Anwarul-Uloom Volume 6

Anwarul-Uloom Volume 6

انوارالعلوم (جلد 6)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

ضرورتِ مذہب از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 16

Page 17

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَـــــــــــــــــــلٰے رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ضرورتِ مذہب (فرمودہ ۵؍مارچ ۱۹۲۱ء؁) ۵؍مارچ کو لاہور میں جن طلباء کالج نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سےملاقات کی.ان کی طرف سے یہ سوال پیش کیا گیا کہ مذہب کی کوئی ضرورت نہیں نہ اس سے کوئی فائدہ ہے.ہاں لوگ اگر اس کو بعض ظاہری فوائد حاصل کرنے کے لئے اختیار کرلیں تو بُرا نہیں.اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ ضرورت دو ۲ طرح کی ہوتی ہے (۱) چیز میں ذاتی فوائد انسان کے لئے ہوتے ہیں.وہ خیال کرتا ہے کہ مجھے اس کے قبول کرنے میں کچھ فائدہ ہوگا.(۲) اپنے نفع کا خیال نہیں ہوتا.محض اس چیز کی ذاتی خوبی ہوتی ہے.جیسے ماں باپ کا تعلق.جوان ہوکر انسان ان کی خدمت کسی فائدہ کے خیال سے نہیں کرتا.جو کچھ اُسے لینا ہوتا ہے وہ تو پہلے ہی لے چُکتا ہے.اس وقت ان کی خدمت کسی فائدہ کے لئے کی جاتی.بلکہ محض ان کے ماں باپ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے.اوربعض باتوں میں اخلاق کا خیال ہوتا ہے.اب ہم مذہب کے متعلق دیکھتے ہیں کہ اوّل اس سے ہمیں کیا فائدہ ہے.دوم یہ کہ ہمارے لئے اس میں کوئی ذاتی کشش ہے؟ جب ہم یہ دیکھتے ہیں تو مذہب میں یہ دونوں باتیں پاتے ہیں.یعنی ای تو اس میں ہمارے لئے موجودہ اور آئندہ کے فوائد ہیں اور دوسرے اس میں ذاتی دلکشی اور خوبیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے مذہب سےمحبت ہونی چاہئے.

Page 18

مذہب سے لاپرواہی کی وجہ میرے نزدیک مذہب سے لاپرواہی کی وجہ یہ ہے کہ مذہب پر غور کرتے ہوئے محدود نظر سے کام لیا جاتا ہے.لوگ ایسے کام تو کرتے ہیں.جو بظاہر ان کے لئے مال حاصل ہونے کا ذریعہ نظر آتے ہیں لیکن مذہب میں چونکہ یہ بات نظر نہیں آتی اس لئے گو اس کو مانتے ہیں مگر محض اس لئے کہ وہ ماں باپ سے سُنتے ہیں پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذہب کے لئے بہت دفعہ ان کو مال قربان کرنا پڑتا ہے اس لئے اس زمانہ میں کہ لوگوں کی طبیعتیں مادیت کی طرف مائل ہیں مذہب سے متنفر ہوجاتے ہیں.لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مذہب میں فائدہ نہیں.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ مذہب کو استعمال ہی نہیں کیاجاتا.یا اگر استعمال کیاجاتا ہے توغلط طریق سے.پس جب مذہب کو استعمال ہی نہ کریں اوراپنی ناواقفیت اورنادانی سے اسے چھوڑ بیٹھیں تو اس کا فائدہ کیا ہو.عقلمندی یہ ہے کہ جس چیز کا فائدہ ثابت ہو اُسے ضرور استعمال کرنا چاہئے.دیکھو بہت سی اشیاء تھیں جن کا استعمال کرنا لوگوں نےچھوڑ دیا تھا.مگر جب سائنس نے ان کا فائدہ ثابت کردیا تو ان کو قبول کرلیا گیا.چنانچہ ہم طبّ میں ہی دیکھتے ہیں کہ اسپغول یونانی اطبّاء مُدتوں سےاستعمال کرتے تھے اور پیچش میں مفید بتاتے تھے مگر ڈاکٹروں نے اس کے ان فوائد کا انکار کردیا.لیکن جب ان کو فوائد معلوم ہوئے تو انہوں نے دوبارہ استعمال شروع کردیا.جو لوگ مذہب پر عمل کرتے ہیں مگر ان کے عمل کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا ان کا طریق عمل غلط ہوتا ہے.تا ہم وہ اگر چھوڑتے ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ اپنی طرف سے کوشش کرنے کے بعد انہوں نے چھوڑا ہے لیکن جو لوگ مذہب کو غلط جان کر اس کا انکار نہیں کرسکتےوہ قابلِ عزت نہیں ہوسکتے.اوراگر دیکھا جائے تو ایسے ہی لوگ بکثرت اہلِ مذاہب میں پائے جاتے ہیں.طریق استعمال کو دیکھنا چاہئے پس کسی چیز کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کا طریق استعمال تو غلط نہیں.اگر صحیح طریق کے باوجود نتیجہ بُرا نکلے تو وہ چیز خراب ہے اور اگر غلط طریق استعمال سے بُرا نتیجہ ہو تو وہ چیز بُری نہیں ہوگی.دیکھو کونین موسمی بخار میں مفید ہے.لیکن اگر محرقہ بخار میں دیکر اس کی خوبی کا کائی انکار کرے تو وہ غلطی کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں ہمارے ملک میں بہت سی چیزوں کو ردّی سمجھ کر ضائع کیا جاتا تھا، مگر یورپ نے ان سے فوائد اُٹھائے ہیں.چنانچہ ہندوستان میں بانس کے جنگل ہوتے ہیں جو کہ ضائع ہی جاتے تھے لیکن یورپ نے بانس سے کاغذ بنایا اور عمدہ طریق سے استعمال کرکے فائدہ اُٹھایا.

Page 19

کارخانۂ عالم کا انتظام منتظم کو چاہتا ہے اب ہم انسان کو حالت پر غور کرتے ہیں کہ کیا یہ ایسا ہے جیسا سمندر میںحباب اور حباب میں مختلف رنگ جو فوراً مِٹ جاتے ہیں.پھر اس کے علاوہ اور عالم ہیں دیگر ستاروں کے متعلق تو یقینی تحقیق نہیں مگر MORS(مریخ) کے متعلق خیال ہے کہ اس میں آبادی ہے.انسان کے متعلق جب ہم خیال کرتے ہیں تو اس کی پیدائش لغو معلوم نہیں ہوتی اور پھر اس کے لئے جو سامان ہیں وہ کیسے اکمل اورابلغ ہیں.ابھی کچھ عرصہ ہوا دُمدار ستارے کے متعلق ایک امریکن ہیئت دان نے شائع کیا تھا کہ وہ زمین سے ٹکرائے گا اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگی.اس خیال سے بہت سے لوگوں نے یورپین ملکوں میں خود کُشیاں کرلی تھیں.بعض نے کہا کہ ٹکرائے گا نہیں مگر ایسی گیسز پیدا ہونگی جن سے دَم گھُٹ جائیں گے.لیکن وہ دن آیا اور گذرگیا.معلوم ہوا وہ ایسے خفیف ذرّے تھے کہ زمیں پر ان کا کچھ اثر نہ تھا.دیگر ستاروں کے متعلق بھی مانا جاتا ہے کہ جب وہ زمین کے برابر آتے ہیں تو فورآٍ اپنا رستہ بدل لیتے ہیں.پس یہ تغیرات بتاتے ہیں کہ اتفاقی نہیں بلکہ کوئی ہستی ہے جو اپنے ارادے کے ماتحت تغیرات کرتی ہے.فرض کرو کوئی اینٹ گری پڑی ہو.اس کے متعلق خیال کیا جاسکتا ہے کہ اتفاقاً گر گئی ہے.ہوانے گرادی.مگر عمارت کے متعلق یہ نہیں کہا جائیگا کہ اتفاقاً تیار ہوگئی ہے.یا اگر کہیں سیاہی گر جائے تو ممکن ہے کہ اس سے آنکھ کی سی شکل بن جائے مگر یہ ممکن نہیں کہ آنکھ بنے.ناک چہرہ اور انسان کی مکمل تصویر سیاہی گرنے سے ہی بنے اورپھر انسان کے غم یا خوشی کی علامات بھی اس سے ظاہر ہوں.اگر انسان کی ایسی تصویر ہوگی تو اس سے پتہ لگے گا کہ کسی ہوشیار مصور کی کاریگری ہے.اب دیکھو آنکھ پیدا کی گئی ہے تو اس کے لئےلاکھوں کوس کے فاصلہ پر سُورج بنایا گیا ہے.اسی طرح معدہ بنایا گیا ہے.تو وہ چیز یں بھی بنائی گئی ہیں جن سے وہ پُر ہوتا ہے.ان انتظامات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مدبِّر بالا رادہ ہستی کے ماتحت یہ کارخانہ اپنا کام کررہا ہے اور یہ اتفاق نہیں ہے.پس دنیاکی تدوین بتاتی ہے کہ اس کا پیدا کرنیوالا کوئی ہے اور پیدا کرنے میں اس کی کوئی غرض ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس نے پیدا کرے یونہی چھوڑ دیا.اتفاق کے معنی ہوتے ہیں جس کام میں سلسلہ نہ ہو لیکن جس میں سلسلہ ہو وہ اتفاق نہیں کہلاتا.مذہب کی ضرورت کا احساس کس طرح ہوسکتا ہے پس انسان کی پیدائش کی غرض ہے اور مذہب انسان کے فائدےکیلئے ہے مگر بہت سے فوائد محسوس نہیں ہوتے.مثلاً جب ریل نہ تھی تو ہمیں اس کی ضرورت بھی

Page 20

محسوس نہ ہوتی تھی لیکن آج جب ریل آگئی ہے تو جس گورنمنٹ میں نہ ہو اس پر اعتراض ہوتا ہےکہ یہ ضرورت کی چیز اس میں نہیں یا ڈاک کا جب ایسا انتظام نہ تھا تو اس کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی تھی مگر جب ہوا تو جہاں نہ ہو وہاںا عتراض ہوتا ہے.اسی طرح جب تک خدا نہیں ملتا.اور انسان اس کے بغیر اپنی زندگی کو اچھی طرح نہیں گزارسکتا.پس مذہب کی ضرورت کا سوال خدا کی ہستی سے وابستہ ہے اگر خدا ہے تو مذہب کی بھی ضرورت ہے.خدا کی ہستی کا ثبوت اب سوال ہوتا ہے کہ خدا کا کیا ثبوت ہے اور اگر ہے تو اس کا ہم پر کیا اثر پڑتا ہے کیونکہ یہ بات مُسلّمہ ہے کہ ہر چیز کا اثرلازمی ہے.اورخدا کا بھی اثر ہونا چاہئے.چنانچہ ایک امریکن سائنس دان نے لکھا تھا کہ اگر خدا ہے تو اس کو ماں باپ سے زیادہ مہربان ہونےکےباعث ہم پر ماں باپ سے زیادہ مہربانی کاا ظہار کرنا چاہیے.وہ ہم سے بولے یہ اس کا صحیح فطرتی مطالبہ تھا.پس اگر خدا ہے اور اس نے ہمیں پیدا کیا ہے تو ہمیں اس کا ثبوت بھی ملنا چاہیے ورنہ اگر اس کا ہم سے تعلق نہیں تو اس کی عبادت بے معنی بات ہوگی لیکن یہ واقعہ ہےاور جیسا کہ مَیں پہلے بتا چکا ہوں.خدا ہے اور ایسا ہے جو اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو انعام دیتا اور جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں ان کو سزا دیتا ہے.وہ اپنی صفات کا اظہار کرتا ہے.گونگا نہیں.وہ اپنے بندوںکو اپنی رضا کی راہیں بتاتا ہے.جس قدر مذاہب ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بانیوں سے خدا نے مکالمہ کیا.سکھ اپنے گوروؤں کو پیش کرتے ہیں.اور دیگر مذاہب والے اپنے بزرگوں کو.مگر سب اپنے گزشتہ بزرگوں کو پیش کرتے ہیں.مسلمان بھی مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا نے کلام کیا اور مسلمان مانتے رہے ہیں کہ خدا اپنے پیاروں سے باتیں کرتا ہے مگر تھوڑے عرصہ سے ان میں یہ غلطی آگئی ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا خدا نے اب بولنا چھوڑ دیا ہے.اسلام کی فضیلت دیگر مذاہب پر سب مذاہب کے پیروؤں کا اپنے مذہب کی ابتداء میں ماننا کہ خدا کلام کرتا تھا اوراب اس سے انکار کرنا بتاتا ہے کہ وہ مذاہب اپنی اصلی حالت پر نہیں رہے.لیکن اسلام اب بھی وہ بات پیش کرتا ہے جو مذہب کا مغز اور تمام مذاہب کا طُغرائے امتیاز رہا ہے یعنی مکالمہ الٰہیہ.چنانچہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کےذریعہ خدا نے اپنا کلام دُنیا میں پیش کیا اور آپ کے بعد بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا.بلکہ

Page 21

خدا کے فضل سے جاری ہے.مکاملہ الٰہیہ کی ایک مثال میں اپنا واقعہ پیش کرتا ہوں ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ایک ڈاکٹر مطلوب خان جو کالج سے عراق میں بھیجے گئے تھے ان کے متعلق ان کے ساتھیوں کی طرف سے اور سرکار ی طور پر خبر آئی کہ وہ فوت ہوگیا ہے.ان کے والد اس خبر سے تھوڑا عرصہ پہلے قادیان آئے تھے جو بہت بوڑھے تھے.مجھے خیال تھا کہ مطلوب خان اپنے باپ کا اکیلا بیٹا ہے.بعد میں معلوم ہوا وہ ساتھ بھائی ہیں.ماں باپ کا ایک بیٹا ہونے کے خیال سے اور اس کے باپ کے بوڑھا ہونے پر مجھے قلق ہوا.اِدھر ہمارے میڈیکل سکول کے لڑکوں کو جب اس کی موت کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ وہ ملٹری خدمات کرنے سے انکار کردینگے مجھے لڑکوں میں بے ہمتی پیدا ہونے کے خیال سے بھی قلق ہوا.اس پر میں نے دُعا کی اور مجھے رئویا میں بتایا گیا کہ گھبراؤ نہیں وہ زندہ ہے میں نے صبح کے وقت اپنے بھائی کو یہ بتایا اور انہوں نے اس کے رشتہ دار کو بتایا اور یہ خبر عام ہوگئی.اس سےکچھ دنوں کے بعد خبر آئی کہ وہ زندہ ہے دشمن کے قبضہ میں آگیا تھا.غلطی سےمُردہ سمجھ لیا گیا.کیا انسانی دماغ اس خبر کو وضع کرسکتا تھا.اگر دماغی اثرات کے ماتحت اس خبر کو رکھا جائےتو ایسا ہو نہیں سکتا.کیونکہ دماغ کو وضع خیالات کے اُلٹ نہیں دکھایا کرتا.حالات اور خیالات کے خلاف کِس امر کا رؤیا میں معلوم ہونا اور پھر اس کا پُورا ہوجانا یہ ثبوت ہےاس بات کا کہ جن بندوں کا خدا سے تعلق ہوتا ہے ان کو خدا کو باتیں بتاتا ہےاور غم و فکر سے انہیں نجات دیتا ہے میرے دل کو جو اس خبر سے صدمہ ہوا تھا وہ میرے خدا نے اس طرح دُور کردیا اور ہماری جماعت میں سیکنڑوں ایسے آدمی ہیں جن سے خدا باتیں کرتا ہے اور ان کو عزت دیتا اور ان کے مخالفوں کو ذلّت پہنچاتا ہے اور پہلے مدد کا وعدہ کرکے پھر ایفاء کرتا ہے ایسے لوگوں کی اگر ساری دنیا بھی مخالف ہوجائے تو ناکام رہتی ہے اور وہ کامیاب ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیاں خدا کی ہستی کا ثبوت ہے حضرت مسیح موعود نے جب دعویٰ کیا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور خدا مجھ سے کلام کرتا ہے تو اپنے بیگانے سب آپکے مخالف ہوگئے.اسی لاہور میں آپ پر پتھر پھینکتے گئے.امرتسر میں ایک موقع پر عوام نے کثرت سےپتھر مارے.پھر پادریوں نے آپ پر اقدام قتل کے مقدمے کرائے اورسب نے ملکر آپ کے خلاف زور لگایا.لیکن خدا نے آپ کو ان فتنوں کے متعلق

Page 22

قبل از وقت اطلاع دےدی تھی کہ یہ سب فتنے دُور ہوجائیں گے اور کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے.چنانچہ خدا کے فضل سے اسی طرح ہوا.دُنیا آپ کی جماعت کو مٹانا چاہتی تھی.مگر کچھ نہ کرسکی.اورآپکی جماعت دن بدن بڑھتی گئی.آپ نے کہا کہ میں ایک معمولی آدمی ہوں کوئی دنیاوی عزت و وجاہت نہیں رکھتا طاقت و شوکت نہیں رکھتا لیکن خدا نے مجھے بتایا ہے کہ مجھے عزت ملے گی اور تمام دُنی میں میرے ماننے والے پھیل جائیں گے.اب دیکھ لو یہ بات کس طرح پوری ہو رہی ہے.اسی طرح آپ کو خبر ملی.طاعون آئے گی اور ملک میں پھیلے گی اور قادیان میں بھی آئیگی مگر میرا مکان محفوظ رہے گا چنانچہ اس مکان کے اردگرد طاعون پڑی مگر اس مکان کو ہمیشہ خدا نے محفوظ رکھا.یہ تو اس دُنیا کے فوائد ہیں جو مذہب کےذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور آخرت کےفوائد بے شمار اور بے اندازہ ہیں اور اس دُنیا کے بعد اسی طرح حاصل ہوتے ہیں جیسےآپ لوگ اب اس لئے پڑھتے ہیں کہا آئندہ فائدہ اُٹھائیں.یہ نہیں کہ آپ کا اب پڑھنا وقت کا ضائع کرنا ہے.پس ظاہر ہے کہ مذہب کی ضرورت ہے اور اگر صحیح طریق سے جو اسلام بتاتا ہے اس پر عمل کیا جائے تو خدا مل جاتا ہے اور اس دُنیا میں جو خدا سے تعلق رکھتا ہے وہ فائدہ اُٹھاتا ہے.آئندہ بھی اس کو انعام ملیں گے.دوسری بات کس چیز کے متعلق اس کی ذٓتی خوبیاں ہیں.سو ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام میں ذاتی خوبیاں بھی اتنی اور ایسی ہیں جو اور کسی مذہب میإں نہیں پائی جاتیں.اس وقت مسلمان کہلانے والوں کے اعمال کے جو برے نتائج نکل رہے ہیں ان کی وجہ سے اسلام پر الزام نہیں آسکتا.کیونکہ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے خلاف چلنے سے ایسا ہورہا ہے.اس کے بعد حسب ذیل سوالات ہوئے.اوّل یہ کہ دیگر مذہب میں بھی بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو پیشگوئیاں کرتے ہیں.پھر اسلام کی خصوصیت نہ رہی.دوم حضرت مرزا صاحب کے سلسلہ کا پھیلنا ان کی صداقت کا ثوبت نہیں.کیونکہ روس میں لینن کو بھی بڑی کامیابی ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود اور دوسرے لوگوں کی پیشگوئیوں میں فرق حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ بعض مذاہب کے لوگ پیشگوئی کے منکر ہیں مگر کبھی کبھی لوگ پیشگوئیاں شائع کرتے رہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ ہمارے مذہب کی تعلیم اور خصوصیت ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا علم یہ کہتا ہے.تما م منجم یہی کہتے ہیں کہ ہم اپنے علم کی بناء پر پیشگوئی کرتے ہیں خدا کی طرف سے نہیں کہتے یورپ

Page 23

کے جو لوگ اس علم کے ماہر ہیں وہ اپنے آپ کو کسی مذہب کا قائمقام نہیں بتاتے.بلکہ پیشگوئی کرنے کو تنیجہ علم بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو اس طرح مشق کرے گا اور اس علم کو جان لے گا وہ خواہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی مذہب کا ہو پیشگوئی کرسکے گا.پھر ایسے لوگ جو پیشگوئیاں کرتے ہیں اور جو پوری ہوجاتی ہیں وہ ایسی ہوتی ہیں جن کے حالات پیدا شدہ ہوتے ہیں.مثلاً ایک طالب علم روز پڑھتا ہے.بہت ہی ہوشیار ہے اس کو واقف آکر کہتا ہے کہ یہ پاس ہوجائےگا اور وہ پاس ہو بھی جائے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں.یہ قیاس ہے اور قیاس بھی بعض اقات درست ہوتا ہے لیکن ایک ایسی بات جس کے حالات پیدا شدہ نہ ہوں.بلکہ مخالف ہوں.مثلاایک ایسا لڑکا جو اسکول نہ جاتا ہو.اس کے متعلق کہا جائے کہ پاس ہوگا اور وہ پاس ہوجائے تو یہ پیشگوئی ہوگی پھر ایک خبر کے دو یا تین یا چار پہلو ہوں مگر اس کا ایک پہلو معیّن کردیاجائے اور وہی پورا ہو تو یہ پیشگوئی ہوگی اور بعض دفعہ پیشگوئی کیں سینکڑوں پہلو بھی ہوسکتے ہیں مثلاً سو آدمی دوڑیں اورایک کے متعلق کہا جائے کہ وہ سب سے آگے نکلے گا اور وہ نکل بھی جائے تو یہ ایسی پیشگوئی پوری ہوگی جس کےسو پہلو تھے.منجم جو پیشگوئی کرتے ہیں اس کے پہلو نہیں ہوتے اور وہ اپنے متعلق بھی نہیں بتا سکتے کہ اس خبر کے پورا ہونے کا ان پر کیا اثر ہوگا بسا اوقات وہ زلزلہ کی خبر دیتے ہیں.یا بیماری کی خبر دیتے ہیں مگر خود بھی اسی کے ذریعہ ہلاک ہوجاتے ہیں.لیکن انبیاء کی پیشگوئی میں یہ بات نہیں ہوتی.وہ مخالف حالات میں ہوتی ہے اور اس کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں.اوراس میں ایک شوکت پائی جاتی ہے اور حاکمانہ اقتدار ہوتا ہے.مثال کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ کی بنگال کے متعلق پیشگوئی دیکھئے تقسیم بنگال کے متعلق جب پارلیمنٹ فیصلہ کر چکی تھی کہ بحال رہیگی اور بنگالی مایوسی ہوچکے تھے.تو اس وقت حضرت مسیح موعودؑنے خدا تعالیٰ سے علم پاکر خبر دی کہ پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا،اب ان کی دلجوئی ہوگی‘‘.اس خبر کو بنگالیوں نے اس قدر حیرت اور استعجاب سے سُنا کہ ایک بنگالی اخبار نے لکھا گورنمنٹ تو بار بار کہہ رہی ہے کہ جو حکم جاری کیا گیا ہے وہ فیصل شدہ ہے اور اس میں اب کسی قسم کی ترمیم نہیں ہوسکتی لیکن پنجاب سے ایک پاگل کی آواز آتی ہے کہ اس کے متعلق بنگالیوں کی دلجوئی کے لئے اس حکم میں *تذکرہ ص ۵۹۶ ایڈیشن چہارم

Page 24

ترمیم کی گئی.پھر بعض دفعہ پیشگوئی میں کئی مرکّب پہلو ہوتے ہیں.مثلاً حضرت مولوی نورالدین صاحب کا جب ایک لڑکا فوت ہوا تو مخالفوں نے اس پر ہنسی اُڑائی.اس وقت حضرت مسیح موعودؑ نے خُدا سے علم پاکر پیشگوئی کی کہ مولوی صاحب کے ہاں ایک لڑکا ہوگا جو تیرہ تا اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچے گا.چنانچہ غلام کا لفظ اس کےلئے آیا تھا.پھر وہ موٹا ہوگا.آنکھیں اس کی بڑی بڑی ہونگی.خوش رنگ ہوگا.اس کی ٹانگوں پر پھوڑوں کے نشان ہونگے.اس وقت مولوی صاحب کی عمر قریباً ساٹھ سال کی تھی.اس لئے ایک تو اس میں مولوی صاحب کی عمر کی پیشگوئی تھی.دوسرے بچے نہیں بچتے تھے چنانچہ وہ بچہ ہوا.اور جس قدر علامات بتائی گئی تھیں.وہ ساری اس میں پائی گئیں.پھر آپ نے تباہی پڑی.وہاں ایک احمدی پر جُھوٹا مقدمہ تھا جو حضرت مسیح موعودؑ کو دُعا کیلئے لکھا کرتا تھا.اورآپ اس کیلئے دُعا فرماتے تھے.جب زلزلہ آیا تو مجسٹریٹ ،وکیل ،مدعی سب دب کر مرگئے مگر احمدی کو کوئی نقصان نہ پہنچا.کیا یہ خدا کا تصرف صداقت کی علامت نہیں غلطی ہے.کیونکہ اگر کسی اور نے ترقی کی ہے تو اس کا قبل از ترقی دعویٰ نہ تھا کہ مجھے کامیابی حاصل ہوگی اگر وہ کامیاب نہ ہوتا تو اس کی ذات پر کوئی اثر نہ پڑتا.لیکن حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں کی ایسی مثال ہے جیسے چند لڑکے دوڑیں.ان میں سے کسی نے تو آگے نکلنا ہی ہے مگر حضرت مرزا صاحب کی مثال ایسی ہے جیسے دوڑنے والوں میں ایک کہے مَیں سب سے آگے برھ جاؤنگا اوراپنے خلاف حالات ہونے کے باوجود وہ آگے بڑھ جائے اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت صاحب کی لاہور کے جلسہ مہوتسو میں تقریر پڑھی گئی جس کے متعلق قبل از وقت آپ نے اشتہار کے ذریعہ اعلان کردیا تھا کہ میرا مضمون اس جلسہ میں پڑھے گئے ان سے بالا رہا.اور مخالفین نے اس بات کا اعتراف کیا.کیا یہ کسی کے اختیار میں ہے کہ اس طرح اعلان کرسکے.انسان کیسے تجویز کرسکتا ہے کہ سب مذاہب کےوکیل میرے مقابلہ میں کچھ نہیں کرسکیں گے.(الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء؁

Page 25

موازنہ مذاہب از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 26

Page 27

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَـــــــــــــــــــلٰے رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ موازنہ مذہب (سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تقریر جو حضور نے ۹ ؍مارچ ۱۹۲۱ء کو مالیر کوٹلہ میں فرمائی ) تشہّد ،سورہ فاتحہ اور سورہ نُور کا رکوع پنجم تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:- مذاہب میں اختلاف مختلف مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں ان کے دعاوی میں بھی اور اعمال میں بھی بہت فرق نظر آتا ہے.بڑے سے بڑا عقیدہ خدا کی ذات ہے لیکن اس عقیدے کے متعلق بھی اختلاف ہے.کوئی ایک خدا مانتاہے کوئی دو کوئی تین.کچھ ہیں جو کہتے ہیں کہ ۳۳ کروڑ خدا ہیں.بعض ہر چیز کا جُدا جُدا خدا مانتے ہیں.یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس پر تمام مذاہب کی بنیاد ہے.لیکن اس میں بھی تمام مذاہب کا اتفاق نہیں.صفات ِ الٰہی میں اختلاف پھر صفاتِ الٰہی ہیں.ان میں بھی اختلاف ہے کوئی کہتے ہیں کہ ہر چیز بے محنت ملتی ہے.کوئی کہتے ہیں کہ عمل کے بغیر کچھ نہیں کوئی کہتے ہیں کہ گناہوں سے ہی یہ کارخانہ چل رہا ہے.کوئی کہتے ہیں کہ کچھ کرو خدا کا تعلق ہی کچھ نہیں کوئی کہتے ہیں کہ خدا ہے مگر گناہ نہیں معاف کرسکتا.ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا کو جزئیات کا علم نہیں بڑی بڑی باتوں کا علم ہے.بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے ارادے سے کام نہیں کرتا جس طرح

Page 28

مشین کام کرتی ہے اسی طرح خدا کرتا ہے.ایسے بھی انسان ہیں جو کہتے ہیں پیدا کرنے والا خدا نہیں چیزیں خود بخود پیدا ہوتی ہیں.کچھ اور ہیں جو کہتے ہیں کہ صحت خدا سے آتی ہے اور بیماری اور سے.یہ پار سی لوگ ہیں.اسی طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ نیکی اور کی طرف سے آتی ہے اور بدی اور کی طرف سے.کلامِ الٰہی کے متعلق اختلاف غرض صفات یا افعال الٰہی میں بھی اختلاف ہے.بعض کہتے ہیں خدا کی طرف سے کلام آتا ہے.بعض کہتے ہیں کہ جو انسان کے دل میں خیال آتا ہے وہ وحی ہے اسی کے ماتحت رسالت بھی آجاتی ہے.رسولوں کے متعلق بھی اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ رسول بھی محض چھٹی رسان ہوتے ہیں اوران کی طرف عیب منسوب کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے وجود اور ہمارے وجود میں کوئی فرق نہیں اور بعض کہتے ہیں نعوذ باللہ وہ خدا ہی کا وجود ہوجاتے ہیں اور بشریت کی کمزوریوں سے بھی پاک ہوجاتے ہیں اور خدا کی صفات ان میں آجاتی ہیں.یہی حال کتابوں کے متعلق ہے.ان کے منکر بھی ہیں اور قائل بھی.فرشتوں کے متعلق اختلاف پھر فرشتوں کے متعلق اختلاف ہے بعض کہتے ہیں وہ بھی گناہ کرتے اور سزا پاتے ہیں.بعض فرشتوں کو شہوانی خیالات میں ملوٹ کرکے کہتے ہیں کہ اب تک سز ا پارہے ہیں.بعض ان کو مجسم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی اور انسان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں.بعث بعدالموت میں اختلاف اسی طرح بعث بعدالموت کا عقیدہ ہے.بعض اس کے قائل ہیں بعض اس کے منکر.بعض کہتے ہیں کہ انسان کی روح ہمیشہ مختلف قالب اختیار کرکے اس دنیا میں آتی رہتی ہے بعض کہتے ہیں نہیں وہ پھر یہاں نہیں آتی.بعض کلیۃً اس کے منکر ہیں.وہ کہتے ہیں کہ انسان مرگیا بس مرگیا.اس کے بعد کچھ نہیں بعض کو اُٹھنے کی کیفیت میں اختلاف ہے.بعض دوزخ و جنت کو مادی مقامات خیال کرتے ہیں بعض رُوحانی.غرض مذاہب کی کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جس میں اختلاف نہ ہو.خدا کی ہستی سے لیکر جنت و دوزخ تک میں اختلاف ہے.

Page 29

دُنیا کے مذاہب یہ غلط ہے جیسا کہ ہمارے ملک کے لوگ عموماً کہتے ہیں کہ مذہب صرف دو ہی ہیں ہندو اور اسلام.مذاہب کی اس قدر تعداد ہے کہ جن کا شمار نہیں.اگر ان سب کے حالات لکھے جائیں تو بہت بڑا کتب خانہ تیارہوسکتا ہے.چنانچہ یورپ والوں نے مذاہب کا انسائیکلو پیڈیا لکھنا شروع کیا ہے جو اب تک اگر چہ مکمل نہیں ہوا مگر جتنی اس کی جلدیں نکل چکی ہیں.ان میں ہزاروں مذاہب کے نام اور حالات درج ہوچکے ہیں اور ایک شخص ان حالات کو پڑھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ کس کو مانے اور کس کو چھوڑے.اختلاف کی ابتداء مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اختلاف اصل میں پیدائش سے شروع ہوتے ہیں.جس گھر میں انسان پیدا ہوتا ہے ان گھر والوں کے خیالات جس قسم کے ہوتے ہیں انہی خیالات میں وہ پرورش پاتا ہے اور وہی اس کے خیالات ہوجاتے ہیں.ایک شخص مسلمان کے گھر میں پیدا ہوتا ہے.وہ قرآن کریم کو سمجھتا تو کیا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتا.کلمہ شہادت تک سے ناواقف ہوتا ہے اور ساری عمر میں ایک آدھ دفعہ بھی کلمہ شہادت نہیں پڑھتا مگر مسلمان کہلاتا ہے اور اسلام کے نام پر دوسروں سے لڑنے کو تیار ہوجاتا ہے.اسی طرح ایک شخص ہندو کے گھر میں پیدا ہوتا ہے.اگر مسلمان مولوی اور ہندو پنڈت میں بحث ہو تو مسلمان کو جھُوٹا اور پنڈت کو سچا بتائے گا اور پنڈت کے کہنے سے ہندو مذہب کے نام پر دوسرے کی جان کا دشمن ہو جائیگا اور کہے گا کہ یہ مسلمان ہندوں مذہب کی ہتک کرتا ہے اور یہی حال مسلمان کا ہوگا.اگر چہ یہ دونوں ہی مذہبی کتب کے شائع شدہ ترجمہ سے بھی ناواقف ہونگے اور اس طرح اپنے عمل سے اپنے مذہب کی ہتک کر رہے ہونگے.اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم ہندو یا مسلمان کیوں ہو تو وہ اس کا جواب نہیں دے سکیں گے ہاں یہ کہدینگے کہ چونکہ فلاں بات ہمارے مذہب کی کتاب میں ہے اس لئے ہم مانتے ہیں یا مولوی صاحب یا پنڈت صاحب نے ہمیں یُوں بتائی ہے اس لئے ہم مانیں گے.یہی حال ایک عیسائی کا ہوگا.وہ عیسائیت کے لئے تلوار تک اُٹھا لے گا مگر اس کا جواب دینے سے انکار کریگا کہ وہ کیوں عیسائی ہوا.ہاں یہ کہدے گا کہ میرے ماں باپ عیسائی ہیں ان سے میں نے سُنا ہے کہ عیسائی مذہب سچا ہے اور ہم اس کے پیرو ہیں.اس لئے میں بھی عیسائی ہوں.یہ جہالت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.||********** Individual Book PDF Page Single PDF Page 14 of 547 Vol Printed Page 16 **********|| ایک بوڑھے حاجی کی اپنے مذہب سے بے خبری ۱۹۱۳؁ ءمیں جب مَیں حج کے لئے گیا تو ایک ہندو ستانی بوڑھا ضعیف عبدالوہاب نام بھی ہمارا ہمسفر تھا.حج کے بعد ہیضہ کی وباء پھُوٹ پڑی اور چونکہ مدینہ شریف کے حالات اطمینان بخش نہ تھے اورمیری صحت بھی اچھی نہ تھی اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ امسال مدینہ شریف کی زیارتکو ملتوی کردیا جائے.پھر اللہ تعالیٰ نے اگر موقع دیا تو کرینگے.وہ بوڑھا عبدالوہاب بہت معمر اور نہایت کمزور تھا اور اس کے پاس زاد راہ بھی نہ تھا مَیں نے اس کو کہا کہ تم بھی لوٹ چلو.اس نے کہا کہ مَیں مدینہ ضرور جائوں گا.کیونکہ میرے بیٹوں نے کہا تھا کہ وہاں ضرور جانا.مَیں نے اس کو بتایا جہ جس حال میں تم ہو اس میں تم پر مدینہ شریف جانا شریعت کی رُو سے ضروری نہیں مگر وہ کیلئے بہت مصر ہوا اور چلا گیا.غالبًا اسی سفر میں فوت ہوگیا ہوگا.مَیں نے اس سے پوچھا ،میاں عبدالوہاب تمہارا مذہب کیا ہے کہنے لگا پھر بتاؤں گا.میں نے کہا یہ سوال تو ایسا نہیں جو تم پھر بتانےکے لئے رکھ چھوڑوں ابھی بتادو.اس نے کہا سوچ کر بتاؤں گا مَیں اورحیران ہوا.پھر پوچھا تو اس نے کہا کہ وطن سے لکھ کر بھیجد وں گا.آخر میرے اصرار پر کہنے لگا کہ اچھا سوچ کر بتاتا ہوں.میرا مذہب علیہ ہے مَیں حیران ہوا کہ یہ کونسا مذہب ہے.میں نے پوچھا یہ کونساہے.کہنے لگا سوچنے تو دو.دو تین دفعہ کہ اُلٹ پھیر کے بعدا سنے کہا.اعظم رحمۃ اللہ علیہ میرا مذہب ہے.جس سے اس کا مطلب تو معلوم ہوگیا کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر اس کی تمام حیرانی سےیہ معلوم ہوگیا کہ اس نے یہ بھی کہیں بچپن میں ہی سُنا ہوگا.یہ تو اس کی حالت تھی.مذہب سے بے خبری اسی طرح مَیں نے ایک اور تاجر کو اس وقت جبکہ حاجی لبیک لبیک کے نعرےلگا رہے تھے دیکھا کہ وہ گندے عشقیہ شعر پڑھ رہا تھا.مَیں نے بعد میں اس سے حج کی غرض پُوچھی تو اُس نے بتایا کہ ہمارے ملک میں لوگ حاجی کو زیادہ اعتبار کرتے ہیں.اب مَیں یہاں سے جاکر اپنی دکان پر بورڈ لگوائوںگا کہ حاجی فلاں.اس سے میری تجارت چمک جائیگی.یہ مسلمانوں ہی کی حالت نہیں بلکہ مَیں نے ہندوئوں ، عیسائیوں ، سکھوں کو اکثر ٹٹولا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ وپ اپنے آپ کو جس مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں اس سے قطعاً ناواقف ہیں.وہ دلائل سے کسی مذہب کے پابند نہیں.بلکہ آبائی طور پر پابند ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ فطرتاً اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر ماں باپ اس کو یہودی یا مجوسی یا عیسائی بنادیتے ہیں.٭مَیں نے سینکڑوں نہیں ہزاروں مسلمانوں کو دیکھا ہے کہ وہ کلمہ شہادت صحیح نہیں پڑھ سکتے لیکن مذہب کے لئے لڑنے مرنے کیلئے *بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ

Page 30

Page 31

تیار ہیں.اگر ہم آہنگر یا زمیندار یا سنار سے اس کے کام کے متعلق گفتگو کریں تو وہ اپنے اپنے کام کی تشریح کرکے بتائیں گے.مگر ایک ہندو ایک عیسائی ایک مسلمان اپنے مذہب کی حقیقت نہیں بتا سکتا.کیوں؟ مذہب سے اتنی بے خبری کیوں؟ اصل بات یہ ہے کہ لوگ مذہب کو مانتے ہیں سماعی طور پر اور اس میں ان کو ظاہری فائدہ کوئی نظر نہیں آتا اس لئے وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.اگر وہ غور کریں اور ان لوگوں کی طرف توجہ کریں جو مذہب کا کچھ فائدہ بتاتے ہیں تو ان کو حقیقت معلوم ہو.مگر وہ جن کے پاس جاتے ہیں وہ ان کو بتاتے ہیں کہ اگلے جہاں میں اس مذہب کے بدلے میں یہ ثواب ملے گا وہ ملے گا اس زندگی میں مذہب کا کوئی نتیجہ نہیں.حالانکہ لوگوں کی نظروں میں اگلا زمانہ خود مشتبہ ہے جب اگلے جہاں پر لوگوں کو یقین نہیں معلوم ہوتا تو پھر کیسے اگلے جہاں میں کچھ ملنے کے خیال پر کوئی شخص کسی مذہب کے لئے غور و فکر و محنت اور توجہ سے کام لے سکتا ہے.پس کسی مذہب کو ماں باپ سے سُنے ہوئے پر کفایت نہ کریں بلکہ مسلمان سوچیں کہ وہ کیوں مسلمان ہیں.ہندو غور کریں کہ وہ کیوں ہندو ہیں.عیسائی فکر سے کام لیں کہ وہ کیوں عیسائی ہیں تو فتنے بہت کم ہوجائیں.اختلاف مٹ جائیں اور حقیقت ان کے قریب ہوجائے.جب لوگ اس طرح غور کریں گے تو ان کا جو جواب ہوگا وہ قابل توجہ ہوگا اب تو لوگ ڈرتے ہیں.اس لئے کہ اگر ایک مسلمان انگریزی پڑھا ہوا آزاد خیال یہ سوال محلہ کی مسجد کے مولوی صاحب کے پاس لے جائیں وہ تو بجائے اس کو معقولیت سے سمجھانے کے پہلے اس کو کافر اور مُرتد قرار دیدگے گا اور کھانے کو دوڑے گا.اس صورت میں بھلا کوئی شخص کس طرح مذہب کی حقیقت کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے اور یہی حال دیگر مذاہب کے لوگو ں اور ان کے پنڈتوں اور پادریوں کا ہے.مَیں کہتا ہوں کہ اس بات کی آزمائش کیلئے کہ لوگ اپنے اپنے مذہب سے ناواقف ہیں.اسی شہر کے لوگوں سےپوچھا جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کے کیوں پابند ہیں تو سو فیصد ایسے نکلیں گے جو سوائے اس کے کچھ نہیں جواب دینگے کہ ہمارے ماں باپ نے ہمیں بتایا ہے یا ہمارے مولوی ،پنڈت یا مہنت یہ کہتے ہیں یا ہماری مذہبی کتابوں میں یوں لکھا ہے اور وہ خیال کرینگے کہ یہ ہمارا جواب درست ہے.حالانکہ یہ جواب غلط اور ناقابل التفات ہوگا.مذہب ایک ایسی چیز ہے کہ اس پر سب سے پہلے توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اگر خدا ہے تو اس

Page 32

کی تحقیق سب سے پہلے کرنی چاہئےاور اگر نہیں تو ہندو مسلمان یا سکھ عیسائی موسائی وغیرہ کے جھگڑے فضول ہیں.مذہب کی ضرورت کیا ہے؟ پس اگر کوئی سوال سب سے پہلے حل کرنے کے قابل ہے تو یہی کہ مذہب کی ضرورت کیا ہے اور ہم کسی مذہب کو کیوں مانیں.اس کے متعلق میں سب سے پہلے ہر ایک مذہب کےشخص کو یہی نصیحت کروں گا وہ غور کرے کہ وہ جس مذہب یا پابند ہے کیوں وہ اس کو مانتا اور دوسرے مذاہب کی تکذیب کرتا ہے؟ ہر ایک مذہب کے آدمیوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں اور غور کرنے کے بعد جس مذہب کو سچا پائیں اس کو قبول کریں.اور جس کو سچا نہ پائیں خواہ وہ پہلے اسی کی طرف منسوب ہوں اس کو ردّ کریں.مَیں نے چونکہ اس مسئلہ پر خود غور کیا اور اسلام میں بمقابلہ دیگر مذاہب کے خوبیاں پائیں اور میں نے معلوم کیا کہ مذہب کی غرض کو یہی مذہب پورا کرتا ہے اس لئے مَیں نے اس کو قبول کیا اِ س لئے میں اس کی طرف سے کھڑاہوا ہوں.مَیں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے نزدیک ہر مذہب کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنا دعویٰ اور دلائل خود پیش کرے.یہ نہیں کہ دعویٰ وہ کرے اور دلیلیں کہیں اور سے اس کیلئے لائی جائیں.خدا اپنی ذات اور اپنے رُسولوں کو خود منواتا ہے اگر خدا ہے تو اس پر حق ہے کہ وہ اپنی صفات آپ ظاہر فرمائے اور ہم سے اپنی ذات منوائے اسی طرح اگر وہ کہتا ہے کہ فلاں شخص اُس کا رسول ہےتو وہ دلائل اس کو دے جس کےذریعہ سےہم اُس کو مانیں اور اسی طرح دیگر مسائل کےلئے ہے کہ وہ خود بتائے.اسلام کا دعویٰ پس اس عقیدے کے مطابق میں اسلام کی صداقت کے دلائل قرآن کریم کے ہی بتائے ہوئے بیان کروں گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام خدا کی طرف سے ہے اور اس لئے اس کی صداقت کے دلائل خود پیش کرتا ہے.چنانچہ یہ رکوع جو مَیں نے پڑھا ہے اس میں اللہ فرماتا ہے.اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (النور:۳۶)کہ اللہ آسمان و زمین کا نُور ہے.اس کے نُور کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کہ ایک طاق ہو.اور اس کے پیچھے کوئی سوراخ نہ ہو.اس کے اندر چراغ ہو.ایسے طاق کے چراغ کی روشنی ایک طرف پڑتی ہو.اس سے روشنی محفوظ ہو کر جدھر پڑتی ہے بہت زیادہ پڑتی ہے اور چراغ ایک گلوب سے ڈھکا ہوا ہے اورگلوب بھی نہایت صاف اور مجلّی ہے جس سے روشنی اوربڑھ جاتی ہے اور اس کی روشنی تارے

Page 33

کی مانند صاف ہے اور چراغ میں جو روغن ڈالا گیا ہے.وہ مبارک درخت سے نکالا ہوا ہے.ایسا درخت نہ مشرقی ہے نہ غربی.یعنی وہ ایسا درخت ہےجس پر ہر طرف سے دھوپ پڑتی ہے.ایسے درخت کی نشو و نما خوب ہوتی ہےاور وہ تیل بھی اپنی صفائی میں ایسا بڑھا ہوا ہےکہ خود بخود اس کو آگ لگ جائے جیسا کہ پٹرولیم ہوتا ہے.ایسا چراغ جس میں اتنی صفات ہوں اسکی روشنی کا کیا کہنا.اسلئے فرمایا کہ نورٌ علٰی نُور.وہ نور ہے اورپھر اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اورنُور نازل ہوتا ہےاور پھر جسکو چاہتا ہے اللہ ہدایت دیتا ہے.اللہ نے لوگوں کے لئے اسلام کا دعویٰ پیش فرمایا ہے کہ اسلام خدا کا نور ہے اور سچا مذہب ہے اور اس کی روشنی تمام مذاہب کی روشنیوں سے اعلیٰ ہے اور اس کی تعلیمات سب سے اکمل اور اتّم ہیں.صداقتِ اسلام کی دلیل مگریہ سارا بیان ایک دعویٰ کی صورت میں ہے.اس لئے آگے اس کی دلیل دیتا ہے فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ يُسَبِّــحُ لَہٗ فِيْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ(النور:۳۷) یہ نُور ایسے گھروں میں ہے جو آج کسمپرس اور غریب اور ادنیٰ درجہ کے ہیں.مگر خدا نے ان کے متعلق فیصلہ کردیا ہے کہ انکو اُٹھایا جائیگا اوران کو بلند کیاجائیگا.اللہ کا ان مکانوں کوبلند کرنا اور عزت دینا ثبوت ہوگا اس امر کا کہ یہ مذہب اسلام خدا کی طرف سے ہے.اسلام کی صداقت کیلئے یہ دلیل ہے کہ اس کے ماننے والے دُنیا میں معزز و مکرم ہونگے اوران کو ایک روشنی دی جائے گی.جسکے مقابلہ میں دُنیا میں تاریکی ہوگی.اسلام کےگھر بلند کئے جائینگے اور مخالفوں کے گھر انکے مقابلہ میں نیچے کئے جائینگے اوریہ اسلام کی صداقت کی دلیل ہزار ہاثبوتوں میں سے ایک ہے.آنحضرت ؐکی حالات دعویٰ سے پہلے اب ہم دعویٰ اور دلیل کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی طرف دیکھتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس وقت آپ کی دنیاوی حیثیت کوئی بڑی نہ تھی ابھی آپ شکم مادری ہی میں تھے کہ آپ ؐکے والد فوت ہوگئے تھے اوربہت چھوٹی عمر تھی کہ ماں فوت ہوگئی.آپ کو کوئی بڑا ترکہ بھی نہیںملا تھااس کے بارے میں متفرق روایتیں ہیں.زیادہ سےزیادہ جو کچھ آپ کو ملا وہ ایک اونٹ اور پانچ بکریاںتھیں.آپ کی کوئی ذاتی تجارت نہیں تھی.بلکہ بڑی عمر ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کی تجارت *النور ۳۷

Page 34

کرنے لگے اور نفع ان کو دیتے تھے اور وہ کچھ معاوضہ آپ کو دیدیتی تھیں.عرب میں کوئی حکومت نہ تھی.مگر مکّہ والوں نے جو ’’دارالندوہ‘‘ قائم کر رکھا تھا، اس کے بھی آپ ممبر نہ تھے.دنیاوی علوم آپؐ نے حاصل کئے تھے.آپ کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا اس تمام ضعف اور کمزوری پر طرفہ یہ کہ جب آپؐنے دعویٰ کیا تو تمام عرب مخالف ہوگیا.آپ وہ بات کہتے تھے جو جمہور عرب کے خلاف تھی اور عرب اس کو ماننے میں اپنی ہلاکت دیکھتے تھے.آنحضرت ﷺاور مسٹر گاندھی دنیا میں بڑے بڑے فاتح ہوئے ہیں جن کے ساتھ لوگ چل پڑے.مثلاً آج ہمارے ہندوستان میں مسٹر گاندھی ہی ہیں ان کی جَے کے نعرے بھی آج ہندوستان میں لگائے جاتے ہیں ممکن ہے کوئی کہدے کہ آنحضرت کے ساتھ اگر دُنیا ہوگئی تو کیا ہوا.مسٹر گاندھی کے ساتھ بھی تو لوگ ہو ہی گئے ہیں.اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسٹر گاندھی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.کیونکہ آنحضرت عرب سے وہ بات منوارہے تھے جو عرب ماننے کے لئے تیار نہ تھا.مگر مسٹر گاندھی وہ بات کہتے ہیں جس کا مطالبہ خود ہندوستان کر رہا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کسی زمیندار کےپیٹ میں درد ہونے لگا.کسی نے کچھ علاج بتلایا کسی نے کچھ ایک شخص نے جو زمینداری کا ایک اوزار لئے کھراتھا کہا کہ اس کو گُڑ گھول کر پلادو.مریض نے جب یہ بات سُنی تو کہا کہ ہائے اس کی بات کوئی نہیں سُنتا.تو وہ بات جو مسٹر گاندھی کہہ رہے ہیں لوگوں کے مطلب کی اوران کی منشاءکے مطابق ہے اس لئے ا کو ماننے کیلئے تیار ہیں.ایک اور مثال ہے جو اگر چہ فرضی ہے مگر حقیقت کو ظاہر کرتی ہے.ایک بزرگ نے لکھا ہے ایک اونٹ کہیں جارہا تھا.آگے سے چوہا ملا اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لیں اورجدھر اونٹ جارہا تھا ادھر ہی چل پڑا.تھوڑی دور جاکر چُوہےنے خیال کیا کہ میں ہی اس کو چلا رہا ہوں.آخر ایک دریا پر پہنچے اور وہاں اونٹ رک گیا چوہے نے کہا چل اس نے کہا نہیں چلتا.جب تک میرا دل چاہا چلا.اب دل نہیں چاہتا میں نہیں چلونگا.تو چونکہ ان لیڈروں کی زبان سے وہی نکل رہا ہے.جو لوگ چاہتے ہیں اس لئے اگر لوگ ان کے پیچھے چل رہے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کے چڑھا ووں کی حفاظت کی فکر نہیں کی.ان کے بُتوں کی حفاظت نہیں کہ جن پر چڑھاوے چڑھتے تھے اور جن سے ان کی گذر اوقات ہوتی تھی.بلکہ آپ نے ان کے اس چڑھاووں کے رزق کو بند کردیا اور کہدیا کہ ان خداؤں کو چھوڑ واورایک خدا کو مانو.پس مسٹرگاندھی

Page 35

وغیرہ لیڈروں کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی گاڑی یا موٹر جدھر جارہی ہو.وہ چلتی جائے اور ایک شخص پیچھے ہاتھ رکھ دے اور کہے کہ میں اس کو چلا رہا ہوں.لیکن آنحضرت ؐ نے جدھر گاڑی چل رہی تھی ادھر سے اس کا رُخ پلٹ کر دوسری طرف کو پھیر دیا.زرتشی دو خدائوں کے قائل تھے.آپ نے ان سے یہ عقیدہ چھڑویا.عیسائی حضرت مسیح ناصری کو اپنے گناہوں کا کفاّرہ بنا کر اپنی نجات ان کی صلیبی موت میں جانتےتھے.اور اسی پر بھروسہ کئے بیٹھے تھے.آپ نے اس کے خلاف آواز بلند کی جو ان کے وہمی باغات کو جلا کر خاکستر کرگئی.قوم نے آنحضرت ﷺسے کیاسلوک کیا آپ کی قوم آپ کی بات ماننے کے لئے تیار نہ تھی بلکہ آپ کے خلاف کھڑی ہوگئی.اور تیرہ سال تک آپ کو بیشمار تکالیف دیتی رہی.پھر وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہوتے ان پر نئے سے نئے مظالم توڑے گئے.اور عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر چیرا گیا.گرم ریت پر لٹائے گئے اور ان کو مارا گیا.اوراتنا مارا گیا کہ وہ بے ہوش ہوگئے.اورجب ان کو ہش آتی بُتوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا مگر پھر بھی جب وہ خدا کا ہی نام لیتے تو ان کو اور عذاب دیتے.اس فتنہ کا حال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو زر غفاریؓ نے جب سنا کہ مکّہ میں ایک شخص نے خُدا کا رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے اپنے بھائی کو بھیجا.لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کو پہنچنے نہ دیا.اورواپس چلا گیا.پھر وہ خود آئے مگر کسی سے پوچھتے بھی نہ تھے کہ کوئی دھوکا نہ دیدے حضرت علیؓ سے ملاقات ہوئی.بڑی رد وکدّ کے بعد انہوں نے اپنا مقصد ظاہر کیا کہ میں آنحضرت ؐ کو دیکھنے آیا ہوں.حضرت علیؓ نے ان کو کہا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ.جب کوئی غیر شخص نظر آئیگاتو میں جھٹ ایک طرف ہوکر بیٹھ جایا کرونگا.اور تم آگے نکل جایا کرو.اسی طرح حضرت ابو زؓ حضرت علی ؓکے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچے اورایمان لے آئے.مگر ان پر یہ اثر ہوا کہ ایمان لاکر خاموش نہ رہ سکے.مکان سے نکلتے ہوئے کلمہ شہادت زور سے پڑھا.اس پر مشرکین جمع ہوگئے اورآپ کو مارنے لگے.اورآپ بیہوش ہوگئے.بعض لوگوں نے آپ کو چھڑادیا اوراسی طرح ہوش آنے پر آپ نے پھر ایسا ہی کیا.لوگ پھر مارنےلگے.(بخاری باب بنیان الکعبۃ باب اسلام ابی زرؓ) ایسی ایسی مصیبتیں تھیں جو آنحضرتؐ اور صحابہؓ کو پہنچائی گئیں.ان حالات میں آپ کے اصحاب کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی اور کفار نے ان کا وہاں تک تعاقب کیا.مگر وہاں کے

Page 36

دربار میں جب مسلمان پیش ہوئے اورانہوں نے صفائی سے اپنے عقائد بتائے تو کفّار کو مجبوراًواپس آنا پڑا.لیکن ابھی مصائب کا خاتمہ نہیں ہوگیا.آپ کو پھر تکالیف پہنچائی گئیں.اورآپ نے حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر مکّہ سےہجرت کی.پھر کفار نے پیچھا کیا.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی.اس حالت میں کون کہہ سکتا تھا کہ جس کے چند ساتھیوں کی جمیعت بھی منتشر ہوگئی اور جس کو وطن سے بے وطن ہونا پڑا.وہ کبھی غالب ہوگا.جب آپ مدینہ میں پہنچے تو ان لوگوں نے وہاں بھی آرام نہ لینے دیا.بار بار چڑھ کر گئے.چنانچہ ایک دفعہ جنگ احزاب میں دس ہزار کی جمیعت لیکر مدینہ پر چڑھ آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنا پڑی.صحابہ کےساتھ آپ بھی خندق کی کھُدائی کے کام میں شریک تھے.احادیث و تاریخ سے ثابت ہے کہ جب آپ نے کدال چلائی اورایک پتھر پر لوہا پڑا اور اس میں سے شعلہ نکلا تو آپ نے بلند آواز سے کہا اللہ اکبر ! صحابہؓ نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا.دوسری دفعہ آپ نے کدال ماری اورپھر شعلہ نکلا.پھر آپ نے بلند آواز سے کہا اللہ اکبر اور صحابہ ؓ نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا.تیسری دفعہ پھر آپ نے کدال چلائی او ر شعلہ نکلا آنے زور سے اللہ اکبر کہا اور صحابہ ؓ نے بھی کہا.پھر آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم نے کیوں اللہ اکبر کہا.صحابہؓ نے عرض کیا کہ چونکہ حضور نے اللہ اکبر کہا تھا اس لئے ہم نے بھی کہا ورنہ ہم نہیں جانتے کہ کیا بات ہے.اللہ اوراس کے رسول خوب جانتے ہیں.آپ نے فرمایا جب مَیں نے پہلی دفعہ کدال ماری اور شعلہ نکلا تو مجھے دکھایا گیا کہ مجھے قیصر کے ملک پر فتح حاصل ہوئی اور دوسری دفعہ معلوم ہوا کہ کسریٰ کے ملک پر اور تیسری دفعہ حیرہ کے بادشاہوں کی حکومت زیروزبر ہوتی دکھائی گئی٭جب آپ نے یہ فرمایا تو منافقین اور مخالفین نے ہنسنا شروع کردیا کہ یہ عجیب لوگ ہیں کہ پاخانہ پھرنے کی توان کو اجازت نہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں ہمیں ملیں گی اور ہم ان پر قابض ہونگے.لیکن ان کی ہنسی جھوٹی ثابت ہوئی اور خدا کی بات پوری ہوئی اور اس سے ثابت ہوگیا کہ اسلام سچّا ہے اور اس کی یہ دلیل ہے کہ یہ جن گھروں میں ہے وہ بلند کئے جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.خدا تعالیٰ نے سورہ احزاب میں مسلمانوں کی حالت کا نقشہ یہ کھینچا ہے کہ زمین باوجود فراخی کے ان کے لئے تنگ ہوگئی تھی اور دُنیانے فیصلہ کر لیا تھا کہ مسلمان اب پِس جائیں گے.اس وقت خدا ان کو بشارت دیتا ہے کہ تم مخالفین کو پیس دوگے.اور دنیا کی حکومت تمہاری ہی ہوگی.چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہدِ مبارک میں شام فتح ہوا.یہ ترقی اور یہ شان اور ادنیٰ حالت سے بلندی پر قدم کا *فتح الباری جلد ۷ ص ۳۹۷

Page 37

پہنچنا ثبوت ہے اس بات کا کہ اسلام سچّا ہے.کیونکہ خدا نے بتایا تھا کہ ایسا ہوگا اور ایسا ہی ہوا اور دشمن سے دشمن کو اقرار کرنا پڑا کہ ہاں اسلام نے ترقی کی.اور اس کی ترقی کی اس وقت پیشگوئی کی گئی تھی جبکہ مسلمانوں کو اپنے گھر میں بھی کوئی آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا.مگر پھر حکومت آئی اور غریبوں اور فقیروں کو خدا تعالیٰ نے حکومتیں دیں.حضرت ابوہریرہؓ کا واقعہ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ کا واقعہ ہے کہ جب وہ ایک علاقہ کے گورنر بنائے گئے.اوران کے پاس کسریٰ کا ایک رومال تھا جب کھانسی آئی تو انہوں نے اس رُومال سے مُنہ صاف کیا اور کہا بخ بخ ابوہریرہ.٭ اس کے معنے ہیں واہ واہ ابوہریرہ.آج تو کسریٰ کے رومال میں تُھوکتا ہے مگر ایک وقت تو تیری یہ حالت تھی کہ تجھ پر دنوں فاقے گزرتے تھے اور تو حضرت ابوبکر کے پاس جاتا تھا کہ وہ بڑے صدقہ کرنے والے تجھے اوران سے آیتِ صدقہ کے معنے پوچھتا تھا اور وہ بتاتے تھے.حالانکہ معنےتجھ کو بھی آتےتھےپھر حضرت عمرؓ کے پاس جاتا.اوروہ بھی کچھ نہ کھلاتے.آخر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اور آپ چہرہ سے ہی پہچان جاتے اور.پُوچھے ابوہریرہ بھُوک لگی ہے اور پھر آپ دودھ کا پیالہ منگواتے اور مجھ سے پہلے اورلوگوں کو پینے کو دیتے اور مَیں خیال کرتا کہ مستحق زیادہ میں تھا.آخر مجھ کو ملتا اور میں سَیر ہوتا(بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیؐواصحابہ و تخلیھم من الدنیا ) اسی طرح کئی فاقے گذر جاتے اور لوگ مجھے مرگی زدہ خیال کرکے مارتے لیکن آج یہ حال ہے کہ گردن کش بادشاہوں کے خاص درباری رومالوں میں تو تُھوکتا ہے.یہ کامیابی یہ عروج یہ رفعت کوئی معمولی نہیں ہے.فرانس کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ میں حیران رہ جاتا ہوں جب مَیں یہ سوچتا ہوں کہ کھجور کے ایک ادنیٰ درجہ کے چھپر کے نیچے چند آدمی بیٹھے ہیں.جن کے جسم پر پُورا کپڑا نہیں اور پیٹ بھی سیر نہیں.وہ باتیں یہ کرتے ہیں کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو فتح کرلیں گے اور وہ کرکے بھی دکھا دیتے ہیں.پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم جو مذہب لائےوہ حق ہے کیونکہ اس کے لئے جو نشان رکھا گیا تھا وہ پورا ہوگیا.مخالفوں کا اس دلیل پر ایک اعتراض یہ اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے.لیکن اگر دشمن آج اس کو جھٹلا دے اور کہدے کہ یہ مسلمانوں نے بعد میں قرآن کریم میں آیتیںملادی ہیں جیسا کہ مخالفوں نے کہا بھی ہے اس لئے یہ اسلام کی صداقت کی دلیل نہیں ہےکیونکہ اگر یہ دلیل ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج جبکہ مسلمانوں کی تعداد بے شمار *ترمذی أبواب الزھد باب ماجاء فی معیشة أصحاب النبیؐ

Page 38

ہے ،وہ دن بدن شکست کھارہے ہیں؟ اس کا کیا جواب دیاجائیگا.مخالف کہہ سکتا ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو ترقی ملی اور یہ بھی مانتے ہیں کہ اسلام نے یورپ میںبرطانیہ کے کناروں تک اپنا اثر پہنچایا.چنانچہ بعض آثار معلوم ہوئے ہیں.جن سے پتہ لگتا ہے کہ برطانیہ کے ساحل تک اسلام پہنچ گیا تھا.اور ادھر چین تک اس کا اثر تھا.غرض جتنی دُنیا اس وقت مہذب کہلا سکتی تھی اور معلوم تھی ،اس مام پر اسلام کا اثر تھا،مگر یہ اسلام کی ترقی اسلام کی صداقت کی دلیل نہیں ہوسکتی.کیونکہ مسلمانوں نے جب ترقی پالی تب اس کو پیشگوئی بنا لیا.ورنہ کیا وجہہے کہ اب مسلمان اس وقت سے بہت زیادہ ہوتے ہوئے زلیل سے زلیل تر ہوئے جارہے ہیں.آپ صاحبان غور کریں اس کا کیا ہم جواب دے سکتے ہیں.دیکھو ایک وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردم شماری کرائی.تو مسلمانوں کی تعداد سات سو معلوم ہوئی.اس وقت مسلمانوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کو یہ خیال ہے کہ ہم ہلاک ہوجائیں گے اور دُنیا ہمیں پامال کردیگی حالانکہ اب تو ہم سات سو ہیں.یا تو یہ حال تھا یا اب یہ حال ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کروڑ ہا ہے مگر وہ ہر طرف شکست پر شکست اور ذلّت پر ذلّت اُٹھا رہے ہیں اوران کے دل اس طرح کانپ رہے ہیں جس طرح پتّہ ہوا میں اڑتا ہے.اس اعتراض کا جواب مخالفوں کے اس اعتراض کے دو جواب ہوسکتے ہیں.یا تو ان کے اعتراض کو دُرست مان لیا جائے اور کہدیا جائے کہ نعوذ باللہ یہ قرآن کا دعویٰ باطل ہے اور یہ مسلمانوں نے واقع میں بعد میں ملا لیا.یا مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ مسلمان جُھوٹے ہیں.گویا یا تو مسلمان خدا تعالیٰ کو نعوذ باللہ جُھوٹا بنائیں.یا خود جُھوٹے بنیں.ان دو صورتوں میں سے تیسری کوئی صورت نہیں.مگر ہم خدا تعالیٰ کو جھوٹا بنانے کی بجائے مان لیں گے کہ مسلمان ہی مسلمان نہیں رہے.اگر مسلمانوں کی حالت ٹھیک ہوتی تو وہ بلند کئے جاتے اور عزت کے مقام ان کو مرحمت ہوتے.مگر اب مسلمانوں کو جس حالت میں دیکھتے ہیں دُنیا سے کمتر دیکھتے ہیں.دولت اور زمینداری ان کے پاس نہیں.اتفاق وا تحاد ان کے پاس نہیں.انتظام ان میں نہیں.تعلیم اور تعلّم ان میں نہیں ظاہری تعلیم کیلئے جس قدر اچھے کالج ہندوستان میں ہیں وہ سب ہندوئوں اور سکھوں کے ہیں اور مسلمانوں کے کالج بدترین حالت میں ہیں.دیگر معاملات میں بھی ان کی حالت بہت خراب ہے.پھر یہ کیا وجہ ہے.کیا اسلام خدا کا سچّا مذہب نہیں.یا کیا خدا بدل گیا اور پہلے خدا کی بجائے کوئی اور خدا آگیا یا اس کی طاقت میں کمی آگئی ہے.نعوذ باللہ یا وہ اپنے وعدے بُھول گیا.حقیقت یہ ہے

Page 39

کہ اسلام بھی سچّا ہے،خدا تعالیٰ بھی وہی ہے،اس کے وعدے بھی سچّے ہیں، اس کی طاقت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی،وہ اپنے وعدوں کو بھی نہیں بُھولا بلکہ مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑ دیا اوران عقائد سے پھر گئے اور رسمی اسلام کے پرستار ہوگئے.پس جب انہوں نے حقیقی اسلام کو چھوڑ دیا تو خدا نے بھی ان کو چھوڑ دیا ابھی چند سال گذرے ہیں کہ عوام میں مشہور تھا کہ قسطنطنیہ کے بادشاہ کے ساتھ یورپ کے بادشاہوں کے سفیر رکاب تھام کر چلتے ہیں لیکن آج قسطنطنیہ کی زندگی اورموت یورپ کے لوگوں کے قبضہ میں ہے.مسلمانوں کی حالت بگڑ گئی.جیل خانے ان سے بھر گئے.فواحش کی ان میں گرم بازاری ہوگئی.مسلمان اہل نہ رہے کہ خدا کےوعدے ان سے پورے کئے جائیں پس ان حالت کی وجہ سے مسلمان خدا کے اس وعدے کے اہل نہ رہے کہ ان کو بلند کیا جائے.خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ان کے گھروں میں تسبیح و تحمید صبح و شام ہوگی اور ذکر اللہ سے ان کی زبانیں تر اور سینے پُر ہونگے.مگر آج کتنے مسلمان ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور کتنے ہیں جو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور کتنے ہیں جو اس مقصد سے واقف ہیں جو نماز میں پوشیدہ ہے.وہ شرائط جو خدا تعالیٰ نے بتائی تھیں ان میں پائی نہیں جاتیںاوریہ خدا تعالیٰ کے کلام کی اور خدا کے اسلام کی اور خدا کی اور خدا کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کر رہے ہیں اس لئے کس طرح خدا کے وعدوں کو پاسکتے ہیں.مسلمان جب تک خدا کی خدا کے رسول کی اور اس کے کلام کی عزت نہیں کرینگے ان کو کوئی عزت نہیں دی جائیگی.مسلمان آنحضرت ﷺکی ہتک کررہے ہیں ایک موٹا مسئلہ ہے اور اسی میں مسلمانوں کی حالت کا پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیسے ہیں مسلمانوں نے یہ مان لیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خاک کے نیچے مدفون ہیں اور حضرت مسیحؑکو ذرا تکلیف پیش آئی تو خدا نے ان کو آسمان پر چڑھا لیا.اوران کے دشمنوں کو انہیں ہاتھ تک نہیں لگانے دیا.مَیں کہتا ہوں اگر آسمان پر رکھے جانے کا کوئی اہل تھا تو وہ ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے لیکن یہ لوگ اس کو پسند نہیں کرتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ مدفون زیر زمین ہیں اور مسیح کے لئے بڑے پُر جوش قلب سے کہتے ہیں کہ وہ آسمان پر ہیں.جب انہوں نے عیسائیوں کے مقابلہ میں حضرت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح ہتک کی تو خدا تعالیٰ نے بھی ان کو ذلیل کردیا اور فیصلہ کردیا کہ جس طرح یہ

Page 40

حضرت عیسیٰ ؑکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھاتے ہیں.اسی طرح ہم ان کو عیسیٰ کے نام سے لیواؤں کے مقابلہ میں گرادینگے اور خاک میں ملا دینگےپس خدا کی غیرت نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہتک کو گوارا نہ کیا.اس لئے اس نے ان مسلمانوں کو ذلیل کیا اور عیسائیوں کو ان پر غالب کردیا.یہ لوگ جوش سے کہتے ہیں کہ محمّد رسول اللہ علیہ وسلم کی بگڑی ہوئی اُمّت کو مسیح ناصری سنوارینگے.خدا نے کہا بہت اچھا ہم مسیح کے ماننے کے مدعیوں کو ہی تم پر مسلّط کرتے ہیں.پس جو کچھ ان کے ساتھ ہورہا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا نتیجہ ہے اور جب تک یہ حضرت عیسیٰ ؑکو آنحضرتؐ سے افضل مانتے رہیں گے ذلیل رہیں گے.کیونکہ خدا نے ان کو یہ سزا دی ہے اس لئے اس سزا میں ان کے گھروں کو عزت دینے کی بجائے ذلیل کیا جائیگا اوربرباد کیا جاویگا.انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو خدا بنایا کہ وہ زندہ ہیں نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں.مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جانور پیدا کرتے ہیں.جب ان کی یہ حالت ہوگئی تو خدا تعالیٰ ان کی کیسے مدد کرسکتا تھا.قرآن کی حفاظت کے وعدے کا ایفاء اب ایک اور سوال ہے کہ خدا نے وعدہ کیا تھا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر : ۱۰ ) دیکھنا یہ چاہئے کہ خدا نے اسلام کی حفاظت اور قرآنِ کریم کی حفاظت کا کیا سامان کیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے تو سامان کیا ہے مگر لوگ اس کی طرف توجہ نہیںکرتے.خُدا ان کو مجبور کریگا کہ وہ ادھر متوجہ ہوں.خدا نے ایک شخص کو اسلام کی خدمت کے لئے اور اس کو تمام دنیا کے مذاہب کے مقابلہ میں بلند کرنے کے لئے مبعوث کیا ہے وہ شخص حضرت مرزا غلام احمد صاحب ہیں.جن کو ہم مانتے ہیں کہ وہ آنے والے مسیح نبی اللہ اور مہدی ہیں.انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں دوبارہ غالب کرینگے اور اس کے مخالفوں کے سر اس کے آگے جُھکا دینگے اور ہم اس کے آثار دیکھ رہے ہیں.خدا نے اسلام کے لئے کیا کیا دُنیا ان پر طرح طرح کےاتہام لگاتی ہے.مخالف ان کو دجّال ،فریبی اور کاذب اور کیا کیا نام دیتے ہیں.مگر یہ عجیب بات ہے کہ اسلام جو خدا کا پیارا مذہب ہے وہ تومٹ رہا تھا اور ہر طرف سے دشمنوں کے نرغے میں تھا.خدا تعالیٰ نے بجائے اس کی حفاظت کے ایک اور ایسا شخص بھیج دیا جو اس کو مٹائے اور اس کو نابود کردے.کیا یہ خُدا کی اسلام سے محبت کا ثبوت ہے یا عداوت کا اگر اسلام خدا کا پیار امذہب ہے جیسا کہ واقع میں ہے تو ضرور تھا کہ اس مصیبت اور آفت کے وقت میں *الحجر۱۰

Page 41

خدا تعالیٰ اس کی خدمت اورحفاظت کیلئے کوئی پاک انسان مبعوث کرتا نہ کہ اُلٹا اس کو پاؤں تلے روندنے کے نعوذ باللہ ایک اور دجّال کو بھیجتا.حضرت مرزا صاحب کو لوگ نہ مانیں.انہیں گالیاں دیں،انہیں بدتر سے بدتر ٹھہرائیں.مگر اتنا تو سوچیں کہ خدا نے اسلام کے لئے کیا یہی کیا جبکہ اسلام ڈوب رہا تھا ایک اور ڈبونے والا بھیج دیا.محبت کا تو تقاضا یہ تھا کہ خدا اس کی حفاظت کے سامان کرتا اور اُسے دشمنوں سے بچاتا.مہر مادری مشہور قصّہ ہے.مفسرین نےلکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور دو عورتیں جھگڑتی ہوئی آئیں ان میں سے ایک عورت کے بچّے کو بھیڑئیے نے کھالیا.وہ دوسری کے بچے کو اپنا بتلاتی تھی اور کہتی تھی کہ اس کا بچہ مارا گیا ہے.اس وقت معاملہ بہت ٹیڑھا تھا.حضرت سلیمان نے کہا کہ چُھری لائو.مَیں ابھی فیصلہ کرتا ہوں.بچّے کو کاٹ کر آدھا ایک کو دے دیتا ہوں اور آدھا دوسری کو.اس وقت جس عورت کا بچہ تھا فوراً بے تاب ہوکر بول اُٹھی کہ یہ بچہ میرا نہیں اسی کا ہے،اسی کو دیدیا جائے مگر دوسری خاموشی رہی.حضرت سلیمانؓ نے کہا کہ یہ بچّہ اسی کا ہے جو کہتی ہے کہ میرا نہیں (بخاری کتاب الفرائض باب اذاادعت المرءۃ ابنًا)کیونکہ اس کو اس سے ہمدردی پیدا ہوئی اور دوسری کو کچھ اثر نہ ہوا.پس مسلمان رسول اللہ ؐ کے بچے کہلاتے ہیں اوردین خدا کا ہے.مگر لوگ اس پر غالب آرہے ہیں.اور دمبدم اس پر پتھروں کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں.ایسی حالت میں بجائے پتھروں سے بچانے کے خدا ایک اورپتھر پھینکنے والے کو بھیجددیتا ہے.کیا یہ ممکن ہے ،کیا یہ بات ہوسکتی ہے.اس خیال کے لوگوں سے تو ہندہ ابوسفیان کی بیوی ہی زیادہ سمجھدار رہی جب اور عورتوں کے ہمراہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے لگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک نہ کرنے کا اقرار کرایا تو وہ بے اختیار بول اُٹھی کہ کیا ہم اب بھی شرک کرینگے حالانکہ ہم نے بُتوں کی اس قدر مدد کی.مگران سے کچھ نہ ہوسکا اورآپ اکیلے تھے مگر آپ نے خدا سے اسقدر نصرت پائی.اگر یہ بُت سچّے ہوتے تو آپ کس طرح کامیاب ہوسکتےتھے.پس جب اسلام خدا کا پیارا ہے اور اس کی نصرت و حفاظت کا وعدہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا بجائے اظہارِ محبت کے اس کو نقصان پہنچا رہا ہے.اور اس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کرتا.عام مسلمان اور احمدی آج وہ لوگ جن کی ساری عزّت ہی رسول کریمؐ کی اولاد ہونے کے باعث تھی، عیسائی ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی سے گندی

Page 42

گالیاں دیتے ہیں اور لکھو کھہا انسان عیسائی ہوچکے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کو کوئی حمایت اسلام کا خیال نہ پیدا ہوا.مسلمانوں کا ایک یہ خیال کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے یہی ایک ایسا خیال ہے جو اسلام کو عیسائیت کے مقابلہ میں ٹھہرنے نہیں دے سکتا اور کوئی مسلمان واعظ عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا.جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا عیسیٰؑ زندہ ہے اور محمّد فوت ہوگئے اس وقت مسلمانوں کی زبانیں بند ہوجاتی ہیں.مگر حضرت مرزا صاحبؑنے ایسے وقت میں اسلام کی یہ خدمت کی اوراپنے شاگردوں کو ایسا تیار کیا کہ ان کے آگے سے پادری اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح لاحول سے شیطان.عیسائیوں کے مقابلہ میں ہمارا یک لڑکا چلا جائے تو پادری گھبرا کر وہاں سے چلے جاتے ہیں.احمدیت کا اثر میں نے ایک دوست کو عربی کی تکمیل تعلیم کے لئے مصر بھیجا تھا.وہاں ایک مسلمان قریب تھا کہ عیسائی ہوجائے.وہ ان کو ملا اُنہوں نے اس کو وفاتِ مسیح کا مسئلہ سمجھایا.پھر وہ پادری کے پاس گیا اور گفتگو کی.وہ پادری بے اختیار بول اُٹھا اَنْتَ مِنَ الْقَادِیَانَ اورگفتگو کرنے سے انکار کردیا.دیکھو یا تو وہ وقت تھا کہ یورپ امریکہ سے لوگ ہمارے ملک میں عیسائی بنانے کے لئے آتے تھے یا اب ہمارے مبلّغ ان ممالک میں اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا کہ یا تو مسلمانوں کو پادریوں کے آگے چھپنے کے لئے جگہ نہ ملتی تھی.یا اب پادریوں کے لئے چھپنے کی جگہ نہیں یہاں تلوار نہیں طاقت نہیں ،محض خدا کی تائید ہے جو اپنا کام کررہی ہے.اب یورپ میں اس قسم کے لوگ پیدا ہوگئے ہیں.جو لکھتے ہیں کہ ہم نہیں سوتے جب تک کہ حضرت مرزا صاحبؑ پر درود نہ بھیج لیں اور سینکڑوں انسان عیسائیت سے نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگ گئے ہیں.حضرت مرزا صاحبؑ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ اب اسلام کی ترقی آپ کے ذریعہ دُنیا میں ہوگی اور باقی مذاہب آہستہ آہستہ مٹاکر اسلام ہی قائم کیاجائے گا.اب ہم اس کے آثار دیکھ رہے ہیں.مَیں نے حج کے دنوں میں (بحالت رؤیا)آسمان پر ستاروں سے لکھا ہوا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَـمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ دیکھا تھا.تب مَیں نے اسی حالت میں اپنے نانا صاحب کو کہ وہ بھی میرے ہمراہ حج میں تھے کہا کہ وہ دیکھو اورپھر کہا آنے والے آئیں گے.پس یہ خدا کے وعدے پورے ہو رہے ہیں.

Page 43

اگر حضرت مرزا صاحب جُھوٹے ہیں تو اسلام کی صداقت کی کوئی دلیل نہیں! اگر حضرت مرزا صاحبؑ جُھوٹے ہیں تو مسلمانوں کے پاس اسلام کی صداقت کی کوئی دلیل نہیں.لوگ ان کو دجّال اورجھُوٹا وغیرہ ناموں سے یاد کرتے ہیں مگر وہ نہیں خیال کرتے کہ اگر آپ اسلام کے دشمن ہوتے تو آپ اسلام کی تائید میں سینہ سپر کیوں ہوتے اور اسلام کے دشمنوں سے جنگ کیوں کرتے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کیا گیا کہ یہ شیطان کی پرستش کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں تو شیطان کے خلاف وعظ کہتا ہوں کیا شیطان پرست بھی شیطان کے خلاف وعظ کہہ سکتا ہے پس اسی طرح جو لوگ حضرت مرزا صاحبؑ کو اسلام کا دشمن کہتے ہیں وہ اتنا تو سوچیں کہ کیا کوئی دشمن کی خدمت کے لئے اتنی کوشش کیا کرتا ہے.حضرت مرزا صاحب سے خدا کا وعدہ پس حضرت مرزا صاحب کے معاملہ میں لوگوں کو غور اور فکر سے کام لینا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں.حضرت مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے کہ آپ کےذریعہ اسلام کے انوار اب دوبارہ دُنیا میں پھیلیں گے.ایک وقت میں آپ اکیلے تھے.مگر آج کئی لاکھ کی جماعت آپ کے کام کو دُنیا میں جاری کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کررہی ہے.اور وہ دن قریب ہیں جو دُنیا میں آپ ہی کی جماعت نظر آئے گی.لوگ مخالفت کرتے رہیں آپ کو جسقدر بُرے ناموں سے یاد کرسکتے ہیں کریںمگر ان کی تام مخالفتیں بے اثر ہونگی اور خدا حضرت مرزا صاحب کو تمام دُنیا میں عزت اور غلبہ دیگا.خدا نے حضرت مرزا صاحب کو فرمایا کہ دُنیا میں ایک نبی آیا پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اوربڑے زور آور حملوں سے اس کی سچاّئی ظاہر کردیگا.لوگ تو شب و روز آپ کو جھوٹا کہنے میں مصروف ہیں.مگر خدا اپنے زور آور حملوں سے آپ کی سچائی دُنیا کے کناروں تک پھیلا رہا ہے.پس آج مسلمانوں کے پاس اسلام کی صداقت کااگر ثبوت ہے تو حضرت مرزا صاحب کا وجود ہے کیونکہ آپ بھی ادنیٰ حالت سے خدا کے وعدے کے مطابق بلند کئے جارہے ہیں.اگر لوگ آپ کو ماننے کے لئے تیار نہیں تو ان کے پاس اسلام کی صداقت کا بھی کوئی ثبوت نہیں.وہ یا تو آپ کو قبول کریں یا اگر آپ کو چھوڑتے ہیں تو ان کو اسلام بھی چھوڑنا پڑیگا.کیونکہ صداقتِ اسلام کی جو دلیل تھی وہ ان کے پاس نہیں بلکہ حضرت مرزا صاحب کےذریعے نظر آرہی ہے.*تذکرہ ص۱۰۴ایڈیشن چہارم

Page 44

دُنیا کی حالت دُنیا میں تغیرات آرہے ہیں جنگوں نے دُنیا کو بے حال کر رکھا ہے اور زلزلوں نے زیرو زبر کردیا ہے.بیماریاں ہلاکت کے ہاتھ پھیلا رہی ہیں اور یہ عذاب دُنیا کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک دُنیا اصلاح کی طرف نہیں آئیگی.غور تو کرو کہ خدا رحمٰن و رحیم ہے.پھر وہ کیوں اس قدر پُر درد عذاب دُنیا پر بھیج رہا ہے.اگر دُنیا کی حالت اچھی ہو تو خدا کیوں اس کو بھٹی میں ڈالے.وجہ یہی ہے کہ لوگ خُدا کے ما ٔمور نبی کا انکار کر رہے ہیں اوراب تک کر رہے ہیں.معمولی بادشاہ یا لیڈر کا حکم ٹالا جائے تو لوگ نقصان اُٹھاتے ہیں.پھر جب خدا کے ایک ما ٔمور کی ہتک ہو اور خدا کی نافرمانی ہو پھر دُنیا کیسے امن میں رہ سکتی ہے.دُنیا آج جن عذابوں میں مبتلا ہے.آج سے چالیس سال پہلے ان عذابوں کانام و نشان نہ تھا.لیکن آج ایسے عذاب آرہے ہیں کہ لوگ حیران ہیں.ایک بزرگ کا قول ہے وہ کہتے ہیں کہ جب میرا گھوڑا َڑتا ہے تو مَیں سمجھ لیتا ہوں کہ میں نے خدا کی نافرمانی کی.کیونکہ اگر مَیں اپنے رب کی نافرمانی نہ کرتا تو میرا جانور میری نافرمانی نہ کرتا.لیکن آج لوگ اسقدر نفس پرستیوں میں غرق ہیں اسقدر خدا ان کو بُھولا ہوا ہے کہ وہ اپنے گھوڑے کے اَڑنے سے نصیحت کیا لیتے خود اُن پر عذاب کے ہزاروں کوڑے پڑ رہے ہیں.مگر پھر بھی وہ نصیحت حاصل نہیں کرتے.کیا لوگوں کے دل مر گئے.کیا ان کے کان میں کسی درد مند کی نصیحت کی آواز نہیں جاتی اور دل پر اثر نہیں کرتی.نصیحت میں آپ کو درد مند دل کیساتھاور خیر خواہ قلب کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمان کی فکر کرو اوراپنی حالت پر غور کرو اپنے اعمال سے اسلام کی ہتک نہ کرو اوراس کو جُھوٹا ثابت نہ کرو.ذرا اپنی اصلاح کرو.خدا کی نشانیوں کو غور سے دیکھو.اسلام کیلئے شرم کا موجب نہ بنو.بلکہ فخر کا موجب بنو.اواپنی اصلاح کی فکر کرو.اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ دیوے.اسلام سچّا ہے اس کی سچّائی دُنیا میں پھیلے گی.خدا سے توفیق چاہو اور اسلام کی صداقت ثابت کرنے کا موجب بنو.ورنہ یادرکھو تم اپنی موجودہ حالت میں اسلام کو جُھوٹا ثابت کررہے ہو.اس سے ثابت ہے کہ اسلام تم میں نہیں ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اسلام تمہیں بلند نہ کرتا.تم اسلام کو مانتے ہو تو سوچ سمجھ کر مانو اور ہر ایک مذہب والے کو بھی میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ غور کرے کہ وہ اپنے مذہب کا پابند ہے تو کیوں ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب لوگوں کو حق کے قبول کرنے کی توفیق دے.آمین.(الفضل ۹مئی ۱۹۲۱ء)

Page 45

معیارِ صداقت از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 46

Page 47

معیارِ صداقت (تقریر حضرت فضلِ عمر خلیفۃ المسیح الثانی جو حضور نے ۲۱؍و ۲۲مارچ ۱۹۲۱ء؁ کی درمیانی شب کو مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا نظام الدین صاحب کے مکان پر فرمائی) حضور نے سور ہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- تمہید میں آج آپ لوگوں کے سامنے پہلے تو وہ اسباب بیان کرونگا جن کی وجہ سے وہ انتظام کرنا پڑا جو خلاف معمول یہاں نظر آرہا ہے.اس کے بعد ان لیکچروں کے متعلق کچھ بیان کرونگا جو ان دنوں میں غیر احمدیوں کے یہاں ہوئے اورپھر وہ باتیں بتاؤنگا جو صداقت کا نشان ہوتی ہیں.ہم نے حفاظت کے لئے یہ سامان کیوں کئے قادیان دارالامان ہے لیکن یہاں ایساانتظام تھا جو فوجی انتظام کے مشابہ تھا.ہم میں سے ہر ایک کسی خاص کام پر مقرر تھا.حتّٰی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی کاموں پر مقرر تھے جو اپنے متعلقہ کام چستی سے کام کررہے تھے.ہماری گلیوں ،ہمارے مکانوں ،ہمارے مقبروں اور ہماری مسجدوں پرپہرے تھے.برطانیہ کی گورنمنٹ کے ماتحت جو ایک با امن گورنمنٹ ہے اس انتظام پر کئی

Page 48

لوگوں کو تعجب ہوتا ہوگااور ممکن ہے کہ جو لوگ آتے ہی کسی کام پر لگادئیے گئے ان کو خیال ہو کہ کیا وجہ تھی جس کے باعث ہمیں یہ انتظام کرنا پڑا اور یہ ضرورت کیوں پیش آئی.قادیان میں پہلے بھی جلسے ہوئے.آریوں کے جلسے باقاعدہ ہوتے ہیں،سکھوں کے جلسے بھی باقاعدہ ہوتے ہیں، غیر احمدیوں کا جلسہ بھی پیچھے دو تین سال ہوئے ہوا تھا اور ان کے علماء آتے رہتے ہیں، وعظیںکرتے ہیں.چنانچہ پچھلے دنوں مولوی نُور احمد صاحب ساکن لکھو کے یہاں آئے.ان کے ساتھ ہمارے بعض دوستوں کا بر سرِ بازار مباحثہ بھی ہوا پچھلے دنوں جو باقاعدہ جلسہ غیر احمدیوں کا ہوا تھا اس میں ان کے اور مولویوں کے علاوہ مولوی ثناء اللہ صاحب بھی آئے تھے مگر ان مواقع میں سے ہم نے کسی موقع پر کوئی ایسا انتظام نہیں کیا تھا.پھر اس دفعہ کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ یہ انتظام کیا گیا؟ ہمارے دشمنوں کے ناپاک ارادے اس کے لئے یاد رکھو کہ ہم یہ نہ کرتے مگر، ہماری آنکھوں نے بعض خاص باتیں دیکھیں اور ہمارے کانوں نے سُنیں اس لئے ہمیں احتیاطاً یہ انتظام کرنا پڑا.ہم چھ مہینے سے ان کے جلسہ کے متعلق سن رہے تھے.مگر ہمیں اس کے متعلق کچھ خیال نہ تھا نہ ہم نے اس کے لئے باہر اپنے آدمیوں کو اطلاع دی تھی نہ ہمیں کسی تدبیر کا خیال تھا.لیکن چند ہی دن ہوئے جبکہ مجھے ایک ایلیگشن کی شہادت کے لئے لاہور جانا پڑا تو ایک دن صبح کی نماز کے بعد ایک دوست نے بتایا کہ لاہور کے تمام بڑے بازاروں میں قریباً ہر دس بیس گز کے فاصلہ پر ایک بڑا اشتہارچسپاں ہے جس میں لکھاہوا تھا کہ :- ’’قادیانی جماعت کے کافتہ المسلمین کے خلاف مذہبی مسائل کا تصفیہ اور اختلاف کا سدِّباب کرنے کیلئے علماء ہندکا ایک عظیم الشان جلسہ ‘‘ ہوگا.(اشتہار بعنوان جمعیۃ العلماء اور مرزائی جماعت قادیانی) اُسی وقت ایک دوست نے ایک اخبار کا کٹنگ دکھایا جس میں لکھا تھا کہ خلافت کے بارے میں چونکہ احمدی لوگ عام مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں اس لئے ان کے اقوال وافعال کا سدِّ باب کرنے کے لئے علماء ہند قادیان جائینگے ،تما م مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کی مدد کریں.(پیسہ اخبار) اب یہ ظاہر ہے کہ افعال کا سدِّ باب دلائل سے نہیں ہوا کرتا کیونکہ بات کا جواب بات ہوتی ہے اور افعال کا افعال سے.پس افعال کے سدِّ باب کی نیت سے جو قوم چلی تھی اس کی غرض فتنہ کے سوا

Page 49

اور کچھ نہ تھی اورپھر تمام ہندوستان کے مسلمانوں کا قادیان میں جمع ہوکر علماء کی مدد کرنے سے سوائے اس کے اور کیامطلب ہوسکتا تھا کہ کوئی فتنہ اُٹھایا جائیگا.اگر علماء نے محض مسائل بیان کرنے تھے تو ہندوستان کے عوام ان کی کیا مدد کرسکتے تھے.ہاں جب علماء کی نیت فتنہ ڈلوانے کی تھی اس وقت ضرورت تھی کہ لوگ ان کی مدد کرتے.امرتسر میں مولویوں کی حرکتیں ان باتوں سے ظاہر ہے کہ ان کی نیت اچھی نہ تھی.ساتھ ہی جبکہ ہم ان علماء کہلانے والوں میں سےبعض کی وہ حرکتیں دیکھ چکے تھے جو پچھلے سال امرتسر میں میرے لیکچر کے دوران میں انہوں نے کی تھیں تو ہمارے دلوں میں ان پر حسن ظنی کرنے کی کوئی وجہ بھی نہ باقی نہ رہتی تھی.امرتسر میں جو کچھ ان لوگوں نے کیا جن لوگوں نے اس کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کس طرح بعض مولوی کہلانے والوں نے قلندروں کی سی حرکتیں کیں.کِس طرح وہ اُچھلے تھے اور آگے پیچھے پھُدکتے پھرتے تھے اور صفحہ صفحہ ،سطر سطر اور مطبع مطبع پوچھتے تھے.اس وقت پولیس والے ان کو سمجھاتے تھے.مجسٹریٹ ان کو روکتے تھے مگر وہ نہیں رُکتے تھے.حالانکہ صفحہ سطر کی بحث تب ہوتی جب کوئی ایسی کتاب ہوتی ہے جسے وہ نہ جانتے تھے یاکوئی غیر معروف حوالہ ہوتا.بلکہ ایک ایسی کتاب جس کو ہم اور وہ دونوں مانتے تھے اورجو درسوں میں پڑھائی جاتی ہے.اس کے متعلق اس قسم کا مطالبہ پھر لیکچر کے دوران میں نہایت ہی تہذیب سے گری ہوئی بات تھی.اگر وہ لوگ اس حدیث کے وجود ہی کے منکر ہوتے تب بھی ان کا مطالبہ حق بجانب ہوتا.مگر دلوں میں جانتے ہوئے کہ ایسی حدیث موجود ہے یہ شور مچانا ان کی گری ہوئی حالت کا شاہد تھا.اس نظارہ کے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ کبھی وہ کُرسی پر چڑھتے تھے کبھی نیچے اُترتے تھے اور شور کرتے تھے کہ ہمارا خون ہوجائیگا تب ہم بولنے دینگے اور وہ بندوں کی طرح پُھدک رہے تھے.اس وقت جو معزز ہندو اور سِکھ صاحبان بیٹھے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ غصہ تو ہمیں ہونا چاہئے تھا کہ ہمارے مذہب کا نقص ظاہر کیا جارہا تھا.کیونکہ میں اس وقت ہندو مذہب اور اسلام کا مقابلہ کر رہا تھا)یہ لوگ کیوں شور مچاتے ہیں.پس امرتسر کے واقعہ کو یاد کرکے علماء کہلانیوالوں میں سے بعض کے متعلق ہم جس قسم کے فتنہ کی بھی اُمید کرتے تھے بدظنی نہیں کہلا سکتی.علاوہ ازیں ہمیں مختلف مقامات سے خطوط ملے جن میں لکھا تھا کہ غیر احمدیوں میں مشہور ہے کہ اس دفعہ قادیان میں غیر احمدیوں کا جلسہ ہوگا جس میں وہ احمدیوں کے ساتھ وہ سلوک کرینگے جو بدترین ہوگا.بلکہ ریلوں میں راولپنڈی سے امرتسر تک لوگوں کو اس طرح جوش دلایا جاتا تھا کہ

Page 50

چل کر ایک دفعہ اس جماعت کا فیصلہ کردینا چاہئے اوربہت سے گندے منصوبوں کااظہار کیاجاتا تھا یہ افواہیں تھیں جن کے باعث کسی پر کوئی الزام نہیں آسکتا.لیکن اگر یہ افواہیں صداقت کا جامہ پہن لیتیں تو کیا ہوتا.اگر ہم پہلے سے تیار نہ ہوتے توپھر اس کا کیا اثر ہوسکتا تھا.قادیان میں ہمارے مقدس مقامات ہم نے تو گورنمنٹ کے افسران کو یہاں کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو، گورنمنٹ پنجاپ کے سیکرٹریوں کو لکھ دیا تھا کہ قادیان میں ہمارے مقدس مقامات ہیں اور ہمارے لئے قادیان کے بعض مقامات ویسے ہی مقدس ہیں جیسا کہ ہمارے نزدیک اور دوسرے انبیاء کے ماننے والے لوگوں کے نزدیک ان انبیاء کے مقامات مقدس ہیں.پس اگر کوئی شخص ان مقامات کے خلاف کوشش کریگا اور کوئی فتنہ برپا کرنے کی سعی کریگا تو ہم پہلے فنا ہولینگے تب وہ ان مقامات کی طرف قدم بڑھا سکیگا.اور افسروں نے تسلیم کیا تھا کہ قانوناً جو شخص فتنہ کھڑا کرتا ہے وہی مجرم ہے.اگر ثابت ہوجائے کہ ایک فریق نے دوسرے کے حملہ سے بچنے کے لئے مقابلہ کیا تھا تو وہ قابلِ سزا نہیں اور حکام نے فتنہ کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کا بھی وعدہ کیا.ہماری پوزیشن غرض ہم نے قبل از وقت حکام کو بھی اطلاع دے دی اور خود بھی اپنا انتظام کیا اورہم نے قادیان کے وہ حصّے مخصوص کرلئے جن میں ہم ہی ہم آباد ہیں.صرف دو گھر غیروں کے ہیں.ہم نے ان مقامات پر اپنا پہرہ لگا دیا اور اپنے پہرہ داروں کو ہدایت کردی کہ وہ ان لوگوں کو جن کے گھر ہمارے محلہ میں ہیں آنے سے نہ روکیں اور نہ ان کے مہمانوں کو اور نہ ان کے ملنے والوں کو.ہاں اگر کوئی اور شخص اِدھر آنا چاہے تو چونکہ اس کا کوئی کام ہمارے ہاں نہیں اس کو ادھر مت آنے دو کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اس طرح دھوکا دیکر ہمارے گھروں میں آجائیں.پنجاب میں ایسے واقعات ہوچکے ہیں کہ لوگ دھوکا دیکر آئے اور آکر فتنہ کیا.کیا ہم بزدل ہیں مَیں جانتا ہوں کہ یہاں بھی ان لوگوں نے ہم پر بزدلی کا الزام لگایا ہے اور باہر جاکر بھی ہمیں بُزدل کہیں گے.مگر ان کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر بزدل دشمن کے بدا رادوں کو معلوم کرکے اپنی حفاظت کے لئے چوکس ہوجانے اوراپنی جان دینے کیلئے تیار ہوجانے کا ہی نام ہے تو ہم بُزدل ہیں لیکن وہ اس کا کیا نام رکھتے ہیں کہ بقول ان کے انہوں نے اپنے مقدس مقامات اوراپنے خلیفۃ المسلین کے شہر پر اور اس کی فوجوں پر خود قبضہ کیا اور

Page 51

تلواریں چلائیں.وہ بتائیں کہ دونوں میں سے بُزدل کون ہے.ہم نے کبھی کسی کو دُکھ نہیں دیا ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں ہم نے کسی پر حملہ نہیں کیا.ہم کسی پر حملہ نہیں کرتے بلکہ اگر ہمیں گالیاں دے تو صبر کرتے رہے ہیں.لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمارے مقدسوں پر اور ہمارے مقدس مقاموں پر کوئی حملہ کرنا چاہے اور ہم صبر کرکے بیٹھ جائیں یا اس وقت خود حفاظتی کی تیاری کریں جب دشمن کا حملہ ہو ہی جائے.ایسی صورت میں ہم پر شریعت ،اخلاق اور قانون فرض کرتے ہیں کہ حفاظت کریں.اگر ہم ایسے وقت میں خاموش رہیں تو ہم مومن نہیں فاسق ہونگے.مخالفوں کا حضرت اقدس کی قبرمبارک کھودنے کا ناپاک ارادہ پس اگر یہ خبریں جو ہمیں ملیں محض افواہیں ہوں جو دشمنوں نے ہمیں گھبرادینے کے لئے مشہور کی تھیں (جوبات کہ فی الواقع نہیں ہے) تو بھی ہمارا کوئی نقصان اس انتظام سے نہیں ہوا.ہمیں چار دن میں اس کام کی مشق ہوگئی.اگر چہ ہمارے پاس کافی وجوہ ہیں کہ دشمن کا ارادہ بد تھا.ان کے اشتہار اس امر کے شاہد تھے.مختلف مقامات سے ایک ہی قسم کی اطلاعات آرہی تھیں.پٹیالہ ،لدھیانہؔ،امرتسر ،لاہور اور قادیان کے اردگرد کے دیہات میں چرچا تھا کہ اس دفعہ مرزا صاحب کی قبر کھودینگے اور دیکھیں گے کہ وہ سچّے نبی تھے یا جھوٹے.اگر سچّے تھے ان کے جسم کو مٹی نے نہیں کھایا ہوگا اوران کے کتب خانوں کو جلایا جائے گا کیونکہ ان سے دُنیا میں گمراہی پھیلتی ہے.لاش کو مٹی کے کھانے کے اعتراض کا جواب تو میں اعتراضوں میں بتائوں گا کہ یہ اعتراض فضول ہے مگر ہم کو ایسی خبریں پندرہ سولہ جگہوں سے پہنچیں اس لئے ہم نےاپنےپہرے کا بندوبست کیا.اگر یہ لوگ کہیں کہ ہم نے جان بچائی اور گھر میں بند ہوکر بیٹھ گئے تو یہ ان کی عقل کی کوتاہی ہے کیونکہ ہمیں جان کی پرواہ نہیں اور یہ جو کچھ تھا یہ اس لئے تھا کہ ہم اپنی جان کو ان چیزوں کی حفاظت کے مقابلہ میں کچھ نہیں سمجھتے.قادیان کی حفاظت کیلئے ہم کیا قربانی دینگے مجھے بُزدلی سے طبعاً نفرت ہے.مَیں نے پچھلے سال جب امرتسر میں لیکچر دیا اور مولویوں نے شور شروع کیا اوران کا ارادہ اینٹ پتھر پھینکنے کا معلوم کرکے بعض دوست میری محبت سے میرے آگے کھڑے ہوگئے تو مَیں نے ان کو حکماً بٹھا دیا.اس وقت بعض دوستوں نے گبھرا کر مجھے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اور لیکچر نہ دیں تو مَیں نے ان کو جھڑک دیا کہ کیا تم مجھے بُزدل بناتے ہو.یہ شور

Page 52

کرتے رہیں مَیں لیکچر ختم کرکے بیٹھوں گا.ہمارے مخالفوں کو اس واقعہ کا بھی غصّہ تھا.پس ہمیں جان کی پرواہ نہیں بلکہ قادیان ہمارا مقدس مقام اور اس کی تقدیس ایسی ہی ہے جیسی اوروں کے مقدس مقاموں کی.پس ہم یہ پسند کرینگے کہ ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو کاٹ کاٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے مگر ہم اس امر کو ہرگز پسند نہ کرینگے کہ ان مقامات کی بے حُرمتی کی جائے.پس اب دشمن گو بظاہر ہم پر ہنسے مگر اس کا دل رو رہا ہے کہ وہ اپنے ارادہ میں ناکام رہا.رعایت اسباب بعض دوستوں نے ذکر کیا ہے کہ جب مَیں نے امرتسر میں لیکچر دئیے تھے تو کسی مولوی نے کہا تھا کہ ہائے افسوس وہ لیکچر دیکر یہاں سے زندہ واپس چلا گیا.تو ہم خدا کے فضل سے وہاں بھی ان کے شر سے محفوظ رہے اور یہاں سے بھی یہ ذلّت کے ساتھ واپس ہوئے اور خدا نے ہمیں محفوظ رکھا.ان کا قصّہ اصحاب فیل کے مطابق تھا.خدا مومن کا محافظ ہوتا ہے مگر اسباب کی رعایت ضروری ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کے متعلق بھی ایک دفعہ اس قسم کی افواہیں مشہور ہوئی تھیں.تومسلمانوں نے فوراً اس کی حفاظت کا سامان کرلیا تھا.پس گو مقدس مقامات کی حفاظت اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی مدد کا نزول بندوں کی اپنی کوشش پر بھی منحصر ہوتا ہے سوائے ان مقامات کے کہ جن کی حفاظت کا اس نے خاص طور پر وعدہ فرمایا ہو.پس گو اگر ہم کوشش نہ کرتے تو ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حفاظت کا سامان کرتا مگر ہمارا فرض بھی تھا کہ ہم اپنے ایمانوں کا ثبوت دیتے.پس خوب یادر کھو مؤمن بہت ہوشیار ہوتا ہے اور وہ فوراً احتیاط کی راہ اختیار کرلیتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں افواہ کی بناء پر حفاظت ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اطلاع ملی تھی کہ مدینہ سے دو سو میل کے فاصلہ پر ایک عیسائی حکومت تھی اس کا ارادہ ہے کہ مدینہ پر حملہ کرے تاریخ سے ثابت ہے کہ اس حکومت نے کبھی بھی مدینہ پر حملہ نہیں کیا.لیکن اس خبر کی بناء پر صحابہؓ خاص طور پر تیار رہتے تھے.بلکہ ایک دفعہ معمولی سے شور پر تمام صحابہؓاپنے گھروں سے نکل کر کھڑے ہوئے اور کوئی کدھر کو چل دیا اور کوئی کدھر کو.کچھ لوگ مسجد میں جمع ہوگئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی جو مسجد میں آگئے.خود حفاظتی مومن کا فرض ہے پس گو مؤمن فتنہ سے بچتا ہے اور خود کوئی ایسا موقع پیدا نہیں ہونے دیتا جس سے وہ فتنہ میں پڑے اور کسی پر

Page 53

حملہ کرے لیکن جب کوئی اس پر حملہ آور ہو تو وہ شریعت اخلاق اور قانون کی طرف سے مجاز ہے کہ اس حملہ کے دفاع کے لئے ہر ممکن کوشش کرے.بلکہ بعض اوقات اگر وہ ایسا نہ کرےتو وہ ایمان سے باہر ہوجائیگا.ہم ہر ممکن طریق سے امن کے قیام کے حامی ہیں پس ہم نے جو کچھ کیا ان حالات کے ماتحت کیا.یہ میں نے اس لئے بتایا ہے کہ کسی کو حیرت نہ ہو کہ یہ کیا انتظام تھا ورنہ ہم نے نہ کبھی فساد کیا نہ فساد کرنا چاہتے ہیں نہ کرینگے.یہاں ہر قوم کا جلسہ ہوتا ہے مگر کبھی کوئی فساد نہیں ہوا.حالانکہ ابھی پچھلے دنوں میں آریوں کا جلسلہ ہوا وران کے بعض لیکچراروں نے اسلام پر حملہ کیا اور گالیاں دیں اور ہمارے بعض لوگوں نے بھی سُنا مگر وہ خاموش رہے.حالانکہ مَیں نے ان کو کہا کہ یہ درست نہیں کہ جہاں کوئی گالیاں دے ہم اس کی گالیاں سُنتے رہیں یہ بہتر ہوتا کہ وہ وہاں سے ااجاتے.یہ ہماری ہی جماعت ہے جو گالیاں سننے کے باوجود صبر سے کام لیتی ہے.ورنہ اگر باہر ایسا واقعہ ہوتا تو کشتوں کے پشتے لگ جاتے.ہم دین کیلئے جان دینے سے پرہیز نہیں کرتے ابھی ہمارے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بی اے بیرسٹر لاہور سے آرہے تھے تو ان سے ایک شخص نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو.انہوں نے بتایا کہ قادیان جارہا ہوں.اس نے کہا کہ آپ نہ جائیں وہاں فساد ہوگا.چوہدری صاحب نے جواب دیا کہ ہماری جماعت فساد نہیں کرے گی.اُس نے کہا کون روکے گا انہوں نےجواب دیا کہ ہمارا خلیفہ ہے جو فساد کو روک دیگا.ہمارے مخالفوں کو معلوم نہیں کہ اگر ہم دین کے کام کے لئے جان دینے کو کہیں تو ہماری جماعت کے لوگوں کو جان دینے سے بھی عذر نہیں ہوسکتا اور یہ محض ظنی بات نہیں بلکہ واقعہ ہے.برطانیہ کی کابل سے جنگ ہوئی ہماری نزدیک چونکہ حکومت برطانیہ حق پر تھی اور اس وقت تک کابل کی حکومت ہمارے مذہب کو جبراً مٹانا چاہتی تھی اس لئے ہمار ابرطانیہ کی مدد کرنا مذہبی فرض تھا.مَیں نے اپنی جماعت میں اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے اعلان کیا اور باوجود اس کے کہ ہمارے بہت سے لوگ جرمن کی جنگ کے وقت بھرتی ہوچکے تھے پھر بھی ایک قلیل عرصہ میں پندرہ سو درخواستیں آگئیں.

Page 54

پس ان لوگوں نے گالیوں کو سُنا اوربرداشت کیا.کیونکہ میرا حکم تھا کہ فساد سے بچو.ورنہ بعض چوشیلے ایسے تھے جو گھر بیٹھے روایتاً واقعات سُنکر جوش میں آرہے تھے.ان کو فساد سے روکنے والی بات محض شریعت اور میرا حکم تھا.ہم نے اپنی حفاظت کا سامان خود کیا اگر ہمارے آدمی ان کے جلسہ میں جاتے اور ان کی بد زبانی سُنتے اوران کی طرف سے فساد ہوتا تو ہمارے حق میں کسی نے گواہی نہیں دینی تھی.عدالت میں لوگ صریحاً جھوٹ بول دیتے.کیونکہ یہ قوم ہماری دشمن ہے.دُنیا آج منافقت چاہتی ہے اور ہم میں منافقت نہیں اگر فساد ہوتا تو سوائے شاذ کے کوئی ہماراگواہ نہ ہوتا اور گورنمنٹ کے حکام تک بھی ہمیں کو الزام دیتے ہیں یہ ہماری احتیاط کا نتیجہ نکلا کہ دشمن اپنے جن بد ارادوں سے آتا تھا وہ اس کو اپنے ساتھ ہی لے گیا اور کوئی قسم کا فساد نہیں ہوا.فساد کے نہ ہونے اور دشمن کا اپنےبد ارادوں میں ناکام رہنے میں گورنمنٹ کے حکام کی موجودگی کا بھی دخل تھا.مگر انہوں نے عملی طور پر اس کام میں کوئی حصہ نہیں لیا اور اس میں روک زیادہ تر ہماری احتیاط ہی تھی اور اسی طرح ہمارا یہ حکم کہ ہمارے آدمی بلا اجازت جلسہ میں نہ جاویں.انکو ہم پر غصہ ترکوں کی خلافت کے باعث ہے اب سوال ہوتا ہے کہ انکو ہم پر خفگی کی وجہ کیا ہے.جیسا کہ انہوں نے اپنے اشتہاروں میں بھی ظاہر کیا ہے ان کو ہم سے خلافت کے بارے میں اختلاف ہے اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی خلافت کے بارے میں مدد نہیں کرتے مگر ان کا یہ اعتراض کم فہمی پر مبنی ہے.کیونکہ کسی کو مجبور کرنا کہ وہ ان کا ہم خیال ہوجائے ایک بہت ہی بُرا اور گندہ فعل ہے.ان کا عقیدہ ہے کہ ترکوں کے بادشاہ خلیفۂ رسول اللہ ہیں.اور برخلاف اس کے ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمان خراب ہوگئے ان کی اصلاح کے لئے محمد رسول اللہ کا ایک غلام مسیح اور مہدی بنا کر مبعوث کیا گیا.اب خلیفہ وہی ہوسکتا ہے جو مسیح موعود کا غلام ہو.پس وہ ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہمارے مذہب کے خلاف ہے.اگر ہم ان کی خاطر اپنے مذہب کو چھپا کر سلطان ترکی کی خلافت کے مسئلہ میں ان کے ہم خیال ہونے کا اظہار کریں تو ہم منافق ہونگے اور منافقوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کو کیا نفع ہوگا.بلکہ ہمارا ملنا ان کے لئے مضر ہوگا کیونکہ اگر ہم ان کے ساتھ اس مسئلہ میں مل جاتے تو ہندوستان میں منافقت بڑھ جاتی.اور اس زمانہ میں جبکہ پہلے ہی نفاق چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اور ضرورت ہے کہ اس کو مٹا کر تقویٰ

Page 55

اور صداقت کو قائم کیا جائے.ان لوگوں کا ہمیں نفاق اختیار کرنےپر مجبور کرنااچھے ثمرات نہیں پیدا کرسکتا تھا.ہم سلطان ترکی کو خلیفہ نہیں مان سکتے.کیونکہ ہمارے لئے خلیفہ وہی ہوسکتا ہے جو مسیح موعود کا متبع اور جانشین ہو.باوجود بے تعلق ہونے کے ہم نے ترکوں کے لئے کیا کیا وہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ان کے شورش پھیلانے میں کیوں شریک نہیں ہوتے.لیکن جب ہمارے نزدیک شورشوں میں حصہ لینا جائز ہی نہیں تو ہم کیوں اپنے مسلک اور اپنے مذہب کو چھوڑیں.ہاں ہم نے باوجود بے تعلق اور علیحدہ ہونے کے پھر بھی معاہدہ ترکی کے بارے میں اتحادیوں سے جو غلطیاں ہوئی تھیں ، ادب سے ان کے متعلق گورنمنٹ کو مشورہ دیا کہ ان کی اصلاح ہونی چاہئے چنانچہ ان مشوروں کے مطابق ایک حد تک تھریس اور سمرنا کے معاملہ میں پچھلے معاہدہ میں اصلاح بھی کی گئی ہے.ہمارا عربوں کی آزادی کے متعلق مشورہ ہم نے عربوں کے معاملہ میں لکھا کہ وہ غیر قوم اور نہ ان کی ترکوں کے ماتحت رکھا جائےنہ اتحادی ان کو اپنے ماتحت رکھیں.باوجود اس کے کہ یہ لوگ اپنے لئے تو یہ قاعدہ بناتے ہیں کہ انگریزی سلطنت سے آزاد ہوں مگرا ن کو یہ بات پسند نہیں کہ عرب بھی آزاد ہوں.گویا جو چیز یہ خود ناپسند کرتے ہیں عربوں کو اس کے پسندکرنے پرمجبور کرتے ہیں.پس ہمارے مطالبات کی صحت کا انکار نہیں کیا گیا بلکہ اس کو تسلیم کرکے موجودہ وقت میں جواصلاح کی گئی اس کو ملحوظ رکھا گیا.مگر جو کچھ یہ غیر احمدی لوگ مطالبہ کرتے تھےوہ پورا نہیں کیا گیاکیونکہ وہ درست نہ تھا.ہماری ترکوں کے لئے عملی کوششیں پس ہم سے جس قدر ہوسکتا ہم نے کیا.رسالےہم نے لکھ کر شائع کئے.چٹھیاں میں نے گورنمنٹ کو لکھیں اور جو غلطیاں مَیں نے گورنمنٹ کو بتائیں گورنمنٹ نے فراخی حوصلگی سے ان میں سے بعض کو تسلیم کیا اور ان کی اصلاح کے متعلق کوشش کرنے کا وعدہ کیا.ہم نے ہزایکسلنی گورنر پنجاپ کو میموریل بھیجا.ہم نے گورنرجنرل کو بھی لکھا.ولایت میں اپنے مبلغین کو ترکوں سے ہمدردی اور انصاف کرنے کے متعلق تحریک کرنےکیلئے ہدایت کی.امریکہ میں اپنا مبلغ بھیجا کہ علاوہ تبلیغِ اسلام کے ترکوں کے متعلق جو غلط فہمیاں ان لوگوں میںمشہور ہیں ان کو دُور کرے.چنانچہ وہ وہاں علاوہ

Page 56

تبلیغِ اسلام کے یہ کام بھی کر رہا ہے اور کئی اخبارات میں ترکوں کی تائید میں آرٹیکل لکھے گئے ہیں.غرض ہماری طرف سے باوجود ترکوں سے بے تعلق ہونے کے محض اسلام کے نام میں شرکت رکھنے کے باعث ان کے لئے اس قدر جد و جہد کی گئی ہے.مگر ترکوں نے ہمارے لئے کیا کیا.جب ہمارے بعض آدمی ان کے علاقے میں گئے تو ان کو گرفتار کرلیا گیا.تو یہ لوگ کس قدر ناشکرگزار ہیں کہ باوجود اس قدر کوشش کے پھر ہمارے خلاف ایسے ایسے منصوبے کرتے اور اس قدر بدارادوں کے ساتھ آتے ہیں.ہمارے مخالفوں کا بے اُصولا پن ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ان کی خاطر گورنمنٹ سے بگاڑ لیں اور عدمِ تعاون کریں.مگر یہ واعظین عدمِ تعاون جو ساری دُنیا کو عدم تعاون کے لئے مجبور کرتے اور ہمارے خلاف اس لئے جوش میں اندھے ہوجاتے ہیں کہ ہم عدم تعاون نہیں کرتے خود اس قسم کے ارادوں کے ساتھ آنے کے باوجود اپنے جلسہ میں جب سرکاری مجسٹریٹ اور پولیس کو دیکھتے ہیں تو ان کی تعریف کرتے کرتے ان کے ہونٹ خشک ہوجاتے ہیں.ہم عدم تعاون کو خلاف اسلام خیال کرتے ہیں اس لئے ہم کو پولیس وغیرہ سے اگرمدد لیں تو ہمارے مذہب کی رُو سے ناجائزنہیں.مگریہ جو عدم تعاون کے قائل ہیں ان کا تو فرض تھا کہ مجسٹریٹ اور پولیس کو اپنے جلسہ میں قدم نہ رکھنے دیتے اور کہتے کہ جائیے ہم اپنا انتظام آپ کرینگے.یوں تو عدم تعاون پر یہ زور اور جلسہ میں ان کی تعریف اور خوشامد کی جائے.حالانکہ ان سے تعاون ان کی شریعت کی رُو سے حرام ہے.پس مجسٹریٹ اور پولیس کا ان کے جلسہ میں ہونا ان کے لئے کلینک کا ٹیکا تھا تو وہ جن بد ارادوں کے ساتھ آئے تھے ان میں سخت محرومی کے ساتھ وہ یہاں سے واپس ہوئے اور یہ خدا کا عین فضل اور کرم ہے.ظالم گورنمنٹ کے مقابلہ میں ہمارا رویہ ہم بغاوت کے لئے نہ کبھی تیار تھے نہ ہیں نہ ہونگے.اگر ہمارے نزدیک گورنمنٹ ایسی ظالمانہ ہوجائیگی جس کا ظلم نا قابل برداشت ہوگا تو ہم اس کا ملک چھوڑ دینگے.کیا ہم گورنمنٹ کے خوشامد ی ہیں ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم اس گورنمنٹ کے خوشامدی ہیں.مگر حیرت ہے کہ وہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ اس گورنمنٹ سے ہمیں کونسا زائد فائدہ ملتا ہے.جتنا کہ باوجود مخالفت کے مسٹر گاندھی اور مسٹر محمد علی و شوکت علی اُٹھا رہے ہیں.گورنمنٹ سے جو ایک ایکسٹریمسٹ(EXTREMIST) فائدہ اُٹھا رہا ہے وہی میں بھی لے *EXTREMIST

Page 57

رہا ہوں اس لئےمیں کیوں خوشامد کرتا.بلکہ اگردیکھا جائے تو مَیں بعض اوقات نقصان اُٹھاتا ہوں اور مسٹر محمد علی و شوکت علی نہیں اُٹھاتے.اس لئے کہ گورنمنٹ میرے متعلق خیال کرتی ہے کہ اس کے ساتھ تھوڑے آدمی ہیں اور محمد علی اور شوکت علی کے ساتھ زیادہ ہیں.وہ ان سے ڈر جاتی ہے لیکن ہمارے حقوق کو بعض اوقات پامال کردیتی ہے.پس ہمیں کوئی زائد فائدہ نہیں مل رہا جس کے لئے ہم خوشامد کریں.ہمیں گورنمنٹ کے حکام سے بھی بعض اوقات نقصان اُٹھانا پڑتا ہے کیونکہ وہ لوگ آخر ہندو یا مسلمان ہی ہوتے ہیں اور چونکہ ہمارے خیالات ان کو نئے معلوم ہوتے ہیں طبعاً وہ ان سے نفرت کرتے ہیں.پس ہم جوگورنمنٹ کی تائید کرتے ہیں اس میں ہمارا کوئی خاص نفع نہیں بلکہ ہمیں خواہ اس سے نقصان پہنچے ہم اس کی تائید کرینگے.کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم جس گورنمنٹ کے ماتحت ہوں اس کی اطاعت کریں.اگر وہ ظلم کرے تو ہم اس کے ملک میں رہ کر اس کے خلاف کچھ نہیں کرینگے بلکہ اس کے ظلم سے نکل جائیں گے اور اس کا ملک چھوڑ دینگے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ احمدی کچھ دنوں بعد دیکھیں گے کہ گورنمنٹ ان سے کیسی غداری کرتی ہے.میں کہتا ہوں کہ جب ہماری وفاداری کی بنیاد گورنمنٹ سے اُمید پر ہے ہی نہیں تو گورنمنٹ ہم سے کیا غداری کریگی.اب وہ ہمیں کیا زائد نفع پہنچاتی ہے جو آئندہ پہنچائے گی.اگر ذاتی طور پر دیکھا جائے تو بھی معلوم ہوگا کہ ہمارے خاندان کو گورنمنٹ سے خاص فائدہ نہیں پہنچا بلکہ نقصان پہنچا ہے.ہمارا خاندان اس علاقہ کا حاکم اور مالک تھا.یہ علاقہ ہم سے جاتا رہا.مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب جن کو جابر بادشاہ کہا جاتا ہے.انہوں نے ہمارا کچھ علاقہ واپس کردیتا تھا.اور ہماری ملکیت کوتسلیم کیا تھا.جب انگریزی راج آیا تو انگریزی عدالتوں نے ہمارا باقی علاقہ تو کیا واپس کرتا تھا یہ فیصلہ کردیا کہ ان کا کوئی حق نہیں اس طرح وہ علاقہ بھی جاتا رہا.مگر پنجاب چیف کو رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ واقعی وہ علاقہ ان کا ہے.غلطیاں ہر گورنمنٹ سے ہوتی ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ قوا نین کے ماتحت چلتی ہے اور اپنی طرف سے قانون کی رعایت رکھتی ہے اور یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے.اس سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں.کیونکہ یہ انسانی حکومت ہے اگر اسلامی حکومت ہو تو اس سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں.

Page 58

ہم موجودہ صورت میں عدم تعاون کو غلط سمجھتے ہیں اس لئے ہم مذہباً عدم تعاون کے طریق پر کاربند نہیں ہوسکتے لیکن یہ لوگ ہم سے زیادہ مجرم ہیں کہ باوجود یہ طریق اختیار کرنے کے پھر تعاون کرتے ہیں.پچھلے دنوں کالج چھوڑے مدد سے چھوڑے اور ہمارے لڑکوں کو مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور ہماری لاہور کی جماعت کےپریذیڈنٹ کو خط لکھا گیا کہ یا تو آپ کے طلباء کالج میں نہ جاویں ورنہ ہم ان کو مارینگے لیکن ہمارے طلباء چونکہ اس مسئلہ کو غلط جانتے ہیں اس لئے وہ ان کے ساتھ اس غلطی میں نہ شامل ہوسکتے تھے نہ ہوئے.اگر چہ ان میں سے بعض کے ساتھ بہت بُرا سلوک بھی کیا گیا.مگر چند روز کے بعد وہ جوش ٹھنڈے ہوگئے اور وہی جو دوسروں کو مار مار کر مجبور کرتے تھے کہ کالج چھوڑیں خود واپس آگئے اور پھر شرمندگی کے ساتھ دعویٰ بھی کرنے لگے کہ ہم نے کچھ کیا تو سہی.حالانکہ جو کچھ انہوں نے کیا یہ ایسا تھا کہ اگر نہ کرتے تو بہت اچھا تھا.انہوں نے جو کاروائی کی اس سے اپنے لیڈروں کو ذلّت پہنچائی اور اس تحریک کو بے وزن کردیا.ہمارا اور ان کا نقطہ نگاہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا نقطۂ نگاہ سے اعلیٰ ہے ہمارا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ دین پھیل جائے اور ان کا محض یہ خیال ہے کہ دنیا ان کو مل جائے.ہمیں اسلام تباہ ہوتا ہوا نظر آرہا تھا اور یہ اس کی طرف سےغافل ہیں.ابھی بیس سال بھی نہیں گذرے کہ ہمارے ملک کے مسلمانوں میں یہ خیالات پھیلے ہوئے تھے کہ’’ خلیفۃ المسلین ‘‘ سلطان ترکی کی فوج ڈھائی کروڑ ہے اور تمام یورپ کی حکومتوں کے سفیر جب سلطان کی سواری نکلتی ہے رکابیں تھام تھام کر ساتھ چلتے ہیں.اگر چہ جتنی وہ فوج بتلاتے تھے اتنی اس کے ملک کی آبادی ہی ہوگی.یہ لوگ اس قسم کی شان و شوکت کے خیالات میں مست تھے.اور ادھر اور اقوام تو الگ رہیں سیّد زاد ے جن کی تمام تر عزت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تھی اسلام کو چھوڑ چھوڑ کر عیسائیت کا جامہ پہن رہے تھے اور اسٹیجوں پر کھڑے ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی سے گندی گالیاں دیتے تھے اور صرف ہندوستان میں مسلمانوں میں سے قریباً پانچ لاکھ کے قریب لوگ عیسائی ہوچکے تھے.اس حالت کو دیکھ کر آج سے چالیس برس پہلے ایک خدا کے مرد نے کھڑے ہوکر آواز دی اور کہا کہ مسلمانوں ! ہوشیار ہوجائو.اب بھی وقت ہے کہ تم غفلت چھوڑ دو اور اسلام کی حفاظت کی فکر کرو.مگر مسلمانوں نے اس آواز کو حقیر سمجھا.انہوں نے کہا کہ اسلام توعین عروج پر ہے.ہمیں سلطنت کی ضرورت ہے اس کیلئے کوشش کرنی چاہئے.ہمیں مذہب کی فکر ہے اوران کو

Page 59

محض سلطنت کی.لیکن ان کا خیال تو جب اور جس طرح پورا ہوگا،اسی سے ظاہر ہے کہ جو کچھ ان کے پاس تھا اسے بھی کھورہے ہیں اور ہم اپنے ارادے میں کامیاب ہورہے ہیں.کیونکہ ہمارا یقین ہے اور سچّا یقین ہے کہ جب یورپ مسلمان ہوگا تو اس کی حکومتیں بھی مسلمان ہونگی.ہم گویا ایک پتھر سے دو شکار کر رہے ہیں اور یہ اپنے ایک پتھر کو یونہی ہوا میں اُچھال رہے ہیں.پس ہمارا اصل مدعا حکومت نہیں مذہب ہے اور ان کو مذہب سے واسطہ نہیں حکومت چاہتے ہیں.مگر ہم اپنے کام کے ثمر دیکھ رہے ہیں کہ وہ یورپ جو اسلام کا دشمن کہا جاتا ہے اور ہے اس میں ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو رات کو نہیں سوتے جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیج لیں.حکومت اعلیٰ اخلاق سے ملتی ہے پس ہم کہتے ہیں کہ جو اعلیٰ مقصد ہے اس پر چلو.مگر یہ ہمیں ادنیٰ مقصد کی طرف کھینچ رہے ہیں.حکومت قابلیت اور اخلاق سے آتی ہے اور ان کے پاس نہ قابلیت ہے نہ اخلاق ہیں.پھر محض شور سے کیا بن سکتاہےاگر ان کا مذہب درست ہوجائے تو ان کی سب باتیں درست ہوسکتی ہیں.ورنہ بغیر اخلاق کی درستی کے کچھ نہیں ہوسکتا.ہندو مسلم اتحاد کی حقیقت یہ لوگ ہندو مسلم اتحاد کو لئے پھرتے ہیں مگرا ن کے دل ایک دوسرے کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں.وہ ظاہر میں اتفاق و اتحاد کے گیت گاتے ہیں مگر باطن میں ایک دوسرے کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے کے درپے ہو رہے ہیں.ہم سے بعض مسلمانوں نے جو بڑے اتحاد کے حامی ہیں کہا کہ یہ پالسیی ہے جب انگریز نکل گئے تو ہم کابل کی مدد سے ہندوئوں کو اپنے ماتحت کرلیں گے.اسی طرح چونکہ ہندو ہمیں ان سے الگ سمجھتے ہیں اس لئے بعض خیالات ہم پر ظاہر کر دیتے ہیں.ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ۲۲ کرورڑ ہیں انگریز جالیں پھر ہم ان مسلمانوں کو قابو کرلیں گے.پس جو صُلح کرتے ہیں اور اس نیّت سے کرتے ہیں.جو محبّت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور ان کے دل میں اسقدر کپٹ ہے وہ کب اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں.تمام دُنیا سے صلح کرو لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ صلح ہو بھی جائے تو بھی اس صلح کے باوجودپھر جنگ ہی رہی کیونکہ آپس میں تو صلح کرنا چاہتے ہیں مگر انگریزوں سے جنگ کرتے ہیں.مگر جب تک دُنیا میں یہ صورت رہیگی کہ ایک قوم دوسری سے صلح اس لئے کریگی کہ

Page 60

تیسری سے جنگ رکھے اس وقت تک کبھی امن نہ ہوگا.جرمن و فرانس کی جنگ اسی لئے ہوئی.جب ایک طرف دھڑا بندی ہوئی تو دوسری طرف بھی ایسا ہی ہوا.یہ طریق امن کے بحال کرنے کا غلط ہے.ہم لوگ ساری دنیا سے صُلح کرنا چاہتے ہیں.ہم ایک کو پامال کرنے کے لئے دوسرے سے صلح نہیں کرسکتے.بلکہ ہم سب سے صلح کے خواہاں ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد ہی کی ضرورت نہیں بلکہ ساری دنیا سے اتحاد اور صلح کرو تب کامیابی ہوگی.پنجاب کے ایک مشہور پیر صاحب کا بے اُصولا پن یہ ان لوگوں کا بے اصولا پن ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.یہ حالت انکی سیاسی طور پر ہی نہیں مذہبی طور پر بھی ہے.پنجاب کے ایک مشہور پیر صاحب ہیں.ایک مقام پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لیکچر تھا.انہوں نے احمدیوں سے کلام کرنے والے اور جو ان کے لیکچر میں جائے.اس کے نکاح کے ٹوٹنے کا فتویٰ دیدیا تھا.باوجود اس کے بہت سے لوگ لیکچر میں آئے اور کہا کہ نکاح تو سوا روپیہ میں پڑھا جاتا ہے یہ موقع تو پھر شاید ملے یا نہ ملے.غرض ان پیر صاحب کا یہ فتویٰ تھا مگر اس فتویٰ کے خلاف خود ان کی حالت یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے وقت میں مجھ کو کسی کام کے لئے لاہور جانے کا اتفاق ہوا.مَیں جب واپس آرہا تھا تو لاہور کے اسٹیشن پر میرے ساتھ میاں محمد شریف صاحب بھی تھے جو آجکل امرتسر میں ای.اے سی ہیں اور اَور دوست بھی تھے.جب ہم گاڑی کے قریب آئے تو ایک تو ایک گاڑی میں سر پر سبز کپڑا ڈالے وہ پیر صاحب بیٹھے تھے اور کھڑکی کے پاس کچھ لوگ جمع تھے.میاں محمد شریف صاحب نے مجھے کہا کہ میرے خیال میں یہ فلاں پیر صاحب ہیں.اگر چہ مَیں نے ان کو کبھی دیکھا تو نہیں مگر قرائن سے سمجھتا ہوں کہ وہی ہیں.انہوں نے مشورہ دیا کہ چونکہ ہمارے بہت عنید ہیں اس لئے بہتر ہو کہ آپ دوسرے کمرے میں بیٹھ جائیں.مجھے ان کی یہ بات پسند نہ آئی.مگر تا ہم انہوں نے اور کمرہ دیکھا اور چونکہ اور کوئی کمرہ اس درجہ کا نہ تھا اس لئے مَیں اسی میں بیٹھ گیا.گاڑی چلنے سے پیشتر لوگوں نے کہا پیر صاحب کچھ کھانا حاضر کریں.پیر صاحب نے کہا کہ نہیں مجھے بالکل اشتہاء نہیں،لیکن جب گاڑی چلی تو اپنے نوکر سے کہا کہ کچھ کھانے کو ہے تو مجھے دے سخت بھوک لگی ہوئی ہے.اس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں.پیر صاحب نے کہا مجھ سے تو بھوک برداشت نہیں ہوسکتی.اس نے کہا کہ میانمیر تک صبر کریں.وہاں کھانے کا بندو بست کردونگا.پیر صاحب نے کہا کہ مجھ سے وہاں تک بھی برداشت نہیں ہوسکتی.مَیں ان کی اس بات پر حیران ہوا کہ جب اتنی بھوک تھی اور لوگ کھانا لانے کو کہہ رہے

Page 61

تھے تو اس میں شرم کی کونسی بات تھی.مگر ان کو تو کہا کہ مجھے بالکل بھوک نہیں اور گاڑی چلتے ہی بیقراری کا اظہار کرنے لگے.آخر اس کو کہا کہ کچھ خشک میوہ ساتھ تھا وہ ہے اس نے کہا کہ ہاں ہے.پیر صاحب نے کھڑکی کے راستہ میوہ کا رومال نوکرسے لے لیا اور رومال کھول کر کھانا شروع کیا.ساتھ ہی مجھ سے باتیں کرنے لگے کہ آپ کا اسمِ مبارک.مَیں نے نام بتایا کہا کہ کدھرچلے.مَیں نے نام بتایا کہا کہ کدھر چلے.مَیں نے کہا قادیان.کہا آپ مرزا صاحب کے مُرید ہیں.مَیں نے کہا.ہاں.کہاں آپ رہنے والےکہاں کے ہیں.مَیں نے بتایا کہ قادیان کا رہنے والا ہوں.پوُچھا کہ کیا آپ مرزا صاحب سے رشتہ بھی ہے.مَیں نے کہا کہ ہاں پُوچھا کیا؟ بتایا کہ اُن کا بیٹا ہوں.پیر صاحب نے کہا اچھا آپ ان کے بیٹے ہیں.مجھے تو آپ سے ملنے کا بہت ہی اشتیاق تھا.یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اُٹھ کر میرے سامنے آبیٹھے اور میوہ کا رومال میرے سامنے رکھ دیا کہ آپ بھی گائیں.اگرہ چہ غیرت بھی تقاضا نہیں کرتی تھی.لیکن مجھے زکام تھا.اس لئے مَیں نے کہا مجھے زکام ہے.مَیں یہ نہیں کھائوں گا کیونکہ اس میں ترش میوہ تھا.پیر صاحب نے کہا کہ یہ سب دکھوسلے ہیں جو کرتا ہے خدا کرتا ہے.آپ کھائیں تو سہی.میں نے کہا کہ اوہو پیر صاحب آپ سے بڑی غلطی ہوئی کہنے لگے.کیا؟ مَیں نے کہا یہ بات آپ کو لاہور کے اسٹیشن پر بتانی چاہئے تھی.آپ بھی نہ ٹکٹ لیتے اور مَیں بھی نہ لیتا.مجھے خدا نے قادیان پہنچانا ہوتا تو پہنچا دیتا اور آپ کو امرتسر.کم ازکم پیسے تو بچتے.کہنے لگے آخر یہ تو اسباب کی رعایت ہے.مَیں نے کہا اسی طرح یہ بھی رعایت اسباب ہے.تب پیر صاحب بولے کہ ہاں یہی میرا مطلب تھا.مگر کھانے کے لئے پھر اصرار کرتے رہے آخر انہوں نے کہا کہ ان خشک انجیروں کا تو کچھ حرج نہیں آخر مَیں نے بھی اس خیال سے کہ پیر صاحب کہ مجھ سے باتیں کرنے کی علامت میرے پاس رہے انہوں نے جو دو انجیر دئیے تھے وہ مَیں نے جیب میں ڈال لئے.جو ایک احمدی نے مجھ سے لے لئے کہ پیر صاحب کو یہ بات یاد دلائیں.لیکن مَیں حیران تھا کہ آخر پیر صاحب میں یہ انتا تغیّر کیسے آگیا اور نکاح کے ٹوٹنے کے فتوے جو انہوں نے دئیے ہوئے ہیں وہ ان کو فراموش کیوں ہوگئے.اتنے میں پیر ساحب کہنے لگے کہ ایک دین کے معاملہ میں آپ کی مدد ضرورت ہے.مَیں نے کہا فرمائیے.کہا کہ ایک احمدی اور ایک شخص کا مقدمہ ہے آپ احمدی کو لکھیں کہ وہ آپس میں صلح کرلیں.کیونکہ عدالت میں فریقین کو جھوٹ بولنا پڑیگا.مَیں نے کہا کہ احمدی اگر واقعی احمدی ہے تو وہ جھوٹ بولے گا نہیں.باقی رہا میرا اس کو خط لکھنا.سو جب تک مجھے خود معلوم نہ ہو کہ واقعات کیا ہیں مَیں خط کیسے لکھ سکتا ہوں.انہوں نے بڑا زور دیا کہ آپ لکھ دیں.مَیں نے کہا کہ جب تک میں جاکر حالات معلوم نہ کروں اس وقت تک میں خط لکھنے کا

Page 62

وعدہ نہیں کرسکتا، لیکن جب مَیں یہاں آیا اور معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ دوسرا فریق مقدمہ پیر صاحب ہی تھے.غرض ان لوگوں کا یہ بے اُصولا پن ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں انکے اعمال میں کوئی ترتیب نہیں.ایسی صورت میں ہم کب ان سے اشتراک کرسکتے ہیں.یہ بے اُصولا پن تو انہی کو مبارک رہے.ہمارے ساتھ غیرا حمدیوں کی بد سلوکیاں لوگ کہتے ہیں کہ انگریز ظلم کرتے ہیں ہم انگریزوں کی غلطی کو صیحح نہیں کرسکتے.اگر انگریز کوئی غلطی کرتے ہیں تو ہم ان کو بتاتے ہیں ہم ان کے مذہب پر اُصولی طور پر اعتراض کرتے ہیں اور ہم نے اس بارے میں اُصولاً سخت سے سخت ان کو لکھا.لیکن باوجود حکومت کے کبھی انہوں نے جوش نہیں دکھایا.مگر ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کےپاس کوئی حکومت نہیں.انہوں نے بارہا اور مختلف مقامات پر ہم پر سختی اور ظلم کیا ہے ایسی صورت میں ہم تو یہی کہیں گے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے.انہوں نے قصور میں ہمارے ساتھ کیا کیا.احمدیوں کے گھروں میں پانی دینے سے سقے بند کر دئیے.کنووں پر پہرے بٹھا دئیے اور بچوں کو پانی سے پیاسا تڑپا دیا اور وہ کربلا کا واقعہ جس پر مسلمان ہر سال روتے ہیں.ہمارے لئے قصور میں انہوں نے تازہ کردیا.اور کئی کئی دن تک ہمارے آدمیوں کو پانی نہ دیا.کیا یہ ظلم نہیں.پھر کٹک میں ایک احمدی کی لاش کو انہی غیر احمدی لوگوں نے قبر سے نکال کر کُتّوں کے آگے ڈال دیا اور احمدیوں کے دروازوں کے سامنے کھڑے ہوگئے کہ کوئی نکلے تو سہی کس طرح نکلتا ہے اور لاش کو دفن کرتا ہے.قریب تھا کہ کُتّے لاش کو پھاڑ دالیں کہ پولیس کو کسی بھلے مانس نے اطلاع دی اور پولیس نے آکر دفن کرائی.مقدمہ ہوا کسی شخص نے گواہی نہ دی اور صاف کہدیا کہ ہم موجود نہ تھے اسی طرح کی کارروائیاں مختلف مقامات پر ہوتی رہتی ہیں.پس اس صورت میں ہم ان سے کسی انسانیت کے سلوک کی کس طرح توقع کرسکتے ہیں.کوئی نبی اورکوئی بات نہیں جس پر اعتراض نہ کیا گیا ہو دوسرااختلاف ان کو ہم سے حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق ہے یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ہمارا مذہب برباد کردیا.نبیوں کی ہتک کی اور کہتے ہیں ان پر بہت سے اعتراض ہیں.پچھلے سال میرا لیکچر اسلامیہ کالج میں ۃوا کہ اسلام میں فتنوں کا آغاز کیسے ہوا.اسی مضمون پر علی التواتر دو سال میری وہاں تقریریں ہوئیں.پہلے حضرت عثمانؓ کے عہد کے واقعات پر اور دوسرے

Page 63

سال حضرت علیؓ کے واقعات پر جب پچھلے سال میں تقریر کے لئے کھڑے ہوا تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ اور باتیں تو بعد میں ہونگی میرے ساتھ پہلے اس مسئلہ کا تصفیہ کرلو کہ زمین چلتی ہے یا سُورج.یہ ایک طے شدہ اور صاف مسئلہ ہے لیکن دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے نزدیک ابھی تک یہ بھی حل شدہ نہیں.پس دُنیا میں کوئی مسئلہ اور کوئی شخص ایسا نہیں جس پر اعتراض نہ ہو.وہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب پر فلاں اعتراض پڑتا ہے فلاں اعتراض پڑتا ہے مگر میں ان کو کہتا ہوں کہ وہ دُنیا میں ایک تو ایسا شخص پیش کریں جس پر کوئی اعتراض نہ ہو پس محض اعتراضات پر کسی مسئلہ کی تحقیق کی بنیاد رکھنا جہالت ہے.کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض نہیں کئے گئے.کیا عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض نہیں کرتے.کیا یہود کو حضرت مسیحؑ پر اعتراض نہیں تھے.اور نہیں ہیں.کیا بنی اسرائیل کے اعتراضات دائودؑ اورسلیمان ؑ پر نہیں ہیںَ پھر کیا ہندوستان کے مقدسوں رامچندر جی اور کرشن جی پر اعتراضوں کی کمی ہے.کیا فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسٰی پر اعتراض نہ کئے تھے.کیا ایران کے بزرگ زرتشت پر اعتراض نہیں کئے گئے اور کیا کسی قوم میں کوئی شخص ایسا گذرا ہے جس پر کوئی اعتراض نہ ہوا ہو.پس محض اعتراضوں سے کام نہیں چل سکتا.اگر اعتراض سے کوئی مسئلہ حل ہوسکے تو ان کو ماننا پڑیگا کہ دنیا میں جس قدر راست بازوں کو مانا جاتا ہے غلطی ہے.کیونکہ اعتراض ان پر بھی ہیں اس لئے ان کو بھی چھوڑ دینا چاہئے.غرض دنیا میں کوئی مسئلہ نہیں جو ایسے یقینی دلائل سے ثابت ہو کر اس پر کوئی اعتراض پڑ ہی نہ سکتا ہو.زمیندار تک جانتے ہیں کہ سیدھی لکیر ہوتی ہے.لیکن یورپ میں ایک گروہ سائنٹسٹوں کا پیدا ہوا ہے.جس کا دعویٰ ہے کہ جس کو ہم سیدھی لکیر کہتے تھے وہ ہماری غلطی تھی پس دُنیا میں کوئی شخص اور کوئی چیز اعتراض سے خالی اور بچی ہوئی نہیں.اس لئے محض اعتراضوں پر زور دینا بے ہوگی ہے.مخالفین صداقت معلوم کرنے کےذرائع نہیں جانتے غیر احمدیوں کے جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کنویں کا مینڈک کہا گیا لیکن ان کو خود معلوم نہیں کہ وہ جہاں ہیں دُنیا وہاں سے بہت آگے نکلی ہوئی ہے وہ اپنا سرمایہ علم ان چند فرسودہ کتابوں کو سمجھتے ہیں جن کی سائنس کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں.ان کو معلوم ہی نہیں کہ انسان کا دماغ کہاں سے کہاں تک پہنچ چکا ہے.وہ نہیں جانتے کہ تمدن اب کہاں تک جاچکا ہے.وہ اپنے اسی پرانے رطب ویابس کےذخیرے پر خوش ہیں اور اسی کی بناء پر دُنیا کو کافر و فاسق و فاجر بنا کر خوش

Page 64

ہولیتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اسلام مٹ رہا ہے.لیکن اگر ان کا اسلام نہ مٹے جس کے ایسے تنگ دل محافظ ہوں تو کیاہو.پس وہ اس پر خوش ہیں کہ ہم نے کسی پر اعتراض کردیا.اور سننے والے خوش ہوگئے ان کو معلوم ہی نہیں کہ تحقیق و تنقید کے اب کیسے کیسے ذرائع معلوم ہوئے ہیں جن کے مقابلہ میں یہ لوگ دم نہیں مارسکتے.وہ جانتے ہی نہیں کہ واقعات کی رَو کدھر چلی رہی ہے اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ کسی چیز کی صداقت معلوم کرنےکے کیا ذرائع ہوا کرتے ہیں.ان کو معلوم ہی نہیں کہ اعتراض تو ہر چیز پر ہوتے ہیں.مگر موازنہ کیا جاتا ہے کہ اعتراض کثیر ہیں اور معقول ہیں یا نہیں اور اُصول کے مطابق خوبیاں زیادہ ہیں یا نہیں.جدھر کثرت ہوتی ہے اس کو تسلیم کیا جاتا ہے.یہ لوگ ہنسی کرتے ہیں مگر یہ ان کی جہالت کی بات ہے.گورنمنٹ نے زراعت کا محکمہ بنایا ہے اس کی طرف سے بارش کے متعلق اطلاع شائع ہوتی ہے.اس میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں اس لئے اور تو اور بعض کونسل کے ممبر تک اعتراض کردیتے ہیں کہ یہ محکمہ اُڑا دیا جائے.مگر ان کو معلوم نہیں کہ یورپ امریکہ میں یہ محکمہ بہت مفید کام کر رہا ہے اور ہندوستان میں بھی اس سے بہت فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.پس یہ لوگ محدود علم کے مالک ہیں اس لئے خوش ہوتے ہیں ہنسی اُڑاتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں.ہر نبی پر ہنسی اُڑائی گئی مگر قرآن کریم افسوس کے ساتھ اعلان کرتا ہے.يٰحَسْرَۃً عَلَي الْعِبَادِ مَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ(یٰسٓ:۳۱) اے افسوس بندوں پر خدا کی طرف سے ایک بھی نبی نہیں آیا.جس پر لوگوں نے ہنسی نہ آڑائی ہو.اب یہ لوگ خوش ہوتےہیں کہمرزا صاحب پر اعتراض ہوگیا.لیکن وہ بتائیں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض نہیں ہوئے.حضرت عیسٰیؑپر سخت سے سخت اعتراض نہیں ہوئے.حضرت موسیٰؑپر اور دیگر انبیاؑءپر اعتراض نہیں ہوئے.پس جب تک اُصولی طور پر کسی صداقت کا فیصلہ نہ کیا جائے اس کی صداقت کبھی ثابت نہیں ہوسکتی.مسلمانوں کی موجودہ حالت اصل سوال تو یہ ہے کہ اب کسی موعود کے آنے کی ضرورت ہے یا نہیں.دُنیا خراب ہوچکی ہے.مسلمانوں کی حالت سخت درجہ بگڑ چکی ہے یا نہیں.اگر دنیا کی حالت بھی خراب ہے اور اگر مسلمانوں کی حالت بھی بگڑ ی ہوئی ہے تو کیا اب بھی کسی مصلح کی ضرورت نہیں.کیا جیل خانوں میں مسلمانوں کی کثرت نہیں.کیا لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان شراب سے بد مست نہیں ہوتے.کیا بد اخلاقی میں تمام اقوام سے مسلمان بڑھتے نہیں جارہے.

Page 65

ایک لطیفہ ہے کہ ایک جگہ کوئی اندھی عورت بیٹھی تھی.سردی کا موسم تھا اس پر جو چادر تھی وہ کسی شخص نے اُتار لی.عورت نے کہا بچہ حاجی میری چادر دیدے.اُس نے چادر تو دیدی مگر پوچھا کہ مائی تو یہ بتا کہ تجھے یہ معلوم کیسے ہوا کہ میں حاجی ہوں.عورت نے کہا کہ مجھے نظر تو آتا نہیں کہ میں نے تجھے دیکھ کر کسی علامت سے پہچان لیا ہو ہاں مَیں یہ جانتی ہوں کہ ایسے سختی کے کام تو حاجی ہی کیا کرتے ہیں.میں نے خود حج کےایّام میں دیکھا کہ ۹۹ فیصدی حاجی اس قسم کے ہوتے ہیں جو حج کی اصل غرض سے محض نا واقف ہوتے ہیں.ایک ہندوستانی کو میں نے دیکھا کہ عرفات کو جاتے ہوئے جبکہ لوگ نعرے لگا رہے تھے.اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اس وقت وہ اُرود کے عاشقانہ شعر پڑھ رہا تھا.مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کی یہ حالت کسی مصلح کے آنے کی متقاضی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا رحیم کریم انسان جو کسی کے کانٹا چُھبنا بھی گوارا نہیں کرتا فرماتا ہے جو لوگ عشاء اور صبح کی نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہوتے.میرا دل چاہتا ہے کہ میں کسی کے سر پر لکڑی اُٹھوا کر لے جائوں اور ان کے گھروں کو آگ لگا کر ان کو جلا دوں.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۵۳۱) دیکھو اس وقت کے منافقوں کی یہ حالت تھی کہ وہ نماز تو پڑھتے تھے.مگر ان میں اتنی سُستی تھی کہ وہ عشاء اور صبح کی نماز کے وقت مسجد میں حاضر نہیں ہوسکتے تھے.مگر اس زمانہ کے مؤمن کہلانے والوں میں کتنے ہیں جو پانچوں نمازوں میں سے ایک بھی مسجد میں نہ سہی گھر پر پڑھتے ہوں پھر کیا یہ لوگ اسلام پر فخر کرسکتے ہیں یا یہ لوگ اسلام کو اپنے افعال سے ذلیل کرتے ہیں اور مؤمن کہلا کر اسلام کےلئے عار ہیں.کونسی بدی اور بدکاری ہے اور کونسی بد اخلاقی ہے جس میں یہ مبتلاء نہیں.رشوتیں یہ لیتے ہیں.جھوٹ یہ بولتے ہیں.سرحدی مسلمان سرحدی ہندوئوں کو لوٹتے ہیں.ایک دوست نے لطیفہ سنایا کہ ایک غیر احمدی شخص ان کو ایک غیر احمدی مولوی کے پاس لے گیا اور کہا مولوی صاحب مجھے ایک ملازمت ملتی ہے جس میں بیس روپیہ تنکواہ ہےمگر میرا خاندان بہت زیادہ ہے اس میں میراگذارہ نہیں ہوسکتا.ہاں تنخواہ کے علاوہ اُوپر کی آمدنی ۸۰ روپیہ ہے کیا مَیں یہ ملازمت اختیار کرلوں کوئی گناہ تو نہیں اور ساتھ ہی ایک روپیہ نذر کا پیش کیا.مولوی صاحب نے روپیہ لیکر جواب دیا کہ کیا حرج ہے کرلو معقول آمد ہے.نکاح پر نکاح پڑھنے کا پنجاب میں عام طور پر رواج ہے.ایک مولوی سے ہمارے حضرت خلیفۃ المسیح نے پوچھا کہ تم نے یہ نکاح کیوں پڑھا؟ اِس نے کہا کہ مولوی صاحب سُن تو لیجئے مَیں نے کس طرح نکاح پڑھا ہے مجھ پر بڑا ظلم ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول

Page 66

فرماتے تھے کہ مجھے رحم آگیا کہ کسی مجبوری سے ہی اس نے کیا ہوگا.پُوچھا کیا ہوا تھا اُس نے جواب دیا.ان لوگوں نے چڑی کے برابر روپیہ میرے سامنے رکھ دیا.پھر مَیں نکاح نہ پڑھتا تو کیا کرتا.کیا یہی علماء ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نبی کے ورثاء ہیں.مصر کے ایک جوئے باز شیخ الاسلام یہ تو ہمارے ملک کی حالت ہے مصر میں مَیں نے دیکھا کہ پور سعید کے شیخ الاسلام (مفتی) کی ڈاڑھی مُنڈی ہوئی تھی اور علی الاعلان برسر بازار جُؤاکھیل رہا تھا.عمان کا ایک عالم جو مجھے مل چکا تھا اور مجھ سے واقف ہوگیا تھا کہ مَٰن ایک مذہبی ادمی ہوں وہ بھی اس کے ساتھ جوأ کھیل رہا تھا.مجھے دیکھ کر اُس نے بہت ٹلانا چاہا مگر وہ مفتی صاحب جب نہ تلے تو آخر اس نے صاف کہا کہ مَیں اب نہیں کھیلونگا.اگر کوئی مخفی غلطی اور کمزوری اور گناہ ہو تو اسے بشری کمزوری پر محمول کریں.مگر علی الاعلان اس طرح شریعت کی ہتک کرنی کیا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت ہی نہیں رہی.کیا دیکھتے نہیں کہ کس طرح علی الاعلان سو د لیا جاتا ہے اور علماء دیکھت ہیں اور کچھ نہیں کہتے.کیا کسی مصلح کی ضرروت نہیں پس ایسے خطرناک زمانہ میں جبکہ علماء اور عوام غرباء اور امراء سب بگڑے ہوئے ہیں.کیا کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہمارے لئے اس وقت دو ہی سوال ہیںاوّل یہ کہ کیا اسلام کی موجودہ حالت کسی مصلح کی محتاج ہے یا نہیں.دوسرے اگر محتاج ہے تو وہ مصلح کہاں ہے.محض اعتراض کرکے بیٹھ رہنے سے آج کام نہیں چل سکتا.خدا کی نصرت مسلمان کہلانیوالوں کے ساتھ نہیں ہم اس زمانہ میں دیکھتے ہیں کہ مسلمان کہلانے والے خدا کے پیارے نہیں رہے کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ (الرعد : ۱۲ ) کہ خدا تعالیٰ کسی قوم سے اپنی نعمتوں کو واپس نہیں لیا کرتا جب تک کہ وہ قوم ناشکرری کرکے اس نعمت کو ردّ نہ کرے.اب اس وقت کے مسلمانوں کی حالت کو دیکھو کہ کیا وہ خدا کی نعمتیں پا رہے ہیں یا زحمتوں میں مبتلاء ہیں.کیا مسلمانوں کو نصرت الٰہی مل رہی ہے یا اُن پر خدا کا غضب ٹوٹ رہا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک وہ وقت تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی مردم شماری کا حکم فرمایا تھا اور کُل ساتھ سو مسلمان نکلے تھے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے دریافت کیا تھا کہ یا رسول اللہ

Page 67

کیا آپ کو خیال ہے کہ اب بھی جبکہ ہم سات سو تک پہنچ گئے ہیں دشمن کے حملوں سے ہلاک ہوجائیں گے لیکن آج دیکھ لو کہ ساتھ کروڑ آدمی صرف ہندوستان میں ہے، لیکن ان کے دل اسقدر ہل رہے ہیں جس طرح تیز ہوا سے پتے ہلتے ہیں.مگر مسلمان جب ساتھ سو تھے وہ اُٹھے اور بجلی کی طرح کُوندے اور تمام دنیا پر غالب ہوگئے.جو فوجیں لیکر ان کے مقابلہ میں اُٹھاوہ پاش پاش ہوگیا.فرانس کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اور کچھ کہو.مگر اس کی ایک بات ضرور حیرت میں ڈالنے والی ہے.ایک کچّی مسجد میں چند ننگے بھوکے اس کے ارد گرد بیٹھے ہیں مسجد ایسی ہے کہ اس پر چھت بھی اچھی نہیں.بارش ہوتی ہے تو پانی ٹپکتا ہے اور فرش پر پانی جمع ہوجاتا ہے.لیکن وہ مشورے یہ کر رہے کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو فتح کرینگے اور اسی کے مطابق وہ کرکے بھی دکھا دیتے ہیں.یہ کیا بات ہے؟ تو اگر آج مسلمان خدا کے پیارے ہیں خدا کے محبوب ہیں تو کیوں ذلیل ہیں.کیا خدا کے پیارے ذلیل ہوا کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان میں ان باتوں کا فقدان ہے جو خدا کا پیار بناتی ہیں.اس لئے یہ ذلیل درسوا ہورہے ہیں اور ان کا کوئی معاملہ ٹھیک نہیں.ان کے اعمال میں خلوص و درستی نہیں اور خدا تعالیٰ کا جواب سے معاملہ ہے وہ بتا رہا ہے کہ یہ اب بگڑ چکے ہیں اور وقت ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی مردِ خدا مبعوث ہو.اب سوال ہوتا ہے کہ ان کی حالت تو واقعی قابل اصلاح ہے وہ آدمی کہاں ہے.اگر خدا نے ان کے لئے کوئی چارہ کار تجویز کیا ہے تو کیا؟ اگر باوجود اسلام کی اس گری ہوئی حالت کے خدا نے ان کے لئے کوئی سامان نہیں کیا تو معلوم ہوا یہ دعویٰ درست نہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور اگر اسلام سچّا ہے تو ضروری ہے کہ اس وقت اسلام کے پیروئوں کی حالت کو سدھارنے کے لئے اوران کو اسلام کی حقیقت پر قائم کرنے کے لئے کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث فرمایا جائے.اعتراضات کے جواب اب میں ان مولویوں کے ان چند اعتراضات کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو مجھ تک پہنچے ہیں اور مَیں مختصراًان کے جواب اس وقت دیتا ہوں.نبی کی لاش کا صحیح و سلامت رہنا پہلا اعتراض جو قادیان میں تو نہیں بیان کیا گیا.مگر راستہ بھر میں اس کا تذکرہ ہوتا آتا تھا یہ ہے کہ اگر مرزا صاحب سچّے ہیں تو ان کی قبر (نعوذ باللہ من ذٰلک) کھود کر دکھائی جائے.کیونکہ نبی کی علامت یہ ہے کہ اس کی لاش

Page 68

کو مٹی نہیں کھاتی.مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا قرآن کریم میں یہ بات بیان کی گئی ہے.اگر نہیں تو پھر قرآن کریم کے سوا ہر ایک خبر محتاج تصدیق کی ہے.بڑی سے بری حدیث اپنی صڈْٓت کے ثبوت کی محتاج ہے.پس چونکہ قبر کا کھودنا ایک نشائستہ فعل ہے.اور اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کی ضرورت یقینی دلائل سے ثابت نہ ہو.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پہلے اس بیان کی صداقت ثابت کر کے دکھائو.حدیث صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی.کیونکہ حدیثیں لوگوں نے اپن پاس سے بھی بنالی ہیں پس پہلے خدا کے فعل سے اس حدیث کی صداقت ثابت کرو.پھر ہم سے یہ مطالبہ کرو پہلے کم سے کم تین نبیوں کی قبریں کھود کر ہمیں دکھائو.کہ ان کی لاشیں ب تک صحیح سلامت ہیں.پھر اس کے بعد ہم بھی اس معیار پر مرزا صاحب کی صداقت ثابت کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے، لیکن جب تک یہ لوگ اس حدیث کی صداقت کو عملی طور پر ثابت کرکے نہیں دکھا سکتے ،ہم سے اس قسم کا مطالبہ کرنا بے حیائی نہیں تو اور کیا ہے.حضرت مسیح موعودؑ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ نعوذ باللہ مرزا صاحب جھوٹ بولتے تھے.لیکن ان بے خبر معترضوں کو معلوم نہیں کہ وہ حضرت مرزا صاحب کو جُھوٹا کہہ کر ان کی صداقت ثابت کر رہے ہیں.کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر نبی کو جُھوٹا کہا گیا.کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نہیں کہا گیا.کیا ان کے متعلق یہ نہیں کہا گیا کہ ان کہ فلاں پیشگوئی جھوٹی نکلی اور فلاں پیشگوئی کذب ثابت ہوئی.پس جھوٹ سے کونسا نبی بری ہے.کیا ابراہیم علیہ السالم پر ان کی کتابوں میں جھوٹ کا الزام نہیں.کیا ان کے نزدیک ابراہی نے تن جھوت نہیں بولے.ھدیثوں اور انکی تفسیروں میں ان کے تین جھوٹ لکھے ہیں کہتے ہیں بیوی کو بہن کہا جھوٹ بولا.موٹے تازے تھے کہ بیمار ہوں جھوٹ بولا.بتوں ک خود توڑا اور جھوٹ بولکر دوسرے بُت پر الزام لگایا.صحیح احادیث میں اسبارے میں جو کچھ ہے ہم اس کی تاویل کرتے ہیں اور باقی تفسیروں کے بیان کوردّ کرتے ہیں.لیکن یہ لوگ کیا جواب دے سکتے ہیں.کیونکہ ان کتب میں جن کو یہ وحی من السماء کی طرح مانتے ہیں حضرت ابراہیم کے جھوٹ لکھے گئے ہیں.پس جب ایک شخص ان کے نزدیک تین جھوٹ بول کر نبی ہوسکتا ہے اور بہت بڑا نبی ہوسکا ہے تو حضرت مرزا صاحب نے بھی اگر بفرض محال جھوٹ بولا تو اس سے وہ جھوٹے کیسے ثابت ہوسکتے ہیں.بلکہ وہ تو ابراہیمؑکے مثیل ثابت ہونگے جیسا کہ ان کا دعویٰ بھی ہے.پس حضرت مرزا صاحب پر جھوٹ کا الزام لگانے والے ابراہیمؑاوردیگر نبیوں کی نبوت کو پہلے رد کریں.ان پر جو الزام ان کی تفسیروں میں موجود ہیں.انکو دُور کرنے کیلئے اپنی تفسیریں پھاڑ دیں پھر حضرت مرزا صاحب پر یہ اعتراض کریں.جب تک یہ تفسیر یں اور

Page 69

ان کے یہ اعتقاد موجود ہیں انکو ہر گز یہ حق نہیں کہ حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کریں.ورنہ وہ جھوٹ کے الزام کے باوجود ان کے اپنے اعتقاد و مسلّمات کی رُو سے نبی ہیں اوران پر یہ کوئی اعتراض نہیں کرسکتے.غلطی اور جھوٹ میں فرق دراصل یہ چھچھوری بات ہے.غلطی اور جھوٹ میں بہت فرق ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو اصل بات یاد ہوتی ہے لیکن لکھتے یا بولتے وقت حوالہ دینے میں غلطی ہوجاتی ہے.فرض کرلو کہ اگر کوئی قرآن کریم کی ایک آیت ہے تو کیا اس کو کوئی عقلمند جھوٹ کہے گا.جھوٹ تو تب ہوتا کہ اس آیت کا قرآن کریم میں وجود ہی نہ ہوتا.اسی طرح حدیث کے حوالے میں اگر حضرت مسیح موعود ؑ نے مسلم کی بجائے بخاری یا کسی اور کتاب کا نام لکھ دیا.تو اس میں کوئی جھوٹ نہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی غلطی عموماً ہو جاتی اوربہت دفعہ ایک حدیث کے بہت سے اجزاء ہوتے ہیں جو متفرق مقامات اور متفرق کتب میں ملتے ہیں یا ان کی شرحوں میں کوئی بات آگئی ہوتی ہے.لکھنے میں اصل کتاب کا ایک کتاب کا نام لے دیا جاتا ہے بخاری کے متعدد ابواب اس قسم کے ہیں کہ ان کے نیچے جو حدیثیں درج ہیں انکا عنوان سے کچھ تعلق نہیں.شارحین اس کی تاویلیں کرتے ہیں.مگر اصل بات یہ ہے کہ امام بخاری باب کی عبارت اس حدیث کے ایسے ٹکڑوں کی بناء پر لکھ دیتے ہیں جو اس جگہ انہوں نے درج نہیں کئے ہوتے.اسی طرح اگر حضرت مرزا صاحب سے کسی صحیح حدیث کو لکھ کر اصل کتاب کی بجائے کسی دوسری کتاب کا نام لکھا گیا تو ان پر جھوٹ کا الزام بد دیانتی اور بیہودگی ہے.چلو ہم اس کو سنّت بخاری کہدینگے پھر وہ کیا اعتراض کریں گے.حضرت مسیح موعود ؑ پر نبیوں کی ہتک کا جھوٹا الزام پھر کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے نبیوں کی ہتک کی اور حضرت عیسیٰ کو گالیاں دیں.لیکن اس سے زیادہ ان کی کیا کم فہمی ہوسکتی ہے کہ حضرت اقدسؑ پر حضرت عیسٰی علیہ السلام کو گالیاں دینے کا الزام لگایا جائے.کیا دُنیا مین کوئی شخص جس کا مثیل ہونے کا دعویٰ کرے اور اپنے متعلق یہ کہ کہ میں اس جیسا ہوں اس کو گالیاں دے سکتا اور اس کو نفرت کی نگاہ سےے دیکھ سکتا ہے.کیا ان بے خبروں اور معترضوں کو علم نہیں کہ جب عیسائیوں کی زبان اور قلم سے ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں گند و خرافات بکا جانے لگا.اور انہوں نے گندی سے گندی اور ناپاک سے ناپاک گالیاں دینا شیوا بنا لیا اس وقت حضرت مسیح موعود نے ان کو یہ محسوس کرانے

Page 70

کے لئے یہ طریق غلط ہے،انجیل کے پیش کردہ یسوع کو اور اس کی انجیلی حیثیت کو سامنے رکھ کر سختی سے جواب دیا.اس طریق نے عیسائیوں کے قلموں کو توڑ دیا اوران کی زبان کو بند کردیا.کیا حضرت مرزا صاحب نے یہ طریق اختیار کرکےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خدمت نہیں کی اور آپ کو دشمنوں کی بد زبانیوں سے نہیں بچایا.پھر حیرت ہے کہ ان کو کیوں غصہ آتا ہے کہ عیسیٰ کو گالیاں دی جاتی ہیں.جائیں یہ عیسائی ہو جائیں.ہم محمدی ہیں ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے غیر ت ہے.اگر آپ پر اب بھی کوئی اس طریق سے حملہ کریگا تو ہم پھر وہی طریق اختیار کرینگے.ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی انسان سے محبّت نہیں ہوسکتی.حضرت مرزا صاحب نے جو طریق اختیار کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں نے اپنا طریق عمل بدل دیا اور گورنمنٹ کو بھی ایک قانون بننا پڑا.پس یہ کیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے لوگ ہیں کہ جس طریق سے آپ کی عزت کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اسی کو بُرا کہتے ہیں اور اس کو گالیاں قرار دیتے ہیں.حضرت صاحب پر دعویٰ الوہیت کا الزام پھر اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے الوہیّت کا دعویٰ کیا اور ثبوت یہ کہ انہوں نے کہا کہ میں نے آسمان بنایا اور زمین بنائی.لیکن ان مولویت کے مدعیوں کو معلوم نہیں کہ یہ خواب اور کشف کی بات ہے اور خواب اور کشف معنے رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعودؑ نے اپنا ایک کشف بیان کیا ہے اور اس کشف میں انسان کا اپنا کچھ دخل نہیں ہوتا.لیکن اگر کشف اور خواب پر اعتراض ہوسکتا ہے تو احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کشف دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں دو کڑے ہیں.٭کیا کوئی ان مولویوں جیسا بے خبر اعتراض کرسکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ من ذالک عورتوں کی طرح زیور پہنا کرتے تھے.پھر یہ مولوی صاحب جنہوں نے یہ اعتراض پیش کیا ہے غالباً انہی کے پیر مولوی محمد علی مونگھیری نے اپنی ایک خواب بیان کی ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنی ماں سے جماع کر رہے ہیں.کیا یہ ایک گندا خواب نہیں.پھر شیشہ کے مکان میں رہنے والے ہم پر کیوں پتھر پھینکتے ہیں.آسمان و زمین کا بنانا خواب میں دیکھناتو بُرا نہیں.مگر ماں سے جماع کرنا کہاں کی خوبی ہے.پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے پیرمولوی فضل الرحمان صاحب سے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ اسکے معنے یہ ہیں کہ آپ کو بڑا درجہ ملے گا.اس پر ہمارے ایک دوست نے لکھا تھا کہ ان پیر صاحب کے مُرید اس بڑے درجہ کے حصول کے لئے آنکھیں بند کرکے ماں کے ساتھ جماع کرنے کا تصوّر کرکے بیٹھ جاتے ہونگے اور اس طرح روحانی منازل طے کرتے ہونگے.یہ ان مولویوں کی تہذیب ہے اور یہ ان کی واقفیت ہے اور *بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام

Page 71

اور اسی پر یہ خوش ہیں.یہ دوسرے کو شرک کا الزام دیتے ہیں اور خود خدا بننا چاہتے ہیں.کیونکہ عالمِ رئویا پر حکومت کرنی چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.علم تعبیر والوں نے لکھا ہے کہ جو خواب میں دیکھے کہ پاخانہ جمع کرتا ہے وہ مال جمع کریگا.کیا یہ علم کے وارث مولوی جس کی اس قسم کی خواب سُنیں گے اس پر یہ الزام لگائیں گے کہ وہ نہایت گندہ اور غلیظ ہے.مَیں نہیں سمجھتا کہ اس خواب کے مطابق آئے ہوئے مال سے ایسا شخص ان مولویوں کی دعوت کرے تو یہ اس کا کھانا کھانے سے انکار کریں.محمدّی بیگم والی پیشگوئی ایک اعتراض محمدی بیگم کے متعلق ہے لیکن یہ خدا کی حکمت ہے کہ اس نے آج اس مکان کو جس میں تقریر ہوری ہے اس پیشگوئی کے حل کرنے کے لئے چنا ہے.کیونکہ اس مکان کا اس پیشگوئی سے خاص تعلق ہے اور کیا یہ ایک عظیم الشان نشان نہیں کہ اس مکان میں جس کے ساکنوں کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی اس پیشگوئی پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا جواب دیا جارہا ہے.اس پیشگوئی میں انذار تھا اور وحی کے صاف الفاظ یہ ہیں.تُوْبِیْ تُوْبِی فَاِنَّ الْبَلَآءَ عَلیٰ عَقِبِکِ.٭اے عورت تو بہ کر توبہ کر کہ عذاب تیرے پیچھے ہے.احمد بیگ حضرت مسیح موعودؑ کا دُور کا رشتہ دار ھتا اور حضرت اقدسؑ کے تمام خاندان میں مشرکانہ خیالات پھیلے ہوئے تھے.ہمارے خاندان میں پہلے پنڈت پروہت بھی اسی طرح ہوتے تھے جس طرح مولوی اور ہمارے خاندان کی ریاست ان پروہتوں کی بیوفائی ہی سے گئی تھی.حضڑت صاحب کے دادا جب بچّے تھے اس وقت کوئی سکھ ملنے کو آیا اور اس نے کہا.واہگوروجی کا خالصہ.واہگورو جی کی فتح.اسی طرح انہوں نے بھی یہی لفظ.دہرادئیےان کے والد اندر چلے گئے اور کہا.اب یہ ریاست سلامت نہیں رہے گی.چنانچہ ان کی حکومت کے دوران میں اسلام کی جگہ مشرکانہ خیالات اور ہندو وانہ رسومات آگئی تھیں اور اس وقت سے برابر یہ مرض خاندان کے اکثر لوگوں میں چلا آرہاتھا.ان حالات کو دیکھ کر حضرت اقدس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مرزا احمد بیگ کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے آپ کوشش کریں.تاشاید اس قسم کے رشتہ کے سبب سے ان لوگوں کی اصلاح میں زیادہ مدد ملے.اوران لوگوں کی اصلاح کی کوئی صورت ہوجائے.جب تحریک کی گئی توان لوگوں نے کہا کہ یہ رشتہ کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تو آپ کی رشتہ میں بہن لگتی ہے.آپ نے فرمایا کہ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک شادی آپ کو پھوپھی زاد بہن سے ہوئی تھی یہ جائز ہے.ایک عورت نے کہا کہ *تذکرہ ص۱۶۱حاشیہ اڈیشن چہارم

Page 72

انہوں نے بھی اپنی بہن ہی سے نکاح کیا(نعوذ باللہ من ذالک) چونکہ ان لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی تھی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت رنج ہوا اور آپ نے اس امر میں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ فرمائی.اورالہام ہوا کہ اس گستاخی کی سزا میں اب ان کے لئے یہ بات مقرر کی جاتی ہے ک یہ اس لڑکی کا رشتہ آپ سے کریں اوراگر نہ کرینگے تو پھر اس اس طرح کا عذاب نازل ہوگا اور اسی وقت یہ الہام بھی ہوا.تُوْبِیْ تُوْبِی فَاِنَّ الْبَلَآءَ عَلٰی عَقِبِکِ.اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیرے پیچھے آرہی ہے.یہ پیشگوئی رسول کریمؐ کی عظمت کےاظہار کے لئے کی گئی.مگر مولوی خوش نہیں کہ آپ کی عظمت ظاہر ہو.یہ تب کوش ہوتے ہیں اوران کے سینوں میں تب ٹھنڈک پڑتی ہے جب رسول کریمؐہی کی ہتک ہو.غرض جب یہ معاملہ ہوا اس وقت حضرت نے پیشگوئی شائع فرمائی کہ اگر یہ نکاح مجھ سے نہ ہوا تو اس لڑکی کا والد تین سال میں اور جس سے نکاح ہوگا ڈھائی سال میں فوت ہونگے.چنانچہ نکاح کے چند ماہ بعد احمد بیگ مرگیا اور اس کے مرنے سے تمام خاندان میں کُہرام پڑگیا اور مرزا سلطان محمد پر بھی خوف طاری ہوگیا اور اس نے آپ کی ہتک میں کوئی حصہ نہیں لیا.اب جب اس پر خوف طاری ہوا اوراس نے اس طریق ہتک سے بالکل علیحدگی رکھی جس میں دوسرے لوگ خاندان کے حصہ لے رہے تھے بلکہ یہ لکھا کہ مَیں مرزا صاحب کو نیک اورخادمِ اسلام سمجھتا ہوں تو پھر خدا اس کو کیوں سزا دیتا پیشگوئی کی غرض ان میں خدا کا خوف پیدا کرنا اوران خیالات ہندوانہ سے توبہ کرانا تھی جن میں وہ مبتلا تھے اور یہ بات پیشگوئی کے بعد حاصل ہوگئی.لڑکی کا باپ جس نے مخالفت سے تبہ نہ کی ہلاک ہوگیا لڑکی کاخاوند خائف ہوا اور حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق اظہار حسن ظنی کرتا رہاپھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جن لوگوں نے یہ کہا تھا کہ اس قسم کے رشتوں کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا انہوں نے اپنے خیالات کو ایسا چھوڑا کہ اپنی ایک لڑکی حضرت مسیح موعودؑ کے ایک بیٹے کو(جو ان سے وہی رشتہ رکھتی تھیں جو محمدی بیگم حضرت مسیح موعودؑ سے)بیاہ دی.جب حالات ایسے بدل گئے اور جب وہ لوگ جو مخالفت کر رہے تھے ڈر گئےتوپھر کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کو عذاب ملتا اوراس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا.اگر باوجود اصلاح کرنے کے سزا ملے تو یہ اندھی نگری چوپٹ راجہ والا معاملہ ہوگا.جن لوگوں نے ان میں سے سرکشی کی وہ سب ہلاکت اور عذاب میں گرفتار ہوئے.اس پیشگوئی کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مَیں اس گھر کو (جس میں آج تقریر ہورہی ہے ) بیوائوں سے بھر دونگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اگروہ لوگ زندہ ہوتے تو ہمیں یہاں لیکچر کا موقع کیسے ملتا.

Page 73

پھر پیشگوئی تھی کہ ہم اس گھر میں کچھ حُسینی سنت سے داخل ہونگے.کچھ حَسنی سے اور حُسینی سنت تو لڑائی تھی.چنانچہ خدا کی تلوار نے اس خاندان کے سرکشوں کو ختم کیااور حسنی سنت صلح تھی کہ ایک بچّہ جو بچا وہ احمدی ہوگیا.پس خدا رحمٰن و رحیم ہے.وہ تو بہ دانا بت کرنے والے پر رحم فرماتا ہے.مرزا سلطان محمد صاحب نے رجوع کیا اور اور ان سے عذاب ٹل گیا.اگر چہ لوگوں نے ان کو بہت جوش دلایا.مگر انہوںنے حضرت مرزا صاحب کی ہتک نہیں کی اور یہ بھی کیا کم ہے کہ ہمیشہ ان کا ذکر آتا ہے مگر وہ خاموش رہتے ہیں.لیکن میں اعلان کرتا ہوں کہ لوگ مرز اسلطان محمد صاحب کو شوخی پر آمادہ کریں.حضرت صاحب کا علان موجود ہے کہ اگر و شوخی کریگا تو پھر وہ چ نہیں سکتا.وہ اس کا تجربہ کرکے دیکھ لیں.اگر اسی طرح نہ ہو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے تو پھر بیشک جو چاہئیں ہم پر الزام دیں.حضرت صاحب کی عمر کے متعلق اعتراض پھر ایک اعتراض حضرت صاحب کی عمر کے متعلق بھی کیا گیا ہے اس کا جواب ایک اشتہار کی صورت میں شائع ہوچکا ہے.عجیب بات ہے کہ مولوی ثناء اللہ آپکی زندگی میں تو لکھتے رہے کہ آپ کی عمر اسّی سال کے قریب ہے اور آپ کی اس پیشگوئی کے متعلق کہ آپ کی عمر اسّی سال کی یا چند سال کم یا چند سال زیادہ ہوگی لکھتے رہے کہ آپ ان تمام منزلوں کو طے کر چکےہیں.مگر جب آپ ۱۹۰۸؁ء میں فوت ہوئے تو ااپ کی عمر مولوی ثناء اللہ کے نزدیک ستّر سال سے بھی کم ہوگئی.کیا یہ مولوی ثناء اللہ کی چالاکی نہیں.جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی عمر چوہتر سال کے قریب تھی.اورجبکہ دوسرے لوگ جو آپ کے واقف تھے انکی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی عمر اسی مدت کے قریب تھی اور جبکہ آپ کے ایسے دشمنوں کی شہادت سے جو بچپن سے آپ سے واقف تھے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی عمر اسی۸۰ کے قریب تھی اور جبکہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب کی اپنی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے علم میں بھی حضرت مسیح موعود کی عمر اسی مدت کے قریب تھی بعض ایسے حوالوں کی بناء پر جو اس قدر شہادتوں کے خلاف نظر آتے ہوں اس پیشگوئی پر اعتراض کرنا شرارت نہیں تو اور کیا ہے.پُرانے زمانہ میں پیدائش کے رجسٹر نہ تھے.نہ اس طرح حساب رکھے جاتے تھے.پس بعض اوقات اگر حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کے متعلق سرسری طور پر کوئی ایسی میعاد بھی بتادی گئی ہے جس سے کچھ کم عمر ثابت ہو تو اسکو حجت نہیں پکڑا جاسکتا.

Page 74

طاعون کی پیشگوئی پھر اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی کہ قادیان میں طاعون نہیں پڑیگی.یہ سراسر جھوٹ ہے.حضرت صاحب نے کبھی اور کہیں یہ پیشگوئی نہیں کی کہ قادیان میں طاعون نہیں پڑیگی.وہ اس کا ثبوت دیں اور وہ الہام پیش کریں ہاں حضرت صاحب نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ میرے گھر میں طاعون نہیں آئیگی اور میرے گھر میں کوئی طاعون کا کیس نہیں ہوگا.در آنحالیکہ آپ کے گھر میں سوکے قریب مرد وزن رہتے تھے.مگر ایک دفعہ بھی آج تک اس گھر میں طاعون کا کیس نہیں ہوا حتّٰی کہ چوہا بھی نہیں مرا اورآپ کے مکان کے گرد اس طرح طاعون پھیلتی رہی ہے جس طرح جنگل میں آگ اور اس گھر میں جس میں مَیں اس وقت تقریر کر رہا ہوں طاعون پڑی اور اس سے موتیںہوئیں مگر آپ کا گھر جو اس س دیوار بدیوار ملحق ہے ہر طرح محفوظ رہا اور محفوظ ہے.مدعی کی پرکھ کیلئے تین باتیں درکار ہیں پس یہ اعتراض لغو ہیں اوران کی کوئی حقیقت نہیں.ہاں اُصولًا طے ہونا چاہئے کہ کسی مدعی کی صداقت کے معلوم کرنے کے لئے قرآن ِ کریم کیا معیار پیش کرتا ہے اور وہ کونسی باتیں ہیں جو سچّے مدعی میں پائی جانی چاہئیں.مَیں اس جگہ تین موتی موتی باتیں جو قرآن کریم نے اُصول کے طور پر ہر ایک مدعی کے صدق یا کذب کے معلوم کرنے کے متعلق پیش کی ہیں بیان کرتا ہوں :- (۱) ماضی کے متعلق (۲) حال کے متعلق (۳) مستقبل کے متعلق.جس میں یہ تین باتیں اچھی ہونگی وہ صادق اور راست باز ہوگا.مدعی کا ماضی اول ماضی کے متعلق قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس:۱۷)فرمایا کہ تم ایک مُدعی کے دعویٰ سے پہلے کی زندگی کی طرف دیکھو.فرمایا کہ محمد رسولِ اللہ نے تم میں چالیس سال تک زندگی بسر کی کیا اس چالیس سال کے لمبے زمانہ میں جس میں جوانی کی اُمنگوں کا زمانہ بھی شامل ہے کوئی اس کی زندگی پر اعتراض کیا جاسکتا ہے.پس جب جوانی ور جوشوں اور اُمنگوں کے زمانہ میں اس نے انسانوں پر جھوٹ نہیں بولا تو کیا بڑھاپے میں وہ خدا پر جھوٹ بولے گا بلکہ اب تک تم اس کو ’’اَلْاَمِیْنُ‘‘ کے لقب سے ہی یاد کرتے رہے.پس اب جبکہ کل تک تم اس کو صادق اور راست باز بتاتے تھے یہ کیا ہوگیا کہ یہ صبح کو بگڑگیا اور راتوں رات اس کی قلب ماہیت ہوگئی.ہر ایک بدی بتدریج پیدا ہوتی ہے یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص رات کے وقت صادق سوئے اور صبح کو بدترین جھوٹ کا مرتکب ہوکر پہلے تو انسانوں پر بھی

Page 75

جھوٹ نہ بولتا تھا اور اب خدا پر جھوٹ بولنے لگا.مسیح موعودؑ کا ماضی اس کے مطابق ہم حضرت مرزا صاحب کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ااپ نے یہاں کے ہندوئوں ،سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار باعلان فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کرسکتے ہو.مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی.بلکہ آپ کی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا.مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں سخت ترین مخالف ہوگیا.اس نے اپنے رسالہ میں آپ کی زندگی کی پاکیزگی اوربے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علیخان کے والد نے اپنے اخبار میں آپ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے.پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا اور اس کی زندگی پاکباز رہی وہ کسی طرح راتوں رات کچھ کا کچھ ہوگیا اور بگڑ گیا.علماءِ نفس نے مانا ہے کہ ہر عیب اور اخلاق نقص آہستہ آہستہ پیدا ہوا کرتا ہے.ایک دم کوئی تغیّر اخلاقی نہیں ہوتا ہے.پس دیکھو کہ آپ کا ماضی کیسا بے عیب اوربے نقص اور روشن ہے.مدعی کا حال دوسری بات کسی مدعی کا حال دیکھنا ہوتا ہے اس کیلئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْہَادُ (المؤمن:۵۲) فرمایا کہ ہم اپنے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کی نُصرت فرماتے ہیں اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی پس جو خدا کا رسول ہو اس کے ساتھ خدا کی نصرت ہوتی ہے.اگر نصرت نہیں تو وہ خدا کا مُرسل اور رسول نہیں.لوگ قریب ہوتا ہے کہ اس کو ہلاک کردیں مگر خدا کی نصرت آتی ہے اور اس کو کامیاب کرتی ہے اور اس کے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملادیتی ہے.حضرت مسیح موعودؑکا حال یہی معاملہ حضرت مسیح موعودؑ کے مقابلہ میں ہوا.آپ کو طرح طرح سے مارنے کی کوشش کی گئی.لوگ مارنے پر متعین ہوئے جن کا علم ہوگیا اور وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئے.مقدمے آپ پرجُھوٹے اقدامِ قتل کے بنائے گئے.چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جھوٹا مقدمہ اقدامِ قتل کا بنایا اورایک شخص نے کہہ بھی دیا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب نے متعین کیا تھا.مجسٹریٹ وہ جو اس دعویٰ کے ساتھ آیا تھا کہ اس مدعی مہدویت و مسیحیت کو اب تک کسی نے پکڑ اکیوں نہیں مَیں پکڑونگا.مگر جب مقدمہ ہوتا ہے وہی مجسٹریٹ کہتا *إشاعة السنة جلد نمبر ۶ ص ۱۶۹

Page 76

ہے کہ میرے نزدیک یہ جھوٹا مقدمہ ہے.بار بار اُس نے یہی کہا اور آخر اس شخص کو عیسائیوں سے علیحدہ کرکے پولیس افسر کے ماتحت رکھا گیا.اور وہ شخص رو پڑااور اس نے بتا دیا کہ مجھے عیسائیوں نے سکھایا تھا اور خدا نے اس جھوٹے الزام کا قلع قمع کردیا.اسی طرح ہماری جماعت کے پُر جوش مبلغ مولوی عمر الدین صاحب شملوی اپنا واقعہ سُنایا کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی معیار پر پرکھ کر احمدی ہوئے ہیں.وہ سُناتے ہیں کہ شملہ میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبدالرحمٰن سیاح اور چند آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب مرزا صاحب کے مقابلہ میں کیا طریق اختیار کرنا چاہیے.مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ میں اب مباحثہ نہیں کرونگا ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلہ پر کھڑے ہو جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ پہلے تو اشتہار دیا تھا کہ ہم مباحثہ کسی سے نہ کرینگے اور اب مباحثہ کے لئے تیار ہوگئے اور اگر مباحثہ پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچا دینگے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے.اس پر مولوی عمر الدین صاحب نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے مَیں جاتا ہوں اور جاکر ان کو قتل کردیتا ہوں.مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جاچکا ہے.مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہوگا.انہوں نے جب بیعت کرلی تو واپس جاتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالہ کے سٹیشن پر ملے اور کہا تُو کدھر ؟انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کرکے آیا ہوں.کہا تُو بہت شریر ہے تیرے بات کو لکھوں گا.انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ تو آپ ہی کےذریعہ ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے.پس مخالفت اس کو مارنا چاہتے ہیں وہ بچایا جاتا ہے.خدا اس کو اپنے تازہ علم سے نصرت کرتا اور ہر میدان میں اس کو عزت دیتا ہے.جھوٹے مدعی کو لمبی مدت نہیں ملتی حال کے متعلق ایک اور بات بھی ہے کہ خدا کبھی کسی جھوٹے مدعی کو تیئس سال کی عمر نہیں دیتا.جیسا کہ فرمایا وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ.(الحاقہ :۴۵ تا ۴۷)جھوٹے مدعی کو تباہ کردیا جاتا ہےاور ہلاک کردیا جاتا ہے اور کبھی اس کو لمبی مہلت نہیں ملتی.پس ہمارے مخالف کسی جھوٹے مدعی کو ۲۳ سال دعویٰ کے بعد زندہ رہتا ہوا دکھائیں.وہ نہیں دکھا سکتے.ان کو مدعی کی اپنی تحریر دکھانی ہوگی یہ نہیں کہ مخالفت کی بات دکھائیں کیونکہ مخالف کیا کچھ نہیں کرتے.مثلاً حضرت صاحب ہی کےمتعلق کہتے ہیں کہ آپ نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا نعوذ باللہ.پس

Page 77

ضروری ہے کہ مدعی کا اپنا بیان دکھائیں.مدعی کا استقبال تیسری بات مدعی کے استقبال کے متعلق ہے چنانچہ فرماتا ہے.کَتَبَ اللہُ لَاَ غْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ.(المجادلۃ:۲۲)یہ بات اللہ تعالیٰ نے لکھ لی ہے فرض کردی ہے کہ خدا اور اس کے رسول ہی غالب ہونگےاور خدا اور اس کے رسول ہی فاتح ہونگے یہ اب تک ہوا اور آئندہ ہوگا.حضرت مسیح موعود ؑکا استقبال ہم حضرت مرزا صاحب کے آئندہ زمانہ کے متعلق آپ کے حال سے قیاس کرتے ہیں.آپ کمزور تھے اور آپ اکیلے تھے مگر تمام دُنیا آپ کی دشمن تھی.عیسائیوں کو آپ سے بغض ،ہندوئوں کو آپ سے عناد اور سکھوں کو اگرچہ نہیں ہونا چاہئےتھا مگر ان کو بھی آپ سے غصہ تھا اس لئے کہ آپ نے ست بچن میں بابا نانک صاحب کی تعریف اور خوبی بیان کرتے ہوئے ان کے مسلمان ہونے کا ذکر کیا تھا اور مسلمان جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت عیسیٰ کے لئے عیسائیوں سے زیادہ جوش اور محبت ہے وہ آپکی جان کے دشمن ہوگئے تھے.پھر گورنمنٹ بوجہ مہدویت اور مسیحیت کے دعویٰ کے آپ سے بدظن تھی.خفیہ پولیس کے آدمی باقاعدہ یہاں سے ڈائری بھیجتے رہے اور غالباًاب بھی ہونگے.اورایک پولیس مین تو یہاں رہتا ہے.ہمارے مہمانوں کی فہرست اب تک گورنمنٹ کے ہاں جاتی ہے.لیکن ان تمام موانع اور دشمنیوں کے باوجود آپ کے سلسلہ کو ترقی ہوئی.آپ ایک تھے مگر آپ کے ماننے والے لاکھوں ہوگئے.کیا حضرت مرزا صاحب کی فتح کا انکار کیاجاسکتا ہے.حالانکہ مخالفوں کی موجودگی میں آپ نے اعلان کیا جو کہ نیک اور متقی ہونگے وہ سب میرے ساتھ شامل ہوجائیں اوران کو اپنےساتھ ملا لونگا اور آپ نے ایسا کرکے دکھا دیا.لوگوں نے کہا کہ ہمارے بیٹے کنجر خانے میں جائیں عیسائی ہو جائیں مگر احمدی نہ ہوں.لیکن پھر بھی لوگ احمدی ہو رہے ہیں اور بکثرت ہورہے ہیں.کیا یہ آپؑکی فتح نہیں.قادیان کی ترقی کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ بیا س تک ہوگی چند سال میں ایک میل تک قادیان پھیل گیا ہے اور اس سے ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ عنقریب بیاس تک اس کی آبادی پہنچ جائے گی فرمایا تھا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عمیْقٍ ٭لوگ قادیان میں دُور دُور سے آئیں گے اور راستے گھِس جائینگے اور ایسا ہی ہوا.خود ان مولویوں کا آنابھی ایک نشان ہے مولوی آئے اور راستہ کی خرابی کی شکایت *تذکرہ ص۲۹۷ ایڈیشن چہارم

Page 78

کی مگر یہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت ہے کہ وہ لوگ یہاں آئے اور خدا کی پیشگوئی پوری ہوئی.آئندہ کیلئے حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں حضرت صاحب نے آئندہ کے لئے پیشگوئی فرمائی ہے کہ آئندہ آپ ہی کا سلسلہ رہ جائیگا اورباقی فرقے بالکل کم تعداد اور کم حیثیت رہ جائیں گے اور ہم اس کے آثار دیکھ رہے ہیں اور اس کا کچھ اور حصہ ہم اپنی زندگی میں دیکھیں گے.ان کو اپنی کثرت پر گھمنڈ ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ ان کی کثرت کو قلت سے بدل دیا جائیگا اوران کی کثرت کی خدا کے پیارے کو دی جائے گی اور وہ قلت جو آج ہمارے لئے قابل ذلّت خیال کی جاتی ہےکل ان کو ذلیل کریگی.ہم تھوڑے ہیں لیکن وہ یاد رکھیں زمانہ ختم نہیں ہوگا اور قیامت نہیں آئیگی جب تک حضرت مرزا صاحب کے ماننے والے ساری دنیا پر نہ پھیل جائیں.یورپ میں احمدیت ہوگی،امریکہ میں احمدیت ہوگی، چین و جاپان ،عرب وایران و شام غرض ساری دُنیا میں احمدیت ہی احمدیت ہوگی.ان سب ممالک کو خدا کا کلام سنایا جائیگا.اور ایک دن وہ ہوگا کہ خدا کا سُورج احمدیوں ہی احمدیوں پر چڑھے گا.حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیاں میں جو پوری ہونگی.یہ تو عام پیشگوئی ہے لیکن ایک ملک کےمتعلق ایک خاص پیشگوئی بھی ہے جو مَیں سُناتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے فرمایا ہے کہ زارِ روس کا عصا مجھے دیا گیا اور امیر بخارا کی کمان آپ کو ملی.(مفہوماً تذکرہ صفحہ ۴۸۵ایڈیشن چہارم) پس ہم اُمید کرتے ہیں کہ روس کی حکومت عنقریب احمدی ہوگی.زار کی سلطنت مِٹ چکی ہے عصاء زار روس سے چھینا جا چکا ہے اور آدھا حصہ پیشگوئی کا پورا ہوچکا ہےمگر اب دوسرا حصہ بھی انشاء اللہ پورا ہوگا اور دُنیا اپنی آنکھو سے خدا کے مقدس کی صداقت کو دیکھ لے گی.کیا یہ شاندار استقبال نہیں کہ جماعت ایک سے کئی لاکھ ہوگئی اورایک نکلتا ہے تو اس کی جگہ بیسیوں کھڑے ہوجاتے ہیں.کیا اں اُصول کے مطابق آپ کی صداقت میں شک کیاجاسکتا ہے تینوں کے تینوں زمانے آپ کی صداقت کی گواہی دے رہے ہیں.غرض ثبوتوں اور اُصولوں کود یکھنا چاہئے.محض اعتراض پر پڑے رہنا کوئی بات نہیں.یہ ایک لغو بات ہے.قرآن جو اُصول بتاتا ہے اس کے رُہ سے آپکی صداقت ظاہر و باہر ہے.اعتراض ہوتے ہیں ان کے لئے اُصول بھی ہوتے ہیں.جب تک کسی اُصول کے ماتحت گفتگو نہ ہو دُنیا میں کوئی مسئلہ نہیںحل ہوسکتا.جماعت کو نصیحت اب میں اپنی جماعت کو بھی ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ

Page 79

تمہارے دشمن تمہیں پامال کرنے پر تُلے ہوئے ہیں لیکن اگر تم ایمان سے معمور سینہ رکھتے ہو وہ تمہیں پامال نہیں کرسکتے آپ اپنے اقوال افعال ،عقائد اخلاق اور معاملات کو دُرست کریں.حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدم بقدم چلو ،کمزوریاں او ر سُستیاں چھوڑ دو، تمہیں بہت بڑا کام درپیش ہے، بڑی مہم ہے جو تمہیں سر کرنی ہے،تم نے احمدیت کو پھیلانا ہے یہ نہیں ہوسکتا جب تک تم بد اخلاقی کو نہ چھوڑو ،بد معاملگی کو نہ چھوڑو اور نمازوں اور دیگر دین کے احکام میں پوری پابندی نہ اختیار کرو کوشش کرو کوشش کرو کہ فتح پائو.تمہیں سچّی فتح ہوگی اور دشمن کی جھوٹی فتح بھی اس کے لئے سو گواری کا موجب ہوگی اور دشمن تم سے اس طرح جائیگا جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے.اگر تم اس تمام علاقے کو احمدی بنا چکے ہوتے تو آج دشمن کو اتنا بھی موقع نہ ملتا.کیونکہ مولویوں کی قوم بُزدل قوم ہے اورن کو ظاہری سامانوں پر ہی بھروسہ ہے.وہ اس قوتوں اور طاقتوں کے خزانے سےغافل ہیں جو خدا تعالیٰ سے ملتا ہے.پس تم میں سے ہر ایک اپنے فرض منصبی کو بجا لائے اور لوگوں کو احمدی بنانے کے درپے ہوجائے.پھر تم دیکھو گے کہ دشمن کےلئے ہماری کامیابی ماتم کا موجب ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی دے.ہماری حالت کو درست بنائے.ہماری کمزوریوں کو معاف کرے ہمیں کامیابی دے اور کامیابی کو روشن کرے.آمین (الفضل ۱۱؍اپریل ۱۹۲۱؁ء)

Page 80

Page 81

بیعت کرنیوالوں کیلئے ہدایات از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 82

Page 83

بیعت کرنیوالوں کیلئے ہدایات (تقریر حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی فرمودہ ۲ ؍مئی ۱۹۲۱؁ء) ۲ ؍ مئی بعد نماز مغرب ایک صاحب جو نا گڑھ (گجرات کاٹھیاواڑ) کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں بیعت کےلئے پیش ہوئے.چونکہ ان کو دارالامان (قادیان) آئے ہوئے دو تین دن ہی ہوئے تھے اور ایک ایسے علاقے سے آئے تھے جہاں احمدیت کے متعلق واقفیت رکھنے والے بہت کم لوگ ہیں اس لئے حضور نے بیعت لینے سے قبل انہیں مخاطب کرکے ایک تقریر فرمائی جو اندھیرے میں جس قدر ضبط کی جاسکی درج ذیل کی جاتی ہے.احباب اس سے جہاں خود فائدہ اُٹھائیں وہاں غیر احمدیوں میں بھی اس کی اشاعت کریں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ سلسلہ احمدیہ میں کس طرح اور کن لوگوں کو داخل کیاجاتا ہے.حضور نےفرمایا :- بیعت کا معاملہ چونکہ ایک اہم معاملہ ہے اس لئے قبل اس کے کہ آپ بیعت کریں مَیں چند باتیں آپکو سُنانا چاہتا ہوں.سمجھ کر بیعت نہ کرنے کا نقصان آگر آپ اس وقت پوری تحقیق کرکے سلسلہ میں داخل نہ ہوئے اور اچھی طرح سمجھ کر بیعت نہ کی تو ممکن ہے جب آپ مخالفین کی باتیں سنیں تو اپنے اقرار پر قائم نہ رہ سکیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کے دل پر

Page 84

ایک زنگ لگ جائیگا.اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ سلسلہ جھوٹا ہے تو اس لئے کہ آپ نےجلد بازی سے کام لیا اور پوری تحقیق کئے بغیر اس کو اختیار کرلیا اوراگر سچّا ہے تو اس لئے کہ سچے راستہ کو چھوڑ کر بھٹک گئے اور راستی سے دُور ہوگئے.احمدیت میں داخل کرنے کی غرض ہمارا یہ طریق نہیں ہے کہ لوگوں کو یونہی سلسلہ میں داخل کرلیں.بلکہ ہماری غرض لوگوں میں تقویٰ طہارت پیدا کرنا اور انہیں بُرائیوں اور فواحش سے بچا کر اسلام پر قائم کرنا ہے اس لئے ہم ہر ایک کو یہی کہتے ہیں کہ وہ پہلے تحقیقات کرے اور اچھی طرح سمجھ لے پھر احمدیت کو قبول کرے اس میں جلد بازی نہ کرے کیونکہ اگر وہ جلد بازی سے قبول کرتا ہے اورپھر ٹھوکر کھا کر سلسلہ سے علیحدہ ہوتا ہے تو ایک ایسا آدمی ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا جس کے آنے کی پہلے تو توقع کی جاسکتی تھی لیکن اب اس کا آنا اگر محال نہیں تو پہلے کی نسبت بہت زیادہ مشکل ضرور ہوگیا.اس کی مثال ایسی ہے کہ درخت پر جب کچّا پھل لگا ہو تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ پکے گا اور پک کر ہاتھ میں آئے گا لیکن اگر کچّے کو ہی توڑ لیا جائے تو پھر وہ نہیں پک سکے گا.ساری دنیا ہمارے لئے باغ ہے چونکہ ہم ساری دُنیا کو سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے باغ ہے اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ کوئی پھل کچّا توڑیں.ہم چور کی طرح نہیں کہتے کہ چلو پکّا نہ سہی تو کچّا ہی سہی کیونکہ خدا نے دنیا کو ہمارے لئے ہی بنایا ہے اگر آج نہیں تو کل ،کل نہیں تو پرسوں.یا سال ،دو سال یا دس بیس سال حتیّٰ کہ ہزار دوو ہزار سال تک آخر دنیا کو اسی سلسلہ میں داخل ہونا پڑے گا اور اسی کے قدموں میں گریگی جسے خدا تعالیٰ نے دُنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے.پس ہم نہیں چاہتے کہ کوئی کچا پھل توڑ لیں اس لئے ہر ایک اس شخص کو جو سلسلہ میں داخل ہونا چاہے کہتے ہیں کہ وہ خوب سمجھ سوچ لے.ہاں جب اسے سمجھ آجائے تو پھر یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ وہ ایک منٹ کی بھی دیر لگائے کیونکہ کیا معلوم کب جان نکل جائے.یہ پہلی نصیحت ہے جو آپ کو کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد مَیں خلاصۃً سلسلہ کی تعلیم سناتا ہوں آپ دیکھیں کہ آیا یہی باتیں آپ نے سمجھیں ہیں یا ان میں کچھ کمی ہے اور آپ کو مزید تحقیقات کی ضرورت ہے.رسولِ کریم ؐا ٓخری نبی ہیں ہمارا دعویٰ ہے کہ رسول کریمﷺآخری نبی ہیں کیا بلحاظ اسکے کہ آپکی لائی ہوئی کتاب ( قر آ ن کریم) کے بعد کوئی

Page 85

کتاب نہیں اور کیا بلحاظ اس کے آپ کی لائی ہوئی شریعت کے بعد کوئی شریعت نہیں لیکن اسی سے ہم ایک اور نتیجہ پر پہنچے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جو چیز ہمیشہ رکھنے کے لئے ہوتی ہے اس میں اگر کوئی نقص پیدا ہوجائے تو اس کی فوراً اصلاح کی جاتی ہے.مثلاً وہ کپڑا جو کئی سال پہننا ہو اس میں اگر سوراخ ہوجائے تو فوراً رفو کرایا جاتا ہے لیکن جو کپڑا اُتار کر کسی کو دے دینا ہو اس کی پروا نہیں کی جاتی.پس چونکہ یہ شریعت آخری شریعت ہے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جب اس میں کوئی رخنہ پڑے فوراً خدا تعالیٰ اس کی طرف توجہ کرے کیونکہ اس شریعت نے قیامت تک چلنا ہے.اگر بدل جانا ہوتا تو پھر ایسی ضرورت نہ تھی لیکن چونکہ یہ دین ،یہ کتاب اور یہ رسول ہمیشہ کے لئے ہے اس لئے اس کے متعلق جو کمزوریاں پیدا ہوجائیں ان کا دُور کرنا ضروری ہے.اس کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ ایسے وقت کہ جب دین میں فتنہ برپا ہوایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو اس کی اصلاح کریں گے.رسول کریم ؐکے غلام کی شان اس کے ساتھ ہی ہم یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم درجہ ٔعظمت اور عرفان میں سب انبیاء سے بڑھے ہوئے ہیں اس لئے آپؐ کے شاگردوں اور غلاموں میں سے جو لوگ دین کی اصلاح کے لئے کھڑے ہونگے وہ پہلے انبیاء کی اُمتوں میں سے کھڑے ہونیوالوں سے بڑھ کر ہونگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل سے ایسے لوگ ہوئے ہیں کہ کدا ان سے کلام کرتا تھا اس اُمّت میں بھی ایسا ہی ہوگا٭اس سے معلوم ہوا کہ پہلے انبیاء کےذریعے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں نبی بھی ہوا جو اُمّتی ہو کر نبی تھا وہ نبیوں میں جاکر ان کی صف میں کھڑا ہوگا اور بعض سے اپنی شان میں بڑھ کر بھی ہوگا مگر پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّتی ہی ہوگا.اس کی مثال ایسی ہے کہ کالج کا ایک لڑکا چھوٹے مدارس کا خواہ ممتحن مقرر ہوجائے لیکن جب کالج میں آئے گا بحیثیت ایک شاگرد کے ہی ہوگا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شان ہے کہ آپ کی شاگردی میں ایک انسان وہ درجہ حاصل کرسکتا ہے کہ بعض دوسرے انبیاء سے بڑھ سکتا ہے اس کی مثال چاند کی ہے جس کے سامنے ستارے ماند ہوجاتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال سورج کی ہے کہ آپ کے سامنے چاند بھی ماند ہے.*بخاری کتاب فضائل أصحاب النبیؐ باب مناقب عمر بن الخطاب

Page 86

رسول کریم ؐکی اُمّت میں نبی پس ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں نبی ہوسکتے ہیں اور اس زمانہ میں جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایمان دُنیا سے اُٹھ جائے گا اور علماء بدترین مخلوق ہوجائیں گے٭میری اُمّت یہودیوں کے قدم بقدم چلے گی یہاں تک کہ اگر یہودیوں میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو ان میں بھی ایسے ہونگے٭اس وقت ان کی اصلاح کیلئے مسیح نازل ہوگا.اس کے لئے آپ نے نزول کا لفظ رکھا جو احترام اور عزت کے طور پر آتا ہے اور ہمارا یقین ہے کہ وہ مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب ہیں جو اسی گائوں میں پیدا ہوئے اور وہ اس درجہ پر فائز تھے جو نبوت کا درجہ ہے چنانچہ آپ نے بتایا ہے کہ مَیں وہ مسیح موعود ہوں جس کی خبر دی گئی تھی اور مَیں ہی وہ مہدی ہوں جس کے آنے کی اطلاع دی گئی ہے مَیں ہی وہ کرشن اور زرتشت ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھا.(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۸۵،۸۶ ،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۵۲۱ ، ۵۲۲ ) مسیح موعودؑ کے مختلف نام بات دراصل یہ ہے کہ وہ سب قومیں جن میں نبی آئے ان کو بتایا گیا کہ آخری زمانہ میں تم میں ایک نبی آئے گا اور ہر قوم نے اس کا الگ الگ نام رکھا.ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک ہی شخص ہے جس کے مختلف قوموں اور مذہبوں نے مختلف نام رکھے ہیں.وجہ یہ ہے کہ سب قوموں میں جو زمانہ موعود نبی کے آنے کا بتایا گیا ہے وہ ایک ہی ہے.پھر جو آثار بتائے گئے ہیں وہ بھی قریباً ملتے جلتے ہیں اور یہ آثار اس زمانہ میں پورے ہورہے ہیں.ان حالات میں ممکن نہیں کہ سیکنڑوں سال کی خبریں جو پوری ہورہی ہیں اور جو خدا کے سچّے اور پیارے بندوں نے دیں ہیں ان کے مطابق آنے والے ایک دوسرے کے مخالف ہوں.یہ ہونہیں سکتا کہ خدا کی طرف سے بتایا گیا ہو کہ فلاں زمانہ میں مسیح آئے گا اور یہ بھی خدا کی طرف سے بتایا گیا ہو کہ اس زمانہ میں کرشن آئے گا، یہ بھی خدا کی طرف سے بتایا گیا ہو کہ اسی زمانہ میں زرتشت بتایا گیا ہوکہ اس زمانہ میں کرشن آئے گا، یہ بھی خدا کی طرف سے بتایا گیا ہو کہ اسی زمانہ میں زرتشت آئیگا اور یہ سب علیحدہ علیحدہ وجود ہوں جو آکر ایک دوسرے کے ساتھ لڑیں.بات یہی ہے کہ مختلف زبانوں میں یہ مختلف نام ہیں اور آدمی ایک ہی ہے.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے کمال کےجامع تھے اس لئے آپ کے بروز میں بھی سب کمال پائے جائیں گے اسی وجہ سے اس کی آمد کے متعلق سب نبی یہی کہتے رہے کہ مَیں ہی آؤں گا گویا میرے کمال اس آنے والے میں ہونگے یہ سب کمال مسیح موعودؑمیں پائے گئے.چنانچہ آپنے دعویٰ کیا کہ مَیں مہدی ہوں،مَیں مسیح ہوں.مَیں *مشکوة کتاب العلم*ترمذی أبواب الایمان باب افتراق ھذہ الامة

Page 87

کرشن ہوں، مَیں زرتشت ہوں.پس ہمارا ایمان اور یقین یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑتمام کمالات کے جامع تھے اس لئے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عکس تھے اور یہ صاف بات ہے کہ جیسا انسان خود ہو ویسا ہی اس کا عکس بھی ہوگا.اب جو انسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہوگا اس میں وہ خوبیاں ہونگی جو رسول کریمؐ میں ہی وہ خوبی نہیں.دیکھئے اگر کوئی شخص شیشے کے سامنے کھڑا ہو اور شیشے میں جو اس کا عکس پڑ رہا ہو اس میں ناک نظر نہ آئے تو معلوم ہوگا کہ اس شخص کے چہر ہ پر ہی ناک نہیں ہے.تو ہمارا یقین ہے کہ حضرت مرزا صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عکس ہیں اورن میں وہ خوبیاں بتوسط رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پائی جاتی ہیں جو آپ میں ہیں.احمدیت میں داخل ہونیوالے کا فرض یہ اعتقاد ہیں جن کو معلوم کرنے کے بعد بیعت کرنی چاہئے اورجب کوئی ان اعتقادات کو معلوم کرکے بیعت کرتا ہے تو پھر اس کا فرض ہے کہ ان ذم،داریوں کو بھی اُٹھائے جو بیعت کرنے کی وجہ سے اس پر عائد ہوتی ہیں.جو شخص فوج میں بھرتی ہوگا اس کا فرض ہوگا کہ لڑائی کے لئے جہاں اسے جانا پرے جائے.اسی طرح مسیح موعودؑکے سلسلہ میں داخل ہونے والے کا بھی فرض ہے کہ جس طرح صحابہ کرفام نے دین کے لئے اپنا مال ،اپنا وقت ،اپنا وطن، اپنے رشتہ دار حتّٰی کہ اپنی جان بھی قربان کردی تھی وہ بھی اس کے لئے تیار رہے اور ایسا نمونہ بن کر دکھلائے کہ دُنیا دیکھے اور معلوم کرے کہ اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو ہم میں نہیں ہےپھر ایسے سلسلہ میں داخل ہونے والوں پر ابتلاء بھی آتے ہیں،مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ،تکالیف بھی پہنچتی ہیں، ان کو برداشت کرنا چاہئے.دشمنوں کے شبہات پھر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دشمن اور شریر لوگ طرح طرح کے اتہام لگایا کرتے ہیں اور کئی رنگ گمراہ کرنے کے اختیار کرتے ہیں.اگر انسان بغیر تحقیقات کے اور بغیر دشمنوں کےا تہاموں سے واقف ہونے کے داخل ہو تو جب اس قسم کی باتیں سُنے گا تو اسے ٹھوکر لگے گی کہ یہ کیا ہوگیا.ہر قوم میں نبی مثلاً ایک ناواقف آدمی جب یہ سُنے کہ حضرت مرزا صاحب نے کرشن ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو کہے گا وہ تو ہندو تھا ایک مسلمان کیونکر ہوگیا، مگر جب

Page 88

اسے یہ معلوم ہوگا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح قوموں میں نبی آتے رہے ہیں اسی طرح ہندوستان کے لوگوں میں بھی نبی آئے،انہی میں سے ایک حضرت کرشن ؑتھے اور قرآن شریف میں ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَافِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر:۲۵)کوئی قوم ایسی نہیں جس میں نبی نہ آیا ہو.اس آیت پر ایمان رکھنے والا جب یہ سُنے گا کہ ہندوستان میں حضرت کرشن ؑ نبی آئے تھے تو کہے گا اگرحضرت مرزا صاحبؑنے کرشن ہونے کا دعویٰ کیا ہے توٹھیک اور صحیح ہے.اگر یہ دعویٰ نہ کرتے تو جھوٹے ہوتے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں سب انبیاءکے کمال تھے اس لئے آپ کے بروز میں حضرت کرشنؑکے کمال بھی ہونے چاہئیں.مسیح موعود اور مہدی معہود ایک ہی ہے پھر مسلمان مسیح موعود اور مہدی معہود کو دو علیحدہ وجود قرار دیتے ہیں.مگر دراصل ایک ہی ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وآلہٖ وسلم نے اِمَامُکُمْ مَنْکُمْ ٭(کہ تمہارا امام تم میں سے ہی ہوگا) میں بتایا ہے کہ یہ ایک شخص کے دو نام ہیں جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی نام ہیں.حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیاں پھر حضرت مسیح موعودؑکی پیشگوئیاں ہیں.ان کے متعلق مخالفین شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں اگر پوری واقفیت حاصل کرکے انسان اس سلسلہ میں داخل نہ ہو تو ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن جب پہلے ہی پوری تحقیقاتکرے تو پھر خواہ کتنے شبہات پیدا کئے جائیں پھر ٹھوکر نہیں کھاسکتا.مثلاً جب کوئی سورج کا انکار کردو تو وہ نہیں کرےگا.ہاں یہ کہدیگا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اندھیرا کیوں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے مگر سورج کا مَیں انکار نہیں کرسکتا کیونکہ سورج کے ہونے کا میرے پاس کافی ثبوت ہے.تو کسی امر کے متعلق ایک ہوتے ہیں اس کی صداقت کے ثبوت اور ایک شبہات.شبہات سے صداقت کےثبوت باطل نہیں ہو جایا کرتے.مثلاً ایک جگہ پتھر میں سے پانی نکلتا ہو اور انسان اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے تو یہ نہیں کہے گا کہ پانی نہیں نکلتا.ہاں کہہ سکتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ کیونکہ نکلتا ہے گویا پتھروں سے پانی نکلنے کی وجہ اسے معلوم نہیں پانی کا انکار نہیں کرسکتا.یا مثلاً آگ ہے.چونا پر پانی ڈالنے سے آگ نکلتی ہے لیکن جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس طرح پانی ڈالنے سے بھی آگ نکلتی ہے اس کے سامنےآگ نکالنے پروہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ آگ نہیں کوئی ٹھنڈی چیز *بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم

Page 89

ہے.بلکہ وہ یہی کہے گا کہ چونکہ میں آگ کی گرمی کو جانتا ہوں اور اس کو ہاتھ لگانے سے جلتا ہے اس لئے مَیں یہ ہرگز نہیں مان سکتا کہ یہ آگ نہیں ہے.ہاں مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ پانی ڈالنے سے کیونکر آگ نکلتی ہے.انبیاء کی صداقت کا معیار یہی طریق انبیاء کے پہچاننے کا ہے ان کی صداقت کے کئی ثبوت ہوتے ہیں.ان کےذریعہ صداقت کی تحقیق کرنی چاہئے کیونکہ اگر اس طرح نہ کیا جائےتو کئی ایسی باتیں ہوسکتی ہیں جن کو گمراہ کرنیوالے لوگ پیش کرکے دھوکا دے دیتے ہیں.لیکن جب انسان صداقت کو صداقت سمجھ کر مانے تو ایسی باتوں سے ٹھوکر نہیں کھاسکتا کیونکہ اوّل تو کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتااوراگر پیدا ہو تو انسان اس کے ازالہ کا علم حاصل کرسکتا ہے لیکن صداقت کے دلائل اوربراہین سے واقف ہو اس کے دل میں اگر کوئی لاکھوں شبہات صداقتِ رسول کریم ؐکے متعلق ڈالنا چاہے تو وہ یہی کہے گا کہ مجھے ان کی وجہ معلوم نہیں یا مَیں ان کا جواب نہیں دے سکتا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرسکتا.کوئی شبہ ہو میرے کمئ علم کا ثبوت ہوگا رسول کریم ؐسچّے ہیں کیونکہ آپ کی صداقت کے ثبوت میرے پاس ہیں.اب مسلمان کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح جھوٹے ہوسکتے حالانکہ آپ کی صداقت کے ثبوت انہیں معلوم نہیں.وہ چونکہ باپ داد سے سنتے آئے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ رسول کریمؐسچّے ہیں لیکن ہمارے پاس خدا کے فضل سے رسول کریمؐ کی صداقت کے ثبوت ہیں اوراگر کوئی آپ پر اعتراض کا جواب نہ بھی آئے تو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وآلہٖ وسلم کی صداقت کے متعلق ہمیں شبہ نہیں پڑسکتا کیونکہ ہم نے آپؐ کو اس طرح مانا ہے جس طرح سورج کو مانتے ہیں.پس اوّل تو خدا کے فضل سے ہر ایک اعتراض کا جواب آتا ہے لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ ہمیں کسی اعتراض کا جواب نہ آئے تو اس کی وجہ سے رسول کریم ؐکی صداقت کا انکار نہیں کیا جائیگا کیونکہ ہم نے آپ کو یونہی نہیں مانا بلکہ آپ کی صداقت کے دلائل کو دیکھ کر مانا ہے اور پورا پورا یقین ہے کہ وہی دلائےل ہیں جو سچّے نبی کے لئے ہوتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے دلائل اسی طرح ہم حضرت مرزا صاحب کو مانتے ہیں ان کی صداقت کے لئے نئے دلائل کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لئے وہی دلائل ہیں جو رسول کریمؐ،حضرت موسیٰؑ،حضرت عیسیٰؑ

Page 90

اور دیگر انبیاء کے تھے.اب اگر کوئی ان دلائل کے ہوتے ہوئے آپ کو جھوٹا قرار دیتا ہے تو اس طرح پہلے انبیاء بھی جھوٹے ہوجاتے ہیں لیکن جو ان دلائل کی وجہ سے پہلے انبیاء کو سچا سمجھتا ہے وہ حضرت مرزا صاحب کو بھی سچا سمجھے گا.جب کوئی شخص ان دلائل کو معلوم کرکے اور ان سے واقف ہوکر آپ کو مانے گا تو پھر اس کے دل میں کوئی شبہ نہیں پڑسکے گا.رسول کریم ؐکو ابوبکرؓ نے کیونکر مانا دیکھئے حضرت ابوبکر ؓنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی دلیل سے مانا ہے اور پھر کبھی ان کے دل میں آپؐ کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں پیدا ہوا اور وہ ایک دلیل یہ تھی کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بچپن سےدیکھا تھا اور وہ جانتے تھے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.کبھی شرارت نہیں کی،کبھی گندی اور ناپاک بات آپ کے منہ سے نہیں نکلی بس یہی وہ جانتے تھے اس سے زیادہ نہ وہ کسی شریعت کے جاننے والے تھے کہ اس کے بتائے ہوئے معیار سے رسول کریم ؐکو سچا سمجھ لیا، نہ کسی قانون کے پیرو تھے.انہیں کچھ معلوم نہ تھا کہ خدا کا رسول کیا ہوتا ہے اور اس کی صداقت کے کیا دلائل ہوتے ہیں وہ صرف یہ جانتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کبھی نہیں بولا.وہ ایک سفر پر گئے ہوئے تھے جب واپس آئے تو راستہ میں ہی کسی نے انہیں کہا کہ تمہارا دوست (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کہتا ہے کہ مَیں خدا کا رسول ہوں.انہوں نے کہا کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ کہتا ہے ،اُس نے کہا ہاں.انہوں نے کہا پھر وہ جھوٹ نہیں بولتا جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے کیونکہ جب اس نے کبھی بندوں پر جھوٹ نہیں بولا تو خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا.جب اس نے انسانوں سے کبھی ذرا بد دیانتی نہیں کی تو اب ان سے اتنی بڑی بد دیانتی کس طرح کرنے لگا کہ ان کی رُوحوں کو تباہ کردے.صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا اور اسی کو خدا تعالیٰ نے بھی لیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے لوگوں کو کہدو فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس:۱۷)میں ایک عرصہ تم میں رہا.اس کو دیکھو.اس میں مَیں نے تم سے کبھی غداری نہیں کی.پھر اَب مَیں خدا سے کیوں غداری کرنے لگا.یہی وہ دلیل تھی جو حضرت ابوبکر ؓ نے لی اور کہدیا کہ اگر وہ کہتا ہے کہ خدا کا رسول ہوں تو سچّا ہے اور مَیں مانتا ہوں اس کے بعد نہ کبھی ان کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہوا اورنہ ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش آئی.ان پر بڑے بڑے ابتلاء آئے انہیں جائدادیں اور وطن چھوڑنا اوراپنے عزیزوں کو قتل کرنا پڑا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

Page 91

کی صداقت میں کبھی شبہ نہ ہوا.ایک اور صحابی کا ذکر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک یہودی سے لین دین کا معاملہ تھا اسکے متعلق رسول کریم ؐنے جو کچھ فرمایا اسے سُنکر صحابی نے کہا یا رسول اللہ یہی درست ہے جو آپ فرماتے ہیں.رسول کریم نے کہا یہ معاملہ تو میرے اور اس کے درمیان ہے تم کو کس طرح معلوم ہے کہ جو کچھ مَیں کہتا ہوں وہ درست ہے.صحابی نے کہا یا رسول اللہ جب آپ خدا کے متعلق باتیں بتاتےہیں اور ہم مانتے ہیں کہ سچّی ہیں تو اب جبکہ آپ ایک بندہ کے متعلق فرماتے ہیں تو یہ جھوٹ کس طرح ہوسکتا ہے اسی وجہ سے مَیں نےکہا ہے کہ جو کچھ آپ فرمارہے ہیں درست ہے.یہ سُن کررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے متعلق فرمایا اس کا ایسا ایمان ہے کہ جہاں دو آدمیوں کی شہادت کی ضرورت ہو وہاں اس ایک کی ہی کافی سمجھی جائے.٭ ان لوگوں کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کیوں اس طرح گڑ گئی تھی اور کیوں ان کے دل میں کوئی شک و شبہ نہیں پیدا ہوتا تھا اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں رسول کریمؐ کی صداقت کے دلائل معلوم ہوگئے تھے.یہ مَیں نے حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ اور چند موٹی موٹی باتیں بتائی ہیں.اب آپ کی صداقت کے متعلق بیان کرتا ہوں.حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی پہلی دلیل فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس :۱۷)کے معیار کو ہی دیکھیں.اس (قادیان ) گائوں میں ہندو اور غیر احمدی رہتے ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو حضرت مرزا صاحب سے ملتے اور آپ سے تعلق رکھتے تھے ان کو مخاطب کرکے آپ لکھتے رہے کہ بتائو میں نے کبھی کسی سے فریب ،دھوکا ،دغا بازی کی،کسی کا مال ناجائز طریق سے لیا ،کسی پر کوئی ظلم او رسختی کی، کبھی جھوٹ بولا.اگر نہیں تو پھر مَیں خدا پر کسی طرح جھوٹ بولنے لگ گیا.پھر ایسے بھی لوگ موجود تھے جو آپ کے دشمن تھے آپ سے عداوت رکھتے تھے اورآپ کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے مگر کوئی سامنے کھڑا ہوسکا اور محمد حسین بٹالوی جس نے آپ پر کُفر کا فتویٰ لگایا اس نے بھی اقرار کیا کہ پہلی زندگی اچھی تھی.اس سے ہر ایک عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ جب پہلی زندگی اعلیٰ درجہ کی اور پاک تھی تو دعویٰ کے بعد کیا ہوگیا وہ زندگی کیوں اعلیٰ *أبو داؤد کتاب الاقضیة باب اذاعلم الحاکم صدق الشاھدالواحد یجوز لہ ان یحکم بہ

Page 92

نہ رہی.پھر خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک یہ معیار بیان فرماتا ہےوَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ-ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ(الحآقۃ ۴۵ تا ۴۸) کہ اگر یہ ہم پر جھوٹ بولتا تو ہم اسے تباہ کردیتے.اور یہ بات عقلاً بھی درست ہے کہ خدا پر جھوٹ بولنے والے کو تباہ ہونا چاہیے کیونکہ اگر افتراء کرنے والا بچ رہے تو کئی پہچان ہی نہ سکےکہ فلاں خدا کی طرف سے ہی ہے.دیکھو اگر کوئی شخص دنیاوی گورنمنٹ کا افسر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے تو گورنمنٹ اسے گرفتار کرلیتی ہے پھر جو شخص نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے اسے خدا تعالیٰ کیوں نہ پکڑے.قرآن کریم نے اس دلیل کو رسول کریمؐ کے متعلق پیش کیا ہے اور یہ صرف آ پ ہی کے لئے نہیں بلکہ عام ہے لیکن اگر اس کو صرف رسول کریم ؐکے لئے قرار دیا جائے تو یہ دلیل ہی نہیں رہتی کیونکہ اگر پہلے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے اس دلیل کے ماتحت ہلاک ہوتے رہے ہیں تو رسول کریمؐکے وقت بھی پیش کی گئی اوراب حضرت مرزا صاحب کے وقت بھی پیش کی جاسکتی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو دعویٰ کے بعد جتنی زندگی عطا ہوئی اتنی اگر جھوٹے نبی کو بھی مل سکتی ہے تو پھر یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل نہیں رہ جاتی.کیونکہ حضرت مرزا صاحب کو اپنے الہامات شائع کرنے سے لیکر قریباًتیس سال زندگی حاصل ہوئی جو کہ رسول کریمؐکی دعویٰ نبوت کرنے سے بعد کی زندگی سے زیادہ ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ مرزا صاحب کے اتنے عرصے کے الہام اب بنالئے گئے ہیں مگر آپ کی اس وقت کی کتابیں گورنمنٹ کے ہاں موجود ہیں اور ان میں الہام درج ہیں.دوسری دلیل پھر آپ کو جو الہام ہوئے وہ نہایت صفائی کے ساتھ پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں.آپ کو الہام ہوا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘٭اوراب ایسا ہی ہورہا ہے.پھر آپ کو بتایا گیا کہ تیرے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوگی چنانچہ ہو رہی ہے.خدا تعالیٰ احمدیت کو دُنیا میں پھیلا رہا ہے.پھر آپکو کہا گیا کہ قادیان میں لوگ دُور دُور سے آئیں گے یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ٭اب مثلاً آپ ہی اتنی دُور سے آئے ہیں یہاں دنیاوی *تذکرہ ص ۳۱۲ ایڈیشن چہارم

Page 93

لحاظ سے کوئی قابل کشش چیز نہیں ہے کہ جسے دیکھنے کے لئے کوئی آوے.ادھر مولوی کہتے ہیں کہ جو آئے گا وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا اور لوگوں کو روکنے میں پورا پورا زور لگا رہےہیں باوجود اس کے حضرت مرزا صاحب کا الہام لوگوں کو کھینچ کھینچ کر یہاں لارہا ہے.کوئی کہے یہاں لوگ سیر کے طور پر آجاتے ہیں مگر انہیں یہ بھی تو خطرہ ہوتا ہے کہ ایمان جاتا رہے گا کیونکہ ان کے علماء نے فتویٰ دے رکھا ہے کہ جو شخص احمدیوں سے مِلتا جُلتا حتٰی کہ ان کو دیکھتا ہے وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے.مگر باوجود اس کے لوگ آئے اور آرہے ہیں جو ثبوت ہے اس بات کا یَأْتُوْنَ مَنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ خدا کی طرف سے الہام ہے جو پورا ہورہا ہے.تیسری دلیل ایک اور ثبوت انبیاءکی صداقت کا خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم رسولوں کو ان کے مخالفین پر غلبہ دیتے ہیں اور یہ ایسی سنت ہے جو کبھی نہیں بدلتی.اس ثبوت کی رو سے بھی حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت ہے کیونکہ ساری دنیا آپ کے مقابلہ پر آئی اور آپ کی باتوں کوروکنا چاہا مگر آپ کا سلسلہ پھیل ہی گیا اوردن بدن پھیل رہاہے.تکالیف برداشت کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے یہ ایسے معیار صداقت ہیں کہ جو سب انبیاء کے لئے مشترک ہیں اور یہ سب حضرت مرزا صاحب کے متعلق پائے جاتے ہیں.ان کو دیکھ کر اور سمجھ کر جو شخص بیعت کریگا اسے اگر کسی امرکےمتعلق شبہ پیدا ہوگا تو ایسی بات ہوگی کہ کہے گا کہ مجھے اس کا علم نہیں.مَیںاس کے متعلق تحقیقات کروں گا نہ کہ وہ صداقت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوجائے گا.پس ہر اس شخص کا فرض ہے جو اس سلسلہ میں داخل ہونا چاہے کہ اس طرح سمجھ کر اور تحقیقات کر کے داخل ہو اور جب داخل ہوجائے تو پھر خواہ اس پر کوئی مصیبت آئے اس کی پرواہ نہ کرے.اب تو وہ مصیبتیں اور تکلیفیں نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت مسلمان ہونیوالوں کو برداشت کرنا پڑتی تھیں.اس وقت تو عورتوں کی شرم گاہوں میں نیزے مارے گئے.تپتی ریت پر لٹایا گیا،اونٹوں سے باندھ کرچِیرا گیا اور طرح طرح کی تکالیف پہنچائی گئیں جو ہماری جماعت کو نہیں پہنچیں.مگر ایسا ایمان ہو کہ انسان کہے کہ اگر ایسی کوئی تکلیف آئی تو بھی میں قائم رہونگا اور اپنی جگہ سےذرا نہ ہٹوں گا.یہ خیال نہ کرے کہ اب اس قسم کی تکالیف کا زمانہ نہیں رہا اس لئے نہیں

Page 94

آئیں گی بلکہ یہ کہے کہ گو زمانہ ایسا نہیں لیکن اگر کوئی ایسی تکلیف آئے تو مَیں اُسے برداشت کرنے کے تیار ہوں.اگر مجھے وطن سے نکالاجائے گا تو نکلوں گا،اگر میرا مال چھین لیاجائے گا تو پروا نہیں کرونگا، اگر قتل کیاجائیگا تواس کے لئے بھی تیار ہونگا.اگر چہ کم ہیں لیکن ہماری جماعت میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اس قسم کی تکالیف کو برداشت کیا گیا.مالا بار میں ہماری جماعت ابھی کم ہے،وہاں احمدیوں کی عورتوں کو جبراً دوسری جگہ نکاح کر دیا گیا.جائدادیں چھین لیں اور بھی کئی جگہ طرح طرح کی تکالیف پہنچائی گئیں.مگر احمدیوں نے کوئی پرواہ نہ کی.پس جب انسان صداقت کو قبول کرے تو اس طرح کرے کہ پھر اس کے لئے ہر ایک چیز جو اُسے قربان کرنی پڑے کردے.اور جب اپنے آپ کو اس بات کے لئے تیا ر پائے تب بیعت کرے.ان باتوں کے سننے کے بعد اگر آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں مگر پھر بھی مَیں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ خوب سوچ سمجھ کر بیعت کریں اور ان تکالیف اور مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں جو انبیاء کی جماعتوں پر آتی ہیں.اس پر جب موصوف نے کہا کہ مَیں بالکل مطمئن ہوں اوربیعت کرنے کے لئے تیار ہوں تو بیعت لی گئی اوراس کے بعد حضور نے تبلیغ کرنے اور خلیفۂ وقت سے زیادہ تعلق بڑھانے کی تلقین فرمائی.(الفضل ۳۰؍ مئی ۱۹۲۱؁ء)

Page 95

آئینہء صداقت از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 96

Page 97

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِـسْمِ اللّٰـہِ الـرَّحْـمٰنِ الـرَّحِـیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالنّــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاصر دیباچہ اِس کتاب کی تصنیف کی ضرورت اور غرض گو اس بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ احمدیّت کی تبلیغ کے لئے ان اختلافات کے بیان کی جن کے باعث چند سو احمدی کہلانے والے جماعت احمدیہ سے الگ ہوگئے ہیں ضرورت نہیں.اور میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسے ممالک کے لئے کہ جو اُردو نہیں جانتے اور اس اختلاف سے ایک حد تک ناواقف ہیں جو کچھ لوگوں نے جماعت احمدیہ میں پیدا کرنا چاہا تھا کوئی تصنیف کروں ،مگر مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے اپنی کتاب سپلٹ میں چونکہ اس مسئلہ کو لکھ کر ایسے ممالک میں شائع کیا ہے کہ جن کو ان مسائل کے علم سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا تھا بلکہ جہاں ان خیالات کی اشاعت سے احمدیت کی ترقی کو نقصان پہنچ سکتا تھا.اس لئے مجبوراً مجھے بھی ان کی تحریر کا جواب لکھ کر ان ممالک میں شائع کرنے کی ضرورت معلوم ہوئی تا کہ وہ زہر جوانہوں نے اپنی تحریر کےذریعہ لوگوں کے دلوں میں پھیلایا ہے اس کا تریاق ہو اور راستی کے طالبوں اور صداقت کے دلدادوں کے لئے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کا کام دے.پس میں اس کتاب کو جُویانِ حقیقت کے سامنے پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ حق ان کے دل پر ظاہر کرے اور صداقت پر ان کو آگاہ کرے کہ اس کی ہدایت کے سوا کوئی ہدایت نہیں اور اس کی راہنمائی کے سوا کوئی راہنمائی نہیں.وہ دلوں کا حال جاننے والا ہے.

Page 98

اورغیب کی باتوں پر آگاہ ہے.کوئی چیز نہیں جو اس سے پوشیدہ ہو اور کوئی راز نہیں جس پر وہ آگاہ نہ ہو.اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اھدنا اِلٰی صِرَاطِکَ الْمُسْتَقِیْمِ وَثَبِّتْنَا عَلٰی دِیْنِکَ الْقَوِیْمِ وَاَلْھِمْ فِیْ قُلُوْبِنَا الْحَقَّ وَالسَّدَادَ وَوَفِّقْنَا اَنْ نَجْتَنِبَ الْفِتْنَۃَ وَالْفَسَادَ وَاخْذُلْ مَنْ عَادٰىنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی مَنْ مَارٰىنَا اِنَّکَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ وَخَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوٰىنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ -

Page 99

آئینہ صداقت (تحریر فرمودہ دسمبر ۱۹۲۱ء؁) مولوی محمد علی صاحب کی کتاب دی سپلٹ THE SPLIT مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک کتاب سپلٹ نامی حال ہی میں شائع ہوئی ہے.جو انہوں نے اس امر کے متعلق تحریر کی ہے کہ جماعت احمدیہ میں کیا اختلاف ہے.یہ کتاب عام طور پر ہندوستان کے ایسے علاقوں میں کہ جہاں اُردو نہیں سمجھی جاتی یا ہندوستان سے باہر ایسے مقامات پر کہ جہاں سلسلہ احمدیہ پھیلنا شروع ہوا ہے شائع کی گئی ہے اور اس کی غرض ان کی تحریر سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ احمدیہ جماعت سے اپیل کریں کہ وہ ایک دفعہ متفقہ طاقت سے بقول ان کے ان بد خیالات کو مٹا ڈالے جو میری طرف سے شائع کئے جاتے ہیں.چنانچہ وہ خود اس کتاب کے صفحہ ۷۶پر لکھتے ہیں."I appeal to the good sense and moral courage of the Ahmadiyya community to denounce these false doctrines with one voice before they take root like the false doctrines attributed to the Messiah" ۱ اشاعت سپلٹ کی وہ غرض نہیں جو بتائی گئی ہے مگر میرے نزدیک اس کتاب کی تصنیف سے ان کی یہ غرض نہیں اور اس تحریر کو پڑھتے ہی ہر ایک عقلمند انسان اسی نتیجہ پر پہنچے گا.کیونکہ جو لوگ ابتداء حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لائے اور جن کے ملک میں آپؑ پیدا ہوئے اور جن کو آپؑ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا اور

Page 100

جنہوں نے آپؑ کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو سُنا اور سمجھا اور جنہوں نے آپ کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی کتابوں کو اسی زبان میں پڑھا کہ جس میں وہ لکھی گئی تھیں اور جو تعداد میں دیگر تمام ممالک کے احمدیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں ان کی زبان انگریزی نہیں اورنہ سوائے ایک قلیل تعداد کے جو ایک فیصدی بھی نہیں وہ لوگ انگریزی سمجھ یا پڑھ سکتے ہیں.بیرونی ممالک میں سلسلہ کی ترقی میں پیش آنیوالی دو رکاوٹوں کا دور کرنا اسی طرح اس کتاب کے لکھنے کی یہ غرض بھی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے عقائد کے پھیلنے سے جو ان کے نزدیک نہایت اشتعال انگیز اور فتنہ خیز ہیں احمدی جماعت کی ترقی رُک گئی تھی اور ہندوستان سے باہرکے ممالک میں سلسلہ کا بڑھتا ہوا قدم ٹھہر گیا تھا اور اس خطرناک تعلیم کو سن کر لوگ سلسلہ سے بیزار ہوگئے تھے.پس احمدیہ جماعت کی خدمت اور اسلام کی محبت کو مدِّ نظر رکھ کر وہ مجبور ہوئے کہ لوگوں کو بتائیں کہ جو تعلیم میری طرف سے پھیلائی گئی تھی وہ غلط اور مسیح موعودؑ کی تعلیم کے خلاف تھی.مسیح موعودؑ کی تعلیم بالکل اسلام کے مطابق اور انہی لوگوں کے عقائد کے موافق ہے کیونکہ ہندوستان سے باہر سیلون.ماریشس.افریقہ وغیرہ ممالک میں کہ جہاں اس کی اشاعت کی گئی ہے اور جن ممالک کو مدِّ نظر رکھ کر یہ کتاب لکھی گئی ہے وہاں ان لوگوں کا کوئی مشن نہ پہلے کبھی قائم ہوا اور نہ اب قائم ہے.بیرونی ممالک میں احمدیّت کی تعلیم کب شروع ہوئی جس قدراحمدیت کی اشاعت غیر ممالک میں ہوئی ہے وہ سب میرے ہی زمانہ اور میرے ہی ذریعہ سے ہوئی ہے.ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ خدا تعالیٰ نے یہ نعمت اور یہ ثواب میرے لئے ہی مقدر کر کھا تھا کہ ایسے وقت میں جب جماعت ایک اندرونی آفت سے ایک سخت خطرہ میں تھی اوراپنوں اور بیگانوں کو خیال ہورہا تھا کہ جماعت احمدیہ کی زندگی کے دن پورے ہوگئے مجھے اس نے یہ طاقت دی کہ میں ہندوستان کے باہر کے ممالک کو بھی جوا ب تک اس نعمت عظمیٰ سے جو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کےذریعہ سے دُنیا پر نازل کی محروم تھے ان کا حق اور حصہ داد کروں پس جس قدر احمدی بھی غیر ممالک میں ہوئے وہ باوجود ان ’’تنگ خیالات‘‘ کی اشاعت کے جو مولوی صاحب میری طرف منسوب کرتے ہیں ہوئے ہیں.پس ان کے اس کتاب کو تحریر کرنے کا یہ امر بھی باعث نہیں ہوسکتا کہ میرے خیالات کی اشاعت سے سلسلہ کی ترقی کو نقصان پہنچ رہاتھا.الجمعہ ۵

Page 101

لوگوں کو سلسلہ میں داخل ہونے کا شوق دلانے کیلئے صحیح عقائد پھیلانا پھر یہ بھی نہیں خیال کیا جاسکتا کہ گو احمدی جماعتیں غیر ممالک میں میرے ہی ذریعہ سے قائم ہوئی ہیں لیکن مولوی صاحب نے یہ خیال کرکے کہ اگر صحیح عقائد پھیلا دئیے جائیں گے تو لوگ اور بھی شوق سے داخل ہوں گے.کیونکہ اس سے سلسلہ سے ان کی نفرت کم ہوجاوے گی یہ کتاب شائع کردی.کیونکہ باوجود ان خطرناک خیالات کے جن کو وہ میری طرف منسوب کرتے ہیں.ہندوستان میں جو مذہبی علوم کے لحاظ سے تمام مشرقی ایشیا کا استاد سمجھا جاتا ہے اور جس میں علوم دینیہ کی تعلیم کا دوسرے ممالک سے بہت زیادہ چرچا ہے اور عام طور پر یہاں کے لوگ دوسرے ممالک کے باشندوں سے دین سے بہت زیادہ واقف ہیں ہر سال ہزار ہا آدمی میری بیعت میں شامل ہو کر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں مولوی صاحب اور ان کے ساتھ جو کہ بقول ان کے A large number of the educated member of the community ہیں اور جو پھر ساتھ ہی۳ MORAL COURAGE رکھتے ہیں اب تک چھ سال کے عرصہ میں اسقدر آدمیوں کو احمدی نہیں بنا سکے جس قدر کی بعض دفعہ صرف ایک مہینہ میں میری بیعت میں شامل ہو جاتے یں اور جن میں دینی اور دنیاوی علوم کی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگریوں والے لوگ بھی شامل ہیں.سپلٹ کے شائع کرنے کی اصل وجہ پس اگر کوئی وجہ اس کتاب کی تحریر کی ہے تو صرف یہ کہ مولوی صاحب اس بغض و کینہ کی وجہ سے جو مجھ سے رکھتے ہیں یہ نہیں دیکھ سکتے کہ مجھے کوئی نقصان بھی پہنچ جاوے تو ان کو اس کی پرواہ نہیں.پس جب انہوں نے شمالی ہند اور دیگر ممالک میں میری ناچیز کوششوں کو بار آور ہوتے دیکھا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو مجھ پر نازل ہوتے مشاہدہ کیا تو انہوں نے اور کوئی حیلہ کارگر ہوتا ہوا نہ دیکھ کر یہ تدبیر جسے وہ بہت دفعہ ہندوستان میں بھی استعمال کرچکے ہیں اختیار کی میرے عقائد کو بُری سے بُری شکل میں دکھا کر اور ایسے الفاظ میں لکھ کر کہ جن کے پڑھنے سے ہر ایک غیر احمدی کا سینہ جو غضب سے بھر جاوے اور اس کی آنکھوں میں خون اُتر آئے اور بہت سے غلط واقعات سے اس کو زیب دے کر غیر ممالک میں شائع کیا جس سے ان کی یہ غرض تھی کہ لوگوں میں اس سلسلہ کی نسبت ایک عام جوش پھیل جاوے اور وہ لوگ اس سے بد ظن ہوکر اس میں داخل ہونے سے رُک جاویں اور

Page 102

جو تھوڑے سے لوگ باوجود مرکز سلسلہ سے دور اور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہونے کے ہر قسم کے مخالف حالات کی موجودگی میں خدا تعالیٰ کی آواز کو سن کر اس پر لبیک کہتے ہوئے دَوڑ پڑے تھے ان کی آگے ہی بڑھی ہوئی مصیبتیں اوربھی بڑھ جائیں اور غضب سے اندھے ہوئے ہوئے دشمن ان کو اپنے غصہ سے آگ میں جلا کر راکھ کردیں اور اس طرح مولوی صاحب کے دل کو یہ ٹھنڈک نصیب ہوکہ گو سچّے اسلام کا قصران ممالک میں برباد ہوگیا اور اس کی بنیادیں ہل گئیں مگر ساتھ ہی میری کوششوں بھی ناکامی کا منہ دیکھا.نعوذ باللہ من ذٰلک.صداقت کبھی مغلوب نہیں ہوتی مگر مولوی صاحب کو یہ خیال نہیں آیا کہ الٰہی سلسلوں میں داخل ہونے والے لوگ عموماً وہی ہوتے ہیں جو اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر صداقت کو قبول کرتے ہیں اور کوئی مشکل ان کو صداقت کے راستہ سے ہٹا نہیں سکتی.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو ان کے دشمنوں کی کھینچی ہوئی تلواریں اپنے عقائد سے پھر ا سکیں یا صفحہ ہستی سے مٹا سکیں؟ کیا اس زمانہ کے امام کے دشمنوں نے اپنا زور نہیں لگایا اور احمدیوں کو پیس ڈالنے کی کوشش میں ناکامی کا منہ نہیں دیکھا؟ تو کیا اب آپ کے ڈالے ہوئے تیل سے مخالفت کی جو آگ بھڑکے گی اس کے شعلے غیر ممالک کے احمدیوں کو جلا کر راکھ کردیں گے اور وہ یا تو تباہ ہوجائیں گے یا مجبور ہوکر حق کو چھوڑ بیٹھیں گے؟ نہیں خدا کی قسم نہیں.جس شخص کو ذرّہ بھر بھی حلاوت ایمان سے حصہ ملا ہے وہ جانتا ہے کہ صداقت کبھی مغلوب نہیں ہوتی اور حق کے قبول کرنے کے بعد ہر ایک مصیبت حق کو چھوڑ دینے کے مقابلہ میں آسان معلوم ہوتی ہے.مولوی محمد علی صاحب کی ناکامیاں کاش! مولوی صاحب ان ناکامیوں کو دیکھ کر ہی کوئی نصیحت حاصل کرتے جو ان کو ہندوستان میں ہوئی ہیں.ان کی کوششوں کے نتیجہ میں پانچ سال کے عرصہ میں جس قدر لوگ بھی انکے ساتھ شامل ہوئے ہیں ان سے کئی گنے زیادہ نئے احمدی جو ان کے ہم خیالوں سے دنیاوی حیثیت میں بھی کسی طرح کم نہیں میری بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور خود ان کے ہم خیالوں میں بھی ایک بہت بڑی تعداد ان کو چھوڑ کر میرے ساتھ آکر مل گئی ہے.مولوی محمد علی صاحب کا غیر ممالک کی طرف متوجہ ہونا جس طرح مسیح ناصری کے بعد لوگ بنی اسرائیل میں اپنے خیالات کی اشاعت سے مایوس ہو کر دوسری اقوام کی طرف متوجہ ہوئے تھے آپ بھی اسی طرح حضرت

Page 103

مسیح موعود کے زمانہ میں احمدی ہونے والی جماعت سے مایوس ہوکر اب غیر ملکوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں مگر یاد رکھئے کہ پہلے مسیح اور اس مسیح میں فرق ہے.وہ موسوی سلسلہ کا خلیفہ تھا اور یہ محمدی سلسلہ کا خلیفہ ہے.پس جس طرح پہلے مسیح کی طرح دوسرا مسیح سولی پر نہیں چڑھا گیا.اسی طرح پہلے مسیحؑ کی جماعت کے خلاف اس مسیح کی جماعت بھی ہر ایک صداقت سے پھیر دینے والی تحریک سے محفوظ رہے گی.مولوی صاحب کی بد تہذیبی اس کتاب کی اشاعت کی غرض بتانے کے بعد اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے مَیں اس بات پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتاکہ مولوی صاحب اپنی سخت کلامی کی عادت٭کو یہاں بھی چھوڑ نہیں سکے.میرے مقابلہ میں اُردو میں جس قدر -------------------------------------------------------------------------------------- ٭ اس کے لئے بطور نمونہ مشتے از خروارے مولوی محمد علی صاحب کے دو چار فقرے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.النبوۃ فی الاسلام کے صفحہ ۳۱۲ پر لکھتے ہیں :- ’’میاں صاحب کہتے ہیں.ماں باپ نے آنحضرت ؐکا نام احمد نہیں رکھا تھا.اوّل تو یہ جھوٹ ہے.مسیح موعودؑ نے خود اسے تسلیم کیا ہے.‘‘ ’’پھر یہ محض جھک مارنا ہے کہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نہیں.‘‘ اورپھر صفحہ ۳۱۹ پر لکھا ہے.’’حقیقۃ النبوۃ میں یہ جھوٹ بولا کہ مجھے اس وقت بھی علم تھا‘‘ یہ کہ ’’گویا آپ بحث چھڑنے کے ڈر سے بھی جھوٹ لکھ دیا کرتے تھے‘‘ اور یہ کہ ’’ایک جھوٹ بول کر اپنے آپ کو غلطی سے پاک کرنا چاہا.‘‘ اور رسالہ ’’ تبدیلی عقیدہ کا الزام ‘‘ (بجواب مولوی محمد علی صاحب کی تبدیلی عقیدہ ) میں لکھتے ہیں:- ’’میاں صاحب اور ان کے مرید ین نے …آثم اور اظلم بننے کو آسان سمجھا.مگر شہادت حقہ کی ادائیگی کو موت سے بدتر سمجھ کر اس کے ادا کرنے سے انکار کیا…ان سیاہ باطن ظالموں نے اتنا بھی نہ دیکھا…یہ گروہ ان ہی کا جانشین پیدا تو نہیں ہوگیا.جن کو تم کل تک شَرُّ مَنْ فِی الْاَرْضِ کہتے تھے.ان کو رباطنوں کو جو خادمان دین کو مُرتد کے نام سے پُکارتے ہیں.بُلا کر پُوچھو کہ ایک شخص کے علانیہ اقرار کے ہوتے ہوئے تمہارا ایسی جرأت کرنا تمہیں خدا کی لعنت کا مورد بنائے گا یا نہیں ‘‘.اگر پیر سچّا ہے تو یہ گروہ دُنیا کو دھوکا دینے ولا قرار پاتا ہے.اوراگر اس گروہ کا مذہب وہی تھا.جو دین الحق میں لکھا ہے.تو پیر باطل کا حامی ہے.‘‘ آج ان باتوں سے انکار کرنا ان کی سیاہ روی کا موجب ہی نہیں.بلکہ قریب ہے کہ اس انکار پر اصرار کرکے انکے دل سیاہ ہوجائیں اور وہ خدا کی لعنت کے نیچے آجائیں اور کَفَرْ تُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کا مصداق ثابت ہوں‘‘ پھر مولوی محمد علی صاحب اپنے رسالہ مرآۃ الحقیقت میں میرے متعلق لکھتے ہیں:-’’ وقت پر بازی لے جانے کے لئے آپ ان امور کی قدر اتنی ہی کرتے ہیں.جیسے ایک تاش کھیلنے والا تاش کے پتوں کی قدر کرتا ہے.‘‘ صفحہ ۷۹ پر اورلکھتے ہیں.مَیں نے دکھانا صرف یہ ہے کہ آپ اپنی غرض کے لئے کیا کیا کچھ کرلیتے ہیں.شاید ان لوگوں میں جن کو شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ ہم قرار دیتے ہیں ایسی جرأت کرنیوالے کم ہی ہونگے.‘‘

Page 104

مضامین انہوں نے لکھے ہیں ان میں بھی ان کی طرز تحریرنہایت مکروہ رہی ہے اور اس کے مقابلہ میں مَیں نے اس ادب و احترام کو جو شرفاء میں رائج ہے کبھی نہیں چھوڑا بلکہ ان کو بھی اس کمزوری کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے.مگر مولوی صاحب نے میری نصیحت پر کبھی کان نہیں دھرا اور ہمیشہ اس رویہ کو اختیار کئے چلے گئے ہیں لوگ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ معیّن اشخاص کو مخاطب کرکے یا ان کا ذکر کرکے اگر کسی شخص نے مسائل اختلافیہ پر رسائل شائع کرنے میں ابتداء کی ہے تو وہ مولوی محمد علی صاحب ہی ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات سے چند دن پہلے آپ کی نازک حالت کو دیکھ کر مولوی محمد علی صاحب نے ایک ٹریکٹ لکھا تھا جس میں مسائل اختلافیہ پر رائے زنی کی گئی تھی اور ڈر سے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو اگر معلوم ہوگیا تو ان کی سب کوشش اکارت جاوے گی انہوں نے کمال دانائی و ہوشیار سے ٹریکٹ لکھوایا اور چھپوایا.نہ حضرت خلیفۃ المسیح کو پڑھ کر یہ ٹریکٹ سنایا نہ اس کے مضمون پر آگاہی دی نہ آپ سے مشورہ لیا.حالانکہ احمدیوں میں یہ بات عام طور پر رائج ہے کہ اختلافی امور یا اہم مسائل پر جب کبھی کوئی رسالہ یا اشتہار لکھا جاتا ہے تو اس کے متعلق خلیفۂ وقت سے اجازت لی جاتی ہے.چنانچہ خواجہ صاحب نے کفر و اسلام کے متعلق جو مضامین لکھے تھے وہ حضرت خلیفۃ المسیح کو دکھائے تھے.کانپور کی مسجد کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے پیغام صلح کےسٹاف نے خاص آدمی بھیج کر حضرت خلیفۃ المسیح کی رائے طلب کی تھی.یہ الگ بات ہے کہ پورے طور پر مضامین سنائیں یا نہ.یا آپ کی رائے کو اس کے اصلی رنگ میں شائع کریں نہ کریں.گو ایک قسم کا پردہ ضرور رکھا جاتا تھا.مگر اس مضمون کے متعلق دو حرفی ذکر بھی مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے نہیں کیا.حالانکہ آپ کی وصیت کے عجیب وغیرب معنے اس میں آپ نے کئے تھے کم سے کم ان معنوں کے متعلق ہی دریافت کرنا چاہئے تھا کہ آپ کی وصیت کے یہ معنے کئے ہیں کیا یہ درست ہیں؟ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اور اخفاء سے کام لیا.اسی طرح قادیان میں ٹریکٹ نہیں چھپوایا ان کو زیادہ نہ تھا.لاہور میں بھی ٹریکٹ چھاپ کر رکھ چھوڑا گیا اور اس دن کا انتظار ہوتا رہاجب حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہوجاویں تا کہ جو کچھ بھی آپ کی نسبت شائع کیا جاوے اس کی تردید نہ ہوسکے.غرض مولوی محمد علی صاحب ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس قسم کی تحریرلکھی ہے جس میں انہوں نے میرااور میرے دوستوں کا ذکر کرکے ان کے عقائد کی نسبت یہ لکھا ہے کہ وہ تقویٰ کے خلاف ہیں.

Page 105

اوران اعتقادات کا رکھنے والا متقی نہیں ہوسکتا اور اس تحریر کے بعد برابر ہر ایک تحریر میں وہ سختی سے کام لیتے رہے ہیں اور میرا نام بھی ایسی حقارت سے لکھتے رہتے ہیں کہ شرفاء میں ایک دوسرے کا ذکر اس طرح جائز نہیں سمجھا جاتا.گو اس کتاب میں لفظاً انہوں نے ایسی سختی نہیں کی مگر ضَآل اور مُضِلّ اور اس قسم کے خطاب مجھے ضرور دئیے ہیں جیسا کہ ہر ایک پڑھنے والے پر روشن ہوگا اور میرا نام نہ معلوم کس نسبت سے ایم محمود کرکے لکھتےرہے ہیں.مگر مَیں نے جیسا کہ پہلے شرافت کا لحاظ رکھا ہے اب بھی رکھوں گا.اورگو ان کی روز افزوں سختی کے جواب میں زیادہ زور دار الفاظ استعمال کرنے ضروری معلوم ہوتے ہیں مگر میں پسند نہیں کرتا انہی کے رنگ میں چل کر مَیں آداب کلام کو بھی چھوڑ دوں.سلسلہ احمدیہ اور سلسلہ ءمسیحیہ کی مماثلت مولوی محمد علی صاحب کے اس طریق تحریر کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب میں ان کی کتاب کے جواب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں:- مولوی محمد علی صاحب شروع کتاب میں ہی تحریر فرماتے ہیں کہ چونکہ سلسلہ احمدیہ مسیحیہ کا مثیل ہے اس لئے ضرور تھا کہ اس میں بھی ایک فریق غلو سے کام لیتا اور حق کو چھوڑ دیتا اور اس پر انہوں نے خاص طور پر زور دیا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ صرف اسی مشابہت سے ہی ہمارے اور ان کے درمیان بیّن فیصلہ ہوجاتا ہےمگر مولوی محمد علی صاحب شاید یہ بات نہیں سمجھتے کہ مشابہت سے ہر ایک امر میں مشابہت ہونی ضروری نہیں.بلکہ مثیل کبھی اس سے جس کا وہ مثیل ہوتا ہے درجہ اور کامیابی میں بڑھا ہوا ہوتا ہے.رسول ِ کریمﷺ اور حضرت موسٰی کی مماثلت حضرت مسیح موعودؑ صرف ایک ہی مثیل نہیں ہیں بلکہ آپؑ کے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک نبی کے ثیل ہیں یعنی حضرت موسٰی کے.مگر باوجود اس کے آپؑ کے صحابہؓ کے ساتھ اسی رنگ میں معاملہ نہیں ہوا جس رنگ میں کہ حضرت موسٰی کے صحابہ سے.اور نہ آپؐ کے صحابہؓ نے حضرت موسٰی کے صحابہ کا سا نمونہ دکھایا.اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل موسٰی ہونا ان الفاظ میں بیان کرتا ہے.اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَيْكُمْ كَـمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزّمّل:۱۶) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہےجس طرح کہ ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اس آیت میں ا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسٰی کا مثیل اور مشابہ قرار دیا ہے.توریت بھی یہی کہتی ہے.خدا تعالیٰ حضرت موسٰی کو

Page 106

مخاطب کرکے فرماتا ہے.’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور ۱۹۲۲ء) رسولِ کریم ﷺکی اور حضرت موسٰی کی کامیابیوں کا مقابلہ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم موسٰی کے مثیل اور اس سے مشابہ سی مشابہتیں ہیں.وہاں آپ کی کامیابیاں حضرت موسٰی سے بہت بڑھی ہوئی ہیں.حضرت موسٰی سے بھی ایک وعدہ کیا گیا تھا کہ کنعان کی زمین ان کو دی جاوے گی.تاکہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ٹھہرنے کا مقام ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک وعدہ دیا گیا تھا کہ حرم (حوالی مکّہ)کی سر زمین ان کو دی جاوے گی.تا ہمیشہ کے لئے ان کے ٹھہرنے کا مقام ہو.مگر حضرت موسٰی جب اس ملک کے فتح کرنے کے لئے چلے تو باوجود اس کے کہ ان کی قوم نے اس نے پوری مدد کا وعدہ کیا تھا عین موقع پر انہوں نے موسٰی کو یہ جواب دیا کہ يٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْہَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ(المائدۃ :۲۵)یعنی اے موسٰی ہم اس زمین میں کبھی داخل نہ ہوں گےجب تک کہ اس میں اس کے پہلے قابض لوگ موجود ہیں.پس تُو اور تیرا رب جاؤ اور ان سے جاکر لڑو.ہم تو یہ بیٹھےہیں.حتّٰی کہ حضرت موسٰی کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے اور لڑائی کا ارادہ چھوڑنا پڑا.اس کے مقابلہ میں ہمارےا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ کا انصار سے یہ معاہدہ تھا کہ صرف اس وقت کہ ہم پر مدینہ میں کوئی حملہ آور ہو تمہارا فرض ہوگا کہ تم ہماری مدد کرو.اور یہ معاہدہ بیعتِ عقبہ کےوقت جو انصار سے آپ نے ہجرت کرنےسے پہلے مکہ مکرمہ میں لی تھی کیا تھا.چنانچہ مشہور مؤرخ ابن ہشام لکھتا ہے کہ انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا کہ یا رسول اللہ اِنَّا بُرَآءٌ مِنْ ذِمَامِکَ حَتّٰی تَصِلَ اِلٰی دِیَارِنَا فَاِذَا وَصَلْتَ اِلَیْنَا فَاَنْتَ فِیْ ذِمَّتِنَا نَمْنَعُکَ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْہُ اَبْنَآءَنَا وَنِسَآءَنَا-یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر ہم آپؐ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہاں مدینہ پہنچ کر ہم آپؐ کےذمہ دار ہیں.ہم جن باتوں سے اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بچاتےہیں آپ ؐکو بھی بچائیں گے.پس جب بدر کی جنگ ہوئی اور آپ ؐنے ارادہ کیا کہ دشمن کو روکنے کے لئےہم آگے نکل کر اس کا مقابلہ کریں تو لکھا ہے:- کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَخَوَّفُ اَنْ لَا تَکُوْنَ الْاَنْصَارُ تَرٰی عَلَیْھَا نَصْرَہٗ اِلَّا مِمَّنْ دَھَمَہٗ بِالْمَدِیْنَۃِ

Page 107

مِنْ عَدُوِّہٖ وَاَنَّ لَیْسَ عَلَیْھِمْ اَنْ یَّسِیْرَ بِھِمْ اِلٰی عَدُوٍّ مِنْ بِلَادِھِمْ فَلَمَّا قَالَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ سَعْدُبْنُ مَعَاذٍ وَاللہِ لَکَأَنَّکَ تُرِیْدُنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ قَالَ اَجَلْ قَالَ فَقَدْ اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ وَشَھِدْنَا اَنَّ مَاجِئْتَ بِہٖ ھُوَ الْحَقُّ وَاَعْطَیْنَاکَ عَلٰی ذٰلِکَ عُھُوْدَنَا وَمَوَاثِیْقَنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فَامْضِ یَارَسُوْلَ اللہِ لِمَا اَرَدْتَ فَنَحْنُ مَعَکَ فَوَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَوِاسْتَعْرَضْتَ بِنَا ھٰذَا الْبَحْرَ فَخُضْتَہٗ لَخُضْنَاہُ مَعَکَ مَا تَخَلَّفَ مِنَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَمَانَکْرَہٗ اَنْ تَلْقٰی بِنَا عَدُوَّنَا غَدًا اِنَّا لَصُبُرٌ فِی الْحَرْبِ صُدُقٌ فِی الِّلقَآءِ لَعَلَّ اللہَ یُرِیْکَ مِنَّا مَا تَقِرُّبِہٖ عَیْنُکَ فَسِرْ بِنَا عَلٰی بَرَکَۃِ اللہِ -٭یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوف کرتے تھے کہ کہیں انصار یہ خیال نہ کرتے ہوں کہ ان پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی مدد صرف اسی وقت فرض ہے جب کوئی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو اور یہ کہ ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کا حق نہیں جبکہ آپؐ ان کو ان کے علاقہ سے باہر کسی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے لے جانا چاہیں.پس جب آپؐ نے کہا لوگو! تمہارا کیا مشورہ ہے؟ تو سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ ہم تو آپ پر ایمان لاچکے ہیں اور آپ ؐکی تصدیق کرچکے ہیں اور اس بات کی گواہی دے چکے ہیں کہ آپؐجو کچھ لائے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اسی وجہ سے ہم نے آپؐسے پختہ عہد اور اقرار کئے ہیں کہ ہم آپ ؐکی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے.پس یا رسول اللہ چلئے.جدھر چلتے ہیں.ہم آپ ؐکے ساتھ ہونگے.اور اسی خدا کی قسم جس نے آپؐ کو سچّی تعلیم دے کر بھیجا ہے اگر آپؐہم کو اس سمندر کی طرف لے جاویں (بحیرہ احمر کی طرف اشارہ ہے جو عرب کے ساحل پر ہے) اور اس کے اندر داخل ہوجاویں تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے.اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا اور ہم اس بات کو ناپسند نہیں کرتے کہ آپ ہمیں لے کر کل ہی دشمنوں کا مقابلہ کریں.ہم لڑائی میں صابر اور جنگ میں ثابت قدم ہیں.ہم اُمید کرتے ہیں کہ آپؐ جنگ میں ہم سے وہ بات دیکھیں گے جو آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کریگی.پس چلئے خدا تعالیٰ کی برکت کے ساتھ یا رسول ؐاللہ.رسول کریم ﷺکے صحابہ ؓ اور حضرت موسٰی کے ساتھیوں کے جواب میں فرق اس جواب اور اس جواب کا جو حضرت موسٰی کی قوم نے باوجود وعدہ مدد کے دیا تھا مقابلہ کرو اور دیکھو کہ کیا ان دونوں جماعتوں سے زیادہ کوئی اور دو قومیں متفاوت الحالات معلوم ہوتی ہیں مگر اس جواب سے بھی زیادہ عجیب جواب وہ سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ ص ۶۴۴مطبوعہ مصر

Page 108

ہے.جو مقداد بن عمر ؓ نےدیا.کیونکہ اس میں انہوں نے وہی الفاظ بتغیر مناسب دہرائے ہیں.جو حضرت موسٰی کی قوم نے حضرت موسٰی کو دیا تھا.وہ کہتے ہیں کہ وَاللہِ لَا نَقُوْلُ لَکَ مَا قَالَتْ بَنُوْاِسْرَآئِیْلَ لِمُوْسٰی اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ - وَلٰکِنْ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا مَعَکُمَا مُقَاتِلُوْنَ -(سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ صفحہ ۲۶۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء)خدا کی قسم ہم تجھے وہ جواب نہیں دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسٰی کو دیا تھا کہ جا تُو اور تیرا رب جاکر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہمارا جواب تو یہ ہے کہ چلئے آپؐ اور آپؐکا رب دشمن کا مقابلہ کریں ہم آپؐکے ساتھ مل کر دشمنوں سے لڑیں گے.‘‘ یہ فرق تو اصحاب ِ موسٰی اور اصحابِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.خدا کا معاملہ میں بھی ہم یہی فرق دیکھتے ہیں.حضرت موسیٰ بغیر اس موعودہ زمین میں داخل ہونے کے اپنی جماعت سمیت اس زمین کے سامنے ہی خیمہ ڈالے ہوئے فوت ہوگئے اورا ٓگے ان کی اولاد کے ہاتھ پر وہ وعدہ پورا ہوا.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت شان و شوکت کے ساتھ اپنے صحابہ ؓکی جماعت میں گھرے ہوئے جس طرح چاند ہالہ کے اندر ہوتا ہے مکّہ میں بذات خاص فاتحانہ طور پر داخل ہوئے اور ہمیشہ کےلئے وہ ملک آپؐکو دیا گیا.مسیح ؑ ناصری اور مسیح ؑ قادیانی کی جماعت میں فرق مسیحؑ ناصری اور مسیح قادیانی جو بوجہ موسوی اور محمدی سلسلوں کے خاتم الخلفاء ہونے کے ایک دوسرے سے مشابہ ہیں ان میں اوران کی جماعتوں میں بھی وہی نسبت پائی جاتی ہے.حضرت مسیحؑ ناصری کے حواریوں میں سے ایک کو جب اس کے مخالفوں نے پکڑا اور کہا کہ ’’بیشک تُو بھی ان میں سے ہے (یعنی مسیح کے ساتھیوں میں سے)کہ تیری بولی تجھے ظاہر کرتی ہے.تب اس نے لعنت بھیج کر اور قسم کھا کر کہا.مَیں اس شخص کو نہیں جانتا.‘‘ (متی بات ۲۶ آیت ۷۳ ،۷۴٭) مگر مسیح محمدی کے حواریوں میں سے بھی ایک شخص ویسے بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ابتلاء میں مبتلا ہوا اور وہاں تو دو عورتوں نے اور ایک دفعہ چند یہود نے جو حکومت میں کوئی دخل نہ رکھتے تھے پوچھا تھا کہ کیا تُو مسیح کے ساتھ ہے یہاں مسیح محمدی کے حواری سے خود بادشاہ نے دریافت کیا کہ کیا تُو اس مسیحؑکےساتھ ہے.اور وہاں تین دفعہ کے دریافت پر اس نے انکار پر اصرار کیا.اور یہاں کئی دفعہ کے اصرار پر مسیح ؑمحمدی کے حواری نے بار بار اقرار کیا.*نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰

Page 109

سید عبداللطیف کا واقعہ شہادت یہ واقعہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا ہے کہ جو افغانستان کے ایک جیّد عالم اور بزرگ تھے.آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر سُن کر اور آپؐکی بعض کُتب پڑھ کر قبول کیا اور پھر خود قادیان تشریف لاکر صُحبت سے فائدہ حاصل کیا.جب واپس تشریف لے گئے تو چونکہ افغانستان کے سب سے بڑے عاعلم تھے اور بارسوخ تھے.حتّٰی کہ امیر٭ موجودہ کی تاجپوشی پر آپ ہی نے اس کے سر پر تاج رکھا تھا.اس واقعہ کی اطلاع امیر کابل کو بھی دی گئی اور مولویوں نے اس کو بھڑکا یا کہ یہ کافر ہوگیا ہے اس کو قتل کرنا چاہئے.چنانہ امیر جب مجبورہوا تو اس نے پہلے دیگر افسروں کےذریعہ آپ کو توبہ کے لئے کہا.جب آپ نے انکار کیا تو اپنے سامنے بلوا کر خود توبہ کے لئے کہا.جب آپ نے پھر انکار کیا تو مولویوں کے فتویٰ کے مطابق سزائے موت کی دھمکی دی.جب اس پر بھی بار بار اصرار کیا تو مولویوں کے فتویٰ کے مطابق سنگسار کرنے کا فتویٰ دیا.جب آپ کو قتل گہا میں لے جایا گیا اور بوجہ ان کے درجہ بلند کے امیرِکابل مع امراء خاص خود اس کام کو پورا کرنےکےلئے ساتھ گیا اور ان کو آدھا زمین میں گاڑ کر سنگسار کرنے کے لئے کھڑا کیا تو پھر امیر بذاتِ خود آپ کے پاس گیا اور کہا کہ اخوندزادہ اب بھی اس عقیدہ سے توبہ کیجئے.اوراپنی جان اوراپنے اہل و عیال پر رحم کیجئے مگر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ میں صداقت سےکیوں انکار کرسکتا ہوں جان اور اہل و عیال کیا حقیقت رکھتے ہیں کہ ان کی خاطر ایمان چھوڑ دوں.مجھ سے اس فعل کی اُمید نہ کیجئے مَیں ایمان پر اپنی جان قربان کرنےسےذر ّہ بھر بھی کوف نہیں کرتا.اس پر آپ پتھروں کی بارش برسائی گئی اور نہایت بیدردی سے آپ شہید کئے گئے.یہ واقعہ ۱۹۰۳ء؁ میں ہوا ہے.اور اس بیّن فرق کو ظاہر کرتا ہے جو مسیح ؑ اول اور مسیح ثانی کی جماعتوں میں ہے.مسیح ؑ اول اور مسیحؑ ثانی کے ساتھ خدا کا معاملہ اور اس میں تفاوت اسی طرح مسیح اوّل اور مسیح ثانی کے ساتھ جو معاملہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ بھی بالکل متاوت ہے یعنی مسیح ؑاوّل کو سُولی پر لٹکانے میں اس کا دشمن کامیاب ہوگئے مگر باوجود اس کے کہ مسیحؑ ثانی کو بھی اقدام قتل کے الزام لگا کر دشمنوں نے ہلاک کرنا چاہا خدا تعالیٰ *جس وقت یہ کتاب لکھی جا رہی تھی.امیر حبیب اللہ خان زندہ تھے.اس کی اشاعت کے وقت وہ کسی قاتل کت ہاتھ سے قتل ہو چکے تھے.

Page 110

نے اس کو صاف بچا لیا اور اس کے دشمنوں کو اس کے خلاف ہلاک کردیا.سلسلہ محمّدیہ اور سلسلہ موسویہ میں بیّن امتیاز غرض جہاں سلسلہ محمدیہ اور سلسلہ موسویہ میں ایک عجیب مشابہت ہے.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی تائیدوں کے لحاظ سے ایک بین امتیاز بھی ہے.پس صرف اس وجہ سے کہ دونوں سلسلے مشابہ ہیں یہ کہہ دینا کہ اس لئے حضرت مسیح موعودؑکی جماعت ضرور غلّو کرنے والی ہے.درست نہیں ہوسکتا.مسیح موعودؑ کی جماعت پر غلو کا الزام لگانے سے شیعوں کا اعتراض صحابہؓ کے متعلق ضرور ماننا پڑیگا اگر اسی بات سے نتیجہ نکالنا درست ہے.تو کیا شیعوں کا یہ الزام ہم درست تسلیم کرلیں کہ اکثر صحابہؓ منافق تھے کیونکہ اس کی تائید میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰؑتھے اور حضرت موسٰی کی جماعت کے کثیر حصہ نے عین موقع پر نفاق دکھایا تھا.اس لئے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہؓ منافق تھے.نعوذ باللہ من ذٰالک.رسول کریم ﷺاور مسیح موعودؑ کی رُوحانیت نے اپنے صحابہؓ کو اپنے مثیل کے ساتھیوں کی مشابہت سے بچا لیا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے آپ ؐکی جماعت کے اکثر حصہ کو حضرت موسٰی کے وقت کے لوگوں کی مشابہت سے بچایا اور صرف کچھ لوگ منافقت کا شکار ہوئے.اسی طرح مسیح ؑمحمدی کی روحانیت بھی ضروری تھا کہ اپنی جماعت کے کثیر حصہ کو اس غلطی سے بچاتی جو مسیح ناصری کے بعد اس کی جماعت سے ہوئی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سوائے ایک قلیل گروہ کے سب جماعت مرکز سلسلہ سے متعلق ہے اور اپنے انہی عقائد پر قائم ہے جس پر پہلے وہ قائم تھی.ہاں جس طرح ایک قلیل گروہ جو خلافت کا منکر تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو گرانے لگا اور جس کا اظہار حضرت علیؓ کے وقت میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہونے کی وجہ سے آپؐ کے بیٹے کی طرح تھے ہوا اسی طرح آج اس وقت جبکہ حضرت مسیح موعود ؑکا ایک بیٹا خلیفہ ہوا ایک قلیل گروہ خلافت کا منکر پیدا ہوا اور جس طرح خوارج نے یہ اعلان کیا تھا کہ الطَّاعَۃُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْرٰی بَیْنَنَا.یعی اطاعت تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہےباقی انتظامی امور میں تو آپس کا فیصلہ جو مشورہ کے بعد قرار پائے وہی جاری ہونا چاہئے.یعنی خلیفہ کوئی چیز نہیں ایک پارلیمنٹ ہو.اسی

Page 111

طرح آج اس گروہ نے جس کی انجمن کے پریذیڈنٹ مولوی محمد علی صاحب ہیں یہ آواز بُلند کی ہے کہ خلیفہ کوئی چیز نہیں بلکہ ایک انجمن کے سُپرد جماعت کا انتظام ہوناچاہئے.مگر جس طرح خوارج پہلے چند سال شور و شر کرکے آخر دب کر بیٹھ گئے اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس گروہ کا بھی یہی حال ہوگا.انجیلی آیات سے مولوی محمد علی صاحب کا استدلال مولوی محمد علی صاحب نے انجیل کی چند آیات نقل کرکے لکھا ہے کہ مسیح کے دشمنوں نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ یہ خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس پر مسیح نے انکار کیا اور کہا کہ مجھے جو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے.یہ صرف استعارۃً کہا گیا ہے اورا نہی معنوں میں کہا گیا ہے جن میں پہلے نبیوں کو خدا کہا گیا تھا.مگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے حواریوں نے انہی معنوں میں آپ کو خدا کا بیٹا کہنا شروع کردیا جن معنوں میں کہ خدا کا لفظ رب العالمین کی نسبت استعمال ہوتا ہے اور جن معنوں میں ابینّت کا دعویٰ کرنے کا الزام یہودی حضرت مسیح علیہ السلام پر لگاتے تھے وہ اس سے استدلال کرتے ہیں کہ بعینہٖ اسی طرح مسیح ؑطرح مسیحؑ موعود محمدی سے ہونا چاہئے تھا اور ہوا ہے.اس کے دشمنوں نے بھی کہا کہ یہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس نے انکار کیا کہ مجھے نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ مجازی طور پر مجھے نبی کہا گیا ہے مگر آپؑکی وفات کے بعد آپ ؑکی جماعت نے مسیح کے حواریوں کی طرح یہی کہنا شروع کردیا کہ وہ ویسے ہی نبی تھے جیسے کہ ان کے دشمن کہتے تھے.میرے نزدیک یہ مشابہت انہوں نے بہت عمدہ دریافت کی ہے مگر اس کو چسپاں انہوں نےغلط کیا ہے.ہم ان آیتوں کو جو انہوں نے انجیل سے نقل کی ہیںپڑھ کردیکھتے ہیں تو ان میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہود آپ پر الزام لگاتےہیں کہ یہ خدا کا بیٹا فلاں فلاں معنوں کی رو سے بنتا ہے.حضرت مسیح ؑکہتے ہیں کہ نہیں میں خدا کا بیٹا ان معنوں کی رو سے بنتا ہوں جن میں پہلے نبی خدا کہلائے.آپ کے بعد آپ کی جماعت نے خدا کے وہ معنے لے کر مسیح کی طرف منسوب کردئیے جو مسیح کے دشمن لیتے تھے اب اسی مثال کو ہم حضرت مسیح محمدی کےوقت میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ پر آپ کے دشمنوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ ؑشریعت والے نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعودؑاپنے ایک خط مطبوعہ روزانہ اخبار عام لاہور میں (یہ اخبار پنجاب کا سب سے پُرانا اخبار ہے اور اس کے ایڈیٹر او رمالک سب ہندو اصحاب ہیں اس اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ گویا حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوائے نبوت سے رجوع کرلیا ہے.اس پر حضرت مسیح موعود ؑنے ایک خط اپنے

Page 112

قلم سے اس اخبار کے ایڈیٹر کو ۲۳ ؍ مئی ۱۹۰۸؁ء کو اپنی وفات سے دو تین دن پہلے لکھا.جس میں سے یہ چند سطور نقل کی جاتی ہیں) تحریر فرماتے ہیں:- اخبارِ عام میں مسیح موعود ؑ کا صاحبِ شرع نبی ہونے سے انکار ’’پرچہ اخبار عام ۲۳؍مئی ۱۹۰۸؁ءکے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ خبر درج ہے کہ گویا میں نے جلسہ دعوت میں نبوت سے انکار کیا.اس کے جواب میں واضح ہو کہ اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ مَیں ہمیشہ اپنی تالیفات کےذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں اوراب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنے ہیں کہ مَیں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیںرکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے‘‘.دشمنوں کا الزام دُور کرنے کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود ؑاپنے دعوے کے متعلق اس خط میں یہ فرماتے ہیں کہ :- جس بناء پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہےاور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جبتک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا.اور انہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے.سو مَیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اوراگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا.‘‘ پھر دوسرےانبیاء علیہم السلام کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ:- ’’منجملہ ان انعامات کےوہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے تھے.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵،روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹حاشیہ) ان تینوں تحریروں کو ملا کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے دشمن آپ ؑپر تشریعی نبی ہونےکا الزام لگاتے تھے لیکن آپ ؑاس سےانکار کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مَیں تو ان معنوں میں نبی ہوں کہ مجھے کثرت سے امورِغیبیہ پر اطلاع دی جاتی ہے.اورپہلے انبیاؑءبھی انہی معنوں میں نبی

Page 113

کہلاتےرہے.اور ایہ امر بالکل حضرت مسیح ناصری کےواقعہ سے مشابہ ہے.لیکن اس نشانہ کے ماتحت صرف وہ شخص کردیا جن معنوں میں یہود کہتے تھے کہ آپ کو خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ ہے مشابہ ہو سکتا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کو تشریعی نبی قرار دیتا ہے.مسیح ناصری کے غالی متبعین سے ہماری مشابہت درست نہیں پس حضرت مسیحؑ ناصری کے ان متبعین سے مشابہت جنہوں نے ان کے درجہ میں ان کی وفات کے بعد غلو کیا ہمیں نہیں.کیونکہ ہم تم ہر گز ان معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعودؑکو نبی کہتے جن معنوں کی رو سے عموماًآپ ؑکے دشمن آپ ؑ پر اعتراض کیا کرتے تھے اور جن معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعودؑکو ان معنوں کی رو سے نبی کہتے ہیں کہ آپ ؑصاحب شریعت تھے یا اپنا کوئی نیا کلمہ بناتے تھے یا قرآن کریم کا کوئی حکم منسوخ کرتے تھے.اور خود مولوی صاحب اپنی کتاب سپلٹ حصہ چہارم میں جس کا جواب مَیں اس وقت لکھ رہا ہوں صفحہ پندرہ ۱۵پر لکھتے ہیں.کہ ایک شخص احمدی جماعت کی طر ف اپنے آپ کو منسوب کرنے والا ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اَحْمَدُ رَسُوْلُ اللہِ پڑھنا چاہئے.پس جبکہ خود مولوی صاحب کی شہادت کی رو سے ایک ایسا شخص موجود ہے جو حضرت مسیح موعودؑکو ان معنوں کی رو سے نبی کہتا ہے جن معنوں کی رو سے دشمن آپؑ پر اعتراض کرتے تھے اور جن معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعودؑاپنے نبی ہونے سے انکار کرتے تھے تو پھر دیدہ و دانستہ مسیحیوں سے ہمیں مشابہ قرار دینا کون سی دیانت ہے.غرض جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں یہ مشابہت ہمیں نہیں بلکہ ان کو حاصل ہے.جو حضرت مسیح موعود کو تشریعی نبی کہتے ہیں اورا ن کے نام کا کلمہ پڑھنا جائز سمجھتے ہیں.مگر مولوی صاحب جان بوجھ کر ہم پر ایسا الزام لگاتے ہیں جس سے ہم بری ہیں.یہی شخص جس کا ذکر مولوی صاحب نے کیا ہے.صاف لکھتا ہے:- ’’میاں صاحب موصوف حضرت مسیح موعود کو غیر تشریعی اور اُمتّی اور غیر تشریعی اُمتّی رسول اللہ مانتے ہیں.اور حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات میں جو اوامر نواہی ہیں.ان پر عمل کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑکی تحریر کے ماتحت ان کو صاحبِ شریعت رسول ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اپنی غلط بات پر قائم رہنے پر اصرار کرتے ہیں.‘‘

Page 114

اور پھر لکھا ہے کہ: ’’تمام جماعت احمدیہ کے خلاف میرا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نےنہ صرف اپنے آپ کو غیر تشریعی نبی منوایا تھا بلکہ صاف طور پر صاحبِ شریعت نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا.‘‘ پھر قبلہ کے متعلق لکھتا ہے کہ:- ’’یہی وحی الٰہی (یعنی وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى(البقرہ:۱۲۶)حضرت مرزا صاحبؑ پر بھی نازل ہوئی تھی.فرق اس قدر ہے کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم ؑسے مراد وہ ابراہیم ؑہیں جنہوں نے کعبہ بنایا اور مرزا صاحب ؑکی وحی میں ابراہیم سے مراد آپ ؑہیں مسجد الحرام کی جابجا قادیان ہے پس حضرت مرزا صاحب نے جو دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیا تھا اس لئے نہیں کہ ان کی نماز کچھ اور ہے.اور مرزا صاحب کے مریدوں کی کچھ اور یا کہ مولویوں نے حضرت مرزا صاحبؑپر کُفر کا فتویٰ لگایا تھا.اصل مقصد تحویل قبلہ کیلئے ایک جماعت کا تیار کرنا تھا.‘‘ ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ شخص اس بات کا مدعی ہے کہ مرزا صاحب تشریعی نبی تھے اور یہ کہ آپ نے اپنی جماعت کے لئے نیا قبلہ یعنی قادیان تجویز کیا ہے.اوران کی جماعت کو اسی طرف نماز پرھنی چاہئے.اورآپ کے نام کا کلمہ پڑھنا چاہئے.اور یہ بھی کہ مَیں اور میری جماعت ان اُمور میں اس شخص کے مخالف ہیں.پس اگر وہ مشابہت جو مولوی صاحب نے مسیحیوں سے ہم میں پیدا کرنی چاہی ہے اگر کسی گروہ میں پائی جاتی ہے.تو اس شخص میں اور اس کے دو تین ساتھیوں میں نہ کہ ہم میں.کیونکہ ہم تو انہی معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعود ؑکو نبی کہتے ہیں کہ جن معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آپ کو نبی کہا.حضرت مسیح موعود ؑاپنے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں فرماتے ہیں :- ’’ جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.‘‘٭ اوربخدا ہم حضرت مسیح موعود ؑکو انہی معنوں سے نبی اور رسول مانتے ہیں اور ہمارے مخالف بھی باوجود ہزاروں جھُوٹ بولنے کے یہ جرأت نہیں کرسکتے کہ اس بات کا انکار کریں کہ ہم حضرت مسیح موعود کو انہیں معنوں *ایک غلطی کا ازالہ ص ۷۱۶روحانی خزائن جلد ۱۸ ص ۲۱۰،۲۱۱

Page 115

کے رو سے نبی مانتے ہیں.لیکن کیا مسیحی بھی حضرت مسیح کو انہی معنوں سے خدا کا بیٹا مانتے ہیں جن معنوں کی رو سے کہ حضرت مسیح نے دعویٰ کیا تھا.اگرنہیں تو پھر ہمیں ان سے کیا مشابہت ہے.ہمیں تو اس گروہ سے مشابہت ہے جو حضرت مسیح کے سچّے متبعین میں سے تھا اور جن کی تعریف اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کرتا ہے.ہاں وہ لوگ جو حضرت مسیح موعودؑکو تشریعی نبی مانتے ہیں ان کو اس دوسرے گروہ سے مشابہت ہے.مگر تعجب ہے کہ باوجود اس کے مولوی محمد علی صاحب اوران کے رفقاء کا ان لوگوں سے خاص تعلق ہے اور ہماری عداوت جمیں ان سے جوڑ ہے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات پر جو نام نہاد مجلس شوریٰ قائم ہوئی تھی اس میں یہ شخص بھی شامل تھا.(پیغام مورخہ۲۴ مارچ ۱۹۱۴ء؁)اسی طرح رسالہ المہدی میں اس شخص کا ہمارے خلاف مضمون چھپا.اسی طرح بعد میں بھی مولوی صاحب کی آپ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے اور وہ بیان کرتا ہے کہ مولوی صاحب اس شرط پر کہ وہ گو خفیہ طور پر اپنے عقائد کا اظہار کرے مگر علی الاعلان اشتہاروں اور لیکچروں کے ذریعہ سے نہ کرے اسے اپنی انجمن کے ماتحت ملازم رکھنے کے بھی خواہش مند ہوئے تھے.بلکہ ۱۹۱۸؁ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر انہوں نے اس کو اپنے سٹیج پر اپنی تائید میں لیکچر دینے کا موقع دیا.پس یہ ایک عجیب امر ہے کہ ہیں تو ہم لوگ اس شخص کے ہم خیال مگر تعلق اس کا مولوی محمد علی صاحب سے اورا ن کا اس سے ہے اس اتحاد کو دیکھ کر سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ.کند ہم جنس باہم جنس پرواز.چونکہ دونوں سلسلہ احمدیہ کے مٹانے کے درپے ہیں.اس لئے باوجود اختلاف کے ہمارے خلاف آپس میں مل جانے سے پرہیز نہیں.کیونکہ گو ذرائع مختلف ہیں مگر مقصد ایک ہے.مولوی محمد علی صاحب کے انجیلی حوالجات ہمارے مفید مطلب ہیں پیشتر اس کے کہ مَیں اس مضمون کو ختم کرو.یہ بھی بیان کردینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ مولوی صاحب کی بیان کردہ انجیلی آیا سے ان پیرواں سے جنہوں نے آپ کے درجہ میں غلو کیا ہماری مشابہت ثابت نہیں ہوتی.بلکہ ان سے مسیح موعود ؑ کے نبی ہونے کی ایک دلیل بھی ملتی ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ان آیات سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت مسیح ناصری پر ان کے مخالفوں نے اعتراض کیا تھا کہ یہ اپنے آپ کو خدا کہتا ہے.(کیونکہ خدا کا بیٹا بننا اور خدا کہنا ایک ہی بات ہے)اس کا جواب انہوں نے دیا کہ کیا بائبل میں یہ نہیں کہا گیا کہ تم خدا ہو.پس اگر ان لوگوں کو جو نبی تھے.خدا کہا گیا ہے.تو مَیں نے بھی اگر اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو اس میں کیا حرج ہے مولوی صاحب اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں.اور صحیح نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسیح اپنے آپ کو اورمعنوں سے خدا کا بیٹا

Page 116

کہتے تھے اوران کے مخالف اور معنے لے کر ان پر الزام لگاتے تھے کہ یہ خدا بنتا ہے.حالانکہ وہ الوہیت کے انہی معنوں سے مدعی تھے جن معنوں کی رو سے پہلے نبی.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۵ پر تحریر فرماتے ہیں:- He says that before him those who received the world of God were called gods though they were only men.۴ اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معاملہ لیتے ہیں.آپ خود تحریر فرماتے ہیں کہ میرے مخالف مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ مَیں نبی کا دعویٰ ان معنوں کی رو سے کرتا ہوں کہ مَیں صاحبِ شریعت جدیدہ ہوں (دیکھو خط مطبوعہ اخبار عام جس کا حوالہ پہلے دیا جاچکا ہے) یہ اعتراض بعینہٖ ویسا ہی ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصری پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ خدا ہونے کا دعویٰ ان معنوں سے کرتا ہے کہ یہ اللہ یا اس کا جزو ہے.اور یہ کفر ہے.حضرت مسیح موعودؑ جواب دیتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے.ان معنوں کی رو سے مَیں نے دعویٔ نبوت نہیں کیا.لیکن حضرت مسیح موعودؑکہتے ہیں کہ یہ معنے جو تم نبی کے کرتے ہو.یہ درست نہیں.کیونکہ گو نبی صاحب شریعت ِ جدیدہ کو بھی کہتے ہیں.مگر ضروری نہیں کہ نبی کا لفظ اسی پر بولا جاوے.جو صاحبِ شریعتِ جیدہ ہو.اور ایسے لوگوں کے سوا دوسروں پر بھی یہ لفظ بولا جاسکتا ہے اور بولا جاتا ہے بلکہ نبی کے اصل معنوں میں یہ شرط ہی نہیں پائی جاتی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں‘‘.بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے.جن سے موسوی دین کی شوکت و صداقت کا اظہار ہو.پس وہ نبی کہلانے یہی حال اس سلسلہ میں ہے.بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں.تو اس کے لئے اور کون سا امتیازی لفظ ہے.جو دوسرے ملہموںسے ممتاز کرے‘‘.(ڈائری مطبوعہ اخبار بدر.پرچہ ۵ ؍مارچ ۱۹۰۸؁ء) اسی طرح فرماتے ہیں کہ: ’’یہ ضرور یاد رکھو کہ اس اُمت کیلئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے.پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ ،روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹) تشریحِ نبوت میں مسیح موعودؑ کی مسیح ناصری سے مشابہت غرض آپ اپنے مخالفین سے کہتے ہیں کہ جو معنے تم لیتے ہو ان معنوں سے میں نبی نہیں.بلکہ ان معنوں کی رو سے نبی ہوں.‘‘ جن کی رو سے انبیاء علیہم السلام

Page 117

نبی کہلاتے رہے.‘‘ یہ جواب بھی بعینہٖ اسی طرح کا ہے.جو حضرت مسیح ناصری نے دیا کہ مَیں خدا انہیں معنوں کی رو سے ہوں.جن کی روسے پہلے انبیاء خدا کہلائے.اب بتائو کہ کیا حضرت مسیح ؑان معنوں کے رو سے خدایا خدا کے بیٹے تھے.جن معنوں کی رو سے پہلے نبی خدا کہلائے.اور کیاان کے وہ متبع جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح اور معنوں سے خدا ہیں.اورپہلے نبی اور معنوں سے وہ گمراہ اور صداقت سے دُور ہیں کہ نہیں؟ توپھر کیا حضرت مسیح موعود ؑ کے اس جواب کے بعد کہ مَیں انہی معنوں کی رو سے نبی ہوں جن کی رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے نہ ان معنوں کی رو سے جو تم سمجھتے ہو.جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑاور قسم کے نبی تھے اوربنی اسرائیل کے نبی بلکہ تمام نبی اور قسم کے (جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ) وہ حق سے دُور سمجھے جائیں گے یا نہیں؟ اگر ان کے معنے درست سمجھ لئے جاویں تو کیا مسیحی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ جب تمہارے مسیح نے ہمارے مسیح کی طرح اپنے مخالفوں کو یہی جواب دیا تھا کہ میں انہی معنوں سے نبی ہوں جن سے پہلے نبی نبی کہلائے.اورباوجود اس جواب کے تم کہتے ہو کہ پہلے نبیوں کی نبوت اور قام کی تھی اور ہمارے مسیح کی نبوت اور قسم کی توکیوں ہمارا حق نہیں کہ ہم کہیں کہ باوجود اس جواب کے جو حضرت مسیح ناصری نے دیا ان کی خدائی اور قسم کی تھی اور پہلے نبیوں کی خدائی اور قسم کی.کیا مولوی صاحب مسیحیوں پر یہ حجت قائم نہیں کرتے کہ جب مسیح نے خود کہا کہ میں انہی معنوں کی رو سے خدا ہوں.جن معنوں کی رو سےپہلے نبیوںکو خدا کہا گیا تھا تو وہ اس کو اور معنوں کی رو سے خدا کیوں کہتےہیں؟تو پھر حضرت مسیح موعودؑکے اس جواب کے بعد کہ مَیں انہی معنوں کی رو سے نبی ہوں جن کی رو سے پہلے نبی نبی کہلائے.کیوں یہ کہتے ہیں کہ پہلے نبی اور معنوں کی رو سے نبی تھے اور حضرت مسیح موعود اور معنوں کی رو سےاگر وہ باوجود اس جواب کی موجودگی کے جو حضرت مسیح موعود ؑکو صرف نبی کا نام دیا گیا تھا توپھر ان کو انجیلکے اس فقرہ کا مطلب بھی جسے انہوں نے نقل کیا ہے یہ لینا پڑے گا کہ پہلے نبی فی الواقع خدا تھے اور حضرت مسیح پر صرف خدا کا لفظ بولا گیا یا اس کے اُلٹ مطلب جو مسیحی لیتے ہیں کہ پہلے نبیوں پر یونہی خدا کا لفظ بولاگیا یا س کے اُلٹ مطلب جو مسیحی لیتے ہیں کہ پہلے نبیوں پر یونہی خدا کا لفظ بولا گیا اور حضرت مسیح فی الواقع خدا تھے.مولوی صاحب آپ غور فرماویں کی انجیل کی یہ آیات آپ کو مسیحیوں کے مشابہ ثابت کرتی ہیں یا ہم کو؟ مسیحیوں نے بھی باوجود حضرت مسیحؑ کے اس قول کے کہ خدا کا لفظ پہلے نبیوں پر اور مجھ پر ایک ہی معنوں کی رو سے بولا گیا ہے کہہ دیا کہ نہیں جب پہلے نبیوں کے لئے بولاگیا تو اس کے اور معنے تھے اور مسیح کے متعلق جب یہ لفظ آیا تو اسکے اور

Page 118

معنے تھے.اورآپ نے بھی باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا تھا کہ آپ انہی معنوں کی رو سے نبی ہیں جن معنوں کی رو سے پہلے نبی نبی کہلائے.جیسا کہ ان دونوں حوالوں سے جواوپرگزرگئے ظاہر ہے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ نہیں پہلے نبی اور معنوں سے نبی تھے اور حضرت مسیح موعودؑاور معنوں کی رو سے.فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلوں نے معنے بدلتے وقت مسیح کی وفاداری کو ترک نہ کیا اور حد سے زیادہ محبت سے کام لیا اور اپنے استاد کے درجہ کو اصل درجہ سے بڑھا دیا.آپ نے حد درجہ کے بغض سے کام لے کر اپنے استاد کے اصل درجہ سے اس کو گرایا دیا.مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ اس کے درجہ کو بڑھا سے نہ آپ اس مسیح کے درجہ کو گھٹا سکے ہیں.مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء کی مشابہت عیسائیوں سے مسیحیوں سے آپ کی مشابہت کے متعلق مَیں دو اُمور اور بھی لکھتا ہوں.ایک تو آپ کی اپنی شہادت ہے اور ایک انجیل کی شہادت ہے.آپ کی اپنی شہادت یہ ہے کہ ۱۹۰۹؁ءمیں دسمبر کے ایّام میں لاہور میں ایک جلسہ احمدیہ جماعت کی طرف سے بعض مسیحی واعظوں کے لیکچروں کی تردید میں ہوا تھا اس میں میرا بھی لیکچر تھا آپکا بھی تھا.اور خواجہ کمال الدین صاحب کا بھی تھا.آپ کا لیکچر ’’فضیلت مسیح ازروئے قرآن‘‘ پر تھا.اور اس میں ایک پادری کے اس اعتراض کا جواب تھا کہ قرآنِ کریم سے حضرت مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ثابت ہوتے ہیں.میرا مضمون ’’نجات‘‘ پر تھا کہ اسلام اور مسیحیت دونوں میں سے نجات کے متعلق صحیح تعلیم کس نے دی ہے.خواجہ صاحب کا مضمون غالباً’’قرآن کریم اور دیگر کُتب مقدسہ کے مقابلہ‘‘ پر تھا.میرے اور خواجہ صاحب کے لیکچر آپ سے پہلے تھے.اور دو مواقع پر آپ کو ہمارے لیکچروں کی طرف اشارہ کرنا پڑا تھا.مسیحیوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے وقت کہ يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَھلًا (آلِ عمران :۴۷)سے حضرت مسیح ؑکی فضیلت ثابت ہوتی ہے.آپ نے میری مثال کو پیش کیا تھا کہ ان کی عمر کُل بیس سال کی ہے اور دیکھو کہ انہوں نے کیسے عجیب نکات بیان کئے ہیں.ابھی ان کا کھیل کو دکا زمانہ ہے.اس وقت ان کی یہ تقریر يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَھدِ ہی ہے.ایسا ہی مسیح کرتے تھے اسی طرح آپ نے مجھے تو مسیحؑ سے مشابہت دی تھی.گو اب ان کے بگڑے ہوئے پیروؤں سے مشابہت دیتے ہیں.لیکن خواجہ صاحب کا ذکرکرتے وقت بے اختیار آپ کےمنہ سے یہ الفاظ نکلے کہ جیسا کہ ابھی ہماری جماعت کے پولوس خواجہ صاحب نے کہا ہے.یہ فقرہ آپ کے منہ سے نکلنا تھا کہ مجلس میں سناٹا آگیا اور آپ نے بھی خواجہ صاحب کی طرف منہ کرکے اپنے دانتوں میں انگلی دے دی.کیا آپ حلفیہ اس واقعہ سے انکار کرسکتے ہیں؟ علاوہ میرے کئی

Page 119

اور لوگ جو اس جلسہ میں موجود تھے اس امر پر حلفیہ شہادت دینے کے لئے تیار ہیں.یہ پرائیوٹ گفتگو نہیں تھی بلکہ خدا تعالیٰ نے پبلک میں عین ایک لیکچر کے دوران میں آپ کے منہ پر یہ الفاظ جاری کرائے تھے.اور کیا ہم سمجھیں کہ آپ نے بلاوجہ یہ الفاظ کہے تھے.بلاوجہ اس قسم کے لفظ منہ سے نہیں نکلتے.فی الواقع آپ محسوس کرتے تھے کہ خواجہ صاحب کدھر جا رہے ہیں.اور آپ کے خیالات بے اختیار آپ کی زبان پر جاری ہوگئے.گو بعد میں آپ بھی اسی راستہ پر چل پڑے اور آخر خواجہ صاحب کے ہم خیالوں کے لیڈر بن گئے.ببیں تفاوت رااز کجا است تا بکجا.مشابہت کا دوسرا پہلو انجیل کی رو سے انجیل کی شہادت یہ ہے کہ جیسا کہ اناجیل سے ثابت ہے.حضرت مسیح کے جانے کے بعد ان کے حواریوں سے سب سے پہلے غلطی یہ نہیں ہوئی کہ اجہوں نے ان کو خدا بنا دیا یا خدا کا بیٹا قرار دیا.بلکہ انجیل اس جھگڑے سے بالکل پاک ہے.یہ خیال تین سو سال بعد جاکر پیدا ہوا ہے.اورحکومت اٹلی کے عیسائی ہوجانے کا نتیجہ ہے.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ مسیح کی الوہیت کا خیال اورا قانیم ثلاثہ کا عقیدہ درحقیقت آہستہ آہستہ یورپ کے مذاہب کے اثر سے مسیحیوں میں آیا ہے.سب سے پہلا خیالا جو ان میں حضرت مسیحؑکی منشاء کے خلاف پیدا ہوا ہے تو وہ غیر قوموں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئےدین میں نرمی کرنے اور ان کے خیال کے مطابق بنانے کا تھا.چنانچہ نئے عہدنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پولوس اور برنباس نے انطاکیہ میں شریعت کے احکام کو غیر قوموں والوں کے لئے نرم کردیا تھا.مگر کچھ لوگ یہودیہ سے آئے اور انہوں نے وہاں کے نو مسیحیوں کو تعلیم دینی شروع کردی کہ جب تک تم ختنہ نہ کروائو تم نجات نہیں پاسکتے.اس پر پولوس اور برنباس سے ان کی بحث ہوئی اور معاملہ حواریوں تک پہنچایا گیا وہ سب جمع ہوئے.فریسی نو مسیحیوں نے شریعت کے احکام پر زور دیا.لیکن پولوس اوربرنباس نے اپنی تبلیغی کامیابیوں کا حال سُنا کر لوگوں پر اثر ڈالا.اورآخر سب نے مل کر یہ پیغام انطاکیہ والوں کے پاس بھیجا کہ ’’ان بھائیوں کو جو غیر قوموں میں سے ہیں اور انطاکیہ اور سوریہ اور قلقیہ میں رہتے.رسولوں اوربزرگوں اور بھائیوں کا سلام.از بس کہ ہم نے سنا کہ ہم میں سے بعضوں نے جن کو ہم نے حکم نہیں کیا.جاکے تمہیں اپنی باتوں سے گھبرادیا.اور تمہارے دلوں کو یہ کہہ کے پریشان کیا کہ ختنہ کرو اور شریعت پر چلو.سو ہم نے ایک دل ہو کے بہتر جانا کہ اپنے عزیزوں پر نباس اور پولوس کے ساتھ جو کہ ایسے آدمی ہیں کہ انہوں نے اپنی جان ہمارے خداوند یسوع مسیح کے نام پر خطرے میں ڈالی.بعض چُنے ہوئوں کو تمہارے پاس بھیجیں.چنانچہ ہم نے یہوداہ اور سیلاس کو بھیجا.اور وے یہ باتیں زبانی بیان کریں گے.کیونکہ رُوح قدس نے اور ہم نے بہتر

Page 120

جانا کہ ان ضروری باتوں کے سوا تم پر اور کچھ بوجھ نہ ڈالیں.کہ تم بتوں کے چڑھا وؤں اور لہو اورگلا گھونٹی ہوئی چیزوں اور حرام کاری سے پرہیز کرو.اگر تم ان چیزوں سے آپ کو بچائے رکھو گے تو خوب کرو گے سلامت رہو.(اعمال باب ۱۵.آیات ۲۳ تا ۳۰ نارتھ انڈیا سوسائٹی مرزا مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اب آپ لوگ دیکھیں کہ کیا یہی طریق اور رویہ آپ لوگوں نے اختیار نہیں کیا؟ایک طرف تو آپ غیر احمدیوں کو خوش کرنےکےلئے اور اپنے ساتھ ملانے کے لئے حضرت مسیح موعود کے ذکر کو اسلام کے لئے مُضر بتارہے ہیں.اور دوسری طرف غیر مذاہب کے لوگوں کو قابو میں لانے کے لئے خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ گھٹانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے.چنانچہ خواجہ صاحب نے خود اقرار کیا ہے کہ ایک شخص نے مجھے لکھا کہ اور تو تمہاری باتیں اچھی ہیں مگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تم مسیح سے افضل کہتےہو یہ بات اچھی نہیں اور یہ بات ہمارے راستہ میں روک بھی ہوگی.اس پر مَیں نے اسے لکھ بھیجا کہ یہ آپ کا غلط خیال ہے ہمیں تو یہ حکم ہے کہ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ (البقرۃ:۱۳۷)ہم تو کسی نبی کو دوسرےپر فضیلت نہیں دیتے.حالانکہ وہ جانتےتھے کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں جو انہوں نے اس شخص کو سمجھانا چاہا اور صرف ایک شخص کو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اپنے تعداد بڑھانے کی خاطر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک کی اور پھر عملاً جھٹکے کا گوشت کھا کر شریعت کے حکم کو وسیع کرلیا اور غیر احمدیوں کو پیچھے ولایت میں نماز کی اجازت توڑ مروڑ کر حضرت خلیفہ اوّل سے حاصل کی اور بہت سی باتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر قوموں کو خوش کرنے کے لئے جہاں تک بھی اسلام کی تعلیم کو وہ توڑ سکتے تھے انہوں نے توڑا.پھر کیا مسیحیوں سے آپ کو کامل مشابہت ہوئی یا نہیں فتدبروا یا اولی الابصار.مولوی محمد علی صاحب کا حدیث مشابہت یہود ونصاریٰ سے غلط نتیجہ نکالنا مولوی صاحب نے اپنی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کی ہے.جس کا یہ مضمون ہے کہ مسلمان بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے اور اس سے یہ نتیجہ نکلالا ہے کہ مسیح کا انکار کرکے وہ یہود تو ہوگئے.اب نصاریٰ بننے کے لئے ان کو نصاریٰ کا رنگ بھی اختیار کرنا چاہئے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کی جماعت کا ایک بڑ ا حسہ آپ کے درجہ میں غلو کرنے لگا.لیکن گو ایک رنگ میں بوجہ مسیح سے مشابہت رکھنے کے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں سے بھی بعض لوگ مسیحیوں سے مشابہ ہوئے.مگر اس حدیث کا یہ مطلب نہ تھا بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے بیان فرمایا ہے یہود بننے سے مراد مسیح کا انکار تھا اور ضالّ بننے سےفی الواقع عیسائی ہوجانا.یہ حدیث

Page 121

جو مولوی صاحب نے لکھی ہے درحقیقت کوئی علیحدہ پیشگوئی نہیں بلکہ قرآن کریم کی ایک پیشگوئی کی تشریح ہے سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ یہ دُعا سکھائی ہے:-اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ.اے خدا ہمیں سیدھے راستے پر چلا.ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تیرا انعام ہوا.اور ایسا نہ ہو کہ ہم انعام پانے کے بعد مغضوب علیہم یا ضالّ بن جاویں.اس جگہ مسلمانوں کیلئے تین آئندہ کی خبریں بتائیں گئی ہیں.ایک تو یہ کہ ان میں سے بھی ایسے لوگ ہوں گےجو خدا تعالیٰ کے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام پاویں گے حتّٰی کی نبی ہوجائیں گے.اور اسی طرح ان میں سے بعض مغضوب علیہم ہوجاویں گے اور بعض ضالّ.مغضوب علیہم اور ضالّ کی تشریح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود اور ضالّین سے مراد نصاریٰ ہیں.چنانچہ ترمذی میں عدی ابن حاتم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْیَھُوْدُ مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ وَاِنَّ النَّصَارٰی ضُلَالٌ.٭یعنی یہود مغضوب علیہم ہیں اور نصاریٰ ضاّل ہیں.پس خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغضوب علیہم اور ضالّین کی تشریح کرکے بتا دیا ہے کہ سورہ فاتحہ میں یہود و نصاریٰ بننے سے بچنے کے لئے دعا سکھائی گئی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تم پہلے لوگوں کے طریق اختیار کرو گے اور صحابہؓ کے سوال کرنے پر کہ کیا یہود و نصاریٰ کا رنگ ہم اختیار کریں گے.آپؐکا فرمانا ’’اور کن کا ‘‘ ٭کوئی نئی خبر نہیں.بلکہ اسی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے.جو سورہ فاتحہ میں مذکور ہے.اب ہم پہلے تو اس پیشگوئی کے وہ معنے دیکھتے ہیں جو خود حضرت مسیح موعودؑنےکئے ہیں.کیونکہ جس کے زمانہ کی خبر اس پیشگوئی کے وہ معنے دیکھتے ہیں جو خود حضرت مسیح موعود ؑ نے کئے ہیں.کیونکہ جس کے زمانہ کی خبر اس پیشگوئی میں دی گئی ہے وہی اس کا مطلب بہتر سمجھ سکتا ہے.پھر ہم عقلاًبھی اس حدیث پر غور کریں گے.فرقہ مغضوب و ضالیّن کی تشریح مسیح موعود ؑکے الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ کے صفحہ ۷۳پر فرماتے ہیں’’ صرف دو فتنوں کا ذکر کیا.ایک اندرونی یعنی مسیح موعود ؑکو یہودیوں کی طرح ایذاء دینا.دوسرے عیسائی مذہب اختیار کرنا.یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ سورہ فاتحہ میں صرف دو فتنوں سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی ہے.(۱) اوّل یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعودؑکو کافر قرار دینا، اس کی توہین کرنا، اس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا اس کے قتل کا فتویٰ دینا جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے (۲) دوسرے نصاریٰ کے فتنے سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی.اور سورۃ کی اسی کےذکر پر ختم کرکے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنہ نصاریٰ ایک سیل عظیم کی طرح ہوگا.اس سے بڑھ کر کوئی *ترمذی أبواب التفسیر باب ماجاء فی الذی لیفسر القران برائہ*بخاری کتاب الاعتصام باب قول النبی لتعبنن سنن من کان قبلکم

Page 122

فتنہ نہیں.‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۲۶ ،روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۱۲) حضرت مسیح موعودؑ کے اس فیصلہ کے بعد کہ یہود بننے سے مراد مسیح موعود ؑکا مقابلہ کرنا اور نصاریٰ بننے سے مراد فی الواقع اس وقت کے مسلمانوں کا نصاریٰ ہوجانا ہے نہ کہ مسیح موعودؑ کی جماعت کا مشابہ بہ نصاریٰ ہوجانا.مولوی صاحب کا ان آیات و احادیث کے ایک نئے معنے کرنا ان لوگوں کے لئے تو کچھ بھی موجب حیرت نہیں جو چار سال سے مولوی صاحب کی رجعت قہقری کو دیکھ رہے ہیں.مگر ان لوگوں کے لئے تعجب خیز ضرور ہوگا.جن کے سامنے مولوی صاحب پہلی دفعہ اس لباس میں پیش ہوئے ہیں.مسیح موعودؑ کی تشریح عقلی پہلو سے بھی درست ہے اب ہم واقعات کی روشنی میں جب اس حدیث کو دیکھتے ہیں تو عقلی طور پر بھی مسیح موعود کے کئے ہوئے معنے ہی ہمیں درست معلوم ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی نسبت خبر دی تھی کہ وہ یہود نصاریٰ کا رنگ اختیار کرلیں گے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے اس کے کہ مسیح موعود ؑکا انہوں نے انکار کیا ہو یہود سے ان کو مذہباً اور کوئی مشابہت نہیں.یعنی یہود کے مذہب کا کوئی ایسا جزو جس سے وہ مذہباً ممتاز ہوتے ہوں انہوں نے اختیار نہیں کیا.اور نہ ان میں سے کوئی بڑی تعداد یہودی ہوئی.بلکہ یہود تو عام طور پر دوسروں کو اپنے اندر شامل بھی نہیں کرتے.پس یہودیوں کی اتّباع سے یقیناً مسیح موعودؑمسیح موعودؑ کا انکار اور اس کو ایذاء دینا ہی مراد تھا لیکن مسیحیوں کی اتّباع سے مراد حقیقتاً مسیحیوں کی ہی اتباع لی جاوے گی.کیونکہ کیا یہ درست نہیں کہ اس وقت تمام مسلمان کہلانے والے لوگ سوائےاحمدیہ جماعت کے حضرت مسیحؑکے درجہ میں غلو کرت ے ہیں؟ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کو فضیلت دیتے ہیں.کیا مسیحی خیالات کو انہوں نے اس حد تک اپنے اندرداخل نہیں کرلیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وفات یافتہ اور زیرِ زمین مدفون مانتے ہیں.اور حضرت مسیح ناصری کو آسمان پر زندہ تسلیم کرتے ہیں؟ اور اس طرح اسے حی وقیوم کے مشابہ بنا کر اس کی خُدائی کا اقرار کرتے ہیں.پھر کیا وہ خدا تعالیٰ کی طرح اسے مُردوں کا زندہ کرنے والا نہیں مانتے؟ اور اس طرح مسیحیوں کے ہمنوا نہیں ہوتے؟ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک چڑیا کے زندہ کرنے کے بھی ان کے علماء قائل نہیں.اسی طرح کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک چڑیا کے زندہ کرنے کے بھی ان کے علماء قائل نہیں.اسی طرح کیا مسیحیوں سے بھی بڑھ کر وہ مسیح ؑ کے خالق ہونے کے قائل نہیں؟ کیا وہ نہیں مانتے کہ وہ علم غیب رکھتا تھا؟بلکہ قیامت کا علم جو خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں کیا وہ اسے اس کا بھی عالم نہیں جانتے؟

Page 123

پھر باوجود اسی قدر مشابہتوں کےکون کہہ سکتا ہے کہ مسلمان نصاریٰ کے مشابہ نہیں؟ اور کیا مسیحی ایک بری بتلیغی جماعت نہیں اور کیا اس وقت تک لاکھوں مسلمان مسیحینہیں ہوچکے ؟ جب یہ سب واقعات نظری اور بد یہی ہیں.تو ان سے آنکھیں بند کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑکے خلاف منشاء آپ کی جماعت میں سے ضالیّن کی تلاش کے کیا معنے ہوئے.اور کیا آپ کا یہ فعل دیانت کے خلاف نہیں.مسیح موعودؑ میں رسول کریم ﷺ سے مشابہت کا پہلو بڑھا ہوا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیحؑ سے مشاہت کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں بھی بعض لوگوں نے راستہ سے کجی اختیار کرنی تھی مگر یہ پیشگوئی اس کے متعلق نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑکی جماعت کا فتنہ ایک خفیف اور نسبتاً بے حقیقت فتنہ تھا اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کاا کثر حصہ راہ راست پر رہا اور تھوڑے تھے جنہوں نے حق سے منہ پھیرا بمقابلہ حضرت موسیٰؑکے پیروؤں کے کہ ان میں سے ایک جماعت کثیر نے وقت پر قدم پیچھے ہٹالیا.اسی طرح ضروری تھاکہ اُمّتِ محمدیہّ کے مسیح کی جماعت کا کثیر حصہ حق پر قائم رہے اور نسبتاًقلیل حصّہ حق سے جُدا ہو.اور جہاں حضرت مسیح موعودؑ کی حضرت مسیح ناصری سے مشابہت اور مماثلت مدِّ نظر رہنی چاہئے.وہاں ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال چاہئے کہ حضرت مسیح موعودؑ موسوی سلسلہ کے خلیفہ نہیں بلکہ محمدی سلسلہ کے خلیفہ ہیں.اور صرف مثیل مسیحؑ ہی نہیں بلکہ بروز محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں.خود حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:- پر مسیحا بن کے مَیں دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد ؑجس پر میرا سب مدار یعنی مثیل مسیح ہونے کی وجہ سے مجھے بھی وہی مصائب پیش آنے چاہئیں تھے کہ جو حضرت مسیحؑناصری کو پیش آئے اور مَیں صلیب پر لٹکا یا جاتا.مگر مَیں احمدؑ بھی ہوں اور اسی نام پر میرا سب مدار ہے.پس میرا معاملہ اور مسیح کا معاملہ مختلف ہے.احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ آخری زمانہ کے مصلح میں مسیحیت محمدّیت کے ماتحت ہوگی.چنانچہ احادیث سے ثابت ہے کہ مہدی مسیحؑ کے آگے نماز میں امام ہوگا اور جب ہم اس حدیث کو مدِّنظر رکھیں کہ لَا الْمھْدِیُّ اِلَّا عِیْسیٰ(ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدۃ الزمان)سوائے مہدی کے اور کوئی مسیح کے وقت میں نہیں ہوگا.تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہدی کی مسیح کو مامت کرانے سے مراد اس کی صفات مہدویت کا صفت مسیحیت پر غالب ہونا ہے اور واقعات بھی اسی امر کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کو جو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں وہ حضرت مسیح ؑناصری سے بہت بڑھ کر ہیں.

Page 124

باب اوّل ان غلط واقعات کی تردید میں جو مولوی محمد علی صاحب نے اختلاف سلسلہ کے حالات کازکر کرتےہوئے بیان کئے ہیں مولوی محمد علی صاحب کا تبدیلی عقیدہ کے متعلق مجھ پر بے جا الزام مسیحیوں سے غلط طور پر ہماری مشابہت بتانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے اختلافات کی ایک تاریخ بیان کی ہے.جس میں انہوں نے اپنی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد بعض واقعات سے متأثر ہوکر میں نے (یعنی اس عاجز نے) اپنے عقائد میں تبدیلی پیدا کی ہے.تعداد عقائد یہ تبدیلی عقیدہ مولوی صاحب تین امور کے متعلق بیان کرتے ہیں.اوّل یہ کہ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق یہ خیال پھیلایا ہے کہ آپ فی الواقع نبی ہیں.دوم یہ کہ آپ ؑہی آیت اِسْمُہٗ اَحْمَدُ کی پیشگوئی مذکورہ قرآن کریم(الصف:۷) کے مصداق ہیں.سوم یہ کہ کل مسلمان جو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کا نام بھی نہیں سُنا.وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.ہر سہ عقائد کا بیان مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ میرے یہ عقائد ہیں.لیکن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ۱۹۱۴؁ءیا اس سے تین چار سال پہلے سے مَیں نے یہ عقائد اختیار کئے ہیں بلکہ جیسا کہ مَیں آگے ثابت کروں گا.ان میں سےاوّل الذکر اور آخر الذکر حضرت مسیح موعودؑکے وقت سے ہیں.اورثانی الذکر عقیدہ جیسا کہ خود مَیں نے اپنے لیکچروں میں بیان کیا ہے جو چھپ بھی چکے ہیں حضرت مسیح موعودؑکی وفات کے بعد حضرت استازی المکرم خلیفۃ المسیح الاوّل سے گفتگو اور ان کی تعلیم کا نتیجہ ہے.

Page 125

نبوت کے متعلق میرا عقیدہ مَیں تفصیل سے تو آگے جاکر بیان کروں گا مگر اس جگہ بھی مختصراً بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے سب سے زیادہ سچّے اوردین کیلئے سب سے زیادہ غیرت رکھنے والے تھے.پس آپؐکا آنے والے مسیح کو نبی کے لفظ سے بار بار یاد فرمانا اس امر کی شہادت ہے کہ آنے والا مسیح نبی ہوگا.مگر قرآن کریم کا اپنی تعلیم کو ہر ملک اور ہر زمانہ کیلئے قرار دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو صاحب شریعت ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ ؐکو اَنَا اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ ٭فرمانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ ؐکے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی اطاعت سے باہر ہوکر نبی بنے.بلکہ جو شخص بھی نبوت کا درجہ پائے گا.آپکے متبعین سے ہوگا اور آپؐکے فیض سے نبی ہوگا.اِسْمُہٗ اَحْمَدُ کی پیشگوئی کے متعلق میرا عقیدہ اس پیشگوئی کے متعلق میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس میں دو پیشگوئیاں ہیں ایک ظلّ کی اور ایک اصل کی.ظل کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود ؑکے متعلق ہے.اور اصل کی پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے.مگر اس پیشگوئی میں بالتصریح ظلّ کی خبر دی گئی ہے.اور ظل کی خبر میں التزامی طور پر اصل کی خبر بھی آگئی ہے.اور وہ اس طرح کہ ظل نبی کا وجود ایک ایسے نبی کے وجود گو طبعاً چاہتا ہے جو بمنزلہ اصل کے ہو.اس لئے اس آیت سے ایک ایسے نبی کی بھی خبر نکلتی ہے جس سے اس پیشگوئی کا اصل مصداق فیوض حاصل کرے گا.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظل نہیں ہوسکتے بلکہ اصل ہیں.آپؐنے کسی انسان سے فیض حاصل نہیں کیا بلکہ اور لوگ آپؐسے فیض حاصل کرتے ہیں اور ایسا خیال کرنا کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے فیض حاصل کرنےوالے تھے آپؐکی ہتک ہے.اس لئے اور نیز بعض اور دلائل کی بناء پر میرا عقیدہ ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق اوّل حضرت مسیح موعودؑ ہیں جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلّ ہیں اور مسیح ناصری کے مثیل ہیں.لیکن میرے نزدیک یہ ایک پیشگوئی ہے جس کی نسبت الہامی تعیین کسی نبی نے نہیں کی اس لئے اس کے متعلق جو کچھ بھی عقیدہ ہوگا.وہ علمی تحقیقات سے زیادہ نہیں کہلا سکتا.پس اگر کوئی شخص اس آیت کے کچھ اور معنے سمجھے.تو ہم اسے مخطی کہیں گے.خارج از احمدیت یا گنہگار نہیں کہیں گے.غرض یہ کہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے مذہبی نقطہ خیال سے ہم کوئی اہمیت دیں.

Page 126

میرا عقیدہ مسئلہ کفر غیر احمدیان کے متعلق میرا عقیدہ ہے کہ کفر درحقیقت خدا تعالیٰ کے انکار کی وجہ سے ہوتا ہے اور جب بھی کوئی وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی نازل ہوکہ اس کا ماننا لوگوں کے لئے حجت ہو.اس کا انکار کفر ہے اور چونکہ وحی کو انسان تب ہی مان سکتا ہے کہ جب وحی لانے والے پر ایمان بھی ضروری ہے.اورجو نہ مانے وہکافر ہے.اس وجہ سے نہیں کہ وہ زید یا بکر کو نہیں مانتا.بلکہ اس وجہ سے کہ اس کے نہ ماننے کے نتیجہ میں اسے خدا تعالیٰ کے کلام کا بھی انکار کرنا پڑے گا.میرے نزدیک سب نبیوں کا کُفر اسی باعث سے ہے.نہ ان کی اپنی ذات کی وجہ سے.اور چونکہ ایسی وحی جس کا ماننا ضروری ہو.صرف انبیاءؑ پر ہوتی ہے اس لئے صرف انبیاء کا انکار کُفر ہے نہ اور لوگوں کا.اور چونکہ میرے نزدیک ایسی وحی جس کا ماننا تمام بنی نوع انسان پر فرض کیا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑپر ہوئی ہے اس لئے میرے نزدیک بموجب تعلیم قرآن کریم کے ان کے نہ ماننے والے کافر ہیں کواہ وہ باقی سب صداقتوں کو مانتےہوں.کیونکہ موجباتِ کفر میں سے اگر ایک موجب بھی کسی میں پایا جاوے تو وہ کافر ہوتا ہے.ہاں میرے نزدیک کفر کی تعریف یہ ہے کہ ایسے اُصول میں سے کسی اصل کا نہ ماننا جن کے نہ ماننے سے نہ ماننے والا خدا تعالیٰ کا باغی قرار پاوے اور جس کے نہ ماننے سے رُوحانیت مرجائے.یہ نہیں کہ ایسا شخص ہمیشہ ہمیش کے لئے غیر مجدذوذعذاب میں مبتلا کیاجاوے اور چونکہ اسلام کے احکام کی بناء ظاہر پر ہے اس لئے جو لوگ کسی نبی کو نہیں مانتے.خواہ اسی وجہ سے نہ مانتے ہوں کہ انہوں نے اس کا نام نہیں سُنا کافر کہلائیں گے گو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مستحق عذاب نہ ہوں گے کیونکہ ان کا نہ ماننا ان کے کسی قصور کی وجہ سے نہ تھا.چنانچہ سب مسلمان بالا تفاق ان لوگوں کو جو مسلم نہیں ہوئے کواہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنا ہو یا نہ سُناہو کافر ہی کہتے چلے آئے ہیں اور آج تک ایک شخص نے بھی آئس لینڈ کےاسکیموز یا امریکہ کےریڈ انڈینزیا افریقہ کے ہائنٹاٹس یا آسڑیا کے وحشیوں کے مسلمان ہونے کا فتویٰ نہیں دیا اور نہ ان ہزاروں لاکھوں عیسائیوں کی نسبت فتویٰ اسلام دیا ہے جو پہاڑوں یا اندرون یورپ کے رہنے والے ہیں اور جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا کوئی علم نہیں.یہ میرےعقائد ہیں جو درست ہیں یا غلط.اس پر میں اس جگہ بحث نہیں کرنی چاہتا.اس پر بحث آگے ہوگی.اس وقت مَیں نے صرف اپنے عقائد کا اظہار کردیا ہے.

Page 127

مولوی محمد علی صاحب کے خلاف بیانی اپنے عقائد کے اظہار کے بعد اب میں اس سلسلہ واقعات کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.جو مولوی محمد علی صاحب نےاپنی کتاب میں درج کیا ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک حق بین پر جو تعصب کی پٹی اپنی آنکھوں سے اُتار کر دیکھے گا.ثابت ہوجاوے گا کہ مولوی صاحب نے ان واقعات کے بیان کرنے میں دیدہ و دانستہ خلاف بیانی سے کام لیا ہے.٭اور خدا تعالیٰ کے خوف سے کام نہیں لیا.کیونکہ مسائل کے بیان میں یا دلیل کے دینے میں اگر کوئی شخص غلطی کرتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے سمجھنے میں غلطی کی.لیکن جو شخص ایک نہیں دو نہیں بلکہ ایک مسلسل سلسلہ واقعات کو غلط بیان کرے.اس کی نسبت سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر ناواقفوں کو دھوکا دینا چاہا ہے.تاریخ اختلاف مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:- ۱- ان عقائد کا رواج دینے والا درحقیقت ایک شخص ظہیر الدین ہے جو کنال ڈیپارنمنٹ گوجرانوالہ میں ملازم ہے اور اس کی تحریرات نبوت مسیح موعود ؑ کے متعلق ۱۹۱۱ءتک کی پائی جاتی ہیں اس کی پہلی کتاب نبی اللہ کاظہور ہے جو اپریل ۱۹۱۱ء؁میں ختم ہوئی ہے اور ضرور اس سے پہلے ۱۹۱۰ء؁ کےآخری مہینوں یا ۱۹۱۱ء کے ابتدائی مہینوں میں لکھی جانی شروع ہوئی ہوگی.اس کتاب میں اس نے بحث کی ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہ تھے بلکہ آپؐ کے بعد بھی نبی آتے رہیں گے.۲ - اس کتاب کا عام طور پر جماعت میں نوٹس نہیں لیا گیا مگر کسی نہ کسی طرح یہ کتاب یاکوئی اور رسالہ اسی مضمون پر حضرت خلیفہ اوّل کے سامنے پیش کیا گیا جس پر آپ کی اس سے خط وکتابت ہوئی اور آخر حضرت خلیفہ اوّل کی طرف سے ایک اعلان کیا گیا کہ محمد ظہیر الدین چونکہ ایسے خیالات شائع ----------------------------------------------------------------------------------------------- ٭ میں ایک لمبے عرصہ تک مولوی صاحب کا لحاظ کر رہا ہوں اور ہمیشہ ان کی نیت پر حملہ کرنے سے احتراز کرتا رہا ہوں.لیکن مولوی صاحب اس نرمی کے نتیجہ میں ہمیشہ آگے ہی آگے قدم رکھتے چلے گئے ہیں اور دوسروں کےجذبات کا خیال کرنا انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیا ہے.اس لئےاب وقت آگیاس ہے کہ ان کی حقیقت کو دُنیا پر ظاہر کیاجاوے اورجان بوجھ کر جو وہ لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں اس کا اظہار کیا جائے.گو جیسا کہ مَیں پہلے لکھ چکا ہوں.مَیں سب و شتم کا طریق ان کے جواب میں اختیار نہیں کرسکتا.منہ

Page 128

کرتا ہے جو نئے ہیں اس لئے اس کا احمدیہ جماعت سے کوئی تعلق نہیں.اس پر اس نے معافی مانگی.۳ - مگر یہ تو بہ لمبی نہ تھی.۲۰ ؍اپریل ۱۹۱۲؁ءکو اس نے ایک اور رسالہ نکالا جس میں احمدیوں کے اس اعتراض کا جواب تھقا کہ اس نے نیا کلمہ بنایا ہے اور جواب یہ تھا کہ اس نے اس الزام کو قبول کر لیا تھا.اس کے بعد جماعت نے اس سے پھر قطع کرلیا اور گو کہ ظاہراً یہ کہا گیا تھا کہ اس کا جماعت سے علیحدہ کرنا خلافت کے دعویٰ کی وجہ سے ہے مگر چونکہ وہ خود خلافت کے دعویٰ سے منکر ہے اس لئے اس کا باعث یہ نئے عقائد ہیں.گو اس کے ان رسائل کا جواب اس کو مخاطب کرکے تو نہیں دیا گیا مگر مختلف کتب واخبارات میں اس کے ان خیالات کی تردید جماعت کے سنجیدہ لوگوں نےکردی.۴ - ۱۹۰۹؁ءمیں مولوی سید محمد احسن صاحب نے مباحثہ رامپور کے متعلق جو نواب صاحب رامپور کے ایماء کے ماتحت آپکے اور مولوی ثناء اللہ امرتسری کے درمیان ہوا تھا ایک کتاب٭لکھی ہے.اس میں ہم صفحہ ۶۳ پر یہ لکھا دیکھتے ہیں کہ بحث متعلق نبوت جزویہ تابع نبوت کاملہ اس ہیڈنگ کے نیچے انہوں نے لکھا تھا:- ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ایک شخص کو جزوی نبوت اسلام کی تائید کیلئے مل سکتی ہے.‘‘ بعد ازاں اسی عالم بوڑھے نے تشحیذ الاذہان میں جسکے ایڈیٹر ایم محمود تھے.ایک مضمون جس کا عنوان ‘‘محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ان میں نبوت ‘‘ تھا.لکھا.جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس امت میں صرف نبوت جزئیہ مل سکتی ہے.۵ - جس وقت ظہیر الدین اپنے عقائد پھیلا رہا تھا ایم محمود نے ان لوگوں کے کفر کے مسئلہ کو چھیڑ دیا جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت نہ کی تھی.اورگو ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ مضمون حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کو دیا لیا گیا تھا.مگر بعد میں جو اعلان خواجہ کمال الدین کی طرف سے مولوی صاحب کے دستخط سے شائع ہوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کا کیا مطلب سمجھا.اس مضمون میں یہ بتایا گیا تھا کہ ایم محمود کا مضمون اسی صورت میں قابل تسلیم ہے اگر اس کے یہ معنےکئے جاویں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کو نہیں مانتے وہ درحقیقت آپ کے کافر ہیں نہ کہ دائرہ اسلام سے خارج.ورنہ اس صورت میں تو یہ مضمون حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوگا.۶ - حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی وفات کے قریب یہ سوال پھر نمودار ہوا اور ۱۹۱۳؁ءکے آخر میں ایم محمود نے پھر اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے منکر کافر ہیں.آپ کے اس فتویٰ کو بھی کہ غیر احمدی امام کے پیچھے احمدیوں کو نامز پڑھنی جائز ہے انہوں نےغلط ٹھہرایا.حالانکہ خود حج میں جو ۱۹۱۲؁ء میں انہوں *ستہ ضروری بتقریب رام پوری مؤلفہ سید محمد احسن امروہی مطبوعہ امروہہ ۸ دسمبر ۱۹۰۹ء

Page 129

نے کیا انہوں نے غیر احمدیوں کے پیچھے نماز ادا کی.اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی زندگی میں جن لوگوں نے پہلے حج کیا تھا وہ بھی ایسا ہیکرتے رہے.جب یہ خبر حضرت خلیفۃ المسیح کو ملی تو چونکہ آپ سخت بیمار تھےا ٓپ نے مجھے اس امر میں جماعت کو ہدایت کرنےکا کام سُپرد کیا اور کچھ نوٹ لکھوائے.۷ -اورایم محمود کو متنبہ کیا کہ کفر وا سلام کا مسئلہ وہ صحیح نہیں سمجھا.۸ -چناچنہ میں نے وہ مضمون لکھا اور مولوی صاحب کو پڑھ کر سُنایا جنہوں نے اسے پسند کیا.مگر یہ پمفلٹ گو لکھا گیا تھا مگر آپ کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا.۹ -لوگوں نے غلطی سے ان کو خلیفہ تسلیم کرلیا تھا.اوراب بہت سے لوگ کُھلے طور پر اس کی تعلیم سے مخالفت کا اظہار کررہے ہیں اور مولوی محمد احسن صاحب نے جو حضرت مسیح موعودؑ کے سب سے پُرانے اور سب سے زیادہ عالم صحابی ہیں اور جنہوں نے ۱۹۱۴ء میں ایم محمود کی بیعت کی تھی ۱۹۱۶؁ءمیں ایک ہینڈبل شائع کیا کہ ایم محمود اس عہدہ کے قابل نہیں جس کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا ہے.کیونکہ وہ غلط عقائد کی اشاعت کر رہا ہے.اوّل یہ کہ ان کے عقیدہ کی رُو سے تمام اہلِ قبلہ کلمہ گو کافر ہیں.دوم :-حضرت مسیح موعودؑ کا مل اور حقیقی نبی ہیں نہ کہ جزوی نبی یا محدث.سوم:پیشگوئی مذکورہ سورہ صَف متعلق بشارتِ احمد ؑ صرف مسیح موعود ؑ کے متعلق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہیں ۱۰ - صرف عالم سیّد ہی نے ایسا اعلان نہیں کیا بلکہ بہت سے تعلیم یافتہ احمدیوں نے اس سے پہلے اخبار پیغام صلح میں ایسے اعلان شائع کئے.اوران کے علاوہ اور تعلیم یافتہ لوگ بھی اس غلطی کو محسوس کر رہے ہیں جس میں احمدیہ جماعت کو ڈالا جارہا ہے اور ان کی ان تعلیمات سےمخالفت روز بروز نمایا ں ہورہی ہے.۱۱ -مگر ایک قدم ایم محمود نے شروع میں ایسا اُٹھایا ہے کہ جس کی وجہ سے جماعت کو اندھیرے میں رکھا ہوا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے ہماری نسبت فاسق کا فتویٰ دیدیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کوئی احمدی ان سے تعلق نہ رکھے یہاں تک کہ ان کے ساتھ مل کر کھانا تک نہ کھائے اور نہ ان سے کوئی دوستانہ گفتگو کرے اور نہ اسکی شائع کردہ کو فی کتاب یا رسالہ پڑھے اور اس طرح ان کو متبع ان دلائل سے ناواقف ہیں جن کےذریعہ سے ان کے عقائد کی جو مسیح موعودؑ کے مخالف ہیں.تردید کی جاتی ہے.یہ گیارہ امر ہیں.جو اختلاف کی تاریخ کے متعلق مولوی صاحب نے تحریر فرمائے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ مذہبی حصہ کے بیان کرنے سے پہلے میں ان کے متعلق کچھ تحریرکردوں.تاکہ ان لوگوں کو

Page 130

جوحالات سے ناواقف ہیں معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں میں کہاں تک صداقت کا پاس کیاجاتا ہے.کہاں تک یہ لوگ راستی سے پیار کرتےہیں.تاریخ اختلافِ سلسلہ کا پہلا امر اس بات کابیان کہ مسائل مختلف فیہ کا بانی ظہیر الدین نہیں ہوسکتا! سب سے پہلی بات تاریخ اختلاف کے بیان کرتے وقت مولوی صاحب نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ ان مسائل اختلافی کا بانی ظہیر الدین ہے.جس نے اپریل۱۹۱۱ء؁میں نبی اللہ کا ظہور کتاب لکھ کر مسئلہ نبوت مسیح موعودؑ کی بنیاد رکھی.مگر مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب نے اس بیان میں صریح غلط بیانی سے کام لیا ہے.ظہیر الدین کیا ہستی رکھتا ہے کہ اسے مسیح موعود کی نبوت کا بانی کہا جاوے.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسوقت فرمایا تھا کہ آنے والا عیسیٰ بن مریم نبی اللہ ہوگا٭اس وقت ظہیر موجود تھا.کیا ظہیر الدین نے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری کئے تھے؟ کیا مسیح موعودؑ کو جو یہ الہام ہوا تھا کہ دُنیا میں ایک نبی آیا پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا؟٭یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا یاظہیر الدین کی طرف سے ؟ظہیر الدین ایک حق سے دوراور صداقت سے مُعرّیٰ اور کود پسند انسان ہے.اسے ان پاک باتوں کی طرف نسبت دینا خدا تعالیٰ کے پاک کلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟مَیں پوچھتا ہوں:- ھَلْ کَانَ اَحَدٌ مِّنْ الْاَحْمَدِیِّیْنَ عِنْدَرَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَذَا قَضٰی بِنَبُوَّۃِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ.پھر خدا کیلئے اس بات کو تودیکھو کہ میں ظہیر الدین کی کتاب سے بہت پہلے حضرت مسیح موعودؑکی نبوت کا اعلان کرچکا ہوں.اگر ظہیر الدین نے اس عقیدہ کی بناء ڈالی ہےتو میں پوچھتا ہوں کہ اس کی کتاب کے طبع ہونے سے پانچ سال پہلے حضرت مسیح موعودؑکی زندگی میں مَیں نے کیونکر اپنے مضامین میں حضرت مسیح موعود کی نبوت کا تذکرہ کردیا اور خود مولوی محمد علی صاحب نے کیونکر میرے ان مضامین کو جن میں صاف طور پر حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا اعلان تھا پسند کیا.اوران کو ایک نشان حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا تذکرہ کردیا اور خود مولوی محمد علی صاحب نے کیونکر میرے ان مضامین کو جن میں صاف طور پر حضرت مسیح موعود کی نبوت کا اعلان تھا پسند کیا.اور ان کو ایک نشان حضرت مسیح موعودؑکی صداقت کا قرار دیا.مولوی صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کا ظہور اپریل ۱۹۱۱ء میں ختم ہوئی ہے اور لکھتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ۱۹۱۰ءکے آخر یا ۱۹۱۱ءکے ابتداء میں لکھی گئی ہوگی.یہ کتاب چھوٹی تقطیع کے ۱۲۰ صفحوں پر ہے.اورزیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں *مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وسفہ وما معہ*تذکرہ ص ۱۰۴ ایڈیشن چہارم

Page 131

لکھی گئی ہوگی.لیکن اگر مولوی صاحب کی بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو مولوی صاحب بتائیں کہ اس ۱۹۱۱؁ء میں نکلنے والی کتاب کا علم ۱۹۰۶؁ء میں مجھے کیونکر ہوگیا تھا کہ اس وقت مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا بڑے زور سے اعلان کیا.یہ ۱۹۰۵؁ء کا واقعہ ہے جس وقت میری عمر سترہ سال کی تھی کہ مَیں نے شیخ عبدالرحیم صاحب مرحوم مالیر کوٹلوی نے،چوہدری فتح محمد صاحب ایم اے مسلم مشنری اور چند دیگر طالب علموں نے مل کر یہ تجویز کی تھی کہ سلسلہ کی خدمت اور نوجوانوں میں خدمت دین میں حصہ لینے کا جوش پیدا کرنے کے لئے ایک رسالہ جاری کیاجاوے.اور حضرت مسیح موعودؑ کی اجازت سے آپؑہی سے نام رکھو اکر ہم نے رسالہ تشحیذ الاذہان جاری کیا.اور دوستوں کے مشورے میں اس کا ایڈیٹر مقرر ہوا.اس رسالہ کا پہلا نمبر یکم مارچ ۱۹۰۶؁ء میں شائع ہوا.اور اس کا انٹروڈکشن جو مَیں نے لکھا ہے.اس میں حضرت مسیح موعودؑکی نبوت کا مَیں نےذکر کیا ہے اور صاف لفظوں میں میں نے آپؑ کو نبی ظاہر کیا ہے.اس رسالہ کے صفحہ ۱۰ پر مسیح موعودؑکا ذکر کرتےہوئے دُنیا کے لوگوں کو مخاطب کرکے مَیں نے لکھا ہے’’کیا یہ تیرا خیال ہے کہ میں کس بڑی قوم کاہوں یا میرے پاس زروجواہر ہیں یا میری قوتِ بازو بہت لوگ ہیں.یا مَیں بہت بڑا رئیس یا بادشاہ ہوں یا بڑاذی علم آدمی ہوں.سجادہ نشین ہوں یا فقیر ہوں.اس لئے مجھ کو اس رسول کے ماننے کی حاجت نہیں،‘‘ پھر صفحہ ۱۱ پر اسی انٹروڈکشن میں لکھا ہے.’’تھوڑوں نے اس کو قبول کیا اور بہتوں نے انکار کیا.جیسا کہ پہلے نبیوں کے متعلق سنت اللہ چلی آئی ہے اب بھی ویسا ہی ہوا ،.‘‘ ایسا ہی صفحہ ۸ پر لکھا ہے ’’غرضیکہ ہر ایک قوم ایک نبی کی منتظر ہے.اور اس کے لئے زمانہ بھی یہی مقرر کیاجاتا ہے.ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نشانات اس نبی کی پہچان کے بتائےہیں اور اس کے پہچاننے کے لئے جو جو آسانیاں ہمارےلئےپیدا کردی ہیں.ان سےظاہر ہوتا ہے.کہ ہمارے رسول کریم کا مرتبہ کسقدر بلند اور بالا تھا.‘‘ اسی طرح صفحہ ۵،۶ پر لکھا ہے.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ اس زمانہ میں کسی نبی کی ضرورت ہے یا نہیں.کیا اس زمانہ کو اچھا زمانہ کہا جائے یا بُرا جہانتک دیکھا جاتا ہے اس زمانہ سے بڑھکر دنیا میں کبھی فسق وفجور کی ترقی نہیں ہوئی.تمام دنیا ایک زبان ہوکر چلا اُٹھی ہے گناہوں کی حد ہوگئی ہے.یہی زمانہ ہے کہ دنیا میں ایک ما ٔمور کی حد سے زیادہ ضرورت ہے‘‘ اور یہ وہ مضمون ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اسےاسقدر پسند فرمایا کہ مسجد میںا سکے پڑھنے کی بہت سے لوگوں کو تاکید کی جن میں سےخواجہ کمال الدین صاحب بھی ہیں اور حضرت مسیح موعودؑکے سامنے بھی اس کی تعریف کی.مگر حضرت خلیفہ اول کی تعریف شاید مولوی محمد علی صاحب کے لئے ایسی مؤثر نہ ہو.جیسے خود ان کی اپنی تحریر میرے اس مضمون پر جو کچھ خود مولوی محمد علی صاحب نے رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں تشحیذ الاذہان پر ریویو کرتے ہوئے لکھا ہے.وہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ اس وقت خود مولوی محمد علی صاحب کے

Page 132

کیا خیالات تھے.مولوی صاحب لکھتے ہیں:- اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں.اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑجھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بیّن دلیل کے پیش کرتا ہوںجو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے.خلاصہ مضمون یہ ہے کہ جب دنیا میں فساد پیدا ہوجاتا ہے.اور لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ کو چھوڑ کر معاصی میں بکثرت مبتلا ء ہوجاتے ہیں.اور مُردار دُنیا پر گدھوں کی طرح گرجاتے ہیں.اور آخرت سے بالکل غافل ہوجاتے ہیں تو اس وقت میں ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ انہی لوگوں میں سے ایک نبی کو ما ٔمور کرتا ہے کہ وہ دُنیا میں سچّی تعلیم پھیلائے.اور لوگوں کو خدا کی حقیقی راہ دکھائے.پر لوگ جو معاصی میں بالکل اندھے …ہوئےہوتے ہیں وہ دُنیاکے نشہ میں مخمور ہونے کی وجہ سے یا تو نبی کی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور یا اسے دکھ دیتے ہیں اور اس کے ساتھیوں کوایذائیں پہنچاتے ہیں اور اس سلسلہ کو ہلاکرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ وہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے انسانی کوششوں سے ہلاک نہیں ہوتا.بلکہ وہ نبی اس حالت میں اپنے مخالفین کو پیش از وقت اطلاع دے دیتا ہے کہ آخر کار وہی مغلوب ہوں گے اور بعض کو ہلاک کر کے خدا دوسروں کو راہ راست پر لے آوے گا.سو ایسا ہی ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ہمیشہ سے چلی آئی ہے ایسا ہی اس وقت میں ہوا.‘‘ (ریویو آف ریلیجنز مارث ۱۹۰۶ءاورجلد ۵نمبر ۳صفحہ ۱۱۷، ۱۱۸) یہ وہ ریویو ہے جو مولوی محمد علی صاحب نے میرے اس مضمون پر کیا ہے جو رسالہ تشحیذ الاذہان کے انٹروڈکشن کے طور پر یکم مارچ ۱۹۰۶ء؁جلد ۱صفحہ ۱میں حضرت مسیح موعودؑمیں شائع ہوا تھا.اب ہر ایک منصف مزاج انصاف وعدل کے ساتھ اس امر کا فیصلہ کرے.کہ اگر نبوت کا عقیدہ ظہیرالدین نے گھڑا تھا.اور مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو پہلا سوال تو یہ ہے کہ مجھے ۱۹۰۶؁ءمیں یہ کیونکر معلوم ہوگیا کہ مرزا صاحب نبی تھے اور مَیں نے اس امر پر اس قدر زور دیا کہ تشحیذ الاذہان کے انٹروڈکشن کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جیسا کہ پہلے نبی آتے رہے ہیں اس وقت بھی اس کی طرف سے ایک نبی کا آنا ضروری ہے اور وہ نبی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں.مگر ہم اس امر کو بھی نظرا نداز کردیتے ہیں.اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ظہیر الدین سے اس وقت بھی میری ساز باز تھی اور اسی کے ایماء سے میں نے حضرت مسیح موعود کو نبی لکھ دیا.لیکن سوال یہ ہے کہ میرے اس مضمون پر تعریفی رنگ میں مولوی محمد علی صاحب جیسے تجربہ کار محرّر نے جو اس وقت جماعت کی اصلاح کے واحد ٹھیکیدار بن رہے ہیں.تعریفی رنگ میں ریویو کیونکر لکھ دیا مَیں نے اپنے مضمون میں صاف طورف پر

Page 133

حضرت مسیح موعود ؑ کو نبی لکھا تھا اور ایک ہی دفعہ نہیں بار بار نبی کہہ کر آپ کو پکارا تھا.اور پھر لکھا تھا کہ آپؐکا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ مجھ پر آدم اور نوح اور ابراہیم او ر موسیٰ اور عیسیٰ اور محمد وغیرہ ہم (علیہم السلام) کی طرح وحی نازل فرماتا ہے‘‘.(تشحیذ الاذہان یکم مارچ ۱۹۰۶؁ءصفحہ ۹) اگراس وقت تک جماعت میں سے کوئی شخص حضرت مسیح موعودؑ کو نبی نہیں مانتا تھا تو اس پر مولوی محمد علی صاحب کو چونک پڑنا چاہئے تھا کہ یہ کیا ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک شخص کو نبی نبی کہہ کر پکارا جانے لگا ہے.مولوی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَیں نے بغیر دیکھے رسالہ پر ریویو کردیا تھا.کیونکہ انہوں نے اپنے رسالہ میں میرے مضمون کا خلاصہ خود میرے ہی الفاظ میں نقل کیا ہے پس کم سے کم وہ حصہ جو انہوں نےنقل کیا ہے وہ تو انہوں نے ضرور پڑھا ہوگا.اسی میں حضرت مسیح موعودؑکے نبی ہونے کا بھی زکر ہے.پس حیرت ہے کہ اگر نبوت کا عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد گھڑا گیا ہے تو کیوں اس وقت مولوی صاحب نے شور نہ مچایا.مولوی صاحب تو اس بات کو حضرت مسیح موعودؑکا ایک معجزہ قرار دیتے ہیں کہ ان کے ایک لڑکے کے دل میں اس عمر میں جو کھیل کود کا زمانہ ہے ایسے نیک خیالات پیدا ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اندر باہر کی زندگی ایک سی ہے ان کو دیکھ کر بچّے بھی متأثر ہوتے ہیں.مگر ان کے آج کل کے خیالات سے عقیدہ تھا، ایک باطل کو فروغ دینے والا مسئلہ تھا ،جو تشحیذ الاذہان کے ذریعہ دُنیاکے سامنے پیش کیا گیا.بلکہ یوں کہوں کہ اسلام کی جڑھ پر اس مضمون کے ذریعہ سے تبر رکھ دیا گیا تھا اور اس میں ایسی باتیں بیان کی گئی تھیں کہ بقول مولوی محمد علی صاحب آج تک اسلام میں ایسے اختلاف کی بنیاد نہیںر کھی گئی وہ ایک زہر کا پیالہ تھا جس کے ذریعہ ایمانی زندگی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا گیا.پس اس مضمون کو بجائے معجزانہ قرار دینے کے اس پر صدائے نفریں بلند کرنی چاہئے تھی اور صف کاتم بچھا دینی چاہئے تھی اور بجائے اس کے کہ یہ کہاجاتا کہ دیکھو مسیح موعودؑ کے ایک بچے کے کیسے عمدہ خیالات ہیں جو مسیح موعودؑ کی صداقت پر دلیل ہے.چاہئے تھا کہ مولوی صاحب اپنے رسالہ میں مجھے اس وقت ابن نوحؑ قرار دے کر مسیح موعودؑ تو ہر گز اپنے آپؑکو نبی نہیں کہتے اور اس طرح اپنی نسبت نبی کا لفظ لکھنے کو ناپسند کرتے ہیں.بلکہ اس مصیبت کے خطرہ سے ڈر کر جو اسلام پر اس مضمون کےذریعہ آنے والی تھی چاہیے تھا کہ اسی وقت روتے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے پاس حاضر ہوتے اور آپ کو بھی اس

Page 134

آفت عظیمہ پر آگاہ کرتے اور میرے جماعت سے خارج کرنے پرزور دیتے اور اس طرح فتنہ عظیمہ کو دُور کرکے اجر عظیم حاصل کرتے.مگر بجائے اس کے آپ نے اس وقت میری تعریف کی.کیا اپ بھی انہی لوگوں میں سے تھے جن کی نسبت آج اپنی کتاب سپلٹ میں لکھتے ہیں کہ :- Being brought up within the circle of admirers of his father be contracted the narrow views which fall to the lot of young men brought up under similar circumstances.P.23 ۵ اور کیا صرف خوشامد کے طور پر آپ نے یہ ریویو لکھ دیا تھا یا آپ جانتے تھے کہ مسیح موعودؑ نبوت کا دعویٰ رکھتے ہیں اور آپ اس وقت زندہ موجود ہیں.اگرا س وقت میں ان خیالات کی تردید کروں گا تو میرا اندر ونہ کھل جاوے گااور حق ظاہر ہوجاوے گا.یا آپ خود بھی اس وقت یہی اعتقاد رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی ہیں.ان تینوں امور میں سے کون سا امر حق ہے؟ آیا یہ میری خوشامد تھی جس نے آپ سے یہ تعریف لکھوائی یا حضرت مسیح موعود ؑکاخوف یا اپنا عقیدہ مَیں تویہی کہوں گا کہ اس وقت آپ کا بھی یہی عقیدہ تھا.ظہیر الدین کی طرف اس امر کو منسوب کرنا تو اسی مثلا کے مطابق ہے کہ اگر چہ گندہ است مگر ایجاد بندہ است بیٹھے بیٹھے آپ کو ایک خیال سوجھا.اور آپ نے اس پر ایک عمارت بنالی.ورنہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعودؑکی زندگی سے ہی آپؐکو نبی مانتی چلی آئی.خصوصاً مَیں اور آپ کہ دونوں کی تحریریں اس پر شاہد ہیں.فرق صر ف یہ ہے کہ میں آج بھی اسی عقیدہ پر قائم ہوں لیکن آپ ایڑیوں کے بل پھر گئے ہیں.مسیح موعودؑ کی نبوت کا مَیں پہلے سے ہی قائل تھا یہ بات اتفاق نہیں کہی جاسکتی کہ حضرت مسیح موعودؑکے سب سے بڑے مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی انہی الہامات پر جن کو بعد میں انہوں نے عقائد کفریہ پر مشتمل بتایا ہے تعریفی طور پر ریویو لکھا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین کو ایک معجزہ قرار دیا ہے.اور اس کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ :-’’ ہمارے رائے میں یہ …ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی…اوراسکا مؤلّف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی وحالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے‘‘٭اور حضرت مسیح موعودؑکے موعود جانشین کے سب سے بڑے مخالف نے بھی اس کے ایک مضمون پر جو انہی *إشاعة السنة نمبر ۶ جلد ۷ ص ۱۶۹،۱۷۰

Page 135

عقائد پر مشتمل تھا.جن کو بعد میں وہ مخالف اسلام قرار دیتا ہے کچھ مدت پہلے ایک تعریفی ریویو لکھا تھا جس میں وہ لکھتا ہے کہ اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں.پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس کو پڑھے گی.مگر مَیں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بیّن دلیل کے پیش کرتا ہوں.جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے‘‘ پھر اس مضمون کے متعلق لکھتا ہے،’’ مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلّف الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے ایک خارق عادت بات ہے ‘‘.پھر لکھتا ہے.’’اب وہ سیاہ دل لوگ جو مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں.اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افتراء ہے تو یہ سچّا جوش اس بچہ کے دل میں کہا ں سے آیا؟جھوٹ تو ایک گند ہے پس اس کا اثر تو چاہئے تھا کہ گندہ ہوتا نہ یہ کہ ایسا پاک اورنورانی جس کا کوئی نظیر ہی نہیں ملتی.‘‘ پھر وہ لکھتا ہے.’’غور کرو کہ جس کی تعلیم اور تربیت کا یہ پھیل ہے وہ کاذ ب ہوسکتا ہے.؟‘‘(ریویو آف ریلیجنز جلد پنجم صفحہ ۱۱۸.۱۱۹)کیا یہ خدا تعالیٰ کی تصرف نہیں ؟ کیا اس کا ہاتھ اس میں نظر نہیں آتا؟ کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ مَیں نے نبوت کا مسئلہ ظہیر الدین سے سیکھا ہے.بلکہ ظہیر الدین کی کتاب نکلنے سے پانچ سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی رسالہ تشحیذ الاذہان کا انٹروڈکشن لکھتے ہوئے میں نےحضرت مسیح موعودؑ کو بطورف نبی کے پیش کیا تھا.اور اس پر مولوی محمد علی صاحب نے اس کا خلاصہ لکھ کر اس کی تعریف کی.اور میرے مذہبی خیالات کو حضرت مسیح موعود کا ایک معجزہ قرار دیا اور دشمنوں کے لئے حجت جوس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود مولوی صاحب کے اپنے خیالات اس وقت یہی تھے کہ مرزا صاحبؑنبی ہیں.صرف اسی مضمون پر بس نہیں.میرے اور مضامین بھی ہیں جن میں غحضرت صاحب کی نبوت کا مَیں نے ذکر کیا ہے.چنانچہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶؁ء کے بدر کے صفحہ ۱۳ پر میرے مضمون الحکم اور وطن میں یہ فقرہ درج ہے.’’زمین وا ٓسمان نہ رہیں.لیکن یہ خدا کا نبی ناکام نہیں رہے گا‘‘.ان دونوں حوالوں سے بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی میرا یہ عقیدہ تھا کہا ٓپؑ نبی ہیں.اور اس عقیدہ کو مَیں نے مخفی طور پر اپنے دل میں نہیں رکھا ہوا تھا

Page 136

بلکہ ہمیشہ اس کا اظہار کرتارہتا تھا.نبوت مسیح موعود پر میرے مضامین کےچند حوالے ان حوالہ جات کے تحریر کرنے کے بعد جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی آپؑ کو نبی یقین کرتا تھا.اوراپنے اس خیال کو شائع کرتا رہتا تھا.میں چند اور حوالہ جات بھی اپنی تحریرات سے درج کردیتا ہوں جو حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بد کے ہیں تا کہ حق جُو لوگوں پر ثابت ہو کہ میں نے کسی زمانہ میں بھی اس عقیدہ کےاظہار میں اخفاء سے کام نہیں لیا اور اس کی اشاعت باز نہیں رہا.بلکہ جس سے میں نے اپنے ہاتھ میں قلم پکڑی ہے.برابر ان مضامین کو پبلک کے سامنے لاتا رہا ہوں.اور میرے پہلے مضمون کی تحریر سے آج تک ان مضامین کا سلسلہ ایسا پیوستہ ہے کہ کوئی کڑی اس میں سےغائب نظر نہیں آتی.وفاتِ مسیح موعود پر ایک مضمون اور نبوت کے متعلق پہلا حوالہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد کی تاریخ میں سب سے بڑا واقعہ خود حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے معاً بعد کے حالات ہیں.جیسا کہ قدیم سے سنت اللہ چلی آئی ہے.حضرت مسیح موعود ؑ کی ورفات بھی ایسے حالات میں ہوئی کہ دشمنوں میں خیال پیدا ہوا کہ آپؑ ناکام فوت ہوئے ہیں.اور بعض احمدی کہلانے والوں کے قدم بھی اس طرح لڑکھڑا گئے جس طرح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبائل عرب کے قدم لڑکھڑائے تھے.ان حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے دشمنوں کے حملوں کو رد کرنے اور دوستوں کے دلوں کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ان تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جاتا.جو حضرت مسیح موعودؑ کے کام کے متعلق مخالفوں کی طرف سے پیدا کئے جاتے تھے.چنانچہ اس غرض کے پورا کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اوّل کے علاوہ اور بہت سے احمدیوں نے اس موضوع پر مضامین لکھے.جن میں سے ایک میں بھی تھا.میرا یہ مضمون رسالہ تشحیذالاذہان کے پرچہ جون و جولائی ۱۹۰۸؁ء نمبر ۶،۷ میں شائع ہوا اور اس کے علاوہ اس کو علیحدہ کتاب کی صورت میں بھی شائع کیا گیا.اور اس کتاب کا نام حضرت خلیفہ اوّل نے ایک الہام کے ماتحت’’صادقوں کی روشنی کو کون دُور کرسکتا ہے.‘‘ رکھا.یہ کتاب اور یہ رسالہ کثرت سے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں شائع کیا گیا.تا کہ ان شکوک کا ازالہ ہو جو حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر آپؐکے دشمنوں نے پیدا کئے تھے اس کتاب میںبائیس جگہ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو نبی کے لفظ سے یاد کیا ہے اس جگہ ان تمام عبارتوں کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں.ہر ایک شخص اس رسالہ کو منگوا کر اپنا اطمینان کرسکتا

Page 137

ہے.ہاں نمونہ کے طور پر صرف چند سطریں اس میں سے اس جگہ نقل کی جاتی ہیںجس سے بخوبی اس بات کا علم ہوسکتا ہے کہ آیا میں اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی بتایا گیا ہے یا نہیں.(دیکھئے رسالہ تشحیذ الاذہان جلد سوم صفحہ ۲۱۷) ہاں اگر مخالف اب بھی انکار کریں.تو سوائے حضرت مسیح موعودؑ کے اس الہام کے کہ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ.ہم اور کیا کرسکتے ہیں.ایک نبی آیااوران کے لئے رات اور دن غم کھا کر اس دُنیا سے اُٹھ گیا.اور یہ لوگ اب تک اس سے انکار کرتے ہیں.ہماری خدا سے یہ خواہش نہیں.کہ یہ مخالف ہلاک ہوں.بلکہ دل ان کے لئے درد محسوس کرتا ہے اور کڑھتا ہے اور ایک تڑپ ہے کہ خدا ان کو ہدایت دے اور اپنے نبی کی شناخت دے.اگر چہ یہ لوگ ہم پر طعن و تشنیع کرتے ہیں.مگر ہم ان کیلئے دُعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے خدائے قادر تو ہمارے دلوں کو جانتا ہےاور تجھے علم ہے کہ ہمارے دل ان گم گشتہ راہوں کے لئے کیسی تکلیف پاتے ہیں.پس اے عالم الغیب والشہادۃ ہمارے دکھوں اور تکلیف کو دیکھ اور ہم پر رحم کر.اوران غموں سے ہم کو چُھڑا.اور ہمارے بھائیوں کو ہدایت اور نور کا راستہ جو تیرا نبی ہمارے لئے کھول گیا ہے بتا اور انہیں اس کی شناخت کی توفیق عنایت کر.‘‘٭ اس وقت جبکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات نے تمام احمدیوں کے دل ہلادئیے ہوئے تھے.میرا نبی کے لفظ سے آپؑ کو بار بار یاد کرنا اور حضرت خلیفہ اوّل خود مولوی محمد علی صاحب اور باقی تمام جماعت کا اس مضمون کے خلاف آواز نہ اُٹھانا بلکہ اسے قبولیت کی نظروں سے دیکھنا اس امر کا ثبوت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی نسبت اس وقت نہ صرف میرا بلکہ سب جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ تھا کہ آپؑ نبی ہیں.اسی طرح ۱۹۰۸؁ء کے جلسہ میں جو اپریل ۱۹۰۹؁ء کو منعقد ہوا.٭جو میری تقریر ہوئی اور جس میں خود حضرت خلیفۃ المسیح الاول میر مجلس تھے اور جو بدراور تشحیذ الاذہان میں شائع ہوچکی ہے.مَیں نے یہ الفاظ کہے تھے:-’’یہ وعدہ ہم سے اس بناءپر نہیں کہ ہم مسیح کی وفات کو مان لیں.بلکہ خدا نے اپنے رسول یعنی حضرت مسیح موعودؑ کی معرفت ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اگر اسی جنس کو خریدیں گے جس کو پہلو نے خریدا تو ہم سے بھی نیک سلوک ہوگا.‘‘ (تشحیذ الاذہان فروری ۱۹۰۹؁ءجلد ۴ نمبر صفحہ ۲۹) پھر اسی طرح بیان کیا تھا کہ ’’خدا ظالم نہیں.ہم اپنے آپ کو ہی دیکھتے ہیں کہ اس کا ایک نبی ہم میں آیا.اور اپنا کام کرکے ہم سے جدا ہوگیا.‘‘(تشحیذالاذہان فروری ۱۹۰۹؁ءجلد ۴ نمبر ۱ صفحہ ۳۶) اس کے بعد دسمبر ۱۹۱۰ ؁ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر میری تقریر ہوئی.جو ۱۹ ؍جنوری ۱۹۱۱؁ء کے اخبار بدر میں شائع ہوچکی ہے.اس میں بھی حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت پر مَیں نے خاص زور دیا.بلکہ اس تقریر کا موضوع ہی نبوت ہے اور اس کا محرّک مفصلہ ذیل واقعہ ہوا.۱۹۱۰ء؁میں مکرمی و معظمی حبّی فی اللہ *تشحیذ الاذہان جون جولائی ۱۹۰۸جلد ۳ص ۱۳*تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ۱۹۰۸ کا جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۰۸ میں ہی منعقد ہوا تھا.سہو کتابت سے اپریل ۱۹۰۹ لکھا گیا ہے.

Page 138

مفتی محمد صادق صاحب و مولوی صدر الدین صاحب یکے از رفقائے مولوی محمدف علی ایک تبلیغی دورہ پر بھیجے گئے تھے.اس دورہ کے دوران میں مولوی شبلی صاحب نعمانی بانی ندوہ سے بھی ان کو ملاقات کا موقع ملا.سلسلہ گفتگو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا بھی ذکر آیا اورجناب مولوی شبلی صاحب کے سوال پر ان صاحبان نے جواب دیا کہ ہم مرزا صاحب کو لغوی معنوں میں نبی مانتے ہیں.گو یہ جواب درست تھا کیونکہ لغوی معنے اور شرعی اصطلاح ایک ہی ہے.مگر چونکہ یہ جواب ایک رنگ اخفاء کا رکھتا تھا.اور اس طرف اشارہ ہوتا تھا کہ گویا خدا تعالیٰ کے نزدیک نبی کے کچھ اور معنے ہیں.مجھے ناپسند ہوا اور مجھے خوف ہوا کہ یہ طریق جماعت میں عام نہ ہوجائے خصوصاً اپنے مرکز سے ہٹ رہے ہیں.تو مَیں اس جواب سے اوربھی ڈرا.اور میں نے چاہا کہ سالانہ جلسہ کے موقع پر خاص طور پر اپنی جماعت کو توجہ دلائوں.حضرت خلیفہ اوّل اس تقریر کے موقع پر موجود نہ تھے.مگر خواجہ صاحب ، مولوی محمد علی صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب موجود تھے.ان لوگوں کی موجودگی میں تمام جماعت کے رو برو مَیں نے اس موضوع پر تقریر کی.اور میرے یہ تقریر اس بات روشن ثبوت ہے کہ مَیں ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑکو نبی سمجھتا رہا ہوں.چند فقرات اس تقریر کے جو ۱۹؍جنوری ۱۹۱۱ء؁ کے پرچہ بدر میں شائع ہوچکی ہے میں ذیل میں درج کرتا ہوں.’’وہی خدا ہے جس نے اپنے فضل سے تمہیں توفیق دی کی تم ایک نبی کی اتباع کرو.‘‘ (بدر جنوری ۱۹۱۱ء؁صفحہ ۶کالم ۳) پھر احمدیوں اور غیر احمدیوں کے متعلق لکھا ہے:- ’’سوداگر وں کے درمیان بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ اگر چہ ایک جنس ہی ہے تو بھی وہ کہتا ہے.نہیں جی ہمارا غلہ خاص قسم کا ہے اور تم تو دونوں فریقوں میں بیّن فرق دیکھتے ہو اور پھر تم میں سے بعض ہیں جو کہہ دیتے ہیں کچھ فرق نہیں.کیا یہ فرق نہیں کہ تم ایک نبی کے متبع ہو اور دوسری قوم ایک نبی کی مکذِّب ہے.‘‘٭ یہ بھی یاد رکھو کہ مرزا صاحبؑ نبی ہیں اور بحیثیت رسول ؐ اللہ کے خاتم النیّٖین ہونے کے آپؐکی اتباع سے آپؑکو نبوت کا درجہ ملا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اور کتنے لوگ یہی درجہ پائیں گے.ہم انہیں کیوں نبی نہ کہیں.جب خدا نے انہیں نبی کہا ہے.چنانچہ آخری عمر کا الہام ہے کہ یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ.٭ ’’جو مسیح موعودؑ کے ایک لفظ کو بھی جھوٹا سمجھتا ہے وہ خدا کی درگاہ سے مردود ہے کیونکہ خدا اپنے نبی کو وفات تک غلطی میں نہیں رکھتا.‘‘(بدر ۱۹جنوری ۱۹۱۱ءصفحہ ۷) *بدر ۱۹ جنوری ۱۹۱۱ص ۶*تذکرہ ص ۷۴۶ایڈیشن چہارم

Page 139

’’تم اپنے امتیازی نشان کو کیوں چھوڑ تے ہو.تم ایک برگزیدہ کو نبی مانتے ہو اور تمہارے مخالف اس کا انکار کرتے ہیں.حضرت صاحبؑ کے زمانہ میں ایک تجویز ہوئی کہ احمدی غیر احمدی مل کر تبلیغ کریں مگر حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ تم کونسا اسلام پیش کروگے.کیا جو خدا نے تمہیںنشان دئیے جو انعام خدا نے تم پر کیا وہ چھپاؤگے.‘‘ ’’ایک نبی ہم میں بھی خدا کی طرف سے آیا.اگر اسکی اتباع کرینگے تو وہی پھل پائینگے جو صحابہ کرام کیلئے مقرر ہوچکے ہیں‘‘٭ ان عبارتوں سے میرا مذہب نبوت مسیح موعود علیہ السلام کےمتعلق بخوبی ظاہر ہے اور یہ تقریر خواجہ کمال الدین کے بعد صدر انجمن کی رپورٹ سنائے جانے اور چندہ کی تحریک کا وقت تھا اور یہ لوگ انجمن کے عہدہ دار تھے اسلئے اس وقت خاص طور پر جلسہ میں موجود تھے اور نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت تک ہمیں تمہارے خیالات کا علم نہ تھا.غرض ۱۹۰۶ء؁سے لے کر ۱۹۱۰ء؁کےدسمبر تک میری مختلف تحریرات اس پر شاہد ہیں کہ مَیں ہمیشہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتا رہا ہوں.اس کے بعد ۱۹۱۱ء؁ کے مارچ میں مَیں نے ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہ ماننے والوں کے درجہ کے متعلق لکھا.جو اپریل ۱۹۱۱ء؁کے تشحیذاور ۴؍مئی ۱۹۱۱ء؁کے بدر اور ۱۴ ؍مئی ۱۹۱۱ء؁کے الحکم میں شائع ہوا.اور اس کے بعد ایک لمبا سلسلہ مضامین اور تقریروں کا شروع ہوگیا جس کا انکار خود مولوی محمد علی صاحب نے بھی نہیں کیا اور نہ کرسکتے ہیں.میرے مضامین پر ظہیر الدین کے خیالات کا اثر نہیں اب ان واقعات کی روشنی میں اس معاملہ کو دیکھ کر کوئی شخص کیا یہ خیال کرسکتا ہے کہ ظہیرالدین اروپی کی تعلیم سے متأثر ہوکر اور اس کی کتاب نبی اللہ کا ظہور پڑھ کر میں نے اپنا خیال دوبارہ نبوت مسیح موعودؑ قائم کیا تھا.ظہیرالدین کی کتاب نبی اللہ کا ظہور جیسا کہ خود مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ ظہیر الدین کا اس مضمون کے متعلق سب سے پہلا رسالہ ہے اور جیسا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں.اپریل ۱۹۱۱؁ء میں اس کی تصنیف کا کام ختم ہوا ہے اور اس کتاب کے آخری صفحہ پر ہم یہ لکھا پاتے ہیں کہ ۲۶ ؍اپریل ۱۹۱۱؁ء کو اس کی تصنیف ختم ہوئی ہے اور پھر اسی صفحہ پر اس کتاب کے شائع کرنے والے چوہدری برکت علی صاحب کی تحریر درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۵ ؍ جولائی ۱۹۱۱؁ء کے بعد یہ کتاب پریس میں گئی ہے.اس کے مقابلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ میرا مضمون مسئلہ کفر و اسلام غیر احمدیاںکے متعلق جو درحقیقت سلسلہ اولیٰ کا اخری مضمون ہے (جیسا کہ پہلے ثابت کیا جاچکا ہے) نہ کہ پہلا.اپریل ۱۹۱۱؁ء میں تشحیذ الاذہان میں شائع بھی ہوچکا تھا اور جیسا کہ ۶؍اپریل ۱۹۱۱؁ء کے پرچہ بدر کے مندرجہ ذیل اقتباس سے ثابت ہے.مارچ ۱۹۱۱؁ء میں ہی بدر ۱۹ جنوری ۱۹۱۱ص ۷

Page 140

لکھا جاچکا تھا.معزز ایڈیٹر بدر ۶؍اپریل ۱۹۱۱ء؁کے پرچہ بدر صفحہ ۲ میں مولوی ثناء اللہ کا جواب لکھتے ہوئے غیر احمدیوں کے متعلق اپنے عقیدہ کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں’’اسی مضمون پر جناب حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب نے ایک مبسوط مضمون لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کیا ہوا ہے اس میں اُمید ہے کہ اس مسئلہ کے تمام ضروری پہلوئوں پر مفصل بحث ہوگی‘‘.اخبارات کے متعلق یہ عام قاعدہ ہے کہ ان پر دوسرے روز کی تاریخ دی جاتی ہے کیونکہ اسی روز وہ ڈاکخانہ میں ڈالے جاتے ہیں.پس یہ اخبار درحقیقت ۵؍اپریل کا ہے.اور اس میں ایڈیٹر صاحب بدر تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مبسوط مضمون حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کیا ہوا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نوٹ کے تحریر کرنے سے کچھ عرصہ پہلے یہ مضمون حضرت کی خدمت میں پیش ہوچکا تھا.پس یہ مضمون مارچ کا لکھا ہوا ہے.اب سوال یہ ہے کہ میرا مضمون جو مارچ ۱۹۱۱؁ء میں لکھا گیا تھا اور اپریل میں شائع ہوا.ظہیر الدین اروپی کے مضمون کا جو اپریل میں لکھا گیا اور جولائی میں شائع ہوا نتیجہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ اور کیا وہ شخص جو دونوں مضامین کی تاریخوں سے واقف ہوتے وہئے دُور دراز کے لوگوں کو دھوکا دینے اور دین سے گمراہ کرنےکے ل؛ئے ایک ایسی تحریر کو جو میرے آخری مضمون سے ایک ماہ بعد تحریر میں آئی اور تین ماہ بعد شائع ہوئی میرے مضمون کا باعث اور ما ٔخذ قرار دیتا ہے.دیانتدار کہلا سکتا ہے؟ کیا یہ شخص اس قابل ہے کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بُلائے.جو شخص دینی معاملات میں بی اس قدر دلیری سے کام لیتا ہےکہ ایسا صریح دھوکا دینے سے بھی نہیں ڈرتا جو دن کو رات قرار دینے سے نہیں.جھینپتاوہ کب اس بات کااستحقاق رکھتا ہے کہ دوسروں کو صداقت کی دعوت دے اور حق کی طرف بلائے.مَیں حیران ہوں کہ مولوی محمد علی صاحب نے یہ جرأت کیونکر کی کہ ظہیر کے مضامین کو میرے تحریرات کا مواخذ قرار دیا اور میرے خیالات کو اس کے خیالات کا نتیجہ.وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ میرا مضمون کفر واسلام کے متعلق اپریل میں شائع ہوا تھا اوربدر اخبار کا مندرجہ بالا نوٹ شاہد ہے کہ یہ میرا مضمون مارچ میں لکھا جاچکا تھا اور ظہیرالدین کی اسی کتاب میں اسی صفحہ پر جس کا وہ حوالہ دیتے ہیں اور اس تحریر سے جس کا وہ حوالہ دیتے ہیں صرف چار سطر نیچے لکھا ہوا موجود ہے.کہ یہ کتاب جولائی میں شائع ہوئےاوران ہندسوں کی نسبت جن کا وہ ذکر کرتے یں زیادہ موٹے ہندسوں میں اس نوٹ کی تاریخ درج ہے جو اس کتاب کے شائع کرنے والے نے لکھا ہے یعنی ۵جولائی ۱۹۱۱ء؁پس باوجود ایسے صریح بینات کی موجودگی اور پھر ان کے علم کے مولوی صاحب کا ظہیر کی کتاب کو میرے مضمون کا محرّک قرار دینا ناواقف لوگوں کو مغالطہ دینے کی نیّت سے نہیں تو اور کس غرض سے ہے؟ دلائل کی غلطی غلطی کہلا سکتی ہے.مگر واقعات کے ایک لمبے سلسلہ کو بگاڑ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کرنا

Page 141

غلطی نہیں کہلا سکتا.اصل بات یہ ہے کہ ظہیر الدین اپنے خطرناک عقائد کی وجہ سے اسلام کی تعلیم سے بہت دور جاپڑا ہے اور مولوی محمد علی صاحب نے خیال کیا ہے کہ اگر میرے خیالات کا نتیجہ قرار دیا جائے تو لوگوں میں عام طور سے ان کے خلاف ایک نفرت پیدا ہوجاوے گی اور مولوی صاحب کے خیالات سے اُنس پیدا ہوجائیگا مگر مولوی صاحب چاند پرخاک نہیں ڈال سکتے اور روشنی کا اندھیرااقرار نہیں دے سکتے.پس جیسا کہ مَیں ثابت کرچکا ہوں اور جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب خوب جانتے ہیں.گو وہ اس کا اظہار کرنا خلاف مصلحت خیال کرتے ہیں.نبوت مسیح موعودؑ کا عقیدہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےوقت سے ہی ظاہر کرتا چلا آیا ہوں.اورا ٓپ ؑکی وفات کے بعد بھی ۱۹۰۷؁ء ، ۱۹۰۸؁ء ،۱۹۰۹؁ء میں متواتر اس وقیدہ کا اعلان میری طرف سے مختلف مضامین کےذریعہ سے ہوتا رہا ہے اور اس سلسلہ کا سب سے آخری مضمون بھی جسے مولوی صاحب بھی اپنی اغرض ذمیمہ کو پورا کرنے کے لئے اوّل مضمون قرار دیتے ہیں ظہیر الدین کے مضمون کے لکھا جانے سے ایک ماہ پہلے لکھا جا چکا تھا.اور اس کے مضمون شائع ہونے سےتین ماہ پہلے شائع ہوچکا تھا.پس اس کو میرے خیالات کا بانی کہنا یا ان عقائد کا جو میں پھیلاتا ہوں موجد قرار دیان ایک ایسی خلاف بیانی ہے جس کی نظیر دُنیا میں بہت کم ملے گی.ان عقائد کے بانی حضرت مسیح موعودؑہی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے آنے والے مسیح کو نبی اللہ کہا ہے.نہیں بلکہ خود خدا تعالیٰ ہےجس نے خود مسیح موعودؑ کو نبی کہہ کر پکارا ہے.بعض مسیحی مؤرخ تعصب سے اندھے ہوکر دنیا کو دھوکا دینے کیلئے اسلام کو اس وقت کے چند غیر معروف لوگوں کے خیالات کا نتیجہ قرار دینے میں جس جرأت سے کام لے چکے ہیں اس پر تو حیرت آیا ہی کرتی تھی.مگر چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد کا جو نظارہ مولوی صاحب نے دکھایا ہے وہ ان مسیحیوں کی دیدہ دلیری سے بھی بہت بڑھا ہوا ہےکیونکہ وہ تو زمانہ ماضی کے واقعات کو بگاڑنے کی کوشش کرتے تھے اور مولوی صاحب ان خیالات کے متعلق جن کی تائید ۱۹۰۶ءمیں وہ خود کرچکے ہیں اور جن کا اظہار ان کی موجودگی میں بعد میں متواتر ہوتا رہا ہے ۱۹۱۱ء؁ کےشائع ہونے والے ایک رسالہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں.تاریخ اختلاف سلسلہ کا دوسرا امر کیا حضرت خلیفہ اوّل نے ظہیر کو اسکے رسالہ کی وجہ سے یا نئے عقائد شائع کرنے کی وجہ سے جماعت سے نکالا دوسراامرتاریخ اختلاف سلسلہ میں مولوی صاحب نے یہ لکھا ہے کہ :-

Page 142

Much notice of this book (Nabi-ullah ka Zuhur by Zahirud Din) does not seem to have been taken by the Ahmadiyya community.But probably the contents of this book or some other leaf-let on the same subject were brought to the notice of the late Maulvi Nurudin sahib then head of the Ahmadiyya community and after some correspondence between Zahir-ud-Din and Maulvi sahib an announcement was made by the latter in the paper Badr 11th July 1921 to the effect that as Mr.Zahiruddin was promulgating new doctrines he was not to be considered as promulgating new doctrines he was not to be considered as having any connection with the Ahmadiyya community.مولوی صاحب کے اس بیان میں مندرجہ ذیل باتیں قابل غور ہیں.(۱) حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے ظہیر کی کتاب ’’نبی اللہ کا ظہور ‘‘ یا اسی کے ہم معنی مضمون کا کوئی رسالہ پیش کیا گیا تھا.(۲) اس پر آپ کے اور ظہیر الدین کے درمیان خط و کتابت ہوئی.گویا اس رسالہ کو پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح نے ظہیر الدین کو خط لکھا.(۳)خط و کتابت سے جب کوئی فائدہ نہ ہوا.توآپ نے اعلان کیا کہ ظہیر الدین چونکہ نئے عقائد شائع کر رہا ہے اس لئے اس کا میری جماعت سے کوئی تعلق نہیں.ان تینوں امور کے متعلق پیشتر اس کے کہ مَیں تفصیلی طور پر کچھ لکھوں.شروع میں ہی اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ تینوں باتیں غلط ہیں اور سوچ سمجھ کر لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے بنائی گئی ہیں.واقعہ ظہیر الدین کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کی پہلی غلطی اس میں کوئی شک نہیں کہ ظہیر الدین اس وقت بعض ایسے عقائد کا اظہار کرتا رہا ہے جو اسلام اور حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کے سراسر خلاف ہیں.مگر اس کی کتاب نبی اللہ کے ظہور میں ایسی کوئی بات نہیں اور نہ کبھی جماعت احمدیہ نے اس کی اس کتاب کو ناپسندیدگی سے دیکھا.کیا رسالہ نبی اللہ کا ظہور کی وجہ سے حضرت خلیفہ اوّل ظہیر پر ناراض ہوئے مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ (۱) ظہیر الدین کی یہ کتاب یا اس کے ہم معنی کوئی ٹریکٹ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے سامنے پیش کیا گیا تھا.جس پر آپ ناراض ہوئے.حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے.آپ ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کےظہور پر ناراض نہیں ہوئے.جس کا ثبوت مندرجہ ذیل واقعہ سے نکلتا ہے.۱۹۱۱ء؁و ۱۹۱۲؁ءمیں مولوی یار محمد صاحب

Page 143

اور عبداللہ تیماپوری دو اشخاص کی طرف سے کچھ ٹریکٹ شائع ہوئے تھے.چونکہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص حکم پاکر جماعت کے امام ہونے کے مدعی تھے.اوران کے ایسے رسائل وا شتہارات سے لوگوں کے ابتلاء میں پڑجانے کا خطرہ تھا اس لئے حضرت خلیفہ اوّل کو ان کے خلاف اپنی ایک تقریر میں اعلان کرنا پڑا مگر آپ نے اس اعلان کے عام الفاظ رکھے اور صرف عبداللہ تیماپوری کا ذکر نام لے کر کیا ہے.اس اعلان کے الفاظ یہ ہیں:- ’’پھر بعض نوجوان ہیں.وہ جھٹ تصنیف کردیتے ہیں.حالانکہ ان میں وہ فہم و فراست نہیں ہوتی جو ایک کتاب کے لکھنے والے میں ہونی چاہئے.محض خیالات سے کچھ نہیں بنتا.جب تک سچّے علوم سے واقفیت نہ ہو.اور پھر ایسی تصنیفیںایک تفرقہ کا موجب ہوجاتی ہیں.پس اگر تم کو مشکلات پڑے ہیں تو خدا تعالیٰ سے توفیق مانگواور دُعائوں سے کام لو.عبداللہ تیماپوری کا ایک ابتلاءہےوہ رات کو کچھ لکھتا ہے تو شیخ نور احمد کہہ دیتے ہیں کہ اس کو چھاپ دو.مَیں دوستوں کو چوکس کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں سے پرہیز کرو.اس قسم کے لوگوں کی ایک جماعت ہےجو ایسے دعوے کرتے پھرتے ہیں.‘‘ اس اعلان کے شائع ہونے پر بعض احباب مولوی محمد علی صاحب نے یعنی خواجہ کمال الدین صاحب و ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب و ڈاکٹر محمد حسین صاحب وغیر ھم نے یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ یہ اعلان ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کے ظہور کے متعلق ہے.ظہیر الدین نے اپنے ایک خط میں حضرت خلیفۃ المسیح کو لکھا کہ آپ نے میری کتاب کے متعلق ایسا اعلان شائع کیا ہے.جس پر آپ نے اسے تحریر فرمایا کہ وہ اعلان آپ کی کتاب کے متعلق نہیں.بلکہ مولوی یار محمد صاحب وعبداللہ تیماپوری کے اشتہارات کے متعلق ہے.چنانچہ ظہیر الدین اپنے خط بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مؤرخہ ۲۲ ؍جون ۱۹۱۲؁ء میں ان الفاظ میں آپ کے خط کی طرف اشارہ کرتا ہے.’’نوازش نامہ آپ کو ملا.جوابا ً عرض ہے کہ اس اعلان سے اگر آپ کا مطلب صرف عبداللہ تیما پوری اور یا ر محمد سے ہی تھا.تو کیا ہی اچھا ہوتا.اگر آپ اس اعلان میں ہر دو صاحبوں کے ناموں کو لکھوا دیتے تا کہ لوگوں کو غلط فہمی کا موقع نہ ملتا‘‘ اس خط کے جواب میں حضرت خلیفہ اوّل اسے تحریر فرماتے ہیں:- ’’تم نے لکھا ہے کہ میری طرف اس میں اشارہ ہے.مَیں نے لکھا ہے کہ اس میں آپ کی نسبت اشارہ نہیں ہے.حالانکہ مَیں اپنی طرز میں مناسب نہیں سمجھتا تھا.مگر جن کی طرف اشارہ تھا.اس کا نام بھی آپ کی طرف لکھ دیا.مگر پھر بھی آپ نے بڑی صفائی سے لکھ دیا

Page 144

کہ نور الدین کے عقائد سے مَیں مخالفت رکھتا ہوں‘‘.(الحکم ۱۴ اکتوبر ۱۹۱۴؁ءصفحہ ۷) (مکتوب حضرت خلیفہ اوّل.۱۱؍جولائی ۱۹۱۲؁ء ) یہ خط و کتابت الحکم میں جو سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے.۱۴؍اکتوبر ۱۹۱۲؁ء کے پرچہ میں حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں ہی شائع ہوچکی ہے.اور اسی کے صفحات ۶،۷ سے یہ حوالہ جات نقل کئے گئے ہیں.ان حوالہ جات کے پڑھنےکے بعد ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنے بیان میں کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے ظہیر الدین کی کتاب کو پڑھ کرنا پسند کیا.اوراس سے خط و کتابت شروع کی.صداقت سے کام نہیں لیا.کیونکہ جیسا کہ اس خط وکتابت سے جو آپ کے اور ظہیر الدین کے درمیان ہوئی ہے.ثابت ہے.حضرت خلیفۃ المسیح اس امر کی تردید کرتے ہیں کہ آپ نے ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کے ظہور کے خلاف اعلان کیا تھا.اگر ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کا ظہور پڑھ کر اور اسے ناپسند کرکے اس سے خط وکتابت شروع کی گئی تھی.تو پھر ناراضگی ثابت کرنے کے لئے کسی اعلان کی طرف ظہیر الدین کو اشارہ کرنے کی کیا ضرورت تھی حضرت خلیفہ اول کا خط ہی اس امرکی کانی شہادت ہوسکتا تھا کہ آپ نے اس کتاب کو ناپسند کیا ہے.مگر ظہیر الدین بجائے اس خط کی طرف اشارہ کرنے کے حضرت خلیفہ اول کو لکھتا ہے کہ آپ نے میری کتاب کے خلاف ایک اعلان کیا ہے.اورآپ اس کی اس بات کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ اعلان تو چند اور لوگوں کے اشتہارات کے متعلق تھا.اوراپنی بات کے ثبوت میں خلاف اپنی عادت کے ان دو اشخاص کا نام بھی لکھ دیتے ہیں.جن کے خلاف وہ اعلان تھا.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل نے ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کا ظہور یا اس کے ہم معنی کوئی ٹریکٹ پڑھ کر ہرگز اسے ناپسند نہیں کیا.بلکہ ظہیر الدین کی شکایت کرتے ہیں کہ باوجود آپ کی اس تحریر کے کیوں اس نے بڑی صفائی سےلکھ دیا کہ ’’نور الدین کے عقائد سےمیں مخالفت رکھتا ہوں‘‘.اگر فی الواقع ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کا ظہور یا اس کے ہم معنے کوئی رسالہ پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح نے ظہیرا لدین سے خط و کتابت شروع کی تھی.تو پھر اس شبہ کی تردید کی کیا ضرورت تھی.کہ حضرت خلیفہ المسیح کے اعلان میں ظہیر کی طرف اشارہ ہے.اور کیا وجہ تھی کہ اس اعلان میں ظہیر کو شامل نہ کیا گیا.اورپھر کیا سبب تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح تحریرفرماتے ہیں کہ جب مَیں نے تم کو بتا دیا ہے.کہ تم اس اعلان کا مصداق نہیں ہو.پھر بھی تم لکھتے ہو کہ تم سے مجھے اختلافِ عقائد ہے.اگر ظہیر کی کتاب کو پڑھ کر حضرت خلیفہ المسیح نے ناپسند کیا تھا تو اس اعلان میں خواہ اس کا ذکر ہو تا یا نہ ہوتا.بہر حال اس کے عقائد سےآپ کو اختلاف رکھنا ثابت تھا.مگر آپ اس

Page 145

امر کی تردید فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں.کہ جب مَیں نے صاف لکھ دیا تھا کہ اس اعلان میں تمہاری طرف اشارہ نہیں تو پھر تم نے کیوں لکھا کہ مجھے آپ سے اختلاف ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہا ٓپ اس وقت تک ظہیر الدین اور اپنےعقائد میں اختلاف نہیں سمجھتے تھے.اور ظہیر الدین کی اس تحریر کو کہ مجھے آپ کے عقائد سےاختلاف ہے.بلا سبب اوربے تصور فرماتے تھے.کیا حضرت خلیفہ اوّل نے نبی اللہ کا ظہور پڑھ کر ظہیر سے خط و کتابت شروع کی دوسراامر جو مولوی محمد علی صاحب نے واقعہ ظہیر کے بیان کرنے میں غلط بیان کیا ہے یہ ہے کہ ظہیر کی کتاب پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح نے اس سے خط و کتابت شروع کی.حالانکہ خط و کتابت حضرت خلیفۃ المسیح نے ظہیر سے شروع نہیں کی.بلکہ ظہیر نے شروع کی ہے اور مولوی محمد علی صاحب نے جو ایسے الفاظ تحریر کئے یں جن سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے خط و کتابت شروع کی.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ظہیر الدین کی کتاب پڑھ کر آپ نے اسے ناپسند کیا اور اسے اس کے متعلق خط لکھا.حالانکہ جیسا کہ اس وقت کے شائع شدہ واقعات سے ثابت ہے ابتداء خط و کتابت کی ظہیر نے کی ہے.اوراس کی وجہ جیسا کہ الحکم مؤرخہ ۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۱۲؁ء سے ثابت ہے.یوں ہوئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایک تقریب پر لاہور تشریف لے گئے تھے.وہاں آپ نے ان اختلافی مسائل پر جو آج غیر مبائعین اور مبائعین میں مابہ النزاع ہیں ایک تقریر فرمائی.جس میں ایڈیٹر زمیندار بھی موجود تھا.اس نے اپنے اخبار میں اس تقریر کی ایک غلط رپورٹ شائع کردی.٭اور لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح تمام غیر احمدیوں کو مسلمان قرار دیا ہے.ظہیر الدین نے زمیندار کی اس رپورٹ کو پڑھ کر بلا سوچے سمجھے نہایت بے ادبی اور گستاخی کو کام میں لاکر حضرت خلیفۃ کوایک خط لکھ دیا جس میں آپ کے عقائد پر حملہ کیا اوران کو حضرت مسیح موعودؑکے عقائد کے خلاف قرار دیا اس پر حضرت خلیفۃالمسیح نے اسے نہایت محبّت سے جواب دیا اور سمجھایا.لیکن چونکہ اس کی طبیعت میں رُشد و ہدایت نہ تھی.وہ اپنی شوخی میں بڑھتا ہی گیا اور باوجود اس کے کہ حضرت کی تصحیح کردہ تقریر الحکم میں شائع ہو چکی تھی.اورپھر باوجود اس کے کہ بعض اُمور جو اس *یہ رپورٹ غلط تھی.ایڈیٹر الحکم نے حضرت کی سب تقریر قلم کی تھی.اور پھر حضرت خلیفة المسیح کو تمام و کمال دکھا کر اور آپ سے درست کروا کر اپنے اخبار میں شائع کی تھی اور اس مصدقہ تقریر اور زمیندار کے خلاصہ میں بہت فرق تھا.

Page 146

نے لکھے تھے ان کی حضرت خلیفۃ المسیح نے تردید کر دی تھی وہ اپنی ضد سے نہ ہٹا اور آپ کی تکذیب پر آمادہ ہوگیا.جیسا کہ اس کے خط مطبوعہ الحکم ۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۱۲؁ءسے ظاہر ہے.جس میں وہ حضرت خلیفۃ المسیح کو لکھتا ہے ’’نوازش نامہ آپ کا ملا…اگر آپ کا مطلب صرف عبداللہ تیماپوری اور یار محمد سے ہی تھا.‘‘ اس کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اسے یقین دلاتے ہیں کہ آپ کا اعلان اس کے متعلق نہیں تھا.بلکہ مولوی یار محمد صاحب اور عبداللہ تیماپوری کے متعلق تھا.پھر بھی وہ اسے باور نہیں کرتا.اور’’اگر ‘‘کے ساتھ اسے مشکوک کرتا ہے.اورآگے جاکر اس بات کو پھر دہرات ہے کہ مجھے آپ کے عقائد سے اختلاف ہے.یہ تمام خط و کتابت اور خط و کتابت کی ابتداء کی وجہ ۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۱۲؁ء کے الحکم میں درج ہے اور مولوی محمد علی صاحب کے اس بیان کی تردید کرتگی ہے کہ نبی اللہ کے ظہور کو پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح نے خط و کتابت شروع کی.بلکہ جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے.خط و کتابت ظہیر الدین نے شروع کی تھی نہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے.اور یہ خط و کتابت اس وجہ سے نہیں شروع ہوئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے نبی اللہ کا ظہور کتاب پڑھ کر اسے ناپسند کیا تھا.بلکہ اس وجہ سے کہ ظہیرالدین نے زمیندار میں حضرت خلیفۃ المسیح کی لاہور کی تقریر کا غلط خلاصہ پڑھ کر اسے ناپسند کیا تھا.مولوی محمد علی صاحب کی کمال دلیری ہے کہ شائع شدہ واقعات کو بگاڑ کر انہیں شائع شدہ واقعات کےصریح خلاف نئے واقعاقت اپنی طرف سے بنا کر انہوں نے اپنی کتاب میں درج کردئیے ہیں.چہ دلاوراست دزدے کی بکف چراغ دارد.کیا ظہیر کو حضرت خلیفہ اوّل نے نئے عقائد شائع کرنے کی وجہ سے جماعت سے خارج کیا؟ تیسرا قابل توجہ امر واقعہ ظہیر کے بیان میں مولوی صاحب نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ خط و کتابت کے بعد آخر حضرت خلیفۃ المسیح نے یہ اعلان کیا کہ ’’چونکہ محمد ظہیر الدین نئے عقائد کی اشاعت کر رہا ہے اس لئے جماعت احمدیہ سے اس کا کوئی تعلق نہ سمجھا جاوے‘‘ جیسا کہ مَیں پہلےلکھ چکا ہوں مولوی صاحب کا یہ بیان بھی بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے اور چونکہ مولوی صاحب نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضروری سمجھا ہے کہ کتاب نبی اللہ کے ظہور کو فتنہ کا اصل باعث قرار دیں اور حضرت خلیفۃ لامسیح الاوّل کو ان عقائد کے مخالف ثابت کریں اس لئے وہ اصل واقعات میں تحریف کرکے یا نئے واقعات بنا کر اپنے مدعا کو ثابت کرنا چاہتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کے اعلان میں ہرگز یہ نہیں لکھا کہ چونکہ ظہیر الدین نئے

Page 147

عقائد کا اعلان کررہا ہے یا انہیں شائع کر رہا ہے.اس لئے اس کا ہماری جماعت سے کوئی تعلق نہ سمجھا جائے.بلکہ یہ تحریر فرمایا کہ چونکہ باوجود میرے لکھنے کے کہ فلاں اعلان اس کے متعلق نہیں وہ پھر بھی اس امر پر زور دئیے جاتا ہے کہ اسے میرے عقائد سے اختلاف ہے.اس لئے اس کے خط کے مطابق نہ کہ اس کی کتاب کے بناء پر یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس کا جماعتِ احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں.جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب نے تحریر کیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح کا یہ اعلان ۱۱؍جولائی ۱۹۱۲؁ء کے بدر میں شائع ہوا ہے.اور ہم اس جگہ اس اعلان کو تمام وکمال نقل کردیتے ہیں تا کہ ہر ایک شخص کو معلوم ہوجائے کہ مولوی محمد علی صاحب نے کسی دیانت داری سے کام لیا ہے.الفاظ اعلان یہ ہیں:- اخبار بدر میں ظہیرالدین اروپی کے متعلق ایک اشتہار کچھ عرصہ ہوا.اخبار بدر میں ایک اعلان نکلا تھا کہ بعض لوگ خود بخود اشتہار چھاپتے ہیں.ایسے اشتہارات سلسلہ احمدیہ کی طرف سے نہ سمجھے جائیں.کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت اور رضا مندی سے وہ نہیں ہوتے.اس پر منشی محمد ظہیر الدین صاحب اروپی کے ایک خط کی تحریک پر حضرت خلیفۃالمسیح نے حکم دیا ہے کہ اخبار میں شائع کردیا جاوے کہ ’’ اس اعلان کے ساتھ محمد ظہیر الدین کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ وہ اعلان مولوی یا ر محمد و عبداللہ تیماپوری کے متعلق تھا.مگر افسوس محمد ظہیر الدین نے اس کی عجیب تلافی کی ہے کہ اپنے ایک تازہ خط میں مجھے اطلاع کی ہے کہ میرا آپ کے بعض عقائد کے ساتھ اختلاف ہے.لہٰذا میں ان کی تحریر کے مطابق اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں.محمد ظہیر الدین میرے عقائد سے اختلاف رکھتے ہیں.پس ایسی صورت میں وہ منیہہ سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑے ہوگئے.بھلا کسی فروعی اختلاف کا ذکر فرماتے تو مقام سکوت ہوتا.اب وہ مجھ سے عقائد کا اختلاف رکھتے ہیں اور اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم ہیں.اسلئے میرا ن سے کیا تعلق.اور میری جماعت کا ان سےکیا علاقہ.محمد ظہیر الدین نےعجیب تلافی کی ہے.اِنَّاللہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ.(بدر ۱۱ جولائی ۱۹۱۲؁ءصفحہ ۲) ظہیر الدین کا جماعت سے خارج کیا جانا محض اسکے ایک خط کی بناء پر تھا نہ کہ اس کی کتاب کی بناء پر یہ اصل عبارت ہےبدر کے اعلان کی.اس میں دیکھو نہ صراحتاً نہ اشارتاً یہ بات درج ہے کہ ظہیر الدین نئے عقائد شائع کرتا ہے.بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ باوجود میرے انکار کے کہ

Page 148

فلاں اعلان اس کے متعلق ہے.بجائے اپنی تحریر شرمندہ ہونے اور اپنی بے ادبی کی تلافی کرنے کے وہ لکھتا ہے کہ مجھے آپ کے عقائد سے اختلاف ہے.اس لئے اسی خط کے مطابق کہ اس کے اور میرے عقائد میں اختلاف ہے.مَیں اعلان کرتا ہوں کہ اس صورت میں اس کا مجھ سے کیا تعلق اور میری جماعت کا اس سے کیا علاقہ ہے.اب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے اس اعلان کو مولوی محمد علی صاحب کے مندرجہ ذیل فقرہ سے ملا کر پڑھو.’’چونکہ محمد ظہیر الدین نئے عقائد شائع کر رہا ہے.اس لئے اس کا کوئی تعلق احمدیہ جماعت سے نہ سمجھا جاوے.‘‘ مولوی صاحب کے یہ الفاظ کہ ظہیر الدین نئےعقائد شائع کر رہا ہے.کیا یہ صاف ثابت نہیںکرتے کہ مولوی صاحب اس امر کے ثابت کرنے کے لئے کہ ظہیر الدین کو جماعت احمدیہ سے خارج کرنے کا باعث اس کی کتاب نبی اللہ کا ظہور یااس کے ہم معنی اور کوئی ٹریکٹ ہوا تھا.اپنی طرف سے شائع کرنے کا لفظ بڑھاتے ہیں.حالانکہ حضرت خلیفۃ المسیح کے اعلان میں اس کے کسی ٹریکٹ کی طرف اشارہ نہیں.بلکہ اس کے اس خط کی طرف اشارہ ہے.جو اس نے پرائیوٹ طور پر آپ کی خدمت میں لکھا اور باوجود حضرت خلیفۃ المسیح کے تحریر فرمانےکے کہ آپ نے اس کے کسی اشتہار کے خلاف اعلان نہیں کیا.بلکہ مولوی یار محمد صاحب اور عبدا للہ تیماپوری کے اشتہارات کے خلاف اعلان کیا ہے اس میں اس نے تحریر کیا کہ ’’بزرگوار! مجھے آپکے بعض اعتقادات سے اختلاف ہے.اور جب تک آپ میرے اعتقادات کا غلط ہونا ثابت نہ کردیں گے.تب تک میں اپنے عقائد پر قائم ہوں‘‘.(الحکم ۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۱۲ء؁صفحہ ۶) چنانچہ اس کے اس خط کا جواب پرائیوٹ طور پر حضرت خلیفۃ المسیح نے دیا اس میں بھی یہ لکھا ہے کہ تم نے لکھا ہے کہ میری طرف اس میں اشارہ ہے.مَیں نے لکھا ہے کہ اس میں آپ کی نسبت اشارہ نہیں ہے.حالانکہ مَیں اپنی طرز میں مناسب نہیں سمجھتا تھا.مگر جن کی طرف اشارہ تھا.اس کا نام بھی آپ کی طرف لکھ دیا.مگر پھر بھی آپ نے بڑی صفائی سے لکھ دیا کہ نور الدین کےعقائد سے میں مخالفت رکھتا ہوں.اوران عقائد پر مَیں بڑا مضبوط ہوں.‘‘(الحکم ۱۴؍اکتوبر ۱۹۱۲ء؁صفحہ ۷) اسی طرح ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں :-’’ آپ کا چونکہ میرے اعتقاد سے بھی اختلاف ہے.جیسا کہ آپ نے لکھا ہے.اس واسطےآپ کو مَیں احمدی نہیں سمجھتا ‘‘.ان حوالجات کو جب عام اعلان سے ملا کر پڑھا جاوے.تو صاف ثابت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے ظہیر الدین کو اس کی کسی کتاب یا رسالہ کی اشاعت یا فی الواقع کسی اختلاف عقیدہ کی بناء پر نہیں.بلکہ اس کی اس تحریر کی بناء پر جماعت سے

Page 149

خارج کیا ہے کہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح سے اختلاف ہے.اور وہ اس اختلاف پر مضبوطی سے قائم ہے.بلکہ آپ نے اظہار افسوس بھی کیا ہے کہ جبکہ مَیں نے صاف طور پر لکھا دیا کہ تم میرے اعلان کے مخاطب نہیں ہو.تو کیو تم پھر بھی یہ لکھے جاتے ہو کہ مجھے تمہارے عقائد سے اختلاف ہے.اور جبکہ ایک مُرید خو د اپنے منہ سے کہے کہ اسے خلیفۂ وقت سے اُصولی اختلاف ہے اور سمجھانے پر بھی نہ سمجھے.اور مقابلہ پر مصرر ہے.تو اس کا علاج سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسے جماعت سے خارج کیا جاوے.ظہیر نے کیوں حضرت خلیفہ اوّل سے اختلاف عقائد کا اظہار کیا اس جگہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ جب عقائد کا کوئی اختلاف نہ تھا.اور زمیندار کی غلط رپورٹ کی الحکم اصلاح کرچکا تھا اور اس اعلان کی تردید بھی حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے کردی تھی.جسے بعض لوگوں نے جُھوٹ بول کر ظہیر الدین کی کتاب کے متعلق مشہور کر رکھا تھا.توپھر کیا وجہ تھی کہ ظہیرالدین نے اسامر پر زور دیا کہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح کے عقائد سے اختلاف ہے.سو یاد رہے کہ گو ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کے ظہور میں ایسی کوئی بات نہیں جو عقائد سے اختلاف ہے.سو یاد رہے کہ گو ظہیر الدین کی کتاب نبی اللہ کے ظہور میں ایسی کوئی بات نہیں جو عقائد سلسلہ کے خلاف ہو مگر ۱۹۱۲؁ء میں جس وقت حضرت خلیفۃ المسیح سے اس کا اختلاف شروع ہوا ہے اس شخص کی حالت بگڑنی شروع ہوگئی تھی اور اسے یہ خیال پیدا ہونا شروع ہوگیا تھا کہ یہ بھی مسیح موعودؑ کی بعض پیشگوئیوں کا مصداق ہے یا کم سے کم اس نے دبی زبان سے لوگوں میں اس امر کا اظہار شروع کردیا تھا اور یہ چاہتا تھا کہ جماعت میں کسی طرح فتنہ ڈالے اور اس نے تمام خط و کتابت میں یہ رویہ اختیار کر رکھا تھاکہ حضرت خلیفۃ المسیح پر جھوٹ کا الزام لگائے.چنانچہ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے.اس کے خط سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرت خلیفۃ المسیح کی اس تحریر کو کہ آپ کا اعلان اس کے متعلق نہیں شک کی نگاہوں سے دیکھتا تھا.اور درحقیقت اس کا یہ خیال تھا کہ جو کچھ زمیندار میں شائع ہوا ہے.وہی درست ہے.الحکم کی رپورٹ محض احمدیوں کو خوش کرنے کے لئے ہے.اس لئے اپنی تحریرات میں باوجود حضرت خلیفۃ المسیح کے بار بار کے انکار کے لکھتا جاتا تھا کہ مجھے آپ کے عقائد سے اختلاف ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس کو جماعت سے خارج کردیا.اور جماعت میں سے کسی نے اسے منہ نہ لگایا تو پھر اس نے بظاہر رجوع کرلیا اورتوبہ کرکے احمدی جماعت پر شامل ہوگیا.مگر رسول کسی اچھے موقع کا منتظر رہا.پس اس کا اختلاف عقیدہ کا دعویٰ واقعات پر مبنی نہ تھا بلکہ اپنے اندر یہ مفہوم مخفی رکھتا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح

Page 150

جو عقائد ظاہر کرتے ہیں وہ صرف دکھاوے کے لئے ہیں ورنہ دراصل آپ کے عقائد اور ہیں.اور وہ چاہتا تھا کہ اس طرح جماعت کو آپ کے خلاف بد ظن کرے.مگر اس کا منصوبہ کار گر نہ ہو اور سخت ناکامی کا منہ اسے دیکھنا پڑا اس بات کا ثبوت یہ بھی ہے کہ یہ شخص ان چند لوگوں میں سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑکی ایک رؤیا کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل آخر عمر میں آکر مُرتد ہو گئے تھے.مولوی محمد علی کے بیان (متعلق بناء اخراج ظہیر از جماعت ) کی غلطی پر بیرونی شہادتیں یہ تو وہ اندرونی شہادت ہے جو مولوی محمد علی صاحب کے اس دعویٰ کو رد کرتی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے ظہیر الدین کو اس لئے جماعت میں سے نکالا تھا کہ آپ کو اس کی کتاب نبی اللہ کے ظہورسے اختلاف تھا.اب میں بعض بیرونی شہادتیں پیش کرتا ہوں:- اوّل شہادت اس بیان کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ اس کتاب کا ذکر سلسلہ احمدیہ کے لڑیچر میں متعدد جگہ آیا ہے لیکن اس کے خلاف کسی نے کچھ نہیں لکھا.اگر لکھا ہے تو تعریف ہی کی ہے.اخبار بدر بدر مورخہ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۱ءکے پرچہ میں اس کتاب کی رسید دی گئی ہے اور ایڈیٹر اخبار کی طر ف سے اس کا اشتہار دیا گیا ہے لیکن اس کے برخلاف ایک لفظ نہیں لکھا گیا ہے.اگر یہ کتاب ایسی خطرناک تھی تو کیا وجہ کہ اس کا اشتہار ہمارے اخبارات میں ایڈیٹر اخبار کی طرف سے دیاجاتا اور جماعت کو اس کے گندے مضمون سے آگا ہ نہ کیا جاتا.بے شک بعض دفعہ اختلاف کو چنداں وقعت نہیں دی جاتی.لیکن بقول مولوی محمد علی صاحب کے اس کتاب میں جو مضامین تھے وہ تو ایسے خطرناک تھے کہ ان کی بناء پر حضرت خلیفۃ المسیح نے ظہیرالدین کو جماعت سے خارج کردیا تھا.پھر ایسے مضمون کی کتاب کو بے نوٹس کیونکر چھوڑ دیا گیا.ریویو آف ریلیجنز اسی پر اگر بس ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ایڈیٹر اخبار بدر نے رسید کتاب کے طور پر اشتہار دے دیا تھا.ورنہ اس نے اسے پڑھا نہ تھا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ریویو آف ریلیجنز میں جس کے ایڈیٹر خود مولوی محمد علی صاحب تھے.اس کتاب پر تعریفی ریویوکیا گیا ہے.ہم اس ریویو کو بتمال و کمال اس جگہ نقل کردیتے ہیں:- ’’نبی اللہ کا ظہور حصہّ اوّل.یہ ۱۲۶ کی چھوٹی تقطیع کی ایک کتاب ہے.جو ہمارے دوست منشی محمد ظہیر الدین صاحب نے حال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصدیق میں تصنیف کی ہے.

Page 151

اس میں لفظ خاتم النبیّٖن پر بڑی بسط اور تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور اس کے علاوہ اور بہت سے مفید اور قیمتی مضمون اس میں شامل ہیں.اور بہت سے شبہات اور اعتراضات کو نہایت مدللّ طور سے دُور کیا گیا ہے.بہت سی قرآنی آیات پر لطیف پیرایہ میں بحث کی گئی ہے.قرآن شریف نے جو نشانات ایک سچّے مرسل کے لئے مقرر فرمائے ہیں ان کو آیات کے حوالہ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ان کو چسپاں کرکے دکھادیا ہے.بعض نئے قسم کے چکڑالوی وساوس کا بھی خوبی سے ازالہ کیا گیا ہے.کتاب واقعی قابلِ دید ہے.کاغذ اور چھپائی بھی اچھی ہے‘‘.(ریویو آف ریلیجنز.ماہ اکتوبر ۱۹۱۱ءجلد ۱۰ صفحہ ۳۹۷،۳۹۸) مولوی محمد علی صاحب کا ایک عذر اور اس کا جواب میں نے سُنا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں ترجمہ قرآن کے کام کے باعث مَیں ریویو کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتا تھا.اس لئے اس وقت کے شائع شدہ مضامین مجھ پر حُجّت نہیں ہوسکتے.ہم ان کے اس بیان کو بھی تسلیم کرلیتے ہیں.مگر ہمارا یہ دعویٰ نہیں.کہ مولوی محمد علی صاحب کی قلم سے ہی وہ ریویو نکلا ہے.اس لئے حجت ہے.بلکہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں.کہ جماعت نے ہرگز اس کتاب کو اس نظر سے نہیں دیکھا.جس کا اظہار اب مولوی محمد علی صاحب کرتے ہیں کیونکہ صدر انجمن احمدیہ کے آرگن میں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کے ایڈیٹﷺریل سٹٓف کی طرف سے خواہ مولوی محمد علی صاحب کی قلم سے یا کسی اور کی قلم سے اس کتاب پر ایک نہایت زور دار ریویو نکلا ہے.اگر واقع میں وہ ایسی ہی کتاب ہوتی تو ایسا کیوں کیا جاتا.یاد رکھنا چاہئے کہ مضمون اور ریویو میں فرق ہوتا ہے.مضمون بعض دفعہ ایڈیٹر اپنی رائے کی مخالف بھی چھاپ دیتا ہے.کیونکہ ضرور ی نہیں کہ ہرایک رائے اس کے مطابق ہو.مگر تعریفی رائے ظاہر کرتی ہے کہ ریویو کا ایڈیٹوریل سٹاف اس کتاب کے مصنف کا ہم خیال تھا.اوراگر ریویو لکھنے والے نے غلطی کی تھی تو چاہئے تھا کہ احمدیہ جماعت میں سے کوئی اور شخص اس کے خلاف آواز اُٹھاتا یا کم سے کم جب بقول مولوی صاحب کے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے ظہیرالدین کے اس کتاب کو پڑھ کر اور اس سے خط و کتابت کرکے اس کے اخراج کااعلان کیا تھا.اسی وقت صدر انجمن احمدیہ جس کے رسالہ میں وہ ریویو شائو ہوا تھا یا مولوی محمد علی صاحب جو گو عملاً رسالہ کے ایڈیٹر نہ ہوں.مگر لوگوں کی نظروں میں انہی پر رسالہ کی ایڈیٹری کی ذمہ داری تھی.یا خود ریویو نویس کی طرف سے اس زہر کا ازالہ کیا جاتا.جو اس ریویو کے ذریعہ سے جماعت میں پھیلایا گیا تھا اور لوگوں کو بتایا جاتا کہ اس کتاب میں ایسے گندے مضامین ہیں کہ جن کے باعث حضرت خلیفۃ المسیح کو ظہیر الدین کوجماعت

Page 152

سے خارج کرنا پڑا ہے جو کچھ تعریف اس کتاب کی ہمارے رسالہ میں شائع ہوئی ہے وہ غلطی سے کی گئی ہے اس سے کوئی شخص دھوکا نہ کھاوے.ظہیر کی معافی اور توبہ کے اعلان میں الحکم کا اسکے رسالہ نبی اللہ کا ظہور کی تعریف کرنااور اسے سلسلہ کی بہت بڑی خدمت بتانا ریویو آف ریلیجنز میں اس کتاب پر تعریفی ریویو نکلنےکے علاوہ ایک اور زبردست ثبوت مولوی محمد علی صاحب کے دعویٰ کے بطلان میں یہ ہے کہ ظہیر الدین کی جماعت سے اخراج اورپھر اس کی معافی کے تمام واقعات حضرت خلیفۃ المسیح الاوّؒ ل کی زندگی میں سلسلہ کے سب سے پہلے اخبار الحکم میں بتفصیل شائع ہوئے ہیں.خود اسی مضمون میں اس کتاب کی تعریف لکھی ہوئی ہے.یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ ظہیر الدین کی معافی کا اعلان کرتے وقت الحکم اسی کتاب کی تعریف کرتا جس کی اشاعت کی وجہ سے ظہیر الدین کو کارج از جماعت کیا گیا تھا ور اسے معافی مانگنی پڑی تھی.کیا جرم میں خود ایڈیٹر الحکم کو حضرت خلیفۃ المسیح جماعت سے نہ نکال دیتے کیا یہ ممکن تھا کہ ادھر تو ایڈیٹر الحکم یہ لکھتا کہ ظہیر الدین سے قصور ہوگیا تھا.اب وہ معافی مانگتا اور پریشان ہوتا ہے اور ساتھ ہی وہی قصور خود کرتا اور اس زہریلی کتاب کی تعریف کرتا.ہر ایک شخص الحکم کے الفاظ کو پڑھ کر معلوم کرسکتا ہے کہ ظہیر الدین کا اخراج از جماعت اس کتاب یا اس کے ہم معنے کسی ٹریکٹ کی بناء پر نہ تھا (یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے.کہ اس وقت تک ظہیر الدین نے اس کتاب کے ہم معنی یا اس کے مضمون کے متعلق کوئی ٹریکٹ شائع ہی نہ کیا تھا) الحکم ظہیر الدین کے اخراج از جماعت اور پھر معافی مانگنے کے متعلق نوٹ لکھتے ہوئے تحریر کرتا ہے:- ’’مولوی ظہیر الدین صاحب نے نبی اللہ کا ظہور اور دید کا فتور اور رد چکڑالوی لکھ کر جو خدمت سلسلہ کی کی ہے.وہ اس قابل نہیں کہ ہم اس کو بھول جاویں.‘‘ یہ الفاظ صاف طور پر ظاہر کر رہے ہیں کہ کتاب نبی اللہ کا ظہور ظہیر الدین کے اخرج کا محرّک نہ تھی.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس کے اخراج کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سلسلہ کا یہ سب سے پہلا اخبار کبھی اس کتاب کو ایسے تعریفی الفاظ سے یاد نہ کرتا.ایک اور شہادت جو مولوی محمد علی صاحب کے اپنے بیان پر مبنی ہے ایک اور شہادت بھی مولوی محمد علی صاحب کے دعویٰ کے جھوٹے ہونے کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ اگر مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک اس کتاب کے مضامین کی

Page 153

بناء پر حضرت خلیفہ اوّل نے ظہیر الدین کو جماعت سے خارج کیا تھا.توپھر مجھے جس نے کہ بقول مولوی صاحب ظہیر کی ایک بعد میں شائع ہونے والی کتاب سے متاثر ہو کر پہلے ہی کفر و اسلام کے م سئلہ پر بحث شروع کردی تھی.اور میرا مضمون تمام و کمال حضرت خلیفۃ المسیح نے خود پڑھا تھا کیوں جماعت سے خارج نہ کیا.مولوی محمد علی صاحب کے مندرجہ بالا حوالجات ان کے تکذیب دعویٰ کیلئے کافی ہیں مَیں اُمید کرتا ہوں کہ ان اندرونی اور بیرونی شہادتوں کے معلوم ہونے پر ہرایک صاحبِ انصاف اس امر کے تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ مولوی محمد علی صاحب نے دید و دانستہ سلسلہ کی غلط تاریخ بنائی ہے تا کہ دور کے لوگوں کو دھوکا دیں اور جو شخص بھی ان واقعات کو اور اخبارات کے حوالجات کو پڑھے گا.وہ نہایت حیرت سے مولوی صاحب کے ان فقروں کو پڑھے گا کہ :- 1- Much notice of this book does not seem to have been taken by the Ahmadiyya community.2- But probably the contents of this book or some other leaf-let on the same subject were brought to the notice of the late Maulvi Nurudin sahib then head of the Ahmadiyya community and after some correspondence between Zahir-ud-Din and Maulvi sahib an announcement was made by the latter in the paper Badr 11th July 1921 (یہ مضمون ہم تمام و کمال پہلے درج کر آئے ہیں اور وہ خود ہی مولوی صاحب کے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کرتا ہے) to effect that as Mr.Zahiruddin was PROMULAGATING NEW DOCTRINES he was not to be considered as having any connection with the Ahmadiyya community.SPLIT P.13.14 تاریخ اختلاف سلسلہ کا امر سوم کیا ظہیر کو پھر دوبارہ انہی عقائد کی وجہ سے یا دعویٰ خلافت کی وجہ سے جماعت سے خارج کیا گیا تیسرا قابلِ توجہ امر اختلاف کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کی تحریر میں یہ ہے کہ ظہیر الدین

Page 154

نے اپریل ۱۹۱۳؁ء کو پھر ایک ٹریکٹ شائع کیا.جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ اس نے جو نیا کلمہ بنایا ہے تو کوئی غلطی نہیں کی اور یہ کہ اس پر اسے جماعت سے الگ کیا گیا.گو ظاہر یہ کیا گیا تھا کہ اس نے خلافت کا دعویٰ کیا ہے مگر اصل باعث وہی اس کے عقائد تھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ظہیر نے اپریل ۱۹۱۳؁ء میں پھر ایک ٹریکٹ شائع کیا.مگر جہانتک مجھے معلوم ہے.اس کے جماعت سے نکالے جانے کے متعلق کوئی اعلان نہیں ہوا.کیونکہ جو کچھ اس نے اس ٹریکٹ میں لکھا تھا.وہ اسلام سے اس قدر دور تھا کہ احمدی جماعت کے امام یا دیگر اہل علم لوگوں نے اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ اس کو جماعت سے نکالیں.جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا کلمہ بنادے.وہ اپنے اسی فعل سے جماعت سے نکل جاتا ہے.اس کے جماعت سے نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں.اور اسی سبب سے میرے نزدیک کوئی اعلان اس کے خلاف نہیں کیا گیا.پس یہ غلط ہے کہ جماعت احمدیہ یا اس کے امام کی طرف سے یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ظہیر خلافت کا دعویٰ کرتا ہے.ظہیر مولوی محمد علی کی طرح خلافت کا قائل ہی نہیں اس لئے وہ خلافت کا دعویٰ ہی نہیں کرسکتا وہ تو مصلح موعود ہونے کا مدعی ہے.اور اس کا دعویٰ ہے کہ جماعت کا امام وہی ہوسکتا ہے.جسے الہام سے یا رئویا سے یا کسی پیشگوئی کے ماتحت مقرر کیا جاوے.پس نہ جماعت احمدیہ نے اس پر خلافت کے مدعی ہونے کا الزام لگایا نہ اس وجہ سے اس کو جماعت سے خارج کرنے کا اظہار کیا.اگر عملاً اس سے قطع تعلق کیا گیا تو صرف اس کے نئے عقائد کی وجہ سے شریعت والا نبی قرار دینا، حضرت خلیفۃ المسیح کی خلافت کا انکار اور آپ پر قسم قسم کے اتہامات لگانا وغیرہ.اس کی ان تحریرات پر جہاں تک مجھے معلوم ہے اگر تحریر میں کسی نے نوٹس لیا ہے تو میر قاسم علی صاحب نے جنہوں نے اپنے اخبار الحق میں جو اس وقت دہلی میں شائع ہوتا تھا اس کے متعلق ان الفاظ میں اظہار کیا ہے’’ مجھے ظہیر بلوں کو پڑھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی.افسوس اس لئے کہ مولوی صاحب موصوف ترکستان کو جارہے ہیں.اور اس کو کعبہ کا راہ سمجھ بیٹھے ہیں.اورحیرت اس لئے کہ ان میں کوئی علمی بات یا مفیدمعلومات تائید سلسلہ یا اسلام کی تائید نہیں.ہوتی یا ہوتی ہے تو کم سے کم میرے فہم و علم سے بالا تر ہوتی ہے.جس سے میں مستفید نہیںہوسکتا.‘‘ اسی طرح لکھا ہے.’’تمام اہلِ قلم احبا ب سلسلہ کی خدمت میں دست بستہ عرض کروں کہ ظہیر بلوں کی طرف اسی قدر توجہ فرماویں جس قدر کہ عبداللہ اور یا ر محمد کی طرف

Page 155

فرماتے رہے ہیں.‘‘ (الحق مؤرخہ ۳۰ ؍مئی و ۷ جون ۱۹۱۳؁ء جلد ۴ نمبر ۲۲،۲۳ صفحہ ۱۴) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ علاوہ ظہیر کے عقائد کو قابلِ نفرت اور کعبہ سے ترکستان کی طرف لے جانے والے سمجھنے کے جماعت نے اگر ان کے متعلق کوئی کاروائی کی تو یہی کہ ان کو حقیر خیال کرکے ان کی طرف توجہ ہی نہ کی جاوے.اوریہی طریقِ عمل اس وقت تک اختیار کیا جارہا ہے.تاریخ اختلاف سلسلہ کا امر چہارم مولوی محمد احسن کے مضامین زمانہ قبل از اختلاف میں جزوی نبوت کا لفظ تاریخ اختلاف کے متعلق چوتھی قابل توجہ بات یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب تحریرکرتے ہیں کہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب نے مباحثہ رام پور کی رپورٹ میں یہ ہیڈنگ دے کر ’’بحث متعلق نبوت جزویہ تابع نبوت کا ملہ‘‘ یہ فقرہ لکھا ہے کہ رسول کریم سلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ایک شخص کو جزوی نبوت اسلام کی تائید کے لئے مل سکتی ہے‘‘.اسی طرح اس عالم بوڑھے نے تشحیذ الاذہان میں جس کے ایڈیٹر ایم محمود تھے.ایک مضمون جس کا عنوان محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروان میں نبوت تھا.لکھا.جس میں اس نے لکھا تھا کہ ااس اُمّت میں صرف نبوت جزویہ مل سکتی ہے.مولوی صاحب کی اس تحریر سے یہ مراد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑکے بڑے بڑے اصحاب کا یہی مذہب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمن کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے.صرف جزوی نبوت کا دروازہ کُھلا ہے.دوسرے یہ کہ خود میرے ایڈیٹر ی میں جو رسالہ نکلتا تھا.اس میں مولوی سیّد محمد احسن صاحب کا مضمون نبوت جزویہ کے متعلق شائع ہوا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ یا تو مَیں بھی اس وقت یہ عقیدہ رکھتا تھا یا حضرت خلیفہ اوّل کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کرسکتا تھا مگر افسوس ہے کہ مولوی صاحب جو کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں.وہ ان امور سے ثابت نہیں ہوتا.کیونکہ اوّل تو مولوی سید محمد احسن صاحب کا کوئی قول ہم پر حُجت نہیں.آپ کے قول کو وہی درجہ دیا جاسکتا ہے.جو علماء کے اقوال کو دیا جاتا ہے اور تشحیذ الاذہان میں آپ کے مضمون کا شائع ہونا بھی آپ کے مضمون کو کوئی خاص نوعیت نہیں دے دیتا.کیونکہ یہ مضمون اکتوبر ۱۹۱۳؁ء میں شائع ہوا ہے اور مَیں تشحیذ الاذہان کے کام سے دو سال قبل سے فارغ ہوچکا تھا.اس وقت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل میں رسالہ کے ایڈیٹر تھے.اورمیرا نام رسالہ پر لکھنے کے لئے

Page 156

انجمن تشحیذ الاذہان اس لئے مُصر تھی کہ اس سے لوگوں میں رسالہ کی طرف کشش رہے گی.کیونکہ اس کے اجراء کے وقت سے میں ہی اس کا ایڈیٹر رہا تھا.پس اس وقت رسالہ میں کسی مضمون کا چھپنا مجھ پر حُجّت نہیں.کیونکہ مَیں اس وقت نہ رسالہ سے بہ حیثیت ایڈیٹر کوئی تعلق رکھتا تھا نہ اس کے مضامین یا اس کے پروف مجھے دکھائے جاتے تھے،.اوراگر مولو ی صاحب رسالہ پر صرف میرا نام ہونے ریویو آف ریلجنز میں شائع ہوا ہے اس کا ذمہ دار ہونا پڑے گا.مولوی سید محمد احسن صاحب کا نبوت مسیح موعودؑ کو جزوی قرار دینا مولوی محمد علی صاحب کے مفید مطلب نہیں مولوی سید محمد احسن صاحب کے مضامین کے متعلق میں اس قدر اور بھی بتاد ینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کو اگر دیکھا جاوے.تو ان کے مضامین سے حضرت مسیح موعودؑ کی وہی نبوت ثابت ہوتی ہے جو ہمارے عقیدہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو حاصل تھی.اور اصل غرض نفس مطلب سے ہی ہوتی ہے،الفاظ کچھ تغیر پیدا نہیں کرسکتے.مولوی محمد احسن صاحب اپنے مضمون مندرجہ تشحیذ الاذہان میں بے شک تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت جزوی نبوت ہی تھی.مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ حضرت موسٰی کے بعد جس قدر انبیاء بنی اسرائیل میں آئے ہیں.ان کی نبوت بھی جزوی نبوت ہی تھی.چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں:- ’’پس مبشرات کی پیشگوئیاں واسطے تائید اسلام کے نبوت کے ہی ذریعہ سے دی جاویں گی اور یہی نبوت غیر تشریعی ہے یا نبوت جزوی…حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء گزرے.وہ تمام اس نبوت مبشرات کے ساتھ ممتاز کئے گئے.کیونکہ نبوت احکام کی بنی اسرائیل میں تورات پر ختم ہوگئی تھی.‘‘ (تشحیذ الاذہان اکتوبر ۱۹۱۳؁ءصفحہ ۵۰) ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہ لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّۃِ اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ (صحیح بخاری کتاب التعبیر باب المبشرات ) میں جن مبشرات کا عودہ اس اُمّت کے لئے دیا گیا ہے.اسی کا نام نبوت غیر تشریعی یا جزوی نبوت ہے اور یہ کہ اسی قسم کی نبوت حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے نبیوں کو دی گئی تھی.اور یہی ہمارا عقیدہ ہے اس سے ایک شوشہ زیادہ کرنا ہم کفر سمجھتے ہیں.بلکہ ہم تو یہ شرط بھی لگانا ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت

Page 157

موسیٰ علیہ السلام کےبعد نبی اسرائیل میں جو نبی گزرے ہیں.ان کی نبوت گو غیر تشریعی ہی تھی.مگر یہ نبوت کا انعام ان کو بغیر توسط حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت علاوہ اس کے کہ غیر تشریعی تھی اس کا فیضان بتوسط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوا تھا نہ کہ براہ راست.پس مولوی محمد احسن صاحب کے مذہب سے جو حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کےبارہ میں انہوں نے تشحیذ الاذہان میں شائع کیا تھا ہمیں ہرگز اختلاف نہیں.ان کے اس مضمون سے اگر کوئی اختلاف ہمیں ہے.تو صرف یہ کہ وہ اس کا نام نبوت جزویہ رکھتےہیں ہم اس نبوت کو نبوت جزوی نہیں کہتے.پس مولوی محمد علی صاحب کا سیّد صاحب کے اس مضمون کو اپنے لئے بطور دلیل گرداننا ان کی کمال سادگی پر دلالت کرتا ہے.وہ شاید جزوی نبوت کے لفظ ہر خوش ہوگئے ہیں.حالانکہ سیّد صا حب کے مضمون سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسویٰؑ کے بعد تمام انبیاء بنی اسرائیل کو جزوی نبوت ملی تھی.اوراگر حضرت داؤد، حضرت سلیمان ،حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی نبوت نبوتِ جزویہ تھی.تو ان معنوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت کو نبوتِ جزویہ قرار دینےمیں ہمیں کچھ اعتراض نہیں.مگر ہم جانتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب کبھی اس امر کے قبول کرنےکے لئے تیار نہیں ہوں گے.وہ اسی وقت تک دوسروں کے اقوال کو حجّت ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں.جب تک وہ ان کے خیالات کے مطابق ہوجائیں.ہم اس جگہ مولوی محمد احسن صاحب کی دوسری تحریروں سے بھی بعض حوالے دے دیتے ہیں.تاکہ ہمارے دعویٰ کی مزید تصدیق ہوجاوے.مولوی محمد احسن صاحب خود مولوی محمد علی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں کہ :- ’’مولوی محمد علی نہ جزوی نبوت کے معنے سمجھتا ہے نہ مجازی کے نہ ظلّی کے.کیونکہ وہ تو یہ کہتا ہے کہ جیسےزید کو بوجہ بہادری کے شیر کہہ دیتے ہیں٭اسی طرح حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کو نبی کہا گیا ہے.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ وہ اتنا بھی نہ سمجھا کہ یہاں پر اسناد مجازی اگر کہیں حضرت جری اللہ کے کسی کلام میں وارد ہوئی تو مسند الیہ اس کا کون اور کس نہج سے ہے.میرے پیارے دوست مجاز تو بالکل جھوٹ ہوا کرتا ہے.اگر نعوذ باللہ اس معنے( میں ) حضرت نبی مجازی ہیں.تو جھوٹے نبی ہیں.ثم نعوذ باللہ.اصل یہ ہے کہ حضرت سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نبی متقدم ہیں اور *دیکھو مولوی محمد علی ساحب کا ٹریکٹ بنام "نبوت کاملہ تامہ اور جزئی نبوت میں فرق

Page 158

حضرت مسیح موعود (جری اللہ فی حلل الانبیاء متأخر نبی ہیں.متأخر پر جو متقدم کا اطلاق کیا جائے جیسا کہ اکثر الہامات میں وارد ہے.جیسا کہ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ (الصف:۱۰)تو مجاز ہوگا.یہ ہیں معنے مجاز کے علیٰ ہذالقیاس نبوت جزوی اور ظلّی کو بھی وہ نہیں سمجھا.خاکسار نے تو ’’ستّہ ضروریہ ‘‘ میں لکھ دیا ہے کہ ’’اس صورت میں اگر اصل و ظلّ میں تساوی بھی ہو تو کچھ حرج نہیں.کیونکہ افضلیت بسبب اصلیت پھر بھی ادھر ہی رہے گی‘‘.پس یہ ہیں ظلیت کے معنے.اور نہ وہ جزوی کے معنے سمجھا ہے.کیونکہ بحکم حدیث متفق علیہ لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّۃِ اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ (صحیح بخاری کتاب التعبیر باب المبشرات) چونکہ حضرت جری اللہ شریعت جدیدہ سوائے شریعت دین اسلام کے اور سوائے قرآن شریف کے کوئی شریعت اور کوئی کتاب اللہ ناسخ شریعت و قرآن نہیں لائے.اس لئے آپ جزوی نبی ہوئے.‘‘ اسی طرح ذیل میں مولوی صاحب موصوف کے رسالہ ’’ستّہ ضروریہ ٭سے چندفقرات نقل کئے جاتے ہیں.جن میں انہوں نے عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ مُنْکِرِی النَّبُوَّۃِ الْاَحْمَدِیَّۃِ.آیت خاتم النَّبِیّٖن سے نبوۃ فی خیرالامۃ کو ثابت کرتےہوئے بڑے زور سے محمد علی صاحب والے خیالات کی تردید کی ہے.آپ رسالہ مذکورہ میں لکھتے ہیں’’لفظ رسول اور نبی کے معنوں میں علماءکرام کا بہت اختلاف ہے.مگر ان اقوال مختلفہ میں سے اگر ہم اس قول کو اختیار کریں.جو تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہوا ہے.تو کون سا محذور لازم آتا ہے.اور وہ قول یہ ہے کہ :- اِنَّ الرَّسُوْلَ مِنَ الْاَنْبِیَآءِ مَنْ جَمَعَ اَلَی الْمُعْجِزَۃِ الْکِتَابَ الْمُنَزَّلَ علَیْہِ وَالنَّبِیَّ غَیْرُ الرَّسُوْلِ مَنْ لَمْ یَنْزِلَ عَلَیْہِ کِتَابٌ وَاِنَّمَا اُمِرَ اَنْ یَّدْعُوْ اَلیٰ کَتَابٍ مِنْ قَبْلَہٖ (تفسیر کبیر امام رازی جلد ۲۳ صفحہ ۴۹ زیر آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ الخ طبع بار دوم) پس اگر ثابت ہوجاوے کہ ان معنوں کے اعتبار سے حضرت مسیح موعودؑ نبی ہوں اور رسول نہ ہوں اور جس جگہ پر لفظ رسول بھی مستعمل ہوا ہے.اس سے مراد بھی یہی معنے ہیں تو ہم پر کیا اعتراض وارد ہوسکتا ہے.(صفحہ ۶۷) اور نیز لکھتے ہیں.(تفسیر کبیر امام رازی جلد ۲۳ صفحہ ۴۹ زیر آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ الخ طبع بار دوم) اس آیت (وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(الاحزاب : ۴۱) کے وہ معنی ہونے چاہئیںجس میں مرادِ الٰہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء اور مدح پیدا ہووے.پس اب وہ معنے اور مراد خاتم النبّیٖن کے بیان کرنے باقی رہے کہ وہ کیا ہیں؟ وہ یہ ہیں کہ آپ کی بعثت کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا کہ کوئی نیا حکم شریعت کا ایسا لاوے جو کتاب اللہ اور سنت صحیحہ میں موجود نہ ہو یا نعوذ باللہ کسی حکم منصوص اسلامی کو منسوخ کردیوے (صفحہ ۵۹) *ستہ ضروری بتقریب مباحثہ رام پوری مطبوعہ امروہہ ۱۹۰۹

Page 159

’’آ پ خاتم النّبیّٖن ہیں.یعنی تمام کمالات جملہ انبیاء سابقین کے بھی آپ کو حاصل ہیں.‘‘ (صفحہ ۶۱ ) ’’ مراد خاتم النّبیّٖن سے یہی ہے کہ آپ انتہاء درجا پر کمالات نبوت کے پہنچےہوئے ہیں.نہ یہ کہ آپ کا فیضان نبوت کسی فرد کو افراد امت میں سے ہرگز نہیں پہنچ سکتا.‘‘(صفحہ۶۴) اور نیز لکھتے ہیں.’’اگر صرف انبیاء ماسبق کے ہی آپ نبی الانبیاء ہیں.تو اوّل تو اسکا ثبوت کیا ہےصرف دعویٰ ہی دعویٰ ہوا جاتا ہے.جس کی کوئی دلیل بیّن موجود نہیں.کیونکہ آپ کے اتباع سے تو کوئی اس درجہ کو پہنچا ہی نہیں.پھر دعویٰ نبی الانبیاء کا کیا ثبوت ہے.دوسرے البتہ بموجب زعم مخالفین کے صرف ایک درجہ کمال کا تو آپ کو حاصل ہوگا.مگر درجہ تکمیل کا نعوذ باللہ آپ کو حاصل نہ ہوا.حالانکہ جن انبیاء کے آپ سردار ہیں ان کوبھی درجہ تکمیل کا حاصل تھا.حضرت موسٰی کی اُمّت میں بھی صدہا نبی ان کی اتّباع کے طفیل سے ہوگئے ہیں حالانکہ موسٰی کا صرف اسقدر مرتبہ تھا کہ لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اِتّبَاعِیْ ٭(صفحہ ۷۱) (الیواقیت والجواھر الامام شعرانی)اورپھر لکھتے ہیں کہ ’’خاتم النّبیٖن کے ان معنوں سے کس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان ثابت ہوتی ہے کہ جملہ انبیائے ماضین و آخرین آپ کے طفیلی رہے.‘‘(صفحہ ۶۶) اور نیز لکھتے ہیں’’ہمارے دو دعوٰے ہیں.اوّل تو یہ کہ بعد بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی نبی شارع ہوکر قیامت تک نہیں آوے گا.دوسرا دعویٰ یہ کہ بذریعہ اتّباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے تائیدِ دینِ اسلام کی عند الضرورتے نبی جزوی تابع نبوت کلیہ کے طفیلی ہوکر آسکتا ہے.‘‘ (صفحہ ۶۳) تاریخ اختلاف سلسلہ کا پانچواں امر پانچواں قابلِ توجہ امر جو مولوی محمد علی صاحب نے تاریخ اختلافات سلسلہ میں لکھا ہے یہ ہے کہ جب ظہیرالدین اپنے عقائد پھیلا رہا تھا اس وقت مَیں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت نہ کرنے والوں کے کفر کے مسئلہ کو چھیڑ دیا اور گو ظاہر یہ کیا گیا ہے کہ یہ مضمون حضرت خلیفہ اوّل کو دکھایا گیا ہے.مگر حضرت خلیفہ اوّل نے اس مضمون کو جن معنوں میں لیا ہے.اس کاپتہ اس طرح لگ جاتا ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب کے ایک خط پر حضرت مولوی صاحب نے دستخط کئے ہیں.جس میں یہ لکھا ہے کہ ایم محمود کا مضمون صرف اسی صورت میں قابلِ قبول ہے جبکہ اس کے یہ معنے لئے جاویں کہ :- *الیواقیت الجواہر جلد ۲ ص ۲۱ میں یہ روایت ہے لو کان موسیٰ حیا ما وسعہ الا ان یتبعنی

Page 160

"Those who did not accept the promised Messiah were only devier of or unbelievers in the promised Messiah and not actually outsied the pale of Islam."۸ پیشتر اس کے کہ مَیں مولوی محمد علی صاحب کے اس بیان پر واقعات کے رو سے تنقید کروں پہلے ان کے بیان ہی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ کمال الدین صاحب کے مضمون کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ایسا بے معنے ہے کہ ہر ایک عقلمند اسے پڑھ کرحیران ہوتا ہوگا.اس فقرہ کے کیا معنے ہوسکتے ہیں کہ جو شخص حضرت مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ آپ کو نہیں مانتا؟ کیا کسی عقلمند کے نزدیک ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص جو آپ کو نہ مانتا ہو وہ آپ کو مانتا ہو.کیا اگر میرے مضمون کا مفہوم یہ قرار دیا جاوے تو وہ مجنونانہ مضمون نہیں.اور کیا اس کے تصحیح کرکے حضرت خلیفۃ المسیح نے میرے مضمون کا یہ خلاصہ سمجھ کر اجازت دی تھی خود ہی بلا کسی بیرونی شہادت کے مولوی صاحب کی تردید نہیں کرتا؟ مولوی محمد علی صاحب کی تردید انہیں کے قول سے اس کے بعد میں مولوی صاحب کی تردید میں کود مولوی صاحب کے ہی بیان کو پیش کرتا ہوں.مولوی صاحب اسی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایم محمود نے ان لوگوں کے کفر کے مسئلہ کو چھیڑ دیا جنہوں نے باقاعدہ طور پر مسیح موعودؑ کی بیعت نہیں کی تھی.اب سوال یہ ہے کہ اگر میرے مضمون میں غیر احمدیوں کےکفر کی بحث نہ تھی بلکہ جیسا جکہ مولوی صاحب نے خواجہ صاحب کا قول نقل کیا تھا صرف یہی لکھا تھا کہ جو مرزا صاحبؑ کو نہیں مانتے وہ مرزا صاحب کو نہیں مانتے پھر ظہیر الدین کے بعد میں شائع ہونے والے ٹریکٹ کا نتیجہ میرے اس مضمون کو مولوی صاحب نے کیونکر قرار دے دیا.اس امر کے ثابت کرنے کے لئےکہ جو مرزا صاحب کو نہیں مانتے وہ مرزا صاحب کو نہیں مانتے.آپؑ کے نبی ہونے یا نہ ہونے کا کیا تعلق ہے یہ بات تو ہر ایک دعویٰ اورہر ایک حقیقت کے متعلق کہی جاسکتی ہے.مَیں نبی نہیں ہوں.مگر یہ فقرہ اگر اس کا کوئی مطلب ہے تو میری نسبت بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو مجھے نہیں مانتے وہ مجھے نہیں مانتے.نوبت کے مسئلہ کے نتیجہ میں اور اس سے متأثر ہوکر تو صرف کفر کا مسئلہ ہی چھڑا جاسکتا ہے.پس مولوی صاحب کے بیان سے ہی ثابت ہے کہ میرے اس مضمون میں اسی مضمون پر بحث کی گئی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑکے نہ ماننے والے کافر ہیں.اور یہ بات ثابت ہے کہ میرے اس مضمون کو حضرت خلیفۃ لامسیح ؑنے شروع سےا ٓخر تک پڑھا اور اس کی اشاعت کی اجازت

Page 161

دی.چنانچہ مندرجہ ذیل واقعات اس امر کی کافی شہادت ہیں.میرے مضمون کفر واسلام کے لکھے جانے کی وجہ اور اس کے تاخیراشاعت کا سبب مارچ ۱۹۱۱؁ء میں مَیں نے کفر واسلام غیر احمدیوں پر بدیں وجہ ایک مضمون لکھا کر غیر احمدیوں کی تحریک سے متأثر ہوکر بعض احمدیوں نے بھی بعض غیر احمدی اخبارات میں اس قسم کے اشارات شروع کئے کہ غیر احمدیوں اور احمدیوں میں کچھ فرق نہیں اور دونوں مسلمان ہیں.اس خیال سے کہ یہ بد عقیدہ جماعت احمدیہ میں پھیل نہ جاوے.مَیں نے ایک مضمون لکھا.اور مارچ میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح کے پیش کیا کہ آپ اس کو دیکھ لیں.چونکہ ااپ ان دنوں سخت بیمار تھے ایک مدت تک وہ مضمون آپ کے پاس پڑا رہا.بعض اخبارات سلسلہ میں اس کی طرف قبل از وقت اشارہ کردیا گیا تھا.اس لئے اس کے دیر تک حضرت خلیفۃ المسیح کے پاس پڑے رہنے پر خواجہ کمال الدین صاحب کے ہم خیال لوگوں نے عام طور پر مشہور کردیا کہ اس مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح نے سخت ناپسند کیا ہے.چونکہ بیماری کی حالت میں یاد دہانی کرانا خلاف مصلحت تھا مَیں خاموش رہا.اور قریباً ایک ماہ کے بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح کی صحت کچھ اچھی ہوئی تو آپ نے اس مضمون کو دیکھا.اور متعدد جگہ خود اپنے ہاتھ سے اصلاح کی.جس وقت آپ اس کی اصلاح سے فارغ ہوئے.مَیں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا.آپ نے وہ مضمون مجھے دیا اور فرمایا کہ میاں مجھے سختی ناپسند ہے.آپ نوجوان ہیں مَیں بوڑھا ہوں (یا اسی مفہوم کے کوئی اور الفاظ تھے) اس وقت مجلس میں مولوی صدر الدین صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے نہ معلوم کس رنگ میں اس امر سےاپنے دوستوں کو لاہور اطلاع دی اور چند ہی دن میں عام طور پر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس مضمون کو ناپسند کیا ہے.حالانکہ اصل بات یہ تھی کہ اس مضمون میں چند اشارات بعض ایسے لوگوں کی طرف بھی تھے جو اس وقت جماعت میں شامل تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح نے ان کی طرف اشارہ کو نا پسند کیا تھا تا فتنہ کا موجب نہ ہو.اور ان فقرات کو کاٹ دیا تھا.اورموجودہ مضمون اب ان کے منشاء کے بالکل مطابق اورآپ کے عقیدہ کے موافق تھا.مگر چنوکہ عام طور پر لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ اس مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح نے نا پسند کیا ہے.اس لئے مَیں نے اسے دوبارہ اجازت کے بغیر شائع کرنا پسند نہ کیا.بلکہ ارادہ کرلیا کہ اگر حضرت خلیفۃ المسیح کو کچھ بھی ناراضگی ہو تو مَیں اس مضمون کو شائع نہ کرو ں.چنانچہ اس خیال سے مندرجہ ذیل خط مَیں نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا.

Page 162

سیّد نا و امامنا! السلام علیکم ! چونکہ حضور نے مضمون پر تو کوئی ایسا نشان لگایا نہیں جس سے معلوم ہوکہ کونسا لفظ سخت ہے.اور میں دوبارہ پڑھو ں بھی تو مجھے سمجھ نہیں آئے گا.کیونکہ جب لکھتے وقت وہ میری سمجھ میں نہیں آئے.تواب کیونکر آنے لگے.اس لئے مَیں خیال کرتا ہوں کہ مَیں خواہ مخواہ کیوں آپ کی ناراضگی کا باعث بنوں.جبکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے.تواپنا کام وہ خود دیکھ سکتا ہے اور جبکہ وہ خود ہر ایک کام کرسکتا ہے.تو میرا کسی بات پر زور دینا گویا اس کی مدد کا دعویٰ کرنا ہے.اگر کوئی بات اس کے منشاء کے خلاف ہوگی تو وہ خود انتظام کرے گا.لیکن میری اطلاع کے بغیر الحکم اور بدر میں کئی دفعہ اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اس کے شائع نہ ہونے پر ممکن ہے کہ جو لوگ پہلے سے ہی بہت سےخطابات دیتے ہیں وہ خیال کریں کہ یونہی ہمارے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لئے تخویف کے لئے یہ مشہور کیا گیا تھا.اگر کچھ حرج نہ ہو.تو مَیں بایں الفاظ اخبار میں اعلان کردوں کہ:- ’’ایڈیٹر ان الحکم و بدر نے خلاف میرے منشاء اوربغیر میرے اطلاع کے میرے ایک مضمون کی طرف اپنے اخباروں میں اشارہ کیا ہے.لیکن چونکہ بغیرحضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت کے میں وہ نہیں چھاپ سکتا تا کہ فتنہ کا باعث نہ ہو.اس لئے حضور کو پہلے دکھایا گیا اور چونکہ وہ حضور کی منشاء کے خلاف تھا اس لئے اس کے چھاپنے سے معذور ہوں اور دیگر احباب سےد رخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی آئندہ مسئلہ متنازع فیہ پر قلم نہ اُٹھائیں اور اسے فیصل شدہ سمجھیں ‘‘.اوراگر اس تحریر کا شائع کرنا نا مناسب ہی تو بھی کچھ حرج نہیں اور بیسیوں اعتراضوں میں یہ بھی ایک سہی.ایں ہم اندر عاشق بالائے غمہاے دگر.محمود اس میرے خط کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے میرے خط پر ہی یہ الفاظ تحریر فرمائے.اصل خط مع حضرت خلیفہ اوّل کی تحریر کے اس وقت تک میرے پاس موجود ہے.’’عزیز من! مَیں نے مناسب موقع پر نشان لگایدا ہے.مجھے اصل مضمون سے مخالفت نہیں اور ہر گز نہیں.ما ٔمور جس قدر سختی حکماً کرے.وہ معذور ہے کیونکہ ما ٔمورہے.مگر اس کو بھی حکم ہے.فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ(اٰل عمران : ۱۶۰) آپ کی جوانی اور بدنی کمزوری تیزی چاہتی ہے.اس میں نرمی مجھے پسند ہے.مضمون چھاپ دو.‘‘

Page 163

مضمون کفرو اسلام پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی اصلاح اور چھاپنے کی دوبارہ اجازت اس جواب سے ظاہر تھا اور یہی واقعہ تھا کہ جو جو جگہیں حضور کے نزدیک سخت تھیں ان پر آپ نے نشان کردیا تھا.اور یہ بھی کہ بعض کمزور احمدیوں کی نسبت جو الفاظ استعمال کئے گئے تھے.صرف وہ آپ کو ناپسند تھے.کیونکہ جو آیت آپ نے لکھی ہے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کی نسبت ہے.نہ کہ نہ ماننے والوں کی نسبت اورایسے فقرات آپ نے کاٹ دئیے تھے.اورپھر ساتھ اس کے چھاپنے کی دوبارہ اجازت بھی دی.اس پر مَیں نے مضمون چھاپنے کے لئے دے دیا.حضرت خلیفۃ المسیح نے یہ بھی فرمایا کہ پروف بھی مجھے دکھا لینا.چنانچہ رسالہ تشحیذ کے مینجرصاحب کو کہہ دیا گیا کہ پروف دکھائے بغیر رسالہ طبع نہ ہو مجھے کچھ کام تھا.مَیں امرتسر کچھ دنوں کے لئے چلا گیا.پیچھے یہ مشہور ہوگیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو تریاق القلوب کا ایک حوالہ دکھایا گیا تھا.جس سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کی ہے.آپ کو دکھائی.اورپھر یہ سوال پیش کیا کہ اگر آپ کو ناپسند ہے تو مَیں اس مضمون کی اشاعت کو روک دوں اس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح نے مجھے فرمایا کہ میں منافق نہیں ہوں.آپ اس مضمون کو شائع کریں.یعنی مَیں نے اجازت منافقت سے نہیں دی.میری غرض بار بار پیش کرنے کی یہ تھی کہ کسی کو اعتراض کی گجائش نہ رہے.اس کے بعد مضمون کے پروف بھی آپ کو دکھائے گئے.اور چونکہ پروف کے دیکھنے میں حضرت خلیفۃ المسیح کو کچھ دیر لگی.ہمارے احباب نے پھر مشہور کردیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے پتھر پر سے کٹوادئیے ہیں اور مضمون کی اشاعت سے روک دیا ہے.مگر آخر پروف بھی حضرت خلیفۃ المسیح نے دیکھ لئے اور تب جا کر وہ مضمون شائع کیا گیا.ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہےکہ یہ مضمون سرسری طور پر شائع نہیں ہوا.بلکہ دو دفعہ خود حضرت خلیفۃ المسیح نے شروع سے آخر تک پڑھا.متعدد جگہ خود اصلاح فرمائی (آپ کا اصلاح کردہ مسودہ میرے پاس اب تک پڑا ہے.جو میرے بیان پر شاہد ہے) پھر بار بار آپ کے سامنے اس کی اشاعت کا سوال آیا.پس یہ مضمون گو مَیں نے ہی تحریر کیا ہے.مگر اس لحاظ سے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اسے بار بار دیکھا ہے اور اس کی اصلاح اپنی قلم سے فرمائی ہے.آپ کا مضمون ہی کہا جاسکتا ہے.مضمون کفرو اسلام کا خلاصہ اب مَیں اپنے اس مضمون کا خلاصہ اس جگہ دیتا ہوں اوربعض خاص خاص فقرات بھی نقل کروں گا.جس سے ہر ایک شخص یہ تنیجہ نکال

Page 164

سکےگا کہ آیا میرے مضمون کےا صل مطلب کے خلاف کوئی اور معنی کرنے ممکن بھی ہیں یا نہیں.اس مضمون کا ہیڈ نگ تھی‘‘.مسلمان وہی ہے جو سب ما ٔموروں کو مانے‘‘.اوریہ ہیڈنگ ہی اس بات کی کافی شہادت ہے کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جو مرزا صاحبؑ کو نہیں مانتا وہ مرزا صاحب کو نہیں مانتا.بلکہ یہ کہ جو مرزا صاحب ؑکو نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے.مضمون کے شروع میں ایک تمہیدا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تمام نبیوں اور ان کے سلسلوں کی آپس میں مشابہت ہوتی ہے.اسی طرح نبیوں کے مخالف بھی آپس میں مشابہ ہوتے ہیں.مگر ہمارے حضرت مسیح موعودؑ کو چونکہ مسیحؑ سے مماثلت حاصل تھی.اس لئے آپ کا اور آپ کی جماعت کا حال ان سے اور ان کی جماعت سے بہت ہی ملتا ہے.مگر چونکہ آپ بروز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں.اس لئے آپ کی جماعت کی نسبت یقین ہے کہ زیادہ خطرناک فتنوں سے محفوظ رہے گی.اس کے بعد بتایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد غیر قوموں نے مسیحیوں سے صُلح کرکے ان کے دین کو برباد کردیا.ایسا ہی آج کل بھی ہو رہا ہے.غیر احمدی ہم کو اپنے اندر ملانے کی کوشش کررہے ہیں.اوراس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے جب دیکھا کہ مسیح موعودؑ کی جماعت کو وہ مقابلہ سے شکست نہیں دے سکا.تو اس نے لامذہب لوگوں کو ہمارے پیچھے لگایا ہے تاصلح کے پردہ میں ہمارے سلسلہ کو نقصان پہنچائے اور یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ ہمارا آپس کا اختلاف ہی کیا ہے کہ اس قدر جُدائی ہو.اورایک دوسرے کو کافر کہنے سے کیا فائدہ.جنہوں نے مرزا صاحب کا کافر کہا انہوں نے غلطی کی.اب احمدیوں کو بھی چاہئے.اپنے غصّہ کو جانے دیں.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم میں سے بعض کو سمجھ دی اور انہوں نے ما ٔمورین کی قدر کو سمجھ لیا اور اس بات سے انکار کردیا کہ اس شخص کے انکار کو معمولی انکار قرار دے دیں.جس کے لئے آسمان و زمین نے گواہی دی.جو سب نبیوں کا موعود تھا.جس کی خاطر اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والے بڑے بڑے علماء و فضلاء اور گدی نشینوں کو ذلت وہلاکت کی مار مارتا رہا.اورجسے الہام کیا کہ تجھ سے کُفر کرنے والوں پر قیامت تک میں تیرے متبعین کو فضیلت دوں گا.پھر اصل مضمون کے متعلق لکھا ہے کہ :- جبکہ ہم حضرت مسیح موعود ؑ کوخدا تعالیٰ کا نبی مانتے ہیں تو آپ کے منکروں کو مسلمان کیونکہ کہہ سکتے ہیں.بیشک ہم ان کو کافر باللہ یعنی دہریہ نہیں کہتے.مگر ان کے کافر بالما ٔمور ہونے میں کیا شبہ ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو راست باز مانتے ہیں.پھر ہمیں کیوں کافر کہا جائے.وہ سوچیں کہ کیا راست باز جھوٹ بھی بولتے ہیں.اگر مرزا صاحبؑراست باز تھے تو پھر ان کے دعوؤں کے قبول

Page 165

کرنے میں کیا عذر ہوسکتا ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے حوالجات سے مَیں نے ثابت کیا ہے کہ آپ کے نزدیک آپ کے منکر کافر ہیں.چنانچہ ان حوالوں میں سے بعض کے یہ فقرات ہیں عبدالحکیم پٹیالوی مرتد کو آپ تحریر فرماتے ہیں.’’بہر حال جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ ہر ایک شخص جس کو میرے دعوت پہنچی ہے اوراس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے.اورخدا کے نزدیک قابلِ مؤاخذہ ہے.تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اب مَیں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلاء ہے.خدا کے حکم کو چھوڑ دوں اس سے سہل تریہ بات ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت سے خارج کردیا جاوے اس لئے میں آج کی تاریخ سے آپ کو اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں ‘‘.اس کے بعد میں نے اپنے الفاظ میں اس عبارت کا یہ خلاصلہ نکالا ہے.’’اس الزام میں وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نےتکفیر میں جدو جہد کی ہے.بلکہ ہر ایک شخص جس نےقبول نہیں کیا.وہ مسلمان نہیں ہے‘‘.پھر آگے دعوت پہنچنے کی تشریح حضرت مسیح موعود ؑکی ہی عبارات سے کی ہےکہ حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی دعوت کو سب دنیا میں پہنچا دیا ہے.اس لئے سب دنیا کو دعوت پہنچ گئی.یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک شخص کو فرداً فرداً کہہ دیا جاوے.‘‘ اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے یہ ثابت کیا ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعودؑ کو کافر کہتے ہیں.حتّٰی کہ جو شخص صرف مزید تسلّی کے لئےکچھ مدّت انتظار کرتا ہے اور بیعت نہیں کرتا.وہ بھی منکروں کے ساتھ ہی سمجھا جائے گا.اورپھر میرے اپنے الفاظ میں ان حوالہ جات کا یہ خلاصہ نکالا گیا ہے کہ ’’ پس نہ صرف وہ شخص جو آپ کو کافر کہتا ہے یا جو آپ کو کافر تو نہیں کہتا ہے مگر آپ کےدعویٰ کو نہیں مانتا.کافر قررار دیاگیا ہے.بلکہ وہ بھی جو آپ کو دل میں سچّا قرار دیا گیا ہے‘‘ اس کے بعد اسی مضمون کے متعلق کچھ تائیدی حوالہ جات نقل کئے ہیں.اوراس صلح کی تحریک کی کمزوری دکھاتے ہوئےغیر احمدیوں کےپیچھے نماز پڑھنے کےمتعلق حضرت مسیح موعودؑ کی ممانعت کا فتویٰ درج کیا ہے.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸ رُوحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۴ حاشیہ) آخر میں قرآنِ کریم کی ایک آیت سے استدلال کیا ہے کہ جو لوگ مرزا صاحب کو رسول نہیںما نتے.خواہ آپ کو راست باز ہی منہ سے کیوں نہ کہتے ہوں وہ پکّے کافر ہیں.یہ ہے خلاصہ میرے اس مضمون کا جسے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے دو دفعہ پڑھا اوراپنی قلم سے اس میں بعض جگہ پر اصلاح کی.اور لکھا کہ اس کے مضمون سے مجھے ہرگز اختلاف نہیں.اب اسےپڑھ کر خصوصاً ان فقرات کی موجودگی میں جو میں اوپر لکھ آیا ہوں.کیا کوئی عقلمند انسان یہ گمان بھی کرسکتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ

Page 166

جو مرزا صاحبؑ کو نہیں مانتا وہ مرزا صاحب کو نہیں مانتا.خواجہ کمال الدین صاحب کے غیر معقول خلاصہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے دستخط کرنے کی وجہ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے جو غیر معقول خلاصہ اس کا دیا تھا.اس پر حضرت خلیفۃ المسیح نے کیونکر دستخط کر دئیے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ واقعات مندرجہ بالا کی موجودگی میں خواجہ صاحب کے اشتہار پر حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت سے یہ تو ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ میرے مضمون کو رد کردیا گیا.کیونکہ اس کے متعلق خود آپ کی قلمی اجازت اوراصلاح موجود ہے نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مضمون آپ نے غلط سمجھا.کیونکہ ایک سکول کا طابعلم بھی اس سے وہمطلب نہیں لے سکتا جو خواجہ صاحب نے نکالا ہے.پس ان دونوں باتوں کے ناممکن ہونےکے بعد کونسی صورت رہ جاتی ہےجسے اختیار کیا جاسکتا ہے.یہی کہ یا تو حضرت خلیفۃ المسیح نے خواجہ صاحب کے اشتہار کو پڑھا ہی نہیںَ اوران سے زبانی سن کر اس کی اشاعت کی اجازت لکھ دی.یا یہ کہ خواجہ صاحب کے اس بےمعنی مضمون کا جس میں انہوں نے پیچدار عبارتوں سے میرے مضمون کو آڑانا چاہا تھا انہوں نے کچھ اور ملطب سمجھا.خواجہ صاحب کا اشتہار بلکہ اس کا وہ خلاصہ بھی جو مولوی محمد علی صاحب نے دیا ہے.بتا رہا ہے کہ کواجہ صاحب نے پیچدار عبارت سے کام لینا چاہا ہے.ورنہ وہ صاف طور پر اعلان کرتےکہ غیر احمدی مسلمان ہیں.میری زندگی میں میرے مضمون کے معنے کرنے کا ان کو کیا حق تھا.اگر اس کے متعلق کوئی غلط فہمی تھی تو وہ مجھ سے دریافت کرسکتے تھے.ان کا اس طریق کو اختیار کرنا ہی بتاتا ہے کہ وہ دھوکا دینا چاہتے تھے.اور اسی لئے انہوں نے پیچدار عبارت تحریر کی.جس کواگر حضرت خلیفۃ المسیح نے پڑھ کر اجازت اشاعت دی تو ضرور ا س کا کچھ اور مطلب سمجھا ہے چنانچہ اس کا ثبوت بھی ملتا ہے اور وہ یہ کہ جب خواجہ صاحب کا اشتہار شائع ہوا ہے.تولوگوں میں شور پڑا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبھی کچھ.ایک طرف میرے مضمون پر آپ نے دستخط کردئیے تو دوسری طرف خواجہ صاحب کے مضمون پر.اور کسی شخص نے یہ امر خود آپ کے سامنے بھی پیش کیا.مَیں اس وقت پاس بیٹھا تھا.آپ نے فرمایا کوئی اختلاف نہیں.مَیں نے خواجہ صاحب کے اشتہار پر اس لئے اجازت تحریر کی تھی کہ خواجہ نے مجھے بتایا تھا کہ مجھے میاں صاحب کے مضمون سے کوئی اختلاف نہیں.یہ اشتہار صرف اس لئے لکھا گیا ہے کہ ہزاروں احمدی جو سرحد پر ہیں ان کو مخالف لوگ قتل نہ کردیں.پس ان کے جوشوں کو دبانے کیلئے مطلب کو ایسے الفاظ میں پیش کردیا ہے

Page 167

جن سے رفع فساد ہوجائے.اس وقت مجھے یاد ہے.دو تین آدمی اوربھی تھے.جہاں تک مجھے خیال ہے.سرحد کا ہی کوئی آدمی تھاجس نے خط کے ذریعہ یہ سوال کیا تھا.اورغالباً مفتی محمد صادق صاحب نے سوال پیش کیا تھا.مَیں نہیں جانتا کہ مفتی صاحب کو یہ بات یاد ہے یا نہیں.مگر مَیں اس پر حلف اُٹھاسکتا ہوں.کیا مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء اس امر پر حلف اُٹھانے کیلئے تیار ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل نے میرے مضمون کا مفہوم وہی سمجھا تھا جو وہ ظاہر کرتے ہیں.نہیں وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے.بلکہ اور بہانوں سےاس قسم سےبچنا چاہئیں گے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ میرے مضمون کا کچھ اور مفہوم سمجھنا نا ممکن ہے.تاریخِ اختلاف سلسلہ کا چھٹا امر چھٹا امر جو مولوی محمد علی صاحب کی بیان کردہ تاریخ سلسلہ میں قابل توجہ ہے.ان کا یہ لکھنا ہے کہ ۱۹۱۳؁ء کے آخر میں ایم محمود نے پھر اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے منکر کافر ہیں.اس کی اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح کو ملی.حضرت خلیفہ اوّل کے اس فتویٰ کو بھی انہوں نے غلط ٹھہرایا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی احمدی کے لئے ناجائز ہے.حالانکہ خود ۱۹۱۲؁ء میں حج میں انہوں نے غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھی.اور حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں جن لوگوں نےحج کیا تھا.وہ بھی ایسا ہی کرتے تہے تھے چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بیمار تھے اس لئے آپ نے مولوی محمد علی صاحب کو حکم دیا کہ وہ اسکے متعلق جماعت کو ہدایت کریں.اور کچھ نوٹ بھی لکھوائے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا خواجہ کمال الدین کو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دینا شخص حالات کے ماتحت تھا یہ اموربھی ویسے ہی غلط ہیں.جیسا کہ پہلےحضرت خلیفۃ المسیح نے کوئی فتویٰ غیر احمدی کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا نہیں دیا.اصل بات یہ ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب ہمیشہ سے غیر احمدیوں کے خوف سے اوران میں رسوخ پیدا کرنے کے لئے کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت مل جاوے.ولایت پہنچنے پر انہوں نے بڑے زور سے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں لکھنا شروع کیا کہ یہاں غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سے بڑے فتنہ کا خوف ہے.لوگ اسلام سے بد ظن ہوجاویں گے.اور تبلیغ کا کام خراب ہوجائے گا.چونکہ

Page 168

خواجہ صاحب پہلے سے ہی اس قسم کےبہانے تلاش کررہےتھے.ان کے اس خط کے جواب میں حضرت خلیفہ اوّل نے کہہ دیا کہ وہ ان کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں.جسے فوراً بذریعہ تار اُن کے دوستوں نے ان تک پہنچا دیا اور خواجہ صاحب نے اس اجازت سے فائدہ اُٹھا کر سلسلہ کے اشد مخالف ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار کی اقتداء میں نماز ادا کرکے ہمیشہ کے لئے اپنے ایمان کا خون کیا.یہ اجازت فتویٰ نہیں کہلا سکتی.کیونکہ حضرت مسیح کے صریح فتویٰ کے خلاف حضرت خلیفہ اوّل یا کوئی اور شخص فتویٰ دینے کا مجاز نہیں.ہمارا ہادی اور رہنمامسیح موعود ؑ ہے.اس کے سوا کوئی ہو وہ بطور خود فتویٰ دینے کا مجاز نہیں.خلیفہ اوّل کون تھے؟ مرزا صاحبؑ کے ایک مُرید تھے اوران کے ہاتھ پر بِک چکے تھے.جس طرح ہم سب غلام ہیں وہ بھی ایک غلام تھے.ان کو اس سے زیادہ کبھی کوئی دعویٰ نہیں ہوا.وہ خود تحریر فرماتے ہیں:-مَیں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں.کہ میں مرزا صاحب کے تمام دعاوی کو دل سے مانتا اوریقین کرتا ہوں اورا نے معتقدات کو نجات کا مدار ماننا میرا یام ہے.نورایدن ‘‘.٭ پھر فرماتےہیں:- ’’سنو تمہاری نزاعین تین قسم کی ہیں.اوّل ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں.جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کردیا ہے.جو حضرت صاحبؑ کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے.وہ اس احمدی نہیں.جن پر حضرت صاحب ؑ نے گفتگو نہیں کی.ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں.جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے.پس جب خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دُنیا میں نہیں آتا.ان پر رائے زنی نہ کرو.‘‘ (تقریر لاہور الحکم ۲۱، ۲۸؍جون ۱۹۱۲ء؁ جلد ۱۶ صفحہ ۲۲) حضرت خلیفۃ المسیح کے ان الفاظ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مندرجہ ذیل فتویٰ کو ملا کر پڑھو.اور دیکھو کہ کیا یہ وہم بھی کیا جاسکتا ہے.کہ حضرت خلیفۃ المسیح غیر احمدی کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا فتویٰ دیں گے.حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:- ’’پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے.تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مُکفّر اور مُکذِّب یا متردِ ّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو‘‘.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۴ حاشیہ) حضرت خلیفۃ المسیح نے جو کچھ خواجہ صاحب کو تحریر کیا.وہ ان کی شخصی حالت کے لحاظ سے تھا نہ بطور *تشحیذ الاذہان اگست ۱۹۰۸ جلد ۳ نمبر ۸ ص ۳۳۸

Page 169

فتویٰ کے.چنانچہ اس امر کو اس واقعہ سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح سے غیر احمدیوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی اجازت منگوائی.آپ نے اسے اجازت دے دی.اس پر اس کے بڑے بھائی نے بھی خط لکھا کہ مجھے بھی اجازت دی جاوے.اس کے جواب میں حضورؑ نے لکھوایا کہ پہلے اپنے چھوٹے بھائی جیسے ہوجائو.پھر تم کو بھی اجازت دے دوں گا.وہ تو نماز بھی نہیں پڑھتا.اگر اس طرح اسے نماز کی عادت پڑجائے تو ہمارا کیا حرج ہے.اس جوا ب سے بلکہ خود بڑے بھائی کے خط سے ظاہر ہے کہ جس شخص کو نماز کی اجازت دی تھی.وہ بطور فتویٰ نہ تھی بلکہ شخص مصلحت کے ماتحت ایک اجازت تھی.اسی طرح خواجہ صاحب کی کمزوری کو دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ ان کو ابتلاء نہ آجائے.اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے ان کو اجازت نماز دی تو یہ کوئی فتویٰ نہ تھا بلکہ ایک شخصی فیصلہ ہی کوئی نہ تھا تو پھر اس کا ردّ کرنا کیسا.اورجب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضر ت مسیح موعودؑ کے فیصلہ کے مقابلہ میں کسی کا فیصلہ حجّت نہیں.تو پھر ردّ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.اگر ایسا فتویٰ آپ دے بھی دیتے تو اصل کے ماتحت وہ اس قابل نہ ہوتا کہ اسے اپنے معتقدات میں شامل کرلیا جاوے.سفر حج میں میری نماز کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کی دھوکا دہی مولوی صاحب نے جو الزام لگایا ہے کہ مَیں نے مکہ میں غیر احمدیوں کے پیچھے حضرت خلیفۃ المسیح کے ایک فتویٰ کے ماتحت نماز پڑھی.یہ ایک دھوکا ہے جس کے پھیلانے سے باوجود واقعات کے علم کے وہ باز نہیں آتے.اصل واقعہ یہ ہے:- ۱۹۱۲؁ء میں مَیں اور سیّد عبدالمحی صاحب عرب مصر سے ہوتے ہوئے حج کو گئے.قادیان سے میرے نانا صاحب میر ناصر نواب صاحب بھی براہ راست حج کوگئے.جدہ میں ہم مل گئے اور مکہ مکرمہ اکھٹے گئے.پہلے ہی دن طواف کے وقت مغرب کی نماز کا وقت آگیا.مَیں ہٹنے لگا.مگر راستے رُک گئے تھے نماز شروع ہوگئی تھی.نانا صاحب جناب میر صاحب نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کا حکم ہے کہ مکّہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہئے.اس پر مَیں نے نماز شروع کردی.پھر اسی جگہ ہمیں عشاء کا وقت آگیا وہ نماز بھی ادا کی.گھر جاکر مَیں نے عبدالمحی صاحب عرب سے کہا کہ وہ نماز تو حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم کی تھی اب آؤ.خدا تعالیٰ کی نماز پڑھ لیں.جو غیر احمدیوں کے پیچھے نہیں ہوتی اور ہم نے وہ دونوں نمازیں دہرالیں.ایک نماز شاید دوسرے دن ادا کی مگر میں نے دیکھا کہ باوجود نمازیں

Page 170

دہرانے کے میرا دل بند ہوتا جاتا ہے اور مَیں نے محسوس کیا کہ میں اگر اس طریق کو جاری رکھوں گا تو بیمار ہوجاؤں گا.آخر دوسرے دن میں نے عبدالمحیی صاحب عرب سے کہا کہ مَیں تو بوجہ ادب دریافت نہیں کرسکتا.آپ دریافت کریں کہ کیا جناب نانا صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح نے خاص حکم دیا تھا یا عام سنی ہوئی بات ہے.انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خاص حکم نہیں دیا تھا بلکہ کسی اور شخص کے متعلق یہ بات آپ نے سُنی تھی اس پر مَیں نے شکر کیا اور باوجود لوگوں کے روکنے کے برابر الگ نماز ادا کرتا رہا.اور بیس دن کے قریب جو ہم وہاں رہےیا گھر پر نماز پڑھتے رہے یا مسجد کعبہ میں الگ اپنی جماعت کراکے اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ گو مسجد کعبہ میں چاروں مذہبوں کے سوا دوسروں کو الگ جماعت کی عام طور پر اجازت نہیں.مگر ہمیں کسی نے کچھ نہیں کہا بلکہ پیچھے رہے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل جانے سے بعض دفعہ اچھی خاصی جماعت ہوجاتی تھی.چونکہ جناب نانا صاحب کو خیال تھا کہ ان کے اس فعل سے کوئی فتنہ ہوگا.انہوں نے قادیان آکر حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے یہ سوال پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا.ہماری واپسی کی خوشی میں قادیان کے احباب یکے بعد دیگرے دعوت کر رہے تھے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ کے پُرانے خادم میاں حامد علی صاحب نے جو چالیس ۴۰ سال حضرت کے پاس رہے ہیں.ہمارے چائے کی دعوت کی.حضرت خلیفہ اوّل،میر صاحب،مَیں اور سیّد عبدالمحی عرب مدعو تھےایک صاحب حکیم محمد عمر نے یہ ذکر حضرت خلیفہ المسیح کے پاس شروع کردیا.آپ نے فرمایا.ہم نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا.ہماری یہ اجازت تو ان لوگوں کے لئے ہے جو ڈرتے ہیں اور جن کے ابتلاء کا ڈر ہے.وہ ایسا کرسکتے ہیں کہ اگر کسی جگہ گِھر گئے ہوں.تو غیر احمدیوں کےپیچھے نمازیں پڑھ لیں.اورپھر آکر دہرالیں.سو الحمداللہ کہ میرا یہ فعل جس طرح حضرت مسیح موعودؑ کے فتویٰ کے مطابق ہوا.اسی طرح خلیفہ وقت کے منشاء کے ماتحت ہوا.ایک اعتراض اور اس کا جواب شایداس جگہ کسی شخص کو یہ خیال گزرے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے فتویٰ کی موجودگی میں حضرت خلیفۃ المسیح کا حکم سُن کر کیوں غیروں کی اقتداء میں نماز ادا کی.تو اس کا یہ جواب ہے کہ صحابہ کے طریقِ عمل سےیہ امر ثابت ہے کہ وہ خلیفہ ٔ وقت کے حکم کا ادب ضروری سمجھتے تھے خواہ اسے تسلیم نہ ہی کرتے ہوں.چنانچہ بخاری اور دیگر کتب احادیث و تواریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عثمانؓنے جب ایک دفعہ خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے منیٰ میں حج کے دنوں میں (سفر کے ایام) بجائے دو کے چار رکعت ہی ادا کی تو بعض صحابہؓ میں جوش ہوا.لیکن سب نے آپ کے پیچھے چار رکعت ہی نماز ادا کرلی.حضرت عبدالرحمٰن

Page 171

بن عوف ؓ نے ارادہ کیا کہ وہ تو دو۲ رکعت ہی نماز پڑھیں گے.اتنے میں ان کی ملاقات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن ؓ سے پوچھا کہ کیا حضرت عثمانؓ نے کوئی نئی بات بتائی ہے.انہوں نے کہا نہیں اور کہا میں نے تو دورکعت ہی نماز ادا کی ہے.عبداللہ بن مسعود نے کہا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو دو رکعت ہی ثابت ہیں.مگر مَیں نےجب سُنا کہ خلیفۂ وقت نے چار پڑھائی ہیں.(حج میں بوجہ کثرت آدمیوں کے منیٰ میں کئی جگہ نماز ہوتی ہے.) تو چار ہی پڑھادیں.اور آپ بھی ایسا ہی کریں خلیفہ کا خلاف کرنا بُرا ہے.اس پر عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ اچھا آئندہ میں بھی ایسا ہی کروں گا.مگر ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں یہ لوگ ایسے چُور تھے کہ عبداللہ بن مسعود نے نماز سے فارغ ہوکر دُعا مانگی کہ خدایا میری دو۲ رکعت ہی قبول کیجؤ.پس جب مجھے کہا گیا کہ خلیفہ وقت کا یہ حکم ہے.تو مَیں نے اس طریق صحابہ کے مطابق عمل کیا.اور اس حکم کو تسلیم کیا.(گو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حکم نہ تھا) اور جس طرح اس صحابی نے زائد رکعت کی نسبت کہا تھا کہ میری دو ہی قبول ہوں مَیں نے بھی گھر پر آکر اپنی نماز دہرالی.پس خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا کی.فالحمد للہ علی ذلک.یہ سب کا سب واقعہ مین بار ہا بیان کرچکا ہوں اور کئی دفعہ شائع ہوچکا ہے.مگر باوجود اس کے مولوی محمد علی صاحب لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے یہ لکھے چلے جاتے ہیں کہ وہ خود غیرا حمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ چکے ہیں اوراب لوگوں کو روکتے ہیں.کیا ان واقعات کے علم کے بعد کوئی راست باز مجھ پر یہ اعترا ض کرسکتا ہے اور کیا اس طرح ناواقفوں کے سامنے اس معاملہ کو پیش کرنا ایک دھوکہ نہیں؟ مولوی صاحب کو یہ واقعات میرے اور میرے ساتھیوں سے ہی معلوم ہوئے ہیں.کیا پھر جو دوسرے واقعات ہیں ان کوچھوڑ کر اسی قدر ٹکڑہ بیان کرنا دیانتداری سے بعید نہیں؟ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا مسئلہ کفر واسلام کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کو نوٹ لکھوانا میرے کسی اعلان کی بناء پر نہ تھا اب رہا یہ امر کی حضرت خلیفۃ المسیح نے بوجہ بیماری کے مولوی محمد علی صاحب کو مسئلہ تکفیر غیر احمدیان پر جماعت کو ہدایت کرنے کا ارشاد فرمایا اورخود بھی نوٹ لکھوائے.اس میں سے یہ بات بھی درست ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے بوجہ بیماری کے مولوی محمد علی صاحب کو مضمون لکھنے کے لئے کہا اور یہ

Page 172

بھی درست ہے کہ بعض باتیں آپ نے لکھوائیں بھی.مگر یہ غلط اور صریح غلط ہے کہ غیر احمدیوں کے مسلمان ثابت کرنے کے لئے آپ نے مولوی صاحب کو مضمون لکھنے کو کہا.اور یہ خلاف واقعہ اوربالکل خلاف واقعہ ہے کہ میرےکسی لیکچر یا اعلان کے باعث کہا.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب ان دنوں قرآن کریم کے ترجمہ انگریزی کے لئے بعض آیات حضرت خلیفہ اوّل سے دریافت کیا کرتے تھے.انہی اجلاسوں میں میری موجودگی میں حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ مولوی صاحب قرآن کی بعض آیات میں عام طور پر لوگوں کو مغالطہ رہتا ہے اور وہ تطبیق نہیں دےسکتے.مثلاً وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْہَا اسْمُ اللہِ كَثِيْرًا (الحج:۴۱) اُولٰىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا(النساء:۱۵۲)اور اسی طرح بعض اور آیات میں اختلاف خیال کیا جاتا ہے.آپ نوٹ لکھ رہے ہیں اس کے متعلق بھی ایک مضمون لکھیں.میں بھی آپ کو کچھ نوٹ لکھواؤں گا.چنانچہ ان آیات کے متعلق آپ درمیان میں کچھ ارشاد فرماتے رہے.یہ واقعہ میری موجودگی میں ہوا ہے.مَیں اس امر پر حلف اُٹھا سکتا ہوں کیا مولوی صاحب بھی اپنے بیان پر حلف اُٹھانے کے لئے تیار ہیں؟ پس مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ میرے کسی اعلان پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے ایسا فرمایا تھا.ایک ایسی غلط بیانی ہے کہ مَیں حیران ہوں اس کی جرأت مولوی صاحب کو کیونکر ہوئی؟ تاریخ اختلافِ سلسلہ کا ساتواں امر ساتواں قابلِ توجہ امر مولوی صاحب کا یہ تحریر فرمانا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے مجھے تنبیہ کی کہ مَیں کفر واسلام کے مسئلہ کو نہیں سمجھا.بعض باتیں ہیں کہ جن میں انسان ایسےپہلو نکال سکتا ہے کہ اپنے حریف کو جھوٹا کہنے کی بجائے لکھ دے کہ اسے غلطی لگی ہے.مگر مولوی صاحب کا یہ بیان ایسا خود ساختہ ہے کہ اس کے متعلق سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جان بوجھ کر انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنی وفات سے پندرہ بیس دن پہلے مولوی محمد علی صاحب کو نوٹ لکھواتے ہوئے کسی ذکر پر فرمایا کہ بعض لوگ میری نسبت کہتے ہیں کہ اسے کیا ہوگیا ہے.کہ یہ کبھی غیر احمدیوں کوق مسلمان کہہ دیتا ہےکبھی کافر.لوگ اس بات کو سمجھے نہیں.حتّٰی کہ ہمارے میاں بھی نہیں سمجھے.چنانچہ اس کے متعلق بعض حاضر الوقت احباب سے میں حلفی شہادت لے کر رسالہ القول الفصل

Page 173

میں شائع بھی کرچکا ہوں.جو اس طرح ہے:- ’’میں اور چند اور احباب اور حضرت میاں صاحب حضرت خلیفۃ المسیح کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت نے اپنے سلسلہ کلام میں فرمایا‘‘ کہ ’’کفر و اسلام کا مسئلہ جو بڑا مشکل سمجھا جاتا ہے گو لوگ مجھے کہتے ہیں کہ یہ کبھی مسلم کہتا ہے اور کبھی کافر لیکن خدا نے مجھے اس میں وہ سمجھایا ہے جو کسی کو نہیں سمجھ آیا.حتّٰی کہ میاں کو بھی سمجھ نہیں آیا اور میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ شہادت دیتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے یہی فرمایا تھا‘‘.(مولوی سیّد محمد سرورشاہ صاحب پرنسپل مدرسہ دینیات) ’’مندرجہ بالا بیان جیاں تک مجھے یاد ہے بالکل درست ہے.سوائے اس کے کہ مجھے کہتے ہیں کی بجائے آپ نے فرمایا تھا کہ لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ کبھی کافر کہتا ہے اور کبھی مسلمان ‘‘.(مولوی شیر علی صاحب بی اے ایڈیٹر آف ریلجنز)’’مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت خلیفۃ المسیح نے ترجمہ قرآن شریف سننے کے وقت جو مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں فرمایا تھا کہ مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کبھی میں غیر احمدیوں کو ) کافر کہتا ہوں اور کبھی مسلمان.یہ دقیق مسئلہ ہے کسی نے نہیں سمجھا.حتّی کہ میاں نے بھی نہیں سمجھا.یہ مسئلہ بھی احمدیوں میں صاف ہونے کے قابل ہے‘‘(جناب خان راقم محمد علی خان)صاحب جاگیر دار مالیر کوٹلہ عم نواب صاحب مالیر کوٹلہ)’’حضرت خلیفۃ المسیح کی صحت دریافت کرنے کے لئے یہ خاکسار حضور کے مکان پر حاضر ہوادیکھا تو مولوی محمد علی صاحب ترجمہ القرآن کے نوٹس سنا رہے تھے اور حضرت کے سرہانے جناب حضرت صاحبزادہ صاحب بیٹھے تھے کہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ میرے متعلق جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ کبھی غیر احمدیوں کو کافر کہتا ہے کبھی مسلمان یہ ایک باریک مسئلہ ہے جو ہمارے میاں نے بھی نہیں سمجھا‘‘٭ ( راقم مہر محمد خان مالیر کوٹلوی ثم قادیانی) پس حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نےجو کچھ فرمایا ہے.اس میں کفر واسلام کے مسئلہ کے سمجھنے کا کوئی ذکر نہیں.آپ نے تو یہ فرمایا تھا کہ آپ کی تحریرات میں لوگ اختلاف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کبھی آپ غیر احمدیوں کو مسلمان کہتے ہیں کبھی کافر.لیکن یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.ان عبارتوں کا وہ مطلب نہیں سمجھے اور اختلاف خیال کرلیا.اور یہ غلطی جماعت کو ایسی لگی ہے کہ مَیں یعنی (یہ عاجز بھی اس میں مبتلا ہوں.یہ بات حضرت خلیفۃ المسیح کی بالکل درست اور صحیح تھی اوراب تک ہے.مَیں نے ابھی لکھا ہے کہ خواجہ صاحب کے مضمون کی تصدیق کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کا اجازت تحریر کرنا سمجھ سے باہر ہے اور اس کی تاویل یہی ہوسکتی ہے کہ اگر آپ نے اس مضمون کو پڑھا ہے تو اس کی *القول الفصل مصنفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ۴۵ مطبوعہ قادیان ۱۹۱۵

Page 174

پیچدار عبارتوں کی وجہ سے اسے سمجھا نہیں.پس حضرت خلیفۃ المسیح کا یہ فرمایا نہ اس امر کو مَیں بھی نہیں سمجھا.بالکل درست تھا.مَیں اب تک بھی نہیں سمجھ سکا کہ ایسا کیونکر ہوا اور آخر تطبیق کے لئے بعض تاویلات کرنی پڑتی ہیں.اور قلت کو کثرت اور متشابہ کو محکم کے ماتحت لانا پڑتا ہے.مگر آپ کے اس قول سے یہ کیونکر نتیجہ نکلا کہ مَیں مسئلہ کفر واسلام کو نہیں سمجھا.کیا اگر کوئی شخص اس امر کو نہ سمجھ سکے کہ کیوں حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک ایسے شخص کی بھی تصدیق کی جس نے غیر احمدیوں کو کافر قرار دیا تھا اورپھر ایک ایسے شخص کے مضمون پر بھی دستخط کردئیے جس نے اس پہلے مضمون کے اثر کو زائل کرنا چاہا تھا.تو کیا ضروری ہے کہ وہ کفر واسلام کے مسئلہ کو بھی نہ سمجھ سکے.بیشک قرآن کریم میں ایک قوم کی نسبت یہ لکھا ہے کہ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَا ضِعِہٖ (النساء: ۴۷) مگر مولوی صاحب سے اُمید نہ تھی کہ وہ ایسی تحریف سے کام لیں گے.اللہ تعالیٰ رحم کرے اوران کی آنکھیں کھولے.پھر سوچنے والے کو یہ بھی سوچنا چاہئے.کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے تو یہ فرمایا تھا کہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھے.حتیّٰ کہ ہمارے میاں بھی نہیں سمجھے.اس فقرہ کے الفاظ سے بھی تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مَیں سب احمدیوں میں سے زیادہ سمجھے کا حق رکھتا تھا اور جب مَیں بھی نہیں سمجھا تو دوسرے کسی نے کیونکر سمجھنا ہے.پس مولوی صاحب کا اس فقرہ کو نقل کرنا اس کے لئےکیا مفید ہو سکتا ہے.اس فقرہ سے یہ کہا ثابت ہے کہ وہ سمجھتے ہیں.بلکہ جس مسئلہ کے متعلق یہ فقرہ کہا گیا ہے اس کے نہ سمجھنے کا کا فتویٰ تو سب پر لگتا ہے اوراگر مجھے اس میں تنبیہ ہے.تو مجھ سے زیادہ مولوی محمد علی صاحب کو ہے کیونکہ میراذکر تو لفظ ’’بھی‘‘ کے بعد کیا گیا ہے اوران کو عام لوگوں میں شامل کیاگیا ہے.مولوی صاحب نے اس جگہ یہ بھی ہوشیاری کی ہے کہ لفظ’’بھی‘‘ جس سے اس فقرہ کے اصل معنے کھلتے ہیں اُڑا دیا ہے حالانکہ خود ان کے اخبار پیغام صلح میں جہاں اور تحریفوں کے ساتھ یہ روایت شائع ہوچکی ہے وہاں بھی لفظ ’’بھی‘‘ موجود ہے.وہاں لکھا ہے.’’میاں نے بھی اس کو نہیں سمجھا.‘‘(پیغام صلح ۳؍مارچ ۱۹۱۴ءصفحہ ۴)بلکہ خود مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ کفر و اسلام میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس فقرہ میں’’بھی‘‘ کا لفظ لکھا ہے.پس یہ ایک ثبوت ہے مولوی صاحب کی عادت تحریف کا.مولوی صاحب کا یہ جُرم اوربھی بڑھ جاتا ہے.جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد جبکہ ابھی خلافت کا سوال طے نہیں ہوا تھا.مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے مولوی صاحب نے اس واقعہ کو بیان کیا تھا اور مَیں نے ان سے کہا تھا کہ یوں نہیں یوں ہے اور اس وقت چونکہ تازہ بات تھی مولوی صاحب کا انکار کی جرأت نہ ہوسکی تھی اور دبی زبان سے اقرار کرکے وہ اور باتوں میں لگ گئے

Page 175

تھے اس کے بعدبھی ان لوگوں کی حلفیہ شہادتیں جو اس وقت موجود تھے لیکر شائع کردی گئی تھیں.پس مولوی صاحب بھُول کا عذر نہیں کرسکتے.واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ وہ جان بوجھ کر یہ تحریف کررہے ہیں.وہ لوگ جو اس وقت موجود تھے ان میں سے بعض کی حلفیہ شہادتیں شائع ہوچکی ہیں.اور مَیں بھی اس واقعہ پر حلف اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.کیا مولوی صاحب اور ان کے ہم خیال جو اس وقت موجود تھے وہ بھی اپنے بیان پر قسم اُٹھاسکتے ہیں؟ مَیں جانتا ہوں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے.بلکہ قسم قسم کے عذرات سے اپنےسر سے یہ بار اُتارنے کی کوشش کریں گے.تاریخ اختلاف سلسلہ کا آٹھواں امر آٹھویں بات مولوی صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ ٹریکٹ مَیں نے لکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح کو سُنایا اور آپ نے اسے پسند فرمایا.لیکن یہ ٹریکٹ آپ کی زندگی میں شائع نہیں کیا جاسکا.اس میں کوئی شک نہیں کہ مولوی صاحب نے ایک ٹریکٹ مسئلہ کفر واسلام پر لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کو سنایا.مگر یہ کہ آپ نے اسے پسند کیا ایک ایسا امر ہے.جس کے قبول کرنےمیں ہمیں عذر ہے.حضرت خلیفہ اول کی کوئی سند اس بیان کی تائید میں نہیں اور بیرونی اور اندرونی شہادتیں اس بیان کے خلاف ہیں.چنانچہ بیرونی شہادت کے طور پر مَیں حافظ روشن علی صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ایل.ایم ایس کا بیان ذیل میں درج کرتا ہوں.مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کفر واسلام کے متعلق واقعات روایت بزبان حافظ روشن علی صاحب ’’مجھے یاد ہےکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے آخری ایام میں جبکہ آپ مرض الموت میں فریش تھے اور ۱۹۱۴؁ء غالباً فروری کا مہینہ تھا.ابھی آپ اس مکان میں تشریف رکھتے تھے جو آپ کا ذاتی ہے جو اندرون قریہ قادیان واقع ہے کہ ایک دن دفتر الفضل میں ہمراہ صاحبزادہ بشیرالدین محمود احمد صاحب مَیں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے استاد حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی تشریف لائے.انہوں نے بیان کیا

Page 176

کہ مولوی محمد علی صاحب نے ایک مضمون مسئلہ تکفیر کے متعلق لکھا ہے جو وہ حضرت خلیفۃ المسیح کو بروز جمعہ بعد از نماز سنائیں گے.اور وہ آپ لوگوں سے علیحدگی میں سنائیں گے.جس پر صاحبزادہ صاحب موصوف نے فرمایا ہم بھی اس وقت حاضر ہوں گے.مسئلے کا معاملہ ہے ہم ضرور سنیں گے چنانچہ جب جمعہ کا دن آیا.تو مَیں نے یہ عزم کیا کہ بعد جنماز جمعہ فوراً حضرت خلیفۃ لامسیح کے گھر میں پہنچ جائوں گا چنانچہ جمعہ کی نماز ادا کرتے ہی فوراً میں پہنچا جب مَیں صحن خانہ میں داخل ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے کمرے سے حسبِ ذیل اشخاص نکلے.(۱) مولوی محمد علی(۲) مرزا یعقوب بیگ(۳) شیخ رحمت اللہ (۴) ڈاکٹر محمد حسین شاہ.اس وقت مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ کے اوراق لپٹے ہوئے تھے.مجھ سے دریافت کیا کہ کیا نماز جمعہ ہوچکی ہے؟ مَیں نے کہا ہاں اس وقت میرے دل میں یہ یقین ہوا کہ انہوں نے علیحدہ مضمون سنانے کی خاطر نماز جمعہ ترک کی ہے.پھر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے.جو میرے داخل ہونے سے پہلے وہاں سے جاچ کے تھے‘‘.’’پھر مَیں اس امر کےدریافت کرنے کیلئے خلیفہ رشیدالدین صاحب کے مکان پر گیا اوران سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جمعہ میں شامل نہیں ہوئے.انہوں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو چونکہ غسل دینا تھا.اس واسطے ڈاکٹر وہاں مشغول رہے.مَیں نے کہا مولوی محمد علی صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب تو ڈاکٹر نہیں.یہ کیوں جمعہ میں حاضر نہ ہوئے انہوں نے کہا وہ مضمون سنانے کی خاطر وہاں ٹھہرے رہے مَیں نے کہا پھر مضمون انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کو سُنایا ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں.دو تین دفعہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت عرض کی کہ مضمون سنائوں.آپ نے فرمایا کہ نہیں.اب مَیں آرام کروں گا.سو جس غرض کے لئے انہوں نے نماز جمعہ ترک کی تھی اس میں ناکام رہے.اس کے بعد مَیں صاحبزادہ صاحب کے پاس آیا.اوران کو یہ قصہ سنایا.پھر میں حضرت خلیفۃ المسیح کے مکان میں آیا اور وہاں یہ قصد کرکے بیٹھا کہ یہاں سے نہ اُٹھوں گا جب تک کہ مولوی محمد علی صاحب مضمون سنا نہ لیں یا مایوس ہوکر اپنے مکان پر چلے نہ جائیں.مولوی محمد علی صاحب مولوی صدر الدین کے مکان میں ٹھہرےکہ یہ مولوی صاحب کے پاس سے کب اُٹھتا ہے اور مَیں بیٹھا کہ وہ کب مضمون سناتے ہیں.آخر مغرب کا وقت ہوگیا تو مولوی محمد علی باہر کوٹھی چلے گئے.جس میں وہ رہتے تھے اور مَیں نماز مغرب کے لئے آیا تو بعد از نماز مغرب مَیں نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ جمعہ کا دن ختم ہوگیا لیکن وہ اپنا مضمون سنا نہیں سکے.آپ نے فرمایا کہ جب وہ اتنا پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اطلاع ہی

Page 177

نہ ہو تو ان کا خیال چھوڑ و.کب تک ہم ان کا پہرہ دیں گے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرو اور روزے رکھو تا کہ یہ فتنے اور ابتلاء دُور ہوں.چنانچہ پھر ان کی طرف ہم نے خیال نہ رکھا.پھر وہ ہفتہ کے دن بھی نہ سُنا سکے اور نہ اتوار کے دن.ہاں اتوار اور پیر کی درمیانی شب یا پیر اور منگل کی درمیانی شب کو انہوں نے یہ انتظام کیا کہ کسی کو اندر نہ آنےدیں اور مضمون سنائیں.پٹھانوں کا پہرہ لگایا اوران کو یہ کہا کہ خلیفۃ المسیح کا یہ حکم ہے کہ کوئی اندر نہ آوے.چنانچہ اس وقت بغرض عیادت حضرت مکرم معظم میر ناصر نواب صاحب تشریف لے گئے تو پہرہ والے نےان کو سنایا کہ اندر جانے کی اجازت نہیں.پھر مکرمی خلیفہ رشید الدین صاحب ڈاکٹر تشریف لائے تو ان کو بھی پہرہ والے نے روکا مگر انہوں نے فرمایا کہ میں ڈاکٹر ہوں.مجھے کوئی نہیں روک سکتا.یہ زبردستی اندر چلے گئے.انہوں نے جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سےعرض کی کہ کیا آپ نے اندر آنے سے منع فرمایا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ مَیں نے منع نہیں کیا.ڈاکٹر خلیفہ رشیہ الدین صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت مولوی محمد علی صاحب مضمون سُنار ہےتھے.جب انہوں نےختم کیا.تو حضرت خلیفہ اوّل نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو اس مضمون پر انشراح صدر ہے انہوں نے کہا کہ ہاں تب حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا کہ مجھے اس مضمون پر انشراح نہیں.پھر مولوی محمد علی صاحب نے کئی دفعہ اس مضمون کی تصدیق کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے.‘‘ تحریر مؤرخہ ۷؍اگست ۱۹۱۹؁ء بقلم خاکسارعطاء محمد خادم حضرت حافظ روشن علی صاحب.’’مَیں تصدیق کرتا ہوں کہ میرا بیان میرا ہے‘‘.روشن علی بقلم خود.’’مَیں حضرت حافظ روشن علی صاحب کے بیان کی تصدیق کرتا ہوں کہ وہ واقعات پر مبنی ہے اور بالکل درست ہے ‘‘خلیفہ رشید الدین ایل.ایم ایس سول اسسٹنٹ سرجن پنشنر.معالج حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ۷؍اگست ۱۹۱۹ء؁.ان شہادتوں کے علاوہ حضرت خلیفہ اوّل کے صاحبزادہ عزیز عبدالحی مرحوم کی بھی شہادت ہے.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفہ اوّل نے اس مضمون کو پسند نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ قابلِ غور ہے.آپ اسے ابھی شائع نہ کریں.چنانچہ واقعات اس شہادت کی تصدیق کرتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں یہ مضمون شائع نہیں کیا گیا.حالانکہ اس کے بعد کا ایک مضمون جو مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں آپ کو وفات یافتہ تصور کرکے آپ کی جانشینی

Page 178

کے متعلق لکھا تھا چھاپ دیا گیا تھا.یہ سب واقعات مل کر کس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں.ہر شخص خود اپنے دل میں اس کا جواب پالے گا.تاریخ اختلاف سلسلہ کا نواں امر نویں بات مولوی محمد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ احمدیوں نے اس کی یعنی اس عاجز کی بیعت بہت سی غلط فہمیوں کے ماتحت کرلی تھی.اوراب ان میں سے بہت سے کھلے طور پر میرے خیالات سے متنفر ہورہے ہیں.چنانچہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب جو حضرت مسیح موعودؑ کے سب سے پُرانے اورسب سے زیادہ علم والے زندہ صحابی ہیں.انہوں نے ایک اعلان شائع کیا ہے کہ ایم محمودخلافت کے قابل نہیں.کیونکہ وہ مفصلہ ذیل غلط عقائد کی اشاعت کرتا ہے.اوّل یہ کہ تمام قبلہ گوئوں کو کافر کہتا ہے.دوم یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ کو کامل اور حقیقی نبی مانتا ہے.نہ کہ جزوی نبی یا محدث سوم یہ کہ پیشگوئی مذکورہ سورۃ الصف متعلق احمد کو حضرت مسیح موعودؑ کے حق میں سمجھتا ہے.جماعت احمدیہ نے میری بیعت غلط فہمی سے نہیں کی سب سےپہلے تو مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ خیال کہ لوگوں نے غلط فہمیوں کے ماتحت میری بیعت کرلی تھی بالکل غلط ہے.کیونکہ جب میں خلیفہ ہوا ہوں اس سے پہلے میرے عقائد شائع ہو چکے تھے.مسئلہ نبوت کےمتعلق جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں ۱۹۱۰؁ء میں میرا لیکچر ہوا تھا.جو اخبارات سلسلہ میں شائع ہوچکا تھا.اسی طرح اور متعدد مضامین میں نبوت کے متعلق میری تحریرات موجود تھی.مسئلہ کفر کے متعلق ایک مستقل رسالہ٭لکھ چکا تھا اوربقول مولوی صاحب ۱۹۱۳؁ء میں.پھر میں نے اعلان کردیا تھا کہ جو حضرت مسیح موعود کو نہیں مانتا وہکافر ہے.پس باوجود اس قدر شہادتوں کے یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ لوگوں نے غلط فہمی سے بیعت کرلی تھی.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک قلیل گروہ نےبعد میں بیعت توڑی بھی ہے.لیکن اس سےسینکڑوں گُنے لوگوں نے بعد میں بیعت خلافت کی ہے.جب میں خلیفہ ہوا ہوں.اس وقت تو بہت ہی تھوڑے لوگ تھے جنہوں نے مجھے قبول کیا تھا زیادہ جماعتیں تو ان لوگوں کے مغالطہ دہی سے رُگ گئی تھیں.مگر خدا تعالیٰ کے فضل نے دستگیری کی اور سب کو کھینچ کر لے آیا.پس یہ خیال کہ غلط فہمی کے ماتحت بیعت کی بالکل غلط ہے.اب تک بھی لوگ بیعت خلافت کر رہے ہیں.چنانچہ دسمبر سے *مسلمان وہی ہے جو خدا کے سب ماموروں کو مانے(تشحیذ الاذہان اپریل ۱۹۱۱ء)

Page 179

لیکر اس وقت تک قریباً پچیس آدمی مولوی صاحب کے ہم خیالاں میں سے بیعت خلافت کر چکے ہیں اور ہم نے تو ان لوگوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی.یہ لوگ تو اپنا مال واسباب ہمارے خلاف خرچ کرتے ہیں.جہاں ہمارا واعظ احمدیت کی تبلیغ کے لئے جاوے وہاں ان کا واعظ ان کو ہم سے برگشتہ کرنے کے لئے بلکہ بہت دفعہ احمدیت سے ہی برگشتہ کرنے کے لئے جاتا ہے.اگر ہم اس سے نصف وقت بھی ان لوگوں کی رف توجہ کرتے تو انشاء اللہ بہت زیادہ نتیجہ نکلتا.مگر ہماراخیال ہے کہ زیادہ تر وقت اشاعتِ اسلام اور ترقی احمدیت پر خرچ ہونا چاہئے.ہمارے واعظ تمام کے تمام غیر احمدیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں تبلیغ کے لئے وقف ہیں.جبکہ ان کے مبلغ قریباً تمام صرف احمدیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ہم میں سے جس قدر ان میں جا کر ملے ہیں ان سے زیادہ ان میں سے نکل کر ہم میں آملے ہیں.مولوی صاحب چاہیں تو ہم اس کاثبوت ان کو دے سکتے ہیں.مولوی محمد علی صاحب سے ایک اور رنگ میں طریق فیصلہ باقی رہا ان کا یہ لکھنا کہ اکثر اہل علم لوگ میرے خیالات کے مخالف ہیں یہ ایک دعویٰ ہے جس کا ثبوت ان کےذمہ ہے.ہاں اگر یہ اصل مقرر کرلیا جاوے کہ جو ان کا ہم خیال ہے وہ عالم ہے اور دوسرے جاہل.تب توبے شک اکثر کیا سب کے سب اہل علم مجھ سے بیزار ہوکر ان سے جا ملے ہیں.لیکن اگر یہ بات نہیں تو پھر ان کا یہ دعویٰ درست نہیں کیونکہ جسقدر علم دین کے واقف لوگوں کو وہ پیش کرسکیں کہ وہ ان کے ہم خیال ہیں ان سے زیادہ لوگ میں پیش کرتا ہوں کہ میرے ہم خیال ہیں.مگر یہ ایک بے ہودہ طریق بحث ہے جو حق کے ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں.ہاںاگر ان کو شوق ہو تو اس رنگ میں بھی تعداد کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے.مولوی محمد علی صاحب کا ایک غلط خیال اوراس کی تردید مولوی صاحب کی تحریر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اہل علم لوگ بھی جو میرے ساتھ ہیں میرے خیالات کے مخالف ہیں.لیکن اگر انہوں نے جان بوجھ کر ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ جن کا یہ مفہوم ہو تو مَیں کہوں گا کہ انہوں نے لوگوںکو غلطی میں ڈالنا چاہا ہے کیونکہ جو لوگ میرے ساتھ ہیں.وہ سب کے سب عقائد میں مجھ سے متفق ہیں.اوراگر کوئی نادر کی طرح ہو تو اس کا مجھے علم نہیں.اورنہ نادر سند کے طور پر پیش ہو سکتا ہے.ہاں وہ چند لوگ مستثنیٰ ہیں جو کہ کھلے طور مولوی صاحب کے ساتھ ملے ہوئے ہیں لیکن بعض مصالح کی بناء پر بیعت کے توڑنے کا اعلان نہیںکرتے.وہ لوگ اپنے عمل سے اپنے منافق ہونے پر مہر کررہے ہیں.لیکن وہ بھی تعداد میں

Page 180

اتنے تھوڑے ہیں کہ اَلشَّاذُ کَالْمَعْدُوْمِ کے مقولہ کے نیچے ہیں.مولوی سیّد محمد احسن صاحب سے پہلے زمانہ کے لوگ میری بیعت میں شامل ہیں اب میں ان باتوں کا جواب دیتا ہوں.جو مولوی محمد علی صاحب نے سیّد محمد احسن صاحب کے متعلق لکھی ہیں.اورسب سے پہلے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ مولوی محمد علی صاحب نے مولوی سیّد محمد احسن صاحب کی نسبت جو یہ لکھا ہے کہ وہ زندہ لوگوں میں سب سے پرانے احمدی ہیں یہ غلط ہے.ان سے پہلے کےبیعت کرنےوالے لوگ اور زندہ لوگوں میں سب سے پرانے احمدی ہیں یہ غلط ہے.ان سے پہلے کے بیعت کرنے والے لوگ اور اس وقت کے حضرت مسیح موعودؑ سےاخلاص رکھنے والے لوگ جبکہ ابھی سید صاحب نے آپ کا نام بھی نہ سُنا تھا اس وقت زندہ موجود ہیں اور میری بیعت میں شامل ہیں.چنانچہ شیخ حامد علی صاحب وہ ہیں جنہوں نے تیسرے نمبر پر حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کی تھی منشی اروڑا صاحب تحصیلدار کپورتھلہ ساتویں یا آٹھویں نمبر پر بیعت کرنے والے ہیںاور ہجرت کرکے کئی سال سے قادیان میں بیٹھے ہیں.یہ صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے خاص عاشقوں میں سے ہیں.جیسا کہ خود حضرت اقدس ازالہ اوہام کے صفحہ ۴۳۲ ٭پر ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’ ان کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے.‘‘اورآپ ؑکو بھی ان سے خاص محبت تھی جس سے تمام قادیان آنے والے اچھی طرح واقف ہیں.آپ جماعت کپورتھلہ میں سے ہیں.جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- ’’میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دُنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے ساتھ ہوں گے‘‘.(مکتوب حضرت اقدس بنام محمد خاں صاحب کپورتھلہ مورخہ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۴ ءمنقول از بدر یکم اکتوبر ۱۹۰۸؁ء صفحہ ۶) اسی طرح میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی ہیں.جنہوں نے نویں نمبر پر بیعت کی.اسی طرح مولوی عبداللہ صاحب سنوری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بہت بڑے معجزہ کے محافظ ہیں اور جن کی نسبت حضرت مسیح موعودؑ نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے:- ’’میں بخوبی اس بات پر مطمئن ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے دل میں اخلاص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور آپ کو فطرتی مناسبت ہے اور ایسی محبت ہے کہ زمانہ کے رنگ بدلانے سے دُور نہیں ہوسکتی.‘‘(منقول از مکتوب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنام مولوی عبداللہ صاحب سنوری مؤرخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۸ء یہ پورا خط اسی کتاب میں کسی دوسری جگہ درج کردیا گیا ہے) یہ بھی اللہ تعالیٰ کےفضل سے میرے مرید ین میں شامل ہیں.پھر منشی ظفر احمد صاحب ہیں کہ یہ بھی *روحانی خزائن جلد ۳ ص ۵۳۲

Page 181

شروع کے بیعت کرنے والے ہیں.اور حضرت صاحب سے خاص تعلق رکھنے والے لوگوں میں سے ہیں اور جماعت کپورتھلہ میں شامل ہیں.اسی طرح منشی عبدالرحمٰن صاحب کپورتھلوی اور منشی فیاض الدین صاحب کپورتھلوی ہیں.یہ سب لوگ نہایت مخلص اورمولوی محمد احسن صاحب سے بہت پہلے کے بیعت کرنے والے ہیں.اسی طرح پیر سراج لاحق صاحب نعمانی ہیں جو نہ صرف یہ کہ شروع کی بیعت کرنے والے ہیں بلکہ انہوں نے وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود ؑکی لمبی صحبت بھی حاصل کی ہے.بلکہ جن لوگوں کے اس وقت مَیں نے نام لکھے ہیں.ان میں سےاکثر وہ ہیں کہ جنہوں نے مولوی سیّد محمد احسن صاحب کی نسبت حضرت مسیح موعودؑ کی لمبی صحبت پائی ہے.پس یہ کہنا کہ سیّدصاحب حضرت مسیح موعودؑ کے سب سے پرانے صحابی ہیں درست نہیں.سب سے پہلی کتاب جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی بیعت کرنےوالے لوگوں کے نام درج فرمائے ہیں ازالہ اوہام ہے اور جو نام اس میں درج ہیں اورجن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کچھ رائے بھی تحریر فرمائی ہے.ان میں سے اس وقت جو لوگ زندہ ہیں.ان میں سے چودہ آدمی میری بیعت میں شامل ہیں.اورکل چار آدمی مولوی صاحب کے ہم خیال ہیں.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ پُرانے صحابی میرے ہم خیال ہیں یا مولوی صاحب کے؟ سیّد سرور شاہ صاحب اور قاضی امیر حسین صاحب بھی مولوی سیّد محمد احسن صاحب سے کم نہیں ! مَیں اس امر کے تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں کہ مولوی سید محمد احسن صاحب جماعت کے سب سے بڑے عالم آدمی ہیں علم کا اس رنگ میں فیصلہ کرنا ہر شخص کے لئے آسان نہیں.میرے نزدیک مولوی سیّد سرور شاہ صاحب اور قاضی سیّد امیر حسین صاحب کسی صورت میں مولوی سیّد محمد احسن صاحب سے کم نہیں ہیں.بلکہ حافظ روشن علی صاحب بھی جو گو نوجوان ہیں مگر علم کے لحاظ سے پیروں میں شامل ہیں.غرض نہ قدامت کے لحاظ سے اور نہ علم کے لحاظ سے ان کو دوسروں پر کوئی ایسی فضیلت حاصل ہے کہ ان کے قول کو حجّت قرار دیاجاوے ہاں بوجہ اس کے کہ وہ عالم آدمی تھے اور کبیر السن تھے ہماری جماعت کے علماء بھی اوردیگر لوگ ان کا احترام اور عزت واجبی طور پر کرتے تھے اور مَیں تو اب بھی ان کی پہلی عزت کی وجہ سے ان کا ادب ہی کرتا ہوں اورسمجھتا ہوں کہ سیّد صاحب کو دھوکا لگا ہوا ہے.جب اللہ چاہے گا.اور یہ حالت بدل جاوے گی وہ پھر مرکز کی طرف رجوع کریں گے.اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے.یہ ایک عارضی ابتلاء ہے جس میں سے مَیں اُمید کرتا ہوں کہ وہ کامیاب ہوکر نکلیں گےاوراللہ تعالیٰ ان کو کَالَّتِیْ نْقَضَتْ غَزْلَھَا (النحل :۹۳) کا مصداق نہیں بنائے گا.اللّٰھُمَّ اٰمین -

Page 182

خُدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی معزول نہیں کرسکتا اب مَیں ان الزامات کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں.جن کی وجہ سے کہا گیا ہے کہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب نے مجھے خلافت سے معزول کیا ہے.گو ضمناً میں اس قدر کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ خلیفہ خُدا ہی بناتا ہے اور اسی کی طاقت ہے کہ معزول کرے.کسی انسان میں نہ خلیفہ بنانے کی طاقت ہے نہ معزول کرنے کی.پس نہ تو میں مولوی سیّدمحمد احسن صاحب کےذریعہ سے خلیفہ بنا اوران کے معزول کرنے سے معزول ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے معزول کرنے کے بعد مجھے اور بھی ترقی عطا ہوئی اور ہو رہی ہے.اس وقت کے بعد اس وقت پندرہ بیس ہزار آدمی نیا سلسلہ میں داخل ہوچکا ہے اور ترقی روز افزوں ہے.اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ سید محمد احسن صاحب کا بربنا ء عقائد مجھ پر اعتراض درست سید صاحب نے جو اعتراضات مجھ پر کئے ہیں.ان کے متعلق میں علمی بحث اس جگہ نہیں کروں گا اور نہ یہ ثابت کروں گا کہ وہ عقائد درست ہیں یا غلط کیونکہ عقائد کے متعلق مفصل بحث آگے چل کر کی جاوے گی.اس جگہ مَیں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ سیّد صاحب موصوف کا مجھ پر ان عقائد کی وجہ سے اعتراض کرنا درست نہیں.وہ بیشک کہہ سکتے ہیں کہ ان عقائد کی غلطی چونکہ ان پر ثابت ہوگئی ہے اس لئے وہ ان سے توبہ کرتے ہیں یا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان عقائد کے علاوہ کوئی اور عقائد بدعیہ میں نے وضع کئے ہیں اس لئے وہ میری بیعت توڑتے ہیں.مگر ان عقائد کو نئے اور فاسد عقائد قرار دیکر میرے خلاف اعلان کرنا ان کا حق نہیں.کیونکہ وہ اس سے بہت پہلے ان عقائد کے واقف تھے.بلکہ جب میری بیعت ہئی ہے اسی وقت ان کو معلوم تھا کہ میرے یہ عقائد ہیں.جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب اقرار کرچکے ہیں.میرا مضمون کفر واسلام پر تشحیذ الاذہان اپریل ۱۹۱۱؁ء کے پرچہ میں شائع ہوچکا تھااور جیسا کہ وہ اقرار کرتے ہیں اس کے بعد بھی برابر میری طرف سے اس مسئلہ کے متعلق اظہار رائے ہوتا رہا.پس جب حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں غیر احمدیوں کو میں کافر قرار دے چکا تھا اور جماعت کا ہر ایک فرد اس مسئلہ سے آگاہ تھا تو مولوی سید محمد احسن صاحب نے میری بیعت کی ہی کیوں تھی اگر یہ عقیدہ ایسا ہے کہ اس کے باعث انسان خلافت کے قابل نہیں رہتا.تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے مسجد نُور میں کھرے ہو کر میری نسبت خلافت کی تجویز کی برے زور سےتائید کی اور اس پر تقریر کی.ان کو تو چاہئے تھا کہ جب لوگوں نے میری بیعت پر زور دیا تھا تو وہ اس کو ردّ کردیتے اور فرماتے کہ یہ شخص تو مسلمانوں کو کافر کہتا ہے یہ خلافت کے لائق کیونکر ہوسکتا ہے.کفر و اسلام کے مسئلہ پر تو مَیں نے بعد میں مفصل بحث کبھی کی ہی نہیں.اصل مضمون جو

Page 183

اس مبحث پر شائع ہوا ہے وہی ہے جو حضرت خلیفہ اوّل کے وقت میں شائع ہوا ہے.پس اگر یہی مسئلہ میری خلافت کے منسوخ ہونے کے لئے دلیل ہے تو سیّد صاحب پر الزام آتا ہے کہ اس عقیدہ کے رکھتے ہوئے انہوں نے میری خلافت کی تائید کیوں کی؟ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئےکہ اس مجلس سے پہلے جس میں خلافت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کیا.مولوی محمد علی صاحب مجھ سے ملنے آئے تھے اور اس وقت مولوی سید محمد احسن صاحب،ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور نواب محمد علی خان صاحب جاگیردار مالیر کوٹلہ بھی موجود تھے.مولوی محمد علی صاحب نے اس وقت سوال ہی یہ اُٹھایا تھا کہ خلافت کا فیصلہ اس وقت اس لئے مشکل ہوگیا ہے کہ عقائد کا آپس میںاختلاف ہے.ایک جماعت مرزا صاحبؑکو نبی اوران کے منکروںکو کافر کہتی ہے اور دوسری اس امر کی منکر ہے.اور اس پر مولوی سید محمد احسن صاحب ہی تھے جو ان سے ان عقائد کی سچائی پر بحث کرنے لگے تھے مگر مَیں نے ان کو روکا تھا کہ اس وقت عقائد کا فیصلہ نہیں ہوسکتا.اس وقت تو ہمیں یہ غور کرنا چاہئےکہ اس عقدہ کو حل کیونکر کیا جاوے.عقائد کے تصفیہ کے لئے تو ایک طویل عرصہ چاہئے.مَیں اس امر کی صداقت کے لئے حلف اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.کیا مولوی محمد علی صاحب بھی اس امر پر حلف اُٹھانے کے لئے تیار ہیں کہ انہوں نے ان دونوں مسئلوں کا ذکر اس مجلس میں نہیں کیا تھا اور سیّد محمد احسن صاحب ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے ان عقائد کی صحت پر ان سے گفتگو شروع کردی تھی.نبوت مسیح موعود ؑ کے متعلق میری ایک تقریر اور مولوی سیّد محمد احسن صاحب کی تائید باقی رہا مسئلہ نبوت-اس کے متعلق بھی جیسا کہ مَیں پہلے لکھ آیا ہوں ۱۹۱۰ء ؁کے جلسہ کے موقعہ پر مَیں نے ایک تقریر کی تھی اور صاف طور پر کہا تھا کہ مرزا صاحبؑنبی ہیں.اس تقریر کے بہت سے فقرے میں پہلے نقل کر آیا ہوں.اس جگہ صرف ایک فقرہ پر اکتفا کرتا ہوں’’ ایک نبی ہم میں بھی خدا کی طرف سےا ٓیا اگر اس کی اتباع کریں گے تو وہی پھل پائیں گے جو صحابہ کرامؓ کے لئے مقرر ہوچکے ہیں٭‘‘ اس فقرہ میں نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کو نبی کہا گیا ہے بلکہ آپ کا درجہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کے متبع صحابہ ؓ کا رنگ رکھتے ہیں.اس تقریر کے وقت مولوی سید محمد احسن صاحب موجود تھے اور لیکچر کے ختم ہوتے ہی بلند آواز سے یہ آیۃ کریمہ پڑھنے لگے کہ لَایَخَافُوْنَ لَوْ مَۃَ لَآئِمٍ (المائدۃ :۵۵) بلکہ دوسرے دن آپ نے مسجد اقصیٰ میں ایک تقریر کی تو اس میں بھی میری اس تقریر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ایک یہ بھی الہام تھا کہ اِنَّا نُبَشَّرُکَ بِغُلَامٍ(تذکرہ صفحہ ۲۴۶ایڈیشن چہارم) مظھر الحق والعلا الخ (تذکرہ صفحہ ۱۳۹ایڈیشن چہارم) جو اس حدیث کی پیشگوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعودؑ کے بارے میں ہے کہ یَتَرَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ (مشکوٰۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ) یعنی آپ کے ہاں ولد *بدر ۱۹ جنوری ۱۹۱۱ءجلد ۱۰ نمبر۱۲ ص۷

Page 184

صالح عظیم الشان پیدا ہوگا.چنانچہ حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب موجود ہیں منجملہ ذریت طیبہ کے اس تھوڑی سی عمر میں جو خطبہ انہوں نے چند آیا ت قرآنی کی تفسیر میں بیان فرمایا اور سنایاہے جس قدر معارف اور حقائق بیان کئے ہیں وہ بے نظیر ہیں.اب کوئی انہیں معمولی سمجھے اور کہے یہ تو کل کے بچّے ہیں ابھی ہمارے ہاتھوں میں پلے ہیں کھیلتے کُودتے پھرتے تھے تو یاد رہے کہ یہ فرعونی خیالات ہیں.چنانچہ فرعون نے بھی حضرت موسٰی سے یہی کہتا تھا :- اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًاوَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ(الشعراء: ۱۹)میرے بھائیوں ! اگر ایسا خیال کسی کے دل میں آئے تو استغفار پڑھے.کیونکہ فرعون کابُرا انجام ہوا.(اخبار بدر ۲۶ جنوری ۱۹۱۱ء؁ جلد ۱۰ نمبر ۱۳ صفحہ ۲) پس یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ مولوی سید محمد احسن صاحب کو میرےعقائد کا علم نہ تھا.ان کو میرے عقائد کا علم تھا اور ضرور تھا.پس پہلے انہی عقائد کے ہوتےہوئے ان کا میری بیعت کرنا اورپھر انہی عقائد کی بناء پر اس بیعت کو توڑنا کیونکر قابل تسلیم ہوسکتا ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ نبوت حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق ہمارا عقیدہ وہی ہے جو تشحیذ الاذہان میں مولوی سید محمد احسن صاحب نے تحریر فرمایا ہے اور صرف نام میں اختلاف ہے.اسمہ ٗاحمد کی بحث اور مولوی محمد احسن صاحب کا عدمِ انکار تیسرا عقیدہ جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ یہ نیا بنایا گیا ہے.اسمہٗ احمد کا مصداق حضرت مسیح موعودؑ کو قرار دینا ہے.یہ عقیدہ بھی غلط ہو یا درست.مگر مولوی سید محمد احسن صاحب کے فسخ بیعت سے پہلے شائع ہوچکا ہے اور اس کے بعد وہ برابر مجھ سے تعلق رکھتے رہے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں مَیں نے ایک مضمون اسمہٗ احمد والی پیشگوئی میں تحریر کیا تھا مگر آپ کو دکھانے کا موقع نہ ملا.وہ شروع ایام خلافت میں ہی مکرمی قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے رسالہ تشحیذ الاذہان ٭میں شائع کردیا تھا اور اس کے دو سال بعد مولوی صاحب نے بیعت کے توڑنےکا اعلان کیا ہےاور اس عرصہ میں برابر میری تائید اور مولوی محمد علی صاحب اوران کے رفقاء کی تردید کرتے رہے ہیں.پس یہ عقیدہ بھی اصل بناء نہیں ہوسکتا.مجھے سے عقائد میں موافقت رکھنے پر سیّد محمد احسن صاحب کی تحریری شہادت میں اس مضمون کے ختم ہونے سے پہلے مولوی صاحب کی طرف سے ایک تحریری شہادت میں اس امر کی پیش کرتا ہوں کہ مولوی سید محمد احسن صاحب نے ان تینوں عقائد کو پسند یدگی کی نظر سے دیکھا ہے.اوران کے منکروں کو فرعون وغیرہ کہا ہے بلکہ ان کی اشاعت *ستمبر ۱۹۱۴ جلد ۹ ص ۱ تا ۱۹ بعنوان احمد علیہ السلام

Page 185

کی وجہ سے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موعود بیٹا قرار دیا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب جب ۱۹۱۴؁ء کے آخر میں ولایت سے واپس آئے تو انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء کے جلسہ منعقدہ لاہور میں ایک تقریر کی اور چھپوا کر کثرت سے شائع کی.اس کا جواب مَیں نے ’’القول الفصل ‘‘ میں دیا.اس رسالہ میں مَیں نے ان تینوں مسئلوں یعنی نبوت حضرت مسیح موعود ؑو کفر غیر احمدیاں اور پیشگوئی اسمہٗ احمد پر بحث کی ہے.چنانچہ ان تینوں مسئلوں کےمتعلق میں اس رسالہ میں سے چند فقرات اس جگہ نقل کرتا ہوں.نبوت حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق لکھا ہے:- ’’اگر کوئی شخص حقیقی نبی کے یہ معنے کرے کہ وہ نبی جو بناوٹی یا نقلی نہ ہو.بلکہ درحقیقت خدا کی طرف سے خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ اصطلاح کے مطابق قرآن کریم کے بتائے ہوئے معنوں کے رو سے نبی ہو اور نبی کہلانے کا مستحق ہو، تمام کمالات نبوت اس میں اس حد تک پائے جاتے ہوں جس حد تک نبیوں میں پائے جانے ضروری ہیں تو میں کہوں گا کہ ان معنوں کے رو سے حضرت مسیح موعودؑ حقیقی نبی تھے.گو ان معنوں کی رو سے کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے حقیقی نبی نہ تھے‘‘.’’ ہمارے اعتقاد کے مطابق مسیح موعود کی ظلی اوربروزی نبوت کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ آپ کو نبوت آنحضرت ﷺکی شاگردی اوراطاعت میں ملی ہے اور پہلے نبیوں کو براہ راست نبوت ملتی تھی.اور اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ آپ کی نبوت کوئی آنریری خطاب تھا جس کی کوئی اصل یا حقیقت نہیں اور جس نبوت سے وہ حقوق حاصل نہیں جو نبیوں کو حاصل ہوتے ہیں.‘‘ (القول الفصل صفحہ ۱۸مطبوعہ قادیان جنوری ۱۹۱۵) اس رسالہ میں صفحہ ۲سے لے کر صفحہ ۲۶ تک نبوت کےمسئلہ پر بحث ہے اور اس کے سب پہلوؤں پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے اور کوئی ایسی بات نہیں جو بیان کرنے سے رہ گئی ہو.اس سے آگے صفحہ ۲۷ سے لے کر صفحہ ۳۲ تک اسمہٗ احمد کی پیشگوئی کے متعلق بحث ہے.اور اس میں سے بعض فقرات یہ ہیں:- ’’حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو احمد لکھا ہے اور لکھا ہے کہ اصل مصداق اس پیشگوئی کا میں ہی ہوں.کیونکہ یہاں صرف احمد کی پیشگوئی ہے.اور آنحضرت ﷺاحمدؐاور محمدؐ دونوں تھے.‘‘ (القول الفصل صفحہ ۲۷مطبوعہ قادیان جنوری ۱۹۱۵؁ء)

Page 186

پھر لکھا ہے:- ’’اور اسمہٗ احمد کا مصداق مسیح موعودؑ ہے‘‘.(القول الفصل صفحہ ۲۷مطبوعہ قادیان جنوری ۱۹۱۵؁ء) غرض اس کتاب میں چھ صفحات پر حضرت مسیح موعود کےحوالوں اور حضرت خلیفہ اوّل کی شہادت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسمہٗ احمد والی پیشگوئی کا مصداق ثابت کیا گیا ہے.مسئلہ تکفیر غیر احمدیوں کے متعلق صفحہ ۳۳ میں مَیں نے لکھا ہے.’’دوسرا مسئلہ کفر ہے جس پر خواجہ صاحب نے بحث کی ہے اس مسئلہ پر میں خود حضرت مسیح موعود کی اپنی تحریریں شائع کرچکا ہوں.مزیدتشریح کی ضرورت نہیں میرا وہی عقیدہ ہے‘‘ اس کے نیچےحاشیہ میں بتایا ہے کہ مفصل دیکھو رسالہ تشحیذ الاذہان اپریل ۱۹۱۱؁ء.یہ وہ رسالہ ہے جس میں میرا چالیس صفحہ کا مضمون تکفیر غیر احمدیان کے متعلق شائع ہوا تھا.اور جس میں سے بعض فقرات میں پہلے نقل کرچکا ہوں.پھر لکھا ہے:- ’’پس جو حکم نبی کے انکار کے متعلق قرآن کریم میں ہے.وہی مرزا صاحبؑ کے منکر کی نسبت ہے‘‘.(القول الفصل صفحہ ۳۳مطبوعہ قادیان جنوری ۱۹۱۵؁ء) ان حالہ جات سے ثابت ہے کہ القول الفصل میں کھول کھول کر یہ امر بیان کردیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی ہیں.آپ کے منکر کافر ہیں اور یہ کہ آپؑ آیت اسمہٗ احمد کے مصداق ہیں.یہ کتاب جنوری سید محمد احسن صاحب قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کو تحریر کرتے ہیں:- ’’القول الفصل اوّل سے اخیر تک خاکسار نے سُنا اس کی نسبت میں عرض کرچکا ہوں کہ اس میں سب طرح سے اتمام حجت منکرین خلافت پر کیا گیا ہے‘‘.پھر ان کے بیٹے سیّد محمد یعقوب صاحب کا لکھا ہوا ایک خط ان ک طرف سے مجھے بھیجا گیا تھا.اس میں وہ لکھتے ہیں:- ’’رسالہ اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا ھُوَ بِالْھَزْلِ کو خاکسارنے جناب والدصاحب کو سنایا.دعاوی صادقہ اور مصدقہ سن کر ایسے خوش ہوئے کہ عوارض لاحقہ متعلقہ پیری و دیگر امراض کو فراموش کردیا اور کہنے لگے کہ الحمدللہ مَیں نے وہ وقت پالیا کہ جس کا میں سالہا سے منتظر تھا…یہاں پر آل فرعون لاہوریوں کی نسبت جناب والد صاحب کی طرف سے لکھتا ہوں.خارجاً معلوم ہوا کہ اس رسالہ الفصل کو ایک شیطان ٭نے یہ کہا کہ مصنف رسالہ شریر ہے،کذّاب ہے،چالباز ہے، میں سارے پردے اس *یہ فتوی مولوی صاحب کا خواجہ کمال الدین صاحب کی نسبت ہے

Page 187

کے کھولوں گا.یہ قول تو اس کا ایک ادنیٰ ہے.اس کا تو وہی حال ہے جو فرعون کاتھا…اگر بالآخر توبہ نہ کی توغرق طوفان ضلالت میں ہوجاوے گا.آمین‘‘(مورخہ۱۱ ؍فروری ۱۹۱۵؁ء) مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے ان دونوں خطوط سے ثابت ہوتا ہے کہ سّید صاحب نے رسالہ القول الفصل کو بغور شروع سے آخر تک سُنا.اور اس کے مضمون کو صادقہ اور مصدوقہ پایا.یعنی وہ مضامین سچّے بھی ہیں اور خدا تعالیٰ اور اس کے راست باز بندوں کی طرف سے ان کی صداقت ثابت بھی کی گئی ہے.اور یہ کہ اس کتاب کے سننے سے آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ کو اپنی بیماری بھی بھول گئی.اور آپ نے اس کو سن کر مجھ میں وہ با ت پالی.جس کے آپ سالہا سال سے منتظر تھے (اس سے آپ کا اشارہ میرے موعود بیٹا ہونے کی طرف ہے جس کا ذکر آپ اکثر خطبات و گفتگو میں فرمایا کرتے تھے)اور اس کتاب کو بُرا کہنے والے کو آل فرعون اور فرعون اور طوفان ضلالت میں غرق ہونے والا قرار دیا.پس اس قدر تائید اور اتفاق کے بعد جو ان مسائل سے سید صاحب ظاہر فرما چکے ہیں.انہی مسائل کی بناء پر وہ کس طرح بیعت توڑنے کا اعلان کرسکتے ہیں.ایسی بات تو کسی عقلمند کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی.ضرور ہے کہ حقیقت کچھ اور ہو.اور یا تو مولوی صاحب کو دھوکا دیا گیا ہو یا فریب سے ان کی طرف وہ باتیں منسوب کردی گئی ہوں.جو انہوں نے نہ کہی ہوں.پس یہ کہنا کہ سب سے پُرانے اور سب سے عالم صحابی مسیح موعودؑ نے میرے عقائد کے خلاف لکھا ہے.درست نہیں.کیونکہ ان مسائل کی اس قدر تائید کے بعد سید صاحب کا ان کو مسائل کفریہ قرار دینا کسی عقلمند کی سمجھ میں نہیں آسکتا.مسئلہ تکفیر غیر احمدیاں کے متعلق جو میرا مضمون تشحیذ الاذہان میں شائع ہوچکا ہے.اس کی تائید میں مولوی صاحب کا ایک اور خط بھی ہے.جس میں سے اقتباس ذیل اُمید ہے کہ حق پسندلوگوں کے لئے مفید ہوگا مولوی صاحب میرے اس مضمون کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:- ’’میری رائے ناقص میں کفر کافر کی بحث میں آپ نے تبلیغ کامل کردی ہے.اب اس بحث کی طرف بالکل توجہ نہ فرماویں.لَا یَضُرُّ کُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ‘‘(المائدۃ :۱۰۶) یہ خط میرے مضمون متعلق تکفیر احمدیاں کے متعلق ہےجو اپریل ۱۹۱۱؁ء میں شائع ہوا اور یہ خط ۶ ؍ ستمبر ۱۹۱۱؁ء کو مولوی صاحب نے میرے نام اپنے وطن امروہہ سے لکھا.

Page 188

تاریخ اختلاف سلسلہ کا دسواں امر دسویں بات مولوی صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ سیّد صاحب کے علاوہ اوربہت سے تعلیم یافتہ بھی میرے عقائد سے بیزار ہورہے ہیں.اور میری مخالفت روز بروز نمایاں ہورہی ہے.میں اس امر کے متعلق پہلے بھی لکھ آیا ہوں اوراب پھر لکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری جماعت کے تمام لوگ الاماشاء للہ عقائد میں میرے متفق ہیں.اور کیا عقل اس بات کو تجویز کرسکتی ہے کہ اس آزادی کے زمانہ میں جبکہ نہ میرے پاس حکومت ہے نہ طاقت تعلیم یافتہ لوگ میرے خیالات سے بیزار بھی ہوں اورپھر میرےساتھ بھی ہوں.ان کا میرے ساتھ ہونا ہی اس امر کی علامت ہے کہ وہ میرے ہم خیال ہیں.اوراگر فی الواقع مولوی صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے تو کم سے کم سو۱۰۰ ایسے تعلیم یافتوں کی فہرست شائع کردیں.جو میرے عقائد سے بیزار ہیںاوراگر ان کی مراد ان چند مرتدین سے ہے.جو میری جماعت سے نکل کر ان کے ساتھ جا ملے ہیں تو مَیں اس بات کے لئے بھی تیار ہوں کہ مولوی صاحب ان لوگوں کی فہرست کا مقابلہ ان لوگوں کی تعداد سے کر لیں.جو ان سے جدا ہوکر اللہ تعالیٰ کےفضل سے میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں.تاریخ اختلاف سلسلہ کا گیارہواں امر گیارہویں بات مولوی صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ بوجہ تنگ ظرفی کے ہیں احمدیوں کو فاسق کہتا ہوں.مگر تعجب ہے کہ یہ الفاظ اس شخص کے منہ سے نکلتے ہیں جو اسی کتاب کے ابتدائی صفحات میں مجھے اور میرے ساتھیوں کو ضالّ کہہ چکا ہے.کیا ضالّ زیادہ سخت لفظ ہے یا فاسق؟ ضالّ کالفظ تو ایسا سخت ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں میں مسلمانوں کو حکم ہے کہ دُعا مانگیں کہ ہم ضالّ نہ ہوجائیں.مگر باوجود اس کے مولوی صاحب ہمیں ضاّل کہتے ہیں.دیکھو سپلٹ صفحہ ۳ تا ۸.اگر کہیں کہ ہم تو قرآن کریم اور حدیث کے مطابق کہتے ہیں.تو ہمارا جواب یہ ہے کہ ہم آپ کو سورہ نور کی آیت لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کے ماتحت فاسق کہتے ہیں.جس میں خلفاء کےذکر کے ساتھ فرمایا ہے وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الفٰسِقُوْنَ(النور: ۵۶) اورآپ کے پاس تو ہمیں ضالّ کہنے کی کوئی دلیل نہیں جیسا کہ مَیں پہلے

Page 189

ثابت کرچکا ہوں.مگر ہمارے پاس دلیل ہے کیونکہ علاوہ قرآن کریم کے صاف ارشاد کے حضرت خلیفۃ المسیح علی الاعلان اپنے نہ ماننے والوں پر فاسق کا فتویٰ لگا چکے ہیں.اورآپ لوگ ان کی بات کو تسلیم کرنےکا دعویٰ کرتے ہیں.تاریخ اختلاف سلسلہ کا بارہواں امر بارہویں بات اختلاف سلسلہ کے متعلق مولوی صاحب نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ مَیں نے ایک تدبیر ایسی کر رکھی ہے کہ جس کی وجہ سے جماعت کو اندھیرے میں رکھا ہے اور کہہ دیا ہےکہ کوئی احمدی ان سے تعلق نہ رکھے.ان کے ساتھ مل کر کھانا نہ کھائے اور نہ ان سے کوئی دوستانہ گفتگو کرے اور نہ ان کی شائع کردہ کتاب یا رسالہ پڑھے اور اس وجہ سے میرے متبع ان دلائل سے ناواقف ہیں جن کے ذریعہ سے میرے ان عقائد کی جو مسیح موعودؑ کے مخالف ہیں تردید کی جاتی ہے.یہ آخری کڑی مولوی صاحب کے بیان کردہ واقعات اختلاف سلسلہ کی بھی ویسی ہی کمزور اور جعلی ہے جیسی کہ پہلی.کیونکہ مَیں نےکبھی کسی مبائع سے نہیں کہا کہ وہ غیر مبائعین سے دوستی نہ رکھے اوران سےمل کر کھاوے نہیں اورنہ ان کی کتاب پرھے.یہ ایک جھوٹ ہے جو مولوی صاحب نے مجھ پر باندھا ہے.اس کے بر خلاف میں دیکھتا ہوں کہ ۱۹۱۵؁ءمیں جب عزیزم عبدالحی مرحوم (ولد حضرت خلیفہ اوّل) کی وفات پر مولوی صاحب معہ چند رفقاء کے یہاں تشریف لائے تو مَیں نے ان کی دعوت کی اور مولوی شیر علی صاحب کو بھیجا کہ وہ ان کو بلالائیں بلکہ اس سے بھی پہلے اسی سال میں مجھے لاہور برائے علاج جانے کا اتفاق ہوا.تو میرے مبائعین میں سے بعض نے مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کی دعوت کی مگر انہوں نے انکار کردیا.پھر ایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب قادیان تشریف لائے اور سیدھے مقبرہ بہشتی کو چلے گئے.مجھے کسی نے اطلاع دی.مَیں نے ان کے بُلانے کے لئے آدمی بھیجے اورپھر خود بھی گیا اوران سے ملا اوران سےٹھہرنے کے لئے کہا.لیکن بوجہ ضروری کام کے انہوں نے عذر کیا.اسی طرح ہماری جماعت کے لوگ جہاں جہاں غیر مبائعین پائے جاتے ہیں ان سے ملتےرہتے ہیں.مگر بعض لوگ متفنی ہوتے ہیں اور شرارت پر آمادہ رہتے ہیں اور دھوکا دہی ان کا کام ہوتا ہے اور فساد کی وہ جستجو میں رہتے ہیں اور بد عقیدگی کے بانی اور اختلاف کے محرّک ہوتے ہیں.ایسے لوگوں سے بیشک میری جماعت کے لوگ کنارہ کرتے ہیں اورایسے لوگوں سے اپنی جماعت کے لوگوں کا ملنا بیشک میں نا پسند بھی کرتا ہوں مگر مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی اس مضمون کا اعلان کیا ہو.اورجبکہ مولوی محمد علی صاحب خود ہماری دعوت کو رد کرچکے ہیں تو پھر ان کا کیا حق ہے کہ وہ ہم پر الزام

Page 190

دھریں.وہ خود دعوت مسنونہ کےرد کرنےکےمجرم ہیں.اور ان کے اس فعل کےبعد ہم پر ہر گزواجب نہیں ہے کہ ہم ان کی دعوت قبول کریں.ان کی دعوت کا قبول کرنا اب نے غیرتی ہے اور مومن بے غیرت نہیں ہوتا.مَیں نے تو مدّت تک چاہا کہ ان لوگوں سے تعلقات قطع نہ ہوںاور یہ لوگ راستی کی طرح آویں.مگر مولوی صاحب نے شروع میں افتراق اور فساد میں اپنا فائدہ دیکھا.قادیان کو چھوڑ کر چلے گئے اوراپنی الگ انجمن بنالی.اورمجھ پر طرح طرح کے اتہام لگائے اس کے بعد ان کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے میل جول کی درخواست کریں.اوّل تو خلافت کا انکار کرکے اور جماعت کو فتنہ میں ڈال کر مولوی صاحب اوران کے وہ ساتھی جو بانی فساد ہیں شرعاً اس امر کے مستحق تھے کہ ان سے قطع تعلق کیاجائے٭اوربالکل ان سے علیحدگی اختیار کی جائے.مگر جبکہ ان سے خاص رعایت کرکے ہم نے چاہا کہ ان سے میل جول کریں تو انہوں نے صاف انکار کردیا.اور باوجود بار بار کی درخواست کے ہماری دعوت کو رد کردیا.اوراب اُلٹے ہم پر الزام لگاتے ہیں.قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی تحریرمولوی محمد علی صاحب کے مفید مطلب نہیں مولوی صاحب اوران کے رفقاء اس الزام کی تائید میں مکرمی قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کے ایک مضمون کا حوالہ دیا کرتے ہیں.جس میں انہوں نے خواجہ صاحب کی آمد پر ان سے ہوشیار رہنےکے لئے جماعت کو توجہ دلائی تھی.مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اوّل تو یہ مضمون میرا نہیں بلکہ میری جماعت کے لوگوں میں سے ایک شخص کا خیال ہے.دوم یہ کہ قاضی صاحب تو عام احمدیوں کو رئیس المفسدین کے متعلق ایک نصیحت کرتے ہیں.عام مبائعین اور غیر مبائعین کے تعلقات یا دونوں فریق کے سر بر آوردوں کے آپس کے تعلقات کے متعلق کہا ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ خود قاضی صاحب موصوف مولوی صاحب سے ملنے کے پیغام بلڈنگس میں گئے تھے.مگر مولوی صاحب نے ان کی طرف بالکل توجہ نہ کی اور اکرام ضیف کا بھی خیال نہ رکھا.مگر قاضی صاحب کا مضمون عام ہوتا تو وہ خود کیوں مولوی صاحب کو ملنے جاتے.اصل بات یہ ------------------------------------------------------------------------------------ ٭ صحابہ ؓکا فتویٰ ہے کہ جو شخص خلافت کے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے اس سے قطع تعلق کیاجاوے.حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے وقت جب بعض انصارؓ نے سعد بن عبادہ کو دوسرامام پیش کیا اور صحابہؓنے دو امام تسلیم نہ کئے.تو سعد نے بیعت سے احتراز کیا.گو احکام خلافت کے قبول کرنےسے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا.اس پر حضرت عمرؓنے ان کے متعلق فرمایا کہ اُقْتُلُوْا سَعْدًا.یعنی سعد سے قطع تعلق کرو.چنانچہ صحابہ ؓ ان سے بالکل تعلق نہیں رکھتے تھے.(سیرت ابن ہشام عربی جلد ۴ صفحہ ۳۱۰مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء)

Page 191

ہےکہ یہ ایک بہانہ ہے جو ان لوگوں نےہم سےجدائی کیلئے بنایا ہے.اگر واقع میں دیکھاجائے تو میرے مبائعین ان سے بہت زیادہ تعلق رکھتے ہیں.بہ نسبت اس کے جوان کے ہمراہی مبائعین سے رکھتے ہیں.ہر سال ان کے جلسہ پر ہمارے کچھ نہ کچھ آدمی جاتےہیں.مگر ان کے آدمی سوائے اس سال کے کہ خاص طور پر مدعو کئے جانے پر چند آدمی آئے تھے کبھی نہیں آئے بلکہ جب کوئی ہمارا آڈمی چلا جاوے تو اس کی سخت ہتک کی جاتی ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے.چنانچہ ایک دوست میاں عبدالعزیز صاحب اوورسیئر کا خط چند دن ہی ہوئے مجھے ملا ہے کہ میں ان لوگوں کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے اپنے پاس اُترنے بھی نہیں دیا.غرض ان لوگوں کی سختی میرے احباب سےاس قدر بڑھی ہوئی ہے اورپھر دھوکا دہی اس قدر ترقی کر گئی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کے پاس جاکر ہمارے احباب کی عزتیں معرض خطر میں ہوتی ہیں اور سوائے ایسے لوگوں کے کہ جن سے انہیں امید ہو کہ شاید ہم میں مل جاویں یا صاحب ثروت لوگ ہوں کہ ان سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہیں دوسروں کو یہ لوگ منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے.کتابوں کے متعلق بھی اگر دیکھا جاوے تو میری جماعت میں ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے ان کی کتابیںپڑھی ہیں بہ نسبت مولوی صاحب کے ایسے ہم خیال لوگوں کے جنہوں نے میری کتب پڑھی ہیں.مولوی محمد علی صاحب کے اعتراض کا ایک اور طریق سے دفعیہ آخر میں مَیں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت کہ میں یہ حصہ مضمون لکھ رہا ہوں.مولوی صاحب کا یہ اعتراض کہ ان کے مُرید اس لئے دھوکے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ یہ ان کو ہماری باتیں سننے نہیں دیتے،ایک اورطرح بھی دُور کردیا گیا ہے اوربالکل بے حقیقت اورجھوٹا ہوگیا ہے اور وہ اس طرح کہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوںاس جلسہ پر یعنی ۱۹۱۸؁ء کےجلسہ سالانہ پر بوجہ میری بیماری کے دسمبر ۱۹۱۸؁ء سے ملتوی کرکے مارچ۱۹۱۹؁ء کو کیا گیا تھا.میری طرف سے خاص طور پر غیر مبائعین کو بلوایا گیا تھا.چنانچہ تیس کےقریب ان کےچیدہ آدمی آئے جنہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ ان کو بولنے کا وقت دیاجائے چونکہ یہ لوگ مدعوتھے یہ خیال کرکے کہ وہ ہمارے مہمان ہیں مَیںنے ان کی درخواست کو قبول کرلیا اورانہیں کہا کہ وہ اپنے میں سے ایک آدمی مقرر کریں جو ان کے خیالات کو حاضرین جلسہ کے سامنے بیان کرے اوراتنے وقت کیلئے بول سکے جس قدر وقت کہ انہوں نے ہمارے آدمی کو اپنے جلسے میں بولنے کے لئے دیا

Page 192

تھا.اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چونکہ وفد کے ممبروں میں سے کوئی ایسا موزوں آدمی نہیں ہے جو کہ اس موقع پر بول سکے اس لئے اجازت دی جائے کہ سیّد مدثر شاہ ان کی طرف سے بولیں.انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ ان کے لیکچرار کو تقریر کے لئے اس سے زیادہ وقت دیاجائےجو انہوں نے اپنے جلسے میں ہمارے نمائندے کو دیا تھا.مَیں نے ان کی دونوں درخواستوں کو منظور کرلیا.چنانچہ حافظ روشن علی صاحب کی تقریر کے بعد جس کا عنوان ’’نبوت مسیح موعودؑ ‘‘ تھا اجازت دی گئی کہ فریق مخالف کے نمائندہ ایک گھنٹہ تک حاضرین جلسہ کے سامنے جنکی تعداد قریب چھ ہزار احمدیوں کی تھی اورجو ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے اپنے خیالات کاا ظہار کرے.چنانچہ میر مدچر شاہ صاحب نےایک گھنٹہ تک تقریر کی جب وہ اپنی تقریر کو ختم کرچکے تو ان کے دلائل کو میرا محمد اسحٰق صاحب نے ردّ کیا.اس واقعہ نے ہمیشہ کے لئے فریق مقابل کی اس شکایت کو دُور کردیا کہ احمدیوں کو ان کے دلائل سننے سے روکا جاتا ہے.الحمداللہ کو فریق مقابل کے خیالات سننے سے احمدیوں کا ایمان اپنے عقائد کے متعلق اوربھی مضبوط ہوگیا.اوران پر فریق مقابل کے خیالات کی کمزوریاں اور غلطیاں کھل گئیں.میر محمد اسحٰق صاحب کی تقریر سے اس قرآنی صداقت کی ایک اور مثال قائم ہوگئی کہ سچ کے آگے جھُوٹ نہیں ٹھہر سکتا.اب میں یکے بعد دیگرے تمام ان باتوں کا جو مولوی محمد علی صاحب کی کتاب ’’اختلافاتِ سلسلہ‘‘ میں قابلِ ردّ کرچکا ہوں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جو شخص بھی ان دلائل کو منصفانہ نظر سے دیکھے گا اسے پورا یقین ہوجائے گا کہ مولوی محمد علی صاحب اپنی کتاب ’’دی سپلٹ ‘‘ میں متواتر غلط بیانیوں سے کام لیتے چلے گئے.اوراختلافات سلسلہ کو بیان کرتے وقت انہوں نے کم سے کم چوبیس جگہوں پر جان بوجھ کر اور خدا کے خوف اور قہر سے الگ ہوکر خلاف بیانی سے کام لیا ہے.وہ لوگ جو درو دراز ممالک میں رہتے ہیں اور سلسلہ کے مرکز سے پیوستگی کے ان کے پاس سامان نہیں ہیں اور اس کے حالات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں وہ اس طرح واقعات کی حقیقت کا اندازہ نہیں لگا سکتے.جس طرح کہ وہ لوگ جنہوں نے کہ اِن واقعات کو بچشم خود دیکھا ہے.تا ہم وہ زبردست شہادتیں جو اس کتاب میں جمع کردی گئی ہیں وہ اُمید ہے کہ ان کو بھی آسانی سے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے قابل کردیں گی اور اس مقولہ کے مطابق کہ دیک میں سے ایک چاول ہی کافی ہوتا ہے.وہ پیچدار اور صداقت سے دور باتیں جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے.اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں گی کہ وہ شخص جس نے ان کو پبلک کے سامنے پیش کرنے کی دلیری کی ہے کس دل و دماغ کا انسان ہے.جن باتوں کے متعلق مَیں

Page 193

نےتحریری ثبوت پیش کردیا ہے.ان باتوں کے متعلق کسی اور شہادت کی ضرورت ہی نہیں.مگر جو امور ایسے ہیں کہ جن کے متعلق کوئی تحریری شہادت پیش نہیں کی جاسکتی صرف زبانی شہادت سے ان کا فیصلہ کیاجاسکتا ہے.ان کے متعلق میں مولوی محمد علی صاحب کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر وہ ان کے متعلق میرےبیان کو جھوٹا قرار دیتے ہیں تو قسم کھا کر بیان کریں کہ مَیں نے ان کے بیان کرنے میں جھوٹ سے کام لیا ہے.لیکن مَیں خوب جانتا ہوں کہ مولوی صاحب اس طریق کو کبھی اختیار نہیں کرینگے کیونکہ وہ قسم اور مباہلہ کےذریعہ سےفیصلہ کرنے کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.حالانکہ یہ طریق فیصلہ اسلام کا پسندیدہ بلکہ اسلام کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ اس طریق فیصلہ کو اختیار کرکے وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا کر اپنی ہلاکت کا سامان نہ پیدا کرلیں اور ان کی شامتِ اعمال ان کےپیش نہ آجائے.وَاٰخِرُ دَعْوٰىنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

Page 194

باب دوم اختلافات سلسلہ کی سچّی تاریخ کے صحیح حالات مولوی محمد علی صاحب نے اختلاف سلسلہ کے بیان کرنے میں جن غلط بیانیوں سے کام لیا ہے.ان کی تردید کے بعد اب میں اختلافات کے صحیح حالات تحریر کرتا ہوں.تاکہ ہمارے وہ احباب جو اس وقت تک اس اختلاف کی حقیقت سے واقف نہیں اس سے آگاہ ہوجاویں اور وہ لوگ بھی جو سلسلہ میں تو داخل نہیں لیکن اس سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اختلاف کو دیکھ کرشش و پنج میں ہیں اصل حالات کا علم حاصل کرکے کسی نتیجہ پر پہنچنے کے قابل ہوسکیں.رُوحانی سلسلوں میں کمزورایمان والے ہرایک رُوحانی سلسلہ میں کچھ لوگ ایسے بھی داخل ہوجاتے ہیں جو گو اس کو سچّا سمجھ کر ہی اس میں داخل ہوتے ہیں لیکن ان کافیصلہ سطی ہوتا ہے اور حق ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ہوتا.ان کا ابتدائی جوش بعض دفعہ اصل مخلصوں سے بھی ان کو بڑھا کر دکھاتا ہے مگر ایمان کی جڑیں مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ہروقت خطرہ ہوتا ہے کہ مرکز سے ہٹ جائیں اورحق کو پھینک دیں.ایسے ہی چند لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلہ میں بھی داخل ہوئے اوران کی وجہ سے اوربہت سے لوگوں کو بھی ابتلاء آیا.خواجہ کمال الدین صاحب کا احمدیت میں داخلہ خواجہ کمال الدین صاحب جو ووکنگ مشن کی وجہ سے خوب مشہور ہوچکے ہیں میرے نزدیک اس سب اختلاف کے بانی ہیں اور مولوی محمد علی صاحب ان کے شاگرد ہیں جو بہت بعد ان کے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہماری طرف سے متعدددفعہ یہ بات شائع ہو چکی ہے کہ اصل میں خواجہ صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق

Page 195

کئی قسم کے شکوک پیدا ہوگئے تھے اورانہوں نے مولوی محمد علی صاحب سے بیان کئے جس سے ان کے خیالات بھی خراب ہوگئے.اسی وجہ سے اس قصہ کے مشابہ قصہ تیار کرنے کے لئے ان کو ظہیر الدین کا قصہ تیار کرنا پڑا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں تو اس کو حق سمجھ کر ہی داخل ہوئے تھے.لیکن ان کے داخل ہونے کا یہ باعث نہ تھا کہ سلسلہ کی صداقت ان کے دل میں گھر کر گئی تھی.بلکہ اصل باعث یہ تھا کہ وہ اسلام سے بیزار ہوکر مسیحیت کی طرف متوجہ ہو رہے تھے اور چونکہ اہل و عیال اور عزیزہ اقارب کو چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں ان کا دل اس وقت سخت کشمکش میں تھا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے سامنے انہوں نےمسیحی پادریوں کو بھاگتے دیکھا تو ان کو اس کشمکش سے نجات ہوئی.اوران کو اسلام میں بھی ایک ایسا مقام نظر آنے لگا.جہاں انسان اپنا قدم جما کر مغربی علوم کے حملوں کا مقابلہ کرسکتا ہے.چونکہ یہ قائدہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےذریعہ سے حاصل ہوا تھاوہ آپ کی جماعت میں شامل ہوگئے اور اس وقت خیال کرکے یہی کہنا چاہئے کہ سّچے دل سے داخل ہوئے اور واقع میں جس شخص کےذریعہ سے انسان ایسے خطرناک ابتلاء سے بچے وہ اسے ہرایک درجہ دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے.پس مسیح موعودؑ کو خواجہ صاحب نے مانا تو سہی لیکن آپ کے دعویٰ کی صداقت کا امتحان کرکے نہیں بلکہ اس کے احسان سے متأثر ہوکر جو اسے مسیحیت سے بچانے اوراپنے رشتہ داروں کی جدائی سے محفوظ کردینے کی صورت میں اس نے کیا یہ بات ظاہر ہے کہ ایسا تعلق دیر پا نہیں ہوتا.جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور خواجہ صاحب کی نظر سے وہ زمانہ اوجھل ہوتا گیا.جب وہ مسیحیت اوراسلام کے درمیان کھڑے تھے.اورایک طرف تو مسیحیت کی دلفریب تعلیم انہیں لبھا رہی تھی اوردوسری طرف اپنے عزیزواقرباء کی جُدائی ان کو خوف دلا رہی تھی ان کا ایمان او رتعلق بھی کمزور ہوتا گیا.حتّٰی کہ ڈپٹی آتھم کی پیشگوئی کے وقت وہ مُرتد ہوتے ہوتے بچے.مسیح موعودؑ کا مضمون برائے جلسہ اعظم اور خواجہ صاحب ۱۸۹۷ ء؁میں جب لاہور میں جلسہ اعظم کی بنیاد پڑی اور حضرت مسیح موعودؑ کو بھی اس میں مضمون لکھنے کیلئے کہا گیا تو خواجہ صاحب ہی پیغام لیکر آئے تھے.حضرت مسیح موعودؑ کو ان دنوں میں اسہال کی تکلیف تھی باوجود اس تکلیف کے آپنے مضمون کالکھنا شروع کیا اوراللہ تعالیٰ کی توفیق سےختم کیا.مضمون جب خواجہ صاحب کو حضرت

Page 196

مسیح موعودؑنے دیا.توانہوں نے اس پر بہت کچھ نا امیدی کا اظہار کیا.اور خیال ظاہر کیا کہ یہ مضمون قدر کی نگاہوں سے نہ دیکھا جاوے گا اور خواہ مخواہنسی کا موجب ہوگا.مگر حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ ’’مضمون بالا رہا‘‘٭چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے قبل از وقت اس الہام کے متعلق اشتہار لکھ کرلاہور میں شائع کرنا مناسب سمجھا.اور اشتہار لکھ کر خواجہ صاحب کو دیا کہ اسے تمام لاہور میں شائع اور چسپاں کیاجائے اور خواجہ صاحب کو بہت کچھ تسلّی اور تشفّی بھی دلائی.مگر خواجہ صاحب چونکہ فیصلہ کئے بیٹھے تھے کہ مضمون نعوذ باللہ لغو اور بیہودہ ہے انہوں نے نہ خود اشتہار شائع کیا نہ لوگوں کو شائع کرنے دیا.آخر حضرت مسیح موعود ؑ کا حکم بتا کر جب بعض لوگوں نے خاص زور دیا تو رات کے وقت لوگوں نظروں سے پوشیدہ ہوکر چند اشتہار دیواروں پر اونچے کرکے لگادئیے گئے تا کہ لوگ ان کوپڑھ نہ سکیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کوبھی کہا جاسکے کہ ان کے حکم کی تعمیل کردی گئی ہے.کیونکہ خواجہ صاحب کے خیال اور حضرت مسیح موعودؑ کو بھی کہا جاسکتے کہ ان کے حکم کی تعمیل کردی گئی ہے.کیونکہ خواجہ صاحب کے خیال میں وہ مضمون جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’بالارہا‘‘ اس قابل نہ تھا کہ اسے ایسے بڑے بڑے محققین کی مجلس میں پیش کیاجاوے.آخر وہ دن آیا جس دن اس مضمون کو سنایا جانا تھا.مضمون جب سنایا جانا شروع ہوا تو ابھی چند منٹ نہ گزرے تھے کہ لوگ بُت بن گئے اور ایسا ہوا گویا ان پر سحر کیا ہوا ہے وقت مقررہ گزرگیامگر لوگوں کی دلچسپی میں کچھ کمی نہ آئی اور وقت بڑھایا گیا مگر وہ بھی کافی نہ ہوا.آخر لوگوں کے اصرار سے جلسہ کا ایک دن اوربڑھایا گیا اور اس دن بقیہ لیکچر حضرت مسیح موعود کا ختم کیاگیا.مخالف اور موافق سب نے بالا تفاق کہا کہ حضرت مسیح موعود ؑکا لیکچر سب سے بالا رہا اورخدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات پوری ہوئی.مگر اس زبردست پیشگوئی کو خواجہ صاحب کی کمزوری ایمان نے پوشیدہ کردیا.اب ہم ان واقعات کو سناتے ہیں.مگر کُجا ہمارے سنانے کا اثر اور کجا وہ اثر جو اس اشتہار کے قبل از وقت شائع کردینے سے ہوتا.اس صورت میں اس پیشگوئی کو جو اہمّیت حاصل ہوتی ہر ایک شخص بخوبی ذہن میں لاسکتا ہے.خواجہ صاحب کی احمدیت کے مغزسے ناواقفیت اسی قسم کے اوربہت سے واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب نے احمدیت کے مغز کو نہیں پایا تھا اوران کا احمدیت میں داخل ہونا درحقیقت اس احسان کا نتیجہ تھا جو حضرت مسیح موعودؑ نے ان پر کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دشمنوں کی طرف سےبعض مقدمات ہوئے ان میں خواجہ صاحب پیروکار ہوتے تھے.اس دوران میں بھی خواجہ صاحب نے بعض کمزوریاں جن کے بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں.*حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۲۹۱

Page 197

۱۹۰۵؁ ء میں ’’وطن ‘‘اخبار کی ایک تحریک پر کہ ریویو آف ریلجنز میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر نکال دیا جاوے اور عام اسلامی باتیں ہوں تو غیر احمدی بھی اس میں مدد کریں گے.خواجہ صاحب تیا ر ہوگئے کہ ایسا ہی کرلیاجاوے اور یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ ایک ضمیمہ ریویو کے ساتھ ہو جس میں کہ سلسلہ کے متعلق ذکر ہو اصل رسالہ میں عام باتیں ہوںاس فیصلہ پر اس قدر شور ہوا کہ آخر ان کو دبنا پڑا اور یہ تجویزخواجہ صاحب کے دل ہی دل میں رہ گئی.مگر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی اس تحریک سے ایک شخص ڈاکٹر عبدالحکیم مُرتدکوجو مدت سے گندے عقائد میں مبتلا تھا جرأت ہوگئی اوراس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارہ میں خط وکتابت شروع کردی اور گو محرّک اس خط و کتابت کا خواجہ صاحب کا سمجھوتہ تھا.جو ایڈیٹر وطن سے ریویو کے متعلق کیا گیا تھا.مگر دراصل اس خط وکتابت میں بعض ایسے عقائد کی بنیاد پڑگئی جو آئندہ کے لئے غیر مبائعین کے عقائد کا مرکزی نقطہ قرار پائے.عبدالحکیم نے ابتداء ۱۹۰۶ءمیں حضرت مسیح موعودؑ کو سب سے پہلا خط لکھا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ۱ - سوائے ان کے جو ہمیں کا فرکہتے ہیں باقی کے پیچھے نماز جائز ہونی چاہئیے.۲ - ریویو آف ریلیجنز کے متعلق جو تجویز خواجہ صاھب اور مولوی محمد علی صاحب نے کی تھی اسے مان لیا جاوے اور اس پر عمل کیا جاوے.۳ - حضرت مسیح ؑ کا وجود خاسدم اسلام ہے نہ اصل اسلام پس آپ کے وجود کو پیش کرنے کی خاطر اسلام کی اشاعت میں روک نہ ڈالی جاوے.۴ - عام قاعدہ حکمت کے ماتحت پہلے شرک بدعت وغیرہ بڑے مسائل لوگوں کے سامنے پیش کئے جاویں پھر حضرت مسیح موعودؑ کی ذات کو پیش کیا جاوے.۵ - صرف وفاتِ مسیح پر اس قدر زور نہ دیا جاوے دوسرے مسائلِ اسلام کی طرف بھی توجہ کی جاوے.۶ - احمدیوں کی اخلاقی حالت بہت گری ہوئی ہے ان کی عملی حالت کی درستی کی طرف خاص توجہ کی جاوے.۷ - ہماری جماعت کا مشنری کام بہت سُست ہے اس کی طرف خاص توجہ کی جائے ہم غیر احمدی مسلمانوں سے سلام تک ترک کی بیٹھے ہیں حالانکہ عدم تبلیغ کے مجرم ہم ہیں،.۸ - اسلام کی طرف سچّی رہبر فطرتِ صحیحہ اور سچّی تعلیم ہے نہ کہ محض پیشگوئیاں.پس قرآنی تعلیم کو مردہ قرار

Page 198

دینا حد درجہ کی بے باکی ہے (یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے جو وطن کی تحریک کے متعلق کہی گئی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر درمیان سے ہٹاک رکی امردہ اسلام پیش کیاجاوے.مرزا محمود احمد) اگر احمد اور محمد جدا نہیں توجس رنگ میں محمدی تعلیم تیرہ سو سال سے ہوتی چلی آئی ہے اسے اب مُردہ کیوں قرار دیاجاوے.اسلام کی ہتک اس سے زیادہ نہیں ہوسکتی کہ اس کی زندگی کا دارو مدار ایک تیرہ سو سال بعد آنے والے شخص پر رکھا جاوے.۹ - یہ علمی زمانہ ہے قرآن کریم کے علمی مضامین کی اشاعت سے بہت فائدہ کی اُمید تھی.ضمیمہ الگ شائع ہوتا مرید اسے لیتے اور ریویو کی اشاعت بڑھ جاتی مگر افسوس کی احمدی جماعت نے تنگ ظرفی کا نمونہ دکھایا اور جب کہ غیر احمدی تنگ ضرفی کی دیوار کو توڑنے لگے تھے انہوں نے اسے کھڑا کردیا.پھر دوسرے خط میں لکھا ہے:- ’’کیا آپ کے نزدیک تیرہ کروڑ مسلمانوں میں کوئی بھی سچّا خدا پرست راستباز نہیں.کیا محمدی اثر اس تمام جماعت پر سے اُٹھ گیا.کیا اسلام بالکل مُردہ ہوگیا.کیا قرآن مجید بالکل بے اثر ہوگیا.کیا رب العالمین ،محمدؐ ،قرآن ،فطرت اللہ اور عقل انسان بالکل معطل اور بیکار ہوگئے کہ آپ کی جماعت کے سوا نہ باقی مسلمانوں میں راست بازہیں.نہ باقی دُنیا میں بلکہ تمام کے تمام سیاہ باطن سیاہ کا ر اور جہنمّٰ ہیں.‘‘ مجھے اس جگہ اس امر پر بحث نہیں کہ اس کے ان خطوط کا حضرت مسیح موعودؑ نے کیا جواب دیا کیونکہ ان مسائل کے متعلق آگے بحث ہوگی.اس وقت اسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے ان خطوط کےجوان میں لکھ دیا کہ :- ’’اگر آپکا یہ خیال ہے کہ ہزار ہا آدی جو میری جماعت مین شامل نہیں کیا راست بازوں سے خالی ہی تو ایسا ہی آپ کو یہ خیال بھی لرلینا چاہیے کہ وہ ہزار ہا یہود اور نصاریٰ جو اسلام نہیں لائےکیا وہ راست بازوں سے خالی تھے.بہر حال جبکہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جسکو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا ہے وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلاء ہے خدا کے حکم کو چھوڑ دوں.اس سے سہل تر یہ بات ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت سے خارج کردیا جاوے

Page 199

اس لئے میں آج کی تاریخ سے آپ کو اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں‘‘.گو حضرت مسیح موعودؑ کی اس فوری اور سخت تنبیہ کا یہ نتیجہ تو نکلا کہ جماعت میں سے کسی اور شخص کو اس وقت عبدالحکیم کے خیالات کی تائید اور تصدیق کرنے کی جرأت نہیں ہوئی.مگر معلوم ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر بعض لوگوں کے دل میں یہ خیالات گھر کر چکے تھے اوران لوگوں کے سرادر خواجہ صاحب تھے.واقعات بتاتے ہیں کہ خواجہ صاحب کا ایمان اندر سے کھوکلا ہوچکا تھا.بعد کی ان کی تحریرات سے ظاہر ہے کہ وہ ان خیالات کا شکار ہوگئے تھے اوراب سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ یہی عقائد پھیلا رہے ہیں.خواجہ صاحب کا مولوی محمد علی صاحب کو اپنا ہم خیال بنانا جہاں تک میرا خیال ہے مولوی محمد علی صاحب شروع میں ان عقائد کی تائید میں نہ تھے.مگر خواجہ صاحب نے ان کو ایک کار آمد ہتھیار دیکھر کر برابر اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی.اور آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود پر زبان طعن کھولنے کی جرأت دلادی.گو میرے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ کی وفات تک ان کے ایمان میں زیادہ تزلزل واقعہ نہیں ہواتھا.مگر آپ کی وفات کے ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے بہت بڑا تزلزل مولوی صاحب کے خیالات میں آنا شروع ہوا.اوراس کا باعث بعض بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوئیں.مولوی مھمد علی صاحب کی طبیعت شروع سے ہی نہایت غصہ والی رہی ہے اور وہ کھی اپنے خصم کی بات سن کر برداشت کرنے کے قابل ثابت نیں ہوئے اور ایک دفعہ جب ان کے دل میں غصہ پیدا ہوجائے تو اس کا نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور وہ اپنے مخالف کو ہر طرح نقصان پہنچانےکی کوشش کرتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے انجمن کے بعض کاموں میں مولوی محمد علی صاحب کو حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں رنجش پیدا ہوجاتی تھی.خلافتِ اولیٰ میں مولوی محمد علی صاحب کے خیالات اور کوششیں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات پر آپ کو خلیفہ تجویز کیا گیا.تو مولوی صاحب کو بہت بُرا معلوم ہوا اورآپ نے انکار بھی کیا اور پیش کیا کہ خلافت کا ثبوت کہاں سے ملتا ہے.مگر جماعت کی عام رائے کو دیکھ کر اور اس وقت کی بے سرو سامانی کو دیکھ کر دب گئےاوربیعت کرلی.بلکہ اس اعلان پر بھی دستخظ کردئیے.جس میں جماعت کو اطلاع دی گئی تھی کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب الوصیت کے مطابق خلیفہ مقرر ہوئے ہیں.مگر ظاہری

Page 200

بیعت کے باوجو دل نے بیعت کا اقرار نہیں کیا.اوراپنے ہم خیالوں اور دوستوں کی مجلس میں اس قسم کے تذکرے شروع کردئیے گئے جن میں کلافت کا انکار ہوتا تھا اور اس طرح ایک جماعت اپنے ہم یالوں کی بنالی.خواجہ کمال الدین سب سے بہترشکار تھا جو مولوی محمد علی صاحب کو ملا (کیونکہ وہ خود اس فکر میں تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کو اپنا ہم خیال بنائیں اور اس کی سب سے بہتر صورت یی تھی کہ وہ خود مولوی محمد علی صاحب کے خاص خیالات میں ان کے شریک ہوجاویں )چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کو ابھی پنشرہ ن بھی نہ گزرے تھے کہ خواجہ صاحب نے مولویمحمد علی صاحب کی موجودگی میں مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب! آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے؟ مَیں نے کہا اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفہ اوّل نے صاف صاف کہہ دیا کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگئی اور اس تقریر کو سن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے میرے اس جواب کو سُن کر خواجہ صاحب بات کا رُخبدل گئے اور گفتگو اسی پر ختم ہوگئی.ان ہی ایام میں مولوی محمد علی صاحب کو بعض باتوں پر والدی صاحب حضرت اُمّ المؤمنین سے بعض شکایات پیدا ہوئیں وہ سچّی تھی یا جھوٹی مگر مولوی صاحب کے دل میں وہ گھر کر گئین.اورا ٓپ نے ان شکایتوں کا اشارۃً رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں بھی ذکر کردیا.چونکہ خلافت کا مجھے مؤید دیکھا گیا اس لئے اس ذاتی بُغض کی وجہ سے یہ خیال لرلیا گیا کہ یہ خلافت کا اس لئے قائل ہے کہ خود خلیفہ بننا چاہتا ہے پس خلافت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان خصوصاً میری مخالفت کو بھی ایک مدعائےخاص قرار دیا گیا اور ہمیشہ اس کے لئے ایسی تدبیریں ہوتی ریں جن کےذکر کرنے کی نہ یہاں گنجائش ہے نہ فائدہ.اسی عرصہ میں جلسہ سالانہ کے دن آگئے جس کے لئے مولوی محمد علی صاحب کے احباب نے خاص طور پر مضامین تیار کئے.اوریکے بعد دیگرے انہوں نے جماعت کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ خدا کے ما ٔمور کی مقرر کردہ جانشین اور خلیفہ صدر انجمن احمدیہ ہے جس کے یہ لوگ ٹرصتی ہیں.اوراس کی اطاعت تمام جماعت کے لئے ضروری ہے.مگر اس سبق کو اس قدر لوگوں کے مونہوں سے اور اس قدر مرتبہ دہرایاگیا کہ بعض لوگ اصل منشاء کو پاگئے اورانہوں نے سمجھ لیا کہ اصل غرض حضرت خلیفہ اوّل کو خلافت سے جواب دینا ہے اوراپنی خلافت کا قائم کرنا.صدرانجمن احمدیہ کے چودہ ممبروں سے قریباً آٹھ مولوی محمد علی صاحب کے خاص دوست تھے اوربعض اندھا دھند بعض حُسن ظنی سے ان کی ہر ایک

Page 201

بات پر اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَاکہنے کے عادی تھے.صدر انجمن احمدیہ کی خلافت سے مراد درحقیقت مولوی محمد علی صاحب کی خلا فت تھی.جو اس وقت بوجہ ایک منصوبہ کے اس کے نظم و نسق کے واحد مختار تھے.بعض ضروری کاموں کی وجہ سے مجھے اس سال جلسہ سالانہ کے تمام لیکچروں میں شامل ہونے کا موقع نہ ملااور جن میں دامل ہونے کا موقع ملا بھ.ان کے سنتے وقت میری توجہ اس بات کی طرف نہیں پھِری.مگر جیسا کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے بعض لوگوں نے اج کو تدبیر کو معلوم کرلیا تھا.اوراب ان کے دوستوں کے حلقوں میں اس امر پر گفتگو شروع ہوگئی تھی کہ خلیفہ کا کیا کام ہے؟ اصل حاکم جماعت کا کون ہے؟ صدر انجمن احمدیہ یا حضرت خلیفۃ المسیح الاول مگر خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے اب بھی اس کا کچھ علم نہ تھا.اب جماعت میں دو کیمپ ہوگئے تھے.ایک اس کوشش میں تھا کہ لوگوں کویقین دلایا جاوے کہ حضرت مسیح موعود ؑکی مقرر کردہ جانشین انجمن ہے اور دوسرا اس پر معترض تھا اوربیعت کے اقرار پر قائم تھا.مگر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس میر محمد اسحٰق صاحب نے کچھ سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں خلافت کے متعلق روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی.ان سوالات کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھیج دیا کہ وہ ان کا جواب دیں.مولوی محمد علی صاحب نے جو کچھ جواب دیا وہ حضرت خلیفہ اول کو حیرت میں ڈالنے والا تھا.کیونکہ اس میں خلیفہ کی حیثیت کو ایسا گِرا کر دکھایاگیا تھا کہ سوائے بیعت لینے کے اس کا کوئی تعلق جماعت سے باقی نہ رہتا تھا.حضرت خلیفہ اول نے اس پر حکم دیا کہ ان سوالوں کی بہت سی نقلیں کرکے جماعت میں تقسیم کی جاویں.اورلوگوں سے ان کے جواب طلب کئے جاویں اورایک خاص تاریخ (۳۱ ؍جنوری ۱۹۰۹ء) مقرر کی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے قائم مقام جمع ہوجاویں تا کہ سب سے مشورہ لیا جاوے.اس وقت تک بھی مجھے اس فتنہ کا علم نہ تھا.حتیّٰ کہ مجھے ایک رؤیا ہوئی جسکا مضمون حسب ذیل ہے.فتنہ کی اطلاع بذریعہ رؤیا میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے.اس کے دو حصے ہیں.ایک حصّہ تو مکمل ہے اور دوسرا نامکمل.نامکمل حصہ پر چھت پڑ رہی ہے کڑیاں رکھی جاچیکی ہیں مگر اوپر تختیاں نہیں رکھی گئیں.اورنہ مٹی ڈالی گئی ہے.ان کڑیوں پر کچھ بھوسا پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد اسحٰق صاحب میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب اورایک اورلڑکا جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا رشتہ دار تھا اور جس کا نام نثار احمد تھا اورجواب فوت ہوچکا ہے (اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے) کھڑے ہیں.میر محمد اسحٰق صاحب کے ہاتھ میں دیا سلائی کی ایک ڈبیہ ہے.اور وہ اس میں سے دیا سلائی نکال کر اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں.مَیں نے ان سے کہا کہ آخر یہ بھوسا جلایا

Page 202

توجائے گا ہی.مگر ابھی وقت نہیں ابھی نہ جلائیں ایسا نہ ہو کہ بعض کڑیاں بھی ساتھ ہی جل جاویں.اس پر وہ اس ارادہ سے باز رہے اور میں اس جگہ سے دوسری طرف چل پڑا.تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ مجھے کچھ شور معلوم ہوا.مڑکر کیا دیکھتا ہوں کہ میر صاحب بے تحاشہ دیا سلائیاں نکال کر جلاتے ہیں اور اس بھوکے کو جلانا چاہتے ہیں.مگر اس خیال سے کہ کہیں میں واپس نہ آجاؤں جلدی کرتے ہیں اور جلدی کی وجہ سے دیا سلائی بُجھ جاتی ہے.میں اس بات کو دیکھ کر واپس دوڑا کہ ان کو روکوں.مگر پیشتر اسکے کہ وہاں تک پہنچتا ، ایک دیا سلائی جل گئی.اور اس سے انہوں نے بھوسے کو آگ لگادی.مَیں دَوڑ کر آگ میں کود پڑا اورآگ کو بُجھا دیا.مگر اس عرصہ میں کہ اس کے بجھانے میں کامیاب ہوتا چند کڑیوں کے سرے جل گئے.مَیں نے یہ رؤیا مکرمی مولوی سیّد سرورشاہ صاحب سے بیان کی انہوں نے مُسکراکر کہا کہ مبارک ہو کہ یہ خواب پوری ہوگئی ہے.کچھ واقعہ انہوں نے بتایا.مگر یا تو پوری طرح ان کو معلوم نہ تھا یا وہ اس وقت بتا نہ سکے.مَیں نے پھر یہ رئویا لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کی.آپ نے اسے پڑھ کر ایک رقعہ پر لکھ کر مجھے ضواب دیا کہ خواب پوری ہوگئی.میر محمد اسحٰق صاحب نے چند سوال لکھ کر دئیے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ شور نہ پڑے اور بعض لوگ فتنہ میں پڑ جائیں.یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اس فتنہ کاعلم ہوا اوروہ بھی ایک خواب کےذریعہ.اس کے بعد وہ سوالات جو حضرت خلیفۃ المسیح نے جواب کے لئے لوگوں کو بھیجنے کا حکم دیا تھا مجھے بھی ملے اور مَیں نے ان کے متعلق خاص طور پر دُعا کرنی شروع کی اور اللہ تعالیٰ سے ان کے جواب کے متعلق ہدایت چاہی.اس میں شک نہیں کہ مَیں حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کرچکا تھا ور اس میں بھی شک نہیں کہ میں خلافت کی ضرورت کا عقلاً قائل تھا.مگر باوجود اس کے مَیں نے اس امر میں بالکل مخلع بالبطع ہوکر غور شروع کیااور اللہ تعالیٰ سے دُعا میں لگ گیا کہ وہ مجھے حق کی ہدایت دے اس عرصہ میں وہ تاریخ نزدیک آگئی.جس دن کہ جوابات حضرت خلیفۃ المسیح کو دینے تھے.میں نے جو کچھ میری سمجھ میں آیا.لکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح کو دے دیا.مگر میری طبیعت سخت بے قرار تھی کہ خدا تعالیٰ کوئی ہدایت کرے.یہ دن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے لئے سخت ابتلاء کے دن تھے.دن اور رات غم اوررنج میں گزرتے تھے کہ کہیں میں غلطی کرکے اپنے مولیٰ کو ناراض نہ کر لوں.مگر باوجود سخت کرب اور تڑپ کے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہ معلوم ہوا.۳۱ جنوری ۱۹۰۹ ءکا معرکۃ الآراء دن حتّٰی کہ وہ رات آگئی جس کی صبح کو جلسہ تھا.لوگ چاروں طرف سے جمع ہونے شروع ہوئے.

Page 203

مگر ہر ایک شخص کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ آنے والے دن کی اہمیّت کو اچھی طرح سمجھ رہا ہے.بیرونجات سے آنے والے لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو یہ امر سمجھانے کی پوری طرح کوشش کی گئی ہے کہ اصل جانشین حضرت مسیح موعود کی انجمن ہی ہے اور خلیفہ صرف بیعت لینے کے لئے ہے اور تمام راستہ بھر خاص طور پر یہ بات ہر ایک شخص کےذہن نشین کی گئی ہے کہ جماعت اس وقت سخت خطرہ میں ہے.چند شریر اپنی ذاتی اغراض کو مدِّ نظر رکھ کر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں اور جماعت احمدیہ کا ایک خاص جلسہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر کیا اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے.اصل جانشین حضرت مسیح موعودؑکی انجمن ہی ہے اوراگر یہ بات نہ رہی تو جماعت خطرہ میں پڑجاوے گی اور سلسلہ تباہ ہوجاوے گا اور سب لوگوں سے دستخط لئے گئے کہ حسبِ فرمان حضرت مسیح موعودؑ جانشین حضرت مسیح موعود ؑکی انجمن ہی ہے.صرف دو شخص یعنی حکیم محمد حسین صاحب قریشی سیکریٹری انجمن احمدیہ لاہور اوربابو غلام محمد صاحب فورمین ریلوے دفترلاہور نےدستخط کرنے سے انکار کیا.اورجواب دیا کہ ہم تو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیۃ اللہ رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کا ادب ہم سے زیادہ اس کے دل میں ہے.جو کچھ وہ کہے گا.ہم اس کے مطابق عمل کریں گے.غرض محضر نامہ تیار ہوئے ،لوگوں کو سمجھایا گیا اورخوب تیاری کرکے خواجہ صاحب قادیان پہنچے.چونکہ دین کا معاملہ تھا اورلوگوں کویقین دلایا گیا تھا کہ اس وقت اگر تم لوگوں کا قدم پھسلا تو بس ہمیشہ کے لئے جماعت تباہ ہوئی.لوگوں میں سخت جوش تھا.اوربہت سے لوگ اس کام کے لئے اپنی جان دینے کے لئے بھی تیار تھے اوربعض لوگ صاف کہتے تھے کہ اگر مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول) نے خلاف فیصلہ کیا تو ان کو اسی وقت خلافت سے علیحدہ کردیاجاوے گا.بعض خاموشی سے خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے منتظر تھے.بعض بالمقابل خلافت کی تائید میں جوش دکھا رہے تھےاورخلافت کے قیام کے لئے ہر ایک قربانی پر آمادہ تھے عام طور پر کہا جاسکتا ہے کہ باہر سے آنے والے خواجہ صاحب اوران کے ساتھیوں کی تلقین کے باعث قریباً سب کے سب اورقادیان کے رہنے والوں میں سے ایک حصہ اس امر کی طرف جھک رہا تھا کہ انجمن ہی جانشین ہے.گو قادیان کے لوگوں کی کثرت خلافت سے وابستگی ظاہر کرتی تھی.نہایت خطرناک حالت ایسے وہ برادران جو بعد میں سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے ہوں اور جنہوں نے وہ درد اورتکلیف نہیں جو اس سلسلہ کے قیام کیلئے مسیح موعود ؑ نے برداشت کی اور ان حالات کا مطالعہ نہیں کیا جن میں سے گزر کر سلسلہ اس حد

Page 204

تک پہنچا ہے آپ لوگ اس کیفیت کا اندازہ نہیں کرسکتے جو اس وقت احمدیوں پر طاری تھی.سوائے چند خود غرض لوگوں کے باقی سب کے سب خواہ کسی خیال یا کسی عقیدہ کے ہوں مُردہ کی طرح ہورہے تھے اور ہم میں سے ہر ایک شخص اس امر کو بہت زیادہ پسند کرتا تھا نکہ وہ اور اس کے اہل و عیال کولہو میں پیس دئیے جاویں.بہ نسبت اس کے کہ وہ اختلاف کا باعث بنیں.اس دن دُنیا باوجود فراخی کے ہمارے لئے تنگ تھی اورزندگی باوجود آسایش کے ہمارے لئے موت سے بدتر ہورہی تھی.میں اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ جوں جوں رات گزرتی جاتی تھی اور صبح قریب ہوتی جاتی تھی کرب بڑھتا جاتا تھا اورمَیں خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا کر دُعا کرتا تھا کہ خدایا مَیں نے گو ایک رائے کو دوسری پر ترجیح دی ہے مگر الٰہی !مَیں نے بے ایمان بننا نہیں چاہتا تو اپنا فضل کر اور مجھے حق کی طرف ہدایت دے.مجھے اپنی رائے کی بچ نہیں.مجھے حق کی جستجو ہے.راستی کی تلاش ہے دُعا کے دوران میں مَیں نے یہ بھی فیصلہ کرلیا کہ اگر خدا تعالیٰ نے مجھ کچھ نہ بتایا تو مَیں جلسہ میں شامل ہی نہ ہوں گا تا کہ فتنہ کا باعث نہ بنوں.جب میرا کرب اس حد تک پہنچا تو خدا کی رحمت کے دروازے کُھلے اور اس نے اپنی رحمت کے دامن کے نیچے چُھا لیا اور میری زبان پر یہ لفظ جاری ہوئے.کہ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ(الفرقان:۷۸)یعنی ان لوگوں سے کہ دے کہ تمہارا ربّ تمہاری پرواہ کیا کرتا ہے اگر تم اس کے حضور گر نہ جائو.جب یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے تو میرا سینہ کھل گیا اور مَیں نے جان لیا کہ میرا خیال درست ہے.کیونکہ اس آیۃ کریمہ میں قُلْ یعنی کہہ کا لفظ بتاتا ہے کہ میں یہ بات دوسروں کو کہدوں.پس معلوم ہوا کہ جو لوگ میرے خیال کے خلا ف خیال رکھتے ہیں ان سے خدا تعالیٰ ناراض ہے نہ مجھ سے تب مَیں اُٹھا اور مَیں نے خدا تعالیٰ کا شکر کیا اورمیرا دل مطمئن ہوگیا اور مَیں صبح کا انتظار کرنےلگا.یوں تو احمدی عموماً تہجّد پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں.مگر یہ رات عجیب رات تھی کہ بہتوں نے قریباً جاگتے ہوئے یہ رات کاٹی.اورقریباً سب کے سب تہجد کےوقت سے مسجد مبارک میں جمع ہوگئے تا کہ دُعا کریں اوراللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں.اوراس دن اس قدر درد مندانہ دُعائیں کی گئیں کہ میں یقین کرتا ہوں کہ عرشِ عظیم ان سے ہِل گیا ہوگا.سوائے گر یہ و بُکا کےاور کچھ سنائی نہ دیتا تھا اوراپنےرب کےسوا کسی کی نظر اور کسی طرف نہ جاتی تھی اور خدا کےسوا کوئی ناخدا نظر نہ آتا تھا.آخر صبح ہوئی اور نماز کی تیاری شروع ہوئی.چونکہ حضرت خلیفہ اوّل کو آنے میں کچھ دیر ہوگئی.خواجہ صاحب کے رفقاء نے اس موقع کو غنیمت جان کر لوگوں کو پھر سبق پڑھانا شروع کیا.

Page 205

میں نماز کے انتظار میں گھر ٹہل رہا تھا.ہمارا گھر بالکل مسجد کے متصل ہے.اس وقت میرے کان میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی.کہ غضب خدا کا ایک بچّہ کو خلیفہ بنا کر چند شریر لوگ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں مَیں چونکہ بالکل خالی الذہن تھا مجھے بالکل خیال نہ گزرا کہ اس بچّہ سےمراد میں ہوں.لیکن مَیں حیرت سے ان کے اس فقرہ پر سوچتا رہا.گو کچھ بھی میری سمجھ میں نہ آیا.واقعات نے ثابت کر دیا کہ ان کا خوف بے جا تھا.کسی نے تو کسی کو خلیفہ کیا بنانا ہے.خدا بیشک ارادہ کر چکا تھا کہ اسی بچہ کو جسے انہوں نے حقیر خیال کیا خلیفہ بنادے اوراس کےذریعہ سے دُنیا کے چاروں گو شوں میں مسیح موعودؑ کی تبلیغ پہنچا دے اور ثابت کردے کہ وہ قادر خدا ہے جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں اوران لوگوں کی فطرتیں پہلے ہی سے اس امر کو محسوس کر رہی تھیں.جو خدا تعالیٰ کے حضور میں مقدر تھا غرض حضرت خلیفۃ المسیح کی آمد تک مسجد میں خوب خوب باتیں ہوتی رہیں اور لوگوں کو اونچ نیچ سمجھائی گئی.آخر حضرت خلیفۃ المسیح تشریف لائے اور نماز شروع ہوئی.نماز میں آپ نے سورہ بروج کی تلاوت فرمائی.اور جس وقت اس آیت پر پہنچے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ (البروج : ۱۱ ) یعنی وہ لوگ جو مؤمن مرد اور مؤمن عورتوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں.اورپھر اس کام سے توبہ نہیں کرتے.ان کے لئے اس فعل کے نتیجہ میںعذاب جہنم ہوگا اورجلا دینے والے عذاب میں وہ مبتلا ہوں گے.اس وقت تمام جماعت کا عجیب حال ہوگیا.یوں معلوم ہوتا تھا.گویا یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی ہے اور ہر ایک شخص کا دل خشیۃاللہ سے بھر گیا.اور اس وقت مسجدیوں معلوم ہوتی تھی جیسے ماتم کدہ ہے.باوجود سخت ضبط کے بعض لوگوں کی چیخیں اس زور سے نکل جاتی تھیں کہ شاید کسی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی وفات پر بھی اس طرح کرب کا اظہار نہ کیا ہوگا.اوررونے سے تو کوئی شخص بھی خالی نہیں تھا.خود حضرت خلیفۃ المسیح کی آواز بھی شدت گریہ سے رُک گئی اور کچھ اس قسم کا جوش پیدا ہوا کہ آپ نے پھر ایک دفعہ اس آیت کو دہرایا اور تمام جماعت نیم بسمل ہوگئی اور شاید ان لوگوں کے سواجن کےلئے ازل سے شقاوت کا فیصلہ ہوگیا تھا.سب کے دل دہل گئے.اورایمان دلوں میںگڑگیا اورنفسانیت بالکل نکل گئی.وہ ایک آسمانی نشان تھا.جو ہم نے دیکھا اور تائید غیبی تھی جو مشاہدہ کی.نماز ختم ہونے پر حضرت خلیفۃ المسیح گھر کو تشریف لے گئے اوران لوگوں نے پھر لوگوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی ایک تحریر دکھا کر سمجھانا چاہا کہ انجمن ہی آپ کے بعد جانشین ہے.لوگوں کے دل چونکہ خشیۃاللہ سے معمور ہورہے تھے اور وہ اس تحریر کی حقیقت سے ناواقف تھے.وہ اس امر کو دیکھ کر کہ حضرت

Page 206

مسیح موعودؑ نے فیصلہ کردیا ہے کہ میرے بعد انجمن جانشین ہوگی اوربھی زیادہ جوش سے بھرگئے.مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ خشیۃ اللہ کا نزول دلوں پر کیوں ہو رہا ہے اور غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے آخر جلسہ کا وقت قریب آیا اورلوگوں کو مسجد مبارک (یعنی وہ مسجد جو حضرت مسیح موعودؑ کے گھر کے ساتھ ہے اور جس میں حضرت مسیح موعود ؑ پنج وقتہ نمازیں ادا فرماتے تھے) کی چھت پر جمع ہونے کا حکم دیا گیا اس وقت ڈاکٹڑ مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ آپ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول) سے جاکر کہیں کہ اب فتنہ کا کوئی خطرہ نہیں رہا.کیونکہ سب لوگوں کو بتادیا گیا ہے کہ انجمن ہی حضرت مسیح موعود ؑ کی جانشین ہے.مَیں نےتوان کے اس کلام کی وقعت کو سمجھ کر خاموشی ہی مناسب سمجھی.مَیں بھی وہاں پہنچ چکا تھا.جاتے ہی ڈاکٹر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح سے عرض کی کہ مبارک ہو.سب لوگوں کو سمجھادیا گیا ہے کہ انجمن ہی جانشین ہے.اس بات کو سُن کر آپ نے فرمایا.کون سی انجمن ؟جس انجمن کو تم جانشیںقرار دیتے ہو وہ تو خود بموجب قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اس فقرہ کو سُن کر شاید پہلی دفعہ خواجہ صاحب کی جماعت کو معلوم ہوا کہ معاملہ ویسا آسان نہیں جیسا کہ ہم سمجھے تھے کیونکہ گو ہر ایک خطرہ کو سوچ کر پہلے سے ہی لوگوں کو اس امر کے لئے تیار کرلیا گیا تھا کہ اگر حضرت خلیفہ اوّل بھی ان کی رائے کو تسلیم نہ کریں تو ان کا مقابلہ کیاجائے.عموماً یہ لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ان کے خیالات کی تائید کریں گے اورانہی کی رائے کے مطابق فیصلہ دیں گے.چنانچہ ان میں سے بعض جو حضرت خلیفۃ المسیح کی نیکی کے قائل تھے عام طور پر کہتے تھے کہ خدا کا شکر ہے.کہ ایسے بے نفس آدمی کے وقت میں یہ سوال پیدا ہوا ہے.ورنہاگران کے بعد ہوتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہوجاتا.نہایت اہم اور قابل یادگار مجمع جب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت خلیفۃ المسیح مسجد کی طرف تشریف لے گئے قریباً دو اڑھائی سو آدمی کا مجمع تھا جس میں اکثر احمدیہ جماعتوں کے قائم مقام تھے.بیشک ایک ناواقف کی نظر میں وہ دو اڑھائی سو آدمی کا مجمع جو بِلا فرش زمین پر بیٹھا تھا ایک معمولی بلکہ شاید حقیر نظارہ ہو.مگر ان لوگوں کے دل ایمان سے پُر تھے اورخدا کے وعدہ پر ان کو یقین تھا.وہ اس مجلس کو احمدیت کی ترقی کا فیصلہ کرنے والی مجلس خیال کرتے تھے اور اس وجہ سے دنیا کی ترقی اوراس کے امن کا فیصلہ اس کے فیصلہ پر منحصر خیال کرتے تھے.ظاہر بین نگاہیں ان دنوں پیرس میں بیٹھنے والی پِیس کانفرنس کی اہمیّت اورشان سے حیرت میں ہیں.مگر درحقیقت اپنی شان میں بہت بڑھی ہوئی وہ مجلس تھی کہ جس کے فیصلہ پر دُنیا کے

Page 207

امن کی بناء پڑنی تھی.اس دن یہ فیصلہ ہونا تھا کہ احمدیت کیا رنگ اختیار کرے گی.دُنیا عام سوسائٹیوں کا رنگ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کا رنگ.اس دن اہل دُنیا کی زندگی یا موت کے سوال کا فیصلہ ہونا تھا.بیشک آج لوگ اس امر کو نہ سمجھیں.لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرے گا کہ لوگوں کو معلوم ہوجاوے گا کہ یہ مخفی مذہبی لہرہیبت ناک سیاسی لہروں سے زیادہ پاک اثرکرنے والی دُنیا میں نیک اور پُر امن تغیر پیدا کرنے والی ہے.غرض لوگ جمع ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بھی تشریف لائے.آپ کے لئے درمیان مسجد میں ایک جگہ تیار کی گئی تھی مگر آپ نےوہاں کھڑے ہونے سے انکار کردیا.اورایک طرف جانب شمال اس حصہ مسجد میں کھڑے ہوگئے جسے حضرت مسیح موعودؑ نے خود تعمیر کروایا تھا.٭ حضرت خلیفہ اوّل کی تقریر پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی اوربتایا کہ خلافت ایک شرعی مسئلہ ہے.خلافت کے بغیر جماعت ترقی نہیں کرسکتی اور بتایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص مُرتدہوجاوے گا.تو میں اس کی جگہ ایک جماعت تجھے دوں گا.پس مجھے تمہاری پرواہ نہیں.خدا کے فضل سے میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کریگا.پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے جوابوں کا ذکر کرکے کہا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا دینا یا جناہ یا نکاح پڑھا دینا یا بیعت لے لینا ہے.یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اور اس نے گستاخی سے کام لیا ہے.اس کو توبہ کرنی چاہئیے.ورنہ نقصان اُٹھائیں گے.دورانِ تقریر میں آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے بہت دُکھ دیا ہے اور منصبِ خلافت کی ہتک کی ہے.اسی لئے میں آج اس حصہ مسجد میں کھڑا نہیں ہوا.جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے.بلکہ اس حصہ مسجد میں کھڑا ہوا ہوں جو مسیح موعود علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے.تقریر کا اثر جوں جوں آپ تقریر کرتے جاتے تھے.سوائے چند سرغنوں کے باقیوں کے سینے کھلتے جاتے تھے اورتھوڑی ہی دیر میں جو لوگ نورالدین کو اس کے منصب سے ٭ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ مسجد مبارک ابتداءً بہت چھوٹی تھی.دعویٰ سے پہلے حضرت مسیح موعود نے صرف علیحدہ بیٹھ کر عبادت کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے ملحق ایک گلی پر چھت ڈال کر اسے تعمیر کیا تھا.کوئی تیس آدمی اس میں نماز پڑھ سکتے تھے.جب دعویٰ کے بعد لوگ ہجرت کرکے یہاں آنے لگے اورجماعت میں ترقی ہوئی.تو جماعت کے چندہ سے اس مسجد کو بڑھایا گیا.اورپُرانےحصہ مسجد کا نقشہ حسبِ ذیل ہے.

Page 208

علیحدہ کرنا چاہتے تھے.وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے لگے.اور یا خلافت کے مخالف تھے یا اس کے دامن سے وابستہ ہوگئے آپ نے دوران لیکچر ان لوگوں پر بھی اظہار ناراضگی فرمایا.جو خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کرتے رہے تھے.اورفرمایا کہ جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کیا حق تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے.انکو اس کام پر ہم نے کب ما ٔمور کیا تھا.آخر تقریر کے خاتمہ پر بعض اشخاص نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے کہا.خیالات کا اظہار کسی نے کیا کرنا تھا.تمام مجلس سوائے چند لوگوں کے حق کو قبول کرچکی تھی.مجھ سے اور نواب محمد علی خان سے جو میرے بہنوئی ہیں.رائے دریافت کی.ہم نے بتایا کہ ہم تو پہلے ہی ان خیالات کے مؤید ہیں.خواجہ صاحب کو کھڑا کیا.انہوں نے بھی مصلحت وقت کے ماتحت گول مول الفاظ کہہ کر وقت کو گزارنا ہی مناسب سمجھا اور پھر فرمایا کہ آپ لوگ دوبارہ بیعت کریں اور خواجہ صاحب اورمولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ الگ ہوکر آپ مشورہ کرلیں اوراگر تیار ہوں تب بیعت کریں.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم سے جو اس جلسہ کے بانی تھے.جس میں خلافت کی تائید کے لئے دستخط لئے گئے تھے.کہا کہ ان سے بھی غلطی ہوئی ہے.وہ بھی بیعت کریں.نمائشی بیعت غرض ان تینوں کی بیعت دوبارہ لی اورجلسہ برخواست ہوا.اس وقت ہر ایک شخص مطمئن تھا اور محسوس کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو بڑے ابتلاء سے بچایا.لیکن مولوی محمد علی صاحب اورخواجہ صاحب جو ابھی بیعت کرچکے تھے.اپنے دل میں سخت ناراض تھے اوران کی وہ بیعت جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا.دکھاوے کی بیعت تھی.انہوں نے ہرگز خلیفہ کو واجب الاطاعت تسلیم نہ کیا تھا.اورجیسا کہ بیان ہے ) مسجد کی چھت سے نیچے اُترتے ہی مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب کو کہا کہ آج ہماری سخت ہتک کی گئی ہے.مَیں اس کو برداشت نہیں کرسکتا.ہمیں مجلس میں جو تیاں ماری گئی ہیں.یہ ہے صدق اس شخص کا جو آج جماعت کا اصلاح کا مدعی ہے.ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیّر کی اگر اکیلی روایت ہوتی تو مَیں اس کو اس جگہ درج نہ کرتا.کیونکہ وہ خواہ کتنے ہی معتبر راوی ہوں.پھر بھی ایک ہی شاہد ہیں.اورمیں اس کتاب میں صرف وہ واقعات درج کرنا چاہتا ہوں جو یقینی طور پر ثابت ہوں.مگر بعد کے واقعات نے چونکہ اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ان کی بعیت محض خوف کی بیعت تھی اورمصلحت وقت کی بیعت تھی.اسلئے ان کے بیان سے انکار کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں اور علاوہ ازیں ابھی چند دن نہ گزرے تھےکہ میری موجودگی میں مولوی محمد علی صاحب

Page 209

کا ایک پیغام حضرت خلیفۃ المسیح کے پاس آیا تھا کہ وہ قادیان سے جانے کا ارادہ کرچکے ہیں.کیونکہ ان کی بہت ہتک ہوئی ہے جس سے اس روایت کی صحت ثابت ہوتی ہے.واقعات بیان کردہ کے شاہد یہ وہ واقعات ہیں جن کے دیکھنے والے سینکڑوں لوگ زندہ موجودہ ہیں اور وہ لوگ جو اس وقت اس مجلس میں موجود تھے.ان میں کچھ تو ایسے لوگ ہیں جو اس وقت ان کے ساتھ ہیں اور کچھ ایسے جو میری بیعت میں ہیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر غلیظ قسموں سے دریافت کیاجاوے.تو دونوں فریق کے آدمی ان واقعات کی صداقت کی شہادت دیں گے کیونکہ اتنی بڑی مجلس میں ہونے والا ایسا مہتم بالشان واقعہ چھپایا نہیں جاسکتا.خواجہ صاحب اوران کے ساتھیوں کی ایمانی حالت پیشتر اس کے کہ میں واقعات کے سلسلہ کو آگے چلاؤں میں ان لوگوں کی ایمانی حالت کا ایک نقشہ پیش کرتا ہوں جس سے ہر ایک شخص سمجھ لےگا.یہ لوگ کہاں تک ایمانداری سے کام لے رہے ہیں.پچھلی دفعہ جب خواجہ کما ل الدین صاحب ولایت سے آئے.تو جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے.انہوں نےاختلافات سلسلہ کے متعلق ایک لیکچر دیا تھا اس میں وہ اس واقعہ بیعت کو اس رنگ میں پیش کرتے ہیں.کہ گویا حضرت خلیفہ اوّلنے ان کی روحانی صفائی کو دیکھ کر خاص طور پر ان سے بیعت لی تھی.مندرجہ بالا واقعات کو پڑھ کر ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کو جو شخص ان حالات کے مطابق کی جانے والی بیعت کو بیعت ارشاد اورایک انعام اورعزت افزائی اور علامت تقریب قرار دیتا ہےاوردیکھنے والوں کی آنکھوں میں خاک ڈالنی چاہتا ہے.کیا اس کی کسی بات کابھی اعتبار ہوسکتا ہے خواجہ صاحب کے اصل الفاظ اس بارے میں یہ ہیں:- ’’کہا جاتا ہے کہ انہوں نے (مراد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل میں) مجھ سے بیعت دوبارہ لی.یہ بالکل سچ ہے.بیعت کسی امر کی؟ وہ بیعت ارشاد تھی نہ بیعت توبہ کی تجدید.اس کے بعد ایک اور بعیت رہ جاتی ہے وہ ہے بیعت دم.اب جائو صوفیائے کرام کے حالات پڑھو اور دیکھو کہ بیعت ارشاد وہ کسی مُرید سے لیتے ہیں.وہ سلسلہ میں داخل کرنے کےوقت مُرید سے بیعت توبہ لیتے ہیں اورجب اس میں اطاعت کی استعداد دیکھتے ہیں تو اس سے بیعت ارشاد لیتے ہیں.اورپھر جب اس پر اعتماد کلی ہوتا

Page 210

ہے تو بیعتِ دم.‘‘ (اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ ۵۵مطبوعہ لاہور ۱۹۱۴؁ء) خفیہ مخالفت اب میَں پھر اس مضمون کی طرف آتا ہوں حضرت خلیفۃ المسیح ان لوگوں کی ان حرکات سے ناراض ہوئے اور سخت ناراض ہوئے.ان کو دوبارہ بیعت کرنی پڑی.لیکن جہاں وسرے لوگوں کے دل صاف ہوئے.ان کے دلوں میں کینہ کی آگ اور بھی بھڑک اُٹھی.صرف فرق یہ تھا کہ پہلے تو اس آگ کےشعلے کبھی اوپر بھی آجاتے تھے.اب ان کو خاص طور پر سینہ میں ہی چھپایا جانے لگا تا کہ وقت پر ظاہر ہوں.اور سلسلہ احمدیہ کی عمارت کو جلا کر راکھ کردیں.مولوی محمد علی صاحب اس واقعہ کے بعد کلی طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں پڑگئے جو عقیدۃً سلسلہ سے علیحدہ تھے.اوران فتنوں نے ان کو ان لوگوں کے ایسا قریب کردیا کہ آہستہ آہستہ دو تین سال کےعرصہ میں نامعلوم طور پر ان کے ساتھ متحد فی العقیدۃ ہوگئے.خواجہ صاحب موقع شناس آدمی ہیں.انہوں نے تو یہ رنگ اختیار کیا کہ خلافت کے متعلق عام مجالس میں تذکرہ ہی چھوڑ دیا.اور چاہا کہ اب یہ معاملہ دبا ہی رہے تا کہ جماعت احمدیہ کے افراد آئندہ ریشہ دوانیوں کا اثر قبول کرنے کے قابل رہیں.خلیفہ کی بجائے ’’پریذیڈنٹ‘‘کا لفظ استعمال کرنا انہوں نے سمجھ لیا کہ اگر آج اس مسئلہ پر پوری روشنی پڑی.تو آئندہ پھر اس میں تاویلات کی گنجائش نہ رہے گی.چنانچہ اس بات کو مدّنظر رکھ کر ظاہر میں انہوں نے خلافت کی اطاعت شروع کردی.اوریہ تدابیر اختیار کی گئی کہ صدر انجمن احمدیہ کے معاملات میں جہاں کہیں بھی حضرت خلیفۃ المسیح کےکسی حکم کی تعمیل کرنی پڑتی وہاں کبھی حضرت خلیفۃ المسیح نہ لکھا جاتا بلکہ یہ لکھا جاتا کہ پریڈیڈنٹ صاحب نے اس معاملہ میں یو ں سفارش کی ہے.اس لئے ایسا کیا جاتا ہے ل.جس سے ان کی غرض یہ تھی صدرانجمن احمدیہ کے ریکارڈ سے یہ ثابت نہ ہو کہ خلیفہ کبھی انجمن کا حاکم رہا ہے.چنانچہ حضرفت خلیفۃ المسیح کی وفات کے بعد انہوں نے اس طرح جماعت کو دھوکا دینا بھی چاہا مگرواقعات کچھ ایسے جمع ہوگئے تھے کہ مجبوراً ان کو اس پہلو کو ترک کرنا پڑا.اوراب یہ لوگ خلافت کی بحث میں پڑتے ہی نہیں تا کہ لوگوں کو ان پرانے واقعات کی یاد تازہ نہ ہوجاوے.اور ان کی ناجائز تدابیر آنکھوں کے سامنے آکر ان سے بدظن نہ کردیں.غرض انہوں نے یہ کام شروع کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی باتیں تو مانتے مگر خلیفہ کا لفظ نہ آنے دیتے.بلکہ پریذیڈنٹ کا لفظ استعمال کرتے.مگر خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان کی پردہ دری کرے.

Page 211

ایک مکان کی فروختگی کا معاملہ حکیم فضل الدین صاحب ایک بہت مخلص احمدی تھے اور ابتدائی لوگوں میں سے تھے.انہوں نے اپنی جائیداد کی وصیّت بحق اشاعت اسلام کی تھی.اس جائیداد میں ایک مکان بھی تھا.انجمن نے اس مکان کو فروخت کرنا چاہا.یہ مکان حکیم صاحب نے جس شخص سے خریدا تھا.اس نے حضرت خلیفۃ المسیح سے درخواست بعض مشکلات کی وجہ سے بہت سستا ہم نے دے دیا تھا.پس اب کچھ رعایت سے یہ مکان ہم ہی کو دے دیا جاوے.حضرت خلیفۃ المسیح نے اس بات کو مان لیا.انجمن کو لکھا کہ اس مکان کو رعایت سے اس کے پاس فروخت کردو.ان لوگوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا.خیال کیا کہ جماعت کو جب معلوم ہوگاکہ جماعت کی ایک مملوکہ شئے کو حضرت خلیفۃ المسیح سستے داموں دلواتے ہیں.تو سب لوگ ہم سے مل جاویں گے.اوراس امر سے انکار کردیا.حضرت خلیفۃ المسیح سے بہت کچھ گفتگو اوربحث کی اور کہا کہ یہ لوگ بھی نیلام میں خرید لیں.انجمن کیوں نقصان اُٹھائے.حضرت خلیفۃالمسیح نے بہترا ان کو سمجھایا کہ ان لوگوں نے مشکلات کے وقت بہت ہی سستے داموں پر یہ مکان دے دیا تھا.پس ان کا حق ہے کہ ان سے کچھ رعایت کی جاوے.مگر انہوں نے تسلیم کیا.آخر آپ نے ناراض ہوکر لکھ دیا کہ میری طرف سے اجازت ہے.آپ جس طرح چاہیں کریں.میں دخل نہیں دیتا.جب انجمن کا اجلاس ہوا مَیں بھی موجود تھا.ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب.حال سیکرٹری انجمن اشاعت اسلام لاہور نے میرے سامنے اس معاملہ کو اس طرح پیش کیا کہ ہم لوگ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہیں اور ٹرسٹی ہیں.اس معاملہ میں کیا کرنا چاہئے.کہ کچھ رعایت کریں.ڈاکٹر صاحب نے اس پر کہا کہ حضرت نے اجازت دے دی ہے.جب خط سنایا گیا تو مجھے اس سے صاف ناراضگی کے آثار معلوم ہوئے اور مَیں نے کہا یہ خط تو ناراضگی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اجازت پر اس لئے میری رائے تو وہی ہے.اس پر ڈاکٹر صاحب موصوف نے ایک لمبی تقریر کی.جس میں خشیۃاللہ اورتقویٰ اللہ کی مجھے تاکید کرتے رہے مَیں نے ان کو بار بار یہی جواب دیا کہ آپ جو چاہیں کریں.میرے نزدیک یہی رائے درست ہے چونکہ ان لوگوں کی کثرت رائے تھی.بلکہ اس وقت مَیںا کیلا تھا.انہوں نے اپنے مشاء کے مطابق ریزولیوشن پاس کردیا حضرت خلیفۃ المسیح کو اطلاع ہوئی.آپ نے ان کو بلایا اور دریافت کیا.انہوں نے جواب دیا کہ سب کے مشورہ سے یہ کام ہوا ہےاور میرا نام لیا کہ وہ بھی وہاں موجود تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے مجھے

Page 212

طلب فرمایا.مَیں گیا تو یہ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے میرے پہنچتے ہی آپ نے فرمایا کہ کیوں میاں ہمارے صریح حکموں کی اس طرح خلافت ورزی کی جاتی ہے.مَیں نے عرض کیا کہ مَیں نے تو کوئی خلاف ورزی نہیں کی.آپ نے فرمایا کہ فلاں معاملہ میں مَیں نے یوں حکم دیا تھا.پھر اس کے خلاف آپ نے کیوں کیا؟ مَیں نے بتایا کہ یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں.مَیں نے ان کو صاف طور پر کہا دیا تھا کہ اس امر میں حضرت خلیفۃ المسیح کی مرضی نہیں.اس لئےاس طرح نہیں کرنا چاہئے اورآپ کی تحریر سے اجازت نہیں بلکہ ناراضگی ظاہر ہوتی ہے.آپ نے اس پر ان لوگوں سے کہا کہ دیکھو تم اس کو بچہ کہا کرتے ہو یہ بچہ میرے خط کو سمجھ گیا اور تم لوگ اس کو نہ سمجھ سکے.اوربہت کچھ تنبیہ کی کہ اطاعت میں ہی برکت ہے اپنے رویہ کو بدلو.ورنہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے محروم ہوجاؤگے.دوبارہ معافی اس وقت تو یہ لوگ افسوس کا اظہار کرتے رہے.مگر اسی دن سے برابر کوشش شروع ہوگئی کہ لوگوں کو حضرت خلفیۃ المسیح پر بد ظن کیا جاوے کبھی کوئی الزام دیا جاتا کبھی کوئی اور علی الاعلان لاہور میں یہ ذکر اذکار رہتے کہ اب جس طرح ہو ان کو خلافت سے علیحدہ کردیا جاوے ان واقعات کی اظلاع حضرت خلیفۃ المسیح کو ہوئی.عید قریب تھی آپ نے عید پر ان لوگوں کو لاہو ر سے بلوایا (خواجہ صاحب اس واقعہ میں شامل نہ تھے وہ اس وقت کشمیر میں تھے اور جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں.وہ اب خفیہ تدبیروں کو پسند کرتے تھے) اور ارادہ کیا کہ عید کے خطبہ میں ان لوگوں کو جماعت سے نکالنے کا اعلان کردیا جاوے.چونکہ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ہماری کوششیں بے سود ہیں اور لوگ ہماری باتوں کو نہیں سنتے آخر دوبارہ معافی مانگی.اوران میں سے بعض سے دوبارہ بیعت لی گئی اور اس طرح یہ نیا فتنہ ٹلا مگر اس واعہ سے بھی ان کی اصلاح نہ ہوئی.یہ لوگ اپنی کوششوں میں زیادہ ہوشیار ہوگئے.خواجہ صاحب کی شہرت حاصل کرنا اب خواجہ صاحب نے پبلک لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا کہ اس ذریعہ سے رسوخ پیدا کیا جاوے خود لیکچر دیتے خود ہی اپنے ہاتھ سےاپنے لیکچر کی تعریف لکھ کر سلسلہ کےاخبارات کو بھیج دیتے اور نیچے یکے از حاضرین لکھ دیتے.اور اس طرح شہرت پیدا کرتے.حضرت مسیح موعود ؑنے جو خزانہ ہمیں دیا ہے.وہ ایسا نہیں کہ لوگ اس کا ایک نکتہ بھی سنیں اوربے تاب نہ ہوجاویں.کچھ لسّانی بھی خواجہ صاحب میں تھی.ادھر اپنے ہی ہاتھ سے لکھ کر یا بعض دفعہ کسی دوست سے لکھوا کر اپنی تعریفوں کے شائع کرنے کا

Page 213

سلسلہ شروع کیا گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ خواجہ صاحب کی مانگ شروع ہوئی اور لیکچروں کا سلسلہ وسیع ہوا.جہاں جہاں جاتے جماعت کو اشارتاًکہنا یتاً موقع ہو تو وضاحتاً خلافت اورا نجمن کے معاملہ کے متعلق بھی تلقین کرتے اوربوجہ اس شہرت کےجو بحیثیت لیکچرار کے ان کو حاصل ہوگئی تھی کچھ اثر بھی ہوجاتا.خواجہ صاحب کا غیر احمدیوں کے قریب ہونا یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب انسان ایک غلط قدم اٹھاتا ہے تو دوسرا خود بخود اُٹھتا ہے.لیکچروں کے سلسلہ کی وسعت کےساتھ خواجہ صاحب کے تعلقات غیر احمدیوں سے بھی زیادہ ہونے لگے.وہ پہلے ہی سے سلسلہ کی حقیقت سے ناواقف تھے اب جو یہ مشکلات پیش آنے لگیں کہ بعض دفعہ جلسہ کے معاً بعد یا پہلے نماز کا وقت آجاتا اور غیر احمدی الگ نماز پرھتے اور احمدی الگ.اور لوگ پوچھتے کہ یہ تفریق کیوں ہے؟ تو خواجہ صاحب کو ایک طرف اپنی ہر دلعزیزی کے جانے کا خوف ہوتا دوسری طرف احمدیوں کے مخالف کاڈر.اس کشمکش میں وہ کئی طریق اختیار کرتے.کبھی کہتے کہ یہ نمازکی مخالفت تو عام احمدیوں کے لئے ہے کہ دوسروں سے مل کر متأثر نہ ہوں.میرے جیسے پختہ ایمان آدمی کے لئے نہیں مَیں تو آپ لوگوں کےپیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوں.کہیں جواب دیتے کہ ہم تو ایک امام کے تابع ہیں آپ لوگ ان سے دریافت کریں.کہیں کہہ دیتے کہ اگر آپ لوگ کفر کا فتویٰ واپس لے لیں تو ہم نماز پیچھے پڑھنے کے لئے تیار ہیں.غرض اسی قسم کےکئی عُذرات کرتے.درحقیقت عبدالحکیم کے ارتداد کے وقت سے ہی ان کے خیالات خراب ہوچکے تھے.مگر اب ان کے نشو ونما پانے کا وقت آگیا تھا.خَواجہ صاحب شہرت و عزت کے طالب تھے.اور یہ روکیں ان کی شہرت وعزت کے راستہ میں حائل تھیں.اور جو کچھ بھی ہو.ان روکوں کے دورکرنے کا خواجہ صاحب نے تہیہ کرلیا تھا.سب سے پہلے یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ پیسہ اخبار اور وطن اخبار میں مرزا یعقوب بیگ سے ایک مضمون دلوایا گیا کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنےکی ممانعت ایک عارضی حکم ہے.اوراس طرح اس امر کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی گئی کہ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کردی جاوے.اس تحریر پر جماعت کے بعض لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اب بات حد سے آگے نکل رہی ہے ابھی وہ اسی فکر میں تھے کہ احمدیوں کی ان حرکات سے دلر ہوکر غیر احمدیوں نے بھی حملے کرنے شروع کردئیے اوراحمدیوں کو تنگ ظرف اور وسعت حوصلہ سے کام نہ لینے والا قرار دینے لگے.

Page 214

ان ہی ایّام میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے سوال کیا گیا کہ کیا احمدیوں اور غیر احمدیوں میں اُصولی فرق ہے یا فروعی؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اصولی فرق ہے.اس پر تو اندھیر پڑگیا نہایت سختی سے غیر احمدی اخبارات نے حضرت خلیفۃ المسیح پر حملے شروع کردئیے.کہ ایک معمولی سی بات پر انہوں نے مسلمانوں میں اختلاف ڈلوادیاہے.تبلیغ احمدیت کا سوال اس بحث کے ساتھ ساتھ جو احمدیوں اور غیر احمدیوں میں تھی.ایک سوال خود جماعت میں بھی چِھڑا ہوا تھا.اور وہ سوال تبلیغ احمدیت کا تھا.خواجہ صاحب نے جب سے لیکچر دینے شروع کئے سوائے پہلے لیکچر کے.آپ نے یہ بات خاص طور پر مدِّ نظر رکھی تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑکا ذکر نہ آوے.حالانکہ اس وقت سب امراض کا علاج اللہ تعالی نے مسیح موعودؑ کی غلامی کو قرار دیا ہے.بلکہ وہ کوشش کرتے تھے کہ اگر کسی موقع پر سلسلہ مضمون میں حضرت مسیح موعود ؑ کا ذکر ضروری ہوجاوے.تو وہ اسے بھی ٹلا جاویں.وہ یہ بات سمجھ چکے تھے کہ غیر احمدیوں کو اگر عداوت ہے تو صرف ما ٔمورمن اللہ سے.وہ بھی ایسے لیکچروں میں خوب آتے اوربہت شوق سے آتے اورہزاروں کا مجمع ہوجاتا.جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں.خواجہ صاحب ان لیکچروں کو مقبول بنانے کےلئے خاص تدابیر بھی اختیار کرتے.نتیجہ یہ ہوا کہ خواجہ صاحب کے لیکچر خوب مقبول ہونے لگے اور غیر احمدیوں نے بھی تعریفیں شروع کیں اور خواجہ صاحب کی چاروں طرف سے مانگ ہونے لگی احمدیوں نے جو یہ شوق لوگوں کا دیکھا تو اصل بات کو تو سمجھے نہیں،خواجہ صاحب کی اس کامیابی کو سلسلہ کی کامیابی سمجھا اورخاص طور پر جلسہ کرنے شروع کئے اور خیال کرنے لگے کہ اسی طرح غیر احمدیوں کو سلسلہ سے اُنس ہوتے ہوتے لوگ داخلِ سلسلہ ہونے لگیںگے.یہ وباء کچھ ایسی پھیلی کہ ہمارے سلسلہ کے دوسرے لیکچراروں نے بھی یہی طریق اختیار کرنا شروع کردیا.اور قریب ہوگیا کہ وہ قرنا جو خدا تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کےذریعہ سے پھونکی تھی.اس کی آواز ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے.یہ وقت احمدیت کے لئے نہایت خطرناک تھا.بعض احمدی لیکچرار مسیح موعود ؑکا ذکر کھُلے طور پر کرنے سے ہچکچانے لگے اور جب کوئی سوال بھی کرتا تو ایسے رنگ میں جواب دیا جاتا کہ جس سے مضمون کی پوری طرح تشریح نہ ہوتی تھی.یہ بات مداہنت کے طور پر نہ تھی نہ منافقت کے باعث بلکہ یہ لوگ خواجہ صاحب

Page 215

کی اتّباع میں یہ خیال کرتے تھے کہ اس طرح سلسلہ کی اشاعت میں زیادہ آسانیاں پیدا ہوں گی.جو واعظ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرتے بھی تھے تو وہ بھی ایسے پیرایہ میں کہ جو مضامین غیر احمدیوں کو اشتعال دلانے والے ہیں ان کا ذکر بیج میں نہ آوے.مگر سب کی سب جماعت اس خیال کی نہ تھی.ایک حصہ ایسا بھی تھا.جو خواجہ صاحب کے طریق عمل کو خوب سمجھتا تھا اور اس کی طرف سے خواجہ صاحب پر سوال ہونا شروع ہوا کہ وہ کیوں اپنے لیکچروں میں کبھی بھی سلسلہ کا ذکر کرتے.اس کا جواب خواجہ صاحب ہمیشہ عبدالحکیم مُرتد کے ہم نواہو کر یہی دیا کرتے تھے کہ پہلے بڑے بڑے مسائل طے ہوجاویں.پھر یہ مسائل آپ حل ہو جاویں گے.جب یہ لوگ ہمیں خدمتِ اسلام کرتے دیکھیں گے.کیا ان کے دل میں یہ خیال نہ پیدا ہوگا کہ یہی لوگ حق پر ہیں.مَیں تو سڑک صاف کر رہا ہوں جنگل کے درخت کاٹ رہا ہوں ٹیلوں کو برابر کر رہا ہوں.جب سٹرک تیا ہوجاوے گی.جنگل کٹ جاوے گا.زمین صاف ہوجاوے گی پھر وقت آوے گا کہ ریل چلائی جاوے.کھیتی کی جاوے.باغ لگایا جاوے.مگر جب سوال کیاجاتا کہ اگر پہلے جنگل کے کاٹنے کی ضرورت تھی اورسڑکوں کی تیار ی کا وقت تھا.تو خدا تعالیٰ نے کیوں اس وقت مسیح موعودؑ کو بھیج کر دُنیا کو فتنہ میں ڈال دیا.ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ہر ایک لیکچر میں صرف یہی ذکر کریں لیکن بحصہ رسدی اس ضروری صداقت کا بھی تو اطہار ہونا چاہئے.اس کا جواب نہ خواجہ صاحب دے سکتے تھے نہ دیتے تھے.وہ اس پر یہی کہہ دیا کرتے کہ مَیں کسی کو کب منع کرتا ہوں.میں راستہ صاف کرتا ہوں کوئی اور شخص ان اُمور پر لیکچر دیتا پھرے ۲۷؍مارچ۱۹۱۰ءکا لیکچر چنانچہ ان واقعات کو دیکھ کر مجھے ۲۷؍مارچ ۱۹۱۰؁ء کو ایک لیکچر دینا پڑا.جس میں مَیں نے اس طریق کی غلطی سے جماعت کو آگاہ کیا.جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے ایک حصہ میں ہوشیار پیدا ہوگئی اور وہ اپنی غلطی کو سمجھ گیا مگر پھر بھی میرا وہ لیکچر اس رَو کو نہ دبا سکا.جو زور سے بہہ رہی تھی اور مسئلہ کفر واسلام غیر احمدیان کے ساتھ مل کر وہ برابر ترقی کرتی چلی گئی.غیر احمدیوں کی تکفیر کا مضمون جب حالات یہاں تک پہنچ گئے اورایک طرف اپنی جماعت کا ایک حصہ غلط طریق پر چل پڑااور دوسری طرف غیر احمدیوں نے بعض احمدیوں کے رویہ سے شہ پکڑ کر ہم پر حملہ شروع کردیا تو مَیں نے غیر احمدیوں کی تکفیر پر مبسوط مضمون لکھا.جو حضرت خلیفۃ المسیح کی اصلاح کے بعد تشحیذ الاذہان کے اپریل ۱۹۱۱؁ء صفحہ ۱۲۳ تا صفحہ ۱۵۸ کے پرچہ میں شائع کیا گیا یہ مضمون اس وقت کے حالات کے ماتحت جماعت کو ایک کونے سے دوسرے کونے

Page 216

تک بلا دینے والا ثابت ہوا.اورخدا تعالیٰ کے فضل سے سوائے ایک قلیل گروہ کے باقی سب جماعت نے اس بات کو دل سے قبول کرلیا کہ واقع میں اگر وہ اس سحر کے اثر کے نیچے رہتے.جو ان پر کیا گیا تھا تو وہ ضرور کسی وقت صداقت کو بھول جاتے اور بہتوں نے اس پر شکر و اطمینان کا اظہار کیا.اورجماعت میں ایک نئی رُوح اور تازہ جوش پیدا ہوگیا.اورہر ایک احمدی سوائے ایک قلیل تعداد کے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے آمادہ ہوگیا.خواجہ صاحب کا مضمون چونکہ یہ سب کوشش خواجہ صاحب اوران کے رفقاء کی تحریک پر ہورہی تھی جب میرا یہ مضمون شائع ہوا تو خواجہ صاحب کو فکر ہوئی اورانہوں نے ایک مضمون لکھا جس میں میرے مضمون کے معنے بگاڑکر اس طرح کئے گئے.جو بالکل اصل مضمون کے اُلٹ تھے اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے خود میرے سامنے بیان فرمایا کہ آپ سے یہ کہہ کر دستخط کروائے گئے کہ خواجہ صاحب کا وہی عقیدہ ہے جو میرا ہے.صرف خواجہ صاحب نے ایسے الفاظ میں میرے مضمون کی تشریح کی ہے جو لوگوں کے لئےاشتعال دلانے کاباعث نہ ہو.مولوی محمد علی صاحب کے خیالات کی قلبِ ماہیبت کا وقت جہاں تک میرا خیال ہے.یہی وہ وقت ہے جبکہ مولوی محمد علی صاحب کے خیالات کی قلب ماہیت ہوئی.کیونکہ ان کے پہلے مضامین سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتے تھے اس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ اگر کفر واسلام غیر احمدیان کی بحث میں خواجہ صاحب ناکامیاب ہوتے تو مولوی صاحب کی امیدوں کو سخت صدمہ پہنچتا تھا.کیونکہ بوجہ اس قبولیت کے جو لیکچروں کی وجہ سے خواجہ صاحب کو حاصل ہوچکی تھی.مولوی محمد علی صاحب کھڑےتھے.جماعت پر ان کا خاص اثر تھا اورلوگ ان کی باتیں سُنتے اور قبول کرنے کے لئے تیار تھے اور مولوی صاحب اوران کے رفقاء اسی رسوخ سے کام لے کر اپنے ارادوں کے پورا کرنے کی اُمید میں تھے.پس اسی مجبوری نے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے خیالات پر اثر کیا اورآپ انہی دنوں میں کھلے طور پر خواجہ صاحب کے ہمخیال ہوگئے اوراب گویا جماعت عقیدتاً ا ور سیاستاً ایک ہوگئی ہے.ورنہ اس سے پہلے خود مولوی محمد علی صاحب خواجہ صاحب کی طرزِ تبلیغ کے مخالف تھے اور مارچ ۱۹۱۰ء ؁یا دسمبر ۱۹۱۰ءکی کانفرنس

Page 217

احمدیہ کے موقعہ پر انہوں نے ایک بحث کے دوران جو احمدیہ جماعت کے جلسوں کی ضرورت یا عدم ضرورت پر تھی.بڑی سختی سے خواجہ صاحب پر حملہ کیاتھا.پس یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۱۰؁ء یا گیارہ عیسوی میں مذکورہ حالات کے اثر کے نیچے مولوی محمد علی صاحب کے خیالات میں تغیّر پیدا ہوا ہے.مولوی محمد علی صاحب کو خاص وقعت دینے کی کوشش جبکہ خواجہ صاحب کی خاص کوششیں سلسلہ احمدیہ کے اُصول کو بدلنے کے متعلق جاری تھیں.اور وہ اپنے اغراض کو پورا کرنے کے لئے ہر طرح سعی کررہے تھے اور جماعت کو اس کے مرکز سے ہتا دینے اور غیر احمدیوں میں ملادینے سے بھی وہ نہ ڈرتے تھے.جماعت کے سیاسی انتظام کے بدلنے کی فکر بھی ان لوگوں کےذہن سے نکل نہیں گئی تھی.اس امر کے لئے دو طرح کوشش کی جاتی تھی ایک تو اس طرح کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے تمام احکام کو ہدایات پریڈیڈنٹ کے رنگ میں ظاہر کیا جاتا تھا.جیسا کہ مَیں پہلے بیان کرچکا ہو اور دوسرے اس طرح کہ مولوی محمد علی صاحب کو خلیفہ کی حیثیت دی جائے تا کہ جماعت پر ان کا خاص اثر ہوجاوے.اور دوسرے لوگوں کی نظر یں بھی ان کی طرف اُٹھنے لگیں.چنانچہ انجمن کے اجلاسات میں صاف طور پر کہاجاتا تھا کہ جو کچھ مولوی صاحب حکم دیں گے وہی ہم کریں گے.اورایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے صاف طور پر یہ الفاظ کہے کہ ہمارفے تو یہ امیر ہیں.بیان کیاجاتا ہے کہ ۱۹۱۱ء؁میں مذہبی کانفرنس کے موقع پر جب مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب اپنے مضامینسنانے کے لئے گئے تو لوگوں کے دریافت کرنے پر خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو اپنا پِیریا لیڈر بیان کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی زندگی میں ہی یہ بات عام طور پر بیان ہوتی چلی آئی ہے.مگر خواجہ صاحب نے کبھی اس کی تردید نہیں کی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درست ہی ہے.اسی طرح اورسب معاملات میں مولوی محمد علی صاحب کو اسی طرح آگے کرنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ لوگوں کی نظریں حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے ہٹ کر انہی کی طرف متوجہ ہوجاویں.بے جا کو ششوں کا اکارت جانا مگر یہ دونوں کوشیشیں ان کی بیکار گئیں.پہلی کوشش تو اس طرح کہ ۱۹۱۰ء؁ میں حضرت خلیفۃ المسیح نے صدرانجمن احمدیہ کو لکھ دیا کہ مَیں چونکہ خلیفہ ہوں.ممبر انجمن اورصدرانجمن نہیں رہ سکتا.میری جگہ مرزا محمود احمد کو پریڈیڈنٹ مقرر کیاجاوے.اس طرح اس تدبیر کا تو خاتمہ ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح انجمن سے علیحدہ ہوگئے اورآپ کی جگہ میں صدر ہوگیا اوراب یہ ظاہر کرنے کا موقع نہ رہا کہ خلیفہ کی

Page 218

اطاعت بوجہ خلافت نہیں کی جاتی بلکہ بوجہ پریذیڈنٹ انجمن ہونیکےاسکی رائےکا احترام کیا جاتا ہے.دوسری تدبیر خود اپنے ہی ہاتھوں سے اکارت چلی گئی.جونہی خواجہ صاحب کو کچھ شہرت حاصل ہوئی.وہ اپنے وجود کو آگے لگے اورلوگوں کی توجہ بھی ان کی طرف ہی پھر گئی اورمولوی صاحب خود ہی پیچھے ہٹ گئے.اوران کی رائےکا وہ اثر نہ رہا جو پہلے تھا.حضرت خلیفۃ المسیح کا ۱۹۱۰ءمیں بیمار ہونا ۱۹۱۰؁ ء کے آخری مہینوں میں حضرت خلیفۃ المسیح گھوڑے سے گِر گئے اور کچھ دن آپ کی حالت بہت نازک ہوگئی.حتّٰی کہ آپ نے مرزا یعقوب بیگ صاحب سے جو اس وقت آپ کے معالج تھے دریافت کیا کہ مَیں موت سے نہیں گھبراتا آپ بے دھڑک طبی طور پربتا دیں کہ اگر میری حالت نازک ہے تو مَیں کچھ ہدایات وغیرہ لکھوا دوں.مگر چونکہ یہ لوگ حضرت مولوی صاحب کا ہدایات لکھوانااپنے لئے مضر سمجھتے تھے.آپ کو کہا گیا کہ حالت خراب نہیں ہے.اوراگر ایسا وقت ہوا تو وہ خود بتادیں گے مگر وہاں سے نکلتے ہی ایک مشورہ کیا گیا اور دوپہر کے وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے کہ ایک مشورہ کرنا ہے آپ ذرا مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر تشریف لے چلیں.میرے نانا صاحب جناب میر ناصر نواب صاحب کو بھی وہاں بلوایا گیا تھا.جب مَیں وہاں پہنچا تو مولوی محمد علی صاحب ،خواجہ صاحب ،مولوی صدر الدین صٓحب اورایک یا دو آدمی وہاں پہلے سے موجود تھے.خواجہ صاحب نےذکر شروع کیا کہ آپ کو اس لئے بلوایا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بہت بیمار اور کمزور ہے.ہم لوگ یہاں ٹھہر تو سکتے نہیں لاہور واپس جان ہمارے لئے ضروری ہے.پس اس وقت دوپہر کو جو آپ کو تکلیف دی ہے تو اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ کوئی ایسی بات طے ہوجاوے کہ فتنہ نہ ہو.اور ہم لوگ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو خلافت کی خواہش نہیں ہے.کم سے کم مَیں اپنی ذات کی سنبت تو کہہ سکتا ہوں کہ مجھے خلافت کی خواہش نہیں ہے.اورمولوی محمد علی صاحب بھی آپ کو یہی یقین دلاتے ہیں.اس پر مولوی محمد علی صاحب بولے کہ مجھے بھی ہرگز خواہش نہیں.اس کے بعد خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم بھی آپ کے سوا خلافت کے قابل کسی کو نہیں دیکھتے اور ہم نے اس امر کا فیصلہ کرلیا ہے.لیکن آپ ایک بات کریں کہ خلافت کا فیصلہ اس وقت تک نہ ہونے دیں.جب تک کہ ہم لاہور سے نہ آجاویں.ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص جلد بازی کرے اورپیچھے فساد ہو.ہمارا انتظار ضرور کرلیا جائے.میر صاحب نے تو انکو

Page 219

یہ جواب دیا کہ ہاں جماعت میں فساد کے مٹانے کے لئے کوئی تجویز ضروری کرنی چاہئیے.مگر مَیں نے اس وقت کی ذمہ داری کو محسوس کرلیا اورصحابہؓ کا طریق میری نظروں کےسامنے آگیا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق تجویز خواہ وہ اس کی وفات کے بعد کے لئے ہی کیوں نہ ہونا جائز ہے.پس مَیں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں اس کے جانشین کے متعلق تعیین کردینی اور فیصلہ کردینا کہ اس کے بعد فلاں شخص خلیفہ ہوگناہ ہے.مَیں تو اس امر میں کلام کرنے کو ہی گناہ سمجھتا ہوں.جیسا کہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے.خواجہ صاحب کی اس تقریر میں بعض باتیں خاص توجہ کے قابل تھیں.اوّل تو یہ کہ اس سے ایک گھنٹہ پہلے تو انہی لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح سے کہا تھا کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں وصیّت کی ضرورت نہیں.اوروہاں سے اُٹھتے ہی آئندہ کا انتظام سوچنا شروع کردیا.دوسری بات یہ کہ ان کی تقریر سےصاف طور پر اس طرف اشارہ نکلتا تھا کہ ان کو تو خلافت کی خواہش نہیں لیکن مجھے ہے.مگر مَیں نےاس وقت ان بحثوں میں پڑنے کی ضرورت نہ سمجھی.کیونکہ ایک دینی سوال درپیش تھااوراس کی نگہداشت سب سے زیادہ ضروری تھی.مولوی محمد علی صاحب اورخواجہ صاحب کی خلیفہ ہونے کی خواہش جیسا کہ بعد کے واقعات نےثابت کردیا ہے.مولوی محمد علی صاحب اورخواجہ صاحب کی یہ بات کہ ہم خلافت کے خواہشمند نہیں ہیں اس کاصرف یہ مطلب تھا کہ لفظ خلافت کےخواہشمند نہیں ہیں کیونکہ ان لوگوں نے خلافت کی جگہ ایک نئی قسم کا عہدہ پریذیڈنٹ یا امری جماعت کا وضع کرلیا ہے.جو عملاً خلیفہ کا مترادف سمجھا جاتا ہے اورجس کے مدعی اس وقت مولوی محمد علی صاحب ہیں اور خواجہ صاحب تو اب اپنے آپ کو خلیفۃ المسیح لکھتے ہیں.گوان کو خلافت کی کوئی بات بھی میسر نہیں اورشاید یہ خطاب جو ان کے دوستوں نے ان کو دیا ہے.اورانہوں نے بھی اپنے لئے پسند کرلیا ہے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر ہے تاکہ دُنیا دیکھ لے کہ وہ خلافت کے اس قدرشائق تھے کہ خلیفۃ المسیح ہونا تو الگ رہا اگر خلافت نہ ملے تو خالی نام ہی سے وہ اپنا دل خوش کرتے ہیں.فریب دہی اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تجویز جو خواجہ صاحب اوران کے رفقاء نے میرے سامنے پیش کی درحقیقت ایک فریب تھا اورگو اس وقت اس امر کا خیال نہیں ہوسکتا.مگر اب معلوم ہوتا تھاکہ انہوں نے اپنے خیال میں مجھے

Page 220

خلافت کا شائق سمجھ کر یہ چال چلی تھی کہ اس طرح مطمئن کردیں اور خود موقع پر پہنچ کر اپنے منشاء کے مطابق کوئی تجویز کریں.ورنہ اگر وہ میری خلافت پر متفق تھے تو اس بات کے کیا معنے ہوئے کہ ان کا انتظار کیاجاوے ورنہ فتنہ ہوگا.جب ان کے نزدیک بھی مجھے ہی خلیفہ ہونا چاہئے تھا تو ان کی عدم موجوگی میں بھی اگر یہ کام ہوجاتا تو فتنہ کا باعث کیوں ہوتا.انصار اللہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی مریض کے مرض روحانی میں بڑھنے کیلئے بھی سامان پیدا ہوتے رہتے ہیں.اسی طرح ان لوگوں کےساتھ ہوا.فروری ۱۹۱۱ء؁ میں مَیں نے ایک رؤیا دیکھی کہ :- ’’ایک بڑا محل ہے اوراس کا ایک حصہ گرا رہے ہیں اوراس محل کے پاس ایک میدان ہے اور اس میں ہزاروں آدمی پتھیروں کا کام کررہے ہیں اوربڑی سرعت سےا ینٹیں پاتھتے ہیں.مَیں نے پوچھا کہ یہ کیسا مکان ہے اوریہ کون لوگ ہیں اوراس مکان کو کیوں گرا رہے ہیں؟ تو ایک شخص نے جواب دیا کہ یہ جماعت احمدیہ ہے اوراس کا ایک حصہ اس لئے گرارہے ہیں تا پُرانی اینٹیں خارج کی جائیں (اللہ رحم کرے) اور بعض کچی.اینٹیں پکّی کی جائیں.اوریہ لوگ اینٹیں اس لئے پاتھتے ہیں تا اس مکان کو بڑھایاجائے اور وسیع کیاجائے.یہ ایک عجیب بات تھی کہ سب پتھروں کا منہ مشرق کی طرف تھا.اس وقت دل میں خیال گزرا کہ یہ پتھیرے فرشتے ہیں اور معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے بلکہ فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سےاِذن پاکر کام کررہے ہیں.‘‘(بدر ۲۳ ؍ فروری ۱۹۱۱ء؁ ) اس رؤیا سے تحریک پاکر مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت سے ایک انجمن بنائی.جس کے فرائض تبلیغ سلسلہ احمدیہ ،حضرت خلیفۃ المسیح کی فرمانبرداری ،تسبیح ،تحمید و درود کی کثرت ،قرآن کریم اور احادیث کا پڑھنا اورپڑھانا ،آپس میں محبت بڑھانا ،بد ظنی اورتفرقہ سے بچنا ،نماز باجماعت کی پابندی رکھنا تھے.ممبر ہونے کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ ساتھ دن متواتر استخارہ کے بعد کوئی شخص اس انجمن میں داخل ہوسکتا ہے.اس کے بغیر نہیں.اس انجمن کا اعلان ہونا تھا کہ اعتراضات کی بوجھاڑ ہونی شروع ہوگئی.اورصاف طور پر ظاہر کیاجانے لگا کہ اس انجمن کا قیام بغرض حصول خلافت ہے.مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس انجمن کے ممبروں میں سے ایک خاصی تعداد اس وقت ان لوگوں کے ساتھ ہے.اور وہ لوگ گواہی دے سکتے ہیں کہ اس انجمن کا کوئی تعلق تغیرات خلافت کے متعلق نہ

Page 221

تھا.بلکہ یہ انجمن تبلیغ کا کام کرتی تھی اور ان میں سے بعض نے لینے ان کے واعظ محمد حسین عرف مرہم عیسیٰ اور ماسٹر فقیر اللہ سپر نٹنڈنٹ دفتر سیکرٹری اشاعت اسلام لاہور نے یہ شہادت دی بھی ہے اس انجمن کے قریباً پونے دو سو ممبر ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں تبلیغ کا جوش نہ صرف اس کے ممبران میں ہی بلکہ دوسرے لوگوں میں بھی پیدا ہوگیا اور ایسے لوگ جو سست ہوگئےتھے چست ہوگئے اور جو پہلے سے ہی چست تھے وہ تو چست ہی تھے.خواجہ صاحب نے بھی اس خیال سے کہ دیکھوں اس انجمن میں کیا بھید ہے.اس میں داخل ہونا چاہا.لیکن سات دن کا استخارہ غالباً ان کے راستہ میں روک ہوا یا کوئی اور باعث ہوا جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے.طریق تبلیغ کے متعلق الٰہی اشارہ چونکہ انجمن انصاراللہ کا قیام تبلیغ سلسلہ احمدیہ کے لئے تھا اس لئے میں اس جگہ ضمناًیہ بھی ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس طرح خلافت کے مسئلہ کے متعلق مَیں نے اس وقت تک آگے آنے کی جرأت نہیں کہ جب تک کہ مجھے رئویا میں اس کے متعلق بتایا نہیں گیا.اسی طرح تبلیغ کے طریق کے متعلق بھی بغیر استخارہ اور دُعا اورا لٰہی اشارہ کے مَیں نے کچھ نہیں کیا.چنانچہ خواجہ صاحب کے طرزِ تبلیغ کو دیکھ کر جب جماعت میں اعتراضات ہونے شروع ہوئے تو مَیں نے اس وقت تک کوئی طریق اختیار نہیں کیا.جب تک کہ دُعا و استخارہ نہیں کرلیا.اس استخارہ کے بعد مجھے رئویا میں خواجہ صاحب کے متعلق دکھا یا گیا کہ وہ خشک روٹی کو کیک سمجھے ہوئے ہیں اور اسی کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.اس پر مَیں نے ان کے اس رویہ کی تردید شروع کی.ورنہ پہلے بالکل خاموش تھا.خلیفہ اوّل کی پردہ پوشی جیسا کہ مَیں پہلے لکھ چکا ہوں.اس وقت عام طور پر جماعت معاملات کو سمجھ گئی تھی.اوراحمدیوں نے سمجھ لیا تھا کہ خواجہ صاحب ہمیں کدھیر کو لئے جارہے ہیں اور اکثر حصہ جماعت کا اس بات پر تیار ہوگیا تھا کہ وہ اندرونی یا بیرونی دشمنوں کی کوششوں کا جو ان کو مرکز احمدیت سے ہٹانے کے لئے کی جارہی ہیں مقابلہ کرے.مگر چونکہ خواجہ صاحب اوران کے رفقاء نے خلافت کے متعلق یہ رویہ اختیار کرلیا تھا کہ بظاہر اس مسئلہ کی تائید کی جائے.اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں اکثر حاضر ہوکر ان سے اظہارِ عقیدت کی جاوے اس لئے جماعت کو ان کے حالات سے پوری طرح آگاہی نہ حاصل ہوسکی.ورنہ جس قدر آج کل ان کا اثر ہے وہ بھی نہ رہتا.حضرت خلیفۃ المسیح کو ان لوگوں نے یقین دلایا تھا کہ یہ لوگ خلافت کے قائل ہیں

Page 222

اور اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی جیسا رنگ حضرت خلیفۃ المسیح کا دیکھتے اسی طرح ہاں میں ہاں ملادیتے.جس سے اکثر آپ یہی خیال فرماتے کہ یہ لوگ نہایت خیر خواہ اور راسخ العقیدہ ہیں.اور ان کی پچھلی حرکات پر پردہ ڈالتے.اور اگر لوگ ان کی کاروائیاں یاد دلاتے تو آپ بعض دفعہ ناراض بھی ہوتے اور فرماتے کہ غلطیاں سب انسانوں سے ہوتی ہیں اگر ان سے ہوگئیں تو ان کے پیچھے کیوں پڑگئے ہو.اب یہ بالکل درست ہیں مگر حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے سارتھ ہی یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو یہ لوگ دھوکا دیتے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح نے اگر انکی کوئی تعریف کی ہے تو یہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتے.کیونکہ اس سے ان کی تعریف ثابت نہیں ہوتی.بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ آپ کےوقت میں منافقت سےکام کرتے تھے کیونکہ جن باتوں کی نسبت حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ یہ مانتے ہیں ان پر یہ الزم مت لگائو کہ یہ ان کو نہیں مانتے.آپ کی وفگات کے بعد انہوں نے اس سے انکار کردیا.یہ بھی یاد رکھنا چاہئےکہ بناوت بناوٹ ہی ہوتی ہے درمیان میں کبھی کبھی ان لوگوں کی حرکات سے حضرت خلیفۃ المسیح سمجھ بھی جاتے تھے کہ یہ لوگ دھوکا دے رہے ہیں.اور اس کا اظہار بھی فرماتے تھے.مگر پھر ان لوگوں کے معافی مانگ لینے پر خیال فرماتےتھے کہ شاید غلطی ہوگئی ہو اوردل سے ان لوگوں نے یہ حرکت نہ کی ہو.کیونکہ حسن ظنی آپ کی طبیعت میں بہت بڑھی ہوئی تھی اوررحم فطرت میں و دیعت تھا.غرض ایک عجیب سی حالت پیدا ہوگئی تھی.ایک طرف تو عام طور پر اپنے زہریلے خیالات پھیلانے کے باعث یہ لوگ جماعت کی نظروں سے گرتے جاتے تھے.دوسری طرف حضرت خلیفۃ المسیح سے خوف کرکے کہ آپ ان کے اخراج کا اعلان نہ کردیں یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح آپ کی زندگی میں جماعت میں ہی ملے رہیں.اس لئے آپ کے سامنے اپنے آپ کو نہایت مطیع ظاہر کرتے تھے.مگر کبھی کبھی اپنی اصلیت کی طرف بھی لوٹتے تھے اورایسی حرکات کردیتے جس سے آ پ کو آگاہی ہوجاتی.مگر پھر فوراً معافی مانگ کر اپنے آپ کو سزا سے بچا بھی لیتے.خواجہ صاحب کے طرزِ عمل کا جماعت پر اثر اس وقت جماعت میں تبلیغ احمدیت کے متعلق جو کمزوری پیدا ہوگئی تھی اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ یا تو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں یہ حال تھا کہ عبدالحکیم مُرتد حضرت مسیح موعودؑ کو لکھتا ہے کہ احمدی سوائے آپ کےذکر کے کچھ سُننا ہی پسند نہیں کرتے.ہر وعظ میں

Page 223

آپ کا ہی ذکر ہوتا ہے.اور یا یہ حال ہوگیا تھا کہ اپریل ۱۹۱۲؁ء میں جبکہ میں ایک وفد کے ساتھ مختلف مدارس عربیہ کو دیکھنے کے لئے اس نیت سے گیا کہ مدرسہ احمدیہ کے لئے کوئی مناسب سکیم تیار کی جاوے.تو لکھنؤ ،بنارس ،کانپور میں مجھے تقریر یں کرنے کا بھی اتفاق ہوا اورسب جگہ مَیں نے دیکھا کہ وہاں کی جماعتوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ سلسلہ کا کوئی ذکر نہ ہو.کیونکہ پھر لوگ سنیں گے نہیں یا سن کہ مخالفت کریں گے.مگر مَیں نے ان کو جواب دیا کہ مَیں اپنے لیکچروں کی تعریف کا خواہشمند نہیں.حق سنانے کا خواہشمند ہوں اگر لوگ نہ سنیں گے یا سنکر مخالفت کریں گے تو یہ ان کی مرضی ہے.مَیں تو خدا تعالیٰ کے حضور بری الذمہ ہوجائوں گا.لکھنؤ سے تو ایک صاحب نے جو اب میری بیعت میں شامل ہیں حضرت خلیفۃ المسیح کو لکھا کہ کاش! آپ اس وفد کے ساتھ کوئی تجربہ کار آدمی بھی بھیج دیتے.یہ لوگ اس رنگ میں تبلیغ کرتے ہیں کہ فساد کا خطرہ ہے.میاں صاحب نوجوان ہیں جوش میں وقت کو نہیں دیکھتے ایسا نہ ہو کہ کوئی خون ہوجائے اور ہم لوگ بدنام ہوں.اب بھی آپ فوراً ایک ایسے بزرگ کو جو ضرورت زمانہ کو سمجھنے بھیج دیجئے.جب مَیں واپس آیا تو حضرت خلیفۃ المسیح نے مجھے اس خط کے مضمون پر آگاہ کیا.اوراس خط پر سخت نفرت کا اظہار فرمایا.لکھنؤمیں دو لیکچروں کی تجویز تھی.ایک لیکچر کے بعد گو مخالفوں کی طرف سے بھی کچھ روک ہوئی.مگر اپنی جماعت نے بھی اس روک کو ایک عذر بنا کر مزید کوشش سے احتراز کیا.اوردوسرا لیکچر رہ گیا مگر ہم نے ملاقاتوں میں خوب کھول کھول کر تبلیغ کی.بنارس میں بھی اسی طرح ہوا.یہاں کی جماعت اس وقت اپنے آپ کو میری ہم خیال ظاہر کرتی تھی مگر اس کا بھی یہی اصرار تھا کہ لیکچر عام ہو.اوراس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ خواجہ صاحب کے لیکچر کامیاب ہوچکے ہیں ایسا نہ ہو یہ لیکچر کامیاب نہ ہوں تو ان کے مقابلہ میں سُبکی ہو.مگر مَیں نے نہ مانا.اورسلسلہ کے متعلق لیکچر دئیے.لوگ کم آتے.مگر مَیں نے اپنا فرض ادا کردیا.تعجب ہے کہ جبکہ لکھنؤ کی جماعت جو اس وقت میرے خیالات سے غیر متفق تھی حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر بیعت میں داخل ہوئی.جماعت بنارس بیعت سے باہر رہی.شاید یہ سزا تھی.اس دنیادرای کے خیالات کی جو ان کے اندر پائے جاتے تھے اورجن کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے.غرض جماعت کی حالت اس وقت عجیب ہورہی تھی.ایک طرف تو اس کے دل محسوس کررہے تھے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر اس طرح ترک کردیا گیا تو آہستہ آہستہ سلسلہ مفقود ہوجائے گا.دوسری طرف خواجہ صاحب کے طریق تبلیغ کے بعد ان کو یہ خوف تھا کہ لوگ سلسلہ کا

Page 224

ذکر سننے کیلئے شاید آویں گے ہی نہیں.اوراگر آویں گے تو اتنے کم کہ خواجہ صاحب اوران کے رفقاء کو یہ کہنے کاموقع مل جاوے گا کہ ہماراہی طرز تبلیغ درست ہے کہ جسکے باعث لوگ شوق سے سننے کیلئے آجاتے ہیں آکر ہوتے ہوتے تعلق کی زیادتی پر احمدی بھی ہوجاویں گے.پس وہ شش وپنج کی حالت میں تھے اور اس طریق کو ناپسند کرتے ہوئے اس طریق کی نقل کو اپنے کام کیلئے ضروری سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ اگر لوگوں پر یہ ثابت ہوجاوے کہ احمدیوں میں خواجہ صاحب سے زیادہ واقف اورلوگ بھی موجود ہیں تو خود بخود وہ ادھر متوجہ ہوجاویں گے اور اسوقت انکو اصل حال سے آگاہ کیاجاسکتا ہے.خواجہ صاحب کے طرز عمل کی غلطی پہلے خواجہ صاحب کی حقیقت کھولنے کیلئے ضروری ہے کہ ان ہی کے ایجاد کردہ طریق سے ان کا مقابلہ کیاجاوے.مگر یہ ان کا خیال غلط تھا.اگر وہ اس راستہ پر پڑھاتے تو ضرور کچھ مدت کے بعد اسی رنگ میں رنگین ہوجاتے.جس میں خواجہ صاحب رنگین ہوچکے تھے اور آخر احمدیت سے دُور جا پڑتےان کی نجات اسی میں تھی کہ پہلے کی طرح ہر موقع مناسب پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی کو پیش کرتے.اورلوگوں کے آنے یا نہ آنے کی پرواہ نہ کرتےاوریہ بھی ایک وہم تھا کہ لوگ سنیں گے نہیں.لوگ عموماً شخصیت کی وجہ سے آتے ہیںنہ مضمون لیکچر کے سبب سے.ایک مشہور شخص ایک معمولی سے معمولی امر کے متعلق لیکچر دینے کیلئے کھڑا ہوجاوے لو گ اسی پر اکھٹے ہوجاویں گے یہ اور بات ہے کہ پیچھے اس پر جرح قدح کریں.کانپور میں لیکچر مثلاً اسی سفر میں میرا لیکچر کانپور میں ہوا.چونکہ اشتہار میں کھول کر بتایا گیا تھا کہ لیکچر سلسلہ احمدیہ کے امتیازات پر ہوگا.خیال تھا کہ لوگ شاید سننے نہ آویں گے مگر لوگ بہت کثرت سے آئے اورجو جگہ تیار کی گئی تھی وہ بالکل بھر گئی اوربہت سے لوگ کھڑے رہے.ڈیڑھ ہزار یا اس سے بھی زیادہ کا مجمع ہوا.اورعموماً تعلیم یافتہ لوگ اوراحکام اور تاجر اس میں شامل ہوئے اوراڑھائی گھنٹہ تک نہایت شوق سے سب نے لیکچر سُنا اورجب مَیں بیٹھ گیا تو تب بھی لوگ نہ اُٹھے اورانہوں نے خیال کیا کہ شاید یہ سانس لینے کے لئے بیٹھے ہیں آخر اعلان کیا گیا کہ لیکچر ختم ہوچکا ہے.اب سب صاحبان تشریف لے جاویں تب لوگوں نے شور مچایا کہ ان کو کھڑا کیاجاوے کہ بہت سے لوگ مصافحہ کرنا چاہتے ہیں.اور میں نے دیکھا کہ وہ لوگ جو دن کے وقت ہمارے مُنہ پر ہمیں کافر کہہ کر گئے تھے بڑھ بڑھ کر علاوہ مصافحہ کرنے کے میرے ہاتےبھی چومتے تھے.

Page 225

لکھنؤ اوربنارس میں لوگوں کے کم آنے کی اور کانپور میں زیادہ آنے کی وجہ مَیں سمجھتا ہوں یہی تھی کہ لکھنؤ اوربنارس کے لوگ مجھ سے ناواقف تھے اورکانپور میں بوجہ پنجابی سوداگروں کی کثرت کے ہماری خاندانی وجاہت سےایک طبقہ آبادی کا واقف تھا.اس واقفیت کی وجہ سے وہ آگئے اورلیکچر سن کر حق نے ان کے دل پر اثر کیا اورپہلا لگاؤ اوربھی بڑھ گیا.خواجہ صاحب کا سفر ولایت غرض جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے.جماعت اس وقت عجیب قسم کے اضداد خیالات میں سے گزر رہی تھی.اور یہ حالت برابر ایک دوسال تک اسی طرح رہیں.یہاں تک کہ ۱۹۱۲؁ء آگیا.اس سال کو سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے.کیونکہ اس میں بعض ایسے تغیّرات نمودار ہوئے.کہ جنہوں نے آئندہ تاریخ سلسلہ پر ایک بہت بڑا اثر ڈالا ہے.اورجو میرے نزدیک اختلافات سلسلہ کی بنیاد رکھنے والا سال ثابت ہوا ہے.وہ واقعات یہ ہیں.کہ اس سال خواجہ صاحب کی بیوی فوت ہوگئی.خواجہ صاحب کو چونکہ اس سے بہت تعلق اور اُنس تھا.اس غم کوغلط کرنے کے لئے انہوں نے ہندوستان کا ایک لمبا دورہ کرنے کی تجویز کی.اوراس دورہ کی نسبت ظاہر کیا گیا کہ جماعت کے کاموں کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے ہے.یہ وفد مختلف علاقہ جات میں گیا اورآخر کئی شہروں کا دَورہ کرتے ہوئے بمبئی پہنچا.بمبئی میں ایک احمدی رئیس کے گھر پر یہ وفد ٹھہرا.ان صاحب کو ان دنوں کوئی کام ولایت میں درپیش تھا جس کے لئے وہ کسی معتبر آدمی کی تلاش میں تھے.انہوں نے خواجہ صاحب کو ایک بھاری رقم کے علاوہ کرایہ وغیرہ بھی دینے کا وعدہ کیا کہ وہ ولایت جاکر ان کے کام کے لئے سعی کریں.سفر ولایت جو دل بستگی ہندوستانیوں کے لئے رکھتا ہے اس نےخواجہ صاحب کو اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کی ترغیب دی اورانہوں نے اس تجویز کو غنیمت جانا اور فوراً ولایت جانے کی تجویز کردی.چنانچہ بدر اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ۵؍دسمبر ۱۹۱۲؁ء کے پرچہ میں لکھتا ہے:- ’’اس سفر میں خواجہ صاحب کے لئے خدا تعالیٰ نے کچھ ایسے اسباب مہیا کردئیے ہیں کہ وہ انگلینڈ تشریف لے جاتے ہیں.‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے جو نصائح خواجہ صاحب کو چلتے ہوئے کیں.ان میں بھی اس امر کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں:- (۵) ’’بقدر طاقت اپنی کے دین کی خدمت وہاں ضرور کرو.‘‘ (پیغام جلد اول نمبر صفحہ ۳) خواجہ صاحب چونکہ شہرت کے خواہش مند ہمیشہ سے چلے آئے ہیں.انہوں نے اس موقع کو غنیمت

Page 226

جان کر اصل معاملہ کو پوشیدہ رکھ کر یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ انہوں نے اس سفر ولایت میں تبلیغ کی خاص ضرورت محسوس کی ہے.اوراس کے لئے وہ اپنی چلتی ہوئی پریکٹس چھوڑ کر محض اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ولایت جاتے ہیں.اصل واقعات کا تو بہت کم لوگوں کو علم تھا.اس خبر کا مشہور ہونا تھا کہ چاروں طرف سے خواجہ صاحب کی اس قربانی پر صدائے تحسین و آفرین بلند ہونی شروع ہوگئی اوراپنی زندگی میں ہی ایک مذہبی شہید کی صدرت میں وہ دیکے جانے لگے.مگر صرف زبانی روایات پر ہی اکتفا نہ کرکے خواجہ صاحب نے اخبار زمیندار میں ایک اعلان کرایا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ مجھے کوئی سیٹھ یا انجمن یا کوئی غیر احمدی رئیس ولایت بھیج رہا ہے یہ بات بالکل غلط ہے.مَیں تو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنا کام چھوڑ کر جارہا ہوں.اس اعلان کے لافاظ میں یہ احتیاط کرلی گئی تھی کہ رئیس کے لفظ کے ساتھ غیر احمدی کا لفظ بڑھا دیا گیا تھا.اور اب بظاہر اعتراض سے بچنے کی گنجائش رکھ لی گئی تھی.کیونکہ ان کو بھیجنے والا نہ سیٹھ تھا نہ انجمن نہ غیر احمدی رئیس.بلکہ ایک احمدی رئیس نے انکو بھجوایا تھا.مگر خواجہ صاحب کا یہ منشاء نہ تھا کہ لوگوں کا ذہن ایک احمدی رئیس کی طرف پھر سے.بلکہ اپنی پریکٹس کو چھوڑ کر خدا کا نام پھیلانے کے لئے اورشرک کو مٹانے کے لئے اپنے خرچ پر ولایت جارہے ہیں ؎ ترسم کہ نمے رسی بکعبہ اے اعرابی ایں راہ کہ تُو میروی بترکستان است کہا جاتا ہے کہ بھیجنے والے صاحب یہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی کو معلوم ہو کہ وہ خواجہ صاحب کو بھیج رہے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ چاہتے تھے کہ جھوٹ طور پر یہ بھی مشہور کیاجاوے کہ خواجہ صاحب اپنی پریکٹس کو چھوڑ کر اپنے خرچ پر صرف تبلیغ کے لئے ولایت جارہے ہیں.اگر خواجہ صاحب بغیر کسی ایسے اعلان کے ولایت چلے جاتے تو کیا لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ خواجہ صاحب فلاں شخص کے بھیجے ہوئے جارہے ہیں.غیر احمدی سب کے سب اور احمدی اکثر اس واقعہ سے ناواقف تھے اور جو واقف تھے وہ اس اعلان سے دھوکا کھا نہیں سکتے تھے.پھر اس اعلان کے سوائے جھوٹے فخر کے اور کی امد نظر تھا.یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْ بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا (اٰل عمران :۱۸۹) غرض خواجہ صاحب ولایت روانہ ہوگئے اورپیچھے ان کے دوستوں نے بڑے زور سے اس امر کی اشاعت شروع کی کہ خواجہ صاحب اپنا کام تباہ کرکے صرف تبلیغ دین کے لئے ولایت چلے

Page 227

گئے ہیں.ان کی مدد مسلمانوں پر فرض ہے.سوسال کا خرچ تو خواجہ صاحب کے پاس تھا ہی.اسی عرصہ کے بعد اگر وہاں زیادہ ٹھہرنے کا منشاء ہو تو اس کے لئے ابھی سے کوشش کردی گئی.خواجہ صاحب کے ولایت جانے کا اثر خواجہ صاحب کے اس طرح ولایت جانے پر وہ جوش جو خواجہ صاحب کے خلاف جماعت میں پھیل رہا تھا کہ وہ سلسلہ کی تبلیغ نہیں کرتے اور ایسے طریق کو اختیار کر رہے ہیں.جس سے سلسلہ کی خصوصیات کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے دب گیا.اورخواجہ صاحب کی اس قربانی پر ایک دفعہ پھر جماعت خواجہ صاحب کے گرد جمع ہوگئی مگر بہت کم تھے جو حقیقتِ حال سے واقف تھے.سفرِ مصر اور خاص دُعائیں ان ہی دنوں میں مجھے مصر کے راستہ سے حج کے لئے جانے کا موقع ملا.گو میرا ارادہ ایک دو سال مصر میں ٹھہرنے کا تھا.مگر حج کے بعد مصر جانےمیں کچھ ایسی روکیں پیدا ہوئیں کہ مَیں نے واپس آجانا مناسب سمجھا.اس سفر میں دعاؤں کے ایسے بیش بہا مواقع نصیب ہوئے کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو قدم ثبات حاصل ہونے میں ایک حصہ ان دُعاؤں کا بھی ہے.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.حضرت مسیح موعودؑ کے ایک کشف کو خواجہ صاحب کا اپنے اوپر چسپاں کرنا خواجہ صاحب کو ولایت گئے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھاکہ ان کو ایک ہندوستانی مسلمان کی یورپین بیوی سے جس کا ایک مسلمان سے بیاہ اسے اسلام کے قریب کر ہی چکا تھا.ملاقات کا موقع ملا.خواجہ صاحب کے مزید سمجھانے پر اس نے اسلام کا اعلان کردیا.خواجہ صاحب نے اس کا خوب اعلان کیا اورلوگوں کو عام طور پر توجہ ہوگئی کہ خواجہ صاحب ایک عمدہ کام کررہے ہیں.احمدیوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے خواجہ صاحب نے یہ لکھنا شروع کیا کہ یہ عورت حضرت مسیح موعودؑ کے ایک کشف کے ماتحت مسلمان ہوئی ہے.اس کشف کا مضمون یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ ولایت گئے ہیں اوروہاں سفید رنگ کے کچھ پرندے پکڑے ہیں چنانچہ اصل الفاظ یہ ہیں:- ’’مَیں نے دیکھا کہ مَیں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اورانگریزی زبان میں ایک نہایت مدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کررہا ہوں.بعد اس کے مَیں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھےاوران کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا.سو مَیں نے اس کی یہ تعبیر کی.کہ اگرچہ

Page 228

میں نہیں.مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہوجائیں گے‘‘.(ازالہ اوہام جلد دوم صفحہ ۲۷۷ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۷۷) اس کشف کا مضمون ہی بتاتا ہے کہ یہ کشف خواجہ صاحب کے ہاتھ پر پورا نہیں ہوا.کیونکہ کشف تو بتاتا ہے کہ پرندے مسیح موعودؑ نے پکڑے ہیں.حالانکہ خواجہ صاحب نے جن لوگوں کو مسلمان بنایا ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہرگز نہیں کرایا.وہ اسلام جس کی تلقین خواجہ صاحب کرتے رہے ہیں.اس میں تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اورمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی شامل ہیں غرض گو اس کشف کا تعلق خواجہ صاحب سے کچھ بھی نہ تھا.جیسا کہ بعد کے تجربہ سے ثابت ہوا.وہ احمدیوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے اس کشف کی اشاعت کرتے رہے.(شروع میں ا یک عرصہ تک خواجہ صاحب نے بالکل پتہ نہیں چلنے دیا کہ وہاں کسی قسم کی تبلیغ کر رہے ہیں)مگر یہ سب اعلانات احمدیوں میں ہی تھے.غیر احمدیوں کو یہی بتایاجاتا تھا کہ تبلیغ عام اسلامی اُصول کے مطابق ہورہی ہے اس لئے سب کو چندہ دینا چاہئےاور اس کار خیر میں حصہ لینا چاہئیے.حضرت مسیح موعودؑ کی ایک پیشگوئی کے پورا ہونے پر خواجہ صاحب کا اسکا ذکر نہ کرنا جب خواجہ صاحب ولایت پہنچے ہیں تواس وقت بلقان وار(جنگ بلقان ) شروع تھی.خواجہ صاحب نے اس کے متعلق ایک ٹریکٹ لکھا اوراس میں حضرت مسیح موعود کا الہام غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مَِّنْ بَعْدِغَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ٭لکھ کر ترکوں کو حضرت مسیح موعود کی بعثت کی خبر دی.ہم لوگ تگو اس خبر کو سن کر بہت خوش ہوئے کہ خواجہ صاحب آخر اصل راستہ کی طرف آئے ہیں.لیکن کچھ ہی دن کے بعد جب ایک دو انگریزیوں کے مسلمان ہونے پر غیر احمدیوں نے خواجہ صاھب کی مدد شروع کی اوران کو یہ بھی بتایا گیا کہ سلسلہ کا ذکر کرنے سے ان کی مدد رُک جاوے گی.تو وہی خواجہ صاحب جنہوں نے پیشگوئی کے پورا ہونے سے پہلے اس کا اعلان بلا دتُرکیہ میں کیا تھا.اس کے پورا ہونے پر ایسے خاموش ہوئے کہ پھر اس پیشگوئی کا نام تک نہ لیا.احمدیہ پریس کے مضبوط کرنے کا خیال ۱۹۱۳؁ ء میں دو اور اہم واقعات ہوئے.حج سے واپسی کے وقت مجھے قادیان کے پریس کی مضبوطی کا خاص طور پر خیال پیدا ہوا.جس کا اصل محرّک مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کا اخبار ’’ الہلال ‘‘ *تذکرة ص ۵۰۲ ایڈیشن چہارم

Page 229

تھا.جسے احمدی جماعت بھی کثرت سےخریدتی تھی اورخطرہ تھا کہ بعض لوگ اس کے زہریلے اثر سے متأثر ہوجاویں.چنانچہ مَیں نے اس کے لئے خاص کوشش شروع کی.اور حضرت خلیفۃ المسیح سے اس امر کی اجازت حاصل کی کہ قادیان سے ایک نیا اخبار نکالا جائے جس میں علاوہ مذہبی امور کے دنیاوی معاملات پر بھی مضامین لکھے جاویں تا کہ ہماری جماعت کے لوگ سلسلہ کے اخبارات سے ہی اپنی سب علمی ضروریات کو پورا کرسکیں.جب حضرت خلیفۃ المسیح سے اجازت حاصل کرچکا تو مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب ،ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب اورشیخ رحمت اللہ صاحب بھی ایک اخبار نکالنے کی تجویز کر رہے ہیں.چنانچہ اس بات کا علم ہوتے ہی مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح کو ایک رقعہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ لاہور سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں فلاں احباب مل کر ایک اخبار نکالنے لگے ہیں چونکہ میری غرض تو اس طرح بھی پوری ہوجاتی ہے.حضور اجازت فرما دیں تو پھر اس اخبار کی تجویز رہنے دی جاوے.اس کے جواب میں جو کچھ حضرت خلیفۃ المسیح نے تحریر فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ اِس اخبار اور اُس کے جواب میں جو کچھ حضرت خلیفۃ المسیح نے تحریر فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ اِس اخبار اور اُس اخبار کی اغراض میں فرق ہے آپ اس کے متعلق اپنی کوشش جاری رکھیں.اور ارشاد کے ماتحت میں بھی کوشش میں لگا رہا.پیغامِ صُلح اورالفضل کا اجراء جون ۱۹۱۳؁ء کے ابتداءمیں اخبار پیغام صلح لاہور میں شائع ہوا اور وسط میں ’’الفضل‘‘ قادیان سے نکلا.بظاہر تو سینکڑوں اوراخبارات ہیں جو پہلے سے ہندوستان میں نکل رہے تھے دو اخبارات کا اضافہ معلوم ہوتا تھا مگر درحقیقت احمدی جماعت کی تاریخ میں ان اخبارات کے نکلنے نے ایک اہم بات کااضافہ کردیا.پیغامِ صُلح کی روش پیغام صلح کے نکلنے سے وہ مواد جو خفیہ خفیہ جماعت میں پیدا ہورہا تھا پُھوٹ پڑا اور کُھلے بندوں سلسلہ کی خصوصیات کو مٹانے کی کوشش کی جانے لگی.قادیان کی جماعت خاص طور پر سامنے رکھ لی گئی اورسلسلہ کے دشمنوں سے صُلح کی داغ بیل پڑنے لگی.اصل غرض تو شاید اس رسالہ سے خواجہ صاحب کے مشن کی تقویت تھی مگر طبعاً ان مسائل کو پھر چھیڑنا پڑگیا جو مابہ النزاع تھے.غیر احمدیوں میں اس اخبار کی اشاعت کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مرزا صاحب علیہ الرحمۃ لکھا جانے لگا اور دشمنانِ سلسلہ کی تعریف کےگیت گائے جانے لگے.ترکوں کے بادشاہ کو خلیفۃالمسلمین٭ کےلقب سے یاد کیا جانے لگا.*ترلالی شہوار یعنی وہ اشعار آبدار جو مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے ۲۴ رجب کو بارگاہ سلطان العظم

Page 230

غرض پوری کوشش کئی گئی کہ احمدیت کا نام درمیان سے اُٹھ جائےاوراحمدی اورغیر احمدی ایک ہوجاویں.مسجد کانپور کا واقعہ ان اخبارات کے شائع ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کانپور کی ایک مسجد کے غسل خانہ کے گرائے جانے پر مسلمانان ہند میں شور برپا ہوا جن لوگوں نے اس مسجد کے گرانے پر بلوہ کیا تھا اور مارے گئے ان کو شہید کا خطاب دیا گیا اور گورنمنٹ کے خلاف بڑے زور سے مضامین لکھے گئے.پیغام صلح نے بھی ان اخبارات کا ساتھ دیا جو اس وقت گورنمنٹ کے خلاف لکھ رہے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح سے خاص آدمی بھیج کر رائے طلب کی گئی اور مولوی محمد علی صاحب سے مضمون لکھوائے گئے.مولوی محمد علی صاحب کے مضامین تو صریح فسادیوں کی حمایت میں تھے مگر حضرت خلیفۃ المسیح کی صائب رائے کو اس طرح بگاڑ کر شائع کیا گیا کہ اس کا مطلب اور کا اور بن گیا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ گورنمنٹ نے اس موقع پر نہایت ناواجب سختی سے کام لیا ہے اور مسجد کا گرانا درست نہ تھا.حالانکہ آپ نے مجھے یہ لکھوایا تھا کہ غسل خانہ مسجد میں نہیں اور شور وفساد میں لوگوں کو حصہ نہیں لینا چاہیے.جب پیغام صلح کے یہ مضامین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو دکھائے گئے تو آپ نے ان کو نہایت ناپسند کیا.اورخود دو مضامین مجھ سے لکھوائے.جن کےنوٹ اب تک میرے پاس موجود ہیں.ان میں خاص طور پر زور دیا گیا تھا کہ غسل خانے مسجد کا جزو نہیں ہیں اور یہ کہ جو لوگ اس موقع پر شورش کر رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں اور منافقانہ کارروائی کررہے ہیں ------------------------------------------------------------------------------------- (حاشیہ صفحہ سابقہ) میں پڑھ کر سنائے.خلافت مدعا جو یدکہ ما از آں سلطانیم اخوت برملاگوید کہ اواز آن مابدش حدزاے دشمنان ملت بیضاازاں ساعت کہ دردستِ امیر مالوائے مصطفٰے باشد (پیغام جلد نمبر ۱ نمبر ۸ صفحہ ۴) مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹڑ زمیندار کی مراجعت لاہور.جیسا کہ ہم ۳؍اگست کی اشاعت میں مختصر اطلاع شائع کرچکے ہیں.اس اتوار کی صبح کو قریباً ساڑھے نو بجے مولوی ظفر علی صاحب بمبئی میل سے مع الخیر لاہور پہنچے…احمدیہ بلڈنگس کے پاس پہنچ کر حلقہ احباب نے بڑے جوش کے ساتھ مکرمی خواجہ کمال الدین صاحب کے لئے دُعائیہ نعرے مارے‘‘.(پیغام جلد نمبرا نمبر ۱۲ صفحہ ۲)

Page 231

لیکن منع فرمایاکہ میں ان مضامین میں آپ کی طرف اشارہ کروں.اپنی طرف سے شائع کردوں.جب یہ مضامین شائع ہوئے تو لوگوں میں عام طور پر یہ پھیلایا گیا کہ مَیں نے ان مضامین میں مولوی محمد علی صاحب کو جن کے مضامین پیغام صلح میں شائع ہوئے ہیں گالیاں دی ہیں.چنانچہ ڈاکٹر محمد شریف صاحب بٹالوی حال سول سرجن ہوشیار پور جو اس وقت غالبًاسرگودھا میں تھے قادیان میں تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے اس امر کے متعلق ذکر کیا.مَیں نے ان کو جواب دیا کہ یہ مضامین میرے نہیں بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح کے لکھوائے ہوئےہیں.انہوں نے کہا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ کہ حضرت خلیفۃ المسیح جو مولوی محمد علی صاحب کا اس قدر ادب کرتے ہیں ایسے الفاظ آپ کی نسبت لکھوائیں.مَیں نے اس وقت وہ اخبار کا پرچہ منگواکرجس پر ان کو اعتراض تھا اس کے حاشیہ پر یہ لکھ دیا کہ یہ مضمون حضرت خلیفۃ المسیح کا لکھوایا ہوا ہے اور جس قدر سخت الفاظ ہیں وہ آپ کے ہی ہیں میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھے اور وہ پرچہ ان کو دے دیا کہ آپ اس پرچہ کو حضرت خلیفۃ المسیح کے پاس لے جاویں اوران کے سامنے رکھدیں.پھر آپ کو معلوم ہوجاوے گا کہ آیا ان کا لکھایا ہوا ہے یا میرا لکھا ہوا ہے.وہ اس پرچہ کو آپ کے پاس لے گئے اور چونکہ اسی وقت انہوں نے واپس جانا تھا.پھر مجھے تو نہیں ملے مگر اس پرچہ کو اپنے ایک رشتہ دار کے ہاتھ مجھے بھجوایااور صاحب کے ہم خیالوں میں.میری بیعت میں شامل نہیں.ان سے قسم دے کر مولوی محمد علی صاحب دریافت کرسکتے ہیں کہ یہ واقعہ درست ہے یا نہیں.غرض کانپور کی مسجد کا واقعہ جماعت میں ایک مزید تفرقہ کا باعث بن گیا.کیونکہ اس کےذریعہ سے ایک جماعت تو سیاست کے انتہا پسند گروہ کی طرف چلی گئی اوردوسری اس تعلیم پر قائم رہی جو اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی تھی اورخدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ مؤخرالذکر جماعت تعداد میں بہت زیادہ تھی.لارڈ ہیڈلے کے مسلمان ہونے کا اعلان ان ہی ایام میں خواجہ صاحب کو ایک پُرانے مسلمان لارڈ ہیڈ لے مل گئے.وہ قریباً چالیس سال سے مسلمان تھے مگر بوجہ مسلمانوں کی مجلس نہ ملنے کے اظہار اسلام کے طریق سے ناواقف تھے.خواجہ صاحب کے ملنے پر انہوں نے اسلام کا اظہار کیا٭اوربتایا کہ وہ چالیس سال *لارڈ صاحب (یورپین انجینئر جو ۱۹۱۳ء کو مسلنان ہوئے.تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۴۴۶ خود اپنے اسلام لانے کی

Page 232

سے مسلمان ہیں.خواجہ صاحب نے فوراً تمام دُنیا میں شور مچا دیا کہ ان کی کوششوں سے ایک لارڈ مسلمان ہوگیا ہے.اس خبر کا شائع ہونا تھا کہ خواجہ صاحب ایک بُت بن گئے اور چاروں طرف سے ان کی خدمات کا اعتراف ہونے لگا.مگر وہ لوگ جن کو معلوم تھا کہ لارڈ ہیڈ لے چالیس سال سے مسلمان ہے.اس خبر پر نہایت حیران تھے کہ خواجہ صاحب صداقت کو اس ھد تک کیوں چھوڑ بیٹھے ہیں؟مگر خواجہ صاحب کے مدِّ نظر صرف اپنے مشن کی کامیابی تھی.جائز یا ناجائز ذرائع سے وہ اپنے مشن کو کامیاب بنانے کی فکر میں تھے.میرے نزدیک لارڈ ہیڈلے کے اسلام کا اظہار ان احمدیوں میں سے بیسیوں کی ٹھوکر کا موجب ہوا ہے جو اس وقت ان لوگوں کے ساتھ ہیں.کیونکہ بعض لوگ ان کی ان خیالی کامیابیوں کو دیکھ کر یہ یقین کرنے لگے تھے کی یہ قالٰہی تائید بتا رہی ہے کہ خواجہ صاحب حق پر ہیں.حالانکہ یہ تائید اٰلی نہ تھی بلکہ خواجہ صاحب کی اخلاقی موت تھی اورجب تک سلسلہ احمدیہ باقی رہے گا اور انشاء اللہ قیامت تک باقی رہے گا.خواجہ صاحب کی یہ خلاف بیانی اور چالاکی بھی دنیا کو یاد رہے گی اور وہ اسے دیکھ دیکھ کر انگشت بدنادان ہوتے رہیں گے.خواجہ صاحب کی اس کامیابی کو دیکھ کر جو بعد میں محض خیالی ثابت ہوئی.جماعت کے ایک حصہ کے قدم پھر لڑکھڑاگئے اورجیسا کہ مَیں نے لکھا ہے وہ اسے آسمانی مدد دمجھ کر اپنی عقل کو غلطی خوردہ خیال کرکے خواجہ صاحب کی ہم خیالی میں ہی اپنی فلاح سمجھنے لگے اور پیغام صلح کے مضامین ان کے لئے اوربھی باعث ٹھوکر ہوگئے.لیکن اس کشمکش کا یہ فائدہ بھی ہوگیا کہ جو کوششیں خفیہ کی جاتیں تھیں ان کا اظہار ہوگیا اور جماعت ہوشیار ہوگئی.کچھ حصہ جماعت کا بیشک ہلاک ہوگیا.مگر ان کی ہلاکت دوسروں کے بچانے کا ذریعہ بن گئی.پیغام میں جماعت قادیان پر حملے جب اختلاف کا اظہار ہوگیا تو اب زیادہ پوشیدگی کی ضرورت نہ رہی.پیغام صلح میں خوب کھلم کُھلا ------------------------------------------------------------------------------------- نسبت لکھتے ہیں:- ’’میرے موجودہ اعتقادات میری کئی سالوں کی تحقیقات اور تفتیش کا نتیجہ ہیں.تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے بارے میں میری اصلی خط و کتابت چند ہی ہفتے قبل شروع ہوئی.اور یہ بات میری دلی خوشی اورمسرت کا باعث ہوئی کہ میرے تمام خیالات اسلام کے عین مطابق نکلے.میرے دوست خواجہ کمال الدین صاحب نےذرہ بھر کوشش مجھے اپنے زیر اثر لانے کیلئے نہیں کی.‘‘ (پرچہ پیغام ۱۶؍دسمبر ۱۹۱۳ء نمبر ۶۷صفحہ۳)

Page 233

طور پر قادیان کی جناعت پر اعتراضات ہونے لگے.اوران کے جوابات الفضل میں حضرت خلیفۃ المسیح کے مشورہ سے شائع ہوتے رہے.گو یہ لوگ جونہی حضرت خلیفۃ المسیح کی ناراضگی کا علم پاتے تھے.فوراً آکر آپ سے معافی مانگ لیتے مگر پھرجا کر وہی کام شروع ہوجاتا.یہ زمانہ جماعت کے لئے بہت نازک تھا کیونکہ دشمن بھی اس اختلاف سےآگاہ ہوگئے جو اندر ہی اندر کئی سال سے نمودا ر ہو رہا تھا اورانہوں نے اس علم سے فائدہ اُٹھا کر ان لوگوں کو فساد پر اوربھی آمادہ کرنا شروع کیا.اور کئی قسم کے سبز باغ دکھانے شروع کئے.حتّٰی کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو پیغامِ صُلح کا نام پیغامِ جنگ رکھنا پڑا.خفیہ ٹریکٹ گو اخبار کےذریعہ سے بہت کچھ زہر یہ لوگ ہمارے خلاف اُگلتے تھے مگر پھر بھی حضرت خلیفۃ المسیح کا خوف ساتھ لگا رہتا تھا.پس اس کے دل کا حوصلہ پوری طرح نہ نکلتا تھا اور خود حضرت خلیفۃ المسیح کے خلاف تو کھُلم کُھلا کچھ لکھ ہی نہ سکتے تھے.اس لئے بنگال کے انارکسٹوں کے شاگرد بن کر مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیال لوگوں کی ایک جماعت نے ایسے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جن کے نیچے نہ پریس کا نام ہوتا تھا اورنہ لکھنے والے کا.چنانچہ اس سلسلہ میں ان لوگوں نے دو ٹریکٹ شائع کئے جن کا نام اظہار الحق نمبر ۱.اور اظہار الحق نمبر ۲ رکھا گیا.یہ دونوں ٹریکٹ وسط نومبر ۱۹۱۳؁ء میں ایک دو دن کے وقفہ سے ایک دوسرے کے بعد شائع ہوئے.پہلا ٹریکٹ چار صفحہ کا تھااور دوسرآٹھ صفحہ کا.دونوں کے آخر میں لکھنے والے کے نام کے بجائے داعی الی الوصیت لکھا ہوا تھا.یعنی حضرت مسیح موعودؑ کی وصیت کی طرف جماعت کو بلانے والا.پہلے ٹریکٹ کا خلاصہ ٹریکٹ اوّل کا خلاصہ یہ تھا کہ اس زمانہ میں جمہوریت کی اشاعت اس بات کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ اس زمانہ کا ما ٔمور بھی جمہوریت کا حامی ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت مسیح موعود ؑسوائے ان امور کے جن میں وحی ہوتی احباب سے مشورہ کرلیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے ما ٔمور کیا ہے کہ انسانوں کی شانیں جو حد سے زیادہ بڑھا دی گئی ہیں ان کو دُور کریں اورجب آپؑکو اپنی وفات کے قُرب کی خبر خدا تعالیٰ نے دی تو آپؑنےاپنی وصیت لکھی اوراس میں اپنے بعد جانشین کا مسئلہ اس طرح حل کیا کہ آپؑ کے بعد جمہوریت ہوگی اورایک انجمن کے سُپرد کام ہوگا.مگر افسوس کہ آپ ؑکی وفات پر جماعت نے آپؑ کے

Page 234

فرمودہ کو پس پشت ڈال کر پیر پرستی شروع کردی اورجمہوریت کے رنگ کو نَسْیًا مَنْسِیًّاکردیا.اس وقت جماعت میں بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں.جنہوں نے بیعت مجبوری سے کی ہے ورنہ ان کے خیال میں اس بیعت لینے والے کی نسبت (حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل) بہترلوگ جماعت میں موجود ہیں.اوراس امر کا اصل وبال کارکنان صدر انجمن احمدیہ پر ہے.جنہوں نے بانی سلسلہ کی وفات پر جماعت کو پیر پرستی کے گڑھے میں دھکیل دیا.اب یہ حال ہے کہ حصولِ گدی کے لئے طرح طرح کے منصوبے کئے جاتے ہیں.اورایک خاص گروہ انصار اللہ اس لئے بنایا گیا ہے کہ تا قوم کے جملہ بزرگواروں کو نیچا دکھایا جاوے.انصاراللہ کا کام ظاہر میں تو تبلیغ ہے لیکن اصل میں بزرگانِ دین کو منافق مشہور کرنا ہے.مولوی غلام حسین صاحب پشاوری ، میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی،مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب،شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر سیّد محمد حسین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ان لوگوں کو قابل دار بتایا جاتا تھا.حضرت مسیح موعودؑ نے صاف طور پر انجمن کو اپنا جانشین قرار دیا ہے نہ کسی واحد شخص کو.حضرت مسیح موعود نے صاف لکھ دیا ہے کہ آپؑ کے بعد صدر انجمن کا فیصلہ ناطق ہوگا.اب جماعت کی حالت کو دیکھو کہ غیر ما ٔمور کی ہر ایک بات کو تسلیم کیاجاتا ہے.پیغام صلح کو بند کرکے خلیفہ نے جماعت کو اس سےبد ظن کردیا.(پیغام صلح کی منافقانہ کارروائیوں سے تنگ آکر حضرت خلیفۃ المسیح نے اعلان فرما دیا تھا کہ اسے میرے نام نہ بھیجا کرو اورپھر جب یہ لوگ بھیجتے رہے توآپ نے ڈاک سے وصول کرنے سے انکار کردیا.مرزا محمود احمد)جب ایک معزز طبقہ کی بے عزتی بلاوجہ وہ شخص جو جماعت میں عالم قرآن سمجھا جاتا ہے (یعنی خلیفہ اوّل) محض خلافت کی رعونت میں کردیا ہے تو بے سمجھ نوجوان طبقہ سے بزرگان جماعت کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ بزرگان قوم ان کارروائیوں کو کب تک دیکھیں گے اور خاموش رہینگے ؟ احمدیو ! دوسرے پیرزادوں کو چھوڑ و اوراپنے پیرزادوں کی حالت کو دیکھو.دوسرے ٹریکٹ کا خلاصہ دوسرے ٹریکٹ کا خلاصہ یہ تھا.جماعت احمدیہ میں کوئی عیار نہیں.غیر ما ٔمور کی شخصی غلامی (یعنی حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت) نے ہماری حالت خراب کردی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں جماعت بہت آزادی سے گفتگو کرلیتی تھی.اب سخت تقیّد کیا جاتا ہے اور خلیفہ کے کان بھر کر بھائیوں کو تکلیف دی جاتی ہے.اگر چندے یہی حالت رہی تو احمدی پِیر پرستوں اور غیر احمدی پِیر پرستوں میں کوئی فرق نہ رہے گا.حضرت مسیح موعودؑکے ایک سو سال بعد ہی کوئی مصلح

Page 235

آسکتا ہے اس سے پہلے نہیں.جن کا اس کے خلاف خیال ہے وہ اپنےذاتی فوائد کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ایسا خیال پھیلاتے ہیں.جماعت کی بہتری اسی میں ہے کہ جمہوریت کے ماتحت کام کرے.اس کے بعد جماعت میں فتنہ کی تاریخ اس طرح لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکی وفات کی گھبراہٹ میں جب حضرت مسیح موعودؑکےاحکام کو پس پشت ڈال کر جماعت نے مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ مان لیا.تو اس وقت سب لوگوں کی زبانوں پر یہ کلام جاری تھا کہ مولوی محمد علی صاحب ہی آپ کے بعد خلیفہ ہوں گے.حاسدوں نے اس امر کو دیکھ کر بیوی صاحبہ (حضرت اماں جان) کی معرفت کارروائی شروع کی اوران کی معرفت خلیفہ کو کہلوایا کہ آپ کی بیعت تو ہم نے کرلی ہم کسی ارائیں وغیرہ کی بیعت نہیں کریں گے.جس پر مولوی صاحب نے ان کی حسب مرضی جواب دیکر ٹال دیا.اس کے بعد انجمن کے معاملات میں دخل دینے اور مولوی صاحب نے ان کی حسب مرضی جواب دیکر ٹال دیا.اس کے بعد شروع ہوگئی.پھر میر محمد اسحٰق صاحب کے ذریعہ ایک فساد کھڑا کردیا گیا.(ان سوالات کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر مَیں پہلے تاریخ سلسلہ کے بیان میں کرشکا ہوں) اورکارکنان انجمن کےخلاف شور ڈال دیا گیا.اورمرزا محمود صاحب کو مدعی خلافت کے طور پر پیش کیاجانے لگا اور مشہور کیا گیا کہ انجمن کےکارکن اہل بیت کے دشمن ہیںحالانکہ یہ غلط ہے.اہلِ بیت قوم کا روپیہ کھا رہے ہیںاورانجمن اوراس کے اراکین پر ذاتی حملہ کر رہے ہیں.مولوی محمد علی صاحب پر الزام لگائے جاتے ہیں.پیغام صُلح کی اشاعت کا سوال پیدا ہوا تو جھٹ الفضل کی اجازت خلیفہ سے مانگی گئی.جنہوں نےڈرکر اجازت دے دی.ہمارے مضامین میں منتظمین پیغام کا کچھ دخل نہیں نہ ان کو خبر ہے.کانپور کا واقعہ جب ہوا تو منتظمین پیغام نے خلیفہ رجب الدین کو ٹر یبیون دے کر قادیان بھیجا اورمولوی صاحب کا خط منگوایا اگر اس کے چھانپے میں کوئی خلاف بات کی گئی تھی تو مولوی صاحب کو چاہئےتھا اس کی تردید پیغام میں کرتےنہ کہ منتظمان پیغام پر ناراض ہوتے.مولوی صاحب نے اخبار پیغام صلح کو کانپور کے جھگڑے کے باعث نہیں بلکہ ایک معمولی بات پر ناراض ہوکر بند کردیاتھا.بھائیو! تعجب ہے ایک عالم قرآن (حضرت خلیفہ اوّل)اس طرح بلاوجہ ایڈیٹر پیغام اور دوسرے متعلقین کو زبانی اوربذریعہ الفضل ذلیل و خوار کرنا شروع کردیتا ہے.کیا یہی انصاف اسلام سکھاتا ہے؟ پیغام کے خلاف الحق دہلی نےجو زہر اُگلا ہے اس کا جواب چونکہ قادیان والوں نے نہیں دیا اس

Page 236

لئے وہی اس کے محرّک ہیں.اس کے آگے ذاتی عیوب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا سمجھنا بغیر تفصیل کے بیرونجات کے لوگوں کے لئے مشکل ہے اس اس کاخلاصہ یہ ہے کہ اہل بیت لوگوں کو ورغلا رہے ہیں اوربزرگان سلسلہ کو بدنام کررہے ہیں اور جماعت کو اُکسایا ہے کہ احمدی جماعت کو اس مصیبت سے بچانے کی کوشش کریں اور راقم ٹریکٹ سے اس امر میں خط و کتابت کریں.ٹریکٹ لکھنے ولاکون تھا؟ اس ٹریکٹ کے آخر میں گو نام نہ تھا.مگر چند باتیں اس کی اس قسم کی تھیں جو صاف طور پر تلاتی ہیں کہ ان ٹریکٹوں کے لکھنے والے کون تھے؟ اوّل :- یہ تمام کے تمام ٹریکٹ لاہور سے شائع ہوتے تھے جو اس وقت مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیالوں کا مرکز تھا.مرکز کے لفظ سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت بھی قادیان کے مقابلہ پر لاہور کو مرکز ظاہر کیا جاتا تھا.بلکہ بوجہ اس کے کہ مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کے اکثر آدمی وہاں ہی رہتے تھے اور اخبار پیغام صلح ان کا آرگن بھی وہیں سے شائع ہوتا تھا.لاہور اس وقت بھی مرکز کہلانے کا مستحق تھا گو کُھلم کُھلا طور پر حضرت خلیفہ اوّل کی وفگات پر اسے مرکز قرار دیا گیا ہے.۲:- اکثر جگہ پر یہ ٹریکٹ پیغام صلح کی مطبوعہ چِٹوں میں بند شدہ پہنچا تھا جس سے ساف معلوم ہوتا ہے کہ دفتر پیغام صلح سے یہ بھیجا گیا تھا.یا یہ کہ پیغام صلح کے متعلقین اس کی اشاعت میں دخل رکھتے تھے.۳ :- اس ٹریکٹ کا لکھنے والا لوگوں سے چاہتا ہے کہ وہ اس سے اس کے مضمون کے متعلق خط و کتابت کریں لیکن اپنا پتہ نہیں دیتا جس سے طبعاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پتہ نہیں دیتا تو لوگ اس سے خط و کتابت کیونکر کریں؟اورمعلوم ہوتا ہے کہ اس نے پہلے پتہ لکھا ہے پھر مصلحتاً اسے کاٹ دیا ہے لیکن چونکہ اصل مضمون میں سے یہ عبارت کے لوگ اس خط و کتابت کریں نہیں کٹی ہوئی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مضمون چھپنا شروع ہوگیا ہے تب پتہ کاٹنے کا خیال ہوا اور چونکہ اصل مضمون کا کوئی حصہ کاٹنے میں دیر لگتی تھی اور عبارت خراب ہونے کا خطرہ تھا اس لئے اسے اسی طرح رہنے دیا ہے.اب ہم بعض ٹریکٹوں کو دیکھتے ہیں تو ان پر سے اُنگلی سے رگڑ کر مضمون کے خاتمہ پر کچھ عبارت کٹی ہوئی ہے اور بعض ٹریکٹ ہمیں ایسے بھی ملتے ہیں جن پُر ’’معرفت اخبار‘‘کالفظ کٹنے سے رہ گیا ہے اور باقی کٹا ہوا ہے.یہ الفاظ ’’معرفت اخبار‘‘ کے صاف طور پر بتلاتے ہیں کہ پہلے خط و کتابت

Page 237

کے لئے کسی اخبار کا پتہ دیا گیا تھا اور گو یہ اخبار پیغام نہ ہو اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے نہیں تھا.مگر اس سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ اس ٹریکٹ کے لکھنے والے کا تعلق اخبارات سے ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ معاضرانہ تعلقات کی بناء پر ایک اخبار دوسرے اخبار کے عملہ کی خدمت بالعموم کردیا کرتے ہیں.۴ :- اس ٹریکٹ میں انہیں خیالات کی اشاعت تھی جو مولوی محمد علی صاحب اوران کے رفقاء کے تھے سوائے اس کے کہ حضرت خلیفۃ اوّل کی نسبت کسی قدر زیادہ سخت الفاظ استعمال کئے گئے تھے.مگر بیسیوں ایسے گواہ ہمارے پاس موجود ہیں جو شہادت دیتے ہیں کہ اپنی علیحدہ مجلسوں میں مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیالوں میں سے بعض بڑے آدمی نہایت سخت الفاظ حضرت خلیفہ اول کی نسبت استعمال کیا کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی تعریف کی پالیسی آپ کی وفات کے بعد شروع ہوئی ہے بلکہ خفیہ طور پر خطوں میں بھی ایسے الفاظ استعمال کرلیتے تھے.چنانچہ ان کے دو بڑے رکنوں کے ان خطکوط میں سے جو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی میں سیّد حامد شاہ صاحب مرحوم کو لکھے.ہم بعض حصہ اس جگہ نقل کرتے ہیں.پہلا خط سیّد محمد حسین صاحب ان کی صدر انجمن کے محاسب کا ہے.وہ سیّد حامد شاہ صاحب کو لکھتے ہیں:- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اخی مکرمی جناب شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ۱۹۰۹؍۱۰؍۱ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب کا نوازش نامہ پہنچا حال معلوم ہوا.قادیان کی نسبت دل کو بٹھا دینے والے واقعات جناب کو شیخ صاحب نے لکھے ہوں گے.وہ باغ جو حضرت اقدس ؑ نے اپنے خون کا پانی دے دے کر کھڑا کیا تھا.ابھی سنبھلنے ہی نہ پایا تھا کہ باد خزاں اس کو گرایا چاہتی ہے.حضرت مولوی صاحب٭کی طبیعت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سُن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پراوئی کرتے ہوئے شخص وجاہت اورحکومت ہی پیش نظر ہے.سلسلہ تباہ ہو تو ہو مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ٹلے پر *خلیفہ اول

Page 238

نہ ٹلے.وہ سلسلہ جو کہ حضر ت اقدس کے ذریعہ بنایا تھا اور جو کی بڑھے گا اور ضرور بڑھے گا.وہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے سب اہل الرائےاصحاب اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں.اور حضرت مرزا صاحب سلمہ الہ تعالیٰ کے مرتے ہی سب نےا ٓپ کے احسانات کو بھلا آپ کی ویت کو بھلادیا.اورپیر پرستی جس کی بنیاد کو اُکھاڑنے کے لئے یہ سلسلہ اللہ نے مقرر یا تھا.قائم ہورہی ہے اورعین یہ شعر مصداق اس کے حال کا ہے ؎ بیکسے شد دین احمد، یچ خویش و یار نیست ہر کسے درکار خود بادین احمد کا رنیست کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ بھائی یہ وصیت بھی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ یہ تو اللہ کی وھی کے ماتحت لکھ گئی تھی.کیا یہ پھینک دینے کے لئے تھی؟اگر پوھا جاتا ہے تو ارتداد کی دھمکی ملتی ہے.اللہ رحم کرے.دل سخت بیکلی کی حالت میں ہے.حالات آمدہ از قادیان سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب فرماتا ہے کہ بمب کا گولہ دس دن تک چُھوٹنے کو ہے ج کہ سلسلہ کو تباہ و چکنا چُور کردیگا.اللہ رحم کرے.تکبّر اور نخوت کی کوئی حد ہوتی ہے.نیک ظنی نیک ظنی کی تعلی دیتے دیتے بدظنی کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی.ایک شیعہ کی جہ سے سلسلہ کی تباہی.اللہ رحم کرے.یا الٰہی ہم گنہگار ہیں تُو اپنے فضل و کرم سے ہی میں بچا سکتا ہے.اپن خاص رحمت میں لے لے.اورہم کو ان ابتلائوں سے بچالے آمین.اور کیا لکھوں.بس حد ہورہی ہے وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص تائید الٰہی ہو.تا کہ یہ اس کا سلسلہ اس صدمہ سے بچ جاوے.آمین.سب برادران کی خدمت میں السلام علیکم اور دُعا کی درخواست.خاکسار سیّد محمد حسین (تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۲۸۸) دوسرا خط مرزا یعقوب بیگ صاحب ان کی صدر انجمن کے جزل سیکرٹری کا ہے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کا مضمون شیخ رحمت اللہ صاحب اور سیّد محمد حسین شاہ صاحب کے علم سے اوران کی پسندیدگی کے بعد بھیجا گیا ہے.کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ شیخ صاحب اور شاہ صاحب کی طرف سے بھی مضمون واحد ہے:- حضرت اخی المکرم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ سِردست تو قادیان کی مشکلات کا سخت فکر ہے.خلیفہ صاحب کا تلوّن طبع بہت بڑھ گیا ہے

Page 239

اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں جس سے اندیشہ بڑے ابتلاء کا ہے.اگر اس میںذرّہ بھی تخالف خلیفہ صاحب کی رائے سے ہو تو برافروختہ ہوجاتے ہیں.سب حالات عرض کئے گئے مگر ان کا جو ش فرونہ ہوا اورایک اشتہار جاری کرنے کا مصمّم ارادہ رکھتے ہیں.آپ فرماویں ہم اب کیا کرسکے ہیں؟ ان کا منشاء یہ ہے کہ انجمن کالعدم ہوجائے اوران کی رائے سے ادنیٰ تخالف نہ ہو.مگر یہ وصیت کا منشاء نہیں.اس میں یہی حکم ہے کہ تم س میرے بعد مل جل کر کام کرو.شیخ صاحب اور شاہ صاحب بعد سلام مسنون مضمون واحد ہے.خاکسار مرزا یعقوب بیگ ۱۹۰۹؍ ۹؍۲۹ (تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۲۸۸) ۵.نہایت واضح اور صاف بات اس امر کی تائید میں کہ یہی لوگ ان ٹریکٹوں کے شائع کرنے والے ہیں.یہ ہے کہ ان ٹریکٹوں کے شائع ہوتے ہی مینجر پیغام صلح سیّد انعام اللہ شاہ اور پیغام صلح کے (انتظامی کاموں کی روح رواں بابو منظور الٰہی دونوں کے دستخط سے ایک تحریر پیغام صلح کے ۱۶؍نومبر کے پرچہ میں شائع ہوئی.جس میں اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہ انصار اللہ ہم دونوں کو ٹریکٹوں کا شائع کرنے والا قرار دیتے ہیں.لکھا ہے.جو ٹریکٹ ہم نے دیکھے ہیں ان میںذرا شک نہیں کہ اکثر باتیں ان کی سچی ہیں.جہاں تک کہ ان کے متعلق ہمارا علم ہے اوربعض باتیں ہمارے علم اور ہمارے مشاہدہ سے بالا تر ہیں.اس لئے ان کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے…جب ہمارا حضرت مسیح موعودؑکی ہربات کے ساتھ پورا پورا ایمان ہے تو دیگر فروعی باتوں کے اختلاف یا ٹریکٹ ہائے کی بیان کردہ باتوں کے ساتھ اتفاق رائے رکھنے کے جرم میں اگر ہماری نسبت غلط فہمی پھیلائی جائی لاہوری انصار اللہ نے مناسب سمجھی ہے اورہمارے خلاف کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہے.تو ہماری طرف سے کچھ کمی بیشی کا کلمہ لکھا گیا تو اس کی ذمہ داری بھی ان پر ہوگی.ٹریکٹوں کی اشاعت سے دو باتوں کا ظاہرہونا یہ پانچ ثبوت ہیں اس امر کے کہ ان ٹریکٹوں کے شائع کرنے والے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء اورہم خیال تھے.ان ٹریکٹوں کی اشاعت ہم پر دو امر خوب اچھی طرح ظاہر کردیتی ہے تو ایک تو یہ کہ مقابلہ کے وقت اس جماعت سے کسی قانون حکومت یا قانون اخلاق یا قانون شریعت کی پابندی کی امید نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ اس ٹریکٹ کی اشاعت میں قانون حکومت کو بھی توڑا گیا ہے کیونکہ مطبع کا نام نہیں دیا گیا.حالانکہ یہ قانون کے خلاف ہے.قانون اخلاق کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح اورمجھ پر اور میرے دیگر رشتہ داروں پر ناپاک سے ناپاک حملے کئے گئے اورالزام لگانے والا اپنا نام نہیں بتاتا.

Page 240

تاکہ اس کے الزامات کی تحقیق کی جاسکے کیونکہ مدعی جب تک ثبوت نہ دے اس کا جواب کیا دیاجاسکتا ہے؟ قانون شریعت کو بھی توڑا گیا ہے کیونکہ لکھنے والااس شخس کی مخالفت کرتا اور اسے مشرک اور بد اخلاق قرار دیتا ہے جس کے ہاتھ پر وہ بیعت کرچکا ہے اورپھر ایسے ناپاک افتراء بگیر ثبوت و دلیل کے شائع کرتا ہے جن کا بغیر ثبو ت کے منہ پر لانا بھی شیریعت حرام قرار دیتی ہے.دوسرا امر یہ کہ یہ لوگ اس بات کا قطعی طور پر فیصلہ کرچکے تھے کہ خواہ کچھ ہوجاوے اپنے مدعا کے حصول کے لئے جماعت کے تفرقہ کی بھی پرواہ نہیں کریں گے اور جماعت کے توڑنے کے لئے حضر ت خلیفۃ المسیح کی زندگی کے زمانہ میں ہی تدابیر شروع کردی تھیں.ٹریکٹوں کے لکھنے والے کئی ایک تھے ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ٹریکٹ خود مولوی محمد علی صاحب نے لکھا مگر بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا لکھنے والا ان کے دوستوں اور ہم خیالوں میں سے ضرور تھا اورایک نہ تھا کئی تھے بلکہ کوئی جماعت تھی کیونکہ ایک سلسلہ ٹریکٹ کی اشاعت اوروہ بھی کثرت سے ایک شخص کا کام نہیں.اس کے انتظام اس کے خرچ اوراس کے ڈسپیچ کے لئے مددگاروں کی ضرورت ہے اوربغیر مددگاروں کے یہ کام ہو نہیں سکتا.پس ضرور ہے کہ ان کے ہم خیالوں کی ایک خفیہ سوسائٹی بنائی گئی تھی جس نےیہ کام کیا.ٹریکٹوں کا اثر اوران کا جواب جب یہ ٹریکٹ شائع ہوئے تو ان کا اثر ایک بمب سے زیادہ تھا وہ جماعت جو مسیح موعود کی قائم کردہ تھی اس نے اس ٹریکٹ کی اشاعت پر اپنی ذمہ داری کو پھر بڑے زور سے محسوس کیا اور چاہا کہ اس کا جواب دیا جاوے.جماعت کی ناراضگی اور حضرت خلیفۃ المسیح کے غضب سے ڈر کر پیغام صلح میں جو تائیدی ریمارکس شائع ہوئے تھے اس کی تردید میں ایک مختصر سانوٹ متعلقین پیغام صلح نے آخر میں شائع کیا، لیکن اس کے الفاظ ایسے پیچدار تھے کہ ان میں ان ٹریکٹوں کے مضمون کی اگر تردید نکلتی تھی تو تائید کا پہلو بھی سات ہی تھا مگر اصل جواب ایک اور جماعت کے لئے مقدر تھا اوروہ انصاراللہ کی جماعت تھی چونکہ راقم ٹریکٹ نے ان ٹریکٹوں میں انجمن انصاراللہ کے خلاف خاص طور پر اس ٹریکٹ کا جواب اس جماعت کے سُپرد فرمایا جو آپ کے ارشاد کے ماتحت دو ٹریکٹوں کی صورت میں شائع کیا گیا.پہلے ٹریکٹ میں اظہار الحق نمبر اوّل کا جواب لکھا گیا اواس کا نام خلافت احمدیہ رکھا گیا.دوسرے میں

Page 241

نمبر دوم کا جواب لکھا گیا اور اس کا نام اظہار الحقیقۃ رکھا گیا.یہ ٹریکٹ خود حضرت خلیفۃ المسیح نے دیکھے اوران میں اصلاح فرمائی.اوریہ فقرہ بھی ایک جگہ زائد فرما دیا‘‘ ہزار ملامت پیغام پر جس نے اپنی چھٹی شائع کرکے ہمیں پیغام جنگ دیا.اور نفاق کا بھانڈا پھوڑ دیا.٭ان ٹریکٹوں کی اشاعت پر ہم نے چاہا کہ ان لوگوں سے بھی جن کی تائید میں یہ ٹریکٹ گمنام آدمی نے لکھنے ہیں اس کی تردید میں کچھ لکھ دیا جائے.لیکن چونکہ ان لوگوں کے دل میں منافقت تھی اور یہ دل سے اس کی تائید میں تھے اس لئے انہوں نے بیسیوں عذروں اوربہانوں سے اس کام سے انکار کیا.سوائے میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے کہ جنہوں نے ان سوالات کے جواب لکھ دئیے جو ان کو لکھے گئے تھے اور یہی صاحب ہیں جنکو اللہ تعالیٰ نے آخر بیعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.گمنام ٹریکٹ شائع کرنے والے نے جس مقصد سے یہ ٹریکٹ شائع کئے تھے وہ مقصد اس کا پورا ہوا یا نہیں اس کو تووہی خوب جانا ہوگا.ہمیں ان ٹریکٹوں کی اشاعت سے یہ فائدہ ضرور ہوگیا کہ وہ باتیں جو مولوی صاحب اوران کے ساتھی خفیہ خفیہ پھیلا یا کرتے تھے ان کا علی الاعلان جواب دینے کا ہمیں موقع مل گیا اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے نفاق کا بھانڈا پُھوٹ گیا.اس ٹریکٹ کے بعد چند ماہ کے لئے امن ہوگیا.مینجر پیغام اوربابو منظور الٰہی کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے معافی مانگنی پڑی اوربظاہر معاملہ دب گیا.لیکن یہ لوگ اپنے کام سے غافل نہ تھے.خواجہ صاحب کا غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت مانگنا اورنماز پڑھنا خواجہ کمال الدین صاحب نے ولایت کے حالات سے فائدہ اُٹھا کر غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت طلب کرنی شروع کی.کیونکہ بقول ان کے وہاں کے لوگ احمدیت سے واقف نہیں اور مسلمانوں میں فرقہ بندی کا علم ان کو دینا مناسب نہ تھا.خواجہ صاحب کی کمزوری کو دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ان کو اجازت دیدی.لیکن خواجہ صاحب نے سب سے پہلے ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار کے پیچھے نماز اد کی جو سخت معاندِ سلسلہ اوربگ گو آدمی ہے اور اس طرح انگلستان کو بھی وہی پوزیشن دے دی.جو ہندوئوں کے اعتقاد میں گنگا کو ہے کہ جو ہاں گیا پاک ہوگیا.ہندوستان میں ظفر علی خان کے پیچھے نماز پڑھنا حرام لیکن انگلستان میں قدم رکھتے ہی وہ پاک ہوجاتا ہے اور اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہوجاتا ہے.*تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۵۱۳

Page 242

حضرت خلیفہ اوّل کے متعلق پیغام صلح کی غلط بیانی میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ خفیہ طور پر شائع ہونے والے ٹریکٹوں کے جوابات کے بعد ظاہر طور پر امن ہوگیا تھا.لیکن درحقیقت کینہ وبغض کی آگ ان لوگوں کے دلوں میں جل رہی تھی.چنانچہ ۱۹۱۳ء؁کے دسمبر کے جلسہ پر اس کا اظہار ہوگیا اور وہ اس طرح کہ سالانہ جلسہ کی تقریر میں حضرت خلیفۃ المسیح نے ان گمنام طور پر شائع کردہ ٹریکٹوں کا ذکر اپنی تقریر میں کیااور اس پر اظہار نفرت کیا.اس پر آپ کے مطلب کو بگاڑ کر پیغام صلح نے جھٹ پٹ شائع کردیا٭کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے انصار اللہ کے جواب میں شائع ہونے ولاے تریکٹوں پر اظہار نفرت کیا ہے.اوراس سے یہ غرض تھی کہ تا ان گمنام ٹریکٹوں کا اثر پھر قائم کیا جاوے اوران کے جوابات کاا ثر ذائل کیاجائے.حالانکہ انصار اللہ کے جوابی ٹریکت حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم کے ماتحت آپ کو دکھانے کے بعد بلکہ آپ کی اصلاح کے بعد شائع ہوئے تھے.چنانچہ جب سب سے آخری مرتبہ ااپ کے سامنے ان کا مسورہ پیش کیا گیا اوراس کی طبع کے متعلق اجازت طلب کی گئی تو آپ نے اس پر یہ تحریر فرمایا.’’اخلاص سے شائع کرو.خاکسار بھی دُعا کرے گا.اورخود بھی دعا کرتے رہو.کہ شریر سمجھے یا کیفر کردار کو پہنچے.نورالدین ‘‘.یہ تحریر اب تک ہمارے پاس موجود ہے.پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح تو ان ٹریکٹوں پر حضرت خلیفۃ المسیح کو ناراض لکھتا ہے.اصل سبب یہی تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اظہار الحق کے مضمون کی طرف لوگوں کی توجہ ہو اور اس کے جواب پر لوگ بدگمان ہوجائیں لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارگر نہیں ہوا کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح نے ۱۵ جنوری ۱۹۱۴؁ءکو ایک تحریر کےذریعہ شائع فرمایاکہ ’’پچھلے سال بہت سے نادانوں نے قوم میں فتنہ ڈالونا چاہا اوراظہار حق نامی اشتہار عام طور پر جماعت میں تقسیم کیاگیا.جس میں مجھ پر بھی اعتراضات کئے گئے.مصنف ٹریکٹ کا تو یہ منشاء ہوگا کہ اس جماعت میں تفرقہ ڈال دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بندہ نوازی سے مجھے اور جماعت کو اس فتنہ سے بچا لیا.‘‘ ٭ پیغام نے حضرت خلیفہ اول کے لیکچر کا خلاصہ لکھتے ہوئے لکھا.’’ جس شخص نے اظہار الحق لکھا اورجنہوں نے کُھلی چھٹی شائع کی اورجنہوں نے خلافت پر بحث کی اور ٹریکٹ شائع کئے ان کا حق کیا تھا.‘‘ (پیغام صلح پرچہ ۶؍جنوری ۱۹۱۴ء؁صفحہ ۲)

Page 243

خلافت کے متعلق حضرت خلیفۃاوّل کا خیال جلسہ سالانہ کے چند ہی دن کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح بیمار ہوگئے اورآپ کی علالت روز بروز بڑھنے لگی.مگر ان بیماری کے دنوں میں بھی آپ تعلیم کا کام کرتے رہے.مولوی محمد علی صاحب قرآن شریف کے بعض مقامات کے متعلق آپ سے سوال کرتے اورآپ جواب لکھواتے کچھ اورلوگوں کو بھی پڑھاتے.ایک دن اسی طرحپڑھا رہے تھے.مسند احمد کا سب تھا.آپ نے پرھاتے پڑھاتے فرمایا کہ مسند احمد حدیث کی نہایت معتبر کتاب ہے بخاری کا درجہ رکھتی ہے مگر افسوس ہے کہ اس میں بعض غیر معتبر روایات امام احمد بن حنبل صاحب کے ایک شاگرد اوران کے بیٹے کی طرف سے شامل ہوگئی ہیں.جو اس پایہ کی نہیں ہیں.میرا دل چاہتا تھا اصل کتاب کو علیحدہ کرلیا جاتا.مگر افسوس کہ یہ کام میرے وقت میں نہیں ہوسکااب شاید میاں کے وقت میں ہوجاوے اتنے میں مولوی سیّد سرور شاہ صاحب آگئے اورآپ نے ان کے سامنے یہ بات پھر دہرائی اورکہا کہ ہمارے وقت میں تو یہ کام نہیں ہوسکا آپ میاں کے وقت میں اس کام کو پوراکریں.یہ بات وفات سے دو ماہ پہلے فرمائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم حضرت خلیفۃ المسیح کا منشاء یہی تھا کہ آپ کے بعد خلفاء کا سلسلہ چلے گا اوریہ بھی کہ خدا تعالیٰ اس مقام پر آپ کے بعد مجھے کھڑا کرے گا.مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کا مولوی محمد علی کو ارشاد چونکہ مسئلہ کفر و اسلام کا تذکرہ جماعت میں ہمیشہ زیر بحث رہتا تھا اور مولوی محمد علی صاحب نے کبھی ان مسائل پر قلم نہیں اُٹھایا تھا اور ان مسائل کے متعلق ان کو بے تعلق حیثیت حاصل تھی.مولوی محمد علی صاحب کو قرآن کریم کے بعض مقامات پر نوٹ کرانے کے دَوران حضرت خلیفۃ المسیح نے مختلف آیات کے متعلق ایک دن فرمایا کہ یہ آیات کفر و اسلام کے مسئلہ پر روشنی ڈالتی ہیں اور لوگ بظاہر ان میں اختلاف سمجھتے ہیں.مثلاً : اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ: ۶۳) اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍوَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًااُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۰ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّھيْنًا (النساء : ۱۵۱، ۱۵۲)

Page 244

اسی طرح بعض لوگ میری نسبت بھی کہتے ہیں کہ یہ کبھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہتا ہے اور کبھی کافر.میرا ارادہ تھا کہ کبھی اس پر ایک مضمون لکھوں کہ ان آیات کا کیا مطلب ہے؟ اور میرے اقوال میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کا کیا باعث ہے؟ آپ آج کل قرآن کریم کے نوٹ لکھ رہے ہیں.آپ اس پر ایک مضمون لکھیں اور مجھے دکھالیں.اس میں ان آیات میں مطابقت کرکے دکھائی جاوے.یہ گفتگو میرے سامنے ہوئی.اسی طرح کچھ دن بعد جبکہ مَیں بھی بیٹھا ہوا تھا ، حضرت خلیفہ اوّل نے پھر یہی ذکر شروع کیا اور اپنی نسبت فرمایا کہ میری نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ کبھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہہ دیتا ہے کبھی کافر.حالانکہ لوگ میری بات کو نہیں سمجھے.یہ ایک مشکل بات ہے حتّٰی کہ ہمارے میں بھی نہیں سمجھے.مولوی محمد علی صاحب کا کفر واسلام کے متعلق مضمون مولوی صاحب کو گو حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک بے تعلق آدمی خیال کیا تھا.مگر مولوی صاحب دل میں تعصب وبغض سے بھرے ہوئے تھے.انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور حضرت خلیفۃ المسیح نے کہا کچھ تھا انہوں نے لکھناکچھ اور شروع کردیا.بجائے اس کے کہ ان آیات میں تطبیق پر مضمون لکھتے جو بعض لوگوں کے نزدیک ایک دوسری کے مخالف ہیں.’’کفر و اسلام غیر احمدیان‘‘ پر ایک مضمون لکھ دیا.ادھر پیغام صلح میں یہ شائع کرادیا گیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا ہے کہ میاں کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں سمجھا.٭حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی جیسا کہ پہلے جا چکا ہے.مولوی محمد علی صاحب کا حضرت خلیفہ اوّل کو مضمون سنانے کی حقیقت جب مولوی صاحب نےمضمون لکھ لیا تو نہ معلوم کس خوف سے اس بات کی بے حد کوشش کی کہ علیحدہ وقت میں سنایا جاوے.چنانچہ ایک دن رات کے وقت پہرہ کرکے مضمون سنانا چاہا.مگر عین وقت پر ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب پہنچ گئے اوربات رہ گئی دوسری دفعہ جمعہ کی نماز کا ناغہ کرکے مضمون سنایا.حضرت خلیفہ اول کے بڑے بیٹے میاں عبدالحی مرحوم کا بیان ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ ابھی اسے شائع نہ کریں اور اس قسم کی بات بھی ٭ (پیغام ۳ ؍مارچ ۱۴ء صفحہ ۴ - ’’ میں نے بھی اس کو نہیں سمجھا‘‘) ، (رسالہ کفر و اسلام صفحہ ۱۲ سطر ۱۱، ۱۲ - ’’ میاں نے بھی اس مسئلہ کو نہیں سمجھا‘‘)

Page 245

کہی کہ میر ا مطلب کچھ اور تھا.مگر چونکہ مرحوم کی عمر اس وقت چھوٹی تھی.ہم ان کو شہادت پر اپنے دعویٰ کی بناء نہیں رکھتے.ہمارے پاس ایسی زبردست اندرونی شہادت موجود ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یا تو مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح نے ناپسند کیا اور یا پھر ان کے دکھانے کے بعد اسے بدل دیا گیا اور یا اسے ایسے وقت میں سنایا گیا کہ جس وقت آپ کی توجہ کسی اور کام کی طرف تھی اور آپ نے اس کو سُناہی نہیں.اور وہ شہادت خود مولوی محمد علی صاحب کا مضمون ہے.اس مضمون میں کئی ایسی باتیں لکھی گئی ہیں جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل جیسے عاعلم و فاضل آدمی کی طرف تو کُجا ایک معمولی سمجھ کے آدمی کی طرف بھی منسوب نہیں ہوسکتیں مثال کے طور پر ہم چند باتیں ذیل میں درج ہیں:- پہلی شہادت اس میں اسلام کی تعریف قرآن کریم و احادیث سے یہ ثابت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اوریومِ آخر پر ایمان لے آنا کافی ہے اور کس امر کی ضرورت نہیں.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب اس رسالہ میں لکھتے ہیں:- ’’بلکہ خود قرآن کریم نے ایک ہی آیت میں بالکل صاف کردیا ہے جہاں فرمایا وَمَا یُوْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ(یوسف:۱۰۷) جس میں یہ سمجھایا ہے کہ اکثر لوگوں کا تو یہی حال ہے کہ اللہ پر ایمان لانےکے باوجود دل کے کسی نہ کسی کو نہ میں شرک باقی رہتا ہے.پس باوجود مشرک ہونےکے بھی مؤمن کالفظ بولا جاتا ہے‘‘.(مسئلہ کفر و اسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۴) یہ آیت جو مولوی محمد علی صاحب نے لکھی ہے کفارِ مکّہ کے حق میں ہے اور سورہ یوسف کے آخری رکوع میں وارد ہے.اس آیت سے استدلال کرکے مولوی محمد علی صاحب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلام کی تعریف ایسی وسیع ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے بھی مؤمن ہیں اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ایک جزوی امر ہے.جس کے فقدان پر انسان کافر نہیں ہوجاتا.اس طرح اسی صفحہ پر وہ لکھتے ہیں:- ’’جو شخص لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا انکار کردے وہ تو اس دائرے سے ہی خارج ہوگیا.لیکن جو شخصلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کرکے کسی اور حصہ کو چھوڑتا ہے تو وہ دائرہ کے اندر تو ہے مگر اس خاص حصہ کا کافر ہے.‘‘ اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ان کے نزدیک جو شخص لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مان لے وہ مسلمان ہوجاتا ہے کسی اوربات کے انکار سے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی انکار شامل ہے اس کے مسلم ہونے میں کچھ شبہ نہیں پڑتا.صرف اسقدر ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے ایک حصہ کا کافر ہے

Page 246

دائرہ اسلام سے وہ خارج نہیں اور اس سے وہ نتیجہ نکلاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑکا انکار بھی ایک جزوہ کا انکار ہے.نہ کہ دائرہ اسلام سےخارج کردیتا ہے.یہ عقیدہ ایک ایسا خطرناک عقیدہ ہے کہ اس سے اسلام کی ہی بیخکنی ہوجاتی ہے.کیونکہ قرآنِ کریم اسلام کے لئے اللہ ،ملائکہ ، کتب سماویہ ،رُسل اوریوم آخر پر ایمان لانا ضروری قرار دیتا ہے.پس یہ بات جو مولوی محمد علی صاحب نے لکھی ہے.ہرگز حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی لکھائی ،ہوئی یا پسند کی ہوئی نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ کا مذہب بدر ۹مارچ ۱۹۱۱؁ء کے پرچہ میں اس طرح درج ہے.’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کےماننے کے نیچے خدا کے سارے ما ٔموروں کے ماننے کا حکم آجاتا ہے …حضرت آدمؑ ،حضرت ابراہیم ،حضرت موسٰی ،حضرت مسیحؑان سب کا ماننا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے ماتحت ہے حالانکہ ان کا ذکر اس کلمہ میں نہیں.قرآن مجید کا ماننا ،سیّدنا حضرت محمد خاتم النّبیّٖن صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا، قیامت کا ماننا ،سب مسلمان جانتے ہیں کہ اس کلمہ کے مفہوم میں داخل ہے.‘‘ پس حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ا س فتویٰ کی موجودگی میں اور خود اس فتویٰ کےصریح باطل ہونے کے باوجود کون شخص خیال کرسکتاہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے یہ مضمون حضرت خلیفۃ المسیح کے لکھوائے ہوئے نوٹوں کے مطابق لکھا ہے اورآپ کی پسندیدگی کے بعد شائع کیا ہے.دوسری شہادت دوسری اندرونی شہادت یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنےاس رسالہ میں قرآن کریم کی آیت کے ایسے غلط معنے کئے ہیں کہ وہ عربی زبان کے قواعد کے بالکل بر خلاف ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح کے کئے ہوئے معنوں کے بھی خلاف ہیں بلکہ ایک رنگ میں ان کی تردید حضرت خلیفۃ المسیح نے کی ہے.مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں:- ’’قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ(الانعام:۹۲)یعنی اللہ منوا کر ان کو چھوڑ دو.‘‘٭ یعنی آیت قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُم ْکےیہ معنے ہیں کہ لوگوں سے خدا منوالو اورپھر ان کو چھوڑ دو.اسی قدر ان کے اسلام کے لئے کافی ہے.لیکن جب ہم آیت کریمہ کو دیکھتے ہیں تو وہ اس طرح ہے.وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ۰ۭ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِہٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّہُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا۰ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ۰ۭ قُلِ اللہُ۰ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِيْ

Page 247

خَوْضِہِمْ يَلْعَبُوْنَ (الانعام :۹۲)یعنی ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اندازہ پورے طور پر نہیں لگایاجبکہ انہوں نے یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بندے پر کچھ نہیں اُتارا.کہہ کون ہے جس نے وہ کتاب اتاری تھی جو موسیٰؑلائے تھے جو نُور تھی اور لوگوں کے لئے ہدایت تھی.جس کتاب کو تم ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو.اس میں سے بعض کو ظاہر کرتے ہو اور بہت حصّے کو چھپاتے ہو.اور تم وہ بات سکھائے گئے ہو.جو نہ تم جانتے ہو اور نہ تمہارے باپ دادے جانتے تھے(یعنی قرآن کریم میں تو ایسےعلوم ہین جو توریت میں نہ تھے پھر وہ خدا کی کتاب ہوگئی اور یہ نہ ہوئی)کہہ یعنی تو اُن کو اپنی طرف سے کہہ دے کہ خدا تعالیٰ نے موسٰی کی کتاب اُتاری تھی اور یہ جو اب مُسکت ان کو دے کر ان کو چھوڑ دے کہ یہ اپنی شرارتوں میں کھیلتے رہیں.اس آیت میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ خدا کو منوا کر چھوڑ دو.اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بندہ پر کبھی الہام نازل نہیں کیا.اس کے جواب میں تُو ان سے پوچھ کہ موسٰی کی کتاب کس نے نازل کی تھی اور پھر اپنی طرف سے کہہ دے کہ وہ خدا نے نازل کی تھی اور چونکہ یہ جواب ان کے عقیدہ کے مطابق ہے اور یہ اس کا جواب کچھ نہیں دےسکتے اس لئے اس جواب کے بعد اس مسئلہ پر زیادہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں پھر ان کو چھوڑ دو کہ دین پر ہنسی کرتے ہیں.عربی زبان کے مطابق مولوی محمد علی صا؛حب کے کئے ہوئے معنے کس طرح جائز نہیں.خود ان کے شائع کردہ ترجمہ قرآن میں بھی یہ معنے نہیں کئے گئے بلکہ وہی معنے کئے گئے ہیں جو مَیں نے لکھے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:- And they do not assign to Allah the attributes due to Him, when they say: Allah has not revealed anything to a mortal.Say: Who revealed the Book which Moses brought a light, and a guidance to men, which you make into scattered writings, which you show, while you conceal much? And you were taught what you did not know, (neither) you nor your fathers.Say: Allah؛then leave them sporting in their vain discourses.page.306 اگر وہ معنی درست ہوتے جو مولوی صاحب نے اس رسالہ میں لکھے ہیں تو کیوں وہ قرآن کریم میں وہ ترجمہ نہ لکھتے ؟ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ پہلے سے جانتے تھے کہ یہ ترجمہ غلط ہے اور محض دھوکا دینے کیلئےانہوں نے اس رسالہ میں غلط معنے کردئیے ہیں.اور یا یہ کی اعتراضوں سےگھبراکر انہوں نےاپنے ترجمہ میں چھپنے سے پہلے تبدیلی کردی.ان کاخود ان معنوں کو غلط تسلیم کرلینا اس امر سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسکے بعد کفر و اسلام کے متعلق انہوں نےمتعدد تحریروں میں بحث کی ہے مگر کبھی اس آیت

Page 248

سےپھر استدالال نہیں کیا.غرض ایسےغلط معنےحضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی طرف کبھی منسوب نہیں کئے جاسکتے اور نہ یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے ان معنوں کو پسند کیا ہوگا.اس امر کی تائید میں کہ حضرت خلیفۃ المسیح نےہرگز ان معنوں کو پسند نہیں کیا یہ ثبوت بھی ہے کہ آپ کے درس قرآن کریم کے نوٹوں میں آپ نے وہی معنی کئے ہیں جو ہم نے پہلے لکھے ہیں آپ فرماتے ہیں:- فرمایا’’قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُم ْکےیہ معنی نہیں کہ اللہ اللہ کرتے رہو کیونکہ محض اللہ اللہ ذکر ہماری شریعت اسلامی میں ثابت نہیں بلکہ یہ تو جواب ہے مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ کا.یہ کتاب کس نے اتاری ؟ تُو کہہ اللہ نے.(بدر مؤرخہ ۲،۹ ستمبر ۱۹۱۰؁ء جلد ۴۵،۴۶) پس آپ کے مطبوعہ معنوں کے خلاف ایک اور معنی جو عربی زبان کے خلا ف ہیں آپ کی طرف منسوب کرنا کس قدر ظلم اور دیدہ دلیری ہے؟ اورجس رسالہ میں قراان کریم کی آیت کے ایسے غلط معنے کرکے مسئلہ کفر واسلام کو ثابت کیا گیا ہو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح کی پسند کردہ ہے.حضرت خلیفۃ المسیح تو نہ صرف یہ کہ ان معنوں کے خلاف ایک اور معنے کرتے ہیں بلکہ یہ فرما کر کہ قُلِ اللّٰہُ جواب ہے مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ کا مولوی محمد علی صاحب کے معنوں کو بالکل ردّ کردیتے ہیں.تیسری شہادت تیسری شہادت اس بات کے رد میں یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ آپؒکایہ مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دفعہ دِل سے اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہہ دے تو وہ مؤمن ہوجاتا ہے.چاہے پھر اس سے شرک کفر یا ظلم سرزد ہو.(مسئلہ کفر واسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۲) یہ قول ایسا بے معنی اور بیہودہ ہے کہ عقل اس کے سننے سے انکار کرتی ہے.مگر مولوی محمد علی صاحب نہ صرف یہ کہ اس کو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ اسے ان کا مذہب قرار دیتے ہیں مگر باوجود بار بار کے مطالبہ کے کہ امام ابو حنیفہ کی کون سے مخفی کتاب آپ کے ہاتھ آگئی ہے؟ جس میں یہ مذہب ان کا بیان ہے یا ان کے کس شاگر د نے ان سے یہ مذہب نقل کیا ہے وہ بالک ساکت و خاموش ہیں اور کوئی جواب نہیں دیتے اور صرف کہہ دیتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے ان کو ایسا ہی لکھوایا تھا حالانکہ حضرت خلیفۃ المسیح خود تو امام ابو حنیفہ ؒ کے وقت میں تھے

Page 249

نہیں.آپ نےجو کچھ فرمایا ہوگا خفیوں کی کتابوں سے ہی فرمایا ہوگا.مگر جس قدر کتب امام ابو حنیفہ ؒ کے اقوال کے بیان میں ہیں ان میں سے ایک میں بھی یہ قول درج نہیں پس ایسے بیہودہ قول کو ایسے امام کی طرف منسوب کرنا حضرت خلیفہ المسیح کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.ضرور ہے کہ یہ مولوی محمد علی صاحب کے دماغ کی اختراع ہو یا حضرت خلیفۃ المسیح کی کس بات کو نہ سمجھ کر انہوں نے اس طرح لکھ دیا ہو.ان دونوں صورتوں میں یہ رسالہ حضرت خلیفۃ المسیح کا پسندیدہ اوران کے منشاء کے مطابق نہیں ہوسکتا یہ تین شاہد اندرونی ہمارے پاس موجود ہیں جو شہادت دیتے ہیں کہ یہ رسالہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا پسندیدہ نہیں.لیکن ہم ان شواہد کے علاوہ یہ امر بھی دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قریباً ایک ماہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات سے پہلے یہ رسالہ حضرت خلیفۃ المسیح کو سنایا گیا ہے اسے شائع آپ کی وفات کے بعد کیا گیا.حالانکہ اس کے بعد کا لکھا ہوا یک مضمون جو اس سے بڑا ہے اس سے پہلے چھاپ کر شائع کیا گیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس خاص حکمت کے ماتحت اس کی اشاعت رو کی گئی تھی اور وہ حکمت اس کے سوا اور کیا تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کا انتظار کیا جاتا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح کی وصیت حضرت خلیفۃ المسیح کی بیماری چونکہ زیادہ ہوگئی.فروری ۱۹۱۴ء؁ میں ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ قصبہ سے باہر کسی جگہ رہیں تا کہ کُھلی ہَوا کے مفید اثر سے فائدہ اُٹھا سکیں.خان محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے رشتہ دامادی رکھتے ہیں اپنی کوٹھی کے ایک حصہ کے خالی کردینے کا انتظام کردیا.اورآپ وہاں تشریف لے گئے.چونکہ آپ کی طبیعت زیادہ کمزور ہوتی جارہی تھی مَیں بھی وہیں جارہا.چار مارچ کو عصر کے قریب آپ نے کاغذ قلم و دوات منگوایا اور لیٹے لیٹے ایک وصیّت لکھی.جس کا مضمون یہ ہے:- ’’خاکسار بقائمی ہوش و حواس لکھتا ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر میں مال نہیں.انکا اللہ حافظ ہے.ان کی پرورش یتامیٰ و مساکین سے نہیں.کچھ قرضِ حسنہ جمع کیا جائے لائق لڑکے ادا کریں.یاکتب جائداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو.ہردلعزیز عالم باعمل.حضرت صاحبؑ کے پُرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی دَرگزر کو کام میں لاوے.مَیں سب کا خیر خواہ تھا.وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن و حدیث کا درس جاری رہے.والسلام‘‘ نورالدین ۴ ؍مارچ ۱۹۱۴ء (الحکم ۷مارچ ۱۹۱۴ء؁ جلد ۱۸ نمبر ۲ صفحہ ۵)

Page 250

وصیّت کو مولوی محمد علی صاحب سے پڑھوانا جب آپ نے وصیّت لکھی.مولوی محمد علی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے.لکھ کر ان کو دی اور کہا کہ اسے پڑھ کر لوگوں کو سنادیں پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھوائی.اورپھر دریافت فرمایا کہ کیا کوئی بات رہ تو نہیں گئی.مولوی محمد علی صاحب جو اپنے دل میں خلافت کے مٹانے کی فکر میں تھے اور تدابیر سوچ رہےتھے اس وصیت کو پڑھ کر حیران رہ گئے اور اس وقت ہر ایک شخص ان کے چہر پر ایک عجیب قسم کی مُردنی اور غصہ دیکھ رہا تھا.جو حضرت خلیفۃ المسیح کے وصیت لکھوانے کے باعث نہ تھا.بلکہ اپنی سب کوششوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھنے کا نتیجہ تھا.مگر حضرت خلیفہ اوّل کا رُعب ان کو کچھ بولنے نہ دیتا تھا.باوجود مخالف خیالات کے انہوں نے اس وقت یہی لفظ کہے کہ بالکل درست ہے مگر آئندہ واقعات بتائیں گے کہ کسی مرید نے،کسی خادم نے،کسی اظہار عقیدت کرنے والے نے اپنے پِیر اوراپنے آقا اوراپنےشیخ سے عین اس وقت جبکہ وہ بِستر مرگ پر لیٹا ہوا تھا اس سے بڑھ کر دھوکا اور فریب نہیں کیا جو مولوی محمد علی صاحب نے کیا.خلیفۃ المسیح کی بیماری میں اختلافی مسائل کا چرچا حضرت خلیفۃ المسیح کی بیماری کی وجہ سے چونکہ نگرانی اُٹھ گئی تھی اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا.اختلافی مسائل پر گفتگو بہت بڑھ گئی اور جس جگہ دیکھو یہ چرچا رہنے لگا اس حالت کو دیکھ کر مَیں نے ایک اشتہار لکھا.جس کا یہ مضمون تھا کہ جس وقت کہ حضرت خلیفۃ المسیح تندرست تھے.اختلافی مسائل پر آپس میں ہماری بحثوں کا کچھ حرج نہ تھا.کیونکہ اگر بات حد سے بڑھے یا فتنہ کا اندیشہ ہو تو روکنے والا موجود تھا.لیکن اب جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح بیمار ہیں اور سخت بیمار ہیں.مناسب نہیں کہ ہم اس طرح بحثیں کریں اس کا انجام فتنہ ہوگا.اس لئے اختلافی مسائل پر اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح کو شفاء عطا فرمادے اور آپ خود ان بحثوں کی نگرانی کرسکیں نہ کوئی تحریر لکھی جائے اورنہ زبانی گفتگو کی جاوے تا کہ جکاعت میں فتنہ نہ ہو.یہ اشتہار لکھ کر میں نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھی بیجا کہ آپ بھی اس پر دستخظ کردیں تا کہ ہر قسم کے خیالات کے لوگوں پر اس کا اثر ہو اور فتنہ سے جماعت محفوظ ہوجاوے ،مولوی محمد علی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا چونکہ جماعت میں جو کچھ اختلاف ہےاس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں.ایسا اشتہار ٹھیک نہیں اس سے دشمنوں کو واقفیت حاصل ہوگی اور ہنسی کا موقع ملے گا.بہتر ہے کہ قادیان کے لوگوں کو جمع کیا جاوے.اور اس میں آپ بھی اور میں بھی تقریریں کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ اختلافی مسائل پر گفتگو ترک کر

Page 251

دیں.گو مَیں حیران تھا کہ اظہارالحق نامی ٹریکٹوں کی اشاعت کے بعد لوگوں کا جماعت کے اختلاف سے ناواقف ہونا کیا معنے رکھتا ہے؟ مگر مَیں نے مولوی صاحب کی اس بات کو قبول کرلیا.مَیں اس وقت تک نہیں جانتا تھا کہ یہ بھی ایک دھوکا ہےجو مجھ سے کیا گیا ہے لیکن بعد کے واقعات نےثابت کردیا کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنے مدعا کے پورا کرنے کے لئے کسی فریب اور دھوکے سے بھی پرہیز نہیں کیا اورا س اشتہار پر دستخظ کرنے سے انکار کی وجہ یہ نہ تھی کہ عام طور پر معلوم ہوجاوے گا کہ جماعت میں کچھ اختلاف ہے بلکہ ان کی غرض کچھ اور تھی.خلیفۃ المسیح کے ایّام بیماری میں ایک خاص اجتماع قادیان کے لوگ مسجد نور میں جو سکول کی مسجد ہے اور خان محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کی کوٹھی کے قریب ہے جہااں کہ ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح بیمار تھے جمع ہوئے اور مَیں اور مولوی محمد علی صاحب تقریر کرنے کے لئے وہاں گئے مولوی محمد علی صاحب نے پہلے خواہش ظاہر کی کہ پہلے مَیں تقریر کروں اوربغیر کسی خیال کے تقریر کے لئے کھڑا ہوگیا اور اس میں مَیں نے وہی اشتہار کا مضمون دوسرے الفاظ میں لوگوں کو سُنا دیا اور اتفاق پر زور دیا.جب مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے تو انہوں نے بجائے اتفاق پر زور دینے کے پچھلے قصوں کو دہرانا شروع کیا اور لوگوں کو ڈانٹنا شروع کیا کہ وہ خواجہ صاحب پر یا ان کے دوسرے ہم خیالوں پر کیوں حملہ کرتے ہیں؟ اورخوب زجرو توبیخ کی.لوگ میرے لحاظ سے بیٹھے رہے ورنہ ممکن تھا کہ بجائے فساد کے رفع ہونے کے ایک نیا فساد کھڑا ہوجاتا اور اسی مجلس میں ایک نئی بحث چھڑ جاتی.آخر میں کچھ کلمات اتفاق کے متعلق بھی انہوں نے کہے مگر وہ بھی سخت لہجہ میں جس سے لوگوں میں زیادہ نفرت پیدا ہوئی اور افتراق میں ترقی ہوئی.جماعت کے اتحاد کی کوششیں چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل تھی اور لوگ نہایت افسوس کے ساتھ آنےوالے خطرہ کو دیکھ رہے تھے.طبعاًہرایک شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ میں تو برابر دُعائوں میں مشغول تھا اور دوسرے دوستوں کو بھی دُعائوں کے لئے تاکید کرتا تھا.اس وقت اختلافی مسائل میرے سامنے نہ تھے بلکہ جماعت کا اتحاد مد نظر تھا اور اس کے زائل ہوجانے کا خوف میرے دل کو کھا رہا تھا.چنانچہ اس امر کے متعلق مختلف ذی اثر احمدیوں سے میں نے گفتگوئیں کیں.عام طور پر ان لوگوں کا جو خلافت کے مُقِر تھے اور نبوت مسیح موعود ؑ کے قائل تھے یہی خیال تھا کہ ایسے شخص کے ہاتےپر بیعت نہیں کی جاسکتی.جس کے عقائد ان عقائد کے خلاف ہوں.کیونکہ اس

Page 252

سے احمدیت کے مٹنے کا اندیشہ ہے.مگر مَیں اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اتحاد سب سے زیادہ ضروری ہے.شخصیتوں کے خیال سے اتحاد کو قربان نہیں کرنا چاہئے.چنانچہ مَیں نے اپنے دوستوں کو خاص طور پر سمجھانا شروع کیا کہ خدانخواستہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات پر اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو ہمیں خواہ وہ لوگ تھوڑے ہی ہیں ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئیےکیونکہ مَیں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی ہمارا ہم عقیدہ شخص خلیفہ ہوا تو وہ لوگ اس کی بیعت نہیں کریں گے اور جماعت میں اختلاف پڑ جائے گا.اورجب میں ان میں سے کسی کی بیعت کرلوں گا تو اُمید ہے کہ میرے اکثر احباب اس کی بیعت اختیار کرلیں گے اور فساد سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ ایک دن عصر کے بعد جبکہ مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب جو ہماری جماعت کے سب سے بڑے علماء میں سے ایک ہیں میرے ساتھ سیر کو گئے تو تمام سیر میں دو گھنٹہ کے قریب ان سے اسی امر پر بحث ہوتی رہی اور آخر مَیں نے ان کو منوالیا کہ ہمیں اس بات کے لئے پورے طور پر تیار ہونا چاہئے کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو؟ تو ہم ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں.حضرت خلیفہ اوّل کی وفات آخر وہ دن آگیا جس سے ہم ڈرتے تھے.۱۳ ؍مارچ کو جمعہ کے دن صبح کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح کو بہت ضعف معلوم ہونے لگااور ڈاکٹروں نے لوگوں کا اندر جانا منع کردیا.مگر پھر بھی عام طور پر لوگوں کا یہ خیال نہ تھا کہ وہ آنے والی مصیبت ایسی قریب ہے.آپ کی بیماری کی وجہ سے آپ کی جگہ جمعہ بھی اور دیگر نمازیں بھی آپ کے حکم کے ماتحت مَیں پڑھایا کرتا تھا چنانہ جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے میں مسجد جامع گیا.نماز پڑھا کر تھوڑی دیر کے لئے مَیں گھر گیا.اتنے میں ایک شخص خان محمد علی خان صاحب کا ملازم میرے پاس آن کا پیغام لیکر آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہے اوران کی گاڑی کھڑی ہے چنانچہ میں ان کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر ان کے مکان کی طرف روانہ ہوا.ابھی ہم راستہ میں تھے تو ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے ہمیں اطلاع دی کہ حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہوگئے ہیں اور اس طرح میری ایک پُرانی رئویا پوری ہوئی کہ میں گاڑی میں بیٹھا ہوا کہیں سے آرہا ہوں کہ راستہ میں مجھے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کی خبر ملی ہے.یہ خبر اس وقت کے حالات کے ماتحت ایک نہایت ہی متوحش خبر تھی.حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کا تو ہمیں صدمہ تھا ہی مگر اس سے بڑھ کر جماعت میں تفرقی پڑجانے کا خوف تھا.

Page 253

حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر پہلی تقریر اسی وقت تمام جماعت کو اطلاع کے لئے تاریں روانہ کردی گئیں.خدا تعالیٰ کے حضور دُعائیں اکثر حصۂ جماعت لگ گیا.عصر کے وقت مسجد نُور میں جبکہ جماعت کا اکثر حصہ وہاں جمع تھا.مَیں نے ایک تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا:- حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے ساتھ ہم پر ایک ذمہ داری رکھی گئی ہے.جس کے پورا کرنے کے لئے سب جماعت کو تیار ہوجانا چاہئے.کوئی کام کتنا ہی اعلیٰ ہو.اگر ارادہ بد ہو تو وہ خراب ہوجاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم کے پڑھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اَعُوْذُ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ نازل کی ہے.اَعُوْذُ میں انسان بد نیتی سے پناہ مانگتا ہے اور بسم اللہ کےذریعہ عمل نیک کی توفیق چاہتا ہے.پس جبکہ قرآنِ کریم کی تلاوت جو خدا کا کلام ہے اور جس کا پڑھنا خدا تعالیٰ نے فرض کیا ہے.اس کے لئے اس قدر احتیاط کی ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں نماز کے متعلق فرماتا ہے:- فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ.الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ (الماعون:۵تا ۷) یعنی عذاب ہے ان نمازیوں کے لئے جو غرض نماز سے ناواقف ہوتےہیں اور لوگوں کے دکھانے کے لئے نماز پڑھتے ہیں.وہ نماز جو خدا تعالیٰ کے قرب کاذریعہ ہے اسی کو اس آیت میں نیت کے فرق کے ساتھ موجب عذاب قرار دیا ہے.پس جو امانت اب ہمارے سپرد کی گئی ہے اس کے پورا کرنے کے لئے ہمیں خاص دُعائوں میں لگ جانا چاہئے اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ بہت پڑھنا چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہم پر نازل ہو اور اس کی رضا ہم پر ظاہر ہو.اگر خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہم پر نازل ہو اور اس کی رضا ہم پر ظاہر ہو.اگر خدا تعالیٰ نےمدد نہ کی تو خطرہ ہے کہ ہم ہلاکت میں نہ پڑجاویں.پس آج سے ہر ایک شخص چلتے پھرتے نمازوں میں اور نمازوں سے باہر دُعامیں لگ جاوے تا خدا ہماری حفاظت کرے اور سیدھے راستہ سے نہ ہٹنے دے اور رات کو اُٹھ کر بھی دعا کرو اورجن کو طاقت ہو روزہ رکھیں.اس کے بعد سب لوگوں کے ساتھ مل کر مَیں نےدعا کی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس گئے.(تفصیل ملاحظہ ہوالحکم ۱۴ ؍مارچ ۱۹۱۴ء؁ جلد ۱۸ نمبر ۳،۴ صفحہ ۹)

Page 254

مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو میں مسجد سے نکل کر مکرمی خان صاحب محمد علی خان صاحب کے مکان کی طرف آرہا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب مجھ کو ملےاور کہا کہ مَیں آپ سے کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں.مَیں ان کے ساتھ ہوگیا اور ہم دونوں جنگل کی طرف نکل گئے.مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سےذکر کیا کہ چونکہ ہر ایک کام بعد مشورہ ہی اچھا ہوتا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد جلدی سےکوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئےبلکہ پورے مشورہ کے بعد کوئی کام ہونا چاہئے.مَیں نے ان سے کہا کہ جلدی کا کام بیشک بُرا ہوتا ہے اور مشورہ کے بعد ہی کام ہونا چاہئے.لوگ بہت سے آرہے ہیں اور کل تک اُمید ہے کہ ایک بڑا گروہ جمع ہوجاوے گا.پس کل جس وقت لوگ جمع ہوجاویں مشوہ ہوجاوے جو لو گ جماعت میں کچھ اثر رکھتے ہیں.وہ قریب قریب کے ہی رہنےوالے ہیں اور کل تک اُمید ہے کہ پہنچ جاویں گے.مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں اس قدر جلدی ٹھیک نہیں.چونکہ اختلاف ہے اس لئے پورے طور پر بحث ہوکر ایک بات پر متفق ہوکر کام کرنا چاہئے.چار پانچ ماہ اس پر تمام جماعت غور کرے.تبادلہ خیالات کے بعد پھر جو فیصلہ ہو اس پر عمل کیاجاوے.مَیں نےدریافت کیا کہ اوّل تو سوال یہ ہے کہ اختلاف کیا ہے؟ پھر یہ سوال ہے کہ اس قدر عرصہ میں اگر بغیر راہنما کے جماعت میں فساد پڑا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کےموقع پربھی اسی طرح ہوا تھا کہ جو لوگ جمع ہوگئے تھے انہوں نے مشورہ کرلیا تھا اوریہی طریق پہلے زمانہ میں بھی تھال.چھ چھ ماہ کا انتظار نہ پہلے کبھی ہوا نہ حضرت مسیح ؑکے بعد.مولوی محمد علی صاحب نے جواب دیا کہ اب اختلاف ہےپہلے نہ تھا.دوسرے اس انتظار میں حرج کیا ہے؟ اگر خلیفہ نہ ہو تو اس میں نقصان کیا ہوگا ؟ وہ کون سا کام ہے جو کل ہی خلیفہ نے کرنا ہے ؟ مَیں نے ان کو جواب دیا کہ حضرت مسیح موعودؑکی وفات پر جماعت اس بات کا فیصلہ کرچکی ہے کہ اس جماعت میں سلسلہ خلفاء چلے گا.اس پر دوبارہ مشورہ کی ضرورت نہیں اور یہ سوال اب نہیں اُٹھایا جاسکتا.اگر مشورہ کا سوال ہے تو صرف تعیین خلیفہ کے متعلق.اوریہ جو آپ نے کہا کہ خلفیہ کا کام کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خلیفہ کا کام علاوہ روحانی نگہداشت کے جماعت کو متحدرکھنا اورفساد سے بچانا ہے.اوریہ کام نظر نہیں آیا کرتا کہ مَیں آپ کو معیّن کرکے وہ کام بتادوں.خلیفہ کا کام رُوحانی تربیت اور انتظام کا قیام ہے نہ رُوحانی تربیت مادی چیز ہے کہ مَیں بتا دوں کہ وہ یہ یہ کام کرے گا.اورنہ فساد کا کوئی وقت معیّن ہےکہ فلاںوقت تک اسکی ضرورت پیش نہ آوے گی.ممکن ہے کل ہی کوئی امر ایسا پیش آجاوے جس کے لئےکسی نگران ہاتھ کی ضرورت

Page 255

ہو.پس آپ اس سوال کو جانے دیں کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو.مشورہ اس امر کے متعلق ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ اس میںدقّت ہے.چونکہ عقائد کا اختلاف ہے اس لئے تعیین میں اختلاف ہوگا ہم لوگ کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر کیونکر بیعت کرسکتے ہیں؟ جس کے ساتھ ہمیں ایک دوسرے کی بیعت سے روکے.(اس وقت تک اختلاف عقائد نے اس طرح سختی کا رنگ نہ پکڑا تھا.) لیکن بہر حال ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ آپ میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ یہ مشکل ہے آپ سوچ لیں اور مشورہ کرلیں اور کل پھر گفتگو ہوجاوے.مَیں نے بھی ان سے درخواست کی کہ آپ بھی میرے خیالات کے متعلق اپنے دوستوں سے مشورہ کرلیں اورپھر مجھے بتائیں تاکہ دوبارہ گفتگو ہوجاوے.پس ہم دونوں جُدا ہوگئے.خلافت سے انکار نہیں ہوسکتا رات کے وقت مَیں نے اپنے دوستوں کو جمع کیا اوران کو سب گفتگو سنائی سب نےاس امر کا مشورہ دیا کہ خلافت سے انکار تو چونکہ مذہباً جائز نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو خلفاء کا انکار کرتا ہے وہ فاسق ہے اور خلافت کو اپنی نعمت قرار دیتا ہے.اس نعمت کو چھوڑنا تو جائز نہیں.مَیں نے ان کو بتایا کہ مولوی صاحب کی باتوں سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس امر پر زور دیںگے.مگر یہی رائے قرار پائی کی یہ ایک مذہبی بات ہے جس کو دوسروں کے لئے قربان نہیں کیاجاسکتا.وہ لوگ ایک خلیفہ بیعت کرچکے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کےنزدیک بیعت جائز تو ہے حرام نہیں اور ہمارے نزدیک بیعت نہ کرنا اورخود خلافت کو چھوڑ دینا حرام ہے.پس جب وہ اس امر کے انکار میں جسے وہ جائز سمجھتے ہیں اسقدر مصر ہیں تو ہم اس بات کو جسے ہم فرض سمجھتے ہیں کیونک ترک کرسکتے ہیں؟ اس پر مجلس برخواست ہوگئی.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر مولوی محمد علی صاحب کا ٹریکٹ جیسا کہ میں نے پہلے دن تاکید کی تھی.بہت سے لوگوں نے روزہ رکھنے کی تیاری کی ہوئی تھی.جن لوگوں کو تہجد کیلئے اُٹھنے کا موقع نہیں ملا کرتاتھا انہوں نے بھی نماز تہجد ادا کرنے کاتہیہ کیا ہوا تھا.دو بجے کے قریب میں اُٹھا اور نماز تہجد ادا کرنے کی تیاری کی.ابھی میں وضو کررہا تھا کہ ایک شخص نے میرے ہاتھ میں ایک ٹریکٹ دیا اور کہا کہ یہ ٹریکٹ تمام راستہ میں بیرون جات سے آنیوالے احمدیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جب میں نے اس ٹریکٹ کو دیکھا تو وہ مولوی محمد علی صاحب کا لکھا ہوا تھا اوراس میں جماعت کو اُکسایا گیا تھا کہ آئندہ خلافت

Page 256

کا سلسلہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی بیعت بھی انہوں نے بطور خلیفہ کے نہ کی تھی بلکہ بطور ایک پِیراور صوفی کے اور یہ کہ مولوی محمد علی صاحب کو معلوم نہیں کہ کون خلیفہ ہوگا؟ بلکہ صرف بطور خیر خواہی کے وہ کہتے ہیں کہ آئندہ خلیفہ نہ مقرر ہو اور یہ کہ میاں صاحب(یعنی مصنف رسالہ) غیر احمدیوں کو کافر کہتا ہے اور یہ درست نہیں اور تقویٰ کے خلاف ہے اور یہ کہ اگر کوئی شخص جماعت کا سربرآوردہ بنایا جاوے تو وہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو غیر احمدیوں کو کافر نہ کہتا ہو.کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کا جانیشن متقی ہونا چاہئے اورغیر احمدیوں کو کافر کہنے والا متقی نہیں اور میں اہل بیت اور حضرت مسیح موعودؑ کے دیگر صحابہ کا خیر خواہ اور ان کا احترام کرنے والا ہوں.یہ مضمون جو کچھ ظاہر کرتا ہے.اس پر اس جگہ کچھ لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں.ہر ایک شخص ادنیٰ تامّل سے اس مضمون کا بین السطور مدعا خود سمجھ سکتا ہے.مولوی محمد علی صاحب کی مغالطہ دہی کا انکشاف جس وقت یہ ٹریکٹ مَیں نے دیکھا مَیں حیران ہوگیا اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ ابھی دو دن نہ گزرے تھے کہ میرے اس ارادہ پر کہ جماعت میں اعلان کیا جاوے کہ اختلافی مسائل میں اس وقت تک بحث نہ کریں جب تک کہ کوئی سردار ہم میں ایسا نہ ہو جو نگرانی کرسکے اور افراط اور تفریط کو رک سکے.مولوی محمد علی صاحب نے یہ مشورہ دیا تھا کہ چونکہ بیرونجات کے لوگ ان جھگڑوں سے ہی ناواقف ہیں اس لئے ان کو اس اشتہار سے ابتلاء آئے گا اور آج اس ٹریکٹ سے معلوم ہوا کہ نہ صرف اشتہار بلکہ ایک ٹریکٹ لکھ کر مولوی محمد علی صاحب پہلے سے لاہو ر چھپنے کے لئے بھیج چکے تھے اورنہ صرف اسے خود شائع کرانے کا ارادہ تھا بلکہ اس کے اوپر تمام احمدیوں کو ہدایت لکھی گئی تھے کہ وہ اس ٹریکٹ کو ’’دوسروں تک پہنچادیں‘‘ یہ بات میری سمجھ سے بالا تھی اور مَیں حیران تھا کہ میں مولوی محمد علی صاحب کی نسبت کیا سمجھوں؟ جو شخص دو دن پہلے مجھے اس امر کے اعلان سے کہ اختلافی مسائل پر آپس میں اس وقت تک بحث نہ کرو کہ کوئی نگران تم میں سے موجود ہو اس لئے روکتا تھا کہ اس سے لوگوں کو ابتلاء آجائےگا اوروہ خیال کریں گے کہ ہمارا آپس میں اختلاف ہے وہ اس سے ایک ہفتہ پہلے خود ایک ٹریکٹ اختلافی مسائل پر لکھ کر چھپنے اور شائع کئے جانے کے لئے لاہور بھیج چکا تھا.کیا یہ فعل تقویٰ کا فعل تھا؟ کیا مولوی محمد علی صاحب کے اس فعل میں خدا تعالیٰ کے خوف کو پسِ پُشت نہ ڈال دیا گیا تھا؟ ہاں کیا ان کا یہ طریق عمل اسی

Page 257

تعلیم کے ماتحت تھا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے.جس کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے.جس کی طرف مسیح موعودؑنے رہنمائی کی ہے جس پر عمل در آمد کرنےکے لئے انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ہاتھ پر دوبارہ عہد کیا تھا.مولوی محمد علی صاحب کی غرض صرف وقت گزارنے کی تھی.ان کی غرض مجھے روکنے سے جماعت کو ابتلاء سے بچانا نہیں اس کو ابتلاء میں ڈالنا تھی.کیونکہ کیا وہ اس سے پہلے اختلافی مسائل پر ایک ٹریکٹ لکھ کر اسے خفیہ خفیہ طبع ہونے کے لئے لاہور نہیں بھیج چکے تھے؟ کیا جماعت کو اختلافی بحثوں میں پڑنے سے روکنے پر تو اس کو علم ہوجاتا تھا کہ ہم میں آپس میں اختلاف ہے اور اس کے ابتلاء میں پڑجانے کا ڈر تھا؟ لیکن خود اختلافی مسائل پر ٹریکٹ لکھنے جماعت کے ایک حصہ کو غیر متقی قرار دینے پر سازشوں کا الزام لگانےسے کسی فتنہ اور ابتلاء کا ڈر نہ تھا اورنہ کسی کو اس ٹریکٹ کے پڑھنے سے اندرونی اختلاف کا علم ہوسکتا تھا.مولوی صاحب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے اس ٹریکٹ پر دستخط کردئیے.تو دنیا ان سے دریافت کرے گی کہ خود انہوں نے کیوں ایسا ٹریکٹ لکھ کر شائع کیا تھا اوران سے کہے گی کہ اَتَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ (البقرۃ: ۴۵) لیکن دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس اشتہار کے مضمون میں جو میں شائع کرنا چاہتا تھا کوئی ایسی بات نہ تھی جس پر وہ گرفت کرسکیں.پس انہوں نے اس وقت اس بہانہ سے اپنی جان بچانی چاہی.اگر وہ دیانت داری سے کام لیتے تو اگر وہ اشتہار کے مضمون سے متفق تھے.جیسا کہ اس وقت انہوں نے ظاہر کیا تھا تو اپنے پہلے ٹریکٹ کو واپس منگوالیتے اوراس کو شائع نہ کرتے اور اگر اس سے اختلاف رکھتے تھے تو مجھے یہ جواب دیتے کہ اختلاف سے جماعت کو واقف کرنا نہایت ضروری ہے چنانچہ میں خود ایک ٹریکٹ لکھ کر چھپنے اور شائع ہونے کے لئے لاہور بھیج چکا ہوں اس لئے مَیں اس اشتہار پر دستخط نہیں کرسکتا.مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.انہوں نے اس اشتہار پر پسندیدگی کا اظہار کیا لیکن مجھے اس کی اشاعت سے رُکنے کا مشورہ اس بناء پر دیا کہ لوگوں کو اختلاف کا علم ہوگا اور خود ایک ٹریکٹ لکھا جس میں یہاں تک لکھ دیا کہ ہمارااختلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ ایک فریق دوسرے کی نسبت کہتا ہے کہ وہ کافر اور واجب القتل قرار نہیں دیا.گو ان کو شوق ضرور ہے کہ اپنی نسبت ایسا فتویٰ حاصل کریں جیسا کہ پچھلے دنوں تشحیذ الاذہان

Page 258

کے ایک مضمون سے جس میں غلطی سے ڈائری نویسی نے ان کی طرف اشارہ کردیا تھا باوجود اس کی تردید ہوجانے کے انہوں نے اس کو تشہیر دیکر اپنی مظلومیت کا اظہار شروع کر رکھا ہے.خدا تعالی سے طلب امداد غرض جس وقت یہ ٹریکٹ مَیں نے پڑھا.میں حیران ہوگیا اور میں نے فتنہ کو آتا ہوا دیکھ لیا اور سمجھ لیا کہ مولوی محمد علی صاحب بغیر تفریق کے راضی نہ ہوں گے.ایسے وقت میں ایک مؤمن سوائے اس کے اور کیا کرسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گرجائے اور اس سے مدد طلب کرے.مَیں نے بھی ایسا ہی کیا اور خود بھی دُعا میں لگ گیا.اور دوسرے لوگ جو اس کمرہ میں میرے ساتھ تھے ان کو جگایا اور ان کو اس ٹریکٹ سے آغاہی دی اور ان کوبھی دعا کے لئے تایکد کی.ہم سب نےدُعائیں کیں اور روزے رکھے اور قادیان کے اکثر احمدی جو میرے ہم خیال تھے اس دن روزہ دار تھے.حضرت خلیفہ اوّل سے آخری وقت میں مولوی محمد علی صاحب کا نہایت سنگدلانہ سلوک مولوی محمد علی صاحب کا یہ ٹریکٹ انکے باطنی خیالات پر بہت کچھ روشنی ڈالتا ہے.مَیں نے بتایا ہے کہ کس طرح اس ٹریکٹ کی خاطر انہوں نے مجھ سے دھوکا کیا.مگر مَیں اب اس سلوک کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس ٹریکٹ کی اشاعت سے انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے کیا.سنگدل سے سنگدل آدمی بھی جب اپنے کسی عزیز کو بسترِ مرگ پر دیکھتا ہے تو اس سے دھوکا کرنا پسند نہیں کرتا.لیکن مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے کیا سلوک کیا؟ آپ نے اپنی وصیت لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو دی اور ان سے تین بار پڑھوائی اورپھر دریافت کیا کہ کیا کوئی بات رہ تو نہیں گئی اورانہوں نے اقرار کیا کہ نہیں بالکل درست ہے.یہ وصیت صحت میں نہیں لکھی گئی بلکہ بیماری میں اور عین اس وقت جبکہ دنیاوی سامانوں کے لحاظ سے زندگی کی اُمید بالکل منقطع ہوچکی تھی.یہ وصیت صحت میں نہیں لکھی گئی بلکہ بیماری میں اور عین اس وقت جبکہ دنیاوی سامانوں کے لحاظ سے زندگی کی اُمید بالکل منقطع ہوچکی تھی.یہ وصیت اس وقت لکھی گئی جبکہ اس جماعت کو جسےچھ سال سخت تکلیف کے ساتھ خطرناک سے خطرناک ابتلاؤ کی آندھیوں اورطوفان سے بچا کر آپ کی کامیابی کے راستہ پر لے جارہے تھے آپ چھوڑنے والے تھے اور اس کی آئندہ بہتری کا خیال سب باتوں سے زیادہ آپ کے پیش نظر تھا.

Page 259

یہ وصیت اس وقت لکھی گئی تھی جبکہ ااپ اپنے آقا مسیح موعود ؑ کے پاس جاکر اسے اپنے کام کو امانت سے ختم کرنے کی خبر دینے والے تھے.یہ وصیت اس وقت لکھی گئی تھی جس وقت آپ اپنی عمر کا آخری باب ختم کررہے تھے.یہ وصیت اس وقت لکھی گئی تھی کہ جس کے بعد آپ جماعت کی اور کوئی خدمت کرنے کی اُمید نہ رکھتے تھے.یہ وصیت اس وقت لکھی گئی تھی جس وقت ضعف و نقاہت سے آپ بیٹھ نھی نہیں سکتے تھے اور یہ وصیت بھی نہایت تکلیف سے آپ نے لیٹے لیٹے ہی لکھی تھی.غرض یہ وصیت اس وقت لکھی گئی تھی جبکہ ایک عظیم الشان انسان اپنی مقدس زندگی کی آخری گھڑیاں گزار رہا تھا.جس وقت ایک طرف تو اپنے پیدا کرنے والے اپنے محبوب حقیقی کی ملاقات کا شوق اس کے دل کو گُد گُدا رہا تھا اور دوسری طرف اپنی وفات کے ساتھ ہی اپنی آخری عمر کی محنت و کوشش کے اکارت جانے کا خوف اس کے دل کو ستا رہا تھا.غرض وہ اس کی گھڑیاں خوف ور جاکی نازک گھڑیاں تھیں.یہ وصیت اس نے لکھی تھی جس کے ہاتھ پر تمام جماعت احمدیہ سوائے معدودے چند آدمیوں کے بیعت کر چکی تھی.یہ وصیت اس نے تحریر کی تھی جو علاوہ خلیفۃ المسیح ہونے کے یوں بھی تقویٰ اور دیانت میں تمام جماعت پر فضیلت رکھتا تھا.یہ صیت اس نے لکھی تھی جس کے احسانات دینی و دنیاوی جماعت کے کثیر حصہ پر حضرت مسیح موعود کے ایام زندگی سے ہی ہوتے چلے آئے تھے.یہ وصیت اس نے لکھی تھی جس کے ہر ایک حکم کی اطاعت کا اقرار مولوی محمد علی صاحب کرچکے تھے.یہ وصیت اس نے لکھی تھی جس کی شاگردی کا جوأ مولوی محمد علی صاحب کی گردن پر رکھا ہوا تھا.یہ وصیت اس نے لکھی تھی جس نے باوجود سخت نقاہت اور ضعف کے اپنی بیماری کے آخری آیام میں مولوی محمد علی صاحب کو قرآن پڑھایا.غرض یہ وصیت اس کی لکھی ہوئی تھی جس کی اطاعت ِ خدا تعالیٰ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب پر فرض ہوچکی تھی اور جس کے احسانات کے نیچے ان کی گردن جُھکی جاتی تھی.

Page 260

یہ وصیت مولوی محمد علی صاحب کو پڑھوائی گئی تھی اور ایک دفعہ نہیں بلکہ تین بار.یہ وصیت جب لکھی جاچکی اور مولوی محمد علی صاحب اس کو پڑھ چکے تو ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا اس میں کوئی بات رہ تو نہیں گئی.ہاں یہ وصیت جب لکھی جاچکی اورمولوی محمد علی صاحب سے دریافت کیا گیا کہ اس میں کوئی بات رہ تو نہیں گئی تو انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ یہ بالکل درست ہے.غرض یہ وصیت ایک زبردست وصیت تھی.اس کا کوئی پہلو نا مکمل نہ تھا.اس کا لکھنے والا کامل ، اس کے لکھنے کا وقت خاص الخاص اس کا علم مولوی محمد علی صاحب کو پوری طرح دیا گیا.اوران سے اس کے درست ہونےکا اقرار لیاگیا.پس اس کی تعمیل ان پر واجب اور فرض تھی.مگرانہوں نے کیا کیا.مولوی صاحب نے اس امانت سے وہ سلوک کیا جو کسی نے کبھی نہ کیا تھا.جس وقت وہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وصیت پڑھ رہے تھے اس وقت ان کے دل میں یہ خیالات جوش زن تھے کہ مَیں ایسا کبھی نہیں کرنے دوں گا.وہ اپنے پیر کو اس کے بستر مرگ پر دھوکا دے رہے تھے ان کا جسم اس کے پاس تھا.مگر ان کی روح اس سے بہت دور اپنے خیالات کی ادھیڑ بن میں تھی.اورانہوں نے وہاں سےاُٹھ کر غالباًسب سے پہلی تحریر جو لکھی وہ وہی تھی جس میں اس وصیت کے خلاف جماعت کو اُکسایا تھا.اور گو مخاطب اس میں مجھے یا اوربعض گمنام شخصوں کو کیا گیا تھا مگر درحقیقت اس وصیت کی دھجیاں اُڑائی گئی تھیں جس کی تصدیق چند ساعت پہلے وہ اپنے مُرشد و ہادی کے بستر مرگ کے پاس نہایت سنجیدگی کے ساتھ کر چکے تھے.مولوی محمد علی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ انکی وہ تحریر اس وصیت سے پہلے کی تھی.کیا اگر وہ پہلے کی تھی تو کیا وہ اس کو واپس نہیں منگواسکتے تھے.کیا وصیت کےبعد کافی عرصہ اسکے واپس منگوانےکا انکو نہیں ملا.وہ یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کے ٹریکٹ میں یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرما دیا ہے کہ ان کا ایک جانشین ہو.مولوی محمد علی صاحب صرف ایک بہانا بناتے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح کا جانشین سے یہ مطلب تھا کہ ایک ایسا شخص جماعت میں سے چنا جاوے جس کے حکموں کی قدر کی جاوے.لیکن ان کی یہ تشریح جھوٹی تشریح ہے.وہ قسم کھا کر بتاویں کہ کیا حضرت خلیفۃ المسیح کا یہ مذہب نہ تھا کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفہ ہیں اورآپ کی بیعت بطور خلیفہ کے کی گئی ہے نہ کہ بطور بڑے صوفی

Page 261

اور بزرگ ہونے کے.اور یہ کہ ان کے بعد بھی اسی قسم کے خلفاء ہوں گے.مگر وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیاہے اور وہ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے شائع شدہ تقریریں کثرت سے اس امر پر شاہد ہیں.مولوی محمد علی صاحب کا یہ فعل واقعہ میں حیرت میں ڈال دینے والا ہے لیکن جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی وصیت کو بھی پشت ڈال دیا ہے تو ان کے اس فعل پر زیادہ حیرت نہیں رہتی.کیونکہ باوجود اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر حضرت مولوی نور الدین کو مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ‘‘ جماعت کا خلیفہ تسلیم کرکے اس بارے میں اعلان کرچکے ہیں(دیکھو اخبار بدر پرچہ ۲ جون ۱۹۰۸ءجلد ۷ نمبر ۲۲ صفحہ ۶) کہ سب احمدی ان کی بعیت کریں.آج لکھتےہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وصیت میں کہیں خلافت کا ذکر ہی نہیں اور آپ نے خلفاء کے لئے احمدی جماعت سے بیعت لینے کی اجازت ہی نہیں دی.جماعت کا رجحان معلوم کرنے کیلئے دستخط غرض جبکہ بعض لوگوں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہ صرف یہ کہ ہم سے دھوکا کیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلیفہ المسیح کی وصایا کی بھی بے قدری کی ہے اور جماعت میں اختلاف ڈلوانا چاہا ہے اور لوگوں سے اپنی تحریر پر ائیں بھی طلب کی ہیں.تو انہوں نےبھی ایک تحریر لکھ کر تمام آنے والے احباب میں اس غرض سے پھرائی کہ جماعت کا عندیہ معلوم ہوجاوے.اورجو لوگ ان کے خیالات سے متفق تھے ان سے دستخط چاہے تو معلوم ہوکہ جماعت کا رجحان کدھر ہے.چنانچہ ان دستخطوں سے معلوم ہوا کہ موجودہ جماعت کا نوے فیصدی سے بھی زیادہ حصہ اس بات پر متفق تھا کہ خلیفہ ہونا چاہئےاوروہ بھی اسی رنگ میں جس رنگ میں کہ حضرت خلیفہ اول تھے.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اسے سازش قرار دیتے ہیں.لیکن کیا لوگوں کی رائے دریافت کرنی سازش ہے کیا وہ اپنے ٹریکٹ میں اس سے پہلے جماعت سے رائے طلب نہیں کرچکے تھے.کیا خود انہوں نے ہی یہ دروازہ نہیں کھولا تھا.پس جس دروازہ کو وہ کھول چکے تھے اس میں سے مجبوراً آکر دوسروں کو گذرنا پڑا تو اس پر کیا اعتراض ہے بلکہ مولوی صاحب کے طریق عمل اور دوسرے فریق کے طریق عمل میں یہ فرق ہے کہانہوں نے اس دروازہ کے کھولنے میں دھوکے سے کام لیا.اور اس نے علی الاعلان حق کی راہ پر چل کر اس کا رُخ کیا انہوں نے بھی لوگوں سے اپنے خیال پر رائے مانگی دوسرے فریق نے بھی رائے کی تصدیق چاہی.

Page 262

مہمانوں کی آمد کا انتظار ہفتہ کے دن برابر مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور اس بات کا انتظار کیا گیا کہ کافی آدمی پہنچ جاویں تا پورے طور پر مشورہ ہوسکے.ظہر تک قریباً ہزار آدمی سے زیادہ مختلف جماعتوں سے پہنچ گیا اورایک بڑا مجمع ہوگیا.اپنے رشتہ داروں سے مشورہ ظہر٭کے بعد مَیں نےاپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اوران سے اس اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا.بعض نےرائے دی کہ جن عقائدکو ہم حق سمجھتے ہیں ان کی اشاعت کے لئے ہمیں پوری طرح کوشش کرنی چاہئےاورضرور ہے کہ ایسا آدمی خلیفہ ہو جس سے ہمارے عقائد متفق ہوں.مگر مَیں نے سب کو سمجھایا کہ اصل بات جس کا اس وقت ہمیں خیال رکھنا چاہئے وہ اتفاق ہے خلیفہ کا ہونا ہمارے نزدیک مذہباً ضروری ہے.پس اگر وہ لوگ اس امر کو تسلم کرلیں تو پھر مناسب یہ ہے کہ اوّل تو عام رائے لی جاوے اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کرلیا جاوے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو.اوراگر یہ بھی وہ قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلی جاوے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہلِ بیعت نے اس بات کو تسلیم کرلیا یہ فیصلہ کرکے مَیں اپنے ذہن میں خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.مولوی محمد علی صاحب اوران کے ساتھیوں سے گفتگو میں باہر آیا تو مولوی محمد علی صاحب کا رقعہ مجھے ملا کہ کل والی گفتگو کے متعلق ہم پھر کچھ گفتگو کرنی چاہتے ہیں.مَیں نے ان کو بلوا لیا اس وقت میرے پاس مولوی صاحب بھی اپنے بعض احباب سمیت وہاں آگئے اورپھر کل کی بات شروع ہوئی.مَیں نے پھر اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ لوگ بحث نہ کریں.صرف اس امر پر گفتگو ہو کہ خلیفہ کون ہو.اور وہ اس بات پر مُصر تھے کہ نہیں ابھی کچھ بھی نہ ہو.کچھ عرصہ تک انتظار کیاجاوے.سب جماعت غور کرے کہ کیا کرنا چاہئے پھر جو متفقہ فیصلہ ہو اس پر عمل کیاجاوے.میرا جواب وہی کل والا تھا اور پھر مَیں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اگر پھر بھی اختلاف ہی رہے تو کیا ہوگا؟ اگر کثرت رائے سے فیصلہ ہونا ہے تو ابھی کیوں کثرت رائے پر فیصلہ نہ ہو.درمیان میں کچھ عقائد پر بھی گفتگو چھڑ گئی *مجھے ایسا ہی یاد ہے کہ یہ گفتگو ہفتہ کو ہوئی لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جمعہ کو ہی یہ مشورہ ہوا تھا.

Page 263

جس میں مولوی سیّد محمد احسن صاحب نے نبوت مسیح موعودؑپر خوب زور دیا اور مولوی محمد علی صاحب سے بحث کی.اور مَیں اُمید کرتا ہوں کہ اگو مولوی محمد علی صاحب کو حلف دی جاوے تو وہ کبھی اس سے انکار نہ کریں گے.مگر مَیں نے اس بحث سے روک دیا کہ یہ وقت اس بحث کا نہیں.اس وقت جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی فکر ہونی چاہئے.جب سلسلہ گفتگو کس طرح ختم ہونا نظر نہ آیا.اورباہر بہت شور ہونے لگا اور جماعت کے حضرالوقت اصحاب اس قدر جوش میں آگئے کہ دروازہ توڑے جانے کا خطرہ ہوگیا اور لوگوں نے زور دیا کہ اب ہم زیادہ صبر نہیں کرسکتے.آپ لوگ کسی امر کو طے نہیں کرتے اورجماعت اس وقت تک بغیر کسی رئیس کے ہے تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ بہتر ہے کہ باہر چک کر جو لوگ موجود ہوں ان سے مشورہ لے لیاجاوے.اس پر مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ آپ یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کسے منتخب کرینگے اس پر مَیں نے ان سے کہا کہ نہیں میں تگو فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں مین سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں.مگر اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں ی ارائے ہے یعنی وہ آپ خو خلیفہ مقرر کریں گے.اس پر مَیں اتفاق سے مایوس ہوگیا اور مَیں نے سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اَور ہے کیونکہ باوجود اس فیصلہ کے جو مَیں اپنے دل میں کرچکا تھا مَیں نے دیکھا کہ یہ لو گ صلح کی طرف نہیں آتے اورمولوی صاحب کے اس فقرہ سے میں یہ بھی سمجھ گیا کہ مولوی محمد علی صاحب کی مخالفت خلافت سے بوجہ خلافت کے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے چھ سال پہلے وہ اعلان کرچکے تھے کہ :- ’’مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب سے اعلم اور اتقی اور حضرت امامؑکے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں.اورجن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اُسوۂِ حسنہ قرار فرماچکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چہ خو ش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بُودے ہمیں بودے اگر ہر دل پراز نُور یقیں بُودے سے ظاہر ہے کہ ہاتھ پر احمدؑکے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر

Page 264

بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا.‘‘ (یہ اعلان جماعت کے بہت سے سربرآوردہ لوگوں کی طرف سے فرداً فرداً ہر ایک کے دستخظ کے ساتھ ہوا تھا.جن میں سے مولوی محمد علی صاحب بھی تھے) یہ تحریر جو ۲؍جون ۱۹۰۸ءکے بد رمیں بغرض اعلان شائع کی گئی تھی ۲۷؍مئی ۱۹۰۸ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں بطور درخواست پیش کی گئی تھی اور پھر حضرت ممدوح کی بیعت خلافت ہوچکنے کے بعد اخبار بدر کے پرچہ مذکورہ بالا میں ہی جناب خواجہ کمال الدین صاحب بحیثیت سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ اس بارہ میں حسب ذیل اعلان شائع کیا تھا.’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھاجانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق…جناب حکیم نور الدین صاحب سلمہٗ کو آپ کا جانشیں اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی …یہ خط بطور اطلاع کُل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے.کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامۃ خلیفۃ المسیح و المہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر حاضر ہوکر بیعت کریں.‘‘ اب کوئی نئی وصیت تو ان کے ہاتھ میں آئی نہ تھی کہ جس کی بناء پر وہ خلافت کو ناجائز سمجھنے لگے تھے.پس حق یہی ہے کہ ان کو خیال تھا کہ خلافت کے لئے جماعت کی نظر کسی اور شخص پر پڑ رہی ہے.جب فیصلہ سے مایوسی ہوئی تو مَیں نے مولوی صاحب سے کہا کہ چونکہ ہمارے نزدیک خلیفہ ہونا ضروری ہے اور آپ کے نزدیک خلیفہ کی ضرورت نہیں اور یہ ایک مذہبی امر ہے.اس لئے آپ کی جو مرضی ہو کریں ہم لوگ جو خلافت کے قائل ہیں اپنے طور پر اکھٹے ہوکر اس امر کے متعلق مشورہ کرکے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے ہیں.یہ کہہ کر میں اُٹھ کھڑا ہوا اور مجلس برخواست ہوئی.خلیفہ کا انتخاب عصر کی نماز کا وقت تھا.عصر کی نماز پڑھ کر ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار تک آدمیوں کے مجمع میں مکرمی خان محمد علی خان صاحب جاگیر دار مالیر کوٹلہ نے بحیثیت حضرت خلیفہ اوّل کے وصی ہونے کے مجلس میں آپ کی وصیت پڑھ کر سنائی اور لوگوں سے درخواست کی کہ وہ آپ کی وصیت کے مطابق کسی شخص کو آپ کا جانشیں تجویز کریں.اس پر لوگوں نے

Page 265

میرا نام لیا.جس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب نے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی اور کہا کہ میرے نزدیک بھی یہی خلیفہ ہونے چاہئیں.اس پر لوگوں نے شور کیا کہ بیعت لی جاوے.مَیں نے اس امر میں پس وپیش کیا اورباوجود لوگوں کے اصرار کے انکار کیا.مگر لوگوں کا جوش اسی طرح زور پر تھا جس طرح حضرت ابوبکرؓ کے وقت میں اور وہ ایک دوسرے پرٹوٹے پڑتے تھے.اوربعض لوگوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا کہ آپ بیعت لیں.مَیں نے پھر بھی پس وپیش کیا تو بعض لوگوں نے جو قریب بیٹھے تھے اصرا ر کیا کہ جماعت کی حفاظت اوربچاؤ کے لئے آپ ضرور بیعت لیں.اورمیں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کے جوش سے اس قدر بھرئے ہوئے تھے اور آگے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ میں بالکل آدمیوں میں چُھپ گیا.اوراگر بعض لوگ ہمت کرکے میری پیٹھ کے پیچھے حلقہ نہ بنا لیتے تو قریب تھا کہ مَیں کُچلا جاتا.مجھے بیعت کے الفاظ یاد نہ تھے اور مَیں نے اسی بات کو عذر بنانا چاہا اور کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد نہیں ہیں.اس پر مولوی سیّد سرور شاہ صاحب نے کہا کہ میں الفاظ بیعت دہراتا جاؤں گا آپ بیعت لیں.تب مَیں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے اور اس کے منشاء کو قبول کیا اورلوگوں سے بیعت لی اور جوازل سے مقدّر تھا باوجود میرے پہلو تہی کرنے کے ظہور میں آیا.ان دوہزار کے قریب آدمیوں میں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے صرف پچاس کے قریب آدمی ہوں گے جو بیعت سے باز رہے.باقی سب لوگ بیعت میں داخل ہوئے اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا جنازہ پڑھایا گیا.بیعت ہوگئی اور اس سے زیادہ لوگوں نے بیعت کی جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّؒ کی بیعت کی تھی اور اس سے زیادہ مجمع نے بیعت پر اتفاق کیا جتنے مجمع نے کہ حضرت خلیفہ اول کی بیعت پر اتفاق کیاتھا.مگر باوجود اس کے مولوی صاحب اور آپ کے رفقاء کی تسلّی نہ ہوئی اور انہوں نے اس سب کارروائی کو منصوبہ قرار دیا.اور تمام جماعت کو اطلاع دی گئی کہ خلافت کا فیصلہ کوئی نہیں ہوا.قادیان میں جو کارروائی ہوئی سب دھوکا اور سازش کا نتیجہ تھی.پیغام کی غلط بیانیاں مخالفت کا جوش اس قدر بڑھ گیا کہ جھوٹ کا پرہیز بالکل جاتا رہا خود پیغام لکھتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کا جنازہ اڑھائی ہزار آدمیوں نے پڑھا،(۱۷؍مارچ ۱۹۱۴ء ) اورپھر یہی پیغام لکھتا ہے کہ :- ’’وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح کی آنکھیں دیکھی ہوئی تھیں انہوں نے اس قسم کی بیعت سے احتراز کیا اور حاضر الوقت جماعت میں سے

Page 266

نصف کے قریب لوگوں نے بیعت نہ کی.‘‘ (۲۲؍مارچ ۱۹۱۴ء؁) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح کے صحبت یافتہ لوگوں میں سے کسی نے بیعت نہ کی.اورجو لوگ قادیان میں موجود تھے ان میں سے نصف نے انکار کردیا.مگر حق یہ ہے کہ پچاس سے زائد آدمی نہ تھے جنہوں نے بیعت سے اجتناب کیا اور اس دو یا بقول پیغام اڑھائی ہزار آدمیوں میں سے نصف سے زیادہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی صحبت حاصل کی ہوئی تھی قادیان کے مہاجرین میں سے جن کی تعداد تین چار سو سے کم نہ تھی کل چار پانچ آدمی بیعت سے باہر رہے.اور یہ لوگ پیغام کی نظر میںگویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح کے صحبت یافتہ ہی نہ تھے.مرزا یعقوب بیگ صاحب سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور نے تو اس سے بھی بڑھ کر کمال کیا اور اخبار عام لاہور میں لکھ دیا کہ کثیر التعداد حاضرین کو اس بات کا پتہ بھی نہیں کہ کون خلیفہ مقرر ہوئے ہیں جب اس صریح جگھوٹ پر نوٹس لیا گیا.تو ڈاکٹر صاحب اوّل الذکر مضمون کے راقم نے ۲ ؍اپریل کے پیغام میں شائع کیا کہ میری مراد اس فقرہ سے یہ تھی کہ سمجھدار لوگوں میں سے زیادہ حصہ نے بیعت نہ کی.اور یہ سمجھداری کا فقرہ ایسا گُول مول ہے کہ اس کی تشریح دربطن شاع ہی رہ سکتی ہے دوسرے سمجھدار ہیں اور دوسرے لوگ ناسمجھ ،لیکن اگر سمجھ کا کوئی معیار ہے تو ہر ایک معیار کے مطابق ہم بتا سکتے ہیں کہ نہ صرف زیادہلوگوں نے بلکہ بہت زیادہ لوگوں نے بیعت اختیار کی.راقم مضمون نے اور اس کے مضمون کو شائع کرکے پیغام نے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے اس جھوٹ کی خود ہی تردید کی کیونکہ اس نے لکھا کہ مجمع حاضرالوقت یا انصار اللہ تھے یا جٹ جو بیعت کے لئے تڑپ رہے تھے اورجنہوں نے فوراً بیعت کرلی.وہ لوگ انصار اللہ تھے یا کون اس کا سوال نہیں جو لوگ بھی تھے خود پیغام کی روایت کے مطابق نہ صرف انہوں نے بیعت کی بلکہ وہ بیعت کے لئے تڑپ رہے تھے اورڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے صریح اوربالکل صریح جھوٹ لکھا تھا کہ کثیر التعداد حاضرین کو اس امر کا علم بھی نہ تھا کہ خلیفہ کون ہوا ہے.پیغام کے مضمون نگار کا یہ جھوٹ کہ کثیر التعداد بیعت کنندگان میں سے انصار اللہ تجھے صر ف اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انصار اللہ کی کل تعداد پونے دوسو سے کم تھی.لیکن سب انصار اللہ اس وقت قادیان میں موجود نہ تھے حالانکہ خود انہی کے بیان کے مطابق اس وقت اڑھائی ہزار کے

Page 267

قریب لوگ قادیان میں موجود تھے.انصار اللہ پر سازش کا جھوٹا الزام دوسرا طریق لوگوں کوبہکانےکا یہ اختیار کیا گیا کہ انصار اللہ کی نسبت مشہور کیا جانے لگا کہ انہوں نے سازش کرکے یہ کام کرایا ہے.حالانکہ انصار اللہ کی کل جماعت سارے ہندوستان میں پونے دو سو سے کم تھی.پس اگر یہ مان بھی لیاجاوے کہ انصار اللہ کی سازش تھی تو سو ڈیڑھ سو آدمی اپنی رائے کا کیا بوجھ ڈال سکتا تھا.اڑھائی ہزار لوگوں کی رائے کے مقابلہ میں سوڈیڑھ سو آدمی کی رائے کیا حیثیت رکھتی ہے.انصار اللہ نے خلافت کے متعلق کیا سازش کی اس کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کے داہنے بازو حکیم محمد حسین عرف مرہم مبلغ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی شہادت کا درج کردینا کافی ہے جواسنے اس الزام کےوقت لکھ کردی.’’میں سچّے دل سے اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ مَیں انصار اللہ کی ممبر ایک مدت تک تھا اوراب بھی اگر میاں صاحب نے مجھے انصار اللہ میں سے نہ نکالا تو مَیں انصار اللہ کا ممبر اپنے آپ کو سمجھتا ہوں جس قدر کمیٹیاں انصار اللہ کی لاہور میں ہوئیں اور جن میں مَیں شامل ہوا مَیں نے کبھی کسی کو حضرت صاحبزادہ صاحب بزرگوار کے لئے خلیفہ بنانے کی سازش کرتے ہوئے یا اس قسم کی گفتگو کرتے ہوئے نہیں پایا وَاللہُ عَلٰی مَانَقُوْلُ شَھِیْدٌ اور نہ ہی حضرت صاحبزادہ صاحب بزرگوار کی طرف سے مجھے کبھی کوئی تحریر اس قَسم کی آئی کہ جس سے خلیفہ بنانے کی سازش کا کوئی شائبہ پایا گیا ہو اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی کوئی اس قسم کی سازش کی گفتگو میرے ساتھ نہیں ہوئی.‘‘ محمد حسین بقلم خود اس کے علاوہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب سپرنٹنڈنٹ دفتر سیکرٹری انجمن احمدیہ اشاعتِ اسلام بھی انجمن انصار اللہ کے ممبر تھے.اورانہوں نے بھی شہادت لکھ کردی ہے کہ مَیں اس انجمن کا ممبر تھا.اس میں اس قسم کی سازش پر کبھی کوئی گفتگو میرے سامنے نہیں ہوئی علاوہ ازیں یہ بات اس الزام کو پورے طور پر ردّ کر دیتی ہے کہ انجمن انصار اللہ کے ممبروں میں سے ایک معقول تعداد مولوی محمد علی صاحب کےساتھ ہے اگر یہ انجمن میری خلافت کی سازش کے لئے بنائی گئی تھی تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ عین اس وقت جبکہ مَیں خلیفہ ہوگیا وہ لوگ ادھر جاملتے.اورپھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ان سے جا ملے تھے وہ باوجود اس سازش سے آگاہ ہونے کےپھر اسے مخفی رکھتے.انجمن انصار اللہ میں سے کم سے کم دس آدمی

Page 268

اس وقت ان کے ساتھ ہیں.ان کا وجود ہی اس بات کی کافی شہادت ہےکہ انجمن انصار پر خلافت کے متعلق سازش کرنے کاالزام ایک جھوٹ ہے جو محض نفسانیت کے شر سے فریب دہی کے لئے بنایا گیا ہے.انصار اللہ کے متعلق یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے قریب ایک کارڈ باہر بھیجا تھا کہ حضرت کی طبیعت بہت کمزور ہے اور زندگی کا عرصہ کم معلوم ہوتا ہے جو بیشک انجمن انصار اللہ کے سیکرٹری نے ایسا کارڈ لکھا کیونکہ انصار اللہ کی سازش تھی.بیشک انجمن انصار اللہ کے سیکرٹری نے ایسا کارڈ لکھا کیونکہ انجمن انصار اللہ کے فرائض میں سے خدمت احباب بھی ایک فرض تھا.مگر سوال یہ ہے کہ یہ کارڈ انہوں نے کس کو لکھا.اگر صرف انصار اللہ کو لکھا جاتا تب بھی کوئی قابلِ اعتراض بات نہ تھی.مگر دشمن اپنے عنا د سے کہہ سکتا تھا کہ اس کے لکھنے کی اصل غرض یہ تھی کہ اپنے ہم خیال لوگوں کو بلوالیا جاوے مگر ایسا نہیں کیا گیا.یہ کارڈ تمام انجمن ہائے احمدیہ کے سیکرٹریوں کو لکھا گیا اور صرف انصار اللہ کے نام نہیں گیا.پس اس کارڈ سے اگر خلافت کے متعلق ہی نتیجہ نکالا جاوے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انجمن انصار اللہ چاہتی تھی کہ جہاں تک ہوسکے اس موقع پر تمام جماعت کے نمائندہ موجود ہوں تا کہ کافی مشورہ ہوسکے.یہ اس کا فعل قابلِ تحسین ہے یا قابل ملامت ؟اور کیا یہ کارڈ ہی انجمن انصار اللہ کی بریت نہیں کرتا؟میں صرف ہوتی.اور وہ ایسی اطلاع صرف انجمن انصاراللہ کے ممبروں کو دیتے تا کہ من مانی کارروائی کرسکیں.مگر انجمن انصار اللہ نے وقت پر سب جماعتہائے احمدیہ کو نہ کہ اپنے خاص معتبروں کو اطلاع کردی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ قریباً دو ہزار آدمی اس موقع پر جمع ہوگیا.اورپھر کیا یہ درست نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی بیماری کے ایام میں دو دفعہ اسی قسم کی اطلاعیں مولوی صدر الدین صاحب کی طرف سے شائع کی گئی تھیں کہ اگر کارڈ سازش تھا تو کیا انکی تحریر سازش نہ تھی.ایک اور غلط الزام ہمارے بدنام کرنےکےلئے ایک اور ترکیب یہ کی گئی کہ مشہور کیا گیا کہ جو لوگ مجمع میں جمع ہوئے تھے وہ پہلے سے سکھائے ہوئے تھے کہ وقت پر میرا نام خلافت کے لئے لے دیں.اور اس کا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کی حیات میں بعض لوگوں سے کہا کہ چالیس آدمی ایسے تیار ہوجاویں جو اس وقت میرے ہاتھ پر بیعت کرلیں.مجھے اس موقع پر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض پیش آمدہ

Page 269

واقعات سے مجبور ہو کر مولوی صاحب موصوف سے ایک قسم کی غلطی ضرور ہوئی اور جس قدر بات حق ہے انہوں نے نہایت صفائی سے مجھ سے بیان کردی ہے.مولوی صاحب کا بیان ہے کہ مجھے سے ایک دوست نے بیان کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے کہا کہ آپ خلافت کے لئے تیار ہیں.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ مَیں اس بوجھ کو نہیں اُٹھاسکتا اس پر انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم سب بندوبست کرلیں گے.(یہ روایت قادیان میں ان دنوں مشہور تھی اور اس کے ساتھ یہ فقرہ بھی زائد کیا جاتا تھا کہ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر آپ اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے تیار نہیں تو مجھے کھڑا کردیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ روایت کہاں تک درست ہے چونکہ اس کا ثبوت اس وقت تک میرے پاس کوئی نہیں اس لئے میں اس کے باور کرنے سے معذور ہوں.خاکسار مرزا محمود احمد ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ وقت پر کوئی چالاکی کریں اور چند آدمیوں کو ملا کر خلافت کا دعویٰ کریں اس کے لئے ہمیں بھی تیار رہنا چاہئے.وہ کہتے ہیں کہ اس پر مَیں نے بعض دوستوں سےذکر کیا کہ ایسا خطرہ ہے ایک جماعت ہم میں سے بھی تیار رہنی چاہئے.بعض لوگ جن سےذکر کیا تھا انہوں نے اسے پسند کیا لیکن بعض نے مخالفت کی.چنانچہ مخالفت کرنے والوں میں سے وہ میاں معراج الدین صاحب کا نام لیتے ہیں انہوں نے بڑا زور دیا ہے کہ یہ کام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ایسی کارروائی ہرگز مناسب نہیں.اسی طرح میر محمد اسحٰق صاحب کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ گو ان سے ذکر نہ کیا تھا مگر ایک جگہ پر ایک شخص سے مَیں گفتگو کر رہا تھا کہ انہوں نے کچھ با ت سن لی اور کہا کہ آپ لوگ اس خیال کو جانے دیں ہوگا وہی جو خدا چاہتا ہے.آپ لوگوں کو آخر شرمندہ ہونا پڑے گا.ان کا بیان ہے کہ آٹھ دس آدمیوں سے زیادہ سے ایسا ذکر نہیں ہوا اوران میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے جو انجمن انصار اللہ کے ممبر نہ تھے.لیکن کسی قدر بعض دوستوں کے اس خیال پر کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اس پر چھوڑ دو.اور زیادہ تر یہ بات معلوم ہونے پر کہ میں نے فیصلہ کردیا ہے کہ خواہ ان لوگوں کے ہاتھ پر بیعت کرلینی پڑے جماعت کو فتنہ سے بچانا چاہئےاس امر کو ترک کردیا گیا.یہ اصل واقعہ ہے اور گو مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کی اس میں ضرور غلطی ہے.لیکن قابل غور یہ اُمور ہیں کہ اس میں نہ میرا نہ انجمن انصار اللہ کا کوئی دخل تھا.یہ کام انہوں نے اپنے خیال میں خود حفاظتی کے طور پر ایک مشہور روایت کی بناء پر کرنا چاہا تھا.آٹھ

Page 270

دس آدمیوں سے زیادہ سے یہ ذکر نہیں کیا گیا.فوراً ہی اس کارروائی کو چھوڑ دیا گیا.خود بعض انصار اللہ کی انجمن کے ممبروں نے اور میرے خاندان کے ایک آدمی نے ان کو سختی سے اس بات سے روکا اور میرے قطعی فیصلہ کے معلوم ہونے پر وہ اس امر سے بالکل باز آگئے.پس یہ واقعہ ہرگز کسی سازش پر دلالت نہیں کرتا.مولوی محمد علی صاحب کے ساتھیوں کی سازش ہاں اس کے مقابلہ میں ایک اور واقعہ ہے جس کے راوی ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم مشہور مضمون نگار ہیں.انہوں نے شروع میں میری بیعت نہ کی تھی.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی صدر الدین صاحب ووکنگ مشنری اور ہیڈ ماسٹر مسلم ہائی سکول لاہور اور ٹرسٹی احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے بعد اس خیال سے کہ لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کی تھی کہ کوئی خلیفہ بنایا جاوے مولوی محمد علی صاحب اپنے ٹریکٹ کی اشاعت کی وجہ سے اپنے ہاتھ کاٹ چکے تھے.اس لئے سیّد حامد علی شاہ صاحب کی نسبت تجویز کی گئی کہ ان کی خلافت کے لئے چالیس آدمی تیار کئے جاویں اور وہ بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت مولوی صدرالدین صاحب ہاتھ میں لالٹین لے کر دوہزار احمدیوں کے ڈیروں پر ماسٹر عبدالحق صاحب اورایک اور صاحب سمیت چکر لگاتے رہے کہ چالیس آدمی ہی اس خیال سے مل جاویں.مگر اتنے آدمی بھی (اس دو ہزار کے مجمع میں سے جس میں بقول ان کے اکثر مجھے سے نفرت کرتے تھے) ایسے نہ ملے جو ان کا ساتھ دیتے.ماسٹر صاحب تو فوت ہوگئے ہیں مولوی صدرالدین صاحب ہی قسم کھا کر بیان کردیں کہ کیا یہ واقعہ درست نہیں اور کیا اس واقعہ کی موجودگی میں ان کا مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کے واقعہ کو پیش کرنا جسے خود اپنے ہی احباب کے سمجھانے پر چھوڑ دیا گیا تھا درست ہوسکتا تھا.علاوہ اس واقعہ کے ان لوگوں کے متعلق ایک اور شہادت بھی ملتی ہے اور وہ ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب کی ہے.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:- ’’مجھے یاد ہے کہ ابھی حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الاول ایسے سخت بیمار نہ تھےمگر حالت ان کی دن بد ن نازک ہوتی چلی جاتی تھی.ایک روز جس کی تاریخ مجھے ٹھیک یاد نہیں ہے.اکبر شاہ خان صاحب سے میں نے پہلے ذکر کیا کہ حضرت صاحب کی حالت دن بدن نازک ہوتی جاتی ہے اللہ تعالیٰ خیر کرے.اسی اثناء میں خلافت کا ذکر بھی آگیا اس پر خان صاحب نے کہا کہ فساد کا تو ڈر ہے کیونکہ میاں صاحب کی خلافت لاہوری صاحبان

Page 271

نہیں مانیں گے.اگر خواجہ صاحب کی طرف توجہ کی تو دوسرے لوگ نہیں مانیں گے ہاں ایک صورت ہے جس سے فساد بھی نہیں ہوتا اور خلافت بھی قائم ہوسکتی ہے.مَیں نےد ریافت کیا کہ وہ کونسی؟ اس وقت خان صاحب نے کہا کہ اگر میاں صاحب اپنا حوصلہ وسیع کریں تو بات بن جاتی ہے اور وہ مولوی محمد علی صاحب ہیں.اگر ان کی بیعت کرلی جائے تو لاہوری بھی مان جاویں گے اور دوسرے بھی مان جاویں گے.یہ آپس میں گفتگو تھی.مگر حضرت کی زندگی میں.بہت دن پہلے.(الٰہی بخش بقلم خو د ۲۹ ؍اپریل ۱۹۱۴ء) اس شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس قسم کا الزام یہ لوگ ہم پر لگاتے ہیں.وہ خود ان پر لگتا ہے اور جو الزام ہم پر لگایا جاتا ہے.اس کی نسبت میں ثابت کرچکا ہوں کہ وہ ایک دو آدمیوں کی غلطی سے ہوا اور خود ہماری طرف سے ہی پیشتر اس کے کہ کوئی نتیجہ نکلتا اس کا تدارک کردیا گیا.کتنی جماعت بیعت میں داخل ہے اسی طرح اور کئی باتیں ہمارے بدنام کرنے کےلئے مشہور کی گئیں.مگر خدا تعالیٰ نےسلسلہ کو مضبوط کیا.اور باوجود اس کے کہ خود انہی کی تحریروں کے مطابق ننانوے فیصدی جماعت ابتداء میں ان کے ساتھ تھی مگر تھوڑے ہی عرصہ میں خدا تعالیٰ نے سب کو کھینچ کر میرے پاس لاڈالااوراب قریباً ننانوے فی صدی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے ساتھ ہے.لاہور میں جماعت سے مشورہ کی تجویز ان لوگوں نے شور مچایا کہ جو لوگ قادیان میں اس وقت جمع تھے ان کی رائے نہ تھی ان کا مشورہ جماعت کا مشورہ نہ تھا اس لئے اخباروں اور خطوط کےذریعہ سے تمام جماعت احمدیہ کو دعوت دی گئی کہ وہ ۲۲؍مارچ کو لاہور جمع ہوں تا کہ پورے طور پر مشورہ کیا جاوے.اس تحریکِ عام پر پیغام صلح کے اپنے بیان کے مطابق لاہور کی جماعت کو ملا کر کل ایک سو دس آدمی جمع ہوئے جن میں سے قریباً بیالیس آدمی لاہور سے باہر کے تھے.جن میں سے چار پانچ آدمیوں کے سوا باقی کسی جماعت کے نمائندہ نہیں کہلا سکتے.بلکہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر ذاتی دلچسپی سے اس جلسہ میں شامل ہوئے تھے.مولوی محمد علی صاحب کے لاہور کے ہم خیالوں نے ان بیالیس آدمیوں کے مشورہ سے جن میں صرف چار پانچ آدمی کسی جماعت کی نیابت کا حق رکھتے تھے.جو کچھ فیصلہ کیا اسے کل

Page 272

جماعت احمدیہ کا مشورہ اور فیصلہ قرار دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ میری خلافت جائز و درست نہیں.مگر ان ایک سو دس آدمیوں سے بھی دس آدمی بعد میں میری بیعت میں شامل ہوگئے جن میں سے ایک سیّد میر حامد شاہ صاحب مرحوم تھے جن کو انہوں نے خلیفۃ المسیح بھی منتخب کیا تھا اور کل سو آدمی رہ گئے مگر باوجود اس کے اس جلسہ میں جو فیصلہ ہوا وہ جماعت کا فیصلہ تھا اور جو کل جماعت کا فیصلہ تھا وہ سازش کا نتیجہ اور نصار اللہ کی فریب بازی تھی.ان لوگوں کا قادیان کو چھوڑنا قادیان کی جماعت میں سے سب کے سب سوائے چار پانچ آدمیوں کے میری بیعت میں شامل تھے اور اب قادیان میں کسی کامیابی کی امید یہ لوگ دل سے نکال بیٹھے تھےاس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ لاہور کو مرکز بنایا جائے.مولوی محمد علی صاحب کے قادیان سےجانےکے لئے عذر تلاش کئے جانے لگے اور آخر ایک دن مجھے اطلاع دی گئی کہ مولوی صاحب جمعہ کی نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے کہ تین چار بچوں نے (جو پانچ سات سال تک کی عمر کے تھے)ان پر کنکر پھینکنے کا ارادہ کا اظہار کیا ہے.میں نے اس پر درس کے وقت سب جماعت کو سمجھایا کہ گو بچوں نے ایسا ارادہ ظاہر کیا ہے.مگر پھر ایسی بات سُنی گئی تو مَیں ان کے والدین کو ذمہ دار قرار دوں گا اور سختی سے سزا دوں گا.مولوی محمد علی صاحب کو قادیان سے جانے سے باز رکھنے کی کوشش بعد میں مَیں نے سنا کہ مولوی محمد علی صاحب کو یہاں خوف ہے اس لئے وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں.مَیں نے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو ایک خط لکھ کر دیا کہ آپ مولوی محمد علی صاحب کے پاس جاویں اوران کو تسلّی دیں کہ آپ کسی قسم کی فکر نہ کریں میں آپ کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور آپ قادیان نہ چھوڑیں.خط میں بھی اسی قسم کا مضمون تھا.خط کا جواب مولوی محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ یہ کب ہوسکتا ہے کہ مَیں قادیان چھو ڑ دوں.مَیں تو صرف گرمی کے سبب پہاڑ پر ترجمہ قرآن کا کام کرنے کے لئے جاتا ہوں اوراس کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاّول کی زندگی میں ہی میں نے انجمن سے رخصت لے رکھی تھی اور میرا شکریہ بھی ادا کیا کہ مَیں نے ان کی ہمدردی کی.مَیں نے صرف اسی قدر کافی نہ سمجھا بلکہ اس کے بعد ان سے اسی مضمون کے متعلق زبانی گفتگو کرنے کے لئے خود ان کے گھر پر گیا.میرے ہمراہ خان محمد علی خان صاحب اور ڈاکٹر رشید الدین صاحب تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو ابتداءًکچھ ذکر ترجمہ قرآن کے متعلق ہوا.اس کے بعد مَیں نے اس امر کے متعلق کلام کا رُخ پھیرا.جس کے لئے مَیں آیا تھا کہ فوراً

Page 273

مولوی محمد علی صاحب نے ایک شخص المعروف میاں بگا کو جو کسی قدر موٹی عقل کا آدمی تھا آواز دی کہ اِدھر آؤ اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں.جب مَیں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب میاں بگا سے کلام ختم ہی نہیں کرتے تو لاچار اُٹھ کر چلا آیا اس کے بعد مولوی صاحب قادیان سے چلے گئے اور قریباً تین ہزار روپیہ کا سامان کُتب و ٹائپ رائٹر وغیرہ کی صورت میں ترجمہ قرآن کے نام سے اپنے ساتھ لے گئے.اس وقت بعض احباب نے مجھ سے کہا کہ ان سے یہ اسباب لے لیا جاوے کیونکہ یہ پھر واپس نہ آویں گے اور محض دھوکا دے کر یہ اسباب لئے جارہے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کی امانت ہے آپ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کریں مگر مَیں نے ان سب احباب کو یہی جواب دیا کہ جب وہ کہتے ہیں کہ مَیں قرآن کریم کے ترجمہ کیلئے ان کتب کو اور اسباب کو لئے جارہا ہوں اور صرف چند ماہ کےلئے اپنی سابقہ رخصت کے مطابق جارہا ہوں تو ہمارا حق نہیں کہ ان کی نیت پر حملہ کریں اور مَیں نے ان کو کچھ نہ کہا.مولوی محمد علی صاحب کا سرقہ کرنا جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کیا ان احباب درست تھی.مولوی صاحب قادیان سے گئے اور ہمیشہ کے لئے گئے اور جو کچھ انہوں نے مجھے لکھا وہ سب ایک بہانہ تھا.جس کے نیچے کوئی حقیقت پوشیدہ نہ تھی.وہ کتب و اسباب جو وہ لے گئے تھے بعد میں اس کے دینے سے انہوں نے باوجود تقاضا کے انکار کردیا اور جب تک دُنیا کے پردہ پر مولوی محمد علی صاحب کا نام باقی رہے گا اس وقت تک ان کے نام کے ساتھ یہ سرقہ کا بد نما عمل بھی یاد گار رہےگا.جو شخص اس طرح عاریتاً کتب و اسباب لے کر چند ماہ کے بہانہ سے جاتا اور پھر اس کی واپسی سے انکار ی کر دیتا ہے وہ ہرگز کسی جماعت کا لیڈر ہونے کا مستحق نہیں.خصوصاً مسلمانوں کی سرداری کا عہدہ اس سے بہت ہی بالا ہے.لاہور کو مدینۃ المسیح بنانا مولوی صاحب کا قادیان سے جانا تھا کہ لاہور مدینۃ المسیح بن گیا حتٰی کہ لوگوں کے دلوں میں طبعاً یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ کیا مولوی محمد علی صاحب مسیح موعود ہیں کہ جب تک وہ قادیان میں تھے قادیان مدینۃ المسیح تھا اور جب وہ لاہور چلے گئے تولاہور مدینہ المسیح ہوگیا.خیر اسی طرح لاہور کو بھی کچھ خصوصیت مل گئی اور منتظمان پیغام صلح کی وہ خواہش بر آئی جو ۱۰ ؍مارچ کے پرچہ میں بے اختیار ان کی قلم سے نکل گئی تھی اور جس کے یہ الفاظ ہیں:-

Page 274

’’ آخر حضرت مسیح موعودؑکے یہاں وفات پانے سے کچھ خصوصیت تو اسے (لاہور کو) بھی ملنی چاہئے.‘‘ اس فقرہ میں جس جاہ طلبی ،جس حصول مرتبت، جس لجاجت، جس اُمید ،جس خواہش کو مختصر الفاظ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کا لطفوہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو سخن فہمی سے کوئی حصہ رکھتے ہیں.رائی کا پہاڑ بنانا مولوی محمد علی صاحب کا لاہور جانا تھا کہ مخالفت کا دریا اوربھی تیزی سے امڈنے لگا وہ بچوں کے کنکرپھینکنے کا ارادہ ظاہر کرنے کا واقعہ تھوڑے دنوں میں تبدیل ہوکر یوں بن گیا کہ بعض لڑکوں نے مولوی صاحب پر کنکر پھینکے مگر شکر ہے لگے نہیں.پھر ترقی کرکے اس نے یہ صورت اختیار کی بعض لڑکوں نے آپ پر پتھر پھینکے مگر شکر ہے کہ آپ کی آنکھ بچ گئی اور پھر اس سے بھی ترقی کرکے اس نے یہ ہیئت اختیار کی کہ قادیان کے لوگوں نے کنکر پھینکے اور اس کے بعد یہ کہ قادیان کے لوگوں سے آپ کی جان محفوظ نہ تھی.چنانچہ ابتداء اس طرح شروع بھی ہوگئی تھی کہ قادیان کے لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے اور یہ آخری روایت مولوی محمد علی صاحب نے امرتسر میں متعدد آدمیوں کے سامنے بیان کی.مولوی محمد علی صاحب کے چلے جانے کے بعد قادیان مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور خیال کیا گیا کہ قادیان کا سُورج غروب ہوگیا مسیح موعودؑکا بنایا ہوا.مرکز ٹوٹ گیا.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور سمجھ لیا گیا کہ اب اسلام کا یہاں نام باقی نہ رہیگا.مرزا یعقوب بیگ صاحب نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ہم جاتے ہیں ابھی دس سال نہ گزریں گے کہ یہ جگہ عیسائیوں کے قبضہ میں ہوگی.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور گویا قادیان کی روح فاعلی نکل گئی عام طور پر کہا جانے لگا کہ اب وہاں کوئی آدمی کام کے قابل نہیں.زیادہ دن نہ گزریں گے کہ قادیان کا کام بند ہوجائے گا.مولوی محمدعلی صاحب قادیان سے چلے گئے اور گویا قادیان کی برکت سب جاتی رہی علی الاعلان اس امر کا اظہار ہونے لگا چندہ بند ہوجاوے گا اور یہ لوگ بھوکے مرنے لگیں گے تو خود ہوش آجاوے گا.

Page 275

مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور قادیان کی دیانت بھی گویا ساتھ ہی چلی گئی کیونکہ اس بات کا خطرہ ظاہر کیا جانے لگا کہ سب روپیہ خلیفہ خود لے لے گا اور جماعت کا روپیہ برباد ہوجاوے گا.مولوی محمد علی صاحب چلے گئے اورگویا اسلام پر قادیان میں موت آگئی کیونکہ سمجھ لیا گیا کہ اب اسلام کے احکام کی علی الاعلان ہتک ہوگی اور سلسلہ احمدیہ کو برباد کیاجاوے گا اور کوئی ہوش مند روکنے والانہ ہوگا.مولوی محمد علی صاحب چلے گئے اور قادیان کے مہاجرین کفار مکہ کے ہمرنگ بن گئے کیونکہ وعدہ دیا جانے لگا کہ دس سال کے عرصہ میں مولوی صاحب اپنے احباب سمیت قریہ قادیان کو فتح کرکے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل بن کر عزت و احترام کے ساتھ قادیان میں داخل ہونگے.مگر حق یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور حضرت مسیح موعودؑکی وہ الہامی پیشگوئی پوری ہوئی کہ :- ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے پس مقام خوف ہے‘‘.(تذکرہ صفحہ ۵۳۹.ایڈیشن چہارم) مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء قادیان سے چلے گئے اور حضرت مسیح موعودؑکا وہ الہام پھر دوسری دفعہ پورا ہوا کہ ’’اُخْرِجَ مِنْہُ الْیَزیْدِ یُّوْنَ‘‘ (تذکرہ ۱۷۶.ایڈیشن چہارم) قادیان سے یزیدی لوگ نکالے جاویں گے.ایک دفعہ تو اس طرح کہ قادیان کے اصل باشندوں نے مسیح موعودؑکے قبول کرنے سے انکار کردیا.اور دوسری دفعہ اس طرح کہ وہ لوگ جو اہلِ بیت مسیح موعود ؑسے بغض و تعصب رکھ کر یزیدی صفت بن چکے تھے وہ قادیان سے حکمت ِ الٰہی کے ماتحت نکالے گئے.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور حضرت مسیح موعود کا الہام اِنّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ (تذکرہ صفحہ ۴۳۶.ایڈیشن چہارم ) اور باوجود ان کے رسوخ اور جماعت کے کاموں پر تسلّط کے خدا تعالیٰ نے میرے جیسے ناتواں وضعیف انسان کے مقابلہ پر ان کو نیچا دکھایا.مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور خدا تعالیٰ نے اپنے زبردست نشانوں سے ثابت کردیا کہ میرا سلسلہ شخصیت پر نہیں بلکہ اس کا متکفل میں خود ہوں چاہوں تو اس سے جو ذلیل سمجھا گیا اور بچہ قرار دیا گیا کام لے لوں.

Page 276

خدا تعالیٰ کی قدرت کا زبردست ثبوت الغرض مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور اپنے جلال کا ایک زبردست ثبوت دیا اور اس نے اپنی ذات کو تازہ نشانوں سے پھر ظاہر کیا اور وہ اپنی تمام شوکت سے پھر جلوہ گر ہوا اور اس نے عَلٰی رُؤُوْسِ الْاَشْھَادِپکار دیا کہ احمدیت اس کا قائم کیا ہوا پودا ہے اس کو کوئی نہیں اکھاڑ سکتا.خلافت اس کا لگایا ہوا درخت ہے اس کو کوئی نہیں کاٹ سکتا.اس عاجز اور نوتوان وجود کو اسی نے اپنے فضل اور احسان سے اس مقام پر کھڑا کیا ہے.اس کے کام میں کوئی نہیں روک ہوسکتا.قادیان اس کی پیاری بستی ہے اسے کوئی نہیں اجاڑ سکتا وہ مکہ ہے مگر بروزِ محمدؐ کا مکہ وہ غریبوں کا شہر ہے مگر خدائے ذوالجلال کی حفاظت کے نیچے.وَاٰخِرُ دَعْوٰناَ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.میرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح از قادیان دارالامان ؁ ترجمہ انگریزی عبارات ۱ ’’میں جماعت احمدیہ کی دانائی اور اخلاقی جرأت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان باطل عقائد کے متعلق پورے زور سے نفرت کا اظہار کریں.پیشتر اس کے کہ یہ ان باطل عقائد کی طرح جو مسیحؑکی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.اپنی جڑ پکڑیں‘‘.۲’’جماعت کے تعلیم یافتہ طبقہ کا ایک بڑا حصّہ ‘‘.۳’’اخلاقی جرأت‘‘ ۴’’وہ کہتے ہیں کہ ان سے پہلے جن لوگوں پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا رہا ہے وہ باوجود آدمی ہونے کے خدا کہلاتے تھے.‘‘ ۵’’چونکہ اس نے اپنے والد کے مداحوں کے گروہ میں پرورش پائی اس لئے اس کے اندر وہی تنگ خیالات پیدا ہوگئے.جو اس قسم کے نوجوانوں میں ایسے حالات کے ماتحت پیدا ہو جایا کرتے ہیں.‘‘

Page 277

۶، ۷’’معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا (نبی اللہ کا ظہور مصنفہ ظہیر الدین ) جماعت احمدیہ نے کچھ نوٹس نہیں لیا.مگر غالباً اس کتاب کا مضمون یا اسی قسم کے مضمون کا کوئی اور ٹریکٹ حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم (جو اس وقت امام جماعت احمدیہ تھے) کے نوٹس میں لایا گیا اور مولوی صاحب موصوف کی طرف سے ایک اعلان اخبار بد ر مورخہ ۱۱ ؍جولائی ۱۹۱۲ء؁ میں شائع ہوا جس کا مضمون یہ تھا کہ چونکہ محمد ظہیر الدین نئے عقائد کا اظہار اور اشاعت کر رہا ہے اس لئے اس جماعت احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں سمجھنا چاہئیے.‘‘ ۸’’وہ جنہوں نے مسیح موعودؑکو قبول نہیں کیا صرف مسیح موعودؑ کے منکر ہیں اور حاطۂ اسلام سے واقع میں خارج نہیں‘‘.۹’’اور وہ اللہ کو اس کی ان صفات سے منسوب نہیں کرتے جن کا وہ مستحق ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک فانی (انسان ) کو کچھ وحی نہیں کی.کہو! کس نے وہ کتاب وحی کی تھی ؟ جو موسیٰؑلایا تھا اور لوگوں کے لئے نُور اور ہدایت تھی جس کے تم متفرق صحیفے بناتے ہو.جو تم دکھاتے ہو.حالانکہ تم بہت کچھ چھپاتے ہو اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جو تم نہ جانتے تھے نہ تم اور نہ تمہارے آباء کہو اللہ.پھر ان کو ان کی باتوں میں کھیلتا چھوڑ دے.‘‘ ؁؁؁

Page 278

Page 279

ہستی باری تعالیٰ از سیّدنا حضرت مرزا بشیرالدیں محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 280

Page 281

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ علی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ہستی باری تعالیٰ آج مَیں ایک ایسے مضمون کے متعلق تقریر کرنی چاہتا ہوں جو سب مضامین کا جامع ہے اور سب مضامین اس کے گرد چکر لگاتے ہیں اور سب اس کے تابع ہیں اور یہ ان کا متبوع ہے.میں اس وقت تک جس قدر مضامین بیان کرتا رہا ہوں وہ سب اس مضمون کے اجزاء اور اس کی شاخیں تھیں اور آئندہ بھی مجھے جو کچھ توفیق ملے اسی کی تشریح ہوگی.اس مضمون کو خواہ کس قدر بھی سنایا جائے ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک غیر محدود ہستی سے تعلق رکھتا ہے اور اس وجہ سے غیر محدود ہوگیا ہے.آپ لوگ جس قدر بھی اس مضمون پر غور کریں گے اس کے مطالب کو غیر محدود پائیں گے اور نئے سے نئے مطالب آپ پر ظاہر ہوں گے.سب انبیاءؑ نے اس مضمون کو بیان کیا ہے مگر بالآخر یہی کہا کہ لو مضمون بیچ میں ہی رہ گیا اور ہم جاتے ہیں.غرض سب انبیاء اور اولیاء یہی کہتے آئے ہیں کہتے رہے ہیں اور جب تک یہ دُنیا رہیگی کہتی رہے گی اور مرنے کے بعد خلاء میں بھی یہی مضمون ہوگا.یہ مضمون ہے.ذات باری ذات باری یعنی اللہ کا مضمون بہت وسیع مضمون ہے اور تمام مضامین اس سے نکلتے ہیں دیکھو ملائکہ کیا ہیں؟ خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اس کی طرف سے مختلف کاموں پر مقرر ہیں.نبی کیا ہیں؟خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے بھیجے ہوئے.آسمانی کتابیں کیا ہیں؟ خدا تعالیٰ کا کلام.دُعا کیا ہے؟

Page 282

خدا تعالیٰ کے حضور التجا.نماز روزہ ،حج زکوٰۃ کیا ہے ؟خدا تعالیٰ کی عبادات ،بندوں سے حُسنِ سلوک کیا ہے ؟ اپنے محبوب کے پیاروں سے پیار اور اس ذریعہ سے اپنے محبوب سے ملنے کی خواہش اور اس کے انعامات کی اُمید.غرض سارے کے سارے مضمون اس کے گرد اس طرح گھومتے ہیں جس طرح چاند سورج کے گرد گھومتا ہے.ہستی باری تعالیٰ کے مضمون کی ضرورت میرا مضمون خدا تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کرنا نہیں بلکہ ذات باری ہے مگر چونکہ اس کا یہ بھی حصہ ہے اس لئے بیان کرتا ہوں.اس زمانہ میں گناہ اوربدی کی کثرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں اور سب بدیاں اور گناہ خدا کو نہ سمجھنے اور اس پر حقیقی ایمان نہ لانےکی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے بھی اس مضمون کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے.پھر یورپ کی تعلیم نے کالج کے لڑکوں کو بالکل آزاد بنا دیا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا جاہل تھے جو خدا کو مانتے تھے.نہ کوئی خدا ہے اور نہ اس کے ماننے کی ضرورت.مَیں حج کے لئے گیا تو میرے ساتھ جہاز میں تین طالب علم بھی تھے جو ولایت جارہے تھے.ان میں سے دو مسلمان تھے اور ایک ہندو.ان کی ایک پادری سے بحث ہوئی جسے سُن کر مجھے اس خیال سے خوشی ہوئی کہ انہیں بھی مذہب سے تعلق ہے.یہ سمجھ کر مَیں نے ان سے کوئی مذہبی بات کی تو وہ تینوں بول اُٹھے کہ کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ ہم خدا کو مانتے ہیں.مَیں نے کہا ہاں.پادری صاحب سے جو آپ مذہب کے متعلق گفتگو کر رہے تھے.وہ کہنے لگے ہم تو قومی مذہب کی حمایت کر رہے تھے نہ کہ خدا کو مان کر اس کے مذہب کی حمایت کرتے تھے.یہ حمایت مذہب کی نہ تھی بلکہ ہندوستانیت کی.اس زمانہ میں خدا کا انکار حد سے بڑھ ہوا ہے اور یہاں تک دلیری سے انکار کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ گفتگو کے درمیان میں انہیں طالب علموں میں سے ایک نے جونسلاً ہندو تھامیز پر تنکا پھینک کر کہا مَیں تو اس میز کو اُٹھا کر دکھا سکتا ہوں تمہارا خدا اس تنکے کو اٹھا کر دکھا دے.اس کی باتوں کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ مَیں نے آتے ہی ایک ٹریکٹ لکھا جس میں خدا تعالیٰ کی ہستی کے دلائل دئیے.مگر آج اس سے زیادہ وسیع مضمون بیان کرنے کا ارادہ ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے.خدا کے انکار کی وجہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا انکار بہت بڑھا ہوا ہے جسکا بڑا سبب تو یہ ہے کہ گناہ کی کثرت کی وجہ سے تعلق باللہ نہیں رہا اور دلوں پر زنگ لگ گیا ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ انگریزی دان لوگ یورپ کے فلسفہ سے

Page 283

متأثر ہوکر مذہب سے دُور جا پڑے ہیں اور دوسرے لوگوں نے ان کے اثر کو قبول کیا ہے.یورپ کے فلسفہ کا اور فلسفیوں کے خدا تعالیٰ سےاس قدر دور ہوجانے کا سبب یہ ہے کہ جب یورپ میں علمی ترقی ہونے لگی اور طبعی اکتشافات کا سلسلہ شروع ہوا تو پادریوں کو یہ بیوقوفی سوجھی کہ انہوں نے اس ترقی کو مذہب کے خلاف سمجھا اور اس کی مخالفت شروع کردی.جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ مسیحیت کی بنیاد ایسے اُصول پر ہے جن کو عقل ردّکرتی ہے.اگر لوگوں کی توجہ عقل کی طرف ہوگئی تو اس کو کون مانے گا.پس انہوں نے تصرف کو قائم رکھنے کے لئے جو ان کو عوام الناس پر حاصل تھا علوم ،ہی کی مخالفت شروع کردی اور جو بات بھی علوم طبعیہ کے متعلق نئی دریافت ہوئی اسے کفر قرار دے دیا اور کہدیا کہ یہ مذہب کے خلاف ہے اور اس کی طرف توجہ کرنا گناہ ہے.چنانچہ ایک شخص نے جب دریافت کیا کہ زمین سُورج کے گرد گھومتی ہے تو اس کے متعلق پادریوں نے فتویٰ دیدیا کہ یہ مذہب سے نکل گیا ہے.آپ حیران ہوں گے کہ زمین کے سورج کے گرد گھومنے کا دعویٰ کرکے وہ شخص کس طرح مسیحیت سے نکل گیا مگر اس کا جواب آسان ہے.پادریوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ خدا تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوا ہےاور انسان زمین پر بستا ہے اس لئے زمین سب سے اعلیٰ ہوئی.لیکن اگر زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو زمین سورج کے مقابلہ میں ادنیٰ ہوگی تو اس کی ذلّت میں شبہ نہ رہا اور اس پر بسنے والے بھی ذلیل ہوگئے اس بناء پر اس پر کُفر کا فتویٰ دے دیا گیا اور اسے اتنا تنگ کیا گیا کہ آخر اس نے ایک کتاب لکھی جس میں لکھاکہ میں نے سُورج کے گرد زمین کے گھومنے کے متعلق جو کچھ لکھا تھا اگر چہ عقل کے ر و سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے مگر انسانی عقل ہے کیا چیز کہ اس پر بھروسہ کیا جاوے.اصل بات یہ ہے کہ شیطان چونکہ انسان اور خدا کا دشمن ہے اور خدا کے نُور کو دُنیا میں پھیلنے سے روکتا ہے اس لئے اس نے میرے دل میں یہ خیال ڈال دیا اور مجھے اس وقت ایسا معلوم ہونے لگا کہ زمین گھومتی ہے یہ عذر کرکے اس نے عقلمندوں کی نگاہ میں تو اپنے دعویٰ کو پختہ کردیا لیکن پادریوں نے اپنی بیوقوفی سے سمجھا کہ اب اس کو عقل آگئی ہے اور کی تو بہ قبول کی گئی.اس قسم کی باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایجادیں کرنے والے اور نئی نئی باتیں دریافت کرنے والے خدا کے ہی خلاف ہوگئے.انہوں نے سمجھا کہ اگر ثابت شدہ باتوں اور آنکھوں دیکھی باتوں پر عقیدہ رکھنے سے خدا کے کلام کا انکار ہوتا ہے تو خدا کا کوئی وجود ہی نہیں.کیونکہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا کا کلام کچھ اور کہے اور اس کا فعل کچھ اور.اس وجہ سے وہ مذہب کے خلاف ہوگئے اور فلسفی

Page 284

جو مذہب پر پہلے سے ہی معترض تھے ان کے مدد گار ہوگئے اور علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ مذہب کی گرفت بھی کم ہوتی چلی گئی.مشرق میں جب ان علوم کا رواج ہوا تو چونکہ کتابیں لکھنے والے مسیحیت سے تنگ آکر دوسری حد کی طرف نکل گئے تھے جس طرح پادری ہر ایک علمی تحقیق کو کلام الٰہی کے خلاف ثابت کرتے تھے.انہوں نے ہر ایک علمی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالنا شروع کیا کہ خدا ہی کوئی نہیں اور ان کی کتب کے مطالعہ کا یہ نتیجہ نکلا یہ وہ دل جو پہلے ہی زنگ آلود تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بالکل دُور جاپڑے اور طبائع دہریت کی طرف مائل ہوگئیں.فلسفی خیالات کے متعلق ایک اور مصیبت ہے اس میں صر ف دماغ کی تر و تاز گی کا سامان ہے کرنا کرانا کچھ نہیں پڑتا اس لئے بہت سے لوگ اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اس کے خلاف مذہب پر غور و تدبر کرنے کا نتیجہ عملی اصلاح ہے جو لوگوں پر گراں گزرتی ہے.مثلاً جو شخص اسلام پر غور کرنے گا اور اس کی خوبی کا قائل ہوگا اس کو ساتھ ساتھ کچھ کرنا بھی ہوگا اور مذہب میں ترقی کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی ترقی ہوتی چلی جائے گی.اگر پہلے فرض شروع کرے گا تو اور غور کرنے پر سنتیں بھی پڑھنے لگ جائے گا اور پھر جب اور غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگا نوافل بھی بہت غرض مذہب میں انسان جس قدر غور و فکر سے کام لے گا اسی قدر زیادہ پابندیاں اپنے اوپر عائد کرتا جائے گا.مگر فلسفہ میں یہ بات نہیں ہوتی صرف دماغ تازہ کیا جاتا ہے اور عملی طور پر کیا کرایا کچھ نہیںجاتا اس لئے لوگ ادھر زیادہ متوجہ ہوجاتے ہیں ،غرض دہریت اور خدا کے انکار کا اس زمانہ میں بڑا زور ہے.ایک وجہ اے انکار کی یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ خود تحقیق نہیں کرتے بلکہ ان کے مذہب کی بنیاد صرف ماں باپ کے ایمان پر ہوتی ہے اور جن لوگوں کی اپنی تحقیق کچھ ہو ہی نہیں وہ اعتراض کا دفعیہ نہیں کر سکتے بلکہ جلد ان سے متأثر ہوجاتے ہیں.کیونکہ ایک طرف سُنی سُنائی بات ہوتی ہے اور دوسری طرف دلیل ،اگر وہ لوگ دل سے خدا تعالیٰ کو مانتے ہوتے تو اس قدر دہریت نہ پھیلتی.مثلاً یہ میز پڑی ہے یا یہ سائبان.اگر کوئی فلسفی کہے کہ یہ میز نہیں یا یہ سائبان نہیں یا اس وقت سورج چڑھا ہوا نہیں.تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی اس کی بات مان لے.اسی طرح اگر لوگوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہوتا اسے حقیقی طور پر مانتے تو کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کا انکار کرنے والوں کی بات مان لیتے.بات یہی

Page 285

ہے کہ ایسے لوگوں نے خود غور نہیں کیا ہوتا دوسروں کے کہنے پر مانتے ہیں اس لئے اگر کوئی ذرا ٹھوکر لگادے تو کہیں کے کہیں جاگرتے ہیں.ایسے لوگ اگر خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرتے ہیں تو اس لئے کہ بحثیں نہ کرنی پڑیں.جیسے غیر احمدیوں کو جب کہیں کہ حضرت عیسیٰؑکی وفات پر گفتگو کرلو تو اس سے بچنے کے لئے کہہ دیتے ہیں فرض کرلو حضرت عیسیٰ مرگئے.اسی طرح جو لوگ مثلاً مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں وہ اپنے قومی مذہب کو اپنے مذہب کے خلاف دیکھ کر اور بحث سے بچنے کے لئے جب سوال ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں اور بعض لوگ تو اپنے آپ کو ذہنی کشمکش سے بچانے کے لئے اپنے نفس کو بھی دھوکے میں رکھتے ہیں اورجب ان کے دل میں شک پیدا ہو تو بلا کسی دلیل کے اس کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں.یہ لوگ بھی درحقیقت دہریہ ہیں گو بظاہر خدا کو مانتے ہیں.لیکن اگر خدا ہے تو اس کے ساتھ ان دھوکا بازیوں سے کام نہیں چل سکتا.اگر لوگ محض سنے سنائے اسے مانتے ہیں اور بحث سے بچنے کے لئے ماننے کا اقرار کرتے ہیں تو اس سے ان کی نجات نہ ہوسکے گی.ایسے لوگ قیامت کے دن پکڑے جائیں گے اور دہریوں میں شامل کئے جائیں گے اس لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق غور کیا جائے.خدا کے ماننے کا فائدہ جب کہا جاتا ہے کہ خدا کو مانو تو بعض لوگوں کے دلوں میں ایک دم سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے وجود یا عدم وجود کی بحث میں پڑیں ہی کیوں.اس کا فائدہ ہی کیا ہے؟اب بھی ہم محنت سے کماتے ہیں اگر خدا کو مان کر بھی محنت ہی کرنی پڑے گی اور جو کوشش اب کرتے ہیں وہی پھر بھی کرنی ہوگی تو پھر خدا کے ماننے سے ہماری زندگیوں میں کون سے تغیر ہوا جس کی خاطر ہم یہ جھگڑا سہیڑیں.یورپین محققین کا جواب یورپ کے لوگوں کے سامنے بھی یہی سوال آیا ہے جس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ اگر خدا کو نہ مانا جائے تو دنیا سے امن اُٹھ جائے گا کیونکہ پولیس تو ہر جگہ نہیں ہوتی.ہزار ہا لوگ جن کے دل میں چوری کا خیال پیدا ہوتا ہے وہ خدا ہی کے ڈر سے رُکتے ہیں اور اس کے ڈر کی وجہ سے چوری کا ارتکاب نہیں کرتے اس لئے خدا کو ماننا چاہئےاگر چہ واقع میں کوئی خدا نہیں.مگر سیاستاً خدا کے خیال کو ضرور زندہ رکھنا چاہئےتا کہ دُنیا میں امن قائم رہے.یہ عقیدہ پہلے پہل روما سے شروع ہوا.وہاں تین قسم کے خدا مانے جاتے تھے.ایک عوام کا خدا جسے کبھی عورت کے بھیس میں اور کبھی کسی اور شکل میں ظاہر ہونے والا

Page 286

قرار دیا جاتا تھا.دوسرا فلسفیوں کا جو بہت لطیف اور وراء الوریٰ سمجھا جاتا تھا.تیسرا حکومت کا خدا جس کا مطلب صرف یہ تھا کہ امن قائم رکھنے کے لئے ایک بالا ہستی کو منوانا عوام الناس کو جُرموں سے بچانے کے لئے ضروری ہے.اب یورپ بھی اس قسم کے خدا کا قائل ہے.حالانکہ یہ دہریت ہے اور خدا تعالیٰ کی پاک ذات سے تمسخر.اس دلیل کی کمزوری خدا کے ماننے کے لئے یہ دلیل کہ اس کے ماننےسے امن قائم ہوتا ہے یورپ کی دلیل ہے مگر یہ کوئی دلیل نہیں کیونکہ اگر فی الواقع خدا نہیں ہے تو پھر کیوں دھوکا دے کر لوگوں سے خدا منوایاجائے.دھوکا دے کر لوگوں کو گناہوں سے باز رکھنا خود ایک گناہ ہے.اورپھر یہ بھی تو سوال ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ہی کوئی نہیں تو پھر گناہ کیا شئے ہے؟ خدا تعالی کے نہ ہونے کی صورت میں تو گناہ کی تعریف ہی بدلنی پڑے گی.پس خدا تعالیٰ کے منوانے کی یہ غرض اپنی ذات میں تو گناہ کی تعریف ہی بدلنی پڑے گی.پس خدا تعالیٰ کے منوانے کی غرض اپنی ذات میں گناہ ہے اور لوگوں کو ذہنی غلامی میں پھنسائے رکھنا ہے اور دہریت پیدا کرنا ہے.کیونکہ جب ایک چیز کو اس کے اصل مقصود سے پھیر دیا جائے تو اس کی حقیقت پر غور کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی.اصل جواب اس سوال کا کہ خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لایا جائے یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ موجود ہے اس لئے اس پر ایمان لانا چاہئےاور دوسری صداقتوں کو جو ہم مانتے ہیں تو یہ سوچ کر تو نہیں مانتے کہ ان کے ماننے میں کیا فائدہ ہے بلکہ اس لئے مانتے ہیں کہ وہ سچائیاں ہیں اور سچائیوں کو معلوم ہونے کے بعد نہ ماننا جہالت اور حماقت ہے اور جبکہ نہایت چھوٹی چھوٹی صداقتوں کے دریافت کے لئے بگیر اس کے کہ اس دریافت سے کسی فائدہ کی پہلے سے کوئی امید ہو لوگ کوشش کرتے ہیں تو کیوں اسقدر اہم مسئلہ کی دریافت کی طرف توجہ نہ کی جائے جو پیدائشِ عالم کی حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے.جب لوگوں نے زمین کے گھومنے یا اس کے گول ہونے یا ستاروں کے فاصلوں پر غور کرنا شروع کیا تھا تو ان امور کی دریافت میں سوائے زیادتی علم کے اور کیا فائدہ سوچا تھا.پس اگر جزئیات کی دریافت کے متعلق بغیرکسی نفع کی اُمید کے کوشش کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی ہے تو ذات باری کے مسئلہ کے متعلق کیوں غور نہ کیا جائے؟ درحقیقت جو لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق غور ہی کیوں کریں وہ ایک رنگ میں خدا تعالیٰ کی ذات کا انکار کرتے ہیں.ان کی غرض اس علم سے جو فوائد مترتب ہوتے ہیں ان کا معلوم کرنا نہیں ہوتا.

Page 287

جب خدا کے نہ ماننے والوں کے سامنے مندرجہ بالا امر پیش کیا جاتا ہے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ باقی باتیں تو اختیاری ہیں کسی کی مرضی ہو تو زمین کے گھومنے کی تحقیقات کرے اور نہ ہو تو نہ کرے اسے کوئی مجبو ر نہیں کرتا مگر خدا کو تو جبراً منوایا جاتا ہے اور ہر ایک کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خُدا کے بارے میں تحقیقات کرے.مگر یہ غلط ہے.جس طرح ان علوم کی اشاعت ہوتی ہے اسی طرح اس علم کی بھی اشاعت کی جاتی ہے.جس طرح دوسرے علوم خاص خاص لوگوں نے جنہوں نے اپنی عمریں ان کی دریافت میں صرف کی ہیں دریافت کئے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکشاف بھی خاص خاص لوگوں پر جو اس امر کے اہل ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا جلواہ کامل طور پر ان پر ظاہر ہوا ہے.اورجب ان پر حقیقت ظاہر ہوگئی ہے توا نہوں نے باقی دُنیا کو اس صداقت کے تسلیم کرنے کی دعوت دی ہے اسی طرح جس طرح ان لوگوں نے جنہوں نے قانونِ قدرت کی باریکیوں کو دریافت کیا اور پھر دوسرے لوگوں کو ان کے ماننے کی دعوت دی.اس میں کیا شک ہے کہ سب دُنیا اس تحقیق میں مشغول نہیں ہوئی تھی کہ زمین گول ہے یا نہیں مگر جب یہ صداقت ظاہر ہوگئی تو پھر سب سے ہی اس صداقت کو منوایا جاتا ہے.اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے وجود کا اس کی محبت میں فنا ہوکر بعض لوگوں نے پتہ لگایا تو اب سب پر فرض ہے کہ وہ اسے مانیں خواہ اس کے ماننے میں ان کو کوئی فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے.اگر زمیں کی گولائی اور جوار بھاٹے کے اصول کے دریافت ہونے کے بعد دنیا کو اجازت نہیں دی جاتی کہ جو چاہے مانے.تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کسی کو کچھ نہ کہو خواہ کوئی توجہ کرے یا نہ کرے.جن کو خدا تعالی کی ہستی کا علم ہوا ہے ان کاحق ہے اور ان پر فرض ہے کہ وہ دوسروں تک اس علم کو پہنچائیں اور کسی کا حق نہیں کہ ان کی اس کوشش پر اعتراض کرے یا اس مسئلہ پر غور کرنے کو عبث قرار دے.تیسرا جواب یہ ہے کہ خالق کے معلوم کرنے سے حقائق الاشیاء معلوم ہوتے ہیں اور اس طرح خدا کے معلوم ہونے سے دُنیا کے علوم میں بہت کچھ ترقی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے وجود کے نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ہی شرک پیدا ہوا ہے اور شرک سے حقائق اشیاء کے دریافت کرنے کی طرف بے توجہی ہوئی ہے.اگر ہر ایک چیز کی علت خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے ارادہ کو قرار دیاجاتا تو کیوں ان چیزوں کو جو انسان کے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں خدا قرار دیکر انسانی تحقیق سے بالا سمجھ لیا جاتا.

Page 288

چوتھا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ ہی نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے وجود پر غور ہی کیوں کریں کیونکہ غور ہماری طرف سے شروع ہی نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ خود اپنے ایلچی بھیج بھیج کر ہمیں اپنی طرف بلاتا اور ہماری توجہ کو کھینچ رہا ہے.پس جب بلاوا دوسری طرف سے آرہا ہے تو یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہم کیوں خدا تعالیٰ کے وجود کے دریافت کرنے کی کوشش کریں جب آواز ادھر سے آرہی ہے تو ہماری کوشش کا سوال ہی اُٹھ گیا.اگر چلتے چلتے ایک چیز ہمارے سامنے آجائے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم اسے کیوں دیکھیں کیونکہ وہ چیز ہمارے ارادے سے پہلے ہمارے سامنےآگئی ہے.پس جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایلچی کے بعد ایلچی ہماری طرف آرہا ہے تو اب اس سوال کے معنی ہی کیا ہوئے کہ ہم اس سوال پر کیوں غور کریں.اس کا جواب صاف ہے کہ اس لئے غﷺر کیں کہ یہ سوال ہمارےسامنے آگیا ہے اور ایسے رنگ میں آگیا ہے کہ اس سے غفلت کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے.خدا تعالیٰ نےاپنے فرستادوں کا سلسلہ ایسا چلایا ہے کہ ایک منکر خدا کہہ سکتا ہے کہ دِق کردیا ہے اور جب تک لوگ انکار کرتے رہیں گے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا.حضرت نوح ؑ ،حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ،حضرت عیسیٰؑ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود ؑ کے آنے پر بھی جو لوگ نہیں مانتے اگر وہ انکار کرتے چلے جائیں گے تو پھر کسی اور رسول کو بھیج دے گا.لوگوں میں خدا کا خیال کس طرح پیدا ہوا؟ جب اس سوال کو اس طرح رد کیا جاتا ہے تو منکرانِ خُدا اور طرف رُخ بدلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ فی الواقع ہوتا تو چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ کا خیال دُنیا میں الہام کے ذریعہ سے پیدا ہوتا مگر ہم جیسا انسانی ارتقاءکی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بالا ہستی کا خیال آہستہ آہستہ قوموں میں پیدا ہوا ہے.چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے اقوام میں ان اشیاءکی پرستش شروع ہوئی ہے جن سے انسان ڈرا ہے.جس طرح ایک بچہ ڈر کر لجاجت اور گریہ وزاری کرنے لگ جاتا ہے اسی طرح جب انسان بعض چیزوں سے مرعوب ہوا اور ڈرا تو یہ ان کے آگے لجاجت کرنے لگا اور ہاتھ جوڑنے لگا اس سے عبادت پیدا ہوئی پھر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اپنے سے بالا ہستیوں کا خیال راسخ ہوتا گیا اور تعلیم کی ترقی کے ساتھ انسان نے ادنیٰ چیزوں سے نظر اُٹھا کر صرف بالا ہستیوں کو پوجنا شروع کیا.پھر کچھ مدت کے بعد جب اور علمی ترقی ہوئی تو بالا ہستیاں غیر مادی قرار پاگئیں اورجن چیزوں کی پہلے پرستش کی جاتی تھی وہ ان کا مظہر قرار پائیں اور آخری

Page 289

قدم یہ تھا کہ ایک واحد ہستی جو سب پر فائق تھی تجویز ہوئی.پس خدا تعالیٰ کا خیال بندے کی مخلوق ہے نہ کہ کوئی بالا ہستی بندے کی خالق.چنانچہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب سے پہلا علم جو دنیا میں رائج ہوا ہے وہ علم ہئیت تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ سورج ،چاند ،ستارے سب سے زیادہ انسانی عقل کو حیران کرنے والے تھے اس لئے سب سے پہلے انہی کو خدا قرار دیا گیا اور ان کی چالوں پر غور شروع ہوا تا کہ معلوم ہوسکے کہ خدا کا منشاء کیا ہے اور اس سے علم ہیئت کی ترقی ہوئی.علم اور فکر کی ترقی سے متأثر ہوکر جب لوگوں نے اس خیال سے تسلّی نہ پائی تو پنڈتوں نے ان چیزوں کو بالا ہستیوں کے مظاہر قرار دیے دیا پس خیالات کے اس ارتقاء سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا خیال انسانی دماغ کی ایجاد ہے نہ کہ کسی حقیقت پر مبنی یا کسی الہام کا نتیجہ ہے.اگر فی الواقع خدا ہوتا اور الہام سے دُنیا کو اس خیال کی طرف توجہ پیدا ہوتی تو شروع سے ہی خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت مکمل اور صحیح عقیدہ دنیا میں موجود ہونا چاہئے تھا.یہ اعتراض واقع میں قابل غور ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.جن اقوام نے الہام کی تعریف کو موجودہ زمانہ کے اعتراضات سے ڈر کر بدل دیا ہے انہوں نے تو اس اعتراض کا جواب نہایت آسانی سے دے دیا ہے اور وہ یہ کہ جس خیال کو تم نامکمل کہتے ہو اور جس تصویر کو تم ناقص کہتے ہو وہ بھی الہام کےذریعہ سے تھی اور چونکہ دنیا کی ذہنی ترقی ابتداء میں کامل نہ تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے وجو دکو تمثیلی رنگ میں بنی نوع انسان میں ظاہر کیا تھا اور چونکہ اصل چیز جس قدر کی جاسکتی ہے وہ تعلق ہے پس جو شخص بھی نیک نیتی سے سانپ یا بچھو یا ستاروں کو خدا سمجھ کر پُوجتا ہے وہ درحقیقت خدا کو ہی پوجتا ہے اور وہ بھی اپنی عقل کےمطابق ایک الہام پر ہی عمل پیرا ہے.پس اگر ابتداء میں خدا تعالیٰ کا خیال ناقص تھا تو اس کا موجب یہ نہ تھا کہ انسان کے دماغ نے اس خیال کو ڈر سے پیدا کیا بلکہ اس کا موجب یہ تھا کہ انسانی دماغ بوجہ ناقص ہونے کے خدا تعالیٰ کا خیال ناقص ہونے کے خدا تعالیٰ کے خیال کو مکمل صورت میں اخذ نہیں کرسکتا تھا اس لئے اس کی طاقتوں کے مطابق خدا تعالیٰ کا خیال اس کے دماغ پر نقش کیا گیا اور خدا تعالیٰ کا وجود اسے مختلف مظاہر کی صورت میں دکھایا گیا اور پھر یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کی ہر ایک شئے ایک بالا طاقت کی مظہر ہے؟ مجھے اس جواب کی صحت یا اس کے سُقم پر اس وقت بحث کرنے کی ضرورت نہیں مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ جو لفظی الہام کے قائل ہیں یہ جواب منکرین خدا کے سامنے پیش نہیں کرسکتے اگر الہام لفظوں میں نازل ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے وجود کو بنی نوع انسان کے سامنے

Page 290

بالکل ابتدائی زمانہ میں بھی اس رنگ میں پیش کیا جاسکتا تھاکہ انسان محسوس کرے کہ خدا تعالیٰ کا وجود دوسری اشیاء سے جو مخلوق ہیں بالکل الگ تھلگ ہے پس ہمیں اور قسم کے جوابوں کی ضرورت ہے.میرے نزدیک اس اعتراض کا حقیقی جواب دینے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس اعتراض کی حقیقت کیا ہے؟ اگر ہم اس اعتراض کی حقیقت پر غور کریں تو پہلے اسکے مندرجہ ذیل اجزاء معلوم ہوتے ہیں.۱ - خدا تعالیٰ کا خیال ڈر اور حیرت سے پیدا ہوا ہے.۲ -اس میں تدریجی ترقی ہوئی ہے اب اگر یہ دونوں باتیں صحیح ہیں تو خدا تعالیٰ کے متعلق جو خیال بنی نوع انسان میں پیدا ہوا ہے اس سے یہ ثابت ہونا چاہئے کہ سب سے پہلے جن چیزوں کی عبادت شروع ہوئی ہے وہ وہی چیزیں ہیں جن سے سب سے پہلے بنی نوع انسان کو خوف پیدا ہوسکتا تھا.اب اگر ذرا بھی تدبیر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے انسان کو خوف درندوں سے ہوسکتا تھا کیونکہ جس وقت انسان کے پاس حفاظت کا پورا سامان نہ تھا اور آبادیوں کا دستور نہ شروع ہوا تھا سب سے زیادہ خطرہ درنوں سے ہی ہوسکتا تھا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ درندوں کی پرستش کیڑوں کی پرستش سے بہت کم ہے.زیادہ تر سانپ کے پُجاری ملتے ہیں.شیروں اور بھیڑیوں کی پوجا سانپ سے بہت کم ہوتی ہے حالانکہ سانپ چھپ کر حملہ کرتا ہے اور شیر ظاہر میں اور شیر کی آوازہے اورسانپ کم ہوتی ہے حالانکہ سانپ چھپ کر حملہ کرتا ہے اور شیر ظاہر میں اورشیر کی آواز ہے اورسانپ کی نہیں.اور شیر کا جسم بڑا ہے اور سانپ کا نہیں.اوربھیڑیے کا حال بھی شیر کی طرح کا ہے.پس اگر تدریحی ترقی ہوتی تو سب سے پہلےشیر اور بھیڑیے اورریچھ وغیرہ کی پرستش ہوتی مگر ان کی پرستش اس کثرت سے اور اسی قدر پرانی نہیں ہے جس قدر کہ سانپ کی ہے جس سے معلوم ہوا کہ خدا کے خیال کے تدریجاًپیدا ہونے کا خیال ہی غلط ہے.علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ اعتراض تب ہی پڑ سکتا تھا جبکہ تسلیم کیا جائے کہ انسان اچانک دُنیا میں پیدا ہوگیا تھا اور اس وجہ سے اسے بعض چیزوں کو دیکھ کر حیرت اور خوف پیدا ہوا مگر یہ عقیدہ رکھ کر تو فوراً ایک بِالا ہستی کو تسلیم کرنا ہوگا جس نے ارادہ کیا کہ انسان پیدا ہوا اور وہ پیدا ہوگیا اور خود یہ عقیدہ ہی خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کردے گا.پس خدا تعالیٰ کے انکار کے ساتھ اس امر کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ انسان کی پیدائش بتدریج اور مختلف تغیرات سے ہوئی ہے اور اس قسم کے معترضین کا عقیدہ بھی یہی ہے.اب اگر یہ بات درست ہے کہ انسان بتدریج

Page 291

مختلف حالتوں سے ترقی کرتا ہوا بنا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان بننے کی صورت میں اس نے چاند ،سورج ،ستاروں اور شیروں ،بھیڑیوں اور سانپوں کو اچانک نہیں دیکھا.بلکہ وہ اس سے پہلی حالت میں بھی ان چیزوں کو دیکھتا آیا ہے اوربعض کا مقابلہ کرتا چلا آیا ہے اور بعض کو قطعاً نظر انداز کرتا آیا ہے.پس اگر جبکہ انسان بندریا اس سے بڑھ کر کسی اور جانور کی صورت میں سانپ سے خوب آشنا تھا بلکہ اس کا مقابلہ کیا کرتا تھا تو کیونکر ممکن ہے کہ جب وہ اس حالت سے ترقی کر جائے تو اسےپوجنے لگ جائے.یہ چیز نئی نہ تھی بلکہ ایسی چیز تھی جس سے وہ نسلاً بعد نسل واقف چلا آیا تھا پس ارتقاء کا مسئلہ بھی اس خیال کو ردّ کر رہا ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ درست ہے کہ خوف و حیرت سے خدا کا خیال پیدا ہوا تو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے چاند اور سورج کی پرستش شروع ہوتی.کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو سب کو اور سب سے پہلے نظر آتی ہیں.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کی پرستش ستارہ پرستی سے پہلے کی ہے.حالانکہ سورج ،چاند وغیرہ کو ہر شخص شروع سے ہی دیکھتا چلا آیا ہے.تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ پہلے دوسری چیزوں کی عبادت شروع ہوئی بعد میں ایک وراء الورٰی ہستی کا خیال پیدا ہوا ہے.خود تاریخ اس کو ردّ کر رہی ہے اوران لوگوں کا استدلال تاریخ سے درست نہیں ہے.پُرانی سے پُرانی اقوام میں ہمیں ایک خدا کے خیال کا پتہ لگتا ہے.دُنیا کی سب سے پُرانی قوم کا خیال خدا کے متعلق دُنیا میں پرانی اقوام جو اب تک محفوظ چلی آتی ہیں ان میں سے سب سےپُرانی میکسیکوکی قوم ہے.یہ قوم بہت پرانی سمجھی جاتی ہے اور نہایت قدیم خیالات اس میں محفوظ پائے جاتے ہیں.جب ہم اس قوم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں خدا تعالیٰ کے متعلق کیا خیال ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ گو یہ ایک نہایت ہی پُرانی قوم ہے مگر اس میں ایک خدا کا خیال موجود ہے.وہ کہتے ہیں ایک خدا ہےجسکا نام اوونا ولونا (AWONA WILLONA)ہے جو سب کا خالق ہے اور سب پر محیط ہے اور سب باپوں کا باپ ہے،ابتداء میں جب کچھ نہ تھا ولونا نے خیال کیا اور اس کے خیال کرنے کے بعد اس خیال سے نمّو کی طاقت پیدا ہوئی اور وہ طاقت بڑھتے بڑھتے وسیع فضا کی صورت میں تبدیل ہوگئی اور اس سے خدا کی روشنی جلوہ گر ہوئی اور فضا سکڑنے لگی جس سے یہ چاند اورسورج اور ستارے بنے.یہ میکسیکوکے باشندوں کا نہایت ہی پُرانا خیال ہے.اب خدا تعالیٰ کے متعلق جو تازہ سے تازہ خیالات ہیں ان کو ان سے ملا کر دیکھو وہ بھی ان کے مشابہ ہیں.

Page 292

عیسائیت میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے تاریکی تھی پھر دُنیا بنی اور اسلام میں بھی یہی ہے.یہ ہزاروں سال بعد کی تحقیقاتیں بھی یہی ثابت کرتی ہیں اور یہی باتیں ہیں جو سائنس کہتی ہے کہ پہلے بہت باریک ذرات تھے جو بغیر کسی سبب اور ذریعہ کے اکٹھے ہوئے اور بادل بنے.ان میں ایک جگہ ٹھوس ہوگئی اس لئے کہ وہاں زیادہ مادہ جمع ہوگیا.اس جگہ نے دوسرے زروں کو کھینچنا شروع کیا اور کرہ بڑھنے لگا اور اس میں گولائی آنے لگی.اس طرح بہت بڑا کرہ بنا.پھر اسکے ٹکڑے ہوگئے.کوئی سورج بن گیا.کوئی چاند کوئی ستارے.افریقہ کے قدیمی باشندوں کے خیال پھر افریقہ کی طرف آئیے.وہاں کے پُرانے اور قدیمی باشندوں کے دماغ اتنے ادنیٰ درجہ کے ہیں کہ اگر انہیں پڑھایا جائے تو بڑھاپے میں سب کچھ بھول جاتے کیونکہ ان کے دماغ اسقدرادنیٰ ہوتے ہیں کہ سیکھی ہوئی باتوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے.ان میں بھی ایک وراء الوریٰ ہستی ہے جو سب کی خالق ہے اور اسے وہ نینگمو (NYONGMO) کہتے ہیں.بابلیوں میں خدا کا عقیدہ پھر بابلیوں میں بھی یہی عقیدہ پایا جاتا ہے.چنانچہ بابل کے ایک نہایت ہی پُرانے بادشاہ کی ایک دُعا نکلی ہے جو یہ ہے:- کہ اے دائمی بادشاہ تمام مخلوق کے مالک تُو میرا خالق ہے.اے بادشاہ تیرے رحم کے مطابق.اے آقا جو تو سب پر رحم کرنے والا ہے تیری وسیع بادشاہت رحم کرنےوالی ہو.اپنی الوہیت کی عبادت کی محبّت میرے دل میں گاڑ دے.اورجو کچھ تجھے اچھا معلوم دیتا ہے وہ مجھے دے.کیونکہ تو ہی ہے جس نےمیری زندگی کو اس رنگ میں ڈھالا ہے.کتنا اعلیٰ اور نبیوں والا خیال ہے جو اس دُعا میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے میں کوئی چیز مانگوں اور وہ میرے لئے مضر ہو.اس لئے اے خدا جو کچھ تجھےمیرے لئے اچھا معلوم ہوتا ہے وہ دے یہ اس قوم کی دُعا ہےجسے بُت پرست کہاجاتا ہے.دیگر اقوام کے خیال اسی طرح کینڈا والے قدیمی باشندے ایک خدا کو مانتے ہیں.پھر آسٹریلیا کا علاقہ جو چند صدیوں سے ہی دریافت ہوا ہے اور جہاں کے لوگ دُنیا سے بالکل علیحدہ تھے اور اس قدر وحشی اور خونخوار تھے کہ ان کا قریباً خاتمہ کردیا گیا.

Page 293

ان کا ارنٹا (ARUNTA)نامی ایک قبیلہ ہے.وہ ایک ایسے خدا کا قائل ہے جو آسمان پر رہتا ہےاسے وہ الٹجیرا (ALTJIRA)کہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ چونکہ حلیم ہے اس لئے سز ا نہیں دیتا اور اس لئے اس کی عبادت کی ضرورت نہیں.افریقہ کا ایک وحشی قبیلہ جسے زولو (ZULU) کہتے ہیں ان میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ایک غیر مرئی خدا نے جو سب دُنیا کا باپ ہے.اس کا نام انکو لنکولو (UNKULUNKIVLU) بتاتے ہیں.ہندوؤں میں خدا تعالیٰ کی غیر محدود طاقتوں کے متعلق خیال پایا جاتا ہے.چنانچہ درونا کے متعلق وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عالم الغیب اور غیر محدودطاقتوں والا ہے.چنانچہ اس کے متعلق ہندوئوں کا پُرانا خیال ہے کہ ’’اگر کوئی آدمی کھڑا ہو یا چلے یا پوشیدہ ہوجائے.اگر وہ لیٹ جائے یا کھڑا ہوجائے یا جو دو آدمی اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرےسے سرگوشیاں کریں بادشاہ درونا اسے جانتا ہے وہ وہاں بطور ثالث موجود ہے.یہ زمین بھی دَرُونَا کی ہے اور آسمان اپنےوسیع فضا سمیت بھی اسی کا ہے.وہ شخص آسمان سے بھی بھاگ کر نکل جائے وہ بادشاہ دَرُوْنَا کی حکومت سے باہر نہیں جاسکتا‘‘.اسی طرح آسٹریا کےقدیم وحشی باشندے نورینڈ ئیر (NURRENDIRE) کو شریعت دینے والا خدا سمجھتے ہیں.دومبو ایک پرانا وحشی قبیلہ نوریلی (NURELLI) کے نام سے ایک زبردست خدا کے پرستش کرتا ہے.افریقہ کا مشہور مغربی بنتو قبیلہ نزامبی (NZAMBI) تمام دُنیا کا پیدا کرنے والا اور بنی نوع انسان کا باپ قرار دیاجاتا ہے.پس اس قدر قدیمی اور وحشی قبائل کے اندر ایک زبردست غیر مرئی خدا کا خیال پایا جانا بتاتا ہے کہ آہستہ آہستہ خدا کا خیال نہیں پیدا ہوا بلکہ الہامی طور پر آیا ہے.اہلِ یورپ کا اعتراض بعض لوگ اوپر کے بیان پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ یہ تو مانا کہ ایک غیر مرئی قادر مطلق خدا کا خیال پُرانی اور قدیمی اقوام میں پایا جاتا ہے مگر یہ کس طرح معلوم ہو کہ یہ خیال بھی ان قوموں میں پُرانا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو خود وحشی قبائل میں الیام کا خیال موجود ہے پرانے سے پُرانے قبائل کو لیا جائے وحشی سے وحشی قبائل کی روایات پر غور کیا جائے تو ان میں الہام کا خیال

Page 294

موجود ہے اور وہ یقین کرتی ہیں کہ ان کے پاس جو قانون ہے وہ خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے.پس یہ شہادت جو ان اقوام کی ہے جو الہام یا عدم الہام کی حقیقت سے ناواقف ہے بتاتا ہے کہ یہ خیال کسی تدریجی ترقی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ الہام کےذریعہ سے قدیم زمانہ سے چلا آتا ہے.مثال کے طور پر ہم ویدوں کو لیتے ہیں.ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دین اور شریعت کےعالم بالاسے نازل ہونے کا خیال بہت پُرانا ہے.آسٹریلیا کے وحشی قبائل دنیا کی قدیم ترین حالت کے نمائندے ہیں ان سے جب پوچھا جائے کہ وہ کیوں بعض رسوم کی پابندی کرتے ہیں تو وہ یہ جواب ہیں کہ نرٹیڈ ئرنے ان کو ایسا ہی حکم دیا ہے یعنی خدا نے.امریکہ کے پُرانے قبائل میں بھی یہ خیال موجود ہے کہ ان کے قوانین الہام کےذریعہ سے بنے ہیں.یہ شہادتیں بتاتی ہیں کہ تدریجی ترقی سے یہ خیالات پیدا نہیں ہوئے بلکہ کسی ایک شخص کی معرفت جو اپنے آپ کو ملہم قرار دیتا تھا مختلف قبائل میں پھیلے لوگ ان اشخاص کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں،فریبی کہہ سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خیالات تدریجی ترقی کا نتیجہ تھے ورنہ یہ روایات قدیم وحشی قبائل میں نہ پائی جاتیں.دوسرا جواب یہ ہےکہ آثار قدیمہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہت سی قومیں جن میں اب مشرکانہ خیالات ہیں ابتداءمیں ان میں ایک خدا کی پرستش تھی.چنانچہ میگز ایک محقق ہے اس نےچین کے متعلق تحقیقات کی ہے کہ گو وہاں ہر چیز کا الگ خدا مانتے ہیں آگ کا خدا ،چولہے کا خدا ،توےکا خدا غرضیکہ ہر چیز کا خدا لگ الگ ہے گویا ہندوستان سے بھی بڑھ کر شرک ہے کہ جہاں صرف ۳۳ کروڑ دیوتا سمجھا جاتا ہے لیکن پُرانے زمانہ میں وہاں ایک ہی خدا کی پرستش کی جاتی تھی.اسی طرح بابل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے.بابل وہ شہر ہے جسے ہمارے ملک کے بچے بھی جانتے ہیں اور ہاروت ماروت کے قصّے کی وجہ سے خوب مشہور ہے اس شہر کی تاریخ نہایت قدیم ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں پُرانے زمانہ میں ایک خدا کا خیال موجود تھا.تیسرا جواب تیسرا جواب یہ ہے کہ قدیم اقوام کے متعلق یہ کہنا کہ ممکن ہے ان میں ایک خدا کا خیال بعد میں پیدا ہوگیا ہو عقلاً غلط ہے کیونکہ یہ ایک مانا ہوا قاعدہ ہے کہ جو خیال کسی قوم میں بعد میں پیدا ہوا اس کی عظمت زیادہ ہوتی ہے اور جو دیوتا بعد میں مانا

Page 295

جائے اس کی عبادت زیادہ ہوتی ہے اور یہ بات تمام قدیم اقوام کے حالات سے معلوم ہوتی ہے کہ ان میں ایک خدا کا خیال تو موجود ہےلیکن پر ستش چھوٹے دیوتا ئوں کی زیادہ ہے اگر یہ خیال درست ہے کہ تدریج سے ایک خدا کا خیال پیدا ہوا ہے تو چاہیے تھا کہ تمام اقوام میں ایک خدا کی پرستش زیادہ ہوتی اور چھوٹے دیوتا اگر باقی بھی رہتے تو محض روایت کےطور پر حقیقتاًلوگوںکاان سے لگائو اور خدا کی پرستش شاذو نادر ہی کسی قبیلہ میں پائی جاتی ہے.پس یہ صورت حالات اس تدریجی ترقی والے مقولہ کو باطل کردیتی ہے.پھر ایک اور ذریعہ بھی اس سوال کو حل کرنے کا ہے اور وہ موجودہ زمانے کے تغیرات سے استنباط ہے.اس عقیدہ کی بنیاد کہ خدا کے خیال نے تدریجی ترقی کی اصل میں صرف اس خیال پر مبنی ہے کہ تمام چیزوں میں تدریجی ترقی یا ارتقاء پایا جاتا ہے اور اس سے انسانی دماغ مستثنیٰ نہیں.اب ہم اس اصل کو مدنظررکھتے ہوئے مسلمانوں کی حالت کو دیکھتے ہیں.دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ اسلام خالص توحید پر مبنی تھااس کے ابتداء میں شرک کا ایک شمہ بھی اس کی تعلیم میں شامل نہ تھا مگر آہستہ آہستہ اب اسلام کی کیا حالت پہنچ گئی ہے.کیا اب مسلمانوں میں قبر پرست ،درخت پرست ،جنّ پرست ،بُھوت پرست ،ستارہ پرست لوگ نہیں پائے جاتے؟ آخر وہ مسلمانوں کہلانے والے لوگ ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ سیّد عبد القادر جیلانی ؒ کے پاس ایک عورت آئی اور آکر کہا میرے بچے کےلئے دُعا کرو کہ صحت یاب ہوجائے.انہوں نے کہا دُعا کریں گے اور وہ چلی گئی لیکن وہ پھر آئی اور کہا میرا لڑکا تو مر گیا.اس پر انہوں نے عزرائیل کو بُلایا.وہ آئے تو کہا مَیں نے جو کہا تھا اس لڑکے کی جان نہیں نکلالنی.پھر کیوں نکالی؟ انہوں نے کہا مجھے ایسا ہی حکم تھا مَیں کیا کرتا.اس پر اسے پکرنے لگے اور وہ بھاگا.عزرائیل آگے آگئے اور یہ پیچھے پیچھے.گو یہ بعد میں اُڑے مگر بعدالقادر تھے اس کے قریب پہنچ ہی گئے.وہ آسمان میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ انہوں نے پکڑ کر اس کی زنبیل چھین لی اور اس لڑکے کی روح ہی نہیں بلکہ اس دن کی ساری روحیں جو اس نے قبض کی تھیں چھوڑدیں.وہ خدا کے پاس گیا اور جاکر رونے لگا کہ مجھ سے یہ جانیں نکالنے کا کام نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ سیّد عبدالقادر نے مجھے ایک روح کے آزاد کرنے کو کہا تھا.مَیں نے آزاد کی تو انہوںنے چھین کر سب روحیں ہی آزاد کردیں.خدا نے یہ سنتے ہی کہا چپ چپ وہ کہیں یہ باتیں سُن نہ لے.اگر وہ اگلی پچھلی ساری روحیں چھوڑ دے تو پھر ہم کیا کریں گے.

Page 296

اب بتاؤ لا الٰہ الّا اللہ پر جانیں قربان کرنے والوں کی نسل یہ اور اس قسم کی اور باتیں کر رہی ہے یا نہیں؟ اور کیا اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں میں پہلے شرک پایا جاتا تھا اورپھر خدا سے چل کر شرک کی تاریکیوں میں آگری تو کیوں نہ سمجھا جائے کہ پُرانی اقوام جن میں شرک پایا جاتا ہے اسی طرح خالص توحید کے نقطہ سے شروع ہوئی تھیں مگر پھر تنزل اور جہالت کے زمانہ میں اصل تعلیم کو بھلا بیٹھیں غرض عقلاً اور نقلاً یہ ہرگز محال نہیں کہ خدا تعالیٰ کا خیال قدیم سے چلا آیا ہو بلکہ عقل اور نقل دونوں اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ خیال قدیم سے اور الہام کےذریعہ سے دنیا میں چلا آیا ہے اور مشرکانہ خیالات بعد کے ہیں.پس منکرین خدا کا یہ اعتراض کہ اگر خدا تعالیٰ واقعہ میں ہوتا تو ابتداء میں ایک خدا کا خیال ہوتا باطل ہے اور اس اعتراض کی بنیاد غلط واقعات پر رکھی گئی ہے.اگر خدا ہے تو دکھاؤ ان ابتدائی،بحثوں کے بعد جب خدا تعالیٰ کے وجود کے متعلق فکر کرنے کی ضرورت ثابت ہوجاتی ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا تو منکرین خدا یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اچھا ہم ماننے کو تیار ہیں لیکن تم خدا ہمیں دکھا دو.چناچہ پڑھےلکھے دہریہ تک بھی یہی کہتے ہیں کہ لائو خدا دکھا دو پھر ہم مان لیں گے.اگر خدا ہے تو چاہئےتھا کہ آسمان سے آواز آتی کہ میرے بندو اکھٹے ہوجاؤمَیں تمہیں اپنا منہ دکھاتا ہوں اگر صبح و شام اسی طرح ہوتا تو سب لوگ خدا کو مان لیتے.پس اگر خدا ہے تو دکھا دوہم مان لیں گے.مجمل جواب اس کا مجمل جواب تو یہ ہے جو صوفیاء نے دیا ہے کہ وہ قریب ہے او رسب سے زیادہ قریب.اور وہ دُور ہے اور سب سے زیادہ دُور.اور بہت ہی قریب کی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی اوربہت دور کی بھی دکھائی نہیں دیتی.پس خدا تعالیٰ جو بندہ سے نہایت دور ہے بندہ اسےدیکھ نہیں سکتا.اور اسی طرح وہ بندہ سے اس قدر قریب ہے کہ حبل الورید سے بھی زیادہ قریب ہے اسلئے بھی نظر نہیں آتا.کیا کبھی کسی نے اپنی حبل الورید دیکھی ہے یا اگر کوئی پانی میں منہ ڈال لے تو اپنے آپ کو دیکھ سکتاہے؟ پس ایک بات تو خدا کے متعلق ہم یہی کہتے ہیں کہ وہ چونکہ اتنا قریب ہے کہ حبل الورید سے بھی زیادہ قریب ہے اسلئے انسان اسے دیکھ نہیں سکتا.انہی دنوں ایک دوست نے سنایا کہ ایک شخص جرمنی وغیرہ سے ہوکر آیا ہمیں نماز پڑھتے دیکھ کر کہنے لگا اس قسم کی ورزش کا کیا فائدہ ؟ اس کی بجائے کوئی اور معقول ورزش کرلیا کرو جس کا کچھ فائدہ بھی ہو.

Page 297

اسے کہاگیا یہ ورزش نہیں بلکہ عبادت ہے اس نے کہا کس کی عبادت ؟ کہا گیا خدا کی عبادت.اس نے کہا خدا کہاں ہے؟ اگر ہے تو دکھائو.حسین تو اپنےآپ کو دکھاتے ہیں.اگر خدا سب سے زیادہ حسین ہے تو کیوں چھپا ہوا ہے؟ اس دوست نے کہا کہ مَیں نے کاغذ پر اللہ لکھ کر دُور سے اسے دکھایا اس نے کہا کچھ نظر نظر آتا.پھر اسے کہا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کیرم میں یہ بھی فرماتا ہے کہنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ.(قٓ:۱۷)میں انسان سے اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور اس کاغذ کو اس کی آنکھوں کے بالکل قریب رکھ دیا اور کہا بتائو اب تمہیں کیا نظر آتا ہے اس نے کہا اب تو کچھ نہیں نظر آتا.اس پر اسے بتایا گیا کہ جب خدا اس سے بھی زیادہ قریب ہے تو وہ تمہیںان ا ٓنکھوں سے کس طرح نظر آجائے.تو خدا کو دیکھنے کا مطالبہ کرنے والوں کو مجمل جواب تویہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ خدا قریب سے قریب اور بعید سے بعید ہے اس لئے ان دونوں وجہ سے نظر نہیں آتا.ہر چیز کے دیکھنے کا طریق الگ ہے اور اس کا حقیقی جواب یہ ہے کہ ہر چیز کے دیکھنے اور معلوم کرنے کا طریق الگ ہے اور یہ کہنا کہ دوسری چیزوں کی طرح ہی خدا بھی ہمیں دکھاؤ نہایت ہی بیہودہ اور خلاف عقل سوال ہے.ہم نے کب کہا ہے کہ خدا کوئی مادی چیز ہے جسے اور مادی چیزوں کی طرح دیکھا جاسکتا ہے.کہتے ہیں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا وہ بادشاہ کے پاس جاکر کہنے لگا مَیں نبی ہوں مجھے قبول کرو.بادشاہ نے کہا کس طرح معلوم ہو کہ تم نبی ہو.وزیر نے کہا یہ تو کوئی مشکل بات نہیں.ابھی اس کا فیصلہ ہوجاتا ہے.یہ کہہ کر اس نے اس مدعی نبوت کے سامنے ایک تالا رکھدیا اور کہا اگر تم نبی ہو تو اسے کھول دو.اس نے کہا مَیں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے نہ کہ لوہار ہونے کا کہ تاکہ کھولوں.یہی حال ان لوگوں کا ہے جو کہلاتے تو فلاسفر یعنی عقلمند ہیں مگر خدا کے متعلق اس قسم کا مطالبہ کرتے ہیں جس قسم کا وزیر نے مدعی نبوت سے کیا تھا.انہیں اتنا سمجھنا چاہئےکہ ہم آٹے کا خدا نہیں مانتے اور نہ پتھر کا خدا مانتے ہیں.اگر اس قسم کے خدائوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو مندروں میں دیکھ لیں.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک وراءالوریٰ ہستی مانتے ہیں.ہر چیز دیکھ کر نہیں مانی جاتی اور یہ صاف بات ہے کہ دُنیا کہ ہر ایک چیز دیکھ کر ہی نہیں مانی جاتی.بلکہ اور طریقوں سے بھی مانی جاتی ہے.مادہ اشیاء میں سے بھی بعض کے وجود کاعلم سونگھنے سے بعض کا چکھنے سے بعض کا ٹٹولنے سے بعض کا سننے

Page 298

سے معلوم ہوتا ہے.پس اگر کوئی کہے کہ گلاب کے پھُول کی خوشبو مجھے دکھا دو یا لو ہے کہ سختی مجھے دکھا دو یا خوبصورت آواز دکھا دو.تو وہ شخص نہایت ہی نادان ہوگا اورجب مادی چیزوں میں سے بھی سب کی سب دیکھنے سے نہیں مانی جاتیں.تو پھر خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کہنا کہ ہم اسے دیکھے بغیر نہیں مانیں گے کس قدر نادانی ہے.علاوہ ازیں سب چیزیں حواس خمسہ سے بھی نہیں معلوم کی جاسکتیں.بعض قیاس سے بھی معلوم کی جاتی ہیں.ایسی چیزیں نہ سونگھی جاتی ہیں نہ چکھی جاتی ہیں نہ دیکھی جاتی ہیں نہ ٹٹولی جاتی ہیں نہ سنی جاتی ہیں.جیسے غصہ ہے.کس طرح پتہ لگتا ہے کہ فلاں میں غصّہ ہے؟کیا چُھو کر یا سُن کر یا چکھ کر یا دیکھ کر یا سونگھ کر.ان پانچوں طریقوں میں سے کسی سے بھی اس کا پتہ نہیں لگایاجاسکتا.پھر کیونکر معلوم ہوتا ہے کہ غصہ کوئی چیز ہے اور لوگوں کو آیا کرتا ہے.اس طرح کہ انسان سمجھتا ہے کہ میں بھی آدمی ہوں اور دوسرے بھی آدمی ہیں پس وہ اپنے غصہ کی حالت کی کیفیات کو جب دوسروں کی ویسی ہی کیفیات سے ملا کر دیکھتا ہے توسمجھ لیتا ہے کہ یہ چیزاوروں میں بھی پائی جاتی ہے اور جس وقت وہ کیفیات دوسرے میں دیکھتا ہے خیال کرلیتا ہے کہ اس وقت اس کو غصّہ آیا ہواہے.اسی طرح اور کئی باتیں ہیں جو دوسرے کی کیفیت کو اپنے اوپر چسپاں کرنے سے معلوم ہوتی ہیں.مثلاً درد ہے.نہ یہ چکھی جاتی ہے نہ سونگھی جاتی ہے نہ دیکھی جاتی ہے نہ چھوئی جاتی ہے نہ سنی جاتی ہے.پھر کس طرح پتہ لگایا جاتا ہے کہ کسی شخص کو واقع میں درد ہے اور کس طرح ہے اس طرح کہ اپنے نفس پر وہ حالت گزر ی ہوئی ہوتی ہے اور اس کے آثار کا علم ہوتا ہے اس لئے جب کوئی کہتا ہے کہ مجھے فلاں جگہ درد ہے تو دوسرے انسان اس کی شکل اور حالت کو دیکھ کر درد کا حال معلوم کرلیتے ہیں اوراپنے تجربہ کی بناءپر جو تکلیف اسے ہو رہی ہوتی ہے اس کا اندازہ کرلیتے ہیں.غرض بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا علم حواسِ خمسہ سے بھی نہیں ہوسکتا.ان چیزوں کی بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو قیاس سے معلوم ہوتی ہیں دوسری وہ جو اندرونی حسوں سے معلوم ہوتی ہیں.مثلاً غیر کا غصہ تو قیاس سے معلوم ہوتی ہیں دوسری وہ جو اندرونی حسوں سے معلوم ہوتی ہیں.مثلاً غیر کا غصہ تو قیاس سے معلوم ہوسکتا ہے.لیکن اپنے آپ کو جب غصہ یا پیار آتا ہے تو اس کا پتہ قیاس سے نہیں لگایا جاتا اور نہ وہ سونگھنے ،چکھنے ،دیکھنے ،سننے اور چُھونے سے معلوم ہوتا ہے بلکہ انسان کی اندرونی حسیں اسے محسوس کرتی ہیں.پھر بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے اثرات سے ان کو معلوم کرتے ہیں جیسے مقناطیس ہے اسے جب لوہے کے پاس رکھا جائے تو اسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس سے ہم سمجھ لیتے ہیں

Page 299

کہ اس میں جذب کی طاقت ہے اور جب اس امر کا ہم بار بار تجربہ کرلیتے ہیں تو ہمیں اوربھی یقین ہوجاتا ہے اور اگر اس کے اثر کو ہم منتقل کرسکیں تو اس سے ہمارا یقین اوربھی بڑھ جاتا ہے.کیونکہ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حقیقتاً کوئی وجود رکھتی تھی جس کی وجہ سے منتقل بھی ہوگئی.اس طاقت مقناطیسی کو ہم دیکھ کر یا سونگھ کر یا چکھ کر یا چُھو کر یا سن کر نہیں مانتے.بلکہ اس کے اثر کی وجہ سے مانتے ہیں.اس قسم کی اشیاء بھی لاکھوں کروڑوں ہیں اور کوئی عقلمند ان کا انکار نہیں کرتا.پس جبکہ دینوی اور مادی اشیاء میں حواس خمسہ کے سوا اور ذرائع سے بھی انسان چیزوں کے وجود کا پتہ لگایا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ جو مادی نہیں اس کے متعلق یہ شرط کیونکر لگائی جاسکتی ہے کہ اسےد کھا دو یا حواس خمسہ کے ذریعہ سے اس کا ثبوت دو.ثبوت بیشک ہر دعویٰ کے لئے ضروری ہے مگر وہ ثبوت دعویٰ کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ بے تعلق اوربے جوڑ.خدا تعالیٰ کی ذات خدا تعالیٰ کی ذات کیسی ہے؟ اس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُۡ وَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَہُوَاللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ.(الانعام :۱۰۴)ابصار علم کو بھی کہتے ہیں.اس لئے اس کا یہ مطلب ہوا کہ تم خدا کو ان ظاہری آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے علم اور فہم سے بھی نہیں دیکھ یا معلوم کر سکتے.مگر جب خدا تعالیٰ خود تم پر اپنا اثر ڈالے تو جس طرح لوہے پر مقناطیس کا اثر پڑنے سے مقناطیس کا پتہ لگ سکتا ہے اسی طرح تم خدا کے اثر سے اس کو معلوم کرسکتے ہو.اس مرحلہ پر پہنچ کر منکرین خدا کا یہ سوال ہوتا ہے کہ اچھا جس طرح تم چاہو خدا کی ہستی کو ثابت کرو.اور جو ثبوت اس کے ہونے کے ہوسکتے ہیں وہ دو.اس لئے اب وہ دلائل بیان کئے جاتے ہیں جن سے خدا کی ہستی ثابت ہوتی ہے.ہستی باری کی پہلی دلیل اس کے لئے پہلی دلیل تو ہم قبولیت عامہ کی لیتے ہیں یعنی یہ کہ خدا کا خیال ہر قوم میں پایا جاتا ہے اور خدا کے بڑے سے بڑے منکر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں کہ قبولیت عامہ بہت بڑی دلیل ہے.چنانچہ سنپسر۲جو دہریت کا بانی ہوا ہے.(اگر چہ اس نے اس کا دعویٰ نہیں کیا لیکن اسی کی کتابوں پر دہریت کی بنیاد رکھی گئی ہے) اس نے لکھا ہے کہ جس بات کو ساری دُنیا مانتی ہو وہ بالکل غلط نہیں ہوسکتی اس کی ضرور کچھ نہ کچھ حقیقت ہوتی ہے.پس جبکہ ہم ساری اقوام کو دیکھتے ہیں کہ ان میں خدا کا خیال پایا جاتا ہے جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ خیال کہیں سے نکلا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے

Page 300

اس دلیل کو پیش کیا ہے.فرماتا ہے.اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَافِیْھَا نَذِیْرٌ(الفاطر : ۲۵) کہ کوئی قوم دُنیا کی ایسی نہیں جس میں میرے پکارنے والے نہیں پھر گئے اور یہ نہیں بتا گئے کہ مَیں ہوں.یہی ہر قوم میں پھرنے والے تھے جنہوں نے ان میں خدا کے ہونے کا خیال پھیلایا.پس یہ قبولیت عامہ کی دلیل ہے.دہریت نے اس کے مقابلہ میں برے زور لگائے اور آج ہی نہیں بلکہ پہلے سے لگار ہی ہے مگر پھر بھی دہریت ہی مغلوب ہوتی رہی اور خدا کے ماننے والے ہمیشہ سے ہوتے رہے.اور یہ بھی ثابتہے کہ دہریے بھی مرتے وقت یہی کہتے رہے ہیں کہ ہم خدا کی ہستی کا انکار نہیں کرتے ممکن ہے کہ خدا ہو.چنانچہ ولایت میں ایک دہریے نے مرتے وقت بہت بڑی جائیداد اس بات کے لئے وقف کی کہ اس کےذریعہ خدا کی ہستی پر بحث جاری رہے.منکرین خدا کے متعلق تو اس قسم کی باتیں ثابت ہیں.مگر خدا کے ماننے والوں میں سے کبھی کسی نے مرتے وقت نہیں کہا کہ شاید خدا نہ ہو.حضرت مسیح موعودؑ سنایا کرتےتھےکہ ہمارے (ہمارے سے مراد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ہیں) ماموں میر محمد اسمٰعیل صاحب کے ساتھ ایک دہریہ پڑھا کرتا تھا.ایک دفعہ زلزلہ جو آیا تو اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا.میر صاحب نے جب اس سے پوچھا کہ تم تو خدا کے منکر ہو پھر تم نےرام رام کیوں کہا؟ کہنے لگا غلطی ہوگئی یونہی منہ سے نکل گیا.مگر اصل بات یہ ہے کہ دہریے جہالت پر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والے علم پر اس لئے مرتے وقت یا خوف کےوقت دہریہ یہ کہتا ہےکہممکن ہے میں ہی غلطی پر ہوں.ورنہ اگر وہ علم پر ہوتا توا سکی بجائے یہ ہوتا کہ مرتے وقت دہریہ دوسروں کو کہتا کہ خدا کے وہم کو چھوڑ دو کوئی خدا نہیں مگر اس کے الٹ نظارے نظر آتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی ہستی کی یہ بہت زبردست دلیل ہے کہ ہر قوم میں یہ خیال پایا جاتاہے.ہر قوم میں خدا کا خیال ہونے پر اعتراض اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بیشک خدا کے ماننے کا عام خیال پایا جاتا ہے مگر کوئی دو خیال آپس میں متفق دکھا دو.ایک اگر کہتا ہے کہ ایک خدا ہے تو دوسرا کہتا ہے دو ہیں.تیسرا کہتا ہےتین ہیں.چوتھا کہتا ہے لاکھوں کروڑوں ہیں،پانچواں کہتا ہے ہر چیز خدا ہے،ایک وشنو اور شو کو خدا مانتے ہیں،دوسرے ایک نُور کا اورایک تاریکی کا خدا مانتے ہیں غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ خیال یقین کی بناء پر نہیں بلکہ وہم ہے.

Page 301

جواب اس کے متعلق ہم کہتے ہیں.اس خیال کا وہ حصہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں وہ باطل ہے.مگر جس حصہ کو سارے کے سارے مان رہے ہیں وہ کیوں باطل قرار دیا جائے.سارے کے سارے یہ تو کہتے ہیں کہ خدا ہے سہی.اس کےآگے جو کچھ کہتے ہیں اس کے متعلق ہم کہیں گے کہ ان کی یہ تشریحیی غلط ہیں اور خدا ہے والا خیال درست ہے.جیسے ایک شخص کہے کہ مَیں نے دس سوار دیکھے،دوسرا کہے مَیں نے بیس دیکھے، تیسرا کہے مَیں نے پچیس دیکھے تو کیا یہ کہیں گے کہ کسی نے ایک بھی سوار نہیں دیکھا.اگر انہوں نے فریب اور شرارت نہیں کی اور دھوکا بنا کر نہیں لائے تو یہی ہا جائے گا کہ سوار تو ضرور تھے آگے گننے اور اندازہ لگانےمیں ان کو غلطی لگ گئی.اسی طرح دنیا کی مختلف قوموں کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان کی شرارت نہیں اور وہ دھوکا نہیں دیتے تو بات یہی ہے کہ انہوں نے خدا کے متعلق دیکھا کچھ ضرور ہے مگر بھول جانے کی وجہ سے بعد میں کچھ سمجھنے لگ گئے ہیں.ورنہ یہ غیر ممکن ہے کہ ہزاروں قومیں سینکڑوں ملکوں میں رہنے والی جن میں سے بعض کو آپس میں ملنے کا بھی کبھی اتفاق نہیں ہوا سب کی سب ایک زبان ہوکر اس امر کا اقرار کرنے لگیں کہ اس مخلوق کا ایک خالق ہے یہ اتفاق اور اتحاد بِلا کسی قوی وجہ کے بالکل ناممکن ہے.ہستی باری کی دوسری دلیل دوسری دلیل جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق قرآن کریم نے دی ہے.یہ ہے قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ(الاخلاص :۲)کہو خدا ہےاور ہے بھی ایک.اس آیت میں جو یہ دو دعوے کئے گئے ہیں کہ(۱) خدا ہے اور (۲) ایک ہے.ان میں سے پہلے کا ثبوت تو یہ دیا کہ اللّٰہُ الصَّمَدُ(الاخلاص :۳) اور دوسرے کے دو ثبوت دئیے کہ (۱)لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ (۲)وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ(الاخلاص :۴،۵ ) شرک دو قسم کا ہے ایک تو یہ کہ کئی وجود خدا کی حیثیت رکھنے والے ہوں چاہے اس سے چھوٹے ہوں یا بڑے.دوسرے یہ کہ خدا کے سوا باقی ہو تو مخلوق ہی مگر اسے خدائی کا درجہ دیا گیا ہو تو ایک شرک فی الذات ہے اور دوسرا شرک فی الصفات.مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے تینوں امور کا ثبوت دیا ہے اوّل خدا کی ذات کا.دوسرے خدا کے واحد فی الذات ہونے کا.تیسرے واحد فی الصفات ہونے کا.چونکہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ کے وجود کے متعلق بحث کر رہا ہوں اس لئے میں صرف اس آیت کو لیتا ہوں جس میں ہستی باری پربحث ہے اور وہ اللہُ الصَّمَدُ کے الفاظ ہیں.یعنی خدا اپنی ذات میں کامل ہے.صمد کے معنی ہوتے ہیں کہ وہ کسی کا محتاج نہ ہو اورباقی چیزیں اس کی محتاج

Page 302

ہوں.اب اس حقیقت کو دنیا میں دیکھو کس طرح واضح طور پر ہر جگہ اس کا ثبوت ملتا ہے.دنیا کی کوئی چیز نہیں جو اپنی ذات میں کامل ہو ہر چیز اپنے وجود کے لئے دوسری اشیاء کی محتاج ہے اور بغیر ان کے قائم نہیں رہ سکتی.خدا کےسوا ہر چیز دوسری کی محتاج ہے ELEMENTSکے باریک سے باریک ذرات کی طرف چلے جاؤ.ہر ایک ذرہ کا دوسرے ذرہ پر اثر پڑ رہا ہے.کہیں نور کا اثر ہو رہا ہے.کہیں ایھتر کا اثر ہورہا ہے.انسان کامل چیز سمجھی جاتی ہے لیکن یہ پانی روٹی اور ہوا کا محتاج ہے.سورج ہےجو گیس کا محتاج ہے.اپنے حجم کو قائم رکھنے کے لئے دوسرے سیاروں سے مواد لینے کا محتاج ہے اور بیسیوں اشیاء کا محتاج ہے.زمین ہے تو وہ اپنے وجود کے قیام کے لئے کہیں دوسرے ستاروں کی کشش کی کہیں کرہ ہوا کی.ایتھر کی.نئے مادہ کی محتاج ہے.غرض کسی بڑی سے بڑی چیز کو لیکر باریک در باریک کرتے جائو تو محتاج ثابت ہوگی.پس جب ہر چیز جو ہمیں دُنیا میں نظر آتی ہے وہ پانے وجود کے لئے دوسری اشیاء کی محتاج ہے اور یہ احتیاج بتارہی ہےکہ دنیا کا کارخانہ اپنی ذات میں قائم نہیں بلکہ اس کا چلانے والا کوئی اور ہے کیونکہ محتاج الی الغیر چیز اپنی خالق آپ نہیں ہوسکتی نہ ہمیشہ سے ہوسکتی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ چیزوں کی یہ احتیاج موجودہ تحقیقات کی رو سے ہے جب تحقیقات مکمل ہوجائیں گی تو شاید ثابت ہوجائے کہ بحیثیت مجموعی دُنیا کسی کی محتاج نہیں.اول تو اس کا یہ جواب ہے کہ شاید نئی تحقیق سے دنیا کی احتیاج اوربھی واضح ہوجائے اور اس کے خالق کا وجود اور بھی زیادہ روشن ہوجائے.پس یہ کوئی اعتراض نہیں.اس وقت تک تحقیقات کے کئی دور بدلے ہیں مگر یہ مسئلہ زیادہ سے زیادہ قائم ہوا ہے کبھی اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہوئی.پس ہر جدید تحقیق کے بعد اس اصل کا اوربھی زیادہ پختہ ہوجانا ہی اس امر کا ثبوت ہےکہ آئندہ تحقیق اسے باطل نہیں کرے گی بلکہ ثابت کرے گی.لیکن اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ کوئی ایسا ذرہ معلوم ہوجائے جو اپنی ذات میں کامل ہو تو پھر بھی اس کے جوڑنے جاڑنے والے کی ضرورت رہے گی.لیکن درحقیقت یہ عقلاً محال ہے کہ کوئی ذرہ اپنی ذات میں کامل ہو بغیر بالا رادہ ہستی کے اور قادر مطلق وجود کے یہ طاقت کسی میں نہیں پائی جاسکتی.پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مادہ جسے اپنی ذات میں مکمل قرار دیا جائے اس کے لئے

Page 303

دوسری شکل اختیار کرنا ناممکن ہے.کیونکہ تغیر دوسری شئے سے ملنے سے ہوتا ہے اور ملنے کی طاقت اس میں ہوتی ہے جو نامکمل ہو کامل شئے چونکہ تغیر قبول نہیں کرتی وہ کسی اور چیز سے حقیقی طور پر مل بھی نہیں سکتی.اس کا ملنا ایسا ہی ہوسکتا ہے جس طرح کہ کھانڈ کےذرّے آپس میں ملکر پھر کھانڈ کی کھانڈ ہی رہتے ہیں.پس اگر ایسا کوئی ذرہ فی الواقع ہے تو یہ دنیا اس سے پیدا ہی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ دنیا تو بے تعداد تغیرات کا مقام ہے.غرض کائنات عالم پر غور کرنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کہ ہر چیز تغیر پذیر ہےاوراپنی ہستی کے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج اس لئے کسی ایسی ہستی کا ماننا جو ان محتاج ہستیوں کو وجود میں لانے والی ہو اور ایک قانون کے ماتحت چلانے والی ہو ضروری ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک مخفی طاقت سے یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ مخفی طاقت بالارادہ ہے یا بِلا ارادہ.اگر بِلا ارادہ ہے تو وہ خود دوسری چیزوں سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ تمام طاقتیں دوسری چیزوں کی حرکت یا باہمی ترکیب سے پیدا ہوتی ہیں اور اگر بِالا رادہ ہے تو ہمارا دعویٰ ثابت ہے.ہم بھی تو ایسی ہی طاقت کو منوانا چاہتے ہیں.غرض کہ اللہُ الصَّمَدُ میں خدا تعالیٰ کے وجود کی ایک نہایت عجب دلیل دی گئی ہے.تیسری دلیل مسئلہ ارتقاء وہ مسئلہ جو خدا کے وجود کے خلاف سب سے زیادہ پیش کیاجاتا ہے ارتقاء کا مسئلہ ہے.یعنی یہ دنیا جو ہمیں نظر آتی ہے پہلے دن سے اسی طرح نہیں چلی آئی بلکہ پہلے باریک ذرات تھے جو لاکھوں سال بعد ایک سے دو ہوئے،دوسے تین ،پھر چار ،پانچ حتّٰی کہ اس طرح بڑھتے گئے.ادھر نباتات اور حیوانات میں اسی طرح آہستہ آہستہ ترقی ہوتی گئی.جو بہتر نسل تھی وہ اور زیادہ بہتر پیدا کرتی گئی حتّٰی کہ بندر بن گیا اورپھر اس سےاوپر بعض اور جانور اورپھر ان سے آدمی بنے.ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ بندر سے انسان بنے مگر ہمیں قرآن کریم یہ ضرور بتاتا ہے کہ دنیا کی پیدائش تدریجی تغیر کے ساتھ ہوئی ہے.قرآن کریم یہ ضرور بتاتا ہے کہ دنیا کی پیدائش تدریجی تغیر کے ساتھ ہوئی ہے.قرآن کریم اس تغیر کے متعلق جو کچھ بتاتا ہے اس کی مثال پہاڑوں سے دی جاسکتی ہے.پہاڑ کو جہاں بھی دیکھو گے اس کا ایک سلسلہ نظر آئے گا.پہلے چھوٹا ٹیلا آیا ہے پھر اس سے اونچا پھر اس سے اونچا اورجب اونچائی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو پھر چوٹیاں نیچی ہونی شروع ہوجاتی ہیں.یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اونچائی بہت کم ہوجاتی ہے.اس کے بعد پھر وہ اونچی ہونی شروع ہوجاتی ہیں پھر نیچی ہونے لگتی ہیں.حیوانات کی پیدائش میں بھی اس قسم کا ارتقاء ضرور ہوا ہے.یعنی قبض اور بسط کی تدریجی رَو ئیں دُنیا میں ضرور چلی ہیں.یہ

Page 304

نہیں کہ ایک ہی دن میں سب چزیںپیدا ہوگئیں یا یہ کہ ایک ہی دن میں ایک شئے پیدا ہوگئی.سب چیزیں بھی تدریحاً پیدا ہوئیں اور ہر ایک چیز بھی آہستہ آہستہ ہی کامل ہوئی.پس یہ ٹھیک ہے کہ دُنیا میں زندگی کی مختلف رَوئیں چلی ہیں.پہلے چھوٹی پھر اس سے بری پھر اس سے بڑی.مگر یہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل رَوئیں تھیں.یہ نہیں تھا کہ ایک ہی رو ترقی کرتےکرتے مختلف شکلیں اختیار کر گئی.غرض پہلے نہایت ادنیٰ قسم کی مخلوق بنی پھر اس سےاعلیٰ بنی پھر اس سے اعلیٰ.مگر یہ ترقی الگ الگ ہوئی اور مستقل طور پر.اور یہ غلط ہے کہ ایک ہی ادنیٰ حیوان سے ترقی کرتے کرتے تمام مخلوق بن گئی.بات یہ ہے کہ جب زمین اس قابل تھی کہ چھوٹے چھوٹے جاندار اس میں زندہ رہ سکیں اس وقت اس قسم کے جاندار اس میں پیدا ہوئے.جب زیادہ صفائی اس کی فضا میں پیدا ہوگئی تو زیادہ اعلیٰ قسم کے جاندار اس میں پیدا ہوئے.یہاں تک کہ فضاء بالکل صاف ہوگئی اور اس میں انسان جو سب سےا علیٰ جاندار تھا پیدا ہوا اوربالکل قرین قیاس ہے کہ انسان کی پیدائیش کے بعد جس قسم کے جاندار ان سڑاندوں سے پیدا ہوسکتے تھے جو انسان ہی کی پیدائش کے بعد پیدا ہوسکتی تھیں.جو انسان ہی کی پیدائش کے بعد پیدا ہوسکتی تھیں.انسان کی پیدائش کے بعد پیدا ہوئے.غرض آدمی بے شک ارتقاء کے اُصول کے ماتحت ہی پیدا ہوا ہے.مگر ہر جنس کا ارتقاء مستقل تھا نہ کہ ایک چیز دوسری سے پیدا ہوئی.لیکن یہ نہیں کہ بندر سے انسان بنے بلکہ یہ کہ انسان انسان سے ہی بنے اور بندر بندر سے اور کُتّے کُتّے سے.مگر ہم کہتے ہیں خواہ کچھ مان لو اس ارتقاء کا مسئلہ سے دہریت باطل ہوجاتی ہے کیوں؟ اس لئے کہ جو لوگ ادنیٰ جانوروں سے ترقی کرکے انسان کی پیدائش مانتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کچھ حیوانات پیدا ہوئے پھر انہوں نے ترقی کہ اعلیٰ درجہ کا انسان پیدا ہوگیا.اس پر آکر جسمانی ترقی تو بند ہوگئی لیکن انسانی دماغ کی ترقی جاری ہے.ہم کہتے ہیں یہی خدا کے ہونے کا ثبوت ہے.کیونکہ اگر نیچر ہی سب چیزوں کےپیدا کرنے والی ہوتی خدا نہ ہوتا تو جسمانی ترقی بھی جاری رہتی اورانسان سے آگے کچھ اوربنتا.مگر یہ ظاہر ہے کہ جسمانی تغیر بند ہوگیا ہے.اور اس کے مقابلہ میں انسانی روح کو مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے کون سی عقل اس امر کو تسلیم کرسکتی ہے کہ نیچر ایک مقصد قرار دیتی ہے اور اس مقصد کے حصول پر اپنا راستہ بدل دیتی ہے.انسان کی پیدائش پر ارتقاء جسمانی کا سلسلہ بند ہوجانا اور عقلی اور ذہنی ترقی کا سلسلہ رک نہ جانا بتاتا ہے کہ اس تمام

Page 305

ارتقاءکا بانی اوراس کا ملانے والا کوئی ایسا وجود ہے جس نے اس تمام دنیا کو ایک خاص غرض اور مقصد کے لئے پیدا کیا ہے جب وہ مقصد پورا ہوگیا تو ارتقاء کی لہریں جو جاری تھیں اس نے بندکردیں.اگر خدا تعالیٰ نہیں تو چاہئے تھا کہ انسان کی پیدائش کے بعد بھی برابر مخلوقات میں تبدیلی ہوتی رہتی اور نئے سے نئے حیوانات پیدا ہوتے رہتے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ حیوان پیدا ہوگیا جس کےذہن اس قابل تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کرسکے اور روحانی ترقیات حاصل کرسکے تو ارتقاء کہ لہر بالکل پلٹ گئی اوربجائے جسمانی ترقی کے خالص ذہنی ترقی شروع ہوگئی گویا مقصود پورا ہوگیا اوراب جسمانی ارتقاء کی ضرورت نہ رہی جس کے ذریعہ سے ایک جنس سے دوسری جنس پیدا کی جائے.چنانچہ اس تغیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاً انسان کے بچپن کا عرصہ غیر معمولی طور پر لمبا کردیا گیا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض چونکہ علوم کا حصول ہے جو لمبی تربیت کو چاہتا ہے اس لئے اس کےلئے بچپن کا زمانہ بھی لمبا بنایا گیا ہے تا وہ دیر تک ماں باپ کا محتاج رہے اور ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو اور ان کے علم اور تجربہ کو ان کی صحبت میںسیکھے اوران کی تربیت سے فائدہ حاصل کرے.اگر انسان بندر سے ترقی کرکے ایک اندھی نیچرکے قوانین کےذریعہ سے بنا تھا تو کیا وجہ کہ بندر اور اس سے اوپر کے ترقی یافتہ جانوروں کے بچپن کا زمانہ جبکہ بہت ہی چھوٹا تھا اور پیدا ہوتے ہی چلنے کے قابل ہوجاتے تھے اورچھ سات ماہ میں اپنے بچاؤاور حفاظت کا سامان مہیّا کرنے کے قابل ہوجاتے تھے تو انسان کے لئے یہ نئی بات پیدا ہوئی کہ وہ چھ سات ماہ تک ایک قدم اُٹھانے کے قابل نہیں ہوتا.پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے اورچودہ پندرہ سال تک ماں باپ کی مدد اور اعانت کا محتاج رہتا ہے.یہ بچپن کے زمانہ کی لمبائی ان مجبوریوں کی وجہ سے نہیں ہے جو ارتقاء کے مسئلہ کےلازمی نتیجہ میں ہو کہ ہم اسے اس کی طرف منسوب کردیں بلکہ یہ اس علمی ترقی کی وجہ سے ہےجس کے لئے انسان میں مخفی قوتیں رکھی گئیں ہیں.پس یہ امر ایک بِلارادہ قادر ہستی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے نہ کہ ارتقاء کی عام رَو کی طرف.یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے دانت اس قسم کے اس لئے ہوگئے کہ اس کی غذا ء مختلف قسم کی تھی.یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی دُم اس لئے نہیں رہی کہ وہ بیٹھنے کا عادی ہے(گو یہ ایک بیہودہ دلیل ہے) یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی انگلیوں کی شکل اس لئے بدل گئی کہ وہ اس قسم کا کام نہیں کرتا تھا جو دوسرے جانوروں کو کرنا پڑتا ہے.مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا بچپن کا زمانہ لمبا کیوں ہوگیا کیونکہ یہ تغیر مادی اسباب کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ایک آئندہ پیش آنیوالے

Page 306

مقصد کے پورا کرنےکےلئے ہے اور آئندہ ضرورت کو اور پھر علمی ضرورت کو صرف بالارادہ ہستی ہی پورا کرسکتی ہے.اس جگہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کابچہ چونکہ دیر میں علوم سیکھتا ہے اور حیوان کا بچہ جلدی سیکھ لیتا ہے اس لئےانسان کی بچپن کی عمر لمبی ہوتی ہے اور حیوان کی چھوٹی کیونکہ اوّل تو یہ ارتقاء کے خلاف ہے.اگر ارتقاءکا مسئلہ درست ہے اور حیوان ہمیشہ ذہنی ترقی کی طرف قدم مارتارہا ہے تو چاہئے کہ انسان کا بچہ جلدی سیکھے اور حیوان کا دیر میں لیکن اگر اس وجہ کو فرضاً درست بھی سمجھ لیا جائے تو بھی یہی ماننا پڑے گا کہ دُنیا کا پیدا کرنے والا ایک علیم و حکیم وجود ہے.کیونکہ نیچر اس امر کا فیصلہ کیا کرسکتی ہے کہ کون علم جلدی سیکھتا ہے اور کون دیر میں؟یہ کام تو ایک بِلا رادہ اور علیم و حکیم ہستی ہی کرسکتی ہے.دُنیا کس طرح پیدا ہوئی؟ اب میں پیدائش عالم کے متعلق قرآنی اصل بیان کرتا ہوں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ یہ بتاتے ہوئے کہ دُنیا کو اس نے کس طرح پیدا کیا فرماتا ہے.قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۰ۭ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ وَجَعَلَ فِيْہَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِہَا وَبٰرَكَ فِيْہَا وَقَدَّرَ فِيْہَآ اَقْوَاتَہَا فِيْٓ اَرْبَعَۃِ اَيَّامٍسَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَہِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْھا۰ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ فَقَضٰىھنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَھا۰ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا۰ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ (حٰمٓ السجدۃ : ۱۰تا۱۳) فرماتا ہے.ایک غالب اور علیم خدا جس کو پتہ تھا کہ وہ کیا کرنے لگا ہے اور کیا کرنا چاہئے اس نے اس دُنیا کو پیدا کیا.اے منکرو ! تم تو اس خدا کا انکار کرتے ہو جس نےزمین کو دو وقتوں میں پیدا کیا ہے.اور تم اس کے شریک قرار دیتے ہو.وہ تو سب جہانوں کو آہستہ آہستہ نشو و نما دیکر کمال تک پہنچانے والا ہے اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بلند کئے.یورپ کی تحقیقات کہتی ہیں کہ شروع میں پہاڑ نہیں تھے بعد میں بنے اور قرآن مجید بھی یہی کہتا ہے کہ خدا نے پہلے زمین بنائی پھر اس پر پہاڑ بنائے جو کہ زندگی کے لئے ضروری تھے.پھر فرماتا ہے وَبٰرَکَ فِیْھَا اور ہم نے اس زمین میں برکت دی.برکت کے معنی زیادتی،

Page 307

صلاحیت اور پاکیزگی کے ہوتے ہیں.بس اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے اس میں نہ ختم ہونے والے ذخیرے پیدا کئے جو آئندہ استعمال ہونےوالے تھے چنانچہ سمندوں کی خلق سے اوربعض اندرونی اوربیرونی تغیرات کے قوانین کےذریعہ سےزمین کے ذخائر میں ایسی کثرت پیدا ہوگئی ہے کہ نہ پانی ختم ہوتا ہے نہ غذا اورنہ دوسری ضروری اشیاء.دوسرے معنی بٰرَک کے پاکیزہ کردینے کے ہیں.پس اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اسی وقت اس کی فضاء میں ایسی صفائی اور پاکیزگی پیدا کی گئی کہ جس کےذریعہ سے اس میں جانداراشیاء کا رہنا ممکن ہوگیا.اس کے بعد فرماتا ہے کہ ہم نے اس میں غذائیں پیدا کیں یعنی نباتات و حیوانات پیدا ہوئے جو بوجہ سانس پر زندہ رہنے کے جّو کی صفائی کے محتاج تھے اور اس وقت تک پیدا نہیں کئے جاسکتے تھے جب تک کہ پہلے جوّ کی صفائی نہ ہوجائے اور فرماتا ہے کہ یہ سب کچھ چار اوقات میں ہوا.پھر وہ رُحانی سلسلہ پیدا کیا گیا.جو پیدائش کا موجب تھا اور جس کا مظہر انسان ہے اور اس میں انسان کی روحانی ترقیات کے سامان پیدا کئے گئے اوران کی حفاظت کا انتظام کیاگیا.غرض قرآن کریم بتاتا ہے کہ دُنیا کے پیدا کرنے میں تدریجی ترقی کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے پہلے آسمان زمین، نباتات اور جانوروں کو پیدا کیا گیا.ان تمام تغیرات کے بعد جو لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں میں ہوئے انسانوں کو پیدا کیا گیا.اسی لئے فرشتوں نے کہا کہ بھیڑ،بکری، گھوڑے ،اونٹ وغیرہ تو فساد نہیں کرتے.انسان کہیں گھوڑے کی سواری کرے گا کہیں کسی سے کچھ کام لے گا اور کسی سے کچھ اور اس طرح فساد ہوگا.تو دلیل ارتقائی جس کو خدا کی ہستی کے رو میں پیش کیا جاتا ہے وہی خدا کی ہستی کا ایک بیّن اور روشن ثبوت ہے.چنانچہ ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْہُ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ.(الجاثیۃ:۱۴)اے انسانو! سوچو تو کہ زمیں اور آسمان کے درمیان جو چیزیں بھی ہیں یہ سب تمہارے نفع کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں.پھر اس امر پر غور کرکے کیا تم اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے کہ ایک بِالا رادہ ہستی نے یہ سب کچھ ایک پہلے سے تجویز کردہ سکیم کے مطابق کیا ہے.منکرین خدا کے مسئلہ ارتقاء پر اعتراض جس رنگ میں منکرین خدا ارتقاء کو مانتے ہیں اس پر کئی اعتراض وارد ہوتے ہیں اور وہ

Page 308

یہ کہ تم کہتے ہو کہ انسان کے پیدا ہوجانے کےبعد پھر کوئی تغیر نہیں ہوا اس کی کیا وجہ ہے ؟ وہ کہتے ہیں تغیر کے لئے بڑے لمبے زمانہ کی ضرورت ہےاور انسان پر چونکہ ابھی اتنا زمانہ نہیں گذرا جو تغیر کے لئے ضروری ہے اس لئےاس میں تغیر نہیں ہوا.مگر ہم کہتے ہیں موجودہ زمانہ کٹ کر شروع ہوا ہے یا دہی چلا آرہا ہے جو پہلے شروع ہوا تھا اگر وہی چلا آرہا ہے تو اگر فرض کرو چھ ہزار سال کے بعد بندر انسان بن گئے تھے تو بندورں کے انسان بننے کے زمانہ پر چھ ہزار سال گذرنے پر اب کیوں بندر انسان نہیں بنے.اس کے مقابلہ میں ہم کہتے ہیں کہ انسان بننے کے بعد اس کی عقلی اور ذہنی ترقی ہوتی جارہی ہے اور جس قسم کا ارتقاء ہم تسلیم کرتے ہیں اس کے مطابق کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا.دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر کامل وجود پیدا ہوجانے کی وجہ سے ترقی رُک گئی ہے.تو ہم کہتے ہیں اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ سب حیوانات بدل کر کامل انسان بن گئے ہیں تو یہ غلط ہے.ہر قسم کےجانور اب تک موجود ہیں اس لئے وہ تغیر جاری رہنا چاہیے.اور اگر یہ کہا جائے کہ اب چونکہ بہتر مخلوق پیدا ہوگئی ہے اسلئے تغیر کی ضرورت نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ضرورت نہیں کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی بِالارادہ ہستی نے ایک مقصد کے لئے دنیا کو پیدا کیا تھا جب وہ مقصد پورا ہوگیا تو ایسے تغیرات جو اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری تھے انہیں ترک کردیا گیا ہے اور یہی دلیل ہستی باری کو ثابت کرتی ہے.چھوتھی دلیل سبب اور مسبّب کی چوتھی دلیل ہستی باری تعالیٰ کے متعلق سبب اور مسبّب کی ہے جو عام طور پر استعمال کی جاتی ہے اور جسے ایک اَن پڑھ آدمی بھی سمجھ سکتا ہے اس لئے بہت کار آمد ہے.کہتے ہیں کسی فلاسفر کو کوئی اَن پڑھ زمیندار مل گیا وہ بدوی تھا فلاسفر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم خدا کو مانتےہو؟ اس نے کہا ہاں مانتا ہوں.فلاسفر نے کہا خدا کےہونے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا اَلْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ وَاٰثَارُ الْاَقْدَامِ عَلَی السَّفِیْرِ وَالسَّمَآءُ ذَاتُ الْبُرُوْجِ وَالْارْضُ ذَاتُ الْفِجَاجِ کَیْفَ لَاتُدُلُّ عَلَی اللَّطِیْفِ الْخَبِیْرِ٭جب جنگل میں میگنی کو دیکھ کر ا ونٹ کا پتہ لگایا جاتا ہے او ر پائوں کے نشانات سے چلنے والے کا.تو یہ ستاروں

Page 309

والا آسمان اوریہ زمین جس میں راستے بنے ہوئے ہیں.ان کو دیکھ کر کیوں نہ سمجھوں کہ خدا ہے؟ یہ دلیل جو ایک بدوی نے دی پہلے لوگوں کی عقل یہاں تک ہی پہنچی ہے.دُنیا ایک بڑا مقام ہے جس کے پیدا کرنے والا کوئی ہونا چاہئے.یہ خیال ان کے لئے کافی تھا.یہ دلیل گو ہے تو صحیح مگر اس پر اعتراض بھی بہت سے پڑتے ہیں.لیکن چونکہ عام دلیل ہے اور حقیقتاً صحیح ہے اس لئے قرآنِ کریم نے بھی اس دلیل کو لیا ہے.جیسا کہ آتا ہے اَفِی اللہِ شَکٌ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (ابراہیم : ۱۱) اے لوگو! کیا تمہیں اس خدا میں شک ہے جس نے آسمانوں اور اس زمین کو پیدا کیا ہے؟ گو یہ دلیل عام ہے لیکن تعجب ہے کہ سب سے زیادہ اس پر لوگ اعتراض جماتے ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ اعتراضوں کی کثرت کا موجب اس کا عام ہونا ہی ہو.پیدائش دنیا کے متعلق لوگوں کے خیال جن لوگوں نے حقیقت عالَم پر غور کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ دُنیاکو دیکھ کر خدا کی ہستی کا نتیجہ نکالنا درست نہیں پہلے سب قسم کے خیالات کو لینا چاہئیےجو دنُیا کے وجود میں آنے کے متعلق پیدا ہوسکتے ہیں پھر ان کا موازنہ کرکے نتیجہ نکالنا چاہئے.چنانچہ وہ کہتے ہیں دُنیا کی ابتداء کے متعلق تین خیال پیدا ہوسکتے ہیں.۱ - یہ کہ دنیا آپ ہی ہمیشہ سے چلی آرہی ہے.۲ - یہ کہ دنیا نے اپنے آپ کو آپ پیدا کیا.۳ - یہ کہ کسی نے دُنیا کو پیدا کیا.پہلے خیال کے یہ معنی ہوئے کہ دُنیا کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہمیشہ سے آپ ہی آپ چلی آرہی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ غیر محدود زمانہ کو ماننا پڑے گا اور یہ انسانی عقل کے لئے محال ہے کیونکہ غیر محدود محدود میں نہیں سماسکتا.دوسرا خیال کہ دُنیا نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا یہ بھی انسانی دماغ میں نہیں آسکتا.کیونکہ اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ کسی مخفی ضرورت یا خواہش کےماتحت ممکن الوجود نے وجود کا جامہ پہن لیا اور اس بات کا تسلیم کرنا ناممکن ہے.کیونکہ اس صورت میں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کوئی چیز طاقت خلق بالقوۃ رکھتی تھی پھر وہ بالفعل ظاہر ہوگئی اوراگر اس بات کو مانا جائے تو دو سوال پیدا ہوجاتے ہیں.پہلا سوال یہ کہ جو چیز اپنے اندر ظہور کی طاقت رکھتی تھی.اگر وہ کوئی چیز تھی تو دنیا کی پیدائش کی

Page 310

حقیقت پھر بھی حل نہ ہوئی کیونکہ یہ سوال پھر بھی باقی رہے گا کہ وہ چیز کس طرح پیدا ہوئی؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مخفی ضرورت یا خواہش کے ماتحت اس نے آپ کو ظاہر کردیا وہ ضرورت یا خواہش کس نے پیدا کی.اگر اس کا کوئی اور خالق تھا تو اسے کس نے پیدا کیا تھا اور اگر نہیں تھا تو وہ پیدا کیونکر ہوگئی.اگر کہو کہ آپ ہی آپ.توپھر دُنیا کے متعلق ہی کیوں نہ مان لیا جائے کہ وہ آ پ ہی آپ ہی پیدا ہوگئی ہے.اگر کہیں کہ پہلی حالت عدم کی تھی نہ کہ وجود کی اس لئے عدم میں تھی تو ماننا پڑے گا کہ عدم دو اسم کےہوتے ہیں ایک وہ عدم جس میں ظاہر ہونے کی قابلیٹ ہوتی ہے اور ایک وہ جس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی.لیکن انسانیذہن اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتا کیونکہ اگر جو چیز محض عدم ہو اس میں کوئی طاقت خواہ مخفی ہو خواہ ظاہری رہ نہیں سکتی.تیسرا خیال یہ ہے کہ دنیا کو کسی اور وجود نے پیدا کیا ہے اور یہی خیال مذہبی لوگوں اور فلاسفروں کا ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا ایک صفت کی طرح ہے مگر یہ خیال بھی درست نہیں کیونکہ (۱) دُنیا صفت نہیں بلکہ اس میں ایک ارتقاء ہے ایک چیز ہمیں نظر آتی ہے جو برابر ترقی کرتی جاتی ہے.پس اسے صفت قرار دینا بالکل غلط ہے صفت تو وہ تب ہوتی اگر یکدم بنتی.لیکن جبکہ وہ بعض قوانین کے مطابق ترقی کرتے کرتے اس حالت کو پہنچی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ آپ ہی آپ ہے.کسی اور ہستی کی پیدا کردہ نہیں ہے.(۲) پھر یہ سوال ہے کہ اس نے اس دنیا کو کس چیز سے پیدا کیا ہے؟ ضاّع لو ہے چاندی کی چیزیں تو بنا سکتا ہے مگر وہ لوہا.چاندی نہیں بنا سکتا.پھر اس دُنیا کو کس چیز سے بنایا؟ آپ بنا ہوا تھا تو کیوں آپ ہی آپ جڑ نہیں سکتا تھا اور اگر اسے کسی اور ہستی نے پیدا کیا ہے تو اسے عقل تسلیم نہیں کرتی.(۳) فضا ء کو بھی مخلوق ماننا پڑے گا کیونکہ اگر مادہ بعد میں پیدا ہوا ہے تو ضرور ہے کہ خلا بھی بعد کی ہے شئے ہو اور جہات بھی بعد کی مخلوق ہوں.مگر خلا سے خَلو اور جہالت سے آزادی انسان ذہن میں نہیں آسکتی.(۴) اسی طرح پھر یہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ جس نے اس دُنیا کو پیدا کیا ہے اسے کس نے پیدا کیا ہے؟

Page 311

(۵) پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ وہ محدود ہے کہ غیر محدود ہے.جس طرح کہ مادے کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے اور دونوں جوابوں میں سے کوئی جواب بھی دیاجائے اس پر ایک لمبا چکر سوالوں کا شروع ہوجائے گا.(۶) پھر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ ہستی غنی ہے.اگر غنی نہ مانیں گے تو اس کے سوا اور وجود ماننے پڑیں گے اور اگر ہم غنی مانیں گے تو پھر اسے اندرونی تغیرات سے بھی محفوظ ماننا پڑیگا اوراگر اسے تغیرات سے محفوظ مانا جائے گا تو یہ بھی ماننا پڑیگا کہ وہ دُنیا کی علّت العلل بھی نہیں ہے اور اس صورت میں اسے وجود کے تصور کی بھی کوئی حاجت نہ رہے گی.پس یہ خیال بھی غلط ہوا لیکن چونکہ تینوں صورتیں جو دُنیا کی پیدائش کے متعلق ممکن تھیں ناممکن ثابت ہوئیں تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ان ذہن میں نہ آنے والی صورتوں میں سےایک نہ ایک درست ہے.اور چونکہ جو اعتراض سب صورتوں میں پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ آپ ہی آپ کس طرح ہوگئی.اس لئے باوجود اس اعتراض کے ایک نہ ایک صورت کو صحیح تسلیم کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ گو یہ اعتراض پڑتا ہے مگر دنیا موجود ہے اور اس کے وجود میں کچھ شک نہیں اس لئے باجود اس اعتراض کے دنیا کی پیدائش مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی ایک صورت سے ہوئی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچ کر ہر ایک شخص کو یقین کرنا پڑے گا کہ وہ صورت اول ہی ہوسکتی ہے.یعنی یہ کہ دنیا آپ ہی آپ ہمیشہ سے چلی آتی ہے.کیونکہ دوسری اورتیسری صورت میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی علّت آپ ہی آپ کیونکر ہوگئی.پس جب آگے چل کر پھر اس سوال سے واسطہ پڑنا ہے تو کیوں نہ تسلیم کرلیں کہ دنیا ہی خود بخود پیدا ہوگئی ہے.پیدائش دنیا پر لوگوں کے خیالات پر بحث سب سے پہلے ان معترضین کے اس خیال کو میں رد کرنا چاہتا ہو ں کہ خدا کا خیال اسی سبب سے پیدا ہوا کہ دُنیا کا خالق دریافت کرنے کی ضرورت پیش آئی.خدا تعالیٰ کا وجود جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں الہام سے پیدا ہوا.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف تو سہی معترضین کہتے ہیں کہ خدا کا خیال لمبے ارتقاء کے بعد پیدا ہوا ہے.پہلے تو انسانوں نے بعض چیزوں سے ڈر کر ان کے آگے ہاتھ جوڑنے شروع کئے تھے.آہستہ آہستہ خدا اور عبادت کا مسئلہ بن گیا اور دوسری طرف اس خیال کی ایک خالص فلسفیانہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ اس کا خیال دنیا کی پیدائش کے سوال کے حل نہ ہونے کے سبب سے پیدا ہوا.حالانکہ دونوں خیال متضاد ہیں.اب میں معترضین کے مقرر کردہ اصول کو لیتا ہوں اور تسلیم کرتا

Page 312

ہوں کہ پہلی اور دوسری توجیہہ پر جو اعتراج کئے گئے ہیں ایک حد تک درست ہیں لیکن تیسری توجیہہ کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ محض ایک دھوکا ہے کیونکہ جب کہا جاتا ہے کہ یہ دُنیا کسی کیپیدا کردہ ہے تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ ایک مکان کی طرح بنائی گئی.بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک مادہ پیدا کیا.اور اس میں ایک قانون کو جاری کیا تا کہ اس کےمطابق وہ ترقی کرے.پس ارتقاء ہر گز دُنیا کی پیدائش کے خیال کے مخالف نہیں.بلکہ صانع کی نادر صنعت گری پر دلالت کرتا ہے اور ہر ٹکڑہ اس ارتقاء کا اپنے خالق پر دلالت کرتا ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی اور کو خالق ماننے کی صورت میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس نے مادہ کہاں سے لیا؟ اس کا جواب میں آگےچل کردوں گا.فی الحال اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر خدا کو نہ مانا جائے تو بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مادہ کہاں سے آیا.پس جب یہ سوال دنیا کو خود بخود مان کر بھی باقی رہتا ہے تو پھر یہ خدا کے وجود کے لئے بطور شبہ کے پیدا نہیں کیا جاسکتا.رہا یہ سوال کہ فضاء کو کس نے پیدا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہمی وجود ہے جو ہمارے دماغ سے تعلق رکھتا ہے.خدا سےکوئی تعلق نہیں رکھتا.فضاء اور جہالت نسبتی امور ہیں اوران کا تعلق یا مادہ سے ہے یا دماغ سے.پس ان کی بحث خدا تعالیٰ کے سوال میں آہی نہیں سکتی.اور آپ ہے تو یہ سوال دنیا پر بھی پڑے گا کہ وہ محدود ہے کہ غیر محدود اور دنوں ممکن صورتوں میں سے کسی ایک کو ماننا مشکل ہوگا اور اس پر بہت سے اعتراض پڑیں گے.پس اگر دنیا کے آپ ہی آپ ہونے کی صورت میں بھی بلکہ قطع نظر اس کی ابتداء کے سوال کے اس کی موجودہ صورت میں بھی اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ وہ محدود ہے کہ غیر محدود.جو دونوں صورتیں ناممکن ہیں تو پھر یہی سوال اگر خدا تعالیٰ کو مان کر پڑے تو اس میں کیا حرج ہے.ہم کہیں گے کہ دُنیا کی پیدائش کی کوئی صورت بھی فرض کریں.یہ اعتراض قائم رہتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ یہ اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسا سوال ہے کہ جسے انسانی دماغ سمجھ ہی نہیںسکتا.یا یہ کہ وہ نقطہ نگاہ ابھی دریافت نہیں ہوا جس کی مدد سے اس سوال کو حل کیا جاسکے.اوران دونوں صورتوں میں اس دُنیا کا خالق کسی وجود کو ماننا خلاف عقل نہیں کہلا سکتا.اب مَیں چوتھے سوال کو لیتا ہوں کہ اگر اس دنیا کو خدا نے پیدا کیا ہے تو پھر خدا کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال کہ خدا کو پیدا کرنے والا بھی کوئی ہونا چاہئے مادی تجربات کی

Page 313

وجہ سے پیدا ہوا ہے.حالانکہ جو چیز مادی ہو اس کے متعلق ہم مادی قوانین کو جاری نہیں کر سکتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک مادی چیز کا قیاس دوسری مادی چیز پر بھی نہیں کیا جا سکتا.پس مادی چیز کا غیر مادی پر قیاس تو بالکل قیاس مع الفارق ہے.مثلاً پانی ہے اسے اگر گول برتن میں ڈالا جائے تو گول ہوجاتا ہے اور اگر چپٹے برتن میں ڈالا جائے تو چپٹا.اس پر قیاس کرکے اگر کوئی کہے کہ لوہا کیوں اس طرح نہیں ہوتا تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ یہ قانون پانی کے لئے ہے لوہے کے لئے نہیں.یا اگر کوئی کہے کہ پانی اپنی ایک ہی شکل کیوں نہیں قائم رکھتا جس طرح لوہا رکھتا ہے تو اس سے بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ بات لوہے سے تعلق رکھتی ہے پانی سے نہیں.پس جب ایک مادی قیاس کرسکتے ہیں.چونکہ دنیا میں ہمیں کوئی چیز ایسی نظر نہیں آتی جو آپ ہی آپ ہو.اس لئے ہم سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی چیز آپ ہی آپ نہیں ہوسکتی،لیکن جو اشیاء کہ مادی نہیں ہیں ان کے متعلق ہم کوئی ایسا قانون مادی اشیاءکی بناء پر نہیں بنا سکتے اور نہ ان کی کیفیت اور حقیقت ہمارےذہن میں آسکتی ہے.اگر ہم یہ مانیں کہ دُنیا آپ ہی آپ بن گئی ہے تو اس پر یہ سوال بے شک پڑیگا کیونکہ مادہ کے متعلق ہمیں تجربہ سے معلوم ہوچکا ہے کہ اس کےتغیرات یا اس کی پیدائش آپ ہی آپ نہیں ہوتے بلکہ سبب اور مسبب کا قانون اس پر حاوی ہے.پس ہم یہ ہرگز نہیں مان سکتےکہ مادہ آپ ہی آپ ہوگیا یا یہ کہ مادہ سے آپ ہی دنیا بن گئی.آخری اعتراض کہ اگر کوئی اس دنیا کا پیدا کرنے والا ہے تو وہ غنی ہونا چاہئےاور اگر غنی ہے تو وہ علت کیونکر بنا.یہ سوال جس طرح خدا کے وجود پر پڑتا ہے اسی طرح دُنیا پر.کیونکہ اگر وہ محتاج ہے تو آپ ہی آپ کیونکر ہوئی ہے اوراگر غنی ہے تو اس میں تغیر کیونکر ہوا اور وہ اس شکل میں کس طرح بدل گئی اور اگر اس شکل کے باوجود دنیا کو آپ ہی آپ مانا جاسکتا ہے تو کیوں اس کا خالق ایک اور وجود کو نہیں مانا جاسکتا.دنیا کے بننے کا طریق نہ معلوم ہونے پر خدا کے ماننے کا فائدہ یہاں پہنچ کر منکرین اور پہلو بدلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اچھا چلومان لیا کہ خدا ہے.مگر یہ بات کہ دنیا کس طرح بنی یہ توحل نہ ہوا.پھر خدا کے ماننے کا کیا فائدہ ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ۱ - یہ اعتراض پیدا ہی ایک غلط خیال سے ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تلاش اس لئے کی جاتی

Page 314

کہ تا معلوم ہو کہ دُنیا کیونکہ پیدا ہوئی.حالانکہ یہ درست نہیں.۲ - اگر یہ درست بھی ہو کہ خدا تعالیٰ کے وجود کی تلاش صرف اس وجہ سے تھی کہ تادُنیا کی پیدائش کی حقیقت معلوم ہوجائے تو پھر ہم کہتے ہیں کہ وہ سوال حل نہ ہواتو نہ سہی ایک نئی حقیقت تو دنیا کو معلوم ہوگئی اور علم کی ترقی بہر حال مفید ہوتی ہے.اگر ایک سوال کے حل کرنے میں ہمیںایک اور حقیقت معلوم ہوجائے تو کیا ہم اس حقیقت کو اس لئے ترک کردیں گے کہ جس سوال کو ہم حل کر رہے تھے وہ حل نہیں ہوا.۳ - جواب یہ ہے کہ ہم نے فرض کیا ہے کہ دنیا آپ ہی آپ آئی ہے.اس میں بھی تو یہ سوال حل نہ ہوا.اگر اب بھی نہ ہو تو کیا حرج ہے.۴ - چوتھا جواب یہ ہے کہ انسان کو اسی علم کی ضرورت نہیں ہوتی کہ فلاں کام کس طرح ہوابلکہ اس علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ فلاں کام کس نے کیا.پیشوں کے متعلق ہی دیکھ لو اگر ایک شخص خوبصورت چھڑی دیکھتا ہے تو وہ یہی سوال نہیں کرتا کہ یہ کس طرح بنی بلکہ اکثر اوقات وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ یہ کس نے بنائی ہے اور کہاں بنی ہے.اگر انسان کو ان دونوں سوالوں کا صحیح جواب مل جائے تو اوّل تو وہ بنانےوالے کی قدر کرسکے کہ دنیا کیونکربنی ہے اور یہی معلوم ہوجائے کہ کس نے بنائی ہے تو بھی یہ علم بہت مفید ہوگا.کیونکہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اس دنیا کو خدا نے پیدا کیا ہے تو اس سے کئی راستے فکر کے نئے کھل جائیں گے مثلاً.اوّل یہ کہ اگر ہم کو معلوم ہوجائے کہ یہ دُنیا خدا نے پیدا کی ہے تو ہم دیکھیں گے کہ آیا ہم اس سے کوئی فائدہ اٹھاسکتے ہیں یا نہیں؟ دوم _- یہ کہ ہمیں جو تکالیف پہنچتی ہیں کیا اس کےذریعہ ہم ان سے بچ سکتے ہیں یا نہیں.سوم یہ کہ اگر اس نے ہم کو پیدا کیا ہے تو کسی لئے؟ اور کسی مقصد سے ؟ تاکہ ہم اپنی پیدائش کی غرض اور مقصد کو پورا کرسکیں.چہارم.ممکن ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ جائے کہ دنیا کو اس نے کس طرح پیدا کیا ہے.کیونکہ کس چیز کے بنانے والے سے تعلق رکھنے پر جو چیز اس نے بنائی ہو اس کی حقیقت کا بھی پتہ لگ جاتا ہے.یہ چار ایسےعظیم الشان سوال ہیں کہ ان کے حل ہونے پر ہماری حالت کچھ سے کچھ بن سکتی ہے.

Page 315

پس یہ کہنا کہ خدا کے ماننے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے بالکل غلط اورباطل ہے.پانچویں دلیل.دلیلِ انتظامی اب میں پانچویں دلیل لیتا ہوں.پانچویں دلیل جس کو دلیل ایک ترقی یافتہ صورت ہے اور اس میں دُنیا کے وجود سے کسی خالق پر استدلال نہیں کیا جاتا بلکہ دنیا کے انتظام سے خال پر استدلال کیاجاتا ہے.دُنیا کے وجود سے کسی خالق پر استدلال نہیں کیاجاتا بلکہ دنیا کے انتظام سے خالق پر استدلال کیاجاتا ہے.دُنیا کا انتظام ہستی باری تعالیٰ پر ایک بہت زبردست دلیل ہے.بیشک کوئی شخص فرض کرے کہ زمین اتفاقاًپیدا ہوگئی.لیکن اس کائنات میں اکیلا ہی کرّہ نہیں اس کے علاوہ اوربھی کرّے ہیں اور وہ سب الگ کام نہیں کر رہے بلکہ ایک قانون کے ماتحت اور تقسیم عمل کے ماتحت کام کر رہے ہیں.ایک چیز کے بغیر دوسری مکمل نہیں اورایک کے کام میں دوسری دخل نہیں دیتی.یہ بھی فرض کرلو کہ انسان آپ ہی پیدا ہوگیا.مگر اس امرکو کس طرح فرض کرلیا جائے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی تمام عالم کو بھی اسی مناسبت پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی ضروریات کو خواہ کسقدر ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوں پورا کررہا ہے.پھر جزئیات کولو.انسان کو پیدا کیا گیا.اس کے ساتھ ہی انسان کے ہاتھ ایسے ہیں جو لکھنے کی طاقت رکھتے ہیں.انسان کو ایسا دماغ ملا تھا جو علم کو محفوظ کرنے کا خواہشمند تھا.اسے ہاتھ بھی ایسے دئیے گئے جو لکھنے کیلئے بہترین آلہ ہیں.اگر اتفاق سے انسان پیدا ہوگیا تھا تو چاہئے تھا کہ اسے دماغ تو وہ ملتا جو علم کے محفوظ رکھنے کا خواہش مند ہوتا.مگر ہاتھ مثلاً ریچھ کے سے ہوتے.دماغی ترقی کے بالکل مناسب حال جسمانی بناوٹ اسی طرح بدلتی گئی ہے کہ اسکا طبعی بناوٹ کی ضرورت یا عدم ضرورت کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں یہ محض اتفاق کیونکر کہلا سکتا ہے؟ اسی طرح مثلاً انسان کو آنکھیں ملی ہیں تو دوسری طرف دیکھو کروڑوں میل پر سورج بھی پیدا کیا گیا ہے جس کی روشنی میں یہ آنکھوں سے کام لے.انسان کی پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے کیلئے اسے اگر بیماری اور شفاء کا مورد بنایا گیا ہے تو ساتھ ہی سب بیماریوں کا علاج بھی مہیا کیاگیا ہے.آخر تمام عالم میں ایک نظام اور چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے پورا کرنے کا سامان جو کروڑوں اشیاء کی پیدائش اور لاکھوں حالتوں میں واقعات کے مناسب بدل جانے والے قانون کو چاہتا تھا اتفاقاً کس طرح ہوسکتا ہے.انسانی دماغ اس کو یاد کس طرح کرسکتا ہے کہ اس قدر وسیع نظام آپ ہی آپ اور اتفاقاً ہوگیا.یہ نظام بغیر کسی بالا رادہ ہستی اور وہ بھی بغیر کسی عالم الغیب اور قادر ہستی کےکسی صورت میں بھی نہیں ہوسکتا تھا.قرآن کریم نے اس دلیل کو بھی پیش کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 316

تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ۰ۡوَھوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۰ۭ وَھوَالْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۰ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۰ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّھوَحَسِيْرٌ (الملک:۲تا ۵) وہ خدا جس کے ہاتھ میں سب بادشاہت ہے.بہت برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہےجس نے موت و زندگی کو پیدا کیا ہے تا کہ وہ دیکھے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے کام کر رہے ہیں.تو خدا کی پیدا کردہ چیزوں میں کوئی رخنہ نہیں دیکھے گا.اس امر کو دیکھ اور پھر اپنی نظر کو پھر اپھرا کر دیکھ.کیا تجھے کوئی بھی نقص نظر آتا ہے.(یعنی صحیح حاجت ہو اور اس کے پوا کرنے کا سامان نہ ہو)پھر دوبارہ اپنی نظروں کو چکر دےمگر وہ پھر بھی ناکام اور تھک کر واپس آجائیں گی.یعنی کل کائنات عالم میں ایک ایسا نظام معلوم ہوتا ہےجس میں کوئی بھی نقص نہیں.ایک لمبا سلسلہ قوانین کا جاری ہے جو کہیں بھی ٹکراتا نہیں.کیا یہ آپ ہی آپ ہوسکتا ہے؟ نہیں بلکہ یہ نظام دلیل ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہےجو بالا رادہ خالق ہے اور مالک ہے اور غالب ہے بخشنے والی ہے.پہلا اعتراض اس دلیل کے متعلق بعض اعتراض کئے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں اوّل بعض چیزوں کے متعلق تو انتظام پایاجاتا ہے مگر بعض میں نہیں.مثلاً یہ درخت جو جنگلوں میں اُگے ہوئے ہیں یا یہ جانور جو چلتے پھرتے ہیں اور یہ پرندے جو اڑتے پھرتے ہیں یہ انسان کے لئے کیا کر رہے ہیں.ان میں سے دو چار کھانے کے قابل ہیں.لیکن باقی لغو ہیں.سانپ بچھو اورایسے ہی موذی جانور.زہریلے درخت اور پودے کیا کرتے ہیں؟ ان کا انسان کے فائدہ کے لئےکوئی کام نہیں ہے.جواب اس اعتراض کا مفصل جواب تو صفات باری کے بیان میں آئے گا.یہاں مجمل طور پر بتاتاہوں کہ ان جانوروں کی پیدائش میں نے انتظامی نہیں بلکہ یہ انسان کیلئے خزانے ہیں جو ضرورت کے وقت کام آتے ہیں اور یہ جانور وغیرہ جن کو لغو کہا جاتا ہے ضرورت پر بہت مفید ثابت ہوتے ہیں.مثلاً سانپ ہی ہے.اس کا زہر دوائیوں میں کام آتا ہے.اس طرح بچھو سےدوائیاں بنتی ہیں اور کئی ایسی چیزیں ہیں جن پہلے لغو اور فضول سمجھا جاتا تھا مگراب ان کو بہت مفید سمجھا جاتا ہے.بات یہ ہے کہ اس قسم کی چیزیں انسا ن کے لئے خزانے ہیں میں سے کوئی ہوا میں رکھ دیا گیا ہے

Page 317

کوئی سمندر میں کوئی زمین میں تاکہ انسان علمی ترقیاں کرکے انہیں حاصل کرے اور فائدہ اٹھائے.جو کچھ ان کے متعلق دریافت ہوچکا ہے وہ لاکھوں فوائد پر دلالت کرتا ہے جو حال ابھی نہیں کھلا اسے ہم معلوم پر قیاس کرسکتے ہیں.دوسرا اعتراض دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہزار ہا بوٹیاں خشکی اور تری میں ایسی پیدا پیدا ہوتے ہیں جو پیدا ہوتے ہی اور مرجاتے ہیں.ان کا کوئی فائدہ نہیں یونہی ضائع ہوجاتے ہیں اگر کوئی خالق بالا رادہ ہوتا تو ان اشیاء کو یونہی ضائع ہونے دیتا؟ جواب ہم کہتے ہیں کہ یہ چیزیں انسان کی علمی اور ذہنی اور جسمانی اور روحانی ترقی کے لئے پیدا کی گئی ہیں ان کا اس طرح پیدا ہونا اور تباہ ہونا بھی تو انسان کی توجہ کو پھیرتا ہے پس فائدہ تو ہوا.گو براہ راست فائدہ نہ اُٹھایا گیا مگر یہ فائدہ اُٹھانا تو انسان کا کام ہے.اگر وہ ان سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تو یہ اس کا قصور ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ جس طرح ان چیزوں کی پیدائش میں حکمت ہے خدا معلوم ان کی اس طرح ہلاکت میں کیا کیا حکمتیں ہیں جن تک ابھی انسان کا دماغ نہیں پہنچا.آخر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی چیزیں جلا کر اور راکھ کرکے زیادہ مفید ہوتی ہیں.تیسرا جواب یہ ہے کہ بیشک بعض چیزیں انسان کے لئے ضائع ہوجاتی ہوں مگر خدا تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ کیونکر بولے جاسکتے ہیں.مرنے والے جانور یا سڑ جانے والی بوٹیاں انسان کے لئے تو ضائع ہوگئیں کیا خدا کے لئے بھی ضائع ہوگئیں کیا وہ بھی ان سے فائدہ اُٹھاتا تھا کہ اس کے لئے ضائع ہوئیں.دوسرے جب وہ ان اشیاء کا خالق ہے تو وہ جس حال میں ہوں وہ اس کے قبضہ میں ہیں وہ اس کے لئے ضائع ہوکس طرح سکتی ہیں؟ خدا کے ہاتھ سے نکل کر کوئی چیز کہاں جاسکتی ہے.ان چیزوں کی ہلاکت کی مثال تو یہ ہے کہ ایک مکان کی اینٹیں اکھیڑ لی جائیں گی.اسی طرح پیدا کرنا اور مارنا درحقیقت استعمال کے تغیر کانام ہے.خدا تعالیٰ کے لئے مخلوق کامرنا اورپیدا ہونا نہ حقیقتاً مرنا ہے نہ پیدا ہونا ہے.تیسرا اعتراض اور جواب ایک اور بڑا اعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ انسان جو پیدا ہوا اسے اس قسم کی انگلیاں اسلئے دی گئیں کہ وہ لکھ سکے یااور جو اعضاء اسے دئیے گئے ہیں وہ اسلئے دئیے گئے کہ دوسری چیزوں سے فائدہ اُٹھاسکے بلکہ بات یہ ہے کہ انسان اسلئے پیدا ہوا کہ ارتقاء کا دوسرا قدم ایسے ہی انسان پیدا کرنے کی طرف اُٹھ

Page 318

رہا تھا جیسے جس قسم کے برتن میں پانی ڈالا جائے ویسی ہی شکل اختیار کرلتیا ہے.ایک جانور کی لمبی گردن مثلاً اس لئے ہوگئی کہ اس کی غذا ءاونچے درخت پر تھی.اسی طرح جانوروں کی کھالوں نے ویسے رنگ اختیار کرلئے جیسے کہ ان کے گردوپیش کے رنگ تھے یا جن رنگوں کی مدد سے وہ اپنےدشمنوں سے بچ سکتے تھے.غرض یہ مناسبت ضرورت سے پیدا ہوئی ہے اور مجبوری کا نتیجہ ہے نہ کہ پہلے سے فیصل شدہ قانون کا.اس کا جواب یہ ہے کہ آخر یہ بھی تو سوال ہے کہ یہ قانون کس نے پیدا کیا ہے کہ جو چیز جس رنگ میں زندہ رہ سکے.اس قسم کےتغیر اپنے اندر پیدا کرسکتی ہے.یہ قانون بھی تو کسی بالارادہ ہستی پر ہی دلالت کرتا ہے اندھی نیچر آپ ہی آپ اس قسم کا پیچیدہ قانون کس طرح تیار کرسکتی تھی.چھٹی دلیل.دلیل اخلاقی اب میں چھٹی دلیل بیان کرتا ہوں.اسے دلیل اخلاقی کہنا چاہئے پر دلالت کرتی ہیں.انسان فطرتاً نیکی کا خواہش مند اور اس کی طرف مائل ہے اور چاہتا ہے کہ اچھی باتیں اس میں پائی جائیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس دلیل کو اس طرح پیش فرمایا ہےلَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ.(القیامۃ:۳)تمہارے یہ خیالات کہ کوئی محاسبہ کرنے والی ہستی موجود نہیں ہے بالکل باطل ہیں.ہم اس کےثبوت میں جزاء و سزا کے وقت کو اور خود انسان کے نفس لوامہ کو پیش کرتے ہیں.یعنی انسان کے اندر کی اس مخفی طاقت کو جو ہر بُرے فعل پر اندر سے ملامت کرتی ہے اور جب تک وہ بار بار گناہ کا مرتکب ہوکر اس کو مار نہیں دیتا وہ برابر ملامت کرتی رہتی ہے.بلکہ جب وہ بظاہر مری ہوئی ہوتی ہے تب بھی کبھی اس میں حرکت ہوجاتی ہے اور وہ انسان کو نیکی کی طرف کھینچتی ہے.اگر خدا نہیں ہے تو انسان کے اندر بدیوں سے رکنے کا احساس کیوں ہے.پھر تو انسان جو چاہے کرتا رہے.یہ نیکی بدی کی پہچان خدا نے بندے کےاندر اپنی ذات پر دلالت کرنےکے لئے ہی رکھی ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے فَاَلْھمَھا فُجُوْرَھا وَتَقْوٰىھا (الشمس :۹) ہم نے انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی نیکی بدی کی پہچان اس کے اندر رکھ دی ہے.اے.جے بلفور۳ ایک بہت مشہور فلاسفر گذرا ہے.اس نےاسی دلیل کو لیا ہے وہ کہتا ہے کہ بعض ایسی چیزیں ہیں جن کو ہم خوبصورت سمجھتے ہیں.اورخوبصورت چیزوں کے حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں.مگر پتہ نہیں کہ کیوں یہ خواہش انسانوں میں پائی جاتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور ہستی

Page 319

ہے جس نے انسانوں میں خواہش رکھی ہے.اس کا خیال ہےکہ خدا تعالیٰ کی ہستی کی یہی ایک زبردست دلیل ہے.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ مسحی ہے اور مسحیی تعلیم کے مطابق تو انسان کی فطرت مسخ شدہ اورگندی ہے پھر نہ معلوم وہ اس سے خدا تعالیٰ کی ہستی پر کس طرح استدلال کرتا ہے یہ دلیل تو ایک مسلمان پیش کرسکتا ہے جس کی الہامی کتاب میں یہ دلیل آج سے تیرہ سو سال پہلے بیان کی گئی ہے اور جس کی الہامی کتاب انسان کی فطرت کو پاکیزہ اور لا انتہا ترقیات کے قابل قرار دیتی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مَیں نے ایک چو ر سے پوچھا کہ چوری کا مال کھانا تمہیں بُرا نہیں معلوم ہوتا.اس نے کہا بُرا کیوں معلوم ہو.کیا ہم محنت کرکے نہیں لاتے؟ فرماتے تھے مَیں نے اس بات کو چھوڑ دیا اور اورباتیں کرنے لگ گیا.پھر جب مَیں نے سمجھا کہ اب یہ پہلی بات بھول گیا ہوگا.مَیں نے اس سے دریافت کیا.اور باتیں کرتےکرتے کہا چوری کتنے آدمی مل کر کرتے ہیں؟ اس نے کہا کم از کم چار پانچ ہوتے ہیں اور سنار کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو مال کو پگھلا دےاور اس کی شکل بدل دے.آپ نےکہا کیا تم مال سنار کو دیدیاکرتے ہو؟ اگر وہ اس میں سے کچھ مال کھاجائے تو کیا کرتے ہو؟ اس پر وہ بے اختیار ہوکر کہنے لگا کہ اگر سنار ہمارا مال کھاجائے تو ہم ایسے بے ایمان کو مار نہ دیں.اس واقعہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ فطرتِ انسانی کے اندر نیکی کا میلان اس طرح راسخ ہے کہ انسان خواہ کس قدر بھی بگڑ جائے وہ میلان اس کے اندر باقی رہتا ہے اور جب بھی کسی محرک کے ذریعہ سے یا نقطہ فکر کے بدل دینے سےاسے زندہ کیاجائے وہ زندہ ہوجاتا ہےاور نئی طاقت کے ساتھ ظاہر ہوجاتا ہے.پس فطرت میں برائی سے نفرت اورنیکی کی خواہش کا ہونا بھی خدا کی ہستی کی بہت بڑی دلیل ہے.اعتراضات کا جواب اس دلیل پر بھی اعتراض کئے جاتے ہیں.مثلاً یہ کہ جن کو اخلاق کہا جاتا ہے وہ فطری اخلاقی نہیں بلکہ ورثے کے طور پر کچھ باتیں ہیں.ہمارے ماں باپ نے تجربہ کرکے جن باتوں کو نقصان دِہ پایا ان کو ہم بُرا سمجھتے ہیں اورجن کو مفید پایا ان کو اچھا.مثلاً چوری ہے انسان جانتا ہے کہ مَیں نے کسی کا مال چرایا تو وہ بھی ہمارےمال کو چُرا لے گا اور اس سے خواہ مخواہ کی پریشانی ہی ہوگی اسلئے اس خوف سے جو انسان کے دل میں اس فعل کے نتائج کے متعلق پیدا ہوا یہ بات اسے اچھی نہ نظر آئی اور آہستہ آہستہ یہ خیال بطور ورثہ کےاگلی نسلوں میں منتقل ہوتا چلا گیا.پس بدی سے نفرت درحقیقت اس تجربہ کا ورثہ ہےجو انسان کو اپنے آباء سےملا ہے.اس کا فطرت انسانی سےکوئی تعلق نہیں ہے اور نہ کسی بالا ہستی نے یہ میلان انسان کے

Page 320

اندر رکھا ہے اور اس لئے یہ ہستی باری کا ثبوت نہیں کہلا سکتا.اعتراض پر اعتراض مگر اس اعتراض پر ہمارا یہ اعتراض ہے کہ تم کہتے ہو کہ یہ باتیں ماں باپ سےورثہ میں چلی آتی ہیں.مگر یہ بتاؤ کہ ماں باپ کے دل میں کس طرح کیا اور جن چیزوں نے نقصان دیا ان کو بُرا قرار دے دیا اورنفع دینے والی چیزوں کو اچھا اور اپنا نفع نقصان ہر شخص سمجھ سکتا ہے کسی کےسمجھانے کی ضرورت نہیں ہے.جن چیزوں کو اچھا کہا جاتا ہےوہ سب کی سب مفید ہیں اورجن کو بُرا کہا جاتاہے وہ سب کی سب مضر.اگر نیکیاں ایسی باتیں ہوتیں کہ جن کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اورپھر لوگ انہیں کرتے تو کہتے خدا نے دل میں ڈالی ہیں.اورنقصان رساں چیزوں سے نقصان نہ ہوتا اورپھر ان سے لوگ بچتے تو سمجھتے خدا نے یہ سکھایا ہے مگر ایسا نہیں ہے.اس لئے یہ کہا جائے گا کہ لوگ اچھی باتوں کو ان کے فائدہ کی وجہ سے کرتے اور بُری باتوں کو ان کے نقصان کی وجہ سے چھوڑتے ہیں.گو اس کا حقیقی اصلی جواب تو اور ہے.مگر بوجہ طوالت میں اسے چھوڑتا ہوں اور صرف اس جواب پر اکتفا کرتا ہوں کہ بعض نیکیاں ایسی بھی ہیں کہ انسان کا ان کے کرنے میں بظاہر کوئی فائدہ نہیں نظر آتا مگر وہ کرتا ہے.حتّٰی کہ دہریہ بھی کرتا ہے.مثلاً یہ کہ ماں باپ بچے سے جو سلوک کرتے ہیں وہ اس کے بچپن میں ہی کرچکتے ہیں.مگر ایک دہریہ بھی اس بات کا اعتراف کرے گا کہ ان کی عزت کرنی چاہئے.حالانکہ انسان کے لئے اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور اس کے خلاف کرنے کا اگر کوئی نقصان ہوسکتا ہے تو یہی کہ لوگ آئندہ بچوں کی پرورش کرنا چھوڑدیں.مگر اس میں ان لوگوں کا کیا نقصان ہوگا جو جوان ہوچکے ہیں اوراپنا گھر بار رکھتے ہیں اورپھر یہ بھی غلط ہے کہ ماں باپ آئندہ بچوں کے جوان پونے تک مرجائو گے.پھر اس کی پرورش کرنے سے تمہیں کیا فائدہ ؟ اسے چھوڑ دو.یہ کہنے پر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا کہتا ہے.غرض ماں باپ کی عزت و توقیر کرنا ایسی نیکی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں نظر آتا.مگر اس کے نیکی ہونے کا کوئی انکار نہیں کرتا.اسی طرح ساری قوموں میں مردوں کا احترام ضروری سمجھا جاتا ہے مگر اس کا کیا فائدہ ہے؟ اور اس سے کیا نفع ہوسکتا ہے؟ اگر مردہ کو کُتّے کھا جائیں یا اسے ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے جاکر پھینک آئیں تو کیا ہو؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس

Page 321

طرح پھینکنے سے سڑ کر بدبو پیدا ہوجائے گی.یہ ٹھیک ہے اور اس لئے دبان ضروری ہے.مگر ہم کہتے ہیں.اسےدبانے کےلئے بہت سے آدمی جمع ہوکر کیوں لے جاتے ہیں؟ رسی اس کےپائوں میں باندھو اور گھسیٹ کر لے جاؤ.ایسا کیوں نہیں کیا جاتا اور مردے کو بااحترام دفن کرنے میں کونسا فائدہ ہے؟ بظاہر اس میں کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ فطرت انسانی اس فعل کو پسند کتی ہےاور مردے کی بےحرمتی اس پر شاق گذرتی ہے.غرض بہت سی نیکیاں ملتی ہیں جنہیں سب نیکیاں سمجھتے ہیں اور ان کو عمل میں لاتے ہیں حتّٰی کہ دہریے بھی ان پر عمل کرتے ہیں لیکن ان میں بظاہر کوئی مادی فائدہ نہیں ہوتا صرف احساسات کا سوال ہوتا ہے.وطن کی خاطر لڑائی میں مرنا بھی ایسے ہی اخلاق میں سے ہے.سب دُنیا کے نزدیک یہ ایک قابلِ عزت بات سمجھی جاتی ہے.مگر ہم کہتے ہیں کیوں لوگ اپنی عزت و آبرو کےلئےمرنا اچھا سمجھتے ہیں؟اور کیا کوئی ملک ہے جس میں اپنی عزت اپنی آبرو اپنے ملک کے لئے جان دنیا اچھا نہیں سمجھا جاتا.مگر اس فعل سے جان دینے والے کو کیا نفع ہوسکتا ہے؟ جب اس نے جان دیدی تواسے کیا فائدہ ؟ مگر کیا باجوداس حقیقت کے ایسے مواقع پر جہاں موت یقینی ہوتی ہے لوگ ملک و وطن کے لئے جان نہیں دیتے؟ حالانکہ وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ہمارے اس فعل سے ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچے گا.غرض ہر ملک ہر قوم میں یہ اور اسی قسم کی باتوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے.مگر ان کے ایسے فائدے نہیں ہیں جو کرنے والے کی ذات کو پہنچ سکیں.اس لئے معلوم ہوا کہ یہ فطرتی نیکیاں ہیں اور نیکی کی طرف میلان خدا نے ہی فطرت میںر کھا ہے.ساتویں دلیل.دلیلِ شہادت ساتویں دلیل اس بات کی کہ خدا ہے.دلیل شہادت ہے اور دنیا میں سارے فیصلے شہادت پر ہی ہوتے ہیں.شائد ننانوے فیصدی فیصلے اس کےذریعہ ہوتے ہوں گے نہ صرف مقدمات میں بلکہ تمام علوم میں.دنیا کا ہر شخص جس قدر باتیں جانتا ہے اور جس قدر باتوں کو وہ صحیح مانتا ہے ان کے متعلق دریافت کرکے دیکھ لو عالم سے عالم آدمی بھی ان میں سے ننانوے فیصدی کو صرف شہادت کی بناء پر تسلیم کرتا ہے نہ کہ اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر اور مشاہدہ پر.تمام علوم جو یقینی سمجھے جاتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے علم طب ہو کہ علم ہئیت،علم کیمیا ہو کہ علم انجینئرنگ تمام علوم کا بیشتر حصہ شہادت پر تسلیم کیا جاتا ہے.بعض لوگوں نے تجارب کئے ہوتے ہیں دوسرے ان کی تحقیق پر اپنے علم کی بنیاد رکھ دیتے ہیں.

Page 322

خود تجربہ کرکے نہیں دیکھتے.پس جب دُنیا میں ہربات اور ہر علم کا فیصلہ شہادت پر ہوتا ہے.تو کیا وجہ ہے کہ ہستی باری کے معاملہ میں یہ دلیل باطل سمجھی جائے.ہم مانتے ہیں کہ شہادت فی الواقع شہادت ہونی چاہئے یونہی سُنی سنائی بات نہیں ہونی چاہئے.لیکن اگر شہادت کے اُصول کے مطابق کوئی شہادت مل جائے تو پھر اسے ماننا پڑے گا دلیل ہمیشہ شہادت ہوتی ہے نہ کہ عدمِ شہادت اگر ایک بڑی جماعت سچے اور راست باز لوگوں کی ایک امر کے متعلق شہادت دے کہ انہوں نے اسےدیکھا یا موجود پایا ہے تو جو لوگ اپنی لاعلمی ظاہر کریں ان کا قول ان گواہوں کے مقابلہ پر ہرگز سنا نہیں جائے گا کیونکہ لاعلمی شہادت نہیں ہوتی اوران شاہدوں کی شہادت کےمطابق فیصلہ کیاجائے گا.خدا کی ہستی کی شہادت دینے والوں کی اعلیٰ زندگی اب ہم اس معیار کے مطابق ہستی باری کے سوال پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے موجود ہونے کہ شہادت ہزاروں لاکھوں لوگ دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی ایسے ہیں کہ ان سے بہتر چال چلن والا کوئی شخص نظر نہیں آتا.قرآن کریم اس دلیل شہادت کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے.فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون(یونس:۱۷) یعنی اے رسول تو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ مَیں نے تمہارے اندر عمر بسر کی ہے.پھر تم عقل نہیںکرتے اور میرے دعویٰ کو جھوٹا کہتے ہو.کیا اس لمبی عمر میں جو مَیں نے تم میں بسر کی ہے تم نے میری صداقت مشاہدہ نہیں کی؟ اگر تم نے یہ دیکھا ہے کہ مَیں کسی حالت میں بھی جھوٹ نہیں بولتا تو اب یہ بات جو مَیں کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے مبعوث کیا ہے تاکہ میں اس کی طرف تمہیں بلائوں اس میں تم کیوں شک کرتے ہو.یہ کس طرح ممکن تھا کہ میں جو ہر خطرہ کو برداشت کرکےسچائی کو قائم رکھتا آیا ہوں اور جس کے چال چلن کی خوبی اور مضبوطی کا دوست دشمن معترف ہے یکدم اورایک ہی رات میں اس قدر بگڑ گیا ہوں کہ اتنا بڑا جھوٹ مَیں نے بنا لیا ہے کہ دُنیا کے خالق نے مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے.قرآن کریم میں ایک دوسرے نبی کے متعلق آتا ہے کہ اس وقت کے لوگ اس کی نسبت کہتے تھے يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَٓا(ھود :۶۳)اے صالح ہمیں تو تم سے اس سے پہلے بڑی بڑی امیدی تھیں.تم بہت اچھے تھے.مگر اب تمہیں کیا ہوگیا.حضرت مسیح علیہ السلام بھی اپنے زمانہ کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ مجھ میں کوئی عیب تو پکڑو.غرض جس قدر انبیاء ؑدُنیا میں

Page 323

گذرے ہیں وہ اپنے چال چلن اور صداقت کی معیت کی وجہ سے ایسے مقام پر تھے کہ ان کے دشمن بھی ان پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں پاتے تھے اور اسی طرح ان کے اتباع میں سے لاکھوں صاحب کشوف و الہام لوگ ہوئے ہیں کہجن کا چال چلن بھی ہرقسم کے شبہ سے بالا تھااوران کی راستبازی کا اعتراف ان کے دشمن بھی کرتے تھے.حضرت موسیٰؑ کی پاک زندگی دیکھو فرعون حضرت موسٰی کا کتنا سخت دشمن تھا مگر اس میں بھی یہ جرأت نہ تھی کہ ان پر جھوٹ کا الزام لگائے.اس نے یہ تو کہا کہ یہ پاگل ہوگیا ہے یونہی باتیں بناتا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکا کہ ان کا چال چلن خراب ہے حالانکہ وہ اس کے گھر میں پلے تھے اگر ان میں کوئی خرابی ہوتی تو وہ ضرور بتاتا کہ ان میں یہ خرابی ہے.رسول کریم ﷺکی پاک زندگی اسی طرح ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دیکھتے ہیں کہ آپ کے دشمنوں نے اقرار کیا کہ آپ صادق اور امین تھے اورآپؐپر انہوں نے کوئی الزام نہ لگایا بلکہ دشمن سے دشمن نے بھی آپؐکی طہارت اور پاکیزگی کی شہادت دی.چنانچہ پوچھیں گے تو ان کو کیا جواب دیں گےسارے مل کر ایک جواب بنالو تا کہ اختلاف نہ ہو آگے ہی ہم بدنام ہورہے ہیں کہ ایک کچھ کہتا ہے اور دوسرا کچھ کہتا ہے اس لئے حج پر جو لوگ آئیں گے انہیں کہنے کے لئے ایک بات کا فیصلہ کرلو اس پر ان میں سے ایک نے کہا یہ کہہ دینا کہ جھوٹ کی عادت ہے جو کچھکہتا ہے سب جھوٹ ہے.یہ سن کر ایک شخص جس کا نام نصر بن حارث تھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا یہ بات نہیں کہنی چاہئے اگر یہ کہو گےتو کوئی نہیں مانے گا اور لوگ جواباً کہیں گے کہ کَانَ مُحَمَّدٌ فِیْکُمْ غُلَا مًاحَدَثًا اَرْضَاکُمْ فِیْکُمْ وَاَصْدَقَکُمْ حَدِیْثًا وَاَعْظَمَکُمْ اَمَانَۃً حَتّٰی اِذَارَئَیْتُمْ فِیْ صُدْغَیْہِ الشَّیْبَ وَجَآءَکُمْ بِمَا جَآءَکُمْ قُلْتُمْ سَاحِرٌ لَا وَاللہِ مَا ھُوَ بِسَاحِرٍ.٭ محمدنے تم میں جوانی کی عمر بسر کی ہے اور اس وقت وہ تم سب سے زیادہ نیک عمل سمجھا جاتا تھا اورسب سے زیادہ سچا سمجھا جاتا تھا اورسب سے زیادہ امانت کا پابند تھا یہاں تک کہ جب اس کی کنپٹیوں میں سفید بال آگئے اور وہ تمہارے *سیرت ابن ہشام جلد ۱،۲ ص۲۹۹،۳۰۰ موسسہ علوم القرآن

Page 324

پاس وہ تعلیم لایا جو وہ لایا ہے تو تم کہنے لگ گئے کہ وہ جھوٹا ہے خدا کی قسم ان حالات میں وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.چنانچہ اس شخص کے اس جواب پر سب نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اوراس اعتراج کی بجائے اوربات سوچنے لگے.کیسی سچّی بات تھی جو اس شخص نے پیش کی اگر پہلے کبھی رسول کریم ؐکی طرف انہوں نے جھوٹ منسوب کیا ہوتا تو اب کوئی مان سکتا تھا.لیکن جب پہلے وہ ساری عمر آپؐکو صادق کہتےرہے تھے تو پھر یکدم جھوٹ کے الزام کو کون سچّا مان سکتا تھا.اسی طرح ہر قل نے جب ابوسفیان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اس نے کہا آج تک تو نہیں بولا اورکہا کہ آج تک کا لفظ مَیں نے اس لئے لگایا تا کہ شبہ پڑ سکے کہ شاید آئندہ بولے.اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں کو بلایا اورجب وہ جمع ہوگئے تو فرمایا کیا اگر مَیں تمہیں کہوں کہ فلاں وادی میں ایک فوج جمع ہے جو تم پر حملہ کرنےوالی ہے تو مان لو گے حالانکہ مکّہ والوں کی بے خبری میں اس قدر فوج اس قدر قریب جمع نہیں ہوسکتی تھی.پس ان لوگوں کا اس قسم کی بات بھی جو بظاہر ناممکن الوقوع ہو آپؐکے منہ سے سن کر ماننے کے لئے تیار ہوجانا بتاتا ہے کہ آپ ؐکی صداقت پر ان لوگوں کو اس قدر یقین تھا کہ وہ یا نا ممکن خیال کرتے تھے کہ آپ جھوٹ بول سکیں یا دھوکا دے سکیں.اس طبقہ اور اس درجہ کے لوگ ہیں جو اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے خدا سے الہام پایا ہے اور اللہ تعالیٰ نےان کو دنیا کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا ہے یہ لوگ دنیا کےسب سے بڑی مصلح گزرے ہیں اوراپنے اخلاق کی خوبی اور مضبوطی کی وجہ سے انہوں نے لاکھوں آدمیوں کے دلو ں پر اس طرح قبضہ کیا ہے کہ وہ لوگ اپنی جانیں اوراپنے مال ان کی راہ میں قربان کرنے کو بہترین نعمت خیال کرتے تھے اورپھر دُنیا کےذہنی ارتقاء میں جو ان لوگوں نے یا ان کے اتباع نے حصہ لیا ہےاور کسی نےاس قدر حصہ نہیں لیا.پس ان لوگوں کی ایسی کھلی کھلی اور زبردست شہادت کی موجودگی میں کس طرح انکار کیا جاسکتا ہے کہ ایک زبردست ہستی ہے جو اس دنیا کی خالق اوراس کی مالک ہے.اگر ایسی زبردست شہادت کو رد کیاجائے تو اصول شہادت کا بالکل ستیاناس ہوجاتا ہےاور کوئی علم بھی دُنیا میں ثابت نہیں ہوسکتا اور عقل سلیم ہرگز تسلیم نہیں کرتی کہ معمولی معمولی شہادتوں کو تو قبول کیا جائے مگر اس قدر زبردست شہادتوں کو رد کردیا جائے.*بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدءالوحی الی رسول اللہ ؐ*بخاری کتاب التفسیر سورة اللہب آیت تبت یداابی لھب

Page 325

دلیل شہادت پر اعتراض اور اس کا جواب کہا جاسکتا ہے کہ کیا پتہ ہے کہ ان لوگوں نے فی الواقع ایسی شہادت دی ہے کہ کوئی خدا ہے جس نے انہیں مبعوث کیا ہے اوران کے بعد لوگوں نے اپنے پاس سے بات بنا کر ان کی طرف منسوب نہیں کردی.اس کا جواب اوّل تو یہ ہے کہ جس طرح ان کی شہادت تو اتر سےپہنچتی ہے اور دنیا کی کوئی شہادت تو اتر سے نہیں پہنچتی کروڑوں آدمی نسلاً بعد نسلٍ اورہزاروں کُتب ان کی شہادت کو پیش کرتی چلی آئی ہیں.پس ان کی شہادت کے متعلق کسی قسم کا شبہ پیدا نہیں کیاجاسکتا.پھریہ کہ شہادت کسی خاص زمانہ سے مختص نہیں ہے ہر زمانہ میں ایسےشاہد گذرے ہیں اور اس وقت بھی ایک شخص گذرا ہے جسنے اس شہادت کو تازہ کیا ہے اوراپنی راستبازانہ زندگی بھی باوجود اس کے کہ سب قوموں کے لوگ اس کے ارد گرد بستے تھے یہ نہ کہہ سکی کہ اس کی زندگی فی الواقع تقویٰ اور راستبازی کا نمونہ نہ تھی.بلکہ اس کے خطرناک دشمنوں تک نے یہ شہادت دی کہ وہ اپنی راستبازی میں سارے زمانہ میں بے مثل تھا اور یہانتک اس کی صداقت اور راستبازی کے لوگ معترف تھے کہ مخالفین نے ان جھگڑوں میں جو اس کے خاندان کےساتھ تھے تسلیم کرلیا کہ جو وہ کہہ دے ہم اسے مان لیں گے.یہ شخص حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود تھے.پس جبکہ ہر زمانہ میں اس قسم کے شاہد موجود ہیں تو اس شہادت میں کچھ بھی شک نہیں کیا جاسکتا.آٹھویں دلیل اب میں آٹھویں دلیل بیان کرتا ہوں.یہ ان دلیلوں سے جنہیں میں اب تک بیان کر چکا ہوں مختلف ہے اور اس دلیل سےایک نیا سلسلہ دلائل کا شروع ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں اور پہلے سلسلہ دلائل میں یہ فرق ہے کہ پہلی دلیلوں میں تو ہستی باری کا ثبوت صرف عقلاً ملتا تھا اور عقل اپنے فیصلہ میں بعض دفعہ غلطی بھی کرجاتی ہے اس دلیل سے سلسلہ دلائل مشاہدات سے تعلق رکھتا ہے جن میں غلطی ناممکن ہوجاتی ہے گو یہ ایک سلسلہ دلائل کا ہے مگر میں روشنی ڈالتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ خدا نے اپنے وجود کو ثابت کرنےکے لئے ایک دو نہیں چار نہیں دس بیس نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں دلیلیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ کی ہر صفت اس کی ہستی کا ثبوت ہے ہم کہتے ہیں کہ خدا رحیم ،کریم ،قدیر ،سمیع ،بصیر ہے.پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ انسان سے بالا ایک ہستی ہےجو رحیم ہے اور رحم کرتی ہے.کریم ہے کرم کا سلوک کرتی ہے.ہماری ضروریات

Page 326

کو پورا کرتی ہے دکھوں اور تکلیفوںکے وقت ہماری حفاظت کرتی ہے.عام قانون کےذریعہ بھی اور خاص اسباب پیدا کرکے بھی تو یہ ماننا پڑگے گا کہ خدا ہے.مخالفین تو ہم سےخدا کی ہستی کی ایک دلیل پوچھتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر اس کی صفات کی جلوہ گری پر غور کرکے دیکھو تو اس کی ہستی کے لاکھوں ہزاروں ثبوت موجود ہیں.صفاتِ الٰہی دہریہ کہتے ہیں کہ جس طرح خدا موہوم ہے اس کی صفات بھی ہوہوم ہیں تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہکوئی علیم ہستی موجود ہے؟ کیاثبوت ہے کہ کوئی سمیع ہستی موجود ہے؟ کیاثبوت ہے کہ وہ ہستی لوگوں سے کلام کرتی ہے؟ کیا ثبو ت ہے کہ وہ قدیر ہے؟ اس اعتراض کے جواب میں دو قسم کے امور پیش کئے جاسکتے ہیں.ایک تو وہ جو ساری دنیا کو نظر ہے اس کااثر وہی انسان محسوس کرسکتا ہےجس پر اس کاظہور ہو اور بخشنے کی حالت کو وہ خود ہی محسوس کرے گا.مثلاً تم کوئی گناہ کرتے ہو خدا چونکہ ستارہے اس کے نتیجہ اور سزا سے تمہیں بچا لیتا ہے اور اس کے لئےایسےسامان پیدا کردیتا ہےکہ جنہیں انسانی عقل نہیں پیدا کرسکتی.اس لئے معلوم ہوا کہ خدا ہے.ایسے امور انسان کےنفس کے اندر ہی پیدا ہوسکتے ہیں اوران کو وہی سمجھ سکتا ہے ہاں دوسری قسم کے امور کو سب لوگ مشاہدہ کرسکتے ہیں اور میں انہیں کو لیتا ہوں.کیونکہ جو بات اپنے ہی ساتھ تعلق رکھتی ہے اس کے متعلق ذکر مفید نہیں ہوسکتا.اسے تو وہی سمجھ سکتا ہے جس سے وہ تعلق رکھے.خدا کی صفت عزیز کا ثبوت میں اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کو بطور مثال اس وقت پیش کرتا ہوں جن سے معلوم ہوگا کہ اس دنیا کے اوپر ایک ہستی ہے جس کے ارادہ کے ماتحت سب دنیا کا کا رخانہ چل رہا ہے اور سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کو لیتا ہوں اگر یہ صفت اپنا کام کرتی ہوئی ثابت ہوجائے تو معلوم ہوجائے گا کہ خدا ہے عزیز کے معنی غالب کے ہیں اور اس صفت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(المجادلۃ: ۲۲)مَیں نے یہ مقرر کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ غالب ہوں گے.ادھر تو اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ میرےدین کی تائید کے لئے جو لوگ کھڑے کئے جائیں گے وہ ہمیشہ غالب رہیں گے اور دوسری طرف اس کی یہ سنت ہے کہ بادشاہوں اور طاقتور لوگوں کو

Page 327

نبی نہیں بناتا الَّا ماشاء اللہ بلکہ انہیں لوگوں میں سے نبی بناتا ہےجو ضعیف اور کمزور ہوتےہیں جن کے پاس نہ کوئی فوج ہوتی ہےنہ ہتھیار نہ دولت ہوتی ہے نہ جتھا.ان کو بھیج کر ان کےذریعہ دنیا کو مفتوح کراتا ہے اور اسطرح دکھا دیتا ہے کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ بالکل درست اور صحیح ہے جن حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کو فتح کیا ہے ان کے سامنے رکھ کرکون کہہ سکتا ہے کہ خدا کی مدد کے سوا آپ کو یونہی غلبہ حاصل ہوسکتا تھا آپ کے پاس نہ مال تھا نہ دولت علم آپ نہ پڑھے ہوئےتھے.مال کی یہ حالت تھی کہ ایک ایسی مالدار عورت سے آپ نےشادی کی جو نیک تھی اس نے اپنا مال آپ کو دیدیا اور آپ نے وہ بھی خدا کی راہ میں صرف کردیا.ایسے انسان کو خدا نے رسول بنا دیا اور رسول کے لئے یہ شرط رکھدی کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ کہ رسول ضرور غالب ہوگا.اگر خدا ہے تو ایسا ہی ہونا ضروری ہے.اب دیکھو دُنیا نے رسول کریمؐ کے ساتھ ضرورضرور غالب ہوگا.اگرخدا ہے تو ایسا ہی ہونا ضروری ہے.اب دیکھودُنیا نے رسول کریمؐ کے ساتھ کیا کیا آپ کے خلاف سارے لوگوں نے زور مارے مگر کیا نتیجہ نکلا ان کی تمام کوششوں کا نتیجہ یہی نکلا کہ آپ نہایت شان کے ساتھ دس ہزازر قدوسیوں سمیت مکہ میں پہنچے اور وہی سردار جو آپ پر اتنا ظلم کرتے تھے کہ جب آپ نماز کے لئے خانہ کعبہ میں جاتے تو آپ کو ڈانٹتے آپ پر میلا ڈالتے اس وقت یہ سب آپ کے رحم پر تھے.ایک دفعہ آپ پر اتنا ظلم کیا گیا.کہ طائف والوں نے پتھر مار مار کر آپ کا جسم لہو لہان کردیا پھر آپ کے مریدوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا بازاروں میں چلنا مشکل تھا.پس اس بے سروسامانی میں آپ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعویٰ کیا اور اعلان کردیا کہ مَیں کامیاب ہوکر رہوں گا اور دُنیا پر غلبہ پاؤنگا خدا تعالیٰ میری مدد کرے گا اور مجھے فتح دے گا.اگر قوم اس دعویٰ کو آسانی سے قبول کرلیتی تو کہا جاتا کہ جب قوم نے قبول کرلیا تو غلبہ میں کسی غیر معمولی اعانت کا ہاتھ کیوں سمجھا جائےمگر آپ کے ساتھ قوم نے محبت کا سلوک نہیں کیا قبولیّت کے ہاتھ آپ کی طرف نہیں بڑھائے.اطاعت کی گردن آپ کے آگے نہیں جھکائی.بلکہ ساری کی ساری قوم آپ کے خلاف کھڑی ہوگئی اور معمولی مخالفت نہیں کہ بلکہ مخالفت میں قوم نے ساراہی زور خرچ کردیاقتل کرنےکی کوشش کیساتھیوں میں سے کئی کو شہید کردیا حتّٰی کہ صحابہؓ کو ملک سے نکلنا پڑا اور آخر میں خود آپ کو بھی ملک چھوڑنا پڑا لیکن وہی شخص جسے چند سال پہلے سرف ایک ساتھ کے ساتھ رات کے اندھیرے میں اپنے عزیز وطن کو چھوڑنا پڑا تھا چند سال بعد فاتحانہ حیثیت میں واپس آتا ہے اور آکر ان ظالموں سے جنہوں نے انتہائی درجہ کےظلم اس سے اور اس کے ساتھیوں سے کئے تھے پوچھتا ہے کہ بتاؤ تو مَیں تم سے کیا سلوک کروں؟ اورجب وہ شرمندگی سے اس کے سامنے

Page 328

گردن ڈال دیتے ہیں.تو فرماتا ہےجائو مَیں نے تم سب کو معاف کردیا.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اتفاقاً بعض کمزور لوگوں کو طاقت مل جاتی ہےمگر رسول کریمؐکے مواملہ میں فتح اور گلبہ اتفاقاً نہیں کہلا سکتا کیونکہ آپ نے اپنی کمزوری کی حالت میں پیشگوئی کردی تھی کہ مجھے غلبہ ملے گا اور پھر اس دعویٰ کے ایک زبردست طاقت پر آپ کو یقین تھا اور کامل یقین تھا کہ میرے غلبہ کو کوئی شکست سے بدل نہیں سکتا تبھی تو آپ نے ایسے خطرناک دشمنوں کو بلا شرط معاف کردیا اس قسم کے غلبہ کی مثال دنیا میں اور کہاں ملتی ہے؟ موجودہ زمانہ میں خدا کی صفت عزیز کا ثبوت پھر اسی زمانہ میں دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کے کھڑا کیا.جن کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو اس وقت ہندوستان میں سے بار رسوخ عالم تھے کہا کہ مَیں نے ہی اس کو بڑھایا ہے اور مَیں ہی اسے تباہ کروں گا.مگر دیکھو کون مٹ گیا اورکون بڑھا مولوی محمد حسین صاحب کا اب کوئی نام بھی نہیں لیتا حالانکہ یہی مولوی محمد حسین صاحب جب مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت سے قبل کہیں جاتے تھےتو لوگ سڑکوں پر جمع ہوجاتے تھے اور کھڑے ہو ہوکر تعظیم کرتے تھے.غرض انہوں نے مخالفت کی اور سب کو مخالفت کے لئے بھڑکایا شروع شروع میں گورنمنٹ بھی ناراض تھی کیونکہ آپ نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور مہدی کے متعلق مسلمانوں نے جو غلط خیال بنائے ہوئے تھے ان کی وجہ سے گورنمنٹ آپ پر بہت بد ظن تھی.غرض ہر طرف سے آپ کی مخالفت ہوتی تھی مولویوں نے اپنی طرف سے زور لگانے میں کسر نہ رکھی اور عوام نے اپنی طرف سے کمی نہ کی.مگر خدا تعالیٰ نے یہ کہہ رکھا تھا کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی ْمیں اور میرا ضرور غالب ہوکر رہیں گے پھر اس کلام کے ماتحت دیکھو لوگوں کی مخالفت کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہی ناں کہ بہت سے ایسے لوگ جو شروع میں آپؑکو گالیاں دیتے تھے آج لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ کی رسی میں بندھے ہوئے یہاں بیٹھے ہیں لوگوں نے حضرت مسیح موعود کو کیا کیا دُکھ نہ دئیے.کیا کیا تکلیفیں نہ پہونچائیں آپ کے راستہ میں کیا کیا رکاوٹیں نہ ڈالیں مگر کیا کرلیا؟ وہ جو غالب سمجھے جاتے تھے آخر مغلوب ہوگئے اور وہ جو بڑے سمجھے جاتےتھے چھوٹے ہوگئے اور اس طرح لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ کی پیشگوئی پوری ہوئی.

Page 329

قلوب پر قبضہ زیادہ مشکل اس موقعہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تلوار اور طاقت کے ذریعہ جسموں پر غلبہ حاصل کرنا اور بات ہے اور قلوب پر قبضہ کرنا اور بات.دلوں پر قبضہ کرنے کا کام نہایت مشکل کام ہے.کہتے ہیں ابن سینا کوئی مسئلہ بیان کررہا تھا ایک شاگرد کو جو اس کی بات بہت پسند آئی تو جھوم کر کہنے لگا آپ تو محمد ؐجیسے ہیں اگر چہ اب سینا فلسفی تھا اور دین سے اسے تعلق نہ تھا مگر آخر مسلمان تھا اسے یہ بات بہت بُری لگی.جہاں بیٹھے تھے اس کے قریب ہی ایک حوض تھا اور سردی کی وجہ سے یخ بن رہا تھا.تھوڑی دیر کے بعد ابن سینا نے اسی شاگرد سے کہا کہ اس حوض میں کُود جائو.شاگرد نے کہا کیا آپ پاگل ہوگئے ہیں؟اس قدر سردی پڑ رہی ہے اور اتنا ٹھنڈا پانی ہے اس میں کُود نے سےتو مَیں فوراً بیمار ہوجائوں گا.اس پر ابن سینا نے کہا کہ کیا اسی برتے پر تُو مجھے کہتا تھا کہ تُو محمدؐجیسا ہے؟ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہزاروں کو کہا آگ میں کُود پڑو.اور کسی نے نہ پوچھا کہ ایسا کیوں کہتے ہو خوشی سے آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں قُربان کردیں اور تو میری اتنی سی بات نہیں مانتا اورباوجود اس کے مجھے حضور سے مشابہت دیتا ہے حالانکہ رسول کریم ؐنے اپنی بات ان لوگوں سے منوائی جو آپ کے جانی دشمن تھے.غرض انبیاء باوجود بے سروسامانی کےغالب ہوتے ہیں اوران کے دشمن تباہ.اب ہی دیکھ لو کہاں ہیں مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی اور کہاںہیں حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے دشمن ایک بڑا دشمن تمہارے سمجھانے کے لئے خدا نے رکھا ہوا ہے.مگر اس کی بھی باری آجائے گی اور اس کا انجام ایسا عبرتناک ہوگا کہ مسیح موعودؑ کے ماننے والے اسے بطور مثال کے پیش کیا کریں گے.کیا نبی ناکام بھی ہوتے ہیں اس سلسلہ کی اس پہلی دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم کہتے ہیں نبوت کا دعویٰ کرنےوالے ناکام بھی ہوتے ہیں.مثلاً مسیحؑکو مخالفین نےپکڑ کر سولی پر چڑھا دیالیکن یہ ان کاناکامی کی دلیل نہیں ہے بلکہ کامیابی کی ہے.کیونکہ خدا نے انہیں بھٹی میں ڈال کر دکھا دیا کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ سچ ہے.اگرحضرت مسیحؑ صلیب پر وفات پاجاتے اور آپؑ کا سلسلہ تباہ ہوجاتا تو بیشک یہ دعویٰ غلط ہو جاتا مگر خدا نے آپؑ کو آگ میں ڈال کر اور پھر زندہ نکال کر دکھادیا کہ خدا کے نبی پر کوئی غالب نہیں آسکتا.حضرت مسیح موعودؑنے بھی لکھا ہے کہ : کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنےوالی ہے

Page 330

اگر انبیاء کی مخالفت نہ ہوتو لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ کی شان اور شوکت کس طرح ظاہر ہو.صفت تکلم سے خدا کی ہستی کا ثبوت دوسری صفت جسےمیں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں صفت تکلم ہے.اگر ایک ہستی انسان سے کلام بھی کرتی ہے اوراپنے عندیہ اور منشاء کو ظاہر بھی کرتی ہے تو کس طرح کہا جاسکتا ہےکہ انسان سے بالاہستی اورکوئی نہیں اور دُنیا پر کوئی حکمران نہیں قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْھمُ الْمَلٰىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.(حٰمٓ سجدۃ :۳۱)جب مؤمن کہتے ہیں کہ خدا ہے اور اس پر استقامت دکھاتے ہیں تو ان پر خدا فرشتے بھیجتا ہے کہ جائو ان کو سناؤکہ میں واقع میں ہوں تم کوئی خوف اور غم نہ کرو اور وہ جنت کہ جس کا تم سے وعدہ کیاگیا تھا اس کی بشارت پاکر خوش و خرم ہوجاؤ.ہزاروں اور لاکھوں نبی ایسے ہوئے ہیں جن کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ مَیں ہوں اوران کی جماعتوں میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اوراب ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہے خود مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے اس کا تجربہ ہے.اب اگر کوئی مجھے سنائے کہ خدا نہیں تو مَیں کس طرح اس کی بات مان سکتا ہوں مَیں تو تعجب سے اس کے منہ کو ہی دیکھو گا کہ کیسی بیہودہ بات کہہ رہا ہے.اگر کوئی فلسفی کہے کہ زید نہیں ہے اور اس کے نہ ہونے کے دلائل بھی پیش کرے مگر زید سامنے بیٹھا ہو تو اس فلسفی کو پاگل ہی کہا جائے گا.اسی طرح جس نے خدا کی باتیں سنیں اسے اگر کوئی کہے کہ خدا نہیں ہے تو وہ اسےپاگل ہی سمجھے گا.پس ہزاروں نبیوں اور دوسرے لوگوں کو جو الہام ہوتے ہیں اور وہ خدا کی باتیں سنتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زبردست ثبوت ہے.صفت تکلم پر اعتراض اوراس کا جواب اس دلیل پر یہ اعتراض کیاجاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ انسانوں سے بولتا اور کلام کرتا ہے تو پھر مذاہب میں اختلاف کیوں ہے؟ اگر خدا بولتا تو کسی کے کان میں کچھ اور کسی کے کان میں کچھ اور کیوں کہتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تو ایک ہی تعلیم ملتی ہے.ہاں بعد میں لوگ چونکہ اس میں اپنی طرف سے باتیں ملادیتے ہیں اس لئے اختلاف ہوجاتا ہے.جیسے قانون قدرت خدا تعالیٰ

Page 331

کی طرف سے مقرر ہے مگر لوگ اس میں ہزاروں قسم کی باتیں اپنی طرف سے ملا دیتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ساری باتیں جو لوگ پیش کرتے ہیں قانونِ قدرت ہی ہے.مثلاً کوئی کہے کہ میں نے ایجاد کی ہے کہ لکڑی سے زندہ گھوڑا بنا لیتا ہوں یہ سُن کر یہ نہیں کہا جائے گا.کہ قانونِ قدرت غلط ہوگیا ہے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ غلط ہے اور صحیح یہی ہے جو قانون قدرت کے ماتحت ہے کہ لکڑی کا زندہ گھوڑا نہیں بن سکتا.پس وہ لوگ جو اپنی عقل سے باتیں بناتے اورپھر خدا کی طرف منسوب کردیتے ہیں.ان کےعقلی ڈھکوسلوں کا الزام خدا تعالیٰ پر عائد نہیں ہوسکتا بلکہ ان کی عقلوں پر عائد ہوگا اورایسے لوگوں کے متعلق خدا تعالیں نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ.لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ (الحآقّہ :۴۵ تا ۴۷)اگر کوئی اللہ کی طرف اپنے پاس سے بات بنا کر جانتے بوجھتے ہوئے منسوب کردے گا تو وہ اس کی رگ جان کو کاٹ دے گا.اب کوئی خدا پر جھوٹا افتراء کرکے دیکھ لے.وہ لوگ جو خدا کے منکر ہیں وہی کھڑے ہوجائیں اورجان بوجھ کر ایسی باتیں بنا کر جنہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا نے نہیں کہیں خدا کی طرف منسوب کریں کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں اور ہمیں ان کی اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا ہےپھر اصرار اس دعویٰ کی اشاعت کریں پھر دیکھ لیں کہ کیا نتیجہ ہوتا ہے.اختلاف زمانہ کی وجہ سے مذاہب میں اختلاف دوسرا جواب یہ ہے کہ مذاہب میںکچھ حصہ اختلاف کا زمانہ کی ضروریات کے ماتحت ہوتا ہے مگر دراصل وہ اختلاف نہیں کہلا سکتا.مثلاً طبیب ایک نسخہ لکھتا ہے مگر جب مریض کی حالت بدل جاتی ہے تو دوسرا لکھتا ہے.ان میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا بلکہ ضرورت کے ماتحت جیسا مناسب تھا ویسا کیاگیا.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ طبیب کا کیا اعتبار کہ کبھی کچھ دیتا ہے کبھی کچھ بلکہ سب جانتے ہیں کہ مریض کی اندرونی تبدیلی کی وجہ سے نسخہ بدلا ہے.یہی حال دین کا ہے.جب بنی نوع انسان کی ذہنی حالت میں ارتقاء حاصل ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی تعلیم ان کو مل جاتی ہے.خدا ایک مذہب کیلئے سب کو مجبور کیوں نہیں کرتا اس موقعہ پر یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے.کہ اچھا مان لیا کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے اسے خدا ہلاک کردیتا ہے لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ خدا جھوٹے مذاہب کے پیروؤں

Page 332

کو ہلاک نہیں کرتا جھوٹے مذاہب کے ماننے والوں کو مار دینا چاہئے تھا یا ان سب کو ایک مذہب کا پیرو بنا دینا چاہئے تھا.اس کا جواب خدا تعالیٰ نے آپ دیا ہے فرماتا ہے.وَلَوْ شَاءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ.(المائدہ۴۹) اگر ہم چاہتے تو سب کومجبور کرکے ایک مذہب پر لے آتے.لیکن اگر اس طرح کرتے تو کسی کو ثواب نہ ملتا اور جو غرض لوگوں کےپیدا کرنے کی تھی وہ پوری نہ ہوتی.جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ تبھی پوری ہوسکتی ہے کہ وہ آزاد ہو.اس میں قبول کرنےکی اور رد کرنےکی دونوں قسم کی طاقتیں ہوں پس چونکہ سب لوگوں کو مجبور کرکےایک مذہب پر لانا انسان کی پیدائش کی غرض کو بالکل باطل کردیتا ہے اسلئے خدا ایسا نہیں کرتا.سچّے مذہب میں اختلاف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اچھا مان لیا کہ اختلاف مذاہب کی یہ وجہ ہے مگر جو مذہب اپنے آپ کو سچّا کہتا ہے اس میں بھی تو اختلاف ہے مسلمانوں کو دیکھ لو کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ.اگر تم کہو کہ جس طرح پہلے دینوں میں لوگوں نے باتیں ملا دیں اسی طرح اس میں بھی ملا دی ہیں جس سے اختلاف ہوگیا ہے تو ہم کہتے ہیں خدا نے ایسا کلام کیوں نہ نازل کیا جس سے بندوں کو ٹھوکر نہ لگتی.خدا ایسا کلام کرتا کہ کوئی انسان اس کے متعلق ٹھوکر نہ کھاتا.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا کلام تو ایسا ہی ہوتا ہے.جسے سارے انسان سمجھ سکتے ہیں لیکن بعض لوگ شرارت سے اوردھوکا دینے کےلئے اس سے کچھ کا کچھ مطلب نکلانتے ہیں اور اس سے ان کی کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے.جیسا کہ اب آریہ کہتے ہیں کہ قرآن سے تناسخ ثابت ہوتا ہے روح و مادہ کی ازلیت ثابت ہوتی ہے اور ممکن ہے کچھ عرصہ کے بعد یہ بھی کہہ دیں کہ نعوذ باللہ قرآن میں نیوگ کی تعلیم بھی پائی جاتی ہےضدی اورہٹ دھرم لوگ کو کون روک سکتا ہے جو چاہتے ہیں کہتے جاتےہیں.پھر اختلاف کا دروازہ کُھلا رکھنے سے ایک مقصد انسانی دماغ کی نشو ونما بھی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ میری اُمّت کا اختلاف رحمت ہے آپؐکے اس قول کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں کچھ باتیں محکمات کی قسم سے بیان کی ہیں اور کچھ متشابہتات کی قسم سے.محکمات سے مراد یہ ہےکہ ان کے معنی گو ایک سے زیادہ کئے جائیں مگر وہ سب کے سب ایک رنگ میں رنگین ہوں اور متشابہات کا یہ مطلب ہے کہ ایسے *کنزالعمال جلد ۱۰ حدیث نمبر ۲۸۶۸۶ص ۱۳۶

Page 333

الفاظ رکھے گئے جن کے متعدد معنی ہوسکتے ہیں اوربعض ان میں سے بظاہر مخالف نظر آتے ہیں مگر وہ حقیقتاًمخالف نہیں یعنی گو یہ ممکن نہیں کہ ایک پر عمل کیاجائے تو دوسرے پر بھی عمل ہوسکے لیکن وہ دونوں معنی شریعت کے نص صریح کے مخالف نہ ہوں گے اور دونوں میں سے کسی پرعمل کرنا ایمان یا اسلام کے لئے نقصان دہ نہ ہوگا جیسے عورتوں کی عدّت کےلئے قرآنِ کریم میں قرء کا لفظ استعمال ہوا ہےجس کے معنی طہر کے بھی ہیں اور حیض کے بھی.مسلمانوں میں سے ایک جماعت طہر کے معنی کرتی ہے دوسری حیض کے گو بظاہر یہ دونوں معنی مخالف نظر آتے ہیں اور ایک ہی شخص ایک وقت میں دونوں پر عمل کرنے سے ایمان و اسلام کو نقصان پہنچ سکتا ہے.اس اختلاف کےذریعہ سے شریعت کی باریکیوں پر غورکرنے کی عادت پرٹی ہے مختلف علوم جسمانی وروحانی کی جستجو کا خیال دل میں پیدا ہوتا ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ شریعت کے مغزاور اس کے احکام کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.اور اس کے احکام میں سے جو قِشراورچھلکے کی حقیقت رکھتے ہیں انکی معرفت حاصل ہوتی ہے.جس طرح خدا تعالیٰ نےکانیں رکھی ہیں کہ جو کوشش کرے ان سے سونا چاندی نکال لے اسی طرح اس نے قرآن کوبنایا ہے اور یہ امر ایک خوبی اور خدائی کلام کی اعلیٰ صفت ہے نہ کہ کوئی نقص.مَیں نے دیکھا اور تجربہ سے معلوم کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ جو ایک چھوٹی سی صورت ہے اس کے معنی کبھی ختم نہیں ہوتے.پس اس سے خدا کے کلام پر اعتراض نہیں پڑتا بلکہ اس کی خوبی ظاہر ہوتی ہےہر شخص اپنی عقل اوراپنی ہمت کے مطابق معنی نکالتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا اور دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے.پس جو اختلاف کہ ذاتی فوائد و اغراض کے ماتحت نہیں کئے جاتے یا جہالت یا قلتِ تدبر کی وجہ سے نہیں ہوتے وہ اصول میں سے نہیں بلکہ فروعات میں سے ہوتے ہیں اور امّت کے لئے فائدہ کا باعث ہیں کیونکہ ان پر لوگوں کو غور وفکر کرنے کا موقعہ ملتا ہے.پھر قرآن کریم کی آیات کے ذومعانی ہونے کی یہ بھی وجہ ہے کہ یہی کتاب ادنیٰ درجہ کے مؤمنوں کے لئے بھی ہے اور اعلیٰ درجہ کے مؤمنوں کے لئے بھی.معمولی لیاقت کے لوگوں کے لئے بھی اور اعلیٰ روحانی مقامات پر پہنچے والوں کے لئے بھی.پس الفاظ ایسے رکھے گئے ہیں کہ ہر علم کا بے فائدہ یا ناقابلِ فہم نہ ہو یہی چھوٹی سی کتاب ہے جسے ایک معمولی سے معمولی مؤمن بھی پڑھتا تھا اور رسول کریمؐبھی.اگر یہ خوبی نہ ہوتی تو تو یا اس معمولی مؤمن کی سمجھ کے قابل بات اس میں نہ ہوتی یا

Page 334

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو زیادہ کرنے والی بات کوئی نہ ہوتی.گویا کلام ایک ہی ہے الفاظ ایک ہی ہیں.لیکن ان کو ایسےرنگ میں جوڑا گیا ہے کہ جتنی جتنی کسی کی سمجھ اور عقل ہو اس کے مطابق وہ ان سے معنی نکال لے اور اس کلام کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں کم درجہ کی عقل والوں کی سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں ہیں.اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے متعلق تعلیم ہے اعلیٰ رُوحانی درجہ رکھنے والے ان سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتے بلکہ اس کا ہر ہر لفظ دونوں جماعتوں کے لئے ہے.ہر اختلاف رحمت نہیں اس پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ مانا کہ اختلاف رحمت ہوتا ہے مگر اسلام میں ایسے جھگڑے اور اختلاف بھی تو ہیں جو رحمت کا موجب نہیں بلکہ دُکھ کا موجب ہیں.مثلاً اونچی اورنیچی آمین کہنے پر ایک دوسرے کو پتھر بھی مارتے ہیں مقدمے بھی چلتے ہیں.پھر یہ اکتلاف رحمت کس طرح ہوا ؟ اس کا جواب پر ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑے رہتے ہیں.مگر جب کبھی مسلمانوں کی ایسی حالت ہوتی رہی ہے تو خدا تعالیٰ کسی انسان کو بھیج دیتا رہا ہے جو ان کو حقیقت کی طرف لاتا رہا ہے.چنانچہ مسلمان اس زمانہ میں بھی ایسی باتوں پر لڑنے جھگڑے لگے اور نہ سمجھا کہ اس قسم کا اختلافرحمت نہیں بلکہ عذاب اور دُکھ کا موجب ہے تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑکو بھیج دیا اورآپ نے ایک فقرہ میں ان سب جھگڑوں کو حل کردیا.چنانچہ دیکھ لو ہماری جماعت میں ان امور پر کوئی اختلاف نہیں غرض بعض باتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک صورت ادنیٰ درجہ والوں کے لئے ہے ایک اعلیٰ درجہ والوں کے لئے.اوربعض ایسی ہیں جن کی دونوں صورتیں درست ہیں.مثلاً آمین اونچی کہنی بھی جائز ہے اور نیچی بھی.ہاتھ اوپر باندھے جائیں یا نیچے دونوں طرح جائز ہے.اس طرح سب باتوں کا فیصلہ ہو گیا اور کوئی جھگڑا نہ رہا.مشاہدہ کی دلیل پر اعتراض اور اس کا جواب میں نے جو یہ بتایا ہے کہ جس انسان کو خدا کا مشاہدہ ہوجائے خدا کا کلام سنے وہ کس طرح انکار کرسکتا ہےکہ خدا نہیں ہے.اس پر ایک اعتراض کیاجاتا ہے اور وہ یہ کہ مشاہدہ کی دلیل ہرجگہ درست طور پر نہیں چل سکتی.مثلاً شعبدہ باز بظاہر روپیہ بنا کر دکھا دیتا ہے دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اس نے روپیہ بنا دیا ہے.لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا کہ اس

Page 335

نے کسی منتر سےروپیہ بنایا ہو اسی طرح کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس مشاہدہ میں بھی کوئی دھوکا ہی ہوتا ہو انسان خیال کرتا ہو کہ اسے مشاہدہ یا مکالمہ حاصل ہوا ہےاور فی الواقع کچھ بھی نہ ہو.ہم کہتے ہیں مشاہدے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن میں غلطی لگ سکتی ہے دوسرا وہ جن میں غلطی لگنے کا امکان نہیں ہوتا.ایک اور مشاہدہ تو یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص دور سے ایک شکل دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ فلاں شخص ہے لیکن ایک اور شخص اسے ملتا ہے جو بتاتا ہے کہ وہ اس شخص کو کسی اور جگہ پر دیکھ کر آیا ہے اس وقت اس شخص کی بات قبول کی جاتی ہے جو قریب سے دیکھ کر آی ہے اور اس کی رد کردی جاتی ہے جس نےدور سےدیکھا تھا.اس لئے نہیں کہ مشاہدہ مشتبہ شئے ہے بلکہ اس لئے کہ خود مشاہدوں کے مختلف درجے ہیں اور پہلے شخص کے مشاہدہ کے مقابلہ میں دوسرے شخص کا قریب کا مشاہدہ جب پیش کیاگیا تو معلوم ہوا کہ پہلے مشاہدہ میں غلطی لگ گئی تھی لیکن ایک مشاہدہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً ایک شخص مجھ سے باتیں کرے اور اس وقت لوگ بھی موجود ہوں اور وہ بھی اس امر پر شاہد ہوں کہ ہاں فی الواقع اس نے مجھ سے باتیں کی ہیں اس کے بعد کوئی شخص مجھے آکر کہے کہ میں نے تو اسےلاہور میں دیکھا ہے.تو اس صورت میں کجے اپنے مشاہدہ کے متعلق کوئی شبہ نہ ہوگا بلکہ میں اس شخص کی نسبت یہی یقین کروں گا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے یا غلطی خوردہ ہے.اسی طرح شعبدہ باز اگر اپنی ہتھیلی پر روپیہ بنانے کی بجائے میرے ہتھیلی پر روپیہ بناتا ہے جس کی نسبت یقین کیاجاسکتا ہے کہ اس نے کسی نہ کسی جگہ روپیہ چھپا کر رکھا ہوا ہوگا پس شعبدہ باز کی شعبدہ بازی مشاہدہ نہیں کہلا سکتی مگر خدا کے کلام میں ایسا شبہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ تو پُرشوکت آواز میں یا من وراء حجاب تعبیر طلب خوابوں کےذریعہ سے ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں بندوں سے کلام کرتا ہے.کیا خدا کا مشاہدہ کرنیوالوں کے حواس غلطی تو نہیں کرتے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ خدا کے مشاہدہ کا اعلان کرتے ہیں ممکن ہے ان کے حواس کی غلطی ہو اور وہ پاگل ہوں یا دھوکا خوردہ مگر ہم کہتے ہیں یہ کیسا پاگل پن ہے کہ اس قسم کے کلام پانیوالے سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ ایک زبردست ہستی ہے جو ہم سے کلام کرتی ہے کبھی پاگلوں میں بھی اس قسم کا اتفاق ہوا کرتا ہے؟ پاگل تو دو ایک بات نہیں کہتے کجا یہ کہ سینکڑوں و ہزاروں لوگ ایسی بات کہیں ان میں

Page 336

سے کتنوں کے متعلق کہوگے کہ ان کے دماغ خراب ہوگئے اس لئے یہ شبہ بالکل غلط ہے.صفتِ مجیب خدا کی ہستی کا ثبوت تیسری مثال کےطور پر میں خدا تعالیٰ کی صفت مجیب کو بیان کرتا ہوں جس قدر لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے کے مدعی گزرے ہیں سب کہتے چلے آئے ہیں کہ خدا مجیب ہے دُعائوں کو قبول کرتا ہے.اب اگر تجربہ سے ثابت ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ کوئی دُعائوں کو قبول کرنےوالی ہستی موجود ہے تو خدا تعالیٰ کے وجود میں کوئی شبہ نہیں رہتا بلکہ اس امر میں بھی کہ وہ سمیع اور مجیب ہے.سمیع تو اس طرح کہ بندہ کہتا ہے اور وہ سنتا ہےاور مجیب اس طرح کہ بندہ کی عرض قبول کرتا ہے اس صفت کے ثبوت کے طور پر مَیں دُعائوں کی قبولیت کو پیش کرتا ہوں کس کس رنگ میں انسان دُعا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کس کس طرح اس کے لئے ناممکن کو ممکن کرکے دکھا دیتا ہےیہ ایک ایسا حیرت انگیز مشاہدہ ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کا انکار ایک قسم کا جنون ہی معلوم دیتا ہے ہم نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کی قبولیت کے ایسے نشان دیکھے ہیں کہ ان کےدیکھنےکے بعد خدا تعالیٰ کے وجود میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا پھر خود اپنی ذات میں بھی اس نشان کا مشاہدہ کیا ہے اور بار ہا حیرت انگیز ذرائع سے دُعاؤں کو قبول ہوتے دیکھا ہے.نواب محمد علی خان صاحب کےصاحبزادے میاں عبدالرحیم خان صاحب کےواقعہ کو ہی دیکھ لو وہ ایک دفعہ ایسے بیمار ہوئے کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اب یہ بچ نہیں سکتے.حضرت صاحب ؑنے دُعا کی کہ خدایااگر اس کی موت آچکی ہے تو مَیں اس کی شفاعت کرتا ہوں تب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر اس کی شفاعت کرسکے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ بات سُن کر مجھ پر اسقدر رُعب طاری ہوا کہ گویا جسم میں سے جان نکل گئی اورمَیں ایک مُردے کی طرح جاپڑا اورپھر الہام ہوا کہ اچھا تم کو اجازت دی جاتی ہے ٭ چنانچہ آپ نےپھر دُعا کی اور وہ قبول ہوگئی.آپ نے اسی وقت باہر نکل کر یہ بات لوگوں کو سُنا دی اور میاں عبدالرحیم خان جن کی نسبت ڈاکٹر اورحکیم کہہ چکے تھے کہ اب ان کی آخری گھڑیاں ہیں.اسی وقت سے اچھے ہونے لگ گئے اور اب تک خدا تعالیٰ کےفضل سے زندہ ہیں اوراس وقت ولایت تعلیم کے لئے گئے ہوئے ہیں.(نظر ثانی کے وقت وہ خدا کےفضل سے بیرسٹری کے امتحان میں کامیاب ہوچکے ہیں) غرض دُعائیں ایسے رنگ میں قبول ہوتی ہیں کہ جو امورناممکنات میں سے سمجھے جاتے ہیں؟ماننا پڑتا ہے کہ کسی بالا ہستی کی قضاء کے ماتحت ان کی قبولیت وقوع میں آتی ہے.*تذکرة ص۴۹۵،۴۹۶ ایڈیشن چہارم

Page 337

قبولیّتِ دُعاپر اعتراض اوراس کا جواب دُعاؤں کی قبولیت کے متعلق یہ اعتراض کیاجاتا ہے کہ ہم یہ کیوں نہ سمجھیں کہ جن باتوں کو دُعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے وہ اتفاقاً ہوجاتی ہیں ہم کہتے ہیں یہ اعتراض معقول ہے بعض غیر معمولی واقعات اتفاقاً بھی ہو جایا کرتے ہیں لیکن دُعائوں کی قبولیت کے ساتھ بعض امور متعلق ہیں جن کی موجودگی میں نہیں کہہ سکتے کہ جو نتائج پیدا ہوئے ہیں وہ اتفاقاً ہوئے ہیں اول تو یہ کہ دُعائوں کے ساتھ ساتھ واقعات میں تبدیلی ہوتی جاتی ہے جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تبدیلی اتفاقی نہیں بلکہ کسی ارادہ کے ماتحت ہورہی ہے.دوسرے یہ کہ ایسے امور بھی دعائوں کےذریعہ سےپورے ہوتے ہیں کہ بغیر دُعا کے اتفاقاً بھی وہ نہیں ہوتے.تیسرے یہ کہ اس کثرت سے دُعائوں کےذریعہ سے غیر معمولی حالات پیدا ہوتے ہیں کہ اس کثرت کی موجودگی میں اتفاق کا لفظ بولا ہی نہیں جاسکتا.چوتھے یہ کہ دعا کرنے والے کوبسا اوقات قبل از وقت معلوم ہوجاتا ہےکہ اس کی دعا قبول ہوگئی ہے خواہ بذریعہ الہام خواہ بطور القاء کہ اس قبل از وقت علم کے بعد اس کا نام اتفاق رکھنا بالکل درست نہیں.غرض قبولیت دعا کے نظارے ایسے طور پر دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں اتفاق کا شطبہ تک بھی پیدا نہیں ہوسکتا.صفت حفیظ خدا کی ہستی کا ثبوت چوتھی مثال میں خدا تعالیٰ کی صفت حفیظ کی پیش کرتا ہوں تمام نبیوں نے شہادت دی ہے کہ خدا حفیظ ہے.اب آئو دیکھیں کہ کیا کوئی حفیظ ہستی ہے.جو قانون قدرت کے علاوہ حفاظت کے ثبوت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو پیش کرتا ہوںمکہ والوں نے آپ کو مارنا چاہا خدا تعالیٰ نے آپ ؐکو وقت پراطلاع دی اور فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ آپ ؐوہاں سے روانہ ہوگئے لیکن بعض مصالح کی وجہ سے راستہ میں ٹھہرنا پڑا.قریب کے پہاڑ کی ایک غار میں جس کامنہ چند فٹ مربع ہے اور جسے غار ثور کہتے ہیں آپ ٹھہر گئے مکہ والے تلاش کرتے کرتے اس جگہ تک جا پہچنے عربوں میں کھوج لگانے کاعلم بڑا یقینی تھا اور یہ ان کے لئے ضروری تھا کیونکہ وہ جنگلی لوگ تھے اگر اس کےذریعہ اپنے دشمنوں کا پتہ نہ لگایا کرتے تو تباہ ہوجاتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں بھی کھوجی لگائے گئے.اور وہی پتل لگاتے ہوئے اس غار تک مکہ والوں کے لے آئے وہاں آکر انہوں نے کہا کہ یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہاں ہے یا پھر آسمان پر چڑھ گیا ہے اس

Page 338

سے آگے نہیں گیا.جب یہ باتیں ہورہی تھیں تو نیچے آپ بھی سن رہے تھے.حضرت ابوبکر ؓ کو ڈر پیدا ہوا کہ مَیں اکیلا کیا کرسکوں گا ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ خدا کے رسولؐکو پکڑ لیں لیکن جس شخص کے متعلق آپ ڈر رہےتھے اور جو شخص حقیقتاً مکہ والوں کو مطلوب تھا وہ اس خوف کے وقت میں فرماتا ہے لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا٭ غم نہ کھا خدا ہمارے ساتھ ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ کھوجی جن کی بات پر ان لوگوں کو بہت ہی یقین ہوتا تھا وہ کہتے ہیں کہ آپ اس جگہ آئے ہیں مگر کوئی آگے بڑھ کر غار کے اندر نہیں جھانکتا اور یہ کہہ کر کہ یہاں ان کا ہونا نا ممکن ہے سب لوگ واپس چلےجاتے ہیں.میں جب مکّہ گیا تھا تو اس غار کو دیکھنے کے لئے بھی گیا تھا لیکن اوپر چڑھتے ہوئے میرا سانس پُھول گیا اور میں وہاں تک نہ جاسکا دوسرے آدمی کو بھیجا کہ جاکر دیکھ آئے.اس نے آکر بتایا کہ اس غار کا منہ اچھا چوڑا ہے ایک چارپائی کے قریب ہے لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ ہرایک بات اس کی طرف اشارہ کررہی تھی کہ آپ اس غار میں ہیں اور وہ لوگ اس قدر جوش سے آپ کی تلاش میں آئے تھے مگر باوجود آپ کی گرفتاری کی دلی خواہش کے اور واقعات کے آپ کے وہاں موجود ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے ان کو اس قدر توفیق نہ ملی کہ ذرا جُھک کر غار میں دیکھ لیتے ان کے سامنے کوئی توپ نہیں تھی جس کا انہیں در ہوسکتا تھا نہ کوئی اور روک اور مشکل تھی.لیکن ان میں سے کوئی بھی غار کو نہیں دیکھتا اور سارے واپس چلے جاتے ہیں.آپ کے اِنَّ اللہَ مَعَنَا کہنے کے بعدا ن لوگوں کا اس طرح خائب و خاصر چلے جانا کیا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک زبردست طاقت کی حفاظت میں تھے.ایک مثال حفاظتِ الٰہی کی مَیں حضرت مسیح موعودؑکی زندگی میں سے بھی پیش کرتا ہوں.کنورسین صاحب جو لاءکالج لاہور کے پرنسپل ہیں ان کےوالد صاحب سے حضرت صاحبؑ کو بڑا تعلق تھا حتّٰی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو کبھی روپیہ کی ضرورت ہوتی توبعض دفعہ ان سے قرض بھی لے لیاکرتے تھے ان کو بھی حضرت صاحب سے بڑا اخلاص تھا.جہلم کے مقدمہ میں انہوں نے اپنے بیٹے کو تار دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سےوکالت کریں اس اخلاص کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایاّمِ جوانی میں جب وہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع چند اور دوستوں کے سیالکوٹ میں اکھٹے رہتے تھے حضرت مسیح موعود کے کئی نشانات دیکھے تھے چنانچہ ان نشانات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک رات آپ دوستوں سمیت سورہے تھے کہ آپ کی آنکھ کُھلی اور دل میں ڈالا گیا کہ مکان خطرہ میں ہے *بخاری کتاب التفسیر باب ثانی اثنین اذھما فی الغار

Page 339

آپ نے سب دوستوں کو جگایا اور کہا کہ مکان خطرہ میں ہے اس میں سے نکل چلنا چاہئے.سب دوستوں نے نیند کی وجہ سے پرواہ نہ کی اور یہ کہہ کر سوگئے کہ آپ کو وہم ہوگیا ہے مگر آپ کا احساس برابر ترقی کرتا چلا گیا آخر آپ نے پھر انکو جگایا اورتوجہ دلائی کہ چھت میں سے چر چراہٹ کی آواز آتی ہے مکان کو خالی کردینا چاہئے انہوں نےکہا معمولی بات ہے ایسی آواز بعض جگہ لکڑی میں کیڑا لگ جانے سے آیا ہی کرتی ہے.آپ ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہے مگر آپ نےاصرار کرکے کہا کہ اچھا آپ لوگ میری بات مان کر ہی نکل چلیں آخر مجبور ہو کر وہ لوگ نکلنے پر رضا مند ہوئے حضرت صاحب کو چونکہ یقین تھا کہ خدا میری حفاظت کے لئے مکان کے گرنے کو روکے ہوئے ہے.اس لئے آپ نے انہیں کہا کہ پہلے تم نکلو پیچھے میں نکلوں گا.جب وہ نکل گئے اور بعد میں حضرت صاحب نکلے تو آپ نے ابھی ایک ہی قدم سیڑھی پر رکھا تھا کہ چھت کی حالت اس قسم کی تھی نہ آواز ایسی تھی کہ ہر ایک شخص اندازہ لگا سکے کہیہ گرنے کو تیار ہے.علاوہ ازیں جب تک آپ اصرار کرکے لوگوں کو اُٹھاتے رہے اس وقت تک چھت اپنی جگہ پر قائم رہی اور جب تک آپ نہ نکل گئے تب تک بھی نہ گری مگر جو نہی کہ آپ نے پائوں اُٹھایا چھت زمین پر آکر گری.یہ امر ثابت کرتا ہے کہ یہ بات کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اس مکان کو حفیظ ہستی اس وقت تک روکے رہی جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی حفاظت اس کے مد نظر تھی اس مکان سے نہ نکل آئے.پس صفت حفیظ کا وجود ایک بالارادہ ہستی پر شاہد ہے اور اس کا ایک زندہ گواہ ہے.صفت خالقیت خدا کی ہستی کا ثبوت پانچویں مثال کے طور پر میں صفت خلق کو بیان کرتا ہوں.یہ بات واضح ہے کہ اگر تمام تخلیق کے علاوہ جو دنیا میں ایک مقررہ قاعدہ کے ماتحت ہو رہی ہے ایک خاص تخلیق بھی ثابت ہوجائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی قدرت میں ہے کہ جو چاہے پیدا کرےاور یہ خدا تعالیٰ کے موجود ہونے کا ایک زبردست ثبوت ہوگا.اس صفت کے ثبوت کے طو ر پر مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.آپؐایک دفعہ کہیں جارہے تھے کہ آپ کے ساتھیوں کے پاس جو بانی تھا وہ ختم ہوگیا.اتنے میں آپ نے دیکھا کہ ایک عورت پانی لئے جارہی ہے.آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہاں سے پانی کتنے فاصلہ پر ہے؟ اس نے کہا تین منزل پر چونکہ ایک لشکر آپ کے ساتھ تھا اور پانی ختم ہوچکا تھا آپؐنے اس سے پانی کا مشکیزہ لے لیا اور اس کے منہ پر اتنا ہاتھ رکھ کر لوگوں

Page 340

کو پانی دے دیا اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت دی کہ سب کی ضرورت بھی پوری ہوگئی اور اس عورت کے لئے بھی پانی بچ رہا یہ ایک زبردست نشان صفت خالقیت کے ثبوت میں ہے اور اس واقعہ کے سچّے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب اس واقعہ کو اس کی قوم نے معلوم کیا تو وہ سب کی سب مسلمان ہوگئی.ایک ایسا واقعہ جس پر قوم کی قوم مذہب تبدیل کرے.راویوں کے ذہن کی بناوٹ نہیں کہلا سکتا.اگر کوئی کہے کہ یہ تو ایک قصّہ ہے جو بعد میں بنالیا گیا ہے تو مَیں کہتا ہوں کہ اس قسم کی تازہ مثالیں بھی موجود ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود کا ہی ایک واقعہ ہے جس کے گواہ ابھی زندہ موجود ہیں اور وہ یہ کہ حضرت صاحب ایک دفعہ سوئے ہوئے تھے.مولوی عبداللہ صاحب سنوری آپؑکے پائوں دبا رہے تھے.انہوں نے پائوں دباتے دباتے دیکھا کہ گوئی گیلی گیلی چیز آپ کے پائوں پر گری ہے.ہاتھ لگا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گیلا سُرخ رنگ ہے.وہ کہتے ہیں کہ مَیں حیران ہوا کہ یہ کیا چیز ہے اور یہ خیال کرکے کہ شاید چھپکلی وغیرہ کا خون ہو میں نےچھت کی طرف جو دیکھا تو وہ بالکل صاف تھی اور اس پر چھپکلی کا کوئی نشان نہ تھا پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ٹوپی کو دیکھا تو اس پر بھی کچھ چھینٹے تھے حضرت مسیح موعودؑاس وقت کسی قدر بیدار ہوئے اور آنکھیں کھولیں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور مَیں نے دیکھا کہ آپ کے کُرتے پر بھی کئی چھینٹے ویسے ہی سُرک رنگ کے پڑے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے آپ سے پوچھا کہ یہ نشان تازہ بتازہ پڑے ہیں یہ کیسے ہیں؟پہلے تو آپ نے فرمایا کسی طرح نشان پڑگئے ہوں گے.مگر جب مَیں نے زور دیا کہ حضور یہ تو میرے دیکھتے ہوئے پڑے ہیں اور تازہ ہیں تو پھر آپ نے سنایا کہ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بطور جج کے بیٹھا ہے اور میں ریڈر کے طور پر سامنے کھڑا ہوا اور کچھ کاغذات دستخظوں کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے سرخی کی دوات میں قلم ڈبوئی اور قلم کو چھڑکا جس کے چھینٹے میرے کپڑوں پر گرے اور اس کا اثر ظاہر میں بھی ظاہر ہوگیا ٭یہ خواب تفصیل سے آپ ؑکی کتب میں موجود ہے.اب دیکھو یہ خلق ہے یا نہیں؟وہ سرخی اگر خدا نے پیدا نہیں کی تھی تو کہاں سے آئی تھی؟غرض اب بھی صفت خلق کے ماتحت نشان دکھائے جارہے ہیں مگر اسکے نظائر مومنوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں.خود میرا پنا ایک مشاہدہ ہے.ایک دفعہ میں سو رہا تھا مَیں نے سوتے سوتے دیکھا کہ میرے منہ میں مشک ڈالی گئی ہے.جب مَیں اُٹھا تو منہ سے مشک کی خوشبو آرہی تھی مَیں نے سمجھا شاید خواب کا *بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوہ فی الإسلام،تذکرہ ص ۱۲۶،۱۲۷ ایڈیشن چہارم

Page 341

اثر ہے اور گھر والوں کو کہا کہ میرا منہ سونگھو انہوں نے بھی بتایا کہ مشک کی خوشبو آتی ہے یہ ایک قسم کی نئی پیدائش ہی تھی جو خدا کی صفت خالقیت کے ماتحت ہوئی.شاید بعض لوگ کہیں کہ اس قسم کی باتیں خدا کے ماننے والے ہی کہتے ہیں ان کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ماننے والوں کی باتیں بھی ماننی ہی پڑتی ہیں.اگر راستباز سمجھدار آدمی جن کو جھوٹ بول کر کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو ایسے امور کی شہادت دیں تو کیا وجہ ہے کہ ان کی شہادت کو قبول نہ کیاجائےا ور اس قسم کی شہادتیں مؤمن ہی دے سکتے ہیں کیونکہ ایسے واضح نشانات مؤمنوں کو ہی دکھائے جاتے ہیں کیونکہ اگر نہ ماننے والوں کو بھی ایسے نشانات دکھائے جائیں تو پھر ان کا ایمان لانا کوئی خوبی نہیں رہ سکتا اوران کا ایمان بے فائدہ ہوجاتا ہے.سورج کو دیکھ کر اسے ماننے پر کسی انعام کا انسان امیداوار نہیں ہوسکتا.اسی طرح اگر ایسے شواہد غیر مؤمن دیکھیں تو ان کے ایمان بے نفع ہوجائیں پس یہ نظارے ایمان کے بعد ہی دکھائے جاتے ہیں.صفتِ شافی کی شہادت چھٹی مثال کے طور پر میں خدا تعالیٰ کی صفت شفاء کو پیش کرتا ہوں.اگر یہ ثابت ہوجائے کہ بعض مریض ایسے طریق پر اچھے ہوتے ہیں جو طبعی طریقوں کے علاوہ ہیں یا ایسے مریض اچھے ہوتے ہیں جو عام طور پر اچھے نہیں ہوسکتے.تو ماننا پڑیگا کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس کے اختیار میں شفا ء ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے اس اختیار کو استعمال بھی کرتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فضل سےغیر معمولی طور پر شفاء بعض مریضوں کو ملتی ہے بغیر اس کے کہ طبعی ذرائع استعمال ہوں یا ان موقعوں پر شفا ملتی ہے کہ جب طبعی ذرائع مفید نہیں ہوا کرتے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات میں سے اس قسم کی شفاء کی ایک مثال جنگ خیبر کے وقت ملتی ہے خیبر کی جنگ کے دوران میں ایک دن آپؐنے صحابہ سے فرمایا کہ خیبر کی فتح اس شخص کے لئے مقدر ہے جس کے ہاتھ میں مَیں جھنڈا دونگا.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب وہ وقت آیا تو مَیں نے گردن اونچی کرکر کے دیکھنا شروع فرمایا.اتنے میں حضرت علیؓآئے اوران کی آنکھیں سخت دُکھ رہی تھیںآپؐنے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور آنکھیں فوراً اچھی ہوگئیں اور آپؐنے ان کے ہاتھ میں جھنڈا دیکر خیبر کی فتح کا کام ان کے سُپرد کیا.(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر)

Page 342

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے سارے واقعات چونکہ محفوظ نہیں.اس لئے اس قسم کی زیادہ مثالیں اب نہیں مل سکتیں ورنہ مَیں سمجھتا ہوں کہ سینکڑوں ہزاروں مثالیں آپ کی زندگی میں مل سکتی ہوںگی.مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جبکہ دہریت کا بہت زور ہے اور اس کے توڑنے کے لئے آسمانی نشانوں کی حد درجہ کی ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے بہت سے نشانات اس قسم کےدکھائے ہیں جن پر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کا قیاس کرسکتے ہیں.مثال کے طور پر مَیں ایک صاحب عبد الکریم نامی کا واقعہ پیش کرتا ہوں وہ قادیان میں سکول میں پڑھا کرتے تھے انہیں اتفاقاً بائولے کُتّے نےکاٹ کھایا اس پر انہیں علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا اور علاج ان کا بظاہر کامیاب رہا لیکن واپس آنے کے کچھ دن بعد انہیں بیماری کا دورہ ہوگیا جس پر کسولی تار دی گئی کہ کوئی علاج بتایا جائے؟ مگر جواب آیا: ’’ NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM ‘‘ افسوس ہے کہ عبدالکریم کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعودؑ کو ان کی بیماری کی اطلاع دی گئی چونکہ سلسلہ کی ابتداء تھی اور یہ صاحب بہت دور دراز سےعلاقہ حید آباد کن کے ایک گاؤں سے بغرض تعلیم آئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت ہمدردی پیدا ہوئی اور آپؑنے ان کی شفاء کے لئے خاص طور پر دُعا فرمائی اور فرمایا کہ اس قدر دورسے یہ آئے ہیں جی نہیں چاہتا کہ اس طرح ان کی موت ہو.اس دعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دورہ ہوجانے کے بعد شفاء دیدی٭حالانکہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اس قسم کے مریض کو کبھی شفاء نہیں ملی.میرے ایک عزیز ڈاکٹر ہیں انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ ہستی باری پر ایک دوسرے طالب علم سے گفتگو کر رہے تھے دوران گفتگو میں انہوں نے یہی واقعہ بطور شہادت کے پیش کیا.اس طالب علم نے کہا کہ ایسے مریض بچ سکتے ہیں یہ کوئی عجیب بات نہیں وہ کہتے ہیں کہ اتفاقاً اسی دن کالج میں پروفیسر کا لیکچر سگ گزیدہ کی حالت پر تھا.جب پروفیسر لیکچر کیلئے کھڑا ہوا اور اس نے اس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اس مرض کا علاج دَورہ ہونے سے پہلے کرنا چاہئے اور بہت جلد اس طرف توجہ کرنی چاہئے وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے بات کو واضح کرانے کیلئے کہا کہ جناب بعض لوگ کہتے ہیں کہ دورہ پڑجانے کےبعد میں مریض اچھا ہوسکتا ہے.اس پر پروفیسر نے جھڑک کر کہا کہ کبھی نہیں جو کہتا ہے وہ بیوقوف ہے.غرض یہ ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا اورنہ کبھی ہوا ہے مگر حضرت مسیح موعودؑ کی دُعا *تتمہ حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ص ۴۸۰،۴۸۱

Page 343

سے اللہ تعالیٰ نے میاں عبدالکریم کو شفا دی اور وہ خدا کےفضل سے اب تک زندہ ہیں.پس ثابت ہوا کہ اس طبعی قانون کے اوپر ایک ہستی حاکم ہےجس کے ہاتھ میں شفاء دینےکی طاقت ہے.صفتِ عالم الغیب ساتویں مثال کے طور پر میں صفت عالم الغیب کو پیش کرتا ہوں اس میں کیا شک ہے کہ اگر انسان کو بلا ظاہری تدابیر کے ایسے علوم پر آگاہی حاصل ہونے لگے جن کا جاننا انسان کے لئے ناممکن ہے تو ماننا پڑے گا کہ ایک عالم الغیب خدا موجود ہے.جس کی طرف سے اپنے خاص بندوں کو خاص علم دیا جاتا ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کیوں نہ مانا جائے کہ ایسےلوگوںکو علم غیب معلوم کرنےکا کوئی طریق معلوم ہوگیا ہے وہ اسی طریق کےذریعہ سےعلمِ غیب معلوم کرکے ایک وہمی خدا کی طرف منسوب کردیتے ہیں.مگر مَیں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات ہوتی کہ ان لوگوں کو کوئی خاص طریق معلوم ہوگیا ہوتا تو وہ کیوں اس کے ذریعہ سے اپنی بڑائی نہ منواتے اور کیوں خواہ مخواہ اس علم کو کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرتے اور ساتھ ہی اپنی کمزوری اور اس کی طاقت کا اظہار کرتے رہتے اوراپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں ہیچ اور زلیل قرار دیتے.دیکھو مشہور موجود ایڈیسن جب کوئی ایجاد کرتا ہے تو کیا وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے کسی جن نے یا بالا طاقت نے یہ بات بتائی ہے یا جو اور موجد ہیں وہ کبھی ایسا کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں شخص نے یہ ایجاد کرکے دی ہے.بلکہ موجد تو یہی کہتے ہیں کہ ہم نے خود ایجاد کی ہے اس لئے ہماری قدر کرو.لیکن علمِ غیب کے ظاہر کرنےوالے تو سب کے سب کہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں خدا ہی ہمیں سب کچھ بتاتا ہے اور اس کے کہنے کے مطابق ہم کہتے ہیں.دوسرے یہ کہ اگر یہ ان کا کسی علم ہوتا تو وہ اپنی اولاد کو آگے یہ علم کیوں نہ سکھاجاتے مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ ان کی اولاد اکثر اوقات ان کی طرح خدا سے غیب پانے والی نہیں ہوتی یا اس حد تک نہیں ہوتی.پس اعتراض بالکل وہم اور بیہودہ ہے.اب میں علمِ غیب کی چند مثالیں پیش کرکےبتاتا ہوں کہ کس طرح ان سےایک عالم الغیب ہستی کا ثبوت ملتا ہے.پہلی مثال تو حضرت مسیح موعودؑکی وہ پیشگوئی ہے جو آپ نے جنگ عظیم کے متعلق فرمائی.جنگ سے نو سال پہلے آپؑ نے یہ خبر شائع کردی تھی کہ ایک عالمگیر تباہی دُنیا میں آنے والی ہے جس میں زار روس تباہ ہوگا اور سخت تکلیف اور دُکھ دیکھے گا.اس پیشگوئی میں بہت سی

Page 344

پیشگوئیاں مخفی ہیں.اوّل یہ کہ ایک عظیم الشان جنگ ہونےوالی ہے جو عالمگیر ہوگی دوسرے یہ کہ زار روس اس وقت تک باوجود ملک میں عام بغاوتوں کے پائے جانے کے اپنی ملک کی حکومت پر قابض رہے گا.تیسرے یہ کہ اس عالمگیر جنگ میں زار روس بھی حصہ لے گاچوتھے یہ کہ اس کے دوران میں ایسے سامن پیدا ہوں گے کہ اس کی حکومت جاتی رہے گی.پانچویں یہ کہ وہ اس وقت مارا نہیں جائے گا بلکہ زندہ رہے گا اور اپنی مصیبت اور ذلّت کو دیکھے گا جو معمولی نہ ہوگی بلکہ کامل ذلّت ہوگی اب دیکھو کہ نو سال کے بعد جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فوت بھی ہوچکے تھے یہ پیشگوئی کس زور سے پوری ہوئی ایک ایک بات اسی طرح واقع میں آئی جس طرح کہ آپ نے بیان فرمائی تھی یہ کیسا زبردست نشان ہے.اگر کوئی ذرا بھی سوچے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ نشان ایک علیم ہستی کے وجود پر زبردست شہادت ہے.روس کے بادشاہ کی کتنی بڑی طاقت تھی مگر اچانک ایسے حالات پیدا ہوگئے اور وہ اس طرح ذلیل ہوا کہ پتھر سے پتھر دل کو اس کے حالات سُن کر رحم آجاتا ہے.جب وہ معزول ہوا اس وقت وہ خود فوج کی کمانڈ کر رہا تھا اسے دارالسلطنت سےتار گئی کہ پیچھے ملک میں فساد ہوگیا ہے اس نے جواب دیا کہ لوگوں کو سمجھائو گورنت نےتار دی کہ لوگ سمجھانے سےنہیں باز آتے اس نے جواب میں تار دی کہ سختی کرو اس پر گورنر کی تار آئی کہ سختی سے اور بھی جوش بڑھ رہا ہے.اس پر زاؔر نے جواب دیا کہ اچھا مَیں خود آتا ہوں.راستہ میں پھر تار ملی کہ فساد بڑھ رہا ہے زارنے جواباً پہلے گورنر کو بدل کر دوسرے گورنر کے مقرر کئے جانے کی ہدایت بھیجی.ابھی راستہ میں ہی تھا کہ اور تار ملی کہ حالت بہت نازل ہوگئی ہے اور آپ کا آنا مناسب نہیں مگر اس نے جواب دیا کہ نہیں میں آئوں گا.ابھی تھوڑی ہی دور ریل چلی تھی کہ پھر تار ملی کہ بغاوت عام ہوگئی ہے مگر اس وقت بھی اسے یہی خیال تھا کہ میں جاکر سب کو سیدھا کرلوں گا اورا س نے ریل کو آگے لے جانے کا حکم دیا ابھی دو چار گھنٹے کا سفر طے کیا کیا تھا کہ ایک سٹیشن پر اس کی ریل ٹھہرا لی گئی اور نئی حکومت کی طرف سے اس کی گرفتاری کے وارنٹ لیکر لوگ آپہنچے اور اسے گرفتار کر لیا وہ ایک زبردست بادشاہ کی حیثیت میں ریل پر چڑھا تھا.ہاں ایسے زبرست بادشاہ کی حیثیت میں کہ انگریزی حکومت بھی باوجود اپنی وسعت کے اس سے ڈرتی تھی لیکن ابھی اس کا سفر ختم نہ ہوا تھا کہاسی گاڑی میں ایک معمولی قیدی کی حیثیت میں قید کیاگیا اس کے بعا اسے جس طرح دُکھ دئیے گئے وہ نہایت ہی دردناک ہیں غنڈوں نے اس کے سامنے اس کی لڑکیوں سے زنا بالجبر کیا اور اس کو مجبور کرکے یہ حرکات دکھاتے رہے اس سے اندازہ کرلو کہ زار کا حال کیسا حال

Page 345

زار ہوا اور کس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی یہ پیشگوئی کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار ‘‘ ہیبت ناک طور سےپوری ہوئی.اس صفت کے متعلق ایک چھوٹا سا تجربہ اپنا بھی سنا دیتا ہوں.ہماری جماعت کے ایک ڈاکٹر ہیں ان کے متعلق خبر آئی کہ وہ بصرہ کی طرف مارے گئے ہیں.اس خبر کے آئے چند روز ہی پہلے ان کے والد اور والدہ قادیان بغرض ملاقات آئے تھے.مَیں نے ان کو دیکھا کہ وہ بہت ہی ضعیف تھے.ج س وقت مَیں نے یہ خبر سنی میری اانکھوں کے سامنے ان کے ضعف کا نقشہ کھنچ گیا اور ساتھ ہی یہ خیال غزرا کہ ڈاکٹڑ صاحب ان کے اکلوتے بیٹے ہیں (گو بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے اور بھی بیٹے تھے) اور میرے دل کو اس غم کا خیا ل کرکے جو ان کو پہنچا ہوگا سخت تکلیف ہونی اور بار بار میرے دل میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ کاش وہ نہ مرے ہوں،گو بظاہر یہ خیال بیوقوفی کا ہو مگر میں سمجھتا ہوں الٰہی تحریک کے ماتحت اور دُعا کرانےکی غرض سے تھا.خیر جب میں رات کو سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ تین دن ہوئے ہیں کہ وہ زندہ ہوگئے ہیں.مَیں نے دوسرے دن کھانے کے وقت اپنے بعض عزیزوں کو یہ خواب سنائی میرے چھوٹے بھائی نے کہ جن کی ڈاکٹڑ صاحب کے ایک رشتہ کے بھائی سے دوستی تھی اور جو قادیان میں رہتے ہیں.اس خواب کا ذکر کر دیا.ناہوں نے اپنے گھر اطلاع کردی اس کے جواب میں ان کو خط ملا کہ ان کی خواب پوری ہوگئی ہے.عراق سے اطلاع آگئی ہے کہ ان کی موت کے متعلق غلطی لگی تھی ان کو بدو پکڑ کرلے گئے تھے اور غلطی سے یہ خیال کر لیا گیا کہ وہ مارے گئے ہیں لیکن بعد میں ایک موقع ملنے پر وہ بھاگ کر خیریت سے واپس آگئے ہیں.اسی قسم کا ایک ذاتی تجربہ میں بیان کرتا ہوں.گذشتہ سال کے سفرِ کشمیر میں مَیں نے دیکھا کہ ایروپلین کے ذریعہ میرے پاس ایک خط آیا ہے.مَیں نے یہ خواب دوستوں کو سنائی اورپھر خود بھول گیا.چند ہی دن بعد ایک خط آیا جس پر لکھا تھا BY AIRFORCEاور اسے دیکھ کر میاں عبدالسلام صاحب حضرت خلیفہ اوّل کے صاحبزادے نے وہ رئویا یاد دلائی.یہ تو خدا تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی مثالیں ہیں.اس کے سوا اقتداری علم بھی ہستی باری کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے.اقتداری علم کی بری مثال خود قرآن کریم ہے.اس کے متعلق دعویٰ ہے کہ کوئی ایسا کلام بنا کر نہیں لا سکتا بلکہ اس جیسی تین آیات بھی بنا کر پیش نہیںکرسکتا.قرآن کریم انہیں الفاظ میں ہے جن کو سب استعمال کرتے ہیں اور عربی بولنے والے لوگوں میں اسلام کے دشمن *تذکرہ ص ۵۴۰ ایڈیشن چہارم

Page 346

بھی ہیں اور خود مذہب کے دشمن بھی ہیں دہریے بھی ہیں مگر اب تک کسی میں یہ طاقت نہیں ہوئی کہ قرآنِ کریم کے اس دعویٰ کو رد کرسکے.دوسری مثال حضرت مسیح موعودؑکی عربی کتب ہیں.آپؑنے بھی ان کے بے مثل ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور چیلنج دیا ہے کہ کوئی ان کا جواب بنا سکتا ہے تو بنا کر دکھائے باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعودؑعجمی تھے اور آپؑ کے دمن بڑے بڑے علماء عجم کے علاوہ علمائے عرب بھی تھے مگر سب لوگ آپ ؑکی غلطیاں نکالنے کا دعویٰ تو کرتے رہے مگر آپ ؑکی کتب کی مثل لانے کیلئے سامنے نہ آئے پچھلے دنوں یہاں پروفیسر مار گولیتھ صاحب آئے تھے وہ انگریزوں میں سے عربی کے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں.ان سے میری معجزات پر گفتگو ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ کیا قرآن والا معجزہ اب بھی دکھایاجاسکتا ہے یہ عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے پکڑ کر ان کے منہ سے اس معجزہ کا مطالبہ کروایا جو حضرت مسیح موعود ؑکےہاتھ پر ظاہر ہوچکا تھا.مَیں نے کہا ہاں اس زمانہ میں بھی دکھایا جاسکتا ہے بلکہ دکھایا گیا ہے.مَیں نے حضرت مسیح موعود کی کتاب الہدیٰ اس کےسامنے رکھدی اور کہا اس کی نظیر لانے والے کے لئے حضرت صاحب نے بیس ہزار کا انعام رکھا ہے اور مَیں یہ اقرار لکھ دیتا ہوں کہ جو اس کی مثل لے آئے گا اسے میں یہ انعام دے دوں گا اس پر وہ خاموش ہوگیا.یہ چند مثالیں مَیں نے خدا کی صفات کی دی ہیں.ان سےپتہ لگتا ہے کہ خدا کی ہرصفت اس کی ہستی کی دلیل ہے پس خدا کو ثابت کرنے کے لئے نہ فلسفہ کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی جب کوئی پوچھے کہ خدا کی ہستی کا کیا ثبوت ہے.تو اس وقت خدا کی جو صفت بھی بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی سامنے آئے وہ پیش کردی جائے.اسکے مقابلہ میں کوئی نہ ٹھہر سکے گا.خدا تعالیٰ کے کم از کم ننانوے نام ہیں.اس لئے ننانوے ہی صفات ہوئیں اوران میں سے ہر ایک خدا کی ہستی کی دلیل ہے.صفات پر اعتراض اور اس کا جواب ان دلائل کے بیان کرنے کے بعد میں چند ان اعتراضات کا جواب دیتا ہوں جو صفات الٰہیہ پر منکرین ہستی باری کیا کرتے ہیں.ان میں سے بعض صفات باری کا ذکر سن کر کہا کرتے ہیں کہ ہم لمبی اور پُرانی بحثوں میں نہیں پڑتے تم کم از کم ہمیں تین باتوں کا مشاہدہ کرادو یعنی اوّل خدا کے علم کا ،دوسرے خدا کی قدرت کا ،تیسرے خدا کی خلق کا، اگر خدا کو علم ہے تو یہ کتاب پڑی ہے اس کو پڑھ دے اگر قدرت ہے تو یہ تنکا پڑا ہے اسے اُٹھالے.اگر وہ خالق ہے تو یہ مٹی کا ڈلہ پڑا ہے اس سے

Page 347

کچھ بنا کر دکھا دے.جب حضرت صاحب ؑنےیہ دعویٰ کیا کہ خدا مجھ پر علم غیب ظاہر کرتا ہے تو ایک پادری نے اسی قسم کا سوال کیا تھا اس نے کہا کہ مَیں چند سوال لکھ کر بند کرے رکھ دوں گا آپ خدا سے پڑھوا کر بتا دیں کہ کیا سوال ہیں؟ حضرت صاحب ؑنے اس کے جواب میں فرمایا.چلو ہم تمہاری یہی بات مان لیتے ہیں.بشرطیکہ عیسائیوں کی ایک جماعت اقرار کرے کہ صحیح جواب ملنے پر وہ مسلمان ہوجائیں گے ورنہ خدا تماشہ نہیں کرتا کہ لوگوں کی مرضی کے مطابق جس طرح وہ کہیں نشان دکھاتا رہے.غرض منکرین یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو اس کے علم کی ،قدرت کی اور خلق کی تازہ بتازہ مثالیں جس قسم کی ہم کہتے ہیں دکھا دو.جواب اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک سوال کی دو غرضیں ہوتی ہیں.سوال یا تو اپنے علم کی زیادتی کیلئے کیاجاتا ہے یا دوسرے کے علم کا امتحان لینے کے لئے اور اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جس سے سوال کیاجائے اس کی جو حیثیت ہو اسی کے مطابق سوال کیاجائے مثلاً اگر ایک سپاہی کو ایک لفٹینٹ ملے اور وہ سپاہی اس سے کچھ دریافت کرنا چاہے تو وہ اس طرح نہیں کرے گا کہ اسے کان سے پکڑ کر کہے کہ بتائو فلاںبات کس طرح ہے؟ بلکہ سارے آداب کو مدِّ نظر رکھ کر اس سے بات کرے گا.غرض جو اپنے سے بالا ہو اس سے سوال کرنے کے اور آداب ہوتے ہیں اور جو کمتر ہو اس کے آداب اور ہوتے ہیں اور جو لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ اسے ایک طالب علم یا امید وار ملازمت کی حیثیت میں نہیں پیش کرتے کہ ممتحن یا ملازم رکھنےوالے اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہیں اور جو چاہیں اس سے پوچھیں وہ بادشاہ ہے سب بادشاہوں کا مالک ہےآقا ہے حاکم ہے خالق ہے محسن ہے ہمارا ذرّہ ذرّہ اس کی پیدائش ہے اگر ایک شخص اس کی ذات عالی کے متعلق بطور فرض کے بھی سوال کرتے تو اسے مدنظر رکھنا ہوگا کہ وہ کس ہستی کے متعلق سوال کر رہا ہے.ذرا غور کرو کہ اگر کوئی کہے کہ مَیں سُپر نٹنڈنٹ پولیس ہوں یا ڈپٹی کمشنر ہوں تو کیا لوگ یہ کیا کرتے ہیں کہ اپنی مرضی کے سوالات بنا کر اس کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو حل کرو.تب ہم تمہیں افسر پولیس یاڈپٹی کمنشر مانیں گے.دُنیا میں کوئی شخص بھی حکام کی حقیقت معلوم کرنےکے لئے ایسا نہیں کرتا بلکہ اگر شک ہو تو ان سے ثبوت طلب کرتے ہیں آگے ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جس رنگ میں چاہیں ثبوت دیں اگر وہ ثبوت ان کے دعویٰ کو ثابت کرنے والا ہو تو لوگوں کو ماننا پڑتا ہے خواہ وہ اس رنگ کا ثبوت کہ لوگ چاہتے تھے

Page 348

اسی طرح کیا کوئی شاگرد یہ بھی کہا کرتا ہے کہ مِیں استاد کا امتحان پہلے لے لوں پھر سمجھوں گا کہ وہ میرا استاد بننے کے قابل ہے یا نہیں.جب وہ اس ے پڑھے گا اسے خود ہی اس کی قابلیت یا جہالت کا علم ہوجائے گا یا بادشاہ کی مثال لو اگر کسی بادشاہ کے متعلق کوئی سوال مثلاًیہی ہو کہ وہ گھوڑے کی سواری جانتا ہے یا نہیں تو کیا منکر اس سوال کو اس طرھ حل کرے گا کہ کہے گا کہ فلاں گھوڑے پر چڑھ کر فلاں گلی میں سے گذرے تب میں مانوں گا کہ وہ سوا ہے یا یہ کرے گا کہ اگر بادشاہ سے پوچھ سکتا ہے تو اس سے پوچھ لے گا کہ کیا اپ سواری اچھی جانتے ہیں؟ پوچھ بھی نہیں سکتا تو جو اس کے مقرب ہیں ان سے دریافت کرے گا اور اگر یہ بھی طاقت نہیں تو ایسے موقع کا منتظر رہے گا جب وہ سوار ہو کر نکلے اور یہ اس کی سواری کا اندازہ کرسکے اگر ایسا شخص بادشاہ کے پاس جاکر اس قسم کا سوال کریگا کہ چل کر امتحان دو تو یقیناً یہ سزا پائے گا.پس خدا تعالیٰ چونکہ ہمارے ماتحت نہیں بلکہ ہم اس کے ماتحت ہیں اور وہ سب پر غالب اور سب کا حاکم ہے اس لئے اس کا پتہ لگانے کے لئے یہ کہنا درست نہیں کہ جس طرح ہم کہیں اس طرح کردے تو ہم مانیں گے.بلکہ خدا کے انبیاءؑسےاس کی ہستی کے متعلق دریافت کرنا چاہئے جو خدا تعالیٰ کو اس کی شان کے مطابق تمام آداب کو مدّنظر رکھ کر اس کا پتہ لگاتے ہیں یا خود خدا تعالیٰ کی شان کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کا پتہ لگانا چاہئے اور خدا تعالیٰ جو ثبوت پیش کرے اگر وہ ثبوت کی حد تک پہنچ جائے تو اسے قبول کرنا چاہئےنہ کہ یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح ہم خود چاہیں اس طرح خدا کردے.اگر کہا جائے کہ بادشاہ کی مثال درست نہیں کیونکہ بادشاہ آدمی ہو ہوتا ہے اور وہ انسان کی ہر ایک خواہش کو پرا نہیں کرسکتا.لیکن خدا تعالیٰ تو پورا کرسکتا ہے پھر اس کے متعلق کیوں نہ یہ کہیں کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں اسی طرح وہ اپنی ہستی کا ثبوت دے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ بادشاہ اس لئے لوگوں کے مطالبات کے مطابق اپنا امتحان نہیں دیتا کہ اس کا وقت خرچ ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسے اپنے عہدہ کےخلاف سمجھتا ہے.پس خدا تعالیٰ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے کس طرح ان مطالبات کو قبول کرسکتا ہے.دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اگرانسان کی خواہش کو پورا کرکے ہی خدا کی ہستی کا ثبوت دیا جاسکتا ہے تو پھر درحقیقت خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہی نہیں کیاجاسکتا فرض کرو دو شخص سندر سنگھ اور آتما سنگھ ہوں اور ان میں مقدمہ ہو.ان میں سے ہر ایک کہے کہ میرے نزدیک خدا کی ہستی کا ثبوت یہ

Page 349

ہوسکتا ہے کہ اس مقدمہ میں مَیں جیت جاؤں اور مَیں صرف اسی صورت میں اسے مان سکتا ہوں تو خدا تعالیٰ کس کے مطالبہ کو پرا کرے اگر ایک کے مطالبہ کو پورا کرے تو دوسرا نہ مانے گا یا مثلاً گذشتہ جنگ میں ہی جرمن کہتے کہ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو ہم اسے مان لیں گے.ادھر انگریز کہتے کہ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو ہم اسے مان لیں گے.اب فتح تو ایک فریق کو ہی ہوسکتی تھی.اس لئے دوسرا فریق انکار پر قائم رہتا.پس اس طرح اگر خدا کا ثبوت طلب کرنا درست ہوتو یم سے کم آدھی دنیا کے لئے تو ہدایت کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا.چور کہتے کہ اگر ہمیں چوری میں کامیابی نہ ہوئی ہم سمجھیں گے کہ خدا کوئی نہیں.ادھر مال والے کہتے اگر ہماری چوری ہوئی تو ہم خدا کے وجود کے ہرگز قائل نہ ہوں گے اگر کوئی خدا ہے تو اسے چاہیے کہ ہمارے اموال کی حفاظت کرے یہی حال دوسری باتوں میں ہوتا اور اس طرح قانون قدرت بالکل تباہ ہوجاتا.اگر کہو کہ خدا کسی ایک کو ہی اس طرح ثبوت دے دیتا.تو باقی لوگ مان لیتے ہم کہتے ہیں.اگر یہ بات ہے تو کیا وجہ ہے کہ جو ثبوت خدا تعالیٰ نے دئیے ہیں تم ان کے یقینی ہونے کے باوجود ان کو نہیں مانتے اگر تمہاراحق ہے کہ جو تمہارے مطالبے کے سوا ثبوت دئیےجائیں انہیں رد کر دو تو کیوں یہی حق دوسروں کو حاصل نہیں اور اگر سب کو یہی حق حاصل ہو تو نتیجہ وہی نکلے گا جو اورپر بیان ہوچکا ہے اور بجائے ایمان کی ترقی کے بے دینی اور کفر ترقی کرے گا.خدا کو ماننے والوں کے اخلاق غرض خدا تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ ہوسکتا ہے.مگر اس کے منشاء کے ماتحت ہوسکتا ہے.یہ ہمارا حق نہیں کہ ہم ان نشانات کی تعیین کریں جن کے ذریعہ سے وہ اپنی چہرہ نمائی کرے.ایک اور اعتراض بھی خدا تعالیٰ کی ہستی پر کیاجاتا ہے اور وہ یہ ہےکہ خدا کو ماننے والے کہتے ہیں کہ خدا کے ماننے سےاعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں مگر اس کے برخلاف دیکھایہ جاتا ہے کہ سب بدتراخلاق خدا کو ماننے والوں کے ہوتے ہیں.یورپ کےدہریے بھی ایشیاءکے دہریے بھی یہی اعتراض کرتے ہیں.ہندوستان والے کہتے ہیں کہ خدا کو زیادہ ماننے والے مسلمان ہیں.اگر جیل خانوں میںجاکر دیکھو تو سب سے زیادہ مسلمان ہی قیدی نظر آئیں گے.اس طرح ہندو اور مسیحی بھی خدا کو مانتے ہیں ان کو بھی کافی تعداد جیل خانوں میں سڑ رہی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اخلاق کی خرابی خدا کے ماننے کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کو نہ ماننے کا نتیجہ ہے کسی شخص کا صرف منہ سے کہنا کہ مَیں خدا کو مانتا ہوں مفید نہیں ہوسکتا.کیا کونین کونین منہ سے کہنے

Page 350

سے بخار اُتر جاتا ہے؟ اگر نہیں تو صرف منہ سے یہ کہنے سے کہ خدا کو مانتا ہوں کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ پھر ہم کہتے ہیں ہندوستان کےدہریے دیو سماجی ہیں.وہ یوں بھی کہتے ہیں اور ٹریکٹوں میں بھی لکھتے ہیں کہ ان کی سماج میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں ان میں جرم کم ہوتے ہیں.اگر ان کے اس دعویٰ کو تسلیم کرلیا جائے تو بھی ہم کہتے ہیں کہ اس تعریف کے دیو سماجی مستحق نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ دیو سماجی بنانے سے پہلے ایک فارم پر کراتے ہیں جس پر داخل ہونے والا اقرار کرتا ہے کہ فلاں فلاں عیب سے پرہیز کرتا ہوں جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کی سماج میں اسی شخص کو داخل کیا جاتا ہے کہ جس میں بعض گناہ جو زیادہ نمایاں ہیں پہلے ہی سے نہ ہوں.پس ان کے گروہ کی اس میں کیا خوبی ہوئی کیا دوسریجماعتوں میں خوبیوں والے آدمی نہیں پائے جاتے.اگر وہ جماعتیں بھی اپنے معیوب آدمیوں کو باہر نکلا دیں تو کیا وہ دیو سماج سے ہزاروں گنے بڑھ کر پاک و صاف لوگ نہیں دکھا سکتیں.دیو سماجیوں کا دعویٰ ایسا ہی ہےجیسے کہ کوئی فوجی افسر دعویٰ کرے کہ دیکھو ہمارا فوجی انتظام کیسا اعلیٰ ہے کہ اس میں جو آتا ہے اس کی چھاتی چوڑی ہوجاتی ہے قد لمبا ہوجاتا ہے حالانکہ حق یہ ہے کہ فوج میں لیتے ہی ایسے شخص کو ہیں جو اچھے قد کا ہو اور اس کا سینہ چوڑا ہو اور یہ حالت فوج کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی.بلکہ ان حالات کےآدمیوں کو لینے کی وجہ سے فوج کو یہ خوبی حاصل ہوتی ہے.یا مثلاً کوئی ہسپتال میں جائے اور جاکر مریضوں کو دیکھے او ر کہے یہ اچھاہسپتال ہے جس میں کانے، لنگڑے ،لولے بیمار پڑے ہیں.حالانکہ ہسپتال بنایا ہی ایسے لوگوں کیلئے جاتا ہے جو بیمار ہوں.پس ہم کہتے ہیں یہ دیو سماج کی تعلیم کا اثر اور خوبی نہیں اگر اس میں عیب کرنیوالے کم ہوتے ہیں.کیونکہ اس میں داخل وہی کیاجاتا ہے جس کا متعلق اطمینان کرلیاجاتا ہے کہ وہ عیب چھوڑ چکا ہے پس دیو سماج کوئی مذہب نہیں کہ جس کا کام کمزوروں کی اصلاح ہوتا ہےبلکہ ایک کلب ہے کہ جس کا کام ایک خاص قسم کے لوگوں کو جمع کرنا ہوتا ہے.نبی کی مثال تو ڈاکٹر کی ہوتی ہے وہ بیماروں کی اصلاح کرنے کیلئے آتا ہے اس کے ہسپتال میں مریضوں کا ہونا ضروری ہے جو آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ سے شفاء پاتے ہیںاور وہ سوائے اس صورت کے کہ بیمار اس سےعلاج کرانےسے انکار کرے کسی کو دھتکارتا نہیں.پھر یہ بھی غلط ہے کہ دیو سماجیوں میں عیب نہیں ہوتے پیچھے جب ان میں جھگڑے پیدا ہوئے تو ایک دوسرے کے متعلق حتّٰی کہ بانی دیو سماج کے متعلق بھی ایسی ایسی گندی باتیں لکھی گئیں کہ شریف آدمی ان کو پڑھ بھی نہیں سکتا.یہی حال یورپ کے دہریوں کا ہے.چنانچہ امریکہ کی ایک دہریہ اخبار کی ایڈیٹر لکھتی ہے کہ میں اس وقت تک اٹھارہ آدمیوں سے بلا نکاح تعلق پیدا کرچکی ہوں اور

Page 351

مجھے تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتاحالانکہ یہ وہ فعل ہے کہ جسے دہریہ بھی بُرا سمجھتے ہیں.کیا خدا کے ماننے سےاعلیٰ اخلاق کا معیار گر جاتا ہے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا کےماننے سے اخلاق کا معیار گرجاتا ہے.کیونکہ خدا کو ماننےوالا نیکی اس لئے کرتا ہے کہ خدا سے کچھ اُمید رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر مَیں نےنیکی کی تو خدا مجھے انعام دے گا.لیکن خدا کو نہ ماننےوالا نیکی کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے نہ کہ کسی لالچ کی وجہ سے.اسی طرح خدا کو ماننے والا خدا کے ڈر کی وجہ سے بُرائی کو چھوڑتا ہے لیکن نہ ماننے والا بُرائی کو بُرائی سمجھ کر چھوڑتا ہے اور نیکی کو نیکی سمجھ کر کرنا اوربُرائی کو بُرائی سمجھ کر چھوڑنا بہ نسبت لالچ سے نیکی کرنے اور ڈر سے بُرائی کو چھوڑنے کے بہت اعلیٰ ہے.ہم کہتے ہیں نیکی کی حقیقی تعریف یہ ہے کہ وہ اس عمل یا خیال کا نام ہے جو ایک کامل اور بے عیب ذات سے مشابہت پیدا کرتا ہو اور بدی اس فعل یا خیال کا نام ہے جو اس کامل اور بے عیب ذات کی پسندیدگی یا فعل کے خلاف ہو.اس کامل نمونہ کی مشابہت یا مخالفت کو مد نظر رکھے بغیر نیکی کی کوئی تعریف ہو ہی نہیں سکتی.اگر ایسا کامل نمونہ ہی موجود نہیں ہے تو پھر نیکی بدی کی مکمل تعریف بھی ناممکن ہے.نیکی کیا ہے؟ جولوگ خدا تعالیٰ کے ماننے والے نہیںیا جو لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کو معرض بحث میں لانےکے بغیر اخلاق کی بحث کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں وہ نیکی کی تعریف میں اختلاف رکھتے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ نیکی وہ عمل ہے کہ جس سے سب سے زیادہ خوشی حاصل ہو اور جو انہی حالات میں اتنی خوشی نہ پیدا کرے وہ بدی.دوسرے کہتے ہیں کہ خوشی کے کیا معنے ہیں؟ ایک شخص ڈاکہ مارتا ہے وہ اسی پر خوش ہوتا ہے مگر ڈاکہ ڈالنا نیکی نہیں.اس لئے نیکی کی یہ تعریف درست نہیں اس کی اصل تعریف یہ ہےکہ جس بات سے سب سے زیادہ نفع پہنچے وہ نیکی ہے اور انہیں حالات میں جن امور میں کم نفع پہنچے یا نقصان پہنچے وہ بدی ہے.مگر اس پر یہ سوال پڑتا ہے کہ کس کو نفع پہنچے ؟ اگر دوسروں کو تو جب کوئی مال لُوٹنے لگے تو کیا اسے روکنا نہیں چاہئے.بلکہ کہنا چاہئے کہ جس قدر لے جاسکتے ہو لے جائو.کیونکہ مال سے اس کو فائدہ پہنچے گا اور یہ نیکی ہے.اس پر کہتے ہیں نیکی وہ ہے جس سے اپنی ذات کو زیادہ نفع پہنچے اور بدی وہ ہے جس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچے.مگر اس تعریف سے تو وہی اعتراض منکرین خدا پر عائد ہوگیا جو وہ خدا کو

Page 352

ماننے والوں پر کرتے تھے.کیونکہ ان کا اعتراض تو یہی تھا کہ خدا کو ماننے والے نیکی لالچ کی وجہ سے کرتے ہیں.لیکن اگر نیکی کی یہ تعریف ہے کہ جس سے اپنی ذات کو سب سے زیادہ خوشی یا نفع پہنچے توپھر ایک دہریہ بھی تو نیکی کی خاطر نہیں بلکہ خوشی اور نفع کی خاطر کرتا ہے پس اگر خدا کو ماننے والا نیکی خدا کی خوشی کی خاطر کرتا ہے یا بدی سے اس کی سزا سے ڈر کر بچتا ہے تو اس پ اعتراض کیوں ہو؟ بعض یورپ کے فلاسفر نیکی کی تعریف یہ کرتے ہیںکہ نیکی ایک فرض کانام ہےمگر یہ تعریف بھی ان کےکام نہیں آسکتی.کیونکہ فرض وہ چیز ہےجسے کوئی دوسرا وجود ہمارے لئے مقرر کردیتا ہے.اگر نیکی کوفرض قرار دیاگیا توفرض مقرر کرنے والے وجود کو بھی ماننا پڑے گا.غرض منکرین خدا کا یہ دعویٰ کہ ان کے کاموں کا مقصد خدا پرستوں سے اعلیٰ ہےکیونکہ وہ نیکی نیکی کی خاطر کرتے ہیں ایک دھوکا ہے ایک فریب ہے کیونکہ وہ خدا کو چھوڑ کر مجبور ہیں کہ نیکی کی تعریف یہ کریں کہ جس سے اپنی ذات کو سب سے زیادہ خوشی ہو یا فائدہ ہو اور اسی تعریف کے ماتحت وہ لالچ کے الزام سے بچتے نہیں بلکہ اور بھی زیادہ اس الزام کے نیچے آجاتے ہیں ان کے تمام کام اپنے ذاتی نفع اور ذاتی فائدہ کے لئے ہوتے ہیں.نیکی بدی کے متعلق مؤمن کا مقام دوسرا اور حقیقی جواب دہریوں کے اعتراض کا یہ ہے کہ تم نے مؤمن کےکاموں کا جو مقصد قرار دیا ہے وہ فرضی ہے پہلے تم نے فرضی طور پر ایک بات بنائی ہے اور پھر اسے مؤمن کی طرف منسوب کردیا ہے.یہ کس وجہ سے فرض کرلیا گیا ہے کہ ایک خدا کو ماننے والا دل سے تو یہ چاہتا ہے کہ بدی کرے مگرخدا کے خوف سے بدی نہیں کرتا یا یہ کہ وہ دل سے تو چاہتا ہے کہ نیکی کے کام نہ کرے مگر لالچ کی وجہ سے نیک کام کرتا ہے.ایک سچّے مؤمن پر یہ اتہام ہے.وہ اس مقام سے بہت بالا ہوتا ہے وہ اس لئے نیکی نہیں کرتا یا ابدی سے اجتناب نہیں کرتا کہ خدا دیکھتا ہے اس سے انعام ملے یا وہ سزا دیگا بلکہ اس لئے نیکی کرتا اوربدی سے بچتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے یونہی کہتا ہے.پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کا ماننے والا ہے وہ اس کے حکم کو بجالانا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہےقطع نظر اس کے کہ کس جزاء کی اُمید یا سزا کا خوف اس کے دل میں ہو.تیسرا جواب یہ ہے کہ نیکی کرنےپرثواب کو اوربدی کرنے پر عتاب کو مدِّ نظر رکھنا تو ہمارے مذہب میں نہایت ہی ادنیٰ بات سمجھی جاتی ہے.اگر کوئی مؤمن یہ کہے کہ مَیں نمازیں اسلئے پڑھتا ہوں کہ

Page 353

ان کے بدلے میں جنت ملے گی.تو یہ تو ایک قسم کا شرک ہوجائے گااور اسلام کی رُوح کے خلاف ہوگا.مؤمن تو اس لئے نیکی کرتا اوربدی سے بچتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ نیکی اپنی ذات میں حسن رکھتی ہے اور بدی عیب.اور عبادات کی قسم کی نیکیاں وہ اس لئے کرتا ہے کہ اس پر خدا تعالیٰ کے بہت سے احسانات ہیں.وہ نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ جنت ملے گی یا روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ دوزخ کا اسے ڈر ہوتا ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی جو عبادت بھی کرتا ہے.وہ اس لئے کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا اور اپنی صفت ربوبیت اور رحمانیت کےماتحت اس پر احسان کئے.گویامؤمن کو آئندہ کی لالچ مدّنظر نہیں ہوتی بلکہ پچھلے احسانوں اور انعاموں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا مقصودہوتا ہے.نماز میں مؤمن کیا کہتا ہے؟ یہی ناں کہا الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.(الفاتحہ: ۲ تا ۴) ن آیات میں دیکھ لو کہ اکثر حصہ پچھلے انعامات کے شکریہ کے متعلق ہی ہے اور آئندہ کا ذکر صرف اختصار کے ساتھ آیا ہے پس مؤمن کی عبادات بطور شکریہ ہوتی ہیں نہ بغرض لالچ.اورشکر گذاری کو دنیا کی کوئی قوم بھی برا نہیں کہتی بلکہ سب ہی اسے مستحسن فعل سمجھتے ہیں.باقی رہا یہ سوال کہ مذاہب میں نیک کاموں کے بدلہ میں ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا معاملہ اس کے اختیار میں ہے اس کے بدلہ دینے کے یہ معنی نہیں کہ مؤمن اس بدلہ کے لئے یہ کام کرتا ہے ایک دوست دوسرے دوست کو ملنے جاتا ہے تو وہ اس کی خاطر کرتا ہے اور سب ہی جانتے ہیں کہ جب دوست دوست کے پاس جائے گا تو اس کی خاطر بھی ہوگی مگر کوئی نہیں کہتا کہ دوست اس لئے دوست سے ملنے گیا تھا کہ تا اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے جائیں.اس کا جانا محبت کی وجہ سے تھا اور دوسرے کا اس کی خاطر کرنا بھی اپنی محبت کے تقاضے سے تھا.مکمل نیکی خدا کو ماننے والا ہی کرسکتا ہے چوتھا جواب یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو نیکی کے جس درجہ تک خدا کو ماننے والا پہنچ سکتا ہے دوسرا انسان پہنچ ہی نہیں سکتا نہ دوسرا کوئی شخص ان تمام اقسام کی نیکیوں کو سمجھ سکتا ہے جو ایک خدا پرست کرتا ہے اس لئے کہ کئی نیکیاں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے میںکرنے والے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا.جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے کہ ماں باپ سے نیک سلوک کرنا بچے کے لئے کسی رنگ میں بھی مفید نہیں ہوسکتا.پس ان کے آرام کے لئے تکلیف اُٹھانا یا ان پر مال خرچ *الفاتحہ ۲،۴

Page 354

کرنا ایک دہریہ کیلئے بدی ہونا چاہئےاور وہ روپیہ جو ان پر خرچ کیاجاتا ہے اس کا اپنی ذات پر خرچ کرنا نیکی ہونا چاہئے.لیکن دہریہ عملاً ایسا نہیں کرتا وہ بھی ماں باپ سے نیک سلوک کرتا ہے حالانکہ عقلاً یہ کام صرف خدا کا ماننے والا کرسکتا ہے.کیونکہ وہ شکر گزاری کو نیکی سمجھتا ہے اورشکر گزاری صرف خدا کو مان کر ہی نیکی کہلا سکتی ہے.اسکے علاوہ اوربہت سی نیکیاں ہیں جو صرف اسی تعریف کے ماتحت نیکی کہلا سکتی ہیں کہ ایک کامل وجود ہے جو اپنےحسن میں بے مثل ہے.اسکی مشابہت پیدا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے ورنہ فائدہ اور خوشی کے لحاظ سے وہ نیکیاں نہیں کہلا سکتیں اور جس قدر نیکیاں کہ جان کی قربانیاں یا ساری عمر کے آرام کی قربانیاں چاہتی ہیں وہ سب اسی تعریف کے ماتحت نیکیاں کہلا سکتی ہیں.پس خدا پرست ہی کیلئے موقع ہے کہ وہ کامل نیک ہوسکے.جو خدا کو نہیں مانتا اگر وہ اپنے دعویٰ کے مطابق عمل کرے تو اس کیلئے نیک بننے کی کوئی صورت ہی نہیں.مگر عجیب بات ہے کہ دہریہ خدا کے ماننے والوں کے اخلاق پر تو اعتراض کرجاتا ہے مگر جہاں اس کی تعریف نیکی کی رہ جاتی ہے وہاں وہ اپنے دعویٰ کے خلاف خدا کو ماننے والے کی تعریف کے مطابق نیکی کرکے اپنی ضمیر کو خاموش کرنا چاہتا ہے گو اس کا عمل اس کے دعویٰ کو رد کر رہا ہوتا ہے.ادنیٰ کے لئے اعلیٰ قُربانی خدا تعالیٰ کے منکرین اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف ایک یہ اعتراض بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ہو تا تو ہمیں یہ بات نہ نظر آتی کہ اعلیٰ چیزیں ادنیٰ پر قربان کی جاتی ہیں جیسے مچھر اور طاعون کےکیڑے ہیں کہ ان کی پرورش انسان کی قربانی پر ہو رہی ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی تدبیر کسی بالا رادہ ہستی کے حکم کے ماتحت نہیں ہورہی.اس بات کی تفصیل کہ مچھر اور ٹِڈی وغیرہ کیوں پیدا کئے گئے ہیں.تو میں آگے بیان کروں گا فی الحال اس سوال کا جواب دیتا ہوں جو ادنیٰ پر اعلیٰ قربان ہونے کے متعلق کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام اور انسان کے پیدا کرنےکی غرض اسی طرحپوری ہوسکتی تھی کہ انسان مرتا اور یہ چیزیں انسان کے مارنے کےذرائع میں سے بعض ذریعے ہیں.پس چونکہ انسان کا مرنا اس کی ترقیات کیلئے ضروری تھا.اس لئے بعض ذرائع اس کی موت کے لئے پیدا کئے جانے بھی ضروری تھے.پس ان کیڑوں کےذریعہ سے ادنیٰ پر اعلیٰ قربان نہیں ہورہا بلکہ اعلیٰ کو اعلیٰ مقام پر لے جایا جاتا ہے.قرآن میں دہریت کا کیوں ردّ نہیں دہریہ لوگ مذاہب پر ایک اور بھی سوال کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر خدا ہے تو اسے سب سے

Page 355

پہلے دہریت کا رَدّاپنی کتب میں کرنا چاہئے تھا مگر سب کُتب دہریت کے متعلق خاموش ہیں حالانکہ مذہب کا سب سے بڑا دشمن یہ مسئلہ ہے پس مذہبی کتب کی خاموشی ثابت کرتی ہےکہ چونکہ یہ کتب انسانوں نے بنائی ہیں اوران کے زمانہ میں دہریت کے عقائد رائج نہ تھے وہ ان کا جواب دینے کی کوشش بھی نہیں کرسکے ورنہ جو مسئلہ سب سے بڑا ہے اسے بالکل نظر انداز کس طرح کیاجاسکتا تھا.قرآن (کریم) جو سب سے آخری کتاب کہی جاتی ہے وہ بھی اس مسئلہ میں بالکل خاموش ہے حالانکہ شرک کے رد میں اس میں بہت زور لگایا گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم)ایسے علاقہ میں رہتے تھے جہاں دہریت کو ماننے والا کوئی نہ تھا اس لئے اس کے متعلق انہوں نےکوئی ذکر نہیں کیا اور شرک کے متعلق بہت کچھ بیان کردیا.کیونکہ ان کے چاروں طرف مشرک ہی مشرک تھے.دوسرے مذاہب سے مجھے اس وقت سروکار نہیں اسلام کے متعلق یہ اعتراض غلط ہے.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دہریت کے متعلق علم تھا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپؐنے فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہےجبکہ لوگ کہیں گے دنیا کو کس نے بنایا؟ جب اسے بتایا جائے گا کہ خدا نے تو وہ پوچھے گا کہ خدا کو کس نے بنایا ہے٭؟اوریہی وہ سوال ہے جو دہریت کے بانی سنپسر نے اپنی کتاب میں اُٹھایا ہے.پس اس حدیث میں صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نےدہریت کے متعلق علم دیا تھا.حالانکہ عرب دہریوں سے خالی تھا.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں اس اعتراض کو صاف لفظوں میں کیوں نہیں اُٹھایا گیا.یہ بات ظاہر ہے کہ اگر قرآن کریم انسانی طاقت سے بالا ثابت ہوجائے تو علاوہ اس کے کہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ خدا بھی ضرور ہے پس قرآن کریم کی سچائی ثابت ہوجانے کے ساتھ دہریت کا بالکل خاتمہ ہوجاتا ہے اور اس صورت میں اس کا ایک ایک لفظ دہریت کا ردّبن جاتا ہے.پس دہریت کا سوال کوئی مستقل سوال نہیں ہے.کلام الٰہی کے سوال کے حل ہونے کے ساتھ یہ خود حل ہوجاتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے ثابت کردینے کے بعد کلام الٰہی کا سوال حل کرنا پھر بھی باقی رہ جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے وہی طریق اخیار یا جس سے کہ دو سوال ایک دم حل ہوجاتے تھے یعنی قرآن کریم کے ایک بالا ہستی کی طرف سے نازل ہونے کا ثبوت دیدیا اوراس ثبوت میں دہریت کا جواب خود بخود آگیا.پس یہ کہنا کہ شرک کا رد قرآن کریم *مسند احمد بن حنبل جلد ۲ص۲۸۲

Page 356

میں زیادہ ہے بالکل غلط ہے.شرک کے رد میں تو خاص خاص آیتیں ہیں اور دہریت کے رد میں قرآن کریم کی ہرا یک آیت ہے اور جب ہر آیت قرآن دہریت کا رد ہے تو الگ ذکر کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن حق یہ ہے کہ قرآن کریم میں دہریت کے رد کے دلائل الگ بھی بیان ہیں جیسا کہ شروع مضمون میں ہم نے بیان کیا ہے کہ گو ان کا نام کوئی نہیں رکھا گیا کیونکہ دہرئیے خود اپنا نام کوئی تجویز نہیں کرتے.خدا تعالیٰ کی ہستی کو مان لینے کے بعد کی حالت ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت دینے اور اس کے متعلق جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کو دُور کرنےکے بعد ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جو مقام حیرت کہلاتا ہے.کیونکہ کسی شخص پر یہ ثابت ہوجائے کہ میرا پیدا کرنے والا کوئی موجود ہے تو اس کے دل میں قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے،کیسا ہے،میرا س سے کیا تعلق ہے؟ اورمجھے اس سے کس طرح معاملہ کرنا چاہئے؟ غرض بیسیوں سوالات اور خواہشات معاً دل میں پیدا ہو جاتی ہیں اوران سوالات کےجواب دیئے بغیر ہستی باری تعالیٰ کا مضمون مکمل نہیں ہوسکتا.پس اب میں ان سوالات کو جو خدا تعالیٰ کو مان کر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا کم سے کم ان میں سے بڑے بڑے سوالات کو لیکر ایک ایک کرکے جواب دیتا ہوں.خدا تعالیٰ کا نام جب انسان کسی چیز کا علم حاصل کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کا نام معلوم کرنے کی اس کے دل میں خواہش ہوتی ہے.پس میں اسی سوال کو پہلے لیتا ہوں کہ کیا کدا کا کوئی ذاتی نام بھی ہے انسانی فطرت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ انسان بلا نام کے کسی چیز کو اپنےذہن میں لانے سے بہت حد تک قاصر رہتا ہے مگر عجیب بات ہے کہ سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میں خدا کا ذاتی نام کوئی نہیں.نہ یہودیوں میں،نہ عیسائیوں میں، نہ بدھوں میں، نہ ہندوؤں میں، نہ زرتشتیوں میں، نہ کسی اور مذہب میں.صرف صفاتی نام ہے جیسے ہندؤؤں میں ’’پرماتما ‘‘ کا لفظ ہے.یعنی بڑی آتما.پرم ایشور یعنی بڑا ایشور.ان ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو بھی وہ دنیا کا ہی ایک حصہ قرار دیتے ہیں جو گو بڑا ہے مگر دنیا سے کوئی الگ چیز نہیں.اسی طرح زرتشیوں میں جو نام ہیں وہ بھی صفاتی نام ہیں یعنی ان کے معنی ہوتے ہیں اور خدا کے متعلق وہ اسی قدر دلالت کرتے ہیں جو کچھ ان کے معنوں

Page 357

سے پایا جاتا ہے.مسیحیوں میں بھی کوئی نام نہیں سب صفاتی نام ہیں.یہودیوں میں خدا کو یہودا کہتے ہیں.تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ اس نام کے بھی معنی ہیں.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ یہودا یہودی سے نکلا ہے.جس کے معنےہیں.گرنے والا اوراس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہستی جو انسان پر نازل ہو.مگر اس سےصرف خدا تعالیٰ کے متکلم یا نزول کی صفت معلوم ہوتی ہے اس لئے یہ اسم ذات نہ ہوا.بلکہ اسم صفت ہوا.میرے نزدیک یہودا یا ہو ہے یعنی ’’اے وہ جو ہے‘‘ گویا نام کا پتہ نہیں،اور جس طرح کوئی ایسا شخص دور فاصلہ پر جارہا ہو جس کا نام معلوم نہ ہو مگر اسے مخاطب کرنے کی ضرورت ہو تو کہا جاتا ہے.ارےٹھہر جاؤ.اسی طرح یہ نام ارے کا قائم مقام ہے اور اس میںصرف اس امر پر دلالت ہے کہ وہ واجب الوجود ہے اس سے زیادہ اور کسی صفت پر اس سے دلالت نہیں ہوتی.اسلام سےپہلے کسی کو خدا کا اسمِ ذات نہیں بتایا گیا اصل بات یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کسی قوم کو خدا کا اسم ذات بتایا ہی نہیں گیا اور اس میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا اسم ذات اس کی ساری صفات کو اپنے اندر رکھتا ہے اور ساری صفات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعہ سے امّتِ محمدیہ پر ہی ظاہر ہوئیں اس لئے اور کسی پر خدا تعالیٰ نے اپنا ذاتی نام ظاہر نہ کیا.یہودیوں میں خدا کے نام کی عزت یہودی ’’یہودا‘‘ نام کا بڑاادب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیشہ اورہر ایک کو یہ نام نہیں لینا چاہئے کیونکہ اس طرح اسکی بے ادبی ہوتی ہے اس وجہ سے صرف انکے علماء ہی یہ نام لیتے تھے اور اس کا صحیح تلفظ انہی کو آتا تھا اوران کا دعویٰ تھا کہ کوئی دوسرا یہ نام لے تو اس پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اور جو شخص بغیر باقاعدہ مولوی ہونے کے یہودا کا نام لے تو اس کے مرنے پر اس کا جنازہ وہ نہیںپڑھتے (یعنی مرنے پر جو رسوم ادا کی جاتی ہیں ورنہ اسلامی جنازہ ان میں نہیں ہوتا) اوراسے برکت نہ دیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اسکی نجات نہ ہوگی.علماء بھی اگر اس نام کو لوگوں کے سامنے لیتے تو بگاڑ کرلیتے تا کہ گناہ نہ ہو.اس نام کے متعلق انکا اس قدر اخفاء کرنا ہی اس امر کو موجب ہوا کہ مصریوں نے بڑی کوشش سے اس نام کو دریافت کیا اور یہ خیال کرکے اس نام کی برکت سے یہودیوں نے ہم پر فتح

Page 358

پائی تھی اس نام کو اپنےجائوں میں داخل کرلیا چنانچہ مصر ی جادؤں میں یہودا کا نام ضرور لیاجاتا تھا.اسلام میں خدا کا اسم ذات مسلمانو ں نے بھی اسی قسم کا دھوکا کھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں عام خیال پھیلا ہوا ہے کہ خدا کا ایک نام ایسا ہے کہ عام لوگوں کے سامنے وہ نہیں لیاجاتا بلکہ صرف خاص خاص علماء کو اس کا علم ہے اور اسے مسلمان ’’اسم اعظم ‘‘پکارتے ہیں اوران کا خیال ہے کہ پیر صاحب کی خدمت کرکے وہ نام یہودیوں کو تو کوئی نام ہی نہیں بتایا گیا تھا.جو نام انہیں بتائے گئے تھے وہ یہووا سمیت صفاتی نام تھے اور ہمیں جو اسمِ اعظم دیا گیا ہے وہ اتنا ظاہر ہےکہ اسے کوئی چھپا ہی نہیں سکتا وہ نام ہے اللہ.یہ چھپانے والا نام نہیں بلکہ ظاہر کرنےوالا نام ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ بلند آواز سے آذان میں اور نمازوں میں ’’اللہ اکبر‘‘ کہو.غرض اسلام میں ہی اللہ تعالیٰ کا اسم ذات پایا جاتا ہے اور وہ اللہ کا لفظ ہے.اللہ کا لفظ نہ مرکب ہے نہ مشتق نہ اس کے کوئی معنے ہیں یہ صرف اور صرف نام ہے بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ لا الٰہ سے ہمزہ حذف ہوکر اللہ کا لفظ بن گیا ہے بالکل غلطی کرتے ہیں اس لئے لا الٰہ کا لفظ کبھی بھی خدا کے سوا کسی اور معبود کےلئے استعمال نہیں کرتے تھے.اگر اللہ لاالٰہ سے بنا ہے تو وہ بتوں پر اس لفظ کو کیوں نہ استعمال کرتے.دوسرے قرآن کریم میں اس لفظ کو ہمیشہ اسم ذات کے طور پر استعمال کیاگیا ہے.اورصفات کو اس کی طرف منسوب کیاجاتا ہے جس سےظاہر ہے کہ اسے قرآن کریم اسم ذات قرار دیتا ہے نہ کہ اسم صفت.۳ - عربی کا قاعدہ ہے کہ جس لفظ کے شروع میں ال تعریف کا ہو اگر اس کو پکارا جائے تو اس کے پہلے حرف ندا کے بعد اَیُّھَا کا لفظ بڑھاتے ہیں.لیکن اللہ کو پکارتے ہوئے.یَاَایُّھَااللّٰہُ نہیں کہتے بلکہ یا اللہ کہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے لفظ میں ال تعریف کا نہیں ہے بلکہ خود لفظ کا حصہ ہے.

Page 359

اللہ کیا ہے؟ نام معلوم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذات جس کا نام اللہ ہے وہ کیاہے؟ گویا اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ یا ہووا کہنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ اس کا نام ہمیںمعلوم ہوگیا ہے.اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ ہے کیا؟ اللہ تعالیٰ کے متعلق اہل یورپ کا خیال سب سےپہلے میں اللہ تعالیٰ کے متعلق ان اہل یورپ کے خیالات کو بیان کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ کے وجود کےقائل ہیں.ایک خیال یہ ہے کہ خدا ہے تو سہی لیکن اس نے دنیا کو پیدا کرکےچھوڑ دیا ہے اب اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہم اس قسم کا کوئی نمونہ نہیں دیکھتے کہ خدا اب بھی کچھ پیدا کرتا ہو اس لئے معلوم ہوا کہ اب کچھ کرنے سے وہ معطل ہوگیا ہے اور اس لئے مخلوق کا عملاً اب اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.دوسرا خیال یہ ہے کہ دُنیا کے انتظام کے لحاظ سے تو خدا بیشک معطل ہی ہے لیکن وہ اپنے آپ کو اخلاقی ہدایت کےذریعہ سے ظاہر کرتا رہتا ہے یعنی لوگوں کے دلوں میں نیک خیال ڈالتا رہتا ہے.ان لوگوں کو یہ بھی بڑی مہربانی ہے کہ اتنا وجود تو خدا تعالیٰ کا تسلیم کرتے ہیں.آئندہ کے متعلق ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ چونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور دنیا میں بھیجا ہے اس لئے اگر اس کے احکام کی تعمیل نہ کی جائے گی تو سزا دے گا.بعض کہتے ہیں خدا کا سزا سے کیا تعلق ؟ کیا ہماری یہ مہربانی کم ہے کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ اس نے ہمیں پیدا کیااگر ہم اس کےدس بیس احکام نہیں مانتےتو سزا کیسی؟اس لئے وہکہتے ہیں کہ ہم اس کےجواحکام مانتے ہیں ان کا انعام دے گا اور جو نہیں مانتے ان کی سزا نہیں دے گا.یورپ کے ایک فلاسفر سل ۴نےصرف انعام دینےوالے اصل پر بڑا زور دیا ہے.بعض لوگوں نے اس کے سزا کی نفی پر بہت ہی زور دینے کی یہ وجہ لکھی ہے کہ اس کے اعصاب بہت تیز تھے اور وہ درد بہت زیادہ محسوس کرتا تھا اس لئے اس کی طبیعت اس امر کو مان ہی نہیں سکتی تھی کہ خدا عذاب بھی سے سکتا ہے.پس اس نےبدی کی سزا تو انکار کردیا اورنیکی کے انعام کو قائم رکھا.مسیحیوں کا خدا کے متعلق خیال اب میں مختلف مذاہب کے پیش کردہ خیالات کو ایک ایک کرکے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ

Page 360

کے متعلق کیا تعلیم دیتے ہیں اور اس بارے میں ان کی تعلیم کہاں تک درست یا غلط ہے.چونکہ اس وقت مسیحیت کا غلبہ ہےپہلے میں اسی مذہب کے خیالات کو بیان کرتا ہوں.مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ ایک خدا کی تین شاخیں ہیں (۱) خدا باپ (۲) خدا بیٹا(۳) خدا روح القدس اور پھر یہ تینوں مل کر ایک بھی ہیں.پھر صفات کے متعلق انکا خیال یہ ہےکہ خدا کی خاص صفات مین سے ایک صفت عدل کی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہاگر وہ عادم نہ ہو تو ظالم قرار پائے گا.لیکن ظالم ہونا خدا کے لئےمحال ہے پس اس کے عدل میں کسی صورت میںفرق نہیں آسکتا.اب چونکہ دنیا میں عموماً اور مسیحی دنیا میں خصوصاً گناہوں کا سلسلہ نظر آتا ہےجسےدیکھتےہوئے نجات بالکل ناممکن نظر آتی ہے کیونکہ اپنےعمل سے انسان نجات نہیں پاسکتا اور خدا کا عدل چاہتا ہے کہ گناہ کی سزا دے پس نجات کی صورت وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ خدا نے جب دیکھا کہ میرا عدم بنی نوع انسان کی نجات کی راہ میں روک ہے تو اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو انسان کی شکل میں دنیا میں بھیجاتا کہ وہ لوگوں کے گناہ اُٹھا لے.چنانچہ حضرت مسیحؑخدا کے بیٹے ہی تھے جو انسانی شکل میں ظاہر ہوئے اور باوجود بے گناہ ہونے کے بنی نوع انسان کے گناہ اُٹھا کر صلیب پر لٹکائے گئے.اب جو کوئی ان کے اس طرح کفارہ ہونے پر ایمان لائے وہ نجات پا جائے گا کیونکہ مسیح اس کا کفارہ ہوگئے ہیں اوراب بغیر اس کے کہ خدا کے عدل میں فرق آئے وہ لوگوں کو نجات دے سکتے ہیں.عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق خدا پر اعتراض مگر اس عقیدہ کے مطابق خدا پر کئی الزام عائد ہوتے ہیں.گو زبان سے خدا کو رحیم رحیم کہیں لیکن اگر اسکے متعلق یہ مانیں جو عیسائی کہتے ہیں تو اسکے یہ معنی ہوئے کہ گناہ کرنےکے بعد خواہ کوئی کتنی التجائیں کرے ناک رگڑے خدا اس کی درخواست کو ردّ کردےگا کیونکہ وہ اس کا گناہ معاف نہیں کرسکتا.اب اگر خدا رحیم ہے اور ہم سے زیادہ رحیم تو جب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کو ئی ہمارا قصور کرکے ہم سے رحم کی التجا کرتا ہے تو ہم اسے معاف کردیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا معاف نہیں کرتا یہ کہنا کہ اس سے اس کے عدل میں فرق آتا ہے بالکل باطل ہے کونکہ جب ہم کسی کو معاف کرسیتے ہیں تو کیا ہماری نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ ہم عادل نہیں ہیں.اگر باوجود رحم کے ہم عادل کےعادل ہی رہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ اگر رحم کرے تو وہ عادل نہیں رہتا.مسیحیت کو سب سے زیادہ اس بات پر ناز ہے کہ اس میں خدا کو

Page 361

باپ قرار دیا گیا ہے.کیا باپ اپنے بچوں سے ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جو مسیحی کہتے ہیں کہ خدا بنی نوع انسان سے کرتا ہے کہ خواہ وہ کس قدر بھی توبہ کیوں نہ کریں وہ ان کے قصور معاف نہیںکرتا.مسیحی یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیوی باپ بوجہ کم علمی اور جہالت کے ایسا کرتے ہیں ورنہ اگر وہ عدل کو مدِّ نظر رکھیں تو اپنے بچوں کا قصور بغیر کفارہ کے معاف نہ کریں.کیونکہ خود مسیح علیہ السلام نےانجیل میں خدا کو باپ سے تمثیل دے کر انسان سے سلوک کی مندرجہ ذیل حکایت کےذریعہ سے کیفیت بیان کی ہے.’’کسی شخص کے دو بیٹے تھے.ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے.اس نے اپنا مال متاع انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گذرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کُچھ جمع کرکے دور دراز ملک کو روانہ ہوا.اور وہاں اپنا مال بد چلنی میں اُڑا دیا اورجب سب خرچ کرچکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا.پھر اس ملک کے ایک باشندے کےہاں جا پڑا.اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سؤر چرانے بھیجا اور اسے آرزو تھی کی جو پھلیاں سؤر کھاتے تھے.انہیں سے اپنا پیٹ بھرے.مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا پھر اس نے ہوش میں آکر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے لتی ہے اور مَیں یہاں بھوکا مر رہا ہوں.میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جائوں گا اور اس سے کہوں گا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نطر میں گنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلائوں مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے.پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پا س چلا.وہ ابھی دُور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اس کو گلے لگا لیا اور بوسے لئے.بیٹے نے اس سے کہا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر میںگنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلائوں.باپ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جامہ جلد نکال کر اسے پہنائو اوراس کے ہاتھ میں انگوٹھی اورپائوں میں جوتی پہنائو اور پلے ہو ئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو.تا کہ ہم کھا کر خوشی منائیں.کیونکہ میرا یہ بیٹا مُردہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.پس وہ خوشی منانے لگے.لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا جب وہ آکر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی

Page 362

اورایک نوکر کو بلا کر دیافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے کہا تیرا بھائی آگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے.اس لئے کہ اسے بھلا چنگا پایا.وہ غصّے ہوا اور اندر جانا نہ چاہا.مگر اس کا باپ باہر جاکے اسے منانے لگا.اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی.مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری بچہ بھی نہ دیا.کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا.لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا.جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا تو اس کے لئے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا اس نے اس سے کہا.بیٹا تُو تو ہمیشہ میر ے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی لے لیکن خوشی منانی اور شادماں ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.‘‘ (لوقا باب ۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۲ برتش اینڈ فارون بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۰۶؁ء) اس تمثیل سے حضرت مسیح ؑنے یہ بتایا ہے کہ خدا کو بھی بندہ سے ایسا ہی پیار اور محبت ہے اور جو بندہ گناہ کرکے پچھتاتا ہوا خدا کے پاس آتا ہے خدا اس پر اسی طرح رحم کرتا ہے جس طرح باپ اپنے بیٹے پر.مگر یہ عجبیب بات ہے کہ حضرت مسیحؑتو خدا تعالیٰ کے بندوں سے تعلق کو اوپر کی تمثیل سےواضح کرکے اسے بہترین عفو کرنے والا قرار دیتے ہیں مگر مسیحی اسے ایسا ظالم قرار دیتے ہیں کہ خواہ کوئی کتنی ہی التجا کرے وہ اسے معاف ہی نہیں کرتا.کیا اس باپ نے جس کی حضرت مسیحؑنے تمثیل دی ہے اپنے آنے والے بیٹے کو پہلے مارا اورپھر معاف کیا تھا.یا اس کی ندامت کو قبول کرکے بغیر کسی سزا کے معاف کردیا تھا اور اس کے آنے پر خوش ہوا تھا.اگر اس کے آنے پر باپ نے کہا ہوتا کہ پیٹھ ننگی کر تا کہ پہلے تمہیں سزا دے لوں.اورپھر چھوڑ دوں گا.یا یہ کہ پہلے بڑے بیٹے کو بلا کر کفارہ کا خیال درست ہے مگر ایسا نہیں ہوا حضرت مسیحؑنے اس تمثیل کے ذریعہ سے درحقیقت کفارہ کے مسئلہ کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہےکہ حضرت مسیحؑکو الہام کےذریعہ سے پتہ لگ گیا تھا.کہ ان کے ماننے والے اس قسم کا عقیدہ بنا لیں گے.اس لئے انہوں نے اس تمثیل کےذریعہ سے اس زہر کا ازالہ کردیا.

Page 363

مسیحیوں کا خدا تعالیٰ کے متعلق جو عقیدہ ہے اس میں یہ بھی نقص ہے کہ وہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے تھے اور دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ موت کا شکار ہوئے اوربعض کے نزدیک وہ لوگوں کےگناہوں کے سبب سےتین دن تک جہنّم میں بھی رہے اور سزا پاتے رہے گو یا خدا نعوذ باللہ جہنّم کی سزا تین دن تک بھگتتا رہا اور یہ عقیدہ ایسا ہےکہ اس کے نقص خود ہی ظاہر ہے.اس پر کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.زرتشتیوں کا خدا کے متعلق خیال مسیحیوں کے بعد میں زرتشتیوں کے عقائد کو لیتا ہوں.ان لوگوں کا خدا تعالیٰ کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ ا س سے صرف نُور آتا ہے تکلیف اور دُکھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آسکتا اور اس لئے وہ خدا کے مقابلہ میں ایک اور طاقت بھی مانتے ہیں جس سے ظُلمت اورگناہ اوردُکھ پیدا ہوتا ہے اور دُنیا میں جس قدر تغیرات ہوتےہیں ان کے نزدیک وہ سب انہی دو بالا ہستیوں کی جنگوں کے تنیجہ میں ہوتے ہیں.کبھی ایک غالب آجاتا ہےکبھی دوسرا.لیکن آخری زمانہ کی نسبت انکا خیال ہے کہ اس میں نیکی کی طاقت بدی کی طاقت پر غالب آجکائے گی اور شیطان جسے وہ اہرمن کہتے ہیں اس کا سر کُچلا جائے گا.اس عقیدہ پر اعتراض اس عقیدہ پر بھی بہت سے اعتراضات وارد ہوتے ہیں.مثلاً یہ کہ اس طرح شیطان خدا کی ذات میں شریک ہوا اور بجائے ایک خدا کے دو خدا ہوئے جس عقیدہ کو زرتشتی خود بھی ناپسند کرتے ہیں.اس پر ان کے بعض محقق کہتے ہیں کہ اصل میں خدا ایک اوربھی بالا ہستی ہے اس نے دو طاقتیں ایک نیکی کی اور دوسری بدی کی پیدا کی ہیں مگر اس عقیدہ پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ظلمت خدا ہی کی طرف منسوب ہوئی.کیونکہ اگر خدا نے شیطان کو پیدا کرکے پھر اس سے ظلمتیں پیدا کرائیں تو گویا خدا نے خود ہی ظلمتیں پیدا کیں.دوسرا نقص اس عقیدہ میں یہ ہے کہ جن چیزوں کو نقصان رساں سمجھ کر شیطان کی مخلوق قرار دیاجاتا ہےان کے بھی فوائد معلوم ہورہے ہیں اور وہ بھی مفید ثابت ہورہی ہیں.اندھیرے کو ہی لے لو.اب اگر اندھیرا نہ ہوتا تو صحت افزانیند نہ ہوتی.کیونکہ طب سے ثابت ہوتا ہے کہ اندھیرے کی نیند روشنی کی نیند سےاعلیٰ ہوتی ہے اور زیادہ مفید ہوتی ہے.کئی ترکاریاں اورسبزیاں اندھیرے میں نشو و نما پاتی ہیں.ہر وقت کی روشنی سے آنکھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے

Page 364

اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں تو اگر یہ درست ہے کہ اندھیرے کا پیدا کرنے والا شیطان ہے تو یہ بھی ماننا پڑگیا کہ خدا نے دنیا کو نا مکمل پیدا کیا تھا شیطان کہ مہربانی سے وہ مکمل ہوئی.ہندوؤں کا خدا کے متعلق خیال دنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہندو ہے.ان کے عقائد میں بھی خدا تعالیٰ کے متعلق بعض ایسی تعلمیں ہیں جو خدا تعالی کو ناقص ثابت کرتی ہیں یا یہ کہ وہ تعلیمیں عقل کے خلاف ہیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا دنیا میں اوتار لیتا ہے اور مخلوق کا جنم لیتا ہے اور یہ عقیدہ ان میں ایسی بری صورت میں پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ خدا نے جانوروں میں سے سؤ ر اور مگر مچھ کا بھی جنم لیا ہے اگر یہ لوگ غور کرتےتو انہیںمعلوم ہوجاتا کہ خدا کےجنم لینےکے یہ معنی ہیں کہ وہ محدودہے پھر مگر مچھ اور سؤر کی شکل میں اس کا ظاہر ہونا تو اوربھی حقارت پیدا کرنے والا ہے.اور اس عقیدہ سے بجائے خدا تعالیٰ کی عظمت ثابت ہونے کے اس کی ہتک ہوتی ہے.اسی طرح ہندوؤں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا اوربہت سے دیوتا ہیں جنکو کارخانہ عالم کے چلانے میں بہت کچھ دخل حاصل ہے.چنانچہ تین تو بڑے بڑے مظاہر تسلیم کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک تو پیدا کرنے والا ہے جسے برہما کہتے ہیں اور ایک رزق دینے والا جسے شِو کہتے ہیں اور ایک مارنے والا جسے وشنو کہتے ہیں.اس عقیدہ کی وجہ سے ان میں سے اکثر لوگ وِشْنَو اور شِو کی تو پوجا کرتے ہیںمگر برہما کی کوئی پوجا نہیںکرتا کیونکہ خیال کرتے ہیں کہ اس نے تو جو کچھ کرنا تھا کر چکا اب آئندہ تو رزق دینے والے اور مارنے والے سے ہی کام پڑنا ہے اسلئے انہی کی پاجا کرنی چاہئے.اسکے متعلق ایک لطیفہ بھی بیان کیاجاتا ہے.کہتے ہیں کوئی راجہ تھا اسکے ہاں لڑکا نہ ہوتا تھا.وہ برہما کی پرستش کرتا رہا جس کے نتیجہ میں لڑکا پیدا ہوگیا.پھر اس نے اس کو چھوڑ دیا کہ اب اسکی کیا ضرورت ہے.اب مارنے والے کی پرستش کرنی چاہئے.تاکہ بیٹا زندہ رہے.اس نے اسی طرح کیا،لیکن جب وہ لڑکا جواب ہوا تو اس نے کہ جس نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ مجھے پیدا کیاس کی پرستش کرنی اور اور وہ برہما کی پرستش میں لگ گیا اور پر باپ اس سےناراض ہوگیا اور اس کا غصہ بڑھتے بڑھتے اس قدر تیز ہوگیا کہ اس نے مارنے والے پرمیشور سےکہا کہ میرے لڑکے کو مار دے چنانچہ وِشْنَو نے اس لڑکے کو مار دیا مگر برہمانے کہا اس لڑکے نے میری خاطر جان دی ہے اسلئے اسے پھر پیدا کردینا چاہئے.اس نے اسےپھر پیدا کردیا اور اسی طرح یہ جنگ جاری رہی.اب مجھےیہ معلوم نہیں کہ اس جنگ کا خاتمہ کس طرح ہوا

Page 365

اور صلح کس طرح سےہوئی.آریوں کا خدا کے متعلق خیال آریہ لوگ گو ہندوؤں میں سے نکلے ہیں.لیکن چونکہ انہوں نے اپنے عقائد میں بہت کچھ فرق کرلیا ہے اس لئے میں ان کا الگ ذکر کرتا ہوں.ان لوگوں کے عقیدہ میں بھی بہت کچھ کمزوریاں ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو پیدا نہیں کیا بلکہ دنیا کےذرات اور ارواح خود بخود ہیں خدا نے صرف جوڑ دیا ہے اورسب صفات اقتداری کےوہ منکر ہیں.ان کےنزدیک خدا نہ رازق ہےنہ خالق نہ حفیظ اور جو صورت وہ خدا کی پیش کرتےہیں اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ اگر خدا مربھی جائے تو بھی دنیا کا کوئی چنداں حرج نہیں.خدا رہے یا نہ رہے ہم ضرور رہیں گےیہ خیال بھی ایسا ہے کہ اسے عقل انسانی تسلیم نہیں کرسکتی، اسلام خدا کے متعلق کیا کہتا ہے؟ ان سب مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ چونکہ اس سوال پر روشنی ڈاکنا میرا مقصود ہے اس لئے اس کے متعلق میں تفصیل سے بیان کروں گا.سب سے پہلے میں اسلام کی تعلیم خدا کے متعلق خلاصۃً بیان کرتا ہوں.اسلام کہتا ہےکہ ایک بالا ہستی جامع جمیع صفات موجود ہے وہ قائم بالذات ہے.اپنے وجود میں کامل ہے.دوسروں کا محتاج نہیں، محدود نہیں،جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر ہے، جگہ اسے بند نہیں کرسکتی جہالت اس پر تصرف نہیں رکھتیں،زمانہ اس پر حکومت نہیں کرسکتا،وہ باوجود دور ہونےکےنزدیک ہے اور باوجود نزدیک ہونےکےدور ہے، اسے کسی نےنہیں بنایامگر جو کچھ بھی موجود ہےاس کا بنایا ہوا ہے، وہ سب سے بالا ہے اورسب کچھ اس کے قبضہ و تصرف میں ہے، اس کی مرضی کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا،وہ بادشاہ ہے،وہ مالک ہے، وہ ہدایت دینے والا ہے،حفاظت کرنے والا ہے اورعزّت و ذلّت اسی کےاختیار میں ہے وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اور ہر ایک بات کو جانتا ہے.مگر وہ سننے اور دیکھنے او رجاننے کے لئے ہماری طرح آلات کا محتاج نہیں، جو کچھ دُنیا میں نظر آتا ہے سب اسی کی صفات کاظہور ہے، وہ ہے اور ہمیشہ رہے گا.اس نے دنیا کو خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا اس مقصد کو پورا کرے اس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ خود دنیا کا فائدہ اوراس کی ترقی ہے.

Page 366

کیا خدا کی کوئی صورت شکل ہے؟ خدا تعالیٰ کے متعلق یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کیا اس کی کوئی صورت شکل بھی ہے اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ اس کی کوئی صورت شکل نہیں.صورت کےیہ معنی ہوتے ہیںکہ ایک جسم ہےجو مختلف حصے رکھتا ہے اور ہر ایک حصہ کی ایک حد بندی ہے مگر خدا سب حد بندیوں اور سب تقسیموں سے پاک ہے اس لئے اس کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی صورت صرف مادی اشیاء کے لئے ہوتی ہے بلکہ ان میں سے بھی کثیف مادی اشیاء کی.خدا کوئی جسم نہیں رکھتا بلکہ جسموں اور مادے کا خالق ہے.حدیث میں خدا کی صورت بتانے کا کیا مطلب ہے ؟ اس بیان پر سوال ہو سکتا ہے کہ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی صورت ہے ان احادیث کا کیا مطلب ہے ؟ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور آپؐنےدیکھا کہ ایک شخص اپنے غلام کو مار رہا ہے.اس پر آپ ؐنے فرمایا اِنَّ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۴۴ ،۲۵۱ ،۳۱۵) کہ آدم کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا.پس چاہئے کہ اس کی صورت کا ادب اوراحترام کرو.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی صورت ہےورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں فرماتے کہ آدم کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے تم اس کی صورت کا ادب اوراحترام کرو.یادرکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کےدو معنی ہیں.ایک تو یہ ہے کہ صورت کےمعنی عربی میں وصف اور صفت کے بھی آتے ہیں.اس لئے اِنَّ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ کےیہ معنی ہوئے کہ خدا نے آدم کو اپنی صفات پر پیدا کیا ہے.جیسے فرمایا وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّھا (البقرۃ: ۳۲)یعنی خدا نے اپنی وہ ساری صفات جو بندوں سے تعلق رکھتی ہیں آدم کو سکھائیں.یعنی انسان کو خدا نےایسا دماغ دیا کہ جو اس کی صفات کو جلوہ گر کرسکے وہ شخص چونکہ اپنےغلام کےمنہ پر مار رہا تھا اور ممکن تھا کہ اس کے دماغ کو صدمہ پہنچے اس لئے رسول کریم ؐنے اسے فرمایا کہ اس طرح نہ مارو اور جس سے وہ غرض جس کے لئے انسان بنایا گیا ہے وہ باطل ہو جائے گی.چنانچہ دوسری حدیثوں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم ؐنے فرمایا منہ پر نہیں مارنا چاہئے.٭وجہ یہ کہ دماغ مرکز ہے ساری صفات کا اور اس کو صدمہ پہنچنے سے صفات کا ظہور رک جاتا ہے.اس لئے رسول کریم ؐنے فرمایا خدا کی صفات کا ادب کرو.خدا نے *مسند احمد بن حنبل کلد ۲ ص۲۴۴

Page 367

انسان کا دماغ اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کی صفات اخذ کرے.مگر تم منہ پر مارت ہو جس سے خطرہ ہوتا ہے کہ دماغ کو جو اس کے بالکل قریب ہے صدمہ پہنچ جائے اورانسان کی عقل کو نقصان پہنچ جائے جس سے وہ اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرنے سے ہی محروم ہوجائے.اس حدیث کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں عَلٰی صُوْرَتِہٖ سے مراد عَلٰی صُوْرَۃِ الْاِنْسَانِ ہو.یعنی آدم کو اس کے مناسب حال شکل پر پیدا کیا.اس صورت میں اس حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ وہ زور سے ما رہا تھا اس لئے ممکن تھا کہ غلام کا کوئی عضو ٹوٹ جاتا.اس پر رسول کریم ؐ نے فرمایا خدا نےتو اسکو اس کے مناسب حال شکل دی تھی کیا اب تم اس کو درست کرنےلگے ہو؟ گویا تعریفاً فرمایا کہاس طرحمار کر ایک بے کس آدمی کی شکل بگاڑ دینے کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ سےتو اس کی شکل کے بنانےمیں غلطی ہوگئی تھی اب تم اس غلطی کی اصلاح کرنے لگے ہو؟ اس صورت میں یہ زجر کا کلام ہے اور اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ خدا کی کوئی صورت اور شکل ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے.کیا خدا کی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے؟ اب شاید کسی کے دل میں یہ خیال گذرے کہ جب وہ ایسی وارءالوریٰ ہستی ہے کہ جس کا کوئی پتہ ہی نہیں لگ سکتا تو پھر ہم اسے کس طرح سمجھ سکتے ہیں اور کیونکر اس کے وجود کو ذہن میں لا سکتےاور اس کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی ذات اور حقیقت کو کوئی نہیں پاسکتا.کیونکہ جس چیز کی حقیقت کو کوئی پالیتا ہے اس کو بنا بھی لیتا ہے اور ہمارا خدا کی حقیقت کو پالینے کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم اسے بنا بھی سکتے ہیں.مثلاً گھڑی ہے اس کے متعلق اگر کامل علم ہو اس کے پُرزوں کی ساخت کا بھی اوران کی ترکیب کا بھی اور اس سامان کا بھی جس سے وہ بنتی ہے اور جس طرح وہ بنتی ہے تو پھر اس کا بنانا بھی ہمارے لئے بالکل ممکن ہوگا.اسی طرح خدا تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھ لینے اور پالینے کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم ایک ویسا ہی خدا بنا بھی سکیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کو سمجھنا تو الگ رہا ہم اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ سکتے اوراس بات کو بچّے بھی جانتے ہیں.چنانچہ بچّے ایک کھیل کھیلا کرتےہیں.جس میں ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ مجھ کو پکڑو جب دوسرا اس کے کسی عضو کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ تم نے مجھے تو نہیں پکڑا میرے ہاتھ کو پکڑا ہے یا پائوں کو پکڑا ہے یا سر کو پکڑا ہے.اس کھیل کا بھی درحقیقت یہی مطلب ہے کہ انسان کی حقیقت

Page 368

بھی پوشیدہ ہےصرف آثار ظاہر ہیں.سارے فلاسفر اس بات کی تعیین کرتے کرتے مرگئے کہ میں کیا چیز ہے.؟مگر وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے.پس جب انسان اپنے آپ کا پتہ نہیں لگا سکتے تو خدا کا پتہ کیا لگائیں گے.حدیث میں آتا ہے کَلَّکُمْ فِیْ ذاتِ اللہِ حُمْقیٰ.کہ خدا کی ذات کے متعلق تم سارے بالکل حیران پریشان ہو.اس کی ذات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی.سب حقیقتیں مخفی ہوتی ہیں انسان کے اس شک کو دور کرنے کے لئے کہ اگر مَیں خدا کو نہیں سمجھ سکتا اور اس کی حقیقت معلوم نہیں کرسکتا تو اس کے ماننے کا کیا فائدہ ؟ خدا تعالیٰ نے ساری ہی حقیقتوں کو مخفی کردیا ہے.چھوٹی سے چھوٹی چیز کی حقیقت کو بھی ہم نہیں معلوم کرسکتے ایک میز کو لے لو ہم اس کی چوڑائی لمبائی اور رنگ دیکھتے ہیں مگر کیا لمبائی چوڑائی اوررنگ کو میز کہتےہیں؟ ہم ان چیزوں کو دیکھ کر ایک عرفان ایک وقوف اپنےذہن میں پاتے ہیں اور وہ میز ہوتی ہے.یامثلاًکوئی شخص دوسرے کو اپنا بیٹا کہتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟کیا اس لئے کہ وہ اتنا اونچا اور اس رنگ کا ہے.نہیں بلکہ اس کیفیت کی وجہ سے جو اس کےذہن میں پیدا ہوتی ہے،غرض اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دُور کرنےکے لئے اگر خدا کی ذات مخفی ہی رہتی ہے تو کیا پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ ہے اور کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے.سب چیزوں کی حقیقت کو مخفی کردیا ہے.خدا کی ہستی کا پتہ کس طرح لگتا ہے ؟ اب سوال ہوگا کہ پھر اس وارء الوریٰ ہستی کا پتہ کس طرح لگے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ مَیں نے کل بتایا تھا اس کا پتہ الہام سے لگتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ۰ۡوَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ(الانعام:۱۰۴)تم خدا تک نہیں پہنچ سکتے مگر اس پر گھبرائو نہیں ہم خود تمہارے پاس آئیں گے.ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے ایک دفعہ ان کے پاس بادشاہ کا پروانہ آیا کہ جلدی آکر ہمیں فلاں جگہ پر ملو اس پر ان کے دوست گھبرائے کہ کیا سبب ہے کہ بادشاہ نے اس طرح انہیں بلوایا ہے اور انہوں نے چاہا کہ وہ ابھی ٹھہریں پہلے وہ پتہ لے لیں کہ کیا بات ہے.مگر وہ چل پڑے.شام کے قریب سخت بارش آئی اور اندھیرا ہوگیا اور وہ ایک جھونپڑی میںجو جنگل میں تھی پناہ لینے پر مجبور ہوئے وہاں جاکر انہوں نےصاحب مکان سے رات بسر کرنے کی اجازت طلب کی.جو

Page 369

شخص اندر تھا اس نے کہا آجائو.وہ اندر آگئے تو دیکھا ایک پاہج لیٹا ہے جب اس کو انہوں نے اپنا پتہ بتایا کہ مَیں فلاں ہوں تو وہ رو پڑا کہ مَیں مدت سے دعائیں کر رہا تھا کہ خدا مجھے آپ کی زیارت کرائے معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ آپ کو میرے لئے ہی لایا ہے.وہ رات بھر وہاں رہے.صبح دوسرا ہرکارہ آگیا کہ آپ کو اب آنے کی ضرورت نہیں رہی واپس چلے جائیں اس سے ان کو اور بھی یقین ہوگیا کہ یہ ایک الٰہی تدبیر تھی.جس طرح وہ اپاہج جو چلنے پھرنے سے مجبور تھا اس بزرگ تک پہنچ گیا تھا.اسی طرح ہم جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے معاملہ میں اپاہجوں سے بھی بدتر ہیں خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں یعنی وہ خود ہم تک آئے اور اپنے وجود کو ہم پر ظاہر فرمائے اور وہ ایسا ہی کرتا ہے اوراپنی ملاقات کےپیاسوں کو خود آکر اپنے شربت دیدار سے سیراب کرتا ہے خدا کی معرفت کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا علم تو ہمیں الہام کےذریعہ سے ہوجائے گا لیکن اس کی معرفت ہمیں کس ذریعہ سے حاصل ہوسکتی ہے.کیونکہ خالی علم اس تعلق کے لئے کافی نہیں جو خالق اور مخلوق کے درمیان ہونا چاہئے.اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی معرفت کامل حاصل کرنے کے تین طریق ہیں.ایک تو یہ ہے کہ اس چیز کو پکڑ کر سامنے کردیا جائے اور دوسرا آدمی اسے خوب اچھی طرح ٹٹول ٹٹال کر دیکھ لے اور اس کی پوری معرفت پیدا کرلے.مثلاً ایک شخص کا نام سیف اللہ ہو.جس نے اسکو نہ دیکھا ہو وہ اگر اس کی معرفت حاصل چاہے تو سیف اللہ کو پکڑ کر اس کے سامنےکردیں گے کہ وہ یہ شخص ہے.دوسرا طریق یہ ہے کہ اس چیز کی بناوٹ کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا جائے مثلاً کسی ملک میں میز اور کرسی کا اگر رواج نہ ہو اور اسی ملک کے لوگ برسبیل تذکرہ میز و کرسی کا نام سنیں تو ان کو واقف کرنےکے لئے یہ ذریعہ اختیار کیا جائے گا کہ میز اورکرسی کی شکل اور بناوت اوران کا کام تفصیل سے ان کو بتا دیاجائے گا اور اس سےایک اندازہ انکے ذہن میں میز اور کُرسی کی نسبت پیدا ہوجائے گا تیسرا طریق یہ ہے کہ جو ان چیزوں کے متعلق استعمال کیاجاتا ہے جو مرئی نہیں ہیں یہ ہے کہ ان کی صفات کےذریعہ سے ان کی معرفت کرائی جاتی ہے.مثلاً نور ہے یہ ایسی چیز نہیں کہ اس کی بناوٹ بیان کرسکیں اس لئے ایک اندھے کےسامنے اس کی صفات ہی بیان کی جائیں گی.اسکےذریعہ سےآنکھ بغیر ٹٹولنے کے معلوم کرلیتی ہے

Page 370

کہ کسی چیز کی لمبائی کیا ہے چوڑائی کیا ہے اور اونچائی کیا ہے رنگ کی کیفیت اندھا سمجھ نہیں سکتا اس بیان سے اندھا کچھ نہ کچھ اندازہ کرلے گا.اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں کہ جن کی صفات بیان کرنے ان کا پتہ لگایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی شناخت بھی اس طریق سےہوتی ہے وہ صفات ہی کے ذریعہ سےانسان کےسامنے آتا ہے اور صفات ہی کےذریعہ سے انسان اسے پہچان سکتا ہے.کیا خدا ایک ہی ہے یا ایک سے زیادہ خدا ہیں؟ جب سے تاریخ عالم کا پتہ چلتا ہے یہ سوال بنی نوع انسان کے سامنے رہا ہے کہ کیا خدا ایک ہی ہےیا ایک سے زیادہ ہستیاں ہماری اطاعت و فرمانبرداری کی مستحق ہیں؟ اس سوال کا جواب اسلام نے نہایت واضح اور زور دار الفاظ میں یہ دیا ہےکہ خدا صرف ایک ہے اور کوئی ہستی اس کی شریک نہیں.بلکہ عقلاً بھی ایسی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہےدو نہیں ہوسکتیں.یہ بالکل ناممکن ہے اورہماری عقل ہی نہیں سمجھ سکتی کہ دو محیط کل ہستیاں ہوں دو کا لفظ ہی حد بندی پر دلالت کرتا ہے اور حدبندی کے ساتھ اس غیر محدود قوت کا خاتمہ ہوجاتا ہے جو خدا کے خیال کے ساتھ لازم و ملزوم ہے.پس خدا ایک ہی ہوسکتا ہے دو خدا نہیں ہوسکتے.شرک کیا چیز ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ غیر مرئی ہے تو اس کا شریک بنانے یا سمجھنے سے کیا مراد ہے؟ یہ بھی ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ سے لوگوں کو حیرت و پریشانی میں ڈالتا رہا ہے وہ لوگ جو بڑے زور سے ایک خدا کے قائل ہوتے ہیں بعض دوسرے لوگ ان کی نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ مشرک ہیں اوراگر ہم ان کی حالت پر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر بعض ایسی باتیں ضرور پائی جاتی ہیں جن کو دل اندر سے بُرا سمجھتا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ شرک کا مسئلہ ایسا سیدھا سادہ نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے بلکہ نہایت باریک مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر قومیں جو بظاہر شرک کی مخالف عملاً شرک میں مبتلاء پائی جاتی ہیں اور اس کا سبب یہی ہے کہ وہ شرک کی حقیقت سمجھنے سے قاصر رہی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ شرک کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے.بلکہ مختلف نقطہ نگاہ سے اس مرض کی حقیقت کو سمھا جاسکتا ہے جب تک اسے ایک تعریف کےاندر لانےکی کوشش ہوتی رہےگی اس وقت تک یہ مسئلہ عُقْدۂِ لَا یَخْلْ رہے گا.میرے نزدیک اسےسمجھنےکےلئے مندرجہ ذیل تقسیم بہت مفید ہوسکتی ہے.

Page 371

اوّل یہ خیال کرنا ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں جو یکساں طاقتیں رکھتیں ہیں اور سب کی سب دنیا کی حاکم اور سردار ہیں یہ شرک فی الذات ہے.دوسرے یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مدبر ہستیاں ایک سے زیادہ ہیں جن میں کمالات تقسیم ہیں.کسی میں کوئی کمال ہے اور کسی میں کوئی.یہ شرک ہے اور یہ بھی درحقیقت شرک فی الذات ہی ہے.تیسرے وہ اعمال جو مختلف قوموں میں عاجزی اور انکساری کے لئے اختیار کئے گئے ہیں ان میں سے جو حد درجہ کے انتہائی عاجزی کےاعمال ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اور کے لئے کرنا شرک ہے مثلاً سجدہ ہے انتہائی تذلل اورآدب کا ذریعہ یہی ہے کہ سجدہ کیا جائے.اس سے بڑھ کر اور کوئی طریق نہیں کیونکہ اس میں انساناپنے آپ کو گویا خاک میں ملا دیتا ہے اس سے بڑھ کر تذلل کا ذریعہ انسانی عقل تجویز ہی نہیں کرسکتی.پس یہ عمل صرف خدا کے لئے ہی کرنا چاہئے اور کسی کے لئے نہیں کرنا چاہئے تا خدا تعالیٰ میں اور دوسرے وجودوں میں امتیاز قائم رہے.اس خصوصیّت کی نسبت یہ خیال کرلینا چاہئے کہ جس قدر اعمال انکسار اور تذلل کے تھے خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق کہا کہ ان میں سے ایک میرے لئے رکھ دو اور باقی بیشک اوروں کے لئے استعمال کرو.یہ نہیں ہوسکتا کہ وہی میرے لئے اور وہی دوسروں کے لئے کیونکہ یہ میری شان کے خلاف ہے اس لئے میرے لئے ایک عمل کو علیحدہ کردو اگر وہ عمل اوروں کے لئے کروگے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ تم ان کو بھی میرے برابر قرار دیتے ہو.سجدہ کے علاوہ مختلف اقوام میں مختلف حرکات بدن انتہائی تذلل کے لئے سمجھی گئی ہیں جیسے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ،رکوع ،دوزانو ہوکر بیٹھنا.ان سب کو خدا تعالیٰ نےاپنے لئے مخصوص کرلیا ہے اور عبادت الٰہی کا حصہ بنا دیا ہے.پس یہ عمل اب اور کسی کے لئے کرنے جائز نہیں ہیں اور شرک میں داخل ہیں.شرک کی چوتھی قسم چوتھی قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب ظاہری کے متعلق یہ سمجھے کہ ان سے میری سب ضروریات پوری ہوجائیں گی.اوراللہ تعالیٰ کے تصرّف کا خیال دل سے مٹا دے اور یہ خیال کرے کہ صرف مادی اسباب ہی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں مثلاً اگر کوئی سمجھے کہ روٹی کھانے سے ضرور پیٹ بھرجائے گا اور خدا تعالیٰ کی قضاء کا اب اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے تو یہ شرک ہوگا یہ جو کپڑا پہنے اس کے متعلق سمجھے کہ یہ ضرور سردی سے بچائےگا تو یہ بھی شرک ہوگا.یا کوئی سامان مہیّا کرے اور سمجھے کہ اس کےذریعہ ضرور میرا کام ہوجائے گا

Page 372

یہ بھی شرک ہے ہاں اگر یہ خیال کرے کہ ان سامانوں میں خدا نے یہ طاقت رکھی ہے اور اس کے فعل اور ارادےکے ماتحت ان کے نتائج پیدا ہوں گے تویہ شرک نہیں ہوگا.پس شرک کی ایک قسم یہ ہے کہ آخری تصرّف جو خدا کو دینا چاہئے وہ اسباب کو دیدے.اس شرک کے اندر بھی یہی حقیقت مخفی ہے کہ انتہائی مقام تصرف کا خدا سے لیکر اور چیزوں کو دیدیا ہے.شرک کی پانچویں قسم پانچویں قسم شرک کی یہ ہے کہ خدا کی وہ مخصوص صفات جو اس نے بندو ں کو نہیں دیں جیسے مُردہ کو زندہ کرنا.یا کوئی چیز پیدا کرنا یا یہ کہ خدا نے کہا ہے مَیں ازلی ہوں اور میرے سوا اور کوئی ازلی نہیں.یا یہ بتایا ہے کہ میں فنا سے محفوظ ہوں جبکہ دوسرےسب فنا کا شکار ہیں ایسے سب اُمور میں خدا تعالیٰ کی خصوصیت کو مٹا دینا اور ان صفات میں کسی اور کو شریک کردینا خواہ اس عقیدہ کی بناء پر کہ خدا نے اپنی مرضی اور اپنے ازن کے ساتھ یہ صفات یا ان کا کچھ حصہ کسی خاص شخص کو دیدیا ہے شرک ہے.اس شرک میں افسوس ہے کہ اب مسلمان بھی مبتلا ہیں.حالانکہ یہ بہت کھلا اور ظاہر شرک ہے.مسلمانوں کا عام طور پر یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰؑابھی تک زندہ ہیں حالانکہ ہر انسان کےلئےفناہے اور فنا سے صرف خدا کی ذات محفوظ ہے اور غیر طبیع زندگی اور وہ بھی ایسی کہ اس میں نہ کھانا ہے نہ پینا نہ حوائج انسانی کا پورا کرنا درحقیقت ابدیت کا ہی دوسرا نام ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک دفعہ تو ضرور ہی ایک انسان کو مار دیتا ہے.پھر خواہ ابدی زندگی ہی دے دےیہ بھی ایک وجہ ہےکہ خدا تعالیٰنے اس دُنیا میں جنت نہیں بنائی تا کہ لوگوں کو ایسےآدمی دیکھ کر جو موت سے محفوظ ہوں خدا تعالیٰ کی ابدیت کی حقیقت میں شُبہ نہ پیدا ہوجائے.شرک کی چھٹی قسم چھٹی قسم شرک کی یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو بالکل نظر انداز کردے اور یہ سمجھے کہ کسی شخص یا کسی چیز نے بلا ان اسباب کے استعمال کرنے کےجو خدا تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لئے مقرر کئے ہیں اپنی ذاتی اور خاص طاقت کےذریعہ سےاس کام کو کردیا ہے مثلاً خدا تعالیٰ نےآگ کو جلانے کے لئےپیدا کیا ہے.اب اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ کسی شخص نے بلا آگ اوربلا ایسے ہی دوسرےذرائع کے استعمال کرنے کےاپنی ذاتی طاقت سے آگ لگادی اور قانون قدرت کو گویا توڑ دیا یہ شرک ہے لیکن اس میں مسمریزم وغیرہ شامل نہیں کیونکہ یہ طاقتیں خود قانون قدرت کے اندر ہیں اور کسی شخص کےذاتی کمالات نہیں بلکہ سب لوگوں میں موجود ہیں اور قانون قدرت کےصحیح استعمال کے نتیجہ میں

Page 373

پیدا ہوتی ہیں.پس جو جو کام اس قسم کی طاقتوں کےذریعہ سے ہوسکتے ہیں جیسےاعصاب کی حِسّ کو ماردینا.بے ہوش کردینا.جسم کو سخت کردینا وغیرہ ان پر یقین لانا شرک نہیں کہلائے گا.پس جو اسباب خدا نےکسی چیز کےہونےکے لئے رکھے ہیں ان کے بغیر خیال کرنا کہ کوئی شخص اپنے زور سےکام کردے گا بغیر اس کے کہ یہ سمجھے کہ وہ دعا کرکے خدا سے وہ کام کرا دے گا یہ شرک ہے.شرک کی ساتویں قسم ساتویں یہ سمجھنا کہ خدا کو کسی بندہ سے ایسی محبت ہے کہ ہر ایک بات اس کی مان لیتا ہے یہ بھی شرک ہے کیونکہ اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ بندہ خدائی طاقتیں رکھتا ہے.ہر ایک بات جو وہ کہتا ہے قبول ہوجاتی ہے.یہ ضروری نہیں کہ ایسے آدمی کو خدا سمجھا جائے.اگر اسے خدا کا غلام بھی سمجھا جائے.مگر اس کی نسبت یہ خیال کیا جائے کہ اس سے خد ا کو ایسی محبت ہے کہ اس کی ہر ایک بات قبول کرلیتا ہے یہ شرک ہےسارے پیر فقیر جن کے متعلق لوگ ایسا خیال رکھتے ہیں اس کے اندر آجاتے ہیں.ہماری جماعت کو بھی ایسے خیالات سے بچنا چاہیے بعض لوگوں کو مَیں دیکھتا ہوں بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں یا لکھ دیتے ہیں کہ اگر آپ دعا کریں گے تو وہ ضرور ہی قبول ہوگی.خدا تعالیٰ بادشاہ ہے کسی کا غلام نہیں اس قسم کےکلمات سے اللہ تعالیٰ کی ہتک ہوتی ہے اور شرک پیدا ہوتا ہے مَیں تو کیا چیز ہوں جن لوگوں کے قدمون کی خاک کے برابر بھی میں نہیں یہ رُتبہ ان کو بھی حاصل نہ تھا.شرک کی آٹھویں قسم آٹھویں قسم شرک کی یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے خدا کے قانون قدرت نے کسی کام کےکرنے کے لئے کوئی طاقت نہیں دی اس کے متعلق خیال کرلیا جائے کہ وہ فلاں کام کرے گی.جیسے مثلاً خُدا نے مُردہ کو طاقت نہیں دی کہ اس دنیا میں کوئی تصرف کرسکے اب اگر کوئی کسی مُردہ کو جاکر کسی تصرف کے لئے کہتا ہے تو شرک کرتا ہے اس طرح بتوں ،دریاؤں،سمندروں ،سورج ،چاند وغیرہ چیزوں سے دُعائیں کرنا اور کرانا بھی شرک ہے.شرک کی نویں قسم نویں قسم شرک کی یہ ہے کہ ایسے اعمال جو مشرکانہ رسوم کا نشان ہیں گو اب شرک کی مشابہت نہیںرکھتے ان کا بلا ضرورت طبعی ارتکاب کرے.مثلاً ایک شخص کسی قبر پر جا کر نہ دُعا کرے نہ کرائےنہ صاحب قبر کو خدا سمجھے لیکن وہاں دیا جلا کر رکھ آئے تو یہ فعل بھی شرک کے اندر آجائے گا.کیونکہ یہ عمل پہلے زمانہ کے مشرکانہ اعمال کا

Page 374

اورباریک بحثوں کو سمجھ نہیں سکتے اور چونکہ لوگ فلسفیانہ بحثوں میں ہی اکثر پڑ جاتے ہیں اس لئے عوام النّاس کو چندان فائدہ نہیں ہوتا.شرک کے مقابلہ کا اصل طریق فطرتِ انسانی سےاپیل ہے خدا تعالیٰ نےشرک کے خلاف انسان کی فطرت میں مادہ رکھا ہے اور اس کے پاس اپیل رائیگاں نہیں جاتی ایک مشرک آدمی سے بھی بجائے فلسفیانہ بحث کرنے کے اگر اس کی عقل اور ضمیر سے اپیل کرتے ہوئے اس کی توجہ کو اس طرف پھیرا جائے تو وہ بہت جلد حق کی طرف رجوع کرتا ہے.قرآن کریم نے اسی طریق پر زیادہ زور دیا ہے بجائے اس پر بحث کرنے کے کہ خدا کا شریک ہوسکتا ہے یا نہیں.لوگوں کو یہ توجہ دلائی ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کو یاد رکرتے ہوئے دوسروں کو اس کے برابر قرار نہ دو اورپھر ان چیزوں کو کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن کو لگ خدا کا شریک قرار دیتےتھے اور اس طرح لوگوں کو صحیح فطرت کو اُکسایا ہےجس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کا ملک شرک کو چھوڑ کر توحید کی طرف لوٹ آیا.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک قانون قدرت بنایا ہے اور جو طاقتیں کسی کو دینی تھیں وہ دےدی ہیں.ان سے الگ جو کام انسان کرنا چاہتا ہے اس کےکرنے کیطاقت خدا نے اپنے قبضہ میں رکھی ہے تا کہ اس کی طرف انسان کی توجہ ہو اگر سب کچھ انسان خود کرلیں تو اس کی طرف کون توجہ کرے.پس خدا تعالیٰ نے قانونِ قدرت بنا دیا اورپھر یہ فیصلہ کردیا کہ اگر کوئی اس میں فرق کرنا چاہےتو وہ مجھ سےدُعا کرے اس کے بدلنے کی طاقت میں کسی اور کو نہیں دوں گا.پس صرف ایک ذریعہ دعا کا انسان کےہاتھ میں رکھا گیا ہے اور دُعا صرف خدا تعالیٰ سےکی جاسکتی ہے اور کسی سے نہیں.دوسرے سے دُعا کرانا اگر کوئی کہے کہ پھر دوسرے سےدُعا کرانا بھی ناجائز ہونا چاہئے یہ کیوں جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی اجازت دینے میں ایک حکمت مخفی ہے.اگر یہ حکمت نہ ہوتی تو دوسرے سے دُعا کرانا بھی شرک ہوتا اور وہ یہ ہے کہ اکثر انسان کمزور ہوتے ہیں وہ خود اپنےپاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتے اور ان کے لئے کسی نمونے کی ضرورت ہوتی ہے اگر نمونہ نہ ہو تو ان کا خدا تک پہنچا مشکل ہوجائے.پس خدا تعالیٰ نے دُعا کی قبولیت کے مدارج مقرر کردئیے ہیں تا کہ لوگ صحبت صالح کی جستجو کریں اوربد صحت سے اجتناب کریں کیونکہ یہ قدرتی بات ہے کہ جب کوئی شخص دیکھے گا کہ ایک شخص کی دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے تو اس کی طرف توجہ کرے گا اور اس کی صحبت کو قبول کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اعمال میں

Page 375

Page 376

درستی پیدا ہونے لگے گی دوسرےدُعا کرانےوالا کبھی یہ فرض نہیں کرتا کہ اس شخص کو خدا تعالیٰ نےکوئی طاقت دیدی ہےبلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی دُعا کو بوجہ اس کی نیکی کے خدا زیادہ سُنتا ہے.مگر یہ ضرور شرط ہے کہ جس سے انسان دُعا کرائے اس کے متعلق یہ خیال ہرگز نہ کرے کہ اس کی سب دُعائیں اللہ تعالیٰ سنتا ہے اگر ایسا سمجھے گا تو وہ مشرک ہوجائیگا خدا تعالیٰ کے استغناء کو اسےضرور مدِّ نظر رکھنا چاہئے.مُردہ سے دُعا کرانا شرک ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر دوسرے سے دُعا کرانا شرک نہیں اور ادھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مُردے سنتے ہیں اور احادیث سے بھی یہ امر ثابت ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مُردوں سے دُعا کرانا شرک ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان امور کے لئے کسی زندہ سےالتجا کرنا بھی شرک ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اورطبعی قانون سے بالا ہیں.پس مُردے سے کیونکر جائز ہوسکتا تھا زندہ سے انسان دُعا کرتا نہیں بلکہ اس سے دُعا کراتا ہے.اگر کہا جائے کہ مُردے سے دُعا کرانا تو پھر شرک نہ ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مُردے گو سنتے ہیں مگر ان کا سننا خدا تعالیٰ کے خاص حکم کے ماتحت ہوتا ہے وہ انسانوں کی طرح ہرایک بات جو ان کی قبر پر کہی جائے نہیں سنتے.ہاں ان کی رُوح کو اپنے دنیوی عزیزوں سے ایک تعلق پیدا کرانے کیلئے بعض امور ان کو سنائے جاتے ہیں.پس ایسے وجودوں سے دعا کرانے کی خواہش کرنا جن کا ہر ایک بات سننا بھی یقینی نہیں بلکہ خدا کے خاص حکم کے ماتحت ان کو باتیں سنائی جاتی ہیں اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے اتنی دیر انسان خدا سے ہی کیوں دعا نہ کرے.ہاں اگر کشف یا وحی سے کسی انسان کو کسی مُردہ بزرگ کی زیارت کرائی جائے اور اس پر منکشف ہوجائےکہ اسے اس کے لئے دُعا یا شفاعت کی توفیق دی جائے گی اور وہ اس سے دُعا کے لئے کہے تو یہ جائز ہوگا بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہوگی جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے باریک روحانی علم دیا گیا ہےاگر یہ حالت نہ ہو تو جو شخص اس خیال سے مُردہ سے دُعا کراتا ہے کہ وہ ضرور اس کی باتیں سن رہا ہے اور ضرور دعا کرے گا اور ضرور اس کی سُنی جائیگی.وہ مشرک ہےاور مُشرکانہ فعل کرتا ہے اور جو شخص سمجھتا ہے کہ طبعی قانون کے ماتحت رہے یہ اور دنیا میں ہیں خدا کا خاص فعل ان کو دنیا کی آوازیں سنا سکتا ہے اور خدا کی خاص اجازت سے ہی یہ دُعا کرسکتے ہیں اور خدا چاہے تو ان کی سُنے اور چاہے تو نہ سُنے تو ایسے شخص کا مُردہ سے دعا کی خواہش کرنا شرک نہ ہوگا.ہاں بسا اوقات ایک عبث فعل اور وقت کا ضائع کرنا ہوگا اور بسا اوقات مکروہ ہوگا اوربسا اوقات ناجائز ہوگا گو شرک کی حد تک نہ پہنچے کیونکہ

Page 377

دوسرے سے دُعا کرانےکی اصل حکمت صُحبتِ صالح کی طرف توجہ دلانا ہے.اگر مُردوں سےدُعا کرانے کا دروازہ کُھلا ہو تو زندوں سے دُعا کرانے کا رواج اور اس طرح صُحبتِ صالح سے فائدہ اُٹھانے کا رواج بہت کم ہوجائے گا اور اس سے دنیا کی روحانی ترقی کو نقصان پہنچے گا.میرے نزیکزندہ سے دُعا کرانے کا فائدہ خواہ وہ وفات یافتہ سے بہت ہی کم درجہ پر کیوں نہ ہو بہت زیادہ ہوگا(بشرطیکہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مُردہ سے دُعا کرانے کا اس موقعہ پر اسے کوئی فائدہ ہوا ہے) مُردے سے دعا کرانے کا جو استثناء مَیں نے بیان کیا ہے اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے آپ کو بعض کشوف کےذریعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیحؑ ناصری سے ملایا گیا اوران سےدعا کی خواہش کرائی گئی جسے آپؑنے اپنی بعض تحریروں میں اورنظموں میں بیان کیا ہے اورجاہل اورنادان خشک ملاؤں نے اس پر اعتراض کیا ہے.کیا شرک بخشا نہیں جائےگا جبکہ مَیں نے اس امر پر خاص زور دیا ہے کہ شرک ایک نہایت باریک سوال ہے تو یہ شُبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ ایسے باریک سوال پر اس قدر سخت گرفت کیوں رکھی ہے کہ وہ بخشا ہی نہیں جائے گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ شرک باوجود تو بہ کےنہیں بخشا جائے گا.کوئی گناہ بھی ایسا نہیں کہ جو توبہ سے بخشا نہ جائے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا تو اس کےصرف یہ معنی ہیں کہ بعض گناہ ایسے ہیں جو بعض نیکیوں کے مقابلہ پر آکر انسان کی روحانی ترقیات میں روک نہیںبنتےپس باوجود ان کے انسان نجات پا جائے گا مگر شرک ان گناہوں میں سے نہیں ہے.اگر ایک انسان مُشرک ہو تو خواہ دوسرے اعمال اس کے کس قدر بھی اچھے کیوں نہ ہوں اسےاپنی روحانی پاکیزگی کے لئےجد و جہد کرنی پڑے گی اور ایسے حالات میں سےگزرنا پڑیگا جن میں سے گزرے بغیر روح اگلے جہان میں اپنی امراض کو دور نہیں کرسکے گی اور پھر یہ بھی بات ہے کہ حکم شرک جلی کے لئے ہے نہ کی شرک خفی کےلئے.شرک خفی کے متعلق اس کی نیت اور کوشش کو دیکھا جائے گا.شرک کے خلاف قرآن کا طریق شرک کےخلاف لوگ چونکہ غلط بحثوں میں پڑ جاتے ہیں اس لئے ان کی بحثوں کا نتیجہ قطعی نہیں نکلتا مگر جیسا کہ مَیں مختصراً اوپر ذکر کر آیا ہوں اس مسئلہ کے متعلق بحث زیادہ تر تفصلی کرنی چاہئے.مثلاً بجائے اس پر بحث کرنے کےکہ سجدہ کرنا چاہئے یا نہیں اس پر بحث کرے کہ وہ کونسا

Page 378

وجود ہے جو سجدہ کا مستحق ہے اس کو ہمارےسامنے پی کرو قرآن کریم نے اس طریق کو اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے مشرک کا ناطقہ اس طرح بند ہوگیا ہے کہ اب موحد کے سامنے اس کی زبان نہیں کھل سکتی.مثال کے طور پر میں مندجہ ذیل آیات کو پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْھآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِھا مِنْ سُلْطٰنٍ۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ.(یوسف:۴۱) یعنی تم لوگ سوائے چند ناموں کے جو تم نے اور تمہارے آباء نے آپ ہی رکھ لئے ہیں اور کسی کی عبادت نہیں کرتے خدا تعالیٰنے ان کے متعلق کوئی دلیل نہیں نازل کی اپنی طاقتیں دینےکا اختیار خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے نہ کہ تمہارے اختیار میں پھر ان کو کس نے طاقتیںدیدیں خدا تعالیٰ کی طر ف سےآنے والے سب انبیاء تو یہی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں کہ اس کی پرستش کرو.یہی سیدھا اور پکّا طریق ہے لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہم یہ بحث نہیں کرتے کہ خدا کے سوا کوئی پرستش کے قابل ہے یہ نہیں ہمیں یہ بتا دو کہ کیا جِن جِن بُتوں کی تم پُوجا کرتے ہو ان میں خدا کی طاقت آگئی ہے اگر یہ ثابت کردو کہ وہ بیٹے دینے کی طاقت رکھتے ہیں،انسانوں کےدُکھ دور کرسکتے ہیں تو ان کے معبود ماننے میں کیا عذر ہوسکتا ہے؟ لیکن اگر ان میں کچھ بھی طاقت نہیں تو وہ معبود کیسےاوران کے پرستش کیسی؟ فرماتا ہے مشرکوں سے یہی پوچھو کہ جن کو تم خدا کا شریک بناتے ہو ان کے خدا ہونےکی دلیل پیش کرو جب خدائی کے اختیار خدا ہی دے سکتا ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا للہِ (یوسف:۴۱)سب اختیار میرےہی پاس ہیں تو ان کے پاس کچھ نہ ہوا مگر تم کہتے ہو کہ وہ یہ بات کرتے ہیں یہ کام کرتے ہیں اس لئے ثبوت دو کہ واقع میں ان میں بعض خدائی طاقتیں ہیں؟ ایک اور جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ھٰذَا خَلْقُ اللہِ فَاَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖ۰ۭ (لُقمٰن:۱۲)خدا کی مخلوق ظاہری ہی ہے اگر ان میں بھی کچھ طاقت ہے جن کو تم معبود بناتے ہو تو دکھاؤانہوں نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ کہاں ہے؟ شاید اس موقع پر کسی کے دل میں خیال گذرے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور یوسف علیہ السلام کو ان کے والد نے سجدہ کیا تھا اگر غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنا ناجائز ہے تو پھر ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سجدہ کے معنی اطاعت کے

Page 379

بھی ہیں فرشتوں سے کہا گیا تھا کہ آدم کی اطاعت کرو اور حضرت یوسفؑ کے متعلق جو آیت ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ یوسف ؑ کی ترقی دیکھ کر اوران کو سلامت پاکر ان کے والد نے شکریہ کے طور پر خدا کو سجدہ کیا نہ یہ کہ یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا.شرک کی سخت ناپسندیدگی کی وجہ اب مَیں بتاتا ہوں کہ شرک کو اتنا نا پسند کیوں کیا گیا ہے؟کہ سارے قرآن میں اس پر نفرت کا اظہار کیا گیا ہے.اوّل یہ کہ خدا کا شریک بنانے سے اس کی غیرت بھڑکتی ہے اور وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی شان کسی اور کو دی جائے اور غیرت بھی اعلیٰ صفات میں سے ہے اور اس کا پایا جانا خدا تعالیٰ کے کامل الصفات ہونے پر دلالت کرتا ہے نہ کہ نقص پر.دوم بندوں پر رحم اور مہربانی بھی شرک سے روکنے کا باعث ہے اگر لوگ خدا کے سوا اور معبودوں پر بھی یقین رکھیں گے تو اکثر کم ہمتی کی وجہ سے (تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں ) کہہ دیں گے کہ ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے چھوٹےخداؤں کو خوش کرلیا.اس سے آگے جاکر کیا کرنا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی عبادت سے جو روحانی ترقیات کے لئے ضروری ہے محروم ہوجائیں گے.پس لوگوں کو ہلاکت سے بچانےکے لئے شرک کے دُور کرنے کی طرف اللہ تعالیٰ دوسرے امور کی نسبت زیادہ توجہ فرماتا ہے.سوم یہ کہ جو اُمور معبود ان باطلہ میں تسلیم کئے جاتے ہیں اگر فی الواقع خدا کے سوا اور وجودوں میں پائے جائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان حجاب اور پردے پیدا کر چھوڑے ہیں حالانکہ بنی نوع انسان کو پیدا ہی قربِ الٰہی کے حصول کے لئے کیا گیاہے.پس شرک کی وجہ سے چونکہ محبّتِ الٰہی کم ہوجاتی ہے اور پیدائش کی غرض پوشیدہ ہوجاتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے گویا اللہ تعالیٰ اپنے اپنے بندوں کے درمیان روک پیدا کرنی چاہتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس غلط عقیدہ کو مٹاکر انسان کے دل میں اپنی کامل محبّت پیدا کرنی چاہتا ہے جو بلا توحید پر ایمان لانے کے ہوہی نہیں سکتا.چوتھے یہ کہ شرک سے جھوٹ ،جہالت اور بزدلی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے ان گناہوں میں مبتلا ہوں اس لئے وہ اس ناپاکی کو دور فرماتا ہے.جھوٹ شرک میں یہ ہے کہ جو طاقتیں خدا نے کس کو نہیں دیں ان کی نسبت کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں شخص یا

Page 380

چیزیں وہ موجود ہیں.جہالت اسلئے کہ جن چیزوں کو خدا تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کیلئے اور خدمت کیلئے بھیجا ہے انہیں وہ اپنا افسر اور حاکم سمجھ کر ان سے فائدہ اُٹھانےسے محروم ہوجاتا ہے اور ایسے ذرائع سے ان سے نفع حاصل کرنا چاہتا ہے جس طریق سے وہ نفع حاصل نہیں کرسکتا اور بزدلی اسلئے کہ جن وجودوں سے اسے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں جن سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا وہ ان سے کانپتا اور لرزتا ہے.حق یہ ہےکہ شرک انسان کا نقطہ نگاہ بہت ہی محدود کردیتا ہے اور اس کی ہمت کو گرا دیتا ہے اور اس کے مقصد کو ادنیٰ کردیتا ہے.مشرک انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ براہ راست خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا اور اسے کسی واسطہ کی ضرورت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نےاپنے اور انسان کے درمیان کوئی واسطہ نہیں رکھاوہ سب انسانوں سے یکساں محبّت کرتا ہے.ہاں اگر ان کے اعمال میں فرق ہو تو بیشک وہ اعمال کے لحاظ سے تعلق میں بیشک فرق کرتا ہے لیکن بلحاظ بندہ ہونے کے کافر اور مؤمن سےاس کا یکساں سلوک ہے اور سب کےلئے اس کے دروازے کھلے ہیں جو چاہے اس کےقریب کی تلاش کرے.وہ نہیں چاہتا کہ انسان اور اس کےدرمیان کوئی واسطہ بن کر کھڑا ہو خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو.بلکہ یہ چاہتا کہ انسان خود اس کے سامنے آئے اب دیکھو کہ کوئی بادشاہ اپنی رعایا سے چاہے کہ وہ خود اس سے بات کریں مگر وہ دوسروں سے جاکر کہیں کہ تم ہمارا کام کردو ہم بادشاہ کے پاس نہیں جاتے تو کیا وہ پسند کرے گا؟ یہ خیال غلط ہے کہ بادشاہ سب سے تعلق نہیں رکھ سکتے آخر ان کے نائب مقرر ہوتے ہیں کیونکہ بادشاہ انسا ہوتا ہے اور اس کی طاقتیں مھدود ہوتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کی طاقتیں محدود ہوتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کی طاقتیں محدود نہیں ہیں.بادشاہ کے لئے سب سے تعلق رکھنا ممکن نہیں مگر خدا تعالیٰ کی طاقت اور قدرت میں ہے کہ وہ سب سے براہ راست تعلق رکھے اور وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے اور بندنے کے درمیان کوئی حجاب بنے کیونکہ اس نے انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ واس کا قرب حاصل کرے.دیکھو توحید پر ایمان لا کر انسان کی نظر کسقدر وسیع ہوجاتی ہے اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اس کا تعلق براہِ راست خدا تعالیٰ سے ہو اسے خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے کسی شفیع کی ضرورت نہیں نہ کسی نبی کی نہ کسی ولی کی.نبیوں کی اطاعت کی وجہ اس موقع پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو نبیوں کی اطاعت کیوں کی جاتی ہے؟اسکا جواب یہ ہےکہ اطاعت اور

Page 381

چیز ہے اور وسیلہ ڈھونڈنا اور شئے ہےاطاعت تو یہ ہے کہ جس رستے پر وہ چلتے ہیں ہم بھی اس راستہ پر چلیں یا متفقہ عمل کے لئے اس نظام کی پابندی کریں جسے وہ مقرر کرتے ہیں.مگر وسیلہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی شخص کو ا س لئے پیدا کرے یا اس عہدہ پر مقرر کرے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اندر نہ آسکے یا یہ کہ اپنے بعض اختیار اسے دیدے تا وہ بھی خدا کی بعض صفات کےذریعہ سے دنیا میں تصرف کرے نبیوں کی مثال یہ ہے کہ جیسےایک واقفِ راہ ایسے شخص کو جو کسی مقام کا رستہ نہ جانتا ہو اپنے ساتھ لےجاکر راستہ دکھا دے دُنیا کا کوئی شخص نہ کہے گا کہ یہ راستہ دکھانے والا شخص وسیلہ ہے.وہ راہنما کہلا سکتا ہے،رہبر کہلا سکتا ہے.استاد کہلا سکتا ہے مگر وہ درمیانی ہرگز نہیں ہے.وہ خدا تعالیٰ کی طاقتوں پر متصرف نہیں ہے.رسول لوگوں کو بلانے آتا ہے نہ کہ ان کے سامنے دروازہ بند کرکے کھڑےہوجانے کےلئے.خلفاء کا تعلق بھی انبیاء سے یہی ہوتا ہے وہ انبیاء کی تعلیم پر لوگوں کو عمل کرانے اور نظام قائم کرنےکے لئے ہوتے ہیں نہ کہ نبیوں اور لوگوں کے دریمان روک ہوتے ہیں.یہ نکتہ تھا جس کو بیان کرتے ہوئے حضرت احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے منہ سے نکل گیا تھا کہ پنجہ در پنجۂ خدا دارم من چہ پروائے مصطفیٰ دارم ایسے نیک انسان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے ادبی کریگا ان کا دوسرا کلام ہرگز اس امر کی تصدیق نہیں کرتا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےبے ادب تھےجو کچھ انہوں نے کہا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے ملنے کا راستہ سب کے لئے کُھلا چھوڑا ہے اس غرض کے لئے کسی وسیلے کی اسے ضرورت نہیں خواہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں اور اس میں کیا شک ہے کہ انسان کو قرب الٰہی کے حصول کے لئے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں گو نمونے اور رہنما کی اسے ضرورت ہے.انسان کو پیدا کرنے کی غرض غرض بندہ کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ اپنی صفات کی اس پر جلوہ گری کرے جیسے آئینہ بناتے ہیں تا کہ اس میں اپنا عکس دیکھا جائے اگر کوئی اس پر عکس نہ پڑنے دے تو اس شخص پر کس قدر غصہ آتا ہے اسی طرح خدا اوربندہ کے درمیان اگر کچھ حائل ہو تو اسے خدا ناپسند کرتا ہے.بچپن میں مَیں نےایک رؤیا دیکھی تھی کہ میں ایک جگہ لیکچر دے رہا ہوں اور یہ بیان کر رہا

Page 382

ہوں کہ خدا بندہ کے ساتھ اسی طرح تعلق رکھتا ہے جیسے انسان آئینہ سے پھر کہتا ہوں کہ دیکھو اگر ایک شخص کا آئینہ خراب ہوجائے اور وہ اس میں چہرہ دیکھنا چاہے مگر چہرہ نظر نہ آئے تو وہ کیا کرے گا یہی کہ وہ اسے زور سے اُٹھا کر زمین پر دے مارے گا اور اسے چکنا چور کردے گا اور اس وقت مَیں نے اپنے ہاتھ میں ایک آئینہ دیکھا جسے زور سے زمین پر دے مار ا اور وہ ٹکڑ ے ٹکڑے ہوگیا اور اس کے ٹوٹنے کی زور سے آواز آئی.میراس خواب کی یہی تعبیر تھی کہ بندہ کا دل اللہ تعالیٰ کا آئینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے اوربندے کے درمیان خود کسی کو کھڑا کرے اگر کوئی خود آکھرٓ ہو تو خدا تعالیٰ اسے سخت نا پسند کرتا ہے.نبی کی اطاعت کا حکم دینے کی مثال ایسی ہے کہ جسے کسی کو کہیں کہ آئینہ صاف کردو اور شرک جو وسیلہ قرار دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسےکوئی آئینہ پر گرد ڈال دے یا اسے سیاہ کردے ہم لوگ آئینہ ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمٰں صاف کرکے خدا کے سامنے کرنے والے ہیں کیونہ انہوں نے خاص قربانی اور خاص اطاعت سے اس طریق کو معلوم کرلیا ہے جس سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے وہ ہمیں راستہ بتاتے ہیں اور ہم ان کے پیچھے چلتے ہیں.لیکن شرک ایک روک ہے جو خدا اوربندہ کے درمیان حائل ہوجاتی ہے.صفات الٰہیہ کیا ہیں؟ شرک کا ذکر کرنے کے بعد میں اب صفات الٰہیہ کا ذکر کرتا ہوں، پہلا سوال یہ ہے کہ صفاتِ الٰہیہ کیا ہیں.صفات الٰہیہ وہ اسماء ہیں کہ جن کےذریعہ سے بندے اور خدا تعالیٰ کا تعلق بتایا جاتا ہے یا خدا تعالیٰ کے مقام تنزیہی یانزول کی کیفیت بتائی جاتی ہے یعنی وہ اپنی ذات میں کیا کمال رکھتا ہے اور بندوں سے کس طرح معاملہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ھوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھوَ۰ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ھوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۰ۭ يُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ وَھوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (الحشر :۲۴،۲۵) وہ اللہ ہے جس کے سوااور کوئی معبود نہیں بادشاہ ہے ،پاک ہے،سلامتی کا سرچشمہ ہے،امن دینے والا ہے، محافظ ہے،غالب ہے، نقصان کی اصلاح کرنے والا ہے،بلند مرتبہ ہے، اللہ پاک ہے ان کے مشرکانہ خیالات سے، وہ اللہ ہے خالق ،شکل بنانے والا ،صورتیں دینے ولا اس کے اندر تمام اچھی صفات

Page 383

پائی جاتی ہیں اور وہ غالب ہے اور حکمت والا ہے.یہ وہ نام ہیں جنکےذریعہ سے خدا تعالیٰ بندوں سے تعلق رکھتاہے یا جن کےذریعہ تمہارے لئے اپنے قرب کا سامان پیدا کرتا ہےیا جن کےذریعہ بندہ کو اپنے سے جُدا ثابت کرتا ہے.نام عربی میں صفت کیلئے بھی آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے جونا م قرآن اور احادیث میں آئے ہیں ان سے مراد صفات ہی ہیں اوران میں سے موٹے موٹے نام یہ ہیں.قدوس،سلام ،مؤمن ،مھیمن ،عزیز،جبار، متکبر، خالق،باری ، مصوّر ، حلیم،علیم ،رزاق،سمیع ،بصیر ،حفیظ ،کریم ،محی، قیوم ،رؤوف ،رحیم ، غنی ،صمد ، ودود.ان ناموں کے بتانے کی غرض یہ ہے کہ بندہ ان ناموں کےذریعہ سے معلوم کرسکے کہ وہ خدا سے کس کس طرح تعلق پیدا کرسکتا ہے.خدا کے لئے نام تجویز کرنا اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خدا نے کہا ہے کہ میرے اچھے نام ہیں تو کیا ہم خود بھی کوئی اچھا نام دیکھ کر خدا کی طرف منسوب کردیا کریں؟ میرے نزدیک ایسا نہیں کرنا چاہئے.وجہ یہ کہ اس میں بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلِلہِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْہُ بِھا۰۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕہٖ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(الاعراف:۸۱)تمام صفات حسنہ خدا کی ہیں پس تم انکے ساتھ اسے پکارو اوران لوگوں کو جو خدا تعالیٰ کے ناموں کے بارہ میں اپنی طرف سے باتیں بنالیتے ہیں تم انکو چھوڑ دو.چونکہ انسان جب خود عقل سے صفات الٰہیہ پر غور کرتا ہے تو کچھ کا کچھ بنا لیتا ہے اس لئے اس طرح کرنا ٹھیک نہیں.ہاں اگر کوئی شخص جو ش محبت میں ایسا کر بیٹھے تو ہم اسےبُرا بھی نہیں کہں گے.جیسے مثنوی والے نےایک قصہ لکھا ہے کہ ایک گڈریاں کہہ رہا تھا کہ اگر خدا مجھے مل جائے تو مَیں اس کی جوئیں نکالوں،اسے دُودھ پلاؤں ،اس کے پاؤں دباؤں.حضرت موسیٰؑ نےپاس سے گذرتےہوئے جب یہ سُنا تو اسے ڈانٹا کہ اس طرح نہ کہو.خدا تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو فرمایا تم نے اس کا دل کیوں توڑا.اس کا اسی قدر علم تھا یہ اپنے علم کے مطابق اظہار محبت کر رہا تھا لیکن اگر یہ خیال جو جوش محبت میں گڈریا ظاہر کررہا تھا اس کا عقیدہ بن جاتا اور دوسرے لوگ بھی اس کو سیکھتے تو خدا تعالیٰ کے متعلق کیسا بَھدّا خیال دنیا میں باقی رہ جاتا.چنانچہ ہندوئوں میں اسی قسم کے خیالات نے بڑی ابتری پھیلائی ہوئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ جب پر میشور سوتا ہے تو لچھمی اس کے پاؤں سہلاتی ہے.چونکہ ان کو دولت سے بہت محبت ہے اس لئے انہوں نے سمجھا کہ پرمیشور

Page 384

کی بھی یہی حالت ہوگی اس لئے انہوں نے سب سے بڑی عظمت خدا کی یہ سمجھی کہ جب وہ سوتا ہوگا تو لچھمی جسے وہ دولت کی دیوی سمجھتے ہیں پرمیشور کے پاس آتی اور اس کے پاؤں سہلاتی ہوگی.اس طرح عیسائیوں کے عجیب و گریب خیالا ت ہیں.آج کل ان میں رواج ہے کہ لوگوں کو مذہب کی طرف توجہ دلانےکے لئےنانک دکھاتے ہیں ایک قصّہ مشہور ہے جس میں یہ نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ یسوع کو صلیب پر چڑھانے لگے ہیں ایک دوسرا کمرہ ہے جس میں خدا سو رہا ہے ایک شخص جاتا ہے اور جاکر دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے کہ باپ اُٹھ بیٹا صلیب پر چڑھنے لگا ہے اس پر خدا آنکھیں ملتا ہوا اُٹھتا ہے اور کہتا ہے میری روح کو شیطان ہی لے جائے اگر مجھے اس بات کا پتہ لگا ہو.پس پسندیدہ طریق یہی ہے کہ اپنی طرف سے خدا کے متعلق کوئی بات نہ تجویز کی جائے.جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ (الانعام:۹۲)اپنی طرف سے خدا کے متعلق باتیں بنانےوالےکچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں.جیسے عیسائیوں نے اسے عادل بنایا اورپھر کہہ دیا کہ وہ رحم نہیں کرسکتا دیکھو وہ کہاں سے کہاں نکل گئے تو خدا تعالیٰ کے اسماءوہی درست ہوسکتے ہیں جو خدا نے خود بتائے ہیں.خدا کے کسی فعل سے بھی نام نہیں بناناچاہئے.ایک اور سوال ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اچھا ہم اپنی عقل سے تو خدا کا کوئی نام تجویز نہ کریں.لیکن جو باتیں خدا نے اپنی طرف خود منسوب کی ہیں ان سے نام بنالیں تو کیا حرج ہے؟ میرے نزدیک اس طرح بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کا فعل شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے.لیکن نام میں وہ بات نہیں ہوسکتی جیسے آتا ہے یُضِلُّ بِہٖ اِلاَّ الْفٰسِقِیْنَ(البقرۃ: ۲۷) اب اگر کوئی خدا کو یَا مُضِلُّ کرکے کخاطب کرےے تو یہ درست نہیں ہوگا.کیونکہ یُضِلُّ کا فعل ایک شرط کے ساتھ استعمال ہوا ہے جو نام سے ظاہر نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کے نام وہی ہوسکتے ہیں جو اس نے خود بتائے ہیں.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں یا پھر مسیح موعودؑ نے بتائے ہیں کیونکہ خدا کے رسول اپنے پاس سے نام نہیں تجویز کرتے بلکہ الہام الٰہی سے ان کو ان پر مطلع کیاجاتا ہے.

Page 385

صفاتِ الہٰیہ کے اقسام اب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ صفاتِ الٰہیہ چار قسم کی ہیں.اوّل وہ جن میں خدا کی قدرتوں کا ذکر ہے اور یہ چار قسم کی ہیں اوّل وہ جو بدء سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ان میں خدا اور مخلوق کے تعلق کی ابتداء کا اظہار کیا ہے یعنی اس کی پیدائش اس کا وجود میں لانا وغیرہ ابتدائی جیسے مادہ کو پیدا کیا.دوسری جو ایصاں خیر سے تعلق رکھتی ہیں جسے رحیم.رحمٰن وغیرہ.تیسری جو دفع شر سے تعلق رکھتی ہیں جیسے حفیظ ،مہمن وغیرہ.چوتھی وہ جو نافرمانی پر سزا دینے کے متعلق ہیں.دوسری قسم کی صفات وہ ہیں جن سے خدا تعالیٰ اپنا منزہ عن العیوب ہونا بیان کرتا ہےجیسے یہ کہ وہ نہ کسی کا بیٹا ہے،نہ باپ نہ کھاتا ہے ،نہ پیتا ہے ،نہ سوتا ہے.ان صفات میں زیادہ تر ان خیالات کا دفع مدَّ نظر ہوتا ہے جو لوگوں میں خدا تعالیٰ کے متعلق رائج ہوتے ہیں اور غلط ہوتے ہیں یا جن کو انسان اپنے پر قیاس کرکے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرسکتا ہے.تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جن میں خدا تعالیٰ اپنے ذاتی حُسن کو بیان کرتا ہے.چوتھی قسم کی صفات وہ ہیں جن میں خدا تعالیٰ اپنے واراء الوریٰ ہونے کو بیان کرتا ہے.جیسے صفت احد ہے کہ وہ اس کے کامل طور پر ایک ہونے پر دلالت کرتی ہے کسی دوسرے وجود کے خیال کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دیتی.کیا خدا کی صفات انسانی صفات جیسی ہیں؟ اس جگہ ایک اور سول پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے بہت سی ہیں جو انسان میں بھی پائی جاتی ہیں.جیسے مثلاً کہتے ہیں کہ خدا محبت کرتا ہے اسی طرح بندہ بھی محبت کرتا ہے تو کیا اس کی محبت ہماری جیسی ہی ہوتی ہے یا جب کہتے ہیں کہ وہ سنتا ہے تو کیا ہماری طرح ہی سنتا ہے یا جب کہتے ہیں کہ وہ بولتا ہے تو کیا ہماری طرح بولتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جو صفتیں ہم خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.ان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صفات جیسی ہم میں پائی جاتی ہیں ویسی ہی خدا میں بھی ہیں بلکہ ان کےذریعہ سے صرف اس قدر سمجھانا مقصود ہوتا ہے کہ جس طرح مثلاًآنکھوں یا کانوں کےذریعہ سے ہمیں آواز یا صورت و شکل یا حرکت کا علم ہو جایا کرتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی آواز صورت و شکل یا حرکت کا علم ہوتا ہے.یا یہ کہ جس طرح انسان اپنے ارادہ کو زبان سے ظاہر کرسکتا ہے خدا تعالیٰ بھی اپنا ارادہ

Page 386

ظاہر کرتا ہے.اس سے زیادہ مشابہت خدا تعالیٰ اوربندوں کی صفات میں نہیں ہوتی اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ جن آلات سے بندہ کام لیتا ہے خدا بھی لیتا ہے یا یہ کہ جو کیفیات بندے کے اندر پائی جاتی ہیں وہی نعوذ باللہ خدا تعالیٰ میں بھی پائی جاتی ہیں.مثلاً غضب میں انسان کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اس کے خون میں جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ دل اور دماغ کی طرف چڑھتا ہے مگر خدا کے متعلق جب یہ آتا ہے کہ جب اس نے مثلاً یہود پر غضب کیا تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ خدا کا بھی جسم ہے اور اس کےجسم میں خون جوش میں آگیا ہے بلکہ اس صفت کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح غضب ہماری بہت سخت ناپسندیدگی پر دلالت کرتا ہے خدا تعالیٰ بھی بعض انسانی افعال کو ناپسند کرتا ہے اور ان کے مرتکبین سے بعض قسم کے تعلقات توڑ دیتا ہے.یا مثلاً محبّت کا جذبہ ہے اس جذبہ کے ساتھ بھی انسان کے خون میں جوش پیدا ہوجاتا ہے مگر اس کے ساتھ تنافر نہیں بلکہ رغبت پیدا ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ کے لئے جب یہ لفظ استعمال کیاجائے تو اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہوتے بلکہ صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ جس طرح ہمیں جس سے محبت ہو اس سے ہم اچھا سلوک کرتے اور اسے دُکھوں اور بدیوں سے بچاتے ہیں اور آرام پہنچاتے ہیں خدا تعالیٰ بعض اشخاص کے اخلاص اور محبت کی وجہ سے ان سےاسی طرح کا معاملہ کرتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ان صفات کے ماتحت جو کام ہم کرتے ہیں وہی خدا بھی کرتا ہے لیکن کیفیت میں اختلاف ہے گویا ظہور صفات میں تو اشتراک ہے لیکن وجود صفات میں اشتراک نہیں گویا باوجود لفظی مشارکت کے اللہ تعالیٰ اپنی ہر صفت کے لحاظ سے بھی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (الشوریٰ :۱۲) ہے اور لفظی مشابہت صرف بندوں کو سمجھانے کے لئے قبول کرلی گئی ہے.صفات کے متعلق ایک یہ بھی سوال ہے کہ کیا وہ ہمیشہ ظاہر ہوتی رہتی ہیں یا کسی خاص زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات معطل نہیں ہوتیں مومنوں کو بشارت ہو کہ یہ کھڑکی اب بھی کُھلی ہے اور یہ دروازہ اب بھی بند نہیں.خدا کی صفات غیر محدود ہیں صفات الٰہیہ کے متعلق یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسقدر نام قرآن کریم یا احادیث میںآچکے ہیں خدا تعالیٰ کی صفات اسی قدر ہیں یا اوربھی ہیں؟ اسکا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات بھی اسی طرح غیر محدود ہیں جس طرح کہ اسکی ذات غیر محدود ہے اور ہمیں قرآن اور حدیث میں جو صفات الٰہیہ بتائی گئی ہیں وہ ،صفات ہیں کہ جو اس دُنیا میں انسان سے تعلق رکھتی ہیں انکے علاوہ اور ایسی صفات ہوسکتی

Page 387

ہیں جو ملائکہ سے تعلق رکھتی ہیں یا ہم سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن بہشت میں اور اس دنیا کی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ان کو ہم یہاں سمجھ سکتے تھے.خدا کی اور صفات ہونے کا ثبوت کوئی کہے یہ تو خیال ہی ہے ہمیں کس طرح یقین ہوسکتا ہے کہ خدا کی اور صفات بھی ہیں؟ مَیں کہتا ہوں کہ جس سے خدا کی ان صفات کا پتہ لگا جو ہمیں معلوم ہیں اسی سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خدا کی اور صفات بھی ہیں اور وہ ذات با برکات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے آپؐکی ایک دُعا ہے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ…اَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھٰؤُلٰئِکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدًامِنْ خَلْقِکَ اَوِاسْتَأْثَرْتَ بِہٖ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ (مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۱ صفحہ ۴۵۶.ناشردار الفکر بیروت ایڈیشن دوم ۱۹۷۸؁)اے خدا مَیں تجھ سے دُعا مانگتا ہوں ان ناموں کےذریعہ سے جو تو نے آپ اپنے لئے تجویز فرمائے ہیںِ یاجونام کہ تُونے اپنے کلام میں نازل فرمائے ہیں ،یا جو تونے اپنی کسی مخلوق کو سکھائے ہیں، یا جو تُونے اپنی ذات میں ہی مخفی رکھے اور کسی کو ان کا علم نہیں دیا.کتنی لمبی صفات چلی گئیں اورکتنی زبردست دُعا ہے اور یہ اسی کےذہن میں آسکتی ہے جسے معرفت کامل حاصل ہو.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ان ناموں سے بھی جو معلوم نہیں ان سے فائدہ اُٹھا لیا ہے اوران کے واسطہ دیکر خدا تعالیٰ سے دُعا مانگی ہے.اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نام یعنی صفات اوربھی ہیں جو ہم کو معلوم نہیں اور ہم کو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہ تھے اور نہ کسی مخلوق کو معولم ہیں ہمیں جو خدا کی صفات معلوم ہیں یہ صرف وہ ہیں جو ہمارےساتھ تعلق رکھتی ہیں.ان سے زیادہ ہمارے ساتھ اس دنیا میں تعلق رکھنے والی صفات نہیں ورنہ اگر ایک بھی ایسی صفت باقی ہے جو انسانوں سے تعلق رکتھی ہے اور ہمیں معلوم نہیں تو خاتم النبیین ابھی آنے والا ہے مگر خاتم النبیین چونکہ آگیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی وہ تمام صفات جو اس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں وہ سب اس نے بیان کردی ہیں.مسلمانوں کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کی ننانوے صفات ہیں جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر انہوں نے ایک حدیث سے دھوکاکھایا ہے جس کا مطلب اور ہے.درحقیقت اس دنیا میں تعلق رکھنے والی صفات بھی بہت سی ہیں جن میں سے بعض ظاہر الفاظ میں اوربعض اشارات میں کلامِ الٰہی میں

Page 388

بیان ہوئی ہیں.وحدت وجود اس جگہ ایک اور بات بھی میں بیان کرنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت احدیت اور خالقیت یعنی خدا کا ایک ہونا اور کوئی شریک نہ ہونا اور خالق ہونا ان امور کو مدِّ نظر رکھ کر بعض لوگوں نےبعض شبہات پیدا کئے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں اور افسوس کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض اس خیال میں مبتلاء ہوگئے ہیں کہ خدا کا ایک ہونا اس کی صفات کے لحاظ سے یا الوہیت کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر طریق سے ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں ان کے اس خیال کو فلسفہ کے اس مسئلہ سے بھی تقویت مل گئی ہےکہ مادہ مادہ سے ہی پیدا ہوسکتا ہے جو چیز نہ ہو وہ وجود میں نہیں آسکتی چونکہ وحدت وجود کا خیال ہمارے ملک میں عام ہے خصوصاً فقراء اکثر اس مرض میں متبال ہیں اس لئ اس خیال کی بے ہودگی کو خوب سمجھ لینا چاہئے جہاں بھی فقیر ہمارے ملک میں پائے جائیں وہاں ان کا فقرہ اللہ ہی اللہ ہے اور سب کچھ اللہ ہی ہے بھی سنائی دے.وہ کہتے ہیں جب خدا ایک ہے تو اگر کوئی دوسراجود مانا جائے تو دو ہوگئے اور خدا کی یکتائی باقی نہ رہی مخلوق کی مثال وہ دریا سے دیتے ہیں جس پر حباب تیررہے ہوں جس طرح وہ حباب الگ وجود نظر آتے ہیں مگر درحقیقت خدا کے سوا کچھ نہیں ہے جس طرح حباب پانی کی ہی ایک شکل ہے اسی طرح دنیا میں جو کچھ ہے یہ بھی خدا ہی کی ایک شکل ہے مگر اس قسم کی مثالیں بالکل باطل ہیں.مثلاًیہی حباب والی مثال لےلو.حباب کیا ہے؟ پانی میں ہوا داخل ہوکر حباب بن گیا اسی طرح مخلوق کی مثال حباب کی سی ہے تو یہاں بھی خدا کے سوا کوئی اور وجود ماننا پڑے گا جو ہوا کی طرح خدا میںداخل ہوکر اس کی مختلف شکلیں بنادیتا ہے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ تِلْکَ الْخُرافَاتِ.بہر حال ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دراصل چیز ایک ہی ہے ااگےاس کی شکلیں مختلف ہیں اس کے لئےانہوں نے مذہبی دلیلیں بھی بنا رکھی ہیں.مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنے ہیں خدا کے سوا اورکوئی معبود نہیں ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں ہزاروں لاکھوں وجودوں کی عبادت کی جاتی ہے تو کیا کلمہ شریفہ میں یہ دعویٰ جھوٹا کیا گیا ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں پس کلمہ شریفہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے سوا جن چیزوں کی پرستش کی جاتی ہے وہ بھی خدا کا ہی جزو ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ جس کی بھی پرستش کرو آخر پرستش تو اللہ

Page 389

کی ہی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی اوروجود ہی نہیں جب اس کے سوا کوئی اور وجود ہی نہیں تو اس کے سوا کوئی معبود بھی نہیں.قرآن کریم کی آیت اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا(صٓ :۶) سے بھی یہ لوگ استدالال کرتے ہیں کہ خدا کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ کہتے ہیں کہ کفار نے کلمہ شریفہ کے معنے یہی سمجھے ہیں کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ خدا کاغیر نہیں بہیں بلکہ خدا کاجزو ہیں تبھی وہ کہتے ہیں کہ اس نے تو اتنے معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ کفار جو عربی کے ماہر تھے کلمہ شریفہ کے یہی معنی سمجھتے ہیں اور قرآن کریم نے اس کا رد بھی نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو معنے انہوں نے کلمہ شریفہ کی طرف منسوب کئے ہیں ان کو صحیح تسلیم کرلیا گیا ہے.تیسری دلیل یہ لوگ آیت نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ(قٓ: ۱۷) سے پیش کرتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم رگ جان سے بھی انسان کے زیادہ قریب ہیں.اب یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر وجود رگِ جان سے زیادہ قریب ہے.پس اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم خدا کا جزو ہیں کیونکہ وجود مطلب وجودِ مقیّد سے زیادہ قریب ہوتا ہے چوتھی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ ھوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ(الحدید : ۱۶)پس جب خدا ہی اوّل ہے وہی آخر وہی اندر وہی باہر تو اور کیا چیز باقی رہی؟ ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں آیا ہےوَلِلہِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(الرعد:۱۶) زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے خدا کو ہی سجدہ کررہا ہے.اب اگر خدا کے سوا دنیا میں کچھ اور بھی ہے و پھر یہ غلط بات ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اور وجودوں کو بھی سجدہ کرتے ہیں.اگر بُت خدا نہیں تو معلوم ہوا کہ خدا کے سوا اورکوبھی سجدہ کیاجاتا ہے اور یہ آیت درست نہیں رہتی اس لئے معلوم ہوا کہ وہ بھی خدا ہی ہیں.اگر کہا جائے کہ اگر یہ درست ہے تو پھر شرک کیا چیز ہے اور کیوں لوگوں کو دوسری چیزوں کے آگے سجدہ کرنے سے روکا جاتا ہے تو وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ سب کچھ خدا ہی ہے پھر بھی بعض مظاہر کی پرستش شرک ہی کہلائے گی.کیونکہ جو لوگ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں وہ انہیں خدا سمجھ کر نہیں کرتے.بلکہ خدا قائم مقام سمجھ کر کرتے ہیں.پس چونکہ وہ یہ خیال کرتے ہوئے ان کو سجدہ کرتے ہیں کہ یہ خدا نہیں ہیں اس لئے انکا یہ فعل شرک ہے.

Page 390

ہر چیز کو اللہ کہنے والوں کے دلائل کا رد اب میں ان لوگوں کے دلائل کا رد بیان کرتا ہوں.لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے وہ معنے جو یہ لوگ کرتے ہیں بالکل غلط ہیں اِلٰہ کے معنی انہوں نے زبردستی سے کر لئے ہیں اورپھر ان پر اپنے دعویٰ کی بنیاد رکھ دی ہے حالانکہ عربی میں اس لفظ کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ کوئی معبود ہو سچا ہو یا جھوٹا دوسرے یہ کہ وہ معبود جو سچا ہو جھوٹا نہ ہو قرآن کریم میں ان دونوں معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے مگر انہوں نے یہ معنی لے لئے ہیں کہ کوئی جھوٹا معبود بھی نہیں حالانکہ جب قرآن کریم میں دوسری جگہوں پر صاف بیان ہے کہ لوگ خدا کے سوا اور معبودوں کی پرستش کرتے ہیں تو اِلٰہ کے معنے سچّے معبود کے سوا جائز ہی نہیں کیونکہ صحیح معنی وہی ہوتے ہیں جو بولنے والے کے منشاء کے مطابق ہوں.اب جو اللہ تعالیٰ دوسری جگہوں میں صاف الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ اس کے سوا بھی لوگ دوسروں کی پاجا کرتے ہیں.تو لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کےیہ معنی نہیںکئےجاسکتے کہ اس کے سوا نہ کوئی جھوٹا معبود ہے نہ سچا بلکہ اس کے یہی معنے کئے جائیں گے کہ اس کےسوا کوئی سچا معبود نہیں اور ان معنوں سے ہرگز وحدت وجود کا مسئلہ نہیں نکلتا.اب کوئی کہے کہ جب اس لفظ کے دو معنی تھے تو وہی کیوں نہ مانے جائیں جو وحدت وجود ی کرتے ہیں اور کیا اس طرح وہ کلمہ جس پر اسلام کی ساری بنیاد ہے مشتبہ نہیں ہوجاتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک لفظ کے مختلف معنی دیکھ کر ہر جگہ پر اس کے تمام معنوں کو استعمال کرنا درست نہیں ہوتا آخر قرآن کریم عربی زبان میں ہے اس زبان کے قواعد کے مطابق ہم فیصلہ کریں گے اور یہ بات کہ ہر لفظ کے ہر معنی ہر جملے میں استعمال نہیں ہوتے.عربی زبان سے ہی خاص نہیں سب زبانوں کا یہ قاعدہ ہے کہ لفظ کے خواہ کتنے ہی معنے ہوں جب وہ عبارت میں آجائے تو اس کے وہی معنے کئے جاتے ہیں جو اس فقرے کے مضمون سے یا اس کتاب کی دوسری جگہوں کے مفہوم سے نکلتے ہوں نہ کہ تمام معنے جو اس لفظ کے لغت میںنکلتے ہوں.اب چونکہ یہ ثابت ہے کہ قرآن کریم اس کا بار بار زکر فرماتا ہے کہ مشرک خدا کے سوا اوروں کی پوجا کرتے ہیں تو جب وہ یہ فرماتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو ان دوسری آیتوں سے ملا کر اس کے یہی معنی ہوں گے کہ خدا کے سوا کوئی سچّا معبود نہیں اور جب دوسری عبارتوں سے مل کر کلمہ کے معنی واضح ہوجاتے ہیں تو شک و شبہ کا سوال اُٹھ گیا.دوسری آیت یعنی اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا.(صٓ :۶) کے بھی وہ معنے نہیں

Page 391

جو یہ لوگ کرتے ہیں بلکہ یہ ہیں کہ اس نے سارے معبود انِ باطلہ کو مٹا کر ان کی جگہ ایک معبود قرار دیدیا ہے یہاں جَعَلَ بمعنی قرار دینا ہے ورنہ اگر لفظی معنی ہی لئےجائیں گے تو یہ لوگا کہ ان کو کوٹ کوٹ کر ایک بنا لیا ہے.لیکن یہ معنے نہ وہ لیتے ہیں اور نہ ہم اس لئے جَعَلَ کے یہی معنے ہونگے کہ بہت سے معبود تھے ان سب کو مٹاکر اس نے ایک قرار دے دیا.اب رہی تیسری آیت نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ(قٓ: ۱۷) اس کے جو معنی ہمہ اوست والے کرتے ہیں وہ بنتے ہی نہیں.وہ کہتے ہیں مفید سے مطلق زیادہ قریب ہوتا ہےمگر سوال یہ ہے کہ کس کے زیادہ قریب ہوتا ہے مقیّد کی اپنی ذات کی نسبت مطلق اس کے زیادہ قریب کیونکر ہوسکتا ہے.پس جب غیر کوئی ہے ہی نہیں تو مطلق و مقیّد کی بحث یہاں پیدا ہوتی ہی نہیں مقید و مطلق تو غیر کو فرض کرکے بنتے ہیں جب چیز ہی ایک ہے تو مقید کو قید کس نےکیا؟ یہ ساری آیت یوں ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ.(قٓ: ۱۷)اور یقیناًہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں پتہ ہے کہ اس کے دل میں شبہات پیدا ہوتےہیں کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں.مگر اسے معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے اسےپیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ہم حَبْلِ الْوَرِیْدِ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہیں.حبل الورید کے معنی اس رگ کے ہیں جو دل سے دماغ کی طرف خون پہنچاتی ہے اورطب سے پتہ لگتا ہے کہ دماغ کبھی کام نہیں کرسکتا جب تک اسے خون نہ پہنچے تو گویا دماغ کا کام بھی رگ جان کی امداد پر منحصر ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زندگی کے ساتھ خیالات اور خیالات کے ساتھ وساوس لگے ہوئے ہیں اور بیشک یہ انسان کے راستہ میں روک بنتے ہیں مگر رج جان سے بھی ہم انسان کے زیادہ قریب ہیں کہ رگ جان کٹے تو مرتے مرتےانسان کو بھی چند سکینڈ لگیں گے لیکن ہماری مدد بند ہو تو انسان کی تباہی پر کوئی وقت بھی نہ لگے.پس کیوں انسان ایسےوساوس اور شبہات کے وقتوں میں ہماری طرف توجہ نہیں کرتا کہ ہم اس کے وسوسوں کو اور شبوں کو دُور کریں.کیا وہ باوجود اس کے کہ اس کا ذرّہ ذرّہ ہمارے قبضہ میں ہے یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے وساوس کا علاج ہمارے پاس نہیں؟ حالانکہ وساوس و خیالات زندگی کا ایک شعبہ ہیں اورزندگی خود ہمارے ذریعہ سے ہے پس اس کی مشکلات کو حال کرنا بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے.

Page 392

غرض حَبْلِ الوَرِیْدِ اس جگہ انسان کی زند گی کے سہارے کے معنی میں آیا ہے.مگر اس کےغلط معنے لے کر کچھ کا کچھ بنا دیا گیا ہے.اوریہ جو ان کی دلیل ہے کہھوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِن۰ۚ (الحدید : ۴)وہی شروع ہے اور وہی آخر اور وہی اندر ہے اور وہی باہر ہے.اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ سب جگہ خدا ہی خدا ہے یہ دلیل بھی بالکل غلط ہے کیونکہ اول اور آخر اور ظاہر اورباطن چاروں الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کچھ اور بھی ہے اگر غیر کوئی ہے ہی نہیں تو پھر اوّل کہنے اور آخر کہنے کی کیا ضرورت تھی اور ظاہر کہنے اور باطن کہنے کی کیا ضرورت تھی پھر تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ وہی وہ ہے اور کچھ نہیں.اس آیت کا صر ف یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ محیط ہے.یہ نہیں کہ سب کچھ اللہ ہی اللہ ہے.اندر اورباہر کے الفاظ بھی اور اوّل اور آخر کے الفاظ بھی احاطہ پر دلالت کرتے ہیں.پس یہ آیت یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے ساتھ تمام چیزوں کا احاطہ کیا ہوا ہے.آیت لِلہِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(الرعد:۱۶)کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز خدا کی فرمانبردار ی کر رہی ہے.سجدہ کےاصل معنی فرمانبرداری کے ہیں اور زمین پر سر رکھنے کے معنے مجاز اً بنتے ہیں اور فرمانبرداری کےلحاظ سے کوئی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے باہر ہے؟ دنیا کا ایک ایک ذرّہ خدا کی فرمانبرداری کررہا ہے.مثلاً زبان ہے اسے اگر میٹھا دوگے تو میٹھا چکھے گی اگر کڑوا دوگے تو کڑوا چکھے گی یہ الگ بات ہے کہ وہ خدا کا انکار کردے.مگر جو کام خدا نے اس کا مقرر کیا ہے اسے نہیں چھوڑ دکتی اوراس میں نافرمانی نہیں کرسکتی.باقی رہا یہ کہ انسان خدا کی نافرمانی بھی کرتا ہے سو سوال یہ ہے کہ کس جگہ نافرمانیکرتا ہے وہیں جہاں خدا نے اسے مقتدرت دیکر امتحان کی غرض سے آزاد چھوڑ دیاہے پس جس امر میں خدا تعالیٰ نے کو د انسان کو مقدرت دیکر امتحان کے طور پر آزاد کیا ہے انسان کی اس نافرمانی کی وجہ سے ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتےکہ کوئی چیز خدا کی فرمانبرداری سے باہر ہے کیا ابوجہل اور فرعون خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کی فرمانبرداری کرتے تھے کہ نہیں؟ اگر کرتے تھے توسب خدا ک فرمانبردار ہیں.یہ لوگ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ جب خدا ہی سنتا اوردیکھتا ہے تو معلوم ہوا کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے.کیونکہ سنتے اور دیکھتے ہم بھی ہیں.اگر ہم خدا نہیں تو یہ آیت غلط ہوجاتی ہے.حالانکہ اس آیت سے بھی یہ نتیجہ نکالنا غلط ہےکیونکہ جو چیز کسی کی دی ہوئی ہو

Page 393

وہ دراصل اس کی ہوتی ہے پس جب نظر خدا کی دی ہوئی ہے جس سے ہم دیکھتے ہیں اور سننے کی طاقت بھی اس کی دی ہوئی ہے جس سے ہم سنتے ہیں تو خدا ہی سنتا اور دیکھتا ہے.تائیدی آیات قرآنی پھر اسکے مقابلہ میں ہم دوسری آیات دیکھتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی یہ سب باتیں غلط ہیں خدا تعالیٰ اپنی ہستی کے متعلق فرماتا ہے.لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ کہ اس جیسی کوئی اور ہستی نہیں کوئی چیز خدا کے مشابہ نہیں ہم کہتے ہیں اگر کوئی چیز ہی دنیا میں نہیں بلکہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے تو لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ(الشوریٰ:۱۲)کا کیا مطلب ہوا؟ وحدت الوجود والے کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز نہیں سب کچھ ایک ہی ہے ہم کہتے ہیں جب ایک ہی ہے تو یہ کہنے کا کیا مطلب کہ خدا جیسی کوئی چیز نہیں.دوسری آیت یہ ہے فَاِنَّھمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ.(الشعراء)خدا کے سوا جو معبود سمجھے جات ہیں وہ سب میرے دشمن ہیں کیونکہ میں انکا مخالف ہوں.اب اگر معبود ان باطلہ بھی واقعہ میں اللہ تھے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ مقیدشکل میں تو وہ دشمن ہیں اور مطلق میں دوست مگر یہ معنے بالبداہت باطل ہیں.تیسری آیت جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے سوا بھی اور چیزیں ہیں یہ ہے قُلْ اَفَغَيْرَ اللہِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ اَيُّھا الْجٰھلُوْنَ (الزمر: ۶۵)اےجاہلو ! کیا تم خدا کے سوا دوسری چیزوں کی عبادت کے لئے مجھے کہتے ہو؟ اس آیت میں ان وجودوں کو جنہیں بُت پرست پوجتے تھے غیر اللہ کہا گیا ہے.چوتھی آیت یہ ہے وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ.(الانعام:۱۰۹)کہ ان معبودوں کو جن کی یہ خدا کے سوا پرستش کرتے ہیں گالیاں نہ دو ورنہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کو دشمنی کے جذبات کے ماتحت جہالت ونادانی سے گالیاں دینے لگ جائیں گے.اب ہم پوچھتے ہیں اگر وہ بھی خدا ہی ہیں تو مِنْ دُوْنِ اللہِ کیوں کہا؟اوراگر کہو کہ چونکہ مُشرک ان کو مِنْ دُوْنِ اللہِ کہتے تھے اس لئے ان کو ان کے عقیدہ کے ماتحت مِنْ دُوْنِ اللہِ کہا گیا ہے.تو پھر یہ سوال ہے کہ بہت اچھا مِنْ دُوْنِ اللہِ توان لوگوں کے عقیدہ کی وجہ سے کہا مگر پھر یہ کیوں فرمایا کہ ان معبودوں کو گالیاں نہ دو ورنہ وہ خدا کو گالیاں دینے لگ جائیں گے یہ کیوں نہ کہا کہ ان معبودوں کو گالیاں نہ دو کیونکہ وہ بھی درحقیقت خدا ہی ہیں گو یہ نادان مشرک ان کو مِنْ دُوْنِ اللہِ سمجھ کر ان کی پرستش کر رہے ہیں کیونکہ خدا کے کسی حصّہ کو اس لئےگالی دینا منع نہیں کہ کوئی

Page 394

مطلق خدا کو گالی دینے لگے گا بلکہ اس لئےمنع ہے کہ وہ خدا ہے.کیا ہر چیز کو خدا ماننے والوں کا ایمان کامل ہوتا ہے؟ پھر وہ کہتے ہیں کہ سوائے ہمارے کسی کو ایمان کامل حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایمان بغیر لقاء کے مکمل نہیں ہوسکتا مگر تم خدا کو وراء الوریٰ کہہ کر اس کا ایسا نقشہ کھینچتے ہو کہ اس کا تصوّر نہیں آسکتا مگر ہم اس کو محسوسات اور مشہور دات میں دیکھتے ہیں اس لئے ہمارایمان کامل ہے.ہم کہتے ہیں اگر اس طرح تمہارا ایمان کامل ہوتا ہے تو تم سے زیادہ بت پرست کامل ایمان رکھتے ہیں کہ وہ عین چیز کو سامنے رکھ کر اس کی عبادت شروع کرتے ہیں اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا کا تصور قائم کرنے کے لئے اس طرح کرتے ہیں.اگر کہو کہ وہ غیر اللہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کا فعل جائز نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ تم عین اللہ سمجھ کر ان چیزوں کی پرستش کیوں نہیں کرتے تا کہ لقاء زیادہ کامل ہوجائے.دوسرا جواب یہ ہے کہ ایمان کے لئے تصور کی ضرورت نہیں تصور کے معنے تو صورت کو ذہن میں لانے کے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کوئی صورت نہیں اوراگر اس کے معنی صفات کو یاد کرنا کرو توجو وحدت وجود کےلئے کافی ہوتا ہے.دیکھو بجلی نظر نہیں اتی اب بجلی کا لفظ جب بولتے ہیں تو اس کےظہور ہمارے ذہن میں آجاتے ہیں مگر کیا ان ظہوروں کا ذہن میں آنا کافی نہیں ہوتا؟ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ تصور کا لفظ ان لوگوں کی ایجاد ہے.خدا تعالیٰ نے کہاں کہا ہے کہ مجھے تصور میں لائو.خدا نے تو یہ کہا ہے کہ مجھے جانو اور میری معرفت حاصل کرو میرا علم حاصل کرو.اوریہ اس کی صفات سے ہوسکتا ہے.تیسرا جواب یہ ہے کہ معرفت کے مختلف ذرائع ہیں کبھی کسی چیز کی معرفت تصور سے ہوتی ہے کبھی اس کےآثار کے تصور سے کبھی مشابہ کیفیاّت کے تصور سے جیسے اپنے غصّے پر قیاس کرکے ہم دوسروں کے غصّہ کو سمجھ جاتے ہیں.اور کبھی معرفت قبل از وقت سنی ہوئی تعریف کو یاد کرکے حاصل ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی معرفت بھی پچھلے تین ذرائع سے ہوتی ہے.بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو کچھ بندہ کو معلوم ہوتا ہے اور اس پر جو ایمان اسے حاصل ہوتا ہے اس کی وجہ سے اس کا ذکر آتے ہی صفات الٰہیہ کی یاد اس کے دل میں ایسا ہیجان پیدا

Page 395

کردیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کوخدا تعالیٰ کی طرف کھنچتا ہوا محسوس کرتا ہے اگر کسی شخص سے کوئی پوچھے کہ اللہ کون ہے؟ تو وہ یہی کرے گا کہ اس کی صفات گن دے.کہہ دے کہ وہ رحمٰن ہے رحیم ہے رؤوف ہے خالق ہے مالک ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات کا صحیح تصوّر اس کی صفات ہی کےذریعہ سے ہوتا ہے کیونکہ بندہ کو اس سے تعلق اس کی صفات ہی کے ذریعہ سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دوسری اشیاء کو دیکھ کر اصل خیال انہی کا ہوگا نہ کہ خدا کا.ہم کس طرح تسلیم کرلیں کہ رحمٰن کے لفظ پر غور کرکے یا خدا کی رحمت کے نشانوں پر غور کرکے تو ہمارے دل میں حقیقی جذبہ محبت پیدا نہ ہو لیکن کدو کے خیال کے خدا تعالیٰ کا خیال پیدا ہوجائے.کیا ہر چیز کو خدا نہ ماننے سے رُئویت الٰہی نہیں ہوسکتی؟ وحدت وجود کے قائل یہ بھی ہوکہتے ہیں کہ اگر ہر چیز کو کدا نہ مانا جائے تو پھر رئویت الٰہی کا انکار ہوجائے گا.کیونکہ وحدت شہود کے عقیدہ کی رُو سے رؤیت محال ہے حالانکہ رؤیت الٰہی کے سب آئمہ معتقد ہیں.مگر مَیں یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال بالکل باطل ہے رؤیت کا اس عقیدہ سے کچھ بھی تعلق نہیں باوجود خدا تعالیٰ کی ذات کو وراء الوریٰ ماننے کے پھر بھی رئویت ممکن ہے اور ہوتی ہے.رؤیت یا قلبی ہوتی ہے یا صفات الٰہی کی جلوہ گری کو دیکھ کر یا اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کرکے ہوتی ہے اور ان سب صورتوں میں ہرگز یہ ضروری نہیں کہ ہر ذرہ کو خدا سمجھا جائے.اگر کہا جائے کہ وحدت الوجود والوں کی رؤیت اعلیٰ ہوگی کیونکہ قلب سے بھی اور آنکھ سے بھی تو مَیں کہتا ہوں کہ یہ بھی ایک وسوسہ ہے کیونکہ اگر دنیا کو دیکھ کر خدا کی رؤیت ہوجاتی ہے تو اس میں کمال کیا ہے یہ رؤیت تو چوروں اور ڈاکوؤں کو بھی ہوتی ہے کیا دیدارِ الٰہی ایسی حقیر چیز ہے کہ دل میں یہ خیال کرلینا کہ سب کچھ خدا ہے ہمارے لئے کافی ہوتا ہے.بس پھر دنیا کی ہر چیز کو دیکھ کر ہمیں رؤیت الٰہی ہوتی رہتی ہے.وحدت الوجود کا مسئلہ کہاں سے پیدا ہوا ؟ اب میں سوال کے متعلق بتانا چاہتا ہوں کہ یہ مسئلہ پیدا کہاں سے ہوا ہے.اصل بات یہ ہے کہ باقی تو سب ڈھکوسلے ہیں یہ شبہ فلسفہ کے اس مسئلہ کی وجہ سے ہوا ہے کہ نیست سے ہست کیونکر ہوگیا ؟جو لوگ اس سوال کا جواب نہ دے سکے انہوں نے اس طریق کو اختیار کرلیا کہ دُنیا

Page 396

میں سب کچھ خدا ہی خدا ہے اور یہ عقیدہ بنا کرانہوں نے صوفیاء کے کلام کے اس قسم کے فقرات کو آڑ بنالیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے سب خدا ہی خدا ہے اور سب کچھ خدا کا ہی جلوہ ہے حالانکہ محی الدین ابن عربی ؒ جن کو اس خیال کا بانی قرار دیاجاتا ہے ان کی کتب میں بھی غیر اللہ کے الفاظ آئے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس طرح اس مسئلہ کے قائل نہ تھے.دراصل یہ دھوکا ہے جوصوفیاءکے کلام کے متعلق دیاجاتا ہے.کیونکہ جس اعلیٰ درجہ کے صوفی کے کلام کو بھی دیکھا جائے یہی معلوم ہوگا کہ اس قسم کا کلام تشبیہی ہوتا ہے ورنہ دراصل بات یہی ہے ک ہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ خدا اور ہے اور ہم اور.وحدتِ شہود کا عقیدہ وحدت وجود کے مقابلہ میں وحدت شہود کا عقیدہ ہے اس عقیدے کا ماننے والے کئی فرقوں میں منقسم ہیں اوّل وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ خدا اور ہے اور مخلوق اور ہے اور خدا مجسم ہے محدود ہے عرش پر بیٹھا ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ایسا ماننے میں حرج ہی کیا ہے؟ اگر پوچھا جائے کہ کیاخدا کے بھی ہاتھ پاؤں ہیں؟ تو کہتے ہیں ہاں ہیں.مگر انسانوں کی نسبت اعلیٰ درجہ کے ہیں.ان کا خیال ہے کہ خدا مجسم ہے اور ان کو مجسّمیّہ کہتے ہیں.دوسرا فرقہ ایک اورلوگ ہیں جو اہلحدیث کہلاتے ہیں یا وہ جو علوم کو زیادہ تر ظاہر کی طرف لے گئے ہیں وہ کہتے ہیں خدا وراء الوریٰ ہستی ہے جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور دنیا اس سے علیحدہ چیز ہے.لیکن باوجود وراء الوریٰ ہونے کے ہم کہتے ہیں کہ وہ عرش پر بیٹھا ہے اسکے ہاتھ بھی ہیں اورپاؤں بھی ہیں گوہم اسے مجسم نہیں مانتے لیکن ہم جائز نہیں سمجھتے کہ جو صفات اسکی قرآن کریم میں آئی ہیں یا حدیثوں میں مروی ہیں انکی کوئی تاویل کی جائے.تیسرا فرقہ تیسرا فرقہ وہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ وراء الوریٰ ہونےکے ہم اسکے متعلق صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ وہ مخلوق سے بالکل الگ ہے اور یہ کہ اسکی صفات مخلوق کی صفات ہے اور طرح کی ہیں ہاتھ وغیرہ کے جو لفظ استعمال ہوئے ہیں یہ سب تشبیہات ہیں.مخلوق کیا ہے اسکی نسبت بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ کس طرح پیدا کیا ہے میرے نزدیک عوام الناس کیلئے اس سے زیادہ محفوظ عقیدہ نہیں ہوسکتا.چوتھا فرقہ چونکہ تیسرے فرقہ کا جو عقیدہ بتایا گیا ہے گو اپنے ایمان کے لئے کافی ہوسکتا ہے مگر مخالفوں کے حملوں کے جواب میں کچھ نہ کچھ جواب اثباتی پہلو سے بھی دینا پڑتا ہے

Page 397

اس لئے محققین نے پیدائش عالم کے متعلق اور زیادہ وضاحت کی ہے اورآخر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عدم کے آئینہ پر اپنی صفات کا انعکاس ڈالا اور اس سے مخلوق پیدا ہوئی.اس گروہ نے بہت حد تک الحاد کو دُور کیا ہے مگر اس پر بھی یہ اعتراض پڑتا ہے کہ انعکاس کس چیز پر ہوتا ہے.عدم کوئی چیز نہیں جس پرانعکاس ہو.اس عقیدہ کے پیش کرنے والے بڑےپائے کے لوگ ہیں.معلوم ہوتا ہے ان پر حقیقت کھلی ہے مگر یا اسے بیان نہیں کرسکے یا اسے استعارہ میں مخفی کردیا ہے.پانچواں عقیدہ پانچواں عقیدہ یہ ہے کہ دنیا خدا کاغیر ہے لیکن اس کی غیر ت اس قسم کی نہیں جس قسم کی کہ انسانی ذہن میں آیا کرتی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہے یہ خدا تعالیٰ کے علم اور اس کے ارادہ سے پیدا ہوا ہے نہ نیست سے ہوا ہے کہ نیست کوئی یز نہیں اور نہ ہست سے ہوا ہے کہ خدا کے سوا اور کوئی چیز قائم بالذات نہیں بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس قسم کی چیز جو اس کے علم میں تھی.ظاہر ہوجائے پس اس کی قضاء الٰہی سے ظاہر ہوئے.باقی رہی پوری کیفیت سو کوئی چیز جب تک غیر حادث نہ ہو اپنی پوری کیفیت کو سمجھ ہی نہیں سکتی پس انسان کا یہ خیال کہ وہ اس حقیقت کو پوری طرح پالے گا ایک خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی.پہلے عدم تھا پھر مخلوق پیدا ہوئی اصل میں سارے شبہات اس بات سے پیدا ہوتے ہیں کہ عدم سے وجود کس طرح ہوجاتا ہے.مگر کہیں قرآن کریم میں یہ نہیں لکھا کہ عدم سے وجود ہوگیا.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں نہ تھیں اورپھر پیدا ہوگئیں.عدم سے پیدا ہوگئیں.یہ ایک فقرہ ہے جس سے دھوکا لگتا ہے حالانکہ جو لوگ واقف ہیں وہ کبھی اس کے یہ معنی نہیں لیتے کہ عدم سے گھڑ کروجود بنا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ پہلے نہ تھیں پھر ہوگئیں.آریہ مذہب بھی اس اس دھوکے شکار ہورہا ہے کہ جب مادہ نہیں تھا تو خدا نے مخلوق کو پیدا کس طرح کیا؟ اس لئے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مادہ کو پیدا نہیں کیا.مگر یہ استدلال بالکل غلط ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کا بندوں کی صفات پر قیاس کرنا ہی غلط ہے.کوئی انسان بغیر آنکھ کے نہیں دیکھ سکتا.خدا تعالیٰ بغیر آنکھوں کے دیکھ سکتا ہے.کوئی چیز دنیا میں مادہ کے بغیر نہیں بن سکتی.

Page 398

خدا تعالیٰ کی نسبت آریہ بھی مانتے ہیں کہ بغیر مادہ ک ہیں.ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ جب کوئی چیز کہیں رکھی ہوئی ہو تو وہ دوسری چیزوں کی راہ میں روک ہوتی ہے اوران کے دائرہ کو محدود کردیتی ہے.مگر باجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے سوا روح اور مادہ کو بھی آریہ مانتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ کو محدود نہیں مانتے.ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے متعلق ہم ان قوانین کو جاری نہیں کرسکتے جو مادہ اس روح کی حالتوں پر قیاس کرکے ہماری عقل تجویز کرتی ہے.جب یہ بات ہے تو یہ کس دلیل سے کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ مادہ کو پیدا نہیں کرسکتا.اگر اس کی ذات ہماری عقلوں سے بالا ہے تو ہماری عقلوں کے ماتحت اس کے لئے قانون کس طرح بیان کئے جاسکتے ہیں.خدا تعالیٰ کا مادہ خالق ہے یہ بات کہ خدا تعالیٰ مادہ کا خالق ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ انسانی قواعد اورانسانی طاقتوں کو مدِّ نظر رکھ کر نہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کے اور طریق ہیں اور میرے نزدیک وہ ایسے سہل ہیں کہ اَن پڑھ آدمی بھی ان کےذریعہ سے حق کو معلوم کرسکتے ہیں.دیکھو جب کبھی کسی کھیت کی مینڈھ کے متعلق جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے ایک کہتا ہے میری زمین کی اس جگہ پر حدہے.اور دوسرا کہتا ہے یہاں نہیں وہاں ہے تو اس کے فیصلہ کے لئے حدود برآری کرایا کرتے ہیں.یہاں بھی مادہ کے متعلق جھگڑا پیدا ہوگیا کہ یہ آپ ہی آپ ہمیشہ سے ہے یا خدا نے اسے پیدا کیا ہے اس کے متعلق بھی حدود برآری کرانے کی ضرورت ہے اور اس طریق کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو حدود برآری کے وقت استعمال کیاجاتا ہے زمین کی حدود بر آری کے لئے یہی کرتے ہیں کہ ایک مستقل جگہ منتخب کرتے ہیں جو بدلنے والی نہ ہو مثلاً پرانا کنواں یا پرانا درخت ،کاغذات میںا س کی جو جائے وقوع درج ہوگی اسے اصل قرار دیکر حدودبرآری کریں گے اس کنویں یا درخت کے آگے جس قدر زمین سرکاری کاغذات میں لکھی ہو اس کے مطابق ناپ لیں گے پھر جس قدر زمین کسی کے قبضہ میں ثابت ہوا سے دے دیں گے.اسی طرح صفات باری کے متعلق ہم غور کرسکتے ہیں یعنی ایسے امور کو لیکر جو مسلّمہ ہیں ہم غو رکریں کہ وہ مختلف فیہ مسئلہ کی کس شق کی تائید کرتے ہیں.جس خیال اور رائے کی مسلّمہ اُمور تائید کریں وہی تسلیم کرنی ہوگی.کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ جس رائے کی دوسرے امور تا ئید کریں وہ غلط ہو اور جس کی دوسرے امور تردید کریں وہ صحیح ہو.یہ اسی طرح ناممکن ہے کہ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ مختلف درختوں

Page 399

سے پیمائش کے بعد جو جگہ کھیت کی ثابت ہو وہ غلط ہو اور محض خیالی اور وہمی مقام درست ہو.اس مسئلہ میں جن مقامات کو ہم حدود برآری کے لئے چُن سکتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی دوسری صفات ہیں اگر خدا تعالیٰ کی وہ صفات جن کے متعلق آریہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے اندر پائی جاتی ہیں وہ اس امر کی تائید کریں کہ خدا تعالیٰ مادہ کا خالق ہے تو پھر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مادی کا خالق ہے لیکن اگر وہ اس خیال کو رد کریں تو ماننا پڑے گا کہ وہ مادہ کا خالق نہیں ہے.خدا کی صفت علیم مادہ کے مخلوق ہونے پر دلالت کرتی ہے میں ان صفات میں سے جو میرے نزدیک اس سوال پر روشنی ڈالتی ہیں خدا تعالیٰ کی صفت علیم کو سب سے پہلے پیش کرتا ہوں آریہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کو اس طرحع لیم مانتے ہیں جس طرح کہ ہم مانتے ہیں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ہر ایک بات کا علم ہے اور اس کا علم کاملہ ہے.پس خدا تعالیٰ کے خالقِ مادہ ہونے کے سوال کی صحیح حد برآری کرنے کے لئے علم کامل ہے.پس خدا تعالیٰ کے خالقِ مادہ ہونے کے سوال کی صحیح حد بر آری کرنے کے لئے علمِ کامل ایسی صفت ہے جس پر کامل طور یقین کیاجاسکتا ہے.کیونکہ دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں کہ یہ غیر متبدّل مقام ہے اس کے حقیقی ہونے میں کوئی شُبہ نہیں.اب اگر غور سے کام لیا جائے تو علم کامل کے معنے یہ ہیں کہ جس چیز کی نسبت علم کامل ہو اس کے بنانے کی بھی قابلیت ہو.چنانچہ سینکڑوں چیزیں جو پہلے طبعی قوانین کے ماتحت دنیا میں پیدا ہوتی تھیں ان کے متعلق یورپ والوں نے علم کامل حاصل کر کے ان کو بنانا شروع کردیا ہے.نیل جسے پہلے بویا جاتا تھا جرمن والوں کو معلوم ہوگئی ہے وہ مختلف ادویہ کو ملا کر جس پھول کی خوشبو چاہتے ہیں بنالیتے ہیں.اسی طرح اوربہت سی چیزیں ہیں جو اب مصنوعی بننے لگ گئی ہیں.جیسے ریشم وغیرہ غرض ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو کسی چیز کا کامل علم ہو وہ اس کے بنانے پر بھی قادر ہوتا ہے اس بات کےثابت ہوجانے کے بعد اس میں کوئی بھی شُبہ نہیں رہتا کہ اگر خدا تعالیٰ کو علم کامل ہے تو یقیناً وہ مادہ کے بنانے پر بھی قادر ہے اوراگر وہ مادے کے بنانے پر قادر نہیں تو اس کا علم بھی کامل نہیں پس صفت علم جو ہمارے آریوں کی مسلّمہ ہے وہ اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کو مادہ پیدا کرنے پر قادر ہونا چاہئے.v

Page 400

صفت مالکیت سے مادہ کے مخلوق ہونے کا ثبوت اب بھی اگر کسی کی تسلّی نہ ہو تو پھر کسی اور صفت کو مستقل قرار دیکر پیمائش شروع کی جاسکتی ہے.مَیں اس غرض کے لئے خدا تعالیٰ کی صفت مالیکت کو لیتا ہوں.اس صفت کو ہم بھی مانتے ہیں اور فریقِ مخالف بھی.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ملکیت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ ملکیت یا تو اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ کوئی شخص ورثہ سے کوئی چیز حاصل کرتا ہے یا کوئی اسے دیتا ہے یا وہ خریدتا ہے یا خود بناتا ہے یہی چار ذریعے ملکیت کے ہیں یعنی ورثہ ،تحفہ ،خرید اور خلق یا صنعت.خدا تعالیٰ جو مالک کہلاتا ہے تو کس لحاظ سے آیا اسے مادہ ورثہ میں ملا ہے یا اسے کسی نے تحفہ دیا ہے یا اس نے خرید اہے یا بنایا ہے آریہ لوگ بھی اس امر کو تسلیم نہیں کرتے کہ پہلے تین ذریعوں سے خدا کو مادہ پر ملکیت حاصل ہوتی ہے اس لئے اگر وہ مالک ہے تو ماننا پڑےگا کہ اسے ملکت پیدا کرنے کے سبب سے حاصل ہوئی ہے اور اگر یہ ثابت نہیں ہے تو خدا تعالیٰ مادہ کا مالک نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ غاصب ہے.خدا تعالیٰ کی دیگر صفات سے مادہ کے مخلوق ہونے کا ثبوت اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات لے کر جب اس مسئلہ کو حل کیاجائے تو آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مادہ مخلوق ہے مثلاً خدا قادر ہے آریہ لوگ بھی خدا کو قادر مانتے ہیں اور ہم بھی لیکن اگر خدا مادہ کو پیدا نہیں کرسکتا تو اس کی قدرت کامل نہ ہوئی وہ کہتے ہیں کہ روح و مادہ کا جوڑنا خدا کی قدرت ہے مگر ان کا بنانا اس سے بھی اعلیٰ قدرت ہے اس لئے یہی درست ہے کہ خدا نےمادہ پیدا کیا پھر وہ کہتے ہیں کہ خدا مہربان اور رحیم ہے ہم بھی یہ مانتے ہیں مگر ہم پوچھتے ہیں اگر خدا روح اورمادہ کا خالق نہیں تو اس کا کیا حق ہے کہ روح اور مادے کو کسی سبب سے سزا دے جب وہ اپنے وجود میں اس کے محتاج ہی نہیں تو خدا تعالیٰ کا یہ بھی حق نہیں کہ ان کے لئے کوئی قانون بنائے اورجب اس کا یہ حق نہیں کہ ان کےلئے کوئی قانون بنائے تو اسے یہ بھی حق نہیں کہ اس قانون کے توڑنے پر انہیں کوئی سزا دے.جورنے جاڑنے سے ہرگز سزا دینے کا کوئی حق حاصل نہیں.ہوجاتا کیونکہ سزا کا حق تو بادشاہت سےحاصل ہوتا ہے اور وہ اسے حاصل نہیں کیونکہ نہ اس نے روح و مادہ کو پیدا کیا نہ انہوں نے اپنا اختیار اس کے ہاتھ میں دیا.غرض روح و مادہ کو اگر مخلوق نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ رحیم نہیں بلکہ ظالم قرار پاتا ہے لیکن چونکہ آریہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا رحیم ہے اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ مادہ

Page 401

کا خالق ہے.ان چاروں حدود سے مادہ کا مخلوق ہونا ثابت ہوگیا.اب بھی اگر کوئی کہے کہ خدا نے مادہ کو پیدا نہیں کیا تو یہی کہیں گے کہ یہ خیال تمہاری سمجھ کے قصور سےپیدا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی بعض صفات پر اعتراضات اوران کے جواب اب میں چند موٹے موٹے اعتراضات جو صفاتِ الٰہیہ پر کئے جاتے ہیں انہیں لے کر ان کے جواب دیتا ہوں یہ اعتراضات زیادہ تر دہریوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں اوربعض فلسفیوں کی طرف سے جو گو خدا کے قائل ہیں مگر قادر و قدیر خدا کو ماننے سے گھبراتے ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات رحمت پر اعتراض پہلا اور اصولی سوال خدا تعالیٰ کی صفات رحمت پر ہے کہا جاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ واقع میں انہی صفات رحمت کا مالک ہے جو اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں تو کیا سبب ہے کہ دُنیا میں قسم قسم کی بلائیں اورتکالیف نظر آتی ہیں.کیا وجہ ہے کہ اس نے شیر چیتے سانپ اور اسی قسم کے اور موذی جانور پیدا کئے ہیں؟ اہل یورپ کا جواب یورپ والے تو اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کو جو کچھ مل سکا اس سے جو بہتر صورت بنی وہ اس نے بنادی.اس میں اس کا کیا قصور ہے.جیسا مادہ تھا ویسی چیز بنادی.مادہ کا پیدا کرنا اس کے اختیار میں نہ تھا اس لئے اس نے جو اچھی سے اچھی صورت ہوسکتی تھی وہ بنادی.گویا ان لوگوں نے اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہی انکار کردیا ہے.بعض اہلِ یورپ یہ جواب دیتے ہیں کہ ان بحثوں میں پڑنا فضول ہے.واقع یہ ہے کہ خدا کا رحم قانون قدرت میں نظر آتا ہے اسی طرح شیروچیتے بھی نظر آتے ہیں.یہ واقعات سب کے سامنے ہیں وجہ دریافت کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.اہل ہند کا جواب اہلِ ہند نے اس سوال کو اس طرح حل کیا ہے کہ خدا نے شیر چیتے یونہی نہیں بنائے.جن روحوں سے قصور ہوگئےانکو بطور سزا کے ایسے جانور بنا دیا.اس سے خدا کے عدل اور رحم پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ ہرایک چیز اپنے اپنے اعمال کیوجہ سے اچھی اور بُری بنی ہے.اگر شیر بکری کو کھاتا ہےتو اسکی وجہ یہ ہے کہ اگلے

Page 402

جنم میں بکری نے شیر کو کھایا ہوگا.یا کوئی اور قصور کیا ہوگا.گویا یورپ والوں اورہندوئوں نے یہ مان لیا ہے کہ مخلوق میں ظلم نظر آرہا ہے.آگے یورپ والوں نے کہہ دیا کہ خدا مجبور تھا.جو کچھ اس سے بن سکا وہ اس نے بنا دیا اوریہاں کے لوگوں نے کہہ دیا خدا کیا کرتا بندوں نے خود جو کچھ کیا اس کا بدلہ پارہے ہیں.حقیقی جواب اس کا جواب اوّل تو یہ ہے کہ دنیا میں دیکھو کوئی رحم بھی نظر آتا ہے یا سب ظلم ہی ظلم ہے؟ اگر رحم نظر آتا ہے تو معلوم ہوا کہ خدا رحیم ہے باقی اگر ایسی چیزیں ہیں جو رحم کے نیچے نہیں آتیں توان کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کا ہمیں علم نہیں کہ رحم کے نیچے کس طرح آتی ہیں؟ کیونکہ دوسری صفات سے خدا کا رحیم ہونا ثابت ہے اور جن سے ثابت نہیں ان سے معلوم کرنا باقی ہے اور عدمِ علم سے عدم شئے لازم نہیں آتی.دوسرا جواب یہ ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن میں دیا ہے وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْؤ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّھمْ يُحْشَرُوْنَ.(الانعام:۳۹)خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ہی تو مخلوق نہیں ہو اور بھی مخلوق ہے جس طرح تمہارے پیدا کرنے میں حکمت ہے اسی طرح ان کے پیدا کرنے میں بھی حکمت ہے اگر تمہارے پیدا کرنے میں حکمت ہے اسی طرح ان کے پیدا کرنے میں بھی حکمت ہے اگر تمہارے لئے ان کو مسخر کردیا گیا ہے تو ان کے مسخر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں بلکہ ان کے وجود سے بھی بعض خدا کی صفات کاظہور ہورہا ہے.تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ کہنا ہے کہ بعض چیزیں مفید نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہمیں ان کے فائدے معلوم نہیں ہوتے اس لئے ان کو نقصان رساں سمجھتے ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر ایک چیز تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کی ہے اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ بعض چیزیں صرف ضرر رساں ہیں دنیا کی کون سی چیز ہے جس کاصرف نفع ہی ہوتا ہے مگر باوجود اس کے بعض چیزوں کو اچھا کہاجاتا ہے یہ ضرر رساں جانور بھی اپنے اندر فائدے رکھتے ہیں.سانپ کا زہر بیسیوں بیماریوں میں مفید ہے شیر کی چربی بیسیوں بیماریوں میں مفید ہے اسی طرح اوربہت سے موذی جانور ہیں جن کے بہت سے فوائد دریافت ہوئے ہیں اورابھی اکثر حصہ پوشیدہ ہے ابھی علوم چونکہ ابتدائی حالت میں ہیں اس لئے ان کی بناء پر یہ کہنا کہ فلاں چیز مضر ہے درست نہیں بہت سی چیزیں پہلے بے فائدہ سمجھی جاتی تھیں اب

Page 403

مفید ثابت ہورہی ہیں اسی طرح کئی چیزیں پہلے موذی خیال کی جاتی تھیں.اب ان کے فوائد ظاہر ہور ہے ہیں.پس اپنے ناقص علم کی وجہ سے ان چیزوں کی نسبت کہنا کہ یہ صرف مُضِر ہیں درست نہیں.چوتھا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ رحیم ہے مگر اپنے خزانوں کو حکمت کے ماتحت تقسیم کرتا ہے اور اس بناء پر کوئی عقلمند اس کی نسبت اعتراض نہیں کرسکتا.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں شخص ظالم ہے کیونکہ اس نے مجھے دس روپے دئیے ہیں سو نہیں دئیے حالانکہ اس کے گھر میں روپے موجود تھےپرگز نہیں کیونکہ اس کا دس روپے دینا اس کی رحمی پر دال ہے نہ کہ ظلم پر.اسی طرح خدا تعالیٰ نے چیزوں میں بعض فوائد رکھے ہیں اوربعض مضرتیں.مضرتوں سے علیحدہ رہو.اور جتنے فوائد دیئے ہیں ان کو رحم سمجھ کر ان سے فائدہ اُٹھائو.کوئی فقیر نہیں کہے گا کہ فلاں شخص ظالم ہے کیونکہ اس نے مجھے ۸ آنے دئیے ہیں روپیہ نہیں دیا.دینے والے کا رحم ان آٹھ آنوں سے ظاہر ہوتا ہے جو اس نے دئیے ہیں لیکن اس کا ظلم ہرگز اس ہزار روپیہ سے ظاہر نہیں ہوتا جو اس نے نہیں دیا.پانچواں جواب یہ کہ مضرتوں کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بنایا ہے تا ظاہر فرمائے کہ کون سے لوگ ناشکر ے ہیں پس مضرتوں کا یہ بھی فائدہ ہے کہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ کسی کی محبت خود غرضانہ ہے اور کسی کا تعلق مخلصانہ.کئی لوگ ہوتے ہیں جو آرام اور آسائش میں تو خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں لیکن تکلیف پر شور مچا دیتے ہیں.لیکن ایسے بھی ہوتے ہیں جو تکلیف کےو قت بھی خدا کو نہیں بھولتے اور دراصل یہی خدا کے پیارے اور محبوب ہوتے ہیں.حضرت لقمان کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ گرفتار ہوکر کس کے پاس بِک گئے مگر جس مالک کے پاس گئے وہ ان سے بہت اچھا سلوک کرتا تھا.ایک دن اس کے پاس بے فصل کا خربوزہ تحفہ آیا اس نے اس میں سے ایک پھانک کاٹ کر انہیں کھانے کے لئے دی جسے انہوں نے بہت ہی مزے سے کھایا.اس نے یہ خیال کرکے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خربوزہ انہیں بہت پسند آیا ہے ایک پھاٹک کاٹ کر اور دی وہ بھی انہوں نے خوب مزے سے کھائی اس نے ایک پھانک اور دی اور اس کے بعد خود شوق سے ایک پھانک کا ٹکڑا منہ میں ڈالا لیکن اسے وہ خربوزہ ایسا بد مزا معلوم ہوا کہ فوراً قے آگئی.اس نے حضرت لقمان سے پوچھا کہ ایسا کڑوا خربوزہ تم مزے لے لے کر کیوں کھاتے رہے؟ کیوں نہ مجھے بتایا کہ مَیں بار بار پھانکیں کاٹ کر تمہیں

Page 404

دیتا رہا.انہو ں نے کہا اسی ہاتھ سے میں نے کثرت سے میٹھی چیزیں کھائی ہیں اگر ایک چیز کڑوی بھی مل گئی تو کیا حرج تھا.کیا میں ایسا ناشکر گزار تھاکہ اتنی میٹھی چیزیں کھانے کے بعد ایک کڑوی چیز ملنے پر شور مچا دیتا ؟ غرض شکر گزاری کا پتہ مضرتوں سے ہی لگتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مضرتیں بھی پیدا کی ہیں تا کہ اس نے بندوں پر جو احسان کئے ہیں ان کے ذریعہ سے دیکھے کہ بندے ان احسانات کی کیا قدر کرتے ہیں اور ان میں سے کون سے شکر کے جذبہ کو قائم رکھتے اور کون سے شور مچا دیتے ہیں.چھٹا جواب یہ ہے کہ موذی اشیاء کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بنایا ہے کہ انسانی فطرت آتی ہیں تا کہ ان کے ڈر کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو.جیسے ایک چھوٹا بچہ کہیں جانے لگے اور اسے اِدھر اُدھر سے ڈرایا جائے تو سیدھا جاتا ہے اور کسی گڑھجے وغیرہ میں گرنے سے محفوظ رہتا ہے یا اس طرح کہ جب کوئی جانور ٹیڑھا جارہا ہو اور اسے اِدھر اُدھر جانے سے ڈنڈے کےذریعہ روک دیاجائے تو سیدھا جاتا ہے.مگر وہ اشیاء بھی ایک قسم کےڈنڈے ہیں جو انسانوں کو سیدھا چلانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اگر یہ نہ ہوں تو اکثر لوگ جو سیدھے چلتے ہیں ٹیڑھے رستہ پر نکل جائیں.اگر کہا جائے کہ اچھا ڈر پیدا کیا ہے کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری.اگر کسی کو شیر کھا جائے یا بیمار مرجائے تو اس کو ڈرانے نے کیا فائدہ دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی پر شیر نے یا بیماری نے ایسا حملہ کیا کہ وہ مرگیا تواگر اس حملہ کے وقت اس نے ڈر کر اپنے گناہوں سے توبہ کرلی تو وہ خدا کے انعام کے نیچے آگیا اوراگر اس وقت بھی وہ اپنی شرارت پر مستقل رہا تو پھر ضروری تھا کہ اس کو سزا ملتی.اس پر شکوہ کیسا؟ پھر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں ادنیٰ چیز اعلیٰ کے لئے قربان ہوتی ہے.اگر اس کے مرنے سے دوسروں کو عبرت حاصل ہوجائے تو پھر کیا ہوااگر وہ مرگیا اس کے مرنے پر کئی دوسرے بچ جاتے ہیں.ساتواں جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کو خدا نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ رحیم ہی نہیں بلکہ شدید العقاب بھی ہے.جو شریر ہوتے ہیں وہ ان کو ان چیزوں کے ذریعہ سزا دیتا ہے.اگر بھیڑیا نہ پیدا ہوتا تو وہ شخص جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شرارت کرنے پر بھیڑیے نے چیرا کس طرح یہ سزا پاتا؟ یا اگر طاعون نہ ہوتی تو مسیح موعودؑکے مخالفوں پر

Page 405

کس طرح عذاب آتا ؟ پس جس طرح خدا تعالیٰ کی رحیمیتکی صفت چاہتی ہے کہ بندوں پر جلوہ کرے اورانہیں آرام و آسائش پہنچائے.اسی طرح اس کی شدید العقاب کی صفت کا جلوہ ہونا بھی ضروری تھا اور وہ اسی قسم کی چیزوں کےذریعہ ظاہر ہوسکتی ہے جنہیں نقصان رساں سمجھا جاتا ہے خدا تعالیٰ کی اس صفت پر اعتراض کرنے والوں کی حالت تو ایسی ہی ہے جیسے شُتر مُرغ کے کبھی اونٹ بھی اُڑا کرتے ہیں ؟اس نے کہااگر تجھے اونٹ ہونے کا دعویٰ ہے تو آپھر ہم تجھ پر بوجھ لادیں.ْکہنے لگا کبھی پرندے پر بھی کسی نے بوجھ لادا ہے؟ وہ اڑنے کے وقت اونٹ بن گیا اور بوجھ لادنے کے وقت پرندہ یہی مثال ان لوگوں کی ہے.اگر خدا تعالیٰ میں رحم ہی رحم ہوتا تو کہتے اس میں سزا دینے کی طاقت کیوں نہیں ہے اور جب کہ اس میں سزا دینے کی طاقت بھی ہے تو کہتے ہیں یہ کیوں ہے ؟ آٹھواں جواب یہ ہے کہ جب انسان عسر یسر سے گذرتے وقت صبر استقامت سے کام لیتا ہے تو اس پر ترقی کے دروازے کھولے جاتے ہیں کیونکہ تمام ترقیات کے پانے کاذریعہ تنگی اور مشکلات ہی ہیں اورجو انسان ان میں سے کامیابی کے ساتھ گذرتا ہے وہی خدا کے قرب پاسکتا ہے.پس اگر مشکلات نہ ہوتیں تو گویا انسان کو پیدا ہی نہ کیاجاتا کیونکہ اگر تکلیفیں نہ ہوتیں اوران میں انسان نہ پڑتا تو اس کو خدا کے انعام کس طرح ملتے اورجس غرض کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے وہ کس طرح پوری ہوتی.دیکھو سکولوں میں لڑکوں کو دوڑاتے ہیں اگر کوئی لڑکا نہ دوڑے تو اس کے لئے انعام کیسا؟ دوڑنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے.مگر جو دوڑتا ہے اسی کو انعام ملتا ہے اور تکلیف کے مطابق ہی ملتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا قرب جیسا بڑا انعام ہے ویسی ہی بڑی اس کے لئے تکالیف بھی ہیں.پھر کہتے ہیں جو لوگ اس طرح مرتے ہیں ان کے رشتہ دار کیا کہتے ہوں گئے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں.یا تو خدا کو ماننے والے یا نہ ماننے والے.ماننے والے تو کہیں گے کہ خدا کے قانون قدرت کے ماتحت اپنے عمل کے مطابق یا خدا کی خاص حکمت کے ماتحت مرنے والے نے جان دی ہے اور جو نہیں مانتے انہوں نے جب خدا کو مانا ہی نہیں تو انہوں نے کیا کہنا ہے وہ اپنے ذہنی قانون قدرت کو گالیاں دیتے ہوں گے.

Page 406

دیگر اشیاء کے پیدا کرنے کی وجہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ مخلوق تو وہ ہے جوزی روح ہے ان کے متعلق تم نے کہہ لیا کہ اس کی اپنی جداگانہ ہستی بھی ہے لیکن بجلی وغیرہ نقصان رساں چیزیں کیوں پیدا کی گئی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی چیزیں بھی خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت پیدا ہوئی ہیں اور ہمیشہ سے موجود ہیں یہ نہیں ہوتا کہ جب کسی پر بجلی گرنی ہوتی ہے اس وقت اسے پیدا کرکے بھیجتا ہے اس نے ایک قانون بنا دیا ہے اس قانون کے خلاف جو چلتا ہے وہ ہلاک ہوتا ہے.پھر ایسی چیزوں میں فائدے بھی ہوتے ہیں بلکہ ان کا فائدہ زیادہ ہے اور نقصان کم ہے.مثلاً طبعی طور پر جودلوںکو ڈرانے والی چیزیں ہیں ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک زلزلہ ہے مگر یہی زلزلہ ہے جس کےذریعہ سے دُنیا قابلِ رہائش بنی ہے اوراب بھی اس کےذریعہ سے تغیرات پیدا ہورہے ہیں جن میں سے بعض کو سائنس دان سمجھتے ہیں اوربعض ابھی ان پر بھی مخفی ہیں.درحقیقت زلزلہ دنیا کی زندگی کو لمبا کرنے کے لئے آتا ہے اوراس کےذریعہ سے انسان کے لئے ضروری اشیاء کے خزینے پیدا کرنے یا انہیں محفوظ رکھنے کا سامان پیدا کیا جاتا ہے.انبیاءؑکے وقت اسی لئے زلزلے آتے ہیں کہ دنیا کے قیام کی صورت پیدا ہو.اسی طرح اگر کسی پر بجلی گرتی ہے تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ایسا شخص ایک عام قانون کی زد میںآگیا ہے اگر وہ مؤمن ہے تو اس کو اس کا بدلہ آخرت میں مل جائے گا.اوراگر کافر ہے تو اس کو اس کے اعمال کی سزا مل گئی.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بجلی سے اگر ایک آدمی مرتا ہے تو لاکھوں کی جان بچتی ہے کیونکہ بجلیوں کےذریعہ سے ہزاروں قسم کے زہر اور زہریلے جرمز مرتے ہیں.اسی بجلی سے روشنی لی جاتی ہے،ریلیں چلائی جاتی ہیں،کارخانے چلائے جاتے ہیں،لاکھوں آدمی ان بجلی کے کارخانوں میں ملازمت کرکے روٹی کماتے اورزندگی بسر کرتے ہیں،پھر ہزاروں بیماریوںسے لوگ اس کےذریعہ شفاء پاتے ہیں،کئی بیماریاں اس کےذریعہ دور ہوجاتی ہیں.اس کی موتیں ان لوگوں کو نظر آتی ہیں مگر اس کے زندگی بخش اثر نظر نہیں آتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اعتراض کرنے سے غرض ہے احقاق حق سے غرض نہیں.بیماریاں کیا ہیں اور کیوں ہیں؟ دہریے یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا بجلی ،زلزلہ وغیرہ میں اور موذی جانوروں میں تو حکمتیں ہیں مگر بیماریاں کیوں پیدا کی گئی ہیں؟ اسکا جواب یہ ہے کہ پہلے یہ دیکھنا چاہئےکہ بیماری کیا چیز ہے؟ اوّل جب

Page 407

کسی جگہ زائد فُضلہ جمع ہوجائے تو اس کا نام بیماری ہے دوسرے انسان کا جسم کچھ چیزوں سے مل کربنا ہے ان میں سے اگر کوئی چیز اپنی مقدار کے لحاظ سے کم ہوجائے تو یہ بیماری ہے.تیسرےبیرونی چیزوں کے اثرات انسان پر پڑتے ہیں.مثلاً انسان کھاتا ہے،سانس لیتا ہے، سونگھتا ہے،پیتا ہے،اس کےجسم کا فعل کبھی تیز ہوجاتا ہے کبھی سُست اسی کا نام بیماری ہے.فُضلہ کی زیادتی سے بیماری اب ہم ان کے متعلق الگ الگ بحث کرتےہیں فضلہ کی پیدائش کیوں اور کس طرح ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پانی یا روٹی زیادہ کھاپی لے یاکوئی ایسی چیز کھالے کہ جس کو معدہ ہضم نہ کرسکتا ہو او ر سدا بن جائے.جیسے گھر کی نالی میں جب کوئی اینٹ روڑا آجاتا ہے تو پانی باہر نہیں نکل سکتا اسی طرح پیٹ میں کوئی ایسی چیز ڈال لی گئی جو پھنس گئی.اب بیماری کے نہ ہونے کے کیا معنی ہوئے کیا یہی نہیں کہ اس کے جسم میں کبھی بھی فضلہ جمع نہ ہوتا جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ انسان خواہ کس قدر بھی کھا جاتا اسے پَچ جانا چاہئے تھا.اب اس قانون کے ماتحت دنیا کو چلا کر دیکھو تو کس قدر جلد اس پر تباہی آجاتی ہے.اب تو یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک حد تک کھا کر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ گو منہ کو مزا آرہا ہے لیکن انجام کار اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اور جس میں بیماری پیدا ہوجائے گی لیکن اگر زیادہ کھانے سے بیمار نہ ہوتا تو ایک ہی شخص سینکڑوں آدمیوں کا کھانا کھا جاتا اورپھر بھی سیر نہ ہوتا.یا پھر یہ تجویز کی جاسکتی کہ انسان کچھ کاتا پیتا ہی نہ جس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہر قسم کے تغیّر سے محفوظ ہوتا اور گویا خدا ہوتا پھر ایسے انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہوتا ؟ مگر اس کے علاوہ بھی مَیں کہتا ہوں کہ اس حالت کو فرض کرکے ذرا انسانوں سے یہ پوچھ کر تو دیکھو کہ اگر تمہیں سب میٹھی کھٹی نمکین چیزیں کھانے سے روک دیاجائے اورپھر تمہیں کوئی بیماری نہ ہو تو کیا اسے پسند کروگے؟ اس کا جواب وہ یہی دیں گے کہ یہ تو خود ایک بیماری ہے اس میں مبتلا ہونا کون پسندکرے گا.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ایک شخص جو ناک کے ذریعہ بو کو بھی سونگھ سکے اوربدبو کو بھی اس کو کہا جائے کہ آئو تمہاری سونگھنے کی قوت ضائع کردی جائےتا کہ نہ تم خوشبو سونگھ سکو اورنہ بدبو وہ آدمی خوش نہیں ہوگا بلکہ اس گالی سمجھ کر لڑنے پر آمادہ ہوجائے گا.اوراگر یہ کہا جائے کہ زیادہ کھانے کی کسی کی توفیق ہی نہ ملتی.جب کوئی شخص ایک یا دو یا تین یا چار روٹیاں حسب استعداد کھالیتا تو فرشتہ آجاتا اورآکر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور کہہ دیتا کہ بس اب

Page 408

نہ کھانا ورنہ فضلہ پیدا ہوکر بیمار ہوجائو گے.مگر اس طرح تو گویا خدا ہی ان کے پاس آجاتا اور انسان کے لئے امتحان کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہتی اور اس کی پیدائش کی غرض باطل ہوجاتی اس کے دائیں اوربائیں فرشتے ہوتے جو ہر وقت اسے ٹوکتے رہتے کہ یہ نہ کھانا وہ نہ کھانا اتنا نہکھائو اتنا کھائو.فرض کرو ایک چیز آدمی کو کھانی مناسب نہ ہوتی.مثلاً یہی فرض کرلو کہ ایک شخص کے لئے کدو مضر ہوتا جب وہ بازار سے خریدتا جھٹ ایک فرشتہ آتا اور اس سے چھین کر دکاندار کو واپس کرتا اور اس سے پیسے چھین کر اسے لاکر دیتا.غرض یہ عجیب قسم کاکھیل بن جاتا جس سے انسان کی پیدائش کی غرض بالکل ہی باطل ہوجاتی.معترض کہتے ہیں کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ معدہ ہی ایسا بنا دیاجاتا کہ جس قدر انسان کے جسم کے لئے ضرورت ہوتی اتنی چیز جذب کرلیتا.اورباقی نکال دیتا لیکن اس کا مطلب یہ ہوا کہ معدہ کے اندر بھی ایک دماغ بنایاجاتا جو موجودہ دماغ سے بھی اعلیٰ ہوتا اوراسے پوری طرح طب کا علم بھی ہوتا کہ جو چیز مضر ہوتی فوراً اسے نکال کر باہر پھینک دیتا.مگر کیا اس سے انسان کی انسانیت کچھ باقی رہ جاتی کیا وہ ایک مکمل مشین نہ بن جاتا جس کا اس کے اعمال پر کچھ بھی تصرف نہ ہوتا اورجب اس کا اس کے اعمال پر تصرف نہ ہوتا تو وہ ترقیات کا مستحق کس طرح بنتا اورپھر کیا جو چیز مضر معدہ میں جاتی اس کا نکال کر پھینک دینا خود ایک تکلیف دہ عمل اوربیماری نہ کہلاتا.خارجی اثرات سے بیماری پھر خارجی اثرات سے پیدا ہوتی ہے.مثلاًسردی لگ جاتی ہے جس سے کبھی گردوں میں درد ہوجاتی ہے یا کوئی اورتکلیف پیدا ہوجاتی ہے اس لئے بیماری نہ ہونے کے یہ معنی ہوئے کہ کوئی اثر انسان محسوس نہ کرتا نہ اسے سردی لگتی نہ گرمی.گویا ایک نئی قسم کا انسان ہوتا گرم گرم روٹی اور ٹھنڈا پانی اس کے لئے کوئی حقیقت نہ رکھتا.گرم لحاف اورپہاڑوں کی خوش کن ٹھنڈی ہوا اس کے لئے بے حقیقت ہوتی کیونکہ اس پر سردی گرمی کا کوئی اثر نہ ہوسکتا.اب کسی سے دریافت کرو کہ آیا وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اسے کبھی بیماری نہ ہو اور اس کی ساری حِسیں ماری جائیں یا حِسوں کا باقی رہنا اور بیماری کا امکان پسند کرتا ہے؟ پھر زبان ناک وغیرہ کی جو حِسّیں ہیں ان کا غلط استعمال بیماری پیدا کرتا ہے.زبان کا مزا بعض دفعہ طاقت سے زیادہ کھانے کا موجب ہوتا ہے.بیماری کے اسباب مٹانے کے یہ معنی ہیں کہ زبان کا مزا باطل کردیاجائے مٹی اور شکر انسان کے منہ میں یکساں معلوم ہوں کڑوا اور میٹھا دونوں اس

Page 409

کے لئے برابرہوں.وہ انسان جو بیماری کا شکار ہوتا ہے اس سے پوچھ کر دیکھو تو کیا وہ موجودہ حالت کو پسند کرتا ہے یا اس قسم کی حالت کو جو دہریہ تجویز کرتے ہیں.پھر بیماری کا باعث جسم کی وہ حِس ہے جس سے وہ سختی اور نرمی کو محسوس کرتا ہے یا انسان کے جسم کی نرمی ہے جس سے وہ اپنی ذات میں آرام محسوس کرتا ہے اس نرم جسم پر اگر زور سے چوٹ لگے تو وہ زخمی بھی ہوگا.بیماری کے اسباب کے مٹانے کے ایک یہ معنی بھی ہوں گے کہ ان حِسّوں کو مٹا دیاجائے مگر ان کو مٹا کر دیکھو کیا نتیجہ نکلے گا.اپنے عزیزوں کو ہاتھ لگائے گا اور ان کے جسم کو پتھر کی طرح سخت پائے گا بلکہ اپنے جسم میں حِس نہ ہوگی اور کچھ محسوس ہی نہیں کرے گا جس طرح فالج زدہ کے جسم کو کوئی چیز چھوتی ہے اور وہ کچھ محسوس نہیں کرتا کیا کوئی شخص بھی اس حالت کو پسند کرےگا ؟ دنیا کے بہت سے لُطف اوربہت سی دلبستگیاں چھونے کی حِس سے ہیں اور اپنے جسم کی نرمی میں ہیں.اب اگر بیماری کو دور کرنے کے لئے اس حِس کو اور اس نرمی کو دُور کردیا جائے تو بیشک درد اور زخم تو مٹ جائے گا مگر انسان کا کیا باقی رہے گا؟ وہ ایک پتھر ہوگا جو نہ اپنے جسم کے آرام کو محسوس کرسکے گا نہ دوسروں سے چُھونے کا کوئی لطف اسے حاصل ہوسکے گا بلکہ ایسے شخص کو کوئی اُٹھا کر بھی لے جائے تو اسے کچھ معلوم نہ ہوگا.اس نقشہ کو کھینچ کر اپنے دل میں دیکھ لو کہ سردی گرمی کا احساس مٹ جائے گرمی سردی کا موسم یکساں ہوجائے.ٹھنڈے پانی اور گرم پانی کا احساس باقی نہ رہے، میٹھا ،کڑوا سلونا کوئی مزا محسوس نہ ہو، سختی نرمی کا کچھ پتہ نہ لگے ،جسم لوہے کی طرح سخت ہو، خوشبو اوربدبو کا امتیاز باقی نہ رہے اور اس کے نتیجہ میں بیماری بھی پیدا نہ ہو تو کیا اس زندگی کو دُنیا خود بیماری کہے گی یا نعمت سمجھے گی؟ کسی عقلمند انسان کے سامنے اس تجویز کو پیش کرکے دیکھو وہ اسے جنون قرار دے گا.خواہ لاکھ اسے سمجھائو کہ اس طرح بیماری کا دروازہ بند ہوجائے گا وہ کبھی تسلیم نہ کرے گا اوریہی کہے گا کہ بیماری تو کبھی کبھی اور کسی کسی کو آتی ہے مگر تمہاری تجویز سے تو ہر شخص کے لئے زندگی کا ہی دروازہ بند ہوجائے گا یہی حسیں تو روزانہ میرے کام آتی ہیں اور میری زندگی کے دلچسپ بنانے کا موجب ہیں.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے زندگی کو دلچسپ بنانے کے لئے انسان کو یہ حِسّں دی ہیں.ان کےاستعمال میں جب انسان غلطی کر بیٹھتا ہے تو بیمار ہو جاتا ہے اور بیماری اسی طرح اڑائی جا سکتی ہے کہ یا یہ حِسیں اُڑادی جائیں یا پھر انسان کا اپنا ارادہ ہی باقی نہ رہے وہ اپنے ہر کام میں

Page 410

مجبور ہو.ثانی الذکر صورت کے اختیار کرنے سے انسان کی پیدائش کی غرض باطل ہوجاتی ہے اور اوّل الذکر صورت اختیار کرنے کو خود انسان ہی پسند نہ کرے گا.پس وہی طریق سب سے مناسب ہے جو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.ہرکام میں تکلیف ہوتی ہے اس قسم کی اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ تکلیف تو دنیا کے سارے پیشوں میں ہی ہوتی ہے.زمیندار ایک کھیت تیار کرتا ہے تو کیا یونہی کرلیتا ہے؟ہل چلاتے وقت بیسیوں چکر کاٹتا ہے،سردی گرمی کی تکلیف برداشت کرتا ہے ،اس کے بیوی بچے الگ محنت میں شریک ہوکر تکلیف اُٹھاتے ہیں.پس یہی نہیں کہ بیماری سے ہی انسان کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ کھانے پینے کا انتظام کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے اس لئے اگر تکلیفوں کو دور کرنے سے ہی خدا تعالیٰ کی صفاتِ رحمت کا پتہ چل سکتا ہے تو یہ بھی سوال ہونا چاہئے یہ کہ آپ ہی غلہ اُگے ،آپ ہی گھر میں آجائے، آپ ہی آپ روٹی پکے.اسی طرح کپڑوں کی تیاری میں تکلیف ہوتی ہے چاہئے یہ کہ آپ ہی آپ ہوجائے.تمام کاروبار بند ہوجائیں اور سب پیشے موقوف ہوں نہ لوہار رہے.نہ ترکھان ،نہ دھوبی رہے نہ درزی، نہ ڈاک والے رہیں نہ ریل والے کوئی بھی نہ رہے.گویا جس طرح پرانے زمانہ میں ایدی خانے ہوتے تھے (جن کا نام برعکس تھا کیونکہ ان میں ایسے لوگ رکھے جاتے جو بے ہاتھ ہوتے) ساری دنیا، ہی ایدی خانہ بن جائے.سب لوگ چارپائیوں پر پڑے ہوئے ہوں، نہ چلنے کی تکلیف ،نہ اٹھنے کی ضرورت ،نہ کوئی ہاتھ ہلائے نہ پاؤں ،سب کام آپ ہی آپ ہوں، سب ترقیاں بند ہوجائیں،سب مقابلے روک دئیے جائیں یہ ندیا جو تکلیفوں کے سلسلے کے بد ہونے کے خواہشمند پیدا کرنی چاہتے ہیں.اگر موت نہ ہوتی اب مَیں ایک اور پہلو کو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ مرنے سے جو تکلیف ہوتی ہے اسے اُڑا کر دیکھو کیا صورت بنتی ہے.اگر نئی نسلیں تو پیدا ہوتی رہیں لیکن کسی پر موت نہ آئے تو ایک ہزار سال کے عرصہ میں ہی دنیا پر تل دھرنے کی جگہ نہ رہے

Page 411

اورنہ غذا ہی کافی ملے اور یہی لوگ جو ان امور کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کے رحم پر اعتراض کرتے ہیں خدا تعالیٰ کو بُرا بھلا کہنے لگ جائیں کہ ہمارے باپ دادوں کو دفعہ بھی نہیں کرتا کہ کہیں گھر خالی ہوں اور ہم اپنےسر چُھپائیں اور روٹی پیٹ بھر کر کھانے کو ملے.پھر میں کہتا ہوں اگر دُنیا کی موجودہ حالت فی الواقع تکلیف دہ ہے تو خود کشی کا دروازہ کُھلا ہے کیوں ایسے معترض یا دوسرے لوگ خود کشی نہیں کرلیتے؟ مگر کس قدر لوگ ہیں جو اس فعل پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور جو اس فعل کے مرتکب ہوتے بھی ہیں تو انہیںد نیا کیا کہتی ہے؟ یہی نہ کہ وہ عارضی طور پر پاگل ہوگئے تھے اگر فی الواقع یہ دنیا تکلیف ہی کی جگہ ہے تو خود کشی کرنے والے پاگل نہیں بلکہ سب سے زیادہ عقلمند ہیں جو ایک منٹ میں اپنی تکلیفوں کا خاتمہ کرلیتے ہیں.پس خودکشی نہ کرنے اور خود کشی کرنے والوں کو پاگل سمجھنے سے معلوم ہوا کہ باوجود ان شبہات کے یہ معترض بھی یہی چاہتے ہیں کہ اور جئیں مگر جب دل کی یہ حالت ہے تو پھر اعتراض کیوں کرتےہیں؟ غرض یہ سب باتیں انسان کے لئے ضروری ہیں اوران پر اعتراض کرنا لغو یت ہے یہ نہ تو اس لئے ہیں کہ خدا کی طاقت محدود ہے اورنہ تناسخ ان کا موجب ہے بلکہ ان سب میں خدا تعالیٰ نے حکمتیں رکھی ہیں.مصائب پر افسوس کیوں کیاجاتا ہے؟ پچھلے بیان پر معترضین ایک اور اعتراض کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر یہ درست ہے کہ یہ سب امور حکمت پر مبنی ہیں اوران کے بغیر دنیا کا گزارہ نہیں ہوسکتا تھا توپھر جب کسی گھر میں ماتم ہوجاتا ہے تو گھر والے خوشی کیوں نہیں مناتے اورتکلیف کیوں محسوس کرتے ہیں؟ اسی طرح جب کوئی بیمار ہوجائے تو خوش کیوں نہیں ہوتے رنج کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ بیماری سے تکلیف نہیں ہوتی بلکہ ہم تو یہکہتے ہیں کہ اگر بیماری کے اسباب کو مٹا دیا جاتا تو پھر جو کچھ ہوتا وہ تکلیف دہ ہوتا.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ جو شخص بیمار ہوتا ہے اسے آرام ملتا ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا قانون بنایا جاتا جس سے بیماری دور ہوجاتی تو وہ یا انسان کو محض مجبور بنا دیتا اور یہ نہیں ہوسکتا تھا اوریا پھر اس کے حسوں کو باطل کر دیتا جو بیماری کی نسبت ہزار ہا درجے زیادہ ناقابل برداشت ہوتا.پس ان ترقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو موجودہ قانون کی وجہ سے انسان کے سامنے ہیں بیماریاں تکلیف وغیرہ سب ایک رحمت ہیں یا

Page 412

رحمت سے بھاگنے کی سزا پس ان کے باوجود خدا تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت پر کوئی اعتراض نہیں پڑسکتا.مصائب پر افسوس کیوں کیاجاتا ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ مصائب تین قسم کے ہوتے ہیں.قسم اوّل کے مصائب وہ ہوتے ہیں جو احکام شریعت کے فع کرنے یا ان کی بے قدری کرنے کے سبب سے نازل ہوتے ہیں.دوسری قسم کے مصائب وہ ہیں کہ جو قانون قدرت کے توڑنے کے سبب سے آتے ہیں جیسے مثلاًایک شخص کے معدہ میں تین چپاتیاں بچانے کی طاقت ہے مگر وہ چار کھاتا ہے اور بیمار ہوجاتا ہے.تیسری قسم کے مصائب وہ ہیں جو اتفاقاً پیش آجاتے ہیں ایک شخص کا قصور کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ اتفاقاً اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں خدا تعالیٰ کی قہری تجلی نازل ہورہی ہے تو یہ بھی اس میں مبتلا ہوجاتا ہے جیسے مثلاً کوئی شخص راستہ پر جارہا تھا پہلو کے مکان کی دیوار گری اور وہ نیچے آکر مرگیا ان تینوں قسم کی تکلیفوں کو الگ الگ معلوم کرنا انسان کے لئے عام طور پر مشکل ہے اس لئے ایک خشیت اللہ رکھنے والے دل کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ مصیبت کو اپنے اعمال کا نتیجہ سمجھے اور آئندہ نتائج سے خائف ہو.پس ایک یہ باعث بھی مصائب پر افسوس کرنے کا ہے.دوسرے یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ تکلیف کا احساب ایک علیحدہ بات ہے اور اس کو حکمت کے ماتحت سمجھنا علیحدہ بات ہے.دیکھو جب ڈاکٹر کسی کی بیمار آنکھ میں دوائی ڈالتا ہے تو یہ اچھی بات ہوتی ہے یا بُری ؟ اس بات کو کوئی بُری نہیں کہہ سکتا لیکن دوائی لگاتے وقت بیمار درد کی وجہ سے شور مچایا کرتا ہے یا ہنس ہنس کر یہ کہا کرتا ہے کہ آہا ہا اس کا نتیجہ بہت اچھا ہوگا.انسانی تکلیف کے متعلق یہ اعتراض تو تب صحیح مانا جائے کہ اگر وہ تکلیف دہ امور جن کا نتیجہ یقیناً دہریوں کے نزدیک بھی اچھا ہوتا ہے ان پر وہ خوش ہوا کریں مثلاً جب ڈاکٹر کسی کا موتیا کاٹ کر نکالے تو وہ خوشی سے ہنستا جائے کہ اس کا نتیجہ بہت اچھا ہوگا تو نتیجہ پر خوش ہونا اوربات ہوتی ہے اوردرمیانی تکلیف پر افسوس کرنا اور.ہم درمیانی تکلیف پر افسوس کرتے ہیں نہ کہ نتیجہ پر.حیوانات کو کیوں تکلیف دی جاتی ہے ؟ اب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ خدا جانوروں کو کیوں تکلیف دیتا ہے؟ چھپکلیاں بھنگے وغیرہ کھا جاتی ہیں.بکری کو شیر کھالیتا ہے.ان جانوروں کو تکلیف دینے کی کیا وجہ ہے؟ اور ان کو اس کی کیا جزاء ملے گی؟ انسان بکری کا گوشت کھا کر مزہ حاصل کرتا ہے لیکن بکری کو اس تکلیف

Page 413

کے بدلے کیا ملا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا.اس عالم کا ذرّہ ذرّہ خدا تعالیٰ کے حکم میں لگا ہوا ہےاور اس کے حکم کے ماتحت کام کررہا ہے اور ہر ایک ذرّہ اجر کا مستحق ہے.اس لئے نہیں کہ وہ اس کا حق دار ہے بلکہ اس لئے کہ خدا نے اس کا حق مقرر کردیا ہے وہ حق دار تو نہیں مگر اسے حق مل رہا ہے.دیکھو وہی ذرّہ جو ایک بکری میں ہو اس بکری کےذبح ہونے پر اگر وہ ذرّ ہ ایک بہت بڑےمصلح یا نفع رساں وجود کے جسم کا حصہ بن جائے تو کیایہ اس کا انعام نہیں اور کیا وہ اس ذریعہ سے ایک بلندمقام پر نہیں پہنچ گیا؟ ہر چیز کو بدلا ملے گا قانونِ قدرت ہمیں بتاتا ہے کہ ہر چیز کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ مل رہا ہے سروائیول آف دی فٹسٹ یا بقائے انسب کا قانون صاف بتارہا ہے کہ ہر چیز اپنا بدلہ پارہی ہے خواہ گھانس کی پتی ہی کیوں نہ ہو.ہاں بدلے اپنی اپنی حالت کے مطابق ہوتے ہیں.انسانی حِس چونکہ سب دوسری چیزوں سے ترقی یافتہ ہے انسان کا بدلہ بھی دائمی اور ابدی ہے دوسری چیزوں کی حِسیں چونکہ بالکل محدود ہیں اس لئے ان کے بدلے بھی محدود ہیں گو بدلے ہیں ضرور.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ.(الانعام:۳۹)زمین پر چلنے یا رینگنے والے جانور یا ہوا میں اُڑنے والے پر ندے سب کے سب تمہاری طرح کی امتیں ہیں جو تمہاری طرح ایک جنس.ہم نے اپنے فیصلہ میں کسی قسم کی بھی کمی نہیں کی پھر یہ سب ایک دن اپنے ربّ کے حضور میں پیش کئے جائیں گے.کِسی وضاحت سے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے سوا دوسرے حیوان بھی اپنے فرائض کی ادائیگی بر بدلے پائیں گے.ہاں وہ بدلہ ان کی اپنی جنس کی طاقتوں کے مطابق ہوگا نہ انسان کی طرح کا.پس یہ غلط ہے کہ انسان کو اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا اور ان چیزوں کو نہیں ملے گا سب کو ملے گا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر ایک بکری نے دوسری بکری کا سینگ توڑا تو قیامت کے دن دوسری سے خدا تعالیٰ کہے گا کہ تو اس کا سینگ توڑ.تو کوئی روح ایسی نہیں ہوسکتی.جو جزاء نہ پائے.ہاں جیسی جیسی روح ہوگی ویسی ویسی اس کو جزاء ملے گی.ہمیں سب کی تفصیلوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں.غرض کوئی ایسی شئے نہیں جو بدلہ نہ پائے گی.لیکن انسان چونکہ کامل ہے اس لئے یہ ابدی نجات پائے گا اور دوسری چیزیں کامل نہیں اس لئے ان کو ابدی زندگی نہیں ملے گی.دیکھو جو

Page 414

انسان مارا جاتا ہے اس کا اس کی بیوی بچوں پر کیسا اثر پڑتا ہے مگر بکری ماری جائے توا سکے بچے کوپروا بھی نہیں ہوتی اوراگرغم ہوتا بھی ہے توصرف چند دن کا پھر انسان پر شریعت کی پابندیاں ہوتی ہیں مگر دوسرے جانوروں پر نہیں ہوتیں.مخلوق کا پیدا کرنا خدا کے غنٰی کے خلاف نہیں صفات رحمت کے علاوہ خدا تعالیٰ کی صفت غناء پر بھی اعتراض کیاجاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر خدا غنی ہے تو اس نے مخلوق کو پیدا کیوں کیا؟ کیا وہ محتاج ہے کہ اسے مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک فقیر کسی سخی کو کہہ سکتا ہے کہ اگر میں نہ ہوتا تو تُو سخاوت نہ کرسکتا اس لئے تو میرا محتاج ہے تو ایک بندہ بھی خدا کو کہہ سکتا ہے کہ خدا میرا محتاج ہے.مگر کبھی کسی نے نہ سنا ہوگا کہ کسی فقیر نے کہا ہو کہ فلاں سخی محتاج تھا جس سے مَیں نے آٹھ آنے یا چار آنے لئے اور تب جاکر اسکی احیتاج پوری ہوئی.تعجب ہے کہ ایک شخص آٹھ آنے یا چار آنے لیکر تو کہتا ہے کہ یہ امر میری احتیاج پر دلالت کرتا ہے نہ دینے والے کی احتیاج پر مگر خدا کے متعلق انسان زمین و آسمان اوران کے اندر جو چیزیں ہیں ان کو لیکر کہتا ہے کہ خدا میرا محتاج ہے میں نہ ہوتا تو یہ چیزیں کون استعمال کرتا؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ احتیاج اس چیز کی ہوتی ہے جو مستقل حیثیت رکھتی ہے اور جو ہماری اپنی صفت کا ظہور ہو وہ احتیاج نہیں کہلاتا.مثلاً یہ احتیاج ہے کہ ایک ہمارا کام بغیر کسی اور شخص کی مدد کے نہیں ہوسکتا لیکن اپنی کسی صفت کا اظہار احتیاج نہیں ہے بلکہ اسے قدرت کہتے ہیں چونکہ خدا تعالیٰ کسی غیر چیز کی مدد نہیں چاہتا وہ محتاج نہیں کہلا سکتا وہ تو اپنی قدرت سے ایک عالم کو پیدا کرتا ہے پس وہ محتاج نہیں بلکہ مُقْتَدِر ہوا اوراس نے ایک چیز پیدا کی اور اسے چن لیا اور اسے بزرگی دی.خدا تعالیٰ کی قدرت پر اعتراض اور اس کا جواب خدا تعالیٰ کی صفت قدرت پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر وہ قادر مطلق ہے تو اتنی دیر میں کیوں پیدا کرتا ہے؟ خصوصاً یہ اعتراض زمین و آسمان کی پیدائش پر کیا جاتا ہے جس کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ خدا نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا.

Page 415

زمین و آسمان کتنے عرصہ میں بنے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمہاری غلطی ہے کہ آسمان اور زمین چھ دن میں بنے.یوم کے معنے دن کے نہیں بلکہ وقت کے ہوتے ہیں.چونکہ دن وقت کا پیمانہ ہے اس لئے دن کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیاجاتا ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ زمین و آسمان لاکھوں کروڑوں سال میں بنے کیونکہ موجودہ علوم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں.اس پر غالباً کہا جائے گا کہ اس طرح تو اعتراض اوربھی مضبوط ہوگیا کیونکہ تم کہتے ہو کہ زمین و آسمان لاکھوں کروڑوں سال میں بنے ہیں.پہلا جواب اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ کسی واقعہ کی موجودگی میں جس کی حکمت سمجھ میں نہ آئے واقع پر اعتراض نہیں ہوسکتا.اگر یہ ثابت ہوجائے کہ خدا تعالیٰ ہے اور اس نے اس دنیا کو بنایا ہے تو اس کا قادر ہونا ثابت ہوگیا باقی رہا یہ سوال کہ کیوں نہ اس نے ایک ہی منٹ میں بلکہ اس سے بھی کم میں دنیا کو پیدا کردیا تو اس کی نسبت یہ کہا جائےگا کہ اس سے اس کی قدرت پر اعتراض نہیں پڑسکتا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ اس امر کی حکمت ہماری سمجھ میں نہیں آتی.دوسراجواب دوسرا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف زمین و آسمان کو ہی آہستہ آہستہ پیدا نہیں کیا بلکہ وہ اس دُنیا کی سب چیزوں کو اسی طرح پیدا کرتا ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ ہر چیز اپنی اردگرد کی چیزوں سے مناسبت حاصل کرسکے تا کہ تمام چیزیں اس سے مل کر کام کرسکیں.پس چیزوں کا آپس میں لگاؤ اورانس پیدا کرنے کے لئے اس نے ایسا کی ہے.خدا تعالی تو قادر تھا کہ فوراً کوئی چیز پیدا کردیتا مگر ہمیں ضرورت تھی کہ آہستہ آہستہ پیدائش ہوتا کہ ہم ایک دوسرےکو جذب کرسکیں.جس طرح اگر اسپنج کو جلدی پانی میں سے نکال لیاجائے تو وہ وچھی طرح گیلا بھی نہیں ہوتا پانی جذب کرنےکے لئےکچھ دیر پانی میں رکھے رہنے کا محتاج ہے یا جیسے ماش کی دال بھیگنے کے لئے دیر تک پانی میں رہنے کی محتاج ہے پس یہ دیر خدا تعالیٰ کے ضعف کی وجہ سےنہیں بلکہ ہمارے ضعف کے سبب سے ہے.تیسرا جواب تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر اس کی قدرت فوراً پیدا کردینے کا تقاضا کرتی ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک چیز ہی فوراً پیدا ہوجاتی مگر ذرا دنیا میں اس قانون کو

Page 416

جاری کرکے دیکھ لو دُنیا کیا بن جاتی ہے.اس قانون کے ماتحت بچہ کو نو ماہ کے بعد پیدا نہ ہونا چاہئے بلکہ فوراً پیدا ہوجانا چاہئے.سوچو تو سہی اس کا کیا نتیجہ نکلے گا سردی کا موسم ہو آدھی رات کا وقت ہو ایک غریب آدمی کی بے خبری میں یکدم بچہ پیدا ہوجائے اس وقت وہ کہاں سے اس کے لئے کپڑا مہیّا کرسکے گا پھر اگر مضبوط آدمی ہوا اور اس نے پھر ایسا ہی فعل کیا جس سے بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو اس وقت ایک اور بچہ پیدا ہوجائے گا اوراگر تیسری دفعہ پھر وہی فعل اس سے ہوا تو تیسرا بچہ پیدا ہوجائے گا اس طرح ایک ایک رات میں بعض لوگوں کے کئی کئی بچے پیدا ہونے ممکن ہوں گے اور صبح ہوتے ہوتے ایک بڑے کنبے کی پرورش کا بوجھ سر پر پڑجائیگا خود ہی اندازہ کرلو کہ اس قانون کےماتحت ایک سال میں یہ تعداد کہاں تک پہنچ سکتی ہے.ایسی حالت ہوتی تو عورت مرد آپس کے تعلقات سے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہ ہم اس کے قریب نہ جائیںگے.پھر ایک بچہ پیدا ہونے پر عورت کو اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ اس کا بُرا حال ہوجاتا ہے اور ولایت میں تو عورتیں رحم ہی نکلوا دیتی ہیں تا کہ بچہ پیدا ہونے کی تکلیف نہ برداشت کرنی پڑے.لیکن اگر ایک ہی وقت میں پے درپے بچے پیدا ہوسکتے تو نہ معلوم وہ کیا کرتیں شادی کا ہی نام نہ لیتیں یا پھر ایک ایک مرد کو کئی کئی سو عورتیں کرنے کی اجازت ہوتی.اگر خدا آہستہ نہ بڑھاتا پھر آہستہ پیدا کرنے والا اعتراض آہستہ بڑھانے پر بھی پڑتا ہے کہ آہستہ آہستہ کیوں خدا بڑھاتا ہے.اس طرح بھی نہ ہو بلکہ اِدھر بچہ پیدا ہوا ادھر یکدم بڑا ہوگیا.مگر اس طرح ایک اور مصیبت شروع ہوجائیگی بچہ کے پیدا ہونے پر جوں توں کرکے ماں نے جلدی سے اس کے اندازہ کا کُرتا سیا کہ سردی سے مرنہ جائے لیکن جب وہ پہنانے لگی تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ پانچ چھ سال کا بن گیا ہے پھر وہ ساتھ آٹھ سال کے بچہ کے اندازہ کا کپڑا سی کر لائی مگردیکھا کہ وہ تو داڑھی والا مرد بنا بیٹھا ہے.غرض فوراً پیدائش اوربڑھنے کی وجہ سے دنیا میں ایک آیسی آفت آجائے کہ یہی لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کانوں کو ہاتھ لگائیں اور کہہ اُٹھیں کہ ہم نے خدا کی قدرت دیکھ لی اور ہم اعتراضوں سے باز آئے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی شخص باغ میں گیا اور جا کر دیکھا کہ زمین پر پھیلی ہوئی بیلوں کو تو بڑے بڑے پھل لگے ہوئے ہیں اوربڑے بڑے اونچے درختوں کو چھوٹے چھوٹے.اس نے کہا

Page 417

لوگ تو کہتے ہیں اللہ میاں بڑا دانا ہے.مگر اس نے یہ کیا کیا ہوا ہے.انہیں خیالات میں وہ ایک آم کے درخت کے نیچے سوگیا.اوپر سے ایک آم اس پر گِرا اور وہ اُٹھ کر کہنے لگا.اللہ میاں مجھے تیری اس حکمت کی سمجھ آگئی اگر مجھ پر کدو گرتا تو میرا کام ہی تمام ہوجاتا.تو نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے میری گستاخی تھی جو مَیں نے اعتراض کیا.غرض خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر اعتراض کرنے والے اول درجہ کے جاہل ہوتے ہیں اور نادانی سے اس ذات پر اعتراض کرتے ہیں جو ان کو پیدا کرنے والی ہے اور جس کے مقابلہ میں وہ مکھی جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے.خدا کی ہادی صفت پر اعتراض اور اس کا جواب پھر کہا جاتا ہے کہ خدا کی ہادی صفت نے کیا کیا.زیادہ دنیا تو گمراہی کی طرف جارہی ہے.اگر اس اعتراض کا یہ مطلب ہے کہ خدا کسی کو بُرے کام کیوں کرنے دیتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا لوگوں پر جبر کیوں نہیں کرتا؟ گویا جب کوئی شرابپینےجائے تو اسے روک دے لیکن اگر یہ حالت ہو تو پھر کوئی انعام کا کسی طرح مستحق ہو.بات یہ ہے کہ اس قسم کے معترض اعتراض کرتےہوئے بھول جاتے ہیں کہ دنیا کو خدا نے کیوں پیدا کیا ہے.اس بات کو بھلا کر اعتراض کرتے ہیں یا پاگلانہ طور پر اعتراض کرتے ہیں.دُنیا کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسانوں کو انعام اور ترقیاں دے لیکن اگر جبر ہوتا تو انعام دینا غلط ہوتا.پس خدا تعالیٰ نے انعام دینے کےلئے انسان کو نیکی اوربدی کا علم دیکر قدرت دے دی ہے اور بتا دیا کہ یہ کام کروگے تو انعام ملےاور یہ نہ کروگے تو سزا اور یہ صاف بات ہے کلہ انعام پانیوالے تھوڑے ہی ہوتے ہیں سارے نہیں ہوا کرتے.دیکھو یہ جو یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں ان میں تیس پنتیس فیصدی طلباء پاس ہوتے ہیں اگر کوئی کہے کہ ان کا کیا فائدہ ہے؟ تو اس کے جاہل ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے.مگر ان یونیوسٹیوں کے کام کا نتیجہ تو بہت ادنی ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے وہ بہت شاندار ہے اس لئے اس کا امتحان بھی بہت سخت ہے.خدا نے امتحان آسان رکھا ہے اگر کہا جائے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ انعام دے تو امتحان آسان رکھنا چاہئے تھا.اس کا یہ جواب

Page 418

ہے کہ اس سے زیادہ کیا آسان ہوسکتا ہے کہ اکثر نیکیاں خدا تعالیٰ نے وہی رکھی ہیں جن میں انسان کا اپنا فائدہ ہے.ان کو نہ کرنا تو ایسا ہی ہے جیسا کسی کو کہا جائے کہ تم اپنے گھر کو لیپ پوت چھوڑنا مگر وہ ایسا نہ کرے اور کہے کہ اتنا سخت کام ہے اور مزدوری دیتے نہیں تو مَیں کیوں کروں.دیکھو خدا تعالیٰ کہتا ہے چوری نہ کرو اب اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اس کا کسے نقصان ہے خدا تعالیٰ کا کیسا نقصان خود اس کا اعتبار نہیں رہتا.اسی طرح جس قدر سوالات خدا نے اس امتحان میں پاس ہونے کے لئے دئیے ہیں وہ انسان کے ہی فائدہ کے لئے ہیں اور چند ایک ایسے بھی ہیں جو بظاہر انسان کے دنیوی یا اخلاقی فائدہ کے نظر نہیں آتے جیسے نماز، روزہ ،حج اور زکوٰۃ کے احکام ہیں مگر درحقیقت ان میں بھی انسان کا ہی فائدہ مد نظر ہے.جیسا کہ نماز کے متعلق آتا ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ(العنکبوت:۴۶)کہ نماز برائیوں اوربدیوں سے روکتی ہے.سو اگر سوچا جائے تو خدا تعالیٰ نے امتحان اس طرح کا لیا ہے کہ اپنے دروازہ پر روغن مل دینا، چھت پر مٹی ڈال دینا، اپنے کپڑے دھونا ،کھانا دیکھ کر کھانا تا کہ اس میں مٹی وغیرہ نہ ہو، سردی کے وقت آگ جلانا تا کہ تمہاری صحت خراب نہ ہو اور پھر پوچھے کہ کیا تم نے یہ کام کر لئے ہیں؟ اور جنہوں نے کئے ہوں انہیں جنت میں داخل کردے اس سے زیادہ آسان اور کیا امتحان ہوسکتا ہے؟اس سے آسان تو پھر یہی ہوسکتا ہے کہ کہہ دیاجائے جو مرضی ہو کرو تمہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا.کیا خدا کی بعض صفات بعض سے افضل ہیں صفات الٰہیہ کے متعلق یہ بھی ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیا خدا کی بعض صفات بعض سے افضل ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ افضل نہیں ہوتیں بلکہ ہر ایک کے الگ الگ دائرے ہوتے ہیں اور وہ ایک انتظام کے ماتحت ہوتی ہیں.ہاں کبھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض بعض سے وسیع ہوتی ہیں.یعنی بعض کا ظہور زیادہ وسیع ہوتا ہے بعض کی نسبت جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ کہ میری رحمت ہرایک چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے.یعنی مخلوق پر صفات غضبیہ کی نسبت صفات رحمت کا ظہور زیادہ ہوتا ہے.پس ہم صفات کے لئے لفظ وسعت کا استعمال کرتے ہیں فضیلت کا نہیں کیونکہ ایک صفت کو دوسری سے افضل کہنا بے ادبی ہے.

Page 419

کیا خدا کی صفات ایک دوسری کے متضاد ہوسکتی ہیں؟ پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات ایک دوسری کے متضاد ہیں تو ان کا عمل کس طرح ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک وجود میں دو باتون کا پایا جانا تضاد نہیں ہوتا.تضاد تو یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک چیز آجائے تو دوسری نہ ہوسکتے اور یہ بات خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق نہیں کہی جاسکتی.کہا جاتا ہے کہ اگر خدا رحیم ہے تو پھر شدید العقاب کیونکر ہوسکتا ہے؟ اگر رحیم ہے تو وہ شدید العقاب نہیں ہوسکتا اور اگر شدید العقاب ہے تو رحیم نہیں ہوسکتا.ہم کہتے ہیں کہ اس اعتراض کے اٹھانے والے اپنے متعلق ہی غور کریں.اگر کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص رحم دل ہے لیکن دوسرا شخص جواب دے کہ نہیں وہ رحم دل نہیں کل مَیں نے اسے اپنے لڑکے کو مارتے دیکھا تھا تو کیا یہ بات صحیح تسلیم کی جائے گی؟ ہرگز نہیں کیونکہ وہ رحم کے موقع پر رحم کرتا ہے اور سزا کی ضرورت کے وقت سزا دیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر وہ شدید العقاب ہے تو رحیم نہیں ہوسکتا اوراگر رحیم ہے تو شدید العقاب نہیں ہوسکتا.کیونکہ وہ رحم کے موقع پر رحم کرتا ہے اور سزا کے موقع پر سزا دیتا ہے اور سزا کے موقع پر یعنی جہاں سزا سے اس شخص کی اصلاح مد نظر ہو جسے سزا دی گئی ہے سزا کا دینا ہرگز رحم کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ رحم ہی کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے.اس جگہ ایک اور اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ انسان میں رحم اور غضب الگ الگ موقعوں پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن خدا میں تو تم ایک ہی وقت میں ساری باتیں مانتے ہو تمہارے نزدیک خدا کے حکم سے ایک ہی وقت ایک کے ہاں بیٹا پیدا ہورہا ہے اور اسی لمحہ میں دوسرے کے ہاں موت واقع ہورہی ہے.ادھر نبی پر وہ برکتیں نازل کرتا ہے اور دوسری طرف اسی وقت کافروں پر لعنت ڈال رہا ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ محدود وجود کے اعمال محدود ہوتے ہیں انسان ایک وقت میں دو باتوں پر غور نہیں کرسکتا لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ غیر محدود طاقتیں رکھتا ہے.وہ جس طرح ایک ہی وقت میں ساری دنیا کے کاموں کو معلوم کرلیتا ہے اسی طرح ایک ہی وقت میں اس کی صفتِ رحم اور صفتِ شدید ُالْعِقَاب کام کررہی ہوتی ہیں انسان کی طاقتوں پر خدا کی قدرتوں کا قیاس نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ وہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیءٌہے.

Page 420

تمام صفات الٰہیہ کا ظہور کس طرح ہوتا ہے؟ یہ سوال بھی قابلِ غور ہے کہ خدا تعالیٰ کی مختلف صفات ایک وقت میں کس طرح جاری ہوتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت ایسی بھی ہے جو بعض اصول کے مطابق بعض صفات کو جاری کرتی ہے اوربعض کو بند کرتی ہے.یہ صفت بعض آیات قرآن کریم سے بھی مستنبط ہوتی ہےاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے بھی معلوم ہوتی ہے اور اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے متعلق شافی کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ شافی ہے.جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن کریم میں نقل ہے کہ فَھُوَ یَشْفِیْنِ.(الشعرآء :۸۱) حضرت مسیح موعودؑ پر خدا کی ایک خاص صفت کا اظہار حضرت مرزا صاحب ؑ بھی چونکہ نبی تھے اور آپؑنے لکھا ہے کہ نبی غوامض بیان کرنے کے لئے آتے ہیں یعنی مخفی امور نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کردیتے ہیں.تو آپؑنے اللہ تعالیٰ کی کئی صفتیں ایسی بیان کی ہیں جو خدا تعالیٰ نے آپؑپر کھولی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا کی صفات میں سے ایک صفت ایسی بھی ہے جو مختلف صفات کی حدبندیوں کو ظاہرکرتی ہے.اس صفت پر حضرت مسیح موعودؑکا مندرجہ ذیل الہام دلالت کرتا ہے.’’اِنَّی مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْم وَاُفْطِرُوَ اَصُوْمُ.‘‘ (تذکرہ صفحہ ۴۹۰ایڈیشن.چہارم) اب نہ اُفْطِرُکا لفظ قرآن کریم میں خدا کے لئے آیا ہے اور نہ اَصُوْمُ کا.اورجس طرح انسان کے لئے خدا کا کوئی اسم بنانا جائز ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف کوئی تشبیہی فعل منسوب کرنا بھی ناجائز ہے.مگر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو خود آپؑکے الہام میں اُفْطِرُوَاَصُوْمُ کے الفاظ استعمال کرکے بتایا ہے کہ اس کی صفات میں افطار وصوم کی مشابہ ایک صفت ہے جو صفات کے عمل کو جاری کرنے یا بند کرنے کا کام کرتی ہے اُفْطِرُ سے مراد یہ ہے کہ مَیں اپنی صفت کو جاری ہونے کا حکم دیتا ہوں اور اَصُوْمُ کا یہ مفہوم ہے کہ مَیں اپنی صفت کے ظہور کو روک دیتا ہوں.

Page 421

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک الہام کا مطلب لوگ اس الہام پر اعتراض کرتے ہیں کیونکہ اس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ میں روزہ رکھتا ہوں اور روزہ کھولا کرتا ہوں اور لغوی معنے یہ ہیں کہ مَیں رُکتا ہوں اور روک کو دُور کرنے کے وقت کو پاتا ہوں مگر مراد یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ میں بعض صفات کو روک دیتا ہوں اور دوسرا وقت ایسا آتا ہے کہ مَیں انہیں جاری کرتا ہوں.پس معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت ایسی ہے جو دوسری صفات سے کام لیتی ہے بعض کو آگے پیجھے کرتی ہے بعض کو روکتی ہے اور بعض کو جاری کرتی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر اس الہام کا یہی مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ ایک وقت اپنی صفات کو روکتا اورپھر جاری کرتا ہے.تو پھر اُفْطِرُا ور اَصُوْمُ کیوں کہا؟ یہ کیوں نہ کہدیا کہ میں صفات کو روکتا بھی ہوں اور کھولتا بھی ہوں.الہام مسیح موعود کے پر حکمت الفاظ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتیں وسیع معنے رکھتی ہیں اور مَیں رُکتا ہوں اور کھولتا ہوں کہنے میں وہ لطف نہ ہوتا جو اُفْطِرُوَاَصُوْمُ میں ہے.یہ الفاظ کہہ کر خدا تعالیٰ نے اپنے فعل کوروزہ دار کے فعل سے نشبیہ دی ہے اور تین موٹی موٹی باتیں ہیں جو روزہ دار میں پائی جاتی ہیں.اول یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے رُکتا ہے جو اس کے قبضہ اوراختیار میں ہوتی ہیں.مثلاً کھانا ہوتا ہے مگر وہ نہیں کھاتا.گویا وہ احتیاج کے طور پر نہیں رُکتا بلکہ باوجود قدرت کے اپنی مرضی سے رکتا ہے اسی طرح جب افطار کرتا ہے تو بھُوک یا پیاس کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اپنے ارادے کے ماتحت اوراپنی خوشی سے ایسا کرتا ہے.گویا اس مشابہت سے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بعض صفات جن کو خدا تعالیٰ روکتا ہے اپنی مرضی سے روکتا ہے نہ بوجہ احتیاج کے اوربعض صفات جن کو کھولتا ہے ان کو بھی اپنی مرضی سے کھولتا ہے نہ کہ بسبب احتیاج کے.دوسرے اس مشابہت سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے خالی رکنااندرونی تکان کے سبب سے بھی ہوسکتا ہے یعنی گو بیرونی مجبوری کوئی نہ ہو لیکن اپنے نفس میں تکان پیدا ہوجائے جیسے آدمی کا کھاتے کھاتے پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے لیکن روزہ دار اس لئے کھانے سے نہیں رُکتا کہ وہ کھانہیں سکتا یا اس میں کھانے کی طاقت نہیں رہتی بلکہ

Page 422

اپنی مرضی سے رُکتا ہے.سو اس مشابہت سے بتایا کہ خدا تعالیٰ تھک کر اپنی صفات کو نہیں چھوڑتا اورنہ اس میں نئی طاقت آجاتی ہے تو ان کو جاری کرتا ہے بلکہ اپنی مرضی سے اوراپنی خاص حکمت سے صفات کو جاری کرتا یا روکتا ہے.تیسری بات اس مشابہت سے یہ بتائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات قہریہ ہمیشہ روحانی تاریکی کے وقت جاری ہوتی ہیں (کیونکہ یہ الہام صفات قہریہ کے متعلق ہے) اوریہ صفات روحانی صفائی پیدا ہونے پر روک لی جاتی ہیں کیونکہ صوم یعنی رُکنے کا وقت نور کے شروع ہونے سے شروع ہوتا ہے اور افطار ظلمت کے شروع ہونے ہے.تو گویا اس مشابہت کےذریعہ سے حضرت مسیح موعودؑکو اس الہام میں عذاب کے متعلق بتایا گیا کہ جب نیکی اور تقویٰ ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ عذاب دینے کی صفات کو روک دیتا ہے اورجب ظلمت اور تاریکی پھیل جاتی ہے لوگ گناہوں اور بدکاریوں میں بکثرت مبتلاء ہوجاتے ہیں تو ان صفات کو چھوڑ دیتا ہے تا کہ لوگ تباہ و برباد ہوں.اب دیکھو کتنی وسیع اورپُر حکمت تعلیم اس میں بیان کی گئی ہے کہ جب نُورجاری ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ عذاب کی صفتوں کو روک دیتا ہے اور جب بدی پھیل جاتی ہے تو ان کو کہہ دیتا ہے کہ اب تمہارا دور جاری ہوجائے.الہام مسیح موعودؑکے ایک اور معنے پھر خدا کی صفت خلق قائم مقام نور ہے اور عدم قائم مقام ظُلمت.چنانچہ عربی میں خلق کو فلق بھی کہتے ہیں اور فلق کے معنے پو پھٹنے کے ہیں.گویا مخلوق بھی نور ہوتی ہے او ر عدم کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہ ہونا.اب ہونا تو روشنی ہوئی اورنہ ہونا اندھیرا.اس لئے اُفْطِرُوَاَصُوْمُ کے یہ معنی ہوئے کہ خدا کی بعض صفات ایسی ہیں جو عدم کے وقت جاری ہوتی ہیں اوربعض وجود کے وقت جیسے کہتے ہیں کہ اب مادہ کو خدا کیوں نہیں پیدا کرتا اس لئے کہ جب عدم تھا تو خدا تعالیٰ کی مادہ کو پیدا کرنے کی صفت جاری ہوگئی اورجب وجود میںآگیا تو اب مخلوق کے قائم رکھنے کی صفات جاری ہوگئیں.تو یہ کتنا بڑا علم ہے جو حضرت مسیح موعودؑکے اس الہام سے ظاہر ہوا.اب دشمن اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا خدا بھی کھانا کھاتا ہے کہ اس نے چھوڑ دیا.ہم کہتے ہیں معترض نادان ہیں جو خدا کے کلام کے معارف نہیں جانتے.خدا تعالیٰ نے ایسا علم حضرت مسیح موعودؑکےذریعہ دیا ہے اور آپؑنے غوامض بیان فرمائے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں

Page 423

کس نے نہیں بیان کئے.یہ ایک ہی الہام دیکھ لو کتنے وسیع مضمون اس میں بیان کئے گئے ہیں.خدا کی صفات کس طرح جاری ہوتی ہیں؟ اب یہ بات رہ گئی کہ خدا کی صفات کس طرح جاری ہوتی ہیں اس کے متعلق پہلے تو یاد رکھنا چاہیئے کہ بندوں سے خدا تعالیٰ کی جو صفات تعلق رکھتی ہیں ان میں خدا نے رحمت کا وسیع دائرہ کھینچا ہے چنانچہ فرماتا ہے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئیٍ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو اس صفت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ سب کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ سب صفات کے ظہور پر غالب ہوتی ہے حتّٰی کہ خدا تعالیٰ کے علم پر بھی رحمت ہی غالب ہے.شاید اس بات پر تعجب ہو کہ خدا تعالیٰ کے علم پر رحمت کس طرح غالب ہے.مگر اس کا پتہ اس سے لگتا ہے کہ مبشرات خدا تعالیٰ کی طرف سے زیادہ آتے ہیں اور منذرات کم حتّٰی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر منذر رؤیا زیادہ آ ئیں تو شیطانی ہوتی ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے منذر رئویا نہیں آتیں کیونکہ ایسی خوابیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آتی تھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جسے ڈراؤنی خوابیں ہی آتی رہیں وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس شخص کو متواتر سلسلہ الہامات کا جاری ہو اس میں مبشرات کا پہلو غالب ہوتا ہے کیونکہ متواتر الہام خدا کے پیاروں کو ہی ہوسکتے ہیں اور جو پیارے ہوں وہ عذاب کی نسبت انعام کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ کا علم جو بندوں سے تعلق رکھتا ہے اس پر بھی اس کی رحمت وسیع ہوتی ہے اور دنیاوی علوم کے انکشاف میں بھی صفت رحمت ہی وسیع ہے کیونکہ جو علوم دریافت ہوتے ہیں ان میں رحمت کا پہلو غضب کے پہلو پر غالب ہوتا ہے.خدا کی صفت رحمت کی وسعت یہ وسعت کئی طریق پر ہوتی ہے ایک تو اس طرح کہ انسان گناہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ معاف کردیتا ہے کئی قسم کی بد پر ہیز یاں انسان کرتا ہے مگر اکثر ان کے نتائج سے بچ جاتا ہے اور کبھی پھنس بھی جاتا ہے.دوسرے اس طرح کہ خدا تعالیٰ گناہوں کی سزا میں جس کا وہ کسی وجہ سے مستحق ہوتا ہے کمی کردیتا ہے اور جس قدر سزا دی جاتی ہے اس میں بھی رحمت غالب رہتی ہے تو سزا جو شدید العقاب صفت کے ماتحت ہوتی ہے اس پر بھی رحمت ہی محیط ہے گویا سب سے بڑا دائرہ رحمت کا ہے اور اس کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ سزا بالکل معاف کرادیتی ہے.دوسرا یہ کہ سزا کم کرادیتی ہے

Page 424

اور تیسرایہ ہے کہ اگر سزا ملے تو آخر میں بند کرا دے گی.جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن دوزخ میں سے سب لوگ نکال لئے جائیں گے اور ہوا دوزخ کے دروازے کھٹکھٹائے گی.دوسرے اس صفت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ گناہوں سے بچنے کے سامان پیدا کرتا رہتا ہے ،نبی بھیجتا ہے، مجدّد آتے ہیں، ما ٔمور مقرر ہوتے ہیں اورپھر مشکلات اور مصائب آتے ہیں تا کہ بندہ کی توجہ خدا کی طرف پھیریں.چوتھے اس طرح کہ جب خدا تعالیٰ کسی کے متعلق کسی سزا کا حکم دیتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی دوسری صفات رحمت نہیں روکی جاتیں بلکہ مختلف صفات اپنے اپنے حلقہ میں کام کرتی رہتی ہیں ایک دوسری کے راستہ میں روک نہیں ہوتی.مثلاً اگر کسی پر خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہو اور جس رنگ کا اس نے قصور کیا ہے اس کے مطابق کوئی صفت رحمت اس سے روک لی جائے تو یہ نہیں کیا جائے گا کہ دوسری صفات رحمت کو بھی اس سے روک دیا جائے.وہ پہلے کی طرح اس شخص کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں فائدہ پہنچاتی رہیں گی.یہ خدا تعالیٰ کا فعل انسانی افعال سے بالکل مختلف ہے.کسی انسان کا کوئی نوکر جس کو اس نے ہزاروپیہ خرچ کرنے کے لئے دیا ہو اس میں کچھ خیانت کرلے تو وہ اس کو نوکری سے ہٹا دے گا پھر اسی پر بس نہ کرے گا بلکہ اس سے بولنا بھی ترک کردے گا اور سارے تعلقات قطع کرلے گا.اس کے برخلاف خدا تعالیٰ کسی گناہ کی وجہ سے کسی صفت رحمت کو روک لیتا ہے تو باقی رحمت کی صفات کو بند نہیں کردیتا بلکہ ان کو بھی جاری رکھتا ہے.مثلاً نبی کے مخالفوں کے متعلق ادھر تو صفت شدید الانتقام جاری ہوگی کہ جو اس کا شدید مخالف ہے اسے ماردو مگر ادھر خدا تعالیٰ کی صفت ستاری بھی اپنا عمل کررہی ہوگی.اس کے دل میں جو کچھ گند ہوتا ہے اس کو ظاہر نہیں کیا جائے گا لوگوں کو اس کے پوشیدہ در پوشیدہ گناہ نہیں بتلائے جائیں گے.اگر بیماری کا حکم ہوا ہے تو جائدادیں برابر محفوظ رہیں گی رزق ملتا رہے گا پھر مرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کی محی کی صفت جاری ہوگی اس کو زندہ کیاجائے گا اوراصلاح کی صفت جاری ہوگی جہنّم کے علاج کےذریعہ سے اس کی روحانی بیماریوں کو دور کیاجائے گا.غرض خدا تعالیٰ کی صفات کے جاری ہونے کا اور قاعدہ ہے.ہمارا تو یہ حال ہوتا ہے کہ اگر کسی سے محبت ہوئی تو ہر رنگ میں محبت ہی کی جاتی ہے اور اگر ناراضگی ہوئی تو ہررنگ میں ناراضگی ظاہر کی جاتی ہے مگر خدا تعالیٰ اگر اپنی ایک صفت کو انسان کی کسی غلطی سے روکتا ہے تو باقی صفات کو جاری رکھتا ہے.غرض خدا *کنزالعمال جلد ۱۴ ص۵۲۷روایت نمبر ۵۰۶

Page 425

کی صفات کا دائرہ مقرر ہے اور وہ اپنے اپنے دائرہ میں کام کرتی ہیں اوران میںرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئیٍ کا نظارہ نظر آتا ہے.مثلاً ایک کافر ہے جو اچھا بھلا ہے اس کے گناہوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے کہ اسے پاگل کردو اوراسے پاگل کردیا جاتا ہے اگر ہمارا اتنا اختیار ہو تو ایسے شخص کاگلا ہی گھونٹ دیں اور اسے مار دیں.مگر ادھر خدا تعالیٰ کی صفت شدید العقاب کہہ رہی ہوتی ہے کہ اسے پاگل کردو مگر ادھر خدا تعالیٰ کی صفت رزاقی کہہ رہی ہوتی ہے کہ یہ ہمارا بندہ ہے اس کو رزق دو.اسی طرح خدا تعالیٰ کی اور صفات بھی جاری ہوتی ہیں.خدا کی صفات کے متعلق ایک اور قانون دوسرے خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کے لئے یہ بھی قانون ہے کہ وہ اس قانون کی تائید کرتی ہیں جو قانونِ قدرت کہلاتا ہےا س قانون کے ماتحت انسان کے اعمال یا دُنیا کے تغیرات جو رنگ اختیار کرلیتے ہیں اس کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی رہتی ہیں.گویا اس طرح وہ انسانی اعمال یا طبعی تغیرات کی مددگار ہوجاتی ہیں جیسا جیسا عمل ہو اس کے مطابق نتیجہ نکلتا چلاجاتا ہے.قرآن کریم میں اس قاعدے کے متعلق فرمایا ہے کہ کُلَّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ وَھٰٓؤُلَآءِ (بنی اسرائیل :۲۱)ہر شخص جس قسم کی کوشش کرتا ہے اس کے مطابق ہم قطع نظر اس کے کہ وہ مؤمن ہے کہ کافر نتائج نکالتے رہتے ہیں.خدا کی صفات کے دو چکر تیسرا قاعدہ ظہور صفات کے متعلق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات دودائروں میں کام کرتی ہیں جس طرح زمین کی دو حرکتیں ہیں ایک اپنے اردگرد اورایک سورج کے گرد اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات کا ایک تو ایسا اثر ہے جو ہر وقت ہوتا رہتا ہے سوائے اس کے کہ احدیث کے مقابلہ میں آئے اگر اس کے مقابلہ میں آئے تو فوراً بند ہوجاتا ہے.دوسرا چکر ان کا یہ ہے کہ انسان اپنے عمل سے جب ان کے اثر کو کھینچے تو ان کا اثر ظاہر ہوتا ہے ورنہ نہیں.آگے ان صفات کا کھینچنادو طرح ہوتا ہے.ایک قانونِ قدرت کی مدد سے اور دوسرے بذریعہ دُعا.مثال پہلی بات کی یعنی صفاتِ الٰہیہ کے بروقت ظاہر ہونے کی یہ ہے کہ رزق خدا تعالیٰ ایک رنگ میں ہروقت دےرہا ہے انسان کے جسم کے ہرایک ذرّے کو اگر خون نہ ملے تو انسان مرجائے اسی طرح ہوا انسان کے اندر جارہی ہے جس سے خون صاف ہوتا ہے ہروقت خدا تعالیٰ کی صفات یہ ضرورت پوری کررہی ہیں خواہ انسان سوتا ہویاجاگتا ہوش میں ہو یابے ہوشی میں.اسی طرح ستر ہے ہر وقت ستر ہو

Page 426

رہا ہے خدا تعالیٰ نے قانون رکھا ہے کہ انسان کے دماغ کا حال دوسرے کو معلوم نہ ہو.انسانی دماغ میں بیسیوں گندے خیال گذرتے ہیں اگر یہ صفت نہ ہوتی تو لوگ آپس میں ہروقت لڑتے جھگڑتے رہتے.کوئی کسی کو ملنے کے لئے جاتا مصافحہ کرتا اور اسے مارنے لگ جاتا کہ تمہارے دل میں میرے متعلق فلاں بُرا خیال آیا تھا.اسی طرح میاں بیوی کے دل میں ایک دوسرے کے متعلق کبھی کوئی بُرا خیال آتا تو وہ ایک دوسرے کو معلوم ہوجاتا اوران کی محبت میں فرق آجاتا.تو خدا تعالیٰ کی ستاری کی صفت بھی ہر وقت اپنا عمل کررہی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی غفاری کی صفت ہے ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں برابر گناہ ہورہے ہیں کہیں جسمانی اور کہیں شرعی جس طرح کھانے میں کبھی بے احتیاطی ہوجاتی ہے اسی طرح انسانی جسم کےذرّات بھی غلطیاں کرجاتے ہیں بیماریوں کے کیڑے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں مگر ان بے اعتدالیوں میں سے اکثر کے اثر کو خدا تعالیٰ کی صفت رحمت آپ ہی آپ مٹاتی رہتی ہے صحت پیدا کرنے والے اجزاءفوراً بیماری کے اثرات کو مٹا دیتے ہیں بیماری کے کیڑوں کے مقابلہ میں ان کو ہلاک کرنے والے کیڑے یا زہر پیدا کردئیے جاتے ہیں.معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ خدا نے انسان پر کیا رحم کیا مگر طب سے پتہ لگتا ہے کہ ننانوے فیصدی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کی انسان کے اندر ہی اندر اصلاح ہوجاتی ہے تو ایک تو صفات الٰہیہ کا ظہور ہر آن میں ہورہا ہے اور وہ کسی وقت معطل نہیں ہوتیں مثلاً خدا تعالیٰ سمیع ہےا گر کوئی منہ سے دُعا نہیں کرتا تو اس کا ذرّہ ذرّہ خدا تعالیٰ سے مدد کی التجاء کر رہا ہوتا ہے پھر وہ مجیب ہے وہ ہر ایک عضو کی پُکار کو سنتا ہے.دوسرا حصہ صفات کا یعنی جو بلانے سے ظاہر ہوتا ہے دو قسم کا ہے ایک وہ جس کی مدد قانون قدرت کےذریعہ سے حاصل کی جاتی ہے دوسرا وہ جس کی مدد قانون قدرت نہین بلکہ قانونِ شریعت کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہے.قانونِ قدرت کےذریعہ سے جن صفات کی مدد حاصل کی جاتی ہے ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی کھانا پکاتا ہے تو ضرور اس کا کھانا پک جائیگا.اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت تو ظاہر ہوگئی لیکن اس کا ظہور انسانی فعل کے نتیجہ میں ہوگا یا مثلاً ستاری کی صفت کو لے لو اس صفت کے ظہور کے لئےخدا تعالیٰ نےایک قانون بنارکھا ہے اگر اس کے ماتحت کوئی شخص چوری بھی کرے گا تو بچ جائے گا ،مثلاً اندھیرے میں چوری کرے اس امر کی احتیاط کرے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو لیکن اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کی

Page 427

چوری ظاہر ہوجائے گی.اسی طرح خدا تعالیٰ کی غفاری کی صفت ہے اگر انسان بدی کے ساتھ نیکی کرتا رہے یا بد پر ہیزی کے ساتھ علاج کرتا رہے تو اس صفت کا اثر ظاہر ہوتا ہے اورایک حد تک بد نتائج سے انسان بچتا رہتا ہے.دوسرا ظہور ان صفات کا شرعی ذرائع سے ہوتا ہے جیسے مثلاً دُعا سے.دعا طبعی قانون کا جزءنہیں بلکہ شرعی قانون کا جزء ہے اور اس کےذریعہ سے بھی خدا تعالیٰ کی وہ صفات جو خاص اوقات میں ظاہر ہوتی ہیں جلوہ گری کرتی ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ اس ذریعہ سے جس قدر صفات الٰہیہ کو متحرک کیاجاسکتا ہے اس قدر قانون طبعی کےذریعہ سے بھی نہیں کیاجاسکتا.غرض خدا تعالیٰ کی صفات مختلف دائروں میں عمل کررہی ہیں اگر ان کو مد نظر نہ رکھا جائے تو صفات الٰہیہ کے ظہور کا مسئلہ مشتبہ ہوجاتا ہے.کیا خدا سے تعلق ہوسکتا ہے ؟ خد اتعالیٰ کے متعلق ان معلومات کے حاصل ہونے کے بعد جو اوپر بیان کی گئی ہیں طبعاً انسان کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے خدا سے میرا بھی کوئی تعلق پیدا ہوسکتا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ ہاں ہوسکتا ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہ ِ خدا کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اِنَّ اللہَ وِتْرٌ یحِبُ الْوِتْرَ.٭خدا وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے.پھر فرمایا اِنَّ اللہَ… جِمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ٭کہ خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ کا خدا سے تعلق پیدا کرنا جائز رکھا گیا ہے اورطریق یہ بتایا ہے کہ انسان خدا کی صفات کو اپنے اندر لے اوراپنے اوپر منعکس کرے اسی طرح ایک اورحدیث ہے کہ خدا تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرے وہ جنت میں جائے گا حفظ کے معنے محفوظ کرنے کے ہیں اورضائع نہ کرنے کے.اس لئے حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان خدا کی صفت غفاری کا لفظ سُنے تو اُسے ضائع نہ ہونے دے بلکہ اپنے اندر اس کے مفہوم *ترمذی أبواب الوتر باب ماجاء ان یوتر لیس بحثم*مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۱۵۱ *بخاری کتاب التوحید باب ان اللہ مائة اسم الا واحدة

Page 428

کو پیدا کرلے.اسی طرح جب رحمٰن کی صفت سنے تو اس صفت کو اپنے اندر محفوظ کرلے.ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو خدا کے ننانوے نام یاد کرلے وہ جنّت میں چلا جائے گا کیونکہ اس طرح تو جنت ایک کھیل بن جاتا.پس حق یہی ہے کہ حفظ کے معنے محفوظ کرلینے اورباہر نہ نکلنے دینے کے ہیں اوراس کا یہ مطلب ہے کہ انسان سبحان ،قدیر ،رحمٰن ،رحیم وغیرہ بن جائے اور وہ انسان جو اپنے اندر خدا تعالیٰ کی ننانوے صفیں پیدا کرلے گا وہ جنت میں نہ جائے گا تو پھر اور کون جائے گا.رؤیت الٰہی جب اس بات کا پتہ لگ جائے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرسکتا ہے تو عالم ہی بدل جاتا ہے.پہلے تو یہی سوال تھا کہ خدا ہے یا نہیں؟ اوراگر ہے تو اس کی کیا صفات ہیں؟ جب صفات کا پتہ لگا تو ان پر غور کیا کہ ان کا ہم پر کیا اور کس طرح اثر پڑتا ہے؟ پھر جب معلوم ہواکہ وہ نہایت وسیع ہیں اورپھر یہ معلوم ہوا کہ وہ نہایت وسیع ہیں اورپھریہ معلوم ہوا کہ وہ صفات میرے اندر آسکتی ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوسکتا ہے تو اس مقام پر انسان کے خیالت میں عجیب تغیر پیدا ہوجائے گا.اس وقت اس کی حالت ایسی ہی سمجھ لو جیسے کسی بچہ کو شہر میں لے جائیں وہ ضرور کہے گا کہ میں یہ چیز بھی لے لوں اور یہ بھی لے لوں.اسی طرح بندہ کا حال ہوگا جب مذکورہ بالا طاقتوں والا خدا ثابت ہوگیا تو اس کے دل میں طبعاً خواہش ہوگی کہ مَیںاسےدیکھوں اور اس کا قرب حاصل کروں اور وہ ضرور سوال کرے گا کہ کیا رئویتِ الٰہی حاصل ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں اس لئے کہ پچھلے علمائے روحانی میں اس کے متعلق اختلاف ہوا ہے بعض کا خیال ہے کہ رئویت الٰہی ناممکن ہے کیونکہ خدا وراء الوریٰ ہے اور بدہ مادی ہستی ہے اس لئے ناممکن ہے کہ بندہ خدا کو دیکھ سکے.بندہ بندہ ہے اور خدا خدا.پس رئویت الٰہی بندہ کے لئے نہ اس دنیا میں ممکن ہے اورنہ اگلی دنیا میں کیونکہ وہاںبھی وہ بندہ ہی رہے گا پھر وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں خدا کو دیکھے تو شیطان دھوکا دینے کے لئے اسے دکھائی دیتا ہے.۲ - بعض کہتے ہیں کہ اس جہان میں انسان خدا کو نہیںد یکھ سکتا لیکن اگلے جہاں میں دیکھ لے گا.۳ - بعض کہتے ہیں کہ دونوں جہان میں خدا کو دیکھنا ممکن ہے یہاں بھی انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے اوراگلے جہان میں بھی دیکھے گا.

Page 429

رؤیت الٰہی سے مراد کیا ہے؟ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دونوں جہان میں خدا کو دیکھنا ناممکن ہے ان کو ہم کہتےہیں تمہارے اس خیال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ خدا وراءالوریٰ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ رؤیت الٰہی سے مرادکیا ہے؟ آیایہ کہ انسان خدا کی ذات پر محیط ہوجائے اگر یہ ہے تو ٹھیک ہے کہ اس طرح خدا کو کہیں بھی نہیں دیکھ سکتا پھر رؤیت الٰہی سے یہ بھی مراد نہیں ہوسکتی کہ خدا تعالیٰ کی صورت نظر آئے کیونکہ جو لوگ رؤیت کے قائل ہیں وہ خدا تعالیٰ کی کوئی صورت تسلیم نہیں کرتے ان کی مراد اگر رؤیت الٰہی سے کچھ ہے تو یہی کہ خدا تعالیٰ کی صفات تنزّل اختیار کرکے تمثیلی صورت میں آتی اور انسان ان کا جلوہ دیکھتا ہے یا یہ کہ اپنے قلب میں انسان خدا تعالیٰ سے ایک ایسا روحانی اتصال پاتا ہے کہ اسے سوائے دیکھنے کے اور کسی چیز سے تشبیہہ نہیں دے سکتا اور اس قسم کی رؤیت کو کوئی رد نہیں کرسکتا.اس طرح اور کئی چیزوں کو انسان دیکھ لیتے ہیں.مثلاً علم اورحیا شکل اختیار کرکے آجاتی ہیں اور ہم دیکھ لیتے ہیں حالانکہ علم اورحیا معانی ہیں اجسام نہیں.پس اگر خدا تعالیٰ کی بعض صفات اگر بطور تنزل بندے کے لئے متمثل ہوں یعنی تمثیلی زبان میں ان پر بندہ کو آگاہ کیاجائے تو یہ بات بندہ کے لئے اسی طرح مفید ہوگی جس طرح کسی وجود کا دیکھنا مفید ہوسکتا ہے اوراگر قلب پر صفات الٰہیہ کی تجلّی ہو تو یہ بھی ویسی ہی بلکہ اس سے بڑھ کر مفید ہوگی.موٹی مثال ہے کلام اللہ نازل ہوتاہے ہم اسے پڑھ جاتے ہیں اس کے بعد لفظ تو غائب ہوجاتے ہیں مگر ایک بات انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے پس معانی کا شکل اختیار کرنا کوئی بعید بات نہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات کو تصویر زبان میں دکھا دیا جانا بھی ناممکن ہے.حضرت موسیٰؑ اور رؤیتِ الٰہی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اگلے جہان میں خدا کی رؤیت ہوسکے گی اس جہان میں نہیں ہوسکتی وہ مندرجہ ذیل آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَہٗ رَبُّہٗ۰ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ۰ۭ قَالَ لَنْ تَرٰىنِيْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَـبَلِ فَاِنِ اسْـتَــقَرَّ مَكَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِيْ۰ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰي صَعِقًا۰ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ (الاعراف : ۱۴۴) وہ کہتے ہیں دیکھو قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰؑ خدا کے پاس گئے اور جاکر کہا اے خدامجھے اپنا وجود دکھا اللہ نے

Page 430

کہا تو ہرگز نہیں دیکھے گا اور کہا کہ پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ ٹھہرا رہا تو تم بھی دیکھ لو گے لیکن جب پہاڑ پر بجلی گری اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تو حضرت موسٰی بیہوش ہوگئے اور جب انہیں افاقہ ہوا تو کہا اے اللہ تُو پاک ہے مَیں توبہ کرتا ہوں اورسب سے پہلا مؤمن بنتا ہوں.اس سے معلوم ہوا کہ رویت الٰہی ناممکن ہے کیونکہ حضرت موسٰی نے اس کی خواہش کی مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور وہ بیہوش ہوگئے.پہلا جواب اس کا یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ رؤیت الٰہی نہیں ہوسکتی درست نہیں کیونکہ جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ تو اسی دُنیا میں نہیں دیکھ سکے گا بلکہ کہاگیا ہے کہ لَنْ تَرٰنیِ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا اب اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ رؤیت الٰہی ناممکن ہے تو پھر اگلے جہان میں بھی وہ ناممکن ہوگی اس لئے جو لوگ اگلے جہان میں رؤیت کے قائل ہیں انہیں بھی اس آیت کی کوئی توجیہہ کرنی پڑے گی.دوسراجواب یہ ہے کہ حضرت موسٰی جو خدا تعالیٰ کے نبی تھے کیا وہ یہ نہ سمجھ سکتےتھےکہ رؤیت الٰہی ممکن ہے یا نہیں اگر کوئی اورمعمولی بات ہوتی تو اوربات تھی مگر یہ تو ایسا مسئلہ تھا کہ جس دن حضرت موسٰی نے نبوت کا دعویٰ کیا اسی دن پتہ لگ جانا چاہئے تھا مگر معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسٰی کو پہلے رؤیت ہوئی تھی.چنانچہ آتا ہے وَہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَہْلِہِ امْكُـثُوْٓا اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْھا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَي النَّارِ ھدًى فَلَمَّآ اَتٰىھا نُوْدِيَ يٰمُوْسٰى اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۰ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى (طٰہٰ ۱۰ تا ۱۴) حضرت موسٰی نبی ہونے سے قبل آرہے تھے کہ انہوں نے آگ کی روشنی دیکھی اورسمجھ گئے کہ یہ جلوۂ الٰہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے جب اس نے اس کو دیکھا تو اپنے اہل کو کہا کہ مَیں نے ایک آگ دیکھی ہے یہ ایک کا لفظ بتاتا ہے کہ موسٰی جانتے تھے کہ یہ کشفی نظارہ ہے ورنہ وہ کہتے کہ وہ دیکھو آگ نظر آرہی ہے اور جب کشفی نظارہ تھا تو اس سے مراد جلوۂ الٰہی ہی ہوسکتا ہے اور آگے جو لفظ قبیس وغیرہ کے استعمال کئے گئے ہیں وہ بھی حقیقی آگ پر دلالت نہیں کرتے کیونکہ جب کسی چیز کو کسی اور چیز سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اس کی صفات کو بھی اس کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ کسی کو شیر کہیں تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ شیر کی طرح تقریر کرتا ہے بلکہ یہ کہ شیر کی طرح چنگھاڑتا ہے.پس چونکہ جلوۂ الٰہی کا نام آگ رکھا گیا تھا اس لئے اس کے آثار وغیرہ

Page 431

کا نام انگارہ رکھا گیا اور یہ جو حضرت موسٰی نے کہا کہ مَیں لاتا ہوں یا ہدایت پاکر آتا ہوں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت موسٰی نے اس وقت تک یہ نہیں سمجھا تھا کہ یہ جلوۂ نبوت ہے یا جلوۂ ولایت اس لئے انہوں نے اپنے اہل سےکہا کہ اگر وہ ہدایت ِنبوت ہوئی اور حکم ہوا کہ دوسروں کو بھی تعلیم دو تو تمہارے لئے بھی لاؤں گا اور اگر ہدایتِ ولایت ہوئی جو اپنے لئے ہوتی ہے تو میں خود ہداہت پاجائوں گا.پس جب وہ وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ جلوۂ الٰہی ہے اور کہا گیا کہ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ یعنی دنیاوی تعلقات چھوڑ.دو پس جب وہ وہاں جلوۂ الہٰی دیکھ کر آئے تھے تو انہیں شک ہی کسی طرح ہوسکتا تھا کہ رؤیت ہوسکتی ہے یا نہیں اوراگر کہا جائے کہ طُور پر ان کی مراد رئویت سے ذات کی رؤیت سے تھی تو یہ حضرت موسٰی پر اتہام ہوگا کیونکہ وہ شخص جو فرعون سے لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کے وراء الوریٰ ہونے پر بحث کرتا رہا ہے کیا ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ یہ مطالبہ کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی ذات کی حقیقی رؤیت کرنا چاہتا ہوں.ایسا سوال تو پاگل کے سوا کوئی نہیں کرسکتا.حضرت موسٰی نے کس رؤیت کیلئے سوال کیا؟ اس پر سوال ہوتا ہے کہ پھر انہوں نے رؤیت کے لئے سوال کیوں کیا؟ اگر کہا جائے کہ جس طرح اچھی چیز کو انسان بار بار دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح انہوں نے کیا تو کہتے ہیں کہ پھر یہاں کیوں بیہوش ہوگئے؟ پہلی دفعہ کیوں بیہوش نہ ہوئے تھے؟ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس مقام پر حضرت موسٰی کو بتایا تھا کہ ہمارا ایک رسول محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تیرا مثیل ہوکر مگر تجھ سے بہت اعلیٰ شان میں آئے گا اس خبر کو معلوم کرکے حضرت موسٰی کے دل میں طبعاً یہ خواہش کی کہ مجھے بھی جلوۂ محمدی دکھایا جائے مَیں بھی تو دیکھوں کہ اس وقت آپ کس شان سے ظاہر ہوں گے؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا تو اس کے جلوہ کوبرداشت نہیں کرسکے گا چنانچہ خدا تعالیٰ نے انکی خواہش تو پوری کردی مگر وہ اسے برداشت نہ کرسکے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جلوہ کو برداشت کرلیا کیونکہ آپ کو وہ اصل مقام تھا.لیکن اگر یہ معنے بھی نہ کئے جائیں تب بھی رؤیت کا امکان ثابت ہے کیونکہ منکرین رؤیت

Page 432

مانتے ہیں کہ موسٰی کو خدا کی رؤیت سےغش آگیا تھا تو ہم کہتے ہیں تم تو کہتے ہو رؤیت ناممکن ہے پھر نا ممکن کو دیکھنے کا کیا مطلب؟دیکھو یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ سورج کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا گئیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علم کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا گئیں پس یہ غش والا لفظ بتاتا ہے کہ کوئی ایسی چیز تھی جسےانہوں نے دیکھا اورجب انہوں نے کچھ دیکھا تھا گو اس سے بیہوش ہی ہوگئے ہوں مگر یہ تو معلوم ہوگیا کہ اس کا دیکھنا انسانی طاقت میں ہے.پھر ہم کہتے ہیں اس آیت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ خدا نے حضرت موسٰی پر تجلّی کی.تجلّی تو جبل پر کی ہے.پس جب خدا تعالیٰ کی تجلّی ادنیٰ مخلوق پر آسکتی ہے اور وہ برداشت کرسکتی ہے تو انسان جو اعلیٰ مخلوق ہے اس پر کیوں نہ آئی اگر کہو کہ پہاڑ میں جو مخفی طاقتیں تھیں ان میں خدا ظاہر ہوا تو پھر حضرت موسٰی نےاس تجلّی کو دیکھا کس طرح؟ اگر کہا جائے کہ حضرت موسٰی زلزلہ سے ڈر گئے تھے تو ہم پوچھتے ہیں کیا مؤمن اورخاص کر نبی ایسے ہی بزدل ہوتے ہیں اور اگر یہی بات تھی تو انہوںنے بیہوشی سے اُٹھ کر یہ کیوں کہا کہ اَناَ اَوَّلُ الْمُؤمِنِیْنَ وہ کسی چیز پر ایمان لائے تھے ؟ کیا اس بات پر کہ مَیں زلزلہ دیکھ کر ڈر گیا تھا.ان الفاظ کا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اس رسول پر جس پر تیری اس شان سے تجلی ہونے والی ہے سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ کی نسبت آیا بھی ہے کہ فَاٰمَنَ وَاسْتکْبَرْتُمْ وہ تو ایمان لے آیا مگرر تم نے تکبّر کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی وجہ سے فرماتے ہیں کہ لَوْ کَانَ مُوْسیٰ وَعِیْسٰی حَیَّیْنِ مَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ (الیواقت والجواھر جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۲)کہ اگر حضرت موسٰی اور حضرت عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو ان کو میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا.حضرت موسٰی کی توبہ اوراگر کہا جائے کہ اگر اس کا یہ مطلب ہے تو حضرت موسٰی کے توبہ کرنے کے کیا معنے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو معنے تم کرتے ہو اس پر بھی یہی اعتراض پڑتا ہے کیونکہ اگر اس کے معنی گناہ سے توبہ کرنے کے ہیں تو انہوں نے کیا گناہ کیا تھا؟ اگر نظارہ کے دیکھنے کی درخواست کرنا گناہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اسی وقت ڈانٹ دیتا جس طرح حضرت نوحؑنے جب اپنے بیٹے کیلئے دُعا کی تو خدا تعالیٰ نے ان کو روک دیا.تو اسی طرح کرنے لگ جاتا.پس تُبْتُ اَلَیْکَ کے معنے گناہ سے توبہ کرنے کے نہیں ہیں بلکہ اس

Page 433

کے یہ معنی ہیں کہ اے تمام صفات کے جامع خدا تیرا اتنا بڑا درجہ ہے کہ مَیں تیری طرف جھکتا ہوں اور اس رسول کا اوّل مؤمن ہوں.بعض احادیث کا مطلب رویت الٰہی کے منکر یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں کہ لَنْ یَّرَی اَحَدٌ مِّنْکُمْ رَبَّہٗ (عزّوجلّ) حَتَّی یَمُوْتَ٭کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کو نہ دیکھے گا جب تک مر نہ جائے مگر ہم کہتے ہیں کہ اس رئویت کے معنے وسیع نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت والی رؤیت بیان کرتے ہوئے اس کی نفی کی ہے کہ جب تک کسی پر موت نہ آجائے وہ اس قسم کی رؤیت نہیں پاسکتا اور یہ ہم بھی مانتے ہیں.اسی طرح حدیث میں آتا ہے ھَلْ رَئَیْتَ رَبَّکَ فَقَالَ نُوْرٌ اَنّٰی اَرٰہُ یعنی لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپؐنے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپؐنے فرمایا کہ وہ تو نور ہے مَیں اسے کس طرح دیکھ سکتا ہوں v؟اس حدیث سے بھی منکرین رؤیت استدلال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا دیکھنا ناممکن ہے.مگر یہ حدیـث سائل کے سوال کے جواب میں ہے.ممکن ہے سائل نے خدا کی ذات کے متعلق پوچھا ہو کہ کیا آپؐنے اس ذات کو دیکھا ہے یا نہیں؟ اوراس کا جواب دیا گیا کہ میں اسے کیا دیکھ سکتا ہوں.رؤیت الٰہی کے متعلق احادیث اب میں رؤیت کے دلائل بیان کرتا ہوں قیامت میں رؤیت کے متعلق بہت سی احادیث میں ذکرآتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے لئے رؤیت کا امکان ثابت ہے.حدیث میں آتا ہے خَیْرُ الرُّؤیَا اَنْ یَّرَی رَبَّہٗ فِی الْمَنَامِ اَوْیَرَی اَبَوَیْہِ ٭کہ اچھی خواب وہ ہے کہ انسان خدا کو یا ماں باپ کو خواب میں دیکھے جو نیک ہوں.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کو انسان دیکھ تو سکتے ہیں اور جب اور لوگ دیکھ سکتے ہیں تو موسٰی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں دیکھ سکتے اسی طرح معبرین لکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں خدا کو دیکھے تو جنت میں جائے گا.خوابوں کی تعبیریں صلحاء کی خوابوں پر رکھی گئی ہیں اگر یہ ٹھیک نہیں تو ان کو خوابیں کس طرح آئیں اوراگر خدا تعالیٰ کی رؤیت ناممکن ہے تو پھر علم تعبیر میں اسے بیان کیوں کیا گیا ہے؟ رؤیت کے مدارج غرض جو آیات یا روایات رؤیت الٰہی کے رد میں پیش کی جاتی ہیں ان کا وہ مطلب نہیں جو منکرین رؤیت سمجھتے ہیں اور دوسری آیات *مسند احمد بن حنبل جلد ۵ص ۴۳۳

Page 434

اور روایات ایسی ملتی ہیں جو رؤیت الٰہی کا امکان ثابت کرتی ہیں بلکہ خود ان آیات نے بھی جو رَدّ میں پیش کی جاتی ہیں امکان بلکہ حدوث رؤیت ثابت ہوتا ہے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رئویت الٰہی کے کئی درجے ہیں حتّٰی کہ ایک ایسی ادنیٰ درجہ کی رئویت بھی ہے کہ جو بظاہر مؤمن لیکن بہ باطن منافق ہوتا ہے اسے بھی ہوجاتی ہے اوراعلیٰ درجوں کے لحاظ سے اس کے اس قدر درجے ہیں جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتے.مختلف رؤیت ِ الٰہی ذات کی رؤیت تو ایک ہی ہوتی ہے اور ایک ہی ہونی چاہئے لیکن صفات کی رؤیت مختلف ہوتی ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت خلیفہ اوّل نے بھی پہچانا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی مگر حضرت خلیفہ اول کی رؤیت اور تھی اور مولوی عبدالکریم صاحب کی اور.پس خدا تعالیٰ کی رؤیت چونکہ صفاتی ہے اس لئے لازماً اس کے بہت سے مدارج ہونے چاہئیں کیونکہ جب بھی صفات باری جلوہ گر ہوں گی اس شخص کے درجہ کے مطابق جلوہ گر ہوں گی جو دیکھنے والا ہوگا جیسا جیسا کوئی شخص ہوگا ویسی ویسی اس کو رئویت حاصل ہوگی کیونکہ ہر چیز اپنی جنس کو دیکھ سکتی ہے غیر کو نہیں دیکھ سکتی.ہم چونکہ مادی ہیں اس لئے مادہ کو دیکھ سکتے ہیں جو ہر کو نہیں دیکھ سکتے.پھر بعض ایسی چیزیں ہیں جو ہم سے زیادہ اعلیٰ مادہ سے بنی ہیں یا جن کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مادی ہیں یا اور کوئی چیز ہیں بہر حال وہ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری جنس کی نہیں ہیں ان کو ہم نہیں دیکھ سکتے تو جب تک ایک چیز کو دوسرے سے جنسی مناسبت نہ ہو نہیں دیکھ سکتی.رؤیت الٰہی کےلئے بھی مناسبت ہونی ضروری ہے اور اس مناسبت کے مطابق رئویت ہوگی جو اس میں پائی جائے گی اور خدا تعالیٰ اس مناسبت کے لحاظ سے تنزل کرکے اسے رؤیت ہوگی جو اس میں پائی جائے گی اور خدا تعالیٰ اس مناسبت کے لحاظ سے تنزل کرکے اسے رؤیت ہوگی جو اس میں پائی جائے گی اور خدا تعالیٰ اس مناسبت کے لحاظ سے تنزل کرکے اسے رؤیت کرئے گا.اس کی مثال ایسی ہی ہےجیسے کوئی شخص ایک اونچی جگہ کھڑا ہو اور مختلف قدوں والے لوگوں نے جو اس کے نیچے کھڑے ہوں اس سے مصافحہ کرنا ہو تو اس وقت اس شخص کو بڑے قد والوں کے لئے کم جھکنا پڑے گا اورچھوٹے قد والوں کے لئے زیادہ اسی طرح رئویت کے معاملہ میں جن لوگوں میں صفات الٰہیہ سے زیادہ مناسبت ہوگی ان کے لئے خدا تعالیٰ کو کم نیچے آنا پڑے گا اورجب میں کم ہوگی ان کے لئے زیادہ اور جتنا خدا زیادہ نیچے آئے گا اتنی ہی رؤیت ادنیٰ ہوگی اورجتنا انسان اعلیٰ ہوگا اتنی ہی رؤیت اعلیٰ ہوگی.

Page 435

رؤیت الٰہی کے مدارج کا عُلُوّ یہ رؤیت الٰہی کے مدارج ایسے اعلیٰ ہیں کہ انسان اس دُنیا میں انہیں طے نہیں کرسکتا بلکہ دائمی زندگی میں بھی طے نہیں کرسکتا.آریہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب انسان کے اعمال دائمی نہیں تو دائمی نجات کیونکر ہوسکتی ہے؟ ہم کہتے ہیں دائمی نجات خدا تعالیٰ کی ایک صفت دینا چاہتی ہے اور وہ صفت احدیث ہے اور صفت احدیث ظاہر نہیں ہوتی.اگر بندہ کچھ عرصہ کے بعد مرجاتا تو کہ سکتا تھا کہ اگر مَیں اور زندہ رہتا تو خدا تعالیٰ کی حقیقت اورعلم کو معلوم کرسکتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے دائمی نجات دے کر کہا لے اب بھی تُو میری حقیقت معلوم نہیں کرسکتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَلَآ الْاَعْلٰی یَتْلُوْ نَہٗ کَمَا تَتْلُوْنَہٗ ٭ یہ مت سمجھو کہ تم خدا کو دریافت کرسکو گے ملاء اعلیٰ والے بھی اسی طرح اس کی دریافت میںلگے ہوئے ہیں جس طرح تم اس کی دریافت میں لگے ہوئےہو مگر کوئی انتہائی درجہ کا قرب نہیں پاسکتا.جس طرح دوسرے لوگ اس جستجو میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح حضرت موسٰی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی لگے ہوئے ہیں کہ خدا کی ساری صفات کو دیکھیں مگر جوں جوں کو شش کرتے ہیں اور زیادہ صفات نکلتی آتی ہیں اور وہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتیں اور نہ کسی ایک صفت کی سیر ہی ختم ہوتی ہے.غیر محدود انسانی ترقی مگر یہ سُن کر کہ رؤیت کے مدارج لا انتہا ہیں گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ہم خدا کی ذات کو نہیں دیکھ سکتے اور اس کے دیکھنے کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے بلکہ ہم نے اس کی صفات کو دیکھنا ہے اور ان کے غیر محدود ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہماری ترقی بھی غیر محدود ہے اور ہم بہت بڑی ترقی کرسکتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کو کوئی سونے کی کان مل جائے اوراسے کھودنے پر اسے معلوم ہو کہ اس کا سونا کبھی ختم ہی نہیں ہوگا تو یہ شخص افسردہ نہیں ہوگا بلکہ خوش ہوگا.اسی طرح خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کا کبھی طے نہ ہونا اور اس کی رئویت کے مدارج کا کبھی ختم نہ ہونا ہمارے لئے حوصلہ شکن نہیں ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری ترقی غیر محدود ہے اور ہمارے لئے آگے ہی آگے بڑھنے کا سامان موجود ہے.اب میں ان رؤیتوں کے بعض وہ موٹے موٹے مدارج بیان کرتا ہوں جو حدیثوں سے

Page 436

معلوم ہوتے ہیں.رؤیت الٰہی کا پہلا درجہ ایک تو وہ درجہ ہے جس میں منافق بھی شامل ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کو جب حشر میں لوگ کھڑے کئے جائیں گے تو ان کو آواز آئے گی کہ صلیب کے متبع اس کے پیچھے اور بتوں کے پُجاری بتوں کے پیچھے اور دوسرے مشرک جن جن کو خدا کا شریک مقرر کرتے تھے ان کے پیچھے چل پڑیں اور یہ چیزیں ان کے لئےمتمثل کرکے لائی جائیں گی ان کے پجاری ان کے پیچھے چلے جائیں گے.ان کے جانے کے بعد مسلمان باقی رہ جائیں گے یعنی ساری اُمتوں کے مسلمان ان کے ساتھ منافق بھی ہوں گے تب خدا آئے گا اورایسی شکل میں آئے گا کہ جسے بندے پہچانتے ہوں گے اور کہے گا کہ مَیں خدا ہوں میرے پیچھے آئو وہ کہیں گے نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْکَ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْکَ اَللہُ رَبُّنَا ہم تیرے پیچھے نہیں چلتے اور ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں پھر خدا تعالیٰ غائب ہو جائے گا اور کسی دوسری شکل میں جلوہ گری کرے گا اور کہے گا میرے پیچھے آئو اس وقت وہ کہیں گے ھٰذَا مَکَانُنَا حَتَّی نَرَی رَبَّنَا کہ ہم تیرے متبع نہیں اور ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے جب تک خدا تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں٭.یہ ظاہر ہونے والا وجود بھی درحقیقت خدا تعالیٰ کی متمثل صفات ہی ہوں گی اس لئے اس کا دیکھنا بھی خدا کا دیکھنا ہی ہے اور منافق اس رئویت میں مؤمنوں کے شریک ہوں گے لیکن کافر اس سے بھی محروم رہیں گے جس طرح منافقوں نے ظاہر میں اسلام کو دیکھا ہوتا ہے حقیقی طور پر نہیں دیکھا ہوتا اسی طرح جب خدا تعالیٰ اپنی اصلی صفات میںجوہ گر نہیں ہوگا بلکہ اس کی صفات تنزل کا ایک نہایت ہی کثیف پردہ اوڑھے ہوئے ہونگی جیسے کہ خواب میں بعض لوگ خدا تعالیٰ کو باپ کی شکل میں دیکھ لیتے ہیں اور جس کے متعلق کہ بندہ کو خیال بھی نہیں آسکے گا کہ یہ خدا کا جلوہ ہے.اس وقت تو منافق دو قسم کی تجلی دیکھ لیں گے مگر جب پھر اس کے بعد خدا آئیگا اوراعلیٰ تجلی کرکے کہے گا کہ سجدہ کرو.اورسب اس کے آگے جھکیں گے تب منافقوں کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اور وہ سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر جھک نہ سکیں گے.تب ان کو کہا جائے گا کہ تم میرے لئے عبادت نہ کرتے تھے اس لئے آج حقیقی تجلی پر عبادت کی توفیق چھینی گئی.*ترمذی أبواب صفة الجنہ باب ماجاء فی خلود الجنة و اھل النار

Page 437

اس وقت ان کو جہنم میں گرا دیا جائے گا.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ۰ۭ وَقَدْ كَانُوْا يُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ(القلم: ۴۳،۴۴) اس سے معلوم ہوا کہ رؤیت الٰہی کے دو مدارج تو ایسے ہیں کہ ان میں منافق بھی خدا کو دیکھ سکیں گے لیکن تیسری تجلی کی جو حقیقی تجلی تھی وہ برداشت نہ کرسکیں گے.خدا تعالیٰ کی رؤیت کے مختلف مدارج کا ثبوت حدیث سے پھر دوسری حالت کے متعلق آتا ہے کہ جب مؤمن جنت میں داخل ہوجائیں گے تو آواز آئے گی کہ خدا نے تم سے جتنے وعدے کئے تھے وہ سب پورے کردئیے صرف ایک وعدہ باقی ہے جنتی کہیں گے خدا نے تو ہم سے سارے وعدےپورے کردئیے اور کیا باقی ہے؟ وہ کہے گا کہ مَیں نے اپنے آپ کو ابھی تمہیں دکھانا ہے یہ وعدہ باقی ہے حالانکہ تین دفعہ وہ پہلے دیکھ آئے تھے.اس سے معلوم ہوا کہ رؤیت کے اس قدر مدارج ہیں کہ بعض رؤیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے ادنیٰ درجہ کی رؤیتیں رؤیت کہلانے کی بھی مستحق نہیں ہوتیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تین رؤیتوں کے بعد اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ابھی میر ارؤیت والا وعدہ پورا نہیں ہوا.رؤیت الٰہی کے حصول کا طریق اس دنیا میں رؤیت الٰہی کے حصول کا طریق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی جتنی زیادہ صفات انسان جمع کرے اتنا ہی زیادہ جلوہ دیکھتا ہے اور چونکہ مؤمن کا درجہ بڑھتا جاتا ہے اس لئے اس کی رؤیت بھی بڑھتی جاتی ہے اور جو رؤیت اگلے جہان میں ہونے والی ہے وہ بھی ترقی کرتی چلی جائیگی بعض کو تو اس دنیا کے ہفتہ کے عرصہ میں خدا تعالیٰ دوسرا جلوہ دکھائے گا یعنی بعض ایسے لوگ جنت میں ہوں گے کہ جن کی روحانیت صرف اس درجہ تک ترقی یافتہ ہوگی کہ وہ روحانی ترقی کا اگلا جہان ایک ہفتہ میں طے کرسکیں گے اس لئے ان کو ہر دوسری رئویت ایک ہفتہ کے بعد ہوگی اور جو ان سے بڑھ کر ترقی یافتہ ہوں گے انہیں صبح بھی دیدار ہوگا اور شام کو بھی اور اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر صبح انہیں ایک روحانی درجہ حاصل تھا تو شام کو اور درجہ حاصل ہوگا اوراگلی صبح اوردرجہ حاصل ہوگا.ممکن ہے کہ اس سے بڑے مدارج کے لوگ بھی ہوں جن کو اس سے بھی کم عرصہ روحانی ترقی کے حصول میں لگے لیکن حدیث سے اسی قدر معلوم ہوتا ہے.

Page 438

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مدارج کے لحاظ سے مختلف رؤیتیں حاصل ہوتی ہیں اور جتنی روحانی طاقت زیادہ انسان یہاں پیدا کرے گا اتنی ہی جلدی وہاں رؤیت میں ترقی ہوگی اور کم از کم ایک ہفتہ کے اندر اس کی گویا نئی پیدائش ہوگی.اس کی روح اتنی ترقی کرے گی کہ نئی بن جائے گی اور اعلیٰ درجہ کے مؤمن تو بارہ بارہ گھنٹے میں ترقی کریں گے.دیکھو خدا تعالیٰ کے انبیاء ؑکیسے لطیف اشارات سے استدلال کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مؤمن کو صبح بھی تجلی ہوگی اور شام کو بھی.اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قد ر وسیع تھا اور آپؐکی نظر کہاں سے کہاں پہنچتی تھی ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر تم خدا کی رئویت چاہتے ہو تو صبح اور عصر کی نماز کی خوب پابندی کرو.٭ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استدلال کیا ہے کہ ان نمازوں کی وجہ سے ہی تجلی ہوگی کیونکہ خدا فعل پر نتیجہ مرتب کرتا ہے صبح کی نماز کے فعل پر صبح کی رؤیت اور عصر کی نماز کے فعل پر پچھلے پہر کی رؤیت ہوگی.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صبح اور عصر کی نمازوں کی خوب پابندی کرو اس کے یہ معنی نہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نمازوں کا خاص حکم دیا ہے اس لئے باقی چھوڑی بھی جاسکتی ہیں.ان نمازوں کے متعلق تاکید کرنے سے صرف یہ مراد ہے کہ چونکہ ان دونوں اوقات میں انسان کے پچھلے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے ان اوقات کی نماز کو باجماعت ادا کرنےکے لئے خاص تعہد کرنا چاہئے ورنہ یہ مراد نہیں کہ دوسری نمازوں کی اہمیت کم ہے.رؤیت الٰہی کا پہلا فائدہ کہ وہ خوبصورتی پیدا کرتی ہے ہر رؤیت انسان کے اندر تغیر پیدا کرتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰى رَبِّھا نَاظِرَۃٌ(القیامۃ :۲۳ ،۲۴)کہ اس دن خدا کے حضور ہونے والوں کے منہ بڑے خوبصورت ہوں گے کیوں؟ اس لئے کہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے جب خدا کی تجلی سامنے ہوتی ہے تو اس کی بابرکت شعاعوں سے مؤمن بھی خوبصورت ہوجاتا ہے اور جب تجلی ہوتی ہے تو اس کا رُوح پر اثر پڑتا ہے اور روح یکدم ترقی کرکے اوپر کے درجہ پر پہنچ جاتی ہے ہماری آج جو روح ہے آخرت میں یہ جسم ہوگی اورعالم برزخ میں نئی روح تیار ہوگی پھر وہ روح بھی ترقی ٔ مدارج کے ساتھ نئی روحانی پیدائشیں *بخاری کتاب التوحید

Page 439

حاصل کرتی چلی جائے گی.غرض خدا تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہے کہ رئویت کے نتیجہ میں خوبصورتی حاصل ہوتی ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب خدا کی لوگوں پر تجلی ہوگی اور وہ واپس گھر جائیں گے تو گھر والے کہیں گے کہ تمہاری شکلیں کیسے بدل گئیں؟ وہ کہیں گے ہم حقدار تھے کہ ہماری شکلیں بدل کر خوبصورت ہوجائیں کیونکہ ہم نے خدا کو دیکھا ہے.تو جن کو رؤیت الٰہی حاصل ہوتی ہے ان کی روحیں بدلتی جاتی ہیں اسی دنیا میں دیکھ لو جن کو خدا کی رؤیت ہوتی ہے ان کی روحیں کیسی اعلیٰ اور اور ہی طرح کی ہوجاتی ہیں اور نہ صرف ان کی روحیں اعلیٰ ہوجاتی ہیں بلکہ ان کے جسم پر بھی نور برستا اوران کی نیکی ظاہر ہوتی ہے.خدا کی شکل اختیار کرنا شاید بعض کے دل میں خیال پیدا ہو کہ رؤیت الٰہی کی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ خدا کی صفات متثمل ہو کر نظر آتی ہیں پس اصل چیز تو نہ دیکھی گئی پھر دیدار کے کیا معنے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کی رؤیت بھی وہمی رؤیت نہیں ہوتی بلکہ حقیقی رؤیت ہوتی ہے اس لئے کہ غیر محدود ذات کی رؤیت اسی طرح ہوسکتی ہے اصل غرض تو نتائج سے ہے اور رؤیت کے جو نتائج ہوا کرتے ہیں وہ اسی قسم کی رؤیت سے پورے ہوجاتے ہیں.اس کی مثال سورج کی سی ہے جسے آج تک کبھی کسی نے نہیں دیکھا شاید بعض لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کیا بات ہے؟ مگر حقیقت یہی ہے کہ اصل سورج کو کسی نے نہیں دیکھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح اور چیزوں کی رفتار پر وقت لگتا ہے اسی طرح روشنی کی رفتار پر بھی وقت لگتا ہے جس کا اندازہ فی سیکنڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا ہے.چونکہ سورج دنیا سے نوکر وڑ میل کے فاصلہ پر ہے اس لئے سورج کی روشنی دُنیا میں آٹھ منٹ کے قریب میں پہنچتی ہے اور چونکہ زمین چکر کھارہی ہے اس لئے جس وقت سورج کی روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے اس وقت تک سورج اس جگہ سے آٹھ منٹ پہلے کی شعاعیں ہوتی ہیں اور جس جگہ سورج کو دیکھتے ہیں درحقیقت وہ وہاں بھی نہیں بلکہ اس سے قریباً سوا سو میل آگے ہوتا ہے کیونکہ اس عرصہ میں زمین سوا سو میل کے قریب چکر کھا چکی ہوتی ہے.اسی طرح جب ہم دیکھتے ہیں کہ سورج ڈوب رہا ہے تو اس سے سات منٹ پہلے سورج ڈوب

Page 440

چکا ہوتا ہے ہم اس عرصہ میں اس کے آٹھ منٹ پہلے کی شعاعیں دیکھتےرہتے ہیں جسے وہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور ہم انہیں سُورج سمجھتے ہیں.پس کبھی حقیقی سورج کسی نے نہیں دیکھا اس کی شعائیں آتی ہیں جو ایک ٹکی بناتی ہیں اورا تنے عرصہ میں سُورج آگے نکل چکا ہوتا ہے اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ حقیقی سورج کبھی کسی نے نہیں دیکھا اس لئے رؤیت کا کوئی فائدہ نہیں.باوجود اس کے کہ سورج ڈوب چکا ہوتا ہے.مگر اس کی پیچھے چھوڑی ہوئی شعاعیں ہمیں روشنی دیتی ہیں اور ہم ان سے وہی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو سورج سے.اسی طرح گو خدا تعالیٰ نظر نہیں آتا کیونکہ اس کی ذات غیر محدود ہے مگر ہم اس کی صفات کے تمثلات کو دیکھ کر ویسا ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو کسی ذات کے دیکھنے سے ہوا کرتا ہے سوائے شکل کی حد بندی کے اور خدا تعالیٰ شکل سے پاک ہے اس لئے اس کا کوئی نقصان نہیں.جب ہم ایسی محدود ذاتوں کا نظارہ بھی جو کہ بڑی ہوتی ہیں تمثلی طور پر ہی کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی غیر محدود ذات کا نظارہ حقیقی طور سے کس طرح کرسکتے ہیں؟ چنانچہ سورج کو دیکھو وہ پچیس لاکھ میل لمبا چوڑا ہے لیکن ہمیں وہ بہت چھوٹا نظر آتا ہے کیونکہ ہماری آنکھ اس قدر برے جسم کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی ہمیں وہ صرف ایک ٹکیا کے برابر نظر آتا ہے کیونکہ اس کے بعد کی وجہ سے انتا ہی عکس ہماری آنکھ پر پڑتا ہے اور اس بات کو پرانے زمانے کے دیہاتی لوگ بھی جانتے تھے کہ سورج اس سے بڑا ہے جس قدر کہ ہمیں نظر آتا ہے.چنانچہ ان میں ایک مثل تھی کہ ’’ تاراکھاری چند گھماں.سورج دا کچھ اوڑک ناں ‘‘.یعنی ستارے ایک بڑے ٹوکرے کے برابر ہوتے ہیں اور چاند دو بیگھےزمین کے برابر اور سورج اتنا بڑا ہے کہ اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا.گو یہ اندازہ غلط ہے مگر ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانہ کا زمیندار طبقہ بھی اس امر کو سمجھتا تھا کہ دور کی چیزیں اوربڑی چیزیں اپنے فوکس اور ہماری آنکھ کے اندازہ کے مطابق ہی نظر آتی ہیں مگر باوجود اس کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سورج کا دیکھنا غیر حقیقی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں یہی حال رؤیت الٰہی کا ہے.رؤیت الٰہی کا دوسرا فائدہ دوسرا فائدہ رؤیت الٰہی کا یہ ہوتا ہے کہ جو صفت سامنے آتی ہے اس سے قلب میں تغیر پیدا ہوتا ہے.تعجب ہے خدا کے متعلق تو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی رئویت کا کیا فائدہ ؟ لیکن اگر ان کا کوئی عزیز جدا ہونے لگے تو اس کی تصویر اتر والیتے ہیں یا اگر کوئی مرا ہوا بچہ یا رشتہ دار خواب میں نظر آئے تو بہت ہی خوش ہوتے اور اس نظارے سے متأثر بھی ہوتے ہیں.اگر ان باتوں سے فائدہ ہوتا ہے

Page 441

تو خدا کی حقیقی جلوہ گری کیوںنہ فائدہ دے گی؟ رویت الٰہی کا تیسرا فائدہ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ خدا کی تجلّی خارق عادت چیز ہوتی ہے.ہوتی تو ایسی ہے کہ بندہ دیکھ سکے مگر اس کے ساتھ ایسی تأثیر ہوتی ہے کہ وہ قلوب کو منور اور روشن کردیتی ہے اور گویا مخفی اثرات کےذریعہ سے قلوب کو صاف کردیتی ہے.پس رؤیت حقیقی کے بعد انسان اپنے اخلاق اوراپنی روحانیت کے اندر ایک نہایت ہی عظیم الشان تغیر پاتا ہے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف جذب ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے جیسا کہ انبیاء ؑو اولیاءؒ کا حال ہے یہ نتائج صرف رؤیت سے ہی پیدا ہوسکتے ہیں.ہم خدا سے کس حد تک تعلق پیدا کرسکتے ہیں؟ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے ہم کس حد تک تعلق پیدا کرسکتے ہیں؟ یہ سوال گو ہستی باری تعالیٰ کی تحقیق کی ابتداء میں بھی پیدا ہوتا ہے مگر اس وقت اس کا باعث علمی تحقیق کا خیال ہوتا ہے مگر مذکورہ بالا تحقیق کے بعد دوبارہ یہی سوال انسان کے دل میں اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اب وہ عمل کے ساتھ خدا تک پہنچناچاہتا ہے.اس مقام پر پہنچ کر گویا انسان کی ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ جیسے کسی کے سامنے زمین و آسمان کے خزانے کھول کر رکھ دئیے جائیں اور وہ پوچھے کہ ان سے کیا فائدہ حاصل کروں اور کہاں اور کس طرح خرچ کروں.پس اب ہم یہ بات حل کرتے ہیں کہ خدا کی صفات کے غیر محدود خزانوں سے ہم کیا فائدہ اُٹھاسکتے ہیں اور کس طرح فائدہ اُٹھاسکتے ہیں؟ اوران کےذریعہ سے اپنی روحانی حالت کو کس حد تک درست کرسکتے ہیں؟ خدا تعالیٰ کی صفات کے گہرے علم سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ جس بندہ کو خدا کی صفات کا علم ہو خواہ وہ ایک حرف بھی نہ پڑھا ہوا ہو دنیا کا بڑے سے بڑا سائنسدان بھی اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہوتا.پس پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں علم کا خزانہ آجاتا ہے جب تک کسی چیز کا پتہ نہ ہو تو اس کو استعمال کرنے کا خیال نہیں آتا.مثلاً اگر یہ معلوم نہ ہو کہ.بخار کا کوئی علاج ہے تو انسان علاج کرانےکی کوشش ہی نہیں کرے گا لیکن جب معلوم ہوجائے کہ علاج موجود ہے تو علاج کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.تو خدا کی صفات کے خزانوں کے معلوم ہونے سے انسان کے خیالات ہی بدل جاتے ہیں.جس طرح ایک ایسا شخص

Page 442

جس کو معلوم ہو کہ اس کی بیماری کا علان ہے وہ دوائی لے کر استعمال کرے گا جس سے صحتیاب ہوجائیگا لیکن جس کو علاج ہی معلوم نہیں وہ گھر بیٹھا رہے گا اور اسی بیماری سے جس کا علاج کراکر صحتیاب ہوسکتا تھا مرجائے گا.جیسے پہاڑی اقوام میں ہوتا ہے ان کے بیمار یونہی معمولی بیماری سے مرجاتے ہیں کیونکہ کوئی علاج نہیں کرتے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات کا علم رکھنے والے کے لئے ہر وقت اپنی اصلاح اور روحانی ترقی کا دروازہ کھلا رہے گا لیکن جو ان صفات کا علم نہیں رکھتا وہ یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہے گا اور روحانی ترقی کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوگی.دوسرا نفع یہ ہے کہ جب انسان خدا کا غیر محدود جلوہ دیکھتے ہیں تو معلوم کرلیتے ہیں کہ علوم کا کوئی احاطہ نہیں بلکہ علوم غیر محدود ہیں اور کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ سائنس یا حساب یا ڈاکٹری یا انجینئرنگمیں جتنی ترقی ہونی تھی ہوچکی ہے بلکہ وہ سمجھے گا کہ چونکہ یہ علوم غیر محدود ہستی کی طرف سے آنے ہیں اسلئے انکی ترقی بھی کبھی ختم نہ ہوگی.یہ سمجھ کر وہ کسی علم میں ترقی کرنے سے پیچھے نہ ہٹے گا.مسلمانوں نے غلطی کی ہے کہ یونانیوں کی پیچھے چل کر کہہ دیا کہ فلاں علم بھی ختم ہوگیا اور فلاں بھی جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا قدم ترقی کی طرف سے ہٹ گیا اور آخر جہالت پیدا ہونے لگ گئی جو ایک جگہ ٹھہر جانے کا لازمی نتیجہ ہے.اگر وہ خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے تو آج ہر علم کے سب سے بڑے عالم دُنیا میں مسلمان ہی ہوتے.پس خدا تعالیٰ کی صفات کے سمجھنے سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ایسا انسان کسی علم کو محدود نہیں قرار دے سکتا.کوئی مسلمان علوم کو محدود نہیں مان سکتا اب مَیں اس امر کی مثالوں سے تشریح کرتا ہوں مثلاً بعض بیماریاں ایسی ہیں کہ ان کے علاج معلوم تھے اوربعض کے نہیں.اور آج سے پہلے بعض بیماریوں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ لا علان ہیں حالانکہ لا علاج کا لفظ ایک بے ہودہ لفظ ہے کیونکہ اگر خدا قادر مطلق ہے تو کوئی بیماری لاعلاج کس طرح ہوسکتی ہے؟ ہاں اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ فلاں بیماری کاعلاج ہمیں معلوم نہیں تو اور بات ہے ورنہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں بیماری کا کوئی علاج ہی ںہیں تو وہ مشرک ہے وہ خدا کو قادر مطلب نہیں مانتا.آج تک بعض بیماریوں کے متعلق لوگ لکھتے چلے آئے ہیں کہ لا علاج ہیں.لا علاج ہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں یہ لوگ امی کہتے ہیں انہوں نے فرمایا مَا مِنْ دَاءٍ اِلَّا لَہٗ دَوَاءٌ اِلَّا الْمَوتَ ٭ *مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۷۸

Page 443

کہ کوئی بیماری نہیں جس کا علاج نہ ہو.یہ آپؐنے کیوں کہا؟ اس لئے کہ آپ ؐکو معلوم تھا کہ خدا شافی ہے اس لئے سب بیماریوں کا علاج ہونا چاہئے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سو سال پہلے وہ نکتہ دریافت کرلیا جو یورپ نے آج بھی نہیں کیا.محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس وقت جبکہ طب کا علم نہایت محدود تھا فرماتے ہیں یہ نہ کہنا کہ فلاں بیماری کا کوئی علاج نہیں یہ بیوقوفی کی بات ہے تم دریافت کرنے میں لگے رہو اس کا علاج ضرور نکل آئے گا اگر خدا شافی ہے تو اس کی بات ہے تم دریافت کرنےمیں لگے رہو اس کا علاج ضرور نکل آئے گا اگر خدا شافی ہے تو اس نے اس مرض کا علاج بھی ضرور قانون قدرت میں رکھا ہوگا تم کوشش کرو اور اسے تلاش کرلو.دیکھو شافی صفت کا علم رکھنے پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطہ ٔ نگاہ اپنے ہمعصروں سے بلکہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کے نقطہ نگاہ سے بھی کسقد بدل گیا.دوسرے لوگ تو یہ خیال کرتے تھے اور آپ کے بعد بھی اب تک یہی خیال کرتے رہے کہ جو باتیں ہمیں معلوم ہوچکی ہیں ان سے بڑی اور کیا ہوسکتی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے علم کی بنیاد صفات الٰہیہ کے علم پر تھی باوجود اُمّی ہونےکے فرماتےہیں کہ یہ کہہ دینا کہ اس مرض کا علاج نہیں بالکل غلط ہے علاج ہر ایک شئے کا موجود ہے دریافت کرنا تمہارا کام ہے.آپؐکے اس ارشاد کے مقابلہ پر علم کا دعویٰ رکھنے والوں کی مایوسی کہو یا تعلی کہو کس قدر حقیر کس قدر ذلیل اور کس قدر زشت و بد صورت معلوم ہوتی ہے.کجا علم کے دعویٰ کے باوجود یہ کہنا کہ گو دنیا کے آرام کے سب سامان میسر نہیں آتے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سامان پیدا ہی نہیںکئے گئے اور کجا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ کہ یہ کہنا کہ علم طب ختم ہوگیا ہے جہالت ہے.ابھی تو ہر بیماری کا علاج نہیں نکلا حالانکہ ہر بیماری کا علاج اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے آپ ؐکے مقابلہ پر دوسرے مدعیان علم کی حالت بالکل اس مینڈک کی حالت کی طرح معلوم ہوتی ہے جو کنویں کو ہی بہت بڑا سمجھتا ہے اور آپؐکی حالت یوں معلوم ہوتی ہے کہ گویا سمندر بھی آنکھوں میں نہیں جچتا.لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک امریکن انگلستان میں آیا اور وہ ایک گاڑی پر بیٹھا گاڑی والے نے اس سے پوچھا کیا امریکہ میں دریا ہوتے ہیں.وہ کہنے لگا ہاں ہوتے ہیں گاڑی بان نے کہا بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں؟ اس نے کہا بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں.(امریکن نے تو امریکہ کا وہ دریا دیکھا ہوا تھا جو ساری دنیا کے دریائوں سے بڑا ہے اور گاڑی بان نے صرف اپنے ملک کا دریا ٹیمز دیکھا ہوا تھا جو بڑی نہروں کے برابر ہے) گاڑی بان نےٹیمز کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا اتنا بڑا دریا بھی امریکہ میں کوئی ہے؟ امریکن نے جواباً دریافت کیا کہ تم دریا کے متعلق پوچھتے

Page 444

ہو.یہ تو ایک نہر ہے اسے دریا کون کہہ سکتا ہے.اس پر گاڑی بان کو اس قدر اشتعال آیا کہ مسافر کو کہنے لگا کہ تُو بالکل جھوٹا انسان ہے اب میں تجھ سے بات ہی نہیں کروں گا.اہل یورپ ایک محدود دائرہ میں یہی حالت ان لوگوں کی ہے جن کے دل میں صفات الٰہیہ نے گھر نہیں کیا ان کا دائرہ علم بہت محدود ہوتا ہے.یورپ والے علم علم کہتےہیں لیکن وہ بھی کیسے محدود دائرہ میں گھرے ہوئے ہیں ذرا کوئی نئی بات نکال لیتے ہیں تو شور مچا دیتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ خدا نہیں.گویا کہ اگر دنیا ایک جا ہلانہ اصول پر چلتی ہے تو خدا ہے اور اگر اس کے کام میں کوئی نظام اور قاعدہ نظر آتا ہے تب کوئی خدا نہیں وہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کا تو ہر فعل حکمت پر مبنی ہے اور اس کے بنائے ہوئے تمام قوانین مضبوط اور باریک نظام پرمشتمل ہیں ابھی انہوں نے دریافت ہی کیا کیا ہے.مثلاً ان لوگوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ انسان بحیثیت ذات ایک مفرد وجود نہیں بلکہ انسانی جسم باریک ذرات سے بنا ہوا ہے جو خود اپنی اپنی ذندگی رکھتے ہیں گویا یہ ذی حیات وجود کی بستی ہے اور پھر اس سے بڑھ کر انہوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ وہ ذرات جن سے انسان بنا ہے خود باریک ذرات سے مل کر بنے ہیں گویا وہ خود مرکب ہیں ان امور سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عالم وجود ایک قانون کے ماتحت بنا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اس کا بنانے والا کوئی نہیں.مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہ تو دو قدم مبدأحیات کی طرف جاکر اس قدر پھول گئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان اور خدا کے درمیان سترہزار حجاب ہیں.یعنی کثیر التعداد واسطے در واسطے چلے جاتے ہیں تب کہیں جاکر امرِ محض تک پیدائش عالم کا سلسلہ پہنچتا ہے اس علم کے مقابلہ میںیورپ کی تحقیق کس قدر حقیر ٹھہرتی ہے بلکہ جہالت نظر آتی ہے.موت کےذریعہ ترقی اہل مغرب کا ہر تحقیق پر یہ شور مچا دینا کہ انہوں نے پیدائش عالم کی گویا کہ وجہ دریافت کرلی ہے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ علم کو محدود سمجھتے ہیں ورنہ اگر وہ یہ سمجھیں کہ ابھی تو غیر محدود علوم پیچھے چھپے پڑے ہیں تو اس قدر خوش کیوں ہوں اور اِترائیں کیوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپؐ کس طرح ایک صفت الٰہیہ پر قیاس کرکے علوم کے غیر محدود ہونے کا اندازہ لگا لیتے ہیں.مگر آپؐنے ایک شرط ساتھ لگائی ہے اور وہ یہ کہ موت کا کوئی علاج نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ موت ترقی کے راستہ میں روک نہیں

Page 445

بلکہ ترقی کا ایک ذریعہ ہے.اس کےذریعہ سے انسان ترقی کرتا ہے کیونکہ موت کے بعد ہی انسان ان وسیع قوتوں کو پاتا ہے کہ اِس دنیا کی عمر بھر کی ترقی اُس دنیا کے گھنٹوں کی ترقی کے برابر نہیں اتر سکتی.خدا کی مخلوق کی وسعت قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا.(الکہف:۱۱)کہ اگر سمندر سیاہی بن جائیں گے مگر یہ نہیں ہوگا کہ خدا کےبنائے ہوئے علوم ختم ہوجائیں.خدا کے منکر تو ایک ذرہ پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے یہ بات معلوم کرلی اوریہ معلوم کرلی لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تم تحقیقاتیں کر کرکے ان کو سمندر سے لکھتے جائو تو پھر بھی خدا کے خزانے ختم نہ ہوں گے یہ انسانی نقطۂ نگاہ کے مطابق غیر محدود ترقی علوم صفتِ واسع کے ماتحت ہے.پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ ہماری دنیا کی چیزیں تو ختم ہوجاتی ہیں.مثلاً کوئلہ ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ تک یہ ختم ہوجائے گا ؟ ہمارے ملک میں کوئلہ کے ختم ہونے کے نتائج کو اچھی طرح نہیں سمجھا جاسکتا.مگر یورپ کے اکثر کام چونکہ اس کی مدد سے ہورہے ہیں وہ اسے بہت بڑی مصیبت سمجھتا ہے غرض کہا جاتا ہے کہ اگر کوئلہ یا تیل ختم ہوجائے تو پھر دُنیا کیا کرے گی.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں خدا تعالیٰ کے متعلق آتا ہے کہ وہ کفایت کرنے والا ہے (قرآن میں تو یہ صفت فعل کے طور پر استعمال ہوئی ہے لیکن رسول کریمؐنے اسم کے طور پر اسے استعمال کیا ہے یعنی خدا کا نام کافی بتایا ہے) اب دیکھ لو اگر ایک چیز ختم ہونے لگتی ہے تو اس کی قائم مقام اور نکل آتی ہے کوئلہ ختم ہونےلگا تو تیل نکل آیا اب تیل کے ختم ہونے کا ڈر پیدا ہوا تو ایسی تحقیقاتیں ہو رہی ہیں کہ سورج کی شعاعوں سے یہ کام لے لیا جائے تو دُنیا جب گھبرا اُٹھتی ہے کہ اب مرے اس وقت مؤمن ہنستے ہیں کہ یہ لوگ کیسے نادان ہیں خدا کوئی سامان ضرور کریگا چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے.خدا کو قادر ماننے کا اثر درحقیقت صفات الٰہیہ کو ماننے والا انسان ایک وسیع پلیٹ فارم پر کھڑا ہوتا ہے اور ساری دنیا اس کی نظروں میں حقیر ہوتی ہے.مثلاً جو شخص خدا تعالیٰ کی صفت قدرت پر یقین رکھتا ہے وہ یہ بھی یقین رکھے گا کہ خدا نے ہر چیز کے اندازے اور قواعد مقرر کئے ہوئے ہیں یہ سمجھ کر وہ سارے بیہودہ ٹونے ٹوٹکوں سے

Page 446

بچ جائیگا کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ یہ باتیں کچھ اثر نہیں رکھتیں اور بیہودہ ہیں اس طرح وہ سارے شکوک اور شبہات سے پاک ہوجائے گا.خدا کو رب العالمین ماننے کا اثر اسی طرح خدا کی رب العالمین صفت ہے اس کے ماتحت ایک مؤمن اسی دُنیا کو سب کچھ نہیں سمجھ سکتا بلکہ یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ یہ دنیا خدا کے اَن گنت عالموں میں سے ایک عالم ہے اس کے سوا اور بھی عالم ہیں اور اس بناء پر مثلاً وہ یقین رکھے گا کہ علم ہیئت کی ترقی کبھی ختم نہیں ہوسکتی.چنانچہ علوم کی ترقی مؤمن کے اس عقیدہ کی تصدیق کر رہی ہے.لڑائی سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ دُنیا تین ہزار سال کی روشنی کے برابر لمبی ہے یعنی اس قدر لمبی ہے جتنا عرصہ روشنی کی شعاع تین ہزار سال میں طے کرسکتی ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ روشنی کے بارہ ہزار سال سے بھی زیادہ دنیا کا طول ہے اور ابھی کون کہہ سکتاہے کہ یہ تحقیق بھی غلط ثابت ہو کر اس سے بہت زیادہ لمبائی دنیا کی معلوم ہوگی.یہ امر بتانے کے بعد کہ صفات الٰہیہ کے علم سے انسان کو ذہنی طور پر کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ صفات الٰہیہ سے انسان عملی طور پر کیا فائدہ حاصل کرسکتا ہے؟ انسان دنیا میں خدا سے کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے؟ انسان چاہتا ہے کہ اسے عزت حاصل ہو اور ادھر دیکھتا ہے کہ خدا کا ایک نام مُعِزّ ہے.اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ ادھر اھر جانے کی کیا ضرورت ہے اس کو کیوں نہ کہوں کہ اے مُعِزّ ! مجھے عزت دے.پھر انسان کو رزق کی ضرورت ہوتی ہے اور خدا رازق ہے جو اس کی اس صفت سے واقف ہے وہ بجائے ادھر ادھر دھکے کھانے کے اسی کے حضور میں کہے گا کہ اےرزاق ! مجھے رزق دے.یا پھر کبھی ہم مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں.خدا کی صفت کَاشِفَ السُّوْٓءِبھی ہے یعنی بدی کو مٹا دینے والا اس لئے ہم اسی سے کہیں گے کہ اے تکالیف کو دُور کرنے والے اور مصائب کو مٹانے والے خدا ہمیں تکالیف سے بچا لے.تو گویا ہماری مثال ایسی ہوگی کہ ہم ایک ایسے درخت کے نیچے بیٹھے ہیں جسے خوب پھل لگے ہوئے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں ایک لمبابانس ہے جب چی چاہتا ہے بانس کےذریعہ پھل اتار لیتے ہیں.مثلاً کسی کو کوئی بیماری اور دُکھ ہو تو وہ شافی خدا کے سامنے اپنی درخواست کو پیش کرے گا اور کہے گا کہ تُو جو شفاء دینے والا ہے مجھے شفاء عطا فرما.

Page 447

یا مثلاً بعض لوگوں کو اولاد کی ضرورت ہوتی ہے مگر دنیا میں کوئی شخص نہیں جو اولاد دے سکے.جب ایسا شخص ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے کہیں گے کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں خدا خالق ہے اسے کہو اے خالق! مجھے بھی اولاد دے! یہ صرف باتیں ہی نہیں بلکہ ایسا ہوتا رہتا ہے.یہیں ایک ہندو ہے اس کی شادی کو کئی سال ہوگئے تھے مگر اولاد نہ ہوتی تھی اس نے دعا کی اے خدا ! اگر مرزا صاحب سچّے ہیں تو ان کے طفیل مجھے اولاد دے.بیس سال تک اس کے اولاد نہ ہوئی تھی اس کے بعد اس کے اولاد ہوگئی.اسی طرح قریب ہی کے گاؤں کا ایک اور ہندو ہے جو ایک دفعہ جلسہ کے ایام میں بٹالہ سے قادیان آنے والی سڑک پر بیٹھ گیا تھا اور سب جلسہ پر آنے والوں کو رَس بھی پلاتا تھا اور یہ بتاتا تھا کہ مرزا صاحب کے صدقے مجھے خدا نے یہ بچہ دیا ہے.غرض خدا تعالیٰ چونکہ خالق ہے اس لئے جب دُنیا کے ڈاکٹر کسی بات سے جواب دے دیتے ہیں تو اس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اگر خدا ہی کی منشاء نہیں تو اور بات ہے ورنہ اس سے حاصل کرنے کا رستہ کُھلا ہے.اسی طرح اگر کوئی دشمن ہے جو دین کے لئے مُضر ہو اور اس کی موت دین کے لئے مفید ہوسکتی ہو یا طاعون یا اور بیماروں کے کیڑے ہیں جو ہمارے لئے مُضر ہوتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ مر جائیں تو ہم خدا تعالیٰ کی صفت مُمیت سے کہیں گے کہ انہیں مارڈال.یا کبھی کوئی چیز کا لُمردہ ہو اور ہمیں اس کی حیات مطلوب ہو تو ہم اس کے لئے خدا تعالیٰ سے اس طرح دُعا کریں گے کہ اے مُحیی! اسے زندہ کردے اور ہمارا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے موقعوں پر دُعائیں سنتا ہے اور بظاہر مردہ وجودوںکو زندہ کردیتا ہے جیسے عبدالرحیم خان صاحب کی مثال موجود ہے کہ جب ڈاکٹروں نے جواب دیدیا تو حضرت صاحبؑ نے دُعا کی اور تندرست ہوگئے.پھر انسان سے گناہ ہوجاتے ہیں اور لوگ تو گھبرائیں گے کہ کس طرح ان کا اثر دور کریں لیکن ہم کہیں گے خدا غفار ہے اسے کہو وہ بخش دے گا.غرض ہر چیز کا خزانہ خدا تعالیٰ کے پاس موجود ہے کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کا خزانہ خدا کی صفات میں نہ مل سکتا ہو.پس خدا کی صفات کے علم کےذریعہ سےا نسان اپنی تمام ضروریات کو پوری کرسکتا ہے اور گویا صفات الٰہیہ ایسی نالیاں ہیں جو ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جاری ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ جس نالی سے ملے اس کے نیچے پیالہ لے جا کر رکھ دیں یعنی جس بات کی ضرورت ہو اس کے مطابق جو خدا تعالیٰ کی صفت ہے اس کو پکاریں.

Page 448

چناچہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَلِلہِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْہُ بِھا(الاعراف: ۱۸۱)کہ خدا تعالیٰ کے اندر سب صفات حسنہ پائی جاتی ہیں اس لئے جو ضرورت تمہیں پیش آئے ان کےذریعہ اس سے مانگو.اس آیت سے دُعا کرنے کا بھی یہ نکتہ معلوم ہوگیا کہ جو چیز مانگنی ہو اس کے مطابق جو صفت ہو اس کےذریعہ سے مانگنی چاہئے.پس صفات کا باریک علم دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہوتا ہے اور جو اس علم کا پتہ لگا لیتا ہے اس کی دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے اور جو خدا تعالیٰ کی صفات کا سب سے زیادہ علم رکھے گا اس کی دُعائیں بھی سب سے زیادہ قبول ہوں گی.دُعا کیلئے مناسب صفت کو کس طرح منتخب کرے؟ اگر یہ سوال کیا جائے کہ دُعا کے لئے صفات الٰہیہ کا انتخاب کس اصل پر ہونا چاہئے ؟تو اس کا یہ جواب ہے کہ سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ مثلاً جو تکلیف ہے وہ کیوں ہے؟ اورپھر اس وجہ کو مدّ ِ نظر رکھ کر جس صفت کےذریعہ سے دعا کرنا مناسب ہوگا اس کےذریعہ سے دُعا کی جائے گی.ظاہری علوم میں بھی اس کی مثال دیکھ لو ایک شخص کے پیٹ میں درد ہوتی ہے تو اسے طبیب کسٹرائل دیتا ہے.ایک دوسرے کو پیپر منٹ تیسرے کو قے کراتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ گو ہے تو سب کے پیٹ میں ہی درد لیکن سبب مختلف ہیں.اس طرح انسان سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہوجاتا ہے جس کی مناسب سزا اسے مالی تنگی کا پہنچنا ہوتی ہے کبھی اس کی یہ وجہ اس کی سُستی ہوتی ہے یہ اس قدرا ٓمد نہیں پیدا کرتا کہ سال کا خرچ چل سکے.یا مثلاً کسی پر ذرائع آمد کے محدود ہونے کے سبب سے قرض ہوجائے گا.یہ چاروں باتیں خدا تعالیٰ کے الگ الگ اسموں کے نیچے آئیں گی اگر کمی آمد کی وجہ سے قرض ہو تو انسان کہے گا کہ اے باسط ! مجھے رزق میں فراخی دے تب خدا اسے رزق دے گا لیکن اگر اس کی سستی کے سبب سے اس کی آمدن کم ہے تو وہ یہ دُعا کرے گا کہ اے قیوم! مجھے چُستی عطا فرما اگر گناہ کے سبب سےمقروض ہے تو کہے گا کہ اے غفور ! مجھے بخش دے اور اگر اس سبب سے تنگی ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ شخص فراخی رزق کے ساتھ ایمان کو سنبھال نہیں سکتا تو اس طرح دعا کی جائے گی کہ اے ہادی! مجھے مضبوطی ٔ ایمان بخش غرض صفات الٰہیہ کے ماتحت دُعا کرنا ایک مستقل علم ہے اور مَیں نے صرف موٹی موٹی

Page 449

باتیں بطور مثال بتائی ہیں تا معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کی صفات ہمارے لئے نئے علوم بیان کرتی ہیں.حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق صفات الٰہیہ کے نظارے حضرت مسیح موعودؑ نے خدا کی صفات کا علم سیکھا اور ان کے اثر کے نظارے دکھائے.لوگوں نے آپؑکا مقابلہ کیا اور آپؑکو ہلاک کرنا چاہا حضرت صاحبؑنے ان کے مقابلہ کے لئے خدا تعالیٰ کی صفت قیوم سے مدد طلب کی اور مخالف ناکام رہے.پھر تکالیف پہنچانے کی کوشش کی اس کے لئے آپؑنے حفیظ صفت کو بلایا اور آپؑ دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ رہے.علم کے متعلق مخالفوں نے آپؑنے کہا مجھے پتہ ہے کہ علم کا خزانہ کہاں ہے مَیں وہاں سے علم لے آئوں گا.چنانچہ آپؑنے خدا تعالیٰ کی صفت علیم کو پکارا اور آپؑکو بے نظیر علم دیا گیا.آپؑفرماتے تھے کہ ایک دفعہ چالیس ہزار الفاظ کا مادہ ایک منٹ میں خدا تعالیٰ نے میرےدل میں ڈال دیا.٭ پس دیکھو خدا کی صفات کا علم حاصل کرکے آپؑ کیا سے کیا بن گئے.گویا کہ آپؑاس دُنیا کے آدمی ہی نہ رہے.آسمانی عالم کے وجود ہوگئے.صفات الٰہیہ کا علم رکھنے والے کے نزدیک بادشاہ کی حقیقت جو کوئی اس علم کو حاصل کرتا ہے اس کی خاص حالت ہوجاتی ہے دیکھو ایک بادشاہ کی نسبت لوگ کہتے ہیں اس کا بڑا اقبال ہے مگر میں کہتا ہوں اس شخص کے مقابلہ میں اس کی کیا حقیقت ہے جسے صفات الٰہیہ کا علم حاصل ہوگیا.دنیوی بادشاہوں کے خزانے ختم ہوجاتے ہیں مگر یہ جس بادشاہ سےتعلق رکھتا ہے اس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.پھر ان بادشاہوں کو ایسی دقتیں پیش آجاتی ہیں جن کا وہ کوئی علاج نہیں کرسکتے.چنانچہ جرمنی کے ایک قیصر کو خناق ہوگیا بیسیوں ڈاکٹروں نے زور لگایا مگر کچھ نہ کرسکے.اللہ تعالیٰ کےفضل سے جو لوگ اس کے در پر گرنے والے ہیں وہ ایسی بیمارویوں سے جو سخت تکلیف دہ ہوں یا ڈراؤنی ہوں محفوظ رہتے ہیں.یورپ کے اخبارات نے مذکورہ بالا قیصرکی وفات پر لکھا کہ بڑے بڑے ڈاکٹر تین دن تک ملک الموت سے جنت کرتے رہے لیکن آخر کار ملک الموت کامیاب ہوگیا.یہ بادشاہ اس تکلیف سےمرا تھا کہ دیکھنے والے بیتاب ہو ہوجاتے تھے.مگر جس شخص سے اس کا تعلق ہو جس کے قبضہ میں ملک الموت ہے وہ کب اس قسم کے خطرات کی پرواہ کرسکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نبی کہ جان ملک الموت *انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ ص ۲۳۴

Page 450

اس سے پوچھ کر نکالتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر وفات کے وقت یہ الفاظ تھے اَللّٰھُمَّ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی ٭اے خدا اب میں تجھ سے ملتا چاہتا ہوں.صفات الٰہیہ سے واقف کی حالت جس کو صفات الٰہیہ سے کام لینے کا طریق معلوم ہوجاتا ہے اِس کے سامنے ساری دُنیا ہیچ ہو جاتی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کسی وجہ سے اس کے لئے اپنی ایک صفت جاری نہ کرے تو دوسری کھلی ہوتی ہے ادھر چلا جاتا ہے.مثلاً اگر اس پر موت آتی ہے اور خدا تعالیٰ استغناء کی وجہ سے اس کے لئے مُحی صفت جاری نہیں کرتا اور مار ڈالتا ہے تو اس کی مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت بھی تو ہے اس لئے وہ دوسررے رنگ میں فائدہ اُٹھا لیتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا بندہ کبھی کسی بات سےنہیں گھبراتااس کا رنج بھی خوشی کا پہلو رکھتا ہے اور خوشی بھی خوشی کا.اگر مرتا ہے تو بھی وہ خوش ہوتا ہے اوراگر زندہ رہتا ہے تو بھی خوش ہوتا ہے.اگر اس کا کسی سے جھگڑا فساد ہوجاتا ہے تو خدا کی صفت جبار کو بلاتا ہے کہ اے جبار! اس کی اصلاح کردے اور خدا تعالیٰ اصلاح کردیتا ہے اورپھر خواہ کسقدر دشمنی اور عداوت ہو خدا چونکہ ودود بھی ہے اس کے متعلق اس کے دشمنوں کے دل میں محبت پیدا کردیتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّا ٓاَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْ بِھِمْ وَلٰکِنّ َاللٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ.(الانفال: ۶۴)کہ اگر دُنیا کا سارا مال بھی خرچ دیتے تو لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا نہ کرسکتے لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا کیونکہ قلوب کا جوڑنا اسی کا کام ہے.مؤمن کے وزراء پس دیکھو مؤمن کی کتنی عظیم الشان حکومت ہوتی ہے.دنیاوی بادشاہ تو چھ سات وزیروں سے کام لیتے ہیںلیکن مؤمنوں کے کم از کم ننانوے وزراء تو ہوگئے.کیونکہ ننانوے صفاتِ الٰہیہ جو عام طور پر مشہور ہیں یہ سب کی سب ان چیزوں کو جوان کے ماتحت ہیں مؤمن کی خدمت میں لگا دیتی ہیں اور اس کا بوجھ ساری دنیا پر بانٹ دیتی ہے.مثلاً کبھی مؤمن کی خواہش ہو کہ دُنیا کے کاموں سے فارغ ہو تو اس کے لئے خدا کی صفت وکیل ہے اسے کہے کہ اے وکیل !تُو ہی میرے کام کردے فوراً وہ صفت اپنے جلوہ سے *بخاری کتاب المغازی باب آخر ما تکلم النبیؐ

Page 451

دنیا میں ایسے سامان پیدا کردیتی ہے کہ اس کے کام آپ ہی آپ ہو جاتے ہیں.چنانچہ انبیاء اور ان کے کئی اتباع دنیوی کاموں سے علیحدہ ہوجاتے ہیں مگر خدا ان کے سارے کام پورے کرتا رہتا ہے.تیسرا نفع یہ ہوتا ہے کہ ہم ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرکے ترقی کرسکتے ہیں.یعنی پہلے درجہ میں تو انسان خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنی مدد کے لئے بُلاتا ہے جب اس سے ترقی کرسکتے ہیں.یعنی پہلے درجہ میں تو انسان خدا تعالیٰ صفات کو اپنی مدد کےلئے بُلاتا ہے جب اس سے ترقی کرتا ہے تو پھر خود صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنے لگ جاتا ہے گویا خدا سے یہ نہیں چاہتا کہ اسے رزق دے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ رازقیت دے ،ربوبیت دے ،ملکیت ،رحمانیت دے، خالقیت دے اس حالت میں پہنچ کر انسان کے اخلاق اور ہی رنگ اختیار کرلیتے ہیں.وہ انسانوں میں رہتا ہے لیکن الگ ہی قسم کا انسان ہوتا ہے دشمن بھی اس کے اخلاق دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور ان کی خوبی مانتا ہے البتہ عداوت اور دشمنی کی وجہ سے یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ بناوت کے طور پر کرتا ہے.غرض پہلے تو انسان خدا کی صفات کا ظہور مانگتا ہے لیکن پھر کہتا ہے کہ یہ صفات ہی دے دے.اب ساری صفات اس کے اندر پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور اب وہ ایسا شیشہ ہوتا ہے کہ جس پر خدا کا عکس پڑنا شروع ہوجاتا ہے اور دُنیا اس کو دیکھتی ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود ؑکو الہام ہوا یَا قَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنّی وَاَنَا مِنْکَ(تذکرہ صفحہ ۵۸۸،۵۹۰ ایڈیشن چہارم) گویا حضرت صاحبؑکو خدا نے کہا کہ تُو سورج ہے اور مَیں چاند ہوں اور مَیں سورج ہوں تُو چاند ہے.حضرت مسیح موعودؑ کے اس الہام کا مطلب اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مجھے نہ جانتے تھے تُو نے بتایا کہ وہ ہے اس لئے تُو سورج ہے پھر تو اصل میں روشن نہیں ہے مَیں نے اپنا پَر تَو تجھ پر ڈالا ہے تب تُو روشن ہوا ہے اس لئے مَیں سورج ہوں اور تُو چاند ہے.اسی طرح بندہ خدا کی صفات کو لے کر خدا کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے غرض یہ تین قسم کے فوائد ہیں جو صفات الٰہیہ سے حاصل ہوسکتے ہیں.لقاء الٰہی اس کے بعد ایک اور درجہ ہےجسے لقاء کہتے ہیں اس کے معنے ہیں خدا مل گیا.لقاء کی تعریف کیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے اندر شامل ہوجانا بلکہ یہ کہ خدا

Page 452

کی صفات جو جلوہ گری کریں ان کو اپنے اندر جذب کرلینا.حضرت مسیح موعودؑنے اس کی لطیف مثال دی ہے فرماتے ہیں لوہا لے کر آگ میں ڈالو تو اس کی پہلی حالت یہ ہوگی کہ معمولی گرم ہوگا اور زیادہ گرم کیاجائے گا تو جلانے کا کام کرے گا مگر اس کی شکل آگ کی سی نہیں ہوگی اس سے ترقی کریگا تو آگ کی طرح چمک پیدا ہوجائے گی.اسی طرح بندہ کا لقاء ہوتا ہے بندہ خدا میں محو ہوتے ہوتےاس حد کو پہنچ جاتا ہے کہ لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ بندہ نہیں خدا ہے چنانچہ بعض بندوں کو اسی وجہ سے خدا بنا لیا گیا.رؤیت اور لقاء میں فرق اب مَیں بتاتا ہوں کہ رؤیت کیا ہے اور لقاء کیا؟ اوران میں کیا فرق ہے؟ اس لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ رئویت تو عارضی ہوتی ہے یعنی اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کا جلوہ دیکھ لیا اور لقاء کے معنے یہ ہیں کہ خدا مل گیا اس کو پالیا یہ مستقل درجہ کا نام ہے اور اصل لقاء ہی ہے.روئیت کے بعدلقاء کا مقام ہے اور جسے یہ مقام حاصل ہوگیا اسے ایک قسم کی رؤیت ہمیشہ ہی حاصل ہوتی رہتی ہے.لقاء الٰہی سے کبھی نا امیدی نہیں ہونا چاہئے اب میں لقاء کا کچھ ذکر کرتا ہوں.مگر اس سے قبل یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ خدا سے ملنے میں مؤمن کو کبھی نا اُمید نہ ہونا چاہئے اس لئےکہ خدا تعالیٰ خودچاہتا ہے کہ بندہ اس سے ملے اگر یہ خواہش صرف ہماری طرف سے ہوتی تو اور بات تھی مگر اب تو یہ صورت ہے جس طرح کسی شاعر نے کہا ہے.ملنے کاتب مزاہے کہ دونوں ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی! پس چونکہ خدا تعالیٰ خود بندہ کے لقاء کو چاہتا ہے اس لئے اس سے نااُمید نہیں ہونا چاہئے.پہلی خطاؤں کی معافی لقاء کیلئے یہ ضروری ہے کہ انسان پہلے پچھلی صفائی کرے.اس کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا آسان طریقہ بتایا ہے.ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر کہا حضور مجھ سے خطا ہوگئی ہے مَیں کیا کروں؟ آپؐنے فرمایا تمہاری ماں زندہ ہے.اسنے کہا نہیں آپؐنے فرمایا تمہاری ماں زندہ ہے.اس نے کہا نہیں آـپؐنے فرمایا خالہ؟ کہا نہیں فرمایا کوئی اور رشتہ دار جو ہے اس کی خدمت کردے.اس سے معلوم ہوا کہ ان رشتوں کا ادب اور خدمت کرنا خطاؤں کو معاف کراتا ہے مگر تین باتیں اس سے پہلے سوچے.

Page 453

ایک یہ کہ نیت کرے اور اخلاص اس کے اندر ہو.دوسرے یہ کہ سستی اور غفلت ترک کرے.تیسرے یہ کہ بات کو سوچنے کی عادت ڈالے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو کامیاب نہ ہوگا.اگر کسی کی نیت نیک نہ ہو تو کوئی اسے نوکر نہیں رکھتا اگر کوئی سست ہو تو بھی اسے کوئی نہیں رکھتا اوراگر بات کچھ کہی جائے اور سمجھ کچھ اَور تو بھی نہیں رکھتا.پس تو بہ کے ساتھ یہ تینوں باتیں بھی ہونی ضروری ہیں اور جو لقائے الٰہی کے خواہشمند ہوں انہیں فوراً یہ باتیں پیدا کرنی چاہئیں.خدا تک پہنچنے کا رستہ اس کے بعد میں لقاء کے متعلق موٹا طریق بتاتا ہوں اور تفصیل کو چھوڑ دیتا ہوں کیونکہ تفصیل کی گنجائش نہیں.یاد رکھو کہ لقاء کا مطلب خدا تک پہنچنا ہے اور ’’تک ‘‘ کا لفظ اسی وقت بولا جاتا ہے جبکہ درمیان راستہ ہو جسے ہم نے طے کرنا ہو پس ہمیں لقاء کے لئے راستہ تلاش کرنا پڑے گا جس پر چل کر ہم اس مقصد کو حاصل کرسکیں.چونکہ اس مقصد کو صرف قرآن کریم ہی پورا کرسکتا ہے اس لئے ہم اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون پر اس میں مکمل روشنی ڈالی گئی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِمٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِاِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ (الفاتحہ :۲ تا ۶)ان آیات سےصاف ظاہر ہے کہ مؤمن اللہ تعالیٰ سے ایک راستہ دکھانے کی درخواست کرتا ہے پھر دوسری جگہ آتا ہے.صِرَاطَکَ الْمُسْتِقِیْمَ (الاعراف:۱۷) وہ راستہ مجھے دکھا جو تیری طرف سیدھا چلا ااتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ میں جس راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی گئی ہے وہ وہی راستہ ہے جو سیدھا خدا تک پہنچتا ہے اب یہ سوال ہے کہ وہ کونسا راستہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاھدُوْا فِيْنَا لَـنَھدِيَنَّھمْ سُـبُلَنَا (العنکبوت : ۷)جولوگ ہماری ملاقات کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم انہیں یقیناً اپنے تک پہنچنے کے راستے بتا دیتے ہیں.مگر ان سب راستوں سے ایک مکمل اور مجمل راستہ ہے جسے ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور وہ راستہ وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے.عقل کہتی ہے جب خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی ہے تو پہلے راستہ بھی بتایا ہوگا تبھی اس کے بعد یہ دُعا

Page 454

سکھائی کہ اب اس راستہ پر مجھے چلا.جب ہم سورۃ فاتحہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صاف طور پر ایک روحانی راستہ نظر آتا ہے اور وہ راستہ سورۃ فاتحہ میں بیان کردہ چار صفات الٰہیہ ہیں مگر راستہ کا لفظ بتاتا ہے کہ ان صفات کے حاصل کرنے میں ایک ترتیب ملحوظ ہے پہلے ایک صفت کو انسان حاصل کرسکتا ہے اس کے بعد دوسری کو پھر تیسری کو اور ہم تبھی اس راستہ پر چلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب ہمیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کس ترتیب سے ان صفات کو اپنے اندر ہمیں پیدا کرنا چاہئے.اس سوال کو حل کرنےکے بعد ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جب بندہ کی طرف آتا ہے تو وہ تنزّل اور تشبہہ اختیار کرتا ہے ورنہ اس کی ذات وراء الوریٰ ہے اور جب ایک اعلیٰ ہستی جو وراء الوریٰ ہو وہ محدود سے ملنے کے لئے آئے تو یقیناً وہ تدیجاً تشبیہ اورتنزّل اختیار کرتی چلی جائے گی اس کے بغیر وہ اس سے کبھی مل نہیں سکے گی.پس صفات الٰہیہ جتنی جتنی بندہ کے ساتھ تعلق زیادہ پیدا کرتی چلی جائیں گے وہ اسی قدر تنزّل اور تشبیہہ اختیار کرتی چلی جائیں گی اور اس کے مقابلہ میں بندہ جس قدر خدا تعالیٰ کےقریب ہونے کی کوشش کریگا اسی قدر وہ مادیت کو چھوڑ کر وسعت اختیار کرتا چلا جائیگا.اس امر کو سمجھنے کے لئے یہ فرض کرلو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جانے کا رستہ ایک بڑے دریا کی طرح ہے اس کا وہ نقطہ جدھر بندہ ہے اس کی مثال پہاڑ کی سی ہے اور وہ نقطہ جس طرف خدا تعالیٰ ہےاس کی مثال سمندرکی سی ہے.محدود اورچھوٹے نقطہ کی طرف دیکھو دریا چھوٹا ہوتا چلا جائے گا اور وسیع نقطہ کی طرف وسیع ہوتا چلا جائے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوگا کہ جہاں وسعت ہوگی وہاں زور کم ہوگا اور جہاں تنگی ہوگی وہاں زور ہوجائیگا اور شور بھی بڑھتا چلا جائے گا.یہی حال خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کا ہے وہ بھی جوں جوں اس نقطہ کے قریب ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے زیادہ وسیع ہوتی چلی جاتی ہیں اور ان کے اثر مخفی ہوتے چلے جاتے ہیں اور جوںجوں وہ بندوں کی طرف آتی ہیں ان کا دائرہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے اور ان کا ظہور زیادہ واضح ہوتا چلا جاتا ہے.دنیامیں تو ہم یہ قاعدہ دیکھتے ہیں کہ چھوٹی چیز بڑھ کر بڑی شکل اختیار کرلیتی ہے.جیسے بیج درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے یہی حالت انسانی ترقی کی ہے.مگر خدا تعالیٰ کی صفات جب ظہور کریں گی تو چونکہ وہ تنزّل اور تشبیہ اختیار کرتی ہیں اس لئے ان کا دائرہ تنگ ہوتا چلا جائے گا.بالکل اسی طرح جس طرح دریا پہاڑ کی طرف چھوٹا ہوتا ہے یا جس طرح سورج کے لاکھوں میل

Page 455

انسانی آنکھ کی مناسبت سے ایک ٹکیا کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں.اس تمام قاعدہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جب ہم خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے راستہ کو دیکھیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی صفات جب تنزّل اختیار کرتی ہیں تو جو ان کی پہلی منزل ہوگی کیونکہ بندہ نیچے سے اوپر جارہا ہے اور وہ اوپر سے نیچے کو آرہی ہیں.اسی طرح یہ کہ خدا تعالیٰ کی صفات جب تنزّل اختیار کرتی ہیں تو ان کی پہلی منزل زیادہ وسیع ہوگی اور آخری سب سے تنگ.لیکن بندہ کی ترقی اس کے اُلٹ ہوگی اس کی پہلی منزل زیادہ محدود ہوگی اور آخری بہت زیادہ وسیع کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کررہا ہے.خدا کی بندہ کی طرح آنے کی منزلیں اس قاعدہ کو مد نظر رکھتے ہوئےسورۃ فاتحہ سے سیر فی اللہ کا راستہ نہایت ،آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے.اس سورۃ میں چارصفات الٰہیہ بیان ہوئی ہیں.رب العٰلمین ،رحمٰن ،رحیم اور مٰلک یوم الدین.پچھلے قاعدہ کے مطابق یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رب العٰلمین ان چاروں صفات میں سے تشبیہ اور تنزّل کا حصہ کم رکھتی ہے اور زیادہ وسیع ہے اس سے کم رحمانیت اس سے کم رحیمیت اس سے کم مالکیت یوم الدین ،گویا جب اللہ تعالیٰ نے جو وراء الوریٰ ہے تنزّل اختیارکیا تو اس کی صفت رب العٰلمین ظاہر ہوئی جب اور تنزّل کیا تو رحمانیت جب اور تنزّل کیا تو رحیمیت اور جب اور تنزّل کیا تو مالکیت یوم الدین کی صفت ظاہر ہوئی،لیکن اس کے مقابلہ میں بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھائے گا تو وہ سب سے پہلے جس منزل پر پہنچے گا وہ مالکیت یوم الدین ہوگی اس کے بعد وہ رحیمیت اور اس کے بعد رحمانیت اور اس کے بعد ربوبیت عالمین کی منازل تک پہنچے گا گویا خدا تعالیٰ کی صفات کے تنزّل کی منازل کی پہلی منزل بندہ کے لئے آخری ہوگی اوران کی آخری منزل بندہ کے لئے پہلی منزل ہوگی.دوسری بات مذکورہ بالا قاعدہ کی رو سے یہ معلوم ہوئی کہ ملک یوم الدین کی صفت مخفی ہے اس سے ظاہر رحیمیت کی اس سے ظاہر رحمانیت کی اور اس سے ظاہر ربوبیت کی.صفت رب العٰلمین کا جلوہ غور کرکے دیکھو لو رب العٰلمین کی صفت نہایت وسیع ہے وہ ساری دنیا سے تعلق رکھتی ہے.سورج ، چاند ،جانور وغیرہ سب پر محیط ہے اور اسی وجہ سے زیادہ مخفی ہے رب پیدا کرنےوالے کو کہتے ہیں اور

Page 456

یہ صفت اتنی مخفی ہے کہ بعض اوقات لوگ کہہ دیتے ہیں کہ خدا نے کب کوئی چیز پیدا کی ہے اب پیدا کرکےدکھائے.پھر ربوبیت کی صفت کے ماتح وہ میلان بھی ہے جو ماں باپ کے اندر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ماں باپ پرورش کرتے ہیں.تو گویا خدا کی ربوبیت یہ ہوتی کہ اس نے بندہ کو پیدا کیا ہے اور اس کے اندر وہ طاقتیں پیدا کی ہیں جنس ے آگے انسان پیدا ہوسکتے پھر جس طرح بچہ کی ماں باپ بڑھاتے ہیں کہ بڑا ہوکر ان کے کام آئے اسی طرح خدا تعالیٰ کرتا ہے.خدا نے انسان کو سمجھنے کی طاقتیں دیں ہیں تا کہ وہ ان کےذریعہ سےاسے سمجھ سکے اور ان طاقتوں کے پیدا کرنےمیں اس نے جبر سے کام لیا ہے یعنی انسان کا اختیار نہیں رکھا کہ وہ طاقتیں لے یا نہ لے بعینہٖ جس طرح ماں باپ بچےکو بچپن میں جبراً تعلیم دیتے ہیں.اسی صفت کے ماتحت انسان کو انسانیت مُطْلقہ دی جاتی ہے اگر خدا تعالیٰ جبراً یہ طاقتیں سب کو نہ دے تو سب انسان مکلّف بھی نہ رہیں ہاں جب انسان کو سمجھ آتی ہے تو پھر یہ اس کے ارادہ پر منحصر ہے کہ وہ ان طاقتوں کو استعمال کرے یا نہ کرے جس طرح کہ ماں باپ بچے کو پڑھادیتے ہیں آگے وہ اس علم سے کام لے یا نہ لے یہ اس کے ارادے پر منحصر ہے.چونکہ یہ صفت ہر ذرہ ذرہ سے تعلق رکھتی ہے اس لئے بوجہ اپنی وسعت کے اس قدر نمایاں نہیں اور انسان بھی اس کی طرف قدر کی نگاہ سےنہیں دیکھتا بلکہ بعض خدا تعالیٰ کو ماننے والے بھی کہہ اُٹھتے ہیں کہ کس نے کہا تھا کہ خدا ہمیں پیدا کرے.صفت رحمانیت اور رحمییت کا جلوہ چونکہ ربوبیت کی صفت بہت مخفی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات نے اور تنزّل کیا اور صفت رحمانیت کا جلوہ دکھایا اور رحمانیت کا جلوہ دکھایا اور رحمانیت کے جلوہ میں ایسی چیزیں انسان کےلئے مہیّا کیں کہ جن کی اسے ضرورت تھی.جیسے ہوا، سورج ،چاند وغیرہ چونکہ یہ جلوہ زیادہ ظاہر ہے لوگ اسکی قدر نسبتًا زیادہ کرتے ہیں اور یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارے آرام کے لئے اسقدر سامان پیدا کیا ہے مگر پھر بھی یہ صفت ایک حد تک مخفی ہی ہے کیونکہ اس کا تعلق انسانی اعمال سے نہیں ہوتا اس لئے اس کا تعلق افراد سے نہیں بلکہ جنس سے ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے ایک اور منزل تیار کی اور وہ صفت رحیمیت ہے اس کے معنے ہیں کہ انسان کام کرے تو بدلا پائے جوکام نہ کرے وہ نہ پائے.اس صفت کے ماتحت خدا تعالیٰ کا تعلق افراد سے بھی قائم ہوگیا پس اس کا ظہور اور زیادہ واضح ہے.

Page 457

صفت مالکیت کا جلوہ پھر صفات الٰہیہ نے اس سے بھی تنزّل اختیار کیا اور مالک یوم الدین کے رنگ میں جلوہ کیا ہر ایک انسان الگ الگ خدا کے حضور پیش ہوگا اس طرح خدا ہر ایک کے سامنے ہوگیا اور یہ صفت اتنی ظاہر ہوگی کہ جب قیامت کے دن لوگ خدا کے سامنے پیش ہوں گے تو نبی بھی کہیں گے نفسی نفسی ہر ایک کو اپنی اپنی فکر ہوگی کسی اور کی فکر نہ ہوگی ،حدیثوں میں آتا ہے رسول کریمؐفرماتے ہیں کہ جب ایسی حالت نفسی نفسی کہیں گے نبیوں کے پاس چلو اس پر وہ آدم ؑ ،نوح اور موسیٰؑکے پاس آئیں گے.مگر وہ یہ سفارش خدا کے وعدہ کے مطابق ہوگی نہ کہ اپنےزور سے تب لوگوں کا خطرہ دور ہوگا.٭ بندہ کا خدا تک پہنچنا اب جب بندہ اوپر چڑھے گا تو پہلے مالک کی صفت پر پہنچے گا.پھر رحیمیت پھر رحمانیت پھر ربوبیت کی صفت پر اور پھر خدا کو دیکھ لے گا.اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ بندہ کس طرح ان صفات کو اختیار کرے؟اوریہ سوال نہایت اہم اور قابل توجہ ہے پہلا جس قدر مضمون تھا وہ درحقیقت اس مضمون کے لئے بطور تمہید کے تھا.بندہ کا مٰلک یوم الدین بننا یاد رکھنا چاہئے کہ بندہ سب سے پہلے مٰلک یوم الدین کی صفت کو حاصل کرسکتا ہے مٰلک یوم الدین کے معنی ہیں جزا ء و سزا کا فیصلہ کرنا اور جج بننا.اس کیلئے یہ دیکھنا چاہئے کہ بندہ کے اندر جج بننے کی قابلیت ہے یا نہیں.سو ہم جب انسان کی قوتوں پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ہر بندہ مٰلک یوم الدین ہے اور وہ اس طرح کہ ہر انسان جب کسی کو کوئی کام کرتے دیکھتا ہے تو معاً اسکے متعلق ایک رائے لگا لیتا ہے خواہ کوئی چھوٹا بچہ ہو یا بڑا مَعمرّ انسان ،زمیندار ہو یا تعلیم یافتہ ،جب بھی کسی کو کوئی کام کرتے دیکھتا ہے تو اس پر رائے لگا لیتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں جج بننے کی قابلیت رکھی ہے خواہ کوئی ادنیٰ ہو یا اعلیٰ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ اسکے اندر یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ ججی کرتا ہے کبھی کسی کو نیک قرار دیتا ہے کسی کو بد ، کس کو شرارتی بناتا ہے،کسی کو بھلا مانس یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانی آنکھوں کے سامنے سے کوئی چیز گذرے یا کسی اور حس کےذریعہ سے کسی امر کا علم ہو اور اسکے متعلق انسان کوئی فیصلہ نہ کرے.پس ہر انسان جج ہے مگر یہ انسانی حالت مخفی ہے کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ دوسرا شخص اس پر جج بن رہا ہے جس طرح خدا *بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ

Page 458

کی رب العٰلمین والی صفت مخفی تھی اسی طرح بندہ کی مالکیت یوم الدین والی صفت مخفی ہوتی ہے یہ مالکیت ایسی ہے کہ اسے کوئی بادشاہ بھی نہیں چھین سکتا اور اس کا نام حریت ضمیر ہے.بادشاہ مال چھین سکتے ہیں.جائیدادیں چھین سکتے ہیں.وطن سے نکال سکتے ہیں لیکن باوجود اس کے اس حججی کی صفت کو نہیں چھین سکتے.اگر پھانسی پر بھی چڑھا دیں گے تو اس وقت بھی پھانسی پر چڑھنے والے کا دماغ کام کر رہا ہو گا اور فیصلہ کر رہا ہوگا کہ یہ بادشاہ ظالم ہے یا انصاف کے ماتحت اسے پھانسی دے رہا ہوگا اور فیصلہ کر رہا ہوگا کہ یہ بادشاہ ظالم ہے یا انصاف کے ماتحت اسے پھانسی دے رہا ہے.یہ صفت درحقیقت خدا تعالیٰ کا ایک جلوہ ہے جو انسان میں پایا جاتا ہے.اب یہ تو معلوم ہوگیا کہ خدا نے انسان کو مٰلک یوم الدین بنانے کی طاقت اس میں رکھی ہے مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات تو مؤمن و کافر سب میں پائی جاتی ہے پس یہ سیر فی اللہ کا زینہ کس طرح بن سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ طاقت لقاء تو سب میں رکھی گئی ہے ہاں سیر کے لئے اس طاقت کو خاص طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور چونکہ لقائے الٰہی خدا تعالیٰ کی صفات کی مشابہت سے حاصل ہوتا ہے اس لئے سیر فی اللہ کے لئے ضروری ہوگا کہ سب سے پہلے انسان اس ججی کی مخفی طاقت کو اسی طرح استعمال کرے جس طرح کہ خدا تعالیٰ اپنی صفت مالکیت کو استعمال کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی صفت مٰلک یوم الدین کس طرح عمل کرتی ہے؟ قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی صفت مٰلک یوم الدین کو مندرجہ ذیل اُصول کے مطابق استعمال فرماتا ہے.اول اصل اس صفت کے اجراء کے متعلق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز کے تمام پہلوؤں کو جان کر فیصلہ کرتا ہے بے جانے کوئی فیصلہ نہیں کرتا.اب جو شخص خدا تعالیٰ کی اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہے اسے چاہئے کہ غور کرے کہ کیا وہ بھی اسی طرح کرتا ہے.یا وہ جونہی سنتا ہے کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے تو کہہ دیتا ہے کہ تب تو وہ بہت بُرا ہے.لیکن خدا تعالیٰ اس طرح نہیں کرتا اس لئے خدا کی قضاء اوربندہ کی قضاء میں بہت بڑا فرق ہے.وہ سارے حالات معلوم کرکے فیصلہ کرتا ہے اور انسان یونہی فیصلہ کرنے بیٹھ جاتا ہے.جس طرح روز مرہ ہر انسان فیصلہ کرنے لگ جاتا ہے سب مجسٹریٹ اسی طرح کرنے لگ جائیں تو دنیا میں اندھیرے مچ جائے.کوئی کسی کےمتعلق جاکر کہے کہ فلاں نے چوری کی ہے اور مجسٹریٹ سنتے ہی فوراً اس شخص کو قید کرڈالے تو کس قدر ظلم برپا ہوجائے.پس اپنے نفس میں سوچو کہ وہ قضاء جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی

Page 459

ہے اس کو تم کس طرح استعمال کرتے ہو.اگر خدا تعالیٰ جس طرح اپنے جج ہونے کی صفت کو استعمال کرتا ہے اسی طرح نہیں کرتے تو اس کی طرف قدم نہیں بڑھاسکتےاوراگر اس کی طرف قدم بڑھانا چاہتے ہو تو چاہئے کہ اپنے دماغ کے گوشوں میں بھی کسی کی نسبت بغیر تحقیق و تدقیق کوئی خیال نہ آنےدو جب تک پہلے کامل تحقیق نہ کرلو.جس کا قصور ہو اسی کو سزا دو دوسری اور تیسری خصوصیت خدا تعالیٰ کے فیصلہ میں یہ پائی جاتی ہے کہ جس کام کا جرم ہوتا ہے اور جس کے متعلق فیصلہ کرنا ہوتا ہے اسے دوسروں کے جرموں کی وجہ سے نہیں پکڑتا اور نہ دوسروں کو اس کی بجائے پکڑتا ہے.پس اس شخص کو جو خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کو اپنے اندر جلوہ گر کرنا چاہتا ہے سوچنا چاہئے کہ کیا وہ بھی اس طرح کرتا ہے کیا وہ اس طرح تو نہیں کرتا کہ جب اسے کسی شخص سے نفرت پیدا ہوتی ہے تو اس کے بھائی سے بھی نفرت کرنے لگ جاتا ہے.اسے یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جس کا قصور ہوتا ہے اسی کو سز دیتا ہے.پس صفت مالکیت میں خدا تعالیٰ کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس کی نسبت کوئی فیصلہ کرنا ہو اپنے فیصلہ کو اسی کی نسبت محدود رکھو نہ کہ اس کی وجہ سے اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی بُرا سمجھو اور نہ یہ کرو کہ دوسروں کے جُرم کی وجہ سے اسے پکڑو.جرم کے مطابق سزا دو چوتھی خصوصیت خدا تعالیٰ کی قضاء میں یہ ہے کہ وہ جس قدر جرم کسی کا ہو اتنی ہی سزا دیتا ہےسالک کو چاہئے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے یہ نہ ہو کہ مثلاً اس کسی نے گالی دی اور وہ اس کے بدلہ میں یہ خواہش کرے کہ اگر بس چلے تو اسے مار دوں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرح اگر سزا دینی ہی پڑے یا رائے قائم کرنی ہو تو جرم کے مطابق ہی سزا دے یا رائے قائم کرے.فیصلہ کرتے وقت میزان رکھو پانچویں بات خدا تعالیٰ یہ کرتا ہے کہ جب فیصلہ کرتا ہے تو میزان رکھتا ہے یعنی یہ دیکھتا ہے کہ جرم تو کیا مگر کس حالت میں؟ ایک شخص نے چوری سے کسی کی روٹی کھالی یہ جرم ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے جرم کا فیصلہ کرتے وقت یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس نے کس حالت میں وہ روٹی کھائی ہے آیا دوسرے کے مال پر تصرف کرنے کےلئے یا ی کہ وہ بھوک سے مجبور تھا اور اور کوئی ذریعہ پیٹ بھرنے کا اسے معلوم نہیں تھا.پس جو سالک ہوا اسے بھی چاہئے کہ اسی طرح کرے یہی نہ دکھے کہ کسی نے کیا

Page 460

جرم کیا ہے بلکہ اس کے حالات اور مجبوریوں کو بھی دیکھے اور اندھا دھند فیصلہ نہ کرے.خدا تعالیٰ ہمیشہ ہر کمزوری کی وجہ کو مد نظر رکھتا ہے مثلاً ایک شخص جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودؑ کا پتہ نہ ہو خدا کا قانون اسے کافر تو قرار دے گا.مگر خدا تعالیٰ اسے اس وجہ سے سزا نہیں دے گا کیونکہ بوجہ علم نہ ہونے کے اس کے لئے ناممکن تھا کہ ایمان لاسکے.سفارش نہ سنو چھٹی بات خدا تعالیٰ یہ کرتا ہے کہ کسی کے خلاف کسی کی سفارش نہیں سنتا تمہارے لئے بھی ضروری ہےکہ کسی کے کہنے پر کسی کے متعلق فیصلہ نہ کرو تمہیں خودخدا نے جج بنایا ہے تم کسی کی کیوں سنو.ہر فیصلہ میں رحم کا پہلو غالب ہو ساتویں بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا امور کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنے کے باوجود خدا تعالیٰ جب فیصلہ کرتا ہے تو اس میں رحم کا پہلو غالب رہتا ہے.ذرا گنجائش نکل آئی جھٹ معاف کردیا تمہیں بھی کسی کی بُرائی معلوم ہو جو ادنیٰ اور معمولی ہو تو برائی کا فیصلہ ہی نہ کرو بلکہ اس کی نیکیوں کو دیکھ کر حتّی الوسع اس کی طرف نیکی منسوب کرو.صفت مالکیت پیدا کرنے کا نتیجہ یہ سات باتیں ہیں جن کا خیال خدا تعالیٰ صفت مالکیت کے اظہار کے وقت رکھتا ہےاگر بندہ بھی ان کو مدّ نظر رکھے تو آہستہ آہستہ اس کے اندر صفت مٰلک یوم الدین قائم ہوجائے گی اور اسے خدا تعالیٰ سےایک مشابہت حاصل ہوجائے گی.جب بندہ یہ استعداد پیدا کرلیتا ہےتو وہ مادہ کی طرح ہوجاتا ہے گویا اس میں ترقی کرنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس وقت خدا تعالیٰ کی صفت مٰلک یوم الدین جو اس درجہ کے آدمی کے لئے منبع فیض ہے اس پر اپنا پَر تَو ڈالتی ہے اور اس کی روح میں نئی طاقتیں پیدا کردیتی ہے حضرت مسیح موعود ؑنےجو لکھا ہے کہ مَیں پہلے مریم بنا اورپھر عیسیٰ بنا اس کا یہی مطلب ہے کہ آپؑکے اندر پہلے خدا تعالیٰ کی صفات کا اثر قبول کرنے کی قابلیت پیدا ہوئی بعد میں خدا تعالیٰ کے بالمقابل صفت کے اتصال سے نئی قوتیں حاصل ہوئیں جو عیسویں قوتوں سے مشابہ تھیں یا اس حالت کی مثال تیار شدہ زمین کی سمجھ لو.جب سالک کی حالت اسطرح کی ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کی مٰلک یوم الدین والی صفت اس پر اثر ڈالتی ہے بعینہٖ اسی طرح جس طرح مرد عورت ملتے ہیں یا زمین اور بیج ملتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی صفات ایسی نہیں کہ وہ کس پر پَرتَو

Page 461

ڈالیں اور نتیجہ نہ نکلے.اس لئے جب ان کا ظہور ہوتا ہے تو انسان کے اندر ضرور ہی نئی طاقت اور قوت پیدا ہوجاتی ہے.یہ جو مَیں نے بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت اس پر جلوہ کرتی ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ جس طرح یہ لوگوں سے عفو کا معاملہ کرتا تھا خدا تعالیٰ بھی اس سے عفو کا معاملہ کرتا ہے اور چونکہ گناہ ہی ایک ایسی زنجیر ہے جو انسان کی روحانی ترقی کی رفتار کو سُست کرتی رہتی ہے جب یہ زنجیر کُھل جاتی ہے تو انسان کی روحانی ترقی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے.دنیاوی سفر میں تو یہ ہوتا ہےکہ پہلے لوگ تیز چلتے ہیں اورپھر جوں جوں تھکتے جاتے ہیں آہستہ چلنے لگتے ہیں مگر خدا کی منزلیں ایسی ہیں کہ پہلے انسان آہستہ چلتا ہے اور پھر تیز کیونکہ اسے ہر قدم پر نئی طاقت ملتی جاتی ہے.صفت مالکیت پیدا کرنے کا فائدہ اگر لوگ مٰلک یوم الدین کی صفت کو اپنے اندر پیدا کرلیں تو پھر سارے جھگڑے ختم ہوسکتے ہیں لوگوں میں لڑائی اس لئے ہوتی ہے کہ وہ ججی کی طاقتوں کو غلط طور پر استعمال کرتے ہیں اگر انہیں صحیح طور پر استعمال کریں تو کبھی لڑائی نہ ہو.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر زیادہ اللہ ہوں تو فساد ہوجائے اور ادھر فرماتا ہے کہ بحرو بر میں فساد پیدا ہوگیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت زیادہ الٰہ بن گئے تھے یعنی لوگ خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کے ماتحت اپنی قضاء کو کرنے کی بجائے اس سفت کو مستقل طور پر استعمال کرنےلگ گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی اور فساد پیدا ہوگیا.آس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ فساد ہمیشہ خدا تعالیٰ کی صفات سے علیحیدگی اور مستقل پالسیی اختیار کرنے سے پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیحؑ نے کہا ہے جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لئے بھی پسند نہ کرو.اگر کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کا مال چُرائے تو اس کو بھی چاہئے کہ کسی کا نہ چُرائے.اسلام نے بھی ایسی باتیں کہیں ہیں مگر ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے اور اعلیٰ لوگوں کے لئے یہ کہا ہے کہ یہ نہ دیکھو دوسرا کیا کرتا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ خدا کیا کرتا ہے جو کچھ خدا کرتا ہے وہی تم کرو خدا چونکہ غلطی نہیں کرتا اس لئے انسان جب اس کی اتباع کرے گا تو وہ بھی غلطی سے بچ جائے گا.بندہ کا درجہ رحیمیت پانا صفت مالکیت بیج کی طرح ہے اس سے اوپر رحیمیت کا درجہ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ کام سے بڑھ کر بدلا دینا.پہلے وہ سات باتیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں اور یہ فیصلہ کرلینا چاہئے

Page 462

کہ ان کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کریں گے نہ ان سے باہر جائیں گے نہ ان کو چھوڑیں گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا سالک کے گناہ مٹاتا جائے گا اور اگر کوئی غلطی ہوگی تو اسے نظر انداز کردے گا اوراس کا یہ فائدہ ہوگا کہ اس کے دل میں بدی سے نفرت پیدا ہوجائے گی.اس کے بعد رحیمیت کی مشابہت میں یہ عادت پیدا کرنی چاہئے کہ ہر کام کرنے والے کو اس کے حق سے زیادہ دیاجائے.مثلاً ایک شخص کسی کا نوکر ہو وہ یہ فیلہ کرے کہ میرا مالک جو تنخواہ مجھے دیتا ہے اور اس کے بدلے جتنے کام کی اُمید مجھ سے رکھتا ہے اس سے زیادہ کام مَیںکروں گا اور مالک یہ فیصلہ کرے کہ اس کام کی جتنی تنخواہ مقرر ہوئی ہے میں اس سے زیادہ سلوک ملازم سے کروں گا.اگر آقا اور نوکر دونوں ایسے ہوں کہ اس اصل پر چلیں تو یہ بھی ایک قسم کا مقابلہ ہوگا مگر کیسا عجیب مقابلہ ہوگا جو صلح اورامن پیدا کردےگا.صحابہؓمیں اس قسم کے واقعات ہوتے تھے ایک دفعہ ایک صحابیؓ اپنا گھوڑا بیچنے کے لئے آئے اورایک دوسرے صحابیؓ اسے خریدنے لگے گھوڑے کے مالک نےمثلاً دو ہرزد درہم قیمت بتائی اور لینے والے نے تین ہزار درہم.بیچنے والا اس پر مُصر تھا کہ میں دو ہزار سے زیادہ نہ لوں گا کیونکہ میرا گھوڑا اس سے زیادہ قیمت کا نہیں ہے لیکن گھوڑاخریدنے والا کہتا تھا کہ مَیں تین ہزار سے کم نہ دوں گا کیونکہ یہ گھوڑا اس سے کم قیمت کا نہیں ہے.اگر ساری دنیا کے لوگوں کی یہی حالت ہو تو خیال کرو کہ دُنیا کیسی خوبصورت بن جائے گی؟ یا مثلاً ایک مزدور ہے جو سمجھتا ہے کہ اتنی مزدوری میں مجھے اتنا کام کرنا چاہئے وہ اس سے زیادہ کرے اور جس نے اسے لگایا ہو وہ مقررہ مزدوری سے کچھ زیادہ دیدے یہی اصول زندگی کے ہر شعبہ میں برتنے کی کوشش کی جائے.مگر سوال ہوسکتا ہے کہ ایک غریب شخص ہے وہ کیا کرے یا زمیندار ہے وہ کیا کرے؟ اس کا متعلق مَیں زمیندار وں ہی کی مثال دیتا ہوں.مثلاً ایک زمیندار ہے جب وہ کھیت کاٹنے کے لئے لوگوں کو لگائے اور کہے کہ میں کاٹنے والوں کو اس قدر غلہ دوں گا اب اگر وہ اس غلہ سے زیادہ دے یا روٹی کھلا دے تو وہ گویا اس صفت پر عمل پیرا ہوجائیگا.یامثلاًگنّے چھیلنے پر لگایا اوراس کے لئے مزدوری مقرر کی جو ادا کردی گئی مگر چلتے وقت اسے بچوں کے لئے گنے دے دیئے یا رس دیدی،شکر دیدی ،یہ رحیمیت ہوگی خواہ کتنی ہی تھوڑی چیز مزدوری سے زائد دی جائے وہ اس صفت کے ماتحت آئے گی.پس تم میں سے ہر شخص اس صفت کو استعمال کر

Page 463

سکتا ہے اگر امیر ہے تو بدلا دینے میں زیادہ دے سکتا ہے اور اگر نوکر ہے تو کام کرنے میں زیادتی کرسکتا ہے.مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ کسی کے نوکر ہوسکتے ہیں نہ ان کے کوئی نوکر ہوسکتے ہیں.جیسے نابینا وغیرہ ان کی بھی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ جو اچھے کام کرنے والے لوگ ہیں انکی لوگوں میں قدر بڑھائیں.اس طرح کام کرنے والوں کا دل بڑھتا ہے اور وہ اور زیادہ اچھا کام کرسکتے ہیں.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی کا دل بڑھانے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے لوگ اچھی رائے حاصل کرنے کے لئے بہت سا مال و دولت خرچ کردیتے ہیں.حضرت مسیح موعودؑ سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے ایک انگوٹھی بنوائی وہ اسےدوسری عورتوں کو دکھانے کی بہت کوشش کرتی رہی مگر کسی نے توجہ نہ کی.آخر اس نے اپنے مکان کو آگ لگا دی اورجب عورتیں افسوس کرنے کے لئے اس کے پاس آئیں اور پوچھا کچھ بچا بھی تو کہنے لگی اس انگوٹھی کے سوا اور کچھ نہیں بچا ایک عورت نےپوچھا یہ تم نے کب بنوائی تھی؟ یہ تو بہت خوبصورت ہے اس نے کہا اگر کوئی پہلے یہی بات کہہ دیتا تو میرا گھر کیوں جلتا.غرض صرف منہ کی بات بھی بڑا اثر رکھتی ہے کس کو ایک کام کرنے پر سو روپیہ دو لیکن ساتھ ہی اس کی مذمت کردو تو اسے کبھی خوشی نہ حاصل ہوگی یا چپ رہو تو بھی اس کا حوصلہ پست ہوجائے گا.پس جو قومیں خدا کی رحیمیت کو جذب کرنا چاہتی ہیں ان کا کام ہے کہ خود رحیم بنیں جو ان کے کارکن ہوں ان کی قدر کریں ان کےکام کی تعریف کریں زبان سے بدلا دینامعمولی بات نہیں ہوتی بلکہ اس میںبہت سے فوائد ہیں مگر اس پر عمل کرنے میں کسی کا کچھ خرچ نہیں ہوتا.جو کوئی مفید کام کرتا ہے تمہارا فرض ہےکہ اس کی تعریف کرو ہماری جماعت میں ابھی یہ بات پیدا نہیں ہوئی.ایک شخص ولایت میں دین کی خدمت کر رہا ہوتا ہے اس کی بیوی بچے یہاں پرے ہوئے ہوتے ہیں جیسے تمہاری بیویوں کو خواہشات ہوتی ہیں اسی طرحاس کو بھی ہوتی ہے مگر اس کی بیوی تنہا سوتی اور تنہا ہی اُٹھتی ہے اس کے بچے لاوارثوں کی طرح باپ کی محبت کو ترس رہے ہوتے ہیں کوئی ان کے پاس نہیں ہوتا.ادھر مبلغ اپنی جگہ پر تنہا ہوتا ہے وہ دین کا کام کرکے جب اپنے مکان میں جاتا ہے تو اسے توقع نہیں ہوتی کہ مکان میں کوئی اس کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہوگا بلکہ اسے خود ہی آکر سب کچھ کرنا پڑتا ہے.مگر لوگ ان باتوں کی ذرہ بھر بھی قدر نہیں کرتے اوراگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو عیب نکالنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں.وہ عیب کو تو دیکھتے ہیں مگر خوبیوں کی طرف توجہ نہیں کرتےاس کا نتیجہ یہ

Page 464

ہوتا ہے کہ بعض کارکُن سُست ہوجاتے ہیں.اگر حوصلہ بڑھایا جائے تو سب کارکن کام کرنے لگ جائیں.پس جو کام کریں ان کی قدر کرنی چاہئے.مَیں خصوصاً قادیان کے لوگون کو نصیحت کرتا ہوں کہ کام کرنے والوں کی قدرر کی عادت ڈالو لوگوں کی فکروں،ذمہ داریوں اور مشکلوں کو نہ دیکھنا اور اعتراض کرتے جانا صفت رحیمیت کے خلاف ہے پس رحیمیت کو پیدا کرو اور بھی اور عام بھی کہ جو اچھا کام کرتا ہے اس کی تعریف کردی جائے پھر علاوہ تعریف کے خدا کے ہاں اس کے لئے دُعا مانگو کہ وہ اچھا کام کررہا ہے میرے پاس تو اسے دینے کیلئے کچھ نہیں اسے خدا تُو ہی اپنے پاس سےاسے دے.غرض مزدور اپنےآقا کا زیادہ کام کرے اورآقا مزدور کو مزدوری سے زیادہ دے.پھر جو دین کا کام کرنے والے ہیں ان کےکام کی قدر کی جائے اور اس سے بھی بڑھ کر تعریف کی جائے جتنا کہ وہ کام کرتے ہیں.نیکی پر خوشی کا اظہار کیا جائے تب جاکر صفت رحیمیت سے مناسبت پیدا ہوتی ہے اور خدا سے تشابہ پیدا ہوتا ہے اور غیریت جاتی رہتی ہے اور جنس کو جنس سے تعلق ہوجاتا ہے اور یہ صفت خدا تعالیٰ کو انسان کی طرف کھینچتی ہے اور اس کی صفت رحیمیت انسان پر جلوہ کرتی ہے اور اس جلوہ کے ماتحت اس کا ثواب بہت زیادہ ہوجاتا ہے.وہ نماز ایک پڑھتا ہے تو ثواب سو کا ہوتا ہے اور اس طرح وہ کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے لیکن جو خود رحیم نہیں ہوتا وہ خواہ سارا دن نماز پڑھتا رہے وہ وہی کا وہیں رہتا ہے.صرف اسی شخص کے حق میں کہ جو خود رحیم بنتا ہے خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت جوش میں آتی ہے اور خدا تعالیٰ کہتا ہے مَیں بھی اسے بڑھ کر دوں اور ایسے شخص کو اعلیٰ مقام مل جاتا ہے لیکن جس کےاندر رحیمیت نہیں ہوتی وہ سارا سال نمازیں پڑھتا رہے تو بھی اسے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.مثلاً ایک روحانی مقام اگر پچاس سال کی نمازوں کے بعد ملتا ہو تو جو اپنے نفس میں رحیمیت پیدا نہیں کرتا وہ تو اگر ایک سال نمازیں پڑھے گا تو اس کا ایک ہی سال گذرے گا اورا نچاس باقی رہیں گے لیکن وہ جس میں رحیمیت کی صفت ہوگی ایک سال نمازیں پڑھ کے پچاس سال کا ثواب حاصل کرے گا کیونکہ اس کے نفس کی رحیمیت خدا کی رحیمیت کو کھینچے گی اور خدا تعالیٰ کی رحیمیت کا تقاضا ہے کہ بندہ کے تھوڑے کام پر زیادہ بدلہ اوربار بار بدلہ دے.پس اس صفت کےذریعہ سے انسان تھوڑے عرصہ میں بڑے بڑے درجے حاصل کرلیتا ہے.

Page 465

بندہ کا درجہ رحمانیت پانا جب خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت انسان کی صفت رحیمیت سے ملتی ہے تو اس میں اور نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ گویا پھر ایک رُوحانی جنم لیتا ہے اور رحمانیت کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے رحمانیت کے معنی ہیں کہ کسی نے کچھ کام نہ بھی کیا ہو تو بھی اس سے نیک سلوک کرنا.جیسے خدا تعالیٰ نے سورج ،چاند ،زمین ،آسمان ،ہوا ،پانی پیدا کئے ہیں یہ انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں ہیں بلکہ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان زندہ ہی نہیں رہ سکتا.بندہ کا تیسرامقام اسی صفت کا حصول ہے اور وہ اس طرح کہ یہ پہلے تو صر ف ان لوگوں سے حُسنِ سلوک کرتا تھا جو اس کا کام کرتے تھے اب یہ کوشش کرتا ہے کہ جن سے اس کو کوئی بھی فائدہ نہیں ان سے بھی نیک سلوک کرےاس صفت کا حصول بھی غریب امیر سب کے لئے ممکن ہے.قادیان میں ایک مخلص نابینا تھےحافظ معین الدین ان کا نام تھا انہیں اتنا توکّل حاصل تھا کہ کسی کو کم ہی ہوگا.غریب آدمی تھے.لنگر خانہ کی روٹی پر ان کا گذارہ تھا اور لوگ انہیں نابینا سمجھ کر کبھی کبھی کچھ مدد کردیتے تھے وہ باوجود نابینا ہونے کے ادھر ادھر پتہ لگاتے رہتے تھے کہ کسی کے گھر فاقہ تو نہیں یا اور کوئی تکلیف تو نہیں؟ اوراگر کوئی تکلیف زدہ انہیں معلوم ہوتا تو اپنی روٹی لے جاکر اسےدےآتے.یا اگر ان کے پاس پیسے ہوتے تو وہ دے دیتے.ان کے اس قسم کے بہت سےواقعات مجھے معلوم ہیں.پس اس صفت کی مشابہت پیدا کرنےکےلئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی مالدار ہی ہو غرباء بھی اپنے ذرائع کے مطابق رحمانیت کا جامہ پہن سکتے ہیں اور بغیر کسی پچھلی خدمت کے صلہ یا آئندہ کی اُمید کے نیکی کرسکتے ہیں.مثلاً ایک شخص مدرسہ میں ملازم ہے اگر وہ کہے کہ میں اپنے سارے وقت کے پیسے ہی وصول کروں تو یہ رحمانیت نہیں ہوگی.جیسے مدرسہ والے عام طور پر کرتے ہیں کہ ملازمت کے وقت سے باہر بھی کسی غریب کو مفت نہیں پڑھاسکتے.رحمانیت یہ ہے کہ جبکہ اپنےوقت کے ایک حصہ میں وہ اپنی معیشت کا سامان پیدا کرلیتے ہیں تو دوسرے وقت میں وہ بعض غرباء کو بغیر صلہ کی امید کے نفع پہنچادیں.ایک عالم اسی طریق پر اپنے علم کو خرچ کرے.ایک مالدار اپنا مال خرچ کرے اور یہ سمجھے کہ میں تو ایک سوراخ کے طور پر ہوں جس میں سے خدا ہاتھ ڈال کر دوسرے لوگوں کو دے رہا ہے.جو لوگ اس مقام پر پہنچ جائیں ان پر خدا کا فیضان پھر تیسری بار نازل ہوتا ہے اور اس دفعہ خدا کی رحمانیت ان کے لئے ظاہر ہوتی ہے.

Page 466

بندہ خدا کا مہمان گویا ایسے بندے خدا کے مہمان ہوتے ہیں اور وہ ہر منزل پر ان کا استقبال کرتا ہے جب انسان مالکیت کی منزل پر ہوتا ہے تو خدا مالکیت کی شکل میں آتا ہےاور کہتا ہے آئیے.جب رحیمیت کی منزل پر ہوتا ہے تو خدا رحیمیت کی شکل میں آتا ہے اور کہتا ہے آئیے.جب انسان رحمانیت کی منزل پر ہوتا ہےتو اللہ جلّ جلالہٗ رحمانیت کی صورت میں آتا ہے اور فرماتا ہےآئیے.رحمانیت کا مقام ایک نہایت ہی وسیع مقام ہے اس مقام پر کئی کئی باتیں انسان کو بتائی جاتی ہیں اور رحمانیت کے ساتھ جو ہدایت تعلق رکھتی ہے وہ سکھائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰن (الرحمٰن ۲،۳)رحمٰن نے قرآن سکھایا ہے.یعنی کلام الٰہی کا نزول صفت رحمانیت سے تعلق رکھتا ہے.اس مقام والا پیچھے نہیں ہٹتا.خدا تعالیٰ نئے نئے اخلاق اسے سکھاتا ہے اور نئے نئے ترقی کے سامان اسے دیتا ہے.رب العالمین بننا صفت رحمانیت کو حاصل کرنے پر جب بندہ پر خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت جلوہ کرتی ہے تو اس میں پھر ایک نیاجوش پیدا ہوتا ہے اسلئے وہ چاہتا ہے کہ اور اوپر چڑھےاس وقت اس کے لئے اگلی منزل آسان ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ آؤ اب مَیں رب العالمین کی صفت کا بھی جلوہ گاہ بنوں.رب کا کام جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں ماں باپ کے کام سے مشابہ ہوتا ہے.ماں باپ یہ نہیں کیا کرتے کہ دُودھ گھرمیں رکھ دیں کہ بچہ آپ تلا ش کرکے پی لے گا بلکہ وہ یہ کرتے ہیں کہ بچہ کو خود تعہّد سے دودھ پلاتے ہیں اور اگر وہ نہ پئے تو جبراً پلاتے ہیں.اسی طرح جب بندہ اس مقام پر آتا ہے تو لوگوں کے پیچھے پڑ پڑ کر انہیں ہدایت منواتا ہے اور اسی پر کفایت نہیں کرتا کہ صرف وعظ کردے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آتا ہے کہ آپؐ ایک دفعہ طائف میں تشریف لے گئے وہاں کے لوگوں نے آپ ؐپر پتھر پھینکے اور آپ ؐواپس آگئے آتے ہوئےرستہ میں ایک جگہ سستانے لگے باغ والے نے اپنے گلام کے ہاتھ کچھ میوہ آپؐ کیلئے بھیجا آپؐنے میوہ کی طرف تو کم ہی توجہ کی اس غلام ہی کو تبلیغ کرنے لگ گئے٭اور آپ ؐکا یہ ہمیشہ دستور تھا کہ جہاں مکہ کے لوگ جمع ہوتے آپؐوہاں چلے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے حج کیلئے جو لوگ آتے انکے خیموں میں تشریف لے جاتے اورانہیں تبلیغ کرتے اور اسطرح نہیں کہ کوئی مل گیا تو اسے تبلیغ کردی بلکہ آپؐ تلاش کرتےپھرتے اور ڈھونڈ کر انہیں حق پہنچاتے جس طرح ماں باپ بچےکو تلاش کرکرکے کھلاتے پلاتے *سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ ص ۶۲

Page 467

ہیں کہ بھوکا نہ رہ جائے.غرض اس صفت کو اپنےاندر پیدا کرنے کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو دُنیا کا باپ یا ماں فرض کرے اور لوگوں کے فائدے کا خود خیال رکھے اور خواہ لوگ اس کی بات نہ بھی مانیں تب بھی ان کے پیچھے پڑا رہے.جب انسان اپنے قلب کو ایسا بنا لیتا ہے تو ایسے آدمی کو ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم اس سے کچھ لے سکتے ہیں ان پر وہ جبر بھی کرسکتا ہے اور سزائیں بھی دے لیتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا جاتا ہے اور وہ اسی نسل کا باپ نہیں ہوتا جس کو سکھاتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کا بھی باپ ہوتا ہے.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی ہمارے باپ ہیں جس طرح کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے باپ تھے اس مقام کا انسان اپنی ہمدردی کو کسی مذہب کے آدمیوں سے محدود نہیں کرتا بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کا ہمدرد ہوتا ہے اور سب کا سچّا خیرا خواہ ہوتا ہے.رب العالمین کا کامل مظہر یہ وہ مقام ہے جس کا کامل اور اکمل مظہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپؐکے سوا اور کوئی نہیں.وجہ یہ ہے کہ رب العالمین کا کامل مظہر وہی ہوسکتا ہے جو پہلوں کی بھی تربیت کرے اور پچھلوں کی بھی اوریہ مقام سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ کے کسی کو حاصل نہیں.آپ ہی ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب آدم ابھی مٹی میں تھا اس وقت مَیں خاتم النبّین تھا٭.آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس لئے پہلوں کی تربیت کرنے والے نہیں کہ آپ نے براہ راست ان کو سکھایا بلکہ اس لئے کہ پہلے نبی اس لئے آئے تھے کہ لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نقطہ تک لے جائیں.پس رسول کریم ہی کامل طور پر رب العالمین کی صفت کےمظہر تھے اور یہ وہ درجہ ہے جس کا پانے والا الحمد کا مستحق ہوتا ہے اور اسی لئے رسول کریم کا نام محمدؐرکھا گیا کہ سب تعریفیں آپ میں جمع ہوگئیں اور یہ ناممکن تھا کہ بغیر محمدؐ نام کے خاتم النییّن نبی ہوتا پس آپ کا نام بھی آپ کے خاتم النییّن ہونے پر دلالت کرتا ہے.رب العالمین کا دوسرا ظل مسیح موعودؑ ہیں غرض رسول کریم صفات الٰہی کا کامل مظہر ہیں مگر مسیح موعودؑ بھی بوجہ *مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۱۲۷،۱۲۸

Page 468

اس کے کہ وہ آپؐ کا کامل ظل ہے آپ کےنُور کو حاصل کرکے ظلّی طور پر اس مقام کا مظہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا کہ مجھ پر ایمان لائے بغیرکوئی خدا تک نہیں پہنچ سکتا.گویا رسول کریم ؐکی اتباع کا صحیح راستہ آپ کو ہی معلوم تھا اور کسی کو نہیں آپ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے لوگوں کے لئے راہنما تھے کیونکہ مقام محمدؐی کی ترقی کا آخری نقطہ آپ تھے اور درمیانی اولیاؒء اُمّت محمدیہ کو آپ ہی کے نقطہ کی طرف لارہے تھے اور آپ پہلی قوموں کے لئے اس لئے بھی تربیت کرنے والے ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر ہی اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں کی پیشگوئیوں پورا کرکے ان کی سچائیوں کو ظاہر کیا اور آپ ہی کےذریعہ سے سب دنیا کے نبیوں کی تصدیق کرائی اور تعصب قومی کو دُور کرایا گیا آپ ہی نے کرشن اور رام چندر کی صداقت کو ظاہر کیا جس طرح کہ دوسرے نبیوں کی صداقت کو آپ نے ظاہر کیا.گو یہ اس وجہ سے آپ پر کُفر کافتویٰ بھی لگا لیکن جو کچھ ہے ظلّی ہے ورنہ حقیقی طور پر جو شخص اگلوں پچھلوں پر روشنی ڈالتا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی ہے.جو شخص اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اس پر اس مقام کی نسبت سے رب العالمین کی صفت نازل ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ تب یہی عالمین قرار دیدیا جاتا ہے اور خدا اس کا رب ہوجاتا ہے.جو شخص اس سے تعلق کرتا ہے خدا تعالیٰ کا کامل ربوبیت کا وہی مستحق ہوتا ہےاور جو اس سے قطع تعلق کرے وہ گویا خدا کے عالموں میں سے نکل جاتا ہے یعنی اس کی کامل ربوبیت نہیں ہوتی اور اس نکتہ میں کفر اور اسلام کا راز مضمر ہے.انتہائی مدارج گو مَیں نے یہ بتایا ہے کہ اس صفت کے کامل مظہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر یہ بات نہیں کہ اور کوئی اس کا مظہر نہیں ہے بلکہ حق یہ ہے کہ سب نبی ہی اس مقام پر پہنچے ہوئے ہیں ہاں سب کے درجے الگ الگ ہیں کوئی زیادہ پُرجلال مظہر ہے کوئی کم.ان مدارج کو طے کرنے کا علم کس طرح ہو اب یہ بات رہی کہ کس طرح معلوم ہو کہ انسان نے ان مدارج کو طے کر لیا ؟ اس کے لئے یادر کھنا چاہئے کہ جس طرح مدرسہ میں پڑھنے والے طالب علموں کو اپنی جماعت سے اوپر کی جماعت میں ترقی تب ملتی ہے جب وہ اس جماعت کے مضامین کو جس میں وہ ہوں اچھی طرح یاد کرلیں اسی طرح وہی شخص اگلی صفت کی طرف ترقی کرسکتا ہے جبکہ وہ پچھلی صفت پر اچھی طرح

Page 469

عامل ہوجائے.مگر جس طرح طالب علم کی ترقی اس لئے نہیں روکی جاتی کہ اسے ایک ایک نقطہ کیوں یاد نہیں اسی طرح بندہ اگر ایک صفت سے اچھی طرح مناسبت پیدا کرلیتا ہے تو گو اس میں بعض کمزوریاں ابھی ہوں اسے اوپر کی صفت کے حصول کی طاقتیں مل جاتی ہیں اور قلیل غلطیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے.اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پچھلے مضمون سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو مذکورہ بالا چاروں صفات پر باری باری عمل کرناچاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو سیر کا طریق ہے کہ الگ الگ منزلیں بنائی گئی ہیں ورنہ یوں انسان کو ہروقت ہی سب صفات کی مشابہت کی کوشش کرنی چاہئے ہاں ترقی کامل تبھی ہوگی اور اوپر کی صفات پر وہ تبھی پوری طرح کاربند ہوسکے گا جبکہ وہ نیچے کے درجہ کی صفات پر اچھی طرح عمل کرلے گا.نبی کی بد دعا اور مباہلہ ایک اور سوال ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ جب کہ نبی رب العالمین صفت کے مظہر ہوتے ہیں تو بد عا یا مباہلہ کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی خود بخود ایسا کبھی نہیںکرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسا کرتے ہیں.جیسےکہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ؐطائف میں گئے اور وہاں کے لوگوںنے آپ کو مارا اور آپ واپس آگئے تو پہاڑ کا فرشتہ آپؐ کے پاس آیا اور کہا اگر حکم ہو تو پہاڑ اکھاڑ کر ان لوگوں پر گرادوں مگر رسول کریم ؐنے فرمایا نہیں اور آپ نے دُعا کی کہ یا اللہ اس قوم کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں اسی طرح کہا یا اللہ ان کو ہلاک نہ کر شاید ان کی اولاد مسلمان ہوجائے.٭ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بعض بد دعائیں تو کی ہی مگر وہ سب خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت تھیں.مولوی عبدالکریم صاحب سنتاے ہیںکہ رات کو ایک دن حضرت صاحبؑ دعا مانگ رہے تھے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسےعورت دردزہ سے رو رہی ہوتی ہے جب مَیں نے غور سے سُنا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی گریہ کی آواز آرہی تھی.وہ دن طاعون کے تھے آپؑدعا فرمارہے تھے کہ الٰہی ! اگر ساری مخلوق مرگئی تو پھر تجھ پر ایمان کون لائے گا؟ پس جب نبی کہتے ہیں کہ فلاں تباہ ہوجائے تو خدا تعالیٰ کے حکم سے کہتے ہیں اور خدا کے حکم کے ماتحت بد دعا کرتے ہیں.پھر سوال ہوتا ہے کہ بد دعا تو خدا کے حکم سے کرتے ہیں مگر مباہلہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اسکے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ مباہلہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ جس کو مباہلہ کے لئے بلایا جاتا ہے وہ گمراہی میں *بخاری کتاب بدء الوحی باب اذا قال احدکم امین....

Page 470

حدسے زیادہ بڑھا ہوتا ہے اور یہ بات ربوبیت میں شامل ہے کہ ایک کی ہلاکت سے باقیوں کو بچایا جائے.جیسے ایک عضو اگر خراب ہو تو سارے جسم کو بچانے کے لئے اسے کاٹ دیا جاتا ہے.اور اس شبہ کا جواب کہ خدا تعالیٰ جو رب العالمین ہے وہ کیوں بعض وقت بد دعا کا حکم دیتا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ بعض دفعہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص گمراہی میں اسقدر بڑھ گیا ہے کہ اس کی دنیا کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اس کے اخروی عذاب کو لمبا کر رہی ہے اور واپس لوٹنے کا راستہ اس نے اپنے ہاتھ سے بالکل بند کردیا ہے تب اس کی ربوبیت چاہتی ہے کہ اسے اس دنیا سے رخصت کردے.تا اس کے گناہ اور زیادہ نہ ہوجائیں اور عرصہ عذاب ایسا نہ ہوجائے.وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.؁؁؁ ۱ ۲ (1903-1820)SPENCER HERBERTاردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد۱ صفحہ ۷۳۶مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷؁ء ۳ (1930-1848)BALFOUR ARTHUR JAMESمشہور برطانوی فلاسفر وسیاستدان.متعدد عہدوں پر فائز رہا.برٹش کنزرویٹوپارٹی میں ۵۰ سال تک اپنی پوزیشن بر قرار رکھی.۱۹۰۲؁ء تا ۱۹۰۵؁ء وزیر اعظم رہا.اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اعلان بالفور (۱۹۱۷؁ء) کےذریعہ فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنائے جانے کے مطالبہ کی حمایت کی.(دی نیو انسائکلو پیڈیا برٹینیکاجلد ۱ صفحہ ۷۵۷،۷۵۸) ۴

Page 471

تحفہ شہزادہ ویلز از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 472

Page 473

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِـسْمِ اللّٰـہِ الـرَّحْـمٰنِ الـرَّحِـیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالنّــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاصر ہمارے ملک معظّم کے شہزادہ اور مملکت برطانیہ کے ولی عہد! میں آپ کو اپنی جماعت کے تمام افراد کی طرف سے ان کے امام اور بانئی سلسلہ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ہندوستان میں آنے پر مبارک باد دیتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعتِ احمدیہ حکومتِ برطانیہ کی کامل وفادار ہے اور انشاءاللہ وفادار رہے گی.جماعت احمدیہ جس وقعت اور جس محبت اور جس پیار کی نظر سے تاجدار برطانیہ کو دیکھتی ہے اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو کسی کو نہایت عزیز اور محبوب رکھتے ہوں اور اس کے اور ان کے درمیان جدائی اور فراق کی ناقابل عبور خندق ہو جس کے عبور کرنے کا خیال بھی ان کےذہن میں نہ آسکتا ہو کہ اتنے میں وہ جس کی محبت ان کے دلوں پر نقش تھی اور جس کے ملنے کی انہیں اُمید نہ تھی اچانک خود ان کے پاس آپہنچے اور فراق کو وصل سے اور جُدائی کو لقاء سے بدل دے.شہزادۂ معظم! آپ جماعت احمدیہ کے قلبی تعلق کا کسی قدر اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ جب اس جماعت نے دیکھا کہ وہ کسی طرح بھی جناب کو اپنے مرکز میں نہیں بلا سکتی اور آپ کی ملاقات سے مسرور الوقت نہیں ہوسکتی تو اس کےسات ہزار سے زیادہ نمائندوں نے جو دسمبر کے آخر ہفتہ میں

Page 474

مرکز سلسلہ قادیان میں سالانہ جلسہ کےلئےجمع ہوئے تھے میری تحریک پر اس امر کا فیصلہ کیا کہ ان کی طرف سے ایک تحفہ جناب کے سفر ہندوستان کی تقریب پر جناب کی خدمت میں پیش کیا جائے اور یہ تحفہ اس قسم کا ہو جس قسم کا تحفہ کہ سلسلہ احمدیہ کے بانی نے جناب کی جدّہ مکرمہ ملکہ وکٹوریہ۱ کو بھیجا تھا اورانہوں نے کمال شوق سے اس کو قبول کیا اور اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا تھا.استجویز کےپیش ہونے پر غیرب اور امیر سب نے یک زبان ہوکر اس میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی اور ہر ایک کا دل اس فرھت سے بھرگیا کہ اگر وہ آپ کو اپنےگھر پر نہیں بلاسکتا تو کم سےکم اس تحفہ کےذریعہ سے وہ اپنے خلوص کی یاد ہمیشہ کے لئے آپ کے دل میں تازہ کرتا رہے گا.میرے مکرم شہزادہ ! یہ تحفہ ان چیزوں سے بنا ہوا نہیں جو زمین کی ہیں اور جن کے متعلق ڈر رہتا ہے کہ چوران کو چُرالے جائے یا زمین کے کیڑے اس کو کھا جائیں نہ یہ تحفہ ایسا ہے کہ جو آپ کے والد مکرم کےوسیع خزانوں میں ملتا ہو بلکہ یہ تحفہ ایسا نایاب ہےکہ اس وقت دنیا کے تمام بادشاہوں کے خزانے اس سے خالی ہیں اور بڑے بڑے بنکوں کی مجموعی دولت اس کے خریدنے سے قاصر ہے.اسے شہزادۂ عالی قدر ! یہ تحفہ ایسا نادر ہے کہ باقی اموال اور امتعہ کی طرح مرتے وقت اسے اسی دُنیا میں چھوڑ کر جانا نہیں پڑتا بلکہ یہ مرنے کے بعد بھی انسان کےساتھ جاتا ہے اور اس جہان میں نہیں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا ہے.اے شہزادہ ذی مرتبت ! پھر یہ ایسا تحفہ نہیں کہ مرنے والے کے ساتھ چلا جائے اور پچھلے ا س سے محروم رہ جائیں بلکہ یہ تحفہ اپنے اندر تقسیم در تقسیم کی خاصیت رکھتا ہےاور جس کے پاس یہ ہوتا ہے نہ صرف دونوں جہانوں میں اس کا ہی ساتھ دیتا ہے بلکہ اس کی اولاد اور پس ماندگان سے بھی علیحدہ نہیں رہتا اور باوجود تقسیم ہونے کے اس میں کمی نہیں آتی.اے شہزادہ والا شان! اس تحفہ کی یہ خاصیت ہے کہ یہ جس کے پاس ہو اس کادل مضبوط ہوجاتا ہے اور اس کے اندر آسمانی نور کا دہانہ آکر کُھل جاتا ہے اور وہ شخص ہر قسم کی تاریکی سے بچ جاتا ہے اور خدا کے فرشتے اس پر رحمت کے پروں کا آکر سایہ کرتےہیں اور اگر وہ پہاڑوں کو کہے کہ چلو تو وہ چلنے لگتے ہیں اور اگر وہ دریاؤں کو کہے کہ مجھے اپنے اوپر چلنے دو تو وہ اسے چلنے دیتے ہیں اوراگر بیماروں کو کہے کہ اچھے ہوجائو تو وہ اچھے ہوجاتے ہیں اور دلوں کے اندھے اس کے کہنے کے مطابق دیکھنے لگتے ہیں اور روحانی مردے اس کے حکم پر زندہ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں.اور

Page 475

بے کیف پانی اس کے اشارہ پر شراب سے زیادہ دماغ کو مست کرنے والا ہوجاتا ہے.یہ تحفہ کیا ہے؟ یہ وہی ہدایت ہے جو خدا کے برگزیدوں کی معرفت آدمؑسے لے کر اب تک دنیا کو ملتی رہی ہے اور جس کےذریعہ سے نوحؑنے اپنے دشمنوں پر فتح پائی اور موسٰی نے فرعون مصر کوغرق کیا اوربنی اسرائیل کو مصر کی سرزمین سے نکال لایا اور دائودؑنے جنگل کے درندوں اور ہوا کے پرندوں کو اپنا ہمنوا بنایا اور یُسوع مسیحؑنے روح القدس کو اپنی طرف کھینچااور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ السلام نےجلا وطن ہونے کے بعد اپنے مخالفوں کو زیر کیا اور طاقت پاکر اپنے دشمنوں کو معاف کیا اور بادشاہ ہوکر غریبوں ،مسکینوں اور ناداروں کی سی زندگی بسر کی اوراپنی عمر کو ان کی خدمت میں صرف کردیا جو دنیا میں چھوٹے سمجھے جاتے تھے مگر خدا کی نظر میں ایسے ہی معزز تھے جیسے کو زبردست سے زبردست بادشاہ.اے مکرم شہزادہ ! مگر پیشتر اس کے کہ مَیں اس تحفہ کو آپ کی خدمت میں پیش کروں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مَیں آپ کو بتادوں کہ اس تحفہ کے پیش کرنے والے نہ تو کوئی معمولی آدمی ہیں اور نہ ان کا اس تحفہ کو پیش کرنا کسی دنیوی غرض کو مد نظر رکھ کر ہے.کیونکہ یہ تحفہ اس جماعت کی طرف سے پیش ہوا ہے جو اپنے طریق عمل سے اس امر کو ثابت کرچکی ہے کہ وہ اس وقت تمام حکومت برطانیہ میں سب سے زیادہ وفادار ہے اور سب سے زیادہ بے غرض ہے.اگر عزت اور وقار کا صرف دولت ہی معیار نہیں ہے بلکہ صادق اور راست باز دل بھی کوئی قدر رکھتا ہے تو پھر میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے والد مکرم کی رعایا میں سے سب سے زیادہ معزز اور مکرم جماعت کی طرف سے یہ تحفہ آپ کی خدمت میں پیش ہوتا ہے.بیشک اس کی جبیں سونے اور چاندی کے سکّوں سے خالی ہیں مگر کون کہہ سکتا ہے کہ انسان صرف سونے اور چاندی سے ہی مادار ہوتا ہے؟ انسان خدا کے کلام سے بھی بلکہ خدا کے کلام سے ہی مالدار بنتا ہے.بے شک اس کے نام معزز القاب سے خالی ہیں مگر کیا بندوں کے دئیے ہوئے خطابوں سے خدا کے دئیے ہوئے القاب زیادہ عزت نہیں رکھتے بلکہ حقیقتاً تمام عزتوں کا موجب وہی نہیں ہوتے؟ ہاں.بے شک اس کے قبضہ میں وسیع جائدادیں اور زرخیز علاقے نہیں ہیں مگر خدا پر ایمان لانے والے کے دل سے زیادہ وسیع کون سا ملک ہے؟ اور خدا تعالیٰ کے عشق میں چُور ہونے والے کے دماغ سے زیادہ کونسا زرخیز علاقہ ہے؟ بیشک جو تحائف خوش آمدید آپ کو پہلے مل چکے ہیں وہ بہت بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے تھے مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ جو آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹے ہیں وہ

Page 476

ان بڑے لوگوں سے بڑے ہیں.اے شہزادۂ مکرم! یہ تحفہ اس جماعت کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہورہا ہے جس نے تیس سال سے زیادہ عرصہ تک آپ کی دادی آنجہانی علیہا حضرت ملکہ وکٹوریہ اور ان کے بعد آپ کے دادا ٓنجہانی شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم اور پھر آپ کے مکرم و معظم والد اپنے موجودہ بادشاہ کی وفاداری اور اطاعت میں اپنوں اور بیگانوں سے گونا گوں تکالیف اُٹھائی ہیں اور اس کے بدلہ میں وہ حکومت سے کبھی بھی کسی صلہ کی طالب نہیں ہوئی.اس جماعت کا شروع سے یہ دستور العمل رہا ہے کہ حکومت وقت کی فرمانبرداری کرے اور ہرایک قسم کے فتنہ اور فساد سے بچے اور اس کے بانی نے ان شرائط میں جن پر عمل کرنے کا وعدہ کرنے پر ہی کوئی شخص اس سلسلہ میں شامل ہوسکتا ہے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ حکومت وقت کی پوری فرمانبرداری کی جائے اور بغاوت کے تمام راستوں سے اجتناب کیاجائے.چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں اس جماعت کے افراد نے ہمیشہ فتنہ اور فساد سے اپنےآپ کو الگ رکھا ہے اوربہت سے دوسرے لوگوں کے لئے بھی نمونہ بنی ہے.آج سے کچھ سال پہلے مسلمانوں میں سے وہ طبقہ جو علماء کے قبضہ میں تھا گو وہ عملاً امن پسند تھا اور گورنمنٹ کے راستہ میں کسی قسم کی رکاوٹیں نہ ڈالتا تھا مگر علماء کی تعلیم کے ماتحت وہ اس امر کو بالکل پسند نہیں کرتا تھا کہ کوئی شخص عقیدۃً اس امر کو تسلیم کرے کہ کسی غیر مذہب کی حکومت کے نیچے مسلمان اطاعت و فرمبرداری کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور چونکہ جماعت نہ صرف عملاً ہر قسم کے فساد کے طریقوں سے دُور رہتی تھی بلکہ عقیدۃً بھی حکومت وقت کی فرمانبرداری کو ضروری جانتی تھی اور دوسروں کو بھی یہی تعلیم دیتی تھی اس بات کو نہایت بُرا منایا جاتا تھا اوربعض نادان علماء یہ خیال کرتےتھے کہ اس قسم کی تعلیم کی اشاعت سے مسلمانوں کے ہاتھ سے وہ حربہ نکل جائے گا جس کےذریعہ سے وہ اسلام کی زندگی کو بچائے ہوئے ہیں اور جس کے سہارے پر ہی آئندہ کی ترقیات کی اُمیدیں اورانہوں نے فتویٰ دیدیا تھا کہ اس جماعت کے افراد کے ساتھ بولنا یا ان سے سلام کرنا یا ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا بالکل منع ہے بلکہ جو شخص ان کے ساتھ ہاتھ بھی ملائے وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاجائے گا جو ایک غیر مسلم سےہونا چاہئے.عوام الناس کا ایک حصہ چونکہ اس قسم کی جوش دلانےوالی باتوں سے متأثر ہو جایا کرتا ہے یہ حربہ اس جماعت کے خلاف ایک حد تک کامیاب ثابت ہوا یعنی عوام الناس کے جوش اس جماعت کے

Page 477

خلاف بھڑک اُٹھے اور اس کے افراد کو طرح طرح سے دُکھ دئیے گئے اور تکالیف پہنچائی گئیں اور وہ گھروں سے نکالے گئے اور عدالتوں میں ان کے خلاف جھوتے مقدمات قائم کئے گئے اوران کے نکاح جبراً توڑ دئیے گئے اور بعض جگہ ان کی عزیز اولادیں ان سے چھین لی گئیں اور مارپیٹ کی قسم سے بدنی تکالیف بھی بہت جگہ پر پہنچائی گئیں اوران کی عزتوں پر بھی حملے کئے گئے مگر انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے اور اسلام کی تعلیم کے قائم کرنے کے لئے یہ سب کچھ برداشت کیا لیکن اس گورنمنٹ کے خلاف جو گو ایسا مذہب رکھتی تھی جسے اس جماعت کے مذہب کے ساتھ سب سے زیادہ اختلاف تھا لیکن سیاستاً ایک امن پسند حکومت تھی کسی قسم کی بدی اپنے دل میں رکھنی پسند نہ کی اور ہمیشہ اس کی نیکیوں کا اظہار کیا اور اس کی کمزوریوں سے چشم پوشی کی تاد ُنیا میں امن قائم ہو اور وہ غرض پوری ہو جس کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ دنیا میں تشریف لائے تھے یعنی دُنیا میں امن قائم کرکے سب قوموں کو یکجا جمع کیاجائے.امن پسندی اور حکومت کی وفاداری کی تعلیم کے نتیجہ میں صرف اسی قدر اس جماعت نے دُکھ نہیں اُٹھایا بلکہ جہاں اس کے مخالفوں کو طاقت حاصل تھی وہاں اس سے بہت زیادہ دردناک سلوک اس سے کیا گیا.چنانچہ افغانستان میں ہمارے دو آدمیوں کو صرف اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ بانئی سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کے مطابق مذہبی جنگوں کے معتقد نہیں تھے.ان میں سے ایک صاحب افغانستان کی تاجپوشی کی رسم انہوں نے ہی ادا کی تھی.ان کو امیر حبیب اللہ خان صاحب نے صرف اسی جُرم میں قتل کروا دیا اور قتل بھی کسی معمولی طریق سے نہیں بلکہ چاروں طرف آدمی کھڑے کرکے پتھر مار مار کر ان کو شہید کیا.اس دردناک واقعہ کے متعلق اے مارٹن FRANK A.MARTINجو حکومت افغانستان کے انجینئر انچیف کے عہدہ پر ایک لمبے عرصہ تک متعین رہے ہیں.اپنی کتاب UNDER THE ABSOLUTE AMIR’’انڈر دی ابسولیوٹ امیر‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:- ’’چونکہ یہ مولوی صاحب (صاحبزادہ عبداللطیف صاحب) تعلیم دیتے تھے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ مسیحیوں کو بھی بھائی سمجھیں اوران کو واجب القتل کافر نہ خیال کریں اس لئے اگر ان کی تعلیم کو مان لیاجاتا تو امیر کا بڑا ہتھیار یعنی مذہبی جنگوں کا اعلان جسے وہ نگریزوں اور روسیوں کے خلاف استعمال کرسکتا تھا باطل ہوجاتا تھا پس جب امیر کو

Page 478

مولوی صاحب کا حال معلوم ہوا تو اس نے ان کو واپسی کا حکم دیا جس پر وہ ہندوستان سے واپس آگئے اور راستہ میں نئے عقیدے کی تعلیم دیتے چلے آئے مگر جونہی وہ اندرون ملک میں آگئے ان کو قیدکرلیا گیا.‘‘ ۴ مسٹر مارٹن لکھتے ہیں کہ جب ملاّ نوں نے ان کے سزا دینے کی کوئی وجہ نہ پائی تو ’’امیر نے پھر کہا کہ اس آدمی کو ضرور سز ا ملنی چاہئے اورپھر ان کو علماء کے پاس بھیجا گیا اور کہا گیا کہ وہ ایک کاغذ پر جس پر یہ مضمون لکھا ہو کہ وہ مُرتد ہوگیا ہے اس لئے والب القتل ہے دستخط کردیں.پھر بھی علماء میں سے اکثر نے یہی کہا کہ وہ مذہب کے خلاف کسی جُرم کے ارتکاب کے الزام سے بری ہے لیکن دو مُلاّں جو سردار نصر اللہ خان کے دوست تھے اوران کو اس نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا انہوں نے ان کی موت کا فتویٰ لکھ دیا اوران دو مولویوں کے فتوے کے بناء پر امیر نے ان کی موت کا حکم دیا اور وہ سنگسار کئے گئے.‘‘۵ مسٹر مارٹن مولوی صاحب کی شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ان کےمتبعین بڑی تعداد میں تھے اوربڑے طاقتور لوگ ان میں شامل تھے.‘‘۶ گو کچھ عرصہ کے بعد ان تکالیف میں ایک عرصہ کے لئے کمی آگئی تھی مگر جب ہندوستان میں سیاسی تحریک کی ابتداء ہوئی اور وزیر ہند صاحب کے آنے پر ہماری جماعت نے بڑے زور سے اس امر کو پیش کیا کہ برٹش گورنمنٹ کا استحکام اس ملک کیلئے ایک برکت ہے تو پھر اس جماعت کے خلاف جوش پیدا ہوگیا اور ہمیں اس کی پہلے ہی سے امید تھی اور مَیں نے وزیر ہند صاحب سے بموقع ملاقات کہہ دیا تھا کہ آپ دیکھیں گے کہ اس کے بعد ہماری مخالفت ملک میں بہت بڑھ جائے گی.اس دفعہ لوگوں کے جوش نے ایک اور صورت اختیار کی بعض علاقوں میں بچوں کو سکولوں سے روک دیا گیا اور وہ تعلیم کو چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ رہنے پر مجبور ہوگئے اور ایک جگہ تو ایک احمدی عورت کی لاش قبر میں سے نکال کر کتوں کےآگے ڈال دی گئی اوراگر فوراً مدد نہ پہنچ جاتی تو قریب تھا کہ اس کو کُتّے کھاجاتے.اور اسوقت سے یہ سلسلہ مخالف بڑھتا ہی چلا گیا مگر اس پر بھی اس جماعت نے اپنے امن پسند رویہ کو ترک نہ کیا اور مارشل لاء کے دنوں میں جبکہ نہایت خطرناک صورت پیدا ہوگئی تھی.اوربعض جگہ حکام سرکاری بھی شہروں کو چھوڑ کر محفوظ جگہوں میں جا بیٹھے تھے اس کمزور جماعت نے نہ صرف خود گورنمنٹ کی وفاداری

Page 479

کی بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تحرک کی اورایک معقول تعداد اس کےذریعہ سے اس فتنہ سے الگ رہی اور گو ہر طرح اس کے افراد کو مفسدوں نے نقصان پہنچایا مگر اس نے اپنے رویہ کو نہ بدلا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں اس جماعت کے خلاف اوربھی جوش بڑھ گیا اوربعض علاقوں میں یہ فیصلہ کردیا گیا کہ نہ احمدیوں کو رہنے کے لئے مکان کرایہ پر دئیے جائیں.نہ کھانے کے لئے اناج وغیرہ مول دیا جائے نہ کنووں پر سے ان کو پانی لینے دیا جائے اورنہ ان کی دکانوں سے کوئی چیز لی جائے.دھوبی ان کےکپڑے نہ دھوئیں ،سقّے ان کے پانی نہ بھریں اور خاکروب ان کے گھروں کی صفائی نہ کریں اور اس فیصلہ پر اس سختی سے عمل کیاگیا کہ بعض جگہ پر کئی کئی دن چھوٹے چھوٹے بچوں کےلئے بھی پینے کو پانی نہ ملا اورکھانے کو اناج میسر نہ آیا.مگر پھر بھی اس جماعت نے امن پسندی کے راستہ کو ترک نہ کیا اوراپنی بے لاگ وفاداری کے طریق سے سرِ مُوادھر ادھر نہ ہوئی اوراب تک مختلف طریقوں سے دُکھ دی جاتی ہے مگر ملک معظم کی حکومت کے استحکام کے لئے ہر ممکن طریق سے کوشش کرتی چلی جاتی ہے اور انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی.پس اے شہزدہ والاجاہ! یہ تحفہ اس جماعت کی طرف سے آپ کو سامنےپیش کیا جاتا ہے جس نےجناب کے آباء کے تخت کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرکے اپنی وفاداری کو روز روشن کی طرح ثابت کر دکھایا ہے اور خون کے حرفوں کے ساتھ اُفق آسمان پر اس کی سنجیدگی اور صداقت اور خلوص کی تصدیق لکھی ہوئی موجود ہے.پس ایسی جان نثار اور وفادار رعایا کا حق ہے کہ وہ آپ سے درخواست کرے کے اس کے اس تھفہ کو قبولیت کا شرف عطا فرمایا جائےاور صرف رسماً ہی قبول نہ کیا جائے بلکہ کم سے کم ایک دفعہ شروع سے لے کر آخر تک جناب اس کو ملاحظہ فرمائیں اوراپنے مکرم والد کی خدمت میں بھی اس کو پیش کریں اوران کے سامنے بھی اس جماعت کی یہ درخواست پیش کردیں کہ وہ بھی اپنے قیمتی وقت کا ایک حصہ اس کے ملاحظہ کے لئے نکال کر اس کو شروع سے آخرتک ملاحظہ فرمائیں تا خدا تعالیٰ ان کو اسی طرح دین کی بادشاہت بھی عطا فرماوے جس طرح دُنیا کی بادشاہت ان کو عطا کی ہے اور اسی طرح ان کی روح کو بھی بزرگی دے جس طرح ان کے جسم کو بزرگی دی ہے.اس مؤدبانہ درخواست کے بعد مَیں تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے عموماً اوران افراد سلسلہ کی طرف سے خصوصاً جنہوں نے اس تحفہ کے پیش کرنے میں حصہ لیا ہے وہ تحفہ جناب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جس سے بہتر کوئی چاندی یا سونے کا تحفہ نہیں ہوسکتا.

Page 480

ہمارا تحفہ اور وہ یہ خوشخبری ہے کہ وہ جس کی انتظار مسیحی اور اسلامی دنیا یکساں کر رہی تھی اور جس کی آمد کے لئے بڑے اورچھوٹے چشم براہ تھے اور بہت تھے جو حسرت سے آسمان کی طرف نظر اُٹھاتے تھے اور سرد آہوں کے ساتھ اس امر کی خواہش ظاہر کرتے تھے کہ کاش! وہ ان کی زندگیوں میں نازل ہوکہ وہ اس کی دیدار سے مشرف ہوں وہ آگیا ہے اور اس نے اپنےجلال اوراپنے نُور سے دُنیا کو روشن اور منور کردیا ہے.مگر وہی اس کی آمد سے فائدہ اُٹھاتے ہیں جو سمجھنے اور بُوجھنے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں تا کہ وہ جو نوشتوں میں لکھا تھا پورا ہو.’’کہ تم کانوں سے تو سنو گے مگر سمجھو گے نہیں اور آنکھوں سے دیکھو گے پر دریافت نہ کروگے کیونکہ اس قوم کا دل موٹا ہوا اور وے اپنے کانوں سے اونچا سنتے ہیں اور انہوں نے اپنی آنکھیں موندلیں تا ایسا نہ ہو کہ وے اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور کانوں سے سُنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لاویں اور مَیں انہیں چنگا کروں.‘‘ (متی باب ۱۳ -آیت ۱۴،۱۵ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ) وہ جو خدا کی بادشاہت سے دُور رہنا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ خدا کی مقدس کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوگا اور ہم تو اس وقت تک کسی کو نہیں مانیں گے جب تک کہ وہ فرشتوں کے ساتھ بادلوں میں سے اُترتا ہوا دکھائی نہ دے کیونکہ کہا گیا تھا کہ اب آدم کو لوگ بادلوں میں سے بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ اُترتا ہوا دیکھیں گے اور وہ اپنے آگے فرشتوں کو بھیجے گا.(مرقس باب ۱۳.آیت ۲۶)٭پس جب تک ہم اسی طرح ہوتا ہوا نہ دیکھیں کسی پر ایمان نہ لائیں گے تا نہ ہو کہ ہم اپنے ایمانوں کو ضائع کردیں اوراپنے یقین کو صدمہ پہنچائیں.

Page 481

مگر افسوس ! کہ مسیحؑ کے کلام پر غور نہ کیا اور جو کچھ اس نے تمثیلوں میں سمجھایا تھا اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی اور اس پر ایمان لاتے ہوئے اس کے منکروں کی طرز اختیار کی.اس نے تو خود سمجھا دیا تھا کہ ’’ کوئی آسمان پر نہیں گیا.سوا اس شخص کے جو آسمان پر سے اترا.‘‘ (یوحنا باب ۳ آیت نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعیہ ۱۸۷۰ء) پھر ان لوگوں نے کیونکر جانا کہ وہ جو ناصرہ میں پیدا ہوا وہ اس جسم کے ساتھ آسمان پر گیا اور دوبارہ اس جسم کے ساتھ آسمان پر سے اُترے گا؟ یقیناً وہ اسی طرح آسمان پر گیا جس طرح وہ اتر اتھااور دوبارہ بھی اس نے اسی طرح آنا تھا جس طرح کہ وہ پہلی دفعہ آیا تھا.ہر ایک جو ٹھوکر کھاتا ہے افسوس کے قابل ہےمگر اس کی حالت بہت ہی زیادہ قابل افسوس ہے جو دوسرے کو ٹھوکر کھاتے ہوئے دیکھتا ہے اورپھر نہیں سنبھلتاکیونکہ پہلا کہہ سکتا تھا کہ مَیں بے خبری میں گرا کیونکہ اس نے اپنے اگلے کو گرتے دیکھا اور پھر بھی نہ سنبھلا اور وہیں قدم مارا جہاں پہلے نے مارا تھا اور ٹھوکر کھائی تھی.پس یہ زیادہ سزا کا مستحق ہوگا کہ بات کے ظاہر ہوجانے پر بھی اس نے سبق حاصل نہ کیا.کیا ملا کی نبی کی کتاب میں نہ لکھا تھا کہ ’’دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر مَیں الیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا.‘‘ (ملا کی باب ۴ آیت ۵نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) پھر کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ایلیا نبی آسمان سے نازل نہ ہوا بلکہ زمین پر یوحنا کی شکل میں ظاہر ہوا اورانہوں نے جو اپنے دلوں میں کجی رکھتے تھے اس کے سبب سے ٹھوکر کھائی اور مسیحؑپر ہنسی ٹھٹھا کیا اور کہا کہ اگر تُو مسیح ہے تو الیاس کہاں ہے جس کا مسیح سے آنا ضروری تھا بلکہ خود اس کے شاگردوں تک نے اس سے پوچھا کہ ’’پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ پہلے الیاس کا آنا ضرور ہے.‘‘ (متی باب ۱۷ آیت ۱۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) کیونکہ خدا کے راز تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب ان کے ظاہر ہونے کا وقت آجاتا ہے اورانہی پر ظاہر ہوتے ہیں جن پر خدا کے علوم کا دروازہ کھولا جاتا ہے.چنانچہ مسیح نے لوگوں کو بتایا کہ الیاس

Page 482

جو آنیوالا تھا یوحنا ہی ہے چاہو تو قبول کرو.پس وقت پرظاہر ہوا کہ آسمان پر سے الیاس کے آنے سے مراد یہی تھی کہ یوحنا جیسا کہ فرشتہ نے اسکی پیدائش سے بھی پہلے بتا دیا تھا مسیح کے آگے الیاس کی طبیعت اور قوت کے ساتھ چلے گا‘‘ (لوقا باب۱ آیت ۱۷)٭پھر لوگوں کو کیا ہوا کہ خدا کے نوشتوں میں آسمان پر سے آنے کا محاورہ پڑھ کر اور خود مسیحؑسے اسکی تشریح سن کر ان الفاظ سے ٹھوکر کھاتے ہیں کہ مسیح آسمان پر سے آئیگا.کیا خدا کے فرشتہ نےزکریا سے نہ کہہ سیا تھا کہ الیاس کے آسمان پر سے آنے سے مراد ایک اور برگزیدہ شخص کا اسی کی طبیعت اور اسکی قوت کے ساتھ آنا تھا اور کیا خود مسیحؑنے نہ فرما دیا تھا کہ الیاس کا آسمان سے آنا یہی تھا کہ یوحنابپتسمہ دینے والا اسکی خُوبُو کے ساتھ آئے ؟اور کیا نہ کہا گیا تھا کہ جس کسی کے کان سننے کے ہوں وہ سُنے مگر افسوس ! کہ لوگوں نے پھر بھی نہ سُنا اورپھر بھی اسی دھوکے میں پڑے جس میں مسیح ؑکی آمد اوّل کے وقت فقیہی اور فریسی پڑے تھے اور سمجھا کہ مسیح واقع میں آسمان سے اُترے گا.کیا وہ لوگ جو مسیح ؑکے آسمان پر سے اُترنے کے منتظر ہیں انہوں نے مقدس نوشتوں کی ان پیشگوئیوں پر بھی نظر نہ کی جن میں مسیحؑ کی آمد ثانی کی خبر دی گئی تھی؟کیا انہوں نے پڑھا نہ تھا کہ مسیحؑ نے کہا کہ:- ’’خبر دار کوئی تمہیں گمراہ نہ کرے کیونکہ بہتیرے میرے نام پر آویں گے اور کہیں گے کہ مَیں مسیح ہوں اوربہتوں کو گمراہ کریں گے‘‘.(متی باب ۲۴ آیت ۵ ) اگر فی الواقع اس نے آسمان پر سے ہی آنا تھا تو اس نے کیوں کہا کہ بعض نشانوں سے دھوکا نہ کھانا جب تک دوسرے بھی پورے نہ ہوجائیں؟ اگر اس نے آسمان پر سے اُترنا تھا تو کیا وہ یوں نہ کہتا کہ وہ زمین پر پیدا ہوں گے اور مَیں تو آسمان پر سے آئوں گا اس لئے کسی کو دھوکا لگ ہی نہیں سکتا؟ وہ کیوں ان جھوٹے مسیحوں کے دعویٰ پر صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے؟ اورانتظار کا حکم دیتا ہے؟ اورنہیں کہتا کہ جو آسمان سے آئے اسے قبول کرو اورجو نہ آئے اسے قبول نہ کرو ؟اور ایسے بیّن نشان کے ہوتے ہوئے اور کوئی نشان کیوں بتاتا ہے؟پھر اگر مسیحؑکی یہی تعلیم تھی کہ وہ آسمان پر سے ظاہر ہوگا تو شاگردوں نے اس سے کیوں پوچھا کہ تیرے آنے کا نشان کیا ہوگا؟ کیا مسیحؑ کے اانے کا یہ کم نشان تھا کہ وہ آسمانوں پر سے فرشتوں کی فوج سمیت آئے گا؟ اور کیا اس طرح آنے والے کے متعلق لوگ دھوکا کھاسکتے تھے؟ بات یہی ہے کہ مسیح علیہ السلام تمثیلوں میں کلام کرنے کےعادی تھے اوران کے کلام کا یہی مطلب تھا کہ ان کی آمد ثانی اسی رنگ میں ہوگی

Page 483

جس طرح ایلیا کی آمد ثانی تھی یعنی ان کی طبیعت اوران کی قوت کے ساتھ ایک شخص ظاہر ہوگا اور ایسا ہی ہوا.جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہوں دیکھے اور جسکے کان سننے کے ہوں سنے تا ایسا نہ ہو کہ جس طرح یہود نے ظاہر لفظوں پر جاکر ایک نادر موقع کو ہاتھ سے جانے دیا اور اب تک انتظار کی تکلیف برداشت کر رہے ہیں اسے بھی انتظار اور حسرت کے سوا کچھ میسر نہ آئے اور خدا کی بادشاہت کے دروازے اس پر بند کردئیے جاویں.اے ولی عہد! اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے دل کو حق کے قبول کرنے کے لئے کھول دے! جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ آنے والے نےمسیح علیہ السلام کی طبیعت اوران کی قوت میں ظاہر ہونا تھا نہ کہ خود مسیح علیہ السلام نےآسمان سےاُترنا تھا.پس ہمیں آنے والے مسیحؑ کے پہچاننے کے لئے اس ہوشیار غوطہ خور کی طرح جو ہر قسم کے بندھنوں اور روکوں کو دُور کرکے سمندر میں غوطہ مارتا ہے تا موتی نکالے(نہ کہ ظاہر میں آسمان کی طرف تکتا ہے کہ اس کی طرف موتیوں کی بارش کی جائے اور دل سے آسمانی قوانین کا منکر ہوتا ہے) پیشگوئیوں کے الفاظ میں تدبر کرنا چاہئے اوران کے صحیح مطلب کو سمجھنے اوران سےمسیح کی شناخت کے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا نہ ہو کہ جب اس کے آنے کی خبر ہو تو ہم ان عورتوں کی طرح جنہوں نے اپنے ساتھ تیل نہ رکھا تھا اِدھر اُدھر تیل کی تلاش میںپھرتے رہیں اور دولہا اپنے انتظار میں چوکس بیٹھنے والی کنواریوں سمیت محل میں داخل ہوجائے اور اس کے دروازے ہمارے لئے بند کرئیے جائیں اور ہمارے لئے صرف رونا اور دانت پیسنا ہو.(متی باب ۲۵.آیات ۱تا ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) وہ پیشگوئیاں جو حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی آمد ثانی کے متعلق بیان فرمائی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بعثت اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کہ یروشلم میں اس مکروہ چیز کی قربانی نہ کی جائے جس کی کراہت یہود میں اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ وہ اس کا نام بھی لینا پسند نہ کرتے تھے اور اس سےانہوں نے یہ جتا دیا تھا کہ کسی قریب کے زمانہ میں ان کی بعثت مقدر نہیں بلکہ ایک بعید زمانہ میں مقدر ہے.اس وقت تک اگر کوئی مسیحیت کا دعویٰ کرے تو حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ جھوٹا ہوگا اور تم اس کو قبول نہ کیجیو.مگر جبکہ قوموں پر قومیں چڑھیں اورطاعون دنیا میں پھیلے اور لڑائیاں بکثرت ہوں اور زلزلے آویں اور قحط لوگوں کی زندگیوں کو بد مزہ کردیں اور فساد دنیا میں پھیل جائے اور اس کے ساتھ سُورج اور چاند بھی اندھیرے ہوجائیں اور آسمان سے ستارے گریں اور آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں تب ابن آدم کا نشان آسمان پر ظاہر ہوگا اور وہ جلال کے ساتھ

Page 484

آسمان سے اُترے گا.اب ہر شخص جو ان علامات پر غور کرے گا معلوم کرلے گا کہ یہ سب کچھ واقع ہوگیا.طاعون بھی پڑی اور ایسی پڑی کہ اس سے پہلے دنیا میں کبھی ایسی سخت ہلاک کردینے والی طاعون اور اس قدر وسیع علاقہ میں نہ پڑیں تھی.زلزلے ایسے سخت آئے کہ ان کی نظیر کسی پچھلے زمانہ میں نہیں ملتی.قحط باوجود نہروں کے جاری ہونے اور ریل اور دُخانی جہازوں کے نکل آنے کے ایسے سخت پڑے ہیں کہ دنیا کی زندگی کو انہوں نے بد مزہ کردیا ہے.روز بروز اجناس مہنگی ہی ہوتی چلی جارہی ہیں.فساد اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ بھائی بھائی کو نہ صرف پکڑواتا بلکہ اس پکڑے جانے خوش ہوتا ہے اور یہ سب علامیں ایسی وضاحت سے پوری ہوگئی ہیں کہ ان کے متعلق کسی کو بھی شبہ نہیں.ہاں سورج اورچاند کے اندھیرے ہونے اور ستاروں کے گرنے اور آسمانی قوتوں کے ہل جانے کے نشانات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا ابھی پورے نہیں ہوئے.مگر ہر ایک جو آسمانی نوشتوں پر فکر کرنے کا عادی ہے اور خدا کے قانون کو بھی سمجھتا ہے جانتا ہے کہ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں؟ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر سُورج واقعہ میں اندھیرا ہوجائے گا تو پھر اس دُنیا میں بسنے کی انسان کے لئے کوئی صورت نہ ہوگی اس کی زندگی سورج کی روشنی پر منحصر ہے اور سورج کے اندھیرے ہوجانے سے اس دنیا پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور اسی طرح اگر ستارے گر جائیں تو ساتھ ہی یہ دُنیا بھی تباہ ہوجائے کیونکہ یہ تمام عالم ایک دوسرے سےپیوستہ ہے اور ایک کا قیام دوسرے کے قیام کا موجب ہے اور اگر آسمانی قوتیں ہلجائیں تو پھر تو انسان چھوڑ فرشتوں کے لئے بھی کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا.مگر حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ابن آدم نیکو کاروں کو دنیا کی میراث سونپ دے گا اور شریروں سے حکومت چھین لےگا لیکن سورج چاند کے فی الواقع اندھیرا ہوجانے اور ستاروں کے گر جانے سے تو دنیا ہی تباہ ہوجاتی ہے اور مسیحؑکا نزول اور نیکو کاروں کا دنیا کی میراث لینا بالکل ناممکن ہوجاتا ہے.پس ضرور ہے کہ جس طرح آسمانی نوشتوں کا قاعدہ ہے اس پیشگوئی کے الفاظ کے نیچے کوئی اور مطلب پوشیدہ ہو اور وہ یہی ہے کہ اس زمانہ میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور آسمان سے کثرت سے شہب گریں گے کہ وہ بھی عُرف عام میں ستارے ہی کہلاتے ہیں اور مذہبی لیڈروں کا اثر اپنے مقتدائوں پر سے کم ہوجائے گا مذہبی علم ادب میں آسمانی طاقتوں سے مذہبی رہنما مراد ہوتے ہیں.بیشک یہ علامتیں بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ سورج اور چاند کو تو ہمیشہ ہی گرہن لگتا ہے

Page 485

اور شُہب بھی ہمیشہ ہی گرتے ہیں اور مذہبی رہنمائوں کا اثر بھی بار ہا کم ہوچکا ہے.مگر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں بہت بڑی علامتیں ہیں کیونکہ گو انجیل میں جو حضرت مسیحؑ سے ایک لمبا زمانہ بعد لکھی گئی ہے اس پیشگوئی کی تمام تفصیل کا پتہ نہیں لگتا لیکن اسلامی روایات میں اس زمانہ کے سورج اور چاند گرہن کی نسبت ایک شرط بتائی گئی ہے جو مسیح ؑکے زمانہ کے گرہن کو ایک خصوصیت بخشی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ گرہن چاند کے مہینوں میں سے رمضان میں لگیں گے اور چاند گرہن تو تیرھویں کو لگے گا اور سورج گرہن اُٹھا ئیسویں کو اور یہ نشان جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے کسی مدّعی رسالت کے زمانہ میں ظاہر نہیں ہوا.لیکن اس زمانہ میں جبکہ مسیح ؑکی آمد کی دوسری علامات پوری ہوگئی ہیں یہ بھی پوری ہوگئی ہے اور ۱۸۹۴ءکے رمضان میں بعینہٖ اسی طرح ہوا.یعنی تیرہویں شب کو چاند گرہن ہوا اور اٹھائیسویں کو سورج گرہن ہوا اور نہایت مکمل گرہن ہوئے جو اپنے کمال کے لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتے تھے اسی طرح ستاروں کا گرنا بھی گو ایک عام حادثہ ہوتا ہے اور ہمیشہ نومبر کے مہینے میں ستارے کثرت سے گراہی کرتے ہیں مگر یہی ستاروں کا گرنا اگر اپنے اندر کوئی خصوصیت پیدا کرے تو یہ ایک نشان ہوجائے گا.جس طرح لڑائیوں کا ہونا یا قحط کا پڑنا یا بیماریوں کا پھیلنا نشان بن سکتے ہیں کہ یہ امور بھی ہمیشہ دنیا میں ہوا ہی کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی نشان بن سکتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں جبکہ باقی سب علامات مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے متعلق پوری ہوچکی ہیں یہ علامت بھی ایک خصوصیت کے ساتھ پوری ہوئی ہے اور وہ اس طرح کہ گو زمین کے اس علاقہ میں سے گزرنے کے وقت جو شُہب کا علاقہ ہے شُہب کثرت سے گرتے ہی چلے آئے ہیں مگر اس زمانہ میں یہ شُہب خصوصیت سے گرے ہیں اور ۱۸۷۶ء،۱۸۷۹ء، ۱۸۸۵ء،میں اس کثرت سے شُہب گرے ہیں کہ جن کی مثال پہلے نہیں ملتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دم دار ستارہ جسے ایک بیلا کا دُمدار ستارہ کہتے ہیں کیونکہ اس نے اس کی رفتار کا پتہ لگایا تھا ٹوٹ گیا ہے یا یہ کہ اس کے بعض حصص الگ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ان سالوں میں کثرت سے شُہب گرے.اس سے پہلے دُم دار ستارہ کے اس طرح ٹوٹنے کا تاریخ سے کوئی پتہ نہیں چلتا.پس اس زمانہ میں شہب پہلے زمانوں کی نسبت بہت زیادہ گرے ہیں اور اس لئے ان کو مسیح کی آمد کے نشانات میں شامل کرنے سےاس کی شناخت میں خاص مدد ملتی ہے.مذہبی رہنماؤں کے اثر میں کمی بھی گو اس زمانہ سے مخصوص نہیں لیکن اگر یہ کمی جس حد تک اس زمانہ

Page 486

میں پہنچ چکی ہے اس کی کمیّت اور کیفیت کو دیکھا جائے تو یہ بھی ایک روشن علامت ہوجاتی ہے کیونکہ اس وقت جس طرح عام طور پر بے دینی پھیلی ہوئی ہے اور لوگ مذہب کو ایک غیر ضروری چیز سمجھے ہوئے ہیں اور کسی ایک مذہب کے رہنماؤں کا اثر ہی کم نہیں ہوا بلکہ ہر مذہب کے رہنماؤں کا اثر اپنے پیروئوں پر کم نظر آتا ہے اس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی.اس وقت اگر مذہبی پیشواؤں کا کوئی اثر ہے بھی تو صرف سیاسی امور تک محدود ہے پس یہ مذہب سے دُوری اپنے اندر ایک خصوصیت رکھتی ہے.پس جبکہ آسمانی نوشتے پورے ہوگئے تو ضرور ہے کہ مسیحؑ بھی آچکا ہو اور جواس سے محبت رکھنے والے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس کی جستجو کریں تا ایسا نہ ہو کہ وہ آکر ان کو پکڑے اور کہے کہ کیا میرے آنے میں دیر ہوگئی تھی کہ تم نے سمجھ لیا کہ اب میں نہیں آتا اورسب باغ اور مکان اور جائدادیں تمہاری ہوگئیں اور تم اب جس طرح چاہو ان میں تصرّف کرو؟ اوراگر وہ اس کی تلاش کریں گے تو انکے لئے اس کا ڈھونڈنا کچھ بھی مشکل نہ ہوگا کیونکہ اس نے خود اپنے ظاہر ہونے کی جگہ بتا دی ہوئی ہے اور کوئی بات نہیں جو اس نے چھپا رکھی ہو.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جب اس نے زمین پر ظاہر ہونا ہے تو میں اسے کہاں ڈھونڈوں؟ کیا اس نے نہیں کہا کہ :- ’’جیسے بجلی یورپ سے کوندھ کے پچھّم تک چمکتی ویسا ہی ابنِ آدم کا آنا بھی ہوگا.‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۲۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا مطبوعہ ۱۸۷۰ء) پس ضرور ہے کہ جس طرح اس نے تمثیل میں ہمیں سمجھایا ہے وہ مشرق میں ظاہر ہوا اور مغرب کے دُور کناروں تک اس کی تعلیم پھیل جائے اور ایسا ہی ہوا بھی ہے.وہ ہندوستان جو مشرق کا ملک ہے اور قدیم سے علم اور فضل کا حامل ہے ظاہر ہوا اوربہت جلد اس کی تعلیم مغرب کے دور دراز ممالک میں پھیل گئی اور اس وقت ایشیائی ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکہ کے بِلا د میں بھی اس کی روشنی سے فائدہ اُٹھانےوالے لوگ موجود ہیں.بائبل پر اگر ادنیٰ سا بھی غو ر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی زمانہ مسیحؑ کی آمد ثانی کا ہے کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :- ’’یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوںؑکی کتاب منسوخ کرنے کو آیا.مَیں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا.جب تک سب کچھ

Page 487

پورا نہ ہو.‘‘ (متی باب ۵ آیت ۱۷،۱۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پورمطبوعہ ۱۸۷۰ء) پس معلوم ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک کام موسٰی کی شریعت کو قائم کرنا تھا کیونکہ وہ اپنی آمد کی غرض شریعت کو قائم کرنا بتاتے ہیں بلکہ اپنے حواریوں کو حکم دیتے ہیں کہ ’’فقیہ اور فریسی موسٰی کی گدی پر بیٹھے ہیں اس لئے جو کچھ وے تمہیں ماننے کو کہیں مانو اور عمل میں لاؤ.‘‘ (متی باب ۲۳ آیت ۲،۳نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اور دوسری غرض ان کی آمد کی جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں یہ تھی کہ خدا کی بادشاہت کی منادی کریں.جیسا کہ لکھا ہے کہ مسیحؑنے اپنے دعویٰ کی ابتداء ہی سے یہ منادی کرنی ’’اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آئی.‘‘ (متی باب ۴ آیت ۱۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اور آخر زمانہ میں بھی وہ یہی کہتا رہا کیونکہ جب اس نے حواریوں کو تبلیغ کا کام سپرد کیا تو تب بھی ان کو یہی ہدایت دی کہ ’’چلتے ہوئے منادی کرو اور کہو کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آئی.(متی باب ۱۰ آیت ۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اورجیسا کہ لوقا کی روایت کے مطابق یہ کہا کہ ’’ان سے کہو کہ خدا کی بادشاہت تمہارے نزدیک آئی.‘‘(لوقا باب ۱۰ آیت ۹) خدا کی بادشاہت سے مراد مسیح علیہ السلام کی آمد نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اپنی عمر بھر اس پر زور دیتے رہے کہ ان کی آمد ایسی ہے جیسے بیٹے کی آمد اور خدا کی آمد اس وقت ہوگی جب لوگ ان کو پھانسی دے دیں گے.چنانچہ وہ اس واقعہ کو تمثیل میں یوں بیان کرتے ہیں:- ’’کس شخص نے ایک انگور کا باغ لگا کے اسے باغبانوں کے سُپرد کیا اور مدت تک پردیس میں جارہا اور موسم پر ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا تا کہ وے اس انگور کے باغ کا پھل اس کو دیں.لیکن باغبانوں نےاس کو پیٹ کے خالی ہاتھ پھیرا.پھر اس نے دوسرے نوکر کو بھیجا انہوں نے اس کو بھی پیٹ کے اور بے عزت کرکے خالی پاتھ پھیرا.پھر اس نے تیسرے کو بھیجا انہوں نے گھائل کرکے اس کو بھی نکال دیا.تب اس باغ کے مالک نے کہا کہ کیا کروں؟مَیں اپنے پیارے بیٹے کو بھیجوں گا شاید اسے دیکھ کر دب جائیں.جب باغبانوں نے اسے دیکھا آپس میں صلاح کی اور کہا کہ یہ وارث *نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء

Page 488

ہے.آؤ اس کو مار ڈالیں کہ میراث ہماری ہوجائے تب اس کو باغ کے باہر نکال کے مار ڈالا اب باغ کا مالک ان کے ساتھ کیا کرےگا؟ وہ آوے گا اوران باغبانوں کو قتل کرے گا اور باغ اوروں کو سونپے گا.‘‘(لوقاباب ۲۰ آیت ۹ تا ۱۶)٭ اس تمثیل میں باغ سے مراد وہ ہدایت ہے جو خدا تعالیٰ نے قائم کی اور باغ بنانے والا موسیٰؑ تھا جو خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کرکے اس کے جلال کے اظہار کے لئے دُنیا میں آیا اور باغ کے باغبانوں سے مراد بنی اسرائیل تھے اور نوکر جو میوہ کو حصہ لینے گئے وہ انبیاءتھے جو موسیٰؑ کے بعد بھیجے گئے اور بیٹا خود حضرت مسیحؑ تھے جو سب کے بعد میں آئے مگر موسٰی کے بعد کے نبیوںؑمیں سے سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب اور پیارے تھے لیکن بنی اسرائیل نے ان کی بھی قدر نہ کی اوران کو صلیب پر چڑھا دیا تو پھر اس تمثیل کے مطابق ہی ہونا رہ گیا کہ وہ نبی ظاہر ہو جس کا ظہور گویا خدا تعالیٰ کا ظہور تھا اور وہ پچھلی سنت کے برخلاف بنی اسرائیل میں سے نہ ہو بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل میں سے ہو جس کی نسبت حضرت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں کہ :- ’’کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے پسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا.یہ خدا وند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میںعجیب ؟ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اورایک قوم کو جو اس کے میوہ لاوے دی جائے گی.جو اس پتھر پر گرے گا چُور ہوجائے گاپرجس پر وہ گریگا اسے پیِس ڈالے گا.‘‘ (متی باب ۲۱ -آیت ۴۲ تا ۴۴ ) اور جس کے حق میں موسٰی نے خبر دی تھی کہ : ’’خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا مَیں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنھیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سُنے گا تو مَیں اس کا حساب اس سے لوں گا.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۷ تا ۱۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) یہ جو نوشتوں میں لکھا گیا اس کا پورا ہونا ضرور تھا ورنہ خدا کے برگزیدوں موسٰی اور مسیح پر جھوٹ کا حرف آتا تھا کیونکہ کہا گیا تھا کہ ’’تُو جان رکھ کہ جب نبی خدا وند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع

Page 489

نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خدا وند نے نہیں کہی بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پورمطبوعہ ۱۸۷۰ء) مگر جو کچھ برگزیدوں نے کہا تھا وہ حرف بحرف پورا ہوا اور بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیم ؑکے دوسرے بیٹے اسمٰعیل ؑکی اولاد میں سے خدا تعالیٰ نے موسٰی کی مانند ایک نبی برپا کیا جس کےذریعہ سے ہدایت کا باغ بنی اسرائیل سے لے کر مسلمانوں کےسپرد کیا گیا اور وہ جسے راج گیروں نے رد کیا تھا کو نے کا پتھر ہوا جو اس پر گرا یعنی جو اس کے شہر پر جا کر حملہ آور ہوا وہ بھی چکنا چُور ہوا اور جس پر وہ گرا یعنی جس پر اس نے جا کر حملہ کیا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور جس نے اس کی بات نہ سنی اس سے خدا نے اس کا حساب.اس وجود سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ خود فرماتے ہیں کہ یہ نبی ان کے صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد آئے گا اور نہ کلیسیااس سے مراد ہوسکتا ہے کیونکہ کلیسیا نبی نہیں ہے اور نوشتے بتاتے ہیں کہ وہ آنے والا ایک نبی ہوگا جو موسٰی کی مانند خدا کے جلال کا ظاہر کرنے والا ہوگا اور شریعت اس کےداہنے ہاتھ میں ہوگی اور وہ مکّہ کی پہاڑیوں پر سے جو فاران کہلاتی ہیں دس ہزار قدوسیوں سمیت خدا کی دشمنوں پر حملہ آور ہوگا.جیسا کہ لکھا ہے کہ :- ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے.وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اورا س کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھے.‘‘ (استثناء باب ۲۳ آیت ۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) کلیسیا نہ نبی ہے نہ فاران سے وہ جلوہ گر ہوئی اور نہ دس ہزار قدوسیوں سمیت وہ دنیا میں آئی.یہ فاران سے جلوہ گر ہونےوالا خدا کا مظہر وہی سردار انبیاء سروری کائنات سیّد ولد آدم کامل و اکمل و مکمّل و مکمِّل حامد و احمد و محمّد و محمود وجود تھا جس کی قوم کو اس کے بنو عم نے خدا کی بادشاہت سے ہمیشہ کےلئے محروم قرار دیا اور جسے اس کی قوم کے سرداروں نے ردّی کرکے اپنے میں سے نکال پھینکا مگر آخر وہی کونے کا پتھر ہوا.اور یا تو صرف ایک ہمراہی سمیت اسے مکّہ چھوڑ کر وطن سے بے وطن ہونا پڑا تھا یا اسے خدا نے وہ ترقی دی کہ جب اس کو اور اس پر ایمان لانے والوں کو مٹانے کے لئے اور نیست و نابود کرنےکے لئے اس کی قوم کے لوگ دو سو میل کا فاصلہ طے کرکے ایک زبردست شکر کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے تو جیسا کہ مسیح علیہ السلام نےفرمایا تھا

Page 490

اس مظہر شان خدا پر جو گرا وہ پاش پاش ہوگیا ایک قلیل اور بے سامان جماعت کے ہاتھوں سے تجربہ کار جرنیلوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست دلوائی اور ذلیل کروایا اورپھر جب بار بار کے عفو کے بعد بھی اس کےدشمن باز نہ آئے اور معاہدہ پر معاہدہ کرکےتوڑنے لگے تو خدا تعالیٰ نے یہ دکھانے کیلئے کہ اس کی فتوحات اسی وجہ سے نہیں ہیں کہ وہ اپنے گھر کے قریب ہوتا ہے اور اس کے دشمن ایک لمبا سفر کرکے اپنے گھروں سے دور اس سے لڑنے آتے ہین بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی تائید سے ہیں اس کو حکم دیا کہ وہ خود دشمن کے قلعوں پر حملہ کرے اور وہ جسطرح گیا فتح و ظفر نےاس کی رکابوں کو آکر تھام لیا اور دشمن اپنے گھروں میں بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکا اور حضرت مسیح ؑکے کلام کا دوسرا پہلو پورا ہوأ کہ وہ جس پر گرا اسے اس نے چکنا چور کردیا.یہ فاران سے دس ہزار قدوسیوں سمیت آنے والا آتشی شریعت اپنے داہنے ہاتھ میں رکھنے والا جس کےذریعہ سے نفس کے تما م گند جل جاتے ہیں اور جو کھوٹے دلوں کو صاف کرکے کھرا سونا بنا دیتی ہے جس کی نسبت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں کہ:- ’’میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ مَیں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا وے گی اسلئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.‘‘ (یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲،۱۳نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) وہ جس کی غلامی پر انبیاء ؑکو بھی فخر ہے وہ ہی بانی اسلام مثیل موسیٰ ؑمگر موسٰی سے اپنی تمام شان میں بالا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھیں آج دُنیا میں ظالم اور بٹ مار کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے خونریزی سے سطح زمین کو رنگ دیا اور ایسا ہونا ضرور تھا کیونکہ تمام انبیاء کے مخالفین کے دل ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر ایک بات کے دونوں پہلوؤں کو بُرا کہتے ہیں.’’یوحنا کھاتا پیتا نہیں آیا اور وے کہتے ہیں کہ اس پر ایک دیو ہے.ابن آدم کھاتا پیتا آیا اور وے کہتے ہیں کہ دیکھو ایک کھاؤ اور شرابی اور محصول لینے والوں اور گنہگاروں کا یار.‘‘ (متی باب ۱۱ آیت ۱۸،۱۹نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) مسیحؑ ناصری بِلا تلوار کےآیا اوربِلا کسی گناہ کے صلیب پرلٹکایاگیا اورانہوں نے اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا اور صلیب پر لٹکا دیا اور ہنسی سے شور مچایا کہ اے یہودیوں کے بادشاہ

Page 491

سلام ! (یوحنا باب ۱۹.آیت ۲،۳) اوربڑے بڑے عالموں نے ٹھٹے مار مار کر کہا.(متی باب ۲۷ آیت ۲۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) ’’ اس نے اوروں کو بچایا.پر آپ کو نہیں بچا سکتا.اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پر سے اتر آوے تو ہم اس پر ایمان لاویں گے.اس نے خدا پر بھروسہ رکھا.اگر وہ اس کو چاہتا ہے تو وہ اب اس کو چھڑا وے.کیونکہ وہ کہتا تھا کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں.‘‘ (متی باب ۳۷ آیت ۴۲، ۴۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اور کہا کہ :- ’’تُو جو ہیکل کاڈھانے والا اور تین دن میں بنانے والا ہے.آپ کو بچا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے صلیب پر سے اُترآ.‘‘ (متی باب ۲۷.آیت ۴۰.۴۳)٭ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خدا تعالیٰ کے جلال و جمال کا کامل مظہر تھا جب اس نے شریر اور سرکش انسان کو اس کے حد سے بڑھ جانے اور اخلاق اور دیانت بلکہ انسانیت کو بکلی ترک کردینے پر سزا دی تو اس زمانہ کے عالموں نے جو فقیہوں اور فریسیوں کے قائم مقام ہیں مسیحؑکی مثال کو یاد سے بھلاتے ہوئے اس پر آواز ے کسے کہ دیکھو وہ خدا کا نبی کہلاتا ہے اور اس کا مظہر اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے لیکن پھر اس کی تلوار دشمن کے سر پر اٹھتی ہے اور وہ اپنے مخالف کوتہ تیغ کرتا ہے.کیا راستبازوں کی یہی علامتیں ہوتی ہیں؟ اور صادق یہی نمونہ دکھایا کرتے ہیں؟ کیوں اس نے عفو سے کام نہ لیا؟ اور کیوں بخشش کا دامن لوگوں کے سروں پر نہ ڈالا؟ اوریہ معترض یہ نہیں دیکھتے کہ اس نے قدرت پر عفو کا نمونہ دکھایا اور قابو پاکر چھوڑ دیا اورگلے میں رسی ڈال کر آزاد کردیا اورحلق پر چھُری رکھ کر زندگی بخش اور اس قدر گناہوں کو معاف کیا کہ اگر اس کا عفو ہزار نبی پر بھی تقسیم کیا جائے تو سب اپنے عفو سے زیادہ حصہ پالیں.ہاں جس طرح خدا تعالیٰ جو رحم کا سر چشمہ اور عفو کا منبع ہے اصلاح کے لئے نہ دُکھ دینے کے لئے شریر کو پکڑتا اور سزا دیتا ہے اس نے بھی ایسا ہی کیا تا خدا کا کامل مظہر قرار پائے اور موسٰی کا مثیل ٹھہرے اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو آج یہی معترض جو اس کی دفاعی جنگوں پر حرف گیری کرتے ہیں زور زور سے اپنے گلے پھاڑتے اور آسمان کو سر پر اُٹھا لیتے کہ دیکھو وہ موسٰی کا مثیل بنتا ہے لیکن دس ہزار قدوسی اس کے ساتھ نظر نہیں آتے جو فاران کی پہاڑیوں پر سے اس کےساتھ حملہ آور ہوں اور شریر کو اس کی شرارت کی سزا دیں اورخدا کی بادشاہت کو زمین پر قائم کریں.وہ آخری موعود اپنے آپ کو قرار دیتا ہے مگر یہ بات اس کےحق میں کب پوری ہوئی کہ: *نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء

Page 492

’’خدا کی مرضی اس کے ہاتھ کے وسیلے بر آوے گی اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کے وہ اسے دیکھے گا اور سیر ہوگا.اپنی ہی پہچان سے میرا صادق بندہ بہتوں کوراستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ ان کی بد کاریاں اپنے اوپر اُٹھالے گا.اس لئے مَیں اسے بزرگوں کیساتھ ایک حصہ دوںگااور وہ لُوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کہ اس نے اپنی جان موت کےلئے انڈیل دی اور وہ گہنگاروں کے درمیان شمار کیا گیا اور اس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور گنہگاروں کی شفا عت کی.‘‘ (یسعیاہ باب ۵۳ آیت ۱۰ تا ۱۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اگر وہ جنگ نہ کرتا اور عفو ہی کرتا تو پھر یہ لوگ کہتے کہ اس نے کب لُوٹ کا مال زور آوروں کےساتھ بانٹا کہ اسے ابدی بادشاہت کا قائم کرنے والا ہم مان لیں؟ جیسا کہ ان کے باپ دادوں نے مسیح علیہ السلام کےوقت میں کہا کہ اس کے ساتھ وہ مدد اور نصرت کہاں ہے جو بادشاہوں کیساتھ ہونی چاہئے؟ اورنہ سمجھے کہ بادشاہت صرف زمین کی ہی نہیں ہوتی بلکہ دل کی بھی ہوتی ہےجس طرح آج کل کے لوگوں نے نہیں سمجھا کہ صرف حلم اور عفو ہی اچھی صفات نہیں ہیں بلکہ شریر کو سزا دینا اور مظلوم کو ظالم کے پنجہ سے چھڑانا اور دنیا میں عدل و انصاف کو قائم کرنا بھی صفات حسنہ میں سے ہیں اور کامل وہی ہے جو ان سب صفات کو اپنے موقع پر استعمال کرکے دکھاتا ہے.غرض اے شہزادہ والا تبار! اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو حق کے قبول کرنے کے کھول دے مسیح علیہ السلام کے بعد ایک اور نبی کے بعثت کی بھی خبر تھی.جس نے موسٰی کے رنگ میں رنگین ہوکر آنا تھا.پس مسیحؑکی آمد ثانی درحقیقت اسی موسٰی کے نوشتوں کے پورا کرنے کی غرض سے مقدر تھی.جس طرح پہلے موسٰی کے نوشتوں کو پورا کرنےکے لئے اس کی آمد اوّل تھی.پس ضرور تھا کہ دونوں سلسلوں میںمناسبت قائم کرنے کے لئے وہ اسی قدر عرصہ مثیل موسٰی کے بعد ظاہر ہو جس قدر عرصہ موسٰی کے بعد وہ اپنی پہلی بعثت میں ظاہر ہوا تھا اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ تیرہ چودہ سو سال ہی کا تھا.پس علاوہ ان علامات کے ظہور کے جو انجیل میں بتائی گئی ہیں یہ بھی ایک دلیل ہے کہ مسیحؑکا ظہور اسی زمانہ میں ہونا چاہئے کیونکہ مثیل موسٰی کو ظاہر ہوئے تیرہ سو سال سے اوپر گزر چکے ہیں.شاید آپ کے دل میں خیال گذرے کہ اسلام تو ایسی خراب حالت میں ہے مسیح کب اس مذہب میں آسکتا ہے؟ اوراپنے مقدس نام کو اس کی تاریکی کی چادر کےنیچے پوشیدہ کرسکتا ہے؟

Page 493

مگر جناب کو خیال رکھنا چاہئےکہ مذہب اور اہلِ مذہب میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور اسی طرح مقدس کتابوں کے مذہب اور کسی خاص فرقہ کے مذہب میں بھی بعض دفعہ اتنا ہی فرق ہونا ہے جتنا کہ نُور اور ظُلمت میں.حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:- ’’یہ خیال مت کرو کہ مَیں تو ریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا.مَیں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں‘‘(متی باب ۵ آیت ۱۷)٭ لیکن باوجود اس کے کہ وہ توریت کی خوبی کو تسلیم کرتے ہیں.اپنے زمانہ کے فقیہوں اور فریسیوں کی نسبت بیان فرماتے ہیں کہ:- ’’اے ریا کارو ! یسعیاہ نے کیا خوب تمہارے حق میں نبوت کی جب کہا کہ یہ لوگ اپنے منہ سے میری نزدیکی ڈھونڈتے اور ہونٹوں سے میری عزت کرتے ہیں پر ان کے دل مجھ سے دُور ہیں.‘‘ (متی باب ۱۵آیت ۷،۸نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبویہ ۱۸۷۰۴؁) اسی طرح وہ ان لوگوں کے حق میں فرماتا ہے کہ :- ’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ بیوائوں کے گھر نکل جاتے اور مکر سے لمبی چوڑی نماز پڑھتے ہو.اس سبب تم زیادہ تر سزا پائو گے.اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ بیوائوں کے گھر نکل جاتے اور مکر سے لمبی چوڑی نماز پڑھتے ہو.اس سبب تم زیادہ تر سزا پائوگے.اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ تم تری اور خشکی کا دورہ اس لئے کرتے ہو کہ ایک کو اپنے دین میں لائو اور جب وہ آچکا تو اپنے سے دونا اسے جہنم کا فرزند بناتے ہو…اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کیونکہ پودینہ اورانیسوں اور زیرہ کی وہ یکی لگاتے ہو پر شریعت کی بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا.لازم تھا کہ تم انہیں اختیار کرتے اور نہیں بھی نہ چھوڑتے …اے سانپو اور اور اسے سانپ کے بچو! تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بھاگو گے.‘‘ (متی باب ۲۳ آیت ۱۳ تا ۳۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) پھر عوام الناس کی نسبت بتاتے ہیں کہ:- ’’اس زمانہ کے لوگ بد اور حرامکار نشان ڈھونڈتے ہیں.‘‘ (متی باب ۱۲ آیت ۳۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) * نارتھ انڈیا بائبل سوسائی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء

Page 494

اب اے شہزادہ ! دیکھ کہ کیا آج کل کے مسلمان اس موسٰی کی اُمّت سے کسی علیحدہ قسم کے لوگ ہیں کہ ان میں سے مسیحؑپیدا نہیں ہوسکتا؟ یہ کتنے بھی ظالم ہوں ان کے ظُلم سے اسلام کی تعلیم پر کوئی حرف نہیں آسکتا جس طرح مسیحؑ کے زمانہ کے لوگوں کی خرابی سے موسیٰ علیہ السلام اور توریت پر کوئی الزام نہیں آسکتا تھا.وہ جو تعلیم کے خلاف چلتا ہے اپنا بوجھ آپ اٹھائے گا اوراپنی قبر آپ کھودے گا اس کے اعمال سے خدا کے کلام اور اس کے دین پر کیونکر حرف آسکتا ہے؟ اور وہ جونوشتوں کی ناسمجھی سے ایک نیا عقیدہ بنا لیتا ہے اس کے عقیدوں سے نوشتوں پر کیسے اعتراض پڑ سکتا ہے؟کیونکہ کیا نہیں لکھا کہ صدوق توریت سے ہی قیامت کا انکار نکلاتے تھے؟ اوران کے علماء ایک دفعہ مسیح علیہ السلام کے سامنے بھی اس غرض سے پیش ہوئے تھے تا اس پر اپنے قول کی صداقت کو ظاہر کریں مگر اس نے ان پر حجت کی اور ان کے منہ بند کردئیے.پس قرآن کریم اور اسلام پر لوگوں کے اعمال اور ان کےغلط عقائد کی بناء پر کوئی زد نہیں پڑسکتی.اسلام ایک نُور ہے جس کے مقابلہ پر سب ادیان کی شمعیں ماند ہیں اور ایک سُورج ہے جس کے آگے کوئی چراغ اپنی روشنی ظاہر نہیں کرسکتا.مگر افسوس کہ اپنوں اور بیگانوں نے اس سے منہ پھیر لیا اور اپنی آنکھیں بندکرلیں تا نہ ہو کہ اس کی ضیاء کو ان کی آنکھیں دیکھیں اور اس سے روشنی حاصل کریں.اس کی مثال اس ہیرے کی سی ہے جسے ایک بچہ ایک جانور کی طرف پھینکتا ہے اور وہ اس سے ڈر کر بھاگ جاتا ہے وہ بچہ اس کو اس لئے پھینکتا ہے کہ وہ اسے حقیر اوربے قیمت جانتا ہے او ر وہ جانور اس سے اس لئے بھاگتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ یہ چیز اس نے مجھے صدمہ پہنچانے ہی کے لئے پھینکی ہوگی.مگر نبیوںؑ کا خدا قدوسوں کا قدوس جو آسمان پر اپنے تخت حکومت پر جلوہ افروز ہے پسند نہیں کرسکتا تھا کہ اس کا بھیجا ہوا نُور اس بے قدری کی نگاہ سے دیکھا جائے.سو اس نے اپنے پیارے کو بھیجا کہ مسیح ؑناصری کی طرح جس طرح وہ موسٰی کی کتاب کا پورا کرنے والا اور اسے ثابت کر نیوالا بنا یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کا پواکرنےوالا اور اس کا ثابت کرنے والا ہو اوراس کی طبیعت اور اس کی قوت کے ساتھ دنیا میں کام کرکےاس کا نام پائے اورابد الآباد تک خدا کے مسیح ؑکے نام سے یاد کیا جائے تا کہ وہ بات پوری ہوجو کہی گئی تھی کہ:- ’’اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہ کہوگے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پرآتا ہے.‘‘ (متی باب ۲۳ آیت ۳۹نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) سو وہی اور صرف وہی مسیح علیہ السلام کو دیکھ سکتا ہے جو اس بات پر یقین لائے کہ اس زمانہ

Page 495

میں اس کے نام پر ایک رسول بھیجا گیا ہے اور اس میں مسیحؑکے رنگ کو دیکھے ورنہ اور کوئی ذریعہ مسیحؑکے دیکھنے کا نہیں ہے.آنے والا آچکا.مبارک ہیں وہ جو اس کو پہچانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں.ہاں اسلام کا منادی اور آخری شریعت کا پورا کرنے والا اور اسے ثابت کرنے والا آگیا تا اس کے ذریعہ سے وہ لوگ جو دنیا کے کناروں پر بستے ہیں خدا کی بادشاہت میں داخل ہوں اور نبیوںؑ کے سرادر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو اختیار کریں جس کی غلامی اختیار کئے بغیر کوئی نجات نہیں اور جو اسے قبول نہیں کرتا اس کے لئے دانت پیسنے اور رونے کےسوا اور کچھ نہیں.جس طرح پہلا مسیحؑ کوئی نئی شریعت نہیں لایا تھا بلکہ موسٰی کےدین کے استحکام اور اس کے قیام کے لئے آیا تھا یہ مسیحؑبھی مثیل موسٰی کے دین کے استحکام اور اس کی اشاعت کے لئے آیا ہے اور اگر پہلی دفعہ مسیح ؑاس منادی کے لئے آیا تھا کہ دیکھو خدا کی بادشاہت آنے والی ہےپس ہوشیار ہوجائو، جہان کا سردار آنے والا ہے چوکس ہوجائو.دائمی نجات کا وارث پیدا ہونے والا ہے خبردار ہوجائو تو اس دفعہ مسیح ؑکے آنے کی غرض یہ ہے کہ لوگوں کو بتائے کہ خدا کی بادشاہت آچکی ،جہان کا سرادر آچکا ،دائمی نجات کا وارث پیدا ہوچکا آؤ اور اس کی غلامی میں داخل ہوجائو اور میرے پیچھے چلو تا میں تمہیں اس کے گھر میں داخل کروں اور اس کے دستر خوان پر تم کو جگہ دوں کیونکہ اس کے گھر کی کنجیاں میرے سُپرد کی گئی ہیں اور اس کے دستر خوان کا انتظام مجھے سونپا گیا ہے.اگر کہا جائے کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ جو کچھ اس نے کہا وہ درست ہے؟ اور وہ فی الواقع مسیحؑ کا نام پاکر خداوند خدا ہی کی طرف سے آیا ہے اور اس نے جو کچھ اسلام کی نسبت کہا ہے وہ درست ہے؟ کیونکہ ہمیں پہلے سے ڈرایا گیا ہے کہ :- خبردار ! کوئی تمہیں گمراہ نہ کرے کیونکہ بہتیرے میرے نام پر آویں گے اور کہیں گے کہ مَیں مسیحؑہوں.اوربہتوں کو گمراہ کریں گے.‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۴،۵) اوریہ بھی لکھا گیا ہے کہ :- ’’جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھیں گے اور ایسے بڑے نشان اور کرامتیں دکھاویں گے کہ اگر ہوسکتا تو وے برگزیدوں کو بھی گمراہ کرتے‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۲۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک صداقت کے پرکھنے کے کوئی نشان ہوتے ہیں انہی نشانوں کے

Page 496

ذریعے سے اس کے دعویٰ کو پرکھا جاسکتا ہے.بیشک جھوٹے نبیوں کی آمد سے ڈرایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بڑے نشان اور کرامتیں دکھائیں گے لیکن یہ بھی تو کہا گیا ہے کہ اگر ہوسکتا تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور سچّے نبیوںؑمیں فرق کرنے کا بھی کوئی ذریعہ ہے جس کی مدد سے برگزید سے ان کے فریب میں نہیں آسکتے.ان کی کرامتیں اوران کے نشان نبیوں کی کرامتوں اور ان کے نشانوں سے بالکل علیحدہ طرح کے ہونے چاہئیں کیونکہ اگر جھوٹے نبیوں کے نشان بھی سچّوں کی طرح کے ہوں تو پھر ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ موسٰی اور دائود ؑاور یحییٰؑاورخود مسیحؑبھی سچّے نبیوں میں سے تھے؟ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے نشانوں کو اپنے سچّے ہونے کا ثبوت قرار دیا ہے.چنانچہ یوحنا کے ایلچیوں کو جب وہ ان سے پوچھنے کے لئے آئے کہ: ’’ کیا جو آنے والا تھا تُو ہ ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ : جو کچھ تم سنتے اور دیکھتے ہو جا کہ یوحنا سے بیان کرو کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے،کوڑھی پاک صاف ہوتے اور بہرے سنتے اور مُردہ جی اُٹھتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے اور مبارک وہ ہے جو میرے سبب ٹھوکر نہ کھائے.‘‘ (متی باب ۱۱ آیت ۳ تا ۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اورتوریت میں لکھا ہے کہ: ’’اگر تُو اپنے دل میںکہے کہ مَیںکیونکہ جانوں کہ یہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں؟ تو جان رکھ کہ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نےکہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہا ہے تُو اس سے مت ڈر.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۱.۲۲) پس معلوم ہوا کہ نشان بھی اور پیشگوئیاں بھی نبیوں کی سچائی کے ثبوتوں میں سے ہیں اور وہ کرامتیں جن کا ذکر مسیح علیہ السلام نے جھوٹے نبیوں کے متعلق کیا ہے وہ ان نشانوں سے علیحدہ قسم کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نبی دکھاتے ہیں اور شعبدوں اور فریبوں کی قسم سے ہیں نہ کہ فوق العادت اورخدا تعالیٰ کے جلال ظاہر کرنےوالے نشان.اورجبکہ نبیوں کہ صداقت ہمیشہ ان نشانوں کےذریعہ سے ہی ظاہر ہوتی رہی ہے جو کہ ان کے ہاتھوں پر ظاہر ہوئے یا ان پیشگوئیوں کے ذریعہ سے جو وہ *نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء

Page 497

کرتے رہے اور جو اپنے وقت پر پوری ہوتی رہی ہیں تو اس زمانہ کے فرستادہ اور رسول کی صداقت بھی اس ذریعہ سے پرکھی جاسکتی ہے اور چونکہ نبیوں کےذریعہ سے دو قسم کے نشان ظاہر ہوتے ہیں ایک تو ان کی ذندگی اور تعلیم ہی نشان ہوتی ہے دوسرے وہ نشان ہوتے ہیں جو دوسروں کی ذات میں ظاہر ہوتے ہیں اس لئے میں دونوں قسم کے نشان بیان کرتا ہوں اور پہلے آپ ؑکی معجزانہ زندگی اور آپ ؑکی تعلیم اور آپؑ کے کام کو بیان کرتا ہوں.اے شہزادہ باوقار!اللہ تعالیٰ آپ کے سینہ کو حق کی قبولیت کیلئے دل دے!اس زمانہ کے ما ٔمور اور مُرسل قادیان ضلع گورداسپور صوبہ پنجاب کے رہنے والے تھے اور اسی جگہ آپؑپیدا ہوئے تھے اورآپؑکا نام آپ کے ماں باپ نے غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) رکھا تھا.وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جو حضرت مسیحؑ کے خاندان کی طرح بڑے بڑے خاندانوں سے ملتا تھا اور مغلوں اور فارسیوں کے شاہی خاندانوں کی نسل سے تھا اور ہندوستان میں صرف چند پُشتوں سے آکر بسا تھا مگر حضرت مسیحؑکے خاندان کی طرف اس کی حالت اس وقت اسقدر غربت کی تھی کہ اپنی پہلی شان و شوکت کو وہ بہت کچھ کھوچکا تھا.آپ کے دادا سکھوں کی طوائف الملوکی کے زمانہ میں ایک سکھ قبیلہ سے جنگ کرتے ہوئے اپنی ریاست کو کھو بیٹھے تھے.گو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان کی جائداد میں سے پچاس گائوں و اگزار کرکے اوراپنی فوج میں اعلیٰ عہدہ دیکر ان کے والد کو پھر دنیاوی لحاظ سے آسودہ حال بنا دیا تھا مگر خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس خاندان سے کچھ اور کام لے.پس اس نےسکھ حکومت کو تباہ کرکے برطانیہ کی حکومت کو پنجاب میں قائم کردیا اور اس کی آمد کیساتھ ہی اس ریاست کا بھی خاتمہ ہوگیا جو اس خاندان کو سینکڑوں سال سے حاصل تھی.برٹش گورنمنٹ کے نمائندوں نے پڑے مرافعوں کے بعد صرف ایک گاؤں کی ملکیت اورتین گاؤں کی تعلقہ داری آپ کے والد کے لئے منظور کی اور باقی سب جائداد ضبط کی گئی مگر اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ جس خاندان کو دین میں عزت دینا چاہتا ہے اس کو وفاداری کے مقام پر کھڑا کردیتا ہے باوجود اس کے کہ آپؑکے والد کو برٹش گورنمنٹ سے سخت نقصان پہنچا تھا آپ ہمیشہ اس کے وفادار اورجان نثار رہے اور تنگی اور تُرشی میں اسی طرح اس کا ساتھ دیا جس طرح کہ سکھ گورنمنٹ کا ساتھ دیا تھا.اور غدر کے موقع پر جبکہ عام طور پر ملک میں برطانوی حکومت کے خلاف جو ش پیدا ہوگیا تھا اور خصوصاً پرانے خاندانوں میں آپ نے اپنی طاقت سے زیادہ گورنمنٹ کی مدد کی اور پچاس سوار پیش کئے اور آپ کے بڑے بیٹے بانی سلسلہ کے بڑے بھائی جزل نکلسن کے ساتھ خود جنگ میں شریک ہوئے اوت تِرموں گھاٹ پر باغیوں کے

Page 498

زور کے توڑنے میں ایسا حصہ لیا کہ اس مشہور محب وطن نے خاص طور پر اس امر کا اقرار کیا کہ اس علاقہ میں سب سے زیادہ وفادار غدر کے موقع پر قادیان کا خاندان رہا.آپؑکی پیدائش ۱۸۳۶؁ء٭میں ہوئی ہے اور جس وقت سے کہ آپ ؑپیدا ہوئے اس وقت سے لے کر اس وقت تک کہ آپ فوت ہوئے آپ ؑکی زندگی خدا کی قوتوں اور اس کے جلال کی مظہر رہی ہے آپ جمعہ کے دن عصر کے وقت پیدا ہوئے تھے اور آپؐ کے ساتھ ایک اور بچہ جو لڑکی تھی پیدا ہوا تھا اور اس طرح آپ کی پیدائش بھی ایک نشان تھا.کیونکہ لکھا تھا کہ آنے والا موعود توام پیدا ہوگا.اورجمعہ کے دن عصر کےوقت آپ کی پیدائش اس لئے تھی کہ تا آپ ؑجو اس دنیا کی ہدایت کے لئے آخری موعود تھے اور آدم ؑثانی کا مقام رکھتے تھے آپؑ کا وقت پیدائش بھی آدمؑاول کی پیدائش کےوقت سے اور اس کی پیدائش کے دن سے مطابق ہو.آپ کی پیدائش کے زمانہ کےقریب سے دنیا کے مختلف مذاہب میں آنے والے موعود کی جستجو شروع ہوگئی تھی اور اللہ تعالیٰ کا الہام مخفی طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں نازل ہوکر لوگوں کو دنیا کے منجی کی آمد کے قرب کی بشارت دینے لگ گیا تھا.چنانچہ یورپ اور ایشیا کی مختلف قوموں اور مختلف مذاہب میں انیسویں صدی کے شروع سے آنے والے موعود کا انتظار لگ گیا تھا اور بہت لوگ تھے جو دنیا کو ہوشیار کرنے لگ گئے تھے کہ آخری موعود کا زمانہ قریب ہے.اُٹھو اور ہوشیار ہوجائو تا ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو سوتا پائے.چنانچہ خود انگلستان میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس امر کا اعلان کرتے تھے ان میں سے ایک تو پرسبیٹیرین چرچ کا پادری ایڈورڈ ارونگ تھا اس نے ۱۸۶۱؁ء میں لندن میں وعظ کہنا شروع کیا اورتین مہینوں میں اس کے سامعین کی تعداد پچاس سے پندرہ سو تک بڑھ گئی اور بروہیم BROUGHAM کننگ CANNING میکنٹاش MACKIN TASH ولبرفورس WILLBER FARCE جیسے رجال سیاست اوربا اثر آدمی اس کے سامعین میں شامل تھے وہ کہتا تھا کہ بیس سال کے عرصہ میں یروشلم کا علاقہ گندوں سے پاک کردیا جائے گا اور وہ زمانہ جبکہ دنیا میں نیکی قائم کی جائے گی اور مسیح ؑواپس آکر دنیا میں حکومت کریں گے نزدیک ہے.ان کے شاگرد مسڑ بکسڑ کا اپنی نسبت بیان ہے کہ ان کی زبان پر دُعا کے وقت یہ الفاظ جاری ہوئے کہ مسیحؑ کی آمد نزدیک ہے اور اس کے آنے پر زندہ دلی ایک جگہ پر *حسب تحقیق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب آپ کی تاریخ پیدائش ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء

Page 499

جمع کئے جاویں گے اور مردہ دلی زندہ کئے جاویں گے ان ایڈورڈ ارونگ صاحب کےذریعہ سے فرقہ کیتھولک اپاسٹولک چرچ کی بنیاد پڑی.اسی طرح فرقہ اڈونٹسٹ انیسویں صدی سے مسیحؑ کی آمد کا انتظار کر رہا ہے اور اس نے بہت سی تکالیف اُٹھا کر بھی اپنے خیالات کو ترک نہیں کیا اوراب تک امریکہ میں اس کے افراد اپنے خیالات کی اشاعت میں مشغول ہیں.ان کے سوا لاکھوں انسان مسیحیوں اور یہودیوں میں ایسے تھے اور ہیں جو یہ یقین کرتے ہیں کہ مسیح کی آمد کا زمانہ یہی ہے اورانہوں نے اس امر پرکتابیں لکھی ہیں اور لڑیچر شائع کیا ہے.مسلمانوں میں بھی عام طور پر یہ یقین پایاجاتا تھا کہ تیرھویں صدی کے آخر یا چودہویں صدی کے شروع میں مسیحؑنازل ہوں گے اور اس کے متعلق بہت سے صاحب کشف لوگوں نے کشوف اور رئویا ء دیکھے تھے اور الہام پائےتھے جس کی وجہ سے تمام عالم اسلام کو اس امر پر یقین ہوگیا تھا کہ اب مسیح ؑکے نزول کا زمانہ قریب آگیا ہے اور اس طرح آپ ؑکو اس سے جس کے نام پر آپ نےدُنیاکو ہدایت دینی تھی اپنی پیدائش کے وقت سے ہی ایک مناسبت پیدا ہوگئی تھی کیونکہ پہلے مسیحؑ کی پیدائش کےوقت بھی بعض لوگوںکو بتایا گیا تھا کہ مسیحؑ پیدا ہونے والا ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس کے وقت میں تو ستاروں سے لوگوں کو توجہ دلائی گئی تھی اور ان کے زمانہ میں غیر مذاہب کے لوگوں کو خوابوں اورقلبی اشاروں اور مسلمانوںکو کشفوں اور الہاموں کےذریعے سے متوجہ کیا گیا.گو آپ ؑکی پیدائش کے ساتھ آپؑکے خاندان کی مالی حالت اچھی ہونے لگ گئی تھی مگر آپ کی نوجوانی کے ابتدائی ایام سے آپؑ کے والد کی مالی حالت خراب ہونے لگی کیونکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہوگئے اور ان کے بعد طوائف الملوکی ہوگئی اورگورنمنٹ برطانیہ نے پنجاب پر قبضہ کرنے کےساتھ ہی ان کی جائداد قریباً تمام کی تمام ضبط کرلی.جس سے ان کےوالد کے دل پر دنیا کی بے ثباتی کا ایک گہرا اثر پڑا اوران کی اس حالت کو دیکھ کر نہایت ابتدائی عمر سے آپؑ کے دل پر بھی دُنیا کی بے ثباتی کا ایک نہ مٹنے والا نقش جم گیا.باوجود اس کے کہ وہ زمانہ علم کا نہ تھا آپؑ کے والد نے خود استاد رکھ کر آپؑ کو تعلیم دلوائی مگر اس زمانہ کے لحاظ سے گو وہ تعلیم اعلیٰ خیال کی جاسکتی ہو.خصوصاً شرفاء میں جو کہ تعلیم کو صرف ادنیٰ قوموں کے لوگوں کے لئے مخصوص سمجھتے تھے لیکن مدرسی تعلیم کے لحاظ سے وہ تعلیم کچھ بھی نہ تھی اور ہمیشہ آپؑ کے دشمن علماء روحانی مقابلہ سے عاجز آکر آپ ؑکو اس امر کا طعنہ دیا کرتےتھے کہ کیا

Page 500

یہ وہ شخص نہیں جس نے کسی اعلیٰ مدرسہ میں تعلیم نہیں پائی پھر یہ عالم کیونکر ہوگیا؟جس طرح کہ مسیح اوّل کی روحانی باتوں کو سُن کر اس وقت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ کیا یہ یوسف بڑھنی کا بیٹا نہیں؟ اور اس کی ماں مریم ؑنہیں؟ پھر اس نے یہ سب کچھ کہاں سے پایا؟ (متی باب ۱۳.آیت ۵۵.۵۶) آپؑ کی طبیعت بچپن سے ہی ادب اور صداقت کی طرف مائل تھی اورپُرانے پرانے لوگ جنہوں نے آپ کا بچپن دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ جب آپؑ کسی کو جھوٹ بولتے یا لغو باتوں کی طرف مائل ہوتے یا استادوں کی نقلیں لگاتے دیکھتے تو آپؑ اس سے جدا ہوجاتے اور کبھی گناہ کی طرف مائل نہ ہوتے بلکہ ہمیشہ علمی مشغلہ رکھتے.جب آپ ؑجوان ہوئے تو آپؑ کے والد صاحب نے چاہا کہ آپ کو کسی کام پر لگائیں لیکن آپؑنے اس امر کی طرف توجہ نہ کی اور رات دن دین کی باتوں کی طرف متوجہ رہتے اور لوگوں سے کم ملتے.کھانا کم کھاتے اوراپناکھاناالگ منگوالیتے اور چند یتیم اور غریب لوگوں کو اکھٹا کرکے ان میں تقسیم کردیتے اوربہت تھوڑا سا کھانا ان کے ساتھ بانٹ کر کھاتے اورجب ان کے والد چاہتے کہ آپ کسی کام پر لگیں تو آپؑ کہتے کہ جس کام پرمَیں نے لگنا تھا لگ گیا ہوں آپ میری فکر نہ کریں مگر آپؑکے والد بعض نہایت افسردگی سے اپنے دوستوں سے زکر کرتے کہ دیکھو یہ میرا بیٹا اپنے بھائیوں کے سہارے پر زندگی بسر کرے گا.اس کا مجھے بہت دُکھ ہے مگر بعض دفعہ خوش ہوکر یہ بھی کہتے کہ اصل کام تو یہی ہے جس میں یہ لگا ہوا ہے.اورایسا ہوا کہ ان دنوں میں آپؑ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لئے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جاکر رہائش اختیار کرلی اور گذارہ کے لئے ضلع کی کچہری میں ملاذمت بھی کرلی.وہاں کی رہائش کے ایاّم میں آپؑ کے لئے آسمان کے دروازے کُھلنے لگے اور خدا کے فرشتے آپ ؑپر نازل ہونے لگے اور آپ ؑکو بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ غیب کی بتاتا جو اپنے وقت میں پوری ہوجاتیں جس سے مختلف مذاہب کے لوگ جو آپ سے تعلق رکھتے تھے آپ ؑکی قوتِ قدسیہ کے قائل ہونے لگے اور سب لوگ آپ ؑکی نسبت محسوس کرنے لگے کہ آپؑکی زندگی دُنیا کے لئے عجیب ہوگی.اور ایسا ہوا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے کئی قسم کی کرامتیں دکھانی شروع کیں جن کو ہندو مسلمان دیکھ کر حیران ہونےلگے اور خدا تعالیٰ کی طاقتوں پر ان کے ایمان بڑھنے لگے.ایک دفعہ آپؑ کچھ اور دوستوں سمیت جن میں ہندو بھی تھےاور مسلمان بھی ایک مکان میں سو رہے تھے.کہ آپ ؑکی آنکھ کھلی اور آپؑ کو ایک آوازسنائی دی جس سے آپؑ نے سمجھا کہ یہ چھت اب گرنے والی ہے آپ نے اپنے ساتھیوں کو جگایا اوران کو یہ بات بتائی مگر انہوں نے اس کو معمولی سمجھا اور چھت

Page 501

کو دیکھ پھر سوگئے.پھر انہوں نے جگایا کہ مَیں نے آواز سنی ہے اُٹھو اور اس مکان کو خالی کردو مگر انہوں نے پرواہ نہ کی اوران کا وہم سمجھا.پھر ان کو ایسی ہی آواز آئی اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ چھت گرے گی اور صرف آپؑ کے نکلنے کا انتظار کر رہی ہے.اس پر آپؑ نے ان کو جبراً اُٹھایا اور پہلے ان کو نکالا اور آخر میں آپؑ نکلے.جونہی کہ آپؑنے قدم اُٹھا کر سیڑھی پر رکھا چھت گر گئی اور تمام ساتھیوں نے محسوس کیا کہ اگر آپ ؑوہاں نہ ہوتے یا پہلے ان کو نکال کر بعد میں خود نہ نکلتے تو ضرور اس چھت کے نیچے دب کر مرجاتے اور وہ آپ ؑکو عزت اور تعجب کی نگاہوں سے دیکھنے لگے.جبکہ آپؑ سیالکوٹ ہی میں تھے کہ آپ ؑکی والدہ سخت بیمار ہوگئیں اور آپؑ کے والد صاحب نے ان کی بیماری کے سبب سے بھی اور اس خیال سے بھی کہ اس قدر عرصہ باہر رہنے کی وجہ سے اور دنیا کے سرد وگرم کے چھکنے کے سبب سے اب آپ ؑکی طبیعت دنیا کے کاروبار کی طرف مائل ہوگئی ہوگی آپ ؑکو واپس بلوالیا اوراپنی جائداد کا انتظام آپ کے سُپرد کردیا.مگر وہ پاکیزگی اور خدا سےلگائو جو آپ ؑکو حاصل تھا اس کا زور جس طرح کچہری کی ملازمت سے کم نہ ہوا تھا اب جائداد کے انتطام سے بھی اس میں کوئی کمی پیدا نہ ہوئی.آپ ؑوالد کے کہنے پر کام تو کرتے مگر توجہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف رہتی اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی یاد کو نہ بھولتے.چنانچہ ایک دفعہ آپ ایک مقدمہ پر گئے ہوئے تھے کہ نماز کا وقت آگیا.بعض دوستوں نے کہا کہ اس وقت یہاں سے جان درست نہیں کیونکہ ابھی مجسٹریٹ آواز دے گا مگر آپؑنےاس کی پرواہ نہ کی باہر جاکر نماز شروع کردی.اس عرصہ میں مجسٹریٹ نے پہلے مقدمہ سے فراغت حاصل کرکے آپؑکے مقدمہ کا کام شروع کیا اور آپ ؑکو آواز دی گئی مگر آپ اطمینان سے نماز پڑھتے رہے اورجب عبادت الٰہی سے فراغت حاصل کرکے عدالت میں گئے تو اس وقت تک مجسٹریٹ مقدمہ ختم کرچکا تھا.انہی دنوں میں ایک اور واقعہ پیش آیا جس سے آپؑ کا تعلق باللہ معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ ایک ضروری مقدمہ کے لئے گئے ہوئے تھے جس پر آپؑ کے والد کے حقوق کا بہت کچھ انحصار تھا ایک دوست کے ہاں ٹھہرے ہوئےتھے جب مقدمہ سےواپس آئے تو بہت خوش تھے.ا س دوست نےسمجھا کہ آپؑ مقدمہ جیت آئے ہیں مگر معلوم ہوا کہ مقدمہ آپؑ کے والد کے خلاف ہوا تھا اور آپؑ خوش اس امر سے تھے کہ اب کچھ دن آرام سے عبادت الٰہی کا مزا حاصل کریں گے.ان دنوںمیں آپؑنے ثابت کردیا کہ کس طرح انسان والدین کی اطاعت کرتے ہوئے بھی اپنے مالک اور آقا کو خوش کرسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ اپنے ماں باپ کی ہتک کرکے ہی خدا کو خوش کرے.

Page 502

آپ ؑکی عمر کوئی چالیس برس کی ہوگی کہ آپؑ کے والد فوت ہوگئے اور یہ پہلا دن تھا کہ آسمان کے دروازے آپ پر کھولے گئے اور خدا وند خدا آسمانوں اور زمینوں کا خدا آپ سے ہمکلام ہوا اور اس نے کہا کہ دیکھ مغرب کے وقت تیرا والد فوت ہوگا اور جب ایک آن کے لئے آپؑ کے دل میں خیال گزرا کہ پھر میں کیا کروںگا؟کہ اکثر آمدنی انہی کےذریعہ سے تھی تو پھر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا اور وہ یوں گویا ہوا.کہ اے میرے بندے! کیا تیرا رب تیرے لئے کافی نہیں؟ اس وقت سے آپؑ کی حالت دمبدم بدلنے لگی اور خدا کا جلال روز بروز زیادہ شوکت کے ساتھ ظاہر ہونے لگا اور دیکھو کہ آسمان اور زمین کےراز آپ پر کھلنے لگے اور اکثر باتیں جو آئندہ ہونی ہوتیں آپ پر ظاہر کی جاتیں اور وہ لوگ جو ان کو سنتے تعجب کرتےاور حیرت سے کہتے کہ خدا کے کام عجیب ہیں.اس وقت تک آپ کی صداقت اور نیکی کو دیکھ کر لوگوں پر یہ اثر پڑگیا تھا کہ دشمن بھی آپ ؑکی صداقت کا اقرار کرنے لگ گئے تھے اور آپ کے خاندان سے جن لوگوں کا جھگڑا ہوتا وہ اکثر اس امر پر راضی ہوجاتے تھے کہ جو فیصلہ آپ کردیں وہ انہیں منظور ہوگا اورجب آپ باوجود اپنانقصان ہونے کے ہر ایک کا حق اس کو دلواتے تو لوگ تعجب کرتے کہ کس طرح خدا اس شخص میں ظاہر ہوتا ہے.اور آپ ؑکی عادت تھی کہ جب آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی کا حق کوئی شخص مارتا ہے تو اس کو سمجھاتے اور اس کا حق دلوانے کی کوشش کرتے اور خصوصاً اپنے بھائی کو جو آپ ؑکی اوراپنی جائداد کے متنظم تھے بہت سمجھاتے کہ ہر ایک کا حق اس کو ادا کریں اوردنیا کے نقصان کی پرواہ نہ کریں اور اس طرح وہ بات پوری ہوئی کہ ابنِ آدم ؑآکر دُنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیگا.جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے پے درپے آپ پر نازل ہونے شروع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کے احکام نازل ہوئے جن کا مطلب یہ تھا کہ اسلام اس وقت نہایت بے کس حالت میں ہے اور دُنیا کی نظروں میں حقیر تو اُٹھ کر اس کی مدد کر اور اس کی عظمت اور صداقت کو لوگوں پر ظاہر کر.چنانچہ آپؑنے ایک ضخیم کتاب براہینِ احمد نام اس غرض سے تصنیف کی اور اس میں اسلام کی صداقت اور اس کی دوسرے مذاہب پر فضیلت ثابت کی اور ہر مذہب رملت کے لوگوں کو بلایا کہ اپنی الہامی کتابوں میں جو خوبیاں ہیں ان کو اسلام کے مقابلہ پر ظاہر کریں مگر باوجود بار بار کے بلانے کے لوگ مقابل پر نہ آئے اور ملک کے بڑے بڑے عالموں نے اقرار کیا کہ ایسی کتاب بغیر خدا کی تائید کے نہیں لکھی جاسکتی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپؑنے کسی بڑے مدرسہ میں تعلیم نہیں پائی.نہ کسی بڑے عالم سے علم سیکھا ہے.مگر ابھی وہ کتاب مکمل نہ ہوئی تھی کہ اللہ نے آپؑ

Page 503

پر ظاہر کیا کہ اب ہم تجھ سے ایک اور رنگ میں کام لینا چاہتے ہیں اور تُو مسلمانوں کی روحانی حالت کی درستی کی طرف توجہ کر.پھر آپ نے اس بات کیلئے اعلان کیا کہ جو لوگ خدا کیلئے آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں بیعت کریں.اسوقت سے آپ کی مخالفت ہونی شروع ہوگئی اور اسلام کی تائید کی وجہ سے مسیحی اور ہندو تو پہلے سے ہی مخالف تھے اب مسلمان بھی مخالفت پر آمادہ ہوگئے اور وقت کے علماءنے جو فقیہوں اور فریسیوں کے جانشین تھے اس امر کو پسند نہ کیا کہ لوگ ہماری اطاعت سے نکل کر اسکے ساتھ مل جاویں.کیونکہ وہ لوگ جانتے تھے کہ اسکے ساتھ مل کر انسان انسانی روایتوں کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور صرف خدا کی حکومت اسکے دل پر باقی رہ جاتی ہے.آپ خاموشی سے اپنا کام کرتے چلے گئے مگر ابھی تک آپ پر اللہ تعالیٰ نے پوری طرح نہ کھولا تھا کہ آپؑخدا کی نظروں میں کیا ہیں؟ جس طرح کہ مسیح اوّل پھر بھی اپنی بعثت کے ابتدائی ایّام میں نہ کھلا تھا کہ خدا نے اسے مسیحؑبنا کر بھیجا ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ اس نے اپنی بعثت کے دوسرے سال حواریوں سے سوال کیا کہ لوگ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟ اورجب انہوں نے کہا کہ بعض الیاس ،بعض یوحنا ،بعض یرمیاہ اوربعض نبیوںؑمیں سے کوئی.پھر اس نے پوچھا کہ تم مجھے کیا سمجھتے ہو؟ تو اس پر شمعون نے جواب دیا کہ تُو مسیحؑہے اس پر مسیح نے کہا کہ تجھ پر خود خدا نے یہ راز کھولا ہے اور کہا کہ مگر ابھی ’’کسُو سے نہ کہنا کہ مَیں یسوع مسیح ؑہوں.‘‘ (متی باب ۱۶ آیت ۲۰) اسی طرح مسیحؑ ثانی سے ہوا کہ پہلے دو سال تک اس کو معلوم نہ ہوا کہ وہی مسیحؑ ہےمگر آخر ۱۸۹۰ء کے آخر میں وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ کا فرشتہ نازل ہوا اور اسنے حقیقت آپؑ پر کھول دی جس کے ماحصل یہ تھا کہ تُو ہی وہ مسیح ابن مریمؑ ہے جسکی نسبت پہلے نوشتوں میں خبر دی گئی تھی کہ وہ دنیا کی ہدایت کیلئے آنیوالا ہے اور پہلا مسیح باقی نبیوں کی طرح عمر پاکر فوت ہوا اور اپنے باپ سے جو آسمان پر ہے اپنے باقی بھائیوں کی طرح جو اس سے پہلے گزرچکے تھے جا ملا اوریہ جو کہا گیا تھا کہ وہ دوبارہ دنیا میں آئیگا اس سے یہی مراد تھی کہ اسکے نام سے ایک شخص آئے گا جو اس کی طبیعت اور اس کی قوت سے کام کرےگا.جس وقت آپ نے اس امر کا اعلان کیا تمام ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سر ے تک مخالفت کا ایسا جوش امنڈ آیا کہ اسکی نظیر بہت ہی کم ملتی ہے.مسیحیوں کی طرف سے بھی سخت مخالفت شروع ہوگئی اور مسلمانوں کی طرف سے بھی اور گورنمنٹ بھی شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگی کیونکہ آپؑ کا دعویٰ مہدی ہونے کا بھی تھا اور مہدی کے نام کے ساتھ اس قدر روایات خونریزی کی وابستہ ہیں کہ گورنمنٹ اس

Page 504

نام کے سنتے ہی چوکس ہوجانے اور آپؑ کے سلسلہ کو شک کی نگاہوں سےدیکھنے پر مجبور تھی.مگر آپؑنے کسی کی پرواہ نہیں کی اور خدا نے جو کچھ بتایا تھا اس کا اعلان شروع کردیا اور لوگوں کو خدا کی طرف بلانا شروع کردیا اوربڑے زور سے تمام اقوام کو خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کی دعوت دینی شروع کی.اور تحریروں اور تقریروں کےذریعہ سے آپؑنے دُنیا کو جو نصیحت کرنی شروع کی اس کا ماحصل یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ مذہب جس سے اس وقت نجات وابستہ ہے اسلامی ہی ہے اور اس کا آخری کلام جس کےذریعے سے انسان خدا تعالیٰ سے مل سکتا ہے قرآن کریم ہی ہے اور اس کا آخری رسول جو شریعت لے کر آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے.مجھے اس نے جو سب دُنیا کا پیدا کرنے والا اورسب جہانوں کا مالک ہے اس غرض کے لئے بھیجا ہے کہ میں دُنیا کو جو خدا اور اس کے کلام اور اس کے رسولؐسے منہ موڑ چکی تھی ان کی طر ف پھیر کرلائوں اور قوموں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤں اور اس کی پر امن حکومت میں داخل کروں اور وہ جو اس سے جدا ہوگئے تھے ان کو اس سے لاکر ملائوں اوربے ایمانوں کو ایمان دوں اور اندھوں کو آنکھیں بخشوں اور بہروں کو کان دوں اور وہ جن کے جسم برص سے بد نما ہیں ان کو چنگا کروں اور مُروں کو زندہ کروں اور غافلوں کو ہوشیار کروں اور سوتوں کو جگائوں اور روٹھے ہوئوں کو منائوں اور بگڑے ہوئوں کو سنواروں اورگرے ہوؤں کو اُٹھاؤں اور جن کا کوئی والی اور وارث نہیں ان کی خبر گیری کروں اورجن کو خدا کی بادشاہت سے دھتکاراگیا تھا ان کے لئے اس کے دروازے کھولوں اوران کے حق ان کی دلوائوں اوراس نے اس دن سے بڑے زور سے منادی کرنی شروع کردی کہ اے لوگو! جو خواہ کسی مذہب کے ہو تمہارے لئے خدا کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں تم خدا کو ایک مانو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو اختیار کرو تو تمہارے لئے آسمان سے برکتیں نازل ہوں گی اور زمین سے افزونی ہوگی اور اے لوگو جو مسلمان کہلاتے ہو مت خیال کرو کہ تم مسلمان کہلا کر خدا کو کوش کرلو گے.خدا تعالیٰ منہ کی باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ دل کے اعمال سے اور جو ارح کی تصدیق سے.تم اپنے خیالات کو درست کرو اوراپنے اعمال کی نگہبانی کرو کیونکہ یہی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں بندہ کو عزت دیتی ہیں یہ مت خیال کرو کہ ہم خدا کے پیارے ہیں وہ ہمیں سزا نہیں دے گا بلکہ ہمارے دشمن کو مارے گا وہ تمہارے دشمن سے پہلے تمہیں مارے اوراس کو جہنّم میں گرانے سے پہلے تم کو گرائے گا کیونکہ وہ اس کی تعلیم سےناواقف تھا اور تم واقف تھے اور وہ اندھیرے میں ہونے کے سبب حق اور باطل میں فرق نہیں کرسکتا تھا اور تم کرسکتے تھے.

Page 505

اے مسلمانواور مسلمانوں کی اولادو! اپنے دل کی سختی کو ترک کرو اور خدا کے لئے حلیمی اختیار کرو اور دین کے نام سے تلوار چلا کر خوش نہ ہو کہ اس طرح تم خدا کے پیارے نہیں بلکہ اس کی نظروں میں ناپسندیدہ ٹھہرتے ہو کیونکہ تم اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اورپنے لئے لُوٹ حاصل کرنے کے لئے خدا اور رسولؐاور اس کی کتاب اور اس کے دین کو بدنام کرتے ہو اوراپنے پیٹ پالنے کے لئے لوگوں کےگلے کاٹتے ہو اور خدا تعالیٰ کو تو بدنام کرتے ہو مگر اپنے لئے عزت چاہتے ہو کیا خدا کا کام اپنی عزت کےلئے ڈاکے اور قتل کا محتاج ہے؟ بندہ کا اچھا کلام بھی جب اپنی خوبی منوانے کے لئےظلم اور تعدی کا محتاج نہیں ہوتا توپھر خدا کا کلام اس کا محتاج کیوں ہونے لگا؟اے سنگدلو ! جس چیز کو تم جہاد سمجھتے ہو اور دین کی جنگ قرار دیے ہو وہ لُوٹ اور ڈاکے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا اور اس کے ساتھ تم نے دین کی مدد نہیں کہ بلکہ ہر شریف اور نیک انسان کو سچّے مذہب سے بدظن کردیا ہےاوراب تم ہر ایک اس شخص کے گناہ کےذمہ وار ہو جس کو اس طرح تم نے اسلام سے پھرا دیا ہے.اے علماء کے گروہ !تمہارے لئے اس قدر بس تھا کہ خدا تم سے خوش ہوجاتا بلکہ یہ سب سے بڑی بات تھی اور اس کے سوا کوئی اور پسندیدہ بات نہ تھی مگر تم نے دنیا کی خوشی کو اپنا مقصد قرار دیدیا ہے اور لوگوں کے مونہوں کی طرف دیکھتے ہو اوران کی آواز وں کی طرف کان رکھتے ہو مگر خدا کی رضا کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کی آواز پر کان نہیں دھرتے تم جس بات کے پیچھے پڑے تم نے وہ حاصل کرلی لیکن تم دنیا کی رضا چاہ کر خدا کی رضا حاصل نہیں کرسکتے وہ تم سے اپنا حق چاہے گا اوراپنے مطالبہ کو تم سے پورا کرے گا.اے لوگو! تم مال و دولت جمع کرکے سُکھ نہیں پاسکتے بلکہ ہر ایک جو خدا کی غریب اور نادر مخلوق کی خبر گیری کرتا ہے وہی سُکھ پائے گا اور جو عاجزوں کی مدد کرتا ہے خداوند کی طرف سے مدد دیا جائیگا اور جو کمزوروں کا خیال رکھتا ہے آسمان پر اس کا خیال رکھا جائے گا اور جب وہ سو رہا ہوگا خدا اس کے لئے جاگے گا اور جب وہ غافل ہوگا خدا اس کے لئے ہوشیار ہوگا.اورجب وہ اپنے دشمن سے بے خبر ہوگا خدا تعالیٰ اس کی طرف سے اس کے دشمن کا مقابلہ کرےگا کیونکہ اس نے اپنے محدود ذرائع کے ساتھ خدا کے غریب بندوں کی مدد کی اوران کی ہلاکت سے بچایا.پس خدا کی غیرت کب برداشت کرے گی کہ وہ غیر محدود خزانہ رکھتے ہوئے اس سے بُخل کرے اور اپنے خزانوں کو اس سے روک لے؟

Page 506

جھوٹ مت بولو کہ جھوٹ ایک زہر ہے سچ کو اختیار کرو کہ خدا کے حضور میں راستباز ہی مقبول ہوتے ہیں.امانت سے کام لو اور خیانت سے پرہیز کرو.تم سے کہا گیا تھا کہ بد نظری سے کسی عورت کی طرف مت دیکھو مگر مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے سردار محمد مصطفٰےؐکو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تُو کسی نامحرم عورت کو نہ دیکھ خواہ بد نظری سے خواہ نیک نظری سے.سوائے اس کے کہ تیری نظر اتفاقی طور پر پڑجائے کیونکہ دل کے بھی دروازے ہوتے ہیں.جس طرح گھروں کے دروازے ہوتے ہیں اور دروازوں کو کھُلا چھوڑنا اور چوروں سے مطمئن رہنا نادانی کی بات ہے اور بیوقوفوں کا کام ہے.تم سے کہا گیا تھا کہ اسقدر شراب نہ پئو کہ مست ہوجائو مگر میں تم سے کہتا ہوں کہ نبیوںؑ کےسردار ؐکو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم میں سے کوئی شراب نہ پئے نہمست ہونے کی حد تک اور نہ اس سے کم کیونکہ شراب ایک زہر ہے جو دامغ کی ابریک طاقتوں کو ہلاک کردیتا اور خدا سے ہمکلامی کی طاقت کو مار دیتا ہے اور وہ ایک اژدہا ہے جو انسان کو کھینچ کر ایسے علاقوں میں لے جاتا ہے جہاں وہ نہیں جانا چاہتا تھا.تم سے کہا گیا تھا کہ بے سبب غصہ مت ہو.مگر راستبازوں کے سردارؐکو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تو یہی نہ کر کہ بے سبب غصہ مت ہو بلکہ تُو دوسروں کو بھی سمجھا کہ بے سبب غصہ نہ ہوں اور لوگوں پر رحم کریں کیونکہ اگر یہ بے سبب غصہ نہیں ہوتا تواپنی جان بچاتا ہے مگر یہ خدا سے ملنا چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ دوسروں کو بھی بچائے.تم سے کہا گیا تھا کہ عورت کو سوائے زنا کے طلاق نہ دو مگر مَیں تمہیں اسلام کے مطابق یہ تعلیم دیتا ہوں کہ زنا ہی ایک بدکاری نہیں اس سے اُتر کر اور اس کے علاوہ بھی بہت سی بدکاریاں اور بدیاں ہیں تُو ان کی وجہ سے بھی جب دیکھے کہ عورت کی اصلاح کسی طرح نہیں ہوسکتی تو اس کو طلاق دے سکتا ہے جیسے اگر کوئی عورت ظالمہ ہے کہ دوسروں کو دُکھ دیتی ہے یا بد نظر ہے یا بے حیا ہے یا خائن ہے کہ لوگوں کے حقوق کو دبا لیتی ہے اور باوجود سمجھانے کے باز نہیں آتی اس صورت میں وہ تجھ سے نہیں بلکہ ایک خراب شدہ عضو ہے اگر وہ علاج پذیر نہیں ہوتا تو اس کو کاٹ کر پھینک دے.تمہیں کہا گیا تھا کہ قسم نہ کھا لیکن اسلام کے مطابق تمہیں یہ تعلیم دیتا ہوں کہ جھوٹی قسم نہ کھا اور نہ بلا ضرورت قسم کھا اور نہ اُن چیزوں کی قسم کھا جن کی قسم کھانا قسم کی غرض کو پورا نہیں کرتا.ہاں ضرورت

Page 507

کے مطابق سچّی قسم تُو کھاسکتا ہے کیونکہ دُنیا کے کاروبار کو درست طور پر چلانےکے لئے قسم بھی ایک ضروری شئے ہے اور حکومتوں کے بہت سے کام قسم کےذریعے ہی چلتے ہیں.تم سے کہا گیا تھا کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرمگر میں تم سے اسلامی کی تعلیم کے مطابق کہتا ہوں کہ ہر جگہ ہر ظالم کا مقابلہ نہ کرنا درست نہیں بلکہ اصل تعلیم یہی ہے کہ ہر ایک بدی کا بدلہ اس کے مطابق ہے.ہاں جس جگہ بدی کے معاف کردینے سے بدکار کی اصلاح کی اُمید ہو یا اور کوئی ایسا فائدہ مترتب ہوتا ہو جو بدکار کو سزا دینےسےزیادہ ہے تو تب تُو معاف کر اور سزا نہ دے کیونکہ اس صورت میں اگر تُو سزا دیگا تو بدی کو پھیلانے والا ہوگا نہ اس کو مٹانے والا.تم سے کہا گیا تھا کہ اپنے دشمن سے پیار کرو مگر مَیں تمہیں اسلام کی تعلیم کے مطابق کہتا ہوں کہ تُو اپنی نفسانیت کیوجہ سے کسی کا دشمن نہ ہو اور نہ اپنی نفسانیت کی وجہ سے کسی کو اپنا دشمن بننے کا موقع دے اور چاہئے کہ تیرا دشمن ہونا صرف خدا اوراس کے رسولؐاوراس کی کتاب کی وجہ سے ہو اور اس صورت میں بھی گو تُو اس کے لئے دعا کرے اوراس کے لئے ہدایت طلب کرے مگر یاد رکھ کہ اس کے فعل سے پیار نہ کر اور اس کو ایک آنکھ سےپسند نہ کر بلکہ چاہئے کہ جس قد جلد ہوسکے اس کو مٹا اور دنیا کو بدی سے پاک کر کیونکہ بدی کا قائم رہنا نہ صرف تیرے لئے بلکہ اس کے لئے بھی جو بدی کرتا ہے مُضر ہے.تجھے چاہئے کہ بد انسان کا خیرخواہ ہو اوربدی کا دشمن.پھر وہ مسیحیوں سے مخاطب ہوکر یوں کہتا کہ اے لوگو جنہوں نے حلم کو اپنا شعار بنایا ہے اور محبت کو اپنا لبا س تم کیوں منہ سے وہ باتیں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟کیا فریسی اور فقیہی یہی کام تم سے پہلے نہیں کرتے تھے؟ اور کیا وہ باوجود موسٰی اور دوسرے نبیوںؐپر ایمان لانے کے ہلاک نہیں ہوگئے ؟ پھر تم میں کیا فضیلت ہے کہ صرف منہ کی حلیمی اورزبان کی باتون سے تم خدا کی بادشاہت میں داخل ہوجائو.چاہئے کہ جس طرح تم کہتے ہو کر کے بھی دکھائو.تا خدا تمہیں صداقت کی طرف ہدایت کرے اور راستی کو تم پر ظاہر کرے.تم لوگوں کو سناتے ہو کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کے سامنے پھیر دے لیکن تمہارا پنا یہ حال ہے کہ بِلا اس کے کہ کوئی تمہاری گال پر تھپڑ مارے تم دوسروں کی گالوں پر تھپڑ مارتے ہو اوراگر کوئی تم پر زیادتی کر بیٹھے تو تم اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک اس کو مٹا نہ لو تم چادر مانگنے والے کو کُرتا بھی اُتار کر نہیں دیتے بلکہ جس کے جسم پر چادر دیکھتے ہو چاہتے ہو کہ چھین لو بلکہ ساتھ ہی کُرتا بھی.تم لوگوں سے کہتے ہو کہ اپنے ہمسایوں سے پیار کرو لیکن تمہارا کون سا ہمسایہ ہےجو تم سے

Page 508

خوش ہے؟ تم اپنے ہمسایوں کو مٹانا چاہتے ہو اور ان کی قبروں پر بیٹھ کرمے کے پیالے اُڑاتے ہو اور ان کے برباد مکانوں میں عیش کی مجالس مقرر کرتے ہو اوران کی بیوائوں اور ان کے یتیموں کی آہ وزاریوں پر قہقہہ لگاتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ اسی لائق تھے.تم لوگوں کو سناتے ہو کہ چاہئے کہ تمہارے عمل دکھاوے کے لئے نہ ہوں لیکن خود تمہارے عمل اسی قسم کے ہوتے ہیں کیا تمہاری ہر ایک بات دکھاوے کے لئے نہیں؟ کیا تمہارا ہر ایک کام ریاء کے طور پر نہیں؟ اور کیا تم نے اپنی تمام ترقی کا مدار اسی کو نہیں سمجھ رکھا کہ لوگوں کو بتاؤکہ ہم نے کیا کام کئے ہیں؟ تم لوگوں سے کہتے ہو کہ نیکی کو نیکی کےلئے کرو لیکن خود تم ہر ایک کام کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہو کہ اس سے ہمیں سیاسی فائدہ کیا پہنچے گا اور مالی فائدہ کیا پہنچے گا؟ حتّٰی کہ تم اس کلام کو بھی جسے خدا کا کلام سمجھتے ہو اس لئے دُنیا میں پھیلاتے ہو تا تمہارا جتھہ مضبوط ہوجائے اور تمہاری طاقت بڑھ جائے ورنہ تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو خدا اور اس کے کاموں پر مطلق یقین نہیں رکھتے.تم لوگوں کو خدا کی بادشاہت کےوعدے دیتے اور اس کی طرف بلاتے ہو لیکن تمہارا اپنا یہ حال ہے کہ وہ تسلّی دہندہ جس کی سنبت یسوؑع کہہ چکا ہے کہ وہ ساری سچائی کی باتیں سکھائے گا اس کو آئے ہوئے تیرہ سو سال سے زیادہ گذر چکے ہیں اوراب تک تم نے اس کو قبول نہیں کیا اور نہ صرف یہ کہاس کو قبول نہیں کیا بلکہ تم اس سے عداوت کرتے ہو اور اس سے پیار کرتے ہو جو بیٹے کے رنگ میں آیا اور اس سے دشمنی کرتے ہو جو باپ کا نام پاکر آیا اور یہ بھول جاتے ہو کہ بیٹے کاگناہ معاف ہوسکتا ہے مگر رُوح کا نہیں.تمہیں کیا ہوگیا کہ تم شاخ سے محبت کرتے ہو مگر جڑ کو کاٹتے ہو.سب سے بڑا جُرم جس کے مقابلہ میں تمہارے سب عیب حقیر نظر آتے ہیں یہ ہے کہ تم اس کی ہتک کرتے ہو جو زمین و آسمان کا پیدا کرنیوالا ہے اور جو آدم ؑکا خدا ہے اور نوحؑ کا خدا ہے اور ابراہامؑ کا خدا ہے اور اسحاقؑ اور اسمٰعیل ؑ کا خدا ہے اور یوسفؑ کا خدا ہے اور موسٰی کا خدا ہے اور داؤد ؑکا خدا ہے اور یسوعؑ کا خدا ہے.تم پڑھتے ہو کہ وہ ایک خدا ہے اور موسٰی کا خدا ہے اور داؤدؑکا خدا ہے اور یسوعؑ کا خدا ہے.تم پڑھتے ہو کہ وہ ایک خدا ہے اور تم یہ بھی پڑھتے ہو کہ اُسن ے بیٹے کو سب کچھ دیا اور تم یہ بھی پڑھتے ہو کہ تم اس کے مقابلہ میں کسی کو کھڑا مت کرو.مگر پھر تم یسوؑع مسیح کو جو اس کا ایک بندہ تھا اور نبیوؑں میں سے ایک نبی

Page 509

اور صرف تمثیلی طور پر خدا کا بیٹا کہلاتا تھا جس طرح اوربعض نبیؐ خدا کہلاتے تھے خدا کا حقیقی بیٹا قرار دیتے ہو اور اس کے لئے عبادت کرتے ہو اور اس سے دُعائیں مانگتے ہو اور اس کی بڑائی اس طرح کرتے ہو جس طرح خدا کی کرنی چاہئے اورپھر ساتھ ہی ساتھ ایک ہی سانس سے یہ بھی کہے جاتے ہو کہ شرک نہ کرو کہ شرک ایک بہت بُری چیز ہے اور خدا کی نظروں میں ناپسند.اور نہیں ڈرتے کہ اس عظیم الشان گناہ کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں تم سے سچے کہتا ہوں کہ خود یسوع مسیح تمہارے خلاف باپ کے سامنے کھڑا ہوگا اور تم پر گواہی دے گا اور تم سے نفرت کا اظہار کرےگا کیونکہ اس نے عمر بھر یہی تعلیم دی کہ تُو سب سے زیادہ باپ کی عزت کر اور وہ یہی کہتا رہا کہ علم غیب بھی خدا کو ہے اور سب طاقت بھی خدا کو ہے اور سب نشانات بھی اس کے پاس ہیں اور فیصلہ بھی وہی کرے گا اور مالک بھی وہی ہے اور رزاق بھی وہی ہے مگر باوجود اس کے تم نے اس کی باتوں کو ردّ کیا.تم نے اس سے محبت کرکے دشمنی کی اور پیار جتا کر مخالفت کا اظہار کیا اور اس کے کہلا کر اس کے عمر بھر کے کام کو تباہ کیا اور پھر تم خوش ہوکہ وہ واپس آکر تمہارے کاموں کا اچھا بدلہ دے گا.اے نادانو! اچھا بدلہ نہیں بلکہ وہ تمہیںملزم کرنے کے لئے آوے گا چنانچہ مَیں اس کے نام پر اس لئے کھڑا کیا گیا ہوں تا تمہاری غلطیوں پر تمہیں آگاہ کروں اور تمہیں اس عذاب کے دن سے ڈرائوں جس دن آسمان ہلائے جاویں گے.اور زمیں جنبش کھائیگی اور ہر ایک انسانی صنعت جس پر وہ فخر کرتا تھا اور اسے اچھا سمجھتا تھا اپنے بنانے والے کے لئے ہلاکت کا موجب ہوگی اور انسان اپنے ہاتھو ں کی محنت سے مارا جائے گا اوراپنی انگلیوں کی صنعت سے قتل کیا جائے گا اورجس پر وہ فخر کرتا تھا وہی اس کو اس کی قبر میں دھکیلے گی.پس وقت سے پہلے ہوشیار ہوجائو اور اس گھڑی کے آنے سے پہلے توبہ کرلو.اورا س کو قبول کرلو جس کی اپنی پہلی بعثت میں مسیحؑنے خبر دی اور اب اپنی دوسری بعثت میں وہ تمہیں اس کی طرف بُلاتا ہے.اگر تم اس کو قبول کرلو گے تو مَیں تمہارا اپنے باپ کے پاس گواہ ہوں گا اور تمہاری راستبازی کو اس پر ظاہر کروں گا اور تم اس کی رضا کو پاؤ گے اور اس کی رحمت کے کاموں کو محسوس کروگے.تم کہتے ہو کہ مسیحؑ صلیب پر لٹک کر فوت ہوگیا اور اس طرح اس کو جو بے گناہ تھا لعنتی قرار دیتے ہو اور جو تمہارے لئے دُکھ اُٹھاتا تھا اسے لوگوں کی نظروں میں حقیر قرار دیتے ہو کیونکہ مقدس نوشتوں میں لکھا تھا کہ جو صلیب پر لٹک کر مرتا.وہ لعنتی اور جُھوٹا نبی ہوتا ہے.پس تم اپنے

Page 510

منہ سے اسے کے جھُوٹے ہونے کا اقرار کرتے ہو اور اس کے دشمنوں کو اس پر ہنسنے کا موقع دیتے ہو.لعنت تو خدا سے دُوری کو کہتے ہیں پھر تم کس طرح کہتے ہو کہ مسیح خدا کا پیار ابھی تھا اورپھر اس کا دل خدا سے پھر گیا؟ خدا سے دل سوائے بدکار کے کسی کا نہیں پھرتا اور اس سے نفرت سوائے سرکش کے کوئی نہیں کرتا پھر تم کیوں یسوع مسیحؑ کو جو خدا کا پیار ااور محبوب تھا لعنی قرار دیتے ہو؟ کیا پڑھتے نہیں کہ: ’’اس زمانہ کے بد اور حرام کا ر لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں.پر یونسؑ نبی کے نشان کے سواکوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے گا.کیونکہ جیسا یونسؐ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابنِ آدم ؑتین رات زمین کے اندر رہے گا.‘‘ (متی باب ۱۲ آیت ۳۹ ،۴۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء) پھر کیوں نہیں غور کرتے کہ کیا یونس ؑمرکر مچھلی کے پیٹ میں گیا تھا؟ کہ ابن آدمؑ صلیب پر مرکر قبر میں رکھا جائے؟کیا یونس ؑتین دن رات مچھلی کے پیٹ میں مردہ رہا تھا یا زندہ؟ پھر کیوں ابن آدم ؑتین دن رات زمین میں مُردہ رہے؟ عقلمند ہوکر کیوں اپنی آنکھیں بند کرتے ہو؟ اور اپنے استاد کو گنہگار ٹھہراتے ہو تا تم راست باز ٹھہرو.یونس زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں گیا اور زندہ ہی رہا اور زندہ ہی نکلا.اسی طرح ابن آدم زندہ ہی قبر میں گیا اور زندہ ہی وہاں رہا اور زندہ ہی وہاں سے نکلا اور یروشلم کو خدا کا یہ نشان دکھایا گیا کہ کس طرح خداوند خدا زندگی اور موت کا خدا صلیب پر سے اپنے بندہ کو زندہ اتارتا اور دشمن کی آنکھوں کے سامنے اسے موت سے بچا لیتا اور خود مخالفوں کے ہاتھوں سے اپنی باتیں پوری کروالیتا ہے.تمہیں کیا ہوگیا کہ تم پڑھتے ہو کہ وہ قبر میں سے نکلنے کے بعد چھپ کر یروشلم میں پھرتا رہا اور اس نے اپنے زخم تھوما کو دکھائے اور حواریوں سے کہا کہ: ’’میرے ہاتھ پاؤں کو دیکھو کہ میں ہی ہوں اور مجھے چھوئوا ور دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کہ انہیں اپنے ہاتھ اور پائوں دکھائے.‘‘ (لوقا باب ۲۴آیت ۳۹ ،۴۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء) اور پھر ان سے لیکر اس نے کھانا بھی کھایا مگر پھر یقین نہیں کرتے کہ خدا نے اسے صلیب کی لعنتی موت سے بچایا اورصرف موت کے ہمرنگ حالت میں سے گزارکر اوریونسؑنبی کا سا معجزہ دکھا کر لوگوں پر حجت قائم کردی اور پھر اسے موقع دیا کہ وہ بنی اسرائل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرے

Page 511

اورانہیں بھی خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دے.غرض آپ اسی طرح کی باتیں کرتےاور لوگوں کو کئی کئی رنگ میں سمجھاتے اوران مضامین کو جنہیں مَیں نے اوپر بیان کیا ہے.مختلف لفظوں اور مختلف عبارتوں میں کبھی تحریر کےذریعے اور کبھی تقریر کےذریعے لوگوں تک پہنچاتے اور اس کے علاوہ اوربہت سی حکمت کی باتیں آپ کرتے اور دوسرے مذاہب کو بھی دعوت دیتے اور ان کی غلطیوں پر ان کو آگاہ کرتے اور خدا کا کلام ان کو سناتے اور جب آپ ؑکوئی مضمون لکھتے یا تقریرکرتے اوربہت لوگ دل میں ڈرتے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں سچ ہے پر بہت لوگ پادریوں اور پنڈتوں اور مولویوں کےکہنے پر یہ خیال کرتے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں ان کو دوسرے لوگ سکھاتے ہیں اور خود ان کو کچھ نہیں آتا اور اس طرح اقرار کرلیتے کہ جو کچھ آپؑ کہتے ہیں وہ ایسا اعلیٰ درجہ کا کلام ہے کہ آپ ؑکی طاقت سے بالا ہے مگر شبہات کی چاروں میں اس حقیقت کو لپیٹنے کی کوشش کرتے اوراپنے انکار میں اوربھی بڑھ جاتے.جب مولویوں ،عالموں اور پادریوں نے دیکھا کہ آپ ؑکی باتیں لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہیں اور جو لوگ آپؑ سے ملتے ہیں آپ کے کلام کو سن کر متأثر ہوجاتے ہیں تو انہوں نے لوگوں میں یہ کہنا شروع کیا کہ اس کی باتیں مت سنو اور اس کی کتابیں مت پڑھو کیونکہ اس کا تعلق شیطان سے ہے اور یہ جادوسے لوگوں کے دلوں کا حق سے پھیر دیتا ہے اوراپنی جھوٹی باتیں ان کی نظروں میں اچھی کرکے دکھا دیتا ہے.اورانہوں نے آپ کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا کرنا شروع کیا اور پادریوں نے گورنمنٹ کو اُکسانا شروع کیا کہ یہ یسوع مسیح کی ہتک کرتا ہے اور مولویوں نے عوام الناس کو جوش دلانا شروع کیا کہ یہ کفر کی باتیں کرتا ہے کیونکہ وہ ڈرے کہ اگر اس کی تعلیم کو ہم نے نہ روکا تو لوگ اس کی باتوں کو قبول کر لیں گے اور ہماری حکومت جو لوگوں پر ہے جاتی رہے گی اور ایسا ہوا کہ ملک کے بڑے بڑے مولویوں نے مل کر ایک فتویٰ تیار کیا اور اس میں آپ کے خلاف اورآپؑ کے مریدوں کےخلاف خوب زہر اُگلا اور لکھ دیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور دین سے خارج ہے اور اس کو نقصان پہنچانا ثواب کا موجب ہے اور اس کو اور اس کے ماننے والوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن نہیں ہونے دینا چاہئے اورہر ایک مذہب والے نے اپنی رائے سے اس پر الزام قائم کرنا چاہا اور یہ نہ دیکھا کہ خدا کی کتابیں اورا سکی رسولوں کی باتیں کیا ثابت کرتی ہیں؟ مگر اس تمام شورش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک جگہ اس کے قلیل التعداد ماننے والے دُکھ دئیے جانے لگے اور لوگ اپنی

Page 512

نادانی سے یہ سمجھتے تھے کہ ان کو تکلیف دیکر ہم خدا کو خوش کرتے ہیں اور کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ خدا کو ناراض مگر مولویوں کو خوش کررہا ہے.جب مولویوں اورپادریوں اوردیگر فرقوں کے مذہبی لیڈریوں نے دیکھا کہ اب بھی اس کی باتیں اثر کررہی ہیں تو انہوں نے آپؑ کے خلاف جھوٹی باتیں شائع کرنی شروع کیں.اورگالیوں کے بھرے ہوئے اشتہار جن کو ایک شریف آدمی پڑھ بھی نہیں سکتا شائع کرنے لگےاور ایسے ایسے طریق ایذاء دہی کے ایجاد کئے کہ شاید پہلے نبیوںؑکے دشمنوں کو وہ نہیں سوجھے تھے.اوربعضوں نے یہ دیکھ کر اشتہاروں کےذریعے ان کے جوش نہیں نکل سکتے کیونکہ گورنمنٹ انگریزی کا قانون فحش کی اشاعت کا مانع ہےیہ طریق ایجاد کیا کہ خطوں میں سخت گندی گالیاں جن کو نہ تحریر میں لایا جاسکتا ہے اور نہ قانوں اور اخلاقی ان کو تحریر میں لانے کی اجازت دیتے ہیں بغیر ٹکٹ لگانےکےآپؑ کے پاس بھیج دیتے اور کئی ہزار خطوط اس قسم کے آپؑ کے پاس پہنچے جن کا محصول ادا کرکے جب ان کوکھولا گیا تو اندر سے گالیوں کے سوا کچھ نہ نکلا.مگر آپؑ ان باتوں کی پرواہ نہ کرتے اوراپنا کام کئے جاتے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں عاجزانہ طور سے دعائیں کرتے کہ لوگوں کی آنکھیں کھو ل دے تا وہ تیرا چہرہ دیکھیں اور میری ضد سے تیرے دروازہ کو نہ چھوڑیں اوراپنے لئے آپ نجات کے دروازے بند نہ کریں.آپ ؑدن کو وعظ و نصیحت کرتے اور راتوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں دُعائیں کرتے تا وہ دنیا پر رحم کرے اوراپنا چہرہ ظاہر کرے اور اسی طرح دن کے بعد دن،ہفتہ کے بعد ہفتہ اور مہینہ کے بعد مہینہ گزرتا اور اسی کا م میں آپؑ مشغول رہتے اور خدا تعالیٰ کی طرف بلائے بغیر ایک دن میں آرام نہ کرتے،دیکھنے والے تھک جاتے، باری باری مدد کرنے والے چُور ہوجاتے مگر آپؑ باوجود کمزور صحت اوربڑی عمر کے نہ تھکتے نہ گھبراتے بلکہ خوش خوش خدا تعالیٰ کی تبلیغ میں مشغول رہے ،نہ گالیوں کی پرواہ کرتے اور نہ مخالفت کا خیال اورصرف اسی وقت سختی کا جواب دیتے جب یہ سمجھتے کہ اسکے بغیر دن کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.مگر آپ کا دشمن کے حملہ کا جواب اس کی اصلاح کی غرض سےہوتا تھا نہ کہ کسی کو دُکھ پہنچانے کے لئے.جبکہ دشمن اپنی طاقت کے گھمنڈ میں تھا اور یہ خیال کرتا تھا کہ مَیں اس شخص کو جو اکیلا ہے پیس ڈالوں گا وہ زبردست بادشاہ جس نے اسے بھیجا تھا کہ تا اس کے بندوں سے اس کے حقوق طلب کرے اسے بشارت پر بشارت دے رہا تھا اور تسلی پر تسلّی دلا رہا تھا اوربجائے اس کے کہ

Page 513

اس مخالف سے وہ ڈرے یا خیال کرے کہ شاید اس مخالفت کو دیکھ کر لوگ مجھ پر ایمان نہ لائیں گے وہ اور بھی زیادہ زور سے خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کو جو اس سے ہوئے تھے شائع کررہا تھا.جن میں سے بعض یہ ہیں:- خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دُنیا منقطع ہوجائے عزّت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دُنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.مَیں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں.وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامُرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.مَیں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دُونگا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کےا س دوسری گروہ پر تابروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا پنا اجر پائیں گے.تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید - تُو مجھے سے اور مَیں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اَے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو.اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو.اگر تم سچے ہو اور اگر تم بھی پیش نہ کرسکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کرسکو گے تو اس آگ سے ڈرو جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.‘‘ (تذکرہ صفحہ ۱۴۱،۱۴۲ ایڈیشن چہارم) تُو مغلوب ہو کر یعنی بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہوکر پھر آخر غالب ہوجائے گا اورانجام تیرے لئے ہوگا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی.خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید تیری عظمت تیری کمالیت پھیلادے

Page 514

خدا تعالیٰ تیرے چہرہ کو ظاہر کرے گااور تیرے سایہ کو لمبا کردے گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہیں کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.عنقریب اسے ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن اُس پر کھولے جائیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگرد نشان دکھاویں گے حجت قائم ہوجائے گی اور فتح کھلی کھلی ہوگی.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بھاری جماعت ہیں.یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیرلیں گے.اگرچہ لوگ تجھے چھوڑ دیں گے پرمیں نہیں چھوڑوں گا اور اگر لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں بچاؤں گا.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.قدرت نمائی سے تجھے اٹھاؤں گا.اَے ابراہیم تجھ پر سلام.ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا.خداتیرے سب کا م درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید.خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے.جب تک وہ خبیث کو طیّب سے جدا نہ کر لے.وہ تیرے مجد کو زیادہ کرے گا اور تیری ذریّت کو بڑھائے گا اور من بعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیاجائے گا.میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دُوں گا اور تیرا ذکر بلند کروںگا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دُوں گا.جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا ) ان کو کہہ د ے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں.یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا.سوتُو ان کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں.خدابہتر جانتا ہے تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور اصل حقیقت تم پر مکشوف نہیں.(تذکرہ صفحہ ۱۸۳تا ۱۸۵ ایڈیشن چہارم) ’’ خدا تیرے دشمنوں کے مقابلہ میں تیرے لئے خود سامان پیدا کرے گا.کچھ لوگ ایسے ہونگے جو ہدایت پائیں گے اور کچھ لوگ سزا کے مستحق ہونگے.یہ وہ لوگ ہونگے جو تیرے خلاف تدبیریں کریں گے اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیریں کرے گا اور اللہ اچھی تدبیریں کرنے والا ہے.اور یہ لوگ تجھے ایک ہنسی کے قابل اور حقیر وجود سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا اللہ نے اس شخص کو رسول بنادیا ہے.تُو کہہ اَے منکرو! مَیں سچا ہوں.پس میرے نشانات کا ایک وقت تک انتظار کرو.ہم ضرور اپنے نشانات ان کو بیرونی دُنیا میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی جانوں میں بھی دکھائیں گے جو ہمیشہ کے لئے

Page 515

ایک دلیل ہونگے.اور کھلی کھلی فتح کا موجب ہونگے.اللہ تعالیٰ خود ہی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا.اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والے اور جھوٹے کو کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونکوں سے بجھادیں.اور اللہ چاہتا ہے کہ خواہ منکر اسے کسی قدر ناپسند کرتے ہوں.وہ اپنے نور کو قائم کرکے دکھائے.‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۳۴۱،۳۴۲،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۴۱.۴۴۲) یہ باتیں اس وقت لوگوں کو ایک مجنونانہ بڑ معلوم ہوتی تھیں اورلوگ دلوں میں ہنستے تھے کہ اس شخص کو کیا ہوگیا کہ ساری دنیا اس کی دشمن ہے اور سب مذاہب اس پر حملہ کر رہے ہیں؟ اور اس کے ساتھ کوئی جتھا نہیں.چند گنتی کے آدمی اس پر ایمان لائے ہیں اور اس کا نام قعر گمنامی میں پڑا ہوا ہے اور اس کی عمر آخر ہونے کو ہے اور یہ اس قدر زور سے دعویٰ کر رہا ہے کہ مَیں غالب آئوں گا اور لوگ کثرت سے مجھ پر ایمان لاویں گے اور دُنیا کے کناروں تک میرے نام خدا مشہور کرے گا اور مَیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گا اور خدا سے دُور جانے والوں کو خدا تعالیٰ کی طرف پھیر کر لائوں گا.مگر آج جب کہ چالیس سال اس دعوٰے پر گزرگئے ہیں یہ پیشگوئیاں پوری ہو کر دنیا کو حیران کررہی ہیں.دنیا کے کناروں تک آپؑکانام مشہور ہوچکا ہے اور لاکھوں آدمی اس وقت تک ایمان لاچکا ہے.جب یہ دعاوی اورخدا کی باتیں شائع کی جاتیں تو مخالف اوربھی زیادہ جوش میں ا ٓتے اوران باتوں کو کُفر اوربے دینی کی باتیں قرار دیتے اور لوگوں کو اوربھی زیادہ جوش دلاتے.اور ایک طرف تو گورنمنٹ کو توجہ دلاتے کہ یہ حکومت کا خیر خواہ نہیں بلکہ بد خواہ ہے اور موقع کی تلاش میں ہے اور دوسری طرف لوگوں کو کہتے کہ یہ گورنمنٹ کا خوشامدی ہے اور جہاد کا منکر ہے.اورایسا ہوا کہ اپنے دعویٰ کے شروع میں آپؑ نے کچھ سفر اختیار کئے اوران سفروں میں یہ حکمت تھی کہ آپؑ مسیح ؑسے مشابہت اختیار کریں.جہاں جہاں آپ جاتے لوگ سخت مخالفت کرتے اور آپ کے مکان کے سامنے سارا دن بڑا بھاری مجمع رہتا اور لوگ ہر وقت اس بات پر آمادہ رہتے کہ آپ پر حملہ کریں لیکن گورنمنٹ کے انتظام کے ڈر سے کچھ نہ کرسکتے.سب سے پہلےآپؑ لدھیانہ گئے اور یہاں ارد گر د سے علماء نےاکھٹے ہوکر خوب لوگوں کو اُکسایا مگر ڈپٹی کمشنر نےان کے سردار کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تب شور دبا.پھر آپؑدہلی گئے جو اس وقت دارالخلافہ ہے اور وہاں ہندوستان کے مولویوں کا جو سرادر تھا اسے آپؑنے

Page 516

بالمقابل بلایا کہ وہ قسم کھاکر یہ اعلان کردے کہ کیا فی الواقع حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک زندہ موجود ہیں؟ اور اس کے لئے جامع مسجد دہلی جگہ مقرر کی گئی.وقت مقررہ پر ہزار ہا لوگ آگئے اوربہت سے لوگ اپنی جھولیوں میں پتھر لائے اوربعض سونٹے لائے اوربعض چھُریاں اپنے ہاتھوں میںلائے اورلوگوں نے شور مچایا کہ یہ مسیحیت کا مدعی زندہ نہ جائے اوراتفاق یہ ہوا کہ اس وقت مسیحؑ کی طرح آپؑ کے ساتھ بھی صرف بارہ مُرید تھے.مگر ان لوگوں نےقابل رشک نمونہ دکھایا اور ہر ایک شخص یہ خواہش کرتا تھا کہ کاش!آج ہم خدا کے رسولؐکی راہ میں مارے جائیں اورجب لوگوں نے بجائے مولوی کو قسم کھانے پر مجبور کرنے کے بلوہ کرکے آپ ؑکو قتل کرنا چاہا توان بارہ مریدوں نے ااپ کے گرد حلقہ بنا لیا اوروہ خدا کے شیر دل سپاہی ان لوگوں سے جن کی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ تھی خائف نہ ہوئے اور نہ ان کے ہتھیاروں سے ڈرے.مگر سپر نڈنڈنٹ پولسی ایک سو سپاہیوں سمیت وہاں پہنچ گیا تھا.اس نے لوگوں میں سے راستہ بنا یا اور سپاہیوں کے حلقہ میں آپ کو باہر نکال لایا اور نہایت مشکل سے آپ کو گاڑی پر بٹھا کر گھر پہنچا یا.اس وقت لوگوں کے جوش کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ آپؐ کے خاندان کی بعض مستورات اپنے رشتہ داروں کے گھر میں ٹھہری ہوئی تھیں صاحب خانہ کی نوکر عورت نے ان سے ذکر کیا کہ یہاں ایک جُھوٹا مدعی آیا ہوا ہے میرا بیٹا بھی چُھری لے کر گیا ہے تا کہ اس کو مار کر ثواب حاصل کرے اور وہ عورت بہت خوش تھی کہ اس کے بیٹے سے یہ کام ہو.گو وہ اس عورت کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ عورتیں بھی آپ ؑہی کے ساتھ کی ہیں.گو آپؑ کو گھر پر سلامتی سے پہنچا دیا گیا مگر لوگ گھر پر حملہ کرنے سے بھی باز نہ رہتے تھے بعض زبردستی اندر گھس جاتے بعض دھوکے اور فریب سے پولیس کے افسر بن کر اندر آجاتے.مگر آپ ؑبرابر خدا کا کلام لوگوں کو پہنچاتے اور کہتے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اسیروں کی آزادی کے لئے آیا ہوں اور وہ جو بوجھوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں ان کو ان بوجھوں کے نیچے سے نکلانے کے لئے آیا ہوں جو خدا نے نہیں بلکہ آدمیوں نے ان پر لاد دئیے ہیں.میں اس لئے آیا ہوں تا گناہ کی ناپاکی پاک کرکے انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچا دوں اور تادلوں سے دنیا کی محبت سرد کرکے خدا تعالیٰ کا عشق ان میں پیدا کروں اور تا دُنیا سے لڑائی اور جھگڑا اور کینہ اوربغض دور کرکے صلح اورامن اور محبت اس کی جگہ قائم کروں.مگر لوگ آپ ؑکی تقریروں میں شور کرتے اوربعض کھڑے

Page 517

ہوکر گالیاں دینے لگ جاتے جنہیں سُن کر آپ خاموش ہوجاتے اور جب ان کا جوش ٹھنڈا پڑجاتا اور وہ تھک جاتے تو پھر اپنی بات سنانے لگ جاتے اور وہ لوگ جو باتیں سنتے حیران ہوتے کہ لوگ کیا کہتے تھے اور اصل معاملہ کیا ہے.جہاں جہاں آپؑ جاتے سینکڑوں اندھے آنکھیں پاتے اوربہرے سننے لگتے اور وہ جن کے جسم مبروص تھے پاک ہوتے اور بیمار شفاء پاتے اوربہت مُردے زندہ ہوتے اور ایسا ہوتا کہ وہ شفا یاب اور زندہ ہونے والے پھر اپنے اپنے گھروں کو نہ چلے جاتے بلکہ آپؑکے ساتھ ایسے وابستہ ہوجاتے کہ پھر آپ ؑسے جدا نہ ہوتے اور جہاں آپ کا پسینہ گرے وہاں وہ اپنا خون بہانے کے لئے تیار ہوجاتے.کچھ دنوں کے بعد آپ لاہور گئے اور وہاں سے سیالکوٹ اور وہاں سے جالندھر اور وہاں سے لدھیانہ اور پھر واپس قادیان آگئے اور تمام سفروں میں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے رہے.یہ سفر حضرت مسیح موعودؑ کو اس لئے پیش آئے تاکہ پہلے مسیحؑ سے آپ ؑکو مشابہت حاصل ہو جائے جو اس لئے دُنیا میں بھیجا گیا تھا تاکہ بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرے اور ان کی تلاش میں جائے.ورنہ آپ بالعموم قادیان ہی میں رہے اور یہیں سے لوگوں کو تبلیغ کرتے اور کتابوں اور اشتہاروں کے ذریعے باہر کے لوگوں کو پیغامِ حق پہنچاتے یا اپنے شاگردوں کو باہر بھیجتے تاکہ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلائیں اور ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ لکھا تھا کہ ابن آدم اپنی دوسری بعثت میں خود نہیں باہر جائے گا تاکہ لوگوں کو بلائے بلکہ وہ : ’’نرسنگے کے بڑے شور کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وے اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کی اس حد سے اس حد تک جمع کریں گے.‘‘ (متی باب ۲۴آیت۲۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء) ۱۸۹۳؁ ء میں امرتسر میں مسیحیوں سے آپؑ کا ایک بڑا مباحثہ ہوا جو پندرہ دن تک ہوتا رہا اس میں پادریوں نے بعض لنگڑے اور اندھے جمع کئے تاکہ ان کو آپؑکے سامنے پیش کرکے کہیں کہ اگر آپؑمسیح ہیں تو ان کو اچھا کریں اور اس طرح آپ ؑکو شرمندہ کریں.جب وہ لوگ آپ کو دکھائے گئے تو آپؑ نے کہا کہ اندھوں کو آنکھیں دینا اور لنگڑوں کو اچھا کرنا تو تمہاری کتب میں لکھا ہے اور وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں رائی کے برابر ایمان ہو تو بیماروں پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ اچھے ہوجاؤ تو وہ اچھے ہوجائیں گے.پس بہتر ہوا کہ آپ لوگ خود ہی بیمار لے آئے.پس اب ان کو اچھا کرکے بتائیں تا معلوم ہو کہ آپ کے اندر کم سے کم ایک رائی کے دانہ کے برابر تو ایمان ہے!

Page 518

افسوس ! ان نادانوں نے پہلے نبیوں سے سبق نہ سیکھا بلکہ خود مسیحؑ کے حالات سے سبق نہ سیکھا اور نہ معلوم کیا کہ کہ کس طرح خدا کے کلام میں تشبیہیں ہوتی ہیں اگر اس کلام میں تشبیہیں نہیں تو بتائیں کہ آج اس علمی زمانہ میں دیووں کے نکالنے کے کیا معنی ہوں گے؟ اسی طرح ایک دفعہ آپ ؑکو شرمندہ کرنے کی یہ تدبیر کی کہ ایک اشتہار دیا کہ ہم ایک تحریر لکھ کر لفافہ میں بند کردیتے ہیں آپؑ اس کو پڑھ دیں.آپ نے جواب دیا کہ مَیں اس بات کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ ایک جماعت پادریوں کی دستخط کردے کہ اگر مَیں نے تحریر پڑھ دی تو وہ اسلام قبول کرلیں گے؟ لیکن کسی کو اس کے بعد مقابلہ پر آنے کی جرأت نہ ہوئی.غرض اسی طرح کئی جگہ آپ نے حق پہنچانے کے لئے سفر کئے اور ظالم لوگوں سے بہت تکالیف دیکھیں، گالیاں بھی سنیں ، لوگوں نے پتھر بھی مارے، گھر پر حملہ بھی کیا.بعض دفعہ لوگ دور تک آپ کا پیچھا کرتے تا اگر ہوسکے تو پکڑ کر قتل کردیں مگر خدا تعالیٰ نے سب کو ناکام رکھا اور اس مخالفت کے زور کے وقت آپ بار بار شائع کرتے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایاہے کہ وہ مجھے دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا اور وہ مجھ کو پہلے مسیح کی طرح دُکھ نہ دے سکیں گے بلکہ اس دفعہ ان کو ظاہری خوشی بھی نصیب نہ ہوگی.اور آپ کے مخالف آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کی غرض سے آپ کے مارنے کے لئے اور بھی زیادہ کوشش کرنے لگے اور بعض لوگوں کو لالچ دے دے کر مارنے کے لئے بھیجا مگر ہر دفعہ ان کا حملہ ناکام رہا اور یا تو بدنیت دشمن موقع ہی نہ پاسکا اور اس کی نیت کا پہلے سے ہی پتہ لگ گیا اور یا یہ ہوا کہ وہ آپ کے سامنے آکر آپ کی روحانی طاقت سے ایسا متاثر ہوا کہ خود ایمان لے آیا اور بجائے آپ کو مارنے کے خود اپنی جان آپ ؑپر قربان کرنے کے لئے تیار ہوا یا کم سے کم سچائی سے ایسا متاثر ہوا کہ اس نے اصل راز ظاہرکردیا.غرض ہر تدبیر میں دشمن ناکام رہے.ایک دفعہ آپ نے یہ دیکھ کر کہ مخالف لوگوں کوباتیں سننے ہی نہیں دیتے یہ تدبیر کی کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ زندہ مذہب کی یہ علامت ہے کہ وہ اپنے اندر زندگی کی روح رکھتا ہو پس بجائے بحثوں اور جھگڑوں کے چاہئے کہ ہم خدا سے اپنی سچائی کی شہادت طلب کریں جس کی خدا شہادت دے اس کی صداقت پر یقین لے آویں اور اس کے لئے چاہئے کہ یا تو دُعا کے ذریعے سے مقابلہ ہو یا اس طرح کیا جائے کہ میرے پاس لوگ آکر چالیس دن تک رہیں اگر اس عرصہ میں وہ کوئی تازہ نشان نہ دیکھیں تو بے شک مجھ کو اور میرے مذہب کو جھوٹا کہیں اور اگر

Page 519

وہ کوئی نشان دیکھیں تو چاہئے کہ وہ بھی اور ان کے ساتھ بھی حق کو قبول کریں مگر چونکہ آپؑ کے دشمنوں کی غرض حق کا معلوم کرنا نہ تھی بلکہ حق کو مشتبہ کرنا تھی ان دونوںتدبیروں میں کسی ایک تدبیر کو بھی انہوں نے اختیار نہ کیا کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر کوئی نشان ظاہر ہوا تو ہم عوام الناس کو کیا کہہ کر روکیں گے؟ اور پھر اس کی ترقی میں کیا شبہ رہ جائے گا؟ پس ہر ایک طریق فیصلہ جو آپؑپیش کرتے وہ اس سے کسی نہ کسی بہانہ سے گریز کرتے تھے اور مقابل پر نہ آتے تھے.۱۸۹۶؁ ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکی صداقت کے اظہار کا ایک خاص موقع نکال دیا اور وہ یہ کہ اس سال لاہور میں ایک مذاہب کی کانفرنس بیٹھی اوربعض سوال مقر ر کرکے سب مذاہب کے علماء سے چاہا گیا کہ وہ ان کے متعلق اپنے اپنے مذاہب کے خیالات کا اظہار کریں.آپؑکو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی اور آپؑنے باوجود بیماری کے اس کے لئے مضمون لکھا جس کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ وہ مضمون سب مضامین سے بالا رہے گا.چنانچہ اس پیش گوئی کے متعلق اشتہار چھاپ کے لاہور کی گلیوں میں جلسہ سے پہلے ہی لگا دیا گیا.اس کانفرنس کی وجہ سے ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے ٹھنڈے دل سے آپؑ کے خیالات کو سُنا اورسب نے اقرار کیا کہ سب مضامین میں سے آپ کا مضمون بالا رہے گا.چنانچہ اس پیش گوئی کے متعلق اشتہار چھاپ کے لاہور کی گلیوں میں جلسہ سے پہلے ہی لگا دیا گیا.اس کانفرنس کی وجہ سے ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے ٹھنڈے دل سے آپ ؑکے خیالات کو سُنا اورسب نے اقرار کیا کہ سب مضامین میں سے آپ کا مضمون بالا رہا اور اخبارات میں اس کے متعلق مضامین گئے اور اس قدر دلچسپی کا لوگوں نے اظہار کیا کہ بوجہ وقت کی کمی کے جلسہ کا ایک دن اوربڑھا یا گیاتا آپ ؑکا بقیہ مضمون جو قت مقررہ کے اندر ختم نہیں ہوسکا تھا پڑھا جاسکے.نشان پر نشان اور کرامت پر کرامت ظاہر ہونے سے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا ہونے لگا اور چاروں اطراف سے حق پسند لوگ آآکر آپ ؑکی جماعت میں شامل ہونے لگے جسے دیکھ کر مخالف علماء کو اوربھی فکر پڑی اور چونکہ وہ دیکھ چکے تھے کہ ان کی پہلی کوششوں میں ان کو ناکامی ہوئی تھی کیونکہ وہ جو ایذائیں آپؑکو پہنچانی چاہتے تھے بوجہ گورنمنٹ کے ظاہر طور پر نہیں پہنچا سکتے تھے.اوراخفاء اور ڈر سے تمام تدابیر اُدھوری رہ جاتی تھیں.اس لئے انہوں نے یہ تدبیر نکالی کہ گورنمنٹ کی ہی عدالتوں میں آپ کو گھسیٹ کر لے جاویں اور اسی کے ہاتھ سے آپ کو سزا دلوائیں.چنانچہ سب سے پہلے مسیحیوں نے آپؑپر مقدمہ کھڑا کیا اور یہ سمجھ لیا کہ چونکہ گورنمنٹ ہماری ہم مذہب ہے عدالتوں میں ہماری رعایت کی جائے گی.ایک بڑے پادری صاحب نے یہ

Page 520

رپورٹ کی کہ آپ نے ان کے مارنے کے لئے ایک آدمی بھیجا ہے اور ایک آوارہ طبع آدمی کو کئی قسم کے حیلوں اور مکروں سے اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ کہہ دے کہ مجھے انھوں نے پادری صاحب کے مارنے کے لئے بھیجا تھا.تمام مذاہب کے لوگ اس پر جوش میں آگئے اورپادری صاحب کی مدد کے لئے کھرے ہوگئے اور خدا کا فرستادہ تمام دنیا کے مقابلہ میں اکیلا رہ گیا مگر اس کو اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کے اُٹھنے سے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ ایک فتنہ اٹھنے والا ہے جو گورنمنٹ سے تعلق رکھتا ہے مگر سوائے ظاہر ی خوف کے کوئی نقصان نہ ہوگا اور آخر میں تم بری کئے جائوگے.انگریز ڈسڑکٹ مجسٹریٹ کیپٹن ڈگلس صاحب جو بعد میں چیف کمشنر انڈیا ہوئے ان کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا اور لوگوںمیں خوب خوشیاں کی جانے لگیں کہ اب مدعی مسیحیت خوب سزا پائے گا.مگر جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے مسیح ؑکے وقت پیلا طوس پر حق کھول دیا تھا اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا اور کپتان ڈگلس کا دل اس نے کھول دیا اور اس نے بیان سُن کر صاف کہہ دیا کہ مقدمہ بناوٹی معلوم ہوتا ہے اور خبر دینے والا جھوٹا معلوم ہوتا ہے اور انہوں نے انگریز سپر نٹنڈنٹ پولیس کو ہدایت کی کہ وہ پورے طور پر تحقیق کرکے رپورٹ کریں.انہوں نے یہ دیکھ کر خبر دہندہ مشن کمپائونڈ میں رہتا ہے شاید ان کے اثر کے نیچے اپنے بیان لکھوا رہا ہو.اس کو وہاں سے بلوالیا اورپھر بیان لیا لیکن وہ شخص پادریوں سے اس قدر ڈرا ہوا تھا کہ پھر بھی اس نے وہی باتیں کہیں جو پہلے کہی تھیں مگر سپر نٹنڈنٹ صاحب نے اس سے کہا کہ جو کچھ راست راست ہے وہ بتاؤ اوراب ہم تمہیں مشن میں نہیں بھیجیں گے.جب اسے یہ تسلّی ہوگئی کہ وہ واپس مشن کے حوالہ نہ کیا جائےگا تو وہ چیخیں مار کر رو پڑا اور اس نے کہا جو کچھ مجھ سے کہلوایا گیا ڈرا دھمکا کر کہلوایا گیا ورنہ مرزا صاحب بالکل بَری ہیں انھوں نے مجھ سے کبھی بات نہیں کی.پادریوں نے مجھے دھمکا کر کہ اگر تو ہماری مرضی کے مطابق رپورٹ نہ کرے گا تو تجھ پر کوئی الزام لگا کر پکڑوا دیں گے مجھ سے یہ سب باتیں کہلوائی تھیں.آخر جیسا کہ پہلے سے بتا دیا گیا تھا آپ ؑعزت کے ساتھ بری ہوئے اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کیپٹن ڈگلس نے کہا کہ آپ ؑکو اختیار ہے کہ آپؑ ان لوگوں پر جھوٹا الزام لگانے کے متعلق عدالت میں چارہ جوئی کرکے ان کو سزا دلوائیں مگر آپؑ نے فرمایا ہمارا یہ کام نہیں ہم نے ان کو معاف کردیا.اس مقدمہ میں دوسرے مذاہب کے سرداروں نے بھی آپ ؑکو زک دینے کے لئے پورا زور

Page 521

مارا مگر سب ناکام ہوئے بلکہ آپ کی صداقت اوربھی ظاہر ہوئی کیونکہ ایک تو مقدمہ کا فیصلہ اس پیشگوئی کے مطابق ہوا جو پہلے سے شائع کردی گئی تھی.دوم آپ کے اخلاق کے نمونہ نے لوگوں کے دلوں پر بہت اثر کیا.جھوٹا مقدمہ کرنے والوں کو آپؑ نے معاف کردیا اور دوران مقدمہ میں ایک بڑا مولوی آپ کے خلاف شہادت دینے آیا.اس کی ماں کے متعلق کچھ اعتراض تھا.آپؑ نے اس کی اجازت نہ دی اور وکیل کو سختی سے منع کردیا کہ میں اسے شرمندہ کروانا نہیں چاہتا اس سے لوگوں میں آپ کی قبولیت اوربھی بڑھی.اس مقدمہ میں ناکامی ہونے کے بعد مخالفوں نے اور زور سے منصوبے کرنے شروع کئے اور پے درپے کئی مقدمات آپؑ کے خلاف کھڑے کئے اور بعض مقدمات میں تو مجسٹریٹوں کی مخالفت کی وجہ سے آپ کو بڑی بڑی ایذاء بھی دی گئی اور باوجود بڑھاپے اور بیماری کے گھنٹوں عدالت میں کھڑا رہنا پڑا.اوربعض دفعہ بیماری کی حالت میں بیٹھ کر پانی پینے تک کی اجازت نہ دی مگر ہر مقدمہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح دی اور ہر فتح کے متعلق آپ ؑکو بہت پہلے سے خبر دیدی اور وہ مجسٹریٹ جنہوں نے آپ ؑکو تکلیف دی بہت جلد آسمانی عذابوں میں مبتلا ء ہو کر لوگوں کے ایمان بڑھانے کا موجب ہوئے.جوں جوں لوگو معجزات اور نشانات دیکھتے تھے جو ق در جوق سلسلہ احمدیہ میں شامل ہونے لگے اور ایک واقعہ نے سب سے زیادہ آپ کی قبولت کو بڑھایا اور یہ اس طرح ہوا کہ جب ہندوستان میں طاعون پڑی تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر ایہ اعلان کردیا کہ اس مرضی میں میری جماعت کے لوگ بہت ہی کم مبتلا ہوں گے اور قادیان میں یہ مرض اس سختی سے نہ پڑے گی جس سختی سے کہ اور شہروں میں پڑتی ہے اور یہ کہ آپؑ کا گھر اس بیماری سے بالکل محفوظ رہے گا اور ساتھ ہی اپنے مخالفوں کو چیلنج دیا کہ اگر وہ بھی خدا تعالیٰ کے پیارےہیں تو چاہئے کہ وہ بھی مقابل پر ایسے ہی اعلان کردیں مگر کوئی مقابل پر نہ آیا اوربعض لوگ جنہوں نے ایسا اعلان کیا وہ فوراً پکڑے گئے اورخود اس بیماری سے ہلاک ہوئے.اس کے مقابلہ میں باوجود اس کے کہ آپ کے گھر کے گرد چار برس تک طاعون آتی رہی اور آپ کی چار دیواری کے ساتھ لوگ مرتے رہے.آپؑ کے گھر میں ایک چوہا بھی اس بیماری سے نہ مرا اور قادیان میں دوسری جگہوں کی نسبت بہت کم طاعون پڑا اور آپ ؑکی جماعت میں شاذو نادر ہی کوئی کیس ہوا.سخت طاعون بھی جن علاقوں میں پڑی

Page 522

وہاں بھی آپ ؑکی جماعت محفوظ رہی اور سوائے اِکّے دُکّے کے عام طور پر جماعت بچی رہی ان باتوں کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں پر بہت اثر پڑا اور لاکھوں آدمی انہی دنوں میں آپؑکے سلسلہ میں داخل ہوئے.اب وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے پسند کیا کہ آپ ؑکو واپس بلواکرآپؑ کے ذمہ رکھا تھا.چنانچہ آپ کو پے درر پے الہام ہونے شروع ہوئے کہ آپ کی موت قریب ہے اوربعض میں مدت اوربعض میں دن اور بعض میں وہ حالت جس میں آپ ؑفوت ہوں گے بتائی گئی اور آپؑ نے بتایا کہ آپؑکے بعد جماعت کو اللہ تعالیٰ اسی طرح چلائے گا جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چلایا تھا یعنی خلفاء کےذریعے سے.اس کے بعد متواتر وحی میں قرب وفات کی خبر دی گئی جو باقاعدہ سلسلہ سے تعلق رکھنے والے دو اخبارات اور تین رسالوں میں دوسری وحی کے ساتھ شائع ہوتی رہی.آخر ایک ضرورت پر آپ کو لاہور کاسفر پیش آیا تو اس وقت وحی نے بتایا کہ اب وقت بالکل قریب ہے اوربہت سے الہامات نے بتایا کہ اسی سفر میں آپ کی وفات ہوگی لاہور میں آپؑکی طبیعت بہت کمزور ہوگئی اور آپؑ بہت کمزور ہوگئے مگر باوجود اس کے اپنا کام برابر کرتے رہے جو لوگ ملنے آتے ان کو وعظ کرتے اورخدا کی طرف بُلاتےاور عام اہل لاہور کے لئے آپ نے ایک لیکچر دینے کا بھی ارادہ کیا اور اسی لیکچرکی تیاری کے دوران میں جبکہ لیکچر کا مضمون آپؑ ختم کر چکے تھے ۲۶ ؍مئی ۱۹۰۸؁ءکو آپ وہی فوت ہوگئے اور آپؑکی مبارک لاش کو مطابق وحی الٰہی قادیان لاکر ۲۷؍مئی کو دفن کیا گیا.اور یہ الہامات پورے ہوئے جو کئی سال پہلے شائع کئے گئے تھے کہ ’’ ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق.‘‘ اور ’’ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں.‘‘ (تذکرہ صفحہ ۷۰۱ ایڈیشن چہارم) آپ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کا اس قدر جوش رکھتے تھے کہ آپؑنے قریباً اسی ۸۰ کُتب علاوہ سینکڑوں اشتہاروں کے لکھیں اور سینکڑوں لیکچر دیئے اور روزانہ ان لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے جو باہر سے آتے تھے کئی کئی گھنٹے.تک باہر بیٹھتے تھے اور کام میں ہی آپ کی تمام راحت تھی.حتّٰی کہ مہینوں گزر جاتے اور آپؑکے ساتھ رہنے والے بھی نہیں سمجھ سکتے تھے

Page 523

آپؑ آرام کس وقت کرتے ہیں؟ ایک ہی دن اورایک ہی فکر تھی کہ دُنیا اپنے پیدا کرنیوالے سے صلح کرے اور نجات حاصل کرے اور اسی دھن میں آپ نےاپنی تمام عمر صر ف کردی.اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر بعض لوگ خدا کے لئے ایک دفعہ مرے ہیں یا ایک دفعہ صلیب پر چڑھے ہیں تو آپؑان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے لئے روز مرتے تھے کیونکہ اپنے آرام اور اپنی آسائش کا آپ ؑکو بالکل فکر نہ تھا جو کچھ خیال تھا وہ لوگوں کی نجات کا تھا حتّٰی کہ جس دن صبح کو آپ ؑکی وفات ہوئی اس سے پہلے دن کی شام تک آپ تصنیف کے کام میں مشغول رہے پس آپ ؑکی موت بھی لوگوں کے لئے تھی جس طرح آپ کی زندگی لوگوں کے لئے تھی.وہ مخالف جو آپ ؑکی زندگی میں آپ کو ہر قسم کا دکھ دیتے تھے انہوں نے وفات پر بھی قابلِ شرم حرکات کیں اور سوانگ نکالے اورہنسی اُڑائی مگر جو کچھ آپؑنے خدا سے خبر پاکر پہلے سے کہہ دیا تھا وہ اس میں روک نہ ڈال سکے.دشمنوں کی تمام خوشیاں دور ہوگئیں.اور آپ کا سلسلہ آپ کے جانشین اور خلیفہ اوّل حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب مرحوم و مغفور کی زیر ہدایت آگے سے بھی زیادہ ترقی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیا اورجب وہ قریباً چھ۶سال بعد ۱۹۱۴ ء میں فوت ہوئے تو مجھ عاجزانہ مرزا بشیر الدین محمود احمد آپ کے ان الہامات کے پورا ہونے کے نئے آثار پیدا کرتا ہے کہ مَیں تیرے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلا ئوں گے اور تیری جماعت کو بڑھاؤں گا اور اسے شہزادہ مکرم ! زمین و آسمان ٹل جائیں لیکن اس کی یہ باتیں نہ ٹلیں گی کیونکہ وہ اس نے نہیں کیں بلکہ خدا نے کہی ہیں اور خدا کی باتوں کو کئی نہیں ٹال سکتا.؁؁؁

Page 524

آپ کے وہ نشانات جو اپنی ذات کے علاوہ دوسرے لوگوں یا دوسرے ملکوں کے لئے ظاہر ہوئے اے شہزادۂ مکرم ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرماوے اور اسلام پر آپ کا خاتمہ کرے اور راستبازوں کے گروں میں آپ کو شامل کرے! آمین مَیں نے اس وقت تک تو آپ ؑکی معجزانہ زندگی بیان کی ہے جو اپنی ذات میں آپ کی سچائی اور اسلام کی صداقت کا ایک بیّن ثبوت ہے.یا وہ تعلیم لکھی ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ بِلا اس تعلیم پر عمل کرنے کے انسان رُوحانی ترقی حاصل نہیں کرسکتا.اب میں آپؑکے چند ایسے نشانات بیان کرتا ہوں جو اپنی ذات میں مستقل ہیں یا دوسرے لوگوں کے متعلق ہیں اور جن سے مزید شہادت اس امر کی ملتی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اسلام جس کی طرف آپؑ بلانے کے لئے آئے تھے ایک زندہ مذہب ہے.مگر پیشتر اس کے کہ میں آپؑ کے ہزاروں نشانوں میں سے مثال کے طور پر بعض نشان بیان کروں ایک دفعہ پھر بیان کردینا چاہتا ہوں کہ آپ ؑکوئی نیا دین نہیں لائے.بلکہ جس طرح.مسیح اول موسٰی کے دین کو پورا کرنے کے لئے نازل ہوئے تھے اسی طرح آپؑحضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پورا کرنے کے لئے نازل ہوئے تھے.اورہمیشہ آپ کو یہی دعویٰ رہا کہ مَیں اس لئے آیا ہوں کہ تا اسلام کی صداقت کو ثابت کروں اور لوگوں کو اس کی خوبیوں پر آگاہ کروں اور اس کی زندگی بخش تعلیم سے ان کو اطلاع دوں اور اس کے تازہ پانی سے ان کی روحوں کو تازہ کروں.میں کوئی جدید شریعت یا جدید حکم نہیں لایا قرآن کریم خدا کا آخری ہدایت نامہ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے آخری شرعی رسول ہیں میں ایک رسول ہوں مگر بِلا شریعت کے اورایک نبی ہوں مگر بلا کتاب کے اور میری بعثت کی غرض سوائے اسلام کی خدمت اور اس کی اشاعت کے اور کچھ نہیں اور میری ما ٔموریت کا مقصد سوائے اسلام کے روشن چہرہ پر سے اس گردو غبار کے جھاڑنے کے جو آخری زمانہ میں انسانی خیالات کی اندھی سے پڑگئی تھی اور کوئی نہیں.پس آپ کے

Page 525

نشانات اسلام کی صداقت کا ایک ثبوت تھے اور آپکے معجزات قرآنِ کریم کی فضیلت کی ایک دلیل.اے شہزادۂ مکرم ! آپ کے معجزات اور نشانات کا ایک مبسوط کتاب میں بھی بیان کرنا مشکل ہے کجا یہ کہ چند صفحات میں بیان ہوں وہ اپنی اقسام میں ایسے وسیع تھے کہ قسموں کو ہی انسان بیان کرنے لگے تو کئی صفحات اس کے لئے چاہئیں.چہ جائیکہ تفصیل بیان ہوسکے.ٍآپ کے معجزات اخلاقی بھی تھے یعنی ایسے معجزانہ اخلاقی کارنامے آپ سے صادر ہوتے تھے کہ ان کو غور سے دیکھنے والا ان میں ہی خدا کا ہاتھ دیکھتا تھا اور عقلمند کے لئے صرف وہی آپ کی راستبازی کے معلوم کرنے کے لئے کافی تھے آپ کی شجاعت ،آپ کی حُسن ظنی، آپ کی محبت ،آپ کا حُسنِ سلوک ،آپ کی ہمدردی ،آپ کا معاملہ ،آپ کی دوستی سب ایسی چیزیں تھیں کہ ہر ایک انسان ان میں اعلیٰ درجہ کی صفائی اور اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی دیکھتا تھا اور معلوم کرتا تھا کہ سوائے خدارسیدوں کے یہ بات اور کسی میں نہیں پائی جاسکتی.پھر آپ کے معجزات کشفی قسم کے بھی تھے یعنی بہت دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ایک خیال کسی کے دل میں آیا اور فوراً آپؑ نے اسی قسم کے خیالات کے متعلق گفتگو شروع کردی جس سے آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا معلوم کرتا تھا کہ وہ ایک خدا کے بندے کی صحبت میں بیٹھا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ دوسروں کے خیالات پر آگاہ کرتا چلا جاتا ہے.وہ اقتداری رنگ کے بھی تھے یعنی جب آپ کے منہ سے نکل جاتا کہ یہ کام یوں ہوجائے گا تو بالعموم دیکھا جاتا تھا کہ وہ اسی طرح ہوجاتا اور لوگ ایسے ایسے کاموں کو پورا ہوتے دیکھ کر جن کے پورا ہونے کے امید نہ ہوتی تھی اس امر کو محسوس کرتے تھے کہ یہ شخص ایک محبوب الٰہی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کردیتا ہے یا یوں کہیں کہ خدا تعالیٰ اس کی عزت کو قائم کرنے کے لئے بعض دفعہ اپنی مرضی کو اس کی زبان پر جاری کردیتا ہے.آپؑ کے معجزات علمی رنگ کے بھی تھے.یعنی آپ کو بعض دفعہ ایسا علم دیا جاتا تھا جو انسانی طاقت سے بالا ہوتا تھا اور جس کو دیکھ کر آپ کے دشمن بھی حیران رہ جاتے تھے.پھر آپ کے معجزات بیماروں کے اچھا کرنے کے متعلق بھی تھے یعنی آپ بیماروں کے لئے دعائیں کرتے اور وہ اچھے ہوجاتے.پھر آپ کے معجزات اس رنگ میں بھی ظاہر ہوتے تھے کہ لوگوں کے خیالات میں آپ کےذریعے سے تبدیلی ہوجاتی بہت لوگ آپؑسے چاہتے تھے کہ ان کے دلوں میں سے بعض خیالات ہٹ جائیں

Page 526

اور آپ کی دعا سے اور توجہ سے وہ ہٹ جاتے.بہت سے معجزات آپ کے اس رنگ میں ظاہر ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آپؑ کے دشمنوں اور مخالفوں کو رؤیا اور الہام کےذریعے سےا ٓپ کی صداقت بتا کر آپ کے سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق دے دیتا تھا.یا اگر وہ نہ مانتے تو ان کے منہ کی بات سے ان پر حجت قائم ہوجاتی.بہت سے معجزات آپ کے اس رنگ میں ظاہر ہوتے کہ آپ کی مخالفت کرنے والے جس رنگ میں آپ کو ذلیل کرنا چاہتے اسی رنگ میں خود ذلیل ہوجاتے اور بہت سے ناگہانی موتوں کا شکار ہوتے.جن میں انسان کا دخل نہ ہوتا بلکہ بیماریاں وغیرہ اس کا باعث ہوتیں تا امر مشتبہ نہ ہوجائے.بہت سے معجزات بظاہر نظر آنے والے قانون قدرت کی تبدیلی کے رنگ میں ظاہر ہوتے تھے.بہت سے معجزات آئندہ کی خبروں پر اطلاع پانے کے رنگ میں ظاہر ہوتے تھے آپ کو قبل از وقت اطلاع مل جاتی اور اسی طرح ہوتا.بہت سے معجزات حفاظت کے رنگ میں تھے یعنی اللہ تعالیٰ باوجود مخالف حالات کے آپ کو اور آپ کے دوستوں کو بہت سے صدموں سے محفوظ رکھتا تھا.غرض کئی اقسام کے آپ کے معجزات ہیں اور قریباً ہر ایک قسم کے معجزات کی ہزاروں مثالیں ہیں.اگر ان کو لکھا جائے تو دفتروں کے دفتر لکھنے پر بھی وہ ختم نہ ہوں مگر ان میں سے مثال کے طور پر چند لکھے جاتے ہیں تا بطور دلیل کے آپ کی صداقت پر گواہ ہوں.۱- علمی معجزہ اَے شہزادہ عالی وقار ! یہ زمانہ علمی ہے اور اس وجہ سے ہم آپؑ کے علمی معجزات کو ہی پہلے بیان کرتے ہیں.آپ پڑھ چکے ہیں کہ آپ کی تعلیم معمولی تھی.ا ٓپ کسی مدرسہ میں نہیں پڑھے نہ کسی مشہور عالم سے آپ نے تعلیم پائی آپ کے والد نے معمولی مدّرس ملازم رکھ دئیے تھے جن سے آپ نے ابتدائی درسی کتب کی تعلیم حاصل کی مگر باوجود اس کے جب آپ نے دعویٰ کی اور آپ کے دشمنوں نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ ؑتو جاہل ہیں آپ اس مقام عالی پر

Page 527

کیونکر پہنچ سکتے ہیں؟کہ خدا تعالیٰ آپ کو مہدی اور مسیح بنا دے؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یکدم عربی زبان کا وسیع علم دے دیا.جس زبان میں کہ تمام اسلامی علوم ہیں اور ایک دن میں آپؑ کو چالیس ہزار الفاظ کا مادہ سکھایا گیا اور ایسا ہوا کہ باوجود اس کے کہ آپ کبھی عرب نہ گئے تھے اور نہ عربوں کی صحبت میں رہنے کا اپ کو اتفاق ہوا تھا اور نہ آپ ؑنے کبھی پہلے عربی عبارت لکھی تھی اور نہ ہندوستان میں عربی تعلیم کا جو طریق مروّج ہے اس سے عربی لکھنے یا بولنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے.آپؑ نے روح القدس کی تائید سے فصیح عربی میں نہایت اعلیٰ درجہ کے مضامین پر مشتمل کُتب لکھنی شروع کیں اور مخالفوں کو بُلایا کہ تم لوگ جو برے بڑے علماءہو میرے مقابل عربی زبان میں کُتب لکھ کر دکھاؤمگر سب اس سے عاجز آگئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اس کے پاس عرب پوشیدہ ہیں جو اسے عربی کُتب لکھ کر دے دیتے ہیں ورنہ اسے کچھ نہیں آتا.تب آپؑ نے تمام دنیا کے لوگوں کو مقابلہ کے لئے للکارا اور کہا کہ میں صرف ہندوستان ہی کے علماء کو نہیں کہتا بلکہ دنیا بھر کے علماءکو جن میں عرب اور شام کے لوگ بھی شامل ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے.کہتا ہوں کہ اگر وہ سچے ہیں اور میری تحریریں انسانی کام ہیں تو میرے مقابل پر عربی زبان میں کتب لکھیں پھر اگر ان کی کتب فصاحت اوربلاغت میں میری کتب سے بڑھ جائیں تو بیشک مجھے چاہیں سزا دیں لیکن میں قبل از وقت بتا دیتا ہوں کہ یہ کبھی میرا مقابلہ نہ کرسکیں گے.اے شہزادہ مکرم ! آپ اس دعوے کی عظمت اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی روسی جس نے کبھی انگلستان دیکھا ہو نہ امریکہ اور نہ انگریزی بولنے والوں کی سوسائٹی میں رہا ہو اور نہ کسی کالج میں اس نے انگریزی تعلیم پائی ہو اگر وہ تمام انگریزوں کو چیلنج دے کہ تم میں سے کوئی میرے مقابل پر آکر فصیح و بلیغ انگریزی میں کتب لکھے اور کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکےنہ منفردانہ بہت سے عالم مل کر تو کسقدر تعجب اور اچنبھے کی بات ہوگی؟ مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ بعینہٖ اسی طرح ہوا ہے.آپ نے بار بار علمائے مصر اور شام اور ہندوستان کو چیلنج دیا مگر کوئی شخص آپ کا مقابلہ نہ کرسکا.بعض لوگوں نے مقابلہ پر کتب لکھنے کی بجائے آپ کی کتب کی غلطیاں نکالنی شروع کیں مگر ان سے اللہ تعالیٰ نے ایسی ایسی غلطیاں کروائیں کہ وہ اوربھی ذلیل ہوئے.اور کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جبکہ لوگ ایک ایک سور وپے کے انعام کے لئے جان توڑ کوشش کرتے ہیں.آپ نے اپنے مخالفوں کو مقابل پر آکر کتب لکھنے کے لئے انعامات بھی مقرر کئے جو بعض دفعہ بڑی بڑی مقدار کے تھے یعنی آپ نے دس دس ہزار کی رقم اس شخص کے لئے جو آپ

Page 528

جیسی فصیح عربی زبان میں کتاب لکھے انعام میں مقرر کی اور فیصلہ کا طریق نہایت سہل رکھا مگر باوجود اس کے کوئی مقابلہ پرنہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے سب کی ہمتیں پست کردیں اور زبانیں بند کر دیں اور آپ کا یہ معجزہ ہمیشہ کے لئے صداقت کے طلب گاروں کے لئے ایک نشان ہوگا اور اس کے منکروں کے خلاف حجت اور اس قسم کے معجزات آپ کے ہاتھ پر کئی رنگوں میں اور متعدد دفعہ ظاہر ہوئے.دوسرا معجزہ :لاعلاج بیماروں کی شفاءکے متعلق دوسری مثال آپ ؑکی معجزات میں سے ایسے بیماروں کے اچھا کرنے کے متعلق بیان کرتا ہوں جو طبّی کرنے کے متعلق بیان کرتا ہوں جو طبّی طو ر پر لاعلاج سمجھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہے:- کہ ایک لڑکا کئی ہزار میل سے یعنی حیدر آباد دکن کے علاقہ یادگیر سے اس مدرسہ میں پڑھنے کے لئے آیا جسے آپ نے اپنی جماعت کے لڑکوں کے لئے جاری کیا تھا اور غرض یہ تھی کہ اس مدرسہ میں جو لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے لئے آویں گے ان کی دینی تعلیم بھی ساتھ ساتھ ہوتی چلی جائے گی.اس لڑکے کا نام عبد الکریم تھا.اسے اتفاقاً باولے کُتّے نے کاٹ لیا اور اسے علاج کے لئے کسولی بھیج دیا گیا مگر جب وہ وہاں سے واپس آیا تو اسے دیوانگی کا دورہ ہوگیا اور تشنّج پڑنے لگا اور حالت خراب ہوگئی کسولی تار دیا گیا کہ اب اس کے لئے کیا کیا جائے؟ مگر وہاں کےڈاکٹر نے تار میں جواب دیا کہ افسوس عبدالکریم کے لئے اب کچھ نہیں ہوسکتا.SORRY NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM حضرت مسیح موعودؑکو اس کا بہت صدمہ ہوا کہ یہ بچہ کی ماں بیوہ ہے اور اس نے نہایت شوق سے اس قدر فاصلہ سے دین کی خاطر اس کو یہاں بھیجا ہے اس طرح ضائع ہوجائے اور آپ نے اس کے لئے دُعا کی اور وہ اچھا ہوگیا اوراب تک زندہ ہے اور اپنا کاروبار کرتا ہے.یہ وہ نشان ہے کہ علمی دنیا کو اس کی بے نظیری ماننے کے سوا چارہ نہیں کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس وقت تک اس قسم کی شفاء کی کوئی نظیر نہیں ملتی.بیشک دیوانگی کے دورہ سے پہلے علاج ہوجاتا ہے اوربعض بِلا علاج کے بھی دیوانگی کے حملہ سے بچ جاتے ہیں.مگر دیوانگی کا دورہ ہو کر پھر شفاء آج تک کسی مریض کو نہیں ہوئی اور یہ ایسا زبردست معجزہ ہے کہ اس زمانہ کی علمی ترقی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی زمانہ کے لئے مخصوص رکھا تھا تا سائنس کے دلدادوں پر اپنی قوت اوراپنے جلال کا اظہار کرے اوربتائے کہ مَیں خدا ہوں جو

Page 529

سب طاقتیں رکھتا ہوں چاہوں تو زندہ کردوں اور چاہوں تو مار دوں.تیسرا معجزہ : مُردہ کو زندہ کرنا اے شہزدہ بلند اقبال ! ہمارا یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ اس دُنیا میں مُردہ نہیں زندہ کیا کرتا اور اگر مردہ زندہ کرتا تو کس طرح ممکن تھا کہ لوگ اس کی بادشاہت میں شک لاتے ؟ اور اس کی طاقت پر شُبہ کرتے؟ مثلاًیسوع مسیحؑ کی نسبت جو لکھا ہے کہ اس نے مُردے زندہ کئے.اگر فی الواقع وہ مُردہ زندہ کرتا تو کیا کوئی عقلمند انسان یہ وہم کرسکتا ہے؟ کہ یہودی اس کے دشمن رہتے اور رومی اس کی غلامی کا جوأاپنی گردن پر نہ اُٹھاتے ؟ اس نے تو خود بتا دیا تھا کہ جن کو وہ زندہ کرتا تھا وہ حقیقی مُردہ نہ تھے بلکہ وہ لوگ جن کو لوگ مردوں کی طرح سمجھ بیٹھے تھے اوران کی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے اس کے ہاتھوں سے شفاپاتے تھے.چنانچہ جب وہ اس سردار کی بیٹی کو جس نے اس سے اپنی بیٹی کے زندہ کرنے کی درخواست کی تھی زندہ کرنے گیا تو اس نے یہ کہاتھا کہ:- کنارے ہو کہ لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے.‘‘ (متی باب ۹ آیت ۲۴) پس مُردوں کے زندہ کرنے سے مراد مُردوں کی طرح کے لوگوں کا زندہ کرنا ہے اورایسے کئی نشان اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑکے ہاتھ پر دکھائے ان میں سے ایک واقعہ خان محمد علی خان صاحب کے لڑکے کا ہے.خان صاحب موصوف موجودہ والئی ریاست مالیر کوٹلہ کے ماموں ہیں.ان کے صاحبزادہ میاں عبدالرحیم خان ایک دفعہ ٹائیفائیڈ سے سخت بیمار ہوئے اور حالت سخت نازک ہوگئی اور ڈاکٹر اور طبیب مایوس ہوگئے.تب اللہ تعالیٰ سے آپؑنے دُعا کی کہ وہ اسکو شفاء عطا فرمادے اور اسنے اس دُعا کو قبول کرکے آپ کو اطلاع دی کہ دُعا قبول ہوگئی ہے اور آپ نے خان محمد علی خان صاحب جاگیر دار مالیر کوٹلہ کو جو قادیان میں ہی ہجرت کرکے آبسے ہوئے تھے اسکے متعلق اطلاع بھی دے دی.چنانچہ اسکے بعد اس بچہ کی حالت یکدم درست ہونی شروع ہوگئی اور وہ بالکل تندرست ہوگیا اور ڈاکٹروں کے خیالات اور آراء باطل گئیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہے اور اسوقت تعلیم کیلئے انگلستان گیا ہوا ہے.اس واقعہ کو سترہ سال ہوگئے ہیں.حالانکہ طبیب سمجھتے تھے کہ وہ چند ساعت کے مہمان ہے یہی مُردوں کے زندہ کرنے کا نشان ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتا ہے ورنہ اصلی مُردے اس دُنیا میں واپس نہیں آیا کرتے.

Page 530

چوتھا معجزہ :تغیرات فضائی کے متعلق چوتھی مثال آپؑ کے معجزات میں سے تغیرات فضائی کے متعلق ہم پیش کرتے ہیں.جب آپ کی تکذیب بہت بڑھ گئی تو آپ نے دُعا کی کہ اللہ تعالیٰ شریروں اور سرکشوں کے لئے طاعون نازل کرے تا مسیح اوّل کی پیشگوئی بھی پوری ہوکر لوگوں کے لئے حجت ہوا اور لوگوں کے دلوں میں خوف خدا بھی پیدا ہوا اور اس دُعا کو شائع بھی کردیا.پھر آپ نے ایک کتاب نو ر الحق میں شائع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ سُورج اور چاند کے گرہن کے نشان کے بعد بھی اگر لوگ توجہ نہیں کریں گے تو سخت عذاب نازل ہوگا اورپھر یہ خبر دی کہ تمام پنجاب میں گاؤں گاؤ ں اور شہر شہر وبا پڑے گی اور ان خوابوں اور الہاموں کو کتابوں اور اخباروں میں شائع کرادیا اس کے بعد ہندوستان اور پنجاب میں وہ سخت طاعون پڑی کہ اس سے تیس لاکھ کے قریب آدمی ابتک مر چکا ہے.یہ ایک زبردست نشان ہے کیونکہ کسی انسانی طاقت میں نہیں ہے کہ اس طرح فضا میں تغیرات پیدا کردے جس سے وبا کے جراثیم میں جوش پیدا ہوجائے اور ملک کا ملک ان کے اثر کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے.تمام ہندوستان اس وبا کے اثر اور نشانات کو ظاہر کر رہا ہے اور تباہ خاندان اور اُجڑے ہوئے گھر اس امر پر شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کا انکار ایک خطرناک بات ہوتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ باوجود رحیم کریم ہونے کے برداشت نہیں کرسکتا کوینکہ اگر وہ اس بات کو برداشت کرے تو لوگ ہمیشہ کی زندگی سے محروم رہ جائیں اور شرارت میں بڑھتے جائیں.پانچواں معجزہ پہلی قسم کے معجزات کی ایک اور مثال بھی مَیں پیش کردینی مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ وہ بہ سبب تازہ ہونے کے زیادہ اہم ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ما ٔموروں کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کئی وبائیں بھی پیدا کر دیتا ہے.آج سے بیس پچیس سال پہلے آپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ کئی قسم کی بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی پھر آپ نے خبر دی کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ خدا کا وعدہ ہے کہ ایک نئی وبا بھی جس سے اس ملک کے لوگ ناواقف ہیں اس ملک میں پھیل جائے گی اور انسان حیرت میں پڑیں گے کہ کیا ہونا چاہتا ہے؟ اوریہ کہ ایک سخت اور خوفناک قسم کی طاعون ظاہر ہونے والی

Page 531

ہے جو اس ملک میں اور دوسرے ملکوں میں ظاہر ہوگی اور پریشان کرے گی اور یہ کہ وہ خصوصیت سے یورپ اور دیگر مسیحی ممالک میں پڑے گی.چنانچہ انفلوئنزا کا پچھلا حملہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک زبردست ثبوت تھا جس سے دو کروڑ کے قریب لوگ مرگئے اور یہ یورپ سے شروع ہوا اورپھر زیادہ تر یورپ یا دیگر مسیحی ممالک میں ہی پھیلا.یا پھر ان ممالک میں کہ جو مسیحیوں کے ماتحت ہیں گو کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری نئی نہیں مگر اس حملۂ وبا کی شکلیں کئی نئی تھیں جو پہلے نہیں دیکھی گئی تھیں.اوراب تک کئی نئی صورتوں میں یہ ظاہر ہورہا ہے اور متواتر اس کی رَو یورپ سے ہی شروع ہوتی ہے اور اس وقت بھی جرمنی اور فرانس اور انگلستان میں تباہی پھیلا رہا ہے اور صرف لندن شہر میں اس رسالہ کی تصنیف سے پہلے ہفتہ میں دو سو کےقریب موت اس مرض سے ہوئی ہے اوربعض مقامات کے متعلق تازہ خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیسرے حصہ سے زائد ڈاکٹر ہی بیمار ہیں اور ٹرام کاروں وغیرہ کے کام بھی بند ہو رہے ہیں اورپوپ بھی اس مرض میں مبتلاءہے اور اس کی حالت نازک ہے اور ابھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ پیشگوئی کس حد تک اپنا ظہو ر دکھائے گی اور کب تک لوگ اس وبايء کے شکار ہوں گے؟ (بعد کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ پور بینی ڈکٹ مرگیا ہے) چھٹا معجزہ : تغیرات زمینی کے متعلق چھٹی مثال آپؑ کے معجزات میں سے ہم تغیرات زمینی کے متعلق پیش کرنی چاہتے ہیں.حضرت مسیح ؑنےخبر دی تھی کہ ان کی آمد ثانی کے موقع پر خطرناک زلزلے بھی آویں گے اور اگر زلزلے نہ آتے تو آپ کے دعوے پر لوگوں کو شک ہوتا پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید کے لئے اور آپ کی صداقت کے اظہار کے لئے آپ کو قبل از وقت اطلاع دی کہ ’’زلزلہ کا دھکا ‘‘ اورایک عربی الہام اس کے ساتھ ہو ا جس کے یہ معنی ہیں کہ اس زلزلہ سے ایسی سخت تباہی آئے گی کہ دائمی رہائش کے مکان بھی اور وہ مکان بھی جو عارضی رہائش کے لئے بنائے جاتے ہیں تباہ ہوجائیں گے.٭ یہ الہامات اسی وقت اخبارات سلسلہ احمدیہ میں شائع کردئیے گئے تھے ،چنانچہ ان کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد ۴؍اپریل ۱۹۰۵؁ء کا وہ خطرناک زلزلہ آیاجس سے بیس ہزار کے قریب آدمی مر گئے اور کئی شہر اور گائوں تباہ ہوگئے اور جیسا کہ الہام میں اشارہ تھا مستقل رہائش کے مکانوں کے علاوہ عارضی رہائش کے مقامات یعنی چھائونیاں بھی تباہ ہوئیں.چنانچہ دھرم سالہ کی چھائونی کے مکانات بالکل برباد ہوگئے اور ڈلہوزی اور دوسری بعض اور جگہوں کی چھاؤنیوں کے *تذکرہ ص ۵۱۵،۶۵۵ ایڈیشن چہارم

Page 532

مکانات کو بھی صدمہ پہنچا.یہ زلزلہ ایسے مقام پر آیا جس کی نسبت تمام ماہرین علم طبقات الارض یہ خیال کرچکے تھے کہ یہاں اب زلزلہ نہیں آسکتا.مگر خدا تعالیٰ کے اقتدار کے آگے بندوں کے علم اوران کی سمجھیں کیا کام دے سکتی ہیں؟ اورپھر اس نشان کی شان اوربھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس زلزلے کے بعد جاپان کے ایک مشہور عالم نے جب یہ خبر دی کہ اب ایک سو سال تک کوئی سخت دھکّے والا زلزلہ ہندوستان میں نہیں آسکتا اور دھرم سالہ اوراس کے گردو نواح میں ماہرین فن کے اطمینان دلانے پر گورنمنٹ نے چھاؤنی کی عمارتیں بھی شروع کرا دیں.تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ پھر زلزلہ آئے گا اور آئے گا بھی موسم بہار میں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فروری ۱۹۰۶؁ء میں پھر ایک سخت زلزلہ آیا جس سے گو اس قدر نقصان جانوں کا نہیں ہوا کیونکہ لوگ اس وقت چھیروں میں رہتے تھے لیکن مکانات جو دوبارہ تعمیر ہورہے تھے گر گئے اوربہت سا مالی نقصان ہوا.اور گورنمنٹ کو کئی سرکاری مکانات کا بنوانا ملتوی کرنا پڑا.اس نشان کے متعلق آپؑنے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ ہندوستان کے باہر دوسرے ملکوں میں بھی ظاہر ہوگا اور متواتر سخت زلزلے آئیں گے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے سترہ سال میں جسقدر زلزلے آئے ہیں اور جس قدر موتیں ان سے ہوئی ہیں اور جسقدر مالی نقصان ان سے لوگوں اُٹھانا پڑا ہے اسقدر نقصان کسی پہلے زمانہ میں تین سو سال کے زلزلے ملا کر بھی نہیں ہوا اوریہ نشان اس امر کا ثبوت تھا کہ آپؑکا بھیجنے والا جس طرح فضا پر تصرف رکھتا ہے اسی طرح زمین کے اندرونی تغیرات بھی اسکے قبضہ میں ہیں اور اسکا علم وسیع ہے.ساتواں معجزہ : انسانی نسل کی زیادتی کے متعلق آپؑ کے معجزات کی ساتویں مثال کے طور پر ہم وہ معجزہ پیش کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی نسل زیادتی یا کمی پر بھی اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے اور وہ یہ ہے کہ آپؑکے ایک دشمن مولوی سعد اللہ ساکن لدھیانہ نے آپؑ کی نسبت بیان کیا کہ یہ مر جائیں گے اوران کے بعد انکا سلسلہ تباہ ہوجائے گا کیونکہ پیچھے سلسلہ کا چلانے والا کوئی نہ ہوگا اس پر آپ ؑکو الہام ہوا کہ تیرا دشمن ہی بے اولاد رہ جائے گا.تُو ایسا نہیں ہوگا.جسوقت یہ الہام شائع کیا گیا مولوی سعد اللہ کا ایک لڑکا پندرہ سولہ سال کا موجود تھا اورابھی وہ جوان آدمی تھا اسکے ہاں اولاد ہوسکتی تھی مگر اس پیشگوئی کے بعد اسکے اولاد کا سلسلہ بند ہوگیا اور آخر وہ خود بھی اپنے لڑکے

Page 533

کی شادی کا انتظام کرتا ہوا ہلاک ہوا.اس کی موت پر آپؑ کے دشمنوں نے لکھا کہ مولوی سعد اللہ کا بچہ چونکہ موجود ہے اس لئے آپ کی پیشگوئی جھوٹی نکلی آپ نے لکھا کہ یہ لڑکا تو پیشگوئی سے پہلے ہی موجود تھا اس پیش گوئی کا اس لڑکے کے متعلق تو یہ اثر ہوگا کہ اس کے اولاد نہ ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ بھی بے اولاد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قدرت کا ثبوت دے رہا ہے اور ثابت کر رہا ہے کہ خدا نسلوں کی زیادتی اور کمی پر بھی قبضہ رکھتا ہے.زیادتی نسل کی مثال خود آپ ؑ کی اولاد ہے کہ جس کی نسبت کثرت سے آپ کو الہامات ہوئے تھے.اسی طرح اور بہت سے لوگ جن کے اولاد نہ ہوتی تھی یا ہوکر مرجاتی تھی ان کے متعلق آپ کی دُعائیں قبول ہو کر ان کو اولاد ملی.آٹھواں معجزہ: تقسیم بنگال آپ کے معجزات میں سے آٹھویں مثال کے طور پر ہم آپ کی وہ پیش گوئی پیش کرتے ہیں جو آپ نے تقسیم بنگالہ کے متعلق کی جب تقسیم بنگالہ ہوئی اور بنگالیوں نے اس پر شور مچایا اورگورنمنٹ نے ان کی فریاد پر کان نہ دھرے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ :- ’’پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا تھا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی.‘‘ (تذکرہ صفحہ ۵۹۶ و صفحہ ۶۶۴ ایڈیشن چہارم) یہ الہام ۱۱ ؍فروری ۱۹۰۶؁ء کو ہوا اور اسی وقت کئی اخباروں اور رسالوں میں شائع کردیا گیا.یہ زمانہ جیسا کہ اے شہزادہ والا جاہ ! آپ جانتے ہوں گے وہ تھا جبکہ گورنمنٹ اپنی پالیسی پر مُصر تھی اور اپنے حکم کو واپس لینے کے لئے ہرگز تیار نہ تھی.بنگالی اپنا زور لگا چکےتھے مگر ان کی تمام کوششیں اکارت جاچکی تھیں.اور آخر وہ مایوس ہوکر بجائے تقسیم بنگالہ کے حکم کو بدلوانے کے اس امر پر امادہ ہوگئےتھے کہ گورنمنٹ کو نقصان پہنچائیں اوربڑے بڑے ماہرین سیاست اس امر کا اعلان کررہے تھے کہ گورنمنٹ سے غلطی ہوئی ہے مگر اب اس حکم کو طے شدہ سمجھنا چاہئے اور زیادہ شور کرنا فضول ہے.حتّٰی کہ جس وقت یہ پیشگوئی شائع ہوئی اس وقت بعض بنگالی اخبارات نے ہی لکھا کہ ہم بنگالی تو مایوس ہوچکے ہیں اور یہ شخص اس قسم کی باتیں لکھتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے بھیدوں کو کون سمجھ سکتا تھا وہ ان لوگوں کی امیدوں کے خلاف جو بنگال کے رہنے والے تھے اور جن کو شکایت تھی اوران لوگوں کے ارادوں کے خلاف جن کے ہاتھ میں بظاہر اختیار تھا اپنے رسول کوبتا رہا تھا کہ بنگالیوں کی دلجوئی ہوجائے گی.اس الہام کے شائع ہونے کے بعد بھی متواتر یہ سوال پارلیمنٹ میں آیا گورنمنٹ سے متواتر

Page 534

درخواست کی گئی کہ وہ اپنے حکم کو منسوخ کردے مگر باوجود درخواستیں کرنے کے گورنمنٹ نے تقسیم بنگالہ کے سوال پر غور کرنے سے انکار کردیا اور وزیر ہند لارڈ کریونے (جن کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے بعد میں اپنے کلام کے مطابق کام کروایا ،تو پارلیمنٹ میں صاف کہہ دیا کہ اس فیصلہ کو ہرگز بدلہ نہیں جاسکتا مگر خدا تعالیٰ کیقدت ہے کہ اس نے اپنے کلام کو پورا کرنےکے لئے یہ سامان کیا کہ اے شہزادۂ ذی شان ! آپ کے والد مکرم ہمارے بادشاہ کی تخت نشینی کی تقریب پر یہ تحریک پیدا کردی کہ ان کی تاج پوشی بحیثیت بادشاہ ہندوستان ہونے کے ہندوستان میں بھی ہونی چاہئے.اور اس طرح اس نے آپ کے والد کو اس امر کے لئے منتخب کیا کہ وہ اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پورا کریں.چنانچہ آپ کی ہندوستان میں تشریف آوری اور تاج پوشی کی تقریب پر ہندوستان کو جن مراعات کا دیا جانا تجویز ہوا ان میں ایک تقسیم بنگالہ کی منسوخی بھی تھی اورانہوں نے ہزاروں میلوں کا سفر اختیار کرکے دہلی جدید دار الخلافہ میں بذات خود تقسیم بنگالہ کی منسوخی کا اعلان کرکے گویا اس امر کا اعلان کیا کہ حکومتیں اور افراد اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں ہی جس طرح وہ رعایا پر حکومت کرتا ہے حاکموں اور حکومتوں پر بھی حکم کرتا ہے اور جب وہ کوئی فیصلہ کردے تو خواہ کس قدر ہی بعید از عقل معلوم ہوہو کر رہتا ہے اور یہ کہ حضرت مرزا غلام احمد ؑصاحب بانی سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے رسول اور ما ٔمور ہیں اور اسلام اس کا بھیجا ہوا دین ہے.نواں معجزہ : جنگ روس و جاپان آپ کے معجزات میں سے نویں مثال بھی ہم ایک سیاسی معجزہ کی لیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جس وقت روس اور جاپان کی جنگ چھڑی تو آپ کو الہام ہوا کہ:- ’’ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت ‘‘(تذکرہ صفحہ ۵۱۲حاشیہ ایڈیشن چہارم) جیسا کہ اس الہام کےالفاظ سے ظاہر ہوتا ہے اس میں بتایا گیا تھا کہ جاپان اس جنگ میں فاتح ہوگا اور یہ کہ اس کو اس قدر عظیم الشان فتح حاصل ہوگی کہ کوریا پر قبضہ کرنے کی جو اسے خواہش ہے اسے وہ پوری کرسکے گا.مگر کوریا والے اسے پسند نہیں کریں گے اور اس ملک میں ایک خطرناک فساد اور فتنہ برپا ہوجائے گا.اور ملک کی حالت تباہ ہوجائے گی.گو جس وقت یہ الہام شائع ہو ا ہے اس وقت بڑے سے بڑے سیاسی مدبر اور برسر حکومت لوگ بھی اس قسم کی بات منہ سے نہیں نکال سکتے تھے اور جاپان کی اس قدر عظیم الشان فتح کی نسبت امید باندھنا تو الگ رہا بعض لوگ تو یہ بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے کہ وہ فتح بھی پاسکے گا اور خیال کرتے تھے کہ اب تک روس نے

Page 535

جنگ کی اہمیّت کو سمجھا نہیں.جب اس کو ا س طرف توجہ ہوئی وہ اپنے نہ ختم ہونے والے ذرائع کو استعمال کرکے جاپان کو پیس ڈالے گا اور یہ تو کوئی بھی نہ مان سکتا تھا کہ جاپان اگر فتح پاگیا تو اپنے مطالبات کو پورا کرواسکے گا مگر بعد کے واقعات نے کس طرح اس کلام کی صداقت کا ثبوت دیا؟ جاپان کامیاب ہوا اور روس میں ایسے خطرناک فسادات پیدا ہوگئے کہ اسے جاپان کے مطالبات کے مطابق صلح کرلینی پڑی اور کوریا پر اس کے اقتدار کو تسلیم کرنا پڑا لیکن کورین نے اس کو سختی سے ناپسند کیا اور جاپان کے اصرار کو دیکھ کر اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور اس کے بعد سالہا سال تک جو اس ملک کی خطرناک حالت رہی ہے اور جس طرح اس کا امن برباد ہوا ہے وہ خود پکار پکار کر اس نازک حالت کی تصدیق کررہا ہے جو حضرت مسیح موعودؑکے الہام میں بتائی گئی تھی.دسواں معجزہ : حکومت ایران دسوایں معجزہ بھی ہم سیاسی معجزات میں سے ہی بیان کرتے ہیں اور ان معجزات میں سے اس مثال کا انتخاب کرتے ہیں جو آپ کی وفات کے بعد ظاہر ہوئے یہ معجزہ ایران کے متعلق ظاہر ہوا.آپ نے ۱۹۰۶؁ء میں الہام شائع کیا کہ ’’تزلزل درایوان کسریٰ فتاد‘‘ یعنی شاہ ایران کے محل کے اندر تہلکہ پڑجائے گا.جس وقت یہ الہام شائع ہوا.اس وقت ایران کی نسبت یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہاں جمہوریت کی ایسی زبردست لہر بلند ہوگی.مگر اللہ تعالیٰ کی باتوں کا علم بندوں کو اسی وقت ہوتا ہے جب وہ پوری ہوکر اس کے اقتدار اور اس کی طاقت کو ظاہر کرتی ہیں.آخر ۱۹۰۹؁ء میں اس کے آثار ظاہر ہونے لگے.اوریکدم ایران میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جمہوریت کی ایک زبردست لہر بلند ہوئی اوراس کے مقابلہ پر شاہ ایران کی سمجھ پر کچھ ایسے پردے پڑگئے کہ وہ اس جوش کا اندازہ نہ کرسکے جو ملک میں پیدا ہوگیا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے محل میں تہلکہ مچ گیا اور وہ اپنی بیگمات سمیت دفعتاً اپنے محل اور اپنی سلطنت کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے اور ملک میں جمہوری حکومت کی بنیاد رکھدی گئی اور یہ تغیر مسیح موعود ؑ کی صداقت کا ایک گواہ ٹھہرا جو ہمیشہ کے لئے اہل ایران اور دیگر ممالک کے لئے آپ کے منجانب اللہ ہونے کا ایک نشان ہوگا.گیارہواں نشان : عالمگیر جنگ سب سے آخر میں اے شہزادۂ والا جاہ!ہم آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک ایسا نشان پیش کرتے ہیں ( کہ وہ بھی آپ کی وفات کے بعد ہی ظاہر ہوا ہے) جس کے گواہ حضور ملک معظم

Page 536

اور خود آپ اور قیصر جرمن اور زارِ روس اور دُنیا کی قریباً ہر حکومت اور ہر ایک برّ اعظم اور ہر ایک ملک ہیں اور وہ آپ کی وہ پیشگوئی ہے جو پچھلی عالمگیر جنگ کے متعلق ہے.آپ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر ۱۹۰۵؁ء میں اعلان کیا کہ ایک عظیم الشان زلزلہ کی خبر دی گئی ہے.جو جوانوں کو بڈھا کردیگا اور شہر اس سے برباد ہوں گے اور اس قدر خون بہے گا کہ نہر یں مُردوں کے خون سے سرخ ہوجائیں گی اور پہاڑ اس سے اُڑائے جائیں گے اور لوگ اس کے صدمہ سے پاگل ہوجائیں گے اور تمام دنیا پر اس کا اثر ہوگا اور اس کے نتیجہ میں زار روس کی حالت بہت ہی زار اور دردناک ہوگی اور پھر آپؑنے خبر دی کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ چاروں طرف جنگی جہاز پھریں گے تا کہ آپس میں جنگ ہو اور مسافر روکے جائیں گے اور اپنے وطنوں تک ان کو پہنچنا مشکل ہوجائے گا اور زار روس سے اس کی حکومت لے لی جائے گی.اورپھر آپ ؑکو بتایا گیا کہ جہاز ہر وقت سمندر میں جانے کے لئے تیار رکھے جائیں گے زمین تہ وبالا کی جائے گی اور خدا اپنی فوجوں سمیت دنیا کو اس کے گناہوں کی سزا دینے کے لئے نازل ہوگا.عرب اپنی قومی ترقی کی طرف توجہ کریں گے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کریں گے.جس طرح میرا ذکر اور میری یاد مٹ گئی ہے اسی طرح میں شہروں او ر علاقوں کو برباد کردوں گا اوران شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا اور یہ کہ سولہ سال کے عرصہ میں یہ واقعہ ہوگا.پھر ایک اور موقعہ پر آپ ؑبیان فرماتے ہیں کہ وہ خطرناک جنگ جو ہونے والی ہے اس وقت نہ معلوم ہم زندہ ہوں یا نہ ہوں اس لئے ہم نے برطانیہ کی کامیابی کے لئے دُعا کردی ہے تا کہ اس حکومت نے جو مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے اس کا بدلہ ہو.گو اس پیشگوئی میں زلزلہ کا لفظ استعمال ہوا ہےمگر عربی میں زلزلہ کو ہر ایک مصیبت کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میںبھی.یہ لفظ جنگ کے متعلق استعمال ہوا ہے اور خودحضرت مسیح موعودؑنے اس پیشگوئی کے اعلان کے وقت شائع کردیا تھا کہ اس سے مراد کوئی ایسی آفت ہے جس سے شہر اور کھیت وغیرہ برباد ہوں گے.اے شہزادئہ والا مقام ! اس پیشگوئی کے الفاظ خود اپنی تشریح کررہے ہیں اور کسی دوسرے کی تشریح کے محتاج نہیں کس طرح یہ جنگ آناً فاناً ساری دُنیا میں پھیل گئی اور کس طرح جنگی بیڑے اِدھر سے اُدھر پانچ سال تک گشت لگاتے رہے اور جنگی جہاز ہر وقت جنگ کی انتظار میں پھرتے رہے اور کس طرح پہاڑ استعارۃً نہیں بلکہ فی الواقع اُڑائے گئے اور شہرور علاقے برباد

Page 537

ہوئے کہ ان کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا تھا اور کس طرح تمام ممالک پر اس کااثر پڑا ؟ اور مسافروں کے لئے یہ جنگ کیسی خطرناک ثابت ہوئی کہ ہزاروں بِلا قصور اوربِلا گناہ دشمنوں کے ملک میں روکے گئے اور ان کے رشتہ دار ان کی یاد میں تڑپتے رہے.کس طرح دریا واقعی طور رپ مردوں کے خون سے رنگے گئے؟ اورجو ان اس کے صدمہ سے بوڑھے اور عقلمند پاگل ہوگئے اور ہزاروں آدمی جو اچھے بھلے تھے اپنی عقل کو کھو بیٹھے اور اس طرح زمین تہ و بالا کی گئی کہ اب تک اس کی درستی اور آبادی کا پورا انتظام نہیں ہوسکا گو اربوں روپیہ خرچ کیا جاچکا ہے.اور کس طرح بیسیوں جگہیں اسی طرح دُنیا سے مٹ گئیں جس طرح اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی عبادت یورپ کے علاقوں سے مٹ گئی ہے اورپھر عربوں نے جنگ میں شامل ہوکر اپنی قومی زندگی کو کسی طرح قائم کیا اور اس کے حصول کے لئے ایک سیل کی طرح اپنے مخالفوں کے مقابلہ میں چل کھڑے ہوئے اور یہ سب کچھ پیشگوئی کے شائع ہونے کے بعد جو کہ ۱۹۰۵؁ء میں شائع کی گئی تھی مطابق پیش گوئی سولہ سال کے اندر ہوا اورپھر اے شہزادہ! کس طرح اللہ تعالیٰ نے عین مایوسی اور ناامیدی کےوقت مسیح موعودؑ کی دُعا کو سن کر برطانیہ کی فتح کا سامان پیدا کردیا.اور زارِ روس کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا وہ کس طرح حرف بحرف پورا ہوا ہم نے اس حصہ کو سب سے آخر میں اس لئے لیا ہے کہ یہ سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے.پیشگوئی میں اس حصہ کے متعلق کئی باتیں بیان کی گئی تھی.ایک تو یہ کہ اس جنگ کے شروع ہونے تک زار کی حکومت کو اندرونی اصلاحات کے مدعی کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.دوم یہ کہ اس جنگ کے بعد تک اس کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ اسی جنگ میں اس کی حالت کے زار ہوجانے کی خبر دی گئی ہے.پھر یہ کہ اس سے حکومت چھین لی جائے گی اور یہ نہ ہوگا کہ وہ بادشاہت کی ہی حالت میں مارا جائے.اور پھر یہ کہ اس کے بعد زاروں کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ کہا گیا تھا کہ زار کی حالت خطرناک ہوگی نہ یہ کہ کسی خاص بادشاہ کی.اورپھر یہ بتایا گیا تھا کہ وہ آسانی سے مر بھی نہیں سکے گا بلکہ سخت تکالیف اور رسوائیاں اور ناکامیاں اور نامرادیاں دیکھے گا.اور اے شہزادہ زی شان! کس طرح یہ باتیں لفظ بلفظ پوری ہوئیں اور زارِ روس کی حالت

Page 538

کیسی زار اور مضمحل ہوئی کہ دوست تو دوست دشمن تک بھی اس پر افسوس کرتے اور اس پر رحم کھاتے ہیں.غرض اس پیشگوئی کے بیسیوں پہلو اس وضاحت اور اس صفائی سے پورے ہوئے ہیں کہ صرف یہی ایک نشان مسیح موعود ؑ کی صداقت کے لئے کافی ہے اور ملک معظم اور آپ بہ سبب اس فتح کے جو مسیح موعودؑ کی دُعاؤں سے آپ کو حاصل ہوئی ہے اور قیصر بہ سبب اس شکست کے جو اس کو حاصل ہوئی اور زار روس بہ سبب اس زار حالت کے جو اس پر نازل ہوئی اور دنیا کا ہر حصہ اور ہر ملک اور ہر جنگی جہاز اور ہر پہاڑ جس پر تو پخانہ رکھا گیا یا جس پر گولہ باری ہوئی اور ہر دریا جس پر جنگ ہوئی اور ہر سرنگ جو کھودی گئی اور ہر مدبر جس کےذمہ اس کا انتظام سپرد تھا اور ہر شخص جس نے اس جنگ سے نقصان اٹھایا اور ہر حکومت جس نے اس جنگ میں حصہ لیا اس پیشگوئی کے ذریعے سے مسیح موعود ؑکی صداقت کے گواہ بنے اور اس کی سچائی کے شاہد.گو یہ اوربات ہے کہ اس کی صداقت کا منہ سے بھی اقرار کریں یا نہ کریں.بعض وہ الہامات جو آئندہ زمانہ کے متعلق ہیں اور ابھی پورے ہونے ہیں اے شہزادۂ جاہ! مَیں چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ؑکے معجزات کے بیان کردینےکے بعدبعض ایسی پیشگوئیاں بھی بیان کردوں جنہوں نے ابھی پورا ہونا ہے.روس کے ملک کے متعلق ان پیشگوئیوں کے علاوہ جو پہلے بیان ہوچکی ہیں اور جو پوری بھی ہو چکی ہیں.آپؑکی یہ بھی پیشگوئی ہے کہ اس ملک کی حکومت آخر احمدیوں کے ہاتھ میں آجاوے گی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بخارا کے ملک میں خاص طور پر اس سلسلہ کو قریب زمانہ میں ہی پھیلا دے گا اور یہ بھی کہ یورپ کا اکثر حصہ آخر اسلام کو قبول کرے گا اور آپؑپر ایمان لاوے گا اور یہ بھی کہ دنیا کے تمام مذاہب اسلام اور سلسلہ احمدیہ کے سامنے شکست کھا کر مٹتے جائیں گے اور آخر قریباً نیست و نابود ہوجائیں گے اور دنیا میں صرف آپؑ پر ایمان لانے والے لوگ رہ جائینگے اور جو دوسرے مذاہب کے پیرو باقی رہینگے وہ نہایت کم ہونگے اور نہایت ادنیٰ حالت میں ہونگے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ آئندہ

Page 539

دنیا کی اصلاح کے لئے آپ ؑکی ذریت اور آپ کی نسل میں سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا.جو آپؑ کے کام کو تکمیل تک پہنچائے گا اور یہ بھی کہ بادشاہ اور امیر آپ پر ایمان لائیں گے اور اسقدر اخلاص ان میں پیدا ہوگا کہ وہ آپؑ کےکپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور یہ بھی کہ جو بادشاہتیں آپ کی جماعت کی ترقی میں روک ہوں گی اور آپ کے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا پسند نہ کریں گی وہ کاٹی جائیں گی اوران کا نام صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے سے دنیا میں عدل اور انصاف اور محبت کو قائم کرے گا اور خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہوگا اور لوگ اپنی سرکشیوں سے باز آجائیں گے اور نیکی اور تقویٰ کا زمانہ دُنیا میں جاری ہوگا اور انسان اپنی پیدائش کے مقصدکو پالے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض پوری ہوگی جو اس مرتبت کا رسول کہ آپؐ باوجود اس شان کے جو خدا نے آپ ؐکو دی اور جو دُنیا نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی اورا ٓئندہ کرے گی اس کے غلام اور اس کے شاگرد ہیں.سو مبارک ہیں وہ جو ان نشانات سے جو پورے ہوچکے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور خدا سے صلح کرکے اس کے غضب سے محفوظ ہوتے ہیں.دعوت الی الاسلام اےشہزادۂ بالا بخت ! آخر میں ہم آپ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ کوئی عزت نہیں مگر وہی جو خدا سے ملے اور کوئی رُتبہ نہیں مگر جو اللہ تعالیٰ دے اور کوئی سُکھ نہیں مگر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو.پس ہم آپ کو اس صداقت کے قیام اور جس کے پورا کرنے کے لئے اس نے اس وقت مسیح موعودؑکو نازل کیا ہے.بیشک مسیحی اقوام کے لئے یہ نہایت تلخ ہے کہ وہ انیس سو سال تک انتظار کرنے کے بعد مسیح کے وجود کو دوسرے کسی مذہب کےپیروئوں میں پائیں اور ان کی حمیّیت اور غیرت کو اس سے صدمہ پہنچتا ہے.مگر مبارک وہی ہے کہ جو خدا کی مرضی کو قبول کرے اور اس کی حکمتوں پر اعتراض نہ کرے اور اپنی عزت اور اپنی غیرت اوراپنی خواہش پر اسکی رضا کو مقدم کرے کیونکہ اسی کے لئے دائمی نجات ہے اور وہی ابدی خوشی کو پائے گا.پہلوں نے اپنی غیرت کو خدا کی مرضی پر مقدم کرکے کیا سُکھ پایا کہ آئندہ اور لوگ پائیں گے؟ یہود نے یوحنا کو ایلیاء تسلیم کرنا اپنی روایات کے خلاف سمجھا اور اللہ تعالیٰ کے منشاء کو قبول نہ کیا اور وہ آج تک مسیحؑکے انتظار میں ہیں.انتظار کا وقت لمبا ہوگیا

Page 540

مگر آنے والا ابھی نہیں آیا کیونکہ وہ جو آچکا دوبارہ کیونکر آئے؟ قیامت تک وہ لوگ انتظار کرتے چلے جائیں گے اور کوئی ایلیاء آسمان سے نازل نہ ہوگا اور نہ کوئی مسیح آئے گا اور وہ اپنی ضد کی وجہ سے آسمان کی بادشاہت سے ہمیشہ کے لئے محروم رہیں گے.اسی طرح اگر مسیحی ضد کریں گے اور ااسمانی نشانوں کو ردّ کریں گے اور ان سے آنکھیں بند کرلیں گے تو ان کے لئے بھی قیامت تک انتظار کرنا نشانوں کو ردّ کریں گے اوران سے آنکھیں بند کرلیں گے تو ان کے لئے بھی قیامت تک انتظار کرنا ہوگا جوآنے والے تھے آچکے.وہ بھی آگیا جسے خدا کے نام پر آنا تھا اور جس نے موسٰی کی طرح شریعت کا کلام پانا تھا اور وہ بھی آچکا جس نے مسیح کا نام پاکرآنا تھا اور روح حق کی تصدیق کرنی تھی اور اس کے مقصد کی اشاعت کرنی تھی.اب ان کے بعد نہ کوئی تسلّی دہندہ آئے گا اور نہ کوئی مسیح ؑقیامت تک لوگ انتظار کرتےچلے جائیں سوائے انتظار کی تلخی کے ان کو کچھ نہ ملے گا.آنیوالے نے جیسا کہ لکھا تھا مسیح ؑکا نام پاکر آنا تھا نہ کہ خود مسیح ؑنے اور اس کی بعثت اسی طرح ہونی تھی جس طرح یوحنا بپتسمہ دینے والے کی ایلیاء کے رنگ ہوئی.اے شہزادۂ عالی قدر ! جب کوئی بات دلائل سے ثابت ہوجائے توشک وشبہ سے اس کو باطل کرنا خود اپنا نقصان کرنا ہوتاہے لوگ چاہتےہیں کہ اسلام کی شکل کو مسلمانوں کے اعمال یاموجودہ خیالات سے بد نما کرکے دکھائیں.لیکن جب قرآن کریم خود موجود ہے، جب رسولِ ؐاسلام کے اپنے منہ کے الفاظ موجود ہیں تو پھر لوگوں کی باتوں کی طرف جانے کی ہمیں کیا ضرورت ہے؟ کیا سورج کی موجودگی میں ہم لوگوں سے اس کے وجود کی تشریح پوچھا کرتے ہیں؟ قرآن کریم کی تعلیم جیسا کہ میں پہلے مختصرً بیان کرچکا ہوں ایسی ہے کہ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.وہ اپنی خوبی میں سورج کی طرح چمکتی ہے اور اس کے مقابلہ میں سب تعلیمیں ماند پڑجاتی ہیں.نہ اس لئے کہ ان نبیوں نے وہ تعلیمیں اپنی طرف سے بنائی تھیں بلکہ اس لئے کہ وہ یا تو خاص وقتوں کے لئے تھیں یا بعد میں لوگوں نے ان میں اپنے خیالات ملا کر ان کوبگاڑ دیا ہے.لیکن قرآن کریم کی تعلیم ہر زمانہ کے لئے ہے اور مکمل ہے.اس میں نہ ایک شعشہ کی تبدیلی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش ہے اور نہ اس کی تعلیم میں انسان کے ہاتھوں نے کوئی تبدیلی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش ہے اور نہ اس کی تعلیم میں انسان کے ہاتھوں نے کوئی تبدیلی پیدا کی ہے.اے شہزادۂ بلند اقبال ! آپ دیکھیں کہ کس طرح لوگوں نے خدا کے نوشتوں کو بگاڑ دیا ہے وہ نبیؐ جو اللہ تعالیٰ کی توحید اورا س کے جلال کے قیام کے لئے آیا تھا.اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ واقع میں خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی تھا اور یہ کہ خدا کے ساتھ مسیح اور روح القدس بھی الوہیت

Page 541

کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں.اس سے زیادہ ظلم اور اندھیرا اور کیا ہوسکتا ہے؟ اور اس سے زیادہ نافرمانی اوربغاوت کی کیا مثال ہوسکتی ہے ؟ بادشاہ اور اس کی رعایا کو ایک کردینا اور آقا اور نوکر کو ملا دینا اور خالق اور مخلوق کو برابری کا درجہ دے دینا سب سے بڑا ظلم ہے جس سے بڑھ کر مذہب میں رہ کر اور کوئی گناہ نہیں ہوسکتا.مگر یہ سب کچھ مسیح علیہ السلام کے نام پر کیا جاتا ہے اور اسے عین صداقت سمجھا جاتاہے.اسی طرح خود نجات حاصل کرنے کے لئے خدا کے ایک مقرب کو لعنت کی موت مارا جاتا ہے اور اس پر لعنت کا بوجھ لادا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ تین دن رات اسی حالت میں رہا اور اس عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے خدا کو جس کا رحم دنیا کے ہر انتظام میں نظر آرہا ہے رحم سے جواب دیا جاتا ہے اور ایک ادنیٰ انسان سے بھی اس کے اخلاق گرائے جاتے ہیں.گویا ہم تو اپنے مجرموں کے گناہ معاف کرسکتے ہیں مگر وہ مالک ہوکر بھی معاف نہیں کرسکتا.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ خدا کی شریعت لعنت ہے گویا نوحؑ اورابراہیمؑ اورموسٰی اوردیگر انبیاء خدا کی لعنتیں لے کر دُنیا میں آئے تھے لیکن کوئی نہیں بتاتا کہ خدا کے کلام کا کونسا حصہ لعنت ہے؟کیا یہ لعنت ہے کہ کہا تھا کہ چوری نہ کر،زنا نہ کر اور کسی کو قتل نہ کر؟ یا یہ لعنت ہے کہ کہا گیا تھا کہ جھوٹ نہ بول اورظلم نہ کر اور دوسروں کے حق نہ مار؟ یا یہ لعنت ہے کہ کہا گیا تھا کہ بد اخلاقی نہ کر اور غیبت نہ کر اور فساد نہ کر ؟ یا یہ لعنت ہے جو کہا گیا تھا کہ سچ بول اور لوگوں سے محبت کر اور گناہ گاروں کے گناہ معاف کر؟ یا یہ لعنت ہے کہ بنی نوع انسان کی خیر خواہی کر اور خوش خُلقی سے پیش آ.اور بیکسوں اور مسکینوں کو اپنے مال میں شریک کر؟ یا یہ لعنت ہے کہ صداقتوں سے پیا کر اور علوم کو حاصل کر اور ایک خدا کی پرستش کر اور اس کا شریک کسی کو قرار نہ دے؟ یا یہ لعنت ہے کہ ہر ایک ظالم سے مظلوم کے حقوق دلوائے جائیں.شریروں کو دوسروں پر ظُلم نہ کرنے دیا جائے؟ آکر وہ کونسا حکم شریعت کا لعنت ہے جس سے مسیح علیہ السلام نے آکربچا لیا ؟ کیا پھر خدا تعالیٰ کی عبادات یا بعض احتیاطیں کھانے کے متعلق لعنت ہیں؟ کیا فریسی اور فقیہی لوگ اورپہلے لوگ ان عبادتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے یا ان کھانوں کے کھالینے کے سبب سے خدا کے مغضوب ہوئے تھے؟ کہ ان کو دُور کرکے مسیح علیہ السلام نے دنیا کو لعنت سے بچا لیا؟ مسیح علیہ السلام تو خود مانتے ہیں کہ عبادات کے احکام وہ خوب بجا لاتے تھے اور کھانے بھی وہ شریعت کے مطابق کھاتے تھےپھر ان احکام کی خلاف ورزی تو ان کو جہنم میں لے جانے کا باعث نہیں ہوسکتی تھی

Page 542

کیونکہ وہ ان احکام کی خلاف ورزی نہ کرتے تھے بلکہ اخلاقی احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے لیکن کیا مسیح علیہ السلام کی آمد سے وہ احکام بھی معاف ہوگئے ہیں؟ اگر نہیں تو کون سی لعنت ہے جو مسیح علیہ السلام نے اٹھالی؟ اصل بات یہی ہے کہ دل مرگئے ہیں اور خدا کے احکام سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ان کو لعنت کہا جاتا ہے اور بے گناہ مسیحؑ کو گناہ میں ملوث کیا جاتا ہے ورنہ خود شریعت کو لعنت قرار دینے والے شریعت کے احکام سے کہیں زیادہ قانون بنارہے ہیں.غرض دین بگڑ گئے حالتیں اور بدل گئیں.اس لئے ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائم کرنے کے لئے اور اس کو خدا کے احکام پر چلانے کے لئے پھر کوئی ہدایت آتی اور وہ اسلام ہے.مگر اے صاحبِ رفعت شہزادہ! ان جھگڑوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں مسیح علیہ السلام نے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کے لئے خود ایک معیار مقرر کردیا ہے اور وہ اب تک انجیل میں لکھا ہوا موجود ہے مگر لوگ آنکھیں رکھتے ہوئے اسے نہیں دیکھتے اور دل رکھتے ہوئے اسے نہیں سمجھتے اس نشان کے ماتحت اس امر کا آسانی سے فیصلہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ اسلام ہے یا مسیحیت ؟ اور وہ معیار یہ ہےکہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:- ’’اچھے درخت میں بُرا پھل نہیں لگتا اورنہ بُرے درخت میں اچھا پھل لگتا.پس ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اس لئے کہ لوگ کونٹوں سے انجیر نہیں توڑتے اور نہ بھٹکٹیا سے انگور توڑتے.‘‘(لوقا باب ۶ آیت ۴۳- ۴۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اور اسی طرح ایمان کے ثمرات کے متعلق فرماتے ہیں:- ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تمہیں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوتا تو اگر تم اس پہاڑ سے کہتے کہ یہاں سے وہاں چلا جا تو وہ چلا جاتا اور کوئی بات تمہاری ناممکم نہ ہوتی.‘‘ (متی باب ۱۷ آیت ۲۰) ٭ پھر دُعا کی قبولیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ :- ’’جو کچھ دعا میں ایمان سے مانگو گے سو پاؤگے.‘‘ (متی باب ۲۱.آیت ۲۲)٭ پھر فرماتے ہیں کہ :-

Page 543

’’اگر تم میں سے دو شخص زمین پر کسی بات کیلئے میل کرکے دُعا مانگیں وہ میرے باپ کی طرف سے جو آسمان پر ہے ان کے ہوگی.‘‘(متی باب ۱۸ آیت ۱۹)(نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء) اب اے شہزادہ اس معیار کے مطابق کون سا مذہب سچّا ثابت ہوگا؟وہ جس نے اس قسم کا انسان پیدا کیا ہے جس کا ہم پہلے ذکر کرآئے ہیں یا وہ جس میں اس کا کچھ بھی نشان نہیں ہے؟اگر یہ سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو اسلام کے اس شریں پھل کے مقابلہ میں مسیحیت کس پھل کو پیش کرتی ہے؟ اوراگر یہ سچ ہے کہ کانٹوں کو انگور نہیں لگتے تو اسلام اگر جھوٹا ہے تو اس میں انگور کیونکر لگ گئے؟ اور مسیحیت اپنی موجودہ صورت میں خدا تعالیٰ کی پسندیدہ ہے تو اس میں کیوں کانٹے ہی کانٹے پیدا ہوتے ہیں؟ کیا آج ساری مسیحی دنیا میں کوئی ایک بھی شخص ہے جو مسیح موعودؑ سے آدھے نہیں سو ویں حصہ کے برابر بھی نشان دکھا سکے بلکہ ایک بھی نشان دکھا سکے؟ حضرت مسیحؑتو فرماتے ہیں کہ اگر ایک رائی کے برابر بھی تم میں ایمان ہو تو تم برے بڑے کام کرسکتے ہو مگر کیا تمام عالم مسیحیت میں ایک بھی آدمی رائی کے دانہ برابر ایمان نہیں رکھتا؟ اے شہزادۂ ویلز ! زندہ مذہب اپنی زندگی کے آثار رکھتا ہے اور اسلام کی زندگی کے اثر کو ہم اپنے نفس کے اندر محسوس کرتے ہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام نشانات اور تمام قبولیتیں مسیح موعود ؑکےساتھ ختم ہوگئیں اگر ایسا ہوتا تو ہم اسلام کو بھی مُردہ مذہب سمجھتے ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی برکات ہمیشہ کے لئے جاری ہیں اور ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اب مسیحی دنیا اسلام اور مسیحیت کا اثر دیکھنے کے لئے تیار ہو تو اللہ تعالیٰاچھے درخت میں اچھے پھل لگا کر دکھا دیگا اور جو اس کا پیارا بیٹا ہے.اسے مچھلی کی جگہ سانپ نہیں دے گا نہ روٹی کی جگہ پتھر بلکہ اس کے لئے کھولے گا اور اس کی دعا کو سنے گا.پس اے ہمارے واجب التعظیم بادشاہ کے واجب التعظیم ولی عہد! اگر آپ باوجود ان نشانات اور صداقتوں کے جو اوپر مذکور ہوئیں ابھی یہ خیال کریں کہ خدا کے تعلق اور محبت کے معلوم کرنے کیلئے اسوقت بھی کسی نشان کی ضرورت ہے تو ہم آپ کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے رسوخ سے کام لے کر پادریوں کو تیار کریں جو اپنے مذہب کی سچائی کے اظہار کیلئے بعض مشکل امور کیلئے دُعا مانگیں اور بعض ویسے ہی مشکل امور کیلئے جماعت احمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کرے.مثلاً سخت مریضوں کی شفاء کے لئے جن کو بذریعہ قرعہ اندازی کے آپس میں تقسیم کرلیا جائے پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کی سنتا ہے اور کس کے منہ پر دروازہ بند کردیتا ہے؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرسکیں اور ہرگز نہ کریں گے کیونکہ ان کے *نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء

Page 544

دل محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی برکتیں ان سے چھین لی گئی ہیں تو پھر اے شہزادہ ! آپ سمجھ لیں کہ خدا نے مسیحیت کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کے ساتھ اپنی رحمتیںمخصوص کردی ہیں.آخر میں اے مکرم شہزادہ ! مَیں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ جس محبت سے خدا کی بادشاہت کی خبر ہم نے آپ کو دی ہے اسی محبت سے آپ اس تمام امر پر غور کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جیسے ہم ہیں ویسے ہی آپ ہیں.اس کی نظروں میں چھوٹے اوربڑے بادشاہ اور رعایا سب برابر ہیں.ابدی زندگی کے ہم ہی محتاج نہیں بلکہ آپ بھی اس کے محتاج ہیں اور خدا کی رضا کی ہم ہی کو ضرورت نہیں بلکہ آپ کو بھی ہے.دُنیا کی بادشاہتیں فانی ہیں اور اس کی عزتیں آنی.وہی دائمی خوشی کا وارث ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو خوش کرتا ہے ہم نے حق آپ کےسامنے پیش کردیا ہے اس کا قبول کرنا یا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے.مگر ہم آپ سے باادب التجا کرتے ہیں کہ آپ اسلام کے متعلق سنی سنائی باتوں پر نہ جائیں اور دشمن کےاقوال پر اپنے خیالات کی بناءنہ رکھیں.اسلام ایک پاک اور بے عیب مذہب ہے اور اس کی تعلیم پر چلنے والے ہمیشہ اچھے سے اچھے پھل کھاتے اور خدتعالیٰ کی عنایتوں اور شفقتوں سے حصہ لیتے رہتے ہیں.اس وقت دُنیا گناہ سے بھر گئی ہے اور نافرمانی اوربغاوت پھیل ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑک رہا ہے.اب وہ دُنیا کو اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے اور اس سے اپنا وجود منوانا چاہتا ہے دنیا نے شرک کے راستہ پر بڑھ بڑھ کر قدم مارا اور انکار پر اصرار کیا اور خدا کے کلام کی ہتک کی اور اس کی ملاقات کے خیال کو دل سے بُھلا دیا اور قیامت کو ہنسی ٹھٹھا سمجھا اور مادیت کا زنگ اس کے دل پر لگ گیا اور لوگوں نے خیال کیا کہ اس کے انبیاء محض طلیق اللسان انسان تھے جنہوں نے لوگوں کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے مذہب کی روک بنادی تھی اور وہ خیال کرنے لگی ہے کہ وہ خدا کو بھی سبق پڑھا سکتی ہے اور اس کے کلام پر بھی حکومت کرسکتی ہے.عیاشی بڑھ گئی ہے اور دنیا کی محبت دلوں میں گھر کر گئی ہے.ایک عاجزانسان کو خدا تعالیٰ کا شرک قرار دیا جاتا ہے اور اس سزا کو جو مسلمانوں کو اسلام کی طرف سے منہ پھیر لینے کی وجہ سے مل رہی تھی اپنی سچائی کی سمجھا جا رہا ہے اور کروڑوں روپیہ اس لئے خرچ کیا جارہا ہے کہ تالوگ ایک خدا کی پرستش چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ نے ان باتوں پر ایک لمبے عرصہ تک صبر کیا اور جب لوگ اس کے پچھلے کلام سے فائدہ اُٹھانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو اس نے اپنا موعود رسول بھیجا تا کہ اس کی باتوں سے لوگ متأثر ہوں اور اس کے ہاتھ پر نشان پر نشان اور معجزہ پر معجزہ

Page 545

دکھایا اور اس نے کمال محبت اور ہمدردی کے ساتھ دنیا کو امن کی طرف لانا چاہا اور جب لوگ باز نہ آئے تو پھر تہدید بھی او ر کہا کہ :- ’’ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوںسُنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۹) مگر لوگوں نے پھر بھی توجہ نہ کی اور فاتح اور غالب اپنی فتح اور غلبہ کے گھمنڈ میں رہے اور مغلوب اورمفتوح اپنے دنیاوی شکووں کا رونا روتے رہے.باوجود جگانے کے لوگ نہ جاگے اور باوجود بُلانے کے لوگ نہ آئے اور باوجود خدا تعالیٰ کے جلوہ گر ہونے کے لوگوں نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا اور باوجود اس کے ہوشیار کرنے کے وہ ہوشیار نہ ہوئے.پس اب اس نے ارادہ کیا ہے کہ اگر لوگ اس کے حق کو تسلیم نہ کریں گے اور اس کے دین کو قبول نہ کریں گے اور اس کے ما ٔموروں پر ایمان نہیں لائیں گے تو وہ ان پر عذاب پر عذاب نازل کریگا اور ان کو دُکھ پر دُکھ پہنچائے گا اور اس وقت تک نہیں باز آئے گا جب تک وہ اس کے احکام کو قبول نہ کریں اور اس کی بادشاہت کو تسلیم نہ کریں جبکہ ادنےٰ سے ادنےٰ حاکم پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس سے منہ پھیر کر دوسروں کی طرف توجہ کریں تو وہ جو احکم الحاکمین ہے کب برداشت کرسکتا ہے.؟ جب تک خدا کا مُرسل نہیں آیا تھا لوگوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا مگر اب کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں.سُورج سر پر آگیا ہے اوراندھیر ا جاتا رہا ہے اور وہ لوگ جو آنکھیں کھولتے ہیں خدا کے جلال کو دیکھتے ہیں.آہ ! لوگ نہیں سوچتے کہ جس کی یاد میں کروڑوں انسان گزر گئے اس کا زمانہ خدا تعالیٰ نے

Page 546

ان کو دیا ہے جو آج سے پہلے مرچکے ان میں سے بہت ہوں گے جو خواہش کرتے ہوں گے کہ کاش! ہم سے سب کچھ لیا جاتا اور مسیح ؑکا زمانہ ہم کو مل جاتا اور جو آئندہ آئیں گے لیکن دیر کے بعد پیدا ہوں گے وہ بھی خواہش کریں گے کہ کاش !ہم سے سب نتمتیں لے لی جاتیں مگر خدا کے مرسل ؑکا قرب پاتے.پس اے شہزادۂ والا جاہ ! اس وقت کو غنیمت سمجھئے اوران نشانوں پر یقین لائیے جو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں دکھائے ہیں اور اس کی بادشاہت میں داخل ہوجائیے کہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا سب بادشاہتوں سے بڑا ہے باقی سب بادشاہتیں چھوڑنی پڑتی ہیں مگر یہ بادشاہت کبھی نہیں چھڑائی جاتی.باقی سب بادشاہتوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا وارث ہو لیکن اس بادشاہت کے ایک ہی وقت میں باپ اور بیٹا اورسب جو ان کے ساتھ شامل ہونا چاہیں وارث ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے کُھل رہے ہیں ان میں داخل ہوجائیے اور اگلی زندگی کے لئے سامان جمع کرلیجئے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے جس قدر زیادہ نعمتیں دی ہیں اسی قدر اس کے مطالبات بھی ااپ سے زیادہ ہیں کیونکہ وہ جس کو زیادہ دیتا ہے اس سے پوچھتا بھی ہے کہ میرے ان احسانات کی تُونے کیا قدر کی؟ پس اللہ تعالیٰ کے احسانات پر نظر کرتے ہوئے اس کی اطاعت میں دوسروں سے زیادہ کوشش کیجئے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہئے آپ نے دیکھا کہ جنگ کے موقع پر آپ کے والد حضور ملک معظم کی آواز پر کس طرح دنیا کے دورکناروں سے لوگ لبیک کہتے ہوئے دوڑ پڑے تھے.پس جس طرح آپ کی رعایا نے اپنے بادشاہ کی آواز پر سب کام چھوڑ کر اس آواز کا رُخ کرلیا.آپ بھی اس بادشاہ کی آواز پر جو ہمارا اور آپ کا دونوں کا بادشاہ ہے دنیا کی سب روکوں کو دُور کرکے لبیک کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑیں تا جس طرح خدا نے آپ کو دنیا کی نعمتیں دی ہیں دین میں بھی حصہ وافر عطا فرمادے.خدا تعالیٰ نے دُنیا میں ہدایت کا ایک محل تیا رکیا ہے اور ایک بڑی دعوت کا سامان کرکے اپنے بندوں کو بلایا ہے خواہ بادشاہ ہوں یا غیر بادشاہ اور ہم لوگ اس عقیدت کی وجہ سے جو ہمیں آپ کے خاندان سے ہے چاہتے ہیں کہ آپ اس سے محروم نہ رہ جائیں اس لئے اے شہزادہ ویلز! ہم بصد محبت و اخلاص آپ کو اس امر کی اطلاع دیتے ہیں ہم نے آپ کے لئے دروازہ کھول دیا ہے.دنیا کی باتوں کی پرواہ نہ کیجئے آگے بڑھنے اورزمین و آسمان کے بادشاہ پہلوں اور پچھلوں کے بادشاہ اور اس جہان اور دوسرے جہان کے بادشاہ کے بلاوے کو قبول کرتے ہوئے اس کے

Page 547

گھر میں داخل ہوجائیے اور اس کی دعوت سے حصہ لیجئے!! اَھْلًا وَّسَھْلًا وَّمَرْحَبًا وَاٰخِرُ دَعْوٰىنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ شہزادۂ معظم! اگر آنجناب اس کتاب کو مطالعہ کرنے کے بعد دین اسلام کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں اوراپنی پسندیدگی اور اجازت سے مطلع فرماویں تو مَیں آپ کی خدمت میں اسلام کے متعلق اور کتابیں بھیجنا اپنے لئے باعث فخر سمجھوں گا.خاکسار مرزا محمود احمد ؁؁؁

Page 548

ہزرائل ہائنیس پر نس آف ویلز کی خدمت میں جماعت احمدیّہ کا ایڈریس ۲۷؍فروری ۱۹۲۲؁ء کو بوساطت گورنمنٹ پنجاب حسب ذیل ایڈریس قائم مقامان جماعت احمدیہ کی طرف سے ہزرائل ہائینس پرنس آف ویلز کی خدمت میں پیش ہوا.جناب شہزادہ ویلز! ہم نمائندگان جماعت احمدیہ جناب کی خدمت میں جناب کے ورودِ ہندوستان پر تہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں.اور گو ہم وہ الفاظ نہیں پاتے جن میں جناب کے خاندان سے اپنی دلی وابستگی کا اظہار کما حقۂ کرسکیں لیکن مختصر لفظوں میں ہم جناب کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک معظم کو ہماری خدمات کی ضرورت ہو تو بِلا کسی عوض اور بدلہ کے خیال کے ہم لوگ اپنا مال اورا پنی جانیں ان کے احکام کی بجا آوری کے لئے دینے کے لئے تیار ہیں.حضور عالی جان چونکہ ہماری جماعت نئی ہے اور تعداد میں بھی دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں کم ہے اس لئےممکن ہے کہ جناب کو پوری طرح ہماری جماعت کا علم نہ ہو اس لئے ہم مختصر اً اپنے متعلق جناب کو کچھ علم د ے دینا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وسیع ملک کی حکومت کی باگ آپ کے ہاتھ میں آنے والی ہے اور بادشاہ کی حکومت کے استحکام میں جو امر بہت ہی ممد ہوتے ہیں ان میں سے اپنی رعایا کے مختلف طبقوں کا علم بھی ہے.حضور عالی! ہم ایک مذہبی جماعت ہیں اور ہمیں دوسری جماعتوں سے امتیاز اپنے مذہبی عقائد

Page 549

کی وجہ سے ہے ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہمیں اس نام پر فخر ہے لیکن باوجود اس کے ہم میں سے اور دوسرے مسلمانوں میں ایک عظیم الشان خندق حائل ہے کیونکہ ہم ان لوگوں کی طرح جو آج سے انیس سو سال پہلے خدا کے ایک برگزیدہ کی آواز پر لبیک کہنے والے تھے اس وقت کے ما ٔمور حضرت مرزا غلام احمد صاحگب ساکن قادیان ضلع گورداسپور کے ماننے والے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے اور ہمارے دوسرے بھائی ان لوگوں کی طرح جنہوں نے حضرت مسیحؑ کا انکار کردیا تھا اس کے منکر ہیں ہمارا یقین ہے کہ آنےوالا مسیح مسیح ؑکےرنگ میں آنیوالا تھا نہ کہ خود مسیح ؑنے آنا تھا.ہمارے سلسلہ کی بنیاد اکتیس سال سے پڑی ہے اور باوجود سخت سے سخت مظالم کے جو ہمیں برداشت کرنے پڑے ہیں اس وقت ہندوستان کے ہی ہر ایک صوبہ میں ہماری جماعت نہیں ہے بلکہ سیلون ،افغانستان ،ایران ،عراق ،عرب ،روس،ماریشس ،نٹیال ،ایسٹ فریقہ ،مصر، سیرالیون، گولڈ کوسٹ ،نائیجریا، یونائٹیڈ سٹیٹس اور خود انگلستان میں ہماری جماعت موجود ہے اور ہمارا اندازہ ہے کہ دُنیا میں نصف ملین کے قریب لوگ اس جماعت میں شامل ہیں اور یہی نہیں کہ صرف مختلف ممالک کے ہندوستانی ساکنین ہی اس جماعت میں شامل ہیں بلکہ خود ان ممالک کے رہنے والے اس جماعت میں شامل ہورہے ہیں.چنانچہ لنڈن کے علاقہ پٹنی میں ہمارا مشن قائم ہے اور ایک مسجد بھی ہے اور انگلستان کے قریباً دو سو آدمی اس سلسلہ میں شامل ہوچکے ہیں اور اسی طرح یونائٹیڈسٹیٹس کے لوگوں میں بھی یہ سلسلہ پھیل رہا ہے اور ہم لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ایک وقت یہ سلسلہ سب جنان میں پھیل جائے گا.حضور عالی! ان مختصر حالات کے بتانے کے بعد ہم جناب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری وفاداری جناب کے والد مکرم سے کسی دنیاوی اصل پر نہیں ہے اور نہ کوئی دنیاوی طمع ا س کا موجب ہے.جو خدمات گورنمنٹ کی بحیثیت جماعت ہم کرتے ہیں اسکے بدلہ میں کبھی کسی بدلہ کے طالب نہیں ہوئے ہماری وفاداری کا موجب ایک اسلامی حکم ہے جس کے متعلق بانئی سلسلہ ٔ نے ہمیں سخت تاکید کی ہے کہ کبھی اسے نظر انداز نہ ہونے دیں اور وہ یہ حکم ہے کو جو حکومت ہمیں مذہبی آزادی دے اس کی ہمیں ہر حالت میں فرمانبرداری کرنی چاہئے اور اگر کوئی حکومت ہمارے مزہبی فرائض میں دست اندازی کرے تو بجائے اس کے ملک میں فساد ڈلوانے کے اس کے ملک سے ہمیں نکل جانا چاہئے.ہمارے تجربہ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ تخت برطانیہ کے زیر سایہ ہمیںہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہے حتّٰی کہ اکثر اسلامی کہلائے والے ملکوں میں ہم اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرسکتے مگر

Page 550

تاج برطانیہ کے زیر سایہ ہم خود اس مذہب کے خلاف جو ہمارے ملک معظم کا ہے تبلیغ کرتے ہیں اوران کی اپنی قوم کے لوگوں میں ان کے اپنے ملک میں جاکر اسلام کی اشاعت کرتے ہیں اور کوئی ہمیں کچھ نہیں کہتا اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کی اسقدر جلد اشاعت میں حکومت برطانیہ کے غیر جانبدار رویہ کا بھی بہت کچھ دخل ہے.سو حضور عالی! ہماری فرمانبرداری مذہبی امور پر ہے اس لئے گو ہم حکومت وقت کی پالیسی سے کس قدر ہی اختلاف کریں کبھی اس کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے کیونکہ اس صورت میں ہم خود اپنے عقیدہ کی رُو سے مجرم ہوں گے اور ہمارا ایمان خود ہم پر حجت قائم کرے گا.حضور ملک معظم کی فرمانبرداری ہمارے لئے ایک مذہبی فرض ہے جس میں سیاسی حقوق کے ملنے یا ملنے کا کچھ دخل نہیں جب تک ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے ہم اپنی ہر ایک چیز تاج برطانیہ پر نثار کرنے کے لئے تیار ہیں اور لوگوں کی دشمنی اور عداوت ہمیں اس سے باز نہیں رکھ سکتی.ہم نے بار ہا سخت سے سخت سوشل بائیکاٹ کی تکالیف برداشت کرکے اس امر کو ثابت کر دیا ہے اور اگر ہزار ہا دفعہ پھر ایسا ہی موقعہ پیش آئے توپھر ثابت کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت ہمیں اس دعویٰ کےثابت کرنے کی اس سے بھی زیادہ توفیق دیگا جیسا کہ وہ پہلے اپنے فضل سے دیتا رہا ہے.ہم اس امر کو سخت ناپسند کرتے ہیں کہ اختلاف سیاسی کی بناء پر ملک کے امن کو برباد کیا جائے ہمارا مذہب تو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر مذہبی ظلم بھی ہو تب بھی اس ملک کا امن برباد نہ کو بلکہ اسے چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلے جاؤ.لوگ ہمارے ان خیالات پر ہمیں قوم اور ملک کو بد خواہ کہتے ہیں اوربعض گورنمنٹ کا خوشامدی سمجھتے ہیں اوربعض بیوقوف یا موقع کا متلاشی قرار دیتے ہیں.مگر اے شہزادہ ٔ مکرم ! ہم لوگوں کی باتوں سے خدا کو نہیں چھوڑ سکتے.دنیا ہمیں کچھ کہے جبکہ ہمارے خدا نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم امن کو برباد نہ ہونے دیں اور صلح کو دنیا پر قائم کریں اور تمام نوع انسان میں محبت پیدا کرکےانہیں باہم ملا دیں تو ہم صلح اور محبت کا راستہ نہیں چھوڑ سکتے ہم بہر حال اپنے بادشاہ کے وفادار رہیں گے اور اس کےا حکام کی ہر طرح فرمانبردار ی کریں گے.حضور عالی! آپ نے اس قدر دور دراز کا سفر اختیارکرکے جو ان لوگوں کے حالات سے آگاہی حاصل کرنی چاہی ہے جن پر کسی آئندہ زمانہ میںحکومت کرنا آپ کے لئے مقدر ہے.اس قربانی اور ایثار کو ہم لوگ شکر اور امتنان کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کوئی شخص جو ذرہ بھر بھی حق

Page 551

اور اس کی محبت اپنے دل میں رکھتا ہے آپ کے اس سفر کو کسی اور نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا.پس ہم لوگ آ پ کی اس ہمدردی اور ہمارے حالات سے دلچسپی رکھنے پر آپ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےدُعا کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے اپنے باپ کی رعایا کی طرف محبت کی نظر ڈالی ہے وہ بھی آپ پر اپنی محبت کی نگاہ ڈالے.حضور عالی! ہماری جماعت نے جناب کے ورودِ ہندوستان کی خوشی میں جناب کیلئے ایک علمی تحفہ تیار کیا ہے یعنی اس سلسلہ کی تعلیم اور اس کے قیام کی غرض اور دوسرے سلسلوں سے اس کا امتیاز اور بانئ سلسلہ کے مختصر حالات اس رسالہ میں لکھے ہیں اور اس میں جناب ہی کو مخاطب کیا گیا ہے.سلسلہ کے موجودہ امام نے اسے لکھا ہے اور بتیس ہزار آدمیوں نے اس کی چھپوائی میں حصہ لیا ہے تا کہ ان کے خلوص کے اظہار کی یہ علامت ہو اور ابھی وقت کی قلت مانع رہی ہے ورنہ اس سے بہت زیادہ لوگ اس میں حصہ لیتے.حضور شہزددہ والا تبار ! ہم یہ تحفہ بوساطت گورنمنٹ پنجاب حضور میں پیش کرتے ہیں اور ادب و احترام کے ساتھ ملتجی ہیں کہ کچھ وقت اس کے ملاحظہ کے لئے وقف فرمایا جائے.آخر میں پھر ہم جناب کو تہہ دل سے ورود ہندوستان اور پھر ورود پنجاب پر جو مرکز سلسلہ احمدیہ ہے خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے والد مکرم سے ہماری طرف سےعرض کردیں کہ ہماری جماعت باوجود اپنی کمزوری ناطاقتی اور قلت تعداد کے ہر وقت جناب کے لئے اپنا مال و جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے اور ہرحالت میں آپ اس جماعت کی وفاداری پر اعتماد کرسکتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت دے اورآپ کے قدم کو اپنی خوشنودی کی راہوں پر چلائے اور ہر ایک آفت زمانہ سے آپ کو محفوظ رکھے.بلکہ اپنی مدد اور نصرت کا دامن آپ کے سر پھر پھیلائے.؁ ۱VICTORIA, QUEEN سلطنت انگلستان کی ملکہ اور قیصرہ ٔ ہند.۱۸۳۵ء میں تاج پوشی ہوئی ْ۱۸۴۰؁ء میں شہزادہ البرٹ آف سیکس کو برگ سے شادی ہوئی.۱۸۷۶ء میں قیصرۂ ہند کا خطاب ملا.(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۲۳ صفحہ ۱۲۴ تا ۱۳۰) ۲ EDWARD VIIگریٹ برٹین اور آئر لینڈ کا بادشاہ ہندوستان کا حکمران.ملکہ وکٹوریہ کا بڑا بیٹا جو ملکہ کی وفات کے بعد سلطنت کا جانشین ہوا.ویسٹ منسٹر ایبے میں تاج پوشی ۹ اگست ۱۹۰۳ء کو ہوئی جبکہ

Page 552

دہلی ہندوستان ) میں ۱۹۰۳ءکو ہوئی.(انسائیکلو پیڈیا برٹینکاجلد ۸ صفحہ ۱۰) ۳ حبیب اللہ خان (عہد حکومت ۱۸۷۹ء۱۹۱۹) والئی افغانستان اپنے والد امیر عبدالرحمٰن کی وفات کے بعد یکم اکتوبر ۱۹۰۱ءمیں مسند نشین ہوا.اسی کے عہد میں ڈیورنڈ لائن کا تعین کیا گیا اور برطانیہ نے افغانستان کو آزادی دینے کا وعدہ کیا.۲۰ ؍ فروری ۱۹۱۹ء کو اس نے وادی النگار (ALNGAR) میں قلعہ السراج (العمان ) قریب گو ش میں پڑائو.ڈال رکھا تھا کہ اسے قتل کردیا گیا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحہ ۵۳۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷اُردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۷ صفحہ ۸۸۶ ،۸۸۷ مطبوعہ دانش گاہ پنجاب لاہور) ۴ (UNDER THE ABSOLUTE AMIR BY FRANK A.MARTIN P-203 PUBLISHD IN 1907 ۵ (UNDER THE ABSOLUTE AMIR BY FRANK A.MARTIN P-203,204 PUBLISHD IN 1907) ۶ (UNDER THE ABSOLUTE AMIR BY FRANK A.MARTIN P-204 PUBLISHD IN 1907)

Page 553

قائم مقامان جماعت احمدیہ ۱- سردار امام بخش خان تمندار کوٹ قیصرانی.ضلع ڈیرہ غاز یخان ۲- خان محمد علی خان جاگیر دار مالیر کوٹلہ ۳- خان بہادر راجہ پائنداخان جنجوعہ آف دارپور جہلم ۴- مرزا بشیر احمد ایم اے.خلف الریشد بانئی سلسلہ احمدیہ ۵- مرزا شریف احمد انریری.رسائیدار.خلف الرشید بانی سلسلہ احمدیہ ۶- غلام محمد خان آنریری کیپٹن.ضلع جہلم ۷- غلام محمد خان آنریری لفٹینٹ.ضلع جہلم ۸- خان بہاد رمحمد حسین بی اے ریٹائر سب جج علی گڑھ ۹- خان بہادر عبدالحق آنریری مجسٹریٹ پیلی بھیٹ ۱۰- خان صاحب.نعمت اللہ خان آنریری مجسٹریٹ جالندھر ۱۱- ملک مولا بخش آنریری مجسٹریٹ.گورالی گجرات ۱۲- سیٹھ عبداللہ الٰہ دین سوداگر.سکندر آباد ۱۳ - چوہدری نصر اللہ خان پلیڈر ہائی کورٹ سیالکوٹ ۱۴- چوہدری ظفر اللہ خان بی اے.ایل ایل.بی بیرسٹر ایٹ لاء لاہور ۱۵- خان صاحب چوہدری فتح محمد خان ذیلدار و آنریری مجسٹریٹ گجرات ۱۶ - فتح محمد خان صوبیدارمیجر پنشنر.ضلع جہلم ۱۷- پیراکبر علی ممبر لیجسلیٹو کو نسل پنجاب ۱۸- مرزا ناصر علی پلیڈر ہائی کورٹ.فیروز پور ۱۹- قاضی محمد شفیق ایم اے ایل ایل.بی پلیڈر پشاور ۲۰- میاں محمد صدیق.سوداگر کلکتہ ۲۱- میاں محمد عیسیٰ بی اے.ایل.ایل.بی.کلکتہ ۲۲- مولوی سید محمد سرور شاہ پرنسپل احمدیہ دینی کالج قادیان

Page 554

۲۳- میاں محمد ابراہیم سوداگر چرم.لاہور ۲۴- سیّد بشارت احمد سیکرٹری انجمن احمدیہ.حیدر آباد دکن ۲۵- مولوی عبدالماجد پروفیسر جوبلی کالج.بھاگلپور ۲۶- حافظہ نور محمد سوداگر ناگپور ۲۷- محمد امیر خان ڈیروگڈھ.آسام ۲۸- ای عبدالقادر کٹی.سوداگر رنگون.برما ۲۹- حافظ محمد اسحٰقؑ.انجینئر بمبئی ۳۰- پروفیسر محمد ایم اے.مدراس ۳۱- خان غلام اکبر خان جج ہائی کورٹ.حیدرآباد دکن ۳۲- جنزل اوصاف علی خان سی.آئی نابہ سٹیٹ ۳۳- میاں الٰہی بخش رسالہ میجر امرتسر ۳۴- مولوی رحیم بخش ٭ایم اے.پرئیوٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح ۳۵- چوہدری فتح محمد سیال ایم اے.ناظر تالیف و اشاعت قادیان ۳۶- مولوی شیر علی بی اے ناظر اعلیٰ قادیان ۳۷- سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ سابق وائس پرنسپل سلطانیہ کالج شام ۳۸- مولوی محمد دین بی اے.ایڈیٹر ریویو آف ریلجنز قادیان ۳۹- مولوی ذوالفقار علی خان آف رامپور.ناظر امور عامہ ۴۰- خلیفہ رشید الدین ایل.ایم ایس.جزل سیکرٹری صدرانجمن احمدیہ قادیان ؁ * عبدالرحیم صاحب درر

Page 555

قبولیت تحفہ نمبر ۹۳۸پی پرنس آف ویلز کیمپ ہند منجانب چیف سیکرٹری ہزرائل ہائنس شہزادہ ویلز بخدمت ذوالفقار علی خان ایڈیشنل سیکرٹری جماعتِ احمدیہ قادیان پنجاب مؤرخہ یکم مارچ ۱۹۲۲ء جناب من! حسب الحکم ہزارائل ہائنس شہزادہ ویلز میں ممبران جماعت احمدیہ کے اس خیر مقدم کے ایڈریس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو گورنمنٹ پنجاب کی وساطت سے حضور شہزادہ ویلز کو پہنچا ہے ہزرائل ہائنس شہزادہ ویلز نے شوق و دلچسپی کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کی ابتداء اور تاریخ کے حالات کا آپ کے ایڈریس میں مطالعہ کیا ہے اور حضور شہزادہ ویلز اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب وہ اس نہایت خوبصورت کتاب میں جو ممبران جماعت احمدیہ کے چندہ سے بطور تحفہ پیش کی گئی ہے سلسلہ کی تفصیل تاریخ کا مطالعہ فرمائیں گے.ہزرائل ہائنس نہایت گرمجوشی کے ساتھ اس وفادارانہ جذبہ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس نے آپ کے ہزار ہا ہم عقیدہ اصحاب کو اس تحفہ کے پیش کرنے پر آمادہ کیا ہے اور حضور شہزادہ ویلز کی خوشی اس نشان وفاداری کے قبول کرنے میں اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ آپ کو ہزایکسلنسی گورنر پنجاب کی طرف سے یہ علم دیا گیا ہے کہ جنگ عظیم کے دوران میں اور نیز اس کے بعد آنے والے سخت ایام میں جماعت احمدیہ نے تاج و سلطنت برطانیہ کی وفاداری میں غیر متزلزل ثبات دکھایا ہے مجھے حضور شہزادہ ویلز کی طرف سے حکم ملا ہے کہ میں آپ کو یقین دلائوں کہ نظر بایں حالات جماعت احمدیہ کو حضور شہزادہ ویلز کے التفات محبت آمیز کا ہمیشہ پورا یقین رکھنا چاہئے.مَیں ہوں جناب کا نیاز مندخادم : جی ایف ڈی مانٹ مورنسی چیف سیکرٹری ہزرائل ہائنس پرنس آف ویلز ؁

Page 556

Page 557

دعوتِ علماء از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی

Page 558

Page 559

حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ما ٔموریت کا دعویٰ کیا اور دُنیا کی اصلاح کا کام شروع کیا.پس جب ان لوگوں سے جو قادیان اور اس کے نواح کے رہنے والے ہیں ہمارا کوئی دنیاوی اختلاف نہیں تو آپ لوگ جو دُور دُور کے شہروں سے آئے ہیں آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی دنیاوی اختلاف کیونکر ہوسکتا ہے اور جب کہ ہمار اختلاف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے تو چاہئے کہ اس اختلاف کو ہم اسی رنگ میں مٹانے کی بھی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐکے منشا کے مطابق ہو اور جس سے ان کی خوشنودی ہمیں حاصل ہو.یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہوگا اگر ہم خدا تعالیٰ کے لئے آپس میں اختلاف کریں اورپھر اپنے اعمال اور اپنے اقوال سےاس کو ناراض کردیں.اس صورت میں ہماری مثال شاعر کے اس مقولہ کے مطابق ہوجائے گی کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے دنیا تو ہم نے اختلاف سے کھودی اور دین اختلاف کے مٹانے کے لئے جو طریق ہم نے اختیار کیا اس سے برباد کردیا.جب سے آدم علیہ السلام کی نسل دنیا میں پھیلی ہے اختلاف خیالات چلا آتا ہے اور جب تک اس زمین پر انسان بسے گا اختلاف ہوتا رہے گا.پس یہ چاہنا کہ اختلاف خیالات دُنیا سے مٹ جائے ایک عبث خیال ہے جو نہ آج تک کسی سے پورا ہوسکا اور نہ آئندہ ہوسکے گا.اختلاف طبائع ہی انسان کی ترقی کا باعث ہے.اگر طبائع کا اختلاف نہ ہوتا تو آج اس قدر پیشے اور مشاغل دنیا میں کیونکر نظر آتے اور اس قدر علمی ترقی کس طرح ہوتی.اسی امر کو مد نظر رکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ ٭ میری اُمّت کا اختلاف بھی رحمت ہوگا یعنی وہ اختلاف جو اختلاف طبائع کی حد کے اندر محدود رہے گا.غرض اختلاف ہوجائے یا یہ کہ اختلاف کے وقت انسان اپنے آپ سے اسقدر باہر ہوجائے کہ تقویٰ اور دیانت کو بالکل چھوڑ بیٹھے اور اپنی بات کی پچ اسے اس قدرر ہوجائے کہ وہ اس کے ثابت کرنے اور منوانے کے لئے جھوٹ اور دھوکے سے بھی پرہیز نہ کرے اور خدا کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر اپنی غلطی کو سمجھ کربھی اس پر *کنزالعمال جلد ۱۰ ص ۱۳۶

Page 560

Page 561

مُصر رہے.یا جیت ہار کا خیال اسقدر اس کے دمنگیر ہوجائے کہ وہ دوسرے کی بات پر غور ہی نہ کرے یا اگر غور کرے تو اس خیال سے نہیں کہ اگر وہ سچّی ہو تو اسے تسلیم کرلوں بلکہ اس خیال سے کہ اس میں سے کوئی نقص نکالوں اور اس کا کوئی عیب پکڑوں اور پھر اس وہمی عیب یا نقص کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کو حق کے قبول کرنےسے باز رکھوں.جب اختلاف یہ رنگ اختیار کرےتو یہ اختلاف باوجود مذہبی اختلاف ہونے کےاللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا موجب ہوتا ہے اس اس کی غیرت کو بھڑکاتا ہے کیونکہ اس کا مرتکب اپنی عزت کو اللہ تعالیٰ کی عزت پر اوراپنی کامیابی کو اللہ تعالیٰ کےدین کی کامیابی پر مقدم کرلیتا ہے.اسے یہ فکر نہیں رہتی کہ خدا کا جلاد دُنیا میں ظاہر ہو بلکہ یہ فکر لگ جاتی ہے کہ میری عزت ہو اور لوگ سمجھیں کہ یہ بڑا عقل مند اور دانا انسان ہے.یہ مقام نہایت ہی خطرناک ہے لیکن لوگوں کی تعریف اوراپنے نفس کی بڑائی کا خیال بہت سے لوگوں کو اس مقام پر لاکر کھڑا کردیتا ہےاور اس دنیا کی عزت کی خواہش آخرت کی وسیع زندگی کی ترقیات کو آنکھوں سے اوجھل کردیتی ہے.اس لئے خدا پر یقین رکھنے والے بندوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک اختلاف کے موقع پر اپنی نیتوں اور ارادوں کو ٹٹولتے رہیں اور اپنے طریق عمل کو جانچتے رہیں تا ایسا نہ ہو کہ اختلاف مٹاتے مٹاتے اپنے آپ کو مٹا دیں اور بدی کا قلع قمع کرتےکرتےصداقت اور راستی کے گلے پر چُھری پھیر دیں.خصوصاً وہ لوگ جن کی باتوں کی طرف لوگ کان رکھتے ہیں اور جِن کے فیصلہ کا لوگ احترام کرتے ہیں ان کو تو بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کی غلطی کا اثر ان کی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی ان کے پیچھے چل کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور اس سے زیادہ قابلِ شرم کیا بات ہوگی کہ ایک شخص دوسرے پر اعتبار کرکے اپنا دین اور ایمان بھی اس کے سپرد کردے اور وہ فخر و مباہات کی بازی میں اس کو بھی ہار دے.پس مَیں آپ لوگوں کو نہایت محبت اور اخلاص سے مشورہ دیتا ہوں کہ جبکہ ہمارا اختلاف محض اللہ کے لئے ہے تو آپ کو اس کے دُور کرنے کے لئے وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے تو آپ کو اس کے دُور کرنے کے لئے وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب ہو اور اس کی خوشنودی کا باعث ہو.مَیں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ تمام کے تمام محض فتنہ کی نیت سے قادیان میں آئے ہیں یا آپ کا ظاہر اورباطن ایک نہیں ہے.مَیں مانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے تہہ دل سے یقین رکھتے ہوں گے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ غلط تھا یا یہ کہ انہوں نے خدا پر افتراء کیا تھا لیکن کسی بات کے باطل ہونے کا یقین اگر وہ سچّی ہو تو

Page 562

اللہ تعالیٰ کے مؤاخذہ سے انسان کو بچا نہیں دیتا.یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اسکے سچّے یا جھوٹے ہونے کو انسان ان دلائل کےذریعے سے پرکھے جن دلائل کےذریعے سے کہ اسی قسم کی صداقتیں پرکھی جاتی ہیں.اگر کوئی شخص ایک بات کی سچائی کو اس ذریعے سے کہ اسی قسم کی صداقتیں پرکھی جاتی ہیں.اگر کوئی شخص ایک بات کی سچائی کو اس ذریعہ سے نہیں معلوم کرتا جو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی سچائی کے معلوم کرنے کیلئے مقرر کیا ہے تو وہ لاکھ یقین رکھتا ہو کہ وہ بات جھوٹی ہے خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو نہیں ہوسکتا اور اسکا یہ کہنا کافی نہیں کہ میں اس بات کو جھوٹا سمجھتا تھا اس لئے میں نے اسے نہیں مانا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب مخالف آپ ؐکا مقابلہ شرارت سے ہی نہیں کرتے تھے بہت تھے جو واقع میں آپؐ کو جھوٹا سمجھتے تھے لیکن کیا وہ اس یقین کی وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ جھوٹے ہیں خدا تعالیٰ کے موأخذہ سے بچ جائیں گے.اس وقت بھی لاکھوں کروڑوں ہندو اور عیسائی (مسیحی) سچّے دل سے یقین کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ من ذالک سچّے نہ تھے تو کیا ان کا یہ یقین ان کو سزا سے بچا لے گا ہرگز نہیں.کیونکہ ان سے یہ سوال کیا جائے گا کہ نبیوںؑکے پہچاننے کیلئے جو طریق مقرر ہیں کیا انہوں نے ان طریقوں کو استعمال کیا تھا کہ ان کو معلوم ہوا کہ آپؐ جھوٹے تھے؟ ابوجہل کی نسبت تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوتے ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ اس نے جنگ بدر جیسے نازک موقع پر جبکہ دونوں فریق مقابلہ کیلئے تیار کھڑے تھے مباہلہ تک سے گریز نہ کیا٭اور دُعا کی کہ جو جھوٹاہو اس پر آسمان پر سے پتھر برسیں یا کوئی اور سخت عذاب نازل ہو.چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ انفال میں ابوجہل کو اس دُعا کا ان الفاظ میں ذکر ہے:- وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ كَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ.(الانفال ۳۳) مگر باوجود اس یقین کےجو اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹا ہونے پر تھا (نعوذ باللہ) وہ اللہ تعالیٰ کے حضور بری الذمہ نہیں ہوگا کیونکہ اس سے کہا جائے گا کہ خالی یقین کافی نہیں تو یہ بتا کہ کیا تو نے اس رسولؐ کو ان ذریعوں سے پہچاننے کی کوشش کی تھی جن سے کہ سچّے نبی پہچانےجاتے ہیں اور اس سوال کا جواب اس کے پاس کچھ نہ ہوگا.غرض صرف کسی شخص کے جھوٹے ہونے کا یقین اس بات کے لئے کافی نہیں ہوتا کہ اس کی مخالفت کی جائے اور یہ یقین اللہ تعالیٰ کی گرفت سے آدمی کو بچا نہیں سکتا.خدا تعالیٰ یہ بھی دیکھتا ہے *سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ ص ۲۸۰

Page 563

کہ اس قسم کے یقین کی وجہ کیا تھی؟ کوئی شخص دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے اور دوپہر کو سحری کھالے تو اس کا روزہ نہیں ہوجائے گا اس کا یہ بھی فرض تھا کہ دروازہ کھول کر دیکھتا کہ سحری کا وقت کب آیا.اسی طرح جو لوگ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے متعلق لوگوں کا اسی قدر فرض نہیں کہ وہ دیکھیں کہ ان کا دل ان کے متعلق کیا کہتا ہے؟ یا یہ کہ ان کے بعض خیالات سے اس کی صداقت کیا کیا ثبوت ملتا ہے؟ بلکہ ان کا فرض ہے کہ منہاجِ نبوت سے اس کے دعوٰے کو پرکھیں اور اگر دعویٰ سچا پائیں تو اس کو قبول کرلیں ورنہ رد کردیں.پس آپ لوگ جو قادیان تشریف لائے ہیں.مَیں آپ کو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ منہاجِ نبوت پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعویٰ کو پرکھیں اور انکار کرنے سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ بات معمولی نہیں ہے.اگر مرزا صاحب سچّے تھے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے اور وہ لوگ جو آپ لوگوں کےکہنے سے حق کے قبول کرنے سے محروم رہ جائیں ان کے گناہ کا وبال بھی آپ کی گردنوں پر پڑتا ہے.اسلام کی حالت اس وقت سخت نازک ہے اور مسلمان گرتے گرتے انتہائی ذلّت کو پہنچ گئے ہیں اگر آج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ترقی کا کوئی سامان نہ ہوتا تو پھر اسلام اور دوسرے مذہبوں میں فرق کیا رہ جاتا؟ اس زمانہ سے پہلے بہت چھوٹے چھوٹے فتنوں کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجدّد آتے رہے ہیں اور قریباً تمام مسلمان اس امر کے قائل ہیں کہ ان مجددوں اور ولیوں کے ذریعے دین اسلام کی حفاظت ہوتی رہی ہے.حضرت سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی حضرت معین الدین صاحب چشتی ،حضرت سیّد احمد صاحب سرہندی رضی اللہ عنہم اور ہزاروں بزرگ ان فتنوں کے فرد کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں مگر تعجب ہے کہ اس وقت کے فتنہ کے فرد کرنے کے لئے جسکے مقابلہ میں زمانہ ماضی کے فتنے بالکل بے حقیقت ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بھی شخص نہیں بھیجا گیا اور اگر کوئی شخص بھیجا گیا تو نعوذ باللہ من ذالک وہ ایک دجّال اور مفتری انسان تھا اور پھر غضب یہ ہوا کہ اس نازک موقع پر اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان پر ایسے نشان بھی ظاہر کردئیے جو مسیح موعود اور مہدی مسعود کے زمانہ کے لئے مقرر تھے.اگر یہ بات فی الواقع سچ ہو تو پھر ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا منشاء ہےکہ مسلمان گمراہ ہوں اور دینِ اسلام تباہ ہو.نعوذ باللہ من ذالک.لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے یہ بات بعید ہے کہ وہ ایسا کرے.پس حق یہی ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب اللہ تعالیٰ کی طرف ما ٔمور ہیں اور ان کو

Page 564

اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے قیام اور اس کی مضبوطی کے لئے مبعوث فرمایا ہے.آپ لوگ غور کریں کہ کیا جھوٹے آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہوا کرتا ہے جو آپ سے ہوا ؟ اور کیا جھوٹے لوگ اسلام کی اسی طرح خدمت کیا کرتے ہیں جو آپ نے کی؟ اس وقت اللہ تعالیٰ آپؑکی جماعت کےذریعے سے جو بظاہر نہایت غریب اور کمزور ہے وہ کام لے رہا ہے جو دوسرے تیس کروڑ مسلمانوں سے نہیں ہوسکتا.ان کے ذریعے سے دشمنانِ اسلام سے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کروایا جارہا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والوں کی زبانوں سے آپ پر درود بھجوایا جارہا ہے.اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کے کارنامے کیا ہیں جو تعداد میں ،مال میں ،رُعب میں، طاقت میں اس جماعت سے ہزاروں گُنے بڑھ کر ہیں سوائے اس کے کہ وہ اس خدا کے برگزیدہ کو اور اس کی جماعت کو گالیاں دے چھوڑیں اور وہ کیا کام کررہے ہیں.اسلام میں کسی کو داخل کرنا تو ان کے لئے مشکل ہے وہ لوگ جو اسلام کے لئے اپنے اموال اوراپنی جانوں کو قربان کررہے ہیں ان کی پیٹھ میں خنجر بھونکنا اور خدمت اسلام سے باز رکھنے کی کوشش کرنا ان کا شغل بن رہا ہے.پس ان حالات پر غور کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق اس خدا کے برگزیدہ کو قبول کریں تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عزت نصیب ہو اور اس کے فضل کے آپ لوگ وارث ہوں.بیشک اگر آپ لوگ حق کو قبول کریں گے تو ہماری مشکلات اور تکالیف میں بھی آپ کو شریک ہونا ہوگا اور سب دُنیا کی دشمنی آپ کو برداشت کرنی ہوگی اور وہی لوگ جو آج آپ کی باتوں پر مرحبا اورجزاک اللہ کے نعرے لگاتے ہیں آپ کو گالیاں دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں گالیاں سننے سے زیادہ اور کونسا شیریں کلام ہوسکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کی خاطر ذلّت برداشت کرنا ہی اصل عزت ہے اور یہ بات حق کے قبول کرنے میں آپ کے لئے ہرگز روک نہیں ہونی چاہئے.لیکن اگر باوجود ان تمام دلائل اور براہین کے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمدؑکی صداقت کے اظہار کے لئے نازل کئے ہیں ابھی آپ کو ان کی صداقت میں تردّد ہے تو پھر میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ بجائے ایک خطرناک راستہ پر قدم مارنے کے اور بِلا تحقیق اور بِلا کافی وجوہ کے ایک مدعی ما ٔ موریت پر حملہ آور ہونے کے آپ اپنی قادیان کی آمد کو غنیمت سمجھ کر اس تحقیق میں لگ جاویں جو قادیان سے باہر آپ نہیں کرسکتےتھے.مثلاًیہ کہ ان لوگوں کےجو مولوی اور عالم کہلاتے تھے اور کہلاتے ہیں بیانات درست ہیں

Page 565

جنہیں وہ آپؑ کے خاندان کے متعلق شائع کرکے لوگوں کو آپؑ پر بدظن کرتے تھے کیا فی الواقع آپ کے خاندان قادیان اور اس کے ارد گرد کے علاقہ میں اسی عزت کا مستحق نہیں رہا جو آپؑنے اپنی کتابوں میں تحریر فرمائی ہے؟ اورپھر یہ سوچیں کہ جس شخص کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لئے بعض علماء کو اس قدر عرقریزی کرنی پڑی کہ جھوٹ سے بھی پرہیز نہ کیا.کیا وہ اپنی شان میں اس قدر بالا نہ تھا کہ حق کےذریعے سے اس پر حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا؟پھر یہ بھی لوگوں سے دریافت کریں کہ کیا آپ کی ذاتی وجاہت ایسی ہی گری ہوئی تھی جیسی کہ آپؑ کے مخالف علماء بیان کیا کرتے ہیں؟ اوراس سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ آپ نے دنیاوی فوائد کا کوئی راستہ کھلا نہ دیکھ کر مذہبی پیشوائی کی تجویز نکالی؟ اور اگر واقعات اور شہادت سے اس الزام کو سراسر جھوٹ پائیں تو واپس جاکر ان علماء کو خاص طور پر ملیں جو اس قسم کی باتیں آپ کی نسبت لکھا کرتے ہیں اوربیان کیا کرتے ہیں اوران سے کہیں کہ آپ لوگ اس قدر جھوٹ بول کر اور افتراء سے کام لے کر اسلام کو بدنام نہ کریں اور کچھ تو عالم کہلا کر اپنے نام کی لاج رکھیں اور سچ سے بھی کام لیا کریں.اسی طرح آپ اس معیار قرآنی کی تحقیق کریں جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت قرآنی میں بیان فرمایا ہے قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِہٖ۰ۡۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.(یونس :۱۷)یعنی ان سے کہہ دے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو میں ہرگز اس تعلیم کو تمہارے سامنے پیش نہ کرتا اورنہ اللہ ہی اس تعلیم کو تمہارے لئے ظاہر کرتا تم خود ہی غور کرکے دیکھ لو کہ اس سے پہلے ایک عمر میں نے تم لوگوں میں گزار دی ہے کیا اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہوں.اگر میری گذشتہ زندگی صاف طور پر بتا رہی ہے کہ میں جھوٹ سے بکلی پرہیز کرنے والا اور سچ کو کسی حالت میں چھوڑنے والا نہیں ہوں تو پھر سوچو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور میری تکذیب میں کہا ں تک حق بجانب ہو.اس معیار صداقت کی آپ لوگ برہر اس طرح تحقیق نہیں کرسکتے جس طرح کہ قادیان میں.پس تعصب اور ضد کو اپنے دل سے دور کر کے اس معیار کی آپ لوگ اچھی طرح تحقیق کریں اور دیکھیں کہ کیا فی الواقع آپ دعویٰ سے پہلےہر مذہب و ملت کے لوگوں کی نظروں میں اعلیٰ درجہ کےراستباز اور سچے تھے یا نہیں.قادیان اور اس کے گردو نواح میں ہندو بھی بستے ہیں اور سکھ بھی اور آریہ بھی اور غیر احمدی بھی اور سب مذہبوں کے پیروئوں میں ایسے لوگ زندہ موجود ہیں جو آپ کی جوانی سے بلکہ بعض تو بچپن سے بھی آپ کے حالات سےواقف ہیں ان سے آپ ؑکی زندگی کے حالات دریافت کیجئے.قادیان کے آریہ صاحبان میں

Page 566

سے لالہ بڈھے مل صاحب ہیں جو شروع سے آپ ؑکی مخالفت پر آمادہ رہے ہیں ان سے دریافت کیجئے لالہ ملاوا مل صاحب ہیں جو اکثر آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ان سے پوچھئے سناتن دھرمیوں میں سے پنڈت جے کشن صاحب ہیں ان سے دریافت کیجئے ،سکھ صاحبان میں سے بھائی بوڑسنگھ و بھائی گنیشا سنگھ ،بھائی بھگوان سنگھ صاحبان ،غیر احمدیوں میں سے میاں امام الدین صاحب برادر میاں شادی صاحب قوم کشمیری ومیاں علی بخش صاحب نائی ،نواب راجپوت، چراغ شاہ قریشی، نکوارئیں،حسیناراجپوت.پاس کے گائوں والوں سے مثلاً کالہواں کے بھائی جھڈا سنگھ صاحب سے اوربٹالہ کے شرفاء سے دریافت کیجئے مگر حلفی بیان لیجئے اور پھر سوچئے کہ کیا اس قسم کے راستباز انسان کی نسبت یہ خیال کیاجاتا ہے کہ وہ جھوٹا تھا.رات کو تو وہ راستی اور صداقت کا مجسمہ بن کر لیٹا اور صبح جھُوٹ اور افتراء کا پُتلا بن کر اُٹھا.کیا سچ کے لئے تکلیف اُٹھانے والوں اور نقصان برداشت کرکے بھی حق نہ چھوڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی بدلا ملا کرتا ہے کہ ان کو دجّال اور مفسدین بنا دیا جایا کرتا ہے اورانکے ایمان کو سلب کردیا جاتا ہے؟ اوراگر ایسا ممکن ہے تو پھر قرآن کریم کی آیت مذکورہ کا کیا مطلب ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر راستبازوں کی راستبازی کا کیا ثبوت ہے؟ اسی طرح آپ لوگ قادیان کے باشندوں اور اردگرد کے لوگوں سے بھی دریافت کریں کہ دعویٰ کے بعد بھی دنیاوی معاملات میں وہ لوگ مرزا صاحب ؑکو کیسا سمجھتے تھے سچّا یا جُھوٹا ؟ دنیاوی معاملات کی شرط مَیں اس لئے لگاتا ہوں کہ جب مخالفت ہوجاتی ہے تو جس امر میں مخالفت ہوتی ہے اس میں عام طور پر کمزور طبع لوگوںکواپنے جوشوںکو حد کے اندر رکھنے کی طاقت حاصل نہیں ہوتی اور اختلاف کی وجہ سے دوسروں کو اچھی بات بھی ان کو بُری معلوم ہوتی ہے اور جب اس تحقیق کے بعد بھی اسی نتیجہ پر پہنچیں کہ حضرت مرزا صاحبؑکی زندگی بےلوث اور صادقوں کی زندگی تھی تو سمجھ لیں کہ ان پر جس قدر الزامات بعض مولوی صاحبان لگاتے ہیں وہ صرف ضد اور تعصب کا نتیجہ ہیں ان کی حقیقت کچھ نہیں.کیونکہ یہ بات عقل میں نہیں آسکتی کہ ایک شخص کی زندگی شروع سے لے کرآخر تک صدق و راستی کا نمونہ ہو لیکن آخری عمر میں وہ اس بات کا عادی ہوجائے کہ دین کے معاملہ میں اور اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ جھوٹ بولنے لگ جائے اگر یہ ممکن ہو تو قرآن کریم کی سچائی مشتبہ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر حرف آتا ہے.نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ.اسی طرح آپ لوگ اپنے ورود قادیان سے فائدہ اُٹھا کر یہ تحقیق بھی کریں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب

Page 567

نے جو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں آیت فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًااِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍٖ (الجن:۲۷.۲۸) کو پیش کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کثرت سے غیب کی خبریں سوائے اپنے رسولوں کے دوسروں کو نہیں بتایا کرتا اورپھر اپنی بہت سی پیشگوئیوں کا ذکر کرکے قادیان کے ہندوؤں ،سکھوں اوران مسلمانوں میں سے جو آپ کے مخالف ہیں بعض کو بطور گواہ پیش کیا ہے آیا وہ لوگ حضرت مرزا صاحب علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بات کی تصدیق کرتے ہیں یا اس سے انکار کرتے ہیں؟ اس وقت بھی ان گواہوں میں سے کئی آدمی زندہ موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ احمدی نہیں بلکہ احمدیت کے سخت دشمن یں.ان سے آپ لوگ حلفیہ طور پر حضرت مسیح موعودؑ کے بیان کے متعلق شہادت لے سکتے ہیں اور اگر وہ لوگ شہادت دینے سے انکار کریں یا اپؑکے بیان کی تصدیق کریں تو پھر آپ لوگ غور کریں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر بھی کثرت سے غیب کی خبریں ظاہر کرے اور قرآن کریم کی آیت فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًااِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ کواپنے فعل سے جھوٹا کردے؟ میں ان لوگوں میں سے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہادت کے طور پر پیش کیا ہے خصوصیت کے ساتھ لالہ ملاوامل صاحب کو پیش کرتا ہوں وہ آریہ ہیں اوران کے خاندان قادیان میں آریہ مت کے قیام کے لئے خاص طور پر جوش رکھتا ہے.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے وہ حوالہ جات سنا کر جن میں انہوں نے لالہ صاحب کی شہادت کو پیش کیا ہے آپؑکی مقرر کردہ حلف کے مطابق پوچھا جائے کہ کیا فی الواقع وہ ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں یا نہیں ؟ اورجب آپ دیکھیں کہ لوگ شہادت سے جی چراتے ہیں یا یہ کہ دبی زبان سے ان امور کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر سمجھ لیں کہ وہ مولوی جنہوں نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے کہ تقویٰ اور دیانت کو ایک طرف رکھ کر بعض متشابہات کی بناء پر جن کا وجود ہر نبی کی پیشگوئیوںمیں پایا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں کہاں تک حق بجانب ہیں اوران کے اس خطرناک رویہ سے بیزاری کا اظہار کرکے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہیں اور خود ہدایت پائیں اور دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بنیں.اسی طرح آپ قادیان کے لوگوں سے قادیان کی وہ حالت جو آج سے تیس سال پہلے تھی دریافت کریں اورپھر ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ کئے تھے ان کو دیکھیں اور قرآن کریم کی آیات وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی (طٰہٰ: ۶۲) جس نے جھوٹ باندھا وہ ناکام و نامراد رہ گیا اور وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا

Page 568

اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ.(الانعام:۲۲)(اور اس سے زیادہ ظالم کون ہےجس نے اللہ تعالیٰ پر افتراء کیا یا اس کے نشانوں کو جھٹلایا تحقیق ظالم کامیاب نہیں ہوا کرتے) پر غور کریں اور دوسری طرف آپ کے سلسلہ اور کام میں جو روز افزوں ترقی ہورہی ہے اس کو دیکھیں اور سوچیں کہ آیا یہ نصرت کبھی کسی مفتری علی اللہ کو ملی ہے اورپھر کاص کر اس قدر تحدی کی پیش گوئیوں کے بعد.اگر اس طریق پر آپ عمل کریں گے تو مَیں اللہ تعالیٰ سے یقین رکھتا ہوں کہ وہ آپ پر حق کھول دیگا اور آپ امام وقت کی مخالفت سے بچ جائیں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وَالَّذِيْنَ جَاھدُوْا فِيْنَا لَـنَھدِيَنَّھمْ سُـبُلَنَا(العنکبوت: ۷۰)جولوگ ہمارے راستہ میں ہمارے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے سچے راستوں کی طرف راہنمائی کردیتے ہیں لیکن اگر اس طریق سے آپ لوگوں کو تسلّی اور تشفی نہ ہو یا آپ اس طریق پر عمل کرنا اپنی کسرشان سمجھیں تو پھر ایک اور طریق بھی ہے اور وہ یہ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک عام جلسہ کیاجائے جس میں ایک نمائندہ آپ لوگوں کی طرف سے ہو اور ایک احمدیوں کی طرف سے اور مسائل مختلفہ پر تبادلہ خیالات ہوجائے اس تبادلہ خیالات کی غرض مباحثہ اور مناظرہ نہ ہو بلکہ حق کی تلاش اصل مقصد ہو.آپ کا نمائندہ بھی اور احمدیوں کا نمائندہ بھی قسم کھائے کہ مَیں جو کچھ کہوں گے سچ سچ کہوں گا اور ضد اور ہٹ نہیں کروں گا جو بات مجھے اپنی کمزور معلوم ہوگی اس کا اقرار کرلینے میں مجھے عذر نہ ہوگا اور اس پر مَیں اصرار نہیں کروں گا.اسی طرح سننے والوں کو بھی دونوں ہدایت کریں کہ یہ دین کا معاملہ ہے.ہم قیامت کے دن آپ کے جواب دِہ نہیں ہوسکتے.آپ لوگ اپنی خدا داد عقل سے کام لیں اورجو بات آپ کو سچی معلوم ہو اس کے قبول کرنے سے جھجکیں نہیں اور یہ خیال دل سے نکال دیں کہ ہمارا مولوی جیت گیا یا دوسرا مولوی جیت گیا.مذہبی اختلاف جوئے بازی نہیں کہ اس میں جیت ہار کا فیصلہ کیاجائے.ہر شخص نے مرکر خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہے اگر ایک منٹ کی خوشی کے لئے بندہ اسے ناراض کردے تو اس سے زیادہ جہالت اور کیا ہوگی.اس نیت اور ارادہ کے بعد جو تبادلہ خیالات ہوگا مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت مفید ثابت ہوگا اور بہتوں کے لئے موجب ہدایت ہوگا.مَیں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ اپنے دلوں میں یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ مرزا صاحب نَعُوذ بِاللہ مِنْ ذٰالکَ اپنے دعویٰ میں جُھوٹے تھے مگر آپ لوگ اس امر پر بھی غور کریں کہ جب تک

Page 569

زبردست دلائل اور خدا کی تائید ساتھ نہ ہو انسان اپنے فیصلہ میں غلطی کرسکتا ہے.ابھی دیکھئے ایک سال کے قریب ہی عرصہ ہوا کہ قریباً تمام علماء نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ ہندوستان دارلحرب ہے اور اب یہاں سے ہجرت کرجانا چاہیے.کسی شان سے ہجرت کی تیاریاں ہوئیں مگر پھر کیاانجام ہوا؟ شریعت کی بناء پر یہ فیصلہ دیا گیا تھا وہ شریعت اب بھی اسی طرح موجود ہے اور وہ حالات بھی اب تک موجود ہیں مگر ہجرت کا حکم منسوخ کرنا پڑا.یہ جلد بازی کا نتیجہ تھا مَیں نے اس وقت بھی کہہ دیا تھا کہ یہ کام اچھا نہیں اور اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور دشمنوں کو اس پر ہنسی کا موقع ملے گا چنانچہ اسی طرح ہوا.اسی طرح نان کو آپریشن کا فیصلہ تمام ہندوستان کے علماءنے آیات قرآنیہ کی بناء پر کیا اور بعض کے نزدیک تو گویا سارا قرآن کریم ہی اسی غرض سے نازل ہوا تھا مگر باوجود اس کے اب تک سرکار کا کوئی دفتر یا کوئی محکمہ خالی نہیں ہوا بلکہ خود مفتیان اپنی اغراض و مقاصد کے لئے سرکار سے تعلقات قائم کرتے ہیں اور خود اپنے بیان کردہ فتویٰ کے خلاف کر رہے ہیں.یہ جوش بھی اب کم ہورہا ہے اور تھوڑے دنوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا اور صرف اس قدر اثر اس کا باقی رہ جائے گا کہ دشمنان اسلام اسلام کے خلاف اس فتویٰ کو پیش کرتے رہیں گے.اس کے متعلق بھی مَیں نے بڑے زور سے مسلمانوں کو نصیحت کی تھی لیکن گو اس وقت ان کو وہ نصیحت بُری معلوم ہوئی مگر آج بہت سے لوگوں کے دل اس کی قدر محسوس کررہے ہیں اور آئندہ اور بھی کریں گے.غرض انسان غلطی سے پاک نہیں ہے اور غلطیاں اس سے ہوجاتی ہیں.پس اس امر میں بھی آپ کو اس قدر اصرار سے کام نہیں لینا چاہیے اور سچّے دل سے غور کرنا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ اس نعمت سے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے اُتاری ہے آپ محروم رہ جائیں.اگر یہ صورت فیصلہ بھی آپ کو منظور نہ ہو تو پھر ایک اورصورت میں پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَـنَا وَاَنْفُسَكُمْ۰ۣ ثُمَّ نَبْتَھلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ(آلِ عمران:۲۶)مباہلہ کرلیاجائے.مَیں یہ تجویز غصّہ اور رنج کے ساتھ نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کو مدِّ نظر رکھ کر پیش کررہا ہوں اور امید ہے کہ آپ لوگ بھی اس کو اسی نظر سے دیکھیں گے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہم لوگ رحیم نہیں ہوسکتے پس اگر بعض حالات میں آپ کو بھی *non cooperation

Page 570

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اختلاف فی مابین کو مباہلہ کےذریعہ سے مٹانے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم لوگ اگر تمام باقی تدابیر کو بے فائدہ پائیں یا بے اثر دیکھیں تو اس تدبیر کےذریعہ سے حق کے اظہار کی کوشش کریں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ذریعہ سے ایک فریق ہلاکت کی زد کے نیچے آجائے گا مگر چند آدمیوں کی قربانی سے اگر ہزاروں لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو تو اس قربانی کو گراں نہیں سمجھنا چاہئے.یہ خیال درست نہیں کہ کیوں خدا تعالیٰ سے نیکی نہ مانگی جائے اور اس کے عذاب کو طلب کیاجائے اگر وہ ہلاک کرسکتا ہے تو ہدایت بھی تو دے سکتا ہے کیونکہ ہدایت دینے کی طاقت اللہ تعالیٰ میں اب نہیں پیدا ہوئی بلکہ وہ ہمیشہ سے ہادی ہے مگر باوجود اس کے اس نے بعض حالات میں مباہلہ کی اجازت دی ہے.پس معلوم ہوا کہ بعض حالات میں مباہلہ ہی فیصلہ کا آسان ذریعہ ہوتا ہے اگر صرف دُعا ہی فیصلہ کا ذریعہ ہوتا تو وہ اپنے رسول ؐکو جو رحمتِ مجسم تھا کبھی مباہلہ کی اجازت نہ دیتا پس جب اور کسی طرح فیصلہ نہ ہو تو مباہلہ فیصلہ کا بہترین ذریعہ ہے.اُمّتِ محمدیہؐ ہمیشہ سے اس طریق فیصلہ کو صحیح سمجھتی آئی ہے اور اس پر عمل کرتی چلی آئی ہے.چنانچہ خود صحابہ میں سے بعض نے مباہلہ کےذریعہ سے فیصلہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور امام ابن قیمؒ کا مباہلہ مشہور ہے.اس وقت کے علماء بھی مختلف موقعوں پر مباہلہ کے لئے دوسروں کو چیلنج دیتے رہے ہیں اور چیلنج قبول بھی کرتے رہے ہیں پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مباہلہ ناجائز ہے یا مباہلہ طریق فیصلہ نہیں کیونکہ اگر مباہلہ ناجائز ہے تو پھر کیوں ہمیشہ سے مسلمان اس کو جائز سمجھتے آئے ہیں اور کیوں اس وقت کے علماء بھی ایک دوسرے کو مباہلہ کا چیلنج دیتے رہے ہیں اور اگر یہ طریق فیصلہ کاطریق نہیں تو قرآن کریم نے اس طریق کو کیوں پیش کیا ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ پہلے مباہلہ کا نتیجہ معیّن ہوجائے پھر مباہلہ ہوسکتا ہے مگر یہ لوگ اس قدر نہیں سمجھتے کہ وہ طریق معیّن کون کرے مباہلہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ دو فریق دُعا کرتے ہیں کہ خدا جھوٹے پر لعنت کرے اور اس پر عذاب نازل کرے پس یہ کس طرح جائز ہے کہ ایک فریق دوسرے سے پوچھےکہ کیا عذاب آئے گا اگر دوسرے فریق پر واجب ہے کہ عذاب کی تعیین کرے تو اس پر بھی تو واجب ہے کہ عذاب کی تعیینکرے کیونکہ مباہلہ کرنے میں دونوں برابر ہیں.بعض لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ مباہلہ کا نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ جھُوٹا سؤر اور بندر بن جائے اور اسی وقت عذاب نازل ہوکر ہلاک ہوجائے.پس اگر احمدی اس بات کا اعلان کریں کہ ہم بندر بن جائیں گے اور اسی وقت آسمان سے آگ نازل ہوکر ہمیں جلادے گی تب ہم مباہلہ کرتے ہیں.لیکن یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے

Page 571

کہ اگر احمدیوں کے سچّا ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کے مد مقابلہ کے لوگ مباہلہ کے بعد بندر اور سؤر بن جائیں اور اسی وقت آسمان سے بجلی گر کر ان کو جلادے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اگر دوسرا فریق سچّا ہے اور احمدی جھوٹے ہیں تو مباہلہ کے بعد احمدی بند اور سؤر بن جائیں اور فوراً آسمان سے بجلی گر کر ان کو ہلاک کردے.قرآن کریم سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہوگا اس پر عذاب آئے گا نہ یہ کہ ایک فریق اگر جھوٹا ہوگا تو اس پر عذاب آئے گا دوسرا فریق خواہ جھوٹا بھی ہو اس پر کوئی عذاب نہیں آئے گا.بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں نزلہ یا زکام ہوا تو آپ کہہ دیں گے کہ مباہلہ کے نتیجہ میں ایسا ہوا.مَیں ان سے کہتا ہوں کہ نزلہ اور زکام صرف انہی کو تو نہیں ہوتا ہمیں بھی ہوتا ہے اگر ان کے نزلہ اورزکام کو ہم مباہلہ کا نتیجہ قرار دیں گے تو کیا وہ ہمارے نزلہ زور زکام کو نہیں پیش کرسکیں گے اور نہیں کہہ سکیں گے اگر یہ مباہلہ کا نتیجہ ہے تو یہ نتیجہ تو تمہیں بھی بھگتنا پڑا ہے.غرض مباہلہ کا اثر چونکہ دونوں میں سے جھوٹا ہو اس پر پڑتا ہے نہ کہ صرف ایک فریق پر اس لئے دونوں فریق کے حالات مساوی ہیں اور اس سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں مباہلہ کے بعد اگر دونوں فریق سے کوئی بھی بندر ،سؤر نہ بنایا فوراً آگ نازل ہوکر اس نے کسی فریق کو نہ جلا دیا تو ماننا پڑیگا کہ جو لوگ سمجھتے تھے کہ مباہلہ کا نتیجہ یہ ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے عذاب نازل کردیتاہے.خلاصہ کلام یہ کہ مباہلہ کے متعلق جس قدر شبہات ہیں بے بنیادہیںاور چونکہ اس کا اثر جو جھوٹا ہو اس پر پڑتا ہے نہ صرف ایک پر اس لئے دونوں فریق کے حقوق اس میں مساوی ہیں اور کسی کو عذر کی گنجائیش نہیں.پس بہتر یہ ہے کہ اگر دوسرے طریق فیصلہ کے جو مَیں نے پیش کئے ہیں آپ لوگوں کو منظور نہ ہوں یا ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو فساد کے مٹانے کے لئے اس طریق سے فیصلہ کی کوشش کی جائے تا کہ ان لوگوں کو جو قوت فیصلہ نہیںرکھتے فیصلہ کرنے میں مدد ملے.یہ موقع نہایت عمدہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ایک جگہ جمع کردیا ہے اور سیکنڑوں آدمی دونوں فریق کے ایک جگہ ہیں ہر قسم کا انتظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوسکتا ہے.بالآخر میں دوبارہ پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی ہی جانوں کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہزاروں آدمی جو آپ کے اقوال کو خدا اور رسول کا کلام سمجھ کر آپ کی بات کو تسلیم کرلیتے ہیں ان

Page 572

کے اعمال کے بھی آپ ذمہ دار ہیں.پس دیانت اور تقویٰ چاہتا ہے کہ آپ بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھائیں اور ہار جیت کے خیال کو دل سے بالکل نکال دیں.مَیں آپ سے سچ سچ کہتا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں حضرت مرزا صاحبؑ کے دعوٰے کو یقین کے ساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور قرآن کریم کے بتائے ہوئے معیاروں کے مطابق اسے درست پاتا ہوں اور مَیں نے اس کی صداقت کے نشان اپنے اندر بھی پائے ہیں اوراپنے اردگرد بھی مشاہدہ کئے ہیں.مَیں نے آپ پر ایمان لاکراللہ تعالیٰ کی زبردست قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہےاور میں آپ پر علی وجہ البصیرت ایمان لایا ہوں نہ صرف دلائل عقلیہ سے بلکہ مشاہدات یقینیہ کی بناء پر اور میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگ بھی اپنے نفسوںمیں اللہ تعالیٰ کے نشانات کو اسی طرح دیکھتے ہیں اور اس کی نصرت کو اسی طرح پاتے ہیں.اگر یہ بات نہیں اور آپ لوگ اپنے اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک دیوار حائل دیکھتے ہیں اور اس کی تائید اور نصرت کو اپنی ذات کے لئے مشاہدہ نہیں کرتے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ کا انجام خطرہ میں ہے آپ خود بھی ایسی زمین پر چل رہے ہیں جس کا حال آپ کو معلوم نہیں اوران لوگوں کو بھی اپنےساتھ لے جارہے ہیں جو آپ پر اعتبار کرکے اندھا دھند آپ کے پیچھے چلے جارہے ہیں.آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو ہدایت دے اور وقت کے امام کی شناخت کی توفیق عنایت فرمائے اور آپ کے دلوں میں خشیت پیدا کرے اور دین کو کھیل اور تماشہ بنانے سے آپ کو بچائے اور اپنے بندوں پر رحم کرکے اسلام کے لئے ان کے دل کھول دے.اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن خاکسار مرزا محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانی) ۲۵؍ مارچ ۱۹۲۲؁ء

Page 573

Page 574

Page 575

Page 576

Page 577

Page 578

Page 579

Page 580

Page 581

Page 582

Page 583

Page 584

Page 585

Page 586

Page 587

Page 588

Page 589

Page 590

Page 591

Page 592

Page 593

Page 594

Page 595

Page 596

Page 597

Page 598

Page 599

Page 600

Page 601

Page 602

Page 603

Page 603