان کے لئے جوش میں لائے اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو پورا کرے اور اپنے کلام کے اسرار ان پر کھولے اور عرفان کا دریا ان کے سینے میں بہادے اور وہ مصائب اسلام کے دور کرنے والے اور مسلمانوں کے سچے امراض دور کرنے
۴۰۵ دعوۃالامیر والے ہوں مگر ایسا ایک شخص بھی ان لوگوں میں نہیں پایا جاتا جو مشائخ اور صوفیاء اور اقطاب اور ابدال اور علماء اور فضلاء کہلاتے ہیں.پس نفس زکیہ کو آج دنیا نے مار دیا ہے اور نفسِ امارہ کو زندہ کر دیا ہے اور وہی ان کو مطلوب بن رہا ہے.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کی یہ بتائی ہے کہ اس وقت امانت اٹھ جائے گی ، چنانچہ دیلمی نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک اضاعتِ امانت بھی ہے امانت اٹھ جانے اور اس کی جگہ خیانت کے لے لینے کا نظارہ نظر آرہا ہے اس کی زیادہ تشریح کی ضرورت نہیں ، ہر گاؤں اور ہر محلے اور ہر گھر کے لوگ اس تغیر کے تلخ اثر کو محسوس کر رہے ہیں.ایک تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کی اخلاقی حالت میں یہ بیان فرمایا تھاکہ اس وقت لوگ ماں باپ سے توحسن سلوک نہ کریں گے، لیکن دوستوں سے سلوک کریں گے.چنانچہ ابو نعیم نے حلیہمیں حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ اس وقت لڑکا اپنے باپ کی تو نافرمانی کرے گا اور اپنے دوست سے احسان کرے گا.یہ تغیر بھی اس شدت کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر شریف آدمی کا دل اس کو دیکھ کر موم کی طرح پگھل جاتا ہے ، مغربی تمدن کے دلدادہ اور تعلیم جدید سے روشنی حاصل کرنیوالے لوگ اپنے بزرگوں کو پاگل سمجھتے اور ان کی صحبت سے احتراز کرتے ہیں اور اپنے ہم خیال نوجوانوں کی مجالس حیا سوز میں اپنے اوقات صرف کرنے کو راحت سمجھتے ہیں.دوستوں کی دعوتوں اور ان کی خاطر و مدارات وغیرہ پر خرچ کرنے کے لئے ان کے پاس روپیہ نکل آتا ہے.لیکن غریب ماں باپ کی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف انہیں کبھی توجہ نہیں ہوتی.ہندوستان میں ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ ماں باپ نے بھوکے پیاسے رہ کر اور رات دن محنت کر کے بچوں کو پڑھا یا ، لیکن جب اولاد صاحب علم ہو کر برسر کار ہوئی تو اس نے اپنے ماں باپ کو برابر بٹھا نا بھی عار سمجھا اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا اکہ ایک اجنبی آدمی ان کو خادم ہی سمجھ سکتا ہے.اب تو اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہیں ، لیکن پہلےزمانوں میں اس قسم کی ایک مثال بھی ملنی مشکل ہے.علمی حالت:.جس طرح مسیح موعودؑ کے زمانے کی اخلاقی حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اسی طرح آپؐ نے اس زمانے کی علمی حالت بھی بیان فرمائی ہے، چنانچہ ترمذی میں انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اشراطِ
۴۰۶ دعوۃالامیر ساعت میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ یُرْفَعُ الْعِلْمُ وَیَظْھَرُ الْجَھْلُعلم اُٹھ جائے گا اور جہل ظاہر ہو جائے گا.اسی مضمون کی روایت بخاری نے بھی بفرق قلیل انسؓ سے بیان کی ہے.یہ تغیر بھی پیدا ہو چکا ہے.ایک وہ وقت تھا کہ مسلمانوں کی عورتیں بھی فقیہہ تھیں.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ انصار کی عورتیں بھی عمرؓ سے زیادہ قرآن جانتی ہیں جس سے ان اک یہ مطلب تھا کہ بچہ بچہ قرآن کریم سے ایسا واقف ہے کہ وہ بڑے بڑے عالم کے فتوے پر جرح کر سکتا ہے اور نادانی اور جہالت کی وجہ سے نہیں بلکہ دلا ئل کی بناء پر.حضرت عائشہ ؓ کے علم اور آپ کی ثقاہت کا کون انکار کر سکتا ہے مگر آج علم دین کا یہ حال ہے کہ ایسے لوگوںکے سوا جو دوسرے علوم سیکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے اس کی طرف کوئی تو جہ ہی نہیں کرتا اور جو علم صرف اس لئے پڑھا جائے کہ اس کے پڑھنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ مفت میں روٹیاں مل جاتی ہیں اس میں کیا برکت ہو سکتی ہے اور اس نیت سے پڑھنے والے دنیا کو کیا نفع پہنچاسکتے ہیں.اس حدیث کی تائید اور بہت سی احادیث سے بھی ہوتی ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت سب قسم کے علم اُٹھ جائیں گے بلکہ اس سے مراد صرف علوم دینیہ ہیں، ورنہ علوم دنیاوی کی زیادتی احادیث سے ثابت ہے.چنانچہ ابوہریرہ ؓ سے ترمذی میں روایت ہے کہ آخری زمانے میں دینی اغراض کے سوا اور اغراض کے لئے علوم سیکھے جائیں گے اور یہی حالت اس وقت پیدا ہے.علوم دنیاوی اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ ایک عالم ان کی ترقی پر حیرت میں ہے اور علوم مذہبی اس قدر بے توجہی کا شکار ہو رہے ہیں کہ جُہّال علماء کہلا رہے ہیں.تمدنی حالت:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود ؑ کے زمانے کی تمدنی حالت کا بھی نقشہ کھینچا ہے اور بہت سی علامات ایسی بیان فرمائی ہیں جن سے اس وقت کے تمدن کا پورا نقشہ کھینچ جاتا ہے.چنانچہ اُن علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت سلام کا طریق بدلا ہو ا ہوگا.امام احمد بن حنبل ؒمعاذ بن انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اس امت کی خرابی اور بربادی کے زمانے کی ایک علامت ہوگی ( اور یہی زمانہ مسیح موعود کاہے) کہ لوگ آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے پر لعنت کریں گے گو شراح اس حدیث کے یہ معنے بیان کرتے ہین کہ اس سے مراد سفلہ لوگوں کا ملتے وقت ایک دوسرے کو گالیاں دینا ہے، مگر در حقیقت اس میں اس سے بھی بڑھ کر ایک اور تغیر کی طرف اشارہ کیا ہے جو سلفوں میں نہیں بلکہ بعض علاقوں کے مسلمان شرفاء میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ بندگی اورتسلیم کا رواج ہے.ہندوستان میں بڑے لوگ آپس میں سلام کہنا
۴۰۷ دعوۃالامیر ہتک خیال کرتے ہیں اور اس کی جگہ آداب اور تسلیم کہتے ہیں ، بلکہ ہندوؤں کی نقل میں بندگی تک کہہ دیتے ہیں جس کے یہ معنے ہیں کہ میں آپکے سامنے اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہوں اور یہ الفاظ اس لفظ کی جگہ استعمال کرنے جس کے معنے سلامتی اور حفاظت کے ہیں درحقیقت ملاعنہ ہی ہے.کیونکہ جب کوئی شخص شرک کے کلمات کہتا ہے ، یا خدا کے لئے جس فرماں برداری کا اظہار مخصوص ہے اس کا اظہار بندوں کے لئے کرتا ہے وہ خدا کی لعنت ایک دوسرے پر ڈالتا ہے.لفظ آداب جس کا مسلمانوں میں رواج زیادہ ہے اس کا درحقیقت یہی مطلب ہے کہ ہم بندگی اور تسلیم کہتے ہیں اور یہ لفظ اس لئے اختیار کر لیا گیا ہے تا ایسے مشرکانہ الفاظ باربار استعمال کرنے سے دل میں جو ملامت پیدا ہوتی ہے اس کے اثر سے محفوظ ہو جائیں.ایک تمدّنی تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں عزت بوجہ دین کے نہ ہوگی بلکہ بوجہ مال اور سیاسی اعمال وغیرہ کے ہوگی،ابن مردویہ ؒ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اشراطِ ساعت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس وقت صاحب مال کی تعظیم ہوگی.یہ حالت بھی اب پیدا ہے وہ قدیم دستور جو خاندانی وجاہت کو سب بواعثِ عزت پر مقدم کئے ہوئے تھا، اب بالکل مٹ گیا ہے اور عزت کا ایک ہی معیار ہے کہ انسان صاحب مال ہو، پہلے مالدار اور دولتمند لوگ علماء کی مجالس میں حاضر ہوتے تھے اور اب علماء اس امر میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کسی امیر کی دوستی کا فخر حاصل ہے.یایوں کہئے کہ اس کی ڈیوڑھی پر جُبّہ سائی کی عزت نصیب ہے.اسی طرح حذیفۃ ابن الیمان سے روایت ہے کہ ایک زمانہ مسلمانوں پر آنے والا ہے کہ ایک شخص کی تعریف کی جائے گی کہ مَااَجْلَدَہٗ وَاَظْرَفَہٗ وَمَا اَعْقَلَہٗ وَمَا فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِنْ ااِیْمَانٍ یعنی کہا جائے گ کہ فلاں شخص کیا ہی بہادرہے.کیا ہی خوش طبع اور نیک اخلاق ہے اور کیا ہی عقلمند ہے حالانکہ اس شخص کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا.یہ حالت بھی اس وقت پیدا ہے.کوئی شخص خواہ کیسا ہی بے دین ہو مسلمانوں کے حقوق کا نام لے کر کھڑا ہوجائے.جھٹ مسلمانوں کا لیڈر بن جائے گا کوئی نہیں پوچھے گا کہ یہ شخص اسلام پر تو قائم نہیں، اسلام کا لیڈر اسے اللہ تعالیٰ نے کیونکر بنا دیا اتنا ہی کافی سمجھا جائے گا کہ یہ عمدہ لیکچرار ہے یا خوب دانائی سے اپنے حریف کا مقابلہ کر سکتا ہے یا سیاسی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے اپنی جان دینے کو تیار ہے.
۴۰۸ دعوۃالامیر ایک تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت مومن ذلیل ہوں گے اور لوگوں کے ڈر سے چھپتے پھریں گے.حضرت ابن عباسؓ سے ابن مردویہؒ نے روایت کی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراطِ ساعت میں سے ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ مومن لونڈی سے بھی زیادہ ذلیل سمجھا جائے گا.جس کا یہ مطلب ہے کہ لونڈی سےبھی لوگ رشتہ محبت قائم کر لیتے ہیں اور اس سے شادی کر لیتے ہیں، لیکن مومن سے تعلق پیدا کرنا ان دنوں کوئی پسند نہیں کرے گا.اسی طرح حضرت علیؓ سےدیلمی نے روایت کی ہے کہ ان دنوں نیک چھپ چھپ کر پھریں گے.یہ حالت بھی ایک عرصے سے پیدا ہے.مومنوں سے تعلق کو ناجائز سمجھا جاتا ہے.جو بھی سچا متبع قرآن مجید اور سنتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو اس سے بد تر انسان مسلمانوں میں کوئی نہیں سمجھا جاتا.حتیٰ کہ مسیح موعود کی آمد کے بعد تو یہ علامت ایسی ظاہر ہو گئی ہے کہ فاحشہ عورتوں اور بے نمازوں اور خائنوں اور جھوٹ بولنے والوں اور اللہ اور رسولؐ کو برا کہنے والوںسے ملنا اور انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا تو جائز سمجھا جاتا ہےلیکن جب لوگوں نے آسمانی آواز پر لبیک کہا ہے ان کو دھتکار ا جاتا ہے.اور ان سے دشمنی رکھی جاتی ہے.ایک علامت اس زمانے کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں عربی کاچرچا کم ہو جائے گا.چنانچہ ابن عباسؓ سے مردویہ ؓ نے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے اشراط ساعت میں سے ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت صفوف توبڑی لمبی ہوں گی، لیکن زبانیں مختلف ہوں گی.اور یہ نقشہ حج کے ایام میں خوب نظر آتا ہے، حج کی بڑی اغراض میں سے ایک غرض یہ بھی تھی کہ اس کے ذریعے سے اجتماع اسلامی قائم رہے، لیکن عربی زبان کو ترک کر دینے کے سبب وہاں لوگ جمع ہوکر بھی فریضہ حج ادا کرنے کے سوا کوئی اجتماعی یا ملی فائد ہ حاصل نہیں کر سکتے ، اگر مسلمان عربی زبان کو زندہ رکھتے تو یہ زبان دنیا کے چاروں گوشوں کے لوگوں کو ایک ایسی مضبوط رسّی میں باندھ دیتی جو کسی دشمن کے حملے سے نہ ٹوٹتی.ایک حالت اس وقت کے تمدن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت عورتیں باوجود لباس کے ننگی ہوں گی یہ حالت بھی اس وقت دو طرح پیدا ہو رہی ہے.ایک تو اعلیٰ کپڑا اس قدر سستا ہو گیا ہے کہ عام طور پر لوگ وہ کپڑاپہن سکتے ہیں جو پہلے امراء تک
۴۰۹ دعوۃالامیر محدود تھا اور کپڑے بھی ایسے باریک تیار ہونے لگ گئے ہیں کہ ان کا لباس پہننے سے ایک خیالی زینت تو شاید پیدا ہو جاتی ہوگی مگر پردہ یقینا نہیں ہوتا اور اکثر حصہ دنیا کا ان لباسوں کا شیدا ہو رہا ہے اور اسے عورتوں کے لئے زینت خیال کر رہا ہے دوسری صورت یہ ہے کہ اہل یورپ اور امریکہ کی عورتوں کے لباس کا طریق ایسا ہے کہ ان کے بعض قابل ستر حصے ننگے رہتے ہیں، مثلاً عام طور پر اپنی چھاتیاں ننگی رکھتیں ہیں، کہنیوں تک باہیں ننگی رکھتی ہیں.پس باوجود لباس کے وہ ننگی ہوتی ہیں.غرض دو طرح اس علامت کا ظہور ہو رہا ہے.مسلمانوں میں باریک کپڑے کے استعمال سے اور مسیحیوں میں سینہ اور سر اور بازوؤں کے ننگے رکھنے سے.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے کی جو مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہے ، یہ بیان فرمائی ہے کہ عورتیں اس وقت اونٹ کے کوہان کی طرح سر کے بالوں کو رکھیں گی چنانچہ یورپ کی عورتوں کا یہی طریق ہے.وہ سر کو گوندھنا نا پسند کرتی ہیں اور بال پھُلا کر اس طرح رکھتیں ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا سر پر کچھ اور چیز رکھی ہے دوسری اقوام بھی ان کے اقتدا ر سے متاثر ہو کر ان کی نقل کر رہی ہیں اور جس طرح لوگ ان کے باقی اقوال و افعال کو وحی آسمانی سے زیادہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس امر میں بھی ان کی اتباع میں تہذیب کی ترقی دیکھتے ہیں.ایک علامت اس زمانے کی حضرت ابن عباسؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کی ہے کہ اسوقت عورت اپنے خاوند کے ساتھ مل کر تجارت کرے گی یہ علامت بھی ظاہر ہو چکی ہے.بلکہ اس کا اس قدر زور ہے کہ عورتوں کے بغیر تجارت کا میاب ہی نہیں سمجھی جاتی اور اس سے بھی زیادہ اب یہ حالت پیدا ہو رہی ہے کہ یورپ کے بعض شہروں میں دُوکانوں پر بعض خوبصورت عورتیں صرف اس غرض سے رکھی جاتی ہیں کہ وہ گاہکوں سے مل کر ان کے دل لُبھانے کی کوشش کیا کریں تاوہ ضرور سودا وہیں سے خرید یں اور خالی نہ لوٹ جاویں.ایک علامت اس زمانے کے تمدن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت عورتیں اس قدر آزاد ہوں گی کہ وہ مردوں کا لباس پہنیں گی اور گھوڑوں پر سوار ہوں گی، بلکہ مردوں پرحکمران ہوں گی تمد ن موجود ہ میں یہ تغیر بھی پیدا ہو چکا ہے اور امریکہ اور دیگر مسیحی ممالک میں اور ان کی دیکھادیکھی دوسرے مذاہب کے پیروؤں میں بھی عورتوں کی آزادی کا ایک غلط مفہوم لیا جانے لگا ہے کہ سُنکر حیرت ہوتی ہے اور ان خیالات
۴۱۰ دعوۃالامیر کے اثر سے موجودہ تمدن پچھلے تمدن سے بالکل بدل گیا ہے ، عورتیں کثرت سے مردوں کے ساتھ مل کر گھوڑوں پرسوار ہو کر شکار اور گھوڑ دوڑوں میں شامل ہوتیں ہیں بلکہ سرکس میں تماشے دکھاتیں ہیں اور مردوں کا لباس پہننے کا رواج بھی مسیحی ممالک میں کثرت سے ہے، علی الخصوص جنگ کے بعد سے تو لاکھوںعورتوں نے بالکل مردانہ لباس پہننا شروع کردیا ہے.بِرجس اور چھوٹا کوٹ بھی ان میں ایک فیشن کی صورت اختیار کرگیا.عورتوں کو جو حکومت مردوں پر حاصل ہو چکی ہے وہ بھی اپنی نوعیت میں نرالی ہے.درحقیقت اس امر میں یورپ کے تمدن اور اس کے اثر سے دیگر بِلاد کے تمد ن میں ایسا فرق آگیا ہے کہ اس کے بد تنائج اگر اللہ تعالیٰٰ کے فضل سے دور نہ ہوئے تو ان کے دور ہونے کی اور کوئی صورت نہیں، یا تو ان کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کوئی خطر ناک فساد پھُوٹے گا یا شادی کا رواج بالکل بند ہو جائے گا اور نسل انسانی کی ترقی کو ایک ناقابل برداشت صدمہ پہنچے گا.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے تمدن کی یہ بتائی ہے کہ اس وقت مرد عورتوں کی طرح زینت کریں گے اور ان کی شکلیں اختیار کریں گے.تغیرا ت بھی پیدا ہو چکے ہیں.دنیاکا اکثر حصہ داڑھیاں منڈوا کر عورتوں سے مشابہت اختیار کر رہا ہے.کسی وقت داڑھی مرد کے لئے زینت سمجھی جاتی تھی اور مسلمانوں کے لئے تو باتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی شعار تھی.وہ اب اکثر چہروں سے غائب نظر آتی ہے ، بلکہ ایسے لوگ بھی جن کو عالم اسلام میں بہت کچھ دینی وقعت دی جاتی ہے، اس کے مونڈ دینے ہی میں اپنے چہروں کی زینت پاتے ہیں.دوسرا تغیر اس پیشگوئی کے ماتحت تھیٹروں کی کثرت ہے کہ ان میں کثرت سے مرد عورتوں کا اور عورتیں مردوں کا بھیس بدل کر تما شہ کرتے اور گاتے ناچتے ہیں.اسی طرح یورپ و امریکہ میں مرد جس قدر اپنے سر کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور جس طرح ان کی زینت کی طرف توجہ کرتے ہیں وہ اس زمانے کی عورتوں سے تو نہیں مگر پرانے زمانے کی عورتوں سے ضرور بڑھ کر ہے.جسمانی حالت:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کے لوگوں کی جسمانی اور صحت کی حالت بھی بیان فرما دی ہے، چنانچہ حضرت انسؓ سے ترمذی میں روایت ہے کہ جب دجال ظاہر ہوگا اور مدینے کی طرف رُخ کریگا تو اس وقت طاعون بھی پڑے گی اور اللہ تعالیٰٰ طاعون اور دجال دونوں سے مدینے کو بچائے گا.یہ حالت بھی پیدا ہو چکی ہے.پچّیس۲۵
۴۱۱ دعوۃالامیر سال سے دنیا میں طاعون اس شدت سے حملہ آور ہے کہ الامان ، لاکھوں گھرویران ہو گئے، سینکڑوں قصبات اور دیہات اجڑ گئے ، لیکن اللہ تعالیٰٰ نے مقامات مقدسہ کو کسی بڑے حملے سےبالکل بچا ئےرکھا ہے اور ظاہر ی سبب اس کا یہ بتا دیا ہے کہ مختلف جہات میں قوار نطین (QUARANTINE)قائم کئے جاچکے ہیں جن کے ذریعے سے اس کے زہر کو دور رکھا جاتا ہے.طاعون کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف الفاظ میںخبر دی ہے، بعض جگہ اسے دابۃ الارض کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے.کیونکہ یہ مرض ایک کیڑے سے پیدا ہوتا ہے جو زمین سے انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے.قرآن کریم میں بھی اسی کا یہی نام ہے.یہ طاعون کوئی معمولی وباء نہیں ہے.بلکہ اس وباء نے دنیا کے اکثر حصوں میں اپنی ہلاکت کا جال بچھا دیا ہے اور ہندوستان میں توچھبّیس۲۶ سے اب تک ڈیرہ لگائے ہوئے ہے.اس دابہ کے خروج کی پیشگوئی میں صرف طاعون ہی کی خبر نہیں ہے، بلکہ اس میں یہ بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کئی ایسی بیماریاں پیدا ہو جائیں گی جن کا اثر خورد بینی کیڑوں کے ذریعے سے پھیلے گا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں کئی ایسی بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں جو خوردبینی اجسام کے ذریعے پھیلتی ہیں اور جو اس سے پہلے یا تو تھی ہی نہیں یا اس شکل میں کبھی نمودار نہ ہوئی تھیں.اس قرآنی اور نبی کریم ؐ کی بتائی ہوئی پیشگوئی میں درحقیقت خوردبین کی ایجاد اور اس کے اثر کا بھی اظہار کیا گیا ہے.کیونکہ اس کے بغیر دنیا کو کیونکر معلوم ہو سکتا تھا کہ ان بیماریوں کا باعث ایک دابہ یعنی کیڑا ہے.پہلے تو لوگ بلغمؔ، صفراؔ، سوداؔ اور دمؔ پر ہی سب بیماریوں کے بواعث کی زنجیر کو ختم کر دیتے تھے.مسیح موعود کے زمانے میں صحت عامہ کی حالت کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی نشانات بیان فرمائے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت مرگِ مفاجات ظاہر ہوگی یعنی کثر ت سے اس کی مثالیں پائی جائیں گی ، ورنہ ایک دو تو ہمیشہ ہوتی ہی رہتی ہیں.چنانچہ برطبق پیشگوئی اس زمانے میں مرگ مفاجات کی بھی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں.اس کی ایک وجہ تو شراب کی کثرت ہے اور دوسر ی علوم کی کثرت شراب سے دل اور دماغ ضعیف ہوجاتے ہیں اور کثرت مطالعہ اور کثرت کارسے اعصاب کی طاقت کمزور ہوجاتی ہے.اور یہ دونوں چیزیں اس وقت اپنے زور پر ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شراب خور قوموں میں مرگ مفاجات اس کثرت سے ہے کہ الامان ہر سال ہزاروں آدمی آناً فا ناً دل کی بیماریوں سے کھڑے کھڑے یا
۴۱۲ دعوۃالامیر بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے مرجاتے ہیں جس کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.صحت عامہ:.کے متعلق ایک یہ بات بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ اس وقت ایک بیماری ہوگی جو ناک سے تعلق رکھے گی جس سے کثرت سے لوگ مر جائیں گےیہ بیماری بھی پید اہو چکی ہے جسے طبی اصطلاح میں انفلوئنزا کہتے ہیں اس بیماری سے ۱۹۱۸ء میں دوکروڑ آدمی دنیا بھر میں مرگئے.حالانکہ پنج سالہ جنگ عالمگیر میں صرف ساٹھ لاکھ کے قریب آدمی مرا تھا ، گویا کُل دنیا کی آبادی کا ڈیڑھ فیصد ی حصہ اس بیماری سے فنا ہو گیا اور دنیا کو یہ بیماری قیامت کا یقین دلاگئی.کیونکہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ اگر اللہ تعالیٰٰ چاہے تو اس کیلئے دنیا کا خاتمہ کردینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے.نسلی تناسب:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے نسلی تناسب کا بھی نقشہ کھینچا ہے.چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں عورتیں مردوں سے زیادہ ہوجائیں گی حتیٰ کہ پچاس عورتوں کا ایک مرد نگران ہوگا.یہ پیشگوئی بھی پوری ہو چکی ہے.اس وقت دنیا میں عورتیں زیادہ ہیں اور یورپ کے بعض ممالک میں بوجہ جنگ میں مردوں کے مارے جانے کے عورتوں کی وہ کثرت ہو گئی ہے کہ وہ قومیں جو اسلام پر کثرت ازدواج کے مسئلے کی وجہ سے ہنسا کرتی تھیں اب خود نہایت سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کر رہی ہیں کہ موجودہ ابتری کا علاج سوائے کثرت ازدواج کے اور کیا ہو سکتا ہے اور بڑے بڑے فلاسفر اس امر پر مضمون لکھ رہے ہیں کہ اس وقت حکومتوں کو تباہی سے بچانے اور نظام تمدن کو قائم رکھنے کے لئے یا تو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ہونی چاہئے یا زنا کو ظاہر طور پر جس قدر بُرا سمجھا جاتا تھا اس پردہ کو بھی اٹھا دینا چاہئے اور اس بات کی طرف تو اکثر لوگ مائل ہیں کہ ایسے لوگوں کو جو ایک سے زیادہ بیویاں کرتے ہیں ، عدالتوں میں نہیں گھسیٹنا چاہئے اور ان کے اس فعل پر چشم پوشی کرنی چاہئے اور یہ خیالات کا تغیر عورتوں کی زیادتی کا نتیجہ ہے ورنہ کچھ ہی مدت پہلے یورپ کے لوگوں کی نظر میں کثرت ازدواج نہایت سخت جرموں میں سے گِنا جاتا تھا اور اس کی تائید اشارتاً بھی کوئی مسیحی نہیں کر سکتا تھا، بلکہ ان کی نفر ت کو دیکھ کر مسلمان بھی اسلام کی طرف سے کثرت ازدواج کی اجازت دینے پر معذرت کرنے لگ گئے تھے.تعلقاتِ مابین:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کے متعلق یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اس وقت اقوام کے تعلقات کس طرح کےہو ں گے.آپ نے خبر دی ہے کہ اس
۴۱۳ دعوۃالامیر وقت ایسے سامان نکل آویں گے کہ لوگ پرانی سواریوں کو چھوڑ دیں گے اور نئی سواریوں پر چڑھیں گے خشکی اور پانی پر نئی قسم کی سواریاں چلیں گی، چنانچہ آپ فرماتے ہیں لَیُتْرَکَنَّ الْقِلاَسُ فَلاَ یُسْعٰی عَلَیْھَا اس زمانے میں سواری کی اونٹنیاں ترک کر دی جائیں گی اور لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کریں گے، چنانچہ اس وقت یہی ہو رہا ہے، اکثر ممالک میں ریل کی سواری کی وجہ سے قدیم سواریاں بیکار ہوتی جاتی ہیں.پہلے خالی ریل تھی تو دوسری سڑکوں پر سفر کرنے کے لئے پھر بھی لوگ اونٹ وغیرہ کے محتاج ہوتے تھے، لیکن جب سے موٹر نکل آئی ہے اس وقت سے تو اس قدر ضرورت بھی گھوڑوں وغیرہ کی نہیں رہی اور جُوں جوں ان سواریوں کی ترقی ہوگی پرانے سواری کے جانور متروک ہوتے چلے جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے متعلق یہ خبر بھی دی تھی کہ اس وقت ریلوں کے علاوہ دُخانی جہاز بھی نکل آئیں گے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.دجال کا گدھا پانی پر بھی چلے گا اور جب وہ چلیگا تو اس کے آگے اور پیچھے بادل ہوگا)اور اس سے مراد آپ کی ریل اور دخانی جہاز ہی ہیں.کیونکہ یہی گدھا ہے جو خشکی اور پانی پر چلتا ہے اور اس سے کلیسیاء نے جسقدر کام لیا ہے اور کسی قوم نے نہیں لیا.اس کے ذریعہ پادری انجیلیں بغل میںدبا کر دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ گئے اور سارے جہان کو اپنے دجل کے جال میں پھانس لیا ہے اور ریل اور جہاز کے کبھی آگے اور کبھی پیچھے دھوئیں کا بادل ہوتا ہے جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور ان دونوں سواریوں کی خوراک بھی پتھر ہے (یعنی پتھر کا کوئلہ) جو خوراک کہ دجّال کے گدھے کی حدیثوں میں بیان ہوئی ہے.ان سواریوں نے تعلقات اقوام کی نوعیت ہی بالکل بدل دی ہے.مالی حالت:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کی مالی حالت کا بھی نقشہ کھینچ کر بتایا ہے، حذیفہ ابن الیمان ؓ سے ابو نعیم نے حلیہ میں روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ اس وقت سونا زیادہ ہو جائے گا اورچاندی لوگوں سے مطلوب ہو جائے گی.یہ حالت بھی اب پیدا ہے سونے کی وہ کثرت ہوگئی ہے کہ اس کا دسواں حصہ بھی پہلے نہ تھی.سینکڑوں سونے اور چاندی کی نئی دکانیں نکل آئی ہیں اور پھر سونے اورچاندی کے نکالنے کے جدید ذریعے معلوم کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں سونے کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے.اگر صرف انگلستان کا ہی سونا لیا جائے تو شاید
۴۱۴ دعوۃالامیر پچھلے زمانے کے ساری دنیا کے سونے سے زیادہ نکلے، چنانچہ ایک نمایاں اثر اس کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تجارت نہایت ترقی کر گئی ہے اور سب تجارت سونے اور چاندی کے ساتھ ہوتی ہے.پہلے زمانوں میں پیسوں اور کوڑیوں پر خرید و فروخت کا مدار تھا.اب کوڑیوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں اور بعض ملکوں میں پیسوں کو بھی نہیں جانتا.جیسے انگلستان میں کہ وہاں سب سے چھوٹا مروّج سکہ آنے کا سکہ ہے اور امریکہ میں سب سے چھوٹامروّج سکہ دو پیسہ کا ہے اور اکثر کام ان ممالک میں تو سونے کے سکوں سے ہی ہوتا ہے.اس وقت کی مالی حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ سود بہت بڑھ جائے گا.چنانچہ حضرت علیؓ سےدیلمی نے روایت کی ہے کہ قرب قیامت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت سود خوری زیادہ ہوجائے گی.اور یہ بات بھی پیدا ہو چکی ہے.اس وقت جس قدر سود کو ترقی حاصل ہے اس کا لاکھواں بلکہ کروڑواں حصہ بھی پہلے کبھی حاصل نہیں ہوئی، شاذ و نادر کو مستثنیٰ کر کے سب تجارتیں سود پر چلتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر سود نہ لیں تو کام چل ہی نہیں سکتا.بنکوں کی وہ کثرت ہے کہ ہزاروں کے شمار سے بھی بڑھ گئے ہیں.حکومتیں سود لیتی اور دیتی ہیں ،تاجر سود لیتے اور دیتے ہیں.صنّاع سود لیتے اور دیتے ہیں.امراء سود لیتے اور دیتے ہیں غرض ہر قوم کے لوگ سود پر کا م چلا رہے ہیں اور یوں کہنا چاہئے کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں ہر شخص نے عہد کر لیا ہے کہ وہ دوسرے کے روپیہ سے اپنا کام چلائے گا اور اپنا روپیہ دوسرے کو کام چلانے کے لئے دے گا اگر ایک کروڑ کی تجارت ہورہی ہو تو اس میں شاید چند ہزار روپیہ سود کی زد سے باہر رہے گا.باقی سب کا سب سود کے چکر میں آیا ہوا ہو گا، مسلمان جنہیں کہا جاتا تھا کہ اگر سود لینے سے تم باز نہیں آتے تو فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ(البقرہ آیت ۲۸۰) اللہ تعالیٰٰ سے جنگ کرنے کے لئے تیا رہو جاؤ.ان کا بھی یہ حال ہے کہ اکثر تو سود کا نام منافع رکھ کر اسے استعمال کر رہے اور بعض اپنی کمزوری کا اقرار کر کے اس کا لین دین کر رہے ہیں.علماء نے عجیب و غریب تو جیہیں کر کے بنکوں کے سود کے جواز کا فتویٰ دیدیا ہے اور یہ کہہ کر کہ کفار کے زیر حکومت ممالک میں سود لینا جائز ہے کسی قسم کے سود میں بھی روک نہیں رہنے دی اور آخری شریعت کے بعد ایک نئی شریعت کے بنانے کے مرتکب ہو گئے ہیں ان سب حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ سود کا حملہ اس زمانے میں ایسا سخت ہے کہ اس کا مقابلہ سو ا ان کے جن کو خدا بچائے کوئی نہیں کر سکتا.
۴۱۵ دعوۃالامیر آخر ی زمانے کی مالی حالت کی ایک خصوصیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت مسیحی لوگ امیر ہوں گے اور دوسرے لوگ غریب ہوں گے چنانچہ ترمذی نے نواس بن سمعانؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دجال لوگوں سے کہے گا کہ مجھے مان لو جو لوگ اس کا انکار کریں گے.ان کے گھر کا سب مال دجّال کے ساتھ ہی چلا جائے گا اور جو اس پر ایمان لائیں گے وہ خوب مالدار ہو جائیں گے وہ ان کے لئے آسمان سے بر سوائے گا اور زمین سے اُگلوائے گا.چنانچہ یہی حال اب ہے.سی اقوام دن رات مال و دولت میں ترقی کر رہی ہیں اور ان کی مخالف اقوام روز بروز غریب ہوتی جاتی ہیں اور پراپر سو سال سے کی صورت پیدا ہو رہی ہے.سیاسی حالت رسول کریم اﷺنے مسیح موعود کے زمانے کی سیای حالت کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس کو پڑھ کر یہ موجودہ زمانہ خود بخود سامنے آجاتا ہے مختلف سیاسی تغيرات جو مسیح موعود کے زمانے میں پیدا ہونے ضروری ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں ۱.رسول کریم ﷺسے حذیفہ ابن الیمان نے روایت کی ہے اور ابو نعیم نے حلیہ میں اسے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس وقت مسلمانوں پر اس قدر مصائب آئیں گی کہ وہ مثل یہود کے ہو جائیں گئے.۳۱.جس سے آپکی یہ مراد ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں اور ان کا اقتدار جاتا رہے گا اور یہود کی طرح دوسروں کے رحم پر ان کی زندگی کا انحصار ہو گا.یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے.اسلامی حکومتیں مٹ گئی ہیں اور نہایت قلیل نشان ان کے باقی ہیں.یا تو دنیا پر اسلامی جھنڈا ہی لہراتا نظر آتا تھا یا اب اس چھنڈے کو لہرانے کیلئے کوئی جگہ نہیں ملتی.مسلمان اپنی حکومتوں کے قائم رکھنے کیلئے کبھی کسی نہ کسی مسیحی حکومت کی مدد کے محتاج ہیں.انا لله و انا اليه راجعون.ایک سیاسی تغیر زمانہ مسیح موعود کے وقت کا رسول کریم اﷺنے یہ بیان فرمایا ہے کہ شام اور عراق اور مصر اس وقت کے بادشاہ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور عرب کے لوگوں کی حالت پھر طوائف الملوکی کی ہو جائے گی.چنانچہ ابو ہریرہ ؓسے مسلم میں روایت ہے کہ رسول کریم اﷺ نے فرمایا کہ عراق اپنےدر ہم اور غلے روک دے گا اور شام اپنے دینار اور غلے کو روک دے گا اور مصر اپنے غلے کو روک دے گا اور تم پھرویسےکے و یسے ہو جاؤ گے جیسے کہ
۴۱۶ دعوۃالامیر پہلے تھے یعنی عرب میں طوائف الملوکی پیدا ہو جائے گی.یہ علامت بھی پوری ہو گئی ہے.عراق اور شام اور مصر سلطان کے قبضہ سے نکل گئے ہیں اور ترکی حکومت کو کسی قسم کا خراج اور مدد نہیں دیتے اور عرب پھر طوائف الملوکی کی حالت میں ہو گیا ہے.گو حجاز میں ایک حکومت قائم ہے مگر ابھی تک اس کی حالت بوجہ کثرت اعداء و قلت مال کے محفوظ نہیں ہے اور اس کے علاوہ دیگر علاقہ جات عرب تو بالکل بے انتظام حالت میں ہیں اور وہاں کی حکومتیں متمدن حکومت نہیں ہیں.ایک سیاسی تغیرّاس زمانے کا آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت یاجوج اور ماجوج کو ایسی طاقت حاصل ہوگی کہ دوسری اقوام کو ان سے مقابلے کی بالکل مقدرت نہ ہوگی چنانچہ نواس بن سمعان ؓکی روایت مسلم اور ترمذی میں ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اللہ تعالیٰ ان کروحی کرے گا کہ اتش قد اخرج عباداتی لادان لاحد بقتالهم فكرزعبادي إلى الطوروثه الله ياجوج ماجوج ۲۳.یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے، یاجوج اور ماجوج ظاہر ہو چکے ہیں اور ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت کی میں نہیں ہے.یاجوج اور ماجوج سے مراد روس اور انگریزوں کی حکومت اور ان کی اتحادی حکومتیں ہیں جیسا کہ ہائیبل میں لکھا ہے کہ ” اے جوج روس اورٹو بالسک کے بادشاہ اور ماجوج جو جزیروں میں امن سے حکومت کرتے ہو ۳۴.’’یہ دونوں قومیں اپنے حلیفوں کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں اور ان کا عروج جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے نزول مسیح موعود کے بعد مقد ر تھا.پس ان کا عروج اپنی ذات میں بھی دلالت کر رہا ہے کہ مسیح موعود نازل ہو چکا ہے.ایک تغیرّ اس زمانے کی سیاسی حالت میں رسول کریم ﷺنے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت مزدوروں کی طاقت بہت بڑھ جائے گی.جیسا کہ حذیفہ ابن لیمانؓ کی روایت میں جو أبو نعیم نے حلیہ میں نقل کی ہے مذکور ہے کہ اشراط ساعت میں سے رسول کریمﷺ نے ایک یہ شرط بھی بیان کی ہے کہ اس وقت غریب برہنہ لوگ بادشاہ ہو جائیں گے اور برہنہ سے مراد اس جگہ نسبتی طور پر برہنہ ہے اور امراء کے مقابلہ میں غرباء اپنے لباس کی کمی کی وجہ سے برہنہ ہی کہلاتے ہیں.یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے نیابتی حکومت کی ترقی کے ساتھ ساتھ غرباء کی حکومت بڑھتی جاتی ہے اور وہ بادشاہ بن رہے ہیں مزدور جماعت کی طاقت کے آگے بادشاہوں کے دل کانپ رہے ہیں اور کوئی جماعت خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو اپنے قیام کو
۴۱۷ دعوۃالامیر ان سے صلح کے بغیر معرض خطر میں پاتی ہے اور بعض علاقوں میں تو انہیں کامل حکومت حاصل ہے.جیسے روس میں اور سوئٹزرلینڈ میں اور بعض حصص آسٹریلیا میں اور روز بروزیہ جماعت طاقت پکڑتی جاتی ہے.مسیح موعود کے زمانے کی سیاسی حالت کی ایک خصوصیت رسول کریمﷺا نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت حُکام کی کثرت ہوگی.حذیفہ ابن الیمان روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ اشراط ساعت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس وقت شُرط زیاده ہو جائیں گے.اور شُرط والی اور حاکم کے مدد گاروں اور نائبوں کو کہتے ہیں یہ علامت بھیاس وقت پوری ہو چکی ہے پہلے جو نظام حکومت ہوا کرتا تھا اس میں اس قدر مددگاروں کی حاکموں کو ضرورت نہیں پڑتی تھی ہر علاقے میں ایک دو حاکم کافی سمجھے جایا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں انتظام کا طریق اس طرح بدل گیا ہے اور حکومت کی ذمہ داری کی اس قدر شاخیں نکل آئی ہیں کہ پہلے سے سینکڑوں گنے مدد گار افسروں کیلئے رکھنے پڑتے ہیں پولیس اور صحت عامہ اور رجزٹریشن اور تعمیرعامہ اور ڈاک خانہ اور رہیں اور تار اور انہار اور نگرانی مخدرات و مسکرات اور پڑتال و غیرھا محکمے اس قدر وسیع ہو گئے ہیں کہ پہلے اس قدر وسیع نہ تھے اس لئے گورنمنٹ کو ہر حاکم کے ساتھ ایک وسیع عملہ رکھنا پڑتا ہے.ایک تغیّر مسیح موعود کے زمانے کی سیاست میں رسول کریم ﷺنے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت حدود ترک کی جائیں گی.حضرت علیؓ سے دیلمی نے روایت کی ہے کہ آخری زمانے کی علامتوں میں سے ایک ترک حدود بھی ہے یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے اسلامی حکومتوں میں اس وقت حدود ترک ہیں.الاماشاء الله.ترکوں کی حکومت میں، عرب میں، مصر میں ،ایران میں بلکہ خودجناب ہی کے بلاد میں زانی کو رجم کی اور چور کو قطع ید کی سزا نہیں دی جاتی بلکہ بعض اسلامی حکومتیں تو بذریعہ معاہدات ان سزاؤں کے دینے سے باز رکھی گئی ہیں.یہ علامت ایسی واضح ہے کہ اسلامی اقتدار کے زمانے میں اس امر کا کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اسلامی احکام کو اس طرح بھی پسِ پُشت ڈالا جائے گا اور مسلمان حکومتیں اگر خواہش بھی رکھیں گی تو حدود اسلامیہ کو جاری نہیں کر سکیں گی.ٍ علاوہ ان علامات کے بتانے کے جو انسان کے مذہبی اخلاقی، علمی، جسمانی، سیاسی، نسلی، تمدنی و غیرها زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں رسول کریم ﷺنے مسیح موعودؑ کے زمانے کے
۴۱۸ دعوۃالامیر متعلق بعض ایسی علامات بھی بیان فرمائی ہیں جو تغیرات مکانی سے تعلق رکھتی ہیں، مثلا ًآپ ؐنے اس وقت کی زمینی اور آسانی حالتوں کو بھی بیان فرمایا ہے جن میں سے بعض میں اس جگہ بیان کرتا ہوں.زمینی تغیرات زمین کی اندرونی حالت کے متعلق رسول کریم ﷺسے حذیفہ ابن الیمانؓ نے یہ روایت بیان فرمائی ہے کہ آنحضرت ﷺنے اشراط ساعت میں سے علامات کی علامات بیان فرما کر فرمایا کہ جب یہ علامات پوری ہو جائیں تو تم بعض بلاؤں کے منتظرر ہو جن میں سے ایک آپ نے خسف بیان فرمائی اور خسف جیسا کہ علم طبیعات سے ثابت ہے زلزلے کے سبب سے ہوتا ہے پس خسف سے مراد جناب سرور کائنات کی زلازل سے ہے اور یہ زمین کے اندر کا تغیر بھی جس کے سبب سے کثرت سے زلز لے آویں پیدا ہو چکا ہے اور پچھلے بیس سال میں دنیا میں اس قدر زلزلے آئے ہیں کہ ان سے پہلے تین سو سال میں بھی اس قدر زلزلے نہیں آئے تھے اور اس قدر موتیں ان سالوں میں زلزلوں کے ذریعے سے ہوئی ہیں کہ پچھلی کئی صدیوں میں بھی اس قدر موتیں زلزلوں سے نہیں ہوئیں.فلکی علامات علاوہ زمینی تغیرّات کے رسول کریم ﷺ نے مسیح موعودؑ کے زمانے کے بعض فلکی حالات بھی بیان فرمائے ہیں.مثلاً یہ کہ اس وقت سورج اور چاند کو ر مضان کے مہینے میں خاص تاریخوں میں گرہن لگے گا اور اس علامت پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ رسول کریم ؐنے فرمایا کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے یہ دونوں علامتیں کسی اور نبی کی تصدیق کیلئے ظاہر نہیں ہوئیں حدیث کے الفاظ یہ ہیں ان لمهدينا ايتین لم تكونا منذخلق السموت والأرض ینکسف القمر لأول لیلہ من رمضان و تنکسف الشمس في النصف منه ولم تکونا منذ خلق الله السموات والأرض ، یعنی محمد بن علیؓ نے روایت کی ہے کہ ہمارے مہدی کے دو نشان ہیں یہ نشان آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت سے لے کر اب تک کبھی ظاہر نہیں ہوئے ایک تو یہ کہ قمر(چاند) کو رمضان میں پہلی رات میں گرہن لگے گا اور دوسرا یہ کہ سورج کوراسی رمضان کی درمیانی تاریخ میں گرہن گئے اور یہ دونوں باتیں آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت سے نہیں ہوئیں.یہ نشان اپنے اندر کئی خصوصیات رکھتا ہے ایک تو یہ کہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ سوائے مہدی کے کسی مدعی کیلئے یہ نشان بھی ظاہر نہیں ہوا.دوسرے یہ کہ اس نشان پر کُتب اہلسنت و شیعہ متفق ہیں کیونکہ دونوں کی کتب حدیث میں اس کا ذکر ہے پس اس
۴۱۹ دعوۃالامیر میں شبہ تدلیس وغیرہ کا نہیں کیا جا سکتا ، تیسری خصوصیت اس نشان میں یہ ہے کہ جو علامتیں اس میں بتائی گئیں ہیں پہلی کتب میں بھی انہی علامتوں کے ساتھ مسیح کی آمد ثانی کی خبر دی گئی ہے چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے اپنی آمد کی نشانیوں میں سے ایک یہ علامت بھی بتائی ہے کہ اس وقت ’’سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دیگا ‘‘ جس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ سورج اور چاند کو اس کے زمانے میں گرہن لگے گا.گو میں ان پیشگوئیوں کو بیان کر رہا ہوں جن کا احادیث میں ذکر آتا ہے مگر میں اس جگہ اس بات کا ذکرکرنا غیر محل نہیں سمجھتا کہ قرآن کریم میں قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت سورج اور چاند گرہن کی بیان کی گئی ہے.سورۂ القیامۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَسْئَلُ أَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ oفَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ oوَخَسَفَ الْقَمَرُ o وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُo (القیامۃ آیت۷تا۱۰)(منکر)پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہے؟ ہم اس کی علامتیں بتاتے ہیں وہ تب ہوں گی جب آنکھیں متحیر رہ جائیں گی، یعنی ایسے حادثات ہوں گے کہ انسان کو حیرت میں ڈال دیں گے اور چاند کو گرہن لگے گا اور پھر سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی اسی ماہ میں چاند گرہن کے بعد سورج گرہن ہوگا چونکہ مسیح کی آمد بھی قیامت کے قریب زمانے میں بتائی گئی ہے اس لئے قرآن کریم سے بھی مذکورہ بالا حدیث کے مضمون کی تائید ہوتی ہے.غرض جیسا کہ اوپر بتا یا گیا ہے یہ پیشگوئی خاص اہمیت رکھتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں یہ پیشگوئی بعینہٖ انہیں الفاظ میں پوری ہوگئی ہے جن الفاظ میں کہ احادیث میں اسے بیان کیاگیا تھا، یعنی اس سن کے رمضان میں چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی یعنی تیر ھویں۱۳ تاریخ کو چاند گرہن لگا اور سورج گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی یعنی اٹھائیسویں ۲۸ تاریخ کو سورج کو گرہن لگا اور ایک ایسے آدمی کے زمانے میں لگا جو مہدویت کا دعویٰ کر رہاتھا.پس ہر ایک مسلمان کہلانے والے کے لئے دور استوں میں سے ایک کا اختیار کرنا فرض ہوگیا تو وہ اس کلام نبویؐ پر ایمان لاوے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ نشان کہ اس کے زمانے میں چاند اور سورج کو گرہن لگنے کی پہلی اور درمیانی تاریخوں میں گرہن لگے گا ، سوائے مہدی کے اور کسی کے لئے ظاہر نہیںکیا گیا اور جس کی تائید قرآن کریم اور پہلے انبیاء کی کتب سے بھی ہوتی ہے اور اس شخص کو قبول کرے جس کے دعوائے مہدویت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ نشان ظاہر کیا ،یا پھر خدا اور اس کے رسولؐ کو چھوڑ دے کہ انہوں نے ایک ایسی علامت مہدی کی
۴۲۰ دعوۃالامیر بتائی جو درحقیقت کوئی علامت ہی نہیں تھی اور جس سے کسی مدعی کے دعویٰ کی صداقت ثابت کرنا خلاف عقل ہے.بعض لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ پیشگوئی میں چاند کو پہلی تاریخ اور سورج کو درمیانی تاریخ میں گرہن لگنے کی خبر دی گئی ہے ، لیکن جس گرہن کا تم ذکر کرتے ہو وہ تیرھویں اور اٹھا ئیسویں تاریخ کو ہوا ہے، لیکن یہ اعتراض ایک ذرا سے تدبّر سے نہایت غلط اور الفاظ حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے، یہ لوگ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ چاند اور سورج کو خاص تاریخوں میں گرہن لگا کرتا ہے اور اس قاعدے میں فرق نہیں پڑ سکتا.جب تک کائنات عالم کوتہ و بالا نہ کر دیا جائے.پس اگر وہ معنے درست ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو یہ نشان قیامت کی علامت تو ہوسکتا ہے ، مگر قُرب قیامت اور زمانہ مہدی کی علامت نہیں ہو سکتا.علاوہ ازیں یہ لوگ پہلی اور درمیانی کے الفاظ کو تو دیکھتے ہیں، لیکن قمر کے لفظ کو نہیں دیکھتے پہلی تاریخ کا چاند عربی زبان میں ہلال کہلاتا ہے، قمر تو چوتھی تاریخ سے اس کا نام ہوتا ہے لغت میں لکھا ہے.وَھُوَقَمَرٌ بَعْدَ ثَلاَثَ لَیَالٍ اِلٰی اٰخِرِالشَّھْرِ وَاَمَّا قَبْلَ ذَالِکَ فَھُوَ ھِلاَلٌ یعنی چاند تین راتوں کے بعد قمر بنتا ہے اور مہینے کے آخر تک قمر رہتا ہے مگر پہلی تین راتوں میں وہ ہلال ہوتا ہے.پس باوجود حدیث میں قمر کا لفظ استعمال ہونے کے اور باوجود اس قانون قدرت کےکہ چاند کو تیرہ۱۳، چودہ۱۴،پندرہ۱۵ کو گرہن لگتا ہے نہ کہ پہلی تاریخ کو.پہلی تاریخ سے مہینے کی پہلی تاریخ مراداور چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ مراد نہ لینا بالکل خلاف عقل و خلاف انصاف ہے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا کلام جھوٹا ہو اور آسمان سے آنے والے پرلوگ ایمان نہ لے آئیں.یہ وہ علامات ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے متعلق بیان فرمائی ہیں اور گو ان میں سے بعض ایک ایک بھی مسیح موعود کے زمانے کی ہے اور اس کے لئے نشان ہے، لیکن در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان علامات کے بیان کرنے سے مسیح موعود کے زمانے کے حالات کو مجموعی طور پر لوگوں کے سامنے اس صورت میں لانا تھا کہ کسی کوشک و شبہ کی گنجائش نہ رہے اس میں کوئی شک نہیں کہطاعون پہلے زمانوں میں بھی پڑتی رہی ہے، اس
۴۲۱ دعوۃالامیر میں بھی کوئی شک نہیں کہ زلزلے پہلے بھی آتے رہے ہیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جوئے کی زیادت پہلے بھی ہوتی رہی ہے.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اخلاق لوگوں کے پہلے بھی بگڑتے رہے ہیں، مسیحیوں کو بھی ایک زمانے میں ایک معتدبہ حصہ عالم پر اقتدار حاصل رہ چکا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب حالات جو مسیح موعود کے زمانے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں، کبھی کسی وقت دنیامیں جمع بھی ہوئے ہیں یا ان کا کسی اور زمانے میں جمع ہونا ممکن بھی ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہےاور وہ یہ ہے کہ نہیں ہرگز نہیں ، اگرا یک شخص کو جسے اس زمانے کی حالت معلوم نہ ہو پہلے اخبار رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے واقف کیا جائے پھر اسے دنیا کی تاریخ کی کتب دیدی جاویں کہ ان کو پڑھ کر بتاؤ کہ مسیح موعود کے ظاہر ہونے کا کونسا زمانہ ہے تو آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع کر کے اس زمانے کے شروع ہونے تک کسی ایک زمانے کو بھی مسیح موعود کا زمانہ قرار نہیں دیگا لیکن جو نہی وہ اس زمانے کے حالات کو پڑھے گا بے اختیار بول اٹھے گا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا تھاسچ ہے تو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کا یہی زمانہ ہے کیونکہ وہ ایک طرف دین سے بے توجہی کو دیکھے گا دوسری طرف علوم دنیاوی کی ترقی کو دیکھے گا ، مسلمانوں کی حکومت کو بعد اقتدار کے ضعیف پائے گا، مسیحیت کو تنزل کے بعد ترقی کی طرف قدم مارتا ہوا دیکھے گا.مسیحیت کے ماننے والوں کو ساری دولت پر قابض مگر اس کے مخالفوں کو غریب پائے گا، باوجود طبّ اور سائنس کی ترقی کے طاعون اور انفلوئنزا کی اجاڑ دینے والی تباہی کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے آئے گا،بیماریوں کو اس زمانے میں کیڑوں کی طرف منسوب کئے جانے کا حال اسے معلوم ہوگا،رسوم اور بدعات میں لوگوں کو مبتلا ءپائے گا ،ریل اور دخانی جہازوں کی خبر پڑھے گا ، بنکوں کی گرم بازاری کا نقشہ دیکھے گا.زلزلوں کی کثرت معلوم کرے گا ، یاجوج اور ماجوج کی حکومت کا دور دورہ پائے گا، آسمان پر چاند اور سورج گرہن اس کی آنکھوںکو کھولے گا، زمین پر دولت کی کثرت، مزدوروں کی یہ ترقی اس کی توجہ کو اپنی طرف پھیریں گی، غرض ایک ایک صفحہ اس زمانے کی تاریخ کا اور اس صدی کے واقعات کا اس کو اس امر کی طرف توجہ دلائے گا کہ یہی زمانہ مسیح موعود کا ہے وہ ایک ایک چیز پر نظر نہیں ڈالے گا بلکہ مجموعی طور پر سب نشانات پر غور کرے گا تو اس کے ہاتھ کانپ جائیں گے اور اس کا دل دھڑکنے لگے گا، اور وہ بے اختیار کتاب کو بند کر دے گا اور
۴۲۲ دعوۃالامیر بول اٹھے گاکہ میرا کام ختم ہو گیا ، آگے پڑھنا فضول ہے، مسیح موعود یا تو اسی زمانے میں * * میں اس جگہ ایک اعتراض کا ذکر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں جسے مخالف اپنے زعم میں ایک زبردست اعتراض سمجھتاہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح موعود کی آمد سے پہلے دجال کی آمد کی خبر دی گئی ہے وہ چونکہ اب تک نہیں آیا.اس لئے مسیح موعود نہیں آسکتا.اگر دجال کی خبر ایک پیشگوئی نہ ہوتی تو بے اعتراض کو حقیقت بھی رکھتا لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ دجال کی آمد بطور پیشگوئی ہے اور پیشگوئیاں تعبیرطلب ہوتی ہیں اس اعتراض کی کچھ بھی حقیقت باقی نہیں رہتی.ایک مسلمان قرآن کریم میں والشيش والم تقم بتشجيث تها.پڑھتے ہوئے اور تقاری في المنام وبلاگ کی تلاوت کرتے ہوئے پھر ایک غیر معمولی قسم کے دجال کی تلاش میں انکار ہے تو اس پر ضرور افسوس ہے.افسوس ہے کہ دجال کی پیشگوئی کو سمجھنے کیلئے دوسری احادیث اور سنت اللہ پر بالکل غور نہیں کیا گیا جبکہ یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ مسیح موعود کی آمد سے پہلے دجال کا خروج ہو گا اور یہ بھی کہ اس وقت مسیحیت کا بھی سخت زور ہو گا تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دجال سے مراد مسیحیت ہی ہے جو کہ ایک ہی وقت میں دجال اور مسیحیت کس طرح دنیا پرغالب آسکتے ہیں دونوں کا ایک ہی وقت دنیاپر غلبہ بتاتا ہے کہ درحقیقت ایک ہی چیزکے دو نام ہیں.ایک اور بات سے بھی معلوم ہواہے کہ دجال اور مسیحی فتنے ایک ہی شے ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم ﷺنے دجال کے فتنے سے بچنے کااعلان فواتح سوره کہف پڑھنابتایا ہے اور سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات میں مسیحیت کا رد ہے چنانچہ فرماتا ہے و ینذر الذین قالوا اتخذ اللہ ولدا یعنی اللہ تعالیٰ ٰنے یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ اس کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرایا جائے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰٰ نے ایک بیٹابنالیا.پس ثابت ہوا کہ دجال کافتنہ اور مسیحی فتنہ ایک ہی شئے ہے کیونکہ علاج بیماری کے مطابق ہوتا ہے اگر دجالی فتنہ مسیحی فتنے سے علیحدہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ رسول کریم ﷺ جیساحکیم انسان اس سے بچنے کے لئے ان آیات کا حکم دیتا جن میں دجال کا ذکر تک نہیں ہاں مسیحیت کارد بیان کیاگیا ہے آپ کان آیات کو دجال کے فتنے سے بچنے کیلئے تلاوت کرنے ارشاد فرمایا ہے کہ آپ ؐکے نزدیک دجال سے مراد مسیحیت کی اشاعت کرنے والے لوگ تھے.در حقیقت دجال کے پہنچاننے میں لوگوں کو سب سے بڑی ٹھوکریہ لگی ہے کہ وہ اسے ایک آدمی
۴۲۳ دعوۃالامیر نازل ہوا ہے یا پھر وہ کبھی نازل نہ ہوگا.بقیہ حاشیہ نمبر سجھتے رہے ہیں حالانکہ وہ ایک آدمی نہیں ہے تب لغت میں دجال کے معنے یہ لکھے ہیں اومن الدجال بالتشدید الرفقة العضیمة نغطی الأرض بكثرة اهلها وقيل هي ارفقة تحمل المتاع للتجارة الدجال برفقة العظیمة یعنی دجال ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں جو زمین کو اپنی کثرت سے ڈھانک رہے اور بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ یہ ایسی جماعت کانام ہے جو اسباب تجارت دنیامیں لئے پھرے اور یہ تعریف مسیحیت کے منادوں پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے وہ اپنی مذہبی کتب کی تجارت کے علاوہ اپنے مشن کی کامیابی کیلئے ہر قسم کےاسباب اور سامان جو لوگوں کی دلچسپی کا موجب ہوں ساتھ رکھتے ہیں اور کئی قسم کی تجارتی مشن کے کام کے ساتھ ساتھ کیا کرتے ہیں اور اسی طرح دجال کے معنے لکھے ہیں الممول یعنی ملمع ساز اور مسیح ی پادریوں سے زیادہ کون ملمع ساز ہو گا جو ایک انسان کو ایسی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نظروں میں خدا نظر آنے لگتا ہے باقی رہیں یہ باتیں کہ دجال کانا ہو گا اور اس کا ایک گدھاہوگا جوبڑا قد آور ہوگا اور اس کے آگے پیچھے دھوئیں کا بادل چلے گاسو یہ سب باتیں تعبیرطلب ہیں.دجال کے کانے ہونے سے مراد اس کی روحانی کمزوری ہے کیونکہ دائیں طرف ہمیشہ رؤیامیں دین اوریمن پر دلالت کرتی ہے.پس دجال کے دائیں آنکھ سے کانے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روحانیت سے بالکل کورا ہو گا اور اس کے گدھے سے مراد یہ ریل ہے جو مسیحی ممالک میں ایجاد ہوئی اس کی رفتار بھی گدھے کے مشابہ ہے اور یہ آگ اور پانی سے چلتی ہے اور اس کے آئے اور پیچھے دھوئیں کے بادل ہوتے ہیں اور مسیحی پادری اس سے فائدہ اٹھا کر ساری دنیامیں پھیل گئے ہیں.یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ تو تاویلیں ہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سے ثابت ہے کہ دجال کے متعلق جو اخبار ہیں وہ تاویل طلب ہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ابن صیاد کے دیکھنے کے لئے گئے جس کے متعلق عجیب خبریں مشہور تھیں اس سے جو باتیں آپ نے کیں ان سے معلوم ہوا کہ اس کو کچھ کچھ شیطانی القاء ہوتے ہیں اس پر حضرت عمر ؓنے تلوار کھینچ لی اور قسم کھا کر کہا کہ یہی دجال ہے اور اسے قتل کرنا چاہامگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کیا اور فرمایا کہ اگر یہ دجال نہیں تو اس کامارنا درست نہیں
۴۲۴ دعوۃ الامیر تیسری دلیل نفس ناطقہ آفتاب آمد دلیل آفتاب اس بات کے ثابت کرنے کے بعد کہ زمانہ پکار پکارکراس وقت ایک مصلح کوطلب کر رہاہے اوریہ کہ رسول کریم ﷺکی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت کامصلح مسیح موعود اور مہدی مسعود کے سوا اور یہ کہ چونکہ مسیح موعود ہونیکے مدعی بقیہ حاشیہ صفحہ اور اگر یہ دجال ہے تو اس کامارنامسیح کیلئے مقدر ہے تو اسے مار نہیں سکتا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے متعلق جس قدر اخبار ہیں وہ تعبیرطلب ہیں کیونکہ جب حضرت عمر ؓنے ابن صیاد کو دجال قرار دیا تو رسول کریم ﷺ نے ان کو منع نہیں کیا حالانکہ آپ نے خود دجال کی یہ علامتیں بتائی تھیں کہ اس کے ماتھے پر کافر لکھا ہوا ہو گا اور یہ کہ وہ کانا ہوگا اور یہ کہ وہ مدینہ میں نہیں آسکے گا "یہ تینوں باتیں ابن صیاد میں نہیں پائی جاتی تھیں وہ کانا نہ تھا اس کے ماتھے پر کافر لکھا ہوا وہ سرے مومنوں کو تو الگ رہا خود رسول کریم ﷺ کو بھی نظر نہیں آیا اور وہ مدینے میں موجود تھا اگر دجال کی نسبت جس قدر اخبار تھیں وہ اپنی ظاہری شکل میں پوری ہونے والی تھیں تو کیوں رسول کریم ﷺنے ابن صیاد کے معاملے میں ترددّ ظاہر کیا اور نہیں بتایا کہ تو نے سنا نہیں میں کہہ چکا ہوں کہ دجال کانا ہو گا اس کے ماتھے پر کافر لکھا ہو گا وہ مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا کیا آپؐ کا حضرت عمر ؓکے قول کو ردّنہ کرنا بلکہ تردّد کا اظہار کرنابتاتا نہیں کہ رسول کریم ﷺ اس امر کو جائز سمجھتے تھے کہ دجال کے متعلق جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ اصل الفاظ میں پوری نہ ہوں بلکہ کسی اور رنگ میں پوری ہو جائیں اور اگر رسول کریم ﷺدجال کے متعلق اخبار کو تعبیرطلب قراردیتے تھے تو کسی اور کا حق ہے کہ وہ واقعات سے منہ موڑ کر الفاظ کو پکڑ کر بیٹھ جائے اور ان کے معنوں اور مطلب پر غور نہ کرے.منہ
۴۲۵ صرف بانی سلسلہ احمدیہ ہیں اس لیے ان کے دعوی کو رد کرناگویا خدا تعالی کی سنت کا ابطال اور رسول کریم ﷺکے اقوال کی ہتک ہے اب میں جناب کے سامنے ان دلائل کو پیش کرتاہوں جن سے یہ ثابتہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد علیہ الصلوہ والسلام اپنے دعوے میں راستباز تھے اور خداتعالی کی طرف سے مامور اور مرسل تھے اور ان دلائل میں سے سب سے پہلے میں نفس ناطقہ کی دلیل بیان کرتا ہوں میری مراد اس جگہ نفس ناطقہ سے وہ نہیں جو پہلی کتب میں لی جاتی ہے بلکہ نفس ناطق سے مراد وہ نفس ہے جسے قران کریم نے اپنی صداقت کی آپ دلیل قرار دیا ہے سورہ یونس (۱۶۳)میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُؕ-قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْۚ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ﳲ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَاور جب پڑھے جاتے ہیں ان کے سامنے ہمارے کھلے کھلے احکام تو وہ لوگ جو قیامت کے منکر ہیں کہتے ہیں کہ یا تو اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آ، یا اس میں سے قابل اعتراض حصہ بدل دے تو کہدے کہ میرا کیا حق ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کلام کو بدل دوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر میںنافرمانی کروں تو اس بڑے دن کے ہیبت ناک عذاب میں مبتلا ہو جاوں گا تو کہدے کہ اگراللہ تعالیٰٰ چاہتا تو میں یہ کلام تمہارے سامنے پیش نہ کرتا ` بلکہ اس کے متعلق تمہارے آگے اشارہ بھی نہ کرتا ` چنانچہ اس سے پہلے می نے تمہارے اندر ایک عمر گزاری ہے کیا تم اس پر نظر کرتے ہوئے اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ میرے جیسا انسان جھوٹ نہیں بول سکتا` بلکہ جو کچھ کہہ رہا ہاے سچ کہہ رہا ہے- یہ ایک دلیل ہے جو قرآن کریم نے رسول کریم ﷺکی سچائی کی دی ہے اور یہ دلیل ہر راستباز کے دعوی کی سچائی پرکھنے کے لے ایک زبردست معیار ہے - سورج کی دلیل اس سے زبردست اور کچھ نہیں کہ خود سورج موجود ہے - اسی طرح صادق اور راستباز کی صداقت کے دلائل میں سے ایک زبردست دلیل اس کا اپنا نفس ہے جو پکار پکار کر کہتا ہے مخالفوں اور موافقوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے `ناواقفوںاور واقفوں سے کہتا ہے `اجنبیوں اور رازداروں سے کہتا ہے کہ مجھے دیکھو اور مجھے جھوٹا کہنے سے پہلے سوچ لو کہ کیا تم مجھے جھوٹا کہہ سکتے ہو ؟ کیا
۴۲۶ مجھے جھوٹا کہکر تمہارے ہاتھ سے وہ تمام ذرائع نہیں نکل جائیں گے جن کے ساتھ تم کسی چیزکی حقیقت معلوم کیا کرتے ہو ؟اور کیا مفتری قرار دیکر تم پر وہ سب دروازے بند نہیں ہوجائینگے جن میں سے گزرکر تم شاہد مقصود کو پایا کرتے ہو`دنیا کی ہر چیزتسلسل چاہتی ہے اور ہر شے مدارج رکھتی ہے نہ نیکی درمیانی مدارج کو ترک کر کے اپنے کمال تک پہنچ سکتی ہے اور نہ بدی درمیانی منازل کو چھوڑ کر اپنی انتہاء ککو پا سکتی ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ مغرب کی طرف دوڑنے والا اچانک اپنے آپ کو مشرق کے دور کنارے پر دیکھے ؟ اور جنوب کی طرف جانے والا افق شمال میں اپنے آپ کو کھڑا پائے ؟ میں نے اپنی سب زندگی تم میں گزاری ہے میں چھوٹاتھا اور تمہارے ہاتھوں میں بڑا ہوا ` میں جوان تھا اور تمہارے ہاتھوں ادھیڑ ہوا ` میری خلوت و جلوت کے واقف بھی تم میں موجود ہیں ` میرا کوئی کام تم سے پوشیدہ نہیں اور کوئی قول تم سے مخفی نہیں پھر کوئی تم میں سے ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہو یا ظلم کیا ہو یا فریب کیا ہو یا دھوکا دیا ہو `یا کسی کا حق مارا ہو ` یا اپنی بڑائی چاہی ہو `یا حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی ہو ` ہر میدان میں تم نے مجھے آزمایا اور ہر حالت میں تم نے مجھے پرکھا` مگر ہمیشہ میرے قدم کو جادہ اعتدال پر دیکھا اور ہر کھوٹ سے مجھے پاک پایا ` حتی کہ دوست اور دشمن سے میں نے امین وصادق کا خطاب پایا` پھر یہ کیا بات ہے کہ کل شام تک تو میں امین تھا ` صادق تھا`راستبازتھا`جھوٹ سے کوسوں دور تھا،راستی پر فدا تھا بلکہ راستی مجھ پر فخر کرتی تھی` ہر بات اور ہر معاملہ میں تم مجھ پر اعتبار کرتے تھے اور میرے ہر قول کو تم قبول کرتے تھے مگر آج ایک دن میں ایسا تغیر ہو گیا کہ میں بدتر سے بدتر اور گندے سے گندا ہو گیا`یا تو کبھی آدمیوں پر جھوٹ نہ باندھا تھا یا اب اللہ پر جھوٹ باندھنے گیا` یاتو کبھی آدمیوں پرجھوٹ نہ باندھا تھا یا اب اللہ پر جھوٹ باندھنے لگا` اس قدر تغیر اور اس قدر تبدیلی کی کیا قانون قدرت میں کہیں بھی مثال ملتی ہے؟ایک دو دن کی بات ہوتی تو تم کہدیتے کہ تکلف سے ایسا بن گیا- سال دو سال کا معاملہ ہوتا تو تم کہتے ہمیں دہوکا دینے کو اس نے یہ طریق اختیار کر رکھا تھا مگر ساری کی ساری عمر تم میں گزار چکا ہوں` بچپن کو تم نے دیکھ لیا`جوانی کو تم نے مشاہدہ کیا`کہولت کا زمانہ تمہاری نظروں کے سامنے گزرا`اس قدر تکلف اور اس قدر بناوٹ کس طرح ممکن تھی بچپن کے زمانے میں جب اپنے بھلے برے کی بھی خبر نہیں ہوتی- میں نے بناوٹ کس طرح کی جوانی جو دیوانی کہلاتی ہے اس میں میں نے فریب سے اپنی حالت کو کس طرح چھپایا`آخر کچھ تو سوچو کہ یہ فریب کب ہوا اور کس نے کیا اور اگر غوروفکر کر کے میری زندگی کو بے عیب ہی نہ پاؤ بلکہ تم اسے نیکی کا مجسمہ اور صداقت کی تمثال
۴۲۷ دیکھو تو پھر سورج کو دیکھتے ہوے رات کا اعلان نہ کرو اور نور کی موجودگی میں ظلمت کے شاکی نہ بنو`تم کو میرے نفس کے سوا اور کس دلیل کی ضرورت ہے؟ اور میرے پچھلے چال چلن کو چھوڑکر اور کس حجت کی حاجت ہے؟ میرا نفس خود مجھ پر گواہ ہے اور میری زندگی مجھ پر شاہد ہے اگر تم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے تو اس کا دل اور اس کا دماغبھی اس امر کی شہادت دیگا کہ صداقت اس میں قائم ہے اور یہ صداقت سے قائم ہے راستی کو اس پر فخر ہے اور اس کو راستی پر فخر ہے- یہ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے دوسری چیزوں کا محتاج نہیں اس کی مثال آفتاب آمد دلیل آفتاب کی سی ہے یہی وہ زبردست دلیل ہے جس نے ابوبکر ؓکے دل میں گھر کر لیا اور یہی وہ طاقتور دلیل ہے جو ہمیشہ صداقت پسند لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی چلی جاے گی` جب آنحضرت ﷺ نے دعوی کیا تھا- اس وقت حضرت ابوبکرؓ اپنے ایک دوست کے گھر پر تشریف رکھتے تھے- وہیں آپ کی ایک آزاد لونڈی نے اطلاع دی کہ آپ کے دوست کی بیوی کہتی ہے کہ اس کا خاوند اس قسم کا نبی ہو گیا ہے جس قسم کا نبی موسی ٰکو بیان کرتے ہیں- آپ اسی وقت اٹھ کر رسول کریم ﷺکے گھر پر تشریف لے گے اور آپ سے دریافت کیا`آپؐ نے فرمایا` میں خدا کا رسول ہوں` حضرت ابوبکر ؓنے اس بات کو سنتے ہی آپ کے دعوی کو تسلیم کر لیا رسول کریم ﷺبھی آپ کے ایمان کے متعلق فرماتے ہیں ما دعوت أحدا الی الإسلام الا کانت عندہ کبوة و نظر و تردد الا ماکان من ابی بکر ما عکم عنہ حین ذکرت لی یعنی میں نے کسی کو اسلام کی طرف نہیں بلایا مگر اس کی طرف سے کچھ روک اور فکر اورتردد ظاہر ہوا`لیکن ابوبکرؓ کے سامنے جب اسلام پیش کیا تو وہ بالکل متردد نہیں ہوا بلکہ اس نے خود اسلام کو قبول کر لیا-یہ کیا چیز تھی جس نے حضرت ابوبکر کو بغیر کسی نشان دیکھے رسول کریم ﷺپر ایمان لانے کے لیے مجبور کر دیا- یہ رسول کریم ﷺکا نفس ناطقہ تھا جو اپنی سچائی کا آپ شاہد ہے- حضرت خدیجہ ؓحضرت علی ؓاور 'حضرت زیدؓ بن حارث بھی اسی دلیل کو دیکھ کر ایمان لائے بلکہ حضرت خدیجہ ؓنے تو نہایت وضاحت سے اس دلیل کو اپنے ایمان کی وجہ کے طور پر بیان بھی کیا ہے`جب رسول کریم ﷺکو غار حرا فرشتہ نظر آیا اور آپ نے آ کر حضرت خدیجہ سے کل واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ لقد خشیت علی نفسی کہ میں اپنی جان کے متعلق ڈرتا ہوں تو اس وقت حضرت خدیجہ ؓ نے جواب میں کہا.کلا واللہ
۴۲۸ ما يخزيك الله ابدا انك لتصل الرحم وتحمل الكل وتكسب المعدوم و تقری الضیف وتعین على نوائب الحق ۲۵-ہرگزنہیں`ہر گز نہیں- خدا کی قسم اللہ تجھ کو کبھی رسوا نہیں کریگا تو تو رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتا ہے اور بیکس کا بوجھ اٹھاتا ہے اور وہ اخلاق فاضلہ جو اس زمانے میں بالکل مفقود تھے تجھ میں پائے جاتے ہیں اور تو مہمان کی مہمان داری کرتا ہے اور لوگوں کی جائز مصائب میں ان کی مدد کرتا ہے- غرض نبی کی صداقت کی پہلی اندرونی دلیل اس کا نفس ہوتا ہے جو بزبان حال اسکی سچائی پر گواہ ہوتا ہے اور اس کی گواہی ایسی زوردست ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی اور معجزہ یا آیت کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور یہ دلیل حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کی سچائی ثابت کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ ٰنے اتاری ہے- آپ قادیان کے رہنے والے تھے جس میں ہندوستان کے تینوں مذاہب کے پیرو یعنی ہندو` سکھ اور مسلمان بستے ہیں` گویا آپ کی زندگی کے نگران تین قوموں کے آدمی تھے آپ کے خاندانی تعلقات ان لوگوں سے ایسے نہ تھے کہ انکو آپ سے کچھ ہمدردی ہو کیونکہ آپ کی ابتدائی عمر کے ایام میں انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کی آمد کے ساتھ ہی قادیان کے باشندوں نے جو آپ کے آباء واجداد کی رعایا میں سے تھے اس انقلاب حکومت سے فائدہ اٹھا کر اپنی آزادی کے لیے جدوجہد شروع کردی اور آپ کے والد کے ساتھ تمام قصبے کے باشندوں کے تنازعات اور مقدمات شروع ہو گئے تھے.یہ بھی نہیں کہ آپ ان مقدمات سے علیحدہ تھے باوجود آپ کی خلوت پسندی کے آپ کے والد صاحب نے حکما کچھ عرصہ تک کے لیے آپ کو ان مقدمات کی پیروی کے لیے مقرر کردیا تھا- جس کی وجہ سے بظاہر آپ ہی لوگوں کے مد مقابل بنتے تھے- سکھوں کو خاص طور پر آپ کے خاندان کے عداوت تھی کیونکہ کچھ عرصہ کے لیے آپ کے خاندان کو اس علاقے سے نکال کر وہی یہاں حاکم بن گئے تھے- پس اس خاندان کی ترقی ان پر شاق گزرتی تھی اور ایک قسم کی رقابت اان کے دلوں میں تھی- آپ کو ابتدائی عمر سے اسلام کی خدمت کا شوق تھا اور آپ مسیحی ،ہندو اور سکھ مذاہب کے خلاف تقریراً ور تحریرا مباحثات جاری رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان مذاہب کے پیرووں کو طبعاً آپ سے پرخاش تھی- مگر باوجود اس کے کہ سب اہل مذاہب سے آپ کے تعلقات تھے اور سب سے مذہبی
۴۲۹ دلچسپی کی وجہ سے مخالفت تھی ہر شخص خواہ ہندو ہو، خواہ سکھ ،خواہ مسیحی خواہ مسلمان،اس بات کا مقر ہے کہ آپ کی زندگی دعوے سے پہلے نہایت بے عیب اور پاک تھی اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق فاضلہ آپ کو حاصل تھے سچائی کو آپ کبھی نہ چھوڑتے تھے اور لوگوں کا اعتبار اور یقین آپ پر اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ آپ کے خاندان کے دشمن بعض دفعہ ان حقوق کے تصیفے کے لیے جن کے متعلق انکو آپ کے خاندان سے اختلاف ہوتا اس امر پر زور دیتے تھے کہ آپ کو منصف مقرر کر دیا جائے جو فیصلہ آپ دیں وہ ان کو منظور ہو گا` غرض آپ کے حالات سے واقف لوگ ہر امر میں آپ پر اعتبار کرتے تھے اور آپ کو راستی اور صداقت کا ایک مجسمہ یقین کرتے تھے- مسیحی`ہندو` سکھ گو مذہبی اختلاف آپ سے رکھتے تھے مگر اس امر کا اقرار کرتے تھے کہ آپ کی زندگی مقدس زندگی ہے- لوگوں کی رائے آپ کی نسبت تھی اس کا ایک نمونہ میں ایک شخص کے قلم سے نکلا ہوا پیش کرتا ہوں جو بعد کو آپ کا سخت مخالف ہو گیااور آپ کے دعوے پر اس نے سب سے پہلے آپ کی تکفیر کا فتوی دیا- یہ صاحب کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ اہل حدیث کے لیڈر اور سردار مولوی محمد حسین صاحب بحثالوی ہیں- جنہوں نے آپ کی ایک کتاب براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں آپکی نسبت یوں گواہی دی ہے: ’’مئولف براہین احمدیہ کے حالات وخیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے"- مئولف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے )(جب ہم قطبی وشرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب'.اس زمانے سے آج تک ہم میں ان میں خط وکتابت وملاقات ومراسلت برابر جاری ہے اس لیے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات سے بہت واقف ہیں`مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے لائق ہے )"اشاعہ السنہ جلد ۶نمبر۷( یہ بیان تو ان کا اس امر کے متعلق ہے کہ ان کی شہادت یونہی نہیں بلکہ لمبے تجربہ اور صحبت کا نتیجہ ہے اور ان کی شہادت یہ ہے-: >ہماری رائے میں یہ کتاب (حضرت صاحب کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ مولف) اس زمانے میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا )الطلاق:۲( اور
۴۳۰ اس کا مولف بھی اسلام کی مالی وجانی وقلمی ولسانی وحالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم دیکھی جاتی ہے ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ وبرہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ کیا گیا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی وقلمی ولسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھا لیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدّی کیساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کا تجربہ ومشاہدہ کرے اور اس تجربہ اور مشاہدہ کا غیر اقوام کو مزہ بھی چکھا دیا ہو.یہ رائے آپ کے چال چلن اور خدمت اسلام کی نسبت اس شخص کی ہے جس نے آپ کے دعوٰئے مسیحیت پر ان اہل مکہ کی طرح جن کی زبانیں رسول کریم ﷺکو امین وصادق کہتے ہوئے خشک ہوتی تھیں نہ صرف آپ کے دعوٰے کا انکار کیا بلکہ اپنی باقی عمر آپ کی تکفیر اور تکذیب اور مخالفت میں بسر کر دی- مگر دعوے کے بعد کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی- قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص باوجود بتیس دانتوں میں آئی ہوئی زبان کی طرح مخالفوں اور دشمنوں کے نرغہ میں رہنے کے ہر دوست ودشمن سے اپنی صداقت کا اقرار کروالے اور پھر وہ ایک ہی دن میں اللہ تعالیٰٰ پر جھوٹ باندھنے لگے- اللہ تعالیٰٰ ظالم نہیں کہ ایسے شخص کو جو اپنی بے عیب زندگی کا دشمن سے بھی اقرار کروا لیتا ہے یہ بدلہ دیکر ایک ہی دن میں اشرالناس بنا دے اور یا تو بڑے سے بڑا لالچ اور مہیب سے مہیب خطرہ اسے صداقت سے پھیر نہیں سکتا تھا اور یا پھر اللہ تعالیٰٰ اس کے دل کو ایسا مسخ کر دے کہ وہ اچانک اس پر جھوٹ باندھنا شروع کر دے- جس طرح رسول کریم ﷺنے اپنے مخالفوں کو چیلنج پر چیلنج دیا کہ وہ آپ کی پہلی زندگی پر حرف گیری کریں یا بتائیں کہ وہ آپ کو اعلیٰ درجہ کے آخلاق کا حامل نہیں سمجھتے تھے مگر کوئی شخص آپ کے مقابلے پر نہ آیا، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا کہ اللہ تعالیٰٰ مجھے بتاتا ہے کہ کبھی کوئی مخالف تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگا سکے گا اور پھر اس دعوے کے مطابق متواتر مخالفوں کو چیلنج دیا کہ وہ آپ کے مقدس چال چلن کے خلاف کوئی
۴۳۱ ۴۳۱ دعوۃالامیر بات پیش کریں یا ثابت کریں کہ وہ آپ کے چال چلن کو بچپن سے بڑھا پے تک ایک اعلیٰ اور قابلِ تقلید نمونہ اور بے عیب نہیں سمجھتے تھے مگر باوجود باربار مخالفوں کے اُکسانے کےکوئی شخص آپ کے خلاف نہیں بول سکا اور آپ تک بھی وہ لوگ زندہ ہیں جو آپکی جوانی کے حالات کے شاہد ہیں مگر باوجود سخت مخالفت کے وہ اس امر کی گواہی کو نہ چھپاسکتے تھے اور نہ چھپا سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چال چلن حیرت انگیز طورپر اعلیٰ تھا اور بقول بہت سے ہندوؤں اور سکھوںاور مسلمانوں کے آپکے بچپن اور جوانی کی زندگی ’’ اللہ والوں کی زندگی ‘‘تھی.پس جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس ناطقہ آپ کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت تھا جسے اللہ تعالیٰٰ نے قرآن شریف میں مخالفوں کے سامنے بطور حجت کے پیش کیا ہے اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی زندگی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.آپ کا اپنا نفس ہی آپ کی سچائی کا شاہدہے.چوتھی دلیل غلبہ ٔاسلام بر اَدیان باطلہ چوتھی دلیل یایوں کہنا چاہئے کہ چوتھی قسم کے دلائل آپ کی صداقت کے ثبوت میں یہ ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰٰ نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کیا ہے جسے قرآن کریم میںمسیح موعود کا خاص کا م قرار دیا گیا ہے یعنی آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰٰ نے اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کر کے دکھایا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلُہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرُہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ(توبہ ع۵ فتح ع۴) خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دیکر بھیجا ہے تا اللہ تعالیٰی اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کر کے دکھادے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات زمانۂ مسیح موعود میں ہوگی، کیونکہ فتنہ ٔ دجال کے توڑنے اور یاجوج ماجوج کی ہلاکت اور مسیحیت کے مٹانے کا کام آپؐ نے مسیح کے ہی
نوارالعلوم جلد ۷ ۴۳۲ دعوۃالامیر سُپرد بیان فرمایا ہے اور یہ حامی اس وقت سب ادیان پر غالب آجائیں گے ، پس ان پر غالب ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ دیگر ادیان پر بھی اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے گا.پس معلوم ہوا کہ لِیُظْھِرُہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہسے مرادمسیح موعود کا ہی زمانہ ہے اور یہ استنباط ایسا ہے کہ قریباً تمام مسلمانوں کو اس سے اتفاق ہے.چنانچہ تفسیر جامع البیان کی جلد ۲۹ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ وَذٰلِکَ عِنْدَ نُزُلِ عِیْسٰی ابْنِ مَرْیَمَ یہ غلبہ دین عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ہوگا اور قرارئنِ عقلیہ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ تمام ادیان کا ظہور جیسا کہ اس زمانے میں ہوا ہے.اس سے پہلے نہیں ملتا.آپس میں میل جول کے زیادہ ہوجانے کی وجہ سے اور پر یس کی ایجاد کے سبب سے کتب کی اشاعت میں سہولت پیدا ہو جانے کے سبب سے تمام ادیان کے پروؤں میں ایک جوش پیدا ہوگیا ہے اور اس قدر مذہب کی کثرت نظر آتی ہے کہ اس سے پہلے اس قدر کثرت نظر نہیں آتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو صرف چاردین ہی اسلام کے مقابلے میں آئے تھے.یعنی مشرکین مکہ کا دین اور نصاریٰ کا دین اور یہود اور مجوس کا دین.پس اس زمانے میں اس پیشگوئی کے ظہور کا ابھی وقت نہیں آیاتھا، اس کا وقت اب آیا ہے.کیونکہ اس وقت تمام ادیان ظاہ ہو گئے ہیں اور نوا یجاد و سواریوں اور تار اور پریس وغیرہ کی ایجاد سے مذاہب کا مقابلہ بہت شدت سے شروع ہوگیاہے.غرض قرآن کریم اور احادیث اور عقل صحیح سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا غلبہ ادیان باطلہ پر ظاہر ی طور پر مسیح موعود کے زمانے میں ہی مقدر ہے اور مسیح موعود کا اصل کام یہی ہے اس کام کو اس کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا اور جو شخص اس کا کو بجا لائے اور مسیح موعود ہونے میں کچھ شک نہیں اور واقعات سے ثابت ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمدؐ صاحب کے ہاتھوں سے پورا کردیا ہے پس آپ ہی مسیح موعود ہیں.حضرت مرزا غلام احمدؐ صاحب کے دعویٰ سے پہلے اسلام کی حالت ایسی نازک ہوچکی تھی کہ خود مسلمانوں میں سمجھدار اور زمانے سے آگاہ لوگ یہ پیشگوئیاں کرنے لگے تھے کہ چند دنوں میں اسلام بالکل مٹ جائے گا اور حالات اس امر کی طرف اشارہ بھی کر رہے تھے ، کیونکہ مسیحیت اس سُرعت کیساتھ اسلام کو کھاتی چلی جارہی تھی کہ ایک صدی تک اسلام
نوارالعلوم جلد ۷ ۴۳۳ دعوۃالامیر کے بالکل مٹ جانے کا خطرہ تھا، مسلمان مسیحیوں کے مقابلے میں اسقدر زک پر زِک اٹھا رہے تھے کہ نو مسلم اقوام تو الگ رہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یعنی سادات میں سے ہزاروں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہوگئے تھے بلکہ اسلام اور بانی اسلام کے خلاف سخت گندا لٹریچر شائع کر رہے تھے اور منبروں پر چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر ایسے دلآزاراتہام لگا ئے جاتے تھے کہ ایک مسلمان کا کلیجہ ان کو سن کر چھلنی ہوجاتاتھا، مسلمانوں کی کمزوری اسقدر بڑھ گئی تھی کہ وہ مردہ قوم ہنود کی جس کو تبلیغ کے میدان میں کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور جو ہمیشہ اپنے گھر کی حفاظت ہی کی کوشش اور وہ بھی ناکام کوشش کرتی رہی ہے اسے بھی جرأت پیدا ہوگئی اور اس میں بھی ایک فرقہ آریوں کا کھڑا ہو گیا جس نے اپنی مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا قرار دیا اور اس کے لئے عملی طور پر جد و جہد بھی شروع کر دی.یہ نظارہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ایک بے خطا نشانچی کی نعش پر گدھ جمع ہو جاتے ہیں ،یا وہ اس کے زور بازو سے ڈرکر اس کے قریب بھی نہ پھٹکا کرتے تھے.یا اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے لگتے ہیں اور اسی کی ہڈیوں پر بیٹھ کر اس کا گوشت کھاتے ہیں، بعض مسلمان مصنف تک جو اسلام کی تائید کے لئے کھڑے ہوتے تھے ، بجائے اس کی تعلیم کی خوبی ثابت کرنے کے اس امر کا اقرار کرنے لگ گئے تھے کہ اسلام کے احکام زمانہ ٔ جاہلیت کے مناسب حال تھے اس لئے موجودہ زمانے کی روشنی کے مطابق ان پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے.اس اندرونی مایوسی اور بیرونی حملے کے وقت حضرت اقدسؑ مرزا غلا م احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی حفاظت کا کام شروع کیا اور سب سے پہلا حملہ ہی ایسا زبر دست کیا کہ دشمنوں کے ہوش و حواس گم ہو گئے.آپ نے ایک کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھی جس میں اسلام کی صداقت کے دلائل کو بوضاحت بیان فرمایا اور دشمنان اسلام کو چیلنج دیا کہ اگر وہ اپنے مذاہب سے پانچواں حصہ دلائل بھی نکال دینگے تو آپ ان کو دس ہزار روپیہ دیں گے.باوجود ناخنوں تک زور لگا نے کے کوئی دشمن اس کتاب کا جواب نہ دے سکا اور ہندوستان کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک شور پڑ گیا کہ یہ کتاب اپنی آپ ہی نظیر ہے دشمن حیران رہ گئے کہ یا تو اسلام دفاع کی بھی طاقت نہ رکھتا تھا یا اس مرد میدان کے بیچ میں آکود نے کے سبب سے اس کی تلوار ادیان باطلہ کے سر پر اس زور سے پڑنے لگی ہے کہ ان کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے ہیں.
۱نوارالعلوم جلد ۷ ۴۳۴ دعوۃالامیر اس وقت تک آپ نے مسیحیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ لوگوں میں آپ کی مخالفت کا جوش پیدا ہوا تھا اور وہ تعصب سے خالی تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں مسلمانوں نے علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ یہی شخص اس زمانہ کا مجدد ہے بلکہ لدھیانے کے ایک بزرگ نے جو اپنے زمانے کے اولیاء میں سے شمار ہو تے تھے یہاں تک لکھدیا کہ ؎ ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے ! اس کتاب کے بعد آپ نے اسلام کی حفاظت اور اس کی تائید میں اس قدر کو شش کی کہ آخر دشمنان اسلام کو تسلیم کرنا پڑا کہ اسلام مُردہ نہیں بلکہ زندہ مذہب ہے اور ان کو فکر پڑگئی کہ ہمارے مذہب اسلام کے مقابلہ میں کیونکر ٹھہر یں گے.اور اس وقت اس مذہب کی جو سب سے زیادہ اپنی کامیابی پر اترا رہا تھا اور اسلام کو اپنا شکار سمجھ رہا تھا یہ حالت ہے کہ اس کے مبلغ حضرت اقدسؑؑ کے خدام سے اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح گدھے شیروں سے بھاگتے ہیں اور کسی میں یہ طاقت نہیں کہ وہ احمدی ؐ کے مقابلے پر کھڑا ہو جائے.آج آپ کے ذریعے سے اسلام سب مذاہب پر غالب ہو چاک اہے، کیونکہ دلائل کی تلوار ایسی تلوار ہے کہ گو اس کی ضرب دیر بعد اپنا اثر دکھاتی ہے مگر اس کا اثر نہ مٹنے والا ہوتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت گوا بھی اسی طرح دنیا کو گھیرے ہوئے ہے جس طرح پہلے تھی اوردیگر ادیان بھی اسی طرح قائم ہیں جسطرح پہلے تھے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی موت کی گھنٹی بج چکی ہے اور ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے.رسم و رواج کے اثر کے سبب سے ابھی لوگ اسلام میں اس کثرت سے داخل نہیں ہوتے جس کثرت سے داخل ہونے پر ان کی موت ظاہر بینوں کو نظر آسکتی ہے، مگر اثار ظاہر ہو چکے ہیں.عقلمند آدمی بیج سے اندازہ لگا تا ہے.حضرت اقدسؑؑ نے ان پر ایسا وار کیا کہ اس کی زد سے وہ جانبر نہیں ہوسکتے اور جلد یا بد یر ایک مردہ ڈھیر کی طرح اسلام کے قدموں پر گر یں گے وہ وار جو آپ نے غیر مذاہب پر کئے اور جن کا نتیجہ ان کی یقینی موت ہے یہ ہیں.مسیحی مذہب پر وار مسیحی مذہب پرتو آپ کا یہ وار ہے کہ ا س کی تمام کامیابی اس یقین پر تھی کہ حجرت مسیح صلیب پر مر کر لوگوں کے لئے کفار ہ ہو گئے اور پھر زندہ ہو کر لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت کی لہر چلا دیتی تھی اور دوسری طرف ان کی زندگی اور آسمان پر
۴۳۵ دعوۃالامیر خدا تعالیٰ کے داہنے ہاتھ پر جا بیٹھنا.ان کی عظمت اور خدا ئی کا اقرار کر والیتا تھا.آپ نے ان دوںو باتوں کو انجیل ہی سے غلط ثابت کر کے دکھایا اور تاریخ سے ثابت کر دیا کہ مسیح کا صلیب پر مرنا ناممکن تھا کیونکہ صلیب پر لوگ تین تین دن تک زندہ رہتے تھے اور مسیح کو صرف بقول اناجیل تین چار گھنٹے صلیب پر رکھا گیا ، بلکہ انجیل میں ہے کہ جب ان کو صلیب سے اتارا گیا توا ن کے جسم میں نیزہ چبھونے سے جسم سے زندہ خون نکلا (یوحنا۱۹:۳۱تا ۳۴)اور مردے کے جسم سے زندہ خون نہیں نکلا کرتا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ثابت کیا کہ حضرت مسیح نے پیشگوئی کی تھی جواب تک اناجیل میں موجود ہے کہ آپ زندہ صلیب سے اتر آئیں گے.آپ نے فرمایا تھا ، اس زمانے کے لوگوں کو یونس نبی کا سا معجزہ دکھایا جائے گا.جس طرح وہ تین دن رات مجھلی کے پیٹ میں رہا اسی طرح ابن آدم تین دن رات قبر میں رہے گا.(متی ۱۲: ۳۹و ۴۰) اور یہ ابت متفقہ طور پر رتسلیم کی جاتی ہے کہ یونس نبی زندہ ہی مجھلی کے پیٹ میں داخل ہوا اور زندہ ہی اس سے باہر آیا.پس اسی طرح مسیح علیہ السلام بھی زندہ ہی قبر میں اتارے گئے اور زندہ ہی اس میں سے نکالے گئے.چونکہ تمام دلائل کی بنیاد اناجیل پر ہی تھی اس حربہ کا جواب مسیح کچھ نہ دے سکتے تھے اور نہ اب دے سکتے ہیں.پس کفارہ اور مسیح کے دوسروں کی خاطر صلیب پر مارے جانے کا عقیدہ جو مسیحیت کی طرف لوگوں کو کھینچ کر لارہے تھے بالکل باطل ہو گئے اور اس کی ایک ٹانگ ٹو ٹ گئی.دوسری ٹانگ مسیحیت کے بُت کی حضرت مسیح کے زندہ آسمان پر جانے اور خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھ جانے کی تھی.یہ ٹانگ بھی آپ نے انجیلی دلائل سے ہی توڑ دی.کیونکہ آپ نے انجیل سے ہی ثابت کر دکھایا کہ مسیح علیہ السلام صلیب کے واقعہ کے بعد آسمان پر نہیں گئے بلکہ ایران ،افغانستان اور ہندوستان کی طرف چلے گئے.جیسا کہ لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے کہ کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھڑوں کو اکٹھا کر نے آیا ہوں (میری اور بھی بھڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانے کی نہیں مجھے ان کا بھی لانا ضروری ہے) (یوحنا ۱۰:۱۶) اور تواریخ سے ثابتہے کہ بابل کے بادشاہ بخت الںصر نے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس۱۰ کو قید کر کے افغانستان کی طرف جلا وطن کر دیاتھا.پس حضرت مسیحؑ کے اس قول کے مطابق ان کا افغانستان اور کشمیر کی طرف آناضروری تھا، تاکہ وہ ان گمشدہ بھڑوں کو خدا کا کلام پہنچا دیں.اگر وہ ادھر نہ آتے تو اپنے اقرار کے مطابق ان کی بعثت لغو اور عبث ہوجاتی.آپ نے انجیلی شہادت کے علاوہ تاریخی اور جغرافیائی شہادت سے بھی اس دعویٰ کو پایۂ
۴۳۶ ثبوت تک پہنچا دیا ، چنانچہ پرانی مسیحی تاریخوں سے ثابت کر دیا کہ حجرت مسیح کے حواری ہندوستان کی طرف آیا کرتے تھے اور یہ کہ تبت میں ایک کتاب بالکل انجیل کی تعلیم کے مشابہ موجود ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں عیسیٰ کی زندگی کے حالات ہیں.جس سے معلوم ہوا کہ مسیح علیہ السلام ان علاقوں اور کشمیر کے اثار اور شہروں کے نام اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان ممالک میں یہود ی لاکر بسا ئے گئے تھے، چنانچہ کشمیر کے معنی جو کہ اصل میں کشمیر ہے(جیسا کہ اصل باشندون کی زبان سے معلوم ہوتا ہے)’’شام کے ملک کی مانند کے ہیں.کؔ کے معنے مثل کے ہیں اور شِیر شام کا نام ہے.اسی طرح کابل اور بہت سے دوسرے افغانی شہروں کے نام شام کے شہروں کے ناموں سے ملتے ہیں اور افغانستان اور کشمیر کے باشندوں کے چہروں کی ہڈیوں کی بناوٹ بھی بنی اسرائیل کے چہروں کی بناوٹ سے ملتی ہے مگر سب سے بڑھ کر یہ کہ آ پ نے تاریخ سے مسیح کی قبرکا بھی پتہ نکال لیا جو کہ کشمیر کے شہر سرینگر محلہ خانیار میں واقع ہے.کشمیر کی پرانی تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نبی کی قبر ہے جسے شہزادہ نبی کہتے تھے اور جو مغرب کی طرف سے انیس سو سال ہوئے آیا تھا اور کشمیر کے پرانے لوگ اسے عیسیٰ صاحب کی قبر کہتے ہیں.غرض متفرق واسطوں سے پہنچنے والی روایات کے ذریعے سے آپ نے ثابت کر دیا کہ حضرت مسیحؑ فوت ہو کر کشمیر میں دفن ہیں اور اللہ تعالیٰٰ کا یہ وعدہ ان کے حق میں پورا ہو چکا ہے کہ وَاٰوَیْنَا ھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِیْنٍo(مومنون ع۳)اور ہم نے مسیحؑ اور اس کی ماں کو ایک ایسے مقام پر جگہ دی جو اونچی جگہ ہے اور پھر ہے بھی میدان میں اور اس میں چشمے بھی بہت پھوٹتے ہیں اور یہ تعریف کشمیر پر بالکل صاد ق آتی ہے.غرض مسیحؑ کی زندگی کے حالت ان کی موت تک ثابت کر کے اوران کی قبر تک کا نشان نکال کر حضرت مسیح موعودؑ نے مسیح کی خدائی پر ایسا زبردست حملہ کیا ہے کہ مسیح کی خدا ئی کا عقیدہ ہمیشہ کے لئے ایک مردہ عقیدہ بن گیا ہے اور اب کبھی بھی مسیحیت دوبارہ سر نہیں اٹھا سکتی.سب مذاہب کے لئے ایک ہی ہتھیار چونکہ مسیحی مذہب کیا بلحاظ سیاسی فوقیت اور کیا بلحاظ وسعت اور کیا بلحاظ اپنی تبلیغی کو ششوں کے اور کیا بلحاظ علمی ترقی کے اس زمانے میں دوسرے تمام ادیان پر ایک فوقیت رکھتا تھا، اس وجہ سے اس
۴۳۷ کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص ہتھیار عطا فرمائے، مگر باقی تمام مذاہب کے لئے ایک ہی ایسا ہتھیار دیا جس کی زد سے کوئی مذہب بچ نہیں سکتا اور ہر مذہب کے پیرو اسلام کا شکار ہو گئے ہیں وہ ہتھیار یہ ہے کہہ ہر مذہب کے پہلے بزرگوں کے ذریعے اللہ تعالیٰٰ نے اخری ایام دنیا میں ایک مصلح کی خبر دے رکھی تھی اور اس خبر کی وجہ سے سب مذاہب ایک نبی یا اوتار یا جو نام بھی اس کا انہوں نے رکھا تھا اس کے منتظر تھے اور اپنی تمام ترقیات کو اس سے وابستہ سمجھتے تھے، ہندوؤں میں بھی ایسی پیشگوئیاں تھیں اور زرتشتیوں میں بھی تھیں اور دیگر چھوٹے بڑے ادیان کے پیروؤں میں بھی تھیں اور ان سب پیشگوئیوں میں آنے والے موعود کا زمانہ بھی بتایا گیا تھا، یعنی چند علامات اس کے زمانے کی بطور شناخت بتا دی گئی تھیں اللہ تعالیٰٰ نے مسیح موعود پر یہ کھول دیا کہ یہ جس قدر پیشگوئیاں ہیں اور ان میں جو علامات بتائی گئی ہیں سب ملتی جلتی ہیں اور اگر بعض پیشگوئیوں میں بعض دوسریوں سے زائد علامات بھی بتائی گئی ہیں تو وہ بھی اسی زمانے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جس طرف کہ باقی علامات پس یہ تمام نبی یا اوتار ایک ہی زمانے میں آنیوالے ہیں- اب ادھر تو ان پیشگوئیوں کا ہزاروں سالوں کے بعد اس زمانے میں آکر پورا ہو جانا بتاتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں، انسان یا شیطان کی طرف سے نہ تھیں کیونکہ آیت فلایظھر علی غیبہ احد الا من ارتضی من رسول )جن رکوع :۲۸،۲۷( اس کا فیصلہ کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ بالکل خلاق عقل ہے کہ ایک ہی زمانے میں ہر قوم اور ملت میں اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے رسول یا نبی یا اوتار کھڑے کئے جاویں جن کا یہ کام ہو کہ وہ اس قوم کو دوسری اقوام پر غالب کریں گویا خدا کے نبی ایک دوسرے کے مقابلہ کریں اور پھر یہ بھی ناممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں ہر قوم دوسری اقوام پر غالب آجائے- پس ایک طرف ان پیشگوئیوں کا سچا ہو کر ثابت ہونا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور دوسری طرف ان کا مختلف وجودوں پر پورا ہو کر باعث فساد بلکہ خلاف عقل ہونا اس بات پر شاہد ہے کہ درحقیقت ان تمام پیشگوئیوں میں ایک ہی وجود کی خبر دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰٰ کا منشاء یہ تھا کہ پہلے اقوام عالم میں ایک وجود کا انتظار کرائے اور جب وہ آجائے تو اس کے منہ سے اسلام کی صداقت کی شہادت دلا کر ان ادیان کے پیروؤں کو اسلام میں داخل کرے اور اسلام کو ان ادیان پر غالب کرے- پس مہدی کوئی نہ تھا مگر مسیح اور کرشن کوئی نہ تھا مگر مسیح، زردشتیوں کا میسودر بہمی کوئی نہ تھا مگر وہی جو کرشن ، مہدی اور مسیح تھا اور اسی طرح اقوام کے موعود درحقیقت ایک ہی
۴۳۸ شخص تھےاور غرض مختلف ناموں کے ذریعے سے پیشگوئی کرنے کی یہ تھی کہ اپنے نبیوں سے اس کی خبر سن کر اور اپنی زبان میں اس کا نام دیکھ کر وہ اسے اپنا سمجھیں غیر خیال نہ کریں حتیٰ کہ وہ زمانہ آجائے کہ جب وہ موعود ظاہر ہوا ہو اور اس کے وقت میں سب پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ کر ان کی داقت کا اقرار کرنا پڑے اور اس کی شہادت پر وہ اسلام کو قبول کریں- اس پر حکمت عملی کی مثال بالکل یہ ہے کہ کوئی شخص بہت سی اقوام کو لڑتا دیکھ کر ان سے خواہش کرے کہ وہ ثالثوں کے ذرریعے سے فیصلہ کر لیں اور جب وہ اپنے اپنے ثالث مقرر کر چکیں تو معلوم ہو کہ وہ ایک ہی شخص کے مختلف نام ہیں اور اس کے فیصلے پر سب کی صلح ہو جائے- غرض یہ ثابت کر کے کہ مختلف مذاہب میں جو آخری زمانے کے موعود کے متعلق پیشگوئیاں ہیں وہ اس زمانے میں پوری ہو چکی ہیں اور پھر یہ ثابت کر کے کہ ایک ہی وقت میں کئی موعود جن کی غرض یہ ہو کہ سب دنیا میں صداقت کو پھیلائیں اور اپنی قوم کو غالب کریں ناممکن ہے آپ نے ثابت کر دیا کہ درحقیقت سب مذاہب مختلف ناموں کے ساتھ ایک ہی موعود کو یاد کر رہے تھے اور وہ موعود آپ ہیں اور چونکہ نبی کسی قوم کا نہیں ہوتا جو خدا کے لئے اس کے ساتھ ہو وہ اس کا ہوتا ہے اس لیے وہ گویا ہر مذہب کے پیروئوں کے اپنے ہی آدمی ہیں اور آپ کے ماننے سے ان کی تمام ترقیات وابستہ ہیں اور آپ کو ماننے کے یہ معنے ہیں کہ اسلام میں داخل ہوں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ پیشگوئی پوری ہو جائے کہ مسیح موعود اس لیے نازل ہو گا تالیظھرہ علی الدین کلہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین اسلام کو سب دینوں پر غالب کرے- یہ حربہ ایسا کاری ہے کہ کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، ہر مذہب میں آخری مصلح کی پیشگوئی موجود ہے اور جو علامات بتائی گئی ہیں وہ اس زمانے میں پوری ہو چکی ہیں لیکن مدعی سوا آپ کے کوئی کھڑا نہیں ہوا- پس یا تو اپنے مذاہب کو لوگ جھوٹا سمجھیں یا مجبور ہو کر تسلیم کریں کہ یہ اسلام کا موعود ہی ان کتابوں کا موعود تھا اور اس پر ایمان لائیں- ان دو صورتوں کے سوا اور کوئی تیسری صورت مذاہب عالم کے پیروؤں کے لئے کھلی نہیں اور ان دونوں صورتوں میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ اگر دیگر ادیان کے پیرو اپنے مذاہب کو جھوٹا سمجھ کر چھوڑ بیٹھیں تب بھی اسلام غالب رہا اور اگر وہ ان مذاہب کو سچا کرنے کے کے لیے ان کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانے کے مصلح کو قبول کر لیں تب بھی اسلام غالب رہا-
۴۳۹ یہ وہ حملہ ہے کہ جوں جوں مذاہب غیر کے پیروؤں پر اس حملے کا اثر ہو گا وہ اسلام کے قبول کرنے پر مجبور ہونگے اور آخر اسلام ہی اسلام دنیا میں نظر آنے لگے گا- مسیح موعود نے سنت انبیاء کے ماتحت بیج بو دیا ہے- درخت اپنے وقت پر نکل کر پھل دے گا اور دنیا اس کے پھلوں کی شیرینی کی گرویدہ اور اس کے سائے کی ٹھنڈک کی قائل ہو کر مجبور ہو گی کہ اسی کے نیچے آکر بیٹھے- ایک دن اس حملے کی زد سے کسی قدر بچ رہتا تھا، یعنی سکھوں کا دین کیونکہ باوانانک صاحب رسول کریم ﷺکے بعد ہوئے ہیں گو ان کے یہاں بھی ایک آخری مصلح کی پیشگوئی موجود ہے بلکہ صاف لکھا ہے کہ وہ بٹالہ کے علاقے میں ہو گا )بٹالہ وہ تحصیل ہے جس میں قادیان کا قصبہ واقع ہے گویا یہ پیشگوئی لفظاً لفظاً پوری ہو چکی( لیکن ان کی طرف سے یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ رسول کریم ﷺ خاتم النبین تھے تو آپ کے بعد اس مذہب کی بنیاد کیونکر پڑی- سو اس مذہب کی اصلاح اور اس کو اسلام میں لانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حربہ دیا کہ آپ کو رویا میں بتایا گیا کہ باوانانک رحمہ اللہ علیہ نے کوئی نیا دین نہیں نکالا بلکہ وہ پکے مسلمان تھے- اے بادشاہ! آپ یہ سن کر تعجب کریں گے کہ یہ بظاہر عجیب نظر آنیوالی بات ایسے زبردست دلائل کے پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ہزاروں سکھوں کے دلوں نے اس امر کی صداقت کو قبول کر لیا اور وہ سکھ جو اس سے پہلے اپنے آپ کو ہندوؤں کا جزو قرار دیا کرتے تھے بڑے زور سے جدوجہد کرنے لگے کہ وہ ہندوئوں سے علیحدہ ہو جائیں- حضرت مسیح موعود کے اس دعوے سے پہلے سکھ گوردواروں میں ہندوؤں کے بت رکھے ہوئے تھے اس دعوے کے بعد گوسکھ قوم نے بحیثیت قوم تو ابھی اسلام کو قبول نہیں کیا مگر ایسا تغیر عظیم اس میں واقع ہوا کہ اس نے گوردواروں میں سے بت چن چن کر باہر پھینکنے شروع کر دئیے اور ہندو ہونے سے صاف انکار کر دیا- حضرت اقدسؑ نے اس رویا کے بعد جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ گرنتھ صاحب میں جو باوا صاحب علیہ الرحمہ کے مواعظ کی کتاب ہے نماز پنجگانہ اور روزہ اور زکوہ اور حج کی سخت تاکید ہے اور کے بجانہ لانے پر سخت تہدید کی گئی ہے، بلکہ سکھوں کی کتب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باوا صاحب علیہ الرحمہ مسلمان اولیاء کے ساتھ جاکر رہا کرتے تھے ان کے مقابر پر اعتکاف کرتے تھے ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے- آپ حج کو تشریف لے گئے تھے اور بغداد
۴۴۱ اور سب مذاہب ایک دوسرے کے بزرگوں کو جھوٹا بھی کہہ رہے ہیں- یہ بات کیا ہے؟ اس جنگ کا نتیجہ یہ تھا کہ تعصب بڑھ رہا تھا اور اختلاف ترقی کر رہا تھا، ایک طرف ہندو اپنے بزرگوں کے حالات کو پڑھتے تھے اور ان کی زندگیوں میں اعلیٰ درجے کے اخلاقی کمال دیکھتے تھے- دوسری طرف دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے سنتے تھے کہ وہ جھوٹے اور فریبی تھے تو ان کو ان کی عقل پر حیرت ہوئی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کو تعصب نے اندھا کر دیا ہے دوسری طرف دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے بزرگوں کی نسبت خلاف باتیں سن کر غم وغصہ سے بھر جاتے تھے، غرض ایک ایسا لاینحل عقیدہ پیدا ہو گیا تھا جو کسی کے سلجھانے سے نہ سلجھتا تھا جو لوگ تعصب سے خالی ہو کر سوچتے تھے کہ رب العلمین خدا نے کس طرح اپنے بندوں میں سے ایک قوم کو چن لیا اور باقیوں کو چھوڑ دیا مگر اس سوال کو پیش کرنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا کیونکہ یہ سوال اس کے مذہب کو بینح وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیتا تھا- ہنود نے اس عقیدے کو بزعم خود اس طرح حل کر لیا تھا کہ سب مذاہب خدا کی طرف سے ہیں اور بمنزلہ ان مختلف راستوں کے ہیں جو ایک محل کی طرف جاتے ہیں اور ہندو مذہب سب سے افضل ہے مگر یہ عقیدہ کشائی بھی دنیا کے کام کی نہ تھی کیونکہ اس پر دو بڑے زبردست اعتراض ہوتے تھے جن کا کوئی جواب نہ تھا- ایک تو یہ کہ اگر سب مذاہب اپنی موجودہ حالت میں خدا کی طرف سے ہیں اور خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں تو پھر ان میں اصولی اختلاف کیوں ہے بیشک تفاصیل میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر اصول میں نہیں ہو سکتا- ایک شہر کو کئی راستے جا سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ مشرق کی طرف ہونیوالے راستوں میں سے بعض مغرب کی طرف سے جائیں اور بعض شمال کی طرف سے اور بعض جنوب کی طرف سے وہ تھوڑا تھوڑا چکر تو کھا سکتے ہیں مگر جائیں گے سب ایک ہی جہت کو دائمی صداقتوں میں کبھی اختلاف نہیں وہ سکتا یہ مانا کہ خدا نے ایک جماعت کو ایک قسم کی عبادت کا حکم دیا اور دوسری کو دوسری قسم کی عبادت کا لیکن عقل سلیم اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے ایک جماعت ۱ سے تو یہ کہا کہ میں ایک خدا ہوں اور ۲ دوسری سے کہا کہ میں دو ہوں اور ۳ تیسری کو باپ، بیٹا، روح القدس کی تعلیم دی اور ۴ چوتھی کو لاکھوں بتوں میں خدائی طاقتوں کا عقیدہ سکھایا اور ۵ پانچویں کو ہر جیز کا الگ دیوتا بتایا یا یہ کہ ۶ ایک سے کہا کہ اس کی ذات بالکل اہلِ اسلام و یہود ، مارسی، مسیحی ،ہنود، چینی، مسلمانوں
۴۴۲ منزہ ہے- ممکن نہیں کہ وہ تجسم اختیار کرے- ۷ دوسری کو بتایا کہ انسانی جسم میں وہ حلول کر سکتا ہے اور ۸ کو یہ بتایا کہ وہ ادنیٰ جانوروں حتیٰ کہ سور تک کی شکل اختیار کر لیتا ہے یا مثلاً ۹ کو تو اس نے بتایا کہ بعثت بعدالموت حق ہے- ۱۰ دوسری کو بتایا کہ بعثت بعدالموت نہیں ہے- ۱۱ ایک سے کہا کہ مردے زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آتے- ۱۲ دوسری سے کہا کہ انسان مرنے کے بعد نئی نئی جونوں میں واپس آتا ہے- غرض یہ تو ممکن ہے کہ احکام اللہ تعالیٰٰ مختلف اقوام کے حالات دیکھ کر بیان فرما دے، مگر یہ ممکن نہیں کہ واقعات اور دائمی صداقتیں بھی مختلف اقوام کو مختلف طور پر بتائے، لیکن چونکہ موجودہ مذاہب کے صرف احکام میں احکام میں اختلاف نہیں بلکہ دائمی صداقتوں میں بھی اختلاف ہے اس لیے ان سب کو خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے مختلف راستے نہیں کہہ سکتے- دوسرا اعتراض اس عقیدہ پر یہ پڑتا تھا کہ ہندو لوگ ایک طرف تو اپنے مذہب کو سب مذاہب سے افضل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اسے سب سے پرانا مذہب قرار دیتے ہیں، عقل سلیم اسے تسلیم نہیں کر سکتی کہ اللہ تعالیٰٰ نے افضل مذہب اتار کر پھر ادنیٰ مذاہب اتارے جبکہ انسان اپنی ابتدائی حالت میں کامل مذہب قبول کرنے کی طاقت رکھتا تھا تو پھر بعد کو علوم وفنون میں ترقی حاصل کرنے پر اس کی طرف ادنیٰ دین اتارنے کی کیا وجہ تھی؟ بعد کو تو وہی دین آسکتا ہے جو پہلے سے زیادہ مکمل ہو یا کم سے کم ویسا ہی دین ہو- یہ دونوں اعتراض ایسے تھے جن کا جواب اس عقیدے کے پیش کرنیوالوں سے کچھ نہ بنتا تھا اور یہ اعتراض قائم رہتا تھا کہ خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لئے ابتدائے عالم سے کیا سامان کرتا چلا آیا ہے- مسیحیوں نے اس عقیدے کا یہ حل بتایا کہ خدا نے مسیح کے ذریعے سب دنیا کو ہدایت کی طرف بلایا ہے اس لیے اس پر کسی قوم کی طرفداری کا اعتراض نہیں ہو سکتا مگر یہ حل بھی صحیح نہ تھا کیونکہ اس سے بھی یہ سوال حل نہ ہوتا تھا کہ مسیح کی آمد سے پہلے خدا نے دنیا کی ہدایت کے لیے کیا سامان کیا تھا بوائیبل سے تو ہمیں اسی قدر معلوم ہوتا ہے کہ دوسری اقوام کے لیے اس کی تعلیم نہ تھی لیکن مسیح کے بعد لوگوں کے لیے اگر دروازہ کھولا بھی گیا تو اس سے پہلے جو کروڑوں لوگ دیگر اقوام کے گزر گئے ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کیا سامان کیا- * مسیحیوں ۸ ہنود ۹ اہل اسلام ۱۰ یہود کے بعد قبائل ۱۱ اہل اسلام ۱۲ ہنود VI مسیحیوں VI ہنود 18 اسلام X پور کے بعض قبائل xl اہل اسلام X نور
۴۴۳ غرض یہ سوال بلاشافی جواب کے پڑا تھا اور لوگوں کے دلوں کو اندر ہی اندر رکھا رہا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم سے استدلال کر کے اس نقطہ نگاہ کو ہی بدل دیا جو اس وقت تک دنیا میں قائم تھا اور بتایا کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ وان من امہ الا خلافیھا نذیر )سورہ فاطرع:۲۵( کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں ہم نے رسول نہیں بھیجا پس ہر ملک اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰٰ کے رسول گزر چکے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ ہندوستان بلا نبیوں کے تھا، یا چین بلانبیوں کے تھا یا روس بلانبیوں کے تھا، یا افغانستان بلانبیوں کے تھا، یا افریقہ بلانبیوں کے تھا یا یورپ بلانبیوں کے تھا، یا امریکہ بلانبیوں کے تھا، نہ ہم دوسری اقوام کے بزرگوں کا حال سن کر ان کا انکار کرتے ہیں اور ان کو جھوٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں نبی گزر چکے ہیں- دوسری اقوام میں نبیوں اور شریعتوں اور کتابوں کا پایا جانا ہمارے مذہب کے خلاف اور اس کے راستے میں روک نہیں ہے بلکہ اس میں اس کی تصدیق ہے- ہاں ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ زمانے کے حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پہلے مختلف اقوام کی طرف نبی بھیجے اور بعد میں جب انسان اس کامل شریعت کو قبول کرنے کے قابل ہو گیا جو محمد رسول اللہ ﷺکی معرفت آئی تو اس نے آپ کو سب دنیا کی طرف مبعوث کر کے بھیج دیا- پس کوئی قوم بھی ہدایت سے محروم نہیں رہی اور باوجود اس کے اسلام ہی اس وقت ہدایت کا راستہ ہے کیونکہ یہ آخری دین اور مکمل دین ہے- جب مکمل دین آگیا تو پہلے دین منسوخ کئے گئے اور ان دینوں کے منسوخ کئے جانے کی یہ بھی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اب ان کی حفاظت چھوڑ دی ان میں انسانی دست برد ہوتی رہتی ہے اور وہ صداقت سے کوسوں دور جا پڑے ہیں اور ان کی شکلیں مسخ ہو چکی ہیں وہ سچے ہیں بلحاظ اپنی ابتداء کے اور جھوٹے ہیں بلحاظ اپنی موجودہ شکل کے یہ نقطہ نظر جو آپ نے قائم کیا ایسا ہے کہ اس سے کوئی شخص پیچھے ہٹ نہیں سکتا کیونکہ اگر اس اصل کو تسلیم نہ کیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض بندوں کی ہدایت کرتا ہے اور بعض انسانوں کو بلا ہدایت کے سامان پیدا کرنے کے یونہی چھوڑ دیتا ہے اور اسے عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی اور اگر وہ اس اصل کو تسلیم کر لیں تو ان کو اسلام کی صداقت کا قائل ہونا پڑتا ہے- کیونکہ اسلام سب سے آخری دین ہے- اور اس لیے بھی کہ اسلام ہی نے اس صحیح اور درست اصل کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے- یہ حربہ ایسا زبردست ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ اور وسیع الخیال جماعت جو خواہ کسی
۴۴۴ مذہب سے تعلق رکھتی ہو- اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کیونکہ اگر اس اصل کو جو حضرت اقدسؑ نے پیش کیا ہے چھوڑ دیں تو خدا تعالیٰ کو بھی ساتھ ہی چھوڑنا پڑتا ہے اور یہ وہ کر نہیں سکتے اور اگر وہ اس اصل کو قبول کر لیں تو پھر اسلام کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے اور اس کے سوا ان کے لیے اور کوئی چارہ نہیں پس دنیا کے نقطہ نگاہ کو جو پہلے نہایت تنگ تھا بدل دینے سے حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کے غلبہ کا ایک یقینی سامان پیدا کر دیا ہے- چوتھا حربہ جو آپ نے اسلام کو غالب کرنے کے لیے استعمال کیا اور جس نے اسلام کے خلاف تمام مباحثات کے سلسلے کو بدل دیا ہے اور غیر مذاہب کے پیروؤں کے ہوش اڑا دئیے ہیں یہ ہے کہ آپ ؐنے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سےر ائج الوقت علم کلام کو بالکل بدل دیا اور اس کے ایسے اصول مقرر فرمائے کہ نہ تو دشمن انکار کر سکتا ہے اور نہ ان کے مطابق وہ اسلام کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے اگر وہ ان اصولوں کو رد کرتا ہے تب بھی مرتا ہے اور اگر قبول کرتا ہے تب بھی مرتا ہے- نہ فرار میں اسے نجات نظر آتی ہے نہ مقابلے میں حفاظت- آپ سے پہلے تنقید اور مباحثے کا یہ طریق تھا کہ ایک فریق دوسرے فریق پر جو چاہتا اعتراض کرتا چلا جاتا ہے اور اپنی نسبت جو کچھ چاہتا تھا کہتا چلا جاتا تھا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب مناظرے کا میدان غیر محدود ہو جائے تو مناظرے کا نتیجہ کچھ نہیں نکل سکتا- جب چند سوار دوڑنے لگتے ہیں تو بعض قواعد کے مطابق دوڑتے ہیں- تب جا کر جیتنے والے کا پتہ لگتا ہے اگر کوئی کسی طرف کو اور کوئی کسی طرف کو دوڑ جائے تو کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ کون جیتا- اس طرح دوڑنے والوں کے متعلق ہم کبھی بھی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے، اسی طرح مذہبی تحقیق کے معاملے میں جب تک حد بندی نہ ہو رائے قائم نہیں کی جا سکتی پہلے یہ طریق تھا کہ ہر شخص کو جو بات اچھی معلوم ہوئی خواہ کسی کتاب میں پڑھی ہو اپنے مذہب کی طرف منسوب کر دی اور کہہ دیا کہ دیکھو ہمارے مذہب کی تعلیم کیسی اچھی ہے گویا اصل مذہب کے متعلق کوئی گفتگو ہی نہ ہوتی تھی، بلکہ علماء اور مباحثین کے ذاتی خیالات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی، نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ متلاشیان حق کو فیصلہ کرنے کا موقعہ نہ ملتا تھا آپ نے آکر اس طریق مباحثہ کو خوب وضاحت سے غلط ثابت کیا اور بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کتاب ہماری ہدایت کے لیے آئی ہے تو چاہئیے کہ جو کچھ وہ ہمیں منوانا چاہتی ہے وہ بھی اس میں موجود ہو- اور جن دلائل کی وجہ سے منوانا چاہتی ہے وہ بھی اس میں موجود ہوں، کیونکہ اگر خدا کا کلام دعوے اور دلائل
۴۴۵ دونوں سے خالی ہے تو پھر اس کا ہمیں کیا فائدہ ہے؟ اور اگر دعوی بھی ہم پیش کرتے ہیں اور دلائل بھی ہم ہی دیتے ہیں تو پھر اللہ کے کلام کا کیا فائدہ؟ اور ہمارا مذہب اللہ کا دین کہلانے کا کب مستحق ہے وہ تو ہمارا دین ہوا اور اللہ کا ہم پر کوئی احسان نہ ہوا کہ ہم نے ہی اس کے دین کے لئیے دعوے تجویز کئے اور ہم نے ہی ان دعووں کے دلائل مہیا کئے- پس ضروری ہے کہ مذہبی تحقیق کے وقت یہ امر مدنظر رکھا جائے کہ آسمانی مذاہب کے مدعی جو دعوی اپنے مذاہب کی طرف سے پیش کریں وہ بھی ان کی آسمانی کتب سے ہو اور جو دلائل دیں وہ بھی انہی کی کتب سے ہوں- یہ اصل ایسا زبردست تھا کہ دوسرے ادیان اس کا ہرگز انکار نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کے یہ معنے ہوتے کہ جو مذہب وہ بیان کرتے ہیں وہ مذہب وہ نہیں ہے جو ان کی آسمانی کتب میں بیان ہوا ہے کیونکہ اگر وہی مذہب ہے تو پھر کیوں وہ اپنی آسمانی کتاب سے اس کا دعوی بیان نہیں کر سکتے یا اگر دعوی بیان کر سکتے ہیں تو کیوں ان کی آسمانی کتاب دلیل سے خالی ہے- جب خدا تعالیٰ نے انسان کے دماغ کو ایسا پیدا کیا ہے کہ وہ بلا دلیل کے کسی بات کو نہیں مان سکتا تو کیوں وہ اسے ایمان کی باتیں بتاتے وقت ایسے دلائل نہیں دیتا جن کی مدد سے وہ ان باتوں کو قبول کر سکے، غرض غیر مذاہب کے لوگ اس اصل کو نہ رد کر سکتے تھے، کونکہ ان کے رد کرنے کے یہ معنی تھے کہ ان کے مذہب بالکل ناقص اور ردی ہیں اور نہ قبول کر سکتے تھے کیونکہ اے بادشاہ! آپ کو یہ معلوم کر کے حیرت ہو گی کہ جب اس اصل کے ماتحت دوسرے مذاہب کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ قریباً نوے فیصدی ان کے دعوے ایسے تھے جو ان کی الہامی کتب میں نہیں پائے جاتے تھے اور جس قدر دعوے مذہبی کتب سے نکلتے تھے ان میں قریباً سو فیصدی ہی دلائل کے بغیر بیان کئے گئے تھے گویا خدا نے ایک بات بتاکر انسان پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ اپنی وکالت سے اس کی بات کو ثابت کرے- حضرت اقدسؑ نے ثابت کر دیا کہ مختلف مذاہب کے پیرو اپنے دل سے باتیں بنا بنا کر یا ادھر ادھر سے خیالات چرا کر اپنے مذہب کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور ان مذاہب کی فوقیت پر بحثیں کر کے لوگوں کا وقت ضائع کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنی بات کو ثابت بھی کر دیں تو اس سے یہ نتیجہ تو نکل آئے گا کہ ان کے خیالات ان مسائل کے متعلق درست ہیں مگر یہ نتیجہ نہ نکلے گا کہ ان کا مذہب بھی سچا ہے کیونکہ وہ بات ان کی مذہبی کتاب میں پائی ہی نہیں جاتی.پھر
۴۴۶ آپ نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم تمام اصول اسلام کو خود پیش کرتا ہے اور ان کی سچائی کے دلائل بھی دیتا ہے اور اس کے ثبوت میں آپ نے سینکڑوں مسائل کے متعلق قرآن کریم کا دعوی اور اس کے دلائل پیش کر کے اپنی بات کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا اور دشمنان اسلام آپ کے مقابلے سے بالکل عاجز آگئے اور وہ اس حربے سے اس قدر گھبرا گئے ہیں کہ آج تک ان کو کوئی حیلہ نہیں مل سکا جس سے اس کی زد سے بچ سکیں اور نہ آئندہ مل سکتا ہے یہ علم کلام ایسا مکمل اور اعلیٰ ہے کہ نہ اس کا انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی موجودگی میں جھوٹ کی تائید کی جا سکتی ہے- پس جوں جوں اس حربے کو استعمال کیا جائے گا ادیان باطلہ کے نمائندے مذہبی مباحثات سے ہی چرائیں گے اور ان کے پیروؤں پر اپنے مذہب کی کمزوی کھلتی جائے گی لیظھرہ علی الدین کلہ کا نظارہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے گی- پانچواں حربہ جو حصرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ اصلوۃ والسلام نے چلایا اور جس سے دیگر مذاہب کے جھنڈوں کو کلی طور پر سرنگوں کر دیا اور اسلام کو ایسا غلبہ عطا کیا جس غلبے کا کوئی شخص انکار ہی نہیں کر سکتا یہ ہے کہ آپ نے بڑے زور سے دشمنان اسلام کے سامنے یہ بات پیش کی کہ مذہب کی اصل غرض اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے- پس وہی مذہب سچا ہو سکتا ہے اور موجودہ زمانے میں خدا تعالیٰ کا پسندیدہ دین کہلا سکتا ہے جو بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرا سکے اور اس تعلق کے آثار دکھا سکے، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی کوئی نہ کوئی اثر ہوتا ہے- آگ اگر جسم کو لگتی ہے یا اس کے پاس ہی ہم بیٹھتے ہیں تو جسم یا جل جاتا ہے یا گرمی محسوس کرتا ہے پاتی ہم پیتے ہیں تو فورا ہماری اندرونی تپش کے زائل ہو جانے کے علاوہ ہمارے چہرہ سے بشاشت اور طراوت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں عمدہ غذا کھائیں تو جسم فربہ ہونے لگ جاتا ہے ورزش کرنے لگیں تو جسم میں مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے اور تاب وتوانائی حاصل ہوتی ہے اسی طرح دوائوں کا اثر ہوتا ہے کہ بعض دفعہ مضر اور بعض دفعہ مفید پڑتا ہے مگر یہ عجیب بات ہو گی اگر اللہ تعالیٰٰ کا تعلق بالکل بے اثر ثابت ہو! عبادات کرتے کرتے ہماری ناکیں گھس جائیں اور روزے رکھتے رکھتے پیٹ پیٹھ سے لگ جائیں، زکوۃ وصدقات دیتے دیتے ہمارے اموال فنا ہو جائیں لیکن کوئی تغیر ہمارے اندر پیدا نہ ہو اور ان کاموں کا کوئی نتیجہ نہ نکلے- اگر یہ بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے تعلق کا فائدہ کیا اور اس کی ہمیں حاجت کیا؟ ایک ادنیٰ حاکم سے ہمارے تعلق کی علامت تو ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس کے دربار میں
۴۴۷ ہمیں عزت ملتی ہے- اس کے ماتحت ہمارا لحاظ کرنے لگتے ہیں وہ ہماری التجاؤں کو سنتا ہے اور ہماری تکلیفوں کو دور کرتا ہے اثر ہر ایک شخص اس بات کو محسوس کر لیتا ہے کہ ہم اس کے مقبول اور پیارے ہیں، لیکن اگر کچھ پتا نہیں لگ سکتا تو اللہ تعالیٰ کے تعلق کا کہ نہ اس کا اثر ہمارے نفس پر کچھ پڑتا ہے اور ہمارے تعلقات پر ہم ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں جیسے کہ پہلے تھے- غرض آپ نے ثابت کیا کہ زندہ مذہب میں یہ علامت پائی جانی چاہئے کہ اس پر عمل کرنےوالا خدا تعالیٰ کو پا سکے اور اس کا مقرب ہو سکے اور خدا تعالیٰ کے مقروں میں اس کا قرب پا لینے کے کچھ آثار ہونے چاہئیں.پس چاہئے کہ ہر مذہب کے لوگ بجائے آپس میں ایک دوسرے پرحملہ کرنے کے اپنی روحانی زندگی کا ثبوت دیں اور اپنے مقرب خدا ہونے کے واقعات سے ثابت کریں اور ایسے لوگوں کو پیش کریں جنہوں نے ان دینوں پر چل کر خداے تعلق پیدا کیا ہو اور اس کے وصال کے پیالے کون ہو پھر جو مذہب اس معیار کے مطابق سچاہو اس کو مان لیا جائے ورنہ ایک جسم بے جان سمجھ کر اس کو اپنے سے دور پھینکا جائے کہ وہ دوسرے کو نہیں اٹھا سکتا بلکہ اس کو اٹھانا پڑتا ہے ایسا مذہب بجائے نفع پہنچانے کے نقصان پہنچائے گا اور اس دنیا میں رسوا کرے گا اور اگلے جہان میں عذاب میں مبتلاء - یہ دعوی آپ کا ایسا تھا کہ کوئی سمجھدار اس کو رد نہیں کر سکتا تھا.اس دعوے کے ساتھ ہی غیرمذاہب کے پیروؤں پر بجلی گری اور وہ اپنی عزت کے بچانے کی فکر میں لگ گئے.آپ نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ اس قسم کی زندگی کے آثار صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں دوسرے مذاہب ہرگز اس معیار پر پورے نہیں اتر سکتے اگر کسی کو اس کے خلاف دعوی ہے تو میرے مقابلے میں آکر دیکھ لے مگر باوجود غیرت دلانے کے کوئی مقابلے پر نہ آیا اور آتا بھی کس طرح؟ کچھ اند ر ہو تاتو آتا- گلا پھاڑنے اور چلا چلا کر یہ شور برپا کرنے کے لئے تو ہزاروں لوگ تیار ہو جائیں گے کہ ہمارا مذہب سچاہے مگر خدا کی محبت اور اس کے تعلق کا ثبوت دیناتو کسی کے اختیار میں نہیں، خدا کی محبت تو کیا خدا سے ایک عارضی تعلق بھی جن لوگوں کو نہ ہو وہ خدا کے تعلق کا کیا ثبوت دیں.آپؐ نے ہندوؤں کو بھی اسی دعوت دی اور مسیحیوں کو بھی اور یہود کو بھی اور دیگر تمام ادیان کو بھی مگر کوئی اس حربے کے برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوا.مختلف پیرایوں اور
۴۴۸ مختلف مواقع پر آپؑ نے لوگوں کو اُکسایا مگر صدائے بر نخاست.ایک دفعہ پنجاب کے لارڈ بشپ کو آپ نے چیلنج دیا کہ میرے مقابل پر آکر دعا کی قبولیت کا نشان دیکھو ، تمہاری کتب میں بھی لکھا ہے کہ اگر ایک رائی کے دانے کے برابر تم میں ایمان ہو تو تم پہاڑوں سے کہوکہ چلو تو وہ چلنے لگیں گے اور ہماری کتب بھی مومنوں کی نصرت اور تائید اور ان کی دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ دیتی ہیں.پس چاہئے کہ تم میرے مقابلہ پر آکر کسی امر کی متعلق دعا کر کے دیکھو تا معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے والوں کی دعائیں مقابلے کے وقت سنتا ہے یا ان کی دعائیں سنتا ہے جو مسیحی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں مگر باوجود باربار چیلنج دینے کے لارڈ بشپ صاحب خاموش رہے اور ان کی خاموشی ایسی عجیب معلوم ہوتی تھی کہ بعض انگریزی اخبارات نے بھی ان پر چوٹ کی کہ اس قدر بڑی بڑی تنخواہیں لینے والے پادری جب کوئی مقابلے کا وقت آتا ہے تو سامنے ہو کر مقابلہ کیوں نہیں کرتے مگر نہ غیروں کے چیلنج نے پادری صاحب کو مقابلے پر آمادہ کیا اور نہ اپنوںکے طعنوں نے.وہ آنوں بہانوں سے اس پیالے کو ٹالتے رہے.اس قسم کے چیلنج آپ نے متواتر دشمنان اسلام کو دیئے ، مگر کوئی شخص مقابلے پر نہ آیا.آپؑ کا یہ حربہ ایسا ہے کہ ہر ذی عقل اور صاحب شعور آدمی پر اس کا اثر ہوگا اور جوں جوں لوگ اپنے مذاہب کے لئے بے اثر ہونے اور اسلام کے زندہ اور مؤ ثر ہونے کو دیکھیں گے اسلام کی صداقت ان پر کھلتی جائے گی.کیونکہ مباحثات میں انسان باتیں بنا کر حق کو چھپا سکتا ہے مگر مشاہدے اور تاثیر کے مقابلے میں اس سے کوئی عذت نہیں بن سکتا اور آخر دل سچائی کا شکا ہو ہی جاتا ہے یہ حربہ بھی انشاء اللہ اظہار دین کے لئے نہایت زبردست اور سب سے زبردست حربہ ثابت ہوگا، بلکہ ہر اعقلمند انسان کے نزدیک اس حربے کے ذریعے سے عقلاً اسلام غالب ہو چکا ہے گو مادی نتیجہ کچھ دن بعد پیدا ہو.یہ پانچ حربے جو حضرت اقدسؑ نے دشمنان اسلام پر چلائے ہیں میں بے بطور مثال پیش کئے ہیں جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جو کام مسیح موعود ؑ کے لئے تھا وہ آپ کر چکے ہیں اور اگر آپؑ مسیح موعود ؑ نہیں ہیں تو پھر سوال ہوتا ہے کہ اب کونسا کا م رہتا ہے جو مسیح موعود آکر کرے گا؟ کیا یہ تلوار سے لوگوں کو دین میں داخل کرے گا؟ تلوار سے داخل کئے ہوئے لوگ اسلام کو کیا فائدہ دیں گے ؟ اور خود ان کو اس جبر ی ایمان سے کیا فائد ہ ہوگا؟ اگر آج مسیحی اپنی طاقت
۴۴۹ کے نشہ میں مسلمانوں کو جبراً مسیحی بنانے لگیں.تو ان کی نسبت ہر شریف آدمی اپنے دل میں کیاکہے گا ؟ اگر ان کے اس فعل کو ہم گندے سے گندہ فعل خیال کریں گے تو کیوں اس قسم کا فعل اگر مسیح موعود کریں گے تو وہ بھی قابل اعتراض نہ ہوں گے؟ یقینا تلوار سے اسلام میں لوگوں کو داخل کرنا اسلام کے لئے مضر ثابت ہوگا نہ کہ مفید.وہ ہر شریف الطبع اور آزادی پسند آدمی کو اسلام سے متنفر کردے گا.پس تلوار چلانے کے لئے مسیح کی آمد کی ضرورت نہیں، ان کا یہی کام ہو سکتا ہے کہ وہ دلائل سے اسلام کو غالب کریں اور دلائل سے اور مشاہدات کی تائید سے اسلام کودوسرے مذاہب پر مرزا صاحب غالب کر چکے ہیں.اب اس کام کا کوئی حصہ باقی نہیں رہا کہ مسیح آکر کریں.پس مرزا صاحب ہی مسیح موعود ہیں کیونکہ انہوں نے وہ کام کر کے دکھا دیا، جو مسیح موعود کے لئے مقرر تھا.اس جگہ پر شاید یہ کہا جائے کہ دلائل تو پہلے بھی موجود تھے پھر یہ کیونکہ سمجھا جائے کہ مرزا صاحب نے اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کرید تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تلوار موجود ہو اور اس کے چلانے والا موجود نہ ہوتو نہیں کہہ سکتے کہ دشمن مغلوب ہو جائے گا.دشمن تو تبھی مغلوب ہوگا جب اس تلوار کا چلا نے وال موجود ہو اور یہاں تو اسلام کا یہ حال تھا کہ تلوار دلائل کی موجود تھی مگر لوگ صرف یہی نہیں کہ تلوار چلانا نہیں جانتے تھے بلکہ اس امر سے بھی ناوقاقف تھے کہ تلوار موجود ہے.یہ حضرت اقدسؑؑ ہی کا کام تھا کہ آپ نے قرآن کریم کا فہم اللہ تعالیٰٰ سے پاکر اسلام کے غلبے کے ان دلائل کو جو اس زمانے کے متعلق تھے مستنبط کیا اور پھر ان دلائل کو غیر مذاہب کے مقابلے میں استعمال کیا اور دوسرے لوگوں کو ان کا استعمال سکھایا.پس آپؑ کی آمد سے ہی اسلام غالب ہوا اورنہ جس طرح بے توپچی کے توپ خود اپنی فوج کے لئے مضر ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم اپنے عارف کی عدم موجود گی کے سبب مسلمانوں کے لئے مضر ثابت ہورہا تھا اور اسی کے غلط استعمال سے وہ ہلاک اور تباہ ہو رہے تھے ، لیکن حضرت اقدسؑؑ علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو پھر اس کلام کے وہ اثرات ظاہر ہوئے اور آپؑ نے ایسے دلائل کے ساتھ اسلام کی طرف سے دشمنوں کا مقابلہ کیا کہ مقابلہ کرنا تو الگ رہا ، دفاع بھی ان کے لئے مشکل ہوگیا.اور بعض توا ن میں سے حکومت کے آگے چلانے لگے کہ وہ جبراً حضرت اقدسؑؑ کو اس مقابلہ سے روک دے اور روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ اب اسلام ادیان باطلہ پر غالب ہو کر رہے گا اور اژدھے کی طرح ان کو نگل جائے گا.
۴۵۰ پانچویں دلیل تجدید دین پانچویںؔ ۵ دلیل حضرت اقدسؑ مرزا غلام احمدؐ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کی صداقت پر یہ ہے کہ آپ نے اسلام کی اندرونی اصلاح بھی اسی رنگ میں کردی ہے کہ جس رنگ میں اس کی اصلاح مسیح ومہدی کے سپر د تھی.پس معلوم ہوا کہ آپ ہی مسیح موعود ہیں.میرے نزدیک سوا ان مولویوں کے بحث مباحثے کی وجہ سے ضد اور تعصب کا شکار ہوگئے ہیں باقی سب تعلیم یافتہ لوگ اس امر کا اقرار کریں گے کہ آج اسلام وہ اسلا م نہیں رہا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں تھا.ہر شخص کا دل محسوس کرتا ہے کہ اسلام میں کوئی کمی آگئی ہے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ یا تو وہ زمانہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے رُبَمَا یَوَدُّ الذَّیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلَمِیْنَ (سورہ حجر ع۱)بہت دفعہ کا فر بھی چاہتے ہیں کے کاش و ہ مسلمان ہوتے اور ایسی اعلیٰ درجے کی تعلیم پر عمل کرتے اوریا آج یہ زمانہ ہے کہ اسلام سب کامحل اعتراض بن رہا ہے.غروں کو تو اس نے کیاتسلی دینی تھی کود مسلمانوں میں سے تعلیم یافتہ لوگ اس کے بہت سے مسائل پر شک و شبہ رکھتے ہیں،کوئی اس کی اصول تعلیم پر معترض ہے کوئی اس کی اخلاقی تعلیم پر حرف گیر اور کوئی اس کی عملی تعلیم کی نسبت متردد.وہ یقین اور دثوق اب وہ پیدا نہیں کرتا جو آج سے پہلے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پیدا کیا کرتا تھا اور اسی وجہ سے اسلام کی خاطر لوگ اس قربانی کے لئے بھی تیار نہیں جس کے لئے وہ پہلے تیار ہوا کرتے تھے اب تین باتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑیگی یا تو یہ کہ اسلام کی تاثیر کی نسبت جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ ایک افسانے سے زیادہ حقیقت نہین رکھتا بزرگوں کی نسبت پچھلوں کی حسن ظنی ہے اور کچھ بھی نہیں.یا یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام پر آج کل کوئی عمل ہی نہیں کرتا ،یا یہ کہ اسلام میں ہی تغیر آگیا ہے اس لئے اب اس پر عمل کچھ مفید نہیں ہوتا اور یہ آخری بات ہی درست ہے کیونکہ پہلے زمانے میں جو اس کا اثر تھا وہ روایتوں سے ہی ثابت نہیں.دنیا کے چاروں گوشوں میں
۴۵۱ اسلام کے آثار اس ترقی کے شاہد ہیں جو اسلام پرچلنے کے سبب سے مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی اور یہ بھی نہیں کہ آج کل کوئی اسلام پر عمل نہیں کرتا.اسلام کے جو معنے لوگ سمجھتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں.بعض لوگ چلہ کشی کرتے کرتے اپنی جان دے دیتے ہین مگر ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.پس ایک ہی بات رہ گئی اور وہی اصل باعث ہے کہ اسلام کا مفہوم لوگوں کے ذہنوں میں بدل گیا ہے اور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لَمْ یَبْقَ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اِسْمُہٗ آج اسلام کا صرف نام باقی رہ گیا ہے اور زمانہ نبویؐ سے بُعد کی وجہ سے لوگوں نے مغز اسلام کو بالکل بدل دیا ہے اور اب موجود شکل میں اپنے پیروؤں کے اندر وہ تبدیلی کے پیدا کرنے سے قاصر ہے جو پہلے پیدا کیا کرتا تھا اور موجود شکل میں دوسرے ادیان کے پیروؤں کے دلوں پر بھی کچھ اثر نہیں کرسکتا اور گو کبھی کبھی اس کے محوشدہ آثار کسی سعید فطرت کے دل کوصداقت کی طرف مائل کردیں مگر بطور قاعدہ اب اس کا وہ اثر نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں تَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّ سَبْعِیْنَ مِلَّۃٌ کُلُّھُمْ فِیْ النَّارِ اِلاَّ وَاحِدَۃً قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ (مشکوۃ باب الاعتصام بالسنۃ.بحوالہ ترمذی) یعنی ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی ، ان میں سے سوا ایک کے باقی سب آگ میں ڈالے جائیں گے لوگوں دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے جو حق پر ہوں گے آپؐ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اس طریق پر ہوں گے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں.اسی طرح آپؐ فرماتے ہیں کہ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ خُذُوْا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ اَنْ یُّقْبَضَ الْعِلْمُ وَقَبْلَ اَنْ یُّرْفَعَ الْعِلْمُ.قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ یَرْفَعُ الْعِلْمُ وَھٰذَالْقُرْاٰنُ بَیْنَ اَظْھُرِنَا فَقَالَ اَیْ تَکِلَتْکَ اُمُّکَ وَھٰذَالْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی بَیْنَ اَظْھُرِ ھِمُ الْمَصَاحِفُ لَمْ یُصْبِحُوْا یَتَعَلَّقُوْنَ بِالْحَرْفِ مِمَّاجَآئَ تْ بِہٖ اَنْبِیَآؤُھُمْ اَلاَ وَاِنَّ وَّھَابَ الْعِلْمِ اَنْ یَّذْھَبَ حَمَلَتْہٗ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ یعنی اے لوگو! علم حاصل کرو قبل اس کے کہ علم اٹھا لیا جائے.دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا ؟ حالانکہ قرآن ہمارے پاس موجود ہے آپؐ نے فرمایا.اسی طرح ہوگا.تیری ماں تجھ پر ماتم کرے.کیا دیکھتے نہیں کہ یہود و نصاریٰ کے پاس کتابیں موجود ہیں لیکن وہ اس تعلیم کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے جو ان کے انبیاء
۴۵۲ لائے تھے.سنو! علم اس طرح جاتا ہے کہ عالم دنیا سے گزر جاتے ہیں اور آپؐ نے یہ فقرہ تین دفعہ بیان فرمایا.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت امت محمدیہ نہایت خطر ناک حالت کو اختیار کرنے والے ہے جبکہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا، لین ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایک فرقہ ایسا ہوگا جو حق پر ہوگا اور وہ فرقہ ہوگا جو صحابہؓ کے رنگ میں رنگین ہوگااور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کے رنگ میں رنگین صرف مسیح موعود کی جماعت ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ اس امت کا پہلا حصہ اچھا ہے یا آخری.پس مَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ سے مراد مسیح موعود کی جماعت ہو کیونکہ کوئی جماعت صحابہؓ کی طرح نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ کسی مرسل من اللہ کی صحبت یافتہ نہ ہو.خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں سے علم اور دین کے مٹ جانے پر مسیح موعود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ پھر اسلام کو قائم کرنے کا وعدہ کر چکا ہے.پس مسیح موعود ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شخص جو مدعی ہو اسلام کی اصل تعلیم کوقائم کرنے والا اورقرآن کریم کے صحیح علوم بیان کرنے والال ہو اور اگر وہ ایسا نہ کرے و مسیح موعود نہیںہو سکتا اور جو آخری زمانے کے پر فتن ایام میں اسلام کی تعلیم کو لوگوں کے خیالات سے پاک کرے اور اس کی خوبی کودنیا میں ظاہرے اورمَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی کا نظارہ دکھا وے، اس کے کے سواکوئی اور شخص مسیح موعود نہیں ہوسکتا اور جبکہ یہ بات ثابت ہوگئی تو مسیحیت کے مدعی کے دھوکے کو پرکھنے کے لئے ایک راہ ہمارے لئے یہ بھی کھل گئی ، ہم دیکھیں کہ کیا فی الواقع اسلام اس وقت سرتاپا اپنی اصل شکل کو چھوڑ چکا ہے.دوسرے یہ کہ کیا اس شخص نے فی الواقعہ اس کو اس کی اصل صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے.اسلام کا بالکل بدل جانا اور اپنی حقیقت سے دور ہوجانا تو ایسا مسئلہ ہے جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں کوئی عقلمند بھی اس کا منکر نہ ہوگا اور کوئی منکر بھی کب ہو سکتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کا اصل ثابت کر رہا ہے کہ اس وقت مسلمان مسلمان نہیں رہے اور پھر اسلام کی موجود شکل جو خود مسلمانوں کو تسلی نہیں دے سکتی وہ آپ اس امر کی گواہ ہے کہ اسلام اس وقت بگڑ چکا ہے پس صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا حضرت اقدسؑ مرزا غلام احمد ؐ صاحب نے حقیقی اسلام
۴۵۳ کو جو اپنی خوبصورتی اور دل آویزی کے سبب اپنوں اور غیروں سب کے دلوں کو اپنی طرف کھینج لیتا ہے فی الواقع دنیا کے سامنے پیش کیا ہے یا نہیں.اور کیا اپ نے ان مفاسد کو اسلام سے دور کیا ہے یا نیہں جو اس کی پاک تعلیم میں اللہ سے دور اور خود غرض ملاؤں نے ملا دئیے تھے.اس سوال کو حل کرنے کے لئے میں مثال کے طور پر چند موٹی موٹی باتیں جناب کے سامنے پیش کرتا ہوں جن سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی شکل کو اس وقت لوگوں نے کیسا بدل دیا تھا اور حضرت اقدسؑ نے کس طرح اس کی شکل کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.مذہب کا نقطہ ٔ مرکزی جس کے گرد باقی سب مسائل چکر لگاتے ہیںیا یہ کہ اسلام وہ جڑجس کے لئے باقی سب عقائد اور اعمال بمنزلہ شاخوں اورپتوں کے ہیں.ایمان باللہ کے اجزاء میں سے سب سے بڑا جز و ایمان بالتوحید ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت سے کہ دعویٰ کیا اور اس وقت تک کہ آپؐ فوت ہوئے لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی تعلیم کا اعلان جاری رکھا ہر ایک قسم کا تکلیف برداشت کی مگر اس تعلیم کا اظہار ترک نہ کیا، حتی کہ وفات کے وت بھی آپ ؐ کو اگر کوئی خیا ل تھا تو یہی کہ یہ تعلیم جسے اس قدر قربانیوں کے بعدآپؐ نے قائم کیا تھا دنیا سے مت نہ جاوے.اے بادشاہ! ایک مسلمان کا دل پگھل جاتا ہے اور اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے جب وہ احادیث اور تاریخوں میں یہ پڑھتا ہے کہ مرضِ موت میںجبکہ شدتِ مرض سے آپ کے جسم پر پسینہ آآ جاتا تھا اوربیماری آپ کے باریک در باریک اعصاب پر اپنا اثر کررہی تھی ، آپ کا کرب اور آپ کی تکلیف اور بھی بڑھ جاتی تھی جب آپؐ یہ خیال فرماتے تھے کہ کہیں لوگ میرے بعداس تعلیم کو بھول نہ جائیں اور شرک میں مبتلا نہ ہوجائیں اور آپؐ اس وقت کی تکلیف میں بھی اپنے نفس کو بھولے ہوئے تھے اور اُمت کی فکر سے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کروٹیں بد ل بدل کر فرما رہے تھے کہ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِ ھِمْ مَسَاجِدَ (بخاری باب مرض النبی صلعم) اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پرلعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنا لیا.جس سے آ پ کی مراد یہ تھی کہ دیکھنا میری عمر بھر کی تعلیم کے خلاف میری وفات کے بعد مجھی کو پوجنے نہ لگ جانا اور توحید الٰہی کی تعلیم کو بھول نہ جانا.یہ مرضِ موت میں آپ کو کرب اور توحید الٰہی کی محبت ایک ایسا دردناک واقعہ تھا کہ آپؐ سے محبت رکھنے والا انسان اس واقعہ کے درد ناک اثر کے ماتحت شرک کے قریب بھی کبھی نہیں جا
۴۵۴ سکتا تھا، مگر اے بادشاہ! آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمان کہلانے والوں مٰن سے اکثر وہ لوگ ہیں جو کھلم کھلا اس تعلیم کے خلاف عمل کر رہے ہیں.وہ کونسا مسلمان ہے جو آج سے تیر سو ۱۳۰۰ سال پہلے یہ وہم بھی کر سکتا تھا کہ لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے علمبردارکسی وقت قبروں پر سجدے کریں گے، اپنے بزرگوں کو مقامات کی طرف نہہ کر کے نمازیں پڑھیں گے.انسانوں کو عَالِمُ الْغَیْب قرار دیں گے.اولیاء اللہ کو خدا تعالیٰ کی قدرت کا مالک سمجھیں گے.مردوں سے مرادیں مانگیں گے قبرون پرنیاز یں چڑھائین گے اپنے پیروں کی نسبت یہ یقین رکھیں گے کہ یہ جو چاہیں اللہ تعالیٰٰ سے منوالیں گے اور ان کو حاضر ناظر جانیں گے.اللہ کے سوا دوسرے لوگوں کے نام پر قربانیاں دیں گے اور پھر اس سبب پر مزید ظلم یہ کریں گے کہ دعویٰ کریں گے کہ یہ سب تعلیم قرآن کریم کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہے مگر مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لیکر جنوب تک جس جس جگہ مسلمان رہتے ہیں یہ سب کچھ ہورہا ہے اور کثیر حصہ مسلمانوں کا مذکورہ بالا باتوں میں سے کسی نہ کسی بات کا مرتکب ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس سوز و گداز کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کے مزار مبارک کو تو ان بدعات سے بچا لیا مگر دیگر بزرگان اسلام کی قبروں پر آجکل ہندوؤں کے مندروں سے کم مشرکانہ رسوم نہیں ہوتیں.یقینا اگر آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لاکر دیکھتے تو ان لوگوں کو مسلمان خیال نہ فرماتے بلکہ کسی اور مشرکانہ دین کے پیرو خیال کرتے.شاید کہا جائے کہ یہ خیالات تو جاہل لوگوں کے ہیں، علماء ان خیالات سے بیزار ہیں مگر حق یہ ہے کہ کسی قوم کی حالت اس کے اکثر افراد سے دیکھی جاتی ہے.جب مسلمانوں میں سے اکثر ان خیالات کے پیرو ہیں تو یہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کی حالت بلحاظ توحید کے گر گئی ہے اور وہ لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے اصل کو جو اسلام کی جان تھا بھلا بیٹھے ہیں مگر یہ بھی درست نہیں کہ عوام الناس ہی ان اعقائد کے قائل ہیں ان عوام الناس کے پیراور مولوی بھی ان کے خیالات سے متفق ہیں اور اگر بعض ان میں سے دل سے مفتق نہیں تو کم سے کم ان کی حالت بھی اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ وہ ظاہر میں عوام الناس کے خیالات کا رد نہیں کرسکتے اور یہ بات بھی اس بات کی علامت ہے کہ ایمان مٹ گیا ہے.بعض فرقے مسلمانوںمیں سے ایسے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ شرک سے بکلی مجتنب ہیں بلکہ وہ دوسرے لوگوں پر ناراض ہوتے ہیں کہ انہوں نے شرک کر کے اسلام کو
۴۵۵ صدمہ پہنچایا ہے ، مگر تعجب ہے کہ یہ لوگ خود بھی شرک میں مبتلا ہیں اور دوسروں سے ان کو صرف اس قدر امتیاز حاصل ہے کہ یہ ہر ایک شخص کو اللہ کا شریک نہیں بناتے.صرف مسیح علیہ السلام کو اللہ کا شریک سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بھی دوسرے مسلمانون کی طرح مسیح علیہ السلام کو زندہ آسمان پربیٹھا ہوا یقین کرتے ہیں،ان کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو افضل الانبیاء تھے زمین میں مدفون ہیں،لیکن حضرت مسیح نعوذ باللہ من ذالک دوہزار سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو موت ہی نہیں دیتا.قرآن کریم میں صاف پڑھتے ہین کہ جن بزرگوں کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے.اَمْوَاتٌ غَیْرَ اَحْیَائٍج وَمَا یَشْعُرُوْنَلا اَیَّانَ یُبعَثُوْْنَ (نحل رکوع ۲) پھر دیکھتے ہیں کہ مسیحی مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰٰ کے سوا معبود بنائے ہوئے ہیں مگر یہ حضرت مسیحؑ کی زندگی کا خیال نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو موحد کہتے ہوئے جھجکتے نہیں.اسی طرح یہ لوگ شرک کے خلاف تو آواز بلند کرتے ہیں مگر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ مردے زندہ کیا کرتے تھے.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خود بھی اس دنیا میں مردوں کو زندہ کر کے نہیں بھیجتا ، جیسا کہ فرماتا ہے.وَحَرَامٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَھَآ انَّھُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ (سورۃ الانبیاء ع۷)جولوگ فوت ہو چکے ان کے لئے ہم نے یہ فیصلہ کر دیاہے کہ وہ واپس نہیں لوٹ سکیں گے اسی طرح فرماتا ہے وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(مومنون رکوع ۶) یعنی جو لوگ مر چکے ہیں ان کے پیچھے ایک روک ڈال دی گئی ہے جو قیامت کے دن تک جاری رہے گی اس سے پہلے یہ زندہ نہیں کئے جائیں گے.یہ لوگ اہل حدیث کہلاتے ہیں، لیکن اس حدیث کو بھول جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت جابرؓ کے والد عبد اللہ ؓ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰٰ نے ان سے کہا کہ مانگو جو کچھ مانگنا ہے.اس پر انہوں نے کہا میری تو یہی خواہش ہے کہ مجھے زندہ کیا جائے اور میں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کروں اور پھر تیری راہ میں دشہید ہوں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید ہوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں نے اپنی ذات کی قسم نہ کھائی ہوتی تو میں تجھے زندہ کر دیتا، مگر چونکہ میں نے عہد کر لیا ہے کہ میں ایسا نہیں کروں گا.اس لئے ایسا نہیں کروں گا(ترمذی کتاب التفسیر سورہ آل عمران و ابن ماجہ باب فیہاانکرت الجہمیۃو مشکوۃ ابواب جامع المناقب) یہ لوگ نہیں سوچتے کہ جس کام کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰٰ بھی نہیں کرتا اور جو اس کی
۴۵۶ صفات مخصوصہ میں سے ہے.اسے مسیح علیہ السلام کس طرح کر سکتے تھے.اُحْيِالْمَوْتٰی ( آل عمران ع) کے الفاظ قرآن سے د ھوکا کھاتے ہیں ، لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْالِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(انفال ع ۳) اے مومنو!اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرلیا کرو جب ان میں سے کوئی تم کو بلائے تا کہ تم کو زندہ کرے تو اس وقت اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ زندگی سے مراد رُوحانی زندگی ہے.جب احیاء کے معنے روحانی زندگی دینے کے بھی ہوتے ہیں اور جبکہ اللہ تعالیٰٰ کے سوا کوئی مردے زندہ نہیں کر سکتا اور جبکہ اس دنیا میں مردے زندہ کر کے اللہ بھی نہیں بھیجتا.تو پھر کیوں احیاء کے وہ معنی نہیں لیتے.جو کلام الٰہی کے مطابق ہوں اور جن سے شرک نہ پیدا ہوتا ہو.اسی طرح یہ موحد کہلانے والے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کیا کرتے تھے.حالانکہ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰٰ کے سوا کوئی شخص کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتا وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَھُمْ یُخْلِقُوْنَ (سورہ نحل ) ن آدمیوں کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں.اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآئَ خَلَقُوْ کَخَلْقَہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُعَلَیْْہِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ الْوَاحِدُ الْقَہَّار(سورہ رعد ع۲) کیا وہ اللہ کے سوا شریک مقرر کرتے ہیں جن کی صفت یہ ہے کہ انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے اور اب ان لوگوں کی نظروں میں اللہ تعالیٰ کی اور ان کی مخلوق مشتبہ ہوگئی ہے کہدے کہ اللہ ہی سب چیزوں کا خالق ہے اور وہ ایک ہے ہر چیز اس کی تصرف میں ہے.اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمِعُوْا لَہٗ( حج ع۱۰) وہ لوگ کہ تم ان کو اللہ کے سوا پکارتے ہو ہرگز پیدا نہیں کر سکتے ایک مکھی بھی.گو سب کے سب جمع ہو جائیں اور مسیح علیہ السلام بھی انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں.غرض باوجود اس کے قرآن کریم میں یہ بات صریح طور پر موجود ہے کہ اللہ کے سوا اور کوئی کچھ نہیں پیدا کر سکتا اور اگر کوئی ایسا کرے تو وہ سچا معبود ہے.اَخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ کے وہ معنے کرتے ہیں جو قرآن کریم کی
۴۵۷ دوسری آیات کے اور ایک بندے کے شان کے مطابق ہوں، نہ کہ وہ معنے کریں جو محکمات کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی ہوں اور مُوحد کہاتے ہوئے شرک میں مبتلا ہوں.یہ وہ خطر ناک عقائد ہیں جو اس وقت مسلمانوں میں خواہ عالم ہو ، یاجاہل اورخواہ مقلد ہوںیا غیر مقلد، سنی ہوں یا شیعہ پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی موجود گی میں کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے مضمون پر قائم ہیں.بیشک اس وقت بھی لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ مسلمانوں کے منہ پر جاری ہے، لیکن مذکورہ بالا عقائد کی وجہ سے وہ اس کے مفہوم سے اسی قدر دور جا پڑے ہیں جس قدر کہ اور مشرک اقوام ، اس تما م گمراہی اور ضلالت کے متعلق حضرت اقدسؑ مرزا غلام احمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر جو تعلیم دی وہ ایسی موحد انہ اور اللہ تعالیٰٰ کاجلا ل قائم کرنے والی ہے کہ اس کو مان کر انسان کا دل محبت الٰہی سے بھر جاتا ہے اور شرک کی آگ سے انسان بالکل محفوظ ہو جاتا ہے اورتوحید کے اس مقام کو پالیتا ہے.جس پر صحابہؓ کرام کھڑے تھے.آپ نے اس سب مذکورہ بالا خیالات کو بدلائل غلط ثابت کیا اور بتا یا کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کسی مردے سے مرادیں مانگنی یا قبروں پر نیازیں چڑھا نی یا کسی کو سجدہ کرنا خواہ زندہ ہو یا مردہ یا کسی کو اللہ کی قدرت کا مالک جاننا.یا عالم الغیب سمجھنا خواہ نبی ہو یا غیر نبی ، یا اللہ تعالیٰٰ کے سواکسی کے نام پر جانور ذبح کرنا یا کوئی اور چیز اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صدقہ کرنی یا کسی کی نسبت یہ یقین کرنا کہ وہ جو کچھ چاہے اللہ تعالیٰ سے منوا لے شرک ہے اس سے مومن کو پرہیز کرنا چاہئے.اسی طرح آ پ نے یہ ثابت کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام دیگر انبیاء کی طرح فوت ہو چکے ہیں اور زیر زمین مدفون ہیں.وہ روحانی مردوں کو زندہ کر تے تھے اور جس طرح نسان پیدا کر سکتا ہے پیدا کرتے تھے.بے جان کو جان دینے یا مردے کو زندہ کر نے کی ان میں طاقت نہ تھی.نہ بلا اذن اللہ اور نہ باذن اللہ.کیونکہ اللہ تعالیٰٰ اپنی صفات مخصوصہ کسی بندہ کو نہیں دیا کرتا اور اس کا کلام ان صفات کے مسیحؑ یا اور کسی آدمی میں پائے جانے کے صریح خلاف ہے اور جس قدر لوگ شرک پھیلاتے ہیں.وہ اسی قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰٰ نے اپنی طاقتیں فلاح شخص کو دیدی ہیں.یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ اس کا پیش کردہ معبود اخدا تعالیٰ سے آزاد ہو کر دنیا پر حکومت کرتاہے.اس مطابق قرآن اور مطابق عقل تعلیم سے آپ نے شرک کی ظلمت کو دور کیا اور مسلمانوں کو وہ سیدھا راستہ دکھا یا جس کو ایک عرصہ سے چھوڑ چکے تھے اور
۴۵۸ اس طرح وہو کام سرانجام دیا جو مسیحؑ کی آمدِ ثانی کے لئے مقرر تھا.ایمان باللہ کے بعد اسلام کا دوسرا۲ رکن ایمان با لملائکہ ہے اس رکن کو بھی مسلمانوں نے بالکل مسخ کر دیا تھا.بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ملائکہ نعوذ باللہ گناہ بھی کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ پر بھی معترض ہوجاتے ہیں، آدمؑ کے واقعہ میں ملائکہ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی حکمتوںاعتراض کرتے ہین.حالانکہ وہ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ کہہ کر اس بات پر زوردیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے افعال پر نکتہ چینی کر ہی نہیں سکتے.ہاروتؔ اور ماروتؔ کا قصہ ایسا دلخراش قصہ ہے کہ سنکر حیرت ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ دوفرشتے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آدمیوں کے بھیس میں بھیجے اور وہ ایک فاحشہ عورت پر عاشق ہوگئے اور آخر سزا کے طور پرایک کنوئیں میں اوندھے منہ لٹکا ئے گئے نعوذ باللہ من ذالک اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک ابلیس ملائکہ کا استاد تھا.بعض لوگ ملائکہ کی نسبت یہ عقید ہ رکھنے لگے ہیں کہ گویا وہ بھی مادی وجود ہیں آدمیوں کی طرح اِدھر اُدھر دَوڑے دوڑے پھرتے ہیں.عزرائیل کبھی اس کی جان نکالنے جاتے ہین اور کبھی اس کی اس کے برخلاف بعض لوگ ملائکہ کے وجود ہی کے منکر ہوگئے ہیں اور ملا ئکہ کو ایک وہمی وجود قرار دیتے ہیں اور قرآن کریم کی آیات کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ قوتوں اور طاقتوں کا نام ملائکہ رکھا گیا اور یہاں تک دلیر ہوگ ئے کہ علی الاعلان قرآن کریم اور احادیث کی تعلیم کے خلاف کہتے ہیں کہ ’’زجبریل امین قرآں بہ پیغامے نبی خواہم ‘‘ بلکہ ملائکہ کے وجود پر اعتراض کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰٰ کی قدرت کے خلاف سمجھتے ہیں.حضرت اقدسؑ نے ان خلاف اسلام اعتقادات کو بھی آکر رد کیا ہے اور صحیح اعتقاد کو پھیلایا ہے اور ملائکہ کی ذات سے اعتراضات کو دور کیا ہے.آپؑ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ملائکہ اللہ اللہ تعالیٰٰ پر اعتراض نہیں کرتے اور نہ وہ گناہ ہوں میں مبتلا ہوتے ہین، ان کی نسبت اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے کہ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَ ھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرُوْنَ(سورہ تحریم ع۱) ملائکہ اللہ تعالیٰٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جن باتوں کا ان کو حکم دیا جاتا ہے انہیں وہ بجا لاتے ہیں.پس ایسی مخلوق جسے اللہ تعالیٰٰ نے پیداہی ان طاقتوں کے ساتھ کیا ہے جو اطاعت او فرمانبرداری کی طاقتیں ہیں کس طرح بدی میں مبتلا ہو سکتی ہے اور فاحشہ عورتوں کے
۴۵۹ عشق میں مبتلا ہو سکتی ہے اور اللہ کو بھلا کر عذابِ الٰہی میں مبتلا ہو سکتی ہے.اگر ملائکہ گناہ میں مبتلا ہوسکتے ہیں تو ان پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا جات ہے.کیونکہ ایمان لانے کے تو معنی ہی یہ ہوتے ہیں جس پر ایمان لایا جائے اس کی باتوں کا مانا جائے.جو لوگ نافرمانی کر سکتے ہیں ان پر ایمان لانے کا حکم دینا گویا خود ہلاک ہونے کا حکم دینا ہے.اسی طرح آپ ؑ نے بتایا کہ ملائکہ روحانی وجود ہیں وہ اِدھر اُدھر دوڑے دوڑے نہیں پھرتے بلکہ جس طرح سورج اپنی جگہ سے روشنی دیتا ہے وہ بھی اپنے مقام سے اللہ تعالیٰٰ کے احکام کو بجالاتے ہیں اور ان طاقتوں کی مددد سے جو ان کی اطاعت میں لگائی گئی ہیں سب کام کرتے ہیں.اور آپؑ نے اس خیال کو بھی ردّ کیا ہے کہ ابلیسؔ ملائکہ کا استاد یا یہ ملائکہ کے ساتھ رہنے والا وجود تھا وہ تو ایک خبیث رُوح تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ (بقرہ ع۴) اس کا دل پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا منکر تھا.آپؑ نے اس خیال کی غلطی کو بھی دُور کیا کہ ملائکہ وہمی وجود ہیں یا طاقتوں کو کہتے ہیں.آپؑ نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر ملائکہ کا وجود ثابت کیا اور ان لوگوں کی جہالت کو ظاہر کیا جو اس بات کو مانتے ہیں کہ ظاہری آنکھوں کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورج کو پیدا کیااور آواز پہنچانے کے لئے ہوا کو بنایا اور اس سے اللہ تعالیٰٰ کے قادر ہونے پر حرف نہیں آیا لیکن کہتے ہیں کہ روحانی امور کے سرانجام دینے کے لئے اس نے اگر کوئی وسائط پیدا کئے ہیں تو اس سے اس کی قدرت پر حرف آتا ہے اور خود ان کے عقید ے سے ان کو ملزم قرار دیا اور ان کے اقرار سے ان کو پکڑ ا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰٰ کا وسائط کو پیدا کر نا اس لئے نہیں کہ وہ اپنے احکام کو بندے تک پہنچا نہیں سکتا، بلکہ اس لئے ہے کہ بندہ اللہ کا کلام سنیے کے لئے وسائط کا محتاج ہے اور اس لئے کہ یہ وسائط بندے کی ترقیات میں ممد اور معاون ہوتے ہیں، غرض آپ نے ایمان کے دوسرے رکن کے متعلق جو خرابیاں مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھیں ان کو خوب اچھی طرح دور کیا اور ملائکہ کے وجود کو اس صورت میں ظاہر کیا جس صورت میں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو پیش کیا تھا.تیسر۳ارُکن ایمان کا کتب سماویہ ہیں ان کی نسبت بھی مسلمانوں کے ایمان بالکل متززل ہو چکے تھے اور عجیب در عجیب خلایات مسلمانوں میں کتب سماویہ خصوصاً قرآن کریم کے متعلق پیدا
۴۶۰ ہو گئے تھے اور در حقیقت اسلام میں بلحاظ ایمان کے قرآن کریم ہی اصل ہے کیونکہ دوسری کتب پر ایمان لانا تو صرف اُصولی طور پر ہے.ورنہ وہ نہ موجود ہیں اور نہ اُن پر ان کی موجودہ شکل میں عمل کرنے کا حکم ہے.قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں کے جو عقائد ہین ان کو دیکھ کر مجھے سخت حیرت ہوتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ حیرت مجھے صرف اس سبب سے ہے کہ میں نے مسیح موعود پر ایمان لا کر اس سے اصل حقیقت کو معلوم کر لیا ہے ورنہ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح قرآن کریم کے متعلق کسی نہ کسی غلطی کا مرتکب ہوتا، بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاً ہی عملاً دنیا سے اٹھا یا گیا اور اس کا ایک بیشتر حصہ نعوذ باللہ من ذالک دنیا سے مفقود ہوگیا ہے بعض کے نزدیک جو موجودہ قرآن ہے اس میں بھی انسانی تصرفات کا اثر موجود ہے بعض لوگ اس قسم کے خیالات کو تو سختی سے ردّ کرتے ہیں اور ان کو کفر قرار دیتے ہیں، لیکن خود اس قسم کے اور خطر ناک عقائد پیش کرتے ہیں.مثلاً یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا کچھ حصہ منسوخ شدہ ہے اور منسوخ قرار دینے کا ذریعہ انہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ جو آیت دوسری آیت کے خلاف معلوم ہو وہ منسوخ ہے نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کو بعض اور آیتوں میں اختلاف نظر آیا ہے اور کسی کو بعض اور میں.اس نے ان کو منسوخ قرار دے دیا اور اس نے ان کو اور قرآن کریم کا ایک معتد بہ حصہ منسوخ قرار پاکر قابلِ عمل نہیں رہا، نعوذ باللہ من ذالک.اس طریق سے یہی نقصان نہیں ہوا کہ قرآن کریم کے بعض حصے منسوخ قرار پا گئے بلکہ ایک خطرناک اثر اس کا یہ ہوا کہ طبائع میں یہ خلجان پیدا ہو گیا ہے کہ جبکہ اس کے اندر بعض حصے منسوخ ہیں بعض غیر منسوخ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے یہ نہیں بتا یا کہ کونسا حصہ منسوخ ہے اور کونسا حصہ منسوخ نہیں تو اس کتاب کا اعتبار ہی کیا رہا.ہر شخص کو جو حصہ پسند آیا.اس نے اسے اصل قرار دیدیا اور دوسرے کو منسوخ قرار دیدیا.دوسراؔ خطرناک عقیدہ کتبِ الٰہیہ کے متعلق اور خصوصاً قرآن کریم کے متعلق یہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ کلام بھی شیطان کی دست بُرد سے پاک نہیں اور کہا جاتا ہے کہ بعض دفعہ شیطان الہام الٰہی میں دخل دیتا ہے اور آیت وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلآَّ اِذَا تَمَنّٰی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْ اُمْنِیَّتِہٖ (الحج رکوع ۷) سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ہر نبی کے کلام کو کو سنتے وقت شیطان نے
۴۶۱ دخل دیا ہے اور ایسے حصے اس میں ملا دئیے ہیں جو شیطان کی طرف سے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ تھے اور عام قاعدے کے بیان کرنے پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ سورۂ نجم پڑھ رہے تھے جب ان آیات پر پہنچے کہ اَفَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّیo وَمَنٰوۃَ الثَالِثَۃَ الْاُخْرٰیoتو آپؐ کی زبان پر شیطان نے نعوذ باللہ یہ کلمات جاری کر دئیے تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْتَجٰی.یعنی یہ بُت جو بمنزلۂ خوبصورت لمبی گردنوں والی حسین عورتوں کے ہیں.ان سے شفاعت کی اُمید کی جاتی ہے.جب یہ الفاظ آپ کی زبان سے کفار نے سُنے تو انہوں نے بھی سجدہ کر دیا.بعد میں آپ کو معلوم ہوا کہ یہ الفاظ شیطان نے آپؐ کی زبان پر جاری کر دئیے تھے تو آپؐ کو بہت افسوس ہوا.(نعوذ باللہ من ذالک) بعض لوگوں نے اس کہانی کو اگر حد سے زیادہ خلاف واقعہ اور نا قابل برداشت سمجھا ہے تو یہ کہہ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر شیطان نے یہ فقرات جاری نہیں کئے تھے بلکہ آپ کی سی آواز بنا کر اس طرح یہ کلمات کہہ دئیے تھے کہ یہی سمجھ میں آتا تھا کہ گویا آپ نے یہ کلمات پڑھے ہیں.اس بات کو صحیح سمجھنے سے قرآن کریم کے متعلق جو بے اعتباری پیدا ہوتی ہے اس کو یوں دور کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰٰ نے بنا دیا ہے کہ فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقٰی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(سورہ الحج ع ۷)یعنی پھر اللہ تعالیٰ شیطان کی ملاوٹ کو تومٹا یتا ہے.اور آپنی آیتوں کو قائم کردیتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے، مگر اس جواب سے کسی کو تسلی کب ہو سکتی ہے کیونکہ اگر شیطان بھی نعوذ باللہ کلامِ الٰہی میں دست اندازی کر سکتا ہے تو پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ آیت بھی شیطان نہیں ہے اور شیطان نے اپنی ملاوٹ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مطمئن کر نے کے لئے یہ نہیں کہہ دیا ہے کہ شیطان کی طرف سے جو کلام ہو وہ مٹادیا جاتا ہے تاکہ جو نہ مٹا دیا جائے اس کو اللہ کا کلام سمجھ لیا جائے.بعض لوگوں نے قرآن کریم کو ایسا بے وقعت کر دیا ہے کہ اس کے صریح اور صاف احکام کو ضعیف بلکہ موضوع احادیث کے تابع کر دیا ہے اور اتباع سنت کے نام سے اللہ ذو الجلال کے کلام کو بعض خود غرض اور اخلاقِ ذمیمہ رکھنے والے انسانوں کے خیالات کے تابع کر دیا جائے.قرآن کریم خواہ چلا چلا کر کسی کورد کرے.لیکن اگر ضعیف سے ضعیف حدیث میں بھی اس کا ذکر
۴۶۲ ہو تو وہ اس کی وحی الٰہی پر مقدم کر لیں گے اور اگر قرآن کریم کسی بات کو بیان کرتا ہو، لیکن حدیث میں اس کا ردّ ہو تو وہ قرآن کو پس پشت ڈال دیں گے اور حدیث کے بیان کو صحیح سمجھ لیں گے.بعض لوگوں نے کلام الٰہی سے یہ سلوک کیا ہے کہ وہ اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خیال قرار دیتے ہیں اور اس کے اللہ کا کلام ہونے سے انکاری ہیں وہ منہ سے تو یہی کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے مگرساتھ ہی اس کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ کے صاف دل میں جو خیال پیدا ہوتے تھے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی تائید ے ہوتے تھے اس لئے وہ اللہ ہی کا کلام کہلانا چاہئے ورنہ الفاظ (نعوذ باللہ من ذالک) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیار کردہ ہیں، کیونکہ (ان کے نزدیک ) اللہ کا کلام الفاظ میں جو اپنے ادا ہونے کے لئے ہونٹ اور زبان چاہتے ہیں نہیں نازل ہو سکتا.بعض نے اللہ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ فیصد کر دیا ہے کہ اس کا ترجمہ ہی نہیں کیا جا سکتا گویا عوام الناس تک اس کے پہنچا نے کا جو ذریعہ تھا اُس کو بند کر کے مسلمانوں کو اللہ کے کلام کو مفہوم سمجھنے سے روک دیا ہے اور اس طرح بے دینی کی اشاعت کے ذمہ دار ہو گئے ہیں.بعض نے اللہ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن ایک مجمل کتاب ہے اس میں اشارۃً بعض ضروری باتیں تو بتا دی گئی ہیں ، لیکن کوئی مسئلہ اس سے ثابت نہیں ہوسکتا.بعض نے اللہ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم تمام کا تمام تقدیم اور تاخیر سے بھرا پڑا ہے.جب تک اس کو مدّ نظر نہ رکھیں اس کی بات سمجھ میں نہیں آسکتی.بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کہ تمام دنیا کے قصے اور کہانیاں جن کو عقل سلیم ردّ کرتی ہے اور فطرت ان سے نفرت کرتی ہے اکٹھی کر کے قرآن کریم کی طرف منسوب کر دی ہیں اور مضمون ملے یا نہ ملے، بلکہ خواہ الفاظِ قرآن کریم ان کے خلاف ہوں وہ اسرائیلی قصّوں کے ماتحت اس کے مضمون کو لے آتے ہیں اور ان قصّوں کو اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیر بتاتے ہیں اور ان کو پہلے بزرگوں اور اولیاء اللہ کی طرف سے بھی منسوب کرنے سے نہیں جھجکتے.
۴۶۳ بعض نے اللہ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ اس کے ربط اور اس کی ترتیب کے بھی منکر ہو گئے ہیں.گویا ان کے نزدیک جس طرح کوئی شخص بیہوشی میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں بلا کسی ترتیب کے مختلف واقعات کو بیان کر دیا گیا ہے.کوئی خاص ترتیب اور مضمون مدِّنظر نہیںَ.بعض بلکہ اس وقت کے کل مسلمانوں نے کلام الٰہی کے متعلق ایک اور ظلم کیا ہے کہ کہہ دیا ہے کہ پہلے اللہ کا کلام دنیا پر نازل ہوتاتھا ، لیکن اب نہیں ہوتا، گویا اب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت معطل ہوگئی ہے وہ دیکھتا ہے سنتا ہے، لیکن بولتا نہیں، نعوذ باللہ من ذالک.غرض ہر شخص سے جس قدر ہو سکا اس نے کلامِ الٰہی پاک کے ٹکڑے ٹکڑے کر نے کی کوشش کی ہے اور اس کی خوبصورتی کو لوگوں کی نظروں سے چھپا نا چاہا ہے اور ان سب کو ششوں کا نام خدمتِ قرآن رکھا ہے حالانکہ ان کوششوں کو نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا قرآن کریم متنفر ہوگئی ہے اور اس کا اثر دلوں سے اُٹھ گیا ہے.حضرت اقدسؑ علیہ السلام اسے بادشاہ ! ان تمام عیوبؔکو آکر دور کیا اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا آخری ہدایت نامہ ہے وہ نسخ سے محفوظ ہے اُس کے اندر جو کچھ موجود ہے مسلمانوں کے لئے قابل عمل ہے اور اس کا کوئی حصہ نہیں جو دوسرے حصے کے مخالف ہو اور قابل نسخ سمجھا جائے جو اس میں اختلاف دیکھتا ہے وہ خود جاہل اور اپنی کم علمی کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرتا ہے اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اسی طرح ہے جس طرح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پا نازل ہوا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے اندر کوئی تبدیلی کی ہی نہیں کی جاسکتی.نہ اس کے بعض مضامین کو بد کر اور نہ اس کے اندر کوئی عبارت بڑھا کر اور نہ اس کا کوئی حصہ کم کر کے، اللہ تعالیٰٰ خود اس کا محافظ ہے اور اس نے اس کی حفاظت کے ایسے سامان کردئیے ہیں.کچھ روحانی اور کچھ جسمانی کہ انسانی دست بُرد اس پر اثر کرہی نہیں سکتی.پس اس میں کوئی نسخ ماننا بھی غلط ہے اور اس میں کوئی تغیر تسلیم کرنا بھی خواہ وہ کیسا ہی ادنیٰ ہے اتہام ہے وہ محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا.یہ کہنا کہ اس کا کوئی حصہ دنیا سے اٹھا یا گیا ہے اللہ تعالیٰ پر الزام لگانا ہے اور کے یہ معنی ہیں کہ وہ کامل کتاب جو اس نے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجی تھی وہ ایک دن بھی اس کا م کو نہ کر سکی
۴۶۴ جس کے لئے وہ نازل کی گئی تھی اور اس کے اندر تغیر تسلیم کر نے کے یہ معنے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لئے بے اعتبار ہو گئی، لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ بھی ضروری تھا کہ کوئی نبی اور کوئی نئی شریعت دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجی جاتی تا دنیا بلا شریعت کے نہ رہ جاتی.اسی طرح آپؑ نے ثابت کیا کہ قرآن کریم بلکہ ہر ایک اللہ کا کلام شیطانی تصرف سے پاک ہے یہ ہر گز ممکن نہیں کہ شیطان اللہ تعالیٰٰ کے کلام میں کچھ دخل دے سکے، خواہ نبی کی زبان پر تصرف کر کے خواہ نبی کی آواز بنا کر اپنی زابن کے ذریعہ سے اور آپؑ نے اپنے تجربے سے بتایا کہ جب مجھ پر جو ایک غلام ہوں نازل ہو نے والا کلام ہر ایک شک وشبہ سے پاک ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو میرے آقا ہیں نازل ہونے والا کلام اور وہ بھی قرآن کریم جو ہمیشہ کے لئے ہدایت بننے والا تھا شیطانی اثر کو قبول کرلے خواہ ایک آن کے لئے ہی سہی.آپؑ نے مسلمانوں کو بتایا کہ قرآن کریم یقینی کلام ہے اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور اس وعدہ کا ایفاء اس رنگ میں اس نے کی اہے کہ دشمن بھی اس کی حفاظت کے قائل ہیں پس اس کے مقابلے میں حدیث کو رکھنا اس کی گستاخی کرنااور اس کو جان بوجھ کر ردّ کرنا ہے.جو حدیث قرآن کریم کے مخالف پڑتی ہے.وہ ہرگز حدیث نبویؐ نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ کا رسول اللہ کے کلام کے مخالف نہیں کہہ سکتا اور احادیث کی تدوین ایسی محفوظ نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم محفوظ ہے.پس قرآن کریم کو زبردستی حدیث کے
۴۶۵ تاریخی شہادت کو بلاوجہ رد نہیں کیا جا سکتا ہے ورنہ بہت سی صداقتیں دنیا سے مفقود ہو جائیں- آپ نے اس خیال کی لغویت کو بھی ظاہر کیا کہ قرآن کریم رسول کریم ﷺکے الفاظ ہیں اور بتایا کہ قرآن کریم کا لفظ لفظ اللہ کا کلام رسول کریم ﷺتو صرف وحی چاہتا ہے اور اللہ کے ہونٹ اور زبان نہیں کیونکہ یہ قیاس مع الفاروق ہے اللہ تعالیٰ تو لیس کمثلہ شی ہے اس پر انسانی طاقتوں کا اندازہ کر کے فیصلہ نہیں دیا جا سکتا اگر کلام بغیر ہونٹ کے نہیں ہو سکتا تو اسی طرح کوئی چیز بغیر ہاتھوں کے نہیں بنائی جا سکتی- بلکہ مادی ہاتھوں کے نہیں بنائی جا سکتی تو کیا اللہ خالق بھی نہیں ہے پس جس طرح اللہ تعالیٰ بلا مادی ہاتھوں کے اس تمام کائنات کو پیدا کر سکتا ہے اسی طرح بغیر مادی ہونٹ اور زبان ہونے کے وہ اپنی مرضی کو اپنے بندے پر الفاظ میں ظاہر کر سکتا ہے اور آپ نے اپنے تجربے کو پیش کیا اور بتایا کہ یہ وہم صرف اس کوچے سے ناواقفی کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ خود مجھ سے الفاظ میں کلام کرتا ہے پس جب کہ وہ مجھ سے الفاظ میں کلام کرتا ہے تو رسول کریم ﷺسے جو سب بنی آدم کے سردار اور اللہ کے سب سے زیادہ مقرب تھے کیا وہ الفاظ میں کلام نہ کرتا ہو گا اس سے زیادہ جاہل اور کون ہو گا جو جاہل ہو کر اس بحث میں دخل دے جو اس کے علم سے بالا ہو اور نادان ہو کر اللہ کے رازوں کو اپنی عقل سے دریافت کرنے کی کوشش کرے- آپ نے اس خیال کو بھی رد کیا کہ اللہ کے کلام کا ترجمہ نہیں ہو سکتا اور بتایا کہ جب تک لوگوں کو قرآن کریم کا مفہوم نہ پہنچایا جائے وہ اس کی خوبیوں سے کس طرح واقف ہونگے؟ بیشک خالی ترجمہ کی اشاعت ایک جرم ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو متن سے بعد ہوتا جائے گا اور ممکن ہے کہ ترجمہ در ترجمہ سے وہ ایک وقت اصل درحقیقت کو چھوڑ دیں' لیکن ان لوگوں کے لیے جو عربی زبان کو اس قدر رواج دیا جائے کہ لوگ قرآن کریم کو اس کی اصل زبان میں پڑھ کر وہ برکات حاصل کر سکیں جو کہ ترجمہ سے حاصل نہیں ہو سکتیں اور کم سے کم ہر شخص کو اس قدر حصہ قرآن کریم کا ضرور سکھا دیا جائے جو نماز میں اس کو پڑھنا پڑتا ہے- آپ نے اس خیال کو بھی کہ قرآن کریم ایک مجمل کتاب ہے اس میں اشارۃ بعض باتیں
۴۶۶ بیان کی گئی ہیں نہایت واضح دلائل سے ردّ کر کے بتایا کہ قرآن کریم جیسی جامع و مانع کتاب تو دنیا بھر میں نہیں مل سکتی یہ تم لوگوں کا اپناقصور تھا کہ اس پر غور کرنا تم نے چھوڑ دیا اور اس طہارت کاحاصل نہ کیا جس کے بغیراس کے مطالب کا القاء انسان کے قلب پر نہیں ہوتا کیونکہ لَایَمَسَّہٗ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ (واقعہ ع ۳) کا ارشاد ہے.پس اپنی کوتاہ فہمی کو قرآن کریم کی طرف منسوب نہ کرو اور پھر آپ نے تمام مسائل دینیہ کو قرآن کریم سے ہی استنباط کر کے پیش کیا اور دشمنان اسلام کے ہر اعتراض کو قرآن کریم سے ہی رد کر کے دکھا دیا اور ثابت کر دیا کہ علوم روحانیہ اور دینیہ اور اخلاقیہ کے متعلق قرآن کریم سے زیادہ واحض اور مفصل کتاب اور کوئی نہیں، اس کے الفاظ مختصر ہیں، لیکن مطالب ایک بحر ذخّار کی طرح ہیں کہ ایک ایک جملہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں مطالب رکھتا ہے اور اس کے مضامین ہر زمانے کے سوالات اور شکوک کو حل کرتے ہیں اور ہر زمانے کی ضرورت کو وہ پورا کرتا ہے.آپؑ اس خیال کو بھی ردکیا کہ قرآن کریم تقدیم و تاخیر سے بھرا پڑا ہے اور بتایا کہ قرآن کریم کے الفاظ اپنی اپنی جگہ پر ایسے واقع ہیں کہ ان کو ہرگز سے ہلایا نہیں جاسکتا، لوگ اپنی نادانی سے اس میں تقدیم و تاخیر سمجھ لیتے ہیں ورنہ اس میں جو کچھ جس جگہ رکھا گیا ہے وہی وہاں درست بیٹھتا ہے اور اسی جگہ پر اس کے رکھنے سے وہ خوبی پیدا ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے اور آپ نے قرآن کریم کے مختلف مقامات کی تشریح کر کے اس مضمون کی صحت کو ثابت کیا اور ان لوگوں کے وسوسہ کو رد کیا جو اپنی کم علمی کی وجہ سے تقدیم و تاخیر کے چکر میں پڑے ہوئے تھے.آپ نے اس بات پر بھی جرح کی کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اسرائیلی قصوں کو بھردیا گیا ہے اور بتا یا کہ محض بعض واقعات میں مشابہت کا پیدا ہو جانا یہ ثابت نہیں کر تا کہ درحقیقت یہ دونوں باتیں ایک ہیں، قرآن کریم اگر بعض واقعات کو مختلف الفاظ میں بیان کرتا ہے تو اس کی یہی معنے ہیں کہ وہ ان واقعات کو اس صورت میں قبول نہیں کرتا جس صورت میں افسانہ گو ان کو بیان کرتے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ درحقیقت قرآن کریم افسانے کی کتاب ہے ہی نہیں وہ جو واقعات پچھلے بھی بیاب کرتا ہے وہ آگے کی پیشگوئیاں ہوتی ہیں اور ان کے بیان کر نے سے یہ غرض ہوتی ہے کہ اسی طرح معاملہ آئندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپؐ کی امت کے بعض افراد سے ہو نیووالا ہے پس اس کی تفسیر میں یہودیوں کے قصوں اور افسانوں کو بیان کر نا اس کے
۴۶۷ مطلب کو گم کر دینا ہے.قرآن کریم پہلی کتب پر بطور شاہد کے آیا ہے نہ کہ پہلی کتب اس پر بطور شاہد کے ہیں کہ اس کے بتائے ہوئے مضمون کے خلاف ہم ان کتب سے شہادت طلب کریں، ہمیں چاہئے کہ خود قرآن کریم سے اس کی تفسیر کریں اور اس کے مطلب کو باہر سے تلاش کر نے کی بجائے اس کے اندر ڈھونڈیں.آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرآن کریم ایک مرتب اور باربط کتاب ہے اس کے مضامین یونہی بکھرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ شروع بِسْمِ اللہ لے کر وَالنَّاس تک اس کی آیات اور اس کی سورتوں میں ایک ترتیب ہے جو ایسی اعلیٰ اور طبعی ہے کہ جس شخص کو اس پر اطلاع دی جاتی ہے اور اس کے اثر سے وجد میں آجاتاہے اور اس کے مقابلے میں کسی انسانی کتاب کی ترتیب میں لطف حاصل نہیں کر سکتا جن لوگوں نے قرآن کریم کے مضامین کو بے ترتیب قرار دیا ہے یا مختلف واقعات و مضامین کا مجموعہ سمجھا ہے انہوں نے درحقیقت اس بے نظیر کتاب کے معارف سے کوئی حصہ نہیں پایا.اور اپنی جہالت پر نازاں ہوگئے اور اپنی کم علمی پر توکل کر بیٹھے ہیں، ان کا خیال بالکل غلط اور باطل ہے اور آپؑ نے قرآن کے مضامین کی ترتیب کو مثالوں سے ثابت کیا اور دنیا کو حیرت میں ڈال دیا.آپ ؑ نے اس خیال کوبھی اپنے تجربے اور مشاہدے اور دلائل سے ردّ کیا کہ اب اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتااور بتا یا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت معطل نہیں جبکہ وہ پہلے کی طرح اب بھی دیکھتا اور سنتا ہے توکیا وجہ ہے کہ وہ اب بولنے سے رُک گیا ہے.شریعت اور چیز ہے اور خالی وحی اَور چیز ہے وحی تو اس کی رضا کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اس کے بند ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بند ہو گئیں اللہ کا کلام کبھی منقطع نہیں ہو سکتا.جب تک انسان دنیا میں موجود ہے اور جب تک انسانوں میں سے بعض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لئے سچے دل سے کوشاں ہیں اور اسلام کی تعلیم پر عامل ہیں اس وقت تک کلامِ الٰہی نازل ہوتا رہے گا.غرض کُتب سماویہ اور کلام الٰہی کے متعلق جس قدر غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور جن کی وجہ سے یہ رُکن ایمان بالکل منہدم ہو چکا تھا اُن کو آپؑ نے دُور کیا اور پھر اس رُکن کو اصل بنیادوں پر قائم کیا اور اللہ کے کلام کی اصل عظمت اورحقیقت کو ثابت کر کے طبائع کو اس کی طرف مائل کیا اور اس کی روشنی کو ان پر دوں کے نیچے سے نکالا، جو اس پر مسلمانوں نے
۴۶۸ اپنی نادانی کے سبب سے دال رکھے تھے اور غیر اقوام بھی قرآن کریم کے نور کو دیکھ کر حیران رہ گئیں، بلکہ لوگ اس کے نور کی چمک سے اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتے ہیں.چوتھا رُکن اسلام کا بنیاد پر ایمان لانا ہے اس رُکن پر بھی ھقیقت سے دور اور روحانیت سے عاری مسلمانوں نے عجیب عجیب رنگ آمیز یاں کر دی تھیں اور اس کی شکل کو نہ صرف بدل دیا تھا بلکہ اُس کی شکل ایسی بد نما کر کے دکھائی تھی کہ اپنوں کے دل نبیوں کی محبت سے خالی ہوگئے تھے اور دوسروں کے دل اُن سے نفرت کر نے لگے تھے اور سچ یہ ہے کہ جس قدر گالیاں اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جارہی ہیں ان کے ذمہ دار یہ مسلمان کہلانے والے لوگ ہیں نہ کوئی اور مسیحی اور دوسرے مخالفین اسلام اس قدر اپنی طرف سے جھوٹ بنا بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض نہیں کرتے جس قدرکہ ان روایات کی بنا پر اعتراض کر تے ہیں، جو خود مسلمانوں سے مروی ہیں اور جن کو مسلمانوں نے تسلیم کر لیا ہے اور جن کو بطور لطائف کے وہ اپنی مجالس میں بیان کرتے ہیں اور اپنے منبروں پر جن کا ذکر کرتے ہیں، آہ! ایک باغیرت مسلمان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک مسلمان ہی کی تیار کرد تلوار سے سرورِ انبیاء محمد مصطفیٰ ؐ کے تقویٰ کی چادر کو ایک دشمن اسلام خاک برسرش اپنے زعمِ باطل میں چاک کر رہا ہے.درحقیقت تو وہ خود اس منافق کے نفاق کو کھول رہا ہوتا ہے ، مگر ظاہراً یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے عیوب کو ظاہر کر رہا ہے.نبی دنیا میں اس لئے آتے ہیں کہ نیکی اور تقویٰ کو قائم کر یں اور ہدایت کو جاری کریں مگر مسلمانوں نے فیج اَعْوج کے زمانہ میں نبیوں کی طرف وہ عیب منسوب کر دئیے ہیں جن کو سُنکر اور پڑھ کر کلیجہ مُنہ کو آتا ہے.آدم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ایک نبی کے انہوں نے گناہ گنوائے ہیں، آدمؑ کو گنہگار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے صاف اور واضح احکام الٰہیہ کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا، نوح علیہ السلام کو گنہگار ثابت کیا کہ انہوں نے باوجود منع کئے جانے کے اپنے بیٹے کے لئے دیا کی.حضرت ابراہیم ؑ کو گنہگار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ من ذالک تین جھوٹ بولے تھے.حضرت یعقوب ؑ کوگنہگار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے تویا اپنے باپ کو بستر مرگ پر دھوکا دیا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی جگہ بھیس بدل کر اپنے باپ سے دُعا حاصل کر لی تھی.یوسف علیہ السلام کو گنہگار ثابر کیا ہے کہ انہوں نے عزیز کی بیوی کے
۴۶۹ ساتھ زنا کرنے اکا ارادہ کر لیاتھا اور بالکل اس کام کے لئے تیار ہو گئے تھے حتیٰ کہ باوجود کئی رنگ میں سمجھا نے کے نہیں سمھتے تھے، آخر یعقوبؑ کی شکل سامنے آگئی تو شرف سے اس کام سے باز رہے.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ بچپن میں انہوںنے چوری کی تھی اور ایک دفعہ انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لئے فریب بھی کیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کوبلا وجہ قتل کیا اور ایک کبیر ہ گناہ کے مرتکب ہوئے اور پھر فریب سے لوگوں کے مال لیکر بھاگ گئے.داؤدؑ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو منکوحہ چھیننے کے لئے اس کو ناواجب طور پر قتل کر وا دیا اور اس کی بیوی سے نکاح کر لیا اور آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو سر زنش ہوئی، سلیمانؑ پریہ الزام لگایا ہے کہ وہ ایک مشرکہ پر عاشق ہوگئے اور شیطان نے اُن پر تصرف کر لیا، ان کی جگہ وہ خود حکومت کر نے لگا اور یہ کہ مال کی محبت ان کے دل پر غالب آگئی اور وہ عبادت الٰہی سے محروم رہ گئے.گھوڑوں کا معائنہ کرتے ہوئے نماز پڑھنا ہی بھول گئے اور سورج ڈوب گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے احسانات کے نیچے ان لوگوں کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں اور ذرہ ذرہ جن کے انعامات کے نیچے دبا ہوا تھا ان پر ان لوگوں نے سب سے زیادہ حملے کئے ہیں اور آپ کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا جس پر اعتراض نہ کیا ہو.بعضون نے کہد یا کہ آپ حضرت علیؓ کو اپنا جا نشین بنانا چاہتے تھے مگر لوگوں کے ڈر سے کچھ نہ کر سکے بعض نے کہا کہ آپ نعوذ باللہ من ذالک اپنی پھوپھی زاد بہن کو دیکھ کر اس پر عاشق ہوگئے اور آخر اللہ تعالیٰ نے زیدؔ سے طلاق دلوا کر ان کو آپؐ کے نکاح میں دیا، بعض نے کہا کہ آپ اپنی بیوی کی ایک لونڈی سے چھُپ چھپ کر صحبت کیا کرتے تھے.ایک دن بیوی نے دیکھ لیا تو آپ ؐ بہت نادم ہوئے اور اس بیوی سے اقرار کیا کہ پھر آپ ایسا نہیں کریں گے اور اس سے عہد لیا کہ وہ اور کسی کو نہ بتائے بعض کہتے ہیں کہ آپ کے دل میں کبھی کبھی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ تعلیم اسلام میں نرمی ہوجائے اور ایسی تعلیم نازل ہو جسے مشرکین عرب بھی تسلیم کر لیں.ان کے احساسا ت اور جذبات کا بھی لحاظ رکھا جائے.یہ وہ خیالات ہیں جو اس وقت کے مسلمانوں میں انبیاء کی نسبت رائج ہیں اور بعض تو اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کے ذاتی چال چلن سے گزر کر انہوں نے ان کے دینی چال چلن پر بھی حملہ کر دیا ہے اور کہتے ہیں کہ انبیاء درحقیقت محبانِ وطن تھے جنہوں نے یہ دیکھ کر کہ لوگ بلا اس عقیدے کو تسلیم کر نے کے کہ کوئی جز سزا کا دن ہے اور جنت اور دوزخ حق ہیں تمدنی
۴۷۰ حدوود کے اندر نہیں رہ سکتے تھے.نیک نیتی کے ساتھ مناسب وقت احاکم لوگوں کو دیدئیے ، الہام کا دعویٰ درست نہ تھا مگر بوجہ نیت نیک ہونے کے اور اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم پیش کرنے کے وہ قابل عزت ہیں اور باوجود اس قسم کے وہ عقیدوں کے مسلمان کہلاتے ہیں.حضرت اقدسؑ مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں اور عقائد کا رد کیا اور ان میں صحیح راستہ ہمیں بتایا وہاں ان خیالات کے متعلق بھی صحیح اسلامی تعلیم سے مسلمانوں اور دیگر لوگوں کو آگاہ کیا.آ نے بتایا کہ انبیاء دنیامیں نیکی قائم کرنے کے لئے آتے ہیں اور اس لئے لوگوں کے لئے نمونہ ہوتے ہیں اگر وہ نمونہ نہ ہوں تو پھر ان کی بعثت کی کیا ضرورت ہے، کیوں آسمان سے صرف کتاب ہی نازل نہ کی جائے.نبیوں کی بعثت کی غرج ہی یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کو لوگ عمل میں آیا ہوا دیکھ لین اور ان کی عملی تصویر سے لفظی حقیقت کو معلوم کریں اور ان کے نمونے سے جرأت حاصل کر کے نیکی کیراہ مین ترقی کریں.اور ان کی قوتِ قدسیہ سے طاقت حاصل کر کے اپنی کمزریوں پر غالب آویں.آپؑ نے دنیا کو تعلیم دی کہ لوگ انبیاء کی نسبت جن غلطیوں میں پڑے ہوئے ہیں اس کا سبب ان کی نافہمی ہے وہ اللہ عالیٰ کے کلام کو سمجھنے کیکوشش نہیں کرتے اور بلا تحقیق اپنی بات کو پھیلانا شروع کر دیتے ہین اللہ تعالیٰ کے تمام نبی معصوم عن الخطا ہوتے ہین.وہ سچائی کا زندہ نمونہ اور وفا کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور صفائی اورخوبصورتی سے اللہ تعالیٰٰ سبوحیت اور قدوسیت اور اس کے بے عیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں.درحقیقت وہ ایک آئینہ ہوتے ہیں جس میں بد کار بعض دفعہ اپنی شکل دیکھ کر اپنی بد صورتی اور دزشت روئی کو ان کی طرف منسوب کر دیتا ہے ، نہ آدمؑ شریعت کا توڑنے والاتھا نہ نوحؑ گنہگار تھا نہ ابراہیمؑ نے کبھی جھوٹ بولا،نہ یعقوب ؑ نے دھوکا دیا، نہ یوسفؑ نے بدی کا ارادہ کیا یا چوری کی یا فریب کیا ، نہ موسیٰؑ نے ناحق کوئی خون کیا نہ داؤد ؑ نے کسی کی بیوی ناحق چھینی ، نہ سلیمان ؑ نے کسی مشرکہ کی محبت میں اپنے فرائض کو بھلایا، یا گھوڑوں کی محبت میں نماز سے غفلت کی، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ کیا، آپؐکی ذات تما عیوب سے پاک تھی اور تمام گناہوں سے محفوظ و مصؤن.جو آپؐ کیعیب شماری کرتا ہے وہ کود اپنے گند کو ظاہر کرتا ہے یہ سب افسانے جو آپؐ کی نسبت مشہور ہیں بعض منافقوں کی روایات ہیں جو تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوسکتے آپؐ کی باقی زندگی ان جھوٹ بولا،نہ یعقوب ؑ نے دھوکا دیا، نہ یوسفؑ نے بدی کا ارادہ کیا یا چوری کی یا فریب کیا ، نہ موسیٰؑ نے ناحق کوئی خون کیا نہ داؤد ؑ نے کسی کی بیوی ناحق چھینی ، نہ سلیمان ؑ نے کسی مشرکہ کی محبت میں اپنے فرائض کو بھلایا، یا گھوڑوں کی محبت میں نماز سے غفلت کی، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ کیا، آپؐ کی ذات تما عیوب سے پاک تھی اور تمام گناہوں سے محفوظ و مصؤن.جو آپؐ کی عیب شماری کرتا ہے وہ کود اپنے گند کو ظاہر کرتا ہے یہ سب افسانے جو آپؐ کی نسبت مشہور ہیں بعض منافقوں کی روایات ہیں جو تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوسکتے آپؐ کی باقی زندگی ان
۴۷۱ روایات کے بالکل برخلاف ہے اور جس قدر اس قسم کی باتیں آپؐ کی نسبت یا دوسرے انبیاء کی نسبت مشہور ہیں وہ ایا تو منافقوں کے جھوٹے اتہامات کے بقیہ یاد گاریں ہیں، یا کلام الٰہی کے غلط اور خلافِ مراد معنی کرنے سے پیدا ہو ئی ہیں.آپؐ نے نہایت وضاحت سے قرآن کریم سے بدلائل قاطعہ ثابت کر دیا کہ درحقیقت اس قسم کے خیالات اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اور اصل بات تو یہ ہے کہ یہ خیالات مسلمانوں میں مسیحیوں سے آئے تھے کیونکہ مسیحیوں نے حضرت مسیحؑ کی خدائی ثابت کرنے کے لئے یہ رویہّ اختیار کر رکھا تھا کہ وہ سب نبیوں کی عیب شماری کرتے تھے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ چونکہ گناہوں سے اک صرف حضرت مسیحؑ ہیں، اس لئے ضرور وہ انسانیت سے بالاطاقتیں رکھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی سب نبیوں کے عیب تو گنائے جاتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اتہامات لگائے جاتے ہیں مگر حضرت مسیحؑ کو بالکل بے گناہ قرار دیا جاتا اور آپ ہی کو نہیں بلکہ آپ کی والدہ کو بھی بالکل پاک قرار دیا جاتا ہے کیا یہ اس امر کا کافی ثبو نہیں کہ یہ جھوٹے افسانے اور قابل نفرت قصے مسلمانوں میں مسیحیوں سے ہی آئے ہیں جن کے بد اثر کو یا تو بو جہ ایک جگہ رہنے کے مسلمانوں نے قبول کر لیا، یا بعض شریر الطبع لوگوں نے بظاہر اسلام قبول کر کے اس قسم کے مخزیات اور باطل باتیں مسلمانوں میں پھیلانی شروع کر دیں جنہین ابتداء ً تو ہمارے مؤرخوں اور محدثوں نے اپنی مشہور دیانتداری سے کام لیکر صحیح روایات کے ساتھ جمع کر دیا تھا تا کہ مخالف اور موافق سب روایات لوگوں تک پہنچ جائیں مگر بعد کو آنے والے ناخلف لوگوں نے جو نور نبوت سے خالی ہو چکے تھے ان شیطانی وساوس کو تو قبول کر لیا جو قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف تھے اور ان صحیح روایتوں کو نظر انداز کر دیا جو انبیاء کی عصمت اور ان کی پاکیز گی پر دلالت کر تی تھیں اور ان وساوس کے لئے بمنزلہ تیز تلوار کے تھیں جس کی ضرب کو وہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتے تھے.مگر الحمد للہ کہ حضرت اقدسؑؑ نے اس گندگی کو ظاہر کر دیا اور انبیاء کے صحیح مرتبہ کو پھر قائم کر دیا اور ان کی عزت توں کی حفاظت کی، خصوصاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپؐ کی پاکیزگی کو تو نہ صرف الفاظ میں بیان کیا، بلکہ ایسے زبردست دلائل سے ثابت کیا کہ دشمن کا منہ بھی بند ہوگیا.بقول حضرت اقدسؑ ؑ ؎ ہر رسُولے آفاتِ صدق بود ہر رسُولے بود مہرِ انورے
۴۷۲ ہر رسول بود ظت دین پناه ہر رسول بور باغ مثمرے گر بدنیا آمدے ایں خیل پاک کار دیں ماندے سراسر ابترے ہرکہ شکر بعث شاں نارد بجا ہست او آلا ئے حق را کافرے آں ہمہ ازیک صدف صد گوہر اند متحد در زات و اصل و گوہرے اول آدم آخر شان احمد است اے خنک آنکس که ببند آخرے انبياء روشن گرا هستند لیک ہست احمد زان ہمہ روشن ترے آں ہمہ كان معارف بوده ان ہر یکے از راه مولی مخبرے ہر کہ را علیے ز توحيدحق است ہست اصل علمش از پیغمبرے آن رسیدش از ره تعلیم ہا گو شود اکنوں زنخوت منکرے ہست قومے کج رو و ناپاک رائے آنکہ زیں پاکان بھی پیچد سرے دیده شان روے ت ہرگز ندید بس می کردند رو ئے دفترے شور بختی ہاے بخت شان ب بیں ناز بر چشم و گریزاں از خورے چشم گر پودے غنی از آفتاب کس نے پورے تیز میں چوں شپرے چون بروز ابتدا تقسیم کرد در میان خلق از خیر و شرے راستی در حصہ او شان فتاد دیگران را کذب شد آبش خورے قول شان ایں ست کاندر غیر شان آمده صد کازب و ملت گرے لعل تابان را اگر گوکی کثيف زین چو ابر قدر روشن جو ہرے طعنه بر پاکان نه د پاكان بود خود کنی ثابت کہ ہستی فاجرے ۲۰۶.پانچواں رکن ایمان کا بعث بعد الموت اور جنت ودوزخ پر ایمان لانا ہے اس رکن کے انہدام کے لیے بھی اس زمانے کے مسلمانوں نے پورا زور لگایا تھا دل تو یقیناً بعث بعدالموت کے منکر ہو چکے تھے- کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو اسلام کی تعلیم کو اس طرح پس پشت کیوں ڈال دیا جاتا؟ ظاہری طور پر بھی لوگوں میں اس کے متعلق عجیب عجیب خیالات پھیل رہے تھے' جنت کا جو نقشہ مسلمانوں کے ذہنوں میں سمایا گیا تھا وہ بتا رہا تھا کہ جنت کا اصل مفہوم لوگوں کے ذہنوں سے نکل چکا ہے جنت اب کیا چیز رہ گئی تھی ایک عیش وعشرت کا مقام گویا اس دنیا میں انسان کی پیدائش
۴۷۳ صرف اس غرض کے لئے تھی کہ وہ ایک ایسی جگہ پر جا بسے جہاں ہر طرح کے کھانے پینے کی اشیاء ہوں اور عورتیں ہوں اور اُن کی صحبت ہو.جب یہ حاصل ہو گیا تو سب کچھ حاصل ہو گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ لِیَعْبُدُوْنِ (ذاریات ع ۳) اس لئے کہ وہ میری عبادت کرے.یعنی ایسی صورت اختیار کرے کہ میری صفات کو اپنے اندر نقش کرلے کیونکہ عبودیت کے معنے تذلل اور دوسری شے کے نقش کو قبول کر لینے کے ہوتے ہیں.پس یہ خیال کرنا کہ انسان پچاس ۵۰ ساٹھ ۶۰ سال تک تو اس کا کو کرے گا.جس کے لئے پیدا کی اگیا تھا اور بعد میں ایک نہ ختم ہو نے والے وقت کو کھانے پینے اور عیش و عشرت میں بسر کر ے گاجو حد درجہ کی نادانی تھی، اسی طرح دوزخ کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کفار کو ایک نہ ختم ہونے والے عذاب کے لئے ڈال دیگا اور ایک سخت حاکم کی طرح پھر کبھی ان پر رحم نہ کرے گا.حضرت اقدسؑ نے ان خیالات کو بھی ردّ کیا او ردلائل اور معجزات سے بعد بعد الموت پر ایمان کو لوگوں کے دلوں میں قائم کیااور دنیا کے بے ثباتی اور اُخروی زندی کی خوبی اور برتری کو روز روشن کی طرح ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں میں اس کے مطابق عمل کر نے کی خواہش کو پیدا کیا اسی طرح جنت کے متعلق جو لغو خیالات لوگوں کے تھے ان کو بھی دور کیا، یہ وہم بھی دور کیا کہ جنت صرف ایک استعارہ ہے اور ثابت کیا کہ جنت کا وجود ایک حقیقت ہے اور اس خیال کی غلطی بھی ثابت کی کہ گویا وہ ا دُنیا کی طرح ہے، لیکن اس سے زیادہ وسیع پیمانے کی آرام و اسائش والی جگہ ہے اور بتایا کہ درحقیقت اس جگہ کی نعمتیں اس دنیا سے بالکل مختلف ہیں اور درحقیقت اس جگہ کی مادی نعمتیں اس دنیا کی عبادات کے متمثلات ہیں.گویا یہاں کی روں وہاں کا جسم ہے اور وہاں کی روح ایک اور ترقی یا فتہ چیز ہے جس کی طاقتیں اس روح سے بہت بالاہوں گی.جس طرح کہ نطفہ کی روحانی طاقتوں سے اس سے پیدا ہونے والے انسان کی روحانی طاقتیں اعلیٰ ہوتی ہیں اسی طرح آپؑ نے یہ ثابت کیا کہ دوزخ کا عذاب جسے لوگ نہ ختم ہونے والا کہتے ہیں درحقیقت ایک وقت پر جا کر ختم ہو جائے گا وہ ابدی ہے یعنی ایک نہایت لمبے عرصہ تک جانے والا ہے مگر وہ غیر محدود نہیں ہے آخر کاٹا جائے گا ، کیونکہ اللہ تعالیٰٰ جو اپنی ذات کی نسبت فرماتا ہے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ اس کی شان سے بعید ہے کہ عاجز بندے کو نہ ختم
۴۷۴ ہونے والا عذاب دے اور جبکہ قرآن کریم جنت کے انعامات کو غَیْرَ مَجْذُوْذزٍ (ہود ع۹) اور غَیْرُ مَمْنُوْنٍ(فصلت و انشقاق وتین )قرار دیتا ہے اور دوزخ کے عذاب کی نسبت یہ الفاظ نہیں استعما ل فرماتا ہے تو ضرور ہے کہ دونوں میں کچھ فرق ہوپھر بندہ کیوں خدا کی لگائی ہوئی شرائط کو چھوڑدے؟ خصوصاً جبکہ خدا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے مطالب کی تفسیر ان الفاظ میں فرما دیں کہ یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ یَوْمٌ مَافِیْھَا مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ اَحَدٌ تَخْفَقُ اَبْوَبُھَا (کنزالعمال صفحہ ۲۴۰)یعنی ایک وقتم جہنم پر ایسا آئے گا کہ اس کے اندر ایک آدمی بھی نہ رہے گا اور اس کے در وازے کھٹکھٹا ئے جائیں گے.کسی کا کیا حق ہے کہ خدا کی رحمت اور اس کی بخشش کی حد بندی کرے؟ ان ارکانِ ایمان کے علاوہ عملی حصے میں بھی بہت بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا ہوگئی تھیں بعض لوگوں نے اباحت پر زور دے رکھاتھا، اُن کا یہ عقیدہ ہو رہا تھا کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ آدمی کہہ دے اور پھر جو چاہے کرے.ان لوگوں کا یہ یقین تھا کہ اگر ہم لوگ گناہ نہ کریں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شفاعت کس کی کریں گے.بعض لوگوں کا یہ خیال ہو رہا تھا کہ شریعت اصل مقصود نہیں وہ تو خدا تک پہنچا نے کیلئے بمنزلہ کشتی کے ہے پس جب انسان خدا کو پالے ت پھر اسے کسی کشتی میں بیٹھا رہنے کی کیا ضرورت ہے.بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ احکام شریعت در حقیقت باطنی امور کے لئے ظاہری نشانات ہیں جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس وقت لوگوں کی حالت بلحاظ تمدن کے بالکل ابتدائی تھی اور لوگ وحشی تھے.ظاہر پر خاص زور دیا جاتا تھا.اب علمی زمانہ ہے.اب لوگ خوب سمجھدار ہو گئے ہیں.اب ان ظاہری رسول کی پابندی چنداں ضروری نہیں، اگر کوئی شخص صفائی رکھتا ہے ، خدا کو دل میں یاد کرتا ہے قوم کا درد غم دل میں رکھتا ہے، غرباء کی مدد کیا کرتا ہے.کھانے پینے میں احتیاط کرتا ہے.قومی کاموں میں شریک ہوتا ہے تو یہی اس کی نماز اور یہی اس کا روزہ اور یہی اس کی زکوٰ ۃ اور یہی اس کا حج ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر رسول کریمؐ سے ایک خاص قسم کا پاجامہ پہننا ثابت ہے تو اسی قسم کا پاجامہ پہننا چاہئے اور اگر آپؐ نے بال لمبے رکھے ہوئے تھے تو ہمیں بھی بال لمبے رکھنے چاہئیں.علی ہذا القیاس.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حق نہ تھا کہ لوگوں کو کچھ حکم
۴۷۵ دیتے وہ ہماری طرح کے انسان ہیں جو کچھ قرآن کریم میں آگیا وہ حجت ہے.باقی سب باطل ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگوں نے جو کچھ کہدیا کہدیا، ان کے خیا کے خلاف اور کوئی بات قابلِ تسلیم نہیں ہمارا فرض ہے کہ اندھا دُھند ان کی تقلید کریں.یہ تو اصل باتیں ہیں.اب رہیں جزئیات.اُن میں اَور بھی اندھیر ہے بعض لوگ غیر بانوں کا پڑھنا بھی کُفر قرار دیتے ہیں.بعض لوگ علوم جدیدہ کا سیکھنا ایمان کے منافی خیال کرتے ہیں ان کے مقابلے میں ایک حصہ مسلمانوں کا سود جس کی نسبت اللہ تعالیٰٰ فرما تا ہے فَاْذْنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ ع۳۸) اسے جائز قرار دیتا ہے.نماز، روزہ ، زکوٰۃ ، ورثہ ہر ایک امر کے متعلق اس قدر اختلاف ہے کہ حقیقت بالکل پوشدہ ہوئی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی بات کو اصل اسلام قرار دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کر نے والے کے ساتھ جھگڑا کیا جاتا ہے.مسلمان کہلانے والوں نے اپنے بھائیوں کی انگلیاں اس لئے توڑدی ہیں کہ وہ تشہد کی انگلی کیوں کھڑی کرتے ہین اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے مونہوں میں نجاستیں ڈالی ہیں کہ اس منہ سے آمین بالجبر کیوں نکلی تھی، غرض عملی حصہ بھی اسی تغیر و تبدیل اور اسی فساد کا شکار ہو رہا ہے جس کا کہ اعتقادی حصہ تھا.حضرت اقدسؑ نے اس حصہ کی بھی اصلاح کی اور ایک طرف تو اباحت کے طریق کوباطل ثابت کیا اور بتا یا کہ شفاعت ان لوگوں کے لئے ہے جو گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر پھر بعض وجوہ سے ان میں گِر جاتے ہیں اور بعض کو تاہیاں اُن کی باقی رہ جاتی ہین نہ ان کے لئے جو شفاعت کی خاطر گناہ کرتے ہیں.شفاعت گناہ کے مٹانے کے لئے تھی نہ کہ گناہ کی اشاعت کے لئے.اسی طرح یہ بتایا کہ گوشریعت اصل مقصود نہیں مگر عبودیت اصل مقصود ہے پس جس کام کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا او رجس وقت تک دیا ہے اسے بجا لانا چاہئے.اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی محدود شے نہیں کہ کہا جائے کہ اب قرب حاصل ہو گیا ہے.اب عبادت کی ضرورت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جب وفات تک اِیَّاکَ نَعْبُدُ اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہتا رہا اور آپ کو رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ ع۶) کہنے کاحکم ملا تو اور کون شخص ہے جو کہے کہ میں منزل مقصود تک پہنچ گیا ہوں.اب مجھے عبادت کی ضرورت نہیں.درحقیقت اس قسم کے خیال کے لوگ اللہ تعالیٰ کو ایک دریا کے کنارے کی طرح محدود شے قرار دیتے اور اپنی بے دینی کو دین کے پردہ کے نیچے چھپاتے ہیں.
۴۷۶ اسی طرح آپؑ نے بتایا کہ احکام اسلام انسان کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہیں اور ہر زمانے اور ہر علمی حیثیت کے لوگوں کے لئے یکساں مفید ہیں اور ان کے بغیر کوئی روحانی ترقی نہیں ہوسکتی.پس یہ غلط ہے کہ اب ان احکام پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں رہی.یا یہ کہ ان کا قائمقام اور کاموں کو قرار دیا جا سکتا ہے.اسی طرح آپؑ نے تبا یا کہ ایک عبادات اور سنتیں ہیں اور ایک رواج ملکی اور دستورِ قومی عبادت اور سنت کے علاوہ ایسی باتوں میں جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملکی رواج اور قومی دستور کے مطابق کرتے تھے لوگوں کو مجبور کرنا کہ وہ بھی آپ ہی کی طرزکو اختیار کریں ظلم ہے خود صحابہ ان امور میں مختلف طریقوںکواختیار کرتے تھے اور کوئی ایک دوسرے کو برا نہ کہتا تھا.آپؑ نے ان لوگوں کے خیالات کو بھی ردّ کیا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے جیسے انسان ہیں اور آپؑ کا کوئی حق نہیں کہ ہم آپؐ کی اطاعت کریں.آپؑ نے بتا یا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اللہ تعالیٰ کے کلام کا ایک خاص فہم پاتے ہین جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوتا اس لئے ان کی تشریح کا قبول کرنا مومن کا فرض ہوتا ہے ورنہ ایمان سبب ہو جاتا ہے.آپؑ نے اس خیال کی بھی غلطی ظاہر کی کہ جو کچھ کسی بزرگ نے کہدیا اس کا تسلیم کرنا ہمارے لئے ضروری ہے ایسے لوگوں کے لئے جو اجتہاد کا مادہ نہیں رکھتے سہولتِ عمل کے لئے بیشک ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی بزرگ کو جس کی صداقت اور تقویٰ اور علمیت اُن پر ظاہر ہوگئی ہے اپنا رہبر بنالیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہر شخص کو خواہ وہ علم اور فہم رکھتا ہو ایسا ہی کرنا چاہئے اور اگر وہ دوسرے کی اندھا دُھند تقلید نہیں کرتا تو گنہگار ہے بلکہ علم رکھنے والے شخص کو چاہئے کہ جس بات کو وہ قرآن و حدیث کی نصوص سے معلوم کرے اُس میں اپنے علم کے مطابق عمل کرے.آپؑنے اس خیال کو لغویت کو بھی ظاہر کیا کہ محض دنیاوی باتوں کو دینی بنا لیا جائے آپؑ نے بتا یا کہ زبانیں سب خدا کی ہیں جو زبان مفید ہو اس کو سیکھنا چاہئے اور جس قدر علوم انسان کی جسمانیؔ، اخلاقیؔ،تمدنیؔ،سیاسیؔ ،روحانیؔ حالت کے لئے مفید ہیں ان کو پڑھنا نہ صرف یہ کہ گناہ نہیں ہے بلکہ ضروری ہے اور بعض حالتوں میں جبکہ اُن کو خدمتِ دین کے لئے سیکھا
۴۷۷ جائے موجب ثواب ہے- آپ نے سود کی لعنت سے بچنے یک بھی مسلمانوں کو ہدایت کی اور بتایا کہ یہ حکم عظیم الشان حکمتوں پر مبنی ہے اس کو معمولی دنیاوی فوائد کی خاطر بدلنا نہیں چاہئیے- اسی طرح آپ نے بتایا کہ دین کے مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک اصول اور ایک فروع اصول قرآن کریم سے ثابت ہیں اور ان میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہو سکتا اگر کوئی شخص سمجھنا چاہے تو ان کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے اور جو فروعی مسائل ہیں ان کی دو حالتیں ہیں ایک یہ کہ رسول کریم ﷺنے ایک خاص طریق پر ایک کام کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اس کے سوا اور کسی طریق پر اس کے کرنے سے روک دیا ہے- اس صورت میں تو اسی طریق کو اختیار کرنا چاہئیے جس کے اختیار کرنے کا رسول کریم ﷺنے حکم دیا ہے- دوسری صورت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺسے دو یا دو سے زیادہ باتیں مردی ہیں اور مسلمانوں کے بعض حصے بعض روایتوں پر ہمیشہ عمل کرتے چلے آئے ہیں- ان کے بارہ میں یہ یقین رکھنا چاہئیے کہ وہ سب طریق درست اور مطابق سنت ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ رہتا تو کس طرح ممکن تھا کہ آپ کے صحابہ میں سے ایک حصہ ایک طریق کو اختیار کر لیتا اور دوسرا حصہ دوسرے طریق کو- اصل بات یہ ہے کہ بعض امور میں اختلاف طبائع کو مد نظر رکھ کر رسول کریم ﷺنے کئی طرح ان کے کرنے کی اجازت دے دی ہے یا خود کئی طریق پر بعض کاموں کو کر کے دکھا دیا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں شک نہ رہے جیسے رفع یدین ہے کہ کبھی آپ نے رفع یدین کیا' کبھی نہیں کیا' یا آمین بالجہر ہے کہ کسی نے آپ کے پیچھے آمین بالجہر کہا کسی نے نہ کہا اور آپ نے دونوں طریق کو سند کیا اسی طرح ہاتھوں کا باندھنا ہے کبھی کسی طرح باندھنا کبھی کسی طرح باندھنا- اب جس شخص کی طبیعت کو جس طریق سے مناسب ہو اس پر کار بند ہو اور دوسرے لوگ جو دوسری روایت پر عمل کرتے ہیں ان پر حرف گیری نہ کرے- کیونکہ وہ دوسری سنت یار رخصت پر عمل کر رہے ہیں غرض ان اصول کو مقرر کر کے آپ نے تمام وہ اختلافات اور فتنے دور کر دئیے جو مسائل فقیہ کے متعلق مسلمانوں میں پیدا ہو رہے تھے اور پھر صحابہ کرام کے زمانے کی یاد کو تازہ کر دیا- یہ ایک مختصر نقشہ ہے اس اندرونی اصلاح کا جو آپ نے کی اگر اس کی تفصیل کی جائے تو مستقل کتاب اسی مضمون پر لکھنے کی ضرورت پیش آئے اس لیے میں اسی پر کفایت کرتا ہوں-
۴۷۸ اب جناب اس سے معلوم کر سکتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ نے اسلام کے اندر جس قدر نقائص پیدا کر دئیے گئے تھے خواہ عقائد میں خواہ اعمال میں سب کو دور کر دیا ہے اور اسلام کو پھر اس کی اصل شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس سے اب وہ سب دوست ودشمن کے دلوں کو لبھانے لگ گیا ہے اور اس کی قوت ِقدسیہ پھر اپنا اثر دکھانے لگ گئی ہے- اے بادشاہ! جس قدر نقائص اوپر بغور مثال بیان ہوئے ہیں جو ان بہت سے نقائص میں سے چند ہیں جو اس وقت مسلمانوں میں پیدا ہو چکے ہیں آپ ان کو دیکھ کر ہی معلوم کر سکتے ہیں کہ ایک محفوظ کتاب کی موجودگی میں جیسا کہ قرآن کریم ہے اس سے زیادہ مفاسد اسلام میں نہیں پیدا ہو سکتے- اگر اس سے زیادہ مفاسد پیدا ہونگے تو اسی صورت میں کہ قرآن کریم ہی نعوذ باللہ من ذلک بدل جائے'مگر یہ ناممکن ہے پس اور مفاسد بھی پیدا ہونے ناممکن ہیں- اب غور کرنا چاہئیے کہ جب اسلام کے اندر مفاسد اپنی انتہاء کو پہنچ گئے ہیں تو اور کونسا وقت ہے جب کہ مسیح موعود آئں گے اور جب کہ ان تمام مفاسد کی اصلاح حضرت اقدسؑ مرزا غلام احمد علیہ الصلوہ والسلام نے کر دی ہے اور اسلام کو ہر ایک شر سے محفوظ کر دیا ہے تو پھر کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ وہ کام مسیح موعود کے لیے اور صرف حضرت مسیح موعود کے لیے مقدر تھا آپ نے باحسن وجوہ پورا کر دیا ہے تو آپ کے مسیح موعود ہونے میں کیا شک ہے- جب سورج نصف النہار پر آجائے تو پھر اس کا انکار نہیں ہو سکتا اسی طرح ایسے واضح دلائل کی موجودگی میں حضرت مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا- چھٹی دلیل نصرت الٰہی چھٹی دلیل آپ کی صداقت کی کہ یہ دلیل بھی درحقیقت بہت سے دلائل پر مشتمل ہے نصرت الٰہی مامورومرسل درحقیقت اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں سے ایک پیارا ہوتا ہے اور اس کی صداقت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ خدا تعالیٰ کا اس کے ساتھ وہ سلوک نہ ہو جو
۴۷۹ پیاروں اور محبوبوں سے ہوا کرتا ہے- اگر کوئی شخص دعوائے ماموریت کرتا ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سلوک محبوبوں اور پیاروں والا سلوک نہیں تو وہ جھوٹا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ اپنا نائب بنا کر بھیجے اور پھر اس کے ساتھ اپنی محبت کا کوئی نمونہ نہ دکھائے اور اس کی مدد کرے- دنیا کے بادشاہ بھی جب کسی کو اپنا نائب بنا کر بھیجتے ہیں تو اس کی مدد کرتے ہیں اور اس کی طرف خیال رکھتے ہیں اور جب بھی اس کو ضرورت ہو اس کی نصرت کے لیے سامان بہم پہنچاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ جس کے خزانے وسیع ہیں اور جو عالم الغیب ہے کیوں اپنے ماموروں کی مدد نہ کرے گا اور اگر کوئی شخص دعوٰے ماموریت کرے اور اس کی خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید ہو اور مدد ہو اور خاص نصرت اللہ تعالیٰٰ کی اس کو پہنچے تو وہ شخص سچا اور راستباز ہے کیونکہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ایک راستباز کو اللہ چھوڑ دے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک جھوٹے اور شریر سے اللہ تعالیٰ مواخذہ نہ کرے اور وہ اس کے بندوں کو گمراہ کرتا پھرے اور یہ بات تو اور بھی خلاف عقل ہے کہ ایسے جھوٹے کی اللہ تعالیٰ مدد کرے اور اس کے لیے اپنی نصرت کے دروازے کھول دے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کتب اللہ لا غلبن اناورسلی ان اللہ قوی عزیز )مجادلہ ع۳ (22: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر فرض کر دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے وہ قوت والا اور غالب ہے پس اس نے اپنی قوت اور غلبہ کے اظہار کے لیے یہ قانون بنا دیا کہ جب اس کا کلام لے کر اس کے رسول مبعوث ہوں تو وہ ان کو غلبہ دے کیونکہ اگر وہ ان کو غالب نہ کرے تو اس کی قوت اور عزت میں لوگوں کو شبہ پیدا ہو جائے گا- اسی طرح فرماتا ہے انا لننصرنا رسلنا والذین امنوا فی الحیوہ الدنیا ویوم یقوم الا شتھاد )مومن ع۶(52: ہم ضرور اپنے رسولوں کی جو ہمار رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں مدد کیا کرتے ہیں اور فرماتا ہے ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شی قدیر )حشر ع۱(7: یعنی اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جن لوگوں پر چاہتا ہے تسلط عطا کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے- یہ تو اس مضمون کی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور ان کو دوسرے لوگوں پر تسلط عطا فرماتا ہے خخواہ جسمانی اور روحانی طور پر خواہ صرف روحانی طور پر ان کے سوا قرآن ککریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی جھوٹا دعویٰ ماموریت اور رسالت
۴۸۰ کا کرے تو اس کو سزا بھی ملتی ہے اور وہ کسی صورت میں ہلاکت سے بچ نہیں سکتا- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین )سورہ حاقہ ع۲(45'46'47: یعنی اگر یہ رسول جان بوجھ کر ہم پر جھوٹ باندھ رہا ہوتا تو ہم اس کا دایاں بازو پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ ڈالتے- یعنی اس کی نصرت اور تائید کا دروازہ بند کر دیتے اور اسے ہلاکت کا منہ دکھاتے- اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بایتہ انہ لا یفلح الظلمون )سورہ انعام ع۳(22: اور اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتا ہے بات یہ ہے کہ ظالم کامیاب نہیں ہوتے یعنی جب کہ ظالم کامیاب نہیں ہوتا تو یہ اللہ تعالیٰ کا گنہگار جو سب قسم کے روحانی ظالموں سے زیادہ ظالم ہے کب کامیاب ہو سکتا ہے- مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے دو قانون جاری ہیں ایک یہ کہ وہ اپنے رسولوں کی نصرت کرتا ہے اور ان کی مدد کرتا اور ان کو غلبہ دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ جو لوگ یہ جانتے ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کر رہے ہیں ایک بات جھوٹ بنا کر پیش کر دیں تو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہیں ملتی بلکہ وہ ہلاک کئے جاتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ جو بات پہلے میں نے عقلاً ثابت کی تھی قرآن کریم بھی اس کی تائید کرتا ہے بلکہ اسے سنت اللہ قرار دیتا ہے- اس سنت الہیہ اور ازلی قانون کے مطابق ہم حضرت اقدسؑ علیہ الصلوہ والسلام کے دعوے پر غور کرتے ہیں تو آپ کی صداقت ہمیں روز روشن کی طرح ثابت نظر آتی ہے اور آپ کی کامیابی کو دیکھ کر اس امر میں کسی قسم کا شک وشبہ ہی نہیں رہتا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور مرسل ہیں- پیشتر اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ ۱) کو اللہ کی طرف سے کیا کیا نصرتیں اور تائیدیں حاصل ہوئیں- یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ آپ نے کن حالات کے ماتحت دعویٰ کیا تھا- یعنی وہ کون سے سامان تھے جو آ کی کامیابی میں ممد ہو سکتے تھے )۲( آپ کے راستے میں کیا کیا روکیں تھیں )۳( آپ کا دعویٰ کس قسم کا تھا یعنی کیا دعویٰ بطور خود ایسی کشش رکھتا تھا جس کی وجہ سے آپ کو ظاہری سامانوں پر نظر کرتے ہوئے کامیابی کی امید ہو سکے- سوال اول کا جوب یہ ہے کہ گو آپ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے- اور ایسا ہونا
۴۸۱ ضروری تھا کیونکہ اللہ تعالیٰٰ کے مامور ہمیشہ اعلیٰ خاندانوں میں سے ہوتے ہیں تاکہ لوگوں پر ان کا ماننا دو بھر نہ ہو- مگر آپ کا خاندان دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے اپنی پہلی شوکت کو بہت حد تک کھو چکا تھا وہ اپنے علاقہ کے خاندانوں میں سے غریب خاندان تو نہیں کہلا سکتا مگر اس کی پہلی شان وشوکت اور حکومت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ایک غریب خاندان تھا کیونکہ اس کی ریاست اور جاگیر کا اکثر حصہ ضائع ہو چکا تھا اول الذکر (یعنی ریاست) سکھوں کے عہد میں ضبط ہو گئی تھی اور ثانی الزکر (یعنی جاگیر)انگریزی حکومت کے آنے پر ملحق کر لی گئی تھی- پس دنیاوی وجاہت اور مال کے لحاظ سے آپ کو کوئی ایسی فوقیت حاصل نہ تھی جس کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ لوگوں نے اپنے اغراض اور اپنے مقاصد کے پورا کرنے کے لیے آپ کو مان لیا- گو آپ کے والد صاحب نے استاد رکھ کر آپ کو تعلیم دلوائی تھی لیککن وہ تعلیم اس تعلیم کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھی جو مدراس میں دی جاتی ہے اس لیے آپ اپنے علاقہ میں یا اپنے علاقہ سے باہر مولویوں اور عالموں میں سے نہیں سمجھے جاتے تھے- پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بوجہ بڑے عالم ہونے کے آپ کو لوگوں نے مان لیا- آپ پیروں یا صوفیوں کے کسی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے نہ آپ نے کسی پیر یا صوفی کی بیعت کر کے اس سے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا کہ یہ سمجھا جائے کہ خاندانی مریدوں یا اپنے پیر بھائیوں کی مدد سے آپ کو یہ کامیابی حاصل ہو گئی- آپ کسی عہدہ حکومت پر ممتاز نہ تھے کہ یہ سمجھا جائے کہ آپ کے اختیارات سے فائدہ اٹھانے ککے لیے لوگ آپ کے ساتھ مل گئے- آپ ایک تارک الدنیا- لوگوں سے علیحدہ رہنے والے آدمی تھے- جن کو خلوت نشینی کے باعث قرب وجوار کے باشندے بھی نہیں جانتے تھے چند لوگوں سے آپ کے تعلقات تھے جن میں سے زیادہ تر یتیم اور مسکین لوگ تھے جن کو آپ اپنے کھانے میں سے کھانا دے دیا کرتے تھے یا خود فاقہ سے رہ کر اپنی روٹی ان کو کھلا دیتے تھے یا پھر چند وہ لوگ تھے جو مذہبی تحقیق سے دلچسپی رکھتے تھے- باقی کسی شخص سے آپ کا تعلق نہ ہوتا- نہ آپ لوگوں سے ملتے تھے نہ لوگوں کو ضرورت ہوتی تھی کہ آپ سے ملیں- دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ممکن سے ممکن جو روکیں ہو سکتی ہیں وہ آپ کے راستے میں تھی- آپ کا دعویٰ ماموریت کا تھا اور آپ کے دعوے کو سچا مان کر علماء کی حکومت
۴۸۲ جو انہیں سینکڑوں سال سے لوگوں پر حاصل تھی جاتی رہتی تھی- اس لیے علماء کو طبعاً آپ سے مخالفت تھی- وہ آپ کی ترقی میں اپنا تنزل اور آپ کے بڑھنے میں اپنا زوال دیکھتے تھے- وہ جانتے تھے کہ اگر ایک شخص خدا سے خبر پاکر دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا ہو گیا تو پھر ہمارے قیاسات کو کون پوچھتا ہے- گدی نشین آپ کے دشمن تھے کیونکہ آپ کی صداقت کے پھیلنے سے ان کے مرید ان کے ہاتھوں سے جاتے تھے اور بجائے شیخ اور رہبر کہلانے کے ایک دوسرے شخص کا مریدین کر ان کو رہنا پڑتا تھا اور پھر مریدوں کے جانے کے ساتھ ان آمدنیوں میں بھی فرق آتا تھا جن پر ان کا گزارہ تھا اور ان آزادیوں میں بھی فرق تھا جنہیں وہ اپنا حق سمجھتے تھے- امراء کو بھی آپ سے مخالفت تھی کیونکہ آپ احکام اسلام کی پابندی کرواتے تھے اور ان کو اس قسم کی پابندی کی عادت نہ تھی اور اسے وہ وبال جان سمجھتے تھے اور پھر یہ بھی تھا کہ آپ بنی نوع انسان کے ساتھ نیک سلوک اور ہمدردی کا حکم دیتے تھے جس کی وجہ سے امراء کو خیال تھا کہ آپ کی تعلیم کے پھیلنے سے وہ غلامی کی حالت جو لوگوں میں پیدا ہے دور ہو جائے گی اور ان کی نظر وسیع ہو کر ہماری حکومت جاتی رہے گی- غیر مذاہب کے لوگ بھی آپ کے دشمن تھے کیونکہ ان کو آپ میں وہ شخص نظر آرہا تھا جس سے ان کے مذاہب کی ہلاکت مقدر تھی جس طرح ایکک بکری ایک شیر سے طبعی منافرت رکھتی ہے اسی طرح غیر مذاہب کے لوگ آپ سے کھچاوٹ محسوس کرتے اور کوشش کرتے تھے کہ جس قدر جلد ہو سکے آپ کو مٹا دیں- حکام وقت بھی آپ کے مخالف تھے کیونکہ وہ بھی مسیح ومہدی ککے ناموں سے خوفزدہ تھے اور پرانی روایات کے اثر سے متاثر ہو کر ان ناموں والے شخص کی موجودگی اور فساد کے پھیلنے کو لازم وملزوم سمجھتے تھے- آپ کا اظہار وفاداری ان کے لیے تسلی کا موجب نہ تھا ککیونکہ وہ اسے موقعہ شناسی پر محمول کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جب ان کو طاقت حاصل ہو جائے گی اس وقت یہ ان خیالات امن کو شاید چھوڑ دیں- عوام الناس کو بھی آپ سے مخالفت تھی کیونکہ اول تو وہ عملاء یا پیروں یا امیروں یا پنڈتوں یا پادریوں کے ماتحت ہوتے ہیں دوم وہ بوجہ رسوم وعادات کے ہر نئی بات کے سخت مخالف ہوتے ہیں- ان کے نزدیکک آپ کا دعویٰ ایک نیا دعویٰ اور اسلام میں رخنہ اندازی کا
۴۸۳ موجب تھا- اس لیے وہ کچھ تو اپنے سرداروں کے اشاروں پر اور کچھ اپنی جہالت کی وجہ سے آپ کے مخالف تھے- ان تمام گروہوں نے اپنی اپنی جگہ پر آپ کے تباہ کرنے کے لیے پورا پورا زور لگایا علماء نے کفر کے فتوے تیار کئے اور مکہ اور مدینہ تک اپنے کفر ناموں پر دستخط کرانے کے لیے گئے- اپنی عادت مستمرہ کے ماتحت کفر کے عجیب وغریب موجبات انہوں نے تلاش کئے اور لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور اکسایا- صوفیاء نے آپ کے طریق کو پچھلے طریقوں کے مخالف بتا بتا کر اور اپنے قرب الہٰی اللہ اور معرفت کی لافوں سے ڈرا ڈرا کر عوام الناس کو روکا اور جھوٹے افسانوں کے پھیلانے اور فریب کی کرامتیں دکھانے تک سے بھی گریز نہ کیا اور بعض نے تو اپنے مریدوں سے یہاں تک کہدیا کہ اگر یہ سچے ہوئے تو ان کے نہ ماننے کا گناہ ہم اٹھا لینگے تم لوگ کچھ فکر نہ کرو اور اس طرح جہان کو گمراہ کیا- امراء نے اپنی دولت اپنی وجاہت سے آپ کے خخلاف کوشش شروع کی- غیر مذاہب والوں نے اپنی جگہ مسلمانوں کا ہاتھ بٹایا حکومتوں نے اپنے اقتدار سے کام لے کر لوگوں کو آپ سے ڈرانا شروع کیا اور جو لوگ آپ کوک ماننا چاہتے ان کو اپنی ناراضگی کا خوف دلا کر باز رکھنا چاہا- عوام الناس بائیکاٹ اور ایذا رسانی سے کام لے کر اپنے سرداروں کا ہاتھ بٹاتے رہے- غرض آپ کی مخالفت کے لیے تمام لوگ کیا مسلمان کہلانے والے اور کیا غیر مسلمان سب جمع ہو گئے اور سب نے ایک دوسرے کی مدد کی- تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کی تعلیم بھی ایسی نہ تھی جو زمانے کے حالات کے مطابق ہو اور اس کی رو میں بہنے والی ہو اگر وہ خیالات زمانہ کے مطابق ہوتی تو بھی کہا جا سکتا تھا کہ آپ کی ترقی آسمانی مدد سے نہیں بلکہ اس سبب سے ہے کہ جن خیالات کو آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا- وہ اس زمانے کے خیالات کے مطابق تھے- پس لوگوں نے ان کو اپنے اندرونی احساسات کے مطابق پاکر قبول کر لیا- زمانے کے مطابق خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں یا تو وہ کثیر آبادی کے خیالات کے مطابق ہوں یا وہ کثیر آبادی کے خیالات کے تو مخالف ہوں مگر ان خیالات کی تائید میں ہوں جو اس وقت کے دنیاوی علوم کا نتیجہ ہوں- اول الزکر قسم کے خیالات کا پھیلانا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن ثانی الزکر قسم کے خیالات بھی گو ابتداءً مخالفت کا منہ دیکھتے
۴۸۴ ہیں، مگر چونکہ علوم جدیدہ کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں کچھ عرصہ کے بعد علوم جدیدہ کے فروغ کے ساتھ ساتھ پھیلتے جاتے ہیں- حضرت اقدسؑ کے خیالات ان دونوں قسم کے خیالات کے مخالف تھے- آپ ان تعلیموں کی طرف لوگوں کو بلا رہے تھے جو نہ رائج الوقت خیالات کے مطابق تھیں اور نہ علوم جدیدہ کی تعلیم کے ذریعے جو خیالات پھیل رہے تھے ان کے مطابق تھیں اس لیے آپ کو دونوں فریق سے مقابلہ درپیش تھا پرانے خیالات کے لوگوں سے بھی اور جدید خیالات کے لوگوں سے بھی- قدامت پسند آپ کو ملحد قرار دیتے تھے اور علوم جدیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کو تنگ خیال اور رجعت قہقری کا ممد قرار دیتے تھے کیونکہ آپ اگر ایک طرف حیات مسیح ،قصص و روایات باطلہ ملائکہ کے متعلق عوام الناس کے خیالات، نسخ قرآن، دوزخ وجنت کے متعلق عوام الناس کے خیالات اور شریعت میں تنگی کے خلاف نہایت شدت سے وعظ کرتے تھے تو دوسری طرف احکام شریعت کی لفظاً پابندی، سود کی حرمت ،ملائکہ کے وجود ،دعا کے فوائد ،جنت ودوزخ کے حق ہونے ،،الہام کے لفظ مقررہ میں نازل ہونے اور معجزات کے حق ہونے کی تائید میں زور دیتے تھے- نتیجہ یہ تھا کہ نئے اور پرانے خیالات کے گروہوں میں کسی طبقہ سے بھی آپ کے خیالات نہیں ملتے تھے- پس یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ آپ کے خیالات رائج الوقت یا آئندہ رواج پانے والے خیالات کی ترجمانی کرتے تھے اس وجہ سے مقبول ہوئے- خلاصہ کلام یہ کہ نہ تو آپ کی ذاتی حالت ایسی تھی کہ آپ کا دعویٰ قبول کیا جاتا نہ آپ کا رستہ پھولوں کی سیج پر سے تھا کہ آپ کو اپنے مطلب میں کامیابی کحاصل ہوتی اور نہ وہ خیالات جو آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے ایسے تھے کہ ان سے لوگوں کے خیالات کی ترجمانی ہوتی ہو کہ لوگ آپ کو مان لیں- پس باوجود ان تمام مخالف حالات کے اگر آپ نے کامیابی حاصل کی تو یہ ایک خدائی فعل تھا نہ کہ دنیاوی اور طبعی سامانوں کا نتیجہ- ان حالات کے بیان کرنے کے بعد میں آپ کی کامیابیوں کا ذکر کرتا ہوں' میں بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت بیان فرمائی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنیوالے کو لمبی مہلت نہیں دیا کرتا مگر آپ کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ان الہامات کے شائع کرنے کے بعد جن میں آپ نے مصلح ہونے کا اعلان کیا تھا قریباً چالیس سال زندہ رہے
۴۸۵ اور ہر طرح اللہ تعالیٰ سے مدد ونصرت پاتے رہے- اگر مفتری علی اللہ بھی اس قدر مہلت پا سکتا ہے اور ہلاکت سے بچایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے نصرت پاتا ہے تو پھر نعوذ باللہ من ذالک یہ ماننا پڑے گا کہ ولو تقول والی آیت میں جو معیار بتایا گیا ہے وہ غلط ہے اور یہ کہ رسول کریم ﷺکا دعویٰ بے ثبوت رہا ہے- اگر یہ بات نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر اسی دلیل کے ماتحت حضرت اقدسؑ علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے الہامات شائع کرنے کے اس قدر عرصہ بعد تک ہلاکت سے بچایا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے- جس وقت آپ نے اپنے الہامات شائع کئے تھے اس وقت آپ کا نام دنیا میں کوئی شخص بھی نہیں جانتا تھا مگر اس کے بعد باوجود لوگوں کی مخالفت کے آپ کو وہ عزت اور رتبہ حاصل ہوا کہ دشمن بھی اب آپ کی عزت کرتے ہیں اور آپ ایک مسلم لیڈر تسلیم کئے جاتے ہیں گورنمنٹ برطانیہ جو ابتدا آپ کی مخالف تھی اور آپ سے بدظن تھی آپ کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے- دنیا کے دور کناروں تک آپ کا نام پھیلا ہے اور اس قسم کا عشق رکھنے والے اور محبت رکھنے والے لوگ اللہ تعالیٰٰ نے آپ کو عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی جان تک آپ پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور یوروپین جو اسلام کے دشمن تھے انہوں نے آپ کے ذریعے سے اسلام کو قبول کیا ہے اور آپ کی محبت میں اس قدر سر شار ہیں کہ ان میں سے ایک شخص نے مجھے لکھا ہے کہ مجھ پر مرزا صاحب نے احسان کیا ہے کہ ان کے ذریعے سے مجھے اسلام جیسی نعمت عطا ہوئی ہے اس کا اثر مجھ پر اس قدر ہے کہ میں سوتا نہیں جب تک آنحضرت کے ساتھ آپ پر بھی درود نہیں بھیج لیتا- یہ عزت اور یہ احترام اور یہ محبت باوجود لوگوں کی اس قدر مخالفت کے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی اگر آپ مفتری علی اللہ تھے- آپ نے جب دعویٰ کیا تو آپ اکیلے تھے لیکن باوجود اس کے کہ مولویوں، پیروں، گدی نشینوں ،پنڈتوں ،پادریوں ،امیروں، عام لوگوں اور شروع شروع میں حکام نے بھی اپنا زور لگایا کہ لوگ آپ کی بات کو نہ مانیں اور آپ کے سلسلے میں داخل نہ ہوں- ایک ایک کر کے لوگ آپؑ کے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہوئے- غرباء میں سے بھی اور امراء میں سے بھی علماء میں سے بھی صوفیاء میں سے بھی اور دوسرے ممالک کے لوگوں میں سے بھی اور ہندوؤں اور عیسائیوں میں سے بھی' ہندوستانیوں میں سے بھی اور دوسرے ممالک کے لوگوں میں سے بھی یہاں تک کہ آپ کی وفات کے وقت آپ ؑکی جماعت ہزاروں سے نکل کر لاکھوں تک ترقی کر چکی تھی اور اب
۴۸۶ تک برابر ترقی کرتی چلی جا رہی ہے حتیٰ کہ خود آپ کی مملکت (افغانستان )میں بھی باوجود اس کے کہ اس سلسلے کے دو مخلص آدمی صرف مذہبی اختلاف کی بنا پر ملانوں کی دھوکا دہی کی وجہ سے قتل کئے گئے تھے یہ جماعت ترقی کر رہی ہے اور قریباً ہر صوبہ میں اس جماعت کے کچھ نہ کچھ آدمی پائے جاتے ہیں اور علاوہ ازیں اس جماعت کے لوگ عرب میں بھی ہیں، ایران میں بھی ہیں ،روس میں بھی ہیں ،امریکہ میں بھی ہیں، مغربی' شمالی اور جنوبی علاقہ جات میں بھی ہیں' آسٹریلیا میں بھی ہیں اور یورپ میں بھی ہیں ایک محکوم قوم کے ایک فرد کی اطاعت میں حاکم قوم کے افراد کا آجانا اور پھر اس دین کو مان کر جس کے خلاف نسلاً ان کے دلوں میں تعصب بٹھایا گیا تھا بلا نصرت الٰہی کے نہیں ہو سکتا- آپ لوگوں نے قتل بھی کرنا چاہا- زہر سے بھی مارنا چاہا- عدالتوں میں بھی آپ کو گھسیٹا اور جھوٹے مقدمات بھی آپ پر قائم کئے اور عیسائی اور ہندو اور مسلمان سب آپس میں مل گئے تا پہلے مسیح کی طرح دوسرے مسیح کو بھی صلیب پر لٹکا دیں' لیکن ہر دفعہ آپ کامیاب ہوئے اور ہر حملہ سے آپ محفوظ رہے روز بروز خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت بڑھتی گئی- آپ اشاعت اسلام اور تجدید اسلام کے لیے مبعوث ہوئے تھے- ان دونوں کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخلصوں کی ایک جماعت دی' مال بھی دیا- حتیٰ کہ اس وقت چار پانچ لاکھ روپیہ سلسلہ کی طرف سے سالانہ دینی کاموں پر صرف ہوتا ہے کئی اخبارات اشاعت اسلام کے لیے پنجاب بنگال سیلون ماریشس اور امریکہ سے جا رہی ہیں اور سینکڑوں کتابیں آپ کی تائید میں لکھی گئی ہیں- لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰٰ آپ کی مدد کے لیے کھولتا ہے اور ہزاروں ہیں جن کو رویا کے ذریعہ سے یا الہام کے ذریعے سے یا کشف کے ذریعے سے آپ کی سچائی بتائی گئی ہے اور باوجود مخالف ہونے کے ان کے دلوں میں آپ کی محبت ڈالی گئی ہے- غرض باوجود ہر طرح کے مخالف سامان ہونے کے اور ہر طرح کی مخالفت کے اور ہر طرح کی کمزوری کے اور غیر معمولی کام کے آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور ایک ایسی جماعت جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور اپنے سینوں میں اسلام کی اشاعت کی آگ رکھتی ہے آپ نے تیار کر دی اور کیا بلحاظ عزت کے اور کیا بلحاظ مال کے اور کیا بلحاظ اقتدار کے اور کیا بلحاظ رعب کے آپ کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا رہا ہے- پس اگر اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا یہ قانون سچا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ اور کون سچا ہو سکتا ہے؟ کہ
۴۸۷ سچا مامور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد پاتا ہے اور مفتری علی اللہ رسوا کیا جاتا ہے اور ہلاک کیا جاتا ہے تو پھر حضرت اقدسؑ کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا اور اگر باوجود اس دلیل کے آپ ؑکی صداقت میں شبہ کیا جائے تو پھر سوال کیا جاسکتا ہے کہ دوسرے انبیاء کی صداقت کا کیا ثبوت ہے؟ میں اپنے مطلب کی وضاحت کے لیے پھر یہ کہدینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ حضرت اقدسؑ اس لیے سچے تھے کہ آپ پہلے کمزور تھے کہ آپ کو عزت اور رتبہ حاصل ہو گیا ایسی عزتیں تو بہت سے لوگوں کو ملی ہیں- نادر خان ایک کمزور آدمی تھا- پھر عزت پاگیا- نپولین ایک معمولی آدمی سے دنیا کا فاتح بن گیا' مگر باوجود اس کے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ اللہ کے پیارے اور بزرگ تھے میں یہ کہتا ہوں کہ-: ۱ - حضرت اقدسؑ ؑنے دعویٰ کیا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے ہیں اگر وہ اس دعوے میں مفتری تھے اور جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے تو آپ ؑکو ہلاک ہو جانا چاہئیے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ایسے مفتری کو وہ ہلاک کرتا ہے- ۲- آپؑ کی ترقی کے لیے کوئی دنیاوی سامان موجود نہ تھے- ۳- آپؑ کی مخالفت پر ہر ایک جماعت کھڑی ہو گئی تھی اور کوئی جماعت بھی دعوے کے وقت آپؑ کی اپنی نہ کہلاتی تھی جس کی مدد سے آپؑ کو ترقی حاصل ہوئی ہو- ۴- آپ ؑنے دنیا سے وہ باتیں منوائیں جن کے خلاف قدیم اور جدید خیالات کے لوگ تھے- ۵- باوجود اس کے آپ ؑکامیاب ہوئے اور آپ ؑنے ایک جماعت قائم کر دی اور اپنے خیالات کو لوگوں سے منوالیا- اور دشمن کے حملوں سے بچ گئے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات آپؑ کے لیے نازل ہوئیں- یہ پانچ باتیں جھوٹے میں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں- یہ باتیں جب بھی کسی میں جمع ہونگی وہ اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے ہوگا اور راستباز ہو گا ورنہ راستبازوں کی راستبازی کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا- ہاں اگر کوئی شخص مدعی ماموریت نہ ہو- یعنی خواہ بالکل مدعی ہو ہی نہیں جیسے نادر خاں ،نپولین یا مدعی ماموریت نہ ہو بلکہ کسی اور بات کا مدعی ہو مثلاً جیسے خدائی کا مدعی ہو' یا یہ کہ وہ دیوانہ ہو- وہ اس معیار کے ماتحت نہیں آتا- اسی طرح ایسا عقیدہ رکھنے والا بھی کہ وہ جو کچھ کہہ
۴۸۸ رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہہ رہا ہے اس معیار پر پرکھا نہیں جا سکتا' شیخیہ فرقہ اسی قسم کا عقیدہ رکھتا تھا- اس کا خیال تھا کہ دنیا میں ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو مہدی کی رضاء کی ترجمانی کرتے ہیں اور مہدی کی مرضی خدا کی مرضی ہے- پس ان کی زبان پر جو کچھ جاری ہو یا جو کچھ ان کے دل میں آئے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے- علی محمد باب اور بہاء اللہ بانی فرقہ بہائیہ اسی فرقہ میں سے تھے- ایسے لوگ چونکہ عقیدتاً اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰٰ ہی کی طرف سے کہہ رہے ہیں اس لیے وہ بھی متقول نہیں کہلا سکتے اور اس سزا کے مستحق نہیں جس سزا کے جان بوجھ کر جھوٹ باندھنے والے لوگ مستحق ہیں- اسی طرح اس شخص کی عارضی ترقی بھی اس کی صداقت کی دلیل نہیں جس کی ذاتی وجاہت لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور کر دے یا کوئی جماعت جس کی پشت پر ہو' یا جو عوام الناس کے خیالات کی ترجمانی کر رہا ہو- یا علوم جدیدہ کے میلان کی طرف لوگوں کو لا رہا ہو' ایک یا دوسری وجہ سے لوگ اس کی مخالفت سے باز رہیں- ساتویں دلیل دشمنوں کی ہلاکت ساتویں دلیل آپ ؑکے دعوے کی صداقت کی کہ وہ بھی بے شمار دلائل کا مجموعہ ہے یہ ہے کہ آپ عکے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نے بلا استثناء اور بلا انسانی ہاتھ کی مدد کے ہلاک کیا ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو جو تکلیف دے ہم اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس کو سزا دیتے ہیں اور جو ہمارے کاموں میں روک بنے اس کو اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں پس اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور آتے ہیں تو عقل چاہتی ہے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی غیرت بھی دکھائے اور جو ان کو ذلیل کر دے اور جو ان کی ناکامی کی کوشش کریں ان کو ناکامی کا بھی منہ دکھائے- اگر وہ ایسا نہ
۴۸۹ کرے تو اس کا تعلق اور اس کی محبت بے ثبوت رہے اور ماموروں کے دعوے مشتبہ ہو جائیں- کیونکہ دنیا کے بادشاہ اور حاکم جن کی طاقتیں محدود ہوتی ہیں وہ بھی اپنے دوستوں اور اپنے کارکنوں کے راستے میں روک بننے والوں کو سزا دیتے ہیں اور ان سے عداوت رکھنے والوں سے مواخذہ کرتے ہیں- قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہماری عقل کا مطالبہ بالکل درست ہے اور اللہ تعالیٰ تصدیق فرماتا ہے کہ اس طرف سے آنیوالوں کے دشمنوں اور معاندوں کی ضرور گرفت ہونی چاہئیے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اوکذب بایتہ انہ لا یفلح الظلمون )انعام ع۳(22: یعنی اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے- یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنیوالے کی باتوں کو جھٹلا دے- بات یہ ہے کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتے- اس آیت میں بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنیوالا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیوالے کی باتوں کو جھٹلانے والا بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا- اسی طرح فرماتا ہے ولقد استھزی برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا امنھم ما کانوا بہ یستھزء ون قل سیرو فی الارض تم انظروا کیف کان عقبہ االمکذبین )انعام ع۲(11,12: اور تجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں ان کے ساتھ بھی ہنسی اور ٹھٹھا کیا گیا مگر آخر یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ان میں خاص طور پر ٹھٹھا کرنے والے تھے ان کو ان چیزوں نے گھیر لیا جن سے وہ ہنسی کرتے تھے تو کہدے کہ جاؤ زمین میں خوب پھرو اور دیکھو کہ خدا کے نبیوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ہے اس مضمون کی آیات اس کثرت سے قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں کہ زیادہ زور اس پر دینے کی ضرورت نہیں- خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی سنت ہے کہ اس کے ماموروں اور مرسلوں کا مقابلہ کرنیوالے ہلاک کئے جاتے ہیں اور دوسروں کے لیے موجب عبرت ہوتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اسی مضمون کا الہام ہوا تھا کہ انی مھین من ارادا اھانتک میں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ بھی کرے گا اور اس سنت مستمرہ اور اس وعدہ خکاص کے مطابق حضرت اقدسؑ علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کے ساتھ وہ سلوک ہوا ہے کہ دیکھنے والے دنگ اور سننے والے حیران ہیں-
۴۹۰ میں ایک بڑے مولوی صاحب کا ذکر کر چکا ہوں جو فرقہ اہل حدیث کے لیڈر تھے اور جو حضرت اقدسؑ علیہ الصلوۃ والسلام کے بچپن کے واقف تھے اور جنہوں نے آپ کی تصنیف براہین احمدیہ کی اشاعت پر ایک زبردست ریویو لکھا تھا اور اس میں آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو یہ مولوی صاحب بگڑ گئے اور سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید کتاب براہین احمدیہ پر جو میں نے ریویو لکھا تھا اس پر ان کے دل میں عُجب پیدا ہو گیا ہے اور یہ بھی اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ گئے ہیں اور اس خیال سے انہوں نے یہاں تک لکھدیا کہ یہ میرے ریویو پر نازاں ہے میں نے ہی اس کو بڑھایا ہے اور میں ہی اس کو اب گرا دوں گا- یہ عزم کر کے یہ مولوی صاحب اپنے گھر سے نگلے اور ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا دورہ کیا اور بیسیوں علماء سے کفر کا فتویٰ لیا اور یہاں تک ان فتوؤں میں لکھوایا کہ یہ شخص ہی کافر نہیں بلکہ اس کے مرید بھی کافر ہیں بلکہ جو شخص ان سے کلام کرے وہ بھی کافر ہے اور جو شخص ان کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے اس فتوے کے تمام ہندوستان میں چھپوا کر شائع کیا اور خیال کر لیا کہ اس زبردست حملے سے میں نے ان کو ذلیل کر دیا مگر اس بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ آسمان پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ولقد استھزی برسل من قبلک فحاق بالذین سخرو امنھم ما کانوا بہ یستھزء ون )انعام ع۲(11: سورہ انبیاء ع۳: (42 اور اسی طرح اس کے قدوسی پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ انی مھین من ارادا اھانتک میں اس کی ہتک کرونگا جو تیری ہتک کا ارادہ کرے گا- اے بادشاہ! ابھی بہت عرصہ اس فتوے کو شائع ہوئے نہیں گزرا تھا کہ ان مولوی صاحب کی عزت لوگوں کے دلوں سے اللہ تعالیٰٰ نے مٹانی شروع کی- اس فتوے کی اشاعت سے پہلے ان کو یہ عزت حاصل تھی کہ لاہور دارلخلافہ پنجاب جیسے شہر میں جو آزاد طبع لوگوں کا شہر ہے بازاروں میں سے جب وہ گزرتے تھے تو جہاں تک نظر جاتی تھی لوگ ان کے ادب واحترام کی وجہ سے کھڑے ہو جاتے اور ہندو وغیرہ غیر مذاہب کے لوگ بھی مسلمانوں کا ادب دیکھ کر ان کا ادب کرتے تھے اور جس جگہ جاتے لوگ ان کو آنکھوں پر اٹھاتے اور حکام اعلیٰ جیسے گورنر وگونر جنرل ان سے عزت سے ملتے تھے مگر اس فتوے کے شائع کرنے ک بعد بغیر کسی ظاہری سامان کے پیدا ہونے کے ان کی عزت کم ہونی
۴۹۱ شروع ہوئی اور آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ خود اس فرقے کے لوگوں نے بھی ان کو چھوڑ دیا جس کے لیڈر کہلاتے تھے اور میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اسٹیشن پر اکیلے اپنا اسباب جو وہ بھی تھوڑا نہ تھا اپنی بغل اور پیٹھ پر اٹھائے ہوئے اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے چلے جا رہے ہیں اور چاروں طرف سے دھکے مل رہے ہیں- کوئی پوچھتا نہیں لوگوں میں بے اعتباری اس قدر بڑھ گئی کہ بازار والوں نے سودا تک دینا بند کر دیا- دوسرے لوگوں کی معرفت سودا منگواتے اور گھر والوں نے قطع تعلق کر لیا بعض لڑکوں نے بیویوں نے ملنا جلنا چھوڑ دیا ایک لڑکا اسلام سے مرتد ہو گیا غرض تمام قسم کی عزتوں سے ہاتھ دھورک اور عبرت کا نمونہ دکھا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری آیام کی ایک ایک گھڑی سے اس آیت کی صداقت کا ثبوت دیتے چلے گئے کہ قل سیروانی الارض ثم انظروا کیف کان عاقبہ المکذبین ) آپ کے دشمنوں کی ہلاکت کی دوسری مثال کے طور پر میں چراغ دین ساکن جموں کو پیش کرتا ہوں یہ شخص پہلے حضرت اقدسؑؑ کے ماننے والوں میں سے تھا مگر بعد کو اس نے دعویٰ کیا کہ وہ خود دنیا کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوا ہے اور آپ کے خلاف اس نے کئی رسائل اور مضامین شائع کئے اور آخر جب اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو آپؑ کے خلاف دعا کی اور اس دعا کو لکھ کر شائع کرنے کا ارادہ کیا اس دعا کا یہ مضمون تھا کہ-: ’’اے خدا! تیرا دین اس شخص(یعنی حضرت اقدسؑؑ)کی وجہ سے فتنے میں ہے اور یہ شخص لوگوں کو ڈراتا ہے کہ طاعون میرے ہی سبب سے نازل ہوئی ہے اور زلزلے بھی میری ہی تکذیب کا نتیجہ ہیں تو اس شخص کو جھوٹا کر اور طاعون کو اب اٹھالے تاکہ اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے اور حق اور باطل میں تمیز کر دے.‘‘ یہ دعا لکھ کر اس نے چھپنے کو دی لیکن خدا تعالیٰ کی گرفت کو دیکھئیے کہ مضمون دعا کی کاپیاں لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی پتھر پر نہیں جمائی گئی تھیں کہ وہی طاعون جس کے اٹھائے جانے کی دعا اس نے اس لیے کی تھی تا حضرت اقدسؑ کا یہ دعویٰ باطل ہو جائے کہ طاعون جس کے اٹھائے میری صداقت کے ثبوت کے لیے پھیلائی گئی ہے اس نے اس کے گھر پر آکر حملہ کیا اور پہلے تو اس کے دو بیٹے کہ وہی اس کی اولاد تھے طاعون میں گرفتار ہو کر مر گئے اور اس کی بیوی اس کو چھوڑ کر کسی اور شخص کے ساتھ بھاگ گئی اور لڑکوں کی موت کے بعد وہ خود بھی طاعون ہی کی مرض میں
۴۹۲ مبتلا ہو کر مر گیا اور مرتے وقت یہ کہتا تھا کہ اب تو خدا نے مجھے چھوڑ دیا- اس شخص کی موت نے بھی ُپر شوکت الفاظ میں اس امر پر گواہی دی کہ ماموروں کی مخالفت معمولی چیز نہیں- جو جلد یا بدیر عذاب الٰہٰی میں مبتلا کرتی ہے- چراغ دین جمونی کے سوا اور بیسیوں شخص ایسے ہیں جنہوں نے آپ کے خلاف دعا ہائے مباہلہ کیں اور بہت جلد اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے- جیسے کہ مولوی غلام دستگیر قصوری- یہ شخص حنفیوں میں سے ایک بہت بڑا عالم اور صاحب رسوخ آدمی تھا- اس نے بھی آپ کے خلاف دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰٰ سے جھوٹے اور سچے کے درمیان فیصلہ چاہا- یہ شخص بھی بہت جلد یعنی چند ماہ کے اندر اندر طاعون کی مرض میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو گیا اور لوگوں کے لیے عبرت ک موجب بنا- ایک شخص فقیر مرزا نامی ساکن دولمیال ضلع جہلم کا تھا- اس نے لوگوں میں یہ کہنا شروع کیا کہ حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہوالصلوہ والسلام کی نسبت مجھے بتایا گیا ہے کہ اس رمضان کی ستائیس تاریخ تک وہ ہلاک ہو جائیں گے اور جماعت احمدیہ کے مقامی ممبروں کو ایک تحریر لکھ کر دے دی جس میں اس کشف کا ذکر کیا اور لکھا کہ اگر ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۱ء ھ تک مرزا صاحب ہلاک نہ ہوئے یا ان کا سلسلہ تباہ نہ ہوا تو میں ہر قسم کی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس کاغذ پر بہت سے لوگوں کے دستخط کروا کر جماعت احمدیہ کے ممبروں کو دیدیا- یہ کاغذ جیسا کہ اس پر لکھا ہوا ہے سات رمضان المبارک ۱۳۲۱ء کو لکھا گیا- اس کے بعد ۲۷ رمضان تو گزر ہی گئی اور ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا- صادقوں پر جھوٹوں کی باتوں کا کیا اثر ہو سکتا تھا مگر اگلا رمضان آیا تو اس گاؤں میں طاعون نمودار ہوئی اور پہلے اس شخص کی بیوی مری- پھر یہ خود بیمار ہوا اور پورے ایک سال کے بعد اسی تاریخ جس تاریخ کو اس نے وہ تحریر لکھ کر دی تھی یعنی سات رمضان المبارک کو یہ شخص سخت تکلیف اور دکھ اٹھا کر مر گیا اور چند دن بعد اس کی لڑکی بھی گزر گئی- یہ مثالیں اگر جمع کی جائیں تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچ جائیں کیونکہ سینکڑوں ہزاروں آدمیوں نے دلائل سے تنگ آکر اور ضد میں گرفتار ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کے خلاف دعائیں کیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے` لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ہلاکت اور ذلت کے نشان کو کئی رنگ میں دکھایا ہے جن
۴۹۳ لوگوں نے یہ کہا اللہ تعالیٰ جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ہلاک کرے ان کو آپ کی زندگی میں ہلاک کر دیا اور جن لوگوں نے کہا کہ جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جانا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ جھوٹے کو لمبی مہلت دی جاتی ہے جیسا کہ مسلیمہ کذاب رسول کریم ﷺ کے بعد ہلاک ہوا ان کو اللہ تعالیٰٰ نے مہلت دی اور مسیلمہ کذاب کا مثیل وابت کر دیا- اس قسم کے نشانوں میں سے ایک مثالی مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری جو اخبار ااہلحدیث کے ایڈیٹر ہیں اور فرقہ اہلحدیث کے لیڈر کہلاتے ہیں یہ صاحب اپنی مخالفت میں حد سے بڑ گئے تو حضرت اقدسؑ نے بموجب حکم قرآنی فمن حاجک فیہ من بعد ماجاء ک من العلم فقل تعالوا ندا ابناء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم وانسا وانفسکم ثم نبتھل فجعل لعنت اللہ علی الکاذبین ان کو مباہلے کی دعوت دی مگر ان صاحب نے مباہلے میں اپنی خیریت نہ دیکھی اور باوجود بار بار اور مختلف رنگ میں غیرت دلائے جانے کے انہوں نے گریز کیا اور حضرت اقدسؑ نے ایک دعا لکھی اور ان سے چاہا کہ اپنے اخبار میں اس کو شائع کر دیں اور اس میں اس معیار کے ذریعے فیصلے کی خواہش ظاہر کی کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے- اس دعا پر بھی مولوی صاحب نے گریز کی راہ اختیار کی اور متواتر اور بڑے زور سے اپنے اخبار میں لکھنا شروع کیا کہ یہ ہرگز کوئی معیار نہیں اور میں اس طریق فیصلہ کو بالکل منظور نہیں کرتا کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹے کو لمبی مہلت دی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فعل بھی اسی کی شہادت دیتا ہے- چنانچہ رسول کریم ﷺکے بعد مسیلمہ کذاب زندہ رہا- ان کے اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو ان کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق پکڑا اور ان کو لمبی مہلت دیدی- حضرت اقدسؑ کی وفات کے بعد ان کو زندہ رکھا اور وہ اپنی تحریر کے مطابق مسیلمہ کذاب کے مثیل ثابت ہوئے اور ان کی زندگی کا ہر دن اللہ تعالیٰٰ کی قدرت کا ایک ثبوت اور ان کے مسیلمہ ہونے کی ایک زبردست دلیل ہوتا ہے- غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کو ہر رنگ میں ہلاک اور ذلیل کیا جنہوں نے اس معیار کو تسلیم کیا ک جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہوتا ہے ان کو آپ کی زندگی میں ہلاک کیا اور جنہوں نے اس پر زور دیا کہ جھوٹے کا یہ نشان ہوتا ہے کہ ہ لمبی مہلت پاتا ہے اور سچے کے بعد زندہ رکھا جاتا ہے ان کو لمبی مہلت دی اور حضرت اقدسؑؑ کے دشمنوں میں ابوجہل اور مسیلمہ
۴۹۴ دونوں قسم کے لوگوں کے نمونے دکھا کر حضرت اقدسؑ علیہ السلام کے فنافی الرسول ہونے کا ثبوت دیا اور یہ بھی ثابت کیا کہ یہ سب سامان اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا محض اتفاق نہ تھا` کیونکہ اگر اتفاق ہوتا تو ہر فریق سے اس کے اپنے مسلمہ معیار کے مطابق کیوں سلوک ہوتا- علاوہ اس قسم کی ہلاکتوں کے جو دعا ہائے مباہلہ یا بددعاؤں کے نتیجہ میں آپ کے دشمنوں کو پہنچیں اور کئی طریق پر بھی اللہ تعالیٰٰ نے آپ کے دشمنوں کو ہلاک کیا` یعنی آپؑ کے زمانے میں قسم قسم کے عذاب نازل کئے اور اس قدر مصائب میں لوگوں کو مبتلا کیا کہ ہر ایک دل کہہ رہا ہے کہ اس قدر تباہی اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہین آئی تھی اس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایسی بات ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم اس پر شاہد ہے کونسا ملک ہے جہاں طاعون یا زلزلہ یا انفلوئنزا یا قحط یا جنگ نے بربادی نہیں کی اور شہروں اور علاقوں کو ویران نہیں کیا- افراد پر جو عذاب نازل ہوئے ہیں ان میں سے بعض اس قسم کے بھی ہوتے تھے کہ جو لوگ آپ پر کوئی اتہام لگاتے تھے اسی بلا میں خود مبتلا ہو جاتے تھے مثلاً بعض لوگ کہہ دیتے تھے کہ آپ کو نعوذ باللہ برص ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو برص بیماری میں مبتلا کر دیتا اور بعض لوگ آپ کی نسبت یہ مشہور کر دیتے کہ آپؑ طاعون سے فوت ہو گئے ہیں یا ہوں گے تو وہ خود طاعون سے فوت ہو جاتے- ڈاکٹر عبدلاحکیم پٹیالے کے ایک میڈیکل افسر نے آپ کی نسبت پیشگوئی کی کہ پھیپھڑوں کی مرض سے فوت ہونگے وہ سل سے مرا- اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں- کہ جس شخص نے جو جھوٹ آپ پر باندھا وہی اس پر الٹ پڑا اور ایسے قہری نشان اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں دکھائے کہ ہر شخص جو تعصب سے خالی ہو کر ان کو دیکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے شدید العقاب ہونے پر کامل ایمان حاصل ہوتا ہے اور وہ اس امر کے ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ اللہ تعالیٰ کے راستباز بندے تھے ورنہ کیا سبب ہے کہ آپ کے لئے وہ اس قدر غیرت دکھاتا تھا اور اب بھی دکھاتا ہے-
۴۹۵ آٹھویں دلیل سجدہ ملائکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمؑ کو پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے ملایکہ کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں- سجدہ ایک عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز کے آگے چیز کے آگے سجدہ کرنا خواہ وہ کس قدر ہی عظمت اور شوکت رکھتی ہو جائز نہیں- حتیٰ کہ انبیاء اور انبیاء میں سے ان کے سردار محمد مصطفیٰ ﷺکے آگے بھی جائز نہیں اور یہی نہیں کہ سجدہ کرنا غیر اللہ کو جائز نہیں بلکہ سخت گناہ ہے اور اس فعل کا مرتکب اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کے فضل سے محروم رہ جاتا ہے- پس سجدہ سے مراد وہ سجدہ تو نہیں ہو سکتا جو بطور عبادت کیا جاتا ہے- یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ پہلے زمانے میں سجدہ کرنا جائز ہو گا بعد میں منع ہو گیا کیونکہ شرک ان گناہوں میں سے نہیں جو کبھی جائز ہوں اور کبھی منع ہو جائیں توحید باری اصل الاصول ہے اور اس میں کسی وقت بھی تغیر نہیں ہو سکتا اور اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ پہلے غیر اللہ کو سجدہ جائز تھا لیکن بعد میں اسے شرک قرار دے کر حرام کر دیا گیا` تو پھر شیطان کا حق ہے کہ دعویٰ کرے کہ جو بات میں پہلے کہتا تھا آخر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو بھی کرنی پڑی- میرا بھی تو یہی عذر تھا کہ غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہیں کر سکتا- اللہ کے آگے سجدہ کرنے سے تو میں نے کبھی انکار نہیں کیا- غرض کسی صورت میں غیر اللہ کے آگے سجدہ جائز نہیں ہو سکتا` نہ اب جائز ہے اور نہ پہلے کبھی جائز تھا- پس ملائکہ کو سجدے کا حکم دینے سے مراد عبادت کرنے والا سجدہ تو نہیں ہو سکتا اس سے ضرور کچھ اور مراد ہے اور وہ مراد مطابق لغت عربی کامل فرمانبرداری ہے جس طرح سجدہ کے معنے سجدہ عبادت کے ہیں- سجدہ کے معنے اطاعت کے بھی ہیں- لسان العرب کی جلد ۴ میں لفظ سجدہ کے نیچے لکھا ہے وکل من ذل وخضع لما امربہ فقد سجد یعنی جس
۴۹۶ نے کسی کا حکم پوری طرح مانا اس کی نسبت کہتے ہیں کہ اس نے سجدہ کیا- پس آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دینے کے یہ معنے ہیں کہ ملائکہ اس کی فرمانبرداری کریں اور ملائکہ کی فرمانبرداری بندوں کے لئے یہ ہے کہ ان کے کام میں مدد دیں اور یہ حکم آدم سے خاص نہیں` بلکہ ہر نبی جو دنیا میں آتا ہے اس کے لیے یہی حکم دیا جاتا ہے بلکہ اگر کسی شخص کے لئے ملائکہ کو اس قسم کا حکم نہ دیا جائے تو وہ مامور کہلا ہی نہیں سکتا- ہمارے آنحضرتﷺکی زندگی میں اس قسم کے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ ملائکہ نے آپؐ کے کام میں آپؐ کی مدد کی- جیسے بدر کے موقع پر کہ ملائکہ نے کفار کے دلوں میں رعب ڈالا- یا آپؐ کے کنکر پھینکنے پر آندھی زور سے چلی- یا احزاب کے موقع پر آندھی نے ایک سردار کی آگ بجھا دی جس سے لشکر کفار پر اگندہ ہو گیا- یا مثلاً ایک یہودیہ کے زہر دینے پر اس کی شرارت آپ پر ظاہر ہو گئی ملائکہ کی فرمانبرداری کا اظہار زیادہ تر قوانین طبیعہ کے ذریعے سے ہوتا ہے وہ چونکہ قوانین طبیعہ کا سبب اول ہیں وہ ایسے مواقع پر جبکہ نبی اور اس کے دشمنوں کا مقابلہ ہوتا ہے قوانین طبیعہ کو اس کی تائید میں لگا دیتے ہیں اور یہی سبب ہوتا ہے کہ جب کہ ظاہری اسباب نبیوں کے مخالف ہوتے ہیں نتیجہ ان کے حق میں نکل آتا ہے اور یہ بات ان کے صادق ہونے کی دلیل ہوتی ہے- یہ ملائکہ کی مدد حضرت مسیح موعودؑ کو بھی حاصل تھی- آپؑ کی تائید میں بھی ملائکہ لگے رہتے تھے اور عجیب عجیب رنگ میں آپ کو مشکلات سے بجاتے تھے اور قوانین طبیعہ کو آپ کی نصرت میں لگا دیتے تھے ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ اور چند اور لوگ جن میں ہندو` مسلمان مختلف مذاہب کے لوگ شامل تھے ایک مکان میں سو رہے تھے- آپ کی اچانک آنکھ کھل گئی اور آپ نے اپنے دل میں یہ شور محسوس کیا کہ مکان گرنے لگا ہے- مکان کے گرنے کی بظاہر کوئی علامت نہ تھی- صرف چھت میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی جیسے کہ لکڑی کو کیڑے کے کاٹنے سے آتی ہے- آپ نے اپنے ساتھیوں کا جگایا اور کہا کہ وہ مکان کو خالی کر دیں مگر انہوں نے کچھ پروا نہ کی اور یہ کہ کر کہ صرف آپؑ کا وہم ہے ورنہ کوئی خطرہ نہیں- پھر سو گئے کچھ دیر کے بعد آپؑ نے پھر وہی شور محسوس کیا اور پھر ان کو جگایا اور بہت زور دیا۱ اس پر ان لوگوں نے آپ ؑکا لحاظ کیا اور اٹھ کھڑے ہوئے مگر شکایت کی کہ آپؑ نے اپنے وہم کی پیروی میں لوگوں کو خواہ مخواہ دکھ دیا- آپؑ نے اپنے دل میں محسوس کیا کہ یہ مکان صرف میرا انتظار
۴۹۷ کر رہا ہے میں اگر نکلا تو فورا مکان گر جائے گا اس پر آپ نے پہلے ان لوگوں کو نکالا اور سب کے آخر میں خود نکلے- ابھی آپ نے ایک پیر سیڑھی پر رکھا تھا اور دوسرا اٹھایا تھا کہ مکان کی چھت زور سے گری اور لوگ بہت حیران ہوئے اور آپ ؑکے ممنون ہوئے اور سمجھ لیا کہ صرف آپؑ کی وجہ سے ان کی جانیں بچائی گئی ہیں- اسی طرح کبھی ایسا ہوتا تھا کہ بعض بیماریوں کے موقعہ پرادویہ متثمل ہو کر اپنی حقیقت کو ظاہر کر دیتی تھیں اور یہ ظاہر ہے کہ ادویہ تو بے جان ہیں- درحقیقت یہ ملائکہ کی مدد تھی جو تاثیر ادویہ کے ظہور کے لیے مقرر ہیں اور ہر چیز اک سبب اول ہیں- چنانچہ ایک دفعہ آپ کو کسی بیماری سے سخت تکلیف تھی- مختلف ادویہ کے استعمال سے کچھ فائدہ نہ ہوا- اتنے میں ایک شکل متمثل ہوئی اور کہا کہ ’’خاکسار پیپرمنٹ ‘‘جب اس دوائی کا استعمال کیا گیا تو فورا آرام ہو گیا- بعض دفعہ آپ کے دشمن آپ کے قتل کرنے کا ارادہ کرتے تھے مگر وہ لوگ جو آپ ؑکے قتل کے لیے بھیجے جاتے تھے یا تو ان کے آنے کی اطلاع آپ کو پہلے ہی ہو جاتی تھی یا ان کے دل میں ملائکہ اہل بدر کی طرح کچھ اس قسم کا رعب ڈال دیتے تھے کہ وہ خود ہی قتل ہو جاتے تھے یعنی توبہ کر کے آپ ؑکے ہاتھ پر بیعت کر لیتے اور حضرت عمرؓ کی طرح دشمنی چھوڑ کر اطاعت اختیار کر لیتے- مگر ان سب واقعات سے بڑھ کر وہ عظیم الشان نشان ہے جو طاعون کے متعلق ظاہر ہوا میں آگے چل کر بیان کرونگا کہ طاعون کس طرح آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں ظاہر ہوئی- سر دست اس قدر کہہ دینا کافی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طاعون ہاتھی کی صورت میں دکھائی جو تمام دنیا میں تباہی ڈال رہی ہے مگر سب طرف خونریزی کر کے آپ کے آگےآکر مودب بیٹھ جاتی ہے- اس خواب کے معنے یہ تھے کہ طاعون کے ملائکہ کو آپ کی تائید کا حکم دیا گیا ہے- اس نظارہ کی تائید میں اور بھی بہت سے الہام ہوئے مثلاً یہ کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے اور آپ نے اعلان کر دیا کہ اللہ تعالیٰٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میری جاعت کے لوگ طاعون سے نسبتاً محفوظ رہیں گے- گو بعض حادثات بھی ہو جائیں گے مگر وہ اسی طرح ہونگے جیسے رسول کریم ﷺکے واقت میں کفار کے مقابلے میں بعض مسلمان بھی شہید ہو جاتے تھے مگر مقابلتاً کفار بہت زیادہ مرتے تھے اور صحابہ بہت کم-
۴۹۸ اسی طرح یہ بھی اعلان کیا کہ بستیوں میں سے قادیان نسبتاً محفوظ رہے گا اور یہاں اس قسم کی سخت طاعون نہیں پڑے گی جیسے کہ دوسری جگہوں پر پڑے گی اور گھروں میں سے آپ کا گھر کلی طور پر محفوظ رہے گا` اس میں طاعون کا کوئی حادثہ نہیں ہوگا- ان اعلانوں کے بعد طاعون ہندوستان میں اس شدت کے ساتھ پھیلی کہ الامان! ہر سال کئی کئی لاکھ آدمی طاعون سے مر جاتا تھا مگر باوجود اس کے کہ آ پ ؑنے اپنی جماعت کو طاعون کا ٹیکہ کرانے سے منع کر دیا تھا جو طاعون کا ایک ہی علاج سمجھا جاتا تھا- دوسرے لوگ طاعون سے مرتے تھے مگر آپ کی جماعت کے لوگ نسبتاً طاعون سے محفوظ رہتے تھے اور متواتر اور کئی سال تک اسی طرح ہوتا ہوا دیکھ کر لوگوں نے سوچا کہ آخر کوئی بات ہے کہ اس طاعون کے کیڑے احمدیوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو پکڑتے ہیں اور ہزار ہا لوگ اس کو دیکھ کر ایمان لائے- بلکہ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کے زمانے کے اکثر احمدی وہی ہیں جو اس نشان کو دیکھ کر ایمان لائے تھے- یہ بات ان کے لیے حیرت انگیز تھی کہ طاعون کے کیڑوں کو کون بتاتا ہے کہ فلاں شخص مرزا صاحب کا ماننے والا ہے اور فلاں منکر- بڑے بڑے دشمن جیسا کہ پہلی بیان کردہ بعض مثالوں سے ظاہر ہے طاعون سے ہی ہلاک ہوئے لیکن آپ کی جماعت بہت حد تک محفوظ رہی- صرف کبھی کبھی اور کسی جگہ کوئی واقعہ ایسا ہو جاتا تھا کہ ان میں سے بھی کوئی اس مرض میں مبتلا ہو جائے- متواتر کئی سال تک سارے ملک میں طاعون کی وباء کا پھوٹنا اور ماننے والوں کا نسبتاً محفوظ رہنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی مزکورہ بالا رویا اور آپ کے الہام آگ ہماری غلام بلکہ غلامون کی بھی غلام ہے کے ماتحت ملائکہ اس مرض کے جرمز کو آپ کی تائید لیکن آپ کے دشمنوں کی ہلاکت میں لگا رہے تھے اور اس طرح فرمانبرداری کا وہ حق پورا کر رہے تھے وہ ہر مرسل کے متعلق ان کے ذمہ لگایا گیا ہے- قادیان میں بھی ایسا ہی ہوا کہ دوسرے شہروں کی نسبت یہاں بہت ہی کم طاعون ہوئی اور تین سال تک ہو کر ہٹ گئی- حالانکہ دوسرے شہروں میں دس دس سال بلکہ بعض جگہ اس سے بھی زیادہ رہی- آپ کے گھر کے متعلق تو ملائکہ کی فرمانبرداری کا عجیب نمونہ نظر آیا- یعنی باوجود اس کے کہ تین سال تک متواتر آپ کے گھر کے بائیں طرف بھی اور دائیں طرف بھی طاعون پھوٹی
۴۹۹ آپ کے گھر کی دائیں طرف والے ملحق گھر میں بھی موتیں ہوئیں اور بائیں طرف کے گھر میں بھی موتیں ہوئیں- لیکن آپ کا گھر جس میں سو سے زیادہ آدمی رہتے تھے اور نشیب کے حصہ میں واقع ہونے کے سبب سے صحت افزا جگہ پر بھی نہیں کہلا سکتا- نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی موت نہیں ہوئی بلکہ کوئی چوہا بھی اس میں مبتلا نہیں ہوا- حالانکہ طاعون جب کسی گاؤں میں پڑے تو چوہے فورا مرنے شروع ہو جاتے ہیں یہ ایک عجیب نشان ہے اور صاحب دانش کے لیے موجب تسلی- اگر ملائکہ آپ کی تائید نہیں کر رہے تھے تو پھر کیا چیز تھی جو امور طبیعہ کو جو حاکموں اور بادشاہوں کے قبضہ میں بھی نہیں ہوتے- آپ کی تائید اور غلامی میں لگائے ہوئے تھی- بڑے بڑے ڈاکٹر جو رات دن طبی احتیاطوں سے کام لے رہے تھے طاعون کا شکار ہوتے تھے- شہروں سے باہر صاف محلات میں رہنے والے اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے تھے- ٹیکا کرانے والے بھی محفوظ نہ تھے مگر آپ ؑکے گھر کے لوگ بلا کسی ظاہری سبب کے بلا علاج کے- بلا حفضان صحت کے سامانوں کی موجودگی کے- بلا آبادی سے باہر جانے کے- اس وباء کے حملے سے محفوظ رہتے` بلکہ جانور تک اس کے اثر کو قبول نہ کرتے` حالانکہ گھر کے ساکنین بہت بڑی تعداد میں تھے- بلکہ طاعون کے دنوں میں اور بہت سے لوگ بھی درخواست کر کے گھر کے اندر آجاتے تھے- اگر قادیان میں طاعون نہ آتا` یا اگر قادیان میں طاعون آتا مگر آپ کے گھر کے اردگرد نہ آتا تو کہا جا سکتا تھا کہ اتفاق تھا مگر قبل از وقت یہ بات شائع کر دینے کے بعد کہ ملائکتہ اللہ آپ کی تائید میں ہیں اور طاعون کو اپنی غلامی کا طوق پہنائے ہوئے ہیں- طاعون کا قادیان میں آنا- پھر آپ کے گھر کے اردگرد آنا` مگر آپ کے گھر میں کسی آدمی یا جانور کا بھی اس سے متاثر نہ ہونا ایک زبردست ثبوت ہے اس بات کا کہ ملائکہ کو آپ کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا تھا اور وہ آپ کی حفاظت پر مامور تھے- اس وجہ سے وہ اسباب طبعیہ بھی جو ان کے زیر انتظام تھے آپ کی نصرت میں لگے ہوئے تھے- امور طبعیہ کا اس طرح آپ کی تائید کرنا بہت سے واقعات سے ثابت ہوتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کی مزکورہ بالا چند مثالیں کافی ہونگی اور ان سے اس قسم کے معجزات کی حقیقت آپ پر روشن ہو جائے گی اور آپ معلوم کر سکیں گے کہ اس قسم کی تائید جن کو حاصل ہو وہ مفتری اور کاذب ہرگز نہیں ہو سکتے-
۵۰۰ نویں دلیل علوم آسمانی کا انکشاف نویں دلیل آپؑ کی صداقت کی کہ درحقیقت وہ بھی بہت سے دلائل پر مشتمل ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر قادرانہ طور پر ایسے علوم کا انکشاف کیا جن کا حصول انسانی طاقت سے بالا ہے نبیوں کی بعثت کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس چشمہ تک پہنچائیں جس سے سیراب ہوئے بغیر روحانی زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی` یعنی تمام زندگیوں کے منبع حضرت احدیت سے ان کو وابستہ اور متعلق کر دیں اور یہ بات بلا علوم روحانیہ کے حصول کے نہیں ہو سکتی- وہی شخص اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے جسے اس کی معرفت حاصل ہو اور اس کے قرب کے ذرائع معلوم ہوں اور اس کی صفات کا باریک در باریک علم رکھتا ہو اور دوسروں کو وہی شخص روحانی امور میں ہدایت کر سکتا ہے جو ان باتوں سے حصہ وافر رکھتا ہو- پس کسی ماموریت کے مدعی کا دعویٰ قابل تسلیم نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خدا تعالیٰ کے غیر محدود علم سے حصہ نہ پائے اور اللہ تعالیٰ اس کی علمی غور وپرداخت نہ کرے- پس حضرت اقدسؑؑ کے دعوے کی سچائی کے معلوم کرنے کے کے لئے ہم اس قانون کے ذریعے سے بھی آپؑ کے دعوے پر غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ پر کیا کیا علوم کھولے ہیں- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- وعلم ادم الاسماء کلھا )سورہ بقرہ ع۴: ۳۲( اور اس نے حضرت آدمؑ کو سب صفات الٰہیہ کا علم دیا اور صفات الٰہیہ کے علم کے ماتحت سب قسم کا علم آجاتا ہے کیونکہ معرفت الٰہیہ کے معنے صفات الٰہیہ کا ایسا علم ہی ہے جو مشاہدہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے- یہ علم ہر مامور کو دیا جاتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ حضرت لوطؑ کی نسبت فرماتا ہے ولوطا اتینہ حکما وعلما اور حضرت داؤد وسلیمانؑ کی نسبت فرماتا ہے- ولقد اتینا دائود وسلیمان علما ) ( اور حضرت یوسفؑ کی نسبت فرماتا ہے ولما بلغ اشدہ اتیناہ حکماو علما )یوسف ع۳ :۲۳( اور حضرت موسیٰؑ کی نسبت فرماتا ہے ولما بلغ اشدہ واستوی اتینہ حکماو علما وکذلک نجزی المحسنین )قﷺ ع۲ : ۱۵( اور آنحضرت ﷺ کی
۵۰۱ نسبت فرماتا ہے وعلمک مالم تکن وکان فضل اللہ علیک عظیما )نساء ع۱۷ :۱۱۴ کہ آپؐ کو وہ علم سکھایا ہے جو پہلے آپؐ کو معلوم نہ تھا اور پھر اور علوم کے اظہار کا وعدہ کرتا ہے اور یہ دعا سکھاتا ہے - قل رب زدنی علما )طہ :۱۱۵( پس ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر مامور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم دیا جاتا ہے- چنانچہ اسی قسم کا علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دیا گیا صرف فرق یہ ہے کہ پہلے ماموروں کو تو صرف باطنی علم دیا جاتا تھا مگر آپ کو اپنے مطاع اور آقا آنحضرت ﷺکی اتباع میں ظاہری اور باطنی دونوں قسم کا علم دیا گیا- یعنی علم روحانی بھی دیا گیا- اور اس کے بیان کرنے کا اعلیٰ طریق بھی بخشا گیا اور اللہ تعالیٰٰ نے دونوں باتوں میں آپ کو بے نظیر بنایا` نہ تو علوم باطنیہ کے جاننے میں کوئی شخص آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ان کے بیان کرنے میں کوئی شخص آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے- ان دونوں قسم کے علموں میں سے پہلے میں ظاہری قسم کا علم لیتا ہوں- یہ معجزہ آپ سے پہلے صرف نبی کریم ﷺکے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے- پہلے انبیاء میں اس کی نظیر نہیں ملتی آنحضرت ﷺپر جو وحی نازل ہوئی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صادقین )بقرہ ع۳ : ۲۴( کہہ دے اگر تم کو اس کتاب کے سبب جو تم نے اپنے اس بندے پر نازل کی ہے شکوک وشبہات پیدا ہو گئے تو پھر اس کی ایک سورۃ جیسی ہی کوئی عبارت لے آؤ- اور اس کی تیاری کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا جس قدر تمہارے بزرگ ہیں سب کو اپنی مدد کے لیے جمع کر لو` مگریاد رکھو کہ پھر بھی تم اس کی مثال لانے پر قادر نہیں ہو سکو گے اس آیت میں ہر قسم کی خوبیوں میں قرآن کریم کو بے مثل قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک خوبی ظاہری خوبی بھی ہے قرآن کریم کی فصاحت کی طرف اور جگہوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے چنانچہ فرماتا ہے کتاب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر )ھود ع۱ :۲( یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کے احکام نہایت مضبوط چٹان پر قائم کئے گئے ہیں اور پھر ان کو بے نظیر طور کھول کر بیان کیا گیا ہے اس خدا کی طرف سے جو بڑی حکمتوں کا مالک ہے اور واقعات سے باخبر ہے یعنی حکیم کی طرف سے پر حکمت کلام ہی آنا چاہئیے اور خبیر جانتا ہے کہ اب علمی زمانہ شروع ہونے والا ہے اس لیے علمی معجزات کی ضرورت ہے- پس اس نے قرآن کریم کی زبان کو مفصل بنایا ہے- یعنی وہ اپنی وضاحت آپ کرتا ہے اور اپنی خوبی کا خود شاہد ہے-
۵۰۲ چونکہ حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام آنحضرت ﷺکے شاگرد اور آپ کی ظل تھے اور آپ ہی کے نور سے حصہ لینے والے تھے اس لیے اللہ تعالیٰٰ نے آپ کو بھی اس خوبی سے حصہ دیا اور آپ کو بھی کلام کی فصاحت عطا فرمائی میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ حضرت اقدسؑؑ کسی مشہور مدرسے کے پڑھے ہوئے نہ تھے` معمولی لیاقت کے استاد آپ کی تعلیم کے لیے رکھے گئے تھے جنہوں نے عام درسی کتب کا ایک حصہ آپ کو پڑھا دیا تھا- آپؑ کبھی عرب وغیرہ ممالک کی طرف بھی نہیں گئے تھے اور نہ آپؑ ایسے شہروں میں رہے تھے جہاں عربی کا چرچا ہو دیہاتی زندگی اور معمولی کتب پڑھنے سے جس قدر علم انسان کو حاصل ہو سکتا ہے اسی قدر آپؑ کو حاصل تھا- جب آپؑ نے دعویٰ کیا اور دنیا کی اصلاح کی طرف توجہ کی تو آپؑ کے دشمنوں کی نظر سب سے پہلے ان حالات پر پڑی اور انہوں نے سوچا کہ یہ سب سے بڑا حملہ ہے جو ہم آپؑ کی ذات پر کر سکتے ہیں اور یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ آپ ایک منشی آدمی ہیں اردو نوشت وخواند میں چونکہ مہارت ہو گئی اور لوگوں میں بعض مضامین اچھی نظر سے دیکھے گئے تو خیال کر لیا کہ اب میں بھی کچھ بن گیا اور دعویٰ کر دیا- آپؑ عربی سے ناواقف ہیں اس لیے علوم دینیہ میں رائے دینے کے اہل نہیں اس اعتراض کو ہر مجلس اور تحریر میں پیش کیا جاتا اور لوگوں کو بدظن کیا جاتا تھا- ان لوگوں کا یہ اعتراض تو کہ آپؑ عربی زبان سے ناواقف تھے بالکل جھوٹا تھا کیونکہ آپؑ نے عام درسی کتب پڑھی تھیں مگر یہ سچ تھا کہ آپؑ کسی بڑے عالم سے نہیں پڑھے تھے اور نہ باقاعدہ کسی پرانے مدرسہ کے سند یافتہ تھے اس لیے ملک کے بڑے عالموں میں شمار نہ ہوتے تھے اور نہ مولوی کی حیثیت آپؑ کو حاصل تھی- جب اس اعتراض کا بہت چرچا ہوا اور مخالف مولویوں نے وقت اور بے وقت اس کو پیش کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک رات میں چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھا دیا اور یہ معجزہ عطا فرمایا کہ آپؑ عربی زبان میں کتب لکھیں اور وعدہ کیا کہ ایک ایسی فصاحت آپؑ کو عطا کی جاوے گی کہ لوگ مقابلہ نہ کر سکیں گے- چنانچہ آپؑ نے عربی زبان میں ایک مضمون لکھ کر اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کیا اور مخالفوں کو اس کے مقابلے میں رسالہ لکھنے کے لیے بلایا` مگر کوئی شخص مقابلہ پر نہ آسکا- اس کے بعد متواتر آپؑ نے عربی کتب لکھیں جو بیس سے بھی زیادہ ہیں اور بعض کتب کے ساتھ دس دس ہزار روپے کا انعام ان لوگوں کے لیے مقرر کیا جو
۵۰۳ مقابلہ میں ویسی ہی فصیح کتب لکھیں مگر ان تحریرات کا جواب کوئی مخالف نہ لکھ سکا` بلکہ بعض کتب عربوں کے مقابلہ میں لکھی گئیں اور وہ بھی جواب نہ دے سکے- اور پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے` چنانچہ سید رشید رضا صاحب مدیر المنار کو مخاطب کر کے بھی ایک کتاب لکھی گئی اور اس کو مقابلہ کے لیے بلایا گیا` مگر وہ مقابلہ پر نہ آیا اسی طرح بعض اور عربوں کو مقابلہ کے لیے دعوت دی گئی` مگر وہ جرات نہ کر سکے- ہندوستان کے مولویوں نے اپنی شکست کا ان لفظوں میں اقرار کیا کہ یہ کتابیں مرزا صاحب خود نہیں لکھتے بلکہ انہوں نے عرب چھپا کر رکھے ہوئے ہیں وہ ان کتب کو لکھ کر دیتے ہیں- اس اعتراض سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ؑکی کتب کی عربی زبان کے وہ بھی قائل تھے مگر ان کو یہ شک تھا کہ آپؑ خود یہ کتب نہیں لکھ سکتے اور لوگ آپؑ کو کتابیں لکھ کر دے دیتے ہیں اس پر آپ ؑنے یہ اعلان کیا کہ آپؑ لوگ بھی عربوں اور شامیوں کی مدد سے میرے مقابلہ پر کتابیں لکھ دیں- مگر باوجود بار بار غیرت دلانے کے کوئی سامنے نہ آیا اور وہ کتب اب تک بے جواب پڑی ہیں- ان کتب کے علاوہ ایک دفعہ آپؑ کو الہام ہوا کہ آپ فی البدیہہ ایک خطبہ عربی زبان میں دیں حالانکہ آپؑ نے عربی زبان میں کبھی تقریر نہ کی تھی- دوسرے دن عید الاضحیٰ تھی- اس الہام کے ماتحت آپؑ نے عید کے بعد عربی زبان میں ایک لمبی تقریر کی جو خطبہ الہامیہ کے نام سے شائع ہو چکی ہے- اس تقریر کی عبادت بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی تھی کہ عرب اور عجم پڑھ کر حیران ہوتے ہیں اور ایسے غوامض ورموز اس میں بیان کے کہ ان کی وجہ سے اس خطبہ کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے- یہ علمی معجزہ آپؑ کا نہایت زبردست معجزات میں سے ہے کیونکہ ایک تو ان معجزات پر اسے فوقیت حاصل ہے جو زیادہ اثر صرف اس وقت کے لوگوں پر کرتے ہیں جو دیکھنے والے ہوں- دوم اس معجزہ کا اقرار دشمنوں کی زبانوں سے بھی کرا دیا گیا ہے اب جب تک دنیا قایم ہے یہ معجزہ آپؑ کا بھی قائم رہے گا اور قرآن کریم کی طرح آپؑ کے دشمنوں کے خلاف حجت رہے گا اور روشن نشان کی طرح چمکتا رہے گا- بعض لوگ جب اس معجزہ کو دیکھ کر آپؑ کی صداقت کا انکار کرنے کی کوئی صورت نہیں دیکھتے تو اس پر ایک اعتراض کیا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس قسم کے معجزہ کا دعویٰ کرنا قرآن کریم کی ہتک ہے- کیونکہ قرآن کریم کا دعوی ہے کہ اس کی زبان بے مثل ہے- اگر مرزا صاحب کو
۵۰۴ بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی زبان میں کتب لکھنے کی توفیق دے دی جو اپنی خوبیوں میں بے مثل ہے تو اس میں قرآن کریم کی ہتک ہو گئی اور اس کا دعویٰ باطل ہوگیا ان لوگوں کا یہ اعتراض محض تعصب کا نتیجہ ہے ورنہ اگر یہ سوچتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ باوجود حضرت اقدسؑؑ کی عربی کتب کے بے مثل ہونے کے قرآن کریم کا دعویٰ حق اور راست ہے اور اس کا معجزانہ رنگ موجود ہے بلکہ آگے سے بڑھ گیا ہے- دنیا ہر ایک فضیلت دو قسم کی ہوتی ہے کامل فضیلت اور وہ فضیلت جو اضافی ہوتی ہے یعنی ایک فضیلت تو وہ جو بلا دوسری چیزوں کو مدنظر رکھنے کے ہوتی ہے اور ایک فضیلت وہ جو بعض اور چیزوں کو مدنظر رکھکر ہوتی ہے اس کی مثال قرآن کریم سے ہی میں یہ پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کی نسبت قرآن کریم میں فرماتا ہے وانی فضلتکم علی العلمین )بقرہ ع۶ :۴۸) میں نے تم کو تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت دی اور پھر مسلمانوں کی نسبت فرماتا ہے کنتم خیرامہ اخرجت للناس )آل عمران ع۱۲ :۱۱۱( تم سب سے بہتر امت ہو جو سب لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو تو ایک طرف بنی اسرائیل کو سب جہانوں پر فضیلت دیتا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو سب جہانوں پر فضیلت دیتا ہے- بظاہر اس بات میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن اصل میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ ایک جگہ پر تو اپنے زمانے کے لوگوں پر فضیلت مراد ہے اور دوسری جگہ اولین وآخرین پر- اسی طرح حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی کتب کو جو بے مثلیت حاصل ہے وہ انسانوں کے کلاموں کو مدنظر رکھ کر ہے اور قرآن کریم کو جو بے مثلیت عطا ہوئی ہے وہ تمام انسانی کلاموں پر بھی ہے اور خود اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے آنے والے دوسرے کلاموں پر بھی اور ان میں حضرت اقدسؑ کے الہامی خطبات اور آپؑ کی کتب بھی شامل ہیں- پس قرآن کریم کا بے مثل ہونا حقیقی ہے اور حضرت اقدسؑ کی کتب کی زبان کا بے مثل ہونا اضافی- پس آپ کا یہ معجزہ گو لوگوں کے لیے حجت ہے مگر قرآن کریم کی شان کا گھٹانے والا نہیں- میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ آپ کے معجزہ سے قرآن کریم کے معجزہ کی شان دوبار ہو گئی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ بے مثلیت بھی کئی قسم کی ہوتی ہے- ایک بے مثلیت ایسی ہوتی ہے کہ بے مثل کلام کو دوسرے کلاموں پر فضیلت تو ہوتی ہے مگر بہت زیادہ فضیلت نہیں ہوتی- پس گو اس کو افضل کہیں گے مگر دوسرے کلام بھی اس کے قریب قریب پہنچے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کہ مثلا گھوڑ دوڑ میں جب گھوڑے دوڑتے ہیں تو ایک گھوڑا جو اول نکلے دوسرے
۵۰۵ گھوڑے سے ایک بالشت بھی آگے ہو سکتا ہے ایک گز بھی ہو سکتا ہے اور ایک گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ کی مقدار بھی آگے ہو سکتا ہے یا اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے یہی حال بے مثل کلام کا ہے کہ وہ ان سے دوسرے کلاموں کی نسبت جن کے مقابلہ میں اسے بے مثل ہونے کا دعویٰ ہے معمولی فضیلت بھی رکھ سکتا ہے اور بہت زیادہ فضیلت بھی رکھ سکتا ہے اب یہ امر کہ اس کا دوسرے کاموں کا فرق تھوڑا ہے یا بہت اسی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے درمیان ان کلاموں کے درمیان جن سے وہ افضل ہونے کا مدعی ہے اور کلام آکر کھڑے ہو سکیں کہ وہ بھی بے مثل ہوں لیکن اس کے مقابلہ میں وہ بھی ادنیٰ ہوں- پس حضرت اقدسؑ کی کتب نے دوسرے انسانوں کے کلاموں کے مقابلے میں اپنی مثلیت ثابت کر کے بتا دیا ہے کہ قرآن کریم اپنی بے مثلیت میں دوسرے کلاموں سے بہت ہی بڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ کلام جن کو قرآن کریم کے مقابلے پر کھڑا کیا جاتا تھا- آپ کے کلام نے ان کو پیچھے ڈال دیا` مگر پھر بھی آپ کا کلام قرآن کریم کے ماتحت ہی رہا اور اس کا خادم ہی ثابت ہوا جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم دوسرے کلاموں سے اس قدر آگے نکلا ہوا ہے کہ اس کے اور دوسرے کلاموں کے درمیان ایک وسیع فاصلہ ہے- اس فصاحت کے علاوہ جو آپ کو عطا ہوئی- ایک علم ظاہری آپ کو یہ عطا ہوا کہ آپ کو الہاماً عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا علم دیا گیا- یہ ایک عظیم الشان اور عجیب علم تھا کیونکہ یورپ کے لوگ ام الالسنہ کے متعلق لمبی کوششوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ سنسکرت یا پہلوی زبان ام الالسنہ ہے اور بعض لوگ ان دونوں زبانوں کو بھی اس زبان کی جو سب سے پہلی زبان تھی شاخ قرار دیتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ابتدائی زبان دنیا سے مٹ گئی ہے- یہ تو یورپ کے لوگوں کا حال تھا عرب جن کی زبان عربی ہے وہ بھی اس فضیلت کے قائل نہ تھے بلکہ یورپ کی تعلیم کے اثر سے ام الالسنہ کی دوسرے ممالک کی زبانوں میں تلاش کر رہے تھے ان حالات میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیا جانا کہ اصل میں عربی زبان میں ام الالسنہ ہے ایک قابل حیرت انکشاف تھا مگر قرآن کریم پر تدبر کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ انکشاف قرآن کریم کی تعلیم کے بالکل مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو ساری دنیا کی طرف نازل ہونا تھا اسی زبان میں نازل ہونا چاہئیے تھا جو سب سے ابتدائی زبان ہونے کے لحاظ سے ساری دنیا کی زبان ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے وما ارسلنا من رسول
۵۰۶ الا بلسان قومہ )ابراہیم ع۱ :۵) ہم کوئی رسول نہیں بھیجتے مگر اسی زبان میں اس پر کتاب نازل کرتے ہیں جو ان لوگوں کی زبان ہوتی ہے جن کی طرف وہ مبعوث ہوا ہو- پس رسول کریم ﷺجو ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تو آپ کی طرف اسی زبان میں کلام نازل ہونا چاہئیے تھا جو بوجہ ام الالسنہ ہونے کے ساری دنیا کی زبان کہلا سکے اور چونکہ آپ پر عربی زبان میں کلام نازل ہوا ہے اس لیے عربی زبان ہی ام الالسنہ ہے- آپ نے اس انکشاف کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ایسے اصول مدون کئے جن سے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ فی الواقع عربی زبان ام الالسنہ اور الہامی زبان ہے اور باقی کوئی زبان ام الالسنہ کہلانے کی مستحق نہیں- آپ نے اس تحقیق کے متعلق ایک کتاب بھی لکھنی چاہی جو افسوس کہ نامکمل رہ گئی مگر اصل الاصول آپ نے اس میں بیان کر دئیے جن کو پھیلا کر اس امر کو دنیا کے ذہن نشین کیا جا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میرا منشاء ہے کہ ان اصول کے ماتحت جو آپ نے تجویز کئے ہیں اور اس علم کے مطابق جو آپ نے اس کتاب میں مخفی رکھا ہے ایک کتاب تصنیف کروں جس میں بوضاحت آپ ؑکے بیان کردہ دعوے کو ثابت کروں اور اہل یورپ کے تیار کردہ علم اللسان سے جو اس دعوے کی تائید ہوتی ہے وہ بھی بیان کروں اور جہاں اہل یورپ نے ٹھوکر کھائی ہے اس کو بھی کھول دوں- وما التوفیق الا من اللہ یہ تحقیق عربی زبان کے مطابق ایک ایسی بے نظیر تحقیق ہے کہ دنیا کے نقطہ نظر کو اسلام کے مطابق بالکل بدل دے گی اور اسلام کو بہت بڑی شوکت اس سے حاصل ہو گی- ان ظاہری علوم کے علاوہ جو آپ کو دئیے گئے باطنی علوم جو انبیاء کا ورثہ ہیں- وہ بھی آپ کو عطا ہوئے اور ان علوم کے مقابلے سے سب دشمن عاجز رہے اور کوئی شخص آپ کا مقابلہ نہ رہ سکا جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں آپ کوئی جدید شریعت لیکر نہ آئے تھے بلکہ پیشگوئیوں کے ماتحت آنحضرت ﷺکے دین کی خدمت اور اشاعت کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور علوم قرآنیہ کا پھیلانا اور سکھانا آپ کا کام تھا قرآن کریم کے بعد اب کوئی نیا علم آسمان سے نازل نہیں ہو سکتا- سب علوم اس کے اندر ہیں اور رسول کریم ﷺکے بعد کوئی نیا معلم نہیں آسکتا جو شخص آئے گا آپ کے سکھائے ہوئے علوم کی تجدید کرنیوالا ہی ہو گا اور انہیں کو دوبارہ تازہ کرے گا جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام ہے کل برکتہ من محمد صلی اللہ
۵۰۷ علیہ وسلمم فتبارک من علم وتعلم ہر ایک برکت محمد ﷺ سے آتی ہے- پس مبارک ہے وہ جس نے سکھایا یعنی آنحضرت ﷺ اور مبارک ہے وہ جس نے سیکھا یعنی مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام - غرض علوم چونکہ قرآن کریم پر ختم ہو گئے اور جو مامور آئیں گے ان کو قرآن کریم کے خاص علوم ہی سکھائے جائیں گے نہ کوئی جدید علوم اور ان کی سچائی کی یہی علامت ہو گی کہ ان کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم کا وسیع علم عطا فرماوے جو استدلالیوں والا نہ ہو` بلکہ صفات الہیہ کا علم ہو اور روحانی منازل کا علم ہو اور اے بادشاہ! ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے ایسا وافر حصہ دیا ہے کہ اگر یوں کہیں کہ آپ کے وقت میں قرآن کریم دوبارہ نازل ہوا ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہو گا بلکہ بالکل سچ ہو گا اور رسول کریم ﷺ کے قول کے مطابق ہو گا کیونکہ آپ سے بھی ایک روایت ہے کہ لو کان الایمان معلقا بالثریا لنا لہ رجل من فارس کہ اگر قرآن ثریا پر اڑ کر چلا جائے تو ایک شخص فارسی الاصل اس کو واپس لے آوے گا- سب سے پہلے تو میں علم قرآن کے اس حصہ کو بیان کرتا ہوں جس نے اصولی رنگ میں اسلام کو ایسی مدد دی اور مختلف ادیان کے مقابلہ میں اسلام کے مقام کو اس طرح بدل دیا کہ فاتح مفتوح ہو گیا اور غالب مغلوب- یعنی قرآن کریم جو اس سے پہلے ایک مردہ کتاب سمجھی جاتی تھی ایک زندہ کتاب بن گئی اور اس کی خوبیوں کو دیکھ کر اس کے مخالف گھبرا کر بھاگ گئے- حضرت اقدسؑ مسیح موعودؑ کے نزول سے پہلے عام طور پر مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ معارف قرآنیہ جو بزرگوں نے بیان کئے ہیں وہ اپنی حد کو پہنچ گئے ہیں اور اب ان سے زیادہ کچھ بیان نہیں ہو سکتا بلکہ اور جستجو کرنی فضول اور دین کے لیے مضر ہے- اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کو یہ علم دیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی مادی پیدائش اپنے اندر بے انتہاء اسرار رکھتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کلام بھی اپنے اندر بے انتہاء معانی اور معارف رکھتا ہے اگر ایک مکھی جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے نہایت ادنیٰ درجہ رکھتی ہے ہر زمانے میں اپنی پوشیدہ طاقتوں کو ظاہر کرتی ہے اور اس کی بناوٹ کے رازوں اور اس کے خواص کی وسعت اور اس کی عادات کی تفاصیل کا علم زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتا جاتا ہے چھوٹے چھوٹے گھانس اور پودوں کے نئے سے نئے خواص اور تاثیریں معلوم ہوتی جاتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام محدود ہو- کہ کچھ مدت
۵۰۸ تک تو لوگ اس میں سے معانی اور معارف اخذ کریں اور اس کے بعد وہ اس کان کی طرح ہو جائے جس کا خزانہ ختم ہو جاتا ہے- اللہ کا کلام تو مادی اشیاء کی نسبت زیادہ کثیر المعانی اور وسیع المطالب ہونا چاہئیے` اگر نئے سے نئے علوم دنیا میں نکل رہے ہیں` اگر فلسفہ اور سائنس تیزی کے ساتھ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اگر طبقات الارض اور علم آثار قدیمہ اور علم افعال الاعضاء اور علم نباتات اور علم حیوانات اور علم ہیئت اور علم سیاسیات اور علم اقتصاد اور علم معاملات اور علم النفس اور علم روحانیات اور علم اخلاق اور اسی قسم کے نئے علوم یا تو نئے دریافت ہو رہے ہیں یا انہوں نے پچھلے زمانے کے علوم کے مقابلہ میں حیرت انگیز ترقی حاصل کر لی ہے تو کیا اللہ تعالیٰٰ کا کلام ہی ایسا راکد ہونا چاہئیے کہ وہ اپنے پر غور کرنیوالوں کو تازہ علوم اور نئے مطالب نہ دے سکے اور سینکڑوں سال تک وہیں کا وہیں کھڑا رہے- اس وقت جس قدر بے دینی اور اللہ تعالیٰ سے دوری اور شریعت سے بعد نظر آتا ہے وہ ان علوم کے بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر ہی کا نتیجہ ہے- پس اگر قرآن کریم اللہ کا کلام ہے تو چاہئیے تھا کہ ان علوم جدیدہ کی ایجاد یا وسعت کے ساتھ اس میں سے بھی ایسے معارف ظاہر ہوں جو یا تو ان علوم کی غلطی کو ظاہر کریں اور بدلائل انسان کو تسلی دیں یا یہ بتائیں کہ جو شبہ پیدا کیا جاتا ہے وہ درحقیقت پیدا ہی نہیں ہوتا اور صرف قدرت تدبر کا نتیجہ ہے- اس اصل کو قائم کر کے آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ قرآن کریم میں اس زمانے کی ترقیات اور تمام حالات کا ذکر موجود ہے بلکہ اس زمانہ کی بعض جزائیات تک کا ذکر` ہے لیکن پہلے مسلمان چونکہ اس زمانہ میں نہیں پیدا ہوئے تھے وہ ان اشارات کو نہیں سمجھ سکے اور ان واقعات کو قیامت پر محمول کرتے رہے- مثلاً سورہ التکویر میں اس زمانے کی بہت ہی علامات مزکور ہیں جیسے )۱( اذا الشمس کورت )۲( واذا النجوم انکدرت )۳( واذا الجبال سیرت )۴( واذا العشار عطلت )۵( واذا الوحوش حشرت )۶( واذا الجبار سجرت )۷( واذا النفوس زوجت )۸( واذا الموء دہ سلت )۹( بای ذنب قتلت )۱۰( واذا الصحف نشرت )۱۱( واذا السماء کشطت )۱۲( واذا الجحیم سعرت )۱۳( واذا الجنہ ازلف )۱( جب سورج لپیٹا جائے گا )۳( واذا الجبال سیرت اور جب پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹائے جائیں گے- یعنی ایسے سامان نکل آئیں گے کہ ان کے ذریعے سے پہاڑوں کو کاٹا جائے گا اور ان کے اندر
۵۰۹ سوراخ کر دئیے جائیں گے- )۴واذا العشار عطلت اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی یعنی ایسا زمانہ آجائے گا کہ نئی سواریوں کی وجہ سے اونٹوں کی وہ قدر نہ رہے گی جو اب ہے واذا الوحوش حشرت اور جب دینی علوم سے لوگوں کو ناواقفیت ہو گی اور وہ مثل وحشیوں کے ہو جائیں گے اور اسی طرح وہ اقوام جو پہلے وحشی سمجھی جاتی تھیں جیسے یورپ کے باشندے کہ آج سے چھ سات سو سال قبل جس وقت الیشیائی لوگ نہایت مہذب اور ترقی یافتہ تھے یہ لوگ ننگے پھرتے تھے- دنیا میں پھیلا دئے جائیں گے اور دنیا کی حکومتوں پر قابض ہو جائیں گے اور یہ بھی کہ اس زمانے میں کچھ وحشی اقوام ہلاک کر دی جائیں گی کہ ان کا نام ہی باقی نہ رہ جائے گا اور یہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کہتے ہیں حشر الوحوش ای اھلکت ایسا ہی اس زمانے میں ہوا ہے کہ آسٹریلیا اور امریکہ کے اصلی باشندے کہ ان کو کہتے بھی وحشی ہی ہیں- آہستہ آہستہ اس طرح ہلاک کر دئیے گئے ہیں کہ اب ان اقوام کا ان میں نشان تک نہیں ملتا- پھر فرمایا کہ )۶( واذا الجحار سجرت جب دریاؤں کو پھاڑا جائے گا یعنی ان میں سے نہریں نکالی جائیں گی اور )۷( واذا النفوس زوجت اور جب لوگ آپس میں جمع کر دئے جائیں گے یعنی آپس کے تعلقات کے ایسے سامان نکل آئیں گے کہ دور دور کے لوگ آپس میں ملا دئیے جائیں گے جیسے آلات ٹیلیفون ہیں کہ ہزاروں میل کے لوگوں کو آپس میں ملا کر باتیں کروا دیتے ہیں یاریل اور تار اور ڈاک کے انتظام ہیں کہ ساری دنیا کو انہوں نے ایک شہر بنا دیا ہے )۸( واذا الموء دہ سئلت بای ذنب قتلت اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکیاں یا عورتیں پوچھی جائیں گی- یعنی مذہبی طور پر انسان کا زندہ گاڑ دینا خواہ جائز ہو مگر قوانین حکومت اس کی اجازت نہ دیں گے اور صرف مذہبی جواز کا فتوی پیش کر دینا قبول نہ کیا جائے گا- جیسے کہ اس زمانہ سے پہلے زمانوں میں ہوتا چلا آیا ہے واذا الصحف نشرت اور جب کہ کتب اور اخبارات اور رسالہ جات پھیلائے جائیں گے جیسا کہ آجکل ہے کہ اخبارات اور کتب کی کثرت کو دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے )۱۱( واذا السماء کشطت اور جب آسمان کا چھلکا اتارا جائے گا- یعنی آسمانی علوم کا ظہور ہو گا علم ہئیت کی ترقی کے ذریعے سے بھی اور علوم قرآنیہ کے اظہار اور اشاعت کے ذریعے سے بھی )۱۲( واذا الجحیم سعرت اور دوزخ بھڑکا دی جائے گی یعنی نئے نئے علوم ایجاد ہونگی جن کی وجہ سے لوگوں کو دین سے
۵۱۰ نفرت ہو جائے گی اور دلوں سے ایمان نکل جائے گا اور عیش وعشرت کے سامانوں کی کثرت سے بھی لوگوں میں فساد پیدا ہو جائے گا )۱۳ واذا الجنہ ازلفت اور جب جنت قریب کر دی جائے گی یعنی اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کا فضل بھی جوش میں آئے گا اور جنت بھی قریب کر دی جائے گی` یعنی جب فساد اور شرارت بڑھ جائے گی اور بے دینی ترقی کر جائے گی اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایسا سامان کر دیگا کہ لوگوں کے ایمان تازہ ہوں اور دین کی خوبی ظاہر ہو جائے اور ان کاموں کا کرنا لوگوں کے لئے آسان ہو جائے جن کے کرنے پر جنت ملتی ہے- اب آپ غور کر کے دیکھ لیں کہ کیا یہ سب نشانیاں اس زمانے کی نہیں ہیں اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان علامات کو قیامت یا کسی اور زمانے پر لگایاجائے- صرف واذا الشمس کورت اور اذا النجوم انکدرت کے الفاظ سے دھوکا کھا کر یہ خیال کر لینا کہ یہ باتیں قیامت کو ہونگی کب جائز ہو سکتا ہے جب کہ اس کی باقی آیات کا قیامت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا` قیامت کو دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں بھلا کیوں چھوڑ دی جائیں گی؟ دریاؤں میں سے اس دن نہریں کیوں نکالی جائیں گی؟ یا یہ کہ دریا آپس میں کیوں ملائے جائیں گے اور موؤودہ کے متعلق اس وقت کیوں سوال ہوگا؟ اعمال کے متعلق پرسش تو فنا کے بعد حشرِ اجساد کے دن ہو گی` نہ کہ جس وقت کارخانہ عالم درہم برہم ہو رہا ہوگا- اسی طرح ان آیات کے مابعد بھی ایسی باتوں کا ذکر ہے جو ثابت کر رہی ہیں کہ اسی دنیا میں یہ سب کچھ ہونے والا ہے جیسے والیل اذا عسعس والصبح اذا تنفس اور رات کی قسم جب وہ جاتی رہے گی اور صبح کی قسم جب وہ سانس لے گی یعنی طلوع ہونے لگے گی اور جب کہ شروع میں اذا الشمس کورت آچکا ہے اگر اس سورہ میں قیامت کا ہی ذکر ہو تو سورج کے لپیٹے جانے کے بعد رات کس طرح چلی جائے گی اور صبح کس طرح نمودار ہونے لگے گی` غرض ان باتوں کا جو اس سورہ میں بیان ہوئی ہیں قیامت کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں` ہاں اس زمانے کے حالات کے یہ بالکل مطابق ہیں اور گویا اس وقت کا پورا نقشہ ان میں کھینچ دیا گیا ہے پس درحقیقت اس زمانے کی خرابیوں اور مادی ترقیوں اور گناہوں کی کثرت اور پھر اللہ تعالیٰ
۵۱۱ کے فضل کی اس سورہ میں خبر دی گئی تھی جس کو پڑھ کر مومن کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور سب شکوک وشبہات ہوا ہو جاتے ہیں- یہ ایک مثال میں نے ان اخبار کی دی ہے جو اس زمانے کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور جن کو حضرت اقدسؑ ؑنے خود بیان فرمایا ہے ،یا جن کو آپ کے بتائے ہوئے اصول کے ماتحت آپ کے خدام نے قرآن کریم سے اخذ کیا ہے ورنہ اس زمانے کے مفاسد اور حالات کی خبریں اور ان کے علاج قرآن کریم میں اس کثرت سے بیان ہوئے ہیں کہ ان کو دیکھ کر سخت سے سخت دشمن بھی یہ اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے جس سے ماضی حال اور مستقبل کسی زمانے کے بھی حالات کو پوشیدہ نہیں مگر ان کے بیان کرنے سے اصل مضمون رہ جائے گا اور یہ مکتوب بہت زیادہ لمبا ہو جائے گا- دوسرا اصولی علم جو قرآن کریم کے متعلق آپ کو دیا گیا یہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی دعویٰ بلا دلیل بیان نہیں کیا جاتا اس اصل کے قائم کرنے سے اس کے علوم کے انکشاف کے لئے ایک نیا دروازہ کھل گیا اور جب اس کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہزاروں باتیں جو اس سے پہلے بطور دعوے کے سمجھی جاتی تھی اور ان کی دلیل یہ سمجھ لی گئی تھی کہ خدا نے کہا ہے اس لیے مان لو` وہ سب اپنے دلائل اپنے ساتھ رکھتی تھیں- اس دریافت کا یہ نتیجہ ہوا کہ فطرت انسانی نے جو علوم کی ترقی کی وجہ سے اس زبردستی کی حکومت کا جوا اتار پھینکنے کے لئے تیار ہو رہی تھی عقلی طور پر تسلی پاکر نہایت جوش اور خروش سے قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول سے لپٹ گئی اور قرآن کریم کی باتوں کے ماننے میں بجائے ایک بوجھ محسوس ہونے کے فرحت حاصل ہونے لگی اور محسوس ہونے لگا کہ قرآن کریم ایک طوق کے طور پر ہماری گردنوں میں نہیں ڈالا گیا بلکہ ایک واقف کار رہنما کی مانند ہمارے ہمراہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰٰ کی ذات کے وہ زبردست ثبوت آپ نے قرآن کریم سے پیش کئے جن کو موجودہ سائنس رد نہیں کر سکتی اور جن کے اثر سے تعلیم یافتہ دہریوں کی ایک جماعت واپس خدا پرستی کی طرف آرہی ہے- اسی طرح آپ نے ملائکہ پر جو اعتراض ہوتے تھے ان کے جواب قرآن کریم سے دئیے، نبوت کی ضرورت اور نبیوں کی صداقت کے دلائل قرآن کریم سے بیان کئے، قیامت کا ثبوت قرآن کریم سے پیش کیا، اعمال صالحہ کی ضرورت اور ان کے فوائد اور نواہی کے خطرناک نتائج
۵۱۲ اور ان سے بچنے کی ضرورت یہ سب مسائل اور ان کے سوا باقی اور بہت سے مسائل کے متعلق آپ ؑ نے قرآن کریم ہی کے ذکر کردہ عقلی اور نقلی دلائل بیان کر کے ثابت کر دیا کہ قرآن کریم پر علوم جدیدہ کی دریافت کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا` کیونکہ آپ ؑنے بتایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰٰ کا فعل اور اس کا قول مخالف ہوں` جو کلام اس کے مخالف ہے وہ اس کا کلام ہی نہیں اور جو اس کا کلام ہے وہ اس کے فعل کے مخالف نہیں ہو سکتا- ان علوم کے بیان کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت صرف آپ ؑہی کی جماعت ہے جو ایک طرف تو علوم جدیدہ کی تحصیل میں پوری لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف سیاسی ضرورت یا نسلی تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ سچے طور پر تقلیدی طور پر نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت اسلام کے بیان کردہ تمام عقائد پر یقین رکھتی ہے اور ان کی صداقت کو ثابت کر سکتی ہے- باقی جس قدر جماعتیں ہیں وہ ان علوم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے تو علوم جدیدہ کی تکذیب کر کے اور ان کے حصول کو کفر قرار دیکر اپنے خیالی ایمان کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں یا پھر ان کے اثر سے متاثر ہو کر دیں کو عملاً چھوڑ بیٹھی ہیں یا ظاہر میں لوگوں کے خوف سے اظہار اسلام کرتی ہیں مگر دل میں سو قسم کے شکوک اور شبہات اسلامی تعلیم کے متعلق رکھتی ہیں- تیسرا اصولی علم قرآن کریم کے متعلق آپ کو یہ دیا گیا ہے کہ انسانی عقل کوئی شبہ یا وسوسہ قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق پیدا کر لے` اس کا جواب قرآن کریم کے اندر موجود ہے اور آپ نے اس مضمون کو اس وسعت سے بیان کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے- ہر قسم کے وساوس اور شکوک کا جواب آپ نے قرآن کریم سے دیا ہے اور اس طرح نہیں کہ کہہ دیا ہو کہ قرآن کریم اس خیال کو رد کرتا ہے اس لئے یہ خیال مردود ہے بلکہ ایسے دلائل کے ذریعہ سے جو گو بیان تو قرآن کریم نے کئے ہیں مگر ہیں عقلی اور علمی جن کو ماننے پر ہر مذہب وملت کے لوگ مجبور ہیں- چوتھا اصولی علم قرآن کریم کے متعلق آپ کو یہ دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے لوگ عام طور پر یہ تو بیان کرتے تھے کہ قرآن کریم سب کتب سے افضل ہے مگر یہ کسی نے ثابت نہ کیا تھا کہ کتب مقدسہ یا دوسری تصانیف پر اسے کیا فضیلت حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ بے نظیر ہے اور بے مثل ہے اس مضمون کو آپ ؑنے قرآن کریم ہی کے بیان کردہ دلائل سے اس وسعت سے ثابت کیا ہے کہ بے اختیار انسان کا دل قرآن کریم پر قربان ہونے کو چاہتا ہے اور محمد
۵۱۳ رسول اللہ ﷺپر فدا ہونے کو چاہتا ہے جن کے ذریعے سے یہ تعلیم ہمیں ملی- پانچواں اصولی علم جو آپ کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ قرآن ذولمعانی ہے اس کے کئی بطون ہیں اس کو جس عقل اور جس فہم کے آدمی پڑھیں اس میں ان کی سمجھ اور ان کی استعداد کے مطابق سچی تعلیم موجود ہے گویا الفاظ ایک ہیں لیکن مطالب متعدد ہیں اگر معمولی عقل کا آدمی پڑھے تو وہ اس میں ایسی موٹی موٹی تعلیم دیکھے گا جس کا ماننا اور سمجھنا اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا اور اگر متوسط درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں مضمون پائے گا اور اگر اعلیٰ درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں علم پائے گا- غرض یہ نہ ہو گا کہ کم علم لوگ اس کتاب کا سمجھنا اپنی عقل سے بالا پائیں` یا اعلیٰ درجہ کے علم کے لوگ اس کو ایک سادہ کتاب پائیں اور اس میں اپنی دلچسپی اور علمی ترقی کا سامان نہ دیکھیں- چھٹا اصولی علم آپ کو قرآن کریم کے متعلق یہ دیا گیا کہ قرآن کریم علاوہ روحانی علوم کے ان ضروری علوم مادیہ کا بھی بیان کرتا ہے جن کا معلوم ہونا انسان کے لیے ضروری- اور ان علوم کا انکشاف زمانے کی ترقی کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے تاکہ ہر زمانے کے لوگوں کا ایمان تازہ ہو- ساتواں اصولی علم آپ کو یہ دیا گیا کہ تفسیر قرآن کریم کے متعلق آپ کو وہ اصول سمجھائے گئے کہ جن کو مدنظر رکھ کر انسان تفسیر قرآن کریم میں غلطی کھانے سے محفوظ ہو جاتا ہے اور جن کی مدد سے انسان پر نئے سے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ہے اور ہر دفعہ قرآن کریم کا مطالعہ اس کے لئے مزید لذت اور سرور کا موجب ہوتا ہے- آٹھواں اصولی علم آپ ؑکو قرآن کریم کے متعلق یہ دیا گیا کہ قرآن کریم سے تمام روحانی ترقیات کے مدارج آپؑ کو سکھائے گئے اور جو علم اس سے پہلے لوگ اپنی عقل سے دریافت کر رہے تھے اور بعض دفعہ غلطی کھا جاتے تھے ان کے متعلق آپؑ کو قران کریم سے علم دیا گیا اور سمجھایا گیا کہ تمام روحانی حالتیں ادنیٰ سے لیکر اعلیٰ تک قرآن کریم نے ترتیب وار بیان کی ہیں جن پر چل کر انسان اللہ تعالیٰٰ تک پہنچ سکتا ہے اور اس کے ثمرات ایمان بھی کھاتا جاتا ہے- یہ بات پہلے لوگوں کو میسر نہ تھی کیونکہ وہ قرآن کریم کی مختلف یات سے تو استدلال کرتے تھے مگر سب مدارج روحانیہ یکجائی طور پر ان کو قرآن کریم سے معلوم نہ تھے-
۵۱۴ نواں اصولی آپ کو یہ دیا گیا کہ قرآن کریم تمام کا تمام کیا سورتیں اور کیا آیتیں سب کا سب ایک خاص ترتیب کے ساتھ اترا ہوا ہے` اس کا ایک ایک فقرہ اور ایک ایک جملہ اپنی صحیح جگہ پر رکھا ہوا ہے اور ایسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب اس میں پائی جاتی ہے کہ دوسری کتب کی ترتیب اس کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہے` کیونکہ دیگر کتب کی ترتیب میں صرف ایک ہی بات مدنظر رکھی جاتی ہے کہ مناسب مضامین یکے بعد دیگرے آجائیں` لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں یہ خصوصیت ہے کہ اس میں مضامین کی ترتیب نہ صرف مضامین کے لحاظ سے ہے بلکہ ایسی طرز سے ہے کہ مختلف جہات سے اس کی ترتیب قرار دی جا سکتی ہے - یعنی اگر مختلف مطالب کو مدنظر رکھا جائے تو ہر مطلب کے لحاظ سے اس کے اندر ترتیب پائی جاتی ہے یہ نہیں کہ اس کی ایک تفسیر کریں تو ترتیب قائم رہے اور دوسری تفسیر کریں تو ترتیب میں خلل آجائے بلکہ جس قدر معنے اس کے صحیح اور مطابق اصول تفسیر کے ہیں ان سب کی رعایت کو مدنظر رکھا گیا ہے اور کوئی سے معنے لے کر اس کی تفسیر شروع کر دو اس کی ترتیب میں فرق نہیں آئے گا اور یہ ایسی صفت ہے کہ کسی انسانی کلام میں نہیں پائی جاتی اور نہ پائی جا سکتی ہے- دسواں اصولی علم آپ کو یہ دیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں نیکیوں اور بدیوں کے مدارج بیان کئے گئے ہیں- یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ کون کون سی نیکی کی تحریک ہوتی ہے اور کون کون سی بدی سے کون کون سی بدی پیدا ہوتی ہے- اس علم کے ذریعے سے انسان اخلاق کی اصلاح میں عظیم الشان فائدہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ اس تدریجی علم کے ذریعے سے وہ بہت سی نیکیوں کو حاصل کر سکتا ہے جن کو وہ پہلے باوجود کوشش کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور بہت سی بدیوں کو چھوڑ سکتا ہے جن کو وہ باوجود بہت سی کوشش کے نہیں چھوڑ سکتا تھا` گویا قرآن کریم کا یہ عظیم الشان معجزہ آپ نے بتا دیا ہے کہ اس نے انسان کو نیکیوں اور بدیوں کے چشمے بتا دئیے ہیں جہاں پہنچکر وہ اپنی پیاس کو بجھا سکتا ہے` یا تباہ کرنے والے طوفان کو روک سکتا ہے- گیارھواں اصولی علم آپ کو یہ بتایا گیا کہ سورہ فاتحہ قرآن کریم کے سب مضامین کا خلاصہ ہے اور باقی قرآن کے لیے بمنزلہ تن ہے اور کل اصولی مسائل اس کے اندر بیان کئے گئے ہیں اور نہایت مفصل اور ضخیم تفاسیر آپ نے اس سورہ کی شائع کیں اور نہایت پر لطف ایمان کو تازہ کرنے والے مضامین اس سے اخذ کر کے تقسیم کئے` اس علم کے ذریعے سے آپ نے حفاظت اسلام کے کام کو آسان کر دیا` کیونکہ ہر ایک بات جو مفصل میں سے انسان کی سمجھ نہ
۵۱۵ آئے وہ اس مجمل پر نگاہ کر کے اس کو سمجھ سکتا ہے اور صرف اسی سورہ کو لے کر تمام دنیا کے ادیان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور کل مدارج روحانی کو معلوم کر سکتا ہے- یہ تو بعض امثلہ اصولی علوم کی میں نے بیان کی ہیں ان کے علاوہ بارھواں علم قرآن کریم کے متعلق آپ کو تفصیلی دیا گیا ہے جس کے مطابق مختلف آیات کے تراجم اور ان کے معارف جو آپ نے بیان کئے ہیں اور ضروریات زمانہ کے متعلق جو ہدایات آپ نے قرآن کریم سے اخذ کی ہیں ان کو اگر بیان کیا جائے تو اس کے لیے کئی مجلد کتابیں چاہئیں` ان کے چشموں نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ کا اس مبداء فیض سے خاص تعلق ہے جو علم ہے اور جس کی نسبت آتا ہے- ولا یحیطون بشی من علمہ الا بماشاء )بقرہ ع ۳۴ (256: کیونکہ انسان کی طاقت سے بالکل باہر ہے کہ وہ ایسے علوم کو اپنی عقل سے دریافت کر سکے- آپ کے بتائے ہوئے علوم اور اصول کے مطابق جب ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں تو اس کے اندر علوم کے سمندر موجیں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں جن کا کنارہ نظر نہیں آتا- آپ نے آیت لایمسہ الا المطھرون )الواقعہ(80: کے مضمون کی طرف توجہ دلا کر بار بار اپنے مخالفوں کو توجہ دلائی کہ اگر آپ لوگوں کے خیالات کے مطابق میں جھوٹا ہوں تو پھر وجہ کیا ہے کہ ایسے باریک در باریک علم مجھے عطا کئے جاتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو بار بار دعوت مقابلہ دی کہ اگر تم میں سے کوئی عالم یا شیخ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے تو میرے مقابلے پر علوم قرآن کو ظاہر کرے اور ایسا کیا جائے کہ ایک جگہ ایک ثالث شخص بطور قرعہ اندازی قرآن کریم کا کوئی حصہ نکال کر دونوں کو دے اور اس کی تفسیر معارف جدیدہ پر مشتمل دونوں لکھیں پھر دیکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کس فریق کی مدد کرتا ہے مگر باوجود بار بار پکارنے کے کوئی مقابلے پر نہ آیا اور آتا بھی کیونکر؟ کیونکہ آپ کا مقابلہ تو الگ رہا علوم قرآن میں آپ کے خدّام کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور قرآن کریم گویا اس وقت صرف ہمارا ہی ہے- اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے میں آپ کی ایک فارسی نظم قرآن کریم کے متعلق درج کرتا ہوں جس میں آپ نے علوم قرآنیہ کے متعلق لوگوں کو توجہ دلائی ہے- از نور پاک قرآن من صفا و میده بر غنچہ ہاۓ دلها باد صبا وزیده اسیں روشنی و معاں مالی ندارد و ایں دلبری و خوبی کس در قمر ندیده يوسف بقعر چاه محبوس باند تنها و ایں وسفے کے تن با از چاه بر کشیده
۵۱۶ از مشرق معانی صدہا دقائق آورد قد ہلال نازک زاں نازکی خمیده کیفیت علومش دانی چہ شان دارد؟ شہدیت آسمانی از وحی حق چکیده آں نیر صداقت چوں رو برام آورد ہر یوم شب پرستے در کنج خور خزیده روئے یقیں نہ ببند ہرگز کسے بدنیا الا کسے کم باشد با رویش آرمیده | آن کسی که عالمش شد شد مخزن معارف و آں بے خبر ز عالم کیں عالمے ندیده باران فضل رحمن، آمد ہمقدم او بد قسمت آنکہ ازوے سوئے دگر دویده میل بدی نباشد، الا رگے ز شیطاں آن را بشر بدانم کز ہر شے رہیده اے کان دلربائی دانم که از کجائی تونور آں خدائی گیں خلق آفریده میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده دسویں دلیل دسویں دلیل آپ ؑکی صداقت کی کہ وہ بھی درحقیقت سینکڑوں بلکہ ہزاروں دلائل پر مشتمل ہے یہ ہے کہ آپ ؑکو اللہ تعالیٰ نے نہایت کثرت سے اپنے غیب پر مطلع کیا تھا` پس معلوم ہوا کہ آپؑ خدا کے فرستادہ تھے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول )سورہ جن ع۲ (27,28: یعنی وہ غیب پر کثرت سے اطلاع نہیں دیتا مگر اپنے رسولوں کو )اظھر علیہ کے معنے ہیں اس کو اس پر غلبہ دیا اس پر وحی مصفیٰ پانی کی طرح ہو جو ہر قسم کی کدورت سے پاک ہو اور روشن نشان کو دئیے جاویں اور عظیم الشان امور سے قبل از وقت اسے آگاہ کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کا مامور ہے اور اس کا انکار کرنا گویا قرآن کریم کا انکار کرنا ہے جس نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے اور سب نبیوں کا انکار کرنا ہے جنہوں نے اپنی صداقت کے ثبوت میں ہمیشہ اس امر کو پیش کیا ہے چنانچہ بائیبل میں بھی آتا ہے کہ جھوٹے نبی کی علامت ہے کہ جو بات وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہے وہ پوری نہ ہو-
۵۱۷ اس معیار کے ماتحت جب ہم حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کے دعوے کو دیکھتے ہیں تو آپ کی سچائی ایسے دن کی طرح نظر آتی ہے جس کا سورج نصف النہار پر ہو آپؑ پر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت اور اس تواتر کے ساتھ غیب کی خبریں ظاہر کیں کہ رسول کریم ﷺکے سوا اور کسی نبی کی پیشگوئیوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی بلکہ سچ یہ ہے کہ ان کی تعداد اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ اگر ان کو تقسیم کیا جائے تو کئی نبیوں کی نبوت ان سے ثابت ہو جائے میں ان اخبار غیبیہ میں سے بارہ بطور مثال کے پیش کرتا ہوں- یہ پیشگوئیاں جو آپ نے کیں، بیسیوں اقسام کی تھیں،بعض سیاسی امور کے متعلق تھیں- بعض اجتماعی امور کے متعلق تھیں بعض تغیرات جو کے متعلق تھیں، بعض مذہبی امور کے متعلق تھیں` بعض دماغی قابلیتوں کے متعلق تھیں، بعض نسلی ترقی یا قطع نسل کے متعلق تھیں-،بعض تغیرات زمینی کے متعلق تھیں، بعض تعلقات دُول کے متعلق تھیں ،بعض تعلقات رعایا وحکام کے متعلق تھیں ،بعض اپنی ترقیات کے متعلق تھیں، بعض دشمنوں کی ہلاکت کے متعلق تھیں، بعض آئندہ حالات دنیا کے متعلق تھیں- غرض مختلف انواع واقسام کے امور کے متعلق تھیں کہ ان کی اقسام ہی ایک لمبی فہرست میں بیان کی جا سکتی ہیں- اب میں ذیل میں بارہ پیشگوئیاں آپ کی جو پوری ہو چکی ہیں بیان کرتا ہوں اور سب سے پہلے اس پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو افغانستان ہی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے- پہلی پیشگوئی صاحبزادہ عبداللطیف شہیدومولوی عبدالرحمن صاحب شہید کی شہادت اور واقعات مابعد کے متعلق اے بادشاہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور ان غلطیوں کے بدنتائج سے محفوظ رکھے جن کے ارتکاب میں آپ کا کوئی دخل نہ تھا` آج سے چالیس سال پہلے حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام میں بتایا گیا تھا کہ شاتان تذبحان وکل من
۵۱۸ علیھا فان دو بکرے ذبح کئے جاویں گے اور ہر ایک جو اس زمین پر بستا ہے فنا ہو جائے گا.علم التعبیر کے مطابق شاۃ کی دو تعبیریں ہو سکتی ہیں` ایک تو عورتوں اور دوسرے نہایت مطیع اور فرمانبردار رعایا، چونکہ عورتوں کے معنوں کے ساتھ اگلے فقرے کا کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا کیونکہ عورتوں کو ذبح ہونے سے کم ہی تعلق ہوتا ہے- زیادہ تر جان دینے والے مرد ہوتے ہیں- اس لیے زیادہ تر قرین قیاس کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ دو آدمی جو اپنے بادشاہ کے نہایت فرمانبردار اور مطیع ہوں گے باوجود اس کے کہ انہوں نے کوئی جرم اپنے بادشاہ کا نہ کیا ہو گا اور اس کا کوئی قانون نہ توڑا ہو گا اور سزائے قتل کے مستحق نہ ہوں گے قتل کئے جاویں گے اور اس کے بعد ملج پر ایک عام تباہی آوے گی اور ہلاکت اس میں ڈیرے ڈال لے گی- اس پیشگوئی میں گو ملک وغیرہ کا کچھ نشان نہیں دیا گیا تھا مگر اس کی عبارت سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے تھا کہ اول تو یہ واقعہ انگریزی علاقہ میں نہیں ہو گا` بلکہ کسی ایسے ملک میں ہو گا جہاں عام ملکی قانون کی اطاعت کرتے ہوئے بھی لوگوں کے غصے اور ناراضگی کے نتیجے میں انسان قتل کئے جا سکتے ہیں- دوم یہ کہ یہ مقتول ملہم کے پیروؤں میں سے ہوں گے` کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کو صرف دو مقتولوں کے متعلق خبر دینے کی کوئی وجہ نہ تھی- تیسری یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ قتل ناواجب ہوگا- کسی سیاسی جرم کے متعلق نہ ہوگا` چوتھے یہ کہ اس ناواجب فعل کے بدلے میں اس ملک پر ایک عام تباہی آوے گی- یہ چاروں باتیں مل کر اے بادشاہ! اس پیشگوئی کو معمولی پیشگوئیوں سے بہت بالا کر دیتی ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ اس میں ملک کی تعیین نہیں اس لیے یہ پیشگوئی مبہم ہے ان چاروں باتوں کا ایک یکجا طور پر پورا ہونا پیشگوئی کی عظمت کو ثابت کر دیتا ہے کیونکہ یہ چاروں باتیں اتفاقی طور پر جمع نہیں ہو سکتیں- اس پیشگوئی کے بعد قریباً بیس سال تک کوئی ایسے آثار نظر نہ آئے جن سے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوتی معلوم ہو- مگر جب کہ قریباً بیس سال اس الہام پر گزر گئے تو ایسے سامان پیدا ہونے لگے جنہوں نے اس پیشگوئی کو حیرت انگیز طور پر پورا کر دیا` اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی بعض کتب کوئی شخص افغانستان میں لے گیا اور وہاں خوست کے ایک عالم سید عبداللطیف صاحب کو جو حکومت افغانسان میں عزت کی نگاہ سے دیکھے
۵۱۹ جاتے تھے اور بڑے بڑے حکام ان کا تقوی اٰور دیانت دیکھ کر ان سے خلوص رکھتے تھے وہ کتب دیں- آپ نے ان کتابوں کو پڑھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ حضرت اقدسؑ ؑراستباز اور صادق ہیں اور اپنے ایک شاگرد کو مزید تحقیقات کے لیے بھیجا اور ساتھ ہی اجازت دی کہ وہ ان کی طرف سے بیعت بھی کر آئے- اس شاگرد کا نام مولوی عبدالرحمن تھا- انہوں نے قادیان آکر خود بھی بیعت کی اور مولوی عبداللطیف صاحب کی طرف سے بھی بیعت کی- اور پھر حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی کتب لے کر واپ افغانسان کو چلے گئے- اور ارادہ کیا کہ پہلے کابل جائیں تاکہ وہاں اپنے بادشاہ تک بھی اس دعوت کو پہنچا دیں- ان کے کابل پہنچنے پر بعض کو تاہ اندیش بدخواہان حکومت نے امیر عبدالرحمن ٰصاحب کو ان کے خلاف اُکسایا اور کہا کہ یہ شخص مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے اور ان کو دھوکا دیکر ان کے قتل کا فتویٰ حاصل کیا اور نہایت ظالمانہ طور پر ان کو قتل کر دیا اور وہ جو اپنے بادشاہ سے اس قدر پیار کرتا تھا کہ پیشتر اس کے کہ اپنے وطن کو جاتا پہلے اپنے بادشاہ کے پاس یہ خوشخبری لے کر پہنچا کہ خدا کا مسیح اور مہدی آگیا ہے- اس کی محبت اور اس کے پیار کا اس کو یہ بدلہ دیا گیا کہ اسے گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کر کے شہید کر دیا گیا` مگر اس واقعہ میں اللہ تعالیٰٰ کا ہاتھ تھا` اس نے قریب میں بیس سال پہلے دو وفادار افراد رعایا کی بلاکسی قانون شکنی کے قتل کئے جانے کی خبر دیدی تھی اور اس خبر کو پورا ہو کر رہنا تھا- سو اس قتل کے ذریعے سے ان دو شخصوں میں سے جن کے قتل کی خبر دی گئی تھی ایک قتل ہو گیا- اس واقعہ کے ایک دو سال کے بعد صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید حج بیت اللہ کا ارادے سے اپنے وطن سے روانہ ہوئے- چونکہ حضرت اقدسؑ کی بیعت تو کر ہی چکے تھے- ارادہ کیا کہ جاتے وقت آپ سے بھی ملتے جائیں` چنانچہ اس ارادے سے قادیان تشریف لائے مگر یہاں آکر اس سے پہلے جو کتابوں کے ذریعے سے سمجھا تھا بہت کچھ زیادہ دیکھا اور صفائی قلب کی وجہ سے نور الٰہی کی طرف ایسے جذب کئے گئے کہ حج کے ارادے کو ملتوی کر دیا او قادیان ہی رہ گئے` چند ماہ کے بعد واپس وطن کو گئے اور فیصلہ کر لیا کہ اپنے بادشاہ کو بھی اس نعمت میں شریک کروں جو مجھے ملی ہے اور خوست پہنچتے ہی چار خط کابل کے چار درباریوں کے نام لکھے ان خطوط کے کابل پہنچنے پر جناب کے والد امیر حبیب اللہ خان صاحب والی ریاست کابل کہ لوگوں نے بھڑکایا اور قسم قسم کے جھوٹے اتہام لگا کر ان کو اس بات پر آمادہ کر
۵۲۰ دیا کہ وہ ان کو پکڑوا کر کابل بلوا لیں- خوست کے گورنر کے نام حکم کیا اور صاحبزادہ عبداللطیف کابل حاضر کئے گئے- امیر صاحب نے آپ کو ملانوں کے سپرد کیا` جنہوں نے کوئی قصور آپ کا پورا کرنا زیادہ مدنظر ہوتا ہے- امیر حبیب اللہ خان صاحب کو بھڑکایا کہ اگر یہ شخص چھوڑ دیا گیا اور لوگوں نے اس کا اثر قبول کر لیا تو لوگوں کے دلوں میں جہاد کا جوش سرد پڑ جائے گا اور حکومت کو نقصان پہنچے گا` آخر ان کے سنگسار کئے جانے کا فتویٰ دیدیا گیا امیر حبیب اللہ خان صاحب نے اپنے نزدیک ان کی خیر خواہی سمجھ کر ان کو کئی دفعہ توبہ کرنے کے لئے کہا` مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں تو اسلام پر ہوں توبہ کر کے کیا کافر ہو جاؤں میں کسی صورت میں بھی اس حق کو نہیں چھوڑ سکتا جسے میں نے سوچ سمجھ کر قبول کیا ہے- جب ان کے رجوع سے بالکل مایوسی ہو گئی تو ایک بڑی جماعت کے سامنے ان کو شہر سے باہر لے جاکر سنگسار کر دیا- یہ وفادار اپنے بادشاہ کا جان نثار چند خود غرض اور مطلب پرست سازشیوں کی سازش کا شکار ہوا اور انہوں نے امیر صاحب کو دھوکا دیا کہ اس کا زندہ رہنا ملک کے لیے مضر ہو گا حالانکہ یہ لوگ ملک کے لیے ایک پناہ ہوتے ہیں اور خدا ان کے ذریعے سے ملک کی بلائیں ٹال دیتا ہے انہوں نے بادشاہ کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ اگر یہ شخص زندہ رہا تو لوگ جہاد کے خیال میں سست ہو جائیں گے مگر یہ نہ پیش کیا کہ یہ شخص جس سلسلے میں ہے اس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کی کامل فرمانبرداری کرو- پس اس کی باتوں کی اشاعت سے افغانستان کی خانہ جنگیاں اور آپس کے اختلاف دور ہو کر سارے کا سارا ملک اپنے بادشاہ کا سچا جان نثار ہو جائے گا اور جہاں اس کا پسینہ بہیگا وہاں اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہوگا اور یہ نہ بتایا کہ جس سلسلے سے یہ تعلق رکھتا ہے اس کی تعلیم یہ ہے کہ خفیہ سازشیں نہ کرو- رشوتیں نہ لو- جھوٹ نہ بولو اور منافقت نہ کرو اور نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ اس کی پابندی بھی کروائی جاتی ہے پس اگر اس کے خیالات کی اشاعت ہوئی تو ایک دم ملک کی حالت سدھر کر ہر طرح کی ترقیات شروع ہو جائیں گی- اسی طرح انہوں نے یہ نہ بتایا کہ یہ اس جہاد کا منکر ہے کہ غیر اقوام پر بلا ان کی طرف سے مذہبی دست اندازی کے حملہ کیا جائے اور اسلام کو بدنام کیا جائے- نہ کہ اس حقیقی دفاعی جہاد کا جو خود رسول کریم ﷺنے کیا اور نہ ان سیاسی جنگوں کا جو ایک قوم اپنی ہستی کے قیام کے لیے دوسری اقوام سے کرتی ہے- اس کا تو صرف یہ عقیدہ ہے کہ بغیر اس کے
۵۲۱ کہ غیر اقوام کی طرف سے مذہبی دست اندازی ہو ان کے ساتھ جہاد کے نام پر جنگ نہیں کرنی چاہئیے تا اسلام پر حرف نہ آئے- سیاسی فوائد کی حفاظت کے لیے اگر جنگ کی ضرورت پیش آئے تو بے شک جنگ کریں مگر اس کا نام جہاد نہ رکھیں کیونکہ وہ فتح جس کے لیے اسلام کی نیک نامی کو قربان کیا جائے اس شکست سے بدتر ہے جس میں اسلام کی عزت کی حفاظت کر لی گئی ہو- غرض بلاوجہ اور امیر حبیب اللہ خان صاحب کو غلط واقعات بتا کر سید عبداللطیف صاحب کو شہیدکرا دیا گیا اور اس طرح الہام کا پہلا حصہ مکمل طور پر پورا ہو گیا کہ شاتان تذبحان- اس جماعت کے دو نہایت وفادار اور اطاعت گزار آدمی باوجود ہر طرح بادشاہ وقت کے فرمانبردار ہونے کے ذبح کر دئیے جائیں گے اور وہ حصہ پورا ہونا باقی رہ گیا کہ اس واقعہ کے بعد اس سر زمین پر عام تباہی آئے گی اور اس کے پورا ہونے میں بھی دیر نہیں لگی- ابھی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت پر ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ کابل میں سخت ہیضہ پھوٹا اور اس کثرت سے لوگ ہلاک ہوئے کہ بڑے اور چھوٹے اس مصیبت ناگہانی سے گھبرا گئے اور لوگوں کے دل خوف زدہ ہو گئے اور عام طور پر لوگوں نے محسوس کر لیا کہ یہ بلا اس سید مظلوم کی وجہ سے ہم پر پڑی ہے جیسا کہ ایک بے تعلق شخص مسٹر اے فرنک مارٹن کی جو کئی سال تک افغانستان کی حکومت میں انجئر انچیف کے عہدے پر ممتاز رہ چکے ہیں- اس شہادت سے ثابت ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب مسمی بہ’’انڈردی ابسولیٹ امر‘‘ میں بیان کی ہے- یہ ہیضہ بالکل غیر مترقبہ تھا- کیونکہ افغانستان میں ہیضے کے پچھلے دوروں پر نظر کرتے ہوئے ابھی اور چار تک اس قسم کی وباء پھوٹ سکتی تھی- پس یہ ہیضہ اللہ تعالیٰٰ کا ایک خاص نشان تھا- جس کی خبر وہ اپنے مامور کو قریباً اٹھائیس سال پہلے دے چکا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ اس پیشگوئی کی مزید تقویت کے لیے اس نے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو بھی اس امر کی اطلاع دے دی تھی` چنانچہ انہوں نے لوگوں سے کہدیا تھا کہ میں اپنی شہادت کے بعد ایک قیامت کو آتے ہوے دیکھتا ہوں اس ہیضے کا اثر کابل کے ہر گھرانے پر پڑا- جس طرح عوام الناس اس حملے سے محفوظ نہ رہے- امراء بھی محفوظ نہ رہے اور ان گھرانوں میں بھی اس نے ہلاکت کا دروازہ کھول دیا جو ہر طرح کے حفظان صحت کے سامان مہیا رکھتے تھے اور وہ لوگ جنہوں نے شہید سید کے سنگسار کرنے میں خاص حصہ لیا تھا` خاص طور پر پکڑے گئے اور بعض خود مبتلا ہوئے اور بعض کے نہایت قریبی رشتہ دار ہلاک ہوئے-
۵۲۲ غرض ایک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰٰ کا کلام لفظاً لفظاً پورا ہوا اور اس نے اپنے قہری نشانوں سے اپنے مامور کی شان کو ظاہر کیا اور صاحب بصیرت کے لیے ایمان لانے کا راستہ کھول دیا کون کہہ سکتا ہے کہ اس قسم کی پیشگوئی کرنا کسی انسان کا کام ہے- کونسا انسان اس حالت میں جب کہ اس پر ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا یہ خبر شائع کر سکتا تھا کہ اس پر کسی زمانے میں کثرت سے لوگ ایمان لے آئیں گے حتیٰ کہ اس کا سلسلہ اس ملک سے نکل کر باہر کے ممالک میں پھیل جائے گا اور پھر وہاں اس کے دو مرید صرف اس پر ایمان لانے کی وجہ سے نہ کہ کسی اور جرم کے سبب سے شہید کئے جاوینگے اور جب ان دونوں کی شہادت ہو چکے گی تو اللہ تعالیٰ اس علاقے پر ایک ہلاکت نازل کرے گا جو ان کے لئے قیامت کا نمونہ ہو گی اور بہت سے لوگ اس سے ہلاک ہونگے- اگر بندہ بھی اس قسم کی خبریں دے سکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے کلام اور بندوں کے کلام میں فرق کیا رہا؟ میں اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کر دینا پسند کرتا ہوں کہ الہام میں لفظ کل من علیھا فان ہے یعنی اس سر زمین کے سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے` لیکن سب لوگ ہلاک نہ ہوئے کچھ لوگ ہلاک ہوئے اور بہت سے بچ گئے` اصل بات یہ ہے کہ عربی زبان کے محاورے میں کل کا لفظ کبھی عمومیت کے لیے اور کبھی بعض کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے- ضروری نہیں کہ اس لفظ کے معنی جمع کے ہی ہوں` چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مکھی کو اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ من کل الثمرات حالانکہ ہر مکھی سارے پھلوں کو نہیں کھاتی- پس اس کے معنے یہی ہیں کہ پھلوں میں سے بعض کو کھا` اسی طرح ملکہ سبا کے متعلق فرماتا ہے واویت من کل شی ء )النمل(24: اس کو ہر ایک چیز دی گئی تھی` حالانکہ وہ دنیا کے ایک نہایت مختصر علاقہ کی بادشاہ تھی- پس اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ دنیا کی نعمتوں میں سے کچھ اس کو دی تھیں- ہاں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جب کل کا لفظ بولا جائے تو وہ اپنے اندر ایک عمومیت رکھتا ہو اور کل افراد میں سے ایک نمایاں حصہ اس میں آجائے اور یہ دونوں باتیں وبائے ہیضہ میں جو شہید مرحوم کی شہادت کے بعد کابل میں پڑی جاتی تھیں` ہر ایک جان اس کے خوف سے لرزاں تھی اور ایک بڑی تعداد آدمیوں کی اس کے ذریعے ہلاک ہوئی حتیٰ کہ ایک انگریز مصنف جو اس الہام کی حقیقت سے بالکل ناواقف تھا اسے بھی اپنی کتاب میں اس ہیضے کا خاص طور پر نمایاں کر کے ذکر کرنا پڑا-
۵۲۳ دوسرا اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ الہام میں لفظ تذبحان کا ہے مگر ان دونوں مقتولوں میں ایک تو گلا گھونٹ کر مارا گیا اور دوسرے صاحب سنگسار کئے گئے- پس یہ بات درست نہ نکلی کہ دو آدمی ذبح کئے گئے یہ اعتراض بھی قلت تدبر اور قلت معرفت کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے- کیونکہ ذبح کے معنے عربی زبان میں ہلاک کرنے کے بھی ہوتے ہیں- خواہ کسی طرح ہلاک کیا جائے اور قرآن کریم میں متعدد جگہ پر یہ محاورہ استعمال ہوا ہے- جیسا کہ حضرت موسیٰ کے واقعہ میں آتا ہے کہ یذبحون ابناء کم ویستحیون نساء کم تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے- حالانکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ فرعونی لوگ لڑکوں کو ذبح نہیں کرتے تھے بلکہ تو دائیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ بچوں کو مار دیں مگر جب انہوں نے رحمدلی سے کام لیا تو دریا میں پھینکنے کا حکم فرعون نے دیا- )خروج باب۱ آیت ۲۲ اور اعمال باب۷ آیت ۱۹- وطالمود( تاج المعروس میں ہے الذبح الھلاک ذبح کے معنے ہلاک کر دینے کے بھی ہوتے ہیں )جلس۲ صفحہ ۱۴۱( پس یہ اعتراض کرنا درست نہ ہو گا کہ سید عبداللطیف صاحب سنگسار کے لئے کئے گئے تھے ذبح نہیں کئے گئے- کیونکہ ذبح کا لفظ ہلاک کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے- خواہ کسی طریق پر ہلاک کیا جائے- دوسری پیشگوئی سلطنت ایران کا انقلاب دوسری پیشگوئی جو میں حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی کثیر التعداد پیشگوئیوں میں سے بیان کرنی چاہتا ہوں وہ آپ کی ہمسایہ سلطنت یعنی ایران کے بادشاہ کے متعلق ہے- پندرہ جنوری ۱۹۰۶ء کو حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کو الہام ہوا کہ >تزلزل در ایوان کسری فتاد< یہ الہام حسب معمول سلسلے کے اردو اور انگریزی اخبارات اور رسائل میں شائر کر دیا گیا- جس وقت یہ الہام شائع ہوا ہے بادشاہ ایران کی حالت بالکل محفوظ تھی کیونکہ ۱۹۰۵ء میں باشندگان ملک کے مطالبات کو قبول کر کے شاہ ایران نے پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کر دیا تھا اور تمام ایران میں اس امر پر خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور بادشاہ مظفر الدین شاہ مقبولیت عامہ حاصل کر رہے تھے ہر شخص اس امر پر خوش تھا کہ انہوں
۵۲۴ نے بلا کسی قسم کی خونریزی کے ملک کو حقوق نیابت عطا کر دئیے ہیں` باقی دنیا میں بھی اس نئے تجربہ پر جو جاپان کو چھوڑ کر باقی ایشیائی ممالک کے لیے بالکل جدید تھا شوق وامید کی نطریں لگائے بیٹھی تھی اور ان خطرناک نتائج سے ناواقف تھی جو نیم تعلیم یافتہ اور ناتجربہ کار لوگوں میں اس قسم کی دو عملی حکومت رائج کرنے سے پیدا ہو سکتے ہین ایسے وقت میں حضرت اقدسؑ علیہ السلام کا یہ الہام شائع کرنا کہ ’’تزلزل درایوان کسی فتاد‘‘دنیا کی نظروں میں عجیب تھا مگر خدا تعالیٰ کے لیے وہ کام معمولی ہوتے ہیں جو لوگوں کو عجیب نظر آتے ہیں ایران اپنی تازہ آزادی پر اور شاہ مظفر الدین اپنی مقبولیت پر خوش ہو رہے تھے کہ ۱۹۰۷ء میں کل پچپن )۵۵( سال کی عمر میں شاہ اس دنیا سے رحلت کر گئے اور ان کا بیٹا مرزا محمد علی تخت نشین ہوا گو محمد علی مرزا نے تخت پر بیٹھتے ہی مجلس کے استحکام اور نیابتی حکومت کے دوام کا اعلان کیا` لیکن چند ہی دن کے بعد دنیا کو وہ آثار نظر آنے لگے جن کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں دی گئی تھی اور حضرت اقدسؑ علیہ السلام کے الہام کے ایک ہی سال بعد ایران میں فتنہ وفساد کے آثار نظر آنے لگے` بادشاہ اور مجلس کی مخالفت شروع ہو گئی اور مجلس کے مطالبات پر بادشاہ نے لیت ولعل کرنا شروع کر دیا- آخر مجلس کے زور دینے پر ان افراد کو دربار سے علیحدہ کرنے کا وعدہ کیا جن کو مجلس فتنے کا بانی سمجھتی تھی مگر ساتھ ہی طہران سے جانے کا بھی ارادہ کر لیا- اس تغیر مکانی کے وقت کا سکوں کی فوج جو بادشاہ کی باڈی گارڈ تھی اور قوم پرستوں کے حمائتیوں کے درمیان اختلاف ہو گیا اور الہام ایک رنگ میں اس طرح پورا ہوا کہ ایران کا دارالمبعوتین توپ خانوں سے اڑا دیا گیا اور بادشاہ نے پارلیمنٹ کو موقوف کر دیا` بادشاہ کے اس فعل سے ملک میں بغاوت کی عام رو پھیل گئی اور لاستان لابد جان` اکبر آباد` بوشہر اور شیراز اور تمام جنوبی ایران میں علی الاعلان حکام سلطنت کو برطرف کر کے ان کی جگہ جمہوریت کے دلدادوں نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی` خانہ جنگی شروع ہو گئی اور بادشاہ نے دیکھ لیا کہ حالت نازک ہے خزانہ اور اسباب روس کے ملک بھیجنا شروع کر دیا اور پورا زور لگایا کہ بغاوت فرد ہو` مگر پھوٹ پڑی اور بختیاری سردار بھی قوم پرستوں کے ساتھ مل گئے اور شاہی فوج کو سخت شکست دی` بادشاہ نے ڈکر کر حکومت نیابتی کی حفاظت کا عہد کیا اور بار بار اعلان کئے کہ وہ استبدادی حکومت کو ہرگز قائم نہیں کرے گا مگر خدا کے وعدے کب ٹل سکتے تھے- ایوان کسریٰ میں
۵۲۵ گھبراہٹ بڑھتی گئی اور آخر وہ دن آگیا کہ کاسک فوج بھی جس پر بادشاہ کو ناز تھا بادشاہ کو چھوڑ کر باغیوں سے مل گئی اور بادشاہ اپنے حرم سمیت اپنے ایوان کو چھوڑ کر ۱۵ جولائی ۱۹۰۹ء کو روسی سفارت گاہ میں پناہ گزیں ہو گیا اور پورے اڑھائی سال کے بعد حضرت اقدسؑ مسیح موعود ؑکا الہام ’’تزلزل درایوان کسریٰ فتاد‘‘ نہایت عبرت انگیز طور پر پورا ہوا.ایران سے استبدادیت کا خاتمہ ہو گیا اور جمہوریت کا نیا تجربہ جس کت نتائج خدا کو معلوم ہیں شروع ہوا.جون اور جولائی کے مہینوں میں گھبراہٹ خوف اور یاس کے بادل جو ایوان کسریٰ پر چھا رہے تھے ان کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس قسم کے حالات کا مشاہدہ کر چکے ہوں` ہوں` یا اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے ان کو غیر معمولی قوت متخیلہ ملی ہو` مگر بہر حال صاحب بصیرت کے لیے یہ نشان حضرت اقدسؑ علیہ السلام کی سچائی کا بہت بڑا ثبوت ہے مگر کم ہیں جو فائدہ اٹھاتے ہیں- تیسری پیشگوئی آتھم کے متعلق پیشگوئی جس سے دنیا کے مسیحیوں پر عموماً اور ہندوستان کے مسیحیوں پر خصوصاً حجت پوری ہوئی تیسری مثال پیشگوئیوں کی میں ان امور غیبیہ میں سے بیان کرتا ہوں جو حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحی معاندین ِاسلام کے خلاف شائع کیں تاکہ مسیحی دنیا پر حجت قائم ہو- اے بادشاہ! میں نہیں جانتا کہ آپ کو ان حالات سے واقفیت ہے یا نہیں کہ مسیحی مناد اور مبلغ مسلمانوں کے غلط عقائد اور ان کے بیان کردہ غلط روایات سے فائدہ اٹھا کر رسول کریم ﷺپر سخت سے سخت حملے کرنے کے عادی ہیں مگر ان کے حملوں کی سختی آج سے تیس ،چالیس سال پہلے جس حد کو پہنچی ہوئی تھی اس کی مثال آجکل نہیں مل سکتی- ان لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی زبان درازی کو دیکھ کر حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت زور سے ان کا مقابلہ کرنا شروع کیا اور آخر آپ کے حملوں کی تاب نہ لاکر مسیحی حملہ آور اپنے مقام کو چھوڑ گئے اور اب اس طرز تحریر کا نام نہیں لیتے جو اس وقت انہوں نے اختیار کر چھوڑی تھی ان لوگوں میں سے جو سخت گندہ دہانی سے کام لیتے تھے ایک صاحب ڈپٹی عبداللہ آتھم بھی تھے-
۵۲۶ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں نے حضرت اقدسؑ علیہ السلام اور ان کے درمیان امرت سر میں مباحثہ کروا دیا` مباحثہ میں عبداللہ آتھم صاحب بہت کچھ ہاتھ پیر مارتے رہے مگر ان سے کچھ نہ بنا اور اپنوں پرایوں میں ان کو بہت ذلت نصیب ہوئی` چونکہ دوران مباحثہ میں معجزات کا بھی ذکر آیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰٰ نے نہ چاہا کہ یہ مباحثہ بغیر کسی اعجاز کے خالی چلا جائے اور آپؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ ’’اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار رک رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘- جب آخری پرچہ آپ کی طرف سے لکھا گیا تو اس میں آپ نے یہ پیشگوئی بھی شامل کر دی اور لکھا کہ اگر یہ پیشگوئی پوری ہو گئی تو اس سے ثابت ہو گا کہ رسول کریم ﷺجن کو تم نے اپنی کتاب >اندرونہ بائیبل< میں نعوذ باللہ من ذالک دجال لکھا ہے خدا کے فرستادہ اور رسول تھے- اس پیشگوئی میں یہ دو باتیں بتائی گئی تھیں` اول یہ کہ مسیح علیہ السلام کو خدا بنانے والا فریق ڈپٹی آتھم پندرہ ماہ کے اندر اپنی ضد اور تعصب کی وجہ سے اور بدگوئی کے سبب سے ہاویہ میں گرایا جاوے گا- دوم یہ کہ اگر یہ فریق حق کی طرف رجوع کرے اور اپنی بات پر پشیمان ہو اور اپنی غلطی کو سمجھ جائے تو اس صورت میں وہ اس عذاب سے بچایا جائے گا اگر دوسرا فریق حق کی طرف رجوع نہ کرتا اور اپنی ضد پر قائم رہتا اور ہلاک نہ ہو جاتا تو پیشگوئی غلط ہو جاتی اور اگر وہ رجوع کرتا اور پندرہ ماہ کے عرصہ میں مر جاتا تو بھی پیشگوئی جھوٹی ہو جاتی کیونکہ یہ پیشگوئی بتا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آتھم کی عمر پندرہ ماہ سے زائد ہے اسی صورت میں وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں مرے گا جب کہ وہ ضد پر قائم رہے` ایک ادنیٰ غور سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کی دونوں صورتوں میں سے دوسری صورت کے دونوں پہلو پہلی صورت کے دونوں پہلوئوں سے زیادہ شاندار ہیں` کیونکہ پہلی صورت کی دو پہلو یہ تھے کہ اگر آتھم ضد پر قائم رہا تو پندرہ ماہ میں مر جائے گا اور آتھم کا ضد پر قائم رہنا ایک طبعی امر تھا کیونکہ مسیحیوں کا ایک بڑا عالم تھا` متعدد کتب مسیحیت کی تائید میں اور اسلام کے خلاف لکھ چکا تھا` دنیاوی حیثیت سے بھی نہایت معزز تھا اور انگریزوں کے ساتھ اس کے بہت سے تعلقات تھے- اس عظیم الشان مباحثہ میں تمام پادریوں کو چھوڑ کر اسے مقابلہ کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور بڑے بڑے پادری
۵۲۷ اس کے مددگار اور نائب بنے تھے- پس ایسے شخص کی نسبت یہی خیال ہو سکتا ہے کہ اس کو مسیحیت پر کامل یقین تھا اور یہ کہ وہ مسیحیت کی اس قدر تائید کرنے اور اس کا سب سے بڑا مناظر قرار پانے کے بعد مسیح کی خدائی کا ایک منٹ کے لیے بھی منکر نہ ہوگا اور کبھی اسلام کی معجزانہ طاقت کا خیال اپنے دل میں نہیں آنے دے گا اور یہ بات کہ اس صورت میں دو پندرہ ماہ میں مر جاوے گا گو اپنی ذات میں شاندار ہے مگر پھر بھی ایک پینسٹھ سال کی عمر کے آدمی کی نسبت شبہ کیا جا سکتا تھا کہ شاید اس کی عمر ہی پوری ہو چکی ہو مگر ان کے مقابلے میں دوسری صورت کے دونوں پہلو زیادہ شاندار ہیں یعنی یہ کہ اگر وہ رجوع کر لے گا تو پندرہ ماہ کے اندر ہاویہ موت میں نہیں گرایا جاوے گا- اس صورت کا پہلا پہلو بھی کہ آتھم رجوع کر لے اس بات سے کہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے زیادہ شاندار ہے کیونکہ کسی انسان کی موت تو انسان کی موت موت تو انسانوں کے ہاتھں سے بھی آسکتی ہے مگر کسی کو پندرہ ماہ تک زندہ رکھنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے پس اگر دوسری صورت پیشگوئی کی وپری ہوتی تو وہ پہلی صورت کے پورے ہونے کی نسبت بہت شاندار ہوتی اور اللہ تعالیٰ نے جس کے آگے کوئی بات ناممکن نہیں اس دوسرے پہلو کو ہی جو زیادہ مشکل تھا اختیار کیا` یعنی اس نے اپنا رعب اس کے دل پر ڈال دیا اور پہلا اثر اس پیشگوئی کا یہ ظاہر ہوا کہ آتھم نے عین مجلس مباحثہ میں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ وہ رسول کریم ﷺکو دجال نہیں کہتا ہے اس پیشگوئی کے شائع ہنے کے بعد تمام ہندوستان کی نظریں اس طرف لگ گئیں کہ دیکھئیے اس کا کیا نتجہ نکلتا ہے مگر اللہ تعالیٰٰ نے پندرہ ماہ کا انتظار نہیں کروایا اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے وقت سے ہی آتھم کی حالت بدلنی شروع ہو گئی اور اس نے مسیحیت کی تائید میں کتب ورسالہ جات لکھنے کا کام بالکل بند کر دیا` ایک مشہور مبغ اور مصنف کا اپنے کام کو بالکل چھوڑ دینا اور خاموش ہو کر بیٹھ جانا معمولی بات نہ تھی بلکہ بین دلیل تھی اس امر کی کہ اس کا دل محسوس کرنے لگ گیا ہے کہ اسلام سچا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے میں اس نے غلطی کی ہے مگر خاموشی پر ہی اس نے بس نہ کی بلکہ ایک روہانی ہاویہ میں گرایا گیا` یعنی اس خیال کا اور کہ اس نے اس مقابلے میں غلطی کی ہے اس قدر گہرا ہوتا چلا گیا کہ اسے عجیب عجیب قسم کے نظارے نظر آنے لگے جیسا کہ اس نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے بیان کیا کبھی تو اسے سانپ نظر آتے جو اسے کاٹنے کو دوڑتے کبھی کتے اسے کاٹنے کو دوڑتے اور کبھی نیزہ بردار لوف اس کے خیال میں اس پر حملہ آور ہوتے` حالانکہ نہ تو سانپ اور کتے اس طرح سدھائے جا سکتے ہیں
۵۲۸ کہ وہ خاص طور پر عبداللہ آتھم کو جا کر کاٹیں اور نہ ہندوستان میں اسلحہ کی عام آزادی ہے کہ لوگ نیزے لے کر شہروں کی سڑکوں پر کھڑے رہیں تاکہ عبداللہ آتھم کو مار دیں- درحقیقت یہ ایک ہاویہ تھی جو اس پشیمانی کی وجہ سے جو اس کے دل میں مسیحیت کی حمایت اور اسلام کے خلاف کھڑے ہنے کے متعلق پیدا ہو چکی تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بڑے ہادیہ کے بدلے میں پیدا کی گئی تھی جس مین بصورت ضد پر قائم رہنے کے وہ ڈالا جاتا اگر فی الواقع اس کا ایمان مسیحیت پر قائم رہتا اور اسلام کو وہ اسی طرح جھوٹا سمجھتا جس طرح کہ پہلے جھوٹا سمجھتا تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ وساوس اور خطرات کی اس جہنم میں پڑ جاتا اور جانوروں اور کیڑوں تک کو اپنا دشمن سمجھ لیتا اور خیالی سانپ اور کتے اسے کاٹنے کو دوڑتے- اگر وہ اللہ تعالیٰٰ کو اپنے خلاف نہیں سمجھنے لگ گیا تھا تو کیوں اسے خدا کی تمام مخلوق اپنے خلاف کھڑی نظر آتی تھی اور وہ مسیحیت کی قلمی اور زبانی ہر قسم کی مدد کا کام یک لخت ترک کر کے شہروں میں بھاگتا پھرا- غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں جو دوسری شق رجوع الی الحق کی بتائی تھی اور جو کہ پہلی شق سے زیادہ مشکل تھی وہ عجیب طور پر پوری ہوئی اور آتھم کا دل مسیح کی خدائی میں شک لانے لگ گیا اور اسلام کی سچائی کا نقش اس کے دل پر جم گیا` تب اللہ تعالیٰ کی خبر کا دوسرا حصہ بھی پورا ہوا` یعنی باوجود اس کے کہ اسے اندرونی خوف نے موت کے بالکل قریب کر دیا تھا` پندرہ ماہ تک زندہ رکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہو کہ اگر اس نے رجوع کیا تو وہ بچایا جائے گا- یہ ایک زبردست پیشگوئی تھی جو لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھی` لیکن اگر یہ خاموشی سے گزر جاتی تو شاید کچھ مدت کے بعد لوگ کہہ دیتے کہ آتھم نے کوئی رجوع نہ کیا تھا یہ آپ لوگوں کی بناوٹ ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کی مزید وضاحت کے لیے مسیحیوں اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو کھڑا کر دیا جو ایک مسیحی کی حمایت میں شور کرنے لگے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی اور آتھم نہیں مرا- اس پر ان کو بتایا گیا کہ پیشگوئی کی دو صورتیں تھیں` ان میں سے دوسری صورت وضاحت سے پوری ہو گئی ہے` مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ آتھم نے ہرگز رجوع نہیں کیا اس پر آتھم کو حضرت اقدسؑ نے دعوت دی کہ اس کے مسیحی اور مسلمان وکیل جو کچھ کہہ رہے ہیں- اگر سچ ہے تو اسے چاہئے کہ قسم کھا کر اعلان کرے کہ اس کے دل میں اس عرصے میں اسلام کی صداقت اور مسیحی عقائد کے باطل ہونے کے خیالات نہیں
۵۲۹ آئے` مگر اس نے قسم کھانے سے انکار کر دیا` ہاں بلا قسم کے ایک اعلان کر دیا کہ میں اب بھی مسیحی مذہب کو سچا سمجھتا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے جس کا دلوں اور دماغوں پر تصرف ہے اس کے انہیں اعلانات میں اس کے قلم سے یہ نکلوا دیا کہ میں مسیح کو دوسرے دوسرے مسیحیوں کی طرح خدا نہیں سمجھتا اور جیسا کہ الہام کے الفاظ اوپر نقل کئے گئے ہیں- پیشگوئی یہ تھی کہ جو ایک بندے کو خدا بنا رہا ہے وہ ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور آتھم نے اقرار کر لیا کہ وہ مسیح کو خدا نہیں سمجھتا` مگر پھر بھی اس پر زور دیا گیا کہ اگر وہ فی الحقیقت ان ایام میں اپنے مذہب کی سچائی کے متعلق متردد نہیں ہوا اور اسلام کی صداقت کا احساس اس کے دل میں نہیں پیدا ہو گیا تھا تو وہ قسم کھا کر اعلان کر دے کہ میں ان ایام میں برابر انہیں خیالات پر قائم رہا ہوں جو اس سے پہلے میرے تھے- اگر وہ قسم کھا جائے اور ایک سال تک اس پر عذاب الٰہی نہ آئے تو پھر ہم جھوٹے ہوں گے اور یہ بھی لکھا کہ اگر آتھم قسم کھا جائے تو اسے ہم ایک ہزار روپیہ انعام دینگے- اس کا جواب آتھم نے یہ دیا کہ اس کے مذہب میں قسم کھانی جائز نہیں` حالانکہ انجیل میں حواریوں کی بہت سی قسمیں درج ہیں اور مسیحی حکومتوں میں کوئی بڑا عہدہ دار نہیں جسے بغیر قسم کھانے کے عہدہ دیا جائے` یہاں تک کہ بادشاہ کو بھی قسم دی جاتی ہے- ججوں کو بھی قسم دی جاتی ہے ممبران پارلیمنٹ کو بھی قسم دی جاتی ہے عہدیداران سول فوج کو بھی قسم دی جاتی ہے بلکہ مسیحی عدالتوں کا تو یہ قانون ہے کہ انہوں نے قسم کو صرف مسیحیوں کے لیے مخصوص کر دیا- سوائے مسیحیوں کے دوسروں سے وہ قسم نہیں لیتیں- بلکہ گواہی کے وقت یہ کہلواتی ہیں کہ میں جو کچھ کہوں گا خدا کو حاضر ناظر جان کر کہوں گا- پس جب کہ مسیحیوں کے نزدیک قسم صرف مسیحیوں کا حق ہے تو اس کا یہ عزر بالکل نامعقول تھا اور صرف قسم سے بچنے کے لیے تھا کہ اگر اس نے قسم کھائی تو وہ ہلاک ہو جائے گا اس شخص کے قسم کھانے سے انکار کرنے کی حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحیوں میں کوئی بڑا مذہبی ۲ عہدہ نہیں دیا جاتا جب تک کہ امید وار قسم نہیں کھا لیتا اور پراٹسٹنٹ فرقہ کے پادریوں کو تو جس سے آتھم تعلق رکھتا تھا دو قسمیں کھانی پڑتی ہیں ایک گرجا سے وفاداری کی اور ایک حکومت سے وفاداری کی- جب اس کے سامنے یہ باتیں رکھی گئیں تو پھر وہ بالکل ہی خاموش ہو گیا` ادھر سے انعام کی رقم ایک ہزار سے بڑھا کر آہستہ آہستہ چار ہزار تک کر دی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ سال
۵۳۰ بھر کا انتظار کئے بغیر ہی یہ رقم لے لو اور قسم کھا جاؤمگر جب کہ اس کا دل جانتا تھا کہ وہ اپنی قوم سے ڈر کر اپنی اس حالت کو چھپا رہا ہے جو پندرہ ماہ تک اس پر طاری رہی ہے تو وہ قسم کیونکر کھا سکتا تھا- اس نے قسم نہ کھائی پر نہ کھائی اور خاموشی سے دن گزار دئیے اور اسلام کے خلاف کتابیں لکھنا یا زبانی مسیحیت کی تبلیغ کرنا بالکل چھوڑ دیا اور اسی طرح اس پیشگوئی کی صداقت اور بھی واضح ہو گئی اور گویا اس ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دشمن سے مسیح کی خدائی کے عقیدے سے رجوع کا تحرا اقرار کرا لیا اور اسلام کی صداقت کے متعلق اس کے دل میں جو خیالات )حالانکہ اسی مباحثے میں جس کے بعد پیشگوئی کی گئی تھی اس نے ایک پرچے میں مسیح کی خدائی اور تمام صفات الٰہیہ کو اس کی ذات میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی( پیدا ہوئے تھے- ان کا اقرار اس کے اس رویہ کے ذریعے کروا دیا` جو قسم کے مطالبے پر اس نے اختیار کیا- یہ پیشگوئی اپنی عظمت اور شوکت میں ایسی ہے کہ ہر ایک سعید الفطرت انسان اس کے ذریعے سے ایمان میں ترقی کر سکتا ہے اور خدا کے جلوے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے` کیونکہ ایک اشد ترین مکالف اسلام اور بڑی قوم کے سرکردہ ممبر کا جو دوسرے مذاہب کے خلاف بطور مناظر کے پیش کیا گیا ہو اور جس کی عمر اپنے مذہب کی تائید اور دوسرے مذاہب کی مخالفت میں گزر گئی ہو اس کے دل میں اپنے مذہب کی نسبت شکوک اور دوسرے مذاہب کی صداقت کے خیالات پیدا کر دینا اور فوق العادت نظارے اس کو دکھانا اور تبدیلی خیالات کے بدلے میں مطابق پیشگوئی اس کو پندرہ ماہ تک زندہ رکھنا انسانی طاقت سے بالکل باہر ہے- چوتھی پیشگوئی ڈوئی امریکہ کے جھوٹے مدعی کی نسبت پیشگوئی جو مسیحیوں کے لیے عموماً اور امریکہ کے باشندوں کے لیے خصوصاً حجت ہوئی اب میں ایک اور پیشگوئی جو مسیحیوں پر حجت قائم کرنے کے لیے کی گئی تھی مگر اس میں زیادہ تر مغربی ممالک کے لوگوں پر حجت تمام کرنا مدنظر تھا بیان کرتا ہوں الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا ایک مشہور آدمی تھا- یہ شخص اصل میں آسٹریلیا کا
۵۳۱ رہنے والا تھا وہاں سے امریکہ چلا گیا- ۱۸۹۲ء میں اس نے مذہبی وعظ کہنے شروع کئے اور جلد ہی اس دعوے کی وجہ سے کہ اسے بلا علاج کے شفا بخشنے کی طاقت ہے اس نے مقبولیت عامہ حاصل کرنی شروع کر دی` ۱۹۰۱ء میں اس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے بطور ایلیاہ کے ہے اور اس کا راستہ صاف کرنے آیا ہے چونکہ علامات ظہور مسیح کے پورا ہونے کی وجہ سے مذہب سے تعلق رکھنے والے مسیح کی آمد کا انتظار لگ رہا تھا اس دعوے سے اس کو بہت ترقی ہوئی- اس نے ایک زمین خرید کر اس پر صبحون نامی ایک شہر بسایا اور اعلان کیا کہ مسیح اسی شہر میں اتریں گے- بڑے بڑے مالدار لوگوں نے سب سے پہلے مسیح کو دیکھنے کی غرض سے لاکھوں روپے کے خرچ سے زمین خرید کر وہاں مکان بنوائے اور یہ اس شہر میں ایک بادشاہ کی طرح رہنے لگا` اس کے مرید تھوڑے ہی عرصے میں ایک لاکھ سے زیادہ بڑھ گئے اور تمام بلاد مسیحیہ میں اس کے مناد تبلیغ کے لیے مقرر کئے گئے- اس شخص کو اسلام سے سخت عداوت تھی اور ہمیشہ اسلام کے خلاف سخت کلامی کرتا رہتا تھا- ۱۹۰۲ء میں اس نے شائع کیا کہ اگر مسلمان مسیحیت کو قبول نہ کریں گے تو وہ سب کے سب ہلاک کر دئیے جائیں گے اس پیشگوئی کی خبر حضرت اقدسؑ مسیح موعودؑ کو ملی تو آپ ؑنے فوا اس کے خلاف ایک اشتہار شائع کیا جس میں اسلام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ مسیحیت کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے کروڑوں آدمیوں کو ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے میں خدا کی طرف سے مسیح کر کے بھیجا گیا ہوں مجھ سے مباہلہ کر کے دیکھ لو` اس سے سچے اور جھوٹے مذہب کا فیصلہ ہو جائے گا اورلوگوں کو فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی- یہ اشتہار آپ کا ستمبر ۱۹۰۲ء میں شائع کیا گیا اور اس کثرت سے یورپ اور امریکہ میں شائع کیا گیا کہ دسمبر ۱۹۰۲ء سے لے کر ۱۹۰۳ کے اختتام تک اس اشتہار پر مختلف اخبارات امریکہ ویورپ میں ریویو چھپتے رہے- جن میں سے قریباً چالیس اخبارات نے تو اپنے پرچے یہاں بھی بھیجے- اس قدر اخبارات میں اس اشتہار کی اشاعت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کم سے کم بیس پچیس لاکھ آدمیوں کو اس دعوت مباہلہ کا علم ہو گیا ہو گا- اس اشتہار کا ڈوئی نے جواب تو کوئی نہ دیا` اسلام کے خلاف بد دعائیں کرنا شروع کر دیں اور اس پر سخت حملے شروع کر دئیے- ۱۴ فروری * کو اس نے شائع کیا کہ ’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے اے خدا تو تو ایسا ہی کر اے خدا! *ڈوئی کے اخبار ،میں جو صیحون سے شائع ہوتا تھا
و ۵۳۲ اسلام کو ہلاک کر‘‘پھر ۵ اگست ۱۹۰۳ء میں شائع کیا کہ’’ انسانیت پر اس سخت بدنما دھبے(اسلام) کو صبحون ہلاک کر کے چھوڑے گا‘‘جب حضرت اقدسؑ نے دیکھا کہ یہ شخص اپنی مخالفت سے باز نہیں آتا تو آپ نے۱۹۰۳ء لکھا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰٰ نے اس وقت اس لیے بھیجا ہے تاکہ اس کی توحید کو قائم کروں اور شرک کو مٹا دوں اور پھر لکھا کہ امریکہ کے لیے خدا نے مجھے یہ نشان دیا ہے کہ اگر ڈوئی میرے ساتھ مباہلہ کرے اور میرے مقابلہ پر خواہ صراحتاً یا اشارتاً آجائے تو وہ ’’میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دیگا‘‘ اس کے بعد لکھا کہ ڈوئی کو میں نے پہلے بھی دعوت مباہلہ دی تھی مگر س نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا` اس لیے آج سے اس کو سات ماہ کی جواب یک لیے مہلت دی جاتی ہے پھر لکھا کہ’’پس یقین رکھو کہ اس کے صبحون پر جلد ایک آفت آنیوالی ہے آخر میں بلا اس کے جواب کا انتظار کئے دعا کی کہ اے خدا ’’یہ فیصلہ جلد تر کر کہ پگٹ اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے‘‘یہ اشتہار بھی کثرت سے بلاد مغربیہ میں تقسم کیا گیا اور یورپ اور امریکہ کے متعدد اخبارات مثلاً گلاسکو`،ہیرلڈ انگلستان` نیویارک کمرشل ایڈورٹائزر امریکہ وغیرہا نے اس کے خلاصے اپنے اخبارات میں شائع کئے اور لاکھوں آدمی اس کے مضمون پر مطلع ہو گئے- جس وقت یہ اشتہار شائع ہوا ہے اس وقت ڈوئی کا ستارہ بڑے عروج پر تھا اس کے مریدوں کی تعداد بہت بڑھ رہی تھی اور وہ لوگ اس قدر مالدار تھے کہ ہر سال کے شروع میں تیس لاکھ روپیہ کے تحائف اس کو پیش کرتے تھے اور کئی کارخانے اس کے جاری تھے چھ کروڑ کے قریب اس کے پاس روپیہ تھا اور بڑے بڑے نوابوں سے زیادہ اس کا عملہ تھا اس کی صحت ایسی اچھی تھی کہ وہ اس کو اپنا معجزہ قرار دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں دوسروں کو بھی اپنے حکم سے اچھا کر سکتا ہوں` غرض مال ،صحت جماعت` اقتدار ان چاروں باتوں سے اس کو حصہ وافر ملا تھا- اس اشتہار کے شائع ہونے پر لوگوں نے اس سے سوال کیا کہ وہ کیوں آپ کے اشتہارات کا جواب نہیں دیتا تو اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’تم فلاں فلاں بات کا جواب کیوں نہیں دیتے- جواب! کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کا جواب دوں گا` اگر میں اپنا پائوں ان پر رکھوں تو ایک دم میں ان کو کچل سکتا ہوں مگر میں ان کو موقعہ دیتا ہوں کہ میرے سامنے سے دور چلے جائیں اور کچھ دن اور زندہ رہ لیں.‘‘ انسان بعض دفعہ کیسی نادانی کر لیتا ہے- ڈوئی نے
۵۳۳ مقابلے سے انکار کرتے ہوئے مقابلہ کر لیا` اس نے غور کیا کہ حضرت اقدسؑ نے صاف لکھ دیا تھا کہ اگر یہ اشارتاً بھی میرے مقابلہ پر آئے گا تو دکھ کے ساتھ میری زندگی میں ہلاک ہو گا اس نے آپ عکو کیڑا قرار دے کر اور یہ کہہ کر کہ اگر میں اس پر اپنا پاؤں رکھ دوں تو کچل دوں اپنے آپ کو آپؑ کے مقابلے پر کھڑا کر دیا اور خدا کے عذاب کو اپنے اوپر نازل کرا لیا- مگر اس کی سرکشی اور تکبر یہیں پر ختم نہ ہوا اس نے کچھ دن بعد آپ ؑکا ذکر کرتے ہوئے آپ کی نسبت یہ الفاظ استعمال کئے- ’’بیوقوف محمدی مسیح‘‘ اور یہ بھی لکھا کہ ’’اگر میں خدا کی زمین پر خدا کا پیغمبر نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں‘‘ اور دسمبر ۱۹۰۳ء کو تو کھلا کھلا مقابلے پر آکھڑا ہوا اور اعلان کیا کہ ایک فرشتے نے مجھ سے کہا ہے کہ تو اپنے دشمنوں پر غالب آئے گا` گویا حضرت اقدسؑ کی پیشگوئی کے مقابلے میں آپ کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع کر دی- یہ اس کا مقابلہ جو پہلے اشارتاً شروع ہوا اور آہستہ آہستہ صراحت کی طرف آتا گیا` جلد پھل لے آیا اور اس آخری حملے کے بعد چونکہ وہ مقابل پر آگیا تھا` حضرت اقدسؑ مسیح موعود نے اس کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا اور وانتظر انھم منتظرون )السجدہ(31: کے حکم کے مطابق خدائی فیصلے کا انتظار کرنا شروع کر دیا آخر اللہ تعالیٰٰ نے جو پکڑنے میں دھیما ہے مگر جب پکڑتا ہے تو سخت پکڑتا ہے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور وہ پاؤں جن کو وہ اس کے مسیح پر رکھ کر کچلنا چاہتا تھا اس نے معطل کر دئیے اس کے مسیح پر پاؤں رکھنے کی طاقت تو اسے کہاں مل سکتی تھی وہ ان پاؤں کو زمین پر رکھنے کے قابل بھی نہ رہا` یعنی خدا کا غضب فالج کی شکل میں اس پر نازل ہوا` کچھ دن کے بعد افاقہ ہو گیا` مگر دو ماہ بعد ۱۹ دسمبر کو دوسرا حملہ ہوا اور اس نے رہی سہی طاقتیں بھی توڑ دیں- جب وہ بالکل ناچار ہو گیا تو اس نے اپنا کام اپنے نائبوں کے سپرد کیا اور خود ایک جزیرہ میں جس کی آب وہوا فالج کے لیے اچھی تھی بودوباش اختیار کر لی مگر اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس کو اب بھی نہ چھوڑا اور چاہا کہ جس طرح اس نے اس کے مسیح کو کیڑا کہا تھا اس کو کیڑے کی طرح ثابت کر کے دکھائے اور وہ چیز جن پر گھمنڈ کر کے اس نے یہ جرات کی تھی انہیں کے ذریعے اسے ذلیل کرے چنانچہ ایسا ہوا کہ اس کے بیمار ہو کر چلے جانے پر اس کے مریدوں کے دل میں شک پیدا ہوا کہ یہ تو اوروں کی دعا سے نہیں بلکہ اپنے حکم سے اچھا کرتا تھا` یہ خود ایسا کیوں بیمار ہوا اور انہوں نے اس کے بعد اس کے کمروں کی جن میں وہ اور کسی کو جانے نہیں دیتا تھا تلاشی لی تو *ڈوئی کا اخبار
۵۳۴ اس میں سے شراب کی بہت سی بوتلیں نکلیں اوراس کی بیوی اور لڑکے نے گواہی دی کہ وہ چھپ کر خوب شراب پیا کرتا تھا` حالانکہ وہ اپنے مریدوں کو سختی سے شراب پینے سے روکتا تھا` اور کسی نشہ کی چیز کی اجازت نہیں دیتا تھا حتی کہ تمباکو نوشی سے بھی منع کرتا تھا اور اس کی بیوی نے کہا کہ میں اس کی سخت غربت کے ایام میں بھی وفادار رہی ہوں مگر اب مجھے یہ معلوم کر کے سخت افسوس ہوا ہے کہ اس نے ایک مالدار بڑھیا سے شادی کرنے کی خاطر یہ نیا سلسلہ بیان کرنا شروع کیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں جائز ہیں درحقیقت اس مسئلہ کی تہہ میں اس کا اپنا ارادہ شادی کا ہے چنانچہ اس نے اس بڑھیا کے خطوط جو ڈوئی کے خطوں کے جواب میں آئے تھے لوگوں کو دکھائے اس پر لوگوں کا غصہ اور بھی بھڑکا اور جماعت کے اس روپیہ کا حساب دیکھا گیا جو اس کے پاس رہتا تھا اور معلوم ہوا کہ اس نے اس میں سے پچاس لاکھ روپیہ غبن کر لیاہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ شہر کی کئی نوجوان لڑکیوں کو اس نے خفیہ طور پر ایک لاکھ سے زائد روپیہ کے تحائف دئیے ہیں اس پر اس جماعت کی طرف سے اسے ایک تار دیا گیا جس کے الفاظ یہ ہیں تمام جماعت بالاتفاق تمہاری فضول خرچی` ریاکاری غلط بیانی` مبالغہ آمیز کلام لوگوں کے مال کے ناجائز استعمال- ظلم اور غضب پر سخت اعتراض کرتی ہے اس واسطے تمہیں تمہارے عہدے سے معطل کیا جاتا ہے- ڈوئی ان الزامات کی تردید نہ کر سکا اور آخر سب مرید اس کے مخالف ہو گئے اس نے چاہا کہ خود اپنے مریدوں کے سامنے آکر ان کو اپنی طرف مائل کرے مگر سٹیشن پر سوائے چند لوگوں کے کوئی اس کے استقبال کو نہ آیا اور کسی نے اس کی بات کی طرف توجہ نہ کی آخر وہ عدالتوں کی طرف متوجہ ہوا مگر وہاں سے بھی اس کو قومی فنڈ پر قبضہ نہ ملا اور صرف ایک قلیل گزارہ دیا گیا اور اس کی حال ناچاری کی یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کی حبشی نوکر اس کو اٹھا اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر رکھتے تھے اور سخت تکلیف اور دکھ کی زندگی وہ بسر کرتا تھا اس کی تکلیف اور دکھ کو دیکھ کر اس کے دوچار ملنے والوں نے جو ابھی تک اس سے ملتے تھے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنا علاج کروائے` مگر وہ علاج کرانے سے اس بناء پر انکار کرتا رہا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ لوگوں کو تو علاج سے منع کرتا تھا اور خود کراتا ہے- آخر جب کہ اس کے ایک لاکھ سے زیادہ مریدوں میں سے صرف دو سو کے قریب باقی رہ گئے اور عدالتوں میں بھی ناکامی ہوئی اور بیماری کی بھی تکلیف بڑھ گئی تو ان تکالیف کو برداشت نہ کر سکا اور پاگل ہو گیا اور ایک دن اس کے چند مرید جب اس
۵۳۵ کی وعظ سننے کے لئے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے تمام جسم پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں- اس نے ان سے کہا کہ اس کا نام جیری ہے اور وہ ساری رات شیطان سے لڑتا رہا ہے اور اس جنگ میں اس کا جرنیل مارا گیا ہے اور وہ خود بھی زخمی ہو گیا ہے اس پر ان لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص بالکل پاگل ہو گیا ہے اور وہ بھی اس کو چھوڑ گئے اور حضرت اقدسؑ کے یہ الفاظ کو وہ ’’میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا‘‘ آٹھ مارچ ۱۹۰۷ء کو پورے ہو گئے یعنی ڈوئی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر گیا اس کی موت کے وقت اس کے پاس صرف چار آدمی تھے اور اس کی پونجی کل تیس روپے کے قریب تھی- اے بادشاہ! اس سے بڑھ کر حسرت اور اس سے بڑھ کر دکھ کی کیا کوئی اور موت ہو سکتی ہے؟ یقیناً یہ ایک عبرت انگیز واقعہ ہے اور اہل مغرب کے لیے کھلا کھلا نشان- چنانچہ بہت سے اخبارات نے اس امر کو تسلیم کیا کہ حضرت اقدسؑ کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے اور وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے- مثال کے طور پر میں چند اخبارات کے نام لکھ دیتا ہوں- ڈونول گزٹ امریکن اخبار اس واقعہ کا ذکر کر کے لکھتا ہے- ’’اگر احمد اور ان کے پیرو اس پیشگوئی کے جو چند ماہ ہوئے پوری ہو گئی ہے نہایت صحت کے ساتھ پورا ہونے پر فخر کریں تو ان پر کوئی الزام نہیں- ۷‘‘ جون ۱۹۰۷ء امریکہ کا اخبار ٹرتھ سیکر لکھتا ہے-: ’’ظاہری واقعات چیلنج کرنے والے کے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کے خلاف تھے مگر وہ جیت گیا‘‘- یعنی حضرت اقدسؑؑ کی عمر ڈوئی سے زیادہ تھی اور وہ آ پ ؑکے مقابلہ میں جوان تھا- بوسٹن امریکہ کا اخبار ہیرلڈ لکھتا ہے-: (۲۳ جون ۱۹۰۴ء)’’ڈوئی کی موت کے بعد ہندوستانی نبی کی شہرت بہت بلند ہو گئی ہے- کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ انہوں نے ڈوئی کی موت کی پیشگوئی کی تھی کہ یہ ان کی یعنی مسیح کی زندگی میں واقع ہو گی اور بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس کی موت ہو گی` ڈوئی کی عمر پینسٹھ سال کی تھی اور پیشگوئی کرنیوالے کی پچھتر سال کی.‘‘ ان چند اقتباسات سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کا اثر مسیحی بلکہ دہریہ اخبارات کے ایڈیٹروں کے دل پر بھی نہایت گہرا پڑا تھا اور اس کے حیرت انگیز نتائج سے ایسے متاثر ہو گئے تھے کہ اس اثر کو اخباروں میں ظاہر کرنے سے بھی نہ جھجکے- پس یہ بات بالکل یقینی ہے کہ جب مغربی ممالک کے باشندوں کے سامنے یہ نشان پورے زور سے پیش کیا گیا تو اپنے بیسیوں ہم
۵۳۶ مذہب اخبار نویسوں کی گواہی کی موجودگی میں وہ اس کی صداقت کا انکار نہیں کر سکیں گے اور اس امر کے تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے- اس میں داخل ہوئے بغیر انسان نجات نہیں پا سکتا اور اپنے پرانے خیالات اور عقائد ترک کر کے وہ لوگ اسلام کے قبول کرنے اور آنحضرت ﷺاور مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے میں دریغ نہیں کریں گے بلکہ اس کے آثار ابھی سے شروع ہو گئے ہیں اور امریکہ میں اس وقت دو سو سے زیادہ لوگ احمدی ہو چکے ہیں- پانچویں پیشگوئی لیکھرام کے متعلق آپ کی پیشگوئی جو اہل ہند کے لیے حُجت بنی اب میں آپ کی ان پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی بیان کرتا ہوں جو اہل سمندر پر صداقت اسلام کے ظاہر کرنے کے لئے کی گئی تھیں اور جنہوں نے اپنے وقت پر پوری ہو کر لاکھوں آدمیوں کے دل ہلا دئیے اور اسلام کی صداقت کا ان کو دل ہی دل میں قائل کر دیا اور بیسیوں آدمی ظاہر میں اسلام اور برابر اسلام لا رہے ہیں- اس پیشگوئی کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس پچاس سال سے ہندوؤں کا ایک فرقہ نکالا ہے- جسے آریہ سماج کہتے ہیں س فرقے نے موجودہ زمانے میں اسلام کی حالت خراب دیکھ کر یہ ارادہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو ہندو بنایا جائے اور اس غرض کے لئے ہمیشہ اس کے مذہبی لیڈر اسلام کے خلاف سخت گندہ اور فحش لٹریچر شائع کرتے رہے ہیں- ان لیڈروں میں سے سب سے زیادہ گندہ دہن اور اعتراض کرنیوالا ایک شخص لیکھرام نامی تھا- حضرت اقدسؑ علیہ السلام نے اس کے ساتھ بہت دفعہ گفتگو کی اور اسے اسلام کی صداقت کا قائل کیا مگر وہ اپنی ضد میں بڑھتا گیا اور ایسے ایسے گندے ترجمے قرآن کریم کی آیات کے شائع کرتا رہا کہ ان کو پڑھنا بھی ایک شریف آدمی کے لیے مشکل ہے- اس شخص کے نزدیک گویا سب سے برا شخص دنیا میں وہ تھا جو تمام انسانی کمالات کا جامع تھا اور سب سے لغو کتاب وہ تھی جو سب علوم کی مخزن ہے مگر سورج کی
۵۳۷ روشنی ایک بیمار آنکھ کی بینائی کو صدمہ ہی پہنچاتی ہے یہی حال اس کا تھا جب بحث مباحثے نے طول پکڑا یہ شخص رسول کریم ﷺ کی نسبت بد گوئی میں بڑھتا ہی چلا گیا اور حضرت اقدسؑ علیہ الصلوہ والسلام نے اس کے متعلق اللہ تعالیٰٰ سے دعا کی اور آپ کو بتایا گیا کہ اس کے لیے یہ نشان ہے کہ یہ جلد ہلاک کیا جائے گا- اس پیشگوئی کے شائع کرنے سے پہلے آپ نے لیکھرام سے دریافت کیا کہ اگر اس پیشگوئی کے شائع کرنے سے اس کو رنج پہنچے تو اس کو ظاہر نہ کیا جائے مگر اس نے اس کے جواب میں لکھا کہ مجھے آپ کی پیشگوئیوں سے کچھ خوف نہیں ہے آپ بیشک پیشگوئی شائع کریں` مگر چونکہ پیشگوئی میں وقت کی تعیین نہ تھی اور لیکھرام وقت کی تعیین کا مطالبہ کرتا تھا- آپ نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے میں اس وقت تک توقف کیا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت معلوم ہو جائے آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پاکر کہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے لیکر چھ برس کے اندر لیکھرام پر ایک درد ناک عذاب آئے گا جس کا نتیجہ موت ہو گا- یہ پیشگوئی شائع کر دی- ساتھ ہی عربی زبان میں یہ الہام بھی شائع کیا جو لیکھرام کی نسبت تھا یعنی عجل جسدلہ خوار- لہ نصب وعذاب یعنی یہ شخص گو سالہ سامری کی طرح ایک بچھڑا ہے جو یونہی شور مچاتا ہے ورنہ اس میں روحانی زندگی کا کچھ حصہ نہیں- اس پر ایک بلا نازل ہو گی اور عذاب آئے گا- اس کے بعد آپ نے لکھا کہ اب میں تمام فرقہ ہائے مذاہب پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصے میں آج کی تاریخ سے یعنی ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں- اس پیشگوئی کے کچھ عرصے کے بعد آپ نے دوسری پیشگوئی جس میں اس شخص کی ہلاکت کے متعلق مزید وضاحت تھی- شائع کی- اس کے الفاظ یہ تھے- وبشرنی ربی وقال مبشرا ستعرف یوم العید والعید اقرب ومنھا ما وعد نی ربی انہ من الھالکین- انہ کان یسب نبی اللہ وبتکلم فی شانہ بکلمت خبیثہ فد عوت علیہ وبشرنی ربی بموتہ فی ست سنہ
۵۳۸ ان فی ذلک لایت للطالبین ۱~}~ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ تو ایک یوم عید دیکھے گا اور وہ دن عید کے دن سے بالکل ملا ہوا ہو گا اور پھر لکھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ مجھ پر فضل ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص لیکھرام کے متعلق اس نے میری دعا قبول کر لی ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ وہ ہلاک ہو جائے گا یہ شخص رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیا کرتا تھا پس میں نے اس کے خلاف دعا کی اور میرے ب نے مجھے بتایا کہ یہ چھ سال کے عرصے میں مر جائے گا- اس میں طلب گاروں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں- اس کے بعد اور مزید تشریح معلوم ہوئی اور وہ آپ کی نسبت ایک اور خبر اور اس میں یہ لکھا گیا کہ آن جو ۲ اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ )روز یکشنبہ مؤلف) ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں- اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا وہ انسان نہیں ملائک شداد وغِلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے- اور کتاب مستطاب آئینہ کمالات اسلام میں آپ ؑنے لیکھرام کے متعلق اپنی ایک نظم میں یہ اشعار شائع کئے الا اے دشمن نادان وبے راہ تبرس از تیغ ِبران محمد الا اے منکر از شان محمد ہم از نور نمایاں محمد کرامت گرچہ بے نام ونشان است بیا بنگر زغلمان محمدؐ ان تمام پیشگوئیوں سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کو مختلف اوقات میں خبر دی گئی تھی کہ ۱ لیکھرام پر کوئی عذاب نازل کیا جائے گا جس کا نتیجہ موت ہو گا۲ یہ عذاب چھ سال کے عرصے میں آئے گا ۳ یہ عذاب جس عید کے ساتھ کے دن آئے گا وہ دن عید کے دن سے بالکل ملا ہوا دن ہو گا` یعنی عید کے پہلے یا پچھلے دن سے۴ لیکھرام سے وہی سلوک کیا جائے گا جو گو سالہ سامری سے کیا گیا تھا او ر
۵۳۹ وہ سلوک یہ تھا کہ گو سالہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلایا اور دریا میں ڈال دیا گیا تھا ۵ اس کی ہلاکت کے لیے ایک شخص جس کی نظروں سے خون ٹپکتا تھا مقرر کیا گیا ہے۶ وہ رسول کریم ﷺکی تلوار کا کشتہ ہو گا- یہ نشانات اور علامتیں اتنی واضح ہیں کہ ان کی منطوق اور مفہوم کی نسبت کچھ بھی شبہ نہیں رہ جاتا` ان پیشگوئیوں کے پورے پانچ سال کے بعد جب کہ دشمن ہنس رہے تھے کہ پانچ سال گزر گئے اور کچھ بھی نہیں ہوا` مرزا صاحب جھوٹے نکلے` عید الفطر کے جو جمعہ کو ہوئی تھی دوسرے دن ہفتے کو عصر کے وقت لیکھرام کسی نامعلوم شخص کے تیز خنجر سے زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن مر گیا اور اللہ تعالیٰٰ کا کلام اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ پورا ہوا` الہام میں تھا کہ وہ چھ سال کے اندر مرے گا وہ چھ سال کے اندر ہی مر گیا` بتا گیا تھا کہ اس کا واقعہ عید کے دن سے ملے ہوئے دن کو ہوگا اور وہ مومنوں کے لیے عید کا دن ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ عید کے دوسرے ہی دن زخمی ہوا کہا گیا تھا کہ اس کو کوئی شخص جس کے چہرے سے خون ٹپکا ہوا معلوم ہوتا تھا ہلاک کرے گا سو ایسا ہی ہوا بتایا گیا تھا کہ اس کو تیغ محمدؐ قتل کرے گی` سو وہ قتل کیا گیا- خبر دی گئی تھی کہ اس کا حال گو سالہ سامری کی طرح ہو گا سو جس طرح گو سالہ ہفتے کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا وہ بھی ہفتے ہی کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور جس طرح گوسالہ سامری پہلے جلایا گیا اور پھر اس کی راکھ دریا میں ڈالی گئی تھی- اسی طرح لیکھرام بھی بسبب ہندو ہونے کے پہلے جلایا گیا اور پھر اس کی راکھ دریا میں ڈالی گئی- اس کے قتل کے واقعات کی تفصیل یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک شخص اس کے پاس آیا جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا اور اس نے لیکھرام سے کہا کہ وہ مسلمان سے ہندو ہونا چاہتا ہے- لیکھرام نے باوجود لوگوں کے سمجھانے کے کہ اس کو اپنے پاس رکھنا ٹھیک نہیں اس کو اپنے پاس رکھا` لیکھرام کو اس پر بہت اعتبار ہو گیا تھا` آخر اس نے وہی دن اس کو آریہ بنانے کے لیے مقرر کیا جس دن وہ زخمی کیا گیا وہ ہفتے کا دن تھا اور لیکھرام کچھ لکھ رہا تھا اس نے نامعلوم شخص سے کوئی کتاب اٹھا دینے کے لیے کہا- اس پر اس شخص نے انداز سے تو یہ ظاہر کیا کہ گویا وہ کتاب اٹھا کر لا رہا ہے لیکن پاس پہنچتے ہی اس نے لیکھرام کے پیٹ میں خنجر پیوست کر دیا اور پھر اس کو کئی مرتبہ گھما کر ہلایا تاکہ انتڑیاں کٹ جائیں اور پھر وہ شخص جیسا کہ لیکھرام کے رشتہ داروں کا بیان ہے غائب ہو گیا` لیکھرام مکان کی دوسری منزل پر تھا اور اس کے مکان کے نیچے دروازے کے پاس اس وقت بہت سے لوگ جمع تھے` لیکن کوئی شخص گواہی
۵۴۰ نہیں دیتا کہ وہ شخص نیچے اترا ہے لیکھرام کی بیوی اور اس کی ماں کو یہی یقین تھا کہ وہ گھر میں ہی ہے لیکن اسی وقت لوگوں کے آکر تلاش کرنے پر وہ مکان میں نہیں ملا اور اللہ تعالیٰ جانے کہاں غائب ہو گیا تو لیکھرام سخت دکھ کے عذاب میں مبتلا ہو کر اتوار کو جو عین وہی دن تھا کہ آپ کو کشف دکھایا گیا تھا کہ یک ہیبت ناک شخص جس کے چہرے سے خون ٹپکتا ہے لیکھرام کا پتہ پوچھتا ہے مر گیا اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی صداقت کے لیے ایک نشان ٹھہرا اور ان لوگوں کے لیے جو محمد رسول اللہ ﷺکی ذات بابرکات کے خلاف گندہ دہانی کرتے ہیں موجب عبرت بنا- چھٹی پیشگوئی شہزادہ دلیپ سنگھ کے متعلق پیشگوئی جو سکھوں کے لئے حجت ہوئی اب میں ان پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی بیان کرتا ہوں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر سکھوں کے لیے صداقت اسلام اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے دلیل ہوئی- جب پنجاب کو انگریزوں نے فتح کیا تو مصالح ملکی کے ماتحت راجہ دلیپ سنگھ صاحب کو جو وارث تخت پنجاب تھے مگر ابھی چھوٹی عمر کے تھے انگریز ولایت لے گئے وہ وہیں رہے اور ان کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی یہاں تک کہ پنجاب پر انگریزی قبضہ پوری طرح ہو گیا- غدرکے بعد دہلی کی حکومت بھی مٹ گئی اور کسی قسم کا خطرہ نہ رہا- اس وقت راجہ دلیپ سنگھ بہادر نے پنجاب آنے کا ارادہ کیا اور عام طور پر مشہور ہو گیا کہ وہ آنے والے ہیں- حضرت اقدسؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ وہ اس ارادے میں کامیاب نہیں ہونگے- چنانچہ آپ آنے والے ہیں- حضرت اقدسؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ وہ اس ارادے میں کامیاب نہیں ہو نگے- چنانچہ آپ نے بہت سے لوگوں کو خصوصاً ہندوؤں کو اس کے متعلق اطلاع دیدی اور ایک اشتہار میں اشارتاً لکھ دیا کہ ایک نووار درئیس پنجاب کو ابتلاء پیش آئے گا جس وقت یہ الہام شائع کیا گیا- کسی کو خیال بھی نہ تھا کہ وہ ہندوستان آنے سے روک دئیے جائیں گے بلکہ یہ خبر خوب گرم تھی کہ عنقریب وہ ہندوستان پہنچنے والے ہیں` مگر اسی عرصے میں گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ راجہ دلیپ سنگھ صاحب
۵۴۱ کا ہندوستان میں آنا مفادِ حکومت کے خلاف ہو گا کیونکہ جوں جوں ان کے آنے کی خبر پھیلتی جاتی تھی سکھوں میں پرانی روایات تازہ ہو کر جوش پیدا ہوتا جاتا تھا اور ڈر تھا کہ ان کے آنے پر کوئی فساد ہو جائے.آخر عدن تک پہنچنے کے بعد وہ روک دیئے گئے اور یہ روک دیئے جانے کی خبر اس وقت معلوم ہو گی جبکہ لوگ یہ سمجھ چکے تھے کہ اب وہ چند ہی روز میں داخل ہندوستان ہوا چاہتے ہیں سکھوں کی امیدوں کو اس سے سخت صدمہ پہنچا لیکن اللہ عالم الغيب و والجلال کا جلال ظاہر ہوا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو اس وقت پڑھ لیتا ہے جب وہ خود اپنے خیالات سے واقف نہیں ہوتے.ساتویں پیشگوئی طاعون کی پیشگوئی جس سے ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمام باریک در باریک اسباب کا مالک ہے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملک کے متعلق حضرت اقدسؑؑ کی پیشگوئی بیان کرنے کے بعد میں نے چار پیشگوئیاں ایسی بیان کی ہیں جن سے تین قوموں پر حجت تمام کی گئی ہے اب میں ایک ایسی پیشگوئی بیان کرتا ہوں جس سے تمام اقوام ہند اور ان کے ذریعے سے تمام دنیا پر حجت قائم کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰٰ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ وہ باریک اسباب پر قادر ہے اور ان کو اپنے مامور کی تائید میں لگاتا ہے- اس قسم کی پیشگوئیاں بھی حضرت اقدسؑ نے بہت سی کی ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پوری ہو چکی ہیں اور بعض آئندہ پوری ہوں گی` مگر ان میں سے مثال کے طور پر طاعون کی پیشگوئی کو لیتا ہوں جس میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کی خبر رسول ﷺ نے بھی دی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ بیماری مسیح موعود ؑکے وقت میں پھوٹے گی- جب رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق رمضان کی تیرہ تاریخ کو چاند گرہن اور اٹھائیس تاریخ کو سورج گرہن ہوا تو اس وقت حضرت اقدسؑ علیہ السلام کو بتایا گیا کہ اگر
۵۴۲ لوگوں نے اس نشان سے فائدہ نہ اٹھایا اور تجھے قبول نہ کیا تو ان پر ایک عام عذاب نازل ہوگا چنانچہ آ پؑ کے اپنے الفاظ یہ ہیں-: وحاصل الکلام ان الکسوف والخسوف ایتان مخوفتان واذا اجتمعا فھو تھدید شدید من الرحمن واشارہ الی ان العذاب قد تقرر واکد من اللہ لاھل العدون ) یعنی کسوف وخسوف اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے دو ڈرانے والے نشان ہیں اور جب اس طرح جمع ہو جائیں جس طرح اب جمع ہوئے ہیں تو اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے بطور تنبیہہ اور اس بات کی طرف اشارہ ہوتے ہیں کہ عذاب مقرر ہو چکا ہے ان لوگوں کے لیے جو سرکشی سے باز نہ آویں اس کے بعد اللہ تعالیٰٰ نے اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لیے آپ ؑکے دل میں تحریک کی کہ آپ ؑایک وباء کے لیے دعا کریں چنانچہ آپ اپنے ایک عربی قصیدے میں جو ۱۸۹۴ء میں چھپا ہے فرماتے ہیں فلما طغی الفسق المبید بسیلہ تمنیت لو کان الوباء المتبر فان ھلاک الناس عند اولی النھی احب واولی من ضلال یخسر یعنی جب ہلاک کر دینے والا فسق ایک طوفان کی طرح بڑھ گیا تو میں نے اللہ تعالیٰٰ سے چاہا کہ کاش ایک وباء پڑے جو لوگوں کو ہلاک کر دے- کیونکہ عقلمندوں کے نزدیک لوگوں کا مر جانا اس سے زیادہ پسندیدہ اور عمدہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ تباہ کر دینے والی گمراہی میں مبتلا ہو جائیں- اس کے بعد ۱۸۹۷ء میں آپ نے اپنی کتاب سراج المنیر میں لکھا کہ اس عاجز کو الہام ہوا ہے یامسیح الخلق عدوانا یعنی اے خلقت کے لیے مسیح ہماری متعدد بیماریوں کے لیے توجہ کر پھر فرماتے ہیں’’ دیکھو یہ کس زمانے کی خبریں ہیں اور نہ معلوم کس وقت پوری ہوں گی` ایک وہ وقت ہے جو دعا سے مرتے ہیں اور دوسرا وہ وقت آتا ہے کہ دعا سے زندہ ہونگے-‘‘ جس وقت یہ آخری پیشگوئی شائع ہوئی ہے اس وقت طاعون صرف بمبئی میں پڑی تھی اور ایک سال رہ کر رک گئی تھی اور لوگ خوش تھے کہ ڈاکٹروں نے اس کے پھیلنے کو روک دیا ہے مگر اللہ تعالیٰٰ کی طرف اطلاعیں اس کے برخلاف کہہ رہی تھیں جب کہ لوگ اس مرض کے حملے کو ایک عارضی جملہ خیال کر رہے تھے اور پنجاب میں صرف ایک دو گاؤں میں یہ مرض نہایت قلیل طور پر پایا جاتا تھا- باقی کل علاقہ محفوظ تھا اور بمبئی کی طاعون بھی بظاہر دبی ہوئی معلوم ہوتی
۵۴۳ تھی اس وقت آپؑ نے ایک اور اعلان کیا اور اس میں بتایا کہ ایک ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ جو لوگ روحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے میرا فرض ہے کہ میں اس کو نوع انسان کی ہمدردی کے لیے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو ۶ فروری ۱۸۹۸ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں- میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے بالی ہے- میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض پھیلے گا یا یہ کہ اس کے بعد کے جاڑے میں پھیلے گا` لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارہ میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے- ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیروا مابا نفسھم انہ اوی القریہ یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیت دور نہ ہو گی تب ظاہری وباء بھی دور نہیں ہو گی.اس اشتہار کے آخر میں چند فارسی اشعار بھی لکھے ہیں جو یہ ہیں آں چیزے کہ می بینم عزیزاں نیز دیرندے زدنیا توبہ کر دندے بچشم زار وخو نبارے خور تاباں سیہ گشت است از بدکاری مردم زمیں طاعوں ہمی آردپے تخویف وانزارے بہ تشویش قیامت ماندایں تشویوش گر بینی علاجے نیست بہردفع آں جز حسن کر دارے من از ہمدردی ات گفتم تو خرو ہم فکر کن بارے خرداز بہرایں روز است اے داناو ہشیارے ان پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ آپؑ نے ۱۸۹۴ء سے پہلے ایک خطرناک عذاب اور پھر کھلے لفظوں میں وباء کی پیشگوئی کی اور پھر جب کہ ہندوستان میں طاعون نمودار ہی ہوئی تھی کہ آپ نے خصوصیت کے ساتھ پنجاب کی تباہی کی خبر دی اور آنے والی طاعون کو قیامت کا
۵۴۴ نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ طاعون اس وقت تک نہیں جائے گی جب تک کہ لوگ دلوں کی اصلاح نہ کریں گے- اس کے بعد جو کچھ ہوا الفاظ اسے ادا نہیں کر سکتے` طاعون کی ابتداء گو بمبئی سے ہوئی تھی اور قیاس چاہتا تھا کہ وہیں اس کا دورہ سخت ہونا چاہئے مگر وہ تو پیچھے رہ گیا اور پنجاب میں طاعون نے اپنا ڈیرہ لگا لیا اور اس سختی سے حملہ کیا کہ بعض دفعہ ایک ایک ہفتے میں تیس تیس ہزار آدمیوں کی موت ہوئی اور ایک ایک سال میں کئی کئی لاکھ آدمی مر گئے` سینکڑوں ڈاکٹر مقرر کئے گئے اور بیسیوں قسم کے علاج نکالے گئے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ہر سال طاعون مزید شدت اور سختی کے ساتھ حملہ آور ہوئی اور گورنمنٹ منہ دیکھتی رہ گئی اور بہت سے لوگوں کے دلوں نے محسوس کیا کہ یہ عذاب مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے ہے اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں نے اس قہری نشان کو دیکھ کر صداقت کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ کے مامور پر ایمان لائے اور اس وقت تک طاعون کے زور میں کمی نہ ہوئی جب تک اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کو نہ بتایا کہ طاعون چلی گئی- بخار رہ گیا- اس کے بعد طاعون کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا اور برابر کم ہوتی چلی گئی مگر بعض الہامات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مرض کے ابھی کچھ اور دورے ہونگے اس ملک میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی- اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں کو اپنی پناہ میں رکھے- میرے نزدیک یہ پیشگوئی ایسی واضح اور مومن وکافر سے اپنی صداقت کا اقرار کرانے والی ہے کہ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ضد کرتا ہے تو اس کی حالت نہایت قابل رحم ہے جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھ سکتا ہے کہ ۱ طاعون کی خبر ایک لمبا عرصہ پہلے دی گئی تھی اور کوئی طبی طریق ایسا نہیں ایجاد ہوا جس سے اتنا لمبا عرصہ پہلے دبائوں کا پتہ دیا جا سکے ۲ طاعون کے نمودار ہونے پر یہ بتایا گیا تھا کہ یہ عارضی دورہ نہیں ہے بلکہ سال بسال یہ بیماری حملہ کرتی چلی جائے گی۳ یہ بھی قبل از وقت بتایا گیا تھا کہ یہ بیماری پنجاب میں نہایت سخت ہو گی` چنانچہ بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ پنجاب میں ہی یہ بیماری سب سے زیادہ پھیلی اور یہیں سب سے زیادہ موتیں ہوئیں ۴ ڈاکٹروں نے متواتر پیشگوئیاں کیں کہ اب یہ بیماری قابو میں آگئی ہے مگر آپ نے بتایا کہ اس وقت تک اس کا زور ختم نہ ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا علاج نہ ہو گا اور ایسا ہی ہوا کہ اس کا دورہ برابر نو سال تک سختی سے ہوتا رہا- ۵ آخر میں اللہ
۵۴۵ تعالیٰ نے خود رحم کر کے اس کے زور کو توڑ دینے کا وعدہ کیا اور آپ کو بتایا گیا کہ طاعون چلی گئی بخار رہ گیا چنانچہ اس الہام کے بعد طاعون کا زور ٹوٹ گیا اور بخار کا شدید حملہ پنجاب میں ہوا جس سے قریباً کوئی گھر خالی نہیں رہا اور سرکاری رپورٹوں میں تسلیم کیا گیا کہ بخار کا یہ حملہ غیر معمولی تھا- آٹھویں پیشگوئی زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی جو سب اہل مذاہب پر حجت ہوئی اور جس سے ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ زمین کی گہرائیوں پر بھی ویسی ہی حکومت رکھتا ہے جیسی کہ اس کی سطح کے اوپر رہنے والی چیزوں پر اب میں ایک پیشگوئی ان پیشگوئیوں میں سے پیش کرتا ہوں جو اس امر کو ظاہر کرنیوالی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا تصرف زمین کے اندر بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ زمین کے اوپر- یہ پیشگوئی اس زلزلہ عظیمہ کے متعلق ہے جو پنجاب میں ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا اور اس کے ذریعے سے بھی کل ادیان کے پیروؤں پر صداقت اسلام اور صداقت مسیح موعود کے متعلق حجت قائم ہوئی.اس زلزلے کے متعلق حضرت اقدسؑ مسیح موعود ؑنے یہ الہام شائع کئے تھے- ’’زلزلہ کا دھکا-‘‘ عفت الدیار محلھا ومقامھا یعنی ایک خطرناک زلزلہ آئے گا جس سے لوگوں کی مستقل سکونت کے مکانات بھی تباہ ہو جائیں گے اور عارضی سکونت کے کیمپ بھی تباہ ہو جائیں گے- یہ الہامات سلسلہ احمدیہ کے متعدد اخبارات میں اسی وقت شائع کر دئیے گئے اور ان الہامات کا اپنے ظاہر لفظوں میں پورا ہونا ایسا بعید از قیاس تھا کہ سمجھا گیا شائد اس سے طاعون کی سختی مراد ہو` مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ اور مقدر تھا` کانگڑے کی آتش فشاں پہاڑی جو مدتوں سے بالکل بے ضرر چلی آتی تھی اور جس کی آتش فشانی تو ہم پرست ہندوؤں سے ایک دیوی کا
۵۴۶ ہدیہ لینے کے سوا اور کسی لائق نہیں سمجھی جاتی تھی اور جس کے متعلق علم طبقات الارض کے ماہروں کا خیال تھا کہ اپنی قوت انضجار کو ضائع کر چکی ہے اور اس سے کسی تباہی کا خطرہ نہیں رہا ہے اور جس کے اردگرد سینکڑوں سال پہلے کے بنے ہوئے بڑے بڑے قیمتی مندر موجود تھے اور ہزاروں آدمی جن کی زیارت کے لیے جاتے رہتے تھے- اس قابل اندیشہ پہاڑی کو صاحب قدرت وجبروت ہستی کی طرف سے حکم پہنچا کہ وہ اپنے اندر ایک نیا جوش پیدا کرے اور اس کے مامور کی صداقت پر گواہی دے- الہام زلزلہ میں جیسا کہ اس کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ایسی جگہ زلزلے کے سب سے زیادہ تباہ کن ہونے کی خبر دی گئی ہے جہاں ایسے مکانات کثرت سے ہون جو عارضی سکونت کے لیے ہوتے ہیں اور ایسے مکانات یا تو سرائیں اور ہوٹل ہوتے ہیں یا کیمپ کی فوجی بارکیں جن میں فوجیں آتی جاتی رہتی ہیں اور جو مستقل سکونت کے لیے نہیں ہوتیں- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الہام عفت الدیار محلھا ومفا مھامیں محلھاکا لفظمقامھا کے لفظ سے پہلے رکھنا امر مذکورہ بالا پر زور دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اس مصرع میں شاعر(حضرت لبیدؓ بن ربیعہ عامری) نے قافیہ کی پابندی کی وجہ سے لفظ محل کو لفظ مقام سے پہلے رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو حضرت لبید کا یہ مصرع الہام کے لیے انتخاب فرمانے میں کوئی مجبوری نہیں تھی- وہ اس کی جگہ کوئی اور عبارت نازل فرما سکتا تھا` یا چونکہ یہ مصرع اکیلاہی الہام کیا تھا یہ کسی دوسرے الہامی مصرع کے ساتھ چسپاں نہیں تھا کہ اس کے قافیے کی رعایت مدنظر ہوتی وہ اسی کے الفاظ کو آے پیچھے کر سکتا تھا- پس یہ الفاظ درحقیقت اسی بات کے ظاہر کرنے کے لیے برقرار رکھے گئے کہ زلزلہ ایک ایسے مقام پر آئے گا جہاں کثرت سے عارضی سکون کی عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور جیسا کہ ظاہر ہے- ایسی عمارتیں چھاونیوں، سیر گاہوں اور زیارت گاہوں میں ہی زیادہ ہوتی ہیں پس ایسے ہی مقامات میں سے کسی ایک میں زلزلے کے آنے کی خبر دی گئی تھی- ان الہامات کے شائع کرنے کے ایک عرصہ بعد جبکہ کسی کو وہم وگمان بھی نہ تھا کانگڑے کی خاموش آتش فشاں پہاڑی جنبش میں آئی اور ۴ اپریل ۱۹۰۸ء کی صبح کے وقت جبکہ لوگ نمازوں سے فارغ ہوئے ہی تھے اس نے سینکڑوں میل تک زمین کو ہلا دیا` کانگڑہ اور اس کے مندر اور اس کی سرائیں برباد ہو گئیں آٹھ میل پر دھر سالہ کی چھاونی تھی اس کی بیرکیں زمین کے ساتھ مل گئیں اور ان کوٹھیوں کی جو موسم گرما میں انگریزوں کی سکونت کے لیے تھیں اینٹ
۵۴۷ سے اینٹ بج گئی ڈلہوزی اور بکلوہ کی چھاؤنیوں کی عمارتیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں- دیگر شہروں اور دیہات کو بھی سخت صدمہ پہنچا اور بیس ہزار آدمی اس زلزلے سے موت کا شکار ہوئے- طبقات الارض کے ماہر حیران رہ گئے کہ اس زلزلے کا کیا باعث تھا مگر وہ کیا جانتے تھے کہ اس زلزلے کا باعث حضرت مسیح موعودؑ کی تکذیب تھی اور اس کی غرض لوگوں کو اس کے دعوے کی طرف توجہ دلائی تھی- وہ اس کا باعث زمین کے نیچے تلاش کر رہے تھے مگر درحقیقت اس کا باعث زمین کے اوپر تھا اور کانگڑے کی خاموش شدہ آتش فشاں پہاڑی اپنے رب کا حکم پورا کر رہی تھی اس زلزلے کے علاوہ آپ نے اور بہت سے زلزلوں کی خبر دی جو اپنے وقت پر آئے اور بعض ابھی آئیں گے- نویں پیشگوئی جنگ ِعظیم کی پیشگوئی جو سب دنیا کے لیے حجت ہوئی اور جس سے ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح جمادات ونباتات پر حکومت رکھتا ہے اس طرح ان لوگوں کے دلوں پر بھی جو حکومت کے نشہ میں چور ہو کر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی خدائی سے باہر سمجھتے ہیں نویں مثال میں ان پیشگوئیوں میں سے منتخب کرتا ہوں جو ساری دنیا کے لیے حجت ہوئیں اور جن سے یہ ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰٰ کے قبضہ قدرت میں اسی طرح ارباب حکومت کے دل بھی ہیں جس طرح کہ عوام کے اور اسی طرح انسان کی فرمانبرداری کرتا ہے جس طرح اور مخلوق یہ پیشگوئی ۱۹۰۵ء میں شائع کی گئی تھی اور اس مین اس جنگ عظیم کی خبر دی گئی تھی جس نے پچھلے چند سال دنیا کے ہر گوشہ کو حیران وپریشان کر رکھا تھا اور لوگوں کے حواس پر اگندہ کر دئیے تھے اور اب بھی اس کا اثر پوری طرح زائل نہیں ہوا بلکہ کہیں نہ کہیں سے اس کی آگ کا شعلہ سر نکال ہی لیتا ہے-
۵۴۸ اصل الفاظ جن میں اس جنگ کی خبر دی گئی تھی- ایک زلزلہ عظیمہ کی خبر دیتے تھے` لیکن جو علامات اس کی بتائی گئی تھیں وہ ظاہر کرتی تھیں کہ زلزلے کے سوا یہ کوئی اور مصیبت ہے اور دوسرے الہامات بھی اسی خیال کی تائید کرتے تھے چنانچہ وہ الہامات جن میں اس جنگ کی خبر دی گئی تھی یہ ہیں -: تازه نشان ،تازہ نشان کا دھکا زلزلة الساعة قوانفسکم ۸۳ ۲نزلت لک لک نری ایات ونهدم مایعمرون.قل عندي شهادة من اللہ.فھل انتم مؤمنون کففت عن بني اسرايل- ان فرعون وهامان وجنودها كانوا خاطين ۲۸۴- فتح نمایاں ہماری فتح ۲۸۵ انى مع الأفواج اتیک بغتة ۲۸۶.یہ الہام بار بار ہوا.پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا.۲۸۷.آتش فشاں.۲۸۸ مصالح العرب مسير العرب.۲۸۹عدت الدیار کذکری - اریک زلزلةالساعة.* یریكم الله زلزلة الساعة.\" لمن الملك اليوم للہ الواحد القھار.۲۷.ترجمہ- قیامت کا نمونہ زلزلہ- اپنی جانوں کو بچاؤ`،میں تیری خاطر نازل ہوا- ہم تیری خاطر بہت سے نشان دکھائیں گے اور جو کچھ دنیا بنا رہی ہے- اس کو منہدم کر دیں گے تو کہدے میرے پاس ایک گواہی اللہ کی طرف سے ہے کیا تم ایمان لاؤ گے- میں نے بنی اسرائیل کی مصیبت دور کر دی` فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکر غلطی پر ہیں- فتح نمایاں- ہماری فتح.میں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس آونگا اور اچانک آؤں- پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا- آتش فشاں پہاڑ- اہل عرب کے لیے ایسے راستے نکلیں گے کہ ان پر چلنا ان کے لیے مفید ہو گا اور اہل عرب اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے- گھروں کو اس طرح اڑا دیا جائے جس طرح میرا ذکر وہاں سے مٹ گیا ہے- اسی زلزلہ کی مزید تشریح آپ ؑنے اپنی ایک نظم میں فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے- زلزلہ ایسا سخت ہو گا کہ اس سے انسانوں اور دیہات اور کھیتوں پر تباہی آجائے گی` ایک شخص بحالت برہنگی اس زلزلے کی زد میں آجائے تو اس سے یہ نہ ہو سکے گا کہ کپڑے پہن سکے- مسافروں کو اس سے سخت تکلیف ہو گی اور بعض لوگ اس کے اثر سے دور دور تک بھٹکتے نکل جائیں گے- زمین میں گڑ ھے پڑ جائیں گے اور خون کی نالیاں چلیں گی- پہاڑوں کی ندیاں خون سے سرخ ہو جائیں گے- تمام دنیا پر یہ آفت آوے گی اور کل انسان بڑے ہوں خواہ چھوٹے اور
۵۴۹ کل حکومتیں اس صدمہ سے کمزور ہو جائیں گی اور خصوصاً زار کی حال بہت زار ہو جائے گی- جانوروں تک پر اس کا اثر پڑے گا اور ان کے حواس جاتے رہیں گے اور وہ اپنی بولیاں بھول جائیں گے- اس کے علاوہ آپ ؑکو الہام ہوا- کشتیاں چلتی ہیں تاہوں کشُتیاں` لنگر اٹھا دو-‘‘ اور یہ بھی آپ نے لکھا کہ یہ سب کچھ سولہ سال کے عرصہ میں ہوگا پہلے آپؑ کو ایک الہام ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ زلزلہ آپؑ کی زندگی میں آئے گا` مگر پھر الہاماً یہ دعا سکھائی گئی کہ اے خدا مجھے یہ زلزلہ نہ دکھلا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہ جنگ سولہ سال کے عرصہ کے اندر تو ہوئی` لیکن آپ کی زندگی میں نہ ہوئی- جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں اس پیشگوئی میں زلزلے کا لفظ ہے لیکن اس سے مراد جنگ عظیم تھی اب میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں جنگ عظیم کی ہی خبر دی گئی تھی ۱) زلزلے کا لفظ جنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ہر آفت شدید کے لئے قرآن کریم میں بھی یہ لفظ جنگ عظیم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اذجاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذزاغت الابصار وبلغت القلوب الجناجرو تظنون باللہ الظنونا ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا )سورہ احزاب رکوع ۱۷/۲( یعنی یاد کرو اس وقت کو جب دشمن تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی حملہ آور ہوا تھا` آنکھیں پھر گئی تھیں اور دل حلق میں آگئے تھے اور تم اللہ عتالیٰ کے متعلق قسم قسم کے گمان کرنے لگ گئے تھے` اس موقعہ پر مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور وہ ایک سخت آفت میں مبتلا کر دئیے گئے تھے پس جب کہ زلزلے کا لفظ ہر آفت پر بولا جا سکتا ہے ار قرآن کریم میں جنگ کے لیے استعمال ہوا ہے تو پیشگوئی کے الفاظ متحمل ہیں` اگر اس پیشگوئی کے معنی زلزلے کی بجائے کچھ اور کئے جاویں- ۲) جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام نے اس پیشگوئی کو شائعء کیا تو اس وقت یہ نوٹ بھی لکھ دیا کہ گو ظاہر الفاظ زلزلے ہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر ’’ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانے نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.‘‘) پس قبل از وقت ملہم کا ذہن بھی اس طرف گیا تھا کہ عجب نہیں کہ زلزلے سے مراد کوئی
۵۵۰ اور مصیبت ہو اور گو مخالفین نے اس امر پر خاص زور دیا کہ آ زلزلے کے لفظ کے کچھ اور معنے نہ قرار دیں` مگر آپ نے متواتر ان کے اعتراضات کے جواب میں یہی لکھا کہ جب کہ الٰہی محاورات میں اختلاف معانی پایا جاتا ہے تو میں اس لفظ کو ایک معنے میں حصر نہیں کر سکتا` پیشگوئی کی عظمت یہ ہے کہ وہ بہت سی ایسی نشانیاں بتاتی ہے جن کا قبل از وقت بتانا انسان کا کام نہیں- پھر وہ وقت بھی بتاتی ہے جس کے اندر وہ واقعہ ہو گا اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اس واقعہ کی نظیر پہلے زمانے میں نہیں ملے گی- ۳ ) خود پیشگوئی کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس سے مراد زلزلہ نہیں ہو سکتا` بلکہ کوئی مصیبت مراد ہے کیونکہ ۱) پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ وہ زلزلہ ساری دنیا پر آئے گا اور زلازل زمینی سب دنیا پر ایک وقت میں نہیں آتے` بلکہ ٹکڑوں ٹکڑوں پر آتے ہیں۲) پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلے کی گھڑی مسافروں پر سخت ہو گی اور وہ راستہ بھول جائیں گے اور زلزلے کا اثر مسافروں پر کچھ بھی نہیں ہوتا- زلزلہ ان لوگوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے جو گھروں اور شہروں میں رہنے والے ہوں- وہ مصیبت جس سے مسافر کو راستہ بھول جائے اور وہ کہیں کا کہیں مارا مارا پھرے- جنگ ہی ہوتی ہے کیونکہ جنگی لائنوں کو چیر کر وہ باہر جا نہیں سکتا اور ادھر ادھر بھاگا بھاگا پھرتا ہے۳) پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زلزلے کا اثر کھیتوں اور باغوں پر بھی ہوگا اور زلازل ارضی کا اثر کھیتوں اور باغوں پر نہیں ہوتا ہے- کھیتوں اور باغوں پر جنگ کا ہی اثر ہوتا ہے کیونکہ دونوں طرف کی توپوں سے وہ بالکل برباد ہو جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جنگی فوائد کو مدنظر رکھ کر کھیت اور باغات کاٹ دئیے جاتے ہیں )۴) پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں پر بھی اس زلزلے کا اثر شدید طور پر ہوگا اور وہ اپنی بولیاں بھول جائیں گے اور ان کے حواس اڑ جائیں گے- یہ اثر بھی ظاہر زلزلے کا نہیں ہوتا- کیونکہ تھوڑی دیر اس کی حرکت رہتی ہے اور اگر پرندے ہوا میں اڑ جائیں تو ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا` مگر جنگ میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ بوجہ رات اور دن کی گولہ باری اور درختوں کے کٹ جانے کے جانور ایسے علاقوں میں سے قریباً مفقود ہو جاتے ہیں اور ان کے حواس اڑ جاتے ہیں۵) زلزلہ کے الہامات میں ایک فقرہ کففت عن بنی اسراء یل ہے- جس کے یہ معنے ہیں کہ میں نے بنی نوع اسرائیل کو شر سے بچا لیا` ظاہری زلزلے سے اس امر کا کوئی تعلق نہیں- اس لیے ان الہامات سے کوئی ایسا ہی واقعہ مراد تھا جس سے بنی اسرائیل کو فائدہ پہنچے گا اور یہ میں آگے بیان
۵۵۱ کروں گا کہ یہ بھی جنگ عظیم کی علامت تھی جو پوری ہوئی` میں یہ بھی بتاؤں گا کہ اس پیشگوئی کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے ۶ الفاظ الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ ہے- کیونکہ زلزلے کے الہامات میں بتایا گیا ہے کہ فرعون وہامان اور ان کے لشکر غلطی پر تھے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قیصر کی طرف اشارہ ہے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا قائمقام بتاتا ہے جو اپنی ہستی کوئی نہیں رکھتا تھا بلکہ جرمن وار لارڈ کے حکم اور اشارے پر چلتا تھا` اگر زلزلے سے ظاہری زلزلہ مراد لیں تو ان فرعون وھامان وجنودھما کانوا خاطئین کے معنے کرنے مشکل ہو جاتے ہیں-۷)زلزلے کے ان الہاموں کے ساتھ انی مع الافواج اتیک بغتہ کا الہام بھی بار بار ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی جنگ ہی کی طرف اشارہ ہے- ۸)الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش فشاں پہاڑ پھوٹے گا` او اس کے ساتھ عرب کی مصلحتیں وابستہ ہوں گی اور وہ گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور یہ مضمون ظاہری زلزلے پر ہرگز چسپاں نہیں ہو سکتا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آتش فشاں سے مراد وہ طبائع کا مخفی جوش ہے جو کسی واقعہ کی وجہ سے ابل پڑے گا اور اس وقت عرب بھی دیکھیں گے کہ خاموش رہنا ان کے مصالح کے خلاف ہے اور وہ بھی اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھائیں گے ۹)الہامات میں بتایا گیا ہے کہ اس دن بادشاہت اللہ تعالیٰٰ کے قبضے میں ہو گی` اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حکومتیں کمزور ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰٰ اپنی حکومت زور دار نشانوں سے قائم کرے گا ۱۰)ایک الہام یہ ہے کہ پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا اور یہ بات بچے تک جانتے ہیں کہ طبعی زلالزل پہاڑ گرنے کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوتے بلکہ زلزلوں کے سبب سے پہاڑ گرتے ہیں- پس معلوم ہوا کہ پہاڑ گرنے اور زلزلہ آنے سے طبعی زلزلہ مراد نہیں بلکہ استعارہ کچھ اور مراد ہے اور وہ یہی کہ کوئی بڑی مصیبت آئے گی جس کے نتیجے میں دنیا میں زلزلہ آئے گا اور لوگ ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگیں گے- ۴) چوتھا ثبوت اس اس بات کا کہ زلزلے سے مراد کوئی اور آفت تھی یہ ہے کہ انہیں دنوں کے دوسرے الہامات بھی ایک جنگ عظیم کی طرف اشارہ کرتے تھے جیسے یہ الہام کہ ’’لنگر اٹھا دو‘‘ یعنی ہر قوم اپنے بیڑوں کو حکم دے گی کہ وہ ہر وقت سمندر میں جانے کے لیے تیار ہیں اور اسی طرح یہ الہام کہ ’’کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کشتیاں‘‘یعنی کثرت سے جہاز ادھر سے ادھر اور ادھر
۵۵۲ سے ادھر پھریں گے اور بحری جنگ کا موقعہ تلاش کرینگے- یہ بات ثابت کر دینے کے بعد کہ اس پیشگوئی میں زلزلے سے مراد جنگ عظیم ہے جو پچھلے دنوں ہوئی ہے اب میں اس پیشگوئی کے مختلف اجزاء کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کس طرح پورے ہوئی ہے سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا کہ اس کی ابتداء اس طرح ہو گی کہ کوئی مصیبت نازل ہو گی اور اس کے نتیجے میں تمام دنیا پر زلزلہ آئے گا چنانچہ اسی طرح اس جنگ کی ابتداء ہوئی- آسٹریا` ہنگری کے شہزادے اور بیگم کے قتل کی مصیبت اس جنگ کے چھڑنے کا باعث ہوئی نہ کہ دول کے سیاسی اختلافات` دوسری بات اس پیشگوئی میں یہ بتائی گئی تھی کہ اس آفت عظیمہ کا اثر ساری دنیا پر ہوگا` چنانچہ یہ بات نہایت روز روشن کی طرح پوری ہوئی اس سے پہلے ایک بھی مصیبت ایسی نہیں آئی جس کا اثر اس وسعت کے ساتھ ساری دنیا پر پڑا ہو` یورپ تو خود اس جنگ کا مرکز ہی تھا` ایشیا بھی اس میں ملوث ہوا چین میں جنگ ہوئی` جاپان جنگ میں شریک ہوا` ہندوستان اس جنگ میں شامل ہوا اور جرمن جہاز نے ہندوستانی ساحلوں پر حملہ کیا، ایران میں انگریزی فوجوں کی ترکوں سے جنگ ہوئی اور جرمن قنصل کے ساتھ ایرانیوں کا فساد ہوا` عراق` شام` فلسطین` سائبیریا میں جنگ ہوئی` افریقہ میں بھی چاروں کونوں پر جنگ ہوئی` جنوبی علاقے میں ساؤتھ افریقہ کی حکومت نے جرمن ویسٹ افریقہ پر حملہ کیا اور خود جنوبی افریقہ میں بغاوت ہوئی` مشرقی افریقہ میں جرمن نو آبادی میں جنگ ہوئی` مغربی ساحل پر کیمران میں جنگ ہوئی` مغربی ساحل پر نہر سویز اور مصر کی سرحد ملحقہ طرابلس پر جنگ ہوئی` آسٹریلیشیا کے علاقے میں جرمن جہاز نے حملہ کیا اور آخر پکڑا گیا اور نیوگائنا میں جنگ ہوئی` امریکہ کے ساحل پر انگریزی اور جرمن بیڑوں میں جنگ ہوئی اور کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ جنگ میں شامل ہوئیں اور جنوبی امریکہ کی مختلف ریاستوں نے بھی جرمن کے خلاف اعلان جنگ کیا` غرض دنیا کا کوئی علاقہ نہیں جو اس جنگ کے اثر سے محفوظ رہا ہو- ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ پہاڑ اور شہر اڑائے جائیں گے اور کھیت برباد ہونگے سو ایسا ہی ہوا` بیسیوں پہاڑیاں کثرت گولہ باری اور سرنگوں کے لگانے سے بالکل مٹ گئیں اور بہت سے شہر برباد ہو گئے حتی کہ اربوں روپیہ جرمن کو ان کی دوبارہ آبادی کے لیے دینا پڑا ہے اور اب تک اس غرض کے لیے وہ تاوان ادا کر رہا ہے اور کھیتوں اور باغوں کا جو نقصان ہوا ہے ان کی
۵۵۳ تو کچھ حد ہی نہیں رہی- جس ملک کی فوج آگے بڑھی اس نے دوسرے ملک کے کھیت اور شہر اجاڑ دئیے اور سبزے کا نام ونشان باقی نہ چھورا اور چونکہ ہزاروں میل پر توپ خانے کا پھیلاؤتھا- اس سے بھی اس قدر نقصان ہوا جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا- ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ جانوروں کے ہوش وحواس اڑ جائیں گے سو ایسا ہی ہوا جن علاقوں میں جنگ ہو رہی تھی وہاں کے جانور حواس باختہ ہو کر نیست ونابود ہو گئے- ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ زمین الٹ پلٹ ہو جائے گی` چنانچہ فرانس ،سرویا اور روس کے علاقوں میں گولہ باری کی کثرت سے بعض جگہ اس قدر بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے کہ نیچے سے پانی نکل آیا- اور اسی طرح خندقوں کی جنگ کے طریق پر زور دینے کی وجہ سے ملک کا ہر حصہ کھد گیا اور ایسا ہوا کہ ان علاقوں کو دیکھ کر یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ علاقہ کبھی آباد تھا بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ بھٹوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے یا پہاڑ کی غاریں ہیں- ایک یہ علامت بتائی گئی تھی کہ ندیوں کے پانی خون سے سرخ ہو جائیں گے اور خون کی ندیاں چلیں گی` سو بلامبالغہ اسی طرح ہوا` بعض دفعہ اس قدر خونریزی ہوتی تھی کہ ندیوں کا پانی فی الواقعہ میلوں تک سرخ ہو جاتا تھا اور ہر سرحد پر اس قدر جنگ ہوئی کہ کہہ سکتے ہیں کہ خون کی نالیاں بہہ پڑیں- ایک یہ علامت بتائی گئی تھی یہ مسافروں پر وہ ساعت سخت ہو گی اور بعض ان میں سے راستہ بھولے پھریں گے` چنانچہ ایسا ہی ہوا` خشکی پر فوجوں کے پھیل جانے سے اور سمندر میں آبروز جہانوں کے حملوں سے مسافروں کو جو تکلیف ہوئی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا اور جس وقت جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت ہزاروں لاکھوں آدمی دشمنوں کے ممالک میں گھر گئے اور بعض ہزاروں میل کا چکر لگا کر گھروں کو پہنچے اور جنگ کے درمیان بھی بہت دفعہ سپاہیوں کو بعض ناکوں کے دشمن کے قبضے میں چلے جانے کی وجہ سے سینکڑوں میل اسفر کر کے جانا پڑتا تھا اور انگریز سپاہی بوجہ فرانس میں مسافر ہونے کے راستہ بھول جاتے تھے` چنانچہ اس قسم کے حوادث کی کثرت کی وجہ سے آخر فرانسیسی زبان میں ان کی رجمنٹوں وغیرہ کے نام تختیوں پر لکھ کر ان کے گلوں میں لٹکائے گئے` تاکہ جہاں جائیں وہ تختیاں دکھا کر منزل مقصود پر پہنچ سکیں- ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ یورپ جو کچھ عمارات تیار کر رہا ہے- وہ مٹا دی جائینگی چنانجہ ایسا ہی ہوا` اس جنگ نے علاوہ ظاہری عمارتوں کے گرانے کے یوردپین تمدن کی بنیادوں
۵۵۴ کو بھی ہلا دیا ہے اوراب وہ اس جال میں سے نکلنے کے لئے سخت ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جو خود اس کے ہاتھوں نے تیار کیا تھا مگر کامیاب نہیں ہوتا اور یقیناً دنیا دیکھ لے گی کہ جنگ سے پہلے کا یوروپین تمدن اب کامیاب نہیں رہے گا` بلکہ اس کی جگہ ایسے طریق اور ایسی رسومات لے لیں گی کہ خر اسے اسلام کی طرف توجہ کرنی پڑے گی اور یہ خدا کی طرف سے مقدر ہو چکا ہے کوئی اس امر کو روک نہیں سکتا- ایک علامت یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل کو جو تکلیف پہنچ رہی تھی اس سے وہ بچا لیے جائیں گے- چنانچہ یہ بات بھی نہایت وضاحت کے ساتھ پوری ہوئی` اسی جنگ کے دوران میں اور اسی جنگ کے باعث سے مسٹر بلفور نے جواب لارڈ بلفور ہیں اس بات کا اعلان کیا کہ یہودی جو بے وطن پھر رہے ہیں` ان کا قومی گھر یعنی فلسطین ان کو دے دیا جائے گا اور اتحادی حکومتیں اس امر کو بھی اپنا نصب العین بنائیں گی کہ اس جنگ کے بعد وہ بے انصافی جو ان سے ہوتی چلی آئی ہے دور کر دی جائے` چنانچہ اس وعدے کے مطابق جنگ کے بعد فلسطین ترکی حکومت سے علیحدہ کر لیا گیا اور یہود کا قومی گھر قرار دے دیا گیا اب وہاں حکومت اس طرز پر چلائی جا رہی ہے کہ کسی دن وہاں یہود کا قومی گھر بن سکے` چاروں طرف سے وہاں یہود جمع کئے جا رہے ہیں اور ان کا وہ پرانا مطالبہ پورا کر دیا گیا ہے جو وہ اپنے قومی اجتماع کے متعلق پیش کرتے چلے آرہے تھے- اس علامت کے متعلق ایک عجیب بات یہ ہے کہ اس کی طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا ہے- سورہ بنی اسرائیل میں آتا ہے وقلنا من بعدہ لبنی اسراء یل اسکنوا الارض فاذا جاء وعد الاخرہ جئنا بکم لفیفا یعنی فرعون کے ہلاک کرنے کے بعد ہم نے بنی اسراء یل سے کہا کہ اس زمین میں رہو- پھر جب کو آنے والی بات کے وعدے کا وقت آئے گا تو اس وقت ہم تم سب کو اکٹھا کر کے لے آئیں گے- بعض مفسرین نے اس الارض (زمین)سے مراد مصر لیا ہے اور بعد کو آنے والی بات کے وعدے سے مراد قیامت لی ہے` مگر یہ دونوں باتیں درست نہیں کیونکہ بنی اسرائیل کو مصر میں رہنے کا حکم نہیں` بلکہ ارض مقدسہ میں رہنے کا حکم ملا تھا اور وہیں وہ رہے` اسی طرح وعد الاخرہ سے بھی قیامت مراد نہیں کیونکہ قیامت کا تعلق ارض مقدسہ میں رہنے کے ساتھ کچھ بھی نہیں` صحیح معنے یہ ہیں کہ ارض مقدسہ میں رہنے کا ان کو حکم دیا گیا ہے اور پھر یہ
۵۵۵ کہہ کر جب وعد الاخرہ آئے گا` تو ہم پھر تم کو اکٹھا کر کے لے آیں گے اس بات کا اشارہ کیا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم کو یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی` لیکن وعدہ الاخرہ کے وقت یعنی مسیح موعود کی بعثت ثانیہ کے وقت ہم تم کو پھر اکٹھا کر کے لے آئیں گے` چنانچہ تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے- وعدالاخرہ نزول عیسی من السماء اسی سورہ کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق دو زمانوں کا ذکر کیا ہے` جن میں سے دوسرے زمانے کے متعلق فرماتا ہے- فاذا جاء وعد الاخرہ لیسوء ا وجوھکم ولید خلواالمسجد کما دخلوہ اول مرہ ولیتبروا ما علوا تتبیرا پس جد وعدہ الاخرہ آگیا تاکہ تمہاری شکلوں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد میں داخل ہوئے تھے اس دفعہ بھی مسجد میں داخل ہوں اور جس چیز پر قبضہ پائیں اسے ہلاک کر دیں- اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وعد الاخرہ سے مراد وہ زمانہ ہے جو مسیح کے بعد یہود پر آئے گا- کیونکہ اس وعد الاخرہ کے بعد بجائے جمع کئے جانے کے یہود پر اگندہ کر دئیے گئے تھے اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ دوسری جگہ وعد الاخرہ سے مسیح کے نزول ثانی کے بعد کا زمانہ مراد ہے اور جئنا بکم لفیقا سے مراد یہود کا وہ اجتماع ہے جو اس وقت فلسطین میں کیا جا رہا ہے کہ وہ ساری دنیا سے اکٹھا کر کے وہاں لاکر بسائے جا رہے ہیں اور حضرت اقدسؑ علیہ السلام کے الہام کففت عن بنی اسراء یل سے مراد اس مخالفت کا دور ہونا ہے جو اقوام عالم بنی اسرائیل (یہود)سے رکھتی تھیں اور ان کو کوئی قوم گھر بنانے کی اجازت نہیں دیتی تھی- ایک علامت اس جنگ کے لیے یہ مقرر کی گئی تھی کہ یہ جنگ بہر حال سولہ سال کے اندر ہو گی` چنانچہ ایسا ہی ہوا- ۱۹۰۵ء میں اس کے متعلق الہام ہوئے اور ۱۹۱۴ء میں یعنی نو سال کے بعد یہ جنگ شروع ہو گئی- ایک علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ تمام بیڑے اس وقت تیار رکھے جائیں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس جنگ کے دوران میں برسر پیکار قوموں کے علاوہ دوسری حکومتوں کو بھی اپنے بیڑے ہر وقت تیار رکھنے پڑتے تھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کا بیڑہ ان کے سمندر میں کوئی نامناسب بات کر بیٹھے اور ان کو جنگ میں خواہ مخواہ مبتلا ہونا پڑے اور اس غرض سے بھی تا اپنے حقوق کی حفاظت کریں- ایک علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ جہاز پانی میں ادھر سے ادھر چکر لگائیں گے تا
۵۵۶ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں- یعنی بحری تیاریاں بھی بڑے زور سے ہوں گی اور تمام سمندروں میں کشتیاں چکر لگاتی پھریں گی- چنانچہ جس قدر جہازات اس جنگ میں استعمال ہوئے اور جس قدر سمندروں کا پہرا اس جنگ میں دیا گیا ہے اس سے پہلے کبھی اس کی مثال نہیں ملتی- خصوصاً چھوٹے جہازات یعنی ڈسٹیرائروں اور آبدوز کشتیوں نے اس جنگ میں اتنا حصہ لیا ہے جتنا پہلے کبھی نہیں لیا تھا اور الہام میں کشتیوں کے لفظ سے اسی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اس جنگ میں بڑے جہازوں کی نسبت چھوٹے جہازات سے زیادہ کام لیا جائے گا- ایک نشانی اس آفت کی یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اچانک آئے گی- چنانچہ یہ جنگ بھی ایسی اچانک ہوئی کہ لوگ حیران ہو گئے اور بڑے بڑے مدبروں نے اقرار کیا کہ گو وہ ایک جنگ کے منتظر تھے مگر اس قدر جلد اس کے پھوٹ پڑنے کی ان کو امید نہ تھی` آسٹریا کے شہزادے اور اس کی بیوی کا قتل ہونا تھا کہ سب دنیا آگ میں کود پڑی- اس علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ اس کے دوران میں ایسے مواقع نکلیں گے کہ عربوں کے لیے مفید ہوں گے اور عرب ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے اور سب کے لیے نکل کھڑے ہوں گے` چنانچہ ایسا ہی ہوا- ترکوں کے جنگ میں شامل ہونے پر عربوں نے دیکھا کہ وہ قومی آزادی کی خواہش جو صدیوں سے ان کے دلوں میں پیدا ہو کر مر جاتی تھی اس کے پورا کرنے کا موقع آگیا ہے اور وہ سب یکدم ترکوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور فوج در فوج ترکوں کے مقابلے کے لیے نکل پڑے اور آخر آزادی حاصل کر لی- ایک علامت یہ تھی کہ جس طرح میرا ذکر مٹ گیا ہے- اسی طرح گھر برباد کر دئیے جائیں گے` چنانچہ ایسا ہی ہوا- سب سے زیادہ عیاشی میں مبتلا علاقہ فرانس کا مشرقی علاقہ تھا تمام یورپ کو شراب وہیں سے بہم پہنچائی جاتی تھی اور عیش وعشرت کو پسند کرنے والے کل مغربی ممالک سے وہاں جمع ہوتے تھے- سو اس علاقے کو سب سے زیادہ نقصان اٹھا پڑا جس طرح خدا کا ذکر وہاں سے مٹ گیا تھا وہاں کے درو دیوار اسی طرح مٹا دئیے گئے- ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ ہماری فتح ہو گی- یعنی جس حکومت کے ساتھ مسیح موعود کی جماعت ہو گی- اس کی فتح حاصل ہو گی` چنانچہ ایسا ہی ہوا` اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کی دعاؤں کے طفیل برطانیہ کو اس خطرناک مصیبت سے نجات دی` گو اس کے مدبّر تو یہ خیال کرتے ہونگے
کہ ان کی تدبیروں سے یہ فتح ہوئی ہے` لیکن اگر واقعات پر ایک تفصیلی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حیرت انگیز اتفاقات انگریزوں کی فتح کا موجب ہوئے ہیں` جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فتح آسمانی دخل اندازی سے ہوئی ہے نہ کہ صرف انسانی تدابیر سے- ایک علامت جو اپنے اندر کئی نشانات رکھتی ہے یہ بتائی گئی تھی کہ اس جنگ میں زار کا حال بہت خراب ہو گا- جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی اس وقت کے حالات اس کے الفاظ کے پورا ہونے کے بالکل مخالف تھے` مگر پیشگوئی پوری ہوئی اور ہر ایک کے لئے حیرت کا موجب بنی- اس پیشگوئی میں درحقیقت کئی پیشگوئیاں ہیں- اس میں بتایا گیا ہے کہ اس آفت عظمیٰ تک زار کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا` جب یہ جنگ ہو گی` اس وقت اس کو صدمہ پہنچے گا` لیکن صدمہ اس قسم کا نہیں ہو گا کہ وہ مارا جائے- کیونکہ جو شخص مارا جائے اس کی نسبت یہ نہیں کہا جاتا کہ اس کا حال زار ہے- پس الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت اس کو موت نہیں آئے گی بلکہ وہ نہایت تکلیف دہ عذابوں میں مبتلا ہوگا اور پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آفت کے ساتھ ہی زاروں کا خاتمہ ہو جائے گا- کیونکہ اس وقت کا مورد کسی خاص شخص کو نہیں بلکہ زار کو بحیثیت عہدہ بتایا گیا ہے- اب دیکھئے یہ علامت کس شان کے ساتھ پوری ہوئی- اس جنگ سے پہلے زار کے خلاف بہت سی منصوبہ بازیاں ہوئیں مگر وہ بالکل محفوظ رہا- اس کے بعد یہ جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا وقت آگیا تو اس طرح اچانک وہ پکڑا گیا کہ سب لوگ حیران ہیں- جیسا کہ حالت سے معلوم ہوتا ہے جس وقت روس میں فساد پھوٹا ہے اس وقت زار روس سرحد پر فوجوں کے معائنے کے لیے گیا ہوا تھا اور جب وہ دارلخلافہ سے چلا ہے اس وقت کوئی ایسا فساد نہ تھا- اس کے گورنر کی بعض غلطیوں سے جوش پیدا ہوا` لیکن حکومتوں میں اس قسم کے جوش تو پیدا ہو ہی جاتے ہیں اور س قدر مضبوطی سے قائم حکومتیں ایسے جوشوں سے یکدم نہیں مٹ جاتیں` مگر اللہ تعالیٰٰ اس موقعہ پر کام کر رہا تھا` زار روس نے لوگوں میں جوش کی حالت معلوم کر کے گونر کو سختی کرنے کا حکم دے دیا گورنر کو بدل کر ایک اور گورنر مقرر کر دیا اور خود دارالخلافہ کی طرف چلا` تاکہ اس کے جانے سے لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے` مگر راستے میں اسے اطلاع ملی کہ لوگوں کا جوش تیزی پر ہے اور یہ کہ اس کو اس وقت دارالخلافہ کی طرف نہیں آنا چاہئیے مگر بادشاہ نے اس نصیحت کی پروانہ کی اور خیال کیا کہ اس کی موجودگی میں کوئی شور نہیں ہو سکتا اور آگے
۵۵۸ بڑھتا گیا` کچھ ہی دور آگے ٹرین گئی تھی کہ معلوم ہوا بغاوت ہو گئی ہے اور باغیوں نے دفاتر وزارت پر قبضہ کر لیا ہے اور ملکی حکومت قائم ہو گئی ہے یہ سب کچھ ایک ہی دن میں ہو گیا` یعنی ۱۲ مارچ ۱۹۱۷ء کی صبح سے شام تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ اختیار رکھنے والا بادشاہ جو اپنے آپ کو زار کہتا تھا یعنی کسی کی حکومت نہ ماننے والا اور سب پر حکومت کرنے والا- وہ حکومت سے بے دخل ہو کر اپنی رعایا کے ماتحت ہو گیا اور ۱۵ مارچ کو مجبورا اسے اپنے ہاتھ سے یہ اعلان لکھنا پڑا کہ وہ اور اس کی اولاد تخت روس سے دست بردار ہوتے ہیں اور حضرت اقدسؑ ؑکی پیشگوئی کے مطابق زاروں کے خاندان کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا` مگر ابھی اللہ کے کلام کے بعض حصوں کا پورا ہونا باقی تھا- نکولس ثانی (زار روس) یہ سمجھا تھا کہ وہ حکومت سے بے دخل ہو کر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچالے گا اور خاموشی سے اپنی ذاتی جائدادوں کی آمدن پر گزارہ کرلے گا مگر اس کا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا ۱۵ مارچ کو وہ حکومت سے دست بردار ہوا اور ۲۱ مارچ کو قید کر کے سکوسیلوبھیج دیا گیا` اور بائیس کو امریکہ نے اور چوبیس کو انگلستان` فرانس اور اٹلی نے باغیوں کی حکومت تسلیم کر لی اور زار کی سب امیدوں پر پانی پھر گیا` اس نے دیکھ لیا کہ اس کی دوست حکومتوں نے جن کی مدد پر اسے بھروسہ تھا اور جن کے لیے جرمن سے جنگ کر رہا تھا ایک ہفتہ کے اندر اندر اس کی باغی رعایا کی حکومت تسلیم کر لی ہے اور اس کی تائید میں کمزور سی آواز بھی نہیں اٹھائی` مگر اس تکلیف سے زیادہ تکلیفیں اس کے لیے مقدر تھیں تاکہ وہ اپنی زار حالت سے اللہ تعالیٰٰ کے کلام کو پورا کرے گو وہ قید ہو چکا تھا مگر روس کی حکومت کی باگ شاہی خاندان کے ایک فرد شہزادہ دلواؤکے ہاتھ میں تھی جس کی وجہ سے قید میں اس کے ساتھ احترام کا سلوک ہو رہا تھا اور وہ اپنے بچوں سمیت باغبانی اور اسی قسم کے دوسرے شغلوں میں وقت گزارتا تھا مگر جولائی میں اس شہزادہ کو بھی علیحدہ ہونا پڑا اور حکومت کی باگ کرنسکی کے ہاتھ میں دی گئی- جس سے قید کی سختیاں بڑھ گئیں` تاہم انسانیت کی حدود سے آگے نہیں نکلی تھیں` لیکن سات نومبر کو بولشویک بغاوت نے کرنسکی کی حکومت کا بھی خاتمہ کر دیا.اب زار کی وہ خطرناک حالت شروع ہوئی جسے سن کر سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی کانپ جاتا ہے- زار کو سکوسیلو کے شاہی محل سے نکال کر مختلف جگہوں میں رکھا گیا اور آخر ان مظالم کی یاد دلانے کے لیے جو وہ سائبیریا کی قید کے ذریعے اپنی بیکس رعایا پر کیا کرتا تھا` اکیٹیرن
۵۵۹ برگ بھیج دیا گیا- یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو جیل یورال کی مشرق کی طرف واقع ہے اور ماسکو سے ( چودہ سو چالیس میل کے فاصلے پر ہے اور اس جگہ پر وہ سب مشینیں تیار ہوتی ہیں جو سائبیریا کی کانوں میں جہاں روسی پولیٹیکل قیدی کام کیا کرتے تھے استعمال کی جاتی ہیں گویا ہر وقت اس کے سامنے اس اعمال کا نقشہ رکھا رہتا تھا- صرف ذہنی عذابوں پر ہی اکتفا نہیں کی گئی` بلکہ سویٹ نے اس کے کھانے پینے میں بھی تنگی کرنی شروع کی اور اس کے بیمار بچہ کو وحشی سپاہی اس کے اور اس کی بیوی کے سامنے نہایت بے دردی سے مارتے اور اس کی بیٹیوں کو نہایت ظالمانہ طور سے دق کرتے` لیکن ان مظالم سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا اور نئی سے نئی ء ایجادیں کرتے رہتے تھے` آخر ایک دن زارینہ کو سامنے کھڑا کر کے اس کی نوجوان لڑکیوں کی جبراً عصمت دری کی گئی اور جب زارینہ اپنا منہ روتے ہوئے دوسری طرف کر لیتی تو ظالم سپاہی سنگینیں مار کر اس کو مجبور کرتے کہ وہ ادھر منہ کر کے دیکھے جدھر ظالم وحشیوں کا گروہ انسانیت سے گری ہوئی کاروائیوں میں مشغول تھا` زار اسی قسم کے مظالم کو دیکھتا اور ان سے زیادہ سختیاں برداشت کرتا ہوا جتنی کہ شاید کبھی کسی شخص پر بھی نازل نہ ہوئی ہوں گی ۱۶ جولائی ۱۹۱۸ء کو معہ کل افراد خاندان کے نہایت سخت عذاب کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰٰ کے نبی کی بات پوری ہوئی کہ ’’زار بھی وہ گا تو ہو گا اس گھڑے با حال زار‘‘ زار دکھوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتا ہوا مر گیا- جنگ ختم ہو گئی` قیصر اور آسٹریا کے بادشاہ اپنی حکومتوں سے بے دخل ہو گئے- شہر ویران ہو گئے` پہاڑ اڑ گئے- لاکھوں آدمی مارے گئے- خون کی ندیاں بہ گئیں` دنیا تہ وبالا ہو گئی مگر افسوس کہ دنیا ابھی اللہ تعالیٰٰ کے فرستادہ کی صداقت کی دلیل طلب کر رہی ہے اللہ تعالیٰ کے خزانے عذاب سے بھی خالی نہیں- جس طرح کہ رحمت سے خالی نہیں` مگر مبارک ہیں جو وقت پر سمجھ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے لڑنے کی بجائے اس سے صلح کرنے کے لیے دوڑتے ہیں اور اس کے نشانوں سے اندھوں کی طرح نہیں گزر جاتے- اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمتیں ہوتی ہیں اور اس کی برکتوں سے وہ حصہ پاتے ہیں اور دنیا کے لیے مبارک ہو جاتے ہیں
۵۶۰ دسویں پیشگوئی قادیان کی ترقی کا نشان اس وقت تک تو میں نے وہ نشان بیان کئے ہیں جو یا تو صرف انذار کا پہلو رکھتے تھے- یا دونوں پہلوؤں پر مشتمل تھے اب میں تین ایسے نشان بیان کرتا ہوں جو خالص تبشیر کا پہلو اپنے اندر رکھتے ہیں یہ تین مثالیں جو میں بیان کرونگا یہ بھی ایسی ہی ہیں کہ بوجہ اپنی عمومیت کے دوست اور دشمن میں شائع ہیں اور ہر مذہب وملت کے لوگوں میں سے اس کے گواہ مل سکتے ہیں اور اس وقت سے کہ ان کا علم اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے دیا گیا` حضرت اقدسؑ علیہ السلام کی کتب اور ڈائریوں میں شائع ہوتی چلی آئی ہیں- سب سے پہلے میں اس پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو قادیان کی ترقی کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدسؑ کو بتایا گیا کہ قادیان کا گاؤں ترقی کرتے کرتے ایک بہت بڑا شہر ہو جائے گا جیسے کہ بمبئی اور کلکتہ کے شہر ہیں- گویا نو دس لاکھ آبادی تک پہنچ جائے گا اور اس کی آبادی سشالاً اور شرقاً پھیلتے پھیلتے ہوئے بیاس تک پہنچ جائے گی جو قادیان سے نو میل کے فاصلے پر بہنے والے ایک دریا کا نام ہے- یہ پیشگوئی جب شائع ہوئی ہے- اس وقت قادیان کی حالت یہ تھی کہ اس کی آبادی دو ہزار کے قریب تھی` سوائے چند ایک پختہ مکانات کے باقی سب مکانات کچے تھے` مکانوں کا کرایہ اتنا گرا ہوا تھا کہ چار پانچ آنے ماہوار پر مکان کرایہ پر مل جاتا تھا` مکانوں کی زمین اس قدر ارزاں تھی کہ دس بارہ روپے کو قابل سکونت مکان بنانے کے لئے زمین مل جاتی تھی` بازار کا یہ حال تھا کہ دو تین روپے کا آٹا ایک وقت میں نہیں مل سکتا تھا` کیونکہ لوگ زمیندار طبقہ کے تھے اور خود دانے پیس کر روٹی پکاتے تھے تعلیم کے لیے ایک مدرسہ سرکاری تھا جو پرائمری تک تھا اور اسی کا مدرس کچھ الاونس لیکر ڈاکخانے کا کام بھی کر دیا کرتا تھا` ڈاک ہفتے میں دو دفعہ آتی تھی` تمام عمارتیں فیصل قصبہ کے اندر تھیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے ظاہری کوئی سامان نہ تھے کیونکہ قادیان ریل سے گیارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی
۵۶۱ سڑک بالکل کچی ہے اور جن ملکوں میں ریل ہو` ان میں اس کے کناروں پر جو شہر واقع ہوں انہیں کی آبادی بڑھتی ہے` کوئی کارخانہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے مزدوروں کی آبادی کے ساتھ شہر کی ترقی ہو جائے` کوئی سرکاری محکمہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے قادیان کی ترقی ہو` نہ ضلع کا مقام تھا نہ تحصیل کا- حتی کہ پولیس چوکی بھی نہ تھی` قادیان میں کوئی منڈی بھی نہ تھی- جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی ترقی کرتی- جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت حضرت اقدسؑ علیہ السلام کے مرید بھی چند سو سے زیادہ نہ تھے کہ ان کو حکماً لاکر یہاں بسا دیا جاتا تو شہر بڑھ جاتا- بے شک کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ آپ نے دعویٰ کیا تھا اس لیے امید تھی کہ آپؑ کے مرید یہاں آکر بس جائیں گے` لیکن اول تو کون کہہ سکتا تھا کہ اس قدر مرید ہو جائیں گے جو قادیان کی آبادی کو آکر بڑھا دیں گے` دوم اس کی مثال کہاں ملتی ہے کہ مرید اپنے کام کاج چھوڑ کر پیر ہی کے پاس آبیٹھیں اور وہیں اپنا گھر بنا لیں- حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا مولد ناصرہ اب تک ایک گاؤں ہے حضرت شیخ شہاب الدین شہروردی` حضرت شیخ احمدسرہندی مجدد الف ثانی` حضرت بہاؤ الدین صاحب نقشبند رحمتہ اللہ علیہم جو معمولی قصبات میں پیدا ہوئے یا وہاں جا کر بسے ان کے مولد یا مسکین ویسے کے ویسے ہی رہے` ان میں کوئی ترقی نہ ہوئی یا اگر ہوئی تو معمولی` جو ہمیشہ ترقی کے زمانے میں ہو جاتی ہے` شہروں کا بڑھنا تو ایسا مشکل ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بادشاہ بھی اگر اقتصادی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے شہر بساتے ہیں تو ان کے بسائے ہوئے شہر ترقی نہیں کرتے اور کچھ دنوں بعد اجڑ جاتے ہیں اور قادیان موجودہ اقتصادی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت خراب جگہ واقعہ ہے نہ تو ریل کے کنارے پر ہے کہ لوگ تجارت کی خاطر آکر بس جائیں اور نہ ریل سے اس قدر دور ہے کہ لوگ بوجہ ریل سے دور ہونے کے اسی کو اپنا تمدنی مرکز قرار دے لیں- پس اس کی آبادی کا ترقی پانا بظاہر حالات بالکل ناممکن تھا عجیب بات یہ ہے کہ قادیان کسی دریا ایسی نہر کے کنارے پر بھی واقع نہیں کہ یہ دونوں چیزیں بھی بعض دفعہ تجارت کے بڑھانے اور تجارت کو ترقی دے کر قصبے کی آبادی کے بڑھانے میں ممد ہوتی ہیں- غرض بالکل مخالف حالات میں اور بلا کسی ظاہری سامان کی موجودگی کے حضرت اقدسؑ مسیح موعود نے پیشگوئی کی کہ قادیان بہت ترقی کر جائے گا اس پیشگوئی کے شائع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰٰ نے آپؑ کی جماعت کو بھی ترقی دینی شروع کر دی اور ساتھ ہی ان کے دلوں میں یہ خواہش
۵۶۲ بھی پیدا کرنی شروع کر دی کہ وہ قادیان آکر بسیں اور لوگوں نے بلا کسی تحریک کے شہروں اور قصبوں کو چھوڑ کر قادیان آکر بسنا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی یہاں آکر بسنا شروع کر دیا- ابھی اس پیشگوئی کے پوری طرح پورے ہونے میں تو وقت ہے مگر جس حد تک یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے- اس وقت قادیان کی آبادی ساڑھے چار ہزار یعنی دوگنی سے بھی زیادہ ہے فصیل کی جگہ مکانات بن کر قصبے نے باہر کی طرف پھیلنا شروع کر دیا ہے اور اس قوت قصبے کی پرانی آبادی سے قریباً ایک میل تک نئی عمارات بن چکی ہیں اور بڑی بڑی پختہ عمارات اور کھلی سڑکوں نے ایک چھوٹے سے قصبے کو ایک شہر کی حیثیت دیدی ہے بازار نہایت وسیع ہو گئے ہیں اور ہزاروں کا سودا انسان جس وقت چاہے خرید سکتا ہے- ایک پرائمری سکول کی بجائے دو ہائی سکول بن گئے ہیں جن میں ایک ہندوؤں کا سکول ہے- ایک گرل سکول ہے اور ایک علوم دینیہ کا کالج- ڈاک خانہ جس میں ایک ہفتے میں دو دفعہ ڈاک آتی تھی اور سکول کا مدرس الاؤنس لے کر اس کا کام کر دیا کرتا تھا- اب اس میں سات آٹھ آدمی سارا دن کام کرتے ہیں- تب جاکر کام ختم ہوتا ہے اور تار کا انتظام ہو رہا ہے ایک ہفتے میں دو بار نکلنے والا اخبار شائع ہوتا ہے- دو ہفتے وار اردو اور ایک ہفتے وار انگریزی اخبار شائع ہوتے ہیں ایک پندرہ روزہ اخبار شائع ہوتا ہے اور دو ماہوار رسالے شائع ہوتے ہیں` پانچ پریس جاری ہیں- جن میں سے مشین پریس ہے بہت سی کتب ہر سال شائع ہوتی ہیں- بڑے بڑے شہروں کی ڈاک ادھر ادھر ہو جائے تو ہو جائے مگر قادیان کا نام لکھ کر خط ڈالیں تو سیدھا یہی پہنچتا ہے غرض نہایت مخالف حالات میں قادیان نے وہ ترقی کی ہے جس کی مثال دنیا کے پردے پر کسی جگہ بھی نہیں مل سکتی` اقتصادی طور پر شہروں کی ترقیات کے لیے جو اصول مقرر ہیں ان سب کے علی الرغم اس نے ترقی حاصل کر کے اللہ تعالیٰٰ کے کلام کی صداقت ظاہر کی ہے جس سے وہ لوگ جو قادیان کی پہلی حالت اور اس کے مقام کو جانتے ہیں` خواہ وہ غیر مذاہب کے ہی کیوں نہ ہوں اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بیشک ’’یہ غیر معمولی اتفاق ہے‘‘- مگر افسوس لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا سب غیر معمولی اتفاق مرزا صاحب ہی کے ہاتھ پر جمع ہو جاتے تھے-
۵۶۳ گیارھویں پیشگوئی نصرت مالی کے متعلق تبشیری پیشگوئیوں میں سے دوسری مثال کے طور پر میں اس پیشگوئی کو پیش کرتا ہوں جو آپ کی مالی امداد کے متعلق کی گئی تھی- یہ پیشگوئی عجیب حالات اور عجیب رنگ میں کی گئی تھی اور درحقیقت آپ کی عظیم الشان پیشین گوئیوں میں سے یہ سب سے پہلی پیشگوئی تھی- اس کی تفصیل یوں ہے کہ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب بیمار ہوئے- اس وقت تک آپ کو الہام ہونے شروع نہ ہوئے تھے` ایک دن جب کہ آپ کے والد صاحب کی بیماری بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ جاتی رہی ہے صرف کسی قدر زحیر کی شکایت باقی تھی آپ کو سب سے پہلا الہام والسماء والطارق ہوا` چونکہ طارق رات کے آنے والے کو کہتے ہیں` اس لئے آپ نے سمجھ لیا کہ )اس میں موت کے آنے کی خبر ہے( اور آج رات ہونے پر والد صاحب فوت ہو جائیں گے اور یہ الہام بطریق ماتم پرسی ہے جو اللہ تعالیٰٰ نے بکمال شفقت آپ سے کی ہے اور آنے والی تکلیف میں آپ کو تسلی دی ہے چونکہ بہت سی آمدنیاں آپ کے خاندان کی آپ کے والد صاحب کی زندگی تک ہی تھیں کیونکہ ان کو پنشن اور انعام ملا کرتا تھا اسی طرح بہت سی جائداد بھی ان کی زندگی تک ہی ان کے پاس تھی` اس لیے اس الہام پر بوجہ بشریت آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جب والد صاحب فوت ہو جائیں گے تو ہماری آمدن کے کئی راستے بند ہ وجائیں گے سرکاری پنشن اور انعام بھی بند ہو جائے گا اور جائیداد کا بھی اکثر حصہ شرکاء کے ہاتھوں میں چلا جائے گا س خیال کا آنا تھا کہ فورا دوسرا الہام ہوا جو ایک بڑی پیشگوئی پر مشتمل تھا اس کے الفاظ یہ تھے کہ الیس اللہ بکاف عبدہ کیا خدا تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہ ہوگا- اس الہام میں چونکہ اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے آ کے تکفل اور آپ کی ضروریات کے پورا کرنے کا وعدہ تھا- آ نے کئی ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس کی اطلاع دے دی تا وہ اس کے گواہ رہیں اور ایک ہندو صاحب کو جو اب تک زندہ ہیں امرتسر بھیج کر اس
۵۶۴ الہام کی مہر کنندہ کروائی.اس طرح سینکڑوں آدمی اس الہام سے واقف ہو گئے اس الہام کی حقیقت کو اور زیادہ واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ آ پ کے خاندان ہی میں سے بہت سے دعوے دار کھڑے ہو گئے آپ کے بڑے بھائی جائیداد کے منتظم تھے- ان کا رشتہ داروں سے کچھ اختلاف ہو گیا- آپ ؑنے ان کو مشورہ دیا کہ ان سے حسن سلوک کرنا چاہئے` مگر انہوں آپؑ کے مشورہ کو قبول نہ کیا- آخر عدالت تک نوبت پہنچی اور انہوں نے آپ ؑسے دعا کے لئے کہا آپؑ نے دعا کی تومعلوم ہوا کہ شرکاء جیتیں گے اور آپ کے بھائی صاحب ہاریں گے- آخر اسی طرح ہوا` جائیداد کا دو تہائی سے زائد حصہ شرکاء کو دیا گیا اور آپ کے بھائی صاحب اور آپ کے حصے میں نہایت قلیل حصہ آیا- گو یہ جائیداد جو آپ کے حصہ میں آئی آپ کی ضروریات کے لیے تو کافی تھی` مگر جو کام آپ کرنے والے تھے اس کے لیے یہ آمدن کافی نہ تھی` اس وقت اسلام کی اشاعت کے لیے اس عظیم الشان کتاب کی تیاری میں مشغول تھے- جس کا نام براہین احمدیہ ہے اور جس کے لیے مقدر تھا کہ مذہبی دنیا میں ہل چل مچادے اور اس کتاب کی اشاعت کے لیے ایک رقم کثیر کی ضرورت تھی- اس نا امیدی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے امید کے دروازے کھول دئیے اور ایسے لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کر دی جو دین سے چنداں تعلق نہیں رکھتے اور اس کتاب کی اشاعت کے لیے سامان بہم پہنچا دیا` مگر اس کتاب کے چار حصے ہی ابھی شائع ہوئے تھے کہ اخراجات اور بھی بڑھ گئے- کیونکہ جس طرف سے آپ حملے کا رخ پھیرنا چاہتے تھے ادھر سے رخ پھر گیا` مگر خود آپ کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا اور کیا ہندو اور کیا مسیح اور کیا سکھ صاحبان سب مل کر آپ پر حملہ آور ہوئے اور آپ کے الہامات پر تمسخر شروع کر دیا` ان کی غرض تو یہ تھی کہ ان الہامات کی عظمت کو صدمہ پہنچے تو وہ اثر جو آپ کی کتابوں سے لوگوں کے دلوں پر پڑا ہے زائل ہو جائے اور اسلام کے مقابلے پر ان کو شکست نصیب ہو` مگر مسلمانوں میں سے بھی بعض حاسد آپ کی مخالفت پر کھڑے ہو گئے اور گویا ایک ہی وقت میں چاروں طرف سے حملہ شروع ہو گیا اور اس بات کا آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص پر اپنے اور بیگانے حملہ آور ہو جائیں اس کے لئے کیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے- پس لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینے اور اسلام کی شان کو قائم رکھنے کے لیے کثیر مال کی ضرورت پیش آئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی سامان پیدا کر دیا- اس کے بعد تیسرا تغیر شروع ہوا- یعنی اللہ تعالیٰ نے
۵۶۵ آپ ؑکو بتایا کہ آپؑ ہی مسیح موعود ہیں اور پہلے مسیح فوت ہو چکے ہیں اس دعوے پر وہ لوگ بھی جو اس وقت تک آپ کے ساتھ تھے جدا ہو گئے اور کل چالیس آدمیوں نے آپ کی بیعت کی` اس وقت گویا عملاً ساری دنیا سے جنگ شروع ہو گئی اور جو لوگ پہلے مددگار تھے انہوں نے بھی مخالفت میں اپنا زور خرچ کرنا شروع کر دیا- اب تو اخراجات اندازے سے زیادہ بڑھنے شروع ہو گئے ایک تو مخالفوں کے اعتراضات کے جواب شائع کرنا- دوسرے اپنے دعویٰ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا اور اس کے دلائل دینا تیسرے چھوٹے چھوٹے اشتہارات تقسیم کرنا تاکہ تمام ملک کو آ پؑ کے دعوے پر اطلاع ہو جائے یہی اخراجات بہت تھے مگر اللہ تعالیٰٰ نے اپنی قدرت کے اظہار کے لیے اور اخراجات کے دروازے بھی کھول دئیے یعنی آپ کو حکم دیا گیا کہ آپؑ قادیان میں مہمان خانہ تعمیر کریں اور لوگوں میں اعلان کریں کہ وہ قادیان آکر آپؑ کے مہمان ہوا کریں اور دینی معلومات کو زیادہ کیا کریں یا اگر کوئی شکوک ہون تو ان کو رفع کیا کریں` سب مددگاروں کا جدا ہو جانا اور اشاعت کے کام کا وسیع ہو جانا اور پھر اس پر مزید بوجھ مہمان خانے کی تعمیر اور مہمان داری کے اخراجات کا ایسی مشکلات کے پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا تھا کہ سارا کام درہم برہم ہو جاتا` مگر اللہ تعالیٰ نے ان چند درجن آدمیوں کے دل میں جو آپ کے ساتھ تھے اور جن میں سے کوئی شخص بھی مالدار نہیں کہلا سکتا تھا اور اکثر مسکین آدمی تھے ایسا اخلاق پیدا کر دیا کہ انہوں نے ہر قسم کی تکلیف برداشت کی` لیکن دین کے کام میں ضعف نہ پیدا ہونے دیا اور درحقیقت یہ ان کی ہمت کام نہیں کر رہی تھی بلکہ اللہ تعالیٰٰ کا وعدہ الیس اللہ بکاف عبدہ کام کر رہا تھا- یہ وہ زمانہ تھا جب کہ احمدی جماعت پر چاروں طرف سے سختی کی جاتی تھی- مولویوں نے فتوی دے دیا کہ احمدیوں کو قتل کر دینا- ان کے گھروں کو لوٹ لینا` ان کی جائدادوں کا چھین لینا- ان کی عورتوں کا بلا طلاق دوسری جگہ پر نکاح کر دینا جائز ہی نہیں موجب ثواب ہے اور شریر او بدمعاش لوگوں نے جو اپنی طمع اور حرص کے اظہار کے لیے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں` اس فتوے پر عمل کرنا شروع کر دیا` احمدی گھروں سے نکالے اور ملازمتوں سے برطرف کئے جا رہے تھے ان کی جائیدادوں پر جبرا قبضہ کیا جا رہا تھا اور کئی لوگ ان مخمصوں سے خلاصی کی کوئی صورت نہ پاکر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور چونکہ ہجرت کی جگہ ان کے لیے قادیان ہی تھی` ان کے قادیان آنے پر مہمان داری کے اخراجات اور بھی ترقی کر گئے تھے- اس وقت جماعت
۵۶۶ ایک دو ہزار آدمیوں تک ترقی کر چکی تھی` مگر ان میں سے ہر ایک دشمنوں کے حملوں کا شکار ہو رہا تھا` ایک دو ہزار آدمی جو ہر وقت اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی جائیداد اور اپنے مال کی حفاظت کی فکر میں لگے ہوئے ہوں اور رات دن لوگوں کے ساتھ مباحثوں اور جھگڑوں میں مشغول ہوں ان کا تمام دنیا میں اشاعت اسلام کے لیے روپیہ بہم پہنچانا اور دین سیکھنے کی غرض سے قادیان آنے والوں کی مہمان داری کا بوجھ اٹھانا اور پھر اپنے مظلوم مہاجر بھائیوں کے اخراجات برداشت کرنا ایک حیرت انگیز بات ہے- سینکڑوں آدمی دونوں وت جماعت کے دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے اور بعض غرباء کی دوسری ضروریات کا بھی انتظام کرنا پڑتا تھا- ہجرت کر کے آنے والوں کی کثرت اور مہمانوں کی زیادتی سے مہمان خانے کے علاوہ ہر ایک گھر مہمان خانہ بنا ہوا تھا` حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی ہر ایک کوٹھڑی ایک مستقل مکان تھا جس میں کوئی نہ کوئی مہمان یا مہاجر خاندان رہتا تھا` غرض بوجھ انسانی طاقت برداشت سے بہت بڑھا ہوا تھا ہر صبح جو چڑھتی اپنے ساتھ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی اور ہر شام جو پڑتی اپنے ساتھ تازہ ابتلا اور تازہ ذمہ داریاں لاتی مگر الیس اللہ بکاف عبدہ کی نسیم سب فکروں کو خس وخاشاک کی طرح اڑا کر پھینک دیتی اور وہ بادل جو ابتداء سلسلہ کی عمارت کی بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دینے کی دھمکی دیتے تھے تھوڑی ہی دیر میں رحمت اور فضل کے بادل ہو جاتے اور ان کی ایک ایک بوند کے گرتے وقت الیس اللہ بکاف عبدہ کی ہمت افزا آواز پیدا ہوتی- اس صعوبت کے زمانے کا نقشہ میرے نزدیک افغانستان کے لوگ اچھی طرح اپنے ذہنوں میں پیدا کر سکتے ہیں` کیونکہ پچھلے دنوں میں وہاں بھی مہاجرین کا ایک گروہ گیا تھا افغانستان ایک باقاعدہ حکومت تھی جو ان کے انتظام میں مشغول تھی` پھر ان میں سے بہت لوگ اپنے اخراجات خود بھی برداشت کرتے تھے مہمانوں کی نسبت میزبانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی` افغانستان کے ایک کروڑ کے قریب باشندے صرف ایک دو لاکھ آدمیوں کے مہان دار بنے تھے` مگر باوجود اس کے مہان داری میں کس قدر دقتیں پیش آئیں` اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دو ہزار غریب آدمیوں کی جماعت پر جب ایک ہی وقت میں سینکڑوں مہمانوں اور غریب مہاجرین کا بوجھ پڑا ہو گا اور ساتھ ہی اشاعت اسلام کے کام کے لیے بھی ان کو روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہو گا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ ان کے اپنے گھروں میں بھی لڑائی جاری تھی تو ان لوگوں کی گردنیں کس قدر بار کے نیچے دب گئی ہوں گی-
۵۶۷ یہ ضروریاتِ سلسلہ ایک دو روز کے لیے نہ تھیں اور نہ ایک دو ماہ کے لیے نہ ایک دو سال کے لیے` بلکہ ہر سال کام ترقی کرتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کام کے لئے آپ ہی بندوبست کر دیتا تھا` ۱۸۹۸ء میں حضرت اقدسؑؑ نے جماعت کے بچوں کی دینی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ہائی سکول کھول دیا اس سے اخراجات میں اور ترقی ہوئی` پھر ایک رسالہ انگریزی اور ایک اردو ماہواری اشاعت اسلام کے لیے جاری کیا اس سے اور بھی ترقی ہوئی` مگر اللہ تعالیٰ سب اخراجات مہیا کرتا چلا گیا` حتی کہ اس وقت ایک انگریزی ہائی سکول کے علاوہ ایک دینیات کا کالج` ایک زنانہ مدرسہ` کئی پرائمری اور مڈل سکول` ہندوستانی مبلغین کی ایک جماعت ماریشس مشن` سیلون مشن` انگلستان مشن` امریکہ مشن اور بہت سے صیغہ جات` تالیف` اشاعت` تعلیم` تربیت` انتظام عام اورقضاۃ اور افتاء وغیرہ کے ہیں اور تین چار لاکھ کے قریب سالانہ خرچ ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے وعدہ الیس اللہ بکاف عبدہ کے ماتحت بہم پہنچا رہا ہے- ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے- کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ابتداء غریب لوگ ہی اس کے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر لوگ کہہ دیا کرتے ہیں مانرک اتبعک الا الذین ھم اراد لنا بدی الرای اور اس میں اس کی حکمت یہ ہوتی ہے تا کوئی شخص یہ نہ کہے کہ یہ سلسلہ میری مدد سے پھیلا اور تا نادان مخالف بھی اس قسم کا اعتراض نہ کر سکیں پس ایسی جماعت سے اس قدر بوجھ اٹھوانا بلا نصرت الٰہی نہیں ہو سکتا` یہ غریب جماعت اسی طرح سرکاری ٹیکس ادا کرتی ہے جس طرح اور لوگ ادا کرتے ہیں` زمینوں کے لگان دیتی ہے- سڑکوں` شفاخانوں وغیرہ کے اخراجات میں حصہ لیتی ہے- غرض سب خرچ جو دوسرے لوگوں پر ہیں وہ بھی ادا کرتی ہے اور پھر دین کی اشاعت اور اس کے قیام کے لیے بھی روپیہ دیتی ہے اور برابر پینتیس سال سے اس بوجھ کو برداشت کرتی چلی آرہی ہے اس زمانے میں بے شک نسبتاً زیادہ آسودہ حال اور معزز لوگ اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں مگر اسی قدر اخراجات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے- پس کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ جب کہ باقی دنیا باوجود ان سے زیادہ مالدار ہونے کے اپنے ذاتی اخراجات کی تنگی پر ہی شکوہ کرتی رہتی ہے- اس جماعت کے لوگ لاکھوں روپیہ سالانہ بلا ایک سال کا وقفہ ڈالنے کے اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس امر کے لیے بھی تیار ہیں کہ اگر ان سے کہا جائے کہ اپنے سب مال اللہ تعالیٰ کی
۵۶۸ راہ میں دے دو تو وہ اسی وقت دے دیں- یہ بات کہاں سے پیدا ہو گئی؟ یقیناً الیس اللہ بکاف عبدہ کا الہام نازل کرنے والے نے لوگوں کے دلوں میں تغیر پیدا کیا ہے ورنہ کونسی طاقت تھی جو اس وقت جب کہ حضرت مسیح موعود ؑکو معمولی اخراجات کی فکر تھی` اس قدر بڑھ جانے والے اخراجات کے پورا کرنے کا وعدہ کرتی اور اس وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیتی- آخر مسلمان کہلانے والے کروڑوں آدمی دنیا میں موجود ہیں وہ کس قدر روپیہ اسلام کی اشاعت کے لیے مہیا کر لیتے ہیں` ہماری جماعت کی تعداد کا اگر زیادہ اندازہ لگایا جائے تو جس قدر روپیہ وہ اشاعت اسلام پر خرچ کرتی ہے اگر اسی حساب سے ہندوستان کے دوسرے مسلمان بھی خرچ کریں تو آٹھ دس کروڑ روپیہ سالانہ ان کو اس صورت میں خرچ کرنا چاہئیے جبکہ ان کی مالی حالت ہماری جماعت کی طرح ہو` لیکن ان میں بڑے بڑے والیان ریاست اور کروڑ پتی تاجر بھی ہیں` اگر ان کا بھی خیال رکھ لیا جائے تو سالانہ پندرہ سولہ کروڑ روپیہ اشاعت اسلام پر صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو خرچ کرنا چاہئے- مگر وہ تو ہماری جماعت کے چار پانچ لاکھ کے مقابلہ میں ایک دو لاکھ روپیہ بھی خرچ نہیں کرتے- یہ فرق اس لیے ہے کہ ہمارے اندر الیس اللہ بکاف عبدہ کا وعدہ اپنا کام کر رہا ہے- بارھویں پیشگوئی ترقی جماعت کے متعلق آپ کی پیشگوئی جو پوری ہو کر دوست ودشمن پر حجت ہو رہی ہے اب میں ان تبشیری پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی کو بطور مثال پیش کرتا ہوں جو اس تعلیم کی اشاعت کے متعلق کی گئی تھیں- جس کے ساتھ آپ مبعوث کئے گئے تھے یعنی وہ علوم اور معارف جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں مگر لوگ ان سے ناواقفیت کی وجہ سے غافل ہو چکے تھے- یہ پیشگوئی بھی ایسی ہے کہ لاکھوں آدمی اس کے شاہد ہیں اور اس وقت کی گئی تھی کہ جب اس کے پورا ہونے کے سامان موجود نہ تھے اس پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے- ’’میں تیری تبلیغ کو
۵۶۹ دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا-‘‘ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نقوس اور اموال میں برکت دونگا اور ان میں کثرت بخشوں گا- (اللہ تعالیٰ) اس (گروہ احمدیان) کو نشونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی- یاتون من کل فج عمیق یعنی دنیا کے ہر ملک سے لوگ تیری جماعت بھی شامل ہے- انگریزی میں بھی آ پؑ کو اس کے متعلق الہام ہوا- کوئی ول گو یو اے لارج پارٹی آف اسلام< میں تم کو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت دونگا- ثلہ من الاولین وثلہ من الاخرین- پہلوں میں سے بھی ایک بڑی جماعت تم کو دی جائے گی اور پچھلوں میں سے بھی- جس کے معنی یہ بھی ہیں کہ پہلے انبیاء کی امتوں میں سے بھی ایک گروہ کثیر تم پر ایمان لائے گا اورمسلمانوں میں سے بھی ایک بڑی جماعت تم پر ایمان لائے گی- یا نبی اللہ کنت لا اعرفک زمین کہے گی (یعنی اہل زمین) کہ اے اللہ کے نبی! میں تجھے نہیں پہچانتی تھی- انا نرث الارض نا کلھا من اطرانھا<- ہم زمین کے وارث ہوں گے اسے اس کے کناروں کی طرف سے کھاتے آویں گے- ان الہامات میں سے بہت سے تو ایسے وقت میں ہوئے اور اسی وقت شائع بھی کر دئے گئے جب کہ آپ پر ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا تھا اور بعض بعد کو ہوئے جب سلسلہ قائم ہو چکا تھا مگر وہ بھی ایسے وقت میں ہوئے جب کہ سلسلہ اپنی ابتدائی حالت میں تھا اس وقت آپ کا یہ الہام شائع کر دینا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ کے ساتھ ایک بڑی جماعت ہو جائے گی اور صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام ممالک میں آپ کے مرید پھیل جائیں گے اور ہر مذہب کے لوگوں میں سے نکل کر لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے اور ان کو اللہ تعالیٰ بہت بڑھائے گا اور کسی ملک کے لوگ بھی آپ ؑکی تبلیغ سے باہر نہیں رہیں گے- کیا یہ ایک معمولی بات ہے؟ کیا انسانی دماغ قیاسات کی بناء پر ایسی بات کہہ سکتا ہے؟ یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور لوگ اپنے پہلے مذہب کو جس کی صداقت یوم ولادت سے ان کے ذہن نشین کی جاتی رہی تھی چھوڑ رہے ہیں- آجکل مسیحی مسیحی نہیں رہے` ہندو ہندو نہیں
۵۷۰ رہے- یہودی یہودی نہیں رہے اور پارسی پارسی نہیں رہے` بلکہ ایک عقلی مذہب ان مذاہب کی رسول کی چادر میں لپٹا ہوا سب جگہ پھیل رہا ہے نام مختلف ہیں مگر خیالات سب دنیا کے ایک ہو رہے ہیں- اس حال میں آپ کا یہ دعویٰ کرنا کہ جو لوگ اپنے پہلے نبیوں سے بیزار ہو کر نیچر کی اتباع میں مشغول ہیں آپ کو مان لیں گے بظاہر ناممکن الوقوع دعویٰ تھا` پھر آپ اردو اور عربی اور فارسی کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتے اور آپ ہندوستان کے باشندے تھے جس ملک کے باشندے آج سے تیس سال پہلے عرب اور ایران میں نہایت حقیر سمجھے جاتے تھے- کب امید کی جا سکتی تھی کہ عرب` ایران` افغانستان` شام اور مصر کے باشندے ایک ہندوستانی پر ایمان لے آئیں گے کون کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان کے انگریزی پڑھے ہوئے لوگ جو قرآن کریم کو محمد رسول اللہ ﷺکا کلام قرار دینے لگ گئے تھے اس بات کو مان لیں گے کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰٰ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور پھر ایسے آدمی جو انگریزی کا ایک لفظ نہیں جانتا جو ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ تھا` پھر کونسی عقل تھی جو یہ تجویز کر سکتی تھی کہ السنئہ مغربیہ سے ناواقف- علوم مغربیہ سے ناواقف` رسوم وعادات مغربیہ سے ناواقف انسان جو اپنے صوبہ سے بھی باہر کبھی نہیں گیا )حضرت اقدسؑ علیہ السلام پنجاب سے باہر صرف علی گڑھ تک تشریف لے گئے ہیں( وہ ان ممالک کے لوگوں تک اپنے خیالات کو پہنچا دے گا اور پھر وہ علوم وفنون جدیدہ کے ماہر اور ایشیائیوں کو کیڑوں مکوڑوں سے بدتر سمجھنے والے لوگ اس کی باتوں کو سن بھی لیں گے اور مان بھی لیں گے اور پھر کس شخص کے ذہن میں آسکتا تھا کہ افریقہ کے باشندے جو ایشیا سے بالکل منقطع ہیں اس کی باتوں پر کان دھریں گے اور اس پر ایمان لائیں گے` حالانکہ ان کی زبان جاننے والا ہندوستان بھر میں کوئی نہیں مل سکتا- یہ سب روکیں ایک طرف تھیں اور اللہ تعالیٰٰ کا کلام ایک طرف تھا` آخر وہی ہوا جو اللہ تعالیٰٰ نے کہا تھا وہ شخص جو تن تنہا ایک تنگ صحن میں ٹہل ٹہل کر اپنے الہامات لکھ رہا تھا اور تمام دنیا میں اپنی قبولیت کی خبریں دے رہا تھا` حالانکہ اس وقت اسے اس کے علاقے کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے باوجود سب روکوں کے اللہ تعالیٰٰ کی نصرت اور تائید سے اٹھا اور ایک بادل کی طرح گرجا اور لوگوں کے دیکھتے دیکھتے حاسدوں اور دشمنوں کے کلیجوں کو چھلنی کرتا ہوا تمام آسمان پر چھا گیا ہندوستان میں وہ برسا` افغانستان میں وہ برسا` مصر میں وہ برسا` سیلون میں وہ برسا` بخارا میں وہ برسا` مشرقی افریقہ میں وہ برسا` جزیرہ ماریشس میں وہ برسا` جنوبی افریقہ
۵۷۱ میں وہ برسا` مغربی افریقہ کے ممالک نائجیریا` گولڈ کوسٹ` سیرالیون میں وہ برسا` آسڑیلیا میں وہ برسا` انگلستان اور جرمن اور روس کے علاقہ کو اس نے سیراب کیا اور امریکہ میں جاکر اس نے آب پاشی کی- آج دنیا کا کوئی براعظم نہیں جس میں مسیح موعودؑ کی جماعت نہیں اور کوئی مذہب نہیں جس میں سے اس نے اپنا حصہ وصول نہیں کیا` مسیحی` ہندو` بدھ` پارسی` سکھ` یہودی سب قوموں میں سے اس کے ماننے والے موجود ہیں اور یورپین` امریکن` افریقن` اور ایشیا کے باشندے اس پر ایمان لائے ہیں اگر جو کچھ اس نے قبل از وقت بتا دیا تھا اللہ تعالیٰٰ کا کلام نہ تھا تو وہ کس طرح پورا ہو گیا؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ یورپ اور امریکہ جو اس سے پہلے اسلام کو کھا رہے تھے مسیح موعود ؑکے ذریعے سے اب اسلام ان کو کھا رہا ہے کئی سو آدمی اس وقت تک انگلستان میں اور اسی طرح امریکہ میں اسلام لا چکا ہے اور روس اور جرمن اور اٹلی کے بعض افراد نے بھی اس سلسلے کو قبول کیا ہے- وہی اسلام جو دوسرے فرقوں کے ہاتھ سے شکست پر شکست کھا رہا تھا اب مسیح موعود کی دعاؤں سے دشمن کو ہر میدان میں نیچا دکھا رہا ہے اور اسلام کی جماعت کو بڑا رہا ہے- فالحمد للہ رب العلمین گیارھویں دلیل آپ ؐکا عشق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی چند پیشگوئیوں کے بیان کرنے کے بعد اب میں آپ ؑکے دعوے کی صداقت کی گیارھویں دلیل بیان کرتا ہوں اور وہ دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا )عنکبوت ع۷(70: یعنی جو لوگ ہمارے راستے میں سچی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور ان پر ان کو چلاتے ہیں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ )آل عمران ع۴(32: کہدے کہ اگر تم کو اللہ سے محبت سے تو میری اتباع کرو- اللہ تعالیٰ تم سے
۵۷۲ محبت کرنے لگے گا- ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سچا عشق اور اس کی سچی محبت اور اس کے رسول کے عشق اور اس کی محبت کا ہمیشہ یہ نتیجہ ہوا کرتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے جا ملتا ہے اور اس کا محبوب ہو جاتا ہے پس اس امت کے افراد کی صداقت کا یہ بھی ایک معیار ہے کہ ان کے دل عشق الٰہی سے پر ہوں اور اتباع رسول ان کا شیوہ ہو اور اس معیار کے مطابق بھی حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی صداقت روز روشن کی طرح ثابت ہے- محبت کا مضمون ایک ایسا مضمون ہے کہ مجھے اس پر کچھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہر ملک کے شاعر اس کی کیفیات کو غیر معلوم زمانے سے بیان کرتے چلے آئے اور تمام مذاہب اس ر ایمان اور وصول الی اللہ کی بنیاد رکھتے چلے آئے ہیں` مگر سب شاعروں کے بیان سے بڑھ کر کامل محبت کی مکمل تشریح وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے یعنی قل ان کان اباء کم ابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیر تکم واموال اقتر فتموھا وتجارہ تخشون کساد ھاو مسکن ترضونھا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجھاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ واللہ لایھدی القوم الفسقین )توبہ ع۳(24: کہدے کہ اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے بگڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں زیادہ پیارے ہیں تو تم کو اللہ تعالیٰ سے کوئی محبت نہیں تب تم اللہ تعالیٰٰ کے عذاب کا انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ ایسے نافرمانوں کو کبھی اپنا رستہ نہیں دکھاتا` یعنی کامل محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اس کی خاطر ہر ایک چیز کو قربان کر دے- اگر اس بات کے لیے وہ تیار نہیں تو منہ کی باتیں اس کے لیے کچھ بھی مفید نہیں` یوں تو ہر شخص کہدیتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے محبت ہے اور اس کے رسول سے محبت ہے بلکہ مسلمان کہلانے والا کوئی شخص بھی نہ ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے` مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس اقرار کا اثر اس کے اعمال پر- اس کے جوارح پر اور کے اقوال پر کیا پڑتا ہے وہی لوگ جو رسول اللہ ﷺکی محبت میں اپنے آ کو سرشار بتاتے ہیں اور آپؑ کی تعریف میں نظمیں پڑھتے اور سُنتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو خود نعتیں کہتے بھی ہیں آپؑ کے احکام کی
۵۷۳ فرمانبرداری کی طرف ان کو کچھ بھی توجہ ہوتی.وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس سے ملنے کے لئے کچھ بھی کوشش نہیں کرتے- ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کا عزیز آجائے تو وہ سو کام چھوڑ کر اس سے ملتا ہے- اپنے دوستوں اور پیاروں کی ملاقات کا موقع ملے تو شاداں وفرحاں ہو جاتا ہے` حکام کے حضور شرف بار یابی حاصل ہو تو خوشی سے جامے میں پھولا نہیں سماتا` لیکن لوگ اللہ تعالیٰٰ سے محبت کا دعوے کرتے ہیں مگر نماز کے نزدیک نہیں جاتے یا نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی یا اگر باقاعدہ بھی پڑھی تو ایسی جلدی جلدی پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ سجدہ سے انہوں نے سرکب اٹھایا اور پھر کب واپس رکھدیا- جس طرح مرغ چونچیں مار کر دانہ اٹھاتا ہے یہ سجدہ کر لیتے ہیں` نہ خشوع ہوتا ہے نہ خضوع` اسی طرح اللہ تعالیٰ روزے کا بدلہ اپنے آپؑ کو قرار دیتا ہے` مگر لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑنے کے لئے نہیں جاتے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے- اللہ تعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق دباتے ہیں` جھوٹ بولتے ہیں` بہتان باندھتے ہیں- غیبتیں کرتے ہیں` اللہ تعالیٰ سے عشق بیان کرتے ہیں` لیکن قرآن کریم کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی توفیق ان کو نہیں ملتی` کیا جس طرح آجکل لوگ قرآن کریم سے سلوک کرتے ہیں اسی طرح اپنے پیاروں کے خطوط سے بھی کیا کرتے ہیں؟ کیا ان خطوں کو لپیٹ کر رکھ چھوڑتے ہیں اور ان کو پڑھ کر ان کا مطلب سمجھنے کی کوششیں نہیں کرتے` غرض محبت کا دعویٰ اور شے ہے اور حقیقی محبت اور شے محبت کبھی عمل اور قربانی سے جدا نہیں ہوتی اور اس قسم کی محبت اور اس قسم کا پیار ہمیں اس زمانے میں سوائے حضرت اقدسؑ علیہ السلام اور آپ کے متبعین کے اور کسی شخص میں نظر نہیں آتا- آپؑ کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں کہ جب سے آپ نے ہوش سنبھالا` اسی وقت سے اللہ تعالیٰٰ اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار تھے اور ان کی محبت آپ ؑکے رگ وریشہ میں سمائی ہوئی تھی- بچپن ہی سے آپ احکام شرعیہ کے پابند تھے اور گوشہ نشینی کو پسند کرتے تھے- جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے تو آپ کے والد صاحب نے بہت چاہا کہ آپ کو کسی جگہ ملازم کرا دیں` لیکن آپ نے اس امر کو پسند نہ کیا اور بار بار کے اصرار پر بھی انکار کرتے رہے اور خدا کی یاد کو دنیا کے کاموں پر مقدم کر لیا- آپؑ ایک نہایت معزز خاندان کے فرد تھے- اگر آپؑ چاہتے تو آپ کو معزز عہدہ مل سکتا تھا- جیسا کہ آپ کؑے بڑے بھائی کو ایک معزز عہدہ حاصل تھا
۵۷۴ ` لیکن آپ ؑنے اس سے پہلو ہی بچایا- یہ نہیں تھا کہ آپ سست تھے اور سستی کی وجہ سے آپ ؑنے ایسا کیا` کیونکہ آپؑ کی بعد کی زندگی نے ثابت کر دیا کہ آپؑ جیسا محنتی شخص دنیا کے پردے پر ملنا مشکل ہے- ایک قادیان کے پاس رہنے والا سکھ جس کے باپ دادوں کے تعلقات آپؑ کے والد صاحب کے ساتھ تھے سنایا کرتا ہے اور باوجود مذہبی اختلاف ہونے کے اب تک اس واقعہ کو سناتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمیں آ پؑ کے والد صاحب نے آپ ؑکے پاس بھیجا اور کہا کہ جاؤان سے کہو کہ وہ میرے ساتھ حکام کے پاس چلیں` میں ان کو تحصیلداری کا عہدہ دلانے کی کوشش کروں گا وہ کہتا ہے کہ جب ہم آ کے پاس گئے تو آپ ایک کوٹھڑی میں علیحدہ بیٹھے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے جب ہم نے آپ سے کہا کہ آ کے والد صاحب آپ کو معزز عہدہ دلانے کے لیے کہتے ہیں- آپ کیوں ان کے ساتھ نہیں جاتے تو آ نے کہا کہ میری طرف سے ان کی خدمت میں بادب عرض کر دو کہ میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کر لی` اب وہ مجھے معاف ہی کر دیں تو اچھا ہے- ان دنوں آپ کا شغل یہ ہوتا تھا کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے رہتے یا احادیث کی کتب دیکھتے یا مثنوی رومیؒ کا مطالعہ کرتے اور یتیموں اور مسکینوں کا ایک گروہ کسی کسی وقت آپ کے پاس آجاتا تھا جن میں آپ اپنی روٹی تقسیم کر دیتے اور بسا اوقات بالکل ہی فاقہ کرتے اور بعض اوقات صرف چنے بھنوا کر چبا لیتے اور آ پؑ کی خلوت نشینی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ گھر کے لوگ آپؑ کو کھانا بھیجنا تک بھول جاتے- ایک دفعہ آپؑ اس خیال سے کہ والد صاحب کی نظروں سے علیحدہ ہو جاؤں` تو شاید وہ مجھے دنیا کے کاموں میں پھنسانے کا خیال جانے دیں- قادیان سے سیالکوٹ چلے گئے اور وہاں عارضی طور پر گزارے کے لئے آپ کو ملازمت بھی کرنی پڑی` مگر یہ ملازمت آپ ؑکی عبادت گزاری میں روک نہ تھی- کیونکہ صرف سوال سے بچنے کے لئے آپ ؑنے یہ ملازمت کی تھی` کوئی دنیاوی ترقی اس سے مقصود نہ تھی` اس جگہ آپؑ کو پہلی دفعہ اس بات کا علم ہوا کہ اسلام نہایت نازک حالت میں ہے او دوسرے مذاہب کے لوگ اسے کھانے کے درپے ہیں اور اس کا ذریعہ یہ ہوا کہ سیالکوٹ میں پادریوں کا بڑا مرکز تھا- وہ بازاروں اور کوچوں میں روزانہ اپنے مذہب کی اشاعت کرتے اور اسلام کے خلاف لوگوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے تھے اور آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ کوئی شخص ان کا مقابلہ نہیں کرتا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ
۵۷۵ مسیحیت گورنمنٹ کا مذہب ہے اور ڈرتے تھے کہ اس کا مقابلہ کریں گے تو نقصان پہنچے گا اور سوائے شاذو نادر کے اکثر علماء پادریوں کا رد کرنے سے خوف کھاتے تھے اور جو مقابلہ بھی کرتے- وہ ان کے حملوں کے آگے مغلوب ہو جاتے` کیونکہ قرآن کریم کا علم ہی ان کو حاصل نہ تھا` اس حالت کو دیکھ کر آپ نے پادریوں کا مقابلہ کرنے پر کمر ہمت باندھ لی اور خوب زور سے ان سے بحث ومباحثہ شروع کیا اور پھر اس مقابلے کے دروازے کو آریوں اور دیگر اقوام کے واسطے بھی وسیع کر دیا` کچھ عرصے کے بعد آپ کو آپ ؑکے والد صاحب نے واپس بلا لیا اور پھر یہ خیال کر کے کہ اب تو آپ ملازمت کر چکے ہیں- شاید اب ملازمت پر راضی ہو جائیں` پھر آپ کے ملازم کرانے کی کوشش کی مگر آپؑ ان سے معافی ہی چاہتے رہے` ہاں یہ دیکھ کر کہ آپ کے والد صاحب مصائب دنیوی میں بہت گھرے ہوئے ہیں ان کے کہنے پر یہ کام اپنے ذمے لے لیا کہ ان کی طرف سے ان کے مقدمات کی پیروی کر دیا کریں` ان مقدمات کے دوران میں آپ کی انابت الی اللہ اور بھی ظاہر ہوئی` ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ ؑمقدمے کی پیروی کے لئے گئے` مقدمے کے پیش ہونے میں دیر ہو گئی` نماز کا وقت آگیا` آپؑ باوجود لوگوں کے منع کرنے کے نماز کے لئے چلے گئے اور جانے کے بعد ہی مقدمہ کی پیروی کے لیے بلائے گئے مگر آپ عبادت میں مشغول رہے اس سے فارغ ہوئے تو عدالت میں آئے- حسب قاعدہ سرکاری چاہئے تو یہ تھا کہ مجسٹریٹ یکطرفہ ڈگری دے کہ آپ کے خلاف فیصلہ سنا دیتا مگر اللہ تعالیٰٰ کو آ پؑ کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ اس نے مجسٹریٹ کی توجہ کو اس طرف پھیر دیا اورس س نے آپ کی غیر حاضری کو نظر انداز کر کے فیصلہ آپ ؑکے والد صاحب کے حق میں کر دیا` ایک صاحب نے آپ ؑکے بچپن کے دوست تھے سناتے تھے کہ وہ لاہور میں ملازم تھے آپ بھی کسی اہم مقدمے کی پیروی کے لئے جس کی اپیل سب سے اعلیٰ عدالت میں دائر تھی وہاں گئے اور وہ مقدمہ ایسا تھا کہ اس میں ہارنے سے آپ کے والد صاحب کے حقوق اور بالاخر آپ کے حقوق کو سخت صدمہ پہنچتا ھا وہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ مقدمے سے واپس آئے تو بہت خوش تھے میں سمجھا کہ آ مقدمہ جیت گئے ہیں جبھی تو اس قدر خوش ہیں` میں نے بھی خوشی سے مقدمے میں کامیابی کی مبارک باد دی` تو آپ نے فرمایا کہ مقدمے تو ہم ہار گئے ہیں- خوش اس لئے ہیں کہ اب کچھ دن علیحدہ بیٹھ کر ذکر الٰہی کا موقع ملے گا- جب آپؑ اس قسم کے معاملات سے تنگ آگئے تو آپؑ نے ایک خط اپنے والد صاحب کو
۵۷۶ لکھا جس میں اس قسم کے کاموں سے فارغ کر دئیے جانے کی درخواست کی تھی` اس خط کو میں یہاں نقل کر دیتا ہوں` تاکہ معلوم ہو کہ آپ ابتدائی عمر سے کس قدر دنیا سے متنفر تھے اور یاد الٰہی میں مشغول رہنے کو پسند کرتے تھے یہ خط آپ نے اس وقت کے دستور کے مطابق فارسی زبان میں لکھا تھا اور ذیل میں درج ہے- ’’حضرت والد مخدوم من سلامت! مراسم غلامانہ وقواعد فدویانہ بجا آور دہ` معرض حضرت والا میکند` چونکہ دریں ایام برای العین مے بینم وبچشم سرمشاہدہ میکنم کہ درہمہ ممالک وبلاد ہر سال چناں وبائے مے افتد کہ دوستاں راز دوستاں وخوشیاں را از خویشاں جدا مکیند- وہیچ سالے نمے بینم کہ ایں نائرہ عظیم وچنیں حادثہ الیم درآں سال شور قیامت نیفگند- نظر برآں دل از دنیا سرد شدہ است ورو از خوف جاں زردو اکثر ایں دو مصرعہ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بیادمے آیند واشک حسرت ریختہ میشود‘‘ مکن تکیہ بر عمر نا پائیدار مباش ایمن از بازی روزگار ونیز ایں دو مصرعہ ثانی از دیوان فرخ (حضرت اقدسؑؑ کا ابتدائی ایام کا تخلص ہے) نمک پاش جراحت دل میشود~}~ بدنیائے دوں دل مبندا اے جواں کہ وقت اجل مے رسد ناگہاں لہذا میخوا ہم کہ بقیہ عمر در گوشہ تنہائی نشینم ودامن از صحبت مردم بچینم وبیاد اوسبحانہ` مشغول شوم` مگر گذشتہ را عزرے وما فات راتد کے شود ~}~ عمر بگذشت نماز است جزاز گامے چند بہ کہ دریاد کسے صبح کنم شامے چند کہ دنیارا اساسے محکم نیست وزندگی را اعتبارے نے والیس من خاف علی نفسہ من انہ غیرہ- والسلام- جب آپ ؑکے والد صاحب فوت ہو گئے تو آپؑ نے تمام کاموں سے قطع تعلق کر لیا اور مطالعہ دین اور روزہ داری اور شب بیداری میں اوقات بسر کرنے لگے اور اخبارات اور رسائل کے ذریعے دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے رہے- اس زمانے میں لوگ ایک ایک پیسے کے لئے لڑتے ہیں` مگر آپؑ نے اپنی کل جائداد اپنے بڑے بھائی صاحب کے سپرد کر دی- آپ ؑکے لیے کھانا ان کے گھر سے آجاتا اور جب وہ ضرورت سمجھتے کپڑے بنوا دیتے اور آپؑ نہ
۵۷۷ جائیداد کی آمدن کا حصہ لیتے اور نہ اس کا کوئی کام کرتے- لوگوں کو نماز روزے کی تلقین کرتے،تبلیغ اسلام کرتے` غریبوں مسکینوں کی بھی خبر رکھتے اور تو آپ ؑکے پاس اس وقت کچھ تھا نہیں بھائی کے یہاں سے جو کھانا آتا اسی کو غرباء میں بانٹ دیتے اور بعض دفعہ دو تین تولہ غذا پر گزارہ کرتے اور بعض دفعہ یہ بھی باقی نہ رہتی اور فاقہ سے ہی رہ جاتے- یہ نہیں تھا کہ آپ کی جائداد معمولی تھی اور آپ سمجھتے تھے کہ گزارہ ہو رہا ہے اس وقت ایک سالم گاؤں آپ اور آپ کے بھائی کا مشترکہ تھا اور علاوہ ازیں جاگیر وغیرہ کی بھی آمدن تھی- اسی عرصہ میں آپ نے اسلام کی نازل حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰٰ کے حضور میں دعا وابتہال وعاجزی شروع کی اور اللہ تعالیٰٰ کی طرف سے اشارہ پاکر براہین احمدیہ نامی کتاب لکھی جس کے متعلق اعلان کیا کہ اس میں تین سو دلائل صداقت اسلام کے دئیے جائیں گے یہ کتاب ہستی باری تعالیٰ اور رسول کریم ﷺاور اسلام پر سے اعتراضات کے دفعیہ میں ایک کاری حربہ ثابت ہوئی اور گونا مکمل رہی مگر اس شکل میں بھی دوست ودشمن سے خراج تحسین وصول کئے بغیر نہ رہی اور بڑے بڑے علماء نے اس کتاب کے متعلق رائے ظاہر کی کہ یہ کتاب تیرہ سو سال کے عرصے میں اپنی نظیر آپ ہی ہے` اسلام کے بہترین ایام کے اکابر مصنفین کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تعریف اپنے مطلب کی آ پ ہی تشریح کرتی ہے اس کے علاوہ جو بھی رسالہ یا اخبا نکلتا` آپؑ اس میں اسلام کی عظمت اور اس کی حقیقت کو ظاہر کرتے اور دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے- حتی کہ سب اقوام آپؑ کی دشمن ہو گئیں` مگر آ پ ؑ نے ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کی- یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک طرف تو مسیحی رسول کریم ﷺکو گالیاں دے رہے تھے اور دوسری طرف آریہ گندہ دہنی سے کام لے رہے تھے` لیکن ہندوستان کے علماء ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوے شائع کر رہے تھے اسلام پامال ہو رہا تھا مگر علماء کو رفع یدین اور ہاتھ سینے پر باندھیں یا ناف پر- آمین بالجہر کہیں یا آہستہ` یا اسی قسم کے اور مسائل سے فرصت نہ تھی- اس وقت آپ ہی ایک شخص تھے جو اسلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر تھے اور مسلمانوں میں اعمال صالح کے رواج دینے کی طرف متوجہ تھے آپ اس بحث میں نہ پڑتے کہ حنفیوں کا استدلال درست ہے` اہل حدیث کا بلکہ اس امر پر زور دیتے کہ جس امر کو بھی سچا سمجھو اس پر عمل کر کے دکھائو اور بے دینی اور اباحت کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰٰ کے احکام پر عمل شروع کردو- پنڈت دیا نند بانی آریہ سماج سے آ نے مقابلہ کیا` لیکھرام` جیون داس` مرلی
۵۷۸ دھر` اندر من غرض جس قدر آریہ مذہب کے لیڈر تھے ان میں سے ایک ایک سے آپ بحث کی طرح ڈالتے اور اس وقت تک اس کا پیچھا نہ چھوڑتے` جب تک وہ اسلام پر حملہ کرنے سے باز نہ آجاتا` یا ہلاک نہ ہو جاتا` اسی طرح مسیحیوں کے فحش گو منادوں کا آپؑ مقابلہ کرتے` کبھی فتح مسیح سے کبھی آتھم سے کبھی مارٹن سے کبھی ہاول سے کبھی رائٹ سے کبھی طالب مسیح سے اور اس پر بھی آپؑ کو تسلی نہ ہوتی` انگریزی میں ترجمہ کروا کر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اشتہارات یورپ اور امریکہ کو بھجواتے اور جس شخص کی نسبت سنتے کہ اسے اسلام سے دلچسپی ہے فورا اس سے خط وکتابت کرتے اور اسلام کی دعوت دیتے- چنانچہ مسٹر وِب امریکہ کا پرانا مسلمان آپ کی اسی قوت کی کوششوں کا نتیجہ ہے- یہ شخص نہایت معزز ہے اور کسی وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے سفارت کے عہدہ پر ممتاز تھا- آپ نے اس کی اسلام سے دلچسپی کا حال سن کر اس سے خط وکتابت کی اور آخر اس سلیم الطبع آدمی نے اسلام قبول کر لیا اور اپنے عہدے سے دست بردار ہو گیا- غرض اللہ تعالیٰ کی توحید کی اشاعت اور رسول کریم کی صداقت کے اثبات کی آپ ؑکو دھن لگی ہوئی تھی اور آپ ایک منٹ کے لیے بھی اس سے غافل نہ رہتے تھے اس کے بعد آپ نے دعویٰ کیا تو اس وقت سے آپ کا کام اور بھی وسیع ہو گیا` کوئی دشمن اسلام نہیں نکلا- جس کے مقابلے پر آپ کھڑے نہ ہوئے ہوں` جہاں کسی کی نسبت سنا کہ وہ اسلام پر حملہ کرتا ہے فورا اس کا مقابلہ شروع کر دیا- ڈوئی جو امریکہ کا جھوٹا نبی تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے جب اس کی اسلام دشمنی کا حال آپ نے سنا تو سمندر پار سے اس کا مقابلہ شروع کر دیا- پگٹ نے ولایت میں خدائی کا دعویٰ کیا تو فورا اس کو للکارا- غرض دنیا کے پردے پر جہاں کہیں بھی کوئی دشمن اسلام پیدا ہوا` وہیں اسے جاکر پکڑا اور انہیں چھوڑا جب تک کہ وہ اپنی شرارت سے باز نہ آگیا` یا مر نہیں گیا- آپ نے چوہتر سال عمر پائی اور تمام عمر رات اور دن خدمت اسلام میں مشغول رہے بعض دفعہ مہینوں تصنیف میں اس طرح مشغول رہتے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آ پ ؑ کب سوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺسے آپؑ کو اس قدر محبت تھی کہ اسلام کے کام کو اپنا کام سمجھتے تھے اگر کوئی دوسرا شخص اسلام کی خدمت کرتا تو اس کے نہایت ہی ممنون ہوتے` بعض اوقات اکثر حصہ رات کا متواتر جاگتے اور کام میں مشغول رہتے اگر کوئی دوسرا شخص ایک دو دن پروف ریڈری یا کاپیاں دینے کے کام میں آپؑ کی مدد کرتا تو اسے
۵۷۹ اتفاقاً کسی دن رات کو بھی کام کرنا پڑتا تو یہ نہ سمجھتے تھے کہ اس نے اسلام کا کام کیا اور اپنے فرض کو انجام دیا ہے بلکہ اس قدر شکرو امتنان کا اظہار کرتے کہ گویا اس نے آپ کی ذاتی خدمت کی ہے اور آپ کو اپنا ممنون احسان بنا لیا ہے- باوجود ضعف اور بیماری کے اسی سے زیادہ کتب آپ نے تصنیف کیں اور سینکڑوں اشتہار اسلام کی اشاعت کے لیے لکھے اور سینکڑوں تقریریں کیں اور روزانہ لوگوں کو اسلام کی خوبیوں کے متعلق تعلیم دیتے رہے اور آپ کو اس میں اس قدر انہماک تھا کہ بعض دفعہ اطباء آپؑ کو آرام کے لیے کہتے تو آپؑ ان کو جواب دیتے کہ میرا آرام تو یہی ہے کہ دین اسلام کی اشاعت اور مخالفین اسلام کی سرکوبی کرتا رہون حتی کہ آپؑ اپنی وفات کے دن تک خدمت اسلام میں لگے رہے اور جس صبح آپؑ فوت ہوئے ہیں اس کی پہلی شام تک ایک کتاب کی تصنیف میں جو ہندوؤں کو دعوت اسلام دینے کی غرض سے تھی مشغول تھے- اس سے اس سوزوگداز اور اس اخلاص وجوش کا پتہ لف سکتا ہے جو آ کو اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور نبی کریم ﷺکی صداقت کے اثبات کے لیے تھا- میں لکھ چکا ہوں کہ صرف محبت کا دعویٰ محبت کا پتہ لگانے کے لیے حقیقی معیار نہیں ہے مگر وہ شخص جس نے اپنے ہر ایک عمل اور ہر ایک حرکت سے اپنے عشق ومحبت کو ثابت کر دیا ہو اس کا دعویٰ اس کے دلی جذبات کے اظہار کا نہایت اعلیٰ ذریعہ ہے- کیونکہ سچے عاشق کے دلی جذبات اس کی غیر معمولی خدمات سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں اور بوجہ اس کے راستباز ہونے کے دوسرے کے دل کو بھی متاثر کرتے رہتے ہیں- پس میں آپ کی دو فارسی نظمیں کہ ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے عشق میں ہے اور ایک رسول کریم ﷺکے عشق میں اس جگہ نقل کرتا ہوں-: قربان تست جان من اے یار محنم بامن کدام فرق تو کردی کہ من کنم ہر مطلب ومراد کہ می خواستم زغیب ہر آرزو کہ بود بخاطر معینم از جود دادہ ہمہ آں مدعائے من وازلطف کردہ گزر خود بمسکنم ہیچ آگہی نہ بود زعشق ووفامرا خود ریختی متاع محبت بدامنم ایں خاک تیرہ راتو خود اکسیر کردہ بود آں جمال تو کہ نمود است احسنم ایں صیقل ولم نہ بزہد وتعبداست خود کردہ بلطف عمیم تو ہم تنم
۵۸۰ سہل است ترک ہر دو جہاں گر رضائے تو آید بدست اے پنہ وکہف ومامنم فصل بہار وموسم گل نایدم بکار کاندر خیال روئے تو ہر دم بہ گلشنم چوں حاجتے بود بادیب وگر مرا من تربیت پزیر زرب مہیمنم زاں ساں عنایت ازلی شد قریب من کامد ندائے یار زہر کوے برزنم یارب مرا بہر قد مم استوار دار واں روز خود مبادکہ عہد تو بشکنم در کوئے تو اگر سر عشاق راز نند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم عجیب نوریست در جان محمد عجب لعلیست درکان محمد زظلمتہا ولے آنگہ شود صاف کہ گرد از محبان محمد عجب دارم دل آں ناکسار را کہ رو تانبد از خوان محمد ندانم ہیچ نفسے در دو عالم کہ دارد شوکت وشان محمد خدا زاں سینہ بزاراست صدبار کہ ہست از کینہ داران محمد خدا خود سوزد آں کرم دنی را کہ باشد از عددان محمد اگر خواہی نجات از مستی نفس بیا در ذیل مستان محمد اگر خواہی کہ ہق گوید ثنایت بشو از دل ثنا خوان محمد اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد ہست برہان محمد سرے دارم خدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربان محمد بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم نثار روئے تابان محمد دریں رہ گر کشندم دربسوزند نتابم رنگ ایمان محمد بکار دیں نتر سم از جہانے کہ دارم رنگ ایمان محمد بسے سہل است از دنیا بریدن بیاد حسن واحسان محمد فدا شدور رہش ہر ذرہ من کہ دیدم حسن پنہان محمد دگر استاد رانامے ندانم کہ خواندم درد بستان محمد بدیگر دلبرے کارے ندارم کہ ہستم کشتہ آن محمد مرا آں گوشہ چشمے بباید نخواہم جز گلستان محمد
۵۸۱ دل زارم بہ پہلو یم مجوئید کہ بستیمش بدا مان محمد من آں خوش مرغ از مرغان قدسم کہ دار دجابہ بستان محمد تو جان مامنور کر دی از عشق فدایت جانم اے جان محمد دریغا گرد ہم صدجاں دریں راہ نباشد نیز شایان محمد چہ ہیبت ہابدا دندایں جواں را کہ ناید کس بمیدان محمد الا اے دشمن نادان دبے راہ تبرس از تیغ بران محمد رہ مولٰے کہ گم کر دند مردم بجو در آ واعوان محمد الا اے منکر از شان محمد ہم از نور نمایان محمد کرامت گرچہ بے نام ونشان است بیا بنگر زغلمان محمد اب آپ غور کریں کہ جس شخص نے بچپن سے لے کر وفات تک اپنی عمر کی ہر ساعت اور ہر لمحہ کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے جلال کے اظہار اور اس کے کلام کی اشاعت اور رسول کریم ﷺکی محبت اور آپ ؐکے دین کی اطاعت اور آپؐ کی دلائی ہوئی شریعت کے استحکام مین خرچ کر دیا ہو اور اپنوں اور بیگانوں کو اللہ تعالیٰٰ اور اس کے رسولؐ کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا دشمن بنا لیا ہو اور اپنا ہر ذرہ اسلام کی خدمت میں لگا دیا ہو` کیا ایسا شخص گمراہ اور ضال اور مفسد اور دجال ہو سکتا ہے- اگر یہ اعمال مفسدانہ ہیں اگر اس قسم کا عشق کفر کی علامت ہے اگر ایسی محبت رسول گمراہی کا نشان ہے تو نجدا یہ گمراہی خدا مجھے ساری کرے نصیب یہ کفر مجھ کو بخش دے سارے جہان کا اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور اس کا کلام گواہ ہے اور اس کا رسول گواہ ہے اور عقل سلیم گواہ ہے کہ ایسا شخص ہرگز ہرگز گمراہ اور جھوٹا نہیں ہو سکتا` اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا اس قدر عشق اور اس کی اس قدر اطاعت اور فرمانبرداری اور ان کے احکام کی اشاعت کے لیے اس قدر کوشش کر کے اور ان کے لیے پہلوں اور پچھلوں سے زیادہ غیرت دکھا کر بھی کوئی شخص کذاب و دجال ہی بنتا ہے تو دنیا کے پردے پر کبھی کوئی شخص ہدایت کا مستحق نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا-
۵۸۲ بارھویں دلیل آپ ؐکی قوت احیاء بارھویں دلیل کے طور پر میں حضرت اقدسؑ کی قوت احیاء کو پیش کرتا ہوں اور یہ دلیل بھی ماسبق دلائل کی طرح ہزاروں دلائل کا مجموعہ ہے اس وقت مسلمانوں کا مسیحیوں کی طرح یہ خیال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جسمانی مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں یہ خیال قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے شرک ہے اور ایمان کو ضائع کرنیوالا ہے مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ حضرت مسیح باقی انبیاء کی طرح ضرور مردے زندہ کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کا کلام اس پر گواہ ہے اور اس کا منکر اللہ تعالیٰ کے کلام کا منکر ہے یہ مردے روحانی مردے ہوتے تھے اور درحقیقت انہیں مردوں کے احیاء کے لیے انبیاء آیا کرتے ہیں اور کوئی نبی نہیں گزرا جس نے اس قسم کے مردے زندہ نہ کئے ہوں- آدم سے لے کر آنحضرت ﷺتک کل انبیاء اسی غرض کے لیے معبوث کئے گئے تھے کہ مردوں کو زندہ کریں اور اولوالعزم انبیاء کی صداقت پرکھنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھوں سے مردے زندہ ہوں اور اگر یہ معجزہ نہ دکھا سکے تو اس کا دعویٰ نبوت ضرور مشکوک ہو جاتا ہے اور جو شخص اس قسم کے مردے زندہ کر کے دکھادے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہے کیونکہ یہ احیاء بغیر اذن اللہ کے نہیں ہو سکتا اور جسے اذن اللہ حاصل ہو گیا اس کے سچے ہونے میں کیا شک رہا- اے بادشاہ! یہ نشان حضرت اقدسؑ ؑکے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰٰ نے اس کثرت سے ظاہر کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد اور کسی نبی کی تاریخ اور اس کے حالات سے اس وضاحت کے ساتھ اس نشان کے ظہور کا پتہ نہیں چلتا` واللہ اعلم بالصواب- حضرت اقدسؑؑ اس وقت دنیا میں تشریف لائے تھے جس وقت نہ صرف روحانی موت ہی دنیا پر طاری تھی بلکہ مرے ہوئے لوگوں کو اس قدر عرصہ ہو گیا تھا کہ جسم گل سڑ گئے تھے اور افتراق شروع ہو گیا تھا` یہ ایسی سخت موت تھی کہ اس موت کی حسرتناک حالت سے تمام انبیاء علیہم السلام لوگوں کو
۵۸۳ ڈراتے آئے ہیں چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.انه لم يكن نبی بعد نوح الأقدانذر قومه الدجال واني انذرکموه ۳۳۳.یعنی حضرت نوحؑ کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے دجال کے فتنہ سے اپنی قوم کو نہ ڈرایا ہو اور میں بھی تم کو اس سے ڈراتا ہوں- پس دجالی فتنے سے مارے ہوئے لوگوں سے زیادہ زندگی سے دور دوسرے مردے نہیں ہو سکتے اور ایسے امیدوں کی حد سے گزرے ہوئے مردوں کا زندہ کرنا درحقیقت ایک بہت بڑا مشکل کام تھا مگر آپ ؑنے یہ کام کیا اور ہزاروں لاکھوں مردے زندہ کر کے دکھا دئیے اور ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس کی نظیر رسول کریم ﷺکی جماعت کو مستثنی کر کے دوسری جماعتوں میں نہیں ملتی- حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعلقات اپنی قوم کے ساتھ سیاسی بھی تھے اس لئے ان کی ساری قوم ان پر ایمان لا کر ہی ان کے ساتھ نہ تھی` بلکہ بہت سے لوگ سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر ان کے ساتھ چلنے پر مجبور تھے جو لوگ ان پر ایمان لاکر ان کے ساتھ ہوئے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- فما امن لموسی الا ذریہ من قومہ )یونس ع۹(84: یعنی موسی کی اطاعت نہیں کی مگر ان کی قوم کے کچھ نوجوانوں نے یہ تو قیام مصر کا حال تھا` مصر سے نکل کر بھی اکثر حصہ آپؑ کی قوم کا آپ کی صداقت کا دل سے قائل نہ تھا ہاں سیاستاً آپ ؑکے ساتھ تھا` چنانچہ اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے کہ موسیٰ کی قوم کے ایک حصہ نے خروج مصر کے بعد ان سے کہا یموسی لن نومن لک حتی نری اللہ جھرہ فاخذتکم الصعقہ وانتم تنظرون )بقرہ ع۶(56: اے موسیٰ! ہم تیری بات ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں- پس تم کو عذاب الٰہی نے پکڑ لیا- در آنحالیکہ تم دیکھ رہے تھے اسی طرح قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے اور انجیلوں اور تاریخوں سے بھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ر بھی بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے اور ان میں سے جو مخلص تھے اور جنہوں نے حقیقی زندگی پائی تھی وہ تو بہت ہی کم تھے` لیکن حضرت اقدسؑ علیہ السلام چونکہ رسول کریم ﷺکے فیوض روحانیہ کے جاری کرنے اور آپ کی برکات کو دنیا میں پھیلانے کے لیے آئے تھے اور مسیح محمدی کا مقام بلند رکھتے تھے آپ ؑکے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے مردے زندہ کئے اور ایسے مردے زندہ کئے کہ اگر ان پر چشمہ محمدیہ کا پانی نہ چھڑکا جاتا تو ان کے جینے کی کوئی امید ہی نہیں ہو سکتی تھی- کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس زمانے میں جبکہ چاروں طرف بدعات اور رسوم اور دنیا طلبی اور فسق اور دین سے نفرت اور کلام الٰہی سے بے پروائی اور شرائع کی ہتک اور اعمال
۵۸۴ صالحہ سے غنا اور دعا سے بے توجہی اور غیرت دینی کی کمی نظر آرہی ہے حضرت اقدسؑ ؑنے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو باوجود تعلیم یافتہ ہونے کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے ملائکہ اور دعا اور معجزات اور کلام الٰہی اور حشر اور نشر اور جنت اور دوزخ پر پورا یقین رکھتی ہے اور شریعت اسلام کی حتیٰ الوسع پابند ہے اور اس جماعت میں تلاش سے ہی کوئی آدمی ایسا ملے گا جو نمازوں کی ادائیگی میں تغافل کرتا ہو اور یہ جو کچھ کمی ہے یہ بھی ابتدائی حالت کا نتیجہ ہے اور آہستہ آہستہ دور ہو رہی ہے کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جبکہ کالجوں کے طالب علم اور تعلیم جدید کے دلدادہ دین سے بکلی متنفر ہیں اور دین کو صرف سیاسی اجتماع کا ذریعہ خیال کرتے ہیں- حضرت اقدسؑ ؑکے ذریعے سے ایک ایسی جماعت نو تعلیم یافتہ لوگوں کی تیار ہوئی ہے اور ہو رہی ہے جس کی سجدہ گاہیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں اور جس کے سینے گریہ وبکا کے جوش سے ہانڈی کی طرح ابلتے ہیں اور جو اشاعت اسلام اور اعلائے محکمہ اسلام کو تمام سیاسی ترقیات اور حصول جاہ پر مقدم کر کے ماسوی ٰکو اس پر قربان کر رہی ہے اس میں بہت سے دنیا کما سکتے ہیں` مگر خدا کے دین کو کمزور دیکھ کر اور علمی جہاد کی ضرورت محسوس کر کے تمام امنگوں پر لات مار کر دین کی خدمت میں لگ گئے ہیں اور قلیل کوکثیر پر ترجیح دے رہے ہیں اور فاقہ کشی کو سیر شکمی سے زیادہ پسند کرتے ہیں ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام ہے ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت ہے اور ان کے اعمال اللہ تعالیٰٰ اور اس کے رسول کی عظمت کو ظاہر کر رہے ہیں اور ان کے چہروں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐکا عشق ٹپک رہا ہے وہ اسی دنیا میں بستے ہیں اور ان کے کان آزادی کی آوازوں سے ناآشنا نہیں` ان کے دماغ آزادی کے خیالات سے ناواقف نہیں` ان کی انکھیں آزادی کے جدوجہد کے دیکھنے سے قاصر نہیں انہوں نے یہ دیکھا کہ اسلام اس وقت اس قدر آزادی کا محتاج نہیں جس قدر کہ غلامی کا- دجالی فتنے نے جو نقصان اسلام کو پہنچایا ہے- وہ اس وسیع انتظام کے ذریعہ پہنجایا ہے جو اس نے اسلام کی بیخ کنی کے لئے اختیار کیا تھا اور یہ کہ اسلام کی ترقی اس وقت صرف ایک بات چاہتی ہے کہ سب لوگ اللہ تعالیٰٰ کے ہو کر ایک جھنڈے کے نیچے آجائیں- بڑے اور چھوٹے امیر اور غریب عالم اور جاہل اپنی اپنی تمام طاقتوں کو ایک جگہ لا کر رکھ دیں اور ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تا مشترکہ طور پر کفر و
۵۸۵ فساد کا مقابلہ کیا جائے تو انہوں نے اللہ تعالیٰٰ کے حکم اور اسلام کے مفاد کو اپنے خیالات پر ترجیح دی اور زمانے کے اثرات سے متاثر ہونے سے انکار کر دیا اور اپنے ہاتھ سے اپنے گلوں میں اطاعت کی رسی ڈال لی اور خوشی سے اس امر کے لئے تیار ہو گئے- کہ اسلام کی بہتری کو مدنظر رکھ کر جس طرف اور جدھر بھی وہ ہاتھ اشارہ کرے` جس پر وہ جمع ہو گئے ہیں` وہ بلاغزر اور بلا حیلہ ادھر کو چل دیں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہ کریں گے اور کسی تکلیف کو خیال میں نہ لائیں گے اور یہی نہیں کہ انہوں نے منہ سے یہ اقرار کیا بلکہ عملاً اسی طرح کر کے بھی دکھایا اور اس وقت ان میں سے کئی اپنے وطنوں سے دور` اپنے بیوی بچوں سے دور` روپیہ کے لئے نہیں بلکہ سخت مالی اور جانی تکلیف اٹھا کر خلیفہ وقت کی اطاعت میں اشاعت اسلام کر رہے ہیں اور بہت ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کو حکم ملتا ہے کہ وہ بھی سب دنیاوی علاقوں کو توڑ کر اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں- منھم من تضی نحبہ ومنھم من ینتظر فجزا ھم اللہ عنا احسن الجزائ- وہ اللہ تعالیٰ کے لیے مارے پیٹے جاتے ہیں اور گھروں سے نکالے جاتے ہیں اور ان کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حقیر سمجھا جاتا ہے مگر وہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں` کیونکہ ان کے دل منور ہو گئے اور ان کی باطنی آنکھیں کھل گئی ہیں اور انہوں نے وہ کچھ دیکھ لیا جو دوسروں نے نہیں دیکھا وہ ماریں کھاتے ہیں مگر دوسروں کی خیر خواہی کرتے ہیں- ذلیل کئے جاتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے عزت چاہتے ہیں- وہ کون ہے جو اس وقت اسلام کی حفاظت اور اس کی اشاعت کے لیے امریکہ میں تنہا لڑ رہا ہے اور گو ایک وسیع سمندر میں ایک بلبلے کی طرح پڑا ہوا ہے مگر اس کا دل نہیں گھبراتا وہ ایک مردہ تھا جسے مسیح محمدیؐ نے اپنے ہاتھ سے زندہ کیا ہے اور وہ اس لیے تن تنہا امریکہ کو اسلام کے خلقہ غلامی میں لانے کے لئے کوشاں ہے کہ وہ جانتا ہے کہ ایک زندہ کروڑوں مردوں پر بھاری ہے- وہ کون ہیں جو انگلستان میں اشاعت اسلام کر رہے ہیں- وہ یہی مسیح محمدی ؐکے زندہ کئے ہوئے لوگ ہیں اور گو جسمانی طور پر انگلستان نے ہندوستان کو فتح کر لیا ہے مگر وہ یہ جانتے ہیں کہ انگلستان کی روح مر چکی ہے وہ خدا سے دور جا پڑا ہے وہ اس زندگی کے پانی کی بوتلیں لے کر جس سے مسیح نے ان کو زندہ کیا ہے دوسروں کے زندہ کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں`
۵۸۶ انگلستان کا اقبال` اس کی دولت` اس کی حکومت ان کو ڈراتی نہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انگلستان مردہ- پھر زندہ مردے سے کیا ڈرے اور اس سے کیوں گھبرائے- مغربی افریقہ کا ساحل جہاں مسیحیت نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کئے تھے اور لاکھوں آدمیوں کو مسیح بنا لیا تھا اور ایک آدمی کی پرستش کے لئے لوگ جمع کئے جا رہے تھے وہان کون واحد خدا کے نام کو بلند کرنے کے لیے گیا اور شرک کی توپ کے آگے سینہ سپر ہوا- وہی مسیح موعود ؑکے نفع سے زندہ ہونے والے لوگ جو اس وقت اسلام کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے جب لوگ اسلام کی موت کا یقین کر بیٹھے تھے اور اس کے اثر کو مٹتا ہوا دیکھنے لگے تھے- کس نے ماریشس کی طرف توجہ کی اور اس ایک طرف پڑے ہوئے جزیرے کے باشندوں کو زندگی بخشنے کا کام اپنے ذمہ لیا` کس نے لنکا کو جو نہایت قدیم تاریخی روایات کا مقام ہے جا کر اپنی آواز سے چونکایؑا` کون روس اور افغانستان کے لوگوں کو زندگی کی نعمت بخشنے کے لئے گیا یہی مسیح موعود کے زندہ کئے ہوئے لوگ- کیا یہ زندگی کی علامت نہیں کہ چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی نظر نہیں آتا جو تبلیع اسلام اور اشاعت دین کے لئے اپنے گھر سے نکلا ہو` لیکن ایک مٹھی بھر احمدیوں میں سے سینکڑوں اس کام پر لگے ہوئے ہیں اور ان ممالک میں تبلیغ کر رہے ہین اور ان لوگوں کو مسلمان بنا رہے ہیں جن کی نسبت خیال بھی نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ کبھی اسلام کا نام بھی سنیں گے- اگر اس جماعت کے افراد میں نئی زندگی نہیں پیدا ہوئی تو انہوں نے دنیا کا نقشہ کس طرح بدل دیا اور ان میں تن تنہا ملکوں کا مقابلہ کرنے کی جرات کیونکر پیدا ہوئی اور کس امر نے ان کو مجبور کیا کہ وہ وطن چھوڑ کر بے وطنی میں دھکے کھاتے پھریں` کیا ان کے ماں باپ نہیں` ان کی بیویاں بچے نہیں` ان کے بہن بھائی نہیں` ان کے دوست آشنا نہیں` ان کو اور کوئی کام نہیں؟ پھر کس چیز نے ان کو دنیا سے ہٹا کر دین کی طرف لگا دیا` اسی بات نے کہ انہوں نے زندگی کی روح پائی اور مردہ چیزوں کو اس زندہ خدا کے لیے جو سب زندگیوں کا سرچشمہ ہے چھوڑ دیا وہ ان میں سما گیا اور وہ اس میں سما گئے- فتبارک اللہ احسن الخالقین- )المومنون (15: میں نے مسیح موعود ؑکی جو زندگی بخش طاقت لکھی ہے یہ مشتبہ رہے گی اگر میں اس زندگی کے اثر کو بیان نہ کروں جو حقیقی معیار حیات ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدسؑؑ نے اپنی قوت احیاء میں ایسی زندگی لوگوں کے دلوں میں پیدا کی کہ بہت سے ان میں سے نہ صرف زندہ ہی
۵۸۷ ہوئے بلکہ ان کو بھی احیاء موتی کی طاقت دی گئی` اگر یہ طاقت آپ کے ذریعے اوروں کو نہ ملتی تو یہ شبہ رہتا کہ شاید آپ کے دماغ کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ آپ پر وہ علوم کھولے جاتے ہیں جو آپ بیان کرتے ہیں اور آپ وہ نظارے دیکھ لیتے ہیں جو اپنے وقت پر پورے ہو جاتے ہیں اور آپ کی توجہ میں وہ تاثیر پیدا ہو گئی ہے جس سے آپ کی خواہشات برنگ دعا پوری ہو جاتی ہیں مگر نہیں آپ اس خزانے کو اپنے ساتھ ہی نہیں لے گئے بلکہ جو لوگ سچے طور پر آپ کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں اللہ تعالیٰٰ اپنے علوم کی بارش دلوں پر نازل کرتا ہے اور اس وقت آپ کی جماعت میں سے بہت سے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مطالب قرآن کریم کے بیان کرنے میں ایک تیز رو گھوڑے سے زیادہ تیز ہیں اور جن کے بیان میں وہ تاثیر ہے کہ شکوک وشبہات کی رسیاں ان کی ایک ہی ضرب سے کٹ جاتی ہیں وہ قرآن جو لوگوں کے لیے ایک سر بمہر لفافہ تھا ہمارے لئے کھلی کتاب ہے- اس کی مشکلات ہمارے لئے آسان کی جاتی ہیں اور اس کی باریکیاں ہمارے لئے ظاہر کر دی جاتی ہیں` کوئی دنیا کا مذہب یا خیال نہیں جو اسلام کے خلاف ہو اور جسے اللہ تعالیٰٰ کے فضل سے ہم صرف قرآن کریم کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دیں اور کوئی آیت ایسی نہیں جس پر کسی علم کے ذریعے سے کوء اعتراض وارد ہوتا ہو اور اللہ تعالیٰٰ کی مخفی وحی ہمیں اس کے جواب سے آگاہ نہ کر دے- اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام یا کشوف کا ہونا بھی آپ تک محدود نہیں رہا بلکہ آپؑ کے ذریعے زندہ ہونے والوں میں سے بہت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ الہام کرتا ہے اور رویا دکھاتا ہے جو اپنے وقت پر پوری ہو کر ان کے اور ان کے دوستوں کے ایمان کو تازہ کرنیوالی ہوتی ہین وہ ان سے کلام کرتا ہے اور ان پر اپنی مرضی کی راہیں کھولتا ہے جس سے ان کو تقویٰ کے راستوں پر چلنے میں مدد ملتی ہے اور ان کا دل قوی ہوتا ہے اور حوصلہ بڑھتا ہے- دعاؤں کی قبولیت اور نصرت الٰہیہ کے نزول کے معاملہ میں بھی حضرت اقدسؑؑ کا فیض جاری ہے اور آپؑ کے ذریعے سے زندہ ہونے والے لوگ اس زندگی بخش طاقت کو اپنے اندر محسوس کرتے ہیں- اللہ تعالیٰٰ اس جماعت کے اکثر افراد کی دعائیں دوسرے لوگوں سے زیادہ سنتا ہے اور اپنی نصرت ان کے لیے نازل کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے اور ان کی محنتوں کے اعلیٰ ثمرات پیدا کرتا ہے اور ان کو اکیلا نہیں چھوڑتا اور ان کے لیے غیرت دکھاتا ہے-
۵۸۸ غرض حضرت اقدسؑ نے نہ صرف مردے ہی زندہ کئے بلکہ ایسے لوگ پیدا کر دئیے جو خود بھی مردے زندہ کرنے والے ہیں اور یہ کام سوائے ان بزرگ انبیاء علیہم السلام کے جو اللہ تعالیٰ کے خاص پیارے ہوتے ہیں اور کوئی نہیں کر سکتا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب فیض آپ کو رسول کریم ﷺسے ملا اور آپؑ کا کام درحقیقت رسول کریم ﷺکا ہی کام تھا- کل برکہ من محمد صلی اللہ علیہ وسلم فتبارک من علم وتعلم الہام حضرت مسیح موعود تتمہ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدسؑ ؑمسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے یہ بارہ دلائل جو میں نے بیان کئے ہیں کافی ہیں اور جو کوئی شخص بھی ان پر حق کو پالینے کی نیت سے غور کرے گا وہ حق الیقین تک پہنچ جائے گا کہ حضرت اقدسؑ ؑاللہ تعالیٰٰ کے مسیح اور اس کے مامور اور مرسل ہیں اور یہ کہ اب کسی اور مسیح کا انتظار فضول ہے اور پیاسوں کی طرح آپؑ پر ایمان لانے کے لئے دوڑے گا- اس سلک میں پروئے جانے کو اپنے لئے موجب فلاح سمجھے گا جسے مسیح موعود علیہ السلام نے تیار کیا ہے- ٍ ایک مسلمان کہلانے والے شخص کے لئے اللہ تعالی ٰ اور اس کے رسول کی شہادت سے زیادہ کس چیز کی قیمت ہو سکتی ہے اور جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں حضرت اقدسؑ علیہ السلام کے دعوے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی شہادتیں بھی موجود ہیں اور اس کے رسول کی شہادتیں بھی موجود ہیں بلکہ ہر ایک نبی کی جس کا کلام محفوظ ہے آپ کے صدق دعوی پر شہادت موجود ہے عقل کہتی ہے کہ اس زمانے میں ایک مصلح آنا چاہئیے- رسول کریمﷺ نے جو علامات مسیح موعود اور مہدی معہود کی بیان فرمائی تھیں وہ پوری ہو چکی ہیں آپ کی پاک زندگی آپ کے دعوے پر شاہد ہے جن دشمنان اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے مسیح موعود کو آنا تھا اور جس رنگ میں ان کو شکست دینی تھی وہ دشمن اس وقت موجود ہیں اور مسیح موعود نے ان کو شکست دے دی ہے مسلمانوں کے اندرونی فسادات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ان سے بڑھ کر قرآن کریم کی موجودگی میں فساد کا پیدا ہونا ناممکن ہے اور ان کی اصلاح بھی اعلیٰ سے اعلیٰ طریق پر حضرت
۵۸۹ اقدسؑ نے کر دی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ عمر بھر ایسا معاملہ کیا جو وہ اپنے رسولوں اور پیاروں سے کرتا ہے ہر میدان میں آپ کو فتح دی اور ہر شر سے آپ کو بچایا- آپ کے دشمنوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو ماموروں اور مرسلوں کے دشمنوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے قانون قدرت تک کو اس نے آپ کی خدمت میں اور زمین وآسمان کو آپ کی تائید میں لگا دیا- علوم قرآنیہ کے دروازے آپ ؑپر کھول دئیے اور علوم قرآنیہ کی اشاعت کے ذرائع آپ کے لئے مہیا کر دئیے حتی کہ آپ نے ان لوگوں کو جو علم وفضل کی کان سمجھے جاتے تھے اپنے مقابلہ کے لئے بلایا مگر کوئی آپ کے مقابلہ پر نہ آسکا اور معجزانہ طور پر آپ کا کلام غالب رہا اور لا یمسمہ الا لمطھرون )سورہ واقعہ ع۳( کے وعدہ الٰہی نے آپ کی صداقت پر گواہی دی- پھر آپ پر غیب کا دروازہ کھولا گیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں امور غیبیہ پر اطلاع دی جو اپنے وقت پر پورے ہو کر جلال الٰہیہ کو ظاہر کرنے کا موجب ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اموغیبیہ پر کثرت سے سوائے اپنے رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا` آپ نے اپنی تمام عمر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں صرف کر دی اور ایسے شخص اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دھتکارے نہیں جاتے- آپ نے ایک پاک اور کارکن جماعت پیدا کر دی ہے جس میں سے ایک گروہ ایسا ہے جس کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہے اور جو دوسرے لوگوں کو زندہ کرنے اور روحانی امور کے کھولنے کی قابلیت رکھتا ہے- دین پر فدا ہے اور دنیاوی علائق سے جدا- اسلام کا غمخوار ہے اور ماسوار سے بیزار- پس باوجود ان سب شواہد کے آپ کے دعوی کو قبول نہ کرنا اور آپ پر ایمان نہ لانا کسی طرح درست اور اللہ تعالیٰ کی نظروں میں پسندیدہ نہیں ہو سکتا اور درحقیقت وہ شخص جو اسلام سے محبت رکھتا ہو اور رسول کریم ﷺکا عاشق ہو اور اپنے ذاتی مفاد پر اسلام کے فوائد کو مقدم رکھتا ہو اس سے یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ اس وضاحت کے بعد خاموش رہے اور حق کے قبول کرنے میں دیر لگائے اگر یہ دلائل جو اوپر بیان ہوئے آپ کی صداقت کو ثابت نہیں کرتے تو پھر اور کون سے دلائل ہیں جن کے ذریعے سے پہلے انبیاء کی صداقت ثابت ہوئی اور جن کی وجہ سے نبیوں پر ایمان لایا جاتا ہے اگر ان سے بڑھ کر بلکہ سوائے رسول کریم ﷺ کے باقی سب نبیوں کے متعلق اس قدر بھی دلائل نہیں ملتے جتنے اوپر بیان ہوئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جاتا ہے اگر ایمان صرف ماں باپ سے سنی سنائی باتوں کو دہرا دینے کا نام نہیں بلکہ تحقیق وتدقیق کر کے کسی بات کو ماننے کا نام ہے تو پھر دو
۵۹۰ باتوں میں سے ایک ضرور اختیار کرنی پڑے گی` یا تو سب نبیوں کا انکار کرنا ہو گا یا حضرت اقدسؑؑ مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو تسلیم کرنا پڑے گا اور میں اے بادشاہ! آپ جیسے فہیم اور ذکی فرمانروا سے یہی امید کرتا ہوں کہ آپ موخر الذکر طریق کو اختیار کریں گے اور اللہ تعالیٰٰ کے فرستادہ کو جو نبی کریم ﷺکی صداقت کے اظہار اور اسلام کو غالب کرنے اور مسلمان کہلانے والوں کو پھر مسلمان بنانے کے لئے آیا ہے قبول کرنے میں دیر نہیں کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کو قبول کرنا اس کے ارادے کے مطابق بہت سی برکات کا موجب ہوتا ہے اور اس کے منشاء کے خلاف کھڑا ہو جانا کبھی بھی بابرکت نہیں ہوتا- اسلام کی حالت اس وقت قابل رحم ہے اور ممکن نہیں کہ جو شخص اس دین سے سچی محبت رکھتا ہو اس کا دل اس کی حالت کو دیکھ کر اس وقت تک خوش ہو سکے جب تک وہ اس کی کامیابی کے لیے سامان بہم نہ پہنچائے اور اسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ نہ دیکھ لے- دشمن تو اس کی عداوت میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کو اس میں کوئی خوبی ہی نظر نہیں آتی` سر سے پا تک عیب ہی عیب نکالتے ہیں` جو دوست کہلاتے ہیں وہ بھی یا تو دل سے اس سے متنفر ہیں یا اس کی طرف ان کو کوئی توجہ نہیں- اسلام ان کی زبانوں پر ہے مگر حلق سے نیچے نہیں اترتا` ان کی تمام تر توجہ سیاسیات کی طرف ہے اگر کوئی ملک ہاتھ سے نکل جائے تو وہ زمین وآسمان کو سر پر اٹھا لیتے ہیں` لیکن اگر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام کو چھوڑ کر مسیح یا ہندو ہو جائیں تو ان کو کچھ پروا نہیں- دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لیے تو ان میں والنٹیروں کی کوئی کمی نہیں` لیکن اشاعت دین کے لیے ان میں سے ایک بھی باہر نہیں نکلتا- ¶سلطان ترکی کی خلافت کا اگر کوئی منکر ہو تو ان کی تن بدن میں اگ لگ جاتی ہے لیکن رسول کریم ؐکی رسالت کو رد کر دے تو ان کی غیرت جوش میں نہیں آتی اور یہ حالت ان کی دن بدن بڑھتی جاتی ہے- ہندوستان کی تو اب یہ حالت ہے کہ غیر مذاہب کے لوگوں میں تبلیغ کرنا تو دور کی بات ہے ان کی طرف سے اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں اگر ان کا بھی جواب دیا جائے تو خود مسلمان کہلانے والے لوگ گلوگیر ہو جاتے ہیں اور اسے مصلحت وقت کے خلاف بتاتے ہیں` غرض اسلام ایک ردی شے کی طرح گھروں سے نکال کر پھینک دیا گیا ہے اور صرف اس کا نام سیاسی فوائد کے حصول کے لیے رکھ لیا گیا ہے اس حالت کو دور کرنے اور اسلام کو مصیبت سے بجانے کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ مسیح موعود کو قبول کیا جائے اور اس کے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کیا جائے بغیر اس کے سایہ
۵۹۱ میں آنے کے ترقی کا کوئی راستہ کھلا نہیں- اب تلوار کا جہاد اسلام کے لئے مفید نہیں ہو سکتا` جب تک ایمان درست نہ ہونگے اور اسکام کا صحیح مفہوم لوگ نہ سمجھیں گے اور پھر اللہ تعالیٰٰ کی رسی کو سب کے سب مضبوط نہ پکڑ لیں گے اسلام کی ترقی کے سامان پیدا نہیں ہو سکتے- دنیا نے رسول کریم ﷺ پر اعتراض کیا تھا کہ آپ نے نعوذ باللہ تلوار کے ساتھ اسلام کی اشاعت کی تھی ورنہ دل پر اثر کرنے والے دلائل آپ کے پاس موجود نہ تھے اور خود مسلمان اس اعتراض کی تائید کرتے تھے اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس اعتراض کو اپنے رسول سے دور کرے اور اس نے اس غرض سے رسول کریمؐ کی امت میں سے یک شخص کو مسیح کر کے بھیجا ہے تا اس کے ذریعے براہین اور دلائل کی تلوار سے دشمن کو مغلوب کرے اور اسلام کو غالب` تا دنیا کو معلوم ہو کہ جو کام ایک خادم کر سکتا ہے آقا اس کو بدرجہ اولی کر سکتا تھا اب اس ذریعہ کے سوا اسلام کی مدد کا اور کوئی طریق نہیں- اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ رسول کریم ﷺکے دشمنوں کو آپ کی غلامی میں داخل کرے اور اس کا ایک ہی طریق ہے کہ اس سچے اسلام کو جو مسیح موعودؑ لایا ہے اس صحیح طریق سے جو مسیح موعود نے بتایا ہے اس خالص ایمان کے ساتھ جو مسیح موعود نے دلوں میں پیدا کیا ہے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور بھولے بھٹکوں کو راہ راست پر لایا جائے اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا کہ کسی اور ذریعے سے اسلام کو ترقی دے تو وہ پہلے سب راستوں کو بند کیوں کرتا؟ پس مسیح موعود سے دور رہنا گویا اسلام کی ترقی میں روک پیدا کرنا ہے اور دشمنوں کو موقعہ دینا ہے کہ وہ رسول پاک پر حملے کریں اور آپ کی عزت پر تیر اندازی کریں جسے کوئی باغیرت مسلمان گوارا نہیں کر سکتا- رسول کریم ﷺفرماتے ہیں کہ وہ امت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف مسیح موعودؑ- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی شخص کا ایمان محفوظ رہ سکتا ہے جو ان دونوں دیواروں کے اندر آجائے پس مسیح موعود کے نازل ہو جانے کے بعد جو اس پر ایمان نہیں لاتا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے باہر ہے اور جو مسیح موعود کے راستے میں روک بنتا ہے وہ درحقیقت اسلام کا دشمن ہے اور اسلام کی ترقی اس کو نہیں بھاتی- ورنہ وہ اس دیوار کے قائم ہونے میں کیوں روک ڈالتا` جس کے ذریعے سے اسلام محفوظ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قہر کی تلوار کے نیچے ہے بہتر ہوتا کہ اس کی ماں اس کو نہ جنتی اور وہ مٹی رہتا- اس نحس دن کو نہ دیکھتا-
۵۹۲ اے بادشا! مسیح موعود کی آمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے وابستہ ہیں اس کے ذریعے سے اسلام کو ایک نئی زندگی دی جائے گی- جس طرح ایک خشک درخت زور کی بارش سے جو وقت پر پڑتی ہے ہرا ہو جاتا ہے اسی طرح مسیح موعود کی آمد سے اسلام سرسبز وشاداب ہو گا اور ایک نئی طاقت اور نئی روح ان لوگوں کو دی جائے گی جو مسیح موعود پر ایمان لائیں گے` اللہ تعالیٰٰ نے دیر تک صبر کیا اور خاموش رہا- مگر اب وہ خاموش نہیں رہے گا وہ کبھی اس امر کی اجازت نہیں دے گا کہ اس کے بندے کو اس کا شریک بنایا جائے` اس کا بیٹا قرار دیکر یا آسمان پر زندہ مان کر یا مردے زندہ کرنیوالا اور نئی مخلوق پیدا کرنیوالا قرار دیکر- وہ رحم کرنیوالا ہے مگر غیرت مند بھی ہے- اس نے دیر تک انتظار کیا کہ اس کی پاک کتاب کی طرف لوگ کب توجہ کرتے ہیں مگر مسلمانوں نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا` وہ اور لغویات کی طرف متوجہ ہو گئے مگر اللہ تعالیٰ کے کلام کی انہوں نے کجھ قدر نہ کی اور یہ آیت ان کو بھول گئی کہ یا رب ان قومی اتخذو اھذا القران مھجورا )فرقان ع۳(31: پس اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اب وہ اس وقت تک ان کی طرف منہ نہیں کرے گا جب تک وہ اس کے مسیح موعود کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکر اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ وہ آئندہ اس سے بے توجہی نہیں کریں گے اور اپنی پچھلی غلطیوں کا تدارک کریں گے- لوگوں نے دنیا سے محبت کی مگر اللہ تعالیٰ سے محبت نہ کی- تو اللہ تعالیٰٰ نے دنیا بھی ان سے لے لی اور ذلت کی ماران پر ماری` انہوں نے مسلمان کہلا کر اللہ تعالیٰ کے محبوب کو تو زمین میں دفن کیا مگر حضرت مسیح کو زندہ آسمان پر جا بٹھایا تو اس نے بھی ان کو زمین پر مسل دیا اور مسیحیوں کو ان کے سر پر لاکر سوار کیا- یہ حالت ان کی نہیں بدل سکتی جب تک کہ وہ اپنی اندرونی اصلاح نہ کریں- ظاہری تدابیر آج کجھ کام نہیں دے سکتیں` کیونکہ یہ سب تباہی اللہ تعالیٰ کے غضب کے نتیجے میں ہے جب تک مسلمان اللہ تعالیٰ سے صلح نہیں کریں گے اس وقت تک یہ روز بروز ذلیل ہی ہوتے چلے جائیں گے پس مبارک وہ جو اللہ تعالیٰ سے صلح کرنے کو دوڑتا ہے- یقیناً وہ ذلت سے بجایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے ساتھ ہو گی اور اس کا ہاتھ اس کے آگے اگے ہوگا- اے بادشاہ! مسیح موعود ؑکی آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ بہت برا واقع ہے مسیح موعودؑ ہے جسے رسول کریم ؐنے سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خواہ سخت سے سخت صعوبتیں اٹھا کر بھی اس کے پاس جانا پڑے تب بھی مسلمانوں کو اس کے پاس جانا چاہئیے اس کی
۵۹۳ نسبت دنیا کے تمام مذاہب میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں اور کوئی نبی نہیں جس نے اس کی آمد کی خبر نہ دی ہو- پس جس انسان کی اس قدر نبیوں نے خبر دی ہے اور اپنی امتوں کو اس کی آمد کا منتظر کیا ہے وہ کتنا بڑا انسان ہو گا اور کیسا مبارک ہو گا وہ شخص جس کو اس کا زمانہ مل جائے اور وہ اس کی برکتوں سے حصہ پالے- اے بادشاہ! اللہ تعالیٰ کے مامور اور مرسل روز روز نہیں آیا کرتے اور خصوصاً اس قسم کے عالیشان مرسل کہ جس قسم کا مسیح موعود ہے رسول کریم ﷺسے اور کسی شخص کی نسبت اس قدر بشارت مروی نہیں جس قدر کہ اس کی نسبت- پس اس سے بڑے آدمی کی آمد کی ہمیں امید نہیں ہو سکتی- وہ نبی کریم کی امت کے لیے خاتم الخلفاء ہے اور اس کے بعد قیامت کے زمانے ہی کا انتظار کیا جا سکتا ہے پس اس کے زمانے کا ایک ایک دن قیمتی ہے وہ انسان جو اس کی قدر کو سمجھتا ہے اور اس پر ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی خوشنبودی حاصل کرنا جاہتا ہے کیونکہ وہ اپنی پیدائش کے مقصد کو پا گیا اور عبودیت کا راز اس پر کھل گیا- اے بادشاہ! جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو اس کی جماعت ہمیشہ یکساں حالت میں نہیں رہتی- وہ غریبوں سے شروع ہوتی ہے اور باشاہوں پر جا کر ختم ہوتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ جماعت اس علاقے پر قابض ہو جاتی ہے جس کی طرف وہ مامور جس نے اس جماعت کو قائم کیا تھا بھیجا گیا تھا- پس ہمیشہ یہی حال نہیں رہے گا کہ ہماری جماعت غرباء کی جماعت رہے` بلکہ یہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرے گی- دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اس کی رفتار ترقی کو روک نہیں سکتیں- ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ تمام جماعتوں اور فرقوں کو کھا جائے گی جیسا کہ حضرت اقدسؑ ؑکا الہام ہے کہ تیرے ماننے والے قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رہیں گے اور جیسا کہ آپ کا الہام کہ وہ لوگوں کو جو آپ کی بیعت میں داخل نہ ہوں گے کم کرتا چلا جائے گا اور ایسا ہو گا کہ دنیا کہ بادشاہ آئندہ اسی جماعت میں سے ہوں گے- یہ مغلوب نہیں رہے گی بلکہ غالب آ جائے گی اور مفتوح نہیں رہے گی بلکہ فاتح ہو جائے گی جیسا کہ حصرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ مگر ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے- ایک ہی کام ایک وقت میں انسان کو بڑی عزت کا وارث بنا دیتا ہے اور دوسرے وقت میں اس کام کو کوئی پوچھتا بھی نہیں- رسول
۵۹۴ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ابتداءً ایمان لانے والے آج تک دنیا کے سردار بنے ہوئے ہیں لیکن جو اس وقت ایمان لائے جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا ان میں سے بہتوں کے نام بھی لوگ نہیں جانتے- پس جو شخص اس وقت کہ یہ جماعت کمزور سمجھی جاتی ہے ایمان لاتا ہے وہ اللہ تعالیٰٰ کے نزدیک سابقون میں لکھا جائے گا اور خاص انعامات کا وارث ہو گا اور عظیم الشان برکات کو دیکھے گا` اگرچہ بہت سا وقت گذر چکا ہے مگر پھر بھی عزت کے دروازق ابھی کھلے ہیں اور اللہ تعالیٰٰ کا قرب حاصل کرنے ابھی آسان ہے- پس میں آپ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت کی قدر کریں اور ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان آمنوا بربکم فامنا کہتے ہوئے اس آواز پر لبیک کہیں جسے خود اللہ تعالیٰ ٰنے بلند کیا ہے تاکہ آپ اس کے مقبول اور پیارے ہو جائیں- میں آپ سے سج سچ کہتا ہوں کہ احمدیت کے باہر اللہ تعالیٰ نہیں مل سکتا` ہر ایک شخص جو اپنے دل کو ٹٹولے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کی باتوں پر وہ یقین اور وثوق نہیں جو قطعی اور یقینی باتوں پر ہونا چاہئے اور نہ وہ اپنے دل میں وہ نور پائے گا جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کا چہرہ نظر نہیں آ سکتا- یہ یقین اور وثوق اور یہ نور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی جماعت کے باہر کہیں نہیں مل سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب کو ایک نقطے پر جمع کرے مگر کاکیاکوئی شخص جو موت پر نظر رکھتا اس زندگی پر خوش ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے دوری میں کٹے اور جس میں اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ نہ ملے- پس اس نور کو حاصل کیجئے اور اس یقین کی طرف دوڑیے جو احمدیت ہی میں حاصل ہو سکتا ہے اور جس کے بغیر زندگی بالکل بے مزہ اور بے لطف ہے اوار دوسروں پر سبقت لے جائیے تاکہ آئندہ نسلوں میں بھی آپ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے اور زمانے کے آخر تک آپ کے نام پر رحمتیں بھیجنے والے موجود رہیں- بیشک اللہ تعالیٰ کے سلسلوں میں داخل ہونے والے انسان بڑے بوجھ کے نیچے دب جاتے ہیں مگر ہر ایک بوجھ تکلیف نہیں دیتا- کیا وہ کسان جو اپنی سال بھی کی کمائی سر پر رکھ کر اپنے گھر لاتا ہے بوجھ محسوس کرتے ہے یا وہ ماں جو اپنا بچہ گود میں اٹھائے پھرتی ہے بوجھ محسوس کرتی ہے؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دین کی خدمت میں حصہ لینا اور اس کے لئے کوشش کرنا مومن کے لئے بوجھ نہیں ہوتا` دوسرے اسے پوجھ سمجھتے ہیں مگر وہ اسے عین راحت خیال کرتا ہے- پس ان ذمہ
۵۹۵ داریوں سے نہ گھبرائیں جو حق کو قبول کرنے سے انسان پر عائد ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے اور محمد رسول اللہ ﷺکی عنایتوں کو سوچتے ہوئے اس بوجھ کے نیچے اپنا کندھا دے دیجئے` جس کا اٹھانا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے- آپ بادشاہ ہیں` لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور آپ اور دوسرے انسان برابر ہیں` جس طرح ان پر خدمت اسلام کا فرض ہے آپ پر بھی فرض ہے اور جس طرح ان کے لیے اللہ تعالیٰٰ کے ماموروں کا ماننا ضروری ہے آپ کے لیے بھی ضروری ہے پس اللہ تعالیٰ کے حکموں اور اس کی تقسیموں کو قبول کیجئے- اور اس کے قائم کردہ سلسلے میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے حصہ لیجئے کہ ان میں سب سے چھوٹا آپ کی ساری مملکت سے بڑا اور زیادہ قیمتی ہے- رسول کریم ﷺفرماتے ہیں من فارق الجماہ شیرا فلیس منا- پس اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت سے جدا رہنا نہایت خوف کا مقام ہے اور خصوصاً بادشاہوں کے لیے کہ ان پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایک ان کی اپنی اور ایک ان کی رعایا کی` بہت سے نادان دین کے معاملے میں بھی اپنے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہیں- پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی غلطیوں کے ذمہ دار ان کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں- جب رسول کریم ﷺنے قیصر کو خط لکھا تھا تو آپ نے اس کو اسی امر کی طرف توجہ دلا کر حق کو جلد قبول کرنے کی ترغیب دی تھی اور تحریر فرمایا تھا کہ فان تولیت فعلیک اثم الارلیسیین کہ اگر تو نے انکار کر دیا تو تجھ پر زمینداروں کا گناہ بھی ہوگا- پس آپ حق کو قبول کر کے اپنی رعایا کے راستے سے وہ روک ہٹا دیں جو اب آپ کے راستے میں حائل ہے تاکہ اس کے گناہ آپ کو نہ دئیے جائیں بلکہ ان کی نیکیاں آپ کو ملیں کیونکہ جس طرح وہ بادشاہ جو حق کا انکار کر کے دوسروں کے لیے روک بنتا ہے ان کے گناہوں میں شریک قرار دیا جاتا ہے- اسی طرح وہ بادشاہ جو حق کو قبول کر کے دوسروں کے لیے حق کے قبول کرنے کا راستہ کھولتا ہے ان کے ثواب میں شریک کیا جاتا ہے- یہ دنیا چند روزہ ہے اور نہ معلوم کہ کون کب تک زندہ رہے گا آخر ہر ایک کو مرنا اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے- اس وقت سوائے صحیح عقائد اور صالح اعمال کے اور کچھ کام نہیں آئے گا- غریب بھی اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے اور امیر بھی` نہ بادشاہ اب تک اس دنیا سے کجھ لے گئے نہ غریب- ساتھ جانے والا صرف ایمان ہے یا اعمال صالحہ- پس اللہ تعالیٰ کے مامور پر
۵۹۶ ایمان لائیے تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو امن دیا جائے اور اسلام کی آواز کو قبول کیجئے تا سلامتی سے آپ کو حصہ ملے- میں آج اس فرض کو ادا کر چکا جو مجھ پر تھا- اللہ تعالیٰ کا پیغام میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے- اب ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے- ہاں مجھے آپ سے امید ضرور ہے کہ آپ میرے خط پر پوری طرح غور کریں گے اور جب اس کو بالکل راست اور درست پائیں گے تو وقت کے مامور پر ایمان لانے مینں دریغ نہیں کریں- اللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو- واخر دعولنا ان الحمد للہ رب العلمین.الحج : ۷۹ ۲- بسعیاہ باب ۶۲ ایت ابرٹش اینڈ قارن بائبل سوسائی انار کی لاہور مطبونه ۱۹۰۱ء ٣.نرمذی ابواب الاحكام باب ماجاء فی التشديد متین بنض له بشي ليستهان یاخذة مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۰۷ د.النحل : إ۵ : فاطر : ۲۵ - ال عمران : ۸۲ ۸- اليوافيت والجوهرجلداصفحه ۲۲ مطبوعہ مصرا۳۲اد میں \"ما\" کی جگہ \"ما\" کا لفظ ہے - البقرة : ۱۸۷ ۱۰- معالم التنزيل في التفسير والتأوبل مولفه ابی محمد الحسين بن مسعود الجزءالثالث صفحه ۲۴۳ مطبوعه دارالفکر میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں ”لياتبن على جهنم زمان ليس فيها لحدوذلك بعدمايلبثون أحقابا ا- النساء : ۱۷۳ ٣- ال عمران : ۵۶ ۱۴- در ثمن فارسی ص۱۱۲ مطبوعہ باراول ۵ا.بنی اسراء بل : ۹۴ ۱۶- بنی اسرائیل : ۹۳ ہے.شرح مواهب اللدنبه مؤلفه أمام زرقانی جلد اصفهدم منطبونه مصرد ۳۲نج 14.ال عمران :۱۴۵ - الزمر : ۳۱ ۲۰.بخاری کتاب المناقب باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لوكنت منحنا خلي داخلية
۵۹۷ WZXIMUSARZTZTZTTT7777 ۲۱- بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم ۳۲۲.طبقات ابن سعد جلد ۳ ص ۲۹۳۸ مطبوعہ بیروت ۱۴۰۵ھ ۲۳- مجمع بحارالانوار جلد اصفر ۲۸۹ مطبوعہ مطیع الحالی استی تو کثرراه 31- الزمر : ۶۸ الرعد : ۱۲ ۲۹- ابن ماجه کتاب الفتن باب شدة الزمان مطبوعه بیروت ۱۹۸۸ء ۲۷- بخاری کتاب الانبياء باب نزول عيسى ابن مريم ۲۸- التوبة ۲۶.آل عمران : ۱۵۵- الزمر : ۷ ٣- الأعراف :۲۷ ۳۲.البقرة : ۵۸ ۳۳.الحديد : ۲۶ ۳۴- الشوری : ۲۸ ۳۱- الطلان : ۱۲ التحريم : ۱۲،۱۳ ۳۸- عوارف المعارف منونه شیخ شهاب الدین سہروردی جز اول صنم ۴۵ ۳۹.بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمربن الخطاب..الأحزاب : ۴ 1.بخاری کتاب المناقب باب خانم النبوة ۴۲- الكوثر : ۴ ۰۴۳ مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدی مكة والمدينة ۳۴۴- مسلم کتاب الامارة باب وجوب الوفاء بيعة الخلبنة الاول الاول ۰۴۵ مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدی مكة والمدينة ۴۹- تكمله مجمع بحار الانوار جلد ۲ صفحه ده مطبوعه ممليع العالي المنشي نولکشور ۱۳۱۴ھ م - الفاتحة : ۶،۷ ۴۸.النساء : ۲۷ نا۷۱ وم.النساء : ۱۴۷،۱۴۶ د- الاعراف : م ۳۴ تا ۳۶ - مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفته وماميه - الفرقان : ۵۳ د.المنفقون :۲ د.البقره : ۲۵۷ د- البقرة : 1۹1 د- الحج : ۴۱۴۰
۵۹۸ - فلانطع الكفرين وجاهدهمه جهادکبیرا (الفرقان : ۵۳) ۵۸- فلن اعتزلوكم فلم يقاتلوكم والقوا اليكم السلم فما جعل الله لكم عليهم سبيلا النساء : 4) وقاتلوا في سبيل الله الذين يقاتلونکم ولا نعنبوا أن الله لا يحب المعتدين (البقره: ۱۹) لابنهكم الله عن الذين لم يقاتلونكم في الدين ولم يخرجوكم من دياركم لن تبروهم وننسطوالبهم وان الله يحب المقسطين الممتحنة : ۹) ۵۹.البقرة : ۱۹۰ ۱۰-آل عمران : ،۸۱۸۰ 11- الدخان : ۰۳۹۴۰ ۷۲- الحجر : ۲۲ ۹۳ - ابراهیم : ۳۵ ۹۴ - الليل : ۱۳ ۲۵.طه : ۱۳۵ 11- الأنعام : ۱۳۲،۱۳۱ - الحجر : ۱۰ ۲۸- ابو داود کتاب الملاحم باب ما يذكر في المائة ۹۹.حجج الكرامة في اثار القيامة مؤلفه نواب صدیق حسن خان صفر ۳۳، مطبوعہ بھوپال - الفرقان : ۳۱ بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالی ونزع الموازين القسط ليوم القيمة ۷۲- مجمع البحار مؤلفہ اور طاہر جلد اصفر ۳۲ مسنداحمدبن حنبل جلده سنیه بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلوة الجماعة ۵- ابن ماجه كتاب الفتن باب شدة الزمان مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ۷۱- کنزالعمال (مولفه علامه علاوالدين على المتقی بن حسام الدين الهندي البرهان النوری المتوفیههه) جلد سنہ -کنزالعمال جلد اصفر۲۲۵ روایت ۴۸۳۹۵ مطبوعہ طلب ۱۹۷۵ء ۸-ابن ماجه کتاب الفتن باب اشراط الساعة و مسلم کتاب الفتن باب تقوم الساعة والروم اكثر الناس
۵۹۹ ۸۰- ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء اذا ذهب کسری فلاکسری بعده ۸- حجج الکرامةفيتارالغيلمة م ۳۴۴ مطبوعد بریال۲۰۰ه ۸۴- ابن ماجه کتاب الفتن باب بدء الاسلام غریبا ۸۳- ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في فتنة الدجال ۰۸۴ مسنداحمدبن حنبل جلد۲» ۸۵- ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في اشراط الساعة ۸۲- حجج الكرامة في انا القيامة من ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۴۰۹اه ۸-نرمذی ابواب الفتن باب ماجاء ستكون فتنة كقطع الليل المظلم ۸۸- حج الكرامة في اثار القيامة مفرے۲۹ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹اه ۸۹- کنزالعمال جلد سنه ۳ه روایت ۳۹۹۳۹ مطبوع علب ۱۹۷۵ء ۹۰- حجج الکرامة فيثار القيامة من ۲۹۱ مطبوعہ بھوپال ۳۰۹ام 4- حجج الكرامة في اثارالقيامة ۲۹۹ مطبوعہ بھوپال ۰۹تاه ۹۴- نرمذی ابواب الصلوة باب ماجاء في وصف الصلوة ۹۳- مشكوة كتاب العلم الفصل الثالث محم۳۸ مطبویہندی کتب خانہ آرام باغ کراچی۳۶۸ام ۹۴- حجج الكرامة في النار القيامة منهم_۲۹ مطبوی بھوپال۲۰۰اه ۹۵- کنزالعمال جلد روایت ۳۹۷۲۱ مطبوع طب ۱۹۷۵ء ۹۹.حجج الکرامة في ثارالقيامة من۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۳۰۹ام 4- حجج الكرامة في النار القيامة من۲۹ مطبوی بھوپال ۲۰۰ه ۹۸- حجج الكرامة في اثارالقيامة صفر۲۹۵ مطبوی بھوپال ۲۰۰ه ۰۹۹ ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في اشراط الساعة ۱۰۰.حجج الکرامة فيثارالقيامة مفید ۲۹۹ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹له مسلم کتاب العلم باب رفع العلم وقبضته وظهور الجهل والفتنة في اخرالزمان ۱۰۲- حجج الکرامة في اثار القيامة سنہ ۲۹۹ مطبوعہ بھال ۴۰۹اہ کنزالعمال جلد سنہ
۶۰۰ ۱۰۴- مسلم کتاب العلم باب رفع العلم وفبضته وظهور الجهل والفتنة في اخرالزمان ۱۰۳- حجج الکرامة في اثارالفبامة مخم۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹ام ۱۰۵- کنزالعمال جلد ۴، صفحہ ۵۴ روایت ۳۹۹۳۹ مطبوہ حلب ۱۹۷۵ء ۱۰۹- حجج الكرامة في ثارالقيامة سنہ ۲۹۹ مطبوعہ بھوپال ۴۰۹ه ۱۰۷-حجج الكرامة في اثار القيامة مفاد۳ مطبوعہ بھوپال ۴۰۹ام بحارالانوار مولفه شیخ محمدباقرالمجلس جلد ۵۲ سن ۳۰۴ مطبوعہ بیروت، لبنان ۱۰۸- نرمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی اشراط الساعة ۱۰۹- حجج الکرامة في اثارالفبامة ۲۹۹ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹ام مام ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی أشراط الساعة - حجج الكرامة فينا القيامة سنہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹اه ٢- ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في اشراط الساعة ۱۳- ”برفع العلم وبكثرالجهل\" بخاری کتاب النكاحباب يفل الرجال ویکثر النساء 113- نرمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی اشراط الساعة ۵.مسنداحمدبن حنبل جلد ۳ ص ۴۳۰ کے حجج الكرامة في اثار القيامة ص۲۹۷ مطبوی بھوپال ۳۰۹ام ۱۸- نرمذی ابواب الفتن باب ماجاء في رفع الأمانة 114- حجج الكرامة في اثارالقيامة ص۲۹۵ مطبوعہ بھوپال۲۰۰ام ۲۰- حجج الكرامة في اثارالقيامة فمے ۲۹ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹اه - ۱۲۱- حجج الكرامة في اثار القيامة مند۲۹ مطبوعہ بھوپال ۱۳۰۹ھ ۲۲- نغز العمال جلد اصفیه ۵۶۴ روایت ۳۹۹۰۹ مطبوعہ مطب ۱۹۷۵ء ۱۳۲۳-حجج الكرامة في اثار القيامة مصنے ۲۹ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹اه ۱۲۳- مسند أحمد بن حنبل جلد ۲ صفہوم د ۱۲- مسلم کتاب اللباس باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات ۲۱- حجج الکرامه في اثار القيامة صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹اہ کنزالعمال جلد ۳، صفحہ ۵۷۳
روایت ۳۹۹۳۹ مطبوع علب ۱۹۷۵ء ۲-کنزالعمال جلد ۱ صفر ۵۷۳روایت ۳۹۹۳۹ مطبوعہ مطلب ہے۱۹ء ۱۲۸- حجج الکرامة في اثارالقيامة من ۲۹۸ مطبوی بھوپال ۲۰۹له ۱۲۹- حجج الكرامة في اثارالقيامة مفر ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹ھ کنزالعمال جلد سنہ ۵۷۳روایت ۳۹۹۳۹ مطبوع مطلب ہے19ء ۳۰- ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في أن الدجال لا يدخل المدينة ۱۳- نرمذی ابواب الفتن باب في الخسف ۱۳۲-حجج الكرامة في اثار القيامة منم ۲۹ مطبوی بھوپال ۲۰۹ام ۱۳۴- نرمذی أبواب الفتن باب ماجاء فی اشراط الساعة ۳۵مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم حكم بشريعة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم ۱۳۶- کنزالعمال جلد منه ۹۳ روایت هے ۳۹ مطبوی مطب ۱۹۷۵ء احجج الكرامة فيثارالفبامة من ۲۹۸ مطبوی بھوپال ۴۰۹اه ۳۸حجج الكرامة في اثار القيامة من ۲۹۰ مطبوعہ بھوپال ۲۰۹اہ کنزالعمال جلد ۴، ص ۱۴۹- البقرة : ۲۸۰ ۴۰- ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في فتنة الدجال ۱۴۱- حجج الكرامة في اثارالقيامة من ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۳۰۹ام ۱۴۲- مسلم کتاب الفتن باب لاتقوم الساعةحث بحسر الفرات عن جبل من ذهب ۴۳امسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفته ومامعه ۱۴۴- د تیل باب آیت ۲ بائبل سوسانی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۲ء(مفوما) حجر الكرامة في اثار القيامة مصفحہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹
الحجج الکرامة فیثارالقيامة ۲۶ مطبوی ال۲۰۰ء ۷۴۸.حجج الکرامت فیثارالقيامة ۳۹۸ مطبوعد بھوپال۲۰۰ ۱۴۹- سنن دارقطنی باب صفة صلوة الخسوف والكسوف وهبتیاجلد ۲ فرم ۹۵ مطبوع ۵۰.متی باب ۲۴ آیت ۲۹ اپل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 194ء الها.القيامة : ۷ تا ۱۰ ۱۵۳- اقرب الموارد جلدان ۳-ازيلفظ \"قمر\" مطبوعہ ایران ۴۰۳ام ۵۳يوسف : ه ۱۵۴.الصفت : ۱۰۳ ۵۲- تاج العروس جلدی منی۳۱۸زرلفظ \"دجله ۵۷)اقرب الموارد جلد است ۳۲۰ زیرلفظ دجل مطبوعه ایران ۴۰۳ه ۸۵۸- لسان العرب جلد ۲ صفحہ ۲۹۴ز پر لفظ \"دجل » مطبوعہ دار احياء التراث العربي ۱۵۹.مشکوۃ باب فصة ابن صیاد الفصل الأول منم ۴۸ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی۳۱۸ام ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی ذکرابن صیاد ۱۹۰- نرمذی ابواب الفتن باب ماجاء في ان الدجال لا يدخل المدينة ۱۹۱- نرمذی ابواب الفتن باب ما جاء في ان الدجال لا بدخل المدينة ۱۹۲- نرمذی ابواب الفتن باب ماجاء في ذكر ابن صباد ۱۷۳- یونس : ۱۶،۱۷ ۱۹۳- البداية والنهاية لابوالفداء الحافظ ابن کثیر الجزء الثالث منم ۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۹ء ۱۹۵- بخاری باب کیف کان بدء الوحي الى رسول الله صلى الله عليه وسلم ۲۹/- اشاعة السنة جلد نمبر منها ۱۹- اشاعةالسنة جلد نمبر سن ۱۰۱۹۹ ۱۲۹۸- نزول المسیح مفہ ۲۱۴- روحانی خزائن جلد ۸ اصفہ.وہ ۱۹۹- التوبه : ۳۳ - تفسير جامع البیان مولفه ابی جعفر محمد بن جریر الطبری المتوفی۳ه جلد ۲۸ صفیہ ۵۸ مطبوع ۲۶ماه
اور الطرم بلد ، براہین احیه چهارحصص - روحانی خزائن جلداسنے ۲۸۲ تاثرات قادیان مولفہ ملک فضل حسین نے مطبوی مسلم رنگ پریس لاہور سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے ۷۳- یوحنالب آتا۳۳۲۳-پرٹی ایڈ فاران ایل سوسائٹی لاہور مطیور ۱۹۰۱ (مضمون) ۴.متی باب ۲۴آیت۰۶۳۶ برش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوع ۱۹۰۱ء(منی) ہے.یوحنابابا آیت ارش اینڈ قارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوع ۱۹۰۱ء ماکےعام.المومنون : ا۵ ۷۸ - الجن : ۲۸،۲۷.جنم ساکھی بحالیبال شدید شر پنجاب یونیورٹی چندی گڑھ سن ۲۲۶۲ ۱۸۰- ال عمران : ۲۰ ۱۸۰- فاطر : ۲۵ ۱۸۲- الحجر : ۳ ۱۸۳مشکوة- كتاب العلم الفصل الثالث متر ۳۸ مطبوعہ قری کتب خانہ آرام باغ کراچی ۳۶۸اہ کنزالعمال جلد مخه ۳۳ روایت ۷۷ مطبوعہ حیدر آباد ۳۱۳ام میں الفاظ اس طرح ملے ہین لايبقى من الاسلام الاسمه\" ۱۸۴ترمذی ابواب الایمان باب ماجاء فی من بموت وهو يشهد ان لا اله الا الله ۱۸۵-کنزالعمال جلدهانی۱۲۸- روایت ۲۸۸۶۹ مطبوع طلب اے19ء ۱۸۹- بخاری کتاب الجنائزباب ماجاء في فبرالنبی و ابی بکر وعمررضی الله عنهم ۱۸النحل : ۲۲ ۱۸۸.الانبياء : ۹۹ ۱۸۹- المؤمنون : ۱۰۱ ۱۹۰- نرمذی ابواب التفسير تفسير سورة ال عمران زیر آیت وماكان لنبی ان بغل ----الخ ۱۹۱- ال عمران : ۵۰ ۱۹۲- الأنفال : ۲۵ ۹۳).النحل : ۲۸ ۱۹۴- الرعد : 12 ۱۹۵.الحج : 3 ۱۹۹-آل عمران : ۵۰ 192- البقرة : ۳۶ 198- التحريم : ۷ ۱۹۹.البقرة : ۳۵ ۲۰۰ - الحج : ۵۳ ۲۰۱.النجم : ۲۱،۲۰
۲۰۲-بخاری کتاب التفسير تفسير سورة النجم باب فوله فاسجدوالله واعبدوالاحاشیه) ۲۰۳+لحج : ۵۳ ۲۰۴ - الشوزی : ۱۲ ۲۰۵- الواقعة : ۸۰ ۲۰۹- براہین احمدیہ چار حصص.روحانی خزائن جلد اصفر ۲۳۲۲۰ سے ۲۰الذریت : ۵۷ ۲۰۸.الاعراف : ۱۵۷ ۴۰٣- کنزالعمال جلد اصفیے ۵۲ روایت مطبوه حلب دے ۱۹ء ۲۱۲.البقرة : ۲۸۰ ۲۱۴ - الفاتحة : ۵ ۰۲۱۴ الفاتحة : ۶ ۲۱۶ - المجادلة : ۲۲ ۲۱-المومن : ۵۲ ۲۳۰ - الأنعام : ۲۲ ۴۴۲- الانعام : ۱۳۹۱۱ ۳۲۵ واذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم (البقرة : ۳۵) ۲۲۲- لسان العرب جلد ۲ صفحہ ۱۸۶ لسان العرب جلده صفر ہے ازہر لفظ جد مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء ۲۳۰- کشتی نوح صفحه روحانی خزائن جلده صفی ذ کر د صفر ۴۲۰.ایڈیشن چهارم اسمم ج- لبش : سو ۲۳۲.الانبياء دے ۲۳۳ - النمل : ۱۹ د يوسف : ۲۳ ۲۳۵ - القصص : 3 ۰۲۲۲ النساء۲۳طہ :۱۱۵ ۲۳۸.البقرة : ۴۳ ۲۳۹.هود :۲ ۲۰۳۰- انوني ونصرة لمن بری.ایف ۳۲۰اد میں مکمل ہوئی اور ۲۲ جون ۱۹۰۲ء کو چھپ کر شائع بوی
۲۲۲-البقرة : ۴۸ ۴۴۱- الحكم یکم مئی..۲۳۳.آل عمران : 111 ۲۴۴- أبراهيم : ۵ ۲۴۵ تذکر ص۴۵-ایڈیشن چهارم ۴۴۹- المعجم الكبير للحافظ أبي القاسم سليمان بن احمدطبرانی جلد۱،صفحہ ۳۵۳حدیث نبر مکتبہ ابن تیمیہ قاھرہ میں \"رجل\" کی بجائے \"رجال\" کا لفظ ہے ۲۴۷-التکویر : ۱تا ۱۴ ۴۴۸• التكوير : ۱۹،۱۸ ۰۲۲۹ البقرة : ۲۵۶ ۵۰-لواقعة : ۸۰ اد۲- براہین احمدیہ چهار تخصص - روحانی خزائن جداسفہ ۳۰۴ ۲۵۴- الجن : ۲۷،۲۸ استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲ نیل سوما گئی ان کی اور مطبوے 1943ء ۲۵۴- تذ کرہ ص ۸۸- انیمیشن چهارم ۳۵۵ امیر حبیب اللہ خان وائی افغانستان اپنے والد عبد الرحمان کی وفات کے بہہ گیا تو پر ان میںمند نشین ہوا.اس کے عہد میں یو مندا ن کا تعین کیا گیا اور برطانیہ نے افغانستان کو آزادی دینے کاوعدہ کیا۲۰ فروری 1949ء کو اس نے وادی نگار Argar میں قلمه السراج نعمان کے قریب گوشمیں پڑاؤ ڈال رکھا تھا کہ اسے قتل کر دیا گیا اور کسی را با درمان معانسان کو پیر با جلد اصلی ۳د میر نے لاہور ۹۸۷اء اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلہ صفیہ ۸۸۷۸۸۲ مطبوعہ دانش کو پنجاب نہ ہور Frank, A.Martin - "under the absolute a mir\" published in 1907-70 و ۰۲۵ النمل۲۶ ۴۵۸- النحل : ۷۰ ۲۹۰-ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر۲۵۶) د۲ ۴۲- البقرة : ۵۰ ۲۹۳- خروج باب اس آیت ۲۲ بائبل سوسائٹی انار کلی از بور مطبوعہ ۱۹۹۲ء ۴۹۳ تاج العروس جلد اسفی ۳۸ از لفظ \"ذبح\" اید اول مطبوی منحصر ۳۰۶اد د۲۶ جنگ مقدس سنہ ۲۱۰ رومانی نرائن چند اصفیه ۲۹۳
.۲۲۱- ریویو آف ریلیجنز تبر۵۲۳۴۲۱۹۰۲مېرمنوا) ۳۹۷.تذکرہ ص۲۲۰-اڈیشن چارم ۲۹۸- آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلده ۷۴۰ ۲۹۰.استفتاء روحانی خزائن جلد سلیم ۲۷۰.بركات العاصفر ۳۳- روحانی خزائن جلدا صفر ۳۳ ۲۷- آئینہ کمالات اسلام- روحانی خزائن جلده سنی ۶۳۹ ۲۷۲حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۴۸۲۲ ۲۷۳- الحق مباحثہ مل rrا روحانی خزائن جلد صفر ۱۳۴ ۲۷۴- کنزالعمال جلد امنی ۳۴۳ روایت ۳۸۸۷۹ مطبوع صلب ۱۹۵ء ۲۷۵- نورالحق حصے ووتم می ۴۶- روحانی خزائن جلدہ سنہ ۲۳۲ ۲۷۱.خطبہ الہامیہ سنہ ۳۰۳- روحانی خزائن جلد اصفر ۳۰۳ ۲۷- ایام الصلح صفر ۲۰ارو علی فرزائن جلد ۳ الی ۳۴ ۲۷۹.تذکرہ سنہ ۳۱۵۳۴- ایڈیشن چهارم ۲۸۰- تذکرہ سنہ ۳۷۶۳۱۳-ایڈش چهارم ۲۸- ایام الصلح صفر ۱۳- روحانی خزائن جلد 3 صفحہ ۳۷۳ ۲۸۲- تذکرہ و ۵۵-ایڈیشن چہارم ۳۸۳- تذکرہی ستم شاید بشن چہارم ۲۸۴- تذکرہ سنہ ۵۳- ایڈیشن چهارم ۲۸۵- تذکر سنہ ۵۴۳- ایڈیشن چهارم ۲۸۹- تذکرہ سنہ ۵۴۳-ایڈیشن چهارم ۲۸۷- تذکر سن ۵۵۹-ایڈیشن چهارم ۲۸۸.تذکر سن ۵۶۳-ایڈیشن چهارم ۲۸۹.تذکرہ سنہ ۵۶۳-ایڈیشن چهارم ۲۹۰.تذکرہ سنہ ۵۲۱-ایڈیشن چهارم
اقرارالطيم بلده.:الام ۲۹.تذکرہ سن ۲۰-این چارم ۲۹۲.تذکرہ نم۲۰۰۲۰۸-این چهارم ۲۹۳- تذکرہ سن ۴۵ - ایڈیشن چهارم ۲۹۴- تذکرہ منم ۹۵ - ایڈیشن چهارم ۲۹۵.تذکرہ سنہ ۵۵۰-ایڈیشن چهارم ۲۹۹.الاحزاب : ۱۱،۱۲ ۲۹۷.تذکرہ سن ۵۴۰-ایڈیشن چهارم ۲۹۸.النزعت : ۲۵ ۲۹۹- Balfour , Arthur James ۱۹۳۰-۶۱۸۴۸ء)مشهور برطانوی سیاستدان.متعدد عہدوں پرفائز رہا پارٹی کنز ریس پارٹی میں ۵۰سال تک اپنی پوزیشن برقرار رکھی 140م )۱۹۰۵ وزیر اعظم رہا.اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اعلان بالفور (1912ء) کے زری فلسطین کو پوراقوی وطن بنانےکے مطالبے کی حمایت کی.دی نو انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلدا صفحه ۵۸) ۳۰۰- بنی اسراء بل : ۱۰۵ ۳۰ تفسیرفتع البیان مولفه ابو طیب صدیق بن حسن تفسیر سورہ بنی اسرائیل زیر آیت \"فاذا جاء وعدالأخرة \"جلده منها۳۷ مطبوعہ مصر۳۰اھ ۳۰۲ بنی اسراءیل :۸ ۳۰۳.نکولس (زار روس) Nicholas a of Russia(۱۸۷۸ء-۱۹۱۸ء) روی شہنشاہوں میں سےآخری شہنشاہ تھا۲۱ مئی ۶۱۸۹۵ ماسکو میں اس کی اجوشی ہوئی.مطلق العنان اور جابر تھا.انقلابروس نے مارچ ۱۹۷۷ء میں اسے تخت سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا.اسے پہلے گلزار سکویےسیلو اور پھر ٹویویک میں قید رکھا گیا.۱۹ جولائی ۱۹۸۸ء کو باریکیوں نے ایکا ٹیرن برگ کے ایک ترهخانہ میں اس کے خاندان سمیت اسے قتل کر ڈالا- (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا - جلد دوم سنیم امامطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا گیارھواں ایڈیشن جلدها صفحه ۲۵۵) ۳۰۴.کیرنگی الیکاڈر فوٹوروویچ(۱۸۸ء۱۹۷۴۰ء) رومی سیاستدان جو روی انقلابی سوشلسٹ پارٹی سے تعلق رکھا تھا ۱۹۳ء میں وہ Fourth Durra کے لئے منتخب ہوا- اس کے بعد وزیر قانون اور War Minister بنایا گیا۱۹۱۷ Kerensky Alexander Feodorovich
۱۰۸ میں بطور عارضی وزیراعظم شفراد \"لوا بانشین بنا اس کی سب تدبیری سے لینن نومبر میں اس کیحکومت کا تختہ الٹنے کے قابل ہو گیا.انقلاب روس کے بعد امریکہ میں رہائش پذیر ہوا.انا لوپیڈیا برٹینینکا.بارہواں ایڈیشن جلد نمبر ۳ صفحہ ۹۸۰- مطبوہ لندن ۱۹۳۲ء - اردو جامع انسائیکلو پیڈیاجلد دوم صفها۱۴۰ طبوند اہو ر ۱۹۸۸ء) ۳۰۵.تذکره صفحه ۵۴۰- د میشن چهارم ۳۰۲.تذکرہ صفحہ ۸۴ے.ایڈیشن چهارم ۳۰تذکرہ صفحہ ۲۴-ایڈیشن چهارم ۳۰۸ تذکرہ صفحہ ۲۵- ایڈمیشن چهارم ۳۰۹.هود : ۲۸ ۳۱۰- تذکرہ صفحہ ۳۱۲-ایڈیشن چهارم ۳۷.تذکرہ صفحہ ۱۴۱- ایڈیشن چہارم ۳۱۲- تذ کرہ صفحہ ۲۹۷-ایڈیشن چهارم ۳۱۳.تذکره صفحه ۴۷- این چهارم ۳۱۴- تذکره صفحه ۱۰۳ ایڈیشن چهارم ۳۱۵.تذکرہ صفحہ ۱۰۳-ایڈیشن چهارم ۳۱۹.تذکرہ صفہ دود- ایڈیشن چهارم ۳۱۷.تذکرہ صنم ۴۲۱-ایڈیشن چهارم ۳۱۸- العنكبوت : ۷۰ ۳۱۹ - آل عمران : ۳۲ ۳۲۰.التوبة : ۲۴ ۳۲۱.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلده منم ۱۵۸ ۳۲۲- آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۹ ۳۲۳.ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی الدجال ۳۲۴- يونس : ۸۴ ۳۲۵- البفرة : ۵۶ ۳۴۲- الا حزب۲۴ ۳۲۷ المؤمنون:۱۵ ۳۲۸.تذکرہ صفحہ ۳۵.ایڈیشن چہارم ۳۲۹.الواقعة : ۸۰ ۳۳۰ کنزالعمال جلد ۱۴ صفحہ ۳۴۷روایت ۳۸۸۵۸ مطبوه لبه هانو ۳۳۱لفرقان : ۳۱ ۳۳۲- در منشور مولفہ علامہ جلال الدین السیوطی جلد ۲ صفحہ ۲۴۲زير آیتوان من اهل الكتب\" ۳۳۳.ابن ماجه کتاب الفتن باب خروج المهدی مطبوعة وأحباء الكتب العربية ۱۹۵۳ء ۳۴ تذکرہ صفیہ ہے ۲-ایڈیشن چهارم ۳۳۵.تذکرہ صفحہ ۷۵ ۲- ایڈیشن چهارم ۳۳۱.تذکرہ ص ۱۰- ایڈیشن چهارم ۳۳۷- ال عمران : ۱۹۴ ۳۳۸- مجمع الزوائد ومنبع الفوائد مولفه حافظ نور الدین علی بن سی بکر جلد۵ صفحہ ۲۴۴ م بطبعه قاہرہ ۱۳۵۳ھ میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں من فارق لحماعة شبر فشد فارق الإسلام\" ۳۳۹.مسند احمد بن حنبل جلدا صفحه ۲۶۳