Anwarul-Uloom Volume 5

Anwarul-Uloom Volume 5

انوارالعلوم (جلد 5)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

F انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 5

Page 2

له الله الرحمن الرحيم پیش لفظ جماعت ایک عرصہ سے حضرت مصلح موعود کی روح پرور تقاریر و تحریرات کی منتظر تھی اللہ تعالی کا فضل و احسان ہے کہ ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن " انوار العلوم" کی پانچویں جلد جو نہ ۱۹۲۱ تک کی اٹھارہ کتب (تقاریر - تصنیفات پر مشتمل ہے.احباب کی خدمت میں پیش سے کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے.الحمد لله على ذلك - یہ کتب آج سے تقریباً ستر سال قبل تحریر کی گئی تھیں تاہم کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں ہے جس کے تعلق یہ کہا جاسکتا ہو کہ اس میں بیان فرمودہ علم و حقائق کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی.حضرت مصلح موعود کی بعض کتب سیاسی مسائل سے بھی تعلق رکھتی ہیں ایسی کتب کے متعلق یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ان میں تو اس زمانہ کے مسائل اور ان کا حل بیان کیا گیا ہو گا اور ہمارے زمانہ میں اس کی چنداں ضرورت نہیں رہی ہوگی مگر یہاں بھی یہ ایمان افروز حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور نے قرآن کے اہنما اصولوں کی روشنی میں جو سیاسی امور بیان فرمائے تھے لمبا وقت گزرنے کے با وجود ان کی افادیت اور ضرورت میں کوئی کمی نہیں آئی.اس زمانہ میں ہمارے سیاسی لیڈر ہندو قیادت کے زیر اثر عدم اطاعت عدم تعاون اور تخریب و دہشت انگیزی کو حصول آزادی کے لئے ضروری قرار دیتے تھے.حضور نے ایک دُور اندیشی مدیر کی طرح زمانے کی روکے بالکل خلاف مصلحانہ راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا : اس خطرناک رو کو روکنے میں پوری سعی کریں جو اسلام کے بدنام کرنے کا باعث ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی رہی سہی طاقت کے مٹانے کا ذریعہ بن رہی ہے یہ وقت غفلت کا نہیں ہے اسلام پہلے ہی بہت صدمہ خوردہ ہے اور اس کی پاک اور پر امن تعلیم پر پہلے ہی نہایت میلے پچھلے غلاف ڈالے جاچکے ہیں.....نہیں اُٹھو اور بلا کسی ملامت کے خوف اور لوگوں کے طعنون کے ڈر کے اس کی مدد کے لئے کھڑے

Page 3

ہو جاؤ.بے شک آپ کو ترک موالات کے مخالف کی وجہ سے بزدل کہیں گے اور خوشامدی نام رکھیں گے لیکن اگر اسلام کی محبت کے لئے آپ یہ کام کریں گے تو یہ باتیں آپ کا نقصان نہیں کر سکتیں.و شخص بہادر نہیں ہوتا جو بزدل کہلانے سے ڈر جاتا ہے اور نہ وہ بزدل ہوتا ہے جو حق کو اس لئے نہیں چھوڑ دیتا کہ لوگ اسے بزدل کہیں گئے." "1 اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں : شاید بعض لوگ کہدیں کہ تم میں وہ قومی جوش اور غیرت نہیں جو ہم میں ہے مگر انہیں یاد رہے کہ قومی غیرت اس چیز کا نام نہیں کہ انسان موقع بے موقع طیش میں آجایا کرے اور اس غصہ کی حالت میں خود اپنی قوم کے اخلاق پر دھبہ لگا دے ، بلکہ قومی غیرت اس کا نام ہے کہ انسان اپنے جوشوں پر قابو رکھے اور اپنی قوم کے نام کو خلاف مذہب اور خلاف اخلاق اور خلاف تمدن افعال کے الزام سے پاک رکھے پیس قومی غیرت کا فقدان نہیں بلکہ خود قومی غیرت مجھے اس امر پر مجبور کرتی ہے کہ ہندوستان کے نیک نام کی حفاظت کروں اور یہ میرے رب کی محبت ہے جو مجھے آمادہ کرتی ہے کہ ئیں اس کے بندوں کو صحیح راستہ کی طرف ہدایت کروں......---- پس میری نصیحت محض اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اور اپنے ملک کے نیک نام کے قائم رکھنے کیلئے ہے نہ کہ کسی اور غرض سے.پس ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ اگر قانون شکنی کی روح کو اس طرح پیدا کیا گیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا.حضور میں خوفناک اور بھیانک نتیجہ سے ہوشیار کر رہے تھے اس پر ٹھنڈے دل سے غور نہ کرنے کا نتیجہ وہ خوفناک لاقانونیت ، دہشت گردی اور فساد و خونریزی ہے جو ہر طرف پھیل چکی ہے اور جس کو قابو میں کرنے کی کوئی کوشش کامیابی کا منہ نہیں دیکھ رہی ہے.کاش اب ان باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے ان سے فائدہ اُٹھایا جائے.انوار العلوم ایک ایسا قیمتی اور انمول تحفہ ہے جو اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو تحفہ پیش " کر کے دائمی مسرت اور خوشی حاصل کرنے کا موجب بن سکتا ہے.اس کی زیادہ سے زیادہ خریداری جہاں ہمارے حوصلوں کو بڑھانے کا موجب ہوگی وہاں ہم کم سے کم وقت میں اس علمی اور روحانی ماندے کو احباب جماعت تک جلد از جلد پہنچانے کے قابل ہو سکیں گے !

Page 4

اس جلد کی تیاری میں بھی مکرم نے خاکسار کی گرانقدر امداد فرمائی.ان بزرگوں اور دوستوں کی انتھک محنت اور غیر معمولی کوششوں سے ادارہ اس قابل ہو سکا ہے کہ اس قلیل عرصہ میں پانچویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کر سکے.فجزاهم الله احسن الجزاء تعارف کتب کا ابتدائی مسود نے بہت وقت دیگر بڑی محنت سے تیار کیا تھا.بعد میں اس پر کئی اور دوستوں نے نظر ثانی کی ہے.خاکساران کا بھی احسان مند ہے اور ان کی اس بے لوث اور مخلصانہ خدمت پر دکی شکریہ ادا کرتا ہے.دفتر فضل عمر فاونڈیشن کا عملہ بھی خصوصی شکریہ کا مستحق ہے جن کی بے لوث خدمات کے بغیر اس جلد کی تیاری ممکن نہیں تھی.اس سلسلہ میں مکرم بشارت احمد صاحب صابر خاص طور کہ قابل ذکر ہیں جنہوں نے ابتداء سے ہی " انوار العلوم کی طباعت و اشاعت کے کام کو دلی لگن اور جذبہ شوق کے ساتھ سرانجام دیا.خاکسار ان سب احباب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دُعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم معرفت میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے (آمین )

Page 5

النوادر المعلوم جلد ۵ بسم الله الرحمن الرحیم تعارف کتب تعارف کتب نحمده ونصلى على رسوله الكريم یہ انوارالعلوم کی پانچویں جلد ہے جو سید نا حضرت فضل عمر خلیفہ ایسیح الثانی کی درج ذیل اٹھارہ تقاریر ، مضامین اور ایک نظم پرمشتمل ہے.یہ کتب جنوری ۱۹۲۰ء تا جنوری ۱۹۲۱ء کے دور کی ہیں.*** تحریک تعمیر مسجد لندن سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے احباب جماعت کو مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک کرنے کے لئے بیضمون 4 جنوری ان کو تحریر فرمایا.اس میں حضور انور نے اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان میں کامیابی کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری ہے.وہاں کے مبلغین اس امر پر زور دیتے رہے ہیں کہ تبلیغ کے فریضہ کو کما حقہ ادا کرنے کے لئے اس ملک میں مسجد کی تعمیر کرنا ضروری ہے.تاکہ لوگوں کی توجہ کو زیادہ مؤثر رنگ میں اسلام کی طرف منتقل کیا جا سکے حضور نے فرمایا کہ ہمارے مبلغین کی یہ درخواست واقعی قابل توجہ ہے.مگر میرے نزدیک اپنی مسجد بنانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسجد میں کچھ خاص برکات ہیں جو بغیر مسجد کے حاصل نہیں ہو ئیں.اس سلسلہ میں تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- یاد رکھیں انگلستان وہ مقام ہے جو صدیوں سے تثلیث پرستی کا مرکز بن رہا ہے اس میں ایک ایسی مسجد کی تعمیر جس پر سے پانچ وقت لا اله الا الله کی صدا بلند ہو کوئی معمولی کام نہیں ہے یہ ایک عظیم الشان کام ہے جس کے نیک اثرات نسلاً بعد نسل پیدا ہوتے رہیں گے اور تاریخیں اس کی یاد کو تازہ رکھیں گی.وہ مسجد ایک مرکزی نقطہ ہوگی جس میں سے نورانی شعائیں نکل کر تمام انگلستان کو منور کردینگی.

Page 6

انوار العلوم جلد ۵ پس اے صاحب ثروت احباب ! بلند حوصلگی سے اٹھو اور ہمیشہ کے لئے ایک نیک یادگار چھوڑ جاؤ" حضور نے 4 جنوری کو پی ضمون تحریر فرمایا اور شائع کرنے سے قبل سے جنوری نشانہ کو اہل قادیان کو اپنے ایک خطاب کے ذریعہ لندن میں مسجد تعمیر کرنے کی ضرورت اور افادیت بیان کر کے اس کیلئے مالی قربانی میں بڑھ چڑھ حصہ لینے کی تحریک فرمائی.اس موقع پر قادیان کے احباب نے مثالی قربانی کا مظاہرہ کیا.حضور نے مضمون کے بقیہ حصہ میں جو اس کے بعد تحریر فرمایا اس امر کا بھی نہایت محبت بھرے انداز میں ذکر فرمایا اور بیکل مضمون ۲۲ جنوری نانہ کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا.حضور نے قادیان کے مردوں، عورتوں، بچوں اور غریب طلباء کی مالی قربانی پر انتہائی خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے بعض ایمان افروز واقعات بھی بیان فرمائے.مضمون کے آخر میں حضور نے دُعا کی کہ : اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کام کے پورا کرنے کی توفیق دے، آپ کی بہتوں کو بلند اور آپ کی نیتوں کو خالص کرے.اور آپ کے کاموں میں برکت دے.اور اسلام کی شان کو آپ لوگوں کے ہاتھ پر ظاہر کرہے " of of of قیام توحید کیلئے غیرت سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے انگلستان میں مسجد کی تعمیر کرنے سے متعلق کے جنوری نشانہ کو قادیان میں بعد نماز عصر یہ تقریر فرمائی جو ۲۶ جنوری شاہ کو الفضل میں شائع ہوئی.نے حضور نے اپنی تقریر کے ابتداء میں انسانی پیدائش میں فطرت کی طرف سے جو بعض باتیں ودیعت کی گئی ہیں ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ نے بعض باتیں ایسی رکھی ہیں کہ گو ان کو رسم و رواج اور عادات کئی کئی طرز پر ڈھال دیتے ہیں مگر ان کی اصلیت نہیں بدل سکتی " انہیں فطرتی جذبات میں سے ایک جذبہ غیرت ہے اور اس کے اظہار کے لئے بھی الگ الگ مقام ہوتے ہیں بعض لوگ اپنی عزت و ناموس کیلئے غیرت رکھتے ہیں، بعض لوگ اپنے ملک کے لئے غیرت رکھتے ہیں اور بعض لوگ اپنے مال و تجارت کے لئے غیرت کا جذبہ رکھتے ہیں.مگر ایک مذہبی آدمی کیلئے مذہب

Page 7

انوار العلوم جلد ۵ تعارف کتب غیرت کی چیز ہے اور اسی مذہبی غیرت کے جذبہ کے تحت دنیا میں بڑے بڑے انقلاب رونما ہوتے ہیں.حضور نے فرمایا : ہماری جماعت جو احمدی جماعت ہے اس کو مذہب کے لئے غیرت دی گئی ہے.لوگوں کو تجارت کے لئے غیرت ہے ،زراعت کے لئے غیرت ہے ، بہت لوگوں کو ملک کے لئے غیرت ہے.مگر جو خدا کی جماعتیں ہوتی ہیں انہیں لا اله الا الله کے لئے غیرت ہوتی ہے.ملک جاتے ہیں تو جائیں، حکومتیں مٹتی ہیں تو میں ، زراعتیں برباد ہوتی ہیں تو ہوں، تجارتیں تباہ ہوتی ہیں تو ہوں ، زمینیں چھنتی ہیں تو چھن جائیں اور اگر ظالموں کی طرف سے تنگ و ناموس پر حملہ ہو اور وہ جائے تو چلا جائے مگر وہ ہرگز نہیں دیکھ سکتے کہ ANTENNA الا اللہ مٹ جائے.اس کی حفاظت کے لئے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں.اگر وطنوں سے بے وطن ہونا پڑے تو کچھ پروا نہیں ، اگر مال چھنتے ہیں تو کچھ مضائقہ نہیں ، عہدے اور امار تیں لے لی جائیں تو کچھ حرج نہیں وہ ان سب چیزوں کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوتی ہیں.اگر نہیں چھوڑ تیں اور نہ چھوڑنے کیلئے تیار ہوتی ہیں تو وہ ایک ہی چیز ہے.یعنی لا اله الا الله " حضور نے فرمایا کہ ہماری غریب جماعت نے اس جذبہ غیرت کے تحت خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت اسلام کا عظیم الشان کام کیا ہے جو مسلمانوں کی مالدار جماعتیں نہیں کر سکیں.انگلستان جو عیسائیت کا گڑھ ہے.ہمارے مبلغ وہاں پہنچے ہیں.وہاں ہم نے پیاری بھیجے ہیں.ان کے لئے سامان کی ضرورت ہے.سامان میں سب سے پہلے قلعہ کا مقابلہ قلعہ ہوتا ہے اور مذہب کا قلعہ مسجد ہوتی ہے.حضور نے فرمایا کہ مبلغوں نے وہاں مسجد بنانے کا اصرار کیا ہے.اور میرے دل میں بھی خدا تعالیٰ نے بڑے زور سے یہ تحریک کی ہے کہ یہ کام شروع کیا جائے.حضور نے اپنے اس موثر خطاب میں قادیان کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے اخلاص، فدائیت ، اسلامی غیرت اور جذبہ قربانی کی مثالیں پیش کرنے کے بعد دیگر احباب جماعت کو بھی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر مالی قربانی پیش کرنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے کہ ہماری جماعت جو غرباء کی جماعت ہے صحابہ کی طرح قربانیاں کر رہی ہے.حضور نے اس خطاب کے آخر میں فرمایا کہ :

Page 8

الوار العلوم جلد ۵ "ایک ایک اینٹ جو ان کی طرف سے لندن میں مسجد کی رکھی جائے گی وہ گویا ترقی اسلام کی بنیاد کی اینٹ ہو گی.اس وقت دنیاوی طور پر خواہ کیسے ہی وسیع دماغ کا آدمی ہو وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کہ یہ لوگ بھی کچھ کر سکتے ہیں.اور یہ پیچ ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے مگر خدا تعالیٰ ان سے بہت کچھ کر سکتا ہے" ✿✿✿ صداقت احمدیت سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی الصلح الموعود نے لاہور کے بعض احمدی تاجروں کی درخواست پر افادہ عام کے لئے 19 جنوری شاہ کو بیرون دہی دروازہ صداقت احمدیت" کے عنوان پر ایک لیکچر ارشاد فرمایا جو ان چھے عظیم الشان لیکچروں میں سے ایک ہے جو حضور نے ۱۳ فروری سے ۱۳ فروردی تک لاہور اور امرتسر کے سفر کے دوران مختلف مقامات پر دیئے تھے حضور کا یہ لیکچڑھائی گھنٹے جاری رہا اور غیر از جماعت سامعین اس سے بہت متاثر ہوئے.(الفضل یکم مارچ شاء صفحہ ۸ ) اسے سب سے پہلے مکرم محمد امین صاحب تاجر کتب قادیان نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا.اس تبلیغی لیکچر میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت پیش فرما کر سچائی کو پرکھنے کا ایک بڑا بھاری معیار پیش فرمایا ہے جس کی بنیاد حضرت مسیح علیہ السلام کے اس قول پر رکھی ہے کہ درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے.حضور نے یہ معیار ان الفاظ میں پیش فرمایا ہے :- اسلام کے ہر مسئلہ کے متعلق غور کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہی عقیدہ درست اور صحیح ہو سکتا ہے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور سب کمالات کا جامع ہونا ثابت ہو اور جس عقیدہ سے یہ ثابت ہو کہ آپ کسی سے افضل نہیں رہتے یا اس کے اختیار کرنے سے آپ کے کسی کمال میں نقص پایا جاتا ہے تو وہ عقیدہ قطعاً اسلام کے خلاف، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو گا ؟ اس معیار کے مطابق حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش فرمودہ عقائد وفات مسیح کے فوائد اور مسلمانوں کے مروجہ عقیدہ حیات مسیح کے نقصانات بیان فرما کر احمدیت کی صداقت کو

Page 9

انوار العلوم جلد ۵ پرکھنے کا یہ اصول سامنے رکھا کہ : تعارف کتب " اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لئے جو ہم اور دوسرے لوگوں میں پایا جاتا ہے، یہ دیکھنا چاہئے کہ کس کے عقائد ایسے ہیں جن سے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے اور کس کے ایسے ہیں جن سے عزت ؟ ہمارے افعال اور حالات سے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ثابت ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کی طرف توجہ نہ کریں" ✿✿ صداقت اسلام صداقت اسلام" نامی به کتاب در اصل حضرت مصلح موعود کی ایک تقریر ہے جو حضور نے امرتسر کے بندے ماترم ہاں میں ۲۲ فروری ۹۳نہ کو فرمائی تھی.یہ وہی ہال ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے شاہ میں ایک لیکچر دیا تھا اور حضور پر اس لیکچر کے دوران پھر برسانے گئے تھے.حضرت مصلح موعود کی اس تقریر کا عنوان "صداقت اسلام اور ذرائع ترقی اسلام" تھا.حضور نے اس مختصر مضمون میں مذہب کی غرض کو پیش فرما کر اسلام کی صداقت پیش فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ مذہب کی غرض ایسا راستہ بتانا ہے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے جو مذہب اس غرض کو پورا کرتا ہے وہ سچا ہے اور جو پورا نہیں کرتا وہ سچا مذہب نہیں اس اصول کے مطابق حضور نے اسلام کی صداقت کے مندرجہ ذیل دو مضبوط دلائل پیش فرمائے ہیں.- اسلام کی پیش کردہ تعلیم قرآن کریم ، سب سے بہتر ہے.اسلام میں خدا سے کلام کرنے کا دروازہ کھلا ہے.اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے اور قبولیت دعا کے بعض واقعات بیان فرما کر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اسلام کی صداقت پر محبت سے غور کرنے کی تلقین فرمائی ہے.اور یہ بتایا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ تعصب اور ضد چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ نے اس دور میں اپنی مدد کا جو ہاتھ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود کو بھیج کر بڑھایا ہے اُسے تھام لیں.

Page 10

انوار العلوم جلد ۵ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں تعارف کتب ۲۴ فروری ۱۹۳نہ کو حضرت مصلح موعود نے لاہور سے روانہ ہوتے وقت جماعت احمدیہ لاہور کے مردوں، عورتوں اور طالب علموں سے مخاطب ہو کر ایک تقریر فرمائی.حضرت مصلح موعود نے اس تقریر میں لاہور کی جماعت کے حالات سے واقفیت کی بناء پر بعض نہایت اہم نصائح اور چند متفرق امور کی طرف احباب جماعت لاہور کی توجہ مبذول کروائی ہے.حضور نے اپنی اس تقریر میں تین امورا اپنی رائے کا قربان کرنا ، آپس کے معاملات میں طبائع کا لحاظ رکھنا اور جماعتی عہدیداروں یا افسروں کی اطاعت کا خصوصیت سے ذکر فرماتے ہوئے انہیں اجتماع یا اتحاد کے قیام کے لئے بنیادی اور ضروری قرار دیا ہے.اور احباب جماعت کو نہایت پُر درد انداز میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ اس زمانہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیو اور یہ مت سمجھو کہ تم پر کوئی بوجھ پڑا ہوا ہے.بلکہ یہ مجھو کہ تمہیں دین کی خدمت کا موقعہ ملا ہوا ہے.پس تم لوگ اس زمانہ کی قدر کر کے دین کی خدمت کرنے کی کوشش کرو تاکہ خدا تعالیٰ کی اس بارش سے تمہارے گھر بھر جائیں جو دنیا کو سیراب کرنے کے لئے اس نے نازل کی ہے؟ اپنی اس تقریر کے آخر میں حضور نے طلباء کو بالخصوص یہ نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں.ofs of afs تقریر سیالکوٹ حضرت مصلح موعود کے اپریل 19ء کو قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے اور ۱۳ را پریل تک وہاں قیام فرما رہے.دوران قیام حضور نے.اور اپریل کو احمدیہ ہال کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے حاضرین سے جو خطاب فرمایا اس جلد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان" کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے.حضرت مصلح موعود نے اپنے اس خطاب میں قرآن کریم کی سورۃ ہود آیت نمبر ۱۸ کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے تین نشان بیان فرمائے ہیں کہ نمبر.یہ رسول اپنے

Page 11

انوار العلوم جلد ۵ ساتھ نشانات رکھتا ہے.نمبر ۲ - گزشتہ کتابوں میں اس نبی کے آنے کی خبریں موجود ہیں.نمبر ۳.اور جب دنیا خدا کو چھوڑ کر گمراہی میں مبتلا ہو گی اس وقت ایک ایسا انسان آئے گا جو خود نشان دکھلا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کر دے گا.حضور نے بتایا ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حالت دیکھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اُس شاہد (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کوکھڑا کر دیا ہے جس کا قرآن کریم میں وعدہ دیا گیا تھا.اس ضمن میں حضور نے حضرت میسج موعود علیہ السلام کی صداقت کے تین دلائل سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود نہ جھوٹے تھے، نہ غلطی خوردہ تھے اور نہ ہی آپ کو جنون تھا.بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق اور پیچھے نبی تھے اور جو کامیابی آپ کو نصیب ہوئی یا ہو رہی ہے وہ کسی جھوٹے اور مفتری کو نہیں ہو سکتی.خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے قیام سیالکوٹ کے دوران اور اپریل ۱۹۲ کو ایک دعوت کے موقعہ پر ایک غیر از جماعت نے حضرت خلیفہ اسیح سے یہ سوال دریافت کیا که حضرت مرزا صاحب کے آنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا فضیلت ظاہر ہوئی.اس سوال کے جواب میں حضور نے ایک مختصر تقریر ارشاد فرمائی.حضور کی یہ تقریر محترم خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل نے مرتب کی.جسے خاتم النبیین کی شان کا اظہار کے عنوان سے محترم محمد یا تین صاحب تاجر کتب قادیان نے دسمبر ۲۶ ۹ہ میں شائع کیا.حضرت مصلح موعود نے اپنی اس تقریر میں بتایا ہے کہ حضرت مرزا صاحب ریح موعود علیہ السلام) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے آئے تھے اور آپ کے دعاوی سے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اول : تمام مذاہب نے آخری زمانہ میں ایک موعود کے آنے کی خبر دی تھی اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ثابت ہو چکا ہے کہ اب اسلام ہی سچا مذہب ہے.اس لئے اس کے قائم رکھنے کے

Page 12

تعارف کتب انوار العلوم جلد ۵ لئے خدا تعالیٰ نے اس موعود کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھیجا ہے جس نے اسلام کی صداقت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر فرمانی ہے.دوم یہ کہ حضرت مسیح موعود نے وفات مسیح کا جو عقیدہ پیش فرمایا ہے اس سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے.اور سوم یہ کہ حضرت مسیح موعود کا دعوی خدا کے نبی ہونے کا تھا اور نبوت کا یہ انعام بھی آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حاصل ہوا ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان نبوت کا جاری رہنا ہی فضیلت ہے نہ کہ اس کا بند ہو جانا.دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا سیدنا حضرت مصلح موعود کا یہ ایک پبلک لیکچر ہے جو حضور نے تاریخ اور اپریل ۹۲ او پانچ بجے شام بمقام سیالکوٹ ارشاد فرمایا تھا.بنیادی طور پر حضور نے اس لیکچر میں اس سوال کو کہ " دُنیا کا آئندہ مذہب کیا ہوگا ؟ کے جواب میں بڑی تحدی سے یہ بات پیش فرمائی ہے کہ اسلام ہی دنیا کا آئندہ مذہب ہوگا.حضور نے اپنے اس مختصر لیکچر میں سلام اور عیسائیت کی علیم کا موازنہ پیش فرماتے ہوئے یہ ثابت فرمایا ہے کہ اسلام ہی عیسائیت کا مقابلہ کر سکتا اور اس پر غالب آسکتا ہے اس لئے لازماً مانا پڑے گا کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہی ہوگا.کیونکہ اسلام کی تعلیم ہرزمانے کے لئے کافی ہے اور یہ مذہب ہر ایک کی پیاس بجھا سکتا ہے اور ہر زمانے میں پیش آنے والی ضروریات کا علاج کرسکتا ہے.

Page 13

انوار العلوم جلد ۵ فرائض مستورات تعارف کتب حضرت مصلح موعود کا مستورات سے یہ ایک خطاب ہے جو حضور نے نہ میں سیالکوٹ قیام کے دوران ۱۲ اپریل کو پنجابی زبان میں فرمایا تھا.ایڈیٹر صاحب الفضل محترم خواجہ غلام نبی صاب نے اس خطاب کا اردو ترجمہ 14 اپریل کے الفضل میں شائع کیا تھا.حضور نے اس خطاب میں مستورات کو نہایت آسان اور سادہ پیرا یہ میں اسلامی احکام پرش کرنے ، عبادات و اخلاق حسنہ کے اپنا نے اور بعض نا پسندیدہ امور مثلاً بد رسوم و غیرہ کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی ہے.ایک غلط بیانی کی تردید یہ حضرت مصلح موعود کے قلم سے نکلی ہوئی ایک تحریر ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ نہ میں ہندوستان کے ایک اخبار آفتاب" میں مرزا بشیر الدین محمود احمد سے قطع تعلقی" کے عنوان سے ایک فرضی اور خود ساختہ خط شائع ہوا.اس خطہ کے لکھنے والے کا نام مستری عمر بخش (انجن ڈرائیور کو ہاٹ) ظاہر کیا گیا تھا.حضور نے اس شخص کے متعلق مکمل تحقیق کے بعد اخبار الفضل قادیان کی ۱۳ مئی ہے کی اشاعت میں اس خطہ کا جواب تحریر فرمایا اور اس میں لگائے جانے والے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی پر زور تردید فرما کر اس خط کی اشاعت پر تعجب کا اظہار فرمایا ہے.۱۹۲۰

Page 14

انوار العلوم جلد ۵ 11 معاہدہ ترکیہ اورمسلمانوں کا آئندہ رویہ تعارف کت جنگ عظیم اول کے بعد فاتح اتحادی ممالک نے دولت عثمانیہ (ترکی) سے صلح کی جو شرائط طے کیں وہ انتہائی ذلت آمیز تھیں.ان کی رُو سے سلطنت ترکی کے حصے بخرے کردیئے گئے.اس کی بحری وبری اور ہوائی افواج نہایت محدود کر دی گئیں.اور اس پر بعض اور کڑی پابندیاں بھی لگا دی گئیں.ان حالات میں ترکی کی سلطنت کے ساتھ صلح کی شرائط کے مسئلہ پر غور کرنے اور مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل سوچنے اور تجویز کرنے کے لئے کیم و دو جون ۱۹۲۰ کو اللہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جانا مقرر ہوا.جمعیتہ العلماء ہند کے مشہور لیڈر جناب مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے ۳۰ رمئی ۹۳ منہ کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ اس کا نفرنس میں اپنے خیالات کے اظہار کے لئے دعوت دی چنانچہ حضور نے معاہدہ ترکیہ اورمسلمانوں کا آئندہ رویہ" کے عنوان سے ایک دن میں پیمضمون تحریر فرمایا اور اسے راتوں رات چھپوا کر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب - حضرت سید ولی الله شاہ صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ذریعہ بھجوا دیا.تاریخ احمدیت جلد نمبر ۵ صفحه ۲۶۳ - ۲۶۴ ) حضور نے اپنے اس مضمون میں معاہدہ ترکیہ کی شرائط کے نقائص کی نشاندہی فرماکر اس کے بداثرات سے بچنے کے لئے مسلمانوں کے سامنے بعض تجاویز پیش فرمائی ہیں.حضور نے نہایت مدلل انداز میں اپنے موقف کو پیش کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا کہ جو تجاویز ،ہجرت ، جہاد عام اور گورنمنٹ سے قطع تعلقی کرنے کی پیش کی جارہی ہیں.یہ نا قابل عمل اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہیں.حضور نے اپنی طرف سے یہ تجویز فرمایا کہ مسلمان متفق اللسان ہو کر اتحادی حکومتوں پر یہ بات واضح کر دیں کہ چونکہ انہوں نے ترکوں سے صلح کی شرائط اپنے تجویز کردہ قواعد کے خلاف رکھی ہیں اور اس معاہدہ میں مسیحی تعصب دکھائی دیتا ہے نیز ان شرائط میں سرمایہ داروں CAPITALISTS کے مفادات کو مد نظر رکھا گیا ہے لہذا مسلمان اس فیصلہ کو نا پسند کرتے اور اسے تبدیل کرنے کی اپیل کرتے ہیں.اس مضمون میں حضور نے مذکورہ تجویز کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و ہبود کیلئے بلاتاخیر ایک عالمگیر لجنہ اسلامیہ یعنی موتمر عالم اسلامی ، قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی.

Page 15

انوار العلوم جلد ۵ لوح الهدی ہ کے موسم گرما میں حضور دھرم سالہ تشریف لے گئے وہاں قیام کے دوران آپ نے احمدی نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک نظم بعنوان " لوح الهدی ارشاد فرمائی.۳۲ اشعار پر مشتمل نظم نہایت موثر اور بیش قیمت نصالح اور زریں ہدایات سے پر ہے.اس نظم کا پہلا شعر یہ ہے.نونهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو 16 اس نظم کی یہ خصوصیت ہے کہ حضور نے اس نظم کا پس منظر بھی اپنے قلم سے ہی تحریر فرمایا ہے اور کم و بیش ہر شعر کی وضاحت و تشریح نثر میں خود بیان فرمائی ہے.حضور فرماتے ہیں :.ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے..ہم پر واجب ہے کہ آپ لوگوں کو ان فرائض پر آگاہ کر دیں جو آپ پر عائد ہونے والے ہیں اور ان راہوں سے واقف کردیں جن پر چل کر آپ منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں اور آپ پر فرض ہے کہ آپ گوش ہوش سے ہماری باتوں کو نہیں.تا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے.✿✿✿ ترک موالات اور احکام سلام 19 میں ترکی کی دولت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے ترک موالات کا نعرہ بلند کیا.حضرت مصلح موعود نے اپنے مضمون " معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ میں مسلمانوں کو اس تحریک ترک موالات کے نقصانات سے بر وقت آگاہ فرما دیا تھا.مگر افسوس کہ اس وقت کے مسلمانوں نے اس پر خلوص آواز پر توجہ نہ دی اور کانگریسی لیڈر مسٹر گاندھی کی قیادت میں تیکم اگست منہ سے برطانوی حکومت کے خلاف عدم تعاون کا منظم پروگرام شروع کر کے ملک میں ایسی آگ لگا دی کہ جس سے ملک کا کوئی صوبہ اور کوئی ضلع محفوظ نہ رہا مسلمان اپنا

Page 16

انوار العلوم جلد ۵ گھر بار اور وطن چھوڑ کر افغانستان کی طرف ہجرت کرنے لگے.ان حالات میں حضرت مصلح موعود نے ترک موالات اور احکام اسلام" نامی یہ کتاب تصنیف فرمائی اور ان خیالات کو جو حضور معاہدہ ترکیہ اور سلمانوں کا آئندہ رویہ" میں پیش فرما چکے تھے قرآن و احادیث نبویہ کی روشنی میں بڑی شرح وبسط کے ساتھ ایک بار پھر اس کتاب میں پیش فرمایا.حضور کی یہ تصنیف دسمبر نہ ہی میں شائع ہوئی تھی.(تاریخ احمدیت جلدہ صفحہ ۲۶۷ تا ۲۰) حضور نے اپنی اس تصنیف کی وجہ تالیف" التماس ضروری" کے عنوان سے کتاب کے آخر میں ان الفاظ میں پیش فرمائی ہے." میں نے یہ رسالہ محض ہمدردی احباب کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے اور امید کرتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ہر ایک وہ شخص جو قرآن کریم اور ارشادات نبوی کا شیدائی ہے ترک موالات کے مسئلہ کے متعلق صحیح راہے قائم کرنے کے قابل ہو جائے گا " حضور نے اپنی اس لاجواب تصنیف میں ترک موالات کے معانی اور ترک موالات کے بارے میں مسلمان علماء کی طرف سے دیے گئے فتووں میں پیش کردہ آیات کے حقیقی مفہوم کو تفصیل کے ساتھ پیش فرمایا ہے اور ترک موالات کی تائید میں دیئے جانے والے دلائل کا پُر زور انداز میں رد فرمایا ہے.حضور نے قرآن کریم کی رو سے ترک موالات کے چار نقصانات اور ترک موالات کے متعلق قرآن کریم کے دو بنیادی احکام بیان کرتے ہوئے اپنا یہ نقطۂ نظر پیش فرمایا ہے کہ ترک موالات کی کوئی صورت بھی اس زمانہ میں جائز نہیں اور اس وقت بالخصوص حکومت کے خلاف اس کا وجوب تو الگ رہا اُس کے جواز کا فتویٰ دینا بھی علم اور تعدی ہے.

Page 17

انی را العلوم جلد ۵ ۱۳ تعارف کتب اسلام اور حریت و مساوات A حضرت مصلح موعود کی یہ تصنیف در اصل ایک صاحب کے اٹھارہ سوالوں کے جوابات ۱۸ اور ایک تفصیلی مضمون پرمشتمل ہے.کوہ مری سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی خدمت میں اٹھارہ سوال لکھ کر بھیجے تھے جس کے جوابات حضور نے حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مولوی فاضل کو تحریر کروا دیئے تھے جو ان دنوں حضور کے صیغہ ڈاک کے انچارج تھے یہ جوابات اا نومبر نہ کے الفضل میں شائع ہوئے.ان جوابات کی اشاعت پر امرتسر کے ایک اخبار روز نامہ وکیل میں خواجہ عباداللہ صاحب اختر نے ایک سلسلہ مضامین شروع کیا اور حضور کی طرف سے افضل میں شائع ہونے والے مذکورہ جوابات پر بعض اعتراضات کئے.اس سلسلہ مضامین کی اشاعت کے بعد حضور نے ان لوگوں کی رہنمائی کے لئے جو حق طلبی کا جذبہ رکھتے ہیں ایک اور تفصیلی مضمون تحریر فرمایا اور اس کا عنوان " اسلام اور حریت و مساوات تجویز فرمایا.یہ مضمون ۲۰ دسمبر 19 مہ کے الفضل میں شائع ہوا.حضور نے اپنے اس مضمون میں قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں حریت و مساوات کے حقیقی معانی اور مفہوم کو پیش فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ حریت و مساوات کا اصل ہر جگہ چسپاں نہیں ہو سکتا.بعض جگہ حریت و مساوات بُری ہوتی ہے ، بعض جگہ جائز اور بعض جگہ ضروری ہوتی ہے.مساوات کے موضوع کے علاوہ حضور نے اپنے اس مضمون میں خواجہ عباد اللہ صاحب اختر کی ان باتوں کا جواب بھی تحریر فرمایا ہے جو انہوں نے حضور کی طرف غلط منسوب کی تھیں.

Page 18

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر ایک آریہ پروفیسر کے اعتراضات کا جواب تعارف كتب ۱۹۲۰ء کے اواخر میں آریہ سماجیوں کی طرف سے لاہور میں قومی امور سے تعلق جلسے منعقد کئے گئے.انی جلسوں میں گرو کل پارٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رام دیو صاحب نے بھی ایک لیکچر دیا جس کا موضوع یہ تھا کہ بدھ مت مسیحیت اور اسلام زمانہ کے حالات کے مطابق نہیں ہیں اور سائنس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.جبکہ ہندومت جو خود سائنس کا سر چشمہ ہے اسے علوم کی ترقی سے کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا یہی آئندہ دنیا کا مذہب ہوگا.پروفیسر صاحب کے اس لیکچر کا خلاصہ لاہور کے اخبارہ بندے ماترم نے ۳۰ نومبر نشانہ کی اشاعت میں شائع کیا ریہ اخبار لالہ لاجیت رائے نکالا کرتے تھے جو کہ خود ایک آریہ سماجی تھے.حضرت مصلح موعود نے پروفیسر صاحب مذکور کے خیالات کا رتو فرمانے کی غرض سے ایک مضمون تحریر فرمایا جو ۱۳ دسمبر شاہ کے الفضل (قادیان میں شائع ہوا جس میں حضور نے پروفیسر رام دیو صاحب کے خیالات کی پر زور تردید فرمائی اور اسلام کی حقانیت پیش فرمائی.حضور کے اس مضمون کی اشاعت کے بعد پروفیسر رام دیو صاحب نے 14 جنوری 2 کو پرکاش نامی ایک اخبار میں اس کا جواب شائع کروایا.حضور نے اس کا بھی جواب الجواب تحریر فرمایا جو الفضل کی.ضروری نہ کی اشاعت میں شائع ہوا اور چونکہ رام دیو صاحب نے اپنے دوسرے مضمون میں قرآن کریم کے الہامی ہونے کے متعلق کچھ اعتراضات پیش کرنے کی اجازت چاہی تھی اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ حضور ان اعتراضات کا جواب ارشاد فرمائیں.تب حضور نے اس دوسرے مضمون میں اعتراضات کے سلسلہ کو ناواجب طوالت سے بچانے کے لئے نو (۹) شرائط پر تحمل تحریری مباحثہ کا طریق پیش فرمایا جسے پروفیسر صاحب نے منظور کر لیا.اس پر حضور نے ایک تیر امضمون تحریر فرمایا جو مورخہ 6 اپریل سنہ کو الفضل قادیان میں شائع ہوا اس میرے مضمون میں حضور نے اپنی پیش کردہ شرائط کی مزید تفصیلات پیش کرتے ہوئے یہ بھی تحریر فرما یا که : اگر پروفیسر صاحب کو میری ---- تحریر سے اتفاق ہو تو وہ ان تین اعتراضات کو شائع کرا دیں جس کی بناء پر قرآن کریم کے الہامی ہونے میں ان کو کلام ہے

Page 19

انوار العلوم جلد ۵ ۱۵ تعارف کرد اور ان کے اعتراضات کو وضاحت سے بیان کر دیں جن کا تصفیہ سب سے پہلے کرنا وہ پسند کرتے ہوں.ان کے مضمون کے شائع ہونے پر میں ان کا مضمون اور اپنا جواب بھی الفضل میں شائع کروا دوں گا.(14) ✡✡✡ اصلاح نفس اصلاح نفس (متفرق امور ) یہ وہ تقریر ہے جو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے ۲۷ دسمبر ۱۹ کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر فرمائی تھی اور جسے ناظر تالیف و اشاعت قادیان نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا.حضور نے اپنی اس تقریر میں جماعت کے اخلاص اور اس کی عمومی حالت کا ذکر فرمایا اور اصلاح نفس کے پیش نظر ترک شہر کے حوالے سے بدلنی ، جھوٹ ،سخت کلامی و درشتی ، نشتہ حقہ نوشی وغیرہ امور سے احباب جماعت کو مجتنب رہنے کی تلقین فرمائی اور اعمال خیر کے حوالے سے نماز با جماعت پڑھنے، نماز کا ترجمہ سیکھنے، روزہ رکھنے، علم حاصل کرنے ، خدا کی محبت دل میں پیدا کرنے اور زکوۃ وصدقات دینے کی طرف نہایت دلنشیں اور مؤثر انداز میں توجہ دلائی.ملائكة الله حضرت مصلح موعود کی معارف و حقائق سماوی سے پر یہ تقریر جو حضور نے ۲۹/۲۸ دسمبر کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر بیت نور میں ارشاد فرمائی.اس کا موضوع تلا نکتہ اللہ ہے.ملا ئکتہ اللہ کا یہ مضمون اسلام کے بنیادی اصول اور ایمانیات میں داخل ہے.باوجود اس کے کہ یہ مضمون نهایت باریک و دقیق ہے حضور نے اسے نہایت آسان اور بصیرت افروزہ انداز میں پیش فرمایا ہے.حضور نے قرآن کریم کی رو سے ملائکہ کی حقیقت وضرورت ، ان کی اقسام ، ان کے فرائض و خدمات کے علاوہ فرشتوں کے وجود پر دلائل اور اُن سے متعلق شبہات و اعتراضات کے مفصل و مدل جوابات دیتے ہیں مضمون کے آخر پر حضور نے فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے اور اُن سے فیض حاصل کرنے کے دس ذرائع بیان فرمائے ہیں.

Page 20

انوارالعلوم جلد ۵ 14 تعارف کتب (1^) ہدایات درین ۲۶ جنوری ۱۹۲۱ مر کو سیدنا حضرت مصلح موعود نے مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہاؤس میں مبلغین سلسلہ، مبانین کلاس کے طلباء ، مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طلباء اور افسران صیغہ جات صدر انجین احمدیہ کے سامنے ایک تقریر فرمائی جس میں مبلغین کو نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا.محترم خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر افضل نے اس نہایت مفید اور اہم تقریر کو قلمبند کیا اور ایڈیٹر فاروق حضرت میر قاسم علی صاحب نے 1911 میں ہدایات زریں" کے عنوان سے شائع کیا.حضور نے اپنی اس تقریر میں مبلغ کے معانی ، اس کے کام اور اس کی اہمیت کے علاوہ مبلغ کے بعض ضروری اوصاف مثلاً مبلغ بے غرض ہو، دلیر ہو ، لوگوں کا ہمدرد ہو.دنیاوی علوم بھی جانتا ہو ، فضول خرچ نہ ہو، عبادات کا پابند ہو، دُعا گو ہو ، انتظامی قابلیت رکھتا ہو ، دشمن کو حقیر نہ سمجھتا ہو، کسی پارٹی میں اپنے آپ کو داخل نہ سمجھے، اپنا علم بڑھاتا رہے.لوگوں سے ملنا جلنا جانتا ہو، اس میں ایشیار کا مادہ ہو ، عقلی دلائل سے آگاہ ہو بچیت و ہوشیار ہو، غلیط نہ ہو ، خود ستائی اس میں نہ ہو ، احباب کے اخلاق پر نظر رکھنے والا اور بے ہودہ بحثوں سے بچنے والا ہو وغیرہ پیش فرمائے.

Page 21

تحریک تعمیر سجد لندن سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی

Page 22

Page 23

انوار العلوم جلد الله تحریک تعمیر مسجد الندان برادران ! السلام عليكم ورحمة ليْكُمْ وَرَحْمَةُ الله وبركاته ! ولایت کی تبلیغ کا کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس عمدگی اور کامیابی کے ساتھ ہو رہا ہے وہ آپ لوگوں سے پوشیدہ نہیں کیونکہ ہمیشہ اس کام کے متعلق رپور میں شائع ہوتی رہتی ہیں میں وقت سے یہ کام شروع کیا گیا ہے ہمارے ولایت کے مبلغین برابر اس امر پر زور دیتے رہتے ہیں کہ اس وقت تک یہ کام کما حقہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنی مسجد نہ ہو اور اپنا مکان نہ ہو.کیونکہ مسجد نہ ہونے سے لوگوں کی توجہ ہمارے کام کی طرف منتقل نہیں ہوتی اور وہ ہمارے کام کو ایک مذہبی تبلیغ نہیں بلکہ ایک پر اسرار تحریک خیال کرتے ہیں اور اپنے مکان کے نہ ہونے کے سبب سے جلدی جلدی نقل مکانی کرنی پڑتی ہے جس کے باعث تبلیغ کا خاص مرکز قائم نہیں ہو سکتا.ہمارے مبلغین کی یہ درخواست واقعی قابل توجہ ہے مگر میرے نزدیک اپنی مسجد کے بنوانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کچھ خاص برکات ہیں جو بغیر مسجد کے حاصل نہیں ہوتیں پس ان کے حاصل کرنے کے لئے مسجد کی تعمیر نہایت ضروری ہے.اور یہ موقع اس کام کے لئے سب سے بہتر ہے کیونکہ اس وقت پونڈ کی قیمت گری ہوئی ہے اور ہم اگر یہاں سے دس روپے بھیجیں تو ولایت میں اس کے بدلہ میں ایک پاؤنڈ مل جاتا ہے.گویا اس وقت روپیہ بھیجنے سے ہمیں ڈیوڑھا روپیہ ملنے کی امید ہے.پس ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسی ماہ میں ایک معقول رقم جس کا اندازہ میں ہزار کیا جاتا ہے مسجد کندن کے لئے یہاں سے بھیجوا دی جائے جو امید ہے کہ وہاں پچاس ہزار کے قریب ہو جاونگی اور اس سے ایک گزارہ کے قابل مسجد اور مختصر مکان بن سکے گا اور میں اس اعلان کے ذریعہ تمام احمدی احباب کو توجہ دلانا

Page 24

الوار العلوم جلد الله ہوں کہ وہ جلد اس رقم کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے اپنے چندے فوراً بھجوا دیں تاکہ اسی ماہ ولایت روانہ کئے جاسکیں.گو اس قدر رقم کا اس قدر قلیل عرصہ میں ہماری جماعت کی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جمع ہونا بادی النظر میں مشکل معلوم ہوتا ہے خصوصاً جبکہ دیکھا جاتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ایک کثیر رقم ماہوار چندہ کے طور پر ادا کرتے ہیں لیکن اس جماعت کے اخلاص اور اس کام کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے مرد اور عورہ میں اس کار خیر کے پورا کرنے میں دلی جوش سے قدم بڑھائیں گے.اور اس امر کو ثابت کر دینگے کہ خدا تعالیٰ کی برگزیدہ جماعتیں جب کسی کام کے لئے ارادہ کر لیتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کو کر کے چھوڑتی ہیں.مومن کے اخلاص اور اس کے عزم کے سامنے دنیا کی کوئی مشکل نہیں ٹھر سکتی اور پیار بھی اس کے سامنے کانی کی طرح اُڑ جاتے ہیں اور دریا پایاب ہو جاتے ہیں پس اسے جماعت احمدیہ کے احباب اتم اس کام کے لئے عزم کر لو اور پختہ ارادہ کے ساتھ اس کے لئے اُٹھو اور پھر خدا تعالیٰ کی قدرت کا تماشہ دیکھو کہ وہ کس طرح تمہاری مدد کرتا ہے کیونکہ یہ کام در حقیقت خدا تعالیٰ کا کام ہے اور تم صرف ایک ہتھیار ہو جسے زبر دست بہتی نے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ہے.میں اس موقع پر ان احباب کو خاص طور توجہ دلاتا ہوں جن کو خدا تعالیٰ نے صاحب ثروت کیا ہے وہ اس امر کو دیکھیں کہ ان کے دوسرے بھائی جو ابھی حق کے پانے سے محروم ہیں کس طرح نام و نمود کی غرض سے دس دس میں ہیں ہزار روپیہ خرچ کر کے ایسے مقامات پر مساجد تیار کراتے ہیں جہاں مساجد کی ضرورت بھی نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے حصول اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ان سے بڑھ کر نہیں تو ان کے برابر تو ہمت دکھائیں.مگر نہیں یہ ایک مالوی کا کلمہ ہے اور مؤمن مایوس نہیں ہوتا.میں یہی کہوں گا کہ بہر حال وہ ان سے بڑھ کر ہمت دکھائیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور آئندہ آنے والی نسلوں کی دُعاؤں کے مستحق نہیں.وہ یاد رکھیں انگلستان وہ مقام ہے جو صدیوں سے تشکیت پرستی کا مرکز بن رہا ہے اور اس میں ایک ایسی مسجد کی تعمیر جس پر سے پانچ وقت ADATA TADATA TADATA اللہ کی صدا بلند ہو کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جس کے نیک ثمرات نسلاً بعد نسل پیدا ہوتے رہیں گے اور تاریخیں ہیں کی یاد کو تازہ رکھیں گی.وہ مسجد ایک نقطہ مرکزی ہوگی جس میں سے نورانی شعاعیں نکل کر تمام انگلستان کو منور کر دینگی.بیشک اس سے پہلے بھی وہاں ایک مسجد قائم ہے مگر وہ ایسے وقت ۱

Page 25

انوار العلوم جلد ۵ تحریک تغیر شود میں بنائی گئی تھی جبکہ اس مسجد کی ضرورت نہ تھی اور صرف اسلام کا نشان قائم کرنے کے لئے اُسے تیار کیا گیا تھا.مگر یہ مسجد ضرورت پڑنے پر تعمیر ہوگی.پس یہی مسجد پہلی مسجد کہلانے کی مستحق ہے.کیونکہ اس کی تعمیر کے پہلے دن سے ہی اس پر لا إِلهَ إِلَّا الله کا نعرہ بلند ہونا شروع ہو جائے گا جبکہ پہلی مسجد سالہا سال تک متقفل اور بند رہی ہے.پس اسے صاحب ثروت احبا بلند حوصلگی سے اُٹھو اور ہمیشہ کے لئے ایک نیک یاد گار چھوڑو تا ابدی زندگی میں اس کے نیک ثمرات پاؤ.وہ ثمرات جن کی لذت کا اندازہ انسانی دماغ کر ہی نہیں سکتا اور یاد رکھو کہ غرباء ہزاروں طریق سے خدمت دین کر کے ثواب کما رہے ہیں.اور اس کام میں بھی وہ اپنے ذرائع کے مطابق یہی کوشش کرینگے کہ اپنے امیر بھائیوں سے آگے نکل جاویں کیونکہ وہ خدمات دین کرتے کرتے بوجھ اٹھانے کے عادی ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ تمام احمدی احباب کے قلوب کو کھول دے اور ان کے حوصلوں اور ذرائع کو وسیع کر دے.اور اس کام کے بہت جلد تکمیل کو پہنچنے کے سامان پیدا کر دے.اللهم امين - مکتبر یہ کہ میں اس حد تک لکھ چکا تھا کہ میں نے قادیان کے احباب کو جمع کرکے چندہ کی تحریک کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ ہزار کے قریب چندہ قادیان سے ہی ہوگیا.دوسرے دن پھر عورتوں اور مردوں میں تحریک کی تو چندہ کی مقدار گیارہ ہزار سے بھی بڑھ گئی اور بارہ ہزار کے قریب پہنچ گئی جس میں سے سات ہزار وصول بھی ہو چکا ہے اور باقی بہت جلد وصول ہو جائیگا.انشاء اللہ اس غریب جماعت سے اسقدر چندہ کی وصولی خاص تائید الہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی.اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے.ان دنوں میں قادیان کے لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا اور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنھوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا ہو.اخلاص تو نیا نہیں پیدا ہوتا.وہ تو دل میں پہلے سے ہوتا ہے مگر اس کے اظہار کا یہ ایک خاص موقع تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ قادیان کے احمدیوں کا اخلاص اُبلنے کے درجہ پر پہلے سے پہنچا ہوا تھا اور صرف بہانہ ڈھونڈ رہا تھا اور مرد اور عورت اور بچے سب ایک خاص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے.عورتوں کا ہی چندہ دو ہزار سے بڑھ گیا اور قریباً سب کا سب فوراً وصول ہوگیا.کئی عورتوں نے اپنے زیور اتار دینے اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دیگر پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دنیا شروع کیا.اور پھر بھی جوش کو دیتا نہ دیکھ کر اپنے وفات یا فتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ

Page 26

دیا.بچوں کے جوش کا یہ حال تھا کہ ایک بچہ نے جو ایک غریب اور محنتی آدمی کا بیٹا ہے مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کرنے کے لئے ملتے تھے ، ان کو میں جمع کرتا رہتا تھا وہ میں سب کے سب اس چندہ کے لئے دیتا ہوں نہ معلوم کن کن اُمنگوں کے ماتحت اس بچہ نے وہ پیسے جمع کئے ہونگے.لیکن اس کے مذہبی جوش نے خدا کی راہ میں ان پیسوں کے ساتھ ان اُمنگوں کو بھی قربان کروا دیا.أَنْبَتَهُ اللهُ نَبَاتَا حَسَنًا.مدرسہ احمدیہ کے غریب طالب علموں نے جو ایک سو سے بھی کم ہیں اور اکثران میں سے وظیفہ خوار ہیں ساڑھے تین سو روپیہ چندہ لکھوایا.اور ان کی مالی حالت کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کے لئے اپنی اشد ضروریات کے پورا کرنے سے بھی محرومی اختیار کرلی.اسی طرح ٹریننگ کلاس کے طلباء نے جن کی کل تعداد اٹھارہ ہے ، ساڑھے تین سو روپیہ چندہ لکھوایا.مدرسہ ہائی کے بچوں نے چھ سو کے قریب چندہ لکھوایا.غرض بچوں نے بھی اس اخلاص کا نمونہ دکھایا جو دوسری اقوام کے بڑوں میں بھی موجود نہیں ہوتا.یہ حال جب عورتوں اور بچوں کا تھا جو وجہ کی علم یا قلت تجربہ کے دینی ضروریات کا اندازہ پوری طرح نہیں کر سکتے تو مردوں کا کیا حال ہو گا.اسے خود قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ایک بڑی تعداد ایسے آدمیوں کی تھی جنہوں نے اپنی ماہوار آمد نیوں سے زیادہ چندہ لکھوایا.جن میں سے ایک معقول تعداد ان لوگوں کی تھی جنھوں نے تین تین چار چار گنے چندہ لکھوایا.بعض لوگوں کا حال مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ نقد پاس تھا انہوں نے دیدیا اور قرض لیکر کھانے اور پینے کے لئے انتظام کیا.ایک صاحب نے جو بوجہ غربت زیادہ رقم چندہ میں داخل نہیں کر سکتے تھے نہایت حسرت سے مجھے لکھا کہ میرے پاس اور تو کچھے نہیں میری دکان کو نیلام کر کے چندہ میں دیا جاوے گوان کی اس درخواست کو میں قبول نہیں کر سکتا تھا.مگر اس سے اس اخلاص کا پتہ لگتا ہے جو انکے دلوں میں موجزن تھا.بعض لوگوں نے سکنی زمینیں چندہ میں دیدیں.غرض بے نظیر قربانی کے ساتھ قادیان کی غریب جماعت نے بارہ ہزار روپیہ کے قریب چندہ لکھوایا اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اس میں سے اکثر حصہ نقد وصول ہو گیا اور لوگوں نے بجائے آہستہ آہستہ چندہ ادا کرنے کے زیورات وغیرہ فروخت کر کے اپنے و عدسے ادا کر دیئے اور باقی بھی عنقریب انشاء اللہ وصول ہو جا وینگے.جَزَاهُمُ اللهُ خَيرًا.میرا قادیان کے حالات کے بیان کرنے سے جہاں یہ مطلب ہے کہ بیرون جات کے احبا"

Page 27

انوار العلوم جلد ۵ کو تحریک پیدا ہو وہاں میرا یہ بھی منشاء ہے کہ میں اس غلط فہمی کو دور کروں جو بعض بیرونی جماعتوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ قادیان کے لوگ دینی کاموں میں حصہ نہیں لیتے.چنانچہ اسی جلسہ پر مجھ سے ایک شخص نے کہا کہ آپ قادیان کے لوگوں کو باہر نکالیں کہ کچھ کام بھی کریں اور چندہ بھی دیں اور بوجھ نہ نہیں.حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ چند معذور آدمیوں کے سوا باقی تمام کے تمام احباب قادیان سخت محنت سے اپنی روزی کماتے ہیں اور اپنے فارغ اوقات کو دین کی اشاعت کے لئے صرف کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے عموماً دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ حصہ خدا کی راہ میں نکالتے ہیں.غرض ان کے اموال اور ان کی جانیں خدا کی راہ میں قربان ہو رہی ہیں.الا مَا شَاءَ اللهُ اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہی کے نقش قدم پر چل کر باہر کی جماعتیں کوشش کریں تو میں ہزار تو کیا چیز ہے ، ایک ماہ میں دولاکھ روپیہ کا جمع ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں.کم سے کم وہ لوگ جن کو قادیان کے احمدیوں پر شکوہ ہے.ان سے میں امید کرتا ہوں کہ اس موقع پر اپنے شکوہ کو عملی طور پر سچا ثابت کر کے دکھا ئیں گے تاکہ ان کے اس گناہ کا بھی کفارہ ہو جاوے جو اپنے بھائیوں پر بدظنی کرکے ان سے سرزد ہوا ہے.قادیان کے چندہ کے ساتھ ہی میں احباب کو یہ بھی خوشخبری سناتا ہوں کہ امرتسر اور لاہور کی جماعتوں نے بھی (جو اس بدظنی سے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے پاک ہیں اور بوجہ قرب اور کثرت تعلقات کے حقیقت سے آگاہ ہیں، خاص اثار سے کام لیا ہے خصوصاً امرتسر نے کہ جہاں کی بالکل غریب اور قلیل جماعت نے دو ہزار سے اوپر چندہ لکھوایا ہے.لاہور کا چندہ ابھی ہو رہا ہے لیکن اس وقت تک جو اطلاع ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دس ہزار روپیہ سے انشاء اللہ اوپر ہی چندہ ہو جاوے گا.فَجَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ- اس رفتار سے میں سمجھتا ہوں کہ گورداسپور، امرتسر اور لاہور اور دوسرے مقامات کے چندے ملکہ یہ میں ہزار کی رقم جس کا میں نے شروع میں اعلان کیا ہے ، ان تینوں ضلعوں سے ہی پوری ہو جاو گی اور احمدیوں کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے میں ڈرتا ہوں کہ اس سے دوسری جماعتوں کو سخت صدمہ ہو گا کیونکہ ایسے اعلیٰ درجہ کے ثواب کا موقع ان کے ہاتھوں سے نکل جاویگا.پس میں اس اعلان کی رقم کو بڑھا کر ایک لاکھ کر دیتا ہوں تاکہ تمام جماعتہا ئے احمدیہ اپنے اخلاص کا اظہار کر سکیں.اور ثواب حاصل کرنے کا موقع پادیں اور یہ رز یہ کچھ زیادہ نہیں ہے کیونکہ اگر گورداسپور، امرتسر اور لاہور کی جماعتیں تمہیں ہزار روپیہ جمع کرسکتی ہیں تو بقیہ جماعتوں کے لئے ستر ہزار روپیہ جمع

Page 28

رابر بیت انوار العلوم جلد ۵ تحریک تعبر مسجد ندان کرنا بہت زیادہ آسان ہے اور اگر ایک ماہ کے اندر یہ جمع ہوجاوے تو ولایت میں یہ رقم قریباً بارہ ہزار پاؤنڈ یا ایک لاکھ اسی ہزار کے قریب نہیں مل جائیگی.جس کو اس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے کہ علاوہ مسجد کی تیاری کے اسی رقم سے آئندہ ولایت کی تبلیغ اور امریکہ کی تبلیغ کے اخراجات بھی نکالے جا سکتے ہیں اور جماعت کی آئندہ کوششیں ایشیا اور افریقہ کی تبلیغ کی طرف منتقل ہو سکتی ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ اس رقم کو ہر ایک احمدی اس طرح پورا کرنے کی کوشش کریگا کہ گویا انس کام کا سب بوجھ اسی پر ہے اور اس اکیلے نے اس کام کو کرنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کام کے پورا کرنے کی توفیق دے اور آپ کی ہمتوں کو بلند اور آپ کی نیتوں کو خالص کرے اور آپ کے کاموں میں برکت دے اور اسلام کی شان کو آپ لوگوں کے ہاتھ پر ظاہر کرے.اللهم انين ثُمَّ امين ثم ايين : خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 29

Page 30

Page 31

انوار العلوم جلد لله قیام توحید کیلئے غیرت قیام توحید کیلئے غیرت ) حضرت خلیفتہ ایسیح الثانی نے ولایت میں احمدیہ مسجد بنانے کے متعلق کے جنوری ۱۹۲۰ شہ کو بعد نماز عصر حسب ذیل تقریر فرمائی ) حضور نے تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ نے بعض باتیں ایسی رکھی انسانی پیدائش میں فطرتی با تیں ہیں کون تو رسم ورواج اور عادات کسی کی طرز پر حال دیتے ہیں مگر ان کی اصلیت نہیں بدل سکتی.مثلاً غصہ ہے یہ ایک فطری امر ہے.یہ اور بات ہے کہ عیسائی کو کسی اور امر پر غصہ آئے.میں یہ تو ممکن ہے کہ ہر قوم کے شخص کو مختلف وجوہ پر غصہ آئے لیکن یہ نہیں کہ غصہ بعد میں پیدا کیا جاتا ہو.کوئی فلسفہ ثابت نہیں کر سکتا کہ غصہ بعد میں پیدا ہوتا ہے یا سکھایا جاتا ہے.ہاں تعلیم اور مختلف اثرات کے ماتحت غصہ کا مقام بدل جاتا ہے.ایک مسلمان کو اس وقت غصہ آئے گا جب اللہ کو بُرا کہا جائے.ایک عیسائی کو غصہ آئے گا مگر اس وقت جب خدا کیے بیٹے کی شان میں کچھ بڑے الفاظ کے جائیں.ایک ہندو کو اللہ کے لفظ پر غصہ نہ آئیگا.بلکہ بعض اوقات کوئی بُری طبیعت کا ہندو اللہ کو بُرا کہ جائیگا مگر اس کو اس وقت غصہ آئے گا جب بر تما، شو و غیر ناموں کو برا کہا جائے.اسی طرح ایک مسلمان کو اس وقت غصہ آئیگا جب بیت اللہ کو گالی دی جائے لیکن ایک ہندو کو بیت اللہ کے بُرے کیے جاتے وقت بُرا معلوم نہ ہو گا.ہاں جب بنارس کی ہتک کی جانے تب اس کو جوش آئے گا.مگر ایک عیسائی کا غصہ ان دونوں سے علیحدہ ہے وہ نہ بیت اللہ کو بُرا کہنے سے ناراض ہوتا ہے نہ بنارس کو.بلکہ اس کو اس وقت غصہ آتا ہے

Page 32

انوار العلوم جلد ۵ قیام توحید کیلئے غیرت جب ناصرہ کو برا کہا جاتا ہے.گھر ایک یہودی کو اس وقت طیش آتا ہے جب پیر مسلم کو بُرا کہا جائے دیکھو غصہ میں فرق نہیں.غصہ سب کو آتا ہے.مگر غصہ کے آنے کے مقامات میں اختلاف ہے.غصہ کے آنے میں افریقہ کے حبشی اور انگلستان، امریکہ کے سفید منہ والے دونوں برابر ہیں.مگر ان سب کو ایک ہی بات پر غصہ نہیں آتا بلکہ ان کو غصہ آنے کے مقامات علیحدہ علیحدہ ہیں.ایک ہندو ایک بکرے کو ذبح ہوتا دیکھ کر رحم کھاتا ہے.مگر ایک مسلمان بکرے کو ذبح ہوتا دیکھ کر رحم کے جذبہ سے متاثر نہیں ہوتا.کیونکہ وہ اس کو اپنی خوراک خیال کرتا ہے اور ایک قاعدہ جاریہ خیال کرتا ہے لیکن ایک ہندو ایک جانور کو ذبح ہوتے دیکھ کر رحم کائے گا.مگر ایک مسلمان کو اس جرم پر مارتے ہوئے اس کے دل میں رقم پیدانہ ہوگا.پس عادت ، رسم و رواج او تعلیم وغیرہ رح کی تعلیم نہیںکرتے کیونکہ وہ فطری جذبہ ہے ہاں یہ باتیں رحم کے مقام کی تعلیم کرتی ہیں.پس رحم فطرتی امر ہے لیکن رحم کے مقام فطری امر ہیں مثلاً نہیں ایک شخص عیسائی ہو جائے یا مسلمان ہو جائے.تو پہلے جن باتوں کی مہتک سے اس کو غصہ یا جن چیزوں پر ظلم اس کے رحم کو کھینچتا تھا اس میں فرق آکر اس کے مقام بدل جائیں گے.ان فطرتی جذبات میں سے ایک امر غیرت بھی ہے.فلسفی کہتے ہیں کہ غیرت سکھائی جذ بہ غیرت جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ بعض علاقے اس قسم کے ہیں کہ وہاں بہن کی شادی بھائی سے ہو جاتی ہے مگر غیرت کے متعلق ان کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ غیرت کا مقام سکھایا جاتا ہے اور ہر جگہ غیرت کے اظہار کے لئے جدا جدا مقام ہوتے ہیں بعض لوگ عزت وناموس کے لئے غیرت مند نہیں ہوتے.بعض مال کے لئے ہوتے ہیں، بعض مال کی پرواہ نہیں کرتے مگر ملکوں کے لئے مرتے ہیں.ان کی عزت و آبرو جائے ، ننگ و ناموس مٹے تو مٹے ، مگر وہ اس بات کو گوارا نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص ان کے ملک کی زمین کے چپہ پر بھی قابض ہو.مگر ایک اور لوگ ہوتے ہیں جن کو مال و عزت ، تنگ دملک کے لئے کوئی غیرت نہیں ہوتی.البتہ وہ تجارت پر جان لڑا دیتے ہیں.یورپ کے دفلسفی اس نکتہ کو نہیں سمجھتے جو کہتے ہیں کہ یہ جذبات پیدا کئے جا سکتے ہیں اور غیرت وغیرہ شکھائی جاتی ہے.کیونکہ یہ باتیں ہر قوم میں فطرتاً پیدا شدہ ہوتی ہیں مگر ان کے مقامات سکھائے جاتے ہیں.پس یہ امور فطرتی ہیں اور ان کے استعمال نسبتی امور ہیں.ہاں تو غیرت جو ایک فطرتی جذبہ ہے کئی رنگ میں ظاہر ہوتی ہے جو چیز جس کو محبوب ہوتی ہے ، وہ اسی کے لئے غیرت دکھاتا ہے ایک دلیر اور شجاع کو مال کے چوری ہو جانے ازراعت کے برباد ہونے ، تجارت کے خراب ہونے سے غیرت نہیں آئیگی.مگر جب وہ میدان جنگ میں جائیگا تو اس کی غیرت جوش میں آئیگی اور اس.

Page 33

انوار العلوم جلد ۵ ± ۱۳ شجاعت کے کام کرائیگی.ایک دوسرا شخص ہے جسے مال سے محبت ہے وہ اس کے لئے غیرت دکھائے گا.ایک اور شخص ہے جو تجارت سے دلچسپی رکھتا ہے جب وہ کسی کو تجارت میں اپنے سے بڑھتا دیکھیے گا تو وہ اس سے بڑھنے کے لئے نقصان گوارا کر کے آٹھ آنے کی چیز کو چار آنے پر فروخت کر دیگا تو غیرت ایک فطرتی بات ہے گو اس کے استعمال کے مقام علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر ایک مذہب اور ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک میں اس کے ظاہر ہونے کے جدا جدا مقائم ہوتے ہیں.مثلاً نبعض ملک ننگ و ناموس کی پرواہ نہیں کرتے.مثلاً یورپ میں اس کی کچھ چنداں پرواہ نہیں کی جاتی.اگر کوئی ایسا واقعہ ہو تو عدالت میں چارہ جوئی کرنے پر عدالت چار سو یا پانسو روپیہ دلوا دیگی.گویا اس ننگ و ناموس کی خرابی کا معاوضہ مل گیا.مگر ہمارے ملک میں جان دینا اور لینا اس معاملہ میں لوگ ایک معمولی بات خیال کرتے ہیں.تو یورپ کے لوگ تنگ ناموس کی استقدر قیمت نہیں لگاتے جتنی ایشیائی.البتہ ملک پر وہ لوگ جان دیتے ہیں.کیونکہ ان لوگوں کو ملک سے زیادہ لگاؤ ہے.مگر ایک مسلم کے لئے ایک مذہبی آدمی کے لئے مذہب غیرت کی چیز ہے.مسلمان کی غیرت اس کو جب غیرت آتی ہے تو مذہبی معاملہ میں غیرت آتی ہے اور اس کے ماتحت جو کام مذہب کا اس سے کرانا ہو.وہ اس کو کریگا سوائے اس کام کے جس میں خدا کی طرف سے روک پیدا کر دی جائے.اسی غیرت کے ماتحت بڑے بڑے کام ہوئے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں مسلیمہ کذاب نے جھوٹا نبوت کا دعوی کیا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ بھی کیا تھا اور حضور کی زندگی میں نصف ملک کا مطالبہ کیا تھا.اس وقت حضور کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی.اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ میں تو اس کو یہ بھی نہیں ڈونگا جب حضور کی وفات ہوئی تو آپ کی وفات سے اس نے فائدہ اُٹھانا چاہا.اس کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی.بہت مسلمان مرے اور مسلمانوں کو فتح نہ ہوئی.اس وقت سوال پیدا ہوا کہ کیا رنا چاہئے.اس وقت کئی آراء ہوئیں.لیکن غیرت سامنے آئی اور اس نے کہا کہ بیشک ہم کمزور ہیں اور تعداد میں بھی تھوڑے ہیں یہ سب کچھ ہے مگر میں نہیں رہتی اگر تم پیچھے ہٹ گئے.وہ لوگ جو اپنے آپکو اسلام کیلئے بیچ چکے تھے اس جذبہ غیرت کے ماتحت انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو تم ہمیں ہاتھ پیر باندھ کر قلعہ کے اندر ڈال دو.چنانچہ کتنے ہی آدمیوں کو اسی طرح قلعہ کے اندر ڈال دیا گیا.جن پر بہت سے کفار جھپٹ پڑے اور ان میں سے کتنے ہی آدمی مر گئے اور باقیوں نے جوش میں ان تمام کندوں کو توڑ دیا اور مرتے مارتے قلعہ

Page 34

رالعلوم.۱۴ قیام توحید کیلئے غیرت کے دروازے میں پہنچ گئے اور اُسے کھول دیا جس سے مسلمانوں کا لشکر قلعہ کے اندر گھس آیا اور مسلمہ ہارا گیا اور تھوڑی دیر میں مسلمانوں کو کامل فتح حاصل ہو گئی.اب وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے باوجود دشمن کے زیادہ اور قوی ہونے کے مسلمان کا میاب ہوئے.وہ غیرت تھی جس کے ماتحت اتنا بڑا کام ہوا اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی مذہبی حکومت قائم ہو گئی.غیرت کی مثال اس زمانہ میں بھی نہیں ایک نظیر ملتی ہے.یونان اور ترکوں کی ایک فعہ جنگ ہوئی.یونانیوں کا گمان تھا کہ ہمیں بیرونی ممالک کی مدد سے ترکوں کے مقابلہ میں فتح حاصل ہوگی.یونانیوں کے پاس ایک قلعہ تھا جو ایک پہاڑی پر واقع تھا اور ایسے موقع پر تھا کہ وہاں سے اگر گولہ باری ہوتی تو تمام یونان کو جانے والے راستوں پر گولے پڑتے تھے.یورپ کی وہ حکومتیں جنہوں نے یونان کو انگیخت کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ چھ مہینہ تک پہ قلعہ فتح نہیں ہو سکتا اور اتنے عرصہ میں روس وغیرہ حکومتوں کی طرف سے یونانیوں کے لئے ملک پہنچ جائیگی اور پھر ترکوں کا مار لینا کچھ بھی مشکل نہ ہو گا.ان لوگوں میں بھی مذہب کی ظاہری حالت کے لئے ایک غیرت تھی.ترکوں کا ایک مشہور جرنیل (جس کا نام غالباً ابراہیم پاشا تھا ، ترکوں کی فوج کا افسر تھا.اس نے حکم دیا کہ یونان کی طرف بڑھو جب لشکر بڑھا تو یونانیوں کی طرف سے اس شدت سے گولہ باری ہوئی کہ قدم اُٹھانا مشکل ہوگیا اور پہاڑی کی بلندی کی وجہ سے اس پر سیدھا چڑھنا مشکل تھا اور سپاہیوں نے درخواست کی کہ ہمیں بوٹ اُتارنے کی اجازت دی جائے مگر افسر نے اجازت نہ دی اور خود ان کے لئے نمونہ بن کر آگے بڑھا.اس گولیوں کے مینہ کا مقابلہ کرنا آسان نہ تھا.تھوڑی ہی دور چل کر گولی لگی اور جرنیل زخمی ہو کر گرا.اور اس کے گرتے ہی سپاہی اس کو اُٹھانے کے لئے آگے بڑھے.مگر اس نے انہیں کہا کہ تم کو خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگاؤ اور یہیں پڑا رہنے دو.اگر تم نے مجھے عزت کے ساتھ دفن کرتا ہے تو اس کا ایک ہی نظام ہے اور وہ اس قلعہ کی چھت ہے.پس یا تو مجھے اس جگہ دفن کردو ورنہ یہیں پڑارہنے دو کہ چیلیں اور کتے میرا گوشت نوچ کر کھا جاویں.چونکہ اس افسر کا تعلق فوج سے بہت اعلیٰ درجہ کا تھا.اس کی یہ بات ایک چنگاری بن گئی.جس نے سپاہ کی غیرت کو بارود کی طرح آگ لگا دی.اور اب ان کے سامنے سوائے اس قلعہ کی فتح کے اور کوئی مقصد نہ رہا.اور وہ لوگ ایک منٹ میں کچھ کے کچھ بین گئے اور چیخیں مارتے ہوئے اسی آگ کی بارش میں قلعہ کی طرف بڑھے اور اس طرح قلعہ کے اوپر چڑھ گئے.لکھا ہے کہ ان کے ہاتھوں کے پپوٹے اور ناخن تمام پتھروں سے رگڑ کر اڑ گئے.مگر اس

Page 35

انوارالعلوم جلد ۵ ۱۵ قیام توحید کیلئے غیرت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قلعہ فتح ہوگیا اور ترکوں کا وہاں جھنڈا گڑ گیا اور اس پاشا کو وہاں دفن کیا گیا ہیں جب غیرت آتی ہے تو کوئی بات انہونی نہیں رہتی.ہماری جماعت بجو احمدی جماعت ہے اس کو مذہب کے لئے ہماری جماعت کی غیرت غیرت دی گئی ہے.لوگوں کو تجارت کے لئے غیرت ہے نبات کے لئے غیرت ہے.بہت لوگوں کو ملک کے لئے غیرت ہے.مگر جو خدا کی جماعتیں ہوتی ہیں انہیں لا اله الا الله کے لئے غیرت ہوتی ہے.ملک جاتے ہیں تو جائیں، حکومتیں مٹتی ہیں تو مٹیں، زراعتیبی برباد ہوتی ہیں تو ہوں ، تجارتیں تباہ ہوتی ہیں تو ہوں، زمینیں چھپتی ہیں تو چھن جائیں اور اگر ظالموں کی طرف سے تنگ و ناموس پر حملہ ہو اور وہ جائے تو چلی جائے مگر وہ ہرگز نہیں دیکھ سکتے کہ LED A NEW NETTE اللہ مٹ جائے.اس کی حفاظت کے لئے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں.اگر وطنوں سے بے وطن ہونا پڑے تو کچھ پرواہ نہیں.اگر مال چھنتے ہیں تو کچھ مضائقہ نہیں.عدے اور امارت میں لی جائیں تو کچھ حرج نہیں.وہ ان سب چیزوں کو چھوڑ نے کے لئے تیار ہوتی ہیں.اگر نہیں چھوڑتیں اور نہ چھوڑنے کے لئے تیار ہوتی ہیں تو وہ ایک ہی چیز ہے یعنی DAN ALI NADENT الله.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عرب کے نمائندے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ کو دولت کی تمنا ہے تو عرب کی آدھی دولت حاضر کرتے ہیں، اگر عورت چاہتے ہیں تو جو عورت پسند ہو وہ پیش کرتے ہیں.اگر حکومت چاہتے ہیں تو ہم بادشاہ ماننے کو تیار ہیں.مگر آپ ہمارے معبودوں کو بُرا کہنا چھوڑ دیں.گویا کہ وہ بتوں کی غیرت کے لئے تنگ و ناموس بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت بھی دیکھنے کے قابل ہے، فرماتے ہیں اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دو تو بھی میں شرک کے خلاف وعظ کہنے سے باز نہ رہوں گا رسیرت ابن هشام عربی عبادت ۱۵ مطرود مصر ۱۹۳۶) دونوں نے غیرت دکھائی.مگر سیتھی غیرت غالب آئی.وہی بیچتی غیرت جو لا اله الا الله کے لئے دکھائی گئی.سب سے بڑی غیرت ma تو سب غیر توں میں سے بڑی غیرت مذہب کی ہوتی ہے اور باطل مذاہب والے بھی اپنے مذاہب کے لئے غیرت دکھاتے ہیں.یورپ کے عیسائیوں میں لیور فیلم کومسلمانوں کے قبضہ میں دیکھ کر غیرت پیدا ہوئی.کئی سوسال تک لاکھوں کی تعداد میں وہ یورپ سے یروشلم کے فتح کرنے کے لئے آئے.آخر اسی غیرت کے ماتحت انہوں نے ایک بچوں کی فوج تیار کی.کیونکہ انجیل میں انہوں نے پڑھا تھا کہ خدا کی بارش است

Page 36

انوار العلوم جلد ۵ 14 میں بچے داخل ہوتے ہیں.اس سے انھوں نے قیاس کیا کہ مکن ہے کہ ہماری متواتر شکستوں کا باعث ہمارے گناہ ہوں.اس لئے مناسب ہے کہ ایک بچوں کا لشکر تیار کریں.چنانچہ وہ لشکر تیار ہوا جس میں دس دس برس تک کے بچے شامل کئے گئے انہوں نے کام تو کیا کرنا تھا، رستہ میں ہی مرگئے.مگر اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بھی اپنے مذہب کی کہاں تک غیرت تھی یہ غیرت انہوں نے اس لئے دکھائی کہ وہ یور و مسلم کو مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں دیکھ سکتے تھے.تو بہت دفعہ غیرت باطل کے لئے بھی جوش میں آتی ہے.مگر جو غیرت حق کے لئے ہوتی ہے وہ تمام روگوں اور بطالتوں کو خس و خاشاک کی طرح دُور کرتی بلکہ سمندروں کو چیرتی اور پہاڑوں کو کو رستہ سے دُور کر دیتی ہے.اسی غیرت حقہ کے ماتحت بیچے لوگ صداقت کے جھنڈے لیکر دوڑتے ہیں کہ ہمارے پیچھے خدا کے مقابلہ میں جھوٹے خداؤں کی کیوں پرستش ہوتی ہے.ہماری جماعت کی غیرت کا ثبوت ہماری جماعت نے اسی غیرت کے ماتحت خدا کے فضل سے کام کیا ہے اور بڑا کام کیا ہے ہماری جماعت کوئی مالدار جماعت نہیں لیکن جو کچھ خدا کے فضل سے خدا کے پیچھے دین اسلام کے لئے ان غربیوں نے کیا ہے وہ مسلمانوں کی مالدار جماعتیں بھی نہیں کر سکیں.افریقہ کے مغربی اور شرقی کنارے میں اس کی آوازہ پہنچی.سیلون اور ماریشس میں اس کی ندا پہنچی.امریکہ میں یہ پہنچانا چاہتے ہیں.لندن میں ان کا مشن قائم ہے.یہ تمام کام ہماری حیثیت کے نہیں بلکہ اس تغیرت کے ہیں جو خدا نے ہمارے سینوں میں بیچنے مذہب کی خدمت کے لئے پیدا کی ہے.پیں ان کاموں کو مذہبی غیرت ہی آگے آگے لئے جارہی ہے.یہ غیرت ہی کا جذبہ ہے جو ان تمام باروں اور تمام وقتوں کو محسوس نہیں ہونے دیتا.یہ خدا کا فضل ہے اور یہ خدا ہی کا کام ہے کہ وہ ہم سے یہ کام لے رہا ہے.ورنہ کیا وہ مقامات جو شرک کا مرکزہ ہیں اور کجا خدا کے فضل سے وہاں سینکڑوں لوگ اسلام کو قبول کر رہے ہیں.یہاں ہمارے مبلغ جہاں جاتے ہیں تو سال میں دو چار کسی ایک جگہ سے لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں.مگر وہاں ہر ہفتہ میں خدا کے فضل سے لوگ اسلام قبول کرتے ہیں.پس یہ جو کچھ ہے خدا ہی کے فضل سے ہے، خدا نے وہاں کے لئے تمہاری غیرت کو دیکھا.اس لئے نمایاں بدلے دیئے.گورنمنٹ انگریزی اور ہم انگلستان کفر کا مرکز ہے.ہر ایک احمدی جو ہندوستان میں ہے.وہ گورنمنٹ انگریزی کا وفادار اور اگر وقت پڑے تو اس

Page 37

انوار العلوم جلد ۵ قیام توحید کیلئے غیرت کے لئے جان دینے کو تیار ہے.کم از کم میں تو اپنے اندر یہ شرح صدر پاتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ کے لئے مجھے جان دینا پڑے تو میں خوشی سے دوں مگر باوجود اس کے ہم ان کے مذہب کے دشمن ہیں نادان ہمیں کہتے ہیں کہ ہم خوشامدی ہیں.مگر ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم سے بڑھ کر دنیا میں عیسائیت کا کوئی دشمن نہیں.میں نے ایک دفعہ وائسرائے کو لکھا تھا کہ ہماری حالت اور دوسروں کی حالت میں فرق ہے.ان کو آپ کے مذہب سے عناد نہیں.اگر وہ وفادار ہوں تو ہو سکتے ہیں.ہم لوگ عیسائی مذہب کے سب سے بڑے دشمن ہیں.مگر با وجود اس کے برٹش گورنمنٹ کے سب سے زیادہ وفادار ہیں.جس کا ثبوت ہر دفعہ اور ہمیشہ انشاء اللہ لے گا پس ہماری وفاداری دوسروں سے زیادہ قیمتی ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ مذہبی حیثیت میں دُنیا میں عیسائیت اور احمدیت جمع نہیں ہو سکتے جب تک دنیا میں ایک بھی عیسائی ہے یا غیر مذہب کا انسان ہے کوئی سچا احمدی تبلیغ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا.عیسائیت کے سب بڑے مرکز پر ہمارا حملہ یورپ کی تمام اقوام میں سے انگلستان کے لوگوں کو مذہب کا بہت خیال ہے.دنیا میں جس قدر عیسائی مذہب انگلستان کے ذریعہ پھیلا ہے اس کے مقابلہ میں دوسرے ممالک کے ذریعہ بہت کم عیسائیت کی تبلیغ ہوئی ہے.امریکہ کی آبادی بھی آدھی سے زیادہ انگریز ہے.چین، جاپان اور افریقہ وغیرہ ملکوں میں کروڑوں اور ہندوستان میں لاکھوں لوگ انگریزوں کے ذریعہ عیسائیت میں داخل ہوئے ہیں.پس انگلستان جو عیسائیت کا گڑھ ہے.اس پر ہم نے حملہ کیا ہے یعنی ہمارے مبلغ وہاں پہنچے ہیں.ہمارے حملے لوہے کی تلوار سے نہیں بلکہ دلائل کی تلوار سے ہیں.وہ ہمارے مذہبی منی لفوں کا قلعہ ہے.وہاں ہم نے سپاہی بھیجے ہیں.ان کے لئے سامان کی ضرورت ہے.سامان میں سب سے پہلے قلعہ کے مقابلہ میں قلعہ ہی ہونا چاہئے.یہ قاعدہ ہے کہ مورچہ کے مقابلہ میں جب تک مورچہ نہ ہو تو کامیاب مقابلہ نہیں ہو سکتا.جو فوج میدان میں ہو وہ مورچہ بند فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس بات کو مد نظر رکھ کر ہمارے مبلغوں نے وہاں مسجد بنانے کی تحریک بارہا کی ہے اور مذہب کا قلعہ مسجد ہی ہوتی ہے جس کے مناروں سے پانچ وقت اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إلا لله کے ساتھ اہل باطل پر گولے پھینکے جاتے ہیں.دو ہماری جماعت کی غیرت کا ثبوت پس ہمارے مبلغوں نے مسجد کے لئے اصرار کیا ہے جب سپاہی وہاں موجود ہیں اور تم وہاں فتح حاصل کرنا چاہتے ہیںتو

Page 38

انوار العلوم جلده (A قیام توحید کیلئے غیرت فتح کے لئے سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان سامانوں میں سے سب سے بڑا سامان ایک مسجد کا ہوتا ہے.خدا نے اس وقت ہمارے لئے بہت آسانی پیدا کر دی ہے.یعنی صرافی کے تغیرات کے ماتحت اگر ہم دس روپیہ بیاں دیں تو وہاں پندرہ روپیہ کا پونڈ نہیں مل جاتا ہے اور خدا تعالے نے میرے دل میں بڑے زور سے تحریک کی ہے کہ اس کام کو شروع کیا جاوے.اور یہ تحریک مجیب طرح ہوئی ہے.کل جب میں ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے آیا تو مجھے خیال ہوا کہ پانچ سات ہزار روپیہ جمع کرکے ولایت بھیجدیا جاوے کہ احمدیہ مسجد کا انتظام ہو.مگر جب ظہر کے بعد میں ان دوستوں کو جو مسجد میں موجود تھے، یہ تجویز سنانے لگا تو بجائے پانچ سات ہزار کے میرے منہ سے نکلا کہ پندرہ ہزار کی تحریک کی جائے اور قرض کے طور پر جماعت سے لیکر یہ روپیہ بھیجدیا جائے.پھر آہستہ آہستہ ادا ہو جائے گا.اس وقت چند دوست مسجد میں تھے.اسی وقت چندہ شروع ہو گیا اور چھ سو روپیہ اُسی وقت ہو گیا گھر جا کر جب میں نے والدہ اور اپنی بیبیوں سے ذکر کیا تو دوسو وہاں ہوا.پھر جب میں مضمون لکھنے لگا تو بجائے پندرہ کے میں ہزار سکھا گیا پہلے خیال تھا کہ قرض لیا جائے لیکن جب میں مضمون لکھ چکا تو دیکھا کہ مضمون تو مکمل ہو گیا ہے اس میں آگے لکھنے کی گنجائش نہیں.لیکن اس میں قرض کی بات رہ گئی ہے.میں نے ہر چند چاہا کہ کہیں اس کو داخل کروں مگر اس کے درج کرنے کی کوئی جگہ نہ ملتی تھی.اس سے معلوم ہوا کہ یہ خدا ہی کا تصرف ہے.کل شام کے وقت کچھ دوست مسجد مبارک میں جمع ہوئے، وہاں تحریک کی اور آج عورتوں میں تحریک کی تو مجھے بتلایا گیا کہ آٹھ ہزار کے وعدے ہو چکے ہیں جس میں سے بہت سی رقم وصول بھی ہو چکی ہے.اس حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان سے ایک معقول رقم وصول ہوگی اور اب آپ صاحبوں کو اسی کے لئے جمع کیا گیا ہے جب یہ تحریک با ہر جائیگی تو انشا شد ممکن ہے کہ بعض کے دل میں یہ خیال پیدا ہندوستان اور ولایہ کے اخراجات کی نسبت ہو کہ میں ہزار روپیہ کی لاگت سے وہاں جو عمارت بنے گی وہ بہت عظیم الشان ہوگی اور یہ ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک اعراف ہے، تو اس کے متعلق یاد رکھو کہ انگلستان کا ملک ہمارے ملک کی طرح نہیں ، اگر یہاں ایک روپیہ میں ایک چیز ملتی ہے تو وہاں وہی چیز پندرہ روپیہ کی ہے.اسی نسبت سے وہاں مزدوری کی گرانی ہے.کیونکہ ایک روٹی آٹھ آنے میں آتی ہے اور ایک انڈا چھ آنہ میں ملتا ہے نہیں جیتنگ

Page 39

انوا را اعلوم جلد الله 19 قیام توحید کیلئے غیرت مزدور ایک معقول رقم نہ لے اس کا کیسے گزارہ ہو سکتا ہے.اس بات کو مد نظر رکھ کر دیکھو.یہ ہمارے تیں ہزار جن کا پچاس ہزار بنتا ہے ، اس سے جو عمارت بنے گی وہ وہاں کے لحاظ سے ایک نہایت چھوٹی سی مسجد ہوگی.اگر یہاں اس لاگت کی مسجد بنائی جائے تو موجودہ حالت میں یقیناً اسراف ہوگا مگر ولایت میں اسراف نہیں پیس چونکہ وہاں مسجد بنے گی ، اس لئے وہاں کے متعلق ہی اندازہ ہوگا.اس مسجد (مسجد اقصی کے برابر کی مسجد اگر یہاں بنائیں تو سات آٹھ ہزار روپیہ میں بن سکتی ہے لیکن اگر اتنی بڑی مسجد وہاں بنائیں تو ڈیڑھ دو لاکھ میں تیار ہوسکتی ہے.یہ مسجد جس کیلئے چندہ جمع کیا جا رہا ہے تین چار مرلے کی ہوگی اور چھوٹا سا صحن ہوگا.اس میں معمولی گزارہ کے لائق عمارت ہوگی اور نیز یہ مسجد لندن میں نہیں ہوگی بلکہ لندن سے کسی قدر فاصلہ پر ہوگی.علاوہ انہیں جب مسجد بن جائیگی تو وہ اپنا مکان ہو گا جس کو مسجد نہ ہونے کے نقصان روز برتنے کی ضرورت نہ پڑیگی اور مکان بدلنے کا وہاں بڑا اثر پڑتا ہے.تین برس چودھری صاحب وہاں رہے، ان کو ہمیشہ مکان بدلنے پڑتے تھے جس کا اثر ان کی تبلیغ پر بہت پڑا.مکان تبدیل کرنے کے متعلق یہ نہ خیال کرو جیسے یہاں تشھید کے دفتر یک چلے گئے.بلکہ لندن ایک سو میل لمبا شہر ہے ایسا سمجھو جیسا یہاں سے گجرات.اب لندن میں مکان بدلنے کے یہ معنے ہیں کہ جیسے یہاں سے ایک مولوی گجرات چلا جائے.یا گجرات والوں کو کہا جائے کہ مت گھبراؤ مولوی تمہارے پاس ہیں.یعنی قادیان میں ہیں.جس طرح قادیان میں مولوی ہونے سے گجرات والوں کو تسلی نہیں، اسی طرح لندن کی حالت ہے.ایک جگہ اگر ایک شخص رہتا ہے تو وہاں لوگوں پر اثر پڑا ہے اور پھر وہ جگہ چھوڑ دینی پڑی تو دوسری جگہ جانے سے اس جگہ کے لوگوں پر سے تمام اثر زائل ہوگیا.پھر مکان اپنا نہ ہونے کے باعث متعصب لوگوں سے بہت نقصان پہنچتا ہے.مثلاً ایک جگہ چودھری صاحب رہتے تھے ، جنگ شروع تھی، ایک نو مسلم شخص جس کا نام جرمن زبان میں تھا آیا.صاحب مکان نے کہا کہ یا تو اس کو نکالو با میرا مکان خالی کر دو.چودھری صاحب نے کہا کہ میں کیسے ایک شخص کو روک سکتا ہوں جبکہ میں آیا زی اس غرض سے ہوں کہ لوگوں کو بلاؤں اور تبلیغ کروں.غرض ایک تو مکان بدلنے سے وہ دلچسپی لوگوں میں پیدا نہیں ہو سکتی یا قائم نہیں رہ سکتی جو پیدا ہو گئی ہو.دوسرے متعصب آدمی چھوٹی چھوٹی باتوں پیر مکان خالی کرانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ سوسو میل کا چکر کاٹ کر جیسے یہاں سے گجرات یا گوجرانوالہ یا فیروز پور، نہ روز ملنے کے لئے مبلغ کے پاس آسکتے ہیں نہ مبلغ ان کے پاس جا سکتا د چوہدری فتح محمد صاحب سیال

Page 40

ہے.غرض اس سے تبلیغ کے کام میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے.اسی سے قیاس کرلو کہ جب سے مکان چار پانچ سال کیلئے کرایہ پر لیا گیا ہے ، ہمارے کام میں جلد جلد ترقی ہو رہی ہے.پہلے دو تین سال میں گیارہ شخص مسلمان ہوئے تھے اور اب سو سے بھی زیادہ ہیں.مگر ایک سال کے بعد مکان خالی کرنا پڑیگا اور نیا انتظام کیا جائیگا.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یک تخت یہ ترقی ترک جائیگی بعض کہیں گے کہ اب جو مبلغ گئے ہیں وہ ٹھیک نہیں.لیکن یہ اس مکان کے رتر و بدل کا نتیجہ ہوگا.اس کے علاوہ مسجد کے نہ ہونے کا ایک اور بھی اثر ہے کہ جن لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے.ان میں سے بعض مسلمان ہونے کو تیار ہوتے ہیں.مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا مکان بھی نہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی جماعت نہیں.پھر وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب وہ اپنے لوگوں سے علیحدہ ہوتے ہیں تو ان کو نئی سوسائٹی کی ضرورت ہوتی ہے.مگر وہ ان کو سوسائٹی خیال نہیں کر سکتے.جبکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ چند دن کے مہمان ہیں.لیکن جب وہ مکان دیکھیں گے تو یقین کرینگے کہ یہ ایک سوسائٹی ہے.ہماری جماعت کا جوش ہیں ان حالات کے ماتحت مسجد کا ہونا ضروری ہے.اس بات کو خوب یاد رکھو کہ وہ جگہ کفر و ضلالت کا قلعہ ہے جس طرح یونان کے قلعہ کے فتح کرنے کے لئے ترکوں نے جوش دکھایا.اس سے کہیں بڑھ کر لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کے قلعہ کے قیام کے لئے تم جوش و خروش دکھاؤ.سو ہماری جماعت میں اس جوش کی خدا کے فضل سے کمی نہیں.قادیان کے وہ احباب جنہوں نے ابھی اس میں کوئی حصہ نہیں دیا وہ بھی دیں.یا جو اپنے چندے میں کچھ بڑھا سکتے ہیں بڑھا کر اس کسر کو پورا کر دینگے.میں خیال کرتا ہوں کہ اگر یہی جوش جو یہاں کے احباب میں ہے باہر اسی شان سے قائم رہا تو یہ رقم بہت جلد پوری ہو جائیگی.یہاں تو بچوں میں اتنا جوش ہے جس کی حد نہیں.ایک بچہ نے جو کسی امیر کا لڑکا نہیں بلکہ ہاتھ سے محنت کرنے والے مزدور کا لڑکا ہے، اس نے ساڑھے تیرہ روپے مجھے دیئے اور بتایا کہ میرے والد جو پیسے مجھے خرچ کے لئے دیتے رہے ہیں وہ میں جمع کرتا رہا ہوں جس کی مجموعی رقم یہ ہے جو میں مسجد کے لئے دیتا ہوں.خدا جانے اس کے دل میں کیا کیا جوشی ہوں گے اور اس روپیہ سے کیا کیا کام لینے چاہتا ہو گا.لیکن اس نے اپنے اس مقصد پر جو تین چار سال سے اس کے ذہن میں تھا اور جس کے..لئے وہ پیسہ پیسہ جمع کر رہا تھا چھری پھیر دی.یہ ایک اعلیٰ درجہ کے جوش اور بہت کی بات ہے.

Page 41

۲۱ قیام تو حید کیلئے پھر میں دیکھتا ہوں کہ بظاہر اپنی بہت سے بڑھ کر لوگ حصہ لے رہے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان میں کام کرنے والی روح موجود ہے.ان کے لئے دوہرا ثواب ہو گا.ایک تو یہ جتنا زیادہ دینگے اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ ثواب دیگا ، دوسرے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَلدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِل کہ لوگوں کو نیکی کی طرف دلالت کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا نیکی کرنے والے کو جو لوگ اس جماعت کے چندہ کی مقدار کوسن کر زیادہ چندہ دینگے اس کے زیادہ چندہ دینے کے عوض میں اللہ تعالیٰ قادیان والوں کو بھی ثواب دیگا کیونکہ انہوں نے اس کام میں ابتداء بھی کی ہے اور جو دے رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ بہت حد تک اپنے نفسوں کو قربان کر کے دے رہے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے اخلاص کا خدا کے فضل سے مقام بہت بلند ہے.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اس کے اخلاص اور حوصلہ میں وسعت دی اگر اس جماعت کے سوا دوسرے لوگوں کے امراء کا بھی مجمع ہوتا تو مشکل سے ایسے کام کے لئے اسقدر چندہ جمع ہوتا.مگر یہاں تو نہ صرف مردوں نے بہت دکھلائی بلکہ عورتوں نے بھی ہمت دکھلائی.آج صبح وہ جمع ہوئیں.ان کا چندہ بھی دو ہزار سے اوپر جمع ہوگیا ہے.بہت نے اپنے زیور اتار اتار کر دیدیئے.جب میں مضمون لکھنے لگا اور اس میں تیس ہزار چندہ لکھا گیا تو میں نے چاہا کہ اپنی جماعت کے امراء کو توجہ دلاؤں.چنانچہ میں نے اس میں لکھا کہ غیر احمدی امراء مساجد کی تعمیر پر بڑی بڑی رقوم خرچ کر دیتے ہیں.کیا آپ اتنا چندہ نہ کرینگے ، بلکہ آپ ان سے بڑھ کر چندہ دینگے.گھر ایک خدائی تصرف نے مجھ سے یہ فقرہ بھی لکھوا دیا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے غرباء احمدی بھائی.آپ کو اس امر میں بھی شکست دینے کی کوشش کرینگے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہی کو یہ وہ منظور ہے کہ اس تحریک میں زیادہ غرباء حصہ لیں اور قادیان کے غرباء نے جو نمونہ دکھلایا بہت اعلیٰ ہے.کیونکہ یہاں غرباء نسبتاً زیادہ ہیں ان کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں.پھر بھی با وجود اس کے انہوں نے چند سے زیادہ دیتے ہیں.ان کی عورتوں اور ان کے بچوں نے زور سے چندہ دیا ہے.میں نے جب یہ نظارہ دیکھا کہ عورت میں اپنے زیور اتار آثار کر دے رہی ہیں اور بچے پیسہ دو پیسہ یا اس سے بڑی رقم لے لے کر دوڑے چلے آرہے ہیں اور اسی طرح مردوں کا حال ہے.عه ترمذی ابواب العلم باب ما جاء ان الدال على الخير كفاعله

Page 42

۲۲ ایک عجیب نظارہ تو اس بات کا خیال کرتے ہوئے ایک خاص بات میرے دل میں آئی اور معاً ایک نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے.خدا کے فضل سے مجھے اس قسم کی طبیعت ملی ہے کہ میں اپنے جذبات کو روک سکتا ہوں.مگر اس بات کو دیکھ کر میں بے بس ہو گیا.اسی خوشی کے موقع پر مجھے حضرت عائشہہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا.لکھا ہے کہ ایک دفعہ میدے کی روٹی حضرت عائشہ کے سامنے آئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.جب پوچھا گیا کہ آپ کیوں روتی ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول کریم ملی شد علیہ وسلم کے وقت میں جو کی روٹی کھاتے تھے اور چکیاں اور چھلنیاں اس وقت نہ تھیں جو کی روٹی بے چھنے آٹے کی ہم پکا کر آپ کے سامنے رکھ دیتے اور آپ کھا لیتے.اب اس میدہ کی روٹی کو دیکھ کر اور اس حالت کو یاد کرکے یہ میرے گلے میں پھنستی ہے.مجھے بھی یہ نظارہ دیکھ کر ایک بڑا نظارہ یاد آگیا.وہ وقت جب منارہ کے بنانے کا سوال در پیش تھا.اس پر میری نظر آج سے میں سال پچھے جاپڑی.چھوٹی مسجد جس میں اس وقت چند آدمی بیٹھ سکتے تھے.وہاں حضرت صاحب بیٹھے تھے.منارہ کے بنانے کی تجویز در پیش تھی اور دس ہزار کا حضرت صاحب نے تخمینہ لگایا تھا تا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشنگوئی کی تھی وہ اپنے ظاہری لفظوں کے لحاظ سے بھی پوری کر دی جائے.اب سوال یہ تھا کہ دس ہزار روپیہ کہاں سے آئے کیونکہ اس وقت جماعت کی حالت زیادہ کمزور تھی.اس کے لئے دس ہزار کو سو سو روپیہ کے حصوں پر فقہ تقسیم کیا گیا اور اس فہرست کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں پر بھی سور و پید لگا یا گیا جن کی حیثیت سورد پید ادا کرنے کی نہ تھی اور اس وقت گویا دس ہزار روپیہ کا جمع کرنا ایک امر محال تھا.اس وقت بعض لوگوں نے اپنی حالت اور حیثیت سے بڑھ کر چندہ دیا.چنانچہ منشی شادی خان صاحب پر بھی سورد پیر غالباً لگا تھا.انھوں نے اپنا تمام گھر کا سامان بیچ کر تین سو روپیہ پیش کردیا اس پر حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ شادی خان صاحب سیالکوٹی نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے جو حضرت ابو بکر نے دکھایا تھا کہ سوائے خدا کے اپنے گھر میں کچھ نہیں چھوڑا.جب میاں شادی خان نے بی سُنا تو گھر میں جو چار پائیاں موجود تھیں ان کو بھی فروخت کر ڈالا اور انکی رقم بھی حضرت صاحب کے حضور پیش کر دی.مگر باوجود اتنی کوششوں کے یہ روپیہ پورا نہ ہوا.مجھے یاد ہے کہ اس کام کے لئے سیالکوٹ سے حضرت صاحب نے میر حسام الدین صاحب کو جو میر حامد شاہ صاحب کے والد تھے بلا یا.کیونکہ ان کو عمارت کا مذاق تھا.جو بھٹہ تیار کیا گیا ، اس پر اتنا خرچ آگیا کہ خیال تھا کہ - د ترمذى البواب الزهد باب ما جاء فى معيشة النبي صلى الله عليه وسلم واها

Page 43

انوار العلوم جلد ۵ ۴۳ قیام توحید کیلئے غیرت جمع شدہ روپیہ سے صرف بنیادوں سے او پر تک شاید عمارت بلند ہو سکے.اب خیال ہوا کہ کیا گیا جائیے.حضرت صاحب فرماتے تھے اسی روپیہ میں کام کرو.میر صاحب بلند آواز کے آدمی تھے اور حضرت صاحب کے بچپن کے دوست تھے.بعض اوقات حضرت صاحب سے لڑ بھی پڑتے تھے انہوں نے کہا کہ حضرت ! آپ مجھ سے وہ کام کرانا چاہتے ہیں جو مکن نہیں ، اس روپیہ میں کچھ نہں ہوتا حضرت صاحب نے فرمایا اچھا میر صاحب آپ بتلائیں کہ آپ کے اندازہ میں کتنا روپیہ درکار ہوگا انہوں نے کہا کہ پچیس ہزار.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب آپ کے اتنے بڑے اندازہ کے تو یہ معنے ہوئے کہ کام کو روک دیا جائے.اس وقت بہت سے لوگ ہو نگے جو خیال کرتے ہونگے کہ اگر ہم ہوتے تو پیچیں ہزار کیا بات تھی، فورا مہیا کردیا جاتا مگر جب تو یہ حالت تھی کہ پچیس ہزار کا نام سن کر کہ دیا جاتا تھا کہ کام کو روک دینا چاہئے.یا اب تمہیں ہزار کہا جاتا ہے اور ایک مہینہ کے اندر جمع کرانے کا خیال ہے اور جس طرح قادیان میں چندہ ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر یہ روپیہ جمع ہو جائیگا اور امید ہے کہ اس رقم کو گورداسپور، امرتسر، لاہور کے تینوں اضلاع ہی پورا کر دینگے اور باقی اضلاع کے لوگ یہی کہیں گے کہ ایک تحریک ہوئی تھی جو لاہور میں پہنچ گرختم ہوگئی.ہوگئی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا نشان یہ اصل میں لوگوں کے لئے ایک نشان ہے.لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے کیا نشان دکھایا.کیا یہ نشان نہیں کہ ایک غرباء کی جماعت دین کے لئے اس طرح قربانیاں کرتی ہے.عیسائی مؤرخ کہتے ہیں کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سامان فتح کیا تھے.روم کی سلطنت مٹ رہی تھی.ایران کمزور تھا مسلمان جوش سے اُٹھے انہیں فتح حاصل ہوگئی.اسی طرح لوگ اب تو ہم پر بنتے ہیں ، مگر جب دو تین سو سال کے بعد احمدیت پھیل جائیگی تو لو کہ دینگے کہ پہلے مذاہب بے جان ہو گئے تھے.احمدیت میں جان تھی.احمدی جوش سے اُٹھے اور انہوں نے غلبہ پا لیا.آج مہنسی کے طور پر پوچھا جاتا ہے کیوں جی اکتنی حکومتیں احمدی مسلمان ہوگئیں، لیکن جب حکومتوں کو خدا تعالیٰ مسلمان کر دیگا تو کہیں گے کہ تم لوگ جوش سے اُٹھے اور دنیا کو شکار کر لیا.جیسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ابتدائی حالت تھی ویسی ہی بعینہ ہماری آج سے ہیں سال قبل تھی اور آپ بھی قریباً ویسی ہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زمانہ کی نسبت فرانس کا ایک مورخ لکھتا ہے کہ محمد (صلی الہ علیہ والہ وسلم) کی ایک بات عجیب تھی.لوگ کہتے ہیں وہ جھوٹا تھا مگر

Page 44

میں کہتا ہوں کہ وہ کیسے جھوٹا ہوسکتا ہے.اس کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا.ہاں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہاس کو غلطی گی تھی.وہ لکھتا ہے کہ میں اس نظارہ کو دل میں لا کر حیران ہو جاتا ہوں کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک چھوٹی سی مسجد میں جس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی تھی جو بارش کے وقت ٹیکنے لگ جاتی تھی اور نمازیوں کو کیچڑ میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی اس میں بیٹھ کر کچھ لوگ جن کو تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا بھی میسر نہیں تھا یہ باتیں کرتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آجا دینگے اور جو دین ہم پھیلانا چاہتے ہیں اس کو پھیلا دینگے اور پھر باوجود اس بے بضاعتی کے وہ اپنی بات کو پورا کر کے دکھا دیتے ہیں.یہ ایک معمولی بات نہیں بلکہ غیر معمولی ہے.اس بات کو سوچنا چاہئے.یہی حال ہمارا ہے.ایک طرف غور کرو یورپ میں پیس (PEACE) کا نفرنس بیٹھی ہے اس میں مسٹر لانڈ جارج وزیر اعظم انگلستان اور دوسری بڑی سلطنتوں کے وزراء اور نمائندے تجویز کرتے ہیں کہ دنیا میں امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے ایک ہماری یہ جماعت ہے جو شرک کے مقامات میں سلام کا جھنڈا گاڑنے اور دیگر مذاہب کے پیروؤں کے دلوں کو دلائل سے فتح کرنے اور اس طرح امن قائم کرنے کے لئے مشورہ کرنے کے لئے بیٹھی ہے.وہاں اگر وزراء سلطنت میں تو میاں غرباء ہیں جن میں سے بہت کی وہی حالت ہے جو اس وقت صحابہ کی حالت تھی.پس یہ لوگ جو بیاں نظر آتے ہیں.ان کا خیال ہے نہ صرف خیال بلکہ یقین اور ایمان ہے کہ ایک ایک اینٹ جو ان کی طرف سے لندن میں مسجد کی رکھی جائیگی وہ گو یا ترقی اسلام کی بنیاد کی اینٹ ہوگی.اس وقت دنیادی طور پر خواہ کیسے ہی وسیع دماغ کا آدمی ہو وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کہ یہ لوگ بھی کچھ کر سکتے ہیں اور یہ بیچ ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے مگر خدا ان سے بہت کچھ کر سکتا ہے.اُمید ہے کہ اب چندوں کی مقدار آمد بہت بڑھ جائیگی.اس لئے اندیشہ ہے کہ جلد وہ وقت نہ آجائے جسکے متعلق رسول کریم نے فرمایا کہ ان کے برابر سونا ابتداء کے ایک درہم کے برابر ہو گا لیکن بھی وقت ہے خوب ثواب کا یا جا سکتا ہے خصوصاً قادیان والوں کیلئے.اس لئے میں نے آپ لوگوں کو جمع کیا ہے اور وہ تمام ضروریا بتادی ہیں جو وہاں مسجد بنانے کی داعی ہیں میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے چندہ کی مقدار کو جو انہوں نے پہلے لکھایا ہو بڑھا سکتے ہیں بڑھا دیں جنہوں نے نہیں لکھوایا وہ لکھوا دیں تاکہ کل وہ اشتہار جو باہر کیلئے شائع ہو نیوالا ہے اس میں لکھدیا جائے کہ قادیان کی جماعت نے مطلوبہ میں ہزار میں سے کسقدر روپیہ فراہم کر دیا ہے.

Page 45

۲۵ صداقت احمدیت از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 46

Page 47

انوار العلوم جلد ۵ ۲۷ صداقت احمد نیت صداقت احمدیت تقریر حضرت فضل عمر خلیفه امسیح اثانی فرموده ۱۹ فروری ۱۹۲۰ء بمقام لاہور ) احترام انبیاء علیهم السلام دنیا میں بہت سے انبیاء گزرے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے اور بزرگ تھے اور اس کی طرف سے بھیجے ہوتے تھے ہمارے سردار ہیں.ہم ان کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں اور جب خدا تعالیٰ توفیق دے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ ولم کے علاوہ ان کو بھی درودوں میں شامل کر لیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مالک اور خالق کے پیارے ہیں تو ہمارے بھی پیارے ہیں.ان کو ہمارے مالک اور خالق خدا نے عزت دی ہے اور جن کو اس نے عزت دی ہے ان کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے.پس ہم تمام انبیاء علیہم السلام کا احترام کرتے ہیں.خواہ ان کا نام ہمیں قرآن کریم کے ذریعہ معلوم ہوا یا قرآن نے ان کا نام نہیں لیا.قرآن کے اس مقرر کردہ اصول کے ماتحت کہ وَإِنْ مِنْ أُمَةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرُ ( فاطر: ۲۵ ) کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جس میں نزیر نہ آیا ہو.ہم سب کی عزت کرتے ہیں ، اور جہاں جہاں کوئی نبی آیا ہے اس کا احترام کرتے ہیں.لیکن باوجود اس اقرار کے ہم یہ یقین رکنے ہیں کہ ان فضیلت رسول الله برحملہ انبیاء سب نبیوں اور سب انسانوں کے جو آر) تک پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے سردار اور ان سے افضل اور اعلی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جب سے دنیا کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے لے کہ کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے اور کسی ذاکر نے خدا تعالیٰ کا اتنا ذکر اپنی زبان پر جاری نہیں کیا کہ اس مقام پر قدم رکھ سکے جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم تھا.خواہ کوئی نبی ہو یا غیر نبی ، رسول ہو یا

Page 48

جلد ۵ غیر رسول کوئی ہو کسی ملک کا رہنے والا ہو، کسی تمدن کی اتباع کرنے والا ہو، کوئی زبان بولنے والا ہو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ہرگز نہیں کھڑا ہو سکتا.یہ صرف دعوی نہیں بلکہ ایک صداقت اور حقیقت ہے صداقت عظمتِ رسول اکرم جس کے دلائل موجود ہیں.خالی دعوای تو ہر شخص پیش کر سکتا ہے.ایک ہندو بھی کہہ سکتا ہے کہ تمہارا کیا حق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل ہے.ہمارے او تا رسب سے اعلیٰ ہیں.ہم احمدیت کے رو سے یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوؤں میں بھی او تار گذرے ہیں مگر یہ نہیں مان سکتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اوتار افضل گذرا ہے.مگر ایک ہندو کا حق ہے کہ وہ دعوی کرے کہ ہمارا فلاں او تا رسب انسانوں سے افضل ہے.اسی طرح ایک عیسائی بھی کہتا ہے کہ یسوع میے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہے.یہودی بھی کہتا ہے کہ حضرت موسی سب سے افضل ہیں.اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے بزرگوں کو سب سے افضل بتاتے ہیں.لیکن ان کے اور ہمارے دعوی میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ ہمارے دعوای کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں.مگر ان کے پاس اپنے دعوی کا کوئی ثبوت نہیں ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہمارا نبی یا ہمارا اوتار یا ہمارا خداوند مسیح سب سے افضل ہے مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتے اور ہم جو سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل ہیں تو اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں جو روز روشن کی طرح ظاہر ہے.ہاں اگر ہمارے پاس بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرح ثبوت اور دلائل نہ ہوتے تو ہمارا بھی حق نہ تھا کہ یہ دعوامی کرتے مگر خدا کے فضل سے ہمارے پاس ثبوت اور اور دلائل موجود ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں لیکن دوسرے لوگ محض ضد اور تعقیب سے ایسا دعوی کرتے ہیں.ان کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنی ہی چیز کو اچھا کے اور دوسروں کے پاس خواہ اس سے اچھی چیز موجود ہو اسے بُرا قرار دے.کر شمہ الفت و محبت کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا ایک دن جب کہ اس کا دربار لگا ہوا تھا اس نے اپنے ایک غلام کو ٹوپی دی اور کہا جولڑ کا سب سے خوبصورت ہو اس کے سر پر رکھ دو.وہ ٹوپی لے کر گیا اور اپنے میلے کچیلے لڑکے کے سر پر رکھ آیا جس کے ہونٹ بہت موٹے تھے ناک بہ رہی تھی اور آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں.بادشاہ نے اس سے پوچھا یہ تم نے کیا گیا.اس نے کہا بادشاہ سلامت مجھے یہی لڑکا سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے اس لئے اسی کے سر پر ٹوپی رکھ آیا ہوں.تو یہ عام قاعدہ ہے کہ اپنی ہی چیز کو اعلیٰ اور سب سے افضل قرار دیا

Page 49

انوار العلوم جلد ۵ ۲۹ صداقت احمدیت جاتا ہے.کہتے ہیں کسی نے مجنوں کو کہا تھا کہ بیٹی کوئی خوبصورت عورت نہیں ہے اس سے اعلیٰ درجہ کی اور کئی عورتیں ہیں تم اس پر کیوں مر رہے ہو.مجنوں نے کہا تمہاری نظر میں وہ خوبصورت نہ ہوگی اس کو میری آنکھوں سے دیکھو تو معلوم ہو.تو جس سے انسان کو محبت ہوتی ہے اس کا درجہ سب سے بڑھاتا ہے اور اس کو سب سے اعلیٰ قرار دیتا ہے.اسی طرح دوسرے مذاہب والے اپنے اپنے بزرگوں کو جو سب سے اعلیٰ اور افضل بتاتے ہیں تو محض محبت اور تعلق کی وجہ سے بتاتے ہیں.مگر ان کے افضل اور اعلیٰ ہونے کا جب ان سے ثبوت طلب کیا جاتے تو کچھ پیش نہیں کرسکتے ثبوت صرف ہمارے پاس ہے جو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے اعلیٰ اور افضل ہونے کے متعلق پیش کر سکتے ہیں.ہمارے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل ہونے کے ثبوت اور دلائل تو اتنے ہیں کہ اگر ان کو ہم پیش کرنا شروع کریں تو سالی سال کا عرصہ درکار ہے.قرآن کریم سارے کا سارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کے ثبوتوں سے بھرا ہوا ہے.زمین و آسمان آپ کی افضلیت کی شہادت دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ جو ہر ایک چیز کا خالق ہے اور اس کی تمام مخلوق شہادت پیش کر رہی ہے مگر چونکہ اس قدر وسیع باتوں کا سمجھنا اور اس وقت ان کا پیش کرنا آسان نہیں ہے اس لئے میں ایک ہی دلیل کو لیتا ہوں جو بہت بڑی ہے اور جس کا سمجھنا ہر ایک انسان کے لئے نہایت آسان ہے.وہ دلیل جو حضرت مسیح کے قول میں بیان کی گئی ہے.حضرت مسیح ا سچائی پر کھنے کا معیار انجیل میں فرماتے ہیں کہ درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے رمنی باب سے آیت 19 برٹش اینڈ فارن یا قبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۷۲ء) جب کسی درخت کو پھل لگتے ہیں تو ان کے ذریعہ اس کی خوبی اور برتری معلوم ہو سکتی ہے.یہ ایک بالکل سچا واقعہ اور نیچر کا مفر کردہ قاعدہ ہے.جس کو حضرت مسیح نے بیان کیا ہے مثلاً آم کے درخت کو سیر کے درخت پر کیا فضیلت ہے ہیں کہ ہم شہری پھل دیتا ہے لیکن لیکر نہیں دیتا.پھر آم کے درختوں کی ایک دوسرے سے کیونکر قیمت بڑھتی ہے.اسی طرح کہ کوئی درخت کم پھل دیتا ہے اور کوئی زیادہ کیسی کے پھل شیریں ہوتے ہیں اور کسی کے کھٹے.تو پھلوں کی وجہ سے ہی ایک درخت کو دوسرے درخت پر فضیلت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ایک کی قیمت دوسرے کی قیمت سے بڑھتی ہے.یہی حال اور دوسرے درختوں کا ہوتا ہے کہ جس غرض اور جس کام کے لئے وہ ہوتے ہیں اس کو جو عملی طور پر پورا کرتا ہے اس کو دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے اور جو اس غرض کو پورا نہیں کرتے ان کی کچھ فضیلت نہیں رہتی.دیکھو آم کا درخت پھل

Page 50

انوار العلوم جلد ۵ i دینے چھوڑ دیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں ایک ایسے درخت کی قیمت بڑھ جاتی ہے جو کوئی پھل نہیں یکن اس کی کڑی اس کی کڑی کی نسبت مضبوط اور اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے تو ام انار اور اور درختوں کی دیا کیونکہ اس آم ہے.مقابلہ آنحضرت بر دیگر انبیاء اسی اصل کے ماتحت ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت حاصل ہے یا نہیں.کہ آپ کی تعلیم پھل اور نتائج کے لحاظ سے دوسروں سے اعلیٰ ہے.اگر آپ کی تعلیم کے پھل دوسرے انبیاء کی تعلیموں سے زیادہ اور اعلیٰ درجہ کے ہوں تو پھر آپ کے اعلیٰ اور افضل ہونے میں بھی شک وشبہ نہیں رہ جاتا ، لیکن اگر آپ کی تعلیم کے پھل اور ثمرات اور فوائد پہلے نبیوں کی تعلیموں سے کم ہوں تو آپ بھی ان نبیوں سے کم درجہ کے ہونگے.اس اصل کے ماتحت ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کو دیکھتے ہیں.اور موٹی موٹی چند ایک مثالیں لیتے ہیں کہ آدمی کو درختوں کی طرح میوے نہیں لگا کرتے.بلکہ اس کے پھلوں سے یہ مراد ہوتی ہے کہ جو تعلیم وہ دیتا ہے اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہوتا ہے.اور اس کی تعلیم سے کیسے لوگ تیار ہوتے ہیں.اس بات کا موازنہ کرنے کے لئے ہم تین نبیوں کو لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَنَا سَيدُ وَلُدِ آدَمَ (ابن ماجه.كتاب الزهد باب ذكر الشفاعة ) کہ میں آدم کے تمام بیٹوں کا سردار ہوں.اس دعوی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ہم حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرتے ہیں.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی خدا تعالیٰ کے نبی تھے جیسا کہ خود خدا تعالیٰ نے بتایا ہے اس لئے ان کے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پیارے ہونے سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کیا درجہ ہے.اس کے لئے ہم ان کے پھلوں کو دیکھتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کی تعلیم کو کیسے پھل لگے اور حضرت عیسی کی تعلیم کو کیسے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو کیسے.یہ سب انبیاء چونکہ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے تھے اس لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی نبی نے اپنی تعلیم کے ذریعے ایسی جماعت تیار کی جو تقوی اور طہارت میں سب سے بڑھ گئی اور کوئی جماعت اس کا مقابلہ نہ کر سکی جس نبی کی تیار کردہ جماعت ایسی ثابت ہو جاتے گی وہ سب سے بڑھ جائے گا.خواہ وہ میلی ہو.خواہ مولی لیک اگر محہ صل اللہ علیہ وسم کی تیار کردہ جماعت قربانی اور اخیار تقویٰ و طہارت نیکی

Page 51

انوار العلوم جلد ۵ ۳۱ صداقت احمدیت اور بھلائی میں سب سے بڑھ کر ثابت ہو تو خواہ دُنیا کچھ کے اور کسی کو افضل ٹھہراتے دلائل اور ثبوت ہی پکار پکار کر کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے افضل ہیں اور کوئی نہیں جو ان کی شان کو پہنچ سکے.موٹاما اثرات تعلیم رسول و تعلیم انبیاء اب ہم ان انبیاء علیم اسلام کی تعلیموں کے تاریخ کا وانا و بنی اسرائیل کو تبلیغ کی کسی قوم اور جماعت کی فرمانبرداری اور اطاعت کا پتہ مشکلات اور مصائب کے وقت ہی لگا کرتا ہے.قصہ مشہور ہے کہ ایک پور بیا مر گیا اور اس کی بیوی نے ماتم شروع کیا کہ ہائے فلاں سے اس نے اتنا روپیہ لینا تھا وہ کون لے گا ایک دوسرا پور بیا بولا " اری ہم " پھر اس نے کہا فلاں جائیداد کا کون انتظام کرے گا اسی نے کہا "اری ہم " اسی طرح کہتے کتنے جب اس نے یہ کہا کہ اس نے فلاں کا اتنا روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا ؟ تو کہنے لگا میں ہی بولتا جاؤں کوئی اور بھی بولے گا یا نہیں.تو ایسے تو بہت لوگ ہوتے ہیں جو لینے اور فائدہ اُٹھانے کے وقت آگے بڑھتے ہیں لیکن مشکل کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں.اس لئے اصل قربانی اور محبت کا پتہ مشکلات کے وقت ہی لگتا ہے.مقابلہ کرتے ہیں.حضرت موسیٰ " آئے اور انہوں نے حضرت موسی کی جماعت کا واقعہ قرآن میں آتا ہے اور ایک واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام با تیل میں بھی مذکور ہے.اس لئے جب کہ نہ مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں اور نہ عیسائی تو پھر اور کسی کو اس کا انکار کرنے کا کیا حتی ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسی کو ایک ایسی قوم سے مقابلہ آپڑا جو بڑی زبر دست اور طاقتور تھی تو حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کا حکم دیا.مگر ان کی قوم نے یہ دیکھ کر کہ ہمارا دشمن بڑا طاقتور ہے کہا کہ اس سے ہم کسی طرح مقابلہ کر سکتے ہیں.حضرت موسی نے کہا تم خدا کا نام لے کر چلو تو سی خدا ہمیں مدد دے گا.اس کے جواب میں انہوں نے کہا.اے موسیٰ ! ہم تو اس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر گز نہ جائیں گے.تیرا خدا اور تو جا اور جا کر لڑو.بائیبل سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ کی جماعت کا ایک بہت قلیل حصہ مقابلہ کے لئے تیار ہوا اور باقی ساری کی ساری قوم پیچھے رہ گئی.راستشناء باب ۱ آیت ۲۶ تا ۳۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۲ء) اس سے.ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کی جماعت کے اکثر حصہ کی حالت یہ ہوئی کہ اس نے ان کو کہہ دیا کہ تو اور تیرا خدا جاکر لڑو ہم نہیں جائیں گے.

Page 52

انوار العلوم.۳۲ صداقت احمدیت ان کے بعد ہم حضرت عیسی کی طرف آتے ہیں.وہ ایک واقعہ حضرت علی علیہ السلام دنیا میں آتے اور انہوں نے لوگوں کی اصلاح کی جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے.مگر اس وقت ہمیں مقابلہ کر کے یہ دیکھنا ہے کہ ان کا کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کیسا تھا.ان کی جماعت میں بھی ایسی نظر آتا ہے کہ جب دشمن نے حضرت عیسی کو پکڑنا چاہا تو اس وقت ان کے بڑے حواری سے جس کو انہوں نے اپنی جماعت کا امام بنایا ہوا تھا جب پوچھا گیا کہ تو عیسی کو جانتا ہے تو اس نے یہ دیکھ کر کہ میں بھی پکڑا جاؤنگا کہا کہ میں تو اس پر لعنت کرتا ہوں رمتی باب ۲۶ آیت ہے برٹش اینڈ فارن با میل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۷۲ء) تو بجائے اس کے کہ وہ اس وقت یہ کہنا کہ ہاں میں اسے جانتا ہوں جو اس کا حال ہو گا وہی میرا ہو گا کہتا ہے کہ میں اسے جانتا ہی نہیں اور پھر اس پریس نہیں کرتا بلکہ لعنت کرتا ہے.الله سلام ایک واقعہ نبی اکرم می شدیدی صلی علی روم وہ ان واقعات کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت کو دیکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن بکہ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور مدینہ اگر مدینہ والوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو مدینہ والے اس کے مقابلہ میں لڑیں گے اور اگر باہر جا کر لڑنا پڑا تو ان پرلرنا فرض نہ ہو گا لیکن جب اُحد کی لڑائی کا وقت آیا اور دشمن نے مدینہ پر حملہ کرنا چاہا تو صحابہ میں مشورہ ہوا اور یہ قرار پایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑیں تاکہ لڑائی کے لیے کھلا میدان مل جاتے.لیکن مشکل یہ تھی کہ دشمن کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ مسلمان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.دشمن کے پاس تین ہزار تجربہ کار سپاہی تھے اور مسلمانوں کے صرف ایک ہزار آدمی تھے جن میں سے اکثر لڑائی سے ناواقف تھے.کیونکہ مدینہ کے لوگ لڑائی کرنا نہ جانتے تھے.وہ زمینداری اور زراعت میں مصروف رہتے تھے اور جس طرح ہمارے ملک میں رواج ہے کہ غلطی سے پیشوں کی وجہ سے لوگوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے اسی طرح ان کو حقیر سمجھا جاتا تھا اور ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ کیا لڑیں گے.یہ لوگ بھی اس ایک ہزار کی تعداد میں شامل تھے پھر اس میں تین سو لوگ ایسے تھے جو منافق تھے اور جن کو سب مسلمان جانتے تھے کہ ہمیں گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں.اس لئے مسلمان سمجھتے تھے کہ ہماری تعداد دشمن کے مقابلہ میں بہت تھوڑی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ مشورہ دو باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرین یا اندر سے ہی.آخر فیصلہ ہوا کہ باہر جا کر مقابلہ کرنا چاہتے آپ نے بدر کے موقع پر بھی فرمایا تھا کہ ہاں مشورہ دو جس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ انصار بولیں کہ ان کا کیا ارادہ ہے کیونکہ ان سے معاہدہ

Page 53

انوار العلوم جلد ۵ صداقت احمدیت تھا کہ اگر باہر جا کہ دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا تو وہ نہ جائیں گے.اس پر ایک انصاری اُٹھا اور اس نے کہا.یا رسول اللہ کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ ہم بولیں ہم نے جب آپ کو خُدا کا رسول مان لیا تو اب کیا ہے اگر آپ نہیں کہیں گے کہ سمندر میں گھوڑے ڈال دو تو ہم ڈال دیں گے ہم موٹی کی جماعت کی طرح نہ کہیں گے کہ جانو اور تیرا خدا جاکر لڑو.بلکہ جب تک دشمن ہماری لاشوں کو روند کر آپ تک نہیں آئے گا ہم اسے نہیں آنے دیں گے.) سیرت ابن مشام عربی جلد ۲ ۲۲۶۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء) یہ تھا پھل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا اور درخت اپنے پھل ما بہ الامتیاز کی بین شہادت سے پہچانا جاتا ہے.اب دیکھ لوکس کے پھیل اعلیٰ ہیں.آیا موسی کے جنہوں نے کہ دیا تھا کہ تو اور تیرا خُدا جا کر لڑو ہم نہیں جائیں گے یا عیسی کے جس کے خاص حواری نے ان پر لعنت کی تھی.یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جنہوں نے با وجود باہر جا کر نہ لڑنے کا معاہدہ کیا ہوا تھا یہ کہا کہ اگر دشمن آپ تک پہنچے گا تو ہماری لاشوں کو روند کر ہی پہنچے گا.جیتے جی ہم اسے آپ تک نہ آنے دیں گے.کوئی کہ سکتا ہے جوش میں آکر لوگ اس طرح کہہ ہی دیا کرتے ہیں لیکن جب مصیبت آپڑتی ہے تب یہ جوش قائم نہیں رہتا.مگر انہوں نے یہ زبان سے ہی نہ کہا بلکہ لڑائی میں بھی گئے اور خدا تعالیٰ نے ان کے دعوے کو سچا کرنے کے لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے نرغے میں گھر گئے اور ایسے خطر ناک طور پر گھیر گئے کہ عام خبر مشہور ہوگئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.اس وقت ان لوگوں کی کیا حالت ہوئی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک انصاری حضرت عمرؓ سے جنہوں نے سر نیچے ڈالا ہوا تھا آکر پوچھتے ہیں کیا ہوا ؟ وہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے.یہ سن کر وہ انصاری کہتے ہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے چلے گئے ہیں تو ہمارے یہاں رہنے کا کیا فائدہ.چلو ہم بھی چلیں اور لڑ کر مر جائیں.یہ کہ کر وہ گئے اور لڑ کر مارے گئے اور اس سختی سے لڑے کہ جب ان کی لاش کو دیکھا گیا تو اس پر ستر زخم لگے ہوتے تھے گھر اور اخلاص کا نمونہ دیکھتے.جب دشمن تیر پر تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مار رہا تھا.تو چند صحابہ آپؐ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے جن کی پیٹھیں تیروں سے چھلنی ہو گئیں.کسی نے ایک صحابی سے پوچھا جب تم پر تیر پڑتا تھا تو کیا تم اُف بھی نہ کرتے تھے.انہوں نے کہا میں اف اس لئے نہ کرتا تھا کہ کہیں میرا حسیم نہ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جا پڑے.یہ تو لڑنے والوں کا حال تھا جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ مرد بہادر اخلاص مستورات مومنین ہوا ہی کرتے ہیں.مگر یہ اخلاص مردوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ ص ۲۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ ء : عه سیرت ابن ہشام عربی جلد ۳ م مطبوع مصر ۱۹۳۶ء )

Page 54

انوار العلوم جلد ۵ نوم بسام عورتوں میں بھی ایسا ہی پایا جاتا تھا.یہی لڑائی جس میں مشہور ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے جب ختم ہوئی اور لوگ مدینہ کو واپس لوٹے تو ادھر مدینہ کے بچے اور عورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر دیوانہ وار با ہر نکلے.لڑائی سے واپس آنے والے لوگ آگے آگے جا رہے تھے ان میں سے ایک سے ایک عورت بے تحاشا آکر پوچھتی ہے کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے ؟ اس کے دل میں چونکہ رسول کریم کے متعلق اطمینان اور تسکی تھی اس نے اس بات کو معمولی سمجھ کر کہا تمہارا باپ مارا گیا.عورت نے کہا میں نے پوچھا ہے کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا تمہارا بھائی مارا گیا ہے عورت نے کہا ئیں یہ پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا تیرا خاوند بھی مارا گیا ہے.عورت نے کہا میری بات کا تم کیوں جواب نہیں دیتے ہیں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا رسول اللہ زندہ ہیں.یہ سُن کر اس عورت نے کہا شکر ہے خدا کا.اگر رسول اللہ زندہ ہیں تو ہمیں اور کسی کی پروا نہیں.(سیرت ابن ہشام اردوحصہ دوم ماه مطبوعا مورد ۱۹) اس بات کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس نے عورتوں کا جزع فزع دیکھا ہو کہ اگر کسی عورت کا ایک دن کا بچہ بھی مر جاتا ہے تو کسقدر روتی ہے.مگر اس عورت کا سارے کا سارا خاندان کہ جس پر اس کا آسرا تھا مارا جاتا ہے وہ کہتی ہے کہ اگر رسول اللہ زندہ ہیں تو کوئی حرج نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ تھی جس نے مردوں اور عورتوں میں ایسا اخلاص بھر دیا اور یہ آپ کے سب سے افضل ہونے کا ثبوت ہے جو اور کوئی قوم اپنے نبی کے متعلق پیش نہیں کر سکتی.پس ثابت ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب انبیائہ سے افضل ہیں اور آپؐ کا درجہ ہر بات میں دوسروں سے بڑھ کر ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے جو جماعت تیار کی اس کے مردوں عورتوں معنی کہ بچوں میں ایسا اخلاص اور محبت پائی جاتی ہے جس کا نمونہ اور کہیں نہیں مل سکتا.دو مسلم بچوں کی بہادری بندر کی لڑائی میں دو پندرہ پندرہ برس کے لڑکوں نے بڑی کوشش سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی میں شامل ہونے کی اجازت حاصل کی.ایک صحافی کہتے ہیں کہ لڑائی کے وقت یہ دونوں لڑکے میرے دائیں بائیں کھڑے تھے اور میں یہ خیال کر رہا تھا کہ آج میں کسی طرح لڑوں گا.میرے ساتھ اگر بہادر سپاہی ہوتے تو میں لڑ سکتا.اب کیا کروں گا.میں ابھی اسی خیال میں تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری.اور جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا.تو اس نے پوچھا ابو جہل کہاں ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دکھ دیا کرتا ہے ؟ میں ابھی اس کو جواب نہیں دینے پایا تھا کہ دوسرے نے آہستہ سے پوچھا تا کہ دوسرا نہ سُن لے.چچا !

Page 55

انوار العلوم جلد ۵ صداقت احمدیت ابو قبل کون سا ہے ؟ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کو ماروں.یہ صحابی عبدالرحمن بن عوف تھے جو بڑے بہادر اور جبری تھے.وہ کہتے ہیں کہ یہ خیال میرے دل میں بھی نہ تھا کہ میں ابوجہل کو ماروں.مگر میں نے ابھی ابوجہل کی طرف اشارہ ہی کیا تھا کہ دونوں لڑکے میرے دائیں اور بائیں سے چیل کی طرح بیٹے اور دشمن کے شکر میں گھس کر ابوجہل کو جا مارا.(بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدرا ) دیکھیو به پندرہ پندرہ برس کے لڑکے تھے.اس نور کے بغیر جو ان کو حاصل تھا اس عمر کے لڑکے کیا کرتے ہیں یہی کہ شہر کے لڑکے انگریزی کھیلیں کھیلتے ہیں اور گاؤں کے لڑکے دیہاتی کھیلیں.مگر وہ اپنی جان کی کھیل کھیلتے ہیں اور ایسی بہادری سے کھیلتے ہیں کہ بڑے بڑے بہادر حیران ہو جاتے ہیں.یہ نظارہ ایک عقلمند اور سمجھدار انسان کو بہت بڑے نتیجہ پر پہنچاتا ہے اور وہ یہ کہ محمد صل اللہ علیہ لکم سب انبیاء سے افضل تھے اور کوئی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پھر قرآن بھی یہی کہتا ہے اور خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی فرماتے ہیں کہ میں سب انسانوں کا سردار ہوں.جب ہم اس نتیجہ پر پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ جو نبی سب سے افضل ہے وہی سب سے خدا کا پیارا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ رسول اللہ سے پیار اور محبت کے متعلق فرماتا ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْكُمُ الله (ال عمران : (۳۲) محمد تو ہمارا ایسا محبوب ہے کہ جو اس کی فرمانبرداری کرے وہ بھی ہمارا محبوب ہو جاتا ہے.اس نکتہ کو مد نظر رکھ کر اسلام کی صداقت اور اختلاف فرقنا تے مسلم کا طریق فیصلہ حقیقت کا مجھنا بالکل آسان ہو جاتا ہے.پھر عام طور پر مسلمانوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کا فیصلہ بھی اسی کے ذریعہ ہو سکتا ہے.کیونکہ جب تجربہ اور مشاہدہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء سے اعلیٰ اور ہر طرح اور ہر رنگ میں افضل ہیں.تو اسلام کے ہر مسئلہ کے متعلق غور کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہتے کہ وہی عقیدہ درست اور صحیح ہو سکتا ہے.جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور سب کمالات کا جامع ہونا ثابت ہو اور میں عقیدہ سے یہ ثابت ہو کہ آپؐ کسی سے افضل نہیں رہتے.یا اس کے اختیار کرنے سے آپ کے کسی کمال میں نقص پایا جاتا ہے.تو وہ عقیدہ قطعاً اسلام کے خلاف ، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہوگا.وہ اسلام کا پیش کردہ عقیدہ نہیں ہوسکتا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کم کرنے والا اور آپ کی عظمت کو بٹہ لگانے والا ہو.اس نقطہ کو مد نظر رکھتے ہوئے جس میں کسی مسلمان کو خواہ وہ کسی فرقہ کا ہو.اہلحدیث ہو یا اہلسنت

Page 56

انوار العلوم جلد ۵ } سهروردی ہو یا دیو بندی ، شیعہ ہو یاستی غرض کسی فرقہ کا ہو ا سے اس امر میں اختلاف نہ ہو گا کہ مستمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں اور کوئی ایسا عقیدہ درست نہیں ہوسکتا جس سے آپ کی شان اور عظمت کم ہو.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں تو ایک اختلاف پیدا ہوا ہے کہ ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس دُنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اس بات کو مد نظر رکھ کر کہ عیسائیت تمام مذاہب کو عموماً اور اسلام کو خصوصاً کھاتی جا رہی ہے خدا نے میرا نام میسج رکھا ہے تاکہ میں عیسائیت کو پاش پاش کر کے اس پر اسلام کو غالب کروں اور اس لحاظ سے کہ مسلمان اسلام سے دُور ہو گئے ، شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کرتے ، ان کا اکثر حصہ نمازیں نہیں پڑھتا جو پڑھتا ہے وہ طوطے کی طرح پڑھتا ہے ان مفاسد کو دور کرنے کے لئے میرا نام مہدی رکھا گیا ہے.مدعی کا ذب بڑا مجرم ہے اب اگر یہ دعوی کرنے والا جھوٹا ہو تو اس سے بڑھ کر کافر کون ہو سکتا ہے.خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ مجھے خُدا : کہ نے الہام کیا حالانکہ خدا نے نہ کیا ہو اور اس کا دعوی جھوٹا ہو تو اس سے بڑھ کر مجرم کون ہو سکتا ہے ؟ ہاں ہر سلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے اور غور کرے کہ دعوی سچا ہے یا جھوٹا.دیکھو اگر ایک چوہڑا چمار معمولی ڈھنڈورا دیتا پھرے تو لوگ اس کی طرف دوڑتے جاتے اور معلوم کرتے ہیں کہ کیا کہتا ہے.لیکن کسی قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لئے آیا ہوں اس کی طرف توجہ نہ کی جائے.اگر وہ جھوٹا بھی ہو تو خدا تعالیٰ ان لوگوں سے جنہوں نے اس کے دعوای پر غور نہیں کیا ہوگا پوچھے گا کہ تمہیں بغیر غور کئے کسی طرح معلوم ہو گیا کہ یہ جھوٹا تھا.در اصل تمہاری نیست ہی ٹھیک نہ تھی.ورنہ تم اس کے دعوئی پر ضرور غور کرتے اور غور کے بعد اس کے جھوٹے یا بچے ہونے کا فیصلہ کرتے.تمہارے دل میں خدا کا ادب اور توقیر ہی نہ تھی.ورنہ وہ جس نے خُدا کی طرف سے آنے کا دعوی کیا تھا اس کے دعوی کی طرف تم ضرور توجہ کرتے.سعید انسان کی سعادت خدا تعالیٰ کا ادب جس انسان کے دل میں ہوتا ہے.اس کی عجیب حالت ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر کہا آپ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بتائیں کہ آپ نبی ہیں.آپ نے فرمایا میں خدا تعالٰی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا کا نبی ہوں.یہ سن کر اس نے کہا میں آپ کو قبول کرتا ہوں.یہ بھی ادب

Page 57

انوارالعلوم جلد ۵ ۳۷ صداقت احمدیت کی ایک حد ہے.لیکن یہ ادب بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے عام لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے دعوی کو چھوڑ کر باقی خوبیاں تو مانتے جاتے ہیں.لیکن دعوای کی طرف توجہ نہیں کرتے.دعوای کی سچائی پر مخالف رائے دیکھو حضرت مرزا صاحب کے متعلق مخالف یہ تو مانتے ہیں کہ آپ سلطان العلم تھے.چنانچہ آپ کی }) وفات پر اخبار وکیل میں لکھا گیا کہ :- وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو و شخص جو دماغی عجانتا کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارا مجھے ہوئے تھے.اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے نہیں برس تک زلزلہ اور طوفان رہا جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا." (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمیرسم صفر ۵ ۵۶ ۵۷ مطبوعه ۱۹۶۲ ) کیا جس شخص کی یہ تعریف ہو اس کو پاگل یا مجنون کہا جاسکتا ہے ہرگز نہیں.اب اس کے متعلق یا تو یہ کہا جائے گا کہ چالاک اور لسان آدمی ہے لوگوں کو فریب میں لانا چاہتا ہے.یا یہ کہ سچا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے.بس یہی دو صورتیں ہو سکتی ہیں کہ یا تو جھوٹا ہے اور خدا تعالیٰ پر افتہ اپکرتا ہے اس لحاظ سے اس سے بڑا اور کوئی نہیں ہو سکتا.یا سچا ہے اور واقع میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لحاظ سے اس کے دعوی کو ماننا ہر شخص پر فرض ہے.پس ایک ایسا شخص جو پاگل نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعوی کرتا ہے اس کی بات کو سننا نہایت ضروری اور اہم ہے.اگر وہ جھوٹی ہو تو بے شک اسے رد کر دیا جائے ، لیکن اگر بیچی ہو تو پھر اس کا رڈ کرنا آسان نہیں.آگ سے کھیلنا آسان ہے، لیکن اس کی بات کا رد کرنا آسان نہیں کیونکہ آگ صرف جسم کو جلاتی ہے اور اس کا انکار روح کو جلاتا ہے.پھر آگ تو پچاس ساٹھ یا سو سال کی زندگی کا خاتمہ کرتی ہے.لیکن اس کی وجہ سے کروڑوں کروڑ سال کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے.پھر آگ دنیا کی خوشی اور آرام سے علیحدہ کرتی ہے مگر اس سے عقبی کا آرام اور اطمینان کھویا جاتا ہے.پھر آگ عارضی رشتوں اور تعلقوں سے جدا کرتی ہے مگر اس سے خالق اور مالک اور سب سے بڑھ کر محبوب خدا سے جدائی ہو جاتی ہے.پس اس نہایت ہی ضروری مسئلہ پر جس قدر بھی غور کیا جائے تھوڑا ہے اور ہر ایک انسان کا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعوی کرنے والے کے دعوی کو کسنے اور اس پر غور کرے.

Page 58

صداقت احمدیت دعوای حقہ پر عظمت نبی پاک اب رہا یہ کہ کس طرح غور کیا جائے.اس کے متعلق میں بتاتا ہوں.غور کرنے کے اور بھی طریقی ہیں لیکن ایک اس وقت پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اب جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعوی کرتا ہے اس کے متعلق یہ دیکھا جاتے کہ اس کے دعوی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہوتی ہے یا ہتک.اگر اس کے دعوی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک ہوتی ہے تو خواہ سُورج کو اپنے دائیں اور چاند کو اپنے باتیں رکھ کر بھی دکھا دے تو اس کا دعوی مردود ہوگا.لیکن اگر اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ثابت ہوتی ہے اور آپؐ کی شان بڑھتی ہے تو وہ قابل قبول ہو گا اور کسی مومن کے لئے سوائے اس کے چارہ نہیں کہ اسے قبول کرے.وفات مسیح و صداقت حقہ اب دیکھتے اس زمانہ میں حسیں انسان نے خدا کی طرف سے ہونے کا دعوی کیا.اس نے پہلی بات یہ پیش کی ہے کہ حضرت علیسی جن کو خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا فوت ہو گئے ہیں اور میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے آیا ہوں.اس کے متعلق ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات میں اور ان کے دوبارہ آکر رسول کریم کی اُمت کے اصلاح کرنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے یا ہتک.اگر تنگ ہو تو ہم اس عقیدہ کو ہرگز درست تسلیم نہ کریں گے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ہر طرح سے دلائل کے ساتھ ثابت ہے.دیگر مذاہب کے لوگوں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ اپنے بزرگوں کو جو افضل نہیں ہیں سب انسانوں سے افضل قرار دیتے ہیں.مگر ہمیں تو خدا تعالیٰ نے سردار ہی ایسا دیا ہے کہ اس کی جتنی بھی عزت و توقیر کریں تھوڑی ہے اور اس کو سب سے افضل کہنا بالکل سچ ہے.لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اس بات کو مد نظر نہ رکھ کر بڑی بڑی ٹھوکریں کھاتی ہیں اور کہیں نکل گئے ہیں.اس وقت ہم اس بات کو لیتے ہیں کہ حضرت عیسی کی وفات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ہے یا ان کی زندگی ہیں.کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ نے ان کے دشمنوں سے بچانے کے لئے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اس وقت تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے ۶۳ سال کی عمر میں وفات دے دی اور آپ اسی زمین میں مدفون ہیں.آپ کو اپنی زندگی میں کئی تکلیفیں پیش آئیں.مکہ سے آپ کو نکلنا پڑا ، لڑائیوں میں آپ کو زخم لگے ، دشمنوں نے آپ کو تنگ کیا ، لیکن اس ساری زندگی میں خدا تعالیٰ نے انہیں آسمان چھوڑ پہاڑ پر بھی نہ اُٹھایا.حضرت عیسیٰ پر تو جب ایک ہی مشکل وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں فوراً

Page 59

انوار العلوم جلد ۵ ۳۹ آسمان پر اُٹھالیا.لیکن محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دکھ پر دُکھ آئے مصیبتوں پر مصیبتیں پڑیں مگر خدا تعالیٰ نے انہیں اسی زمین میں رکھا آسمان پر نہ اُٹھایا.اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اس قدر بڑھ گتے ہیں کہ رات اور دن خدا تعالیٰ کی اطاعت کے سوا انہیں کوئی کام ہی نہیں اور خدا تعالیٰ کے سوا انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا.حتی کہ عیسائی بھی کہتے ہیں کہ حضرت محمد صلی الہ علیہ وسلم) کو اور تو خواہ کچھ کہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ اُٹھتا بیٹھتا ، کھاتا پنیا ، ہوتا جاگتا ، صبح و شام ، شادی و غمی ، حتی کہ میاں بیوی کے تعلقات میں ، کپڑے پہنتے وقت ، پاخانہ پھرتے وقت غرضیکہ ہر گھڑی اور ہر لحظہ خدا کا ہی نام لیتا ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا کے متعلق اسے جنون تھا.تو وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی محبت میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک عیسائی کہتا ہے کہ خدا کا اس کو جنون ہو گیا تھا اس کی تو خدا تعالیٰ مشکلات اور تکالیف میں اس طرح مرد نہیں کرتا کہ آسمان پر اُٹھاتے.لیکن جب حضرت عیسی کو ذرا تکلیف آتی ہے تو خدا نہیں آسمان پر اُٹھا لیتا ہے.پھر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو تو دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لئے راتوں رات نگہ سے جانا اور ایک غار میں چھپنا پڑتا ہے مگر حضرت عیسی کے لئے خدا تعالیٰ مکان کی چھت پھاڑ کر انہیں آسمان پر اُٹھا لیتا ہے.اب بتاؤ ان دونوں میں سے خدا تعالیٰ کا زیادہ پیارا اور محبوب کون ہوا ؟ اس سے خدا تعالیٰ پر الزام آتا ہے کہ جب محمد صلی اللہ حیات مسیح سے خدا و رسول پر الزام علیہ وسلم پیار اور محبت میں سب سے بڑھ گئے تھے تو کیوں خدا تعالیٰ نے ان سے سب سے زیادہ پیار اور محبت ظاہر نہ کی اور ان کے مقابلہ میں کیوں.حضرت علی سے اپنی محبت اور پیار کا زیادہ ثبوت دیا.چاہتے تو یہ تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیار میں سب سے بڑھ گئے تھے تو خدا تعالیٰ بھی انہیں کے ساتھ اپنی زیادہ محبت کا ثبوت دیتا اور مشکلات کے وقت انہیں آسمان پر اُٹھا لیتا.صحابہ کے دل میں آنی کے طور پر یہ بات آئی بھی ہے که یه انسان ایسا نہیں ہے کہ زمین پر وفات پائے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو حضرت عمر جیسا جلیل القدر صحابی تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ جس نے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے میں اس کی گردن اڑا دوں گا وہ تو آسمان پر گئے ہیں اور پھر آئیں گے.اس وقت اس کے خلاف کہنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی اور سب خاموش ہو گئے کہ اتنے میں حضرت ابو بکر نہ آتے اور سیدھے اندر چلے گئے.جب جا کر دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ

Page 60

انوار العلوم جلد ۵ ن احمد بیت وسلم فوت ہو گئے ہیں تو باہر گئے اور لوگوں کو بلا کر کہا سنو وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَائِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَا بِكُم (ال عمران (۱۴۵) کہ محمد نہیں تھے مگر اللہ کے رسول آپ سے پہلے رسول فوت ہو گئے.اگر آپ بھی فوت ہو گئے تو کیا تم ایٹریوں کے بل پھر جاؤ گے.یہ رسول ہی تو ہیں خُدا نہیں.اگر خدا ہوتے تو ہمیشہ زندہ رہتے.پھر انہوں نے کہا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كانَ يَعْبُدُ الله فَإِنَّ اللهَ حَتَّى لا يموت ربخاری کتاب المناقب باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت متخذ ( خلیلاً ) جو محمد کی عبادت کرتا ہے وہ دیکھ لے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کی عباد کرتا ہے وہ سُن لے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرتا.اس طرح انہوں نے بتایا کہ جو یہ کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوتے گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے کیونکہ خدا ہی ایک ایسی ہستی ہے جس پر موت نہیں آسکتی.رسول تو پہلے بھی فوت ہو گئے ہیں اور یہ بھی فوت ہو گئے ہیں.حضرت عمرضہ کہتے ہیں جب حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ واقع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور یہ بات میرے ذہن میں آنی تھی کہ میں لڑکھڑا کر گر پڑا.اس وقت پھر حضرت حسان مرتبہ پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں.كُنتَ السَّوَادَ لِنَا ظِرِى فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ ر دیوان حسان بن ثابت ۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۶ء ).وہ ہمارا تو سب کچھ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی تھا جب وہ فوت ہوگیا تو ہمیں کیا کوئی مرے یا جئے.پیس اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اسی صورت میں ثابت ہو سکتی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ سے پہلے کوئی رسول زندہ نہیں رہا.ورنہ ایک سچا مومن کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسی اس وقت تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہوں.طبعی عمر کے متعلق تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی نبی کو زیادہ دے دے اور کسی کو و کم مگر طبعی طور پر ایک نبی کو زندہ بیٹھا تے رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو چونکہ اس نبی کی زیادہ ضرورت تھی.اس لئے اس کو زندہ رکھا ہے اور دوسرے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس لئے اسے وفات دے دی.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر اتنا بڑا حملہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان اس کو ٹھنڈے دل سے برداشت نہیں کر سکتا.

Page 61

انوار العلوم جلد ۵ عام لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ رکھنے پر قادر نہیں ہم کہتے ہیں قادر ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کی کوئی قدرت ظاہر کسی طرح ہوتی ہے.اس کی قدرت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت ظاہر کرے پھر اس کے خلاف کسی طرح ہو سکتا ہے.لیکن میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ کا قانون قدرت بھی حضرت عیسی علیہ السلام کو اس طرح سنبھال کر رکھنے کے خلاف ہے.دیکھو ایک غریب آدمی اپنے کپڑوں کو خواہ کتنے پرانے ہوں سنبھال کر رکھتا ہے تاکہ وہ پھر کام آئیں.لیکن امیر اپنے پرانے کپڑے اور لوگوں کو دے دیتا ہے.اسی طرح غریب انسان ایک دفعہ کا پکا ہوا کھانا سنبھال کر رکھتا ہے کہ پھر کھالوں گا.لیکن امیر الیسا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب بھوک لگے گی اس وقت پھر تازہ پکوالوں گا.اب حضرت عیسی کو سنبھال کر رکھنے کا یہ مطلب ہوا کہ خدا سے اتفاقاً حضرت عیسی ایک اعلیٰ درجہ کے نبی بن گئے تھے اور پھر وہ ایسا نبی نہیں بنا سکتا تھا اس لئے ان کو سنبھال کر زندہ آسمان پر رکھ دیا کہ جب دنیا میں فتنہ و فساد پھیلے گا تو ان کو بھیج دونگا پہلے تو میں نے بتایا ہے کہ حضرت عیسی کو زندہ ماننے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متک ہے اب اس سے ظاہر ہے کہ ان کو زندہ ماننے والے خدا تعالیٰ کی بستک تک بھی پہنچ گئے کسی نے کہا ہے.زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا عقیدہ حیات مسیح کی ابتداء اس طرح حضرت بیج کو زندہ مان کر خدا تعالی پر حملہ کر دیا گیا.ہم کہتے ہیں کیا وہ خدا جس نے حضرت علی کے بعد مد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان نبی پیدا کیا وہ پھر حضرت عیسی جیسا نبی نہیں پیدا کر سکتا تھا؟ ضرور پیدا کر سکتا تھا پس اس کو ضرورت نہ تھی کہ حضرت عیسی کو زندہ رکھ کر اپنی قدرت پر حرف آنے دیتا.غرض حضرت عیسی کی حیات کا عقیدہ نہ صرف اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کرنے والا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی بہتک کرنے والا ہے اور اس کی بنیاد اس وقت پڑی جبکہ مسلمانوں میں عیسائی شامل ہونے لگے.ان کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی یہ عقیدہ داخل ہو گیا.ورنہ کئی بڑے بڑے بزرگوں کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں.تو غلطی میں آکر مسلمانوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا ورنہ مجھے خیال بھی نہیں آتا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر ایسا عقیدہ رکھنا.دراصل انہوں نے اس طرف خیال ہی نہیں کیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.اگر انہیں علم ہوتا کہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی

Page 62

انوار العلوم جلد سخت بینک ہوتی ہے تو وہ کبھی اسے اختیار نہ کرتے.رسچائی حضرت اقدس اس وقت ہم میں انسان کی صداقت پر غور کرنا چاہتے ہیں.اس کا دوسرا دعوی یہ ہے کہ امت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاح کے لئے آپ ہی کی اُمت سے کوئی انسان پیدا ہونا چاہتے کیونکہ دوسرے سے مدد مانگنے سے بہتک ہوا کرتی ہے.اب یہ دیکھنا چاہتے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لئے حضرت علیستی آئیں تو اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے یا نہیں.کچھ عرصہ ہوائیں نے اخبار میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کا مجھ پر بڑا اثر ہوا.عمان ایک پرانی ریاست ہے وہاں جب بغاوت ہوئی تو ہندوستان سے تار دیا گیا کہ اگر ضرورت ہو تو ہم مدد دیں.اس کے جواب میں سلطان نے کہا.جب تک ہم میں جان ہے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں.تو جب تک کسی میں طاقت ہوتی ہے اس وقت تک دوسرے سے کوئی مدد کی درخواست نہیں کرتا اور نہ دوسرے سے مددلینا چاہتا ہے.اب یہ صاف بات ہے کہ حضرت عیسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل نہیں ہیں بلکہ حضرت موسی کی قوم میں سے ہیں اور انہی کی قوم کی تربیت کے لئے آئے تھے چنانچ انہوں نے خود کہا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ہے ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں فساد پیدا ہو گا تو ان کو صلاح کے لئے بھیجا جائے گا.اس کا یہ مطلب ہوا کہ خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی امداد کا محتاج بنا ئیگا ، لیکن کیا وہ مقدس انسان جس نے دنیا کو نور سے بھر دیا اور وہ سخی مرد جس نے اپنے خزانوں کے دروازے اس قدر فراخ کر دیتے کہ دنیا مالا مال ہو گئی اس کے ہاتھ میں (نعوذ باللہ ) بھیک کا ٹھیکرا دیا اس کی ہتک کرنا نہیں ؟ خدا تعالیٰ تو اس کو یہ فرماتے کہ دَامَا السَّائِلُ فَلَا تَنْهَرُ (الضحی : 11 ) تم نے تجھے وہ نعمت دی ہے اور تم پر وہ انعام گتے ہیں کہ جو کوئی بھی تم سے مانگنے آتے اس کے سوال کو رو نہ کرو.تیرے پاس تو اتنی دولت ہے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِثُ ( الضحى :۱۲) که تو علی الاعلان پکار پکار کر لوگوں کو کہہ کہ آو اور مجھ سے لو.ایک تو وہ سخی ہوتا ہے کہ جو اس سے مانگتا ہے اس کو رد نہیں کرتا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اتنی بڑھی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تیرا خزانہ اتنا وسیع ہے کہ تو جگہ بہ جگہ پھر اور شور مچا کہ آؤ مجھ سے لے لو اور یہی نہیں کہ جو سائل تیرے پاس آئے اسے تو دے بلکہ خود سائلوں کو تلاش کر کے دے.تو اس عظمت اور شان والا انسان جس کے شپرد خدا تعالیٰ نے نور اور معرفت کے خزانے کر دیتے اس کا بنی اسرائیل کے نبی کو بلا کر لانا کہ آؤ میری امت محت متی با سب ۱۵ آیت ۲۴ برٹش اینڈ فارن با مبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء

Page 63

م صداقت احمدیت میں فتنہ پڑ گیا ہے اس کو دور کر دو کہاں تک اس کی شان کے شایاں ہے.اگر واقع میں ایسا ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ قیامت کے دان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسی کے سامنے کیونکر آنکھ اُٹھا سکتے ہیں.کیونکہ جب کہ ایمان ثریا پر چلا گیا قرآن کو لوگوں نے چھوڑ دیا.دشمنوں نے اسلام کو ٹانے کے لئے کریں باندھ لیں.اس وقت آپ کی قدرت قدسیہ باطل ہوگئی اور آپ کو دوسرے کے گھر سے دیا روشن کرنا پڑا اور دوسرے کی امداد نے آپ کی امت کو بچایا اس سے زیادہ افسوس اور رنج کی بات کون سی ہو گی اور اس سے زیادہ اور کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ہو گا.اس بات کو سامنے رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیائہ سے افضل ہیں.ماننا پڑے گا کہ به بالکل غلط ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لئے بنی اسرائیل سے کسی عیسی کو لانے کی ضرورت پیش آتے گی.بلکہ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ ہی خود عیسی کو پیدا کرے گی.آپ کا روحانی فیض اور آپ کی تعلیم ایسے آدمی کھڑے کرے گی جو آپ کی امت کی اصلاح کریں گے.ا اب جبکہ ان دونوں باتوں کا فیصلہ ہو گیا کہ حضرت علیستی اجراء نبوت کی حقیقت فوت ہو گئے ہیں اور امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے اسی اقت سے میٹی کھڑا ہوگا تو کہا جا سکتا ہے کہ ان باتوں کو تو مان لیا لیکن خدا کی طرف سے آنے کا ہر شخص دعوامی کرتا ہے وہ تو کہتا ہے کہ میں نبی ہوں.کیا اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں ہوتی ہے ؟ اس سے بھی تو ہتک ہوتی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی آتے.اس بات پر بھی ہم اسی طرح نظر ڈالتے ہیں کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا آنا آپ کی بہتک ہے یا عزت یہ تو ظاہر ہے کہ جو رسول شریعت لاتے ہیں ان کی شریعت کو وہی نبی اکر مٹا سکتا ہے جو ان سے بڑا ہو.اب اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نبی کر یم کے بعد کوئی ایسا نبی آسکتا ہے جو اس کی شریعت کو مٹا دے تو اس سے نبی کریم کی بہت بڑی ہتک ہوگی کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ آپ جو تعلیم لاتے وہ پیونکہ قابل عمل نہیں رہی اس لئے اس کو بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے.کیونکہ کوئی عمارت اسی وقت گرائی جاتی ہے جبکہ بوسیدہ ہو جاتے یا حسب منشاء استعمال کے قابل نہ رہے.اسی طرح شریعت محمدیہ اسی صورت میں منسوخ ہوسکتی ہے کہ یا تو ناقص ہو جاتے یا موجودہ زمانہ کے قابل نہ رہے.اب اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہنگ کرتا ہے.لیکن اگر کوئی یہ خیال کرے کہ باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت

Page 64

انوار العلوم جلد ۵ کے قائم اور برقرار رہنے کے کوئی ایسا نبی آسکتا ہے تو اس میں بھی رسول کریم کی ہتک ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے علاوہ اور بھی کوئی ایسا دروازہ ہے کہ جس کے راستے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے اگر کوئی ایسا دروازہ ہو تو وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یا آپ سے بڑھ کر ہوا اور یہ بھی آپ کی ہتک ہے.لیکن سوال تو یہ درپیش ہے کہ ایک انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر کے اتنا بڑھ سکتا ہے یا نہیں کہ جتنا پہلے نبیوں کی تعلیم پر عمل کر کے کوئی نہیں بڑھا اور آپؐ کی تعلیم پر عمل کر کے نہ کہ اس کے خلاف چل کر، آپ کی غلامی میں ہو کر نہ کہ آپ کی برابری کر کے ، آپ کے احکام کو مان کر نہ کہ ان کو رد کر کے ایک شخص عزت کے اس مقام پر کھڑا ہو سکتا ہے یا نہیں جس کا نام نبوت ہے.میں اس کے متعلق دیکھنا چاہتے کہ ایسا نبی محمد کی ہتک کرنے والا ہوگا.یا عزت کرنے والا.مجدد و مصلح کی ضرورت حقہ اس کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا بی مان لیں تو اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے کیونکہ اس طرح ماننا پڑتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور مصلح کی ضرورت باقی ہے.اس کے متعلق ہم کہتے ہیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے پھر اسلام میں مجدد کیوں آئے ؟ اور بڑے بڑے بزرگ لوگوں سے بیعتیں لیتے رہے.اس سے ظاہر ہے کہ مصلح کی ضرورت تو موجود ہے اور ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں.ہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ایسے مصلحین سے بڑے درجے کا بھی کوئی آسکتا ہے یا نہیں.اگر تو رسول اللہ کے بعد آپ کی امت بگڑ نہیں سکتی تو پھر اس کے لئے کسی مصلح کی بھی ضرورت نہیں.لیکن اگر بگڑ سکتی ہے اور شریعت کے احکام پر عمل کرنا چھوڑ سکتی ہے تو کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی کمال ہے کہ آپ کی اُمت میں برائیاں تو پیدا ہوسکتی ہیں لیکن ان کو دور کرنے والا کوئی نہیں پیدا ہو سکتا.خدا تعالیٰ سے آپ کو جسقدر محبت ہے اس کا تو یہ تقاضا ہونا چاہتے کہ آپ کی اُمت کا خدا تعالی زیادہ خیال رکھے نہ یہ کہ اسے آوارہ چھوڑ دے اور کے جا تباہ ہو.دیکھو کسی کی خبر گیری بھی تو اس سے محبت کا ثبوت ہوتا ہے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے بچے بیمار ہوں تو میں ان کا کوئی علاج نہیں کرتا.آوارہ پھر میں تو میں ان کا کوئی خیال نہیں رکھتا اور یہ میری محبت کا ثبوت ہے.ہرگز نہیں.پس اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل ہیں.تو ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کی امت کی حفاظت بھی دوسری امتوں سے زیادہ کرے کیونکہ جس سے جتنا پیار اور عشق زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اس سے سلوک

Page 65

انوار العلوم جلد ۵ ۴۵ بھی کیا جاتا ہے.محبت میں تو کچھ نظر ہی نہیں آتا.حدیث میں آتا ہے کہ وہ پانی جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے صحابہ آپس میں لڑ پڑتے.عبداللہ بن عمر حج کو جاتے ہوتے اسی جگہ پیشاب کرتے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج پر جاتے ہوئے کیا تھا.آج کہا جائے گا کہ یہ بیہودہ بات تھی.مگر محبت کا علم جاننے والے جانتے ہیں کہ جس سے محبت ہو اس کی ہر ایک بات پیاری لگتی ہے.مگر کیسے افسوس کی بات ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کی اُمت بگڑ جاتے تو اس کی اصلاح کے لئے خدا تعالی کوئی انتظام نہیں کرتا.پس اگر کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ چونکہ محمدصلی الہ علیہ سلم کی امت کے تمام لوگ ہمیشہ نیک اور پر سیر گار ہی رہیں گے اس لئے ان کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کے آنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بات صیحیح ہے تو واقع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر یہ نظر آتے کہ مسلمان کہلانے والوں نے نمازیں چھوڑ دی ہوں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں نہیں آتے میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان گھروں کو مع ان کے جلا کر راکھ سیاہ کر دوں.اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا رحیم کریم انسان عشاء کی نماز کے لئے یہ فرماتا ہے تو دوسری نمازوں کے لئے خود سمجھ میں آسکتا ہے کہ ان کا پڑھنا کتنا ضروری ہے.پس اگر لوگوں نے نمازیں چھوڑ دی ہیں اور زکواۃ جس کے متعلق حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ جو اونٹ کی رسی تک نہیں دے گائیں اس سے جہاد کروں گا اس کا دینا ترک کر دیا ہے اور اسی طرح شریعت کے دوسرے احکام کو چھوڑ دیا ہے تو پھر کیوں ان کے لئے کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے ؟ ہاں اگر مسلمان نہ بگڑتے تو ان کو کسی مصلح کی بھی ضرورت نہ ہوتی مگر جب ان کا بگڑنا ثابت ہے تو پھر یہ کیوں نہ مانا جائے کہ خدا تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لئے سامان بھی کیا ہو گا.اگر نہیں کیا تو یہ ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے.مگر ہم کہتے ہیں یہ تو انگور کھتے ہیں والی مثال ہے.جب ہر ایک شخص دیکھ رہا ہے حتی کہ دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سلمانوں کی حالت بگڑ چکی ہے توپھر یہ کہنا کہ ہیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں اپنی بیہودگی کا ثبوت دینا ہے.باقی رہا یہ کہ کوئی کسے اسلام میں مجدد اور نامور تو بے شک آئیں امکان نبوت کی اصلیت لیکن کوئی نبی نہیں آسکتا کیونکہ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ علم بخارى كتاب الشروط - باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع اهل الحرب وكتابة الشروط عه بخارى كتاب الاحكام - باب اخراج الخصوم واهل الريب من البيوت بعد المعرفة

Page 66

انوار العلوم جلد ۵ کی ہتک ہے.مگر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا نبی ہونے کا دعوی کرے جو صاحب شریعت ہو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے تو بے شک اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے لیکن اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے کسی کو بطور اعزاز کے یہ درجہ اور رتبہ دیا جائے تو اس میں آپ کی ہتک نہیں.بلکہ عزت ہے.دیکھو دنیا میں اسی انسان کی بڑی عزت سمجھی جاتی ہے ، جس کے ماتحت بڑے بڑے درجہ کے انسان ہوں.ایک کمانڈر انچیف کیوں بڑا ہوتا ہے اس لئے کہ کئی جنرل اس کے ماتحت ہوتے ہیں.اسی طرح ایک جنرل کیوں بڑا ہوتا ہے اسی لئے کہ کئی کرنل اس کے ماتحت ہوتے ہیں.تو بڑے کی تعریف ہی یہ ہے کہ بڑے بڑے اس کے ماتحت ہوں.نہ یہ کہ بڑے بڑے تو مر جاتیں اور جو پیچھے رہے وہ کہنے کہ میں بڑا ہوں.یوں تو مردوں میں بھی ایک بچہ بہادر کہلا سکتا ہے، لیکن کیا واقع میں وہ بہادر ہوتا ہے.بڑا بہا دراصل میں وہی ہوتا ہے جو کئی بہادروں سے بڑا ہو ایک بچہ مردوں کے منہ پر طمانچے مار کر یہ نہیں کہ سکتا کہ میں بڑا بہادر ہوں.بہادر وہی ہوتا ہے جو دوسرے بہادر کے سینہ پر چڑھ بیٹھے.اسی طرح مدرسہ کون سا اعلیٰ سمجھا جاتا ہے وہی جس میں لڑکا پڑھ کہ دوسرے مدرسوں کے لڑکوں کے مقابلہ میں زیادہ لائق ثابت ہو سکے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فضیلت دی ہے اور میں قیامت کے دن اپنی امت پر فخر کروں گا.اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہتے کہ آپ کسی بات پر فخر کریں گے اور وہ کون سی بات ہے جو اور کسی امت کو نہیں دی گئی مگر آپ کی اُمت کو دی گئی.یہی ہے کہ دوسرے انبیاء کے امتیوں میں مجدد اور صلح تو ہوتے رہے ہیں.لیکن کوئی نہیں ہوا تو نبی نہیں ہوا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہی فخر کی بات ہے کہ یہ درجہ آپ کے غلاموں میں سے کسی کو حاصل ہو تاکہ اس طرح آپ کی عزت اور عظمت بڑھے.پھر آپ کی اُمت میں سے کسی کے نبی ہونے کی ایک اور بھی وجہ ہے.اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا ہے کہ لَوْ كَانَ مُوسى وَعِيْلى حَيَّيُنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباعى اليواقيت والجواهر موقفه امام عبدالوہاب شعرانی مد ۲ مطبوعہ مصر (۱۳۲) اگر مولتی اور علی زندہ ہوتے تو ان کے لئے سوائے اس کے چارا نہ تھا کہ میری اطاعت کرتے.یہ ایک دعوی ہے جس کے متعلق دشمن اعتراض کر سکتا ہے کہ ایسا دعوای کرنا جس کا کوئی ثبوت نہ ہو بہادری نہیں ہے.اس اعتراض کا جواب دینا ضروری تھا اور اسی طرح دیا جا سکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اسی درجہ اور رتبہ کا انسان بھیج دیا جاتے جو حضرت موسیٰ اور عیسی کا درجہ تھا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا

Page 67

صداقت انوار العلوم جلد ۵ بام یہ دعوی سچا کرنے کے لئے موٹی اور عیسی زندہ ہوتے تو میری اتباع کرتے ضروری تھا کہ ایک شخص تو آپ کی امت میں سے کھڑا کیا جاتا جو ان کے درجہ پر پہنچ کر یہ کہنا کہ میں محمدصلی الہ علیہ وسلم کا غلام ہوں اور ان سے ایک قدم دُوری میرے لئے ہلاکت اور تباہی ہے.کیونکہ جب آپ کی امت میں سے کوئی ایسا شخص کھڑا ہو تب آپ کا دعوی سچا ثابت ہو سکتا ہے.ورنہ اس کے بغیر آپ کا دعوی یونسی تھا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم کو سچا ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ آپ کی اُمت میں سے کسی کو نبوت کا درجہ دیا جاتا.اب ہیں یہ دیکھنا چاہتے کہ وہ شخص جس نے اس زمانہ دعوی نبوت پر اعزاز خیر البشر میں تبت کا دعوی کیا ہے اس نے اگر اپنے قول اور فعل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ثابت کی ہے یا آپ کی ہتک کی ہے.اگر اس کے عمل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ثابت ہو تو اسے قبول کرنا چاہئے ورنہ رد کر دینا چاہئے.اس زمانہ میں اسلام کی جو حالت ہو رہی ہے اس سے ظاہر ہے کہ اس پر تباہی آرہی ہے ایسی خص حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی مصلح کا آنا ضروری تھا.مگر سوائے اس کے اور کوئی ایسا نہیں ملتا جس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعوی کیا ہو.اب وہ بھی سنیچا نہیں بلکہ جھوٹا ہے اور (نعوذ باللہ ، دجال ہے تو یہی کہا جائے گا کہ بجاتے اس کے کہ خدائے تعالیٰ ایسی نازک حالت میں اسلام کی مدد کرتا اس نے بھیجا تو ایک دنبال کو بھیجا.حالت تو یہ ہو کہ ایک مریض مر رہا ہو اس وقت چاہتے تو یہ کہ اسے ایسی دوا دی جاتے جس سے وہ شفا پاتے لیکن اُلٹا ز ہردے دیا جائے.مگر ہم دیکھتے ہیں.وہ دقبال بھی عجیب ہے کہ اس کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجتا ہو، آپ کی شان کو ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو اور اسلام کی خدمت میں مشغول نہ ہو.مسلمان کہلانے والوں کی تو یہ حالت ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والوں ، آپ کو گالیاں دینے والوں ، اسلام پر حملے کرنے والوں سے بغل گیر ہوں.مگر اس کی غیرت کا یہ حال ہو کہ پنڈت لیکھرام سلام کے لئے آیا اور وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور اس طرف سے منہ پھیر لیتا ہے.اس پر سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے لیکھرام کو پہچانا نہیں اور بتایا جاتا ہے کہ پنڈت لیکھرام آپ کو سلام کرنے کے لئے آتے ہیں.اس پر اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے اس کو شرم نہیں آتی میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرنے کے لئے آیا ہے، پھر جہاں کہیں کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے وہ اسی پر پل پڑتا ہے.امریکہ میں ایک

Page 68

انوار العلوم جلد ۵ NA صداقت احمدیت شخص ڈوئی اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لاتے ہوئے اسلام کو مٹانے اور عیسائیت کو پھیلانے آیا ہوں.اس کو للکارتا ہے کہ آمجھ سے مقابلہ کر اور دیکھے کہ اسلام غالب آتا ہے یا عیسائیت.یہ سن کر وہ کہتا ہے کہ اس کی طاقت ہی کیا ہے میں اسے موری کے کیڑے کی طرح مسل دوں گا.اس کے جواب میں وہ انسان کہتا ہے کہ خدا تجھے ذلیل اور رسوا کرے گا اس پر کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ڈوٹی کا باپ اعلان کرتا ہے کہ یہ حرام کا لڑکا ہے.پھر اس کے بیوی بچے اس سے الگ ہو جاتے ہیں اور اس کی برائیاں اور بدکاریاں دُنیا میں ظاہر کرتے ہیں.پھر اس پر فالج گرتا اور ذلت اور رسوائی کی موت سے مرتا ہے جس پر عیسائی اخبار لکھتے ہیں که عیسائیت کے پہلوان پر اسلام کا پہلوان غالب آگیا.تو وہ شخص جو اسلام کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم وہ اگر نعوذ باللہ وقال ہے تو پھر مسلمان کون ہو سکتا ہے ؟ وہ تو خود کہتا ہے کہ اگر خدا کے بعد محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت گھر ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کا فر ہوں.کیونکہ وہ اسلام جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہو اس سے یہ گفر مجھے ہزار درجہ پسند ہے جس سے آپ کی عزت اور عظمت ثابت ہوتی ہے.سچائی معلوم کرنے کا طریق پس اس کی صداقت معلوم کرنے کے لئے اس کے کاموں اور اس کے ماننے والوں کے کاموں کو دیکھنا چاہتے کہ وہ کیا کرتے ہیں.آیا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ، اسلام کو ذلیل کرتے ہیں یا دنیا کے چاروں کونوں میں اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پہنچانے میں لگے ہوتے ہیں.گو اس وقت ہماری جماعت دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے اور مالی حالت بھی کمزور ہے مگر ہم نے مختلف ممالک میں اپنے مبلغ بھیجے ہوتے ہیں.اور ہر ایک آدمی جس قدر دین کی خدمت کر سکتا ہے اس میں لگا ہوا ہے اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لیے تیار ہے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا میں نے لندن میں مسجد بنانے کے لئے ایک لاکھ کی تحریک کی تھی جس میں اس وقت تک ۹۲ ہزار کے قریب روپیہ جمع ہو گیا ہے.پس اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لئے جو ہم اور دوسرے لوگوں میں پایا جاتا ہے یہ دیکھنا

Page 69

انوار العلوم جلد ۵ ۴۹ 3 صداقت چاہئے کہ کس کے عقائد ایسے ہیں جن سے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے اور کس کے ایسے ہیں جن سے عزت.ہمارے افعال اور حالات سے اگر ہمارے مخالفین پر یہ ثابت ہو جاتے کہ ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ثابت ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کی طرف توجہ نہ کریں.خدا تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے اور اس بات کی توفیق دے کہ آپ لوگ ان عقائد کو چھوڑنے میں کسی رشتہ اور تعلق کی کوئی پرواہ نہ کریں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے اور ان عقائد کو اختیار کریں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت کا ثبوت ملتا ہے تاکہ دنیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم ہو.اند

Page 70

Page 71

اه صداقت اسلام از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 72

Page 73

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳ صداقت اسلام صداقت اسلام اور ذرائع ترقی اسلام ر خطاب حضرت فضل عمر خلیفہ اسی الثانی فرموده ۲۶ فروری بمقام بندے ماترم بال امرتسر ) مذہب کی عرض میرا مضمون آج صداقت اسلام پر ہے کہ اسلام کی صداقت کے کیا ثبوت ہیں اور اس وقت اسلام سے تعلق رکھنے والوں کی ترقی کے کیا ذرائع ہیں.کسی مذہب کی صداقت پر غور کرنے سے پہلے یہ نہایت ضروری امر ہے کہ ہم دیکھیں کہ مذہب کی غرض کیا ہے ؟ کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو ممکن ہے کسی مذہب کی صداقت پر بحث کرتے ہوئے کہیں سے کہیں نکل جاتیں اور جس چیز کو صداقت کا ثبوت سمجھیں وہ اس سے کوئی تعلق ہی نہ رکھتی ہو مثلاً جب کوئی شخص مکان خریدنے کے لئے جائے تو اس کی یہ غرض نہیں کہ اچھے بیل بوٹے اسے نظر آئیں یا یہ نہیں ہوتی کہ مکان کے اندر کوئی خاص قسم کا حوض بنا ہوا ہو.بلکہ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان اس کے اندر سردی گرمی کی تکلیف سے بیچ سکے ، اپنے مال کی حفاظت کر سکے اور اس کے تعلقات خاندانی میں کوئی دوسرا مخل نہ ہو سکے.یہ مکان کی غرض ہوتی ہے اور مکان خرید نے کے وقت اسی کو دیکھا جائے گا.اگر یہ پوری ہو جائے تو خرید لیا جائے گا اور اگر یہ نہ پوری ہو گی تو ہم کبھی خریدنے کے لئے تیارہ نہ ہوں گے.کیا اگر چھت تو نہ پڑی ہو لیکن دیواروں پر بیل بوٹے بنے ہوں تو اس مکان کو لینے کے لئے ہم تیار ہو جائیں گے ؟ ہرگز نہیں.کیونکہ اس سے مکان کی غرض پوری نہیں ہوتی.اسی طرح جب ہم مذہب کی صداقت کے متعلق غور کرنے لگیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس بات کو سوچیں کہ مذہب کی غرض کیا ہے ؟ تاکہ پھر یہ دیکھ سکیں کہ کون سا مذہب اس کو پورا کرتا ہے اور جو پورا کرے گا وہی مذہب سچا اور قابل قبول ہوگا.پس چونکہ جب تک مذہب کی غرض معلوم نہ ہو جائے اس وقت تک نیچے مذہب کی شناخت نہیں ہو سکتی اس لئے صداقت مذہب پر بولنے سے قبل ہر لیکچرار کا فرض ہے کہ مذہب کی غرض

Page 74

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴ صداقت اسلام بیان کر دے تاکہ سامعین میں سے ہر ایک کو معلوم ہوسکے کہ لیکچرار کے نزدیک مذہب کی عرض کیا ہے ؟ اور وہ دیکھ سکے کہ مذہب کی جو غرض وہ سمجھا ہوا تھا وہ صحیح نہیں.یا یہ کہ لیکچرار نے جو بتائی ہے وہ صحیح نہیں اور اس کے لیکچر کی بناء بنائے فاسد علی الفاسد ہوگی.نہیں آج میں مذہب کی صداقت کے دلائل بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کروں گا کہ مذہب کی غرض کیا ہے ؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس میں مذہب کی غرض معلوم کرنا نہایت آسان ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کو خدا تعالیٰ نے یہ خصوصیت دی ہے کہ اس کے تمام الفاظ اپنے اندر معانی رکھتے ہیں.باقی دنیا کی کسی زبان کو خصوصیت حاصل نہیں ہے.اور زبانوں میں مثلاً اگر دو میں جس کے پیسٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسے مال اور جس کے نطفہ سے پیدا ہوتا ہے اسے باپ کہتے ہیں مگر ان الفاظ سے بچہ کے پیدا ہونے کے متعلق کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی.اگر ماں کی بجائے لفظ "پانی" رکھ دیا جاتا تو وہ بھی ایسا ہی ہوتا جیسا کہ یہ ہے.مگر عربی میں ایسا نہیں ہے.اس میں جو نام رکھا جاتا ہے وہ خود بتاتا ہے کہ اس کا کیا کام اور اس کی کیا غرض ہے.عربی میں ماں کو اتم کہتے ہیں اور اسکے معنی جڑھ کے ہیں.جس طرح شاخیں جڑھ سے پیدا ہوتی ہیں اسی طرح بچہ ماں سے پیدا ہوتا ہے اور گو یا بچہ ماں کی شاخ ہوتا ہے.اب اگر ماں کی بجائے لاں" یا " شال" رکھ دیا جاتا تو کوئی حرج نہ تھا.مگر اُم" کے لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ رکھنے سے وہ غرض نہ ظاہر ہو سکتی جو اس سے ظاہر ہوتی ہے.اسی طرح آم کے معنی ہیں وہ چیز جسکے پیچھے پیچھے چلیں اور چونکہ بچہ ماں کے پیچھے چلتا ہے اس لحاظ سے بھی اتم ناں کو کہتے ہیں کہ بچہ ہر دکھ اور ہر تکلیف کے وقت اسی کی طرف راغب ہوتا ہے تو یہ معنی جو لفظ اتم میں پائے جاتے ہیں اور کسی لفظ میں نہیں پاتے جاتے.یہی حال عربی کے تمام الفاظ کا ہے بیپسی اس زبان میں مذہب کے لئے جو لفظ رکھا گیا ہے اسی میں مذہب کی غرض بھی پائی جاتی ہے.مذہب کے معنی رستہ، سبیل ، طریق ، منهاج اور شریعت بھی ہیں.پس عربی زبان کے لحاظ سے وہ قواعد جو انسان کو اخلاقی طور پر نہ جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیں.ان کا نام مذہب ہے.اب رہا یہ کہ وہ قواعد کہاں پہنچاتے ہیں ؟ اس کی نسبت سب مذاہب متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہستی ہے جس تک پہنچا نا مذاہب کا فرض ہے.اس کے سوا مذہب کی اور کوئی غرض نہیں.مذہب کی غرض تجارت کے قواعد بتانا نہیں کہ جس مذہب کے لوگوں میں تجارت زور شور کی ہو ان کا مذہب سچا سمجھ لیا جائے.مذہب کی عرض دولت نہیں کہ جن لوگوں کے پاس مال زیادہ ہو ان کے مذہب کو سچا

Page 75

انوار العلوم جلد ۵ ۵۵ صداقت اسلام کہا جائے.مذہب کی غرض حکومت نہیں کہ جن لوگوں کے پاس ملک زیادہ ہوں ان کے مذہب کو درست سمجھ لیا جائے.بلکہ مذہب کی غرض یہ ہے کہ وہ ایک ایسی سڑک تا دے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں جو مذہب اس غرض کو پورا کرتا ہے وہ پہنچا ہے اور جو نہیں پورا کرتا دہ سچا مذہب نہیں ہے.کیا اسلام مذہب کی غرض کو پورا کرتا ہے ؟ اب جب کہ ہمیں پتہ لگ گیا کہ مذہب کی غرض یہ ہے.تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اسلام کی صداقت اس سے ثابت ہوتی ہے اور کیا اسلام کوئی الیسا رستہ پیش کرتا ہے جس پر چل کر اللہ تعالی تک پہنچ جائیں ؟ یا ایسی تعلیم دیتا ہے کہ جو دل کو تو بھائی اور اچھی لگتی ہو مگر خدا تعالیٰ نیک نہ پہنچاتی ہو ؟ اگر اسلام کی تعلیم خدا تعالی تک نہیں پہنچاتی تو خواہ اس کی صداقت کی کیسی ہی دلیلیں کیوں نہ دی جائیں ان کا کوئی فائدہ نہیں.ہاں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اسلام انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے تو ہر ایک عقلمند اور سمجھدار انسان کو ماننا پڑے گا کہ اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور سچا مذہب ہے.اس اصل کے بعد میں ہر ایک مذہب میں کچھ نہ کچھ خو بیاں پائی جاتی ہیں تمہیدی طور پر ایک اور بات بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی مذہب کے سچا ثابت کرنے سے یہ نہیں ثابت ہو جاتا کہ باقی مذاہب بالکل بیہودہ اور ان کی ساری کی ساری تعلیم لغو ہے.ہمارے ملک میں بہت بڑا فساد اسی وجہ سے برپا ہوتا ہے کہ ہر مذہب کے لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ صرف ہمارا ہی مذہب سچا ہے اور باقی تمام مذاہب سرتا پا جھوٹے ہیں.لیکن جن لوگوں نے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں کوئی بھی خوبی نہ ہو.اگر یہ بات ہے کہ کسی مذہب کی ہر ایک بات جھوٹی اور لغو ہے اور اس میں کوئی بھی خوبی ایسی نہیں ہے جو انسان کے دل کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور عقلمند لوگ اس پر چل رہے ہیں.اصل بات یہی ہے کہ ہر ایک مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں.پس کسی مذہب کو سچا ثابت کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ باقی کسی مذہب میں کوئی خوبی نہیں.بلکہ یہ ہیں کہ وہ کون سا مذہب ہے جس میں سب سے زیادہ خو بیاں پائی جاتی ہیں.ورنہ یوں تو کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس میں قطعاً کوئی خوبی نہ پائی جاتی ہو.خواہ کوئی کتنا ہی ابتدائی مذہب ہو

Page 76

انوار العلوم جلد ۵ 44 صداقت اسلام اس میں بھی ضرور کوئی نہ کوئی خوبی ہوگی.آسٹریلیا کے لوگوں کا مذہب یا امریکہ کے بعض علاقوں کے لوگوں کے مذہب کو بہت ابتدائی سمجھا جاتا ہے ان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خوبیاں ہیں.مثلا یہ کہ کسی سے بدی نہ کرو ، شراب نہ پیٹو ، بھائیوں سے محبت کرو، مخلوق سے نرمی کے ساتھ پیش آؤ، صدقہ دو.پس جب ان مذاہب میں بھی ایسی تعلیم پائی جاتی ہے تو جن مذاہب کو متمدن لوگ مانتے ہیں ان کے متعلق یہ کہنا کہ ان میں کوئی خوبی نہیں اس سے بڑھ کر اور کیا نادانی ہوسکتی ہے.پس کسی مذہب کی صداقت پر غور کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہتے کہ ہر ایک مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں.ہاں دیکھنا یہ چاہتے کہ سب سے زیادہ خو بیاں کون سے مذہب میں پانی جاتی ہیں.بعض مذا ہب والے کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں لکھا ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرو.اس لئے ہمارا مذہب سچا ہے.ہم کہتے ہیں کوئی ایسا مذہب تو دکھاؤ جس نے کہا ہو کہ فلم کرو.اسی طرح بعض مذاہب والے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں لکھا ہے لوگوں سے محبت کرو.ہم کہتے ہیں یہ خوبی ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون سا مذ ہب ہے جس میں لکھا ہے کہ لوگوں سے عداوت کرو.اگر کوئی نہیں تو پھر کس طرح مان لیں کہ صرف تمہارا ہی مذہب سچا ہے.پھر کوئی کہے کہ ہمارے مذہب میں لکھا ہے کہ صدقہ کرو اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا مذہب سچا ہے.ہم کہیں گے کہ وہ کون سا مذہب ہے جو کہتا ہے کہ کبھی صدقہ نہ کرو.سارے کے سارے مذاہب ایسے ہیں جو کسی تعلیم دیتے ہیں پھر صرف تمہارے مذہب کو کیونکر سچا مان لیا جائے.کسی مذہب کی سچائی کس طرح ثابت ہو سکتی ہے ؟ کی مذہب کے تنا ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں چند اخلاقی باتیں دکھا دی جائیں کیونکہ اس لحاظ سے تو تمام کے تمام مذاہب قریباً یکساں ہیں.نہیں اگر کسی مذہب کی سچائی ثابت ہو سکتی ہے تو اسی طرح کہ اس میں ایسی تعلیم دی گئی ہو جس سے خُدا تعالیٰ تک انسان پہنچ سکتا ہو اور خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہو اور تعلیم اپنی تفصیلات میں بھی صحیح اور درست ہو.یوں تو بعض مذاہب ایسے ہیں کہ وہ اصول کے رنگ میں اچھی تعلیم کے ساتھ متفق ہیں لیکن ان کی فروعات اور تفصیلات میں جا کر بڑا فرق پڑ جاتا ہے اور ان کی تعلیم صحیح اور درست نہیں ثابت ہو سکتی.ند

Page 77

انوار العلوم جلد ۵ AL صداقت اسلام اسلام خدا تعالی سے بندہ کا تعلق قائم کرتا ھے اس بات کو مد نظر رکھ کر ہم 7 دیکھتے ہیں کہ اسلام خدا تعالیٰ سے بندہ کا تعلق جوڑتا ہے یا نہیں.اگر جوڑتا ہے تو پھر اس بات کے ماننے میں کسی قسم کا شبہ نہیں رہ جاتا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس کے ذریعہ انسان کو نجات حاصل ہو سکتی ہے.اس کے متعلق قرآن کریم کا دعوی ہے اور قرآن علی الاعلان کہتا ہے کہ جو شخص مجھ پر عمل کرتا ہے میں خدا تعالیٰ سے اس کی اتنی محبت بڑھا دیتا ہوں کہ اور کسی ذریعہ سے اتنی محبت حاصل ہونی ممکن ہی نہیں.چنانچہ فرماتا ہے.الله نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَا مُتَشَابِهَا مَثَانِي تَقْشَعِرُ مِنْهُ جُلُود الَّذِينَ يَحْشُونَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُم إلى ذِكْرِ اللهِ ذَلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِى به مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ من هاده الزمر : ۲۴) خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے قرآن ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں بہتر سے بہتر تعلیم دی گئی ہے.یہ نہیں کہ صرف اس کے اندر اچھی تعلیم ہے اور باقی سب میں بری.بلکہ یہ کہ اس کے اندر سب سے اعلیٰ اور اچھی تعلیم دی گئی ہے.یہاں خدا تعالیٰ نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ دوسرے مذاہب کی کتابوں میں اچھی تعلیم نہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ یہ تعلیم بہتر سے بہتر ہے.گویا اس کی کوئی بات کسی دوسری بات کے خلاف نہیں.بلکہ ہر ایک بات ایک دوسری کی تصدیق اور تائید کرتی ہے.اور اس کی تفصیلات میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ وہ ایک ایسی اصل پر قائم ہیں کہ اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتیں.پھر وہ ایسی تعلیم ہے کہ مثانی یعنی بار بار دہرائی جاتی ہے گویا اس میں ایسی روحانی طاقت اور قوت ہے کہ انسان کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کے اندر ایسی کشش ہے کہ جو سنتا ہے اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے جس طرح جب کوئی اپنے محبوب کی آواز ایک بار سنتا ہے.وہ پھر سُنتا ہے تو چاہتا ہے کہ پھر سنوں.اسی طرح قرآن کی آواز جو سنتا ہے وہ پھر سنتا ہے.اور پھر سُنتا ہے.اسی طرح اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ چونکہ قرآن کی تعلیم ہر زمانہ اور ہر صدی کے لئے ضروری ہے اس لئے ہر زمانہ میں دہرائی جاتی ہے اور تازہ کی جاتی ہے مٹائی نہیں جاتی.پھر اس کی خوبی یہ ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمُ اس سے جلدوں پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جلال ، اس کی قوت ، اس کی شان ، اس کی شوکت کا بیان اس میں ایسا صاف صاف ہے کہ جب کوئی پڑھتا ہے تو خواہ دین سے کتنا ہی دُور ہو خدا کے خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمُ إلى ذكر الله

Page 78

انوار العلوم جلد ۵ صداقت اسلام ذلِكَ هُدَى اللهِ صرف خوف اور ڈر تو ڈراؤنی چیزوں سے بھی پیدا ہوتا ہے.اس سے صرف خون نہیں پیدا ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ہی محبت بھی پیدا ہو جاتی ہے.خوف دو قسم کی چیزوں سے پیدا ہوا کرتا ہے.ایک ایسی چیزوں سے جو ڈراؤنی ہوں اور دوسری وہ جو شان و شوکت والی ہوں لیکن ڈرا ولی چیزوں سے صرف خون پیدا ہوتا ہے.بلکہ چونکہ یہ شان والی ہے اس لئے اس کی عظمت اور شان کی وجہ سے اس کا خون پیدا ہوتا ہے جس کے ساتھ محبت بھی ہوتی ہے چنانچہ فرماتا ہے ان کی جلدیں محبت سے نرم ہو جاتی ہیں.تو قرآن یہ دعوی کرتا ہے کہ اس میں سب سے بہتر تعلیم ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہی مذہب سچا ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ میں سب سے بہتر تعلیم پیش کرتا ہوں.نہ وہ جو یہ کہے کہ اور کسی مذہب میں کوئی سچائی ہی نہیں.پھر وہ مذہب سچا ہو سکتا ہے جو ایسی تعلیم دے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے اور قرآن دعوامی کرتا ہے کہ میرے اندر وہ رستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان خدا تک پہنچ جاتا ہے.اب ہم قرآن کے اس دعوای پر نظر کرتے ہیں کہ آیا یہ ٹھیک ہے کہ قرآن خدا تعالیٰ سے انسان کا تعلق پیدا کر دیتا ہے.مگر اس مسئلہ کے دیکھنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ سے انسان کا جو تعلق ہوتا ہے وہ کس طرح ہوتا ہے کسی چیز کے اچھا ہونے کا سائینٹیفک ذریعہ سے اس طرح ثبوت مل سکتا ہے کہ اس کے لئے طریق کیا بتایا گیا ہے.اگر وہ طریق صحیح ہو تو خواہ اس کو ماننے کا دعوی کرنے والوں کی حالت کیسی ہی ہو اس سے اس مذہب پر کوئی الزام نہیں آسکتا.بلکہ یہی کہا جائے گا کہ انہوں نے اس طریق پر عمل نہیں کیا.مثلاً کوئی شخص جیل خانہ میں جائے اور وہاں ہندوؤں ، سکھوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کو دیکھے اور کہے کہ سب کے مذاہب جھوٹے ہیں کیونکہ اگر سچا مذہب رکھتے ہوتے تو جیل خانہ میں نہ پڑے ہوتے.تو یہ درست نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے مذہب کے خلاف کیا تب جیل خانہ میں ڈالے گئے.اگر اپنے اپنے مذہب کے احکام کی پابندی کرتے تو ایسانہ ہوتا.پس کسی مذہب کو سچا معلوم کرنے کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا اس نے ایسے اصول بتائے ہیں یا نہیں جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے.اگر بنائے ہوں لیکن اس مذہب کے ماننے والے ایسے لوگ نظر آئیں جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہے تو سہی کہا جائے گا کہ ان کا اپنا قصور ہے نہ کہ اس مذہب میں نقص ہے.جیسے کو نین تپ میں فائدہ دیتی ہے لیکن اگر کوئی کو نین کو ہاتھ میں دبائے رکھے یا جیب میں ڈالے رکھے اور کہے کہ مجھے اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو اسے کہا جائے گا کہ کھانے سے فائدہ ہوا کرتا ہے نہ کہ ہاتھ میں پکڑنے یا جیب

Page 79

انوار العلوم جلد ۵ ۵۹ صداقت اسلام میں ڈالے رکھنے سے.اسی طرح مذہب کا فائدہ بھی اسی کو ہو سکتا ہے جو اس پر عمل کرے نہ کہ صرف منہ سے اس کے ماننے کا دعوی کرے.اب اس بات کو مدنظر رکھ خدا تعالیٰ سے تعلق کن ذرائع سے پیدا ہو سکتا ھے ؟ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی سے تعلق کن ذرائع سے پیدا ہو سکتا ہے.دنیا میں کسی سے تعلق پیدا ہونے کے دو طریق میں تعلق یا تو محبت سے پیدا ہوتا ہے یا خوف سے.اب ہم اسلام کی تعلیم پر غور کر کے دیکھیں گے کہ آیا اسلام نے ایسی تعلیم دی ہے کہ جس سے خدا تعالیٰ سے کمال درجہ کی محبت اور خوف پیدا ہوتا ہے یا نہیں اگر دی ہے تو ثابت ہو گیا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو خدا تعالیٰ سے ملانے کا صیحیح رستہ بتاتا ہے گو دوسرے مذاہب میں بھی خوبیاں ہیں اور اگر یہ ثابت نہ ہو تو پھر ماننا پڑے گا کہ اسلام کے سوا کسی اور مذہب کی تلاش کرنی چاہئے.قرآن شریف میں ان ذرائع سے کس طرح کام لیا گیا ہے ؟ اس کے لئے ہیں قرآن کریم کی تفصیلات کو چھوڑ کر سورۃ فاتحہ کو لیتا ہوں.جو پہلی سورۃ ہے اور جس میں صرف سات آیتیں ہیں دُنیا کے تمام فلسفے اس بات پر متفق ہیں کہ تعلق قائم رکھنے کے لئے پہلے محبت سے کام لینا چاہتے اور پھر خوف سے.مثلاً بچہ کو صبح پڑھنے بھیجنے کے لئے پہلے محبت سے کہا جائے گا بیٹا پڑھنے جاؤ یہ نہیں کہ اُٹھتے ہی اس کے منہ پر تھپڑ مار دیں.اور اگر نہ مانے تو کہیں گے لو یہ مٹھائی لو اور جاؤیا آکرلے لینا.اس پر بھی اگر وہ نہ مانے تو پھر ماریں گے.گویا پہلے محبت سے بھیجا جائے گا اور پھر خوف سے.اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن نے اسی طبعی طریقہ کو خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کے لئے برتا ہے یا نہیں.تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ کو شروع ہی الحمد سے کیا گیا ہے جس میں محبت کا ذکر ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل جو ایک مدت کی تحقیقات کے بعد ثابت کیا گیا ہے اسے قرآن نے بہت عرصہ قبل بیان کر دیا ہے.پھر تعلق دو وجہ سے ہوا کرتا ہے.یا تو اس طرح کہ کوئی چیز اپنی ذات میں پیاری لگتی ہے یا اس سے فائدے پہنچتے ہیں.جیسا کہ انگریزی دانوں میں محاورہ ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر قبول کرنا چاہئے.ان دونوں اصول کے متعلق دیکھتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے.

Page 80

انوار العلوم جلد ۵ صداقت اسلام سورۃ فاتحہ کی لطیف تفسیر سورہ فاتحہ میں ان دونوں باتوں کو دیا گیا ہے اور اس میں ایسے اصول بیان کئے گئے ہیں کہ ممکن نہیں اگر انسان ان پر عمل کرے تو خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق نہ پیدا ہو.چنانچہ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ سُبْ تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.اللہ نام ہے خدا کا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہستی جس میں کوئی نقص نہیں اور تمام خوبیوں کی جامع ہے.دُنیا میں لوگ ایسی چیزوں سے محبت کرتے ہیں جو سب خوبیوں سے متصف نہیں ہوتیں اور ایسی نہیں ہوتیں کہ ان میں کسی قسم کا نقص نہ پایا جاتا ہو مثلاً عورتوں پر عاشق ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ جس عورت پر کوئی عاشق ہوتا ہے وہ دُنیا کے سارے حسن کی جامع ہوتی ہے.قصہ مشہور ہے کہ لیٹی کو دیکھ کر کسی نے مجنوں کو کہا تھا کہ وہ تو کوئی خوبصورت نہیں تم کیوں عاشق ہو ؟ مجنوں نے کہا بیٹی کو میری آنکھ سے دیکھنا چاہئے.اسی لئے کہا جاتا ہے.لیلی را بچشم مجنوں بائد دید - تو کوئی عورت ایسی نہیں ہو سکتی ہو تمام حسن کی جامع ہو اور نہ ہی کوئی اور چیز ایسی ہو سکتی ہے جس میں کوئی نقص نہ پایا جاتا ہو.مگر خدا ایسا ہے کہ تمام خوبیوں کا جامع ہے اور تمام نقصوں سے پاک ہے.اسی لئے فرمایا کہ اللہ ہی وہ ہستی ہے جو تمام خوبیوں کی جامع ہے.ہم چاند کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور خوش نا پہاڑوں کو دیکھ کر مسرت حاصل کرتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ وہ ہمیں کچھ دیتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اپنی ذات میں اچھے لگتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَلحَمدُ للہ.اسے انسان اگر تو ان لوگوں میں سے ہے جو چیز کی ذاتی خوبی کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں تو آئیں تجھے بتاؤں کہ اسلام وہ خدا د کھاتا ہے جو تمام نقصوں سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے.لیکن چونکہ تمام فطرتیں ایسی نہیں ہو تیں کہ صرف یہ جان کر کسی چیز سے محبت کریں کہ وہ اپنی ذات میں اچھی ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں فائدہ بھی پہنچائے گو یہ گری ہوئی فطرت کے انسان 09 ہوتے ہیں ان کے متعلق فرماتا ہے.اَلحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے حسن کے علاوہ تم پر احسان بھی کرے تو آؤ تمہیں بتائیں خدا وہ ہے کہ جو تمہیں پیدا کرتا اور پھر ادنی اور گری ہوئی حالت سے ترقی دے کر اعلی درجہ پر پہنچاتا ہے مثلاً انسان کے جسم کا کوئی حصہ گیوں سے بنتا ہے کوئی چنے سے کوئی جو سے یا اور وہ چیزیں جو انسان کھاتا ہے ان سے ایک مادہ بنتا ہے اور اس کا آگے انسان تیار ہو کر صفحہ دنیا پر آجاتا اور بڑے بڑے کام کرتا ہے.یہ سب خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے ہی کھیل ہیں.تو فرمایا.اللہ تمہارا رب اور تمہارا محسن ہے.پھر ایک دو کا نہیں بلکہ رب العالمین سب کا ہے.خواہ کوئی یورپ کا رہنے والا ہو یا افریقہ کا یا امریکہ کا.

Page 81

انوار العلوم جلد ۵ صداقت پھر کی مذہب کا ہو وہ سب کا رب ہے.حتی کہ حیوانوں اور پرندوں کا بھی رب ہے.حیوانوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو اگر دیکھا جائے تو عجیب نظارہ نظر آتا ہے.دیکھو انسان بیلوں سے ہل چلاتا ہے اور کھیت ہوتا ہے.اس کے نتیجہ میں اگر انسان کو کھیت میں سے صرف دانے ہی حاصل ہوتے تو وہ بیلوں وغیرہ کو کھانے کے لئے غلہ نہ دیتا اس لئے دانوں کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے توڑی رکھ دی ہے کہ یہ ان کا حصہ ہے جو انسان کے ساتھ کام کرنے والے تھے.تو خدا تعالے نے ہرا ایک مخلوق کا حصہ رکھا ہوا ہے اور اس کو رزق پہنچاتا ہے.حتی کہ ایسی جگہ جہاں انسان کے خیال میں بھی نہیں آسکتا کہ کس طرح رزق پہنچ سکتا ہے.یعنی زمین کے نیچے یا سمندر کے اندر وہاں بھی جو مخلوق ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ نے وہیں خوراک رکھی ہوئی ہے.تو فرمایا اللہ ایسا ہے جو تمام کے تمام جانداروں پر احسان کرنے والا ہے.پھر احسان تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو زمانہ ماضی میں کیا گیا ہو.دوسرا وہ جو زمانہ حال میں کیا جائے.تیسرا وہ جو زمانہ آئندہ میں کیا جانے والا ہو.اور دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی قدیم احسان کا خاص لحاظ کرتے ہیں.کئی ایسے ہوتے ہیں جو حال کے احسان کی قدر کرتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے احسان کو بڑا سمجھتے ہیں.یہاں خدا تعالیٰ نے ان تینوں قسم کے لوگوں کے متعلق فرمایا.خدا رتب العلمین ہے.یعنی فطرتیں جو زمانہ ماضی کے احسان کو یاد رکھنے والی ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان پر وہی خدا احسان کر رہا ہے.اور جو آئندہ کے احسان کا خیال رکھتی ہیں انکو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان پر بھی خدا ہی احسان کرے گا.اس لئے وہی ایک ایسی ذات ہے جس سے محبت کرنی چاہئے.پھر جب خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے ماتحت انسان کی تکمیل ہو جاتی ہے اور وہ کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو جس طرح ماں باپ جو ان بچہ کو کام پر لگانے کے لئے اس کو سامان مہیا کر دیتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے کہ جب انسان کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اس وقت یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے بغیر اس کی محنت اور کوشش سے کام کرنے کے اسباب عطا کرتا ہے.اس بات سے اسلام کی دوسرے مذاہب پر بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ بعض مذاہب والے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نجات صرف ہمارے ہی مذہب میں ہے مگر کوئی اور اس میں داخل نہیں ہو سکتا.لیکن قرآن شریف ایسا نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا تمام لوگوں کا رب ہے اور اس نے جو مذہب لوگوں کے نجات پانے کے لئے بھیجا ہے اس کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے پھر اسلام اس خدا کو پیش کرتا ہے جو رحمانیت کی صفت بھی رکھتا ہے.یعنی وہ صرف

Page 82

انوار العلوم جلد ۶۲ صداقت اسلام ربوبیت ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے فضل سے لوگوں کو ایسے سامان بھی عطا کرتا ہے جن کے حصول میں انکے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہوتا.اس میں بعض مذاہب پر اس طرح اسلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں خدا بغیر عمل کے انسان کو کچھ نہیں دیتا.حالانکہ یہ بات تجربہ اور مشاہدہ بلکہ نیچر کے بالکل ره خلاف ہے.کیونکہ سورج ، زمین ، پانی ، ہوا ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر کوئی انسان زندہ نہیں سکتا.اب اگر بغیر عمل کے خدا انسان کو کچھ نہ دیتا تو ان کو بھی پیدا نہ کرتا.مگر اس نے پیدا کیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ بغیر عمل کے بھی دیتا ہے اور اگر ان چیزوں کو عمل کا نتیجہ مانا جائے تو یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے.کیونکہ انسان عمل تو تب کر سکتے جب کہ زندہ ہوتے اور زندہ ہوا کے بغیر رہ نہیں سکتے.پس ثابت ہوا کہ انسانوں کو ہواپہلے لی پھر انہوں نے کوئی عمل کیا.اسی طرح کھانا ہے.اگر کھانا انسان کے عمل کرنے سے پہلے نہ ہوتا تو وہ زندہ نہ رہ سکتا اور جب زندہ نہ رہ سکتا تو عمل بھی نہ کر سکتا.پس اسلام کی تعلیم کے مطابق خدا تعالیٰ رحمن ہے.یعنی بغیر محنت کے دیتا ہے اور بے حد دیتا ہے.دیکھو ہوا جو انسان کو مفت اور بغیر اس کی محنت اور مشقت کے ملتی ہے ایسی ہے کہ اس کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی اور ہر ایک کو مل جاتی ہے.اسی طرح پانی ہے یہ بھی بھیجید ہے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے قیام کے لئے جس قدر کسی چیز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس قدر وہ آسانی سے حاصل ہوتی ہے.مثلاً کھانا ہے یہ اگر انسان کو نہ ملے تو ایک حد تک صبر کر سکتا ہے.لیکن پانی نہ ملنے پر اس سے کم اور ہوا نہ ملنے پر اس سے بھی کم عرصہ زندہ رہ سکتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے کھانا مہیا کرنے کے لئے جس قدر محنت اور کوشش رکھی ہے پانی حیا کرنے کے لئے اس سے کم اور ہوا حاصل کرنے کے لیے اس سے بھی کم رکھی ہے.تو ان چیزوں کی انسان کو جتنی جتنی ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے ان کا حصول اتنا ہی آسان بنایا ہے.پانی کے بغیر تو انسان کچھ عرصہ صبر کر سکتا ہے مگر ہوا کے بغیر ذرا بھی نہیں کر سکتا اس لئے خدا تعالے نے ہوا کے لئے کچھ بھی قیمت نہیں رکھی نہیں یہ اس کی رحمانیت کا ثبوت ہے.اور قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ رحمن ہے.پھر اسلام کہتا ہے.نہیں خدا کی صفات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے آگے خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ جب کوئی انسان کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ چونکہ اس نے میرے ہی دیئے ہوئے ذرائع سے کام کیا ہے اس لئے میں اسے اس کے کام کا کوئی بدلہ نہیں دوں گا بلکہ پہلے کی نسبت اور زیادہ ان ذرائع کو بڑھا دیتا ہے.دیکھو جو انسان خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے ہاتھ سے کام لے اس کا ہاتھ اور زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے.اور جو خدا تعالیٰ کے عطا کردہ دماغ

Page 83

انوار العلوم جلد ۵ ۶۳ صداقت اسلام سے کام لیتا ہے اس کا دماغ اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جو لوگ علوم پڑھتے ہیں ان کی نسلیں بہ نسبت ان لوگوں کی نسلوں کے جو علوم سے بے بہرہ ہوتے ہیں بہت جلدی علوم میں ترقی کر لیتی ہیں.ہندوستان میں ہی دیکھ لو مسلمانوں اور ہندوؤں کے بچے چوڑے چاروں یا اور ایسی قوموں کے بچوں سے جن میں علم نہیں آسانی سے علوم حاصل کر لیتے ہیں.تو اسلام بتاتا ہے کہ خدا وہ خدا ہے کہ جب انسان اس کے دیئے ہوئے سامانوں سے خواہ وہ سامان جسمانی ہوں یا روحانی کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ ان کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے اور بڑھ چڑھ کر فائدہ پہنچاتا ہے.اسلام کا خدا وہ ہے کہ جس کی اور بھی صفات ہیں.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حسن اور حسان سے بات نہیں مانتے بلکہ خوف اور ڈر کی وجہ سے مانتے ہیں اس لئے اسلام نے ساتھ ہی بتا دیا کہ ہم میں نہیں کہتے کہ خدا تعالیٰ سے اس لئے تعلق پیدا کرو کہ وہ محبت کرنے والا ہے اور تمام خوبیوں کا جامع ہے اور تم پر بڑے بڑے احسان کرتا ہے بلکہ اگر تم باوجود اس کے احسانوں کے اس کے احکام پر عمل نہ کرو گے تو وہ تمہیں سزا دے گا.کیونکہ وہ ملِكِ يَومِ الدِّينِ ہے.دیکھو جو لوگ دنیا میں ظاہری اسباب سے کام نہیں لیتے وہ ذلیل اور رسوا ہو جاتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تعلیم پر عمل نہیں کرتے وہ بھی تباہ اور برباد ہو جاتے ہیں.کیونکہ وہ ملك يوم الدین ہے.پس دنیا میں جو لوگ محبت سے ماننے والے ہیں وہ تو خدا تعالیٰ کے احکام کو الحَمدُ لِلّهِ رَبّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرحیم کے ماتحت مانیں گے.اور جو سزا کے خوف اور ڈر سے ماننے والے ہیں وہ ملک یوم الدین کے ماتحت مانیں گے.کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ اگر ہم خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو وہ نہیں سزا دیگا.یہ اسلام کی خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے اصولی تعلیم ہے.اس کو اگر تفصیل سے دیکھا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام کو دوسرے تمام مذاہب پر بہت بڑی فضیلت حاصل ہے.مگر خدا تعالیٰ سے تعلق یہی نہیں ہوتا کہ انسان خدا سے محبت کرے بلکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خدا کی مخلوق کی آپس میں بھی محبت اور الفت ہو.دیکھو بھائی بھائی جو آپس میں محبت کرتے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں اسی نے کہ ایک ماں باپ سے تعلق رکھتے ہیں.اسی طرح اہل ملک آپس میں محبت کرتے ہیں کیوں ؟ اسی لئے کہ ایک ملک سے تعلق رکھتے ہیں ہیں جب دنیاوی طور پر ایک چیز سے تعلق رکھنے والے آپس میں محبت کرتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک خدا سے تعلق رکھنے والوں کی آپس میں محبت نہ ہو.کیا خدا تعالیٰ ماں باپ یا ملک سے کم درجہ کا ہے اگر خدا تعالیٰ کا ان سب سے بڑا درجہ ہے تو

Page 84

انوار العلوم جلد ۵ पक्ष صداقت اسلام کیا وجہ ہے کہ ایک محلہ ، ایک شہر، ایک ملک اور ایک ماں باپ سے تعلق رکھنے والے تو آپس میں محبت کریں مگر ایک خدا سے محبت اور تعلق رکھنے والے آپس میں محبت نہ کریں.ان کی محبت سب سے زیادہ اور سب تعلقات کی نسبت مضبوط ہوتی ہے اور دُنیا میں لوگوں پر ظلم وستم کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں رکھتے جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کے بندوں سے بھی ضرور محبت کرتے ہیں.تو اسلام ہمیں اسی طرف لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جب کوئی خدا تعالیٰ کی ان صفات کو دیکھتا ہے کہ ایک طرف وہ حسن میں کامل ہے ہر ایک خوبی اس میں پائی جاتی ہے اور وہ اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے اور دوسری طرف وہ طاقت اور قوت میں کامل ہے جو اس سے تعلق توڑتا ہے اسے سزا دیتا ہے تو اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ خدا کو اپنے سامنے دیکھ لیتا ہے اور اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے بندوں کی محبت جوش زن ہو جاتی ہے.اس وقت وہ دنیا وی لحاظ سے اپنے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں پاتا.اس وقت وہ یہ نہیں کہتا کہ فلاں چونکہ ہندو ہے یا عیسائی ہے یا سکھ ہے یا اور کسی مذہب کا ہے اس لئے اس کو دُکھ دینا چاہئے.بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ سب خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے اس سے مجھے محبت اور پیار کرنا چاہئے.تو اسلام کہتا ہے کہ جب کوئی انسان اس درجہ پر کھڑا ہو جاتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.گویا اس وقت انسان یہ نہیں کہتا کہ میں ایسا کرتا ہوں بلکہ تمام کے تمام بندوں کی طرف سے کہتا ہے کہ میری عبادت ان کی عبادت ہے اور میں اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ان سب کے لئے مدد چاہتا ہوں.دنیا میں بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو زبانی تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا مال تمہارا ہی حال ہے.لیکن اگر کوئی ان کے مال سے ایک پیسہ بھی لے تو لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.مگر اسلام کہتا ہے کہ جب انسان کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو ہی پیش نہیں کرتا.بلکہ یہی کہتا ہے کہ اسے خدا ہم سب تیری عبادت کرتے ہیں اور تو ہم سب کی مدد کر اور سب کو انعام دے.پس یہ اسلام کی تعلیم ہے کہ اسلام سب کو اپنا بھائی سمجھنے اور سب کو فائدہ پہنچانے کی تلقین کرتا ہے.یہ تو بندہ کا خُدا سے تعلق پیدا کرنے کا طریق ہے.مگر یہ یک طرفہ بات ہے.کامل اور مکمل سے تعلیم وہ ہو سکتی ہے جو اس امر کا بھی ثبوت پیش کرے کہ خدا تعالیٰ بھی بندہ سے محبت اور پیار کرتا ہے

Page 85

انوار العلوم جلده ۶۵ صداقت اسلام کیونکہ اگر ایک شخص کو خدا تعالیٰ سے ملنے کا تو شوق ہو لیکن خدا تعالیٰ کو اس سے محبت نہ ہو تو پھر کیا فائدہ بس وہ مذہب سچا نہیں ہو سکتا جو صرف بندہ کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کر دے.بلکہ سچاند سب وہی ہو سکتا ہے جو اس بات کا بھی ثبوت پیش کرے کہ خدا تعالیٰ سبھی بندہ سے محبت کرتا ہے.اس کے متعلق جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ کیا کہتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالے کو بھی بندہ سے محبت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.قُلْ إِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : ۳۲ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تمہارے اندر خدا کی محبت ہے تو آؤ میری غلامی میں داخل ہو جاؤ.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.یعنی خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اسی پریس نہیں کرتا اور دیگر مذاہب کی طرح یہی نہیں کہتا کہ تمہارے دل میں خدا کی محبت پیدا ہو جائے گی بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.یہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں بہت بڑا فرق ہے.یہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ اپنے مذہب کو اعلیٰ ثابت کرنے کے لئے یہ غلط طریقی ہے کہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو گالیاں دی جائیں اور ان مذاہب کی کسی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے.اگر کسی کے پاس خوبی ہے تو اس کو پیش کرنا چاہئے دوسروں کو گالیاں دینے کا کیا فائدہ کسی کو گالیاں دینے اور مارنے کی ضرورت اسی وقت ہوا کرتی ہے کہ جب اور طریق سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.ایک طاقتور اور زبر دست تو سزا دینے کے وقت بھی نرمی اور ڈھیل ہی دیا کرتا ہے.دیکھو چوہے بلی کی کتنی ادنیٰ مثال ہے.بلی ایک ذلیل سا جانور ہے مگر وہ بھی چوہے کو پکڑتے وقت اپنا وقار دکھاتی ہے.پکڑ کر چھوڑ دیتی ہے پھر جب چوہا بھاگنے لگتا ہے تو پھر پکڑ لیتی ہے.اسی طرح کئی بار پکڑتی اور چھوڑتی ہے.تو طاقتور اور زبردست انسان چھچھورا نہیں ہوتا.چھچھورا پن وہی انسان دکھاتا ہے جو اپنی کمزوری کو محسوس کرتا ہے.تو یہ کسی کی صداقت اور خوبی کی دلیل نہیں ہے کہ دوسروں کو گالیاں دی جائیں.بلکہ صداقت کی دلیل یہ ہے کہ اپنی خوبیاں پیش کی جائیں.اگر واقع میں وہ خوبیاں ہوں گی تو ضرور قبول کی جائیں گی.ڈنڈے اور زور سے تو کوئی خوبی نہیں منوائی جاتی.خدا تعالی کا بندے سے محبت کرنا پس سارے مذا ہب تو یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا سے انسان کا تعلق اور واسطہ پیدا کر دیتے ہیں لیکن اسلام میں یہ فضیلت ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ میں وہی تعلیم نہیں دیتا جس سے خدا کی محبت تمہارے

Page 86

انوار العلوم جلد ۵ صداقت اسلام دل میں پیدا ہو سکتی ہے بلکہ تعلیم بھی دیتا ہوں کہ خدا کو تمہاری محبت پیدا ہو جائے پس اسلام یہی نہیں کہتا کہ تم نیک بن جاؤ بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ میری تعلیم پر عمل کر کے تم ایسے بن سکتے ہو کہ خود خدا تمہیں بلائے اور گئے کہ تم میرے محبوب ہو.پھر اسلام یہی نہیں کہتا کہ مرنے کے بعد تمہیں پتہ لگے گا کہ اسلام سچا مذہب ہے بلکہ اسی دنیا میں ثبوت دیتا ہے کہ تم سیدھے راستہ پر ہو اور وہ اس طرح کہ فرماتا ہے.ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) کہ آؤ اسی دنیا میں خدا کے محبوب بن جاؤ محبوب کے یہ معنی ہیں کہ اگر اس کو کوئی تکلیف ہو تو محبت اس کی مدد کرے اور اس سے کلام کر کے اُسے تسلی دے.اس کو کوئی شخص اپنا محبت نہیں سمجھ سکتا جو یہ کسے کہ مجھے فلاں سے محبت ہے اور فلاں میرا محبوب ہے لیکن جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی کوئی مدد نہ کرے تو خدا تعالیٰ کے محبوب ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جب وہ دکھ اور تکلیف میں ہو تو خدا اس کی مدد کرے اور اس سے کلام کرہے.اسلام میں خدا سے کلام کرنے کا دروازہ کھلا ہے اس کے ماتحت جب ہم اس دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کا دروازہ کھلا بتاتا ہے.چنانچہ فرمایا ہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (سوره فاتحہ کہ اسے مومنو! تم ہمیشہ یہ دعا کیا کرو کہ اسے خدا ہمیں سیدھا رستہ دیکھا.یعنی وہ رستہ جس پر چل کر پہلے لوگ خدا تک پہنچے ہیں اور خدا تعالے انہیں یقین دلاتا رہا ہے کہ تم مجھ تک پہنچ گئے ہو.اسلام کی دیگر مذاہب پر فضیلت یہ بین فرق ہے اسلام اور دیگر مذاہب ہیں.اخلاقی تعلیم میں مذاہب کا آپس میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے.ہر ایک مذہب بڑے کام کرنے سے روکتا اور اچھے کام کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ اسی دنیا میں تم کو معلوم ہو جائے گا کہ تم خدا کے مقرب اور محبوب بن گئے ہو.چنانچہ اس کا ثبوت اسلام میں ملتا ہے.کیونکہ ہر زمانہ میں ایسے لوگ آتے رہے ہیں جنہوں نے دعوی کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو انہوں نے دیکھا اور خدا ان سے کلام کرتا ہے.چنانچہ حضرت معین الدین چشتی " حضرت محی الدین ابن عربی ، حضرت جنید بغدادی اور اور بہت سے بزرگ اسلام میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے دل میں خدا کی محبت پیدا کی اور خدا تعالیٰ نے بھی ان سے محبت کی اور انہیں اپنی محبت کا جبہ پہنایا ان کی ہر تکلیف کو اس نے خود دُور کیا اور ہر شکل وقت میں انکی مدد کی.

Page 87

انوار العلوم جلد ۵ ، صداقت اسلام ہمارے زمانہ میں خدا کا ایک محبوب پس اسلام میں بہت سے ایسے بزرگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے محبوب تھے.اور اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کا ایک خاص محبوب گزرا ہے.خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کے مفاسد کو دیکھ کر اور خدا تعالیٰ سے لوگوں کا بعد اور بے رخی پا کر ایک انسان بھیجا جس نے اسلام کی خدمت کی اور اسلام کی سچائی ثابت کی.یہ وہ زمانہ تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بد سے بدتر قرار دیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ سو سال تک دُنیا سے مٹ جائے گی.اس وقت خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے کہا کون ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو مٹا سکے پیس ایسے زمانہ میں جبکہ اسلام غریب ہو چکا تھا اور ایسے وقت میں جبکہ اسلام بلحاظ تعلیم یا بلحاظ اس کے کہ سائنس اور علوم کی ترقی کی وجہ سے اس پر نئے نئے اعتراض کئے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ قرآن میں ایسی باتیں درج ہیں جو خلاف عقل ہیں پھر جو علم نکلتا اسلام پر حملہ آور ہوتا.ڈارون تھیوری نکلی تو اس کے ذریعہ اسلام پر حملے کئے گئے جیالوجی کے رو سے اسلام کو ہدف اعتراضات بنایا گیا.اسٹرانومی کے ذراجہ اسلام میں نقص نکالے گئے.غرض ہر علم کی تحقیقات کا ہی نتیجہ بتایا گیا کہ اسلام نقصوں اور غلطیوں سے پر ہے اور کسی علم کے مقابلہ پر ٹھہر نہیں سکتا.اس وجہ سے صاف طور پر کہہ دیا گیا کہ سلمان جوں جوں علوم سے واقف ہوتے جائیں گے خود بخود اسلام کو چھوڑ دیں گے اور یہ خیال الیسا وسیع ہوا کہ مسلمان کہلانے والوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے کہہ دیا کہ اسلام کی اصلاح ہونی چاہئے اور زمانہ حال کے مطابق اس کی تعلیم کو بنانا چاہئے.جب یہ حالت ہوگئی تب وہ خدا جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا تھا کہ تو میرا ایسا پیارا اور محبوب ہے کہ تیرے غلام بھی میرے محبوب ہو جائیں گے.اس خدا کی غیرت جوش میں آئی اور اس کی محبت فوارے کی طرح پھوٹی.اس نے اسلام کی عزت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ثابت کرنے کے لئے ایک ایسے انسان کو کھڑا کر دیا جو کیا محافظ شان و شوکت اور کیا بلحاظ مال و دولت اور کیا بلحاظ شہرت و عزت دنیا میں کوئی حقیقت نہ رکھتا تھا اور کہا کہ میں اس کے ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کو قائم کروں گا اور دنیا میں پھیلا دوں گا.پس خدا تعالے نے ایسے نازک اور پُر خطر زمانہ میں اسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ایک دروازہ کھولا اور قادیان سے اس شخص کو چنا اور اسے کہا کہ چونکہ تونے محمد صل اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جوڑا اپنی گردن میں پوری طرح ڈالا ہے اس لئے میں تجھے اسلام کی خدمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے لئے کھڑا کرتا ہوں.

Page 88

انوار العلوم جلد ۵ حضرت مرزا صاحب کی بعثت سے اسلام کی صداقت کا ثبوت اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اس شخص کو خدا تعالیٰ سے محبت تھی اور خدا تعالیٰ کو اس سے محبت تھی اور اس کا کھڑا ہونا کس طرح اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے ؟ دوسرے مذاہب والوں کا حق ہے کہ ہم سے یہ سوال پوچھیں کہ یہ کس طرح ثابت ہوا کہ اس شخص کا کھڑا ہونا اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے ؟ کیوں نہ کہا جائے کہ چونکہ تم کو اسلام سے محبت ہے اس لئے تم نے یہ ڈھکوسلا بنالیا ہے.اس کے لیے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کا پیارا اور محبوب ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی تائید اس کے ساتھ ہوتی ہے.اس کے مطابق دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اس کے ساتھ تھی یا نہیں اور یہ اس طرح دیکھی جا سکتی ہے کہ جب وہ خدمت اسلام کے لئے کھڑا ہوا تو جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ بتایا ہے کہ بہت معمولی حالت میں تھا اور کوئی اس کی شان و شوکت نہ تھی.نہ وہ دنیا میں مشہور تھا نہ اس کے پاس مال و دولت تھی نہ اس کے پاس جتھا اور طاقت تھی ، مگر اس زمانہ میں اس نے اعلان کیا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا " پھر اس نے اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ " فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ (تذکرہ منٹ ایڈیشن چہارم) وہ وقت آگیا ہے کہ تیری نصرت ہو اور تو دنیا میں پہچانا جائے.پھر اس نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر اعلان کیا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا، لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا " (تذکره صفحه ۱۸۴،۱۸۱ ایڈیشن چهارم) غرض اس وقت جب کہ وہ اکیلا تھا کوئی گروہ چھوڑ چند لوگ بھی اس کے ساتھ نہ تھے.اس کے گاؤں میں لوگ باہر سے نہ آتے تھے.اس کا گاؤں کوئی مشہور گاؤں نہ تھا.بالکل معمولی اور چھوٹا سا گاؤں تھا.اس وقت خدا نے اسے بتایا کہ میں تیرا نام تمام دنیا میں پھیلا دوں گا.اس وقت اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ اسی گاؤں کے اکثر لوگ جس میں وہ پیدا ہوا اور جس میں اس نے پرورش پائی اس کا نام تک نہ جانتے تھے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کو دنیا میں وہی عزت اور شہرت حاصل ہوئی یا نہیں ؟ اور وہی مدد اور اعانت حاصل ہوئی یا نہیں ؟ جس کا خدا تعالیٰ نے اس سے وعدہ کیا تھا دعوی سے قبل تو اس کی یہ حالت تھی کہ اپنے گاؤں کے لوگ بھی اس کو نہ جانتے تھے لیکن دعوای کے بعد آپ کی دنیا میں ایسی شہرت ہوئی کہ کوئی ملک اور کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں کے لوگ آپ کو نہ جانتے ہوں.ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک میں آپ کا نام پھیلا اور اس طرح وہ بات پوری ہوئی جس کا اعلان

Page 89

انوار العلوم جلد ۵ 19 صداقت اسلام اس نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر اس وقت کیا تھا جب کہ وہ بالکل گنام تھا.کوئی کہ سکتا ہے کہ چونکہ مرزا صاحب نے ایک نیا دعوی کیا تھا اور جو لوگ نئے دعوے کیا کرتے ہیں ان کے نام پھیل ہی جایا کرتے ہیں.مگر ہم کہتے ہیں کہ اسی نے نیا دعوی نہیں کیا تھا.اسی زمانہ میں اور وں نے بھی نئے نئے دعوے کئے تھے.ان کے نام کہاں پھیلے.پھر کوئی ایک بھی شخص تو ایسا نہیں جس نے قبل از وقت کہا ہو کہ میرا نام تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور پھر اس کا نام پھیلا ہو.یہ بات صرف حضرت مرزا صاحب کو ہی حاصل ہوئی ہے کہ آپ نے قبل از وقت جس طرح بتایا اسی طرح ظہور میں آیا جس سے ثابت ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کر لیا تھا.ورنہ اسی پنجاب میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے نے دعوے کئے مگر ان کے نام ہر گز نہیں پھیلے.اور نہ انہوں نے قبل از وقت اپنے متعلق کوئی اس قسم کا اعلان کیا جس قسم کا حضرت مرزا صاحب نے کیا.اب ہم پوچھتے ہیں کیا جس طرح حضرت مرزا حضرت مرزا صاح کے ذریعہ اشاعت اسلام صاحب نے قبل از وقت بتایا تھا اسی طرح ہوا یا نہیں ؟ اور ضرور ہوا.وہی اقوام جو یہ کہتی تھیں کہ اسلام ایک صدی کے اندر اندر مٹ جائیگا انہوں نے حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ اسلام قبول کیا.یورپ کے لوگ جو بوجہ مسلمانوں کے علوم اور تمدنی ترقی میں بہت پیچھے رہنے کے کہتے تھے کہ اسلام جہالت کا مذہب ہے اور اسلام کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان میں سے کئی ایک نے خود اسلام قبول کیا اور ایسے وقت میں قبول کیا جب دنیا فتویٰ دے چکی تھی کہ اسلام مٹ جائے گا.اور ایسے وقت میں اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے جبکہ اسلام لوگوں کے سامنے پیش کرنا تو الگ رہا مسلمان کہلانے والے اسے خود چُھپا رہے تھے.کیا اس سے وہ بات ثابت ہوگئی یا نہیں جو حضرت مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر بتلائی تھی کہ میرے ذریعہ دنیا میں اسلام پھیلے گا.اس کے لئے جب ہم اس بیس پچیس سال کے عرصہ کو دیکھتے میں تو معلوم ہوتا کہ انہیں لوگوں میں سے جو اسلام کے خطرناک دشمن ہیں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نہیں سوتے جب تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں بھیج لیتے.اور وہ ملک جہاں سے ہمارے کانوں میں یہ صدا آتی تھی کہ اسلام سو سال تک برباد ہو جائے گا اور وہ ملک جو اپنے خیال میں ہم پر رحم کھا کر کروڑوں روپے اس لئے خرچ کرتا تھا کہ ہم سے ایک خدا کی پرستش چھڑا کہ تین خداؤں کا حلقہ بگوش بنائے اور وہ لوگ جو ہمیں اپنا شکار سمجھے کہ ہم پر ہلچائی ہوئی نظریں ڈالتے تھے اور وہی مذاہب جو اسلام کو جہالت اور بیوقوفی کا مذہب قرار دیتے تھے اپنی کے مقابلہ میں حضرت

Page 90

انوار العلوم جلد ۵ صداقت اسلام مرزا صاحب کے غلاموں نے کھڑے ہو کر انہیں شکست فاش دی اور ان کے گھر پہنچ کر لا اللہ إِلَّا اللہ کے نعرے بلند کئے.اب ولایت میں دیکھ لو.وہی لوگ جو نہیں تثلیث پرستی میں جگڑ نا چاہتے تھے انہی میں سے بعض کے گھروں میں لا إِلهَ إِلَّا اللہ کی آواز گونج رہی ہے اور ان کے علاوہ اب یہ آواز امریکہ کی طرف بھی منتقل ہو چکی ہے.چنانچہ ہم اپنا ایک مبلغ امریکہ بھیج چکے ہیں تاکہ وہ جا کر امریکہ والوں کی توجہ اسلام کی طرف پھیرے جو اس کے لئے تیار پائے جاتے ہیں.پھر وہی جرمنی جو مادیات کی طرف سب سے زیادہ جھکا ہوا تھا اب ادھر سے بیزار ہو کر روحانیت کی طرف متوجہ ہو رہا ہے.اس کا ایک فصل چند روز ہوئے مسلمان ہوا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ جرمنی میں اسلام کی بہت ترقی ہو گی پھر روس کے کئی ایک آدمی مسلمان ہوچکے ہیں اور ان لوگوں نے مجھے لکھا ہے کہ جب ہمارے ملک میں امن و امان ہو جائے گا تو ہم اپنی زندگیاں اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دیں گے اور جہاں آپ بھیجیں گے وہاں جانے کے لئے تیار رہیں گے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اور کئی مقامات پر رکھی جاچکی ہے اور بیج کی طرح اسلام کئی جگہوں میں پہنچ چکا ہے.یہ سوائے اس کے اور کیونکر ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو بات بتائی تھی وہ پوری ہو رہی ہے.باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی حکومت سینکڑوں سال سے چلی آتی ہے لیکن کیا شمسی مسلمان حکومت کے ذریعہ یہ بات حاصل ہوئی ؟ ہرگز نہیں.مگر ایک شخص بے سروسامانی کی حالت میں خبر دیتا ہے کہ ایسا ہوگا اور چند ہی سال میں اس طرح ہونا شروع ہو جاتا ہے.حضرت مرزا صاحب کی مخالفت پھر کوئی کہ سکتاہے کہ کیا ہوا اگر کچھ لوگ مسلمان ہو گئے.یہ کون سی بڑی بات ہے ، لیکن حضرت مرزا صاحب نے یہی نہیں کہا تھا کہ اسلام دُنیا میں پھیل جائے گا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ دنیا اس کی مخالفت کرے گی اور باوجود اس کے اسلام پھیلے گا.چنانچہ دنیا نے مخالفت کی اور وہ لوگ بھی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور بڑائی پر ایمان لانے کا دعوی رکھتے تھے.انہوں نے بھی رکاوٹیں ڈالیں.دوسروں نے تو ڈالنی ہی تھیں بعض گھر کے لوگوں نے بھی سختی سے مقابلہ کیا.طرح طرح کے ظلم کئے پتھر مارے گالیاں دیں اور ہر قسم کی سختیاں کیں مگر پھر بھی وہ یہی کہتا رہا.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کو کافر کند دعوای حب پیمبرم کہ یہ لوگ خواہ مجھ سے کیسا ہی بُرا سلوک کریں اور باوجود اس کے کہ میں اس تعلیم کو پھیلانے کے لئے کھڑا ہوا ہوں جس سے وہ خود محبت کرنے کا دعوای رکھتے ہیں پھر بھی میں ان کی خاطر کو نگاہ میں رکھتا ہوں.

Page 91

الوار العلوم جلد ۵ کیونکہ آخر یہ اس پیغمبر کی محبت کا دعوی کرتے ہیں جس کا میں غلام ہوں.تو گھر کے لوگوں نے اس کا مقابلہ کیا اس کے آگے رکاڈ میں ڈالیں اس کے پیروؤں کو گھروں سے نکال دیا.ہرقسم کی تکلیفیں اور دکھ دیئے مگر پھر بھی وہ غریب اور مفلس لوگ ایک ایک کر کے بڑھنے لگے انہوں نے اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے خرچ بند کر کے اسلام کی اشاعت کے لئے خرچ دینے اور باوجود مخالفتون کے ترقی کی.لوگوں نے چاہا کہ اسلام نہ پھیلے مگر خدا تعالیٰ نے چاہا کہ روشن ہو اس لئے روشن ہوا.پس اسلام دنیا میں پھیلا اور کھیل رہا ہے اور اسلام نے دنیا کو منور کیا اور کر رہا ہے جو کہ اس شخص کے بچے اور خدا تعالیٰ کا برگزیدہ ہونے کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے.رت مرزا صاحب کی کامیابی امریکہ کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ دنیا میں کام کر نیولے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو دوسروں کو اپنے چلاتے ہیں اور دوسرے وہ جو لوگوں کے ترجمان ہوتے ہیں.مثلاً کسی ملک میں تعلیم نہ ہو اس میں ایک ایسا شخص کھڑا ہو جائے جو تعلیم کو پھیلانا اپنا مقصد قرار دے لے.گو ابتداء میں اس کی مخالفت ہوگی اور اس کے خلاف بعض لوگ کھڑے ہوں گے لیکن آخر کار وہ کامیاب ہو جائے گا.کیونکہ لوگوں کو حالات واقعات مجبور کر دیں گے کہ تعلیم حاصل کریں لیکن ایک ایسا شخص جو ایسی باتیں لے کر کھڑا ہو جن کے ماننے کے لئے حالات مجبور نہ کریں بلکہ ان کے خلاف اکسائیں اس کی کامیابی بہت مشکل ہوتی ہے.حضرت مرزا صاحب ایسے ہی لوگوں میں سے تھے کیونکہ جو کچھ انہوں نے آکر کہا سب کے سب اس کے خلاف کھڑے ہو گئے اور زمانہ کے حالات بالکل اس کے مخالف تھے.لوگ یہ تو مانتے تھے کہ خدا تعالیٰ اپنے سے بندوں سے کلام کرتارہا ہے لیکن یہ نہ مانتے تھے کہ اس زمانہ میں بھی کوئی انسان ایسا ہو سکتا ہے جس خدا تعالیٰ کلام کرے اور مرزا صاحب یہی منوانا چاہتے تھے.کیونکہ آپ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے تھے نہ کہ اہل دنیا جس طرف چل رہے تھے اسی طرف چلانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے.اس لئے آپ کا کامیاب ہونا ایک عظیم الشان بات اور آپؐ کی صداقت کا بہت بڑا ثبوت ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب ہے.زار روس کے متعلق حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی پھر اس نے قبل از وقت بتا یا کر دُنیا میں ایک خطر ناک جنگ ہوگی اور اس میں زار کی حالت خراب ہو جائے گی.چنانچہ فرمایا " زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار اور ایسا ہی ہوا پھر اس پیشگوئی میں اس نے جنگ کا تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیا.یہاں تک کہ بعض عد تذکره صفحه ۵۴۰ ایڈیشن چهارم

Page 92

صداقت اسلام اشتہارات میں ان میدانوں کی ہو ہو تصویر کھینچ دی جہاں بڑی بڑی خطرناک لڑائیاں ہوئیں اس پیشگوئی کا ایک شعر یہ ہے.رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کر دے گی انہیں مثل درختان چناره اور چنانچہ فرانس کی وہ جنگ عظیم جس میں جرمنی کو پسپا ہونا پڑا اس کی جائے وقوع وہ تھی جہاں کثرت سے چنار کے درخت تھے.ادھر تو خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور ادھر چنار کے سُرخ پنے مجھے ہوئے خون کی مانند تھے جو اس نقشہ کو اور زیادہ بھیانک بنا رہے تھے.غرض اس نے قبل از وقت بتایا کہ ایک عظیم الشان جنگ ہوگی اور اس میں زارہ کی حالت خطر ناک ہو گی چنانچہ اس کی وفات کے بعد ہم نے دیکھا کہ لڑائی ہوئی اور اس میں سب سے خطرناک عبرت انگیز زار روس کی حالت ہوئی.یورپ کے اور بادشاہ بھی اپنے ملک میں اختیارات رکھتے تھے لیکن زار ان سب سے بڑا با اختیار بادشاہ تھا.چنانچہ جن الفاظ میں وہ دستخط کیا کرتا تھا ان کے یہ معنی تھے کہ خدا کا نائب.تو حضرت مرزا صاحب کو بتایا گیا کہ ایک بہت بڑی جنگ ہوگی او اس میں نوار روس پر بہت بڑی مصیبت آئے گی.اور وہ مصیبت کوئی ایسی نہیں ہوگی جس سے وہ فوراً مر جائے گا بلکہ اس کی حالت نہایت دردناک ہوگی اور نہایت درد ناک حالت سے گذر کر مرے گا اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح ہوا یا نہیں ؟ زار روس پوری شان و شوکت کے ساتھ حکمران ہے کہ ایک علاقہ سے بغاوت کی اسے خبر ملی وہ اس طرف روانہ ہوتا ہے اور فوج کے کمانڈر کو لکھتا ہے کہ باغیوں کو سخت منا دو.میں بھی آتا ہوں.لیکن ابھی وہ چند ہی شیشن گزرتا ہے کہ اسے تار کے ذریعہ خبر ملتی ہے کہ حالت نازک ہو گئی ہے.وہ کمانڈر کو لکھتا ہے کہ فلاں کو انتظام کی باگ دے دو.پھر چند سٹیشن اور آگے جاتا ہے کہ خبر ملتی ہے کہ حالت اور بھی خراب ہو گئی ہے اس پر لکھتا ہے کہ نرمی اختیار کرو.پھر ٹیشن پر ہی ہے کہ کچھ لوگ آتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تم تمام اختیارات سے دستبردار ہو جاؤ.اس کے بعد اس کی جو حالت ہوئی وہ آپ لوگوں نے اخباروں میں پڑھی ہی ہوگی.اس سے بڑھکر اس کی اور کیا حالت زار ہو سکتی تھی کہ اس کی لڑکیوں کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے شرمناک سلوک کیا گیا.پھر اس کو بلاک کر کے اس کی حالت زار کو انتہاء تک پہنچا دیا جاتا ہے.یہ واقعات روز روشن کی طرح ا تذکرہ صفحه ۵۳۹ ایڈیشن چهارم

Page 93

انوار العلوم جلد ۵ ۷۳ صداقت اسلام ثبوت دے رہے ہیں کہ جس شخص نے یہ خبر دی تھی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور خدا تعالیٰ سے اس کا بہت بڑا تعلق ہے اور اس سے ثابت ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں اب بھی ایسا انسان پیدا ہوتا ہے جس کے دل میں خدا تعالیٰ سے محبت پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس سے اپنی محبت کا ثبوت دیتا ہے.اسلام کی صداقت میں ایک اور پیشنگوئی پھر لوگ کتے ہیں کہ وہ اسلام کا دشمن تھا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کا کیسا عاشق تھا.اس کے اپنے خاندان کے بعض لوگوں نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی تو اس نے ان سے قطع تعلق کر لیا.اسی خاندان کے ایک حصہ نے جو اسلام کی ہتک کیا کرتا تھا آپ درخواست کی کہ آپ ایک معاملہ میں ہم سے اچھا سلوک کریں.مرزا صاحب نے کہا اچھا اگر تمہاری سے اصلاح ہو جائے تو ہم سلوک کر دیتے ہیں لیکن چونکہ ان کی اصلاح آپ سے تعلق پیدا کرنے ہوسکتی تھی اس لئے آپ نے کہا کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ مجھ سے کر دو.انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ کیا تم پھوپھی کی لڑکی سے جو تمہاری بہن ہے شادی کرنا چاہتے ہو.حضرت صاحب نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو اپنی پھوپھی کی لڑکی سے شادی کی تھی.کہنے لگے انہوں نے بھی بہن سے شادی کی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تک پر حضرت مرزا صاحب نے انہیں کہا کہ اس پر تمہیں خدا کی گرفت ہو گی.نادانوں نے اس پر ہنسی اڑائی.حالانکہ یہ ایک عظیم الشان ثبوت تھا اسلام کی صداقت اور خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ کلام کرنے کا.چنانچہ جب انہوں نے اس طرح کہا تو انہیں کہا گیا کہ اگر تم نے توبہ نہ کی اور اسی جگہ شادی نہ کی جہاں کے متعلق تم نے ایسے الفاظ کے ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے تو کسی اور جگہ شادی کرنے سے تین سال کے عرصہ میں لڑکی کا باپ اور جس سے شادی کی جائے گی وہ اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا.یعنی اس پیشگوئی میں یہ باتیں بتائی گئی تھیں کہ (ا ) لڑکی کی شادی ہونے تک اس کا باپ زندہ رہے گا.(۲) اگر اس نے کسی اور جگہ لڑکی کا نکاح کر دیا تو نکاح کرنے سے تین سال کے اندر اندر وہ مرجائے گا.(۳) جس سے اس کی شادی کی جائے گی وہ اڑھائی سال تک مرجائے گا.(۴) پھر یہ بھی کہا گیا تھا کہ تو بہ کہ تو بہ کر بلا آرہی ہے.یعنی اگر وہ توبہ کرلیں گے تو بلا ان سے ٹل جائے نی.اس میں یہ بتایا گیا کہ عورت رجوع کرلے گی.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح یہ پیش گوئی پوری ہوئی.اس کے شائع ہونے کے بعد لڑکی کا باپ اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اس کا نکاح نہیں کرتا.

Page 94

انوار العلوم جلد ۵ صداقت اسلام پھر جب وہ نکاح کرتا ہے اور نکاح کو ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرتے کہ اس پیش گوئی کے ماتحت مرجاتا ہے.پھر جیسا کہ بتایا گیا تھا کہ اگر وہ رجوع کرلیں گے تو بلا مل جائے گی.باقی لوگ رجوع کرتے ہیں اور اس عورت کی طرف سے پیغام آتا ہے کہ اس معاملہ میں میرا تو کوئی قصور نہیں مجھے معاف کیا جائے.اس طرح گویا وہ اسلام کی بنک سے تو یہ کرتی ہے پھر دوسرے رشتہ دار بھی تو بہ کرتے ہیں اور اس طرح پیش گوئی کا دوسرا حصہ جو تو بہ کرنے پر لا کے ٹلنے کی صورت میں ظاہر ہونا تھا پورا ہوتا ہے چنانچہ وہ عورت اور اس کا خاوند اب تک زندہ ہیں.ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کا نہ مرنا اس پیش گوئی کے جھوٹا ہونے کا ثبوت ہے.لیکن دراصل ان کا زندہ رہنا پیش گوئی کے سچا ہونے کا ثبوت ہے.کیونکہ اس پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ خوبی تُونِي فَإِنَّ الْبَلَاءَ عَلَى عَقِبِكِ تذکره صفر۱۳۵ ایدین بیارم یعنی اگر تو بہ کریں تو بلا ٹل جائے گی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بنگ آمیز الفاظ استعمال کئے تھے اس کی لڑکی کے خاوند کا مرنا اس کے لئے عذاب تھا.اگر وہ توبہ کرلیتی تو یہ عذاب ہٹا دیا جاتا.کیونکہ اگر با وجود اس کے توبہ کرنے کے اس عذاب کو ہٹایا نہ جاتا تو یہ پیشگوئی غلط نکلتی.لیکن چونکہ اس نے توبہ کی اس لئے یہ عذاب ہٹا دیا گیا اور اسے معاف کر دیا گیا.پھر اس لڑکی کی جس شخص سے شادی ہوئی تھی اس نے ایک خط لکھا جس میں حضرت مرزا صاحب کی تعریف کی.پھر اس لڑکی کے اور رشتہ داروں نے بھی تو بہ کر لی اور اس طرح یہ پیش گوئی پوری ہوئی اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر پیش گوئی پوری نہ ہو سکتی تھی اور کہا جاسکتا تھا کہ یہ پیشگوئی ایک بالا رادہ کام کرنے والی ہستی کی طرف سے نہ تھی کیونکہ فرض کرو ایک مکان پر پہاڑ سے پتھر گرتا ہے اور صاحب مکان کے بھائی بیٹے اور دوسرے رشتہ دار اس کے نیچے دب کر مر جاتے ہیں.اس کے متعلق کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ مالک مکان نے اپنے ارادے سے پھر گرایا تھا.کیونکہ اگر وہ ارادہ سے پتھر گرا تا تواپنے رشتہ داروں کو ضرور خبر کر دیتا اور انہیں بچالیتا اور اپنے دشمنوں کو ہلاک ہونے دیتا.تو بالا رادہ وہی فعل کہلا سکتا ہے جو انسان کے اعمال کے مطابق ہو.دیکھو پولیس ارادہ سے اسی کو پکڑتی ہے جو مجرم ہوتا ہے غیر مجرم کو نہیں پکڑتی.یہ ممکن ہے کہ غلطی سے کسی غیر مجرم کو پکڑے لیکن عقل اور سمجھ کے ماتحت یہی ہوتا ہے کہ مجرم کو گرفتار کیا جاتا ہے.اسی طرح اگر مجسٹریٹ کسی بے قصور کو چھوڑ دیتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سزا دینے کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ وہ ارادہ کے ماتحت کام کرتا ہے.پس اگر تو بہ کرنے پر بھی وہ لوگ ہلاک کئے جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ پیش گوئی غلط نکلی اور کسی نجومی کی پیشگوئی تھی.مگر جب انہوں نے توبہ کرلی اور بچ گئے تو صاف ظاہر ہو گیا کہ پیشنگوئی پوری ہو گئی اور اس مہستی کی

Page 95

انوار العلوم جلد ۵ صداقت اسلام طرف سے تھی جو بالارادہ کام کرتی ہے.جیسی کسی کی حالت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس سے سلوک کرتی ہے.یہی یہ پیش گوئی اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کا خدا مشین کی طرح نہیں ہے کہ وہ امتیاز نہیں کر سکتا.بلکہ ایک بالا رادہ ہستی ہے.ہمارے مخالف سمجھتے ہیں کہ یہ پیش گوئی غلط نکلی.مگر ان کو دھوکا لگا ہوا ہے اصل میں یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی.دیوانہ کتے کے کاٹے کا بچنا اب کچھ اور باتوں کو لیتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے جو باتیں پیش کی ہیں ان.سے اسلام کا جلال اور صداقت ثابت ہوتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو ایسی باتیں بتائیں جو سوائے یار غمگسار کے کسی کو نہیں بتاتا.ایک دفعہ ایک لڑکے کو دیوانہ سکتے نے کاٹا اور اسے کسولی بھیج کر علاج کرا یا گیا لیکن جب وہاں سے واپس آیا تو تھوڑے سے عرصہ کے بعد اسے بڑک اُٹھی اس حالت کے متعلق تمام طبی کتابوں میں یہی لکھا ہے اور ڈاکٹر بھی اس سے متفق ہیں کہ جس کو سگ گزیدہ کی ہڑک اُٹھنے لگے اس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا چنانچہ اس لڑکے کی بیماری کی خبر جب کسولی دی گئی تو وہاں سے جواب آیا.SORRY NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM زنتمہ حقیقت الوحی صدام ، روحانی خزائن جلد ۲) افسوس که عبدالکریم کے متعلق کچھ نہیں کیا جاسکتا.چونکہ وہ لڑکا دور دراز سے دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا ہوا تھا.اس لئے حضرت مرزا صاحب کو خیال ہوا کہ یہ ابتدائی زمانہ ہے چاروں طرف سے مخالفت ہو رہی ہے یہ لڑ کا اگر فوت ہو گیا تو اس کے ماں باپ کو جنہوں نے اتنی دُور سے اسے تعلیم دین کے لئے بھیجا ہے بہت صدمہ ہوگا اور مخالفین بھی شور مچائیں گے اس لئے اس وقت جب کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا تھا اس کے لئے دُعا کی اور وہ بچ گیا.چنانچہ اس وقت تک وہ لڑکا زندہ ہے.آج تک ہزاروں سالوں سے اس قسم کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی کہ کوئی ایسا بیمار اچھا ہوا ہو.وہ صرف حضرت مرزا صاحب کی دُعا کی وجہ سے بچ گیا.یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا بہت بڑا نشان ہے جو حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ ظاہر ہوا.اسی طرح اور ہزاروں نشانات ظاہر ہوئے جن میں سے مایوس العلاج مریض کا شفا پا نا مثال کے طور پر ایک اور پیش کرتا ہوں.نواب مھد علی محمد خان صاحب جو موجودہ نواب صاحب مالیر کوٹلہ کے ماموں ہیں اور میں نے سُنا ہے کہ آج یہاں آئے

Page 96

64 صداقت اسلام ہوئے ہیں.ان کے ایک لڑکے کو ٹائیفائیڈ بخار ہو گیا جس کا علاج ایک یونانی حکیم مولوی نور الدین صاحب جو مہا راجہ صاحب جموں کے خاص طبیب رہ چکے تھے اور دو ڈاکٹر کر رہے تھے لیکن ایک وقت اس پر ایسا آگیا کہ معالج بالکل گھبرا گئے اور انہوں نے کہ دیا کہ اب یہ لڑکا نہیں بیچ سکتا.اس کی خبر جب حضرت مرزا صاحب کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس کی صحت کے لئے دُعا کروں گا.آپ نے دعا کی، لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ اب یہ نہیں بیچ سکتا.اس پر حضرت مرزا صاحب نے کہا.میں اس کی صحت کے لئے سفارش کرتا ہوں.اس پر انہیں الہام ہوا.تو کون ہے جو بلا اجازت سفارش کرتا ہے (تذکرہ من ایڈیشن چهارم) اس وقت کے متعلق حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ میری ایسی حالت ہو گئی کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا.اس وقت آواز آئی اچھا تم کو اجازت دی جاتی ہے.اب سفارش کرو.یہ سُن کر حضرت مرزا صاحب نے دعا کی اور انہیں بتایا گیا کہ اب یہ لی کا بچ جائے گا.چنانچہ آدھ گھنٹڈ کے بعد ہی اسے ہوش آگئی اور وہ بچ گیا.اب ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا ہے.اس موقع پر پرکسی شخص نے لکھ کر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایک سوال کا جواب کو یہ سوال دیا کہ آپ کا مضمون تو یہ تھا کہ اسلام کی صداقت تازہ نشانات کے ساتھ مگر آپ نے مرزا صاحب کے نشانات کو پیش کرنا شروع کر دیا ہے.اس کے متعلق حضور نے فرمایا : میرے مضمون کا پہلا حصہ اسلام کی صداقت کے دلائل کے متعلق تھا جوئیں نے بیان کئے اور دوسرا حصہ اسلام کی صداقت کے مشاہدہ کا ہے جس کے لئے حضرت مرزا صاحب کے نشانات کو پیش کر رہا ہوں اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ان کی ذات کی وجہ سے نہیں مانتے بلکہ اس لیے مانتے ہیں کہ ان کے وجود سے اسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے.اس لئے ان کی صداقت کے نشان دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے نشان ہیں کیونکہ حضرت مرزا صاحب اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں.اسلام کی صداقت کے متعلق پادری لیفرانے کو چیلنج پھر حضرت مرزا صاحب نے دعا کے ذریعہ اسلام کی سچائی کا فیصلہ کرنے کے لئے پادری لیفرائے کو مد نظر رکھ کر چیلنج دیا اور لکھا آپ عیسائیت کی طرف سے کھڑے ہوں اور یں اسلام کی طرف سے کھڑا ہوتا ہوں.اور دعا کرتے ہیں کہ جو مذہب سچا ہے خدا اس کی تائیدمیں نشان

Page 97

انوار العلوم جلد ۵ صداقت اسلام دکھلائے.اور وہ اس طرح کہ طرفین کچھ کچھ مریض لے لیں اور ان کی صحت کے لئے دعا کریں جیسں کے زیادہ مریض صحت یاب ہو جائیں اس کے مذہب کو سچا سمجھا جائے.اس پر بڑے بڑے انگریزی اخباروں نے مضامین لکھے کہ ہمارے پادری جو اتنی بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں وہ کیوں مقابلہ میں نہیں آتے.یہی وقت عیسائیت کو سچا ثابت کرنے کا ہے.لیکن کوئی مقابلہ پر نہ آیا.یہ فیصلہ کا نہایت آسان اور عمدہ طریق تھا مگر کسی نے قبول نہ کیا اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ دیگر مذاہب کے لوگ محسوس کرتے تھے کہ اپنی صداقت کا ثبوت اسلام ہی دے سکتا ہے ہمارے مذہب کچھ نہیں کر سکتے.حضرت مرزا صاحب کے علمی کارنامے پھر حضرت مرزا صاحب نے علمی طور پر ایسے ایسے مضمون لکھے کہ مخالفین بھی ان کے سب سے زبردست ہونے کا اقرار کرنے پرمجبور ہوگئے.چنانچہ لاہور میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جی کا نام مہوتسو ر کھا گیا.اس میں یہ شرط رکھی گئی کہ ہر ایک مذہب کے قائمقام اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں اور کسی دوسرے مذہب پر کوئی حملہ نہ کریں.حضرت مرزا صاحب نے اس کے لئے اسلام پر مضمون لکھا اور قبل از وقت خبر دے دی اور اشتہار چھاپ دیا کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ اس جلسہ میں تیرا مضمون سب سے اعلیٰ رہے گا.چنانچہ جب آپ کا مضمون اس جلسہ میں پڑھا گیا اور اس کے پڑھنے کا وقت پورا ہو گیا تو سب حاضرین جن میں مختلف مذاہب کے لوگ شامل تھے بول اُٹھے کہ اور وقت دیا جائے اور ایک شخص نے اپنا مضمون پڑھنے کا وقت اس کے لئے دے دیا.لیکن جب پھر بھی وہ مضمون ختم نہ ہوا تو لوگوں نے کہا کہ اسی کو پڑھتے جاؤ لیکن پھر بھی وہ ختم نہ ہوا تو لوگوں نے کیا جلسہ میں ایک دن اور بڑھا دیا جائے.چنانچہ ایک دن بڑھایا گیا اور اس میں وہ مضمون سُنایا گیا.اور لوگوں نے علی الاعلان کہ دیا کہ خواہ ہم ان باتوں کو مانیں یا نہ مانیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ مضمون باقی سب مضامین سے بالا رہا اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس کے متعلق ایک مضمون بھی لکھا.** حضرت مرزا صاحب کے متعلق ایک مخالف اخبار کی شہادت العرض علی طور پر صرت اخبار مرزا صاحب نے اسلام کی صداقت میں وہ کام کیا کہ جو اس زمانہ میں کوئی نہ کر سکا.اور آپ کے مخالفین تک نے اس کو تسلیم کر یا چنانچہ آپکی وفات پر اس شہر کے اخبار وکیل نے جو ہمارے سلسلہ کا نہیں ہے ایک زبر دست آرٹیکل لکھا

Page 98

بانوار العلوم جلد ۵ جس میں تعلیم کیا کہ مرزا صاحب نے اسلام کی شاندار خدمات کی میں اور انہوں نے دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی صداقت کو نمایاں کر دیا اور حضرت مرزا صاحب کے مخالف کی آپ کے متعلق گواہی ہے اور بھی کئی اخبارات نے آپ کی خدمات کا اعتراف کیا.مگر وکیل کا مضمون سب سے زبر دست تھا اس میں لکھا گیا تھا کہ مرزا صاحب کی قلم سحر اور زبان جادو تھی.اور ان کی دو مٹھیاں بجلی کی بیڑیاں لے اختیار وکیل کے اصل الفاظ یہ ہیں :- وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹیاں تھیں.وہ شخص جو نہ ہی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا.خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا......مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اُسے امتداد زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں." میرزا صاحب کی اس رفعت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیالی مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص اُن سے جُدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جنرل کا فرض پورا کرتے رہے، ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک کیست اور پامال بنائے رکھا.آئندہ بھی جاری رہے یا مرزا صاحب کا لٹریچر جو سیجیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل وہ کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدرہ عظمت آج جبکہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نیا منیا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)

Page 99

انوار العلوم جلد ۵ 69 صداقت اسلام تھیں.تو یہ علمی معجزہ تھا.جو حضرت مرزا صاحب نے اسلام کی صداقت میں دکھایا.پھر دیکھئے یاتو ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اسلام کو پھیلایا نہیں یا دشمن بھی اقرار کر رہے ہیں کہ اسلام کی جو تعلیم مرزا صاحب نے پیش کی ہے وہ بہت اعلیٰ ہے.چنانچہ اپنی دنوں یورپ سے ایک انگریز کا خط میرے نام آیا ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کی ایک کتاب پڑھی ہے جس سے مجھے پر ثابت ہوگیا کہ اسلام کی تعلیم ایسی اعلیٰ ہے کہ میں حیران ہوں انسان اس پر عمل ہی کس طرح کر سکتا ہے.دیکھئے وہ یہ نہیں کہتا کہ اسلام کی تعلیم خراب یا ناقص ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ ایسی اعلیٰ ہے کہ عمل کرنا مشکل ہے پس ان واقعات اور دلائل سے ثابت ہو گیا کہ اسلام ایک سچا مذ ہب ہے اور اپنی صداقت کے دلائل سے سب پر غلبہ رکھتا ہے اور مشاہدہ سے ثابت ہو گیا کہ اس زمانہ میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے.ريقيه حاشیه صفحه سابقه (- وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سمنگ رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور جملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا.کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا....غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اس وقت تک کر مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے.قائم رہے گا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی گولیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت (بقیہ حاشیہ اگلے صفہ نہیں

Page 100

انوار العلوم جلد ۵ ست اس کے بعد میں سب احباب سے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم در خوا حاضرین سے خطاب کرتا ہوں کہ وہ اسلام کی صداقتوں اور سچائیوں پر محبت سے غور کریں.محبت اور پیار سے دوسرے کو تلقین کرنا برا نہیں.برا آپس میں لڑنا اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا ہے.آپ لوگ ٹھنڈے دل سے ہمارے مذہب پر غور کریں.ہم بھی آپ لوگوں کے مذاہب پر اسی طرح غور کرتے ہیں.کیا یہ مذہب جو میں نے پیش کیا ہے ایسا نہیں ہے کہ اس پر دنیا کے امن و امان کی بنیاد ہو ؟ اگر اسلام ایسا ہی ہے اور واقع میں ایسا ہی ہے تو میں آپ لوگوں اپیل کروں گا کہ آپ اسے قبول کریں تا کہ وہ بعد دور ہو جائے جو ہم میں اور آپ لوگوں میں پایا ر بقیه حاشیه صفحه سابقه - سے انجام دی ہے.مرزا صاحب اور مولوی محمد قاسم صاحب نے اس وقت سے کہ سوامی دیانند نے اسلام کے متعلق اپنی دماغی مفلسی کی نوحہ خوانی جابجا آغاز کی تھی، ان کا تعاقب شروع کر دیا تھا.ان حضرات نے عمر بھر سوامی جی کا قافیہ تنگ رکھا.جب وہ اجمیر میں آگ کے حوالے کر دیئے گئے اس وقت سے اخیر عمر تک برابر مرزا صاحب آریہ سماج کے چہرہ سے انیسویں صدی کے ہندو ریفارم کا چڑھایا ہوا اطمع اتارنے میں مصروف رہے.ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مراحت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں.فطری ذہانت مشق و مہارت اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک شان خاص پیدا کر دی تھی.اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیر پر اُن کی نظر نہایت وسیع تھی اور وہ اپنی ان معلومات کا نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے.تبلیغ و تلقین کا یہ ملکہ اُن میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب و ملت کا ہو اُن کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتا تھا.ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور میں کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہے ہیں اس کی نظیر غالباً دنیا میں کسی جگہ سے نہیں مل سکتی.مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ میں ان سب کے لئے حکم و عدل ہوں لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی اُن میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشتق کا.آئندہ امید نہیں ہے کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلی خواہشیں محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صرف کر دے؟ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۷۱ ۵ تا ۵۷۳ مطبوعه الشاه)

Page 101

انوار العلوم جلد لله صداقت اسلام وہ جاتا ہے.پھر میں ان لوگوں سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں لیکن ہماری جماعت میں داخل نہیں ہیں پوچھتا ہوں کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم مستعد ہو کر اسلام کو دنیا میں پھیلا دیں.تمہارے سامنے وہ شخص گزر گیا جس نے اپنا سب کچھ اسلام کی اشاعت میں لگا دیا.کیا تم نے ابھی تک غور نہیں کیا کہ اس کی کوشش کیا تھی ؟ کیا یہ کہ وہ اسلام کو مٹانے کے لئے پیدا ہوا تھا یایہ کہ دن رات اسلام کے لئے مرتا تھا.اس کو ذیا بیطیس کا مرض تھا ، اسے جگر کی بیماری تھی، اسے ہسٹیریا کا عارضہ تھا مگر با وجود ان بیماریوں کے ہم نے اسے دیکھا کہ ہر وقت اور ہر گھڑی اس کی بھی کوشش تھی کہ اسلام دنیا میں پھیلے اور اسی میں وہ ہر وقت لگا رہتا تھا.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والا دل اسلام سے محبت رکھنے والا دل اس کی طرف بڑھنے سے ڈرسکتا ہے، اس سے علیحدہ رہ سکتا ہے ، اس کو چھوڑ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا اس نے قرآن میں کوئی نقص بتایا ؟ کیا اس نے اسلام کی تعلیم کو تبدیل کر دیا ؟ یا کیا اس نے اسلام کو چھوڑ دیا ؟ اگر نہیں اور اس کا مشن ہی یہ تھا کہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا جائے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ جو لوگ اپنا یہی مقصد قرار دیتے ہیں اس کے جھنڈے کے نیچے نہیں آجاتے.وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں اس تعصب اور ضد کو جانے دیں جو منصف مزاج لوگوں میں نہیں ہوتی.اگر انہوں نے ایسا کیا تو یقیناً یہی معلوم ہو جائے گا کہ خُدا نے اسے اسی لئے بھیجا تھا کہ وہ ایک ایسی جماعت قائم کرے جودنیا میں اسلام کو پھیلائے پس مسلمان اس پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس وقت اسلام کی کیا حالت ہے.پس اے عزیزو! اے بھائیو !! اے پیارو !!! اس وقت کو پہچانو اور اس وقت کو دیکھو.کیا اس حالت کو دیکھ کر تمہیں رحم نہیں آتا.شوق نہیں ہوتا کہ تم بھی اسلام کی اشاعت کے لئے قدم بڑھاؤ.دیکھو اور یاد رکھو کہ اس وقت اسلام کے لئے خدا کی غیرت جوش میں ہے.اسلام کے مخالفین نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے تلوار کے زور سے اسلام کو پھیلایا ورنہ اسلام میں کوئی خوبی نہیں ہے کہ پھیل سکے.خدا تعالیٰ نے کہا یہ غلط ہے.اسلام دلائل کے زور سے پھیلا تھا.اب جب کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا غلام دلائل کے ذریعہ اسلام کو پھیلا سکتا ہے تو اس کا آقا کیوں اس طرح نہ پھیلا سکتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تلوار نہیں اُٹھائی تھی بلکہ پہل دشمن نے کی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خود حفاظتی کے لئے تلوار ہاتھ میں لی تھی.مگر واقعات کے مخفی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے کہا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تھا اسکے جواب میں خدا کی غیرت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو کھڑا کر دیا تا کہ وہ دلائل کے ذریعہ اسلام کو پھیلائے.

Page 102

انوار العلوم جلد ۵ AY صداقت اسلام پس تم لوگ خدا خدا تعالیٰ کے اس ارادہ سے اپنے ارادوں کو ملا دو تاکہ خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں اب مسلمانوں کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ تعصب اور ضد کو جانے دیں اور پہنچے مسلمان بن جائیں.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدد دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے اور اپنی طرف سے رسی پھینکی ہے.اب تمہارا یہ کام ہے کہ اسے کپڑ لو.تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کہلاتے ہو.اگر تمہارے گرنے پر خدا مدد نہ کرتا اور تمہاری ترقی کا کوئی سامان نہ کرتا تو لوگ نتیجہ نکال لیتے کہ اسلام خدا کا پیارا مذہب نہیں ہے.لیکن چونکہ اسلام خدا کا پیارا مذہب ہے اس لئے ایسی حالت میں جبکہ مسلمان ہر طرح سے کمزور اور ناتواں ہو گئے تھے اس کا فرض تھا کہ مدد کرتا چنانچہ اس نے کی.اور حضرت مرزا صاحب کو مسلمانوں کی ترقی کا سامان دے کر بھیج دیا.اب تمہارا یہ کام ہے کہ ان کو قبول کر لو اور یہ رسی جو خدا نے پھینکی ہے اس کو پکڑ لو.یہی ذریعہ ہے تمہارے ترقی کرنے کا اور یہی راستہ ہے تمہارے مقصود تک پہنچنے کا.تھوڑا ہی عرصہ ہوا.انگلستان کے ایک شخص نے جس کا نام فیتھ ہے خواب دیکھا کہ ایک چٹان ہے جس میں سے ایک شخص نکلا اور اس کے ہاتھ میں رسی ہے اور اس کو کہتا ہے یہ رسی پکڑے.اس کے بعد وہ ہمارے مبلغین سے ملا جنہوں نے اسے حضرت مسیح موعود کی تصویر دکھائی جس کو دیکھ کر اس نے اپنی خواب بتائی اور کہا یہی شخص تھا جس کے ہاتھ میں رسی تھی اور جس نے مجھے کہا تھا کہ اسے پکڑ لو.پس اے بھائیو! اے عزیزو ! تم بھی اس خدمت میں شامل ہو جاؤ جو حضرت مرزا صاحب کا مشن کر رہا ہے تاکہ زندہ مذہب پر قائم ہوجاؤ.اگر تم ان دلائل کو لے کر نکلو گے جو حضرت مرزا صاحب نے اسلام کی صداقت میں پیش کئے ہیں تو کوئی مذہب تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا.پس تم خدا تعالیٰ کے اس فضل کی قدر کرو اور اس کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے دلائل کو لیکر دنیا میں نکل کھڑے ہو.تاکہ دنیا کے چاروں کونوں تک لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کی آواز کی گونج اُٹھے.اب میں اس دُعا پر اپنے لیکچر کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم احمدی سلسلہ کے لوگوں کو اور ان کو جو اس سلسلہ سے باہر ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حتی کہ ان کو بھی جو خدا کو نہیں مانتے بیچتے مذہب کو قبول کرنے اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے اور سیدھے راستے پر چلائے اور ہم پر وہی فضل نازل کرے جو پہلے انبیاء کے وقت ہوتے رہے آمین ثم آمین.- DARWIN,CHARLES ROBERT (۱۸۸۲۰۶۱۸۰۹ء) ما ہر موجودات (NATURALIST) جس کے انکشافات مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہوا جو ڈارونیت (DARWINISM) کہلاتا ہے ارد و جامعه انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۶۱۷ مطبوعہ لا ہورے ۱۹۸ء)

Page 103

۸۳ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 104

Page 105

انوار العلوم جلد ۵ ۸۵ اعت احمدیہ کی ذمہ داریاں جماعت احمدیہ کی ذمہاریاں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے ۲۲ فروری ۱۹۲۰ء کو لاہور سے روانگی کے موقع پر جماعت احمدیہ لاہور کے مردوں ، عورتوں اور طالب علموں کے لئے شام کے سات بجے جو تقریر فرمائی تھی اس کا کسی قدر خلاصہ شائع ہو چکا ہے.اب ذیل میں وہ تقریر مفصل شائع کی جاتی ہے.(ایڈیٹر ، حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ظاہری انتظام کے متعلق ہدایت جو کچھ میں آج آپ لوگوں کو کتا چاہتا ہوں اس کو ابھی تھوڑی دیر کے بعد بیان کروں گا.پہلے اس بیٹھنے کے متعلق جس طرز پر آپ لوگ اس وقت بیٹھے ہیں ایک واقعہ سناتا ہوں.حضرت مظہر جان جاناں اسلام میں بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں اور ہمارے حضرت خلیفہ اول ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے پہلے ان کے مریدوں میں سے ایک کے مرید تھے.ان کے متعلق لکھا ہے کہ انھیں ایک بادشاہ ملنے کے لئے گیا.اس کے ساتھ اس کا وزیر بھی تھا حضرت مظہر جان جاناں کے پاس پانی کی بھری ہوئی ایک صراحی رکھی تھی میں میں سے وہ ضرورت کے وقت پانی نکال لیا کرتے تھے.وزیر کو اس وقت پیاس لگی اور اس نے اس میں سے نکال کر پانی پیا.لیکن پینے کے بعد

Page 106

العلوم جلد ۵ AM جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں آب خورہ ٹیڑھا رکھ دیا.لکھا ہے.اس پر انھوں نے بادشاہ کی طرف دیکھ کر کہا کہ اس کو کس احمق نے وزیر بنایا ہے کہ یہ آنجورہ کو بھی سیدھا رکھنا نہیں جانتا.بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنی سی بات پر بادشاہ کے سامنے ایسے الفاظ استعمال کرنے مناسب نہ تھے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس قسم کی معمولی باتوں کا انسان کے دوسرے اہم کاموں پر بڑا اثر پڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز پڑھتے وقت صفوں کو سیدھا رکھو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.اسی طرح فرمایا خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.صفوں کو سیدھا رکھنے کی حقیقت فوجوں کے ظاہری انتظام کو دیکھ کر معلوم ہو سکتی ہے.فوجوں میں کیسی ظاہری خوبصورتی اور انتظام ہوتا ہے اور اس کا ان کے کام پر کتنا اثر پڑتا ہے.لیکن جن فوجوں کا ظاہری انتظام اچھا نہیں ہوتا.وہ بھی دشمن پر فتح نہیں پاسکتیں تو مومن کو ظاہری شکل بھی خوبصورت بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور کچھ سننے کے لئے ظاہری خوبصورتی یہی ہے کہ سننے والوں کا اکثر حصہ خطیب کے سامنے ہو.کیونکہ سامنے ہونے کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے.لاہور کی حیثیت حضرت خلیفہ مسیح کے نزدیک اس کے بعد میں آپ لوگوں کی توجہ اس مضمون کی طرف پھیر تا ہوں جس کے لئے میں نے آج آپ کو بلایا ہے.میں لاہور میں قریباً بیس سال سے آتا ہوں اور یہاں خدا تعالیٰ نے میرا ایک خاص تعلق بھی پیدا کیا ہوا ہے یعنی ہیں وہ گھر ہے جس میں میرا بیاہ ہوا ہے.اس لحاظ سے قادیان کے بعد لاہور میرے لئے گھر کی حیثیت رکھتا ہے.پھر جس طرح حضرت صاحب کے نزدیک قادیان کے بعد سیالکوٹ کا درجہ تھا اسی طرح میرے نزدیک قادیان کے بعد لاہور کا درجہ ہے اور گو ہمارا تو یہ مذہب نہیں لیکن بعض فقہاء کے نزدیک اس تعلق کی وجہ سے جو مجھے لاہورسے ہے یہاں آکر مجھے پوری نماز پڑھنی چاہئے.اس عرصہ میں کہ جب سے میں لاہور آتا ہوں.میں نے جماعت لاہور کی مختلف حالتیں یہاں کی جماعت کی مختلف حالتیں دیکھی ہیں میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جبکہ لاہور میں ہماری جماعت تو تھی لیکن بہت قلیل تھی.پھرمیں نے وہ زمانہ بھی دکھا ہے کہ یہاں کی جماعت کثیر ہو گئی اور بہت سے لوگ اس میں شامل ہو گئے.مگر میرے نزدیک اس وقت باد بود کثیر ہونے کے قلیل تھی.اس لئے کہ لوگوں کے دل پھٹے ہوئے تھے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاہور اس اختلاف کا مرکز قرار پایا میں نے ڈائنامیٹ کی طرح احمدیت کو اڑانا چاہا اور وہ شورش عاد بخاري كتاب الصلوة باب تصوية الصفوف عند الانارة امه مسند احمد بن حنبل جلدیم صفحه ۱۳۳

Page 107

انوار العلوم جلد ۵۵ AL جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں جو ساری جماعت میں پھیلی اس کی بنیا د لاہورمیں ہی لکھی گئی اس وقت جبکہ اس شورش کی بنیاد رکھی جا رہی تھی.لاہور میں آنیوالا شخص بجائے اس کے کہ یہاں کی جماعت کے افراد کی آپس میں محبت اور پیار دیکھے یہی دیکھتا تھا کہ ان میں اختلاف اور انشقاق بڑھتا جاتا ہے اور معلوم کرتا تھا کہ یہ جماعت اب بھی گئی ، اب بھی گئی.کیونکہ یہاں کے لوگوں کا رات دن سوائے جھگڑے کے اور کوئی کام ہی نہ تھا.اس وقت ایک طرف تو وہ لوگ تھے جن کے خیالات وہی تھے جو ہمارے ہیں اور دوسری طرف وہ تھے جو اب پیغامی بن کر رونما ہوئے ہیں.ان میں آئے دن جھگڑے اور بخشیں رہتی تھیں.نماز کے لئے جمع ہوتے تو جھگڑتے.نماز ختم کر لیتے تو جھگڑتے کسی دعوت پر جمع ہوتے تو جھگڑتے کیسی اور موقع پر اکٹھے ہوتے تو جھگڑتے.اور یہ مادہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ جب کبھی آپس میں صلح صفائی کی تحریک ہوتی تو اس تحریک میں سے بھی فساد کا ہی پہلو نکال لیا جاتا.ایک دفعہ جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور میں قادیان سے لاہور روانہ ہوا تو حضرت خلیفہ اول نے مجھے فرمایا کہ وہاں کے لوگوں کو سمجھانا.جب میں یہاں آیا تو میں نے اپنا یہ خیال پیش کیا کہ آپس میں صلح کی کوئی تدبیر ہونی چاہئے اور جس کے متعلق کسی کو اختلاف ہو اس کو علیحدگی میں بتانا چاہئے مجلس میں شرمندہ اور نادم نہیں کرنا چاہئے اور میں نے اسی مضمون پر تقریر بھی کی.تقریر کے بعد ایک دوست کے ہاں دعوت تھی جب ہم روانہ ہوئے تو پیچھے دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت میری تقریر کے متعلق یہ کہہ رہی ہے کہ اس کا فلاں حصہ فلاں پر چسپاں ہوتا ہے اور فلاں حصہ فلاں پر گویا وہ تقریر جو صلح کے لئے بطور تجویز کی گئی تھی، اسی کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیا گیا کہ اس میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ضد نہیں کرنی چاہئے.یہ فلاں کے متعلق کہا گیا ہے.دوسرا کہتا نہیں فلاں کے متعلق ہے.اس پر جھگڑا شروع ہو گیا.تو اس وقت سخت فتنہ کی بنیاد رکھی جا چکی تھی.پھر وہ وقت آیا جبکہ اس فتنہ کے بیج کا نتیجہ پیدا ہوا.اس وقت خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کے مطابق کہ لاہور میں ہمارے پاک ممبر " یہاں کی جماعت کے کثیر حصہ کو سنبھالا اور گوالیا ہوا کہ بعض اور مقامات پر فتنہ برپا کرنے والوں کے ساتھی ہمارے لوگوں سے زیادہ پائے گئے ، لیکن لاہور میں خدا تعالیٰ نے جماعت کے اکثر حصہ کو حق پر قائم رکھا تو لاہور کی جماعت مختلف حالتوں میں سے گزری ہے اور میں نے چونکہ ان حالتوں کو دیکھا ہے.اس لئے اس سے اچھی طرح واقف ہوں.گو مجھے اب لاہور میں آنے کا کم موقع ملتا ہے.پہلے تو میں سال میں دو تین بار آیا کرتا تھا اور اب کم آسکتا ہوں.تاہم یہاں کی جماعت کی حالت کا مجھے خوب علم ہے اور میں یہاں کے لوگوں کے حالات سے خوب اچھی طرح واقف ہوں.

Page 108

^^ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے قیام اجتماع کیلئے رائے کی قربانی ضروری ہے ہوئے میں آپ لوگوں کو ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ سب سے بڑی چیز اجتماع کے قیام کے لئے انسان کی رائے کی قربانی ہے بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم ایک بات کو سچا سمجھتے ہیں تو پھر کس طرح اس کے متعلق اپنی رائے کو قربان کر سکتے ہیں.اگر قربان کر دیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جھوٹ اور ناراستی پھیلے گی.لیکن یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جو واقعات پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے لگتی ہے کسی بات کے پیچ یا جھوٹ ہونے اور کسی رائے کے صحیح یا غلط ہونے میں بہت بڑا فرق ہے.سچ اور جھوٹ تو یہ ہوتا ہے کہ ایسی بات جس کو انسان دیکھتا ہے اور دیکھ کر ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے جس طرح اس نے دیکھا نہیں یہ جھوٹ ہے.اگر ہو بہو بیان کر دے تو یہ سچ ہوگا.یا کوئی پرانا واقعہ ہے اس کے متعلق وہ خود تو کچھ نہیں جانتا لیکن کسی اور نے اُسے جس طرح بتایا ہے وہ اسی طرح بیان نہیں کرتا بلکہ اور طریق بیان کرتا ہے یہ جھوٹ ہے اور اگر اس نے کسی سے جو کچھ کرنا ہے وہی جھوٹ ہے اور وہ اسی کو آگے بیان کرتا ہے تو یہ بھی جھوٹ ہے.اس سے معلوم ہوا کہ سچ یا جھوٹ کسی ایسے امر کے متعلق ہوتا ہے جو زمانہ ماضی میں گذر چکا ہو لیکن رائے آئندہ ہونے والے معاملات کے متعلق ہوا کرتی ہے.مثلاً یہ ہے کہ فلاں جگہ جلسہ کرنا چاہئے یا نہیں.اس کے متعلق یہ کہنا کہ کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے.اس میں سچ یا جھوٹ کا کوئی دخل نہیں بلکہ یہ رائے ہے جس کے متعلق صحیح یا غلط کہا جا سکتا ہے لیکن سچ یا جھوٹ نہیں کہا جا سکتا ہیں اس بات کو خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ رائے میں سچ یا جھوٹ کا تعلق نہیں ہوتا.بلکہ رائے انسان کا خیال ہوتا ہے کہ فلاں کام یوں مناسب نہیں ، یوں مناسب ہے.پھر رائے کے صیحیح یا غلط ہونے کا کسی رائے کے متعلق کسی طرح فیصلہ کرنا چاہئے فیصلہ کرتے وقت میں نہیں رکھا جاتا کہ نقصان کی کونسی بات ہے اور نفع کی کونسی.مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ فلاں کام یوں کرنا چاہئے.ہو سکتا ہے کہ وہ فی الواقع مفید ہو لیکن دوسروں کی سمجھ میں اس کا مفید ہونا نہ آئے.ایسے موقع پر یہ دیکھنا چاہئے کہ ان سب لوگوں کو فتنہ میں ڈالنا اچھا ہے جن کی سمجھ میں اس کام کا اچھا ہونا نہیں آتا یا اس کو کرنا مفید ہے.ایسے موقع کے لئے یہی مناسب ہوگا کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور میں طرح دوسرے کہتے ہیں اسی طرح کیا جائے ہیں معاملات کا فیصلہ کرتے وقت ہر انسان کو ہمیشہ اپنی ہی رائے پر زور

Page 109

انوار العلوم جلد ۵ جماعت احمد یہ کو نہیں دینا چاہئے اور اس کے خلاف فیصلہ سننے کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے.نہ کہ اس پر اتنا زور دینا چاہئے کہ ضرور اسی طرح ہو اور نہ دوسروں کی حقارت کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ یہی رائے درست ہے اور کسی کی درست نہیں.ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں انسان کی رائے درست ہو یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ مرا یک معلمہ میں انسان کی اپنی رائے درست ہو اور انسان تو الگ رہے بعض معاملات کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ کن ہے میری رائے درست نہ ہو ( نبراس - شرح الشرح العقائد نسفی و مطبوع میرٹھ ، پس جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بھی ایسی ہوسکتی ہے تو اور کون ہے جو اپنی رائے میں غلطی نہیں کرسکتا.یہ جو امارت اور خلافت کی اطاعت کرنے خلیفہ یا امیر کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟ پر اس قدر زور دیاگیا ہے اس کے بیٹھنے نہیں ہیں کہ امیر یا خلیفہ کا ہر ایک معاملہ میں فیصلہ صحیح ہوتا ہے کئی دفعہ کسی معاملہ میں وہ غلطی کر جاتے ہیں.مگر باوجود اس کے ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اسی لئے حکم دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر انتظام قائم نہیں رہ سکتا تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہمیں بھی غلطی کر سکتا ہوں تو پھر خلیفہ یا امیر کی کیا طاقت ہے کہ کسے میں کبھی کسی امر میں غلطی نہیں کر سکتا.خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے، لیکن باوجود اس کے اس کی اطاعت کرنی لازمی ہے ورنہ سخت فتنہ پیدا ہو سکتا ہے مثلاً ایک جگہ وفد بھیجنا ہے.خلیفہ کہتا ہے کہ بھیجنا ضروری ہے لیکن ایک شخص کے نزدیک ضروری نہیں ہو سکتا ہے کہ فی الواقع ضروری نہ ہو لیکن اگر اس کو اجازت ہو کہ وہ خلیفہ کی رائے نہ مانے تو اس طرح انتظام ٹوٹ جائے گا جس کا نتیجہ بہت بڑا فتنہ ہوگا.تو انتظام کے قیام اور درستی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی رائے پر زور نہ دیا جائے جہاں کی جماعت کا کوئی امیر مقرر ہو وہ اگر دوسروں کی رائے کو مفید نہیں سمجھتا تو انہیں چاہئے کہ اپنی رائے کو چھوڑ دیں.اسی طرح جہاں انجمن ہو وہاں کے لوگوں کو سیکرٹری کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر ہی اصرار نہیں کرنا چاہئے.جہاں تک ہوسکے سیکرٹری یا امیر کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اُسے سمجھانا چاہئے لیکن اگر وہ اپنی رائے پر قائم رہے تو دوسروں کو اپنی رائے چھوڑ دینی چاہئے.کیونکہ رائے کا چھوڑ دیا فتنہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں بہت ضروری ہے.

Page 110

انوار العلوم جلد ۵ جماعت احمد سید کی ذمہ داریاں کام کرنے والوں کا فرض اسی طرح جن لوگوں کے سپرد کام ہو سکا یہاں کی جماعت کا امیر مقرر ہے اور اس کے ماتحت اور کام کرنے والے ہیں.ان کا بھی فرض ہے کہ وہ یہ نہ کہیں کہ ہم چونکہ افر بنائے گئے ہیں، اس لئے ہم ہی اپنی ہر ایک بات منوائیں گے.اپنی بات منوانے کا بہترین طریق یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کی بھی مان لی جائے.اپنی ہی بات منوانے کا وہی موقع ہوتا ہے جبکہ انسان دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ سمجھتا ہو کہ میں اس کے خلاف مان ہی نہیں سکتا.ورنہ تھوڑا بہت نقصان اُٹھا کر بھی دوسروں کی بات مان لینی چاہئے تاکہ دوسروں کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچے.اسی طرح آپس کے معاملات کے متعلق یہ بات مختلف طبائع کا خیال رکھنا ضروری ہے.بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ طبائع مختلف قسم کی ہوتی ہیں.بعض سخت ہوتی ہیں اور بعض نرم جو سخت ہوتی ہیں انھیں تھوڑی سی بات پر بھی ٹھوکر لگ جاتی ہے.تو دوسروں کے ساتھ سلوک اور معاملہ کرتے وقت ان کی طبائع کا ضرور خیال رکھنا چاہئے.انتظام قائم رکھنے کے لئے اسلام میں امیر رکھا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ جس طرح وہ کسے اسی طرح کرو.لیکن معاملہ اور سلوک کرنے میں امیر کا یہ حق نہیں ہے کہ کسی کو حقیر اور اونی سمجھے.حتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ حقی نہیں کہ کسی کو حقیر سمجھیں.کجا یہ کہ ان کے خلفاء میں سے کسی کو یہ حق ہو.اور پھر کجا یہ کہ ان کے خلفاء کے غلاموں کے غلاموں کو یہ حق ہو تو خود نبیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ دوسروں کو حقیر سمجھیں.اس سے میری مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نہیوں کو ایسا کرنے سے خود بچاتا ہے.اور ان کے وہم و گمان میں بھی کسی کی تحقیر نہیں آتی.جس پر خدا احسان کرتا ہے وہ اور مجھکتا ہے تو خدا تعالیٰ جس کو بڑا بناتا ہے وہ خود سب سے نیچے ہو کر رہتا ہے.کیونکہ جس کو خدا تعالیٰ کوئی درجہ دیتا ہے اس پر احسان کرتا ہے اور احسان ایک بوجھ ہوتا ہے اور بوجھ سے گردن اونچی نہیں ہوا کرتی بلکہ نیچی رہتی ہے.ایک ایسا شخص جس پر خدا تعالیٰ کوئی احسان کرتا ہے اور وہ تکبر کرتا ہے اس کے تخمیر کرنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ یا تو وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ مجھے ملا ہے میرا حق تھا یا یہ کہ وہ اس کو اپنے لئے عزت ہی نہیں سمجھتا.لیکن یہ دونوں دھو کے ہیں اور سخت خطرناک دھو کے ہیں جن کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا.اس لئے ہر جگہ کے کارکنوں اور خصوصاً لاہور کے کارکنوں کو جو اس وقت میرے مخاطب ہیں چاہئے کہ تواضع اور فروتنی اختیار کریں

Page 111

انوار العلوم جلد ۵ 91 جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں اور خیال کریں کہ چونکہ انکے نام کے ساتھ امیر یا سیکرٹری یا محاسب یا امین یا اور کوئی نام لگ گیا ہے اس لئے وہ اور بھی گر کر رہیں.تاکہ دوسرے لوگوں کو یہ خیال نہ پیدا ہو کہ اس کی وجہ سے ان میں تکبیر پیدا ہو گیا ہے.دیکھو ! اسلامی مساوات کی بھی کیا شان ہے.ایک طرف تو اسلامی مساوات کی شان ایک شخص کو بڑھا کر اس درجہ پر پہنچا دیا کہ ہر ایک کو جو اس کے ماتحت کیا گیا ہے اس کے احکام کی اطاعت کرنی چاہئے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو خداتعالی کے نزدیک گنہگار ہے اور دوسری طرف معاملات میں اس کو اتنا نیچے لاتا ہے کہ کہتا ہے اسے غریب سے غریب انسان کی بھی عزت اور تو شیر کرنی ہوگی.اور اس کا قدرتی در جرجس سے وہ عام طور پر فائدہ اُٹھاتا ہے.مثلاً یہ کہ وہ امیر ہے اور اس وجہ سے اس کی خاص پوزیشن ہے.اس کو بھی چھڑا دیتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا واقعہ ہے.ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور آخر کہتا ہے کہ اسے عمر امیری بڑی ذلت کی گئی.انھوں نے پوچھا کس نے کی.اس نے کہا عمرو بن عاص کے بیٹے نے.انھوں نے پوچھا کس طرح.اس نے کہا گھوڑ دوڑ ہو رہی تھی.میرا گھوڑا اس سے آگے بڑھنے لگا تھا کہ اس نے مجھے کوڑا مار کر کہا کہ میں شریف ہوں کیا تو شریف سے بھی بڑھنا چاہتا ہے.حضرت عمر نے کہا عمرو بن عاص کو بلاؤ.جب وہ آئے تو پوچھا کیا تمہارے بیٹے نے اس شخص کو کوڑا مارا ہے.انھوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں تحقیقات کی جائے.تحقیقات کی گئی تو بات صحیح نکلی.اس پر حضرت عمریضہ نے عمرو بن عاص کے بیٹے کو یہ سزا دی کہ جس کو اس نے کوڑا مارا تھا اسی کے ہاتھ میں کوڑا دیا اور کہا کہ مار شریف ابن شریف کو جب وہ مار چکا تو حضرت عمر نے کہا کیا خدا نے جن کو آزاد کیا ہے تم ان کو غلام بناتے ہو یہ یہ ہے اسلامی مساوات.یک جہتی کی بنیاد کیا ہے ؟ پس ہماری جماعت میں جو لوگ کام کرنیوالے ہیں دوسروں پر فرض ہے کہ وہ جو حکم دیں اس کے ماتحت کام کریں.لیکن علم حکم دینے والوں کا یہ فرض ہے کہ کسی پر ایسا بوجھ نہ رکھیں جسے وہ اُٹھا نہیں سکتا اور ماتحت کام کرنے والوں کا فرض ہے کہ جن کو کوئی عہدہ دیا گیا ہو ان کی پوری پوری عزت اور توقیر کریں کیونکہ جن کاموں پر انہیں مقرر کیا گیا ہے وہ عزت چاہتے ہیں.پھر افسروں کا فرض ہے کہ جو لوگ ان کے ماتحت کئے گئے ہیں ان کی تواضع کریں کہ یہ ان کے کام کے سر انجام پانے کے لئے ضروری ہے پیس

Page 112

انوار العلوم جلد جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں یہ وہ احکام ہیں جن کا آپ لوگوں کو سنانا ضروری تھا کہ جن کے سپرد کوئی کام کیا گیا ہے.ان کی اطاعت کی جائے سوائے کسی صاف شرعی حکم کے خلاف حکم کے.اور جن کے سپرد ہیں انکو چاہئے کہ دوسروں کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھیں اور دوسرے انکی پوری اطاعت کریں.ہو سکتا ہے کہ کبھی سیکرٹری یا محاسب یا اور کوئی عہدہ دار درجہ کے لحاظ سے چھوٹا ہو.مگر اس کے احکام کی انہیں اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ چھوٹا نہیں ہے یہ ہے وہ چیز جس پر اسلام ہر ایک مومن کو قائم کرنا چاہتا ہے اور یہی ہے وہ چیز جو اخوت اور یک جہتی کی بنیادوں کو استوار رکھتی ہے اور جب تک کوئی قوم اس پر قائم نہ ہو جائے اس وقت تک اسلام کے حقیقی فوائد حاصل نہیں کر سکتی.لاہور میں تبلیغ کی ضرورت اس کے بعدمیں لاہور کی جماعت کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں تبلیغ میں بہت سستی ہے.اگر ہر شخص اپنا یہ فرض قرار دے کہ میں سال میں کم از کم ایک شخص کو احمدی بناؤں گا تو ایک سال میں کتنے آدمی بڑھ سکتے ہیں.مگر اب تو یہ ہوتا ہے کہ کسی سال ایک بھی آدمی داخل نہیں ہوتا جو کہ بہت ہی افسوس کی بات ہے.تبلیغ کرنا ہر ایک احمدی کا فرض ہے ہر ایک احمدی یہ تو سجھتا ہے کہ تبلیغ ہونی چاہئے لیکن صرف یہ سمجھنے سے تبلیغ نہیں ہو جاتی.بلکہ تبلیغ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ ہر ایک احمدی یہ محسوس کرے کہ مجھے تبلیغ کرنی چاہئے.اب تو تبلیغ کرنا شخص دوسرے کا فرض سمجھتا ہے اور اس طرح کوئی بھی اس فرض کو ادا نہیں کرتا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا ایک مجمع میں آواز دی جائے کہ پانی لاؤ.اس کے جواب میں ممکن ہے کہ ہزار آدمی کے مجمع میں سے کوئی بھی نہ اُٹھے اور ہر ایک یہ خیال کرے کہ اور کوئی اُٹھے گا.لیکن اگر کسی کا نام لے کہ کہا جائے کہ پانی لاؤ تو وہ فوراً اُٹھ کھڑا ہوگا تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک شخص یہ سمجھے که تبلیغ کرنا اور احمدیت کو پھیلا ناجماعتی فرض ہی نہیں ہے بلکہ فرداً فرداً بھی ہر ایک احمدی کا فرض ہے اور ہر ایک کو یہ خیال ہونا چاہئے کہ میں سال میں کم از کم ایک شخص کو احمدی بناؤں گا.اگر یہ خیال کر لیا جائے تو بہت عمدگی سے تبلیغ کی جاسکتی ہے پس اس کے لئے پورے طور پر کوشش کرو تاکہ یہاں کی جماعت ترقی کرے.یہ ایک مرکزی جگہ ہے.لاہور میں مضبوط جماعت کی ضرورت اگر یہاں ہماری مضبوط جماعت قائم ہو جائے تو پھر سارے پنجاب کا فتح کرنا

Page 113

الوارا العلوم جلد ۵ ۹۳ جماعت احمدیہ کی ذمہ دار ہاں ہمارے لئے بہت آسان ہو جاتا ہے کیونکہ تمدنی طور پر سارے علاقہ پر لاہور کا اثر ہے.یہی دیکھ لو پنجاب میں سیاسی خیالات پھیلانے والا کو نسا مقام ہے ؟ یہی لاہور جب یہاں کے لوگوں میں سیاسی معاملات کے متعلق جوش پیدا ہو گیا تو سارے صوبہ میں پھیل گیا.پس جو مقام کسی صوبہ کا دار الامارت ہوتا ہے.اس سے سارے صوبہ کے لوگوں کا بہت تعلق ہوتا ہے کوئی مقدمات کے لئے آتا ہے.کوئی سفارشوں کے لئے آتا ہے کوئی افسروں سے ملنے کے لئے آتا ہے.کوئی ملازمت کے لئے آتا ہے.کوئی تجارت کیلئے آتا ہے کوئی اور فوائد حاصل کرنے کیلئے آتا ہے پس اس شہر میں اگر ہماری مضبوط جماعت ہو جائے اور ایسی مضبوط ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو دوسروں سے الگ اور نمایاں طور پر نظر آجائے.دینی کوشش اور سعی کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ تعداد کے لحاظ سے بھی.مثلاً جس بازار میں کوئی جائے.اور پوچھے دکان کس کی ہے.تو اسے بنایا جائے کہ فلاں احمدی کی ہے اور اگر کوئی پوچھے یہ کونسا وکیل ہے تو اُسے بتایا جائے فلاں احمدی وکیل ہے.اسی طرح ہر پہلو اور ہر رنگ میں ہماری جماعت کے لوگ ہر ایک شخص کو نمایاں طور پر نظر آنے لگیں تو انشاء اللہ سارے صوبہ میں ہماری بہت جلد ترقی ہوسکتی ہے.خاص فیضان کا زمانہ ان خاص نصیحتوں کے بعد میں مردوں اور عورتوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خاص فیضان کے خاص اوقات مقرر ہوتے ہیں.اگر وہ وقت جو کسی فیض کے حاصل ہونے کے لئے مقرر ہو.یونسی نکل جائے تو پیچھے کچھ نہیں بنتا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میری اُمت میں سے ستر ہزار انسان ایسے ہونگے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل کئے جائیں گے.ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ میں بھی ان میں شامل ہوں گا آپ نے فرمایا ہاں.پھر دوسرے نے کہا یا رسول اللہ میں بھی.آپ نے فرمایا وہ وقت گزر گیا.تو خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے لئے خاص وقت مقرر ہوتے ہیں.اس زمانہ میں جبکہ لوگ دین کو چھوڑ چکے اور اس سے نفرت کرتے بلکہ اس پر ہنسی اُڑاتے تھے.خدا تعالیٰ نے اپنے ایک رسول کو بھیج کر ہماری اصلاح کی اور ہماری ترقی کے لئے دروازے کھولدیئے اس کے متعلقی خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے دروازے روز روز نہیں کھلا کرتے تیرہ سو سال کے طویل عرصہ کے بعد ایک رسول کو دیکھنے کی صورت پیدا ہوئی ہے.دیکھو دُنیا میں جب کوئی نئی چیز نکلتی ہے تو کس قدر شوق اور خوشی سے اس کو دیکھا جاتا ہے.فونوگراف اور گراموفون جب نکلے تو پیروں لوگ ان کو دیکھنے کے لئے کھڑے رہتے.لیکن ان سب سے بڑی چیز بلکہ اس سے بڑی کوئی ہے ہی على مسند احمد بن حنبل جلدا صفحه ۲۷۱

Page 114

الوارالعلوم جلد ۹۴ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص پیغام لے کر آئے اس کے لئے تو ہر ایک عورت، مرد، بچے، بوڑھے ، نوجوان اور نو عمر کا فرض تھا کہ اس کی آواز کو سنتا اور اس کی قدر کرتا.بیکن افسوس دنیا کے اکثر لوگوں نے قدر نہ کی.اب اگر ہماری جماعت بھی جس کو خدا تعالیٰ نے قدر کرنے کی توفیق دی ہے وہ بھی اسے پہنچانے کے باوجود قدر نہ کرے تو کس قدر افسوس اور رنج کا مقام ہوگا.خدا تعالیٰ کا وہ برگزیدہ انسان تو گزر گیا لیکن چونکہ ابھی زمانہ قریب ہے اس لئے اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل ہو رہے ہیں.خدا کا خاص فضل ئیں تو اپنی ذات کو دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں.اگر کوئی اجنبی آئے اور مجھ سے ان باتوں کو سُنے جو خدا تعالیٰ مجھ پر کھولتا ہے تو مجھے کہ یہ بڑا عالم ہے لیکن میں اپنے علم اور اپنی پڑھائی کو خوب جانتا ہوں.میں دس سال سکول میں پڑھتا رہا ہوں لیکن مجھے یاد نہیں کہ میں کسی سال بھی پاس ہوا اور کسی مضمون میں بھی پاس ہوا.انٹرنس کے امتحان میں دو تین مضامین میں پاس ہوا تھا جن میں سے ایک عربی تھا یوں نہیں کبھی اردو میں بھی پاس نہیں ہوا تھا.پھر میں حضرت مولوی صاحب کے پاس پڑھنے بیٹھا.مولوی صاب نے بخاری پندرہ دن میں مجھے پڑھائی اور وہ اس طرح کہ فرماتے سناتے جاؤ اگر یں کچھ پوچھتا توفرماتے پوچھو مت پڑھے جاؤ اسی طرح ایک دو اور کتا میں پڑھیں اور صرف و نحو کی چھوٹی سی کتاب پڑھی گو یا ظاہری طور پرمیں نے چھے نہیں پڑھا.مگر میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام پر حملہ کرنے والا خواہ کسی علم کا ماہر ہو اور اس علم کائیں نے نام بھی نہ سُنا ہو وہ اعتراض کر کے دیکھے ہے.اگر اسے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ میں اس سے زیادہ اس علم کو جانتا ہوں تو پھر اعتراض کرے لیکن یہ میری پڑھائی اور میری محنت کی وجہ سے نہیں.بلکہ اس مقام اور رتبہ کی وجہ سے ہے جس پر مجھے کھڑا کیا گیا ہے.پھر مجھے لکھنے اور اس سے زیادہ بولنے کی بہت کم عادت ہے.کوئی ایک گھنٹہ میرے پاس بیٹھا رہے میں اس سے کوئی بات نہیں کر سکتا.بعض لوگ سمجھتے ہونگے کہ میں تکبر کی وجہ سے ایسا کرتا ہوں.مگر میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ سوجھتا نہیں.اور تقریر کرنے کے لئے تو میں کچھ سوچ ہی نہیں سکتا.کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ میں خطبہ پڑھنے کے لئے جا کر کھڑا ہوتا ہوں لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا کہنا ہے.پھر تشہد پڑھتا ہوں مگر معلوم نہیں ہوتا کیا کہوں گا.پھر سورہ فاتحہ پڑھتا ہوں.اس وقت بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیا بیان کروں گا.پھر میں بولنا شروع بھی کر دیتا ہوں اور تین چار منٹ تک بولتا جاتا ہوں.پھر پتہ نہیں ہوتا کہ کیا کہوں گا.اس کے بعد جاکر

Page 115

انوار العلوم جلد ۵ جماعت احمد ید اور ہماری ذمه داریان اصل مضمون سوجھتا ہے.ہمیشہ تو نہیں اکثر دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھڑے ہوتے ہی مضمون سمجھا دیا جاتا ہے ایک دفعہ تو قریب تھا کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑتا کیونکہ دیر تک ہوتا رہا مگر یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کہہ رہا ہوں.آخر اس حالت سے اس قدر وحشت ہوئی کہ بے ہوش ہو کر گرنے لگا.مگر اس وقت معلوم ہوا کہ یہ تو دراصل فلاں مضمون کی تمہید تھی اور پھر میں نے ایسا اعلیٰ مضمون بیان کیا کہ میں خود حیران تھا.تو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا خاص فیضان نازل ہو رہا ہے اور یہ مت سمجھو زمانہ کا اثر کہ یہ ہمیشہ رہے گا.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا زمانہ نہ رہا تو کون کہ سکتا ہے کہ کل کیا ہوگا.دیکھو حضرت ابو بکرہ کا زمانہ حضرت عمریض کے وقت نہ تھا.اور حضرت عمر کا زمانہ حضرت عثمان کے وقت نہ تھا اور حضرت عثمان کا زمانہ حضرت علی کے وقت نہ تھا.بیشک حضرت ابو بگری خود بھی کامل انسان تھے مگر ان کے زمانہ کو جو فضیلت حاصل ہے اس کی وجہ یہ بھی تو ہے کہ سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب تھا.پھر اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر کا درجہ حضرت ابو کب سے کم تھا اور حضرت عثمان سے زیادہ.اس لئے وہ حضرت ابو بکر جیسا انتظام نہ کر سکے.مگر اس میں بھی تک نہیں کہ حضرت ابو بکر کے زمانہ کی نسبت حضرت عمرہ کا زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ دور تھا یہی حال حضرت عثمان اور حضرت علی کا تھا.بیشک ان کا درجہ اپنے سے پہلے خلیفوں سے کم تھا.لیکن ان کے وقت جو واقعات پیش آئے.ان میں ان کے درجہ کا اتنا اثر نہیں تھا.جتنا رسول کریم کے زمانہ سے دُور ہونے کا اثر تھا.کیونکہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کے وقت زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اُٹھائی تھی لیکن بعد میں دوسروں کا زیادہ دخل ہوگیا چنانچہ جب حضرت علینہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابو بکر اور عمرہ کے عہد میں تو ایسے فتنے اور فساد نہ ہوتے تھے.جیسے آپ کے وقت میں ہو رہے ہیں تو انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ ابو بر اور عمرے کے ماتحت میرے جیسے لوگ تھے اور میرے ماتحت تیرے جیسے لوگ ہیں.تو لوگوں کی وجہ سے زمانہ میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے.موجودہ زمانہ کی قدر کرو ہی تم لوگ اس زمانہ کو قدرکی نگاہ سے دیکھو اور بات مجھو کرم پر کوئی بوجھ پڑا ہوا ہے.بلکہ یہ مجھو کہ تمہیں دین کی خدمت کا موقع ملا ہوا ہے.عام طور پر دیکھا جاتا ہے.وقت کے گزر جانے پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی افسوس کیا جاتا ہے.مثلاً کسی کو کھانسی کی بیماری ہو اور وہ سنگترہ مانگے تو نہیں دیا جاتا.لیکن اگر وہ مر جائے تو پیچھے افسوس کیا جاتا ہے کہ ہم نے کیوں نہ اُسے سنگترہ دے دیا.پس جب نادانی کی باتوں پر بعد میں

Page 116

انوار العلوم جلد ۵ 94 جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں حرت اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے تو ایسی باتوں پر کیوں افسوس نہ ہو گا جو اپنے اندر بہت بڑی حقیقت اور صداقت رکھتی ہیں.ہو سکتا ہے کہ جب یہ زمانہ گذر جائے تو کوئی کہے کاش ! میں اس وقت اپنا سب کچھ خدا کے لئے دے دیتا اور خود ننگا پھرتا.تو انسان کو چاہئے کہ کام کرنے کے وقت یہ نہ دیکھے کہ میں نے کتنا کام کیا ہے بلکہ یہ دیکھے کہ اگر یہ وقت ہاتھ سے جاتا رہا تو پھر کس قدر مجھے حسرت اور افسوس ہو گا.پس ہماری جماعت کے خواہ مرد ہوں خواہ عور نہیں ان کو میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت جو فیضانِ الہی ہو رہے ہیں ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اب یہ زمانہ جو تیرہ سو سال کے بعد آیا ہے پھر کب آئے گا.خدا تعالیٰ کے نبی عظیم الشان انسان ہوتے ہیں.وہ روز پیدا نہیں ہوا کرتے.پس تم لوگ اس زمانہ کی قدر کر کے دین کی خدمت کرنے کی کوشش کرو تاکہ خدا تعالیٰ کی اس بارش سے تمہارے گھر بھر جائیں جو دنیا کو سیراب کرنے کے لئے اس نے نازل کی ہے اور اس نور سے بھر پور ہو جاؤ جس کے پھیلانے کا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے.عورتوں کی ذمہ داری ہماری جماعت کی عورتیں بھی مر بھی ، بچے بھی نوجوان بھی ایک ذمہ داری اپنے اوپر رکھتے ہیں ، لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ عور نہیں کہ دیتی ہیں دین کی خدمت کرنا مردوں کا فرض ہے.اس لئے میں نے کہا تھا کہ آج عورتیں بھی آئیں تاکہ ان کے کانوں میں یہ بات ڈالدی جانے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جس طرح مرد جواب دہ ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں.اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ساری ذمہ داری مردوں پر ہی ہے دین کے معاملہ میں مرد اور عورتیں دونوں یکساں جواب دہ ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ دین کی اشاعت میں دونوں حصہ ہیں.اور جب تک دونوں حصہ نہ لیں.اس وقت تک خدا تعالیٰ کی پوری برکت ان پر نازل نہیں ہو سکتی.اس کی بہت اچھی مثال گاڑی کی ہے.جب تک دونوں گھوڑے متفق ہو کر اسے نہ کھینچیں وہ نہیں کھینچ سکتی.اسی طرح مرد و عورت کا حال ہے.مرد خواہ کتنا کمانے والا ہو اگر بیوی فضول خرچ ہو تو کچھ نہیں بن سکتا.اسی طرح اگر مرد مست اور کابل ہو تو بیوی خواہ کتنی ہوشیار ہو کچھ نہیں بنا سکتی.یہی حال دینی معاملات کا ہے جب تک عورت اور مرد دونوں مل کر ان کو سر انجام نہ دیں وہ اچھی طرح پورے نہیں ہو سکتے ہیں جہاں دین کی خدمت کرنا مردوں کا فرض ہے وہاں ان کی عورتوں کا بھی فرض ہے اور انھیں چاہئے کہ مقدور بھر ضرور اس فرض کو ادا کرنے کی کوشش کریں.

Page 117

انوار العلوم جلد ۵ 94 جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں بچوں کی ذمہ داری اسی طرح بچوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ دین کی خدمت سے غافل ندر ہیں.بے شک ان کے پڑھائی کے دان ہیں.بلکہ کھیل کے دن ہیں اور جو لڑ کا طالب علمی کے زمانہ میں کھیل چھوڑتا ہے.وہ نادانی کرتا ہے بلکہ ورزش کرنا تو طالب علمی کے زمانہ کے ختم ہونے کے بعد بھی صحت کے قیام کے لئے ضروری ہے.مجھے یہ بیماریاں اسی وجہ سے پیدا ہوئیں کہ میں کثرت کام کی وجہ سے ورزش کا خیال نہ رکھ سکا.تو کھیلنا اور ورزش کرنا بھی ضروری ہے حضرت صاحب کو خواہ کتنا کام ہوتا.نمازیں جمع ہوتیں.مگر آپ سیر کے لئے ضرور جاتے.بلکہ ایک دن میں دودفعہ صبح و شام جاتے ہیں نے آپ کی اس سنت کے خلاف کر کے بہت نقصان اُٹھایا ہے.اس لئے نوجوانوں کو کہتا ہوں.من نہ کردم شما حذر بکنید میں نے کام کی کثرت کی وجہ سے ورزش کرنا چھوڑا.مگر پھر ایسی حالت ہوگئی کہ کام کرنا بالکل ہی چھٹ گیا اور ایک وقت تو میری یہ حالت تھی کہ میں اکیلا باآسانی اتنا کام کر سکتا تھا جتنا چار مضبوط آدمی کر سکتے ہیں مگر پھر یہ حالت ہو گئی کہ میں کسی کتاب کا ایک صفحہ بھی نہ پڑھ سکتا تھا کہ چکر آنے شروع ہو جاتے اب جبکہ سیر شروع کی ہے تو گو پہلی سی طاقت نہیں ہے.مگر پھر بھی بڑا فرق ہے اور معلوم ہو گیا ہے کہ نیچر کے قواعد کی پابندی بھی ضروری ہے.تو لڑکوں کے لئے کھیل بھی ضروری ہے.مگر ان کا بڑا فرض یہ ہے کہ وہ دینداری کا اعلیٰ نمونہ بن کر دکھائیں کیونکہ وہ ایسے لوگوں میں رہتے ہیں جو کفر میں ڈوبے ہوئے ہیں اگر یہ اپنا اعلیٰ نمونہ نہ دکھائیں گے تو دوسرے کہ سکتے ہیں کہ یہ جو زندہ خدا کے ماننے کا دعوی کرتے ہیں ان کی ایسی حالت ہے تو ہمیں خدا کو مان کر کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پس میں اپنی جماعت کے تمام لوگوں کو خواہ وہ بچے ہیں یا جوان یا عوزری نصیحت خلاصہ تقریر کرتا ہوں کہ اپنے نمونہ سے اور اپنی کوشش سے دین کی اشاعت میں لگ جائیں.چونکہ آج میرا ارادہ ہے کہ اس وقت جو گاڑی جاتی ہے اس پر جاؤں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ پھر میاں آنے کا موقع ملے یا نہ ملے یا اس طرح سمجھانے کا موقع ملے یا نہ ملے ، اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ جن کو کام کرنے کے لئے کوئی درجہ دیا گیا ہے دوسرے اس درجہ کے لحاظ سے انھیں دیکھیں اور وہ اپنے اندر ایسی تواضع اور انکساری پیدا کریں جیسی کہ اس درجہ کے لئے ضروری ہے.اسی طرح میں عورتوں، مردوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صدقہ ا مخلوق خدا سے ہمدردی کرو اور خیرات اور دوسرے طریقوں سے غریبوں، محتاجوں کی مدد کرنے کی کوشش کریں.میرے نزدیک وہ عورت یا مردمسلمان نہیں جس کے دل میں کسی غریب کو

Page 118

انوار العلوم جلد ۵ ۹۸ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں دیکھ کر در دنہیں ہوتا.اور مصیبت زدہ کو دیکھ کر دکھ نہیں محسوس ہوتا جس شخص کی نظر اپنے ہی دُکھ درد تک محدود ہو.وہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہے مسلم کے معنے خدا کی آنکھ ہیں اور خدا کی آنکھ صرف مسلمانوں کے ہی دکھ درد کو نہیں رکھتی بلکہ تمام مخلوق کو دیکھتی ہے.پھر سلم کے معنے خدا کا ہاتھ ہیں اور خدا کا ہاتھ صرف مسلمانوں کے لئے دراز نہیں ہوتا.بلکہ ہر ایک انسان کے لئے دراز ہوتا ہے.پھر سلم کے معنی خدا کا پاؤں ہیں اور خدا کا پاؤں صرف مسلمانوں کی طرف نہیں بڑھتا، بلکہ سکھ ، ہندو، عیسائی سب کی طرف بڑھتا ہے.پس مسلمان اور مومن وہی کہلا سکتا ہے جیسے ہر ایک انسان کے دُکھ اور مصیبت کے دُور کرنے کی فکر ہو.لیکن اگر کسی میں خدا تعالے کی تمام مخلوق کے لئے تواضع اور ہمدردی نہیں تو اس کا اسلام ناقص ہے.تبلیغ کی رفتار تیز کرو پھر میں کہتا ہوں مرد مردوں میں اور عورتیں عورتوں میں تبلیغ دین کریں وقت گزر رہا ہے.مگر کام جس رفتار سے ہونا چاہئے اس سے نہیں ہو رہا.بیشک ہماری جماعت کی ترقی ہو رہی ہے لیکن آج ہم جس طاقت اور قوت سے کام کر رہے ہیں.اس سے اگر زیادہ پیدا کرلیں تو کل بہت زیادہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.پس عورتیں اور مرد پہلے اپنی درستی کریں اور پھر دوسرے لوگوں تک دین کو پہنچائیں.خصوصاً میں طالب علموں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کی محبت اپنے دل میں پیدا کرو وہ اپنے دلوں میں خاص طور پر دین کی محبت پیدا کریں اور اپنی حالتوں کو بہت زیادہ اچھا بنائیں.خود خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں گاڑ لیں کیونکہ محبت ہی قدرت کلام اور شان و شوکت اور اثر کو پیدا کرتی ہے.اس طالب علم خاص طور پر خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں.اور ایسی محبت پیدا کریں کہ دنیا کی کوئی چیز اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے.جب یہ حالت ہو جائیگی تو وہ دیکھیں گے کہ ان کے اندرایسی روشنی اور ایسا نور پیدا ہو جائیگا کہ کسی سے کوئی بات منوانے میں انہیں رکاوٹ پیش نہ آونگی اور کوئی علم ایسا نہ ہو گا جو اسلام کے بطلان کے لئے نکلا ہو اور وہ اسے پاش پاش نہ کر دیں.مجھے محبت کے متعلق اپنا ایک بچپن کا رویا یاد ہے میری اس وقت کوئی گیارہ بارہ برس کی عمر تھی.میں نے دیکھا ایک سٹیچو ہے جیسا کہ امرتسر میں ملکہ کا سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اس کے اوپر ایک بچہ ہے جو آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بلاتا ہے.اتنے میں آسمان سے کوئی چیز اتری ہے جو نہایت ہی حسین عورت ہے جس کے کپڑوں کے ایسے عجیب و غریب رنگ ہیں جو میں نے کبھی نہیں دیکھے اس

Page 119

الدوار الله 49 جماعت احمدیہ کی ذمہ داریال نے چبوترے پر اتر کر اپنے پر پھیلا دئے اور نہایت محبت سے بچہ کی طرف جھکی ہے.وہ بچہ بھی اس کی طرف اس طرح پکا ہے جس طرح ماں سے محبت کرانے کے لئے لپکا کرتا ہے اور اس نے اس بچہ کو ماں کی طرح ہی پیار کرنا شروع کر دیا ہے اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے.LOVE CREATES LOVE محبت محبت کو کھینچتی ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ بچہ عیسی ہے اور وہ عورت مریم تو محبت ہی محبت کو کھینچتی ہے پس تم خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کر لو جب ایسا کر لو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ تمہارے اندر نور کی کھڑکی گھل گئی ہے گو پہلے چھوٹی سی ہو گی مگر جوں جوں خدا تعالیٰ کے جلال اور شان پر نظر پڑتی جائے گی وہ بھی فراخ ہوتی جائیگی جب تمہاری یہ حالت ہو جائیگی تو مداری تو فریب سے روپیہ نکالتا ہے اور دیکھنے والے حیران ہو جاتے ہیں مگر تمہارے اندر وہ ایسی کھڑکی کھل جائیگی کہ جو علم تم سے کوئی مانگے گا تم اسی سے نکال کر دکھا دو گے اور لوگ حیران رہ جائیں گے.میں اس امر کا تجربہ کار تمہارے سامنے کھڑا ہوں.مجھے کبھی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ کسی نے اسلام پر کوئی نئے سے نیا اعتراض کیا ہو اور مجھے اپنے دل کی تھیلی سے اس کا جواب نہ مل گیا ہو.مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اس اعتراض کا جواب ہے یا نہیں مگر جب ئیں اس میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو مشکل ضرور آتا ہے اور یہ خدا کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنے کا نتیجہ ہے.اس نصیحت پر جس میں میں نے طالب علموں کو زیادہ تر مخاطب کیا ہے.میں آج کی تقریر ختم کرتا ہوں کہ ابھی مجھے گاڑی پر جانا ہے.

Page 120

Page 121

تقریر سیالکوٹ ا نشانات صداقت آنحضرت صلی اللہ علیہ کمی از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 122

Page 123

انوار العلوم جلد ۵ ١٠٣ تقریر سیالکوٹ تقریر سیالکوٹ ) جو حضرت فضل عمر خلیفہ مسیح ثانی نے اپریل ۱۹۲۰ء کو مقام سیالکوٹ ایک پبلک مطلب میں فرائی اشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اما بعد فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَة صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْة وَلَا الضَّالِّينَ.(الفاتحة زمانہ بعثت نبوی کی تاریکی رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم جن کی طرف تمام مسلمان کہلانے والے لوگ خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ اس زمانہ کی نسبت آپ کے دوست و دشمن سب اقرار کرتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر تا ریک زمانہ تاریخ میں نہیں پایا جاتا.وہ زمانہ تاریکی اور جہالت، بے دینی اور خدا تعالیٰ سے دُوری کے لحاظ سے تمام گذشتہ زمانوں سے بڑھا ہوا تھا.ہر مذہب اور ہر ملت میں ایسا اختلال اور کمزوری واقع ہوگئی تھی کہ علاوہ اس بات کے کہ کون سا مذہب سچا ہے اور کون سا جھوٹا.اخلاقی طور پر ہر ایک مذہب کے مدعی ایسے گر گئے تھے

Page 124

انوار العلوم جلد ۵ ۱۰۴ تقریر سیالکوٹ کہ کوئی مذہب اپنے پیروؤں پر فخر نہیں کر سکتا تھا.اس زمانہ میں دنیا کی درستی اور اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.رسول کریم کی عظمت جس طرح وہ زمانہ سب سے زیادہ تاریک سب سے زیادہ جہالت اور سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے دُوری کا زمانہ تھا.اسی طرح اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے سب انبیاء سے بڑا بنایا اور سب سے زیادہ چمکتا ہوا نور اور روشنی آپ کو دی کیونکہ جتنی بڑی مرض ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا علاج کیا جاتا ہے.جتنی بھوک ہوتی ہے اسی کے مطابق کھانا تیار کیا جاتا ہے.اور جتنا لمبا قد ہوتا ہے اسی کے مطابق لباس تیار کیا جاتا ہے.ایک ہوشیار اور سمجھدار درزی طویل القامت انسان کے لئے ایک چھوٹے بچہ کے قد کے مطابق لباس تیار نہیں کرتا.ایک قابل اور عقلمند ڈاکٹر کسی خطرناک بیماری کے لئے بے توجہی سے نسخہ نہیں لکھنا.نہ اتنی مقدار میں دوائی تجویز کرتا ہے جس سے مریض کو کچھ فائدہ نہ ہو بلکہ کافی مقدار میں تجویز کرتا ہے.رسول کریم کی عظمت کی وجہ س جکہ دنیا کے تما کے تمام مورخ اور سب سمجھدار لوگ خواہ پس وہ کسی مذہب اور کسی ملت سے تعلق رکھتے ہوں تسلیم کرتے ہیں اور اس زمانہ کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ اس زمانہ میں سب سے زیادہ تاریکی اور حکمت پھیلی ہوئی تھی سب لوگ اپنے اپنے مذہب کو چھوڑ چکے تھے ان کے اخلاق و عادات بگڑ چکی تھیں تو ایسے خطرناک زمانہ میں ضروری تھا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے وہی انسان آتا جو سب سے زیادہ نیکی اور تقوی ، پاکیزگی اور طہارت میں بڑھا ہوا ہوتا.کیونکہ جب ایک معمولی درزی لیے قد کے لئے چھوٹا کپڑا نہیں سیتا ایک معمولی طبیب خطر ناک بیماری کا معمولی علاج تجویز نہیں کرتا تو وہ خدا جو علیم ہے اور ہر ایک بات کو جانتا ہے وہ کس طرح دنیا کی ایسی خطرناک حالت کو معمولی سمجھتا اور کسی معمولی انسان کو بھیج دیتا.پس جبکہ یہ اقرار کر لیاگیا کہ اس زمانہ میں مرض حد سے بڑھا ہوا تھا تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت اصلاح کے لئے جو رسول آیا وہ بھی سب سے بڑا تھا.رسول کریم کا انکار کس قدر خطر ناک سے ر ر پر چربی یا نا پڑے گا جتنا وہ رسول بڑا تھا اتنا ہی اس کا انکار بھی بڑا اور خطرناک ہے.کیونکہ کوئی نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کے پھینکنے اور قدر نہ کرنے والا اتنا ہی زیادہ الزام کے نیچے ہوتا ہے پس جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی نعمت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سب سے

Page 125

انوار العلوم جلد ۵ 1-0 تقریر سیالکوٹ بڑے انسان میں مخلوق پڑ تو ان کا رد کرنا بھی بہت بڑی ہلاکت اور خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والی بات ہے.رسول کریم کی صداقت کے نشان پھر جب رسول کریم صلی الہ علیہ ولم کا انکار بہت بڑی لعنت اور خدا تعالیٰ سے دوری کا باعث ہے دہمارے ملک میں لعنت گالی سمجھی جاتی ہے.لیکن عربی میں دُور ہو جانے کو کہتے ہیں ) تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے بڑے بڑے نشان بھی رکھے ہوں تاکہ ان کے ذریعہ لوگ آپؐ کو پہچان سکیں.ورنہ اگر الیا نہ ہو تو قیامت کے دن لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جب ان کا اتنا بڑا دعوای تھا اس کے لئے دلائل اور نشان بھی بڑے بڑے ہونے چاہئیں تھے.لیکن چونکہ ایسا نہ تھا اس لئے ہم ان کے نہ ماننے کی وجہ سے کسی الزام کے نیچے نہیں ہیں.تو عقل سلیم تسلیم کرے گی اور ہر سلمان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت پہلے انبیائہ سے بڑے ہونے چاہئیں کیونکہ آپ کی آمد تمام دنیا کے لئے رحمت تھی اور آپ کا دعوای سب انبیاء سے بڑھ کر تھا.قرآن کریم میں صداقت رسول کریم کے نشان اس بات کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کیا ثبوت دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن میں رسول کریم کی صداقت کے متعلق فرماتا ہے.اَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدُ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَبُ موسى إِمَامًا وَرَحْمَةً ُأولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرُ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوعِدُهُ : فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَالعِنَ الثَرَ النَّاسِ لا يُؤْمِنُونَ (ھود : (۱۸) فرماتا ہے.اس نبی کا انکار کوئی معمولی بات نہیں کسی مذہب انسان ہو اس کا فرض ہے کہ اس پر ایمان لائے اگر وہ خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے.اس پر سوال ہوتا ہے کہ کسی طرح معلوم ہو کہ اس کے ماننے سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے.فرماتا ہے اس کے تین ثبوت ہیں.افَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ عِتْبُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةٌ تین زمانے ہوتے ہیں.ایک ماضی ، دوسرا حال، تیرا مستقبل یہ تینوں زمانے شہادت دے رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا کی طرف سے ہے پس جس کی صداقت کے لئے زمانہ ماضی، زمانہ حال اور زمانہ مستقبل پکار رہا ہو اس کا کون عقلمند انکار کر سکتا ہے.

Page 126

انوار العلوم جلد ۵ 1.4 تقریر سیالکوٹ زمانہ حال کی شہادت فرماتا ہے سب سے پہلے زمانہ حال کے لوگ ہوتے ہیں کہ ہی بیات لانے والے ہوتے ہیں اس کے متعلق فرماتا ہے.افمن كان على بَيِّنَةٍ مِن رتبہ کہ اس زمانہ میں ایسے ثبوت موجود ہیں جو اس رسول کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں.یہاں تو مختصر طور پر فرما دیا اور دوسری جگہ اس کی یوں تفصیل کی ہے کہ دیکھو خدا اس کی تائید کر رہا اور اسے دشمنوں پر غلبہ دے رہا ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے.زمانہ مستقبل کی شہادت پھر آئندہ زمانہ کے متعلق فرمایا.يَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ که آئندہ زمانہ میں بھی خدا کی طرف سے ایک ایسا گواہ آئے گا جو اس کی صداقت کو ثابت کرے گا اور اس کے پیچھے ہونے کی گواہی دے گا.رسول کریم کے وقت کے جو لوگ تھے ان پر آپ کے نشان حجت تھے.مگر سوال ہو سکتا تھا کہ جو بعد میں آئیں گے ان کے لئے کون سے نشان حجت ہوں گے.اس لئے فرمایا ایک ایسا شاہد آئے گا جو اپنے آنے کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ثابت کرے گا اور اس رسول کی سچائی کی گواہی دے گا.تو اس آیت میں فرمایا کہ زمانہ حال کے لئے تو اس کے نشان حجت ہیں اور زمانہ مستقبل کے لئے ایک اور شخص مبعوث کیا جائے گا جو اس وقت دنیا پر اس کی صداقت ظاہر کر دے گا.یہ تو زمانہ حال اور مستقبل کے متعلق ہوا.زمانہ ماضی کی شہادت اور زمانہ ماضی کے متعلق فرماتا ہے وَمِن قَبْلِهِ كِتَبُ مُوسى اس سے پہلے زمانہ کے متعلق موسی کی کتاب شہادت دے رہی ہے اس میں شہادت موجود ہے کہ بنی اسمعیل سے ایک ایسا نبی کھڑا ہو گا کہ جو اس کا انکار کرے گا اسے سزا دی جائے گی.داستثناء باب ۱۸ آیت ۱۸-۱۹ برٹش اینڈ فارن با میل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۶ء) صداقت کے عقلی اور نقلی ثبوت پیس یہ میں رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت.دُنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جو کہتے ہیں عقلی ثبوت پیش کئے جائیں.ان کے لئے فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ نشان ہیں اور یہ بنیات اپنے ساتھ رکھتا ہے ان کو دیکھ کر اس کی صداقت کو تسلیم کرو.دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ نقلی طور پر صداقت کا ثبوت دو.ان کو فرماتا ہے.تمہاری کتابوں میں موجود ہے کہ آئندہ ایک نبی آئے گا اور وہ یہی ہے.پھر آئندہ آنے والے لوگ تھے ان کے متعلق فرمایا.جب دنیا خدا کو چھوڑ کر گرا ہی میں مبتلاء ہو جائے گی اور اس رسول کا انکار کرے گی.اس وقت ایسا انسان آئے گا جو نشان دکھلائے گا اور

Page 127

انوار العلوم جلد ۵ ان نشانوں سے اس رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صداقت ثابت کر دے گا.تقریر سیالکوٹ اب ہمیں موجودہ زمانہ کو دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ زمانہ موجودہ زمانہ میں رسول کریم کا انکار ایسا نہیں ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا جا رہا ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے زمانہ میں ایک انسان آئے گا مگر وہ خود نہیں کھڑا ہو گا بلکہ خدا تعالیٰ اس کو کھڑا کرے گا.ورنہ یوں تو ہر ایک کہ سکتا ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.پر صاف بات ہے کہ کسی ام کے متعلق گواہ کی اسی وقت ضرورت ہوتی ہے جب اس کا انکار کیا جاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا انکار کیا جا رہا ہے یا نہیں.گو واقعات سے کتنی ہی آنکھیں بند کر لی جائیں تاہم ہر ایک شخص کو جو ضد اور تعصب کی آلائشوں سے پاک ہو گا تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس قدر سختی کے ساتھ اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا انکار کیا جا رہا ہے اس قدر پہلے کبھی نہیں کیا گیا.پہلے زمانہ کے مخالفین اسلام کے حملے کیوں کمزور تھے ؟ پہلے مخالفین اسلام پر اس ؟ لئے ناپاک اور گند سے اعتراض نہ کرتے تھے کہ مسلمانوں کی حکومتوں سے ڈرتے تھے.پھر ان کے سامنے ایسے ایسے نمونے موجود تھے جن کی موجودگی میں وہ اسلام کی صداقت کا انکار نہیں کرسکتے تھے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگیوں میں ایسا تغیر پیدا کر دیا تھا کہ ان کا مسلمان کہلانا ہی اس بات کے ثبوت میں کافی ہوتا تھا کہ وہ بدی اور برائی کے نزدیک تک نہیں جاتے اور جب لوگوں کا ان پر یہ اعتماد تھا تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نیکی اور بھلائی پھیلانے والا انسان تھا.پھر لوگ ان بزرگوں کو دیکھ کر جو خاص طور پر ہر زمانہ میں پیدا ہوتے رہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر کوئی ایسا حملہ نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ اب کرتے ہیں.چنانچہ پہلے زمانہ کے مخالفین کی جو کتابیں موجودہ ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت جو اعتراض کئے گئے وہ بالکل پھیکے اور بہت کمزور تھے.چونکہ اس وقت عام طور پر مسلمانوں کی زندگیاں نقائص اور عیوب سے پاک وصاف تھیں اس لئے اسلام کی تعلیم بھی اعتراضات سے بری تھی اور اسلام مخالفین کے حملوں سے محفوظ تھا.کیا بلحاظ اس کے کہ اسلام کی تعلیم ہی ایسی ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا اور کیا بلحاظ اس کے کہ اسلام کی تعلیم کے عملی نمونے مسلمانوں میں موجود تھے اور کیا بلحاظ اس کے کہ مسلمانوں کی جماعتیں اسلام

Page 128

تفرزیرسیالکوٹ کو پھیلانے کے لئے دنیا میں نکلی رہتی تھیں.تمام دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے اور خاص کر گذشتہ جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی قوم صرف دشمن کے مقابلہ میں اپنا بچاؤ کرتے کرتے اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک خود بھی حملہ نہ کرے.چنانچہ اس جنگ میں لڑائی کے اس اصل پر خاص طور عمل کیا گیا.کیونکہ اس طرح دشمن کو اپنے گھر کا بھی فکر پڑ جاتا ہے تو دشمن پر کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نہ صرف اس کے حملہ کو روکا جائے بلکہ خود اس پر حملہ کیا جائے.اور مذہبی رنگ میں کیسی حملہ ہوتا ہے کہ اس مذہب کے نقائص بتائے جائیں.اسلام میں گیارہویں بارہویں صدی تک ایسے لوگ ہوتے رہتے ہیں جنہوں نے اشاعت اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی تھیں.چنانچہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت سے اسلام نہیں پھیلا.بلکہ خواجہ معین الدین اجمیری جیسے بزرگوں کے ذریعہ پھیلا تو ان حالات کے ماتحت اسلام مخالفین کے حملوں سے بچا ہوا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شبہ نہیں پیدا ہو سکتا تھا.موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی حالت لیکن اس کے بعد وہ زمانہ آیا کہ ایک طرف تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد اور دوری کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت میں ایسا تغیر آ گیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ ایک شخص کا مسلمان کہلانا ہی ضمانت تھی اس بات کی کہ وہ سچ کہے گا.مگر ایک یہ وقت آگیا کہ مسلمان کہلانے والوں کو سب سے زیادہ چھوٹا سمجھا جانے لگا.پھر ایک تو وہ وقت تھا کہ یوروپین مصنف با وجود اسلام کے ساتھ سخت تعصب رکھنے اور گالیاں دینے کے لکھتے تھے کہ مسلمان عہد کے بڑے پتے ہوتے ہیں جو اقرار کر لیتے ہیں اسے ضرور پورا کرتے ہیں.چنانچہ پین کے واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ بار بار عہد کئے گئے جنکو ریاستوں نے خود ہی توڑ دیا مگرمسلمانوں نے کبھی کسی عہد کو نہ توڑا.اسی طرح صلیبی جنگیں ہوئیں ان کے متعلق یوروپین مصنف اقرار کرتے ہیں اور وہ مصنف اقرار کرتے ہیں جو خود لڑنے کے لئے گئے تھے کہ جب بھی مسلمانوں نے معاہدہ کیا اسے لفظاً لفظاً پورا کیا.اس کے مقابلہ میں جرمنی اور فرانس نے عہد ناموں کو توڑا.تو اس وقت اسلام کا نام ضمانت تھی اس بات کی کہ صداقت اس کے ساتھ ساتھ جاتی ہے.مگر پھر وہ زمانہ آگیا کہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو چھوٹا اور فریبی سمجھا جانے لگا اور خود مسلمانوں نے اپنا مسلمان ہونا جھوٹے ہونے کے مترادف سمجھ لیا.ایک دفعہ مجھے کشمیر جانے کا اتفاق ہوا.وہاں میں نے خالیجے بنوائے.بنانے والا مسلمان تھا.اس کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس سے دس پندرہ فٹ کم اس نے غالیچے تیار کئے اور قیمت پہلے لے لی تھی.میں نے اس سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا ؟ اس کے جواب میں بار بار وہ یہی کہنے میں مسلمان ہوں“ اس پر مجھے غصہ آئے کہ یہ ایسا جواب

Page 129

انوار العلوم جلد ۵ 1-9 وہ کیوں دیتا ہے کیا مسلمان کے معنی فریبی اور دغا باز اور بد عہد کے ہیں ؟ تو مسلمانوں کی یہ حالت ہے اور اس کے لئے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں.خود مسلمان شاعروں کے شعر دیکھ لو.مسلمانوں کی کیا حالت بیان کرتے ہیں.حالی جو فوت ہو گئے ہیں ان کے دل میں مسلمانوں کا دردتھا.ان کے شعر دیکھ لئے جائیں وہ کیا کہتے ہیں.میں نے ایک مصنف کی کتاب پڑھی ہے وہ ہمارے متعلق لکھتا ہے یہ لوگ کہتے ہیں قرآن میں یہ خوبی ہے اور حدیث میں یہ لیکن ہم ان باتوں کو کیا کریں ہم یہ دیکھیں گے کہ عملی طور پر اسلام کیا ہے.اس کے بعد وہ لکھتا ہے.چلو اسلامی ممالک میں چلیں اور دیکھیں مسلمان کہلانے والوں کی کیا حالت ہے.یہ اعتراض گو غلط ہے اور اسلام کی صداقت پر اس کی وجہ سے کوئی حرف نہیں آتا.تاہم ایسا ہے کہ ایک مسلمان سن کر شرمندہ ضرور ہو جاتا ہے ولایت میں ایک عیسائی ان کتابوں کو پڑھ کر جو اسلام کی تائید میں لکھی گئیں مسلمان ہوگیا اور اس نے وہ ایرادہ کیا کہ چلو ہندوستان چل کر ان لوگوں کو دیکھیں جو مسلمان ہیں.اس میں کوئی نقص ہوگا کہ بد قسمتی سے ایسے وقت میں ہندوستان کی ایک ریاست میں پہنچا جبکہ محترم کے ایام تھے اور مسلمان کہلانے والے شیر چیتے کی کھالیں بین کرناچ رہے تھے.یہ دیکھ کر اس نے کہا جس مذہب کے ماننے والوں کی عملی حالت یہ ہو اسے کوئی انسان قبول نہیں کر سکتا اور وہ مرتد ہو گیا.اس پرمیں نے اس روئیں کو خط لکھا.اب اس نے محرم کے متعلق ایسی قیود لگا دی ہیں کہ بہت کم خلاف انسانیت باتیں کی جاتی ہیں.تو اس زمانہ میں مسلمانوں کی ایسی حالت ہو گئی ہے کہ جسے دیکھ کر رونا آتا ہے.دنیا کے سارے کے سارے عیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے جاتے ہیں.اگر اس وقت میں ان کو بیان کروں تو ہر مؤمن کے جسم کو کپکپی شروع ہو جائے.مگر بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہر ایک جانتا ہے.یہ تو عملی کمزوری کی وجہ سے ہوا لیکن مسلمانوں مسلمان کہلانے والے اسلام کے خلاف نے اسی پر کیس نہیں کی بلکہ اسلام کے خلاف خود لیکچر دیتے اور کیا اس وقت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے وقت میں بہت بڑا فرق ہو گیا ہے اس لئے وہ باتیں جو اس زمانہ میں کی گئیں اب نہیں ہو سکتیں.چنانچہ ایک شخص نے تجویز پیش کی کہ چونکہ پتلون پہن کر سجدہ نہیں کیا جا سکتا اور یہ جاہل لوگوں کے لئے تھا اس لئے اب اس طرح نماز پڑھنی چاہئے کہ لوگ بینچ پر بیٹھ کر میز پر سر جھکا لیا کریں.اسی طرح ہر روز نماز پڑھنے کا

Page 130

If.حکم زمانہ جہالت کے لئے تھا اب ہفتہ میں صرف ایک بار کافی ہے.اسی طرح روزہ یہ ہونا چاہیئے کہ پیٹ بھر کے کھانا نہ کھایا جائے نہ یہ کہ سارا دن بھوکا پیاسا رہنا چاہئے.اسی طرح بعض مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ اسلام دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا کہ دیا کہ اسلام سو سال کے اندر اندر دنیا سے مٹ جائے گا.عام لوگوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کلمہ تک کلمہ تک نہ جاننے والے مسلمان نہیں جانتے.پہلے سنا کرتے تھے کہ ایسے بھی مسلمان ہیں جو کلمہ بھی نہیں جانتے.مگر سلسلہ احمدیہ میں داخل کرتے وقت چونکہ کلمہ پڑھایا جاتا ہے اس لئے اس بات کی تصدیق ہوگئی.بیسیوں مرد اور عورتیں ایسی آتی ہیں جنہیں کلمہ ایک ایک لفظ کر کے پڑھانا پڑتا ہے.ایک پٹھان کا قصہ سُنا کرتے تھے کہ اس نے ایک ہندو کو پکڑ لیا اور کہا پڑھ کلمہ.ہندو نے میں کلمہ جانتا نہیں کیا پڑھوں.پٹھان نے کہا پڑھ ورنہ مار دوں گا.آخر اس نے مجبور ہو کر کہا کہ اچھا پڑھاؤ پڑھتا ہوں.پٹھان نے کہا خود پڑھ.ہندو نے کہا میں جانتا نہیں پڑھوں کیا پٹھان نے کہا معلوم ہوتا ہے تمہاری قسمت خراب ہے ورنہ آج تو مسلمان ہو جاتا.کلمہ مجھے بھی نہیں آتا.میں اس کو ایک لطیفہ سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ شائد یہ واقعہ نہ ہو مسلمانوں کی حالت کا نقشہ کھینچنے کے لئے یہ کہانی بنائی گئی ہو.مگر بیسیوں کی تعداد میں مرد اور عورتیں میں نے ایسی دیکھی ہیں جو باوجود میرے کتنے کے کلمہ کے الفاظ دہرا نہیں سکتیں.یہ حالت ہے اسلام کی اور اس اسلام کی جو الیسی کشش رکھتا تھا کہ اس نے وحشیوں اور جاہلوں کو مدبر اور مکمان بنا دیا.اس کے ماننے والوں کا آج یہ حال ہے کہ ایک چھوٹا سا کلمہ بھی نہیں پڑھ سکتے.پھر راجپوتانہ اور علیگڑھ کے پاس پاس ایسے دیات ہیں جہاں لوگ کہلاتے تو مسلمان ہیں لیکن انہوں نے گھروں میں بت رکھے ہوئے ہیں اور ہندوؤں کی تمام رسمیں بجا لاتے ہیں.اسلام پر اندرونی بیرونی حملے تو آج وہ زمانہ ہے جبکہ اسلام پر اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے حملے ہو رہے ہیں.مسلمانوں کی اپنی جو حالت ہے اس کے متعلق کسی قدر تو میں نے بتا دیا ہے اور عام طور پر سب لوگ جانتے ہیں.جاہل اور بے علم لوگ یوں اسلام سے دور ہو چکے ہیں اور انگریزی تعلیم یافتہ طرح طرح شکوک اور شبہات اُٹھا کہ اسلام سے متنفر ہو رہے ہیں.کہیں ایویلیوشن تھیوری پیش کرتے ہیں کہ انسان ترقی کرتے کرتے موجودہ حالت کو پہنچ گیا ہے نہ کہ خدا نے اسے ایسا ہی پیدا کیا ہے.کہیں سائنس کی تعلیم کے غلط ننا سنج

Page 131

نکال کر اسلام پر حملہ کیا جاتا ہے.غرض ایک طرف نئے نئے علوم نے مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی قدر و وقعت کو مٹا دیا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی عملی حالت دیکھ کر مخالفین حملہ آور ہوتے ہیں تیسری طرف جب مسلمان دنیاوی طور پر گر گئے تو دشمنوں کو اسلام پر اور زیادہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا.پس یہ وہ وقت ہے جبکہ اس شاہد کے آنے کی ضرورت ہے شاہد کے آنے کی ضرورت جو آکر ثابت کر دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ** تھے خدا کے محبوب اور پیارے تھے.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب شاہد کے آنے کی ضرورت ثابت ہے اور کوئی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کے لئے یہ نہایت ہی خطرناک زمانہ ہے.آج زمین و آسمان مسلمانوں کے دشمن ہو گئے ہیں آسمان سے جو بلائیں آتی ہیں ان سے مسلمان ہی زیادہ مرتے ہیں.اور زمین پر جو لڑائیاں ہوتی ہیں ان میں بھی مسلمان ہی سب سے زیادہ زیر عتاب آتے ہیں.ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت رکھنے اور آپ کی اُمت کو بچانے کے لئے خدا تعالیٰ نے کیا سامان کیا ؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی کوئی ایسا موقع آئے گا تو خدا تعالیٰ انتظام کرے گا.چنانچہ وہ خود کہتا ہے کہ میری طرف سے ایک گواہ آئے گا جو اس رسول کی صداقت ثابت کرے گا.ہم کہتے ہیں اگر اب خدا تعالیٰ نے یہ انتظام نہ کیا تو پھر کب کرے گا.ایک شاعر کہتا ہے.جب مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر اگر اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا سچا رسول ہے اگر قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے تو آج وہ وقت ہے جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی مدد ہونی چاہئے ورنہ اگر اب بھی خدا تعالیٰ نے مدد نہ کی تو کہا جائے گا کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب نہیں کیونکہ جب کوئی انسان یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ ایک شخص اس کے سامنے اس کے بچے کی گردن پر چھری چلائے اور وہ چپکا بیٹھا رہے تو پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اگر اسلام خدا کی طرف سے ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خُدا کے نیچے رسول ہیں، قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے تو جب ان پر طرح طرح کے حملے ہو رہے ہیں خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں نہ آئے اور وہ ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہ کرے.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیچتے ہیں اور ہر ایک مسلمان تسلیم کرتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے نیچے رسول ہیں تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایسے سامان ضرور ہونے چاہئیں جن سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اس

Page 132

انوار العلوم جلد ۵ تقریر سیالکوٹ زمانہ میں بھی ثابت ہو.رسول کریم کے شاہد کی بعثت میرے آج کے لکیر کا موضوع یہی ہے کہ میں اس بات کو ثابت کروں کہ خدا تعالیٰ کو اس زمانہ میں اسلام کی حالت دیکھ کر غیرت آئی اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے اس شاہد کو کھڑا کر دیا.جس کا اس نے قرآن کریم میں وعدہ کیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہندوستان ہی سے جو تمام مذاہب کا جولانگاہ بنا ہوا ہے اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے کھڑا کیا ہے تاکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دُنیا میں پھیلائے اور آپ کا نام روشن کرے اور ثابت ہو جائے کہ آپ نعوذ باللہ کوئی قریبی اور دغا باز نہ تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے پیارے اور محبوب تھے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے آکر یہی ثابت کیا اور ہم یہی مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے مرزا صاحب کو کھڑا کیا تھا.پس حضرت مرزا صاحب کا دعوی کوئی نیا دعوی نہیں تھا بلکہ یہی تھا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے اور اسلام کو مخالفین کے حملوں سے بچانے کے لئے کھڑا کیا ہے اور مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم ہونے کا فخر ہے.آپ کو خواہ مسیح کہیں یا مهدی، رسول کہیں یا نبی ، بہر حال اس کا مطلب یہی ہو گا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہو کر آئے ہیں.حضرت مرزا صا حیجے دعوی کی صداقت اب میں اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے جو دعوای کیا اس کو انہوں نے کس طرح پورا کیا.کوئی کہ سکتا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ قرآن کریم میں جس شاہد کے آنے کا ذکر ہے وہ مرزا صاحب ہیں ؟ اس کے متعلق میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب کی سچائی معلوم کرنے کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ جھوٹے تھے ، غلطی خوردہ تھے ، یا مجنون تھے ، یہی وہ تین باتیں ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی اس شخص میں پائی جائے گی جو ایک دعوی کرتا ہے مگر سچا نہیں ہے.اور یہ تینوں باتیں علیحدہ علیحدہ ہیں.ہو سکتا ہے کہ ایک دعوی کرنے والا جھوٹا ہو یا ہو سکتا ہے جھوٹا نہ ہو مگر کسی وجہ سے اسے غلطی لگ گئی ہو یا ہو سکتا ہے غلطی تو نہ لگی ہو لیکن پاگل اور مجنون ہو اب ہم دیکھتے ہیں حضرت مرزا صاحب نے جو دعوای کیا ہے وہ کیسا ہے.آیا آپ جھوٹے ہیں یا غلطی خوردہ ہیں یا مجنون ہیں.ان میں سے کون سی بات پائی جاتی ہے.

Page 133

داشت انوار العلوم جلد ف ١١٣ تقریر سیالکوٹ کیا حضرت مرزا صاحب جھوٹے تھے ؟ پہلے یہ لیتے ہیں کہ آیا آپ جھوٹے تھے ؟ جھوٹے ہونے کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی عزت قائم کرنے کے لئے فریب سے یہ بات بنائی کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.اب ظاہر ہے کہ جو شخص اس طرح اپنی عزت قائم کرنے کے لئے جھوٹ بنائے گا اس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عزت نہ ہوگی.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہو مگر وہ بندوں کے سامنے جھوٹ بول ہے.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولے.مثلاً ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے دل میں میری عزت ہو وہ دوسرے کے متعلق تو جھوٹ بول لے لیکن میرے متعلق نہیں بولے گا.پس اگر حضرت مرزا صاحب کے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عزت ہو تب تو وہ الیسا جھوٹ نہیں بول سکتے.ہاں جب ان کی عزت نہ ہو تب بول سکتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کو رسول کریم سے عشق اس کے لئے پہلے میں حضرت مرزا صاحب کی زندگی پیش کرتا ہوں.ان کی زندگی کوئی مخفی نہ تھی ایک مشہور انسان تھے.اخباروں میں ان کے حالات شائع ہوتے رہتے تھے.انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں ان کو پڑھ کر دیکھ لیا جائے کہ شروع سے لے کر اخیر تک حضرت مرزا صاحب کی زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں لگی ہوئی نظر آئے گی.یہ اور بات ہے کہ کوئی حضرت مرزا صاحب کو فریبی کے لیکن یہ تو غیر مذاہب کے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق تھا.مجنوں دلیلی ، فریاد و شیریں کے قصے مشہور ہیں.معلوم نہیں بیچتے ہیں یا جھوٹے.مگر اس میں شک نہیں کہ مرزا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہماری آنکھوں کے سامنے گزرا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ لیلی اور شیریں ، مجنوں اور فرہاد کوئی وجود بھی تھے یا نہیں، ان میں عشق تھا یا نہیں اور اگر تھا تو کیسا تھا مگر ہم یہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا سچا عشق تھا کہ فیس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی.چنانچہ مخالفین ہندوؤں، عیسائیوں وغیرہ کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو وہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اسلام کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مرزا صاحب نے زندگی وقف کر رکھی تھی.میں اس کے متعلق بعض واقعات سناتا ہوں.پنڈت لیکھرام آریوں کے ایک مشہور مبلغ تھے ان

Page 134

انوار العلوم جلد ۵ تقریر سیالکوٹ سے اسلام کے متعلق حضرت مرزا صاحب کی خط و کتابت ہوتی رہی.چونکہ ان کی طبیعت میں سختی تھی اس لئے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سخت اور ناشائستہ الفاظ استعمال کئے جیسا کہ ان کی کتاب " کلیات آریہ مسافر سے ظاہر ہے - حضرت مرزا صاحب کو جو دلائل کا جواب لائل سے دینے میں کبھی نہ تھکنے والے تھے ایسے الفاظ سُن کر بہت تکلیف ہوئی.ایک دفعہ جب لاہور گئے تو پنڈت لیکھرام ملنے کے لئے آئے اور سامنے آکر سلام کیا.آپ نے ادھر سے منہ پھیر لیا.پھر وہ دوسری طرف آئے لیکن آپ نے توجہ نہ کی.اس پر سمجھا گیا کہ شائد آپ کو معلوم نہیں یہ کون ہے اور بتایا گیا کہ یہ پنڈت لیکھرام نہیں اور آپ کو سلام کہتے ہیں.آپ نے فرمایا اسے شرم نہیں آتی میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے.پنڈت دیکھرام کی جو عزت آریوں میں تھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنا اپنی عزت سمجھتے تھے.لیکن حضرت مرزا صاحب کی غیرت دیکھئے.پنڈت صاحب خود ملنے کے لئے آتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں پہلے میرے آقا کو گالیاں دینا چھوٹ دے تب میں ملوں گا.اسی طرح ایک اور واقعہ ہے.حضرت مرزا صاحب کا سلوک اپنی اولاد سے ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ قطعاً خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کبھی ناراض بھی ہو سکتے ہیں.ہم جب چھوٹے ہوتے تھے تو یہمجھا کرتے تھے کہ حضرت صاحب کبھی غصے ہوتے ہی نہیں.میرے بچپن کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے مولوی عبدالکریم صاحب جو اسی جگہ کے ایک عالم تھے اور جنہیں پرانے لوگ جانتے ہوں گے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا میری پہلی میں درد ہے.جہاں ٹکور کی گئی لیکن آرام نہ ہوا.آخر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی جیب میں اینٹ کا ایک روڑا پڑا تھا جس کی وجہ سے پسلی میں درد ہوگیا.پوچھا گیا کہ حضور یہ کس طرح آپ کی جیب میں پڑ گیا.فرمایا محمود نے مجھے یہ انٹ کا ٹکڑا دیا تھا کہ سنبھال کر رکھنا میں نے جیب میں ڈال لیا کہ جب مانگے گا نکال دوں گا.مولوی صاحب نے کہا حضور مجھے دے دیجئے میں رکھ چھوڑوں.فرمایا نہیں میں اپنے پاس ہی رکھوں گا.تو آپ کو اولاد سے ایسی محبت تھی.آپ ہم سب سے ہی بہت پیار اور محبت کرتے تھے لیکن خاص کر ہمارے سب سے چھوٹے بھائی سے آپ کو ایسی محبت تھی کہ ہم سمجھتے تھے سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتے ہیں.ایک دن میں جب باہر سے آیا تو دیکھا کہ چھوٹے بھائی کے جسم پر ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کے نشان پڑے ہوئے تھے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بچپن کی ناسمجھی سے اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف تھی.اس پر حضرت صاحب نے اس زور سے اسے مارا کہ

Page 135

انوار العلوم جلد ۵ علیه و 11A اس کے بدن پر نشان پڑ گئے حضرت مرزا صاحب کی زندگی کا یہ نہایت ہی چھوٹا اور معمولی واقعہ ہے لیکن اس کو سامنے رکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی کسقدر عزت ہے.اکثر لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جو مخالفین کے لیکچروں میں جاتے اور رسول کریم صلی اللہ ے متعلق خوشی سے گالیاں سنتے ہیں.بعض جوش میں آکر آگے سے گالیاں دینا شروع دیتے ہیں.مگر یہ بھی درست نہیں اور اکثر بیٹھے سُنتے رہتے ہیں.لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں شامل ہونے کی دعوت حضرت مرزا صاحب کو بھی دی گئی اور بانیان جلسہ نے اقرار کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بُرا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا.لیکن جلسہ میں سخت گالیاں دی گئیں ہماری جماعت کے کچھ لوگ بھی وہاں گئے تھے جن میں مولوی نورالدین صاحب بھی تھے جن کی حضرت مرزا صاحب خاص عزت کیا کرتا تھے جب آپ نے سنا کہ جلسہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کو گالیاں دی گئی ہیں تو مولوی صاحب کو کہا.وہاں بیٹھا رہنا آپ کی غیرت نے کسی طرح گوارا کیا کیوں نہ آپ اُٹھ کر چلے آئے.اس وقت آپ ایسے جوش میں تھے کہ خیال ہونا تھے کہ مولوی صاحب سے بالکل ناراض ہو جائیں گے.مولوی صاحب نے کہا حضور غلطی ہو گئی.آپ نے فرمایا یہ کیا غلطی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں اور آپ وہاں میٹھے رہیں.غرض ایسے بیسیوں واقعات ہیں جن سے ثابت ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی ساری زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور توقیر کے لئے وقف تھی.حضرت مرزا صاحب کے نمونہ کا اثر پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ آپ کے نو نہ کہ آپ کی اولاد آپ کے متبعین اور آپ کے مریدوں پر کیا اثر ہوا.اس وقت وہ خواہ کتنے ہی کمزور ہوں لیکن اسلام کے لئے غیرت اپنی لوگوں میں نظر آئے گی جو حضرت مرزا صاحب کو ماننے والے ہیں.کیونکہ اس وقت اسلام پر حملہ کرنے والوں کا جواب اگر کوئی جماعت دے رہی ہے تو وہ وہی ہے جو حضرت مرزا صاحب نے قائم کی ہے.اس.ثابت ہے کہ حضرت مرزا صاحب رات دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے میں لگے رہتے تھے.ایسے انسان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا.

Page 136

انوار العلوم 114 تقریه بر سیالک کیا حضرت مرزا صاحب غلطی خوردہ تھے ؟ اب رہا یہ کہ کیا آپ غلطی خوردہ تھے.؟ بعض لوگ کہتے ہیں.اس میں شک نہیں که مرزا صاحب نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے.لیکن ایسے لوگوں کو بعض ایسے مقامات سے گزرنا پڑتا ہے جہاں غلطی لگ جاتی ہے.اسی طرح مرزا صاحب کے ساتھ ہوا اور اس کے ثبوت میں یہ سناتے ہیں کہ جس طرح منصور نے انا الحق کہا تھا اسی طرح مرزا صاحب نے جو دعوے کئے ان میں ان کو غلطی لگ گئی.مگر دراصل یہ کہنے والوں کی غلطی ہے.اگر منصور کو انا الحق الہام ہوا تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے.قرآن کریم میں ایسی آیتیں ہیں جن میں خدا تعالیٰ اپنے آپ کو اسی طرح مخاطب کرتا ہے.پس اس الہام سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منصور نے خدا ہونے کا دعوی کر دیا.کیونکہ اگر کوئی خدا کا ہو کر بھی ایسی ٹھوکر کھائے تو پھر خدا تعالیٰ سے تعلق ہونے کا فائدہ کیا.تو یہ غلط ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو غلطی لگ گئی.آپ متواتر کئی سال کہتے اور اعلان کرتے رہنے کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور وہ الہام پورے ہوتے رہے.اس لئے یہ نہیں کہ سکتے کہ آپ غلطی خوردہ تھے.کیا حضرت مرزا صاحب کو جنون تھا ؟ اب رہا جنوں اس کے متعلق بھی شادت سے فیصلہ ہو سکتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی جماعت میں جتنے طبیب اور ڈاکٹر داخل ہوئے ہیں.اتنے کسی اور جماعت میں ایسے معزز میشہ کے لوگ داخل نہیں ہوئے.اس صورت میں سوائے اس شخص کے جو خود پاگل ہو اور کوئی حضرت صاحب کو پاگل نہیں کہہ سکتا.حضرت مرزا صاحب صادق تھے ہیں ان تینوں باتوں میں سے کوئی بھی حضرت مرزا صاحب کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی.اب یہی پہلو باقی رہ گیا کہ آپؐ پیچھے ہیں.اس کے متعلق دیکھتے ہیں کہ سچائی کے کیا دلائل ہیں ؟ صداقت مسیح موعود کی ایک دلیل قران رسول کریم صلی الہ علیہ سلم کی صداقت کی ایک دلیل پیش کرتا ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ اس کے متعلق کتے ہیں کہ جھوٹا ہے وہ ذرا اس کی اس عمر پر تو خود کریں جو دعوی سے پہلے گزری ہے کہ وہ کیسی تھی ؟ ایک بہت بڑا ثبوت ہے کسی کی سچائی کا جو اسلام نے پیش کیا ہے کہ دعوی سے پہلے کی زندگی کو دیکھوں کیا وہ ایسی نہیں ہے کہ کوئی اس پر حرف گیری نہیں کر سکتا.اگر ایسی ہی ہے تو ظاہر ہے کہ جس شخص نے کل شام تک کسی سے دعا فریب نہیں کیا اور نہ جھوٹ بولا کس طرح ممکن ہے کہ وہ آج صبح اُٹھ کر لوگوں پر

Page 137

انوارالعلوم جلد ۵ 114 تقریر سیالکوٹ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنا شروع کر دے.یہ بات کسی کی سمجھ میں آرہی نہیں سکتی کہ ایسا ہوسکتا ہے ایسی لئے خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے مخالفین کو کہ دو فَقَدُ لَبِثْتُ فِيكُم عُمُرًا مِن قَبْلِهِ اَفَلَا تَعْقِلُونَ - (یونس : ۱۷) میں نے تم میں ایک لمبی عمر گزاری ہے اس کو دیکھ لو کیسی تھی اور اسی سے اندازہ لگا لو کہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے جو اب بولوں.یہی بات حضرت مرزا صاحب نے اپنے متعلق بیان کی ہے کہ میں ایک لمبا عرصہ تمہارے درمیان رہا ہوں.آج کہیں باہر سے آکر دعوای نہیں کر دیا.میری پہلی زندگی کو دیکھو.کیسی تھی ؟ مگر کسی نے پہلی زندگی میں کوئی نقص نہ بتایا.اہل سیالکوٹ سے خطاب آج میں اہل سیالکوٹ کو خاص طور پر مخاطب کرتا ہوں کیونکہ حضرت مرزا صاحب یہاں کئی سال تک رہے اور کئی لوگوں سے ان کے تعلقات تھے.مولوی میر حسن صاحب اور حکیم حسام الدین صاحب - لالہ بھیم سین صاحب وکیل ان کے دوستوں میں سے تھے.اور بھی کئی لوگوں سے حضرت مرزا صاحب کے تعلقات رہے اور مدتوں رہے اور جوانی کے زمانہ میں جب کہ عام لوگ بدیوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں رہے.پھر قادیان میں سکھ اور ہندو آپ سے مذہبی اختلاف رکھنے والے موجود تھے.ان کو حضرت صاحب نے چیلنج دیا کہ میرے چال چلن میں کوئی عیب نکالو کیا میں نے اس دعوی سے پہلے کبھی جھوٹ بولا، کسی فریب کیا، کسی کو دعا دی یا کوئی اور بری بات کی.اگر نہیں تو خدا را غور کرو.جو کل تک لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا رہا وہ آج کسی طرح جھوٹ میں اتنا بڑھ سکتا ہے کہ لوگوں کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنے لگ جائے.ہر ایک تغیر وقفہ چاہتا ہے اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ایک حالت سے بدل کر دوسری حالت کی طرف جانے کے لئے وقفہ ضروری ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت دیتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب کل تک اس کی راست بازی اور سچائی میں کسی کو شبہ نہیں تھا تو ایک رات میں کس طرح اتنا تغیر ہو گیا کہ خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا.یہی حضرت مرزا صاحب نے کها که اگر یه مکن نہیں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا.حضرت مرزا صاحب یہاں سیالکوٹ میں کئی سال رہے اور آپ سے ملنے والے بہت لوگ ابھی زندہ ہیں.ان سے دوسرے لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے کیسے اخلاق تھے.ایک دفعہ جب حضرت مرزا صاحب پر جہلم میں مقدمہ دائر کیا گیا تو یہاں کے لالہ بھیم سین صاحب نے آپ کو خط لکھا کہ میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں خود آ نہیں سکتا اگر اجازت دیں تو میرا بیٹا جو بیرسٹر ہو کر آیا ہے اسے شہادت کے لئے بھیج دوں وہ

Page 138

انوارالعلوم جلد ۵۵ HA تقریر سیالکوٹ اس الزام کی تردید کرے جو آپ پر لگایا گیا ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق ان کے ملنے والوں کے کیا خیالات تھے.ایسے انسان کے متعلق کوئی سمجھدار خیال بھی نہیں کر سکتا کہ وہ یکدم سچائی کو چھوڑ کر جھوٹ بولنے لگ گیا.اور جھوٹ بھی خدا تعالی پر اور اتنا بڑا کہ خدا نے تجھے دنیا کا ہادی بنا کر بھیجا ہے.اس بات کو کوئی عقلمند تسلیم نہیں کر سکتا.کہ قرآن کریم میں بیچے نبی کا خدا تعالیٰ نے ایک اور ثبوت پیش کیا ہے اور وہ یہ دوسری دلیل له وَلَوْ تَقُولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَادِيلِ - لَأَخَذَ نَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.تم تقطَعْنَا مِنْهُ الوَتِينَ - الحاقة : ۲۵ تا ۴ ) خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ثُمَّ متعلق فرماتا ہے.اگر یہ ہم پر جھوٹ بولتا تو چونکہ ہم قادر ہیں اور ہم پر جھوٹ بولنا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس لئے ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل خدا تعالیٰ پیش کرتا ہے اس کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں.حضرت مرزا صاحب پیچھے تھے یا نہیں.حضرت مرزا صاحب نے دعوائی کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا ہے.اب خدا تعالے نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو یہ کہا ہے کہ اگر یہ ہم پر جھوٹ بولتا تو ہم اسے بلاک کر دیتے.یہی حضرت مرزا صاحب پر چسپاں ہونا چاہئے.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علی سلم خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے تو ہلاک ہو جاتے اور کوئی دوسرا کرتا تو ہلاک نہ ہوتا.یہ ہو سکتا ہے کہ مفتری کو خدا تعالیٰ کچھ عرصہ ڈھیل دے دے.مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے ہلاک نہ کرے اور اس کو لوگوں کے گمراہ کرنے کے لئے چھوڑ دے.اگر ایسے جھوٹے دعوے کرنے والے ہلاک نہ کئے جائیں تو پھر امن کس طرح قائم رہ سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے جھوٹے لوگوں نے دعوے کئے وہ سب کے سب ہلاک کئے گئے.یہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نہ تو مجنون اور پاگل تھے.نہ دھوکا خوردہ.اب دو ہی باتیں باقی ہیں کہ یا تو آپ پیچھے تھے یا جھوٹے.اس کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ میں سال متواتر حضرت مرزا صاحب علی الاعلان کہتے رہے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے دنیا کا ہادی اور راہنما کر کے بھیجا ہے اور خدا تعالیٰ مجھ سے کلام کرتا ہے.مگر باوجود اس کے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں آدمیوں نے آپ کی بیعت کی اور آپ کو قبول کر لیا.جنہیں مخالفین کے نزدیک حضرت مرزا صاحب نے اسلام سے نکال کر کافر بنا دیا.مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو پکڑا نہیں.اگر ایک جھوٹا انسان بھی اس طرح کامیاب ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کی صداقت کی کون سی دلیل رہ گئی.وندتي

Page 139

119 بعض لوگ کہتے ہیں.فلاں نے خُدائی کا دعوی کیا تھا وہ بیچ خدائی کا دعوی کرنیوالے گیا تو مرزا صاحب کے نبی کا دعوی کر کے بچنے میں کون سی - عجیب بات ہے.ہم کہتے ہیں خُدائی کا دعوی کرنا اور بات ہے اور نبوت کا دعوی کرنا اور بات دیکھو خدا تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ ہم خدائی کا دعوی کرنے والے کو ہلاک کر دیں گے.کوئی کسے خدائی کا دعوی کرنا تو نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے سے بھی بڑا جرم ہے ایسے شخص کو تو ضرور کھڑنا چاہئے.مگر بات یہ ہے کہ خدائی کا دعوی کرنا ایسی بیہودہ بات ہے کہ جس کا باطل ہونا ہر ایک عقلمند بآسانی سمجھ سکتا ہے قصہ مشہور ہے ایک سادھو نے خدائی کا دعوی کیا ایک زمیندار کو اس پر بہت غصہ آتا لیکن سادھو کے چیلوں کے ڈر سے کچھ نہ کہتا.آخر ایک دن اکیلا دیکھ کر اسے کہنے لگا کیا تو ہی خدا ہے.اس نے کہا ہاں.زمیندار نے کہا ئیں تو تجھے بہت عرصہ سے تلاش کر رہا تھا اچھا ہوا آج تم مل گئے.یہ کہہ کر اس نے پکڑ لیا اور یہ کہ کر مارنا شروع کر دیا کہ تو نے ہی میرے باپ کو مارا ہے.میرے فلاں رشتہ دار کو مارا ہے.آج میں سب کا بدلہ لے کر چھوڑوں گا.اس پر سادھو نے تھوڑی دیر کے بعد ہی ہاتھ باندھنے شروع کر دیئے اور کہ دیا میں خدا نہیں ہوں.تو خدائی کے دعوی کو باطل ثابت کرنے کے لئے تو ایک جاٹ ہی کافی ہوتا ہے لیکن جھوٹے نبی سے لوگوں کو دھو کہ لگ سکتا ہے.کیونکہ نبی انسانوں میں سے ہی آیا کرتے ہیں.پس اگر نبی کی صدات کا یہ ثبوت نہ ہوتا اور جھوٹا دعوی کرنے والے کو ہلاک نہ کیا جاتا تو دنیا تباہ ہو جاتی.دعوی کے بعد حضرت مرزا صاحب سے خُدا کا سلوک اب دیکھو اضرت مرزا صاحب دعوای کے بعد کتنے سال زندہ رہے اور اس عرصہ میں خدا تعالیٰ کا ان سے کیا سلوک رہا.یا تو وہ زمانہ تھا کہ آپ بالکل اکیلے تھے یا اب یہ وقت ہے کہ لاکھوں انسان ان کے نام پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر حضرت مرزا صاحب بچے نہ تھے تو چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ آپ کو دعوی کے بعد تیس سال تک زندہ نہ رہنے دیتا.لیکن خدا تعالیٰ نے نہ صرف اتنا لمبا عرصہ آپ کو اپنے دعوی کے پیش کرنے کے لئے دیا بلکہ آپ کے تمام دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ میں آپ کی مدد کی.آپ کی تائید میں بڑے بڑے نشان دکھلائے اور لاکھوں انسانوں کو ان کے سامنے جھکنے کی توفیق بخشی.کیا خدا تعالیٰ کا یہ سلوک کسی جھوٹے مدعی کے ساتھ ہو سکتا ہے.ہر گز نہیں.

Page 140

انوار العلوم جا تقریر سیالکوٹ تیسری دلیل تیسرا ثبوت بچے بی کا خدا تعالی یہ دیا ہے کہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ اخْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَبَ بِايْتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ.الانعام : (۲۲) اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے اور کسے کہ مجھے الہام ہوتا ہے حالانکہ نہ ہوتا ہو.یا الہ کی آیات کی تکذیب کرے.ایسے لوگ ظالم ہوتے ہیں اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے.اب ہم پوچھتے ہیں جب خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہوتا ہے.اور ظالم کبھی خدا تعالی سے نصرت نہیں پاتا.تو جب حضرت مرزا صاحب ایسے تھے تو پھر کیا وجہ ہے خدا تعالیٰ کی نصرت انہیں ملتی رہی ہے.حضرت مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نصرت علی اس کو دیکھ کر کوئی مسلمان یہ نہیں کر سکتا کہ آپ جھوٹے تھے ورنہ اسے قرآن کو جھوٹا قرار دینا پڑے گا جو کہتا ہے کہ خدا پر جھوٹ بولنے والوں کو کبھی نصرت نہیں ملتی.دیکھو حضرت مرزا صاحب نے آج سے کئی سال پہلے قادیان میں جہاں کے اکثر لوگ آپ سے نا واقف تھے اور صرف چند لوگ جانتے تھے کہا يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ نَجْ عَمِيقٍ تذکره نه باشین چهارم ) اور يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (تذکرہ ۳۳۵ ایڈیشن چهارم ، کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے چاروں طرف سے تیرے پاس اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ رستے گھس جائیں گے اور چاروں طرف سے خوردو نوش کا سامان آئے گا.اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے بھی بتایا کہ چاروں طرف تیرا نام پھیل جائے گا.جب حضرت صاحب نے دعوی کیا بالکل گنام تھے ، کوئی ان کا متبع نہ تھا، آپ کوئی بڑے عالم نہ تھے، کوئی حکومت نہ رکھتے تھے کہ رعب کی وجہ سے لوگ آپ کے ساتھ ہو گئے.پھر یہ بھی نہیں کہ آپ کی مخالفت نہیں ہوئی بلکہ جب آپ نے دعوی کیا تو ہندوستان کے سب علماء آپ کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے.امراء نے بھی آپ کے خلاف زور لگایا اور پیروں گدی نشینوں نے بھی مخالفت کی.پھر اس وقت کے حالات کو دیکھ کر گورنمنٹ نے بھی بدظنی ظاہر کی کیونکہ حضرت صاحب نے مہدی ہونے کا دعوی کیا اور مہدی کا جو نقشہ مسلمانوں نے کھینچا ہوا تھا اس سے گورنمنٹ کو فتنہ و فساد کا ڈر تھا.ادھر ہندوؤں اور عیسائیوں نے حضرت مرزا صاحب کی مخالفت شروع کردی.مگر آپ تن تنہا سب کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے اور کسی کی پرواہ نہ کی اور علی الاعلان کہہ دیا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانہ کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوں.کون ہے جو ایک پیسہ بھی اس میں سے اُٹھا کرے

Page 141

انوار العلوم جلد ۵ ۱۲۱ تقریر سیالکوٹ جاسکے.تو اس زمانہ میں جبکہ حکومت کو بدلنی تھی، ہر طرف سے مخالفت ہو رہی تھی ، آپ سے بات تک کرنا نا جائز سمجھا جاتا تھا، اسی سیالکوٹ سے ایک اشتہار شائع ہوا تھا کہ جو شخص مرزائیوں سے بات کرے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.علماء نے کہ دیا ہم وارث دین ہیں.ہم فتویٰ دیتے ہیں کہ مرزا واجب القتل ہے لیکن وہ اکیلا سب کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا اور اس نے علی الاعلان کہ دیا کہ میں اس کا غلام ہوں جو خدا کا محبوب ہے اور میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے کے لئے خدا تعالے کی طرف سے کھڑا ہوا ہوں مجھے کوئی ہلاک نہیں کر سکتا اور اس وقت خدا تعالیٰ کا یہ الہام بھی سُنا دیا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور جملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا " اب دیکھو ایسے حالات میں دنیا کو یہ کہنا اور پھر ایسا ہی ہو جانا کس کی عقل میں آسکتا ہے کہ یہ جھوٹے اور فریبی انسان کا کام ہے.ہر گز نہیں.ایک طرف وہ دعوای دیکھیو جو حضرت مرزا صاحب نے کیا اور دوسری طرف ان تکالیف پر نظر کرو جو حضرت مرزا صاحب اور آپ کے ماننے والوں کو دی گئیں اور پھر غور کرو کہ جو کامیابی آپ کو نصیب ہوئی اور ہو رہی ہے یہ کسی جھوٹے اور مفتری کو ہو سکتی ہے.ان باتوں پر غور کرو اور فائدہ اُٹھاؤ.هام عله تذکره صفحه ۱۰۴ ایڈیشن چهارم

Page 142

Page 143

۱۲۳ خاتم النبیین کی شان کا اظہار از یدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 144

Page 145

انوار العلوم جلد ۵ ۱۲۵ خاتم النبین کی شان کا اظہار حضرت مرزا صاحب کے آنے سے رسول کریم 10 کی کیا فضیلت ظاہر ہوئی ر حضرت فضل عمر خلیفتہ اسیح الثانی نے اور اپریل ۱۹۲۰ء کو سیالکوٹ میں ایک دعوت کے موقع پر جس میں ایک غیر احمدی صاحب کی طرف سے یہ سوال پیش کیا گیا کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا فضیلت ظاہر ہوئی.حسب ذیل تقریر فرمائی) ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مذہبی ایک سوال دُنیا میں کوئی ایسا تغیر ہو سکتا ہے جو اسلام اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے خلاف ہو.اگر کوئی ایسی بات ہو کہ جس کا اثر اسلام کی ترقی اور فضیلت کے خلاف پڑتا ہو یا اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت نہ ظاہر ہوتی ہو تو وہ اسلام کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی ہیں جبکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کے سوا اور کوئی ایسا مذہب نہیں جو ساری خوبیوں کا مجموعہ ہو تو ہم سے اس بات کا مطالبہ کرنا کہ مرند صاحب کے آنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کیا زیادتی ہوئی اور اسلام کی کون سی خوبی ظاہر ہوئی بالکل بجا اور درست ہے.اور جب تک کوئی احمدی اس مطالبہ کو پورا نہ کرے اس وقت تک وہ احمدی کہلانے کا مستحق نہیں.یہ اور بات ہے کہ کوئی اپنی نادانی اور غفلت سے اس بات کی طرف توجہ نہ کرے لیکن توقع کی جاتی ہے کہ ہر ایک سمجھدار جو اپنے آپ کو کسی مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے وہ کسی ایسی بات کو نہ مانے جس

Page 146

م جلد ۵ خاتم النبیین کی شان کا اظہار سے اس کے مذہب کی عظمت اور شان میں اضافہ نہ ہوتا ہو.پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ اسلام ہی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سوال کی طرف توجہ کریں کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے سے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی خوبی اور عظمت کا اظہار ہوا.اور جب تک تم یہ نہ ثابت کر دیں کہ حضرت مرزا صاحب نے اسلام کی فلاں خوبی کا ثبوت پیش کیا اس وقت تک ہمارا کوئی حق نہیں ہے کہ کسی کو آپ کے قبول کرنے کی دعوت دیں اور وہ اس دعوت کو قبول کرے.ایک سکھ ایک عیسائی ایک نیوری کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی خوبی کا مطالبہ کرے لیکن ہر ایک مسلمان کہلانے والے کے لئے ضروری ہے کہ یہ معلوم کرے پس میں اس وقت اس مطالبہ کو سن کر بہت خوش ہوا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں.رسول کریم کی فضیلت سے مراد میرے نزدیک حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو معلوم کرنے سے پہلے ہ غور کرنا ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے مراد کیا ہے ؟ اگر تو کہا جائے کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے سے کوئی ایسی نئی بات نکل آئی ہو جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ اور منصب میں زیادتی ہو گئی ہو اور جب تک وہ نہ تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کو وہ درجہ حاصل نہ تھا جو اس کے بعد حاصل ہوا تو اسلام کے اندر رہ کر یہ کوئی سچا خیال نہیں ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت رسول کریم میں موجود ہے اور ہر ایک درجہ جو انسان کو حاصل ہو سکتا ہے وہ آپ کو حاصل ہے.پس حضرت مرزا صاحب کے آنے سے رسول کریم کی فضیلت ثابت ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کا اظہار ہوانہ یہ کہ کوئی فضیلت رسول کریم کو حاصل نہ تھی وہ حاصل ہوگئی.اور نہ یہ کہ آپ کے درجہ میں کوئی کی تھی وہ پوری ہوگئی.پس ہم یہ دیکھیں گے کہ حضرت مرزا صاحب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا فضیلت ظاہر کی.عام لوگ ناواقفیت کی وجہ سے یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں کون سی کمی تھی جو مرزا صاحب نے پوری کی.ہم کہتے ہیں یہ سوال ہی ٹھیک نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کمی کے ساتھ نہیں آئے تھے بلکہ کامل ہو کر آئے تھے اور ہم اس بات کے مدعی نہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی کمی کو پورا کیا ہے بلکہ ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ حضرت مرزا صاحب اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے آئے تھے اور اگر یہ بات نہ پائی جائے تو حضرت مرزا صاحب کی بعثت باطل ہو جاتی ہے.

Page 147

انوار العلوم جلد ۵ ۱۲۷ خاتم النبین کی شان کا اظہار آپ کی بعثت سے مراد وہ دعاوی ہیں جو آپ نے کئے.اس لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ان دعووں نے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ظاہر ہوتی ہے یا نہیں.حضرت مرزا صاحب نے دعوی کیا ہے کہ اسلام کی حضرت مرزا صاحب کا دعوی نبوت شان کے اظہار کے لئے میں خدا تعالٰی کی طرف سے آیا ہوں.ایسا دعوی کرنے والے کو عربی میں نئی ، رسول اور نامور کہتے ہیں.ہندوستانی میں اوتار کا انگریزی میں پرافٹ (PROPHET ) وغیرہ.حضرت مرزا صاحب کا یہ دعوی ہے جس کے مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں.ان سے درجہ کے بڑے چھوٹے ہونے کا تعلق نہیں بلکہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلاں انسان خدا کی طرف سے ہے.اس کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے جو رسول ہونے کا دعوی کیا ہے اس سے کس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے.حضرت مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو یہ پیشگوئی ہے کہ میرے خدام میں سے مہدی ہوگا وہ میں ہوں.اسی طرح اسلام میں پیشگوئی ہے اور مسیحیت میں بھی ہے کہ حضرت میسیج دوبارہ آئیں گے اور بہود کی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے اس کا مصداق میں ہوں اور میرا نام میسح ہے.اسی طرح انہوں نے اپنا نام کرشن بتایا.جیسا کہ ہندوؤں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب گناہ پھیل جائے گا تو اس وقت کرشن آئیں گے.حضرت مرزا صاحب کا دعوی ہے کہ یہ سب نام مجھے دیئے گئے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو یہ نام دیئے جانے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا فضیلت ثابت ہوتی ہے.سب مذاہب کے موعود اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ تمام مذاہب میں آخری زمانہ میں ایک آنے والے کی پیشگوئی کی گئی ہے حتی کہ زرتشتی مذہب کی کتاب جاماسی میں بھی لکھا ہے کہ میری اولاد سے ایک نبی آئے گا جس کا نام موسیو زر بھی ہو گا.پھر بدھوں کی کتابوں میں بھی آنے والے کی پیشگوئی ہے.غرض تمام مذاہب میں خبر دی گئی ہے.اب قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان کے اتنے نام کیوں رکھے گئے.چنانچہ عام طور پر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے اتنے نام بتاتے ہیں.ایک آدمی کے جسم میں اتنے آدمیوں کی رو میں کیونکہ داخل ہو گئیں.لیکن اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی عظمت ثابت کرنے کے لئے یہ طریق رکھا ہے.لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی جنگ ہوگی.اور وہ جنگ خدائی اور شیطانی فوجوں کی آخری جنگ ہوگی.اس وقت شیطان اپنا سارا زور لگائے گا اور اتنا گائے گا کہ پہلے

Page 148

انوار العلوم جلد ۵ ۱۳۸ خاتم النبیین کی شان کا اظہار اس نے کبھی نہیں لگایا.پھر وہ فتنہ ایسا ہو گا جس کی خبر حضرت نوح سے لے کر سارے انبیاء دیتے آئے ہیں.ایسے فتنہ وشتر کے زمانہ میں ضروری تھا کہ اسلام کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کوئی خاص ہی سامان کرتا.کیونکہ اس نے خود وعدہ کیا ہے کہ انا نحنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجز (۱۰) کہ ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.یہ حفاظت کا لفظ بتاتا ہے کہ اسلام پر مخالفین کی طرف سے بار بار حملے ہوں کیونکہ حفاظت اسی چیز کی کی جاتی ہے جس کے اُٹھا لے جانے یا بگاڑ دینے کا خطرہ ہو.تو معلوم ہوا کہ قرآن خطرہ میں ہوگا اور خدا اس کی حفاظت کے سامان کرے گا اس وعدہ کے مطابق ضروری تھا کہ اس وقت جب کہ شیطان کا اسلام پر آخری حملہ ہونا تھا اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد ثابت ہو چکا تھا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اس لئے اس کے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ ہر مذہب میں پیشگوئی کرادی کہ آخری زمانہ میں ایک نبی آئے گا اور ہر مذہب کو چونکہ اپنے ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے کے ساتھ سب سے زیادہ الفت ہوتی ہے.مثلاً عیسائیوں کو حضرت مسیح سے ، ہندوؤں کو کرشن جی سے، مسلمانوں کو مہدی سے اس لئے ہر ایک مذہب میں اسی مذہب سے تعلق رکھنے والے کے آنے کی پیشگوئی کرادی اور وہ اپنی اپنی جگہ اُمید لگائے بیٹھے رہے کہ ہم میں آئے گا.یہ تدبیر کر کے خدا نے ایک ہی انسان کو مقرر کر دیا تاکہ جب وہ آئے تو کسی مذہب والے کو اس کے ماننے میں عذر نہ ہو سکے تو سب پر حجت قائم کرنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ہر مذہب والوں سے آنے والے کا نام الگ الگ رکھا دیا.مگر دراصل وہ ایک ہی انسان تھا تاکہ جب وہ آئے تو اس کا فیصلہ مانے میں کسی کو عذر نہ ہو.یہ ایسی مثال ہے جیسا کہ ایک بات کا تصفیہ کرانے کے لئے چند آدمی پہنچ مقرر کر لیں اور وہ ان کا فیصلہ کر دے.اسی طرح پارسیوں نے کیا موسیوز رہی جو فیصلہ کرے گا اسے ہم مان لیں گے.عیسائیوں نے کہا میشیح جو فیصلہ کرے گا وہ ہم قبول کر لیں گے مسلمانوں نے کہا مہدی جو فیصلہ کرے گا وہ ہم تسلیم کرلیں گے.اس طرح جب سب مذاہب والے تیار ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو بھیج دیا جس میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی تھیں جو ہر ایک مذہب نے آنے والے کے لئے مقرر کی ہوئی تھیں.اس کے متعلق گو ابتداء میں مخالفت کریں لیکن جب غور کریں گے اور مقررہ علامات کو پورا ہوتا دیکھ لیں گے تو مان لیں گے.اس انسان کو خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھیجا جس نے اسلام کی صداقت ثابت کی اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہوئی.

Page 149

انوار ال ۱۲۹ خاتم النبین کی شان کا اظہار تمام مذاہب میں آنیوالے کا ایک نام کیوں نہ رکھا گیا کوئی کہ سکتا ہے کہ اگر ایک ہی شخص نے آنا تھا تو تمام مذاہب میں اس کا ایک ہی نام کیوں نہ رکھ گیا.مگر بات یہ ہے کہ اگر ایک ہی نام ہوتا تو ن لوگوں کو یہ علم ہوتا کہ ہم میں نہیں ہوگا وہ اس کے آنے کی پیشگوئی کو مٹانا شروع کر دیتے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے آنیوالے کا نام ان کی اپنی زبان میں رکھا اس لئے انہوں نے سمجھا کہ ہم میں سے ہی آئے گا اور اس کے آنے کی امید کائے بیٹھے رہے کہ اس کے فیصلہ کو مانیں گے.یہ تدبیر کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اس خدا نے جو حکمت کے ماتحت کام کرتا ہے کہ سب مذاہب میں پیشگوئی کراکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں سے اس کا مصداق بھیج دیا.اب اس بھیجے ہوئے پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم تو ایسے کامل انسان ہوئے ہیں کہ ان کے بعد کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں مگر مرزا صاحب کا دعوی ہے کہ میں نبی ہوں پھر ہم ان کا یہ دعوی کیونکر مان سکتے ہیں.ان کے اس فعل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا دعوای کیا ہے نہیں سے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے برخلاف نتیجہ نکلتا ہے.اس کے لئے ہم یہ دکھیں گے کہ حضرت مرزا صاحب کا دعوی نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور قدرت کو بڑھانے والا ہے یا کم کرنے والا.میں سمجھتا ہوں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنے سے کم ہوتی ہے تو پھر کسی مسلمان کو اپنا یہ خیال بدلنے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہئے.وفات مسیح اس میں شک نہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے نبوت کا دعوی کیا ہے لیکن اس کے متعلق بیان کرنے سے قبل میں ایک اور عقیدہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو حیات مسیح کا عقیدہ ہے اس کے متعلق جہاں تک ہمیں معلوم ہے وہ یہی ہے کہ حیات مسیح کے عقیدہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہے اور مجھے تو اس پر سخت جوش آجاتا ہے کہ کیوں اس طرح حضرت مسیح کو رسول کریم سے بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے.دنیا میں کوئی ایسی لغو حرکت نہیں کرتا جیسی حضرت مشیح کو زندہ ماننے والے کرتے ہیں.عام طور پر لوگ اپنے استاد اور اپنے بزرگ کو بڑھا کر پیش کیا کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوسب سے بڑا درجہ دیا ہے اس کو

Page 150

انوار العلوم جلد ۵ خاتم النبین کی شان کا اظہار بھی گھٹاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ۶۳ سال کی عمر میں فوت ہو چکے ہیں لیکن حضرت مسیح کو خدا تعالیٰ نے آج تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور صاف بات ہے کہ اسی چیز کو سنبھال کر رکھا جاتا ہے جو اعلیٰ ہو.پھر کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت جب بگڑ جائے گی تو اصلاح کے لئے موسوی سلسلہ کا رسول حضرت مینتی آئیں گے.حالانکہ ان کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو میری اتباع کرتے.دالیواقیت والجواهر موند امام عبدالوہاب شعرانی جلد سفر ۲ مطبوعہ مصر ۱۳۱۲ ) تعجب ہے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کا حضرت عینی پر انحصار رکھنے والوں کو غیرت بھی نہیں آتی.جن لوگوں میں غیرت ہوتی ہے وہ کبھی پسند نہیں کرتے کہ دوسروں سے مدد لیں.عمان ایک چھوٹی سی ریاست ہے اس میں جب ایک دفعہ بغاوت ہوئی تو ہندوستان سے تار دیا گیا کہ اگر ضرورت ہو تو ہم مدد دیں.اس کا جواب اس ریاست کے سلطان نے یہ دیا کہ جب یک ہم میں جان ہے ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت نہیں.تو ہر ایک شخص جو غیرت رکھتا ہے وہ کسی دوسرے سے امداد کا متمنی نہیں ہوتا مگر مسلمان کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح حضرت مسیح آکر کریں گئے.حیات مسیح کے عقیدہ سے اسلام پر حملہ پر رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم ک وفات یافته در حضرت مسیح کو زندہ ماننے سے اسلام پر ایسا خطر ناک حملہ ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور حملہ نہیں ہو سکتا.چنانچہ عیسائیوں کی طرف سے بیسیوں ٹریکٹ اسی بات کے متعلق شائع ہوتے رہتے ہیں کہ مردہ اچھا ہوتا ہے یا وہ جو زندہ آسمان پر موجود ہو.چونکہ حضرت مسیح زندہ ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اس سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کا در جیران سے بڑا ہے.اسی بات کو پیش کر کے عیسائی لاکھوں کی تعداد میں ٹریکیٹ شائع کرتے رہتے ہیں اور مسلمانوں میں سے ایک بھی نہیں جو ان کا کوئی معقول جواب دے سکے.اس وقت پتہ لگتا ہے کہ وہی عقیدہ درست ہے جو حضرت مرزا صاحب نے پیش کیا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں.ہم نے عیسائیوں کے اس قسم کے ٹرکیٹوں کے جواب اس لئے نہ دیئے کہ دیکھیں حضرت مسیح کو زندہ ماننے والے کیا جواب دیتے ہیں.آخر ہمارے پاس مسلمانوں کی طرف سے خطوط آئے کہ آپ لوگ کیوں ان کا جواب نہیں دیتے جس سے ثابت ہو گیا کہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ لوگ جو حضرت مسیح کو زندہ مانتے ہیں کوئی جواب نہیں سکتے.کوئی کہ سکتا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ حضرت مسیح کو زندہ آسمان پر اُٹھا لے.ہم کہتے ہیں خدا تعالیٰ قادر ہے.مگر سوال یہ ہے کہ خدا نے ایسا کیا یا نہیں ؟ ہم پوچھتے ہیں.کیا خدا قادر

Page 151

انوار العلوم جلد ۵ نہیں کہ انسان کے تین مہر بنا دیتا ؟ قادر ہے مگر اس نے بنائے تو نہیں.خاتم النبین کی شان کا اظہار پس خدا تعالیٰ کا قادر ہونا اور بات ہے اور کوئی کام کرنا الگ بات ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو زندہ آسمان پر نہیں اُٹھایا اس لئے ہم یہ بات نہیں مان سکتے کہ وہ زندہ انسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر موجود نہیں اور کسی زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لئے دنیا میں آئیں گے.حیات مسیح کے عقیدہ سے پھر حضرت میتی کو زندہ آسمان پر ماننے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہنگ ہوتی ہے کیونکہ اگر کسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تک نبی نے زندہ رہنا ہوتا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو سکتے تھے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو یہی خیال پیدا ہوا اور حضرت عمرہ جیسا جلیل القدر انسان ہاتھ میں تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اس کا سر اڑا دوں گا.تمام صحابہ جو بڑے دلیر اور بہادر تھے کسی نے ان کی تردید نہ کی.اس وقت وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے لئے کھڑا کیا اس نے آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا اور سب کو مخاطب کر کے کہا.سنو ! وَمَا مُحَمَّدُ الأَرسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَائِن مَاتَ أَوْ قُتِل انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِحُمُ (ال عمران (۱۲۵) که محمد نہیں تھے مگر اللہ کے رسول آپ سے پہلے جتنے رسول تھے وہ فوت ہو گئے.اگر آپ بھی فوت ہو گئے تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.پھر اس کے بعد کہا.لوگو اسنو ! مَن كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدُمَاتَ وَمَنْ كَانَ يعْبُدُ اللهَ فَإن الله حتى لا يموتُ (بخارى كتاب المناقب باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا ، کہ جو محمد کی عبادت کرتا ہے وہ دیکھ لے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ سُن لے کہ اللہ زندہ ہے.حضرت عمریضہ کہتے ہیں کہ جب ابو بکر ین نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ رسول کریم فوت ہو گئے ہیں.اس وقت وہ کانپنے لگے اور گر گئے.پھر لکھا ہے کہ صحابہ گلیوں میں روتے پھرتے اور حسان کا یہ شعر پڑھتے کہا كنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَى عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنتُ يُحَاذِرُ ر دیوان حسان بن ثابت ما مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء ) تو ہماری آنکھوں کی پہیلی تھا جب تو نہ رہا تو پھر خواہ کوئی مرے ہیں کچھ پرواہ نہیں.یہ وہ محبت

Page 152

انوار العلوم جلد ۵ خاتم النبین کی شان کا اظہار تھی جو صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی.اگر حضرت عیسی زندہ ہوتے تو صحا بہ کیوں یہ نہ کتنے کہ جب حضرت مسیح زندہ ہیں تو کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں رہ سکتے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہونے والے اور آپ کی عظمت دل میں رکھنے والے یہ ہتک سمجھتے تھے کہ آپ فوت ہو جائیں.لیکن جب حضرت ابو بکر نے قرآن کریم کی آیت پڑھی تو ان کی آنکھیں گھل گئیں اور انہوں نے معلوم کر لیا کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سارے نبی فوت ہو گئے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے.ورنہ اگر حضرت منیت زندہ ہوتے تو صحابہ کبھی یہ نہ مانتے کہ وہ تو زندہ رہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں.حیات مسیح کے عقیدہ سے خدا کی بستک پھر حضرت شیخ کو زندہ ماننے سے خدا تعالیٰ کی بھی ہنگ ہوتی ہے.کیونکہ اس سے ماننا پڑتا ہے کہ جس طرح ایک غریب شخص کو کوئی اچھی چیز مل جاتی ہے تو وہ اسے سنبھال کر رکھ چھوڑتا ہے کہ پھر استعمال کروں گا.اسی طرح نَعُوذُ باللہ خدا تعالیٰ سے چونکہ حضرت مسیح ایک ایسا نبی بن گیا تھا جیسا وہ پھر نہیں بنا سکتا تھا اس لئے اس کو سنبھال کر رکھ چھوڑا کہ جب ضرورت پڑے گی اس کو نکال لیا جائے گا.تو حضرت مسیح کو زندہ ماننے سے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی بھی تک ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی بھی کیونکہ حضرت مسیح کو زندہ رکھنے سے خدا تعالیٰ کے قادر ہونے کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ اس کے برخلاف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ قدرت تو یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ چاہے اس جیسا نبی بنائے.پس حیات مسیح کے عقیدہ سے اسلام پر سخت زد پڑتی ہے جس کو حضرت مرزا صاحب نے آکر دور کیا ہے.حضرت مرزا صاحب کے دعوائی نبوت سے پھر حضت مرزا صاحب کا دعوی نبوت ہے، دنیا میں برت رسول کریم کی فضیلت ایک نبستی امر ہے اور اس کا اظہار اسی طرح ہوتا ہے کہ اس کے متعلقات کو دیکھا جائے.مثلاً جمعدار کا لفظ ہے.ایک فوج کا جمعدار ہوتا ہے اور ایک میونسپلٹی کے چوہڑوں کا.ان میں سے فورج کا جمعدار کیوں معزز سمجھا جاتا ہے اسی لئے کہ اس کے ماتحت معزز افسر اور سپاہی ہوتے ہیں لیکن میونسپلٹی کے محکمہ صفائی کے جمعدار کے ماتحت چوہڑے ہوتے ہیں.تو کسی کی بڑائی کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس کے نیچے بڑے بڑے آدمی ہوں.دیکھو ایک نوفٹ لمبی چیز کیوں بڑی ہوتی ہے اسی لئے کہ اس کے نیچے

Page 153

انوار العلوم جلد ۵ ١٣٣ خاتم النبیین کی شان کا اظہار کے فٹ ہ فٹ اور ساڑھے آٹھ فٹ تک کی ویسی ہی چیزیں رکھی جاسکتی ہیں.تو بڑائی کے ہی معنی ہیں کہ اس کے جو ماتحت ہوں ان کو دیکھا جائے جس قدر کسی کے ماتحت بڑے ہوں گے اسی قدراس کا درجہ بڑا ہو گا.ورنہ بڑائی کوئی چیز نہیں ہو سکتی.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ہے کہ میں خاتم النبین ہوئی اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ ہمارا ایسا محبوب ہے کہ جو اس سے محبت کرے وہ بھی ہمارا محبوب بن جاتا ہے اب اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر یہ خیال کر لیا جائے کہ نبوت جو خدا تعالیٰ کا ایک انعام اور فضل ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے بند ہو گیا ہے تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ ایک دریا بہ رہا ہو اور بڑا پہاڑ اس میں گھر کر اس کو بند کر دے.گویا یہ کہنا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل دریائے نبوت جاری تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بالله اس میں پہاڑ کی طرح آپڑے اور اس کو روک دیا.اب اگر پھسل کر اس دریا کا پانی نکل جائے تو نکل جائے ور نہ پہلے کی طرح وہ نہیں بہہ سکتا.لیکن یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور عظمت کی علامت نہیں بلکہ عظمت کی علامت تو یہ ہے کہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ فیضانِ نبوت جاری ہو.پس اگر آپ کا درجہ بڑا ہے اور واقع میں بڑا ہے تو ضروری ہے کہ آپ کے ماتحت بھی بڑے بڑے انسان آپ کی اُمت سے پیدا ہوں.مثلا یہ جو کہتے ہیں کہ فلاں جرنیل ہے تو اس کی عظمت اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ کرنیل اس کے ماتحت ہوتے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں سے جتنے بڑے بڑے انسان پیدا ہوں اتنی ہی آپ کی زیادہ عظمت کا اظہار ہوگا.ہاں اگر کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے آزاد ہو کر اور آپ کی اتباع چھوڑ کر نبی ہونے کا دعوی کرے تو اس سے آپ کی ہتک ہو گی.لیکن حضرت مرزا صاحب تو کہتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کُفر این بود بخدا سخت کافرم (ازالہ اوہام حصہ اول صفحه ۸۵ ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۵) کہ خدا کے بعد میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں سرشار ہوں اگر اس کا نام گھر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.کیا ایسے نبی کے متعلق کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی ہتک کرنے والا ہے ہرگز نہیں.بلکہ ایسے نبی تو جتنے بھی آئیں ان کے آنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہو گی.پھر ایک حدیث میں آتا ہے.تو كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا عله بخاری کتاب المناقب -باب خاتم النبيين

Page 154

انوار العلوم جلد ۵ ۱۳۴ خاتم النبین کی شان کا اظہار انبار نی دالیواقیت والجواهر مؤلف امام عبدالوہاب شعرانی جلد ۲ صفحہ ۲۲ مطبوعہ مصر (۱۳۲ھ ) کہ اگر موسیٰ اور عیبی زندہ ہوتے تو ان کے لئے سوائے اسکے چارہ نہ ہوتا کہ میری اتباع کرتے.اس حدیث کے متعلق عیسائی اور یہودی کہ سکتے ہیں کہ یونی بیٹھے بیٹھے دعوی کر دیا اس کا کیا ثبوت ہے کہ اگر عینی اور موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کی اتباع کرتے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کا جواب دیں اور وہ جواب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے ایک انسان کو کھڑا کر کے اس کا نام موسی اور عینی رکھ دیا اور وہ آپ کا غلام کہلایا اس نے آکر چیلنج دیا کہ آؤ جو کچھ موٹی اور بیٹی کو دیا گیا تھا وہ مجھ میں دیکھ لو.لیکن یہ کوئی میری فضیلت نہیں بلک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ہے کیونکہ جو کچھ مجھے ملا ہے وہ آپ ہی کے طفیل اور آپ ہی کی وجہ سے ملا ہے.پس اس طرح حضرت مرزا صاحب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ظاہر کی ہے.آخری نبی کا مطلب اب رہا یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو آخری نبی تھے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ آخری کے یہ معنی نہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا بلکہ یہ ہیں کہ آپ جیسا کوئی نبی نہیں ہو گا.جو شان جو رتبہ جو درجہ آپ کو حاصل ہے وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا اور آپ سے علیحدہ ہو کر کوئی نبی نہیں بن سکے گا.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری حدیث اس کی تصدیق کرتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میری مسجد آخری مسجد ہے (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة والمدينة ) اب کیا رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد دنیا میں اور مسجدیں بنائی گئیں یا نہیں ؟ اگر بنائی گئیں تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہوا یہی کہ یہ مسجدیں غیر نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے نقش کے مطابق ہی بنائی گئی ہیں.یہی بات ہم کہتے ہیں کہ اگر ایسا نبی آئے جو رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم میں شامل ہو نہ کہ آپ سے الگ تو اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بہتک نہیں اور اس کا آنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخرالانبیائ ہونے کے خلاف نہیں لیکن اگر کوئی ایسا نبی بھی نہیں آسکتا تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد کوئی مسجد بھی نہیں بنائی جا سکتی کیونکہ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کو آخری مسجد قرار دیا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ جوئی جوں کسی قوم کا حوصلہ پست ہوتا جاتا ہے وہ بڑے مدارج کا حاصل کرنا محال سمجھ کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرنا شروع کر دیتی ہے لیکن انبیاء اپنی جماعتوں کے لئے چھوٹے مقاصد قرار نہیں دیتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی اُمت کو بہت بڑے درجہ کی طرف سے جانا چاہا ہے چنانچہ سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ

Page 155

انوار العلوم جلد ۵ ۱۳۵ خاتم النبین کی شان کا اظہار اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اور دوسری جگہ اس کی تشریح کر دی ہے کہ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ (النساء : جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس کو نبی صدیق اور شہید بنایا جاتا ہے.ایک مسلمان روز کم از کم پچاس دفعہ یہ دعا مانگتا ہے اور چونکہ اسلام سب سے علی مذہب ہے اس لئے اس نے مسلمانوں کا مطمح نظر بھی سب سے اعلیٰ قرار دیا ہے اور یہ اسی طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اس کی طرف بڑھیں.پہلے مسلمانوں میں اس قسم کی کمزوری اور پست ہمتی نہ تھی جیسی کہ آج کل پائی جاتی ہے.چنانچہ پہلے کئی بزرگوں نے صاف طور پر لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبی آسکتا ہے اور عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنے والا میچ نبی ہوگا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ وہ نبی ہوگا.اب اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے سے آپ کی ہتک ہوتی تو یہ کیوں فرماتے.بات اصل میں یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے آپ کی اتباع میں کسی نبی کے آنے سے نہنگ نہیں بلکہ عزت ہے.اب تک رسول کریم کی اُمت سے صدیق ، شہید اور صالح لوگ پیدا ہوتے رہے اور اب حضرت مرزا صاحب کے آنے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احات سے ثبوت بھی حاصل ہو سکتی ہے اور یہ فضیلت صرف آپ ہی کو حاصل ہے.حضرت موسی کی اُمت میں سے بھی نبی ہوئے ہیں مگر وہ ان کی غلامی اور اتباع سے نہیں ہوئے بلکہ علیحدہ مستقل طور پر ہوئے ہیں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ درجہ عطا کیا ہے کہ آپ کی اتباع سے نبی بن سکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنا نام اُمتی نبی رکھا ہے.بلحاظ اس کے کہ آپ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے نبی تھے اور لحاظ اس کے کہ آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہونے کی وجہ سے نبوت علی اتنی تھے.میں نہیں سمجھ سکتا اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیونکر تک ہوتی ہے.اس طرح تو آپ کے درجہ کے اور بھی بلند ہونے کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ جتنا بڑا کسی کا غلام ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ بڑا اس کا آتا ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں : ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے دافع البلاء صفحه ۲۴ - روحانی خزائن جلد نمبر ۸ صفحه ۲۴۰) تو خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو نبی بنا کر ثابت کردیا کہ خاتم النبین کے معنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہنشاہ ہیں اور خاتم النبین کے یہ

Page 156

انوار العلوم جلد ۵ خاتم النبین کی شان کا اظہار معنی ہیں کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں چنانچہ امام بخاری کتاب المناقب میں ختم نبوت کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر مہر تھی یہ اس تشریح سے ظاہر ہے کہ ختم کے معنی مہر ہیں نہ ختم کر دینے کے اور مر تصدیق کے لئے ہوا کرتی ہے جس سے مہر لگانے والے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے.ورنہ آخر ہونا تو کوئی فضیلت نہیں ہے.فضیلت یہی ہے کہ جس جس نبی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیقی مہر لگ گئی وہ سچا ثابت ہو گیا جس قدر انبیاء مانے جاتے ہیں کیا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نبوت کی تصدیق نہ کرتے تو آج مسلمان ان کو نبی مانتے ؟ ہرگز نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ گذشتہ انبیاء کی نبوت کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیقی مصر ان پر ہو.اسی طرح آئندہ بھی وہی نبی ہوگا جو آپ کی مہر کی تصدیق رکھے گا.اس سے آپ کی بہت بڑی عظمت اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہے.اس لئے ہم نے حضرت مرزا صاحب کو قبول کیا ہے.فقط تمت بالخ ○ عد بخاری کتاب المناقب باب.النبوة

Page 157

۱۳۷ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 158

Page 159

انوار العلوم جلد ۵ ۱۳۹ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا د فرموده حضرت فضل عمر ضیفہ اسیح الثانی مورخہ اور اپریل نشسته بمقام سیالکوٹ) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ :- اس وقت دنیا میں بہت سے مذا ہب پائے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا دعوی ہے کہ ہمارا ہی مذہب نجات کا باعث ہو سکتا ہے اور یہی ساری دُنیا میں پھیلے گا.یہ جھگڑا آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور اس بات میں ہمیشہ اختلاف رہا ہے کہ کونسا مذہب ساری دنیا قبول کریگی.جب یہ بات شروع سے معرض بحث چلی آرہی ہے اور اس وقت کوئی فیصلہ نہیں ہوا تو اب کونسی نئی بات پیدا ہو گئی ہے کہ اس پر بحث کی جائے آج تک کونسا مذہب ساری دُنیا کا ہو چکا ہے کہ آئندہ ہو گا.اسلام تیرہ سو سال سے دُنیا میں موجود ہے، عیسائیت ۱۹ سو سال سے ، ہندو مذہب کئی ہزار سال سے اور پارسی مذہب رکھتے ہیں، لاکھوں سال سے چلا آتا ہے ان میں سے کس نے ساری دُنیا کے دل میں گھر کر لیا ہے کہ آئندہ کے متعلق بحث کی جائے کہ کونسا مذہب تمام لوگ قبول کر لیں گے.اب کوئی نیا مذہب تو نہیں نکلا کہ اس کے متعلق کہا جائے کہ وہ ساری دُنیا کو اپنے پیچھے لگا لے گا.یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونا چاہئے اس لئے میں پہلے اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ :

Page 160

۱۴۰ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا انوار العا بیشک آج تک کسی مذہب نے تمام دنیا کو اپنے پیچھے نہیں لگایا لیکن اس میں بھی نیک نہیں که جو حالت مذاہب کی آج ہو گئی ہے وہ پہلے نہیں تھی پس کسی نئے مذہب نے نہیں بلکہ زمانہ کی حالت نے لوگوں کی توجہ کو ادھر پھیر دیا ہے کہ دنیا کا آئندہ مذہب کیا ہوگا ؟ پہلے ہر ملک کے لوگ ایک دوسرے سے علیحدہ رہتے تھے کیونکہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور تعلقات قائم کرنے کے جو ذرائع اب پیدا ہو گئے ہیں وہ اُس وقت نہ تھے اس لئے ان کا مذہب ایک خاص حلقہ تک ہی محدود رہتا تھا.لیکن اب چونکہ ریل، ڈاک ، تار، جہانہ اور دوسرے ایسے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے ساری دنیا کی ایک ملک بلکہ ایک شہر کی حیثیت ہو گئی ہے اور علوم کی کثرت اور چھا پر خانہ کی وجہ سے ہر ایک مذہب کی تعلیم لوگوں کے سامنے آگئی ہے اور لوگوں میں وسعت حوصلہ پیدا ہو کر ایک دوسرے مذہب کا معائنہ کرنے کا شوق ہو گیا ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کے مذہب پر بہت آسانی اور سہولت سے غور کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوبیاں ان پر واضح ہو سکتی ہیں.اس صورت میں یہ معلوم کرنا بہت آسان ہو گیا ہوگئی.ہے کہ کونسا مذہب سب سے اعلیٰ اور تمام خوبیوں کا جامع ہے.عیسائیوں نے اس وسعت حوصلہ اور دوسرے مذاہب کے مطالعہ کے شوق سے فائدہ اپنے کے لئے اپنے مذہب کی تائید میں لاکھوں اور کروڑوں ٹرکیٹ اور کتابیں لکھ کر تقسیم کرنا شروع کر دیں اور دو سو سال کے عرصہ میں کروڑوں انسانوں کو عیسائیت میں داخل کر لیا اور ایسے ایسے علاقے جہاں کوئی عیسائیت کا نام تک نہ جانتا تھا وہاں بھی پھیلا دی اور ملک تو الگ رہے خود ہندوستان میں تمہیں چالیس لاکھ لوگوں کو عیسائی بنا لیا جب اس طرح ہر طرف عیسائیت ہی عیسائیت پھیلنے لگی تو قدرتا یہ سوال پیدا ہوا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ لیکن اس بات نے بھی لوگوں کی آنکھیں اچھی طرح نہ کھولی تھیں کہ دنیا میں سیاسی تغیرات ایسے پیدا ہو گئے کہ سوائے عیسائیت کے اور کسی مذہب کی کوئی طاقتور حکومت نہ رہی.دُنیا میں بڑے بڑے مذاہب تین ہیں.ہندومت، عیسائیت اور اسلام.ہندووں میں اپنے مذہب کے پھیلانے کے لئے کوئی خاص تحریک نہیں پائی جاتی.تھوڑا عرصہ ہوا ان میں ایک چھوٹا سا فرقہ آریہ نکلا ہے جس میں بہت تھوڑے لوگ ہیں اور انہوں نے غیر مذاہب میں سے سوائے چند آدمیوں کو داخل کرنے کے اور کچھ نہیں کیا.اس فرقہ کی کوششیں ان ادنی اقوام تک ہی محدود ہیں جو دراصل ہندو ہی ہیں.باقی رہے مسلمان اور عیسائی.عیسائیوں کے متعلق تو میں نے بتایا ہے کہ انہوں نے

Page 161

انوار العلوم جلد ۵ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا کروڑوں لوگ عیسائیت میں داخل کرلئے مگر مسلمانوں نے کچھ نہ کیا حالانکہ ان میں سے ہر ایک کو اسلام نے تبلیغ کرنے کا حکم دیا ہوا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو سخت ضعف پہنچا اور مزید بات یہ ہوئی کہ پلے در پے ایسے حادثات اور واقعات پیش آئے کہ مسلمانوں کو خیال پیدا ہو گیا کہ اب ہم دنیا میں قائم نہیں رہ سکتے.اس سے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے سمجھا کہ اگر تم اسی طرح گرتے رہے تو عیسائیت کے مقابلہ میں کسی صورت میں بھی نہیں ٹھر سکیں گے.اب اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ اسلام عیسائیت کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا تو لا نا نا نا پڑیگا کہ وہ زمانہ آگیا ہے کہ ساری کی ساری دنیا نہ سی قریباً ساری دنیا کا مذہب عیسائیت ہو اور اگر اسلام عیسائیت کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اس پر غالب آ سکتا ہے تو لازما ماننا پڑیگا کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا کیونکہ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ جو مذہب حق ہوگا وہ ساری دُنیا میں پھیل جائیگا.پس اس سوال پر غور کرنا لغو اور بیہودہ نہیں ہے کیونکہ زمانہ پوری قوت اور سارے زور سے ٹھوکریں اور کہنیاں مار مار کر نہیں بتا رہا ہے کہ آنکھیں کھولو اور توجہ کرو کہ تمہارے مذہب اسلام نے دنیا میں باقی رہنا ہے یا عیسائیت نے ؟ پس یہ کوئی معمولی سوال نہیں بلکہ بہت اہم ہے اس کی اہمیت کو مد نظر رکھ کر اس وقت جبکہ طبائع میں ہیجان پیدا ہو گیا ہے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس امر کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا یا عیسائیت.دوسری وجہ اس سوال پر غور کرنے کی یہ ہے کہ چونکہ اس وقت مسلمانوں پر انتہائی درجہ کا ادبار آگیا ہے اور ان کی حالت مایوسی کی آخری حد تک پہنچی جا رہی ہے اس لئے مایوسی سے بچانے کے لئے کہ تمام ناکامیاں اور نامرادیاں اسی کی وجہ سے ہوتی ہیں میں نے یہ بتانا ضروری سمجھا ہے کہ اسلام ہی دنیا کا آئندہ مذہب ہو گا اور کوئی طاقت اور کوئی قوت اسے ہرگز نہیں مٹا سکتی.اسلام ایک نہایت مضبوط چٹان پر کھڑا ہے اس لئے ناممکن ہے کہ مٹ سکے وہ پھیلے گا اور ضرور پھلے گا.اس کے بعد حضور نے ان غلط الزامات کی تردید کی جو عیسائی اسلام پر لگا کر لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ایسا مذہب قائم رہنے کے قابل نہیں ہے اور عیسائیوں کی اس بات کو عقلی اور نقلی طور پر غلط ثابت کیا ہے کہ جو مذ ہب زمانہ کے ساتھ نہیں بدلتا وہ سچا مذہب نہیں ہے.حضور نے فرمایا ہم یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی مذہب کامل نہیں ہے اور ہر زمانہ کی ضروریات کے مطابق تعلیم نہیں

Page 162

انوار العلوم جلد ۵ ۱۴۲ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا رکھتا تو جوں جوں زمانہ بدلے گا اسے بھی تغیر کرنا پڑیگا ورنہ وہ قائم نہیں رہ سکے گا لیکن اگر کوئی ایسا مذہب ہے جو ہر زمانہ کی ضروریات کو مہیا کرتا ہے وہ بدلے یہ نہیں ہم مان سکتے.اس کے بعد حضور نے یہ بتایا کہ مسیحیت اور اسلام میں سے کونسا مذہب ہے جو ہر زمانہ کے لئے کافی ہے اس کے لئے اسلام اور عیسائیت کی تعلیم کا مقابلہ کر کے دکھایا کہ عیسائیت کی تعلیم زمانہ کے سامنے نہیں ٹھر سکتی اور اسے بدلا جا رہا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم ایسی ہے کہ اگر زمانہ اس کو چھوڑ کر علیحدہ ہو جائے تو یہ نہیں کہ اس تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے بلکہ زمانہ کو پھر پھرا کر اسی تعلیم کے ماتحت آنا پڑتا ہے جیسا کہ مسئلہ طلاق اور تعدد ازدواج کے متعلق ہوا ہے.طلاق کے مسئلہ پر یورپ بڑے بڑے اعتراض کرتا رہا ہے لیکن آخر کار اسے جاری کرنا پڑا ہے اور انگلستان میں بھی اس کے متعلق قانون پاس ہو گیا ہے جس کی بنیادی باتیں انہیں اصول کے مطابق بنائی گئی ہیں جو اسلام نے بتائے ہیں اور جو فقہ حنفیہ میں موجود ہیں.عیسائیت اور اسلام کی تعلیم کا موازنہ نہایت ہی زبر دست اور مدلل طریق سے کیا گیا اور صاف طور پر واضح کر دیا گیا کہ اسلام اپنی چٹان پر قائم ہے مگر عیسائیت بدل رہی ہے اور اسلام کے مقابلہ پر ہرگز نہیں ٹھہر سکتی اس لئے اسلام ہی دنیا کا آئندہ مذہب ہوگا.اسی سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ آجکل مشاہدہ پر بہت زور دیا جاتا ہے اس لئے مذہب کے متعلق بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر خدا پہلے لوگوں سے بولا کرتا تھا تو اب کیوں نہیں بولتا اگر اب بھی بولے تب معلوم ہو کہ جس مذہب کے لوگوں سے بولتا ہے وہ سچا ہے اس سوال کا جواب سوائے اسلام کے اور کوئی نہیں دے سکتا.اسلام بتاتا ہے کہ خدا جس طرح پہلے بولتا تھا اسی طرح اب بھی بولتا ہے چنانچہ اس زمانہ میں حضرت مرز صاحب جو اسلام کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے تھے ان سے بولا.پس اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ہر ایک کی پیاس بجھا سکتا اور اس کو پیش آنے والی ضروریات کا علاج کر سکتا ہے اس لئے یہی دُنیا کا آئندہ مذہب ہوگا.اس کے بعد حضور نے مسلمانوں کی موجودہ حالت کے متعلق بتایا کہ گو یہ خطرناک ہے لیکن یہ بھی اسلام کی صداقت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق پہلے سے بتا دیا ہوا ہے کہ جب مسلمان اسلام کو چھوڑ دینگے تو ان کی ایسی حالت ہو جائے گی.اب چونکہ مسلمانوں نے خدا تعالیٰ ، رسول کریم اور قرآن کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ان کی یہ حالت ہو گئی ہے اور ان کے ایسے عقائد ہیں جن سے

Page 163

۱۴۳ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا خدا تعالیٰ اور رسول کریم پر سخت ملے ہوتے اور الزام لگتے ہیں.اس موقع پر میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ایک رویا جو حضور نے کے را پریل شاہ قادریان سے سیالکوٹ روانہ ہونے کے وقت ایک مجمع میں بیان فرمایا اپنے الفاظ میں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اس کا تعلق اس خاص تقریر سے نہایت صاف طور پر معلوم ہوتا ہے.حضور نے فرمایا :- گزشتہ شب میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے اور اس کے پیچھے گلی ہے.میں نے دیکھا اس گلی میں کچھ لوگ سر نیچے کیئے لیٹے ہیں اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی آدمی کو سجدہ کر رہے ہیں اس پر مجھے سخت غصہ آیا اور میں ان کے پاس گیا کہ انہیں منع کروں لیکن جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ سجدہ نہیں کر رہے بلکہ گال زمین پر رکھ کر لیٹے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آگے بڑھتے جا رہے ہیں.میں نے بھی آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے ایک بہت بڑی آبادی نظر آئی اور اس جگہ خاص روشنی دیکھی جہاں حضرت مسیح موعود ایک کشتی کی شکل کی چیز میں بیٹھے تھے اور وہ نیچے اُترنا چاہتی تھی.ان لوگوں نے بھی کہا کہ ہم حضرت مسیح موعود کو دیکھ رہے ہیں اس کے بعد وہ کشتی ہوائی جہانہ کی طرح نیچے اتری اور میں حضرت صاحب کو تلاش کرنے لگا لیکن مجھے کہیں نہ ملے.آخر میں سخت غمگین ہو کر کہ شاید حضرت صاحب مجھ سے ناراض ہیں کہ مجھے نہیں ملے ،والدہ کے پاس گیا کہ ان کے پاس آئے ہوں گے.اس وقت میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے میں نے ان سے جا کر پوچھا اور کہا کہ حضرت صاحب مجھے نہیں ملے شاید ناراض ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ میں باہر تانگہ پر سیر کو جارہی تھی شریف احمد میرے ساتھ تھا اور عزیز احمد کو بھی میں نے ساتھ لے لیا تھا لیکن حضرت صاحب کے آنے کا سن کر جلدی واپس آگئی ہوں مگر وہ ابھی تک مجھے بھی نہیں ملے اس سے مجھے تسلی ہوئی.والدہ نے جب میرے آنسو دیکھے تو فرمایا یہ تو رؤیا ہے اور رویا کی تعبیر ہوتی ہے.یہ سنکر مجھے اطمینان ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ رویا ہے اور حضرت صاحب کے نہ ملنے کی جو وجہ میں نے سمجھی تھی وہ صحیح نہیں ہے.رویا میں مجھے اس کی تین تعبیریں سمجھائی گئیں.میں نے کہا یا تو میں ایسی زبان میں کتاب لکھونگا جس میں لکھنے کی مشق نہیں، یا عظیم الشان تقریر کرونگا جو بے نظیر ہوگی یا کوئی بڑا نشان ظاہر ہوگا.اس کے بعد آنکھ کھل گئی.

Page 164

انوار العلوم جلد ۵ ۱۴۴ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا اس رویا میں تقریر کرنے کی طرف جو اشارہ ہے وہ سیالکوٹ کی اس تقریر کے متعلق معلوم ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.اس تقریر کے بعد حضرت خلیفہ ایسیح نے فرمایا کہ : جس وقت میں تقریر کر رہا تھا اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یک لخت آسمان سے نور اترا ہے اور میرے اندر داخل ہو گیا ہے اور پھر اس کی وجہ سے میرے جسم سے ایسی شعاعیں نکلنے لگی ہیں کہ مجھے معلوم ہوا میں نے حاضرین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ہے اور وہ جکڑے ہوئے میری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں.را الفضل ۹ - اپریل ۹ ) -

Page 165

۱۴۵ فرائض مستورات از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 166

Page 167

انوار العلوم جلد ۵ ۱۴۷ فرائض مستورات فرائض مستورات من یہ تقریر حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۳ را پریل شاہ کو بمقام سیالکوٹ مستورات میں پنجابی زبان میں فرمائی تھی جس کو ایڈیٹر صاحب الفضل نے اُردو میں لکھا ، وعظ عمل کرنے کیلئے سنو ان چند دنوں میں مجھے عورتوں کی طرف سے بہت سے رقعے ملے ہیں جن میں وہ لکھتی ہیں کہ ہمیں بھی کچھ سنایا جائے.اگرچہ یہ جوش قابل تعریف ہے لیکن خالی جوش اس وقت تک کام نہیں دیتا جب تک انسان جو کے اس پر عمل نہ کرے.دیکھو اگر ایک شخص بھوکا ہو اور بھوک سے اس کی جان نکل رہی ہو اس کو کہو کہ کھانا کھا لو.کھانا کھا لو لیکن کھانا دیا نہ جائے تو اس سے اس کا پیٹ نہیں بھر جائیگا ا اسی طرح وہ عورتیں جو دین کی باتیں سنتی ہیں اوران پر عمل نہیں کرتیں ان کو بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ان عورتوں کی نسبت جن کو دین کی باتیں سننے کا موقع نہیں ملتا ان کے لئے زیادہ خوف اور ڈر کا مقام ہے کیونکہ جو نہیں سنتیں وہ معذور سمجھی جاسکتی ہیں لیکن جو سنتی ہیں اور پھر ان پر عمل نہیں کرتیں وہ زیادہ مجرم اور گہنگار ہیں.عام طور پر عورتیں وعظ کو ایک تماشا سمجھتی ہیں جس طرح بچے کوئی تماشا دیکھتے ہیں اور

Page 168

انوار العلوم جلد ۵ پھر تھوڑی مدت کے بعد اسے بھلا دیتے ہیں اسی طرح عورتیں کرتی ہیں.مردوں میں تو ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ وعظ و نصیحت کی باتیں سن کر ان پر عمل کرتے اور ترقی کرتے جاتے ہیں لیکن عورتیں عام طور پر کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتیں.یہی وجہ ہے کہ وہ نہ اخلاق میں، نہ دین میں ، نہ تمدن میں نہ معاشرت میں ترقی کرتی ہیں اور نہ ان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے.اس میں شک نہیں کہ مردوں کی نسبت عورتوں کو كم وعظ و نصیحت کی باتیں سننے کا موقع ملتا ہے تاہم کچھ نہ کچھ تو ہ بھی سنتی ہیں اس لئے ان کا یہ کہنا کہ مردوں جتنا ان کو نہیں سنایا جاتا اس وقت درست ہو سکتا ہے اور یہ کہنے کا انہیں اس وقت حق پہنچتا ہے جبکہ جس قدر انہیں سنایا جاتا ہے اس کو یاد رکھیں اور اس پر عمل کریں.ایک طالب علم اگر اپنا پہلا سبق یاد کر کے سُنا دے تو پھر اس کو یہ کہنے کا حق ہوتا ہے کہ اور سبق پڑھاؤ لیکن اگر وہ پہلا ہی سبق یاد نہیں کرتا تو اسے اور پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اسی طرح عورتوں کو جس قدر سنایا جاتا ہے اس کو اگر وہ یا درکھیں اور اس پر عمل کریں تو ان کا حق ہے کہ اور سننے کا مطالبہ کریں ورنہ نہیں.پس تم بجائے اس کے کہ یہ کہو کہ ہمیں مردوں کی طرح لیکچر سُنانے جائیں جو کچھ سنایا جا چکا ہو اس پر عمل کر کے دکھاؤ.ورنہ اگر تم اس پر عمل نہ کرو اور سُننے کا مطالبہ کرو تو جو کچھ تمہیں سنایا جائے گا وہ مجبوری سے سنایا جائے گا اور اس کا کچھ فائدہ نہ ہو گا کیونکہ جو ایک بات کو ہی یاد نہیں رکھتا وہ دوسری کو کس طرح یاد رکھے گا.جو ایک روٹی ہضم نہیں کر سکتا وہ دو کس طرح ہضم کرلے گا.پس اگر تم نے ان پہلی باتوں پر عمل نہیں کیا جو تمہیں سنائی جا چکی ہیں تو کیا امید ہوسکتی ہے کہ اور سنانے سے کچھ فائدہ اُٹھایا جائے گا.پس میں پہلے تمہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ کسی وعظ کی مجلس میں تماشا کے طور پر شامل ہونا اور وہ باتیں جو اس میں سنائی جائیں ان کو گھر جا کر بھلا دینیا گناہ ہے اور اسکا کچھ فائدہ نہیں ہے.وعظ سنانے کی غرض نہیں ہوتی ہے کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے.اچھا وعظ وہ نہیں جس میں سامعین کی تعریف کی جائے عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کو وعظ میں بھی خیال ہوتا ہے کہ ان کے متعلق اس میں کیا کہا گیا ہے.جلسہ پر جو عورتیں جاتی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ فلاں مولوی صاحب کا وحظ بہت اچھا تھا اور فلاں کا اچھا نہیں تھا.جب دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جیس وعظ میں ان کی تعریف کی گئی اس کو تو اچھا کہتی ہیں اور جس میں ان کے نقص بیان کئے گئے اور ان کو اصلاح کرنے کے لئے کہا گیا اس کو نا پسند کرتی ہیں.حافظ روشن علی صاحب جو بڑے اچھے واعظ میں ان کے متعلق کہا گیا کہ ان کا وعظ اچھا نہیں تھا.جب دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے عورتوں

Page 169

انوار العلوم جلد ۵ ۱۴۹ فرائض مستورات کو نصیحتیں کی تھیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اسی وعظ کو پسند کرتی ہیں جس میں ان کو اچھا کہا جائے ان کی تعریف کی جائے اور اگر ان کو نصیحت کی جائے تو اس کو پسند نہیں کرتیں حالانکہ کسی کے اچھا کہہ دینے سے وہ اچھی نہیں ہو جاتیں جب تک خود اچھی نہ بنیں اور کسی کے بڑا کہ دینے سے بری نہیں ہو جاتیں.اگر ان کو اچھا کہا جاتا ہے اور وہ واقع میں اچھی ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے اور اگر ان کی کوئی برائی بیان کی جاتی ہے اور وہ برائی ان میں پائی جاتی ہے تو انہیں اس کی اصلاح کرنی چاہئے اور عبرت پکڑنی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی شخص مرتا ہے اور عورتیں بہین کرتی ہوئی کہتی ہیں اسے بھائی تو ایسا بہادر تھا کہ تیرے سامنے شیر بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا تو فرشتے اسے گرز مار کر پوچھتے ہیں کیا تو ایسا ہی تھا ؟ وہ کہتا ہے نہیں.فرشتے پوچھتے ہیں پھر کیوں تیرے متعلق کہا جاتا ہے ؟ اسی طرح عورتیں جو اور جھوٹی تعریفیں کر کے روتی ہیں ان کے متعلق پوچھا جاتا ہے اور مرنے والے کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ باتیں مجھ میں نہیں پائی جاتی تھیں تو جھوٹی تعریف سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ جھوٹی مذمت سے کوئی نقصان ہوتا ہے.اس لئے دیکھنا یہ چاہئے کہ جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس میں میرے عمل کرنے کے لئے کوئی بات ہے یا نہیں.اگر کوئی اچھی بات ہو تو اس پر عمل کرنا چاہئے اور اگر کوئی بُری بات اپنے اندر نظر آئے تو اسے چھوڑ دینا چاہئے.یہ غرض ہوتی ہے وعظ کی.اس نصیحت کے بعد میں مختصر طور پر چند باتیں بیان کرتا ہوں کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے اور دس بجے کے قریب جو گاڑی یہاں سے جاتی ہے اس پر میں جانے والا ہوں.اسلام کی غرض پہلے میں یہ بیان کرتا ہوں کہ اسلام کی عرض کیا ہے ؟ اسلام کے معنی ہیں فرمانبرداری اور ایمان کے معنی ہیں " مان لینا.جتنے مسلمان کہلانے والے ہے.مرد اور عورتیں ہیں ان سے اگر پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو وہ کہتی ہیں.اللہ کے فضل سے ہم مسلمان ہیں ایمان دار ہیں.لیکن انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ مسلمان اور ایمان دار کے کیا معنی ہیں.وہ ہی سمجھتی ہیں کہ ہمارے ماں باپ مسلمان کہلاتے ہیں اس لئے ہم بھی مسلمان ہیں.حالانکہ کوئی مرد مسلمان ہونے کا ثبوت خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے سے ہے على ترمذی ابواب الجنائز باب ماجاء في كراهية البكاء على الميت اور عورت اس

Page 170

10.فرائض مستورات وقت تک مومن اور مسلمان نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری نہ کرے اور جو خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری نہیں کرتی اور خدا تعالیٰ کے احکام کو نہیں مانتی وہ عقلمند کہلانے کی مستحق نہیں بلکہ وہ پاگل اور سودائی ہے.دیکھو جب ایک بادشاہ لکھتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں تو لوگ اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں لیکن اگر کوئی بادشاہ نہ ہو اور کہے کہ میں بادشاہ ہوں تو اسے پاگل کہا جا سکتا ہے.اس کی وجہ کیا ہے ؟ میں کہ جو بادشاہ ہوتا ہے اس کے پاس کئی فوجیں اور بادشاہت کا سازوسامان ہوتا ہے مگر گلیوں میں دھکے کھانے والا ننگا انسان چونکہ بادشاہت کی علامت نہیں رکھتا اس لئے اسے پاگل کہا جاتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ عقلمند جو بات کہتا ہے اس کا اس کے پاس ثبوت ہوتا ہے لیکن سودائی جو کچھ کہتا ہے اس کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا.پس جو شخص یہ کہتا ہے یا جو عورت یہ کہتی ہے کہ میں مومن مسلمان ہوں لیکن وہ خدا تعالیٰ کے احکام کو نہیں مانتی ، خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری نہیں کرتی اس میں اور پاگل میں کیا فرق ہے ؟ کچھ نہیں.ایسا مرد یا ایسی عورت تو ایک پاگل کے بادشاہ ہونے سے بھی بڑا دعوی کرتی ہے جس کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا اس لئے وہ پاگل سے بھی گئی گزری ہے.لیں دوسری نصیحت میں تم کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرد، اس کی اطاعت کرو ، اس کے حکموں کو مان لو.اگر تم ایسا کرو گی تب مؤمن اور مسلمان کہلا سکو گی ورنہ تمہارا یہ دعوی ایک پاگل اور سودائی کے دعوی سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھے گا.خدا تعالیٰ کا بندہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر چلے اب میں تمہیں اسلام کا خلاصہ بتاتا ہوں - اسلام کا خلاصہ دو باتیں ہیں ایک یہ کہ بندے کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الجن وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ الذُریت : ٥٧) کہ میں نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ میرے بندے بن جائیں.یعنی اپنے پیچھے غلام بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے.اب اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جن میں بندگی کی علامتیں پائی جاتی ہیں.اگر صرف خدا تعالیٰ کے پیدا کر دینے سے ہی انسان اس کے بندے بن جاتے تو پھر خدا تعالیٰ کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ میں نے ان کو بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ بندہ بننے کے کچھ اور معنی ہیں اور وہ یہی ہیں کہ ایک غلام اپنے آقا کے سامنے کیا کرتا ہے یہی کہ ہاتھ باندھ کر اس کے احکام ماننے کے لئے کھڑا رہتا ہے.اسی طرح

Page 171

انوار العلوم جلد ۵ ۱۵۱ فرائض مستور خدا تعالیٰ کا بندہ بننے کے یہ معنی ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کا فرمانبردار رہے ہر وقت اس کے احکام مانتا ہے اور خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق اور رشتہ بڑھائے.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں سب تعلقات ہیچ سمجھو سب سے اعلی تعلق انسان سے خدا تعالیٰ کا ہے.ماں باپ کا بہت بڑا تعلق ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے تعلق کے مقابلہ میں وہ بھی بیچ ہے.ایک ماں کا بچہ سے یہی تعلق ہوتا ہے کہ وہ اسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی خبر گیری کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا تعلق اس سے بہت زیادہ ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے ماں نے پیدا نہیں گیا.پھر ماں جن چیزوں کے ذریعہ بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوتی ہیں ماں کی پیدا کردہ نہیں ہوتیں.کہتے ہیں ماں نے بچہ کو دودھ پلایا ہوتا ہے اس لئے اس کا بڑا حق ہوتا ہے مگر میں پوچھتا ہوں ماں کہاں سے دودھ پلاتی ہے کیا وہ خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ نہیں ہوتا ؟ پس اگر ماں نے بچہ کو دودھ پلایا ہے تو خدا تعالیٰ نے دُودھ بنایا ہے.پھر ماں بچہ کو کھانا کھلاتی ہے مگر ماں کا تو اتنا ہی کام تھا کہ کھانا پکا کر کھلا دیتی.جب اس کا بچہ پر اتنا بڑا احسان ہے تو خدا تعالیٰ جس نے کھانا بنایا اس کا کس قدر احسان ہوگا ؟ پھر بچہ جوان ہو کر ماں باپ کی خدمت کرتا ہے اور ان کو کھلاتا پلاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو اس قسم کی کوئی احتیاج نہیں ہوتی.پھر ماں باپ کا تعلق مرنے سے ختم ہو جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا تعلق مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے.پس ماں باپ کا تو بچہ سے ایسا تعلق ہوتا ہے جیسے راہ چلتے مسافر کا تعلق اس درخت سے ہوتا ہے جس کے نیچے وہ تھوڑی دیر آرام کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا.تو خدا تعالیٰ کا انسان سے بہت بڑا اور عظیم الشان تعلق ہے.مگر افسوس کہ لوگ دنیا کے رشتہ داروں کا تو خیال رکھتے ہیں لیکن خدا تعالٰی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.عام طور پر عورتیں جھوٹ بول لیتی ہیں کہ ان کے مرد خوش ہو جائیں اور یہ خیال نہیں کرتیں کہ اللہ تعالیٰ کا ان سے جو تعلق ہے اس کو اس طرح کسی قدر نقصان پہنچ جائے گا.اسی طرح دنیا کی محبت میں اس قدر منہمک ہو جاتی ہیں کہ جب بچہ پیدا ہو جائے تو بچہ کی محبت کی وجہ سے نماز میں شکست ہو جاتی ہیں اور اکثر تو نماز چھوڑ ہی دیتی ہیں.روزہ کی کوئی پروا نہیں کرتیں حالانکہ انہیں خیال کرنا چاہئے کہ بچہ کی حفاظت اور پرورش تو ہم کرتی ہیں لیکن خدا وہ ہے جو ہماری حفاظت اور پرورش کر رہا ہے.

Page 172

انوار العلوم جلد ۵ lor کے لئے عورتیں مردوں کو مجبور کرتی ہیں اور برادری کی رسوم کو شریعت پر ترجیح نہ دو پر کی قسم کی رہیں اور یہ نہیں ہیں جن کے کرنے کہتی ہیں کہ اگر اس طرح نہ کیاگیا تو باپ دادا کی ناک کٹ جائے گی گویا وہ باپ دادا کی رسموں کو چھوڑنا تو پسند نہیں کرتیں کہتی ہیں اگر ہم نے ہمیں نہ کیں تو محلہ والے نام رکھیں گے لیکن اگر خدا تعالیٰ ان کا نام رکھے تو اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی.محلہ والوں کی انہیں بڑی فکر ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ انہیں کافر اور فاسق قرار دے دے تو اس کا کچھ خیال نہیں ہوتا.کہتی ہیں یہ ورتارا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتیں.حالانکہ قائم خدا تعالیٰ ہی کا در تارا رہے گا باقی سب کچھ میں رہ جائے گا اور انسان اگلتے بان چلا جائے گا جہاں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کا دن ایسا سخت اور خطرناک ہو گا کہ ہر ایک رشتہ دار رشتہ داروں کو چھوڑ کر الگ الگ اپنی فکر میں گرفتار ہو گا.پس عورتوں کو چاہئے کہ اس دن کی فکر کریں.سب سے ضروری بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اور اس تعلق کو مضبوط کرو جو قیامت میں تمہارے کام آئے گا.دنیا کے تعلق اور دنیا کی باتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.ہمارے پیشوا خاتم الانبیاء کا اسوہ حسنہ دیکھو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آکر کہا کہ خدا ایک ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس وقت ان کے سارے رشتہ دار کتوں کے آگے سجدے کرتے اور ان کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتے تھے.اکثر عورتوں کو معلوم ہو گا کہ مجاوروں کا گزارہ لوگوں کی منتوں پر ہی ہوتا ہے احمدیت سے پہلے تم میں کئی عورتیں خانقاہوں پر جاتی ہوں گی یا جن کو احمدیت کی تعلیم سے ناواقفیت ہے اور تجو اپنے مذہب میں کمزور ہیں ممکن ہے وہ اب بھی جاتی ہوں.انہوں نے دیکھا ہو گا کہ مجاوروں کی آمدنی انہی لوگوں کے ذریعہ ہوتی ہے جو وہاں جاتے ہیں.تو مکہ والے بتوں کے مجاور تھے انہوں نے کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے جن پر لوگ دور دور سے آکر نذریں چڑھاتے تھے جنہیں وہ آپس میں بانٹ لیتے تھے.یا لوگ بتوں کی پرستش کے لئے وہاں جمع ہوتے اور وہ تجارت کے ذریعہ ان سے فائدہ اُٹھاتے تھے اس لئے بہتوں کو چھوڑ دینے سے وہ سمجھتے تھے کہ ہم بھوکے مر جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے رشتہ دار ایسے ہی تھے جن کا گزارہ بتوں پر تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہوئے تو آپ نے کسی رشتہ دار کی پرواہ نہ کی اور بڑے زور کے ساتھ کہہ دیا کہ صرف خدا ہی ایک معبود ہے باقی سب مجود جھوٹے ہیں.یہ بات آپ کے رشتہ داروں کو بہت بُری لگی اور انہوں نے آپ کو تکلیفیں دینا شروع کر دیں.ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور لوگوں کو بلایا جب لوگ آگئے تو کہا

Page 173

انوار العلوم جلد ۵ ۱۵۳ تم جانتے ہو میں جھوٹ بولنے والا نہیں.انہوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر موجود ہے جو مکہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو تم مان لو گے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم مان لیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا عذاب " با تم پر آنے والا ہے تم اس سے بیچ جاؤ اور شرک کر کے خدا تعالیٰ کے عذاب کے مستوجب نہ بنو.یہ بات کسن کر وہ گالیاں دیتے چلے گئے اور کہنے لگے یہ تو سودائی ہو گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور پہلے کی طرح ان کو شرک سے روکتے رہے.اس پر لوگ جمع ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے پاس گئے اور جا کر کہا اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ یہ ہمارے بتوں کی مذمت کرتا ہے باز آجائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچانے لوگوں سے کہہ دیا کہ جو بات وہ پیچھے دل اور پورے یقین کے ساتھ کہا ہے اسے وہ کس طرح چھوڑ سکتا ہے.آخر بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور جا کر کہیں کہ جو کچھ تم کہو گئے ہم مان لیں گے لیکن تم میتوں کے خلاف کہنا چھوڑ دو.چنانچہ لوگ گئے اور جا کر کہا کہ ہم قوم کی طرف سے آتے ہیں اور تم بہت اچھے آدمی ہو ہم نہیں سمجھتے تم قوم کو تباہ ہونے دو گے ہم تمہارے پاس ایک پیغام لائے ہیں اس کو قبول کرو تاکہ تفرقہ نہ پڑے اور ہماری قوم تباہ نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سناؤ کیا پیغام لائے ہو انہوں نے کہا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر تمہیں مال کی ضرورت ہو تو ہم تمہیں مال جمع کر کے دے دیں.اور اگر تم اعلیٰ گھرانے میں رشتہ کرنا چاہتے ہو تو امیر سے امیر گھرانہ کی اچھی سے اچھی عورت سے رشتہ کرا دیتے ہیں اور اگر یہ چاہتے ہو کہ لوگ تمہاری باتیں مانیں تو ہم لکھ دیتے ہیں کہ جس طرح سے تم کہو گے اسی طرح ہم کریں گے.اگر تم با دشاہ بنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں مگر تم یہ نہ کہو کہ ایک ہی خدا ہے اور کوئی معبود نہیں ہے.اس کا جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیا.یہ کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر بھی رکھ دو تو پھر بھی میں تمہاری یہ بات نہ مانوں گا.علم مگر عورتیں کہتی ہیں اگر ہم نے فلاں رسم نہ کی تو محلہ والے کیا کہیں گے.رسموں کو چھوڑ دو اب تو رسمیں کم ہوتی جاتی ہیں تاہم ہندوؤں کی رسمیں جو مسلمانوں میں آگئی ہیں ان کے متعلق سوچنا چاہئے کہ ان کا کیا فائدہ ہے ؟ عقلمند انسان وہی کام کرتا ہے جس میں کوئی فائدہ ہو.مگر آج کل بیاہ شادیوں میں جو رسمیں کی جاتی ہیں ان کا کیا فائدہ ہوتا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ، صرف اس لئے کی جاتی ہیں کہ ہمارے باپ دادا کی رسمیں ہیں.مگر جن لوگوں میں ایمان داخل ہو جاتا ہے اور وہ دین پر عمل کرتے ہیں وہ ہر گز اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے باپ دادا کیا کیا عه سیرت ابن ہشام امربی جلد ا صفحه ۲۸۴ مطبوع مصر ۶۱۹۳۶

Page 174

انوار العلوم جلد ۵ ۱۵۴ فرائض مستورات کرتے تھے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کے باپ دادا کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے.آپ نے گھر نے نکال کر ایمان جیسی نعمت عطاء کی اس لئے آپ سے بڑھ کر کسی کی کیا وقت ہو سکتی ہے.لیکن افسوس کہ لوگ آپ کو چھوڑ کر باپ دادا کی فضول رسموں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور چونکہ یہ باتیں زیادہ تر عورتوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے ان کی حالت بہت ہی قابل افسوس ہے.ایک صحابی عورت کا نمونہ میں مثال کے طور پر بتا تا ہوں کہ وہ عورتیں جو سچے دل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتی تھیں ان کی کیا حالت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمنوں کے تکلیفیں پہنچانے پر مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آگئے تو کمہ والوں نے وہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی لڑائی کرنے کے لئے آگئے.مدینہ سے چار میل کے فاصلہ پر ایک جگہ تھی جہاں لڑائی شروع ہوئی.اگر چہ کا فر بہت زیادہ تھے اور ان کا مقابلہ میں مسلمان بہت تھوڑے تھے لیکن مسلمانوں کو فتح ہوئی.جب فتح ہو گئی تو چند لوگ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کھڑے رہنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا خواہ کچھ ہو تم اس جگہ سے نہ ہنا انہوں نے کہا کہ ہمیں لڑائی کے لئے یہاں کھڑا کیا گیا تھا جب ہماری فتح ہو گئی ہے تو پھر میں یہاں کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں.ان کے سردار نے کہا خواہ کچھ ہو چونکہ ہمیں کھڑے رہنے کا حکم ہے اس لئے یہاں سے نہیں جانا چاہئے.لیکن دوسروں نے کہا ہمارا کھڑا ہونا لڑائی کے لئے تھا اب جب کہ دشمن بھاگ گیا تو پھر کھڑے رہنے کی کیا ضرورت ہے.یہ کہ کر جب وہ وہاں سے ہٹ گئے تو کافروں نے جو بھاگے جا رہے تھے دوبارہ یک لخت حملہ کر دیا اور ایسے زور سےحملہ کیا کہ مسلمانوں میں جو دشمن کی طرف سے مطمئن ہو چکے تھے ابتری پھیل گئی.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے اور آپ کے دو دانت شہید ہو گئے اور مشہور یہ ہوگا کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں یہ سُن کر مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا.حتی کہ فرط غم کی وجہ سے حضرت عمر جیسے بہادر انسان سر نیچے کر کے بیٹھ گئے.ایک صحابی ان کے پاس سے گزرے اور پوچھا کیا ہوا.انہوں نے کہا رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے.یہ سن کر اس صحابی نے کہا اگر رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ ؟ چلو جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم گئے ہیں وہیں ہم بھی جائیں.یہ کہہ کر وہ دشمن پر حملہ آور ہوا اور اس قدر سختی سے لڑا کہ جب اس کی لاش دیکھی گئی تو معلوم ہوا کہ اس پر ستر زخم لگے ہوئے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وظل محفوظ تھے اور کیوں محفوظ نہ ہوتے جب کہ خدا تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ کوئی تمہیں مار نہیں سکتا.(المائدة : ۷۸) آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے.جو صحابی آپ کے ساتھ تھے انہیں تو آپ کے عله سیرت ابن جلد ۲ صفحه ۸۵

Page 175

انوار العلوم جلد ۵ ۱۵۵ فرائض مستورات زندہ ہونے کا علم ہو گیا لیکن مدینہ میں پلے خبر پہنچ چکی تھی اس لئے مدینہ کے بچے اور عورتیں دیوانہ وار باہر نکلے.اس وقت جب کہ شکر واپس آرہا تھا ایک صحابی آگے آگے تھا اس سے ایک عورت نے بے تحاشا آکر پوچھا رسول اللہ صلی الہ علیہ ولم کا کیا حال ہے ؟ اس کے دل میں چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اطمینان اور تسلی تھی اس لئے اس نے اس بات کو معمولی سمجھ کر کہا تمہارا باپ مارا گیا ہے.عورت نے کہا میں نے تم سے پوچھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا تمہارا بھائی بھی مارا گیا ہے.عورت نے کہا ئیں یہ پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا تیرا خاوند بھی مارا گیا ہے.عورت نے کہا میری بات کا تم جواب کیوں نہیں دیتے.میں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا رسول اللہ زندہ ہیں یہ سُن کر عورت نے کہا شکر ہے خدا کا.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو ہمیں اور کسی کی پرواہ نہیں.علی ایسا ندار ہو تو رسول کریم کو مقدم رکھو اس بات کو مانے رکھ کر تم اپنی مات کو دیکھو اگر پیدا ہوتے ہی بچہ مرجائے تو اس پر بین شروع کر دیئے جاتے ہیں حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ جہاں بچہ کیا ہے وہیں ان کو بھی جاتا ہے.اگر کچھ فرق ہے تو یہ کہ وہ پہلے چلا گیا ہے اور یہ کچھ عرصہ بعد جائیں گی.تاہم عجیب عجیب بین کرتی ، روتی ، چلاتی اور رشور مچاتی ہیں.یہ تو آج کل کی مسلمان کہلانے والی عورتوں کی حالت ہے.اور ایک وہ مسلمان عورت تھی جس کا باپ ، بھائی اور خاوند مارا جاتا ہے مگر وہ کہتی ہے رسول اللہ صل للہ علیہ سلم زندہ ہی تو مجھ کچھ کم نہیں.یہ وہ ایمان ہے جو مسلمان کی علامت ہے.پس اگر تم ایماندار ہو اور تمہیں مسلمان ہونے کا دعوی ہے تو خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ مں کسی بات کی پرواہ نہ کرو اور اس کے حکموں پرعمل کر کے دکھاؤ.اس بات کی ہرگز پرواہ نہ کرو کہ لوگ تمہیں کیا کہیں گے بلکہ اس بات کی پرواہ کرو کہ خدا تمہیں کیا کہتا ہے.عورتوں میں بہت سی باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو شرک ہیں.قبروں پر چڑھا ہے قبر پرستی سے بچو چڑھائے جاتے ، چراغ جلائے جاتے منتیں مانی جاتی ہیں.یہ سب شرک ہے خدا تعالی کے مقابلہ میں کس کو کھڑا کرنا شرک ہے جو بہت ہی بڑا گناہ ہے اور اس سے خدا تعالی کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے.دیکھیو اگر کوئی اپنے باپ کے سامنے ایک چوہڑے کو اپنا باپ کسے تو اس کے باپ کو کس قدر غصہ آئے گا اور وہ کس قدر ناراض ہوگا.اسی طرح ایک ادنی مخلوق کو جوخدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کیڑے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی اپنا حاجت روا سمجھنا خدا تعالیٰ کی بہت بڑی ناراضگی کا موجب ہے ایک قبر میں دفن شدہ مردہ جس کی ہڈیاں بھی گل گئی ہوں اور جس کے جسم کو کیڑے کھا گئے ہوں اس کو سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۹۲

Page 176

انوار العلوم جلد ۵ 104 جا کر کہا کہ تومیری مراد پوری کرکتنی بڑی یا گلا نہ بات ہے.خدا تعالیٰ جب زندہ ہے اور مانگنے والوں کو دیتا ہے تو جو کچھ مانگنا ہو اس سے مانگنا چاہئے.جومٹی میں دفن ہوچکا ہو اس کے متعلق کیا معلوم ہے کہ نیک تھا یا کیسا تھا.اگر وہ نیک تھا تو ان پر لعنتیں بھیجتا ہوگا جو اس سے مرادیں مانگتی ہیں.اور اگر برا ہوگا تو خود جہنم میں پڑا ہوگا دوسروں کو کیا دے سکے گا.ٹونے ٹوٹکے ترک کر دو اسی طرح عورتیں ٹونے ٹوٹکے کرتی ہیں.اگر کوئی بیمار ہوتا ہے توکچی دھا گا باندھتی ہیں کہ صحت ہو جائے حالانکہ جس کو ایک چھوٹا بچہ بھی توڑ کر پھینک سکتا ہے وہ کیا کر سکتا ہے.اسی طرح عورتوں میں اور کئی قسم کی بدعتیں اور برے خیالات پائے جاتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جن سے سوائے اس کے کہ ان کی جہالت اور نادانی ثابت ہو اور کچھ نہیں ہوتا.پس خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ ٹونے ٹوٹکے ، تعویز گنڈے منتر جنتر سب فریب اور دھوکے میں جو پیسے کمانے کے لئے کسی نے بنائے ہوئے ہیں.یہ سب لغو اور جھوٹی باتیں ہیں ان کو ترک کرو.ایسا کرنے والوں سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے.کیا تم نہیں دیکھتیں کہ مسلمان دن بدن تباہ و برباد ہوتے جارہے ہیں.تم عام طور پر اپنے گھروں میں اپنے رشتہ داروں میں دیکھو اورمسلمانوں کی حالت پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مسلمان ہندوؤں کے مقروض ہوتے ہیں.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ کی لعنت ان پر پڑی ہوئی ہے چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی ان کو چھوڑ دیا ہے.تم ان بیہودہ رسموں اور لغو چیزوں کو قطعاً چھوڑ دو اور اپنے گھروں سے نکال دور مسلمان اور مومن کے لئے صرف یہی جائز ہے کہ ایک خدا کی پرستش کرے اور اسی کے آگے سجدہ کرے.جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بھی سجدہ کرنے کی خدا تعالٰی نے اجازت نہیں دی تو اور کون ہے جس کو سجدہ کیا جاسکے.پھر اس زمانہ کے صلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوئے ہیں انکے آگے بھی سجدہ کرنے کی اجازت نہیں.نہ ان کی قبر پر منتیں ماننے اور نذریں چڑھانے کی اجازت ہے پس تم میں قسم کی باتوں کو اپنے گھروں سے نکال دو اور اگر نکال دیا ہے تو دوسری عورتوں کو سمجھاؤ کہ وہ بھی اسی طرح کریں.قرآن کریم کا ترجمہ پڑھو اور اس پر عمل کرو پھر یاد رکھو کہ قرآن کریم خدا تعالی کی کتاب اور اس کے منہ کی باتیں ہیں.اس کا ادب کرو اور احترام کرو قرآن کریم کے بغیر کوئی دین نہیں اور اس دین کے بغیر کہیں ایمان نہیں اور ایمان کے بغیر نجات نہیں.وہ شخص ہرگز نجات نہیں پا سکتا جو قرآن کریم پر عمل نہ کرے.عام طور پر عورتیں خود پڑھی ہوئی نہیں ہیں مگر خود پڑھا ہوا ہونا ہی ضروری نہیں.دیکھو اگر کسی رشتہ دار کا خط آئے تو پڑھے ہوئے

Page 177

انوار العلوم جلد ۵ 144 پڑھوا کر بنا جاتا ہے.اسی طرح قرآن بھی خط ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے نام آیا ہے، اس کو اپنے رشتہ داروں سے پڑھوا کر سنو اور خاص کر اپنے خاوندوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے سنو اور اسے یاد کرو.وعظ میں قرآن کی آیتیں نہیں سنائی جائیں.اس وقت میں جو کچھ بیان کر رہا ہوں وہ اگر چہ قرآن ہی کی باتیں ہیں لیکن الفاظ میرے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے لفظوں میں جو بات ہے وہ کسی انسان کے الفاظ میں نہیں پائی جاتی.میں یہ نہیں کہتا کہ وفظوں میں جو کچھ بنایا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے کلام کے خلاف ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ انسان کے الفاظ ہوتے ہیں.تمہیں چاہئے کہ خدا کے کلام کو خدا کے الفاظ میں سنو عربی پڑھو اوراس کے منی سیکھو خواہ کوئی مر ہو پڑھنے سے جی نہ چراؤ.قادیان میں ایک قاعدہ تیار کیا گیا ہے اس سے قرآن پڑھنے میں بہت مددمل سکتی ہے اس کے ذریعہ قرآن کریم پڑھو خود پڑھنے اور دوسر سے سننے میں بڑا فرق ہے.سننے میں صرف کان ہی مشغول ہوتے ہیں لیکن خود پڑھنے سے آنکھیں بھی مشغول رہتی ہیں اور اس طرح زیادہ ثواب ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ کے کلام کو خود پڑھنے کی کوشش کرو اور جب تک خود پڑھنے کی قابلیت پیدا نہ ہو.اس وقت تک اپنے خاوندوں اور بچوں سے سنو یا اپنے ہمسائیوں سے پڑھو.دیکھو اگر کوئی بھوکا یا ننگا ہو تو دوسروں سے کھانا اور کیڑا مانگ لیتا ہے اور اس میں شرم نہیں کرتا جب ایسی چیزوں کے لئے شرم نہیں کی جاتی تو خدا تعالی کی باتیں سننے اور پڑھنے میں کیوں شرم کی جائے ؟ خدا کے بعد رسول کریم سے بڑھ کر کس کو درجہ نہ دو پھر میں نہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان رکھو سب سے بڑے رسول محمد صلی الہ علیہ وسلم ہیں.ان سے بڑا درجہ کی رسول کو نہ دو.ہمارے ملک میں مسلمانوں نے اپنی جہالت سے حضرت علی کو بڑا درجہ دے رکھا ہے.کہتے ہیں کہ حضرت علی تو آج تک زندہ ہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں پھر کہتے ہیں حضرت علیستی مرد سے زندہ کیا کرتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم نے کوئی مردہ زندہ نہیں کیا.پھر ان کے نزدیک حضرت عینی تو آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں لیکن رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم زمین میں دفن ہیں.حضرت علی کے متعلق اس قسم کی جتنی باتیں کہتے ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ سب سے بڑا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اگر کوئی رسول مُردوں کو زندہ کرتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے لیکن مسلمان نادانی سے اس قسم کی باتیں حضرت عیسی کی طرف منسوب کر کے ان کا درجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ سے بڑھاتے ہیں.تم ہرگز اس طرح نہ کرو اور سب سے بڑا درجہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا مجھو.ان کے تم پر بہت بڑے

Page 178

انوار العلوم جلد ۵ ۱۵۸ فرائض مستورات احسان ہیں اس لئے ان پر ایمان لاؤ اور ان کے مقابلہ میں کسی اور کو کسی بات میں فضیلت نہ دو.ان پر درود بھیجو.درود دُعا ہوتی ہے جس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اے خدا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر جس قدر احسان کئے ہیں ان کا بدلہ ہم کچھ نہیں دے سکتے آپ سہی ان کو بدلہ دیں.بعث بعد الموت پر ایمان رکھو پھر ایک بات میں تم کو یہ بتاتا ہوں کرتیں عقیدہ رکھنا چاہئے کہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوتا ہے.جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.مثلاً نہی کسی کے مرنے پر رونا پیٹنا ہے.اس کی وجہ کیا ہوتی ہے ہیں کہ ان کو یقین نہیں ہوتا کہ مرنے کے بعد ہم پھر بن سکیں گے.اس لئے ضروری ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لاؤ.خدا تعالیٰ نے اس پر ایمان لانا نہایت ضروری قرار دیا ہے.موجودہ زمانہ کا نبی پھر یہ بات یاد رکھو کہ اس ماہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو نبی بنا کر دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے لیکن آپ کوئی علیحدہ نبی نہیں ہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے غلام ہیں.ہم سے ان کا تعلق نبی کا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی تعلق ہے جو ایک غلام کو اپنے آقا سے ہوتا ہے.ان پر ایمان لانا ضروری ہے ان کے بھی ہم پر بڑے بڑے احسان ہیں.اس زمانہ میں بھی دُنیا اسی طرح گمراہ اور دین سے غافل ہو گئی تھی جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہوگئی تھی اور انہوں نے آکر دین سکھایا اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ دکھایا ہے.یہ تو وہ باتیں ہیں جو عقائد سے تعلق رکھتی ہیں.اب میں اعمال کے متعلق بتاتا ہوں.نماز کی پابند ر ہو اول ناز ہے اس کی پابندی نہایت ضروری ہے.عام طور پر عورتوں کی ر یہ حالت ہوتی ہے کہ چھوٹی عمر میں کہتی ہیں ابھی بچپن ہے جو ان ہو کر نماز پڑھیں گی جب جوان ہوتی ہیں تو بچوں کے مذر کر دیتی ہیں اور جب بوڑھی ہو جاتی ہیں تو کہتی ہیں اب تو چلا نہیں جانا نماز کیا پڑھیں.گویا ان کی عمر ساری یونی گزر جاتی ہے.تو اکثر عورتیں نماز پڑھنے میں بہت مست ہوتی ہیں اور اگر پڑھتی ہیں تو چند دن پڑھ کے پھر چھوڑ دیتی ہیں یا اگر پڑھتی ہیں تو اس طرح پڑھتی ہیں کہ انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کیا پڑھنتی ہیں.جلدی جلدی رکوع اور سجدہ کر کے فارغ ہو بیٹھتی ہیں اس طرح کی نماز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرمایا کرتے تھے کہ ان کی نماز اس طرح ہوتی ہے

Page 179

انوار العلوم جلد ۵ نہ ۱۵۹ جس طرح مرغی دانے لگتی ہے.آخر سوچنا چاہئے نماز کوئی ورزش نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے اس لئے اسے سمجھ کر اور اچھی طرح جی لگا کر پڑھنا چاہئے.اور کوئی نماز سوائے ان ایام کے جن میں نہ پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے نہیں چھوڑنی چاہئے.کیونکہ نماز ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر سال میں ایک دفعہ بھی جان بوجھ کر نہ پڑھی جائے تو انسان مسلمان نہیں رہتا.پس جب تک ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پانچوں وقت بلا ناغہ نمازیں نہیں پڑھتے وہ مسلمان نہیں ہو سکتے.ہاں اگر کہو آج تک ہم نے کئی نمازیں نہیں پڑھیں ان کے متعلق کیا کیا جائے تو اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے تو یہ رکھی ہے.اگر آج سے پہلے تم نے جان بوجھ کر نمازیں چھوڑی ہیں تو تو بہ کر لو اور عہد کرو کہ آئندہ کوئی نماز نہ چھوڑیں گی.مینہ برستا ہو یا آندھی ہو ، کپڑے پاک ہوں یا نا پاک کوئی ضروری سے ضروری کام ہو یا عدم فرصت ، کچھ ہو کسی صورت میں نماز نہ چھوڑنی چاہئے.اوّل تو ضروری ہے کہ کپڑے پاک وصاف ہوں لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ پاک کپڑے تیار نہ ہوں، یا پینے ہوئے کپڑے اتارنے سے بیمار ہو جانے کا خوف ہو تو خواہ کپڑے بچہ کے پیشاب میں تر ہوں تو بھی ان کے ساتھ نماز پڑھ لینا جائز ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچہ کو خود کپڑوں پر پیشاب کرا کے اسی طرح نماز پڑھ لینی چاہئے بلکہ یہ ہے کہ اگر پاک کپڑے دیا ہونے کی صورت نہ ہو تو اسی کے ساتھ پڑھ لی جائے ورنہ اچھی بات یہی ہے کہ کپڑوں کو صاف کر لینا چاہئے.بچہ کا پیشاب ہوتا ہی کتنا ہے.بچہ جب تک دُودھ پیتا ہے روٹی نہیں کھاتا اس وقت تک شریعت نے یہ رکھا ہے کہ اس کے اوپر سے پانی بہاکر نچوڑ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے تو خواہ کچھ ہو نماز ضرور پڑھنی چاہئے کیونکہ نماز کی موت میں معاف نہیں ہو سکتی.یہ ایمان کا ستون ہے جس طرح چھت بغیر ستون کے قائم نہیں رہتی اسی طرح نماز کے بغیر ایمان قائم نہیں رہتا.نماز کے بعد دوسرا حکم زکوۃ کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس مال پر ایک زکوۃ دیتی رہو سال گزر جائے اس میں سے غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے لئے چائیسواں حصہ نکالا جائے.اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو وہ حصہ دے دیا جائے.اگر نہ ہو تو جو انتظام ہو اس کو دیا جائے.ہم احمدیوں کا ایک باقاعدہ انتظام ہے اس لئے احمدی عورتوں کو چاہئے کہ منتظمین کو زکواة کا مال دے دیا کریں.زیوروں کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر پہنے جاتے ہوں تو ان کی زکواۃ نہ دی جائے اور اگر ان کی بھی دی جائے تو اچھی بات ہے.ہاں اگر ایسے زیور ہوں جو عام طور پر نہ پینے جاتے ہوں کبھی بیاہ شادی کے موقع پر نہیں لئے جاتے ہوں ان کی زکوۃ دینا ضروری ہے اور جو عام على خطبه العامه صفحه ۴۷ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۴۷

Page 180

انوار العلوم جلد ۵ 14.طور پر اپنے جاتے ہوں ان کی زکوٰۃ دی جائے تو جائز ہے اور نہ دی جائے تو گناہ نہیں.ان کا گھسنا ہی زکوۃ ہے.ہمارے ملک میں عورتوں کو زیور بنوانے کی عادت ہے اس لئے قریباً سب عورتوں پر زکوۃ فرض ہوتی ہے وہ اس کا خیال نہیں رکھتیں.حالانکہ یہ اتنا ضروری حکم ہے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا.جب تک زکوۃ کی اونٹ باندھنے کی رسی تک نہ دیں گے میں ان سے جنگ کروں گا.اور یہ متفقہ فیصل ہے کہ جو ز کوۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں.تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم میں سے بہت سی تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمان نہیں رہتیں.اور جو اس سے بچ جاتی ہیں ان میں سے اکثر زکوۃ نہ دینے کی وجہ سے مسلمان نہیں کہلا سکتیں.روزے رکھو تیسرا حکم روزے کا ہے.اس کے متعلق حکم ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو سوائے ان دنوں کے جن میں خدا تعالیٰ نے عورتوں کو روزے رکھنے سے منع کیا ہے باقی دنوں میں روزے رکھنے چاہئیں.اس کے متعلق مجھے زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نمازیں تو نہیں پڑھتے لیکن روزے بڑی پابندی کے ساتھ رکھتے ہیں.گو خدا تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ تماشا کے طور پر رات کو اُٹھتے ہیں اور روزے کا خاص اہتمام کرتے ہیں.حج خانه کعبه چوتھا حکم یہ.م یہ ہے کہ اگر خدا تعالی کس کو توفیق دے تو جج کرے.اس کے لئے کئی شرطیں ہیں.مثلا مال ہو ، رستہ میں امن ہو اور اگر عورت ہو تو اس کیساتھ اس کا خاوند یا بیٹا یا بھتیجا یا ایسا ہی کوئی اور رشتہ دار محرم جانے والا ہو.صدقہ و خیرات یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہر ایک مومن مرد اور عورت پر فرض ہیں.ان کے علاوہ صدقہ و خیرات ہے.یہ اگر چہ فرض نہیں لیکن دینا ضروری ہے.اپنے خاندان میں اپنے محلہ میں جو غریب اور محتاج ہو اس کو دینا چاہئے.ہم احمدیوں میں صدقہ کا رواج بہت کم ہو گیا ہے جس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ احمدی جو چندہ دیتے ہیں اسی کو صدقہ سمجھ لیتے ہیں.حالانکہ دین کے لئے چندہ دینا اور بات ہے اور صدقہ دینا اور بات.صدقہ وخیرات وہاں کے غریب اور محتاج لوگوں کا حق ہوتا ہے جہاں انسان رہے.اس میں مذہب کی شرط نہیں خواہ کسی مذہب کا انسان ہو اگر محتاج ہو تو اس کی مدد کرنی چاہئے.مثلاً اگر تمہیں کوئی غریب عورت ملے تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ چونکہ یہ ہندو ہے اس لئے اسے کچھ نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کو بھی ضرور

Page 181

انوار العلوم جلد ۵ 191 فرائض مستورات دینا چاہئے یہ تو خدا تعالیٰ کے حکم ہیں.اخلاق حسنہ سکھو ان کے علاوہ وہ حکم ہیں جو بندوں کو بندوں کے متعلق ہیں مثلا یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آؤ کسی کی غیبت نہ کرو.چغلی نہ کرو.کسی کے..مال میں خیانت نہ کرو، کسی سے بغض اور کینہ نہ رکھو.عورتوں میں چغلی اور غیبت کی مرض بہت پائی جاتی ہے.اگر کسی کے متعلق کوئی بات سُن لیں تو جب تک دوسری کے سامنے بیان نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا.جو بات سنتی ہیں جھٹ دوسری جگہ بیان کر دیتی ہیں.حالانکہ چاہئے یہ کہ اگر کوئی کسی بھائی نہیں کا نقص اور عیب بیان کرے تو اسے منع کر دیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا.تو چغلی کرنا بہت بڑا عیب ہے اور اتنا بڑا عیب ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ اسی کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں دو قبریں آئیں.آپ وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ان قبروں کے مُردے ایسے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں پڑے ہوئے ہیں کہ جن سے بآسانی بچ سکتے تھے لیکن بچے نہیں.ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا.تو چغلی بہت بڑا عیب ہے اس میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہئے.اگر تمہارے سامنے کوئی کسی کے متعلق بڑا کلمہ کہے تو اسے روک دو اور کہہ دو ہیں نہ سناؤ بلکہ جس کا غیب ہے اسے جا کر سناؤ.پھر اگر کوئی بات سن لو تو جس کے متعلق ہو اس کو جا کر نہ سناؤ تاکہ فساد نہ ہو.اسی طرح کسی کی غیبت بھی نہیں کرنی چاہئے.کیا اپنے نقص کم ہوتے ہیں کہ دوسروں کے نقص بیان کرنے شروع کر دیئے جاتے ہیں ؟ تمہیں چاہتے کہ دوسروں کے عیب نکالنے کی بجائے اپنے عیب نکالو تاکہ تمہیں کچھ فائدہ بھی ہو.دوسروں کے عیب نکالنے سے سوائے گناہ کے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اپنی اصلاح کی فکر کرو پس اگر عیب ہی نکالنے میں تو اپنے عیب نکالو ا ہ ان کے دور کرنے کی کوشش کر سکو.تم اپنے متعلق دیکھو کہ تم میں چڑ چڑا پن تو نہیں پایا جاتا تم خواہ مخواہ دوسری عورتوں سے لڑائی فساد تو نہیں کرتیں.تمہارے اخلاق میں تو کوئی کمزوری نہیں.اور جب تمہیں اپنی کوئی کمزوری معلوم ہو جائے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرو.تم اپنی مجلسوں میں ہی دیکھ لو ذرا ذراسی بات پر عورت میں ایک دوسری سے اس طرح لڑتی ہیں کہ گویا انسان نہیں جوان ایک جگہ جمع کئے ہوئے ہیں.میں اپنے اخلاق اور عادات درست کرو جس مجلس میں جاؤ ادب اور تہذیب عله ترمذی ابواب الطهارة باب التشديد في البول

Page 182

انوار العلوم جلد ۵ سے بیٹھو.ایک دوسری کے ساتھ محبت اور الفت سے ملو.نرمی اور پیار سے بات کرو.اگر کوئی سختی بھی یٹھے توصبر اور تحمل سے کام لو اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ.کر خاتمہ تقریر یہ اسلام کی تعلیم ہے جو مختصر طور پر اس وقت میں نے تمہارے سامنے بیان کی ہے اس پر عمل کرو تا مسلمان بنو.جو اس پر عمل نہ کرے اس کو کوئی حتی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھے.ای دیند

Page 183

ایک غلط بیانی کی تردید سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 184

Page 185

انوار العلوم جلد ۵ 140 ایک غلط بیانی کی تردید ایک غلط بیانی کی تردید د تحریر فرمودہ حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی ) معز اخبار روزانہ آفتاب میں مرزا بشیر الدین محمود احمد سے قطع تعلق کے عنوان کے نیچے ایک صاحب کا خط شائع ہوا ہے.جنہوں نے اپنا نام مستری عمر بخش اور پتہ انجن ڈرائیور کو ہاٹ بتایا ہے یہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے کے استمبر 11 انہ میں میری بیعت کی تھی اور مدت تک میرے وعظ اور خطبات کا مطالعہ کرتے رہے لیکن مجھے اپنی خواہشات پر اسلام کو قربان کرنے والا دیکھ کر انہیں مجھ سے قطع تعلق کرنا پڑا جس کا وہ اخبار آفتاب کے ذریعہ اعلان کرتے ہیں.ایں نفانیت کی ایک مثال وہ یہ لکھتے ہیں کہ ان کو میری طرف سے تحریک کی گئی کہ وہ مسئلہ خلافت سے اپنی بے تعلقی کا اظہار کریں تاکہ گورنمنٹ خوش ہو کر مجھے تو کونسل کا ممبر نامزد کر دے اور میرے چھوٹے بھائی کو قادیان کا آنریری مجسٹریٹ بنا دے.آخر میں وہ تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے اکتو بہ شانہ میں ایک سو پچاسی روپیہ سات آنے برائے اشاعت اسلام ارسال کئے تھے وہ خلافت کیٹی بیٹی کو ادا کر دیئے جاویں کیونکہ وہ اپنا روپیہ تخریب اسلام میں خرچ نہیں کرنا چاہتے.اس خط کو پڑھکر اس کے لکھنے والے اور اس کے شائع کرنے والے دونوں صاحبوں پر مجھے تعجب ہوا.لکھنے والے صاحب پر اس لئے کہ انہوں نے اس قسم کے افتراؤں سے کام لیا ہے جن کا پوشیدہ

Page 186

انوار العلوم ایک غلط بیانی کی نزدید رہنا بالکل محال تھا.اور شائع کرنے والے صاحب پر اس لئے کہ با وجود ایک شریف اور معزز آدمی ہونے کے اور صاحب تجربہ ہونے کے انہوں نے اس قسم کی تحریر بلاکسی تحقیق کے شائع کردی.ہمارے لٹریچر سے واقفیت رکھنے والے اصحاب سے خواہ غیر احمدی ہوں یا احمدی یہ بات پوشیدہ نہیں کہ بیعت کرنے والوں کی فہرست با قاعدہ اخبار الفضل میں شائع ہوتی رہتی ہے اور ایک رجسٹر میں سب بیعت کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں.اس مضمون کے شائع ہونے پر اس فہرست کی پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ ستمبر نہ میں کسی شخص نے جو اس نام یا اس پتہ کا ہو بیعت نہیں کی پس ان صاحب کا یہ تحریر فرمانا کہ انہوں نے ستمبرثاء میں بیعت کی تھی ایک افتراء ہے.مگر چونکہ بہت دفعہ دفتر کی غلطی سے یا اور وجوہات سے بیعت کرنے والوں کے نام اندراج سے رہ جاتے ہیں.اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ پیشتر اس کے کہ اس خط کا جواب لکھا جا وے کو ہاٹ کے سیکرٹری انجمن احمدیہ سے اس کے متعلق دریافت کر لیا جاوے کہ کیا اس نام کا کوئی احمدی وہاں ہے اور اس غرض سے وہاں خط لکھوایا گیا.مولوی صدر الدین صاحب مولوی فاضل مدرس گورنمنٹ سکول کو ہاٹ سیکرٹری انجین احمدیہ کو ہاٹ نے اس خط کا جو جواب تحریر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نام اور پتہ کا کوئی احمدی وہاں نہیں ہے.بلکہ اس نام اور اس پتہ کا کوئی آدمی ہی کو ہاٹ میں نہیں ہے.وہ تحریر فرماتے ہیں خاکسار بھی تقریباً 4 ماہ سے یہاں ہے اور اس سے پہلے بھی انجین کو ہاٹ کا وجود تھا لیکن میری موجودگی میں کوئی ایسا احمدی جماعت کا ممبر تھا اور نہ سابقہ کا غذات میں اس شخص کا نام درج ہے؟ گر اسی پولیس نہیں.اس سے بھی بڑھ کر یہ لطیفہ ہے کہ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے شہر میں تحقیقات کی کہ اس نام کا کوئی انجن ڈرائیور ہے بھی کہ نہیں ؟ تو ان کو معلوم ہوا کہ کوہاٹ میں چار جگہیں ہیں جہاں انجن سے کام ہوتا ہے.(1) ریلوے سٹیشن (۲) ملٹری ورکس گودام (۳) برف خانہ فوجی دم، برف خانه شهر کا متصل تحصیلی دروازه - برف خانه شہر بند ہے وہاں اس وقت کوئی ملازم نہیں ہے.برف خانہ فوجی میں چار انجن ہیں اور چاروں پر اس نام کا کوئی آدمی نہیں ہے.ریلوے سٹیشن اور مری ورکس گودام بڑے محکمے ہیں وہاں کے کارکنوں سے بذریعہ تحریر دریافت کیا گیا تو میں نبی بخش شهاب غیر احمدی فورمین کو ہاٹ ملٹری ورکس گودام نے تحریر فرمایا کہ میں تصدیق کرتا ہوں کہ کوہاٹ مڑی ورکس میں بنام عمر بخش ڈرائیور انجن کا کوئی نہیں ہے " اسی طرح ریلوے سٹیشن کے شیڈ کلرک میاں خیر الدین صاحب نے جو ہماری جماعت میں شامل نہیں ہیں.جواب دیا کہ "CERTIFIED THAT MISTRI UMER BUKSH DRIVER

Page 187

انوار العلوم جلد ۵ 146 ایک غلط بیانی کی تردید IS NOT EMPLOYED IN ANY CAPACITY AT KOHAT." اب اس تحقیقات کے بعد ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ نہ صرف یہ کہ یہ صاحب احمدی ہی نہیں ہیں بلکہ ان صاحب کا وجود ہی خیالی ہے اور کسی شقی القلب انسان نے تمسخر کے طور پر جھوٹا خط بناکر آفتاب کے ایڈیٹر کے نام ارسال کر دیا ہے.مندرجہ بالا تین دلائل کے علاوہ چوتھی دلیل اس خط کے جھوٹا ہونے کی یہ ہے کہ یہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وہ میرے مواعیظ اور خطبات کو مدت تک پڑھتے رہے ہیں اور میرے خطبات صرف اخبار الفضل میں شائع ہوتے ہیں جس کے خریداروں میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہے اور ہمارے اخبار ایجنسیوں کی معرفت فروخت نہیں ہوتے کہ کہا جاسکے کہ یہ صاحب کسی ایجنسی سے اخبار خرید کر پڑھ لیا کرتے تھے.پانچویں دلیل ان صاحب کے جھوٹا ہونے کی یہ ہے کہ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ اکتوبر شاہ میں انہوں نے ایک سو پچاسی روپے سات آنے کی رقم اشاعت اسلام کے لئے بھیجی تھی.ہمارے ہاں با قاعدہ دفا تر ہیں جہاں ایک ایک پیسہ کی رقم درج ہوتی ہے.جو منی آرڈر وغیرہ براہ راست محاسب کے نام آتے ہیں وہ تو ان کے حسابات میں درج ہوتے ہی ہیں اور جو میرے نام آویں وہ بھی خواہ میرے ذاتی ہوں یا چندہ کے دفتر محاسب میں جاتے ہیں اور وہاں سے ایک رجسٹر پر درج ہو کر پھر میرے پاس بغرض دستخط آتے ہیں اور میرے دستخط کر دینے پر وہی دفتر ان کو وصول کرتا ہے اور اگر کوئی میرا ذاتی روپیہ ہو تو مجھے ادا کر دیتا ہے ورنہ وہیں دفتر کے حسابات میں اس کو جمع کر لیتا ہے.ان تمام رجسٹرات میں اس نام کے کسی شخص کی کوئی رقم درج نہیں ہے بلکہ چھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لئے ڈاک خانہ سے بھی دریافت کیا گیا کہ کیا اس نام کے کسی شخص کی کوئی رقم اس ماہ میں آئی ہے تو انہوں نے انکار کیا.ان تمام شہادات کے بعد میں امید کرتا ہوں کہ پبلک اس خطہ کے لکھنے والے کی شرافت اور انسانیت کا اچھی طرح اندازہ کر سکے گی.اور اسے معلوم ہو جاوے گا کہ بعض لوگ تعصب میں اندھے ہو کر کس قدر اور ذلیل حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں.اور ان جھوٹوں پر ہی قیاس کرکے وسمجھ سکے گی کہ کونسل کی ممبری اور آنریری مجسٹریٹی کے حصول کا الزام بھی اسی قسم کے اتہامات میں سے ہے.اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ کونسل کی ممبری کیا اس سے ہزاروں گنے بڑھ کر بھی کوئی دنیا دی عزت ہو تو وہ میری نظروں میں ایک تنکے کے برابر بھی قدر نہیں رکھتی.مجھے اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے اس کے مقابلہ

Page 188

انوار العلوم جلد ۵ ۱۶۸ ایک غلط بیانی کی تردید میں یہ گورنمنٹ یا کوئی اور گورنمنٹ مجھے دے ہی کیا سکتی ہے.مجھے فخر ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خدمت اسلام کا موقع دیا ہے اور اس سے بڑھ کر اور کیا عزت ہوسکتی ہے.کیا اسلام کا خادم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہونے سے بڑھک اور کوئی مقام ہے جس کے حصول کے لئے انسان کوشش کر سکتا ہے ؟ پھر جسے وہ حاصل ہو یا کم سے کم وہ خیال کرتا ہو کہ اسے وہ مقام حاصل ہے دُنیا کی عزتیں اس کی نگاہ میں بچی ہی کیونکر سکتی ہیں.نادان انسان اپنے پر دوسروں کو قیاس کرتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح میرا دل دُنیا کی محبت سے بھر پور ہے اسی طرح ہر ایک شخص اس محبت کے جذبات کا متوالا ہے.مگر آہ ! اسے کیا معلوم ہے کہ دنیا میں ایسے وجود بھی ہیں جو اس دنیا کو مردار سے زیادہ حقیر خیال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اسی قدر تعلق رکھتے ہیں جس قدر تعلق رکھنے کے لئے شریعت اور احکام اسلام انہیں مجبور کرتے ہیں.میں آخر میں ان تمام لوگوں سے جو اپنے دل میں اسلام کا درد رکھتے ہیں التجاء کرتا ہوں کہ وہ اسلام کی موجودہ حالت پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا یہی ذرائع ہیں جن سے اسلام ترقی کر سکتا ہے.مانا گو یہ غلط ہے ) کہ میں اور میری جماعت ترکوں کی دشمن ہے.مانا رنعوذ باللہ من ذالک کہ ہم اپنے فوائد پر اسلام کو قربان کر رہے ہیں لیکن کیا اگر ہم گندے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ لوگ بھی گندے ہو جاویں.کیا اگر ہم جھوٹے ہیں تو آپ لوگوں کو بھی جھوٹ بولنا شروع کر دینا چاہئے.اگر ہم لوگ قریب کرتے ہیں تو آپ لوگوں کو بھی قریب سے کام لینا چاہیے ؟ کیا اسلام کی ترقی نعوذ باللہ من ذالک بغیر جھوٹ ، اتهام اور فریب کے نہیں ہو سکتی.اے کاش! آپ لوگ سمجھتے کہ اسلام ان تدبیروں کا محتاج نہیں.جھوٹ اپنے قیام کے لئے جھوٹ کا محتاج ہوتا ہے.مگر سچ اپنی ترقی کے لئے سچ کے سہارے کے سوا اور کوئی سہارا نہیں چاہتا.وہ سچ ہی کیسا جس کی تائید کے لئے جھوٹ بولنا پڑے اور وہ حق ہی کیا ہے جس کی مدد کے لئے باطل کو بلانا پڑے.کیا وہ بھی خدا کہلا سکتا ہے جو اپنی مدد کے لئے بتوں کو بلا ہے.اور وہ بھی زندہ کہلانے کا مستحق ہے جو لاشوں کے پیچھے چھپ کر اپنی جان بچادے.اے کاش ! آپ لوگ محسوس کرتے کہ اسلام خود کرنے والی چیز نہیں گرنے والے مسلمان میں اور ان کے گرنے کی وجہ صرف اسلام کو چھوڑ دیا ہے.وہ صدق و سداد کا راستہ جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا جب مسلمانوں نے چھوڑ دیا تب وہ درندوں کا شکار ہوئے اور وحشیوں کے پاؤں کے نیچے روندے گئے.اب اس مصیبت سے بچنے اور اس دُکھ سے نجات پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ پھر وہ ان اخلاق کو اختیار کریں اور ان اصولوں کو محکم پکڑیں جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 189

انوار العلوم جلد ۵ 149 ایک غلط بیانی کی تردید بیان کیا اور جن کو لے کر قرآن کریم عرش عظیم سے نازل ہوا.عذاب تو خشیتہ اللہ پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں.پھر اس قوم کا کیا حال ہو گا جو عذاب الیٰ کے نزول کے وقت بھی بجائے خدا کے آگے جھکنے اور راستی کو اختیار کرنے کے تمسخر اور جھوٹ کی طرف مائل ہوتی ہے اور اسی کو اپنا شعار بناتی ہے کاش ! آپ لوگ سمجھتے کہ انگارے سے بچنے کے لئے آگ میں نہیں کو دتے اور بھیڑیے سے محفوظ ہونے کے لئے شیر کی غار میں نہیں گھتے.کوئی نہیں جو بارش سے بھاگ کر سمندر میں جا گرتا ہو اور ہوا سے ڈر کر بگولے کو جاپٹتا ہو.پھر آپ لوگوں کو کیا ہوا کہ دنیا کے مصائب سے تنگ آکران را ہوں پر قدم مارنے لگے جو روحانیت سے دور لے جانے والی اور خدا سے بعید کر دینے والی ہیں.اگر دنیا.نے آپ کو دھکا دیا تھا تو کیا آپ کے لئے ایک ہی راہ گھلی نہ تھی کہ آپ خداتعالی کی طرف جھکتے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے اور اس کے آگے مُردہ کی طرح اپنے آپ کو ڈال دیتے اور ہر ایک گند سے اپنے آپ کو پاک کر دیتے اور جھوٹ اور غریب اور تمسخر اور ایذا رسانی سے ایسے دور ہو جاتے کہ گویا اس سے کبھی کسی کا تعلق ہوا ہی نہیں اور خشیت اللہ کے آثار آپ کے چہروں سے نمایاں ہوتے اور محبت الہی کا نور آپ کی پیشانیوں سے سیکھنے لگتا.تب خدا کی محبت کا ہاتھ آپ کو کھڑا کر دینے کے لئے آپ کی طرف بڑھتا اور اس کے رحم کی آواز آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے بلند ہوتی اور اس کی رحمت کا سایہ آپ کے او پر چھا جاتا اور پھر اس کی غیرت بھڑکتی اور آپ کے دشمنوں کو خس و خاشاک کی طرح جلا کر راکھ کر دیتی.اسلام پہلے بھی صداقت کے زور سے بلند ہوا اور اب بھی اسی کے ذریعہ سے ترقی کرے گا.جھوٹ ٹایا جاوے گا.خواہ سلم کی زبان پر ہو خواہ کافر کی زبان پر.باطل کچلا جاوے گا خواہ ایمان کے جبر میں ظاہر ہو یا گھر کے کوٹ میں.پس جھوٹ کو چھوڑ دو اور حق کو اختیار کرو تا خدا کی نصرت تمہارے ساتھ ہو اور اس کا غضب تمہارے خلاف نہیں بلکہ تمہاری تائید میں بھڑکے.واخر دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان

Page 190

Page 191

الشبرمة 141 معاہد ترکیه اورسلمانوں کا آئندہ رویہ از سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 192

Page 193

انوار العلوم جلد و ۱۷۳ معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ معامده ترکیه او مسلمانوں کا آئندہ رویہ (نوٹ: یہ وہ مضمون ہے جسے امام جماعت احمدیہ نے اس کا نفرنس میں بھیجنے کے لئے جو کم دوجون ۱۹۲۰ء کو الہ آباد میں منعقد ہوئی تحریر کیا اور جس میں بتایا گیا ہے کہ اس معاہدہ کی شرائط میں کیا نقص میں اور اس کے بداثرات سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو آئندہ کیا طریق اختیار کرنا چاہئے.) لسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ هُوَ الله أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ خدا کے فضل اور رحم کیسا تھ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم آج گیارہ رمضان المبارک مطابق ۳۰ مئی ۹۲اند کو مجھے جناب مولوی عبدالباری صاحب فرنگی محلی کی طرف سے ایک خط ملا ہے کہ یکم اور دو جون کو الہ آباد کے مقام پر ایک جلسہ مشورت منعقد ہوگا جس میں دولت عالیہ عثمانیہ کے ساتھ شرائط صلح کے مسئلہ پر غور کیا جاوے گا اور آئندہ کے لئے طریق عمل تجویز کیا جائے گا اور اس میں اپنے خیالات بیان کرنے کے لئے مولانا نے مجھے بھی دعوت دی ہے.اگر میری شمولیت اس جلسہ میں کسی طرح بھی نفع رساں ہو سکتی اور مجھے امید ہوتی کہ میرا بذات خود حاضر ہونا میرے اہل وطن اور میرے بھائیوں کے لئے کسی طرح بھی مفید ہو سکتا ہے تو میں سو کام چھوڑ کر بھی اس

Page 194

انوار العلوم جلد ۵ ۱۷۴ معاہدہ ترکیہ اور مسا اہم اور وسیع الاثر معاملہ میں اپنے خیالات ظاہر کرنے کے لئے حاضر ہو جاتا.مگر چونکہ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے جلسوں میں ایسے اشخاص کو جنہیں ذرہ بھر بھی اختلاف رائے ہو بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی.اس لئے میرا بذاتِ خود آنا وقت کو ضائع کرنا ہے.مگر دوسری طرف چونکہ اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور ان کی خیر خواہی اور خدمت اسلام کا جوش مجھے اس بات پر بھی مجبور کرتا ہے کہ کوئی سنے نہ سنے.میں اپنا مشورہ ان تک پہنچا دوں.میں اس تحریر کے ذریعہ اپنے خیالات سے اس موقع پر تبع ہونے والے احباب کو آگاہ کرتا ہوں اور چند معزز دوستوں کے ہاتھ اس تحریر کو ارسال کرتا ہوں کہ تاجن دوستوں کے دلوں پر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریر کا کوئی اثر ہو وہ زبانی بھی میرے قائمقاموں سے اس میں درج شدہ مسائل پر تبادلہ خیالات کر سکیں.اسے احباب کرام !میں نے ستمبر گذشتہ کے اجتماع کے وقت تحریر کے ذریعہ سے آپ لوگوں کو توجہ دلائی تھی کہ دولت عالیہ عثمانیہ کے مستقبل کے متعلق جدوجہد کی بنیاد اس امر پر رکھنی چاہئے کہ سلطان ترکی کثیر حصہ مسلمانان کے نزدیک خلیفہ میں اور باقی تمام مسلمان بھی بوجہ ان کے اسلامی بادشاہ ہونے کے ان سے ہمدردی رکھتے ہیں.اس لئے ان سے معاہدہ صلح کرتے وقت تمام عالم کے مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھا جاوے اور ان سے انہی اصول کے ماتحت معاملہ کیا جاوے جس کے ماتحت دوسری مسیحی حکومتوں سے معاملہ کیا گیا ہے.اور میں نے بتایا تھا کہ اس طریق پر تمام وہ فرقے جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کا آپس میں کیسا ہی اختلاف ہو اس معاملہ میں اکٹھے ہو سکیں گے لیکن افسوس کہ اس وقت آپ لوگوں کو میرا وہ مشورہ پسند نہ آیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کو یہ بات کہنے کا موقع ملا کہ خلافت عثمانیہ کے متعلق مسلمانوں کی آواز ایک نہیں اور اس لئے یہ کہنا کہ ترکوں کے تعلق تمام مسلمانوں کی ایک رائے ہے درست نہیں.اگر میرا مشورہ اُس وقت تسلیم کیا جاتا تو احمدیہ جماعت کو خلافت کے مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات کے اظہار کی کوئی ضرورت نہ پیش آتی.اور وہ ترکوں کے لئے انصاف کا جائز طور پر مطالبہ کرنے میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شامل ہو سکتی تھی.اگر اُس وقت میرا مشورہ قبول کر لیا جاتا تو شیعہ اصحاب کو جو کروڑوں کی تعداد میں میں علی الاعلان اس تحریک سے اظہار برآمت کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور وہ بھی دوسرے بھائیوں کے ہم زبان ہو کر اس مسئلہ کے متعلق اپنی ہمدردی کا اظہار کر سکتے تھے.اگر اس وقت میرا مشورہ قبول کر لیا جاتا تو عربوں کو اس وقت جب کہ حالات زمانہ سے متاثر ہو کر وہ پھر حکومت ترکیہ سے صلح کرنے پر آمادہ ہو رہے تھے اور ان کی ہمدردی کا جوش ان کے دلوں میں موجزن

Page 195

انوار العلوم جلد ۵ ۱۷۵ معاہدہ ترکی اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ یہ کہ تھا یہ اعلان نہ کرنا پڑتا کہ خلافت صرف قریش کے لئے مخصوص ہے اور وہ با وجود مخالفت کے ترکوں لئے اور وہ با کی ہمدردی میں اپنی آواز بلند کر سکتے تھے کیونکہ پچھلے دنوں سے یورپ کی بعض حکومتوں سے ان کو بعض شکایات پیدا ہو گئی ہیں اور وہ ایک حد تک ترکوں سے صلح رکھنے پر تیار ہیں.اگر میرا مشورہ قبول کر لیا جاتا تو عرب کے وہابی فرقہ کو بھی کھلے طور پر اس مسئلہ میں دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ شریک ہونے میں کوئی اعتراض نہ ہوتا.اور اگر میرا مشورہ قبول کر لیا جاتا تو یورپ کے لوگوں کو اس بات پر ہنسی اڑانے کا موقع نہ ملا کہ مسلمان اپنے خلیفہ کی حفاظت کی اپیل عیسائی حکومتوں سے کرتے ہیں.اور اگر اس کام کو تکمیل پر پہنچانے کے متعلق جو بات میں نے لکھی تھی اس پر عمل کیا جاتا تو یقیناً شرائط صلح موجودہ شرائط سے مختلف ہوتیں.وفود کا بھیجا جانا اس قدر معرض التوا میں ڈالا گیا کہ عمل کا وقت ہاتھ سے جاتا رہا.امریکہ کی طرف کوئی وفد نہیں بھیجا گیا.عراق ، شام ، عرب اور قسطنطنیہ کی طرف وفد بھیجے جانے ضروری تھے مگر اس کا کچھ خیال نہیں کیا گیا.فرانس اور اٹلی کی طرف منتقل وندوں کی ضرورت تھی مگر اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی.جاپان بھی توجہ کامستحق تھا اسے بھی نظرانداز کیا گیا.انگلستان کی طرف وند گیا اور وہ بھی آخری وقت میں.ساری کوشش ہندوستان کی گورنمنٹ کو برا بھلا کنے میں یا ان لوگوں کو گالیاں دینے میں صرف کر دی گئی جو گو ترکوں سے ہر طرح ہمدردی رکھتے تھے مگر سلطان المعظم کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تھے مگر گیا گالیاں دینے سے کام ہوتے ہیں ؟ کام کام کرنے سے ہوتے ہیں.اسے احباب کرام ! آپ غور فرما دیں کہ اسلام کو اس وقت کسی چیز نے نقصان پہنچایا ہے.اسلام کو نقصان پہنچایا ہے مسلمانوں کی غیر متقیانہ حالت نے ، بُزدلی نے ، بد اخلاقی نے ، کم ہمتی نے منافقت نے یہ چیزیں ہیں کہ جن کے دُور کرنے سے اسلام پھر ترقی کر سکتا ہے.مگر اس تکلیف کے ایام میں ان باتوں کی طرف کسی قدر توجہ کی گئی ہے.آج مسلمان اس سے بہت زیادہ تعداد میں ہیں جس قدر کہ آج سے پانچ سو سال پہلے تھے.مگر وہ اس وقت فاتح تھے آج مفتوح ہیں.کیوں ؟ صرف اس لئے کہ اس وقت ان میں مذکورہ بالا باتیں نہ تھیں مگر آج ہیں پھر ان باتوں کے ترک کرنے اور اخلاق حسنہ کے حصول کے لئے کیا کوشش کی گئی ہے.کیا اس مصیبت اور تکلیف کے زمانہ میں انابت الی اللہ سے کام لیا گیا ہے میں دیکھتا ہوں کہ ایسے لوگوں نے جو شہرت اور عزت کے دلدادہ ہیں مسلمانوں کے اخلاق اور بھی بگاڑ دے ہیں.اور بجائے ان میں خشیتہ اللہ پیدا کرنے کے ان کو اور بھی زیادہ شورخ بنا دیا ہے.آج چاروں طرف

Page 196

انوارالعلوم جلد ۵ 164 معابده ترکیا اور سلمانوں کا آئندہ روید مسلمانوں کی زبان پر گالیاں سنی جاتی ہیں وہ تالیاں بجاتے سیٹیاں مارتے اور اپنے مخالف خیالات والوں سے استہزاء کرنے کے لئے بندروں کی طرح ہزاروں قسم کی حرکات ناشائستہ کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے عظیم الشان خدمت اسلام کی ہے.اسے نمائندگان اسلام ! اس وقت جبکہ آپ نہایت سنجیدگی سے دولت عالیہ عثمانیہ کے مستقبل پر غور کرنے کے لئے بیٹھے ہیں اور آپ کے دلوں میں غم اور فکر کا ہجوم ہے.اس وقت ہندوستان کے مختلف گوشوں میں ناکردہ گناہ بچے اور بے قصور عورتیں اس شدت گرما میں اس قصور میں پیاسے تڑپ رہے ہیں کہ ان کے والدین یا شوہر کیوں سلطان المعظم کی خلافت کے قائل نہیں اور مسلمان کہنے والے لوگوں نے نہ معلوم کس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس پانی سے بھی ان کو روک دیا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا فرسے کا فرانسان کو بھی نہیں روکتا.اب آپ سوچیں کہ کیا ان کی آہیں اور ان کی چیخ و پکار خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا کر اسی بات کی درخواست کر رہی ہوگی کہ ہم پر مسلم کرنے والوں کے کام میں برکت دے اور ان کی مرادوں کو پورا کر جبکہ کربلا اور نحیف کے مقدس میدانوں کی حفاظت کا سوال پیدا ہو رہا ہے.خود ہندوستان میں اس قسم کے نمونے دکھائے جارہے ہیں جو یزید اور اس کے ساتھیوں نے دکھائے محض اس اختلاف رائے پر کہ کیوں احمدی خلافت عثمانیہ کے قائل نہیں.ان کو پانی سے روکا جاتا ہے ، ان کو خرید و فروخت سے باز رکھا جاتا ہے.ان کے گھروں میں کام کرنے سے مہتروں کو باز رکھا جاتا ہے اور ان پر نماز ادا کرتے وقت کنگروں کی بارش کی جاتی ہے.کیا اس تنگی کے وقت میں اسی قسم کی انابت سے مسلمانوں کو اللہ تعالٰی کے فضل کو اپنی طرف کھینچنے کی سعی کرنی چاہئے تھی.اور کیا اگران کے اس ظلم سے تنگ آکر احمدی منافقت سے ان کے ہم خیال ہو جاویں کیونکہ جبر سے دلوں کو تسلی نہیں ملا کرتی تو کیا ایسے منافقوں کی امداد سے مسلمان کامیاب ہو جاویں گے.یہ وقت تو ایسا تھا کہ مسلمانوں میں جرات اور دلیری پیدا کی جاتی اور ان کو دلیر بنایا جاتا نہ کہ منافقت پر ان کو مجبور کیا جاتا.کیا ان جاہلوں کو کوئی اس قدر سمجھانے والا نہیں ہے کہ جو لوگ ان سے ڈر کر اپنے صحیح خیالات کو چھوڑ دیں گے وہ ان سے زیادہ طاقت ور لوگوں کے دباؤ سے کیا موقع ملنے پر ان کے مخالف نہ بن جاویں گے ؟ غرض مجھے افسوس ہے کہ اس کرب و اندوہ کے زمانہ میں وہ صحیح رویہ اختیار نہیں کیا گیا جس سے کامیابی کی امید ہو سکتی تھی.لیکن اب جبکہ پھر آپ لوگ دوبارہ اس اہم مسئلہ پر غور کرنے کے لئے جمع ہو رہے ہیں تو میں اخلاص اور محبت سے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں شاید کسی.سی سچے خیر خواہ اسلام کے دل پر میری بات اثر کرے اور وہ خدمت اسلام کے لئے کمر ہمت باندھ کر کھڑا ہو جاوے.

Page 197

انوار العلوم جلد ۵ 146 معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں سب سے پہلا سوال شرائط صلح کے متعلق یہ ہے کہ آیا یہ درست ہیں اور مطابق انصاف ہیں.اس سوالی کے متعلق میرے نزدیک اب ہم کو زیادہ غور و فکر نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ اس سوال کا حل ہمیں کچھ نفع نہیں دے سکتا مگر پھر بھی آئندہ نسلوں کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنے کے لئے اور ان شرائط کے تیار کرنے والوں کو اپنی رائے سے واقف کرنے کے لئے میں اپنی رائے ان مختصر الفاظ میں ظاہر کر دیتا ہے کہ ترکوں کے متعلق شرائط صلح کا فیصلہ کرتے وقت ان اصول کی پابندی نہیں کی گئی جن کی پابندی یورپ کے مرتبہ انصاف کے لئے ضروری قرار دے چکے ہیں.عراق کی آبادی کو ایسے طور پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا جیسا کہ جرمن کے بعض حصوں کو.ان سے باقاعدہ طور پر دریافت نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے لئے کسی حکومت یا کس طریق حکومت کو پسند کرتے ہیں.شام کی آبادی کو باوجود اس کے صاف صاف کہہ دینے کے کہ وہ آزاد رہنا چاہتی ہے فرانس کے زیر اقتدار کر دیا گیا.فلسطین کو جس کی آبادی کا بڑا حصہ مسلمان ہے ایک بہو دی نو آبادی قرار دے دیا گیا حالانکہ یہود کی آبادی اس علاقہ میں پا کے قریب ہے اور یہ آبادی بھی جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے ۱۸۷۸ء سے ہوئی ہے اور زیادہ تر ان پناہ گیروں کی ہے جنہوں نے ان ممالک سے آکر یہاں پناہ لی ہے جن میں یہودیوں پر ظلم کرنا سیاست کا ایک بڑا جزو قرار دیا گیا ہے" (یعنی روس و غیره) (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا ) CONSISTING PRINCIPALLY OF REFUGEES FROM COUNTERIES WHERE ANTI-SEMITISM IS AN IMPORTANT ELEMENT IN POLITICS.پس ایسے علاقہ سے ترکوں کو دست بردار کرانا اور سہود کے سپرد کر دینا جس میں کثیر حصہ آبادی مسلمان ہے اور جو سیور کے لئے ایک یہی جائے پناہ تھی کیا اس مجرم کے سبب سے ہے کہ انہوں نے کیوں یہود کو اس وقت پناہ دی جب کہ مسیحی حکومتیں ان کو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں.بے دخل کر رہی تھیں ؟ یہی حال لبنان کا ہے.اس کو فرانس کے زیر اقتدار دنیا بالکل کوئی سبب نہیں رکھتا.اور آرمینیا کا آزاد کرنا بھی بے سبب ہے کیونکہ آرمینیا کا جائے وقوع ایسے علاقہ میں ہے جس کے چاروں طرف ترک آباد ہیں اور ان کی الگ حکومت بنانے سے یہ مطلب ہے کہ ترک قوم آپس میں اتحاد نہ کر سکے اور روسی ترکستان کے لوگ کسی وقت بھی ایشیائی کو چک کے ترکوں سے مل نہ سکیں پھر آرمینیا کو جو بہت سے علاقے دیئے گئے ہیں.ان میں کثیر حصہ آبادی کا مسلمان ہیں اور ایسی بعض ولایات کے دینے کی تجویز ہے

Page 198

انوار العلوم جلد ۵ 14A معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ جہاں کی آبادی قریب قریب ساری مسلمان ہے حالانکہ یہ بات ثابت ہے کہ آرمینین سیحیوں نے نہایت بے دردی سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور خود وزیر انگلستان اس بات کا انکار نہیں کر سکے کہ آرمینین مسیحیوں نے بھی مسلمانوں پر سخت سے سخت مظالم کئے ہیں.یہیں اگر ترکوں کو اس جرم میں اس علاقہ کی حکومت بے دخل کیا جاتا ہے کہ وہ کر دوں کو آرمین مسیحیوں پر ظلم کرنے سے کیوں نہیں روک سکے.تو آرمینین مسیحیوں کو جو خود مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم کے مرتکب میں مسلمانوں پر کیوں حکومت دے دی گئی ہے اور اگر کوئی ایسے قواعد بنا دیئے گئے ہیں کہ جن کے ماتحت آرمینین مسیحی مسلمانوں پر ظلم نہیں کر سکیں گے تو کیوں ان ہی قواعد کے ماتحت آرمینیا کو ترکوں کے ماتحت نہیں رکھا گیا تا سلمان مسیحیوں پر ظلم نہ کر سکیں.اسی طرح مرنا کو یونان کے حوالے کرنا بھی خلاف انصاف ہے کیونکہ کسی ملک کے صرف ایک شہر میں کسی قوم کی کثرت آبادی اسے اس شہر کی حکومت کا حق دار نہیں بنادیتی اور یہ اصول کبھی بھی سیاست میں تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کا نتیجہ سوائے فساد کے کچھ نہیں نکلے گا اور یقیناً چند سال بعد یونانی اس علاقہ میں فتنہ اندازی کرکے اور علاقہ بڑھانے کی فکر کریں گے.تھریں جو ترکوں سے لے کر یونان کو دیا گیا ہے اس کا سبب بھی معلوم نہیں ہوتا.خود وزیراعظم مسٹر لانڈ جارج اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ وہاں کی آبادی کا کثیر حصہ ترک ہے پھر اس ملک کو یونان کے سپرد کر دنیا کس طرح جائز ہو سکتا ہے اور اگر مسٹر لینڈ جارج کے بعد کے بیان کو بھی کہ وہاں کی اکثر آبادی غیر ترک ہے مان لیا جاوے تو بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ اس علاقہ کا نہایت کثیر حصہ مسلمان ہے پیں اگر اس وجہ سے کہ وہاں کی اکثر آبادی ترک نہیں اس علاقہ کو ترکوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا تھا تو یونان کو تو کسی طرح اس علاقہ پر حق حکومت نہ تھا.اس صورت میں یہاں آزاد حکومت قائم کر دی جاتی یونانیوں کو اس علاقہ کے سپرد کر دینے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ حسب عادت تھوڑے ہی عرصہ میں خفیہ اور ظاہر تدابیر سے وہاں کے لوگوں کو یا سیمی ہونے پر مجبور کریں گے یا ان پر سخت ظلم کر کے ان کو ان علاقوں غرض میرے نزدیک اس معاہدہ کی گئی شرائط میں حقوق کا اتلاف ہوا ہے اس لئے جس قدر جلد یورپ اس میں تبدیلی کرے اسی قدر یہ بات اس کی شہرت اور اس کے اچھے نام کے قیام کا موجب ہوگی لیکن سوال ہے کہ اگر اتحادی حکومتیں ان شرائط کو بدلنے سے انکار کریں تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے اور میرے نزدیک یہی اہم سوال ہے کیونکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اتحادی ان شرائط کو نرم نہیں کریں گے.SAMARINA ✓ عله ATHERAS

Page 199

انوار العلوم جلد ۵ 149 معاہدہ ترکیہ اور سلمانوں کا آئندہ رویہ اور اس سوال کے جواب میں کہ اگر اتحادی اس معاہدہ کو نرم نہ کریں تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے.مختلف آراء پیش کی گئی ہیں بعض نے ہجرت کی تجویز پیش کی ہے ، بعض نے جہاد عام کو پسند کیا ہے ، بعض نے قطع تعلقی کی پالیسی کو سراہا ہے.مگر میرے نزدیک ان سب تجاویز میں سے ایک تجویز بھی درست نہیں اور ناقابل عمل ہے.ہندوستان کی سات کروڑ آبادی ہندوستان کو چھوڑ کر باہر نہیں جاسکتی اور نہ اس کے باہر جانے کی کوئی غرض اور فائدہ ہے.ہجرت اس وقت ضروری ہوتی ہے جبکہ اس علاقہ میں جہاں کوئی شخص رہتا ہے اس کو ان احکام شرعیہ کے بجالانے کی آزادی نہ ہو جو افراد جماعت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو افراد مسلمانان سے تعلق رکھتا ہو اور جس کا بجا لانا اس ملک میں ناممکن ہو.اور پھر ملی پہلو اس تجویز کا لیا جاوے تو بھی اس پر عمل نہیں ہو سکتا.کسی قدر آدمی ہیں جو اس تجویز پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں گے ہیں علاوہ اس کے کہ یہ تجویز شریعت کے خلاف ہوگی اس کو پیش کر کے سوائے اپنی سبکی کرانے اور لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہونے کے اور کوئی نتیجہ نہ نکلے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اس تحریک کو پیش کرنے والے ہیں وہ خود بھی اس تحریک پر عمل پیرا نہیں ہوئے.دوسری تجویز جہاد کی ہے.جہاد اس ملک میں رہ کر جائز نہیں اس ملک میں رہنے کے یہ معنے ہیں کہ ہم برطانیہ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور ہمارا اس ملک میں رہنا بھی ایک عملی معاہدہ ہے جو ہم حکومت برطانیہ سے کرتے ہیں پس اس ملک میں رہتے ہوئے کسی طرح بھی گورنمنٹ کا مقابلہ کرنا ایک سخت غداری ہوگی اور غداری اسلام میں جائز نہیں ہیں سب سے زیادہ اپنا مذہب عزیز ہونا چاہئے.اگر ہم تمام دنیا کی حکومت کے لئے بھی اپنا مذہب قربان کر دیتے ہیں تو ہم گھاٹے میں رہیں گے پس حکومت برطانیہ کے زیر سایہ رہتے ہوئے اس کی حفاظت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا یا اس کے متعلق تدابیر سوچنا ایک مسلمان کے لئے جو اپنے مذہب کی کچھ بھی قدر کرتا ہے نا جائز ہے اور اسلام کی عظمت کرنے والا مسلم اس تجویز پر بھی عمل نہیں کر سکتا.اگر کہا جاوے کہ باہر جاکر جہاد کریں تو اول تو اس سوال کیساتھ پھر ہجرت کا سوال آجا دے گا جسے میں پہلے ناجائز اور ناممکن ثابت کر چکا ہوں.دوم جہاد کے لئے یہ شرط ہے کہ اس حکومت سے کیا جاوے جو اسلام سے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر حملہ کرتی ہے اور ترکوں سے جنگ کرنے میں اتحادیوں نے ابتداء نہیں کی نہ اس جنگ کی وجہ اسلام کو مٹانا تھی ہیں جب تک یہ ثابت نہ کیا جاوے کہ اس جنگ کی ابتداء اتحادیوں کی

Page 200

انوار العلوم جلد ۵ معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ طرف سے ہوئی ہے.اور پھر یہ بھی کہ اتحادیوں نے ترکوں سے اس لئے جنگ کی تھی کہ وہ ان کو جبراً مسیحی بنائیں جہاد ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے جو برطانیہ کی حکومت کے نیچے رہتے ہیں جائز نہیں ہو سکتا.تمیری تجویز یہ ہے کہ گورنمنٹ سے قطع تعلق کیا جاوے اس تجویز کے متعلق بھی میری یہ رائے ہے کہ قطع تعلق بھی ایک قسم مقابلہ کی ہے.اور اس پالیسی پر عمل کر کے بھی ہندوستان میں امن قائم نہیں رکھ جا سکتا.ضرور ہے کہ جو لوگ اپنے کاموں سے علیحدہ ہوں آہستہ آہستہ ان کی ضروریات دنیا دی ان کو تنگ کریں اور وہ مجبور ہو کرنا جائز ذرائع اور جبر سے اپنے گزارے کا سامان پیدا کریں.پھر بیشتر اس کے کہ اس تجویز پر عمل کیا جاوے یہ بھی سوچنا چاہتے کہ اس تجویز کی عرض کیا ہے.میرے نزدیک اس کی ایک ہی غرض ہو سکتی ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ پر اس ذریعہ سے دباؤ ڈالا جاوے اور اس غلطی کی اصلاح کروائی جاوے جو ترکوں کے معاہدہ صلح میں ہوئی ہے سو اول تو اگر اس قطع تعلق کا کوئی اثر ہو بھی تو وہ صرف ہندوستان پر ہو گا اور ہو گا بھی سالہا سال کے بعد.کیونکہ اگر یہ مان بھی لیا جاوے کہ سب مسلمان اس بات پر آمادہ ہو جاویں گے تو بھی اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کو اس کام کے لئے آمادہ کرنے کے لئے سالہا سال کی جدوجہد اور تلقین کی ضرورت ہوگی.اور اس وقت تک کہ یہ تجویز عملی جامہ پہنے گی معاہدہ ترکیہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہو چکا ہو گا.اور اس وقت اگر گورنمنٹ برطانیہ کی مرضی بھی ہوگی تب بھی وہ فرانس اور یونان اور آرمینیا کو اپنے اپنے حصہ سے علیحدہ نہیں کرسکے گی.دوم اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر سب مسلمان اس تجویز پر عمل کرنے لگیں تب بھی وہ گورنمنٹ پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتے کیونکہ اس ملک کی آبادی کی صرف چوتھا حصہ مسلمان ہے ہ ہندو ہیں اور قریباً چالیس لاکھ مسیحی ہیں.پس اگر گورنمنٹ کو اس کے خطاب واپس کر دیے جاویں تو اس سے اس کا کوئی نقصان نہیں.اور اگر اس کی ملازمت سے علیحدگی کی جاوے تو ہندوستان کی ۳ آبادی ان کی جگہیں پھر کرنے کے لئے تیار ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ہند و سر بر آوردہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ شریک ہونے کے لئے آمادہ ہیں.لیکن اس تجویز کی مخالفت ہندوؤں میں بہت زیادہ ہے اور یقیناً پانچ فیصدی ہندو بھی مسلمانوں کا ساتھ نہ دیں گے.اگر مسلمان وکلاء اپنا کام چھوڑ دیں گے تو خود مسلمان اپنی داد رسی کے لئے ہند و وکلاء کی خدمات کو حاصل کریں گے اور وہ شوق سے ان کے مقدمات لیں گے اور اگر مسلمان حج استعفاء دے دیں گے تو ہند و امید وار فوراً ان کی جگہ لینے کے لئے آگے بڑھیں گے.اگر فوجی مسلمان استعفاء دے دیں گے تو علاوہ اس کے کہ وہ فوجی قواعد کی خلاف ورزی کر کے سزا پا دیں گے ان کا مستعفی ہو

Page 201

انوار العلوم جلد ۵ معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ جانا ایسا مؤثر نہ ہو گا کیونکہ ہندو قوم اب فوجی خدمات کی اہمیت سے کافی طور پر واقف ہو چکی ہے اور وہ اپنے قدیم ملک کو بلا حفاظت چھوڑنے پر کبھی رضامند نہ ہوگی.غرض ہر ملازمت کے لئے دوسری اقوام کے لوگ نہ صرف مل جاویں گے بلکہ شوق سے آگے بڑھیں گے کیونکہ ملازمت تلاش کرنے والوں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں ہے ایسے لوگ مسلمانوں کے اس فیصلہ کو ایک نعمت غیر مترقبہ مجھیں گے اور ان کی بیو تونی پر دل ہی دل میں ہنسیں گے.پس سوائے اس کے کہ اس فیصلہ سے لاکھوں مسلمان اپنی روزی سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور تعلیم سے محروم ہو جاویں اور اپنے حقوق کو جو بوجہ مسلمانوں کے سرکاری ملازمتوں میں کم ہونے کے پہلے ہی تلف ہو رہے ہیں اور زیادہ خطرہ میں ڈال دیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.میں اس جگہ یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری اس تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہندوؤں کے لیڈر جان بوجھ کر مسلمانوں کو اس کام پر آمادہ کر رہے ہیں تا وہ ان کے لئے میدان خالی چھوڑ دیں.میں ان لیڈروں کو جو اس امر میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں دیانت دار سمجھتا ہوں.اور جو کچھ میں کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہندوؤں کا کثیر حصہ اس تجویز میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے اور علاوہ اس تجویز کے بذاتہ غلط ہونے کے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک تمام ملک اس بات پر کاربند ہونے کے لئے تیار نہ ہوگا کبھی بھی اس تجویز کا مفید نتیجہ نہیں نکلے گا.اگر ہندو بھی ساتھ مل جاویں تب بھی ہندوستان کی ملکی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے یورپین اور کر بیچن کافی ہیں.اور فوجی ضروریات کو یوروپین فوج کے علاوہ سکھ اور گورکھے پورا کر سکتے ہیں.اور یہ قومیں ہرگز اس تجویز میں مسلمانوں کا ساتھ نہ دیں گی.پس اگر یہ تجویز فساد کا موجب نہ بھی ہو جو میرے نزدیک یقینا ہوگی.اور اگر تمام کے تمام مسلمان اس پر کار بند ہونے کے لئے تیار بھی ہو جاویں جو یقینا نہ ہوں گے تو بھی اس تجویز پر عمل کر کے حکومت برطانیہ پر دباؤ ڈالنے کی امید رکھنا ایک امر موہوم ہی نہیں بلکہ یقینی طور پر غلط ہے اور اس کے مقابلہ میں یہ بات یقینی ہے کہ اس تجویز پر عمل کر کے مسلمانوں کی رہی سہی طاقت بھی بالکل ٹوٹ جاوے گی اور اس ایک ملک میں بھی جس میں مسلمانوں کی ظاہری حالت کسی قدر اچھی نظر آتی ہے وہ کمزور اور ناطاقت ہو جاویں گے اور اس سب تباہی کا الزام ان کے اپنے سر ہو گا.عرض میرے نزدیک اس وقت تک جس قدر تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ یا تو شریعت کے خلاف ہیں یا نا قابل عمل.اور میرے نزدیک مسلمانوں کا فائدہ اسی میں ہے اور اس زمانہ کے حالات کو مد نظر رکھ کر مسلمانوں کے لئے صرف یہی راہ کھلی ہے کہ وہ متفق اللسان ہو کر یہ بات اتحادی حکومتوں کے

Page 202

انوار العلوم جلد ۵ معاهده ترکیدا و مسلمانوں کا آننده روید گوش گزار کر دیں کہ انہوں نے ترکوں سے شرائط صلح خود اپنے تجویز کردہ قواعد کے خلاف بنائی ہیں اور یہ کہ مسلمان ان کے اندر سیمیت کے تعصب کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے ہیں اور کٹیلٹس کے فوائد کی نگہداشت ان میں مد نظر رکھی گئی ہے.اور وہ ان سے ان کے اس فیصلہ کو تبدیل کرنے کے لئے اپیل کرتے ہیں.اور اگر وہ اس فیصلہ کو تبدیل نہ کریں تو اس فیصلہ کی اپیل وہ ان کی آئندہ نسلوں کی کانشنسوں سے کرتے ہوئے اور اپنے مذہب کے احکام کے ماتحت ہر قسم کے فساد اور شورش سے اجتناب کرتے ہوئے اس امر کے فیصلہ کو خدا پر چھوڑ دیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ ان تجاویز پر عمل کر کے جو اس وقت تک پیش کی جاچکی ہیں اور نہ اس تجویز پر عمل کر کے جو اس وقت میں نے پیش کی ہے ان شرائط میں تبدیلی کرائی جا سکتی ہے جو اتحادیوں نے مقررہ کی ہیں.لیکن اگر مسلمان اس تجویز پرعمل کریں گے جو میں نے بنائی ہے.تو یقینا چند سال کے بعد خود وہی لوگ جو اس وقت اس فیصلہ پر خوش ہیں ورنہ ان کی اولادیں ضرور ان شرائط کو پڑھ کر شرم سے اپنی گردنیں نیچے جھکا لیں گی.اور جس طرح اور بہت سے تاریخی معاملات میں خود اولا دوں نے اپنے آباء کے فیصلوں کو حقارت اور نفرت سے دیکھا ہے اس فیصلہ کو اتحادیوں کی آئندہ نسلیں افسوس اور حیرت کی نگاہ سے دیکھیں گی.لیکن اگر اس کے برخلاف شورش و فساد سے کام لیا گیا تو دلائل کا پہلو ان شرائط کو طے کرنے والوں کے حق میں بھاری ہو جاوے گا.اور خود مسلمانوں کی آئندہ نسلیں مسلمانوں کے اس طریق عمل کے بیان سے شرمائیں گی اور شورش پھیلانے والا رویہ بجائے مفید ہونے کے ان شرائط کی کمزوری پر پردہ ڈال کر دنیا کی نظروں کو اور طرف پھیر دے گا.مگر میرا مشورہ اس حد تک محدود نہیں.جو لوگ کسی فصیل شدہ امر کو جو ان کے فوائد کے لئے مضر ہو اسی جگہ چھوڑ دیتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے.مسلمان تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ سے بھی اس کے فیصلہ کو تبدیل کروا لیتا ہے اور گریہ وزاری اور دعاؤں سے اس کے رحم کو جذب کر لیتا ہے.پس میں صرف اسی کا رروائی کا مشورہ نہ دوں گا بلکہ اس کے علاوہ میرے نزدیک مسلمانوں کو آئندہ کے لئے ایک عملی پروگرام بھی بنانا چاہئے.سب سے پہلے نہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس معاہدہ کی پابندی کا اثر اسلام پر کیا پڑے گا.اس سوال کا جواب دیتے وقت ایک چیز نمایاں طور پر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور وہ ان علاقوں کی نگہداشت ہے جن میں مسلمان بستے ہیں اور جنہیں یونان اور آرمینیا کے سپرد کر دیا گیا ہے.یونانیوں اور آرمینیوں کا تعقرب اسلام سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس کے ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں جو

Page 203

انوار العلوم جلد ۵ JAP معاہدہ ترکیه و مسلمانوں کا آئندہ رویہ کچھ ان دونوں قوموں نے پچھلے دنوں میں مسلمانوں سے کیا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات یقینی طور پر کسی جا سکتی ہے کہ ان کی حکومت میں باوجود یورپ کی تمام تسلیوں کے مسلمانوں کو امن نہ ہو گا ایسی طرح یورپ کے نئے تغیرات کے ماتحت اور کئی علاقوں میں بھی مسلمانوں کو امن نہ ہو گا لپس اس خطرہ سے ان ممالک کے بھائیوں کو بچانے کے لئے فوراً بلا تاخیر ایک عالم گیر لجنہ اسلامیہ قائم ہو جانی چاہئے.جس کا کام یہ ہو کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی مذہبی حالت کی اطلاع رکھے اور اس بات کی خبر رکھے کہ دنیا کے کسی علاقہ میں مسلمانوں کو ظاہر و مخفی ذرائع سے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے یا بصورت دیگر ہلاک ہو جانے پر تو مجبور نہیں کیا جاتا.اور اس غرض کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں ایسے مبلغ بھیجنے چاہئیں جو ہر جگہ کے مسلمانوں کو اپنے مذہب پر ثابت قدمی سے پابند رہنے کی تلقین کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی جگہ کے مسلمانوں کو جبراً تو اسلام سے نہیں ہٹایا جاتا.خواہ وہ جب ظاہری اسباب سے ہو خواہ مخفی اسباب سے وہ اس کی جستجو رکھیں اور جس وقت کوئی ایسی بات معلوم ہو فوراً مرکز کو اس کی اطلاع دیں تاکہ تمام متمدن دنیا کو اس سے اطلاع دی جاوے کیونکہ ظالم کو کس قدر بھی طاقتور ہو جب اسے معلوم ہو کہ میرا ظلم دیکھنے والے موجود ہیں تو اسے بہت کچھ دینا پڑتا ہے اور اپنے نام کا خیال رکھنا پڑتا ہے اس صورت میں بغیر کسی طاقت کے استعمال کے ان غریب مسلمانوں کے مذہب کی نگہداشت ہوسکے گی جو متعصب حکومتوں کے زیر حکومت رہتے ہیں اور دنیا کو بھی ان خفیہ ریشہ دوانیوں سے آگاہی ہوتی رہے گی جو اسلام کے مانے کے لئے بعض حکومتیں کر رہی ہیں اور زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ یورپ کی نظروں میں مسلم ظالم مسلم مظلوم ثابت ہو جاوے گا.یه تجویز ایک نہایت اہم تجویز ہے اور گو میں بالتفصیل اس کے متعلق اس وقت اور اس جگہ نہیں لکھ سکا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو سنجیدگی سے اس پر غور کرے گا اس کی اہمیت کو محسوس کر لیا ہے.اور اس کے وسیع اثرات کا اندازہ لگانے کے قابل ہو جاوے گا.میں اس جگہ یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے بغیر اس امر کا انتظار کئے کہ دوسرے لوگ اس امر کے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہیں اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور مختلف ممالک میں دو دو آدمی اس غرض کے لئے بھیجنے کی تجویز کردی ہے اور میری جماعت کے جانبازوں کی ایک جماعت نے اپنے آپ کو اس غرض کے لئے وقف بھی کیا ہے جو عنقریب سہولت راہ میتر آنے پر اپنے اپنے مفوضہ علاقہ میں چلی جاوے گی.دوسری بات نہیں یہ سوچنی چاہئے کہ اسلام پر اس قدر مصائب کی وجہ کیا ہے ؟ آخر کیا سبب ہے

Page 204

انوار العلوم جلد ۵ JAN معاہدہ ترکیب اور سلمانوں کا آئندہ رویہ کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی دوستی کی بجائے اس سے دشمنی شروع کر دی ہے.وہ خدا جو پہلے اسلام کے لئے اپنے قمری نشان ظاہر کیا کرتا تھا.اب کیوں اس کے لئے اپنی قدرت کے کرشمے ظاہر نہیں کرتا.ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم قرآن کو بھلا دیا ہے اس لئے ان پر یہ آفت آئی ہے انہوں نے خود حضرت مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دے رکھی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی مسیحیوں کو ان پر فضیلت دے دی.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ بجائے اپنے اوقات کو بے فائدہ ضائع کرنے کے خدا تعالیٰ سے صلح کرو اور اس کے فضل کی تلاش کرو اور پھر یاد رکھو کہ جیسا کہ میں نے ستمبر گذشتہ کے اجتماع کے موقع پر تحریر کیا تھا اس وقت اسلام کی ترقی کے لئے ایک ہی راہ گھلی ہے کہ ہم تبلیغ اسلام کے لئے کھڑے ہو جاویں.یورپ کو ترکوں سے نفرت جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ان کی کسی بد انتظامی کی وجہ سے نہیں بلکہ در حقیقت اس کی وجہ یورپ کا یہ خیال ہے کہ اسلام تہذیب کا دشمن ہے اور وہ اس کو اپنی دنیا کا دشمن سمجھ کر جو ان کو بہت عزیز ہے مٹانا چاہتے ہیں ہیں جب تک یورپ کے دل سے بلکہ تمام مسیحی دنیا کے دل سے یہ خیال دُور نہ کیا جاوے گا اس وقت تک ہر گز مسلمانوں کے مصائب دُور نہیں ہو سکتے.درحقیقت یہ ذلت جو اس وقت مسلمانوں کو پہنچ رہی ہے اس قدر زمینی نہیں جس قدر کہ آسمانی ہے قرآن کریم کے صریح احکام کو پس پشت ڈال کر مسلمان اس ذلت کو پہنچے ہیں اور اب وہ اسی صورت میں اس سے نکل سکتے ہیں کہ جب پچھلی غفلتوں کا کفارہ دیں اور اپنے نفسوں کی اصلاح کر کے اس امانت کو پہنچائیں جو سب دنیا کو پہنچانے کے لئے ان کے سپرد کی گئی تھی.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کا فرض مقرر کیا تھا کہ وہ اسلام کو دنیا کے سب کناروں تک پہنچاویں لیکن انہوں نے اس فرض کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ گویا ایک تنکے کے برابر بھی ان کو اس کی پروا نہیں تب خدا تعالیٰ نے ان کو بتا دیا کہ اس فرض کو پورا کرنا خود ان کے لئے مفید تھا نہ کہ خدا تعالیٰ کے لئے.اگر اسلام کو کوئی بھی نہ مانے تب بھی اللہ تعالیٰ کی خدائی میں کچھ فرق نہیں آتا.اگر کچھ فرق آتا ہے تو مسلم کے ایمان میں اور اس کے امن میں پس اپ بھی ان مصائب سے بچنے کا یہی علاج ہے کہ دین اسلام کے غلبہ کے لئے مسلمان کھڑے ہو جاویں.حکومتیں اسلام سے پہلے نہیں آئیں بلکہ بعد میں آئی ہیں.اب اگر اسلام قائم ہو جاوے حکومتیں خود بخود چلی آئیں گی.خوب یاد رکھو کہ مذہبی اتحاد سب سے مضبوط اتحاد ہے.جب دُنیا کی تو میں اسلام کو قبول کر لیں گی تو کیا چیز ہے جو ان کو اسلام کے آثار کے مٹانے پر مائل کرے گی.وہ تو اسلامی آثار کے قیام کے لئے خود بے قرار ہوں گی.پس کیوں اس جماعت کو جو اسلام کو مٹانے کے درپے ہے اسلام کے حلقہ بگوشوں میں داخل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.کیا اس

Page 205

انوار العلوم جلد لله (AA معاہدہ ترکیہ اور سلمانوں کا آئندہ رو به لئے کہ آپ لوگوں کو خود اسلام کی خوبیوں پر یقین نہیں اور اس کی قوت جذب کا تجربہ نہیں.اگر ایسا ہے تو یورپ پر اسلام کی دشمنی کا کیا شکوہ ہے جب خود مسلمانوں کو اس کی خوبیوں پر یقین نہ ہو تو دشمن اس کے حسن کا دلدادہ کیونکر ہو سکتا ہے.یقین مانو کہ اسلام اپنے اندر بہت بڑی قوت جاذبہ رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ فیصلہ بھی کر چکا ہے کہ اسے دنیا میں پھیلا دے اور اس نے اس کے لئے اپنے مامور کو بھیج بھی دیا ہے.اب مایوسی کا وقت نہیں.کیونکہ مایوسی گو ہمیشہ ہی بُری ہوتی ہے مگر اُمید کا سورج جب چڑھ آتا ہے تو تب اس سے زیادہ مکر وہ کوئی چیز نہیں ہوتی پس اُٹھو اور اپنے جوشوں کے پانی کو یونسی زمین پر بننے دینے کی بجائے تبلیغ اسلام کی نہر کے اندار محدود کرد و تا ان کا کوئی فائدہ ہو اور ان سے کام لیا جاسکے.پانی جب سطح زمین پر رہ جاتا ہے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.لیکن وہی پانی جب نہر کی شکل میں بند کر دیا جاتا ہے تو اس سے ہزاروں ایکٹر زمین سیراب کی جاسکتی ہے اور آبشاریں بنا کر اس سے بجلی نکالی جاسکتی ہے.پس اسے احباب کرام! ملک کے جوش کو بیہودہ طور پر ضائع نہ ہونے دو.بلکہ اس سے اسلام کی ترقی کے لئے کام لو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کسی طرح نازل ہوتی اور اسلام کے جلال کو دنیا پر ظاہر کرتی ہے.میری جماعت اس کام کو پہلے سے کر رہی ہے اور اس کام کے لئے آدمی مہیا کرسکتی ہے.پس اگر آپ لوگوں میں سے کوئی اسلام کے خیر خواہ ہوں تو اس کام کے لئے بڑھیں کہ اس سے زیادہ متبرک کام اس وقت کوئی نہیں.اور مینی سیتی اسلامی ہمدردی ہے.ورنہ جلسے کرنا اور ریزولیوشن پاس کرنا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا.اسلام خدا کا بھیجا ہوا دین ہے اور قرآن اس کے منہ کا کلام ہے.میں یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ کمزور انسان اس کو مٹا سکے.خصوصاً وہ انسان جو ایک کزور انسان کو خدا مان کر اس کے آگے سجدہ کرتا ہے.در حقیقت یہ سب و بال مسلمانوں کے اسلام کو پرے پھینک دینے کا ہے.اور افسوس ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اب بھی وہ اس کی طرف متوجہ نظر نہیں آتے.کاش اب بھی مسلمان اس طرف متوجہ ہوں اور ان انعامات میں شریک ہو جاویں جو خدا تعالیٰ خادمان اسلام کو دینا چاہتا ہے در حقیقت وہ اسی امر کا منتظر ہے کہ کس قدر مسلمان اس خدمت میں شامل ہو کر اس کی رضا کو اصل کرتے ہیں.ورنہ اسلام کی ترقی کا وقت آپکا ہے اور خواہ ساری دنیا مل کر اسلام کو مٹانا چاہیے نہیں مٹا سکتی.یہ آخری صدمہ واقع میں آخری صدمہ ہے.اب اسلام کے بڑھنے کے دن شروع ہوتے ہیں.اور اب ہم دیکھیں گے کہ مسیحی کیونکر اس کی بڑھتی ہوئی رو کو روکتے ہیں.خدا کی غیرت اس

Page 206

انوار العلوم جلد ۵ Aч معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ کے مامور کے ذریعہ سے ظاہر ہو چکی ہے اور اب سب دُنیا دیکھ لے گی کہ آئندہ اسلام مسیحیت کو کھانا شروع کر دے گا اور دنیا کا آئندہ مذہب وہی مذہب ہو گا جو اس وقت سب سے کزور مذہب سمجھا جاتا ہے.واخِرُ دَعُونَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَاخِرُدَعُونَنَا خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان دابر الامان ۳۰ مئی ۱۹۲۰ء

Page 207

لوح الهدی از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 208

Page 209

انوار العلوم جلد ۵ ۱۸۹ لوح الهدی لوح الهدى د رقم فرموده حضرت فضل عمر حیف اسی الثانی تمهید ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس ! اے نوجوانان جماعت احمدیہ قدر کی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے ہی اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے.گو ہمارا سلسلہ روحانی ہے مگر چونکہ مذکورہ بالا قانون بھی الہی ہے اس لئے وہ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتا.پس اس کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے.ہم پر واجب ہے کہ آپ لوگوں کو ان فرائض پر آگاہ کر دیں جو آپ پر عائد ہونے والے ہیں اور ان راہوں سے واقف کر دیں جن پر چل کر آپ منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں.اور آپ پر فرض ہے کہ آپ گوش ہوش سے ہماری باتوں کو نہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے.اس غرض کو مد نظر رکھتے ہوتے ہیں نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے.جس میں حتی الوسع وہ تمام نصیحتیں جمع کر دی ہیں جن پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے گو نظم میں اختصار ہوتا ہے مگر یہ اختصار ہی میرے مدعا کے لئے مفید ہے کیونکہ

Page 210

انوار العلوم جلد ۵ 19- لورح الندي اگر رسالہ لکھا جاتا تو اس کو بار بار پڑھنا وقت چاہتا جو ہر شخص کو میر نہ ہو سکتا.مگر نظم میں لیا مضمون تھوڑی عبادت میں آجانے کے باعث ہر ایک شخص آسانی سے اس کا روزانہ مطالعہ بھی کر سکتا ہے اور اس کو ایسی جگہ بھی لڑکا سکتا ہے جہاں اس کی نظر اکثر اوقات پڑتی رہے اور اس طرح اپنی یاد کو تازہ رکھ سکتا ہے.خوب یاد رکھو کہ بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کے اثر بڑے ہوتے ہیں لیں اس میں لکھی ہوئی کوئی بات چھوٹی نہ سمجھو اور ہر ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو.تھوڑے ہی دن میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو گے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اپنے آپ میں اس کام کی اہلیت پیدا ہوتی دیکھو گے جو ایک دن تمہارے سپرد ہونے والا ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارا یہی فرض نہیں کہ اپنی اصلاح کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بعد میں آنے والی نسلوں کی بھی اصلاح کی فکر رکھو اور ان کو نصیحت کرو کہ وہ اگلوں کی فکر رکھیں اور اسی طرح یہ سلسلہ ادائے امانت کا ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتا چلا جاوے تا کہ یہ دریائے فیض جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا ہے ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس کام کے پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے آدم اور اس کی اولاد پیدا کی گئی ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو.اللهم آمين خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی نونهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گزر جائیں گے ہم تم پر پڑے گا سب بار شستیاں ترک کرد طالب آرام نہ ہوتے خدمت دین کو اک فضل الٹی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہوئے دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہوتے سرمیں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برق غضب دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دشنام نہ ہو خیر اندیشی احباب رہے مد نظر عیب چینی نہ کرو مفسد و تمام نہ ہو چھوڑ دو حرص کرو زہد و قناعت پیدا زیر نہ محبوب بنے ہیم دل آرام نہ ہوتے رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو

Page 211

انوار العلوم : 191 پاس ہو مال تو دو اس سے زکوۃ و صدقہ فکر مکیں رہے تم کو غم ایام شن اس کا نہیں کھلتا تمھیں یہ یاد رہے دوش مسلم پر اگر چادر احرام عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشق صنم لب پہ مگر نام نہ عقل کو دین پر حاکم نہ بناؤ ہرگز یہ تو خود اندھی ہے گر نیر السام جو صداقت بھی ہو تم شوق سے مانو اس کو علم کے نام سے تم تابع اوھام نہ ہوتے دشمنی ہو نہ محبان محمد سے تمہیں جو معاند ہیں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو باعث فکر و پریشانی حکام نہ ہوتے اپنی اس عمر کو اک نعمت عظمیٰ سمجھو بعد میں تاکہ تمہیں شکوہ ایام نہ ہو حُسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے دانہ سمجھے ہو جسے تم وہ کہیں دام نہ ہوتے تم مدیر ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہو ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہوتے سیلف رسپیکٹ کا بھی خیال رکھو تم بے شک یہ نہ ہو پر کہ کسی شخص کا اکرام سر ہو ئیسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفس وحشی و جفا کیش اگر رام نه من و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب رشته وصل کہیں قطع سربام نہ بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیب نسواں مرد وہ ہے جو جفاکش ہو گل اندام نہ ہوئے شکل سے دیکھ کے گرنا نہ نگش کی مانند دیکھ لینا کہ کہیں درد نہ جام نہ ہوتے یاد رکھنا کہ کبھی بھی نہیں پاتا عزت یار کی راہ میں جب تک کوئی بدنام نہ ہوتے کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دُور اے مرے اہلِ وفا شمت کبھی کام نہ ہو سست گامزن ہوگئے رہِ صدق و صفا پر گر تم کوئی مشکل نہ رہے گی جو سر انجام نہ ہو حشر کے روزہ نہ کرنا ہمیں رسوا و خراب پیارو آموخته درس وفا خام نہ ہوتے ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو میری تو حق میں تمہارے یہ دُعا ہے پیارو سر بہ اللہ کا سایہ رہے نا کام نہ ہو ظلمت رنج و غم و درد سے محفوظ رہو مہر انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو دالحکم اکتوبر شد ، راکتو

Page 212

انوار العلوم جلد ۱۹۲ ج الأندى جب تک انسان کسی کام کا عادی اپنے آپ کو نہ بنائے اس کا کرنا دو بھر ہو جاتا ہے پس یہ غلط خیال ہے کہ جبے مہ داری پڑے گی دیکھا جائے گا.آج ہی سے اپنے آپ کو خدمت دین کی عادت ڈالنی چاہئے.کبھی خدمت دین کر کے اس پر فخر نہیں کرنا چاہئے یہ خدا کا فضل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو خدمت دین کی توفیق دے بندہ کا احسان کہ وہ خدمت دین کرتا ہے.اور یہ تو حد درجہ کی بیوقوفی ہے کہ خدمت دین کر کے کسی بندہ پر احسان سکے یا اس سے کسی خاص سلوک کی امید رکھے.i اس زمانہ کا اثر اس قسم کا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے عجزو نیاز کرنے کو بھی وضع کے خلاف سمجھتے ہیں اور خدا کے حضور میں ماتھے کا خاک آلود ہونا انہیں ذلت معلوم ہوتا ہے حالانکہ اس کے حضور میں تذل ہی اصل عزت ہے.اس زمانہ میں مادی ترقی کے اثر سے روپے کی محبت بہت بڑھ گئی ہے اور لوگوں کو ہر ایک معاملہ میں روپے کا خیال زیادہ رہتا ہے.روپے کمانا برا نہیں لیکن اس کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتی.جو شخص رات دن اپنی تنخواہ کی زیادتی اور آمد کی ترقی کی فکر میں لگا رہتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کے قرب کے حاصل کرنے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کا موقع کب مل سکتا ہے.مومن کا دل قانع ہونا چاہئے.ایک حد تک کوشش کرے پھر جو کچھ ملتا ہے اس پر خوش ہو کہ خدا تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرے.اس بڑھی ہوئی حرص کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ لوگ خدمت دیں کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کر سکتے اور دینی کاموں کے متعلق بھی ان کا یہی سوال رہتا ہے کہ ہمیں کیا ملے گا اور مقابلہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر فلاں دنیا کا کام کریں تو یہ ملتا ہے اس دینی کام پر یہ ملتا ہے ہمارا کس میں فائدہ ہے.گویا وہ دینی کام کسی کا ذاتی کام ہے جس کے بدلہ میں یہ معاوضہ کے خواہاں ہیں.حالانکہ وہ کام ان کا بھی کام ہے اور جو کچھ ان کو مل جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ہے.اور اس مال کی محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کا امن اُٹھ رہا ہے.ضروریات ایسی شے ہیں کہ ان کو جس قدر بڑھاؤ بڑھتی جاتی ہیں.پس قناعت کی حد بندی توڑ کر پھر کوئی جگہ نہیں رہتی جہاں انسان قدم کا سکے.کروڑوں کے مالک بھی تنگی کے شاکی نظر آتے ہیں.جس کے ہاتھ سے قناعت گئی اور اور مال کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوئی وہ خود بھی دکھ میں رہتا ہے اور دوسروں کو بھی دکھ دیتا ہے خدا تعالیٰ سے تو اس کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا.فکر مسکین رہے یعنی یہ غم ہ ہو کہ اگر غریب کی مدد کریں گے تو ہمارا روپیہ کم ہو جائے گا پھر ضرورت کے وقت کیا کرینگے جو اس وقت متحاج ہے اس کی دستگیری کرو اور آئندہ ضروریات کو خدا پر چھوڑ دو.بیج ایک نہایت ضروری فرض ہے ، نئی تعلیم کے دلدادہ اس کی طرف سے بہت غافل ہیں حالانکہ اسلام کی ترقی کے اسباب میں سے یہ ایک بڑا سبب ہے.طاقت حج سے یہ مراد نہیں کہ کروڑوں روپیہ پاس ہو.ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اگر اخلاص سے کام سے تو حج کے سامان مہیا کر سکتا ہے.

Page 213

انوار العلوم جلد ۵ -|· 11- ۱۴ لوح الندى نماز کے علاوہ ایک جگہ بیٹھ کر تسمع وتحمید کی کرنا یا کاموں سے فراغت کے وقت تسبیح وتحمید و تکبیر کرنا دل کو روشن کر دیتا ہے.اس میں آج کل لوگ بہت سمستی کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رُوحانی صفائی بھی حاصل نہیں ہوتی نمازوں کے پہلے یا بعد اس کا خاص موقع ہے.ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ مذہب کو سچا سمجھ کر مانے یوں ہی اگر پیچھے دین کو بھی مان لیا جائے تو کچھ فائدہ نہیں لیکن جب پوری طرح یقین کر کے ایک بات کو مانا جائے تو پھر کسی کا حق نہیں کہ اس کی تفصیلات اگر اس کی عقل کے مطابق نہ ہوں تو ان پر محبت کرے.روحانیات کا سلسلہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم ہے.بہیں عقل اور مذہب کا مقابلہ نہیں بلکہ عقل کو مذہب پر حاکم بنانے سے یہ مطلب ہوگا کہ آیا ہماری عقل زیادہ معتبر ہے یا خدا تعالیٰ کا علم نعوذ باللہ من ذلك.ہاں یہ یات دریافت کرنی بھی ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ مذہب کا حصہ ہے بھی یا نہیں.آج کل یورپ سے جو آواز آوے اور وہ کسی فلاسفر اور سائنس دان کی طرف منسوب ہو تو جھٹ اس کا نام علم رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کہنے والوں کو علم کا دشمن کہا جاتا ہے.یہ نادانی ہے.جو بات مشاہدوں سے ثابت ہو اس کا انکار کرنا جہالت ہے.لیکن بلا ثبوت صرف بعض فلسفیوں کی تھیوریوں کو علم سمجھ کر قبول کرنا بھی کم عقلی ہے.اس وقت بہت سے یورپ کے نو ایجاد علوم تھیوریوں (قیاسات سے بڑھ کر حقیقت نہیں رکھتے ان کے اجزاء ثابت ہیں لیکن ان کو ملا کر جو نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہوتا ہے.لیکن علوم جدیدہ کے شیدائی اس امر پر غور کئے بغیر ان وہموں کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں.مومن کا فرض ہے کہ بجائے حقارت اور نفرت سے کام لینے کے محبت سے کام لے اور ان کو پھیلا ہے مومن کا وطن سب دنیا ہے.اس سے جہاں تک ممکن ہو تمام فریقوں میں جائز طور پر ضلع کرانے کی کوشش کرے.اور قانون کی پابندی کرے.اچھی بات خواہ دین کے متعلق ہو خواہ دنیا کے متعلق اچھی ہی ہوتی ہے گر بہت دفعہ بری باتیں اچھی شکل میں پیش کی جاتی ہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے.انگریزی کی مثل ہے دنیاوی ترقی کے ساتھ اگر دین نہیں تو ہمیں کچھ خوشی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر یہ اصل مقصد ہوتی تو پھر میں اسلام اختیار کرنے کی ALL THAT GLITTERS IS NOT GOLD کیا ضرورت تھی.پھر سیجیت جو اس وقت ہر قسم کے دنیا دی سلمان رکھتی ہے اس کو کیوں قبول کر لیتے.آج کل لوگ سلف ریسپکٹ کے نام سے بزرگوں کا ادب چھوڑ بیٹھے ہیں.حالانکہ صحیح عزت کے لئے ادب کا قائم رکھنا ضروری ہے.اگر ادب نہ ہو تو تربیت بھی درست نہیں ہو سکتی.سلف رسپیکٹ کے تو یہ معنی ہیں کہ انسان کمینہ نہ بنے نہ کہ بے ادب ہو جائے.کسی زمانہ ، کسی وقت، کسی حالت میں اسلام کی تبلیغ کو نہ چھوڑو.ایک دفعہ اس کے خطرناک نتائج دیکھ چکے ہیں.نہ نگی تمہاری کوششوں کو سست کرے کہ ہر تکلیف سے نجات اسی کام سے وابستہ ہے اور نہ ترقی تم کو سست کر دے کیونکہ جب تک

Page 214

۱۹۴ لوج المدى -10 -14 -14 - A ایک آدمی بھی اسلام سے باہر ہے تمہارا فرض ادا نہیں ہوا اور ممکن ہے کہ وہ ایک آدمی کفر کا بیج بن کر ایک درخت اور درخت سے جنگل بن جائے.سب سے پہلا فرض اصلاح نفس ہے اگر اس کے فلم ہوتے رہیں اوران کی اصلاح نہ ہو تو دوسروں کی اصلاح تم کو اس قدر نفع نہیں پہنچا سکتی.انسان نیکی کرتے کرتے کبھی خدا تعالیٰ کا پیارا بننے والا ہوتا ہے کہ احسان جتا کر پھر میں آگرتا ہے جہاں سے ترقی شروع کی تھی.اور چوٹی پر پہنچ کر گر جاتا ہے اس کی ہمیشہ احتیاط رکھنی چاہئے.کیونکہ وہ محنت جو ضائع ہو جاتی ہے حوصلہ کو پست کر دیتی ہے.صفائی اچھی چیز ہے مگر نازک بدنی اور جسم کے سنگار میں مشغول رہنا اور حسن ظاہری کی فکر میں رہنا یہ مرد کا کام نہیں عورتوں کو خدا تعالٰی نے اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ علاوہ دوسرے فرائض کی ادائیگی کے جو بحیثیت انسان ہونے کے ان کے ذمہ ہیں مرد کی اس خواہش کو بھی پورا کریں.مرد کے ذمہ جو کام لگائے گئے ہیں وہ جفاکشی اور محنت کی برداشت کی عادت چاہتے ہیں ہیں جسم کو سختی برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور چونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اس لئے زینت اور سنگار میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.جس طرح بڑی چیز اچھی شکل میں پیش ہو جائے تو دھوکا لگ جاتا ہے اس طرح کبھی اچھی چیز کے اندر بری مل جاتی ہے اور اس کے اثر کو خراب کر دیتی ہے پس ہر ایک کام کو کرتے وقت اور ہر ایک خیال کو قبول کرتے وقت یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ اس کا کوئی سیلو تو برا نہیں.اگر مخفی طور پر اس میں برائی ملی ہوئی ہو تو اس سے بچنا چاہئے.وا.بعض لوگ دینی کاموں میں حصہ لینے سے اس خیال سے ڈرتے ہیں کہ لوگ بُرا کہیں گے یا ہنسی کریں گے.حالانکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بدنام ہونا ہی اصل عزت ہے.اور کبھی کسی نے دینی عزت حاصل نہیں کی جب تک دنیا میں پاگل اور قابل ہنسی نہیں سمجھا گیا.یعنی جو کچھ دین کی محبت اور خدا تعالیٰ سے عشق کے متعلق ہم سے سیکھ چکے ہو اس کو خوب یاد کرو.البیا نہ ہو کہ ریسبی کچار ہے اور قیامت کے دن سنانہ سکو اور ہیں جنہیں اس سبق کے پڑھانے کا کام سپرد کیا ہے شرمندگی اٹھانی پڑے.دوسروں کے شاگرد فرفر سنا جاویں اور تم یوں ہی رہ جاؤ.والسلام مع الاکرام -** خاکسار مرزا محمد احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 215

۱۹۵ ترک موالات اور احکام اسلام از سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 216

Page 217

انوار العلوم جلد ۵ 194 التماس ضروری ترک موالات اور احکام اسلام ايها الأحباب ! السلام عليكم میں نے یہ رسالہ محض ہمدردی احباب کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے اور امید کرتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ہر ایک وہ شخص جو قرآن کریم اور ارشادات نبوی کا شیدائی ہے ترک موالات کے مسئلہ کے متعلق صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہو جائے گا لیکن میری غرض اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک یہ رسالہ تمام ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ پہنچے جن کو اس مسئلہ سے ایک یا دوسرے رنگ میں دلچسپی ہے.پس میری ان تمام اصحاب سے جو ملت خیرا نام سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے احیاء کے متمنی ہیں.درخواست ہے کہ وہ اس رسالہ کو جہاں تک ہو سکے اپنے دوستوں، واقفوں ، شنا ساؤں اور ہم وطنوں تک پہنچائیں.اور اس خطرناک کرو کے روکنے میں پوری سعی کریں جو اسلام کے بدنام کرنے کا باعث ہو رہی ہے اورمسلمانوں کی رہی سہی طاقت کے مٹانے کا ذریعہ بن رہی ہے.یہ وقت غفلت کا نہیں ہے.اسلام پہلے ہی بہت صدمہ خوردہ ہے اور اس کی پاک اور پُر امن تعلیم پر پہلے ہی نہایت میلے کچیلے غلاف ڈالے جاچکے ہیں اب زیادہ تعلل قابل برداشت نہیں.پس اُٹھو اور بلا کسی ملامت کے خوف اور لوگوں کے طعنوں کے ڈر کے اس کی مدد کے لئے کھڑے ہو جاؤ.بے شک لوگ آپ کو ترک موالات کے مخالف کی وجہ سے بزدل کہیں گے اور خوشامدی نام رکھیں گے لیکن اگر اسلام کی محبت کے لئے آپ یہ کام کریں گے تو یہ باتیں آپ کا نقصان نہیں کر سکتیں.وہ شخص بہادر نہیں ہوتا جو بزدل کہلانے سے ڈر جاتا ہے اور نہ وہ بزدل ہوتا ہے جو حق کو اس لئے نہیں چھوڑ دیتا کہ لوگ اسے بزدل کہیں گے.خاکسار میرزا محمود احمد

Page 218

Page 219

انوار العلوم جلد ۵ 199 ترک موالات او را حکام اسلام ترک موالات اور احکام اسلام اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ لسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَل عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ ھوالا خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اور ہندوستان کی موجودہ بے چینی ان ایام میں تمام ہندستانوں میں عوام اورمسلمانوںمیں خصوصاً جو بے اطمینانی اور جوش پھیل رہا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی انسان اس کی طرف سے آنکھ بند کر رکھے تکلیف اور دکھ تو غیر کا بھی نہیں دیکھا جاتا کجا یہ کہ اپنے بھائیوں اور اہل وطن کا.پس اس غیر مطمئن اور گھبراہٹ کی حالت کو دیکھ کر جو مسلمانوں پر خصوصاً اور باقی اہل ہند پر عموما طاری ہے ایک درد مند دل درد محسوس کئے بغیر اور اس سے نجات دلانے کے لئے جد و جہد کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.اس غیر مطمئن حالت کی دو بڑی وجوہ بیان کی جاتی ہیں ایک وہ فیصلہ بے چینی کی وجوہات جو تر کی حکومت کے متعلق اتحادی حکومتوں نے کیا ہے اور ایک وہ ہتک آمیز اور سخت رویہ جو شورش پنجاب کے وقت بعض افسران گورنمنٹ نے اختیار کیا تھا اور جس کی بڑی مثالیں رینگ کر چلنے کا حکم اور جلیانوالہ باغ کے واقعات ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں معاملوں میں گورنمنٹ اور گورنمنٹ کے افسران سے ضرور غلطی ہوئی ہے.اول الذکر فیصلہ میں بعض ان امیدوں کو جو خود وزراء انگلستان نے بلا مسلمانان عالم کے مطالبہ کے دلائی تھیں پورا نہیں کیا گیا اور یقیناً ترکوں سے وہ سلوک نہیں کیا گیا جود دوسری مسیحی حکومتوں

Page 220

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام سے کیا گیا ہے.ترک مجرم سی مگر وہ اتنا مجرم نہ تھا جتنا کہ جرمن بیکن تبرمن سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے اس قدر سلوک بھی ترک سے نہیں کیا گیا اور بیل ان اعلانوں کے باوجود ہوا ہے جو اس سے پہلے شائع کئے جاچکے تھے اور جن میں بالکل برعکس فیصلہ کی اُمید دلائی جاتی تھی.اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ درینگ کر چلنے کا حکم الیسا وحشیانہ اور ظالمانہ ہے کہ کوئی شخص بھی اسے برداشت نہیں کر سکتا اور اس کے خلاف اگر ہندوستانیوں کو غصتہ پیدا ہو تو یہ کوئی تعجب کا مقام نہیں.اسی طرح جلیا نوالے باغ کے واقعہ میں بھی جس سختی سے کام لیا گیا ہے وہ نہایت ہی قابل افسوس ہے اور جنرل ڈائر کا یہ قول کہ وہ اس لئے گولیاں چلاتے گئے کہ تاملک کے دوسرے حصہ پر اثر ہو اور بغاوت فرو ہو جاو ہے ان کے مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں.یہ بیان کہ جنرل ڈائر کا فعل اجتہادی غلطی ہے درست نہیں.کیونکہ اجتہادی غلطی وہ ہوتی ہے کہ جس کا وقوع ایسے حالات میں ہو کہ اس کام کے کرنے یا نہ کرنے دونوں کے دلائل موجود ہوں لیکن اس جماعت پر گولیاں چلانا جو ہتھیار ڈال چکی ہو اور اپنے عمل سے اپنی غلطی کا اقرار کر ر ہی ہو خود میدان جنگ میں بھی جائز نہیں.جب کوئی فوج ہتھیار ڈال دے تو اس پر وار کرنا جائز نہیں.بارہا جرمن فوجوں کے خلاف یہ خبر شائع کی جاتی تھی کہ بعض جگہ صلح کی جھنڈیاں دیکھ کر بھی وہ گولہ باری سے باز نہیں آتے تھے اور اس طرح ان کا وحشیانہ پن ثابت کیا جاتا تھا.پھر وہی بات جو میدان جنگ میں بھی نا جائز تھی ایک ایسی جماعت کے مقابلہ میں کسی طرح جائز ہو سکتی تھی جو گو احکام کی خلاف ورزی کرنے والی توضرور تھی لیکن نہ تو ان معنوں میں بر سر جنگ تھی جن معنوں میں کہ ایک فوج دوسری فوج سے بر سر جنگ ہوتی ہے اور نہ مارشل لاء کے قواعد سے واقف تھی کیونکہ یہ قانون ان کی زندگی میں پہلی دفعہ جاری ہوا تھا.اور ایک تجربہ کار جرنیل اس امر سے کس طرح نا واقف ہو سکتا تھا ؟ کہ جب ایک فوج ہتھیار ڈال دے تو دوسری فوجوں پر رعب ڈالنے کے لئے اس پر گولیاں چلانے کی اجازت نہیں ہوتی.ہیگ تنویٹیشن میں صاف طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اس دشمن کو زخمی کرنا یا مارنا جس نے اپنے ہتھیار ڈال دیئے ہوں یا جس کے پاس اپنی حفاظت کا کوئی سامان نہ رہا ہو اور اس نے مقابلہ ترک کر دیا ہو بالکل ناجائز ہوگا اسی کر طرح یہ کہ یہ اعلان کر دیا کہ خواہ دشمن مقابلہ ترک ہی کردے اس سے رحم کا سلوک نہ کیا جاوے گا جائز نہ ہوگا.مارشل لاء کے قوانین میں یہ شرط ہے کہ فوجی قوانین کا لحاظ کیا جاوے اور ملوں کے دبانے کے لئے جو اختیارات فوجیوں اور پولیس کو دیئے گئے ہیں ان میں کہیں نہیں لکھا کہ ان کا کام یہ ہے کہ رعب ڈال

Page 221

انوار العلوم جلد ۵ ۲۰۱ ترک موالات اور احکام اسلام کر بلوہ کو مٹائیں.بلکہ ان کا کام ہر فساد کے موقع پر اس خاص صورت کا لحاظ کرنا ہے جو اس وقت ان کے سامنے ہے.اور جان لینا اسی وقت جائز رکھا گیا ہے جب کہ باغی جائیداد تباہ کر رہے ہوں یا قتل و غارت میں مشغول ہوں یا افسروں کے احکام کے با وجود اجتماع کو پراگندہ نہ کریں اور پراگندہ کرنے کی کوشش میں سرکاری آدمیوں کا مقابلہ کریں.لیکن یہ صورت جلیانوالہ باغ میں پیدا نہ تھی لوگ پراگندہ ہونے شروع ہو گئے تھے اور ان کے بھاگنے پر ان پر گولیاں چلانا نہ فوجی قانون کے لحاظ سے جائز تھا نہ ملکی قانون کے لحاظ سے اور اس میں تجربہ کار جرنیل کو دھوکا نہیں لگ سکتا تھا.یہ واقعات واپس نہیں ہو سکتے غرض یہ دونوں واقعات ضرور ظالم نہ تھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی قوم ان گذشتہ واقعات کو جو ہو چکے ہوں پھیر سکتی ہے ؟ یقیناً جو ہو چکا سو ہو چکا.اور اب اس فعل کو واپس نہیں کیا جا سکتا.پس اس اعلان کو مدنظر رکھتے ہوئے جو حضور قیصر ہند کی طرف سے پچھلے سال شائع ہوا تھا اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہندوستانیوں میں سے وہ لوگ جنہوں نے اس موقع پر قانون کی اس طرح پابندی نہیں کی جس طرح کہ کرنی چاہئے تھی رہا کر دیئے گئے ہیں اور ان کے جُرم معاف کر دئے گئے ہیں.ہمیں بھی چاہئے کہ ان گذشتہ واقعات کی تاریک یاد کو دل سے نکال دیں اور آئندہ کی بہتری کی طرف توجہ کریں.اسے عزیز و اصلح اور محبت ایک پاک چیز ہے اور فساد اور فتنہ ناپاک ہے.خدا کا پیارا بننے کے لئے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کے لئے محبت اور عفو کا پیدا کرنا ضروری ہے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری : ۱) یعنی جو شخص در گزر کرتا ہے اور اصلاح سے کام لیتا ہے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ پر ہے.تمہاری خفگی اور غصہ کی جو غرض تھی وہ پوری ہو گئی.وہ لوگ جن سے یہ افعال ہوئے تھے ان کے افعال کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا گورنمنٹ نے اس بات کا عہد کر لیا کہ آئندہ پوری اختیاط کی جاوے گی اور اس قسم کے واقعات نہ ہونے دیے جاویں گے.اس اخلاقی فتح سے زیادہ اور آپ لوگ کیا حاصل کر سکتے تھے ؟ اگر جنرل ڈائر کو کوئی قتل بھی کر دے یا بعض اور افسروں کو مار ڈالا جائے تو کیا یہ بات اس سے زیادہ ہوگی جواب آپ لوگوں کو حاصل ہوئی ہے یعنی ان کے افعال کو غیر منصفانہ قرار دیا گیا ہے.ان کو ملازمتوں سے ریٹائر کر دیا گیا ہے اور آئندہ کے لئے ایسے واقعات کو روکنے کے لئے گورنمنٹ نے وعدہ دیا ہے اور اس کے لئے قواعد بھی بنا دیتے ہیں.

Page 222

انوار العلوم جلد ۵ ۲۰۲ ترک موالات اور احکام اسلام جنرل ڈائر کے حامیوں اور ان کے مخالفین کی غلطی یہ کیا ہے کہ بعض انگریز تنصیب سچ کی وجہ سے جنرل ڈائر کی مدد کے لئے چندہ جمع کر رہے ہیں لیکن اسے عزیزو! یہ غلطی آپ سے بھی ہوئی ہے کہ جلیا نوالہ باغ کے مقتولوں کی یادگار کو آپ نے بھی تازہ رکھنے کی کوشش کی ہے.بے شک یہ ان لوگوں پر ظلم ہوا کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے جلسہ کو منتشر کرنا چاہا اور اس جگہ سے جانے کے لئے تیار ہو گئے ، ان پر گولیاں برسائی جاتی رہیں اور دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے وہ قربان کئے گئے.مگر اسے عزیز و اکیا اس میں کوئی شک ہے کہ گو ان کی یہ سزا نہ تھی جو دی گئی مگر کیا وہ حکومت کے قوانین کو توڑنے والے نہ تھے جس طرح جنرل ڈائر کی یاد کو تازہ رکھ کر بعض انگریز غلطی کر رہے ہیں اور اس کے فعل کو پسند کر کے ظلم کے موید بن رہے ہیں اور اپنی قوم پر ایک دھبہ لگا رہے ہیں.اسی طرح کیا وہ لوگ غلطی نہیں محمر رہے جنہوں نے جلیانوالہ باغ کے مقتولوں کے لئے چندہ جمع کیا اور کیا وہ یاد گار جو اس روپیہ سے قائم کی جائے گی ہمیشہ کے لئے ہندوستان کی آئندہ نسلوں کو اس امر کی طرف متوجہ نہ کرے گی کہ حکومت کے قوانین کو توڑنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا ؟ اور کیا آئندہ جب ہندوستان کو حکومت خود اختیاری لے گئی تو ہم میں سے بعض کا یہ فعل اس حکومت کے انتظام میں خلل ڈالنے والا نہ ہوگا ؟ بے شک بعض کہیں گے کہ ظالمانہ حکم کا مقابلہ کرنا چاہیئے.لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ ایک ہی حکم کو ایک شخص ظالمانہ اور دوسرا غیر ظالمانہ قرار دیتا ہے اور یہ بات لوگوں پر چھوڑ دینا کہ وہ ظالمانہ یا غیر ظالمانہ احکام میں آپ ہی امتیاز کر لیا کریں اور جو حکم ان کو ظالمانہ نظر آوے اس کی پابندی نہ کیا کریں ایسا خطرناک قدم ہے کہ اس کے اُٹھاتے ہی انسان امن و صلح کے میدان سے نکل کر فساد و شورش کے علاقہ میں داخل ہو جاتا ہے ظالمانہ فعل دہی ہے جس کا اختیار قانون کسی کو نہ دیتا ہو اور اگر قانون ہی کسی فعل کو جائز قرار دیتا ہے تو خواہ وہ ظالمات نظر آوے اس کا توڑنا خلاف اصل ہے.ظلم برداشت کر سکنے کی طاقت خود ایک تربیت ہے جو مدارج عالیہ کے حصول کے لئے ضروری ہے.اور اگر کوئی شخص ایسے قانون کی پابندی نہیں کر سکتا تو اس کا فرض ہے کہ ملک کا امن تباہ کرنے کی بجائے خود اس ملک کو چھوڑ کر چلا جائے اور دوسروں کے امن کو برباد نہ کرے.پس اسے برادران با یہ دونوں فعل نادرست ہیں جنہوں نے جنرل ڈائر کی حمایت کی یا زمین پر رینگنے کے حکم کو جائز قرار دیا یا جنہوں نے جنرل ڈائر کی مدد کے لئے چندہ جمع کیا انہوں نے ظلم کی حمایت کی اور عدل و انصاف کو قومی تعصب پر قربان کر دیا بلکہ اپنے قومی فوائد کو دھڑہ بندی پر قربان کر دیا.اسی طرح

Page 223

انوار العلوم جلد ۵ ۲۰۳ ترک موالات اور احکام اسلام جنہوں نے جلیانوالہ باغ کے مقتولین کی یادگار کے لئے چندہ جمع کیا انہوں نے بھی قانون شکنی کے فعل کو سراہا اور آئندہ کے لئے لوگوں کو حکومت کے احکام کو پس پست ڈالنے کی ترغیب دے کر ہندوستان کے مستقبل کو تاریک کرنا چاہا.پس ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ اگر قانون شکنی کی روح کو اس طرح پیدا کیا گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا.گورنمنٹ برطانیہ کا خیال دل سے نکال کر یہ تو سوچو کہ اگر ہندوستانیوں کی اپنی حکومت ہو تو کیا تم اس کو جائز سمجھو گے کہ حکومت کے جس حکم کو کوئی درست نہ سمجھے اس کو رد کرے اور اس کا مقابلہ کرے جنا کیا کسی حکومت کا کوئی بھی حکم ہے کہ جسے ساری کی ساری رعایا درست سمجھتی ہو ؟ پھر کیا جو لوگ کسی حکم کو درست نہ بجھیں ان کاحق ہے کہ اس حکم کو مانے سے انکار کر دیں ؟ اگر یہ طریق جائز قرار دیا جائے تو کیا کوئی حکومت بھی جو خواہ کیسی ہی آزاد اور کیسی ہی اعلیٰ ہو قائم رہ سکتی ہے ؟ ذرا سوچیں تو سہی کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ کیا آپ پسند کریں گے ؟ کہ ہندوستان کی حکومت مثلاً یہ حکم دے کہ چور کو قید کیا جائے لیکن ایک مسلمان جس کے مذہب میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے وہ اس حکم کو غیر منصفانہ اور ظالمانہ قرار دے کر خود چور کے ہاتھ کاٹ دے.یا ہندوستان کی حکومت زانی کو قانونی مجرم ہ قرار دے تو ایک مسلمان اس کو اپنے طور پر پکڑ کر رحم کر دے یا اور اسی قسم کے معاملات میں جو جس حکم کو ظالمانہ سمجھے اس کے خلاف کرنے لگ جائے.یاد رکھیں کہ وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس میں قانون کے احترام کا مادہ ہو.میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہو گا.مگر میں اپنی نسبت کہ سکتا ہوں کہ میں تو اپنی اولاد کے متعلق ہرگز یہ پسند نہ کروں گا کہ وہ کبھی بھی کسی حکومت کے احکام کو ظالمانہ قرار دے کر ان کی تعمیل سے انکار کر دے.ہاں میں یہ پسند کروں گا کہ اگر وہ فی الواقع کسی حکومت کو ظالم سمجھتی ہے تو اپنے منافع کا خیال چھوڑ کر اس کی حدود سے باہر نکل جائے اور دنیوی فوائد کو اپنے ضمیر کی تسلی پر قربان کر دے.ہاں یہ بھی ضرور ہے کہ اس امرکا خیال بھی رکھ لے کہ بھی انسان فیصلہ کرنے میں غلطی بھی کرتا ہے پس چھوٹے چھوٹے امور پر اور جلد بازی سے غصہ میں نہ آجاوے.شائد بعض لوگ کہہ دیں کہ تم میں وہ قومی جوش اور غیرت نہیں ہے جو ہم میں ہے.مگر انہیں یاد رہے کہ قومی غیرت اس چیز کا نام نہیں کہ انسان موقع بے موقع طیش میں آجایا کرے اور اس غصہ کی حالت میں خود اپنی قوم کے اخلاق پر دھبہ لگا دے بلکہ قومی غیرت اس کا نام ہے کہ انسان اپنے جوشوں پر قابو رکھے اور اپنی قوم کے نام کو خلاف مذہب اور خلاف اخلاق اور خلاف تمدن افعال کے الزام سے پاک رکھے.پس قومی غیرت کا فقدان نہیں بلکہ خود قومی غیرت مجھے اس امر پر مجبور کرتی ہے کہ ہندوستان کے نیک نام کی حفاظت کروں اور یہ میرے رب کی محبت ہے جو مجھے آمادہ کرتی ہے کہ میں اس کے بندوں !

Page 224

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام کو صحیح راستہ کی طرف ہدایت کروں.مجھے گورنمنٹ سے کیا فائدہ ہے کہ میں اس کی تائید کروں ، گورنٹ کا ہمارے خاندان سے تحریری وعدہ تھا کہ وہ اسے کسی وقت پھر اس کی پرانی شوکت پر قائم کرنے کی صورت کرے گی لیکن ہم تو اس کے ان پرانے وعدوں سے بھی فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتے اور ا سے وه و عدہ یاد دلانے میں بھی اپنی ہتک خیال کرتے ہیں کجا یہ کہ اس سے اور کچھ مانگیں یا اگر وہ دے تو اسے قبول کریں.پس میری نصیحت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اور اپنے ملک کے نیک نام کے قائم رکھنے کے لئے ہے نہ کسی اور غرض ہے.غرض اسے بھائیو ! حتی یہی ہے کہ جلیانوالہ باغ کا جلسہ کرنے والوں نے قانون شکنی کی اور ان کے غلطی کا عملی طور پر اعتراف کرلینے پر بھی گولیاں چلاتے جانے والے نے ظلم سے کام لیا.مگر جب حکومت نے اس غلطی کا اعتراف کر لیا اور آئندہ کے لئے وعدہ کرلیا کہ ایسا نہ ہوگا تو پھر ہمارا اس تلخ یاد کو تازہ رھنا مذہباً اور اخلاقاً ایک مذموم فعل ہے اب ہمیں اس واقعہ کو بھلا کر محنت اور کوشش سے امن کو قائم کرنا چاہئے.یہی اسلام کا مدعا ہے اور اسی کی تعلیم ہر ایک مذہب اپنے اپنے رنگ میں دیتا ہے.ترکی کے متعلق اتحادیوں کا فیصلہ شورش پنجاب کے متعلق تو میں اس وقت اسی قدر لکھنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے اس وقت ایک ایسے امر کے متعلق..کچھ لکھنا ہے جو اس واقعہ سے بھی زیادہ لوگوں کے اندر بے اطمینانی پیدا کر رہا ہے میری مراد اس سے وہ فیصلہ ہے جو اتحادی دُوں نے ترکی حکومت کے متعلق کیا ہے.میں لکھ چکا ہوں کہ ترکی حکومت کے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرتے وقت اتحادی دُول نے اس دور اندیشی سے کام نہیں لیا جس کا یہ امستحق تھا وہ کہتے ہیں کہ ہم دور اندیشی کی وجہ سے مجبور تھے کہ یہی فیصلہ کرتے جو ہم نے کیا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ بزبان حال پکار رہا ہے کہ اس کے کرتے وقت دور اندیشی اتحادی نوابوں کے قریب بھی نہیں پھینکی.وہ بیٹھے تو اس غرض سے تھے کہ آئندہ کے لئے فادات کا امکان جاتا رہے مگر کام ان سے وہ ہوا ہے جس نے کروڑوں آدمیوں کے دلوں میں آگ لگا دی ہے اور جس کی موجودگی میں وہ اس امن کے امید وار نہیں ہو سکتے جس کے وہ خواہش مند تھے.کوئی شخص آگ بھڑکا کر ٹھنڈک نہیں پیدا کر سکتا نہ قومی اور مذہبی عناد کو انتھار کر صلح کی امید رکھ سکتا ہے.اس میں کوئی تک نہیں اور کم سے کم میرا یہ یقین ہے کہ گو مذہبی تعصب اس معاہدہ کو جو ترکوں سے کیا گیا ہے باعث نہیں مگر مذہبی تعصب کا اثر اس معاہدہ پر ضرور ہے اور یہی سبب ہے کہ اس کی شرائط ان اُصول کے خلاف ہیں جو اتحادیوں نے خود ہی مقرر کئے تھے جیسا کہ میں اپنے مضمون بنام "معاہدہ ترکیہ

Page 225

۲۰۵ ترک موالات اور احکام اسلام اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ" میں لکھ چکا ہوں بعض ممالک ترکوں سے ایسے لے لئے گئے ہیں جو ان سے نہیں لینے چاہئیں اور بعض اور علاقوں کو وہ آزادی نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے.آرمینیا باوجود وحشی ہونے کے آزاد ہے لیکن شام اور عراق اب تک اس آزادی کو حاصل نہیں کر سکے حالانکہ آرمینی بی وقفت بے بس مسلمانوں کے گلے کاٹنے میں لگے ہوئے تھے اس وقت عرب اتحادیوں کی مدد کے لئے اپنے گلے کٹوا رہے تھے.امیر فصل جس نے اپنے آرام اور اپنے چین کو اتحادیوں کے لئے قربان کر دیا تھا اس کے ساتھ سخت وعدہ خلافی کی گئی ہے اور وہ آج کسمپرسی کی حالت میں ہے کوئی اس کا پرسان حال نہیں.اتحادیوں نے وعدے ان معنوں میں یہ بات بھی درست ہے کہ اتحادی ونداء کے و عدسے ان معنوں میں پورے نہیں ہوئے جو پورے نہیں کئے جو سمجھے جاتے ہیں معنی کہ اس وقت ان کے سمجھے جاتے تھے جب ان کا اعلان ہوا تھا اور گو وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت بھی ہمارا ی مطلب نہ تھا جو لوگ سمجھتے ہیں میگر وہ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ لوگ تو وہی معنی سمجھ سکتے ہیں جو الفاظ سے ظاہر ہوں تاویلات بعیدہ لوگوں کے ذہن میں کیونکر آسکتی ہیں اور ایسے خطرناک موقع پر جب جنگ ہو رہی تھی اگر کوئی ان کے الفاظ پر یہ اعتراض کر بھی بیٹھنا کہ ان کے اور معنی بھی ہو سکتے ہیں تو خود یہی وزراء اس شخص کے اس فعل کو نا پسند کرتے اور فساد پھیلانے والا قرار دیتے ہیں اگر انہوں نے باوجود علم و فضل کے ایسے الفاظ استعمال کئے تھے جن کے عام طور پر اور ہی معنے سمجھنے گئے اور پھر انہوں نے ان معنوں کی دوسرے اوقات میں بھی تردید نہیں کی تو اس غلطی کے ذمہ دار وہی وزراء ہو سکتے تھے نہ کہ دوسرے لوگ اور ان کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ اپنے ملک کی عزت کی حفاظت اور اس کے نیک نام کے قائم رکھنے کے لئے ایسا فیصلہ کرتے جو لوگوں کے دل سے ان کا اعتبار نہ نکال دیتا اور اس احترام کو صدمہ نہ پہنچا تا جو اس ملک کو جس کی خدمت کا بوجھ ان پر رکھا گیا تھا اس سے پہلے حاصل تھا.مگر اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں تحادیوں کے فیصلہ کی صلاح کیلئے کیا کرنا چاہئے کے نیند کی اصلاح کے لے ہیں کی کرنا چاہئے ؟ میں اس سوال پر اس سے پہلے اپنے مضمون معاہدہ ترکی میں کافی بحث کر چکا ہوں مگر چونکہ اب سوال نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے مجھے علم دیا ہے اس کے مطابق میں اپنے بھائیوں کی رہنمائی کروں تا وہ لوگ جونا واقف ہیں واقف ہو جائیں اور تا ایسا نہ ہو کہ غلطی سے لوگ ایسا رستہ اختیار کر لیں جو ان کی ہلاکت کا موجب ہو.

Page 226

انوار العلوم جلد ترک موالات اور احکام اسلام ہے اس لئے ہمیں صبر سے اسے تسلیم کر لیا چاہئے.کیا اب صبر کر کے بیٹھ رہنا چاہئے ؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امراب طے ہو چکا میرے نزدیک یہ لوگ صبر کے صحیح معنوں کو نہیں سمجھتے صبر سے نہیں کتے کہ جو واقعہ ہو جائے اس کی اصلاح کی فکر نہ کی جاوے بلکہ بعض دفعہ ایسے امر کی جو ہو چکا ہو اصلاح ضروری ہوتی ہے اور اس کی اصلاح نہ کرنی یا اس کے لئے کوشش نہ کرناکم ہمتی پر دلالت کرتا ہے.ہر کام جو ہو چکا غیر مبدل نہیں ہوتا.غیر مبدل وہی کام ہوتا ہے جس کی اصلاح نامکن ہو.مثلاً کسی نے کسی کو گالی دی ہے یا مارا ہے تو اس فعل کو ٹوٹا یا نہیں جا سکتا ایسے فعل کو یاد رکھنے سے اگر نقصان ہوتا ہو یا بھلانے سے فائدہ ہوتا ہو تو اچھی بات یہی ہے کہ اسے بھلا دیا جائے اور اس کا تذکرہ ہی نہ کیا جائے لیکن مثلاً اگر کسی نے کسی کی کوئی چیز چھین لی ہے جو ضائع نہیں ہو گئی بلکہ چھیننے والے کے پاس موجود ہے اور اس شخص نے وہ چیز اسے دے بھی نہیں دی تو جائز اور صحیح ذرائع سے اس کے واپس لینے کی کوشش کرنا منع نہیں ہے اور معاہدہ ترکیہ کا مسلہ اس دوسری قسم کے امور میں سے ہے.ترکوں سے جو ممالک لئے گئے ہیں وہ اب بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گئے.پس اس تصفیہ میں تغیر ہوجانا ناممکنات میں سے نہیں ہے اس لئے اس کے متعلق یہ کہ دنیا ن صبر کرو اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک صبر کرنے کے لئے کافی وجو ہات نہ ہوں اور یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس موقع پر صبر اللہ تعالیٰ کی رضاء کے حصول کا ذریعہ ہوگا.ہجرت اور ترک موالات دوسری رائے یہ دی جاتی ہے کہ انگریزی علاقہ سے ہجرت کی جاوے یا ان سے ترک موالات کیا جائے میں نے اپنے رسالہ معاہدہ ترکی میں بتایا تھا کہ یہ دونوں آراء درست نہیں ہجرت کے متعلق میں نے لکھا تھا کہ اول تو شرعاً یہ موقع ہجرت کا ہے ہی نہیں.دوم اگر خلاف شریعت ہجرت کی بھی گئی تو اس کے سامان چونکہ آپ لوگوں کے پاس نہیں ہیں اس کا نقصان پہنچے گا اور دشمنوں کو نبی کا موقع ملے گا.پھر افغانستان میں گنجائش بھی نہیں ہوگی آخر یہی ہوا افغانستان میں مہاجرین کی گنجائش نہ نکلی ہزاروں واپس آئے ہزاروں مرگئے جو باقی ہیں ان کی جات بھی بُری ہے اپنے گزارہ کے لئے یہاں سے روپیہ طلب کر رہے ہیں.ترک موالات کے متعلق تفصیلی بحث دوسری صورت ترک موالات کی بتائی جاتی ہے اس کے متعلق میں نے لکھا تھا کہ یہ نا قابل عمل اور موجب فساد ہے مگر چونکہ اب اس مسئلہ نے بہت اہمیت اختیار کرلی ہے.اس لئے دوبارہ میں اس کے متعلق تفصیلی طور پر اپنی تحقیق بیان کرنی چاہتا ہوں.

Page 227

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں دو قسم کے امور ہوتے ہیں ایک وہ جو شریعت کے ماتحت ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو مصلحت وقت کے ماتحت ہوتے ہیں.جو امور کہ شریعت کے ماتحت ہوں جب وہ حالات پائے جاویں جن میں شریعت نے ان کے کرنے کا حکم دیا ہے تو ان لوگوں کا جنہیں ان کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو فرض ہوتا ہے کہ وہ ان احکام کو پورا کریں خواہ جان جاوے خواہ مال قربان ہو ، خواہ عزیز و اقارب ضائع ہوں بغرض صرف ان ہی عذرات سے ان احکام کو چھوڑا جا سکتا ہے جن کو خود شریعت نے عذر قرار دیا ہے ان کے سوا عذرات پر خواہ وہ کسی قدر ہی بڑے کیوں نہ ہوں ان احکام کو ترک نہیں کیا جا سکتا.مثلاً جہاد کا حکم ہے جب جہاد کا حکم شریعت دے گی تو اندھے بگڑے، لوہے، ایسے مریض جو پیل پھر نہیں سکتے یا بالکل بوڑھے ، عورت ہیں اور بچے تو اس سے معذور ہو جاویں گے.مگر ایک شخص جس کا دست کروڑ کا مال ضائع ہو رہا ہو وہ بغیر اجازت امام کے معذور نہیں قرار پاسکتا بغرض جسمانی نقص کے سوا کوئی روی تسلیم نہیں کی جاوے گی.لیکن وہ امور جو شریعت کے ماتحت نہیں ہوتے بلکہ ان کا کرنا نہ کرنا ہماری مرضی پر منحصر ہوتا ہے ان کے کرتے وقت مصلحت وقت کا دیکھنا ضروری ہوتا ہے اگر ان کے کرنے کی نسبت نہ کرنے میں فائدہ ہے تو ان کا نہ کرنا بہتر ہوگا.اور اگر نہ کرنے سے کرنے میں فائدہ ہے تو کرنا بہتر ہوگا.شرعی حکم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ اس کام کے کرنے میں بڑا نقصان ہوگا جہالت ہے اور کمی ایمان کی علامت ہے.جب خدا کا حکم ہے تو خواہ کچھ ہو جائے اس کو کرنا چاہئے.لیکن جہاں شمری حکم کوئی نہ ہو وہاں نقصان کی زیادتی کو دیکھ کر بھی کسی کام کے کرنے پر اصرار کرنا نادانی ہے کیونکہ جب شرعی حکم کوئی نہیں تو ہمارا فرض ہے کہ اپنے اور اپنی قوم کے فوائد کوملحوظ رکھیں.ترک موالات کئے مسلہ میں پیچیدگیاں اور ان کا حل میں نے جہاں تک سوچا ہے ترک موالات کے متعلق بحث کرتے وقت اس مذکورہ بالا اصل کو اچھی طرح نہیں سمجھا گیا اس لئے اس مسئلہ کے متعلق جس قدر بخشیں ہو رہی ہیں وہ دن بدن زیادہ پیچیدہ ہوتی جاتی ہیں کیونکہ کبھی تو اس کو دینی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے اور جب اس میں کوئی مشکل پیش آجاتی ہے تو اسے ایک سیاسی اور ملکی سوال قرار دیا جاتا ہے یا اس کے الٹ طریق اختیار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مسئلہ کا حل نہایت مشکل ہو گیا ہے.حالانکہ مناسب یہ تھا کہ اس مسئلہ کے دونوں پہلوؤں پر الگ الگ نظر ڈالی جاتی.پہلے اس بات کو دیکھا جاتا کہ کیا ترک موالات شرعی حکم ہے ؟ اگر وہ شرعی حکم ثابت ہو جاتا تو پھر بلا نتیجہ کے خوف کے اس پر عمل شروع کر دیا جاتا اور اگر شرعی حکم ثابت نہ ہوتا تو پھر یہ سوچا جاتا کہ آیا ترک موالات ہمارے لئے زیادہ مفید ہے یا اس کے سوا اور

Page 228

انوار العلوم جلد ترک موالات اور احکام اسلام کوئی راہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنا مدعا حاصل کر سکتے ہیں ؟ جب تک اس مسئلہ کے متعلق اس طریق کو اختیار نہ کیا جاوے گا یعنی اس کے شرعی اور سیاسی پہلوؤں پر الگ الگ نظر نہ ڈالی جاوے گی کبھی صحیح نتیجہ نہ نکلے گا اور ہمیشہ اس پر گفتگو کرنے والے زیادہ سے زیادہ الجھنوں میں پڑتے چلے جاویں گے نہ موتہ اس کی صداقت کو ذہن نشین کراسکیں گے نہ مخالف اس کی غلطی کو آشکار کرسکیں گئے ہیں اس مسئلہ پر غور کرتے وقت اس امر کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ خلط مبحث نہ ہو.اس مسئلہ کی مشروعیت پر الگ غور کیا جاوے اور اس کی مصلحت پر علیحدہ.چونکہ اس وقت مسلمانوں کو عام طور پر بتایا جاتا ہے کہ اس وقت حکومت ہند سے ترک موالات کرنا ایک شرعی فرض ہے اور عوام الناس میں اس کی مشروعیت کے خیال سے ہی جوش پیدا ہو رہا ہے اس لئے اس مسئلہ پر کوئی تحریر اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ زیادہ فائدہ مند ہوسکتی ہے جب تک وہ اس مسئلہ کے شرعی پہلو پر کافی روشنی نہ ڈالے اور چونکہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقوام اس مسئلہ کے شرعی پہلو سے اس قدر تعلق نہیں رکھتیں جس قدر کہ اس کے عملی پہلو سے اس لئے کوئی تحریر اس وقت تک بھی مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں اس کے عملی پہلو پر بھی بحث نہ کی جاوے.پس میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں ترک موالات کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالوں.لیکن علیحدہ علیحدہ تاکہ خلط مبحث نہ ہو.اور ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ سکے کہ شریعت اس معاملہ ہر میں ہم سے کیا چاہتی ہے اور اگر شریعیت ہم سے اس معاملہ میں کچھ مطالبہ نہیں کرتی تو مصلحت وقت کسی بات کا تقاضا کرتی ہے.اوّل میں اس مسئلہ کے شرعی پہلو کو لیتا ہوں.ترک موالات کے معنی کسی سوال کا جواب بجھنے کے لئے پہلے سوال کا سمجھ لیناضروری ہوا ہے اس لئے ترک موالات پر غور کرنے سے پہلے اس کے معنوں کو سمجھ لینا چاہئے.موالات کہتے ہیں دوستی کو یا کسی سے مدد لینے یا اسے مدد دینے کو.پس ترک موالات کے معنی یہ ہوئے کہ اس سے دوستی نہ کی جائے اور نہ اس سے مدد لی جائے نہ اسے مدد دی جائے.مولوی محمود الحسن صاحب نے اپنے فتوی میں یہی معنے لکھتے ہیں.پس جب کہا جاتا ہے کہ انگریزی حکومت سے ترک موالات کی جائے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ انگریزی حکومت سے نہ تو تعلق محبت رکھا جائے نہ ان سے کسی قسم کی مدد لی جائے اور نہ ان کو کسی قسم کی مدد دی جائے مگر ترک موالات کے حامی اس لفظ کو اس کے پور سے معنوں میں استعمال نہیں کرتے وہ صرف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سر دست انگریزوں کے کالجوں میں تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہئے سوائے میڈیکل کالج وغیرہ علمی کا لجوں کے.اسی طرح ان کی عدالتوں میں نقدتا نہیں لے جانے چاہئیں.وکیلوں کو ان کی عدالت میں وکالت نہیں کرنی چاہئے ان کے دیئے ہوئے خطاب

Page 229

انوار العلوم جلد ۵ واپس کر دینے چاہئیں.ترک موالات کے حق میں دلائل ترک موالات اور احکام اسلام سے ترک موالات کے سوال پر شرعی نقطہ خیال - دو طرح بحث ہو سکتی ہے ایک تو یہ کہ کیا اس وقت انگریزوں سے ترک موالات کرنا ایک شرعی فرض ہے ؟ اور دوسرے یہ کہ کیا شریعت ترک موالات سے روکتی تو نہیں ؟ اگر بحث اسی حد تک محدود رہتی کہ شریعت نے ترک موالات کو منع نہیں کیا تو چنداں فکر کی بات نہ تھی کیونکہ جس کام سے شریعت نہ روکتی ہو نہ اس کا حکم دیتی ہو ہر شخص کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے اسے کرے چاہے نہ کرے مگر اس وقت جو فتو سے شائع ہو رہے ہیں ان میں یہ بتایا جاتا ہے کہ شریعت اسلام کے مطابق اس وقت انگریزوں سے موالات کرنی حرام ہے اور جو ان سے تعلق رکھتا ہے وہ گویا شریعت کا مجرم ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اس تحریک کو قبول نہ کیا تو ہم اسلام سے خارج ہو جاویں گے حالانکہ جیسا کہ میں ثابت کروں گا یہ بات نہیں ہے اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ انگریزوں سے ترک موالات کرنی ضروری اور فرض ہے.جو فتوے کہ اس وقت تک شائع ہو چکے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ ذیل آیات سے انگریزوں کے ساتھ ترک موالات کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے.b - يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصْرَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمُ اوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمُ فَإِنَّهُ مِنْهُمُ (المائدة : ۵۲ ) یعنی اسے ایمان والو بیہود و نصاری کو اپنا دوست اور مدد گا ر مت بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان کو دوست اور مددگار بنائے وہ بھی ان ہی میں سے ہے.( ترجمه منقول از فتوی مولوی محمود الحسن صاحب) لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَفِرِينَ اَولِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ وَمَنْ يَفْعَلُ ريكَ فَلَيسَ مِنَ اللهِ فِي شَيء (أل) عمران (۲۹) مسلمانوں کو نہیں پہونچتا کہ وہ مومنین کے سوا کافروں کو اپنا دوست و مدد گار بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کو اللہ سے کچھ تعلق نہیں.5 ( ترجمه منقول از فتوی ) بَشِّرِ المُنفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيْمَاهُ الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَفِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ * ايَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةُ فَإِنَّ الْعِزَّةُ لِلهِ جَمِيعًا.رالنساء : ۱۳۹ - ۱۴۰) ان منافقین کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو جو مومنین کے سوا کافروں کو اپنا رفیق (10--19: بناتے ہیں کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں حالانکہ تمام تر عزت خدا کے لئے ہے.(ترجمہ منقول از فومی)

Page 230

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام - يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الكَفِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ اتُرِيدُونَ ان تَجْعَدُوا ، اللهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُّبِيناه (النساء : ١٢٥ ) اپنے ایمان والو امومنوں کے سوا کافروں کو اپنا یارومدد گا مت بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اونچہ ابجد کا الزام صریح لو.ترجمہ منقول از فتوی ) ه يَا تُهَا الَّذِينَ امَنُوا لا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبا مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الكتب مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الكَفارَ اوْلِيَاء وَاتَّقُوا اللهَ إِن كُنتُم مؤمنين (المائدة : ۵۸) اسے ایمان والو با تم ان اہل کتاب اور کافروں کو اپنا یارو مدد گار مست بناؤ جنہوں نے بنالیا ہے تمہارے دین کو مہنسی اور کھیل اور اللہ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو.(ترجمہ منقول از فتوی ) - تَرى كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمُ الْفُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عليهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَلِدُونَ ، وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِي وَمَا اُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَالكِنَّ NG GALANGAGE WONقُونَ (المائده: (۸-۸۳) ان میں سے بہت سے تم ایسے دیکھو گے جو رفیق بنتے ہیں کافروں کے.بیشک برا ہے وہ جو آگے بھیجا ہے انہوں نے خود اپنے لئے کہ اللہ کا غضب ہے ان پر اور وہ ہمیشہ عذاب میں ہیں اور اگر یقین رکھتے وہ اللہ پر اور نبی پر اور جو جو نبی کی طرف اُتارا گیا اس پر تو کافروں کو رفیق نہ بناتے لیکن ان میں بہت سے نا فرمان ہیں.(ترجمہ منقول از فتومی ) -h لا تَجِدُ قَوْمًا تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللَّهَ وَ b رَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا بَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَ هُمُ أو إخْوَانَهُمْ أَو عَشِيرَتَهُم.أو اليك كتب فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدُ خِلُهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلۃ :۲۳۰) نہیں پاؤ گے تم کسی قوم کو جو یقین رکھتی ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر کہ وہ دوستی کرے ان سے جنہوں نے مقابلہ کیا اللہ کا اور اس کے رسول گا.اگر چہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ایسے ہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی مدد فرمائی اور ان کو داخل کر لیا باغ بہشت میں جس کے نیچے بہتی ہیں نہریں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش.یہ

Page 231

انوار العلوم جلد ۵ ۲۱۱ ترک موالات اور احکام اسلام جماعت ہے اللہ کی.یاد رکھو کہ خدا کی جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے.(ترجمہ منقول از فتوی ) م يَاَ يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوّى وَعَدُوكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمُ بِالمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَ كُم مِّنَ الْحَق المتخته: ۲) اے ایمان والو! میرے دشمن اور اپنے دشمن کو رفیق مت بناؤ پیغام بھیجتے ہو تم ان کی طرف دوستی کا حالانکہ وہ منکر ہوئے ہیں اس سچائی سے جو تمہارے پاس بھیجی ہے.ترجمہ منقول از فتوی ) ان آیات سے استنباط کر کے یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے جنگ کی اور پھر ان میں سے بعض کو کپڑ کر جلا وطن کر دیا اور بعض علاقوں سے مسلمانوں کی حکومت کو اُٹھا دیا جو وہ بھی اخراج کا حکم رکھتا ہے اور مسلمانوں سے یہ لوگ عداوت رکھتے ہیں اور ان کے دین کو حقیر خیال کرتے ہیں اس لئے ان سے ترک موالات کرنی ضروری ہے.کون سے کافروں سے ترک موالات کرنی چاہئیے ؟ اس میں کوئی شہ نہیں کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار سے دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے اور ان کی مدد کرنی یا ان سے مد و لینی جائز نہیں رکھی مگر ساتھ ہی اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر ایک کافر کی نسبت یہ حکم نہیں ہے کہ اس سے دوستی نہ کی جاوے یا یہ کہ اس کے ساتھ موالات نہ کی جاوے چنانچہ خود مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی نے اپنے فتوی میں اور مولوی کفایت اللہ صاحب دہلوی نے اپنے لیکچر میں بیان کیا ہے کہ ہندوؤں سے موالات جائز ہے حالانکہ یہ دونوں قو میں قرآن کریم کی رو سے کفار میں شامل ہیں میں جب ہندوؤں سے جو گو سیاسی طور پر انگریزوں سے ہمارے زیادہ قریب ہیں کیونکہ ہمارے اہل وطن ہیں لیکن مذہبی طور پر سیجیوں کی نسبت ہم سے دور ہیں کیونکہ مسیحی ان اہل کتاب میں سے ہیں جن کا قرآن کریم نے نام لے کر ذکر کیا ہے اور اہلِ ہنود اگر اہل کتاب میں سے ہیں تو اس طبقہ میں سے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے نام لے کر نہیں کیا.اسی طرح مسیحی بہت سے انبیاء کرام علیم السلام کو مانتے ہیں اور صرف ہما رے آنحضرت صلی اللہ علیہ دل کے منکر ہیں حالانکہ ہند و صاحبان بہت سے انبیاء کرام کی نبوت کے منکر ہیں پس مذہبی نقطۂ خیال سے سیمی ہندوؤں کی نسبت ہمارے زیادہ قریب ہیں اور جب کسی مسئلہ پر مذہبی طور پر غور کرنا ہو تو ذہبی نقطۂ خیال ہی کو مد نظر رکھنا ہوگا.اندریں حالات اگر ہندوؤں یا سکھوں سے سوالات ہوسکتی ہے تو مسیحیوں سے بدرجہ اولی ہوسکتی ہے.کہا جاتا ہے کہ گو ہنود سیجیوں سے مذہباً زیادہ دور ہوں لیکن ہنود میں وہ بات نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے ترک موالات فرض ہوتی ہے.پس قرآن کریم کے حکم کے مطابق ان سے موالات کرنا منع نہیں ہے بلکہ

Page 232

انوار العلوم جلد ۵ ۲۱۲ ترک موالات اور احکام اسلام اچھا ہے اور اس کی تائید میں سورہ ممتحنہ کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے.لَا يَنْهَكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لم يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُوهُمُ وَتُقْسِطُوا اِلَیهِمْ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (المتة : 9 ) یعنی اللہ تم کو ان لوگوں سے جو تم سے لڑے نہیں اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا.نیکی کرنے یا انصاف کا معاملہ کرنے سے منع نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.مگر ہم سوال کرتے ہیں کہ یہی آیت انگریزوں سے بھی ترک موالات کرنے سے روکتی ہے اور ان سے معاملات کا سلسلہ جاری رکھنے کی ہدایت کرتی ہے تو پھر ان سے ترک موالات کرنے کا کیوں فتوی دیا جاتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اگلی ہی آیت میں فرمایا ہے کہ صرف ان ہی لوگوں سے ترک موالات کی جاسکتی ہے جو مسلمانوں سے دین کے بارے میں لڑے ہوں یا جنہوں نے ان کو اپنے ملکوں سے نکال دیا ہو یا دوسرے لوگوں کو ان کے نکالنے میں مدددی ہو جیسا کہ فرماتا ہے.اِنَّمَا يَنُهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ في الدِّينِ وَ اَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَا هَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُم فَا لَيْكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (المتخنة : 10 ) یعنی اللہ تعالی تم کو صرف ان لوگوں فَأُولَئِكَ (۱۰) سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جو تم سے دین کے متعلق لڑے ہوں یا انہوں نے تم کو تمہارے گھر سے نکال دیا ہو یا تمہارے نکالنے میں مدد دی ہو اور جو کوئی ایسے لوگوں سے دوستی کرے وہ ظالموں میں سے ہے.اب ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ نہ تو انگریز مذ ہب کی خاطر مسلمانوں سے لڑے ہیں اور نہ انہوں نے مسلمانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ یا تو اپنا دین چھوڑ دیں یا اپنے ملک سے نکل جاویں اور نہ انہوں نے اس کام میں دوسرے لوگوں کی مدد کی ہے.میں نے گھروں سے نکالنے کے متعلق بھی مذہب کی شرط لگائی ہے اس لئے میرے نزدیک یہ شرط ضروری ہے کیونکہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر کوئی حکومت کسی مسلمان کو کسی دنیوی جرم کی سزا میں ملک بدر کر دے تو مسلمانوں کو اس حکومت سے ترک موالات کا حکم ہو جاتا ہے اسی دھوکے میں پڑ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دشمن آپ کے خلاف لوگوں کو لڑائی کے لئے اکساتے تھے انہوں نے بعض لوگوں کو ملک بدر کر دیا تھا اور ان کے دشمن کہتے تھے کہ اس نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا ہے اس لئے اس کا مقابلہ جائز ہے.مگر ہمیں اس معاملہ میں قیاس کی بھی ضرورت نہیں خود قرآن کریم نے اس مسئلہ کو صاف کر دیا ہے کہ اخراج سے مراد صرف وہ اخراج ہے جو اس لئے کیا گیا ہو کہ اس نے فلاں دین کو قبول کر لیا ہے چنانچہ اس اخراج کی تشریح جس کا اس آیت میں جو او پر گزرچکی ہے

Page 233

انوار العلوم جلد ۵ ۲۱۳ ترک موالات اور احکام اسلام ذکر ہے سورہ حج میں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتا ہے.أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواء وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُهُ الَّذِينَ ُأخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقِّ إِلَّا آن تَقُولُوا رَبُّنَا الله (الحج : ۴۰-۲۱) یعنی اجازت دی گئی ہے جنگ کرنے کی ان لوگوں کو کہ جن سے جنگ کی جاتی ہے یہ سبب اس کے کہ ان پر ظلم کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد پر قادر ہے.(یہ وہ لوگ ہیں ، جن کو ان کے گھروں سے اس لئے نکالا گیا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے یعنی وہ مشرک نہ تھے اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سورہ ممتحنہ کی آیت میں وَاخْرَجُوکہ کی آیت سے یہی مراد ہے کہ مذہبی فرض کے طور پر اسی قوم سے ترک موالات فرض ہوتی ہے جنہوں نے کسی قوم کو کسی خاص مذہب کے قبول کرنے کی وجہ سے ملک بدر کر دیا ہو.غرض سورہ ممتحنہ کی یہ آیت جس کو ہندوؤں کے ساتھ دوستی رکھنے کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے اس سے صرف ہندوؤں ہی سے موالات رکھنے کی اجازت نہیں نکلتی بلکہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ترک موالات صرف اور صرف ان لوگوں سے کی جانی چاہئے جومسلمانوں سے اسلام لانے کے الزام میں لڑتے ہوں اور اسلام سے پھرانے کے لئے جنگ کرتے ہوں یا ان کو اس لئے گھروں سے نکالتے ہوں کہ وہ کیوں ایک خدا کی پرستش کرتے اور پیچھے دین کو قبول کرتے ہیں یا اس فعل میں دوسروں کے مددگار ہوئے ہوں اور چونکہ یہ تینوں باتیں انگریزوں میں نہیں پائی جاتیں اس لئے ان سے ترک موالات درست نہیں.کیا ترکوں سے مذہبی جنگ کی گئی ؟ کیا جاتا ہے کہ ترکوں سے جنگ ایک مذہبی جنگ تھی، لیکن یہ خیال درست نہیں کیونکہ جنگ اصل میں ترکوں سے نہ تھی بلکہ اصل جنگ جرمن سے تھی ترک تو بعد میں جاکر شامل ہوئے ہیں اور حرمین مسیحی مذہب کے ہیں اسی طرح ان کے حلیف آسٹریا والے بھی پس یہ جنگ خالص دنیوی تھی اور اسے مذہبی جنگ نہیں کہا جا سکتا نہ ابتداء کے لحاظ سے نہ انجام کے لحاظ سے.مذہبی جنگ تو اسے کتنے میں جس جنگ کی غرض یہ ہو کہ کسی مذہب کے ماننے والوں سے اس مذہب سے توبہ کرائی جائے اور اس وقت تک اس جنگ کو بند نہ کیا جائے جب تک مخالف اپنے مذہب سے تو بہ نہ کریں جیسا کہ قرآن کریم کفار کی جنگوں کی نسبت فرماتا ہے.وَلَا يَزالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمُ عَنْ دینكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا (البقرة : ٢١٨) یعنی کفار ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے تاکہ تم کو اپنے دین سے مر تذکر دیں اگر ان کی طاقت ہو یعنی گو تمہارا مرند کر دیا توان کی طاقت سے باہر ہے مگر کفار کی

Page 234

انوار العلوم جلد ۲۱۴ ترک موالات اور احکام اسلام غرض تم سے لڑنے سے ہی ہے کہ اگران کا بس چلے تو م کو مرتد کر دیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ گو کفار اپنے بدا رادہ میں تو خدا کے فضل سے ناکام رہے اور مسلمانوں پر فتح نہ پاسکے مگر اکا دُکا آدمی جو ان کے قبضہ میں آگیا ہے تو انہوں نے اپنی طرف سے اس کو مرتد کرنے کی کوشش کی ہے.بلال رضی اللہ عنہ.ابوجندل رضی اللہ عنہ.اور یاسر رضی اللہ عنہ کی مثالیں اس امر پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتی ہیں لیکن انگریزوں کے خلاف ان میں سے ایک بات بھی ثابت نہیں ہوتی.وہ مذہب اسلام سے پھرانے کے لئے جنگ نہیں کرتے اگر کرتے ہیں تو دنیوی اغراض کے لئے کرتے ہیں ہم لوگ مدت دراز سے ان کے زیر حکومت زندگی بسر کر رہے ہیں کیا کوئی شخص ثابت کر سکتا ہے کہ ایک شخص کو بھی انہوں نے جبراً مسیحی بنایا ہو ؟ اور کیا عراق اور شام کے لوگوں کو انہوں نے جبراً مسیحی بنانے کی کوشش کی ہے ؟ پھر کیا انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یا عراق یا شام کے مسلمانوں کو مجبور کیا ہے کہ یا سیمی ہو جاؤ یا ان علاقوں سے نکل جاؤ ؟ ہم تو خود ان کے اپنے ممالک میں جاکر تبلیغ اسلام کرتے ہیں اور ان میں سے بعض سعید رو میں اسلام کو قبول بھی کرتی ہیں لیکن کبھی وہ اس امر سے نہیں نہیں روکتے کہ کیوں مسیحیوں کو ہم مسلمان بناتے ہیں کجا یہ کہ مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنا دیں.پھر جب کوئی شرط بھی مسیحیوں میں ایسی نہیں پائی جاتی کہ جس کی وجہ سے ان سے ترک موالات فرض ہو تو پھر ہندوؤں سے موالات اور انگریزوں سے ترک موالات کرنے کا فتویٰ دینے کا باعث کیا ہے ؟ ان آیات سے تو صاف یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے بھی اور سکھوں سے بھی اور انگریزوں سے بھی موالات کرنی چاہئے اور ہمدردی سے اور انصاف سے پیش آنا چاہئے اور صرف ان لوگوں سے موالات ترک کرنی چاہئے جو یا تو اسلام سے پھرانے کے لئے جنگ کریں یا اسلام سے نہ پھرنے والوں کو ملک سے نکال دین یا اس کام میں دوسروں کی مدد کریں.مذہبی دست اندازی کیا ہے شائد بعض لوگ کہہ دیں کہ انگریزوں نے بعض ایسے لوگوں کو جلا وطن کیا ہے جو مثلاً خلافت کی تائید کرتے تھے اور ایسے ہی کاموں میں حصہ لیتے تھے.اس کا جواب یہ ہے کہ مذہبی دست اندازی سے صرف خالص مذہبی مسائل میں دخل اندازی مراد ہے نہ کہ ان مسائل میں دخل اندازی مراد ہے جن کے ساتھ سیاست بھی شامل ہو.مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میرا یہ مذہب ہے کہ فلاں قوم کو قتل کر دینا چاہئے تو اس کے اس خیال کو مذہبی سوال نہیں سمجھا جاوے گا بلکہ چونکہ قتل ایک ایسا فعل ہے جس کا دوسرے شخص سے بھی تعلق ہے اس لئے اس شخص کو اجازت نہ دی جاوے گی کہ اس کو قتل کر دے اگر وہ دوسرا شخص حاکم

Page 235

۲۱۵ ترک موالات اور احکام اسلام ہے تو اس کا اختیار ہو گا کہ ایسے شخص کو گرفتار کرے اور اس کے اس فعل کو کوئی شخص مذہبی دست اندازی نہیں کہہ سکتا.مذہبی دست اندازی صرف ایسے ہی افعال میں تصرف کرنے کو کہ سکتے ہیں جو صرف اس شخص کی ذات سے تعلق رکھتے ہوں جس نے وہ فعل کرنا ہے اور حکومت کا اس کے اندر دخل نہ ہو یعنی اس فعل کی سزا یا جزاء کو خدا تعالیٰ نے حکومت کے ذمہ نہ رکھا ہو اسی وجہ سے گو مدت ہائے دراز سے ہندوستان میں انگریز زانی کو رحم نہیں کرتے.چور کے ہاتھ نہیں کاٹتے مگر مسلمان اس کے خلاف کبھی شور نہیں مچاتے کہ یہ مذہبی دست اندازی ہے اور نہ کبھی انہوں نے اس کے خلاف ترک موالات کی تحریک کی کیونکہ یہ کام انسان کی اپنی ذات سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی شخص کے مذہبی خیالات کے مطابق دوسروں کو مجبور نہیں کیا جا سکتا پس جب انگریزوں کے نزدیک خلافت کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی کیونکہ وہ مسلم ہی نہیں میں اور خصوصاً جبکہ انہوں نے اپنی خلافت سے بھی دنیوی شان و شوکت علیحدہ کرلی ہے تو ان سے یہ امید رکھنا کہ اگر ہم لوگ خلافت کے لئے جد وجہد کریں جس کے دوسروں لفظوں میں یہ معنے ہوں گے کہ ہم ان کے زیر اقتدار ممالک میں سے جن پر انہوں نے جائز طور پر یا نا جائز طور یہ پر قبضہ کر لیا تھا نکال دیں تو وہ خاموش رہیں کسی طرح درست ہو سکتا ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی ایسا فعل کریں جو ان کے دنیوی مفاد کے لئے مضر ہو تو وہ صرف اس لیئے کہ وہ ہمارا مذہبی مسئلہ ہے خاموش بیٹھے رہیں گے اس طرح تو ان کی کیا کوئی حکومت بھی نہیں چل سکتی.میں بعض مسلمانوں کو جو جلا وطن کیا گیا تھا تو اس کی یہ وجہ نہ تھی کوہ لوگ اسلام پر کیوں ایمان لائے تھے بلکہ یہ وجہ تھی کہ ان لوگوں کے افعال گورنمنٹ برطانیہ کے نزدیک اس کے سیاسی فوائد کے لئے مضر تھے ورنہ کیا وجہ ہے کہ اور کروڑوں مسلمان اس کی حکومت کے نیچے لیتے ہیں وہ ان کو جلا وطن نہیں کرتی یا قید نہیں کرتی ؟ خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہی آیت جس سے ترک موالات کے حامی انگریزوں سے ترک موالات کا فنتوئی اور ہندوؤں سے موالات کا حکم نکالتے ہیں ان کے دعوی کو غلط ثابت کرتی ہے اور دوسری آیات اسی مضمون کی تائید کرتی ہیں.اس جنگ میں لڑنیوالے کون تھے اور علاوہ ازیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جس جنگ کا انگریزوں پر الزام لگا یا جاتا ہے اس میں لڑنے اس وقت مفتی کیوں خاموش رہے والے کون تھے ؟ خود ہندو اور سکھ اور مسلمان ہی تھے جنہوں نے جا کر ترکوں کو مارا.اگر یہ جنگ فی الواقع مذہبی جنگ تھی تو مسلمان ترکوں کے مخالف

Page 236

کیو ترک موالات اور احکام اسلام لڑنے کے لئے کس طرح گئے ؟ اور ہندوستان کے ہزاروں مولوی اس وقت کہاں گئے ہوئے تھے ؟ اگر مان بھی لیا جاوے کہ بعض کو گورنمنٹ نے خاموش رکھنے کے لئے قید کر دیا تھا تو بھی باقی ہزاروں علماء تھے ان میں سے کوئی کیوں نہ بولا ؟ یہ عجیب ذہول ہوا کہ خود اپنے ہاتھوں سے ملک فتح کیا اور پانچ سال کے عرصہ میں کسی کو خیال نہ آیا کہ انگریز تو مذہبی جنگ کر رہے ہیں ان سے تو علیحدہ رہنے کا نہیں حکم ہے بلکہ ان سے تو بات کرنی بھی جائز نہیں.ذرا سوچو تو سہی کہ کیا اس وقت جنگ کر کے اب ترکوں کی حمایت کرنا اور ان کے خلاف جنگ کو مذہبی جنگ قرار دینا کہیں مسلمانوں کو اس فتویٰ کے نیچے تو نہیں لے آتا.ثُمَّ انتُم هُوَ لا تَقْتُلُونَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمُ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُم أسرى تُفَدُوهُمْ وَهُوَ محرم عليكم إخْرَاجُهُمُ افَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الكِتب وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ.البقرة :۱۶، یعنی اللہ تعالیٰ یہودیوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ پھر تم وہ لوگ ہو کہ اپنی جانوں کو قتل کرتے ہو (یعنی اپنے ہم مذہبوں کو اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکالتے ہو اور ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کے معاملات میں لوگوں کی مددکرتے ہو اور اگر تمہارے پاس وہ قید ہو کر آجاویں تو پھر تم انکو فدیہ دے کر آزاد کرانا چاہتے ہو حالانکہ ان کا نکالنا ہی تمہارے لئے حرام تھا کیا تم کتاب کے کچھ حصہ پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصہ کا انکار کرتے ہو ؟ اب میں کافی طور پر ثابت کر چکا ہوں کہ وہ آیت جسے ترک موالات کے مفتیوں نے ہنود سے دوستانہ تعلق رکھنے کے جواز میں پیش کیا ہے اسی سے انگریزوں سے موالات کرنا جائز ثابت ہوتا ہے.پیس مفتی صاحبان نے فتویٰ دینے میں غلطی کی ہے اور قرآن کریم کے صریح الفاظ کی موجودگی میں اُصولِ اسلام کے خلاف فتویٰ دے دیا ہے اور ایسا فتوی مسلمانوں کے لئے قابل عمل نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا نا جائز ہے.آیات پیش کردہ پر تفصیلی نظر تمام آیات پیش کردہ پر ایک اجمالی نظر ڈالنے کے بعد میں تفصیلی طور پر ان آیات کے مضمون پر نظر ڈالنی چاہتا ہوں تاکہ حقیقت کے طالبوں کو یہ معلوم ہو جاوے کہ وہ آیتیں اپنی ذات میں بھی اس دعوی کی تصدیق نہیں کرتیں جو بعض علماء کے فتویٰ میں پیش کیا گیا ہے.ان آیات کی تین اقسام آٹھ آیت میں جو ترک موالات کی تائید میں پیش کی گئی ہیں میرے نزدیک یہ تین اقسام میں تقسیم ہیں اور تینوں کے متعلق نہیں الگ الگ غور کرنا چاہئے.مولوی محمود الحسن صاحب نے اپنے فتوی میں خود تحریر فرمایا ہے کہ قرآن کریم

Page 237

انوار العلوم جلد ۵ ۲۱۷ ترک موالات اور احکام اسلام میں جو لفظ توئی کا استعمال ہوا ہے اس کے معنی وہ دوستی اور مدد کے کرتے ہیں.پس دیکھنا چاہئے کہ آیا یہ دونوں معنی تمام آیات میں چسپاں ہوتے ہیں یا مختلف آیات میں مختلف معنے چسپاں ہوتے ہیں ؟ کیونکہ بسا اوقات ایک لفظ جو کئی معنے رکھتا ہو کسی فقرہ میں ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے معنے میں اور کسی میں دونوں معنوں میں پس صرف لغت دیکھنا کافی نہ ہوگا بلکہ ان آیات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ ان میں یہ لفظ اپنے متعدد معنوں میں سے کس معنے میں استعمال ہوا ہے یا یہ کہ سارے ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.انگریزوں کے متعلق فتوی دیتے وقت ان کو مد نظر رکھا جاوے اور میرے نزدیک ان آیات میں یہ لفظ دو مختلف صورتوں میں استعمال ہوا ہے.بعض میں تو دوستی اور اعداد دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے اور بعض میں صرف دوستی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.امداد کے معنے ان آیات میں مدنظر نہیں ہیں.جو آٹھ آیتیں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے پانچ میں تو دوستی اور امداد کے معنے ہیں اور دو میں دوستی کے.ایک آیت بالکل جدا گانہ حیثیت رکھتی ہے جس کا میں سب سے آخر میں ذکر کروں گا.آیات قسم اول سب سے پہلے میں ان آیات و لیتا ہوں جن میں دوستی اور امداد کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور بتاتا ہوں کہ ان کا اطلاق ہرگز اس زمانہ کے حالات پر نہیں ہو سکتا اور انگریزوں کے خلاف ان کے احکام کی بناء پر فتویٰ نہیں دیا جا سکتا.پہلی آیت اس قسم کی آیات میں سے پہلی آیت یہ ہے لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الكَفِرِينَ أولياء مِنْ دُونِ المُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلُ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ في شيء - (ال عمران : ۲۹) یہ آیت مفتیوں نے پوری نہیں لکھی اس کے ساتھ کا حصہ جو اس کے معنوں پر روشنی ڈالتا ہے یہ ہے - إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمُ تُقةَ ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسه وَإِلَى اللهِ المَصِيرُ (ال عمران : ۲۹) جو حصہ ترک موالات کے حامیوں نے لکھا ہے اس کا ترجمہ خود ان ہی کے الفاظ میں یہ ہے.مسلمانوں کو نہیں پہنچتا کہ وہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو اپنا دوست و مددگار بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کو اللہ سے کچھ تعلق نہیں اس آیت میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ مسیحیوں یا یہودیوں سے ایسا سلوک نہ کرو بلکہ بلا شرط حکم ہے کہ جو بھی کافر ہو اس سے دوستی نہ رکھو لیں اس آیت سے یہ فتوی نکالنا کہ انگریزوں ہی سے ترک موالات کی جاوے درست نہیں بلکہ اس آیت کے ماتحت تو سب ان لوگوں سے جو اسلام کا دعوی نہیں کرتے ترک موالات کرنی پڑے گی.

Page 238

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام ایک ضمنی سوال اور اس کا جواب اگر کہا جاوے کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کافر سے ترک موالات کا حکم نہیں بلکہ خاص کفار سے ہے ان آیات کو اس آیت سے ملا کہ ہم ایسا فتوی دیتے ہیں.تو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انگریزوں کے متعلق فیصلہ دیتے وقت بھی نہیں انہیں آیات کو مد نظر رکھنا پڑے گا.یہ درست نہ ہو گا کہ دوسرے لوگوں کے متعلق فیصلہ کرتے وقت ان آیات کو مد نظر رکھا جائے اور انگریزوں کے متعلق فتوی دیتے وقت ان کو مدنظر نہ رکھا جاوے.اور یہ میں پہلے بتا آیا ہوں کہ جو شرائط دوسری آیات میں ترک موالات کے لئے بنائی گئی ہیں وہ جس طرح اس وقت کے ہندووں میں نہیں پائی جاتیں اسی طرح انگریزوں میں بھی نہیں پائی جاتیں.یہ حکم حربی کفار کے متعلق ہے علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ خود اس آیت کے سیاقی و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ان حربی کفار کے متعلق ہے جن سے دین اسلام کے متعلق جنگ ہو رہی ہو.چنانچہ اس سے چند آیات پہلے الہ تعالیٰ نے جنگ بدر کا ذکر فرمایا ہے اور جنگ بدر کے ساتھ ہی بلکہ اس سے بھی کچھ عرصہ پہلے سے کفار کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی تھی اور اسی طرح جنگ بدر کے بعد سیود کے بعض سرداروں سے بھی فساد پیدا ہو گیا تھا پس اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان ہی لوگوں سے جو بر سر جنگ ہوں تعلق رکھنے سے منع فرماتا ہے اور ان سے دوستی رکھنے یا ان کو فوائد مسلمانان کے خلاف مدد دینے یا ان سے مدد لینے سے منع فرماتا ہے بلکہ خود اس آیت میں بھی یہی مضمون ہے.کیونکہ اسی آیت کے اس حصہ میں جیسے مفتی صاحبان نے فتویٰ میں درج نہیں کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقةَ وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللهِ الْمَصِيرُ - (آل عمران: ۲۹) یعنی کفار سے دوستی نہ کرو سوائے اس کے بچو ان سے اچھی طرح اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف تمہارا ٹوٹنا ہے.اس آیت إِلا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقت کے وہ منی جو عام طور پر کئے جاتے ہیں اس کا ماتم کے طور پر یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ جس وقت جنگ میں یا جب کفار غالب ہوں کسی سے جب کوئی کلمہ گفر کا کہلوایا جاوے تو وہ ایسا کلمہ کہ دے تو اس کو اجازت ہے چنانچہ سعید بن الجبیر کا قول ہے ليس في الآمَانِ التَّقِيَّةُ إِنَّمَا التَّقِيَّةُ فِي الحَرب یعنی تقسیہ امان میں نہیں ہوتا بلکہ لڑائی میں

Page 239

انوار العلوم جلد ۵ ۲۱۹ ترک موالات اور احکام اسلام ہوتا ہے.اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تقیہ مخالفتہ الناس کے وقت ہوتا ہے.اسی طرح دیگر مفسرین کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حصہ آیت جنگ کے ایام پر دلالت کرتا ہے جب مسلمانوں کو جبراً اسلام سے نکالا جاتا ہو اور زبردستی پکڑ کر ان سے اسلام سے بیزاری کا اعلان کروایا جاتا ہو.اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایسے کفار سے تعلقات رکھنا گویا خود اسلام کے چھوڑنے کی خواہش کرنا ہے مگر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ انگریز جبراً پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اسلام سے توبہ کرا کر مسیحی بناتے ہیں اگر نہیں تو اس آیت سے ان کے خلاف عدم تعاون کا فتقومی نکالنا کس طرح درست ہو سکتا ہے ؟ اس آیت کا وہ حصہ جسے مفتیوں نے غلطی سے چھوڑ دیا ہے صاف بتا رہا ہے کہ ترک موالات ان ہی کافروں سے ہونی چاہئے جو جبراً اسلام سے پھراتے ہوں اور گھر کا اقرار کرتے ہوں.گو یہ بات اس مضمون سے تعلق نہیں رکھتی لیکن چونکہ تقیہ کے متعلق سلف وخلف کا فتویٰ به آیت مضمون میں آگئی ہے اور مجھے ایک ایسے معنے اس آیت کے لکھنے پڑے ہیں جو عام طور پر اس وقت کے مسلمانوں میں رائج ہیں اس لئے میں اس قدر ضرور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس آیت کے ان معنوں کا قائل نہیں بلکہ میرا مذ ہب امام احمد بن حنبل کی طرح یہ ہے کہ إِذَا أَجَابَ الْعَالِمُ تَقِيَّةٌ وَالْجَاهِلُ يَجْهَلُ فَمَتَى يَتَبَيَّنُ الْحَقُّ وَالَّذِى نُقِلَ إِلَيْنَا خَلَنَّا عَنْ سَلَفٍ اَنَّ الصَّحَابَةَ وَتَابِعِيهِمُ وَ تَابِعِي تابِعِيهِمُ ذَلُوا أَنفُسَهُمْ فِي ذَاتِ اللهِ وَإِنَّهُمْ لَمْ تَأْخُذُهُمْ فِي اللَّهِ لَوْمَةٌ لَائِمٍ وَلَا سَطوَة جَبَّارٍ ظَالِم یعنی جب واقف آدمی لوگوں سے ڈر کر کوئی غلط بات کہہ دے اور جاہل کو معلوم ہی نہ ہو تو حق پھر کب ظاہر ہو گا ؟ اور جو کچھ بھی ہمیں پیچھے بزرگوں سے ابتدائی زمانہ کے بزرگوں کے متعلق روایت پہنچی ہے وہ تو یہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعی اور ان کے تابعی خدا کے واسطے اپنی جانیں قربان کر دیتے تھے اور علامت کرنے والے کی علامت سے نہیں ڈرتے تھے اور نہ ظالم اور جاہر کے حملہ اور اس کی گرفت سے ڈرتے تھے.اس حوالہ سے ظاہر کہ نہ صرف حضرت احمد بن حنبل اپنے خیال کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ اس زبر دست تاریخی شہادت کی بناء پر جو ان کے علم حدیث کے امام ہونے کے لحاظ سے ان کے زیر نظر تھی.صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی اپنا ہم خیال بتاتے ہیں اور واقعہ یہی ہے کہ ایک دو صحابیوں رضی اللہ عنم کے جو اقوال بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے بعض کا تو مطلب ہی نہیں سمجھا گیا اور بعض کی روایت نہایت کمزور ہے.

Page 240

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۰ ترک موالات اور احکام اسلام اس آیت کے اصل معنی اس آیت کے اصل منے یہی ہیں کہ خدا تم کوحر بی کفار سے دوستی رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ہاں اس کے مقابل میں فرماتا ہے کہ تم ان سے ہر طرح بیچتے رہو اور ان کے مقابلہ کا سامان تیار کرو.انقی کے معنے حفاظت کا سامان جمع کرنے کے بھی ہیں اور اگلا حصہ وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ ان ہی معنوں کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ اگر آیت کے یعنی ہیں کہ اسے لوگو تم کفار سے دوستی نہ کرو ہاں زبر دستی کریں تو ان کے ضرر کے ڈر سے ان ہی کی سی بات کہہ دو اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے تو اس کا ایک حصہ دوسرے کا مخالف ہو جاتا ہے جب دین کے معاملہ میں بھی ہندوؤں سے ڈرنے کا دو حکم دیتا ہے تو پھر اپنے ڈر پر زور دینے کا کیا مطلب ہوا ؟ میں اصل مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالٰی مومنوں سے فرماتا ہے کہ اسے مومنو! حر بی کفار سے دوستی نہ کرو بلکہ اس کے مقابلہ میں ان کے شر سے بچنے کے لئے سامان حفاظت جمع کرو اور ان سے نہ ڈرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ ڈرنے کے قابل اسی کی ذات ہے اور اگر ایسا نہ کرو گے تو آخر ایک دن اس کے حضور پیش ہونا ہے اپنے کئے کی سزا پاؤ گے.سورہ نحل کی اس آیت کی موجودگی میں جس میں جبر کے ماتحت کلمہ کفر کہنے والے کو بھی گنگار قرار دیا ہے اور خدا کے راستہ میں ہجرت کرنے اور اس کے دین کے لئے تکالیف اُٹھانے کے بعد اس کے معاف کرنے کی امید دلائی ہے ان معنوں کے سوا کوئی اور معنی اس آیت کے لئے ہی نہیں جا سکتے.اس ضمنی سوال کا جواب دینے کے بعد میں پھر اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں.دوسری آیت ترک موالات کی تائید میں دوسری آیت جس میں کفار کی دوستی اور موالات روکا گیا ہے یہ پیش کی جاتی ہے بَشِّرِ الْمُنْفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اليمَا هُ بِالَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَفِرِينَ اَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ، أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةُ لِلَّهِ جَمِيعًا (النساء:۱۳۹-۱۴۰) اس کا ترجمہ مولوی محمود الحسن صاحب نے اپنے فتویٰ میں یوں کیا ہے " ان منافقین کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو.مؤمنین کے سوا کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں حالانکہ تمام تمر عزت خدا کے لئے ہے.اس ترجمہ کے الفاظ پر غور کرو.یہاں کہاں لکھا ہے کہ نصاری کو دوست نہ بناؤ یا ان سے ترک موالات کرو یہاں تو تمام کفارہ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ ان کو دوست نہ بناؤ اور پھر کوئی شرط نہیں بتائی کہ کس کو دوست بناؤ اور کسی کو نہ بناؤ اس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ بے شک اس جگہ سب کفار سے قطع تعلق کا حکم ہے اور کوئی شرط نہیں کہ فلاں کو دوست بناؤ اور فلاں کو نہ بناؤ.لیکن

Page 241

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۱ ترک موالات اور احکام اسلام سورہ ممتحنہ کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوست بنانے اور نہ بنانے کے لئے شرائط ہیں ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا.مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان شرائط کو ہنود کے لئے ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مسیحیوں کے لئے نظر انداز کیا جاسکتا ہے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اقْرَبَهُمْ مَوَدَةٌ را لمائدة : ۸۳) یعنی محبت میں وہ دوسری قوموں کی نسبت مسلمانوں سے سب سے زیادہ قریب ہیں جب وہ شرائط جن کے پائے جانے کی وجہ سے ہنود قابل موالات سمجھے گئے ہیں مسیحیوں میں بھی پائی جاتی ہیں تو ان سے ترک موالات کرنا شرعی فتویٰ کے ماتحت کیونکر درست اور جائز ہو سکتا ہے ؟ اس آیت میں بھی حربی کافروں سے تو لی منع کی گئی ہے پھر میں اس آیت کی نسبت بھی وہی کہتا ہوں جو پہلی آیت کی نسبت کہ چکا ہوں کہ اس آیت کا مضمون بھی صاف بتا رہا ہے کہ جن لوگوں سے تو تی منع کی گئی ہے وہ عربی کا فر ہیں کیوں کہ اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی نہ کرو.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس وقت برسر پیکار تھی اور اس سے تعلق رکھنا خود اس حکومت اور اس جماعت کے خلاف تھا جس کے وہ لوگ جن کو یہ حکم دیا گیا ہے افراد تھے پھر اس آیت سے اگلی آیات کو بھی دیکھا جا وے تو ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس قوم کے متعلقی ہے ہو ہم سے دین کے متعلق جنگ کر رہی ہو یا دین کی وجہ سے ہمیں اپنے گھروں سے نکالتی ہو کیونکہ آگے چل کر اللہ تعالی فرماتا ہے.وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُم فِي الكِتبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمُ التِ اللَّهِ يُكْفَرُبِهَا ويُسْتَهُذَا بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذَا مِثْلُهُم إِنَّ اللهَ جَامِعُ المُنْفِقِينَ وَالكَفِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا : الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ ؟ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحُ مِنَ اللهِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ مَعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَفِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا اَلَمْ نَسْتَحُودُ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعُكُم مِّنَ الْمُؤْمِنينَ.فاللهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ ، وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْخَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سبيلاً (النساء : ۱۳۱-۱۳۲) لینی اور تحقیق تم پر کتاب میں یہ نازل ہو چکا ہے کہ جب تم سنو ہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے انکار کیا جاتا ہے اور ان سے منسی کی جاتی ہے تو ایسا کرنے والے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھا کرو یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں ورنہ تم بھی ان ہی میں شامل سمجھے جاؤ گے.ضرور اللہ تعالیٰ ان منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرے گا جو تمہاری ہلاکت کے منتظر ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری فتح کا سامان ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور

Page 242

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۲ ترک موالات اور احکام اسلام اگر کفار کو کچھ حاصل ہوتا ہے یہ ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ تھے اور کیا ہم نے تم کو بچایا نہیں مومنوں سے ؟ پس اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کو فیصلہ کرے گا اور اللہ تعالی کبھی مسلمانوں پر کافروں کو غلبہ نہیں دے گا“ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت جو کھی گئی اس میں ان منافقوں کو جو مدینہ میں رہتے تھے اور اسلامی حکومت کے افراد تھے ان کا فروں سے جو اسلام کے مٹانے کے لئے مسلمانوں سے بربر جنگ تھے دوستی رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کی مدد کرنے اور ان کو اکسانے سے باز رکھا گیا ہے نہ کہ تمام دنیا جہاں کے کافروں سے اور انگریز ہرگز اسلام کی وجہ سے مسلمانوں سے نہیں لڑ رہے بلکہ جو لڑائی وہ کر چکے ہیں وہ بھی دنیوی وجوہ پر تھی.تیری آیت تیسری آیت جو ترک موالات کی تائید میں پیش کی جاتی ہے یہ ہے.جو آیا تھا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الكَفِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ اتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُو اللَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَنَا مُبِيناه (النساء : ۱۴۵) اس کا ترجمہ ترک موالات کے فتوی میں یوں لکھا گیا ہے." اے ایمان والو مومنوں کے سوا کافروں کو اپنا یارو مدد گار مت بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر الہ کا الزام صریح لو ! اس آیت میں بھی پہلی آیت کی طرح یہ نہیں بتایا گیا کہ کن کفار سے ترک موالات کرو اور کن سے نہیں اور اس کی تشریح دوسری آیات ہی سے کرنی پڑے گی اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزوں سے ترک موالات کا حکم کسی صورت میں نہیں نکلتا.چوتھی آیت اب میں چوتھی آیت کو لیتا ہوں جو یہ ہے.يَا بَيْهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوّى وَعَدُوكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمُ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا.ما جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ (المتحہ : (٢) لینی " اے ایمان والو میرے دشمن اور اپنے دشمن کو رفیق مت بناؤ پیغام بھیجتے ہو تم ان کی طرف دوستی کا حالانکہ وہ منکر ہوئے ہیں اس سچائی سے جو تمہارے پاس بھیجی ہے.(ترجمہ منقول از فتونی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور مخاطبوں کے دشمنوں کو دوست و مددگار بنانے سے منع فرمایا ہے لیکن یہ کہ دشمن سے کیا مراد ہے ؟ اس کی تشریح نہیں فرمائی دشمنی عقائد کے اختلاف کا نام بھی ہو سکتا ہے اور اس سے مراد وہ کینہ بھی ہو سکتا ہے جس کے اثر سے انسان اپنے مخالف کو بالکل تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے پس اس آیت میں " عدو کے جو معنے ہیں وہ معلوم کرنے ہمارے لئے ضروری ہیں اور اس لئے ہمیں دُور جانے کی ضرورت نہیں اسی آیت کے اگلے حصہ میں اس دشمنی کی اللہ تعالٰی

Page 243

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۳ ترک موالات اور احکام اسلام ہو نے خود تفصیل فرما دی ہے جو نہ معلوم کسی وجہ سے فتوی نویسیوں نے ترک کر دی ہے پوری آیت یوں ہے يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوّى وَعَدُ وَكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمُ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ : يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَ إِيَّاكُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاء مَرْضَاتِى تُسَرُّونَ إِلَيْهِمُ بالمَوَدَّةِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَا اَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَمَن يَفْعَلُهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السبيل ٥ ( المستحنہ :۲) اور اس سے اگلی آیت یہ ہے إِن يَنقَفُوكُمْ يَكُونُوا لكُمُ اعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمُ وَالْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَو تَكْفُرُونَ المستحه : ۳) اور ان دونوں آیتوں کا ترجمہ یہ ہے." اسے مومنو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم ان کو محبت کے پیغام بھیجتے ہو یا یہ کہ تم ان کوخط لکھتے ہو.حالانکہ انہوں نے اس حق کا انکار کردیا ہے جو تمہارے پاس آیا ہے وہ لوگ رسول کو اور تم کو اس لئے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا رب ہے ایمان کیوں لائے ؟ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا کے حاصل کرنے کے لئے نکلتے ہو تو ان کی طرف پوشیدہ طور پر محبت کے پیغام بھیجتے ہو یا یہ کہ پوشیدہ طور پر خط بھیجتے ہو (مودۃ خبط کو بھی کہتے ہیں ، حالانکہ میں خوب جانتا ہوں اس کو جو تم چھپاتے ہو یا جسے ظاہر کرتے ہو اور جو کوئی شخص تم میں سے ایسا کرے وہ ضرور سیدھے راستے سے بہک گیا.اگر وہ کہیں تم کو پکڑ پاویں تو ضرور تمہارے دشمن ہوں اور اپنے ہاتھ بھی تمہاری طرف بڑھا دیں اور اپنی زبانیں بھی دراز کریں اور خواہش کرتے ہیں کہ تم کافر ہو جاؤ " اگر فتویٰ شائع کرنے والے اس آیت کو سارے کا سارا نقل کر دیتے بلکہ اگلی آیت بھی ساتھ درج کر دیتے تو شاید اس کے متعلق مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی کیونکہ اس آیت کا مضمون خود ہی شاہد ہے کہ انگریزوں سے ترک موالات کے ساتھ آیت کا تعلق ہی نہیں ہے اس آیت میں صاف طور پر اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جو قوم تم سے جنگ کر رہی ہو اور تم کو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے سبب سے تمہارے گھروں سے نکالتی ہو اور اگر تم اس کے قابو پڑ جاؤ تو تم کو واپس کفر میں لانے کے لئے زبان اور ہاتھوں سے ایذاء دینے میں بھی اسے کوئی عار نہ ہو تو ایسی قوم سے دوستی نہ کرو اور دوستی کی تشریح بھی فرما دی کہ یہ نہ کرو کہ اسلامی لشکر کی خبریں اسے خفی طور پر پہنچاؤ.اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ نہ یہ باتیں انگریزوں میں پائی جاتی ہیں اور نہ اس قسم کی دوستی ان سے کوئی کرتا ہے ہم تو خود ان کے زیر حکومت لیتے ہیں ان کے اور ہمارے تعلقات اس قسم کے ہو ہی نہیں سکتے جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں اور جب یہ بات ہے تو اس سے ترک موالات کا جوانہ ملکہ حکم

Page 244

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۴ ترک موالات اور احکام اسلام نکالنا کس طرح درست ہو گیا، یہ چارہ آیات میں جن میں کفار کی توتی سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے اور ان آیتوں میں واقع توتی سے مراد دوستی اور مدد کا لینا اور مدد دیتا ہے لیکن جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں ان چار آیتوں میں ان کفار سے توتی یا دلایت منع کی گئی ہے جو دین اسلام کے مٹانے کے لئے جنگ کر رہے ہوں اور مسلمانوں کو گھروں سے نکال رہے ہوں لیکن انگریز نہ مسلمانوں کو دین اسلام سے پھرانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں اور نہ دین سے پھرانے کے لئے ان کو گھروں سے نکالتے ہیں ان کی حکومت میں مسلمان گھلے بندوں اسلام کی تائید میں وعظ اور تبلیغ کرتے ہیں اور خود مسیحیوں کو مسلمان بناتے ہیں مگر وہ کسی سے باز پرس نہیں کرتے.آیات قسم دوم اب میں ان تین آیتوں کو لیتا ہوں جن میں امداد کا ذکر نہیں صرف محبت کرنے کا ذکر ہے.پہلی آیت اول آیت تو بالکل صاف ہی ہے کیونکہ اس میں لفظ ہی محبت کا ہے.یعنی لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَو إِخْوَانَهُمْ أَو عَشِيرَتَهُمُ أوليكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإيْمَانَ وَيَدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ ، وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّتِ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَرُ خَلِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ ط حزب الله: الوان حزب الله هـ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ، (المجادلة : ۲۳) نہیں پاؤ گے تم کسی قوم کو جو یقین رکھتی ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر کہ وہ دوستی کرے ان سے جنہوں نے مقابلہ کیا اللہ اور اس کے رسول کا اگر چہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ایسے ہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا اور اپنی روح سے ان کی مدد فرمائی اور ان کو داخل کر لیا باغ بہشت میں جس کے نیچے بہتی ہیں نہریں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش.یہ جماعت ہے اللہ کی یاد رکھو کہ خدا کی جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے (ترجمہ منقول از فتوی) جیسا کہ اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے اس میں لینے دینے کا بلکہ دوستی کا بھی کوئی ذکر نہیں بلکہ محبت کا ذکر ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ خدا اور اس کے رسول کے دشمن ہوں ان سے محبت نہ کی جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص بھی ایسا ہو کہ اسے ہم سے صرف مذہبی اختلاف ہی نہیں بلکہ وہ خدا اور رسول کو بھی برا بھلا کہتا ہو اس سے ہمیں ہرگز محبت نہیں کرنی

Page 245

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۵ ترک موالات او را حکام اسلام چاہنے خواہ ایسا شخص انگریزوں میں سے ہو خواہ ہندوؤں میں سے ہو خواہ یہودیوں میں سے ہو خواہ خود مسلمانوں میں سے ہو.متعصب اور بُرا بھلا کہنے والے انسان سے محبت کس طرح ہو سکتی ہے ؟ جو شخص اخلاق سے عاری ہے اور دوسرے مذاہب کے بزرگوں پر غضب کا اظہار کرتا ہے اور عداوت سے کام لیتا ہے وہ ہرگز محبت کے قابل نہیں مگر اس آیت کے کسی قوم یا مذہب کے لوگوں سے ترک موالات کا مسئلہ نکالنا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا اور اس آیت کے الفاظ سے جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے اس آیت کے مضمون اور ترک موالات کے مضمون میں زمین و آسمان کا فرق ہے.دوسری آیت دوسری آیت جس میں کفارسے محبت منع کی گئی ہے یہ ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصْرى أولِيَاء بَعْضُهُمُ اَولِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمُ (المائدة (٥٢) یعنی " اسے ایمان ط (۵۲) والو ! یہود و نصاری کو اپنا دوست و مدد گار نہ بنا وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی ان سے دوستی کرے گا وہ ان ہی میں شامل سمجھا جائے گا.اس آیت میں صرف تربی یہود و نصاریٰ مراد ہیں اس آیت کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی شرط نہیں بیان فرمائی کہ فلاں قسم کے بیہود و نصاری سے دوستی نہ کرو اور فلاں سے کر د بلکہ بلا کسی شرط کے یہود و نصاری کی دوستی سے منع کر دیا گیا ہے لیکن یہ استدال درست نہ ہوگا کیونکہ ترک موالات کے متعلق جو آیات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے تین میں کفار سے دوستی کرنے اور ان کے مدد گار ہونے سے مطابقاً منع کیا گیا ہے مگر باوجود اس کے ہندوؤں سے دوستی کو ترک موالات کے حامیوں نے جائز قرار دیا ہے اور اس کی دلیل میں وہ سورہ ممتحنہ کی آیت پیش کرتے ہیں اور ان آیات کے عام الفاظ کو اس آیت کے مضمون سے خاص کرتے ہیں اسی طرح اس آیت کو بھی حل کرنا چاہئے اور اسی آیت کے ساتھ ملا کر اس کے معنی کرنے چاہئیں اور وہ معنے یہی ہوں گے کہ وہ یہود و نصاری جو تم سے لڑائی کرتے ہوں یا لڑائی کرنے والوں کے شریک ہوں ان سے دوستی نہ کرو.مگر میرے نزدیک اس آیت میں مددگار بننے اور اس آیت میں صرف دوستی کا ذکر ہے مدد لینے کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اسی مضمون کی اگلی آیت سے معلوم ہوتا ہے اس میں صرف دوستی کرنے کا ذکر ہے وہ انگلی آیت جسے ترک موالات کے حامیوں نے بھی پیش کیا ہے یہ ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ

Page 246

ترک موالات اور احکام اسلام اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أوتُو الكتب مِن قَبْلِكُمْ وَالكُفَّارَ أَوْلِيَاء وَاتَّقُوا اللهَ إِن كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ (المائدة : (٥٨) یعنی " اے ایمان والو تم ان اہل کتاب اور کافروں کو اپنا یار و مدد گار مت بناؤ جنہوں نے بنا لیا ہے تمہارے دین کو سہنسی اور کھیل اور اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو ( ترجمه منقول از فتوی ) ترک توتی کے لئے شرط اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تو تی کے ترک کرنے کے لئے ایک شرط لگائی ہے.یعنی ان اہل کتاب اور نصاری سے توتی نہ کرو جو تمہارے دین کو سنی اور کھیل بناتے ہیں لیکن یہود و نصاری کے علاوہ باقی کافروں کو بھی اس حکم میں شامل کر دیا ہے.پس پہلی آیت کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ یہود و نصاری سے خواہ کسی حالت میں ہوں توتی نا جانز ہے بلکہ پچھلی آیت میں جو شرط لگانی ہے وہ لگانی ضروری ہوگی ورنہ نعوذ باللہ من ذالك یہ کہنا پڑے گا کہ چھ آیت پہلے تو اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ یہود و نصاری سے مطلقاً دوستی نہ کرو ان سے امداد نہ لو اور نہ ان کو دو.اور چھ آیت کے بعد فرماتا ہے کہ جو ان میں سے دین کو منسی یا کھیل بنادیں ان سے ایسا تعلق پیدا نه کرد.غرض پہلی اور دوسری دونوں آیتوں میں یہ شرط ساتھ لگانی پڑے گی کہ ان یہود و نصاری سے دوستی نہ کی جاوے جو اسلام کو سنی اور کھیل بناتے ہیں اور جب اذان دی جاتی ہے تو اس پر مبنتے ہیں اور اسے کھیل بنا لیتے ہیں جیسا کہ ساتھ ہی فرمایا ہے وَإِذْ نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلوة اتَّخَذُوهَا هُزُوا ولعباء (المائدۃ : 09) یعنی جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو وہ ہنسی اور کھیل بنا لیتے ہیں لیکن صرف یہود و نصاری کی نسبت ہی یہ فتویٰ نہیں ہو گا بلکہ باقی تمام لوگوں کی نسبت بھی ہوگا خواہ ہندو ہوں خواہ سکھ کیونکہ دوسری آیت میں صاف طور پر یہود و نصاری کے ساتھ والكفار المائدة :) کا لفظ بڑھا کر یہود و نصاری کے سوا جس قدر کافر ہیں ان کو بھی اس فتویٰ میں شامل کر دیا گیا ہے.پس جو حکم ہود اور نصاریٰ کی نسبت دیا جائے گا وہی حکم و انکفار کے لفظ کی وجہ سے دوسرے تمام مذاہب کے پیروؤں کی نسبت بھی لگانا پڑے گا.ان آیتوں میں صرف دوستی سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ ان دونوں آیتوں کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ان میں توتی.سے مراد صرف دوستی ہے مدد لینے یا دینے کا ذکر نہیں.کیونکہ دین سے منسی یا اذان سے مہنسی کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے کہ حکومتوں کا اس سے تعلقی ہو.یہ بات افراد سے تعلق رکھتی ہے پس مراد یہی ہوئی کہ یہودیوں عیسائیوں یا دیگر مذاہب کے پیروؤں میں سے جو لوگ تمہارے دین پر مبنی کریں تمسخر اڑا نہیں اور اذان من

Page 247

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۷ ترک موالات اور احکام اسلام کر اس کو ایک کھیل قرار دیں ایسے لوگوں سے گہرے تعلق نہ رکھو ورنہ تم بھی ان ہی لوگوں میں شامل سمجھے جاؤ گے اور یہ بات بالکل درست ہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا ہے جو اس کے دین کا تمسخر اڑاتے ہیں اور اس سے مہنسی کرتے ہیں اس کو برا نہیں مناتا وہ یا تو دل سے اس دین سے بیزار ہو چکا ہوتا ہے یا اس کے دل کے اندر تغیر پیدا ہونا شروع ہو چکا ہوتا ہے اور تھوڑے عرصہ کے بعد وہ ان ہی لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے.جب ایمان ہوتا ہے تو غیرت ساتھ ضرور ہوتی ہے ایمان غیرت کے بغیر نہیں ہو سکتا.جب کوئی شخص یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس سے یا اس کے ماں باپ سے تمسخر کیا جا وے اور ان کو کھیل بنایا جاوے تو وہ اس امر کوکب برداشت کر سکتا ہے کہ دین کے متعلق تمسخر کرنے والوں سے دوستی رکھے.یہاں دوستی سے کیسی دوستی مراد ہے ؟ اس کی یہاں دوستی سے کیسی دوستی مراد ہے ؟ تشریح ہمیں قرآن کریم کی دوسری آیات سے ° بھی معلوم ہو جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي ابْتِنَا فَاعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثِ غَيْرِهِ ، وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَنُ فَلَا فِي تَقْعُدُ بَعْدَ الذكرى مَعَ القَومِ الظَّلِمینَ ، (الانعام : 49) یعنی " اسے قرآن کے پڑھنے والے جب تو دیکھے ان لوگوں کو جو تمہاری آیتوں میں بیہودہ بکواس کرتے اور ان کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے علیحدہ ہو جا یہاں تک کہ وہ اور باتوں میں مشغول ہوں اور اگر شیطان تجھے بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے پاس مت بیٹھے “ اسی طرح ایک اور آیت میں جس کے متعلق میں پہلے تفصیل بیان کر چکا ہوں آتا ہے.وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الكِتُبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ أَنتِ اللهِ يَكْفَرُبِهَا وَيُسْتَهُذَا بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمُ حَتَّى يَخُوضُوا في حَدِيثِ غَيْره.نكُمْ إِذَا مِثْلُهُمْ (النساء : ۱۴۱) یعنی خدا تعالیٰ نے تم پر کتاب میں یہ حکم نازل کر چھوڑا ہوا ہے کہ جب تم سنو کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے اور ان سے مہنسی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے پاس نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ اور باتوں میں لگ جاویں ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں آیات اللہ سے ہنسی ہوتی ہو وہاں نہیں بیٹھنا چاہئے اور آیات جواد پر بیان ہوئیں ان میں بھی یہی ذکر ہے که ان میبود و نصاری اور دیگر کافروں سے دوستی نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کی آیات سے سہنسی کرتے ہیں پس ان آیات کا یہی مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ تعلق نہ رکھو اور ان سے زیادہ موجلو ہیں اور کسی سیاسی مسئلہ کا یہاں ذکر نہیں بلکہ اس دوستی کا ذکر ہے جو ایک شخص دوسرے سے کرتا ہے اور اس ١٤١ {

Page 248

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۸ ترک موالات اور احکام اسلام تعلق کا بیان ہے جو دو محبت کرنے والوں کے درمیان ہوتا ہے.پس ان آیات سے ترک موالات کا فتوی نکالنا کسی طرح درست ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی فتوی نکلے گا تو وہ اسی طرح جس طرح انگریزوں پر چسپاں ہوگا ہندوؤں پر بھی چسپاں ہوگا کیونکہ ان آیات میں تمام کفار کا ذکر ہے نہ صرف یہود و نصاری کا.اذان وغیرہ پر تمسخر اور استہزاء انگریز یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گومسیحی اسلام پیرکس قدر ہی اعتراض کیوں نہ کرتے ہوں مگر وہ کرتے ہیں یا ہندو سکھ وغیرہ ؟ ہمارے دین کی اور اذان کی تضحیک نہیں کرتے بلکہ ان لوگوں میں جن کے ساتھ موالات جائز رکھی جاتی ہے یعنی ہندوؤں اور سکھوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو تمسخر سے کام لیتے ہیں اور اذان پر شور مچاتے ہیں بلکہ فساد پر آمادہ ہو جاتے ہیں.یہ حکم کسی قوم کے متعلق نہیں مگر جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ اس آیت کے الفاظ اور بلکہ افراد کے متعلق ھے دوسری آیات کی تشریح سے ان آیات کے یہی معنی معلوم ہوتے ہیں کہ اس جگہ کسی قوم پر بحیثیت مجموعی قومی نہیں دیا گیا جس طرح پہلی آیات میں دیا گیا تھا کہ جو قوم تم سے دین کی خاطر جنگ کرتی ہو اس کے کسی شخص سے تعلق دوستی نہ رکھو بلکہ اس میں افراد کے متعلق حکم ہے کہ یہودیوں عیسائیوں یا دوسرے کافروں میں سے جو لوگ دین سے تمسخر کرنے والے ہوں ان سے رنہ کہ ان کی ساری قوم سے) دوستانہ تعلقات نہ رکھو ورنہ تم بھی ان ہی میں شامل سمجھے جاؤ گے اس حکم کے ماتحت گو انگریزوں سے ہماری صلح ہو مگر جو انگریز بھی ہمارے دینی احکام پر ہنسے گا اور دین پر بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کے تمسخر اڑائے گا ہم اس سے میل ملاپ نہ کریں گے اور اس کی صحبت میں نہ بیٹھیں گے جب تک وہ سنجیدگی پیدا نہ کرے.اسی طرح ہنود سے گو ہماری صلح ہو مگر ان میں سے اگر کوئی شخص ہمارے دین سے تمسخر کرے گا تو ہم اس کے ساتھ بیٹھنا اُٹھنا بند کر دیں گے جب تک وہ اپنی اس عادت سے باز نہ آجا وسے اور اگر کوئی ایسے شخص سے دوستانہ تعلقات رکھے گا اور اس کی مجلس میں خوب شوق سے جاتا ہو گا توہم اس کی نسبت بھی یقین کریں گے کہ وہ اسلام سے بیزار ہے اور اس شخص کا ہم خیال ہے.ان ہر دو قسم کی آیات کے احکام میں فرق غرض پہلی چار آیات یں جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ اقوام کے متعلق ہیں جن اقوام پر وہ احکام چسپاں ہوتے ہوں ان کے کسی فرد سے بھی ہم تعلق نہیں رکھ سکتے جب تک وہ ان کو چھوڑ کر ہم سے نہ

Page 249

انوار العلوم جلد ۵ ۲۲۹ ترک موالات اور احکام اسلام آئے.اور پانچویں آیت میں مدد لینے یا دینے کے متعلق کوئی ارشاد نہیں صرف یہ حکم ہے کہ جولوگ خدا تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوں ان سے قلبی محبت نہ رکھو.اور پچھلی دونوں آیتوں میں جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ افراد کے متعلق ہیں جس شخص میں وہ عیب پایا جائے گا جو ان آیتوں میں بیان کیا گیا ہے اس سے ہم تعلق توڑ دیں گے باقی قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا.اسلام نے تنگ دلی نہیں سکھائی اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے تنگ دلی نہیں سکھائی اور ان آیات کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی شخص اسلام پر بغرض تحقیق بھی اعتراض کرے تو ہم اس سے تعلق قطع کر دیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو شخص تمسخر کرے اور حق جوئی اس کے مد نظر نہ ہو بلکہ تحقیر اور سہنسی مذاق اُڑانا مد نظر ہو اس کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا موقوف کر دیں کیونکہ یہ فعل بے غیرتی پر دلالت کرتا ہے اور بے غیرتی نہایت رزیلے اخلاق میں سے ہے.آیت پیش کرده «الماند : ۱۵۲) اورسید رشید رضا کا ایک واقعہ سید محمد رشید رضا صاحب ایڈیٹر المنار مصر جن سے ہندوستان کے اکثر لوگ واقف ہوں گے کیونکہ وہ نہ میں ندوۃ العلماء کے جلسہ کے پریزیڈنٹ ہونے کے لئے ہندوستان آئے تھے اور ہندوستان کے مشہور مقامات کا ایک دورہ بھی انہوں نے کیا تھا انہوں نے آیت اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصِرى اولياء (المائدة (۵۲) کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے جس کا اس جگہ لکھ دینا خالی از فائدہ نہ ہوگا.وہ لکھتے ہیں کہ سالانہ میں ہیں قسطنطنیہ گیا تھا وہاں کی یونیورسٹی میں میں دینی تعلیم کی حالت دیکھنے گیا.ایک مدرس اس آیت کی تفسیر بیان کر رہا تھا اور کہ رہا تھا کہ اس آیت سے نکلتا ہے کہ یہود اور نصاری سے بالکل تعلق نہیں رکھنا چاہئے او ان سے دوستی نہیں کرنی چاہئے.جب وہ مدرس ترکی میں تقریر کر چکا.ایک طالب علم کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ پھر سلطنت عثمانیہ کیوں ان دونوں قوموں کو پارلیمنٹ کا ممبر بناتی ہے اور وزارت تک کے عہدے دیتی ہے ؟ اس پر مدرس الیسا گھبرایا کہ اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا.کیونکہ اگر وہ کہتا کہ یہ حکومت کی غلطی ہے تو ڈر تھا کہ مارا جاتا اور بیضاوی کے لکھے ہوئے معنوں کے سوا اس کے دماغ میں اور کوئی معنے تھے ہی نہیں اس پر میں نے کہا کہ کیا مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے ؟ اس نے اجازت دی اور میں نے اسے ولایۃ کے معنے بتائے اور بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ان قوموں سے کیسے تعلق تھے ؟ پس دلایہ سے مراد ان کفار کی مدد ہے جو بر سر پہ کار تھے ورنہ خود صحابہ رضی اللہ عنم نے اپنے زمانہ حکومت

Page 250

انوار العلوم جلد 2 ۵ ۲۳۰ ترک موالات او را حکام اسلام میں ان کو بڑے بڑے عہدے دیئے ہیں اور عباسیوں نے تو وزیر تک بنائے ہیں.اس پر سائل کی تستی ہو گئی اور مدرس صاحب کا خوف دور ہو گیا.گو سید رشید رضا صاحب کی نظر ان معنوں تک نہیں پہنچی جوئیں نے لکھے ہیں مگر ہر حال یہ واقعہ جو انہوں نے بیان کیا ہے ترک موالات کے حامیوں کے لئے ایک سبق ہے.تغییری قسم کی آیت آٹھویں آیت جو ترک موالات کے حامیوں نے پیش کی ہے یہ ہے.قَدَّمَتْ لَهُمْ تَرى كَثِيرًا مِنْهُمْ تَوَتُونَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا انفسهُمُ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَلِدُونَ ، وَلَو كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ النَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمُ اوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمُ فَسِقُونَ (المائدہ : ۰۲۸۱ ان میں سے بہت تم ایسے دیکھو گے جو رفیق بنتے ہیں کافروں کے.بے شک بُرا ہے وہ جو آگے بھیجا ہے انہوں نے خود اپنے لئے کہ اللہ کا غضب ہے ان پر اور وہ ہمیشہ عذاب میں ہیں اور اگر یقین رکھتے وہ اللہ پر اور نبی پر اور جو نبی کی طرف اتارا گیا تو کافروں کو رفیق نہ بناتے لیکن ان میں بہت سے نافرمان ہیں " یہ آیت یہود کے متعلق ہے معلوم ہوتا ہے کہ راقمان فتویٰ نے اس آیت کو قرآن کریم سے نکال کر نہیں پڑھا بلکہ کلید میں سے ہی دیکھ کر اس کو درج کر دیا ہے یا کسی نا واقف حافظ سے تولی کی آیات دریافت کر کے لکھ دی ہیں کیونکہ یہ آیت یہود کی نسبت ہے مسلمانوں کی نسبت نہیں اللہ تعالیٰ یہود کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ یہود کفار سے دوستی کرتے ہیں اگر وہ مسلمان ہوتے تو الیسا نہ کرتے.اس آیت سے پہلی آیات میں سیود کا ہی ذکر ہے چنانچہ اس آیت سے پہلی دو آیتیں یہ ہیں.(1) لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ ٥ (۲) كَانُوا لَا يَتَنَاهُونَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِثْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ، (المائدة : ٩) ه المائدة : ۷۹-۸۰) یعنی بنی اسرائیل میں سے کافر لعنت کئے گئے ہیں داؤد کی زبان سے بھی اور عیسی بن مریم کی زبان سے بھی یہ ان کی نافرمانی اورانکے حد سے نکل جانے کا نتیجہ تھا یہ لوگ ان بدیوں سے جن کے مرتکب تھے باز نہیں آتے تھے ضرور بہت بُرا تھا جو وہ کرتے تھے" اس سے آگے پھر وہ آیت ہے جسے مفتیوں نے لکھا ہے پس اس آیت کے مخاطب تو یہود ہیں نہ کہ مسلمان.(40-49:

Page 251

انوار العلوم جلد ۵ ۲۳۱ ترک موالات اور احکام اسلام ایک سوال اور اس کا جواب شائد اس موقع پر یہ کہا جاوے کہ اس میں چونکہ یہ ارشاد ہے کہ اگر سیو د خدا اور رسول پر ایمان لاتے تو ایسا نہ کرتے اس لئے اس سے استدلال ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے کفار سے توتی جائز نہیں.سو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ میں ابھی ثابت کروں گا یہود پر اس آیت میں محض کفارہ کی دوستی کا الزام نہیں لگایا گیا بلکہ اصل اعتراض اور کیا گیا ہے پس با وجود اس فقرہ کے کہ اگر یہود مسلمان ہوتے تو ایسا نہ کرتے اس سے ترک موالات کی تائید میں استدلال کرنا درست نہیں.اس آیت کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ یہود میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مشرکوں سے دوستی کرتے ہیں حالانکہ اگر یہ سلمان ہوتے تو ایسا نہ کرتے.اس خلاصہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ سیو د مشرکوں سے کیوں دوستی کرتے ہیں ؟ اگر یہ مسلمان ہوتے تو مشرکوں سے دوستی نہ کرتے کیونکہ نہ تو یہود کا مشرکوں سے دوستی کرنا کوئی عجیب بات تھی اور نہ یہ قابل بیان بات تھی کہ اگر مسلمان ہوتے تو الیسا نہ کرتے.یہود کا مشرکوں سے دوستی کرنا اس لئے قابل تعجب نہیں کہ ان کی مشرکوں سے جنگ نہ تھی پس کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان سے دوستانہ تعلق نہ رکھتے اور یہ بات کہ اگر وہ مسلمان ہو جاتے تو مشرکوں سے دوستی نہ کرتے اس لئے قابل بیان نہیں کہ مسلمانوں کی کفار سے چونکہ جنگ تھی جو ان کے ساتھ شامل ہوتا وہ ضرور مشرکوں سے قطع تعلق کر ہی لیتا پس اگر یہ معنے کئے جاویں جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو نہ پہلا جزو آیت کا قابل تعجیب معلوم ہوتا ہے اور نہ دوسرا قابل بیان اور ایسے معنوں کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرنا جو حکمت سے خالی ہوں سخت ظلم ہے.قرآن کریم تو وہ کتاب ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ نہیں بلکہ ایک ایک حرف بلکہ ایک ایک حرکت معنے خیز ہے اور اس کا کوئی فقرہ بھی حکمت سے خالی نہیں اور سارے کا سارا مفید معلومات اور زبر دست صداقتوں سے پر ہے تم ایک معمولی عقل کے آدمی کی نسبت بھی یہ امید نہ کرو گے کہ وہ ان خصوصیات کی نسبت جو اس کی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں یہ کہے کہ فلاں جماعت ایسا کیوں نہیں کرتی ؟ اگر وہ ہمارے ساتھ ہوتی تو وہ بھی ایسا ہی کرتی.کوئی سمجھ دار مسلمان یہ فقرہ نہیں کہے گا کہ افسوس ہے کہ مسیحی نماز نہیں پڑھتے اگر وہ مسلمان ہوتے تو وہ بھی نماز پڑھا کرتے.یا یوں نہ کہے گا کہ افسوس ہے کہ ہندو لوگ حج نہیں کرتے اور وہ مسلمان ہوتے تو وہ بھی حج کرتے.یا یہ کہ افسوس ہے کہ سکھ لوگ رمضان کے روزے نہیں رکھتے اگر وہ بھی مسلمان ہوتے تو روزے رکھتے.نماز اور زکواۃ اور ج تو اسلام کے خاص احکام ہیں اس میں کیا شک ہے کہ جو مسلمان نہیں وہ یہ کام نہ کرے گا کیونکہ احکام

Page 252

انوار العلوم جلد ۵ ۲۳۲ ترک موالات اور احکام اسلام ان باتوں میں سے نہیں جو فطرت کے تقاضوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو سچے دل سے مسلمان ہو جاوے گا وہ یہ کام کرنے لگ جاوے گا اگر کوئی عقلی بات ہوتی یا فطرتی تقاضا ہوتا تب اس قسم کا کلام کہا جاسکتا تھا کیونکہ عقلی باتیں یا فطرتی تقاضے کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے ہر عقلمند انسان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان کے مطابق عمل کرے گا اور جو قوم فطرت کی آواز کا جواب دینے کی عادت رکھتی ہے اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ اگر فلاں شخص اس قوم میں ہوتا تو فطرتی تقاضوں یا عقل کی باتوں کے پورا کرنے میں کوتاہی نہ کرتا مثلا گو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ افسوس ہے ہندو لوگ نماز نہیں پڑھتے اگر یہ مسلمان ہوتے تو نماز پڑھا کرتے مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلاں پنچ قوم کے لوگ تعلیم سے غافل ہیں اگر وہ لوگ مسیحی یا ہند و یا مسلمان ہوتے تو ایسانہ کرتے ہیں جب تک اس آیت کے الفاظ کسی عقلی قانون کی طرف اشارہ نہ کریں اس کے کوئی معنے بنتے ہی نہیں اور خدا تعالے کے حکیمانہ کلام پر حرف آتا ہے.پس حق یہی ہے کہ یہ آیت ایک عقلی قانون کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہود اہل کتاب ہیں اور مسلمان بھی اہل کتاب میں مسلمان ان کے تمام نبیوں کو مانتے ہیں ان کی شریعت اور ان کی تعلیم کے ایک بڑے حصہ کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں اور سب سے زیادہ یہ کہ ان کی طرح ایک خدا کے ماننے والے ہیں.پس عقل یہ چاہتی تھی کہ جو جتنا قریب ہوتا اس کے قرب کے مطابق سلوک کیا جاتا اور یہ بات بالکل خلاف عقل تھی کہ جو لوگ زیادہ قریب ہوتے ان سے دُور رہا جاتا ہے اور جو دُور ہوتے ان کی تائید کی جاتی مگر یہود الیسا ہی کرتے تھے چنانچہ قرآن کریم سود کی نسبت فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الكِتَبِ يُؤْمِنُونَ بالجبت والد وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سبيلاً (النساء : ٥٢) یعنی کیا تو نے دیکھا ان لوگوں کو جو کتاب میں سے حصہ دیے گئے کہ یہ بدفالیوں اور شریروں اور شیطانوں کی باتوں کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کفار مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں.اسی کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ لوگ مسلمان ہوتے تو کبھی یہ بے اصولا پن نہ کرتے بلکہ ہر ایک قوم کو اس کی حقیقی منزلت پر رکھتے چنانچہ قرآن کریم نے نہ صرف یہ کہ سلوک میں یہود و نصاری کو کفار پر فضیلت دی ہے کہ ان کی لڑکیاں لینی جائز رکھی ہیں اور مشرکوں کی نہیں ان کے کھانے جائز رکھتے ہیں اور مشرکوں کے نہیں بلکہ خود بود و نصاری کو سمجھایا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی خوبیوں کا انکار نہ کیا کرو چنانچہ فرمایا کہ وَقَالَتِ الْيَهُودُ كَيْسَتِ النَّصرِى عَلَى شَيْ ءٍ وَقَالَتِ التَّطرى لَيسَتِ اليَهُودُ عَلى شَيء وهُم ستكون الكتبُ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ (البقرة : ۱۱۲ معني ميبود

Page 253

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام کتے ہیں کہ نصاری میں کوئی خوبی نہیں اور نصاری کہتے ہیں کہ سیور میں کوئی خوبی نہیں حالانکہ ونوں بانٹیل پڑھتے ہیں (جس میں کئی خوبیاں ہیں ، اسی طرح وہ لوگ جو جاہل تھے کہا کرتے تھے یعنی ایک دوسرے کی خوبیوں کو بالکل نظر انداز کر دیا اور لڑائی جھگڑے کے وقت نیکی اور بدی کا موازنہ نہ کرنا تو جہلاء کا کام ہے.غرض اس آیت میں اس بات پر زور نہیں دیا گیا کہ اگر سیو دمسلمان ہوتے تو کفار سے دوستی نہ کرتے کیونکہ یہ تو ایسی بات تھی جس کے کہنے میں کوئی فائدہ نہ تھا.اس میں کیا شبہ ہے کہ یہود کی چونکہ کفار سے جنگ نہ تھی وہ ان سے تعلق رکھتے تھے اگر وہ مسلمان ہو جاتے تو چونکہ مسلمانوں سے کفار کی جنگ تھی وہ ان سے دوستی ترک کر دیتے.پس آیت کا یہی مطلب ہے کہ سیبو د مذہبی معاملہ میں بھی مشرکوں کی تائید کرتے ہیں اور مسلمانوں کے مذہب کی حقارت کرتے ہیں اور ان کو مسلمانوں سے اچھا قرار دیتے ہیں حالانکہ ان سے ان کو مذہب میں کوئی اشتراک نہیں لیکن مسلمانوں سے سینکڑوں اشتراک کی وجوہ موجود ہیں اگر یہ مسلمان ہوتے تو ایسا نہ کرتے یعنی اسلام نے جو اخلاق اور تہذیب سکھائی ہے وہ اس بات سے مانع ہے کہ کوئی شخص عداوت میں حق کو بھی ترک کر دے اور گویا اس طرح یہودی مذہب پر اسلام کی فضیلت ثابت کی ہے.رافسوس ! کہ آج با وجود قرآن کریم کے احکام صریح کے مسلمان بھی اسی غلطی میں مبتلا ہیں.بار ہا متعصب لوگ کہ دیا کرتے ہیں کہ ان احمدیوں سے تو ہندو اور عیسائی اچھے ہیں.بعض لوگ اپنے رشتہ داروں سے کہتے ہیں کہ تم عیسائی ہو جاؤ تو پرواہ نہیں مگر احمدی نہ ہو.الہ تعالیٰ مسلمانوں کی آنکھیں کھولے ، پس اس آیت سے ترک موالات کا حکم نکالنا صریح بے انصافی ہے اور قرآن کریم کی آیات کا غلط استعمال ہے.اگر اس آیت میں عام دوستی مراد لی جائے اگر اس آیت کے وہ معنی نہ بھی کئے جاویں جو میں نے کئے ہیں اور یہی مراد لی تو بھی اس سے ترک موالات ثابت نہیں ہوتی جائے کہ اس آیت میں عام دوستی مراد ہے تو بھی یہ آیت ترک موالات کی تائید میں نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے خلاف ہے کیونکہ اس آیت میں تو یہودیوں پر افسوس کیا گیا ہے کہ وہ مشرکوں سے دوستی کرتے ہیں پس جب قرآن کریم یہود پر اس لئے افسوس کرتا ہے کہ وہ کیوں مسلمانوں کے مقابلہ میں جو کتاب کے ماننے والے میں مشرکوں سے دوستی رکھتے ہیں تو کیا یہ مجیب بات نہیں کہ اس آیت سے یہ استدلال کیا جائے کہ انگریزوں سے جو سیجی ہیں اور قرآن کریم کے ارشاد اقربهُم مَّوَدَّةً کے مصداق ہیں یعنی سب کفار سے زیادہ مسلمانوں سے محبت رکھنے والے لا ہیں ترک موالات کیا جائے اور دوسری اقوام سے جو اہل کتاب نہیں ہیں دوستی کی جائے کیا اس.سے

Page 254

۲۳۴ ترک موالات اور احکام اسلام بھی زیادہ الٹ فتوی کوئی ہو سکتا ہے قرآن کریم تو کہے کہ اہل کتاب کے مقابلہ میں مشرکوں سے کیوں دوستی کرتے ہو ؟ اور فتویٰ یہ دیا جائے کہ اہل کتاب سے تو ترک موالات کرو اور غیر اہل کتاب سے دوستی.یہ تو ایسا فتویٰ ہے جسے اس آیت کے الفاظ نہ صرف رد کرتے ہیں بلکہ اس کے مخالف تعلیم دیتے ہیں.اس آیت میں ظاہری دوستی مراد اصل بات یہی ہے کہ اس آیت میں ظاہری دوستی پر زور نہیں دیا گیا بلکہ یہود جو مسلمانوں کے مقابلہ میں نہیں بلکہ مذہبی جنبہ داری مراد ہے مشرکوں سے مذہبی جنبہ داری کرتے تھے اس پر ان کو ڈانٹا ہے کہ وہ ایسے خلاف عقل طریق کو کس طرح اختیار کرتے ہیں اور بتایا ہے کہ یہ حرکت ہی امر کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے پیچھے دین کا انکار کر کے اپنی فطرت کو مسخ کر لیا ہے.مفتیوں کی پیش کردہ آیات کے علاوہ بعض دیگر ایسی آیات اب میں ان آٹھوں آنتوں کی صحیح تفسیر بیان کرنے کے بعد جو ترک موالات کے حامی پیش کرتے ہیں بعض اور آیات بھی لکھ دیتا ہوں جن کو اسی مسئلہ کی تائید میں پیش کیا جا سکتا ہے تاکہ اس مسئلہ پر نظر ڈالتے ہوئے وہ بھی نظر کے نیچے رہیں.پہلی آیت ایک آیت تو یہ ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً، وَدُوا مَا عَنتُمْ (ال عمران : 119) لینے اسے مومنو مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا راز دان دوست نہ بناؤ یہ لوگ تم کو نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ تم دُکھ میں پڑ جاؤ اس آیت کا مضمون بھی پہلی آیات سے ملتا ہے اور یہی مطلب ہے کہ جن قوموں سے جنگ ہے ان کے افراد سے گہری دوستیاں نہ کرو کیونکہ یہ بات نقصان رساں ہوتی ہے اور اگر یہ شرط نہ لگائی جائے تو سورہ ممتحنہ کی آیت لَا يَنكُمُ اللَّهُ عَنِ الذينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَن تَبرُّدُهُمْ وَتُقْسِطُوا اليهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ( المتحه : 9 ) جسے خود مفتیان ترک موالات نے پیش کیا ہے بے مطلب رہ جاتی ہے.دوسری آیت دوسری آیت سورہ توبہ کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آیا تیهَا الَّذِينَ امَنُوا لا تَتَّخِذُوا بَاءَكُمْ وَإِخْوَانكُمْ اَولِيَاء إِنِ اسْتَحَبُّوا الكفر عَلَى الإِيمَانِ، وَمَن يَتَوَلَّهُمْ مِّنكُمْ فَأوليكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (التوبه :۲۳) یعنی

Page 255

انوار العلوم جلد ۵ ۲۳۵ ترک موالات اور احکام اسلام "اے مومنو! اگر تمہارے باپ اور بھائی کفر کو ایمان سے زیادہ پسند کرتے ہیں تو ان سے دوستی نہ کرو اس آیت کے آگے اور پیچھے جہاد کا ہی ذکر ہے پس اس جگہ بھی دوستی سے مراد ان لوگوں سے تعلق ہے جو اس وقت مسلمانوں سے دین کی وجہ سے لڑ رہے تھے اور اگر اس کو عام کیا گیا تو پھر ہندوؤں سکھوں وغیرہ قوموں سے بھی اس آیت کے ماتحت تعلق منع ہو جاوے گا اور اگر ان سے موالات کرنا سورہ ممتحنہ والی آیت کے ماتحت جائز قرار دیا گیا تو انگریزوں سے موالات کی اجازت بھی اسی آیت سے نکل آوے گی.اسی طرح ایک یہ آیت بھی سند کے طور پیش کی جاسکتی ہے کہ ولا تمیری آیت تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدُ وَ انِ (المائدة : 3 ) بدی اور زیادتی کے معاملہ میں کسی کی مدد نہ کرو اور یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ چونکہ انگریز اس وقت ایک گناہ کا کام کر رہے ہیں اس لئے ہمیں ان کی مدد نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ان کو طاقت ملے گی اور یہ گناہ اور زیادتی پر اور بھی دلیر ہو جا دیں گے.یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم نے دوسری کتب مقدسہ سے ایک زائد تعلیم دی ہے جو اور کسی کتاب میں موجود نہیں دمیرا مطلب یہ ہے کہ اس امر کے متعلق.ورنہ ہزاروں تعلیمیں پرانی کتب سے زائد ہیں بلکہ نئی فلسفی کتب سے بھی.چہ نسبت خاک را با عالم پاک.کہاں دیگر کتب کہاں قرآن کریم ) اور وہ یہ ہے کہ اس نے بد اور بدی میں فرق کیا ہے اس نے بہت سے موقعوں پر بد کو قابل رحم قرار دیا ہے لیکن بدی کو سرسری نظر سے دیکھنے کی کبھی اجازت نہیں دی.وہ بد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ اس سے عفو سے کام لو لیکن بدی کی نسبت کہیں نہیں فرماتا کہ اس سے بھی چشم پوشی سے کام لو.چنانچہ اس آیت کے پہلے حصہ میں اس نے حکم دیا ہے وَلا يَجْرِ مِنكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ أَنْ صَدَّ وَكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أن تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى البَرَدَ التَّقْوى (المائدة : 3 ) کسی قوم کی دشمنی یعنی اس کا تم کو مسجد الحرام سے روکنا تم کو اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم اس پر زیادتی کرو.یہ نہ کرو بلکہ اس کے برخلاف نیکی اور تقوی کے کاموں میں لوگوں کی مدد کرو اور آگے فرمایا وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ والْعُدْوَانِ (المائدة : 3 ) اور نہ مرد کرو آپس میں ایک دوسرے کی گناہ اور زیادتی میں " پس اس آیت میں جہاں ایک طرف ظالم کے لئے موقع مناسب کے مطابق رحم کی سفارش کی ہے وہاں دوسری طرف بدی کے مٹانے کی بھی تعلیم دی ہے یہ حکم نہیں دیاگیا کہ گنہگار اور زیادتی کرنے والے کے ساتھ مل کر کوئی کام نہ کرو بلکہ یہ ارشاد کیا گیا ہے کہ گناہ اور زیادتی میں کسی کی مدد نہ کرو.پس گو انگریزوں سے کوئی

Page 256

انوار العلوم جلد ۲۳۶ ترک موالات اور احکام اسلام غلطی سرزد ہو اور انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہی رہتی ہیں.ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ان کاموں میں ان کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیں جو اپنی ذات میں گناہ نہیں ہیں اور یہ کام جن کو اب چھڑوایا جاتا ہے ان کو پہلے کبھی مذہباً ایسا برا نہیں کہا گیا کہ ان کا کرنا حرام ہے ہیں دوسرے سوالوں کی وجہ سے ان کاموں میں موالات نہیں چھوڑی جاسکتی ہاں اگر اللہ تعالیٰ یہ فرمانا کہ آشم اور عادی کے ساتھ مل کہ کوئی کام بھی نہ کرو خواہ وہ دین یا دنیا میں فائدہ مند ہی کیوں نہ ہو.تب بے شک یہ فتویٰ قابل غور ہو سکتا تھا.مولوی محمود الحسن صاحب کے فتویٰ میں ایک حدیث کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم سے صحابیہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر ہم لوگ کفار سے قطع تعلق کر لینگے تو پھر ہمارے رشتہ دار چھٹ جائیں گے اور ہماری تجارتیں تباہ ہو جائیں گی ہی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ وَازْوَاجُكُمْ وَعَشِيرتكُم وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَونَ كَسَادَهَا وَمَسْكِن تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الفسِقِينَ (التوبه : (۲۴) کہہ دو تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور مال جو تم نے کمایا ہے اور تجارت کی کساد بازاری جس سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جو تم کو پسند ہیں.اگر یہ سب تم کو خدا اور خدا کے رسول اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز میں تو منتظر ر ہو تا کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو.اور اللہ دستگیری نہیں کرتا اس قوم کی جو نا فرمان ہو اس حدیث کے بیان کرنے میں مولوی صاحب موصوف کو اس بات کا بتانا مد نظر ہے کہ ترک موالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ہوا ہے اور یہ کہ جولوگ نقصان کے خوف سے اس سے ڈریں وہ خدا کے نافرمان ہیں یہ سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی اُٹھ چکا ہے کہ ترک موالات سے بہت نقصان ہو گا اور اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ خود اللہ تعالی حل کر چکا ہے که خواہ کس قدر نقصان بھی ہو اس پر عمل کرنا چاہئے.اس حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ اس آیت کا زمانہ نزول دیکھا تغيير معالم التنزيل مؤلفہ ابو محمد الحسين بن مسعود الفراء البغوی جلد ۲ صفحہ ۲۷۷ زیر آیت "قُلْ إِنْ كَانَ اداره تالیفات اشرفیه بیرون بو ھر گیٹ ملتان)

Page 257

۲۳۷ ترک موالات اور احکام اسلام جائے کیونکہ اگر یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہے جب آپ ہجرت فرما چکے تھے اور جب کفار مکہ سے جنگ چھڑ چکی تھی.تو تب تو اس حدیث سے کوئی زائد امر پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا کوئی بھی منگر نہیں کہ جن کفار سے مسلمان بر سر جنگ ہوں ان کے ساتھ محبت اور تناصر کا تعلق رکھنا اور انکے زیراقتدار ملک میں رہنا یہ سب منع ہے اور یہی مطلب ان آیات کا ہے جو پہلے گزر چکی ہیں لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ آیت ہجرت سے پہلے اتری ہے تو پھر ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ اس حدیث کا جو اس آیت کا شان نزول بتاتی ہے کیا مطلب ہے ؟ جب ہم تفاسیر کو اس غرض کے لئے دیکھتے ہیں تو سب کی سب متفق نظر آتی ہیں کہ سورہ تو بہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے اور بعض تو اسے فتح مکہ کے بعد کی بتاتے ہیں مگر اس بات پر اکثر متفق ہیں کہ یہ سورۃ ساری کی ساری مدنی ہے اس کا کوئی حصہ لگی نہیں بعض لوگ اس قدر اختلاف کرتے ہیں کہ آخر کی دو آیتیں مدنی نہیں ہیں لیکن ان کی نسبت اس جگہ سوال نہیں ہیں حصہ کی نسبت سوال ہے وہ تمام مفسرین کی رائے کے مطابق مدنی ہے اور مدینہ میں آنے کے بعد چونکہ کفار مکہ کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی تھی اس لئے ان سے تعلقات قطع کرنے کا حکم تھا جیسا کہ پہلی آیات کی تشریح کرتے وقت بیان کیا جا چکا ہے.فتویٰ میں حدیث ادھوری لکھی گئی ہے اس آیت کی تفسیر میں جہاں وہ روایت بان کی گئی ہے جو مولوی محمود الحسن صاحب نے تحریر فرمائی ہے وہاں اس کے ساتھ ایک اور فقرہ بھی ہے جو ان کے فتویٰ میں درج ہونے سے رہ گیا ہے اور وہ یہ ہے ثُمَّ رُخِصَ لَهُمْ بَعْدَ ذَالِكَ یعنی پہلے تو رسول کریم نے یہ حکم دیا تھا کہ کفار سے کلی طور پر قطع تعلق کر لو لیکن بعد میں اجازت دے دی گئی تھی." یہ فقرہ دوصورتوں سے خالی نہیں یا تو اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ جب کفار سے جنگ ختم ہوگئی تو چونکہ وہ حالات بدل گئے تھے جن کی وجہ سے قطع تعلق کا حکم تھا اس لئے بعد میں تعلقات رکھنے کی اجازت دے دی گئی.اور یا یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ علاوہ دوستانہ تعلق سے منع کرنے کے جو کہ جنگ کے دنوں میں کسی طرح قائم نہیں رکھے جا سکتے.آپ نے بعض اور تمدنی تعلقات سے بھی صحابہ کو روک دیا ہو مگر بعد میں اس حکم کو منسوخ کر دیا ہو.ان دونوں معنوں میں سے کوئی سے معنے بھی کئے جاویں موجودہ زمانہ میں ترک موالات کا حکم ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اگر پیکم منسوخ ہو چکا ہے تو اس کا اثر اس زمانہ میں کچھ ہے ہی نہیں اور اگر یہ دوران جنگ کے زمانہ کے لئے حکم تھا بعد میں حالات کے تغیر کی وجہ سے اس پر عمل کرنا چھوڑا گیا تو اس وقت انگریز ہم سے بر سر جنگ نہیں ہیں میں تم رُخِصَ لَهُمُ کا فقرہ جسے فتویٰ

Page 258

انوار العلوم جلد ۴۳۸ ترک موالات اور احکام اسلام نویس صاحبان نے درج نہیں کیا اس حدیث کے معنوں کو بالکل حل کر دیتا ہے اور اس وقت انگریزوں سے ترک موالات کرنے کے متعلق اس میں سے کوئی حکم نہیں نکلتا.خلاصه کلام خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس قدر بھی دلائل اس وقت تک ترک موالات کی تائید میں دیئے جاتے ہیں ان سے موجودہ زمانہ میں ترک موالات کا فرض ہونا تو کیا اس کا واجب یا سنت ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا اور یہ کہنا کہ اس وقت شریعت اسلامیہ کے احکام کے مطابق ہم ترک موالات کا فتویٰ دیتے ہیں ایک ظلم عظیم ہے اور اسلام سے نہی کرنا ہے.ترک موالات کے حامی عقل کی رو سے مصلحت زمانہ کی روسے، ضروریات موجودہ کی رو سے جس قدر چاہیں ترک موالات پر زور دیں مگر شریعت سے اس کا فرض ہونا ثابت کرنا ایک ایسا اندھیر ہے جو نصف النہار کے سورج کا انکار کرنے سے بھی زیادہ ہے اور اسلام کا ادب اور شریعیت کا احترام رکھنے والا انسان کبھی اس کی جرات نہیں کر سکتا.ایک سوال اور اس کا جواب شائد بعض لوگ اس جگہ پر یشبہ پیدا کریں کہ انگریز ای وقت چونکہ ایک اسلامی حکومت سے بر سر جنگ ہیں اس لئے ان سے ترک موالات کا حکم ہے.اور یہ بات تم خود تسلیم کر چکے ہو کہ قرآن کریم نے حربی کفار سے ترک موالات کرنے کو فرض قرار دیا ہے پس جبکہ انگریز ترکوں سے جنگ کر رہے ہیں ان سے حربی کافروں والا سلوک ضروری ہے.اس شبہ کا ازالہ یہ ہے کہ اول تو یہ غلط ہے کہ انگریز اس وقت ترکوں سے جنگ کر رہے ہیں.انگریزی حکومت کی اس وقت ترکوں سے صلح ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدہ صلح ہو چکا ہے پس اگر ہندوستان کے مسلمانوں کو جو انگریزی حکومت کی رعایا میں حکام کے برخلاف ترک موالات کرنے کی اجازت بھی ہوتی تو بھی اس وقت ان کے لئے یہ امر جائز نہ تھا.کیونکہ اب جنگ ختم ہو چکی ہے اور آپس میں صلح ہو چکی ہے.تعجب ہے کہ جو وقت اس سوال کے اُٹھانے کا تھا اس وقت تو اُٹھایا نہیں گیا بلکہ مسلمان بجائے ترک موالات کے خود لاکھوں کی تعداد میں انگریزی لشکر میں شامل ہوئے اور ترکوں سے جا کر بڑے لیکن اب جنگ کے بعد جب صلح ہوگئی ہے تو یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے.کیا اس وقت مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ ترکی حکومت کی تباہی کے بعد اتحادی ان کے سب ملک ان کو پھر واپس کر دیں گے بلکہ کچھ اور ملک اپنے پاس سے بھی دے دیں گے ؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت ہمیں شرائط صلح کا پتہ نہیں تھا کیونکہ اول تو شرائط صلح معلوم ہوں یا نہ معلوم ہوں ہر ایک عقلمند انسان

Page 259

انوار العلوم جلد ۵ ۲۳۹ ترک موالات اور احکام اسلام سمجھ سکتا تھا کہ اس قدر خطرناک جنگ کے بعد نقشہ وہی نہیں رہ سکتا جس طرح کہ پہلے تھا.دوم جنگ کے دوران میں ہی اتحادیوں کی طرف سے یہ اعلان ہو چکے تھے کہ جن ممالک کی زیادہ آبادی غیر اقوام کی ہے ان کو ترکوں کے ماتحت نہیں رکھا جاوے گا اور اس شرط کے ماتحت شام، فلسطین، عرب ، عراق وغیرہ علاقے جنگ کے بعد خود بخود ترکوں کے ہاتھ سے نکل جانے تھے اور اس کا علم ساری دنیا کے لوگوں کو تھا.اگر کسی بات کا علم نہ تھا تو فقط تھر میں اور سمرنا کا.پس لاعلمی کا دعوی بالکل باطل ہے.اگر بفرض محال اس وقت ترک موالات فرض ہے پھر اگر بفرض محال مان ہی لیا جاوے کہ انگر میز اب تک بر سر جنگ ہیں تو اس کا پہلا قدم یہاں سے ہجرت ہے اور حربی کافر ہیں تو پھر یاد رکھو کہ تمہارا پیچھا صرف ترک موالات سے نہیں چھوٹ سکتا.اگر یہ بات درست ہے کہ انگریز حربی کافر ہیں اور اگر یہ بات درست ہے کہ یہ اسلام کے مٹانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال رہے ہیں تو ترک موالات بے شک فرض ہے اور اس کا تارک منافق ہے.لیکن اس سے پہلے ایک اور قدم ہے جس کا اُٹھا نا ضروری ہے.تم انگریزوں کو حربی کافر قرار دے کر صرف ان کے سکولوں اور کانوں کو تھوڑ کر خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے.تم ان کی عدالتوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے.تم ان کے خطاب واپس دے کر اپنی روحوں کو موت سے نہیں بچا سکتے، تم ابھی کونسلوں کا بائیکاٹ کر کے بیچے مسلم نہیں بن سکتے.بلکہ اس صورت میں تم پر واجب ہے کہ تم اس ملک کو چھوڑ دو جس پر وہ حکمران ہیں یہی قرآن کریم کا حکم ہے اور تمام دنیا کے علماء بھی مل کر اسے چھوڑ کر اور کوئی فتویٰ نہیں دے سکتے کیونکہ شریعیت کامل ہو چکی ہے اور اب کوئی نیا حکم نہیں آسکتا.اگر ترک موالات اس وقت فرض ہے تو ترک موالات سے پہلا قدم ہجرت ہے جس کے اُٹھائے بغیر تم ترک موالات نہیں کر سکتے.ہجرت و ترک موالات وغیرہ احکام ایسے نہیں ہیں کہ جو صرف الفاظ میں محدود ہوں اور عملی طور پر ان کی تفسیر نہ کی گئی ہو.ان احکام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بار بار صحابہ نے عمل کر کے دکھایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں عمل کر کے دکھایا ہے.پس ان کی تشریح میں غلطی نہیں ہو سکتی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت کے بعد مکہ والوں سے مسلمانوں کی جنگ تھی.ان کے ملک میں ان کے زیر اقتدار مسلمان بھی بہتے تھے لیکن ان کو کبھی بھی ترک موالات کا حکم نہیں دیا گیا.ترک موالات کا حکم ان لوگوں کے لئے تھا جو کفار کے علاقہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں آگئے تھے.جو لوگ کفار کے ہی علاقہ میں تھے ان کے لئے پہلا حکم ہجرت تھا جب تک وہ ہجرت نہ کرتے وہ مسلمانوں میں شامل ہی نہ ہو سکتے تھے اور اسی لئے اسلامی احکام کے پابند ہی نہ سمجھے جاتے تھے

Page 260

انوار العلوم جلد ۲۴۰ ترک موالات اور احکام اسلام حکم بھی آکر منسوخ ہوا جب کہ مکہ فتح ہوگیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا اور اگر آج پھر وہی حالت ہے کہ ایک دشمن اسلام، اسلام کومٹانے کیلئے اور لوگوں کو جبراً اسلام سے مرتد کرنے کے لئے مسلمانوں پر فوج کشی کر رہا ہو تو اس وقت پھر وہی حکم جاری ہو گا جو اس وقت جاری تھا اور اس صورت میں جو شخص ہجرت نہیں کرتا خواہ وہ کتنے ہی خطاب ترک کر دے.کالج کی تعلیم چھوڑ دے نوکری چھوڑ دے بلکہ انگریزوں کا بنایا ہوا کپڑا بھی چھوڑ دے تو بھی وہ شخص مسلم کہلانے کا مستحق نہیں کیونکہ قرآن کریم ان حالات میں ہجرت نہ کرنے والے کو منافق کہتا ہے اور صاف طور پر کفار میں شامل کرتا اور جہنمی قرار دیتا ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ ہم میں ہجرت عدم استطاعت ہجرت کا غذر اور اس کا جواب کی طاقت نہیں کیونکہ ہجرت کے راستہ میں روگ صرف جسمانی نا قابلیتیں بھی گئی ہیں جیسے کوئی شخص ایسا بوڑھا ہو کہ چل نہ سکتا ہو یا اندھا ہو یا نگڑا ہو یا ایسا بیمار ہو کہ چارپائی پر سے اُٹھ نہ سکتا ہو یا عورت ہو یا بچہ ہو.جسمانی کمزوریوں کے سوا دوسرے عذر اس معاملہ میں نہیں کئے جاتے اور ان سب عذرات کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں لغو اور بیہودہ قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ تَوَهُمُ المَلائِكَةُ ظَالِى أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ، قَالُوا اَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَا جِرُوا فِيْهَا، فَا وَلئِكَ مَا وَهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ، إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيْلَةٌ وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلاً ، فَا وَلَئِكَ عَسَى الله أن يَعْفُو عَنْهُمْ، وَكَانَ اللهُ عَفُوا غَفُورًا ، وَمَنْ تُهَا جِرُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدُ في الْأَرْضِ مُر عَمَّا كَثِيراً وَسَعَةٌ ، وَمَنْ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِراً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الموتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللهِ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ه (النساء : ۹۸ تا ۸۱) وہ لوگ جن کی روح فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں اتنام مفسرین اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی ہوئی ہوتی ، ملائکہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کسی خیال میں تھے ؟ یعنی تم نے کیوں ہجرت نہیں کی ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو ملک میں کمزور سمجھے جاتے تھے ہجرت کیونکر کرتے ؟ وہ کہیں گے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ؟ پس یہ لوگ جہنم میں ڈالے جاویں گے اور یہ برا ہی ٹھکانا ہے.ہاں وہ لوگ مستثنی ہیں جو واقعی معذور ہیں.مردوں یا عورتوں یا بچوں میں سے جن کے اس ملک سے نکلنے کا کوئی سامان ہی نہیں

Page 261

۲۴۱ ترک موالات اور احکام اسلام اور نہ راستہ جانتے ہیں.پس یہ لوگ ایسے ہیں کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے اور اللہ تعالی بڑا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہجرت کرلے وہ دنیا میں مصاب سے بچنے کے کئی راستہ پارے گا اور کشائش دیکھے گا.اور جو شخص اپنے گھر سے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہجرت کرتا ہے پھر اس کو موت آجاتی ہے تو اس کا بدلہ خدا کے حضور میں مسلم ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے.اس آیت سے ثابت ہے کہ سوائے ان اشخاص کے کہ جسمانی عوارض کی وجہ سے ہجرت نہ کرسکیں اور دوسرے لوگ خواہ غربت کا عذر رکھتے ہوں خواہ تعلقات کا خواہ چھوٹے درجہ کے لوگ ہوں خواہ بڑے درجہ کے لوگ ہوں، عالم ہوں کہ جاہل سب پر ہجرت فرض ہے اور اگر وہ ہجرت کئے بغیر مر جاویں تو وہ جہنمی ہوں گے.صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کی بات ہے اب اس عذرہ کا جواب کہ یہ حکم ہجرت صرف شائد کوئی اس جگہ کہہ دے کہ یہ تو رسول کریم آنحضرت صلی اللہ علی کلم کے زمانہ سے متعلق ہے تو یہ حکم ہیں مگر یہ حیلہ درست نہ ہوگا.کیونکہ اگر اس طرح احکام کو محدود کرنے گئیں تو قرآن کریم کے تو بہت تھوڑے احکام رہ جائیں گے جو سب مسلمانوں کے لئے ہوں گے کیونکہ بالعموم قرآن کریم میں مخاطب کر کے احکام نازل ہوتے ہیں پس جیسا کہ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ احکام ہر زمانہ کے لئے ہیں.جب بھی یہ حالت ہوگی کہ ایک کا فر حکومت اسلام کے مٹانے کے لئے تلوار پکڑے گی تو اس کے ماتحت رہنے والے مسلمانوں کو حکم ہوگا کہ وہ اس کا ملک چھوڑ کر چلے جاویں اور پھر ان مسلمانوں سے مل کر جن کے مقابلہ پر وہ دشمن اسلام کھڑے ہیں کفار کا مقابلہ کریں اور سب کچھ خدا تعالٰی کے لئے قربان کر دیں.چنانچہ فتح البیان میں لکھا ہے خَيْرَادُ بِالْأَرْضِ كُل بُقْعَةٍ مِن بُقَاعِ الأَرْضِ تَصْلَحُ لِلْهِجْرَةِ إِلَيْهَا وَيُرَادُ بِالْأَرْضِ الأولى كُلُّ أَرْضِ ينبغي الهجرة مِنْهَا - وتغير فتح البيان تفسير سورة النساء زير آيت إِنَّ الَّذِينَ تَوَتُهُمُ الْمَلَئِكَةُ ظَالِمِي اَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُم جلد ۲ مطبوع مصر ۱۳۰۱ھ ) یعنی ہجرت کی زمین سے صرف مدینه مراد نہ لیا جاوے گا ہر ایک زمین جو ہجرت کرنے کے قابل ہو وہ مراد لی جاوے گی اور اسی طرح وہ زمین جہاں سے ہجرت کرنی ہے اس سے مراد بھی صرف مگہ نہیں لیا جاوے گا بلکہ ہر ایک وہ زمین مراد لی جائے گی جہاں سے ہجرت کرنا مناسب ہو؟ غرض یہ حکم ہر زمانہ کے لئے ہے اور اگر انگریز واقع میں دین اسلام کے مٹانے کے لئے جنگ

Page 262

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام کر رہے ہیں اور اب تک بر سر جنگ میں تو بھی ان سے ترک موالات کا حکم نہیں.پہلا حکم ان کے مقبوضہ ملک سے نکل جانے کا ہے اور پھر ترک موالات کا حکم ہوگا اور سی کا حق نہیں کہ اس آسان حکم کو تو لے لے اور شریعت کے اصل حکم کو چھوڑ دے لیکن جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ سب بات ہی غلط ہے اور اس پر بناء القَاسِدِ عَلَى الفَاسِد کی مثل صادق آتی ہے.نہ انگریز مسلمانوں سے دین اسلام سے جبراً تو بہ کرانے اور اسلام کو مٹانے کے لئے لڑرہے ہیں اور نہ یہ حربی کافر ہیں کہ ان کے مقبوضہ ملک سے ہجرت کی جائے اور جب ہجرت کا حکم نہیں تو ترک موالات کا بھی حکم نہیں کیونکہ ترک موالات ہجرت کے بعد ہوتا ہے نہ ہجرت سے پہلے.اگر انگریز واقعی عربی کافر میں تو صرف ہجرت بھی پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گر انگریز واقعی حربی کافر ہیں جو کافی نہیں بلکہ اس کے بعد دوسرا قدم جہاد ہے اسلام کے مٹانے کے لئےمسلمانوں پر حملہ کر رہے ہیں اور ان سے جنگ کر رہے ہیں اور ان کو گھروں سے نکال رہے ہیں.جو شرطیں کہ ترک موالات کے لئے ضروری ہیں تو صرف ہجرت بھی کافی نہ ہو گی بلکہ ہجرت پہلا قدم ہو گا.ہجرت کے بعد دوسرا قدم جہاد ہو گا.کیونکہ جو تو میں اسلام کے مٹانے کے لئے لڑتی ہیں ان سے جنگ کرنا اور ان کے حملہ کا جواب دینا سب مسلمانوں پر فرض ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ باؤ كُم وَابْنَاؤُكُمْ وَ إِخْوَانَكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَ تُكُمُ وَأَمْوَاك اندار فتموها وتجَارَةٌ تَخْشُونَ كَسَادَهَا وَمَكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى القَومَ الفُسِقِینَ (التونز : ۲۲) اے لوگو اگر تمہارے باپ دادے اور بیٹے اور بھائی اور ، بیویاں اور رشتہ دار اور دوست اور مال جو تم نے کمائے اور تجارتیں کہ جن کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور گھر جو تم کو پسند آتے ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلی الہ علیہ وسلم سے او راس کے راستہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجاوے اور اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا.پس اگر انگریز واقع میں اسلام کو مٹانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں تو اول ان کے مقبوضہ ملک سے ہجرت اور پھر ان سے جنگ کرنی ہر مسلمان پر واجب ہو جاتی ہے کیونکہ جو قوم مذہب کے لئے تلوار اُٹھاتی ہے وہ ہرگز اس قابل نہیں ہوتی کہ اسے دنیا میں حکومت کرنے کا موقع دیا جاہے.

Page 263

انوار العلوم جلد ۵ ۲۴۳ ترک موالات اور احکام اسلام اس سوال کا جواب کہ جہاد صرف تلوار کا ہی نہیں ہوتا شائد بعض لوگ یہ کہہ دیں کہ جہاد سے مراد تلوار ہی کا جہاد نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی جہاد میں لیکن یاد رہے کہ گو جہاد صرف تلوار کے جہاد کو ہی نہیں کہتے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس کی اصلاح کو بھی جہاد قرار دیا ہے اور اسے تلوار کے جہادت بڑا سے بڑا قرار دیا ہے.مگر جس قسم کا جہاد اسلام کے خلاف ہو رہا ہو اس کے مقابلہ میں اسی قسم کے جہاد کا حکم ہوتا ہے یہ نہیں کہ لوگ تلوار لے کر مسلمانوں سے جبراً تو بہ کرواتے پھریں اور کوئی شخص یہی توجیہ کرکے کہ دے کہ میں نفس کا جہاد جو بڑا ہے کر رہا ہوں اور ان لوگوں کا ہاتھ نہ پکپڑے کیا کوئی عقلمند اس بات کو جائز قرار دے گا ؟ کہ اس قسم کی توجیہات سے کہ مال کا جہاد ہوتا ہے اور علم کا بھی جہاد ہوتا ہے اور نفس کا بھی جہاد ہوتا ہے اور وقت کا بھی جہاد ہوتا ہے.لوگ اپنا پیچھا چھڑا لیں اور اسلام کو دشمن پامال کرتا پھرے اگر دشمن تلوار کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہتا ہے تو جب تک تلوار ہی کے ساتھ جہاد نہ کیا جاوے کوئی دوسرا جہاد قبول نہیں ہو سکتا.اس سوال کا جواب کہ جہاد فرض کفایہ ہے ہر فرد پر فرض نہیں یہ بھی شہ نہیں پیش کیا جا سکتا کہ جہاد ایک فرض کفایہ ہے اگر مسلمانوں کا ایک حصہ جہاد کر رہا ہو تو دوسرا حصہ اگر جہاد میں شامل نہ ہو لیکن ان کی ہمدردی دل میں رکھے یا دوسرے ذرائع سے ان کی مدد کرے تو اس کا حق بھی ادا ہوجاتا ہے.کیونکہ گو جہاد فرض کفایہ ہے لیکن اسی وقت تک کہ تلوار سے جہاد کرنے والے باقی مسلمانوں کی طرف سے جہاد میں کفایت کر رہے ہوں اسلام کا فاتح شکر جو اسلام کے خلاف مذہبی جنگ کرنے والوں کو ہر میدان میں شکست دے رہا ہو بلاشبہ باقی مسلمانوں کو تلوار کے جہاد میں حصہ لینے سے آزاد کر دیتا ہے لیکن اگر اسلامی لشکر شکست کھاتا ہو اگر ایک کے بعد دوسرا علاقہ اس کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہو ، اگر اسلام کا مٹانے والا دشمن اسلام کو اور اس کے ماننے والوں کو مٹاتا چلا جا رہا ہو تو پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جہاد کرنے والے سب مسلمانوں کی طرف سے ان کے فرض کو پورا کر رہے ہیں.ایک شب خون جو کسی سرحد پر پڑتا ہے اس کے بچانے کے لئے تو بے شک وہاں کی چوکی کافی ہے اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو وہاں جمع ہونے کی حاجت نہیں لیکن اگر دشمن آگے ہی آگے بڑھتا چلا آوے تو پھر لوگ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ صرف ساتھ ملنے والے علاقوں پر جہاد ہوتا ہے.کیا وہ اس وقت کا انتظار کریں گے کہ ایک ایک کر کے سب شہر ہاتھ سے نکل جاویں یا آگے بڑھ کر اس کو کو روکیں گے ؟

Page 264

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام اس سوال کا جواب کہ ہم جنگ کرنا نہیں جانتے اسی طرح اگر انگریز واقع میں اسلام b کے مٹانے کے لئے ایک مذہبی جنگ کے مرتکب ہیں تو کوئی شخص یہ کہ کر ہمیں لڑائی نہیں جانتا اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتا قرآن کریم نے اس قسم کے حیلہ سازوں کو منافق کیا ہے اور اسلام سے خارج قرار دیا ہے.کون سا کام ہے تو انسان کا پیدائش سے پہلے ہی سیکھا ہوا ہوتا ہے ؟ ہر ایک کام سیکھ کر آتا ہے.حکومت برطانیہ نے چند سال میں لاکھ فوج سکھائی یا نہیں ؟ پس یہ کہنا کہ ہم لوگ جنگ نہیں جانتے ایک منافقانہ عذر ہو گا اللہ تعالی منافقوں کی نسبت فرماتا ہے.وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا قَالُوا و نَعْلَمُ قِتَالاً لاَ تَبَعْنَكُمْ، هُم لِلْحُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ (ال عمران : ١٦٨) منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے راستہ میں لڑو یا یوں کہو کہ دشمن کا حملہ دور کرو.تو جواب دیتے ہیں کہ اگر ہمیں لڑائی کا فن آتا تو ہم ضرور تمہارے ہمراہ چلتے.یہ لوگ اس دن جب انہوں نے یہ بات کبھی ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے یہ لوگ وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ خوب جانتا ہے اسے جو یہ چھپاتے ہیں.پس اگر واقع میں کوئی مذہبی جنگ شروع ہے اور اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے مٹایا جا رہا ہے جو ترک موالات کے لئے شرط ہے.تو اس سے پہلے ہجرت کرنا اور پھر جہاد کرنا بھی فرض ہے اور اگر یہ دونوں باتیں فرض نہیں تو یقیناً ترک موالات بھی فرض نہیں کیونکہ ترک موالات اسی قوم سے ہوتی ہے جس سے مذہب کی خاطر جنگ ہو رہی ہو.کیا انگریزوں کو جبراً اسلام کے مثانے والے قرار دیا اور ہجرت و جہاد کے بغیر ترک موالات کا فتویٰ دینا اسلام پر تمسخر نہیں ؟ میں ہر ایک اس شخص سے جو قرآن کریم اور شریعت اسلام کا ادب دل میں رکھتا ہے دریافت کرتا ہوں کہ وہ اپنے پیچھے دل سے یہ بتائے کہ کیا واقع میں انگریز اسلام کو جبراً مٹا رہے ہیں اور پکڑ پکڑ کر لوگوں کو مسیحی بنا رہے ہیں ؟ اور اس لئے مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں کہ کیوں وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور اور قرآن کو مانتے ہیں؟ اگر یہ بات نہیں تو وہ بیدار ہو جاوے کہ اس وقت کس طرح شریعت اسلام سے تسخیر کیا جارہا ہے اور اس کی محبت کا دعوی کر کے اس کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے اور اس سے دشمنی کی جاتی

Page 265

انوار العلوم جلد ۵ ۲۴۵ ترک موالات اور احکام اسلام ہے اور خدا اور اس کے رسول صلی الہ علیہ وسلم کی طرف وہ باتیں منسوب کی جارہی ہیں جو انہوں نے نہیں کیں اور اگر فی الواقع انگریز مذہبی جنگ ہی کر رہے ہیں تو پھر شریعت نے ان لوگوں کو کب اختیار دیا ہے کہ یہ شریعت کے احکام کو منسوخ کر کے جو چاہیں حکم دے دیں ؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے مسلمان صرف کفار کے پاس غلہ نہ بیچ کر یا ان سے بات چیت ترک کر کے ان احکام سے آزاد ہو سکتے تھے ؟ جن سے اس وقت بعض لوگ ترک موالات کر کے مسلمانوں کو آزاد کروانا چاہتے ہیں ؟ مولوی محمود الحسن صاحب کا یہ فتوی دینا کہ میں اس وقت تلوار چلانے کا فتوی نہیں دیتا اور ترک موالات کے دوسرے حامیوں کا ان کی رائے سے اتفاق کرنا اور کم سے کم عملاً سب علماء کا تصدیق کرنا دو باتوں میں سے ایک کی طرف ضرور اشارہ کرتا ہے یا تو یہ کہ ترک موالات کا یہ وقت نہیں ہے اور شریعت کے احکام کے ماتحت اس وقت اس کی اجازت نہیں ہے لیکن چونکہ مسلمانوں کے جوش اس وقت تک نہیں بھڑک سکتے جب تک کسی بات کو مذہبی رنگ نہ دیا جاوے اس لئے ترک موالات کو مذہبی جامہ پہنا دیا گیا ہے یا یہ کہ دل سے یہ علماء سمجھتے ہیں کہ ہجرت اور جہاد دونوں اس وقت فرض ہیں لیکن یا تو حکومت سے ڈر کر اس کا نام نہیں لیتے اور ترک موالات جس کی تلقین کرنا قانونی زد سے بچائے رکھتا ہے اس پر زور دیتے ہیں اور یا یہ کہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے ہجرت اور جہاد کا فتوی دیا تو ہمیں بھی اپنا آرام ترک کرنا پڑے گا اور اگر ہم نے اپنے فتوی پر عمل نہ کیا تو لوگ ہم پر اعتراض کریں گے کہ لوگوں کو کہتے ہو خود کیوں عمل نہیں کرتے ؟ اور اگر ان دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ترک موالات جو تیسرا قدم ہے اس پر تو زور دیا جاتا ہے اور بیچ کے دو قدموں کا ذکر تک نہیں کیا جاتا ؟ کیا اب وہ آیات قرآنیہ جن میں یہ شرائط بتائی گئی ہیں منسوخ کردی گئی ہیں یا لوگوں میں خوف خدا ہی نہیں رہا ؟ کہ جس طرح چاہتے ہیں قرآن کریم کے احکام کو بگاڑ کر پیش کر دیتے ہیں.کاش ! عقلمند انسان آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ اس طریق کا کس قدر نقصان ہو رہا ہے ؟ موجودہ حالت کے متعلق ترک موالات کے حامیوں کے ضمیر کا فتویٰ کھیری کے ڈپٹی کنر کا قتل ایک بین ثبوت ہے اس امر کا کہ جب حکومت سے ترک موالات کی تعلیم دی جاوے تو لازماً انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایسی حکومت کے باقی رکھنے کی کیا حاجت ہے ؟ ان خیال کی اشاعت یقینا فساد

Page 266

۲۴۶ ترک موالات اور احکام اسلام پھیلانے والی اور امن کو دور کرنے والی ہوگی.اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کا جہاد کی فرضیت سے انکار صاف بتا رہا ہے کہ عدم تعاون کے بانی ہرگزہ انگریزوں کی نسبت یقین نہیں کرتے کہ یہ مذہبی جنگ کر رہے ہیں اور اگر مذہبی جنگ نہ ہو تو ترک موالات کا حکم قرآن کریم سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا.پس دونوں باتوں میں سے ایک بات کا فیصلہ ہونا چاہئے یا تو انگریزوں کی نسبت فیصلہ کیا جائے کہ وہ دین اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار لے کر کھڑے ہو گئے ہیں اور جبر سے اشاعت اسلام کو روکتے ہیں اور یا پھر ان کو معاہدین کے زمرہ میں شامل رکھا جاوے.مذہبی پہلو سے اور کوئی تیسری صورت جائز نہیں.اگر پہلی صورت فرض کی جائے تو پھر اول ہجرت اور بعد میں جہاد اور ترک موالات کرنا شریعت کا حکم ہے.جسے نہ کوئی مولوی منسوخ کر سکتا ہے نہ کوئی کمیٹی منسوخ کر سکتی ہے کیونکہ خدا ان حالات سے ناواقف نہ تھا جو اب ظاہر ہو رہے ہیں.اگر اس وقت ان تمام احکام پر عمل کرنا ضروری نہیں جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ضروری تھا تو پھر قرآن ایک وقتی ہدایت نامہ ہے یا خدا تعالیٰ کا علم ناقص ہے لیکن اگر قرآن ہمیشہ کے لئے ہے اور اگر خدا تعالیٰ کا علم کا ہے تو قرآن کریم کی صریح تنظیم کے بعد کوئی شخص یا کوئی کمیٹی یا کوئی علماء کی جماعت نیا فتوی نہیں دے سکتی.اور اگر دوسری صورت میں یعنی انگریز مذ ہب اسلام کو مٹانے کے لئے اور جبراً اسلام سے پھرانے کے لئے نہیں کھڑے ہوئے تب شریعت اسلام کے احکام کے مطابق ان سے ترک موالات کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ب لا يتهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمُ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُم أن تبردُهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ، إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (المتحن : 9) اللہ تعالیٰ تم کو ہرگز منع نہیں کرتا ان لوگوں کے متعلق جو تم سے بر سر جنگ نہیں ہیں اور جنہوں نے تم کو گھروں سے نہیں نکالا کہ ان سے نیکی کرو اور ان کے ساتھ عدل کا معاملہ کرو.اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے" مذہبی جنگ کرنیوالا وہی کا فر محار ہے جو جنگ میں میل کرے اس معاملہ پر غور کرتے وقت یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم نے مذہبی جنگ کی یہ بھی شرط بتائی ہے کہ هُم بَدَءُوكُمْ أول مرة (التوبہ : ۱۳) انہوں نے تم سے پہلے جنگ شروع کی ہو" لیکن کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ ترکوں سے جنگ پہلے انگریزوں نے شروع کی تھی.جب جنگ کی ابتداء ترکوں کی طرف سے ہوئی ہے

Page 267

انوار العلوم جلد ۵ ترک موالات اور احکام اسلام تو پھر انگریزوں پر اعتراض کیا ہے؟ اگر یہ مذہبی جنگ بھی سمجھ لی جاوے تو اس کی ابتداء ترکوں کی طرح سے ہوئی ہے نہ کہ انگریزوں کی طرف سے.متواتر کئی سال سے انگریز اور دوسرے اتحادی اس بات کو پیش کر رہے ہیں کہ ترکوں نے ہم سے جنگ میں ابتداء کی ہے مگر آج تک اس کا جواب ترک نہیں دے سکتے.اگر کوئی معقول جواب وہ دے دیتے تو گو دوسرے لوگ اس کو تسلیم نہ کرتے.مگر کم سے کم ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کے دلوں کو تو تسلی ہوتی اور وہ سمجھتے کہ ترک اس لڑائی میں معذور تھے.اگر بعض خفیہ حالات ایسے موجود بھی تھے جن کا اظہار اب تک نہیں کیا جا سکتا جن کی وجہ سے جنگ ضروری ہوگئی تھی تو بھی اسلام کے احکام کے مطابق ترکوں کو اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے تھا جب تک اتحادی حملہ کرتے اور اپنے پرانے معاہدات کو ایک عرصہ پہلے خدا کے حکم کے مطابق منسوخ شدہ قرار دینا چاہئے تھا اور ان کے منسوخ ہونے کی وجوہات بیان کرنی چاہئے تھیں تاکہ دوسروں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ انہوں نے خلاف عمدہ کام کیا.لیکن جب ترکوں نے جنگ شروع کر دی تو کیا یہ امید کی جاتی ہے کہ برطانیہ خاموش رہتا ؟ اور اپنی سیاہ کو ہلاک ہونے دیتا اور جواب نہ دیتا ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ برطانیہ اور اتحادی خواہ کسی سبب سے سہی اس امر کو چاہتے تھے کہ ترک یا ان کے ساتھ مل جائیں یا جنگ میں شریک ہی نہ ہوں تاکہ مسلمانوں کی ہمدردی ان کو حاصل رہے لیکن جب ان کی خواہشات کے خلاف ترک شامل ہوئے اور انہوں نے جنگ کی ابتداء کی تو پھر یہ جنگ مذہبی جنگ کی طرح قرار پا سکتی ہے.میں یہ نہیں کتا کہ ترک بلا وجہ جنگ میں شامل ہو گئے نہ میں یہ کہتا ہوں کہ انہوں نے غلطی کی.ممکن ہے کہ ان کو اس جنگ میں شامل ہونے میں بعض فوائد نظر آتے ہوں اور نہ شامل ہونے میں نقصان معلوم ہوتا ہو.لیکن بہر حال جب انہوں نے ابتداء کی تو وہ جنگ مذہبی نہ رہی دنیا دی ہو گئی اور دنیوی فتوحات اور دنیوی فوائد کی جنگوں میں انسان موقع اور محل کو دیکھ کر ابتداء بھی کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ یہ ثابت کر سکے کہ اس کا جنگ کرنا انصاف پر مبنی تھا.بعض چیزوں کا بائیکاٹ کرنا اور بعض کا نہ کرنا ترک موالات کے حامیوں کا یہ فعل بھی کہ وہ بعض چیزوں کا بھی بتاتا ہے کہ وہ اسے شرعی مسئلہ نہیں سمجھتے بائیکاٹ کرتے ہیں اور بعض کا نہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسے شرعی مسئلہ نہیں سمجھتے.اول تو اگر یہ شرعی مسئلہ ہوتا تو اس سے پہلے ہجرت اور پھر جنگ ہونی چاہئے تھی.لیکن اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے بھی بغیر اس کے مقبوضہ ملک سے ہجرت کرنے کے اور بغیر اس سے جہاد شروع ہونے

Page 268

انوار العلوم : ترک موالات اور احکام اسلام کے ترک موالات کیا جا سکتا ہے بلکہ بعض وقت الیسا کرنا فرض ہوتا ہے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ اس شرعی فرض میں اپنی طرف سے تغیر کیوں کر لیا گیا ہے.خدا تعالیٰ تو ان لوگوں کی نسبت جن سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے کئی ترک موالات کا فتوی دیتا ہے.پھر یہ کس کا اختیار ہے کہ اس حکم کو نرم با سخت کر دے ؟ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرنا تو ایک خطرناک جرم ہے.پس اگر ترک موالات ایک شرعی حکم ہے تو پھر اس کے مدارج مقر کرنے کا سی کو کیا اختیار ہے ؟ اور عام کا لجوں کے طالب علموں کو تعلیم جاری رکھنے سے منع کرنا اور طبی کالجوں کے طلباء کو پڑھائی جاری رکھنے کی اجازت دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے ؟ پھر انگریزوں سے تجارت کرنا کس طرح جائز ہے ؟ کیا ترک موالات والی آیت میں تِجَارَةٌ تَخْشَونَ كَسَادَهَا " (التوبہ (۲۴) کا ذکر خاص طور پر نہیں کیا گیا ؟ پھر اگر واقع میں یہ حکم شرعی ہے تو کیوں تجارت کو بند نہیں کیا جاتا ؟ کیوں طبی کالجوں کے طلباء کو بھی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاتا ؟ کیوں چوری وغیرہ جرائم کے موقع پر پولیس کی مدد لی جاتی ہے ؟ یا کم سے کم کیوں اعلان نہیں کیا جاتا کہ اگر کسی کے چوری ہو جاوے تو وہ پولیس میں اطلاع نہ کرے ؟ کیوں ریل میں سوار ہوا جاتا ہے ؟ کیوں ڈاک سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے ؟ کیوں تار کے محکمہ سے نفع حاصل کیا جاتا ہے ؟ کیا قرآن کریم کی ان آیات میں جن میں ترک موالات کا فتویٰ دیا گیا ہے کوئی حد بندی کی گئی ہے ؟ یا ان آیتوں کے سوا اور کوئی آیات ہیں جنہوں نے ان محکموں سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دے دی ہے ؟ اگر یہ ترک موالات شرعی ہے تو اسے اپنے آپ کیوں محدود کر لیا گیا ہے اور اگر مسٹر گاندھی کے کہنے پر ہے تو اس کا نام شرعی فرض کیوں رکھا جاتا ہے ؟ کیا ترک موالات کے حامیوں کے پاس ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب نہیں کہ مسٹر گاندھی نے چونکہ ایسا کہا ہے اس لئے ہم اس طرح کرتے ہیں ؟ گھر میں کہتا ہوں کہ ہم یہ نہیں کہنے کہ اس طرح نہ کرو جس طرح مسٹر گاندھی کہتے ہیں اگر کسی کے خیال میں مسٹر گاندھی کا پروگرام مفید اور قابل عمل معلوم ہوتا ہے تو وہ بے شک اس پر عمل کرے.مگر مسٹر گاندھی کے قول کو قرآن کریم کیوں قرار دیا جاتا ہے ؟ شریعت اس کا نام کیوں رکھا جاتا ہے ؟ اگر یہ بات ہے تو لوگوں سے یہ کہو کہ چونکہ مٹر گاندھی اس طرح فرماتے ہیں اس طرح تم کو عمل کرنا چاہئے یہ کیوں کہتے ہو کہ شریعت اسلام کا یہ فتوئی ہے ؟ شریعت اسلام نے غیر مسلموں سے ترک موالات کرنے کا جن شرائط کے ساتھ حکم دیا ہے وہ شرائط تو جب بھی کسی قوم میں پائی جائیں اس سے ہرقسم کی امداد لینی یا اسکو کسی قسم کی مرد دینی نا جائز ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ تنذیل

Page 269

انوار العلوم جلد ۵ ۲۴۹ ترک موالات اور احکام اسلام کی امداد ہو یعنی ایسی مدد ہو نہیں میں ہم حاکم ہوں اور وہ ماتحت ہوں.پس اگر یہ فتوی وہی ہے جوخدا تعالیٰ نے دیا ہے اور وہی حالات ہیں جن میں ترک موالات کرنا اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے.تو پھر پروگرام مقر نہیں ہو سکتے، کسی قسم کی موالات معاف نہیں ہو سکتی ، نفع اور نقصان کو نہیں سوچا جا سکتا.لیکن اگر یہ پروگرام شریعت اسلام کا نہیں بلکہ مسٹر گاندھی کا ہے.تو پھر اس کو شریعیت کی طرف منسوب کرنا اور آیات قرآنیہ سے اس کا استدلال کرنا ایک خطرناک گناہ ہے.اگر ترک موالات کے حامی اسے شریعت کا فرض مقرر کرتے ہیں تو پھر اس طرح عمل کریں جس طرح کہ شریعت نے کہا ہے اور اگر اسے مسٹر گاندھی کا ارشاد قرار دیتے ہیں تو عوام کو قرآن کریم کے نام سے دھوکا نہ دیں اور اسلام کا تمسخر نہ اڑائیں.کیا اب گورنمنٹ برطانیہ بھی ہمارے پھر اس مسئلہ کے متعلق ایک اور بھی سوال ہے جسے ترک موالات کے حامیوں کو مد نظر رکھنا ساتھ محاربین والا سلوک کرنے کی مجاز ہے ؟ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے ثابت کر چکا ہوں قرآن کریم سے ان ہی لوگوں سے ترک موالات کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے جو حربی کفار ہوں تو اب جبکہ حکومت برطانیہ کے خلاف ترک موالات کا فتوی دیا جاتا ہے.کیا حکومت برطانیہ بھی وہی معاملہ مسلمانوں سے کر سکتی ہے جو دو باہم لڑنے والی تو میں ایک دو میرے سے کرتی ہیں ؟ کیا وہ جس کو چاہیں پکڑ کر قید کر دیں.ذراسی شورش پر کورٹ مارشل بیٹھا کر لوگوں کو قتل کر دیں ؟ مارشل لاء جاری کر دیں تو سلمان اس کو خوشی سے قبول کریں گے ؟ کیا وہ اس وقت یہی اعتراض نہیں کریں گے کہ ہم تو وفادار رعایا ہیں ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا جاتا ہے ؟ پھر جب انگریزوں کے ساتھ حاکم اور رعایا کے تعلقات قائم ہیں تو ترک موالات کا فتوی کس طرح دیا جا سکتا ہے.ترک موالات کا حکم تو اسی وقت ہوتا ہے جب جنگ شروع ہو.اور اگر ترک موالات کرنے کی شرائط اس وقت پوری ہو گئی ہیں تو حکومت برطانیہ کے لئے بھی جائز ہوگا کہ جس طرح چاہے مسلمانوں سے معاملہ کرے.اور اس پر ظلم کا الزام نہیں لگ سکے گا کیونکہ محالہ بین کے درمیان بہت سی وہ باتیں جائز ہوتی ہیں جو دوسری صورت میں جائز نہیں ہوتیں.مگر کوئی شخص اس بات کو قبول نہ کرے گا کہ حکومت برطانیہ کے لئے جائز ہے کہ وہ حربی قوموں والا سلوک ہندوستان کے مسلمانوں سے کرے اسی طرح کوئی عقلمند یہ بھی تسلیم نہ کرے گا کہ شریعت نے جو کم محارب کفار کے متعلق دیا ہے اسے برطانیہ کی حکومت پر چسپاں کیا جائے.ترک موالات کے ترک موالات کا حکم صرف خلیفہ وقت ہی دے سکتا ہے حامیوں کو اس امر پیمر

Page 270

انوار العلوم جلد 2 ترک موالات اور احکام اسلام بھی غور کرنا چاہئے کہ ترک موالات کا حکم دینے کا مجاز صرف خلیفہ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے احکام کی طرف بلانا اور ان کا نافذ کرنا اس کا کام ہے.ترک موالات چونکہ ان تعلقات میں سے ہے جو افراد کے درمیان نہیں بلکہ قوموں یا حکومتوں کے درمیان ہوتے ہیں اس لئے اس کے متعلق فیصلہ خلیفہ ہی کر سکتا ہے لیکن جب کہ وہ سلطان المعظم کی خلافت کے متعلق اس قدر زور دے رہے ہیں کیا کبھی انہوں نے اس امر پر بھی غور کیا ہے کہ خود سلطان المعظم نے کبھی ترک موالات کے لئے مسلمانوں کو دعوت نہیں دی بلکہ وہ خود اتحادیوں سے صلح کرنے پر تیار ہو گئے بلکہ انہوں نے صلح کر لی.اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو خصوصاً ان کو جو سلطان المعظم کو خلیفہ تسلیم کرتے ہیں یہ حق کس طرح پہنچتا ہے کہ وہ ان کے منشاء بلکہ ان کے عمل کے خلاف کام کریں.اس سوال کا جواب کہ سلطان ترکی بوجہ بے شک بعض لوگ کہ دیں گے کہ سلطان المعظم کو اتحادیوں نے اپنے نرغہ اتحادیوں کے نرغہ میں آجانے کے معذور ہیں میں لے لیا ہے.لیکن سوال یہ ہے کیا سلطان المعظم اس سے زیادہ ترغہ میں ہیں جس قدر کہ ہندوستان کے مسلمان ہیں ؟ ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس نہ تو فوج ہے نہ اسلحہ، نہ مال ، نہ طاقت.اگر یہ ترک موالات کر سکتے ہیں تو کیا سلطان المعظم جو اس حالت سے ہر حال اچھی حالت میں ہیں ترک موالات نہیں کر سکتے ؟ اگر وہ ترک موالات نہیں کرتے نه ترک موالات کی مسلمانان عالم کو دعوت دیتے ہیں تو کیا ان کے عمل اور ان کے منشاء کے خلاف کام کرنے والے ان کے بچے عقیدت مند کہلا سکتے ہیں ؟ کیا مدعی سست اور گواہ چست والی مثال ان مسلمانوں پر صادق نہیں آتی جو اس وقت ترک موالات پر زور دے رہے ہیں ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر فی الواقع سلطان المعظم کو نرغہ میں لے لیا گیا ہے اور وہ بالکل بے بس ہیں تو کیا مسلمانان ہندوستان اس امر کو درست سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت کسی وقت بھی دشمن کی طاقت کو دیکھ کر ان احکام کے نفاذ کو ترک کر دے جو اس کے سپرد کر دیئے گئے تھے ؟ پس ان کا یہ رویہ ثابت کرتا ہے کہ یا تو وہ سلطان المعظم پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ شریعت کے احکام کی پیروی نہیں کرتے اور یا یہ کہ وہ خود شریعت کے خلاف عمل کرتے ہیں اور ان کا سلطان المعظم سے تعلق کا دعوی بالکل غلط ہے اور صرف سیاسی اغراض پر مبنی ہے اور حتی بھی یہی ہے کیونکہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آج سلطان المعظم کے طریقی عمل کی بجائے مسٹر گاندھی کے طریق عمل کی پیروی نہ کی جاتی اور ان کو امام گاندھی کا لقب دے کر شریعت اسلام کی علی الاعلان ہتک نہ کی جاتی.

Page 271

انوار العلوم جلد ۵ ۲۵۱ ☑ ترک موالات اور احکام اسلام ترک موالات کے فتنہ ہلاکو خاں کے وقت علماء اسلام کا رویہ اور اس سے سبق حامیوں کو ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اس سے پہلے بھی ایک زمانہ اسلام پر ایسا آچکا ہے کہ اس کی مرکزی حکومت کفر کے ہاتھ سے برباد ہو چکی ہے.ترکوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کا واقعہ سلمانوں سے پوشیدہ نہیں.پس پیشتر اس کے کہ کوئی خاص طریق عمل تجویز کیا جاوے ہمارے لئے اس امر کا دکھنا ضروری ہے کہ اس وقت کے علماء نے کیا طریق اختیار کیا تھا ؟ کیا فی الواقع اس وقت کے علماء نے جو اس وقت کے علماء سے اپنے علم اور اپنے تقوی میں بہت بڑھ کر تھے یہی طریق اختیار کیا تھا جو آجکل میں بہت رد کرتے ہیں جو ترک موالات کے حامی کر رہے ہیں.اس وقت تو خلافت کی ظاہری شکل بھی باقی نہ رکھی گئی تھی.خود خلیفہ کے خاندان کے ہزاروں مرد و عورت قتل کئے گئے تھے اور بغداد کے اردگرد اٹھارہ لاکھ آدمی تہ تیغ کر دیے گئے تھے.عورتوں کو بھاگنے کے لئے راستہ نہ ملتا تھا.اس وقت کے علماء نے کیا فتوی دیا تھا سے اور عالم اسلام نے اس پر کس طرح عمل کیا تھا ؟ وہ زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ قریب کا زمانہ تھا اور آج کل کے زمانہ سے اچھا تھا.کیونکہ اس وقت کے بعد ترک موالات کے حامیوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی نئی روح مسلمانوں میں ایسی نہ آئی کہ جس نے ان کو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کر دیا ہو اور جو آئی ہے اسے انہوں نے قبول نہیں کیا.میں اس زمانہ کے علماء کے فتووں کو بھی تو دیکھو کہ کیا انہوں نے اسی طریق عمل کو اختیار کیا تھا جو آج کل کے لوگ کر رہے ہیں.آنحضرت اشلی ملکی نیت کی وصیت کفار کو ترک موالات کی تائید میں ایک یہ بات بھی پیش کی جاتی ہے کہ جزیرہ عرب سے کفار کے نکال جزیرہ عرب سے نکال دینے کی بابت دینے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا ایلئے جزیرہ عرب کے ممالک پر مسیحیوں کا قبضہ یا اقتدار نہیں ہونا چاہئے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرک اس کے قریب نہ آئیں لیکن باقی جزیرہ عرب کے متعلق قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں.ہاں بعض احادیث سے ضرور یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اگر آپ زندہ رہے تو بیود کو خیبر وغیرہ علاقوں سے خارج کر دیں گے اور یہ خواہش حضرت عمرہ کے زمانہ میں پوری کی گئی.مگر ان احادیث کے متعلق دو سوال حل طلب ہیں اول یہ کہ کیا یہ ایسی ہی خواہش تھی کہ اس کے پورا کرنے کے لئے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے ؟ دوم عند ترمذی ابواب السير عن رسول الله صلى الله علیه و سلم باب ماجاء فی اخراج اليهود والنصارى عن جزيرة العز -

Page 272

انوار العلوم جلد ۵ یہ کہ جزیرہ عرب سے کیا مراد ہے ؟ ۲۵۲ ترک موالات اور احکام اسلام سوال اول کا کیا جزیرہ عرب کو کفار سے خالی رکھنے کیلئے جہاد فرض ہے ؟ جواب تو یہ ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل کو دیکھتے ہیں کہ یہ ایسا امر نہیں ہے.درحقیقت یہ ایک سیاسی سوال تھا ورنہ کیا وجہ تھی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں سیمو د کو نہیں نکال دیا.کیا مذہبی احکام کے پورا کرنے میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دیر کیا کرتے تھے ؟ آپ تو الٹی باتوں کی ایسی غیرت رکھتے تھے کہ ان کے پورا کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہ لگاتے تھے.اگر کہا جاوے کہ پہلے آپ کو خیال نہیں آیا جس وقت آپ کو یہ معلوم ہوا کہ ان کو عرب میں نہیں رہنے دینا چاہئے اس وقت آپ نے اس کا اظہار کر دیا.مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ کوئی مذہبی فرض ہوتا تو کیا آپ اسی وقت ایک شکر اس غرض کے لئے نہ بھیج دیتے اور اگر بفرض محال آپ ایسا نہ کر سکے تھے تو کیا حضرت ابو بکرینہ کے زمانہ خلافت میں خود اس خواہش کو پورا نہ کر دیا جاتا ، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت ابو بکر کے پاس طاقت نہ تھی.مُرتدوں کے فتنہ کے وقت جب لوگوں نے کہا کہ جیش اسامہ کو جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے لئے تیار کیا ہے روک لیا جاوے تو اپنے نے فرمایا کہ ابو قحافہ کا بٹا رتن ابو بکر کیا حیثیت رکھتا ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے کم کو منسوخ کرے (البداية والنهاية جلد ۳ مطبوعہ بیروت ) الیسا دلیر آدمی کب گوارا کر سکتا تھا کہ ٧ لاء ایسا زبر دست حکم جس کے پورا کرنے کے لئے جہاد فرض ہو جاتا ہے اور جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حکم تھا پورا نہ کیا جائے پھر اگر مُرتدین کے فتنہ کے وقت آپ نے توجہ نہ کی تھی تو ان کے فتنہ کے دور ہونے کے بعد کیوں آپ نے یہود کے نکالنے کی طرف توجہ نہ فرمائی ؟ شام کی سرحد اور ایران کی سرحد پر تو جنگیں ہو رہی تھیں لیکن خود عرب کے اندر الیسا عظیم الشان حکم بے توجہی کی نذر ہو رہا تھا کیا یہ بات کسی صحاب بصیرت کی سمجھ میں نہیں آسکتی ہے ؟ پس اصل بات یہی ہے کہ حجاز کے علاقہ کو چھوڑ کرجس میں کہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں اور جس کو خدا اور اس کے رسول نے ایک خاص حیثیت دی ہے باقی عرب کی نسبت جو کچھ رسول کریم صل اللہ علیہ وا نے فرمایا ہے وہ بطور فرض اور واجب کے نہیں فرمایا بلکہ ایک پسندیدہ بات کے طور پر فرمایا ہے.ہیں جب مسلمانوں میں طاقت ہو اور جب مناسب حالات موجود ہوں ان حالات کے پیدا کرنے کی کوشش

Page 273

انوار العلوم جلد ۵ ۲۵۳ ترک موالات اور احکام اسلام کرنی چاہئے لیکن جب حالات مناسب نہ ہوں یا مسلمان طاقت نہ رکھتے ہوں تو ان امور کے پورا کرنے کے لئے جہاد اور قتال فرض نہیں ہوتا ورنہ حضرت ابو بکرہ جو پہلے خلیفہ تھے اور اپنے تقوی اور غیرت اسلامی میں سب صحابہ سے بڑھے ہوئے تھے ان پر سخت الزام آتا ہے.حضرت عمر کے بعد بھی اسلامی حکومت کے پھر جب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حضرت عمرض کے بعد بھی اسلامی حکومتوں کی آنکھوں کے سامنے یہو د جزیرہ عرب میں رہتے تھے سامنے حجاز سے باہر سیمی اور سیودی عرب کے علاقوں میں بستے رہے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امت اسلامیہ نے کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے وہ معنی نہیں لئے جو اب لئے جاتے ہیں.حجاز سے باہر عرب میں مسیحی قبائل تیری صدی ہجری تک بستے رہنے ہیں اور سینکڑوں سال سے یمین کے شہروں میں سہودیوں کی ایک معقول تعداد بس رہی ہے اور صنعاء کی بیس ہزار کی آبادی میں سے قریباً دو ہزار یہودی ہے اگر عراق عرب کا حصہ ہے تو ترکی حکومت کے زمانہ میں بھی بغداد بجائے ایک اسلامی شہر کہلانے کے سیو دی شہر کہلانے کا مستحق تھا.کیونکہ وہاں کے سب بڑے بڑے مکان اور بڑی بڑی تجارتی کو ٹھیاں سیہودیوں ہی کے قبضہ میں تھیں.غیر مسلم اقتدار عرب پر یہ تو عرب کی غیر مسلم آبادی کا حال ہے اب رہا غیر مسلم اقتدار کا سوال.سو اس کا جواب بھی سلطان المعظم کے عمل سے ثابت ہے عدن پر انگریزوں کا قبضہ ایک عرصہ سے چلا آتا ہے.ہ سے شاہ تک ایک کمیٹی ترکوں اور انگریزوں کی بیٹھی تھی جس نے یہ فیصلہ کیا کہ شیخ سعید کے پاس دریا نے بانا کے ساتھ ساتھ قبہ نامی قصبہ کے جنوب مشرق کی طرف سے ایک حد صحرائے اعظم کی طرف کھینچی جاوے اور جنوبی علاقہ کو انگریزی اقتدار میں دیا جائے.یہ علاقہ تو بلا شبہ عرب کا حصہ ہے مگر خود سلطان المعظم نے یہ علاقہ انگریزوں کے سپرد کر دیا.پس وہ لوگ جو ان کو خلیفہ تسلیم کرتے ہیں وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ عرب کے کسی حصہ پر کسی غیر مذہبی حکومت کا قبضہ ہونے پر جو جہاد نہ کرے وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے کیا وہ اس طرح خود سلطان المعظم اور ان کی حکومت پر اعتراض نہیں کرتے اور کیا یہ عجیب نہیں کہ جب عدن پر جو یقیناًا عرب کا حصہ ہے قبضہ کیا گیا تھا اور جب اس قبضہ کو سلطان المعظم کی حکومت نے تسلیم کر لیا تھا اس وقت تو اس پر اعتراض نہ کیا گیا.اور اب عراق پر قبضہ کرنے پر رجس کے عرب کا حصہ ہونے میں شبہ ہے ) اعتراض کیا جاتا ہے.اگر کہا جائے کہ اس وقت ترکی حکومت کمزور تھی یا

Page 274

انوار العلوم جلد ۵ ۲۵۴ ترک موالات اور احکام اسلام مسلمانان ہند کمزور تھے.تو سوال یہ ہے کہ کیا اب وہ طاقتور ہو گئے ہیں ؟ اور کیا جہاد کے لئے طاقت کی بھی کوئی شرط شریعت نے لگائی ہے ؟ غربت یا فوجوں کی کمی تو جہاد کے مواقع میں شامل ہی نہیں.کیا عراق جزیرۃ العرب میں داخل ہے؟ دوسرا سوال کہ جزیرۃ العرب سے کیا مراد ہے.اس کی خواہ کوئی تعریف جغرافیہ والے کریں صحابہ کے طریق عمل سے نہیں ہیں معلوم ہوتا ہے کہ عراق کو انہوں نے جزیرۃ العرب میں شامل نہیں کیا کیونکہ صحابہ کے زمانہ ہیں جبکہ اصل عرب سے کفار کو نکال دیا گیا تھا عراق سے کفار کو نہیں نکالا گیا.بلکہ کوفہ میں اور اس کے گرد و نواح میں کثرت سے سیمی رہتے تھے بلکہ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے حضرت عمران نے نجران کے مسیحیوں کو وہاں سے جلا وطن کر کے شام اور عراق میں آباد کر دیا تھا اور وہاں ان کو جائیدادیں دے دیں تھیں.اب اگر عراق بھی عرب میں شامل ہوتا.تو کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرنے کے لئے مسیحیوں کو نجران سے تو نکالتے اور اس قدر تعہد کرنے کے بعد پھر ان کو عراق میں (اگر وہ عرب کا حصہ ہے ) لاکر آباد کر دیتے جغرافیہ کے لحاظ سے یا طبعی لحاظ سے عرب کی حدود خواہ کوئی ہوں مگر صحابہ نے عرب کے جو معنے سمجھے ہیں وہ خود حضرت عمریضہ کے قول اور فعل سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے پورا کرنے والے ہیں خوب کھل جاتے ہیں.طبری سے ثابت ہے کہ حضرت عمر نے کیعلی بن امیہ کو جنہیں انہوں نے اس غرض سے بحران بھیجا تھا کہ وہاں کے مسیحیوں کو جلا وطن کر دیں.یہ حکم دیا تھا کہ ان کو بتا دیا کہ ہم ان کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت جلا وطن کرتے ہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ لم نے فرمایا تھا کہ جزیرہ عرب میں دو دین نہ رکھے جاویں ؛ ان لوگوں کو جلا وطن کر کے کہاں بھیجا ؟ اس کے متعلق فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ حضرت عمریضہ نے ان لوگوں کو یہ خط لکھ کر دیا کہ اہل شام اور ابل عراق میں سے جن کے پاس یہ خط پہنچے ان کو چاہئے کہ ان کو زمین برائے کاشت اچھی طرح سے دیں اور جس زمین کو یہ آباد کریں وہ ان کی یمین کی زمین کے بدلہ میں ان ہی کی ہو جاوے گی" شائد کہا جائے کہ عراق سے مراد عراق عجم ہو گا.لیکن جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے ان لوگوں کو کوفہ کے پاس زمینیں ملی تھیں اور وہاں انہوں نے نجران کی یادگار میں نجرانیہ نام ایک قصبہ بھی آباد کیا تھا اب سوچو کہ حضرت عمریض کے نزدیک عراق اگر عرب میں شامل ہوتا یا صحابہ میں سے کسی کے خیال میں بھی یہ بات ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ وہ مسیحیوں کو اس علاقہ میں جائیدادیں دیتے ؟

Page 275

انوار العلوم جلد ۲۵۵ ترک موالات اور احکام اسلام لفظ جزیرہ کے مفہوم پر بحث عراق کے عرب میں شامل ہونے کی یہ دلیل دی جاتی ہے که عرب جزیرہ کہلاتا ہے اور جب تک دجلہ اور فرات یک کے علاقے اس کے اندر شامل نہ کئے جاویں اس کی حیثیت جزیرہ کی نہیں بنتی کیونکہ اس صورت میں اس کے چاروں طرف پانی نہیں رہتا.لیکن یہ دلیل درست نہیں کیونکہ عرب لوگ ان ممالک کو بھی جزیرہ کہتے ہیں جن کے زیادہ حصہ کے گرد پانی ہو اور کم حصہ خشکی کے ساتھ ملتا ہو.چنانچہ جس نے تاریخ کا ذرا بھی مطالعہ کیا ہو وہ جانتا ہے کہ عرب لوگ پین کو بھی جزیرہ کہتے تھے اور اس کو جزیرہ اندلس کے نام سے موسوم کرتے تھے حالانکہ ایک جهت سپین کی فرانس سے ملی ہوئی ہے.لسان العرب اور تاج العروس کے مصنف اس کے مادہ کے نیچے لکھتے ہیں کہ داندُسُ جَزِيرَةً مَعْرُوفَة " (لسان العرب زیر لفظ " دلس" مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء تاج العروس زیر لفظ دلس "مطبوعہ مصر ۱۳۹۶ ) یعنی اندلس (سپین) ایک مشہور جزیرہ ہے.پس جزیرہ عرب کے لفظ سے یہ استدلال کرنا کہ اس کے اردگرد پانی کا ہونا ضروری ہے ایک غلطی ہے.اس بحث سے ہمارا یہ مدعا نہیں کہ عراق میرا اس تمام تحریر سے یہ مطلب نہیں کہ چونکہ عراقی عرب میں شامل نہیں یا اس کی شمولیت پر ضرور انگریزوں کا قبضہ ہونا چاہئے مشتبہ ہے اور خود حضرت عمر نے اس کو عملی شامل نہیں کیا اس لئے عراق پر انگریزوں کو قبضہ کر لینا چاہئے یا یہ کہ عرب کے اندرونی علاقہ میں انگریزوں کو شوق سے داخل ہو جانا چاہئے بلکہ میں انکے اس فعل کو سختی سے ناپسند کرتا ہوں اور عراق تو کیا میں تو چاہتا ہوں کہ وہ اپنے پرانے مقبوضہ علاقہ عدن سے بھی واپس آجائیں تو بہت اچھی بات ہے لیکن مجھے صرف اس پر اعتراض ہے کہ ان باتوں کو مذہب کے عظیم الشان احکام بتا کر دُنیا کے بگڑے ہوئے امن کو اور نہ بگاڑا جاوے اور مسلمانوں کی رہی سہی طاقت کو نہ توڑا جاوے اور عوام الناس کو جو حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے جوش دلا کر ان کی ہلاکت اور اسلام کی بدنامی کے سامان نہ پیدا کئے جاویں ورنہ مجھے تو اس قدر بھی پسند نہیں جس کی اجازت ترکی حکومت نے دے رکھی ہے اور میں تو یہی کہوں گا کہ اگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ پھر طاقت دے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے ادب اور احترام کے طور پر یمین اور دوسرے عرب علاقوں میں بسنے والے غیر مذاہب کے پیروؤں کو دوسرے ممالک میں خواہ ان کی موجودہ جائیدادوں سے بہت زیادہ قیمتی جائیدادیں لے کر دے دی جاویں مگر محبت اور پیار سے سمجھا کر ان کو عرب کے علاقہ سے بالکل ہی رخصت کر دیا جاوے لیکن میں اس کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا کہ جس

Page 276

انوار العلوم جلد ۵ ۲۵۶ ترک موالات اور احکام اسلام بات پر صحابہ کے زمانہ سے اس وقت تک کبھی بھی عالم اسلام نے اس قدر زور نہیں دیا اس کو اس وقت ایسا اہم مسئلہ بنا دیا جاوے کہ اس کا لحاظ نہ ہونے پر جہاد اور ترک موالات کی تعلیم دینی شروع کردی جاوے اور مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں گرایا جائے.یقینا جو جہاد خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہو وہ خواہ کیسی ہی کمزوری کی حالت میں ہو بد نتائج نہیں پیدا کر سکتا لیکن جو لڑائی کہ جہاد کے نام سے کی جائے یا جو جدوجہد کہ دین کی آڑ میں کی جائے حالانکہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو یقیناً وہ سخت ناکام ہو کر رہے گی کیونکہ الہ تعالی تو ہرگز پسندنہیں فرماتا ہ اس کے بھیجے ہوئے دین کو اس طرح بچوں کا کھیل بنایا جائے.ترک موالات از روئے شریعت اس وقت نہ یہ بتا چکنے کے بعد کہ ترک موالات صرف فرض یا واجب نہیں بلکہ جائز ہی نہیں فرض اور واجب نہیں ہے میں نہایت ہی مختصر طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ موجودہ حالات میں شریعت اس کو جائز بھی نہیں قرار دیتی.اس وقت ترک موالات از روئے (1) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ قرآن کریم موجب فساد کبیر هے الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا با مُوَالِهِمْ وَ انفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ أودُ اوَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أو لِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمُ يهَا جِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَا يَتِهِمُ مِنْ شَيءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا ، وَ إِن استَنصَرُوكُمُ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْم بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَانٌ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرُه وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلَّا ، تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَ فَسَادُ كَبيره (الانفال :۷۳-۷۴) یعنی ضرور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے کہ جگہ دی اور مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں اور جو لوگ کہ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی تم پر ان کی کسی قسم کی مدد کرنا فرض نہیں جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں اور اگر وہ تم سے دین کے متعلق مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد فرض ہوگی سوائے اس صورت کے کہ وہ اس قوم کے خلاف مدد مانگیں جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے.اور وہ لوگ جو کافر ہوئے وہ آپس میں ایک دوسرے

Page 277

انوار العلوم جلد ۵ ۲۵۷ ترک موالات اور احکام اسلام کے دوست ہیں اگر تم ایسا ہی نہ کرو گے جیساکہ ہم نے پیچھے بتایا ہے توزمین میں فتنہ برپا ہو جاوے گا اور بہت فساد ہو گا.اس آیت کے مضمون پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل باتیں بیان کیگئی ہیں.مؤمنوں کو چاہئے کہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کیا کریں.جو لوگ مسلمان ہوں لیکن ان علاقوں میں رہتے ہوں جن پر کفار قابض ہیں وہ جب تک ہجرت کریں ان کی مدد کرنی مسلمانوں کے لئے فرض نہیں.ہاں اگر ان پر دین کے معاملہ میں ظلم ہوتا ہو تو ان کی مدد کرنی فرض ہے.- بشر طیکہ یہ مدد اس قوم کے خلاف نہ ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو.کفار بھی آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں.اگر تم ان تمام پچھلے احکام کو تسلیم نہ کرو گے تو دنیا میں فتنہ پڑ جاوے گا اور بہت بڑا فساد کھڑا ہو جائے گا.اب ان چھ باتوں کو دیکھو کہ کس طرح یہ اس امر پر روشنی ڈالتی ہیں کہ و مسلمانوں پر ایک دوسرے کی مدد کرنی واجب ہے لیکن اس قوم کے خلاف جس سے ایک مسلمان جماعت کا معاہدہ ہو دوسرے مسلمانوں کی مدد نہیں کرنی چاہئے حتی کہ اگر دین کا معاملہ بھی ہو تب بھی ان کی مدد نہیں کرنی چاہئے ، f ور نہ فساد پڑ جاوے گا.اس آیت کا فیصلہ انگریزوں سے ہمارے ترک موالات کے متعلق اب دیکھو کہ انگریزوں کے ساتھ اگر ہندوستان يري کے مسلمانوں کا اور کوئی بھی تعلق نہ ہو تو بھی ان کے ساتھ ان کا ایک معاہدہ ہے اور وہ معاہدہ یہ ہے کہ وہ ان کی تمام کاموں میں جو حکومت کے متعلق ہیں مدد کریں گئے.یہ معاہدہ تحریر میں نہیں ہے لیکن ہر ایک قوم جو کسی حکومت کے ماتحت رہتی ہے وہ اس معاہدہ کی پابند بھی جاتی ہے چنانچہ وہ مسلمان علماء جو اُولِي الأمْرِ مِنكُمُ (النساء :(4) کی آیت سے انگریزوں کی فرمانبرداری کا حکم تعلیم نہیں کرتے وہ ان کی اطاعت کی یہی دلیل دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے میں جب ان کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا تو قرآن کریم کی آیت مذکورہ بالا کے احکام کے مطابق ان کے خلاف کسی مسلمان جماعت کی بھی مدد نہیں کی جاسکتی حتی کہ مذہبی امور میں بھی ان کے خلاف دوسرے مسلمانوں کی مدد نہیں کی جاسکتی اور صرف ایک ہی طریق ان کی مدد کا ہے کہ اس علاقہ کو چھوڑ کر پہلے اس معاہدہ سے جس کے ہم برطانوی حکومت

Page 278

انوار العلوم جلد ۲۵۸ ترک موالات اور احکام اسلام کے مقبوضہ ملک میں رہنے کی وجہ سے پابند ہیں آزادی حاصل کی جائے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تواللہ تعلی فرماتا ہے کہ دنیا میں فساد پڑ جائے گا.الا تَفْعَلُوهُ کی ضمیر غائب کا مرجع شان کی شخص کو یہ خیال گزرے کہ الا تَفْعَلُوهُ b الانفال : ۷۴ ) سے یہ مراد نہیں کہ اگر پچھلی آیت کے تمام احکام پر عمل نہ کرو گے تو فتنہ ہوگا بلکہ تفعلوں کی ضمیر صرف وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ اولتیا ، بعض کے مضمون کی طرف جاتی ہے لیکن یاد رہے کہ اول تو لفظوں کے لحاظ سے وَالَّذِینَ كَفَرُوا بَعْضُهُم اَولِيَاءُ بَعْضٍ ، بعض میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی نسبت یہ کہا جائے کہ اگر تم یوں نہ کرو گے تو فساد ہوگا بلکہ کفار کا حال بیان کیا ہے کہ وہ فلاں کام کرتے ہیں.b دوسرے مفسرین بھی یہی لکھتے ہیں کہ الا تفعلوں کی ضمیر پچھلی آیت کے سارے مضمون کی طرف جاتی ہے بھی چنانچہ فتح البیان میں ہے الضَّمِيرُ يُرْجِعُ إلى ما اُمِرُوا بِهِ قَبْلَ هَذَا مِنْ مَوَالَاةِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنَا صَرَتِهِمْ عَلَى التَّفْصِيلِ المَذْكُورِ وَتَرکِ موالاة العفرين الغير فتح البيان جلدم مده مطبوع مصر ۱۳۰۱ھ ) یعنی یہ ضمیر ان احکام کی طرف لوٹتی ہے جو اس سے پہلے بیان ہوئے مومنوں کی دوستی اور ان کی مدد کے متعلق اسی تفصیل کے مطابق جو آیت میں بیان ہو چکی ہے (یعنی معاہدین کفار کے خلاف مسلمانوں کی مددنہ کرو اور کفار سے دوستی ترک کرنے کے متعلق.غرض اس آیت سے ثابت ہے کہ جس قوم سے معاہدہ ہو اس کے خلاف مسلمانوں کا بھی مدد کرنا خواہ دینی امور پر ہی جھگڑا کیوں نہ ہو جائز نہیں اور الیسا کرنا موجب فساد ہوگا.اب دیکھو کہ انگریزی حکومت سے ترک موالات کا حکم دے کر مسلمانوں نے اس حکم کو توڑا ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس کا نتیجہ جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے فساد ہوا ہے یا نہیں ؟ اسلام نے حقوق اولی الامر کو قائم کیا ہے (۲) جس شخص نے اسلام کو ذرا تامل سے بھی مطالعہ کیا ہو وہ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ اسلام نہایت امن پسند مذہب ہے اس کا نام اسلام ہی بتا رہا ہے کہ وہ صلح اور آشتی کو لے کر دنیا میں آیا ہے.اس کے تمام احکام میں قیام امن کا اصل روشن نظر آتا ہے.اس کے اُصول اور اس کے فروع تمام کے تمام اساس تمدن کے مضبوط کرنے والے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ حقیقی طور پر تمدن کی اساس اسلام نے ہی آکر رکھی ہے.اس سے پہلے تمدن کی عمارت بالکل زمین پر رکھی ہی.یا تھی اور ذرا ذرا سے صدمہ سے منہدم ہو جاتی تھی.اسی نے تمدن پر تفصیلی نظر ڈالی ہے اور اسی نے

Page 279

انوار العلوم جلد ۲۵۹ ترک موالات اور احکام اسلام اس کو اقسام میں منقسم کیا ہے اور اسی نے مختلف عمال تمدن کے اعمال کے مدارج قائم کئے ہیں اور ان کے حقوق مقرر کئے ہیں.ایسے مذہب کی نسبت ہر گز اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ رعایا اور بادشاہ کے حقوق پر توجہ نہ ڈالے گا.اور واقعہ یہی ہے کہ اس نے اس تعلق کو نہایت مضبوط چٹان پر قائم کیا ہے.قرآن کریم ولاۃ الامر کے احکام کی اتباع کا پُر زور الفاظ میں حکم دیتا ہے اور اطِيعُوا الله و أطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمُ (النساء : 4 ) کہہ کرحکومتوں کے حقوق کو قائم کرتا ہے.۶۰ بعض مسلمان غلطی كيا أولي الأمر منگم سے مراد صرف مسلمان حکام ہیں ؟ سے اس آیت کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم صرف مسلمان حکام کے حق میں ہے کہ ان کی اطاعت کی جاوے لیکن یہ بات غلط ہے اور قرآن کریم کے اصول کے خلاف ہے بے شک اس جگہ لفظ مِنكُم" کا پایا جاتا ہے مگر مکہ کے معنے یہ نہیں ہیں کہ جو تمہارے ہم مذہب ہوں بلکہ اس کے یہی معنی ہیں کہ جو تم میں سے بطور حاکم مقرر ہوں.مِن ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ الم يَأْتِكُم رُسُلٌ منكم اس آیت میں منگھ کے معنی اگر ہم مذہب کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول کفار کے ہم مذہب تھے.پس ضروری نہیں کہ منگھ کے معنی ہم مذہب کے ہوں.یہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس جگہ اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ حاکم جو تمہارے ملک کے ہوں یعنی یہ نہیں کہ جو حاکم ہو اس کی اطاعت کرو بلکہ ان کی اطاعت کرو جو تمہارا حاکم ہو.اور فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُول کے یہ معنی نہیں کہ قرآن و حدیث کی رو سے فیصلہ کر لو بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر حکام کے ساتھ تنازع ہو جائے تو خدا اور اس کے رسول کے احکام کی طرف اس کو لوٹا دو اور وہ حکم یہی ہے کہ انسان حکومت وقت کو اس کی غلطی پر آگاہ کر دے اگر وہ نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ کو چھوڑ دے وہ خود فیصلہ کرے گا اور ظالم کو اس کے کردار کی منرا دے گا.قرآن کریم میں حضرت یوسف کا غیر مذہب کے اولی الامر کا ثبوت قرآن کریم سے واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے وہ بھی دلالت کرتا ہے کہ حاکم خواہ کسی مذہب کا ہو اس کی اطاعت ضروری ہے بلکہ اگر اس کے احکام ایسے شرعی احکام کے مخالف بھی پڑ جاویں جن کا بجا لانا حکومت کے ذمہ ہوتا ہے تب بھی اس کی اطاعت کرے.چنانچہ حضرت یوسف کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انکے بھائی انکے پاس چھوٹے بھائی کو عاد الانعام : ١٣١)

Page 280

انوار العلوم جلد ۵ ۲۶۰ ترک موالات اور احکام اسلام لائے تو وہ ان کو دوہاں کے بادشاہ کے قوانین کی رو سے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے اس لئے خدا نے ان کے لئے خود ایک تدبیر کردی چنانچہ فرماتا ہے كذلك كدْنَا لِيُوْسُفَ، مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَادُ في دِينِ المَلِكِ الا ان شاء الله (یوسف : یعنی اسی طرح ہم نے تدبیر کی کیونکہ وہ بادشاہ کے قوانین کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں رکھ سکتے تھے ہاں مگر اس صورت میں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی چاہتا ؛ فتح البیان میں ہے کہ بادشاہ مصر کا قانون اور تھا اور اس کی شریعت اور تھی.پس خدا تعالیٰ نے الہاما یوسف کے بھائیوں کے منہ سے نکلوا دیا کہ جو چور ثابت ہو اسی کو غلام بنا کر رکھ لینا اسی طرح اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ - (یوسف (۵۶) کے نیچے لکھا ہے کہ وَقَدِ اسْتُدلَ بِهَذِهِ الْآيَةِ عَلَى أَنَّهُ يَجُوزُ نَوَلِي الْأَعْمَالِ مِنْ جِهَةِ السلطانِ الْجَاثِرِيلِ الكَافِرِ لِمَنْ وَثْقَ مِنْ نَفْسِهِ بِالْقِیام بالحق یعنی اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ظالم بلکہ کافر بادشاہ کی طرف سے عہدوں کا قبول کرنا اس شخص کے لئے جائز ہے جو اپنی جان پر اعتبار رکھتا ہے کہ وہ حق کو قائم رکھ سکے گا نہ یاد رکھنا چاہئے کہ حق کے قیام سے یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی شریعت کو چلا سکے.کیوں کہ جیسا کہ حضرت یوسف کے بھائی کے معاملہ سے ظاہر ہے کافر کی ملازمت کے لئے یہ شرط نہیں کہ مین اپنا ذاتی خیال چلا سکے ہیں حق کی حفاظت سے یہی مراد ہے کہ علم کی باتوں میں ساتھ شامل نہ ہو جائے.پس حضرت یوسف کے معاملہ سے بھی ظاہر ہے کہ خواہ گورنمنٹ کا فر ہی کیوں نہ ہو اس کی وفاداری ضروری ہے.حکومت کی اطاعت کا حکم احادیث کی رو سے جب ہم رسول کریم صل اللہ علہ سلم کے کلام کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی حکومت کی اطاعت کا خاص حکم پاتے ہیں آپ فرماتے ہیں.عَلَيْكَ السَّمْعَ وَالطَاعَةُ فِي عُسْرِكَ وَيُيْرِكَ وَمَنْشَطَكَ وَمَكْرَهكَ وَاتْرَةٍ عَلَيْكَ (مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريبها في المصيبة یعنی تم پر واجب ہے حکم ماننا اور اطاعت کرنی تنگی میں اور کشائش میں اور خوشی میں اور ناراضگی میں اور اس وقت بھی جب تمہارے حقوق تلف کئے جاتے ہوں ؟ اسی طرح روایت کیا جاتا ہے کہ آپ سے صحابہ نے دریافت کیا کہ يَا نَبِيَّ اللَّهِ الأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أَمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَنَا فَمَا تَأْمُرُنَا فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ سَالَةَ فَا عَرَضَ عَنْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ فَعَذَ بَهُ الْأَشْعَتْ بْنُ قَيْسٍ وَقَالَ اِسْمَعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِلُوا وَعَليْكُمْ مَا حملتف (مسلم كتاب الامارة باب في على تفسير فتح البيان ریم مطبوعہ مصر ۱۳۰۱ھ

Page 281

انوار العلوم جلد ۵ 441 ترک موالات اور احکام اسلام طاعة الأمروان منعوا الحقوق ) یعنی اے نبی اللہ ! بتائیے تو سی کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مقرر ہوں جو اپنے حق تو لے لیں اور جو ہمارے حقوق ہیں وہ نہ دیں تو ہم کیا کریں؟ آپ نے پہلے تو اس کے سوال کا جواب نہ دیا لیکن جب اس نے دوبارہ دریافت کیا تو فرمایا کہ ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو کیونکہ وہ اپنے کئے کی جزاء پائیں گے تم اپنے کنے کی جزاء پاؤ گے.ان احادیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں کہ جس کا یہ مطلب ہو کہ صرف مسلمان حاکم کی اطاعت کرو اور دوسرے کی نہ کرو.کوئی شخص کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ کسی خاص ملک یا خاص بادشاہ کے ماتحت رہے لیکن اگر کوئی شخص خود ایک ملک کو چنتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ پھر اس ملک کے آئین کی اطاعت کرے اور حکومت کے خلاف مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہو جائے.کیا ترک موالات مقابلہ نہیں ؟ شائد بعض لوگ کہہ دیں کہ ترک موالات تو مقابلہ نہیں لیکن ان کو یاد رہے کہ ترک موالات کے حامی اس بات پر خاص طور پر زور دے رہے ہیں کہ یہ ہتھیار گورنمنٹ کو نقصان پہنچانے کے لئے ہے.پس ان کے اپنے اقوال کے مطابق یہ حملہ ہے کیونکہ حملہ اسے ہی نہیں کہتے کہ جس میں تلوار اُٹھائی جائے.ہر ایک کام جس سے کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچایا جائے وہ حملہ ہے اور ہمیشہ ایسا کام جب ایسے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جائے جن کے ساتھ اشتراک ہونا جائز ہے ان ہی لوگوں کے خلاف یہ ذریعہ استعمال کیا جاسکتا ہے جن کے ساتھ جنگ ہو.اور اسلام نہ صرف یہ کہ حکومت کے خلاف جنگ..کرنے سے روکتا ہے بلکہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کا حکم دیتا ہے.کیا جو شخص خواہ کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کی فکر میں ہو وہ اس کا مطیع کہلا سکتا ہے ؟ قرآن کریم فتنہ و فساد کی راہوں سے روکتا ہے (۳) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (الاعراف : ٥٧) یعنی زمین میں جب امن قائم ہو جائے تو اسے برباد کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اسی طرح فرماتا ہے کہ والفتنةُ اشَدُّ مِنَ القَتْلِ (البقره : ١٩٢ ) فتنہ قتل سے بھی زیادہ جرم ہے اور زیادہ نقصان رساں ہے.انگریزوں کے آنے سے امن حاصل ہوا یا نہیں ؟ ترک موالات کے بانی سوچیں کہ کیا انگریزوں کے ہندوستان میں آنے سے پہلے اسی قسم کا امن تھا جیسا کہ آج کل ہے ؟ کیا مذہب کی اسی قسم کی آزادی تھی بجائیں

Page 282

انوار العلوم جلد ۵ ☑ ترک موالات اور احکام اسلام اسی طرح محفوظ تھیں ؟ بلکہ کیا قومی روح اسی طرح زندہ تھی جس طرح کہ آج کل زندہ ہے ؟ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ان کے یہاں آنے کا کیا فائدہ ہوا ؟ میں کہتا ہوں کہ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تم آزادی اور حریت کے معنوں سے آشنا ہو گئے ہو جن کو قریباً ایک صدی کی تباہیوں کے عرصہ میں تم بھول گئے تھے.ہمیں یہ نہیں کہتا کہ پہلے کوئی اس مضمون سے آگاہ نہ تھا مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ بہت کم لوگ ان الفاظ سے آگاہ تھے.اور جولوگ آگاہ تھے وہ وہی تھے جن کو انگریزوں کے اس ملک پر قابض ہونے سے پہلے کچھ نہ کچھ حکومت میں دخل تھا.آج لوگ جلیانوالہ باغ کے واقعہ پر شور مچاتے ہیں حالانکہ ان کے آنے سے پہلے بلا وجہ لوگ مارے جاتے تھے اور کوئی نہ پوچھتا تھا.پنجاب میں اذان دینا جرم تھا.مسجدیں ویران تھیں بلکہ اصطبل بنائی گئی تھیں.عربی کے الفاظ استعمال کرنے پر ہی لوگوں کو مار دیا جاتا تھا.چوری ، قتل ، ڈاکہ ، فساد اس قدر پھیلا ہوا تھا که الامان - یہی وجہ تھی کہ پرانے لوگ انگریزی حکومت کے زیادہ مداح تھے کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب باتیں دیکھی تھیں اور ان کے اثر ابھی ان کے دلوں پر سے مٹے نہ تھے.پس اس امن کے بعد جو ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے بلکہ اس اتحاد کے بعد جو ان کے ذریعہ قائم ہوا ہے فساد نہیں پھیلانا چاہئے.لوگ یہ بات نہیں دیکھتے کہ ان ہی کے زمانہ میں ہندوستان نے ایک ملک کی حیثیت پکڑی ہے اس سے پہلے یہ کئی ملکوں کا مجموعہ تھا.میں اس کا انکار نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنے ساتھ اپنی بدیاں بھی لائے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ان سے ہندوستان کو بہت فائدہ پہنچا ہے.جاپان کی مثال کو جانے دو کہ اس کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں کے حالات بالکل مختلف ہیں.دوسرے ممالک کو دیکھو کہ وہ ابھی تک ہندوستان سے بھی پیچھے ہیں ہیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر یہ نہ آتے تو ہم خود یورپ کے علوم کو حاصل کر لیتے ، جاپان کے سواکس ایشیائی ملک نے اپنے طور پر جدید علوم کو حاصل کیا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے ؟ یقیناً جاپان کے بعد ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جو علوم جدیدہ کا حامل کہلا سکتا ہے اگر یہ درست ہوتا کہ ان کے آنے سے نہیں نقصان پہنچا ہے تو یقیناً وہ علاقے جن میں ان کا دخل بعد میں ہوا ہے تعلیم اور سیاسی قابلیت میں دوسرے ممالک سے بڑھے ہوئے ہوتے.بنگال میں حکومت برطانیہ دوسو سال کے قریب سے قائم ہے اسی طرح مدراس اور بھٹی میں ان کا دخل پرانا ہے.اور یو پی میں اس کے بعد اور پنجاب میں تو کل ستر اسی سال سے ان کا تصرف ہوا ہے اگر یہ بات درست ہوتی تو چاہئے تھا کہ سیاسی اور علمی قابلیت میں پنجاب سب سے زیادہ ہوتا.پھر یو.پی اور پھر بنگال اور مدراس

Page 283

انوار العلوم جلد ترک موالات اور احکام اسلام اور بمبئی لیکن معاملہ بالکل برعکس ہے ان ممالک کے لوگوں کی قابلیت جس پر ان کا دیرینہ قبضہ ہے ان ممالک کے لوگوں کی قابلیت سے جن پر ان کا بعد میں قبضہ ہوا ہے بہت بڑھی ہوئی ہے اور ان میں سیاست کے سمجھنے اور علوم سے عملی صورت میں فائدہ اُٹھانے کی اہمیت بہت زیادہ پیدا ہو گئی ہے حالانکہ اگران کا اثر ایک زہر ہے تو اس وقت تک ان کو بالکل جاہل ہو جانا چاہئے تھا.انگریزوں کا انتظام نقائص سے پاک نہیں مگر میرا مطلب اس تحریر سے یہ نہیں کہ ان کے انتظام اور ان کی ان کا فائدہ ان کے نقصان پر غلبہ رکھتا ہے تعلیم میں نقص نہیں ہیں.میں اس میں بہت سے نقص دیکھتا ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ ہمیں غصہ میں آکر ان کی خوبیوں سے آنکھیں بند نہیں کر لینی چاہئیں اور ان کی آمد سے واقعی جو ہمیں فائدہ ہوا ہے اور ان کے ذریعہ سے جو امن ہیں حاصل ہوا ہے اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے.غرض انگریزوں کے آنے سے ہندوستان کو بہت امن ملا ہے اور گو یہ بھی بہت سی غلطیاں کرتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ان کا وجود بہت نفع دہ ثابت ہوا ہے اور اگر اسے نہ بھی تسلیم کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے یہاں ایک منظم حکومت قائم کرلی ہے.اور ہندوستان کے ان سینکڑوں حصوں کو جو پہلے بالکل علیحدہ علیحدہ تھے ایک جگہ جمع کر دیا ہے میں اس امن کو جو انہوں نے قائم کیا ہے اور اس اتحاد کو جو ان کے ذریعہ سے حاصل ہوا ہے ان کی سلطنت کو کمزور کر کے توڑنا نہیں چاہتے کیونکہ علاوہ ہمارے دنیوی نقصان کے اس میں شریعت کے احکام کی بھی خلاف ورزی ہے اور قرآن کریم کی صریح تعلیم کا انکار ہے.شاید اس جگہ یہ کہا جائے کہ ہم تو فساد نہیں کیا ترک موالات موجب فساد نہیں ؟ کرتے لیکن یہ بات درست نہیں ترک موالات کا آخری نتیجہ ضرور فرہاد ہے اور ابھی سے فساد شروع ہے علی گڑھ اور لاہور کے اسلامی کا ہوں میں جو کچھ ہوا وہ راز نہیں کہلا سکتا ہر ایک شخص کی زبان پر ان دونوں کا لجوں کے واقعات میں اور ابھی تو ابتداء ہے یہ فساد روز بروز اور ترقی کرے گا اور اگر اس تحریک کو ترک نہ کر دیا گیا تومسلمانوں کی رہی سہی طاقت کو بھی خاک میں ملا دے گا.یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ عوام الناس کو کہا جائے کہ گورنمنٹ اب اس حد تک گر گئی ہے کہ اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں اور پھر وہ فساد سے باز رہیں ؟ جب لوگوں کو یہ کہا جائے گا تو وہ گورنمنٹ سے وحشیوں والا سلوک کریں گے.ایک ملک اور ایک

Page 284

۲۶۴ ترک موالات اور احکام اسلام جگہ رہ کر اور روزمرہ کے تعلقات کی موجودگی میں سوائے خاص حالات کے ایسی تحریک کبھی امن کے ساتھ نہیں کی جاسکتی ؟ محبت و ہمدردی اور ترک موالات (۴) یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کل مذاہب محبت اور ہمدردی کی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں اور جس قدر محبت کام کر سکتی ہے اور کوئیحریہ کام نہیں کر سکتا.اسلام تو محبت اور مروت کی تعلیم سے پُر ہے پس ایسی تعلیم دینی جو مروت کو قطع کرنے والی اور مواسات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے والی ہے مذہباً درست نہیں ہو سکتی آخر قرآن کریم کے سکھائے ہوئے اخلاق کسی دن کے لئے ہیں ؟ ایک ملک میں رہ کر وہاں کی حکومت کی بیخ اُکھاڑ کر پھینکنے کی کوشش اور عداوت اور تخفض کا بیج بونا کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَّهُ وَلِيٌّ حَمِية رفع السجدة : ۳۵ " یعنی نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی تو بدی کو نیکی کے ذریعہ دور کر ہیں اچانک دیکھے گا کہ وہ شخص جس کے اور تیرے درمیان عداوت تھی تیرا گہرا دوست بن گیا ہے ؟ غرض محبت کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے اور کینہ اور غضب مذموم عادات میں سے ہیں مسلمان کو صاحب وقار ہونے کا حکم ہے اور محبت کی اسے تعلیم دی گئی ہے جو شخص اس تعلیم پر عمل نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی ہدایت کا مستحق نہیں پس ایسا نہ ہو کہ لوگوں کو حق کی طرف رہنمائی کرنے والے خود ہی فتنہ میں پڑ جاویں بے شک کبھی سزا بھی ضروری ہوتی ہے مگر حکام کے مقابلہ میں نرمی کا ہی حکم ہے کیونکہ جو شخص ان کے مقابلہ کی جرات پیدا کرتا ہے وہ ملک کے امن کو تباہ کرتا ہے اگر ان کی کوئی بات نا پسند ہو اور وہ سمجھانے سے بھی نہ مانیں اور وہ بات نظر انداز کرنے کے قابل نہ ہو تو ایسے وقت میں وہی حکم ہے جو اوپر گزر چکا کہ اس ملک کو چھوڑ کر چلا جاوے.قرآن کریم نے صرف دو قسم کی ترک موالات کا حکم دیا خلاصہ کلام یہ ہے کے قرآن کریم نے مخالفین سے ہے جن میں سے کوئی بھی انگریزوں پر عائد نہیں ہوتی صرف دو قسم کی ترک موالات کا حکم دیا ہے.ایک وہ ترک موالات ہے جو افراد افراد سے کرتے ہیں اور ایک وہ جو قوم قوم سے کرتی ہے.جو ترک موالات کہ افراد کے متعلق ہے اس کا موقع استعمال تب ہوتا ہے جب کوئی شخص دین اسلام سے تضحیک کرے اور بجائے تحقیق حق کے اس پر ہنسی اُڑائے ایسے شخص کے ساتھ مسلمانوں کو اٹھنا بیٹھنا

Page 285

انوار العلوم جلد ۵.۲۶۵۰ ترک موالات اور احکام اسلام اور دوستانہ تعلق رکھنا منع ہیں اور اگر وہ باز نہ آوے تو یہ سمجھا جاوے گا کہ وہ بھی ان ہی کے سے خیالات رکھتا ہے.دوسری قسم ترک موالات کی جو قوم قوم سے کرتی ہے اس کا موقع استعمال تب ہوتا ہے کہ جب کوئی قوم مسلمانوں سے مذہبی جنگ چھیڑے اور جبراً ان سے ان کا مذہب چھڑوائے اس وقت مسلمانوں پر فرض ہو جاتا ہے کہ اس قوم کے لوگوں سے دوستی محبت اور معاملات کے تعلق چھوڑ دیں اور اگر بعض مسلمان خود ایسے کفار کے ملک میں رہتے ہوں تو پھر ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس ملک سے ہجرت کر جاویں اور دوسرے بھائیوں سے مل کر جہاد کریں اور اپنے بھائیوں کی طرح ان کفار سے قطع تعلق کر لیں ورنہ وہ بھی کفار ہی سمجھے جاویں گے.اگر اسی حالت میں مرگئے تو جہنم میں جاویں گے یہ اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں فرمایا کہ ایسے موقع پر وہ اسی ملک میں رہ کر ترک موالات کر سکتے ہیں اور شریعت فساد کو نا پسند کرتی ہے اور اپنے دشمن کے ملک میں بھی فساد پھیلانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا.غرض یہ دو کم ترک موالات کے متعلق ہیں اور دونوں حکم انگریزوں پر چسپاں نہیں ہوتے اور ان حکموں کا ان پر چسپاں کرنا گویا قرآن کریم کے احکام کو مروڑنا ہے جو ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اگر کوئی شخص خیال کرتا ہے کہ واقع میں بحیثیت قوم ان کے متعلق ترک موالات کا فتوی لگانا اسلام کے مطابق ہے تو پھر اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان کے ملک سے ہجرت کر کے اور ان کے خلاف مسلمانوں سے مل کر جہاد کرے.ایک تیسری قسم کی ترک موالات ان دو قسم کی ترک مالات کے سوا ایک ور قسم بھی ترک موالات کی ہے لیکن وہ حکومت کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکتی بلکہ حکومت اس کا حکم دیتی ہے اور وہ ترک موالات وہ ہے جس کا حکم رسول کریم صلی الہ علیہ سلم نے ان تین صحابیوں کے متعلق دیا تھا جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے.واقعہ مخلصین ان کا واقعہ مختصر یوں ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے گئے تو آپ نے سب مسلمانوں کوحکم دیا کہ سب ساتھ چلیں مسلمان تو سب تیار ہوگئے منافقین پیچھے رہ گئے لیکن بعض غلطیوں کی وجہ سے تین مسلمان بھی ساتھ جانے سے رہ گئے.ان میں سے ایک کعب ابن مالک اپنا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس اس وقت سامان تو سب تھا مگر وہ پھلوں اور سائیوں کا زمانہ تھا اور میں ان کا بڑا شائق تھا ئیں نے کہا کہ میں عین وقت پر انتظام کرلوں گا.آخر

Page 286

انوار الع ترک موالات اور احکام اسلام وقت آگیا آپ چلے گئے اور میں رہ گیا مگر پھر بھی میں نے سوچا کہ میں بعد میں جائوں گا مگر یہ بھی نہ ہو سکا.جب آپ واپس تشریف لائے.منافقوں نے تو جا کر عذر کر دیئے میں نے جو سچ بات تھی وہ کہہ دی.آپ نے ان کے لئے تو دُعا کر دی اور میری نسبت فرما دیا کہ اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرو.اس کے بعد لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کوئی بات بنا کر معافی مانگ لوں.مگر مجھے معلوم ہوا کہ دو اور شخصوں کو بھی یہی حکم ملا ہے اور یہ دونوں مجھے معلوم تھا کہ مخلص مسلمان تھے اس لئے میں نے اس بات سے انکار کر دیا.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا.باقی دونوں گھروں میں بیٹھے رہے مگر میں زیادہ بہادر تھا.میں نماز مسجد میں جاکرہ پڑھتا تھا اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کو بار بار جا کر سلام کہہ کے دیکھتا کہ آپ کے ہونٹ جواب کے لئے ملتے ہیں یا نہیں میں نے دیکھا کہ جب میری آنکھیں آپ کی طرف ہو تیں تو آپ میری طرف نگاہ نہ ڈالتے لیکن جب میری نگاہ دوسری طرف ہوتی تو آپ میری طرف دیکھتے.ایک دن تنگ آکر اپنے بھائی اور دوست قتادہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ کیا آپ جانتے نہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھتا ہوں؟ انہوں نے جواب نہ دیا.میں نے پھر کہا اور قسم دی مگر پھر جواب نہ دیا.میں نے پھر کہا اور قسم دی مگر پھر بھی جواب نہ دیا - آخر مجھے مخاطب کئے بغیر یہ کہا کہ اللہ اور اسکے رسول صلی الہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں.اس پر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں وہاں سے افسردگی میں واپس آیا.بازار پہنچاتو کی میرا پتہ پوچھتا ہوا آیا اور ایک خط مجھے دیا جو بادشاہ غسان کی طرف سے تھا اور اس کا مضمون یہ تھا کہ تو کوئی ذلیل آدمی نہ تھا مگر تجھ سے بہت برا سلوک ہوا ہے تو ہمارے پاس آجا ہم تجھے بہت عزت دیں گے یہ میں نے خیال کیا کہ یہ بھی ابتداء ہے اور اس خط کو تنور میں ڈال کر جلا دیا.جب چالیس دن گزر گئے تو ایک شخص نے آکر مجھ سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ اپنی بیبیوں سے علیحدہ ہو جاؤ.میں نے دریافت کیا.طلاق دے دوں یا علیحدہ رہوں ؟ اس نے کہا نہیں علیحدہ رہو.اس پر میں نے اپنی بیوی کو سیکے بھیج دیا.میرے دوسرے ساتھیوں کو بھی ایسا ہی حکم ملا تھا.ان میں سے ہلال ابن امیہ نہایت ضعیف ہو رہے تھے ان کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تو کوئی نو کر بھی نہیں.کیا آپ اس کو نا پسند کرتے ہیں کہ میں اس کی خدمت کر دیا کروں ؟ آپ نے فرمایا میرا یہ حکم نہیں کہ تو خدمت نہ کرے بلکہ صرف یہ حکم ہے کہ وہ تیرے قریب نہ جایا کرے.اس کے بعد پچاس راتیں گزرگئیں تو خدا تعالیٰ کا حکم نازل ہوا اور ہمیں معاف کر دیا گیا.زبخاری کتاب المغازی باب حديث كعب بن مالك )

Page 287

انوار العلوم جلد ۵ ۲۶۷ ترک موالات اور احکام اسلام یہ حدیث احترام حکومت کے متعلق ہیں کیا تعلیم دیتی ہے ؟ اس حدیث کو دکھو کسی وضاحت سے حکومت کا احترام سکھاتی ہے.خاوند کوبھی بیوی پر ایک قسم کی حکومت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں پر ناراض تھے چاہتے تو بجائے ان کو کہلا بھیجنے کے کہ تم اپنی بیویوں سے علیحدہ ہو جاؤ بیویوں کو کہلا بھیجتے کہ تم اپنے خاوندوں سے علیحدہ ہو جاؤ.مگر آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ خاوند کو کہلا بھیجا کہ وہ اپنی بیویوں سے علیحدہ ہو جائیں.پھر جب ہلال بن امیہ کی بیوی آپ سے پوچھنے گئیں کہ کیا میں خدمت بھی نہ کروں ؟ تو پھر بھی یہ نہیں فرمایا کہ خدمت کر مگر اس کے قریب نہ جا.بلکہ یہ فرمایا کہ خدمت کر مگر وہ تیرے قریب نہ آوے باوجود اس عورت کے مخاطب ہونے کے حکم کا مخاطب خاوند ہی کو قرار دیا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت پر مرد کے اختیار کا اس قدر لحاظ کیا ہے تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو حکومتوں کے خلاف رعایا کو اکساتے ہیں اور ماں باپ کے خلاف بچوں کو جوش دلاتے ہیں اور اساس تمدن کو توڑتے اور انتظام برباد کرتے ہیں.ی قسم ترک موالات حکوم کے اختیار یہ ترک موالات حکومت کے اختیار میں ہے قسم میں ہے نہ رعیت کے اختیار میں رعایا کے اختیار میں نہیں ہے اور بلا ان وجوہ کے جن کو شریعت نے بیان کیا ہے ترک موالات کرنے کو رسول کریم صل اللہ علیہ سلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ فرماتے ہیں لا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدابَرُوا وَلَا تَقَاطَعُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخَوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَن يَهْجَرَ أَخَاهُ فَوقَ ثَلاث یعنی ایک دوسرے سے بغض نہ کرو.ایک دوسرے سے حسد نہ کرد.ایک دوسرے سے مخالفت اور عداوت نہ کرو اور ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور اللہ کے ہندو بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لئے تعلقات قطع کرے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ افراد کو ان مواقع کے سوا جن میں شریعت نے ترک موالات کا حکم دیا ہے.تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنے کا اختیار نہیں.پس یہ تیسری قسم ترک موالات کی صرف حکومت کے ہاتھ میں ہے وہ حکومت خواہ سیاسی ہو خواہ مذہبی اور یقم حکومت کے خلاف نہیں استعمال کی جاسکتی.عله بخارى كتاب المغازي حديث كعب من مالك عله مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۹۹ ۲۲۵۰

Page 288

ترک موالات اور احکام اسلام حکومت کے سوا کسی کو اختیار نہ دینے کی حکمت حکومت کے سوا دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دینے کا اختیار نہ دینے کی یہ حکمت ہے کہ اس طرح تفرقہ اور شقاق بڑھتا ہے اور بجائے محبت میں ترقی ہونے کے عداوت پیدا ہو جاتی ہے.پس افراد کو تو ترک موالات کرنے سے روک دیا گیا ہے اور حکومت کو اختیار دے دیا گیا ہے.حکومت کو اختیار دینے کی ایک یہ وجہ بھی ہے کہ صاحب الامر کی نظر وسیع ہوتی ہے اور وہ فیصلہ دیتے وقت جلدی نہیں کرتا بلکہ اس کو اپنے فیصلہ کے وسیع اثرات کا خیال ہوتا ہے پس اس کے ہاتھ میں یہ آلہ محفوظ ہوتا ہے اور نقصان کا خطرہ نہیں ہوتا.یہ قسم ترک موالات بھی موجودہ حالات کے مناسب نہیں کی قسم ترک موالات کی بھی موجودہ حالات کے مناسب نہیں کیونکہ اس وقت بجائے حکومت کی طرف سے اس کے استعمال کئے جانے کے حکومت کے خلاف اس کو استعمال کیا جاتا ہے جو بالکل خلاف اصول اور مخالف قرآن و حدیث ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِه ريخاري كتاب الجهاد باب يقاتل من ورا الامام دیقی به امام ایک ڈھال ہوتا ہے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر لڑائی کی جاتی ہے " ایسے تمام احکام ہو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں امام کی معرفت ہی ان پر عمل کیا جاتا ہے.ہر ایک شخص کو ان کے استعمال کرنے کا حق نہیں ہوتا اگر یہ احتیاط نہ کی جائے تو غیر ذمہ دار لوگ اپنے جوش اور غصہ کی حالت میں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈو میں جیسا کہ آج کل اس حکم کو نظر انداز کرنے کے سبب سے ہو رہا ہے.موجودہ ترک موالات محض ہوائے ہیں اسے برادران مک ! ترک موالات کی کوئی صورت نفس کے ماتحت ہے نہ اسلام کی خاطر بھی اس زمانہ میں جائز نہیں ہے اور اس وقت ! برطانیہ کے خلاف اس کا وجوب تو الگ رہا شرعی طور سے اس کے جواز کا بھی فتوی دینا ظلم اور تعدی ہے اور اگر کوئی شخص اس امر پر جوش اور غضب سے الگ ہو کر سوچے گا تو یقیناً دلائل کے ذریعہ سے بھی اس نتیجہ پر پہنچے گا اور شواہد کے ذریعہ بھی یہی فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گا کہ موجودہ شورش صرف خواہشات نفس کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ ادنی تامل - معلوم کرلے گا کہ یہ تمام جوش جو اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اُس وقت بھڑکتا ہے جب مادی اسباب پر حملہ ہوتا ہے.روحانیت اور مغز اسلام کی حفاظت کے لئے کبھی اس قدر غصہ کا اظہار نہیں سے

Page 289

انوار المعلوم جلد ۵ ۲۶۹ ترک موالات اور احکام اسلام کیا جاتا بلکہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو اسلام کے خالص مذہبی احکام سے بالکل لا پروا ہیں اور ان کا اس قدر بھی خیال نہیں کرتے جتنا کہ ایک اپنے دور کے شناسا کی بات کا.حالانکہ اصل چیز تو اسلام ہے ظاہری حکومت یا طاقت تو صرف سولت کار کے لئے ہے جب اسلام میں حکومت نہ تھی تب اسلام کی شان میں کوئی فرق نہ تھا اور جب حکومت مل گئی تو اسلام کے حسن میں کوئی زیادتی نہیں ہو گئی.اسلام تو اپنی ذات میں حسین ہے اور مومن اپنے وجود میں مبارک.نہ اسلام ظاہری شان و شوکت کا محتاج ہوتا ہے نہ مومن ظاہری قوت و طاقت کا بھوگا.اسلام کا حسن اس کی خوبیاں ہیں اور مومن کی قوت اس کا دل.پس دنیا کی حکومت اسلام اور مسلم کے لئے کوئی ضروری چیز نہیں ہے.دنیا کی نعمتیں تو اس کی غلام ہوتی ہیں جب وہ ان کو حکم دیتا ہے وہ اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں اور اسی وقت تک اس سے دُور رہتی ہیں جب تک صداقت نے اپنا ذاتی جو ہر اور مومن نے اپنی ذاتی قوت ایمانیہ لوگوں پر ظاہر کرنی ہوتی ہے.پس اگر اسلام اور مسلم موجود ہو تو ان چیزوں کی کچھ فکر نہیں ہوسکتی اگر فکر کی بات ہے تو یہ کہ اسلام نہ رہے صداقت مٹ جاوے اور ایمان سلب ہو جاوے.وہ نور سامنے سے ہٹ جاوے جو یار کا چہرہ دکھاتا تھا مومن دنیا پر افسوس کرتا ہے وہ دین پر افسوس نہیں کرتا اس لئے ایک کلمہ خیبر کا بھولنا نقارہ فتح کے بند ہونے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا اور وصال یار کا ایک دروازہ بند ہونا دنیا کی سب کامیابیوں کے مبدل بہ ناکامی ہونے سے زیادہ موجب گھبراہٹ ہوتا ہے اور اگر ایمان کا مٹنا اور اسلام کا ضعیف ہو جانا انسان پر گراں نہ گزرے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اس شخص کے دل میں دُنیا ہی دُنیا کی محبت سما گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا دامن چھوٹ گیا ہے اور یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے.اسلام کی ایک ایک اینٹ ان کی آنکھوں کے سامنے اکھاڑی گئی مگر ان کے دل میں احساس نہ پیدا ہوا.مسلمان کہلانے والے لوگوں نے ایک ایک کر کے ارکان اسلام کو خیر باد کہا مگر ان کا دل دردمند نہ ہوا.عقائد صحیحہ کو ایک ایک کر کے چھوڑا گیا بلکہ ان کی پھبتیاں اُڑا دی گئیں مگر انہوں نے بجائے تکلیف محسوس کرنے کے ! ن لطیفہ سنجیوں میں لطف محسوس کیا.غرض کوئی صورت دین کی تخریب کی نہ تھی جو خود مسلمانوں نے نہیں کی اور ہنستے کھیلتے ہوئے نہیں کی خوش چہروں اور مسکراتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ نہیں کی یہاں تک کہ اسلام ایک مردہ کی طرح ہو گیا جس میں رُوح باقی نہ تھی یا ایک گرے ہوئے مکان کی طرح ہو گیا جس کے طلبہ کو بھی لوگ اُٹھا کر لے گئے اور حاجت مندوں نے اسکی نیوؤں کی اینٹیں بھی اُکھاڑ کر استعمال کرلیں اور وحشی جانوروں نے اس کی نیبوں کے اندر بسیرا بنایا.نہیں نہیں وہ ایک مُردار کی طرح ہو گیا جس کو اپنوں نے اپنے گھر سے نکال کر پھینک دیا اور غیروں نے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنی ناکوں پر رومال رکھ لیا مگر ایک

Page 290

ترک موالات اور احکام اسلام مسلمان کا دل بھی اس پر غمگین نہ ہوا اور وہ اسی طرح اپنے عیش و طرب میں مشغول رہے جس طرح کہ پہلے مشغول تھے ان کی تیوروں پر بل نہ پڑا اور ان کی آنکھوں نے افسردگی کی جھلک نہ دکھلائی انہوں نے اپنے کندھے ہلا کر لا پرواہی سے کہہ دیا کہ اسلام اگر ہماری ہوا و ہوس کے راستہ میں روک ہے تو اسے تباہ ہونے دو ہمارے عیش میں خلل نہیں آنا چاہئے لیکن جب خدا تعالیٰ نے ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے وہ چیز جو اسلام کے مقابلہ میں ایک پشہ کے برابر بھی قیمت نہ رکھتی تھی اور جس سے مسلمان کھلونے کی طرح کھیل رہے تھے ان کے ہاتھوں سے چھین لی اور اس کو توڑ کر پھینک دیا تو وہ سب کیساں رونے اور چلانے لگے اور ماتم کرنے لگے اور آہ و فغاں سے انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا.کیا یہ بات ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ؟ کیا ابھی انہیں کسی اور ثبوت کی ضرورت ہے ؟ جس سے ان کو معلوم ہو کہ وہ خدا کے نہیں بلکہ اپنے نفوس کے بند سے ہو رہے ہیں اس وقت اسلام کی محبت کہاں گئی تھی جب ہزاروں مسلمان کہلانے والے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ ظلم کو گالیاں دیتے ہوئے اسلام کے دشمنوں اور ایمان کی عمارت پر گولہ باری کرنے والوں کے شکر میں جماعت در جماعت شامل ہو رہے تھے اور اعلام محمد صل اللہ علیہ وسلم کے بازوؤں کو قوت دے رہے تھے اس وقت ان کی زبانوں کو کیوں جنبش نہ ہوئی اس وقت ان کے ہاتھوں میں کیوں حرکت پیدا نہ ہوئی اور اس وقت کیوں ان کے خونوں نے جوش نہ مارا ؟ کیا خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی قیمت اتنی بھی نہیں جتنی کہ عراق یا شام کی ؟ ترکوں پر یورپ نے ظلم گئے تو ان کے دلوں کو صدمہ پہنچا لیکن محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم پر قمر توڑے گئے تو کانوں پر جوں تک نہ رینگی.جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جس کی محبت کے دعوی میں اس قدر جوش دکھایا جارہا ہے اس کا یہ قول ان کو یاد نہ رہا کہ ایک نفس کو ہدایت ہو جائے تو وہ جانوروں کے ریوڑوں سے زیادہ با برکت ہے مگر یہاں تو کسی نفس کو ہدایت دینا تو الگ رہا اس قدر تڑپ بھی نہ پیدا ہوئی کہ جو اپنے تھے انہی کو گمراہ ہونے سے بچایا جائے.ایک دو ظاہری علاقوں کے جانے پر اس قدر صدمہ ہوا لیکن لاکھوں روحانی زمینیں ہاتھ سے نکل گئیں اور کوئی تکلیف نہ ہوئی.اسے کاش ! اب بھی آنکھ کھلتی اور اب بھی سمجھتے کہ یہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں بلکہ دنیا کی ہوس ہے.آج جن بچوں کو کالجوں سے ہٹایا جا رہا ہے اور ان کی خیر خواہی کا راگ گایا جارہا ہے اس سے پہلے یہ بچے کیوں بھولے ہوئے تھے.کالجوں سے ہٹانے کے لئے تو سب سے پہلے ان محرکان ترک موالات کو وہ یاد آئے اور ان کی محبت ان کو کالجوں کے ہالوں میں کھینچ کر لائی.لیکن جب علی الاعلان وہ خدا کے

Page 291

انوار العلوم جلد ۵ ۲۷۱ ترک موالات اور احکام اسلام انکار پر کمر بستہ تھے.نماز کو ترک کر رہے تھے ، روزوں کو ایک جرمانہ خیال کرتے تھے ، حج کو فضول خرچی کا موجب خیال کرتے تھے ، اس وقت ان کی محبت نے کیوں ہوش نہ مارا ؟ کیوں ان کو سمجھانے اور سیدھا راستہ دکھانے کا خیال پیدا نہ ہوا ؟ کیا اسی لئے نہیں کہ اس وقت ان کے مصرف کے نہ تھے اور اب ان کے ارادوں کو ان سے تقویت پہنچ سکتی ہے.میں جانتا ہوں کہ ترک موالات کے بانیوں کو میری یہ تحریر بری لگے گی اور ان کے فریب خوردہ ساتھی بھی اس پر غصہ کا اظہار کریں گے مگر ان کی ہمدردی اور ان کی خیر خواہی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں سچی پنچھی بات ان کو سُنا دوں حتی ایک سخت کڑوی چیز ہے اور بہت دفعہ انسان خود اپنے آپ کو حق سنانے سے بھی ڈر جاتا ہے مگر ہم نے اپنی زندگیاں اسی لئے وقف کی ہوئی ہیں اور خدا کے بندوں کی ہدایت کا بار اپنے سروں پر اُٹھایا ہے اور کسی کی مخالفت یا عداوت کی نہیں پرواہ نہیں.طبیب کبھی بیمار کی سختی کو دیکھ کر علاج کو ترک نہیں کرتا.پس ہم بھی اپنے کام سے باز نہیں رہ سکتے اور اپنے بھائیوں کی اصلاح سے مایوس نہیں ہیں.اپنی حالت پر نگاہ ڈالو اسے عزیزو ! میں یہ نہیں کہتا کہ تم اس غلطی کو دور کرنے کے لئے جو اتحادیوں سے ہوئی ہے جدوجہد چھوڑ دو میں صرف یہ کہتا ہوں کہ اپنی حالت پر نگاہ ڈالو اور دیکھو کہ تمہارے نفس نے تم کو دھوکہ دیا ہے جسے تم اسلام کی محبت سمجھ رہے ہو وہ فقط ایک مقابلہ کی روح ہے جو یورپ کی دیکھا دیکھی تمہارے اندر جوش مار رہی ہے.اگر اسلام کی محبت ہوتی تو اس وقت کیوں جوش پیدا نہ ہوتا جب خود اسلام پر حملہ ہو رہا تھا یا اب ہی کیوں اس امر کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی کہ اسلام سے مسلمانوں کو جو دوری ہے اسے دور کیا جائے اور خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس سے محبت پیدا کی جائے یا اسلامی اخلاق اور اسلامی آداب پیدا کئے جائیں.ہاں میں تمہیں فقط یہ کہتا ہوں کہ ہر ایک چیز کی طرف اس کے مناسب توجہ دو.اگر دنیا کی بادشاہت تم کو مل جائے مگر اسلام نہ ہو تو اس حکومت کا کیا فائدہ ؟ اس جدوجہد سے زیادہ اس کے لئے جدو جہد کرو جو اصل مقصود ہے اور اس کام کے لئے بھی جو کوشش کرو وہ اسلام کے اصول کے مطابق ہونہ کہ اس کے مخالف.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تک ہندوستان میں ہر ایک امر کو مذہبی رنگ نہ دیدیا جائے لوگوں کو جوش نہیں آتا.لیکن کیا کسی اچھی بات کے حاصل کرنے کے لئے ناجائز وسائل کا استعمال جائز ہو جاتا ہے.یہ یورپ کا مقولہ ہے کہ اچھے مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ذرائع کا استعمال جائز ہے اسلام کی تعلیم نہیں ہے.

Page 292

انوار العلوم جلد ۵ ۲۷۲ ترک موالات اور احکام اسلام اس وقت اس مجرب نسخہ موالات کو استعمال کرو جو ہلاکو خان کے ہاتھ سے عباسی سلطنت کے مٹنے پر استعمال کیا گیا نہ کہ اسکے برعکس ترک موالات کا نسخہ اے عزیزو ! ہوشیار آدمی کسی سبق کو بھلاتا نہیں اور داناکسی عبرت کی بات کو ضائع نہیں ہونے دیتا.اس فتنہ کے وقت میں یہ تو سوچو کہ آج سے پونے سات سو سال پہلے اسلامی حکومت کو موجودہ صدمہ سے بہت زیادہ صدمہ پنچا تھا.اب تو کچھ نہ کچھ ڈھانچہ موجود بھی ہے اس وقت تو ہولی بھی باقی نہ رہا تھا.اس وقت کیا ہتھیار تھا جو کام آیا اور کیا گر تھا جس سے یہ سوال حل ہوا تھا ؟ ایک دفعہ کا تجر به شدہ نسخہ اسی قسم کی بیماری کے دوبارہ ظاہر ہونے پر اس بات کا مستحق ہے کہ سب سے پہلے اسی کا تجربہ کیا جائے.غور تو کرو کہ جب ترکوں نے خلافت عباسہ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی جب ان کے ٹڈی دل شکروں کا مقابلہ کرنے والا مسلمانوں میں کوئی باقی نہ رہا تھا.اور جب اسلام کے مقدس مقامات ایک لاوارث کی طرح دشمنوں کے رحم پر تھے اس وقت کیا علاج تھا ؟ جو ہمارے آباء نے سوچا تھا اور کیا وہ اس علاج میں کامیاب ہوئے تھے یا نا کام ؟ اگر تم کو یاد نہیں کہ انہوں نے کیا تدبیر اختیار کی تھی اور اگر تم اس سبق کو فراموش کر چکے ہو تو سنو ! اس وقت انہوں نے موالات کے ہتھیار سے نہ کہ ترک موالات کے ہتھیار سے ان پر حملہ کیا تھا اور آخر کفر کو فنا کر کے اس کے جسم اور اسی کے پوست اور اسی کے خون سے اسلام کے لئے ایک نیا ہم تیار کر دیا تھا جس میں اسلام کی روح نے دنیا کو پھر اپنی جادو بیانی کا والا و شیدا بنانا شروع کر دیا تھا.اس وقت کے علماء نے جو اس وقت کے علماء سے کہیں علم و فضل میں بڑھ کر تھے اور جن کے عمل کا نتیجہ ان کی رائے کے صائب ہونے پر تصدیق کی مہرلگا چکا ہے یہ راہ اختیار کی تھی کہ وہ ترکوں کے درباروں اور ان کی مجالس میں گھس گئے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے جسموں پر فتح پانے والوں کے دلوں پر فتح پانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا.آخر اس موالات کا یہ اثر ہوا کہ اس بادشاہ کا پوتا جس نے بغداد کی اسلامی حکومت کو تباہ کیا تھا اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کے خون سے اس سرزمین کو رنگ دیا تھا.اسلام کی غلامی میں داخل ہوا اور خدائے واحد لاشریک کے عبادت گزاروں میں شامل ہو کر ایک نئی اسلامی حکومت کا بانی ہوا جس کے آثار اب اس موجودہ جنگ میں آکر بیٹے ہیں بلکہ ا بھی کچھ نہ کچھ موجود ہی ہیں.وجہ کیا ہے کہ اب وہی نسخہ نہیں ہوتا جاتا بلکہ اس کے بالکل برعکس علاج کیا جاتا ہے اگر اس وقت کے مسلمانوں نے موالات کو اختیار کر کے اسلام کی حفاظت کی تھی تو آج ترک موالات کی کیوں تعلیم دی جاتی ہے کیا کوئی کامیاب

Page 293

انوار العلوم جلد ۲۷۳ ترک موالات اور احکام اسلام نسخہ بھی ترک کیا کرتا ہے ؟ کیا اب اسلام میں ہی ایسا جذب نہیں رہا کہ وہ فاتحین کے دلوں کو مسخر کر سکے اور ان کو اپنی غلامی کے حلقہ میں لاسکے یا تم میں ہی وہ نورِ ایمان نہیں رہا جو تمہارے آباء میں تھا ؟ ان کی باتوں کا دلوں پر اثر ہوتا تھا لیکن تمہاری باتیں بالکل بے اثر ہیں.کیا سبب ہے کہ وہ محبت سے امن کو دوست بنا لیتے اور تم دوست کو عداوت سے دشمن بنانا چاہتے ہو ؟ یا دوست نہ سمی دشمن کو اور بھی زیادہ دشمن بنانا چاہتے ہو ؟ اس مذہبی معاملہ میں مسلمان مٹر گاندھی کی اقتداء میں کیا تم کو ی نظرنہیں آتا کہ م کیا تم اس صحیح راستہ کو ترک کر کے کہاں کہاں دھکے کھاتے پھرتے ہو ؟ اول تو تمام علماء و فضلاء کو چھوڑ کر ایک غیر مسلم کو تم نے لیڈر بنایا ہے کیا اسلام اب اس حد تک گر گیا ہے کہ اس کے ماننے والوں میں سے ایک روح بھی اس قابلیت کی نہیں ہے کہ اس طوفان کے وقت میں اس کشتی کو بھنور سے نکالے اور کامیابی کے کنارے پہنچائے ؟ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی اس قدر غیرت بھی نہیں رہی کہ وہ ایسے خطرناک وقت میں کوئی ایسا شخص پیدا کر دے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگرد اور آپ کے خدام میں سے ہو اور جو اس وقت مسلمانوں کو اس راستہ پر چلائے اور جو ان کو کامیابی کی منزل تک پہنچائے ؟ آہ ! تمہاری گستاخیاں یہ کیا رنگ لائیں ؟ پہلے تو تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسیح ناصری کا ممنون منت بنایا کرتے تھے اب مسٹر گاندھی کا مرہون احسان بناتے ہو ؟ اگر یہ درست ہے کہ ترک موالات سے ایک دو سال میں تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاؤ گے تو اسلام کی دوبارہ زندگی یقیناً مسٹر گاندھی کے ہاتھوں ہوگی اور نعوذ باللہ من ذالک ابدالاباد تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بار احسان سے ان کے سامنے جھکا رہے گا کیونکہ مٹر گاندھی نے آپ سے کچھ نہیں لیا اور آپ گویا سبھی کچھ مسٹر گاندھی کی عطا سے پاویں گے.اے کاش! اس خیال کے دل میں آنے سے پہلے تم نے اس دل ہی کو کیوں نہ نکال کر باہر پھینک دیا ؟ مسٹر گاندھی بے شک ایک سنجیدہ اور محنتی سیاسی لیڈر ہیں لیکن ان کو اس امر میں راہنما بنا نا جس پر تم اسلام کی زندگی اور موت کا انحصار سمجھتے ہو اور جسے تم اہم ترین مذہبی فرائض میں سے خیال کرتے ہو قابل افسوس و حیرت نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا حضرت مسیح ناصری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محسن بنا کر تم نے خدا کی غیرت کا مشاہدہ نہ کیا ؟ خدا کا مسیح تم کو ہزار سجھاتا تھا کہ یہ غضب نہ کرو کہ اسلام سے باہر کے نبی کولا کر اسلام کا مصلح بناؤ اور رسول کریم کو اس کا ممنون بناؤ.اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تنک کرو اور اس کی عزت بڑھاؤ.پہلے اس حرکت کی سزا بہت کچھ پا چکے ہو اور اب

Page 294

۲۷۴ ترک موالات اور احکام اسلام اور دیکھیں گے.جب تم نے مسیح کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دی تو خدا تعالیٰ کیوں مسیحیوں کو تم پر فضیلت نہ دے تم نے اس کی آواز کو نہ سُنا اور آخر دیکھ لیا کہ خدا کی گرفت کیسی سخت ہوتی ہے تم نے خدا کے محبوب کو حضرت مسیح کا احسان مند بنا کر اس کی گردن اس کے سامنے جھکائی تھی خدا نے تمہاری گردنوں کو ہر جگہ مسیحیوں کے آگے جھکا دیا ہے.پس یہ جو کچھ ہو رہا ہے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پتنگ کا ثمرہ ہے اب تم دوسری غلطی کرنے لگے ہو.حضرت مسیح تو خیر ایک نبی تھے اب جس شخص کو تم نے اپنا مذہبی راہنما بنایا ہے وہ تو ایک مومن بھی نہیں.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہتک کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت دیکھو گے اور اگر باز نہ آئے تو اس جرم میں مٹر گاندھی کی قوم کی غلامی اس سے زیادہ تم کو کرنی پڑے گی جتنی کہ حضرت مسیح کی اُمت کی غلامی تم کہتے ہو کہ ہمیں کرنی پڑی ہے پیسں اب بھی سنبھل جاؤ اور سمجھ لو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی امت کا نجات دہندہ آپ ہی کے غلاموں میں سے ہو سکتا ہے جس کی گردن آپ کے سامنے جھکی رہے نہ یہ کہ آپ کو اس کے آگے گردن جھکانی پڑے.اس سوال کا جواب کہ برسوں موالات بلکہ تمہارے دل میں یہ خیال نہ گزرے پرستش تک بھی کر کے ہم نے اس کا نتیجہ دیکھ لیا کہ ہم نے موالات کر کے دیکھ لی اور برسوں برطانوی حکومت کی دہلیز پر جبین نیاز رگڑ کر معلوم کر لیا کہ اس دروازہ سے ہمارا سوال پورا ہونے والا نہیں اور اس درگاہ سے ہماری مراد ہر آنے والی نہیں.ہم نے ان کی غلامی کی ، ہم نے ان کی خوشامد کی ، ہم نے ان کی منت کی ، ہم نے ان کی سماجت کی، ہم نے اگر سچ پوچھو تو ان کی پرستش کی مگر نتیجہ ہیں نکلا کہ انہوں نے ہمارے ہی ہاتھوں ہمارے بھائیوں کے گلے کٹوانے اور پھر ہمیں بھی جواب دے دیا اور اس گڑھے میں ہم کو دھکیل دیا جو ہمیں سے کھدوایا تھا.میں مانتا ہوں کہ یہ بات درست ہے تم نے اسی طرح کیا جس طرح تم بیان کرتے ہو کہ تم نے کیا اور انہوں نے بھی ویسا ہی بدلہ دیا جیسا کہ تم بیان کرتے ہو یگر جانتے ہو کہ الاعمال بالنیات" کیا یہ سب کچھ کوشش تم نے اسلام کی عظمت اور اس کی ترقی کے لئے کی تھی ؟ تم نے ان کی خوشامدیں کیں مگر اپنی جیبوں کو پر کرنے کے لئے کیں ، خطابوں کے لئے کیں ، نوکریوں کے لئے کیں، جھوٹی عزتوں کے لئے کیں.تم ان سے ملے اور ان سے محبت کے اظہار تم نے کئے مگر کیا اس لئے کہ اس طرح تم ان کے دلوں کو اسلام کے لئے فتح کرو ؟ تم اس لئے ملے تا ان سے سرٹیفکیٹ حاصل کرو ، خوشنودی کے پروانے اور تم نے محبت کے اظہار کئے مگر اس لئے کئے کہ ان کی نگاہ مہر بخاری باب كيف كان بدء الوحي الى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالبيات

Page 295

انوار العلوم جلد ۵ ۲۷۵ یہ ترک موالات اور احکام اسلام کے تم بھو کے تھے ، ان کی سکراہٹ کو تم اپنی سب حاجتوں کے پورا ہونے کی کلید سمجھتے تھے، ان کی نظر کو تم اپنے لئے خُدا کی نظر سے زیادہ مبارک خیال کرتے تھے.بے تک تم نے گھنٹوں اور پیروں جبین نیاز رگڑی بلکہ یوں کہو کہ تم نے اس قدر ناک رگڑی کہ تمہاری ناک ہی باقی نہ رہی مگر اس سے سی ثابت کیا کہ تم منہ سے تو خدائے واحد کے پرستار ہو لیکن اصل میں تم پیسہ کے یار ہو.اس کی خاطر تم کو ذلیل سے ذیل کام کرنے میں بھی عار نہیں تم اس کے پیچھے خدا تعالٰی کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہو.تم نے کالجوں میں تعلیم پائی اور ان کی زبان سیکھی اور ضرور رکھی لیکن کیا اس لئے کہ اس زبان کو سیکھ کر تم ان ہی کی زبان میں ان کو حق پہنچاؤ ان کے وساوس کو معلوم کر کے ان کے دُور کرنے کی کوشش کرو ، اسلام کی خوبیوں سے ان کو واقف کرو ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو پیغام پہنچاؤ ؟ نہیں بلکہ اس لئے کہ تم زیادہ عمدگی سے ان کے آگے سوال کر سکو اور ان ہی کی زبان میں ان کے گیت گا سکو.تم نے ان کی زبان کیوں پڑھی ؟ کیا قرآن کی خدمت کے لئے ؟ تم تو اس کو پڑھ کر خدا کی باتوں کو بھول گئے.تم نے خدا کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا اور پرکھے اور ایگل آور سینسر تمہاری نظروں سے ایک دم کے لئے جدا نہ ہوتے تھے تم نے بجائے خدا کے رسول کی باتوں کے پہنچانے میں اس زبان سے مدد لینے کے بخاری اور سلم کا نام تک بھلا دیا.ڈارون اور کیلے اور جیمز کا وظیفہ ہر دم تمہاری زبان پر رہنے لگا.تم کہو گے کہ یہ انگریزی تعلیم کا نقص تھا.میں کہتا ہوں یہ تعلیم کا نقص نہ تھا یہ تمہاری نیتوں کا نقص تھا.اگر تم خدا اور رسول کی محبت رکھتے اگر اسلام کو تم نے خود سمجھا ہوتا تو کیا تم اپنی اولاد کے لئے نور البیان کی فکر نہ کرتے اگر تم ذرا بھی توجہ کرتے تو کیا نور ظلمت کے سامنے ٹھہر سکتا ؟ آؤ تو میں تم کو تمہارے ہی بچوں جیسے اور بچے دکھاؤں جو تمہارے بچوں کی طرح کا لجوں میں ان ہی پروفیسروں سے پڑھتے ہیں، وہی کتابیں وہ پڑھتے ہیں جو تمہارے بچے پڑھتے ہیں، ان ہی یونیورسٹیوں کا امتحان دیتے ہیں جن کا وہ دیتے ہیں لیکن ان کے دل نورِ ایمان سے معمور ہیں.وہ قرآن کریم کو اس لئے نہیں مانتے کہ ان کے باپ دادا اس کو مانتے تھے بلکہ اس لئے کہ اس کو انہوں نے خود پڑھا اور اس کو سچا پایا ہے.وہ اس کو قسمیں کھانے کا آلہ نہیں جانتے بلکہ اسے خدا تعالیٰ سے ملنے کا دروازہ خیال کرتے ہیں اس کو بند کر کے رکھ نہیں چھوڑتے اس کی تلاوت کرتے ہیں طوطے کی طرح نہیں رہتے بلکہ سمجھ کر پڑھتے ہیں.وہ نمازوں کے عادی ہیں ، روزوں کا خیال رکھتے ہیں، دُعا کے منکر نہیں دعاؤں کو اپنی زندگی کا سہارا جانتے ہیں.غرض اسلام ان کا شعار ہے خدا کی محبت ان کی روح ہے اور اس کا ذکر ان کی غذا ہے اور اس کے رسول کی ہر ایک بات ان کو پیاری ہے پس یہ نقص کانجوں کا نہیں،

Page 296

انوار العلوم جلد ۵ ۲۷۶ ترک موالات اور احکام اسلام کورسوں کا نہیں ، یونیورسٹیوں کا نہیں ، یہ سب تمہاری غفلت اور تمہاری سُستی کا نتیجہ ہے.فوجی خدمات سے تمہارا مقصود کیا تھا میں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں میں سلیم کرتا ہوں کہ تم جنگ میں گئے اور تم نے خوب جانبازیاں کیں اور ترکوں کو مارا اور ان کے خون سے میدان کو رنگ دیا مگر کیا خدا کے لئے الیسا کیا ؟ اس لئے کیا کہ خدا تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اپنے حاکم کی اطاعت کرو ؟ یا تیں وقت فوج میں بھرتی ہوتے تھے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ ہم کافر ہورہے ہیں اور دس دس روپے کے لئے اپنی جانیں شیطان کے ہاتھ بیچ رہے ہیں اور ہر ایک کارنمایاں جو تم سے ہوتا تھا اس کے بدلے اپنے افسروں کو زمینوں کی درخواستوں اور خطابات سے گھبرا دیتے تھے جس غرض سے تم یہ سب کام کرتے تھے وہ غرض تمہاری ایک حد تک پوری ہو گئی.خطاب بھی تم نے پائے، نوکریاں بھی حاصل ہوئیں، جاگیریں بھی ملیں ، تم نے بھی لگے ، غرض تمہارا معراج تم کو حاصل ہو گیا.اب اور کون سا تمہارا حق تھا جس کے بدلے میں تم نے انگریزوں سے ترکوں کی جان بخشی کا سوال کیا ہے ؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ تم مذہباً اس جنگ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور صرف نوکریوں کی خاطر یا انعام حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے یا خطابوں اور جاگیروں کی خواہشات سے فوج میں بھرتی ہو کر جا رہے ہو الا ماشاء اللہ.پھر جب وہ دیکھتے تھے کہ تم اپنے عقیدہ کو جو گو غلط تھا مگر بہر حال تم اس کو مانتے تھے دنیوی فوائد کے لئے قربان کر رہے ہو تو ان کے دلوں پر اسلام کی تعلیم کا کیا اثر ہوتا اور اس موالات سے وہ اسلام کے قریب کیونکر آتے ؟ یہ بد نتیجہ تم نے موالات کا نہیں بلکہ اپنی نیتوں کا پایا میں یہ غلط ہے کہ تم نے موالات کا تجربہ کر لیا اور اس کو نقصان دہ پا یار تم نے موالات کا بد نتیجہ نہیں دیکھا بلکہ اپنی نیتوں کا بد نتیجہ دکھا اگرتم ان کو اسلام کی خوبیوں کا قائل کرنے کے لئے ان سے ملتے اپنے کاموں میں دیانتداری اور اخلاص کا نمونہ دکھا کر اسلام کی تعلیم کا اثر ان پر ثابت کرتے، موقع ملنے پر اسلام کے متعلق گفتگو کرتے اور ان کی پرستش نہ کرتے بلکہ ان کو خُدائے واحد کی طرف توجہ دلاتے تو کیا ان کے دل پتھر کے تھے کہ ان پر اثر نہ ہوتا ؟ وہ انسان ہیں اور حسن پر فدا ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں.جب ان کی آنکھیں خدا کے ایک نبی کو دیکھ کر چندھی گئیں توجب وہ خود اللہ تعالیٰ کا چہرہ دیکھیں گے تو کیا اس کے نور سے ان کی آنکھیں منور نہ ہوں گی ؟ جب حضرت مسیح نے ان کو فریفتہ کرلیا توکیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں پر قابو نہ پائیں گئے ؟

Page 297

انوار العلوم ترک موالات اور احکام اسلام یقیناً پائیں گے اور ضرور پائیں گے مگر صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنی پہلی گندی نیتوں کو بدل کر تم میں سے ہر ایک خدا کا بندہ اور اسلام کا شیدائی اور اس کا مبلغ بن کر ان سے موالات کرے یہاں تک کہ وہ وقت آجاوے جب خدا تعالیٰ کا کلام پورا ہو اور وہ جو آج دشمن ہے کل اسی طرح تمہارا دوست اور اسلام کا دلدادہ ہو جس طرح کسی وقت تمہارے آباء کی موالات کے اثر سے بغداد کو تباہ کرنے والا اور عباسی خلافت کو مٹانے والا ترک اسلام کا دلدادہ ہو گیا تھا.عیسائیت تمہارا شکار ہے جو تمہارے گھر میں آگیا ہے تم نہ ہی ہو کہ یہ لوگ غصہ میں ہماری غفلت - فائدہ اُٹھا کر ہمارے گھر میں گھس آئے ہیں لیکن مسلم تو شیر ہوتا ہے کیا شیر بھی افسوس کرتا ہے کہ اس کا شکار اس کی کچھار میں گھس آیا.وہ اس کو حیلوں سے باہر نکالنا چاہتا ہے یا اس کو اپنا شکار بنانا چاہتا ہے ؟ جس طرح تمہارے آباء نے اس وقت جب ترک ان کی غفلت سے فائدہ اُٹھا کر عراق میں گھسی آئے تھے ان کو ترک موالات کا ہتھیار استعمال کر کے باہر نہیں نکالا بلکہ ان پر موالات کی کمند ڈال کر ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لیا.تم کیوں اسی طرح نہیں کرتے ؟ اگر تم سچے ہو تو ہر ایک شخص جو تمہارے راستہ میں آتا ہے تمہارا شکار ہے.بے شک یہ افسوس کی بات ہے کہ تمہارے شکار کو یہ جرأت ہوئی کہ خود تمہارے راستہ میں آتا ہے مگر جب وہ آگیا تو اب اس کی آمد سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور آئندہ کے لئے اپنی غفلت کو ترک کرنا چاہئے.ارض مقدسہ کا تمہارے ہاتھ سے تم چڑتے ہو کہ ارض مقدسہ تمہارے ہا تھوں سے نکل گئی مگر کیا تم قرآن کریم کو کھول کر نہیں نکلنا اور اس کے متعلق سابقہ نوشتے دیکھتے کہ ارض مقدسہ کا ملنا ترک موالات پر مقدر نہیں ہے بلکہ عبادت پر.اور زبور کو نہیں کھولتے جس کا حوالہ خود قرآن کریم نے دیا ہے جہاں صاف لکھا ہے کہ ارض مقدسہ جب غیر قوموں کے ہاتھ میں ملی جاوے تو غصہ نہ ہو جو اور کڑاھی نہیں اور نہ جوش میں آجائیو تا ایسا نہ ہو اس جوش کی حالت میں تو کوئی بڑا کام کر بیٹھے بلکہ صبر سے اس وقت کا انتظار کیجیو.جب خود اللہ تعالیٰ تیری مدد کو آوے گا.میں اسی پیشگوئی کو مد نظر رکھو اور خدا تعالیٰ کے حضور میں گر کر اس کے سچے عبد ہونے کی کوشش کرو تا وہ تمہاری مصیبتوں کو دور کر دے اور ایسے نازک وقت میں قرآن کریم کی تعلیم کو بگاڑ کر خدا تعالیٰ کے غضب کو مت بھڑ کاؤ.وہ جو امن پھیلانے کے لئے آیا تھا اور رحمت کا فرشتہ تھا اسے دشمنوں کی نظر میں ایک آتشی دیو ثابت نہ کرو.بلکہ دوسروں

Page 298

ترک موالات اور احکام اسلام " ک جو سرکشی پر آمادہ ہوں روکو اور قرآن کریم کی قوت قدسیہ پریقین رکھتے ہوئے اور اس کے اثر پر ایمان لاتے ہوئے ان اقوام کے اندر گھس جاؤ جو آج اسلام کی منکر ہیں تا وہ اس سے روشنی ہیں.به یقین نہ کرو کہ تمہارے دُور ہونے سے ان کی اصلاح ہو جائے گی.دشمنی انسان کی آنکھ کو بند کر دیتی ہے عداوت اندھا کر دیتی ہے پس عداوت اور فتنہ کا بیج مت بوڈ اور صلح اور آشتی کے کے ساتھ کام کرو اور نا امیدی کو پاس پھنکنے مت دو کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرن پھونکی گئی ہے.بشارت اور خوش خبری کی فرنا.اسلام کی فتح اور کامیابی کی فرنا.وہی جو آج سے پہلے وقتاً فوقتاً پھونکی جاتی رہی ہے اور جو جب جب پھونکی جاتی رہی ہے.اس نے دنیا میں ایک حشر برپا کر دیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نے اسلام کی حالت کو دیکھ کر خدا کے فضل کو جذب کیا ہے جو مسیح موعود کی شکل میں اس دنیا پر ظاہر ہوا ہے.پس اسلام کی فتح سے نا امید نہ ہو اس کی فتح تو ضرور ہو کر رہے گی.تم اپنی فکر کرو کہ ایسا نہ ہو دوسرے کاموں میں لگے رہو اور اس برکت کے پانے سے محروم رہ ہو جس کی دُنیا کو تیرہ سو سال سے اُمید تھی اور میں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سلام بھیجا تھا.واخر دعُو مِنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار میرزا محمود احمد DYER, REGINALD EDWARD HARRY (۱۹۲۷-۶۱۸۲۳ء) برٹش آرمی جنرل جس نے اپریل ۱۹۱۹ ء میں جلیانوالہ باغ میں سنتے عوام پر فائر کھولنے کا حکم دیا جس سے تین سو سے زائد افراد ہلاک اورباره (۱۲۰۰) سوزخمی ہوئے (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد کے صفحہ ۷۹۶ زیر لفظ "DYER") BERKELEY, GEORGE (۶۱۶۸۵ - ۶۱۷۵۳) برطانوی فلسفی.جس نے مصنوعی تصوریت (Subjective Idealism) کو استدلالی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحه ۲۰۳ مطبوعہ لاہوری ۶۱۹۸ ) HEGEL, GEORGE WILHELM FRIEDRICH (۱۸۳۰۰۶۱۷۷۰ء) جبر من مفکر (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۸۸۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) JAMES, WILLIAM (۱۹۱۰-۶۱۸۴۲ء)امریکی فلسفی (A HISTORY OF PHILOSOPHY, VOL.VIII, PAGE 330, LONDON)

Page 299

٢٤٩ اسلام اور حریت و مساوات از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 300

Page 301

انوارالعلوم جلد ۵ اسلام اور حریت و مساوات اسلام اور حریت و مساوات د مسائل حاضرہ کے متعلق چند سوالات اور حضرت فضل عمر خلیفہ ایسیح الثانی کے جوابات ) تحریر فرموده ۱۲۸ اکتوبر سن ۱۱۹ ) کوہ مری سے ایک گریجویٹ صاحب نے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی خدمت میں چند سوالات لکھ کر بھیجے جن کے حسب ذیل جواب حضور نے لکھوائے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ر خاکسار محمد اسماعیل مولوی فاضل ) نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مکرمی ! السلام علیکم ورحمتہ الله و بركاته آپ نے جو سوالات تحریر فرمائے ہیں.ان کے جوابات حسب ذیل ہیں :- سلسلہ احمدیہ کی غرض سوال را - کیا سلسلہ احمدیہ کی وجہ ماموریت اشاعت اسلام ہے ؟ جواب :.سلسلہ احمدیہ کی غرض مسلمان کہلانے والوں کو مسلمان بنانا ہے.چونکہ ہر سلم کا فرض ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اشاعت اسلام کرے اس لئے ہر احمدی کا فرض اشاعت اسلام بھی ہو جائے گا.اشاعت اسلام اور اسلام کے بنیادی اُصول سوال ہے.کیا اشاعت اسلام کے اندر ان تمام اصول کی اشاعت نہیں آتی جو

Page 302

المواد العلوم جلد ۲۸۲ اسلام اور تربیت و مساوات اسلام کے بنیادی اصول کہلاتے ہیں ؟ جواب: - اشاعت اسلام کے اندر اُن تمام اصول کی اشاعت آجاتی ہے جو اسلام کے بنیادی اصول ہیں مگر ان اصول کی اشاعت اس میں نہیں آتی جو اصول اسلام کہلاتے ہیں جیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے.اسلام کے بنیادی اُصول سوال ہے.کیا توحید رسالت کے علاوہ اسلام کے کوئی : اور اصول بھی ہیں ؟ جواب :- اسلام کے بنیادی اُصول دو قسم کے ہیں.ایک عقائد کے متعلق دوسرے اعمال کے متعلق.عقائد کے متعلق یہ اُصول ہیں خدا کو ایک ماننا ، اس کے تمام نبیوں پر ایمان لانا ، قضا و قدر پرایمان لانا ، ملائکہ پر ایمان لانا ، خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ان تمام وحیوں پر ایمان لانا جو اس کے انبیاء پر نازل ہوتی ہیں ، بعث بعد الموت پر ایمان لانا.اعمال میں سے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اوامر کے بنیادی اصول ہیں.اور قتل نہ کرنا، چوری نہ کرنا ، زنا نہ کرنا ، خیانت نہ کرنا نواہی کے.اور اگر شرک کو اعمال میں داخل کیا جاوے تو اس صورت میں شرک بھی اعمال منبہیہ میں داخل ہوگا.حریت اور مساوات سوال : کیا حریت اور مساوات کے زریں اصول اسلام کے بنیادی اصول نہیں ہیں.اور کیا یہ ہر دو اصول اشاعت اسلام کے زمرہ میں داخل ہیں یا نہیں ؟ جواب :- حریت اور مساوات اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے نہیں ہیں.خود یہ الفاظ ایسے مبہم ہیں کہ اپنی بعض تعریفوں کے لحاظ سے اچھے اخلاق بھی نہیں کہلا سکتے.اس لئے حریت اور مساوات کی جب تک تعریف نہ کی جائے.اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام انہیں جائز بھی قرار دیتا ہے یا نہیں ؟ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے ذہن میں ان کی کیا تعریف ہے ؟ ہو سکتا ہے کہ کسی تعریف کے ماتحت ان دونوں امور کا خیال رکھنا ایک مسلم کے لئے ضروری ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک دوسری تعریف کے مطابق صرف جائز ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک تیسری تعریف کے مطابق نا جائز ہو.شریعت میں مساوات کی تو کوئی اصطلاح ہی نہیں.حُر کی ایک اصطلاح ہے جس کے یہ معنے قرآن اور حدیث کی رو سے معلوم ہوتے ہیں کہ جو شخص ان افعال میں جو افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں حکومت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے مختار ہو.وہ اپنے مال کا خود مالک ہو افراد رعایا میں سے کوئی شخص

Page 303

انوار العلوم جلد ۵ YAP اسلام اور حریت و مساوات ایسا نہ ہو کہ اس کے کمائے ہوئے مال پر ہلہ اس کی اجازت یا بلا اس سے خریدو فروخت کے قبضہ کرلے.سوال ہے : کیا اسلام حریت و مساوات کا علم بردار ہونے اسلام میں حریت و مساوات کا مدعی ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب چوتھے سوال کے نیچے آجاتا ہے.ے نبی کریم کے خلفاء کا مشن ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ل ل وی کے خام رضوان ان عظیم کا مشن نہیں کہ وہ دنیا میں حریت و مساوات کے قائم کرنے کے لئے ہر طرح کی ممکن جد وجہد کریں ؟ جواب.اگر حرمیت و مساوات کی کوئی ایسی تعریف ہے جو اسلام کے احکام کے نیچے آجاتی ہے اور جو کسی اور اسلامی حکم کے مخالف نہیں پڑتی تو پھر اس کی تلقین کرنا خلفاء اسلام کا فرض ہے.مگر یہ بھی ان کا فرض ہے کہ جو بڑے کام ہوں ان کی طرف زیادہ توجہ کریں اور جو چھوٹے ہوں ان کی طرف کم.سوال ہے کیا امام وقت کا یہ فرض نہیں کہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی قوموں امام وقت کا فرض کو ظالموں کی دستبرد سے بچانے کے لئے آئینی طور پر جد وجہد کرے اور انہیں آزادی اور شہری حقوق دلانے میں کوشاں ہو ؟ جواب.امام وقت کا یہ فرض ہے کہ دنیا کی چھوٹی اور بڑی ، زبر دست اور کمزور تمام قوموں کو نہ کہ صرف چھوٹی قوم کو ہی ظالموں کی دستبرد سے بچانے کے لئے بہترین ذرائع کو استعمال میں لاوے اور بہترین ذریعہ یہی ہے کہ انہیں بچے مذہب کی طرف بلائے.اس کے بعد نہ ظالم ظالم رہ سکتا ہے نہ مظلوم مظلوم رہ سکتا ہے.یوروپین حکومتیں اور چھوٹی تو میں سوال یہ کیا آج یورپ کی دو ایک ظالم و جابر حکومتیں استبدا دانہ طور پر چھوٹی چھوٹی آزاد قوموں کی آزادی نہیں چھین رہی ہیں ؟ کیا وہ ملک گیری کی ہوس میں ان کو بالکل نکل نہیں چکی ہیں ؟ جواب :.بے شک یورپ کی بعض طاقتوں نے دوسرے ممالک پر قبضہ کیا ہوا ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے آباء مسلمان کہلانے والے ہندوستان میں کس طرح آئے تھے ؟ اگر ان کا ہندوستان پر قبضہ کر لینا جائز تھا تو آج انگریزوں کا اس پر قبضہ کیوں نا جائز ہوگیا ؟ کیا ہند و خود انہیں جلانے گئے تھے ، پس کسی غیر مک پر مجرد قبضہ کر لیا برا نہیں کہلا سکتا.اسے برا قرار دینے کی کچھ شرائط لگانی پڑیں گی.جب تک وہ شرائط مجھے معلوم نہ ہوں میں پورا جواب نہیں دے سکتا.

Page 304

انوار رافع ۲۸۴ اسلام اور حریت و مساوات عیسائی حکومتوں کا منشاء سوال : کیا ان عیسائی حکومتوں کا منشار حقیقی یہ نہیں ہے که مسلمان حکومتوں کو تباہ کر کے ان کی جگہ عیسائی حکومتیں قائم کر لی جائیں ؟ جواب :- دل کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے مگر موجودہ عیسائی حکومتیں کسی کو زبر دستی عیسائی نہیں بناتیں اور اگر آپ کا یہ منشاء ہے کہ مسلمان حکومتوں کی جگہ ایسی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں جو عیسائی ہیں.گوجرہ دوسروں کو عیسائی نہ بناویں تو یہ بات تو ظاہر ہی ہے.اس کے پوچھنے کی کوئی وجہ مجھے معلوم نہیں ہوئی.خلیفہ وقت کی غیرت کا تقاضا سوال مذاہد کیا آپ کا دعوی امام وقت ہونے کا نہیں ہے ؟ اگر ہے تو کیا آپ کی غیرت کا یہی تقاضا ہے کہ آپ یہ سب مظالم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھیں اور ٹس سے مس نہ ہوں ہا جواب : بے شک میرا دعویٰ خلیفہ وقت ہونے کے لحاظ سے امام وقت ہونے کا بھی ہے اور فی الواقع میری غیرت اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ میں ان سب مظالم کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھوں جو لوگ کر رہے ہیں اور ان کے مٹانے کی کوئی کوشش نہ کروں.مگر میں صرف ان ہی مظالم کو نا پسند نہیں کرتا جو عیسائی ہندوؤں یا مسلمانوں پر کریں بلکہ ان مظالم کو بھی نا پسند کرتا ہوں جو ہندو مسلمانوں پر یا مسلمان ہندوؤں پر یا دونوں عیسائیوں پر کریں.یا خود مسلمان ایسے افعال کا ارتکاب جو موجب فساد ہوں اپنے بھائیوں پر کریں.اشاعت اسلام کیا ہے سوال !! :- کیا اشاعت اسلام صرف اسی کا نام ہے کہ ایک سال میں دو چار مسلمان بنائے.کیا اشاعت اسلام صرف THEORETICAL ہے PRACTICAL نہیں ؟ جواب :- اشاعت اسلام صرف اسی کا نام نہیں کہ سال میں دو چار سلمان بنائے جائیں بلکہ اس کا نام بھی نہیں کہ دو چار چھوڑ ایک کو ہی مسلمان بنایا جائے.بلکہ اشاعت اسلام نام ہے اپنے عقائد کو دوسروں تک پہنچا دینے کا خواہ ایک آدمی بھی انہیں نہ مانے.منوانا یا نہ منوانا اس کا کام ہے ہو قلوب پر تصرف رکھتا ہے اور ماننا یا نہ ماننا اس کا کام ہے جس کے سامنے ہم بات پیش کرتے ہیں.ہمارا کام صرف اتنا ہی ہے اور ہمارے آقا ور اپنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی صرف اتنا ہی کام تھا کہ حق بات لوگوں تک بطریق احسن پہنچا دیں.لوگوں کو منوانا ہمارا کام نہیں.

Page 305

انوار العلوم جلد ۵ ۲۸۵ اسلام اور حریت و اگر ہم حق لوگوں کو پہنچا دیتے ہیں اور ہماری بات کو سُن کر لاکھوں آدمی اسے قبول کرتے ہیں.یا ایک بھی اسے قبول نہیں کرتا تو اس کا ہم پر نہ کوئی الزام آتا ہے نہ تعریف ہوتی ہے.THEORETICAL اور PRACTICAL جو الفاظ آپ نے استعمال کئے ہیں.اگر ان سے آپ کی یہ مراد ہے کہ اسلام صرف عقائد کا نام ہے یا اعمال بھی اس کے اندر شامل ہیں تب تو اسلام PRACTICAL مذہب ہے اور نہ یہ کہ وہ عمل میں آسکتا ہے بلکہ عمل کے بغیر اس کی حقیقت ہی ظاہر نہیں ہوتی اور اگر آپ کی یہ مراد ہے کہ وہ اپنے عقائد کو جبر یہ بھی منواتا ہے یا نہیں.توتب لیے تک اسلام PRACTICAL مذہب نہیں ہے.خیال میں ہندوستان میں ہندوستان میں انگریزوں کے مقابلہ میں ہندوستانی سوال پڑا.کیا آپ کے انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان مساوات قائم ہے ؟ جواب :- میرے نزدیک ہندوستان میں انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان مساوات قائم نہیں.بلکہ میرے نزدیک تو انگریزوں انگریزوں کے درمیان بھی مساوات قائم نہیں اور نہ ہی ہندوستانیوں ہندوستانیوں کے درمیان مساوات قائم ہے.آپ کا کھانا پکانے والے ، آپ کے کپڑے دھونے والے آپ کا مکان صاف کرنے والے اور آپ میں فرق ہے.پھر کون سی حکومت دنیا میں گزری ہے جس نے غیر لوگوں کو مساوات دی ہے.اکبر یا جہانگیر کے زمانہ کے ایک دو مدبروں یا ایک دو جرنیلوں کی مثال دیکھ کر کیا آپ مساوات ثابت کر سکتے ہیں.یہ بھی تو بتائیں کہ اس وقت مسلمان ہندوستان میں کتنے تھے اور ہندو کتنے ؟ چند لاکھ مسلمانوں اور اسی کروڑ ہندوؤں میں سے بڑے عہدوں پر کتنے ہندو اور کتنے مسلمان مقرر تھے.یقیناً وہ نسبت نہیں تھی جو اب کو نسلوں میں انگریزوں اور ہندوستانیوں میں ہے.ہم بھی ہندوستان کے لئے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں مگر ہمار سے مطالبہ کی بنیاد ہی اور اصول پر ہے...سوال ۱۳ - کیا یہ امر واقع نہیں ہے کہ انگریز لوگ انگریزوں کا سلوک ہندوستانیوں سے جو ہندوستان میں آباد ہیں.ہندوستانیوں کے ساتھ کسی قدر بُرا سلوک کرتے ہیں اور ان پر کس قدر فلم ڈھاتے ہیں اور ان بے چاروں کا کوئی پرسان جمال نہیں ہوتا ؟ کیا ہر روز ریل گاڑیوں میں ، بازاروں میں ، اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر گویا ہر جگہ اور سر رفت معززہ ہندوستانیوں کی تذلیل حکومت کے نشرہ میں سرشار لیکن کم حیثیت انگریز لوگ نہیں کرتے ؟

Page 306

انوار العلوم ۲۸۶ اسلام اور حریت و مساوات جواب ، انگریز جو ہندوستان میں آباد ہیں ان میں سے بعض بے شک ہندوستانیوں سے برا سلوک کرتے ہیں جس طرح بعض ہندوستانی بعض ہندوستانیوں سے بُرا سلوک کرتے ہیں.جس طرح ظالم ہندوستانیوں کے ظلم دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بعینہ اسی طرح ظالم انگریزوں کے ظلم کے دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.آپ کا یہ سوال میری سمجھ میں نہیں آیاکہ کم حیثیت انگریز معزز ہندوستانیوں کی تذلیل کرتے ہیں آپ تو مساوات کے قائل تھے.یہ کم حیثیت اور معزز کہاں سے آگئے ؟ ۱۴ انگریزوں کے مقابلہ میں ہندوستانیوں کی حالت عدالتوں میں سوال ہوا کیا ہندوستانیوں کی انگریزوں کے مقابلہ میں کبھی شنوائی ہوتی ہے ؟ عدالتوں میں جواب :- سارے مقدمات کی مشکلیں تو میرے پاس نہیں.مگر بالعموم ہندوستانیوں کو فوجداری معاملات میں اپنے حقوق نہیں ملتے اور اس معاملہ کے متعلق اب تک کوئی معقول عذر نہیں پیش کیا گیا.لیکن اس میں بہت سا حصہ خود ہندوستانی مجسٹریٹوں کا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ انگریزوں کے چلے جانے پر بیجارٹی (MAJORITY ، جس قوم کی ہوگی.کیا اس کے مقابلہ میں ہمیں حقوقی مل جائیں گے.اگر اس بات کی تسلی ہو جاوے تو پھر یہ دیل کچھ وقوت رکھ سکتی ہے.جلیا نوالہ باغ کا واقعہ سوال ۱۹۵۹ : کیا جلیانوالہ باغ کا واقعہ فاجعہ اور ایسے ہی کئی ایک اور واقعات مساوات کا ثبوت دیتے ہیں ؟ جواب :- جلیانوالہ باغ کا واقعہ بے شک نہایت ہی ظالمانہ واقعہ ہے.میرے نزدیک جنرل ڈائر کا فعل قریباً اتنا ہی انسانیت سے بعید ہے جتنا کہ کٹار پور اور بہار کے قاتلوں کا لیکن اگر کنار پور اور بہار میں مسلمان عورتوں اور بچوں کو زندہ جلا دینے والے لوگوں کو ہم معاف کر سکتے ہیں تو جنرل ڈائر کو کیوں نہیں معاف کر سکتے.مساوات کے طریق کو بیہاں پر کیوں نہ مد نظر رکھا جائے ؟ ناگوار واقعات سے گورنمنٹ کو متنبہ کرنا سوال 13 - کیا آپ کا ناصرف بحیثیت 14 : ایک شہری ہونے کے بلکہ امام اولی الامر ہونے کی حیثیت سے یہ فرض نہیں ہے کہ آپ ان روزمرہ کے ناگوار واقعات کے اہم نارنج گورنمنٹ کو متنبہ کریں.اور اگر حکومت نہ مانے تو عملی صورت میں اس کے خلاف آئینی طریق پرغم وغصہ کا اظہار کریں ؟

Page 307

انوار الع ۲۸۷ اسلام اور حریت و مساوات جواب : بحیثیت ایک شہری ہونے کے اور امام ہونے کے میرا فرض ہے کہ میں لوگوں کو ظلموں کی خرابی سے متنبہ کروں.مگر میرا یہ کام نہیں کہ ہر ایک واقعہ جو دنیا میں ہو اس کے متعلق تحقیقات کروں کہ آیا وہ ظالمانہ تھا یا منصفانہ.یہ کام کوئی انسان نہیں کر سکتا.یہ صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے.انگریزوں کی غلطیاں ہم ان سے چھپاتے نہیں.بلکہ ان پر ظاہر کرتے رہتے ہیں.ہم آئینی طور پر ہرا ایک فلم کا مقابلہ کرتے ہیں ظلم اخلاق کی خرابی کا نتیجہ ہوتا ہے.اور ہم اخلاق کی درستی کی کوشش کرتے ہیں.سوال ۱۷ - کیا ایک ظالم و جابر حکومت کو اس کے تشدد آمیز افعال سے آگاہ کرنا اور اسکے 16 دل میں اس کا احساس پیدا کرا نا آپ کا فرض منصبی نہیں ہے ؟ اس کا جواب نمبر ۱۶ میں آچکا ہے.فرائض کی ادائیگی سوال ۱۵ : اگر یسب آپ کے فرائض ہیں تو بتائیے کہ آپ نے اب تک ان فرائض کی ادائیگی کیوں نہیں کی ؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ؟ کہ آپ لوگ حکومت سے ڈرتے اور اپنے اصل مشن کو بالکل بھولے ہوئے ہیں.شاید آپ کی طرف سے یہ کہا جاوے کہ ہم نے خطوط کے ذریعہ حکومت کو آنے والے واقعات سے آگاہ کر دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے آپ کے مشورہ پر عمل بھی کیا ؟ اگر نہیں تو کیا اس کے دل میں احساس پیدا کرانے کے لئے آپ نے کوئی عملی تدابیر بھی اختیار کیں.جناب عالی ! یاد رکھنے کہ سال بھر میں دو ایک کا مسلمان بنا لینا ہی صرف اشاعت اسلام نہیں ہے بلکہ حق و صداقت کے لئے آئینی جنگ کرنا اصل اشاعت اسلام ہے محض گورنمنٹ کو خوش کرنا ، اپنے کو سرکار کا وفادار ظاہر کرنا، دوسروں پر غیر وفاداری کے اتہام لگانا ، ہوم رول کی طرف سے استغناء ظاہر کرنا، لیکن کونسلوں میں ایک نشست حاصل کرنے کے لئے جا و بیجا منت سماجت کرنا یہ تمام باتیں مسیح موعود کی جماعت کے شایان نہیں ہیں.جواب :.میں اپنے فرائض سے آگاہ ہوں.ان کی ادائیگی کی حتی الوسع کوشش کرتا ہوں.میں صرف خدا سے ڈرتا ہوں.یا اس سے جس سے ڈرنے کا خدا نے حکم دیا ہے.حکومت کے اندر احساس پیدا کرنے کے لئے میں وہی کوشش کرتا ہوں.جو خدا کے نبی اور ان کے خلفاء ہمیشہ سے کرتے آتے ہیں.کونسل کی نشست کی نہ میں نے کبھی خواہش کی ہے نہ مجھے فرصت ہے کہ میں کونسل میں جاکر

Page 308

اسلام اور حریت و مساوات بیٹھوں.آپ کونسل کی نشست کا ذکر کرتے ہیں.میں تو برطانیہ کی ساری حکومت چھوڑ دنیا کی ساری حکومتوں کو بھی اس درجہ کے مقابل میں جو خدا نے مجھے دیا ہے ادنیٰ اور بے حقیقت خیال کرتا ہوں.آپ کے غصہ سے میں برا نہیں مناتا کیونکہ آپ مجبور ہیں.چونکہ آج ۲۸ تاریخ سے پہلے آپ کا جواب دینے کی مجھے فرصت نہیں ملی اور آپ کا پتہ ۱۸ تاریخ کے بعد بدل گیا ہے.اس لئے میں اس خط کو اخبار کے ذریعہ شائع کرتا ہوں.جب آپ تک پہنچے اور پھر آپ کو اور سوالات کرنے ہوں تو الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۲۰ء ) بخوشی کر سکتے ہیں.

Page 309

انوار العلوم جلد ۲۸۹ اسلام اور حریت و مساوات در قم فرموده حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی) اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ اسلام اور حریت و مساوات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ امید صر کچھ دن ہوئے کہ ایک گر یجو یٹ صاحب نے مری سے میرے نام کچھ سوالات لکھ کر بھیجے تھے.جن کا جواب میں نے مولوی محمد اسمعیل صاحب مولوی فاضل و منشی فاضل قادیان کو جو ان دنوں صیغہ ڈاک کے انچارج ہیں لکھوایا تھا.یہ جواب گیارہ نومبر کے الفضل میں شائع کرا دیا گیا تھا.کیونکہ خط بھیجنے والے صاحب جس وقت جواب شائع کیا گیا ہے مری میں نہ تھے اور ان کا اس وقت کا پتہ معلوم نہ تھا.اور یہ بھی غرض تھی کہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا لیں.اس مضمون کے شائع ہونے پر امرتسر کے روزانہ اخبار وکیل میں خواجہ عباداللہ صاحب اختر نے ایک سلسلہ مضامین شائع کرایا ہے جس میں بعض ان باتوں کو رد کیا گیا ہے.جو ان کے خیال میں میں نے لکھی تھیں.چونکہ حریت دمساوات کا سوال ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور لوگوں کی طبائع اس کی طرف مائل ہیں.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ خواجہ محمد عباد اللہ صاحب اختر بی.اے کے مضمون کے متعلق کچھ تحریر کروں.تاکہ وہ ان لوگوں کے لئے جو حق طلبی کی عادت رکھتے ہیں رہنمائی کا کام دے اور میرے نقطہ نگاہ سے بھی لوگ آگاہ ہو جائیں.اصل مضمون پر غور کئے بغیر جواب دیا گیا مجھے نایت افسوس سے کنا پڑتا ہے کہ واجہ سے صاحب موصوف نے میرے خطہ پر غور کئے بغیر اس کا جواب دینا شروع کر دیا ہے.اگر وہ اسے غور سے پڑھتے توان کو معلوم ہو جاتا کہ اس میں حریت و مساوات کو اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں کہا گیا.بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ الفاظ مبہم ہیں.ان کی مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں.جن میں سے بعض تشریحات کے موجب ان کا مفہوم اسلامی احکام میں شامل ہوگا

Page 310

انوارالعلوم جلد ۵ ۲۹۰ اسلام اور تربیت و مساواتت اور بعض کے مطابق اسلامی احکام کے رو سے جائز ہوگا اور بعض کے رو سے منع ہو گا اور پھر ان کو یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ اس مضمون میں میں نے اصول کے لفظ کو خاص معنوں میں استعمال کیا ہے.اور وہ و ہی معنی ہیں کہ جو قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات اور ائمہ اسلام کے استعمال سے ثابت ہوتے ہیں.سائل سے حریت و مساوات کی تشریح چاہی گئی تھی ہو کہ خواجہ صاحب نے میرے مضمون پر غور نہیں کیا اس لئے ایک تو انہوں نے یہ دھوکا کھایا ہے کہ گویا میں ہر ایک صورت میں حریت و مساوات کو نا جائز سمجھتا ہوں یا اس کا قائم کرنا نا جائز سمجھتا ہوں.حالانکہ میرے خط کا جو حصہ انہوں نے خود نقل کیا ہے.اسی سے ان پر ثابت ہو سکتا تھا کہ یہ وہم ان کا غلط ہے.وہ میرے خط کا یہ حصہ اپنے مضمون میں نقل کرتے ہیں :.حریت و مساوات اسلام کے بنیادی اُصول میں سے نہیں ہیں.خود یہ الفاظ ایسے ہم ہیں کہ اپنی بعض تعریفوں کے لحاظ سے اچھے اخلاق بھی نہیں کہلا سکتے.اس لئے حریت اور مساوات کی جب تک تعریف نہ کی جائے اس وقت نیک نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام انہیں جائز بھی قرار دیتا ہے یا نہیں.مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے ذہن میں ان کی کیا تعریف ہے ؟ ہو سکتا ہے کہ کسی تعریف کے ما تحت ان دونوں امور (حریت و مساوات کا خیال رکھنا ایک مسلم کے لئے ضروری ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک دوسری تعریف کے مطابق صرف جائز ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک تیری تعریف کے مطابق ناجائز ہو" میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس عبارت کی موجودگی میں جسے انہوں نے خود نقل کیا ہے وہ یہ نتیجہ کسی طرح نکال سکتے تھے کہ میں نے حریت و مساوات کو اسلامی احکام میں شامل نہیں کیا.ان الفاظ سے تو صاف ثابت ہے کہ میں سائل کو قائل کرنے کے لئے اور اس کی غلطی پر اسے آگاہ کرنے کے لئے پہلے اس سے حریت و مساوات کی تشریح کرانی چاہتا ہوں.تاکہ جب وہ خود تشریح کردے.تو اس کی تصدیق کرنی یا اس کی غلطی نکالنی آسان ہو جائے اور میں نے خود لکھ دیا ہے کہ ان الفاظ کی کئی تشریحیں ہوسکتی ہیں.بعض کے لحاظ سے ان الفاظ کا معصوم اسلامی اوامر میں شامل ہو جائے گا بعض کے لحاظ سے صرف جائز رہے گا.اور بعض کے لحاظ سے منع ہو جائے گا.اگر وہ میرے مضمون پر غور کرتے تو بجائے اس کا جواب لکھنے کے پہلے حریت و مساوات کی تشریح کرتے پھر مجھ سے دریافت کرتے

Page 311

۲۹۱ اسلام اور حریت و مساوات که به تشریح ان الفاظ کی اسلامی احکام میں شامل ہے یا اسلام کے رو سے جائز ہے یا منع ہے اور پھر میرے جواب پر جو چاہتے لکھتے ہیں تو سائل سے ان الفاظ کی تشریح چاہتا ہوں اور خواجہ صاحب پہلے ہی جواب لکھنا شروع کر دیتے ہیں.کاش ! وہ جواب لکھنے کی طرف توجہ کرنے سے پہلے میرے خط کو سمجھنے کی تکلیف گوارا کرتے.اصول کا لفظ ارکان اسلام کے معنوں میں استعمال کیا گیا دوسری ٹھوکر جلد بازی کے سب سے خواجہ محمد عباد اللہ صاحب اختر نے یہ کھائی ہے کہ انہوں نے یہ نہیں سوچا.کہ میں نے اُصول اسلام کے الفاظ کن معنوں میں استعمال کئے ہیں.جیسا کہ میری تحریر سے ظاہر ہوتا ہے.یہ الفاظ میں نے ارکان اسلام کے معنوں میں استعمال کئے لیکن خواجہ صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انہیں احکام کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.حالانکہ احکام تو اسلام کے سینکڑوں ہیں.مگر صرف چند ہی ارکان کا پستہ قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے.چنانچہ جن عقائد کو خدا تعالیٰ نے ایمان میں شامل کیا ہے اور ان کا انکار کفر قرار دیا ہے.وہ ارکان ایمان ہیں اور قرآن کریم سے ایسی باتیں پانچ ہی ثابت ہوتی ہیں.اول اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا.دوم ملائکہ پیر سوم نبیوں پر - چهارم کتب سماوی پر پنجم لیت ما بعد الموت پر.چونکہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے اندر ہی اس کی صفات کے ظہور پر ایمان لانا بھی شامل ہے.اس لئے مسلمانوں نے ایمان بالقدر کو بھی ارکان ایمان میں شامل کیا ہے.اور یہ ان کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہے.قرآن کریم سے ارکان اسلام کا ثبوت قرآن کریم سے ارکان اسلام مختلف آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتے ہیں جن میں سے ایک یہ آیت ہے :- وَمَنْ يَكْفُرُ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْأَخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَا بعِيدًا النام (۱۳۷) جو شخص کفر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ملائکہ کا اور اس کی کتب کا اور اس کے رسولوں کا اور یوم آخر کا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہو گیا.اسی طرح فرماتا ہے :- إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ تَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سياه أولئِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِيناه النساء : 10

Page 312

۲۹۲ اسلام اور تربیت و مساوات یعنی وہ لوگ جو گھر کرتے ہیں.اللہ اور اس کے رسولوں کا اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانیں گے اور بعض کو نہیں مانیں گے.اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی راستہ تلاش کریں.یہ لوگ پتے کا فر ہیں اور کافروں کے لئے ہم نے رسوا کرنے والا عذاب مقرر کیا ہے.پس قرآن کریم کے رو سے عقائد کے اصول جن میں سے کسی ایک کے چھوٹنے پربھی انسان کافر ہو ہو جاتا ہے میں پانچ ہیں.یعنی اللہ تعالی پر ایمان لانا ، ملانکہ پر ایمان لانا ، کتب پر ایمان لانا ، رسولوں پر ایمان لانا اور یوم الاخر پر ایمان لانا قضاء وقدر برایمان لانا جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.خدا تعالیٰ یہ ہر ایمان لانے میں شامل ہے.کیونکہ بندہ کا خدا تعالیٰ سے تعلق اس کی قدر کے ہی ذریعہ ہے.اگر قضاء و قدر جاری نہ ہو تو خدا تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کوئی واسطہ ہی نہیں رہتا.اور اس پر ایمان لانے میں کوئی فائدہ یا روحانی ترقی ہو ہی نہیں سکتی.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان بالقدر کو بھی ایمانیات کے اندر شامل کیا ہے.احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے یہی ارکان ہیں.کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ حضرت جبرائیل آئے اور آپ سے سوال کیا کہ مَا الْإِيْمَانُ ایمان کیا ہے ؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ الايمان أن تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَبِلِقَائِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ رہماری کتاب الایمان باب سوال جبريل النبي صلى الله عليه وسلم عن الایمان) یعنی ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس کے فرشتوں پیر اور اس کے لقاء پر اور اس کیے رسولوں پر اور یہ کہ ایمان لائے مرنے کے بعد اٹھنے پر اور انیل کی روایت میں برسلے کے بعد کتبہ بھی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی کتب پر ایمان لائے مگر میرے نزدیک اس لفظ کے بغیر بھی کتابوں پر ایمان کا ذکر اس حدیث میں آجاتا ہے کیونکہ اس حدیث میں لقاء کا لفظ ہے جس کے معنے شراح نے خدا تعالیٰ کی ملاقات کے کئے ہیں.اور یہ معنے ہیں بھی ٹھیک.مگر انہوں نے اس سے مراد مرنے کے بعد کی ملاقات لی ہے.حالانکہ یہ بات بعث پر ایسان لانے کے اندر آگئی ہے.نقاء سے مراد کتب ہی ہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ملاقات کا ذریعہ ہیں.بندہ اپنے رب سے اس کے کلام کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے اس کے متعلق ایک لطیف استدلال صاحب بصیرت کے لئے جو دوسروں کی خوشہ چینی پر کفایت نہ کرتا ہو.آیت کریمہ وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ نِقَاته (السجدۃ : ۲۴) سے بھی ہو سکتا ہے.

Page 313

اسلام اور حریت و مساوات دہ اعمال جن کا اسلام نے حکم دیا ہے دوسری قسم ہے اعمال کی.ان میں سے ایک تو فعلیہ ہیں یعنی جن کے کرنے کا حکم ہے ایک ترکیہ ہیں.یعنی جن کے ترک کرنے کا حکم دیا گیا ہے.فعلیہ اصول میں نے اپنے خط میں نماز، زکوۃ حج اور روزہ بتائے تھے.اور یہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا ہی ارشاد ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں.آپ فرماتے ہیں کہ :.بنى الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدَا رَسُولُ اللَّهِ وإقام الصلوة وإيتاء الزَّكوة والحج وصوم رمضان (بخاری کتاب الایمان باب قول النبي صلى الله علیه وسلم بنی الاسلام علی خمس) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے یہ گواہی دنیا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں اور نماز ادا کرنی ، زکواۃ دینی اور حج اور رمضان کے روزے.اسی حدیث میں جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوال پر کہ اسلام کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الْإِسْلَامُ أَن تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ وَتُقِيمَ الصَّلوةَ وَتُؤَدِى الزَّكَوةَ الْمَفْرُوضَةَ وَ تَصُومَ رَمَضَان کر بخاری کتاب الایمان باب سئوال جبريل النبي صلى الله عليه وسلم عن الايمان) یعنی اسلام یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور نماز کو قائم کرے اور فرض زکوۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے.بخاری میں حج کا ذکر نہیں ہے.لیکن دوسرے بعض راویوں نے حج کا بھی ذکر کیا ہے.اسی طرح طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.اور آپ سے سوال کیا کہ اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا.خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِيَامُ رَمَضَانَ قَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهُ - قَالَ لَا إِلَّا أَن تَطَوَّعَ قَالَ وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَوةَ - قَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلا أَن تَطَوَّعَ قَالَ فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ وَاللَّهِ لَا يَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا انْقُصُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَحَ إِنْ صَدق ربخاری کتاب الایمان باب الزكوة من الاسلام) یعنی اسلام کے اصول پانچ نمازیں ہیں دن اور رات میں.اس نے پوچھا کہ کیا ان کے سوا مجھ پر کچھ اور بھی فرض ہے.آپ نے فرمایا.نہیں ہاں اگر شوق سے زیادہ نماز

Page 314

انوار العلوم جلد ۵ ۲۹۴ اسلام اور حریت و سادات پڑھو.تو اور بات ہے.پھر آپ نے فرمایا اور رمضان کے روزے.اس پر اس نے دریافت کیا کہ ان کے سوا مجھ پر اور روزے بھی ہیں.آپ نے فرمایا کہ نہیں ہاں تم اپنی خواہش سے زیادہ رکھو تو رکھ سکتے ہو.پھر آپ نے اس کے سامنے زکوۃ کا مسئلہ بیان فرمایا.اس نے پوچھا کہ کیا مجھے پر اس سے زیادہ کچھ اور بھی فرض ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں.ہاں اگر تم اپنی خواہش سے زیادہ دو.تو یہ اور بات ہے.اس پر وہ شخص واپس چلا گیا.اور چلتے ہوئے کہتا گیا.کہ خدا کی قسم! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا نہ کہ رسول کریم نے فرمایا کہ اگر اس شخص نے اپنی بات پوری کر دی تو کامیاب ہو گیا.اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں.لیکن چونکہ دوسری احادیث میں ارکان اعمال میں حج کو شامل کیا گیا ہے.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال فرما کہ کہ عرب لوگ حج کو خود ہی ضروری خیال کرتے ہیں.صرف وہ احکام بیان فرما دیئے جو اسلام میں نئے نازل ہوئے تھے.غرض عبادت فعلیہ کے یہ چار ارکان ہیں.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں.اور شراح احادیث اس شخص کے سوال کے متعلق کہ اسلام کیا ہے لکھتے ہیں.کہ اس کا سوال ان ارکان اسلام کے متعلق تھا جو اعمال سے تعلق رکھتے ہیں (بخاری کتاب الایمان باب الزكوة من الاسلام حاشيه لي رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور علماء اسلام کی تشریح کے مطابق اعمال فعلیہ کے یہی چار ارکان ہیں.اور یہی چاروں میں نے اپنے جواب میں بیان کئے ہیں.عبادت ترکیہ یعنی ان احکام میں سے جن کے نہ کرنے عبادت ترکیہ کے اُصولی احکام کو شریعت نے حکم دیا ہے.میں نے چار اس ہیں کا اصل بیان کئے ہیں.قتل نہ کرنا، چوری نہ کرنا ، زنانہ کرنا ، خیانت نہ کرنا یہ چار اصل بطور استدلال میں نے قرآن کریم ہی سے لئے ہیں.کیونکہ قرآن کریم میں قتل کے جرم کی سزا قتل بیان کی گئی ہے اور زنا کی سزا کوڑے.اور بعض صورتوں میں مطابق فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحم اور چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا اور ڈاکہ یا چوری کی حد میں آجاتا ہے یا قتل کے دائرہ میں.اس لئے اس کو میں نے الگ نہیں بیان کیا تھا.چو تھا جرم جس کے لئے مزا مقرر ہے.قذف اور افتراء ہے جسے میں نے وسعت کے خیال سے خیانت سے تعبیر کیا تھا.میں یہی چار احکام ہیں.جو عبادت ترکیہ کے اصل ہیں.باقی جس قدر احکام ہیں.ان کی سزا یا تو غیر معین ہے اور سیاست پر چھوڑ دی گئی ہے یا ان کا معاملہ قیامت پر رکھا گیا ہے.ان کے سوا باقی تمام عقائد یا اوامر یا نواہی ان ہی کے فروع ہیں.یا ان کے اندر وہی اصل مخفی ہیں جوان عقائد و اوامر و نواہی میں ہیں.یہ چاروں نواری یکجائی طور پر عورتوں کی بیعت کے الفاظ میں جمعے صلی اللہ علیہ وسلم

Page 315

انوار العلوم جلد ۵ ۲۹۵ اسلام اور حریت و مساوات کر دیے گئے ہیں چنانچہ سورہ ممتحنہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِتُ يبا يعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقُنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أولاد هُنَّ وَلَا يَاتِينَ بِبُهُتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يُصِينَكَ فِي مَعْرُونِ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرُ لَهُنَّ اللهَ (الممتحنہ : ۱۳) اصول اور احکام میں فرق نہیں کیا گیا کوئی عقلمند یہ خیال نہیں کر سکتا کہ میرا ہی طلب تھا کہ ان احکام کے سوا اسلام میں اور کوئی حکم ہی نہیں ہیں.بلکہ میرا مطلب جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہوتا ہے یہی تھا کہ اصولِ اسلام یہی ہیں.گو ان کے سوا احکام سینکڑوں ہیں.چنانچہ سائل کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کے خلفاء کا یہ فرض نہیں کہ وہ دنیا کی چھوٹی حکومتوں کو ظلم سے بچائیں ہیں نے یہی جواب دیا ہے کہ اگر حریت و مساوات کی کوئی ایسی تعریف ہے جو احکام اسلام کے نیچے آجاتی ہے اور کسی اور اسلامی حکم کے مخالف نہیں پڑتی تو اس کی تلقین کرنا خلفاء اسلام کا فرض ہے.اس جواب سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اصول اور احکام میں فرق کیا ہے کیونکہ ایک طرف تو میں نے حریت و مساوات کو اصول اسلام سے خارج کیا ہے اور دوسری طرف یہ دوسری طرف یہ لکھا ہے کہ اگر اس کی کوئی ایسی تعریف کی جائے جو احکام اسلام کے مطابق ہو تو پھر اس کی تلقین فرض ہو جائے گی.خواجہ صاحب نے اسی فرق کو نہ سمجھتے ہوئے میرے مضمون کا جواب لکھنا شروع کر دیا ہے.اور حریت و مساوات کو احکام اسلام میں سے ثابت کرنے کی کوشش کر کے یہ فرض کر لیا ہے کہ انہوں نے میرے مضمون کا جواب دے دیا ہے.حالانکہ نہیں نے یہ لکھا تھا کہ حریت و مساوات کی تمام تعریفات کی رو سے وہ احکام اسلام میں شامل نہیں ہو سکتیں اور نہ میں نے یہ لکھا تھا کہ اصل اور حکم ایک ہی تھے ہے.کاش وہ ذرہ بھر بھی تدبر سے کام لیتے اور میرے مضمون پر غور کرتے اور یا تو سائل کو خود آگے آکر اپنے مطلب کو بیان کرنے دیتے.یا خود حریت و مساوات کی تعریف کر کے اس کے متعلق مجھے سے سوال کرتے کہ یہ تعریف احکام اسلام میں شامل ہے یا نہیں ؟ اگر اس تعریف کو میں احکام اسلام میں شامل نہ قرار دیتا اور اگر ان کی تسلی میرے جواب سے نہ ہوتی تو وہ اس کا جواب لکھتے.

Page 316

انوار العلوم جلد ۵ ۲۹۶ اسلام اور حریت و مساوات خواجہ صاحب کے نزدیک حریت و مساوات خواجہ صاحب نے اپنے مضمون کو کیوں اُصول اسلام سے خارج کیا گیا کے آخر میں یہ بات ظاہر کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ مجھے دھوکا کس طرح لگ گیا اور کس طرح میں نے حریت و مساوات کو اسلام کے بنیادی اُصول میں سے خارج کر دیا اور بعض آیات ایسی نقل کی ہیں.جن میں بعض گروہوں کے غیر مساوی ہونے کا ذکر ہے اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ شاید ان آیتوں سے مجھے دھوکا لگ گیا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں خواجہ صاحب کا منشاء یہ نہیں ہے کہ وہ میرے مضمون کو کسی قدر معقولیت کا جامہ پہنائیں بلکہ ان کا اصل منشاء یہ بات ظاہر کرنا ہے کہ وہ ان دلائل سے بھی خوب واقف ہیں جو میں اپنے مدعا کے ثبوت کے لئے پیش کرونگا.حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دلائل دینا میرے ذمہ نہیں بلکہ سائل کے ذمہ ہے کہ وہ پہلے اپنے سوال کا مطلب بیان کرے.جب تک وہ اپنے مطلب کو واضح نہ کرے اس وقت تک اس کے سوال کا جواب دینا وقت کا ضائع کرنا ہے.بلکہ اگر وہ سوال کو واضح کرے گا تو اس کے سوال کا جواب خود اس کی اپنی تشریح میں ہی آجائے گا یا اس پر اپنی غلطی کھل جاوے گی.اس تمہید کے بعد میں خواجہ صاحب کے مضمون کے مختلف الزامی جواب کی اقسام حصوں پر روشنی ڈالتا ہوں.خواجہ صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ میں نے سائل کو الزامی جواب دیتے ہیں اور یہ کمزوری ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ الزامی جواب سے بالعموم اصل مسئلہ حل نہیں ہوتا.بلکہ صرف سائل خاموش ہو جاتا ہے اور اسی لئے الزامی جواب کو اصولی جواب کے مد مقابل قرار دے کر اسے کمزور سمجھا جاتا ہے.لیکن جو لوگ کلام کی حقیقت اور اس کے معارف سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ الزامی جواب کئی اقسام کے ہوتے ہیں بعض دلیل کے لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں بعض مضبوط ہوتے ہیں اور بعض ایسے مضبوط ہوتے ہیں کہ اصولی جواب بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.کو نسا الزامی جواب کمزور ہوتا ہے وہ الزامی جواب جو زور ہوتا ہے اس کی یہ کونسا شرط ہے کہ اس کے ذریعہ سے کسی عیب کو چھپانے کی کوشش کی جائے یعنی جس پر اعتراض کیا جائے وہ اس بات کو محسوس کرتا ہو کہ اس کی جس بات پر اعتراض کیا گیا ہے.وہ واقع میں ایک عیب اور کمزوری ہے.اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے معترض کے کسی عیب کی طرف اشارہ کرے.مثلاً دو شخص جو مل کر تجارت کر رہے ہیں ان میں سے

Page 317

+96 اسلام اور تربیت و مساوات ایک دوسرے کو خیانت کرتے ہوئے دیکھے اور اس کے کہ کیوں صاحب یہ کام بھی جائز ہے تو آگے سے وہ شخص معترض کی کسی خیانت کی طرف جس سے وہ آگاہ تھا اشارہ کر کے کہہ دے کہ ہاں جس طرح وہ جائزہ تھی یہ بھی جائز ہے.یہ الزامی جواب کہلائے گا اور کمزور ہو گا کیونکہ اس جواب سے جواب دینے والے کی بریت ثابت نہیں ہوتی.بلکہ صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص جس نے اعتراض کیا تھا خود اسی قسم کی مرض میں مبتلاء ہے اور اس جواب سے مجیب کی غرض صرف معترض کو خاموش کرنا ہے.قسم دوم کے الزامی جواب دوسری قسم کا الزامی جواب یہ ہوتا ہے کہ جس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ مجیب کے مذہب میں پائی ہی نہیں جاتی یا اس کے نزدیک جائز ہی نہیں ہوتی یا یہ کہ وہ بات عقلاً اور اخلاقاً بالکل درست ہوتی ہے اور اس پر اعتراض ہی نہیں پڑ سکتا.یا یہ کہ جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ اعتراض ہی نہیں ہوتا لیکن مجیب وقت بچانے کے لئے کسی ایسی ملتی جلتی لیکن نادرست اور نا واجب بات کی طرف جو معترض یا معترض کے مذہب یا عقیدہ میں پائی جاتی ہے اشارہ کر دیتا ہے اور اس سے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سائل کو خاموش کردے.مثلاً اگر کوئی آریہ اسلام پر اعتراض کر دے کہ اسلام میں متعہ کی اجازت ہے اور اس پر کوئی سنی المذہب اس کے جواب میں کہ دہے کہ ہاں یہ مسئلہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آریت میں نیوگ کا مسئلہ تو اس سے اس کی غرض معترض کو خاموش کرنا ہوگی.اور وہ صرف اس تاریخی بحث میں پڑنے سے بچنے کی کوشش کرے گا کہ متعہ اسلامی مسئلہ ہے بھی کہ نہیں.ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں نہ اس وقت متعہ جائز ہے نہ کبھی پہلے جائز ہوا.جب تک اسلام کا حکم اس مسئلہ کے تعلیق نازل نہ ہوا تھا اس وقت تک رسول تحریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی رسوم کے مطابق اس فعل کی اجازت دیتے رہتے تھے.کیونکہ آپ کی عادت مبارک میں یہ بات داخل تھی کہ آپ الٹی حکم کے نزول تک لوگوں کی رسوم و عادات میں دخل دینا پسند نہ فرماتے تھے اور الٹی کلام کا ادب رکھتے تھے.یا مثلاً کوئی آریہ صاحب اسلام کے مسئلہ کثرت ازدواج پر اعتراض کر دے اور کوئی مسلمان نیوگ کا حوالہ دے کر ان کو خاموش کرا دے تو یہ بھی الزامی جواب ہو گا.لیکن اس میں پہلے جواب سے یہ فرق ہوگا کہ پہلا جواب تو ایک ایسے اعتراض سے بچنے کے لئے تھا جس کا مورد اسلام میں موجود ہی نہ تھا.اور یہ جواب ایک ایسی بات پر سے اعتراض ہٹانے کے لئے ہے جو فی الواقع اسلام میں موجود ہے اور صرف وقت کو بچانے کے لئے یا معترض پر یہ بات روشن کرنے کے لئے ہے کہ اس کا اعتراض نیک نیتی

Page 318

انوار العلوم جلد ۵ اسلام اور حریت و مساوات پر مبنی نہیں.کیونکہ با وجود ایک ایسی بات پر یقین رکھنے کے جس میں شناعت کا پہلو موجود ہے.وہ ایک ایسی بات پر اعتراض کرتا ہے جس میں کوئی شناعت کا پہلو موجود ہی نہیں.یا مثلاً یہ کہ کوئی مسیحی اسلام پر اعتراض کرے کہ اسلام کی ترقی کا باعث جنت کا عقیدہ ہے.لوگوں کو لالچ دلا کر اسلام میں داخل کر لیا گیا ہے.اور اس کا کوئی مسلمان یہ جواب دے دے کہ ہاں جس طرح ادنی اقوام کو سچی روپیہ پیسہ دے کر اور قسم قسم کی لالچیں دے کر سیحی بنا لیتے ہیں اسی طرح مسلمانوں نے بھی کیا ہے.یہ جواب بھی اسی قسم کے الزامی جوابوں میں شامل ہو گا جو پہلے مذکور ہوئے ہیں.مگر پہلے دو جوابوں میں اور اس جواب میں یہ فرق ہو گا کہ پہلا الزامی جواب تو ایک ایسے اعتراض کے متعلق تھا جس کا مورد اسلام میں موجود ہی نہ تھا اور دوسرا الزامی جواب ایک ایسے اعتراض کے متعلق ہے جس کا مورد تو موجود تھا لیکن اس پر وہ اعتراض نہ پڑتا تھا جو دشمن نے کیا.اور یہ آخری مثال اس امر کی ہے کہ جو اعتراض کیا گیا تھا وہ اعتراض ہی نہیں ہے.اس قسم کی تحریک کرنی کہ اس مذہب کو قبول کر کے تم سکھ پاؤ گے لالچ نہیں ہے بلکہ مذہب کی ضرورت کا اظہارہ ہے اور اس دعوی کے بغیر کوئی مذہب سچا ہو ہی نہیں سکتا.قرآن کریم سے دوسری قسم کے الزامی جواب کی مثال ہے دوسری قسم الزامی جواب کی گو پہلی قسم کی نسبت مضبوط ہے لیکن پھر بھی اس میں یہ کمزوری ہے کہ اس سے دشمن کی کمزوری اور اس کا تعصب تو ظاہر ہو جاتا ہے لیکن اس امر کی نسبت لوگوں کا علم وسیع نہیں ہوتا جس پر اعتراض کیا گیا تھا کیونکہ لوگ دیکھتے ہیں کہ جس امر کی طرف اشارہ کر کے معترض کو خاموش کیا گیا ہے وہ امراور قسم کا ہے اور جس پر اعتراض کیا گیا ہے وہ اور قسم کا ہے.اور ان کے دل میں یہ تڑپ باقی رہتی ہے کہ اس کی خوبیوں پر بھی اطلاع ملے بلکہ معترض کے دل میں بھی یہی خواہش باقی رہتی ہے گو وہ اس جواب کے ڈر سے دوبارہ اعتراض اُٹھانے کی جرأت نہیں کرتا.یہ تم جواب کی اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کے ساتھ اصولی جواب بھی دے دیا جائے چنانچہ قرآن کریم میں اس قسم کے الزامی جوابوں کی مثالیں ملتی ہیں.جیسا کہ فرماتا ہے : الَّذِينَ قَالُو إِنَّ اللهَ عَهِدَ النَا الأَنُؤْمِنَ لَرَسُولِ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرُبَانِ تأكلهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاءَ كُمُ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالبَيتِ وَبِالَّذِى قُلْتُمْ فَلم تَتَلتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ (ال عمران یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی (TAM) نے نہیں حکم دیا ہوا ہے کہ ہم صرف اس رسول کو مانیں جو سوختنی قربانی کا حکم دے.ان سے کہہ دو

Page 319

انوار العلوم جلد ۵ ۲۹۹ اسلام اور حریت و کہ مجھ سے پہلے بہت سے رسول تمہاری طرف آئے ہیں جن کے پاس دلائل بھی تھے اور وہ حکم بھی دیتے تھے جس کی طرف تم اشارہ کرتے ہو پھر کیا اگر تم بہتے ہو تو تم نے ان کو مان لیا تھا اور ان کا مقابلہ نہیں کیا تھا.اس جگہ یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ سوختنی قربانی کا حکم ضروری ہے یا نہیں ؟ صرف ان کو اس جواب سے خاموش کر دیا گیا ہے کہ تمہارا حقی نہیں کہ یہ اعتراض کرو کیونکہ تم ان رسولوں کا مقابلہ بھی کرتے رہے ہو جو سوختنی قربانی کا بھی حکم دیتے تھے.مگر چونکہ قرآن کریم ہر ایک پہلو کو کمل کرتا ہے اگلی آیات میں جا کہ یہ بھی جواب دے دیا کہ یہ دعوئی باطل ہے کہ تم کو کوئی ایسا حکم تھا.تم تو تورات پر افتراء کرتے ہو.اور تمہاری یہ عادت ہے چنانچہ آگے چل کر فرمایا کہ وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أوتُوا الكِتَب لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ (ال عمران (۱۸۸) اللہ تعالیٰ نے تو اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ یہ مسائل تو رات کو چھپائیں گے نہیں لیکن یہ اس عہد کے پابند نہ رہے.یعنی اب یہ لوگوں کو غلط مسائل بتانے لگے ہیں.جن میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس وقت تک کسی رسول کو نہیں ماننا چاہئے جب تک وہ سوختنی قربانی کا حکم نہ دے.ان دونوں قسموں کے سوا ایک تیسری قسم الزامی جواب کی قسم سوم کے الزامی جواب ہوتی ہے جو لحاظ دلیل کے ایسی ہی مضبوط ہوتی ہے جیسے کہ اصولی جواب کیونکہ گو وہ بظاہر الزامی جواب نظر آتی ہے.لیکن اس کی اصل غرض میں ہوتی ہے کہ اصولی جواب کی طرف سائل کی توجہ کو پھیرا جائے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بھی معرض کو سمجھانے کے لئے اس کے اعتراض کے جواب میں اسی کے عقیدہ اور خیال کی ایک ایسی بات اس کو یاد دلائی جاتی ہے جو بعینہ اسی قسم کی ہوتی ہے.جس پر اس شخص نے اعتراض کیا ہوتا ہے لیکن جس طرح یہ بات قابل اعتراض نہیں ہوتی جس پر اعتراض کیا گیا ہے وہ بھی قابل اعتراض نہیں ہوتی.قرآن کریم سے تیسری قسم کے الزامی جواب کی مثال اس قسم کے الزامی جواب قرآن کریم میں بھی دیئے گئے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کفار کا اعتراض سورہ انبیاء میں نقل فرماتا ہے کہ هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الانباء ، ہر نہیں ہے یہ شخص گر تمہارے جیسا ایک آدمی.

Page 320

انوار العلوم جلد ۵ ۳۰۰ اسلام اور تربیت و مساوات اور اس کا جواب آگے چل کر یہ دیتا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُم لا تَعْلَمُونَ (الانید :) یعنی ہم نے تجھ سے پہلے بھی آدمی ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے.اگر تم کو نہ معلوم ہو.تو یہود و نصاریٰ سے پوچھ لو.اس میں بھی الزامی جواب ہی دیا ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اور کسی کی ن سی.حضرت ابراہیم کی نبوت کے اور آپ کے خدارسیدہ ہونے کے تو ضرور قائل تھے اللہ تعالیٰ بجائے یہ ثابت کرنے کے کہ نبی کے لئے بشر ہونا ضروری ہے.صرف یہ حوالہ دیتا ہے کہ پہلے نبی جن کو مانتے ہو وہ بھی تو ایسے ہی تھے.قسم سوم کے الزامی جواب کا فائدہ اس قسم کے الزامی جواب سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ معترض حس بات کو تسلیم کرتا ہے اس کے خلاف اسے تعصب نہیں ہوتا اور اس کی تائید میں اس کے پاس دلائل ہوتے ہیں.پس بجائے اس کے کہ اس بات کی تائید میں جس پر اس نے اعتراض کیا ہوتا ہے دلائل دیئے جائیں.یہ زیادہ سہل طریق ہوتا ہے کہ اس کی تسلیم کر دہ باتوں میں سے کوئی اس کے سامنے پیش کر دی جائے تاکہ اس کی تائید میں جو دلائل اس کے پاس ہیں ان ہی کے ذریعہ سے وہ اس بات کی صداقت کو بھی سمجھ لے جس پر وہ اعتراض کرتا ہے.پیس گو بظاہر یہ جواب الزامی ہوتا ہے لیکن دراصل حقیقی جواب ہوتا ہے.اس میں اور حقیقی جواب میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ حقیقی جواب میں دلائل مجیب کو دینے پڑتے ہیں.اور اس قسم کے الزامی جواب میں خود معترض کے ہی منہ سے اپنے دعوی کی تائید میں دلائل دلوائے جاتے ہیں.ایسا الزامی جواب بجائے کمزور ہونے کے عام طور پر حقیقی کہلانے والے جواب سے زیادہ سہل اور مفید ہوتا ہے اور مضبوطی میں بھی اس سے کم نہیں ہوتا اور خصوصاً اس صورت میں اور بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے جبکہ اعتراض صرف ایک ہی جماعت کی طرف سے وارد ہوتا ہو.کیونکہ جو اعتراض مختلف پہلو رکھتا ہو اور متعدد جماعتوں کی طرف سے پڑسکتا ہو.وہ حقیقی جواب کے بغیر مکمل طور پر حل نہیں ہو سکتا.کیونکہ الزامی جواب صرف اس نقطہ خیال پر روشنی ڈالے گا جو سائل یا اس کے ہم خیالوں سے تعلق رکھتا ہے اور دوسری جماعتوں کے نقطہ خیال کے مطابق جو اس پر اعتراض ہوتا ہے وہ دور نہ ہو سکے گا.لیکن اگر اعتراض ایک ہی جماعت کی طرف سے ہو سکتا ہو تو پھر مندرجہ بالا قسم کا اندامی جواب حقیقی جواب سے بھی زیادہ مفید ہوگا.کیونکہ اس میں حقیقی جواب کی طرح روشنی بھی

Page 321

۳۰۱ اسلام اور حریت و مساوات ہوگی اور الزامی جواب کی طرح قوت اور شدت بھی ہوگی.سائل کو تیسری قسم کے جواب دیئے گئے تھے اس تفصیل کے بعد میں خواجہ صاحب کو توجہ دلاتا ہوں کہ میرے جوابات گو الزامی تھے مگر اسی تیری قسم کے تھے مثلا جلیانوالہ کے باغ کے متعلق جو اعتراض ہوا ہے اس کا جو جواب میں نے دیا ہے اور جس کی طرف خواجہ صاحب نے اشارہ بھی کیا ہے وہ اسی قسم کا ہے.کیونکہ اس میں میں نے سائل کے ہم خیال لوگوں کے ایک مستحسن فعل کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ جس طرح انہوں نے فساد کو دُور کرنے کے لئے کٹار پور اور بہار کے وحشی اور انسانیت سے عاری قاتلوں کو معاف کر دیا ہے اسی طرح اگر بادشاہ معظم کے اعلان کے جواب میں ہم لوگوں نے جلیانوالے واقع کو بھلا دیا ہے تو کون سی قباحت آگئی.یہاں دونوں فعل مستخن ہیں اور ایک ہی قسم کے ہیں.سائل ایک کام کرتا ہے اور دوسرا اسے برا معلوم ہوتا ہے.اس کو یہ امر سمجھانے کے لئے کہ دوسرا کام بھی مستحن ہے.اس کے اپنے فعل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دلائل جن کے باعث اس نے پہلا کام کیا ہے اسے یاد آجائیں گے.اور اس کا اعتراض دوسرے کام پر سے خود بخود اُٹھ جائے گا.اور اس جواب سے ہر ایک شخص جو اس کا ہم خیال ہو گا وہ بھی تسلی پالے گا اور بجائے اس کے کہ ہم اس کو اپنے فعل کے دلائل دیں خود اس کا ذہن اس کے سامنے حقیقی دلائل پیش کر دے گا.پس اس الزامی جواب میں اور حقیقی جواب میں یہی فرق ہے کہ اس جواب کے ذریعہ سے خود معترض کے منہ سے اپنے فعل کے مستحسن ہونے کا اقرار کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور بجائے دلائل کو کاغذ پر لاکر اس کے سامنے پیش کرنے کے خود اسی کے دماغ میں ایسی حرکت پیدا کر دی گئی ہے کہ خود ہی دلائل اس کے سامنے آجائیں.خواجہ صاحب نے جوابوں کی نسبت الزامی ہونے کا الزام اسلامی اخوت کا مطلب قائم کر کے سب سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام نے اخوت قائم کی ہے.اس لئے جو مساوات اخوت میں ہوتی ہے وہی بنی نوع انسان میں قائم ہونی چاہئے.اگر خواجہ صاحب کا یہ منشاء ہے کہ اسلام کی رو سے تمام بنی نوع انسان اپنی یدائش میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں.یا یہ کہ ان کو ایک دوسرے کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے اور ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے تو یہ سچی بات ہے.اس کا کسی کو انکار نہیں.لیکن اگر خواجہ صاحب کا اس سے زیادہ کچھ اور مطلب ہے تو وہ اس آیت سے نہیں نکلتا.کیونکہ باوجود اس تعلیم کے اسلام

Page 322

انوار العلوم جلد ۵ اسلام اور حریت و مساوات نے حقیقی بھائیوں اور دوسرے لوگوں میں فرق کیا ہے میں جب تک اس آیت کو ان آیات و احکام کے ماتحت نہ لایا جائے گا جن سے اس مسئلہ کی تفصیل معلوم ہوتی ہے اس آیت کو عام کر کے کامل مساوات کا ثبوت نکالنا غلط ہے.اسلام میں مرد و عورت کے حقوق اس سے آگے خواجہ صاحب نے عورت اور مرد کی عدم مساوات کا سوال اُٹھایا ہے اور لکھا ہے کہ یہی ایک فرق ہے جسے عدم مساوات کے حق میں پیش کیا جاسکتا تھا لیکن اسلام نے اس فرق کو بھی مٹا دیا ہے اور عورت اور مرد کے حقوق کو مساوی قرار دیا ہے.لیکن یہ دعویٰ خواجہ صاحب کا بالکل خلاف احکام اسلام ہے.اسلام نے ہر رنگ میں عورت اور مرد کے حقوق کو مساوی نہیں رکھا بلکہ احکام کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک وہ احکام ہیں جو مرد و عورت کی انسانیت کو مد نظر رکھ کر دیے جاتے ہیں اس میں دونوں کو مساوات دی گئی ہے.اور دونوں فریق کے لئے ایک قسم کے حکم ہیں.مثلاً نماز ، روزه ، حج ، زکوٰۃ دونوں احکام میں مرد و عورت شامل ہیں اور دونوں کو یکساں ثواب ملنے کا وعدہ ہے.یہ نہیں کہ عورت صرف مرد کا کھلونا ہو بلکہ اسے اس مقصد عالی کے حصول کے لئے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اسی طرح مکلف کیا گیا ہے جس طرح مرد کو.مگر وہ احکام جو انتظام اور ریاست کے متعلق ہیں ان میں مرد اور عورت میں امتیاز کیا گیا ہے اور مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی ہے.اور اگر اس تقسیم کو اسلام قائم نہ کرتا تو اسلام دین فطرت ہو ہی نہ سکتا تھا.یہ فرق صرف اسلام نے ہی قائم کیا ہے اور کسی مذہب نے قائم نہیں کیا.اور یہ ایک فضیلت ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب پر حاصل ہے ایک طرف تو وہ مساوات قائم کرتا ہے اور دوسری طرف وہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرتا کہ کوئی انتظام بلا اس کے نہیں چل سکتا کہ مختلف شرکاء میں سے ایک کی آواز کو سب کی آواز پر مقدم کیا جائے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مردوں کی نسبت فرماتا ہے کہ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء : ۳۵) یعنی مرد عورتوں کے اوپر نگران ہیں.اور اس کی وجہ بھی بیان فرما دی کہ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَالنَاء : ۳۵ یعنی اس لئے ان کو نگران مقرر کیا گیا ہے کہ انسانی خلقت مرد کو نگرانی کا حق دیتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مرد کو ایسے قومی ملے ہیں جن کی وجہ سے وہ اشتراک خاندانی میں اس امر کا مستحق ہے کہ اس کی آوانہ

Page 323

۳۰۳ اسلام اور حریت و مساوات انتظام میں آخری آواز ہو.اور بوجہ اس کے کہ مرد کے ذمہ مال کا خرچ کرنا ہے اور یہ ایک تسلیم شدہ اصل ہے کہ مال کا خرچ کرنا جس کے ذمہ ہو اس کی آواز کو زیادہ وزن دیا جاتا ہے.کیونکہ اس شخص کے لئے نقصان کے احتمال زیادہ ہوتے ہیں.پھر مر جسمانی طور پر بھی گھر کے کام کاج میں کچھ نہ کچھ حصہ لیتا ہے.پس چونکہ مرد پر ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے.اس کے حقوق بھی زیادہ رکھے گئے ہیں.اسی طرح سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :- وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُونِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً (البقرة : ۲۲۹) یعنی عورتوں کو بھی مردوں پر ویسے ہی ضروری حقوق ہیں جیسے کہ مردوں کو اور مردوں کو ان پر ایک فضیلت ہے.اس میں اسی اصل کو بیان کیا گیا ہے جوئیں او پرلکھ چکا ہوں کہ ایک پہلو سے مساوات قائم کی گئی ہے اور دوسرے پہلو سے مرد کو حاکم بھی قرار دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کے متعلق یہ اختیار بھی دیا ہے کہ اگر وہ نشوز کرے اور کسی طرح اس کی اصلاح نہ ہو.تو اس کو مارو.بے شک یہ کہا جا سکتا ہے کہ نشوز کی حالت میں ہی ایسا اختیار دیا گیا ہے اس کے بغیر تو نہیں دیا گیا.لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر مرد نشوز کرے تو کیا قرآن وحدیث نے عورت کو بھی حق دیا ہے کہ وہ بھی مرد کو مارے.پھر مرد کی جسمانی قوتوں کی زیادتی اور اس کے صاحب نفوذ ہونے کے سبب ہی سے مرد کو ایک وہ ے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے.نکاح کے معامہ میں بھی مرد کو اجازت دی ہے کہ خود پسند کر کے نکاح کرے لیکن عورت کے لئے شرط رکھی ہے کہ اس کی رضامندی کے ساتھ اس کے والد یاکسی اور قریبی رشتہ دار کی بھی رضامندی ضرور لی جائے اور اسی کی معرفت نکاح ہو.عورت کے لئے نفلی روزہ تک رکھنے کے لئے خاوند سے اجازت لینے کا حکم دیا.لیکن مرد کے لئے گویہ ہدایت کی کہ وہ اس قدر روزہ نہ رکھے کہ عورت کے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو جائے.لیکن روزہ رکھنے کے لئے عورت کی اجازت شرط نہیں رکھی.غرض اس قسم کے بہت سے احکام مرد و عورت میں ہر رنگ میں مساوات نہیں ہیں جن میں عورت کو مرد کی رائے کے ہیں جن تاریخ کیا گیا ہے.مگر یہ امور وہی ہیں جو انتظامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں.وہ احکام جو افراد سے تعلق رکھتے ہیں ان میں دونوں کو برابر رکھا ہے.دونوں کو یکساں احکام و نوا ہی ہیں.دونوں کو یکساں

Page 324

انوار العلوم جلد ۵ ۳۰۴ اسلام اور حریت و مساوات اپنے اموال کا مالک مقرر کیا ہے.دونوں کو یکساں اپنی جان کے متعلق اختیار دیئے ہیں پس یہ کہنا کہ ہر رنگ میں مرد و عورت میں مساوات ہے.غلط ہے.بعض لحاظ سے مساوات ہے اور بعض لحاظ سے نہیں.اور مساوات کو وہیں مٹایا گیا ہے کہ جہاں مساوات کا مٹانا کام کے بخوبی چلانے اور امن کے قیام کے لئے ضروری تھا.اور ایسے موقع پر مرد کو عورت کے حقوق کا پوری طرح خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے.مگر حکم مرد ہی کے سپرد کیا گیا ہے.شاید اس جگہ یہ کہا جائے کہ ہماری بھی حریت و مساوات سے یہی مراد تھی.مگر میں کہوں گا کہ میں نے بھی تو مراد دریافت کرنے کے لئے ہی سوال کیا تھا.پہلے مراد بیان کرنی تھی اور پھر میرا خیال معلوم کر کے مضمون لکھنے بیٹھنا تھا.کیا وراثت میں مرد و عورت کے مساوی حقوق ہیں خواجہ صاحب نے عورتوں کے حقوق کے متعلق ایک عجیب نکتہ لکھا ہے اور وہ یہ کہ عورت اور مرد کے حقوق وراثت میں بھی مساوی ہیں.کیونکہ اگر عورت اپنے بات مال میں سے آدھا حصہ لیتی ہے تو اپنے خاوند کی بھی وارث ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے وہ کلید دیکھ که آیات لکھنے کے عادی ہیں.اور جس طرز سے انہوں نے اپنے مضمون میں آیات لکھی ہیں ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے مطالب کے سمجھنے کی انہوں نے کبھی کوشش نہیں کی.انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ اگر عورت اپنے خاوند کی وارث ہوتی ہے تو خاوند بھی اپنی عورت کا وارث ہوتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ جس قدر حصہ عورت کو خاوند کے ترکہ سے ملتا ہے اس سے دگنا مرد کو اپنی بیوی کے ترکہ سے ملتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ مرد عورت سے ہمیشہ پہلے ہی مرے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَكُم نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ ولد تلكُمُ الرُّسُحُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَمِيّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْدَيْنِ وَلَهُنَّ الربع مِمَّا تَرَكْتُمُ إِن لَّمْ يَكُن لَكُمْ وَلَهُ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنِ (النساء: ۱۳) :.جو کچھ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں سے نصف تمہارا حصہ ہے اگر ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو چوتھا حصہ تمہارا ہے.وصیت کے حصہ یا قرض کے وضع کرنے کے بعد.اسی طرح عورتوں کے لئے تمہارے مال میں سے چوتھا حصہ ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو.اور آٹھواں اگر اولاد ہو.یہ حصہ بھی تمہاری وصیت یا قرضہ کی ادائیگی کے بعد جومال

Page 325

۳۰۵ اسلام اور حریت و م بچے اس میں سے ہو گا.خواجہ صاحب اس آیت کو دیکھیں اور سوچیں کہ ان کی دلیل وراثت کے مساوی ہونے کی کہاں گئی؟ اگر عورت خاوند کے مال کی وارث ہوتی ہے تو خاوند بھی عورت کے مال کا وارث ہوتا ہے اور یہاں بھی اس کا حصہ دگنا ہوتا ہے پس بہر حال مرد کا حصہ عورت کے حصہ سے دگنا رہے گا.بلکہ دُگنے سے اس کا یہ ہے پس ہرحال کاحصہ عورت حصہ سے بھی بعض صورتوں میں بڑھ جائے گا.ورثہ میں مرد و عورت کے حقوق مساوی نہ ہونے میں حکمت یہ فرق جو مرد اور عورت کے حصہ میں شریعت نے رکھا ہے اس کی وجہ اور ہے اور یہ عدم مساوات ظالمانہ طور پر نہیں بلکہ ثابت شدہ حقائق کے ماتحت ہے.عورتوں اور مردوں میں مساوات ثابت کرنے کی کوشش کرنے کے بعد خواجہ صاحب نے اور کئی قسم کی مساوات احکام قرآنیہ سے ثابت کرنی چاہی ہیں اور بتایا ہے کہ اسلام نے مذہب میں مساوات قائم کی ہے کہ ارسب انسانوں کو اسلام کی دعوت دی ہے.۲.نسلی مساوات قائم کی ہے کہ عربی و مجھی اور بڑی اور چھوٹی ذاتوں کا فرق مٹا دیا ہے.۳.مال میں مساوات قائم کی ہے کہ کوئی شخص اپنے پاس ضرورت سے زیادہ مال نہیں رکھ سکتا.ہر امر میں مساوات نہ ہونے کا اعتراف نہیں نہیں سمجھتا کہ ان دعاوی کے ثابت کرنے یا ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں خواجہ صاحب کا کیا مقصد تھا.جس خط پر انہوں نے یہ سلسلہ مضامین لکھنا شروع کیا ہے.اس میں تو یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ ہر ایک بات میں حریت و مساوات نہیں بعض جگہ حریت و مساوات بُری ہوتی ہے بعض جگہ جائز اور بعض جگہ ضروری پس ان امور میں اگر حریت و مساوات ثابت بھی ہو جائے تو اس کا فائدہ اور نفع ؟ اصل مضمون پر کیا روشنی پڑے گی با میرے خط کی تردید تو تب ہو سکتی تھی کہ حریت و مساوات ہر رنگ میں ضروری ہوں اور یہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ ہر امر میں حریت و مساوات کا اصل قائم نہیں رہ سکتا.آپ لکھتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ حکومت کے باعث حکمران قوم کو ایک طرح کی فضیلت محکوم قوم پر حاصل ہوتی ہے لیکن اس فضیلت کا مفہوم ایسی عدم مساوات نہیں ہے جو غلامی کا مترادف ہے.(وکیل ۴ دسمبر ۱۹۲۰ء) جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہر جگہ حریت و مساوات کا اصل نہیں چل سکتا تو پھر اس سلسلہ

Page 326

انوار العلوم جلد ۵ مضامین کی کیا ضرورت تھی.یہی بات تو یں نے لکھی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ حریت و مساوات کا کوئی مضوم ایسا ہو کہ وہ احکام اسلام میں شامل ہو جائے اور اس کا خیال رکھنا ضروری ہو جائے.اور ہو سکتا ہے کہ اس کا خیال رکھنا صرف جائز ہو اور ہو سکتا ہے کہ منع ہو.آپ بھی یہی لکھتے ہیں کہ حاکم قوم کو ایک حد تک فضیلت حاصل ہوتی ہے لیکن محکوم قوم کی حالت غلامی تک نہیں پہنچنی چاہئے.اور یکس نے لکھا تھا کہ محکوم قوم کے لئے اسلامی احکام کے مطابق غلام بن کر رہنے کا حکم ہے.یہ تو ایک خیال ہے جو خود ہی آپ نے پیدا کر لیا اور خود ہی اس کا جواب دینے لگ گئے ہیں.میرا تو صرف اس قدر دعوی تھا کہ حریت و مساوات کا اصل ہر جگہ چسپاں نہیں ہو سکتا.اور یہ کہ اس کی مختلف تعریفیں اور حد بندیاں کی جاسکتی ہیں.جن کے ماتحت اس کی تعریف یا مذمت کی جا سکتی ہے.آپ خود تشریح کرتے ہوئے اسی پھندے میں پھنس گئے اور آپکو تسلیم کرنا پڑا کہ ہر جگہ اس کا استعمال نہیں ہوسکتا.سائل نے کون سی حریت و مساوات کے متعلق پوچھا تھا ؟ خواجہ صاحب کو ہے بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سائل کا منشاء حریت و مساوات کے قیام سے اسی حریت و مساوات کا قائم کرنا تھا جو حاکم ومحکوم کے درمیان ہو.کیونکہ ان کا اشارہ حکومتوں کے تعلقات کے متعلق تھا نہ کہ مغل اور سید اور راجپوت اور جات کے فرق یا نجات کے عام ہونے کے متعلق اور اس امر میں عدم مساوات کے مٹانے کے متعلقی انہوں نے اشارہ کیا تھا.اور اسی وجہ سے میں ان سے تشریح چاہتا تھا کہ وہ جب صفائی سے ان الفاظ کے مفہوم کی تعیین کریں تو آپ کی طرح ان کو بھی تسلیم کرنا پڑے کہ حریت ومساوات کا مفہوم بھی محدود ہے اور ایک حد تک حریت و مساوات کا خیال کر کے فضیلت اور درجہ کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور اس کے بغیر دنیا کا امن قائم ہی نہیں رہ سکتا.اس اجمالی جواب کے بعد میں ان تینوں قسم کی حریت ومساوات کے متعلق جو خواجہ صاحب نے قائم کی ہے.الگ الگ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں.مذہبی مساوات پہلی مساوات خواجہ صاحب نے مذہب کی بیان کی ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ مساوات سب سے بڑی ہے.اور سب سے پہلے اسے اسلام نے ہی قائم کیا ہے لیکن اس مساوات کا ذکر کرنے سے خواجہ صاحب کی غرض نہ معلوم کیا ہے؟ جس شخص کے خط کا جواب میں نے دیا ہے اور جس کی وکالت کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں وہ تو اس مساوات کو نہایت حقارت سے دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے آقا اور راہنما حضرت

Page 327

۳۰۷ اسلام اور مساوات و حریت اقدس مسیح موعود علیه صلوة والسلام ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے بعد ایک ایسے شخص ہوئے ہیں جنہوں نے اس مسئلہ پر اس قدر زور دیا ہے جو اس کی عظمت کے مطابق تھا.اور ہماری جماعت ہی وہ جماعت ہے ہو اس مساوات کو عملی طور پر قائم کرنے کے لئے ہمہ تن کوشاں ہے.اور ہر گورے اور کالے کو اسلام کی طرف بلا رہی ہے اور اس کی دعوت کر رہی ہے.پھر ہمیں یہ مساوات یاد دلانی کیا معنی رکھتی ہے ہم سے زیادہ اس مساوات پر کے یقین ہے اور کسی کے دل میں ہم سے زیادہ اس کی قدر ہے.یہ مساوات تو خواجہ صاحب کو ان صاحب کو یاد دلانی چاہئے تھی جن کی وکالت کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اس مساوات کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ پر طعن کرتے ہیں.کہ کیا سال بھر میں ایک دو آدمیوں کا اسلام میں شامل کر لینا ہی اشاعت اسلام ہے ؟ اور انکے نزدیک اس اسلام کی امتیازی خصوصیت سے فائدہ اُٹھانا اور اسلام کا ہر گھر کے دروازہ تک پہنچانا کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتا جب یک مسٹر گاندھی کی تقلید میں ہندوستان کا امن برباد کرنے اور بچوں کو مادر پدر آزاد بنانے کی کوشش نہ کی جائے.نسلی امتیاز مشاکر مساوات قائم کرنا دوسری قسم کی مساوات خواجہ صاحب نے نسلی بسیار کا مانا بتائی ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے اس مساوات کو بھی قائم کیا ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی بات ہے کہ یہ مساوات دوسری عدم مساوات کو باطل نہیں کر سکتی.مثلاً اگر ایک خاص قوم اپنے علم یا حکومت کی وجہ سے دوسری قوم پر برتری رکھتی ہے تو اس مساوات کی بناء پر اس کی برتری کو رد نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی دوسری اقوام پر فضیلت کا بار بار ذکر فرمایا ہے اور یہ فضیلت ان کو اس زمانہ میں اپنی تجربہ کاری اور رسوخ کی وجہ سے کل عرب کی اقوام پر ضرور حاصل تھی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُو البخاري كتاب المناقب باب یعنی المناقب وقول الله تعالى يايها الناس إنا خلقنكم من ذكر وانثى.جو لوگ جاہلیت میں معزز سمجھے جاتے تھے اب بھی معزز سمجھے جائیں گے.اگر دین کے واقف ہو جائیں.پس نسلی امتیاز کو گو اسلام نے مٹایا ہے مگر یہ اجازت نہیں دی کہ اس دلیل کی بناء پر کسی قوم کے ایسے امتیازات کو بھی مٹا دیا جائے جو اسے کسی اور وجہ سے حاصل ہو چکے ہوں.مثلاً خود قرآن کریم نے نبوت و کتاب کے فیضان کو آل ابراہیم میں مخصوص کر دیا ہے اور جیسا کہ فرماتا ہے : وجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النبوة و الكتب العنكبوت میں لینی ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب منفرد کردی.

Page 328

انوار العلوم جلد ۵ ٣٠٨ اسلام اور حریت و مساوات اور کوئی نہیں کہ سکتا کہ نسلی امتیاز چونکہ منع ہے.اس لئے یہ حکم بھی نا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالی کا یہ فیضان اس لئے حضرت ابراہیم کی نسل کے لئے خاص نہیں کیا گیا کہ وہ کسی خاص قوم میں - تھے بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی نیکی کو دیکھ کران کے ساتھ ایک دائمی عہد باندھ دیا تھا جس میں دوسروں کا کوئی نقصان نہ تھا اور حضرت ابراہیم کی عزت افزائی تھی.دوسروں کا نقصان اس لئے نہیں کہ ان کے لئے بھی ترقی کے تمام دروازے کھلے ہیں.اور ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اس فیضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ کوئی شخص حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ایک مہر تاباں سے روشنی لئے بغیر بارگاہ الہی تک پہنچ ہی نہیں سکتا.کیا اسلام نے مالی مساوات قائم کی ہے تیری قسم کی مساوات خواجہ صاحب نے ماتی مالی مساوات بتائی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے یہ احتیاط کی ہے کہ غرباء کے ترقی کے راستے بند نہ ہو جائیں.اور کوئی ایسی روک ان کی ترقی کے راستہ میں نہ آجائے جس کے سبب سے وہ آگے بڑھ ہی نہ سکیں.لیکن یہ استدلال کہ اسلام نے اموال کے جمع کرنے سے منع کیا ہے اور زائد مال کے تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے ایک ظلم عظیم ہے اور اسلام کی تعلیم میں ایک خطر ناک تحریف ہے.یہی وہ عقیدہ ہے جو اسلام میں تفرقہ اور شقاقی ڈالنے کا سب سے پہلا ذریعہ بنایا گیا تھا.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں مفسدوں نے اسی خیال کو لوگوں میں پھیلا نا شروع کیا تھا کہ صحابہ میں بڑے بڑے مالدار ہیں اور دوسروں کے حقوق مار کر یہ لوگ مالدار ہو گئے ہیں اور اس خیال کو تقویت دینے کے لئے ان لوگوں نے حضرت ابو زر کو اگہ بنایا تھا.حضرت ابو ذر ایک غریب مزاج آدمی تھے اور زیادہ مال پاس رکھنے کو پسند نہیں کرتے تھے.مگر وہ دوسروں کو بھی کچھ نہیں کہتے تھے.ان شریروں نے ان کو جا کر اکسایا کہ دیکھوگ کس طرح مال و دولت جمع کرنے میں لگ گئے ہیں.اور اس قدر ان کو جوش دلایا کہ وہ سارا دن سونا ہے کر اسی جستجو میں پھرتے رہتے.جہاں کوئی صحابی مالدار ملا اس کو پکڑ بیٹھتے کہ تمہارے پاس مال کیوں ہے ؟ اور لوگوں کو انہوں نے اس قدر دق کیا کہ آخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حکماً ان کو مدینہ بلوا نا پڑا.اور آخر عمر تک وہ مدینہ کے پاس ایک گاؤں میں مقیم رہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کثرت سے سخاوت کیا کرتے تھے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ اس بات کا تعہد نہیں کیا کرتے تھے کہ ضرورت سے زیادہ مال کہتا ہے تا اسے اسی وقت غرباء میں تقسیم کر دیں.بیسئلہ تو عبداللہ بن سباء یہودی کا ایجاد کردہ تھا اور سوائے حضرت ابوذر کے جو اپنی فقیرانہ طبیعت کے سبب سے اس کے اصل مطلب کو نہ عله تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۵۸ تا ۲۸۶۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 329

انوار العدم جلد ۵ ٣٠٩ اسلام اور حریت و مساوات سمجھ کر اس کے دھوکے میں آگئے اور کسی صحابی نے بھی اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کیا.حالانکہ اس وقت ان میں بڑے بڑے صحابہ موجود تھے جو حضرت ابو سے زیادہ سابق اور زیادہ فقیہ اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے زیادہ مقرب تھے.باقی رہا یہ کہنا کہ اسلام نے زکوۃ کے نکالنے کا حکم دیا ہے.اس زکوۃ مقرر کرنے کی وجہ سے معلوم ہوا کہ اسلام مال کی قسیم سے معلوم ہوا کہ اسلام مال کی تقسیم کا حکم دیتا ہے ایک غلط استدلال زکوۃ کے مسئلہ سے تو صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ غرباء کی مدد اسلام نے فرض مقرر کی ہے نہ یہ کہ مال کو تقسیم کرنا اسلام نے فرض مقر کیا ہے.خود ز کوۃ کی تعیین ہی اس امر کا ثبوت ہے کہ مال کی تقسیم شریعیت نے مقر نہیں کی.کیونکہ زکوۃ تو مثلا مال پر چالیسواں حصہ ہوتی ہے.اور زراعت پر عشر اور نصف عشر ہوتی ہے.لیکن اید اس نسبت سے زیادہ ہوتی ہے تو تقسیم مساوات رکھنے والی کہاں ہوئی ہے پھر زکوة آگے کئی آدمیوں میں تقسیم ہو گی کچھ عملہ زکوۃ پر خرچ ہو جائے گی.پس زکوۃ کے مسئلہ سے مال میں مساوات رکھنے کا مسئلہ ثابت کرنا ایک سخت تعدی ہے.خواجہ صاحب نے اپنے اس دعوی کی تصدیق میں کچھ آیات بھی لکھی ہیں عفو کے کیا معنی ہیں اور جس طرح تمام مضمون میں انہوں نے صرف آیات کے درج کرنے سے غرض رکھی ہے یہ نہیں دیکھا کہ وہ آیات وہاں چسپاں بھی ہوتی ہیں یا نہیں ؟ یہاں بھی ایسا ہی کیا ہے کہ کئی آیات اس مضمون کی درج کی ہیں کہ جو کچھ تم کو خدا تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، حالانکہ خداتعات کی دی ہوئی نعمتوں میں سے غرباء کو بھی حصہ دینا یہ اور بات ہے اور اپنے اخراجات نکال کر غرباء کو باقی مال تقسیم کر دینا اور بات ہے.دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.کئی آیات اس امر کے متعلق نقل کر دی ہیں کہ جنگوں میں حاصل شدہ مال کسی طرح تقسیم کرنے چاہئیں.حالانکہ ان اموال کا زیر بحث مسئلہ سے کچھ تعلق ہی نہیں صرف ایک آیت ہے جس سے کچھ استدلال ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے.وَيَسْلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفُو (البقرة : ۲۲۰) عضو کے کئی معنی ہیں جن میں سے ایک معنی زیادہ کے بھی ہیں ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہ دے کہ جو بچ جائے اسے خرچ کر وہ بعض لوگوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس میں جو مال بھی ضرورت سے زائد ہو اس کے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ معنے روایت اور درایت دونوں کے خلاف ہیں.مضرین نے اس آیت کے کئی معنے لکھے ہیں.ایک تو یہ کہ اس جگہ جہاد میں اموال خرچ کرنے کا حکم ہے صدقات مراد نہیں.اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جب جہاد

Page 330

اسلام اور تربیت و مساوات در پیش ہو تو اپنی ضروریات سے زائد مال تمام کا تمام جہاد کے لئے دے دو.اور ان معنوں سے مساوات ثابت نہیں ہوتی کیونکہ یہ مال غرباء میں تقسیم نہ کیا جائے گا بلکہ دشمن کے مقابلہ میں خرچ ہو گا.دوسرے معنی اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ یہ جہاد کا ذکر نہیں بلکہ صدقات کا ذکر ہے.جو لوگ صدقات کا ذکر بتاتے ہیں وہ بھی اس آیت کے کئی معنی کرتے ہیں بعض تو کہتے ہیں کہ عضو کے معنی ضروریات سے زائد بچے ہوئے مال کے ہیں.شروع اسلام میں سال بھر کے نفقہ سے جو بیچ رہے اس کے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حکم تھا.مگر آیت زکوۃ کے نازل ہونے پر یہ حکم موقوف ہو گیا.ان لوگوں کے نزدیک گویا یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے.دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ زکوۃ کے متعلق حکم ہے اور مجملاً بیان ہوا ہے.اس کی تفصیل دوسری جگہوں سے معلوم ہوتی ہے.ایک اور جماعت عفو کے معنی اس مال کے کرتی ہے جس کا خرچ کرنا بوجھ نہ معلوم ہو اور جس کے خرچ کرنے سے جائداد تباہ نہ ہو جائے.بعضوں نے کہا ہے کہ اس کے معنی درمیانی خرج کے ہیں یعنی نہ بالکل کم خرچ کرو نہ حد سے زیادہ خرچ کرو.اور بعضوں نے کہا ہے کہ عفو کے معنی بہتر اور پاک مال کے ہیں.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اچھے اور پاک مال میں سے خرچ کرو یہ نہ خیال کرو کہ پرانی اشیاء یا دوسروں کے مال اُٹھا کر دے دو تو تم صدقہ کے حکم کے بجالانے والے ہو جاؤ گے.بعضوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ صدقہ اور خیرات خوب دل کھول کر کرو.ضرورت سے زائد مال تقسیم کر ان تمام معانی سے جو مفسرین نے کئے ہیں.آپ کے دینے کا اسلام نے حکم نہیں دیا معنوں کی تصدیق نہیں ہوتی.جس جماعت نے اس آیت کے یہ معنی کئے بھی ہیں کہ جو ضرورت سے زائد بچے اسے خرچ کر دو.اس نے بھی یا تو اسے جہاد پر چسپاں کیا ہے یا منسوخ قرار دیا ہے اور وہ اس بات پر مجبور بھی تھے.کیونکہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیم کے عمل کو اور امت اسلامیہ کے طریق کو اس کے خلاف دیکھتے تھے.احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی بات کی تائید فرماتی ہیں کہ اپنے اخراجات نکال کر باقی مال تقسیم کر دینا اسلامی حکم نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : يَجِلُ اَحَدُكُمْ بِمَالِهِ يَتَصَدَّقُ بِهِ وَيَقْعُدُ يَتَكَفَّفُ النَّاسُ إِنَّمَا الصَّدَقَةُ على ظهر عنى ددار می كتاب الزكوة باب النهي عن الصدقة بجميع ما عند الرجل) تم میں سے بعض اپنا سارا مال صدقہ کے لئے لے آتے ہیں اور پھر لوگوں کے آگے سوال کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہیں.صدقہ زائد مال سے ہوتا ہے.اسی طرح فرماتے ہیں کہ

Page 331

انوار العلوم جلد ۵ ۳۱۱ اسلام اور حریت و مساوات إنَّكَ أَن تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَا ، خَيْرٌ مِنْ اَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ ربخاری کتاب الجنائز باب رثاء النبي صلى الله عليه وسلم سعد بن خولة ) یعنی اگر تو اپنے ورثاء کو دولتمند چھوڑ جائے تو یہ اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ ان کو غریب چھوڑ جائے کہ لوگوں کے آگے سوال کے لئے ہاتھ پھیلاتے پھریں.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص نے رسول کریم سے دو ثلث مال کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی.مگر آپ نے اس سے منع فرمایا.پھر انہوں نے آدھا مال تقسیم کر دینا چاہا تو اس سے بھی منع فرمایا.پھر انہوں نے میرے حصہ کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی تو اس حصہ کی آپ نے اجازت دے دی.مگر ساتھ ہی فرمایا - الثلتُ وَالثَّتُ كثير بخاری کتاب كَثِيرا الجنائز باب رثاء النبي صلى الله عليه وسلم سعد بن خولة ) یعنی تیسرے حصہ کی وصیت کر دو گو مکت بھی بہت ہے.غرض یہ خیال کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ جو مال ضرورت سے زائد بچے اسے تقسیم کر دینا چاہئے.بالکل خلاف اسلام اور خلاف عمل صحابہ ہے کہ جن میں سے بعض کی وفات پر لاکھوں کروڑوں روپیہ ان کے ورثاء میں تقسیم کیا گیا تھا.اور اگر یہی حکم تھا تو پھر زکوۃ کا حکم دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی.جب سب مال جو ضرورت سے زائد ہو تقسیم کر دینے کا حکم ہے تو پھر زکوۃ کے مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی.اور ضرورت سے بیچے ہونے کی اصطلاح ضرورت سے زائد مال کی اصطلاح مسم ہے خود ہم ہے بعض لوگ جو کچھ ان کو مل جائے گولا کھوں روپیہ کیوں نہ ہو اس کو خرچ کر دیتے ہیں اور ضرورت سے زائد ان کے نقطہ خیال میں کوئی مال ہوتا ہی نہیں.بعض لوگ اپنا سب مال تجارت وغیرہ میں لگائے رکھتے ہیں.ان کے پاس بھی ضرورت سے زیادہ نہیں بچ سکتا.عقلاً بھی یہ خیال بالکل باطل ہے کیونکہ جب تک ایک جماعت ایسے لوگوں کی نہ ہو جو مالدار ہوں عام ملکی بہبودی ہو ہی نہیں سکتی اور غرباء کو بھی نقصان پہنچتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض روحانی لوگ اپنے اموال کو حتی الوسع غرباء کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں اور اسے اسلام نے منع نہیں کیا بلکہ پسند کیا ہے.مگر یہ بات غلط ہے کہ اسلام نے اس امر کا حکم دیا ہے کہ دنیا میں مالی مساوات قائم کی جاوے اور ضرورت سے زیادہ مال لوگ ضرور ہی خرچ کر دیں.اگر یہ اصل تسلیم کیا جائے تو یہ اصل بھی مقرر کرنا پڑے گا کہ ضرورت سے مراد عام حالت مکی کے مطابق اخراجات

Page 332

انوار العلوم جلد اسلام اور حریت و مساوات ہوں گے.ورنہ اگر اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کا خود فیصلہ کرے تو پھر بھی مساوات نہیں رہے گی.کوئی شخص اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں اور عمدہ سے عمدہ کپڑوں اور وسیع اور کھلے اور آراستہ اور پیراستہ مکانوں اور خوشنما چمنوں اور میوہ دار باغوں کے لئے روپیہ رکھ کر باقی اگر بچے گا تو غرباء میں بانٹ دے گا اور غریب بچارے گاڑھا پہننے اور جھونپٹریوں میں رہنے پر مجبور ہوں گے.اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے احکام کے مطابق یہ فرض ہے ہر مسلمان حکومت کا کہ اس کے ملک کے باشندے فاقہ سے نہ رہیں، اور انکے قابل ستر مقامات کے لئے کپڑا یا کیا جاے گویا انسانی زندگی کی حفاظت پوری طرح ہو اس کے لئے وہ امراء کے مطابق حکم شریعت مال لے کر غرباء پر خرچ کرتی ہے اور اس سے زیادہ جو کچھ خرچ کیا جائے وہ امراء کی اپنی مرضی پر ہے.اگر نہ کریں تو جرم نہیں.ہاں اگر زکوۃ دینے کے بعد بھی ایک شخص فاقہ پر مرتا ہوا کسی کو نظر آئے تو اس کا فرض ہے کہ اس کی جان بچانے کی کوشش کرے.اس دعوئی کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے جو میں پہلے نقل کر چکا ہوں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اسلام کیا ہے تو آپ نے اسے اسلام کے اصولی احکام بتائے.اور ان میں زکواہ کا مسئلہ بھی بیان کیا.سب کچھ سن کر اس شخص نے کہا کہ میں اس سے نہ زیادہ کروں گا نہ کم.اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے اس قول کو پورا کر دیا تو یہ کامیاب ہوگیا.ربخاری کتاب الایمان باب الركوة من الاسلام اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غرباء کی مدد کے لئے زکوۃ سے زیادہ دینا فرض نہیں.اگر کوئی زیادہ دے تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے.خواجہ صاحب نے عظیمت اور فٹے کے مال کی تقسیم میں مساوات کہاں ہے منیر اعوان میں مساوات ثابت کرنے کے لئے نیم اور نے اور نل کے تعلق چند آیات بھی کھی ہی بین و علوم انسے کیا نتیجہ نکالا ہے.غنیمت کے متعلق انہوں نے یہ آیت لکھی ہے.واعلموا أَنَّمَا غَنِمْتُهُ مِنْ شَى فَاَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرُى وَاليَتمى وَالمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ (الانفال: ۴۲ ) یعنی یاد رکھو کہ جو مال تم کو جنگ میں میں ان میں سے پانچواں حصہ خدا اور اس کے رسول اور قریبیوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے.اس آیت سے اگر کوئی حکم بھتا تھا تو صرف یہ کہ اسلام نے ہر ایک موقع پر غرباء کی مد کو بدانک

Page 333

انوار العلوم جلد ۵ اسلام اور حرمیت و مساوات رکھا ہے اور حکماً ان کے لئے ایک حصہ اموال کا علیحدہ کر دیا ہے.نہ یہ کہ ملک کی تقسم میں سات رہی ہے.- (P: اسی طرح ایک آیت نقل کے متعلق لکھی ہے :.قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالتَرسُيول (الانفال : ٢) کہہ کہ انفال اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں.اس سے نہ معلوم انہوں نے تقسیم اموال میں مساوات کا مسئلہ کہاں سے نکال لیا ہے یا کیونکہ اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ انفال خدا اور اس کے رسول کے ہیں نہ کہ یہ الفعال تمام بنی نوع انسان میں برابر تقسیم ہونے چاہئیں.اس آیت میں تو لوگوں کے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ انفال کیونکر تقسیم ہوں گے اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا ہے کہ یہ خدا اور اس کے رسول کا کام ہے کہ جنگ میں آنے والے اموال کو تقسیم کریں.تم حکومت کے معاملات میں دخل کیوں دیتے ہو.اپنی اصلاح کی فکر کرو اور ان باتوں میں نہ پڑو.ایک آیت خواجہ صاحب نے نئے کے متعلق لکھی ہے.اس سے بھی میں نہیں سمجھا کہ مساوات کیونکر نکلتی ہے.یہ آیت اس طرح ہے.ما أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ القُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبَى وَاليَتمى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَى لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ (الحشر) یعنی جو مال دشمن کا کہ بغیر جنگ کے قبضہ میں آئے وہ اللہ اور اس کے رسول اور قریبوں بتائی اور مساکین اور مسافروں کا حق ہے تاکہ دولت تم میں سے دولتمندوں کے درمیان نہ رہے.اس آیت میں مساوات کا کہاں ذکر ہے.اس سے تو صرف یہ نکلتا ہے کہ جس مال کے لئے جنگ نہ کرنی پڑے خود بخود دشمن سونپ دے.یا اور کسی طرح پالا لڑے قبضہ میں آئے وہ بطور حق کے تقسیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اشاعت اسلام اور امام اسلام اور اس کے قریبیوں اور غریبوں ، قیموں اور مسافروں کے لئے حکومت ہی کے پاس رہے گا.اس میں لوگوں کے اموال کا کیا ذکر ہے.زید اور بکر کے مال کا تو بیاں ذکر ہی نہیں.اس میں تو حکومت کے اموال کی تقسیم کا ذکر ہے اور گی لا تكون دولة بين الأغنياء منكف سے بتایا ہے کہ امراء کو یہ مال نہ دینا چاہیے.کیونکہ یہ مال حکومت کا ہے اور بوجہ خود مالدار ہونے کے ان کا حق نہیں ہے کہ اس مال میں سے لیویں.نہ اس جگہ مساوات کا ذکر ہے نہ عدم مساوات کا.بلکہ ایک طرح تو کہہ سکتے ہیں کہ عدم مساوات ہوگئی.کیونکہ ایک حصہ آبادی کو اس مال کے پانے سے روک دیا گیا ہے.

Page 334

انوار العلوم جلد ۳۱۴ اسلام اور حریت و مساوات جہاد کا بے تعلق ذکر اور حضرت مسیح موعود پر حملہ خواجہ صاحب نے اپنے مضمون میں بلا کسی ظاہری تعلق کے جہاد کا بھی ذکر کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود پر حملہ کیا ہے کہ آپ جہاد کے مخالف تھے.لیکن علاوہ اس کے کہ یہ بات بالکل بے تعلق ہے غلط بھی ہے.حضرت مسیح موعود نے کبھی نہیں تحریر فرمایا کہ باوجود جہاد کا موقع ہونے کے جہاد جائز نہیں بلکہ یہ تحریر فرمایا ہے کہ یہ موقع جہاد کا نہیں کیونکہ جہاد کی شرائط اس وقت نہیں پائی جاتیں.مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ اس مضمون کا جہاد کے ساتھ تعلق کیا ہے؟ خواجہ صاحب کے تمام مضمون کے پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پریشان خیالات کا ایک طوفان اٹھا ہے جو انہوں نے کاغذ کی نذر کر دیا ہے.آنتیں ہیں تو ان کا اصل مضمون سے کچھ تعلق نہیں.باتیں ہیں تو وہ مقصد سے دور.ان کو تو خیر کسی وجہ سے جوش آگیا ہو گا.مجھے ایڈیٹر صاحب وکیل پر تعجب ہے که با وجود ایک فہمیدہ اور تجربہ کار آدمی ہونے کے بلا نظر ثانی کرنے کے انہوں نے یہ مضمون شائع کس طرح کر دیا ؟ جس حصہ مضمون کو دیکھو وہی سوال از آسمان اور جواب از ریسمان کی مثال ہے.خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی میں مضمون ختم کرنے سے پہلے یہ کے بغیر نیں رہ سکتا کہ خواجہ صاحب نے اپنے مضمون میں مناسب ادب سے بھی کام نہیں لیا.حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلام کا ذکر بلاوجہ تو وہ لائے ہی تھے.اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی انہوں نے ایک جگہ ایسا لفظ استعمال کیا ہے جو سخت ہتک آمیز ہے.لکھتے ہیں کہ مطلق العنان حکومت صرف اللہ تعالی ہی کے لئے خاص ہے مطلق العنان کے معنے ہوتے ہیں جس کی باگ چھوڑ دی جائے.اس قسم کا ذلت پر دلالت کرنے والا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کرنا ایک مومن کی شان سے بعید ہے بے شک استعارہ اور مجاز کلام میں ہوتا ہے.لیکن وہ لفظ جو انسانوں کے لئے بھی دراصل بینک کا موجب ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے لئے استعمال کرنا سخت تعجب انگیز ہے اگر خواجہ صاحب کی نسبت کوئی شخص مطلق العنان کا لفظ استعمال کرے تو وہ ضرور اس کو بُرا منائیں گے.پھر نہ معلوم خدا تعالیٰ کے لئے یہ لفظ انہوں نے کیوں استعمال کیا.مجازاً ہی کوئی لفظ استعمال کرنا تھا تو ایسا لفظ استعمال کرتے جو ظلم اور نخودسری پر دلالت نہ کرتا.آخر میں میں پھر خواجہ صاحب کو نصیحت کرتا ہوں کہ کسی کا خواجہ صاحب کو نصیحت مضمون بغور پڑھنے سے پہلے اس کا جواب نہ دینے بیٹھے جایا کریں اور قرآن پر زیادہ تقدیر کی عادت ڈالیں.قرآن کریم کا مطالعہ نہ کرنا بھی عیب ہے اور اس کا

Page 335

انوار العلوم جلد ۵ ۳۱۵ اسلام اور حریت و مساوات غلط استعمال اور اس کی آیات کو بے محل طور پر مضمون میں درج کرنا یہ بھی عیب ہے میرے خط میں حریت و مساوات کی تمام اقسام کا انکار نہیں کیا گیا.بلکہ سائل سے ان کی تعریف پوچھی گئی ہے.میں لہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ اسلام نے کس حد تک اور کن معنوں میں حریت و مساوات کی تعلیم دی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے احکام کے مطابق اسلامی حریت کے اس حصہ کوجس کا قیام میری ذات سے متعلق ہے قائم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں.مگر سائل کے جوش اور تعصب کو دیکھ کر میں نے چاہا تھا کہ اس نے حریت و مساوات کی جو غلط تعریف اپنے ذہن میں رکھی ہوئی ہے اس کی تفصیل پہلے اسی کے قلم سے کروالوں پھر اس کو جواب دوں.آپ نے نہ اس کے جواب کا انتظار کیا نہ خود اس کے قائم مقام بن کر ان الفاظ کی تفسیر اپنے خیالات کے مطابق کی.بلکہ ایک ویسمی بات کا جواب دینے بیٹھ گئے عقلمند انسان کا کام نہیں ہوتا کہ سم الفاظ کا جواب دے.جب تک حریت و مساوات کی تعریف سائل نہ کر لیتا میرا حق نہ تھا کہ میں اس کے سوالات کا تفصیلی جواب دیتا.اور نہ میرا فرض تھا کہ حریت و مساوات کی پہلے خود تشریح کرتا اور پھر اسے بتاتا کہ ان ان معنوں میں فلاں فلاں محل پر حریت و مساوات کا قائم کرنا اسلامی احکام کے مطابق ہے اور فلاں فلاں معنوں میں فلاں فلال محل پر حریت و مساوات کا قائم کرنا دین یا عقل یا قواعد تمدن کے خلاف ہے.اور یہ طوالت ایک خط برد است نہیں کر سکتا تھا.پس میں نے وہ طریق اختیار کیا جو اس موقع پر بہترین ہوتا ہے کہ خود سائل سے ہی دریافت کر لیا کہ وہ حریت و مساوات کے کن معنوں اور اس کے کسی محل پر استعمال کے متعلق مجھے سے دریافت کرتا ہے جس جگہ بحث کا رنگ پیدا ہو یا بحث کا خطرہ ہو اس جگہ مسم سوال کا جواب زیر بحث مسئلہ کو اور پیچ دار بنا دیا کرتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص کسی سے دریافت کرے کہ کیا کسی سے جبراً کوئی حکم منوانا بھی جائز ہے اور وہ آگے سے جواب دے دے کر نہیں.تو اگلا آدمی اگر تو تعصب سے علیحدہ ہے اور جوش میں بھرا ہوا نہیں تو وہ اس کا مطلب سمجھ جائے گا لیکن اگر سائل غصہ کی حالت میں ہے اور دوسرے پر الزام قائم کرنے کی فکر میں ہے تو وہ آگے سے کہ اُٹھے گا.کیا بچوں سے جبراً بات منوائی نہیں جاتی.کیا حکومت بعض باتیں جبراً نہیں منواتی ؟ کیا پاگلوں سے جبراً بات نہیں منوائی جاتی ؟ اور خواہ مخواہ بات کو لمبا کر دے گا چونکہ جن صاحب کے خط کا میں نے جواب لکھا ہے ان کی طرز تحریر سے بھی یہی ثابت ہوتا تھا کہ وہ محض الزام دینے کی فکر میں ہیں.اس لئے ان سے اسی قسم کا برتاؤ کیا گیا جس کے وہ ستحق تھے اور پہلے ان سے ان الفاظ کے معنے اور ان کے استعمال کا محل دریافت کیا گیا تھا تاکہ ان کے جواب سے ہی ان کی کمزوری ان پر ثابت

Page 336

انوار العلوم جلد ۵ کر دی جائے.اسلام اور حریمت و مساوات آخر میں خواجہ صاحب کو یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بلا وسیع طور پر اسلام کے احکام پر نظر ڈالنے کے اسرار شریعت بیان کرنے کی کوشش نہ کیا کریں.اسرار شریعت بیان کرنا اُن کا کام ہے جن کی نظر وسیع ہو.اب یہی وراثت میں مساوات کی حکمت جو انہوں نے بیان کی ہے اگر غیرمسلم لوگوں میں وہ اس کو بیان کرنے بیٹھتے تو کس قدر شبکی اور شرمندگی کی بات ہوتی.اگر خود پوری طرح کسی مسئلہ کا علم نہ ہو تو واقف کار لوگوں سے دریافت کر لینا چاہئے.اس میں ہتک کی کوئی بات نہیں.عالم سے علم حاصل کرنے میں ہرگز کسی قسم کی ہتک نہیں ہوتی.وَاجِرُ دَعُومِنَا إِنِ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.خاکسار میرزا محمود احمد الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۰ء) له أنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَ مليكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِهِ (ترندی ابواب الايمان باب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ جِبْرَئِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِيْمَانُ وَالْإِسْلَامُ)

Page 337

انوار العلوم جلد ۵ كاسر اسلام اور حریت و مساوات د تحریر فرموده حضرت فضل عمر خلیفہ اسیح الثانی ۶ار مارچ ۱۹۲۱ء) اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم ، ومساوات بسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہے امير کچھ حصہ مضمون کا لکھا تھا کہ مجھے پہلے آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے باہر جانا پڑا.پھر لاہور اور کوٹلہ کا سفر پیش آگیا اور بعض اور اہم کام بھی پیش آگئے اس لئے اس مضمون کے مکمل کرنے میں دیر ہو گئی.اب سفر سے آکر اس جواب کو شائع کرتا ہوں.خاکسار مرزا محمود احمد (۱۶ مارچ ۱۹۲۱ء) ا حباب کو یاد ہوگا کہ الفضل میں میرا ایک خط چھپا تھا جس میں ایک صاحب کے چند سوالات کا جواب تھا.ان سوالات کا مدعا یہ تھا کہ حریت و مساوات اسلام کے بنیادی اصول ہیں.اور خلفاء اور اماموں کا فرض ہے کہ وہ چھوٹی قوموں کو ظالموں کی دستبرد سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں اور کیا یورپ کی بعض حکومتیں چھوٹی حکومتوں کو نگل نہیں چکیں ؟ اور کیا ان کا یہ منشا نہیں کر اسلامی حکومتوں کی جگہ مسیحی حکومتیں قائم کر دیں ؟ اور کیا انگریزوں نے ہندوستان میں مساوات قائم رکھی ہے ؟ اور کیا انگریز ہندوستانیوں سے بُرا سلوک نہیں کرتے ؟ پھر آپ نے اس کے رفع کرنے کے لئے کیا کوشش کی ہے ؟ میں نے ان سوالات کے جواب ان صاحب کو مختصر طور پر لکھوا دیئے اور یہ بھی لکھا کہ حریت و مساوات اسلام کے احکام کے مطابق کیا حیثیت رکھتے ہیں اسکا جواب اسی صورت میں دیا جا سکتا ہے جب پہلے یہ معلوم ہو جائے کہ سائل کے نزدیک ان دونوں الفاظ کی کیا تشریح ہے ؟ ممکن ہے کہ بعض صورتوں میں یہ اسلامی احکام میں داخل ہوں اور بعض میں داخل نہ ہوں.میری اس تحریر سے یہ غرض تھی کہ جب ان

Page 338

انوار العلوم جلد ۳۱۸ اسلام اور حریت و مساوات الفاظ کی وہ تشریح کریں گے تو کئی قسم کی حریت اور کئی قسم کی مساوات جسے وہ اس وقت جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں خود ان کو بڑی لگنے لگے گی اور خود ان ہی کے الفاظ سے ان کا سوال حل ہو جائے گا.خواجہ عباداللہ صاحب کا مضمون اس مضمون کے شائع ہونے پر اصل سائل صاب تو نہ بولے بیکن خواجہ محمد عباداللہ صاحب اختر نے ایک مضمون وکیل میں شائع کرایا جس کا مطلب یہ تھا کہ گویا میں نے حریت و مساوات کو نا جائز قرار دیا ہے اور بعض آیات سے بعض قسم کی حریت اور مساوات ثابت کرنی شروع کی.جیسا کہ ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے یہ فعل ان کا جلد بازی پر مبنی تھا.وہ اس بات کا جواب دے رہے تھے جو میں نے نہ لکھی تھی.اور بعض ایسی باتیں ثابت کر رہے تھے جن کا ئیں نے کبھی اور کہیں انکار نہ کیا تھا.خواجہ صاحب کی درشت کلامی میں نے ان کو اپنے مضمون مندرجہ افضل اور دسمبر ۱۹۲۰ میں ان کی اس غلطی پر متنبہ کیا.اور ان کے مضمون کی بعض غلطیوں پر بھی آگاہ کیا اور جیسا کہ ان لوگوں کا جوغلطی پر ہوتے ہیں اور اپنی اصلاح کرنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں خاصہ ہے انہوں نے اس مضمون کے جواب میں نہایت گندہ دہنی سے کام لیا ہے اور مختلف پیرایوں میں گالیاں دے کر اپنا غصہ نکالنا چاہا ہے.اور سب سے عجیب بات یہ ہے که با وجود دوبارہ یاد دلائے جانے کے پھر بھی اسی رنگ میں مضمون لکھتے چلے گئے ہیں کہ گویا میں حریت و مساوات کا ہر رنگ اور ہر شکل میں مخالف ہوں.حالانکہ میں نے ابھی اس مضمون کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار بھی نہیں کیا.اور بار بار یہی لکھا ہے کہ ان الفاظ کی تشریح ہونے پر میں بتا سکتا ہوں کہ آیا ان امور کا خیال رکھنا اسلام کے مطابق ہے یا مخالف.خواجہ صاحب کے مضمون کی حقیقت خواجہ صاحب نے اپنے تازہ مضمون میں جہاں پہلے مضمون کی طرح بے سرد پا اور غیر متعلق باتوں کی بھر مار کی ہے وہاں کئی ایسی باتیں میری طرف منسوب کی ہیں جو میں نے کبھی نہیں لکھیں اور غلط باتیں میری طرف منسوب کر کے آیات قرآنی اس کی سند میں لکھنی شروع کر دی ہیں.اور وہ بھی ایسے تنک آمیز طریق پر کہ کوئی سچا مسلمان اس طریق کو برداشت نہیں کر سکتا.کیونکہ بالکل بے محل آیتوں کو جمع کر دیا گیا ہے اور اس قدر تعلی سے کام لیا ہے کہ ہم کے سوا وہ اپنا ذکر ہی کرنا پسند نہیں کرتے.گو بعض دوستوں نے ان کی اس تعلی اور غلط مبحث کی عادت اور سخت کلامی کو دیکھ کر مجھے مشورہ دیا ہے کہ جبکہ وہ اصل مضمون کی طرف نہیں آتے اور خواہ مخواہ من گھڑت باتوں کا جواب دینے میں مشغول ہو جاتے

Page 339

اسلام اور حریت و مساوات میں تو مجھے ان کا جواب لکھنے کی ضرورت نہیں.ہماری جماعت کے اور کسی دوست کو ان کے مضامین کے جواب دینے پر منظر کر دیا جائے لیکن چونکہ ممکن ہے کہ خواجہ صاحب جان بوجھ کر اس راستہ پر نہیں چل رہے بلکہ وہ اپنے نفس کے دھوکا میں آئے ہوئے ہیں اس لئے میں ایک دفعہ پھر ان کو راشی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور امید ہے کہ اب وہ اس بے اصولے پن سے رکنے کی کوشش کریں گے جس کو وہ اختیار کئے ہوئے ہیں.اگر اب بھی انہوں نے بجائے اصل مطلب کی طرف آنے کے اسی طرح بے سروپا باتوں کی طرف توجہ کی تو ان کا جواب دینے کے لئے اور بہت سے احباب موجود ہیں جو اپنے اوقات میں سے کچھ ان کی خاطر بچا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سے علم اور سمجھ میں ہر طرح بالا ہیں.خواجہ صاحب کے اسلام کے خلاف خطر ناک عقائد سب سے پہلے تومیں پھر خواجہ صاحب کو اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس مضمون کا جواب وہ لکھنے بیٹھے ہیں اس کا ہرگز وہ مطلب نہیں جو وہ سمجھے ہیں.میں نے حریت و مساوات کے متعلق اپنی رائے ہرگز بیان نہیں کی.بلکہ سائل سے ان الفاظ کا مطلب پوچھا ہے تاکہ اس کی تشریح کے مطابق اس کو جواب دیا جائے.آپ بلا اس کے کہ میرا خیال آپ کو معلوم ہو ایک غلط بات کو میری طرف منسوب کر کے اس کا رد کرنے لگ گئے ہیں اور اس فعل میں ایسے خطرناک اور خلاف اسلام عقائد کو پیش کرنے لگ گئے ہیں کہ ان کو اگر صحیح تسلیم کر لیا جائے تو وہ اسلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور جو قرآن کریم میں بیان ہے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.جیسے یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر بھی نجات ہوسکتی ہے اور یہ کہ رسولوں کی بات کا ماننا بھی شرک ہے اور غیراللہ کی عبادت ہے.وغير ذلك مِنَ الخُرَافَاتِ الْوَاهِيَةِ وَالمَقَالَاتِ الكُفْرِيةِ - اور باوجود اس کے میری بیان کردہ باتوں کو ضلالت اور کفر اور فستق ثابت کرنے پر زور دیتے ہیں.مجھے اس جگہ ان مسائل پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ ان سے میرے مضمون کا کچھ تعلق نہیں.آپ نے تو غالباً بات کو مشتبہ کرنے کے لئے جو مسئلہ بھی سامنے آیا ہے.اسے اپنے مضمون میں داخل کر دیا ہے.مجھے اس امر میں آپ کی اتباع کی ضرورت نہیں.اور نہ اس طرح کسی امر کا تصفیہ ممکن ہی ہے.اس کے بعد میں خواجہ صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ حقی حق و باطل ظاہر ہو جاتا ہے کبھی جیلوں اور بہانوں سے نہیں مل سکتا.نہ باطل پردوں

Page 340

۳۲۰ اسلام اور حریت و مساوات کے نیچے چھپ سکتا ہے جقی بھی ظاہر ہو کر رہتا ہے اور باطل بھی.پس خواہ کیسا ہی اختلاف ہو اور کسی کا بھی مقابلہ ہو امانت کو کبھی ترک نہیں کرنا چاہئے.دیانتدار انسان کا خاصہ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کبھی باطل کی مدد نہیں لیتا اور ناجائز و سائل کو اختیار نہیں کرتا بلکہ دلیری اور حجرات سے حق کا اظہار کرتا ہے اور صداقت کو اختیار کرتا ہے خواہ اس میں اس کا کچھ نقصان ہی ہو گر مجھے افسوس ہے کہ آپ نے بعض وقت طیش میں آکر اس امر کو مدنظر نہیں رکھا اور لوگوں کو بھڑکانے کے لئے یا میری باتوں کو حقیر ثابت کرنے کے لئے میری طرف وہ باتیں منسوب کر دی ہیں جو میں نے نہیں کہیں.یا جن کے متعلق میں نے اس مضمون کے بالکل خلاف بیان کیا ہے جو آپ نے میری طرف منسوب کر دیا ہے.مثال کے طور پر میں چند امور کو بیان کرتا ہوں :- صحابہ کی ہتک کرنے کا غلط الزام (1) آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ میں نے صحابہ کراہ صحابہ کی ہتک کرنے کا غلط الزام اور تابعین کو شریروں سے تعبیر کیا ہے.خواجہ صاحب آپ جانتے ہیں اور وہ سب لوگ جو میرے خیالات سے واقف ہیں یا جنہوں نے میرا د مضمون پڑھا ہے جس کی طرف آپ اشارہ کرتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ ایک خطر ناک بہتان ہے.میں نے ہرگزہ کسی صحابی یا تابعی کو شریر نہیں کہا.بلکہ میں صحابی یا تابعی کو شریر کہنے والے یا سمجھنے والے کو شریر سمجھتا ہوں.میرے مضمون کا کوئی فقرہ یا جملہ نہ وضاحتاً نہ اشارتاً نہ کنایہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی صحابی یا تابعی شریر ہے اور باوجود اس کے آپ کا یہ بات میری طرف منسوب کرنا اس امر پر شاہد ہے کہ یا تو آپ کو حد درجہ کی موٹی عقل ملی ہے جس کی وجہ سے آپ دن کو دن اور رات کو رات بھی نہیں سمجھ سکتے یا آپ کو اپنی بات کی پیچ اور ضد میں حق و باطل کی بھی تمیز نہیں رہتی.ان دونوں باتوں کے سوا تیسری اور کوئی بات میرے خیال میں نہیں آتی جس پر میں آپ کے اس فعل کو معمول کروں میں نے جو کچھ لکھا تھا.وہ یہ تھا کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں بعض شریروں نے جو صحابہ کے اموال کو دیکھ نہیں سکتے تھے.لوگوں میں اس کے خلاف جوش پیدا کرنا شروع کیا اور حضرت ابوذر غفاری کو جو ایک غریب مزاج آدمی تھے اور زیادہ مال پاس رکھنے کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن دوسروں کو بھی مجبور نہیں کرتے تھے جاکر اکسایا کہ دیکھو لوگ کس طرح مال و دولت جمع کرنے میں لگ گئے ہیں اور ان کو اس قدر جوش دلایا کہ ان کو جہاں کوئی مالدار صحابی مل جاتا اس کو پکڑ بیٹھتے کہ تمہارے پاس مال کیوں ہے؟ اور بجائے معمولی نصیحت کے آپ نے اس امر میں تشدد سے کام لینا شروع کیا.آخر حضرت عثمان کو رپورٹ ہوئی اور آپ نے ان کو مدینہ بلوا لیا.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ نہ تو میں نے حضرت ابو ذر غفاری کو اور نہ

Page 341

انوار العلوم جلد ۵ ٣٢١ اسلام اور حرمیت و مساوات کسی اور بزرگ کو شریر کہا ہے.بکہ جو شریر تھے صرف ان ہی کو شہر پر کہا ہے.ہاں اگر خواجہ صاحب کے نزدیک وہ اشرار جو حضرت عثمانؓ کے وقت میں فتنہ پھیلانے کے موجب ہوئے تھے صحابہ کا درجہ رکھتے تھے تو پھر بے شک مجھ پر الزام آسکتا ہے لیکن اگر صحابی سے مراد وہ اشخاص ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جن کو آپ نے مومنوں میں شامل کیا تو پھر یہ ایک خطر ناک بہتان ہے کہ میں نے صحابہ تو الگ رہے کسی ایک صحابی کو بھی شریر کہا ہو اور مجھے افسوس ہے کہ خواجہ صاب نے خلاف تقویٰ اور دیانت مجھے پر ایسا گندہ الزام لگایا ہے.اگر ان کا یہ خیال ہے کہ اس طرح اس مضمون پر پردہ پڑ جائے گا جس پر انہوں نے قلم اُٹھایا ہے تو یہ ایک غلط خیال ہے کیونکہ باطل کبھی کامیاب نہیں ہوتا.انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے تابعیوں کو بھی تابعین کو شریر کہنے کا جھوٹا الزام شریر کہا ہے.تابعی کا لفظ تومیرے مضمون میں ہے ہی نہیں.مگر شاید انہوں نے تابعی کا استدلال اس سے کر لیا ہے کہ چونکہ میں نے حضرت عثمان کے زمانہ کے بعض لوگوں کو شریر کہا ہے اور اس وقت صحابہ کرائم کی چونکہ ایک کثیر تعداد موجود تھی اس لئے اس زمانہ کے سب لوگ تابعی ہو گئے.استدلال تو یہ بہت باریک ہے.مگر اس اصل کے ماتحت غالباً خواجہ صاحب ابو جہل اور غلبہ اور شیبہ کو بھی صحابی قرار دیتے ہوں گے کیونکہ انہوں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا اور عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھیوں کو تو ضرور وہ صحابہ میں شامل کرتے ہوں گے.کیونکہ وہ تو سالہا سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے تھے.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ - خواجہ صاحب پر مجھے تعجب ہے.وہ اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ تابعی تو اس شخص کو کہتے ہیں جو صحابہ کا سچا متبع ہو نہ یہ کہ ہرشخص جو صحابہ سے ملا ہو وہ تابعی ہے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں تابعی کی تعریف یہ فرماتا ہے کہ والّذینَ اتَّبَعُوهُم باحسان الاتو ته (1) جو لوگ صحابہ کے کامل متبع ہو گئے.پس وہی تابعی ہے جو صحابہ کا کامل منتبع ہے اور ان کے نقش قدم کا ب پر چلنے والا ہے.نہ کہ ہر وہ شخص جس نے صحابہ کو دیکھا ہو خواہ کس قدر ہی شریر اور مفسد کیوں نہ ہو.اگر خواجہ صاحب کو تاریخ سے ادنیٰ درجہ کی واقفیت بھی ہوتی تو وہ جان لیتے کہ میں نے جس جماعت کی طرف اپنے مضمون میں اشارہ کیا ہے وہ عبداللہ بن سباء اور اس کے پیروؤں کی جماعت ہے.اور ان کے شریر اور مفسد ہونے کے صحابہ بھی اور بعد کے بزرگان اسلام بھی قائل ہیں.چنانچہ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادة ابن الصامت جیسے معزز صحابیہ نے اسے مفسد اور منافق بِاِحْسَانِ

Page 342

انوار العلوم جلد ۵ ۳۲۲ اسلام اور حریت و مساوات قرار دیا ہے.اور اس کی تمام زندگی ہی اسلام میں فتنہ اور نفاق ڈالنے میں خرچ ہوئی ہے پس ایسے شہریر النفس انسان کو تابعی قرار دے کر مجھے پر یہ الزام لگانا کہ میں تابعیوں کو شہر پر کہتا ہوں سخت ظلم ہے.خواجہ صاحب کو شاید معلوم نہیں کہ یہی وہ شخص ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی محبت کا مسئلہ ایجاد کیا تھا اور لوگوں میں یہ بات پھیلاتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر دوبارہ اسی جسد عصری کے ساتھ تشریف لائیں گے.حافظ قرآن ہونے کا الزام کب لگایا گیا دوسرا اتمام خواجہ صاحب نے مجھ پر لگایا ہے کہ میں نے ان پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ حافظ قرآن نہیں ہیں ہر ایک شخص جس نے میرا مضمون پڑھا ہے جانتا ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے.میں نے اپنے مضمون میں ہر گز ان کے حافظ قرآن نہ ہونے پر ان کو الزام نہیں دیا.بلکہ میں نے صرف ان کو یہ نصیحت کی تھی کہ وہ قرآن کریم کی آیات کو کلید میں دیکھ کر بلا قرآن کریم میں سے نکالے کے اور ان کے مفہوم پر غور کئے کے یونسی اپنے مضمون میں درج نہ کر دیا کریں.کیونکہ جیسا کہ ان کے دونوں مضامین سے ظاہر ہوتا ہے ان کو یہ عادت ہے کہ بلا مطلب کا لحاظ کئے یونسی آیات درج کرتے چلے جاتے ہیں اور اس طرح آیات قرآنیہ کا بے محل استعمال کلام الہی کی شان کے خلاف ہے.وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید بہت سی آیات کا درج کر دینا علمیت کا ثبوت ہے.حالانکہ بے محل آیات قرآنیہ کا استعمال نہ صرف جہالت کا ثبوت ہے بلکہ کلام اللی کی بہنک ہے.مگر ان کا یہ شوق اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ انہوں نے لوگوں کی توجہ کو اس امر کی طرف پھیرنے کے لئے تمام ان آیات قرآنیہ کا ایک سلسلہ وار نمبر دیا ہے جو انہوں نے اپنے مضمون میں درج کی ہیں.حالانکہ ان میں سے بعض تو بے موقع استعمال کی گئی ہیں اور بعض ایسے مضامین کی تردید یا تائید میں بیان کی گئی ہیں کہ جن کو یا تو میں نے بیان نہیں کیا یا میں نے ان کا انکار نہیں کیا ہیں ایک کی تردید اور دوسرے کی تائید دونوں ہی عبت عمل ہیں.قرآن میں نسخ کے قائل ہونے کا غلط الزام تغیر اتمام خواجہ صاحب نے مجھ پر یہ لگایا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ میں قرآن کریم میں نسخ کا قائل ہوں اور آیت زکواۃ سے آیت انفاق کو منسوخ قرار دیتا ہوں حالانکہ یہ بات ہمارے سلسلہ کے اشد ترین دشمنوں سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ہماری جماعت بلا استثناء شروع زمانہ سے لے کر قرآن کریم کی آیات تو الگ رہیں اس کے ایک لفظ یا اس کی ایک حرکت کے نسخ کی بھی

Page 343

انوار العلوم جلد ۵ ۳۲۳ اسلام اور حریت و مساوات قائل نہیں.ہم صرف قرآن کریم میں نسخ کے منکر ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف ہمیشہ سے زور دیتے چلے آئے ہیں اور ہمارا تمام لٹریچر اس پر شاہد ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تمام آیات کی ضرورت اور حکمت بیان کر سکتے ہیں جن کو لوگ منسوخ سمجھتے ہیں.ہماری جماعت کی طرف سے جو قرآن کریم کے پہلے پارہ کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا ہے اس میں میرا ہی لکھا ہوا ایک نوٹ آیت مَا نَفْسَخ مِنْ آيَةٍ أَو نُنَسِهَا نَاتِ بِخَيرِ مِنْهَا (البقرة : ١٠٠) کے متعلق اس مضمون کا درج ہے کہ دوسرے معنی جو بعض مترجم اس آیت کے کرتے ہیں.یعنی بعض آیات قرآنیہ منسوخ ہو گئی ہیں.نہ صرف قرآن کریم کے اور اس آیت کے مضمون کے برخلاف ہیں.بلکہ اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی تردید کرتے ہیں.حق یہ ہے کہ بعض انگریز مترجموں کا خیال کہ قرآن کریم کے بعض حصص منسوخ ہو گئے ہیں.ایک غلط اور دھوکا دینے والا خیال ہے قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہوا.تمام کا تمام قرآن نہیں بلکہ اس کا ہر ایک لفظ اور اس کی ہر ایک حرکت نسخ کے عمل سے بالکل بالا ہے.قرآن کریم میں کوئی دو متضاد حکم نہیں ہیں.اس لئے نسخ کا مسئلہ درمیان میں لانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے.جو اختلافات کہ بیان کئے جاتے ہیں وہ صرف نسخ کے قائلوں کے خلاف اس امر کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم پر گہری نظر نہیں ڈالی.الم صفحہ ۸۹۰۸۸ - اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ میں نسخ کا کیسا مخالف ہوں.اور اس کے علاوہ میری بہت سی تحریرات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ میں نسخ کے مسئلہ کو ایک نہایت ہی بے بنیاد اور دین میں رخنہ ڈالنے والا مسئلہ سمجھتا ہوں.پھر با وجود جماعت احمدیہ کے عام عقیدہ اور میری اپنی تحریرات کی موجودگی کے نہ معلوم خواجہ صاحب کو کیونکر جرات ہوئی کہ وہ میری طرف اس عقیدہ کو منسوب کریں.یہ تو میں نے جماعت احمدیہ کا اور اپنا عام اور مشہور اور شائع شدہ مذہب بیان کیا ہے.لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ میرے جس مضمون سے خواجہ صاحب استدلال کرتے ہیں کہ میں نے آیت انفاق کو منسوخ قرار دیا ہے اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ میں نسخ کا قائل نہیں ہوں.بلکہ جس عبارت ے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ میں نے نسخ فی القرآن کا عقیدہ بیان کیا ہے اسی سے اس کے خلاف ثابت ہوتا ہے.میری وہ عبارت جس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ میں نے آیت انفاق کو منسوخ قرار دیا ہے یہ ہے کہ جو لوگ صدقات کا ذکر بتاتے ہیں.(آیت انفاق میں ، وہ بھی اس آیت کے کئی معنے کرتے ہیں بعض تو کہتے ہیں کہ عضو کے معنے ضرورت سے زائد بچے ہوئے مال کے ہیں شروع اسلام میں سال بھر کے نفقہ سے جو بیچ رہے.اس کے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حکم تھا.مگر آیت زکوۃ کے

Page 344

انوار العلوم جلد ۵ ۳۲۴ اسلام اور حریت و مساوات نازل ہونے پر یہ کم منسوخ ہوگیا.ان لوگوں کے نزدیک گویا یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے.پھر آگے لکھا ہے.ان تمام معانی سے جو مفسرین نے کئے ہیں.آپ کے معنوں کی تصدیق نہیں ہوئی جس جماعت نے اس آیت کے یہ معنی کئے بھی ہیں کہ جو ضرورت سے زائد بچے اسے خرچ کر دو.اس نے بھی یا تو اسے جہاد پر چسپاں کیا ہے یا منسوخ قرار دیا ہے؟ ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے آیت انفاق کو منسوخ نہیں قرار دیا بلکہ دوسروں کے اقوال نقل کئے ہیں.اور ایسے الفاظ ساتھ لگا کر جیسے گویا اور ان لوگوں کے نزدیک ان سے مختلف الخیال ہونے کا بھی اظہار کر دیا ہے.اور خود میرا اس آیت کے معنوں سے انکار کرنا جن سے اس آیت کو منسوخ قرار دینا پڑتا ہے اس امر کا ثبوت تھا کہ میں نسخ کا قائل نہیں.مگر باوجود اس کے خواجہ صاحب مفہوم عبارت کے بالکل بر خلاف میرے خلاف یہ بات کسی پوشیدہ مجلس میں نہیں بلکہ ایک اخبار کے کالموں میں بیان کرتے ہیں کہ میں آیت انفاق کے نسخ کا قائل ہوں.اور پھر یہ الزام لگا کر نسخ کے عقیدہ کے خلاف دلائل دینے شروع کر دیتے ہیں گویا اپنی طرف سے اسلام پر سے ایک زبر دست الزام کو دور کرتے ہیں.غرباء میں تقسیم مال کے متعلق جھوٹا الزام چو تھا اتمام خواجہ صاحب نے مجھ پر ہی گیا کہ گویا میرے نزدیک جو مال اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں اور کپڑوں اور دوسرے اسباب تعیش سے بچے صرف وہی غرباء کو دیا جا سکتا ہے.اور اس پر حاشیہ چڑھاتے ہیں کہ پھر کیا خاک بچے گا.اور بطور تمسخر ساتھ یہ بھی زائد کرتے ہیں کہ میں نے اس طرح حلوة الدنيا وزينتها کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے.اور ان کے نزدیک یہ تصویر اور بھی مکمل ہو جاتی اگر اس کے ساتھ حسین عورتوں کی کثرت کا بھی ذکر کر دیا جاتا.یہ بھی ایک بستان ہے جو خواجہ صاحب نے مجھ پر باندھا ہے.میں نے ہر گز کسی جگہ بھی اپنے مضمون میں یہ نہیں لکھا کہ عمدہ سے عمدہ کھانوں اور قیمتی کپڑوں کے بعد جو کچھ بچے وہ غرباء کو دیا جائے.بلکہ میں نے اس کے بالکل بر خلاف لکھا ہے جسے بگاڑ کر انہوں نے یہ رنگ دے دیا ہے.میں پہلے ان کی عبارت اور پھر اپنی عبارت لکھتا ہوں جس سے ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ سکے گا کہ خواجہ صاحب نے کس قدر دیدہ دلیری سے کام لیا ہے.خواجہ صاب لکھتے ہیں : ایک اور خیال نے میاں صاحب ممدوح کے دل میں چنگی لی (خواجہ صاحب کی عبارت پر تعجیب نہیں کرنا چاہئے.جو شخص میں رنگ میں پرورش پاتا ہے.اسی قسم کی باتیں اس کی زبان و قلم پر جاری ہوتی ہیں ، کہ اگر اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں اور عمدہ سے عمدہ کپڑوں اور وسیع اور گلے اور آراستہ و پیراستہ مکانوں

Page 345

انوار العلوم جلد ۵ ۳۲۵ اسلام اور حریت و مساوات اور خوشنما چنوں اور میوہ دار باغوں کے لئے رو پیر رکھ کر باقی اگر چے گا تو وہ غرباء میں تقسیم ہو گا.اس جمع شدہ مال کے بعد خاک بچے گا ؟ تعجب ہے کہ قرآن دانی کے بعد احادیث اور مفسرین کے قول سے تو آنجناب استدلال کرچکے تھے اب پیش پسند امراء کے خیالات کو سندا بیان کرنا باقی تھا.یہ درجہ بدرجہ تنزل واقع میں حیرت انگیز یہ تو وہ مضمون ہے جو خواجہ صاحب میری طرف منسوب کرتے ہیں اور جو کچھ میں نے لکھا ہے.وہ یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے لکھا تھا کہ قرآن کریم کی رو سے جو مال ضرورت سے زائد بچے وہ غرباء پر خرچ کر دینا چاہئے.اس کے متعلق میں نے لکھا تھا.ضرورت سے زائد بچے ہوئے کی اصطلاح خود مہم ہے بعض لوگ ہو کچھ ان کو مل جائے گولاکھوں روپیہ کیوں نہ ہو اس کو خرچ کر دیتے ہیں اور ضرورت سے زائد ان کے نقطۂ خیال میں کوئی مال ہوتا ہی نہیں " پھر اسی سلسلہ میں آگے چل کر لکھا تھا کہ " اگر اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کا خود فیصلہ کرے تو پھر بھی مساوات نہیں رہے گی.کوئی شخص اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں اور عمدہ سے عمدہ کپڑوں اور وسیع اور کھلے اور آراستہ اور پیراستہ مکانوں اور خوشنما چنوں اور میوہ دار باغوں کے لئے روپیہ رکھ کر باقی اگر بچے گا تو غرباء میں بانٹ دے گا.اور غریب بیچارے گاڑھا پہنے اور جھونپڑیوں میں رہنے یہ کہ مجبور ہوں گے" اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ امراء کو چاہئے کہ اس قدر اسباب تعیش جمع کریں.بلکہ یہ کہا ہے کہ اگر خواجہ صاحب کا بتایا ہوا اصل شریعت اسلام کا بتایا ہوا ہوتا تو اس کے ساتھ کوئی تشریح بھی ہوتی.ورنہ امراء یہ شرارت کرتے کہ سب سامان تعیش کو جمع کر لیتے اور اس خیال سے کہ ہمارا بچا ہوا مال غرباء کو دیا جائے گا.اس کو عیاشی میں اُڑا دیتے.اب ہر ایک عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ خواجہ صاحب کے بتائے ہوئے مضمون کے بالکل الٹ ہے.خواجہ صاحب نے کیوں افتراء پردازی کی یہ چار موٹے موٹے بتانہیں جو وجہ صاحب نے مجھ پر لگائے ہیں اور

Page 346

انوار العلوم جلد ۵ ۳۲۶ اسلام اور حریت و مساوات ایسے صریح طور پر غلط ہیں کہ شاید بہت سے لوگ ان کو پڑھ کر فوراً یہ فیصلہ کر دیں کہ خواجہ صاحب نے جان بوجھ کر افتراء پردازی سے کام لیا ہے.مگر چونکہ علم انفس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ بلا سوچے سمجھے بعض خاص حالات میں اس قسم کے افعال کا مرتکب ہو جاتا ہے اس لئے میں ان پر یہ الزام نہیں لگاتا.میں یہی خیال کرتا ہوں کہ اپنی ٹیکی اور شرمندگی کو مٹانے کے لئے ان کے نفس میں جو جوش پیدا ہوا ہے اس کے اثر کے نیچے بلا سوچے سمجھے ان کی تحریر میں بعض ایسی باتیں آگئی ہیں جو بالبداہت واقعات کے خلاف ہیں اور جن سے غرض صرف یہ ہے کہ وہ ناظرین کو میرے خلاف بھڑ کا دیں یا ان پر میرے مضمون کی کمزوری اور بے ہودگی ثابت کریں.خواجہ صاحب کا حق وکالت خواجہ صاحب نے مجھ پر جو بہتان باندھے ہیں ان میں سے بعض صریح اور موٹے بہتانوں کا ذکر کرنے کے بعد میں خواجہ صاحب کے مضمون پر ایک سرسری نظر ڈالتا ہوں.خواجہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں ان کی وکالت پر معترض ہوں حالانکہ اخبار میں مضمون چھپنے پر ہر ایک شخص کا حق ہے کہ اس کا جواب دے.میں خواجہ صاحب کو پھر اپنی پہلی نصیحت کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ وہ بلا خور سے مضمون پڑھنے کے یونسی نہ جواب دینے بیٹھ جایا کریں.میں نے کبھی بھی ان کے حق وکالت پر اعتراض نہیں کیا.جو کچھ میں نے لکھا تھا یہ تھا کہ خواجہ صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ سائل کو میرے مطالبہ کے مطابق حریت و مساوات کی تشریح کر لینے دیتے یا اگر انتظار نہ کر سکتے تھے تو خود حریت و مساوات کی تشریح کر کے اس کے متعلق میری رائے دریافت کرتے.چلا اس کے کہ میری رائے دریافت کریں مجھ پر اعتراض کرنا جائز نہ تھا.پس ان کا یہ لکھنا کہ میں ان کے حق وکالت پر اعتراض کرتا ہوں درست نہیں.ہماری باتیں نہ تو پوشیدہ ہیں نہ اپنے خیالات کو ہماری جماعت نے کبھی چھپایا ہے جو شخص جرح کو نہیں سن سکتا وہ ہر گز اس بات کا مستحق نہیں کہ کامیابی کا منہ دیکھے ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب دُنیا کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے متاع کو تمام دنیا کے مبصروں کے سامنے پیش کرتے ہیں.لیکن ہماری طرف سے اعتراض کی اجازت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بلا سوچے اور مجھے شخص اعتراض کر سکتا ہے.اپنے وقار کے قائم رکھنے کے لئے دوسروں کا بھی فرض ہے کہ وہ سوچ لیں کہ وہ کس بات پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھ لیں کہ جس بات پر وہ اعتراض کرتے ہیں کیا وہ ہم نے کہی بھی ہے یا نہیں ؟

Page 347

انوار العلوم جلد ۵ ۳۲۷ اسلام اور حریت و مساوات حدیث سے کیوں استدلال کیا گیا خواجہ صاحب کو شکایت ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں حدیث سے کیوں استدلال کیا اور یہ کر جب اصول اسلام پر بحث ہو تو صرف قرآن کریم سے بحث ہوگی.کیونکہ احادیث موضوع بھی ہیں اور ضعیف بھی اور پھر خاص حالات کے ماتحت ہیں اور اگر وہ صحیح بھی ہوں تو بھی کتاب اللہ کے سوا کسی شخص کا فیصلہ ماننا خواہ وہ نبی یا رسول ہی کیوں نہ ہو.ارباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ (ال عمران : ۶۵) کی ذیل میں آجاتا ہے.خواجہ صاحب کے اس بیان سے تین سوال پیدا ہوتے ہیں.(۱) یہ کہ میں نے حدیث سے کیوں استدلال کیا.قرآن کریم سے کیوں نہ کیا ؟ (۲) حدیث نکلنی اور ضعیف اور موضوع ہے اور خاص حالات کے ماتحت ہے.(۳) اگر حدیث صحیح بھی ہو تو بھی کتاب اللہ کے سوا کسی دوسرے شخص کا فیصلہ ماننا البابا مِن دُونِ اللہ کے ذیل میں داخل ہے.سوال اول کا تو یہ جواب ہے کہ میں تو احادیث نبی کریم کو مناسب تحقیق و تدقیق کے ماتحت نہایت ضروری یقین کرتا ہوں.اور سنت کے بغیر تو اسلام میں ایک ناقابل تلافی رخنہ پڑ جاتا ہے پس اگر میں سنت و حدیث سے استدلال کروں تو قابل تعجب نہیں.دوم جس قدر امور مہمہ تھے سب کے لئے میں نے آیات قرآنیہ سے استدلال کیا تھا.ہاں احادیث کو بطور تا نید کے بیان کیا تھا.اور اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ خواجہ صاحب احادیث کے منکر ہیں تو پھر میں کبھی احادیث سے مسائل شرعیہ کے متعلق استنباط نہ کرتا.مگر چونکہ مجھے ان کے عقیدہ کا علم نہ تھا اس لئے عام عالم اسلام پر قیاس کر کے نہیں نے ان کے جواب میں بعض احادیث کو بھی بیان کر دیا.دوسرا اس کا جواب یہ ہے کہ خواجہ صاحب کو حدیث کی کمزوری تب اگر معلوم ہوئی ہے جب ان کے مقابلہ میں احادیث سے استدلال کیا گیا ہے.ورنہ انہوں نے اپنے پہلے مضمون میں خود احادیث سے استدلال کیا ہے.چنانچہ لَا فَضْلَ لِعَرَبِيّ عَلى العجمي (مسند احمد بن حنبل جلده صفحه (الم) کی حدیث اور خدا تعالیٰ کی زمین اور اس کے بندوں سے برتری تلاش نہ کرو کی حدیث انہوں نے اپنے پہلے مضمون میں بیان کر کے اس پر خاص زور دیا ہے.لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بعض احادیث ان کے خلاف پڑتی ہیں تو ان کو موضوع اور ضعیف قرار دینا شروع کر دیا.ضد و تعصب بھی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں.اگر خواجہ صاحب کہیں کہ میں تو ان مضامین کی تائید میں احادیث لا یا تھا جو قرآن کریم سے ثابت ہیں تو میرا بھی ان کو یہی جواب ہے کہ میں بھی احادیث ان ہی مضامین کی تائید میں لایا تھا جو قرآن کریم سے

Page 348

انوار العلوم جلد ۵ PYA اسلام اور حریت و مساوات ثابت ہیں.پھر اس پر ان کو کیوں اعتراض پیدا ہوا ؟ سوال دوم که حدیثیں ضعیف اور موضوع ہیں اور پھر وقتی حالات کے احادیث کا درجہ ماتحت ہیں.ایک مستقل سوال ہے جس کا اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں.بیشک احادیث اسی طرح یقینی نہیں ہیں جس طرح قرآن کریم یقینی ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کاروبار کی بنیاد بہت حد تک تاریخ پر ہے اور دنیا کی معتبر سے معتبر تاریخوں سے حدیث زیادہ یقینی اور معتبر ہے اور بعض حدیثیں تو اس تواتر سے پہنچتی ہیں کہ ان کے مضمون سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی ذات سے انکار کر دے.کیونکہ علاوہ قولی تائید کے لاکھوں ، کروڑوں انسان ان کی عملی تائید بھی کرتے چلے آئے ہیں.باقی رہا یہ کہ حدیثیں وقتی حالات کے ماتحت ہیں یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کو زندگی بھر اسلام کی اصل تعلیم کے متعلق نہ کوئی بات کہنے کا موقع ملا اور نہ کسی حکم پر عمل کرنے کا.آپ کی زندگی کے تمام حالات اور آپ کے تمام اقوال صرف وقتی حالات کے ماتحت تھے.نعوذ باللہ من ذلک.اور اگر آپ یہ کہیں کہ بعض باتیں تو وقتی حالات کے ماتحت بھی ہوں گی.پس حدیثوں کا معاملہ مشتبہ ہو گیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک بعض امور وقتی حالات کے متعلق بھی ہیں.لیکن ان میں اور دائمی صداقتوں میں ہم اپنی اصول کے ماتحت فیصلہ کر سکتے ہیں جن کے ماتحت ہم قرآن کریم کی آیات متشابہات کا فیصلہ کر لیا کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں.کتاب اللہ کے سوا کسی کی بات ماننا تیرا سوال خواجہ صاحب کی مذکورہ بالا تحریر سے یہ پیدا ہوا تھا کہ کتاب اللہ کے سوا کسی اور شخص کی بات ماننی " اربَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ " (ال عمران : ۶۵) : ۶۵) میں داخل ہے خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو.اگر خواجہ صاحب کا اس بات سے یہ مطلب ہے کہ بفرض محال اگر نبی خدا تعالی کی بات کے خلاف کہہ دے تو ہم اس کی بات نہیں مانیں گے.تب تو گومیں اس قسم کے کلمہ گوگستاخی اور بے ادبی انبیاء کی قرار دوں گا.لیکن اس امر کی تصدیق کروں گا کہ اگر اس صورت کو مکن سمجھ لیا جائے تو اس کا مضمون بیچا ہے.مگر پھر اس صورت میں اس جگہ اس مضمون کے بیان کرنے کی حکمت سمجھ میں نہ آوے گی.کیونکہ حدیث کو اس دلیل سے رد نہیں کیا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ کے خلاف کوئی بھی بات کسے خواہ نبی ہی کیوں نہ

Page 349

انوار العلوم جلد ۵ ۳۲۹ ساوات ہو اس کی بات قابل تسلیم نہیں کیونکہ حدیث کبھی رد ہو سکتی ہے اور اس کا ماننا از بابا من دُونِ اللہ کی اطاعت کے ماتحت تبھی آسکتا ہے جب ساتھ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ بی کریم صلی الہ علیکم نعوذ باللہ بعض باتیں خدا تعالیٰ کے خلاف منشاء اور اس کے احکام کی مخالفت میں بھی کہ لیا کرتے تھے.لیکن جب خواجہ صاحب اس امر کا دعویٰ نہیں کرتے تو پھر اس جگہ اس بات کے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور اس کے بیان کرنے سے حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ علم کس طرح درج اعتبار سے ساقط ہو گئی ؟ اور اگر خواجہ صاحب کا یہ مطلب ہے کہ نبی گو ایسی بات بھی کسے جواللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہ ہو تب بھی اس کا حکم ماننے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں تو پھر اس سے زیادہ انبیاء کی ہتک کوئی نہیں ہو سکتی کہ دنیا دی حکام کے احکام مانے جائیں.ماں باپ کے احکام پر عمل کیا جائے.مگر نبی کی بات تسلیم نہ کی جائے.حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا السَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ النساء : ۶۵) یعنی ہم نے کوئی رسول دنیا میں مبعوث نہیں فرمایا مگر اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس کی اطاعت کی جائے.اس آیت میں "باذن اللہ" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں نہ کہ فی اوامر اللہ ہیں اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکام میں اس کی اطاعت کریں کیونکہ اول تو الفاظ اس کے متحمل نہیں ہوتے.دوم اگر احکام الہیہ میں ہی اس کی اطاعت تھی تو پھر اسکی اطاعت کا ذکر کیوں کیا گیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب (۲۲).تم لوگوں کے لئے رسول اللہ : میں ایک پاک نمونہ ہے.اور پھر فرماتا ہے :.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ من بینی اگرتم اله تعال سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو تم سے اللہ تعالیٰ محبت کرنے لگے گا.ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ علاوہ کلام الہی میں مذکور شدہ احکام کے رسول بھی جو حکم دے اس کی اطاعت خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور شرک وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ اطاعت اپنی ذات میں شرک نہیں.اطاعت کسی وجود کی تبھی شرک ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلہ پر پڑھاو ہے.ورنہ اطاعت تمام انسان کسی نہ کسی مخلوق کی کرتے ہیں.اور چونکہ رسولوں کی اطاعت باذن الشہ عد ال عمران : ۳۲

Page 350

اسلام اور حریت و مساوات کے ہوتی ہے.ان کی اطاعت کو شرک کہا ہی نہیں جاسکتا.شرک وہی اطاعت ہو سکتی ہے جو باذن الله خلاف ہو نہ کہ جو اس کے موافق ہو.عرض احادیث کو اس بناء پر رد کرنا کہ ان کو ماننے سے شرک لازم آجاتا ہے ایک دھو کا ہے جو خواجہ صاحب کو لگا ہوا ہے.اور در حقیقت ایسا اعتقاد رکھنا رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی تنک کرنا ہے.کیونکہ اس صورت میں دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑے گی.یا تو یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ من ذلک خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف بھی کہہ دیا کرتے تھے اور یا یہ کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف ان کی بات نہ ہو تب بھی اس کو قبول کرنا گناہ ہے.کیونکہ اس سے شرک لازم آتا ہے.گویا رسالت ایک رحمت نہیں بلکہ عذاب ہے.نعوذ باللہ خواجہ صاحب نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ حریت و مساوات اگر حریت و مساوات اسلام میں بعض تشریحات کے مطابق اسلامی احکام میں شامل ہونگی تو کیا اصولا ہوں گی یا کسی اور طرح ؟ خواجہ صاحب نے اپنی طرف سے نہایت سوچ کر یہ ایک معمہ پیدا کردیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگر میں کہوں کہ اصولاً داخل ہوں گی تو وہ کہیں گے کہ پھر یہ اُصولی مسائل ہوئے اور اگر کہوں کہ اصولاً داخل نہیں ہوں گی تو پھر وہ سوال کریں گے کہ جب اسلام میں کوئی چیز بے اصول کے داخل ہوتی ہے تو پھر اسلام کمل کیونکہ ہوگیایہ تو اسلام پر الزام ہے.حالانکہ یہ ایک دھوکا ہے کسی امرکا اصولاً کسی دائرہ کے اندر داخل ہو جانا اس امر کا ثبوت نہیں ہوتا کہ اسے اس کے اصول میں داخل کر دیا جائے ہر ایک منضبط کلام اور دین اور شریعت اور قانون اپنے اندر ایک رابطہ اور سلسلہ رکھتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس کا ہر ایک جزو اصول میں شامل ہے.مدرسہ میں داخل ہونے والا ہر ایک طالب علم کسی قانون یا اصل کے ماتحت مدرسہ میں داخل کیا جاتا ہے مگر ہر ایک طالب علم اس مدرسہ کی روح رواں نہیں کہلاتا.ہر ایک اینٹ جو کسی عمارت میں لگائی جاتی ہے کسی اصول کے ماتحت لگائی جاتی ہے.مثلاً یہ کہ وہ اس شخص کی ملکیت ہے جس کا مکان بن رہا ہے ، یا یہ کہ عمار اسے اس جگہ کے لئے پسند کرتا ہے.یا یہ کہ وہ اس موقع پر سامنے آگئی جب کہ اس مقام پر معمار کو ایک اینٹ لگانے کی ضرورت تھی.مگر کوئی نادان ہر ایک اینٹ کو جو عمارت میں لگی ہوئی ہے بنیاد نہیں کہے گا.اسی طرح ہر ایک محکم جو شریعت حقہ دے گی کسی سلسلہ فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے دے گی.لیکن صرف اس لئے کہ اس کا شمول کسی قاعدہ یا کسی اصل کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا ہے.ہر ایک حکم کو اس مذہب کے گھول میں شامل نہیں کر دے گا.پس خواجہ صاحب کا قول زخرف القول سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا اور

Page 351

انوار العلوم جلد ۵ ایک فیلیستی ہے.اسلام اور حریت و مساوات حضرت مسیح موعود نے حریت و مساوات پر کیوں زور دیا میں نے خواجہ صاحب کے پہلے مضمون کے جواب میں لکھا تھا کہ مذہبی مساوات کے مسئلہ کو ہمارے سامنے پیش کرنا غلطی ہے کیونکہ اس مسئلہ پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد اس کی اہمیت کے مطابق زور حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام نے ہی دیا ہے.خواجہ صاحب میری اس بات کو میری دوسری باتوں کے متضاد خیال کرتے ہیں.کیونکہ وہ پوچھتے ہیں کہ اگر حریت و مساوات اصول اسلام میں سے نہیں ہیں تو حضرت میسج موعود علیہ اسلام نے اس پر زور کیوں دیا.میں حیران ہوں کہ خواجہ صاحب اس قدر بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ کسی بات پر زور دینے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بات اصول میں شامل ہو سہرا ایک چیز اپنے موقع کے مناسب توجہ چاہتی ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک بات چھوٹی ہو اور کسی وقت اس کی طرف کم توجہ ہو رہی ہو اس وقت بڑی باتوں کی نسبت اس کی طرف زیادہ توجہ کی جائے گی اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک بات خود چھوٹی ہو لیکن بڑی باتوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہو.اس لئے بڑی باتوں کی طرف توجہ کرتے وقت اس کی طرف توجہ لازما کرنی پڑے.چونکہ لوگوں کو خدا تعالٰی کی طرف توجہ دلاتے وقت اس امر کا یقین دلانا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا دروازہ ہر ایک شخص کے لئے کھلا ہے اس لئے لوگوں کو خدا تعالیٰ تک لانے کی غرض سے نہ کہ مساوات کا مسئلہ ثابت کرنے کے لئے اس امر پر بھی زور دینا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ کسی قوم یا کسی ملک کے لئے بند نہیں کیا گیا.دوسرا اعتراض خواجہ صاحب کو یہ ہے کہ جب میں نے مذہبی اور مالی مساوات میں فرق مذہبی مساوات کو تسلیم کیا ہے تو کیوں مالی مساوات کو تسلیم نہیں کرتا.اگر ایک کوتسلیم کیا ہے تو اصولاً دوسری کو بھی تسلیم کرنا ہو گا.یہ اعتراض بھی ان کا اقلیت تدبر سے پیدا ہوا ہے.مذہبی مساوات پر مالی مساوات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہم اس قسم کی مذہبی مساوات کے قائل ہیں جس قسم کی مالی مساوات پر خواجہ صاحب کو اصرار ہے.اور جس کے وہ خود بھی عامل نہیں ہیں.مذہبی مساوات پر مالی مساوات کا قیاس اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ اول تو مذہبی مساوات کے ی معنی نہیں ہوتے کہ انسان اپنے مذہب میں سے زائد بچا ہوا دوسرے کو دے دیتا ہے کہ ہم پر یہ FALLACY #

Page 352

انوار العلوم جلد ۳۳۲ اسلام اور حرمیت و مساوات الزام لگایا جائے کہ جب تم مذہبی مساوات کے قائل ہو تو کیوں مالی مساوات کے قائل نہیں ہو.مذہب مال کی طرح نہیں کہ خرچ کرنے سے خرچ ہو جاتا ہو بلکہ مذ ہب اگر دوسروں کو پہنچایا جائے تو اصل چیز پہنچانے والے کے پاس ہی موجود رہتی ہے.اور جس کو پہنچائی جاتی ہے وہ اگر دعوت کو قبول کرے تو اس کو اسی قسم کی اور چیز ل جاتی ہے نہ کہ وہ جو دعوت دینے والے کے پاس تھی.پس مالی مساوات کو مذہبی مساوات پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے جو جائز نہیں.علاوہ ازیں جس قسم کی مذہبی مساوات اسلام نے اسلام کی قائم کردہ مالی مساوات قائم کی ہے.اس قسم کی مالی مساوات بھی قائم ہے.اور اس سے کسی کو انکار نہیں یعنی جس طرح اسلام ہر ایک شخص کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرے اسی طرح یہ بھی دعوت دیتا ہے کہ ہر ایک شخص اپنی فطرتی قوتوں سے کام لے کر دنیاوی ترقی بھی کرے اور جس طرح اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کے اعمال کسی اور کی طرف منسوب کر دیے جائیں اسی طرح یہ بھی جائز نہیں رکھتا کہ کسی کا مال کسی کے حوالہ کر دیا جائے پس اول تو مذہبی امور کا قیاس من كل الوجوه مالی معاملات پر کیا ہی نہیں جاسکتا اور جس حد تک کیا جاسکتا ہے اس کا اس مسئلہ زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں.اور اس کے بیان کرنے خواجہ صاحب کا مدعا ثابت نہیں ہوتا.میں نے اپنے مضمون میں قرآن کریم کی رو حریت اور مساوات اور اصول اسلام سے اصول اسلام لکھے تھے اور خواجہ صاحب ان کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس امر پر بھی زور دیتے ہیں کہ سوائے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے باقی تمام اصول بالذات مقصود نہیں ہیں.حالانکہ اس امر کا سوال ہی نہ تھا کہ کون سے اصول بالذات مقصود ہیں اور کون سے بالذات مقصود نہیں ہیں.سوال تو یہ تھا کہ جو اصول قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ان میں حریت و مساوات شامل نہیں ہیں اس بحث میں پڑ جانا کہ نبیوں کا ماننا یا نہ ماننا ، کتابوں کا ماننا یا ملائکہ کو ماننا بالذات مقصود ہے یا نہیں ایک لغو بحث ہے وہ بالذات مقصود ہوں یا نہ ہوں سوال تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو اصول اسلام قرار دیا ہے اور کسی کا حق نہیں کہ ان کے سوائے اپنے پاس سے اصول بنائے.نماز روزہ وغیرہ احکام کو بھی اصول تسلیم کرتے ہوئے خواجہ صاب نماز روزہ میں مساوات لکھتے ہیں کہ ان میں بھی مساوات کو مد نظر رکھا گیا.میں اس بحث

Page 353

٣٣٣ اسلام اور حریت و مساوات میں نہیں پڑوں گا کہ کس حد تک ان احکام میں مساوات کو تسلیم کیا گیا ہے اور کن اصول کے ماتحت لیکن میں خواجہ صاحب کو دوبارہ ان کی اس غلطی پر آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی نظام کے اصول میں جو بات مد نظر رکھی جائے وہ بھی اس کے اصول میں شامل ہو جاتی ہے.تمام انجنوں میں مبروں کی حیثیت برابر کی ہوتی ہے.لیکن ان انجمنوں کے ممبروں سے پوچھ کر دیکھ لو وہ کبھی اپنی انجمن کے اصول میں مساوات کو بیان نہ کریں گے.مثلاً انجمن حمایت اسلام ہے یا اور بہت سی اسلامی یا اگر یہ یا سکھوں کی مجالس ہیں.ان سے جب اصول پوچھے جاویں گے تو وہ یہ بھی نہ کہیں گی کہ ہماری انجین کا بڑا اصل مساوات ہے.بلکہ جس غرض کے لئے ان کو بنایا گیا ہے اس کا نام لیں گی.غرض کسی نظام کے اصول اور ہوتے ہیں اور وہ باتیں جو نظام کے تیار کرتے وقت مد نظر رکھی جاتی ہیں اور ہوتی ہیں ان دونوں میں فرق نہ سمجھنے کے سبب سے خواجہ صاحب ایک حل نہ ہونے والے عقدہ میں پھنسے ہوئے ہیں.خواجہ صاحب نے خدا تعالیٰ کے متعلق خدا کو مطلق العنان او فضل کہتے ہیں فرق ملف الان" کا لفظ استعال کیا تھا می مطلق نے ان کو اس پر توجہ دلائی تھی کہ یہ لفظ خدا تعالیٰ کی نسبت استعمال کرنا جائز نہیں ، خواجہ صاحب اس پر دبی زبان میں اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں مفضل بھی ہے.مجھے اس بات کو پڑھ کر خواجہ صاحب کی دینی واقفیت کی کمی پر افسوس آیا.یہ بات ایسی موٹی ہے کہ ہمارے بچے بھی اس کا جواب دے سکتے ہیں.اور جس نکتہ کو خواجہ صاحب نہایت باریک سمجھے ہوئے ہیں ہمارے ان پڑھ بھی اس سے واقف ہیں.اگر خواجہ صاحب ذرا بھی غور کرتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ خدا تعالیٰ کی نسبت مطلق العنان کا لفظ استعمال کرنا اور اخلال کو اس کی طرف نسبت دینا دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اضلال کے معنے عربی زبان میں صرف گمراہ کرنے کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنے گمراہی کی طرف منسوب کرنے کے اور ہلاک کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور ہر ایک لفظ کے معنے اس شخص کی ذات کو مد نظر رکھ کر کئے جاتے ہیں جس کے لئے وہ استعمال کیا گیا ہو جیسے جبر کے معنے اصلاح کے بھی ہیں اور دوسرے کو ذلیل کر کے آپ عزت حاصل کرنے کے بھی ہیں جب خدا تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوگا تو اس کے معنے ہمیشہ اصلاح کے ہوں گے اور جب بندہ کی نسبت استعمال ہوگا تو ہمیشہ اس کا مطلب دوسروں کو دبا کر خود بڑائی حاصل کرنا ہوگا اسی طرح اضلال جب بندوں کی طرف منسوب ہو گا تو اس کے معنے اس کے مناسب حال ہوں گے اور جب خدا تعالیٰ

Page 354

انوار العلوم جلد ۵ ۳۳۴ اسلام اور تربیت ومساوات کی طرف منسوب ہوگا تو ہمیشہ اس کے معنے گمراہ قرار دینے یا ہلاک کرنے کے ہوں گے اور ان معنوں میں خدا تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ استعمال کرنا نہ قابل اعتراض ہے نہ اس کے سمجھنے میں کوئی دقت.لیکن مطلق العنان کا لفظ بالکل جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے.اس کے کوئی اچھے معنے نہیں ہیں.نہ لغتاً نہ محاورہ.پس اضلال پر اس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا.مساوات ہر جگہ جاری نہ ہونے کے متعلق اعتراض میں نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا تھا کہ مساوات بلا دیگر امور پر نظر رکھنے کے ہر جگہ جاری نہیں ہوتی چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کی اولاد کی نسبت اللہ تعالے فرماتا ہے کہ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ التَّوَةَ وَالكتب (العنکبوت : ۲۸) خواجہ صاحب اس کے جواب میں مجھ پر دو اعتراض کرتے ہیں.ایک تو یہ کہ میں نے اس استثناء کو ترک کر دیا ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.یعنی لَا يَنَالُ DWOANALALA TALK (البقرة : ۱۲۵ ) اور دوسرا اعتراض یہ کرتے عَهْدِى الظَّلِمِينَ ہیں کہ اگر اس آیت کے وہ معنی ہیں جو میں نے کئے ہیں تو پھر لِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولُ (یونس : ٢٨) کے کیا معنی ہوں گے.یہ دونوں اعتراض بھی قلت تدبر کا نتیجہ ہیں.پہلا اعتراض یہ کہ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظلمین سے ظالموں کو مستثنیٰ کر دیا ہے اس لئے غلط ہے کہ اس جگہ یہ سوال نہ تھا کہ ابراہیم کی اولاد میں سے کس کو خدا تعالیٰ نہی بنائے گا.بلکہ سوال یہ تھا کہ ایک عظیم الشان انعام اللہ تعالیٰ نے دوسری قوموں کے مقابلہ میں آل ابراہیم کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے.پس اگر بعض اول ابراہیم بھی اس انعام سے محروم کر دئیے گئے ہیں تو اس سے خصوصیت میں فرق نہیں آتا.ال ابراہیم کا امتیاز پھر بھی باقی ہے کہ ایک عظیم الشان انعام ان میں سے ایک فرد کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے.دوسرا اعتراض اس لئے غلط ہے کہ سب قوموں میں نبی آنے کے یعنی نہیں کہ ہمیشہ سب قوموں میں نبی آتے رہیں گے.وعدہ ابراہیمی کے پورا ہونے کے وقت سے پہلے پہلے ہر ایک قوم میں نبی آچکے تھے مگر جب وعدہ ابراہیمی کے پورا ہونے کا وقت آیا تو یہ فیض الِ ابراہیم کے ایک فرد سے مخصوص کر دیا گیا.اور اب ال ابراہیم کے فیض سے باہر ہو کر کوئی فیض نہیں.پس وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً (النحل : ۳۷) کی آیت سے اس وعدہ الہی پر تب اعتراض پڑسکتا تھا کہ اگر حضرت ابراہیم ابتدائے عالم میں پیدا ہوئے ہوتے.کیونکہ اس صورت میں اگر نبی ان ہی کی اولاد سے آتے تو باقی تمام اقوام اس فیض سے محروم رہ جاتیں.یا یہ اعتراض تب پڑ سکتا تھا کہ اگر آئندہ فیض ایمان ان کی اولاد سے مخصوص کر دیا جاتا.لیکن جب تمام اقوام عالم میں نبی مبعوث ہونے کے بعد آخری زمان میں محمدرسول اللہ

Page 355

انوار العلوم جلد ۵ ۳۳۵ اسلام اور حریت و مساوات صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اس وعدہ کو پورا کیا اور جبکہ آپ پر ایمان لانے کا درواز ب دنیا کے لئے کھلا چھوڑا تو دونوں آیتوں کا مفہوم ایک وقت میں پورا ہو گیا.فیض نبوت ہمیشہ کے لئے ال ابراہیم کے ساتھ بھی مخصوص ہو گیا اور سب اقوام میں نبی بھی آگئے.کیا بلحاظ اس کے کہ آپ کی بعثت سے پہلے سب عالم میں نبی آچکے تھے اور کیا بلحاظ اس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انت صرف عرب نہ قرار دینے گئے.بلکہ سب جہان کے انسان آپ کی امت قرار دیئے گئے یہی معنی ہیں جن سے دونوں آیتوں کے معنوں میں تطابق رہتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ابراہیم علیہ اسلام کے ساتھ اس فیضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ کوئی شخص حضرت ابرا ہیم کی اولاد میں سے مہر تاباں سے روشنی لئے بغیر بارگاہ الہی تک پہنچ ہی نہیں سکتا معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب نے اعتراض کرتے وقت وہ معنے اپنے ذہن میں نہیں رکھے جو میں نے کئے تھے اور اپنے ذہنی معنوں کی بناء پر مجھ پر اعتراض کر دیا ہے.پھر خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ ہم نے تو واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ تقسیم دولت اور وحدت اصل الاصول وحدت ہے جو کثرت کو ایک مرکز پر لاتی ہے اس لئے تقسیم دولت اسی اصول کے ماتحت ہونی چاہئے.خواجہ صاحب نہ معلوم توحید اور تقسیم ہمال کو ایک اصل کے نیچے کیونکر لاتے ہیں.ان کا ایک دوسرے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے.خواجہ صاحب خود بھی اس امر کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس پر عامل ہیں کہ گل دنیا کے اموال آپس میں برابر تقسیم ہو کر سب لوگ برا بر ہوں.وحدت اور برابری تو ایک ایسا مشکل کام ہے کہ اس کا پورا کرنا ناممکن ہے.وحدت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ مکان و لباس ، کھانا، انتخاب مرد و عورت ، آب و ہوا ، اور کام سب میں برابری نہ ہو.یہ تو کوئی برابری نہیں کہ زائدہ بچا ہوا بال دوسرے کو دے دیے.جب برابری ہے تو ایک قسم کا لباس سب کا ہونا چاہیئے.سوائے اسکے کہ ایک شخص خود ہی کسی خاص قسم کے لباس سے انکار کر دے.پھر ایک قسم کا مکان اور ایک قسم کی جگہ پر ہونا چاہئے.سوائے اس کے کہ خود کوئی شخص کسی ادنی جگہ کو قبول کرے.پھر ایک قسم کا انتخاب ازواج ہونا چاہئے.پھر ایک قسم کی آب و ہوا میں رہنے کا سب کو موقع ملنا چاہئے.سوائے اس کے کہ کوئی شخص خود اپنے حق کو چھوڑ دے.پھر ایک قسم کا کام ہونا چاہیے سوائے اس کے کہ کوئی شخص خود دوسرا کام پسند کرے مگر باوجود اس کے پوری برابری پھر بھی نہ ملے گئی کئی ایسے نقائص میں گئے جن کا دور کرنا اختیار سے باہر ہو گا.لیکن کیا کوئی عقلمند اس قسم کی برابری کے امکان کا خیال بھی کر سکتا ہے.بالشو کس نے

Page 356

اسلام اور حریت و مساوات کوشش کی لیکن اب تک ناکامی کا منہ دیکھ رہے ہیں ہیں حق وہی ہے جو اسلام نے بیان کیا کہ شخص کو اس کی محنت کا پھل دے کر پھر اس پر ایسے لوگوں کی مد د مقرر کر دی جو کمزور ہیں اور ایک حصہ مدد کا فرض کر دیا اور دوسرا بطور نفل کے رکھا تاکہ مختلف مدارج رومانیہ کے آدمی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ لے (البقرۃ : ۱۴۹) کے حکم کی تعمیل کریں.خواجہ صاحب جس مساوات کی طرف دنیا کو دعوت دیتے ہیں.وہ عقلاً بھی نہایت مضر ہے.کیونکہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے لوگ مست ہو جائیں اور دنیا کی تمام ترقی ڈرک جائے.مال کما کر بطور امانت رکھنا عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب ایک طرف تو مسادات پر زور دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ قانون بھی بتاتے ہیں کہ جس نے مال کمایا ہے وہ اسی کے پاس امانت رہے.امانت تو تب رکھی جاتی ہے جب امانت رکھنے والے کو اس مال کی ضرورت نہ رہے جب کہ دنیا میں بعض زیادہ مالدار اور بعض بالکل غریب نہ ہوں.لیکن جب کہ یہ بات نہیں.بلکہ دنیا کے لوگوں میں بہت بڑا فرق موجود ہے تو پھر امراء کے پاس مال امانت پڑا رہنے کا کیا مطلب ہوا ؟ اس کو ان لوگوں میں تقسیم کرنا چاہئے جو خواجہ صاحب کے نزدیک اس کے اہل ہیں.خواجہ صاحب کی پیش کردہ آیت کا صحیح مطلب خواجہ صاحب اپنے دعوی کی تائید میں قرآن کریم کی آیت وَالَّذِينَ يَكْتِرُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبیلِ اللهِ " (التوبہ : ۳۴) سے یہ ستدلال کرتے ہیں کہ اس میں سے مال کی مساوی تقسیم کا فتویٰ نکلتا ہے.حالانکہ اس سے یہ بات ہرگز نہیں نکلتی.اول تو اس آیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت جب کہ دین کے راستہ میں شکلات ہوتی ہیں دین کی اشاعت میں روپیہ صرف نہیں کرتے بلکہ روپیہ جوڑتے رہتے ہیں سزا کے مستحق ہیں.مساوی تقسیم کا یہاں سوال ہی نہیں.فی سبیل اللہ سے مراد قرآن کریم میں اشاعت دین و نصرت دین ہوتی ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ جب دین اور دنیا کا مقابلہ ہو جائے تو ہرشخص کا فرض ہے کہ اپنا مال اور اپنی جان اور اپنی عزت اور وطن اور دولت سب کچھ دین کے لئے قربان کردے اور

Page 357

۳۳ اسلام اور حرمیت و مساوات جو شخص ایسا نہیں کرتا خدا تعالیٰ کے حضور سزا کا ستحتی ہے جس جس قدر دین کی اشاعت کے لئے مال کی ضرورت پیش آئے.اسی اسی قدر مال اس کی راہ میں دینا ہر مومن کا فرض ہے.اگر اس آیت کے یہ معنے بھی کر لئے جائیں کہ اس سے عام لوگوں پر خرچ کرنا مراد ہے تو بھی اس امر کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ اس جگہ یک نرون" کا لفظ ہے اور کنٹر کرنا اور مال کا پاس رکھنا بالکل جداگانہ باتیں ہیں.خواجہ صاحب نے خود اپنے مضمون میں علم الاقتصاد کا حوالہ دیا ہے پس ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ کنز کرنے کے معنے جوڑنے کے ہیں.جسے انگریزی میں ہورڈنگ ( HOARDING ، کہتے ہیں اور اس کو تمام علم الاقتصاد کے ماہر ایک خطرناک عیب قرار دیتے ہیں.لیکن باوجود اس کے مالدار ہونے کو کوئی عیب نہیں قرار دیتا اور جس شخص نے روپیہ کمایا ہے اس کو اس مال کے تقسیم کر دینے کی ہدایت نہیں کرتا.ہمارے ملک میں بھی بخیل بُرا سمجھا جاتا ہے.لیکن ہر وہ شخص جس کے پاس جائیداد ہو بخیل نہیں کہلاتا.میں اگر اس آیت میں عام حکم ہے تو بھی اس میں روپیہ جوڑنے سے منع فرمایا ہے نہ کہ مال کی برابر تقسیم کا حکم دیا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ اسلام روپیہ جوڑنے سے منع فرماتا ہے اور اسی لئے شریعت نے زکوۃ کا حکم دیا ہے.تاکہ کوئی شخص روپیہ نہ جوڑا کرے.جو روپیہ جوڑے گا ساٹھ ستر سال کے عرصہ میں اس کا سب مال غرباء میں زکوۃ کے ذریعہ تقسیم ہو جائے گا پس مال جوڑنا شرعاً نا پسند ہے.اور ایسا شخص جو مال جوڑتا ہے واقع میں اسلام کے خلاف کرتا ہے.لیکن اگر کسی کا روپیہ تجارت میں لگا ہوا ہے یا زمینوں یا مکانوں پر.تو ایسا شخص اگر زکوۃ ادا کرتا ہے اور غریبوں اور مسکینوں کی خبر گیری کرتا ہے تو اسے شریعت مجبور نہیں کرتی کہ وہ اپنا سب مال برابر حصہ کر کے غرباء میں تقسیم کر دے اور مساوات قائم کرے اور نہ اس کو گنگار قرار دیتی ہے غرض اگر اس آیت کا مفہوم عام ہے تو بھی اس میں روپیہ جوڑنے سے منع کیا ہے کیونکہ جو شخص روپیہ جوڑتا ہے وہ مال کو بیکار پڑا رہنے دیتا ہے اور اس سے دنیا کو نقصان پہنچتا ہے.شریعت اسلام اس امبر کو پسند کرتی ہے کہ روپیہ کام پر لگا رہے تاکہ اس سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھائیں.مثلاً جو شخص روپیہ و پیه تجارت پر لگائے گا اس سے علاوہ لوگوں کو خرید و فروخت کے فائدہ کے یہ بھی فائدہ ہو گا کہ کئی لوگوں کی تجارت کو اس سے فائدہ پہنچے گا.کئی لوگ اس کے ہاں ملازم ہو سکیں گے.مال کے بڑھنے سے اسے غریبوں کی مدد کرنے کا بھی زیادہ موقع ملے گا.در حقیقت روپیہ کا جوڑنا ایک ایسا گندہ فعل ہے جو مسلمان کر ہی نہیں سکتا.لیکن اس بات میں اور مال کو برابر تقسیم کرنے یا مالی مساوات قائم کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے.

Page 358

انوار العلوم جلد ۵ ۳۳۸ اسلام اور حمد بیت و مست خواجہ صاحب کا عجیب استدلال خواجہ صاحب نے اس آیت سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ اس میں وَلا يُنفِقُونَهَا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور نہیں خرچ کرتے اس سے یہ نہیں فرمایا کہ نہیں خرچ کرتے اس میں سے یا پس معلوم ہوا کہ سب مال خرچ کر دینا چاہئے.اول تو یعنی بالبداہت غلط ہیں کیونکہ اس صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ انسان جو کچھ کھائے اسے روز کے روز خرچ کرتا چلا جائے کیونکہ اگر وہ آج کی مزدوری میں سے کچھ رقم اس لئے رکھ لے گا کہ کل کام آوے گی تو یہ اس آیت کے خلاف ہوگا کیونکہ اپنی ذات کے لئے جمع کرنا اس میں منع کیا ہے.اور اگر جمع بھی کرے تو پھر اس جمع شدہ میں سے اپنی ذات پر خرچ کرنا منع ہوگا.لیکن اس بات کا دعویٰ خواجہ صاحب نہیں کرتے اور عقلاً بھی ایسے معنے کرنے محال ہیں.پس اس کے یہ معنے ہو ہی نہیں سکتے.باقی رہا يُنْفِقُونَها سے استدلال.سو یہ استدلال بوجہ عربی زبان سے ناواقفیت کے ہے.عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ گل اور بعض اور ایسے ہی عام الفاظ کو حذف کر دیا جاتا ہے اور کبھی عام الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور اس سے بعض حصہ مراد ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں.جیسا کہ بنی اسرائیل کی نسبت فرماتا ہے وَجَعَلَكُمْ مُلوكاً (المائدة : ۲۱) اور تم کو بادشاہ بنا دیا.حالانکہ سب بنی اسرائیل بادشاہ نہ تھے ان میں سے بعض بادشاہ تھے.عرض هاسے یہ استنباط کرنا کہ سب مال تقسیم کر دینے کا حکم ہے.درست نہیں کیونکہ عربی زبان کے قواعد کے مطابق کھا سے بعضا بھی مراد ہو سکتا ہے.اور یہ ایک ایسا موٹا قاعدہ ہے کہ علوم عربیہ کے واقف کاروں میں سے ادنیا واقف بھی اس مسئلہ کو جانتا ہے.اسلام میں تفرقہ کی ایک وجہ مال کا حسد تھی خواجہ صاحب نے اپنے مضمون میں مجھ پر یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ شروع زمانہ اسلام کے وجوہ تفرقہ میں جو میں نے یہ بات بیان کی ہے کہ صحابہ کے پاس مال دیکھ کر دشمنوں نے حسد سے ان پر اعتراض کئے اور لوگوں میں پھیلانا شروع کیا کہ یہ دوسروں کا حق مار کر مالدار ہو رہے ہیں یہ میری اختراع ہے.مجھے ان کی اس تحریر کو پڑھ کر ان کی علمیت پر سخت تعجب اور حیرت ہوئی جس شخص کو تاریخ کا اس قدر علم بھی نہ ہو وہ ایسے مباحث پر لکھنے بیٹھے جن میں تاریخ کا علم ضروری ہے تو اس کی دلیری پر تعجب ضرور ہوتا ہے.خواجہ صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے.اس کی تائید کے لئے مختلف تاریخوں کی ورق گردانی کی بھی ضرورت نہیں.صرف اس مشہور تاریخ کا حوالہ دینا

Page 359

۳۳۹ اسلام اور حریت و مساوات کافی ہے جو زمانہ اسلام کی تاریخوں کی مل کھلانے کی مشتق ہے یعنی طبری اس کتاب میں حضرت عثمان کے زمانہ کے اختلاف کی وجوہ میں یہ بات لکھی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کے حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے.مگر وہ لوگ جن کو اسلام میں سبقت حاصل نہ تھی چونکہ نہ تو صحابہ کے برابر عزت پاتے تھے اور نہ ان کے برابر اموال میں حصہ پاتے تھے اس پر ان لوگوں نے اس تفضیل پر گرفت شروع کر دی اور اسے ظلم قرار دینے لگے.لیکن عامتہ الناس سے ڈر کر اپنے خیالات کو ظاہر نہ کرتے تھے صرف خفیہ طور پر یا نا واقف مسلمانوں میں یا آزاد شدہ غلاموں میں یہ باتیں پھیلاتے تھے.اسی طرح طبری لکھتا ہے کہ حضرت ابو ذر غفاری کو ابن سوداء نے جوش دلا کر امراء کے خلاف کھڑا کیا تھا.میں خواجہ صاحب گو یہ بات کہیں کہ یہ تاریخی شہادت کمزور ہے لیکن ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اس تاریخی شہادت کے وجود کا انکار ہی کر بیٹھیں کیونکہ یہ بات صرف ان کی جہالت پر دلالت کرے گی.خواجہ صاحب اس امر پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ میں نے عضو کے عفو کے معنی اور تفاسیر معنی تفسیروں سے کیوں بیان کئے.اس کا جواب یہ ہے کہ مجھے خواجہ صاحب کا مشرب معلوم نہ تھا.چونکہ عام طور پر مسلمان تفاسیر سے باہر کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے اس لئے میں نے تفاسیر کے حوالے دیئے.ورنہ ہمارا علم کلام شاہد ہے اور دشمن سے مہمن بھی جانتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے تفاسیر کی قید سے آزاد ہیں.ہم مفسرین کی خدمت کے مقر ہیں گھر جو ان کی بات درست ہو اس کو شکر گزاری سے اس کے بدلائل ثابت ہونے کے سبب سے لیتے ہیں اور جو ان کی بات غلط ہو اس کو رد کر دیتے ہیں اور اس کی بجائے خود مستقل تغییر کرتے ہیں.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تفاسیر کے بیان کو نقل کرنے سے میری مراد صرف ان کے خیالات بتانا ہی نہ تھی بلکہ عضو کے جو معنے ان لوگوں کے نزدیک ثابت ہیں ان کا بتانا بھی منظر تھا اور اس میں کیا شک ہے کہ عربی زبان کے متعلق اہل عرب کی تحقیق ہی ہمارے لئے خضر راہ بن سکتی ہے.کسی چیز کے مستحق کے پاس اس چیز کا رہنا خواجہ صاحب نے اپنے اس مضمون میں مجھ پر مختلف اعتراض کرنے کے ساتھ ساتھ پھر اس امر پر زور دیا ہے کہ انسان چونکہ خلیفہ اللہ ہے اس لئے جو شخص جس چیز کامستحق ہے وہ اس کے پاس رہنی چاہئے.میں بھی اس امر کوتسلیم کرتا ہوں کہ جو شخص جس چیز کا مستحق ہے وہ اس کے پاس رہتی چاہئے.لیکن نہ تو انسان کے خلیفہ اللہ ہونے سے اس کے متعلق کوئی استدلال ہو سکتا ہے اور نہمستحق کے یہ معنے ہیں کہ مساوات کی جائے.بلکہ ہر شخص جو جائز ذرائع سے مال کماتا ہے وہ اس کا مستحق ہے اور ماه تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 360

انوار العلوم جلد الله ۳۴۰ اسلام اور تربیت دم وہ مال اس کے پاس رہنا چاہنے کوئی شخص اس سے جبرا نہیں چھین سکتا.سوائے اس کے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ حق زکوۃ وصول کرے یا اور دوسرے معین حقوق وصول کرے.ہاں بنی نوع انسان کے اندر محبت و الفت کے بڑھانے اور تقویٰ کے درجوں کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کی تحریک مؤمن کوئی ہے.پس ہر ایک شخص جس قدر زیادہ تقویٰ میں بڑھا ہوا ہوتا ہے اسی قدر غرباء اور مساکین کی خبر گیری کرتا ہے.مگر اس پر اسے مجبور نہں کیا جاتا کہ وہ اپنا گزارہ لے کر باقی سب مال غرباء میں تقسیم کر دے.عورت کا ورثہ عورت کے ورثہ کے متعلق خواجہ صاحب نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا تھا کہ اس کا ورثہ اس لئے آدھا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی بھی وراث ہوتی ہے.میں نے ان کو اس تحریف قرآنی پر آگاہ کیا تو انہوں نے اس غلطی کے قبول کرنے میں کوئی چارہ نہ دیکھا مگر پھر بھی اپنی بات رکھنے کے لئے انہوں نے اپنے تازہ مضمون میں اس طرح بات بنائی ہے کہ عورت اگر سو روپیہ کمائے گی تو مرد چار سو اس لئے جب وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے تو عورت کا حصہ دگنا ہو جائے گا.مگر یہ بات کٹ حجتی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ عورت نے اپنے تمام رشتہ دار مردوں اور رشتہ دار عورتوں کے اموال سے سوائے شاذ حالت کے آدھا ورثہ پایا ہے اور مرد نے پورا پس کسی صورت میں بھی عورت کا حصہ مرد کے برابر نہیں ہو سکتا.میں نے خواجہ صاحب کو للرجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ (البقرة : (۲۲۹) آیت کی طرف بھی توجہ دلائی تھی اور بتایا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد اور عورت میں شریعت نے من گل الوجوہ مساوات نہیں رکھی خواجہ صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر مرد کو اس کی طاقت کی وجہ سے عورت کی حفاظت کا حق دیا گیا ہے تو اس حق کا اسے غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے.میں اس جواب پر حیران ہوں کہ اس کے لکھتے ہوئے خواجہ صاحب کو اس قدر بھی خیال نہ آیا کہ سوال کیا تھا اور میں جواب کیا دے رہا ہوں ظلم یا انصاف کا یہاں سوال نہ تھا.میں نے تو یہ بتایا تھا کہ معاملات میں بعض ایسے حقوق مرد کو دیے گئے ہیں جو عورت کو نہیں دیے گئے اور اس کو انہوں نے تسلیم کر لیا ہے.مرد خواہ انصاف سے ان حقوق کا استعمال کرے خواہ ظلم سے مساوات بہر حال نہ رہی.شریعیت نے عورت کی اصلاح کا ایک طریق مارنا رکھا ہے نے لکھا تھا کہ روکو ناشزہ پائے اور اور ذرائع سے اس کی اصلاح نہ ہو تو اس کو مارے.لیکن عورت کو یہ حق نہیں.پس

Page 361

انوارا اسلام اور تربیت و مساوات مساوات نہ رہی.خواجہ صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء : ۳۵) میں رجال سے مراد فرقہ ذکور اور نساء سے مراد فرقہ نساء ہے.اور ان خِفْتُمْ شِقَاقَ بينهما (النساء :٣٦) میں ضمیر جمع مخاطب اسی جمہور کی طرف راجع ہے اور بَيْنِهِمَا " میں میاں بیوی کی طرف یعنی سزا دینا پنچایت کے اختیار میں ہے.اول تو یہ معنے ہی باطل ہیں.کیونکہ ان خفت والی آیت بعد کی ہے اور وَالَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ (النساء : ۳۵) والی آیت پہلے کی ہے.اور دوسرے کوئی شریف آدمی اس امر کو برداشت نہیں کرسکتا کہ پنچایت بیٹھ کر اس کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ وہ اس قدر عرصہ تک اپنی بیوی سے ہم محبت نہ ہو.یہ امرتو خاوند کے اختیار میں ہے اور اسی کو شریعت نے اختیار دیا ہے لیکن اگر یہ متنے بھی تسلیم کر لئے جاویں تب بھی سوال وہی رہتا ہے کہ عورت کے نشوز پر تو پنچایت کو مارنے کا حکم دیا ہے لیکن مرد کو مارنے کا حکم پنچایت کو بھی نہیں دیا.پس پھر بھی مساوات نہ رہی.ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے متعلق خواجہ صاحب تعداد ازدواج اور خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ مرد کو اس کی حسب پسند ایک سے زیادہ نکاح جائز نہیں.مگر فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنى وَثُلث وربع ) کی موجودگی میں یہ دعوئی ایک دعوی بلا دلیل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا.خواجہ صاحب حدیث کا انکار کر دیں مگر تاریخ کا انکار تو نہیں کر سکتے (آج کل کے آزاد خیالوں نے یہ عجیب طریقہ اختیار کیا ہے کہ حدیث کا تو انکار کر دیتے ہیں جو تاریخ سے زیادہ پختہ دلائل سے ثابت ہے.مگرہ تاریخ کو قبول کر لیتے ہیں جس کی بناء حدیث کی صحت کے دلائل کی نسبت نہایت کمزور دلائل پر ہے، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی رضوان اللہ علیہم کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں.کیا عقل اس امر کو تسلیم کر سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے بزرگوں کو ایسی مجبوریاں پیش آگئی تھیں کہ جن کی موجودگی میں ایک سے زیادہ نکاح کے بغیر چارہ نہ تھا.عورت کا نفلی روزہ میں نے لکھا تھاکہ عورت کو نفلی روزہ رکھنا بلا خاوند کی اجازت کے جائز نہیں.اس پر خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ کیا خاوند کو جائز ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خواجہ صاحب کو علمی مباحث میں پڑنے سے پہلے شریعت کے موٹے موٹے مسائل کی واقفیت ضرور حاصل کرلینی چاہئے ان کو یاد رہے کہ شریعت اسلام نے اگر روزہ کے متعلق کچھ قواعد

Page 362

انوار العلوم جلد ۵ ۳۴۲ اسلام اور حریت و مساوات بنائے ہیں تو مرد کے لئے بھی نفلی روزہ کی قید رکھی ہے مگر اس میں عورت سے اجازت لینے کی شرط نہیں رکھی.عورت کے لئے یہ شرط مقرر کی ہے کہ وہ خاوند سے اجازت ہے اور میرا منشاء اس حکم کے پیش کرنے سے صرف یہ ہے کہ من گل الوجوہ مساوات کا مسئلہ شریعت کے خلاف ہے.مساوات بعض دفعه نهایت خطرناک ہوتی ہے اور بجائے اس سے فائدہ پہنچنے کے نقصان پہنچ جاتا ہے اور اس کی خوبیاں نسبتی خوبیاں ہیں اور اس کی شکلیں بھی ہزاروں ہیں.بعض دفعہ جو چیز مساوات نظر آتی ہے وہ عدم مساوات ہوتی ہے.عورت کے لئے نکاح کے وقت ولی کی ضرورت میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ عورت کو نکاح کے لئے کسی ولی کی وساطت کی ضرورت رکھی گئی ہے لیکن مرد کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی.خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ اگر ایسا کیا گیا ہے تو اسی کے فائدہ کے لئے ہے کیونکہ مرد کے عیوب سے عورت واقف نہیں ہوتی.اس لئے کسی مرد کی ولایت میں نکاح کرنے کا اسے حکم دیا گیا تا مردوں کے ذریعہ ایسے مرد کے عیب و صواب کا علم ہو جائے.مگر خواجہ صاحب نے یہ نہ سوچا کہ سوال تو مساوات کا تھا فائدہ یا عدم فائدہ کا سوال نہ تھا.اگر فائدہ کا سوال درمیان میں آجائے تو پھر تو اس بحث کا کچھ فائدہ ہی نہیں.کیونکہ اصل سائل کو انگریزوں کے طریق عمل پر اعتراض تھا.اور اگر یہ اصل تسلیم کر لیا جائے کہ جس میں کسی کا فائدہ نظر آئے اس سے اسی رنگ میں معاملہ کیا جائے خواہ مساوات نہ رہے تو پھر تو بات ہی حل ہو جاتی ہے.انگریز بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ عدم مساوات صرف ہندوستانیوں کے فائدہ کے لئے ہے.اور یورپ جس قدر ممالک پر قبضہ کر رہا ہے صرف اسی عذر پر کر رہا ہے کہ ان لوگوں کا ہمارے ماتحت رہنا ان کے لئے نہایت مفید ہے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر عورت کو مرد کی ولایت سے نکاح کا تصفیہ کرنے کا اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ عورت مرد کے عیب سے واقف نہیں ہوتی تو پھر اس صورت میں تو مرد کو بھی حکم ہونا چاہئے تھا کہ وہ کسی عورت کی ولایت سے نکاح کرے.کیونکہ جس طرح عورت کو مرد کے عیب و صواب کا علم نہیں ہوتا مرد کو بھی عورت کے عیب و صواب کا علم نہیں ہوتا.جو وجہ خواجہ صاحب بتاتے ہیں وہ تو دونوں میں پائی جاتی ہے پھر کیوں حکم میں برابری نہیں رکھی گئی.مغربی ممالک میں اسلام کی اشاعت خواجہ صاحب یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ جس صورت میں میں نے اسلام کو پیش کیا ہے اس سے

Page 363

انوار العلوم ۳۴۳ اسلام اور تربیت و مساء زیادہ بھیانک صورت میں پادری بھی پیش نہیں کرتے اور اس صورت میں اسلام مغربی ممالک میں نہیں پھیل سکتا.مجھے خواجہ صاحب کے اس اعتراض پر تعجب ہے.وہ واقعات کو اس طرح نظر انداز کر دیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.ان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ جبکہ وہ اسلام جس کے وہ قائل ہیں روز بروز تنزل کی طرف قدم اُٹھا رہا ہے اور مسیحیوں کے حملوں سے نیم جان ہو رہا ہے.وہ اسلام جسے میں پیش کرتا ہوں یورپ اور امریکہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت پھیل رہا ہے.خود میری تین بیویاں ہیں اور یورپ کے نومسلم ان مسائل کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ نومسلمہ عورتیں شادی شدہ مرد کے ساتھ شادی کرنے پر تیار ہیں اور کرتی ہیں.اور ہمارے نزدیک جو اسلام کی تعلیم ہے اس سے ایک حد تک واقف ہیں پیس عملی کامیابی کو نظر انداز کر کے عملی ناکامی کو اصل کامیابی کا راستہ قرار دینا ایک ایسا فعل ہے جس کی حقیقت کو خواجہ صاحب یا ان کے ہم خیال ہی سمجھ سکتے ہیں.خواجہ صاحب آخر میں پھر اس امر پر زور دیتے زائد مال کس کے پاس رہنا چاہتے ہیں کہ جو شخص مال کماتا ہے اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کر سکتا ہے اس سے جو زائد بچے وہ اس کے پاس امانت کے طور پر رہے گا اور اگر اس کے اہل کے پاس جاوے گا تو بھی اسی غرض سے جاوے گا.میں اس امر کو نہیں سمجھ سکتا کہ اما نا اس شخص کے پاس مال کیوں رہے گا.امانت اسی وقت رکھوائی جاتی ہے جب اس کی ضرورت نہ ہو.جب دنیا پر وہ زمانہ نہیں آیا جب سرب دُنیا کے لوگ آسودہ حال ہو گئے ہوں تو پھر جس شخص کے پاس زائد مال ہو اس کے پاس بقیہ مال کے امانتاً رکھوا دینے کی وجہ کیا ہے ؟ موجودہ حالات میں تو قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ اس سے مال چھین کر فوراً ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے جو اس سے کم مال رکھتے ہیں ا اس مساوات کا کیا فائدہ ہے کہ ایک تو لاکھوں روپیہ اپنے گھر میں امانت کے نام سے جمع کر کے میٹھا بنوا ہو اور دوسرے کے پاس اس سے آدھا سامان معیشت بھی نہ ہو.یہ مساوات تو صرف رسمی مساوات ہوگی نہ کہ حقیقی.نوشی پھر یہ بھی سوال ہے کہ جب ضرورت سے زائد مال لوگوں کا ہے تو کسی خاص شخص کے پاس اسکو کیوں امانت رکھا جائے.یہ حق تو لوگوں کا ہونا چاہئے تھا کہ وہ جس کے پاس چاہیں اس مال کو امانتشار کوئیں یا حکومت اس مال کو اپنے پاس رکھنے کی حقدار ہے کہ وہ سب آبادی سے یکساں تعلق رکھتی ہے.اور اگر اس بناء پر کہ جس شخص نے محنت سے روپیہ کمایا ہے وہ مستحق ہو گیا ہے کہ اس پر اعتبار کیا جائے اور روپیہ اس کے پاس رہنے دیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ آئندہ اس مال کو ورثہ میں تقسیم کیا جاتا ہے.

Page 364

انوار العلوم جلد ۵ اسلام اور حریت و مساوات کیا جو شخص مستحق ہو اس کی اولاد بوجہ اولاد ہونے کے ہی مستحق ہو جاتی ہے.اگر مال کمانے والے کے پاس بوجہ استحقاق روپیہ رہنے دیا جاتا ہے تو پھر یہ شرط مقرر کی جانی چاہئے تھی کہ اگر جمع شدہ مال کی نسبت یہ یقین کر لیا جائے کہ متوفی کی اولاد اسے اپنے نفس پر خرچ نہیں کرے گی.بلکہ اسے مساوی طور پر حاجتمندوں میں تقسیم کر دے گی تب اس مال کو اس کے پاس رہنے دیا جائے ورنہ ان سے لے کر کسی اور امین کو دے دیا جائے کہ مساوی طور پر حاجتمندوں میں تقسیم کر دے.خواجہ صاحب کو نصیحت چونکہ خواجہ صاحب کے مضمون کی تمام باتیں جو قابل توجہ تھیں میرے مضمون میں آگئی ہیں اس لئے میں اسی حد تک اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور خواجہ صاحب کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ اپنا بھی اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کرنے کی کوشش نہ کریں.اگر فی الواقع ان کو احقاق حق کا شوق ہے تو نفس مضمون کی طرف توجہ کریں اور ایک دفعہ سائل کے سوالات اور میرے جوابات کو پھر غور سے پڑھیں.اور پھر اگر کوئی امر دریافت طلب ان کو نظر آوے تو مجھ سے دریافت کریں.یونی ادھر سے ادھر کلام کی باگیں پھیر تے جانا خلاف دانش ہے اور سوائے خلط مبحث کے اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.اور اگر وہ حق سے محروم نہیں رہنا چاہتے تو مضمون لکھتے وقت اس امر کی طرف زیادہ توجہ دیا کریں کہ جس کے خلاف وہ مضمون لکھ رہے ہوں اس کی طرف ایسی باتیں نہ منسوب کیا کریں جو اس نے نہیں کہیں.کیونکہ گو اس سے ان لوگوں کو دھوکا لگ جائے جنہوں نے فریق ثانی کا مضمون نہیں پڑھا مگر اس سے مضمون نویس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس پر مسخ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور حق کے قبول کرنے سے وہ ہمیشہ کے لئے محروم رہ جاتا ہے.وَاجِرُ دَعُو مِنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.خاکسار مرزا محمود احمد و الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۲۱ء )

Page 365

بست ۳۴۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمد احمد خلیفہ المسیح الثانی

Page 366

Page 367

پیشه اه النوار العلوم جلد ۵ ۳۴۷ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اسلام پر ایک آریہ پروفیسر کے حملہ کا جواب از حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ دار ادا خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ماهير آریہ پروفیسر صاحب کی تقریر پہلے دنوں وہور میں آریہ سماج کے دونوں حصوں کے جیسے تھے.ان جلسوں میں جہاں اپنے قومی امور کے متعلق تقریریں ہوئیں وہاں دوسرے مذاہب سے اپنے مذہب کا مقابلہ کرکے بھی دکھایا گیا.ان تقاریر میں سے گور دکل پارٹی کے ایک لیکچرار پروفیسر رام دیو صاحب کی تقریر خصوصیت کے ساتھ عام پبلک کے خیالات میں ایک جوش پیدا کر رہی ہے.اس تقریر کا موضوع یہ تھا کہ دیگر مذاہب مثلاً بدھ مذہب اور سیمی مذہب اور اسلام اس زمانہ کے حالات کے مطابق نہیں ہیں اور سائنس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن ہندو مذہب چونکہ خود سائنس کا سرچشمہ ہے اس کو علوم کی ترقی سے خطرہ نہیں.پس یہی آئندہ دنیا کا مذہب ہے.تقریر سے مسلمانوں میں جوش ان مسلمانوں میں جین کو اس لیکچر کا علم ہوا ہے ایک شام جوش ہے کہ اس صلح کے زمانہ میں اس قسم کے مضامین پر لیکچر دینے سے اس اتحاد میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا.مگر میرے نزدیک آریہ سماج کی یہ روح اس بے غیرتی کے مقابلہ میں جو بعض مسلمانوں نے دکھائی ہے بہت زیادہ قابل تحسین ہے.آریہ سماج نے ثابت کر دیا ہے کہ جو تھوڑا بہت تعلق بھی اسے مذہب سے ہے وہ اس کو اس سیاسی شورش کے زمانہ میں بھی چھوڑ نہیں سکتی یا یہ کہ وہ مذہبی جوش کو سیاسی کامیابی کے لئے ضروری سمجھتی ہے لیکن بعض مسلمانوں نے اس کے برخلاف اپنے مذہبی احکام کو نیادی

Page 368

انوار العلوم جلد و فوائد کے لئے قربان کر دیا ہے.۳۴۸ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب مختلف الخیال اقوام کا کن امورمیں اتحاد ہوسکتا ہے میرے نزدیک وہ لوگ جو پر غیر صاحب کے اس لیکچر پر اس رنگ میں معترض ہیں انہوں نے انسانی دماغ کی بناوٹ پر غور ہی نہیں کیا اور دوسروں کو تو انھوں نے کیا سمجھانا تھا خود اپنے نفس کو بھی انھوں نے نہیں سمجھا.وہ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح ہم نے اپنے ہندو بھائیوں کو ساتھ ملانے کے لئے گائے کی قربانی چھوڑ دی ہے وہ بھی ہمیں اپنے ساتھ ملانے کے لئے اپنے مذہبی خیالات کے اظہار سے باز رہیں اور اسلام کے ساتھ اس کا مقابلہ نہ کریں حالانکہ وہ اتحاد جس میں یہ شرط رکھی جائے کہ اختلاف آراء کا اظہار نہ ہو دو مختلف الخیال اقوام میں ناممکن ہے.ایسا اتحاد سے عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتا اور ضرور ہے کہ جلد یا بدیر ضمیر اپنی طاقت کو ظاہر کرے اور ایک فریق سے ایسے خیالات کا اظہار کرائے جو دوسرے فریق کے نزدیک درست نہیں ہیں.جو لوگ اتحاد کے لئے یہ شرط رکھتے ہیں کہ کسی قسم کا اختلاف نہ ہو وہ انسانی فطرت سے واقف نہیں ہیں اور ہرگزنہ اس قابل نہیں کہ اتحاد قائم کرنے کا کام ان کے ہاتھوں میں دیا جائے.اتحاد کے قیام کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے کہ اختلاف کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے اور صرف ان امور میں اختلاف کو روکا جائے جن پر کہ اتحاد کرنا مد نظر ہے اور اس طرز کے اختلاف کو روکا جائے کہ جس اختلاف سے اس کام کا چلنا مشکل ہو جائے جس میں اتحاد کیا گیا ہے.مثلاً ایک ہندو اور ایک مسلمان مشترک دکان کرنے لگے ہیں تو اگر وہ یہ شرط کریں کہ مسلمان نماز نہ پڑھا کرے اور ہندو مندر میں نہ جایا کرے تو یہ اتحاد بناوٹی ہے اور خلاف قدرت ہے یہ ضرور ٹوٹ کر رہے گا اور اتنی عمر نہیں پائے گا جتنی کہ صحیح بنیادوں پر رکھا ہوا اتحاد پایا کرتا ہے.یہ اتحاد یا تو اخلاق فاضلہ کا خون کریگا اور بے غیرتی پیدا کریگا یا جلد ٹوٹ کر فتنہ و فساد کا دروازہ کھول دیا اور امر اول کا نتیجہ بھی آخر میں فساد ہی ہوگا کیونکہ جو شخص ان عقائد کو جن پر وہ یقین رکھتا ہے یا ان اعمال کو جن کو وہ مستحسن خیال کرتا ہے دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے چھوڑتا ہے وہ کسی خاص فائدہ کی امید میں اس اتحاد کو بھی ترک کر سکتا ہے.پس اتحاد و ہی اتحاد ہے جس کی بنیاد اس امر پہ ہو کہ حق اور راستی کے خلاف جو امور نہ ہوں گے ان میں لیکر کام کیا جائیگا اور ایک دوسرے کے عقیدہ اور خیال میں یا اس کے ذاتی عمل میں دست اندازی نہ کی جائیگی.

Page 369

انوار العلوم جلد ۵ ۳۴۹ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب گائے کی قربانی ترک کرنے کا سمجھوتہ بعض مسلمانوں نے اس نکتہ کونہیں سمجھا اور جوش میں آکر بلاکسی خاص سمجھوتے کے جو اس فعل کو جائز قرار دیتا گائے کی قربانی کو ترک کرنے کی تحریک شروع کر دی اور اب ہندوؤں سے اس امر کی امید رکھتے ہیں جس کا انہوں نے وعدہ نہیں کیا تھا.مسلمان یہ امید ہرگز نہیں کر سکتے کہ اگر یہ کوئی غلطی کریں تو ان کے خوش کرنے کے لئے دوسری قوم بھی جو ان سے اتحاد رکھنا چاہتی ہو با وجود عقل اور سمجھ کے اسی قسم کی ایک غلطی کرے اس سے زیادہ نا جائز مطالبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا.اگر کوئی مطالبہ تھا تو اسے ابتداء ہی میں پیش کرنا چاہئے تھا.اب تو مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید بر کلۀ خود باید زود والی مثال ہے.نیا سے مذہب کی حکومت نہیں اُٹھ سکتی ان مسلمانوں کو خو یاد رکھنا چاہئے کرجب تک دنیا آباد ہے اور جب تک انسان اس میں بستا ہے اس وقت تک مذہب کی حکومت دُنیا سے اٹھ نہیں سکتی.مختلف زمانوں میں مذاہب کا اثر مٹانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن انکی گرفت اگر کسی وقت عارضی طور پر ڈھیلی ہو بھی گئی ہے تو پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کا پنجہ مضبوط ہو گیا ہے پس گو انہوں نے مذہب کے متعلق کسی قسم کی گفتگو کو خلاف اتحاد قرار دیا ہو مگر فطرت انسانی اس فیصلہ کو قبول نہیں کر سکتی یہ فیصلہ بدل کر رہے گا اور اس وقت تک اتحاد قائم نہ ہوگا جب تک اس کی بنیاد صحیح بنیادوں پر نہ ڈالی جائے گی.یعنی چند مقررہ قواعد پر جو پہلے سے منضبط کر لئے جائیں تاکہ بعد میں فتنہ کی گنجائش نہ رہے.پروفیسر صاحد کے دلائل اسلام کے خلاف اس تمہید کے بعد یں پروفیسر رام دیو اب کے لیکچر کے اس حصہ پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جو اسلام کے متعلق ہے.اخبار بندے ماترم لاہور کے میں نومبر کے پرچہ میں جو خلاصہ پروفیسر صاحب کے لیکچر کا لکھا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اسلام کو اس زمانہ کی ضروریات وه کے پورا کرنے کے ناقابل ان دلائل سے قرار دیا ہے کہ (1) مسلمانوں کا رنگ گورا نہیں اس لئے یورپ کی مشکلات کو حل نہیں کر سکتے (۲) بعض مسلمان بھی اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے لگ گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کے حملوں کا اسلام مقابلہ نہیں کر سکتا.اس دعوئی کی تائید میں انھوں نے مندرجہ ذیل مثالیں بیان کی ہیں.مسٹر خدا بخش ایم اے نے لکھا ہے کہ قرآن کریم محمد اب

Page 370

انوار العلوم جا ۳۵۰ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اصلی اللہ علیہ وسلم ) کی ڈائری تھی جس میں وہ اپنے خیالات لکھ لیا کرتے تھے.سید امیر علی صاحب اپنی کتاب سپرٹ آف اسلام میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو فرشتوں کا ذکر ہے وہ محمد صاحب اضلی اللہ علیہ وسلم ) کا وہم اور شاعرانہ نازک خیالی تھی.پھر وہ لکھتے ہیں کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم نے غلطی کی کہ چند دنوں کے لئے مشرکوں کے کہنے پر بہتوں کو مان لیا.اسی طرح سید امیر علی پردہ سسٹم کے خلاف ہیں اور کثرت ازدواج کے مسئلہ کو زنا کاری خیال کرتے ہیں.صوفی فرقہ کے لوگ ہندوؤں کی طرح لفظ رام رام کی بجائے اللہ اللہ کر کے ذکر کرتے ہیں.مظہر الحق صاحب بیرسٹر نے گوشت کو انسانوں کے لئے قدرتی خوراک نہیں بتایا.ایک اور لیڈر مسٹر یوسف علی ایم اے نے دہلی میں مسلمانوں کو کہا کہ اگر پاکیزگی چاہتے ہو تو را مائن پڑھو.پس اسلام بھی زمانہ ماضی کا مذہب ہے اور نئے تعلیم یافتہ لوگوں کو نسلی نہیں دے سکتا.پروفیسر صاحب کے دلائل کی حقیقت یہ دو دلائل ہیں جو پروفیسر صاحب نے اسلام کے خلاف دیئے ہیں اور وہ خوش ہیں کہ ان دلائل کے ذریعہ انہوں نے اسلام کو مذہبی میدان جنگ میں سے بیکار کر کے واپس کر دیا ہے مگر میرے نزدیک ان سے زیادہ پودے اور ان سے زیادہ کمزور اور کوئی دلائل نہیں ہو سکتے اور اگر بند سے ماتزم کے ایڈیٹر صاحب نے کسی مخفی بغض کی وجہ سے جو ان کو پروفیسر صاحب سے ہو ان کی طرف وہ بات منسوب نہیں کر دی جو انہوں نے نہیں کہی اور ان دلائل کو نظرانداز نہیں کر دیا جو پروفیسر صاحب نے اپنے دعوی کی تائید میں اس وقت دیئے ہوں تو یقیناً ہر ایک عقلمند کے لئے بہ بات نہایت تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے کہ ایک پروفیسر نے اس قسم کے دلائل ایک تعلیم یافتہ جماعت کے سامنے بیان کئے.رنگت کے متعلق اعتراض پہلی دلیل جو پروفیسر صاحب نے دی ہے وہ مسلمانوں کی رنگت کے متعلق ہے.پروفیسر صاحب کے نزدیک مسلمان تعلیم یافتہ یورپ کا علاج نہیں کر سکتے کیونکہ وہ سفید رنگ کے نہیں.یہ دلیل یوسی نہایت بیہودہ ہے لیکن اس شخص کے منہ پر جو خود کالی کہلانے والی قوم میں سے ہے اور اپنے مذہب کے بالآخر غالب آ جانے کی خبر دینے کے لئے کھڑا ہوا ہے اور بھی زیادہ قابل مضحکہ معلوم ہوتی ہے.اگر مسلمان بوجہ سفید رنگ نہ رکھنے کے یورپ کی مشکلات کو حل نہیں کر سکتے تو آریہ صاحبان ان سے بھی زیادہ سیاہ رنگ رکھتے ہوئے یورپ کی مشکلات کو کیونکر حل کر سکتے ہیں.پروفیسر صاحب کو یہ بھی خیال نہ آیا

Page 371

۳۵۱ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کہ مسلمانوں کا کچھ حصہ یورپ کا آباد کا رہے جبکہ آریہ مذہب کے پیرو صرف کالی نسلوں تک محدود ہیں.کسی ی سچائی کے پھیلنے میں اس کے ماننے والوں مجھے تعجب آتا ہے کہ پروفیسر صاحب سے نفرت کی وجہ سے نا کامی نہیں ہو سکتی نے ایسی بات زبان پر آنے ہی کیوں دی.اگر ان کے دل میں اس قسم کا مضحکہ خیز خیال پیدا ہوا بھی تھا تو ان کو چاہئے تھا کہ اس کو دباتے نہ کہ برسرا اجلاس اس کا اظہار کرتے.کیا کوئی شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے یہ یقین کر سکتا ہے کہ کوئی سچا مذ ہب اس لئے کسی قوم میں پھیلنے میں ناکام رہے گا کہ اس کے ماننے والوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں ؟ وہ کون سا مذہب ہے جس سے دوسرے مذاہب نے نفرت نہیں کی جس وقت اسلام عرب کے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس وقت ان لوگوں کو گیا مسلمانوں سے اس سے کم نفرت تھی جو اس وقت یورپ کے لوگوں کو مسلمانوں سے ہے.عرب اس سے بدتر سلوک مسلمانوں سے کرتے تھے جو اس زمانہ میں اہلِ یورپ مسلمانوں سے کرتے ہیں اسی طرح جب اسلام ہندوستان میں آیا ہے تو کیا مسلمان یہاں کے اصل باشندوں کے محبوب تھے ؟ وہ ان سے سخت نفرت کرتے تھے مگر اسلام کی خوبیوں نے ان کے دلوں پر فتح پاہی لی اور کروڑوں آدمی اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے اسی طرح یورپ بھی جب اسلام کی خوبیوں پر آگاہ ہو گا تو اس کی نفرت خود بخود جاتی رہے گی.ہر ایک کام اپنے وقت پر ہوتا ہے سینکڑوں سال کی عداوت اور بعض ایک دن میں نہیں جاتا وہ خیالات جو بطور ورثہ کے کسی قوم کو ملتے ہیں ان کا بکلی دُور کرنا کافی وقت چاہتا ہے " قومیں کبھی یکدم کسی نئی بات کو قبول نہیں کر لیا کرتیں.مذہب کا فائدہ تو روحانی فائدہ ہے اور بوجہ لطیف ہونے کے تیز نظر آدمی کو ہی نظر آسکتا ہے.وہ عام فائدہ کی باتیں جن میں انسان کے جسمانی فوائد مرکوزہ ہوتے ہیں ان کی اشاعت بھی مشکل سے ہوتی ہے.چیچک کے ٹیکے سے اتارے ملک کو کس قدر فائدہ ہوا ہے ہزاروں آدمی ہر سال اندھے ہو جاتے تھے جو اس ٹیکہ کے سبب سے اس صدمہ سے محفوظ ہو گئے ہیں لیکن باوجود اس کے اس قدر مفید ہونے کے لوگ شروع شروع میں اس کی سخت مخالفت کرتے تھے اور بچوں کو چھپا دیتے تھے.میں تمہیں سال کے تجربہ اور تربیت کے بعد جاکر لوگ اس کے فائدہ کے قائل ہوئے ہیں.ریل اور تارکیسی مفید ایجادات ہیں لیکن عرب لوگ اب تک ریل کے فوائد کے قائل نہیں ہو سکے بار بار ترکوں نے ریل بنائی اور انہوں نے توڑ دی.جاپان کسی قدر ترقی یافتہ ملک ہے لیکن اس کے سٹومہ قبیلہ نے جس کا جاپان کی موجودہ

Page 372

انوار العلوم ۳۵۲ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ترقی میں بہت سا حصہ ہے اور جس کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں جاپان کو غیر ملکی حکومتوں کے دخل سے آزادی حاصل ہوئی ہے تار کے اجراء پر حکومت کی سخت مخالفت کی تھی اور بزور شمشیر اس کے اس فعل کا مقابلہ کیا تھا اور اسی طرح ریل کو اپنے علاقہ میں بنے نہ دیا تھا اور یہ مخالفت اس قدر بے عرصہ تک رہی کہ شاہ سے پہلے وہاں ریل نہ بنائی جاسکی حالانکہ یہ قبیلہ شاہی فرمانبرداری میں سب قبائل پر فوقیت رکھتا تھا اور ایڈمرل ٹوگو اور مارشل ٹا کا ماری جیسے لائق آدمی اس میں پیدا ہوئے ہیں جب لوگ دنیاوی فوائد کو پرانی عادات کی بناء پر رد کر دیتے ہیں تو روحانی خیالات کو جو ان کے دیرینہ خیالات کے خلاف ہوں کیوں نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور کیوں ان کو رد نہ کریں.ایسے خیالات کی اشاعت کے لئے وقت چاہئے.خواہ اسلام کو یورپ مسلمانوں کے ایشیائی ہونے کے سبب سے نفرت کی نگاہ سے دیکھے خواہ اس سبب سے کہ یہ مذہب ان کے مذہب کے بعد پیدا ہوا ہے مگر اسلام اگر سچا ہے تو وہ قدیم سنت کے مطابق ان کے خیالات پر غالب آکر رہے گا اور یورپ کی نفرت کو محبت سے بدل کر رہے گا.یورپ پر اسلام کے غالب آنے کے آثار چنانچہ ہم اس کے آثار ابھی سے دیکھتے ہیں.باوجودیکہ یورپ کے لوگوں میں اسلام کی تبلیغ شروع کئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ حق جو لوگوں میں تحقیق کا خیال پیدا ہوگیا ہے اور آہستہ آہستہ ایک ایک دو دو کر کے وہ اس کے قبول کرنے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.اسلام کے مقابلہ میں ویدک دھرم نے کیا گیا پروفیسر صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس مذہب کی نسبت ان کا خیال ہے کہ وہ....قومی اختلاف کے سبب یورپ کے لوگوں میں اشاعت نہیں پا سکتا وہ تو دنیا میں اپی تبلیغی کا میا ہوں کے شاندار نمونہ خواہ وہ وحشی قوموں میں ہی کیوں نہ ہوں دکھا بھی چکا ہے لیکن جس مذہب کی حمایت میں وہ کھڑے ہوئے ہیں اُس نے تو وحشی قوموں میں بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی.کیا اسلام دنیا کا آئندہ مذہب نہیں ہو سکتا دوسری دلیل پر و فیسر صاحب نے اسلام کے خلاف یہ دی ہے کہ وہ سائنس کے حملہ کی برداشت نہیں کر سکا اور خود مسلمانوں کے ایمان متزلزل ہو گئے ہیں اس لئے وہ دنیا کا آئندہ مذہب نہیں ہو سکتا.یہ سوال کہ دنیا کا آئندہ مذہب ہونے کے لئے کن شرائط کا پایا جانا کسی مذہب کے لئے

Page 373

انوار العلوم جلد ۵ ۳۵۳ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ضروری ہے ایک وسیع سوال ہے لیکن میرے نز دیک پروفیسر رام دیو صاحب کے لیکچر پر غور کرتے وقت اس کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں.اس وقت اسی قدر کافی ہے کہ اس سوال کے جس پہلو کو پروفی رام دیو صاحب نے پیش کیا ہے اس پر روشنی ڈالی جائے.پروفیسر صاحب بیان کرتے ہیں کہ اسلام اس لئے دنیا کا آئندہ مذہب نہیں ہو سکتا کہ اس کے پیرووں میں سے تعلیم یافتہ طبقہ اس کی تعلیم میں اپنے لئے تسلی نہیں پاتا.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ کسی مذہب کے چند افراد کا اس کی تعلیم پرستی نہ پانا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ مذہب اب لوگوں کو تسلی نہیں دے سکتا.میرے نزدیک پروفیسر رام دیو صاحب کا ایک تعلیم یافتہ جماعت کے سامنے اس قسم کا معیار پیش کرنا اس جماعت کی سخت ہتک ہے کیونکہ اس کے یعنی ہونگے کہ ان کے سامنے جس قدر لوگ بیٹھے تھے وہ عقل اور خرد سے ایسے خالی تھے کہ ان کے سامنے جو کچھ بھی بیان کر دیا جاتا وہ اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار تھے.میرے نزدیک ہر ایک تعلیم یافتہ انسان بلکہ ہر ایک انسان اس امر سے واقف ہے کہ ہر ایک مذہب اور عقیدہ کے لوگوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو گو بظاہر ان کے ساتھ شامل ہوں مگر باطن میں یا تو ان سے بالکل علیحدہ ہوتے ہیں یا اس کے بعض خیالات سے ان کو اختلاف ہوتا ہے بس ایک تعلیم یافتہ جماعت کے سامنے یہ دلیل پیش کرنی کہ چونکہ اس کے کروڑوں افراد میں سے ایک دو ایسے آدمی بھی ہیں جو اس کی بعض تعلیموں سے اختلاف رکھتے ہیں اس لئے اس مذہب سے اب دنیا کو ہدایت نہیں ہو سکتی.گویا انکی آنکھوں میں خاک جھونکنا ہے یا ان کی عقل اور ان کی حق طلبی پر حرف گیری کرنا ہے.مسلمان کہلا کر اسلام کے خلاف کہنے والوں کی حقیقت پروفیسر رام دیو صاحب نے جن چند مسلمانوں کے اقوال کو اپنی تائید میں پیش کیا ہے وہ دو حالوں سے خالی نہیں ہیں یا تو ان لوگوں نے اسلام کے خلاف جو باتیں کہی ہیں اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اسلام سچا مذہب نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا اور یا ان کا یہ مطلب ہے کہ دوسرے لوگ جو ان مسائل کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرتے ہیں وہ اسلام کے مطابق نہیں بلکہ اسلام در حقیقت اس خیال کو پیش کرتا ہے جو انھوں نے بیان کیا ہے.اگر پہلی صورت ہے یعنی وہ لوگ اسلام سے متنفر ہو گئے ہیں اور اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے قائل نہیں رہے اور قرآن کریم کو انسان کی تصنیف خیال کرتے ہیں اور رسول کریم

Page 374

انوار العلوم جلد ۵ ۳۵۴ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب صلی الہ علیہ وسلم کو صرف ایک فلسفی یا تجربہ کار صلح سمجھتے ہیں تو پھر وہ لوگ مرتد ہیں اور کونسا مذہب ہے جس میں سے کبھی کوئی مرتد نہیں ہوا اور اگر دوسری صورت ہے یعنی وہ لوگ اسلام پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ ان کا یہ یقین ہے کہ اسلام کی جو تشریح دوسرے لوگ کرتے ہیں وہ غلط ہے اس کی تشریح وہ ہے جو انہوں نے پیش کی ہے.تو پروفیسر صاحب بتائیں کہ وہ کونسا مذہب ہے جس کی تشریح کے متعلق اس کے ماننے والوں میں اختلاف نہیں اور کیا وہ اس اصل کے ماتحت جو انھوں نے قائم کیا ہے دنیا کے تمام مذاہب کو جن میں آریہ سماج اور ویدک دھرم بھی یقینا شامل ہوگا جھوٹا سمجھ لیں تعصب کی پٹی تنصب انسان کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسرھا.کو اتفاقاً ان چند اختلافات پر اطلاع ہو گئی اور انھوں نے سمجھ لیا کہ اب اسلام مٹا اور اس کا نشان دنیا سے غائب ہوا.کیونکہ بعض مسلمانوں نے بھی قرآن کریم یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کر دیا ہے اور اس خوشی میں اس امر کو بھول گئے ہیں کہ یہ دیل نہیں بلکہ صرف ایک تنہا ہے جو نہ آج تک بر آئی ہے نہ آئندہ اس کے بر آنے کی کوئی صورت ہے.کیا پروفیسر صاحب کی دلیل سے اب میں پروفیسر صاحب کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں که اگر یہ دلیل جو انھوں نے پیش کی ہے اس نتیجہ پر پنچاتی آریہ مت سچا ثابت ہو سکتا ہے ہے جو انہوں نے نکالا ہے تو خود آریہ مت بھی اس کی زد سے نہیں بیچ سکتا.چنانچہ مثال کے طور پر میں اگر یہ سماج کے چند ممبروں کے اقوال پیش کرتا ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آریہ سماج ایسے لوگوں سے پڑ ہے جو آریہ سماج کی تعلیم پر یقین نہیں رکھتے اور اسے دنیا کے لئے کافی نہیں خیال کرتے.پہلی مثال چنانچہ سب سے پہلے تو میں خود لالہ لاجپت رائے صاحب کو ہی لیتا ہوں جن کے اخبار بندے ماترم میں پروفیسر رام دیو صاحب کے لیکچر کا خلاصہ چھپا ہے.یہ صاحب آریہ سماج کے ایک سرگرم ممبر تھے بلکہ انھوں نے قریباً اپنی زندگی ہی اس کی ترقی کے لئے وقف کی ہوئی تھی لیکن اب وہ آریہ سماج کے متعلق جو خیال رکھتے ہیں وہ یہ ہیں :- ئیں ویدوں کو الیشور گیان نہیں مانتا.اپنے ضمیر کے مطابق ان کا پر چارہ نہیں کر سکتا.ویدک مشنری نہیں بن سکتا.حتی کہ میں آریہ سماجی بھی نہیں کہلا سکتا.بقول آریہ اخبار ہمالہ ۱۳ر مٹی نہ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ اب دید ہدایت کا کام نہیں دے سکتے ان کا خیال چھوڑ دو.

Page 375

۳۵۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ان پرانی باتوں کو اگر جانے بھی دیا جائے تو بھی ان کی وہی تقریریں جو انہوں نے اسی سال کے سماج کے جلسہ میں کی ہیں اس امر یکہ روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہیں کہ وہ اب سماج کے اصول کے قائل نہیں.بندے ماترم اخبار کے اسی نمبر میں جین میں پروفیسر رام دیو صاحب کا نیچر چھپا ہے لالہ لاجپت رائے صاحب کے دو لیکچروں کا بھی ذکر ہے.ایک وہ لیکچر جو انھوں نے کالج پارٹی کے جلسہ میں دیا ہے اور ایک وہ مختصر لیکچر جو انھوں نے وچھو والی کے جلسہ میں دیا ہے.وچھو والی کے جلسہ میں جو کچھ انھوں نے بیان کیا اس کا ایک فقرہ یہ ہے کہ " میں آریہ سماج کے اندر کام کروں یا نہ کروں لیکن آریہ سماج کے احسان کو کبھی نہ بھولوں گا " یہ احسان کوئی مذہبی احسان نہیں بلکہ اس احسان سے مراد وہ سیاسی خیالات ہیں جو آریہ سماج مذہب کے پردہ کے نیچے پھیلاتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں شمالی ہندوستان کی بیداری کا باعث آریہ سماج کا کام ہے اگر چہ یہ بیداری کافی نہیں اور اس سے سو راجیہ حاصل نہیں ہو سکتا تاہم آریہ سماج نے زمین تیار کر دی ہے.آپ کو پالٹیکس میں جو کچھ روشنی نظر آتی ہے یہ سب کچھ آریہ سماج کے پر چار کا نتیجہ ہے ؟ ان کے ان فقرات سے معلوم ہوتا ہے کہ آریہ سماج کے احسان سے ان کی مراد سیاسی احسان ہے ورنہ اس کے مذہبی اصول سے دستبردار ہو چکے ہیں اور ویدوں کو خیر باد کہ چکے ہیں.کا لج پارٹی میں ان کا جو لیکچر ہوا ہے اس میں بھی انہوں نے یہ بیان کیا کہ لونڈ کنس ہندوستانیوں پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ قدرت کی طاقتوں سے بھاگتے ہیں اور خوفزدہ ہو کر ان کی عبادت کرنے لگتے ہیں اور انہیں قابو میں لانے کی کوشش نہیں کرتے.یہ اعتراض خواہ کبھی گذشتہ زمانہ میں صحیح نہ ہو لیکن میری رائے میں پندرہ سو سال سے یہی ہماری تباہی کا باعث ہوا ہے.ان کے ان فقرات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندو مذہب کی موجودہ حالت کو تو یقینا قابل تسلی نہیں سمجھتے اور پچھلے زمانہ کے متعلق ان کو شبہ ہے کہ آیا وہ بھی زمانہ حال کی طرح کا تھا یا اس سے اچھا تھا.اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ بعض اصحاب کا یہ خیال غلط ہے کہ ہمارے پراچین رشی منی لاثانی اور بینظیر تھے.یورپ اور امریکہ میں اب بھی ایسے رشی ہیں جو اپنی پاکیزگی بے غرضی اور روحانیت کے لحاظ سے ان قدیم رشیوں سے کسی طرح کم نہیں کوئی کہ سکتا ہے کہ لکھتے ڈارون ، بریا سپنسری مارکونی کی زندگی پاک نہیں.یا یہ پراچین رشیوں سے کسی طرح کم تھے" کیا لالہ لاجپت رائے صاحب کے ان خیالات کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ آریہ سماج اب ماضی کا مذہب ہو گیا ہے اور آئندہ اس سے کسی اصلاح کی امید رکھنا فضول ہے کیونکہ اس کے بڑے بڑے

Page 376

انوار العلوم جلد ۵ ۳۵۶ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب لوگوں پر یورپ کی علمی ترقی کا اثر ایسا گرا پڑا ہے کہ اب وہ ان عقائد کو ترک کر بیٹھے ہیں جو ان کے مذہب نے بتائے ہیں.اگر کسی شخص کا خواہ وہ لیڈر ہی کیوں نہ ہو آریہ سماج سے کلی طور پر قطع تعلق کرنا یا اس کے بعض اصول کو ترک کر دینا اس امر کا ثبوت نہیں کہ آریہ سماج اب ایک مردہ مذہب ہو گیا ہے تو مسلمان کہلانے والے کروڑوں آدمیوں میں سے اگر چند لوگ اسلام کے اصول کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کریں تو اس سے اسلام کے زمانہ ماضی کا مذہب ہو جانے کا ثبوت کہاں سے نکل آیا.دوسری مثال دوسری مثال رائ بہادر لالہ مولراج صاحب ایم اے کی ہے جو آریہ سماج کے ایک دیرینہ رکن ہیں.ان کی نسبت پرکاش ۳ ارجون ۱۹ء میں ایک صاحب نے شائع کرایا ہے کہ انھوں نے بیان کیا کہ وہ وید کو نہ پہلے مانتے تھے اور نہ اب مانتے ہیں.بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے رشی دیانند صاحب سے بھی کہا تھا کہ وہ اس شرط کو کہ آریہ سماج میں داخل ہونے کے لئے وید کا ماننا ضروری ہے نکال دیں تاکہ وید کو نہ ماننے والے بھی آریہ سماج ہیں شامل ہو سکیں.اب پروفیسر رام دیو صاحب بتائیں کہ اگر مسٹر خدا بخش کے قرآن کریم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈائری قرار دینے سے اسلام کے متعلق شبہ پڑ جاتا ہے کہ وہ ضرورت زمانہ کو پورا نہیں کر سکتا تو لالہ مولراج صاحب ایم اے کے دید نہ ماننے سے کیوں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وید بھی اب ضرورت زمانہ کو پورا نہیں کر سکتے.تیسری مثال تیری مثال لال منشی رام صاحب کی ہے جو گورو کل کانگڑی کے بانی کہلانے چاہئیں اور جن کے ماتحت کام کرنے کا فخر غالباً پروفیسر رام دیو صاحب کو بھی ہے.لالہ منشی رام صاحب نے نیوگ کے عقیدہ کی نسبت جسے پنڈت دیا نند صاحب ہندو مذہب کی تعلیمات میں شامل کرتے ہیں بیان کیا کہ یہ نیچ اور گرے ہوئے لوگوں کا فعل ہے (دیکھو آریہ پتر کا لا ہور) گو لالہ صاحب نے سُنا ہے کہ بعد میں اپنے کلام کی تشریح کی مگر وہ تشریح آریہ صاحبان کے عام طریق عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے بیان کو زیادہ نہیں کلبھاتی کیونکہ آریہ صاحبان میں ایسے لوگ شاذ ہی پائے جاتے ہیں جو نیوگ کی تعلیم پر علی الاعلان عمل کرنے کے لئے تیار ہوں اور لالہ منشی رام صاحب تو عقلمند اور فہمیدہ آدمی ہیں ان سے کم عقل کے آریہ صاحبان کو بھی میں دیکھتا ہوں کہ وہ اس عقیدہ سے بیزار نظر آتے ہیں تو جب ان کی اس بیزاری کے باوجود پروفیسر صاحب کو آریہ مذہب دنیا کی ہدایت کے لئے کافی نظر آتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جب آریہ صاحبان نیوگ کو بے حیائی کہیں اور اس سے

Page 377

انوار العلوم جلد ۵ ۳۵۷ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب آریہ مت کی صداقت پر کوئی شبہ وارد نہ ہو تو کیا وجہ ہے کہ کوئی مسلمان اگر کثرت ازدواج کو زنا قرار دیدے تو اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ اسلام اس وقت دنیا کو تسلی نہیں دے سکتا حالانکہ یہ دونوں باتیں ایک ہی قسم کی ہیں بلکہ ان میں ایک ایسا فرق ہے جو اسلام کے حق میں مفید ہے اور وہ یہ کہ نیوگ کی تعلیم واقع میں بڑی ہے اور کثرت ازدواج کی تعلیم حکمت سے پُر ہے.چنانچہ لالہ لاجپت رائے صاحب نے ہر دسمبر نشاء کے بندے ماترم میں پروفیسر رام دیو صاحب کے مضمون کے متعلق معذرت کرتے ہوئے کثرت ازدواج کی نسبت لکھا ہے کہ :." میری ذاتی رائے میں اسلام کا قانون شادی نہ صرف زنا کاری نہیں ہے بلکہ بہت حد تک زنا کاری کو روکتا ہے " پھر خود ہندؤوں کے بڑے بڑے لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں لیکن ان کی اولاد کو کوئی ولد الزنا نہیں کہتا.گوئیں یقین رکھتا ہوں کہ نیوگ سے پیدا ہونے والے لڑکے کو کوئی اور یہ صاحب بھی اسی نظر سے نہ رکھیں گے جس نظر سے بیا تا بیوی کے بچوں کو دیکھا جاتا ہے.پس اگر کسی مذہب کی ایک بڑی بات کو برا کہنے سے اس مذہب کی صداقت پر پروفسیر صاحب کے نزدیک کوئی حرف نہیں آتا تو کسی مذہب کی اچھی بات کو بُرا کہنے سے اس مذہب پر کیا اعتراض آئے گا.اگر بعض مسلمانوں نے کثرت ازدواج کو برا قرار دیا ہے تو آج یورپ کے سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی اسی مسئلہ کو دنیا کی مشکلات کا حل سمجھنے لگ گئے ہیں اور خود آریہ صاحبان کے بعض موجودہ اور پرانے مبر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں.چنانچہ وکیل اخبار نے ایک آریہ پنڈت صاحب کی نسبت لکھا ہے کہ انھوں نے بیان کیا کہ مادی زندگی میں سخت پرہیز گاری کی اُمید کرنا عبث ہے.پھر اس کا حل سوائے کثرت ازدواج کے اور کیا ہو سکتا ہے.لالہ لاجپت رائے صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ دھرم شاستر بعض حالتوں میں خاوند کو اجازت دیتا ہے کہ ایک یا زیادہ ہیولوں کی زندگی میں بھی اور شادی کرے.چوتھی مثال چوتھی مثل آرمی گزٹ کے ایڈیٹر صاحب کی ہے جس نے بیوہ کے نکاح کے متعلق جسے پنڈت دیانند صاحب نے ناجائز قرار دیا ہے لکھا ہے کہ ایسے حالات و واقعات کی موجودگی میں بھی اگر و دعوا دواہ نکاح بیوگان کی مخالفت کرتے ہیں تو نہ معلوم اور کتنی تباری کے نظارے وہ چاہتے ہیں جو ان کی آنکھیں کھول سکیں.

Page 378

انوار العلوم جلد ۵ ۳۵۸ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب آریہ صاحبان کے عقائد متزلزل ہو رہے ہیں یہ شالیں تو خاص آدمیوں کی ہیں لیکن خود آریہ سماج کے لیڈروں اور ان کے اخباروں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آریہ سماج کے ممبروں کے عقائد عام طور پر متزلزل ہو رہے ہیں اور عوام کے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے لوگوں کے چنانچہ آریہ اخبار کانپور گزٹ لکھتا ہے :- آریہ سماج میں ایک شخص اگر جنم سے وران بیو ستھا مانتا ہے تو دوسرا نیوگ سے صاف منکر ہے.تمیرا اگر ویدوں میں جادو ٹونا ظاہر کرتا ہے تو چوتھا سوامی دیانند جی کے دید بھاشیہ کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے.اس پر طرہ یہ ہے کہ وہ اصحاب آریہ سماج کے عہدہ داروں میں شامل کئے جاتے ہیں : شاید کانپور گزٹ کی رائے پروفیسر صاحب کے نزدیک اس قدر با وقعت نہ ہو اس لئے ان کے سامنے ہم گور و کل کانگڑی کے سابق گورنر لالہ منشی رام صاحب جن کے ماتحت پر و فیسر صاحب بھی کام کرتے رہے ہیں کی رائے بھی پیش کر دیتے ہیں.لالہ منشی رام صاحب لکھتے ہیں :- "ہم بڑے بڑے تعلیم پر فخر کر نیوالوں سے واقف ہیں جو یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ ویدوں پر بیوقوف بشواش کرتے ہیں.ایشور ودوانوں (عالموں کے لئے کوئی چیز نہیں ہے ایشور کا ماننا سرو ساد باران ( عوام الناس کے لئے اچھا ہے لیکن ہم آریہ سماج کو کام کر نیوالی سوسائٹی سمجھ کر سبحانند (ممبر) ہوئے ہیں.تار سے تعلیم یافتہ ممبر کا کرتے ہیں کہ سپنسر اور بریڈ لا کی زبان جاننے والے خدا نہیں مان سکتے " اب پروفیسر صاحب بتائیں کہ جس جماعت کے تعلیم یافتہ اس کے لیڈر اپنے قول کے بموجب عمل میں نہیں بلکہ عقیدہ میں اور کسی معمولی عقیدہ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے عقیدہ میں اس کی تعلیم کے مخالف ہوں اس کا کوئی فرد کسی دوسرے مذہب کے بعض افراد کی ایسی باتوں سے جو انہوں نے اپنے مذہب کے خلاف کسی ہوں یہ استدلال کرنے کا کب مجازہ ہو سکتا ہے کہ اب وہ مذہب دنیا کے لئے تسلی دینے کا موجب نہیں ہو سکتا اب ہمارا مذہب تستی دیگا.ہندو مذہب میں اختلاف کثیر ہے تو اگر یہ سماج کا حال ہے اب میں ہندو مذہب پر مجموعی نظر ڈالتا ہوں.ہندو مذہب میں اس قدر اختلاف ہے کہ اب تک ہندو کی کوئی تعریف ہی نہیں ہو سکی.بڑے بڑکے ہندوؤں نے ہندو کی تعریف کرنی چاہی مگر نہیں کر سکے اور آخر تھک کر اقرار کیا کہ ہندو مذہب کوئی مذہب نہیں بلکہ سینکڑوں مذاہب

Page 379

انوار العلوم جلد ۳۵۹ اسلام په یکه وفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب جو مسلمانوں کے حملہ سے پہلے ہندوستان میں موجود تھے.انہوں نے غیر اقوام کے حملہ کے مقابل جو اتحاد کیا تھا اسی کا نام ہندو مذہب ہے.حملہ آور قوموں کے لوگ ہر ایک ایسے شخص کو جو ہندوستان کا رہنے والا تھا اپنے مقابل پر لڑتے ہوئے دیکھ کر ان کے مذہبی اختلاف سے ناواقف ہونے کے سبب ہندو کہدیتے تھے اور اس سے ہندو مذہب ایک نئی اصطلاح بن گئی.بلکہ ہندو قانون بھی در حقیقت انگریزی زمانہ کی ایجاد ہے انگریزوں نے بعض تعلیم یافتہ ہندو مذاہب کی عام رسوم کو دیکھ کر ایک قانون تیار کر دیا اور خیال کر لیا کہ سب ہندو اس کے پابند ہیں اور اس کو رانج کر دیا اس سے ہند و قانون تیار ہو گیا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمانوں کے لئے بھی اس وقت غلطی سے ہندو قانون وضع کر دیا گیا تھا میں نہ ہندو مذہب کوئی مذہب ہے بلکہ سینکڑوں مذاہب کا سیاسی مجموعہ ہندو مذہب سے پکارا جاتا ہے اور نہ ہندو قانون کوئی قانون ہے بلکہ یہ قانون انگریزوں کا بنایا ہوا ہے.جنھوں نے اس ملک کے حالات سے ناواقف ہونے کے سبب بعض اقوام کے قانون کو سارے ہند کے غیرمسلم مذاہب پر جاری کر دیا.چنانچہ اب تک کی اقوام ہندستان میں ایسی موجود ہیں جنہوں نے اس قانون کو نسیم نہیں کیا اور اس قانون سے بچنے کے لئے وہ اپنے مقدمات کو انگریزی عدالتوں میں لے جاتے ہی نہیں.مسٹر پی ٹی سری نواس اننگر ایم.اے.ایف ایم لکھتے ہیں کہ ہندووں کے زمانہ میں ہ-اے کوئی ایسا ہندو قانون نہ تھا جو سب ہندوستان پر حاوی ہو کیونکہ اس ملک کی نہ دنیاوی حکومت ایک تھی نہ کسی ایک مذہبی انتظام سے وہ لوگ تعلق رکھتے تھے.پھر لکھتے ہیں کہ لاکھوں لاکھ آدمی ایسے ہیں جو عدالتوں میں اپنے مقدمات سے ہی نہیں جاتے بلکہ اپنے قومی قانون کے مطابق گھروں میں فیصلہ تحر لیتے ہیں.- ہندووں میں ویدوں کو نہ ماننے والی قومیں ہندوؤں میں ایسی قو میں بھی پائی جاتی ہیں جو ویدوں کو نہیں مانتیں چنانچہ جبینی و بدوں کو دو نہیں مانتے اس طرح اور کئی تو میں ہندو کہلاتی ہیں لیکن وہ ویدوں کو نہیں مانتیں.تو کیا ایک و اشخاص کے مسلمان کہلا کر قرآن کریم کا انکار کرنے سے اگر یہ نتیجہ نکل آتا ہے کہ قرآن کریم اب دنیا کو تسلی نہیں دے سکتا تو لاکھوں نہیں کروڑوں آدمیوں کا ہندو کہلا کر ویدوں کا انکار کرنا کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وید بھی اب دنیا کو تسلی نہیں دے سکتے.شاید پروفیسر صاحب کہیں کہ جین مت تو ایک علیحدہ مذہب ہے مگر اول تو میں امید نہیں کر سکتا کہ وہ ایسا کر سکیں کیونکہ اس وقت کی سیاسی جدوجہد کی موجودگی میں جبکہ ہندو ان اقوام کو بھی اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش میں ہیں جو خود اپنے آپ کو ہندوؤں سے

Page 380

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں جیسے کہ سکھ وہ ہرگز اسبات کا اعلان نہیں کریں گے کہ جین ہندو نہیں ہیں بلکہ ہندوؤں سے ان کا علیحدہ مذہب ہے لیکن اگر وہ یہ بھی کہدیں کہ یہ لوگ تو علیحدہ مذہب رکھتے ہیں تو یہی بات قرآن کریم کے ماننے والوں کی طرف سے بھی کسی جاسکتی ہے کہ جس وقت کسی شخص نے قرآن کریم کا انکار کیا اسی وقت وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور مسلمان نہیں رہتا.ویدوں کے متعلق ہندوؤں کا پرانا فیصلہ پروفیسر صاحب کو تو اس زمانہ میں چند آدمی ایسے ملے ہیں جنھوں نے اسلام کی تعلیمات کے خلاف قلم اُٹھائی ہے مگر میں ان کی توجہ اس طرف پھیر تا ہوں کہ اگر یہ امل جو انھوں نے پیش کیا ہے درست ہے تو پھر ہزاروں سال سے وید کی تعلیم دنیا کے لئے ناکافی ثابت ہو چکی ہے کیونکہ یہ کروڑوں بدھ جو ہندوستان میں بستے تھے اور کروڑوں جینی جواب تک ہندوستان میں موجود ہیں آج سے دو ہزار سال پہلے کے زمانہ سے ویدک تعلیم کو خیر باد کہ چکے ہیں.یہ لوگ پہلے ہندو ہی تھے اور ویدوں کے ماننے والے تھے کیونکہ بدھ اور جینی کہیں باہر سے نہیں آئے یہ دونوں مذہب ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے اور اسی ملک کے لوگوں نے ان کو قبول کیا.پس آج سے دو ہزار سال پہلے کروڑوں کی تعداد میں ویدک تعلیم کو ماننے والے اپنے عمل سے اس امر کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ د یدک دنیا کی روز افزوں علمی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتی اور علوم جدیدہ کے حاصل کرنے والوں کے لئے تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی.تازه فیصله یہ فیصلہ تو پرانا ہے.کئی کروڑر آدمیوں کا تازہ فیصلہ بھی اس کی تصدیق میں موجود ہے.ہندوستان میں جو مسلمان اس وقت موجود ہیں ان میں سے اکثر اسی ملک کے باشندہ ہیں ان کا ویدوں کی تعلیم کو ترک کر کے اسلام کو قبول کر لینا کیا پروفیسر صاحب کے نزدیک اسی امر کا ثبوت ہوگا کہ ویدک تعلیم دنیا کی روز افزوں علمی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتی اور اب لوگوں کی تسلی کے لئے کافی نہیں.اگر یہ بات نہیں تو وہ دوسروں کے لئے اس پیمانہ سے کیوں وزن کرتے ہیں جس پیمانہ سے وہ اپنے لئے وزن کرنے کے لئے تیار نہیں.مگر میں انہی مثالوں پر بس نہیں کرتا.میں پروفیسر صاحب کو ان کے نہایت واجب التعظیم لیڈروں کے اور ایسے ہی خیالات کی طرف توجہ دلاتا ہوں وہ ان پر غور کریں اور اس دلیل کی طاقت کو دیکھیں جو انھوں نے اسلام کے اثر کے خلاف دی ہے.

Page 381

اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ہندو مذہب کے متعلق ٹیگور کی رائے میٹرستیندرا ناتھ ٹیگور آئی ہیں.ایس لکھتے ہیں کہ تم کوئی عقیدہ رکھو خواہ دہریت کو اختیار کرو تم ہندو مذہب سے خارج نہیں ہو سکتے جس کے یہ معنے ہوئے کہ ہندو مذہب کوئی حقیقت اپنے اندر مخفی نہیں رکھتا بلکہ ایک نام ہے جو اس نام کو اختیار کرے وہ خواہ کوئی عقیدہ رکھے وہ ہندو ہی ہے.اس تعریف کی موجودگی میں جو ایسے لائق آدمی نے ہندو مذہب کی کی ہے کیا پروفسیر صاحب کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مذہب دنیا کو تسلی دے سکتا ہے.مسٹر ٹیگور کے بیان کے مطابق تو کوئی خیال بھی دنیا میں پیدا ہو ہندو مذہب اس کو غلط دیکھ کر اس کی اصلاح کرنے کی بجائے اس کے اختیار کرنے کی اجازت دیدیتا ہے.اس صورت میں ہندو مذہب نے دنیا کی اصلاح کی یا دنیا کے بڑھتے ہوئے علوم نے ہندو مذہب کی اصلاح کی ؟ ایک اور مہندو کی رائے رائے بہادر لالہ بیج ناتھ اخبار لیڈر میں لکھتے ہیں کہ ویدوں کو ماننا یا بر ہمنوں اور گائے کی عزت کرنا موجودہ ہندو مذہب کے اصول نہیں کہلا سکتے کیونکہ یہ بائیں آج کل ہمارے خیالات پر قابض نہیں ہیں.پروفیسر صاب بتائیں کہ جس مذہب نے اپنی کتاب اور اپنے بہترین اصول اپنے ماننے والوں سے نہ منو ائے ہوں حتی کہ اس کے بڑے بڑے پیرو کاروں کو ان اصول کو اصولوں کی فہرست سے خارج کرنا پڑا ہو اس کی نسبت اپنی کے مقولہ کے مطابق کیونکہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علوم کی بڑھتی ہوئی رو کی موجودگی میں لوگوں کے قلوب پر تصرف رکھ سکتا ہے.ہندوؤں کا لاش دفن کرنا ہندو مذہب میں لاش کا جلا نا فرض ہے جس کی تائید میں پنڈت دیانند صاحب نے بہت سے دلائل بھی دیتے ہیں اور لاش کو دفنانے والوں پر تسخر بھی اُڑایا ہے لیکن ہندوؤں میں سے جنگا ما اور سنیاسی لوگ مردہ دفن کرتے ہیں یا جنگا ما لوگ پانی میں لاش پھینک دیتے ہیں.اب کیا اس قوم کا یہ طریق عمل جو ہندو مذہب کی ہدایات کے خلاف ہے کیا پروفیسر صاحب کے نزدیک اس امر کا ثبوت ہے کہ ہندو مذہب اب لوگوں کی تسلی کا موجب نہیں ہوسکتا.ظاہر میں ہندو دل میں مسلمان آنریل مٹر گوگل داس کے پر کچھ لکھتے ہیں کہیں بہت سے خاندان ایسے جانا ہوں جو ظاہر میں ہندو ہیں لیکن دل میں مسلمان ہیں.کیا ان کے اس بیان سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ زمانہ کی ترقی کے ساتھ

Page 382

اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ہندو مذہب ترقی نہیں کر سکا کیونکہ اس کے ماننے والوں کو اس مذہب پر نسلی نہ ہوئی اور اپنے میکا نہ کر کے انہوں نے خفیہ طور پر اسلام کو قبول کر لیا.مقابله گواس بات کا یہاں تعلق نہیں مگر میں ضمنی طور پر اس امر کے بیان کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ آنہ بیل مسٹر گوکل داس صاحب کی یہ شہادت ہندو صاحبان کے اس اعتراض کا بھی قلع قمع کر دیتی ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے.اس سے تو پتہ لگتا ہے کہ کئی خاندان دل سے اسلام سے آئے مگر وہ اپنے عقیدہ کو اپنے رشتہ داروں سے ڈر کر ظاہر نہیں کر سکے بلکہ یہ شہادت تو اس امر کا ثبوت ہے کہ اسلام کے اظہار کرنے میں لوگوں کو دقتیں ہوئی تھیں اور جبراً ان کو اس بات سے روکا جاتا تھا.تبھی تو کئی ہندو خاندانوں کو با وجود اسلام کی صداقت کا قائل ہو جانے کے اس کے اظہار کی جرات نہیں ہوئی اور وہ اپنے ہم قوموں سے ڈر کر خفیہ خفیہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں اور ظاہرہ طور پر ہندو بنے ہوئے ہیں.ویدوں کے متعلق چند اور آراء اپ میں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.پنڈت در گاوتا جوشی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک شخص خاص حد تک ویدوں کے علوم سے زیادہ علوم بھی حاصل کر سکتا ہے.ان پنڈت صاحب کے بیان کے مطابق دید تمام علوم کا مخزن نہیں بلکہ ویدوں سے اوپر اور علوم بھی ہیں جو انسان حاصل کر سکتا ہے.وه راؤ بہادر دیوراڈ نایک صاحب کے نزدیک دید ہر زمانہ کے لئے کافی نہیں میں کیونکہ لکھتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ اصلی ویدک تعلیمات اب رائج نہیں ہیں اور شاستر اور سیٹر تھی لکھنے والے عقلمند لوگ تھے جنہوں نے اس زمانہ کی بدلی ہوئی حالت کے مطابق قواعد بنا دیے.با بو گووندا داس صاحب کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ضروری نہیں کیونکہ یوگا کے سوا باقی پانچوں آستنگ خیالات کے سلسلہ خدا تعالیٰ کا ذکر تک نہیں کرتے.پروفیسر صاحب کونسی راہ اختیار کرینگے ان حوالہ جات کے بعد میں نیں سمجھ سکتا کہ پروفیسر صاحب ان دو راہوں کے سوا کسی تمیری راہ کو اختیار کر سکتے ہوں کہ یا تو وہ یہ اقرار کریں کہ جس دلیل کے سا تھ انہوں نے اسلام کے اثر کو ناقس ثابت کرنا چاہا تھا وہ دلیل در حقیقت دلیل نہیں ہے بلکہ ایک بات تھی جو لیکچر کو مزیدار بنانے کے لئے پیش ی گئی تھی اور صرف حاضرین کو خوش کرنا اس سے مقصود تھا اور یا یہ تسلیم کریں کہ وہ دلیل تو درست ہے گو اسلام کے خلاف وہ اس زور کے ساتھ پیش نہیں کی جاسکتی جس قدر کہ آریہ مذہب کے خلاف.

Page 383

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اور قرآن کریم کے اثر کا نقص اس دلیل سے اس طرح ثابت نہیں ہو تا جس طرح کہ ویدوں کے اثر کا نفس - معلوم نہیں پروفیسر صاحب ان دونوں راہوں میں سے کونسی راہ اختیار کریں.مگر میں ان کو یہی مشورہ دونگا کہ جو سچی بات ہے وہ اسی کو قبول کر لیں کیونکہ آریہ سماج کے نیموں میں سے ایک یہ نیم بھی ہے کہ ستیہ کا گرہن کرنا اور استیہ کا چھوڑنا.اور سچی بات یہی ہے کہ یہ دلیل جو انھوں نے پیش کی تھی دلیل ہی نہیں ہے بلکہ ایک چٹکلہ ہے جو جہلاء کو خوش کرنے کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے.اور میں اُن سے امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ اس قسم کے دلائل کو پیش نہ کیا کریں گے اور ایسے دلائل کو پیش کر کے ویدک مت کی صداقت کو ثابت کرنے کی کوشش کرینگے جو تنقید کو برداشت کر سکیں یا کم سے کم اس طرح بالبداہت باطل اور بے اصل نہ ہوں.بعض لوگوں کے کسی عقیدہ کے انکار کرنے کی وجوہات گو یہ جوابات جوئیں نے دیئے ہیں الزامی جوابات ہیں لیکن پروفیسر صاحب کے پیش کردہ دلائل کا جواب الزامی کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا.انھوں نے اپنے دعویٰ کی کوئی دلیل دی ہو تو اُسے رد کیا جائے جن لوگوں کے اقوال انھوں نے نقل کئے ہیں ان کے دعووں کی بھی کوئی دلیل نہیں دی.پس ان پر بھی اس مضمون میں بحث نہیں کی جاسکتی.ہاں میں اس دلیل کے متعلق جو پروفیسر صاحب نے پیش کی ہے ان کی توجہ منعطف کرانی چاہتا ہوں.پروفیسر صاحب کو یاد رہنا چاہئے کہ کسی خیال یا عقیدہ کو بعض لوگوں کا نہ ماننا اس کے جھوٹے ہونے کی علامت نہیں ہوتا.لوگوں کا انکار ہمیشہ اس عقیدہ کے جھوٹا ہونے کا شاہد نہیں ہوتا بلکہ اس کی کئی وجوہ ہوتی ہیں.کبھی لوگوں کا انکار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ گو وہ بات جس کا انکار کیا جاتا ہے سچی پہلی وجہ تھی مگر اس کے پیش کرنے والے قابل لوگ نہ تھے پس اس کے حکمروں نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو پھیلا لیا اور وہ منکر ہو گئے.چنانچہ پروفیسر صاحب اس امر کو تسلیم کرینگے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق دیدگ توحید پچھلے زمانہ میں ہندوستان سے اسی طرح مٹی تھی.پنڈت دیا نند حب سے پہلے ہندوستان میں بت پرستی ہی ہندوؤں کا شعار تھا.پنڈت صاحب نے ہندوؤں میں ایک ایسی جماعت قائم کی جو ایک طرف بتوں سے بیزار تھی تو دوسری طرف الہام کی بھی قائل تھی.پنڈت صاحب کا یہ بھی عقیدہ تھا اور سب آریوں کا عقیدہ ہے کہ ویدوں میں توحید ہی کی تعلیم ہے اور پہلے

Page 384

انوا را العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ہندو موحد ہوا کرتے تھے.اب سوال یہ ہے کہ موقد مهند دوستان مشرک کیونکر ہوگیا.آریر صاحبان اس کا یہی جواب دینگے کہ آہستہ آہستہ لوگوں میں بدیاں پھیلتی گئیں اور سچی تعلیم کو وہ چھوڑتے چلے گئے.جس کے دوسرے لفظوں میں یہی معنے ہونگے کہ گو توحید کی تعلیم اصلی تھی مگر اس کے قائم رکھنے والے لوگ ایسے قابل نہ تھے کہ لوگوں کو اس پر قائم رکھ سکتے اور لوگ شرک کی طرف متوجہ ہو گئے پس ایک وجہ کسی رانج عقیدہ یا خیال سے لوگوں کے منکر ہونے کی یہ ہوتی ہے کہ اس کے قائم رکھنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے لئے لائق لوگوں کی کمی ہو جاتی ہے یا وہ بالکل مٹ جاتے ہیں.دوسری وجہ کسی عقیدہ یا خیال کے ترک کرنے کی یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ جومنکر ہوتے دوسری وجہ ہیں اس کے تائیدی دلائل سنے بغیر اس کے مخالفوں کی باتوں کو سنتے ہیں ! ان کی باتیں آہستہ آہستہ ان کے دل پر ایسا اثر کر جاتی ہیں کہ وہ مخالف خیالات ان کا اصل عقیدہ ہو جاتے ہیں اور جو ان کا آبائی عقیدہ تھا وہ ان کے نزدیک جدید خیالات کی طرح ہو جاتا ہے جس کو وہ تعصب کی وجہ سے نہ قبول کر سکتے ہیں اور نہ اس پر غور کر سکتے ہیں.تیسری وجبه تیسری وجہ کسی عقیدہ کے ترک کرنے کی یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتا اور اپنی اس کمزوری کے اظہار سے بھی شرماتا ہے.پس اپنے عیب کے چھپانے کے لئے وہ اس عقیدہ کا ہی انکار کر دیا ہے.چوتھی وجہ چوتھی وجہ کسی عقیدہ کے انکار کی یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ انسان دوسروں کے رعب میں آجاتا ہے اور بغیر اپنے خیالات کی صحت یا ان کی غلطی پر غور کرنے کے محض رعب کی وجہ سے ان کے خلاف بیان کرنے لگ جاتا ہے کیونکہ وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ کیا ایسے عقلمند لوگ غلطی کر سکتے ہیں.پانچوی وجہ پانچویں وجہ کسی عقیدہ کے انکار کی یہ بھی ہوتی ہے کہ کوئی نیا علم ایسا دریافت ہوتا ہے جو اس کے خلاف نظر آتا ہے اور انسان خیال کر لیتا ہے کہ میرا عقیدہ اس علم کے مخالف ہے حالانکہ وہ علم ابھی ناقص ہوتا ہے اور بسا اوقات آئندہ تحقیقات اس بات کو ثابت کبر دیتی ہیں کہ اس سے جو استدلال کیا گیا تھا وہ غلط تھا.چنانچہ ایسی بیسیوں باتیں ہیں کہ جن کو یورپ نے بعض جدید علوم کی بناء پر ترک کر دیا لیکن مزید تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ان کا استدلال غلط تھا اور اس ادھورے علم سے جو نتیجہ انہوں نے نکالا تھا اس کے مکمل ہونے پر اس کی غلطی ان پر ثابت ہوگئی.

Page 385

انوار العلوم جلد ۵ ۳۶۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب چھٹی وجہ چھٹی وجہ کسی عقیدہ کے انکار کی یہ ہوتی ہے کہ انسان اس عقیدہ کو باطل سمجھکر نہیں بلکہ اور اعراض اور فوائد کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے کبھی مال کے لالچ کی وجہ سے کبھی اس عقیدہ کے پھیلانے والوں سے جھگڑا ہو جانے کے سبب کبھی عزت کی خاطر کبھی دوستوں کو خوش کرنے کے لئے.ساتویں وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ واقعہ میں وہ عقیدہ جسے انسان ترک کرتا ہے ساتویں وجہ غلط ہی ہوتا ہے اور انسان پر اس کی غلطی کھل جاتی ہے اس لئے وہ اس کا انکار کر دیتا ہے.پروفیسر صاحب نے نتیجہ نکالنے میں غلطی کی غرض بعض لوگوں کے کسی عقید و یا نہیں کو ترک کر دینے سے یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ عقیدہ یا مذہب ہی کمزور ہے بلکہ لیا اوقات اس ارتداد کا باعث اس عقیدہ کا غلط ہونا نہیں اس کا انکار کرنے والوں کی کمزوری یا کوتاہی یا بدنیتی یا غلطی ہوتا ہے.اور جب کسی مذہب سے پھرنے والوں کے اقوال کو اس مذہب کی کمزوری کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو مدعی کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ ارتداد اس مذہب کی کمزوری کے سب سے ہے نہ کہ کسی اور سبب سے، مگر پروفیسر رام دیو صاحب نے ایسا نہیں کیا بلکہ چند لوگوں کے خیالات پیش کر کے جھوٹ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اسلام اس زمانہ کے لوگوں کی تسلی نہیں کر سکتا.میں نے یہ جوابات اس بات کو فرض کر کے دیتے ہیں کہ پروفیسر صاحب نے جو کچھ مٹر خدابخش صاحب اور سید امیر علی صاحب اور مسٹر مظہر الحق صاحب اور مسٹر یوسف علی صاحب کی نسبت لکھا ہے وہ درست ہی ہے لیکن مجھے یہ شبہ کرنے کی کافی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے خیالات کے اظہار میں بھی پپروفیسر صاحب کو غلطی لگی ہے.مگر چونکہ پہلے دو صاحبوں کی کتب اس وقت میرے پاس موجود نہیں ہیں اور دوسرے دو صاحبوں کی تقریر کا حوالہ پر وفیسر رام دیو صاحب نے نہیں دیا اس لئے میں اس امر کی نسبت کچھ تحریر نہیں کر سکتا کہ جو کچھ انہوں نے ان صاحبان کی نسبت لکھا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں ہاں ان کو اس امر کے متعلق اپنا عقیدہ بنا دیتا ہوں.میں قرآن کریم پر تعلی یا نقلی اعتراض میرے نزدیک قرآن کریم خداتعالی کا کلام ہے اوراس کا ایک ایک لفظ اسی طرح محفوظ ہے جس طرح کہ وہ رسول کر نیوالوں کو جواب دے سکتا ہوں کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور یہ بات میں صرف

Page 386

انوار العلوم جلد ۵ 144 اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب عقیدہ ہی نہیں مانتا بلکہ اسبات پر مجھے کامل یقین ہے اور یہ یقین اس امر کا نتیجہ نہیں کہ میں مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہوں بلکہ اس یقین کی بناء دلائل اور مینی شواہد پر ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر اس شخص کے اعتراضات کا جواب دے سکتا ہوں جو قرآن کریم کے کلام الہی ہونے کا منکر ہو خواہ وہ اعتراضات عقلی ہوں یا نقلی.میں فرشتوں کے متعلق اعتراض اسی طرح میرا یہ یقین ہے کہ فرشتے خیالی یا ورمی وجود نہیں کر نیوالوں کو جواب دے سکتا ہوں ہیں بلکہ ان کا وجود عالم خیال سے باہر بھی موجود ہے اور قرآن کریم نے فرشتوں کی نسبت جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کا ایک ایک لفظ درست ہے اور اگر کسی شخص کو ان کے وجود کے خلاف کوئی اعتراض ہو توئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے شکوک کا ازالہ کر سکتا ہوں اور فرشتوں کا وجود میں صرف اس لئے ہی نہیں مانتا کہیں نے قرآن کریم میں ان کا ذکر پڑھا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور احسان سے میں نے خود بھی ان کی ملاقات کی ہے اور ان سے کئی علوم سیکھتے ہیں اور ان کا انکار الیسا ہی ہے جیسا کوئی نا بینا سورج کی روشنی کا انکار کر دے.جب تک انسان کی روحانی آنکھیں نہ ہوں وہ کب اس بات کا اہل ہو سکتا ہے کہ روحانی وجودوں کو دیکھ سکے.رسول کریم نے ایک آن کیلئے کسی کواللہ کا شریک نہیں بنایا میرا سبات پر بھی یقین ہے کہ بعثت کے بعد تو الگ رہا بعثت سے پہلے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا شریک کسی کو نہیں بنا یا اور جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے کبھی بھی مشرکوں کے کہنے سے ان کے تین دیوتاؤں کو مان لیا وہ تاریخ سے نا واقف اور حقیقت سے جاہل ہیں وہ اپنے دعوئی کا ثبوت پیش کریں تو ہم باہر سے نہیں خود انکے دیئے ہوئے لاڈل سے ہی ان کے دعویٰ کا باطل ہونا ثابت کردیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ اسلام تمام دنیا کیلئے ہے ئیں اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ اسلام عرب کے نیم وحشیوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے بہترین متمدن لوگوں کے لئے بھی مفید ہی نہیں بلکہ ضروری ہے اور میں ہر اس شخص کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں جو اسلام کا حلقہ اثر صرف نیم وحشیوں تک محدود رکھتا ہے.اسلام عملی طور پر یورپ اور ایشیاء کے متمدن ممالک معینی یونان کے علاقوں ایران اور ہندوستان کی اصلاح کر کے ثابت کر چکا ہے کہ وہ تہذیب کا دعوی کرنیوالے ممالک کے لئے بھی ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ غیر متمدن لوگوں کے لئے اور اگر کسی کو عقلاً اس امر پر

Page 387

انوار العلوم جلد الله اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کوئی اعتراض ہے تو وہ پیش کرے.اگر اس کے اعتراضات تنقید کی کسوٹی پر سچے ثابت ہوں تب جو چاہے دعوی کرے.اسلامی پردہ نیکی کے قیام کا بہترین ذریعہ ہے.میں اس بات پر بھی یقین کرتا ہوں کہ اسلامی پردہ نیکی اور تقویٰ کے قیام کے لئے بہترین ذریعہ ہے اور میں مشتاق ہوں کہ اس شخص کے دلائل سنوں جسے اس پر کوئی اعتراض ہو.یں کثرت ازدواج کا نہ صرف قائل ہوں بلکہ اس پر عامل ہوں.مسئلہ کثرت ازدواج اور میرے نزدیک اسلامی احکام کے ماتحت ایک سے زیادہ نکاح کرنے نہ صرف به که زناکاری نہیں بلکہ اول درجہ کی برد باری، قربانی ، اختیار اور تقویٰ کی علامت ہے اور کوئی عیاش انسان ان قواعد کے ماتحت دوسرا نکاح کر ہی نہیں سکتا.صرف اللہ اللہ کرنا خالی اللہ لہ کا ذکر کرنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور اگر کوئی سمان ہندوؤں کی دیکھا دیکھی ایسا کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کئی منڈ مسلمانوں کی قبروں پر جاکر سجدہ کرتے ہیں.گوشت کو میں ان خوراکوں میں سے سمجھتا ہوں جو انسان کے لئے مضر نہیں گوشت خوری بلکہ مفید میں اور اسلام نے جو اس کو حلال کیا ہے اس حکم کو میں نہایت ہی پر حکمت سمجھتا ہوں اور جس شخص کو اس کے غیر قدرتی غذا ہونے کا خیال ہو اس کے دلائل معلوم کرنے پر اس کے اعتراضات کو وہم اور خیال ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں.انشاء اللہ.اور جو شخص یہ کہنا ہے کہ گوشت انسان کی قدرتی غذا نہیں میرے نزدیک وہ ایسا نا واقف ہے کہ قدرتی غذا کے معنی بھی نہیں سمجھ سکتا.ہر وہ غذا جو غذا کا کام دے سکتی ہے اور انسان کے جسم کی نشو و نما اس سے ہوسکتی ہے اور زہر نہیں ہے وہ قدرتی غذا ہے اس کو غیر قدرتی کہنا جاہل کا کام ہے.قدرتی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جس کے بغیر گزارہ نہ ہو سکے کیونکہ ایسی کوئی بھی غذا نہیں جس کے بغیر انسان زندہ نہ رہ سکے.بعض ممالک کی اصل غذا گیہوں ہوتی ہے، بعض دوسرے ممالک کے لوگ گیہوں کو اس طرح ہضم نہیں کر سکتے جس طرح چاول کو ، بعض اور اقوام جوالہ کا زیادہ استعمال کرتی ہیں ، بعض زیادہ تر گوشت اور دودھ پر گزارہ کرتی ہیں.پس ایسی کوئی بھی غذا نہیں جس کے بغیر گزارہ ہی نہ ہوسکے اور اگر اس اصل سے کسی غذا کو قدرتی قرار دیا جائے تو کوئی غذا بھی قدرتی نہیں رہ سکتی.

Page 388

انوار العلوم جلد اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اور اگر گوشت کو قدرتی غذا نہ کہنے کی وجہ لوئی کو ہنی کی یہ دلیل ہے کہ انسانی آنہیں گوشت خور جانوروں کی طرح نہیں ہیں تو یہ دلیل بھی باطل ہے کیونکہ انسان گوشت خور جانور نہیں ہے یہ خیال خود باطل ہے کہ ہر ذی روح کو یا گوشت خور ہونا چاہئے یا سبزی خور - انسان نہ گوشت خور ہے نہ سبزی خور اس کو اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزیں استعمال کرنے کی طاقت دی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں چیزوں کو مہضم کر لیتا ہے ورنہ وہ جانور جو صرف ایک چیز کھانے کی طاقت ، رکھتے ہیں دوسری چیز یا تو استعمال ہی نہیں کرتے یا اس کے استعمال سے ہلاک ہو جاتے ہیں یا متواتر استعمال سے ناکارہ ہو جاتے ہیں.پس گوشت کو غیر قدرتی غذا قرار دیکر اسلام پر حملہ کرنا نادانی کا فعل ہے.پر ہیز گاری اسلامی احکام پرعمل کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے میرا یہ بھی یقین ہے کہ پرانوں اور رامائن کے پڑھنے سے نہیں بلکہ اسلامی احکام پر عمل کرنے سے بچی پر نہیز گاری نصیب ہوتی ہے اور میں اس بات کا مشتاق ہوں کہ وہ باتیں معلوم کروں جو رامائن میں ایسی موجود ہیں کہ جن سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے لیکن قرآن کریم اور احادیث اور اسلامی لٹریچر میں موجود نہیں.میرے نزدیک تو ہندوؤں کی ان مذکورہ بالا کتب میں ایسی کوئی بات نہیں مل سکتی جو پاکیزگی کا باعث ہو مگر اسلام میں موجود نہ ہو.ہاں ایسی باتیں ضرور مل جاویں گی جو ان کتب میں موجود ہیں اور خود ہند و صاحبان بھی دل سے یہی پسند کریں گے کہ کاش یہ نہ ہو تہیں.پروفیسر صاحب اسلامی مسائل کے خلاف اپنے عقیدہ کے بیان کے بعد میں جو دلائل رکھتے ہیں.پیش کریں ! پروفیسر صاحب سے اُمید کرتا ہوں کہ یہ باتیں جو انھوں نے اسلام کی کمزوری ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں ان کے متعلق اگر کوئی دلیل ان کے پاس ہے یا ان لوگوں کے پاس ہے جن کی مدد انہوں نے حاصل کی ہے تو اس کو پیش کریں.میں انشاء اللہ اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں اور اس امر کو یقینی دلائل سے ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں کہ علوم کی ترقی اور سائنس کے انکشافات اگر کسی مذہب کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تو وہ صرف اسلام ہے یہی مذہب ہے جو ہر زمانہ کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے اور پورا کرتا رہے گا.تعجب ہے کہ پروفیسر صاحب کو وہ چند لوگ تو نظر آگئے جو ان کے صوبہ سے باہر رہتے تھے اور جو اسلام کے بعض مسائل پر معترض تھے

Page 389

ار العلوم جلد اسلام یہ کہ پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب وه اور اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ اسلام ہر زمانہ کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا لیکن ان کو لوگ جو انسی کے صوبہ میں رہتے ہیں اور جو علی الاعلان اسلام کے ہر ایک حکم کی خوبی ثابت کرنے کے مدعی اور اس کی زندگی بخش قوت کے گواہ ہیں اور ان میں علوم جدیدہ کے ماہرین بھی شامل ہیں نظر نہ آئے.واخر دعُونَنَا آنِ الْحَمْدُ يَتُورَتِ الْعَلَمِينَ خاکسار مرزا محمود احمد TOGO HEIHACHIRO (۱۹۳۴-۶۱۸۲۷ء) جاپانی امیرالبحر اور انیسویں صدی کا ہیرو.جس نے جاپان اور روس کے مابین ۱۹۰۴ء ۱۹۰۵ء میں لڑی گئی جنگوں میں حصہ لیا اور خوب شہرت حاصل کی (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحه ۴۲۵ مطبوعہ لاہوری ۶۱۹۸ HUXLEY, THOMAS HENRY (۱۸۹۵-۶۱۸۲۵ء) برنش ماہر حیاتیات.جو ڈارون کا حامی تھا اس نے نظریہ ارتقاء اور سائنس کے دیگر مواضیع پر بحث کی ہے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۸۵۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) SPENCER, HERBERT (۱۹۰۳-۶۱۸۲۰ء ) انگریز فلسفی جس نے علوم طبیعی اور نفسیات کے وسیع مطالعہ کے بعد تمام علوم کو متحد کرنے کے لئے ان پر نظریہ ارتقاء کا اطلاق کیا (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ا صفحہ ۳۶ مطبوعہ لاہور (F19A2 MARCONI, GUGLIELMO (۱۹۳۷۰۶۱۸۷۴ء) اطالوی موجد.جس نے ریڈیو ، ٹیلی گرافی کا کامیاب نظام ایجاد کیا.سمرتی.مجموعہ قوانین دھرم شاستر جو کہ اٹھارہ ہیں جن کو رکھیٹروں نے احکام بید ( دید) کے مطابق مرتب کیا ہے (لغت ہندی اردو صلحه ۳۱۳ زیر لفظ " سمرتی مطبع دنده طلسمات فائن آرٹ پریس ۱۹۳۸ء)

Page 390

الوارالعلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کونساندذہب دنیا کی تسلی کا موجب ہو سکتا ہے پروفیسر رام دیوما سبکے مضمون کا جواب ران سید نا حضرت خلیفة المسلح الثاني ) أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خُدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوَ النَّ مير احباب کرام کو یاد ہوگا کہ پروفیسر رام دیو صاحب کے ایک لیکچر کے متعلق جو انھوں نے آریہ سماج کے سالانہ جلسہ کے موقع پر دیا تھا اور جس میں انھوں نے ویدک دھرم کی فضیلت دوسرے مذاہب پر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی میں نے ایک مضمون لکھا تھا جو ۱۳ دسمبر نالہ کے الفضل میں شائع ہو چکا ہے.پروفیسر صاحب کے مضمون کا خلاصہ پروفیسر رام دیو صاحب نے اس مضمون کا جواب پرکاش کے 14 جنوری سنہ کے پرچہ میں شائع کرایا ہے جس میں انھوں نے اول تو اس بات پر خوشنودی کا اظہار کیا ہے کہ ان کے مضمون پر سنجیدگی اور متانت سے نکتہ چینی کی گئی ہے پھر ہندومسلم اتحاد پر میرے خیالات کی تائید کی ہے.آگے چل کر وہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے غلط فہمی سے پروفیسر صاحب کی طرف یہ بات منسوب کر دی ہے کہ انھوں نے اسلام کے خلاف یہ دلیل دی ہے کہ مسلمانوں کا رنگ کالا ہے اس لئے وہ یورپ کی شستی نہیں کر سکتے.وہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ بات انھوں نے عیسائیوں کے متعلق بطور مذاق کسی تھی اور بندے ماترم “ میں شائع شدہ خلاصہ تقریر سے اس قسم کی غلط ضمی کا ہو جانا بعید از قیاس نہیں.پھر

Page 391

انوار العلوم جلد 2 اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب وہ تحریر فرماتے ہیں کہ مسٹر سید امیر علی صاحب اور مسٹر خدا بخش کی کتابوں سے اقتباسات جس غرض سے پروفیسر صاحب نے پیش کئے تھے اس کا مطلب بھی میں غلط سمجھا ہوں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کسی مذہب کے پیروکار کا اس مذہب سے منکر ہو جانا لازمی طور پر اس مذہب کے غلط ہونے کی دیل نہیں لیکن اگر کسی مذہب کا پر جوش واعظ اور سلم لیڈر اس کتاب میں جو اس نے اس مذہب کی حمایت میں لکھی ہو اس کے کئی مسائل کو زمانہ کے لحاظ سے ناقابل حمایت تسلیم کرے تو یہ ان مسائل کی کمزوری کا ثبوت ضرور ہے.اگر ایک مقدمہ میں ایک فریق کا وکیل ہی خاص امر پر زور نہ دے یا اپنی کمزوری مان لے اور موکل اس کے نمائندہ ہونے سے انکار نہ کرے تو عدالت کے لئے ناممکن ہے کہ ان امور کے متعلق اس فریق کے حق میں فیصلہ کرے.سید امیر علی نہ مرتد ہیں نہ معمولی مسلمان بلکہ انھوں نے یہ کتاب ہی اس غرض سے لکھی تھی کہ یورپ میں اشاعت اسلام ہو.پس جب ایک مسلمان عالم دنیا کو اسلام کی طرف کھینچنے کے لئے ایک کتاب لکھتا ہے اور اس میں یہ بتاتا ہے کہ اس کے بعض فوائل وحشیوں کے لئے تو مناسب تھے لیکن آج غیر ضروری ہیں تو اگر کوئی غیر مذہب کا واعظ اس سے ہ نتیجہ نکالے رکئی مسلمان عالم بھی اس روشنی کے زمانہ میں اسلام کے چند مسائل کی حمایت نہیں کرسکتے تو اس کا کیا قصور ہے.پھر لکھتے ہیں اس کے دو جواب ہو سکتے تھے یا یہ کہ سید امیر علی مرتد ہیں یا یہ کہ حوالے غلط ہیں.مگر سید صاحب کو کسی نے کافر نہیں قرار دیا اور ان کے حوالوں کو کسی نے غلط ثابت نہیں کیا پس ان مسائل کا اسلام کی کمزوری کی دلیل میں پیش کرنا بالکل درست تھا.یہ میری دیل تھی بھی اور ہے بھی کہ کسی مذہب کے نمائندوں کا باوجود کوشش کے اس کے بعض مسائل کی حمایت کر سکنا اس مذہب کی کمزوری کی دلیل ہے.پھر پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ ہند و صاحبان کے جو حوالے میں نے پیش کئے تھے وہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں.مثلاً کلالہ لاجپت رائے صاحب کے اقوال اول تو کچھ ثابت ہی نہیں کرتے اور اگر ثابت کریں تو وہ آریہ سماجی نہیں ہیں پھر اگر انھوں نے یہ کہدیا کہ پندرہ سو برس سے بعض عقائد کی وجہ سے ہندو مذہب ہماری تباہی کا موجب ہو رہا ہے تو اس میں کیا حرج ہے اس کے تو سب ہند و قائل ہیں.لالہ مولراج صاحب بھی آریہ سماج کے مذہبی نمائندہ نہیں ہیں اور ان کے خیالات سے آریہ سماج کے دونوں فریق اختلاف ظاہر کر چکے ہیں نہ انھوں نے آریہ سماج کی حمایت میں کبھی کوئی کتاب لکھی ہے.آریہ گزٹ نے اگر گرے ہوئے لوگوں کیلئے دعوا کے بیاہ کی اجازت دیدی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ پنڈت دیا نند صاحب نے بھی شودروں

Page 392

انوار العلوم جلد اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کے لئے ودھوا بیاہ جائز قرار دیا ہے پس آریہ سماج کا کوئی نمائندہ آریہ اصول سے منحرف نہیں.پھر لکھتے ہیں کہ ہندو مذہب میں اختلاف کثیر کی موجودگی و یدک دھرم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے.کیونکہ ویدک دھرم ہندو دھرم نہیں بلکہ ایک عالمگیر و حرم ہے جو لوگ ویدوں کو نہیں مانتے اور جن کو ہندوؤں نے اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کیا اور جنہوں نے ویدک دھرم کی تائید میں کوئی کتاب نہیں لکھی ان کا وید کے خلاف لکھنا ویدک دھرم پر کوئی حرف نہیں لاتا.آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے جو چیلنج ان کو دیا ہے کہ سید امیر علی صاحب نے اسلام کے جن مسائل کو ترک کر دیا ہے ان کے متعلق وہ مجھ سے بحث کر سکتے ہیں وہ اس چیلنج کو منظور کرتے ہیں اور اگر مجھے اعتراض نہ ہو تو سب سے پہلے قرآن کریم کے الہامی ہونے کے خلاف دلائل پیش کرنے کے لئے وہ تیار ہیں وہ مضامین پہلے اخبارات میں شائع ہو جاویں پھر کتابی صورت میں شائع ہو جاویں.رنگت کا سوال مذاق تھا پروفیسر صاحب کے اس لیکچر کا خلاصہ جو انھوں نے آریہ سماج کے جلسہ پر دیا تھا اخبارات میں یہ دیا گیا تھا کہ اسلام آئندہ دنیا کا مذہب نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک تو مسلمانوں کا رنگ سفید نہیں دوسرے خود بعض مسلمان مصنف اسلام کے بعض مسائل کو غلط اور نا قابل تسلیم تصور کرتے ہیں.ان دونوں سوالات میں سے پہلے سوال کے متعلق تو اپنے تازہ مضمون میں پروفیسر صاحب نے چونکہ تحریر فرما دیا ہے کہ وہ غلط فہمی سے پیدا ہوا ہے اس لئے اس کے متعلق مزید بحث فضول ہے.دوسرا سوال باقی رہ جاتا ہے جسے انھوں نے پھر پیش کیا ہے اور اس کی صحت پر زور دیا ہے.پس میں اسی کے متعلق مزید روشنی ڈالوں گا.مگر پیشتر اس کے کہ ئیں ان باتوں کا جواب دوں جو پروفیسر صاحب نے اپنے دعوئی کی تائید میں بطور تشریح یا بطور دلیل پیش کی ہیں ہیں یہ امر لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ امر میری سمجھ میں نہیں آیا کہ پروفیسر صاحب نے سوال اول کے متعلق غلط فہمی کو میری طرف کسی طرح منسوب کیا ہے.غلط فہمی کے تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی عبارت کا جو اصل مطلب ہو اس کے خلاف دوسرا مطلب سمجھ لیا جائے اور یہ بات اس جگہ درست نہیں کیونکہ میں نے جو مفہوم بندے ماترم کا سمجھا ہے اس کے سوا اور کوئی مطلب اس کا نکل ہی نہیں سکتا پس اگر غلط فہمی تھی تو اس کا مرتکب بندے ماترم ہے نہ کہ میں.بندے ماترم “ ان کی تقریر کا خلاصہ ان الفاظ میں لکھتا ہے :- مگر یہی سب کچھ نہیں کہ مسلمانوں کا رنگ سفید نہیں اس لیئے یورپ کی مشکلات کا حل ان سے نہیں ہو سکتا "

Page 393

انوار العلوم جلد الله ۳۷۳ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ انھوں نے یہ بات مسیحیوں کے متعلق مذاق کے طور پر کسی تھی.مگر سوال یہ ہے کہ اگر مسیحیوں سے مذاق کرنا تھا تو وہ اس حصہ لیکچر میں ہونا چاہئے تھا جو مسیحیوں کے متعلق تھا نہ کہ اس حصہ میں جو مسلمانوں کے متعلق تھا اور پھر اگر مذاق ہی کرنا تھا تو انھوں نے کیوں یہ نہ کہا کہ ویدک دھرم سے بھی اس مشکل کا حل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے پیروؤں کا رنگ سفید نہیں.ایک تیسری قوم کو کیوں بیچ میں لے آئے.مگر چونکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ مذاق تھا اس لئے میں بھی اس کو مذاق ہی تسلیم کرتا ہوں.اب رہا دوسرا سوال جو یہ ہے کہ چونکہ اسلام کے بعض پیرو اس کے بعض مسائل کو ضرورت کے مطابق نہیں بتاتے یا غلط قرار دیتے ہیں اس لئے اسلام اس زمانہ کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا.اس کے متعلق اپنے تازہ مضمون میں پروفیسر صاحب نے کچھ تشریحات کی ہیں اور کچھ شرائط لکھی ہیں اور اس بات پر مصر ہیں کہ یہ دلیل میری درست تھی.پروفیسر صاحب کے تازہ بیان کے مطابق اگر کسی مذہب کا مصنف پیر و جو اس مذہب کی حمایت کے لئے کھڑا ہو اور وہ اس مذہب کے بعض مسائل کو نا قابل حمایت ظاہر کرے اور دوسرے لوگ اس کو مرتد قرار نہ دیں تو اس شخص کا یہ اقرار ضرور اس مذہب کے ان مسائل کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور دو صورتوں میں سے ایک ضرور اختیار کرنی ہوگی یا اس شخص کو مرتد ثابت کرنا ہوگا یا حوالہ جات کو غلط ثابت کرنا ہوگا.تصنیف کسی کو راہنما یا نماندہ نہیں بنا دیتی میرے نزدیک پروفیسر صاحب نے جو تشریح اپنی دلیل کی اب کی ہے اس سے بھی ان کا مدعا ثابت نہیں ہوتا اور جو حوالے انھوں نے دیئے ہیں وہ بھی درست نہیں ہیں.پروفیسر صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنیف کسی کو رہنما اور مسلم لیڈر نہیں بنا دیتی.ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے رہنما دُنیا میں گذرے ہیں لیکن انھوں نے خود کوئی تصنیف نہیں کی اور بعض ایسے لوگوں نے جو اہل نہ تھے تصانیف کر دی ہیں.تصنیف توادبی مذاق یا جوش قلب پر دلالت کرتی ہے یا شهرت و نمود کی خواہش کی علامت ہے.پس سید امیر علی صاحب کا یا اور کسی کا کوئی کتاب لکھ دنیا اسبات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر ہیں.مسلم لیڈر تو وہ تبھی ہو سکتے ہیں جب کوئی جماعت مسلمانوں کی ایسی موجود ہو جو اپنے آپ کو ان کی رائے سے متفق ظاہر کرتی ہو اور اکی اتباع کی مدعی ہو یا کم سے کم ان کو مذہبی طور پر کوئی رتبہ دیتی ہو.مثلاً مذہبی مسائل میں ان کی رائے کو واقعت

Page 394

۳۷۴ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب دیتی ہو ، ان سے مذہبی امور میں مشورہ لیتی ہو مگر یہ بات ہرگز ثابت نہیں نہ سید امیر علی صاحب، نہ مسٹر خدا بخش صاحب، نہ میٹر منظہر الحق صاحب جن لوگوں کے اقوال یا تحریریں پروفیسر صاحب نے نقل کئے ہیں ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جس کو تمام فرقہ ہائے اسلام تو الگ رہے کسی ایک فرقہ نے بھی کبھی ایک مذہبی عالم واقف شریعیت اور ماہر تسلیم کیا ہو.مثلا سید امیر علی صاحب ہیں ان کی تمام تر عزت و شہرت ان کی قانونی قابلیت کی وجہ سے ہے یا سیاسی سعی کی وجہ سے اور اب تو مسلمان ان کو سیاسی لیڈر بھی تسلیم نہیں کرتے اور مسٹر دانش صاحب کوکسی رنگ میں بھی مسلمانوں میں کوئی عظمت حامل نہیں ہوئی اور دوسرے صاحبان جن کے آپ نے نام لکھے ہیں وہ خود آپ کے معیار کے مطابق بھی پورے نہیں اتر تے کیونکہ انہوں نے اسلام کی تائید میں کوئی کتاب نہیں لکھی.پس اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ کسی مذہب کے کسی مقتدر عالم کا قول اس مذہب کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے تو بھی ان لوگوں کے اقوال اسلام کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ لوگ مذہبی عالم کبھی بھی تسلیم نہیں کئے گئے اور کبھی بھی مذہبی امور کے تصفیہ میں ان سے مشورہ نہیں لیا گیا.اگر ان میں سے بعض نے اسلام کے متعلق کتب بھی لکھی ہیں تو اس سے بھی یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ یہ اسلام کے علما ءمیں سے ہیں اور اس کے نمائندہ ہیں.نمائندہ تو دوسروں کے تسلیم کرنے سے ہوتا ہے نہ کہ کتاب لکھ دینے سے اگر کوئی شخص آریہ مذہب کے متعلق کوئی کتاب لکھ دے تو کیا وہ اس کا نمائندہ کہلانے لگ جائے گا ؟ کسی قوم کا نمائندہ تو وہی ہے جس کو وہ قوم خود اپنا نمانده نفر کرے یا تسلیم کرے.ان لوگوں کو کب مسلمانوں نے اپنا مذہبی نمائندہ تسلیم کیا کہ ان کا قول اسلام کے خلاف حجت ہو.یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ان صاحبان کو اسلام کی تائید میں کتب لکھنے کے لئے اہل اسلام نے نہیں کہا کہ یہ کتب اہل اسلام کی طرف سے سمجھی جاویں نہ ان کی کتب کے شائع ہونے پر ان کو اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والا قرار دیا گیا ہے پس صرف اس وجہ سے کہ کسی شخص نے اسلام کی تائید میں کتاب لکھی ہے اس شخص کو اسلام کا نمائندہ نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ اس کی کتاب کو اسلام کی صحیح ترجمانی کہا جا سکتا ہے.خود آریہ سماج میں بیسیوں مصنف ہیں.پروفیسر صاحب کبھی جائزہ نہیں رکھیں گے کہ ان میں سے ہر ایک کو آریہ سماج کا نمائندہ قرار دیا جائے یا ان کی ذاتی رائے کو مد نظر رکھ کر آریہ سماج پر حملہ کیا جائے.رائے اس شخص کی محبت ہو سکتی ہے جو کسی مذہب کا بانی ہو یا کسی جماعت نے خود اس کو اپنا نمائندہ منتخب کیا ہو یا اس کے رائے ظاہر کرنے کے بعد سب نے اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہو.

Page 395

انوار العلوم جلد ۵ ۳۷۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ن کسی بات کی تردید نہ کرنا کو صحیح تسلیم کرنا نہیں ہوتا پروفیسر صاحب کا یہ فرما بھی یہ لوگ نے اُس کی تردید کیوں نہ کی.پس تردید نہ کرنا اور اس شخص کو مرتد نہ قرار دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کو صحیح تسلیم کر لیاگیا در رست نہیں.ہر مخالف رائے کا رد کرناضروری نہیں ہوتا نہ ہر بات جس کو رد نہ کیا جائے صحیح تسلیم کی جا سکتی ہے.اگر ہر ایک مخالف رائے کا رد کرنا ضروری ہو تو دنیا میں اندھیر پڑ جائے اور اسقدر فضول تصنیف کرنی پڑے کہ جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا.کیا پروفیسر صاحب کہ سکتے ہیں کہ آریہ سماج میں ہر اس بات کا جو ان کا کوئی میر غلطی سے کہ میٹھے رد کیا جاتا ہے اور اخبارات کے ایک ایک مضمون کو مد نظر رکھا جاتا ہے.یہ دعوی دنیا کا کوئی مذہب بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے افراد میں سے ہر ایک نے جو خیالات ظاہر کئے ہوں ان کا بالاستیعاب رد کیا جاتا رہا ہے.بیسیوں باتیں کئی وجوہ نا قابل التفات خیال کی جاتی ہیں اور بیبیوں تحریریں ان لوگوں کی نظر سے جو جواب دینے کی اہلیت رکھتے ہیں پوشیدہ رہتی ہیں پس انکار نہ کرنے کو ان کے مسلم ہونے کی دلیل قرار دیا بالکل غلط بات ہے پروفیسر صاحب نے اس دلیل کی تائید میں ایک مثال دی ہے کہ اگر کسی شخص کا وکیل عدالت میں کوئی بات بیان کرے اور اس کا منو کل اس کا انکار نہ کرے تو عدالت کے نزدیک وہ بات موکل ہی کی طرف سے سمجھی جائیگی.لیکن یہ مثال غلط ہے کیونکہ وکیل تو اس خاص کام کے لئے مؤکل مقرر کرتا ہے اور خود اسے اپنا کیس سمجھاتا ہے پھر اپنی یا اپنے کسی معتبر کی موجودگی میں اس سے کام لیتا ہے.یہاں ان میں سے کونسی بات پائی جاتی ہے.اگر مسلمانان عالم نے سید امیر علی صاحب یا کسی دوسرے مصنف کو اپنی طرف سے با قاعدہ مقرر کیا ہوتا تو تب بیشک بشرط علم ان پر لازم آتا کہ ان کی ہر ایک بات کو جو ان کے منشاء کے خلاف کہیں رد کریں لیکن جب یہ بات ہی نہیں تو پھر اس مثال سے پروفیسر صاحب کیا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں." سید امیر علی صاحب کی کتاب کی تردید کیوں نہ ہوئی پروفیسر صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی ہے اور جس وقت یہ کتاب لکھی گئی ہے اس زمانہ میں مختلف فرقوں کے وہ لوگ جوند سب سے واقف تھے اس زبان سے نا واقف تھے اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتاب اُن تک پہنچی تھی.یہیں ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کتاب یا اسی قسم کی اور کتب جو انگریزی میں لکھی گئی ہوں کی تردید نہ ہونا یا ان کے لکھنے والوں کے اسلام کے نمائندہ ہونے سے انکار نہ کیا جانا اس امر کا ثبوت

Page 396

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب نہیں قرار پا سکتا کہ ان کا مضمون درست ہے یا یہ کہ و شخص ان لوگوں کا نمائندہ ہے.پروفیسر صاحب کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ مسلمان ہمیشہ سے ان عقائد کے مخالف ہیں اور اس قسم کی کتب کے چھپنے کے بعد بھی مخالف رہے ہیں پس جب وہ مخالف خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں تو پھر کسی اور تردید کی ان کو کیا ضرورت تھی.ہر ایک عقلمند انسان خیال کر سکتا تھا کہ جب آپس میں اسقدر اختلاف رائے ہے تو ایک دوسرے کا نمائندہ کیونکر ہو سکتا ہے خصوصاً جبکہ خود مصنف کتاب نے اپنے نمائندہ ہونے کا دعوئی نہیں کیا تو پھر باوجود مسلمانوں میں مخالف خیال کی موجودگی کے اس کی نمائندگی کا انکار کرنا ایک حماقت نہ ہوتی تو اور کیا ہوتا.اگر کوئی شخص ان کی نمائندگی کا انکار کرتا تو کیا سید امیر علی صاحب اس امر پر ہنستے یا نہ ہنستے اور کیا جواب میں یہ نہ کہتے کہ میں نے کب تمہارا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے.مسلمانوں کا نمائندہ ہونے سے سید امیر علی صاحب کا انکار مجھے تعجب ہے کہ پروفیسر ها سید امیر علی صاحب کو مسلمانوں کا نمائندہ قرار دے رہے ہیں اور سید امیر علی صاحب اپنی کتاب میں اس عہدہ سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ متعدد جگہ لکھتے ہیں کہ اس وقت مسلمان اسلام کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور صیحیح اسلام ان میں نہیں پایا جاتا اور یہ کتاب جیسا کہ وہ خود اس کے دیا چہ میں لکھتے ہیں انھوں نے مسلمانوں کو بزعم خود حقیقی اسلام سکھانے کے لئے لکھی ہے نہ کہ ان کی طرف سے نمائندہ کی حیثیت سے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :- یہ کتاب جس کو پہلی کتاب کا دوسرا ایڈیشن کنا غلط ہوگا خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے لکھی گئی ہے.پھر لکھتے ہیں کہ یہ کتاب انھوں نے اس امید سے لکھی ہے کہ :- ”ہندوستان کے مسلمان اس بڑی لیور پین طاقت کے زیر نگرانی دوبارہ عقلی اور اخلاقی زندگی حاصل کریں.یہ عجیب قسم کا وکیل ہے جو اپنی تقریر کا مخاطب بیج کی بجائے مؤکل کو بناتا ہے.سید صاب کے یہ فقرات بتاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خود تراشیدہ حج خیال کرتے ہیں نہ کہ مسلمانوں کا وکیل.سید صاحب کی نمائندگی کا انکار کیا گیا یہ بات بھی درست نہیں کر سید صاحب کی نمائندگی سے انکار نہیں کیا گیا کیونکہ گو ان کا....نام لیکر ان کو مخاطب نہ کیا گیا ہو مگر ان کے جن مضامین کی طرف پروفیسر صاحب نے اشارہ کیا ہے ان

Page 397

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کارد واقف کاران اسلام کی طرف سے پچھلے میں سال کے عرصہ میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے.پس جب ان مضامین کو رد کیا جاتا رہا ہے تو سیسی سید صاحب کے مذہبی نمائندہ ہونے کا رد ہے ان مضامین سے ایک بھی مضمون نہیں جس کا رد نہ کیا گیا ہو.مگر میں پروفیسر صاحب کے اس مطالبہ کو بھی کہ خاص اس کتاب کو مد نظر رکھ کر سید صاحب کی منفت کی گئی ہو پورا کئے بغیر آگے نہیں جانا چاہتا اور سید صاحب کی اپنی شہادت اس بارہ میں پیش کرتا ہوں اور بیان کا وہ فقرہ ہے جو ان کی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے دیباچہ میں انھوں نے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں :." وہ مخالفت جو اس کتاب کی ہوئی ہے اس نے یہ فائدہ ہی دیا ہے کہ وہ خیالات جو اس کے ذریعہ سے انگلی نسلوں میں پیدا کرنے مد نظر تھے ان کا اثر اور بھی بڑھ گیا ہے ! اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب کی اس کتاب پر مخالفت کی گئی تھی کا یہ خیال بھی غلط ہو گیا کہ سید صاحب کی نمائندگی کا انکار کیوں نہیں کیا گیا.جیسا کہ سید صاحب تحریر فرماتے ہیں انھی کتاب کے شائع ہوتے ہی اسکے غلط خیالات کو رد کر دیا گیا تھا.ہیں ان کی نمائندگی کا انکار ہو چکا ہے.سید صاحب کے اس فقرہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب بحیثیت نمائندہ اہل اسلام نہیں لکھی تھی بلکہ اپنے چند خیالات کو پھیلانے کے لئے یہ کتاب لکھی تھی.اگر پروفیسر صاحب کہیں کہ تمام اہل اسلام نے بالاتفاق اسکے نمائندہ ہونے سے انکار نہیں کیا تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا لالہ مولراج صاحب کے اقوال کا رد دیدگ دھرم کے ہر ایک ماننے والے نے استثناء کیا ہے.انکار کے لئے اسی قدر کافی ہوتا ہے کہ بعض لوگ اپنے اصل عقائد کا اظہار کردیں اور نئے خیالات سے اپنی براءت کر دیں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر فرد ان کا انکار کرے اور یہ بات سیدامیر علی صاحب کی کتاب سپرٹ آف اسلام کے متعلق خود ان کے اپنے بیان کے مطابق ہو چکی ہے.پروفیسر صاحب ایک اور دھوکے میں پروفیسر صاحب ایک اور بہت بڑے دھو کے ہیں پڑے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ وہ ایک شخص کی غلطی سے " تمام لوگوں پر حجت قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ خواہ کوئی شخص کسی قوم کا نمائندہ بھی ہو اس کی بات کا اثر اس کے مخالف خیال کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا.اگر فرض کر لیا جائے کہ جو شرائط پروفیسر صاحب نے بتائی ہیں وہ جس میں پائی جائیں اس کی بات اس کے ہم مذہبوں پر محبت ہوتی ہے تو بھی پروفیسر صاحب کی دلیل بالکل بے وزن ہے کیونکہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے اسوقت بیسیوں

Page 398

انوار العلوم جلد ۵ ۳۷ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب فرتے ہیں جس طرح وید کی طرف منسوب ہونے والے بیسیوں فرقے ہیں پس اگر کوئی شخص ایک قوم کا نمائندہ بھی ہو تب بھی اس شخص کا قول زیادہ سے زیادہ اس کی قوم پر محبت ہوگا نہ کہ اس مذہب کے تمام پیروان پر خواہ وہ اس سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں.چنانچہ خود پروفیسر صاحب اپنے مضمون میں اس امر پر بڑا زور دیتے ہیں کہ کوئی آریہ سماج کا نمائندہ آریہ سماج کے اصول سے منحرف نہیں ہے اور ہندو مذہب میں اختلاف ویدک دھرم کے خلاف دلیل نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آریہ سماج کے سوا دوسرے ہندوؤں کے اقوال کو ویدک دھرم کے خلاف حجت نہیں سمجھتے حالا نکہ وہ لوگ بھی دید کو مانتے ہیں ہیں اگر وید کے ماننے والے مختلف فرقوں میں سے بعض لوگوں کا یہ تسلیم کرنا کہ وید سے بڑھ کر اور علوم بھی ہیں جن کو انسان حاصل کر سکتا ہے ویدک دھرم کے خلاف اس لئے دلیل نہیں کہ ان کا کہنے والا پروفیسر رام دیو صاحب کا ہم خیال نہیں.تو سوال یہ ہے کہ پھر کس سبب سے ایک ایسے شخص کا خیال جو زیادہ سے زیادہ اسلام کے کسی ایک فرقہ کا لیڈر کہلا سکتا ہے اسلام کے خلاف حجت قرار دیا جائے.اگر اس کا قول حجت ہوگا تو پھر ویدوں کے ماننے والے فرقوں میں سے کسی ایک سر بر آوردہ شخص کا قول بھی ویدک دھرم اور ویدک دھرم کے تمام ماننے والوں کے خلاف حجت ہوگا.اگر پروفیسر رام دیو صاحب کے نزدیک مسٹر تلک ، پنڈت در گارتا جوشی اور راؤ بہادر دیو راؤ نایک صاحبان جیسے ویدک دھرم کے پیروؤں کے اقوال جو ویدک دھرم کے بعض اصول کی کمزوری پر دلالت کرتے ہیں صرف اس وجہ سے قابل سند نہیں ہیں کہ یہ لوگ آریہ سماجی نہیں تھے تو میں پروفیسر صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ کیوں سید امیر علی صاحب اور مسٹر خدا بخش صاحب کے ایسے اقوال جو اسلام کے خلاف ہوں اسلام کے خلاف استعمال کئے جا سکتے ہیں جبکہ اسلام میں بھی ویدک دھرم کے مانے والوں کی طرح کئی فرقے ہیں.کیا ہم بھی پروفیسر صاحب کی طرح نہیں کہہ سکتے کہ اسلام کا کوئی شخص اسلامی اصول سے اختلاف نہیں رکھتا کیونکہ احمدیوں میں سے کوئی شخص اسلامی اُصول سے اختلاف ظاہر نہیں کرتا.پروفیسر صاحب کے مضمون کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آریہ سماج اور ویدک دھرم میں امتیاز نہیں کر سکے اور اسی طرح اسلامی فرق اور اسلام میں امتیاز نہیں کر سکے.عرض اگر پروفیسر صاحب کی بیان کردہ دل کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے توبھی وہ اسلام کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی کیونکہ نہ تو وہ لوگ جن کے حوالہ جات پروفیسر صاحب نے نقل کئے ہیں اسلام کے مذہبی نمائندہ ہیں اور نہ ان کو مسلمانوں نے کبھی مذہبی علماء میں شامل کیا ہے نہ ان لوگوں نے

Page 399

انوار العلوم جلد ۵ ۳۷۹ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب مسلمانوں کی طرف سے مذہبی نمائندہ ہونے کا دعوی کیا ہے اور نہ ان کے مذہبی خیالات کو مسلمانوں نے کبھی صحیح تسلیم کیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ان کے خلاف عقیدہ رکھتے رہے ہیں اور ان کے خیالات کی عام طور پر بھی اور ان کی کتب کو مد نظر رکھ کر بھی تردید ہوتی رہی ہے.نہیں ان لوگوں کا بیان انہی کے خلاف تو دلیل ہو سکتا ہے باقی مسلمانوں یا اسلام کے خلاف کسی صورت میں بھی حجت نہیں ہو سکتا.اور اگر ان کا قول باوجود تمام مذکورہ بالا وجوہ کے اسلام کے خلاف حجت ہو سکتا ہے تو پھر بعض ہندو صاحبان کے وہ اقوال بھی جو میں نے اپنے مضمون میں لکھے ہیں دیدک دھرم کے خلاف ضرور استعمال ہو سکتے ہیں.اس وقت توں نے بتایا ہے کہ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ جو پروفیسر صاحب کا پیش کردہ قاعدہ غلط ہے اس پر امیر ام وی صاحب نے قائم کی ہے وہ درس کے تب بھی جن لوگوں کے اقوال سے پروفیسر رام دیو صاحب نے استدلال کیا ہے انکے اقوال خود انہی کے قائم کردہ اصل کے مطابق اسلام کے خلاف حجت نہیں.گراب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پروفیسر رام دیو صاحب نے جو قاعدہ بتایا ہے و ہی غلط ہے.اول دلیل اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ یہ بات ہی ناممکن ہے کہ کوئی شخص ایک تعلیم کو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بھی مانے اور پھر اس کے بعض حصوں کو کمزور بھی کئے کیونکہ اگر کوئی شخص خدا تعالی کو مانتا ہے اور پھر اسبات پر بھی ایمان لاتا ہے کہ وہ بندوں کی ہدایت کے لیئے کلام بھی کرتا ہے اور بعض خاص بندوں کو اپنی مرضی بنانے کیلئے چین لیتا ہے اور پھر ایک خاص تعلیم پر یقین رکھتا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے اس نے خود نازل فرمائی ہے اور اس زمانہ کے لئے واجب اعمل ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے بعض حصوں کو وہ رد کر دے اور کسے کہ یہ ناقابل عمل ہیں.کیونکہ اس کے یہ معنے ہونگے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کو مانتے ہوئے یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے زیادہ جانتا ہے اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون سے بہتر قانون تجویز کر سکتا ہے اور اس قسم کا آدمی تجویز کرنا عقل کے خلاف ہے.کوئی عقلمند آدمی ایسا نہیں مل سکتا جو صدق دل کے ساتھ ایسا دعویٰ کر سکے اگر کوئی شخص اس قسم کا ملے تو وہ ضرور یا تو پاگل ہوگا یا نیم پاگل کہ وہ اپنے دعوائے کے بالہداہت باطل ہونے کو سمجھ ہی نہیں سکتا یا فریبی ہو گا کہ ظاہر میں اپنے آپ کو ایک مذہب کا پیرو قرار دیگا لیکن باطن میں اس کی بیکنی کرنے کے درپے ہو گا اور دوست بن کر اس سے دشمنی کرنا چاہے گا اور ان دونوں صورتوں میں اس کے قول کو دوسروں پر حجت نہیں قرار دیا جاسکتا.کیونکہ اگروہ پاگل ہے تب بھی

Page 400

انوار العلوم جلد ۵ ٣٨٠ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اس کی بات کسی پر محبت نہیں اور اگر وہ جھوٹا ہے تب بھی اس کی بات کسی کے خلاف دلیل نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ نمائندہ نہیں بلکہ دشمن ہے اور دشمن کا قول کسی پر حجت نہیں ہوا کرتا ہیں ان شرائط کا آدمی فرض کرنا جو پروفیسر صاحب نے پیش کیا ہے محال ہے اور ناممکن ہے اور جب ایسا آدمی ہو ہی نہیں سکتا تو پھر اس قسم کے آدمی کا وجود فرض کر کے اس کے قول کو حجبت قرار دینا ایک غلط راہ ہے کیونکہ جب بنیاد ہی مفقود ہے تو اس پر عمارت کیونکر کھڑی کی جا سکتی ہے.عدالتی وکیل اور مذہبی نمائندہ میں فرق پروفیسر صاحب نے عدالتی مقدمات پر قیاس کرکے فرض کر لیا ہے کہ مذا ہب کی جنگ میں بھی ایسے آدمی کا وجود تمکن ہے حالانکہ مقدمات میں ویل خود فریق عقد نہیں ہوتا کہ ایک امیر شخص ہوتا ہے جو وکالت کسی اپنے یقین اور وثوق پر نہیں کرتا بلکہ روپیہ لیکر بطور مزدور کے کام کرتا ہے اور مذاہب کے وکیل ایسے نہیں ہوتے بلکہ کسی مذہب کے وکیل ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ اس مذہب پر یقین رکھتا ہے اگر وہ یقین رکھتا ہے تو اس کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بعض مسائل کو غلط قرار دیتا ہے اور اگر وہ بعض مسائل کو غلط قرار دیتا ہے تو پھر وہ اس مذہب کا وکیل نہیں کہلا سکتا، ہاں یہ بیشک ہو سکتا ہے کہ ایک مباحثہ ہو اور اس میں ایک شخص کسی مذہب کی طرف سے وکیل ہو کر پیش ہو اور دوران بحث میں اس کو اپنے دعوئی کا بطلان ثابت ہو جائے اور وہ اقرار کرے کہ جس مذہب پر میں تھا وہ باطل تھا.مگر یہاں کسی بحث کے بعد اقرار کر لینے کا سوال نہیں بلکہ یہ سوال ہے کہ یک شخص اپنے طور پر کتاب لکھنے لگا ہے اور اس میں لکھتا ہے کہ جس مذہب پر میں ہوں اس سے بعض مسائل کمزور ہیں.پس جب یہ شخص پہلے سے ہی اس مذہب کی کمزوری کا یقین رکھتا تھا تو پھر اس کی طرف سے وکالت کرنے کے لئے کس طرح کھڑا ہو سکتا تھا اور ایسے شخص کوکون قلمند اس مذہب کا وکیل کہہ سکتا ہے.دوسرا فرق مقدمات کے وکلاء اور مذہبی وکلاء کے درمیان یہ ہوتا ہے کہ مقدمات کے فریقی انسان ہوتے ہیں اور ان کی نسبت امکان ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول میں یا غلطی کر دیں اور یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ کچھ حصہ ان کے بیان کا غلط یا جھوٹ ہو اور کچھ حصہ درست اور سچا ہو اور یہ ممکن ہے کہ ایک وکیل پر دوران مقدمہ میں اپنے موکل کے بیان کے کسی حصہ کی کمزوری ثابت ہو اور وہ اس کا اقرار کرے لیکن جس تعلیم کی بنیاد اس پر ہو کہ وہ خدا تعالٰی کی طرف سے ہے اس کے کسی حصہ کے رد کر دینے

Page 401

انوار العلوم جا اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کے منے یہ ہیں کہ وہ مذہب خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور جھوٹا ہے پس جو شخص کسی مذہب کے بعض حصوں کو رد کرتا ہے وہ در حقیقت اس سارے مذہب کو رد کرتا ہے اور جوت جو شخص کسی مذہب کو جھوٹا سمجھتا ہے وہ اس کی طرف سے وکیل کیونکر کہلا سکتا ہے.پس مقدمات پر مذہبی وکالت کا قیاس کرنا بالکل غلط اور خلاف عقل ہے.مذہب کے کسی حصہ سے انکار اس مذہب سے نکلنا ہے کسی تعلیم کے بعض حصوں کو رد اور بعض حصول کو تسلیم اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کو انسانی قرار دیا جائے.جیسا کہ فلسفیانہ خیالات کے پیرو ہوتے ہیں کہ وہ بعض دفعہ ایک خاص جماعت فلاسفہ میں داخل ہوتے ہیں لیکن ان کے بعض خیالات کے منکر ہوتے ہیں اور اس سے اُن پر خلاف عقل کام کرنے کا الزام نہیں آسکتا کیونکہ وہ ان خیالات کو انسانی سمجھتے ہیں اور اکثر کو مان کر کچھ حصہ کا انکار کر کے بھی اس حلقہ میں داخل رہ سکتے ہیں لیکن مذہب میں یہ بات ناممکن ہے.مذہب کے ایک شوشہ کو بھی اگر کوئی شخص یہ کہ کر رد کرتا ہے کہ ہے تو یہ مذہب کا جز ولسکین ہے غلط.وہ عقلاً اسی وقت اس مذہب سے نکل جاتا ہے اور اس مذہب کا وکیل نہیں کہلا سکتا اور عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ وہ اس مذہب کی صداقت ثابت کرنے کے لئے تصانیف کریگا.مذہب کو بطور تمدن ماننے والے ہاں ایک اور صورت بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نہیں لوگ ایک مذہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں لیکن اس تمدن کے عادی ہونے کے سبب سے جو اس مذہب کے ارد گرد جمع ہو گیا ہے یا بعض اور دنیا وی اغراض کے ماتحت ظاہر میں اس سے انکار نہیں کر سکتے بلکہ اس تمدن کے عادی ہونے کے سبب سے جو اس مذہب کے پیروان میں قائم ہو چکا ہے اس نظام کا ٹوٹنا بھی پسند نہیں کرتے اور میردیکھ کر کہ اگر اس مذہب کو کوئی نقصان پہنچا تو یہ تمدن بھی ٹوٹ جائیگا جو اس کا جزو اور حصہ ہو چکا ہے.وہ مذہب پر حملہ ہوتے ہوئے دیکھ کر اس مذہب کی حمایت بھی شروع کر دیتے ہیں لیکن اس سے ان کی غرض مذہب کا بچانا نہیں ہوتا بلکہ اس تمدن کا بچانا ہوتا ہے جسے اس کی اصل شکل میں یا ایک قلیل تغیر کے ساتھ وہ قائم رکھنا چاہتے ہیں.ایسے لوگوں کی حمایت بیشک چونکہ بے ھوئے پن کے سبب سے ہوتی ہے ان کی باتوں میں اختلاف اور کمزوری پائی جاتی ہے کیونکہ اس مذہب کو خدا کی طرف سے یقین نہ کر کے اس کی اصلی شکل کا قیام ان کے نزدیک ضروری نہیں ہوتا وہ اس کو صرف

Page 402

انوار العلوم جلد ۵ ۳۸۲ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ایک نام سمجھتے ہیں جس نے ایک خاص جماعت کو دوسرے لوگوں سے علیحدہ کر کے ان کی ہستی کو ایک خاص تمدن کے ساتھ قائم رکھا ہوا ہوتا ہے میموں میں ایسے لوگ کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ صاحب تصنیف بھی ہوتے ہیں اور مسیحیت پر حملہ کے وقت پادریوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں اور دوسرے مذاہب کو مٹانے میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں لیکن ان کو مسیحیت سے کوئی پیار نہیں ہوتا نہ وہ اس کو سچا یقین کرتے ہیں لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ صدیوں کے اثر سے مسیحیوں میں ایک خاص تمدن پیدا ہو گیا ہے جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں اگر مسیحیت تباہ ہوئی اور اس کی جگہ کوئی دوسرا مذہب قائم ہوا تو وہ اپنا تمدن ساتھ لائے گا اور اس سے ان کی زندگی پر بھی اثر پڑے گا یا اس سبب سے نہیں بعض اور اسباب دنیادی کے سبب سے وہ اس حلقہ کا ٹوٹنا پسند نہیں کرتے.پس وہ باوجود اس مذہب سے متنفر ہونے کے سوسائٹی کو بچانے کے لئے مسیحیت کی مد کرتے ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی سبب سے نہ کہ کسی مذہبی تعصب کے سبب سے ایسے لوگ ترکوں کے خلاف پادریوں کے ساتھ مل جاتے ہیں.ان کو مسیحیت سے محبت نہیں ہوتی بلکہ اسلام کا جو اثر تمدن پر ان کے نزدیک پڑ سکتا ہے وہ اسے ناپسند کرتے ہیں میں اس کو مٹانا چاہتے ہیں.بعض ایسے لوگ مسلمانوں میں بھی ہیں اور ہندوؤں میں بھی ہیں.صرف ایک ہماری جماعت ایسی ہے کہ جس میں ایسے لوگ یا تو بالکل نہیں یا بالکل شاذ ہیں اور وہ بھی ایسے نہیں کہ جو علمی یا عملی حصہ میں کوئی وقار رکھتے ہوں.ایک مثال مجھے اس قسم کی ایک مثال یاد آگئی بٹانہ میں میں مصر کیا تھا راستہ میں میرے ہم سفر ہندوستانیوں میں سے ایک ہند و صاحب لاہور کے باشندہ تھے جواب سنا ہے ایک کامیاب بیرسٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں.یہ صاحب اس وقت بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور چند ماہ کے لئے گھر آئے ہوئے تھے.ان کے ساتھ دو مسلمان طالب علم سے بھی تھے کہ وہ بھی ہندوستان رشتہ داروں سے ملنے کے لئے آئے تھے اور کچھ ماہ میں تعلیم - فارغ ہونے والے تھے.ہمارے جہاز میں ایک پادری صاحب بھی تھے ان کے ساتھ ان ہندو صاحب کی ایک دن بحث ہو گئی اور ان صاحب نے خوب زور سے پادری صاحب پر یہ بات ثابت کرنی چاہی کہ ہندو مذہب ہی مکمل مذہب ہے اور مسیحیت اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اس کے ایک یا دو دن کے بعد ان کی مجھ سے گفتگو ہوئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا تمسخر آمیز طریق پر انکار کیا.میں نے اُن کو وہ گفتگو یاد دلائی جو انہوں نے پادری سے کی تھی تو وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ وہ تو ایک مقابلہ کی صورت تھی.پادری اس مذہب پر حملہ کرتا تھا میں

Page 403

انوار العلوم جلد ۳۸۳ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کے ماننے والے میرے آباء و اجداد تھے اور جس کی طرف میں خود منسوب ہوں اس لئے میں اس سے بحث کرتا تھا اور ہمیشہ اس کے لئے تیار ہوں.مگر اس وقت پرائیویٹ گفتگو ہے میں تو خدا (تعالی) کو ہرگز نہیں مانتا میرا مذہب صرف قومیت ہے ان مذاہب نے ہماری ترقی کو روک دیا ہے.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مسلمان صاحبان بھی اسی خیال کے آدمی تھے گو جہاز سے میرے اُترنے سے پہلے پہلے میں سمجھتا ہوں اور جیسا کہ ان میں سے بعض نے ذکر بھی کیا ان کے خیالات میں ایک حد تک اصلاح ہو چکی تھی.غرض اس قسم کے آدمی ہوتے ہیں اور وہ مذہب کے مقابلہ میں حصہ بھی لے لیتے ہیں لیکن وہ مذہبی نمائندہ ہرگز نہیں کہلا سکتے.اور یہ بات عقلاً نا ممکن ہے کہ کوئی شخص صدق دل سے ایک مذہب کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مانے اور پھر اس کے بعض حصوں کو نا قابل عمل یا ناقص یا باطل سمجھے.صرف کسی کے کہدینے سے کوئی مسئلہ کرو نہیں ہوسکتا دوسری دلی پر فی رام دیو ناب کے بتائے ہوئے معیار کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ مذہب کا نمائندہ بھی ایک ایسا شخص ہو سکتا ہے جو اس کے بعض حصوں کو غلط قرار دے.اور عارضی طور پر تسلیم کر لیا جائے کہ یہ بات ممکن ہے کہ ایک شخص کسی تعلیم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی مانتا ہو اور پھر اس کے بعض حصوں کو غلط بھی جانتا ہو تو بھی ایسے فرضی آدمی کے بعض مسائل کو رد کر دینے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ مسائل کمزور ہیں اور بودے ہیں.کیونکہ دوسرے کا قول اس جگہ کسی امر کومشتبہ کیا کرتا ہے جہاں وہ چیز نظروں سے پوشید ہو مثلاً کچھ تاجر کسی جگہ سے مویشی لاویں اور یہ ظاہر کریں کہ ملا فی مویشی ان کو دو دو سو روپیہ پر پڑا ہے لیکن ان میں سے کوئی شخص یا ان کی دکان کا مینجر خریدار سے کہدے کہ اصل خرید تو سو روپیہ فی مولیشی کی ہے تو گو یہ ممکن ہے کہ وہ کسی مخفی سبب سے اپنے ساتھیوں یا اپنے مالکوں کو نقصان پہنچانے کے لئے جھوٹ بول رہا ہو لیکن خریدار کو شک پڑ جاتا ہے کہ شاید یہ بات سچ ہی ہو لیکن وہ حصہ داریا مینجر اگر مثلاً ایک بیل کی نسبت یہ کہدے کہ میاں یہ بیل نہیں ہے بلکہ سچ پوچھو تو یہ گدھا ہے تو کیا پھر بھی خریدار کو شک پڑ جائے گا اور وہ کہے گا کہ یہ ایک حصہ دار کی رائے ہے یا مینجر کی بتائی ہوئی بات ہے ضرور کوئی بات ہو گی.اس شخص کا ایسی بات کہنا دو حال سے خالی نہ ہوگا یا کہنے والا پاگل ہوگا یا دوسروں کو پاگل سمجھتا ہو گا پس شہادت اس امر کے متعلق ہوا کرتی ہے جو بات نظروں سے اوجھل ہو.

Page 404

ار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب نمائندہ ہو یا غیر نمائندہ اس کی بات تھی قابل سماعت ہوگی جب کسی ایسے امر کے متعلق کے جو نظروں سے اوجھل ہو لیکن جو بات عقل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور دلائل کے ساتھ ثابت کی جاتی ہے اس کے متعلق کہنا کہ فلاں شخص یوں کہتا ہے کسی قدر عجیب بات ہے.ایسی باتیں جو معقولات میں سے ہیں اور جن کی صداقت یا بطلان دلائل عقلیہ سے ثابت کیا جاتا ہے نہ کہ روایت سے ان کے متعلق تو دس کروڑ انسان بھی کہدیں کہ وہ غلط ہیں تو ان کے کہنے کا کچھ اثر انکی صداقت پر نہیں پڑ سکتا.اگر کوئی شخص ان کو غلط ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی فرض ہے کہ وہ دلائل و براہین کیسا تھ ان کو غلط ثابت کر دے.ایسے امور میں دوسروں کے اقوال پر اپنی دلیل کا انحصار رکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے بیوہ ہو جانے پر اس لئے یقین کر لیا تھا کہ قاضی کی مہر لگا ہوا خطہ اس کے پاس پہنچا تھا کہ اس کی بیوی بیوہ ہوگئی ہے.جب وہ مسائل جن پر اعتراض کیا گیا ہے عقلی ہیں تو ان کے غلط ثابت کرنے کا یہ طریق ہے کہ دلائل کے ساتھ ان کو غلط ثابت کیا جائے نہ کہ زید و بکر کے قول سے ان کے خلاف حجت پکڑی جائے ، صداقت ساری دنیا کے انکار سے صداقت ہی رہے گی اور جھوٹ ساری دنیا کی تصدیق سے بھی جھوٹ ہی رہے گا رہیں کسی بات کے جھوٹا ثابت کرنے کا ایک ہی حقیقی ذریعہ ہے کہ دلائل سے اس کے جھوٹا ہونے کو ثابت کر دیا جائے.پروفیسر صاحب کے پیش کردہ حوالے تیسرا جواب پروفیسر رام دیو صاحب کے مضمون کا یہ ہے کہ انہوں نے چار مسلمانوں کے اقوال پیش کئے ہیں.سیدامیر علی صاحب ، خدا بخش صاحب ، یوسف علی صاحب اور مسٹر مظہر الحق صاحب یوسف علی صاحب تو کوئی ایسے غیر معروف آدمی ہیں اور ان کا فقرہ ایسا عمل ہے کہ اس سے تو کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلتا.مسٹر منظر الحق صاحب نے گوشت کو غیر قدرتی غذا کیا ہے اور یہ خود ایک مہم فقرہ ہے کیونکہ انسان کی کوئی خاص غذا نہیں ہے اور نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کن معنوں میں یہ فقرہ استعمال کیا تھا اور اگر ان کے فقرہ کے سخت سے سخت معنے بھی کر لئے جاویں تو بھی ایک طبی مسلہ سے زیادہ اس کو وقعت نہیں دی جاسکتی اور اس کے یہی معنے لئے جاسکتے ہیں کہ گوشت کوئی اعلیٰ درجہ کی غذا نہیں اور اس سے اسلام کے زمانہ حال کے لئے نا کافی ہونے کا ہرگزہ ثبوت نہیں نکلتا.اب دو شخص باقی رہ جاتے ہیں ایک سید امیر علی صاحب اور دوسرے مسٹر خدابخش صاحب میٹر خدا بخش صاحب کی جس کتاب میں قرآن کریم کو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ڈائری قرار دیا گیا ہے.اس

Page 405

عدد ۵ ۳۸۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب کا حوالہ چونکہ پروفیسر رام دیو صاحب نے نہیں دیا.اس لئے میں اس کے متعلق کچھ نہیں لکھ سکتا.ہاں سید امیر صاحب کی کتاب سپرٹ آف اسلام کے جن تین حوالوں کو انہوں نے پیش کیا ہے ان کے متعلق میں کہ سکتا ہوں کہ وہ درست نہیں ہیں.رسول کریم کے متعلق سیدامیر علی صاحب ایک حوالہ جو سپرٹ آف اسلام سے پروفیسر رام دیو صاحب نے دیا ہے یہ ہے کہ ستید نے نہیں لکھا کہ آپ نے بتوں کو مان لیا امیر علی صاحب نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار مکہ نے کہا کہ وہ ان کے تین میتوں کو مان لیں تو وہ بھی ان کے خدا کو مان لینگے تو آپ نے کچھ دن کے لئے بہتوں کو مان لیا.مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سید امیر علی صاحب پر یہ اتمام ہے ان پر اور بہزار الزام لگ سکتے ہوں مگر یہ الزام ان پرنہیں لگ سکتا.انہوں نے ہرگز اپنی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے کہنے پر بتوں کو مان لیا تھا بلکہ اس مضمون پرانہوں نے اپنی طرف سے کچھ لکھا ہی نہیں.یہ واقعہ جس کی طرف پروفیسر رام دیو صاحب نے اشارہ کیا ہے سپرٹ آف اسلام کے پہلے باب میں مندرج ہے.سید امیر علی صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ :.اس دوران میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے پیغمبر صاحب کے میسی سوانح نویس اور مسلمان مؤرخ مختلف پیرایوں میں بیان کرتے ہیں " اس کے آگے انھوں نے پہلے تو اسلامی مؤرخین کی روایت نقل کی ہے اور بعد میں مسیحی مؤرخوں کا وہ بیان نقل کیا ہے جس کی طرف پروفیسر رام دیو صاحب نے اشارہ کیا ہے اور جسے انہوں نے سید امیر علی صاحب کی طرف منسوب کیا ہے اپنی طرف سے سید صاحب نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی.چنانچہ سید صاحب لکھتے ہیں کہ دوستی مورخین کے نزدیک اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم کے دل میں ایک قلیل عرصہ کے لئے یہ خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ وہ قریش کے ساتھ جو جنگ ہو رہی تھی کسی سمجھوتہ کے ذریعہ خاتمہ کر دیں اور آگے انھوں نے سیمی مورخین کے دونوں گروہوں کے خیالات نقل کئے ہیں.ان کے بھی جو متعصب ہیں اور ان کے بھی جو غیر متعصب ہیں جیسے لین پول وغیرہ.پس مسیحی مورخین کے خیالات کو سید امیر علی صاحب کی طرف منسوب کرنا ایک ظلم عظیم ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ایک قابل آدمی کی زبان سے اس قسم کی غلطی کی اشاعت ہو اور ایک ایسے مضمون کے بیان کرتے

Page 406

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب وقت جس میں وہ ایک اہم اور وسیع الاثر مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہو.فرشتوں کے متعلق حوالہ بھی غلط پیش کیا گیا دوسرا حوالہ فرشتوں کے متعلق ہے پروفیسر رام دیو صاحب فرماتے ہیں کہ سید امیر عسلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن میں فرشتوں کا جو ذکر ہے وہ صرف محمد صاحب کا و ہم اور شاعرانہ نازک خیالی تھی ورنہ فرشتے در حقیقت کوئی چیز نہیں.مجھے افسوس ہے کہ اس حوالہ.کے بیان کرنے میں بھی.پروفیسر صاحب نے غلطی کی ہے اور جلد بازی سے کام لیا ہے.بتیدا میر علی صاحب نے اپنی کتاب سپرٹ آف اسلام میں ہرگز نہیں لکھا کہ فرشتوں کے متعلق جو کچھ قرآن میں ہے وہ صرف محمد صاحب کا وہم تھا اور نہ یہ لکھا ہے کہ فرشتے در حقیقت کوئی چیز نہیں ہیں خود پروفیسر صاحب نے جو فقرہ سید امیر علی صاحب کی طرف منسوب کیا ہے وہی اپنی غلطی کا آپ منظر ہے.پروفیسر صاحب سید امیر علی صاحب کی طرف یہ فقرہ منسوب کرتے ہیں کہ فرشتے محمد صاحب کا وہم اور شاعرانہ نازک خیالی کا نتیجہ ہیں.اب ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ وہم اور شاعرانہ نازک خیالی دو مخالف باتیں ہیں.کیونکہ وہم کسی ایسی چیز کے خیال کو کہتے ہیں جس کا وجود نہ پایا جائے لیکن کوئی شخص غلطی سے اس کے وجود کا قائل ہو.اور شاعرانہ نازک خیالی اُسے کہتے ہیں کہ ایک چیز تو موجود ہو لیکن اس کا ذکر استعارہ اور مجاز میں نظم یا کلام کو خوبصورت بنانے کے لئے کر دیا جائے اور یہ دونوں باتیں ایسی مقتضاد ہیں کہ جس چیز کو ہم وہ ہم کہیں اُسے شاعرانہ نازک خیالی نہیں کہ سکتے اور جب کو شاعرانہ نازک خیالی کہیں اُسے وہم نہیں کہ سکتے.وہم یہ ہے کہ ایک چیز موجود نہیں اور ہم اس کو موجود خیال کرتے ہیں اور شاعرانہ نازک خیالی یہ ہے کہ ہمیں علم تو ہے کہ فلاں بات کس طرح ہے ن کلام کو موثر بنانے کے لئے ہم ایک خاص رنگ میں اُسے بیان کر دیتے ہیں اس کی مثال یہ ہ جیسے ایک شخص چھلا وہ کے وجود کا قائل ہو جس کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ کبھی آدمی بن ہے کبھی گھوڑا کبھی بکرا، کبھی نیولا نبھی کوئی بے جان نے غرض منٹ منٹ میں وہ کئی کلیں بدل لیتا ہے.اس شخص کے اس خیال کو تو ہم وہم کہیں گے کیونکہ جو شے واقع میںموجود نہیں ہے اُسے بلا کسی ثبوت کے یہ خیال کر لیتا ہے کہ اسی طرح ہے لیکن ایک شاعر جب شمع کی نسبت بیان کرتا ہے کہ وہ ساری رات روتی ہے تو اسے ہرگز وہم نہیں کیلیں گے کیونکہ شاعر یہ یقین نہیں رکھتا کہ شمع واقع میں روتی ہے بلکہ وہ اپنے قلب کے نقشہ کو اس رنگ میں بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ میرا عشق اسقدر بڑھا ہوا ہے کہ ہر ایک نئے جو گھل رہی ہو مجھے یونی معلوم

Page 407

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب ہوتا ہے کہ گویا میری طرح محبوب کے عشق میں دور ہی ہے اور گنتی جار ہی ہے.اگر کوئی شخص واقع میں یہ سمجھ لے کہ شمع روتی ہے تو پھر یہ شاعرانہ نازک خیالی نہ رہے گی بلکہ وہم ہو جائے گا یہ پس شاعرانہ نازک خیالی اور و ہم دو مخالف چیزیں ہیں اور ایک شخص کا وہم اسی شخص کی شاعرانہ نازک خیالی نہیں کہلا سکتا نہ کسی کی نازک خیالی و ہم کہلا سکتی ہے.پس پروفیسر رام دیو صاب کا یہ فقرہ کہ سید امیر علی صاحب کے نزدیک فرشتوں کا وجود محمد صاحب کا وہم اور شاعرانہ نازک خیالی ہے اپنی آپ ہی تردید کر دیتا ہے.جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے سید صاحب نے ہرگز یہ نہیں لکھا کہ فرشتوں کا ذکر جو قرآن میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہم تھا.انھوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ بدر کی جنگ میں فرشتوں کے اترنے کا جو واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے اس کی عبارت شاعرانہ رنگ کی ہے.09- لکھتے ہیں:.قرآن کریم کے وہ چند سادہ بیان جو اس شاعرانہ رنگینی کو ظاہر کرتے ہیں جو فرشتوں کے خدا کی طرف سے لڑنے کے خیال میں پوشیدہ ہے اپنی شان اور دل آویزی میں زبور کے فصیح ترین حصوں سے بھی کم نہیں ہیں.یقیناً ان دونوں بیانوں میں شاعرانہ رنگ نظر آتا ہے." ان فقرات سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسٹر سید امیر علی صاحب فرشتوں کے وجود کے متعلق نہیں بلکہ ان کے لڑائی میں شامل ہونے کے متعلق یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں شاعرانہ رنگینی پائی جاتی ہے.دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ فرشتوں کے وجود کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہم نہیں بتاتے بلکہ فرشتوں کے لڑائی میں شامل ہونے کے ذکر کو شاعرانہ رنگ کا کلام ظاہر کرتے ہیں.جس کے دو معنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ وہ فرشتوں کے لڑائی میں شامل ہونے کے منکر نہیں بلکہ اس عبارت کی رنگینی اور فصاحت کا اظہار کرتے ہیں اور زبور جس پر میچیوں کو ناز ہے اس کا مقابلہ کر کے اس کی خوبی مسیحیوں پر ظاہر کرتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ فرشتوں کے لڑنے سے قرآن کریم کی مراد واقع میں لڑنا نہیں ہے بلکہ خدا تعالٰی کی نصرت کو اس شاعرانہ کلام کے ذریعہ سے بیان کیا گیا ہے اور مجاز اور استعارہ کو استعمال کیا گیا ہے اور کیا پروفیسر صاحب اس امر کے قائل نہیں کہ خود ان کی اپنی مذہبی کتب میں مجاز اور استعارہ کا استعمال کیا گیا ہے اور کیا کوئی شخص اگر اہل ہنود کے اس کلام کے کہ ان کی مذہبی کتب میں مجاز اور استعارہ کا جو حسن کلام کی اعلیٰ صفتوں میں سے ہیں استعمال کیا گیا ہے یہ معنے کرے کہ اہل ہنود کے نزدیک ان کی مذہبی کتب

Page 408

۳۸۸ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب میں بہت سی بھی باتیں بیان ہوگئی ہیں تواہل ہنود اس کی عقل پر نہیں گے یا نہیں.اسی طرح اہل دانش پروفیسر صاحب کے اس بیان پر کہ مسٹر امیر علی صاحب کے نزدیک قرآن کریم میں جو فرشتوں کا ذکر آیا ہے.ہم وہ محمد صاحب کا وہم ہے زیر لب تبسم ہیں اور پروفیسر صاحب کی اس جلد بازی پر حیران ہیں جس سے.انہوں نے اس حوالہ کے درج کرنے میں کام لیا ہے.اگر پروفیسر صاحب اس فقرہ کے ساتھ کے اگلے فقرات پڑھنے تو ان کو علم ہو جاتا کہ مٹر میرعلی صاحب نہ صرف یہ کہ فرشتوں کے ذکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہم اور خیال نہیں بتاتے بلکہ ان کو اس امر میں بھی تیک ہے کہ فرشتوں کا ذکر مجازہ ہی ہے یا واقع میں بھی کوئی ایسا وجود ہے غرض وہ فرشتوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہم نہیں بتاتے بلکہ ان کے متعلق جو اس زمانہ کے خیالات ہیں ان کے غیر یقینی ہونے کا خیال ظاہر کرتے ہیں.وہ اس فقرہ کے معا بعد جس سے پروفیسر صاحب نے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے تحریر کرتے ہیں.غالباً محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرے انبیاء علیهم السلام ) کی طرح ایسی درمیانی ارواح کے جو خدا اور بندہ کے درمیان پیغام رساں ہوں قائل تھے.اس زمانہ میں فرشتوں کا جو انکار کیا جاتا ہے وہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے آباء کے جو خیالات فرشتوں کے متعلق تھے ان کی ہنسی اڑائی جائے.ہمارا انکار اسی طرح وہ ہم کہلا سکتا ہے جس طرح ان کا یقین.فرق صرف یہ ہے ایک میں نفی کا پہلو ہے تو دوسرے میں اثبات کا جس چیز کو ہم اس زمانہ میں اُصول طبعی خیال کرتے ہیں وہ ان کو فرشتہ اور آسمانی کارپردازان خیال کرتے تھے.یا جس طرح فاک کا خیال ہے خدا اور بندے کے درمیان کوئی اور وجود بھی ہیں میں طرح انسان اور ادنی حیوانات کے درمیان اور وجود ہیں ؟ یہ ایک ایسا باریک سوال ہے کہ انسانی عقل اس کی تہ تک نہیں پہنچ سکتی" ان فقرات سے صاحت ثابت ہے کہ مسٹر امیر علی صاحب فرشتوں کے وجود کو محض استعارہ قرار دینے کو بھی جائز نہیں سمجھتے اور ان کا خیال ہے کہ فرشتوں کا انکار کرنے والے اگر فرشتوں کے وجود کو مانے کا نام و ہم رکھتے ہیں تو ان کے فرشتوں کو نہ ماننے کا نام بھی وہم رکھا جا سکتا ہے اور یہ کہ فرشتوں کے وجود کا مسئلہ ایسا باریک مسئلہ ہے کہ انسانی عقل اس کی تہ تک نہیں پہنچ سکتی جس کے معنے دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ ان کے متعلق ہم بحث نہیں کر سکتے ان کے متعلق بحث کرنا آسمانی کتب کا کام ہے.پس باوجود مسٹر امیر علی صاحب کے ایسے صریح بیان کے پروفیسر رام دیو صاحب کا یہ بیان فرمانا کہ مسٹر امیر علی صاحب قرآن میں جو فرشتوں کا ذکر ہے اسے محمد صاحب کا وہم قرار دیتے

Page 409

انوار العلوم جلد ۵ ۳۸۹ اسلام پر پرفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب میں ایک نہایت ہی حیرت انگیز بات ہے.سید امیر علی صاحب اور کثرت ازدواج تیسری بات جو پروفیسر رام دیو صاحب نے سید امیر علی صاحب کی طرف منسوب کی ہے یہ ہے که کثرت ازدواج زنا کاری ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ حوالہ بھی ایسا ہی غلط ہے جیسا کہ پچھلے دو حوالے.سید امیر علی صاحب نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ کثرت ازدواج زنا کاری ہے اور یہ کہ اس امر کے متعلق اسلام کی تعلیم ناقص ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ سید امیر علی صاحب کی کتاب میں نہیں ایسے فقرات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک کثرت ازدواج مہذب ممالک کے لوگوں کے لئے درست نہیں اور قابل ملامت فعل ہے.مگر ان کی کتاب پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساتھ ہی یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ اسلام کی بھی میں تعلیم ہے پس انھوں نے جو کچھ بھی کثرت ازدواج کے خلاف لکھا ہے وہ گو غلط ہو مگر اسلام پر حملہ نہیں کہلاسکتا کیونکہ وہ اسے اسلام کا ہی حصہ قرار دیتے ہیں.سید امیر علی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک نکاح کے متعلق اسلام کی دو تعلیمیں ہیں ایک تعلیم تو غیر تعلیم یافتہ زمانوں اور ملکوں کے لئے یا بعض مجبوریوں کو جو انسان کو پیش آجاتی ہیں مدنظر رکھ کر دی گئی ہے اور ایک تعلیم تہذیب کے زمانہ کے لئے اور مہذب ممالک کے لئے ہے.چنانچہ انھوں نے اس باب کو جس میں عورتوں کے متعلق اسلام کی تعلیم بیان کی ہے شروع ہی اس فقرہ سے کیا ہے تمدنی ترقی کے بعض درجوں میں ایک مرد کا بہت سی عورتوں سے تعلق ایک ایسا فعل ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا اسی باب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :.اس امر کو ہمیشہ زیر نظر رکھنا چاہئے کہ کثرت ازدواج حالات پر منحصر ہے بعض زمانوں اور سوسائٹی کی بعض حالتوں میں عورتوں کو فاقہ کشی اور تباہی سے بچانے کے لئے یہ نہایت ہی ضروری ہے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ :.جس جگہ ایسے ذرائع جن سے عور تیں اپنا گزارہ آپ کرسکتی ہیں منظور ہوں وہاں کثرت ازدواج ضرور قائم رہے گی " ان فقروں سے معلوم ہوتا ہے کہ سید امیر علی صاحب اگر ایک طرف یعنی ممالک اور بعض زمانوں کے لئے کثرت ازدواج کو نا پسندیدہ قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف بعض ممالک اور بعض حالات میں اس کو ضروری بھی قرار دیتے ہیں.پس ایسی صورت میں یہ کہنا کہ وہ کثرت ازدواج کو زنا کاری قرار دیتے ہیں ظلم نہیں تو اور کیا ہے.

Page 410

انوار العلوم جلد ۵ ٣٩٠ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اس جگہ یہ سوال ہو سکتا ہے کہ گوستید امیر علی صاحب نے کثرت ازدواج کو بعض حالتوں میں جائز رکھا ہو مگر جبکہ ان کے نزدیک بعض حالتوں میں تعلیم نا پسندیدہ بھی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کے نزدیک اسلام کی تعلیم ناقص ہے کیونکہ وہ صرف بعض زمانوں کے لئے اور بعض ممالک کے لئے محدود ہو گئی.یہ سوال سید امیر علی صاحب پر ضرور پڑ جاتا اگر یہ ثابت ہو سکتا کہ ان کے نزدیک اسلام کا صرف یہی حکم ہے کہ کثرت ازدواج ضرور کیا کرو یا یہ کہ ان کے نزدیک اسلام کے رو سے ہر حالت میں ایک سے زیادہ بیویاں کرنی ہی پسندیدہ ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا یہ عقیدہ نہیں.وہ اگر مہذب ممالک میں ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس کا یہ باعث نہیں کہ وہ اس تعلیم کو اپنی عقل کے رو سے درست سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم میں نقص نکالتے ہیں بلکہ اس کا باعث جیسا کہ خود ان کی تحریر سے ظاہر ہے یہ ہے کہ ان کے نزدیک اسلام ہی یہ تعلیم دیتا ہے کہ کثرت ازدواج کا حکم وقتی ہے.وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم ہر حالت اور ہر زمانہ کے مطابق ہے اور اسی کی تائید میں وہ ایک کثرت ازدواج کا مسلہ بھی پیش کرتے ہیں جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام نے ہر زمانہ اور ہر قوم کے مناسب حال تعلیم دی ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ : " یہ یاد رکھنا چاہتے کہ احکام کی وسعت ان کے مفید اور نفع رساں ہونے کا بہترین ثبوت ہوتی ہے اور یہ قرآن کریم کے احکام کی خصوصیت ہے وہ اعلیٰ سے اعلیٰ سوسائٹی کے مناسب حال حکم بھی دیتا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ قوم کے مناسب حال حکم بھی دیتا ہے.چنانچہ وہ ایک بیوی پر اکتفاء کرنے کو قرآن کریم سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :.چونکہ احساسات کے معاملہ میں کامل عدل ناممکن ہے اس لئے قرآن کریم کا فتوی کثرت ازدواج کے متعلق قریباً حرمت کا ہی حکم رکھتا ہے " ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک اگر ایک بیوی پر اکتفاء کرنا بعض حالتوں میں ضروری ہے تو اسے بھی وہ قرآن کریم کا ہی حکم ثابت کرتے ہیں.مذکورہ بالا خیال کی تائید میں ان کے یہ حوالہ جات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں وہ کثرت ازدواج کی رسم کے قانونا رو کے جانے کی خواہش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.لیکن یہ منسوخی صرف حقیقت پر آگاہ ہونے اور رسول کریم کی تعلیم کے سمے منے سمجھنے کا ہی نتیجہ ہو سکتی ہے.اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ :.

Page 411

دار العلوم جلد ۳۹۱ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اسبات کی امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی ایک عام مجلس علماء اسلام کی فیصلہ کردے گی کہ غلامی کی طرح کثرت ازدواج بھی اسلامی قوانین کے خلاف ہے ؟ ان حوالہ جات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سید امیر علی صاحب (۱) کثرت ازدواج کو بلا شرط برا نہیں کہتے بلکہ بعض حالتوں میں اس کو ضروری قرار دیتے ہیں.(۲) اگر وہ ایک بیوی پر اکتفاء کرنے کو مہذب سوسائٹی میں ضروری سمجھتے ہیں اور کثرت ازدواج سے اس حکم کو اچھا سمجھتے ہیں تو اس سے اسلام کی کسی تعلیم کو ناقص نہیں قرار دیتے بلکہ ان کے نزدیک یہ بھی اسلام ہی کی تعلیم ہے کہ کثرت ازدواج اصل میں بڑی ہے فقط خاص حالات میں جائز ہے یہیں ان حوالہ جات کی موجودگی میں پروفیسر صاحب کیونکر کہ سکتے ہیں کہ سید امیر علی صاحب کے نزدیک اسلام کی تعلیم کے خلاف کثرت ازدواج زنا کاری ہے.وہ نہ تو کثرت ازدواج کو ہر حالت میں برا کہتے ہیں اور نہ ایک بیوی پر اکتفاء کرنے کو قرآن کریم کی تعلیم سے جدا ہو کر مستحسن قرار دیتے ہیں.ان کی تحریر کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم ناقص ہے اور ہر زمانہ کے لئے نہیں بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے ہر زمانہ کے مطابق حال تعلیم دی ہے اور یہ دونوں مضمون ایک دوسرے کے ایسے ہی مخالف ہیں جیسا کہ نور اور حکمت.پھر معلوم نہیں کہ پروفیسر صاحب نے دونوں باتوں کو ایک کیونکر سمجھ لیا.تعجب ہے کہ پروفیسر صاحب کو سید امیر علی صاحب کی اس تحریر میں کہ اسلام نے مختلف حاللہ کے مناسب مختلف احکام دیئے ہیں یہ بات تو نظر آگئی کہ وہ اسلام کے بعض احکام کو ناقص سمجھتے ہیں لیکن ان کا خیال ادھر نہیں گیا کہ انہوں نے خود ایسی ہی بات آریہ سماج کی نسبت اپنے مضمون میں لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ آریہ گزٹ نے اگر یہ لکھدیا کہ گرے ہوئے لوگ و دھوا بیاہ کر سکتے ہیں تو اس سے آریہ سماج کے کسی عقیدہ کی کمزوری ظاہر نہیں ہوتی.بھگوان دیا نند نے بھی شودروں کے لئے ورضوا بیاہ جائز قرار دیا ہے.اب وہ بتائیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اگر نیڈت دیانند صاحب لکھ دیں کہ ودھوا بیاہ بعض قوموں کے لئے جائز ہے اور بعض کے لئے نہیں تو انس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پنڈت دیا نند صاحب کے نزدیک دیدک تعلیم میں نقص ہے لیکن اگر سید امیر علی صاحب یہ تحریر کریں کہ اسلام نے مختلف حالات کے مناسب حال تعلیم دیگر اپنی تعلیم کو ہر حالت اور ہر زمانہ کے لئے مکمل حال کر دیا ہے تب سیدامیر علی صاحب کی یہ تحریر ان کے اسلام پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اسلام کے بعض احکام کو ناقص قرار دیتے ہیں.ببین تفاوت راه از کجا است تا یکجا الي

Page 412

انوار العلوم جلد ۵ ٣٩٢ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب نا واقف کون ہے ؟ اب میں پروفیسر صاحب کے اصل مضمون کا جواب دے چکا ہوں لیکن پیشتر اس کے کہ میں اپنے مضمون کو ختم کروں پروفیسر صاحب کے ایک اور اعتراض کا بھی جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے لالہ لاجپت رائے صاحب کے اس قول سے کہ بعض ہند و اصول پندرہ سو برس سے ہندوؤں کی تباہی کا موجب ہیں جو یہ نتیجہ نکاں ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ ہندو مذہب کے اصول سے ان کو مخالفت ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ مجھے ہندو مذہب سے نا واقفیت ہے کیونکہ لالہ لاجپت رائے ہی نہیں تمام آریہ سماج اس امر کا قائل ہے کہ ہندو مذہب کی موجودہ حالت قابل تسلی نہیں.پروفیسر رام دیو صاحب کے اس اعتراض کے متعلق میرے لئے اسی قدر کردینا کافی ہے کہ میری تحریر سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مجھے ہندو مذہب سے واقفیت نہیں لیکن پروفیسر صاحب کی تحریر سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ پروفیسر صاحب کو اس تحریر سے بھی ناواقفیت ہے جس کا وہ جواب لکھنے بیٹھے ہیں کیونکہ نہ لالہ لاجپت رائے صاحب کا وہ قول ہے جو پروفیسر صاحب بیان کرتے ہیں اور نہ میرا وہ استدلال ہے جس پر پروفیسر صاحب اعتراض کرتے ہیں.لالہ لاجپت رائے صاحب کا یہ قول نہیں کہ ہندو مذہب کے بعض خیال پندرہ سو سال سے ہماری تباہی کا موجب ہو رہے ہیں بلکہ یہ قول ہے کہ خواہ پرانے زمانہ کی نسبت یہ اعتراض درست نہ ہو کہ ہندوستانی قدرت کی طاقتوں سے مرعوب ہیں مگر پندرہ سو سال سے تو ضرور یہ خیال ہماری تباہی کا موجب ہو رہا ہے اور میرا یہ استدلال نہ تھا کہ لالہ لاجپت رائے صاحب ہندوؤں کی موجودہ حالت کو نا قابل تسلی سمجھتے ہیں بلکہ یہ تھا کہ وہ موجودہ حالت ہی کو ناقابل تسلی نہیں سمجھتے بلکہ پچھلی حالت کی نسبت بھی ان کو شک ہے.لالہ لاجپت رائے صاحب نے اس فقرہ میں خواہ کا لفظ استعمال کیا ہے اور خواہ کا لفظ ہمیشہ دو ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جب دشمن مخالف ہو اور اس کے قول کی تردید کرنی ہو تو اس جگہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس بحث کو میں ابھی چھیڑنا نہیں چاہتا اور جب اپنے لوگوں کو مخاطب کر کے یہ لفظ استعمال کیا جائے اور کسی قول کی تردید نہیں بلکہ تصدیق مراد ہو تو اس جگہ اس لفظ کے معنے شک کے ہوتے ہیں اور لالہ لاجپت رائے صاحب نے اس فقرہ میں کھلی صورت میں اس لفظ کو استعمال کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ان کے نزدیک یہ بات ثابت شدہ نہیں ہے کہ کسی پچھلے زمانہ میں ہندو لوگ قوانین قدرت کے استعمال کرنے والے اور سائنس کے موجد تھے اور یہ کہ وید تمام علوم کا سرچشمہ ہیں.

Page 413

انوار العلوم ۳۹۳ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب قرآن کریم پر اعتراض کرنیکی اجازت اور حیض ضروی امور پروفیسر رام دیو صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں اس بات کی بھی اجازت چاہی ہے کہ وہ قرآن کریم کے الہامی ہونے کے متعلق کچھ اعتراضات شائع کریں جن کا جواب میں شائع کروں پھر وہ مضامین کتابی صورت میں شائع کرا دیئے جاویں مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ہے کہ پروفیسر صاحب نے میری تحریر کے مطابق اس طریق کو اختیار کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور سچی بات یہی ہے کہ کسی مسئلہ کی تحقیق اسی طریق پر ہوسکتی ہے کہ اس کے صدق و کذب کو مشاہدہ یا لائق کے ذریعہ سے دیکھا جائے نہ اس طرح کہ زید و بنجر کے اقوال کو سند لیا جائے.زید و بکر کے اقوال سند نہیں ہوتے ہاں کبھی بطور تائیدی دلائل کے استعمال ہو سکتے ہیں.لیکن پیشتر اس کے کہ وہ اس کام کو شروع کریں بعض امور کا تصفیہ ضروری ہے تاکہ بات شروع ہو کر ضائع نہ ہو جائے اور وہ امور سوال و جواب اور ان کی اشاعت کے طریق کے متعلق ہیں.ہمیں اس جگہ اپنی رائے ظاہر کر دیتا ہوں اگر اس میں کوئی ایسی بات ہو جو نا واجب ہو یا مثلاً ایک فریق کو اس سے کوئی خاص فائدہ پہنچتا ہو تو وہ اس کی نسبت تحریر فرما دیں اس کی اصلاح ہوسکتی ہے.میری رائے میں.۱- چونکہ اعتراضات کا سلسلہ ایسا وسیع ہوتا ہے کہ ان کا ختم ہونا ہی ناممکن ہے کیونکہ اعتراض ہر ایک شے پر ہو سکتا ہے اس لئے اس سلسلہ کو نا واجب طوالت سے بچانے کے لئے یہ طریق اختیار کیا جائے کہ پروفیسر صاحب قرآن کریم کے الہامی ہونے کے خلاف جو اعتراض رکھتے ہوں ان میں سے تین اعتراض جو ان کے نزدیک سب سے مضبوط اور لاینحل ہوں چن لیں اور انہی کو پیش کریں.یہ نہیں کہ سوال کے بعد سوال کا سلسلہ شروع ہو جائے.بعض سوال بھی وسیع ہوتے ہیں اور ان کی جزئیات سینکڑوں ہوتی ہیں اس کے متعلق بھی یہ قاعدہ رہنا چاہئے کہ جزئیات بھی تین سے زیادہ نہ چھٹی جاویں.مثلاً یہ کہ قرآن کریم پر یہ اعتراض ہو کہ اس میں بعض باتیں خلاف قانون قدرت کے ہیں تو اس اعتراض کی مثالیں انتخاب کرتے وقت بھی یہ بات مد نظر رکھی جائے کہ سب سے صاف اور واضح تین مثالیں چن لی جائیں نہ یہ کہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اعتراضات کا شروع ہو جائے.کیونکہ جب سب سے زیادہ واضح اعتراضات کا جواب ہو گیا تو دوسری مثالوں کا جواب بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ موجود ہی ہوگا اور یہ طریق وقت کے بچانے کے لئے ایسے سلسلہ تحریرات میں مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے جس میں ایک فریق کا کام صرف

Page 414

انوار العلوم جلد ۵ ۳۹۴ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اعتراض کرنا اور دوسرے کا کام صرف جواب دینا ہو.-۳- اگر یہ طریق آپ کو منظور نہ ہو تو پھر کیوں کیا جائے کہ ایک ہی وقت میں میری طرف سے وید کے الہامی ہونے پر اعتراضات ہوں اور آپ کی طرف سے قرآن کریم کے الہامی ہونے پر تاکہ ہر ایک فریقی پر برابر کی ذمہ داری رہے.۴- سوال و جواب کا طریق یہ ہو کہ معترض اپنا اعتراض مع وضاحت اور تشریح کے شائع کر دے پھر مجیب اس کا جواب شائع کرا دے پھر معترض اس جواب پر اپنی جرح شائع کرا دے.اس کے بعد مجیب اس جرح کا جواب شائع کر دے اور اس مسئلہ کو ختم سمجھا جائے.۵ تین اعتراضات جو کئے جائیں ان کی نسبت فیصلہ کر لیا جائے کہ آیا ایک ہی دفعہ پیش کئے جاویں گے یا علیحدہ علیحدہ.میرے نزدیک یہ بہتر ہوگا کہ پیش اکٹھے کئے جاویں.آگے جواب ان کے باری باری دیئے جاویں پہلے ایک سوال کا جواب اور اس پر تنقید اور پھر اس کا جواب شائع ہو جائے پھر دوسرے کو لیا جائے پھر تیسرے کو.یہ انتظام کیا جائے کہ دونوں فریقی کے مضامین ایک آربیہ اخبار میں شائع ہوں اور ایک مسلمان اخبار میں اپنی طرف سے میں الفضل " پیش کرتا ہوں.الفضل میرے مضامین کے علاوہ پروفیسر صاب کے ان مضامین کو جو اس سلسلہ میں کھلیں گے مکمل طور پر شائع کر دیا کرے گا اور پروفیسر صاحب میں آریہ اخبار میں اپنے مضامین شائع کرائیں اس کے ساتھ یہ انتظام بھی کر دیں کہ وہ میرے مضامین کو بھی جو اس سلسلہ میں نکلیں تمامہ شائع کر دیا کرے.اگر اخبارات کو اس خیال سے کہ ان کے صفحات میں سلہ مضامین کے شائع ہونے کی گنجائش نہ ہو گی اس پر اعتراض ہو تو پھر یہ انتظام کیا جائے کہ ایک ضمیمہ طبع کرا کے اخبار میں شائع کرایا جائے.آپ کے مضامین بھی ضمیمہ کے طور پر شائع ہوں اور میرے بھی.ضمیمہ کا خرچ فریقین ادا کریں یاکوئی ایسی جماعت جسے اس مذہبی تحقیق سے بچھپی ہو.اگر کتابی صورت میں مضامین شائع کئے جاویں تو کسی کو اختیار نہ ہو گا کہ مضامین کے متعلق اپنی طرف سے کچھ لکھے یا مضامین میں کس قسم کا تغیر و تبدل کرے.اس صورت میں بھی بہتر ہوگا کہ دونوں فریق کے متحدہ انتظام کے با تحت مضامین شائع کئے جاویں اور دونوں فریق خرچ میں برابر کے حصہ دار ہوں اور بعد میں کتب کو تقسیم کر لیا جائے.- مضامین کی تحقیق کا یہ طریق ہوگا کہ سی کلام کے معنے کرتے وقت یا خود اسی کلام کا سیاق و سباق حجت ہوگا یا اس کتاب کا محاورہ یا لغت یا قواعد صرف و نحو اور معانی یا محاورہ زبان یا ایسے علوم

Page 415

انوار العلوم جلد ۵ ۳۹۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب جو تمام دنیا میں تعلیم ہوتے ہیں مثلاً تاریخ و جغرافیہ ہندسہ وغیرہ اور ان علوم کی بات اسی طریق پر قابل سند ہوگی جس طریق پر کہ علوم عقلیہ کی باتیں سند ہوتی ہیں.-9 کسی مضمون کا جواب تین ماہ سے زائد دیر کر کے نہ شائع ہو اگر اس سے زائد دیر لگے تو وہ سلسلہ ختم سمجھا جائے.میرے نزدیک تو یہ امور ایسے بدیسی اور ظاہر ہیں کہ ان پر پروفیسر صاحب کو کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئے لیکن اگر ان میں کوئی ایسی بات ہے جو ان کے نزدیک قابل اعتراض ہے تو وہ اسے پیش کر دیں اور اگر کوئی بات قابل اعتراض نہیں تو پھر کسی اخبار سے انتظام کر کے اپنے اعتراضات قرآن کریم کے الہامی ہونے کے متعلق شائع کرا دیں پھر میں اُن کا جواب شائع کرا دوں گا.وَاخِرُ دَعُو مِنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ

Page 416

انوار العلوم جلد ۵ ۳۹۶ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب پر و فیسر رام دیو صاحب اور صداقت اسلام از سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ هُوَ النَّ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ماهير احباب کو معلوم ہوگا کہ پروفیسر رام دیو صاحب اور میرے درمیان ان کے ایک لیکچر کے متعلق تبادل خیانت ہوتا رہا ہے.پروفیسر صاحب نے اپنے آخری جواب میں تحریری مباحثہ کا جو طریق میں نے پیش کیا اس کو قریباً منظور کر لیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ اس طریق بحث سے اچھا نتیجہ نکلے گا.پروفیسر صاحب نے سید امیر علی صاحب کے عقائد کے تعلق پھر بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ ان کا قول اسلام کے خلاف حجت ہے اور یہ کہ ان کا وہی عقیدہ ہے جو پروفیسر صاحب نے بیان کیا تھا مگر چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے پہلے ہی ان کے مضمون کا جواب لکھنے میں دیر ہو گئی ہے اس لئے ہیں سردست مباحثہ کے متعلق جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس کا جواب لکھ دیتا ہوں اور چند روز تک ان کے مضمون کے دوسرے حصہ کا جواب بھی انشاء اللہ شائع ہو جائیگا.یں نے طوالت بحث سے بچنے کے لئے اور آسانی سے فیصلہ ہو سکنے کی غرض سے اپنے مضمون کے آخر میں کچھ شرائط لکھی تھیں اور پروفیسر صاحب سے ان کے متعلق ان کی رائے دریافت کی تھی.پروفیسر صاحب نے اپنے جواب میں ان کے متعلق اپنی رائے دی ہے لیکن چونکہ انہوں نے جن شرائط کی تصدیق کی ہے ان کے متعلق صرف منظوری کا ہی اعلان نہیں بلکہ میرے مضمون کو اپنے الفاظ میں دہرا دیا ہے اور بعض جگہ بعض الفاظ رہ گئے ہیں اس لئے اس امر کے معلوم کرنے کے لئے کہ وہ الفاظ غلطی سے رہ گئے ہیں یا ان کو اس پر اعتراض ہے میں یہ طریق اختیار کروں گا کہ جن شرائط کو میرے نزدیک انہوں نے منظور کر لیا ہے ان کے متعلق میں یہ تحریر کر دونگا کہ پروفیسر صاحب نے ان کو منظور کر لیا ہے.اگر

Page 417

۳۹۷ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب میری رائے غلط ہو تو پر و فیسر صاحب میرے مضمون کے جواب میں اس حصہ کے متعلق جس سے ان کو اختلاف ہو اپنے خیالات کا اظہار کر دیں ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس سے اختلاف نہیں ہے.میں نے پہلی بات موجودہ بحث کے متعلق دیکھی تھی کہ پروفیسر صاحب قرآن کریم کے الہامی ہونے کے خلاف تین اعتراض جو ان کو سب سے زبر دست معلوم ہوں چن لیں کیونکہ بحث کو محدد کرنے کے لئے اعتراضات کو محدود کرنا ضروری ہے.پروفیسر صاحب اس امر کو منظور کرتے ہیں.میں نے لکھا تھا کہ ہر ایک اعتراض کی مثالیں بھی محدود ہوں کیونکہ بعض اعتراض ایسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی مثالیں بیسیوں کی تعداد تک پہنچ جائیں اور اگر معترض ایک عام اعتراض کر کے اس کی تائید میں بیسیوں مثالیں لکھ جائے تو ان کا جواب بہت طویل عرصہ اور سینکڑوں صفحات کا محتاج ہو گا.پروفیسر صاحب کو اس پر اعتراض ہے اور وہ اس امر کو محدود نہیں کرنا چاہتے.امر میرے نزدیک اس امر میں بھی حد بندی مناسب اور ضروری ہے کیونکہ سوال کرنا ایک شخص کے اختیار میں ہے اور دوسرے فریق کا کام صرف جواب دینا ہے پس اس کے حقوق شرائط کے ساتھ محفوظ ہو جانے ضروری ہیں.ہاں اگر پروفیسر صاحب کو تین مثالیں اس اعتراض کی تشریح کے لئے کم معلوم ہوتی ہیں تو تین کی بجائے پانچ مثالوں کی حد مقرر کرلی جائے مگر حد ضرور مقرر ہونی چاہئے..میں نے لکھا تھا کہ ایک طریق یہ بھی ہے کہ پروفیسر صاحب قرآن کریم کے الہامی ہونے پر اعتراض کریں اور میں انکے جواب دوں اور میں وید کے الہامی ہونے پر اعتراض نکروں اور وہ اس کا جواب دیں.پروفیسر صاحب گو اس کو منظور کرتے ہیں لیکن یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک مذہب کے جھوٹا ثابت ہونے سے دوسرا کیونکر سچا ثابت ہو جائے گا.میرے نزدیک یہی بات ان کے خلاف بھی کسی جاسکتی ہے کہ آپ کا مضمون تو دنیا کے آئندہ مذہب پر تھا اگر اسلام جھوٹا ثابت ہو جائے تو ویدک دھرم کیونکر سچا ثابت ہو جائے گا لیکن چونکہ وہ اس کو پسند نہیں کرتے.میں اس سوال کو جانے دیتا ہوں.میں نے لکھا تھا کہ سوال و جواب کا طریق یہ ہو کہ پہلے معترض اپنا اعتراض پیش کرے پھر مجیب جواب دے پھر معترض اس پر جرح کرے اور پھر مجیب اس جرج کا جواب شائع کر دے اور اس کے بعد بحث ختم سمجھی جائے.پروفیسر صاحب اس کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ اگر بحث ایک ہی ہو تو پھر یہ ٹھیک نہیں

Page 418

انوار العلوم جلد 2 اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب معلوم ہوتا کہ آخری موقع ایک ہی فریق کو ملے.میں پروفیسر صاحب کی توجہ اس طرف پھیر نی چاہتا ہوں کہ آخری موقع صرف ایک فریق کو اس لئے منا ضروری ہے کہ اعتراض کرنے کا موقع صرف ایک فریق کو مبنا ہے.یہ بات بالکل موتی ہے کہ جس نے جواب دینا ہو گا وہ آخر میں بولے گا.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دو اعتراض کرے اور جواب دینے والا جب ایک اعتراض کا جواب دے چکے تو اسے کہدے کہ ایک سوال کے متعلق آخری دفعہ تم بول چکے ہو اب میں نہ بولنے دونگا کیونکہ آخری دفعہ بولنے کا موقع مجھے بھی ملنا چاہئے.جس شخص کی حیثیت مجیب کی ہوگی اس کو آخر میں لازماً بولنا پڑیگا ورنہ وہ جواب کس طرح دیگا.دو دفعہ بولنے کا موقع تو صرف مزید وضاحت کے لئے رکھا گیا ہے ورنہ اصل کیفیت تو یہ ہے کہ آپ سوال کریں گے میں اس کا جواب دوں گا.جب سوال آپ کی طرف سے ہو گا اور جواب میری طرف سے تو ہر حال میرا موقع آخری ہوگا کیونکہ جواب ہمیشہ سوال کے بعد ہوتا ہے.اگر آپ نے آخر میں بولنے کا موقع ضرور لینا ہے تو اس کی بھی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ اس بحث کے ساتھ ساتھ ایک اور بحث شروع ہو جس میں میں ویدوں کے الہامی ہونے پر اعتراض کروں پھر آپ جواب دیں.پھر میں جواب پر جرح کروں اور آخر میں آپ اس جرح کے متعلق اپنے جوابات شائع کر دیں.اس صورت میں ایک بحث میں آپ کو بھی آخری موقع مل جائے گا ورنہ یہ بات تو عقل کے خلاف ہے کہ سائل بھی آپ ہوں اور جواب کا آخری موقع بھی آپ کو ملے، آخر میں تو بہر حال جواب دینے والا ہی بولے گا.اگر سوال کرنے والا آخر میں موقع پائیگا تو اس بحث کا کوئی فائدہ ہی نہ ہو گا.پس اگر آخر میں موقع پانے کا آپکو خاص خیال ہے تو دو بحثوں کو ایک وقت میں شروع کیجئے اور اگر صرف قرآن کریم کے الہامی ہونے پر ہی آپ نے اعتراض کرنا ہے تو پھر آخری موقعہ مجھے جس نے جواب دینا ہے ملنا ضروری ہے.علاوہ ازیں پروفیسر صاحب یہ بھی تو دیکھیں کہ جوطریقت میں نے بیان کیا ہے اس میں انصاف بھی ہے کیونکہ دو ہی موقعے ان کو ملتے ہیں اور دو ہی مجھے ملتے ہیں.اس طرح کہ پہلے وہ اپنے اعتراض کو مفصل اور بادلائل بیان کرینگے.پھریں ان کے اعتراض کا جواب دوں گا اور میں امر پران کا اعتراض ہوگا اس کی حقیقت بیان کروں گا.پھر دوسری دفعہ وہ میرے بیان پر جرح کرینگے اور اس کے بعد مجھے دوسرا موقع ملے گا اور میں ان کی جرح کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرونگا پس دو موقعے ان کو ملے اور دو مجھے.لیکن اگر ان کی بات تسلیم کی جائے کہ بعض دفعہ ان کو آخر میں موقع

Page 419

انوار العلوم جلد ۵ ۳۹۹ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انکو دو موقعے ملیں گے اور مجھے ایک کیونکہ سب سے پہلی دفعہ ، لوجہ سائل یا معترض ہونے کے انہیں موقع ہوگا.اس کے بعد مجھے پھر ان کو.پس ان کو دو موقع ملیں گئے اور مجھے ایک.اور یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ ایک امر کا ثابت کرنا بھی میرے ذمہ نہ ہو جو خود آپ کی تحریر کے مطابق اعتراض کی نسبت شکل ہوتا ہے اور موقع بھی مجھ کو ایک ہی دیا جائے.پروفیسر صاحب نے اس اسم کو تسلیم کر لیا ہے کہ معترض تینوں اعتراضات اکٹھے شائع کر دے بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ مجیب جس سوال کا چاہے پہلے جواب دے اور جس کا چاہے پیچھے جواب دے میں اس کے متعلق اس قدر لکھدینا ضروری سمجھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب نے یہ جو سہولت رکھی ہے کہ مجیب جس سوال کا چاہے جواب پہلے دے اور جس کا چاہے پیچھے اسی سہولت پر ان کا ممنون ہوں لیکن اس کی مجھے ضرورت نہیں.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس امر کے لئے تیار ہوں کہ جس سوال کو وہ پہلے میں میں اس کا جواب پہلے لکھوں.صرف میری اس قدر خواہش تھی کہ تینوں سوالات ایک ساتھ بیان ہو جائیں تا اعتراضات کا حلقہ جواب دیتے وقت مد نظر رہے اور مجیب اپنے وقت اور فرصت کا خیال رکھ سکے.یہ بات بھی ضروری نہیں کہ تینوں سوالات کو پہلی ہی دفعہ مشترح اور واضح کر کے با دلائل مبان کیا جائے بلکہ یہ بھی اجازت ہوگی کہ جس سوال کا جواب پروفیسر صاحب پہلے لینا چاہیں اس کے متعلق پوری تشریح سے اپنے سوال کو مع ان دلائل کے جن کی بناء پر ان کو وہ اعتراض پیدا ہوئے ہیں شائع کرا دیں اور دوسرے سوالات کو مجملاً بیان کر دیں اور پھر ان کی باری پر ان کی تشریح کر دیں.اس جگہ میں یہ بھی لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ سوال کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ پروفیسر صاحب صرف سوال ہی لکھ دیں.بلکہ ان کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنے اعتراض کو زوردار بنانے کے لئے جس قدر چاہیں وضاحت کو کام میں لائیں اور وہ وجوہات پر تفصیل بیان کریں جن کی بناء پر ان کو وہ اعتراض پیش کرنے کا خیال پیدا ہوا ہے اور جس کی بناء پر اس مسئلہ کو جس پر وہ اعتراض کریں گے وہ قرآن کریم کے الہامی ہونے کے خلاف سمجھتے ہیں.گو یا سوال نام اس اعتراضی پرچہ کا ہو گا جس میں ایک خاص مسئلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ قرآن کریم کے غیر الہامی ہونے کے خلاف بحث کرینگے.یہ تو ان کے حقوق کی حد ہے آگے ان کا یہ اختیار ہے کہ صرف

Page 420

انوار العلوم جلد ۵ اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب سوال ہی پیش کر دیں اور میرے جواب پر جرح کرنے پر ہی اکتفاء کریں.میں اس جگہ پروفیسر صاحب کی اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کر دینا چاہتا ہوں کہ الزامی جوابات کی اجازت نہ ہوگی میرے کسی حصہ مضمون میں یہ بات نہیں آئی کہ الزامی جوابات کی اجازت نہ ہوگی.مجیب کے دائرہ جواب کو محدود نہیں کیا جا سکتا اگر وہ ایسے الزامی جواب ہی دیگا جس سے یہ علوم ہو کہ اگر اس کا مذہب جھوٹا ہے تو معترض کا بھی جھوٹا ہے تو خود اُسے نقصان پہنچے گا لیکن اگر وہ سائل کو یہ بات سمجھانے کے لئے کہ جس بات کو وہ صداقت کے خلاف سمجھتا ہے وہ صداقت کے خلاف نہیں کیونکہ وہی یا ویسی ہی بات یا اس سے بڑھ کر کوئی بات اس مذہب میں موجود ہے جسے وہ سچا سمجھتا ہے تو اس کو اس امر سے روکنا انصاف کے بالکل خلاف ہے.الزامی جواب ہمیشہ کمزوری پر دلالت نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات ایک صداقت کو منوانے کے لئے سب سے چھوٹا راستہ ہوتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص کسی انسان پر یہ اعتراض کرے کہ تو شریف آدمی نہیں ہے اور میں شریف آدمی ہوں کیونکہ تو فلاں کام کرتا ہے اور وہ کام شرافت کے خلاف نہ ہو اور وہ شخص جس پر اعتراض ہوا ہے آگے سے یہ جواب دیدے کہ یہ کام تو تو بھی کرتا ہے تو اسے کوئی الزامی جواب کہہ کر کمزور نہ کہے گا.یہ جواب تو سب سے زیادہ قریب الضم ہوگا اور بہت جلد دوسرے آدمی کی سمجھ میں آجا ویگا کہ میری غلطی تھی.الزامی جواب اسی وقت کمزور ہوتا ہے جبکہ وہ بات جس پر اعتراض کیا گیا ہو واقع میں بڑی ہو اور مجیب اپنے عیب کو اس پردہ میں چھپانا چاہے کہ دوسرا بھی ویسے ہی عیب میں مبتلاء ہے.غرض الزامی جواب کا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی بعض اقسام حقیقی جواب ہی کی طرح مضبوط ہوتی ہیں اور تصفیہ کی صورت پیدا کرنے میں بہت محمد ہوتی ہیں.اس جگہ ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ الزامی جواب اعتراض کا رنگ رکھتا ہے اور جب مجیب کو الزامی جواب دینے کی اجازت ہوگی تو گویا اس حصہ میں مجیب سائل ہو جائیگا اور سائل مجیب ہو جائیگا اور وہی بے انصافی کا سوال آجائیگا کہ آخری پرچہ سائل کا ہوگا سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے انصافی کے دُور کرنے کے لئے یہ صورت کی جاسکتی ہے کہ مجیب کے پہلے پرچہ میں جو الزامی جوابات آئیں ان کے جواب یہ سائل دے تو اس حصہ کی بحث و ہیں ختم سبھی جائے.اپنے آخری پرچہ میں ان الزامی جوابات کا ذکر مجیب نہ کرے، ہاں یہ ضروری ہوگا کہ مجیب کے جواب پر یہ نوٹ کر دیا جائیگا کہ اسے ان الزامی جوابات کا جواب الجواب دینے کی اجازت نہ تھی.

Page 421

انوار العلوم جلد ۵ ام اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کا جواب اخبارات میں اس بحث کی اشاعت کے متعلق پروفیسر صاحب نے پسند کیا ہے کہ ان کے سوالات اور میرے جوابات اور پھر جواب الجواب اور پھر اس کا جواب بطور ضمیمہ پر کاش اور الفضل میں شائع ہو جائیں.پر کاش کے ضمیمہ کا خرچ ان کے ذمہ ہو گا اور الفضل کے ضمیمہ کا خرچ میرے ذمہ میرے نزدیک بہتر تو یہ تھا کہ بجائے الگ ضمیمہ شائع کرنے کے دونوں اخبارات کے ان نمبروں کے جن میں ہمارے سوال و جواب چھپیں صفحات بڑھا دیئے جایا کریں لیکن اگر یہ بات نا ممکن ہو تو یہ ضرور ہونا چاہئے کہ الفضل اور پرکاش دونوں کے ایڈیٹر اس ذمہ داری کو اُٹھائیں کہ وہ خود اطمینان کر لیا کرینگے کہ تمام خریداروں کو ضمیمہ بھیجدیا گیا ہے.الفضل کی طرف سے میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ اس میں اصل اخبار میں ہی پروفیسر صاحب کے اور میرے مضامین شائع ہونگے اور حسب ضرورت اخبار کے صفحات بڑھا دیئے جایا کرینگے.پروفیسر صاحب نے اس امر کو بھی منظور کیا ہے کہ مشترکہ خرچ پر اس مباحثہ کے سب مضامین بلا کم و کاست متحدہ انتظام کے ماتحت کتابی صورت میں بھی شائع کرائے جائیں اور بعد میں کتب تقسیم کر لی جائیں.کلام کے معانی کرنے کے متعلق پروفیسر صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ سیاق وسباق اور صرف و نحو اور بیان و معانی اور محاورہ زبان اور لغت اور اس کتاب کا محاورہ حجت ہوگا یا سند کے طور پر علوم مسلمہ کو آنی شرائط کے ساتھ جن شرائط کے ساتھ ان کی باتیں تسلیم کی جاتی ہیں پیش کیا جاسکے گا.یہ بھی پروفیسر صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ سی مضمون کا جواب تین ماہ سے زائد عرصہ میں شائع نہ ہو گا اگر کسی فریق کی طرف سے اس عرصہ میں جواب شائع نہ ہو تو بحث کا خاتمہ سمجھا جائیگا اور اسی صورت میں مباحثہ کے مضامین شائع کرا دیے جائیں گے.ت چونکہ سوائے چند باتوں کے جن پر پروفیسر صاحب کو اعتراض تھا باقی سب امور طے شدہ ہیں اور چونکہ ان کے متعلق بھی میں اب وضاحت کر چکا ہوں اس لئے اگر پروفیسر صاحب کو میری اوپر کی تحریر سے اتفاق ہو تو وہ ان تین اعتراضات کو شائع کرا دیں جن کی بناء پر قرآن کریم کے الہامی ہونے میں انکو کلام ہے در ان اعتراضات کو وضاحت سے بیان کر دیں جس کا تصفیہ سب سے پہلے کرنا وہ پسند کرتے ہوں انکے مضمون کے شائع ہونے پر میں ان کا مضمون الفضل میں شائع کروا دونگا اور اپنا جو اب بھی شائع کرا دونگا اور اسی طرح یہ سلسلہ مطابق شرائط چلتا چلا جائیگا.خاکسار مرزا محمود احمد

Page 422

Page 423

۰۳ اصلاح نفس متفرق امور ) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 424

Page 425

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس اصلاح نفس ا تقریر حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی جو حضور نے سالانہ جلسہ کے موقع ر ۲۷ دسمبر شاہ کو مسجد نور میں ظہر کے بعد فرمائی ) اشْهَدُ أن لا إلا الله وحدَ لَهُ شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رسوله أمَّا بَعْدُ نَاعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِه บ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ : مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِهُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ : اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَهُ صِرَاطَ الَّذِيْنَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.ان في خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَأَبَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَا مَّا وَتُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، رَبَّنَا إِنَّكَ من تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْنَهُ ، وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِهِ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا منَا دِيَاتِنَا دِى لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَتِكُمْ فَأَمَنَاتٌ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفَرْعَنَا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرَارِه رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدُ تَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا

Page 426

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس يومَ القِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَه فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا يُضِيحُ b 7 عَمَلَ عَامِلٍ مِنكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَو أُنثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ : فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَاخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ أَو ذُوا فِي سَبِيلِي وَقتَلُوا وَ قُتِلُوا لا كَفَرَتَ عَنْهُم سياتِهِمْ وَلَا دَخِلَنَّهُمْ جَتْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ ثُوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللهِ وَاللهُ عِندَهُ حُسنُ الثَّوَابِ (ال عمران : ۱۹۱ تا ۱۹۹) b حضرت مسیح موعود کے بوٹے ہوئے بیج کا درخت بن گیا سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے اس بیج کو جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دن نہایت سختی اور شدت کے زمانہ میں لوگوں کی خطرناک مخالفت کے باوجود ایسی حالت میں کہ لوگوں کی صرف دنیاوی سامانوں پر ہی نظر تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مایوس ہو چکے تھے بویا تھا بار آور کیا اور اس سے ایسا درخت پیدا کر دیا ہے جو روز بروز اس کے فضل اور رحم کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور بڑھتا جائے گا.یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں ناکامی کے غار سے نکال کر کامیابی کے کے راستہ پر چلا دیا ہے.آج سے نہیں سال قبل جب حضرت صاحب نے دعوی کیا تھا کون شخص تھا جو خیال میں بھی لا سکتا تھا کہ اس کی ایک عظیم جماعت قائم ہو جائے گی ؟ مگر خدا کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں اور مرزبانہ میں ہی ہوتا رہا ہے کہ وہ پتھر جس کو معماروں نے رد کر دیا خدا نے اسی کو کونہ کا پتھر قرار دیا اور اسی پر عظیم الشان عمارت کی بنیاد رکھی.ایسا ہی اس زمانہ میں ہوا ہے.حضرت مسیح موعود پر قسم قسم کے حملے کئے گئے ، آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں ، رنگا رنگ کی ایذائیں پہنچائی گئیں مگر باوجود مخالفوں کی شرارتوں کے اور باوجود دشمنوں کی ایذاء رسانیوں کے اور باوجود معاندوں کی تکلیفوں کے پھر بھی خدا نے آپ کا سلسلہ قائم کیا اور قائم کرتا رہے گا اس وقت تک کہ دنیا اقرار نہ کرے کہ خدا ہے اور ایسا خدا ہے جو کمزور سے کمزور انسان سے بھی کام لیتا ہے اور اس کے ذریعہ اپنا جلال اور قدرت دکھاتا ہے.ظلمت سے بچانے پر خدا کا شکر پھریں اللہ تعال کا شکر تی اور تھی.اس لئے کرتا ہوں کہ اس نے اپنے فضل سے ہمیں اس ظلمت اور تاریخی سے بچایا جس میں باقی دنیا مبتلا ہے.کیا یہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک

Page 427

انوار العلوم جلد ۵ ۴۰۷ اصلاح نفس بہت بڑا فضل نہیں ہے ؟ کہ اس وقت جب کہ دنیا طرح طرح کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور قسم قسم کی ظلمتوں میں پڑی ہوئی ہے اس نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہمیں ایسی روشنی عطا کی ہے کہ ہم پر ان ظلمتوں اور تاریکیوں کا کوئی بھی اثر نہیں ہے.ذرا خیال تو کرو کہ ایک تاریک رات میں جب کہ لوگ ٹھوکریں کھا رہے ہوں ، گڑھوں میں گھر رہے ہوں ، ایک ایسا سورج چڑھے جس کی روشنی صرف تمہیں ہی پہنچے اوروں کو نہ پہنچے تو اس وقت تم کسی قدر خوش ہو گئے ؟ اور کس قدر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرو گے ؟ اور خواہ تم کتنا ہی شکر کرو یقیناً تم شکر کا حق ادا نہیں کر سکتے.مگر افسوس بہت ہیں جن پر خدا کا ایسا ہی فضل ہوا ہے مگر انہوں نے اس کو سمجھا نہیں کہ خدا نے ان پر کتنا بڑا افضل کیا ہے.یہ میں نے چھوٹی سی مثال بیان کی ہے کہ تاریکی ہو، لوگ ٹھوکریں کھا رہے ہوں ، اس وقت سورج چڑھے جس کی روشنی تمہیں ہی ملے.اور تم بڑے آرام اور اطمینان کے ساتھ چلے جاؤ تو تم کتنے خوش ہو گے ؟ اور تمہارا کتنا ایمان بڑھے گا ؟ یا ایک جنگ کا میدان گرم ہو، سینکڑوں آدمی تمہارے دائیں بائیں گر رہے اور کچلے جا رہے ہوں مگر تمہارے اوپر جو گولی لگے وہ پانی کی طرح بہہ جائے اور تمہیں اس سے ذرا بھی صدمہ نہ پہنچے.تو بتاؤ اس وقت کس قدر شکر کی نہر تمہار سے اندر پیدا ہو گی ؟ اب بتاؤ.خدا نے جو فضل تم پر کیا ہے.کیا وہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے ؟ اس روحانی حکمت اور تاریخی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک سورج چڑھایا جس کی برکت سے تم راستہ دیکھتے اور ٹھوکروں سے بیچ رہے ہو، لیکن کیا تم نے کبھی یہ خیال کیا ہے کہ اس خطرناک جنگ میں جس میں شیطانی فوج نے اپنی پوری طاقت سے روحانیت پر خطرناک حملہ کیا ہے اور یکے بعد دیگر سے جوان گر رہے ہیں.تم پر کوئی شیطانی گولی اثر نہیں کرتی اور تم صحیح و سالم ہو.یہ تم پر کتنا بڑا فضل ہے ؟ اس نقشہ کو اپنے دل میں جماؤ اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کا شکر کس قدر تمہارے دل میں پیدا ہوتا یہ ہنسی نہیں.یہ کھیل نہیں.یہ معمولی بات نہیں.ہمیں ضرور خدا تعالیٰ کے آگے شکریہ کے طور پر جھک جانا چاہئے کیونکہ اگر اس کا فضل نہ ہوتا ، اس کا رحم نہ ہوتا ، اس کی بندہ نوازی نہ ہوتی تو اس خطرناک جنگ میں ہمارے محفوظ رہنے کی کوئی بھی وجہ نہ تھی.ظاہری علم ہمارے پاس دوسروں سے زیادہ نہیں، مال ہمارے پاس نہیں دنیاوی عزت ہمارے پاس نہیں ، دنیاوی سامان ہمارے پاس نہیں، دنیا وی طاقت ہمارے پاس نہیں غرض کوئی بھی سامان ہمارے پاس نہیں یہ محض اس کا فضل اور اس کا احسان ہی ہے کہ اس نے اس خطرناک موقع پر ہمیں بچا لیا ہے اور ہمیں حضرت مسیح موعود کی

Page 428

انوار العلوم : شناخت بخشی ہے.میں ہم اس کے لئے جس قدر بھی شکر کریں کم ہے.اس کے بعد میں مشکلات کے زمانے میں خدا تعالیٰ کا ڈھارس دینا اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر کرتا ہوں کہ اس نے اس مشکلات اور تکالیف کے وقت جب کہ میں نے دیکھا کہ دنیا خطرناک حالات میں مبتلا ہے اس وقت اس نے میرے دل کو ڈھارس دی اور یقین دلایا کہ اس جماعت پر وہ ضرور اپنا فضل کرے گا.میں بالعموم اپنی رؤیا اور کشوف کا اظہار نہیں کیا کرتا.کیونکہ میرے نزدیک یہ ماموروں کا کام ہے.مگر بعض اوقات احباب کا یقین بڑھانے کے لئے اور انہیں تسلی دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی رؤیا بیان کی جائے.اسی لئے خدا نے موجودہ حالات میں مجھے جو بشارت دی ہے وہ مناتا ہوں تاکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اس کے ذریعہ میرا دل خوش کیا ہے اسی طرح تمہارا دل بھی خوش ہو جائے.چند دن ہوئے میں نے ایک نظارہ دیکھا جس میں مجھے بتایا گیا کہ بعض لوگوں کو کچھ استان آئے ہیں.اسی کو دیکھ کر میری طبیعت بہت گھبرائی اور میں خدا تعالیٰ کے حضور جھکا اور گیا اور کہاکہ خدا تعا ان پر رحم کرے ان کے گناہوں کی پردہ پوشی کرنے اور ان کے گناہوں کو مٹا دے.اس دُعا کے بعد جبکہ جلسہ کے دن قریب تھے بلکہ آہی گئے تھے.یعنی پرسوں کی بات ہے کہ میں نے دیکھا کہ میں بیٹھا ہوا ہوں اور ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو میرے ماموں ہیں وہ آئے ہیں.میں نے ایک یسے تجربہ کے بعد یہ بات معلوم کی ہے کہ اسماء کے ساتھ رویاء اور کشوف کا خاص تعلق ہوتا ہے اور مجھے جو خدا تعالیٰ سے قبولیت کا تعلق ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا کہ اٹھانوے فیصدی انہیں کو دیکھتا ہوں.ان کا نام ہے " اسماعیل.جس کے معنی ہیں خدا نے سُن لی.جب میں کوئی دُعا کرتا ہوں تو یہی مجھے دکھائے جاتے ہیں.ہاں کبھی الیسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کسی ملک کے ذریعہ بتا دیتا ہے اور کبھی خود جلوہ نمائی کرتا ہے.تو میں نے دیکھا کہ وہ آئے ہیں اور ہشاش بشاش ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ آرہے ہیں اور وہ اتنے خوش معلوم ہوتے ہیں اور آنے والوں کا ایمان اتنا ترقی یافتہ ہے کہ انہوں نے ان کے چہروں سے دیکھ لیا ہے.جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ نور ان کے چہروں سے ٹیکتا ہے.جب انہوں نے یہ کہا کہ لوگ آرہے ہیں اور ایمان اور اخلاص کے ساتھ آرہے ہیں.تو اسی وقت جوش سے میری زبان

Page 429

انوار العلوم جلد ۵ ۴۰۹ اصلاح نفس پر یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ اللهُمَّ زِدْفَزِدْ عَلَى نَهْجِ الصَّلَاحِ وَالْعِفَّةِ - اے اللہ ان کو زیادہ کر ایمان اور اخلاص میں پھر زیادہ کر ایمان اور اخلاص ہیں.اور یہ پھر آئیں مگر مٹی کے رستوں پر چل کر نہیں بلکہ نیکی اور اخلاص اور ترقی کے راستہ پر چل کر آئیں.اس کے بعد آنکھ کھل گئی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی دی.تومیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جماعت کے کثیر حصہ کو اور ایسے کثیر حصہ کو کہ شاذ ہی کوئی رہ جائے اور ممکن ہے کہ کوئی بھی نہ رہے.اس خطرناک وقت میں جب کہ بڑے بڑوں کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں محفوظ رکھے گا اور تقوی اور صلاحیت پر ہی چلائے گا گمراہی کے رستہ پر نہیں چلائے گا.انشاء اللہ اس کے بعد پیشتر اس کے کہ مضمون شروع کروں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو جیسا کہ میں جلسہ پر دو مضمون بیان کیا کرتا ہوں اسی طرح اب بھی بیان کروں گا اور کل علمی مضمون بیان ہوگا.آج میں جماعت کی اخلاقی اور عام حالت کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں کل دوسرا مضمون جو بالعموم دوستر دن ہی بیان کیا کرتا ہوں اور کبھی پہلے دن بھی بیان کیا ہے بیان کروں گا.وہ مضمون گو علمی ہوتا ہے لیکن وہ بھی روحانیت سے تعلق رکھتا ہے.پیشتر اس کے کہ میں آج کے مضمون کو بیان کروں کچھ باتیں پچھلے سال کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.مسجد لندن اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے جس کام میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے.وہ مسجد لندن کی تعمیر کا سامان ہے.اس میں شک نہیں کہ لندن عیسائیوں کے ہزاروں شہروں میں سے ایک شہر ہے اور اس کی شہرت مسیحیت کا مرکز ہونے کے سبب سے نہیں بلکہ اس کی دنیا وی عظمت کے سبب سے ہے.مگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں بھی شک نہیں که لندن عیسائیت کا مرکز ہے.اور ایسا مرکز ہے کہ اس کے مقابلہ میں روم بھی جو یورپ کا دار الاقامہ ہے نہیں ٹھہر سکا.لندن پرائٹسٹنٹ فرقہ کے عیسائیوں کا مرکز ہے جو دنیا میں بہت بڑے انتظام اور سامان کے ساتھ تبلیغ کرتے ہیں اور روم رومن کیتھولک فرقہ کا مرکز ہے جن کا طرفہ تبلیغ بالکل جدا گانہ ہے.وہ اپنی ذات میں ایسے محو ہیں کہ غیر مذاہب کی کتابیں پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ رومن کیتھولک فرقے کے بہت کم پادری ہیں جنہوں نے اسلام پر حملے کئے ہیں مگر پرانسٹنٹ فرقہ کے عیسائیوں نے اسلام پر بہت زیادہ حملے کئے ہیں اور دل دکھانے والے حملے کئے ہیں.اس فرقہ کے لوگوں کا مرکز لندن ہے اس لئے کہ سکتے ہیں کہ اسلام پر جارحانہ حملہ کرنے والی مسیحیت کا مرکز لندن ہی ہے اور

Page 430

انوار العلوم جلد ۵ ۴۱۰ اصلاح نفس ہماری جماعت کو توفیق ملی ہے کہ اس مرکز میں اسلام کا نشان قائم کرنے کے لئے مسجد کی زمین خرید ہے.ایسی کمزور مالی حالت میں جو کہ ہماری جماعت کی ہے یہ بہت شکر کا مقام ہے کہ اتنا بڑا کام کرنے کی اسے توفیق ملی.پچھلے سال جلسہ ختم ہونے کے سات آٹھ دن کے بعد میرے دل میں اس مسجد کی تحریک پڑی اور اس زور سے پڑی کہ میں نے سمجھا کہ ملائکہ نے ہی ڈالی ہے.میں گھر سے نماز کے لئے نکلا اور مسجد میں فوراً یہ خیال ہوا کہ لندن میں مسجد بنانی چاہئے.لیکن لندن میں مسجد بنانے کا خیال چونکہ بہت بڑا خیال تھا اس لئے سوال پیدا ہوا کہ کس طرح بنائی جائے ؟ اس کے لئے میں نے یہ خیال کیا کہ چونکہ باری جماعت کے لوگ آگے بہت سا چندہ دیتے ہیں اور چندہ دینا ان کے لئے مشکل ہوگا اس لئے یہی صورت ہو سکتی ہے کہ قرضہ لے لیا جائے جوبا اقساط ادا کر دیا جائے.پہلے مجھے پانچ ہزار کا خیال آیا لیکن جب میں تحریک کرنے لگا تو پندرہ ہزار کا خیال آیا.میں نے سمجھا یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس لئے اس رقم کی تحریک کرنی چاہئے.اس کے متعلق جب میں نے مسجد میں ان چند آدمیوں کے سامنے جو میرے اردگرد بیٹھے تھے ذکر کیا تو اسی وقت بعض نے چندے لکھوانے شروع کر دیئے اور بعض نے کہا کہ ہم قرضہ نہیں دیتے یونی چندہ دیتے ہیں.پھر جب میں اس کے متعلق مضمون لکھنے لگا تو دل نے کہا قرضہ کیا لکھنا ہے ممکن ہے جماعت پر زور دیں تو پندرہ ہزار ہی چندہ ہو جائے.اس لئے می تحریک ہوئی کہ چندہ ہو قرضہ نہ ہو لیکن جب میں مضمون لکھتے ہوئے رقم لکھنے پر پہنچا تو پندرہ ہزار کی بجائے قلم سے نہیں ہزار نکلا میں نے سمجھا یہ بھی الٹی تحریک ہو گی.مگر دل میں تعجب تھا کہ اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا.میں نے وہ اعلان بیاں کی جماعت کے چند لوگوں کو سُنایا جو بالعموم تھوڑی تھوڑی تنخواہوں پر تنگی سے گزارہ کرتے ہیں مگر اسی وقت دو تین ہزار کے درمیان رقم کا اعلان ہو گیا.پھر میں نے گھر جا کر سنایا تو چند ہی عورتوں نے پانچ سو کے قریب رقم لکھوا دی.پھر شام کو میاں کے سرب لوگوں کو جمع کر کے تحریک کی تو رقم نو ہزار کے قریب پہنچ گئی اور دوسرے دن بارہ ہزار سے آگے نکل گئی.تب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تحریک ہے.اس وقت میں نے اشتہار لکھا اور خیال آیا کہ خدا کچھ اور قدرت دکھانا چاہتا ہے.لاہور آدمی بھیجا اس خیال سے کہ یہ رقم لا ہور تک ہی جمع ہو جائے.لاہور کے احمدیوں نے کہا کہ ہم قادیان والوں سے مل کر ۲۰ ہزار کی رقم پوری کردیں گے.چنانچہ لاہور اور قادیان اور گورداسپور کی جماعتوں نے مل کر یہ رقم پوری کر دی.انہی دنوں غیر احمدی شور مچارہے تھے کہ اسلام تباہ ہو گیا ہے.کیونکہ خلافت پر حملہ ہوا ہے اور

Page 431

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس خلافت کو قائم رکھنے کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے.ایک کالج میں جب ان کا چندہ ہوا تو چھ سو طلباء نے دو ہزار چندہ لکھایا.مگر جب ہماری تحریک لاہور پہنچی تو وہاں کے امیر نے احمدی طلباء کو کہا کہ کیا کفر و اسلام میں کوئی فرق نہیں.چھ سو طلباء نے دو ہزار چندہ لکھوایا ہے.تم سنتر طلباء ہی دو ہزار پورا کرد دو.چنانچہ اپنی طلباء نے دو ہزار پورا کر دیا.پھر یہ عجیب بات ہے کہ ان چھ سو طلباء کا چندہ تو ادا نہ ہوا مگر ہمارے ستر طلباء نے دو ہزار روپیہ ادا کر دیا.پھر اس تحریک کو وسیع کر دیا گیا تا کہ ساری جماعت اس ثواب میں شریک ہو سکے اور اس طرح اس چندہ کی رقم ایک لاکھ کر دی گئی جو ر تم اس وقت تک وصول ہو چکی ہے وہ ۹۳ ہزار ہے اور وعدے ملا کر ایک لاکھ سے اوپر ہو جاتی ہے.یہ وہ بہت بڑا کام ہے جو اس سال خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت سے کرایا ہے.اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ہو کر رہتی ہے رُک نہیں سکتی.لندن مسجد کی جگہ خرید لی گئی ہے جس میں مبلغین کے رہنے کے لئے مکان بھی ہے.اب انشاء اللہ مسجد تیار ہوگی اور اس کا اشاعت اسلام پر بہت بڑا اثر ہو گا.جو جگہ خریدی گئی ہے وہ بہت اعلیٰ درجہ کی ہے.اس کے ارد گرد تا جر بہتے ہیں جو اعلیٰ درجہ کے ہیں.پھر مکان ہی نہیں زمین بھی لندن جیسے شہر میں موقع کی مل گئی ہے اور سستی مل گئی ہے اور اتنی سستی ہے کہ لاہور جیسے شہر میں بھی اس نرخ پر ایسے با موقع اور اس نرخ پر ملنی مشکل ہے.امریکہ میں احمدیہ مشن دوسری چیز جواس سال قائم ہوئی وہ امریکہ کا مشن ہے، اسی جگہ میں نے گذشتہ جلسہ پر اعلان کیا تھا کہ بیرونی ممالک میں تبلیغی مشن قائم کئے جائیں گے.چنانچہ اس سے تھوڑے ہی دن بعد مفتی صاحب امریکہ روانہ ہو گئے ، گرامریکہ کی سلطنت نے انہیں ملک میں داخل ہونے سے روک دیا.اور وہ لوگ جو ہماری ہر بات کی مخالفت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ بہت اچھا ہوا.ان کے آدمی کو امریکہ نے روک دیا.حالانکہ امریکن گونٹ کو یہ اعتراض نہیں تھا کہ مفتی صاحب احمدی ہیں اس لئے داخل نہ ہوں بلکہ وہ کہتی تھی کہ مفتی صاحب چونکہ اسلام کا ایک ایسا مسئلہ مانتے ہیں جسے ہم پسند نہیں کرتے اس لئے داخل نہ ہوں مگر مسلمان کہلانے والوں نے اس موقع پر یہودیوں والی بات کی کہ ہمارے مقابلہ میں کفار سے دوستی ظاہر کی اور خوش ہوئے کہ انہوں نے ایک اسلامی مسئلہ کی بناء پر ہمارے مبلغ کو روک دیا لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ خدا چاہتا تھا کہ ان کا ہم پر کسی قسم کا احسان نہ ہو کیونکہ مکن تھا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف آواز اُٹھاتے اور اس کے بعد مفتی صاحب

Page 432

انوارات ۴۱۲ اصلاح نفس کو داخل ہونے کی اجازت مل جاتی.تو وہ کہتے کہ ہماری وجہ سے ہی ایسا ہوا ہے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ہمارے مقابلہ میں کھڑا کر کے ہیں ان کے احسان کا بار اُٹھانے سے باز رکھا.انہی دنوں میں سیالکوٹ گیا جہاں میرا لیکچر ہوا.اس میں میں نے کہا کہ امریکہ نے ہمارا مقابلہ کیا ہے اور یہ خدا کی حکومت ہے اس مقابلہ میں امریکہ کو ضرور نیچا دیکھنا پڑے گا.چنانچہ مفتی صاحب امریکہ داخل ہو گئے.اور لطیفہ یہ ہے کہ اب انہیں بعض ایسی قانونی گنجائشیں مل گئی ہیں کہ انہوں نے لکھا ہے اگر اجازت ہو تو میں دوسرا نکاح کرلوں.اس ملک کے متعلق میں نے گزشتہ سے پیوستہ جلسہ پر بیان کیا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا که حضرت مسیح موعود کہیں سے دوڑے دوڑے آئے ہیں.میں نے کہا حضور اندر آئیں.فرمایا خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں امریکہ جاؤں.میں پانچ سال امریکہ رہ کر آیا ہوں.میں نے کہا حضور ! اب کچھ عرصہ گھر پر ٹھہریں.فرمایا نہیں میں نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ مجھے اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ پانچ سال بخارے جا کر رہوں.چنانچہ آپ چلے گئے.امریکہ کے بعد ہمارا قدم کدھر اُٹھے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے دوسرا قدم ہمارا بخارا کی طرف اُٹھنا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس رویا کے بعد حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ملا ہے جو بخارا کے متعلق ہے.دو رڈیا ہیں.ایک میں یہ ہے کہ زار روس کا سوٹا حضرت مسیح موعود کے ہاتھ آگیا ہے.بخارا زار روس کا علاقہ تھا.اس رڈیا کا ایک حصہ تو پورا ہو گیا.کہ زار سے اس کا یہ سوٹا چھین لیا گیا.اب دوسراحصہ باقی ہے کہ وہ نہیں لے سوٹا کی تعبیر بادشاہت ہے.وہ تو ہزار سے چھن چکی ہے.جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ زار قتل کر دیا گیا.اب حضرت صاحب کو ملنا باقی ہے.دوسری رؤیا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے دیکھا." خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا.اس کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے.بوعلی سینا بھی پاس ہی کھڑا ہے.اور اس تیر کمان سے میں نے ایک شہر کو بھی شکار کیا ہے ؟ محفوظات جلد سوم من حاشیہ) شیر مارنے کی تعبیر بادشاہت فتح کرنا ہے اور جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں.بخارا کی پہلی بادشات تو ٹوٹ چکی ہے.اب ہمیں ملنا باقی ہے.حضرت مسیح موعود نے رڈیا میں شیر کا شکار کیا ہے.جس کی تعبیر یہ ہے کہ سلطنت فتح کی گئی ہے اور ہمارا تیر کمان تو دُعائیں ہی ہیں.انہیں کے ذریعہ ہم فتح کریں گے.

Page 433

انوار العلوم جلد ۵ ۴۱۳ لاح نفس کہتے ہیں ایک امیر تھا.اس کے محلہ میں ایک بزرگ رہتے تھے اس امیر کے ہاں ساری رات گانا بجانا ہوتا رہتا جس سے محلہ والے بہت تنگ آگئے.لیکن چونکہ وہ بڑا آدمی تھا اور بادشاہ سے اس کا تعلق تھا اس لئے کوئی اسے کچھ کہ نہیں سکتا تھا.ایک دن اس بزرگ نے اسے کہا کہ آپ ساری رات گاتے بجاتے رہتے ہیں کسی وقت بند بھی کیا کرو کہ ہمیں آرام ملے.اس نے کہا تو کون ہے مجھے کہنے والا ؟ اس بزرگ نے کہا میں تو کوئی نہیں.سارے محلہ والے کہتے ہیں جو کہ بہت تنگ آگئے ہیں.اس نے کہا میں نہیں رک سکتا.بزرگ نے کہا اگر تم نہیں رکھتے تو پھر ہم جبرا روکیں گے.اس نے کہا ئیں بادشاہ کی فوج لے آؤں گا پھر کون ہے جو میرا مقابلہ کر سکے ؟ بزرگ نے کہا ہم فوج کا بھی مقابلہ کریں گے.اس نے کہا کس طرح ؟ بزرگ نے کہا سہام اللیل کے ذریعہ یعنی رات کے تیروں کے ساتھ.اس بات کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے کہا کہ میں آئندہ آپ کو تکلیف نہیں دوں گا.آپ معاف کریں.تو رات کے تیروں اور تلواروں کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بھی کفارہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہم تلوار سے مقابلہ کریں گے.اس کے پاس چونکہ تلوار نہیں اس لئے ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکے گا.مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ تلوار جو رات کو چلائی جاتی ہے وہ ایسی ہے کہ اس کے حملہ سے کوئی بیچ نہیں سکتا.کیونکہ اسی حملہ سے بچاؤ ہوسکتا ہے جو نظر آتا ہے جو نظر نہ آئے اس سے بچنا ناممکن ہوتا ہے.سو ہمارے پاس دُعا کا تیر کمان ہے اور اسی کو ہم چلائیں گے اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود کی رڈیا کا بقیہ حصہ بھی پورا کر دے گا اور ہمارے ہاتھ میں زار روس کا سوٹا دے دے گا.لیکن چونکہ رڈیا کے پورا کرنے کے لئے کوشش کرنا بھی ضروری ہے.اس لئے میں دوستوں کو کہوں گا کہ وہ اپنی دعاؤں میں اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ اس کشف کو پورا کرے تاکہ ذرا یہ آرزو کا سوٹا ہمارے ہاتھ میں آجائے.اس سال تبلیغ میں کمی رہی یہ باتیں جوئیں نے آپ لوگوں کو خوشی کا سنائی ہیں ان کے ساتھ ہی ایک رنج کی بات بھی سناتا ہوں جو میرے لئے بہت ہی تکلیف کا موجب ہوئی ہے.آپ لوگوں نے اس سال بہت مال دیئے اور اس قدر دیتے کہ مخالف اخبار نویں حیران ہو گئے اور لکھا کہ نئے سلسلوں کا یہی حال ہوتا ہے جماعت احمد یہ چونکہ نیا سلسلہ ہے اس لئے اس وقت اس میں بھی وہی جوش ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں

Page 434

انوار العلوم جلد و ۴۱۴ اصلاح نفس میں تھا.سوالحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے دشمن سے بھی اقرار کرا دیا ہے کہ تم لوگوں کا سول کریم صلی اللہ علیہ لم سے ہی تعلق ہے اور تمہاری نظیر مخالفوں کو رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ہی ملتی ہے مگر اس کے ساتھ تم سے ایک کو تا ہی بھی ہوئی ہے.میں جانتا ہوں کہ اس کی وجوہ ہیں.اور چونکہ مسجد کی تحریک کی گئی تھی جو بہت بڑا کام تھا.علماء اس کے لئے چندہ جمع کرتے رہے ہیں اور آپ لوگ بھی اس کام میں مشغول رہے ہیں.مگر جو شخص سر کو ڈھانکنے کے لئے ستر کی جگہ گونگا کر دیتا ہے.کون ہے جو اسے کے کہ غلطی نہیں کر رہا ؟ روپیہ دین کی خدمت کے لئے دینا بے شک اچھی بات ہے مگر میں افسوس سے کہوں گا کہ اس کی وجہ سے اس سال تبلیغ میں بہت کمی آگئی ہے اور پہلے کی نسبت نمایاں فرق پڑگیا ہے.ہر سال پہلے سالوں کی نسبت زیادہ آدمی سلسلہ میں داخل ہوتے رہے ہیں مگر اس سال صرف بارہ سو عورت میں اور بچے علیحدہ کر کے داخل ہوئے ہیں.اگر عورتوں اور بچوں کو بھی ملا لیا جائے تو چار ہزار کے قریب بن جاتے ہیں.لیکن اس طرح پہلے سالوں میں دس ہزار کے قریب تعداد بنتی ہے.یہ تم پر قرض ہو گیا ہے اور میں اس کے متعلق تحریک کروں گا کہ مقروض کی طرح تم اس قرض کی ادائیگی کی فکر کرو اور اس وقت تک چین نہ لو جب تک اسے ادا نہ کر لو.جماعتوں کے امیر اس کے بعد میں انتظام سلسہ کے متعلق ایک تحریک کرنی چاہتا ہوں جب میں نے نظار توں کے قیام کے متعلق رسالہ لکھا تھا.تو اس میں بیان کیا تھا کہ ہر جگہ کی جماعتوں کے انتظام کے لئے امیر مقرر ہونے چاہئیں (جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ یا خلفاء کے زمانہ میں ہر ضلع اور ہر شہر میں امیر ہوتے تھے ) اور احمدی ان سے اپنے معاملات میں مشورہ میں تاکہ انتظام پراگندہ نہ ہو.اس وقت میں نے یہ حکم نہیں دیا تھا مشورہ دیا تھا.اس سال اس کا دو جگہ تجربہ کیا گیا ہے ایک لاہور میں اور دوسرے فیروز پور میں.لاہور کی جماعت اخلاص میں بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور تھی مگر انفرادی طور پر وہاں کے لوگوں میں بہت اختلاف تھا.اس انتظام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوش ہیں اور ان کے معاملات آسانی اور سہولت سے طے ہوتے ہیں.فیروز پور کی جماعت کا انتظام بہت اعلیٰ ہو گیا ہے.غرض تجر بہ سے یہ طریق بہت اعلیٰ ثابت ہوا ہے اور گو میں اب بھی اس کے متعلق حکم نہیں دیتا.مگر یہ بتاتا ہوں کہ شریعت نے اس بات کو پسند کیا ہے اور اس کے ذریعہ انتظام بہت اعلیٰ درجہ کا چلتا ہے.پس جو جماعتیں چاہتی ہیں کہ ان کے امیر مقرر کر دئے جائیں وہ یہاں لکھیں کہ وہ اپنے میں سے کس کو اپنا امیر بنانا پسند کرتی ہیں تاکہ ہم انہی میں سے ان کے امیر مقرر کر دیں.

Page 435

انوار العلوم جلد ۵ اختبارات سلسله ۴۱۵ اصلاح نفس اس کے بعد میں جماعت کے اخبار اور رسالہ جات کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.پچھلے سال میں نے ان کے متعلق تحریک کی تھی کہ احباب انہیں خریدیں.اس کے ماتحت توجہ کی گئی ہے افضل اور ریویو کی طرف اور تشخید کی طرف بھی کسی قدر توجہ ہوئی ہے مگر ان کو چھوڑ کر اوروں کی طرف توجہ نہیں کی گئی.الحکم ، نور اور فاروق کے خریدار بہت کم ہیں.اگر چہ میں ان کے کارکنوں کو بھی کہوں گا کہ ان کی اصلاح کریں اور زیادہ مفید بنائیں.مگر تم لوگوں کو بھی کہنا ہوں کہ ان کی خریداری کی طرف توجہ کرو.الحکم میں ایک خصوصیت رہی ہے.اب اگر چہ اس کا ایڈیٹر بدل گیا ہے لیکن پھر بھی کسی حدتک پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ وہ تاریخ سلسلہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جماعت میں روح پھونکنے کی کوشش کرتا ہے.اس معاملہ میں الفضل بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکا اور اور بھی کوئی نہیں علمی حیثیت سے اس میں پہلی بات نہیں رہی.جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایڈیٹر ناتجربہ کار اور نوآموز ہے مگر میں دعا کرنا ہوں کہ خدا اسے اس لحاظ سے بھی کام کرنے کی توفیق دے.پھر نور ہے.اس کے مضامین مفید ثابت ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود کا منشاء تھا کہ سکھوں کو تبلیغ کریں.چنانچہ آپ نے ان کے متعلق کتاب ست بچن لکھی تھی.اس اخبار نے یہ کام کیا ہے اور ممکن ہے کہ ہزاروں سکھ اسلام میں داخل ہو جائیں.مگر اس اخبار کی اشاعت کم ہے اور بہت کم ہے.میں نے گزشتہ سال کچھ پرچے جاری کرائے تھے اور جن کے نام جاری تھے.انہوں نے بہت فائدہ اُٹھایا ہے.اس کے متعلق کئی خطوط آئے.پچھلے دنوں جب ایڈیٹر صاحب نور ایک سفر پر گئے تو ایک سکھ صاحب نے ان کی معرفت مجھے نذر بھیجی.جو اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کا دل اس اخبار کے ذریعہ سلسلہ کی طرف مائل ہو رہا ہے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس کی طرف بھی توجہ کرے.مجھے بہت افسوس کے ساتھ معلوم ہوا ہے کہ اس کے کل خریدار ۳۵۰ ہیں.اس اشاعت میں پہلے بھی کوئی اخبار نہیں چل سکتا تھا اور اب تو پہلے کی نسبت بہت گرانی ہو گئی ہے.اب چلنا بالکل محال ہے.پھر میں فاروق کی خریداری کے لئے بھی تحریک کرتا ہوں مگر اخبار والوں کو بھی کہتا ہوں کہ اپنا اپنا حلقہ محدود کر لیں.اب تک انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ایک ہی قسم کی باتیں لکھتے رہتے ہیں.اس لئے لوگ کتے ہیں کہ جب ایک اخبار خرید لیا تو پھر کسی اور کی کیا ضرورت ہے ؟ انہیں اپنے اپنے حلقے تقسیم کر لینے چاہئیں تا کہ لوگ سب کو خریدیں.

Page 436

شه الوارالعلوم جلد ۵ ۴۱۶ اصلاح نفس کتب اور کتب فروش رسالو اور ٹریکٹوں کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ تلی کے لئے لٹریچر کی سخت ضرورت ہے.اس لئے جن دوستوں کو خدا تعالیٰ نے علم دیا ہے وہ تبلیغی رسالے لکھیں اور شائع کریں مگر پچھلے دنوں سے یہاں کے کتب فروشوں میں ایک بیہودہ روح تاجرانہ طرز کی نمودار ہو گئی ہے وہ یونسی بیہودہ اور فضول رسالے چھاپ دیتے ہیں.پھر ایک دوسرے کی نقل کر کے ایک ہی کتاب یا رسالہ شائع کرتے ہیں.اس قسم کی ایک دوسرے کے خلاف شکایت میرے پاس پہنچی ہے.انہوں نے اپنی اپنی بریت کی ہے لیکن میرے نزدیک ان کا جرم ثابت ہے آئندہ انہیں اپنی اصلاح کر لینی چاہئے.ورنہ اعلان کر دیا جائے گا کہ ایسے نقال کتب فروشوں کی کتابیں نہ خریدی جائیں.مگر جہاں ایک دوسرے کی نقل ہوتی ہے وہاں بعض مفید رسالے بھی نکلتے ہیں.اس لئے ان کی مدد کرنی چاہئے مگر اسی حد تک کہ تاجرانہ حیثیت سے وہ کام کرتے ہیں جماعت کے لحاظ سے نہیں.مفید ٹریکٹوں اور رسالوں سے بہت فائدہ پہنچتا ہے.ہمارے سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب اس قسم کے مفید ٹریکیٹ شائع کرتے رہتے ہیں جن کے ذریعہ کئی ممالک میں تبلیغ ہو رہی ہے اور فائدہ بھی ہوا ہے.ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا افریقہ کا ایک خط انہوں نے بھیجوایا تھا جس نے ان کے ذریعہ بیعت کی ہے.ہمارے خلاف شورش اس کے بعد میں اس شورش اور غصہ کی طرف توجہ دلانا ہوں جو پچھلے دنوں سے ہمارے خلاف پھیلا ہوا ہے.ہم آدمی ہیں اور آدمیوں میں رہتے ہیں اور آدمیوں میں ہی رہیں گے.اس لئے ممکن نہیں کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ان معاملات اور حالات سے علیحدہ رہ سکیں جو دوسروں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.بعض لوگ اس قسم کے معاملات کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ ہیں ان سے کیا ؟ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ٹھیک نہیں یہیں ان معاملات سے تعلق ہے اور جب تک ہم انسان میں اس وقت تک ان باتوں سے علیحدہ نہیں رہ سکتے جو ہمارے ملک میں ہو رہی ہیں.اگر ملک میں لڑائیاں ہوں گی تو ان کا اثر ہم پر پڑے گا اور اگر روشنی ہوگی تو اس کا بھی اثر ہم پر پڑے گا.اس لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے طور پر رہیں کہ دشمن کا گندہ اثر ہم پر نہ پڑ سکے.ہم گورنمنٹ کی وفاداری کیوں کرتے ہیں ؟ پچھلے دنوں اس کا بڑا شور برپا رہا ہے اور لوگ ہمارے خلاف بڑے

Page 437

انوار العلوم جلد ۵ بڑے منصوبے باندھتے رہتے ہیں حتی کہ یہی حکام بھی جو ظاہر میں جا کر گورنمنٹ کے حامی ہونے کام بھرتے ہیں گھر میں آکر ہمیں گالیاں دیتے اور طرح طرح کی تکالیف پہنچاتے ہیں کہ ہم کیوں گورنمنٹ کے وفادار ہیں ؟ ہر محکمہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گورنمنٹ سے تنخوا میں پاتے ہیں اور گورنمنٹ کی وفاداری کے دعویدار ہیں.مگر ہماری جماعت سے اس لئے دشمنی کرتے ہیں کہ ہم کیوں گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہیں.ایسے لوگ محکمہ پولیس میں بھی ہیں مجسٹریٹ بھی ہیں پروفیسر بھی ہیں اور دیگر صیغوں میں بھی ہیں جو ہمارے متعلق شکائتیں کرتے رہتے ہیں کہ اصل میں یہی جماعت گورنمنٹ کی بدخواہ ہے وہ یہ حرکت اس لئے کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہمارے خلاف کوئی ناروا کا رروائی کرے اور ہم اس وجہ سے گورنمنٹ سے بددل ہو کر ان کے ساتھ مل جائیں.مگر انہیں یاد رکھنا چاہتے کہ م گورمنٹ کی وفاداری اس لئے نہیں کرتے کہ ہمیں کوئی خاص رعایتیں حاصل میں یا ہم کوئی خاص فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں.بلکہ ہم تو اس لئے کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہمیں یہی حکم ہے.پس تم گورنمنٹ کی وفاداری کسی فائدہ کی غرض سے نہیں کرتے اور نہ کسی رعایت کی وجہ سے کرتے ہیں اور نہ ہم اس کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں.ہم تو اس لئے اس کی وفاداری کرتے ہیں کہ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ ہم سے ناراض ہو گا.کیونکہ خدا نے حکام کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے ورنہ اگر یہ نہ ہوتا اور ہمیں خدا کی ناراضگی کا ڈر نہ ہوتا تو ہم بھی سیاست کے معاملات میں وہ راہ اختیار کر لیتے جسے خود گورنمنٹ بھی جائز قرار دیتی ہے.ذرا سوچو تو سہی کہ گورنمنٹ ہمیں کیا دے رہی ہے اور کیا دے سکتی ہے ؟ جب کبھی ہماری جماعت کو کسی جگہ تکلیف پہنچی ہے اور ہم نے گورنمنٹ کے آفیسروں کو توجہ دلائی ہے.انہوں نے یہی کہہ دیا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے.تو گورنمنٹ نہیں کیا دے رہی ہے ؟ کہ اس کی وجہ سے ہم اس کے وفادار ہیں.دراصل ہمارا گورنمنٹ پر احسان ہے اس کا ہم پر کوئی احسان نہیں جس میں اور لوگ حصہ دار نہیں ہیں.اگر ہم ریل ڈاک تار وغیرہ سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تو کیا مسٹر گاندھی ان سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے ؟ اگر ہم گورنمنٹ کے قائم کردہ سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں تو کیا اور لوگ نہیں پڑھتے ؟ تار ، ڈاک ، ریل وغیرہ چیزوں سے فائدہ تو خونی اور ہم BOMB مارنے والے بھی اُٹھا رہے ہیں پھر ہم پرگورنمنٹ کا کون سا خاص احسان ہے کہ ہم اس کی خوشامد کریں ؟ کوئی بھی ہیں پس دنیا کی کوئی حکومت نہیں جو ہمارا سرا اپنی طاقت اور قوت کے زور سے اپنے آگے جھکا سکے.مومن کا سر کسی دنیاوی طاقت کے آگے کبھی نہیں جھک سکتا.اگر

Page 438

انوار العلوم جلد ۵ ۴۱۸ اصلاح نفس سے جھکتا ہے تو خدا تعالیٰ کے حکم کے آگے ہی جھکتا ہے چونکہ میں خداتعالی کا حکم ہے کہ میں حکومت میں رہیں اس میں امن قائم رکھیں اور فتنہ نہ پھیلا نہیں اس لئے ہم گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہیں نہ کہ گورنمنٹ کوئی فائدہ اور نفع حاصل کرنے کی غرض سے.اگر نہیں گورنمنٹ دکھ بھی دے گی تو پھر بھی ہم وفاداری ہی کریں گے.اور جب تک اس کے علاقہ میں رہیں گے فتنہ و فساد کی طرف قدم نہ اٹھائیں گے خواہ وہ ہم پر ظلم ہی کیوں نہ کرے اور ہمیں دُکھ ہی کیوں نہ دے.اگر ایسی حالت ہو جائے کہ ہمارا اس کے علاقہ میں رہنا مشکل ہو جائے تو بھی ہم ملک میں فساد نہیں کریں گے بلکہ اس کے ملک کو چھوڑ کرکسی اور ملک میں چلے جائیں گے پس ہم خوشامدی نہیں.وہ لوگ جو ہم پر الزام لگاتے ہیں اور خود بہادر بننے کا دعوی کرتے ہیں ہم ان سے زیادہ جری ہیں اور ہم نے اپنے عمل سے دکھا دیا ہے کہ جہاں ہمیں دین کے معاملہ میں جانوں اور مالوں کا خطرہ پیش آیا ہے وہاں ہم نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی.وہ لوگ جو ہمیں ڈرپوک کہتے ہیں خود ذرا ذراسی بات پر ڈرتے ہیں.لیکن ہمارے آدمیوں کو کابل میں اپنی جانیں دینی پڑیں اور انہوں نے ذرا دریغ نہ کیا.اسی ہندوستان میں ہمارے لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے ان کی جائدادیں چھینی جاتی ہیں.مگر انہوں نے دین کے لئے کسی بات کی پروا نہیں کی.غرض ہم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ ہم ڈرنے والے نہیں ہم کسی سے خوف کھانے والے نہیں ہم پر کسی کی طاقت اور قوت کا کوئی رعب نہیں.پھر ہم پر خوشامدی ہونے کا الزام کس منہ سے لگایا جاتا ہے ؟ ہم گورنمنٹ کی مخالفت میں کیوں شریک نہیں ہوتے ؟ وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے ہم گورنمنٹ کے خلاف فتنہ و فساد سے الگ رہتے ہیں ؟ اور کیوں گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہیں ؟ وہ یہ ہے کہ ہمارے امام نے ہاں اس امام نے جس نے ہمیں مظلمت و تاریکی سے نکالا اس نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ یہ حکومت جس نے اس ملک میں انتظام کر رکھا ہے اس کی اطاعت کرو.اس میں انگریزوں کی شرط نہیں.بلکہ شرط یہ ہے کہ جس ملک میں رہو اس ملک کی گورنمنٹ کی اطاعت کرد پس اگر ہم کابل میں رہیں گے تو اسی کی اطاعت کریں گے.اور اگر جرمنی میں رہیں گے تو اسی کی اطاعت کریں گے اور اگر فرانس میں رہیں گے تو اسی کی اطاعت کریں گے جہاں جہاں ہماری جماعت ہوگی وہاں جو بھی سلطنت ہوگی اس کی اطاعت کرے گی اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر دنیا مان لے تو تمام دُنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور کوئی جنگ اور لڑائی نہیں اُٹھ سکتی.

Page 439

انوار العلوم جلد ۵ ۴۱۹ اصلاح نفس دیکھو جرمنی نے محض اس خیال سے جنگ شروع کی کہ اس نے سمجھا کہ انگریزوں کے ممالک میں بغاوت ہو جائے گی.ورنہ اگر اسے یہ یقین ہوتا کہ انگریزوں کی ساری رعایا لڑ کر مر جائے گی مگر اپنی حکومت سے بغاوت نہ کرے گی تو وہ کبھی جنگ نہ کرتا.پس جس ملک کے متعلق دشمن کو یہ یقین ہو کہ وہاں کا ہر فرد اپنی گورنمنٹ کا وفادار رہے گا لڑ کر مر جائے گا مگر ہتھیار نہ ڈالے گا وہاں کبھی حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے گا.ایک گورنمنٹ دوسری گورنمنٹ پر بھی چڑھائی کرتی ہے جب وہ جانتی ہے کہ اس کے افراد میں وفاداری نہیں رہے گی.یہ لالچ اس کو خراب کرنا اور حملہ کرنے کی جرات دلاتا ہے.یہ تعلیم جو مسیح موعود نے اپنی جماعت کو دی ہے کہ میں سلطنت میں کوئی ہو اس کی وفاداری کرکے ا اگر دنیا اس پر عمل پیرا ہو جائے تو آج امن قائم ہو جائے اور تمام فساد دُور ہو جائیں.پھر ہم گورنمنٹ کی اس لئے وفاداری کرتے ہیں کہ ہمیں ایک بہت عظیم الشان کام در پیش ہے اور اسے سر انجام دینے کے لئے امن کی ضرورت ہے.دوسروں کو تو یہ فکر ہے کہ فلاں ملک کسی طرح مل جائے.مگر ہمیں یہ خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت آجائے.اور جس شخص کے سامنے کوئی بہت بڑا مقصد ہوتا ہے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوا کرتا اور جس شخص نے ایک لیسے سفر پر جانا ہو وہ تھوڑے سے نقصان کی کوئی پرواہ نہیں کیا کرتا.مثلاً کسی کا ایک روپیہ گر پڑے اور اسے ریل پر جانا ہو جو آگئی ہو تو کیا وہ رو پیر کی تلاش میں بیٹھ جائے گا ؟ اور ریل پر نہیں جائے گا ؟ نہیں وہ ایسا نہیں کرے گا اور اگر بیٹھے گا تو بیوقوف کہلائے گا.بیس ہمارا کام چونکہ بہت بڑا ہے اس لئے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے.دوسروں کو تو یہ خیال ہے کہ ترکوں کی بادشاہت جا رہی ہے اس کو قائم کریں.مگر ہم کہتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت سے لوگ نکل رہے ہیں ہم اس کو قائم کرنا چاہتے ہیں.وہ تو کھلونے کے جانے پر غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں مگر ہم حقیقت کے جانے پر متفکر ہو رہے ہیں.اگر ان میں اسلام کی سچی تڑپ تھی اور اسلام سے فی الواقع انہیں محبت تھی تو جب اسلام مٹ رہا تھا اس وقت وہ کہاں تھے ؟ حضرت مسیح موعود نے اپنی کتابوں میں بار بار لکھا کہ مسلمانو ! کچھ ہوش کرو لاکھوں مسلمان عیسائی ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ ولم کو گالیاں دے رہے ہیں.کوئی فکر کرو.مگر انہیں اس وقت قطعاً غصہ نہ آیا اور ذرا بھی توجہ نہ کی.اب کہتے ہیں کہ اسلام کے مٹنے پر ہم ناراض ہو رہے ہیں.حالانکہ یہ اسلام کے مٹنے پر ناراض نہیں ہو رہے بلکہ ترکوں کے مٹنے پر ناراض ہو رہے ہیں.

Page 440

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۰ اصلاح نفس پھر دیکھو وہ کہتے ہیں.خلافت کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے اور گانے کا کھانا چھوٹا.اس لئے ہم گائے کا ذبح کرنا ترک کر دیتے ہیں تاکہ ہندو ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کی مدد سے خلافت مل جائے.ہم کہتے ہیں ہمارے نزدیک چونکہ خدا کی بادشاہت بڑی ہے اور دوسرے جھگڑنے چھوٹے اس لئے ہم انگریزوں سے صلح رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس میں ہم خدا کی بادشاہت کو قائم کرسکیں.پس انہوں نے نام نهاد خلافت کے لئے ہندوؤں سے صلح کرلی ہے اور ہم نے خدا کی بادشاہت کے لئے انگریزوں سے صلح کرلی.وہ عراق عرب لینے کے لئے ہندوؤں سے صلح کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر انگریزوں کو ان علاقوں سے نکال دیں گے.لیکن ہم کہتے ہیں ہندو اگر اتنے ہی بہادر تھے تو انہوں نے ہندوستان کیوں دوسروں کے حوالہ کر دیا تھا.بہر حال کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں سے اس لئے ہم صلح کرتے ہیں کہ عراق عرب اور شام خالی کرا لیا جائے.ہم کہتے ہیں چونکہ ہم نے ساری دنیا کو لینا ہے اس لئے ہم ساری دنیا سے صلح کرتے ہیں.کیونکہ ہم خدا کا نام بلند کرنے کے لئے مختلف ممالک میں تبھی جاسکتے ہیں جب کہ امن قائم ہو.اور جہاں امن نہ ہو وہاں ہم نہیں جا سکتے ہیں اس بڑے مدعا کو حاصل کرنے کے لئے ہم ہر قوم سے صلح کرنا چاہتے ہیں اور صلح کرتے رہیں گے.جبتک ہ ہمارا مدعا پورا نہ ہو جاے اور خدا کی حکومت قائم نہ ہو جائے اور جب خدا کی حکومت قائم ہو جائے گی تب پھر کسی جنگ کی ضرورت ہی نہ رہے گی.+ پھر ہم اس لئے صلح کرتے ہیں کہ امن کے قیام کے موجودہ فسادوں کی خبر قرآن میں تجھے نہیں ہلے سے خبر دی گئی ہے اور آج نہیں بلکہ آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم میں اس زمانہ کے فسادوں کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے اس موقعہ پر ہم وہی کام کرتے ہیں جو خدا نے بتایا ہے کہ ہمیں کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ، مَلِكِ النَّاسِ هُ إِلَهِ النَّاسِ هُ مِنْ شَرِ الْوَسْوَاسِ : الخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ لَا مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (الناس) اے مسلم تو کہ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ میں پناہ مانگتا ہوں اس سے جو آتا ہے تمام لوگوں کا.مَلِكِ النَّاسِ جو بادشاہ ہے تمام لوگوں کا - الهِ النَّاسِ جو معبود ہے تمام لوگوں کا.ان آیات میں خدا تعالٰی کی تین صفات کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ پناہ مانگو یعنی یہ کہو کہ اے خدا !جو رب ہے لوگوں کا ہم تیری پناہ مانگتے ہیں.اے خدا ! جو بادشاہ ہے سب کا ہم تیری پناہ مانگتے ہیں.اے خدا ! جو معبود ہے سب کا ہم تیری پناہ مانگتے ہیں.اور یہ ظاہر بات ہے کہ جس

Page 441

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۱ اصلاح نفس چیز کی طرف نسبت دے کر پناہ مانگی جاتی ہے دراصل اسی چیز سے پناہ پانا مقصود ہوتا ہے.مثلاً جب تم گتے ہیں.اے گئے والے ہمیں بچا تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں گفتے سے بچا یا اگر کسی ایسی جگہ جاتے ہیں جہاں کسی نے شیر پالا ہو اور کہیں کہ اسے شیر والے دوڑ یو تو معلوم ہوگا کہ شیر سے بچنے کے لئے کہ رہے ہیں.اب جب ہم رب - ملک اور اللہ سے پناہ مانگتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان صفات کا جن چیزوں سے تعلق ہے ان سے پناہ چاہتے ہیں پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ تو معلوم ہوا کہ صفت رب کے متعلق کوئی تکلیف ہے اس سے پناہ مانگتے ہیں.اسی طرح جب کہتے ہیں مَلِكِ النَّاسِ تو معلوم ہوا کہ صفت ملک کے متعلق کوئی تکلیف ہے جس سے بچنا چاہتے ہیں.اور جب کہتے ہیں اللہ النَّاسِ تو معلوم ہوا کہ صفت الوہیت کے متعلق کوئی تکلیف ہے جس سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں.اب دیکھو صفت رب ، مُلک اور اللہ کا کن چیزوں سے تعلق ہے ؟ اور اس کے کون سے فل ہیں ؟ رب کے معنی آقا کے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ آقا کے متعلق جھگڑے ہونے والے ہیں ان سے پناہ مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور یہ جھگڑے دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ آقا نوکر سے جھگڑے اور دوسرے یہ کہ نوکر آقا سے جھگڑے ، گویا خدا تعالیٰ سے جو سب کا آتا ہے پناہ مانگنے کا یہ مطلب ہے کہ یا تو دنیا کے آقا نوکروں کو دُکھ دیتے ہیں ، ظلم کرتے ہیں ، تکلیف پہنچاتے ہیں یا نوکر دنیاوی آقاؤں کو تنگ کرتے اور تکلیف پہنچاتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ کی صفت ملکیت سے پناہ مانگنے کا یہ مطلب ہے کہ یا تو دنیاوی بادشاہ رعایا پر ظلم کرتے ہیں اور دکھ دیتے ہیں یا رعایا با دشاہ کی بغاوت کرتی ہے.اسی طرح اللہ سے پناہ مانگنے کا یہ مطلب ہے کہ اس صفت کے اطلال مولویوں، پادریوں اور پنڈتوں سے جو کہ دین کے وارث کہلاتے ہیں لوگوں کو دکھ پہنچتا ہے اس سے پناہ مانگی گئی ہے.یا لوگوں سے ان کو جو دکھ پہنچتے ہیں ان سے حفاظت چاہی گئی ہے.م کے فسادوں کی خبر اسی طرح یہ چھ باتیں ان آیت سے نکلتی ہیں اور ان چھ اقسام کے فسادوں کی خبر ان میں دی گئی ہے (یعنی یہ کہ ایک زمانہ میں ایک تو یہ فساد ہوگا کہ نوکر آقا کے خلاف سٹرائیکیش کریں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم اس فتنہ سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو - (۲) یہ کہ آقا اتنے ظالم ہوں گے کہ نوکروں کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے اس لئے تم ایسے آقاؤں کے ظلموں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے STRIKES le

Page 442

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۲ اصلاح نفس رہو.(۳) یہ کہ رعایا بادشاہ کی مخالفت کرے گی اس وقت تم دعا کرو کہ اسے خدا ! اصل بادشاہ تو تو ہی ہے تو نہیں ان فتنوں سے بچا.(۴) یہ کہ بادشاہ رعایا پر ظلم کریں گے اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کرو کہ وہ ان کے ظلموں سے تمہیں بچائے.(۵) یہ کہ اس وقت دین کے محافظ اور اللہ تعالیٰ کے اطلال ہونے کے مدعی دین کے علماء فتنے پھیلائیں گے اس کے لئے یہ دعا کرو کہ اسے خدا ! ان مولویوں پنڈتوں ، پادریوں کے فتنے سے نہیں بچا.(۶) یہ کہ مولوی جو سچی بات بھی کہیں گے اسے لوگ نہیں مناتیں گے اس فتنہ سے بچنے کے لئے بھی دعا کرو.تو یہ چھ قسم کے فساد ہوں گے.لازم آتا کے مقابلہ پر کھڑے ہو جائیں گے.اور آقا ملازموں پر ظلم کریں گے.رعایا بادشاہ کا مقابلہ کرے گی بغاوت پھیلائے گی اور بادشاہ رعایا پر ظلم کریں گے مولوی جھوٹے فتوے دے کر لوگوں سے غلط باتیں منوائیں گے.اور لوگ پیتھی باتوں کا بھی انکار کرینگے اور دہریت کی طرف چلے جائیں گے.یہ باتیں بیان کر کے بتایا ہے کہ اس وقت سچے مسلمان فتنوں کے وقت مؤمن کا کام تھا کیا کام ہو گا ؟ یہ کہ خداتعالی سے پناہ مانگے کہ اے خدا ہیں نہ تو سٹرائیک کرنے والوں میں سے بنوں اور نہ ایسے آقاؤں میں سے جو ملازموں پر ظلم کرتے ہیں.پھر نہ تو ہمیں اس رعایا کی طرح ہو جاؤں جو بغاوت کرتی ہے اور نہ ایسے بادشاہ کی طرح جو رعایا کے حقوق نہیں ادا کرتا ہے.پھر نہ تو میں ان کی طرح ہو جاؤں جو تیری عبادت کی بجائے شیطان کی عبادت کراتے ہیں اور نہ ایسا کہ جو سچا واعظ طے اس کی بھی بات نہ مانوں اور انکار کردوں.اب دیکھ لو کہ ان فسادوں کے سوا کوئی اور فساد ہے جو اس زمانہ میں ہو رہا ہے ؟ ہرگز نہیں.اور پھر ان باتوں کے بیان کرنے میں ترتیب کیسی اعلیٰ درجہ کی رکھی گئی ہے.ادنی فسادوں کے بعد بڑے فسادوں کا ذکر کیا گیا ہے.پہلے آقا اور نوکر کے تعلق کے متعلق بتایا ہے.پھر رعایا اور بادشاہ کے ذکر تعلق کے متعلق جو اس سے اعلیٰ ہے پھر عبد اور معبود کے تعلق کا ذکر کیا ہے جو سب سے اعلیٰ ہے.ان باتوں کے متعلق موجودہ زمانہ کے فسادوں کی نوعیت کا ذکر قرآن میں ہے نماز ایسی فرض ہے ہمارا کہ ہم ان میں کوئی حصہ نہ لیں اور ان سے پناہ مانگیں مگر پیشگوئی یہاں تک ہی نہیں بلکہ آگے بھی بڑھتی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ وہ زمانہ ہو گا کہ ہر بات کے لئے آرگنائزیشن ہوگی.ایک انتظام کے ما نتجت یہ فساد ہوں گے.لوگ فرداً فرداً ان میں حصہ نہیں ملیں گے بلکہ دوسروں کو بھی اکسائیں گے

Page 443

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۳ اصلاح نفس اور اپنے ساتھ ملائیں گے.آقا کی ملازمت ایک نوکر خود ہی نہیں چھوڑے گا بلکہ دوسروں کو بھی کہے گا کہ تم بھی چھوڑ دو.اسی طرح آقا دوسرے آقاؤں کو کسے گا کہ اگر میں کسی ملازم کو اپنے کارخانہ سے نکالوں تو تم اس کو نہ رکھنا.آقا اپنی مجلسیں بنائیں گے اور نوکر اپنی الگ.دوسری پیش گوئی بادشاہ کے فساد کے متعلق تھی.اس کے متعلق بتایا کہ ساری دنیا کی رعایا دنیا کے بادشاہوں کے مقابلہ پر مل کر کھڑی ہو جائے گی.اب دیکھو ہندوستان میں ہلچل ہے تو ولایت سے یبر پارٹی کے نمبر یہاں کے لوگوں کی ہم نوائی کے لئے آرہے ہیں.اسی طرح بادشاہوں کو دیکھو.ان کی انجین بنائی گئی ہے جس میں یہ کیا جاتا ہے کہ ایک ملک سامنے رکھ کر کہا جاتا ہے اس کو آپس میں بانٹ لیں تاکہ آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو.تو ادھر رعایا بادشاہوں کے خلاف جو سمجھوتے کر رہی ہے وہ بھی ایک انتظام کے نیچے کر رہی ہے.ادھر بادشاہوں کا جتھا بن رہا ہے کہ اگر ایک کو مدد کی ضرورت ہو تو دوسرا اس کا ساتھ دے.پھر اللہ النَّاسِ کو لیتے ہیں.اس سے تعلق رکھنے والے فسادی ہوں گے لیکن یہ نہیں ہوگا کہ کوئی دہر یہ ہو تو وہ اپنے آپ کو ظاہر نہ کرے.بلکہ دہریوں کی بھی انجمن ہوگی اور وہ علی الاعلان کہیں گے کہ خدا کا غلط عقیدہ لوگوں کے دلوں سے مٹانا ہمارا کام ہے.اب دیکھ لو اسی ہندوستان میں دیو سما جیوں کی انجمن موجود ہے.پہلے زمانہ میں بھی دہریے تھے مگر وہ اپنے خیالات کو الگ الگ ظاہر کرتے تھے کوئی ان کی انجمن نہ تھی جو اخبار میں اور ٹریکٹ شائع کرتی.مگر اس زمانہ میں ہندوستان میں بھی ان کی انجمن موجود ہے اور یورپ کے تمام ممالک میں بھی ان کی انجمنیں پائی جاتی ہیں.پھر اسلام کے خلاف لڑنے والوں کی بھی انجمنیں موجود ہیں اور تو اور مولویوں کو دکھیو جو بھی اکٹھے ہوکر نہیں بیٹھتے تھے مگر اب ان کی بھی کانفرنسیں ہوتی ہیں.پھر پادریوں کی تھی انجمنیں ہیں.ایک منقولہ تھا.کہ پادری کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے مگر اب وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ مل کر کام کرنا چاہئے.یہ وہی چنگوئی پوری ہو ر ہی ہے.جو اس طرح بیان کی گئی ہے کہ.مِن شَرِّ الوَسُوَاسِ الْخَنَّاسِ ٥ الَّذِى يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ هِ مِنَ هُ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِه جس کے دل میں جو خیال پیدا ہوگا وہ اکیلا اس کے مطابق کام نہیں کرے گا بلکہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملائے گا.جس طرح رَبِّ النَّاسِ میں دو فسادوں کا ذکر تھا ایک آقا کا نوکروں کے متعلق اور دوسرا

Page 444

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۴ اصلاح نفس نوکروں کا آقا کے متعلق جس طرح مُلِكِ النَّاسِ میں دو فسادوں کا ذکر تھا ایک بادشاہ کا رعایا کے متعلق اور دوسرا رعایا کا بادشاہ کے خلاف اور جس طرح اللہ النَّاسِ میں دو فسادوں کا ذکر تھا ایک پادریوں ، پنڈتوں اور مولویوں کے متعلق اور دوسرا عوام کے متعلق.اسی طرح اس آیت میں کہ شر الوسواس الْخَنَّاسِ، الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ هِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ، یہ بتایا ہے.کہ دونوں فریقوں کی انجمنیں اور کمیٹیاں ہوں گی.صرف ایک فریق کی نہیں.اگر صرف شر الوسواس الْخَنَّاسِ ٥ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ٥ ہوتا اور ساتھ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ : ہوتا.تو پہلے حصہ کے متعلق ایک فریق کہنا کہ اس میں دوسرے کا ذکر ہے اور دوسرا فریق کہتا کہ اس میں پہلے کا ذکر ہے.مگر اس میں بتا دیا گیا کہ دونوں فریق کا یہی حال ہوگا.کچھ بڑے لوگ ہوں گے اور کچھ چھوٹے.وہ فساد جو آقا نوکروں کے خلاف کریں گے وہ بھی انتظام کے ماتحت ہوگا اور وہ فساد جو نوکر آقا کے خلاف کریں گے وہ بھی انتظام کے ماتحت ہوگا پھر وہ فساد جو رعایا بادشاہ کے خلاف کرے گی یا بادشاہ رعایا کے خلاف کرے گا اس میں بھی انتظام ہو گا.اسی طرح وہ فساد جو اللہ کے خلاف ہوگا یا وہ جو اللہ کے جھوٹے ظل لوگوں کے خلاف کریں گے وہ بھی انتظام کے ماتحت ہو گا.موجودہ زمانہ کے فسادات کے متعلق یہ ایسی صاف اور واضح جنگوئی زمانہ موجودہ کے فساد ہے کہ اگر دشمن کے سامنے بھی پیش کی جائے گی تو وہ بہکا بکا رہ جائے گا.اب دیکھو یہی فساد دنیا میں ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ کارخانوں کے ملازم ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ سٹرائیکس کرو اور اپنی انجمنیں بناؤ.اسی طرح مالک اپنی انجمنیں بنا رہے ہیں.تاجر آقا اپنی انجمنیں بنا رہے ہیں.زمیندار آقا اپنی اور اسی طرح دوسرے آقاؤں کی انجمنیں بن رہی ہیں.پھر ہر قسم کے ملازم اور نوکر اپنی انجمنیں بنا رہے ہیں.اس موقع کے لئے ایک مومن کو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے تو یہ کہ کہ اَعُوذُ بِرَتِ النَّاسِ میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ان میں سے کسی میں بھی شامل ہوؤں.پھر اس وقت بادشاہ رعایا کو تباہ کرنے میں لگے ہوں گے.اور رعایا بادشاہوں کے خلاف جوڑ توڑ کر رہی ہوگی.اس وقت ایک مومن یہی کہے گا.کہ مَلِكِ النَّاسِ میں نہ تو ایسی باغی رعایا میں سے بنوں اور نہ ایسے ظالم بادشاہ کی طرح پھر وہ یہ کہے گا کہ نہ تو میں الیسا بنوں کہ جھوٹے طور پر علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا غلام بناؤں اور نہ ایسا کہ سچی باتوں کو بھی نہ مانوں.اے خدا ! ان سب باتوں سے

Page 445

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۵ اصلاح نفس مجھے بیچا.یہ پیش گوئی ہے جس کے ماتحت ہم کام کر رہے ہیں نہ کہ یونسی کام کرتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سو سال قبل ہمارے لئے یہ کام بتا دیا تھا جو اب ہم کر رہے ہیں.جو کچھ کہا جائے اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھو اب میں اصل موضوع کو لیتا ہوں جس پر آج مجھے تقریر کرنی ہے مگر اس سے پہلے میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ بعض لوگ کسی ہدایت سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے مخاطب ہم نہیں بلکہ دوسرے ہیں.اگر ایک مجلس میں کہا جائے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے یہ بہت بُری بات ہے تو بعض لوگ ایسے ہوں گے جن کی اس بات کو سن کر چیخین نکل جائیں گی.مگر اس لئے نہیں کہ وہ سمجھیں گے کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ کہیں گے دوسرے لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں.وہ اس وقت غصہ سے اپنے دائیں بائیں دیکھیں گے اور اپنی حرکات سے غم و غصہ کا اظہار کریں گے کہ لوگ کیوں جھوٹ بولتے ہیں لیکن یہ خیال کسی کو نہ آئے گا کہ شائد میں ہی اس نصیحت کا مخاطب ہوں مومن کا یہ کام نہیں ہوتا.پس یاد رکھو کہ جب وعظ ہو رہا ہو تو اس کا مخاطب اپنے ہی نفس کو سمجھنا چاہئے.اس موقعہ پر شیطان اس طرح دھوکا دیا کرتا ہے کہ اس کے مخاطب تم نہیں ہو بلکہ دوسرے ہیں اور اس طرح اس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رکھتا ہے.کیونکہ اگر شیطان یہ کسے کہ جھوٹ اچھی بات ہے اگر تم میں پایا جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں تو اس کی بات کوئی نہیں مانے گا.لیکن جب یہ کہتا ہے کہ جھوٹ فی الواقع بہت بُری چیز ہے اور اس سے بچنے کی جو نصیحت کی جارہی ہے وہ بہت ضروری ہے مگر اس نصیحت کے مخاطب دوسرے لوگ ہیں تم نہیں ہو.تو بہت سے لوگ اس نصیحت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو کچھ کہا جائے اسے خوب غور سے سنیں.اور ہر وہ شخص جس نے کان تک بات پہنچے وہ سمجھے کہ میں اس کا مخاطب ہوں.کیونکہ اگر وہ یہ مجھے گا کہ یں نہیں بلکہ اس کے مخاطب دوسرے ہیں تو اسے کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور وہ گورے کا گورا ہی رہے گا.اپنے اپنے نفس میں غور کرو اب میں اصل بات کی طرف توجہ کرتا ہوں.ہم لوگ جو احمدی کہلاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کا شکریہ ادا کرتے ہیں.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں ایک بات ہے جو غیروں میں نہیں ہے اس وجہ سے ہم خوش بھی ہوتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ جب حضرت مسیح موعود نے ہم میں نیکی اور تقویٰ کا بیج بویا تھا اس

Page 446

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۶ اصلاح نفس وقت سے اب تک ہم نے کتنی ترقی کی ہے.حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ نبی صرف بیج بویا کرتا ہے اور آپ نے ایسا ہی کیا.اس زمانہ میں لوگ شور مچا رہے تھے کہ تقوی اختیار کرو.تقوی اختیار کرو مگر نہ کوئی ان کی بات سنتا اور نہ کوئی تقوی اختیار کرتا لیکن جب حضرت مرزا صاحب نے اگر کہا کہ تقویٰ اختیار کرو تو جو سعید لوگ تھے وہ کھڑے ہو گئے.اور انہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا.گو اکثر لوگوں نے توجہ نہ کی.پھر آپ نے پہلے سے زیادہ بلند آواز کے ساتھ لایا اس پر کچھ اور لوگ نکل آئے.پھر آپ نے اس سے بلند آواز کے ساتھ پکارا اور اس پر دائیں بائیں آگے پیچھے غرض چاروں طرف سے لوگ نکل آئے اور انہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا : تب خدا تعالیٰ نے تقویٰ کا پنج لیا اور ان زمینوں میں ڈالا جو اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو چکی تھیں اور پھر ان کی آبپاشی کی.جب وہ بیج اگ آیا تو سنت اللہ کے ماتحت مسیح موعود فوت ہو گئے.اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ پیج ترقی کر کے کس حد کو پہنچ گیا ہے ؟ اگر وہ بلند نہیں ہوا اور بڑھا نہیں تو کیا یہ فکر اور اندیشہ کی بات نہیں ہے ؟ کیونکہ جو بیج نہیں بڑھتا وہ خشک ہو جاتا ہے پس وہ بیج جو حضرت مسیح موعود نے تمہارے قلب میں بو یا دیکھو کہ اس نے کچھ ترقی کی یا نہیں ؟ اگر کوئی ترقی نہیں کی تو بتاؤ تم نے اس کے لئے کیا فکر کیا ہے ؟ بیشک تم لوگوں میں اخلاص اور محبت ہے اور دین کے لئے قربانی کرنے کی روح بھی ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ ایک جماعت ہوگی جو حضرت مسیح موعود کے بوئے ہوئے درخت کو بڑھائے گی اور دنیا اس کے نیچے لیے گی.مگر ہر شخص اپنے نفس کے متعلق غور کر کے دیکھے کہ وہ بھی ان میں ہوگا یا نہیں ؟ اگر وہ نہیں ہو گا تو اسے کیا فائدہ؟ کیا ایک بھو کا اس طرح سیر ہو سکتا ہے ؟ کہ اس کے ہمسایہ نے کھانا کھا لیا ؟ یا ایک ننگا اس طرح اپنی ستر پوشی کر سکتا ہے کہ اس کے ہمسایہ نے کپڑے پہن لیئے ؟ یا ایک پیاسا اس طرح اپنی پیاس بجھا سکتا ہے کہ اس کے ہمرا ہی نے پانی پی لیا ؟ اگر نہیں تو تم اس بات پر خوش نہ ہو کہ بعض تم میں سے نیک اور متقی ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے.بلکہ اپنے متعلق دیکھو تمہارا کیا حال ہے ؟ تمہارے دل میں جو بیج ڈالا گیا ہے وہ کس حالت میں ہے ؟ حضرت ابراہیم کی سنت کو یاد رکھو.جب خدا تعالیٰ نے انہیں بتایا ابراہیمی سنت پر چلو کہ میں مردوں کو زندہ کرتا ہوں.ادھر بادشاہ سے اس مضمون پر مقابلہ بھی کر دیا، اور زندہ کرنے کی مثال بھی دے دی جب انہیں خدا سے مکالمہ نصیب ہوا تو چونکہ دور اندیش اور عقلمند انسان تھے سب کچھ سن کر کہا.یہ تو تب ٹھیک ہے لیکن مجھے کس طرح اطمینان ہو ؟ گویا مطلب یہ کہ مجھے زندہ کیجئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تمہیں زندہ کریں گے اور مثال کے

Page 447

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۷ ذریعہ سمجھایا کہ تمہاری قوم چار دفعہ اُٹھے گی.ایک دفعہ حضرت موسی کے ذریعے دوسری دفعہ حضرت مسیح کے ذریعے تیسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اور چوتھی دفعہ حضرت مسیح موعود کے ذریعے.یہ ان کا کمال تھا کہ موقع تاڑ کر خدا تعالیٰ سے اپنی قوم کے لئے یہ وعدہ لے لیا.جونہی انہوں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس طرح قوموں کو زندہ کرتے ہیں اور جاؤ جا کر بادشاہ سے اس کے متعلق بحث کرو.تو وہ بحث کرنے چلے گئے اور آکر کہا بحث تو میں کر آیا ہوں مگر مجھے اس سے کیا فائدہ ؟ مجھے تو میری قوم کے زندہ کرنے کا وعدہ دیں تب بات ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا.اچھا تمہاری قوم کو بھی زندہ کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت ابراہیم کی نسل سے حضرت مولتی ہوئے جن کے ذریعہ ان کی قوم زندہ ہوئی.پھر حضرت عیسی ہوئے ان کے ذریعہ قوم زندہ ہوئی.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے انہوں نے قوم زندہ کی اور پھر حضرت مسیح موعود ہوئے ان کے ذریعہ قوم زندہ کی گئی.یہ چار دفعہ ان کی قوم سے زندہ پرندے اُڑے اور اُڑ کر خدا تعالیٰ کی طرف گئے.تو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ زندہ پرندے پیدا ہوئے.جو تقوی اور طہارت کے پروں سے اڑ کر خدا تعالیٰ تک پہنچنے والے ہیں.مگر دوسروں کے فائدہ سے تمہیں کیا.بے شک مومن کا دل چاہتا ہے کہ دوسرے بھی فائدہ اُٹھائیں.مگر اس کا دل یہ بھی تو چاہتا ہے کہ وہ خود بھی فائدہ اُٹھا ہے.بیشک ہماری جماعت میں بعض لوگ متقی اور پرہیز گار ہیں مگر ان کی وجہ سے تمہیں کسی طرح تسلی ہو سکتی ہے ؟ اگر تم متقی اور پرہیز گار نہیں ہو ؟ دیکھو حضرت ابراہیم کو باوجود نبوت کے تسلی نہ تھی اور وہ چاہتے تھے کہ جو کچھ ملے لے لیں.اور موقع پاکر انہوں نے جو کچھ مل سکتا تھا لے بھی لیا.مگر تم اگر متقی بھی نہیں ہو تو تمہیں کیونکر تسلی ہو جاتی ہے ؟ اور تم کیوں آئندہ کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے ؟ پس تم ابراہیمی سنت پر چلو اور بھی تسلی نہ پاؤ بلکہ خدا تعالیٰ سے مانگتے ہی رہو اور اس وقت تک لیتے ہی رہ ہو جب تک کہ تمہیں ملتا ر ہے پس تم وہ رستے تلاش کرو کہ اوپر ہی اوپر اڑتے رہ ہو.خدا تعالیٰ نے تمہارا نام پرندہ رکھا ہے پھر تم پرندے ہو کر غاروں میں کیوں گھسو ؟ حضرت ابراہیم کو خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا تھا کہ اُلو پالو.بلکہ یہ کہا تھا کہ پاک اور روشنی کو پسند کرنے والے پرندے پالو.اور انہوں نے ایسے ہی پرندوں کو پالا تھا پھر تم کیوں اندھیرے کو پسند کرو ؟ پس تم اپنی حالتوں پر مطمئن نہ ہو جاؤ بلکہ کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ ہر روز تمہاری حالت کو اور بلند کرے.قرآن کریم نے اس ترقی کے لئے دو رستے بتائے ہیں.

Page 448

انوار العلوم جلد ۵ ۴۲۸ اصلاح نفس مومن کے دو کام قرآن نے موم کا یہی کام مقر نیں فرمایا کہ وہ آپ اُڑے بلکہ یہ کام مقرر کیا ہے کہ وہ آپ بھی اُڑے اور دوسروں کو بھی اُڑائے.قرآن نے تمہیں چڑیا اور طوطے کی طرح نہیں بنایا بلکہ ایروپلین بنایا ہے تاکہ آپ بھی اڑو اور دوسروں کو بھی اڑا.تمام قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے.غرض قرآن نے مومن کے دو کام بتاتے ہیں کہ وہ خود بھی پرندہ بن جائے یعنی خود متقی اور پر ہیز گار بن جائے اور دوسروں کو بھی بنائے.لوگوں کو کھینچ کر او پر لے آئے اور خدا سے ملائے.اور یہ لازمی نتیجہ ہے پہلی بات کا.کیونکہ خدا تعالیٰ پر وہی عاشق ہوگا جسے یقین ہوگا کہ خدا تعالیٰ میں تمام خوبیاں ہیں اور ہم دیکھتے ہیں یہ قدرتی بات ہے کہ جن کو کسی چیز میں خوبیاں معلوم ہوتی ہیں وہ دوسروں کو وہ خوبیاں دکھاتے ہیں.کوئی تو بدنیتی سے کہ ان کو دوسروں پر فخر حاصل ہو.اور کوئی نیک نیتی سے کہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے.دیکھو قرآن کریم ادھر تو یہ کہتا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِدُوا صَدَقَتِكُمُ بِالْمَنِ وَالأذى كالَّذِى يُنْفِقُ مَالَهُ دِمَاءَ النَّاسِ (البقرة : ٢٥) ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو ریاء کے طور پر مال خرچ کرتے ہیں.مگر ادھر کہتا ہے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدَثُ (الضحى :١٣) کہ لوگوں کو بتا بتا کر خدا کی نعمتوں سے آگاہ کرو.یہ ریاء نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ لوگ بھی ان کو دیکھ کر ان کے حاصل کرنے کی کوشش کریں.غرض ہر قسم کا اظہار ریاء نہیں ہوتا بعض حالات میں ایک بات کا اظہار ریاء ہو جاتا ہے مگر دوسرے حالات میں اسی امر کا اظہار ریا نہیں ہوتا مثلاً اگر ایک شخص اچھے اچھے کپڑے اس لئے پہن کر لوگوں میں جاتا ہے کہ وہ اسے بڑا مالدار مجھیں تو یہ ریاء ہے لیکن اگر وہی شخص عید کے دن یا جمعہ کے دن عمدہ لباس پہن کر نکلے تارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل ہو.یا مثلاً اگر کہیں بخار پھیلا ہو اور کسی کے پاس کونین ہو اور وہ لوگوں کو بتائے کہ میرے پاس کونین ہے تو یہ ریاء نہیں ہو گا.اور کوئی نہیں کہے گا کہ یہ اپنی عقلمندی جتا رہا ہے کہ میں نے پہلے سے ہی کو مین رکھی ہوئی تھی.کیونکہ اس کا اس امر کو ظاہر کرنا ضروری ہو گا تاکہ لوگوں کو فائدہ پہنچے.تو مؤمن کا فرض اپنا ہی کام کرنا نہیں بلکہ دوسروں کا بھی کرنا ہے.اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے ان دونوں اقسام کی نیکیوں میں سے کتنا حصہ لیا ہے پہلی باتیں کیوں دوہرائی جاتی ہیں ؟ ان باتوں میں سے جو اصلاح نفس کے متعلق میں اور جو دوسروں کی اصلاح کے لئے ہیں بعض ایسی ہیں کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اور بعض نئی ہیں.ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ پرانی باتیں پھر ان کو

Page 449

انوار العلوم جلد ۴۲۹ اصلاح نفس سنائی جارہی ہیں.مگر یاد رکھو پرانی چیز وہ ہوتی ہے جس کو استعمال میں لے آئیں.اور جب تک اسے استعمال نہ کیا جائے وہ پرانی نہیں ہوتی.جو کچھ میں آپ لوگوں کو سنا چکا ہوں جب تک اس پر تمہارا عمل نہ دکھیوں اور جو کپڑے میں پہنانا چاہتا ہوں ان کو تمہارے جسم پر نہ دیکھیوں میں ان باتوں کو نیں چھوڑونگا اور بار بار کہتا رہوں گا.اگر تم اپنی ضد پر قائم ہو کہ سن لیا اور عمل نہ کیا تو میں بھی اپنی ضد پر قائم ہوں کہ تمہیں سناتا ر ہوں.وہ لوگ جو ان باتوں کو مانتے نہیں ان کی اور میری لڑائی ہے اور میں دیکھوں گا کہ کس کا استقلال قائم رہتا ہے ؟ مگر میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ فائدہ اسی میں ہے کہ ان کا استقلال قائم نہ رہے اور میرا قائم رہے کیونکہ ان کا استقلال قابل فخر استقلال نہیں ہے بلکہ استقلال تو اسے کہا ہی نہیں جا سکتا.کسی شاعر نے کہا ہے.معلوم نہیں اس نے تو کس نیت سے کہا ہے مگر مجھے بہت پسند ہے.کہتا ہے.ت وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں ٹبک مریبن کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو ؟ یعنی وہ اپنا طریق نہیں چھوڑتا تو ہم کیوں چھوڑیں ؟ اور کیوں اپنی حالت بدلیں ؟ ہم نے جو حالت بنائی ہوئی ہے اس میں اگر ہم اس سے پوچھیں کہ ہم پر کیوں ظلم کرتے ہو ؟ تو وہ سمجھے گا کہ ہمارے ہوش و حواس درست ہیں.یسی تمہارا اور میرا معاملہ ہے.جب تک تم اپنی حالت کو نہ بد لو گے میں بھی اپنے رنگ نہیں بدلوں گا.میں اس وقت تک ان باتوں کو کہتار ہوں گا جب تک تم ان پر عمل پیرا نہ ہو جاؤ اور اس لباس کو مین نہ لو.جب تم ایسا کر لو گے تو پھر مجھے نئی باتیں کہنے کا موقع ملے گا.اصلاح نفس کی اقسام میں بتا رہا تھا کہ اسلام نفس دو قسم کی ہوتی ہے اور اسلام نے دونوں قسم کی اصلاحوں کو ضروری قرار دیا ہے.ایک اپنی اصلاح اور دوم دوسروں کی اصلاح.پھر آگے اصلاح کی دو قسمیں ہیں.بدی کو دور کرنا.اس کو عبادت ترکیہ کہتے ہیں.(۲) عبادت فعلیہ جس کا اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے.تو دو قسم کے کام انسان کے ذمہ ہیں.ایک ایسے جو اختیار کرنے والے ہیں اور دوسرے ایسے جن کا چھوڑ نا ضروری ہے.

Page 450

۴۳۰ اصلاح نفس بطنی سے بچو پہلے میں ان دوسری قسم کے کاموں میں سے بعض کو لیتا ہوں یعنی پہلے میں ترک شر کو لیتا ہوں.اس میں سے پہلی بات بدظنی ہے.باطنی سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے اور اس سے اتنے فساد پیدا ہوتے ہیں جن کی کوئی حد نہیں.مگر اس زمانہ میں بطنی کمال کو پہنچی ہوئی ہے.ہر شخص دل میں خواہ مخواہ ہی خیال کر لیتا ہے کہ یوں ہو گا.اخبار میں کوئی خبر پڑھتے ہیں تو خیال کرلیتے ہیں کہ گورنمنٹ کا اس سے یہ مطلب ہوگا یا فلاں شخص کی اس سے یہ غرض ہو گی.اگر کسی کا کوئی دوست ہو اور اسے کہے کہ ہمارے گھر چلو تو کہیں گے اس میں اس کا کوئی فائدہ ہوگا.اور اگر وہ نہ کہے تو کہیں گے آج کل کون کسی کو پوچھتا ہے ؟.غرضیکہ ہربات میں مظنی کرتے ہیں.مثلاً اگر کوئی زیادہ چندہ دے تو کہیں گے ریاء کے لئے دیتا ہے اور اگر تھوڑا دے تو کہیں گے بخیل ہے خدا کے لئے دینا جانتا ہی نہیں.اگر کوئی نماز پڑھے تو کہیں گے صوفی بنتا ہے اور اگر نہ پڑھے تو کہیں گے کافر ہے.اگر کوئی کسی سے ہمدردی کرتا ہے تو کہیں گے اس کی کوئی غرض ہوگی اور اگر نہ کرے تو کہیں گے لوگوں کا خون سفید ہو گیا.ہے.غرض کہ جو بھی کوئی کام کرے اس کا بد پہلو ہی نکالیں گے اور بدلنی ہی کریں گے.حالانکہ یہ بات بہت گندی ہے.کیونکہ اگر سب لوگ بدظنی پر اتر آئیں تو نیکی قائم ہی نہیں رہ سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ اكْذَبُ الْحَدِيثِ (بخاری کتاب الوصايا باب قول الله تعالى من بعد وصية يوصى بها او دين ) بطنی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور جھوٹ تو لوگ دوسروں سے بولتے ہیں مگر یہ ایسا جھوٹ ہے جو اپنے نفس سے بولتے ہیں اور بہت کم لوگ ہیں جو اس سے بچتے ہیں.پھر انسوس تو یہ ہے کہ ہماری جماعت میں بھی بہت ہیں جو اس سے نہیں بچتے.کوئی سیکرٹری پر بدظنی کرتا ہے کہ مال کھا جاتا ہے.کوئی پریذیڈنٹ کے متعلق کہنا ہے کہ عین کرتا ہے.میں کہتا ہوں اگر اس طرح بدظنی کی گئی تو کس کو کیا ضرورت ہوگی کہ کام کرے ؟ اس طرح بددل ہو کر وہ کام کرنا چھوڑ دے گا اور اس سے سلسلہ کا کام خراب ہوگا بدلنی کرنے والوں کا کیا جائے گا یہاں بھی ایک شاعر کا مصرعہ مجھے یاد آ گیا.جو کہتا ہے.یاد.گی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھری ایک شخص جو کام کرے اگر اس کے کان میں اس قسم کی آواز میں آتی رہیں کہ بہت کھاتا ہے اس نے مکان بنوالیا ہے شادی کرلی ہے وغیرہ وغیرہ.تو اگلے سال وہ کیا کام کرے گا؟ پھر جس طرح ایک کے متعلق کہا جائے گا اسی طرح دوسرے کے متعلق بھی کہا جائے گا اور وہ بھی کام

Page 451

: اصلاح نفس ۴۳۱ کرنا چھوڑ بیٹھے گا.اس سے ایک طرف تو بدلنی کرنے والا ہلاک ہوگا دوسری طرف جس کی نسبت بدلنی کی جائے گی وہ کام چھوڑ بیٹھے گا اور اس طرح سلسلہ کا کام خراب ہو گا.سو اسے عزیزو! اس کو بالکل چھوڑ دو.کئی لوگ جو ملنے آتے ہیں ایک دوسرے کے متعلق باتیں سناتے ہیں جن کی بنیاد محض بدنی پر ہوتی ہے اور جن میں محض قیاس اور خیال سے کام لیا جاتا ہے.یہ لوگ ظاہرہ باتوں کی طرف تو توجہ نہیں کرتے.دیکھتے ہیں فلاں شخص علی الاعلان نمازوں میں نہیں آتا اس کو کچھ نہیں کہتے لکھتے ہیں فلاں علی الاعلان عورتوں پر ظلم کرتا ہے اس کو نہیں سمجھاتے.اور کئی قسم کے عیب ہیں جو لوگ علی الاعلان کرتے ہیں اور ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.مگر بدظنی کرتے ہوئے پوشیدہ سے پوشیدہ عیبوں کو بیان کریں گئے.یہ ایک سخت کمزوری اور بُرا فعل ہے.اس سے بچنا چاہئے - خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِ ۖ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِ إِثْمُ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا نفَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَابٌ رَّحِيمُ (الحجرات : ١٣) اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو بہت سے گمان جو دل میں آتے ہیں ان سے بچو اور زیادہ تنجس نہ کیا کرو.واقعات کو دیکھا کرو.اور باطنی کو چھوڑ دو.کیا تم پسند کرتے ہو کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ ؟ پس اس سے الگ رہو.اور اللہ کا تقوی اختیار کرو.بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے.بدلنی کے خطرناک نتایج یعنی ایسی خطرناک چیز ہے کہ جو شخص اس کو اختیار کرتا ہے وہ اسی حد تک نہیں رہتا کہ اپنے بھائی پر بدظنی کر کے ٹھر جائے بلکہ وہ ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ آخر خدا تعالیٰ پر بھی بدظنی کرتا ہے جو شخص اپنے بھائی پر بدلنی کرتا ہے اس کا دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ باپ پر بھی بدلنی کرتا ہے.اور جو باپ پر کرتا ہے وہ رسول پر کرتا ہے اور جو رسول پر کرتا ہے وہ خدا پر کرتا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب انہیں کیا جائے کہ اپنے بھائی پر بدلتی نہ کرو تو کہتے ہیں کہ وہ ہمارا پیر ہے ؟ مگر یاد رکھو جو بھائی پر بدظنی کرتا ہے جب اس کو اس کی عادت ہو جاتی ہے تو اس کا دل اسی پر تسلی نہیں پاتا بلکہ وہ اور آگے بڑھتا ہے اور ہوتے ہوتے امام وقت یا رسول کو اپنا نشانہ بنا لیتا ہے اور پھر اس پر بھی صبر نہیں کرتا.خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے ، قرآن کریم میں

Page 452

انوار العلوم جلد ۵ ۴۳۲ اصلاح نفس الہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگ مسلمانوں میں موجود تھے جنہوں نے پہلے اپنے بھائیوں پر بدلنی کی اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کرنے لگ گئے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنْهُمُ مَنْ يَلْمِرُكَ فِي الصَّدَقَتِ ؟ فَإِنْ أَعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَ إِنْ لَمْ يُعْطَوا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ه (التوبة : ٥٨) اسے رسول ! جو مال آتا ہے اس کے متعلق کچھ لوگ بدظنیاں کرتے ہیں کہ اتنا مال جو آتا ہے اس میں سے یہ بھی کچھ لیتا ہی ہے.اصل بات یہ ہے کہ بدظنی کرنے والوں کا اپنا نفس چونکہ گندہ ہوتا ہے اس لئے وہ دوسرے کے متعلق بھی خیال کر لیتے ہیں کہ اس کا بھی ایسا ہی ہوگا.میری فطرت میں بدظنی کا مادہ ہی نہیں میں محض خدا تعالیٰ کے فضل کے اظہار کے لئے نہ کسی اور وجہ سے کہتا ہوں کہ میری فطرت میں بطنی کا مادہ رکھا ہی نہیں گیا اور بیچین سے میری طبیعت ایسی بنائی گئی ہے کہ بعض باتوں کو میں نے خود دیکھا لیکن مجھے بتایا گیا کہ تمہیں غلطی لگی ہے تو میں نے کہا ایسا ہی ہو گا.اور اس وقت تک میں میں سمجھتا ہوں کہ مجھے دیکھنے میں غلطی لگی ہو گی اور اصل میں وہ بات اس طرح نہ ہوگی.اس طریق نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا ہے.اور وہ یہ کہ اور لوگوں کے دلوں میں تو قرآن پر اعتراض پیدا ہوتے ہیں مگر مجھے جواب ہی جواب سمجھائے جاتے ہیں اور میری تو یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر کسی آیت کی تشریح کرنے کے لئے اس پر تنقید کرنا ہوتی ہے تو دوسروں سے پوچھتا ہوں کہ اس پر کون کون سے اعتراض پڑتے ہیں ؟ یا بڑی کوشش اور محنت سے اعتراض نکالنے پڑتے ہیں.تو فرمایا کہ ایسے لوگ ہیں جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پربھی بدلنی کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ان کی ذاتی اور نفسانی غرض ہوتی ہے.اگر تو ان کو مال میں سے دے دے تو کتے ہیں بڑا دیانتدار ہے اور اگر نہ دے تو بدلنی کرتے ہیں کہ خود کھا جاتا ہے.بطنی کتنا برا عیب ہے ؟ بنی.یہ بہت بڑا عیب ہے اور خطرناک عیب ہے اور ایسا خطرناک عیب ہے کہ اس کے مرتکب کا حملہ آخر خدا تعالیٰ تک جا پہنچتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ تم جب اپنے کسی بھائی پر بدلنی کرتے ہو تو خلیفہ جسے خدا کا بنایا ہوا سمجھتے ہو اس پر نہیں کرو گے.جب ایک قدم اُٹھاتے ہو تو دوسرا قدم اُٹھا نا تمہارے لئے آسان ہو جاتا ہے اور جب خلیفہ پر بدظنی کرو گے تو اس سے اگلا قدم رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم پر مب منی کرنا ہوگا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرو گے تو اس سے آگے خدا تعالیٰ تک پہنچو گے.دیکھو و وہ

Page 453

انوار العلوم جلد ۵ م اصلاح نفس لوگ جو ہم سے علیحدہ ہو گئے ان میں اپنے بھائیوں پر بدلنی کرنے کی عادت تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حضرت صاحب کی نسبت کہہ گزرے کہ آپ جماعت کا روپیہ اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرلیتے ہیں.حضرت صاحب کو آخری وقت میں یہ بات معلوم بھی ہو گئی اور آپ نے مجھے فرمایا کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ نگر کے لئے جو روپیہ آتا ہے اسے میں اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کر لیتا ہوں مگر ان کو معلوم نہیں کہ لوگ جو میرے لئے نذروں کا روپیہ لاتے ہیں میں تو اس میں سے بھی لنگر کے لئے خرچ کرتا ہوں.چنانچہ میں آپ کے منی آرڈر لایا کرتا تھا اور مجھے خوب معلوم ہے کہ لنگر کا روپیہ بہت تھوڑا آیا کرتا تھا اور اتنا تھوڑا آیا کرتا تھا کہ اس سے خرچ نہ چل سکتا تھا.پھر ان لوگوں نے اس بدظنی کا خود اعتراف کیا.ایک دفعہ ایک مجلس میں خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنی طرف تو اس بات کو منسوب نہ کیا مگر اس طرح ذکر کیا کہ کہا جاتا تھا کہ مرزا صاحب لنگر کا روپیہ خود خرچ کر لیا کرتے تھے لیکن لنگر کا انتظام جب سے ہمارے پاس آیا ہے مقروض ہی چلا جا رہا ہے.اور حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر میں لنگر کا انتظام ان لوگوں کے سپرد کر دوں تو یہ کبھی اسکے اخراجات کو پورا نہ کرسکیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس بدظنی کا خمیازہ بھگتا جا رہا ہے کہ لنگر کا فنڈ ہمیشہ مقروض رہتا ہے.پس بدظنی بہت بڑا گناہ ہے اور خطرناک گناہ ہے اس سے بچو.جھوٹ ترک کر دو دوسری بات جو قابل ترک ہے.اور اس کی بھی کثرت سے مثالیں متی ہیں وہ جھوٹ اور جھوٹی شہادت ہے.یہ ایک خطرناک گناہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہتے کہ یہ گنا ہوں کی کلید ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا مجھ میں چار ایسے گناہ ہیں جن کو میں چھوڑ نہیں سکتا ان کے چھوڑنے کا مجھے طریق بتائیے.آپ نے فرمایا ایک تو چھوڑ دے تین میں چھڑا دوں گا.اس نے کہا.بہت اچھا.آپ نے فرمایا جھوٹ چھوڑ دے.اس نے کہا اچھا میں جھوٹ چھوڑتا ہوں.یہ عہد کر کے وہ چلا گیا.جانے کے بعد جب اسے کسی گناہ کے کرنے کا خیال آیا اور وہ یہ سمجھ کر کرنے لگا کہ اس کے چھوڑنے کا تو میں نے وعدہ نہیں کیا تو اسے خیال آیا کہ اگر اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو سچ کہنا پڑے گا کیونکہ جھوٹ کے چھوڑنے کا وعدہ کر آیا ہوں.پھر میں کیا جواب دوں گا ؟ اس طرح وہ ایک دن اس کے کرنے سے رک گیا دوسرے دن پھر جب اسے گناہ کرنے کا خیال آیا تو اسی طرح رک گیا.اور جوں جوں وہ رکتا جاتا اس کی طبیعت میں مضبوعلی آتی جاتی حتی کہ ایک دن وہ رسول کریم صلی اللہ

Page 454

انوار العلوم جلد ۵ یوی اصلاح نفس علم کے پاس آیا اور کہا کہ ان گناہوں میں سے میں نے کوئی بھی نہیں کیا اور سب مجھ سے چھوٹ ہیں.تو جب کوئی شخص جھوٹ چھوڑ دیتا ہے پھر سب گناہ اس سے چھوٹ جاتے ہیں.لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ سمجھ میں نہیں آتاکہ لوگ جھوٹ بولتے کیوں میں جس آدمی کے متعلق معلوم ہو جائے کہ جھوٹ کا عادی ہے وہ خواہ کوئی بات سنائے اس کی بات پر تسلی نہیں ہوتی اور نہ اس کو کوئی فائدہ ہوتا ہے.مگر پھر بھی بالعموم لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور ایسی ایسی باتوں میں جھوٹ بولتے ہیں جن میں وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ کوئی نفع نہیں ہوگا.مثلاً یونی ایک شخص کہہ دے گا میں فلاں فلاں جگہ گیا یا فلاں فلاں کام کیا.حالا نکہ ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کو محض عادت ہوتی ہے کہ نخواہ مخواہ جھوٹ بولتے ہیں.یہ ایک خطرناک مرض ہے اور اس کا چھوڑ نا بھی مشکل کام ہے اس لئے اس کو چھوڑنے کے لئے خاص کوشش کرنی چاہئے.بے شک خالص جھوٹ بہت کم لوگ بولتے ہیں.کامیابی جھوٹ نہ بولنے میں ہے جہاں نقصان کا اندیشہ ہو صرف وہاں ایسا جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم نقصان سے بچ جائیں گے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ کامیابی جھوٹ کے نہ بولنے میں ہی ہوتی ہے.حضرت صاحب کا ہی واقعہ ہے.آپ نے ایک پیکٹ میں خطہ ڈال دیا.اس کا ڈان ڈاکخانہ کے قواعد کی رو سے منع تھا مگر آپ کو اس کا علم نہ تھا.ڈاکخانہ والوں نے آپ پر ناش کردی اس کی پیروی کے لئے ایک خاص افسر مقرر کیا کہ آپ کو منرا ہو جائے اور اس پر بڑا زور دیا اور کہا کہ ضرور سزا ملنی چاہئے تاکہ دوسرے لوگ ہوشیار ہو جائیں.حضرت صاحب کے وکیل نے آپ کو کہا کہ بات بالکل آسان ہے آپ کا پیکیٹ گواہوں کے سامنے تو کھولا نہیں گیا.آپ کہہ دیں کہ میں نے خط الگ بھیجا تھا شرارت اور دشمنی سے کہا جاتا ہے کہ پیکیٹ میں ڈالا تھا.حضرت صاحب نے فرمایا یہ تو جھوٹ ہوگا.وکیل نے کہا اس کے سوا تو آپ بچ نہیں سکتے.آپ نے فرمایا خواہ کچھ ہو میں جھوٹ تو نہیں بول سکتا.چنانچہ عدالت میں جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے پیٹ میں خط ڈالا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا.ہاں میں نے ڈالا تھا مگر مجھے ڈاکخانہ کے اس قاعدہ کا علم نہ تھا.اس پر استغاثہ کی طرف سے لمبی چوڑی تقریر کی گئی اور کہا گیا کہ مزا ضرور دینی چاہئے.تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت ہو.حضرت

Page 455

انوار العلوم جا ۴۳۵ اصلاح نفس صاحب فرماتے ہیں تقریر چونکہ انگریزی میں تھی اس لئے میں اور تو کچھ نہ سمجھتا لیکن جب حاکم تقریر کے متعلق NO NO (نو - نو ) کہتا تو اس لفظ کو سمجھتا.آخر جب تقریر ختم ہوئی تو حاکم نے کہہ دیا.بری.اور کہا کہ جب اس نے اس طرح سچ سچ کہ دیا تو میں بری ہی کرتا ہوں.ہنسی میں جھوٹ پھر لوگ سہنسی مذاق میں جھوٹ بول لیتے ہیں.مگر یہ بھی نا جائز ہے اور پیچی جھوٹ ہی ہے اس سے بھی بچنا چاہئے.پھر جھوٹ کی خاص قسم جھوٹی گواہی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ خداتعالی کا جھوٹی گواہی بڑا ہی فضل ہو تو کوئی اس سے بیچ سکتا ہے.وہ لوگ جو اور باتوں میں جھوٹ نہیں بولتے وہ بھی اس مرحلہ پر آکر رہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اس لئے جھوٹی گواہی دے دی کہ فلاں بھائی ناراض نہ ہو جائے.مگر اس میں بھی خوب مضبوطی کے ساتھ صداقت پر قائم رہنا چاہئے.کئی لوگ ہیں جو اس لئے جھوٹی گواہی دیتے ہیں کہ دوسرے کا منہ رکھیں اور اس کو ناراض نہ ہونے دیں.مگر اس سے زیادہ نادان اور بے وقوف کون ہو گا جو دوسرے کا منہ رکھنے کے لئے اپنا منہ کالا کرے لیکن بہت ہیں جو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے.تمہیں چاہئے کہ خواہ تمہارے ماں باپ کے خلاف گواہی ہو یا بھائی کے خلاف یا اور کسی عزیز اور رشتہ دار کے خلاف تم کبھی اس کو نہ چھپاؤ اور نہ اس میں جھوٹ ملاؤ بلکہ سچ سچ کہہ دو.قرآن کریم میں مومن کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ ماں باپ بہن بھائی جس کے متعلق بھی اسے کوئی گواہی دینی ہو سچی کچی دیتا ہے.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے جو گواہی کو چھپاتا ہے اس کا دل گند گار ہو جاتا ہے اور جب دل گنہگار ہو گیا تو سب کچھ خراب ہو گیا.یہ بھی بہت برا کام ہے اس سے بچنا چاہئے.ورنہ اس میں بھی بڑھتے بڑھتے انسان رسول اور خدا تک پہنچ جاتا ہے.یہ جو جھوٹی حدیثیں بنی ہیں وہ ایسے ہی لوگوں نے بنائی ہیں جن کو جھوٹ بولنے کی عادت تھی.اور پھر جھوٹ بولنے والے خدا تعالیٰ کے متعلق بھی جھوٹ سے دریغ نہیں کرتے.چنانچہ آتا ہے.ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الكَذِبَ ، وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ٥ (المائده : ۱۳) کہ یہ جو نذریں نیازیں سانڈوں وغیرہ کی دی جاتی ہیں یہ خدا نے مقرر نہیں کیں.یہ ان لوگوں نے جو کافر ہیں آپ مقرر کرلی ہیں اور خدا تعالیٰ ی پر جھوٹا افتراء باندھ دیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر بے وقوف ہیں.

Page 456

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس تو ان لوگوں نے آپ نذریں مقرر کر کے کہہ دیا کہ خدا نے مقرر کیں ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ جھوٹ بولنے والے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنے سے بھی باز نہیں رہتے.پس چونکہ یہ ایسی بات ہے کہ اس میں انسان بڑھتے بڑھتے خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اس لئے اس کو بالکل چھوڑ دینا چاہئے.اور یہ ایسے عیوب میں سے ہے کہ اگر انسان اس سے بچ جائے تو اور سینکڑوں عیوب سے بیچ سکتا ہے.سخت کلامی اور درشتی سے کام نہ لو تمیری بات جو قابل ترک ہے وہ سخت کلامی اور درشتی ہے.یہ بھی بہت بڑا عیب ہے بہت لوگ ہیں جو اپنے بھائی کے احساسات کا خیال نہیں رکھتے.ذرا ذرا سی بات پر گالی دے دیتے ہیں یا سخت کلامی سے پیش آتے ہیں.مثلاً بجائے اس کے کہ مجلس میں اگر کہیں جگہ دیجئے.یہ کہ دینگے کہ کسی طرح تمہاں پسیار کے بیٹھے ہوئے ہو یعنی پاؤں پھیلا کر کیوں بیٹھے ہو ؟ ایسے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر کسی سے کوئی مطالبہ کریں گے تو سختی سے اور اگر کسی کا کچھ دینا ہو گا تو اس سے بھی لڑیں گے.ان میں نرمی ، محبت اور آشتی نہیں ہوگی.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لڑائی، زنگا اور فساد ایسی ناپسندیدہ باتیں ہیں کہ جہاں یہ ہوتی ہیں وہاں سے خدا تعالیٰ کی برکتیں جاتی رہیں ہیں.اور آپ نے ان کی برائی یہاں تک بیان فرمائی ہے کہ ایک دفعہ آپ رات کو باہر نکلے اور دیکھا کہ دو آدمی لڑرہے ہیں.آپؐ نے ان کو مخاطب کر کے فرما یا خدا تعالٰی نے مجھے لیلتہ القدر کی گھڑی تبائی تھی لیکن تمہاری لڑائی دیکھ کر مجھے بھول گئی ہے یہ اب غور کرو ان کی لڑائی کس قدر نقصان دہ ثابت ہوئی کونسل در نسل اس کا اثر چلے گا.پھر فرمایا اچھا رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو.اگر وہ نہ لڑ رہے ہوتے اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کو لیلتہ القدر کے متعلق جو بتایا گیا تھا وہ آپ بتا دیتے تو کیسی آسانی ہوتی اور مسلمان اس سے کسی قدر فائدہ اُٹھاتے ؟ اب ہر ایک کے لئے دس راتوں میں جاگنا مشکل بات ہے.دو آدمیوں کے جھگڑے نے کتنا نقصان پہنچایا ؟ تم کسی پر درشتی اور سختی نہ کرو بلکہ ہر ایک کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ.اس میں دونوں کا فائدہ ہے لیکن اگر ایک درشتی کرتا ہے تو دوسرے کو چاہئے کہ نرمی اختیار کرے.اس طرح درشتی کرنے والا خود بخود شرمندہ اور نادم ہوگا اور معافی مانگے گا.ورنہ اگر دوسرا بھی درشتی کرے گا اور اس طرح بات بڑھے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں کا ایمان جاتا رہے گا اور دونوں کو نقصان اُٹھانا پڑے گا.بخارى كتاب الصوم باب رفع معرفة ليلة القدر لتلاحي الناس

Page 457

لعلوم جلد ۵ ۴۳۷ اصلاح نفس پھر درشت کلامی سے گالیوں پر لوگ اُتر آتے ہیں.بعض لوگ نمازیں پڑھیں گے، دوسرے فرائض ادا کریں گے ، دین کے کاموں میں حصہ لیں گے، لیکن گندی سے گندی ماں بہن کی گالیاں بھی دیں گے اور فساد پھیلائیں گے.اس طرح اپنے آپ کو تباہ کریں گے اور دوسروں کو اشتعال دلا کر ان کی بھی عاقبت خراب کریں گے تمہیں چاہئے کہ اس تباہ کن فعل سے بچو اور نرمی کی عادت ڈالو تا کہ خدا تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ نرمی سے پیش آئے.ورنہ اگر تم خدا تعالیٰ کی مخلوق پر درشتی کرتے ہو تو تم بھی اپنے آپ کو اس بات کا حق دار بناتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم پر بھی درشتی کرے.درشتی اور سختی جوش اور غصہ کی وجہ سے کی جاتی ہے.مگر تمہارے لئے تو جوش اور غصہ نکالنے کے لئے کافی جگہ ہے.تم اس کو محفوظ رکھو اور ضائع نہ کرو جیسن کو ایک بڑا سفر درپیش ہوتا ہے وہ اپنی روٹیاں گتوں کے آگے نہیں ڈالتا بلکہ ضرورت کے لئے محفوظ رکھتا ہے.تمہارے آگے بھی بہت بڑا سفر ہے تمہیں ابھی بہت سی لڑائیاں لڑنی ہیں تمہیں جوش اور طاقت کی ضرورت ہے پس تم اس کو اس وقت کے لئے محفوظ رکھو جب تمہیں کفر سے لڑائی کرنی پڑے.ورنہ اگر تم نے یونسی جوش ضائع کر دیا تو یاد رکھو وقت پر کچھ نہ کر سکو گے.کیونکہ میں انجن کی بھاپ نکل جاتی ہے وہ گاڑیاں نہیں کھینچ سکتا گاڑیاں وہی انجن کھینچتا ہے جس کے اندر بھاپ بند رہتی ہے.پس تم غصہ اور جوش کے دبانے کے عادی بنو تا کہ نہ صرف خود ہی چلو بلکہ اوروں کو بھی کھینچ کرلے جا سکو.: ۴۵) دیکھیو نر می ایسی ضروری چیز ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کو کہتا ہے.تُولَا لَهُ قَوَلا تَتِنَا طه : نبی فرعون تمہیں گالیاں دے گا.تم پر سختی کرے گا.مگر تم اس سے نرم نرم باتیں کرنا.یہ انہیں اس لئے کہا گیا کہ وہ فرعون کے سامنے بطور نمونہ تھے.اگر وہی سختی کرتے اور درشتی سے پیش آتے تو وہ کہنا جس انسان کی اپنی یہ حالت ہے وہ مجھے کیا فائدہ دے سکتا ہے.مگر ان کی نرمی کو دیکھ کر فرعون گھبرا گیا.کیونکہ وہ سختی کرتا اور گالیاں دیتا تھا مگر حضرت موسیٰ ہنس کر نرمی سے جواب دے دیتے اس ت وہ گھبرا گیا کہ کوئی طاقت اور قوت ہے جس نے اسے سہارا دیا ہوا ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ کوئی اور اسے سہارا کیا سختی اور درشتی نے اس پر ذرا بھی اثر نہیں کیا.اس سے ظاہر ہے کہ بجائے اس کے کہ سختی کی وجہ سے فرعون کا رعب حضرت مولتی پر پڑتا.یہ ہوا کہ ان کی نرمی کی وجہ سے فرعون پر ان کا رعب پڑ گیا.اکثر لوگ اپنا رعب داب جمانے کے لئے سختی کرتے ہیں.حالانکہ حقیقی رُعب سختی سے نہیں بلکہ نرمی سے پڑتا ہے.اس لئے نرمی سے ہی کام لینا چاہئے.

Page 458

انوار العلوم بمله ۵ ۴۳۸ اصلاح نفس نتوں سے پر ہیز کر چوتھی بات نشوں کا ترک کرنابہ بنی نشیلی چیزیں ہیں جنہیں لوگ استعمال کرتے ہیں اور جن کی وجہ سے قوموں کی قومیں ہلاک ہو گئی ہیں.چین کے ملک کی اتنی آبادی ہے کہ اپنی وسعت کے لحاظ سے سب سے زیادہ آباد ہے یعنی چالیس کروڑ اس کی آبادی ہے.مگر باوجود اس کے جاپان نے جس کی آبادی صرف اڑھائی کروڑ تھی اسے ایسی خطرناک شکست دی کہ جس کی حد نہیں.اور یورپ کی چند ہزار فوج نے چین کا دارالسلطنت فتح کر لیا اس کی کیا وجہ تھی ؟ یہی کہ چین کے لوگ افیم کھاتے تھے.اور پینک میں پڑے رہنے والوں نے لڑنے والوں کے مقابلہ میں کیا کرنا تھا ؟ ایک قلقہ ہے.نہ معلوم کہاں تک صحیح ہے مگر مشہور ہے.کہ ایک انہیمی پڑا تھا اسے خیال ہوا کہ کوئی مجھے مارنے لگا ہے.اس پر اس نے لٹھ اُٹھا کر اپنے ہی اوپر دے مارا اور کہنے لگا مجھے کوئی شخص مار گیا ہے لیکن میں نے بھی اسے خوب مارا ہے.نشہ ایسی بری چیز ہے کہ نشہ کی عادی قوم کوئی کام نہیں کر سکتی.زیادہ نشہ والی چیزیں جسمانی نقصان پہنچاتی ہیں.اور جو کم نشتہ والی ہوتی ہیں ان سے اگر تم کو نقصان نہ بھی ہو.تو روح کو ضرور ہوتا ہے.حقہ کی کثرت ہمارے ملک میں ایک عام نشہ والی چیز حقہ ہے.یوں تو اس کا نشہ اس طرح نہیں ہوتا جس طرح دوسری نشہ والی چیزوں کا ہوتا ہے.مگر اس کی وجہ سے اعصاب بے حس ہو جاتے ہیں.امریکہ سے کوئی کم بخت اسے لایا تھا مگر اب یہ تین سو سال کے عرصہ میں اس قدر پھیل گیا ہے کہ قرآن کریم تیرہ سوسال میں اتنا نہیں پھیلا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں نشہ ہے.محقہ پینے والا رمضان میں کہتا ہے کہ میرے پیٹ میں درد پیدا ہو جاتا ہے اگر میں حقہ نہ پیوں اور اس طرح رمضان کی برکات سے محروم ہو کر سخت گناہ گار بنتا ہے.لوگ پہلے تو اس لئے مشروع کرتے ہیں کہ اس سے قبض کھل جاتی ہے.مگر پھر ان کی ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ پاخانہ میں میٹھے کر تین تین دفعہ ملمیں بھرواتے ہیں.ایک شاعر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ پاخانہ میں بیٹھ کر حقہ کی نال اپنے منہ میں لے لیتا اور کئی کئی چلمیں پی جاتا.بظاہر حقہ پینے والا سمجھتا ہے کہ اس سے طاقت آتی ہے مگر کیا جو لوگ حقہ نہیں پیتے وہ پینے والوں سے کمزور ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں.ہر حقہ پینے والا شخص پچھلی عمر میں کھانستا ہی رہے گا اور حقہ پینے والوں کو ہمیشہ کھانسی کا عارضہ لاحق رہے گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز جسم کوئٹن کر دیتی ہے وہ آخر میں اعصاب کو ڈھیلا

Page 459

انوار العلوم جلد ۵ ۴۳۹ اصلاح نفس اور کمزور کر دیتی ہے اور طاقت زوال کی طرف آجاتی ہے.بحقہ صحت کے لئے سخت مضر ہے.لوگوں نے پہلے یورپ والوں کو تنہا کو استعمال کرتے دیکھا اور پھر حقہ کے رنگ میں اس کی ایجاد کر لی.اور یہ اس قدر پھیل گیا ہے کہ حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ مکہ کی کوئی شادی ایسی نہیں ہوتی جس میں ہر ایک کے لئے ایک حقہ نہ رکھا جاتا ہو.پھر ہمارے ملک میں بھی پھیلا ہوا ہے اور کئی رنگ میں پھیلا ہوا ہے.ایک سفر میں ایک پٹھان ہمارے ساتھ تھا.ایک جگہ اس کی نسوار کی ڈلی گر گئی.وہ ایسا پریشان ہوا کہ راستہ میں جو شخص ملتا.بڑی لجاجت سے اس سے پوچھتا کہ تمہارے پاس نسوار ہے ؟ حالانکہ پٹھان اور لجاجت کیا ؟ مگر وہ ایسا گھبرایا ہوا پھرتا کہ اگر کوئی اسے مار بھی لیتا اور نسوار دے دیتا تو شاید وہ اسے یہی کہتا کہ میں تمہارا غلام ہوں.پھر ایک سخت گندے شہر میں پہنچ کر جب اس کو نسوار مل گئی تو کہنے لگا اس شہر کو گندہ کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس سے تو مجھے نسوار مل گئی ہے اس کے نام کے ساتھ تو شریف کا لفظ لگانا چاہئے.اس کے نشہ کی عادت ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ بعض دفعہ لوگ اس کی ایسی عادت ڈال لیتے ہیں کہ اس کا چھوڑنا طبی طور پر بھی خطرناک ہو جاتا ہے اور بڑی احتیاط چاہتا ہے.ایک دوست نے جب نسوار چھوڑی تو اس کے حلق میں زخم ہو گیا.پھر یہ اس لئے بھی بری ہے کہ انسان ہو کر ایسی بے جان چیزوں کی غلامی اختیار کرنی پڑتی ہے.ایک انسان درختوں کے پتے کھا کر پیٹ بھر سکتا ہے مگر نشوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور ان کی بدترین غلامی اختیار کرنی پڑتی ہے.یہاں ایک ایسا گندہ اسلام کا دشمن تھا جو فخریہ کہا کرتا تھاکہ میں بچپن میں ہی سمجھا کرتا تھا کہ کبھی جھکنا کبھی سڑکنا یعنی نماز پڑھنا ایک فضول بات ہے اور اب تو میں دانا اور عقلمند ہوں اور ان حرکات کی لغویت کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہوں.اس کے پاس کئی لوگ حقہ پینے کے لئے جا بیٹھتے.وہ حضرت مسیح موعود کو برا بھلا کہتا رہتا اور وہ سر جھکائے سنتے رہتے.اس سے بدترین غلامی اور کیا ہو گی.نشہ والے دوسروں کو نشہ میں کیوں شریک کرتے ہیں ؟ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نشے والے دوسروں کو ننے بھی اس چیز میں شریک کرنا چاہتے ہیں جو خود استعمال کرتے ہیں.ایک معزز دوست کے ہاں ایک دفعہ ان کے ایک بھائی صاحب ملنے کے لئے آئے.ایک کمرہ میں ان کا بچہ اور چند اور احمدی بیٹھے

Page 460

الولاء العلوم جلد ٥ ۴۴۰ اصلاح نفس تھے.ان صاحب نے افیون کی ڈبیہ نکالی اور سب کے آگے پھر ائی جب کسی نے بھی اس میں سے کچھ نہ لیا تو اس نے بڑے افسوس سے کہا کیا کوئی بھی نہیں کھاتا ؟ اس قسم کی باتوں کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ نشے کے عادی دوسروں کو کیوں وہی چیز کھلانے کی کوشش کرتے ہیں ؟ اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ وہ سب کو نشہ لگانا چاہتے ہیں کہ سب جگہ اس نشہ والے موجود ہوں اور جہاں وہ جائیں انہیں وہ نشہ والی چیز میسر آ سکے.گویا وہ اپنے فائدہ کے لئے ساری دنیا کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں.تر پینے کی عادت میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم میں سے جو لوگ حقہ یہ حقہ پینا چھوڑ دو رکھتے ہیں وہ چھوڑ دیں.اور اگر خود نہ چھوڑ سکیں تو اپنے بچوں میں اس عادت کو نہ جانے دیں.اول تو ہم یہی چاہتے ہیں کہ حصہ کی عمر ان کی عمر سے چھوٹی ہو یعنی وہ اپنی زندگی میں ہی حقہ کا خاتمہ کر دیں.لیکن اگر انہیں اتنا ہی عزیز ہے کہ جیتے جی نہیں چھوڑنا چاہتے تو اپنی عمر کے ساتھ ہی اس کا بھی خاتمہ کریں اور اپنے پیچھے اپنے بچوں میں اسے نہ چھوڑیں.لوگ اول اول تو تھوڑی سی تکلیف سے بچنے کے لئے بچے کو کہتے حقہ سلگا دو.مگر چونکہ یہ نشہ ہے اس کو بھی لگ جاتا ہے اور وہ بھی اس کا عادی ہو جاتا ہے.تمہیں چاہتے کہ اپنے بچوں تک اس بُری عادت کو ہرگز نہ جانے دو.یہ ایک لعنت ہے اور ایسی لعنت ہے کہ روٹی کے لئے نہیں مگر اس کے لئے گندی سے گندی اور ذلیل سے ذلیل مجلس میں جانا پڑتا ہے.اول تو میں یہی کہوں گا کہ ہر ایک اسے چھوڑ دے ورنہ جن کی عمر میں سال تک کی ہے وہ تو ضرور چھوڑ دیں.اور جن کی عمر تمہیں اور چالیس کے درمیان ہے وہ بھی چھوڑنے کی کوشش کریں.اور جو اس سے بڑی عمر کے ہیں وہ اگر نہ چھوڑ سکیں تو اپنی اولاد کو ضرور یہ کہیں کہ من نه کردم شما حذر بکنید احمدی لڑکیوں کے رشتوں سے متعلق ہدایت پانچویں بات جو اس زمانہ میں ماری جاعت کے لئے نہایت ضروری ہے وہ غیر احمدی کو رشتہ نہ دیتا ہے.جو شخص غیر احمدی کو رشتہ دیتا ہے وہ یقیناً حضرت مسیح موعود کونہیں سمجھتا.ورنہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے ؟ کیا کوئی غیر احمدیوں میں ایسا بے دین ہے جو کسی ہند و یاکسی عیسائی کو اپنی لڑکی دے دے.ان لوگوں کو تم کا فر کتے ہو مگر اس معاملہ میں وہ تم سے اچھے رہے کہ کافر ہو کر بھی کسی کافر کو لڑکی نہیں دیتے مگر تم احمدی کہلا کر کافرکو دے دیتے ہو.کیا اس لئے دیتے ہو کہ وہ تمہاری

Page 461

انوار العلوم جلد ۴۴۱ اصلاح نفس قوم کا ہوتا ہے ؟ مگر حبس دن سے کہ تم احمدی ہوئے تمہاری قوم تو احمدیت ہوگئی.شناخت اور امتیاز کے لئے اگر کوئی پوچھے تو اپنی ذات یا قوم بتا سکتے ہو.ورنہ اب تو تمہاری قوم تمہاری گوت تمہاری ذات احمدی ہی ہے.پھر احمدیوں کو چھوڑ کر غیر احمدیوں میں کیوں قوم تلاش کرتے ہو.مومن کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ جب حق آجائے تو باطل کو چھوڑ دیتا ہے.اس کے متعلق میں ایک مثال سناتا ہوں.حضرت عمرہ کو شعروں کا بہت شوق تھا.طبائع کو بعض امور سے کچھ مناسبت ہوتی ہے میری طبیعت کو بھی اشعار سے مناسبت ہے.ایک دفعہ حضرت عمر نے ایک علاقہ کے گورنر کو لکھا کہ اس علاقہ کے بڑے بڑے شاعروں کے کلام بھیجو اؤ اس علاقہ میں دو بڑے شاعر تھے.ایک کا نام بعید تھا یہ عرب کے بہت بڑے شاعر تھے اور بڑھاپے کی آخر عمر میں اسلام لائے اور اسلام میں بھی بہت لمبی عمر پائی.اور دوسرا ایک اور شاعر تھا.گورنر نے ان کو بلا کر کہا کہ قصید سے بنا کر دو کچھ دنوں کے بعد ایک نے تو بنا کر دے دیا مگر بسید جو بہت اعلیٰ درجہ کے شاعر تھے جب ان کو کہا گیا کہ قصیدہ سناؤ تو انہوں نے اس طرح پڑھنا شروع کیا.لا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ القَة ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّارَنَ يُنْفِقُونَ (البقرة : (تام) گورنر نے کہا یہ تو قرآن ہے.شعر سناؤ انہوں نے پھر یہی آیات پڑھیں.تیسری بار پھر کہا تو بھی یہی پڑھا اور کہا جب سے یہ کلام آیا ہے.میں شعر کہنا بھول گیا ہوں (الاصابة في تمييز الصحابة جلد مر صفحه ۳۲۶ مطبوعه ۱۳۲۸ھ بیروت) وہ اپنے زمانہ میں سب سے بڑے شاعر تھے مگر انہوں نے کہ دیا کہ جب سے قرآن سُنا ہے شعر کہنا چھوڑ دیا ہے.اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس زمانہ میں شعر فخر ومباہات کے لئے کہے جاتے تھے دین کے لئے بہت کم کیے جاتے تھے اس لئے انہوں نے چھوڑ دیئے.جس طرح وہاں قرآن کریم کے آنے پر شعر کہنے چھوڑ دیئے گئے تھے اسی طرح اب حضرت حیات کے آنے پر سب پہلے رشتے چھوڑ دو اور ا دو اور اسی کو اپنا رشتہ دار سمجھو جو حضرت صاحب کے ذریعہ تمہارا بھائی بنا ہے.حضرت صاحب نے بہت صاف اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینا گناہ ہے ہاں لینا جائز ہے.پس جب حضرت صاحب لڑکی دینے کو گناہ قرار دیتے ہیں تو پھر تم کس طرح دیتے ہو ؟ مگر ایسے ہیں جو دیتے ہیں اور مجیب عجیب مدر پیش کرتے ہیں.کوئی کہتا ہے وعدہ کیا ہوا

Page 462

انوار العلوم ۴۴۴ اصلاح نفس تھا اسے پورا کرنا ضروری تھا.لیکن میں کہتا ہوں کیا اگر کسی نے مندر کے بت کے آگے سجدہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہو تو اس کے لئے پورا کرنا ضروری ہوگا ؟ اگر نہیں تو پھر تمہارے اس وعدہ کے پورا کرنے کا کیا مطلب؟ بہت لوگ ان وعدوں کو تو پورا نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ سے انہوں نے کئے ہوئے ہیں اور فرائض کو بڑی دلیری سے توڑتے ہیں مگر وہ بات جسے ان کا دل چاہے اس کے لئے وعدہ کا عذر گھڑ لیتے ہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے ایک لڑکا ریوڑیاں کھا رہا تھا اور بڑی حرص سے کھا رہا تھا ئیں نے اس کو کہا اس طرح کیوں کھاتے ہو ؟ اس نے کہا مجھے ریوڑیاں بہت پسند ہیں کیونکہ حضرت صاحب بھی کھایا کرتے تھے.میں نے کہا حضرت صاحب تو کو نین بھی کھایا کرتے تھے کیا تم بھی کھاتے ہو ؟ اس کا اس نے کوئی جواب نہ دیا.تو اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جس بات کے کرنے کو ان کا نفس چاہتا ہے.اس کے کئی بہانے گھڑ لیتے ہیں اور جس کو نہ چاہے وہ خواہ کیسی ضروری بات ہو اس کو نہیں کرتے.تمہیں غیر احمدیوں کو لڑکی دینے کے معاملہ میں اپنے نفس کی ہرگز اطاعت نہ کرنی چاہئے بلکہ ہر حال میں حضرت صاحب کے حکم کو مانا چاہیے.غیر احمدی کا جنازہ چھٹی بات غیر احمدیوں کے جنازے پڑھنا ہے.ایسے لوگ ہیں جو جنازے پڑھتے ہیں یہ ایک خطرناک غلطی ہے.میں کہتا ہوں اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ تمہارے جنازہ پڑھنے سے مُردہ بخشا جائے گا تو تمہیں معذور سمجھا جاسکتا ہے.لیکن کیا تم خیال کرتے ہو کہ تمہارے جنازہ پڑھنے سے وہ غیر احمدی بخشا جاتا ہے؟ یا تم اس بات کے ذمہ دار ہو کہ وہ جہنم سے بچ جائے اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم کسی غیر مری کا جنازہ پڑھتے ہو ؟ کیا یہی نہیں کہ تم رشتہ داروں یا تعلق والوں کا منہ رکھتے ہو اور کہتے ہو اگر جنازہ نہ پڑھا تو ان کو کیا منہ دکھائیں گے ؟ حالانکہ وہی منہ دکھانا قابل عزت و فخر ہو سکتا ہے جو بے عیب ہو.مگر جو کافر کا جنازہ پڑھتا ہے.اور خدا کے نبی کو گالیاں دینے اور جھٹلانے والے کا جنازہ پڑھتا ہے اس کا منہ تو چھپانے کے قابل ہے نہ کہ دکھانے کے قابل ، تم منہ دکھانے کے قابل اسی وقت ہو سکتے ہو جب خدا کے دین کی محبت تمہارے اندر ہو.اگر تمہاری ایسی حالت ہو اور میناروں پر چڑھ کر بھی اپنے منہ دکھاؤ تو بھی جائز ہے.مگر جب تم خدا کا کوئی حکم توڑتے ہو تو تمہیں غاروں میں گھس کر چھپنا چاہئے.کیونکہ تم علی الاعلان سینکڑوں آدمیوں میں جا کر عملی طور پر کتے ہو کہ مرزا صاحب کے متعلق جو عقیدہ ہے وہ غلط ہے پس اس فعل سے بچو.یہ تو ترک شہر کی باتیں تھیں جو میں نے بیان کی ہیں.اب دوسرا حصہ لیتا ہوں جو اعمال خیر

Page 463

امام اصلاح نفس کرنے کے متعلق ہے.اول حکم نماز کا ہے.یہ اسلام کا بھی پہلا حکم ہے اور میں نے بھی نماز با جماعت پڑھو اس کو پہلے ہی رکھا ہے.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اس کو عملی باتوں کی جان قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا ہے جس کی نماز نہیں اس سکا دین نہیں.مگر میں افسوس سے کہوں گا کہ آپ میں سے بہت لوگ ہیں جو اس کی طرف پوری پوری توجہ نہیں کرتے ہیں.ایسے لوگ تو احمدیوں میں بہت ہی کم ہوں گے جو بالکل نماز پڑھتے ہی نہ ہوں.مگر ایسے ہیں جو گنڈے دار نماز پڑھتے ہیں.ایک آدھ نماز پڑھ لیں گے باقی نہیں پڑھیں گے.یا شیعوں کی طرح جمع کر کے نمازیں پڑھ لیں گے.پھر ایسے ہیں جو گھر میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں نماز ہوگئی.لیکن کیا آپ لوگوں میں سے جو لوگ دفتروں میں ملازم ہیں وہ اس طرح کر سکتے ہیں کہ دفتر نہ جائیں ؟ اور گھر میں ہی رجبڑے کر بیٹھ رہیں کہ کام ہی کرنا ہے وہ گھر میں کر لیا ہے.اگر اس طرح کوئی کرے تو اس کی ملازمت قائم نہ رہے گی.میں پوچھتا ہوں اگر دفتر کا کام گھر میں بیٹھ کر کرنے سے منظور نہیں کیا جاتا تو نماز گھر میں پڑھ لینے سے کیونکر منظور ہوسکتی ہے؟ نماز تو با جماعت ہی ہوگی.بے شک مجبوریوں کو مد نظر رکھ کر گھرمیں نماز پڑھ لینے کو جائز کر دیا گیا ہے اور اس حالت میں الگ بھی نماز پڑھ لی جاسکتی ہے.مثلاً اگر دفتر میں کام کرتے ہوئے نماز کا وقت آجائے تو بے شک وہاں پڑھ لو.مگر جہاں کوئی مجبوری نہیں اس حالت کے متعلق میرا یہی عقیدہ ہے کہ نماز نہیں ہوتی.میں چار سال سے نماز با جماعت پڑھنے کے لئے کہہ رہا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں.اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات جو پورے وثوق اور پورے یقین کے ساتھ میں سمجھتا ہوں اس کے متعلق مرتے دم تک مجھی میرا خیال بدلے.سچی اور پکی بات یہ ہے کہ جو شخص مسجد میں جاسکتا ہے مگر نہیں جاتا اور گھر میں نماز پڑھ لیتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی.وہ قیامت کے دن جاکر دیکھے گا کہ کوئی نماز اسے نہیں ملے گی اور کوئی ملے گی.وہ حیران ہو کر کہے گا کہ میری باتی نمازیں کہاں گئیں ؟ مگر اسے کہا جائے گا کہ باقی نمازیں تم نے پڑھیں کب تھیں ؟ تو ایسے لوگ اس وقت حیران ہوں گے.مگر میں انہیں اب بتاتا ہوں کہ ان کی وہ نمازیں جو بغیر کسی عذر کے وہ جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے بلکہ گھروں میں پڑھتے ہیں نہیں ہوتیں اور اس وقت ان کا کوئی عذر نہیں سنا جائے گا اور نہ قبول کیا جائے گا خدا کے حضور ان کی نمازیں نہیں لکھی جاتیں.صرف انہی کی لکھی جاتی ہیں جو باجماعت نماز پڑھتے میں سوائے اس کے کہ مجبور ہوں مسجد میں نہ جاسکتے ہوں.مثلاً کوئی بیمار ہو یا کہیں ملازم ہو.

Page 464

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس لازم کو یہ دکھ لینا چاہئے کہ اگر اسے کوئی ایسی ملازمت مل سکتی ہے جس میں با جماعت نماز پڑھنے کا موقع ہے تو اسے ترجیح دینی چاہئے.بعض دفعہ ملازموں کو ان کے افسر نماز نہیں پڑھنے دیتے ایک افسر تھا وہ ایک احمدی کو نماز نہیں پڑھنے دیتا تھا.اس نے ملازمت چھوڑ دی اور دوسری جگہ کرلی.دوسری جگہ اسے ایسا انگریز افسر ملا جس نے خود مصلی لا کر دیا اور کہا اس پر میرے سامنے نماز پڑھا کرو.تو جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے کوئی کام کرتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کا انتظام کر دیتا ہے.یہ تو مجبوری کی حالت کے متعلق ہے.مگر ایسے لوگ ہیں جو بغیر کسی مجبوری کے نشستی اور کاہلی سے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے.ان کی نہ نمازیں ہوتی ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے.بتاؤ اس شخص کی نسبت تم کیا کہو گے ؟ جس کے مکان کی ایک دیوار گری ہوئی ہو اور وہ کہے کہ رات کو کوئی میرا اسباب لے جاتا ہے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ کیونکر ے جاتا ہے ؟ اسی طرح اس شخص کی حالت ہے جو نماز تو با جماعت نہیں پڑھتا اور کہتا ہے کہ مجھے تقوی وطہارت حاصل نہیں ہوتی.مجھے پر حقائق اور معارف نہیں گھلتے.تم لوگ اپنے وقت کا حرج کر کے اور ایک مدتک نقصان بھی برداشت کر کے باجماعت نمازیں پڑھو.ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مسجد سے بہت دُور ہوں جیسا کہ لاہور کے رہنے والے ہیں کہ کوئی شہر کے کسی حصہ میں رہتا ہے اور کوئی کسی حصہ ہیں.مگر میں کہتا ہوں کیوں قریب قریب کے دس پندرہ آدمی مل کر ایک جگہ معین نہیں کر لیتے کہ وہاں جمع ہو کر نماز پڑھ لیا کریں ؟ کوئی اس بات کے لئے مجبور نہیں کرتا کہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہو کر نماز پڑھیں.سو سو گز کا حلقہ بنا لیا جائے اور اس حلقہ میں رہنے والے ایک جگہ جمع ہو کر نماز پڑھ لیا کریں.یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے.نماز کا ترجمہ سیکھو پھر نماز کا ترجمہ کھو اور مجھ کر پڑھو تا کہ نفع حاصل ہو.یہ کوئی مشکل امر نہیں بلکہ بالکل آسان ہے.وہ لوگ جو نماز کا ترجمہ نہیں سیکھتے کیا انہیں خیال نہیں آتا کہ اگر کوئی شخص کسی جگہ کا راستہ پوچھے اور اسے انگریزی میں بتا دیا جائے حالانکہ وہ انگریزی کا ایک لفظ بھی نہ سمجھتا ہو تو وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا ؟ ہرگز نہیں.اسی طرح وہ شخص جس کے لئے موقع ہے کہ نماز کا ترجمہ اور معنی پڑھے.مگر وہ نہیں پڑھتا.وہ بھی نماز کے ذرایعہ اس جگہ نہیں پہنچ سکتا جہاں نمازہ پہنچاتی ہے.پس تم نماز باجماعت پڑھو اور پانچوں وقت پڑھو سوائے اس وقت کے جو دفتر میں آجائے یا

Page 465

انوار العلوم جلد ۴۴۵ اصلاح نفس جہاں جماعت کا انتظام نہ ہو سکتا ہو.اور سمجھ کر پڑھو تا کہ اس کا تمہیں فائدہ ہو.دفتر کا عذر بھی ظہر اور عصر کی نماز کے متعلق ہو سکتا ہے باقی نمازوں کے لئے نہیں ہو سکتا.لیکن اگر تم ان اوقات میں باجماعت نماز پڑھو گے تو خدا تعالیٰ ایسا تغیر کر دے گا کہ تمہارے افسر مسلمان ہو جائیں گے اور وہ تمہارے ساتھ نماز پڑھا کریں گے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اوقات جن میں تم باجماعت نماز پڑھ سکتے ہو ان میں بھی نہ پڑھو.اگر تم ان اوقات میں بھی نماز با جماعت نہیں پڑھتے تو دوسرے اوقات کے لئے خدا تعالی کو کس طرح غیرت آئے کہ تمہارے لئے کوئی سامان کر دے؟ دوسرا عمل جو اصلاح نفس سے تعلق رکھتا ہے.روزہ ہے.روزہ بھی روزے رکھو انسان کے نفس کو اس طرح پاک کرتا ہے جس طرح نماز پاک کرتی ہے اور یہ چٹیاں نہیں ہیں.جس طرح عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت لعنت ہے.اس کی مثال تو ایسی ہی ہوگی کر کسی شخص کو نمونیا ہو ڈاکٹر اسے کے فلاں نسخہ استعمال کرو مگر وہ روئے اور چلائے کہ نسخہ تو لعنت اسے ہے اسے میں کیوں استعمال کروں ؟ کیا اس کے لئے نسخہ لعنت ہو گا یا رحمت ؟ کوئی شخص بھی لعنت نہیں کہے گا.اسی طرح شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے.چنانچہ نمازکے لئے خداتعالی تو فراتا ہے.تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالمُنكَرِ (العنکبوت : ۴۶) کہ نماز چونکہ بدلوں سے روکتی ہے.اس لئے ہم اس کا حکم دیتے ہیں.اسی طرح روزہ کے متعلق فرمایا.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمُ تعلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة : ١٨٣) کہ روزہ کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تم متقی ہو جاؤ.تو روزہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کے ذریعہ تم گناہوں سے بچ جاؤ گے.پس روزہ چٹی نہیں بلکہ متقی بننے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.مگر بہت لوگ ہیں جو اسے چٹی خیال کرتے ہیں.انگریزی تعلیم یافتہ بالعموم ایسا سمجھتے ہیں اور ان میں روزہ کا بہت کم رواج ہے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ جو زمیندار طبقہ کے لوگ ہیں وہ بھی روزہ کی طرف کم توجہ کرتے ہیں اور اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ روزے سے بچنے کا فتوی مل جائے.اور اسی طرح جس طرح حضرت صاحب کے پاس بعض لوگ یہ کوشش کیا کرتے تھے کہ سود کی اجازت مل جائے اور اس کے لئے عجیب عجیب عذرات پیش کیا کرتے.حتی کہ ایک شخص نے کہا کہ اگر روپیہ بنک میں نہ رکھیں تو گھر میں چوری ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور بنک میں رکھیں تو سود ملتا ہے اگر سود نہ لیں تو عیسائیت کی تبلیغ میں خرچ کیا

Page 466

انوار العلوم م اصلاح نفس جاتا ہے کیا اس کو بھی نہ لیں ؟ آپؐ نے فرمایا تم خود نہ لو بلکہ اشاعت اسلام کے لئے دے دو.ایک شخص نے حضرت صاحب کی وفات پر کہا.واہ مرزڈیا ! مرگیٹوں پر سود جائز نا ای کیتا.تو شریعت نے جو حکم دیا ہے اسے کوئی بدل کس طرح سکتا ہے ؟ اگر کوئی شریعت کے خلاف فتوی دے بھی دے تو بھی شریعت کا حکم نہیں چھوڑا جا سکتا ہیں میں روزہ کے متعلق خاص طور پر نصیحت کرتا ہوں اس کی قدر کرو اور اس پر عمل کرو.علم حاصل کرو تیسری بات علم کا سیکھنا ہے.مومن کبھی جاہل نہیں ہو سکتا.ا - ب - ت پڑھا ہوا نہ ہو تو ہو.مگر علم سے جاہل نہیں ہو سکتا.کیا حضرت صاحب کتابی علم اس زمانہ کے مولویوں سے زیادہ جانتے تھے ؟ مولوی تو ان کے متعلق یہی کہتے تھے کہ منشی ہے لکھنا جانتا ہے.علم اس کے پاس کہاں ہے ؟ مگر گیا یہ درست نہیں کہ آپ نے ہر علمی مقابلہ میں ان علم جاننے والوں کو شکست دی ؟ پھر یہی نمونہ حضرت مولوی صاحب کے زمانہ میں تھا اور پھر اب بھی یہی ہے.میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا ہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آ جائے اور ایسے علم کا مدعی آجائے جس کا میں نے نام بھی نہ سُنا ہو اور اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پیش کرے اور میں اسے لاجواب نہ کر دوں تو جو اس کا جی چاہے کے.ضرورت کے وقت ہر علم خدا مجھے سکھاتا ہے اور کوئی شخص نہیں ہے جو مقابلہ میں ٹھہر سکے.ابھی سورۃ الناس کی تفسیر جوئیں نے سنائی ہے.یہ الہام ہی کے ذریعہ مجھے بتائی گئی ہے.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ اس میں گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی گئی ہے.میں نے بہت غور کیا مگر یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی تھی کہ کس طرح اس میں گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی گئی ہے ؟ لیکن اسی جگہ جب میں نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو سجدہ میں جاتے ہوئے ایک سیکنڈ میں ساری تفسیر اس طرح میرے قلب میں ملا دی گئی جس طرح شکر دودھ میں ملا دی جاتی ہے اور جو کچھ میں نے بیان کیا ہے یہ اس میں سے بہت مختصر طور پر بیان کیا ہے.ورنہ دنیا کے سارے موجودہ مفاسد کے متعلق اس کی نہایت لطیف تفسیر بیان کی جاسکتی ہے.پس تم دین کا علم حاصل کرو.بے شک دُنیا کا علم بھی ضروری ہے مگر دین کا اس کے ساتھ ضرور ہو.اب جو لوگ دنیا کا علم حاصل کر لیتے ہیں وہ اپنا حق سمجھ لیتے ہیں کہ مذہبی مسائل پر بھی بولیں لیکن یہ غلط بات ہے.تم ظاہری علوم بھی پڑھو مگر ان کے ساتھ دین کا علم بھی ضرور سیکھو اور اس قدر سیکھو کہ خدا کی طرف سے باتیں سمجھنے کی اہمیت تم میں پیدا ہو جائے.

Page 467

۴۴۷ اصلاح نفس جیسا کہ میں ابھی کہہ آیا ہوں.مومن جاہل نہیں ہوسکتا.مگر جاہل نہ ہونے سے میری یہ مراد نہیں کہ خط پڑھ سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خط نہ پڑھ سکتے تھے مگر ان سے بڑا عالم کون تھا ؟ یا کون ہوگا ؟ ساری دُنیا کے عالم آپ کی جوتیاں اُٹھا کر رکھنے کے بھی قابل نہ تھے.تم بے شک ظاہری علوم پڑھو مگر دین کا علم ضرور حاصل کرو اور اپنے اندر دین کی باتیں سمجھنے اور اخذ کرنے کا ملکہ پیدا کرو.اس کے لئے ایک تو قرآن کریم سیکھو اور دوسرے حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو اور خوب یاد رکھو کہ حضرت صاحب کی کتابیں قرآن کی تفسیر ہیں.کل میں ان کے متعلق ایک خاص نکتہ بتاؤں گا آج صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہ وہ قرآن کی تفسیر ہیں ان کو پڑھو.خدا کی محبت دل میں پیدا کرو پرومتی نصیحت میں آپ لوگوں کویہ کرنی چاہتا ہوں کہ خدا اور اس کی محبت کے مقابلہ میں باقی سب کچھ ہیچ ہے.آپ لوگ کہیں گے ہم مسلمان میں پھر خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں نہ ہوگی.مگر بہت لوگ ہوتے ہیں جن میں حقیقی محبت بہت کم ہوتی ہے.ان کا اعتقاد خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے متعلق مفصلی یا رسمی ہوتا ہے.مگر احمدیوں کا ایسا اعتقاد نہیں ہونا چاہئے.تمہارا خدا تعالیٰ سے محبت کا وہ تعلق ہونا چاہئے جو ماں کو بچہ سے ہوتا ہے.اگرچہ اس کو بھی عقلی کا جا سکتا ہے مگر یہ عقلی سے اوپر کا درجہ رکھتا ہے.پس تمہیں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا محبت کا تعلق ہو کہ جب ان کے خلاف کوئی بات سنو تو یہ نہ ہو کہ عقلی اور رسمی لحاظ سے تمہارے اندر جوش پیدا ہو.بلکہ اس طرح جوش اور محبت پیدا ہو جس طرح تمہارے ماں باپ کو جب کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو اس وقت ان کی محبت تمہارے دل میں جوشی مارتی ہے.یہ تو ضروری بات ہے کہ جس کا باپ مارا جائے گا اس کو نقصان پہنچے گا.مگر کوئی شخص اس نقصان کی وجہ سے اپنے باپ کے دشمن سے نہیں لڑتا بلکہ اس سے لڑتا ہے کہ وہ اس کا باپ ہے.بیس تم ان اعتراضات کا جو خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود پر کئے جائیں اس لئے دفاع نہ کرو کہ تمہیں ان سے عقلی یا رسمی لحاظ سے تعلق ہے بلکہ اس لئے کرو کہ تمہیں ان سے الفت اور محبت ہے اور ان کی محبت تمہارے رواں رواں میں رچی ہوئی ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم لوگوں کو گالیاں دیتے پھرو یا ان سے لڑنا شروع کر دو.میں تمہیں پہلے بتا چکا ہوں کہ کسی سے درشتی نہ کرو.ہاں میں یہ کہوں گا کہ جب تم خدا یا رسول کریم لی اللہ علیکم

Page 468

انوار العلوم جلد ۵ ۸م نام اصلاح نفس یا مسیح موعود کے خلاف کوئی بات سنو تو تمہارے سرسے لے کر پاؤں تک ایک شعلہ نکل جائے.اور تم جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جاؤ.تمہارا تعلق ایسا ہونا چاہئے کہ جس وقت کوئی شخص خدا تعالیٰ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا مسیح موعود یا وہ لوگ جو تمہارے لئے واجب الادب میں ان کے خلاف کوئی بات سنو تو اس وقت تمہارے جسم میں غیرت اور نفرت کی ہر چلنی چاہئے اور تمہارا جسم کانپ اٹھنا چاہئے.پھر جب تم اس لہر اور جوش کو دباؤ گے اور روکے رکھو گے تو تمہیں بہت بڑا فائدہ ہوگا اور تم بڑے بڑے کام کر سکو گے.یہ نہیں کہ ایسے وقت میں تمہارے اندر غیرت اور حمیت کی لہر ہی پیدا نہ ہو.اگر ایسا ہو گا تو یہ بے غیرتی ہوگی جو ذلیل ترین چیز ہے.قادیان آؤ پانچویں بات جو ان چاروں باتوں میں محمد ہوگی وہ قادیان کی آمد ہے.اس کے لئے میں نے بار بار کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں.کیونکہ یہاں کی آمد میں بے شمار فوائد ہیں اور یہ بہت بڑی نعمت ہے اگر کوئی اس پر غور کرے کیونکہ یہ ان باتوں کے لئے محمد ہے جو میں نے بیان کی ہیں.قادیان آنے کا ایک فائدہ ایک تو اس طرح کہ خدا تعالیٰ نے قادیان کو اسلام کی ترقی کا مرکز بنا دیا ہے اور یہ قدرتی بات ہے کہ جو چیز مرکز سے جس قدر قریب ہوگی وہ اس سے جو دُور ہو گی اتنی ہی زیادہ مضبوط ہوگی.وہی ٹکڑی کمزور ہوگی اور وہی کئیگی جو مرکز سے دُور ہو گی اور جس کا مرکز سے کم تعلق ہو گا اسی طرح مرکز سے تعلق رکھنے والا انسان ہلاکت سے بچا رہتا ہے.دیکھو وہ بچہ جو ماں کی گود میں ہے اس کی نسبت ہلاکت سے زیادہ بچا ہوا ہے جو کیل رہا ہے.پھر وہ بچہ جوگھر مں کھیل رہا ہے اس کی نسبت ہلاکت سے زیادہ بچا ہوا ہے جو گلی میں کھیل رہا ہے اور جو گلی میں کھیل رہا ہے وہ اس کی نسبت ہلاکت سے زیادہ بچا ہوا ہے جو گاؤں کے کسی دوسرے حصہ میں کھیل رہا ہے اور جو گاؤں کے کسی دوسرے حصہ میں کھیل رہا ہے وہ اس کی نسبت زیادہ ہلاکت سے بچا ہوا ہے جو گاؤں سے باہر کھیل رہا ہے.خداتعالی نے قادیان کو مرکز قرار دیا ہے اور اسے اُتم کیا ہے ہیں اس سے جتنا جتنا زیادہ کوئی تعلق رکھے گا اتنا ہی زیادہ خطرات سے بچا رہے گا.میں نے اس طرف اپنی جماعت کے لوگوں کو بہت دفعہ توجہ دلائی ہے اور توجہ ہوئی بھی ہے مگر غرباء میں سے تو ایسے لوگ ہیں جو چار پانچ چھ دفعہ سال میں یہاں آئیں گے لیکن امراء نہیں آتے.وہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم بڑے ہو گئے ہیں ہمیں جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ مگر یاد رکھو بچہ کبھی ماں سے بڑا نہیں ہو سکتا خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو جائے.اگر وہ اپنی ماں کے مقابلہ میں کہتا ہے کہ میں بڑا

Page 469

و نوار العلوم جلد ۵ ۴۴۹ اصلاح نفس ہو گیا ہوں تو جاہل ہے نادان ہے.یہ ٹھیک ہے کہ باہر گیا ہوا دودھ بھی فائدہ دے سکتا ہے مگر اتنا نہیں جتنا تازہ دودھ.یہی وجہ ہے کہ نازک اور چھوٹے بچے کے لئے ماں کی چھاتی کا دو دھر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے.بڑے انسان کو گائے بھینس کا دودھ بھی فائدہ دے سکتا ہے مگر چھوٹے بچے کے لئے ماں کا ہی دودھ فائدہ بخش ہو سکتا ہے.تمہاری حالت ابھی چھوٹے بچے کی سی ہے اس لئے تمہیں اس جگہ اگر جسے خدا تعالیٰ نے اُم قرار دیا ہے روحانیت کا تازہ بتازہ دودھ پینا چاہئے.دوسرا فائدہ یہاں آنے میں یہ ہوگا کہ ایک تو تم ان کاموں میں جو بیاں ہو رہے دوسرا فائدہ ہیں مدد دے کر ثواب حاصل کرو گے.دوسرے اور وں کو دیکھ کر روحانی باتوں کے حاصل کرنے کی تحریک ہو گی.یہاں تاجر بھی رہتے ہیں مگر نمازوں اور درس کے وقت دوکا نہیں بند کرکے چلے جاتے ہیں اور سودے والے شکایت کرتے ہیں.تو یہاں دوسروں کو دیکھ کر بھی نیک اور دینی باتوں میں حصہ لینے کی تحریک ہوتی ہے.تیسرا فائدہ یہ ہے تعلقات مابین میں زیادتی ہوتی ہے.ایک بھائی کو تیسرا فائده دوسرے بھائی سے واقفیت پیدا ہوتی ہے.جلسہ کے دنوں میں یہ بات پورے طور پر حاصل نہیں ہو سکتی.دوسرے دنوں میں جب لوگ آتے ہیں ایک دوسرے کو اپنے حالات اور تکالیف سناتے ہیں تو ایک دوسرے کا ایمان تازہ ہوتا ہے.صحابیہ آپس میں کہا کرتے تھے او ایمان تازہ کریں اور یہ اس طرح کہ ایک دوسرے کے حالات سنتے اور فائدہ اُٹھاتے.پھر اس طرح ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے.اس غرض کے لئے بھی قادیان آنا ضروری ہے.چوتھا فائدہ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو متفرق بھیڑوں کی طرح نہیں بنایا چوتھا فائدہ بلکہ ایک انتظام کے ماتحت رکھا ہے.ایک شخص کے ہاتھ پر اس نے تمہیں جمع کیا ہے اور وہ خلیفہ ہے.اور بہ ظاہر ہے کہ جو سامنے رہتا ہے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے جو سامنے نہیں ہوتا.پھر جو زیادہ خط لکھتا ہے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے جو کہ خط لکھت ہے پھر جو شخص یہاں آکر رہتا ہے اس کی روحانیت کو اس سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے جو بیاں نہیں آتا یا کم آتا ہے.چنانچہ میں نے ہر تنجد میں ایک سجدہ قادیان میں رہنے والوں کے لئے دعا کرنے کے مخصوص کیا ہوا ہے.یوں تو وہ دوسری دُعاؤں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں مگر ایک سجدہ میں خاص طور بہ ہر ان کے لئے دُعا کی جاتی ہے پھر بعض اوقات مجلس میں بیٹھے بیٹھے دعا کی تحریک ہوتی ہے اس عله بخاری کتاب الایمان باب قول النبي صلى الله عليه وسلم بنى الاسلام على خمس

Page 470

اصلاح نفس وقت میں اس طرح دُعا کرتا ہوں کہ اقول ان کے لئے جو اس مجلس میں بیٹھے ہوں پھر ان کو ساتھ ملا کر جو قادیان میں رہتے ہیں پھر ساری جماعت کے لئے اس میں پھر قادیان والے آجاتے ہیں.اس کے علاوہ ایک روحانی اثر ہوتا ہے جو سامنے آنے والے لوگوں پر پڑتا ہے.اس کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا.مگر یہ تو عام بات ہے کہ جب ڈاکٹر بیمار کے پاس آتا ہے تو بیمار کے چہرہ پر بشاشت پیدا ہو جاتی ہے.اس کی کیا وجہ ہے ؟ یہی کہ ڈاکٹر کا اثر اس پر پڑتا ہے.اسی طرح دعا کے علاوہ قلب کا ایک اثر ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بہت سی اصلاح ہو جاتی ہے اور اس اثر کو وہی حاصل کر سکتا ہے جو مجلس میں آکر بیٹھے.اور جو مجلس میں نہیں آتا اس پر یہ اثر نہیں ہو سکتا.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں بعض ایسے لوگ تھے جو قادیان میں رہتے تھے مگر آپ کی مجلس میں نہ آتے تھے پھر انہیں کو ابتلاء آیا.تو جو شخص مجلس میں نہیں آتا وہ خواہ زبان سے کچھ بھی نہ بولے دل ہی دل کے ذریعہ اثرات میں سے حصہ لے لیتا ہے پانچواں فائدہ یہ ہے کہ خود قادیان برکات کا موجب ہے اور بعض مقام ایسے ہوتے ہیں جن کا برکات سے خاص تعلق ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ اور مدینہ کی نمازوں کا اور جگہ کی نمازیں مقابلہ نہیں کر سکتیں.تو مقام سے بھی برکات حاصل ہوتی ہیں اور ہمیشہ ہوتی ہیں.دیکھیو نکہ کے لوگ اب گندے ہو گئے ہیں مگر مکہ تو خراب نہیں ہو گیا.پیغامیوں میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ قادیان جاکر کیا لینا ہے ؟ مگر وہ نہیں سمجھتے کہ انسان کی برکتوں سے علیحدہ مقام کی بھی برکتیں ہوتی ہیں جو شخص برکت والے انسان سے تعلق رکھتا ہے وہ برکت والے مقام پر جاکر دوہری برکتیں حاصل کرتا ہے اور جو صرف مقام سے تعلق رکھتا ہے وہ ایک طرح کی برکتیں حاصل کرتا ہے اب اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ نعوذ باللہ قادیان میں کوئی انسان برکت والا نہیں رہ گیا تو بھی قادیان تو برکتوں سے خالی نہیں ہو سکتا.گندہ انسان اپنا گند اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے کہ یہاں کی برکتیں بھی لے جاسکتا ہے.یہ پانچواں فائدہ ہے قادیان آنے کا.یہاں کی نماز، یہاں کا روزہ ، یہاں کی عبادت ، یہاں کا درس باہر کے مقابلہ میں بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں.یہاں ہی وہ مسجد اقصیٰ ہے جس کی نسبت رسول کریم پانچواں فائدہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں نماز پڑھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے.پھر یہاں ہی مسجد ہے جس میں خدا کا میخ اُترا.پھر یہاں ہی وہ مسجد ہے جہاں راتوں رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس تاریخی کے زمانہ میں آکر اُتر ہے.اس اندھیری رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے اور اس جگہ آگئے.پس ان برکتوں کی وجہ سے بھی یہ مقام بہت بڑی فضیلت

Page 471

رکھتا ہے.۴۵۱ اصلاح نفس چھٹا فائدہ یہ ہے کہ انسان پوری طرح اس وقت تک کوئی کام نہیں کر سکتا جب تک چھٹا فائدہ اس کام کی اہمیت اس کے ذہن نشین نہ ہو.باہر رہ کر پتہ نہیں لگ سکتا کہ کس طرح کوئی کام کرنا ہے ؟ خواہ کتنا ہی شور ڈالا جائے اور کتنے ہی زور کے ساتھ آگاہ کیا جائے پھر بھی باہر والوں کو پورا پورا پتہ نہیں لگ سکتا.یہاں ایک ایک رات میں ایسا کام آپڑتا ہے کہ نبی کی وجہ سے انسان کا خون خشک ہو جاتا ہے.مگر اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جو بیاں رہتا ہو.پچھلے ہی دنوں تبلیغ کے رستہ میں ایک روک پیش آگئی.اسی سے میری طبیعت خراب ہوگئی.عام طور پر مجھے قبض رہی ہے مگر اس کی وجہ سے اسہال شروع ہو گئے.اس بات سے باہر کے لوگ بالکل ناواقف ہیں مگر یہاں کے لوگوں میں کسی نہ کسی طرح اس کی بھنک پڑ گئی اور ان پر اس کی اہمیت ظاہر ہو گئی.تو یہاں کی ضروریات اور یہاں کے کاموں کی اہمیت وہی سمجھ سکتے ہیں جو یہاں آکر رہیں اور جیب یہاں آکر کاموں کی اہمیت سے آگاہ ہوں گے تو ان میں کام کرنے کا جوش اور ولولہ بہت زیادہ پیدا ہو گا.ساتواں فائدہ یہ ہے کہ بعض باتیں مرکزی امور سے تعلق رکھتی ہیں اور انفرادی کاموں ساتواں فائدہ کی برکتیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.دیکھو انفرادی طور پر ایک سپاہی لڑ کر جان بھی دے دیتا ہے مگر ملک اس کی اتنی قدر نہیں کرتا جتنی وزیر جنگ کی کرتا ہے.کیونکہ وزیر مرکزی بوجھ کو اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے.تو باہر جو لوگ کام کرتے ہیں وہ انفرادی حیثیت رکھتے ہیں.مگر یہاں جو کام کرتے ہیں وہ مرکزی کام کر کے مرکزی برکات سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.یہاں آنے کی یہ سات برکات ہیں جو نفس کی اصلاح سے تعلق رکھتی ہیں.اپنے نفس کی اصلاح کے بعد دوسری بات دوسروں دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرو کو نفع پہنچاتا ہےاور یہ چیز بھی دو قسم کی ہے پہلی باتیں تو عمل خیر تھیں اور یہ ایصال خیر ہیں.جو دو طرح پر ہوتا ہے.ایک جسمانی طور پر اور دوسرا روحانی طور پر جسمانی یعنی جسم کو فائدہ پہنچانا اور روحانی یعنی روح کو فائدہ پہنچانا.جسمانی کی ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ ساری تعلیم بیان کرنے کے لئے وقت نہیں ہے اور یہ زکوۃ خیرات اور چندہ دینا ہے جنہیں شریعت نے ضروری قرار دیا ہے.

Page 472

انوار العلوم جلد ۵ ۴۵۲ اصلاح نفس زکواۃ کی فرضیت زکوة توالی ضروری چیز ہے کہ جو نہیں دیتا وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرینہ کے زمانہ میں جب کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ.** اور تحد مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ خُذُ (التوبة : (۱۰۳) اس میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہے کہ تو ہے.اب جب کہ آپ نہیں تھے تو اور کون سے سکتا ہے ؟ نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہوگا جو لے گا.لیکن جہالت سے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے.ادھر تو لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور ادھر فساد ہو گیا قریباً سارا عرب مرتد ہو گیا اور کئی مدعی نبوت کھڑے ہو گئے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ نعوذ باللہ اسلام تباہ ہونے لگا ہے.ایسے نازک وقت میں صحابہ نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ ان لوگوں سے جنہوں نے زکواۃ دینے سے انکار کر دیا ہے فی الحال نرمی سے کام لیں.حضرت عمرض جن کو بہت بہادر کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ گو میں کتناہی جری ہوں اگر ابو بکرہ جتنا نہیں کیونکہیں نے بھی اس وقت یہی کہا کہ ان سے نرمی کی جائے.پہلے کافروں کو زیر کرلیں پھر ان کی اصلاح کر لیں گے.لیکن ابو بکر نے کہا ابن قحافہ کی کیا حیثیت ہے ؟ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے حکم کو بالائے میں تو ان سے اس وقت تک لڑوں گا جب تک کہ یہ لوگ پوری طرح زکوۃ نہ دیں اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اونٹ باندھنے کی ایک رسی جو دیتے تھے وہ بھی ادا نہ کر دیں.ربخاري كتاب المذكورة باب وجوب الزكوة ومسند احمد بن خليل جداخت) اس وقت صحابیہ کو پتہ لگا کہ خدا کا بنایا ہوا خلیفہ کسی قدر جرات اور دلیری رکھتا ہے ؟ آخر حضرت ابو بکرہ نے ان کو زیر کیا اور ان سے زکوۃ لے کر چھوڑی.مگر بہت لوگ ہیں جو گواہ نہیں دیتے.جب انہیں کہا جائے تو کہتے ہیں اچھا یہ بھی فرض ہے؟ پھر ایک سال یونہی گزار دیتے ہیں گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں.دوسرے سال پھر سنتے ہیں مگر ایسا ہی سنتے ہیں گویا نہیں سُنا.مگر اس طرح وہ اس فرض کی ادائیگی سے بیچ نہیں سکتے ہو شخص زکواۃ کو چھوڑتا ہے اس سے وہی معاملہ جائز ہو جاتا ہے جو کفار سے کیا جاتا ہے.چنانچہ حضرت عمر نے جب حضرت ابو بکرے کو زکوۃ نہ دینے والوں کے متعلق کہا مسلمان ہیں ان سے کافروں والا معاملہ نہ کیا جائے.تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا.نہیں.ان سے کافروں والا ہی معاملہ کیا جائے گا.چنانچہ ان کو پکڑ کر غلام بنایا گیا.زکوۃ کے متعلق ہم نے ایک رسالہ شائع کیا ہوا ہے.تم اس کو پڑھو اور جس پر زکوۃ واجب ہے

Page 473

انوار العلوم ۴۵۳ اصلاح نفس وہ زکوۃ دے.اور اس رقم کو مرکز میں پہنچاؤ جیسا کہ اس کے متعلق حکم ہے.دوسری چیز صدقہ دینا ہے.اس کے متعلق شریعت کا کوئی مقر حکم نہیں ہے صدقہ دینا کہ اتنا دیا جائے.ہاں یہ ہے کہ بچے ہوئے مال سے اپنے مقدور کے مطابق غریبوں پر خرچ کرو.ایمان کی ترقی اور نفس کی اصلاح کے لئے یہ بھی نہایت ضروری ہے.اگر کوئی زکوۃ دیتا ہے تو اس کو ایمان حاصل ہو گیا.مگراس کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک کہ صدقہ بھی نہ دے.اس بات کو خوب یا درکھو کہ قرب الہی کے مدارج کی ترقی نوافل کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.فرائض ادا کرنا انسان کو صرف جہنم سے بچاتا ہے.مگر نوافل جنت میں لے جانے کا ذریعہ ہوتے ہیں.پھر فرضوں میں کئی کوتاہیاں ہو جاتی ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے ساتھ سنتیں رکھ دی گئی ہیں اسی طرح زکواۃ میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں ان کو صدقہ دور کر دیتا ہے.تیسری چیز چندہ ہے.جو دین کے جہاد کے لئے ہوتا ہے یہ جہاد خواہ تلوار سے چندہ دینا ہو یا قلم اور کتب سے یہ بھی ضروری ہے کیونکہ زکوۃ اور صدقہ تو غرباء کو دیا جاتا ہے اس سے کتابیں نہیں چھاپی جا سکتیں اور نہ وہ مبلغوں کو دیا جا سکتا ہے.زکواۃ میں حکمت یہ تینوں چیزوں ضروری ہیں.اور ان میں سے ہر ایک میں حکمت ہے.زکوۃ جس رنگ میں رکھی گئی ہے اس میں تو یہ حکمت ہے کہ اگر یونی صدقہ کا حکم دیا جاتا رقم اور وقت مقررنہ ہوتا تو بہت لوگ نہ دیتے.اس لئے تھوڑے سے تھوڑا چندہ شریعت نے خود مقرر کر دیا ہے کہ اس قدر اپنے مال میں سے ضرور دیا جائے.اس سے زائد ہو دے وہ انعام کا مستحق سمجھا جائے اور جو اس حد تک بھی نہ دے وہ مجرم ہو گا.پس تم اس حد کو پورا کرو.دوسرا اس کے مقرر کرتے ہیں یہ فائدہ ہے کہ بعض لوگوں کو جو ضروریات آپڑتی ہیں ان کو فرداً فردا پورا نہیں کیا جا سکتا.مثلاً ایک شخص غریب ہے اس کو لاکھ روپیہ کی ضرورت آپڑی ہے.کوئی کہے کہ غریب اور پھر لاکھ روپیہ کی ضرورت کا کیا مطلب؟ مگر ہوتی ہے.مثلاً ایک تاجر ہے اس کو کاروبار میں گھاٹا پڑ گیا ہے اس کے چلانے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.ایسے لوگوں کی بھی زکوۃ سے مدد کی جا سکتی ہے.تو زکوۃ سے غرباء کو بھی دیا جاتا ہے تاکہ اپنی ضروریات پورا کریں.مگران کو بھی دیا جاتا ہے جنہیں کاروبار چلانے کے لئے ضرورت ہو اور پیشہ ور ہوں.پس زکوۃ کے فنڈ

Page 474

انوار العلوم جلد ۵ ۴۵۴ اصلاح نفس سے ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے.افراد کے چندہ سے ان کا کام نہیں چل سکتا.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے کا احسان اٹھانا پسند نہیں کر سکتے.وہ ٹھو کے مر جائیں گے مگر یہ گوارا نہیں کریں گے کہ زید کے سامنے جائیں اور اپنی ضروریات کے لئے اس سے کچھ حاصل کریں.چونکہ ایسی طبیعت کئی لوگوں کی خدا نے بنائی ہوتی ہے اور ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے شریعت نے یہ رکھا ہے کہ حکومت امراء سے لے اور ایسے لوگوں کو دے تاکہ وہ طبائع جو کسی کا احسان نہیں اُٹھانا چاہتیں وہ اس طرح مدد پائیں.صدقہ کے فوائد دوسری چیز صدقہ ہے.اس کے بھی کئی فائدے ہیں.ایک تو یہ کہ اس کے ذریعہ طبیعت میں ہمدردی کا مادہ پیدا ہوتا ہے.زکوۃ دینے والے میں یہ مادہ نہیں پیدا ہو سکتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ تو میں نے حکومت کو ٹیکس دیا ہے.اس کے سامنے لینے کے لئے مسکین نہیں آتا بلکہ حکومت آتی ہے اس لئے شریعیت نے صدقہ رکھا ہے کہ اس کے سامنے سیکن آئے تاکہ اس میں دوسروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کرنے کا جذبہ پیدا ہو.اسی وجہ سے شریعت نے صدقہ دینے کا حکم علیحدہ دیا ہے ، تاکہ انسان پر محبتانہ اور ہمدردانہ اثر پڑے.دوسرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ شریعت چاہتی ہے کہ لوگوں کے آپس کے تعلقات مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور یہ صاف بات ہے کہ جو انسان کسی کو کچھ دیتا ہے اور جو لیتا ہے ان کا آپس میں انس ہو جاتا ہے.وہ لوگ جو کسی بچہ کو پالتے ہیں ان کو جب کوئی تکلیف پہنچے تو وہ بچہ ایسا ہی درد محسوس کرتا ہے جیسا اپنا بچہ لیکن اگر غریب بچوں کو حکومت پالے اور روپے لوگ دیں تو ان میں لوگوں کے ساتھ ایسی محبت نہیں پیدا ہوسکتی ہیں دوسرا فائدہ صدقہ کا یہ ہے کہ لوگوں میں محبت اور ہمدردی کا مادہ پیدا ہوتا ہے.تیسرا فائدہ صدقہ کا یہ ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کے قرب کا موقع ملتا ہے.وہ شخص جو بندھا ہوا کچھ دیتا ہے اس میں ایسی خوشی اور رغبت نہیں پیدا ہوتی جیسی خود بخود دینے والے میں پیدا ہوتی ہے اس لئے شریعیت نے زکواۃ کے علاوہ صدقہ دینا ضروری رکھا ہے کہ جب کوئی اس طرح مسکین کی مدد کرے گا اور اس سے خوشی اور فرحت محسوس کریگا تو اس کے دل میں اُمنگ پیدا ہوگی کہ پھر بھی خرچ کروں.چوتھا فائدہ صدقہ کا یہ ہے جو زکواۃ دینے میں اس قدر حاصل نہیں ہوتا کہ مسکین کی دُعا ملتی ہے.زکوۃ میں مسکین نہیں جانتا کہ مجھے حیدر آباد سے بھیجی ہوئی زکوٰۃ سے دیا گیا ہے یا لاہور کی بھیجی ہوئی ہے.وہ تو یہی کہے گا کہ ناظر بیت المال کا بھلا ہو جس نے مجھے دیا ہے.مگر جب کوئی

Page 475

انوار العلوم جلد ۵ ۴۵۵ اصلاح نفس شخص اسے خود دیتا ہے تو وہ اس کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہے یہ مخفی اور ظاہرہ طور پر صدقہ دینا پھر آگے صدقے دو قسم کے ہیں.ایک منفی جس کا..لینے اور دینے والے کے سوا کسی کو پتہ نہیں لگتا.اور بعض تو ایسے مخفی صدقے ہوتے ہیں کہ ان میں لینے والے کو بھی پتہ نہیں لگتا کہ کس نے مجھے دیا ہے ؟ وہ یہی کہ سکتا ہے کہ اندھیرے میں دینے والے کا بھلا ہو.یہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ جب وہ کسی کو صدقہ دیتے ہیں تو اس پر احسان جتلانے لگتے ہیں.شریعت نے خفیہ صدقہ رکھ کر انہیں شق کرائی ہے کہ جب وہ اس طرح دے کر کی.پر احسان نہیں جتلا سکیں گے تو ظاہر دینے میں بھی نہ جتلائیں گے.اور ظاہری صدقہ اس لئے رکھا ہے کہ دوسروں کو بھی دینے کی تحریں ہو اور دوسرے بھی ایسا ہی کریں.یہ صدقے کے فوائد ہیں.چندہ دینے کا فائدہ تیسری چیز چندہ ہے.اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض ایسے سلمان ہوتے ہیں جو دین کی خدمت میں اتنا وقت نہیں لگا سکتے جتنا لگانا ان کے ذمہ ہوتا ہے.وہ اور کاموں میں لگے رہتے ہیں ان کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے چندہ رکھ دیا گیا ہے.مثلاً ایک زمیندار جو بہت زیادہ وقت دنیاوی دھندوں میں لگا دیتا ہے اور بہت تھوڑا وقت خدا کے لئے صرف کرتا ہے چندہ کے ذریعہ اسکی اس کمی کو پورا کیا جاتا ہے.پس چندہ وہ قیمت ہے جو انسان اس کوتاہی کی ادا کرتا ہے جو اس سے ہوتی ہے.مگریہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے پورا حق ادا نہیں ہوتا.اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ چندہ دے کر وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا.اس سے صرف کی پوری ہوتی ہے.دیکھیو اگر کوئی فرض نہ پڑھے اور نفل پڑھ لے تو کیا نماز کی فرضیت سے آزاد ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.اسی طرح جو چندہ دیتا ہے وہ یہ نہ سمجھے کہ عملی طور پر دین کی خدمت کرنے سے آزاد ہو گیا.یہ مال کے ذریعہ دوسروں کو جسمانی فائدہ.پہنچانا ہے.گر ایصال خیر کا دوسرا پہلو روحانی بھی ہے.یہ بھی دو قسم کا ہے.ایک علمی فائدہ پہنچانا عملی فائدہ پہنچانا اور دوسرا روحانی یعنی ایک تو وجو دین سے علی نہیں رکھتا اس سے وارے ورے ہی رہتا ہے اور ایک روحانی جو دینی فائدہ ہے.بیوی بچوں کو دین سکھانا پہلی شق کی سب سے ضروری بات بیوی بچوں کو دین سکھانا اور تعلیم دینا ہے اور یہ نہایت ضروری ہے کیونکہ اب اگر ہم اپنی اولاد

Page 476

انوار العلوم جلد ۵ ۴۵۶ اصلاح نفسر کو تعلیم نہ دیں آج سے پچاس سال بعد ہماری ہی اولاد سے ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں گے جیسے دوسرے لوگ ہیں ایسی صورت میں نہیں ان قربانیوں اور کوششوں کی کیا ضرورت ہے جو ہم دین کے لئے کر رہے ہیں.اگر ہم اس وقت امریکہ یورپ اور افریقہ سے پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اسلام کی طرف تو لائیں مگر اپنی اولاد کو دین نہ سکھائیں تو اس کا کیا فائدہ ؟ پس احمدیوں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں.یہ نظم جو آج سنائی گئی ہے میں نے انہی بچوں کے لئے لکھی ہے جو اس وقت تربیت کے محتاج ہیں.وہ قوم کبھی قائم نہیں رہ سکتی جو اپنی اولاد کی تربیت نہیں کرتی ہیں جب تک تم اپنی اولاد ، بیوی بچوں کو دین نہیں سکھلاتے تمہاری کوششوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کپڑا بنا کر پھاڑ ڈالا جائے.تم ان کو دین سکھاؤ اور اس طرح سکھاؤ کہ ان میں السیار چ جائے کہ ان کے لئے دین کو چھوڑنا زیادہ مشکل ہو بہ نسبت اس کے کہ ان کے گلے پر چھری رکھی جائے تو اس کے نیچے سے نکلنا.دیکھو ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ اس سے بڑا انسان بنے.پھر تمہیں یہ کس طرح گوارا ہو سکتا ہے کہ تمہاری اولاد دین میں تم سے کم رہے حضرت مسیح موعود نبی تھے مگر دیکھو خیر خواہوں کی نیت کیسی ہوتی ہے جب میں نے تشخید کالا تو ایک دفعہ مسجد میں حضرت خلیفہ اول کو کہا گیا آپ نے تشخید پڑھا ہے ؟ انہوں نے کہا پڑھا ہے." اچھا لکھا ہے.مگر مجھے پسند نہیں آیا کیونکہ ہمارے ہاں ٹوڈا ۴۲ کی مثال مشہور ہے.میں نہیں سمجھتا تھا کہ ٹوڈا کیا ہوتا ہے ؟ مولوی صاحب نے فرمایا ٹوڈا اونٹ کا بچہ ہوتا ہے اور شل ہے کہ اونٹ کی قیمت ہم ہو تو اس کے بچے کی ہم ہونی چاہئے.ہم تو تب سمجھتے جب تم مرزا سے بڑھ کر لکھتے.یہ تو ان کا ذوق تھا.مگر ہر شخص جو خیر خواہ ہو.اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے قائمقام بننے والے ہم سے بڑھ کر ہوں.ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر اس سفر میں کہ جس میں حضرت مسیح موعود فوت ہوئے ایک دفعہ ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کی ہند و پیشنر سیشن جج کی آمد کی خبر دینے آئے جو بغرض ملاقات آئے تھے.آپ نے اس وقت ان سے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں گھر محمود بھی بیمار ہے مجھے اس کی بیماری کا زیادہ فکر ہے آپ اس کا توجہ سے علاج کریں.تو والدین کو اپنی اولاد کا بڑا فکر ہوتا ہے.مگر تم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو احمدی بنانے کا فکر نہیں کرتے.اپنی اولاد کو دین نہیں سکھاتے.نماز کا وقت ہوگا تو سردی یا کسی اور وجہ سے کہیں گے بچہ نے نماز نہیں پڑھی تو کیا ہوا ؟ حالانکہ بچوں کی تربیت کا زمانہ ان کا بچپن کا ہی زمانہ ہوتا ہے اور بچپن کی تربیت ہی

Page 477

انوار العلوم جلد ۵ ۴۵۷ اصلاح نفس آئندہ زندگی میں کام آسکتی ہے.کیا تم نے دیکھا نہیں ؟ کہ ہمارے ملک میں جن کو شاہ دولا کا چو با بنایاجاتا ہے ان کے سروں یہ بچپن میں ہی خول چڑھا دیا جاتا ہے.کیونکہ بڑے کا سر چھوٹا نہیں کیا جاسکتا.پس آپ لوگ بچوں کی خاص طور پر تربیت کریں اور ایسی تربیت کریں کہ ایمان میں آپ سے بڑھ جائیں.آپ لوگوں کی مثال تو ایسی ہے جیسے ترکھان لکڑی کو تراش کر کوئی چیز بناتا ہے مگر بچوں کی کی ایسی مثال ہے جیسے کسی چیز کو ڈھالا جاتا ہے اور ڈھالنے میں کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی مگر تراشنے میں کچھ نہ کچھ الگ کرنی پڑتی ہے.اور اس میں محنت بھی زیادہ صرف ہوتی ہے.پس تم اپنی اولاد کو دین کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرو تاکہ تمہارے بعد ایک مضبوط جماعت پیدا ہو جائے اور جب تم فوت ہونے لگو تو تمہارے دل میگین نہ ہوں بلکہ خوشی سے بھرے ہوئے ہوں کہ ہم ایسی جماعت کے پیرو دین کی امانت کر رہے ہیں جو اس کی حفاظت کرنے کی اہل ہے.پیس کبھی یہ خیال مت کرو کہ بچہ اگر کوئی بری حرکت کرتا ہے یا دین نہیں سیکھنا تو کوئی حرج نہیں بڑا ہو کر سیکھ لے گا.سیکھنے کی عمر دراصل بچپن ہی ہے.بہت لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ بچہ نے جھوٹ بولا تو کیا ہوا.بڑا ہو کر چھوڑ دے گا.مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو بچہ ہونے کی حالت میں جھوٹ ہوتا ہے وہ بوڑھا ہونے تک بھی اسے نہیں چھوڑے گا کیونکہ اسے تو جس طرح ڈھلنا تھا ڈھل چکا.دیکھو جن بچوں کے سر کو بچپن میں چھوٹا کر دیا جاتا ہے ان کے بڑے ہونے پر سر بڑا نہیں ہو جاتا.اسی طرح جو بچپن میں جھوٹ بولتا ہے یا چوری کرتا ہے وہ بڑا ہو کر چوری چھوڑ نہیں دے گا بلکہ بڑا چور بن جائے گا سوائے اس کے جسے خدا تعالیٰ کاٹ کاٹ کر صاف کر دے.پس اپنے بچوں کی تربیت کرو اور یہ مست خیال کرو کہ نمازیں پڑھنے میں انہیں تکلیف ہوتی ہے یا روزہ رکھنے میں وہ کمزور ہو جاتے ہیں.دین کے احکام پر ان سے عمل کراؤ.اور اگر وہ کوئی بری بات کریں تو سمجھاؤ اور بے شک نرمی سے سمجھاؤ.لیکن اگر نرمی سے نہ مانیں اور سختی کی ضرورت ہو تو سختی بھی کرو.دوسروں کو تبلیغ کرو دوسری قسیم روحانیت کی تبلیغ ہے.یہ بھی نہایت ضروری بات ہے اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک دوسروں کو تبلیغ نہ کرے.یہ خدا تعالیٰ نے مومن کا فرض رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.كنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (ال عمران : 111)

Page 478

انوارالعلوم جلد ۵ ۴۵۸ اصلاح نفس کہ تم سب سے بہتر امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم لوگوں کو نیکی سکھاؤ اور بُرائی سے روکو.پس جب خدا تعالیٰ نے ہر مومن کا یہ فرض قرار دیا ہے اور وہ پیدا ہی اسی غرض کے لئے کیا گیا ہے تو کس قدر افسوس کی بات ہے.اگر اس فرض کو ادا کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور پھر کیا فائدہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا ؟ اگر آپ جس غرض کے لئے آئے تھے ہیں کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے دنیا میں آئے تھے کہ لوگوں سے اسلام منوائیں.اب اگر کوئی دوسروں کو اسلام نہیں منواتا تو اس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا کیا ہوا ؟ کچھ بھی نہیں.پھر اس کے بغیر مسلمان قوم زندہ ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ تبلیغ کرنے کے معنی آگ بجھانے کے ہیں.اور کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر کسی کے ہمسائے میں آگ لگی ہو اور وہ اس کو نہ بجھائے تو اس آگ کی لپیٹ سے وہ بیچ سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں.پس اگر تمہارا ہمسایہ یہودی یا عیسائی یا آریہ یا غیر احمدی ہے یا تمہارا بچہ یا بھائی یا اور دوسرے رشتہ دار احمدی نہیں ہیں تو وہ ضرور تمہیں بھی خراب کریں گے اور ان کے کفر کا اثر تمہارے تک بھی پہنچے گا.پس کفر ایک آگ ہے اور مؤمن کا فرض ہے کہ اپنے گھر تک پہنچنے سے قبل ہی اسے بجھانے کی کوشش کرے اور ی نہ سمجھے کہ اگر اس کے ہمسائے میں کفر کی آگ جل رہی ہے تو جلتی رہے اس سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.تم خاص طور سے لوگوں میں تبلیغ کرنے کی کوشش کرو اور لوگوں کو سلسلہ کی طرف توجہ دلاؤ.اگر ہندو اور عیسائی ہیں تو ان کو اسلام کی طرف لاؤ اور اگر غیر احمدی ہیں تو ان کو سلسلہ کی خصوصیات بتا کر سلسلہ میں لاؤ.دیکھو تبلیغ کے متعلق نصیحتیں میں بہت دفعہ کر چکا ہوں اور اب بھی مختصر طور پر کہہ دیا ہے کیونکہ وقت بہت ہو گیا ہے.ان کو خوب اچھی طرح یاد رکھو اور ان پر عمل کرو.آج ہی میں نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ اس سال تبلیغ نہ کرنے کی وجہ سے تمہارے ذمہ قرضہ ہو گیا ہے اس کی ادائیگی کی فکر کرو.اور یہ تمہارے ذمہ قرضہ نہیں بلکہ جرمانہ ہے کیونکہ تم نے سستی سے کام لیا ہے اس کو بہت جلدی ادا کرنا چاہئے.اب کے میں نے تجویز کی ہے کہ جس طرح ضلع دارد تمیں تقسیم کی جاتی ہیں.اسی طرح ضلعوں میں یہ بھی تقسیم کی جائے کہ اتنے اتنے احمدی بنانے کی کوشش کرو.اور میں طرح سالانہ جلسہ پر ناظر بیت المال تمہیں بتاتا ہے کہ فلاں جماعت نے اتنا چندہ دیا اور فلاں نے اتنا.اسی طرح

Page 479

انوار العلوم جلد ۵ ۴۵۹ اصلاح نفس ناظر تالیف و اشاعت بتایا کرے گا کہ فلاں جماعت نے اتنے احمدی بنائے اور فلاں نے اتنے.اگر یہ باتیں جو میں نے آپ لوگوں کو بتائی ہیں مان لو تو یقیناً یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے وہ وعدے جو اس نے اپنے مومن بندوں کے متعلق کئے ہیں وہ پورے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ کے تو وہ وعدے بھی جو معمولی بندوں کے متعلق ہوتے ہیں پورے ہوتے ہیں پھر اگر کوئی شخص پورا مومن بن جائے تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ وعدے جو مومنوں کے متعلق ہیں پورے نہ ہوں.میں نے حضرت صاحب کا لکھا ہوا ایک نوٹ دیکھا تھا اور اسے چھپوا دیا ہے.اس میں آپ لکھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ تو خدا کو چھوڑ دے مگر میں کس طرح چھوڑ سکتا ہوں ؟ جب کہ سب سونے ہوتے ہیں خدا مجھے آکر جگاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں.تمہیں کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں.بتاؤ ایسے خدا کو میں کس طرح چھوڑ سکتا ہوں.تو خدا اپنے بندوں سے بڑی محبت کرنے والا ہے.مسیح موعود تو بہت بڑا درجہ رکھتے تھے میں اپنا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس کو یاد کر کے مجھے عجیب لذت آتی ہے.کچھ دن ہوئے ایک ایسی بات پیش آئی کہ جس کا کوئی علاج میری سمجھ میں نہ آتا تھا.اس وقت میں نے کہا کہ ہر ایک چیز کا علاج خدا تعالیٰ ہی ہے اسی سے اس کا علاج پوچھنا چاہئے.اس وقت میں نے دُعا کی اور وہ ایسی حالت تھی کہ میں نفل پڑھ کر زمین پر ہی لیٹ گیا.اور جیسے بچہ ماں باپ سے ناز کرتا ہے اسی طرح میں نے کہا.اسے خدا ! میں چارپائی پر نہیں زمین پر ہی سوؤں گا.اس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا ہوا ہے کہ تمہارا معدہ خراب ہے اور زمین پر سونے سے معدہ اور زیادہ خراب ہو جائے گا.لیکن میں نے کہا.آج تو ئیں زمین پر ہی سوؤں گا.یہ بات ہر ایک انسان نہیں کہ سکتا بلکہ خاص ہی حالت ہوتی ہے.یہ کوئی چھ سات ہی دن کی بات ہے جب میں زمین پر سو گیا تو دیکھا کہ خدا کی نصرت اور مدد کی صفت جوش میں آئی اور متمثل ہو کر عورت کی شکل میں زمین پر اتری.ایک عورت تھی اس کو اس نے سوئی دی اور کہا اسے مار اور کہو جا کہ چارپائی پر سو.میں نے اس عورت سے سوئی چھین لی.اس پر اس نے (خدا تعالیٰ کی اس مجسم صفت نے سوئی خود پکڑ لی اور مجھے مارنے لگی.اور میں نے کہا لو مار لو مگر جب اس نے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تو زور سے سوئی گھٹنے تک لا کر چھوڑ دیا اور کہا.دیکھ محمود ! نہیں تجھے مارتی نہیں.پھر کہا جا اُٹھ کر سو ر ہو یا نماز پڑھ.میں اسی وقت کو دکر چار پائی پر چلا گیا اور جاکر

Page 480

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس سورہا.میں نے اس وقت سمجھا کہ اس حکم کی تعمیل میں سونا ہی بہت بڑی برکات کا موجب ہے.تو خدا تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے اس کے سامنے سب کچھ ایچ ہو جاتا ہے تم اس کے لئے کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے محبت کرے.تاکہ اس کی مدد اور نصرت تم کو مل جائے.اور جب اس کی نصرت تمہارے ساتھ شامل ہو جائے تو پھر ساری دُنیا ہے کیا چیز ؟ وہ تو ایک کیڑے کی بھی حیثیت نہیں رکھتی.مومنوں کے متعلق خدا کے وعدے اب میں وہ وعدے سناتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ کئے ہیں.ان کو سنو اور سوچو کہ خدا تعالیٰ مومنوں پر کیا کیا انعام کرنے کے وعدے فرماتا ہے ؟ بدیوں کے چھپے رہنے کی خواہش کی انسان کی کیا خواہشات ہوتی ہیں بھی وہی کہا کھو یہ کرتا ہے کہ اس کی کمزوریاں دور ہو جائیں اور اس کی غلطیوں پر کوئی آگاہ نہ ہو.اور یہ خواہش ایسی فطرتی ہے کہ بعض حیوان بھی جو تربیت یافتہ ہوتے ہیں ان میں بھی پائی جاتی ہے.چنانچہ وہ پائخانہ پھر کر اس پر مٹی ڈالتے ہیں.تو یہ ایسی فطرتی بات ہے کہ حیوانوں تک میں بھی پائی جاتی ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ أَوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَتَلُوا وقتلوا لا كَفَرَنَ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَلَا دُخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأنهر ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللهِ وَاللَّهُ عِنْدَ لَا حُسْنُ الثَّوَابِ (ال عمران : ١٩٢) : کہ وہ لوگ جو میرے لئے اپنے رشتہ داروں کو ، اپنے مال کو ، اپنے وطن کو چھوڑ دیتے ہیں ، جو اپنے گھروں سے نکالے جاتے ہیں ، میرے دین کو قبول کرنے کی وجہ سے دُکھ دئے جاتے ہیں میرے دین کے لئے لڑتے اور مارے جاتے ہیں میں ان کی بدیاں ڈھانپ دوں گا ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی کروں گا کسی کی طاقت نہیں ہوگی کہ ان کی بدیوں کو دیکھ سکے.بلکہ جیسا کہ صوفیاء نے لکھا ہے کہ ایسا شخص جس کے گناہوں پر خدا تعالی پردہ ڈال دے اگر اس کے گناہوں کو کوئی دیکھنا چاہے تو ہلاک کر دیا جاتا ہے.تو جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان سے اگر غلطیاں بھی ہو جائیں تو بعض اوقات خدا تعالیٰ ان کو ڈھانپ دیتا ہے اور بعض دفعہ ان کی غلطیوں کو دور کر دیتا ہے یہ اتنا بڑا وعدہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی کر ہی نہیں سکتا.

Page 481

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس پاک ہونے کی خواہش پھر انسان چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے.اچھی باتیں اس میں پائی جائیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (الاحزاب : ۷۱-۷۲) کہ اسے لوگو ! اگر تم مومن بن جاؤ.اللہ کا تقوی اختیار کرو اور پکی بات کہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا اللہ تمہارے اعمال نیک کر دے گا اور تم سے بدی سرزد ہی نہ ہوگی.اس سے ظاہر ہے کہ مؤمن ترقی کر کے اس حد کو پہنچ جاتا ہے کہ اس سے جو بات بھی سرزد ہوتی ہے نیک ہی سرزد ہوتی ہے بُری نہیں ہوتی.دنیا میں عزت اور رتبہ پانے کی خواہش پھر انسان چاہتا ہے کہ اسے دنیا میں عزت اور رتبہ ملے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.آؤ مومن بن جاؤ ہم تم کو یہ بھی دے دیں گے.چنانچہ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ بنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ المَلَئِكَةُ الا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أوليو كُمُ في الحيوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ رحم السجدة : ٣١-٣٢) ایسے لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہیں اور تم کو کامیاب ہوگی تم کسی قسم کا خوف نہ کرو.علم اور فہم حاصل ہونے کی خواہش پھر انسان علم اور غم چاہتا ہے.خدا تعالیٰ رمایا ہے.اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَثَلُهُ فِي الظُّلُمتِ لَيْسَ بِخَارِجِ مِنْهَا (الانعام :(۱۲۳).کہ کیا وہ جو مُردہ تھا اور ہم نے اس کو زندہ کیا.اور پھر اسے شمع نورانی دے دی تاکہ ہر تاریکی میں اسے رستہ مل جائے.وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو ظلمت میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو.اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ مومن کو وہ نوکر دیتا ہے کہ جس کا کوئی مقابلہ کر ہی نہیں سکتا.تو انسان علم کو پسند کرتا ہے.فرمایا مومن بن جاؤ تو یہ بھی لے لو.میں نے بتایا تھا کہ حضرت صاحب

Page 482

انوار العلوم جلد اصلاح نفس کو خدا تعالیٰ نے وہ علم سکھایا کہ کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہ کر سکا.اب مجھے خدا تعالیٰ نے ایسا علم دیا ہے کہ خواہ کوئی ایسا علم جس کا مجھے پتہ بھی نہ ہو اس کے جاننے والا اس علم کے ذریعہ اگر اسلام پر اعتراض کرے تو خدا تعالیٰ مجھے اس کا ایسا جواب سکھاتا ہے کہ پھر وہ بول ہی نہیں سکتا.حضرت صاحب کو ایک ہی علم نہیں سکھایا گیا تھا بلکہ مختلف طرح کے علوم سکھائے گئے تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ہی رات میں مجھے خدا تعالیٰ نے چالیس ہزار الفاظ کا مادہ سکھا یا سرانجام آنهم روحانی خزائن جلدا صفحہ ۲۳۴) یہی وجہ تھی کہ کوئی انسان آپ کے مقابلہ میں عربی نہیں لکھ سکتا تھا.ہر آفت سے بچنے کی راہ پھر فرمایا :- ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلَ لَكُمْ فُرْقَانَا وَيُكَفِّرْ عَنَكُمْ سَيَاتِكُمْ ر الانفال : ٣٠ ) کہ اے لوگو ! اگر مومن ہو جاؤ اور اللہ کا تقوی اختیار کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تمہیں ہر مصیبت اور ہر تکلیف سے نکلنے کے سامان بتا دیں گے.مومن پر بھی تکلیف آتی ہیں.مومن بھی بیمار ہوتا ہے.مگر وہ ہلاک نہیں کیا جاتا.یہی وجہ ہے کہ خدا کے کسی برگزیدہ انسان کو قابل نفرت بیماری مثلاً کوڑھ وغیرہ نہیں ہوتی.انبیاء میں یہ مرض نہیں ہوتا نہ وہ پاگل یا اور اسی قسم کی ہلاکتوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں.دنیا میں رعب و داب حاصل ہونے کی خواہش پھر انسان دنیا میں اپنا رعب و داب چاہتا ہے اور اس کے لئے بڑی بڑی کوششیں کی جاتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے آؤ اس کے حاصل کرنے کا طریقی بھی میں بتاؤں.چنانچہ فرماتا ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الطَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ في الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَونِهِمُ امْنَّا (النور : ٥٦) که خدا تعالیٰ مومنوں سے وعدہ کرتا ہے کہ ان میں ایسے بادشاہ اور خلیفے بنائے گا جیسے کہ پہلوں میں بناتا تھا.اور وہ صرف ظاہری شان و شوکت ہی نہ رکھتے ہوں گے بلکہ ایسے ہوں گے کہ ان کے ذریعہ دین کی تمکن ہوگی اور ان کے خوف کو اللہ تعالیٰ امن سے بدل دے گا.ان پر کسی کار عرب نہیں ہوگا بلکہ

Page 483

انوا را العلوم جلد ۵ ان کا لوگوں پر رعب ہو گا.۴۶۳ اصلاح نفس نئی نئی چیزیں حاصل ہونے کی خواہش پھر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے بھی بٹی چیزیں میں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں اس کو بھی پورا کر دوں گا.چنانچہ فرمایا : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أَخْفَى لَهُمْ مِنْ قُرَةٍ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجدة : ١٨) کہ مومن کو ہمیشہ اخفا ہی رہتا ہے.خواہ وہ کسی درجہ اور رتبہ پر پہنچ جائے.لوگ پرانی چیز کو پسند نہیں کرتے.اگر کوئی کپڑا ایک سال تک نہ پھٹے تو کہتے ہیں کہ اس سے جی اکتا گیا ہے یہ پھٹتا ہی نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تم کو ایسی نئی نئی چیزیں دی جائیں گی جن کا تم کو اس سے پہلے علم بھی نہ ہوگا.دشمن کے تباہ ہونے کی خواہش پھر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا درشن تباہ ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَALANGAL الله في الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَا عَدَّ لَهُم عَذَاباً مهيناه وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالمُومِنتِ بِغَيْرِ مَا التَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْماً مبيناه (الاحزاب : ٥٨-١٩) وہ لوگ جو خدا اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں اور وہ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دکھ دیتے اور ان پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں ان کو ہم جلا کر راکھ کر دیں گے.پھر فرمایا :- وَمَنْ خَقَّتُ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَلِدُونَ ، تَلفَحُ وَجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ و اَلَمْ تَكُن انتي تتلى عليكُمْ نَكُنتُمْ بِهَا تُكَذِبُونَ ، قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا صَالِينَ و رَبَّنَا اخْرِجُنَا مِنْهَا فَإِن عُدْنَا فَانا ظلِمُونَ ، قَالَ اخْسَلُوا فِيهَا وَلا تُكَلِّمُونِه إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرُ لَنَا وارحمنا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ ، فَاتَّخَدُ تُمُوهُم سِخْرِ يَا حَتَّى السَوكم ذِكْرِى وَكُنتُهُ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ إِلَى جَزَيْتُهُمُ اليَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ

Page 484

انوار العلوم جلد ۵ الفائِزُونَ (المومنون : ۱۰۴ تا ۱۱۳) اصلاح نفس ان آیات میں خدا تعالیٰ نے عذاب کا عجیب نقشہ کھینچا ہے، فرماتا ہے.مومنوں کے دشمن جب قیامت کے دن پیش کئے جائیں گے.تو ہم کہیں گے لے جاؤ ان کو جہنم ہیں.اس وقت وہ کہیں گے ہم سے غلطی ہوگئی.یہ بخشی جائے.اور ہمارا یہ قصور معاف کیا جائے.ایسا دردناک عذاب دیکھ کر وہ کیوں نہ گھبر ائیں گے ؟ کہ فِي جَهَنَّمَ خَلِدُونَ تَلْفَعُ وجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ یا تو ان کی یہ حالت تھی.کہ کہتے تھے ہم ہی حق پر ہیں یا کہیں گے کُنَّا قَدُ ما ضالین ہم تو بڑے گمراہ تھے.اس وقت وہ کہیں گے.ایک دفعہ اس سے نکال دیجئے.پھر اگر کریں گے تو نہ بخشتا.خدا تعالیٰ نے اس کا عجیب جواب دیا ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ مومنوں کو رکھ دینے والوں کو کس قدر سزا دی جائے گی.فرمانا ہے.قَالَ احْسَنُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ جاؤ اور چلے جاؤ بلکہ جسم میں جاؤ اور مجھ سے بات نہ کرو.میں تمہاری بات نہیں سنتا.کیوں رحیم و کریم خدا ان کی بات نہیں سنتا ؟ اس لئے کہ فرماتا ہے.إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَاوَانتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمُ سِخْرِيَّا حَتَّى السَوْكُمْ ذِكرِى وَكُنتُم مِنْهُم تَضْحَكُونَ کہ کچھ میرے بندے تھے.جو کہتے تھے.ہم ایمان لائے اپنے رب پر اور اپنے رب سے بخشش مانگتے تھے.تم ان میرے پیاروں سے منسی اور مخول کرتے تھے.کس قدر غیرت اور محبت ہے.فرماتا ہے تم نے جو میرے بندوں کا دل دُکھایا تو میں تمہاری بات کیوں سنوں ؟ ملے انعام کے کر نہ ہونے کی خواہش پھر انسان چاہتا ہے کہ جو امام نے وہ کم نہ ہو اور کم چھینا نہ جائے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُهُ افَفِي الْجَنَّةِ خَلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَارَبُّكَ عَطَاءٌ غَيْرَ مَجُذُوذٍ (هود: ١٠٩) ۱۰۹) جو تمہیں نعمت ملے گی وہ کبھی کٹے گی نہیں بلکہ اسمیں تم بڑھتے ہی جاؤ گے.پھر اس عطا کی خداتعالی تشریح کرتا ہے.کہ غیر مجذوذ ہے.اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں جو کچھ ان کے دل میں خواہش پیدا ہوگی وہی پوری ہو جائے گی.اور جو کچھ وہ چاہیں گے وہی انہیں مل جائے گا.کوئی کہے کہ انسان کی خواہش ہی کس قدر ہو سکتی ہے ؟ خواہ وہ کس قدر بھی خواہش کرے تھوڑی ہی ہوگی.اس

Page 485

انوار العلوم جلد ۵ ۴۶۵ اصلاح نفس کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم اس کی خواہش کرنے پر نہ رہیں گے بلکہ اپنی طرف سے دیں گے.پھر فرماتا ہے.وَادْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا اللِت جَنَّتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خلِدِينَ فِيهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِيَّتَهُمْ فِيهَا سَلم (ابراهیم :۲۴) وہ لوگ جو مومن ہوں گے.ان کو اعلیٰ مقام پر جگہ دی جائے گی اور جب وہ اس مقام پر پہنچیں گے فرشتے ان کے پاس آئیں گے.اور انہیں مرحامر با کیئنگے یعنی یہ کہ تم سلامتیوں میں رہو.یکسی قدر اکرام ہے کہ خدا تعالیٰ کے وزراء آکر بندوں کا استقبال کریں گے.اپنے متعلقین کو عزت ملنے کی خواہش پھر انسان چاہتا ہے کہ صرف اسے عزت حاصل ہو بلکہ اس کے متعلقین کو بھی عزت ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے :.وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدُرُرُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدارِه جَنْتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آيَاتِهِمُ وَأَزْوَاجِهِمُ وَذُرِّيَّتِهِمُ وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابِه سَلْهُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِه (الرعد : ۲۳تا۲۵) کہ وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اپنے رب کی مرضی چاہنے کے لئے اور نمازوں کو قائم کیا اور خرچ کیا اس میں سے جو ان کو دیا گیا پوشیدہ اور ظاہر اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ بدی کو ہٹادیا یہی وہ لوگ ہیں جن کا آخری گھر جنت ہے.وہ اس میں داخل کئے جائیں گے.اور ان کے آباء اور بیویاں اور اولاد کو بھی جنہوں نے ایسا ہی کیا داخل کیا جائے گا.فرشتے ان کے پاس آئیں گے.اور ان پر سلامتی کہیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ ایک مومن کی اولاد سے جو مومن ہوں گے.خواہ وہ پچلے ہی درجہ کے ہوں گے ان کو بھی اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا.پھر کوئی یہ خیال نہ کرے کہ باپ جو اعلیٰ درجہ کا مؤمن ہو گا اس کو کچھ کم درجہ پر لے آیا جائے گا اور اولاد کو کچھ اوپر کر کے اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا بلکہ یہ ہوگا کہ نچلے درجہ والے کو بڑھا کر اوپر لے جایا جائے گا.پھر اس بات کو اولاد تک ہی نہیں رکھا بلکہ یہ بھی فرما دیا ہے کہ اگر خاوند بڑے درجہ پر ہوگا اور بیوی چھوٹے درجہ پر تو بیوی

Page 486

انوار العلوم جلد ۵ کو بھی خاوند کے درجہ پر پہنچا دیا جائے گا.اور اگر بیوی بڑے رتبہ پر ہوگی اور خاوند چھوٹے درجہ پ پر تو خاوند کو بڑے درجہ پر لے جاکر بیوی کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا.اب خورد کردو.یہ کس قدر فضل اور رحم ہے اور کس قدر مومن کے ساتھ رعائت کی گئی ہے مثلاً اگر باپ انمبر کے مقام پر ہو گا اور بیٹا نمبر کے مقام پر تو بیٹے کو بھی.انمبر پر پہنچا دیا جائے گا اس کے باپ کا باپ اگر ۲۰ نمبر پر ہوگا تو ان دونوں کو اس تک پہنچانے کے لئے ۴۰ نمبر پر لے جایا جائیگا اسی طرح ان کے آباء میں سے جو سب سے اعلیٰ درجہ پر ہو گا اسی تک سب کو پہنچا دیا جائے گا یعنی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ علم کی اولاد سے کوئی کافر نہیں ہو گیا تو سب کو آپ کے پاس پہنچا دیا جائے گا ای طرح اگر حضرت ابو بکر نہ کی اولاد سے کوئی کافر نہیں ہو گیا تو ان سب کو ان کے پاس لے جایا جائے گا.یہی حال تمام مومنوں کا ہو گا.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے آپ کے اوپر کے لوگوں میں سے جہاں تک مومن ہوں گے ان کو بھی کھینچ کر آپ تک لے جایا جائے گا...اب دیکھو کس قدر بڑا درجہ ایک مومن کو حاصل ہو گا.بظاہر تو یہی کہا گیا ہے کہ باپ بیٹے سے یا بیٹا باپ سے ملا دیا جائے گا.لیکن یہ سلسلہ آگے دادا تک بھی چلتا ہے اور پھر اسی طرح اس سے آگے.تو یہ بہت بڑی رحمت ہے جو مومنوں پر کی جائے گی.محبوب کا قرب حاصل ہونے کی خواہش پھر انسان سب سے زیادہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اسے اپنے محبوب کا قرب حاصل ہو.خدا فرماتا ہے : وعد الله LOGمِنِينَ وَالمُؤمِنتِ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهُرُ خلِدِينَ فِيهَا وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذلِكَ هُوَ الْفَوزُ الْعَظِيمُ (التوبه : ٢٢) خدا تعالیٰ کا مومن مردوں اور مومن عورتوں سے وعدہ ہے کہ ان کو ایسے مقامات ملیں گے جن میں باغات ہوں گے اور جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے.بارغ بھی ایسے ہوں گے جو ہمیشہ رہنے والے ہونگے اور ان سے بڑھ کر ان کو یہ نعمت ملے گی کہ خدا ان سے راضی ہو جائے گا اور وہ اپنے محبوب سے مل جائینگے.اپنے نفسوں میں غور کرو کہ کیاتم انعام پانے کے مستحق ہو ؟ ان نعتوں کو کیوں جو خدا تعالیٰ نے مومنوں کے لئے بیان فرمائی ہیں اور بتاؤ کوئی نعمت ان سے باہر رہ گئی ہے ؟ ہرگز نہیں.آپ لوگ ان کوسن کر خوش

Page 487

انوار العلوم جلد ۴۶۷ اصلاح نفس ہوئے ہوں گے اور میں بھی خوش ہوا ہوں.مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو دیکھو کہ یہ کن لوگوں کے لئے ہیں ؟ اُن کے لئے جو مومن ہوں گے.میں نے آپ لوگوں کو یہ ہمتیں اس لئے سُنائی ہیں کہ آپ رکھیں آپ کے نفس میں کوئی یہی چیز ہے جس کی وجہ سے یہ تمہیں ملنی چاہئیں.ان کو دیکھو اور سوچو کہ کیا ان کو حاصل کرنے کی تم میں اہمیت اور قابلیت ہے ؟ اور ان کو پانے کے تم مستحق ہو گئے ہو ؟ معمولی سے معمولی انعام بھی کسی کو اس وقت تک نہیں ملتا جب تک کہ وہ اپنے آپ کو اس کے قابل نہیں بنالیتا.پھر کیا تم اتنے بڑے انعامات کو پانے کے مستحتی ہو ؟ یہ تو وہ انعام ہیں اور اتنے بڑے انعام ہیں کہ اگر کسی بادشاہ کے سامنے بھی ان کو رکھا جائے تو وہ بھی انہیں دیکھ کر حیران ہو جائے اور ہمارے مخالفین تو جانتے ہی نہیں کہ یہ انعام مل سکتے ہیں.مگر خدا نے ہم سے تو ان کا وعدہ کیا ہے.لیکن سوال یہی ہے کہ آیا تم ان کے مستحق بھی ہو گئے ہو ؟ اگر نہیں تو پھر تمہیں کون سی خوشی ہے ؟ پھر کیا تم نے ان انعامات کے حاصل کرنے کے قابل اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کی ہے ؟ اگر تم نے ان کو حاصل کرنے کا استحقاق ہی پیدا نہیں کیا اور نہ اس کے لئے کوشش کی تو پھر یاد رکھو کہ تمہارے لئے نہیں بلکہ ان کے لئے ہے جو اپنے آپ کو ان کا مستحق بنائیں گے..تم اپنے نفسوں میں غور کرو اور دیکھو کہ کیا جس طرح تم چندہ دینے میں بہت لیت و لعل کرتے ہو اگر اسی طرح سرکاری ٹیکس دینے والے کریں تو ان کو کوئی انعام ملے گا ؟ انعام نہیں بلکہ ان سے تو جیل خانے بھرے جائیں گے.ہمارے سیکرٹری اور کارکن تو چندہ کے لئے تمہارے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں اور تم کوئی پرواہ نہیں کرتے.پھر اسی طرح نماز، روزہ ، زکوۃ، حج اور دوسرے احکام کو دیکھو کہ آیا تم ان کو ایسے رنگ میں پورا کرتے ہو کہ تمہیں انعام مل سکے ؟ کیا تم خلافت کی اطاعت اسی طرح کرتے ہو جس طرح سرکار کی ؟ یا خلافت کی طرف سے جو آدمی مقرر ہیں ان کے ایسے ہی احکام مانتے ہو جیسے حکام کے ؟ بیشک اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے اور اپنے بندوں پر رحم کرے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ چھوٹے درجہ کے مومن کو بھی اوپر لے جائے گا.مگر رحم بھی حکمت کے ماتحت ہوگا.تم اس حکمت کے ماتحت تو اپنے آپ کو لاؤ تم اپنے اندر کم از کم آتن مادہ تو پیدا کرو کہ اگر تم سے کوئی غلطی ہو جائے اور اس پر سلامت ہو تو اسے برداشت کر سکو.مثلاً جو نماز با جماعت کے لئے نہیں آتا اسے جب آنے

Page 488

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس کے لئے کہا جائے تو اس کی آنکھیں جھک جائیں اور شرمندگی کے مارے پسینہ آجائے.ایسے شخص کے متعلق کہیں گے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے رحم کا مستحق بنانا چاہتا ہے.لیکن اگر کوئی نصیحت کرے اور آگے سے کہا جائے تو کون ہے مجھے نصیحت کرنے والا ؟ تو اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ اصلاح پانے کا مستحق نہیں ہے.توکم از کم اتنا تو ہوکہ سمجھانے والے سے لڑتے نہ پھرو.مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سمجھانے والے لوگوں کو مجلسوں میں شرمندہ کرتے پھریں.انہیں خود اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.پھر بعض لوگ شعائر اللہ کی ہتک کرتے ہیں.گناہ اور چیز ہے مگر شعائر اللہ کی ہتک بہت بُری بات ہے.ایک شخص گناہ کرتا ہے مگر اس پر شرماتا ہے تو اس کی شرمندگی خدا کے رحم کو کھینچتی ہے.گر ایک اور شخص ہے جو علی الاعلان رشوت لیتا ہے یا سود لیتا ہے یا نماز چھوڑتا ہے یا دو بیویاں کر کے ایک کو معلقہ کرتا ہے.تو وہ شعائر اللہ کی ہتک کرنے والا ہے اور ایسا شخص قابل رحم نہیں ہو سکتا.ایسے گناہ جو مخفی کئے جائیں اور جن پر شرمندگی لاحق ہو وہ قابل عفو ہوتے ہیں.مگر علی الاعلان شعائر اللہ کی ہتک کرنے والے گناہ معاف نہیں کئے جاتے.کفار کے متعلق خُدا کے وعدے پھر جہاں آپ لوگوں نے وہ وعدے سنے ہیں جو خدا تعالیٰ نے مومنوں سے کئے ہیں.وہاں یہ بھی تو دیکھو کہ خدا نے کفار کے متعلق کیا کہا ہے.اور کس قدر عذاب کے ان سے وعدے کئے ہیں ؟ فرماتا ہے.وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَا وَهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أَعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِى كُنتُم بِهِ كَذِبُونَ ، وَلَنُذِيقَهُمُ منَ الْعَذَابِ الآن دُونَ الْعَذَابِ الرِ لَعَلَّهُمْ يُرْجِعُونَ (السجدة : ۲۲۰۲۱) ان آیات میں خدا نے بتایا ہے کہ یہ لوگ اس دنیا میں بھی دُکھ پائیں گے اور اگلے جہان میں انہیں مبت زیادہ عذاب دیا جائے گا.پھر عذاب کی نوعیت کے متعلق فرمایا.إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا لِلطَّعِينَ مَابًا ، تَبِثِيْنَ فِيهَا احْقَابًا ، لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بُرا وَلَا شَرَابَا الحَما وَتَانًا جَزَاءُ وَفَاقًا (النياء : ۲۲ تا ۲۴) کہ جتم ان کافروں کی انتظار میں گھات لگائے ہوئے ہو گا جو خدا کی باتیں نہیں مانتے تھے ان کو آگ میں ڈالا جائے گا.اور گرم پانی اور پیپ پینے کے لئے دی جائے گی.پھر فرماتا ہے.جس طرح مومن کے لئے وعدہ تھا کہ جو چیز وہ چاہے گا وہی اسے مل جائے گی.

Page 489

انوار العطا ۴۶۹ اصلاح نفس اسی طرح کافر کے متعلق کہتا ہے کہ وہ ہر چیز چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے گا.چنانچہ فرماتا ہے :- يَوَدَّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِى مِنْ عَذَابِ يَوْمَئِذٍ بِنِيْلِهِ، وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِى تُنْوِيهِ ، وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثَمَّ يُنْجِيْهِ كَلَّا إِنَّهَا عَلَى (المعارج : ۱۲ تا ۱۶) : مجرم چاہے گا کہ بیٹا ہوں، بھائی سارا کنبہ اور ساری چیزیں جو کچھ زمین میں ہوں دے کر میں اس عذاب سے مخلصی پاؤں لیکن اسے نہیں چھوڑا جائے گا.پھر مومن کے لئے یہ تھا کہ فرشتے تکریم کے لئے آئیں گے.کافر کے متعلق فرماتا ہے.إِنَّ المُجْرِمِينَ فِي ضَلِ وَسُعُرِه يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَ سَفَرَه (القمر: ۲۸-۴۹) که مجرم جب مارا جائے گا تو جان نکلتے ہی اس کو کوڑے پڑنے شروع ہو جائیں گے اور ذلت کی یہی حالت نہ رہے گی بلکہ اور زیادہ ہوگی جس طرح مردہ بھیڑ کی لاش کو پھینک دیا جاتا ہے.اسی طرح ان کو لاتوں سے پکڑ کر مونوں کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سزا میں آرام کے لئے وقفہ مل جاتا ہے لیکن کافروں کے لئے ایسا نہیں ہوگا ادھر مومنوں کے لئے تو یہ فرمایا تھا کہ ان کا انعام بڑھتا ہی جائے گا.ادھر کافروں کے متعلق فرماتا ہے کہ جب وہ عذاب سے نکلنا چاہیں گے تو پکڑ کر پھر اس میں ڈال دیا جائے گا.چنانچہ فرماتا ہے.كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ تَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَدٍ أَعِيدُوا فِيهَا وَ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِه الج : ۲۳).جب کبھی کافر ارادہ کریں گے کہ عذاب سے نکلیں ان کو لوٹا کر اس میں ڈال دیا جائے گا کہ اس جلانے والے عذاب کا مزا چکھو.یہاں رومانی اور جسمانی دونوں مذابوں کا ذکر ہے کہ ان کے جسم تو آگ میں جلتے ہوں گے مگر ان کے دلوں میں بھی آگ لگی ہو گی.پھر جب عادت ہو جائے گی تو سزا کی تکلیف اتنی محسوس نہیں ہوتی جتنی ابتداء میں ہوتی ہے.چنانچہ وہ لوگ جو جیل میں زیادہ عرصہ رہتے ہیں انہیں جب نکالا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمارا ٹوٹا وغیرہ سنبھال رکھنا ہم پھر آ کر لیں گے.کافروں کے متعلق فرمایا.ان کو عادی نہیں ہونے دیا جائے گا.بلکہ كلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلَتْهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ (الشاء : ٥٤) ۵۷)

Page 490

انوار العلوم جلد ۵ ۴۷۰ اصلاح نفس کہ جب انکے چپڑے جل جائیں گے تو ہم انہیں نئے چڑے پہنا دیں گے تاکہ وہ عذاب کو محسوس کر سکیں.<<^ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجرم چاہتا ہے مزا دے لو مگر راضی ہو جاؤ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : ولا يALLOWAL اللهُ وَلَا يَنظُرُ هِمْ يَومَ الْقِيمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ (ال عمران : ان کو عذاب بھی ملے گا دُکھ بھی پہنچے گا اور خدا ان سے بات بھی نہیں کرے گا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کی طرف نظر بھی اُٹھا کر نہیں دیکھے گا.غرض جس قدر عذاب ہو سکتے ہیں.وہ بیان کئے گئے ہیں.اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ جو چیز تم اپنے نفس میں پاتے ہو اس پر غور کرو اور دیکھو کہ آیا وہ اس قابل ہے کہ اگر نہ ہو تواس نے عذابوں میں مبتلا کئے جاؤ.اگر وہ چیز تمہارے پاس نہیں جس کے نہ ہونے پر اس قدر عذاب دیئے جائیں اور جس کے ہونے پر اس قدر انعام کئے جائیں تو سوچو کہ تم ہرگز ایمان کے اس مقام پر نہیں پہنچے جیں کا نام قرآن کریم میں ایمان رکھا گیا ہے.بہت بڑی تبدیلی پیدا کرو ان سب باتوں کو بیان کرنے کے بعد میں تو یہی کہوں گا کہ ایک بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے اور اپنے نفس پر موت وارد کرنے کی حاجت ہے.تم اپنے نفسوں پر موت وارد کر کے دیکھو تو سہی کہ تمہیں کیا ملتا ہے ؟ اور تم سے کہا جاتا ہے کہ تم انعام کے وعدوں اور مذاب کی وعیدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی کرو اور تھوڑی تھوڑی بات پر ٹھو کر نہ کھایا کرو.میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ معمولی معمولی باتوں پر ٹھوکر کھا جاتے ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک جگہ سے دریافت کیا گیا کہ ہم کس کو ووٹ دیں ؟ شہر والوں کو لکھا گیا کہ مشورہ کر کے لکھیں کہ کون آدمی مناسب ہے ؟ ان کے جواب کی بناء پر ایک شخص کے متعلق سفارش کر دی گئی.مگر گاؤں کے لوگوں نے جن کے ووٹ تھے اس معاملہ کو دوبارہ پیش کیا اور کہا کہ یہ شخص مناسب نہیں اس پر ان کو اجازت دے دی گئی کہ جس کو چاہیں ووٹ دیں.اس پر ایک شخص کا خط آیا کہ اس وجہ سے سیکرٹری کو ابتلاء آ گیا کہ کیوں حکم بدلا گیا ہے ؟ میں نے کہا اس پر ابتلاء کوئی نہیں آیا کیونکہ ابتلاء تو وہ ہوتا ہے کہ جس پر نازل ہو وہ کہے کہ نہیں آیا.مثلاً جس کے رشتہ داروں کو خدا نے مار دیا وہ خوش ہو اور کسے کہ خدا کی راہ میں مارے گئے ہیں غم کی کونسی وجہ ہے ؟ اس کے متعلق کہیں گے

Page 491

انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس اسے اب وہ آیا کی جو یہ کہ مجھ پاتا آیا ہے میرے رشتہ دار گے ہیں اس کو یں گے جھوٹا ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ اس پر ابتلا ء نہیں بلکہ اس کی کسی غلطی کی وجہ سے عذاب آیا ہے.پس اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو اور اس نعمت کی قدر کرو جومسیح موعود کے ذریعہ نہیں حاصل ہوئی ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ کتنی صدیاں گزرگئیں کہ لوگ مسیح موعود کا انتظار کر رہے تھے.بڑے بڑے علماء مسیح موعود کو دیکھنے کی حسرت کو لے کر چلے گئے لیکن تم کو خدا تعالیٰ نے اس کا زمانہ عطا کر دیا ہے.تم کو وہ ہادی ملا ہے جس کی تعریف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور جس کی تعریف عرش پر بھی کی گئی ہے کہ لَوْلَاكَ كَمَا خَلَقْتُ الافلاك تذكره من ایڈیشن چهارم، اگر تونہ ہوتا تو میں افلاک کو ہی پیدا نہ کرتا.پھر خدا نے اپنے فضل سے تمہارے لئے وہ لوگ مہیا کر دینے جو خود قرآن سمجھنے اور تمہیں سمجھا سکتے ہیں.پھر خدا نے تمہیں ایک ایسا دل دیا ہے جس میں تمہارے لئے تم سے زیادہ درد ہے.ایک زبان دی ہے جو تمہارے لئے ناصح ہے.ایک ہاتھ دیا ہے جو تمہیں اوپر کو اٹھاتا ہے میں تم اس دل اور زبان اور ہاتھ کی قدر کرو تمہارے بعد آنے والے آئیں گے اور حسرت کریں گے کہ ان کو یہ نعمت نہ لی.مگر تم کو ہی ہے افسوس ہو گا اگر تم نے اس کی قدر نہ کی.تمہارے لئے آج وہ موقع ہے کہ تمہارے لئے خوانوں میں قسم قسم کی نعمتیں لگا کر آقا خود تمہارے پاس لایا ہے اس کی قدر کرو اور اپنے اندر تندی پیدا کرو تمہارا ایمان پہاڑ کی طرح ہو کہ بڑی سے بڑی چیز جب اس سے ٹکرائے تو پاش پاش ہو جائے نہ کہ تھوڑی تھوڑی بات پر کہو کہ ابتلاء آ گیا.مؤمن کب کہتا ہے کہ میں ابتلاء میں پڑ گیا ؟ ہاں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے مومن کو ابتلاء میں ڈالا.خدا تعالیٰ انبیائڈ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو ابتلاء میں ڈالا اگر کوئی نہیں جو یہ ثابت کر سکے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ سلم نے کبھی کہا ہوکہ مجھے انتباہ آیا.تم مضبوط چٹان کی طرح بن جاؤ اور ایسی مضبوط چٹان کی طرح کہ اگر ساری دنیا کے بهادر بنو ہاتھی مل کر بھی ٹکر ماریں تو وہ پاش پاش ہو جائیں مگر تم ایک ذرہ بھی اپنی جگہ سے نہ بلو تم بزدل نہ بنوں، ڈرپوک نہ بنو، تم گورنمنٹ کی اطاعت کرو مگر اس لئے نہیں کہ تم اس سے ڈرتے ہو بلکہ اس لئے کہ اس کی اطاعت کرنے کا حکم خدا نے دیا ہے.گورنمنٹ خواہ تمہاری گردنوں پر تلوار بھی رکھ دے تو بھی اس کے ڈر کی وجہ سے اس کے آگے ذرا نہ جھکو کہ تمہارا جھکنا صرف خدا ہی کے حکم کے لئے ہے اور اس نعمت کی قدر کرو جو خدا نے تمہیں دی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس نعمت کو سمجھا اور تم جانتے ہو کہ وہ کیا سے کیا بن گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت میں کہا کہ اگر کسی کو مجھ سے کوئی دکھ پہنچا ہو تو وہ مجھ سے بدلا لے لے.ایک صحابی نے کہا مجھے پہنچا ہے "

Page 492

انوار العلوم جلد و ۴۷۲ اصلاح نفس اور وہ یہ کہ ایک دفعہ آپ صفیں سیدھی کر رہے تھے تو مجھے آپ کی گئی گئی تھی میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا لے لو صحابی نہ نے کہا اس وقت میرا جسم ننگا تھا.آپ بھی جسم نگا کریں.یہ باتیں سُن کر صحابہ پر کیسے اثرات ہوئے ہوں گے ؟ وہ چاہتے ہوں گے کہ اس شخص کا سر اڑا دیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا اٹھا دیا.یہ دیکھ کر اس صحابی نے آپ کے جسم مبارک کو بوسہ دیا اور کہا یہی بدلا ہے.وہ جانتا تھا کہ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم آنکھوں سے اوتھل ہونے والا ہے اور پھر کہاں مل سکے گا ؟ اس موقع سے فائدہ اٹھالوں.(سیرت ابن ہشام دعربی جلد انت ) یہ وہ محبت کا جذبہ تھا جو صحابہ میں پیدا ہو گیا تھا.تم بھی محبت کا ایسا ہی جذبہ پیدا کرو اور اب جس وقت یہاں سے جاؤ تو بدلے ہوئے جاؤ.وہ کون سا وقت آئے گا جب ہماری جماعت کے لوگ خدا کی راہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی پرواہ نہ کریں گے.تمہارے دل میں کسی دنیاوی طاقت کا خوف اور ڈر قطعاً نہیں ہونا چاہئے تم حکام کی اطاعت کرو مگر ان کے آگے تمہاری گرد میں نہ جھکیں.ان کا ادب اور احترام ہو مگر اس لئے کہ خدا کا حکم ہے نہ کہ ڈر کی وجہ سے.ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرد گر کسی لالچ اور طمع کی وجہ سے نہیں تمہیں جو کچھ مانگنا ہے خدا سے مانگو اور کسی سے تمہیں کچھ نہیں مانگنا چاہئے اور نہ خدا کے سوا کسی اور کا دیا ہوا تمہارے کسی کام آسکتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ چیز جو تمہیں مل سکتی ہے اور جو میرے ذہن میں ہے میری طاقت بیان سے باہر ہے.اگر تم بزدلیوں ، کاہلیوں اور غفلتوں کو چھوڑ دو تو تمہیں وہ نعمتیں مل سکتی ہیں جو تمہارے خیال میں بھی نہیں آسکتیں اور تم اُن کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے اور تم تو اس کا بھی اندازہ نہیں کر سکتے جو میر سے ذہن میں ہے کیونکہ تمہارا دل اتنا وسیع نہیں.چونکہ خدا نے مجھ سے کام لینا ہے اس لئے اس نے میرا دل بہت وسیع بنایا ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ کیا نعمتیں ہیں جو تمہیں مل سکتی ہیں.پس تم اس وقت کی جو تمہیں ملا ہوا ہے قدر کرد کبھی بڑے کے بعد چھوٹے لوگ میسر ہوتے ہیں اگر ان کی بھی قدر نہ کی جائے تو پھر ایک وقت آتا ہے جب کہ چھوٹے بھی نہیں رہتے.اب ایسے لوگ ہیں جو تمہیں دین سکھا سکتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ ان کی قدر نہ کرو اور وہ بھی نہ رہیں تو تمہیں حسرت اور افسوس سے ہاتھ ملنے پڑیں.کوئی احمدی اکیلا نہیں میں اپنے اندر غیر پیدا کرو اور بھی کوئی اس بات سے نڈر ہے کہ کسی جگہ وہ اکیلا احمدی ہے.کوئی احمدی اکیلا نہیں.ایک وہ ہے اور ایک اسکے ساتھ اور ہے جو خدا ہے اور جسکے ساتھ خدا ہو وہ ساری دنیا کی پر کیتے جتنی بھی پرواہ نہیں کرتا

Page 493

س البربیت انوار العلوم جلد ۵ اصلاح نفس اپس اپنے دلوں سے ہر قسم کا خوف نکال دو اور کریں کن او اور نیتیں کر لو کہ ساری دنیا میں سلام کو پھیلا کے چھوڑیں گے.تم اس ارادہ اور نیت کو لے کر یہاں سے چلو تاکہ وہ آرزوئیں جو تمہارے متعلق میرے دل میں ہیں وہ پوری ہوں.اور ان کو پورا ہو تا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.آمین شکر اس پر نہیں کہ ہمیں روشنی پہنچتی ہے اور دوسروں کو نہیں.بلکہ اس بات پر کہ جبکہ ہر قسم کے سامان مفقود تھے.اس نے فوق العادت طور پر ہمارے لئے روشنی کا سامان مہیا کیا.ورنہ مومن کی بچی خوشی اس میں ہے کہ وہ نور جو ا سے پہنچے دوسروں تک بھی پہنچ جائے.اور وہ کبھی آرام نہیں کرتا جب تک تمام بنی نوع انسان خدا تعالی کی ہدایت کے سورج کے نیچے نہ آجائیں.علی بن مامون خوارزم بادشاہ.جس کے دور حکومت میں بو علی سینا (۹۸۰-۱۰۰۱۱۰۳۷ء میں خوارزم گئے.(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد اصفحہ ۵۶۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۶۳ء) اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ زار روس (او مانوف نکولس ثانی (۶۱۸۶۸-۱۹۱۸ء) اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۴۱ ۷ از سر لفظ " کمولس " مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸م، تو ایک ظالم بادشاہ تھا اس کا سو نا حضرت مسیح موعود کو جو خد اتعالیٰ کے فرستادہ تھے کیو نکر مل سکتا ہے ؟ کیونکہ اس کی حکومت کسی کو ملنے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کی حکومت بھی اسی قسم کی ہوگی بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنت ہے اور جیسا کہ وہ صاف طور پر قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيرُ وا مَا بأنفُسِهِمْ (الرعد : (۱۲) وہ اس وقت کسی انعام کو واپس لیتا ہے جبکہ وہ حق کو چھوڑ بیٹھتے ہیں اور خراب ہو جاتے ہیں.پس زار روس سے حکومت لینے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری کے ادا کرنے سے قاصر رہا.جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد تھی اور حضرت مسیح موعود کو اس عصا کے دینے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اب اس ذمہ داری کے اٹھانے کی اہل صرف آپ کی جماعت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ روس کے باشندوں کے احمدی مسلمان ہونے کے بعد وہاں ایک ایسا ا من کا دور چلے گا کہ باقی دنیا اس کو دیکھ کر رشک کرے گی اور وہ حکومت امن وانصاف کی محمد اور محافظ ہو گی.انشاء اللہ.واللہ اعلم بالصواب.

Page 494

Page 495

۴۷۵ ملائكة الله از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 496

Page 497

انوار العلوم جلد ۵ ام ملائكة الله تقریر حضرت فضل عمر خلیفتہ المسیح الثانی (جو حضور نے سالانہ جلسہ پر ۲۸ دسمبر ۱۹۲۰ء کو مسجد نور میں بعد نماز ظهر فرمائی) اشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبُدُهُ وَرَسُولُهُ اما بعد فاعوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِه الحمدُ للهِ رَبّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.0 o إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيد 0 متراطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ هُ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة) بات یاد رکھنے کا طریق میں نے پچھلے بلبوں پر بھی پ لوگوں کو باربا نصیحت کی ہے اور مشورہ دیا ہے کہ جو لوگ خاص طور پر کسی بات کو یاد رکھنا چاہیں ان کے لئے اس کا ایک اعلیٰ درجے کا طریق یہ بھی ہے کہ لکھتے جائیں کیونکہ انسانی دماغ کی بناوٹ خدا تعالیٰ نے اس طرز کی بنائی ہے کہ جتنے زیادہ جو اس کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے لگائے جائیں اسی قدر وہ زیادہ محفوظ رہتی ہے جس چیز کے دریافت کرنے میں ایک حسین کام کرے اس کا اثر دماغ پر بنسبت اس

Page 498

انوار العلوم جلد ۵ علامة الله کے کم ہو گا جس کی دریافت کرنے میں دوستیں لگتی ہیں.اور جب کوئی شخص کسی بات کو سنتا بھی جائے اور ساتھ ساتھ لکھتا بھی جائے تو اس کی دو طاقتیں خرچ ہوں گی.اور کیا بلحاظ اس کے کہ اس کی نظر بھی اس بات پر پڑتی جائے گی اور کیا بلحاظ اس کے کہ اس کی قوت ارادی بہت جوش میں ہوگی اس کے دماغ پر زیادہ گہرا اثر پڑے گا.ہاں وہ لکھنا نہیں جو اخباروں والے لکھتے ہیں کیونکہ ان پر لکھنے کا اتنا زیادہ بوجھ ہوتا ہے کہ ان کو یاد نہیں رہ سکتا.انہوں نے چونکہ دوسروں کے لئے لکھنا ہوتا ہے اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہر لفظ کو محفوظ کرلیں.لیکن دوسرے چونکہ خلاصہ لکھتے ہیں اس لئے وہ اس پر غور کر سکتے ہیں.اور جب غور کر لینے کے بعد لکھتے ہیں تو ان کے حافظہ سے وہ بات باہر نہیں جاسکتی اور جوں جوں وہ لکھیں گے ان کی نظر اس پر پڑتی جائے گی اور اس طرح وہ بات ان کے حافظہ میں اور زیادہ محفوظ ہوتی جائے گی.یہی وجہ ہے کہ ہمارے پرانے بزرگ اس بات کی احتیاط کرتے تھے کہ جب درس دیتے تو سننے والوں کو کاپی اور قلم دوات کے بغیر نہ بیٹھنے دیتے.لکھا ہے که امام مالک درس دیا کرتے تھے ان کے درس میں امام شافعی آگئے.امام مالک مدینہ میں رہتے تھے اور یہ نکتہ سے گئے تھے.ان کی عمر بھی چھوٹی تھی.یعنی تیرہ سال کی تھی.جب دو تین دن ان کے درس میں بیٹھے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس کاپی اور قلم دوات نہیں.تو امام مالک نے انہیں کہا ٹڑ کے تو کیوں یہاں بیٹھا کرتا ہے ؟ امام مالک کو برا معلوم ہوا کہ جب درس میں آتا ہے تو لکھتا کیوں نہیں ؟ امام شافعی کو خدا نے ایسا حافظہ دیا تھا کہ جو بات سنتے یاد ہو جاتی.انہوں نے کہا پڑھنے کے لئے آیا ہوں.امام مالک نے کہا پھر لکھتا کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا میں جو کچھ سنتا ہوں یاد ہو جاتا ہے.امام مالک نے کہا اچھا جو کچھ میں نے پڑھایا ہے سناؤ.انہوں نے سنا دیا.امام مالک کے دوسرے شاگرد کہتے ہیں کہ ہماری کا پیوں میں غلطیاں نکلیں مگر انہوں نے صحیح صحیح سنا دیا.لیکن ایسا ذہن ہر شخص کا نہیں ہو سکتا اس لئے ایسے طریق سے کام لینا چاہئے جس سے حافظہ کی کمزوری کی تلافی ہو سکے.اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ سنا جائے اسے اپنے طور پر نوٹ کر لیا جائے اس سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ انسان اسے بار بار دیکھ کر یاد کرلیتا ہے.سنتے وقت پوری توجہ کرنی چاہئیے اس کے بعد میں آپ لوگوں کو ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ سُنتے ہوئے پوری توجہ مضمون کی طرف دینی چاہئے کیونکہ جوبات علمی ہو اس کا سمجھنا اور یاد رکھنا آسان بات نہیں.اس کے لئے جب تک پوری توجہ نہ دی جائے انسان سننے کے بعد ایسا ہی کورے کا کورا اُٹھتا ہے جس طرح

Page 499

انوار العلوم جلد ۵ ۴۷۹ ملائكة الله کا کورا آیا تھا.قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن چونکہ مثال ہے.اس لئے بیان کرتا ہوں :- آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں منافق آتے اور باہر جاکر ایک دوسرے پوچھتے ماذا قال أنفا ( محمد : ۱) ابھی انہوں نے کیا بات کسی تھی.وہ گو مجلس میں آتے لیکن سنتے نہ تھے کہ کیا باتیں ہوتی ہیں ؟ اس لئے ایک دوسرے سے پوچھتے.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کسی ایسی مجلس میں بیٹھتا ہے جس میں دین کی باتیں ہوتی ہیں تو شیطان اس کی توجہ کو کہیں کا کہیں لے جاتا ہے تاکہ انسان ان باتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور ٹھوکر کھا جائے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو مجلس میں تو بیٹھتے ہیں لیکن جو بات سنائی جائے اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.اور بعض اوقات جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا کہا گیا ہے ؟ تو کہ دیتے کہ مزا تو بڑا آیا تھا مگر یاد نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا؟ ایسے لوگوں کو مزا اس لئے نہیں آتا کہ وہ توجہ سے سُن رہے تھے بلکہ اس لئے آتا ہے کہ دوسرے واہ واہ کہ رہے اور مزا اُٹھا رہے تھے.میں جو کچھ کہا جائے اسے غور سے سنو اور توجہ سے سنو اور جن کے پاس لکھنے کا سامان ہے اور وہ لکھنے کے عادی ہیں وہ لکھتے بھی جائیں.ہاں جو لکھنے کے عادی نہ ہوں وہ نہ لکھیں تا ایسا نہ ہو کہ لکھنے لگیں تو بھول جائیں جن میں لکھنے کی مشتق ہے وہ لکھتے جائیں.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض دفعہ بیماری یا کسی وجہ سے تقریریں جلدی شائع نہیں ہو سکتیں اور وہ نقوش جو یہاں سے دل پر ہوتے ہیں مٹ جاتے ہیں لیکن جنہوں نے خود لکھا ہوگا وہ اپنے لکھے کو دیکھ کر اپنی یاد تازہ کر سکس گے.پچھلے سال ایک ایسے اہم مسئلہ پر تقریر ہوئی تھی جو ایمانیات میں داخل ہے مگر ایسے اسباب وگئے کہ وہ تقریر جلدی نہ چھپ سکی اور اب چھپی ہے.اب اسے جو پڑھے گا اسے نیا مضمون معلوم ہوگا مگر جنہوں نے نوٹ لکھے ہوں گے انہوں نے بہت فائدہ اُٹھایا ہو گا.مضمون کی اہمیت آج کا جو مضمون ہے وہ بھی بہت اہم ہے اور اسلام کے بنیادی اصول اور ایمانیات میں سے ہے اور نہایت باریک مضمون ہے.تقدیر کا مسئلہ مشکل تھا مگر اس طرف عام و خاص کی توجہ چونکہ لگی رہتی ہے.اس کا سمجھنا اس توجہ اور لگاؤ کی وجہ سے انسان تھا.مگر پیشہ وہ ہے کہ باوجود ایمانیات میں سے ہونے کے اس کی طرف لوگوں کو توجہ

Page 500

انوار العلوم جلد ۵ مل نكتة الله نہیں.تقدیر توایسا مشہور لفظ ہے کہ جہاں کسی کو نقصان ہوا یا فائدہ پہنچا اس نے کہ دیا تقدیر سے ہوا ہے اور چونکہ اس تقریر میں بار بار تقدیر کا لفظ آتا تھا اس لئے اس کی طرف توجہ رہتی تھی اور چونکہ بالعموم لوگ سوال کرتے ہیں کہ تقدیر کیا ہوتی ہے ؟ اس لئے بھی اس کے متعلق جو کچھ کہا گیا اسے توجہ سے سننے کی خواہش ہوتی تھی اور چونکہ تقدیر ہر روز سامنے آتی ہے اس لئے بھی اس کی طرف خیال رہتا تھا.مگر یہ مضمون جو آج بیان ہوگا اگر چہ ایمانیات میں شامل ہے لیکن بار بار انسان کے سامنے نہیں آتا.اور لوگ جانتے ہی نہیں اور سمجھتے ہی نہیں کہ اسے ایمانیات میں کیوں داخل کیا گیا ہے ؟ اس لئے اس کی طرف خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے.یہ مسئلہ ملائکہ کا وجود ہے.ملائکہ کو خدا تعالیٰ نے ایمانیات میں ملانکہ پر ایمان لانا ایمانیات میں داخل ہے شامل کیا ہے اور جو شخص لانگہ پر ایمان نہیں لاتا وہ اسلامی نقطۂ خیال سے چاہے کتابوں پر ، رسولوں پر اور آخرت پر ایمان لائے تو بھی مسلمان نہیں ہو سکتا کافر ہی رہے گا.اور جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والا کافر ہو گا اسی طرح جبرائیل کا منکر بھی کافر ہو گا.اور میں طرح خدا تعالیٰ کی کتابوں کا انکار کرنے والا کافر ہو گا اسی طرح ملائکہ کا انکار کرنے والا بھی کافر ہو گا اور میں طرح حشر و نشر پر ایمان نہ لانے والا کافر ہو گا اسی طرح فرشتوں کو نہ مانے والا بھی کافر ہو گا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے ملائکہ کی طرف بہت کم توجہ کی ہے.ملائکہ کیا ہوتے ہیں ؟ ان کا وجود کیوں منوایا گیا ہے ؟ ان کے ماننے سے کیا فائدہ ہوتا ہے ؟ اس کو نہیں جانتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو ماننے کا تو یہ فائدہ ہے کہ اچھی باتوں کی ہدایت ملتی ہے اور ان پر عمل کر کے انسان اعلیٰ روحانی مدارج حاصل کر سکتا ہے.قیامت کے ماننے کا یہ فائدہ ہے کہ انسان ڈر کے مارے گناہ چھوڑتا اور نیک عمل کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ قیامت کے دن بُرے کاموں کی سزاملے گی اور نیک اعمال کا اجر ملے گا.خدا تعالیٰ کو ماننے کا بھی فائدہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ رازق ہے، خالق ہے ، رحیم ہے ، کریم ہے اس کو مان کر اس کی ان صفات سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.مگر ملائکہ کیا ہیں جو منوائے جاتے ہیں ؟ ان کا کیا فائدہ ہے کہ انہیں مانا جائے ؟ ملائکہ کے متعلق عام لوگوں کا ایمان عام طور پر لوگوں کو جو ملائکہ کے متعلق ایمان ہے اس کی نسبت سوچیں کہ وہ اگر جاتا رہے تو ان میں کیا کمی آجائے گی ؟ ہر ایک شخص سوچے کہ اگر میں محمد صلی الہ علیہ وسلم کے متعلق کہوں گا کہ آپ رسول

Page 501

انوار العلوم جلد ۵ ۴۸۱ ملائكة الله نہیں تو ان کی تعلیم اس سے جاتی رہے گی اگر قرآن کے متعلق کہوں گا کہ خدا کا کلام نہیں تو اس کی تعلیم کو جواب دینا پڑے گا.لیکن اگر یہ کہہ دوں کہ فرشتے نہیں تو کیا نقصان ہوگا ؟ لوگوں کو ملائکہ کے متعلق جو ایمان ہے وہ ننانوے فیصدی لوگوں میں اتنا کم ہے کہ اگر اس کی نفی کر دی جائے تو ان کے موجودہ ایمان میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور ان کے ماننے کی وجہ سے ان کے ایمان میں کوئی زیادتی نہیں ہو گی.حالانکہ ہر ایک ایمانی مسئلہ کے یہ معنے ہیں کہ وہ بہت بڑا اہم مسئلہ ہے.اس کے فائدے بھی بہت بڑے ہیں اور اس کو ترک کرنے کے نقصان بھی بہت بڑے ہیں.نہ یہ کہ صرف منہ سے کہ دیں کہ فلاں بات ہم نے مان لی تو کافی ہو جاتا ہے.ورنہ نہ اس کے ماننے سے کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ انکار کرنے سے کوئی نقصان.اس طرح تو ہم ہمالیہ پہاڑ پر بھی ایمان لاتے ہیں.مگر چونکہ ہمالیہ پر ایمان لانے سے نہ کوئی نفع ہے اور نہ اس کا انکار کرنے سے نقصان اس لئے اسے ایما نیات میں داخل نہیں کیا گیا.مگر ملائکہ پر ایمان لانے کو ایمانیات میں داخل کیا گیا ہے.پس ضروری ہے کہ ان پر ایمان لانے سے بہت بڑا فائدہ ہو اور نہ ایمان لانے سے نقصان.فرشتوں پر کیوں ایمان لائیں غرض یہ ایک نہایت ضروری سوال ہے کہ فرشتوں کو کیوں مانیں ؟ ان کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ان سے ہمیں کیا فائدہ پہنچتا ہے ؟ اگر ہمیں ان سے کوئی فائدہ نہیں تو ان پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر کوئی کہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرشتے تعلیم لائے اس لئے ان پر ایمان لانا چاہئے تو کہا جا سکتا ہے کہ پھر ہمیں ان سے کیا تعلق ؟ اگر ان کی معرفت وحی کا آنا ہمیں معلوم نہ ہو تو ہمارے ایمان اور ہمارے عمل میں کیا کمی آ جائے گی ؟ اگر یہی فرض کر لیا جائے کہ اللہ تعالی اپنا کلام بلا واسطہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل فرماتا تھا تو اس سے کیا حرج واقعہ ہو گا ؟ اس سے قرآن کریم میں تو کوئی کمی نہیں آجائے گی پھر ہم سے فرشتوں کا وجود کیوں منوایا جاتا ہے ؟ اور اتنے زور سے کیوں منوایا جاتا ہے ؟ کہ اگر نہ مائیں تو مسلمان ہی نہیں رہتے کافر ہو جاتے ہیں.اس قسم کے خیالات کی وجہ سے بی ضمون مشکل بھی ہے اور شاید بتوں کے لئے پھیکا بھی ہو اور ان کی توجہ اس طرف قائم نہ رہے.کیونکہ فرشتے ایسی چیز ہیں جو نظر نہیں آتے اور ان سے بظاہر کوئی تعلق بھی نہیں معلوم ہوتا مسئلہ تقدیر بھی مشکل تھا.لیکن جب اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ

Page 502

انوار العلوم جلد ۵ ۴۸۲ ملائكة الله خدا نے تقدیر کے ذریعہ کسی کے لئے عذاب نہیں مقرر کر چھوڑا اور ایسا نہیں ہے کہ انسان عذاب سے بچ نہ سکے تو ان خیالات کے باعث جو تقدیر کے متعلق عام طور پر پھیلے ہوئے ہیں جو بوجھو نظر آتا تھا وہ اتر جاتا تھا اور اس وجہ سے اس مسئلہ کی طرف توجہ قائم رہتی تھی اور لوگ غور سے سنتے تھے.گر ملائکہ کو چونکہ غیر معلق چیز سمجھا جاتا ہے اور ان کی کوئی ضرورت بھی نہیں سمجھی جاتی.اس لئے شائد توجہ نہ رہے.ملائکہ کے متعلق عام مصنفین نے بھی کچھ نہیں لکھا.انہوں نے ان کی کیفیت کو سمجھا ہی نہیں.حالانکہ ان سے انسان کو ایسے ایسے فوائد پہنچ سکتے ہیں کہ اگر معلوم ہو جائیں تو لوگ بیاب ہو کر ایسی کتابوں کو پڑھیں جن میں ان کا ذکر ہوتا ہے.صوفیا ء نے ان کے ذکر کو لیا ہے اور اپنی تصنیفوں میں بیان کیا ہے مگر پھر بھی بہت تھوڑا بیان کیا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی انسان نے سب سے زیادہ ان کے متعلق بیان کیا ہے تو مسیح موعود نے ہی بیان کیا ہے.اور آپ ہی نے آکر ان کی حقیقت کے راز سربستہ کو کھولا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے درمیان اور کسی نے نہیں کھولا - قرآن کریم نے ان کی حقیقت کو کھولا ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات میں ان کا ذکر ہے.باقی صوفیا ء کے کلام میں بھی ان کا ذکر ہے مگر بہت کم.اور دوسرے مصنفین نے تو ان کا ذکر ہی نہیں کیا.معمولی معمولی باتوں کے متعلقی تو انہوں نے بیسیوں قصے بیان کر دیئے مگر ملائکہ کی نسبت اس طرح چپ چاپ گزر گئے کہ گویا یہ کوئی چیز ہی نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی حقیقت بیان کرنا بہت مشکل کام تھا اور ان میں بیان کرنے کی طاقت نہ تھی.لیکن اب چونکہ ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ہر چیز کی حقیقت کو کھول دیا جائے تاکہ کسی کو کسی مسئلہ پر حملہ کرنے کی جرات نہ رہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ ملائکہ کی حقیقت سے بھی دنیا آگاہ ہو جائے.چند ہی دن ہوئے ایک آریہ نے بیان کیا آج کل کے مسلمانوں کے وہی فرشتے پر مسلمان اسلام سے باطن ہو رہے ہیں اور اس کے ثبوت میں یہ بات بھی پیش کی ہے کہ سید امیر علی صاحب نے جو سلمان میں لکھا ہے ک فرشتے ایک وہی چیز ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اس میں شک نہیں کہ آج کل کے مسلمان کہلانے والوں کے ذہن میں جو فرشتے ہیں وہ وہمی ہی ہیں.کیونکہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ فرشتے کیا ہیں ؟ ان پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ان کے کیا فوائد ہیں ؟ نگر میں نے جیسا کہ ابھی بتایا ہے جو بات بھی

Page 503

النوار العلوم جلد ۵ ۴۸۳ ایمان میں داخل ہے وہ لغو نہیں ہے بلکہ اس کے بہت بڑے فوائد ہیں.پس چونکہ یہ ایک ایسا مضمون ہے کہ جس سے عام لوگوں کو لگاؤ نہیں اس لئے اس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.بنی تعلیم کی وجہ سے ملائکہ پر بھی اعتراض کئے جاتے ہیں مگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو ثابت کر سکتے ہیں اور اسی طرح ثابت کر سکتے ہیں جس طرح اور بہت سی چیزوں کو ثابت کیا جاتا ہے جو نظر سے غائب ہوتی ہیں.اور تم ملائکہ کے متعلق ایسے ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہر شخص ان کو سمجھ سکتا ہے بشر طیکہ تعصب کی پٹی اس کی آنکھوں پر نہ بندھی ہو.کیا ملائکہ نہیں ہیں ؟ آج کل نئی تعلیم کے اثر سے بالعموم مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ ملائکہ کا کوئی وجود نہیں ہے.بلکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو قوت پیدا ہوتی تھی اس کا نام ملائکہ رکھ دیا گیا ہے.اور یہ جو نام جبرائیل یا میکائیل رکھ دیئے گئے ہیں ان کی غرض یہ ہے کہ لوگوں میں چونکہ ان کا خیال پھیلا ہوا تھا اور یہ نام رائج تھے اس لئے اپنی باتوں کو زیادہ موثر بنانے کے لئے ان کے نام لے دیئے گئے ہیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ملائکہ کا وجود اس زور کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد اگر کثرت کے ساتھ کوئی مسئلہ پایا جاتا ہے تو ملائکہ کا ہی ہے.وحشی سے وحشی قوموں کے حالات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ ملائکہ کو مانتے تھے.بہت سے مذاہب ایسے ہیں جن کی تعلیمیں اب دنیا میں پائی نہیں جاتیں مگر ان کے آثار قدیمہ سے ملائکہ کا پتہ لگتا ہے اور جو ندا سب موجود ہیں ان میں تو نہایت صفائی کے ساتھ ان کا ذکر پایا جاتا ہے.دیگر مذاہب میں ملائکہ کا ذکر چنانچہ قدیمی مذاہب میں سے سب سے زیادہ زرتشتی مذہب میں بیان کیا گیا ہے.اس مذہب کے لوگوں نے جس صفائی کے ساتھ ملائکہ کے متعلق بیان کیا ہے (اگرچہ انہوں نے اس بیان میں غلطیاں بھی کی ہیں) مجھے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اتنا مسلمانوں نے نہیں کیا.ان لوگوں نے ملائکہ کا ذکر نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے.ان کے بعد دوسرے درجہ پر یہودی ہیں.یہ چونکہ تازہ ہی مذہب ہے اور کوئی بہت زیادہ زمانہ اس پر نہیں گزرا اور اس کی حفاظت بھی ایک حد تک ہوتی رہی ہے اس میں بھی ملائکہ کے متعلق بہت سی تعلیم موجود ہے.ان کے بعد ہندو ہیں.ان کا مذہب اگر چہ بہت قدیم کا ہے مگر ان میں بھی ملانکہ کو تسلیم کیا گیا ہے.گو آج کل یہ لوگ ان کی اور تشریحیں کر دیں.اسی طرح چین کے لوگوں کی جوبرانی کتابیں

Page 504

۴۸۴ سے ہیں ان میں بھی ملائکہ کا ذکر پایا جاتا ہے.پھر مصر اور یونان کے آثار قدیمہ میں بھی ملائکہ کا ثبوت پایا جاتا ہے.اور ایسی وحشی قومیں جن کے نام کا بھی پتہ نہیں لگتا ان کے آثار اور ضرب الامثال بھی ملائکہ کا پتہ لگتا ہے کبھی جگہ تولیوں ذکر ہے کہ پروں والی ایک مخلوق ہے جو انسان کو سزا دیتی ہے.اور کسی جگہ اس قسم کی تصویریں ملتی ہیں جو ئی کئی ہزار سال کی ہیں کہ پروں والی تصویریں اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہیں.اس قسم کی باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں بھی ملائکہ کا خیال پایا جاتا تھا.پس تمام اقوام میں ملائکہ کے خیال کا پتہ لگتا ہے.سب سے زیادہ زرتشتیوں میں.ان سے اتر کر بیہو دیوں میں.ان سے اتر کر ہندوؤں میں.اور دوسری پرانی اقوام میں بھی پایا جاتا ہے عیسائیوں میں بھی.حتٰی کہ پولوس نے بحث اُٹھائی ہے کہ ان کی عبادت جائز ہے یا نہیں ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسی تعلیم تھی جس کا اثر تمام قلوب پر تھا.اور جس طرح خدا تعالیٰ کے متعلق ہر ایک قوم کے ایمان کو دیکھ کر انسان کہہ سکتا ہے کہ شروع سے تمام لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے چلے آتے ہیں اور یہ ثبوت ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کا.اسی طرح جب وہ قومیں جن کے تمدن آپس میں نہیں ملتے جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلقی ثابت نہیں ہوتا وہ ساری کی ساری ملائکہ کی قائمل پائی جاتی ہیں تو یہ لائنکہ کے ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے.زرتشتی مذہب میں ملائکہ کا ذکر زرتشتیوں میں یہ عجیب بات پائی جاتی ہے کہ ان میں فرشتوں کے جو نام آئے ہیں اور وہ نام جو مسلمانوں میں ہیں آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ان کے کام بھی آپس میں ملتے ہیں.ان کا خیال ہے کہ خدا دو ہیں.ایک تاریخی کا اور ایک نور کا.نور سے خدا کی یہ منشاء ہے کہ ظلمت کے خدا کو کزور کر دے.اور کہتے ہیں ایک وقت آئے گا جب ظلمت کا خدا کزور ہو جائے گا نیکی کے خدا کو یزدان اور بدی کے خدا کو اہرومانہ اور بالعموم اہرمن کہتے ہیں یعنی تاریخی کا آدمی.اس نام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے معنے شیطان تھے خدا نہ تھے لیکن وہ کہتے ہیں کہ خدا کے مقابلہ میں یہ بدی کا خدا ہے اور یہی بدیاں کراتا ہے.زرتشتیوں کی مذہبی زبان اوستا میں بڑے فرشتوں کو امیشیا کہتے ہیں جو کہ امیش سے نکلا ہے جس کے معنے غیر فانی کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے غیر فانی ہوتے ہیں.جس طرح انسانی روح فنا سے محفوظ رکھی گئی ہے.اسی طرح ان کو بھی ہمیشہ کی زندگی عطا کی گئی ہے.زرتشتیوں کا عقیدہ ہے کہ فرشتے تمام نیکیوں اور مذہب کا سرچشمہ ہیں اور اصولاً خدا تعالیٰ کے

Page 505

انوار العلوم جلد ۵ ۴۸۵ الانکہ الله مظاہر ہیں.ان کا خیال ہے کہ فرشتے ہزاروں سال کی ترقی کے بعد اپنے موجودہ درجہ تک پہنچے ہیں.اور وہ فرشتوں کی نیت خیال کرتے ہیں کہ وہ لاثانی موتی ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں لیکن نہیں نفع رساں ہیں.وہ جواہر نہیں کہلا سکتے کیونکہ یہ ان کی بہتک ہو گی.وہ پھول نہیں جو درختوں پر سکے ہوں بلکہ وہ ستاروں کی طرح ہیں جو سورج کے گرد گھوم رہے ہوں وہ خدا کے لئے زینت نہیں بلکہ اس کی ذات کے مظہر ہیں.زرتشتی کتب میں سب سے بڑے فرشتہ کا نام دو ہو ماناں لکھا ہے.اسے دہشتنا انار بھی کہتے ہیں یعنی سب سے بہتر فرشتہ دو ہو ما ناح کے معنے نیک دل یا اصلاح کرنے والے فرشتہ کے ہیں.اور عبرانی اور عربی میں جبر کے معنے بھی اصلاح کے ہیں.یہیں دونوں ناموں کی مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہو مانارح در حقیقت جبرائیل کا ہی نام ہے.زرتشتی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کو روشنی اس فرشتہ کی وساطت سے آتی ہے.بلکہ زرتشت نے خدا تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ نور اور الہام کی روشنی سے وہ دو ہو ما ناح کو دیکھے اور آخر وہ فرشتہ اسے ملا.تمام نیک تحریکیں اس فرشتہ کی طرف سے آتی ہیں اور جو لوگ اس فرشتہ کی تحریکات کو قبول نہیں کرتے یہ فرشتہ ان کو چھوڑ دیتا ہے.دوسرا فرشتہ زرتشتیوں کے نزدیک آتا ہے.یعنی تقوی کا فرشتہ ہے.ظاہری اشیاء میں سے آگ آشا کے سپرد ہے.کیونکہ نور آگ سے پیدا ہوتا ہے.اور تقویٰ نور سے پیدا ہوتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ میکائیل ہے کیونکہ میکائیل دنیاوی ترقی کا فرشتہ ہے اور دنیاوی ترقی کا نشان آگ ہے.ان دونوں فرشتوں کے علاوہ وہ پانچ بڑے فرشتے اور مانتے ہیں اور چھوٹے فرشتوں کا تو کچھ شمار ہی نہیں.اور بڑے فرشتوں کے سپرد تمام انتظام ہے اور ان کا خیال ہے کہ فرشتے ہمیشہ انسان کے دل پر نیک اثر ڈالتے ہیں تا کہ شیطان اس میں نہ گھس سکے.اور کہتے ہیں پیدائش خدا کی طرف سے ہے اور موت شیطان کی طرف سے.اس وجہ سے وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ چونکہ پیدائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے اس لئے انسان نیک ہی پیدا ہوتا ہے اور فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں مگر شیطان اس کو بُرائی سکھاتا ہے.اگر انسان اس کی بات مان نے تو فرشتے اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ اب یہ شیطان کا بندہ ہو گیا ہے.پھر ان کا خیال ہے کہ خدا اور شیطان کا مقابلہ ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایرانی النسل ایک نبی

Page 506

انوار العلوم جلد ۵ علا نکته الله پیدا ہو گا اور اس کا نام موسیوز رسمی ہو گا یعنی مسیح مبارک کے نام سے ایک نبی آئیگا جو زرتشت کی اولاد سے ہوگا.مگر ظاہری اولاد سے نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ وہ اس بیوی سے ہو گا جس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.اس کے زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ ہو گی.وہ خدا تعالیٰ سے التجا کرے گا کہ جنگ بہت مہیب ہے تو فرشتے نازل کر اس پر خدا تعالیٰ فرشتے نازل کرے گا.شیطان مقابلہ کرتا کرتا آخر کار تھک جائے گا.اس وقت وہ نہی اس پر فرشتوں کی مدد سے آخری حملہ کرے گا اور خطرناک جنگ ہوگی جس میں شیطان کو شکست ہوگی.اور وہ پکڑا اور مارا جائے گا.اس کے بعد امن ہو جائے گا اور یہ دنیا بہت پھیل جائے گی اس لئے کہ کوئی آدمی مر نہیں سکے گا کیونکہ شیطان جو مارنے سے تعلق رکھتا ہے خود مر گیا ہو گا.معلوم ہوتا ہے یہ باتیں ایک نبی کی کمی ہوئی ہیں کیونکہ سیچی نکلی ہیں اور پوری ہورہی ہیں موسیو رسمی ر مسیح مبارک) آیا اور انہی نشانات کے ساتھ آیا جو بیان کئے گئے.پھر یہ بات اور نبیوں نے بھی کہی ہے کہ ایک آخری جنگ شیطان کے ساتھ ہو گی.چنانچہ اب ہو رہی ہے.کئی کئی طریقوں سے کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو پتے مذہب سے پھرایا جائے اور لوگ خدا کو چھوڑ دیں.اس کے مقابلہ میں لوگوں کو خدا سے ملانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ ایک نہایت خطرناک جنگ ہے.پھر فرشتے آسمان سے مانگنے والی بات بھی درست نکلی.چنانچہ حضرت مسیح موعود کا ایک کشف ہے کہ آپ نے خدا سے ایک لاکھ فرشتے تانگے ہیں اور خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے پانچ ہزار کانی ہیں ایک لاکھ زیادہ ہیں (تذکرہ صفحہ ۱۷۸ ایڈیشن چهارم، چونکہ قرآن میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار فرشتوں کا ذکر آیا ہے اس لئے اتنے ہی دیئے گئے ان سے زیادہ نہ دیئے گئے.غرض یہ بات بھی بچی نکلی.زرتشتیوں میں فرشتوں کے اعمال کے متعلق بڑی تفصیلیں آتی ہیں.گو انہوں نے ٹھوکریں بھی کھائی ہیں مگر ان کی کتابوں میں ایسے مضامین پائے جاتے ہیں کہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام کو چھوڑ کر کسی مذہب نے ملائکہ کا بیان کیا ہے تو وہ زرتشتی مذہب ہی ہے.یہودی مذہب میں ملائکہ کا ذکر پھر یہودیوں میں بھی مانگ کی تعلیم پائی جاتی ہے وہ جبرائیل کو آگ کا فرشتہ کہتے ہیں مگر ان کو غلطی لگی ہے.کیونکہ یہی نام زرتشتیوں میں پایا جاتا ہے مگر وہ اسے کلام لانے والا فرشتہ کہتے ہیں.چونکہ یہ نام ان میں پہلے کا پایا جاتا تھا اور یہودیوں میں بعد میں آیا ہے اور ان کی ایران سے جلاوطنی کے تذکرہ میں فرشتے" کی بجائے فوج" کا لفظ ہے.

Page 507

انوار العلوم جلد ۵ ملائكة الله بعد آیا ہے اس لئے چونکہ جن یہودیوں سے یہ نام لیا ہے ان میں اس کو رحمت کا فرشتہ اور کلام لانے والا مانا جاتا ہے اس لئے آگ کا فرشتہ کہنا غلط ہے.پھر بائیل میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اسے رحمت کا فرشتہ قرار دیاگیا ہے.ظالموں میں آتا ہے کہ دانیال نبی کے زمانہ میں جن لوگوں کو آگ میں ڈالا گیا تھا ان کو بچانے والا جبرائیل ہی تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو لوگ آگ میں ڈالنے لگے تو جبرائیل نے خدا تعالیٰ سے کہا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کو بچاؤں.خدا تعالیٰ نے کہا نہیں تمہیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی.ابراہیم بھی زمین میں ایک ہی ہے اور میں بھی ایک ہی ہوں اس لئے میں ہی اسے بچاؤں گا یہ وہی بات ہے جو ہمارے ہاں ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے لگے تو جبرائیل ان کے پاس آیا اور کہا مجھ سے کچھ مانگ لو.انہوں نے کہا تم سے میں کچھ نہیں مانگتا.اس پر اس نے کہا پھر خدا سے مانگو.انہوں نے کہا خدا سے مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا وہ خود نہیں دیکھتا کہ میری کیا حالت ہے ؟ ظالموں میں آتا ہے کہ جبرائیل کو خدا نے کہا کہ تو نہیں میں ابراہیم کو بچانے کے لئے جاؤں گا.مگر میں تیری اس نیکی کو ضائع نہیں کروں گا.آئندہ ابراہیم کی اولاد میں سے ایک کو بچانے کے لئے تجھے اجازت دوں گا.چنانچہ دانیال کے وقت جو لوگ آگ میں ڈالے گئے تو اس وقت خدا نے جبرائیل کو ان کے بچانے کی اجازت دی اور اس نے انہیں بچایا.غرض یہو دیوں میں بھی شروع سے لے کر آخر تک فرشتوں کا ذکر چلتا ہے اور انہیں خدا کا بیٹا کہا گیا ہے.ہندو مذہب میں ملائکہ کا ذکر اسی طرح ہندوؤں میں بھی فرشتوں کا ذکر پایا جاتا ہے ورونه وغیرہ نام آتے ہیں.عام لوگ ان کو ایسی رومین سمجھتے ہیں جن کی پوجا کرنی چاہئے.مگر دراصل یہ فرشتے تھے جو خدا کا کلام لاتے تھے کیونکہ دو ہومانہ اور ورونہ کا کام ایک ہی معلوم ہوتا ہے.دو ہو انہ کا تعلق بھی سورج سے بتاتے ہیں اور ورونہ کا بھی سورج سے ہی.مگر غلطی سے یہ بجھا جانے لگا کہ چونکہ سورج سے ان کا تعلق ہے اس لئے سورج خدا ہے اور اس طرح سورج کو خدا ماننے لگ گئے.اس میں شک نہیں کہ ان کا تعلق سورج سے ہے.جیسا کہ اسلام میں سورج کا تعلق جبرائیل سے بتایا گیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے بھی لکھا ہے کہ اس کا تعلق سورج سے ہے.جبرائیل

Page 508

انوار العلوم جلد ۵ ملا كلمة الله کا تعلق رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم سے ہے اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں سورج کہا گیا ہے.حضرت مسیح موعود پر جو کفر کے فتوے لگے ان میں ایک بات یہ بھی لکھی گئی تھی کہ آپ فرشتوں کا انکار کرتے ہیں.حضرت صاحب نے توضیح مرام اور آئینہ کمالات اسلام میں فرشتوں کے متعلق بحث کی ہے اور قرآن کریم سے آپ نے ثابت کیا ہے کہ ملائکہ کا تعلق اجرام سماوی سے ہے اور ان کے ذریعہ سے ان کے اثرات دُنیا میں پڑتے ہیں جس پر علماء نے یہ شبہ پیدا کر کے کہ آپ فرشتوں کے منکر ہیں اور ستاروں کی تاثیرات کے قائل ہیں آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے.یہ ستاروں کا مضمون ایک علیحد مضمون ہے میں اس وقت اس کے متعلق کچھ بیان کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اس طرح بحث کہیں کی کہیں نکل جائے گی.سردست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سب مذاہب میں فرشتوں کا خیال پایا جاتا ہے اور اسلام میں بھی جہاں سینکڑوں شرک کی باتوں کا رد کیا گیا ہے وہاں فرشتوں کے عقیدہ کو قائم کیا گیا ہے اور اس قدر زور کے ساتھ قائم کیا گیا ہے کہ اگر ان کو نہ مانا جائے تو انسان کا فر ہو جاتا ہے.اور اسلام کا سب مذاہب پر یہ احسان ہے کہ میں طرح نیوں پر جس قدر اعتراض پڑتے ہیں ان کو اسلام نے دور کیا ہے اسی طرح فرشتوں پر جس قدر اعتراض پڑتے ہیں ان کو بھی دور کیا ہے.زرتشتیوں اور یہودیوں کا خیال ہے کہ فرشتے بھی شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں.اور ان ہی کی تقلید میں مسلمانوں نے ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کے متعلق یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں شیطان کے پھندے میں پھنس جانے کی وجہ سے اس وقت تک بابل کے کسی کنویں میں اُلٹ لٹکایا ہوا ہے (تفسیر ابن کثیر سورة البقرة زير آيت واتبعوا ما تتلو الشيطين على ملك سليمن، ليكن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے.چنانچہ آتا ہے.لا يَعْصُونَ الله أَمَرَهُ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحريم (٢) مَا اب جبکہ یہ معلوم ہو گیا کہ فرشتوں کا خیال ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق سب قوموں کا اتفاق ہے تو ہر ایک سنجیدہ آدمی کو چاہئے کہ سوچے.یہ کوئی بہت ہی بڑی اور اہم بات ہو گی تھی سب مذاہب کی کتب میں ان کا ذکر ہے اور قرآن سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتنا پرانا خیال ہے کہ حضرت نواح کے زمانہ میں بھی پایا جاتا تھا.حضرت نوح کے مخالفین کا قول الله تعالیٰ نقل فرماتا ہے کہ.

Page 509

انوار العلوم جلد ۵ ۴۸۹ ملائكة الله.فَقَالَ المَلُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هُذَا إِلا بَشَر مثْلُكُمْ يُرِيدُ أن تَتَفَضَلَ مَليكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لاَنْزَلَ مَلَئِكَةَ : مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي أَبَاتِنَا الْأَوَّلِينَ (المؤمنون : ۲۵ ) یعنی حضرت نوح کے منکروں کے سرگروہوں نے کہا.شخص تو تمہارے جیسا ایک آدمی ہے جو تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے.اور اگر خدا کا منشاء ہوتا تو وہ فرشتے اتارتا ہم نے تو ایسی بات پہلے بزرگوں کے حق میں نہیں سنی (یعنے ان میں رسول آیا کرتے تھے.) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ اعتراض کیا گیا ہے :- لومَا تَأْتِينَا بِالمَلَئِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصُّدِقِينَ (الحجرام ) کیوں نہیں تو ہمارے پاس فرشتے لاتا اگر تو سچا ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لوگوں میں بھی ملائکہ کا خیال پایا جاتا تھا.اس مختصر سے ذکر کے بعد میں اسلامی تعلیم کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اسلام نے ملائکہ کے متعلق کیا تعلیم دی ہے ؟ ملائکہ کی حقیقت پہلی بات یہ ہے کہ ملائکہ مخلوق ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ جو درجہ ان کو دیا گیا ہے اس سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتے مخلوق نہیں.چنانچہ اسی وجہ سے عیسائیوں کو دھوکا لگا ہے اور انہوں نے سمجھ دیا ہے کہ روح القدس مخلوق نہیں بلکہ خدا کا حصہ ہے اور اس کو بھی خدا بنا دیا ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ فرشتوں کا غیر مخلوق ہونا جھوٹ ہے.وہ مخلوق ہیں.چنانچہ فرشتوں کے مخلوق ہونے کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(101: امُ خَلَقْنَا الْمَلَئِكَةَ إِنَّا نَا وَهُمْ شَهِدُونَ ) ( الصفت : ١٥١ ) کیا جب ملا کہ پیدا کئے گئے اس وقت یہ وہاں موجود تھے ؟ کہ کہتے ہیں فرشتے لڑکیاں ہیں ؟ اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو پیدا کیا ہے.ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ فنا ہوں گے یا نہیں ؟ جس طرح ارواح انسانی محفوظ رکھی جائیں گی اسی طرح ملائکہ بھی فنا نہیں کئے جائیں گے یا سب فنا ہو جائیں گے یا بعض فنا ہو جائیں گے بعض باقی رکھے جائیں گے.یہودیوں کا خیال ہے کہ

Page 510

انوار العلوم جلد ۵ ۴۹۰ ملا نكتة الله جب الہام ہوتا ہے تو ہزاروں فرشتے اس حرکت سے جو الہام کے الفاظ کے بیان سے پیدا ہوتی ہے پیدا ہوتے ہیں مگر پھر ساتھ ہی ہلاک ہو جاتے ہیں.مگر زرتشتی فرشتوں کو غیر فانی ہستی مانتے ہیں.دوسری بات ملائکہ کے متعلق یہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ ایسی روحانی مخلوق ہیں کہ بندہ کو ان آنکھوں سے اپنے اصلی جسم میں نظر نہیں آسکتے.اور اگر ان آنکھوں سے نظر آئیں گے تو اپنے اصلی وجود کے سوا غیر وجود میں ہوں گے.گویا فرشتوں کو دیکھنے کے لئے یا تو یہ ظاہری آنکھیں نہیں ہوں گی بلکہ روحانی آنکھوں کی ضرورت ہوگی اور اگر ان آنکھوں سے دیکھا جائے گا تو فرشتے اپنے اصلی جسم میں نہیں ہوں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- ولو جَعَلْنَهُ مَلَكًا تَجَعَلْنَهُ رَجُلًا وَللَبَسُنَا عَلَيْهِمْ مَّا يَلْبِسُونَ (الانعام (1) یہ لوگ کہتے ہیں کہ فرشتہ کیوں نہیں اترتا.لیکن اگر فرشتہ آجائے تو آدمی کی شکل میں ہی آئیگا.تب یہ دیکھ سکیں گے.اور جب انسان کی شکل میں آئے گا تو پھر بات مشتبہ رہے گی کہ یہ فرشتہ ہے یا آدمی ہے اور جو شبہ یہ اب پیدا کر رہے ہیں پھر بھی قائم رہے گا کہ یہ کلام خدا کا نہیں بلکہ انسانی بناوٹ ہے.پس فرشتہ تو ہم تب بھیجتے جب اس کا کوئی فائدہ بھی ہوتا لیکن چونکہ ان آنکھوں سے لوگ فرشتے کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر دیکھیں تو انسان کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں اور اس پر وہ پھر اعتراض کریں گے اس لئے فرشتہ نازل نہیں کیا جاتا..پس فرشتوں کا وجود نہانی ہے ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا.میری باتے ان کے متعلق یہ یاد رکھنی چاہئے کہ وہ ایسی مخلوق ہیں کہ نہ نر ہیں نہ مادہ اس بات کا پتہ اس آیت سے لگتا ہے جو میں نے پہلے پڑھی ہے کہ أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَئِكَةَ إِنَانًا وَهُمْ شَهِدُونَ الصفت : ۱۵۱) میاں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تو مرد ہیں.بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ کہتے ہیں فرشتے لڑکیاں ہیں.ان کو کیا پتہ ہے کہ وہ کیا ہیں ؟ کیا یہ اس وقت موجود تھے ؟ جب خدا نے فرشتوں کو بنایا.خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے مادہ ہونے سے تو انکار کر دیا مگر ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ وہ نر ہیں پس ان کو نر یا مادہ کہنا غلط ہے.یہ تو مادہ چیزوں میں ہوتا ہے.روحانی چیزوں میں نر و مادہ نہیں ہوتا.نہیں کہ مرد کی روح نہ ہو اور عورت کی مادہ.نر اور مادہ تو ظرف کی حالت ہے ان میں جو چیز ہے وہ ایک ہی ہے.چوتھی باتے ملائکہ کے متعلق یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے تین درجے ہیں.وہ سارے کے سارے ایک قسم کے نہیں ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :-

Page 511

انوار العلوم جلد الذين يحملون العرُ ۴۹۱ ملائكة الله الْعَرُش و وله يُسبّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بهِ وَتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْنُ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (المومن : ٨) اس آیت سے تین قسم کے فرشتوں کا پتہ چلتا ہے.دو قسم کے فرشتوں کا دلالت النص سے اور میری قسم کے فرشتوں کا اشارۃ النص سے.کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک تو وہ فرشتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور ایک وہ فرشتے ہیں جو عرش کے گرد رہتے ہیں یعنی ایک تو وہ فرشتے ہیں جن کے ذریعہ سے احکام الہی جاری ہوتے ہیں.اور ایک وہ فرشتے ہیں جو ان کے نائب اور ان کے احکام کو نچلے طبقہ تک لے جانے والے ہیں.اور اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور طبقہ فرشتوں کا ہے جو ان عرش کے گرد رہنے والے فرشتوں سے بھی نیچے کا ہے.اور احادیث سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے.کیونکہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض فرشتے مختلف اشیاء پر مقرر ہیں پس وہ حَمَلَةٌ العرش اور مَنْ حَوله کے سوا تیری قسم کے فرشتے ہیں.زرتشتیوں میں بھی اس مسئلہ کا کسی قدر کچھ پتہ لگتا ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ سات فرشتے ہیں جو دنیا کا کام چلاتے ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ قیامت کو آٹھ فرشتے خدا کے تخت کو اُٹھائے ہوئے ہوں گے.تخت سے مراد چاندی سونے کا تخت نہیں بلکہ وہ اعلیٰ صفات مراد ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی الوہیت روشن ہوتی ہے.اگلے جہان میں وہ آٹھ ملانکہ کے ذریعہ سے ظاہر ہو گی.مگر اس دنیا میں جیسا کہ استدلال سے ثابت ہوتا ہے سات فرشتوں سے ظاہر ہوتی ہے.تو ایک وہ فرشتے ہیں جو خدا کا عرش اُٹھائے ہوئے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو ان سے ادنیٰ ہیں مگر خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں اور وہ ایسے ہیں جیسے اسسٹنٹ ہوتے ہیں.اصل کام ان کے سپرد نہیں ہوتا وہ ان کے مددگار ہیں اور تیسرے وہ جو ادنی درجہ کے ہیں.پس تین قسم کے فرشتے ہیں :.- وہ جو خدا کی صفات ظاہر کرنے والے ہیں.وہ جو ان کے مددگار اور خدا کے مقرب ہیں.وہ جو مختلف چھوٹے چھوٹے کاموں پر متعین ہیں.اور ان کی تعداد کی تعیین ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- b وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَرَتِكَ إِلَّا هُوَ (المدثر : ۳۲)

Page 512

انوار العلوم جلد و ۴۹۲ ان کا اندازہ کوئی انسان کر ہی نہیں سکتا.کیونکہ جیسا کہ نبیوں کے کلام سے ثابت ہوتا ہے ہر کام کا علیحدہ فرشتہ ہوتا ہے.پانچویں باتھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملائکہ ایسی مخلوق ہے جو بدی کر ہی نہیں سکتی.انسان میں تو یہ مادہ ہے کہ انبیاء حتی کہ خدا کا بھی انکار کر دیتا ہے.اور ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خدا کو گالیاں دیتے ہیں.مگر قرآن سے پتہ لگتا ہے کہ ملائکہ ایسی مخلوق ہے کہ اس میں بدی کی قوت ہی نہیں ہے اور انسان کی نسبت ان کا دائرہ عمل محدود ہوتا ہے.انسان حدود کو توڑ دیتا ہے.مگر ملائکہ کے لئے جو حدود مقرر ہیں ان کو نہیں توڑ سکتے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- لا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ، (التحريم :) کہ ملائکہ اللہ کے حکم کونہیں توڑتے اور وہی کرتے ہیں جوان کو حکم دیا جاتا ہے.چھٹی باتھے یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ ملا نکہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے بلکہ ان میں ایسا مادہ ہے کہ خدا کے احکام کو پورے طور پر بجا لاتے ہیں کسی حکم کی خلاف ورزی کرنا اور بات ہوتی ہے اور اس کو پورے طور پر نہ کر سکنا اور بات.مثلاً ایک کمزور شخص کو کہا جائے کہ فلاں چیز اٹھاؤ لیکن وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اُٹھا نہ سکے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے حکم کی خلاف ورزی کی.ہاں ایک ایسا شخص جو اُٹھانے کی طاقت رکھتا ہو وہ اگر اُٹھانے سے انکار کر دے تو یہ خلاف ورزی ہو گی.فرشتوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان میں ایسی قابلیت ہوتی ہے کہ جو کام انہیں کرنے کو کہا جاتا ہے اسے وہ من حیث الافراد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.یعنی سب میں اس کے کرنے کی طاقت موجود ہوتی ہے.انسانوں کی طرح نہیں ہوتے کہ بعض آدمیوں میں حکم پورا کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور بعض میں نہیں.چنانچہ فرماتا ہے.وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل :۵۱) انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں.انسان کی یہ حالت نہیں ہوتی.وہ بعض اوقات چاہتا ہے کہ ایک کام کرے لیکن کر نہیں سکتا.مثلاً وہ چاہتا ہے کہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے لیکن وہ بیمار ہو تو ایسا نہیں کر سکتا.ساتو یہ باتے ملائکہ کے متعلق یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ ارد گرد کے اثرات کو قبول نہیں کرتے باقی مخلوق زبر دست سے زبر دست ہو تو بھی اثر قبول کرتی ہے.ہاں یہ ہوتا ہے کہ بعض اثرات کو قبول کرتی ہے اور بعض کو نہیں بھی قبول کرتی.مثلاً انبیاء ہیں یہ نیکی کے اثر کو قبول کرتے ہیں بالڑائی

Page 513

انوار العلوم جلد ۵ ۴۹۳ ملائكة الله ہو اور وہ اس میں شامل ہوں تو بشریت کے لحاظ سے ان پر بھی اثرات پڑیں گے.لیکن نبی بُرے اثرات سے محفوظ ہوتے ہیں.مگر فرشتے ہر رنگ میں محفوظ ہوتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- عَلَيْهَا مَنْئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ (التحريم :) ملائکہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غلاظ اور شداد ہوتے ہیں.دوسری کوئی چیز ان پر اثر نہیں ڈال سکتی.ہاں ان کو جس چیز پر اثر ڈالنے کے لئے کہا جائے اس پر ضرور ڈال دیتے ہیں.یہ طاقت انسان میں نہیں ہوتی بعض باتوں میں ہوتی ہے اور بعض میں نہیں ہوتی.یعنی بعض صفات میں انسان بھی ایسا ہوتا ہے مگر من کل الوجوہ نہیں ہوتا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:- مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةً أَشِدَّاءُ عَلَى الكَفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ والفتح : ٣٠ ) کہ مومن بھی اشداء ہوتے ہیں مگر کفار پر.آپس میں وہ ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے ہیں.اسی طرح فرماتا ہے :- يايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (التوبة : ٢٣) اے نبی ! کفار اور منافقین کا مقابلہ کرو مگران کا اثر نہ قبول کرو.تو مومنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالتے بھی ہیں اور ان کا اثر قبول بھی نہیں کرتے مگر بعض امور ہیں.اور ملا نگه من کل الوجوہ ایسے ہوتے ہیں کہ کبھی اثر قبول نہیں کرتے.آٹھویں باتھے یہ ہے کہ ان کی تعداد انسان کے لئے غیر محدود ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.ہے :- وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ سَبَكَ إِلَّاهُود والمدثر (٣٢) ملائکہ کی تعداد خدا ہی جانتا ہے.اور کوئی معلوم نہیں کر سکتا.نویس باتے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان میں افسر ماتحت بھی ہوتے ہیں یہی نہیں کہ ایک بڑا ہے اور دوسرا چھوٹا مگر اپنے اپنے کام اور جگہ پر سب مستقل ہیں.بلکہ وہ افسر اور ماتحت کی حیثیت بھی رکھتے ہیں.چنانچہ ایک جگہ تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- قُلْ يَتَوَقَكُمْ مَلَكُ المَوْتِ الَّذِى مُحِلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ.(السجدة : ۱۲ ) کہہ دے کہ تمہاری روح قبض کرے گا موت کا فرشتہ میں کے سپرد تمہاری جان نکالنے کا کام کیا کرو

Page 514

انوار العلوم جلد ۵ ۴۹۴ ملكة الله گیا ہے.پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے.اور دوسری جگہ فرماتا ہے :- ولو ترى إِذِ الظَّلِمُونَ فِي غَمَرَاتِ المَوتِ وَالْمَلَئِكَةُ بَاسِطُوا أَيْدِيهِمُ أخرجوا انفسكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ أَتِه تَسْتَكْبِرُونَ.(الانعام : ۹۴) یعنی اور کاش کہ تو دیکھے اس گھڑی کو جب کہ ظالم موت کی تکلیف میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو ان کی طرف دراز کئے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ بکالو اپنی جانوں کو.آج کے دن تم رسوائی کا عذاب دیئے جاؤ گے.یہ سب تمہارے اللہ تعالیٰ کے متعلقی نادرست باتوں کے کہنے کے اور یہ سبب اس کے نشانات سے تکبر کر کے اعراض کرنے کے.اسی طرح فرماتا ہے :- اِنَّ الَّذِينَ تَوَ نَهُمُ المَلَئِكَةُ ظَالِمَنْ اَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيْمَ كُن الناء :( یعنی ضرور وہ لوگ کہ جن کی ملائکہ روح قبض کریں گے ایسے حال میں کہ وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہوں گے.ان سے ملائکہ کہیں گے کہ تم کسی خیال میں ٹھہرے ہوئے تھے ؟ اب ان تینوں آیتوں کو ملا کر دیکھو کہ اول الذکر آیت میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ سب انسانوں کی جانیں نکالنے کا کام صرف ایک ہی فرشتہ کے سپرد کیا گیا ہے.اور دوسری دونوں آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے که جان بہت سے فرشتے نکالتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موکل تو ایک فرشتہ ہے مگر آگے اس کے نائب بہت سے فرشتے ہیں جو اس کی اطاعت میں اس کام کو بجالاتے ہیں.اور جب موت کے انتظام میں افسری ماتحتی کے سلسلہ کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو دوسرے امور کو بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ تمام امور جو فرشتوں کے ذریعہ سے ہوتے ہیں.وہ چند بڑے فرشتوں کے سُپرد ہیں.اور آگے ان کے ماتحت شمار سے باہر ایک جماعت کام کرتی ہے.دسویں بات یہ ہے کہ فرشتوں میں انسان کی طاقتوں کے مقابلہ میں محدود طاقتیں ہوتی ہیں.ملائکہ ایک ہی حالت میں رہتے ہیں لیکن انسان بہت ترقی کر سکتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وعلَمَادَمَ الأَسْمَاء حُلّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَئِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي باسماء هؤلاءِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ ، قَالُوا سُبْحَنَكَ لَا عِلْمَ لَنَّا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إنَّكَ أَنتَ العَلِيمُ الْحَكِيمُ (البقرة : ۳۲-۳۳) ه اللہ نے آدم کو سارے نام سکھا دیئے اور پھر ملائکہ کے سامنے ان چیزوں کو جن کے نام سکھائے تھے پیش کیا.اور پوچھا کہ مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم حق پر ہو.انہوں نے کہا کہ تو پاک ہے.ہمیں کچھ کم نہیں.

Page 515

انوار العلوم جلد ۵ ۴۹۵ گر تونے نوبت والا.گر اتناہی جتنا کہ تو نے ہمیں سکھایا ہے.ضرور تو بہت جاننے والا حکمت والا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ وہ نام بتائے اور انہوں نے بتا دیئے.اس جگہ ضمنی طور پر میں اس سوال کا جواب دے دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے خود کیوں نام نہ بتائیے؟ آدم سے کیوں کہلوائے ؟ سو اس میں یہ حکمت تھی کہ اگر خدا تعالیٰ بتاتا تو ان میں ساری صفتیں آجائیں.حضرت آدم کو کہا گیا کہ تو بتا یعنی تیری طرف یہ دیکھ لیں.غرض ملائکہ کی طاقتیں انسان سے محدود ہوتی ہیں.مگر باوجود اس کے مانکہ جو کچھ کرتے ہیں خدا کے حکم اور منشاء کے ماتحت کرتے ہیں کسی قسم کی نافرمانی نہیں کر سکتے.گیارہویں باتے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملانکہ میں ارادہ ہے مگر بہت محدود.اس کی مثال ایسی ہے جیسے گھوڑے کے گلے میں لمبا رسہ ڈال کر ایک کیلے سے باندھ دیا جائے کہ حرکت کرتا رہے لیکن اس حلقہ سے باہر نہ جا سکے.ملائکہ بھی ایک مرکز کے ارد گرد حرکت کرتے رہتے ہیں اور اس حد سے باہر نہیں جاسکتے.وہ حدیسی ہے کہ : لا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ - (التحريم : ) اس حد سے باہر نہیں جاسکتے.فرشتوں کے ارادہ کا پتہ زمین سے بھی لگتا ہے کہ وہ حضرت آدمؑم کے متعلق کہتے ہیں :- اتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء (البقرة : ٣١) : یہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے سوال کیا ہے کہ ہمیں سمجھائیے کہ آدم دنیا میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا.اس کا کیا انتظام ہو گا ؟ یہ سوال کرنا بتاتا ہے کہ ایک حد تک ان میں ارادہ ہوتا ہے خونه تو بدی تک جاتا ہے اور نہ نیکی سے آگے گزر جاتا ہے.مگر اس آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پوچھا.کہا جاسکتا ہے ممکن ہے کہ خدا نے الہام کیا ہو کہ پوچھو تو انہوں نے پوچھا ہو.تو پر اول تو سی بات غلط ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے کہنے پر پوچھا کیونکہ آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے إن كُنتُم صدقین اگر تم یہ سوال کرنے میں پیچھے ہو تو اسماء بتاؤ.اس سے معلوم ہوا کہ ان کا سوال خدا کے حکم کے ماتحت نہ تھا.پھر حدیثوں میں ہم ایسی باتیں پڑھتے ہیں جن سے فرشتوں کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے.جیسا کہ آتا ہے :- ہوتا ایک شخص ایک عالم کے پاس گیا اور جاکر کہا میں نے اتنے گناہ کہتے ہیں کیا میں توبہ کر سکتا ہوں ؟ اس نے کہا تمہاری تو یہ قبول نہیں.اس نے اسے قتل کر دیا اور پھر ایک اور شخص کے

Page 516

النوار العلوم جلد ۵ ۴۹۶ پاس جانے کے لئے روانہ ہوا تاکہ اس کے پاس تو بہ کرے مگر راستے میں ہی مر گیا.اس پر جنت والے فرشتوں نے کہا کہ ہم اسے جنت میں لے جائیں گے کہ یہ توبہ کی نیت کر چکا تھا اور دوزخ والے فرشتوں نے کہا ہم اسے دوزخ میں لے جائیں گے کہ یہ تو بہ کرنے سے پہلے مر گیا.(مسلم کتاب التوبة باب قبول توبة القاتل وان كثر قتله ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ میں ارادہ ہوتا ہے.پھر اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : مَا عَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلِكِ الأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ ٥ (ص : ) مجھے کیا معلوم تھا اس بحث کا حال جب فرشتے آپس میں بحث کر رہے تھے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک دوسرے سے بحث بھی کر لیتے ہیں پس ان میں ارادہ پایا جاتا ہے مگر نہایت محدود بارہویں باتے ملائکہ کے متعلق یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں.کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَئِكَةِ اهَؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ قَالُوا سُبُحْنَكَ أَنتَ وَلِتُنَا مِنْ دُونِهِمْ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُون الجن اكثرهم بِهِمْ مُؤْمِنُونَ ه (سبا: ۴۱-۴۲) اور جس دن کہ اللہ ان سب کو اکٹھا کرے گا.پھر ملائکہ سے کسے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے.وہ کہیں گے تو پاک ہے ان سے ہمارا کیا واسطہ ہے.ہمارا دوست تو تو ہے.یہ لوگ تو جنوں کی عبادت کرتے تھے.اور ان میں سے اکثر ان پر ایمان لاتے تھے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کو علم غیب نہیں کیونکہ اگرانہیں علم غیب ہوتا تو وہ عبادت سے لاعلمی ظاہر نہ کرتے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے یونسی سوال کیا تھا.کیونکہ ایسے موقع میں بلا وجہ سوال بھی ایک قسم کا جھوٹ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے.ہے.دوم پچھلی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ فرشتوں کی عبادت کے بھی قائل تھے.پس معلوم ہوتا ہے کہ بعض فرشتے بوجہ عدم علم کے اس امر سے انکار کر دیں گے کہ بعض انسان ان کی عبادت کرتے تھے بعض حدیثوں سے بھی یہ بات وضاحت کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے کہ فرشتے عالم الغیب نہیں ہوتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.ایک شخص مؤمن کہلاتا مومنوں والے کام کرتا ہے.اس کے کاتب فرشتے جب اس کے عمل سے کر خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنے کے لئے لے جاتے ہیں.مثلاً وہ نماز پڑھتا ہے اور وہ اس عمل کو اس کے حضور میں

Page 517

انوار العلوم جلد ۵ ۴۹۷ علا تشكر الله پیش کرتے ہیں تو آسمان سے آواز آتی ہے کہ اسے واپس لے جاؤ اور جاکراس کے منہ پر مارو بینداز اس نے میرے لئے نہیں پڑھی.اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کو غیب کا علم ہیں ہوتا اگر ہوتا تو وہ ایسی نماز کو ے ہی کیوں جاتے ہو قابل قبول نہ تھی ؟ تیر ہو یہ باتے یہ معلوم ہوتی ہے کہ الگ الگ چیزوں کے الگ الگ فرشتے ہوتے ہیں.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ کو اُحد کے دن سے زیادہ بھی کبھی تکلیف پہنچی ہے.آپؐ نے فرمایا.ہاں.یوم عقبہ کو جب کہ مکہ والوں کے انکار کو دیکھ کر میں نے عبد پائیل کی قوم کی طرف توجہ کی.مگر انہوں نے توجہ نہ کی اور میری بات کو رو کر دیا اس پر میں سخت غمگین ہو کر بلا کسی خاص جہت کو مد نظر رکھنے کے یونی ایک طرف کو نکل کھڑا ہوا.راستہ میں میں نے ایک بادل کا ٹکڑا دیکھا جس میں جبرائیل مجھے نظر آئے اور انہوں نے کما کہ اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی بات کو سن کر اور ان کی مخالفت کو دیکھ کر پہاڑ کے فرشتہ کوحکم دیا ہے کہ جو تو اسے حکم کرے وہ کرے.اس پر پہاڑ کے فرشتہ نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اخشین کو رمکہ کے گرد کے دو پہاڑ ) ان پر برابر کر دوں یعنی ان میں زلزلہ پیدا ہوکر وہ لوگ ہلاک ہو جائیں.میں نے کہا کہ نہیں.نہیں امید کرتا ہوں.کہ ان کی اولاد نیک پیدا ہو جائے جو ایک خدا کی پرستش کرنے لگے.(البداية والنهاية جلد ۳ را تا كا مطبوع بيروت ١٩٢٧ء ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ خدا نے پہاڑ کے فرشتے کو حکم دیا ہے کہ آپ کی مدد کرے اپنے متعلق نہیں کہا.کہ میں مدد کے لئے آیا ہوں اس سے ظاہر ہے کہ پہاڑ کا فرشتہ الگ تھا اور الگ الگ چیزوں کے علیحدہ علیحدہ فرشتے مقرر ہوتے ہیں.چودھویں باتے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملائکہ مختلف صفات الہیہ کے مظہر ہوتے ہیں.بعض کسی ایک طاقت کے اور بعض ایک سے زیادہ طاقتوں کے مظہر ہوتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ جَاهِلِ المَلَئِكَةِ رُسُلًا أُولَى أَجْنِحَةٍ مَثْنى وثلث وَرُبَعَ ، يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلَّ شَيْيٌّ قَدِيرُه (فاطر : ۲) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو اور جو فرشتوں کو رسول بناکر بھیجتا ہے.جن میں سے بعض دو بعض تین اور بعض چار صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور اللہ ان میں زیادتی بھی کرتا ہے جتنی چاہتا ہے.اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے.لا اس کا پورا نام عبدیالیل بن عمرو بن عمیر ہے یہ طائف کے رؤسا میں سے ایک تھا.قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق تھا.(سیرت ابن هشام عربی جلد ۲ صفحہ ۲۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء)

Page 518

هد انوار العلوم جلد ۵ ۴۹۸ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مختلف فرشتے مختلف صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور کوئی تھوڑی صفات کے اور کوئی زیادہ صفات کے.اور یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس زمانہ کے لئے جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی استعداد کے فرشتے بھیجے جاتے ہیں اپنی فرشتوں کو لوگوں کے پاس بھیجا جاتا رہا جن میں ان لوگوں کے مطابق استعداد ہوتی تھی.اور جب دنیا پورے درجہ تک پہنچ گئی تو اس وقت خدا تعالیٰ نے جبرائیل کو اپنی کامل صورت میں بھیجا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کے چھ سو پر ہیں جو کامل کتاب لے کر آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جبرائیل خدا کی چھ سو صفات کے مظہر ہیں.یہ کہنا غلطی ہے کہ خدا کی صفات تو تھوڑی ہیں پھر یہ چھ سو صفات کے کیونکر مظہر ہوئے ؟ خدا تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں اور چھ سو تو صرف وہ ہیں جو انسان کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں.حضرت مسیح موعود نے ایک نہایت لطیف بات لکھی ہے جو یہ ہے کہ قرآن کریم کا علم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل سے زیادہ تھا.اور یہ بالکل درست بات ہے وجہ یہ کہ اور ملائکہ بھی آپ کی تائید میں تھے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صفات کے فرشتے تھے.تو معلوم ہوا کہ ملائکہ مختلف صفات کے مظہر ہوتے ہیں.اور اجنحہ کے معنے پر نہیں بلکہ صفات کے ہیں جو ان میں پائی جاتی ہیں.یہ تو وہ باتیں ہیں جن سے ملائکہ کے متعلق اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیسی مخلوق ہیں.اس بیان سے بعض کو ملک کے لفظ کے ساتھ اس کی کچھ کچھ صفات کا پتہ بھی لگ گیا ہو گا.اب میں ان کے کام بتا تا ہوں.ہے:.لانکہ کے کام ملائکہ کا ایک کام جو بہت بڑا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کلام الٹی لاتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَئِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ه ا لج : ٤٧ ) للہ تعالی لائنکہ اور انسانوں سے رسولوں کو چنتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کا ایک کام خدا کا کلام پہنچانا ہے.دوسرا کام ملائکہ کا جان نکالنا ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- بخارى كتاب التفسير - سورة النجم باب قوله فاوحی الى عبده ما اوحی

Page 519

انوار العلوم جلد ۵ ۴۹۹ متفرق طلا نکه قُلْ يَتَوَتْكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِى وَكَلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (السجدة : ۱۲ ) کہ تمہاری روح قبض کرتا ہے موت کا فرشتہ جس کے سُپر و تمہاری جان نکالنے کا کام کیا گیا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے..تیسرا کام فرشتوں کا یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ وہ شریر لوگ جو بیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ان پر عذاب لاتے ہیں.وہ فرشتے جب شریروں سے ملتے ہیں تو ان میں ایسی میگنیٹک طاقت پیدا ہوتی ہے کہ شریر جل جاتے ہیں جیسے پڑوں کے پاس آگ جلاؤ تو اسے آگ لگ جاتی ہے اسی طرح شریر پڑوں کی طرح ہوتے ہیں اور ملائکہ آگ کی طرح.جب ان کے ساتھ لگتے ہیں تو شریر جل جاتے ہیں اور جب وہ ان کے پاس آتے ہیں تو انہیں تباہ کر دیتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِي رَبُّكَ أَوْ يَأْتِي بَعْضُ أَيتِ ربك ، يَومَ يَأْتِي بَعْضُ أيتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ أَمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَو كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيرًا ه (الانعام : ۱۵۹) کیا یہ اس بات کی انتظار کرتے ہیں کہ ملائکہ آ جائیں.اگر وہ آگئے تو ادھروہ آئیں گے اُدھر یہ تباہ ہو جائیں گے.وہ ان کے لئے چنگاری ہیں اور یہ ان کے سامنے بارود چوتھا کام ملائکہ کا یہ ہے کہ مؤمنوں کی مدد کرتے ہیں.کافروں کے لئے تو وہ چنگاری ہیں کہ ادھر وہ قریب ہوئے اور اُدھر وہ جلے لیکن مؤمن ان سے مدد لیتے اور وہ انہیں مدد دیتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- إنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبَّنَ اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ المَلَئِكَةُ الا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ونَحْنُ اوليؤُكُمْ في الحيوة الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ : وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدْعُونَ وحم السجدة : ۳۱-۳۲) وہ لوگ جو کہتے ہیں.ہمارا رب اللہ ہے.پھر وہ اس بات پر قائم ہو جاتے ہیں.کوئی چیز انہیں اس سے پھرا نہیں سکتی.ان پر طانکہ اترتے ہیں اور کتے ہیں تمہیں بشارت ہو جنت کی.تم ڈرو نہیں.ہم تمہارے مددگار ہیں.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.اور جنت میں جو کچھ تم چاہو گئے وہی تمہیں ملے گا اس سے معلوم ہوا کہ بعض فرشتوں کا کام مومنوں کی مدد کرنا ہے.

Page 520

انوارالعلوم جلد ۵ پانچواں کام یہ معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ اس کے کہ فرشتے جب نظر آجائیں تو وہ کفار اور مشرکین کو بلاک کر دیتے ہیں.ایک کام ان کا یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر نمک ہجو انسان کے ساتھ ہوتا ہے.وہ نبی اور اس کی جماعت کا رعب انسان کے دل پر ڈالتا رہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ الَن يَكْفِيكُمْ أَن تُمدَّكُمْ رَبكُم بِثَلَثَةِ الآفٍ مِنَ المَليكة منزلين.(ال عمران : ۱۲۵) کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تین ہزار ملائکہ تمہاری مدد کو آجائیں.تین ہزار ملائکہ کیوں فرمایا ؟ اس لئے کہ اس موقع پر دشمن کی فوج اتنی ہی تھی.اس سے معلوم ہوا کہ یہ اعلیٰ درجہ کے فرشتے نہیں تھے بلکہ وہ تھے جو ہر انسان کے ساتھ ایک ایک لگا ہوا ہے.کیونکہ فرمایا.کیا یہ کافی نہیں ہے ؟ کہ ہم تین ہزار ملائکہ سے تمہاری مدد کریں.یعنی جب تم دشمن کے مقابلہ پر جاؤ تو وہ تمہارا رعب ہر ایک کے دل میں ڈان شروع کر دیں.چنانچہ آگے فرماتا ہے :- سَلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرعب (ال عمران : ١٥٢ ) کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا.پس ہر انسان کے ساتھ جو ملک ہوتا ہے وہ نبی اور اس کی جماعت کا رعب ڈالتا رہتا ہے.رعب کی مثال اس زمانہ میں بھی ملتی ہے.حضرت مسیح موعود نے اپنے مخالفین کوبلایا کہ مباہلہ کر لو مگر کوئی سامنے کھڑا نہ ہو سکا.وجہ یہ کہ جب وہ سامنے کھڑے ہونے کا خیال کرتے تو فرشتہ ان کے دل میں رعب ڈال دیتا کہ مارے جاؤ گے اس لئے وہ ہٹ جاتے.جن دنوں میں شملہ گیا وہاں مجھے ایک آریہ ملنے کے لئے آیا.ویدوں کے متعلق گفتگو ہوئی.میں نے کہا کہ اگر تمہیں ویدوں کے نیچے ہونے کا یقین ہے تو قسم کھاؤ.کہنے لگا ہاں میں قسم کھانے کو تیار ہوں.میں نے کہا اس طرح قسم کھاؤ اگر یہ پچھے نہ ہوں تو میری بیوی بچوں پر عذاب آجائے.کہنے لگا یہ تو نہیں ہو سکتا یہ کہتے ہوئے دل ڈرتا ہے.میں نے کہا میں قرآن کے متعلق اسی طرح قسم کھانے کو تیار ہوں کہنے لگا یہ تو بڑی جرأت ہے.میں نے کہا کہ جب مجھے یقین ہے کہ قرآن سچا اور خدا کا کلام ہے تو جرات کیوں نہ ہو ؟ بات یہی ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں ملائکہ رعب ڈالتے ہیں.اس زمانہ میں بھی اس کی مثال موجود ہے کہ بار بار چیلنج دیا گیا مباہلہ کر لو مگر کوئی سامنے کھڑا نہ ہو سکا.ابھی صوفیت کا دعوی کرنے والے ایک صاحب حسن نظامی نامی اُٹھے اور انہوں نے لکھا کہ آؤ میں ایک گھنٹہ میں جان نکال

Page 521

انوار العلوم جلد ۵ ۵۰۱ ملائكة الله لونگا.آخر اتنے ذلیل ہوئے کہ بالکل خاموش ہو گئے.پھر دیو بندیوں کودیکھو کتنے اشتہار لکھے اور شائع کئے مگر جب ہمارے اشتہار کا کوئی جواب ہی نہیں دیتے جو کئی ماہ سے نکلا ہوا ہے، تو مباہلہ کے خیال پر انکے دل پر رعب چھا جاتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور ذکر کیا اوصل نے مجھ پر ظلم کر رکھا ہے آپ انصاف کرائیں.اس نے میرا اتنا رو پیر دینا ہے مگر دیتا نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ساتھ لے کر ابو جہل کے پاس گئے اور جا کر پوچھا کہ تم نے اس کا اتنا رو پیہ دینا ہے.اس نے کہا ہاں دینا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دے دو.اس نے جھٹ نکال کر دے دیئے.اس پر لوگوں نے ابو جبل کو شرمندہ کیا کہ یتم نے کیا کیا ؟ تم تو میں کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کا مال کھا جانا جائز ہے.پھر تم نے کیوں دے دیا ؟ اس نے کہا تمہیں کیا معلوم ہے مجھے اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دوست اونٹ میرے سامنے کھڑے ہیں، اگر میں نے ذرا انکار کیا تو وہ مجھے چیر ڈالیں گے دراصل یہ رعب تھا جو فرشتہ اس کے قلب پر ڈال رہا تھا.غرض ملائکہ کا یہ کام بھی ہے کہ رعب ڈالتے ہیں.پھر ملائکہ کا چھوٹا کام یہ ہے کہ توحید الہی قائم کرتے ہیں.یوں تو سارے ہی کام فرشتے کرتے ہیں مگر یہ خاص کام ہے جو ہر ایک فرشتہ کرتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- شَهِدَ الله اَئِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ دال عمران : ١٩) ا بھی اپنی توحید پرگواہی دی ہے اور نہ بھی گواہی دیتے ہیں تو انکہ توجہ کے بہت کے لئے اسباب مہیا کرتے ہیں.ساتواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تصدیق ظاہر کرتے ہیں.لوگ انبیاء کو جھٹلاتے ہیں.مگر وہ دلوں میں خیال ڈالتے رہتے ہیں کہ یہ جھوٹا نبی نہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- لكن اللهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنْزَلَ إِلَيْكَ اَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَئِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا ٥ (النساء : ١٩٤ ) فرمایا خدا گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ تجھ پر نازل کیا گیا ہے یہ ہماری طرف سے ہے اور ملا کہ بھی گواہی دیتے ہیں.ملائکہ کئی طرز سے گواہی دیتے ہیں.مثلاً خواب میں نبی کی سچائی ظاہر کر دیتے ہیں.ایک شخص نبی کا دشمن ہوتا ہے اور اسے جھوٹا سمجھتا ہے.لیکن ملائکہ ایسی بات اس کے دل میں خواب کے ذریعہ ڈالتے عب والسيرة النبوية لابن هشام جلد ۱ صفر ۲۵۹۰۲۵۸ ناشر مكتبة توفيقية الازهر

Page 522

۵۰۲ ہیں کہ وہ نبی کو مان لیتا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ ملک اس موقع کو تاڑ تا رہتا ہے کہ کب فلاں شخص کے دل میں نیکی آئے.اور ہر انسان پر ایسا وقت آتا ہے خواہ وہ ابو جیل ہو یا فرعون اور جب نیکی کے آنے کا وقت ہوتا ہے.تو اس سے ملک فائدہ اُٹھا لیتا اور نبی کی سچائی دل میں ڈال دیتا ہے.آگے یہ انسان کا کام ہوتا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے.تو ملائکہ کا ایک کام یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں انبیاء کی تصدیق پیدا کرتے رہتے ہیں.آٹھواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ خدا کی تسبیح کرتے رہتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وتَرَى الْمَلَئِكَةَ حَاذِيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمُ (الزمر : 4 ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ خدا کی تفصیح اور تحمید کرتے ہیں.نواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ مومنوں کے لئے استغفار کرتے ہیں.یہ خاص ملائکہ ہوتے ہیں.ان کا خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ فرض ہوتا ہے کہ مومنوں کے لئے دُعا اور استغفار کرتے رہیں کہ اگر مومن سے کوئی کمزوری صادر ہو جائے تو اس پر خدا تعالیٰ پر دہ ڈال دے.چنانچہ اللہ تعالے فرماتا ہے :.الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَولَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبيكَ وَهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ٥ (المؤمن :٨) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاص الخاص ملائکہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ خاص الخاص مؤمنوں کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا ان کی کمزوریوں کو معاف کر دے.اور جو عام فرشتے ہوتے ہیں.ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ سب کے لئے دُعا کرتے ہیں.عام مومنوں حتی کہ کافروں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں.اور اس طرح مومنوں کو دوہرا فائدہ پہنچتا ہے.ایک تو خاص فرشتے ان کے لئے دُعا کرتے تھے اور دوسرے عام فرشتے جو سب کے لئے دُعا کرتے ہیں ان میں بھی مومن شامل ہوتے ہیں.سب کے لئے دُعا کرنے کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَالمَلَيْكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ (الشورى :) یعنی خدا کی رحمانیت کے فرشتے سب کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا سب کو معاف کر دے.میرا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ نے دوزخ کو خالی کرنے کی یہ بیل رکھی ہے خدا تعالیٰ فرشتوں کی دُعا کے نتیجہ میں آخر کہے گا کہ جاؤ میں سب کو چھوڑتا ہوں.

Page 523

ار العلوم جلد ۵ ۵۰۳ دسواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ وہ قوانین نیچر کی آخری علت ہیں اور دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے.سب ملائکہ کے اثر کے ذریعہ سے ہو رہا ہے.مثلاً بارش برستی ہے، ہوا چلتی ہے سورج کی شعائیں پہنچتی ہیں ، زہر اثر کرتا ہے ، تریاق اثر کرتا ہے وغیرہ وغیرہ.یہ سب کچھ ملائکہ کے اثر کی وجہ سے ہو رہا ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو ان کے اثر کے بغیر اثر کر سکتی ہو.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زہر بجائے خود زہر نہیں ہے اور تریاق اپنی ذات میں تریاق نہیں ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس ٹیک کے ماتحت زہر ہے جب تک وہ زہر کو اجازت نہ دے وہ اثر نہیں کر سکتا ہے اور جس کے ماتحت تریاق ہے جب تک وہ حکم نہ دے تریاق اثر نہیں کر سکتا اور ہر چیز کے متعلق ہی بات ہے چنانچہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ذکر آتا ہے کہ بارشیں برسانا ، آندھیاں لانا اور دوسرے کئی کام ملائکہ کے سپرد ہیں.یہ ایک لمبا سلسلہ ہے اور بیسیوں مثالیں اس قسم کی مل سکتی ہیں اور کھلی کھلی پندرہ میں شائیں تو مل جاتی نہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ قانون قدرت کے مختلف شعبوں کو پورا کر رہے ہیں.اگر چہ چند ایک مثالیں و کھلی کھلی ہیں ان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ ان کی وجہ سے سب باتوں کے متعلق کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے ؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ یہ قیاس يَحْمِلُونَ العَرش سے ہو سکتا ہے کہ ملائکہ ہی خدا کی سب صفات ہوسکتا کی کو ظاہر کرتے ہیں.گیارہواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ وہ استغفار ہی نہیں کرتے کہ لوگوں کے گناہ معاف کئے جائیں بلکہ دعائیں بھی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر برکتیں نازل کرے.استغفار کرنے کے تو یہ معنے ہیں کہ انسانوں سے جو غلطیاں ہوں ان کو ڈھانپ دیا جائے.مگر وہ دعائیں کرتے ہیں کہ خدا اپنی رحمت نازل کرے.چنانچہ آتا ہے :- إِنَّ اللهَ وَمَنْئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وسلموا تسليمان ( الاحزاب : ٥٠ ) یہ فرشتے خدا کی رحمت کے ماتحت ہوتے ہیں جب کوئی شخص خدا کی راہ میں کام کرتا ہے تو ملا کہ اس پر خدا کی برکت نازل ہونے کی دُعائیں کرتے ہیں وہ خود تو برکت نہیں دے سکتے اس لئے خدا سے دعائیں کرتے ہیں کہ فلاں پر برکت نازل کرے.ان کا درود ایسا ہی ہوتا ہے.جیسے ہمارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہوتا ہے کہ ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی برکت نازل کرے.اسی طرح وہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ خدایا اپنے اس بندے پر رحم کر.خدا تعالیٰ

Page 524

انوار العلوم جلد ۵ ۵۰۴ ملائكة الله فرماتا ہے.تم بھی دُعائیں کرو کیونکہ خدا اور ملائکہ سبھی اس کام پر لگے ہوئے ہیں بار ہواں کام ملائکہ میں سے بعض کا یہ ہے کہ وہ سوائے عبارت کے کچھ نہیں کرتے.وہ محض عباد ہی کر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے حتی کہ اس دنیا کا خاتمہ ہو جائے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ساتوں آسمانوں پر ایک قدم یا ایک بالشت یا ایک تھیلی کے برابر بھی جگہ خالی نہیں سب جگہ فرشتے کھڑے عبادت کر رہے ہیں یا سجدہ میں ہیں یا رکوع میں ہیں.جب قیامت کا دن آئے گا سب کہیں گے تو پاک ہے.ہم نے تیری عبادت اس طرح نہیں کی جو حق تھا.ہاں بس اتنا کہ سکتے ہیں کہ ہم نے تیرا شریک کسی کو نہیں ٹھہرایا.فرشتوں کے اس قول سے مومنوں کو بھی سبق لینا چاہئے کہ اس قدر عبادت کرنے کے بعد فرشتے کہیں گے ہم نے کچھ نہیں کیا.مگر بعض لوگ تھوڑی سی عبادت کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اتنی عبادت کی ہے.تیر ہواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ لوگوں کے اعمال محفوظ رکھتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَان عَلَيْكُم لحفظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَهُ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (الانفطار التا٣) فرماتا ہے کہ تمہارے اوپر فرشتے مقرر کئے گئے ہیں.جن کا کام یہ ہے کہ تمہارے اعمال لکھتے رہتے ہیں جو تم ظاہر میں کرتے ہو.باقی رہی نیت یہ ان ہی کو معلوم ہوتی ہے جن کو محاسبہ قلب کا کام سپرد ہے.جود ہواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ جو خدا کے پیارے ہوتے ہیں ان کی محبت دنیا میں پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو تحریک کرتے ہیں کہ ان سے محبت کرو.چنانچہ حدیث میں آتا ہے.کہ إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فَلَا نَا فَاحْسِبُهُ فَيُحِبُّهِ جِبْرِيلُ فَيُنَادِى جبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فَلَانَا فَاحِبُوهُ نَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ تُقَ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ.ر بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر المكشكة ) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل کو پکارتا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے.اس پر جبرائیل اس سے محبت کرنے لگتا ہے.پھر جبرائیل تمام آسمان والوں میں پکارنا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے پس تم بھی اس سے محبت کرو.پین اس پر سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں.پھر اس کی قبولیت زمین میں پھیلا دی جاتی ہے.اس زمانہ میں یہ نظارہ دیکھ لو یہ وہ زمانہ ہے کہ لوگ حکومتوں کو کہ رہے ہیں کہ ہم تمہیں کیوں مانیں ؟

Page 525

انوار العلوم ركة الله مگر اسی زمانہ میں لوگ حضرت مسیح موعود کی غلامی میں داخل ہو رہے ہیں.اور جو بعد میں داخل ہوتے ہیں انہیں افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے پہلے کیوں نہ آپ کو مان لیا ؟ یہ ملانکہ ہی کی پھیلائی ہوئی محبت ہے.خدا تعالیٰ کے پیاروں کی صداقت کی یہ ایک لطیف دلیل ہے جھوٹے مدعی اُٹھتے ہیں بڑا شور مچاتے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں.اسی زمانہ میں ایک ظہیر الدین از وپی اور دوسرا عبد الله تیما پوری ہے بارہا انہوں نے اپنے متعلق ٹریکٹ لکھ لکھ کر چھپوائے اور شائع کئے.مگر کوئی ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا.مگر حضرت مسیح موعود کے متعلق دیکھو کس طرح آپ کی محبت دنیا میں پھیلی ؟ اور پھیل رہی ہے.پندرہواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ کبھی ملائکہ کو خدا کے پیاروں کی خدمت میں لگا دیا جاتا ہے اور ناموروں کے خادم اور غلام بنا دیئے جاتے ہیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِلَى خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ، فَإِذَا سَوَيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ٥ (الحجر:۲۹-۳۰) خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو کہا کہ مٹی سے بشر بنانے والا ہوں.جس وقت میں اس کو بنا چکوں اور اس پر اپنا کلام نازل کروں بینی اسے نبی بناؤں اس وقت تم اس کی غلامی میں جھک جانا گویا ملا کہ کوئی کی غلامی میں دیا جاتا ہے اور وہ نبی کے مقام سے نیچے آجاتے ہیں.سولہواں کام مانکہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کوعلم کھاتے اور تعلیم دیتے ہیں یعنی ان کو مقر کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو علم کی طرف توجہ کرنے والے ہوں ان کے قلوب پر علم کی روشنی ڈالتے رہو.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس متمثل ہو کر آئے اور سوال کیا یا رسول اللہ ایمان کیا ہے ؟ دین کیا ہے ؟ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے رہے جب چلے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا جانتے ہو یہ کون تھا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم تو نہیں جانتے آپ ہی بتائیے.آپؐ نے فرمایا یہ جبرائیل تھا جو تمہیں دین سکھانے کے لئے آیا تھا.ر بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبريل النبي عن الايمان والإسلام ) تو ملائکہ کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ علوم سکھاتے ہیں.مگر دینی علوم ہی نہیں.دنیا کے معاملات کے متعلق علوم بھی سکھاتے ہیں حتی کہ کافروں کو بھی سکھاتے ہیں میں نے ایڈیسن کی ایک کتاب پڑھی ہے.وہ کھنا ہے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو میں نے ایجاد کر کے نکالی ہو.ایک دم میرے دل میں آکر ایک بات

Page 526

انوار العلوم جلد ۵ ۵۰۶ پڑتی اور میں اس کو مل میں سے آتا.اس کو چونکہ ایسے علوم کا شوق تھا اس لئے اس قسم کی باتیں سکھائی گئیں.نبیوں اور ولیوں میں چونکہ دینی علوم کا شوق ہوتا ہے اس لئے انہیں دینی علوم سکھاتے ہیں.فرشتوں کے علوم سکھانے کا بھی عجیب طریق ہے.وہ جو بات سکھاتے ہیں اسے OBJECTIVE MIND قلب عامل میں نہیں رکھتے بلکہ SUB CONSCIOUS MIND قلب غیر حال میں رکھتے ہیں.سینی دماغ کے پچھلے حصہ میں رکھتے ہیں تاکہ سوچ کر انسان اسے نکال سکے.اس میں ظاہری دماغ سے حفاظت کی زیادہ طاقت ہوتی ہے اور یہ ذخیرہ کے طور پر ہوتا ہے.ملائکہ جو کچھ سکھاتے ہیں اسی حصہ دماغ میں ڈالتے ہیں.الاماشاء اللہ.دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں.ایک وہ حصہ میں کے ذریعہ ہم چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں.دوسرا وہ حصہ جو ذخیرہ کے طور پر ہوتا ہے.اس میں باتیں محفوظ رکھی جاتی ہیں جو یاد کرنے پر یاد آجاتی ہیں اور میرا وہ حصہ جس میں ذخیرہ تو ہوتا ہے مگر یاد کرنے سے بھی اس میں جو کچھ ہو یاد نہیں آتا بلکہ بہت کر دینے سے وہ بات سامنے آتی ہے.ملائکہ کبھی اس تیرے حصے میں بھی علوم داخل کر جاتے ہیں جب ان کی ضرورت ہو اس وقت ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ وہ علوم سامنے آجاتے ہیں.یوں یاد کرنے سے نہیں آتے.یہ میرا ذاتی تجربہ ہے میری کوئی ۱۷-۱۸ سال کی عمر ہوگئی.حضرت مسیح موعود کا زمانہ تھا.اس وقت میں نے رسالہ تشخیز نکالا تھا.خواب میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے جو مجھے کہتا ہے کیا تمہیں کچھ کھائیں؟ میں نے کہا سکھاؤ.اس نے کہا سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائیں ؟ میں نے کہا ہاں سکھائیے.اس رویا کا بھی عجیب نظارہ تھا.یہ شروع اس طرح ہوئی کہ پہلے مجھے ٹن کی آواز آئی اور پھر وہ پھیلنے لگی اور پھیل کر ایک میدان بن گئی.اس میں سے مجھے ایک شکل نظر آنے لگی.جو ہوتے ہوتے صاف ہو گئی.اور میں نے دیکھا کہ فرشتہ ہے.اس نے مجھے کہا تمہیں علم سکھاؤں میں نے کہا سکھاؤ.اس نے کہا لو سورہ فاتحہ کی تفسیر سیکھو.اس پر اس نے سکھانی شروع کی اور ایاک نعبد پر پہنچ کر کہا کہ سب نے اسی حد تک تفسیریں لکھی ہیں آگے نہیں لکھیں.میں بھی اس وقت سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہے.پھر اس نے کہا نگر میں تمہیں اس سے آگے سکھاتا ہوں.چنانچہ اس نے ساری سورۃ کی تفسیر سکھائی اور میری آنکھ کھل گئی.اس وقت مجھے اس کی ایک دو باتیں یاد تھیں جن کی نسبت اتنا یاد ہے کہ نہایت لطیف تھیں.مگر دوبارہ سونے کے بعد جب میں اُٹھا تو میں وہ بھی بھول گیا تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کو جب میں نے یہ رویا سنائی تو آپ بہت ناراض ہوئے کہ کیوں اسی وقت نہ لکھ لی ؟ جو کچھ سکھایا گیا تھا اسے اسی وقت لکھ لینا چاہئے تھا.اس دن کے بعد آج تک میں سورہ فاتحہ پر کبھی نہیں بولا کہ مجھے اس کے نئے نئے نکات نہ بجھائے

Page 527

انوار العلوم جلد ۵ ۵۰۷ ملاكمة الله گئے ہوں.میں سمجھتا ہوں یہ اسی علم کی وجہ ہے جو مجھے سکھایا گیا.ایک دفعہ مجھے اس علم کا خاص طور پر تجربہ ہوا.ہمارے سکول کی ٹیم امرتسر کھیلنے کے لئے گئی میں اس وقت اگر چہ سکول سے نکل آیا تھا لیکن مدرسہ سے تعلق تھا کیونکہ میں بی نیا نکلا تھا اس لئے میں بھی ساتھ گیا.وہاں ہمارے لڑکے جیت گئے اس کے بعد وہاں مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا اور مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا.جب ہم اس جلسہ میں گئے تو راستہ میں میں ساتھیوں کو سناتا جار ہا تھا کہ خداتعالی کا میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب بھی میں سورۃ فاتحہ پر تقریر کروں گا نے نکات سمجھائے جائیں گے.جلسہ میں پہنچ کر جب میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو کوئی آیت سوائے سورۃ فاتحہ کے میری زبان پر ہی نہ آئے.آخر میں نے خیال کیا کہ میرا امتحان ہونے لگا ہے اور مجھے مجبوراً سورۃ فاتحہ پڑھنی پڑی اس کے متعلق کوئی بات میرے ذہن میں نہ تھی.میں نے یونسی پڑھی لیکن پڑھنے کے بعد فوراً میرے دل نہیں ایک نیا نکتہ ڈالا گیا اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب سورۃ فاتحہ اُتری ہے اس وقت آپ کے مخاطب کفار تھے.یہودی اور عیسائی نہ تھے مگر دعا اس میں یہ سکھائی گئی ہے کہ ہمیں یہودی اور عیسائی بننے سے بچا کہ ہم ان کی طرح نہ نہیں.حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جو سامنے تھے ان کے متعلق دعا سکھائی جاتی کہ ہم ان کی طرح نہ نہیں.اس میں یہ نکتہ ہے کہ مشرکین نے چونکہ تباہ و برباد ہو جانا تھا اور بالکل مٹائے جانا تھا اس لئے ان کے متعلقی دُعا کی ضرورت نہ تھی.لیکن عیسائیوں اور سیودیوں نے چونکہ قیامت تک رہنا تھا اس لئے ان کے متعلق دعا سکھائی گئی.یہ نکتہ معاً مجھے سمجھایا گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ اس موقع پر اس نے میری آبرو رکھ لی.تو یہ علم جو خدا تعالیٰ کی طرف سے سکھایا جاتا ہے.ہمیشہ ضرورت کے وقت کام آتا ہے اور اسکے یاد نہ رہنے میں یہ حکمت ہے کہ اگر بات یا د رہتی تو ایک ہی دفعہ کے لئے وہ ہوتی.مگر اس طرح یہ علم ہمیشہ کام آتا ہے.اب کبھی کوئی اعتراض کرے اور کوئی حافظ نہ ہو جس سے قرآن کی کوئی اور آیت پوچھی جا سکے تو خدا تعالیٰ سورۃ فاتحہ سے ہی مجھے اس کا جواب سمجھا دیتا ہے.تو سمادی علوم میں برکت ہوتی ہے کہ جب ضرورت پڑے ان سے کام لیا جا سکتا ہے.پس ملائکہ کے ذریعے علوم سکھائے جاتے ہیں محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہں کہ مجھے بہت سے علوم ماینکر نے سکھائے ہیں (فتوحات مکیہ جلد امت مطبوعہ مصری صوفیاء میں سے بھی ہیں جنہوں نے مولانا کے متعلق بحث کی ہے.اگر چہ ان کی محبت حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہیں ہے.

Page 528

انوار العلوم جلد ۵ ۵۰۸ حضرت مسیح موعود بار با فرمایا کرتے تھے کہ کئی ہزار الفاظ کا مادہ آپ کو سکھایا گیا.میں نے بھی اور بہت سی باتیں ملائکہ کے ذریعہ سیکھی ہیں.ایک دفعہ گناہ کے مسئلہ کے متعلق اس وسعت کے ساتھ مجھے علم یا گیا کہ میں اس کا خیال کر کےحیران ہو جاتا ہوں کہکس عجیب طریق سے کوتاہیوں اور غلط کاریوں کانقشہ کھینچا گیا ہے.سترھواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کے دل میں نیک تحریک اور نیک خیال پیدا کرتے ہیں.یہ اس فرشتہ کا کام ہوتا ہے جو ہر ایک انسان کے لئے الگ الگ مقرر ہوتا ہے.اصل میں یہ انتظام جبرائیلی تسلط کے ماتحت ہی ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کے دل میں نیک تحریکیں کرنا رہتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- فِي الْقَلْبِ لَمَّتَانِ لَمَّةٌ مِنَ الْمَلَكِ الْعَادُ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وجدَ ذلِكَ فَلْيَعْلَمُ أَنَّهُ مِنَ اللهِ سُبْحَانَهُ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ وَلَمَّةٌ مِنَ الْعَدُو إِيمَادُ بِالشَّرِ وَ تَكْذِيبُ بِالْحَقِّ وَنَهى عَنِ الْخَيْرِ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرحيم فرماتے ہیں.انسان کے دل میں دو تحریکیں ہوتی ہیں.ایک فرشتے کی طرف سے اس میں نیک باتوں کی تحریک ہوتی اور سچائی کی تصدیق ہوتی ہے پس جس کے دل میں ایسی تحریک ہو جائے وہ جان سے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے پس وہ اللہ کا شکر کرے.اور ایک عدد کی طرف سے اس میں بُری باتوں کی تحریک ہوتی ہے اور سچائیوں کا انکار ہوتا ہے اور نیک باتوں سے روکا جاتا ہے یہیں جس کے دل میں ایسی تحریک ہو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے شیطان سے.یہ میں نے ملائکہ کی حقیقت اور ان کے کام بتائے ہیں ان سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ لائنکہ یونی نہیں بلکہ ان کا انسان کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے.اس لحاظ سے یہ معمولی مسئلہ نہ رہ گیا جیسا کہ عام لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ معلوم ہوا کہ خانہ کا وجود بھی ایک نایت کار آمد چیز ہے.کیا انسان ملائکہ کو نفع پہنچا سکتا ہے ؟ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا لا نکہ کوانسان بھی کوئی فائدہ پہنچاتا ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق جہاں تک میری تحقیق ہے یہی معلوم ہوتا ہے اور میرا قرآن اور حدیث سے استنباط ہے کہ اور تو کسی رنگ میں

Page 529

انوار العلوم جلد ۵ ۵۰۹ انسان ملائکہ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا البتہ ان کے مدارج کی ترقی کے لئے دکھا کر سکتا ہے چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.کہ جب حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے آئے اور آکر سلام کہا تو حضرت ابراہیم نے بھی آگے سے ان کو جواب دیا.اگر ملائکہ کو اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچ سکتا تو وہ سلام کا جواب نہ دیتے کیونکہ سلام سلامتی کی دُعا ہے اور جس کے مدارج میں ترقی نہ ہو سکتی ہو اس کے حق میں دُعا فضول ہے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو کہا کہ جبرائیل نے تمہیں السلام علیکم کہا ہے.اس پر حضرت عائشہ نے کہا وعلیکم السلام اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا (ابن ماجه کتاب الادب باب رد السلام ) اسی طرح جب تک تشہد نہ اُترا تھا صحابہ کہا کرتے تھے خدا تعالیٰ پر سلام، جبرائیل پر سلام فلاں فلاں پر سلام.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا پر سلام کہنے سے منع فرما با سین جبرائیل پر سلام کہنے سے منع نہ کیا.اگر جبرائیں تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوتا تو آپ منع کر دیتے.اس سے زیادہ ملائکہ کو فائدہ پہنچانے کا اور کوئی پتہ نہیں لگتا.ملائکہ کے وجود کا ثبوت اب میں اس امر کا ثبوت پیش کرتا ہوں کہ ملائکہ واقع میں ہیں.پہلے تو قرآن سے یہ بتایا گیا ہے کہ میں اب میں دلائل سے ثابت کرتا ہوں کہ کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ ہیں ؟ (1) ہم دیکھتے ہیں کہ تمام عالم میں ایک قانون جاری ہے اور وہ ایسا زیر دست قانون ہے کہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور وہ قانون ایک ارادہ کے ماتحت ہے.مثلاً آسمان میں ہم ستاروں کی گردش دیکھتے ہیں.ان میں ایسی حکمت پائی جاتی ہے کہ ان کا انتظام بلاوجہ اور بغیر کسی ارادہ کے نہیں ہو سکتا.پھر یہی زمین ہے جو آباد ہے.اسٹرا نو مرز نے اس کو معمولی سیارہ ثابت کرنے کے لئے بڑا زور مارا ہے.اور انہوں نے بڑی کوشش کی ہے کہ اس کو چھوٹا سا سیارہ ثابت کریں.مگر کہتے ہیں کہ یہ مرکز میں ہے.ہم کہتے ہیں اسے کیوں مرکز میں جگہ ملی ہے ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ چونکہ بنی نوع انسان اس پر لیتے ہیں.اس لئے ضروری تھا کہ سارے تارے اس پر اثر ڈالتے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ یہ مرکز میں ہوتی.اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارادہ کے ماتحت بنائی گئی ہے یوسی نہیں بنائی گئی.سنن نسائی کتاب الافتتاح باب كيف التشهد الأول

Page 530

انوار العلوم جلد 01- ملائكة الله اسی طرح باقی سارا انتظام ہے.کئی سال ہوئے ایک ستارہ نمودار ہوا تھا جس کے متعلق خیال کیا گیا تھا کہ وہ زمین سے ٹکرائے گا اور ساری دُنیا تباہ ہو جائے گی مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کا رخ بدل گیا اور کچھ بھی نہ ہوا.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے اور یہی خیال کیا جاتا رہا ہے کہ ستارہ کے زمین کے ساتھ ٹکرانے سے زمین تباہ ہو جائے گی.جو ایسے ٹھوس ستارے ہوتے ہیں کہ ان کے ٹکڑانے سے زمین تباہ ہو جاتی ہے وہ جب اس حد پر پہنچتے ہیں کہ زمین سے ٹکرائیں تو اس وقت اپنا راستہ بدل لیتے ہیں.اور یہ عجیب بات ہے کہ دمدار ستارے جن کے ٹکرانے سے کوئی نقصان نہیں ہو سکتا وہ زمین کے پاس آجاتے ہیں اور ان کی دم زمین سے ٹکرا جاتی ہے.مگر وہ ایسے باریک ذروں سے بنی ہوئی ہے کہ دنیا کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا.ایک دفعہ یورپ کے سائنس دانوں نے اعلان کیا تھا کہ اب ایک ستارہ زمین کے پاس سے گزرے گا جس سے دُنیا تباہ ہو جائے گی.اس پر کئی لوگ خود کشی کر کے مرگئے کہ نہ معلوم اس وقت کسی قدر دکھ اور تکلیف سے مریں.مگر وہ ستارہ آیا اور گزر گیا اس سے کچھ نقصان نہ ہوا.اس پر نیت دانوں نے بتایا کہ اس کے ذرات اتنے باریک تھے کہ جب وہ سورج کے مقابلہ میں آیا تو اس کی نوم سُورج کی شعاؤں کے دباؤ سے ہٹ کر دائیں سے بائیں طرف ہو گئی.اس قسم کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتب قانون ہے جس کے ماتحت سب کام ہو رہا ہے اگر ایک بالا رادہ ہستی پیچھے نہ ہوتی تو پھر یہ کام کس طرح چلتا ؟ اب سوال یہ ہے کہ وہ بالا رادہ بستی کون ہے؟ اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ملائکہ ہیں.نہیں ہر ایک چیز پر لانکہ کا قبضہ ہے اور ان کے ذریعہ یہ انتظام چل رہا ہے.مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہے کہ ہر چیز پر ملائکہ کا قبضہ ہے اور ان کے ارادے کے ماتحت وہ چیز کام کرتی ہے.ایک دفعہ مجھے بخار ہوا.ڈاکٹر نے دوائیں دیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.ایک دن چودھری ظفر اللہ خان صاحب آئے ان کے ساتھ ایک غیر احمدی بھی تھا.ان کو میں نے اپنے پاس بلا لیا.ان کے آنے سے پہلے مجھے غنودگی آئی اور ایک مچھر میرے سامنے آیا اور کہا آج تپ ٹوٹ جائے گا.جب ڈاکٹر صاحب اور چودھری صاحب اور ان کا غیر احمدی دوست اور بعض اور احباب آئے تو میں نے ان کو وہ کشف بتا دیا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا تو اس وقت تپ نہیں تھا.دراصل وہ مچھر نہیں بولا تھا بلکہ اس کی طرف سے وہ فرشتہ بولا تھا جس کا مچھر پر قبضہ تھا تو ہر ایک

Page 531

انوار الع ملائكة الله چیز جو انتظام اور ارادہ کے ماتحت کام کر رہی ہے ملائکہ کی ہستی کا ثبوت ہے.(۲) جسمانی بناوٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ ملائکہ ہیں.کیونکہ موجودہ تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ جو چیزیں دنیا میں نہیں نظر آتی ہیں یہ اصل میں ایسی ہی نہیں ہیں.مثلاً انسان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ ایک ہی چیز سے بنا ہوا نہیں ہے بلکہ کروڑوں ذرات سے مل کر بنا ہوا ہے.پھر وہ ذر سے بھی آگے کئی کروٹ ذروں سے مل کر بنے ہیں.پھر وہ بھی باریک در باریک ذروں کا مجموعہ ہیں.حتی کہ امریکہ کے ایک سائنس دان نے ایسا ذرہ دریافت کیا ہے کہ جو انسان کے جسم میں سے گزر جاتا ہے.ہوا جسم میں سے نہیں گزر سکتی مگر وہ ذرہ جب جسم پر لگتا ہے تو دوسری طرف نکل جاتا ہے.پس یہ مادی تحقیقات سے ثابت ہے کہ جو چیز بھی ہمیں نظر آتی ہے وہ باریک در باریک ہوتی جاتی ہے اور نہایت لطیف در لطیف ذروں کا مجموعہ ہوتی ہے.جب ہر ایک چیز اپنی طاقت ایسے لطیف منبع سے حاصل کرتی ہے جو نظروں سے پوشیدہ ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ اس لطافت کی طرف جانے میں کوئی حکمت ہے.اور وہ یہی ہے کہ اشیاء پر ملائکہ کا تصرف ہے جو خود نہایت لطیف ہیں.غرض دنیا کی اشیاء کا سلسلہ ایک باریک در باریک ذرات کی طرف جانا بتاتا ہے کہ باریک ہی ان کے منتظم ہوں.اور اشیاء کی لطافت دلالت کرتی ہے کہ ان پر لطیف ارواح ہی کام کر دی ہیں اور وہی ملائکہ ہیں.(۳) معتبر شہادت سے بھی کسی چیز کے ہونے کا ثبوت ملتا ہے.مثلاً جب لوگ لندن سے آکر کہتے ہیں کہ لندن ایک شہر ہے تو لوگ ان کی اس بات پر اعتبار کر لیتے ہیں.اسی طرح ملائکہ کے وجود کے متعلق جب اتنے معتبر آدمی کہتے چلے آئے ہیں کہ ہمیں تو پھر ان کو کیوں نہ مانیں ؟ اگر شہادت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو پھر لندن بھی انہی لوگوں کے نزدیک ہونا چاہئے جو اسے دیکھ آئیں.اور جو نہیں دیکھ آئے ان کے نزدیک لندن کی بھی کچھ حقیقت نہیں ہونی چاہئے.کوئی کہے کہ لندن تو ہر شخص جاکر دیکھ سکتا ہے مگر ملائکہ کو تو ہر شخص نہیں دیکھ سکتا.ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے کہ شخص لندن کو دیکھ سکتا ہے لندن وہی شخص دیکھ سکتا ہے جس کے پاس پیسہ ہو.اسی طرح ہم کہتے ہیں ملائکہ کو دیکھنے کی جس میں قوت ہوتی ہے وہ ملائکہ کوبھی دیکھ سکتا ہے.اگر کوئی شخص روپیہ جمع کر کے لندن دیکھ سکتا ہے تو ملا ئکہ کو دیکھنے کی قوت پیدا کرنے سے ملائکہ کو بھی دیکھ سکتا ہے.پس ملائکہ کے متعلق سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کی جو شہادت ملتی ہے وہ بھی ان کی بستی کا ثبوت ہے.ند

Page 532

انوار العلوم جلد ۵ ۵۱۲ (۴) ثبوت یہ ہے جو روزانہ مشاہدوں میں آتا ہے.اور اگر روزانہ نہیں تو ایک عرصہ کے بعد شخص کے مشاہدہ میں آتا ہے کہ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ اس کے قلب پر ایک ایسی بات اثر کرتی ہے جس کا اس کے خیالات سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہوتا.بلکہ بعض اوقات اس کے خیالات کے الٹ وہ تحریک ہوتی ہے اور اس کے کرنے کے لئے انسان ایسا مجبور ہوتا ہے کہ چھوڑ نہیں سکتا.ہر انسان پر کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے حتی کہ کفار پر بھی آتا ہے.دہریوں پر بھی آتا ہے.چنانچہ دہریوں کے ایسے واقعات لکھے ہیں.مثلاً وہ کہتے ہیں ہمارے دل میں ایسی تحریک پیدا ہوئی جو مجبور کر کے ایک جگہ لے گئی اور وہاں دیکھا کہ لاش پڑی ہے.اس قسم کی تحریک کے محرک کون ہوتے تو اس قسم کی شہادت مادی لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے.اور روحانی لوگوں کی تو بہت ہی شہادتیں اس کے متعلق ملتی ہیں کہ یکلخت دل میں ایک تحریک ہوتی ہے جس کا خیالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اس پر عمل کرنا پڑتا ہے یہ تحریک ملائکہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے اور یہ ان کی بہتی کا ثبوت ہے.ملائکہ کی ضرورت یہ تو میں نے ملائکہ کے ثبوت کے عقلی دلائل بتائے ہیں.اب یہ بتاتا ہوں کہ ملائکہ کی ضرورت کیا ہے ؟ ضرورت بھی کسی چیز کا ثبوت ہوتی ہے.کیونکہ جس چیز کی ضرورت ثابت ہو جائے قانون قدرت کے وسیع مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہوتی بھی ضرور ہے.پس کسی چیز کی ضرورت بھی اس کے ہونے کا ثبوت ہے مگر یہ ثبوت بالواسطہ ہوتا ہے بلا واسطہ نہیں ہوتا اس لئے میں ملائکہ کی ضرورت بتاتا ہوں.پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ روحانی اور جسمانی نظام میں مشابہت ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.روحانی امور کو جسمانی پر قیاس کر لیا جاتا ہے.کیونکہ یہ دونوں سلسلے ایک جیسے چلتے ہیں سوائے اس کے کہ جہاں ان کا ایک جیسا نہ چلنا ضروری ہوتا ہے.اور جسمانی معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب کا ایک وسیع سلسلہ چلتا ہے اور مخفی در مخفی اسباب چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ نہایت باریک گیسوں تک پہنچتا ہے بلکہ کہتے ہیں کہ ان سے بھی آگے چل کر مادہ طاقتوں میں منتقل ہو جاتا ہے اور انہی طاقتوں کے مطبعوں کا نام ہم ملا کہ رکھتے ہیں.

Page 533

.۵۱۳ ملائكة الله غرض جسمانی سلسلہ اس طرز پر واقع ہوا ہے کہ لطیف ہوتے ہوتے بالکل غائب ہو جاتا ہے اور کوئی ذریعہ اس کے دیکھنے کا نہیں ہو سکتا.ایسا ہی روحانی سلسلہ کے لئے بھی ہونا ضروری ہے اور ہے.اور اس سلسلہ کی آخری کڑی تلک ہیں.یہ کہنا کہ روحانی امور میں سبب نہیں ہوتا.صرف جسمانی امور میں ہوتا ہے غلطی ہے جسمانیات کے متعلق ایک فلاسفر نے یہاں تک لکھا ہے کہ کوئی بات یونی نہیں ہو جاتی بلکہ ہر ایک بات کے اسباب دُور دُور سے چلے آتے ہیں.پس جب جسمانیات میں کوئی بات بغیر سلسلہ اسباب کے نہیں ہوتی تو کیا روحانی امور ہی ایسے ہیں کہ ان میں اسباب کا سلسلہ نہ مانا جائے جب جمانی امور کا سلسلہ چلتا ہے تو ضروری ہے کہ مشابہت کے لئے روحانی امور میں بھی پہلے.اور روحانی امور کے سلسلہ کی آخری کڑی ملائکہ میں ہیں روحانیات کے لئے ملائکہ کی ضرورت ہے.(۲) ہم ہر چیز میں ارتقاء پاتے ہیں.اور اسی مسئلہ ارتقاء کی عمومیت کو دیکھ کر سائنس دان اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ جو انسان موجود ہے یہ پہلے سے ہی ایسا نہ تھا.پہلے یہ ایک کپڑے کی شکل میں تھا پھر ترقی کر کے بڑھا پھر اور بڑھا حتی کہ موجودہ حالت کو پہنچ گیا.مسئلہ ارتقاء کا یہ استعمال تو غلط معلوم ہوتا ہے اور کئی طرح سے رد کیا جا سکتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ اس مسئلہ پر غور کرنے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے مغائر حالات میں تبدیلی یا تو مختلف مدارج کو چاہتی ہے یا وسائط کی محتاج ہے.یکدم بالکل متفائر حالات کی طرف انتقال بالکل محال ہے.یہیں ایک طرف انسان کے اندر اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات کے حصول کی خواہش اور خدا تعالیٰ سے وصال کی تڑپ کا ہونا اور دوسری طرف اس کی موجودہ کثافت کا اس سے ملنے میں روک ہونا دونوں امراس نتیجہ پر ہمیں پہنچاتے ہیں کہ انسان اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک اور واسطہ ہونا چاہئے جو ایک طرف تو مخلوق ہو اور دوسری طرف نیک اور روحانی ہو.اور اس واسطہ کو ملائکہ کہتے ہیں.کتے ہیں کہ ایک شخص کسی بلند مینار پر چڑھا مگر اتر نہ سکتا تھا.کسی نے تیر کے ساتھ باریک تاگے کی ریل باندھ کر تیر اس کی طرف مارا اور اس نے پکڑ لیا.اس بار یک تاگے کو اس نے نیچے لٹکا دیا اور نیچے والے نے اس کے ساتھ ذرا موٹا تا گا باندھ دیا جسے اس نے اوپر کھینچ لیا.پھر اس کے ساتھ اور زیادہ موٹا تا گا باندھا گیا حتی کہ ایک زنجیر باندھی گئی اور وہ اس کے ذریعہ نیچے اتر آیا.اسی طرح ملائکہ کے ذریعہ بندہ کا تعلق خدا سے ہوتا جاتا ہے.وہ درمیانی کڑی ہیں جن کے ذریعہ بندہ کا خدا سے تعلق ہوتا ہے اور وہ اس کے فیوض کو اپنے اندر جذب کرتا ہے.پس خدا تعالیٰ سے تعلق

Page 534

انوار العلوم جلد ۵ ۵۱۴ ملائكة الله پیدا کرنے کے لئے ملائکہ کا وجود ضروری ہے.تیسری ضرورت ملائکہ کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم ظاہری عالم میں دیکھتے ہیں کہ جمانی تربیت کے لئے دو سینے میں ایک وہ جو بغیر انسان کے علم اور اس کے دخل کے اس کا کام کر رہا ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَه وَالنُّجُومُ مُسَخَوتٌ بِأَمْرِي (النحل : ۱۳) کہ خدا کے حکم کے ماتحت رات اور دن سورج اور چاند اور ستارے بغیر تمہاری کسی محنت کے تمہارے لئے کام کر رہے ہیں.مسخر عربی میں اس کو سکتے ہیں جس پر کچھ خرچ نہ ہو اور وہ کام دے، خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہارے لئے رات اور دن سورج اور چاند اور ستاروں کو کام میں لگا دیا ہے تمہیں ان کے لئے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی.رات آتی ہے اور دن چڑھتا ہے لیکن تم اس کے لئے کوئی محنت نہیں کرتے اور تمہارا ان پر کچھ خرچ نہیں ہوتا.اسی طرح سورج دھوپ نازل کرتا ہے.چاند روشنی کرتا ہے.ستارے طرح طرح کے اثرات ڈال رہے ہیں.لیکن تمہیں ان کے لئے کچھ نہیں کرناپڑتا یہ انتظام جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسا سلہ ہمارے فائدہ کیلئے رکھا ہوا ہے جو آپ ہی آپ کام کرتا رہتا ہے.ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا.مثلاً سورج کی شعاعوں میں ایسی طاقت ہے کہ پانی کو مختلف رنگ کی شیشیوں میں ڈال کر اگر اس کے سامنے رکھ دیا جائے تو اس میں ایسی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ اس سے کئی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے.اسی طرح چاند کی روشنی سے بعض سبزیاں بڑھتی اور کمپتی ہیں.گڑی کو تو میں نے خود دیکھا ہے کہ چاندنی رات میں اس قدر جلدی بڑھتی ہے کہ اس کے بڑھنے کی صرصر کی آواز آتی ہے.اور بھی نباتات ایسی ہیں کہ چاند کی روشنی کا ان پر بڑا اثر ہوتا ہے اور یہ تو ایک دو مثالیں ہیں.ان چیزوں کے ہزاروں ہی اثرات ہیں جو ہمیں معلوم ہیں.اور جو ہمیں معلوم نہیں وہ تو نہ معلوم کتنے ہوں گے ؟ پس یہ چاند اور سورج اور تارے سب اثر ڈال رہے ہیں اور اب یہ بات دریافت کی گئی ہے کہ رسل کے کیڑوں کی قاتل دھوپ ہے اس لئے دھوپ کو بھی علاج کے طور پر استعمال کرتے ہیں.اسی بات کو مد نظر رکھ کر دیکھو کہ سورج کی طرح انسانوں کی خدمت کر رہا ہے.ایک شخص ہل کے بیمار

Page 535

انوار العلوم جلد ۵ ۵۱۵ ملا تكلة الله کے پاس جاتا ہے ممکن ہے کہ اس کے اندر سل کے کیڑے داخل ہو کر اس کی ہلاکت کا باعث ہوں مگر جب وہ سورج کی تیز دھوپ میں سے گزرتا ہے تو وہ کیڑے خود بخود مر جاتے ہیں اور اس بات کا اسے پتہ بھی نہیں ہوتا اور اس طرح وہ بچ جاتا ہے.پس ایک تو یہ سلسلہ ہے جو انسان کی محنت اور کوشش کے بغیر اس کے فائدہ کے لئے کام کر رہا ہے.اور وہ دوسرا سلسلہ ہے جو انسان محنت اور کوشش کر کے کسی چیز سے فائدہ اٹھاتا اور اپنے لئے مفید بناتا ہے.جیسے فلہ سے روٹی پکانا ، مٹی سے مکان بنانا ، لو ہے اور لکڑی سے گاڑی ، کھی، ریل کا تیار کرنا ، علم حاصل کرنا اب غور کا مقام ہے کہ کیا یہ مکن ہے کہ انسان کی جسمانی تربیت اور انتظام کے لئے تو یہ دو سلسلے ہوں لیکن اس کی روحانیت کے لئے خدا نے کچھ بھی نہ کیا ہو ؟ ادھر روحانی اور جسمانی سلسلوں کی مشابہت بتاتی ہے کہ جس طرح چاند، سورج اور ستاروں کے اثرات خود بخود انسان کے جسمانی انتظام پر پڑ رہے اور فائدہ پہنچا رہے ہیں اسی طرح روحانیت کے لئے بھی کوئی سلسلہ ہونا چاہئے جس سے انسان کی روحانیت کو فائدہ پہنچے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ملائکہ رکھے ہیں جو انسان میں روحانیت پیدا کرتے اور اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں.ہاں جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو جس طرح سورج کی دھوپ سل کے کیڑوں کو نہیں مار سکتی بلکہ دوائی دینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جب روحانیت کی بیماری بڑھ جاتی ہے تو اس کے لئے بھی اور سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے.یہ ملائکہ کے ہونے کی ضروریات ہیں.ملائکہ کے وجود پر اعتراض اور ان کے جواب اب میں ان اعتراضات کے جواب دیتا ہوں جو ملائکہ کے متعلق کئے جاتے ہیں :- پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ملائکہ ہیں تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتے ؟ یہ ایسا اعتراض ہے جس کو سن کر ہنسی آتی ہے کیونکہ سینکڑوں چیزیں دنیا کی ایسی ہیں کہ جو نظر نہیں آئیں لیکن لوگ ان کو مانتے ہیں.میں کہتا ہوں کیا مٹھاس کسی کو نظر آتی ہے ؟ اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ زبان سے تعلق رکھنے والی چیز ہے نظر نہیں آیا کرتی.میں کہتا ہوں کیا آوازہ کسی کو نظر آتی ہے ؟ کہا جائیگا اس کا تعلق کان سے ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ سختی یا نرمی کسی کو نظر آتی ہے ؟ یہی کہا جائے گا کہ یہ چھونے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.پھر میں کہتا ہوں خوشبو یا بد بوکسی کو نظر آتی ہے ؟ یہی کہا جائیگا

Page 536

انوار العلوم جلد ۵ ۵۱۶ ملا تكلة الله کہ یہ ناک سے تعلق رکھتی ہیں.ان جوابات سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے معلوم کرنے کا یہی ذریعہ نہیں کہ وہ نظر آئے بلکہ اور حواس بھی ہیں.جن سے ان کا ہونا معلوم کیا جاتا ہے.پھر میں کہتا ہوں ہوا کو کسی نے دیکھا ہے.جب ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہوا ہلا رہی ہے ورنہ نظر نہیں آتی.اسی طرح اور بہت سی طاقتیں ہیں.مثلاً قوت حافظہ ہے.کون ہے جو اس کو چکھ کر یا سونگھ کر یا دکھ کر مانتا ہے ؟ اس کے اثرات سے ہی اس کا پتہ لگایا جاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ ایسی چیزیں بھی ہیں جن کو دیکھنے کے بغیر اور ذرائع سے مانا جاتا ہے اور ان کے اثرات کو دیکھ کر ان کو مانا جاتا ہے.اسی طرح ملائکہ بھی اثرات کے ذریعہ مانے جا سکتے ہیں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ نظر ہی آئیں.ان کے اثرات سے ان کا پتہ لگ جاتا ہے.دوسرا اعتراض ایسا ہے جسے علماء کا اعتراض کہا جاتا اور بڑا پکا قرار دیا جاتا ہے لیکن میں کہتا ہوں یہ ایسا جاہلانہ اعتراض ہے کہ اس سے بڑھ کر جہالت اور نہیں ہو سکتی.وہ اعتراض یہ ہے کہ کہا جاتا ہے.کیا خدا ملائکہ کا محتاج ہے ؟ کہ ان کو اس نے بنایا ہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا ملائکہ کا خالق ہے اور کسی چیز کا خالق اس کا محتاج نہیں ہوا کرتا.خدا تعالیٰ کو ملائکہ کا محتاج تب کہا جاتا جب خدا ملائکہ کو کسی اور جگہ سے لاتا.لیکن خدا تو ملائکہ کو خود پیدا کرتا ہے پھر ان کا محتاج کیونکر ہوا ؟ احتیاج إلى الغیر ہوا کرتی ہے نہ کہ اپنے قبضہ اور اختیار کی احتیاج ہوتی ہے.میں چونکہ خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو خود پیدا کیا ہے اس لئے وہ ان کا محتاج نہیں ہے اور یہ جاہلانہ اعتراض ہے.دوسرے اس اعتراض کا رو اس طرح بھی ہو جاتا ہے کہ مادی دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک چیز کے اسباب مقرر ہیں.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ملائکہ کو ماننے سے خدا کو ان کا محتاج ماننا پڑیگا وہ مانتے ہیں کہ کھانے کے ذریعے پیٹ کا بھرنا خدا کا قانون ہے.ہم کہتے ہیں کیا کھانے کے ذریعہ پیٹ بھرنے کا قانون بنانے سے خدا اس بات کا محتاج ہو گیا کہ وہ بندہ کا پیٹ کھانے سے بھرے اسی طرح بیماری ہے خدا نے دوائی کے ذریعہ اس کا علاج مقرر کیا ہے.کیا خدا دوائی کا محتاج ہو گیا ؟ اسی طرح روشنی کے لئے خدا نے سورج بنایا ہے کیا خدا سورج کا محتاج ہو گیا ؟ وجہ کیا ہے کہ جسمانی سلسلہ میں اسباب مقرر کرنے سے تو متجاج نہیں ہوتا.لیکن اگر روحانی سلسلہ میں فرشتوں کو اسباب مقرر کرے تو محتاج ہو جاتا ہے.تیرا رو اس اعتراض کا یہ ہے کہ وہی اسباب دنیا میں کمزوری ظاہر کیا کرتے ہیں جن کے بغیر کوئی کام نہ کر سکے وہ اسباب کمزوری کا باعث نہیں ہوتے جو اپنے قبضہ اور اختیار میں ہوتے ہیں.

Page 537

انوار العلوم جلد ۵ 014 علی نکته الله مثلاً ایک شخص کسی سے ناراض ہے اور اس سے بولنا نہیں لیکن ایک اور شخص کو اس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ فلاں شخص یہاں نہ آئے.تو کیا وہ کہے گا کہ یہ گونگا ہے ؟ بول ہی نہیں سکتا کہ مجھ سے نہیں بولا.نہیں.یہ اعتراض غلط ہو گا.کیونکہ وہ دوسروں سے بولتا ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں خدا نے ملائکہ کو ملا اسباب کے پیدا کر لیا کہ نہیں.اگر ان کو پیدا کر لیا تو معلوم ہوا کہ بلا اسباب کے بھی خدا کام تو کر سکتا ہے لیکن ملائکہ کو اس نے کسی حکمت کے ماتحت اسباب مقرر کیا ہے.پس ملائکہ کی پیدائش جب ایسی ہے کہ خدا نے بلا اسباب کے کی ہے تو معلوم ہوا کہ ان کا مقرر کرناکسی حکمت کے ماتحت ہے نہ کہ خدا ان کا محتاج ہے اور ان کے بغیر وہ کچھ کر نہیں سکتا.چو تھا جو اب اس کا یہ ہے کہ تم ملائکہ کے مقرر کرنے کو احتیاج کہتے ہو ہم اسے حکمت کہتے ہیں اور ملائکہ کے مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ علوم کی وسعت ان کے مخفی اسباب اور پھر ان کی کثرت کی کی وجہ سے ہوتی ہے.مثلاً کونین میں جو صفات تھیں وہ اگر مخفی نہ ہو ئیں تو اس کے متعلق جو علم نے ترقی کی ہے وہ نہ ہوتی ہیں علوم کی وسعت کے لئے مخفی سامانوں کا ہونا ضروری ہے جب تک اسباب مخفی نہ ہوں وسعت نہیں ہو سکتی کیونکہ جو بات ظاہر ہو اس میں وسعت کہاں پیدا کی جاسکتی ہے ؟ پس علوم کی وسعت کے لئے خدا تعالیٰ نے مخفی سامان رکھتے ہیں.اور جوں جوں ان کو دریافت کیا جاتا ہے علوم میں وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے اور جس قدر کوئی ان کے دریافت کرنے میں زیادہ محنت اور کوشش کرتا ہے اسی قدر زیادہ فائدہ اور ناموری حاصل کرتا ہے.اگر یونی تپ اتر جایا کرتا تو وہ ڈاکٹر جس نے اس کے اسباب پر غور و فکر کرتے کرتے اس کا علاج کو تین دریافت کیا اس میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہوتا اور اس علم میں جو ترقی ہو رہی ہے وہ کسی طرح ہوتی ؟ پس دنیا میں ترقی اور درجہ حاصل کرنے کا مخفی اسباب بہت بڑا ذریعہ ہیں.اگر یہ نہ ہوتے تو نہ کوئی ترقی کر سکتا اور نہ اعلیٰ درجہ حاصل کر سکتا.یسی حالت روحانیت کی ہے.انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ روحانی ترقی حاصل کرے اس کے لئے روحانی اسباب بھی مخفی رکھے گئے ہیں جو ان سے کام لیتا ہے وہ انعام اور درجہ حاصل کرتا ہے.پس ترقیات کے لئے اخفاء کی بہت سخت ضرورت ہے.اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ اگر مخفی اسباب مانے جائیں تو خدا کو ان کا محتاج قرار دینا پڑے گا.مخفی اسباب کا ہونا خدا تعالیٰ کی احتیاج نہیں ثابت کرتا بلکہ بندہ کی احتیاج ثابت کرتا ہے کہ بندہ ان کے ذریعہ ترقی کرے.خدا نے اگر یہ قانون مقرر کیا ہے کہ زمین کو ایک خاص حد تک کھودا جائے تو اچھا پھل پیدا ہوگا یہ اس

Page 538

انوار العلوم جلد هو DIA ملا نكتة الله لئے نہیں کہ خدا اس کا محتاج ہے بلکہ اس لئے کہ زمینداروں میں سے جو بڑا زمیندار بنا چاہتا اور اچھی کھیتی پیدا کرنا چاہتا ہے اس کو اس کی احتیاج ہے اگر زمین کا عمدہ پھل لانا کسی محنت یا علم پر نہ رکھا جاتا تو کسی زمیندار کو دوسرے پر فضیلت نہ ہوتی اور مقابلہ کی جو روح اس وقت کام کر رہی ہے بالکل مفقود ہو جاتی.دوسرے یہ بھی بات ہے کہ اگر مخفی اسباب نہ ہوتے تو خدا کا جلال لوگوں پر ظاہر نہ ہوتا اور اس کی قدرت کی قدر وہ نہ کرتے.اگر سب باتیں پہلے سے ہی معلوم ہو تیں تو خدا کا جلال کس طرح بندوں پر ظاہر ہوتا ؟ یہ اسی طرح ظاہر ہوتا کہ انسان کسی بات کے متعلق جتنی تلاش اور جستجو کرتا ہے اتنا ہی اس کے متعلق نئی نئی باتیں دریافت کرتا جاتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی قدرت کا اسے اعتراف کرنا پڑتا ہے.پس مخفی اسباب کا پیدا کرنا خدا کی احتیاج کو ظاہر نہیں کرتا.بلکہ یہ بندہ کی اصلاح اور فائدہ کے لئے ہے.اور یہ مخفی اسباب جن کے دریافت کرنے سے درجہ اور ترقی اور عزت حاصل ہو سکتی ہے ان کی آخری کڑی ملائکہ ہیں.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم پر یہ اسباب اس وسعت کے ساتھ ظاہر ہوئے کہ آپ کو جو ترقی اور درجہ حاصل ہوا.وہ اور کسی کو حاصل نہ ہو سکا.اسی طرح حضرت مسیح موعود پر اسباب ظاہر ہوئے اور آپ کو بھی اعلیٰ عزت اور رتبہ نصیب ہوگیا.پھر ان کے ذریعہ مجھے پر بھی یہ اسباب ظاہر ہوئے اور مجھے بھی خدا تعالیٰ نے عزت اور رتبہ عطا کیا.تو یہ مدارج کا تفاوت بھی نہ ہوتا اور سب ایک ہی جیسے ہوتے لیکن مخفی اسباب کی وجہ سے جتنے جتنے اسباب کسی پر ظاہر ہوئے انہی کے مطابق اس کو درجہ بھی ملا.اس امر میں کیا شبہ ہے کہ بالعموم مسبب ظاہر ہوتا ہے اور سبب مخفی.اور مخفی کے دریافت کرنے کے لئے انسان کو محنت برداشت کرنی پڑتی ہے جو اس کے لئے موجب ثواب اور زیادت علم ہوتی ہے اور اس کی دلچسپی کو بڑھاتی ہے.یہ ایک طبعی خاصہ ہے کہ مخفی شے انسان کی وقتیپی کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.دوائیوں کی تاثیرات اور ایجادات اس قبیل میں سے ہیں.اور ان اسباب کا دریافت کرنا ہی مدارج انسانی قائم کرتا ہے.یہیں روحانی اسباب مخفیہ بھی ضروری تھے تا انسان کے علم باطن میں بھی زیادتی ہو اور کوشش اور سعی میں بھی تفاوت ہو.اور روحانی آدمی ایک دوسرے کے مقابلہ میں فضیلت حاصل کریں اور مسابقت کا موقعہ ملے اور مخفی در مخفی علوم کی واقفیت حاصل کرکے اس کے یقین میں ترقی اور حوصلہ میں زیادتی ہو اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود طاقتیں اس کے سامنے ظاہر ہوں.بھلا یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالٰی اس سلسلہ کو جو اس کا وجود مخفی کرتا تھا اسعد

Page 539

انوار العلوم جلد ۵ ۵۱۹ ملائكة الله شاندار بناتا اور اس سلسلہ کو جو اس کا وجود ظاہر کرتا ہے بالکل محدود کر دیتا.پس اسباب کی احتیاج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہر چیز کا نیا میں میں سب نظر آتا ہے پھر اس بات کو کس طرح مان لیں کہ وہ فرشتوں کے ذریعہ ہوتی ہیں، مثلاً آندھی آتی ہے اس کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ جب جو میں بعض خاص قسم کے تغیرات ہوں تو آتی ہے.یا بادل آتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ سورج کے ذریعہ پانی کے بخارات اُٹھتے ہیں اور وہی برستے ہیں.یہ کسی طرح مان لیں کہ فرشتوں کے ذریعہ ایسا ہوتا ہے ؟ یہ جہالت کی باتیں ہیں اور اُس زمانہ کی ہیں جب کہا جاتا تھا کہ فرشتہ سمندر سے پانی پی کر آتا ہے اور پھر اگر بارش برساتا ہے اس قسم کی باتیں اب علم اور تحقیقات کے زمانہ میں کون مان سکتا ہے ؟ مگر اس اعتراض کے نپیش کرنے والوں نے فرشتوں کے متعلق جو صحیح عقیدہ ہے.اس کو سمجھا نہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ بارش برسنے کا قریبی سبدب فرشتہ ہے اور فرشتہ سمندر سے پانی لاکر برساتا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ان بخارات کو قائم کرنے والا فرشتہ ہے جن سے بارش بنتی ہے.ہم تو آخری سبب کو فرشتہ کہتے ہیں نہ یہ کہ کوئی اور سبب ہی نہیں ہوتا.ہر چیز کے سبب ہیں مگر سیب اسباب کے آخر میں فرشتہ کام کر رہا ہوتا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ مختلف تغیرات اسباب کے ماتحت ہوتے ہیں اور ایک سبب کے پیچھے دوسرا ، دوسرے کے پیچھے میرا بھی کہ سینکڑوں لیے سبب بھی ہوں گے جن کو دنیا جانتی بھی نہیں.مگر سب کے پیچھے فرشتہ ہو گا.درمیانی اسباب خواہ کروڑوں ہوں ہم ان کا انکار نہیں کرتے لیکن سب کے آخر میں فرشتہ مانتے ہیں.پو تھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جو تغیرات ہوتے ہیں.وہ مقررہ قانون کے ماتحت ہوتے ہیں مثلاً کسی کو تپ چڑھتا ہے اگر تپ چڑھانے والا فرشتہ ہے تو کو نہیں دینے سے کیوں اتر جاتا ہے؟ اور جب علاج سے مرض دُور ہو جاتی ہے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ فرشتے نے آپ چڑھایا ؟ اسی طرح اگر کھانسی فرشتہ لگاتا ہے.تو دوائی دینے سے کیوں دور ہو جاتی ہے ؟ کیا اس وقت فرشتہ بھاگ جاتا ہے ؟ یہ اعتراض بھی جاہلانہ ہے کیونکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ فرشتے کوئی قادر مطلق ہی ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ فرشتے خواص الاشیاء کو ظاہر کر تے ہیں.جب کوئی شخص ان اشیاء کو استعمال کرتا ہے جن کے نتیجہ میں تپ چڑھایا جانا مقدر ہے تو جو فرشتہ ان اشیاء کے خواص کے ظہور کے ابتدائی انساب

Page 540

انوار العلوم ۵۲۰ ملاكمة الله کا موکل ہے اس کا نتیجہ بخار پیدا کرتا ہے لیکن جب انسان ان اشیاء کو استعمال کرتا ہے جن کے خواص مخفی در مخفی سلسلہ اسباب کے نتیجہ میں بخار کو اتارنے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں.تو اس وقت ان اشیاء کا آخری موکل فرشتہ اپنا اثر ظاہر کرنا شروع کرتا ہے.اور پہلا فرشتہ بموجب مقررہ قواعد کے اپنے اثر کو ہٹانا شروع کر دیتا ہے.پس یہ کہنا درست نہیں کہ دوا سے بیماری کا اثر ظاہر کرنے والا فرشتہ بھاگ جاتا ہے، بلکہ امرِ واقع یہ ہے کہ جب دوا کے فرشتہ کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے تو بیماری کے آثار ظاہر کرنے والا فرشتہ اپنے اثر کو ہٹانا شروع کر دیتا ہے.ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا گیا ھے ؟ اب میں اس بات کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیاگیا ہے؟ مانا کہ ملائکہ اچھی چیز ہیں اور ان کے ذریعہ چیزوں کا اثر ظاہر ہوتا ہے.لیکن کو مین بھی تو مفید چیز ہے اس سے آپ اُتر جاتا ہے.اس پر ایمان لانے کا کیوں حکم نہیں دیا گیا ؟ اسی طرح تم کہتے ہو.ملا نگہ بارشیں برساتے ہیں مگر سورج بھی تو بارشیں برسنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس پر ایمان لانے کا کیوں نہیں حکم دیا گیا ؟ ملا نکہ پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق غور کرنے کے لئے آؤ یہ معلوم کریں کہ رسولوں، کتابوں پر ایمان لانے کا کیوں حکم دیا گیا ہے ؟ جب یہ معلوم ہو جائے گا تو ہمیں اس اصل کا پتہ لگ جائے گا جس کی وجہ سے کسی شئے پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے اس کو ملائکہ کے متعلق بھی چسپاں کر کے دیکھیں گے.حقیقت یہ ہے کہ وہ ہستی جو بالذات ایمان کی مستحق ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے رسول اور کتابیں وہ ذرائع ہیں جن سے خدا پر ایمان لایا جاتا ہے.ورنہ اصل میں وہ مقصود بالذات نہیں ہیں.آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ خدا کی شناخت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ سے ملاقات ہوتی ہے.چونکہ وہ خدا کا کلام ہوتی ہیں اس لئے ان کے ذریعہ انسان خدا کی ذات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.اسی طرح رسولوں پر ایمان لانے کی یہ وجہ ہے کہ رسول خدا تعالیٰ کی مستی کا نشانات کے ذریعہ ہونا ثابت کرتے ہیں تو رسول پر ایمان لانا ان کی اپنی ذات کی وجہ سے نہیں ہو تا بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ رسول خدا پر ایمان لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں.پس رسولوں پر کتب پر

Page 541

انوارالعلوم جلد ۵ ۵۲۱ ملائكة الله قیامت پر ایمان لانا خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا ذریعہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا پانچ اور امر ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے :- ملائکہ کتب رسل تقدیر قیامت ان پر ایمان لا ناخدا ہی کی ہستی پر ایمان لانے کے لئے ہے کیونکہ یہ خدا پر ایمان کے حاصل ہونے کے ذرائع ہیں.ملائکہ کے متعلق تو اس وقت بحث ہی ہے باقی جتنے امور ہیں ان کو دیکھ لو ان پر ایمان لانے کی یہی غرض ہے کہ وہ خدا کی طرف متوجہ کرنے کے محرک ہیں.اس اصل کے مطابق ہم کہتے ہیں کہ اگر ملائکہ کے ذریعہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھرتی ہے تو ان پر ایمان لانا بھی ضروری ہے.دُنیا میں عام طور پر جو لوگ خدا کو چھوڑتے ہیں وہ اسی دھوکا کی وجہ سے چھوڑتے ہیں کہ ان کی نظر ظاہری اسباب پر ہوتی ہے.مثلاً کونین کے متعلق جب دیکھتے ہیں کہ اس سے آپ اترتا ہے تو کہتے میں خدا کیا ہوتا ہے یہی ہے جس سے آپ اُترتا ہے اسی طرح اور امور کے متعلق کہتے ہیں اور ظاہری اسباب کو دیکھ کر خدا کا انکار کر دیتے ہیں.لیکن فرشتوں پر ایمان لانے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر ایک چیز کا آخری سبب فرشتہ ہے اور یہ ایسا حکم ہے کہ ساری سائنس اسی سے نکل آتی ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہر چیز کی اگر حقیقت تم تلاش کرنے لگو گے تو اس کے مخفی در مخفی اسباب نکلتے آئیں گے.اس وقت جب دنیا چیزوں کے قریب قریب اور ظاہری اسباب سمجھ رہی تھی اس وقت اسلام یہ بتا رہا تھا کہ ہر چیز کے باریک در بار یک اسباب ہیں.خوردبین نے اب بتایا ہے کہ طاعون کی گلٹی یونی نہیں ہوتی بلکہ اس کا باعث کیڑے ہوتے ہیں وہ ان کی وجہ سے ہوتی ہے.پھر ان کیڑوں کے پیدا ہونے کے اور اسباب ہیں.پھر ان کے اور اسباب ہیں.اسی طرح اسباب در اسباب ہیں.اپنی اسباب کا آخری اور انتہائی سبب ملائکہ میں اور ان کے اوپر خدا ہے.تو ملانکہ پر ایمان لانے سے اسباب کی آخری کڑی پر ایمان حاصل ہوتا ہے اور اس سے خدا پر ایمان حاصل ہوتا ہے.اور ملائکہ پر ایمان لانے کی یہی وجہ ہے.پھر ایمان قرآن کریم میں اور معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے.ماننے کو بھی ایمان کہا جاتا ہے.لیکن صرف کسی وجود کا ماننا ہی نہیں اس کی تحریکات کو مانا بھی ایمان کہلاتا ہے.چنانچہ خدا تعالٰی فرماتا ہے :- تُمَنْ يَكْفَرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ

Page 542

الوار العلوم جلد ۵ ۵۲۲ لَهَا وَ اللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ه (البقرة : ۲۵۷) جو شخص طاغوت کا انکار کرتا ہے اور اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیتا ہے کہ جو ٹوٹتا ہی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے.طاغوت شیطان کو کہتے ہیں.اب اگر انکار کے معنے کسی شئے کی ذات کے انکار ہی لئے جاویں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہلاکت سے وہی شخص بچتا ہے جو شیطان کے وجود کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار حالانکہ یعنی سراسر غلط ہیں.کیونکہ قرآن کریم صاف طور پر خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی اقرار کرتا ہے اور شیطان کے وجود کا بھی اقرار کرتا ہے کہیں اقرار سے اور ایمان سے اس آیت میں یہی مراد ہے کہ شیطان کی باتوں کو رد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو مانتا ہے اب انگریسی معنی ایمان کے ملائکہ کے متعلق کئے جائیں تو ان پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہوگا کہ انکی تحریکات کو ما نا کرو.اسی طرح کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوں گے کہ جو احکام الہی کتابوں میں ہوں ان کو مانور جو کچھ رسول تم کو حکم دیں ان کو مانو.اور قیامت پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوئے کہ اس کا خیال کر کے بری باتوں سے بچو.تو خدا، ملائکہ ، کتب اور رسولوں پر ایمان لانے سے مرادان کے احکام ماننا ہے.کوئی کہ سکتا ہے کہ اگر ایمان لانے کا یہ مطلب ہے تو پھر ان چاروں پر ایمان لانے کا کیوں حکم دیا گیا ہے.ان کے علاوہ مجدد بھی ہوتے ہیں اور انبیاء کے خلفاء بھی ہوتے ہیں ان کے احکام ماننا بھی ایمان میں داخل ہونا چاہئے اور ان کا انکار کفر ہونا چاہیئے لیکن جب ان کا انکار کفر نہیں تو پھر باقیوں کا انکار کیوں کفر ہے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ خلفاء اور مجددین بھی اچھی باتیں بتاتے ہیں لیکن خداتعالی ، نبیوں ،ملائکہ اور کتب کی باتوں اور ان کی باتوں میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ایمانیات میں وہ داخل ہیں جن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی بات سے اختلاف کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی یہی کہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے وقت پاؤں دھونے کا جو حکم دیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ کافر ہو جائے گا مگر خلیفہ سے تفصیلات میں اختلاف ہو سکتا ہے.مثلاً خلیفہ ایک آیت کے جو معنے سمجھتا ہے وہ دوسرے شخص کی سمجھ میں نہ آئیں اور وہ ان کو نہ مانے تو اس کے لئے جائز ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو کہے کہ فلاں آیت کے آپ نے جو معنے کئے ہیں میں ان کو نہیں مانتا تو کافر ہو جائے گا.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ میں سے ایک شوشہ بھی رد کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے.گو خلفاء کے احکام ماننا ضروری ہوتے ہیں لیکن ان کی آراء سے متفق

Page 543

انوار العلوم جلد ۵ ۵۲۳ ملائكة الله ہونا ضروری نہیں ہوتا.ممکن ہے کہ خلیفہ کسی امر کے متعلق ہو رائے دے اس سے کسی کو اتفاق نہ ہو چنانچھ حضرت ابوبکر نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا یہ کہا تھا کہ ان کو غلام بنا لینا جائز ہے کیونکہ وہ مرتد اور کافر ہیں.مگر اس کے متعلق حضرت عمریضہ اخیر تک کتنے رہے کہ مجھے اس سے اتفاق نہیں لیکن اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تو اس سے اختلاف کرنا ان کے لئے جائز نہ تھا.انبیاء سے چونکہ اصول کا تعلق ہوتا ہے اس لئے ان سے اختلاف کرنا ہرگز جائز نہیں ہوتا.ہاں تفصیلات میں خلفاء سے اختلاف ہو سکتا ہے.چنانچہ اب بھی کسی علمی مسلہ میں اختلاف ہو جاتا ہے.اور پہلے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ خلفاء کو دوسروں کی بات ماننی پڑی ہے اور بعض دفعہ خلفاء کی بات دوسروں کو ماننی پڑی ہے چنانچہ حضرت عمرض اور صحابہ میں یہ مسئلہ اختلافی رہا کہ جنبی خروج ماء سے ہوتا ہے یا محض صحبت سے.غرض خلفاء سے اس قسم کی باتوں میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انبیاء سے نہیں کیا جاسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی التحیات میں انگلی اُٹھانے کے متعلق اختلاف کرے گا تو بھی کافر ہو جائے گا.لیکن مجددین اور خلفاء ایسے نہیں ہوتے کہ مسائل میں بھی اگر ان سے اختلاف ہو جائے تو انسان کا فر ہو جائے مگر انبیاء کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے اختلاف کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے ان کی کوئی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے.یہی کہنا فرض ہے کہ جو نبی کہتا ہے وہی سچ ہے.غرض ملائکہ پر ایمان لانے کے یہ معنے ہیں کہ ملائکہ جو کہتے ہیں وہ صحیح ہے.اس لئے نہی حکم دیا کہ ملائکہ جو کہیں اس کو مانو یعنی ایمان لاؤ.اور اس کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے کہ ملائکہ جو کہتے ہیں وہ صحیح ہوتا ہے.قرآن کریم میں مثال کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ ملائکہ کو نہ مانے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :.وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا لا دَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا ابْلَيسَ أَبِي وَاسْتَكْبَرَةُ وَكَانَ مِن الأَدَمَ الكفرين.(البقرة : ۳۵) اللہ نے جب ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا.لیکن ابلیس نے انکار کر دیا اور کافر ہو گیا.اب یہ قرآن سے پتہ لگتا ہے کہ ابلیس تلک نہ تھا بلکہ جن تھا اور ملائکہ کا غیر تھا.اور غیر کوکس طرح معلوم ہوگیا کہ آدم کو سجدہ کرنا چاہئے کیونکہ حکم تو ملائکہ کو ہی دیا گیا.اسے اسی طرح معلوم ہوسکتا تھا

Page 544

۵۲۴ علا نكتة الله کہ ملائکہ نے اس کو سجدہ کرنے کی تحریک کی ہو مگر اس نے اس کو نہ مانا.نتیجہ کیا ہوا ؟ کافر ہو گیا.تو ملائکہ کی تحریکیں ماننا بھی فرض ہیں اور وہ نیک ہی ہوتی ہیں.اب یکی یہ بتا چکا ہوں کہ ملائکہ کیا چیز ہیں.ان کا کیا کام ہے ؟ اور یہ بھی کہ ان پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے ؟ ان کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر ان پر جو اعتراض پڑتے ہیں ان کے جواب بھی دے چکا ہوں.مگر ان کے متعلق اور بھی سوال پیدا ہوتے ہیں اور میں اب ان سوالوں کا جواب دیتا ہوں.مانکہ اور ان کا تعلق کتنی اقسام کا ہوتا ہے ؟ اب میں یہ بیان کرتا ہوں کہ ملائکہ کا فیضان کتنی اقسام کا ہے ؟ لیکن چونکہ ملائکہ کے فیضان کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ شیطان کا انسان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں ہستیاں بالمقابل ہیں اس لئے میں ساتھ ہی اس کا بھی ذکر کروں گا.یاد رکھنا چاہئے کہ ملائکہ کے اثرات تین اقسام کے ہیں اور شیطان کے اثرات بھی تین قسم کے ہیں ملک کا پہلا تعلق انسان سے وہ ہوتا ہے جسے لمہ ملکیہ کہتے ہیں یعنی فرشتے کی تحریک.اس کی ایسی مثال ہے جیسے کہ رستہ چلتے چلتے انسان بھولنے لگ جاتا ہے کہ ایک آدمی اسے کہہ دیتا ہے سڑک نہیں وہ ہے جس پر تمہیں جانا چاہئے.اسی طرح ملائکہ کی طرف سے تحریک ہو جاتی ہے اور یہ تعلق ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ایک اجنبی کا اجنبی سے ہوتا ہے.اس سے اوپر جب تعلق بڑھتا ہے تو ایسا ہوتا ہے جیسا سفر میں دوست کا دوست سے ہوتا ہے جو دوست کسی رستے کا واقف ہوتا ہے جدھر وہ جاتا ہے اُدھر ہی اس کا ساتھی بھی جاتا ہے.یہ نہیں کہ ہر قدم پر اس سے پوچھتا ہے کہ کدھر جا رہے ہو ؟ اسی طرح اس مرتبہ میں جب فرشتہ ساتھ ہو جاتا ہے تو انسان اور فرشتہ دونوں ایک ہی طرف چلتے ہیں اس کو تائید روح القدس کہتے ہیں اور یہ تائید نزول کے لفظ کے ساتھ تعبیر کی جاتی ہے جب کسی کو نزولِ روح القدس کا مقام حاصل ہو جاتا ہے تو یہ تعلق دائمی ہوتا ہے.مگر پہلا یعنی منہ نلکی کا تعلق عارضی ہوتا ہے.اس سے بڑھ کر تیسرا درجہ ہوتا ہے جس میں فرشتہ اور انسان کا تعلق غلام و آقا کا ہو جاتا ہے یعنی فرشته محض ساتھی نہیں ہوتا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی اطاعت اور خدمت کا بھی حکم

Page 545

انوار العلوم جلد ۵ ۵۲۵ ملا كلمة الله مل جاتا ہے اور وہ دوست کی طرح نہیں خادموں کی طرح ساتھ رہتا ہے.یہی وہ مرتبہ ہے جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا.کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.(تذکرہ صفحہ ۹۷ ایڈیشن چہارم ، آگ کے غلام ہونے کا یہی مطلب ہے کہ آگ کا فرشتہ آپ کا غلام تھا.اور فَقَعُوا لَهُ سجدی (الحجر : ) کے بھی بی معنی ہیں کہ آدم اول کے متعلق فرشتوں کو کم ہوا کہ اس کے فرمانبردار اور غلام ہو جاؤ.جب آدم اول کے متعلق فرشتوں کو حکم ہوا.تو آدم ثانی (حضرت مسیح موعود ) جو آدم سے شان میں بڑھا ہوا تھا اس کے لئے کیوں یہ نہ کہا جاتا کہ آاگ تمہاری غلام بلکہ تمہارے غلاموں کی غلام ہے.اس مرتبہ کے انسان کے لئے فرشتہ کی حالت عبد کی سی ہوتی ہے.اور اس کو اس سے علیحدہ ہونے اور اسے چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا.ایک نوکر نوکری چھوڑ کر علیحدہ ہو سکتا ہے مگر فرشتہ علیحدہ نہیں ہو سکتا.یہ انبیاہ کا درجہ ہوتا ہے.انی درجوں کے مشابہ شیطان اور انسان کے تعلقات ہوتے ہیں.شیطان سے تعلق والوں کا پہلا درجہ شیطانی کا ہوتا ہے جیسے کوئی سیدھے رستہ پر جارہا ہوتا ہے اور شریر آدمی اسے کہہ دیتے ہیں کہ ادھر نہ جاؤ بلکہ ادھر جاؤ یونی تسخر سے کہتے ہیں.اگر کوئی ان کی بات مان لیتا ہے تو گمراہ ہو جاتا ہے.اسی طرح شیطان ابتداء میں اسی طرح دھوکا دیتا ہے اور جب کوئی اس کے دھوکا میں آجاتا ہے تو اسے گمراہ کر دیتا ہے.لیکن اس وقت اس کے ساتھ ملائکہ موجود ہوتے ہیں وہ سیدھے رستہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر جب کوئی بار بار شیطان کی بات ماننے لگتا ہے تو اس حالت سے اور زیادہ بُری حالت میں چلا جاتا ہے اور شیطان کے ساتھ بار بار ملنے کی وجہ سے ان کا آپس میں دوستانہ تعلق ہو جاتا ہے نہیں کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَمَن يَكُنِ الشَّيْطنُ لَهُ قَرِيبًا فَسَاءَ قَرِينًا ه (النساء : ٣٩) که شیطان ان کا قرین بن جاتا ہے اور یہ بہت بُرا دوست ہے.یہ دوسرا درجہ ہوتا ہے.پھر تیسرا درجہ شروع ہوتا ہے یعنی شیطان آقا بن جاتا ہے اور انسان اس کا غلام.ایسے ہی لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبد الطَّاغُوتِ ہیں یعنی وہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے غلام ہو جاتے ہیں.گویا وہ جو یکی کی طرف جارہا ہوتا ہے وہ تو آخر ملک پر سوار ہو جاتا ہے اور یہ جو بدی کی طرف جا رہا ہوتا ہے اس یہ آخر شیطان سوار ہو جاتا ہے.

Page 546

انوار العلوم جلد ۵ org یہ تین سلسلے ہیں نیکی بدی کے جو بندوں سے تعلق رکھتے ہیں.ملاكمة الله اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر انسان کی ان حالتوں میں سے کوئی حالت ہوتی ہے تو کیا ہر انسان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ فرشتے ہوتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ہر انسان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ فرشتے ہوتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں فرشتے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ کہ ہر انسان کے ساتھ ان میں سے ایک ایک دو دو مقرر ہیں.چنانچہ دا تعالٰی فرماتا ہے :.إِن كُلُّ نَفْسٍ نَمَا عَلَيْهَا حَافِظُهُ (الطارق : ٥) کوئی نفس نہیں جس پر ایک نگران مقرر نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے.دوسرے فرشتے وہ ہوتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا ہر انسان سے تعلق ہوتا ہے اور ہر انسان پر ان کا اثر کم و بیش پڑ رہا ہوتا ہے.چنانچہ جبرائیل " سب پر اثر ڈالتا ہے.ایسے فرشتوں کے آگے خادم ہوتے ہیں وہ ان کے اثرات دیگر اشیاء تک پہنچاتے ہیں.اب سوال ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی فرشتہ سب انسانوں پر اثر ڈالتا ہے تو پھر فرشتے نازل کی طرح ہوتے ہیں.اس کے لئے یاد رکھو کہ ملائکہ کا نزول قرآن کریم کی اصطلاح ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ ضرور فرشتہ آتا ہے بلکہ یہ ہے کہ دائمی طور پر اثر ڈالتا ہے دیکھو خدا تعالیٰ کے لئے بھی نزول کا لفظ آتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ لیلتہ القدر کے آخری حصہ میں خدا نیچے اُترتا ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ اپنا بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے.یہی معنے جبرائیل کے نزول کے ہوں گے کہ جبرائیل بھی بذات خود نہیں اترتا کیونکہ وہ تو مقام معلوم پر ہوتا ہے اور اس سے نہیں ہلتا اسی اپنے مقام پر بیٹھا اثر ڈالتا ہے.دیکھو جب سورج شیشے میں اثر ڈالتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ اس میں اُتر آتا ہے.اسی طرح جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آتا تھا.بلکہ اس کا عکس آتا تھا.انسان کی شکل میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو وہ خود نہیں آیا تھا بلکہ اس نے اپنے اثر سے انسان کی ایک شکل پیدا کی تھی وہ آئی تھی.ورنہ وہ تو جہاں ہے وہیں موجود رہتا ہے.نہیں اس کے نزول کے معنے صرف یہ ہیں کہ جس طرح شیشے میں سورج مکس ڈالتا ہے.اسی طرح جبرائیل ایسے دل میں جو اس کا اثر قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے اپنا اثر ڈالتا ہے اور یہی اس کا نزول ہے.جب یہ نزول ہوتا ہے تب روح القدس انسان کے ساتھ ہو جاتی ہے اور وہ ہر کام اسی کے

Page 547

۵۲۷ ملائكة الله ذریعہ کرتا ہے.یہی بات حضرت عیسی کے متعلق آئی ، عیسائی کہتے ہیں کہ شیطان ان کو دھوکا دیتا تھا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان ان کو کس طرح دھوکا دے سکتا تھا ان کے ساتھ تو جبرائیل تھا.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جبرائیل کے نازل ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اپنا عکس ڈالتا ہے تو جس قدر انسان ایسے ہوئے ہیں کہ ان پر جبرائیل کا عکس پڑتا تھا وہ سب ایک جیسے ہونے چاہئیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی ، حضرت علی ان سب کا ایک ہی درجہ ہونا چاہئے مگر یہ غلط ہے کیونکہ ملکی مختلف ہوتے ہیں اور اس کے لئے ہی نہیں دیکھا جاتا کہ مکس کس کا ہے ؟ بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ عکس کس پر پڑا ہے.لوہے کی چادر پر سورج کا جومکس پڑے گا وہ اور شان کا ہوگا اور خشے پر جو عکس پڑے گا وہ اور شان کا.بیشک جبرائیل ایک ہی تھا اور اس کا عکس بھی ایک ہی ہے.مگر آگے جتنے جتنے قلب مصفی تھے اتنی ہی اس کی شکل اعلیٰ درجہ کی دکھائی دی.یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ جبرائیل ایک ہی تھا آگے جن پر عکس پڑا وہ الگ الگ درجہ کیے تھے.موٹی موٹی ہی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، محمد ہی.اور یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء سے اعلیٰ رہے اور درجہ والے قرار پائے کہ ایک ہی نے سب نبیوں پر ٹکس ڈالا ورنہ اگر عکسی ڈالنے والے الگ الگ ہوتے تو کہا جاتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکس ڈالنے والا چونکہ اعلیٰ درجہ کا تھا اس لئے آپ کو اعلیٰ درجہ حاصل ہوا اور دوسرے انبیاد پر کس ڈالنے والے ایسے نہ تھے اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم درجہ پر ہے.اگر ان پر بھی وہی عکسی ڈانتا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالا تو اس درجہ کو حاصل کر لیتے جو سول کریم صلی الہ علیہ وسلم کوحاصل ہوا لیکن اب چونکہ ایک ہی عکس ڈالنے والا ہے اس لئے ان کے مدارج میں جو فرق ہے وہ ان کے اپنے اپنے قلب کی صفائی سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ایک ہی چیز جب مختلف چیزوں پر برا بر اثر ڈالے تو ان کے اپنے اپنے ظرف کے مطابق نتیجہ مرتب ہو گا.جب کہ جن پر عکس پڑے ان کے اندرونے میں فرق ہو تو با وجود ایک نئے کا ہی عکس پڑنے کے پھر بھی نتیجہ میں فرق ہوگا.اور یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب انبیاء پر فضیلت ہے کہ آپ کا سینہ سب سے اعلیٰ اور مصفی تھا اور اس پر جو عکس پڑا وہ سب سے بڑھ کر تھا.اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ بھی فیضان کی نوعیت کے لحاظ سے اس کے نام مختلف رکھ دیئے جاتے ہیں یوں وہ روح القدس کا ہی فیضان ہوتا ہے اور فیضان کی نوعیت قلب کی صفائی کے مطابق ہوتی ہے.دیکھو جب سورج کا مکس لینا ہو اور معلوم ہو کہ اس کے لئے "

Page 548

انوار العلوم جلد ۵ ۵۲۸ شیشہ بہت بہتر ہے تو اسی پر لیں گے نہ کہ لوہے کئے پکڑے پر لیں گے.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب بہترین قلب تھا اس لئے آپ پر فیضان کا جو کس پڑا وہ چونکہ سب سے اعلیٰ اور بڑھ کر تھا اس لئے وہی قیامت تک رہے گا اور اس طرح فیضان کی نوعیت بدل گئی.دیکھو حضرت مسیح کو جبرائیل کے فیضان کی شکل کشف میں کبوتر کی دکھائی گئی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ فیض آدمی کی شکل میں آیا جو بہت اعلیٰ اور اکمل فیضان تھا.تو فیضان کی نوعیت کا بھی فرق ہوتا ہے اسی نوعیت کے فرق کی وجہ سے جبرائیل کے کئی نام ہیں.روح القدس - روح الامین وغیرہ - روح القدس جبرائیل" کا نام اس کلام پاک کی وجہ سے ہے جو وہ نازل کرتا ہے اور روح الامین اس کا لقب اس کلام پاک کے نازل کرنے کی وجہ سے ہے جس کی ہمیشہ اس نے حفاظت بھی کرنی تھی اور جس کلام کو ہرقسم کے نقص سے محفوظ رکھنا اس کا فرض تھا.یہ نام جبرائیل" کے لئے اسی فیضان کی وجہ سے ہے جو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم پر پڑا.گو یا جبرائیل رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا ممنون احسان ہے کہ آپ کے سبب اسے ایک اور خطاب ملا..غرض دوسرے انبیات پر روح القدس کے رنگ میں جبرائیلی پر تو پڑا لیکن سول کریم صلی الہ علیہ وسلم پر روح الامین کے رنگ میں پر تو پڑا جس کا یہی کام نہیں کہ پاکیزگی پیدا کرے بلکہ یہ بھی ہے که پاکیزگی ہمیشہ کے لئے قائم بھی رکھی جائے.روح الامین میں قدوسیت بھی آگئی اور اس کے ساتھ ہی ہمیشگی بھی پائی گئی اس لئے یہ نام روح القدس کی نسبت اعلیٰ ہے.تملک افضل ہے یا انسان ؟ اب میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ ملک افضل ہے یا انسان ؟ کیونکہ پیچھے جو اس بات پر زور دیا گیا ہے.کہ میلی ، موسی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیلی پر تو سے اس درجہ کو پہنچے تو اس کے متعلق کسی کے دل میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ افضل ہوا جس نے ان پر پر تو ڈالا نہ کہ وہ جو اس و.کے پرتو سے اعلیٰ مقام پر پہنچے.یاد رکھنا چاہئے کہ باوجود اس کے کہ حضرت علی ، حضرت موسی اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم پر جبرائیل کا پر تو پڑا یہ جبرائیل" سے اعلیٰ ہیں اور اس کے کئی وجوہ ہیں.(۱) جبرائیل بے شک پر تو ڈالنے والا ہے مگر بطور واسطہ کے دور نہ اصل عکس ڈالنے والا خدا -

Page 549

انوار العلوم جلد ۵۲۹ ملا حكمة الله ہی ہے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ سورج کا مکس شیشے پر پڑے اور اس سے کسی اور چیز پر پڑے.جبرائیل خدا تعالیٰ سے نور اخذ کر کے آگے ڈالنا ہے نہکہ اپنی ذات ہے.اور واسطہ کبھی اعلیٰ ہوتا ہے اور کبھی ادنی.اعلیٰ کی مثال تو شیشے کی ہے جس پر سورج کا عکس پڑے شیشہ اس چیز سے اعلی ہو گا جس پر اس کے واسطہ سے عکس پڑے گا.اور ادنی کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ بیٹھی لکھ کر چپڑاسی کو دے کہ فلاں وزیر کو پہنچا دے وہ نہیں جاتا کہ چھٹی میں کیا ہے یا کیا نہیں ؟ اس کا کام پہنچا دیا ہے.یا مثلاً اس کے ہاتھ زبانی پیغام بھی کہلا بھیجے.تب بھی وزیر جو کچھ اس سے کسے گا وہ پیغامبر سے اکل مفہوم ہو گا.اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ کن ہے کہ خدا تعالیٰ کا پر تو جبرائیل کے ذریعہ نبی پر پڑے مگر جبرائیل کو معلوم ہی نہ ہو کہ کیا ہے ؟ اس کا پتہ حدیث سے بھی لگتا ہے.معراج کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک مقام پر جاکر جبرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکھا آگے آپ ہی جائے میں نہیں جاسکتا.تو جبرائیل کے ذریعہ جو کچھ پہنچایاگیا وہ ایسا ہے جیساکہ کسی کو ایک پیغام دے کر کسی کے پاس بھیجا جائے جس میں سے کچھ تو وہ مجھ سے اور کچھ ایسے اشارے ہوں جنہیں وہی سمجھ سکتا ہو جس کے پاس پیغام بھیجا گیا یا وہ سمجھ سکتا ہے جس نے پیغام بھیجا.اسی طرح جبرائیل کو جو کچھ دیا گیا وہ لے تو گیا، گر اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں خدا اور رسول ہی سمجھ سکتے ہیں.یہ مثال تو ایسی ہے کہ جبرائیل" جو کچھ لے گیا اسے وہ سمجھ نہ سکتا تھا.اس کے علاوہ وہ حصہ جو جبرائیل سمجھ سکتا تھا اس میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بڑھے ہوئے تھے.اس کو مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں.دو آدمی بخار میں مبتلا ہوں اور دونوں کو کونین دی جائے تو بسا اوقات ایک کو تو جھٹ اثر ہو جائے گا اور ایک کو دیر میں ہو گا.ایسا کیوں ہو گا ؟ ظاہر ہے کہ یہ فرق ان دونوں کی ذاتی قوتوں کی وجہ سے پڑے گا جس کے جسم میں ایسے مادے ہوں گے کہ جو کو زمین پر غالب آجائیں اس پر کم اور دیر سے ہو گا.اور میں کا جسم صاف ہو گا اس پر فوراً اثر ہو گا اور بخار اتر جائے گا.یہ مثال تو دفع شر کی قوتوں کے اختلاف کی ہے.جلب خیر میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے.دوادمی ایک ہی خوراک کھاتے ہیں ایک بہت موٹا اور مضبوط ہو جاتا ہے دوسرا اس قدر فائدہ نہیں اُٹھاتا.گولبا اوقات وہ پہلے سے غذاء مقدار میں بھی زیادہ کھا لیتا ہے اسی طرح وہ تعلیم میں کو دونوں یعنی جبرائیل اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم سمجھتے تھے اس میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضل تھے کیونکہ وہ رسول کریم صلی الہ علیہ ولم پر آپ کے قومی کے مطابق اثر ڈالتی تھی اور حضرت جبرائیل پر ان کے قومی کے مطابق.یہ بات اس طرح اور زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتی ہے کہ میں اس وقت یہ مضمون اردو میں

Page 550

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳۰ ملاكمة الله بیان کر رہاہوں اور شخص اسے سمجھ سکتا ہے.مگر ہر ایک ایک جیسا نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہر ایک پر ایک جیسا اثر ہوتا ہے.پھر قلب کا اثر بھی بات پر جا پڑتا ہے.دیکھو سورہ فاتحہ ہی ہے.کوئی شخص اسے پڑھتا ہے تو اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں.اور کوئی پڑھتا ہے تو اس کے چہرہ پر بشاشت آجاتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جس کے قلب کے اندر رونے کا مادہ ہوتا ہے اور وہ مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اسے پڑھ کر سمجھتا ہے خدا ہی ہے جو میری مصیبت کو دور کر سکتا ہے اور اس سے اس کی چیخین نکل جاتی ہیں.لیکن دوسرا شخص جو کامیا بیوں کو اپنے گرد و پیش پاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا ہی میری حفاظت کرنے والا ہے کون ہے جو مجھے تباہ کر سکے.اس سے اس کے پڑھنے سے چہرہ پر بشاشت آجاتی ہے.تو ایک ہی بات کا قلب کی حالت کے لحاظ سے مختلف اثر ہوتا ہے.پیں وہ کلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ ان بشری قومی سے مل کر جو آپ کے اندر تھے اور نتیجہ اور مطلب پیدا کرتا اور جبرائیل کے اندر چونکہ اور قوی تھے اس لئے ان کے ساتھ مل کر اور نتیجہ پیدا ہوتا.اور یہ صاف بات ہے کہ مختلف چیزوں کی ترکیب سے مختلف نتائج پیدا ہوا کرتے ہیں.مثلاً چھونا ہے اس پر انٹیں رکھ دی جائیں تو کچھ نہیں ہو گا لیکن اگر پانی ڈالا جائے تو آگ پیدا ہو جائے گی کیونکہ چونا اور پانی کے ملنے سے یہ نتیجہ پیدا ہوا کرتا ہے.تو باوجود اس کے کہ جو کچھ رسول کریم صل اللہ علیہ وسم پر جبرائیل کے ذریعہ سے اترا اسے جبرائیل سمجھتے تھے.مگر جو قومی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھے وہ ان کو حاصل نہ تھے اس لئے ایسا نہ سمجھ سکتے تھے جیسا رسول کریم سمجھتے اور اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بھی فضیلت حاصل ہے.اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہر انسان تنگ سے افضل نہیں ہوتا.خاص انسان خاص لا نکہ سے افضل ہوتے ہیں اور جو عام مومن ہوتے ہیں وہ عام ملائکہ سے افضل ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی ملائکہ کی نسبت وسیع ذمہ داریاں ہیں اور انسان تو ایسا ہے کہ اسے جہنم میں بھی ڈالا جا سکے گا لیکن ملائکہ کے لئے یہ نہیں ہے.وہ مجبور ہیں کہ بدی نہ کریں.مگر انسان دونوں طرف جا سکتا ہے بدی بھی کر سکتا ہے اور نیکی بھی اس لئے وہ انسان جو نیکی کرتے ہیں خواہ وہ معمولی درجہ کے مومن ہوں وہ عام ملائکہ پر فضیلت رکھتے ہیں.

Page 551

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳۱ ملائكة الله بقیہ تقریر جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۹ دسمبر کو سجد نور میں ساڑھے نو بجے فرمائی) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ یہ کیوں نہ مانا جائے کہ اشیاء کے خواص اشیاء سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ملائکہ کے اثر کے نیچے نہیں ہیں.اس بات کے تسلیم کرنے کی کیا وجہ ہے کہ اشیاء کے خواص ملائکہ کے اثر کے نیچے ہوتے ہیں.میں نے ملائکہ کا ثبوت دیتے ہوئے بعض دلائل بیان کئے ہیں اور ان کے ذریعہ ملائکہ کا وجود ثابت کیا ہے اور جب ملائکہ کا وجود ثابت ہو گیا تو خود بخود ان کی ضرورت ثابت ہو گئی اور جب کوئی بات دلائل کے ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ اس کے امکان کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے.اس لئے کیوں نہ اسی وجہ کو مانا جائے.مثلاً ہوا کاغذ کو اُڑاتی اور کا غذ اس کے ذریعہ اڑ کر میز پر پڑ سکتا ہے.لیکن اگر کسی شخص کو کاغذ لا کر میز پر رکھتے دیکھ لیں تو یہ سوال نہیں کیا جاسکتا کہ کیوں نہ مانا جائے کہ کاغذ ہوا ہی اُڑا کر لائی ہے.پس جب ملائکہ کا وجود ثابت ہو گیا تو پھر یہ امکان کہ اشیاء کے خواص اشیاء سے ہی تعلق رکھتے ہیں ملائکہ کا ان سے تعلق نہیں باطل ہو گیا.امکان اور ہوتا ہے اور کسی واقعہ کا دلائل سے ثابت ہونا اور ملائی جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی آسمان پر نہیں گئے تو اس لئے نہیں کہا جاتا کہ ان کا آسمان پر جانا ممکن نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کے خلاف دلائل موجود ہیں تو پھر قیاس نہیں چلایا جا سکتا.قیاس اسی وقت چلتا ہے جب دلائل موجود نہ ہوں قیاس

Page 552

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳۲ ملائكة الله اور امکان کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اور بھی صورتیں ہوسکتی ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ سارے امکان ایک بات میں پائے بھی جاتے ہیں ہیں ہو سکتا تھا کہ اشیاء کے خواص اشیاء سے ہی متعلق ہوں اور یہ امکان ہے مگر دوسرے شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ خواص کا تعلق ملانکہ سے ہے.پھر ہم یہ نہیں کہتے کہ اشیاء میں خواص نہیں.ہمارا یہ دعوی نہیں.بلکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اشیاء کے خواص کے ظہور کے ابتدائی محرک ملائکہ ہیں.ملائکہ کو حکم ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اگلے سبب پر اثر کرتے ہیں.وہ اپنے سے اگلے پر اور اسی طرح ہوتے ہوتے ظاہری موجودات پر اس کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے.وہ لوگ جو خدا کو مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ خدا نے مادہ پیدا کیا ہے ان کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جتنی چیزیں ہیں ان کی خاصیتیں خدا نے ہی رکھی ہیں.ورنہ یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ مادہ غیر مخلوق ہے خدا نے پیدا نہیں کیا.بلکہ اپنے آپ ہی ہے اور خدا کوئی ہستی نہیں ہے.اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے تو اس کو ملائکہ کے متعلق کچھ بتانے سے قبل خدا کی ہستی کا قائل کرانا ہوگا.پھر اگر خدا کی ہستی کا کوئی قائل ہو جائے لیکن یہ کہے کہ ہر چیز اپنے آپ ہی پیدا ہو گئی ہے.تو پھر لائکہ کے متعلق اسے کچھ کہا جائے گا.ہاں جب یہ بھی تسلیم کرلے کہ ہر ایک چیز کو پیدا کرنے والا خدا ہے تو پھر اس کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا کہ ملائکہ کا وجود بھی ثابت ہے.پس یہ سوال تب اُٹھایا جا سکتا ہے جب کوئی یہ تسلیم کرلے کہ خدا ہے اور اس نے مادہ پیدا کیا ہے ورنہ نہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ تو میں جو خدا کی ہستی کی قائل نہیں یا خدا کی تو قائل ہیں لیکن مادہ کو مخلوق نہیں مانتیں وہ فرشتوں کی قائل نہیں ہوتیں.پیس پہلے یہ امور فیصلہ کئے جائیں گے اور ان کے بعد ملائکہ پر بحث ہو سکے گی.اور جب ملائکہ پر بحث ہو گی تو اس کے ساتھ ہی یہ بات تسلیم شدہ قرار دی جائے گی کہ خدا کی ہستی اور مادہ کا مخلوق ہو تا تسلیم کیا جاتا ہے اور جب کوئی یہ باتیں تسلیم کرے گا تو اسے یہ بھی مانا پڑ گیا کہ خدا نے چیزوں میں صفات رکھی ہیں اس کے متعلق ہمارا دعویٰ صرف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اشیاء میں صفات براہ راست نہیں رکھیں بلکہ ملائکہ کے توسط سے رکھی ہیں.کیونکہ چیزیں کثیف ہیں خدا تعالیٰ لطیف.اور ہم قوانین نیچر کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کثیف اشیاء پر اثر ڈالنے کے لئے وسائط مقرر فرماتے ہیں.سب لطیف چیزوں کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ کثیف کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے وسائط ہوتے ہیں.خود کثیف چیز لطیف سے تعلق نہیں رکھ سکتی

Page 553

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳۳ ملا نكلمة الله انسان کو ہی دیکھ لو اس میں قلب ، روح یا MIND کچھ کہ لوکوئی چیز ہے جس کی وجہ انسان سب کام کرتا ہے اور جب وہ نہیں رہتی تو انسان بے جان ہو جاتا ہے لیکن وہ چیز جو اس کے اندر ہے وہ اسے نہیں کہتی کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو.بلکہ وہ نہایت باریک اعصاب پر اثر کرتی ہے اور وہ آگے بار یک شاخوں پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح ہوتے ہوتے کسی عضو میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ کام کرتا ہے مثلاً آنکھ کو براہ راست روح یا مائنڈ کوئی حکم نہیں دیتی.بلکہ نہایت باریک اعصاب پر اثر کر کے تدریجی طور پر اس پر اپنے منشاء کا اظہار کرتی ہے.غرض جتنی لطیف اشیاء ہیں وہ کثیف کے ساتھ وسائط کے ذریعہ تعلق پیدا کرتی ہیں پس ہم کہتے ہیں کہ خدا کا وجود ثابت ہے اور اس کا ہر چیز کا خالق ہونا مسلم ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کا تعلق اشیاء سے کسی ذریعہ سے ہے اور اسی ذریعہ کو ہم ملائکہ کہتے ہیں.لیکن جو یہ نہیں مانتا کہ خدا ہے یا وہ سب اشیاء کا خالق ہے تو اس کے سامنے ہم ملائکہ کی بحث نہیں پیش کریں گے.بلکہ اس سے پہلے یہ منوائیں گے کہ خدا ہے اور وہ دنیا کا خالق ہے.اور جو اس کو مان نے گا اسے قانون قدرت پر نگاہ کر کے لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی لطیف مگر مخلوق ہستیاں ایسی ہیں جو اللہ اور موجودات ظاہری کے درمیان بطور واسطہ ہیں اور یہ ایسی بات ہے جو سائنس کی رو سے ثابت ہے.سائنس کا مسئلہ ہے کہ ہر ایک چیز کے اسباب ہیں.لطیف سبب اپنے سے موٹے سبب پر اثر ڈالتا ہے اور وہ اپنے سے موٹے پر اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے چلتا ہے.پس ہم مانتے ہیں کہ کونین میں جو خاصیت آئی ہے وہ اور اسباب کے ذریعہ آئی ہے.اور کو نہین بھی کئی اجزاء سے مرکب ہے اور کوئی بھی چیز مفرد نہیں سب مرکب ہیں.کو نہین کے اندر ایک خاص جزو ہے جس کا اثر بخار یہ ہوتا ہے اور اس جزو کا اثر بعض اور مخفی اسباب کی وجہ سے ہے اور وہ مخفی اسباب کی طرف منتقل ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری ذریعہ ملائکہ ہیں.اور وہ خدا تعالیٰ سے براہ راست فیضان حاصل کرتے ہیں کیونکہ اصل خالق وہی ہے.اگر یہ نہ مانا جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ ہر چیز کی ذاتی خاصیت ہوتی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا چیزوں کا خالق نہیں ہے اور اگر خدا کو چیزوں کا خالق مانا جائیگا تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہر چیز میں خاصیت خدا کی طرف سے ہے اور خواص اشیاء کو مختلف اسباب مخفیہ کا نتیجہ دیکھ کر بھی ماننا پڑے گا کہ انہی اسباب مخفیہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا حکم ان تک پہنچتا ہے اور انہی کی آخری کڑی کا نام ملک ہے.

Page 554

انوار العلوم جلد ۵ منہ گلگیر ترقی کرتا ہے على نكتة الله اب میں یہ بتاتا ہوں کہ ملتہ تکیہ ترقی کرتا ہے اور ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ ایک لمہ سے دو ہو جاتے ہیں.اور اگر کسی نے نہ سمجھے ہوں تو پھر بتائے دیتا ہوں کہ اس کے منے تحریک کے ہیں اور اس کی ترقی کرنے کا یہ مطلب ہے کہ فرشتے جو تحریکیں کرتے ہیں وہ بڑھتی جاتی ہیں.ایک سے دو، دو سے تین ، تین سے چار حتی کہ کئی ہو جاتی ہیں.جب کوئی شخص ایک تحریک کو قبول کرتے کرتے اس مقام پر آجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ زیادہ کا مستحق ہے تو اسے اور زیادہ طاقت دے دی جاتی ہے پھر گویا دو فرشتے اس کے اندر تحریک کرتے ہیں.اس کے دو محافظ ہو جاتے ہیں پھر تین اور اسی طرح بڑھتے جاتے ہیں.اور یہ بات ہم قانون قدرت میں بھی دیکھتے ہیں کہ جو شخص کسی چیز کا صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اس کی اس کے متعلق طاقتیں بڑھ جاتی ہیں.مثلاً جو لوگ علوم پڑھتے ہیں ان پر نئی نئی باتیں منکشف ہوتی رہتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس اصل کے متعلق فرمایا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاء (العنکبوت : ۷۰) کہ جو لوگ ہمارے رستہ پر چلتے ہیں تو ان کو ہم کئی رستے بتا دیتے ہیں.جب خدا تعالیٰ تک پہنچانے والے ایک رستہ پر چلتے ہیں تو انہیں قرب کے اور رستے بتا دیئے جاتے ہیں.یعنی جب وہ ایک نیکی پر عمل کرتے ہیں تو اور نئی نئی نیکیوں کا انہیں علم حاصل ہو جاتا ہے اور وہ ان کو عمل میں لاتے ہیں.اور ایسی نیکیاں جو پہلے وہم وخیال میں بھی نہیں ہو ئیں خدا کے رستہ میں کوشش کرنے والے کو بتائی جاتی ہیں.چنانچہ اس کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے.ایک جگہ تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِن كُلُّ نَفْسٍ مَا عَلَيْهَا حَافِظ (الطارق (۵) کہ ہر ایک انسان پر فرشتہ مقرر ہے جو اسے شیطانی تحریکوں سے بچاتا ہے اور نیکی کی تحریکیں کرتا ہے مگر ایک دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اس فرشتہ کی تحریکوں کو مان لیتا ہے تو ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اب شیطان اس کے ساتھ ہی نہ رہے اور اسے بالکل محفوظ کر دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ انسان کے قلب پر اثر کئی ذرائع سے ہوتا ہے کبھی آنکھ کے ذریعہ، کبھی ناک کے ذریعہ کبھی کان کے ذریعہ کبھی زبان کے ذریعہ غرضیکہ کئی ذرائع ہیں خدا تعالیٰ ان سرب ذرائع کے لئے محافظ مقرر کر دیتا ہے.گویا جب کوئی انسان نیک تحریکوں کو مانتا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اور فرشتے اس کے محافظ مقرر کر دیتا ہے جو ان دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں جن کے ذریعہ شیطان داخل ہو کر قلب پر اثر

Page 555

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳۵ ڈالتا ہے.پہلے تو سب دروازوں پر ایک فرشتہ تھا کہ وہ چکر لگاتا اور دیکھتا رہے کہ کسی دروازے سے شیطان داخل نہ ہو سکے پھر ترقی کرتے کرتے اس طرح ہوتا ہے کہ ہر سوراخ پر فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے : لَهُ مُعَقِبَتْ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أمر الله (الرعد : ۱۲) لوگوں نے غلطی سے اس آیت کو ہر انسان کے متعلق سمجھا ہے مگر اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ذکر ہے.اور لن کی ضمیر آپ ہی کی طرف جاتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہمارا ایسا بندہ ہے کہ اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر ہیں.کوئی شیطانی تحریک نہیں جو شیطانی ہو کر اس کے پاس پہنچے ہر ایک شیطانی تحریک اس کے پاس آکر رک جائے گی اور اس تک نہیں پہنچ سکے گی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرانسان کے لئے ایک ہی فرشتہ مقرر ہوتا ہے.لیکن جو خدا کے خاص مقرب ہوتے ہیں.ان کے لئے کئی کئی ہوتے ہیں.چنانچہ اس کا لطیف ثبوت دوسری جگہ سے بھی ملتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کرتے کرتے مؤمن اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اس کے ہر سوراخ پر فرشتے بیٹھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے : - وَالمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ عَلِ بابه سَلامُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِه (الرعد : ۲۲-۲۵) فرمایا جب انسان مرنے کے بعد جنت میں جائیں گے تو ملائکہ ہر دروازے سے آکر ان کو سلام کریں گے اور کہیں گے کہ تمہارے صبر کے بدلہ میں تم پر سلامتی ہو.اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ بہت سارے فرشتے ہوں گے اس لئے مختلف دروازوں سے آکر سلام کریں گے کیونکہ اگر بہت فرشتے ہوں تو وہ بھی ایک ہی دروازہ سے آسکتے ہیں.اور اگر کہا جائے کہ اتنا ہجوم ہو گا کہ ایک دروازہ سے نہیں آسکیں گے تو پھر اس کے بیان کرنے کی کیا ضرورت اور کیا فائدہ ہو سکتا ہے.ایک دروازہ سے آئیں یا مختلف دروازوں سے آئیں ایک ہی بات ہو گی.اصل میں اس کے یہی معنے ہیں کہ قیامت کے دن ہر دروازہ کا فرشتہ آئیگا اور آکر مبارک باد دے گا کہ تم اس میں کامیاب ہوگئے ہو جس میں میں اور تم دونوں مل کر شیطان کا مقابلہ کرتے رہے تھے.اس وقت فرشتہ کو بھی خوشی ہوگی اور انسان کو بھی.تو ہر سوراخ کا فرشتہ اسے سلامتی کی دعا دے گا.رہی یہ بات کہ آیا کئی دروازے ہوتے ہیں یا نہیں یہ موٹی بات ہے اور ہر انسان جانتا ہے که بیرونی چیزوں کے اثر کرنے کے کئی ذرائع ہیں کبھی انسان آنکھ سے روپیہ دیکھتا ہے تو اس کے دل میں لالچ پیدا ہوتی ہے اور وہ چوری کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.اگر اس کی آنکھیں نہ دیکھتیں تو یہ

Page 556

۵۳ ملائكة الله خیال بھی اس کے دل میں نہ پیدا ہوتا.پھر کبھی انسان سنتا ہے کہ فلاں کے پاس بہت مال ہے تو چوری کا خیال پیدا ہو جاتا ہے.اگر وہ نہ سنتا تو یہ خیال بھی اسے پیدا نہ ہوتا.اسی طرح بعض خیال چھونے کے ذریعہ سے بعض سونگھنے کے ، بعض چکھنے کے ذریعہ سے پیدا ہو جاتے ہیں.تو بدی یا نیکی کی تحریکیں اتنی ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں اور ان ہی راستوں کے ذریعہ شیطان اس کے اندر داخل ہوتا ہے ان پر ایک ایک فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے جو حفاظت کرتا رہتا ہے اور کسی بڑی تحریک کو اندر نہیں جانے دیتا.لیکن خاص اور عام لوگوں کے ان محافظ فرشتوں میں ایک فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ عام کے محافظ تو صرف بری تحریکوں کو اندر جانے سے روکتے ہیں لیکن خاص کے محافظ بری تحریکوں کو بھی نیک کر کے اندر جانے دیتے ہیں.مثلاً ایسا انسان جب سنتا ہے کہ فلاں دولت مند ہے تو بجائے اس کے کہ اس کے دل میں یہ تحریک ہو کہ ڈاکہ مار کر اس کا مال حاصل کرے اس کے دل میں یہ تحریک ہوتی ہے کہ خدا اسے اور بھی دے اور یہ نیک کاموں میں صرف کرے.غرض اس طرح ان کے اندر ہر تحریک نیک ہو کر جاتی ہے مگر خدا کے نبیوں کے ساتھ ان فرشتوں کے لیی دو کام نہیں ہوتے کہ اول کسی بڑی تحریک کو اندر نہیں جانے دیتے اور دوسرے اس کو نیک کر کے اندر جانے دیتے ہیں بلکہ ان کے دل میں پیدا ہونے والی تحریکوں کے باہر بھی نیک اثرات پیدا کرتے ہیں.خدا کے نبی کے بات کرتے وقت ، اس کے کسی کی طرف دیکھتے وقت ، کسی کو چھوتے وقت ، غرضیکہ ان کی ہر حالت میں فرشتے نیک اثر پیدا کرتے رہتے ہیں.شاید کوئی کسے کہ کسی کے مال کو دیکھ کر جب کسی کے دل میں چوری کا خیال پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کے اندر پیدا ہوتا ہے.باہر نہیں پیدا ہوتا.اس لئے فرشتے اس کے متعلق کیا حفاظت کر سکتے ہیں.گو یہ بات غلط ہے کیونکہ چوری کا جو خیال پیدا ہوگا وہ کسی محترک سے ہی پیدا ہوگا اور محترک چیز با ہر ہی ہوگی.مگر یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسروں کے بدخیالات کا بھی اثر ہوتا ہے، ایک کے بڑے خیالات دوسرے کے دل پر اثر کر دیتے ہیں.اور یہ اثر چھونے، باتیں کرنے یا پاس بیٹھنے سے ہوتا ہے یہ بات علمی طور پر بھی ثابت ہے مسمریزم ایک علم ہے.اس میں ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے.سو گیا سو گیا.اور اپنے دل میں خیال لاتا ہے کہ سو گیا.جب زور سے یہ خیال اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو وہ شخص فی الواقع سو جاتا ہے.پھر یہاں تک ہو جاتا ہے کہ اسے کہا جاتا ہے.لکڑی کی طرح سخت ہو جا تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے اس وقت اگر اسے اپنی طرزہ پر لٹا کر کہ اس کی کمر کے

Page 557

۵۳۷ علا نكتة الحد نیچے کوئی سہارا نہ ہو.اس پر بوجھ بھی رکھ دیا جائے تو اس کی کمر ٹیڑھی نہیں ہو گی.اسی طرح اگر کہا جائے تو بھی ہو گیا تو وہ بچی کی طرح میاؤں میاؤں کرنے لگ جائے گا.یا اگر کہا جائے کہ کتا ہو گیا تو کتے کی طرح بھونکنے لگ جائے گا.تو ایک شخص کے خیال کا اثر دوسرے پر ہوتا ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کا برا اثر اس ملک میں جہاں وہ رہتے ہیں اس شہر میں جہاں وہ بہتے ہیں اس گاؤں میں جہاں وہ سکونت رکھتے ہیں پڑتا ہے اور ہر انسان اس کا تجربہ کر سکتا ہے کہ ایک شخص کے خیال کا اثر دوسروں پر پڑ رہا ہے حتی کہ بچے بھی اس اثر کو محسوس کرتے ہیں.چنانچہ ایک بچہ کی آنکھیں بند کر کے کوئی چیز کہیں چھپا کر رکھ دیتے ہیں اور پھر سب خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ لڑکا اس طرف چلے.جہاں وہ چیز رکھی ہوئی ہے تو وہ ادھر ہی چلا جاتا ہے اور اس چیز کے پاس پہنچ کر اسے اُٹھا لیتا ہے.ایک دفعہ ایک سکھ طالب علم نے جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا اور حضرت مسیح موعود سے خلاص رکھتا تھا حضرت صاحب کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھے خدا پر یقین تھا مگر اب میرے دل میں اس کے متعلق شکوک پڑنے لگ گئے ہیں.حضرت صاحب نے اسے کہلا بھیجا کہ جہاں تم کالج میں بیٹھتے ہو اس جگہ کو بدل لو.چنانچہ اس نے جگہ بدل لی اور پھر بتایا کہ اب کوئی شک نہیں پیدا ہوتا.جب یہ بات حضرت صاحب کو سُنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس پر ایک شخص کا اثر پڑر رہا تھا جو اس کے پاس بیٹھنا تھا اور وہ دہریہ تھا.جب جگہ بدل لی تو اس کا اثر پڑنا بند ہو گیا اور شکوک بھی نہ رہے.تو بڑے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بھی بلا اس کے کہ وہ کوئی لفظ کیسے اثر پڑتا ہے اور اچھے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بلا اس کے کہ وہ کچھ کسے اچھا اثر پڑتا ہے.پس دنیا میں خیالات ایک دوسرے پر اثر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا پتہ نہیں لگتا ایک شخص کسی مجلس میں جاتا ہے جہاں کسی شخص کے دل میں کوئی برا خیال ہوتا ہے اور کسی کے دل میں کوئی.وہ اس کے دل پر اثر کر رہے ہوتے ہیں اور اسے پتہ بھی نہیں ہوتا.مگر جب ملائکہ اس کے ہر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں ہاتھ ، کان ناک، منہ اور آنکھ وغیرہ دروازوں پر تو ایسے لوگ جب کسی مجلس میں جاتے ہیں ان پر کوئی برا اثر نہیں ہو سکتا.ان پر پاک ہی پاک اثر ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود تو پاک تھے مگر دوسروں کو سکھانے کے لئے جب آپ کسی مجلس میں بیٹھتے تو ستر دفعہ استغفار کرتے.اس سے آپ نے مسلمانوں کو سکھایا کہ وہ بھی ایسا ہی کیا کریں.تو خیالات کا اثر یقینی اور ثابت شدہ اثر ہے.جو لوگ زیادہ نیک اور متقی ہوتے ہیں انکے ہر

Page 558

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳۸ علان گفته الله دروازہ پر کہ جس سے خیالات کا اثر اندر آتا ہے فرشتے متعین ہوتے ہیں جو انہیں برے اثرات - محفوظ کر دیتے ہیں.شیطان سے کیا مراد ہے سے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ شریعت نے انسان کے ذاتی بڑے خیالات کو بھی شیطانی قرار دیا ہے اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ شیطان کا وجود ہی نہیں ہے کیونکہ میرا یہ بھی یقین ہے کہ ہر نیک تحریک در حقیقت انسان کے قلب سے ہی پیدا ہوتی ہے.حالانکہ میں ملائکہ اور ان کے ثرات کا قائل ہوں.پس میرے قول کا یہ مطلب ہے کہ شریعیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی خیالات کو بھی شریعیت نے شیطانی قرار دیا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں بدخیال آئے تو شیطان اس پر اپنا پر تو ڈال کر اس کو بڑھا دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا.ایک وضوء کا شیطان ہے اس کا نام و کہان ہے.اس کا کام یہ ہے کہ پانی زیادہ کرواتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا اس جگہ یہ مطلب نہیں کہ واقع میں کوئی وضوء کا شیطان ہے.بلکہ آپ نے دل کے خطرہ کا نام شیطان رکھا ہے.شیطان کا کام تو خدا تعالیٰ سے دُور کرنا ہے پانی سے اس کا تعلق نہیں.اور ولمان کے معنے ہیں ایسا متفکر کہ جسے ایک خیال کے سوا اور کوئی خیال ہی نہ رہے اور اسی حالت کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولهان نامی شیطان رکھا ہے.اس حالت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو کچھ ہوش ہی نہیں رہتی اور بجائے اس کے کہ وضوء کے وقت اسے نماز کی طرف توجہ ہو.وہ اپنے خیالات میں محو ہو کر پانی بہاتا چلا جاتا ہے.ورنہ فی الواقع شیطان اس کو پانی گرانے کے لئے نہیں کہتا کیونکہ شیطان کو زیادہ یا کم پانی گرانے سے کیا تعلق.اسی طرح برسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کا بھی ایک شیطان ہے جو نماز میں وسوسہ ڈالتا ہے.ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو مختلف خیالات میرے دل میں آنے لگ جاتے ہیں آپ نے فرمایا یہ شیطان ہے اور اس کا نام خنزب ہے.در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے شیطان کا نام خنزب بتایا ہے.یہ مرکب لفظ ہے خئی اور اذیب سے.خنٹی کے معنے نوائب الدھر کے ہیں.اور اذیب کے معنے داہیہ کے ہیں مه ترمذی ابواب الطهارة باب كراهية الاسراف في الوضوء مسلم كتاب السلام باب التعوذ من الشيطان الوسوسة في الصلوة

Page 559

انوار العلوم جلد ۵ ۵۳۹ ملا نكتة الله یعنی آفات اور بلائیں اور مصیبتیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ دنیا کے حوادث انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں.اگر انسان دنیا میں حتی المقدور علیحدگی اختیار کرے تو وہ اس حالت سے بچ سکتا ہے.غرض دل کے بڑے خیالات کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے.لمہ نلکی اور شیطانی انسان کی قلبی حالت کا نتیجہ ہوتے ہیں اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے ملک یا شیطان کی تحریک نہیں ہوتی.پہلی تحریک خواہ بُری ہو یا اچھی انسان کے اپنے قلب سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ ولیم فرماتے ہیں کہ ہر انسان فطرت پر پیدا کیا گیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ہر انسان نیکی پر پیدا کیا گیا ہے پھر حالات اور محبتوں سے اس کے قلب میں خیال پیدا ہوتے ہیں.ان خیالات کو بڑھانے کے لئے جو نیک ہوتے ہیں ملائکہ آ جاتے ہیں اور بد کے لئے شیطان.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ كَانَ لَهُ مِنْ قَلْبِهِ وَاعِظُ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ اللهِ حَافِظ " جس کے اپنے دل میں نیک خیال پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اس کے لئے ایک نگران فرشتہ کو مقر کر دیتا ہے.اور یہی حال بُری تحریکوں کا ہوتا ہے جس کے دل میں بڑے خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں اس کے اوپر ایک شیطان مسلط ہو جاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ نیکی اور بدی پہلے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.گو اس کی تحریک.بیرونی اسباب سے ہوتی ہو.اور پھر اگر نیک تحریک ہو تو ملک اس کو بڑھاتا ہے.اور اگر ید ہو تو شیطان ایسے آدمی کے ساتھ لگ جاتا ہے.ورنہ اگر تحریک پہلے ہی سے باہر سے آتی اور قلب کا اس سے تعلق نہ ہوتا اور اس کے قبول کرنے یا رد کرنے میں اس کا کوئی دخل نہ ہوتا تو پھر انسان مجبور ہوتا.لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ کند ہم جنس باہم جنس پرواز کے ماتحت جب قلب میں نیگی کی تحریک پیدا ہوتی ہے تو ملائکہ سے تعلق ہو جاتا ہے اور جب برائی کی تحریک ہوتی ہے تو بدار واح تعلق پیدا کر لیتی ہیں.پس یہ جو دونوں تحریکیں ہیں ان کے متعلق یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے.بہت لوگ سوال کیا کرتے احیاء علوم الدین مولفه امام غزالی جزء ۳ کتاب شرح عجائب القلب بیان مجامع أَوْصَافِ الْقَلْب و امثلته امام جزء مطبوعہ بیروت

Page 560

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴۰ ہیں کہ ہم روحانی ترقی کسی طرح حاصل کریں.ان کا جواب یہ ہے کہ روحانی ترقی حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ انسان اپنے قلب کا مطالعہ کرتا رہے.روحانی ترقی یہی ہوتی ہے کہ انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مدائح اور مراتب کا حال معلوم ہوتا جائے اور اس کا ذریعہ یہی ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کے قلب میں نیک تحریکیں زیادہ ہوتی ہیں یا بد - اگرنیکی کی تحریکیں زیادہ ہوں تو سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ملائکہ اس کا قدم بڑھا رہے ہیں.پس بجائے اس کے کہ انسان اپنی نمازوں کو اپنے روزوں کو اپنے چندوں کو دیکھے کہ ان میں میں نے کس قدر ترقی کی ہے اسے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس کے قلب میں کیا تحریکیں ہوتی ہیں.اس کا قلب اسے زیادہ نمازہ، زیادہ روزے اور زیادہ نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے یا نہیں.اگر قلب حکم نہیں دیتا تو سمجھ لے کہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صرف ایک ابتدائی کوشش ہے یا عادت ہے یا ریاء ہے اور خدائی کام نہیں.اگر نمازیں پانچ چھوڑ دس بھی پڑھتا ہے یعنی علاوہ فرائض کے پانچ وقت نوافل ادا کرتا ہے.مگر اس کا قلب نماز سے متنفر ہے تو معلوم کرنے کہ ابھی وہ ایسے مقام پر نہیں پہنچا کہ ملائکہ کا اس سے تعلق قائم ہو جائے.بلکہ ممکن ہے کہ ابھی وہ ابتدائی کوشش کے مقام پر بھی نہیں پہنچا بلکہ اس کا نفس رسماً یا عادتاً یار یاؤ اس سے نمازیں پڑھوا رہا ہے.اور اگر اسے ابھی عمل کی توفیق نہیں ملی مگر اس کے دل میں نیک تحریکیں پیدا ہو رہی ہیں تو سمجھے کہ فرشتے اس سے تعلق پیدا کر رہے ہیں پس تم اپنی نمازوں ، روزوں وغیرہ سے اپنی حالت کا اندازہ نہ کرو.بلکہ تمہارے دل میں جو کچھ ہو اس کو دیکھیو.جن قوموں کے دل خراب ہو جاتے ہیں وہ خواہ ظاہرہ طور یہ ہر کتنی ہی مضبوط ہوں اگر پڑتی ہیں.روس کو ہی دیکھ لو کتنی بڑی حکومت تھی.لیکن حضرت مسیح موعود کی اس کے متعلق چونکہ پیش گوئی تھی اس لئے ان لوگوں کے دل خراب ہو گئے اور اس سے ساری سلطنت خراب ہوگئی.حالانکہ ظاہری خرابی سے معاً پہلے وہ ایک زبر دست حکومت سمجھی جارہی تھی.تو کسی انسان کو اپنے متعلقی نمازوں ، روزوں اور زکواۃ سے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے نیکی اور تقویٰ میں کس قدر ترقی کی ہے بلکہ اپنے قلب کے اندر جو چیز ہے اس سے اپنی نیکی اور تقویٰ کو دیکھے.اگر اس کے دل میں نیک تحریکیں بڑھ رہی ہوں تو سمجھ لے کہ ملائکہ کا پرتو جو اس پر پڑتا ہے وہ بڑھ رہا ہے خواہ ابھی تک بعض گناہ اس سے نہ چھوٹے ہوں.اور اگر بڑائی کی تحریکیں اس کے قلب میں بڑھ رہی ہوں، تو خواہ اچھا کام کر رہا ہو یہی خیال کرے کہ اس کا شیطان سے تعلق بڑھ رہا ہے.پیس نمازیں زیادہ پڑھنا یا روزے رکھنا ایمان کی علامات نہیں.تمہیں اپنے قلوب کو دیکھنا اور ان کا مطالعہ کرنا چاہیئے لوگوں کا کام تمہارے متعلق یہ ہے کہ تمہارے اعمال کا مطالعہ کریں لیکن تمہارا کام اپنے متعلق یہ ہے کہ

Page 561

انوار العلوم جلد ۵ اپنے قلب کا مطالعہ کرو.۵۴۱ لمہ نلکی اور منی شیطانی کا موازنہ کرنے کا طریق ملكة الله اب میں ایک موٹا اصول بتاتا ہوں کہ کس طرح معلوم ہو کہ تمہاری تحریکوں میں شیطان کا دخل زیادہ ہے یا ملائکہ کا.پہلے میں نے بتایا ہے کہ اصل تحریکیں خواہ بری ہوں یا اچھی.تمہاری اپنی ہوتی ہیں.فرشتے یا شیطان کی نہیں ہوتیں اس لئے تمہیں اپنے قلب کو دیکھنا چاہئے اور اس کو دیکھ کر معلوم کرنا چاہئے کہ تمہارے ساتھ کس کا تعلق زیادہ ہے.اول - اگر تم دیکھو کہ پہلے دل میں نیک خیال پیدا ہوتا ہے اور پھر بد تو سمجھ لو کہ فرشتہ کا تعلق تم سے شیطان کی نسبت زیادہ ہے.فرشتہ اپنے تعلق کو بڑھانا چاہتا ہے مگر شیطان اس میں رکاوٹ ڈالتا ہے.تو ہمیشہ جب کسی بدی کا خیال پیدا ہو یہ دیکھو کہ اس سے پہلے نیکی کا خیال تم میں پیدا ہوا تھا یا نہیں.اگر پیدا ہوا تھا تو ملک کا تعلق تم سے بہت زیادہ ہے بنسبت شیطان کے مثلاً تم نماز پڑھنے کے لئے آئے ہو مگر تمہارے دل میں وسوسے پڑتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ملائکہ کا تم سے زیادہ تعلق ہے تم نیکی کرنے آتے ہو اور شیطان اسے خراب کرنے لگتا ہے.دوم.اگر تم دیکھو کہ جب کوئی بُرا خیال تمہارے دل میں پیدا ہوتا ہے تو جھٹ ساتھ ہی نیک خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد میں چلو لوگ دیکھیں گے کہ میں بھی نماز پڑھتا ہوں اور بعد میں یہ خیال آجاتا ہے کہ نماز پڑھنی ہے تو پھر اللہ ہی کی پڑھوں گا.تو ایسی صورت میں سمجھ لو کہ ملائکہ کا تعلق تم سے زیادہ نہیں مگر پھر بھی ملائکہ نے تم کو بالکل چھوڑ بھی نہیں دیا.جب انہوں نے موقع دیکھا مجھٹ آجاتے ہیں تاکہ نیکی کی طرف سے آئیں.اس حد تک انسان محفوظ ہوتا ہے.کیونکہ ملائکہ نے اس سے محبت کا تعلق ترک نہیں کیا ہوتا پہلا درجہ تو یہ تھا کہ وہ اسے اوپر اٹھاتے تھے اور شیطان نیچے کھینچتا تھا.دوسرا یہ کہ وہ ڈوبنے لگتا تھا تو ملائکہ اسے بچاتے تھے.جو انسان اس حالت میں ہو وہ بھی سمجھ لے کہ وہ ایسے مقام پر ہے کہ ترقی کر سکتا ہے مایوسی کی حد تک نہیں پہنچا.سوم تیسرا درجہ نہایت نازک ہے اور وہ یہ ہے کہ تم محسوس کرو کہ بدی کی تحریک ہوتی ہے اور وروہ

Page 562

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴۲ مگر ساتھ اس کے نیکی کی تحریک نہیں ہوتی.گھنٹہ پر گھنٹہ اور دن پر دن گزرتا جاتا ہے مگر دل میں اس تحریک کے خلاف جوش نہیں پیدا ہوتا.اگر یہ حالت ہے تو سمجھ لوکہ تم کو ملائکہ بالکل چھوڑ گئے ہیں اور تم بالکل شیطان کے قبضہ میں پڑ گئے ہو.یہ تین درجے تو وہ ہیں جن میں بدی کی تحریک نیکی کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتی ہے اور ان میں سے ایک درجہ پر قائم شخص کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے.ان سے اوپر دو اور درجے ہیں جن میں المہ ملکی اور منہ شیطانی سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے مگر منہ نلکی غالب ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں : (1) پہلے نیک خیال پیدا ہوتا ہو اور اس کے بعد بد خیال پیدا ہوتا ہو.جب یہ حالت ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ گو فرشتے پورے طور پر اس کے اردگرد نہیں ہیں لیکن اصل تعلق فرشتوں کا ہے شیطان صرف ترقی روکنے کے لئے زور لگا رہا ہے.(۲) دوسری حالت یہ ہے کہ نیک خیالات پہلے پیدا ہوں اور بد بعدین.مگر بد خیالات بہت کم پیدا ہوں یا یہ کہ مختلف قسم کی نیک تحریکوں میں سے بعض کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوں بعض کے متعلق نہیں اس حالت کے متعلق جان لینا چاہئے کہ فرشتوں کا تعلق مضبوط ہو رہا ہے اور شیطان کا کم.اور کوئی دروازہ اس کے لئے کھلا رہ گیا ہے.جب اس سے اوپر انسان ترقی کرتا ہے تو پھر شیطانی حملہ سے بالکل محفوظ ہو جاتا ہے.ان پانچوں ذریعوں سے پتہ لگ سکتا ہے کہ انسان بدی میں بڑھ رہا ہے یا نیکی میں ترقی کر رہا ہے.اب یہ سوال ہوتا ہے کہ انسان کے اندر کون سی تحریک زیادہ زیر دست ہے آیا ملکی تحریک با شیطانی ؟ اور انسان کے لئے کون سے راستے زیادہ کھلے ہیں ؟ ملائکہ کے رستے یا شیطان کے.اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے انسانی ترقی کے زیادہ سامان رکھے ہیں یا گرا ہی کے ؟ صوفیاء سے ایک غلطی ہوئی ہے.یا یوں کنا چاہئے کہ ان سے ٹیکنیکل لینی اصطلاحی غلطی ہوئی ہے حقیقی غلطی نہیں اور وہ یہ کہ ایک چیز کا مفہوم سمجھتے ہیں انہوں نے غلطی کھائی ہے.عام طور پر بلکہ سارے کے سارے لکھتے ہیں کہ فرشتہ کا ایک ہی رستہ ہے اور شیطان کے انسان کے اندر داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں.مگر یہ غلط ہے اول تو قانونِ قدرت سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے.پھر قرآن کریم کی رو سے بھی غلط ہے.قانون قدرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر خیالات بیرونی اثرات سے پیدا ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص کے دل میں چوری کا خیال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ کوئی چیز با ہر دکھتا ہے اسی طرح اور باتوں کے متعلق ہوتا ہے.اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ذرائع سے انسان کے

Page 563

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴۳ اندر بڑے خیالات کی تحریک جاتی ہے انہی ذرائع سے نیکی کے خیالات کی تحریک بھی جاتی ہے.مثلاً جہاں دیکھنے سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں مال چرا لیا جائے وہاں دیکھنے سے ہی یہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں غریب ہے اس کی مدد کی جائے.اسی طرح جہاں کان کے ذریعہ ایک بات سُن کر برا خیال پیدا ہو سکتا ہے وہاں کان ہی کے ذریعہ نیک خیال بھی پیدا ہوتا ہے.اسی طرح چھونے ، دیکھنے اور چکھنے سے ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز ایسی ہے کہ بد طور پر بھی استعمال کی جا سکتی ہے اور نیک طور پر بھی.اس لئے جن ذرائع سے شیطان اندر داخل ہو سکتا ہے انہی ذرائع سے فرشتے داخل ہو کر نیکی کی تحریک بھی کرتے ہیں.۱۵۴: پھر قرآن کریم سے بھی یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ شیطان کے گمراہ کرنے کے تو بہت سے راستے ہیں لیکن ملائکہ کا ایک ہی راستہ ہے.ان کو دھوکا اس آیت سے لگا ہے کہ وَ انَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرقَ بِكُمُ عَن سَبِيلِهِ (انها :) (الانعام خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرا سیدھا رستہ ہے اس کی اتباع کرو اور مختلف رستوں کی اتباع نہ کرو.وہ تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دیں گے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کا ایک ہی رستہ ہے اور شیطان کے کئی رستے ہیں مگر اس آیت کے معنے سمجھنے میں انہیں غلطی لگی ہے.اول تو قرآن کریم میں ہی خدا تعالے نے بتایا ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبلَنَاء (العنکبوت : ) کہ جو لوگ ہمارے رستہ میں کوشش کرتے ہیں انہیں ہم مختلف رستے دکھاتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کے بھی مختلف رہتے ہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں جو ایک رستہ اور کئی رستے بتائے گئے ہیں.اس سے یہ بات بتائی ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لئے کئی مذہب قبول کرنے کی ضرورت نہیں.صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کے قبول کرنے سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.ہاں آگئے اسلام نے روحانی ترقیوں کے لا تعداد رستے بتائے ہیں.تو اس آیت میں نفی اس بات کی گئی ہے کہ جس طرح شیطان نے گمراہ کرنے کے کئی رستے رکھے ہوتے ہیں.کہیں عیسائی بننے کی تحریک کرتا ہے، کہیں آریہ بننے کی ، کہیں کوئی اور جھوٹا مذہب قبول کرنے کی.اس طرح خدا نے نہیں کیا بلکہ خدا نے ایک مذہب رکھا ہے ہاں وہ مذہب ایسا ہے جو کئی رستوں پر حاوی ہے.اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے صوفیاء نے غلطی کھائی ہے.اصل میں خدا تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے شیطان کے گمراہ کن طریقوں سے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَى (الاعراف : ۱۵۷ ) کہ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے.

Page 564

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴۴ ملكة الله اب میں اس سوال کی طرف آتا ہوں کہ اگرنیکی کی تحریک کے بھی زیادہ ذرائع ہیں تو پھر کیا ج ہے کہ دنیا میں شیطانی انسان زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرے کم.اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیطانی اثر ملائکہ کے اثرات کی نسبت زیادہ ہیں.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ شیطانی اور ملائکہ کی تحریکات کا مقابلہ اس طرح نہیں کرنا چاہئے کہ بڑے لوگ زیادہ ہوتے ہیں یا نیک.بلکہ اس طرح کرنا چاہئے کہ ہر انسان کے اندر نیکی کی تحریک زیادہ ہوتی ہے یا برائی کی.اس بات کو دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کے اکثر کام نیکی پر زیادہ مشتمل ہوتے ہیں بنسبت بدی کے.اور بدی صرف اس لئے زیادہ نظر آتی ہے کہ وہ گھناؤنی شئے ہونے کے سبب نمایاں نظر آتی ہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک وقت سب لوگ جہنم سے نکل آئیں گے.(مسنداحمدین خیل جلد صلح ۱۰۲ حاشیہ) ۶ ایک شخص جو چوری کرتا ہے اسے بڑا بد معاش اور برا انسان کہا جائے گا مگر اور کئی عیب ہوں گے جو اس میں نہیں ہوں گے.اور کئی اچھی باتیں ہوں گی جو اس میں پائی جاتی ہوں گی.گویا اس میں کئی نیکیاں ہوں گی اور چوری کرنا ایک برائی ہوگی.اور کوئی شخص الیسانہ ہو گا جس میں بُرائیاں زیادہ ہوں اور ان کے مقابلہ میں نیکیاں کم ہوں.تو نیکی دُنیا میں زیادہ ہوتی ہے اور برائی کم.مگر چونکہ برائی پر ہر ایک کی نظر پڑتی ہے اس لئے وہ نمایاں طور پر نظر آجاتی ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا صرف ناک کٹا ہو اور باقی اعضاء بالکل درست ہوں تو اس کے ناک پر ہی نظر پڑے گی.اور باقی اعضاء کی خوبصورتی کوئی نہ دیکھے گا.تو نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں لیکن لوگوں کی نظر برائی پر پڑتی ہے اس لئے اسی کو زیادہ نمایاں سمجھا جاتا ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ فرشتہ دل میں تحریک کس طرح کرتا ہے.اور اس کے تحریک کرنے کا کیا ذریعہ ہے ؟ اس کی تحریک کرنے کے متعلق اپنے تجربہ سے اور خدا کے ان مقرب لوگوں کے تجربہ سے جنہیں علم دیا گیا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان کوئی نیک کام کرتا ہے تو ملک اس کے دل میں اس کام کی محبت پیدا کر دیتا ہے.اور جب کوئی انسان ارادہ کر لیتا ہے کہ میں نیکی کے اس راستہ پر چلوں گا تو ملک ہر موقع کے آنے پر اسے اطلاع دیتا رہتا ہے کہ موقع آگیا ہے اس سے فائدہ اُٹھا لو.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹنگ انسان کو مجبور کر کے وہ کام کراتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اسے اطلاع دیتا رہتا ہے.

Page 565

انوارالعلوم جلد ۵ ۵۴۵ ملائكة الله دوسرا ذریعہ ملک کے تحریک کرنے کا یہ ہے کہ علم ی زیادتی کرتا رہتا ہے.اس سے انسان کو نیکی کرنے کی تحریکیں پیدا ہوتی رہتی ہیں کہ یہ بھی نیکی ہے اسے کر لوں.یہ بھی نیکی ہے اس کو ٹل میں لے آؤں.مگر اصل منبع نیکی کا قلب ہی ہوتا ہے اسی پر ملک روشنی اور ہر تو ڈالتا ہے اور اس کا کامران تحریکوں پر چلانا ہوتا ہے یعنی ملائکہ خود انسان سے نیکی نہیں کراتے بلکہ نیکی کرانے کے لئے آسانی پیدا کرتے رہتے ہیں.اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً ایک معزز شخص بہت سے لوگوں میں سے گزرے اور وہ لوگ اس کو آگے سے رستہ دیتے جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوگ اسے چلاتے ہیں.چلتا تو وہ خود ہے ہاں اس کے چلنے میں وہ لوگ آسانی پیدا کر دیتے ہیں.فرشتے بھی انسان کے لئے ایسے ذرائع پیدا کرتے ہیں کہ وہ بآسانی نیکی کر سکے.اسی طرح شیطان یہ نہیں کرتا کہ کسی سے جبراً کوئی برائی کراتا ہے بلکہ جب کوئی شخص ایک برائی کا ارہا ہے کر لیتا ہے تو شیطان اس کے سامنے دوسری رکھ دیتا ہے اور جب دوسری کر لیتا ہے گو تیری.اسی طرح آگے آگے چلاتا جاتا ہے.مثلاً چلتے چلتے کسی کو خیال پیدا ہوا کہ چوری کروں.اس خیال کے آنے پر شیطان نے اس کی توجہ اس طرف پھر دی کہ فلاں شخص مالدار ہے.گویا شیطان کا اتنا ہی کام ہے کہ مشورہ دے یہ نہیں کہ قلب پر قبضہ پائے.اس لئے جو نیکی یا بدی انسان کرتا ہے وہ اس کا اپنا ہی فعل ہوتا ہے.ملک یا شیطان صرف تحریک کر دیتا ہے...تیسرا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ رشتہ انسان کو اسی جگہ نے جاتا ہے جہاں نیکی کی تحریک پیدا ہوسکے آگے اس تحریک کا حاصل کرنا انسان کے دل کا کام ہوتا ہے.اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ جب انسان کو ملائکہ یا شیطان کی طرف سے مدد آتی ہے.نیک باتیں فرشتہ سمجھاتا ہے اور بُری باتیں شیطان.تو پھر برائی کرنے میں انسان کا گناہ کیا ہوا.مان لیا کہ برائی انسان نے کی مگر شیطان نے بھی تو اس میں امداد دی.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان کی تحریک پیدا ہونے پر انسان کو گناہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے دہانے اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اسے ثواب ہوتا ہے.ہاں اگر اس پر عمل کرے تو پھر گناہ ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور آکر کہا میرے دل میں ایسے ایسے بڑے خیال آتے ہیں کہ زبان کٹ جائے.انہیں بیان کرنے کو دل نہیں چاہتا.فرمایا یہی بات ہے جو نور ایمان ہے.تو شیطانی تحریک جو ہے وہ خود گناہ نہیں ہوتی.اگر انسان کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہو اور

Page 566

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴۶ ملائكة الله وہ اسے ترک کر دے تو گنا ہوگا رنہ ہو گا.چنانچہ قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- و ان تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمُ بِهِ الله (البقرة : ۲۰۵) تمہارے دل میں جو کچھ ہے تم اسے چھپا رکھو یاک ہر کرو.تم سے خدا حساب لے گا.اس میں بتایا تر ہے کہ یہ نہیں کہ کوئی خیال پیدا ہونے پر سزادی جائے گی بلکہ اگر اسے دل میں محفوظ رکھ چھوڑو گے یا پھیلاؤ گے تو تمہارا محاسبہ ہو گا.نہیں شیطانی تحریک کو ظلم نہیں کہا جاسکتا.کیونکہ اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی.ایسی تحریک ہزار بار ہو اگر انسان اسے نہیں مانتا تو گنہگار نہیں ہوگا بلکہ اسے ثواب ا ہوتا رہے گا.اب یہ سوال ہے کہ تحریک شیطان کی ہوتی کس طرح ہے ؟ اور کس رنگ میں شیطان تحریک کرتا ہے، سو یاد رکھنا چاہئے کہ جو انسان نیک ہوتا ہے اور جس نے اپنے آپ کو شیطان کے قبضہ میں نہیں دیا ہوتا بلکہ اس کا تعلق ملائکہ سے ہی ہوتا ہے اس کو شیطان نیک تحریکات کے ذریعہ ہی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.ہاں جب وہ شیطان کے قبضہ میں چلا جاتا ہے تب بڑی تحریکوں کے ذریعہ گراہ کرتا ہے.اس کی تشریح میں آگے چل کر کروں گا.اس وقت اتنا بتاتا ہوں کہ شیطان کی تحریک کی دو شاخیں ہوتی ہیں.ایک نیکی کی اور دوسری بدی کی.اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شیطان بھی نیکی کی تحریک کرتا ہے.تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ انسان اس کی تحریکوں سے بچے ؟ ممکن ہے انسان ایک نیک کام کرے مگر شیطان اس سے کرا رہا ہو.جب بُرا کام ہو تب تو معلوم ہو سکتا ہے کہ شیطانی ہے.لیکن یہ کیونکر معلوم ہو کہ ایک نیک کام بھی شیطان کی تحریک کے ماتحت ہو سکتا ہے.اس کے لئے میں موازنہ کر کے بتاتا ہوں کہ فرشتے اور شیطان کی تحریک میں کیا امتیازات ہوتے ہیں.اوّل یہ بات یاد رکھو کہ فرشتے کی طرف سے وہی تحریک ہوگی جس کا نتیجہ نیک ہو گا بعض دفعہ ایک تحریک بظاہر نیک معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ بد ہوتا ہے اور بعض دفعہ نیک تحریک ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ بھی نیک ہوتا ہے.پس جب کسی تحریک پر عمل کرنے لگو تو سوچ لو کہ اس کا نتیجہ تو بد نہیں ہوگا.مثلاً نیکی کی تحریک ہوئی کہ فلاں بھائی نماز نہیں پڑھتا اس کو سمجھائیں.مگر جب سمجھانے گئے تو اس کا طریق یہ اختیار کیا کہ جہاں بہت سے آدمی بیٹھے تھے وہاں اسے کہہ دیا کہ تو نماز نہیں پڑھنا اس لئے منافق ہے اس منافقت کو چھوڑ دے.یہ تحریک تو نیک تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اتنے آدمیوں کے سامنے جو اس کو اس طرح کہا جائے گا تو وہ نماز کا ہی انکار کر دے گا.

Page 567

انوار العلوم جلد ۵۴۷ علا نكتة الله حضرت خلیفہ اول سنا تھے تھے کہ آپ کا ایک داماد وہابی تھا.آپ سے ملنے کے لئے ایک دنہیں آیا جس کا پاجامہ تخنے سے نیچے تھا.اس نے اس کے تھنے پر مسواک ماری اور کہا تو جہنمی ہے کہ اس طرح پاجامہ پہنے ہوئے ہے.اس پر رئیس نے گالی دے کر کہا میں خدا اور رسول کو ہی نہیں ما نشادہ کیا ہوتے ہیں ؟ حضرت خلیفہ اول نے اپنے داماد کو کہا تو نے اچھی نصیحت کی ہے کہ اسے کا فرنا دیا.غرض ایک تحریک بظا ہر نیک معلوم ہوتی ہے مگر اس کا نتیجہ بدنکلتا ہے.یہ تحریک ملک کی طرف سے نہیں ہوتی.تلک وہی تحریک کرے گا کہ جس کا نتیجہ بھی نیک ہی ہو گا فرشتہ کی تحریک چونکہ خدا تعالیٰ کی تحریک کے ماتحت ہوتی ہے اس لئے وہ بد نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی.پس کسی تحریک کے پیدا ہونے پر جہاں یہ دیکھ لو کہ نیک ہے وہاں یہ بھی دیکھ لو کہ اس کا نتیجہ بھی نیک ہے یا نہیں.ی به و تو مجھ اور کی ہے تک کی سے نہیں.ہاں نتیجہ اگر نتیجہ بد ہو تو سمجھ لو کہ شیطان کی طرف سے ہے ملک کی طرف سے نہیں.ہاں اگر نتیجہ نیک ہے تو ملک کی طرف سے ہو گی.دوسرا طریق شیطان اور ملک کی تحریک میں موازنہ کرنے کا یہ ہے کہ فرشتے کی تحریک میں موازنہ ہوتا ہے.لیکن شیطان کی تحریک ایسی نہیں ہوتی.شیطان ایک نیکی کراتا ہے لیکن اس کی وجہ سے اس سے بڑی نیکی کو چھڑانا اس کے مد نظر ہوتا ہے.مثلاً نماز کی جماعت ہو رہی ہے ادھر خیال پیدا ہوتا ہے کہ نفل پڑھیں اب اگر جماعت کے چھوٹ جانے کی پرواہ نہ کی جائے اور نفل پڑھے جائیں تو یہ شیطانی تحریک ہوگی کیونکہ بڑی نیکی کو چھوٹی نیکی کے لئے ترک کر دیا گیا.سرسید احمد صاحب کو جب کہا گیا کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے تو انہوں نے کہا کہ یہ کام بھی دین ہی کا ہے جو میں کرتا ہوں ان کے کام کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس میں فنا ہو گئے ہیں.اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ اس کام کو بدی سمجھ کر کرتے تھے.نیکی سمجھ کر ہی کرتے تھے مگر چھوٹی نیکی پر انہوں نے بڑی کو قربان کر دیا.اس لئے یہ کام ان کا فرشتے کی تحریک سے نہیں کہلا سکتا.غرض بعض دفعہ شیطانی تحریک بھی نیک ہی ہوتی ہے مگر بڑی نیکی کو چھڑا کر چھوٹی نیکی کرائی جاتی ہے.شاہ ولی اللہ صاحب اپنے خاندان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کی ایک عورت بہت ذکر اللہ کیا کرتی تھیں اور ان کے ایک بھائی ان کو اس امر سے روکتے تھے اور کتے تھے کہ نماز زیادہ پڑھا کرو، وہ جواب دیتیں کہ مجھے اس میں بہت لطف آتا ہے.اس پر وہ کہتے تھے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے آخر بڑھتے بڑھتے سنتیں اور پھر فرض شیطان چھڑوائے گا.کچھ مدت کے بعد بہن نے بھائی کو بتایا کہ واقع میں اب ایسا ہونے لگا ہے کہ سنتوں میں بھی مزا جاتا رہا ہے آپ

Page 568

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴۸ لا نكتة الله علاج بتائیں.انہوں نے ایک لاحول پڑھنے کے لئے کہا.آخر ان کو کشف میں ایک بندر نظر آیا جی نے کہا ئیں شیطان ہوں اگر تم لاحول نہ پڑھتی اور تمہارے بھائی تم کو سمجھاتے تو میں نے فرض بھی چھڑوا دینے تھے.غرض شیطان کی تحریک کبھی نیکی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے لیکن اس میں قدر مراتب کا خیال نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کے ہر قانون میں موازنہ ہوتا ہے اور ہر بڑی چیز کے مقابلہ میں چھوٹی قربان ہوتی ہے.لیکن جہاں بڑی چیز چھوٹی کے لئے قربان ہونے لگے وہاں سمجھ لو کہ یہ شیطانی تحریک ہے.یہ طریق دسوسہ کا بہت عام ہے.چنانچہ بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے پہلے تعلیم ہونی چاہئے اور پھر تبلیغ کا کام شروع کرنا چاہئے.اس لئے جتنا روپیہ جمع ہو سکے وہ سب تعلیم پر خرچ کرنا چاہئے.اس سوال کا جواب دینے والا یہ تو کہ نہیں سکتا کہ تعلیم اچھی نہیں اس لئے اس کا انتظام نہیں ہونا چاہئے اس لیئے وہ بالعموم اس سوال سے متاثر ہو جاتا ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ایک وسوسہ ہے کیو نکہ تعلیم بطور تزئین کے ہے جو دین کے لئے ایک زائد چیز ہے.بے شک اس کا خیال رکھنا ضروری ہے.لیکن سب کچھ اسی پر خرچ کر دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ دس آدمیوں کو زندہ رکھنے کے لئے کھانا تیار کرنے کا جو سامان ہو اس سے ایک ہی آدمی کے لئے پلاؤ پکا لیا جائے.اور باقی سب کو ٹھو کا مر جانے دیا جائے دس آدمیوں کو زندہ رکھنا بہتر ہے بنسبت اس کے کہ ایک کو پیپر تکلف کھانا کھلا دیا جائے پیس تعلیم پر سا را روی پیر اور ساری محنت خرچ کرنے کی نسبت یہ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کو روحانی زندگی حاصل کرانے کی کوشش کی جائے.اور اس بڑے کام کو چھوٹے کام کے لئے نہ چھوڑا جائے ورنہ اعلیٰ اور ادنی کام میں موازنہ نہیں رہے گا.موازنہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت لطیف پیرائے میں اشارہ فرمایا ہے.آپؐ سے پوچھا گیا کہ حرام اور حلال چیز کا کس طرح پتہ لگے فرمایا : الإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدرِک نے اپنے دل سے پوچھ لینا چاہئے.اگر ساری دنیا کے مولوی کہتے رہیں کہ فلاں بات نا جائز ہے لیکن دل فتوی دے کہ جائز ہے تو جائز ہوگی.یہ بات ان امور کے متعلق نہیں جن کے جائز و نا جائز ہونے کا فیصلہ شریعت نے کر دیا ہے.بلکہ ان کے متعلق ہے جن کا کرنا بعض لحاظ سے نیکی معلوم ہو اور بعض لحاظ سے بدی.اگر ایسی بات کے کرنے کو دل نہ مانے تو عه عيه مسند احمد بن مبل جلد ۴ صفحه ۲۲۷

Page 569

انوار العلوم جلد ۵ ۵۴۹ ملاكمة الله نہ کی جائے.تلا ذکر ہے اس کے متعلق اگر کسی مولوی سے پوچھا جائے گا تو وہ کے گا کہ اچھا ہے.مگر یہ کہ نفل پڑھنے اس کے لئے چھوڑ دئے جائیں.یہ اس کے اپنے دل کی بات ہو گی.اس کا فیصلہ اس کا دل ہی کر سکے گا.یا مثلاً کوئی کسے کیوں جی ! کسی کی خاطر داری یا کسی کو تحفہ دینا کیا ہے ؟ ایک عالم یہی جواب دے گا کہ اچھی بات ہے.لیکن اگر اس تحفہ کا مطلب وہ اپنے دل میں کسی کو رشوت اور ڈالی رکھ لے تو گو اس کو فتویٰ مل گیا کہ جائز ہے لیکن اس کی جو نیت اس فتوی کے حاصل کرنے کے وقت تھی اس کو اس کا دل ہی جانے گا اس وقت اسے اپنے دل کی بات کو ہی ماننا چاہئے جو کہہ رہا ہوگا کہ یہ ناجائز ہے.فتویٰ کو نہیں ماننا چاہئے.تورسول کریم لی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ خواہ کوئی فتوی دے دے کہ فلاں بات کر لو لیکن اگر اپنے دل میں اس کا کوئی بد پہلو پیدا ہو تو اسے نہیں کرنا چاہئے اور چھوڑ دینا چاہئے.نگی اور شیطانی تحریک میں تیسرا فرق یہ ہے کہ ملک کی تحریک میں ترتیب ہوتی ہے وہ درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بچہ کو ماں پہلے اٹھا کر چلتی ہے.پھر اسے پکڑ کر چلاتی ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ بچہ چلنا سیکھ جاتا ہے.لیکن شیطانی تحریک کی یہ مثال ہوگی کہ جس طرح دشمن بچہ کو اُٹھا کر پھینک دے.یا پھر ملکی اور شیطانی تحریک کی مثال یہ ہے کہ جو انسداد لڑکے کا خیر خواہ ہو گا وہ تو اسے اب شروع کرائے گا اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کراتا جائے گا.لیکن اگر دشمن استاد ہوگا تو پہلے ہی ایسا مشکل سبق پڑھائے گا کہ لڑکا اکتا کر بھاگ جائے گا.تو فکی تحریک درجہ بدرجہ ہوگی یکدم کسی بات کا بوجھ انسان پر نہیں آپڑے گا اور کسی امر میں جلدی نہیں کرائی جائے گی.لیکن جب ایسا نہ ہو یکلخت کوئی بوجھ پڑتا ہو اور جلدی کی تحریک ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ملکی نہیں بلکہ شیطانی تحریک ہے.مثلاً شیطان اس طرح تحریک کرے گا کہ آج ہی ولی بن جاؤ اور اس کے لئے سارا دن نماز پڑھو اور تمام سال روزے رکھو لیکن اگر کوئی اس پر عمل کرے گا.تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اکتا کر اور بددل ہو کر نماز اور روزہ کو بالکل ہی چھوڑے گا.یہی وجہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بعض لوگ ساری رات تہجد پڑھتے رہتے اور دن کو روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے اس کو پسند نہ کیا اور فرمایا یہ نیکی نہیں ہے کہ اس طرح تم دوسروں کے حقوق جو تم پر ہیں مارتے ہو نہ نیکی ہی ہے کہ انسان تدریجی کام کرے.پہلے ایک قدم اُٹھانے پھر دوسرا اور پھر میرا یہ ملکی تحریک کی علامت ہوتی ہے.اور شیطانی تحریک یکدم ایک کام کرانا چاہتی ہے.مثلاً ایک شخص جو پہلے کچھ بھی دین کے لئے چندہ نہیں دیتا اسے تحریک ہو کہ میں اگلے مہینے سارا مال چندہ میں دے دوں گا.تو چونکہ یہ اس کی حقیقی عه بخاري كتاب التهجد باب ما يكره من ترك قيام الليل لمن كان يقومه

Page 570

انوار العلوم جلد ۵ ۵۵۰ خواہش نہ ہو گی اس لئے جب دے دے گا تو پھر اس کو ملال پیدا ہو گا اور جب ملال پیدا ہو گا تو اس پر شیطان کا قبضہ ہو جائے گا جو اسے بالکل گمراہ کر دے گا.پس شیطانی تحریک کی یہ صورت ہوگی کہ وہ معجلت کی طرف لے جائے گا اور میدم بہت زیادہ بوجھ رکھ دے گا.پہلے تو یہ تحریک کرے گا کہ آج ہی تو خدا سے مل جا جب یہ بات حاصل نہ ہوگی تو انسان کے دل میں مایوسی پیدا کر دے گا.کئی لوگ ہوتے ہیں جو ہفتہ بھر نمازیں پڑھ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں تو خدا نہیں ملا.اور بہت ایسے ہوتے ہیں جو چند دن نمازیں پڑھ کر خواہش کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میں حالانکہ یہ سب شیطانی وسوسے ہوتے ہیں.جب انسان خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے قابل بن جائے گا تب دیکھ سکے گا.یونی کسی طرح دیکھ لے تو اس قسم کی عجلت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے.اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انسان کو وہ بات حاصل نہیں ہوتی جس کی اسے اُمید ہوتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے اور پھر بالکل چھوڑ چھاڑ کر علیحدہ ہو جاتا ہے.چوتھا فرق یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا امر جس میں مشتبہ باتیں بھی ہوں.یعنی جن کے متعلق خیال ہو کہ ممکن ہے اچھی ہوں اور ممکن ہے بُری ہوں.اس کے متعلق جب ملائکہ کی طرف سے تحریک ہوگی تو اس طرح ہوگی کہ مشتبہ باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور ان کو عمل میں نہ لایا جائے لیکن شیطانی تحریک اس طرح ہوگی کہ ان کے کرنے میں حرج کیا ہے کر لی جائیں.اس طرح ان پر وہ عمل کرا لیتا ہے اور جب ان پر عمل کرا لیتا ہے تو اس کو مقام قرار دے دیتا ہے اور اس سے اگلی باتوں کو حد ٹھہرا دیا ہے.پھر اس سے آگے چلاتا ہے اور حد پر عمل کرا کر اسے مقام بنا دیتا ہے.اسی طرح 13" آگے ہی آگے چلاتا جاتا ہے اور بڑی بڑی بدیاں کر لیتا ہے.پھر ایک اور بھی فرق ہے.اور وہ یہ کہ ملکی تحریک وہ ہوتی ہے کہ جس میں انسان جب مشغول ہو تو اس میں ترقی دی جاتی ہے.مثلاً نماز میں مشغول ہو تو اور عمدگی سے پڑھنے کی تحریک ہوگی مگر شیطانی تحریک یہ ہوگی کہ جس میں انسان مشغول ہوگا وہ چھڑا کر دوسری پر عمل کرایا جائے گا غرض اس سے شیطان کی یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ ایک شخص نیکی کا کام کر رہا ہے.یہ تو اس سے چھپڑاؤ.اور جب اس کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے گا تو پھر اس کو دیکھا جائے گا.چھٹا فرق یہ ہوتا ہے کہ شیطانی تحریک کبھی اس قسم کی ہوتی ہے کہ انسان پر دوسرے کے عیبوں اور نقصوں کو ظاہر کیا جاتا ہے.مگر ملک کی تحریک والا شخص دوسرے کے متعلق نیک ہی خیال کریگا

Page 571

انوار العلوم جلد ۵ 001 کیونکہ ملائکہ کی طرف سے حسن ظنی کا ہی خیال ڈالا جاتا ہے مگر شیطانی تحریک میں لوگوں کے عیب ظاہر کئے جاتے ہیں اور اس طرح یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ فلاں میں یہ عیب ہے فلاں میں یہ عیب ہے لیکن میں بڑا ولی ہوں عیسائیوں کی طرح کہ وہ کہتے ہیں کہ ابراہیم، موسی ، داؤد غرضیکہ سب نبی گنہ گار تھے اس لئے مشیح کا درجہ ان سب سے بڑا ہے مگر یہ ایسی ہی مثال ہے میں طرح کوئی کہے کہ فلاں فلاں جو مُردہ پڑے ہیں میں ان کی نسبت زیادہ طاقتور ہوں.ایسا ہی خیال شیطان پیدا کرتا ہے کہ لوگوں کو حقارت سے انسان کی نظر میں گرا کر اسے یہ خیال پیدا کرا دیتا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں.اور اس طرح عجب اور تکبر پیدا کر کے اسے ہلاک کر دیتا ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نیکیوں میں موازنہ کا فرق نہیں ہوتا.یعنی کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ بڑی نیکی کو چھوٹی نیکی کے لئے قربان کرا دیتا ہے.مگر کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ نیکیاں تو ایک ہی جیسی ہوتی ہیں لیکن وہ ایک ہی کی طرف رکھتا ہے اور دوسری نیکی کو بالکل چھڑا دیتا ہے.مثلاً ایک شخص جو تبلیغ کرتا ہے اسے شیطان تحریک کرے گا کہ چندہ دینے کی تمہیں کیا ضرورت ہے ایک کام جو کرتے ہو.یا جو چندہ دے گا اسے کہے گا تبلیغ کرنا ضروری نہیں چندہ جو دے دیتے ہو.مگر فرشتہ یہی کہتا ہے کہ تبلیغ کرنا بھی نیکی ہے اسے بھی کرو اور چندہ دینا بھی نیکی ہے ہے اسے بھی بجا لاؤ.آٹھویں بات یہ ہوتی ہے جو بڑی خطرناک ہے کہ جب انسان کوئی نیکی کرنے لگتا ہے اور ایسا انسان ادنیٰ درجہ کا ہوتا ہے اعلیٰ درجہ کا نہیں ہوتا تو شیطان اس کے دل میں یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ زیاء کے طور پر کرتا ہے اس لئے کرنا ہی نہیں چاہئے.مثلاً ایسا شخص جب مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانے لگے گا تو شیطان اس کے دل میں ڈال دے گا کہ لوگ تجھے دیکھیں گے اور کہیں گے یہ بھی نمازی ہے اور اس طرح ریاء ہو جائے گا اس لئے مسجد میں جانا ہی نہیں چاہئے اس طرح شیطان نماز با جماعت سے روک دے گا.لیکن ملائکہ کی طرف سے جو تحریک ہوتی ہے اس میں شریعت کے ادب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے.ایسی شیطانی تحریکوں پر مومن کو چاہئے کہ اپنے نفس سے کسے کہ چاہے لوگ کچھ کہیں میں تو شریعت کے حکم کو ضرور بجا لاؤں گا اور اس قسم کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرے اور خدا تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے بجا لائے.ان صورتوں میں یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ مومن کا طریق یہی ہے کہ وہ ایسی تمام صورتوں میں یہ احتیاط کر لیا کرے کہ جسن نیکی میں دیکھے کہ اس کی توجہ نہیں پیدا ہوتی اس کی وجہ شیطانی

Page 572

انوار العلوم جلد ۵ ۵۵۲ تحریک سمجھے اور ایسی بات پر اور زیادہ زور دے، مثلاً چندہ دیتا ہے لیکن تبلیغ نہیں کرتا اور خیال پیدا ہوتا ہے کہ تبلیغ کرنا ضروری نہیں تو تبلیغ پر زیادہ زور دے جس طرح لڑکے جس مضمون میں کمزور ہوتے ہیں اسی پر زیادہ زور دیتے ہیں.اسی طرح تم بھی جس نیکی میں کمزوری پاؤ اس پر زیادہ زور دو اور جو کسی اس میں ہو اس کو پورا کرو.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ تحریک شیطانی سے بچنے کا کیا طریق ہے." جب شیطان کسی نیکی کی تحریک کرے اور غرض اس کی یہ ہو کہ کسی بڑی نیکی کو چھڑا کر بدی کرائے تو ایسے موقع پر موازنہ کر لینا چاہئے.اور جس نیکی سے شیطان باز رکھنا چاہے وہ بھی کر لی جائے اور جو نیکی کرائے وہ بھی کر لینی چاہئے.مثلاً ذکر کرنے میں انسان کمزور ہے اس کے متعلق شیطان نے تحریک کی تو یہ بھی کرے اور ساتھ ہی فرائن میں بھی کمی نہ آنے دے ان کو بھی پورا کرے اس طرح شیطان اس سے مایوس ہو جائے گا اور پھر اس قسم کی تحریک کرنے کی جرات نہیں ترے گا.حضرت مسیح موعود سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کی صبح کے وقت آنکھ نہ کھلی اور جب کھلی تو دیکھا کہ نماز کا وقت گزر گیا ہے اس پر وہ سارا دن روتے رہے.دوسرے دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز کے لئے اُٹھاتا ہے.انہوں نے پوچھا تو کون ہے.اس نے کہا ئیں شیطان ہوں ہو تمہیں نماز کے لئے اُٹھانے آیا ہوں.انہوں نے کہا تجھے نماز کے لئے اُٹھانے سے کیا تعلق؟ یہ بات کیا ہے ؟ اس نے کہا کل جو میں نے تمہیں سوتے رہنے کی تحریک کی اور تم سوتے رہے اور نماز نہ پڑھ سکے اس پر تم سارا دن روتے رہے خدا نے کہا اسے نماز با جماعت پڑھنے سے کئی گنا بڑھ کر ثواب دے دو.مجھے اس بات کا صدمہ ہوا کہ نماز سے محروم رکھنے پر تمہیں اور زیادہ ثواب مل گیا.آج میں اس لئے جگانے آیا ہوں کہ آج بھی کہیں تم زیادہ ثواب نہ حاصل کر لو.تو شیطان تب پیچھا چھوڑتا ہے جب کہ انسان اس کی بات کا توڑ کرتا رہے.اس سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلا جاتا ہے.اور یہ بات اسلام سے ثابت ہے کہ شیطان مایوس ہو جاتا ہے یہ اب میں یہ بتا تا ہوں کہ شیطان کی تحریک کو انسان نیکی کے رنگ میں استعمال کر سکتا ہے اور وہ نیکی کے رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ شیطان کے دو قسم کے اثر ہوتے ہیں.ایک عام اثرات جیسے بد خیال پیدا کرنا جن کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے.ایسے خیالات کے اثر ہم میں سے ہر شخص پر حتی کہ

Page 573

۵۵۳ سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پربھی پڑیں گے.یہ اور بات ہے کہ آگے کوئی انہیں قبول کرے یانہ کرے لیکن پڑیں گے ضرور.دوسرے خاص اثرات ہوتے ہیں جو انہی لوگوں پر پڑتے ہیں.جو شیطان سے محفوظ نہیں ہوتے یا اس کے زیر اثر ہو چکے ہوتے ہیں.ان دونوں قسم کے اثرات کو جو شخص قبول کر لیتا ہے وہ محفوظ نہیں ہوتا.اور جو قبول نہیں کرتا وہ ان سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے.شیطان بر اثر ڈالتا ہے لیکن وہ اسے نیک بنا لیتا ہے اور بجائے شیطان سے بدی کی تعلیم حاصل کرنے کے اس سے نیک کام لے لیتا ہے.اس کا طریقی یہ ہے کہ شیطان کا حملہ جذبات کے ذریعہ ہوتا ہے.شیطان ان کو ابھار دیتا ہے اور وہ بدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن اگر انسان ارادہ کی قوت کو بڑھا ہے تو جتنی قوت ارادی بڑھ جائے گی اتنا ہی زیادہ وہ نیکی میں بڑھ جائے گا.جب قوتِ ارادی کم ہو تب ہی انسان پر شیطانی تحریک کا اثر ہوتا ہے.مثلاً ناجائز طور پر شہوت پیدا ہوتی ہے یا مال کی محبت پیدا ہوتی ہے.اب اگر قوت ارادی کم ہوگی تو ان جذبات کو انسان غلط طور پر استعمال کرے گا.لیکن اگر قوت ارادی زیادہ ہوگی تو ان کو اپنی جگہ اور محل پر عمدہ طریق سے استعمال کرے گا.تو قوت ارادی کے بڑھانے سے انسان شیطان کی بری تحریکوں سے بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے.چنانچہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ایسا ہی کرتا ہوں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے لئے شیطان مقرر نہیں.صحابہ نے پوچھا کیا آپ بھی ؟ آپ تو محفوظ ہوں گے ؟ فرمایا ہاں میں بھی ایسا ہی ہوں.مگر مجھے خدا نے طاقت دی ہے اور میں شیطان پر غالب آگیا ہوں جب مجھے وہ کوئی تعلیم دیتا ہے تو نیکی کی ہی دیتا ہے برائی کی نہیں دیتا.(مسلم کتاب صفة القيامة والجنة والنارباب تحريش الشيطان وبعثة سراياها لفتنة الناس وان مع كل انسان قريباً ، اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ ایک ایک شیطان ہر انسان کے لئے مقرر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شیطان نیکی کی تحریک کرتا تھا.اگر وہ الگ وجود تھا اور اس نے بدی کی تحریک چھوڑ کر نیکی کی تحریک شروع کر دی تھی تو پھر وہ شیطان کس طرح رہا.پھر تو وہ فرشتہ ہو گیا.اگر کہو کہ وہ پہلے شیطان تھا لیکن جب نیکی کی تحریک کرنے لگا تو فرشتہ ہو گیا.تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نیکی کی تحریک کرنے کا ذکر کرتے وقت بھی اسے شیطان ہی کہا ہے.اگر اس کا یہ جواب دیا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام شیطان اس

Page 574

۵۰۴ ملائكة الله کی پہلی حالت کی وجہ سے رکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس نے شیطنت کو چھوڑ دیا تھا تو یہ عظیم الشان اثر تو اس کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوا.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ سلطنى - اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر تسلط دے دیا.پس اس کا اسلام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے تھا.پھر اس کو یہ درجہ کہاں سے ملا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ ولیم کے دل میں نیک تحریکیں کرنے لگا.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ مجھے ایک تحریکیں کرتا ہے.پس یہ معنے اس کے بالبداہت غلط ہیں.اور اس کے اور ہی معنے ہیں جو یہ ہیں کہ وہ عام اثرات شیطان کے جو ہر ایک انسان پر پڑ رہے ہیں اور جن سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب شیطان کا کوئی ایسا اثر مجھ پر آکر پڑتا ہے تو وہ نیکی ہو جاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے گندہ پانی جب فلٹر میں سے گزرتا ہے تو صاف ہو جاتا ہے اسی طرح رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم پر آکر جو بُرا اثر پڑتا وہ آپ کے ذریعہ نیک ہو جاتا.یا اس کی مثال گنے پیلنے والے بیلنے کی ہے کہ جب اس میں گنا رکھا جاتا ہے.تو رس ایک طرف نکل آتی ہے اور چھلکا دوسری طرف گر پڑتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی ایسی بات پڑتی جو پاک نہ ہوتی اس کی ناپاکی علیحدہ ہو جاتی اور باقی پاک رہ جاتی اور اسی کا نام آپ نے یہ رکھا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے.غرض شیطانی تحریکوں کو بھی نیک استعمال کیا جا سکتا ہے.اب میں آخری بات بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ فرشتہ کی تحریک کو بڑھا یا کس طرح جا سکتا ہے اس کے لئے دیکھنا چاہئے کہ قانونِ قدرت میں ہر ایک چیز کے بڑھانے کا اصل قاعدہ کیا ہے ؟ ادنی تدبیر سے معلوم ہو گا کہ وہ قاعدہ یہی ہے کہ اسے عمدگی سے استعمال کیا جائے.دیکھو جو لوگ ابتداء میں ذرا ذرا سنکھیا کھانا شروع کرتے ہیں.آخر تو لہ تولہ کھا کر مہضم کرلیتے ہیں.کوئی دوسرا اگر تھوڑا بھی سنکھیا کھالے تو اس کی جان نکل جائے.مگر وہ چونکہ بڑھاتے بڑھاتے اپنی عادت بنالیتے ہیں اس لئے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا.اسی طرح جسم کی طاقت ہے.جو لوگ ہا تھوں سے زور کا کام کرتے ہیں ان کے ہاتھ موٹے اور مضبوط ہو جاتے ہیں.جو لوگ زیادہ کھانے کی عادت ڈالتے ہیں وہ چار چار پانچ پانچ آدمیوں کی خوراک اکیلے کھا جاتے ہیں.تو جتنا کسی چیز کا زیادہ استعمال کیا جائے تنی ہی وہ زیادہ بڑھتی ہے.یہی حال فرشتے کی تحریک کا ہوتا ہے.جتنی اس کی تحریک انسان زیادہ قبول کرتا جائے اور اس کو استعمال میں لائے اتنی ہی زیادہ فرشتے کی تحریک زیادہ جذب کی جاسکتی ہے.یہاں ند

Page 575

علا نكتة الله ۵۵۵ ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جسمانی امور میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی زیادہ کھائے گا تو چار پانچ یا زیادہ سے زیادہ آٹھ دس آدمیوں کی خوراک کھا لے گا سو یا ہزار آدمی کی خوراک نہیں کھائے گا.کیا اسی طرح فرشتوں کی تحریک کے متعلق بھی کوئی حد مقرر ہے کہ اس سے زیادہ قبول نہیں کر سکتا.یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مقابلہ صحیح نہیں ہے.کیونکہ انسان کا جسم چند روز کے لئے ہے اور سم اور روح کا مقابلہ دلالت بالاولیٰ کے طور پر ہے نہ کہ کلی طور پر جسم چونکہ تھوڑے عرصہ کے لئے ہے اس لئے اس کی قوتیں محدود ہیں.مگر روح چونکہ ہمیشہ کے لئے ہے.اس لئے اس کی طاقتیں بھی غیر محدود ہیں.اور روح کو خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جتنا کوئی اسے بڑھائے بڑھتا جاتا ہے اور جتنی انسان ترقی کرنا چاہیے اتنی ہی کر سکتا ہے.پس روحانی طاقت نے چونکہ ہمیشہ کام آنا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے بڑھانے کے غیر محدود ذرائع رکھے ہیں.اور جسمانی طاقت چونکہ ختم ہونے والی ہے کیونکہ جسم کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کی طاقتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں اس لئے ان کے بڑھانے کے محدود ذرائع رکھے گئے ہیں.اس کا ثبوت ہم خدا تعالیٰ کی پیدائش سے دیتے ہیں.یہ ثابت شدہ بات ہے کہ تمام جسمانی طاقتیں ایسی ہیں جو محدود ہیں.ایک حد تک بڑھ سکتی ہیں اور اس سے آگے نہیں جاسکتیں مثلا معدہ ہے.یہ ایک حد تک بڑھے گا اس سے آگے نہیں.اسی طرح سینہ ہے یہ بھی ایک حد تک بڑھے گا.اسی طرح سر ہے اس کے بڑھنے کی بھی ایک حد ہے.یہ نہیں کہ بڑھتے بڑھتے مشکے کے برابر ہو جائے یا قد ہے چھ سات یا زیادہ سے زیادہ نوفٹ ہو جائے گا.مگر میں پچیس فٹ تک نہیں جاسکے گا.تو جس قدر جسمانی چیزیں ہیں ان کی حد مقرر ہے.لیکن وہ قوتیں جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں.مثلاً دماغ میں باتوں کو محفوظ رکھنے کے ذرات ہیں ان کو جتنا بڑھاؤ بڑھتے جاتے ہیں اور خواہ کوئی کتنا بڑا عالم ہو جائے اس کے یہ ذرات ختم نہیں ہو جائیں گے.اور یہ طاقت بڑھتی جائے گی کیونکہ یہ روحانیت سے تعلق رکھتی ہے.اور جسم اور روح کا واسطہ دماغ ہی ہے.مگر معدہ وغیرہ کے لئے یہ بات نہیں ہے.تو فرشتوں کی تحریک سے انسان جتنا زیادہ کام لیگا طاقت اتنی ہی زیادہ بڑھتی جائے گی.دوسری بات جو قرآن سے معلوم ہوتی ہے وہ ایک عام قاعدہ ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ •

Page 576

۵۵۶ بالا نكته الله انوار العلوم جلد ۵ کند هم جنس باہم جنس پرواز " جو ہم جنس ہو جاتے ہیں ان کو آپس میں تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اس قاعدہ کے ماتحت جو لوگ ملائکہ کی طرح ہو جاتے ہیں ان کے لئے ملائکہ کے فیوض بھی بڑھتے جاتے ہیں.ملائکہ کی صفت خدا تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ لا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم :) وہ خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے.جو حکم بھی انہیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں.جب کوئی شخص اسی صفت کو اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ ملائکہ کا تعلق ہو جاتا ہے.کوئی کسے یہ تو بڑے لوگوں کا کام ہے چھوٹے درجہ کے لوگ کیا کریں لیکن ایسے لوگوں کے لئے بھی کچھ ذرائع ہیں.ان ذرائع کو بیان کرتے ہوئے میں سب سے پہلے اس ذریعہ کو لیتا ہوں جو حضرت میسج موعود نے فرمایا ہے.پہلا ذریعہ جو حضرت صاحب نے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ میں انسان پر جبرئیل نازل ہو اس کے پاس بیٹھنے سے یہ بات حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی آنکھوں سے ، اس کے ہاتھوں سے، اس کے ناک سے ، اس کے منہ سے ، غرض کہ اس کے جسم کے ہر ذرے سے ایسی نورانی شعاعیں نکلتی ہیں جو قلوب پر اثر کرتی ہیں اور اس طرح ملک انسان پر بالواسطہ نازل ہوتا رہتا ہے.قرآن کریم سے اس کے متعلق اس طرح استدلال ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ (التوبة: 119 صادقوں کے ساتھ مل جاؤ.اس کا یہی مطلب ہے کہ صادقوں سے ایسا تعلق پیدا کرو کہ جبرئیل کا جو اثر ان پر ہوتا ہے اس سے تمہیں بھی سہارا مل جائے.ایک گرے ہوئے کے اُٹھانے کا کیا ذریعہ ہے یہی کروہ دوسرے کو پکڑ کر اور اس کا سہارا لے کر گھڑا ہو جائے.الیسا ہی جبرائیل جس پر نازل ہوتا ہو اس کا سہارا لے کر ایسے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں.دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور یہ بھی قرآن سے معلوم ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبي.ياتيها الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تسليما (الاحزاب : ۵۷) اللہ اور اس کے ملائکہ اس نبی پر ہر وقت برکتیں بھیج رہے ہیں اور جب وہ برکتیں تحریں.تو مؤمنو ! تمہارا بھی یہ کام ہے کہ تم بھی برکتیں بھیجو.اس کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ یہ بات بیشک مانی کہ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم ہے.مگر یہ کس طرح معلوم ہوا ہے کہ اس کے نتیجہ مں ملائکہ سے تعلقی ہو جاتا ہے.اس کا ثبوت قرآن سے ہی ملتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : يَا نَيْهَا الَّذِينَ

Page 577

انوار العلوم جلد ۵ مل نكتة الله امَنُوا ذَكَرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاه هُوَ الَّذِي يُصَلَّى علَيْكُمْ وَمَلَئِكَتُهُ لَيَخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ (الاحزاب : ۲۲ - ۴۳) اے مومنو ! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو.اور صبح شام تسبیح کرو.وہ خدا ہی ہے اور اس کے ملائکہ جو تم پر درود بھیجتے ہیں.تاکہ تم کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جاویں.ایک جگہ تو حکم دیا ہے کہ چونکہ خدا اور ملائکہ اس نبی پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو.اور دوسری جگہ یہ فرمایا کہ خدا اور ملائکہ تم پر درود بھیجتے ہیں.پہلی آیت کے مطابق یہاں بھی یہ چاہئے تھا کہ چونکہ خدا اور ملائکہ تم پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی ایک دوسرے پر درود بھیجو لیکن یہ نہیں کہا گیا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہلی بات مستقل حکم کا رنگ رکھتی تھی یعنی چونکہ خدا اور ملائکہ اس رسول پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو.اور دوسری آیت میں اس فعل کی جزاء بتائی کہ چونکہ تم نے اس حکم کی تعمیل کی اس لئے اس کی جزاء میں خدا اور رسول ان پر بھیجنے لگ گئے.گویا وہاں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صلی درجہ کی وجہ سے درود کا حکم دیا گیا تھا.اور یہاں اس کی جزاء کو بیان کیا گیا ہے اور چونکہ جزاء کے بدلے میں پھر اور حکم نہیں دیا جاتا اس لئے آگے یہ نہیں فرمایا کہ تم دوسرے بندوں پر بھی درود بھیجو مثلاً جب ہم روپیہ دے کر کپڑا خریدیں تو کپڑا دینے والا یہ نہیں کہ سکتا کہ میں نے جو کپڑا دیا ہے اس کا تم نے کوئی بدلہ نہیں دیا.تو پہلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.چونکہ خدا اور ملائکہ اس رسول پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو.مگر مؤمنوں کے لئے کیسی فرمایا کہ ہم اور ملائکہ ان پر درود بھیجتے ہیں.اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی اپنے بھائیوں پر درود بھیجو.غرض اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ملا کہ کیسا تھے تعلق ہو جاتا ہے.پس جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں گے ان کی ملائکہ سے ایک نسبت ہو جائے گی اور اس طرح ان سے تعلق ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ صلحاء نے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کو بڑا اعلیٰ عمل قرار دیا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ دعا جس میں خدا کی حمد اور مجھ پر درود نہ ہو وہ دُعا قبول نہیں ہوگی رسنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب الدعاء ) اس کا بیٹی طلب ہے کہ جس دعا میں خدا تعالی کی حمد اور رسول کریم صلی الہ علیہ سلم پر درود ہوگا وہ زیادہ قبول ہوگی.یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں جو چیزیں ایک طرح کی ہوتی ہیں ان کا آپس میں بہت تعلق ہوتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِينَ لَنَزَلْنَا عَلَيْهِمْ منَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولاً ربنی اسرائیل :۱۲) اگر دنیا میں ملائکہ ہوتے تو ہم بھی فرشتے رسول بناکر نازل

Page 578

انوار العلوم جلد ۵ ۵۵۸ حالا نكتة الله کرتے.گو یا خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر لوگ ترقی کرتے کرتے ملانکہ ہو جاتے تو ہم ان پر ملائکہ ہی نازل کرتے.یعنی ملائکہ جیسے ہونے سے وہ نازل ہوتے ہیں.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انسان ملائکہ جیسا کس طرح ہوتا ہے ؟ اول طریق ملائکہ سے مشابہت حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کا پیغام دنیا کو پہنچایا جائے.اللہ تعالیٰ ملائکہ سے فرماتا ہے.فَإِذَا سَوَيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ روحي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ (الحجر: ۳۰) یعنی اسے فرش تو جب میں انسان کو پیدا کروں ! اس کی پوری طرح فرمانبرداری کرو.گویا نبی کے ساتھ ہونا اور اس کے مشن کی تبلیغ کرنا ملائکہ کا کام ہے.اب جو شخص نبی کے ساتھ ہو جائے گا اور تبلیغ کرے گا وہ چونکہ ملانکہ جیسا کام کرے گا.اس لئے انہی کی طرح کا ہو جائے گا اور جب وہ ایسا ہو جائے گا تو ملائکہ اس سے انس کرنے لگیں گے اور اس سے تعلق پیدا کر لیں گے.دوسرا طریق جو ملائکہ سے مشابہت پیدا کرنے سے ہی تعلق رکھتا ہے یہ ہے کہ توحید کی اشاعت کی جائے.کیونکہ خدا تعالیٰ ملائکہ کے متعلق فرماتا ہے کہ شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ والمنتَكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (ال عمران: (1) اللہ ک توحید کی خدا بھی گواہی دیتا ہے اور ملائکہ بھی.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی تو حید کی اشاعت کرنا بھی ملائکہ کا ایک کام ہے اور جو اس کام کو کرتے ہیں وہ بھی ان سے برکت حاصل کر سکتے ہیں.اور ہم تو یہاں تک دیکھتے ہیں کہ جو لوگ جھوٹے طور پر خدا کی واحد نیت کی اشاعت کرتے ہیں وہ بھی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.ہندوستان میں رام موہن رائے اور پنڈت دیا نند کی قوموں کو جتنی ترقی ہوئی اتنی دوسرے ہندوؤں کو نہیں ہوئی.وجہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں خدا کی توحید کے قائل ہیں اور اس کی اشاعت کرتے ہیں.پس توحید الٹی کے متعلق غیرت رکھنے والا انسان بہت بڑی برکات ملائکہ سے پا لیتا ہے.به تیسرا طریق : ملائکہ سے مشابہت حاصل کرنے کی تیری تدبیر یہ ہے کہ انسان کے قلب میں یہ تحریک ہو کہ عفو اور درگزر کو قائم کرے اور بدلنی کو ترک کرے.جتنی یہ عادت زیادہ ہوگی.اتنی ہی ملائکہ کی تحریک زیادہ ہوگی.دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا اور عفو سے کام لینا ملائکہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے : وَ َیسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ مَنُوا (المومن :) ملا کہ مومنوں کے گناہوں کے لئے معافی مانگتے ہیں.جو انسان اپنے اندر اس صفت کو زیادہ پیدا

Page 579

انوار العلوم جلد ۵ ۵۵۹ ملائكة الله کر لیتا ہے اس کا تعلق ملائیکہ سے ہو جاتا ہے اور رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے ملائکہ اس کے لئے دعا کرتے ہیں.پس لوگوں کے گناہوں کو معاف کرنا اور غیظ و غضب کا مبتلا نہ بننا فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.چوتھا طریق جو ملائکہ سے مشابہت پیدا کرنے کی چوتھی دہر ہے.یہ ہے کہ انسان تسبیح و تحمید کرے.خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو یہ کام بتایا ہے کہ وَتَرَى الْمَلَئِكَةَ حَاذِيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمُ (الزمر: 4) کہ وہ خدا کی تسبیح اور حمد کرتے ہیں ہیں تسبیح و تحمید کرتے والے کا بھی ملائکہ سے خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اس کا ثبوت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ملتا ہے.فرماتے ہیں.جہاں کوئی خدا کا ذکر کر رہا ہوتا ہے وہاں ملائکہ نازل ہوتے ہیں.اس کے متعلق یہ بھی یاد رکھو کہ بالعموم میں قرآن سے استدلال کرتا ہوں اور وہی بات حدیث میں مل جاتی ہے.جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن سے اخذ کر کے یہ باتیں فرماتے تھے.ہاں آپ کا علم چونکہ بہت وسیع اور نہایت کامل تھا اس لئے آپ زیادہ اعلیٰ طور پر ان باتوں کا اخراج کرلیتے تھے.يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ سے میں نے تسبیح کرنا ملائکہ کا کام بتایا تھا اور حدیث سے یہ معلوم ہو گیا کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں انہیں ملائکہ سے مشابہت پیدا ہو جاتی ہے اور ان سے تعلق ہو جاتا ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہاں خدا کا ذکر ہو رہا ہو وہاں فرشتے نازل ہوتے ہیں.یعنی اس جگہ اپنا فیضان نازل کرتے ہیں.چند سال ہوئے میں نے ذکر الٹی پر تقریر کی تھی اس کے متعلق ایک صاحب نے جو غیر احمدی تھے اور ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے بتایا کہ میں فرشتوں کے فیضان کی زندہ شہادت ہوں.ان دنوں میری آنکھیں بیمار تھیں اور میں اس دن بڑی مشکل سے دوسروں کے ذریعہ جلسہ گاہ میں گیا تھا لیکن تقریر سننے کے بعد میری آنکھیں اچھی ہو گئیں اور میں خود واپس آگیا.پھر ایک تو ذکر مری ہوتا ہے کہ انسان الگ بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی تسبیح کرے اور ایک جہری ذکرہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو جاکر بنائے اور ان کو تبلیغ کرے.یہ دونوں ذرائع ایسے ہیں جن کو اختیار کر کے انسان ملائکہ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے.پانچواں طریق یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اس سے بھی ملائکہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے.عه مسلم كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل مجالس الذكر مسلم - كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل الدعاء بظهر الغيب

Page 580

انوار العلوم جلد ۵ 04.چنانچہ رسول کریم صل اللہ علیہ سلم فرماتے ہیں.جہاں قرآن پڑھا جائے وہاں ملائکہ نازل ہوتے ہیں یہ پس یہ بات یاد رکھو کہ جو کام بھی ملک کرتا ہے جب وہی کام انسان کرے گا تو اس سے ملائکہ کا تعلقی پیدا ہو جائے گا.چھٹ طریق.جو کتا ہیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے.یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں.اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے.براہین احمدیہ خاص فیضان الہی کے ماتحت لکھی گئی ہے.اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لے کر پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں.دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نجمتے گھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے.تو حضرت صاحب کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں.ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.اور ان کے ذریعہ نئے نئے علوم گھلتے ہیں.دوسری اگر کوئی کتاب پڑھو تو اتنا ہی مضمون سمجھ میں آئے گا.جتنا الفاظ میں بیان کیا گیا ہوگا مگر حضرت صاحب کی کتا بیں پڑھنے سے بہت زیادہ مضمون گھلتا ہے.بشرطیکہ خاص شرائط کے ماتحت پڑھی جائیں.اس سے بھی بڑھ کر قرآن کریم کے پڑھنے سے معارف کھلتے ہیں اگر چہ ان شرائط کا بتانا جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنی چاہئیں اس مضمون سے بے تعلقی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں مگر پھر بھی ایک شرط کا ذکر کر دیتا ہوں.اسی وقت دوسری چیز داخل ہوسکتی ہے جبکہ پہلی نکال دی جائے.مثلاً ایک جگہ لوگ بیٹھے ہوں تو جب تک وہ نہ نکلیں تب تک اور آدمی نہیں آسکتے.اس کے سوا نہیں پس حضرت صاحب کی کوئی کتاب پڑھنے سے پہلے چاہئے کہ اپنے اندر سے سب خیالات نکال دیئے جائیں اور اپنے دماغ کو بالکل خالی کر کے پھر ان کو پڑھا جائے.اگر کوئی اس طرح ان کو پڑھے گا تو بہت زیادہ اور صحیح علم حاصل ہوگا.لیکن اگر اپنے کسی عقیدہ کے ماتحت رکھ کر ان کو پڑھے گا تو یہ نتیجہ نہ نکلے گا.پس حضرت صاحب کی کتا میں بالکل خالی الذین ہو کر پڑھنی چاہئیں.اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اسے ساتواں طریق ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا یہ ہے کہ جس مقام پر ملائکہ کا خاص نزول ہوا ہو.عه بخاری کتاب فضائل القرآن باب نزول السكينة والملائكة عند قراءة القرآن )

Page 581

انوار العلوم جلد 041 بلا نكتة الله انسان وہاں جائے.اس سے پہلے میں بتا چکا ہوں کہ جس انسان پر جبرئیل اور ملائکہ نازل ہوں اس کے پاس بیٹھنے سے فیضان حاصل ہوتا ہے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس جگہ ملائکہ خاص طور پر نازل ہوں وہاں جانے سے بھی ملائکہ کا خاص نزول ہوتا ہے.چنانچہ اس قاعدہ کے ماتحت نماز جمعہ میں جانا بہت مفید ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ہے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے جو لوگ مسجد میں جاتے ہیں ملائکہ ان کے نام لکھتے ہیں اور جب خطبہ شروع ہو جاتا ہے تو پھر نہیں لکھتے.دسند احمد بن خلیل جلد ۲ صفحہ ۲۳۹) تو نماز جمعہ میں باقاعدہ اور بار بار جانے سے ملائکہ سے تعلق اور مؤانست پیدا ہو جاتی ہے اور ان سے فیوض حاصل ہو سکتے ہیں.آٹھواں طریق ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خلیفہ کے ساتھ تعلقی ہو.یہ بھی قرآن - ثابت ہے.جیسا کہ آتا ہے.وَقَالَ لَهُمُ نَبِتُهُمْ إِنَّ ايَةَ مُلَكَةٍ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّالُوتُ فِيْهِ سَكِينَةٌ مِنْ تَتِكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ المُوسَى وَال هَرُونَ تَحْمِلُهُ المليكة والبقرة :۲۲۹) کہ ایک زمانہ میں ایک نبی سے لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے اپنا ایسا جانشین مقرر کر دیجئے جس سے ہم دنیاوی معاملات میں مدد حاصل کریں.لیکن جب ان کے لئے ایک شخص کو جانشین مقرر کیا گیا تو انہوں نے کہ دیا اس میں وہ کون سی بات ہے جو ہمارے اندر نہیں ہے جیسا کہ اب پیغامی کہتے ہیں.نبی نے کہا.آؤ بتائیں اس میں کون سی بات ہے جو تم میں نہیں اور وہ یہ کہ جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے ان کو فرشتے تسکین دیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ خلافت کیسا تھے وابستگی بھی ملائکہ سے تعلق پیدا کراتی ہے کیونکہ بتایا گیا ہے کہ ان کے دل فرشتے اُٹھائے ہوئے ہوں گے تابوت کے معنے دل اور سینہ کے ہیں.فرمایا خلافت سے تعلق رکھنے والوں کی یہ علامت ہو گی کہ ان کو تقی حاصل ہوگی اور پہلے صلحاء اور انبیاء کے علم ان پر ملائکہ نازل کریں گے.پیس ملائکہ کا نزول فات سے وابستگی پر بھی ہوتا ہے.ایک سوال کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر رسول کے ساتھ ہر وقت جبرئیل ہوتا ہے تو پھر وہ کوئی غلطی کیوں کرتے ہیں.اس کا جواب حضرت صاحب نے دیا ہے کہ جان کر نبی کی آنکھ بعض اوقات بند رکھی جاتی ہے اور اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہوتی ہیں.یہ وہ ذرائع ہیں.جن سے ملائکہ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بعض ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے تعلق کم بھی ہو جاتا ہے.مثلاً وہ امور جوان امور کے مخالف ہوں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ظاہری طہارت کا بھی فرشتوں کے تعلق سے بڑا تعلق ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

Page 582

انوار العلوم جلد ۵ ۵۶۲ ہے کہ اگر کوئی انسان اس حالت میں سوتا ہے کہ اسے غلاظت لگی ہوئی ہے اور شیطان اسے چھیڑے تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرے.پھر فرمایا فرشتے بھی ان چیزوں سے نفرت رکھتے ہیں جن سے انسان نفرت کرتا ہے.پھر فرمایا کتوں سے کھیلنا بھی فرشتوں کی رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے اور تصویر کے متعلق فرمایا کہ جو لوگ اپنے گھروں میں تصویریں لگاتے ہیں ان کے گھروں میں فرشتے داخل نہیں ہوتے پھر بدبودار چیزوں مثلاً پیاز وغیرہ کان یا کھانا کھانے کے بعد منہ صاف نہ کرنا اور کھانے کے ریزوں کا منہ میں سٹر جانا اس قسم کی غلاظتوں میں ملوث ہونے والوں کے ساتھ بھی فرشتے تعلق نہیں رکھتے.اسی ذیل میں حقہ پینے والے بھی آگئے.حقہ پینے والے کو بھی صحیح الہام ہونا نا ممکن ہے.آخر میں میری یہ دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو ملائکہ کے ذریعہ مدد دے اور اس میں کامیاب کرے جس لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں اور اس کی طرف سے جو تعلیم آئی ہے اس کو اپنے نفس پر قائم کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق دے.ہماری تمام غلطیاں اور کمزوریاں معاف کرے ہیں نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر چلائے ہر میدان میں ہمیں غلبہ دے.ہر جگہ اور ہر موقع پر ہماری نصرت اور تائید فرمائے اور ہر مقام پر ہمارے دشمنوں کو ذلیل اور نا کام کرے اور ہمیں دینی اور دنیوی آفتوں سے بچائے.آمین.اس تقریر کے بعد مارچ میں انہوں نے ایک ٹریکٹ مباہلہ کے متعلق شائع کیا ہے مگر وہ بھی ہمارے اشتہار کے جواب میں نہیں بلکہ اپنی جھوٹی فتح کے اظہار میں.شاید کسی کے دل میں یہ مشبہ گزرے کہ ملائکہ تو خدا تعالیٰ سے فیضان حاصل کر کے انسان کو پہنچاتے ہیں.شیطان کسی سے فیضان حاصل کرتا ہے اور پھر اس کا اثر لوگوں پر ڈالتا ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسروں کو دینے والے کے لئے ذخیرہ اور خزانہ کی ضرورت ہوتی ہے.چھیننے والے کو کسی ذخیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی.شیطان کا کام چونکہ کس کو کچھ دینا نہیں بلکہ چھیننا ہے اس لئے اسے ذخیرہ اور خزانہ کی بھی ضرورت نہیں ہے اور نہ وہ کسی سے فریمان حاصل کرتا ہے.عاد سنن ابي داؤد كتاب الطهارة باب الجنب يؤخر الغسل : عنه موطا امام مالک صفحه ۷۲۶

Page 583

ہدایات زرین (مبلغین کو ہدایات) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 584

Page 585

انوار العلوم جلد ۵ ۵۶۵ ندرین مبلغین کو ہدایات (۲۶ جنوری ۹۳ ه بعد نماز عصر بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مبلغین جماعت احمدیہ ، مبلغین کی کلاس کے طلباء ، مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طلباء اور افسران صیفہ جات کے سامنے حسب ذیل تقریر فرمائی.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ) تبلیغ کے طریقوں پر غور کرنا ہم چونکہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اور ذمہ داریوں کے علاوہ اس ذمہ داری کا اُٹھانا بھی ضروری قرار دیا ہوا ہے کہ ساری دنیا کو ہدایت پہنچائی جائے اور ہر مذہب ، ہر ملت، ہر فرقہ اور ہر جماعت کے لوگوں کو ہدایت کی جائے اس لئے ہمارے لئے تبلیغ کی ضروریات پر غور کرنا اور اس کے لئے سامان بہم پہنچا نا نہایت ضروری معاملہ ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس معاملہ پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کہ تبلیغ کن ذرائع سے کرنا زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اور کن طریقوں کو کام میں لانے سے اعلیٰ نتائج نکل سکتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں سال سے زیادہ عرصہ ہمارے سلسلہ کو تبلیغ شروع کئے ہوئے ہوا ہے مگر اس وقت تک وہ نتائج پیدا نہیں ہوئے جن کے پیدا ہونے کی امید ان صداقتوں کی وجہ سے کی جاسکتی ہے جو ہمارے پاس ہیں.مفید اور اعلیٰ نتائج دو ہی طرح پیدا

Page 586

ہوا کرتے ہیں یا تو طاقت ور ہاتھ ہوں، مضبوط بازو ہوں یا اعلیٰ درجہ کے اور مضبوط ہتھیار ہوں اور اعلیٰ درجہ کا نتیجہ اسی طرح نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حاصل ہوں ورنہ اگر طاقتور ہاتھ ہوں لیکن ہتھیار ناکارہ اور کمزور ہوں تو بھی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا اور اگر ہتھیار اعلیٰ درجہ کے ہوں لیکن ہا تھوں میں طاقت نہ ہو تو بھی بہتر نتیجہ نہیں رونما ہو سکتا مثلا اگر ایک کمزور شخص ہو وہ اعلیٰ درجہ کی تلوار لے کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو جائے تو مار ہی کھائے گا.یا طاقتور انسان ہو مگر خراب اور ناقص بندوق لے کر کھڑا ہو جائے تو بھی شکست ہی کھائے گا پس مفید اور اچھا نتیجہ اس صورت میں نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں بائیں حاصل ہوں ہاتھوں میں طاقت اور قوت بھی ہو اور کام کی مشق ہو اور ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے ہوں.متوقع نتائج کیوں نہیں نکل رہے؟ اب نہیں دیکھنا چاہئے کہ جس نتیجہ کے نکلنے کی ہمیں امید ہو سکتی ہے وہ اگر نہیں نکلتا تو ان دونوں چیزوں میں سے کون سی چیز ہے جس میں کمی ہے.آیا ہمارے پاس ہتھیار ایسے ناقص ہیں کہ ان سے کام نہیں لیا جا سکتا؟ یا ہتھیار تو املی درجہ کے ہیں مگر ہم ایسے نہیں ہیں کہ ان سے کام لے سکیں.یا دونوں باتیں نہیں ہیں.ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے نہیں ہیں اور ہم بھی اس قابل نہیں کہ کام کرسکیں.جب ہم غور کرتے ہیں تو اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں رہتا کہ ہتھیار تو ہمارے پاس اعلیٰ درجہ کے ہیں.کیونکہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ جو دلائل ہمارے پاس ہیں وہ بہت مضبوط اور زبردست ہیں.خصوصاً حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جو دلائل اور براہین نہیں پہنچے ہیں ان کی قوت اور طاقت کا اعتراف دشمن بھی کرتے ہیں.اس بات کی موجودگی میں اور پھر اس بات کے ہوتے ہوئے کہ ہم شواہد اور دلائل کے ساتھ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے.پھر اعلیٰ درجہ کے نتائج کا نہ نکلنا بتاتا ہے کہ ہم میں ہی نقص ہے ورنہ اگر ہم ان ہتھیاروں کو عمدگی کے ساتھ چلانے والے ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اعلیٰ درجہ کے نتائج نہ پیدا ہوں.پس می ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیار چلانے والے اچھے نہیں ہیں اور انہیں ہتھیار چلانے کا فن نہیں آتا.چونکہ نیا سال شروع ہو رہا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ دوستوں کو جمع کرکے میں اس مضمون پر کچھ بیان کروں کہ کس طرح تبلیغ کے عمدہ نتائج نکل سکتے ہیں.

Page 587

انوار العلوم جلد ۵ 844 مازرین مخاطبین اس مجلس میں میں نے ایک تو ان لوگوں کو بلایا ہے جو تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور دوسرے ان کو بلایا ہے جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں تاکہ ابھی سے ان کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں اور ان کے دلوں پر نقش ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان کہنے کا ارشاد فرمایا ہے تاکہ پہلے دن ہی اس کے کان میں خدا کا نام پڑے تو میں نے اس لئے کہ جو مبلغ بننے والے ہیں ان کے دلوں میں ابھی سے یہ باتیں بیٹھ جائیں ان کو بھی بلایا ہے یہ بھی اس وقت میرے مخاطب ہیں.پھر میرے مخاطب منتظمین ہیں جنہوں نے مبلغین سے کام لینا ہے.کیونکہ جب تک انہیں ان باتوں کا علم نہ ہو وہ کام نہیں لے سکتے تو اس وقت میرے مخاطب تین گروہ ہیں اول وہ جو کام کر رہے ہیں.دوسرے وہ جو اس وقت تو کام نہیں کر رہے.لیکن دو تین سال کے بعد کام کرنے والے ہیں اور تمیرے وہ جنہوں نے کام لینا ہے.مخاطبین کی پہلی قسم پھر اس وقت میرے سامنے تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ جن کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے جیسے طالب علم جو آئندہ کام کرنے والے ہیں ہی جیسے طالب جو ان کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے.اور ان کی مثال ایسی ہے جیسی کہ کنویں کے مینڈک کی ایک مثل بیان کی جاتی ہے کہ کوئی کنویں کا مینڈک تھا وہ سمندر کے مینڈک سے ملا اور پوچھا بتاؤ سمندر کنا بڑا ہے.سمندر کے مینڈک نے کہا بہت بڑا ہوتا ہے.اس نے کہا گیا کنویں جتنا کہا.نہیں بہت بڑا ہوتا ہے.اس پر کنویں کے مینڈک نے ایک چھلانگ لگائی اور کہا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے.اس نے کہا نہیں یہ کیا ہے وہ بہت بڑا ہوتا ہے.اس پر کنویں کے مینڈک نے دو تین اکٹھی چھلانگیں لگا کر پوچھا اتنا بڑا.اس نے کہا یہ کیا بے ہودہ اندازہ لگاتے ہو سمندر تو بہت بڑا ہوتا ہے.کنویں کے مینڈک نے کہا تم بہت جھوٹے ہو اس سے بڑا کیا ہو سکتا ہے.میں تم جیسے جھوٹے کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا.تو طالب علموں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے.ان کو اگر ایک بات بھی مل جاتی ہے اور استاد سے کوئی ایک دلیل بھی سن لیتے ہیں تو کہتے ہیں اسی دلیل کو لے کر کیوں لوگ نہیں نکل جاتے اور ساری دنیا کو کیوں نہیں منوا لیتے.اس کی کیا تردید ہوسکتی ہے اور کون ہے جو اس کو توڑ سکتا ہے.حالانکہ مختلف طبائع مختلف دلائل کی محتاج ہوتی ہیں.اور مختلف لیاقتوں کے دشمنوں کے مقابلہ میں مختلف ذرائع کو اختیار کرنا پڑتا ہے.اگر ایک دلیل ایک قسم کے پانچ ہیں عة ترمذی کتاب الاضاحي باب الاذان في أذن المولود

Page 588

انوار العلوم چند ۵ ۵۶۸ ہدایات زرین آدمیوں کے لئے مفید ہوتی ہے تو سینکڑوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.وہ بعض اور قسم کے دلائل کے محتاج ہوتے ہیں پس مبلغ کے لئے ایک نہ ختم ہونے والے خزانہ کی ضرورت ہوتی ہے.تو بعض لوگوں کے خیالات بالکل محدود ہوتے ہیں.وہ ایک دلیل کو لے لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ ایسی دلیل ہے کہ اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور یہ سب کے لئے کافی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے.پھر یا ایسے لوگوں کی مثال ان بچوں کی سی ہے جو گاؤں میں رہتے ہیں اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ بیریوں کے درختوں کے سرے سے بیر کھا چھوڑے یا جانوروں کے لئے چارہ لے آئے یا جانوروں کو باہر چرالائے.انہوں نے نہ کبھی کوئی شہر دیکھا ہوتا ہے نہ ریل اور تار سے واقف ہوتے ہیں اور جب کوئی ان کے متعلق انہیں باتیں سناتا ہے تو وہ اس طرح سنتے ہیں جس طرح کہانیاں سنی جاتی ہیں.اس سے زیادہ دلچسپی ان کو نہیں ہوتی اور نہ کوئی اثر ان پر پڑتا ہے.ان بچوں میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کے قلب پر یہ اثر پڑتا ہے کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو ان چیزوں کو دیکھیں گے ورنہ سب ان باتوں کو سن کر اسی طرح مطمئن ہو جاتے ہیں جس طرح قصوں اور کہانیوں کو سننے کے وقت ہوتے ہیں.کہانیاں سن کر انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ جن باتوں کا ان میں ذکر ہے ان کو ہم دیکھیں اور معلوم کریں.یہی حال طالب علموں کا ہوتا ہے.اور ایسے ہی لوگوں کا جن کے خیال وسیع نہیں ہوتے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک نکتہ سے وہ سب مباحثات میں فتح پائیں گے.وہ حیران ہوتے ہیں کہ دشمن کی فلاں دلیل کو توڑنا کون سی مشکل بات ہے.ہما ر ہے استاد نے یا فلاں مولوی صاحب نے جو بات بتائی ہے اس سے فوراً اسے رد کیا جا سکتا ہے.اور دشمن کو اپنی بات منوانے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے.وہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو ایک غلط اور نا درست بات بھی ایسے طور پر پیش کر سکتے ہیں کہ عوام کو درست ہی معلوم ہو یا ایک ایک بات میں اعتراض کے کئی ایسے پیلو نکالے جا سکتے ہیں جن کی طرف پہلے ان کا خیال بھی نہیں گیا ہوتا.دوسری قسم دوسرا گروہ وہ ہے جس کی نظر تو محدود نہیں ہے وہ دنیا میں پھرے ہیں لوگوں سے ملے ہیں مخالفین کے اعتراضات سننے کا انہیں موقع ملا ہے مگر ان کی نظر کی وسعت عرض کے لحاظ سے ہے عمق کے لحاظ سے نہیں.میں نے عورتوں کو کئی دفعہ بڑی حیرت سے یہ کہتے سنا ہے کہ لوگ خدا کا انکار کس طرح کرسکتے ہیں بھلا خدا کی ہستی کا بھی انکار کیا جا سکتا ہے ، مگر ان کو دنیا کا علم نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتیں کہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو حیرت سے پوچھتے ہیں کہ دنیا خدا کو مانتی کیوں ہے ؟ بھلا اس کے ماننے کے

Page 589

انوار العلوم جلد ۵ ۵۶۹ ہدایات زرین لئے بھی کوئی دلیل ہوسکتی ہے.ان عورتوں نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوکر یہ سمجھا کہ خدا کا انکار کوئی کر ہی نہیں سکتا لیکن اگر ان کی نظر وسیع ہوتی اور وہ دنیا کے لوگوں کی حالت سے آگاہ ہوتیں تو پھر وہ حیرت کے ساتھ یہ نہ کہتیں.تو ہمارے مبلغوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کو عرض کے لحاظ سے تو وسعت حاصل ہے مگر ان کے اندر عمق نہیں ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ لوگوں میں مذہبی مسائل میں کتنا اختلاف ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ کیوں ہے ؟ کیوں پیدا ہوا ہے ؟ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کنویں میں جھانک کر دیکھتا ہے کہ اس میں پانی ہے اور اتنی جگہ میں ہے مگر یہ نہیں جانتا که کشتی گری زمین سے جا کر پانی نکلا ہے اور کسی طرح نکلا ہے.تو یہ لوگ دنیا کے اعتراضات سے واقف ہیں، دنیا کے خیالات سننے کا انہیں موقع ملا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں دہریت پیدا ہو رہی ہے ، انہیں علم ہے کہ ایسے لوگ ہیں جو مذاہب کے پیروؤں کو حقیر جانتے ہیں اور مذاہب پر ہنسی اُڑاتے ہیں.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں کیوں لوگوں میں ایسے خیالات پیدا ہو رہے ہیں ؟ کیوں وہ مذاہب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟ تیسری قسم تیسرا گروہ وہ ہے جس کو یہ تینوں باتیں حاصل ہیں.اس کی نظر بھی وسیع ہے، وہ لوگوں کے خیالات کے عرض سے بھی واقف ہے اور ان کے عمق کا بھی علم رکھتا ہے یعنی ان خیالات کے پیدا ہونے کے جو اسباب ہیں ان سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ ظاہری تغیر کے پس پردہ کیا طاقتیں کام کر رہی ہیں.تینوں قسم کے لوگوں کو مخاطب کرنے کی غرض اس وقت جو باتیں میں کہوں گا وہ ان تینوں گروہوں کو مد نظر رکھ کر ہوں گی اور گو بعض کے لئے ان کا سمجھنا مشکل ہو گا.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک گروہ یعنی طلباء کو سنانے کی ہی عرض ہے کہ اس کے کان میں اس قسم کی باتیں پڑتی رہیں اور اس کے دل میں نقش ہوتی رہیں.دوسرے دو طبقوں کے لوگ جو اپنی واقفیت اور تجربہ کی وجہ سے ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں ان کو سنانے کی یہ عرض ہے کہ اگر انہیں معلوم نہ ہوں تو اب واقف ہو جائیں اور اگر معلوم ہوں تو ان پراور غور وفکر کریں اور ان سے اچھی طرح فائدہ اُٹھائیں.

Page 590

انوار العلوم جلد ۵ مبلغ کے معنی اور اس کا کام ہدایات زرین اس تمہید کے بعد میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مبلغ کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا کام ہے ؟ مبلغ کے معنی ہیں پہنچا دینے والا مگر جب ہم یہ لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا که خواہ وہ کچھ پہنچا دے اس کو مبلغ کہا جائے گا.بلکہ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسا شخص جو دوسروں کو اسلام کی تعلیم پہنچائے.آج کل کے مبلغ تو علی مبلغ ہیں.بعض لوگ نبوت خلی پر ہی بحث کر رہے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمارا بھی کچھ فل ہی ظل ہے.ایمان بھی ملتی ہے تبلیغ بھی ملی ہے.کیونکہ پہلے اور اصلی مبلغ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.ان کی وساطت اور ذریعہ سے ہی دوسرے لوگ مبلغ بن سکتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی حقیقی اور اصلی مومن ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.ہم سب خلقی مؤمن ہیں کیونکہ ہم نے مومن بننے کے لئے جو کچھ لیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا ہے.تو حقیقی مبلغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے کس بات کا حکم دیا ہے.خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے.بَلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ جو کچھ تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے.اس کو مد نظر رکھ کر اسلامی مبلغ کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دے اور اگر اس میں کوتاہی کرے تو مبلغ نہیں کہلا سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيكَ مِنْ رَبِّكَ - پہنچا دے جو اتارا گیا ہے تجھ پہر تیرے رب کی طرف سے.وَإِن لَّمْ تَفْعَلُ نَمَا بَلَّغْتَ رِسَلَتَهُ اور اگر تو نے یہ کام نہ کیا توب خدا کا پیغام نہ پہنچایا.اس کے اگر یہ معنی کئے جائیں کہ تو نے خدا کا کلام اگر نہ پہنچایا تو کلام نہ پہنچایا تو کلام بے معنی ہو جاتا ہے.مثلاً کوئی کسے کہ اگر تو نے روٹی نہیں کھائی تو نہیں کھائی یا پانی نہیں پیا تو نہیں پیا.تو یہ لغو بات ہوگی کیونکہ جب روٹی نہیں کھائی تو ظاہر ہے کہ نہیں کھائی.پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تو نے نہیں کھائی یا پانی نہیں پیا تو ظاہر ہے کہ نہیں پیا.پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تو نے نہیں پیا.اس لئے وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُ نَمَا بَلَغْتَ رِسَلَتَهُ (المائدة : ) کے یعنی نہیں ہیں کہ اگر تو نے خدا کا کلام نہیں پہنچایا تو کلام نہیں پہنچایا.بلکہ یہ ہیں کہ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ میں جو وسعت رکھی گئی ہے اس میں سے اگر کوئی بات نہیں پہنچائی اس کا کوئی حصہ رہ گیا ہے تو تجھے جو کچھ پہنچانا چاہئے تھا اسے تو نے گویا بالکل ہی نہیں پہنچایا.کیونکہ وہ کلام بتمام وکمال پہنچا ناضروری تھا.ه المائدة : ۶۸

Page 591

انوار العلوم جلد ۵ 041 ہدایات زرین پس مبلغ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ سارے کا سارا دنیا میں پہنچا دے اور جو حصہ جس کے متعلق ہے اسے پہنچائے.یہ نہیں کہ کسی اور کا حصہ اور ہی کو دے آئے یا بعض کو ان کا حصہ پہنچا دے اور بعض کو نہ پہنچائے.اگر وہ اس طرح کرے گا تو اپنے فرض سے سبکدوش نہ ہوگا.بلکہ اس کا فرض ہے کہ جس جس کا حصہ ہے اس تک پہنچا دے.مثلاً گھروں میں حصے بٹتے ہیں.لوگ نائنوں کو حصہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں گھروں میں دے آؤ.اب اگر نائن گودس حصے پہنچانے کے لئے دیئے جائیں.اور وہ ان میں سے آٹھ تو پہنچا دے.مگر دو نہ پہنچائے تو وہ یہ نہیں کہ سکتی.آٹھ جو پہنچا آئی ہوں اگر دو نہیں پہنچائے تو کیا ہوا ؟ پس جس طرح اس کا آٹھ حصے پہنچا دینا دو کے نہ پہنچانے کے قصور سے اسے بری الذمہ نہیں کر سکتا.اسی طرح مبلغ اگر ہر ایک کو اس کا حصہ نہیں پہنچاتا بلکہ بعض کو پہنچا دیتا ہے تو وہ بری الذمہ نہیں ٹھہر سکتا.اس لئے مبلغ کا فرض ہے کہ اسے جس قدرا ور جس کے لئے جو کچھ دیا گیا ہے اسے پہنچا دے.یہ بھی نہیں کہ سارے کا سارا ایک ہی کو پہنچا دے.مثلاً اگر ایک شخص کے گھر کے پاس جو آدمی رہتا ہو وہ اسے عیسائیوں ، دہریوں، آریوں وغیرہ کے رد کے دلائل پہنچا دے لیکن جن عیسائیوں ، دہریوں یا آریوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہو انہیں یونی چھوڑ دے.تو اس کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے پہنچا دیا.کیونکہ اس کا فرض ہے کہ دہریوں کے رد کے دلائل دہریوں کو بتائے اور عیسائیوں کے رد کے دلائل عیسائیوں کو بتانے اور آریوں کے رد کے دلائل آریوں کو پہنچائے.تو جس طرح کوئی شخص اگر وہ ساری چیزیں نہ پہنچائے جو اسے پہنچانے کے لئے دی جائیں.اور یا ان سب کو نہ پہنچائے جن کے لئے دی جائیں بری انڈ نہیں ہوسکتا.اسی طرح مبلغ ساری باتیں نہ پہنچائے اور جس جس کے لئے ہیں اس کو نہ پہنچائے تو وہ مبلغ ہی نہیں ہو سکتا.مثلاً کوئی اس طرح کرے کہ عیسائیوں میں جائے اور جاکر ان کی تو تعریف کرے اور ان میں سیہودیوں کے خلاف دلائل دینے شروع کر دے یا ہندوؤں میں جائے اور ان کی تو تعریف کرے لیکن عیسائیوں کے خلاف تقریر شروع کر دے یا غیر احمد بلوں میں جائے اور ان کے بگڑے ہوئے عقائد کے متعلق تو کچھ نہ کہے مگر مجوسیوں کے خلاف دلائل دینے شروع کر دے تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نہ وہ اپنے فرض سے سبکدوش سمجھا جائے گا.اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیغامی ہم سے الگ ہوئے ہیں.ان کے لیکچراروں کا طویق تھا کہ غیر احمدیوں میں گئے تو عیسائیوں کے نقص بیان کرنے شروع کر دیئے.ہندوؤں میں گئے تو کسی دوسرے مذہب کی برائیاں بیان کرنے لگ گئے اور ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جو ان کے سامنے ہوتے تعریف کرتے جاتے.گویا وہ کسی کی ٹوپی کسی کو دیتے اور کسی کی جوتی

Page 592

انوار العلوم جلد ۵ ۵۷۲ ہدایات زرین کسی کو پہنچا دیتے.اس کا جو کچھ تیجہ ہوا.وہ ظاہر ہی ہے.جب تک جس قوم میں جو کمزوریاں اور نقائص ہوں وہ اسے بتائے نہ جانیں اس وقت تک کوئی مبلغ نہیں کہلا سکتا.کیونکہ بلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ کے ماتحت ضروری ہے کہ سیودیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو بتائے جائیں، عیسائیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو سنائے جائیں.غیر احمدیوں میں جو نقص ہوں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے اور اپنی جماعت میں جو کمزوریاں ہوں وہ اپنے لوگوں کو بتائی جائیں.ہاں جو مبلغ بنانے اور تیار کرنے والے ہوں ان کا کام ہے کہ ایک ایک شخص کو یہ سب باتیں بتائیں لیکن جو شخص تبلیغ کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جس قوم میں جائے اس کی کمزوریاں اور نقائص اس تک پہنچائے.اگر اس کے سامنے کسی دوسری قوم کی کمزوریوں کا ذکر کرے گا تو یہ بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے ماتحت نہ ہو گا.پس قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ساری صداقتیں پہنچا دینی اور جو جس کا سختی ہے اس کے پاس وہی پہنچا نا مبلغ کا کام ہے.اگر کوئی شخص کسی کو پوری پوری صداقت نہیں پہنچاتا تو وہ مبلغ نہیں ہو سکتا اور اگر کسی کے کام آنے والی صداقت کسی اور کو پہنچا دیتا ہے تو بھی مبلغ نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ پھینکنا ہوتا ہے.مثلاً اگر میٹھی رساں کسی کا خط کسی کو دے آئے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ خط پہنچا آیا بلکہ یہی کہیں گے کہ پھینک آیا ہے.غرض مبلغ کے لفظ نے بتا دیا کہ جس کے کام آنے والی صداقت ہو اسی کو پہنچانا ضروری ہے اور ما أُنزِلَ الیک نے بتا دیا کہ ساری کی ساری پہنچانی چاہئے نہ کہ اس کا کچھ حصہ پہنچا دیا جائے.اس چھوٹے سے فقرے میں مبلغ کا سارا کام بتا دیا گیا ہے.تبلیغ کی تقسیم آگے پہنچانا دوطرح کا ہوتا ہے.ایک اصول کا پہنچانا دوسرے فروع کا پہنچانا یغیر مذاہب کے لوگوں کے لئے تو اصول کی تعلیم پہنچانا ضروری ہے اور جو ماننے والے ہوں ان کے لئے تفصیل کی ضرورت ہوتی ہے کہ فلاں بات کس طرح کرنی چاہئے اور فلاں کس طرح.اس لحاظ سے تبلیغ کی موٹی تقسیم یہ ہوئی کہ ایک تو ان لوگوں کو تبلیغ کرنا جو اسلام کو نہیں مانتے.ان کو اصولی باتیں بنانی چاہئیں اور دوسرے ان کو تبلیغ کرنا جو مسلمان تو کہلاتے ہیں مگر اسلام کی باتوں کو جانتے نہیں یا جانتے ہیں

Page 593

انوار العلوم جلد ۵ م کے ہدایات زریں تو ان پر عمل نہیں کرتے.ان کو اصول کے علاوہ فروع سے بھی آگاہ کرنا.غرض دو طرح کی تبلیغ ہوتی ہے.ایک ظاہر کے متعلق اور ایک باطن کے متعلق.وہ لوگ جو ابھی اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے ان کے تو قفل لگے ہوئے ہیں.جب تک پہلے وہ نہ کھلیں ان کے باطن میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی اس لئے ان کی بیرونی اصلاح کی ضرورت ہے.انہیں اصولی باتیں سمجھائی جائیں.مگر جو اپنی جماعت کے لوگ ہیں ان کے تو قفل کھلے ہوئے ہیں انکی اندرونی اصلاح کی جاسکتی ہے.ان میں روحانیت ، تقویٰ ، طہارت اور پاکیزگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مبلغ کے کام کی اہمیت یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مبلغ کا فرض بہت بڑا ہوتا ہے.لوگ کسی ایک بات کو بھی آسانی سے نہیں مانتے.لیکن مبلغ کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں باتوں کو منوائے.پھر ایک آدمی سے منوانا بہت مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ ساری دنیا کو منوایا جائے.انتظام کے طور پر اور کام چلانے کے لئے خواہ مبلغوں کے لئے علاقے تقسیم کر دئیے جائیں.مگر اصل بات میں ہے کہ جو ضلع گورداسپور میں تبلغ کرتا ہے وہ اسی ضلع کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے.اسی طرح ضلع لاہور میں جو تبلیغ کرتا ہے وہ لاہور کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے کیونکہ مبلغ کے لئے کوئی خاص علاقہ مقرر نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کریم میں یہی بتایا گیا ہے کہ مبلغ کا علاقہ سب دنیا ہے.غرض مبلغوں کا کام بہت بڑا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ حکومتیں بھی اس کام کو نہیں کر سکتیں.حکومتیں زور سے یہ باتیں منواتی ہیں کہ چوری نہ کرو قتل نہ کرو، ڈاکہ نہ ڈالو مگر ان باتوں کو لوگوں کے لوں سے نہیں نکال سکتیں.حکومتیں یہ تو کر سکتی ہیں کہ مجرم کو پھانسی پر چڑھا کر مار دیں لیکن یہ نہیں کر سکتیں کہ جرم کا میلان دل سے نکال دیں.مگر مبلغ کا کام دل سے غلط باتوں کا نکالنا اور ان کی جگہ صیحیح باتوں کو داخل کرنا ہوتا ہے پس مبلغ کا کام ایسا مشکل ہے کہ حکومتیں بھی اس کے کرنے عاجز ہیں اور باوجود ہتھیاروں، قید خانوں، فوجوں ، مجسٹریٹوں اور دوسرے ساز و سامان کے جز ہیں.مبلغ کے مددگار سے سب مبلغ کا کام اس قدر وسیع اور اس قدر مشکل ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کام کوکیونکر

Page 594

ہدایات در کر سکتا ہے ؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خدا جس نے یہ کام بندوں کے ذمہ لگایا ہے اس نے ان کو بے مدد گار نہیں چھوڑا.اگر مبلغ بے ساتھی و مدد گار کے ہوتا تو اتنے بڑے کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ کرسکتا.مگر خدا تعالیٰ نے مبلغ کو دو مدد گار دیئے ہیں جن کی امداد سے وہ تبلیغ کر سکتا اور کامیاب ہوسکتا ہے.اس کے راستہ میں روکیں آتی ہیں مشکلات پیدا ہوتی ہے مگر ان دو مددگاروں سے کام لے کر وہ سب روکوں کو دور کر سکتا ہے.وہ مدد گار کون سے ہیں ؟ ان میں سے ایک کا نام تو عقل ہے اور دوسرے کا نام شعور.جب مبلغ ان دو مدد گاروں کی مدد حاصل کرتا ہے تو پھر اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.آگے چل کہ میں تشریح کروں گا کہ عقل سے میری کیا مراد ہے اور شعور سے کیا ؟ اس جگہ اتنا ہی بتاتا ہوں کہ یہ مبلغ کے مددگار ہیں.جب کوئی تبلیغ کے لئے جائے تو ان کو بلالے اور جب ان کی مدد اسے حاصل ہو جائے گی تو وہ وہ کام بہت خوبی کے ساتھ کرلے گا جو حکومتیں بھی نہیں کر سکتیں.عقل کی مدد سے مراد ہر ایک انسان میں خدا نے عقل بھی پیدا کی ہے اور شعور بھی عقل سے میری مراد وہ مادہ اور انسان کے اندر کی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ انسان دلائل کے ساتھ معلوم کرتا ہے کہ فلاں بات درست ہے یا غلط بے شک بعض دفعہ انسان ضدی بن جاتا ہے اور ایک بات کو صحیح اور درست جانتا ہوا اس کا انکار کر دیتا ہے.لیکن یہ حالت بہت گند اور بہت دیر کی گمراہی کے بعد پیدا ہوتی ہے در نہ کثیر حصہ لوگوں کا ایسا ہی ہے کہ عقل کے فیصلہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب اس کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں جو عقلی طور پر صحیح ثابت ہوں تو وہ ان کا انکار نہیں کر سکتا جس کا مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کو عقلی لحاظ سے ایک مبلغ معقول اور مدلل سمجھتا ہے.ان کو دوسرے لوگ بھی معقول سمجھتے ہیں بشر طیکہ اندھے کی بصارت کی طرح ان کی عقل بالکل مردہ نہ ہوگئی ہو اور وہ اس کو بالکل مارنہ پچکے ہوں مگر جس طرح اندھے بہت کم ہوتے ہیں.اسی طرح عقل کے اندھے بھی کم ہی ہوتے ہیں اور عموماً لوگ عقل کو مارتے نہیں.کیونکہ انہیں اس سے دنیاوی کام بھی کرنے ہوتے ہیں نہیں لوگ عقل سے ضرور کام لیتے ہیں.اور جب ان کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں.جو عقلی طور پر معقول ہوں تو وہ عقل سے کام لے کر ان کو تسلیم کرلیتے ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ نے عقل کے بہت سے دروازے رکھے

Page 595

انوار العلوم جلد ۵ ۵۷۵ ہدایات زرین ہیں اس لئے کسی نہ کسی دروازہ سے حق اندر داخل ہو ہی جاتا ہے.اس لیئے ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ اس سے ضرور کام ہے.یعنی لوگوں کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے.اس ذریعہ سے وہ بہت جلدی دوسروں سے اپنی باتیں منوا لے گا اور وہ کام کرے گا جو حکومتیں بھی نہیں کرسکتیں ابھی دیکھ لو کچھ لوگوں نے غلط طور پر عام لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بٹھا دیا ہے کہ گورنمنٹ سے اہل ہند کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ نقصان پہنچ رہا ہے.گورنمنٹ کے پاس طاقت ہے سامان ہے مگر وہ روک نہیں سکتی کہ یہ خیال لوگوں کے دلوں میں نہ بیٹھے.وجہ یہ کہ اس خیال کو بٹھانے والے تو عقلی دلائل سے کام لے رہے ہیں لیکن گورنمنٹ ان سے کام نہیں لے رہی اس لئے اس کا کچھ اثر نہیں ہو رہا.تو عقلی دلائل سے کام لینے پر بہت اعلیٰ درجہ کے نتائج نکل سکتے ہیں.شعور کی مدد سے مراد اس سے بڑھ کر شعور ہے مگر جہاں عقل کی نسبت زیادہ نتیجہ خیز ہے وہاں خطرناک بھی ایسا ہے کہ جس طرح بعض اوقات ڈائنامیٹ چلانے والے کو بھی ساتھ ہی اڑا کر لے جاتا ہے.اسی طرح یہ بھی کام لینے والے کو اڑا کرلے جاتا ہے.لوگوں نے شعور کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر میری اس سے مراد اس جس سے ہے جو فکر اور عقل کے علاوہ انسان کے اندر رکھی گئی ہے اور جس کا تعلق دلائل عقلیہ کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کی اندرونی جستوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جسے ہم جذبات کہہ سکتے ہیں جیسے محبت ہے ، غضب ہے ، شہوت ہے ، خواہش بقا ہے.بہت دفعہ عقلی دلائل سے کسی مسئلہ کو ثابت کرنے سے اس قدر اس کی طرف میلان یا اس سے نفرت پیدا نہیں ہوتی.مگر ان جذبات کو اُبھار دینے سے انسان فوراً بات کو قبول کر لیتا ہے اور ان احساسات کو ابھار کر بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہیں اور لئے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک گھڑی میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.چنانچہ دیکھا ہو گا کہ کہیں بحث ہو رہی ہے.جب مولوی دیکھے کہ میں ہارنے لگا ہوں تو وہ کہہ دے گا.مسلمانو ! تمہیں شرم نہیں آتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہو رہی ہے تم خاموش بیٹھے سن رہے ہو.یہ سن کر سب کو جوش آجائے گا اور وہ شور ڈال دیں گے.چاہے ہتک ہو رہی ہو یا نہ ہو رہی ہو.جذبات جس وقت اُبھر جاویں تو غلط اور صحیح کی بھی تمیز نہیں رہتی اور ایک رو چل پڑتی ہے جس میں لوگ بہنے لگ جاتے ہیں.غلط طور پر اس سے ند

Page 596

الدار العلوم : ۵۷۶ کام لینا جائز نہیں لیکن جب عقل اس کی تائید کرتی ہو اور حتی اور صداقت کے لئے حق اور صداقت کے ساتھ کام لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے بلکہ بسا اوقات ضروری ہے.چنانچہ قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس طریق سے بہت کام لیا گیا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود نے بھی اس سے خوب ہی کام لیا ہے.آپ وفات مسیح کے متعلق دلائل لکھتے لکھتے یہ بھی لکھ جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں دفن ہوں اور حضرت عیسی آسمان پر بیٹھے ہوں.ایک مسلما کی غیرت اس بات کو کس طرح گوارا کر سکتی ہے.یہ وفات مسیح کی عقلی دلیل نہیں لیکن ایک روحانی دلیل ہے اور اس سے جذبات بھی ابھر آتے ہیں.اور اس کا جس قدر دلوں پر اثمہ ہوتا ہے ہزار ہا دلیلوں کا نہیں ہوگا.کیونکہ اس کے ذریعہ سے وہ میلان طبیعی جو نسلاً بعد نسل اسلام سے تعلق رکھنے کے سبب سے ایک مسلمان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے وہ خود بخود جوش میں آجاتا ہے اور کسی بات کو سامنے نہیں آنے دیتا.حضرت صاحب کی تمام کتابوں میں یہی بات ملتی ہے.اگر عقلی دلائل اور شعور سے کام لینے کے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر دیکھیں تو دونوں پائے جاتے ہیں.اور اگر صرف عقلی دلائل کو مد نظر رکھیں تو ساری کتاب میں عقلی دلائل ہی نظر آتے ہیں.اور اگر جذبات کے پہلو کو مدنظر رکھ کر دیکھیں تو یسی معلوم ہوتا ہے کہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ جذبات کو تحریک کی گئی ہے.ہر ایک شخص کی کتاب میں یہ بات نہیں پائی جاسکتی.اور یہ حضرت صاحب کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ہے.آپ نے عقلی دلائل اور جذبات کو ایسے عجیب رنگ میں ملایا ہے کہ ایسا کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہے.لیکن گو ہر ایک اس طرح نہیں کر سکتا مگر یہ کر سکتا ہے کہ ان سے الگ الگ طور پر کام سے عقلی دلائل سے الگ کام کے اور جذبات سے الگ.حضرت صاحب نے ہر موقع پر جذبات کو ابھارا ہے اور کبھی محبت کبھی غضب کبھی غیرت کبھی بقائے نسل کے کبھی حیا کے جذبات میں حرکت پیدا کی ہے.چنانچہ آپ نے عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ کیا تم لوگ میسیج کی نسبت صلیب پر مرنے کا عقیدہ رکھ کر اسے ملعون قرار دیتے ہو اس پر غور کرو اور سوچو.اس طرح ان کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت کے جذبات کو پیدا کر دیا گیا اور اس جائز محبت کے جذبات کے ذریعہ اس ناجائز محبت کے جذبات کو کہ انہوں نے میسج کو خدا سمجھ رکھا ہے کاٹ دیا گیا.

Page 597

انوار العلوم جلد ۵ 444 دونوں مددگاروں سے اکٹھا کام لینا چاہئے ہدایات ترین غرض خدا تعالیٰ نے مبلغ کو یہ مدد گار اور ہتھیار دیتے ہیں.(1) دلائل عقلی پیش کرنا.(۲) جذبات کو صحیح اور درست باتوں کے متعلق ابھارنا.ان میں سے اگر کسی ایک کو چھوڑ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو کامیابی نہیں ہو سکتی.اگر صرف جذبات کو ابھار نا شروع کر دیا جائے اور دلائل دینے چھوڑ دیئے جائیں تو بہت نقصان ہوگا.کیونکہ جب لوگ عقلی دلائل کو چھوڑ دیں گے تو پھر ایسی حالت ہو جائے گی کہ وہ ہمارے کام کے بھی نہ رہیں گے اور اگر خالی دلائل سے تمام لیا جائے تو ہمارے مبلغ صرف فلاسفر بن جائیں گے دین سے ان کا تعلق نہ رہے گا اور اس طرح بھی نقصان ہو گا.ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے پس اعلی نتائج پیدا کرنے کے لئے ان دونوں ذریعوں سے کام لینا ضروری ہے مگر یہ بھی اسی وقت کام دے سکتے ہیں جبکہ انسان خود نمونہ کے طور پر بن جائے.تم دلائل عقلی پیش کرو.گر تمہاری اپنی حالت ایسی نہ ہو کہ دیکھنے والے سمجھیں کہ عقلاً تم جس بات پر قائم ہو اس سے تم کو فائدہ نہیں ہے تو ان پر کبھی ان دلائل کا خاص اثر نہ ہو گا کیونکہ اگر تم پر ان دلائل نے کوئی اثر نہیں کیا تو خوب یاد رکھو کہ تمہاری کوئی دلیل دوسروں پر بھی کوئی اثر نہ کرے گی.تم جو دلائل دو پہلے اپنے آپ کو ان کا نمونہ بناؤ.اپنے اوپر ان کا اثر دکھاؤ اور پھر دوسروں سے ان دلائل کے تسلیم کرنے کی توقع رکھو.اسی طرح جذبات کا حال ہے جذبات کو ابھارنے والی وہی تقریر اثر کرے گی کہ جس وقت انسان تقریر کر رہا ہو اس کے اپنے دل میں بھی ایسے ہی جذبات پیدا ہو رہے ہوں کیونکہ دوسروں کے جذبات اس وقت تک نہیں ابھر سکتے جب تک ظاہری الفاظ کے ساتھ اندرونی جذبات بھی نہ ہوں.اس کے لئے اپنے دل میں بھی ان جذبات کا پیدا کرنا ضروری ہے.ورنہ ایسی تقریر کا کوئی اثر نہ ہو گا.اسی طرح عقلی دلائل اس وقت تک اثر نہ کریں گے جب تک ان کے ماتحت انسان خود اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کریگا.اگر انسان خود تو ان دلائل کے ماتحت تبدیلی پیدانہ کرے اور دوسروں کو کئے تو وہ ہر گز اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کریں گے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہو گئی جیسا کہ کہتے ہیں کہ کسی لومڑ کی دُم کٹ گئی تھی.اس نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے تجویز کی کہ سب کی دمیں کھانی چاہئیں اس نے دوسرے لومڑوں کو بتایا کہ دم کی وجہ

Page 598

سے ہی ہم قابو آتے ہیں اس کو کٹا دینا چاہئے تاکہ ہم پکڑے نہ جائیں ٹینکر سب کٹانے کے لئے تیار ہو گئے کہ ایک بوڑھے لومڑ نے کہا ذرا تم خود تو دکھاؤ کہ تمہاری دم ہے یا نہیں.اگر ہے تو ہم سب کٹانے کے لئے چلیں اور اگر تمہاری پہلے ہی کئی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ تم ہماری بھی کٹوانی چاہتے ہو.باقی یونسی باتیں ہی ہیں.تو عقلی دلائل کا اس وقت تک اثر نہیں ہوتا جب تک کہ خود دلیل دینے والے میں اس دیل کا ثبوت نہ پایا جاتا ہو.ایسی صورت میں لوگ یہی کہیں گے کہ بیشک دلیل تو معقول ہے مگر یہ بتاؤ اس کا نتیجہ کیا نکل اور تم نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا ؟ اگر تیجہ کچھ نہیں اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر کیوں ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارے مذہب کو قبول کریں اور خواہ مخواہ نقصان اُٹھائیں.اسی طرح جذبات کو ابھارتے وقت اگر صرف الفاظ استعمال کئے جاویں اور ان کے ساتھ روح نہ ہو تو وہ الفاظ بھی اثر نہیں کرتے.یہی وجہ ہوتی ہے کہ بہت لوگ جو بڑے زور شور سے تقریریں کرنیوالے ہوتے ہیں ان کا کچھ اثر نہیں ہوتا.مگر جن مقرروں کے اپنے جذبات ابھرے ہوئے ہیں خواہ کسی سیچی وجہ سے یا جھوٹی وجہ سے ہی ان کے الفاظ اثر کرتے ہیں.مثلاً اگر کوئی سمجھے کہ مجھے دکھ پہنچا ہوا ہے حالانکہ دراصل ایسانہ ہو تو بھی اس کا اثر اس کی آواز میں پایا جائے گا اور پھر سننے والوں پر ہو گا.اس کے بالمقابل اگر کی کوئی الواقعہ کوئی تکلیف پہنچی ہو لیکن اس کا قلب اسے محسوس نہ کرتا ہو تو کوئی اس کی باتوں سے متاثر نہ ہوگا.پس دوسروں کے جذبات ابھارنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جب انسان بول رہا ہو تو اس کے اپنے جذبات بھی اُبھرے ہوئے ہوں مثلاً جب کوئی مبلغ مسلمانوں میں تقریر کر رہا ہو اور کہ رہا ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کو فضیلت نہ دینی چاہئے.ان کی عزت ، ان کا رتبہ، ان کا درجہ سب انبیاء سے اعلیٰ ہے تو اس کے ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل میں بھی موجزن ہونی چاہئے اور اس کے دل سے بھی جذبات کی لہر اٹھنی چاہئے تب دوسروں پر اثر ہوگا.مسمریزم کیا ہے ؟ یہی کہ جذبات کو ابھارنا اور شعور کا دل سے کام لینا.اس کی بڑی شرط یہی ہے کہ جس شخص کو سلانا ہو اس کے سامنے کھڑے ہو کر انسان یقین کرے اور اس حالت کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائے کہ وہ سو گیا ہے جب یہ کیفیت کسی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے تو دوسرا آدمی فوراً سو جاتا ہے.اسی طرح اپنے قلب میں جو کیفیت بھی پیدا کر لی جائے اس کا اثر دوسروں ہ پر ضرور ہو جاتا ہے.

Page 599

انوار العلوم جلد 069 ہدایات دریں غرض تبلیغ کرنے والوں کے لئے یہ دونوں باتیں نہایت ضروری ہیں کہ وہ عقلی دلائل کا ظاہری نمونہ بھی ہوں اور پھر جذبات بھی ان میں موجود ہوں.یوں تو ہر وقت ہی ہوں مگر تقریر کرتے وقت خاص طور پر ابھرے ہوئے ہوں.یہ جو باتیں میں نے بتائی ہیںیہ تو اصولی ہیں.اب میں کچھ فروعی باتیں بتا تا ہوں جو ہر ایک مبلغ کو یاد رکھنی چاہئیں.سب سے پہلے یہ ضروری بات ہے کہ مبلغ بے غرض ہو اور سننے والوں کو پہلی ہدایت معلوم ہو کہ اس کی ہم سے کوئی ذاتی غرض نہیں ہے.ورنہ اگر مبلغ کی کوئی ذاتی غرض ان لوگوں سے ہوگی تو وہ خواہ نماز پر ہی تقریر کر رہا ہوگا سننے والوں کو یہی آواز آرہی ہوگی کہ مجھے فلاں چیز دے دو.فلاں دے دو.مسلمانوں کے واعظوں میں یہ بہت ہی بُری عادت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ اپنے وعظ کے بعد کوئی غرض پیش کر کے امداد مانگنا شروع کر دیتے ہیں.اس سے سننے والوں کے ذہن میں یہ بات داخل ہوگئی ہے کہ وعظ کرنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا چاہئے اور اسے ایک فرض سمجھا جاتا ہے.یہ ایسی بُری رسم پھیلی ہوئی ہے کہ جب کوئی واعظ وعظ کر رہا ہو تو سننے والے حساب ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم اس میں سے کسقدر مولوی صاحب کو دے سکتے ہیں اور کتنا گھر کے خرچ کے لئے رکھ سکتے ہیں.اس رسم کی وجہ یہی ہے کہ عام طور پر مولوی وعظ کے بعد مانگتے ہیں کہ مجھے فلاں ضرورت ہے اسے پورا کر دیا جائے.اس کا بہت بڑا اثر ہو رہا ہے.کیونکہ واعظہ کی باتوں کو توجہ اور غور سے نہیں سنا جاتا.پس واعظ کو بالکل متنی المزاج اور بے غرض ہونا چاہئے.اگر کسی وقت شامت اعمال سے کوئی ملمع یا لالچ پیدا بھی ہو تو وعظ کرنا بالکل چھوڑ دینا چاہئے اور توبہ و استغفار کرنا چاہئے اور جب وہ حالت دور ہو جائے پھر بے غرض ہو کر کھڑا ہونا چاہئے.اور وعظ کے ساتھ اپنے اندر اور باہر سے لوگوں پر ثابت کر دینا چاہئے کہ وہ ان سے کوئی ذاتی فائدہ اور نفع کی امید نہیں رکھتا اور نہ ان سے اپنی ذات کے لئے کچھ چاہتا ہے.جب کوئی مبلغ اپنے آپ کو ایسا ثابت کر دیگا تو اس کے وعظ کا اثر ہوگا ورنہ وعظ بالکل بے اتر جائے گا.اسی طرح دوسرے وقت میں بھی سوال کرنے سے واعظ کو بالکل بچنا چاہئے.سوال کرنا تو یوں بھی منع ہے اور کسی مومن کے لئے پسندیدہ بات نہیں ہے.لیکن اگر واعظ سوال کرے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وعظ اسی وجہ سے ہی کرتا ہے ہیں یہ نہایت ہی ناپسندیدہ بات ہے اور واعظوں کو خاص طور پر اس سے بچنا

Page 600

انوار العلوم جلد ۵ ۵۸۰ چاہئے ورنہ ان کے وعظ کا اثر زائل ہو جائے گا یا کم ہو جائے گا.دوسری بات واعظ کے لئے یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ دلیر ہو.دوسری ہدایت جب تک واعظ دلیر نہ ہو اس کی باتوں کا دوسروں پر اثر نہیں پڑتا اور اس کا دائرہ اثر بہت محدود رہ جاتا ہے کیونکہ وہ انہی لوگوں میں جانے کی جرات کرتا ہے جہاں اس کی باتوں پر واہ واہ ہوتی ہے.لیکن اگر دلیر ہوتا تو ان میں بھی جاتا جو گالیاں دیتے ، دھکے دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں اور اس طرح اس کا حلقہ بہت وسیع ہوتا.ہماری جماعت کے مبلغ سوال کرنے سے تو بچے ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت میں غناء کی حالت بھی پائی جاتی ہے.مگر یہ کمزوری ان میں بھی ہے کہ جہاں اپنی جماعت کے لوگ ہوتے ہیں وہاں تو جاتے ہیں اور وعظ کرتے ہیں لیکن جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں نہیں جاتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے دل میں مخفی طور پر واہ واہ سننے کی عادت جاگزیں ہوتی ہے.وہ دورے کرتے ہیں اور میں میں دفعہ جاتے ہیں مگر اپنی مقامات پر جہاں پہلے جاچکے ہیں اور جہاں احمدی ہوتے ہیں اور جس جگہ کوئی احمدی نہ ہو وہاں اس خیال سے کہ ممکن ہے کوئی گالیاں دے یا مارے نہیں جاتے.حالانکہ سب سے زیادہ ضرورت انی مقامات پر جانے کی ہوتی ہے جہاں کوئی احمدی نہ ہو.کیونکہ جہاں بیج ڈال دیا گیا ہے وہاں وہ خود بڑھے گا.اور جہاں ابھی بیج ہی نہیں پڑا وہاں ڈالنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی سنت معلوم ہوتی ہے کہ کسی ایک جگہ ساری کی ساری جماعت نہیں ہوتی بلکہ متفرق طور پر ہوتی ہے اسی قادیان میں دیکھ لو یہاں کے سارے باشندوں نے تو حضرت مسیح موعود کو نہیں مان لیا.اشد ترین مخالف بیاں ہی ہیں مگر بٹالہ کے کچھ لوگوں نے آپ کو مان لیا پھر وہاں بھی سب نے نہیں مانا بلکہ اکثر مخالف ہی ہیں.پھر لاہور میں کچھ لوگوں نے مان لیا.اسی طرح کچھ نے کلکتہ میں مانا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالٰی نے بیج کی طرح صداقت کو بویا ہوا ہے.اور اس طرح خدا تعالیٰ صداقت کے مقام اور چھاؤنیاں بناتا جاتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ اردگرد اثر پڑے.پس یہ خیال بالکل نادرست ہے کہ فلاں جگہ کے سب لوگوں کو احمدی بنا لیں تو پھر آگے جائیں.اگر ایسا ہونا ضروری ہوتا تو قادیان کے لوگ جب تک سب کے سب نہ مان لیتے ہم آگے نہ جانتے.لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہونا چاہئے تھا.کیونکہ بعض ایسی طبائع ہوتی ہیں کہ دس میں دن میں مان جاتی ہیں بعض اس سے زیادہ عرصہ میں بعض دو تین سال میں اور بعض دس پندرہ سال میں اور ہر جگہ ایسی طبائع کے لوگ ہوتے ہیں.اب اگر ان لوگوں کی وجہ سے جنہوں نے لیے عرصہ کے بعد

Page 601

انوار العلوم جلد د SAI ہدایات زرین ماننا ہے دوسری جگہ نہ جائیں گے تو وہاں کے ایسے لوگوں کو جو جلدی ماننے والے ہیں اپنے ہاتھ سے کھو دیں گے اور ان کو اپنے ساتھ نہ ملا سکیں گے.مگر ہمارے مبلغوں نے ابھی تک اس بات کو سمجھا نہیں اور اسی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو صداقت کو قبول کرنے سے ابھی تک محروم ہیں.اگر سب جگہ ہماری جماعت کے مبلغ جاتے تو بہت سے لوگ مان لیتے.چونکہ ہر جگہ ایسی طبیعتیں موجود ہیں جو جلد صداقت کو قبول کرنے والی ہوتی ہیں اس لئے ہر جگہ تبلیغ کرنی چاہئے.یہاں ایک دوست نے بتا یا کہ ایک شخص ان کو ریل میں ملا معمولی گفت گو ہوئی اور اس نے مان لیا اور پھر وہ یہاں آیا.صرف تین روپے اس کی تنخواہ ہے اور روٹی کپڑا اسے ملتا ہے مگر اس میں بڑا اخلاص ہے اور اخبار خریدتا ہے.تو صرف ایک دن کی ملاقات کی وجہ سے وہ احمدی ہو گیا.ہمیں دائرہ اثر وسیع کرنے کی ضرورت ہے.مگر مبلغین کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہوتا مبلغ کو دلیر ہونا چاہئے.اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مبلغ کی دلیری اور جرأت کا بھی دوسروں پر اثر پڑتا ہے اور لوگ اس کی جرات کو دیکھ کر ہی مان لیتے ہیں.کئی ہندو اور مسلمان اسی لئے عیسائی ہو گئے کہ انہوں نے پادریوں کی اشاعت مسیحیت میں دلیری اور جرأت کو دیکھا اور اس سے متأثر ہو گئے تو مبلغ کو دلیر ہونا چاہئے اور کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے اور ایسے علاقوں میں جانا چاہئے جہاں تاحال تبلیغ نہ ہوئی ہو.دلیری اور جرأت ایسی چیز ہے کہ تمام دنیا میں اکرام کی نظرسے دیکھی جاتی ہے اور مبلغ کے لئے سب سے زیادہ دلیر ہونا ضروری ہے.کیونکہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن کر جاتا ہے.اگر مبلغ ہی دلیر نہ ہوگا تو دوسروں میں جو اسے اپنے لئے نمونہ سمجھتے ہیں دلیری کہاں سے آئے گی.ہمارے مبلغوں میں اس بات کی کمی ہے اور وہ بہت سے علاقے اسی دلیری کے نہ ہونے کی وجہ سے فتح نہیں کر سکتے ورنہ بعض علاقے ایسے ہیں کہ اگر کوئی جرأت کر کے چلا جائے تو صرف دیا سلائی لگانے کی ضرورت ہوگی آگے خود بخود شعلے نکلنے شروع ہو جائیں گے.مثلاً افغانستان اور خاص کر سرحدی علاقے ان میں اگر کوئی مبلغ زندگی کی پرواہ نہ کر کے چلا جائے تو بہت جلد سارے کے سارے علاقہ کے لوگ احمدی ہو سکتے ہیں.کیونکہ ان کی حالت عربوں کی طرح کی ہے وہ جب احمدی ہوں گے تو اکٹھے کے کٹھے ہی ہونگے عام طور پر متمدن ممالک میں قوانین کے ذریعہ بہت کام چلایا جاتا ہےمثلاً اگر میاں کسی کو کوئی دشمن قتل نہیں کرتا تو اس لئے نہیں کہ زید یا بکر کے دوست اور اس کے ہم قوم اس کا مقابلہ کریں گے

Page 602

انوار العلوم جلد ۵ ۵۸۲ ہدایات زرین بلکہ اس لئے قتل نہیں کرتا کہ قانون اسے پھانسی دے گا.اس لئے ایسے ممالک میں جو متمدن ہوں قانون کے ڈر کی وجہ سے لوگ ظلم سے رکھتے ہیں.لیکن جہاں تمدن نہ ہو وہاں ذاتی تعلقات بہت زوروں پر ہوتے ہیں.کیونکہ ہر ایک شخص اپنا بچاؤ اس میں سمجھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے آدمیوں کی جنب داری کرے تا وہ بھی بوقت ضرورت اس کی جنبہ داری کریں اور اس طرح ان ممالک میں کوئی شخص اکیلا نہیں ہوتا.جو حال یہاں گھرانوں کا ہوتا ہے وہ ان ممالک میں قوموں کا ہوتا ہے اور اگر ان ممالک میں پندرہ میں آدمی جان تھیلی پر رکھ کر چلے جائیں.اور کچھ لوگوں کو بھی احمدی بنائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اردگرد کی قومیں ان پر ظلم کریں گی اور قومی جنبہ داری کے خیال سے ان کے ہم قوم بھی احمدیت قبول کرلیں گے اور اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں تمہیں چالیس لاکھ آدمی سلسلہ میں داخل ہو سکتا ہے.افریقہ کے لوگ اسی طرح عیسائی ہوئے.پہلے پہل ان میں ایک عورت گئی جو علاج وغیرہ کرتی تھی.اس وجہ سے وحشی لوگ اسے کچھ نہ کہتے.لیکن ایک دن انہیں غصہ آگیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا گئے.اس عورت کا ایک نوکر تھا جسے اس نے عیسائی کیا ہوا تھا اس نے تین سو میل کے فاصلہ پر جا کر جہاں انگریز موجود تھے بتایا کہ وہ عورت ماری گئی ہے وہاں سے ولایت تار دی گئی.اور لکھا ہے کہ جب ولایت میں اس عورت کے مرنے کی تار شائع ہوئی تو جس مشن سے وہ عورت تعلق رکھتی تھی اس میں صبح سے لے کر شام تک بہت سی عورتوں نے درخواستیں دیں کہ ہم کو وہاں بھیج دیا جائے چنانچہ بہت سے مبلغ اپنے خرچوں پر وہاں گئے اور سارے یوگنڈا کے لوگ عیسائی ہو گئے.وہ عورت سات سال تک اکیلی وہاں کام کرتی رہی اور جب وہ ماری گئی تو اس کی دلیری اور جرات کی وجہ سے سب میں جرات پیدا ہوگئی اور انہوں نے کسی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں جانے کی درخواستیں دے دیں.پس مبلغ کی جرات بہت بڑا کام کرتی ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں میں بھی جرأت پیدا ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے خوشی سے سنایا کہ پیغامیوں کے مبلغوں کو ایک جگہ مار پڑی ہے وہ تو خوش ہو کر سنا رہا تھا مگر میں اس وقت افسوس کر رہا تھا کہ وہاں ہمارے مبلغ کیوں نہ تھے جنہیں مار پڑتی اور دلیری اور جرات دکھانے کا انہیں موقع ملتا.گو افسوس ہے کہ پیغامی مبلغوں نے بزدلی دکھائی اس موقع کو ضائع کر دیا مگر ان کا مار کھانا خود کوئی ہنگ کی بات نہ تھی.بلکہ اگر وہ دلیری سے کام لیتے تو یہ ایک قابل قدر کارنامہ ہوتا.ہمارے واعظ حکیم خلیل احمد صاحب کو جب مدراس میں تکلیف پہنچی اور ان پر سخت خطرناک حملہ کیا گیا اور ان کے قتل کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے اس خبر

Page 603

انوار العلوم جلد ۵۸۳ کو اخبار میں شائع کرایا جس پر ایک دوست نے سخت افسوس کا خط لکھا کہ اخبار والوں کو منع کیا جائے کہ ایسی خبر نہ شائع کیا کریں.حالانکہ وہ خبر میں نے خود کہ کر شائع کرائی تھی.اور منجملہ اور حکمتوں کے ایک یہ غرض تھی کہ اس خبر کے شائع ہونے سے جماعت میں غیرت پیدا ہو اور ان میں سے اور لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کریں.یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ میرا یہ منشاء نہیں کہ خود بخود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو.بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی جگہ کی تبلیغ اس لئے مت ترک کرو کہ وہاں کوئی خطرہ ہے.اور نہ میرا یہ منشاء ہے کہ لوگ بے شک تکلیف دیں اس تکلیف کا مقابلہ نہ کرو.بے شک قانونا جہاں ضرورت محسوس ہو اس کا مقابلہ کرو مگر تکالیف اور خطرات تمہیں اپنے کام سے نہ روکیں اور تمہارا حلقہ کار محدود نہ کردیں.میں نے اخلاق کے مسئلہ کا مطالعہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ ستر فیصدی گناہ جرأت اور دلیری کے نہ ہونے کے سب سے پیدا ہوتے ہیں.اگر جرات ہو تو اس قدر گناہ نہ ہوں.پس دلیری اپنے اندر پیدا کرو تا کہ ایک تو خود ان گناہوں سے بچو جو جرات نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تمہاری کوششوں کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوں.ہاں اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھو کہ اپنی طرف سے ہر قسم کے فساد یا جھگڑے کے دور کرنے کی کوشش کرو اور موعظہ حسنہ سے کام لو.اس پر بھی اگر کوئی تمہیں دُکھ دیتا ہے، مارتا ہے ، گالیاں نکالتا ہے یا برا بھلا کہتا ہے تو اس کو برداشت کرو اور ایسے لوگوں کا ایک ذرہ بھر خوف بھی دل میں نہ لاؤ.تیری بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں لوگوں کی ہمدردی تیری ہدایت اور ان کے متعلق قلق ہو جس جگہ گئے وہاں ایسے افعال کئے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ ہمارا ہمدرد ہے.اگر لوگوں پر یہ بات ثابت ہو جائے تو پھر مذہبی مخالفت سرد ہو جائے کیونکہ مذہبی جذبات ہی ساری دُنیا میں کام نہیں کر رہے.اگر یہی ہوتے تو ساری دنیا مسلمان ہوتی.پیس مبلغ کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ جہاں جانے وہاں کے لوگوں پر ثابت کر دے کہ وہ ان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے.جب لوگ اسے اپنا خیر خواہ سمجھیں گے تو اس کی باتوں کو بھی سنیں گے اور ان پر اثر بھی ہوگا.پیو تھی ہدایت ہو تھی بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دنیاوی علوم سے جاہل نہ ہو.اس سے بہت برا اثر پڑتا ہے.مثلاً ایک شخص پوچھتا ہے کہ جاوا کہاں ہے ؟ گو اس کا دین اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی نہ جانتا ہو تو اس کے مذہب

Page 604

انوار العلوم جلد ۵ ۵۸۴ دایات زریں میں کوئی نقص نہیں آجائے گا.مگر جب ایک مبلغ سے یہ پوچھا جائے گا اور وہ اس کے متعلق کچھ نہیں بتا سکے گا تو لوگ اسے حقیر سمجھیں گے کہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ جاوا کہاں ہے جہاں تین کروڑ کے قریب مسلمان بستے ہیں.تو مبلغ کو جنرل نالج حاصل ہونا چاہئے تاکہ کوئی اسے جاہل نہ سمجھے.ہاں یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک علم کا عالم ہی ہو لیکن کچھ نہ کچھ واقفیت ضرور ہونی چاہئے.حضرت خلیفہ المسیح الا مال ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ ایک بیمار کو دیکھنے کے لئے گئے.وہاں ایک اور طبیب صاحب بھی بیٹھے تھے.آپ نے اہل خانہ سے پوچھا کہ تھرما میٹرلگا کر بیمار کو دیکھا ہے یا نہیں.طبیب صاحب نے کہا اگر آپ نے انگریزی دوائیاں استعمال کرنی ہیں تو میں جاتا ہوں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ تھرمامیٹر کوئی دوائی نہیں بلکہ ایک آلہ ہے جس سے بخار کا درجہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کس قدر ہے.اس نے کہا آلہ ہو یا کچھ اور ہر ایک انگریزی چیز گرم ہوتی ہے اور بیمار کو پہلے ہی بہت زیادہ گرمی ہے.تو اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں عام باتوں کا کچھ علم نہیں ہوتا اور مجلسوں میں سخت حقیر سمجھے جاتے ہیں.مبلغ کے لئے بہ نہایت ضروری ہے کہ وہ علم مجلس سے واقف ہو اور کسی بات کے متعلق ایسی لاعلمی کا اظہار نہ کرے جو بیوقوفی کی حد تک پہنچی ہوئی ہو.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جو کسی پیر کا بڑا معتقد تھا اور اپنے وزیر کو کہتا رہتا تھا کہ میرے پیر سے ملو.وزیر چونکہ اس کی حقیقت جانتا تھا اس لئے ملاتا رہتا.آخر ایک دن جب بادشاہ پیر کے پاس گیا تو وزیر کو بھی ساتھ لیتا گیا پیر صاحب نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا.بادشاہ سلامت ! دین کی خدمت بڑی اچھی چیز ہے سکندر بادشاہ نے دینِ اسلام کی خدمت کی اور وہ اب تک مشہور چلا آتا ہے یہ سن کر وزیرنے کہا.دیکھیے حضور پیر صاحب کو ولایت کے ساتھ تاریخ دانی کا بھی بہت بڑا ملک ہے اس پر بادشاہ کو اس سے نفرت ہو گئی.حضرت صاحب یہ قصہ سناکر فرمایا کرتے تھے کہ علم مجلس بھی نہایت ضروری ، جب تک انسان اس سے واقف نہ ہو دوسروں کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے.اسی طرح آداب مجلس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے مثلاً ایک مجلس مشورہ کی ہورہی ہو اور کوئی بڑا عالم ہونگر اس مجلس میں جا کر سب کے سامنے لیٹ جائے تو کوئی اس کے علم کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کی نسبت لوگوں پر بہت برا اثر پڑے گا.پس یہ نہایت ضروری علم ہے اور مبلغ کا اس کو جاننا بہت ضروری ہے.ہر ایک مبلغ کو چاہیے کہ وہ جغرافیہ ، تاریخ ، حساب ، طب ، آداب گفتگو، آداب مجلس

Page 605

انوار العلوم جلد ۵ ۵۸۵ ہدایات زریں وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے.اور یہ کوئی مشکل کام نہیں تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہو سکتی ہے.اس کے لئے ہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں.پھر واقعات حاضرہ سے واقفیت ہونی چاہئے.مثلاً کوئی پوچھے کہ مسٹر گاندھی کون ہے اور مبلغ صاحب کہیں کہ میں تو نہیں جانتا.تو سب لوگ ہنس پڑیں گے اور اسے حقیر سمجھیں گے ایس لئے ایسے واقعات سے جو عام لوگوں سے تعلق رکھتے ہوں اور روزمرہ ہو رہے ہوں ان سے اقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے.پانچویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ غلیظ نہ ہو.ظاہری خاطت پانچویں ہدایت کے متعلق بھی خاص خیال رکھا گیا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسجد میں کوئی تھوکتا ہے تو یہ ایک غلطی ہے.اس کا کفارہ یہ ہے کہ تھوک کو دفن کرے.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفه ۱۷۳ ) حضرت صاحب کی طبیعت میں کتنی برد باری تھی.مگر آپ نے اس وجہ سے باہر لوگوں کیساتھ کھانا کھانا چھوڑ دیا کہ ایک شخص نے کئی چیزیں ساگ ، فرنی ، زردہ ، شور با وغیرہ ملا کر کھایا.فرماتے تھے کہ اس سے مجھے اتنی نفرت ہوئی کہ قے آنے لگی.اس کے بعد آپ نے باہر کھانا کھانا چھوڑ دیا.اور اس طرح لوگ اس فیض سے محروم ہو گئے جو آپ کے ساتھ کھانا کھانے کے وقت انہیں حاصل ہوتا تھا.پھر حضرت صاحب فرماتے اور میری طبیعت میں بھی یہ بات ہے کہ اگر استرے سے سر کو منڈوا کر کوئی سامنے آئے تو بہت برا لگتا ہے اور مجھے تو اسے دیکھ کر سر درد شروع ہو جاتی ہے تو ظاہری صفائی اور ظاہری حالت کے عمدہ ہونے کی بھی بہت ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہو.اور وہ بات کرنا تو الگ رہا دیکھنا بھی نہ چاہیں.مگر ظاہری صفائی سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کالر اور نکٹائی وغیرہ لگانی چاہئے اور بال ایک خاص طرز کے بنائے جائیں.ان میں سے بعض باتوں کو تو ہم تو کہیں گے اور احض کونا جائز، مگر جوضروری صفائی ہے یعنی کوئی غلاظت نہ لگی ہو یا کوئی بُودار چیز نہ لگی ہو اس کا ضرور خیال رکھنا چاہئے.ہاں یہ بھی نہ کرے کہ ہر وقت کپڑوں اور جسم کی صفائی میں لگا رہے.کیونکہ اگر ایسا کرے گا تو پھر کام خراب ہو جائے گا.

Page 606

۵۸۶ چھٹی ہدایت چھوٹی بات مبلغ کے لئے یہ ہے جس میں بہت کو تا ہی ہوتی ہے کہ جو بلغ دور سے پ پر جاتے ہیں وہ خرچ بہت کرتے ہیں.میرے نزدیک مبلغ کے لئے صرف یہی جائز ہے کہ وہ کرایہ ہے ، کھانے کی قیمت لے یا رہائش کے لئے اسے کچھ خرچ کرنا پڑے تو وہ لے گویا میرے نزدیک تُوتُ لَا يَمُوتُ یا ایسے اخراجات جولازمی طور پر کرنے پڑیں ان سے زیادہ لینا ان کے لئے جائز نہیں ہے.مثلاً مٹھائی وغیرہ یا اور کوئی مزہ کے لئے چیزیں خریدی جائیں تو ان کا خرچ اپنی گرہ سے دینا چاہئے.ہماری حالت اور ہمارے کام کی حالت کی وجہ سے جائز نہیں ہے کہ اس قسم کے اخراجات فنڈ پر ڈالے جائیں.میں نے مولوی صاحب کے زمانہ میں دوستوں کے ساتھ دو دفعہ سفر کیا ہے.مگر میرے نزدیک دوستوں کی جو زائد چیزیں تھیں ان کا خرچ اپنے پاس سے دیا اور خود اپنا خرچ تو میں لیا ہی نہ کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ کئی آدمیوں کے بنارس تک کے خرچ پر صرف ستر روپے خرچ آئے تھے پس جہاں تک ہو سکے مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ بہت کم خرچ کرے کیونکہ یہ نمونہ ہوتا ہے دوسروں کے لئے اگر یہی اسراف کرے گا تو لوگ معترض ہوں گے.اگر ایک تنخواہ دار تنخواہ میں سے خرچ کرتا ہے تو اس کا مال ہے وہ کر سکتا ہے.لیکن اگر اس طرح کا خرچ ہو جس طرح کا مبلغوں کا ہوتا ہے اور ایک پیسہ بھی اسراف میں لگائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اللے تللے خرچ کرتے ہیں.اپنی جیب سے تھوڑا ہی نکلنا ہے کہ پرواہ کریں.اور جب لوگوں کو اس طرح کے اعتراض کا موقع دیا جائے گا تو وہ چندہ میں سستی کریں گے.ساتویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں خودستائی نہ ہو.بہت لوگوں کی تباہی کی ساتویں ہدایت یہی وجہ ہوئی ہے.خواجہ صاحب اپنے لیکچروں کی تعریف خود لکھتے دوسروں کی طرف سے شائع کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے.ایک دفعہ مولوی صدرالدین صاحب خواجہ صاحب کے ایک لیکچر کی رپورٹ حضرت خلیفہ اول کو سُنا رہے تھے کہ مولوی صاحب نے اس کے ہاتھ سے وہ کا ند لے لیا اس کی پشت پر لکھا ہوا تھا کہ جہاں جہاں میں نے اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ میں نے یہ کہا یا میری نسبت یہ کہا گیا وہاں خواجہ صاحب لکھ کر شائع کرا دیا جائے.حضرت مولوی صاحب نے وہ خطہ پڑھ کر مجھے دیدیا اور میں نے اس کی پشت پر یہ ہدایت لکھی ہوئی دیکھی.اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ظاہر ہے پس مبلغ کو بھی اس بات پر زورنہ دینا چاہتے کہ فلاں جگہ ہیں نے یہ بات کہی اور اس کی اس طرح تعریف کی گئی یا اس کا ایسا نتیجہ نکلا کہ مخالف دم بخود ہو گیا.بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سنائیں.ہم نے یہ بات کہی اور اس کا ایسا اثر ہوا کہ لوگ عش عش کرنے

Page 607

۵۸۷ لگے.اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ تعریف کریں.اس میں شک نہیں کہ اپنے کام کا نتیجہ اور کامیابی سنانا بھی ضروری ہوتا ہے جس طرح حضرت صاحب سنایا کرتے تھے.مگر یہ انتہائی مقام کی باتیں ہیں ابتدائی حالت کی نہیں ہیں مبلغوں کو چاہئے کہ اپنے لیکچروں اور مباحثوں کی خود تعریفیں نہ سنایا کریں اور صرف اتنی ہی بات بتائیں جتنی ان سے پوچھی جائے اور وہی بات بتائیں جو انہوں نے کہی.آگے اس کے اثرات نہ بیان کیا کریں یہ بتانا ان کا کام نہیں بلکہ اس مجلس کا کام ہے میں میں وہ اثرات ہوئے وہ خود بتاتے پھریں کسی مبلغ کا یہ کہنا کہ میں نے فلاں مخالف کو یوں پکڑا کہ وہ ہکا بکا رہ گیا اور اس کا رنگ فق ہو گیا جائز نہیں.یہ تم نہ کہو بلکہ وہ لوگ کہیں گے جنہوں نے ایسا ہوتے دیکھا.تمہارے منہ سے ایک بھی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے تمہاری خوبی ظاہر ہوتی ہو.تم صرف واقعات بیان کرد و اور آگے اثرات کے متعلق کچھ نہ کہو.یہ بات نوجوان اور مبتدی مبلغوں کے لئے نہایت ضروری ہے اور جو استاد ہو جائیں انہیں دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بیان کرنا بعض دفعہ ضروری ہوتا ہے آٹھویں بات یہ ہے کہ عبادات کے پابند بنو.اس کے بغیر نہ تم دنیا اٹھویں ہدایت کو فتح کر سکتے ہو اور نہ اپنے نفس کو فرض عبادات تو ہر ایک مبلغ ادا کرتا ہی ہے لیکن ان کے لئے تہجد پڑھنا بھی ضروری ہے.صحابہ کے وقت تہجد نہ پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا.مگر اب تہجد پڑھنے والے کو ولی کہا جاتا ہے.حالانکہ روحانیت میں ترقی کرتے کے لئے تجد اور نوافل پڑھنے ضروری ہیں.دوسرے لوگوں کے لئے بھی ضروری ہیں مگر مبلغ کے لئے تو بہت ہی ضروری نہیں پس اگر زیادہ نہیں تو کم ہی پڑھ لے.آٹھ کی بجائے دو ہی پڑھ لے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو یہاں تک کرلے کہ نماز سے پہلے پانچ منٹ لیٹے لیٹے استغفار پڑھ لے اور آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتا جائے.اس کے علاوہ ذکر الہی اور دوسری عبادتوں کا بھی شغل رکھنا چاہئے.کیونکہ ان کے بغیر روح کو جلاء نہیں ہوتا.فرائض تو ایسے ہیں کہ اگر کوئی ان کو ادا نہ کرے تو مبلغ رہتا ہی نہیں اور فرائض تو ادا کئے ہی جاتے ہیں.کیونکہ اگر مسجد میں نہ آئے تو وہ سمجھتا ہے کہ لوگ کہیں گے اچھا مبلغ ہے.لیکن قرب الہی حاصل کرنے کے لئے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے نوافل پڑھنے ضروری ہیں اور دیگر اذکار کی بھی بہت ضرورت ہے.نویں ہدایت نویں چیز مبلغ کے لئے دُعا ہے.دُعا خدا کے فضل کی جاذب ہے جو شخ عبادت تو کرتا ہے مگر دعا کی طرف توجہ نہیں کرتا اس میں بھی کبر ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کے انعام کی ضرورت نہیں سمجھتا.حالانکہ مونٹی جیسا نبی بھی خدا تعالیٰ

Page 608

انوار العلوم جلد ۵ DAA سے کتا ہے.رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْر فقير (القصص : ۱۵) کہ جو کچھ تیری طرف سے مجھ پر بھلائی نازل ہوئیں اس کا محتاج ہوں پس جب حضرت موسیٰ نبی ہو کہ خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں تو معمولی مومن کیوں محتاج نہ ہو گا ؟ ہر ایک مبلغ کو دُعا سے ضرور کام لینا چاہئے اور اس کو کسی حالت میں بھی نہ چھوڑنا چاہئے.دسویں چیز مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں انتظامی قابلیت دسویں ہدایت ہو.اگر اس میں یہ قابلیت نہ ہوگی تو اس کا دائرہ عمل بہت محدود ہوگا.اور اس کی کوششوں کا دائرہ اس کی زندگی پر ہی ختم ہو جائے گا.اس لئے اسے اس بات کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ جس کام کو اس نے شروع کیا ہے وہ اس کے ساتھ ہی ختم نہ ہو جائے بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے قائمقام بنائے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبلغ تھے مگر آپ مبلغ گر بھی تھے.ہمارے مبلغوں کی اس طرف قطعاً توجہ نہیں ہے.وہ یہ کوشش نہیں کرتے کہ جہاں جائیں وہ اپنے قائمقام بنائیں اور کام کرنے والے پیدا کریں.تاکہ انتظام اور ترتیب کے ساتھ کام جاری رہے.یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مبلغ جن لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ لائق دیکھیں اور جو شوق رکھیں ان کو مختلف مسائل کے دلائل سکھائیں اور ہر بار ان میں اضافہ کرتے رہیں.اور دیکھتے رہیں کہ انہوں نے پہلے دلائل کو یاد کر لیا ہے یا نہیں.اور پھر انہیں یہ بھی کہیں کہ ہمارے بعد تم تبلیغ کرنا اور اس کے متعلق نہیں اطلاع دیتے رہنا.میں نے تالیف و اشاعت کے دفتر کو اس کے متعلق تاکید کی تھی کہ ہر جگہ تبلیغ کرنے والے مقرر کئے جائیں اور اس نے نیم مردہ سی تحریک بھی کی جواسی حالت میں رہی.کئی جگہ تبلیغی سیکرٹری مقرر ہی نہیں ہوئے اور کی جگہ مقرر ہوئے تو انہوں نے کچھ کیا نہیں.دراصل ان کو پہلے خود زندہ ہونا چاہئے اور زندگی کی علامات ظاہر کرنی چاہئیں.تاکہ دوسروں کو زندہ کرسکیں لیکن جب کہ وہ خود مردہ حالت میں پڑے ہیں تو ان سے کسی کام کی کیا امید ہوسکتی ہے.غرض جہاں مبلغ جائیں.وہاں دوسروں کو تبلیغ کرنا سکھائیں اور بتائیں کہ اس طرح بحث کرنی چاہئے.بحث کرنا اور بات ہوتی ہے اور لیکچر دینا اور.اس لئے بحث اور دوسرے مذاہب کے متعلق گفتگو کرنے کے گر سکھانے چاہئیں.تاکہ ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو ان کے بعد کام کرتے رہیں.

Page 609

انوار العلوم جلد ۵ ۵۸۹ بعد از نماز مغرب ہدایات زرین میں نے پہلے دس باتیں بیان کی تھیں.اب گیارہویں بات بتا تا ہوں.گیارہویں بات جس کا یاد رکھنا مبلغ کے لئے ضروری ہے وہ گیارہویں ہدایت نازک امر ہے بہت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں رکھتے انیس لئے بعض دفعہ زک پہنچ جاتی ہے.میں نے اس سے خاص طور پر فائدہ اُٹھایا ہے اور بران باتوں میں سے ہے جو بہت سہل الحصول ہیں مگر تعجب ہے کہ بہت لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.اور وہ یہ ہے کہ دشمن کو بھی حقیر نہ سمجھو اور اس کے ساتھ ہی کبھی یہ خیال اپنے دل میں نہ آنے دو کہ تم اس کے مقابلہ میں کمزور ہو.مجھے مباحثات کم پیش آتے ہیں اس لئے میں اس معاملہ میں کم تجربہ رکھتا ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ نہایت کم علم اور معمولی سے آدمی نے ایسا اعتراض کیا ہے کہ جو بہت وزنی ہوتا ہے اور کئی دفعہ میں نے بچوں کے منہ سے بڑے بڑے اہم اعتراض سنتے ہیں.اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا مد مقابل کم علم اور جاہل انسان ہے اور اس کی ہمیں کیا پرواہ ہے.بلکہ یہی منظر رکھنا چاہئے کہ یہ بہت بڑا دشمن ہے.اور اگر بچہ سامنے ہو اور اس کا رعب نہ پڑ سکے تو یہ خیال کرلینا چاہئے کہ ممکن ہے میرا امتحان ہونے لگا ہے.ہمیں ایک طرف تو خواہ بچہ ہی مقابلہ پر ہو اس کو حقیر نہ سمجھو بلکہ بہت قوی جانو.اور دوسری طرف اس کے ساتھ ہی تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہم حق پر ہیں ہمیں کسی کا کیا ڈر ہو سکتا ہے.گویا نہ تو مد مقابل کو حقیر سمجھنا چاہئے اور نہ مایوس ہونا چاہئے کیونکہ جب خدا تعالیٰ پر اعتماد ہو تو اس کی طرف سے ضرور مدد آتی ہے اور خدا ہی کی مدد ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان دشمن کے مقابلہ میں کامیاب ہو سکتا ہے.ورنہ کون ہے جو سب دنیا کے علیم پڑھ سکتا ہے؟ پھر کون ہے جو سب اعتراضات نکال سکتا ہے اور پھر کون ہے جو ان کے جوابات سوچ سکتا ہے ؟ ہر انسان کا دماغ الگ الگ باتیں نکالنا ہے.اس لئے خدا پر ہی اعتماد رکھنا چاہئے کہ وہ ہی ہماری مدد کرے گا اور ہم کامیاب ہوں گے اور ادھر دشمن کو حقیر نہ سمجھا جائے جب یہ دو باتیں ایک وقت میں انسان اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ کبھی اک نہیں اُٹھا سکتا.مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ جب ایک دو دفعہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور اچھا بولنے لگتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں.کون ہے جو

Page 610

انوار العلوم جلد ۵ ۵۹۰ ہدایات زریں مارا مقابلہ کر سکتا ہے.ایسا نہیں ہونا چاہئے.دشمن کو بھی حقیر نہ سمجھنا چاہئے بلکہ بہت بڑا سمجھنا چاہئے ہاں ساتھ ہی یہ بھی اعتقاد ہونا چاہئے کہ اگر دشمن قوی ہے تو میرا مددگار بھی بہت قوی ہے.اس لئے دشمن میرے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکے گا.جب یہ دو باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں.تو اول تو خدا اس کے دشمن کی زبان پر کوئی اعتراض ہی جاری نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو اس کا جواب بھی سمجھا دے گا.ایک دفعہ یہاں ایک انگریز پادری آیا.والٹر اس کا نام تھا.احمدیت کے متعلق ایک کتاب بھی اس نے لکھی ہے.اب مرگیا ہے اس نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن انجیل اور توربیت کی تصدیق کرتا ہے مگر ان میں آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے اگرچہ میں قرآن کی تصدیق کرنے کے اور معنے کیا کرتا ہوں اور میرے نزدیک جب ایسے موقع پر لام صلہ آئے تو اس کا اور ہی مطلب ہوتا ہے.مگر اس وقت میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ کہو ہاں تصدیق کرتا ہے.اور بتایا گیا کہ وہ کوئی اختلاف پیش ہی نہیں کر سکے گا.اس نے کہا کہ ان میں تو اختلاف ہے پھر تصدیق کے کیا معنی؟ میں نے کہا کوئی اختلاف پیش تو کرو.اس پر وہ خوب قہقہ مارکر رہنا اور کہا ایک اختلاف ؟ اختلاف تو بیسیوں ہیں.میں نے کہا ایک ہی پیش کرو.یہ باتیں میرے مینہ سے غداری کہلوا رہا تھا.ورنہ اختلاف تو فی الواقع موجود ہیں.گو اس قسم کے اختلاف نہیں ہیں جس قسم کے اس کی مراد تھی.وہ پادری تھا اور انجیل کا ماہر.اگر کوئی اختلاف پیش کر دیتا تو بات کہی جا پڑتی.مگر چونکہ میرے دل میں ڈالا گیا تھا کہ وہ کوئی اختلاف پیش نہیں کر سکے گا.اس لئے ہیں نے زور دے کر کہا کہ کوئی اختلاف تو پیش کرو.اس نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا.قرآن کریم می لکھا ہے کہ میچ پرندہ پیدا کیا کرتا تھا انجیل میں اس طرح نہیں لکھا.میں نے کہا.پادری صاحب آپ تو سمجھدار آدمی ہیں اور تاریخ نویسی کا ارادہ رکھتے ہیں.آپ بتا نہیں کیا اگر ایک مورخ کچھ واقعات کو اپنی کتاب میں درج کر دے اور دوسرا ان کو درج نہ کرے.تو یہ کہا جائے گا کہ ان کتابوں کا آپس میں اختلاف ہے.یہ سن کر اس کے ساتھ جو دو انگریز تھے ان کی بے اختیار ہنسی نکل گئی اور انہوں نے کہا في الواقع یہ تو کوئی اختلاف نہیں اس پر وہ بالکل خاموش ہوگیا.نہیں جب انسان خدا تعالی پر بھروسہ کرلیتا ہے تو خدا خود اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دشمن پر خواہ اس کا دشمن کتنا ہی قوی ہو کامیاب کر دیتا ہے.یارہویں بات جس کا مں نے بار ہا تجربہ کیا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں بارہویں ہدایت نے اسے استعمال کیا ہو اور اس کا فائدہ نہ دیکھا ہو.یہ ہے کہ جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو ذہن میں جتنے علوم اور جتنی باتیں ہوں ان کو نکال دے اور یہ دعا

Page 611

✓.انوار العلوم جلد ۵ ۵۹۱ کر کے کھڑا ہو کہ اسے خدا ! جو کچھ تیری طرف سے مجھے سمجھایا جائے گائیں وہی بیان کروں گا.جب انسان اس طرح کرے تو اس کے دل سے الیسا علوم کا چشمہ پھوٹتا ہے جو بہتا ہی چلا جاتا ہے..اور کبھی بند نہیں ہوتا.اس کی زبان پر ایسی باتیں جاری ہوتی ہیں کہ وہ خود نہیں جانتا.اس گھر کا ئیں نے بڑا تجربہ کیا ہے بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ میں پانچ پانچ منٹ تقریر کرتا چلا گیا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں لگا کہ کیا کہہ رہا ہوں.خود بخود زبان پر الفاظ جاری ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد جا کر معلوم ہوتا ہے کہ کس امر پر تقریر کر رہا ہوں.پچھلے ہی دنوں ڈاکٹرسید محمد حسین شاہ صاحب کے خطبہ نکاح کے وقت ایسا ہی ہوا.جب میں کھڑا ہوا تو پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنے لگا ہوں مگر کچھ منٹ بول چکا تو پھر بات سمجھ آئی کہ اس مضمون کو بیان کر رہا ہوں.یہ بات بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ہر ایک شخص کو حاصل نہیں ہو سکتی.لیکن چونکہ یہاں ہر طبقہ کے آدمی ہیں اور دوسرے بھی جب اعلیٰ درجہ پر پہنچیں گے تو اس کو سمجھ لیں گے.اس لئے میں اسے بیان کرتا ہوں جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو بالکل خالی الذہن ہو کر کھڑا ہو اور اسی بات پر اسے بھروسہ ہو کہ جو کچھ خدا بتائے گا وہی بیان کروں گا.یہ تو کل کا ایک ایسا مقام ہے کہ انسان جو کچھ جانتا ہے اسے بھی بھول جاتا ہے.ان لوگوں کو بھول جاتا ہے جو اس کے سامنے ہوتے ہیں حتی کہ اپنا نام تک بھول جاتا ہے اور جو کچھ اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ نہیں جانتا کہ میں کیوں کہ رہا ہوں اور اس کا کیا مطلب ہے ؟ مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ خدا کی عبادت کرو ان الفاظ کو تو سمجھتا ہے اور ان کا مطلب بھی جانتا ہے مگر یہ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ میں نے یہ کیوں کہا ہے اور کس مضمون کے بیان کرنے کے لئے میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہیں.جب وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے تو پھر یکدم اس پر کشف ہوتا ہے کہ یہ بات ہے جس کو تو بیان کرنے لگا ہے.مگر یہ بات پیدا ہوتی ہے اپنے آپ کو گرا دینے سے جب کوئی انسان اپنے آپ کو بالکل گرا دیا ہے.تو پھر خدا تعالیٰ اسے اُٹھاتا ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ میرے پاس علم ہے میں خوب لیکچر دے سکتا ہوں مجھے سب باتیں معلوم ہیں ان کے ذریعہ میں اپنا لیکچر بیان کروں گا تو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی.کہا جاسکتا ہے کہ اگر لیکچر کیلئے کھڑے ہوتے وقت بالکل خالی الذہین ہو کر کھڑا ہونا چاہئے تو پھر لیکچر کے لئے نوٹ کیوں لکھے جاتے ہیں.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح لیکچر کے وقت میں نے بتایا ہے کہ بالکل خالی الذہن ہونا چاہئے اسی طرح جن لیکچروں کے لئے جوابوں کی کثرت یا مضمون کی طوات یا اس کی مختلف شاخوں کے سبب سے نوٹ لکھنے ضروری ہوں ان کے نوٹ لکھتے وقت یہی کیفیت

Page 612

۵۹۲ ہدا یانیت زرین دماغ میں پیدا کرنی چاہئے اور پھر نوٹ لکھنے چاہیں میں ایسا ہی کرتا ہوں اور اس وقت جو کچھ خدا تعالیٰ لکھا تا جاتا ہے وہ لکھتا جاتا ہوں.پھر ان میں اور بائیں بڑھالوں تو اور بات ہے.اسی سالانہ جلسہ پر لیکچر کے وقت ایک اعتراض ہوا تھا کہ فرشتوں کا چشمہ تو خدا ہے جیسا کہ بتایا گیا ہے اور وہ اس چشمہ سے لے کر آگے پہنچاتے ہیں.مگر شیطان کا چشمہ کیا ہے اس اعتراض پر دس پندرہ منٹ کی تقریر میرے ذہن میں آئی تھی اور میں وہ بیان ہی کرنے لگا تھا کہ یک لخت خدا تعالیٰ نے یہ فقرہ میرے دل میں ڈال دیا کہ شیطان تو چھینتا ہے نہ کہ لوگوں کو کچھ دیتا ہے اور چھیننے والے کو کسی ذخیره کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ ایسا مختصر اور واضح جواب تھا کہ جسے ہر ایک شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا.لیکن جو تقریر کرنے کا میں نے ارادہ کیا تھا وہ ایک تو لمبی تھی اور دوسرے ممکن تھا کہ علمی لحاظ سے وہ ایسی مشکل ہو جاتی کہ ہمارے دیہاتی بھائی اسے نہ سمجھ سکتے.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ دل میں ڈالا جاتا ہے وہ بہت جامع اور نہایت زود فہم ہوتا ہے اور اس کا اثر جس قدر سننے والوں پر ہوتا ہے اتنا کسی لمبی سے لمبی تقریر کا بھی نہیں ہوتا پس تم یہ حالت پیدا کرو کہ جب تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہو تو بالکل خالی الذہین ہو اور خدا تعالی یہ تمہارا سارا مدار ہو.اگر چہ یہ حالت پیدا کرلینا ہر ایک پر کا کام نہیں ہے اور بہت مشکل بات ہے.لیکن ہوتے ہوتے جب اس کی قابلیت پیدا ہو جائے تو.بہت فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.تیرہویں ہدایت تیر ہیں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی پارٹی میں اپنے آپ کو داخل نہ سمجھے.بلکہ سب کے ساتھ اس کا ایک جیسا ہی تعلق ہو.یہ بات صحابہ میں بھی ہوتی تھی کہ کسی سے محبت اور کسی مناسبت کی وجہ سے زیادہ تعلقی ہوتا تھا اور وہ دوسروں کی نسبت آپس میں زیادہ تعلق رکھتے تھے.اور ہم میں بھی اس طرح ہے اور ہونی چاہئے لیکن جو بات بڑی ہے اور جس سے مبلغ کو بالا رہنا چاہئے یہ ہے کہ وہ کسی فریق میں اپنے آپ کو شامل کرے.ہر ایک مبلغ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کا عمل ہے اور کل وہی ہو سکتا ہے جس میں وہ باتیں پائی جائیں جو اصل میں تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ نکلے تو دیکھا کہ دو پارٹیاں آپس میں تیراندازی کا مقابلہ کر رہی ہیں آپ ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک کے ساتھ ہوکر تیر مارنے لگے اس پر دوسری پارٹی نے اپنی کمانیں رکھ دیں اور کہا ہم آپ کا مقابلہ نہیں کریں گے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا لو.میں دخل نہیں دیتا.چونکہ آپ سب کے ساتھ ایک ہی تعلق رکھتے تھے.اس لئے آپ کو مد مقابل بنانے کے لئے صحابیہ تیار نہ ہوئے.اور اس بات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کر کے دخل دینا بخاری.كِتَابُ الجِهَاد و السير باب الـ على الرمي و قول الله تعالى......الخ

Page 613

انوار العلوم جلد ۵۹۳ ہدایات زرین چھوڑ دیا.یہ چونکہ جگی لحاظ سے ایک مقابلہ تھا.اس لئے آپ الگ ہو گئے ورنہ ایسی باتیں جو تفریح کے طور پر ہوتی ہیں ان میں آپ شامل ہوتے تھے.چنانچہ ایسا ہوا ہے کہ گھوڑ دوڑ میں آپ نے بھی اپنا گھوڑا دوڑایا.اس قسم کی باتوں میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں تھا.غرض مبلغ کو بھی ایسی باتوں میں کسی فریق کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے جو مقابلہ کے طور پر ہوں اور بالکل الگ تھلگ رہ کر اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ اس کے نزدیک دونوں فریق ایک جیسے ہی ہیں.چودہویں بات یہ ضروری ہے کہ کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میرا چودہویں ہدایت علم کامل ہو گیا ہے بہت لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا علم مل ہوگیا ہے اور ہمیں اور کچھ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.مگر اس سے زیادہ جہالت کی اور کوئی بات نہیں ہے.کیو نکہ علم کبھی مکمل نہیں ہو سکتا.میں تو علم کی مثال ایک رستہ کی سمجھا کرتا ہوں جس کے آگے دو رشتے ہو جائیں پھر اس کے آگے دو ہو جائیں اور پھر اس کے آگے دو.اسی طرح آگے شاخیں ہی شاخیں نکلتی جائیں اور اس طرح کئی ہزار رستے بن جائیں یہی حال علم کا ہوتا ہے علم کی بیشمار شاخیں ہیں اور اس قدر شاخیں ہیں جن کی انتہاء ہی نہیں پیس علم کا خاتمہ شاخوں کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اس کا خاتمہ بڑ کی طرف ہے کہ وہ ایک ہے اور وہ ابتداء ہے جو جہالت کے بالکل قریب ہے.بلکہ جہالت سے بالکل ملی ہوئی ہے ور نہ آگے جوں جوں بڑھتے جائیں اس کی شاخیں نکلتی آتی ہیں اور وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتیں اگر کسی نے ایک شاخ کو ختم کر لیا تو اس کے لئے دوسری موجود ہے.غرض علم کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور روحانی علوم کی تو قطعا کوئی حد ہے ہی نہیں.ڈاکٹری کے متعلق ہی کس قدر علوم دن بدن نکل رہے ہیں اور روز بروزہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے.پس کوئی علم ختم نہیں ہو سکتا.اور جہاں کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ علم ختم ہو گیا ہے وہاں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ علم کے درخت سے اتر کر جہالت کی طرف آگیا ہے پیس کبھی یہ مت خیال کرو کہ ہمارا علم کامل ہو گیا.کیونکہ ایک تو یہ جھوٹ ہے کوئی علم ختم نہیں ہو سکتا.دوسرے اس سے انسان متکبر ہو جاتا ہے اور اس کے دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے.لیکن اگر انسان ہر وقت اپنے آپ کو طالب علم سمجھے اور اپنے علم کو بڑھاتا رہے تو اس کے دل پر زنگ نہیں لگتا.کیونکہ جس طرح چلتی تلوار کو زنگ نہیں لگتا لیکن اگر اسے یوں ہی رکھ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو زنگ لگ جاتا ہے.پس ہر وقت اپنا علم بڑھاتے رہنا چاہئے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا.

Page 614

انوار العلوم جلد ۵ ۵۹۴ ہدایات زرین رہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے پندرہویں ہدایت کہ بلے میں کہا گیا ہے کہ پہنچا دے.اور جس کو کچھ پہنچایا جاتا ہے وہ بھی کوئی وجود ہونا چاہئے جو معتین اور مقرر ہو.ورنہ اگر کی معین وجود کو نہ پہنچانا ہوتا تو یہ کہا جاتا کہ پھینک دو یا بانٹ دور مگر اللہ تعالیٰ نے پہنچانا فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معین وجود ہیں جن کو ان کا حصہ پہنچاتا ہے.پھر قرآن کریم فرماتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.د ال عمران : 1) اس میں عموم کے لحاظ سے سب انسان آگئے ان کو پیغام الٹی پہنچانا ہمارا کام ہے.پس کسی قوم اور کسی فرقہ کو حقیر اور ذلیل نہ سمجھا جائے مبلغ کا کام پہنچانا ہے اور جس کو پہنچانے کے لئے کہا جائے اسے پہنچانا اس کا فرض ہے.اسے یہ حق نہیں کہ جسے ذلیل سمجھے اسے نہ پہنچائے اور جسے معزز سمجھے اسے پہنچائے.مگر ہمارے مبلغوں میں یہ نقص ہے کہ وہ اونی اقوام چوہڑوں چماروں میں تبلیغ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.وہ بھی خدا کی مخلوق ہے اسے بھی ہدایت کی ضرورت ہے.ان کو بھی تبلیغ کرنی چاہئے اور سیدھے رستہ کی طرف لانا چاہئے.عیسائیوں نے ان سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے اور اس سے زیادہ ہندوستان میں ایسی اقوام کے لوگوں کو عیسائی بنا لیا ہے جتنی ہماری جماعت کی تعداد ہے اور اب ان لوگوں کو کونسل کی ممبری کی ایک سیٹ بھی مل گئی ہے.ہمارے مبلغ اس طرف خیال نہیں کرتے.حالانکہ ان لوگوں کو سمجھا نا بہت آسان ہے.ان کو ان کی حالت کے مطابق بتایا جائے کہ دیکھو تمہاری کیسی گری ہوئی حالت ہے.اس کو درست کرو اور اپنے آپ کو دوسرے انسانوں میں ملنے جلنے کے قابل بناؤ.اس قسم کی باتوں کا ان پر بہت اثر ہو گا اور جب انہیں اپنی ذلیل حالت کا احساس ہو جائے گا اور اس سے نکلنے کا طریق انہیں بتایا جائے گا تو وہ ضرور نکلنے کی کوشش کریں گے.ان کو کسی مذہب کے قبول کرنے میں سوائے قومیت کی روک کے اور کوئی روک نہیں ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی.ہمارے ہاں جو چو پریاں آتی ہیں تبلیغ کرنے پر کہتی ہیں.ہم مسلمان ہی ہیں مگر ہم اپنی قوم کو کیونکر چھوڑ دیں.یہ روک اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ دس پندرہ میں گھر اکٹھے کے اکٹھے مسلمان ہو جائیں اور ان کی قوم کی قوم بنی رہے جیسا کہ یہ لوگ جب عیسائی ہوتے ہیں تو اکھٹے ہی ہو جاتے ہیں.پس ان میں تبلیغ کرنے کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے.اگر ہم ساری دنیا کے لوگوں کو مسلمان بنائیں مگر ان کو چھوڑ دیں تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ چوہڑے چھار تھے اس لئے ہم نے انکومسلمان نہیں بنایا.خدا تعالیٰ نے ان کو بھی آنکھ ، کان ، ناک ، دماغ ، ہاتھ ، پاؤں اسی طرح دیئے ہیں جس طرح

Page 615

۵۹۵ اور وں کو دیئے ہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کا غلط استعمال کر کے انہیں خراب کر لیا ہے اگر ان کی اصلاح کرلی جائے تو وہ بھی ویسے ہی انسان بن سکتے ہیں جیسا کہ دوسرے.چنانچہ میچوں میں بعض چوروں نے تعلیم پا کر بہت ترقی کرلی ہے.ان کے باپ یا دادا عیسائی ہوگئے اور اب وہ علم پڑھ کے معزز عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور معزز سمجھے جاتے ہیں.پس اگر ان لوگوں کی اصلاح کرلی جائے تو یہ بھی اوروں کی طرح ہی مفید ثابت ہو سکتے ہیں.ہمارے مبلغوں کو اس طرف بھی خیال کرنا چاہئے اور ان لوگوں میں بھی تبلیغ کرنی چاہئے.سولہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے ملنا جلنا سولہویں ہدایت جانتا ہو.بہت لوگ اس بات کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس سے کام نہیں لیتے.لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے اور اس طرح بہت اعلی نتائج نکلتے ہیں.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم ابتداء میں لوگوں کے خیموں میں جاتے اور تبلیغ کرتے تھے.وہ لوگ جو اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں وہ عام لیکچروں میں نہیں آتے ان کے گھر جا کر ان سے ملنا چاہئے.اس طرح ملنے سے ایک تو وہ لوگ باتیں سُن لیتے ہیں.دوسرے ایک اور بھی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.اور وہ یہ کہ اگر کبھی کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی تو اگر یہ لوگ ظاہری مدد نہیں دیں گے تو خفیہ ضرور دیں گے کیونکہ ملنے اور واقفیت پیدا کر لینے سے ایک ذاتی تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ لوگ جن میں شرافت ہوتی ہے اس کا ضرور لحاظ رکھتے ہیں.ہمارے مٹر محمد این سابق ساگر چند صاحب میں ملنے کی عادت ہے.وہ لارڈوں تک سے ملتے رہے ہیں اور اب تک خط و کتابت کرتے رہتے ہیں.تو ملنے جلنے اور واقفیت پیدا کر لینے سے انسان بہت سی باتیں سنا سکتا ہے.جو کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں سنا سکتا.اس لئے ہمارے مبلغوں کو اس بات کی بھی عادت ڈالنی چاہئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.سترہویں ہدایت سترہویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں اشتہار کا مادہ ہو.جب تک یہ نہ ہو لوگوں پر اثر نہیں پڑتا.جب ایثار کی عادت ہو تو لوگ خود بخود کھینچے چلے آتے ہیں.کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہم اشیا کس طرح کریں.کونسا موقع ہمارے لئے ایثار کا ہوتا ہے گر اس کے بہت موقعے اور محل ملتے رہتے ہیں.مثال کے طور پر ہی دیکھ لو کہ ریل پر سوار ہونے والوں کو قریباً ہر اسٹیشن پر وہ لوگ سوار ہونے سے روکتے ہیں جو پہلے بیٹھے ہوتے ہیں.سوار ہونے والا ان کی منتیں کرتا ہے خوشامدیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کھڑا ہی رہوں گا لیکن اسے

Page 616

انوار العلوم جلد ۵ ۵۹۶ ہدایات زریں روکا جاتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر جو سوار ہونے کے لئے آتا ہے اسے سب سے آگے بڑھ کر وہی روکتا ہے اور کہتا ہے یہاں جگہ نہیں ہے ہمارا دم پہلے ہی گھٹ رہا ہے اسی طرح ہر جگہ ہوتا رہتا ہے.ایسے موقع پر مبلغ ان کا افسر بن کر بیٹھ جائے اور نرمی و محبت سے کے آنے دیجیئے کوئی حرج نہیں بیچارہ رہ گیا تو نہ معلوم اس کا کتنا نقصان ہو.اور اگر کہیں جگہ نہ ہو تو کہہ دے میں کھڑا ہو جاتا ہوں.یہاں بیٹھ جائے گا.جب وہ اس بات کے لئے تیارہ ہو جائے گا اور اس قدر اختیار کرے گا تو اس کا لوگوں پر اتنا اثر ہو گا کہ سب اشیار کے لئے تیار ہو جائیں گے اور تھوڑی تھوڑی جگہ نکال کر آنے والے کو بٹھا دیں گے.اس طرح اسے اپنی جگہ بھی نہیں چھوڑنی پڑے گی اور بات بھی پوری ہو جائے گی.اس قسم کی باتوں سے مبلغ لوگوں کو ممنون احسان بنا سکتے نہیں ایک مبلغ جن لوگوں کو گاڑی کے اندر لائے گا وہ تو اس کے شکر گزار ہوں گے ہی، دوسرے بھی اس کے اخلاق سے متاثر ہوں گے اور اس کی عزت کرنے لگیں گے.اور اس طرح انہیں تبلیغ کرنے کا موقع نکل آئے گا.لیکن اگر اس موقع پر اسی قسم کی بد اخلاقی دکھائی جائے جس طرح کی اور لوگ دکھاتے ہیں تو پھر کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ ہوگا.اور نہ تمہیں خود جرات ہو سکے گی کہ ایسے موقع پر کسی کو تبلیغ کر سکو.ایک سفر میں ایک شخص گاڑی کے اس کمرہ میں آداخل ہوا جس میں ہمارے آدمی بیٹھے تھے.اس کے پاس بہت سا اسباب تھا جب وہ اسباب رکھنے لگا تو بعض نے اسے کہا کہ یہ سیکنڈ کلاس ہے.اس سے اتر جائیے اور کوئی اور جگہ تلاش کیجیئے لیکن وہ خاموشی سے ان کی باتیں سُنتا رہا.اور جب اسباب رکھ چکا تو سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ نکال کر ان کو دکھلا دیا اس پر وہ سخت نادم ہو کر بیٹھ گئے.مجھے سخت افسوس تھا کہ ان لوگوں نے اس قسم کی بداخلاقی کیوٹی کھائی.جب میں نے اس کا جواب سنا تو میرے دل کو بہت خوشی ہوئی.جس سے اس طرح پیش آتے تھے وہ لوگ تبلیغ کر سکتے تھے اور وہ ان کی باتوں سے متاثر ہو سکتا تھا.ہرگز نہیں.تو اشیار کے موقع پر اختیار کر کے لوگوں میں اپنا اثر پیدا کرنا چاہئے تاکہ تبلیغ کے لئے راستہ نکل سکے.اس قسم کی اور بیسیوں باتیں ہیں جن میں انسان ایشیار سے کام لے سکتا ہے.اٹھارہویں بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دلائل دو قسم کے ہوتے اٹھارہویں ہدایت ہیں.ایک عقلی اور دوسرے ذوتی.عقل تو چونکہ کم وبیش ہر ایک میں ہوتی ہے اس لئے عقلی دلائل کو سر شخص سمجھ سکتا ہے.لیکن ذوقی دلیل ہوتی تو نیچی اور بہتی ہے مگر چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ مناسبت ذاتی کے بغیر اس کو سمجھنا نا ممکن ہوتا ہے.اس لئے اس کا مخالف

Page 617

۵۹۷ ہدایات زرین کے سامنے پیش کرنا مناسب نہیں ہوتا.کیونکہ اگر اس میں بھی ذوق سلیم ہوتا اور اس کا دل اس قابل ہوتا ہے کہ اس بات کو سمجھ سکے تو وہ احمدی کیوں نہ ہو گیا ہوتا اور کیوں الگ رہتا.اس کا تم سے الگ رہنا بتاتا ہے کہ اس میں وہ ذوق سلیم نہیں ہے جو تمہارے اندر ہے.اور ابھی اس کا دل اس قابل نہیں ہوا کہ ایسا ذوق اس کے اندر پیدا ہو سکے.اس لئے پہلے اس کے اندر یہ ذوق پیدا کرو اور پھر اس قسم کی دلیلیں اسے سناؤ.ورنہ اس کا الٹا اثر پڑے گا.کئی مبلغ ہیں جو مخالفین کے سامنے اپنی ذوقی باتیں سنانے لگ جاتے ہیں اور اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے.کیونکہ مخالف اس کا ثبوت مانگتا ہے تو وہ دیا نہیں جا سکتا اور اس طرح زک اُٹھانی پڑتی ہے.پس مخالفین کے سامنے ایسے لائل پیش کرنے چاہئیں جو عقلی ہوں اور جن کی صحت ثابت کی جاسکے.انیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کوئی موقع تبلیغ کا جانے نہ دے.اسے ایک انیسویں ہدایت دست لگی ہو کہ جہاں جائے جس مجلس میں جائے، جس مجمع میں جائے، تبلیغ کا پہلو نکال ہی لے.جن لوگوں کو باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ ہر ایک مجلس میں بات کرنے کا موقع نکال لیتے ہیں.مجھے باتیں نکالنے کی مشق نہیں ہے اس لئے بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ گھنٹہ گھنٹہ بیٹھے رہنے پر بھی کوئی بات نہیں کی جاسکتی.حضرت مسیح موعود عام طور پر باتیں کرلیتے تھے.مگر پھر بھی بعض دفعہ چپ بیٹھے رہتے تھے.ایسے موقع کے لئے بعض لوگوں نے مثلاً میاں معراج الدین صاحب اور خلیفہ رجب الدین صاحب نے یہ عمدہ طریق نکالا تھا کہ کوئی سوال پیش کر دیتے تھے کہ حضور مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں اس پر تقریر شروع ہو جاتی.تو بعض لوگوں کو باتیں کرنے کی خوب عادت ہوتی ہے.اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں چُپ کرانا پڑتا ہے.مبلغوں کے لئے باتیں کرنے کا ڈھب سیکھنا نہایت ضروری ہے.میر صاحب ہمارے نانا جان کو خدا کے فضل سے یہ بات خوب آتی ہے.میں نے ان کیساتھ سفر میں رہ کر دیکھا کہ خواہ کوئی کس قسم کی بھی باتیں کر رہا ہو.وہ اس سے تبلیغ کا پہلو نکال ہی لیتے ہیں.بیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ بیہودہ بحثوں میں نہ پڑے.بلکہ اپنے کام سے بیسویں ہدایت کام رکھے.مثلا ریل میں سوار ہو تو یہ نہیں کہ ترک موالات پر بحث شروع کر دے.میں نے اس کے متعلق کتاب لکھی ہے مگر اس لئے لکھی ہے کہ میرے لئے جماعت کی سیاسی حالت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور سیاسی طور پر اپنی جماعت کی حفاظت کرنا بھی میرا فرض ہے.اگر میں صرف مبلغ ہوتا تو کبھی اس کے متعلق کچھ نہ لکھتا کیونکہ مبلغ کو ایسی باتوں میں پڑنے

Page 618

انوار العفو ۵۹۸ ہدایات زرین اکیسویں ہدایت کی ضرورت نہیں ہے.اسے ہر وقت اپنے کام کا ہی فکر رکھنا چاہئے.اور اگر کہیں ایسی باتیں ہو رہی ہوں جو اس کے دائرہ عمل میں داخل نہیں ہیں تو وہ واعظانہ رنگ اختیار کرے اور کسے کہ اتفاق و اتحاد ہی اچھا ہوتا ہے اور وہی طریق عمل اختیار کرنا چاہئے جس میں کوئی فسادنہ ہو کوئی فتنہ نہ پیدا ہو اور کسی پر ظلم نہ ہو.اس کے سوا کیا ہو یا کیا نہ ہو اس میں پڑنے کی اسے ضرورت نہیں ہے بلکہ یہی کہے کہ ہر ایک وہ بات جو فساد، فتنہ اور ظلم و ستم سے خالی ہو اور حق و انصاف پر مبنی ہو اسے ہم ماننے کے لئے تیار ہیں اور اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ جو بات حق و صداقت پر مبنی ہو اسے ہم ہر وقت ماننے کے لئے تیار ہیں.اکیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کو اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں.مبلغ کو اپنے اخلاق درست رکھنے بھی نہایت ضروری ہیں.مگر اس کے اخلاق کا اثر مخالفین پیر اتنا نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کے اخلاق پر ہوتا ہے جو ہر وقت ان کے پاس رہتے ہیں.مبلغ تو ایک آدھ دن کے لئے کسی جگہ جائے گا اور مخالفین اس کے اخلاق کا اندازہ بھی نہ لگا سکیں گے.ان پر تو وہاں کے احمدیوں کے اخلاق کا ہی اثر ہو گا.لیکن اگر ان احمدیوں کے اخلاق اچھے نہیں جو ان میں رہتے ہیں تو خواہ انہیں کوئی دلیل سناؤ ان کے سامنے وہاں کے لوگوں کے ہی اخلاق ہوں گے اور ان کے مقابلہ میں دلیل کا کچھ بھی اثر ان پر نہ ہو گا.پس مبلغ کا یہ اولین فرض ہے کہ جہاں جائے وہاں کے لوگوں کے متعلق دیکھے کہ ان کے روحانی اور ظاہری اخلاق کیسے ہیں.ان کے اخلاق اور عبادات کو خاص طور پر دیکھیے اور ان کی نگرانی کرتا رہے.جب بھی جائے مقابلہ کرے کہ پہلے کی نسبت انہوں نے ترقی کی ہے یا نہیں.به نهایت ضروری اور اہم بات ہے اور ایسی اہم بات ہے کہ اگر اخلاق درست نہ ہوں تو ساری دلیلیں باطل ہو جاتی ہیں.اور اگر اخلاق درست ہوں تو ایک آدمی بھی بیسیوں کو احمدی بنا سکتا ہے.کیونکہ دس تقریریں اتنا اثر نہیں کرتیں.جتنا اثر ایک دن کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ کرتا ہے.کیونکہ یہ مشاہدہ ہوتا ہے اور مشاہدہ کا اثر دلائل سے بہت زیادہ ہوتا ہے.دیکھو اگر ذيك الكتب ريب فيه کا اثر بذریعہ کشف دل پر ڈال دیا جائے تو اس کا اتنا اثر ہو گا کہ سارے قرآن کے الفاظ پڑھنے سے اتنا نہ ہو گا.کیونکہ وہ مشاہدہ ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے کہا ہے ایک آیت پر عمل کرنا بہتر ہے بہ نسبت سارا قرآن پڑھنے کے.اس کا غلط مطلب سمجھا گیا کہ ایک ہی آیت کو لے لینا چاہئے اور باقی قرآن کو چھوڑ دینا چاہئے.حالانکہ اس سے مراد وہ اثر ہے جو کسی

Page 619

! انوار العلوم جلد ۵ ۵۹۹ ہدایات تدریس آیت کے متعلق کشفی طور پر انسان پر ہو.تو اخلاق کا نمونہ دکھانا بڑی تأثیر رکھتا ہے.اسی کے متعلق قرآن میں آیا ہے رُبمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ (الحجر(۳) کفار مسلمانوں کے اخلاق کو دیکھ کر خواہش کرتے کہ کاش ہم بھی ایسے ہو جائیں.یہ اخلاق ہی کا اثر ہو سکتا ہے کہ کافر بھی مومن کی طرح بننے کی خواہش کرتا ہے.اور جب کوئی بچے دل سے خواہش کرے تو اس کو خدا ان لوگوں میں داخل بھی کر دیتا ہے جن کے اخلاق اسے پسند آتے ہیں.بائیسویں ہدایت بائیسویں بات مبلغ کے کامیاب ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں ایک حیات اور حرکت ہو.یعنی اس میں چستی، چالا کی اور ہوشیاری پائی جائے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تم جہاں جاؤ آگ لگا دو تاکہ لوگ جاگیں اور تمہاری اتیں نہیں.پس چاہئے کہ مبلغ کے اپنے جسم میں ایک ایسا جوش اور ولولہ پیدا ہو جائے کہ جو زلزلہ کی طرح اس کے جسم کو ہلا دے اور وہ دوسروں میں زلزلہ پیدا کر دے.مبلغ جس گاؤں یا شہر میں جائے وہ سو نہ سکے بلکہ بیدار ہو جائے.مگر اب تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی مبلغ ایک ایک مہینہ کسی جگہ رہ کر آ جاتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی آیا تھا.ان ہدایات پر عمل کرو یہ با میں موٹی موٹی باتیں ہیں گر اس لئے نہیں کہ ان کو نو اور کان سے نکال دو بلکہ اس لئے ہیں کہ ان پر عمل کرو ہماری ترقی اسی لئے رکی ہوئی ہے کہ مسیح ذرائع سے کام نہیں لیا جا رہا.اخلاص اور چیز ہے لیکن کام کو صحیح ذرائع اور طریق سے کرنا اور چیز.دیکھو اگر کوئی شخص بڑے اخلاص کے ساتھ مسجد کے پیچھے مرزا نظام الدین صاحب کے مکان کی طرف بیٹھے رہے اور کہے کہ میں اخلاص کے ذریعہ مسجد میں اخل ہو جاؤں گا تو داخل نہیں ہو سکے گا.لیکن اگر کسی میں اخلاص نہ بھی ہو اور وہ مسجد میں آنے کا راستہ جانتا ہو تو آجائے گا.ہاں جب یہ دونوں باتیں مل جائیں یعنی اخلاص بھی ہو اور صحیح طریق پر عمل بھی ہواد پر بھی ہو تب بہت بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی.پس یہ ہدایتیں جو میں نے بتائی ہیں ان پر عمل کرو تاکہ تبلیغ صحیح طریقی کے ماتحت ہو یہ باتیں دفتر تألیف میں محفوظ رہیں گی اور ان کے مطابق دیکھا جائے گا کہ کس کس مبلغ نے ان پر کتنا کتنا عمل کیا ہے.

Page 620

4.ہدایات دریل یہ ٹھیک بات ہے اور میں نے بارہا اس پر زور دیا ہے کہ مبلغ کا کام کسی سے منوانا نہیں بلکہ پہنچانا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ مانتے ہی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وکم پہنچاتے ہی تھے.منواتے نہ تھے.مگر لوگ مانتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود پہنچاتے ہی تھے.منواتے نہیں تھے.مگر لوگ مانتے تھے.کیوں ؟ اس لئے کہ صحیح ذرائع کے ماتحت پہنچانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مان لیتے ہیں.پس ہمارے مبلغ بھی صیح ذرائع پر عمل کریں گے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ نہ مانیں.اگر ہم ان باتوں کو جوئیں نے بیان کی ہیں اپنی جماعت کے ہر ایک آدمی میں پیدا کر دیں تو ہر سال ہماری جماعت پہلے کی نسبت دگنی ہو جائے.کیونکہ کم از کم ایک شخص ایک کو تو احمدی بنا لے اور اگر اس طرح ہونے لگ جائے تو تم دیکھ سکتے ہو کہ ہماری جماعت کس قدر ترقی کر سکتی ہے.میں پچیس سال کے اندر اندر دنیا فتح ہوسکتی ہے.اس وقت اگر ہم اپنی جماعت کو بطور تنزل ایک لاکھ ہی قرار دیں تو اگلے سال ڈولا کھ ہو جائے اور اس سے اگلے سال چار لاکھ ، پھر آٹھ لاکھ ، پھر سولہ لاکھ اس طرح سمجھ لو کہ کس قدر جلدی ترقی ہو سکتی ہے.مگر یہ خیالی اندازہ ہے.اگر اس کو چھوڑ بھی دیا جائے اور حقیقی طور پر اندازہ لگایا جائے تو دس پندرہ سال کے اندر اندر ہماری جماعت اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ سیاسی طور پر بھی ہمیں کوئی خطرہ نہیں رہ جاتا.مگر افسوس ہے کہ صحیح ذرائع اور اصولِ تبلیغ سے کام نہیں لیا جاتا اگر ان سے کام لیا جائے اور ان شرائط کو مد نظر رکھا جائے جو میں نے بیان کی ہیں تو قلیل عرصہ میں ہی اتنی ترقی ہو سکتی ہے کہ ہماری جماعت پہلے کی نسبت میں گئے ہو جائے.اور جب جماعت بڑھ جاتی ہے تو وہ خود تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہے.اگر اس وقت ہماری جماعت میں لاکھ ہو جائے تو ہزاروں ایسے لوگ جو چھپے ہوئے ہیں وہ ظاہر ہو کر ہمارے ساتھ مل جائیں گے.پس ایک انتظام اور جوش کے ساتھ کام کرنا چاہئے.اور اس سال ایسے جوش سے کام کرو که کم از کم ہندوستان میں زلزلہ آیا ہوا معلوم ہو.اور اگر تم اس طرح کرو گے تو پھر دیکھو گے کہ کسی قدر ترقی ہوتی ہے.

Page 621

14 ۳۱ ۲۹ انڈریس کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات

Page 622

آرید ایک آریہ پروفیسر کے اسلام پر اعتراضات اور جواب ۳۴۷ کلید مضامین احمدیت احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں سلسلہ احمدیہ کی غرض احمدی جماعت کی غیرت "لا إله إلا الله " کیلئے آریہ تاج کے چند ممبران کی آریہ جماعت احمدیہ کی غیرت کا ثبوت مذہب کے خلاف آراء آریہ مذہب کے ماننے والوں کے عقائد متزلزل ہو رہے ہیں ۳۵۴ ٣٥٨ تبلیغ اسلام کیلئے قربانیاں اختلافات TAI 14 اسلام تمام دنیا کیلئے ہے دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا اسلام مذہب کی غرض کو پورا کر ؟ ہے اسلام کے سوا اور کوئی ایسا نہ جب ۳۶۶ ۱۴۰ نہیں جو ساری خوبیوں کا مجموعہ ہو ۱۲۵ اسلام بندے کا خدا سے تعلق پیدا کرتا ہے اسلام میں حریت و مساوات ۵۷ Par خلیفہ سے اصول میں نہیں البتہ اشاعت اسلام اور اسلام کے آیت تفصیلات میں اختلاف ہو سکتا ہے دیکھیں " آیات قرآنیہ " جبکہ انبیاء سے نہیں اتحادی اخلاق حسنہ دیکھیں " ترکی " و " خلافت عثمانیہ" اخلاق حسنہ سیکھو ۵۲۳ เบ بنیادی اصول اشاعت اسلام کیا ہے؟ اسلام کی اشاعت حضرت مسیح موعود کے ذریعہ MAI ۲۸۴ اسلام کی صداقت کا ثبوت حضرت مسیح موعود کی بعثت سے ارکان اسلام کا ثبوت قرآن سے اسلام کی صداقت میں حضرت مسیح اثر ارکان اسلام خیالات کا اثر ہونے کی مثال ایک سکھ طالب علم کا حضرت مسیح موعود ارض مقدس سے درخواست کرنا کہ خدا کے بارے میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں ارض مقدس کا ہاتھ سے نکلنا اور فرما یا کلاس میں جگہ بدل لو چنانچہ ایسا کرنے سے یہ کیفیت جاتی رہی اجتماع ۵۳۷ اس کے متعلق سابقہ نوشتے اسلام اسلام کے معانی اور اسکی غرض ۱۳۹ 10° اسلام کا خلاصہ دو باتیں ہیں قیام اجتماع کے لئے رائے کی قربانی ضروری ہے ^^ اسلام کو دوسرے تمام مذاہب پر بہت بڑی فضیلت ہے ۶۶۶۳ موعود کی ایک پیشگوئی اسلام کی صداقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود کا پادری لفرائے کو چیلنج A موجودہ زمانہ میں اسلام پر مصائب ۱۸۳ کی وجہ اور اس سے بچنے کا طریق اسلام کو نقصان پہنچانے کے عوامی.مسلمانوں کی بزدلی کم ہمتی........160

Page 623

اسلام میں تفرقہ کی ایک وجہ مال کا حسد تھی مسلمان کہلا کر اسلام کے خلاف کہنے والوں کی حقیقت اس زمانے میں سائنس اور جدید علوم کا خطرناک حملہ اسلام پر اور حضرت مسیح موعود کا ایسے وقت میں کھڑا ہونا اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق کو مساوی رکھا ہے ؟ اس وقت اسلام کے لئے خدا کی غیرت جوش میں ہے اسلام کے لئے موجودہ زمانے کے لوگوں کی ہمدردی اور کیفیت کا درد ناک نقشه ٣٣٨ ۳۵۳ ۶۷ AI خلیفہ یا امیر کی اطاعت کیوں ضروری ہے ؟ ہم جس گورنمنٹ کے ماتحت ہوں گے اس کی اطاعت کریں گے اعتراضات اسلام پر ایک آریہ پروفیسر کے اعتراضات اور ان کا جواب مسلمانوں پر یہ اعتراض کہ ان کا تو رنگ سفید نہیں لہذا یو رپ کا علاج کیسے کر سکتے ہیں اسلام سائنس کا حملہ برداشت نہیں کر سکا اس لئے وہ دنیا کا آئندہ مذہب نہیں ہو سکتا اسلام پر اعتراضات اسلام غالب آکر رہے گا اسلامی تعلیم کا خلاصہ ۲۷۰۲۲۶۸ ۳۴۷ ۳۵۲ ۱۹۲۲۱۵۳ ایک انگریز کا اسلام کی اعلیٰ تعلیم کا اقرار جس نے حضرت مسیح موعود کی کتاب پڑھی اسلام نے ہی یہ تعلیم دی ہے کہ 29 خدا تعالی بندے سے محبت کرتا ہے ۶۵ اصلاح اپنی اصلاح کی فکر کرد اطاعت حکومت کی اطاعت کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں ۲۶۱۲۵۸ حکام کی اطاعت ضروری ہے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ۲۵۹ التزامی جواب التزامی جواب کی اہمیت اور اقسام احترامی جواب کی مثال قران کریم اللہ تعالیٰ ۸۹ MIA ۳۴۷ ۳۵۰ ۳۵۲ ۲۹۸ خدا کی محبت دل میں پیدا کرنے کا نتیجہ کہ ہر قسم کا علم عطا کیا جاتا ہے.خدا کا بندے سے محبت کرنا یہ تعلیم اسلام نے ہی دی ہے خدا کے کلام کا دروازہ کھلا ہے....اللہ تعالٰی کا حضرت مسیح موعود سے اظہار محبت خدائی خدائی کا دعوی کرنے والوں کے لئے قانون قدرت الهام خدا تعالی کے کلام کا دروازہ کھلا ہے اور امت میں ایسے بزرگ موجود ہیں...اموال دیکھیں " دولت " امیر خلیفہ یا امیر کی اطاعت کیوں ضروری ہے 44 10 ۶۶ ۴۵۹ جماعتوں میں امیر کا نظام اللہ کا نام مفضل اور اس کی تشریح اللہ سے انسان کا تعلق کس طرح کا ہوتا ہے اسلام خدا سے انسان کا تعلق پیدا کرتا ہے یہ تعلق کن ذرائع سے پیدا ہو سکتا خدا کی محبت اپنے دل میں پیدا کریں خدا کے مقابلہ میں سب تعلقات بیچ ہیں po po po ۵۸ ۵۷ ۵۹ انسان انسانی پیدائش میں فطرتی باتیں انگریز گورنمنٹ انگریزی کی خوشامد کا احترام اور اس کی تردید انگریزوں کے آنے سے ہندوستان 119 ۶۶ ۸۹ حماسهم H میں امن کی کیفیت اور نوا کد ۲۶۱ ۲۶۳ انگریزوں سے ترک موالات کے بارے میں مادی اور تبصرہ ۲۰۹

Page 624

تبلیغ نیز دیکھیں " مبلغ " حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تبلیغ کی اہمیت میری فطرت میں بد نلنی کا مادہ تبلیغ کی رقمار تیز کرنے پر زور انگریز اگر واقعی " حربی " کا فر ہیں تو کی حرمت جہاد بھی فرض ہو گا اور دیگر امور...(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں رکھا ہی نہیں گیا 4 A " ترک موالات " ) اولار حضرت مسیح موعود کا اپنی اولاد سے اعلیٰ درجہ کا سلوک اور اس کی مثال آنحضرت کی شان کے خلاف ایک بچے کی حرکت اور حضرت مسیح موعود کا سخت رد عمل ایمان ایمان کے پانچ ارکان ب بالشوكس بچه بچوں کے لئے ضروری ہے کہ دین کی خدمت سے غافل نہ رہیں الله ۱۱۴ ۲۹۱ ۳۳۵ 42 بدھ مت تبلیغ کے طریق پر غور کرتے رہنا چاہئے بدھ مت والوں کا ویدوں سے انکار ۳۶۰ ہر احمدی محسوس کرے کہ مجھے بدی قرآن نے بد اور بدی میں فرق تبلیغ کرنی چاہئے تربیت کیا ہے برکت بعض مقام ایسے ہوتے ہیں جن کا برکات سے خاص تعلق ہوتا ہے بعث بعد الموت اسلامی پردہ نیکی اور تقوی کے قیام کیلئے بہترین ذریعہ ہے پنجابی ۲۳۵ ۵۶۵ ۹۲ بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھیں ۴۵۵ ترقی روحانی ترقی حاصل کرنے کا طریق ۵۴۰ ۲۵۰ ترک موالات ۱۵۸ ایک بچے کے اخلاص کا مظاہرہ پنجابی زبان میں حضور کا تقریر کرنا ۱۴۷ لندن مسجد کی تعمیر میں جو چیسہ جمع کیا پیشگوئی وہ دے دیا پیشگوئی احمد بیگ یروشلم کو فتح کرنے کے لئے عیسائیوں کا بچوں کی فوج کا لشکر مزید دیکھیں " مرزا غلام احمد قادیانی" تیار کرنا بچے کے کان میں اذان کہنے کا حکم بدظنی بد ظنی بہت خطرناک گناہ ہے اس ۱۵ ۵۶۷ ابعی جو صحابہ سے ملا ہو اور سچا قیع ہو ۷۳ ۳۲۱ ترک موالات کی تجویز پر حضور کا تبصرہ ترک موالات کے بارے میں شرعی مقادی اور حضور کا تبصر و ۲۳۲۲۲۰۹ ترک موالات کے بارے میں مزید پیش کی جاسکنے والی آیات اور ان کا اصل مفہوم ترک موالات کی حمایت میں پیش کی جانے والی حدیث اور اس پر تبصرہ ترک موالات اگر فرض ہے تو اس کا پہلا قدم ہجرت ہے یہ عذر کہ ہجرت کا حکم صرف آنحضرت کے زمانہ کے ساتھ خاص ہے اس کا جواب اگر انگریز واقعی عربی کا فر ہیں تو ہجرت ہی نہیں بلکہ جہاد بھی فرض ہے ۲۳۹ ۲۴۱ ۲۴۲

Page 625

ترک موالات کی حمایت میں ٹریکٹ شائع کرتے ہیں آنحضرت کی کفار کو جزیرۂ عرب ٹونے ٹوٹکے سے نکالنے کی وصیت کو بطور ٹونے ٹونکے لغو اور بدعت ہیں دلیل پیش کرنا قرآن کریم فتنہ و فساد کی راہوں سے روکتا ہے ترک موالات کی شرعی حیثیت ترک موالات کا حکم صرف خلیفہ وقت ہی دے سکتا ہے.۲۵۱ ۲۶۱ ۲۴۸ ۲۴۹ ان کو ترک کرنا چاہئے جذبات ج جذبات فطرتی باتیں ہیں نہ کہ ترک موالات کی موجودہ تحریک سکھائے جاتے ہیں یورچین فلسفیوں ہوائے نفس کے ماتحت ہے نہ کہ اسلام کی خاطر ۲۶۸ کے نظریہ کی تردید جنگ بدر ترک موالات اس وقت جائز نہیں ۲۵۶ جنگ بدر میں فرشتوں کے نزول قرآن میں " ترک موالات" کی کتنی اقسام کا ذکر ہے ترک موالات کی بجائے کونسا طریق مناسب رہے گا تعبیر رویا.دیکھیں " رویا " تعدد ازدواج تعلق ۲۶۴ ۲۷۲ ۳۸۹٬۳۵۰ تعلق باللہ پیدا ہونے کے ذرائع تعویذ گنڈے تعویذ گنڈے وغیرہ سب لفو اور جھوٹے ہیں....04 ۱۵۶ پر سید امیر علی کا خیال جنگ عظیم جنگ عظیم نہ ہی جنگ نہیں تھی جنگا ما جہاد جنگا ماہندوؤں کا ایک فرقہ جو لاش کو جلاتے نہیں جہاد اور حضرت مسیح موعود جہاد کی شرائط خلافت عثمانیہ کے تحفظ کیلئے جہاد کی تجویز پر حضور کا تبصرہ اگر انگریز حربی کافر ہیں تو صرف ترک موالات ہی کیوں بلکہ جہاد بھی فرض ہے ۴۱۶ ۱۵۶ ۳۸۷ ۲۱۳ MyI 129 124 آنحضرت کے پاس ایک شخص کا آکر کہنا کہ میں چار طرح کے گتا ہوں میں جتلا ہوں.جنہیں چھوڑ نہیں سکتا.فرمایا ایک تم چھوڑ در باقی میں چھڑا دوں گا.فرمایا جھوٹ چھوڑ دو ۴۳۳ کامیابی جھوٹ نہ بولنے میں ہے ۴۳۴ نہ نسی میں بھی جھوٹ جائز نہیں جین مت والے دید کو نہیں مانتے ۳۵۹ چغلی چ چغلی کرنا بہت بڑا عیب ہے چندہ دینے کی اہمیت اور فوائد چندہ دینا صدقہ نہیں چند ه ا در بات ہے ، صدقہ اور بات ہے چیلنج پادری بیفرائے کو حضرت مسیح موعود کا تا میلینی ۳۵۵٬۴۵۳ حج خانہ کعبہ مج خانہ کعبہ کی فرضیت اور شرائط ٹریکٹ ۲۴۴ حدیث حد یث کا درجہ ٹریکٹ کی اہمیت اور سیٹھ عبد اللہ جھوٹ الہ دین کی تعریف کہ مفید تبلیغی جھوٹ ایک خطر ناک گناہ ہے سلام سلام سلام کیا حریت اور مساوات اسلام ۱۶۰ 24 ۱۶۰ ۳۲۸

Page 626

۹۵ AA ^^ ۸۹ ۱۵۲ دین موجودہ زمانے کی قدر کرو.تمہیں دین کی خدمت کا موقع ملا ہوا ہے ۸۹ ۵۲۳ کیوں ضروری ہے؟ علمی مسائل میں ظیفہ سے اختلاف کی گنجائش خلیفہ کے ساتھ تعلق ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کا ذریعہ ہے خواب دیکھیں " رؤیا " خوبصورتی ۵۶ رائے رائے کی تعریف کہ اس سے کیا مراد ہے قیام اجتماع کیلئے رائے کی خوبصورتی خدا تعالی کو پسند ہے مومن کو ظاہری شکل بھی خوبصورت بنانے کی کوشش کرنی چاہئے Aч قربانی ضروری ہے آنحضرت کا فرمانا کہ ممکن ہے میری رائے درست نہ ہو رسوم برادری کی رسوم کو شریعت پر ترجیح نه دد ٥٥٧ روح القدس ۵۵۷ ر PAK rox کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں حکومت حکومت کی اطاعت کا حکم قرآن و حدیث میں حقوق کیا اسلام نے مرد و عورت کے حقوق کو مسادی قرار دیا ہے حق کے نقصانات حیات مسیح حیات مسیح کے عقیدہ کی ابتدا کب ہوئی مزید تفصیل کے لئے دیکھیں " حضرت عیسی " خ PA لدا ورود درود کی فضیلت دعا خد اتعالیٰ دیکھیں اللہ تعالٰی " خلافت ترکیه خلافت ترکیہ اور باقی مسلمان خلافت عثمانیه رات کے تیروں کا کوئی مقابلہ روزه نہیں.ہمارے پاس دعا کا تیر کمان ہے دوستی خلافت عثمانیہ کے تحفظ کیلئے احتجاجاً کن کفار سے دوستی منع ہے جہاد ، قطع تعلق اور ہجرت کرنے کی تجویز پر حضور کا تبصرہ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " ترک موالات " خلیفہ وقت کے فرائض اور 129 دولت دیکھیں " فرشتے " اصلاح نفس کا ذریعہ ہے مهم ام رویا نیز دیکھیں "کشف " اسماء کے ساتھ رویا اور کشوف اموال کی تقسیم اور مساوات ۳۱۲٬۲۰۸ بادشاہت ہے دولت کی تقسیم اور وحدت اسلام میں تفرقہ کی ایک وجہ ۳۳۵ کا خاص تعلق ہوتا ہے خواب میں سونٹا کی تعبیر شیر مارنے کی تعبیر باد شاہت فتح کرتا ہے ۴۰۸ ۴۱۲ خواب میں حضرت مسیح موعود کا خوارزم بادشاہ کی تیر کمان پانا ایک شیر شکار کرنا اور بو علی سینا کو Tra مال کا حسد تھی دولت عثمانیه PAACYAM ادائیگی خلیفہ یا امیر کی اطاعت

Page 627

پاس کھڑے دیکھنا حضرت مسیح موعود کا بخارا اور امریکہ کے بارے میں رویا ۴۱۲ ۴۱۲ سائنس ایک آریہ پروفیسر کا اعتراض کہ حضرت مصلح موعود کا فرمانا کہ میں اسلام سائنس کا حملہ برداشت نہیں کر سکا اس لئے یہ دنیا کا آئندہ اپنی رو یاد کشوف کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ یہ ماموروں کا کام ہے ۴۰۸ حضرت مصلح موعود کا رویا ۹۸ ۴۱۲۰۴۰۸۰۱۴۳ انگلستان کے ایک شخص کا خواب میں حضرت مسیح موعود کو دیکھنا....زرتشتی ز Ar مذہب نہیں ہو سکتا سٹسومه مٹھو مہ - جاپان کا ایک قبیلہ سچائی سچائی کی اہمیت سخت کلامی ۳۵۲ ۳۵۱ ۱۶۸ سے بچنے کے طریق صحابه ص Oorfory آنحضرت کے صحابہ کی جانثاری اور جنگ بدر کے موقع پر مشورہ صدقہ صدقہ و خیرات کرنا بہت ضروری ہے Fr صدقہ کی اہمیت اور فواید ۴۵۴٬۴۵۳ صدقہ اور چندہ الگ الگ ہیں سخت کلامی اور درشتی سے کام نہ لو ۴۳۶ صف زرتشتی مذہب میں ایک نئی خبر سلطان القلم زكوة زکوۃ کی فرضیت و اہمیت زکوۃ کی فرضیت میں حکمت جو زکوۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں زکوۃ کی ادائیگی کریں ۴۵۲ ۳۰۹ نماز میں صف سیدھی رکھنے میں حکمت حضرت مسیح موعود کے " سلطان القلم " ہونے پر مخالفین کی رائے صلح ۳۷ اے عزیزو! صلح اور محبت ایک پاک چیز ہے ۴۵۳٬۳۳ سوالات b ایک شخص کے حالات حاضرہ کے طلباء ۱۶۰ 109 AY متعلق سوالات حریت و مساوات حضرت ابو بکر کا منکرین زکوۃ سے امام وقت کے فرائض.اور اس جہاد کا عزم زکوۃ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے زیور کے متعلق زکوۃ کا حکم زمانه ۴۵۴۱۶۰ ۴۵ یہ زمانہ ایک " شاہد " کے آنے کا تقاضا کرتا ہے موجودہ زمانہ کی قدر کرو کہ خدمت دین کا موقع ملا ہے ۱۵۹ FEL 40 کا جواب ش PAACPAI طلباء کو حضور کی خصوصی نصائح ۹۷ تا ۹۹ ع عدم تعاون کی تحریک حضرت عمر اور حضرت مصلح موعود دیکھیں " ترک موالات " شیطان سے کیا مراد ہے شیطانی تحریک کی پہچان اور اس ۵۳۸ عربی زبان کی خوبی عقیده ۵۴ کی طبائع کو اشعار سے مناسبت ام م عربی زبان شیطان

Page 628

کسی خیال یا عقیدے سے انکار کی سات وجوہات علم حاصل کرو مومن کبھی جاہل نہیں ہو تا عورتوں کو نصائح ۳۶۵۳۶۳ ۴۴۶ ۱۶۲۲۱۵۳ فرشتے ملائکہ کا مسئلہ ایمانیات میں سے ہے ۴۸۰ ان پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے ۴۸۱ ان پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا گیا ۵۲۰ فرشتوں کے متعلق ہونے والے اعتراضات اور ان کا جواب ۵۳۱٬۵۱۹٬۵۱۶٬۵۱۵ مید امیر علی کی کتاب " سپرٹ آف اسلام" سے سے فرشتوں کے بارے میں ایک مخالف اسلام کا استدلال آنحضرت ' کے بعد حضرت مسیح اور اس کا جواب عورتوں کی ذمہ داری موعود نے سب سے زیادہ تفصیل ۴۸۲٬۳۸۶٬۳۵۰ قرآن کریم نے فرشتوں کے بارے عورتوں کی ذمہ داری.دین کی خدمت مومن عورتوں کا آنحضرت ۹۶ ے فرشتوں کے متعلق بیان کیا ہے دیگر مذاہب میں ملائکہ کا تصور ملائکہ کی ضرورت ملائکہ کے وجود کا ثبوت A میں جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کا ایک ایک لفظ درست ہے......۳۸۹۲۳۸۳ اگر کسی کو فرشتوں کے وجود پر کوئی اعتراض ہو تو میں اس کے شکوک کے زمانہ میں اخلاص کا بے مثال مظاہرہ ۱۵۴۳۴۳۳ ملائکہ کی حقیقت عورت کے حصہ وراثت کی بحث ۳۴۰ ملائکہ مخلوق ہیں؟ عیسائیت یہ ظاہری آنکھوں سے اپنے عیسائیت تمہارا شکا ر ہے جو تمہارے گھر میں آگیا ہے مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " حضرت عیسی " اصلی جسم میں نظر نہیں آسکتے ملائکہ کے درجات میں ملائکہ کے کام ملائکہ اور ان سے تعلق کی اقسام غ ملائکہ کے نزول سے مراد ملائکہ افضل ہیں یا انسان ؟ غزوہ تبوک غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کا واقعہ غیرت قومی غیرت کسے کہتے ہیں سب غیرتوں میں سے بڑی مذہب کی غیرت ہوتی ہے جماعت احمدیہ کو لا إله إلا اللہ کیلئے غیرت ہے ۲۶۵ ۱۵۱۳ ۱۲ 10 فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے کے ذرائع فرشتہ دل میں کس طرح تحریک کرتا ہے ملائکہ یا شیطانی تحریک کا موازانہ کرنے کا طریق ۵۱۳ و٠ن ۴۸۹ ۵۰۸۲۴۹۸ orm ۵۲۶ APA ۵۶۱۲ ۵۵۴ کیا انسان ملائکہ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے فرشتوں کے فیضان کے آٹھ طریق ۵۴۴ ۵۰۸ ۵۶۱۵۵۸ کا ازالہ کر سکتا ہوں میں نے خود ان سے ملاقات کی اور علوم سیکھنے MYY ۵۰۶۳۶۶ ابن عربی کا فرشتوں سے علوم سیکھنا ۵۰۷ حضرت مسیح موعود کا فرشتوں کے ذریعے علوم سیکھنا فرقه مسلمان فرقوں کے اختلافات کے لئے طریق فیصلہ فضل خدا کے خاص فضل کا خاص وقت ہوتا ہے فلسفی یو رپ کے فلسفیوں کے اس نظریہ کی تردید کہ جذبات سکھلائے جاتے ہیں ق ۵۰۸ ۳۵ ۹۳ *

Page 629

قرناء مسیح موعود کی بعثت اسلام کی طفح ، بشارت اور خوشخبری کی قرناء ہے جس نے دنیا میں ایک حشر برپا کر دیا ہے قلعه مذہب کا قلعہ مسجد ہوتی ہے قومی قومی غیرت سے مراد کیا ہے قوی غیر سے مراد کیا.کتاب کتب اللہ خدا کی ملاقات کا ذریعہ ہیں حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنے سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کتب کی اشاعت میں تاجرانہ غرض نہیں ہونی چاہئے کشف نیز دیکھیں " ردیا" حضرت مسیح موعود کا کشف حضرت مصلح موعود کے کشوف گ ZA 12 ۲۹۲ ۵۶۰ ۴۱۶ MAY ۵۱۰۰۳۵۹۱۴۴ گائے گائے کی قربانی ترک کرنے کا سمجھوتہ ۳۴۹ ہونے کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں گورنمنٹ ہر ایک احمد کی جو ہندوستان میں ہے وہ گورنمنٹ انگریزی کا وفادار ہے ہم گورنمنٹ کی وفاداری کیوں کرتے ہیں؟ ہم جس گورنمنٹ کے ماتحت ہوں گے اس کی اطاعت کریں گے گوشت خوری oar ۴۱۶ ۴۱۸ مبلغ کے معنی اور اس کے کام مبلغ کے کام کی اہمیت مبلغ کے مددگار ہتھیار مبلغین کے لئے بائیں ضروری ہدایات مجد داور مصلح کی ضرورت محرم کے مہینہ کی رسوم کو دیکھ کر ایک انگریز کا اسلام ترک کر دیتا.اس واقعہ کو سن کر حضرت مصلح موعود کا ایک رکھیں کو خط لکھنا جس پر ان رسومات پر پابندی لگادی گئی گوشت خوری کے خلاف ایک مدرسہ احمدیہ بیر سٹر کی رائے اور جواب ۳۶۷٬۳۵۰ ل لجنہ اسلامیہ مسلمانوں کی ایک عالمگیر تنظیم کی تجویز لقاء کتب اللہ خدا تعالٰی کی ملاقات کا ذریعہ Ar ۲۹۲ درسہ احمدیہ کے طلباء کا مسجد لندن کی تعمیر میں چندہ دینا اور حضور 02* ۵۷۴ ۵۶ ۵۵ مال دیکھیں " دولت " مباہلہ حضرت مسیح موعود کا مخالفین کو مباللہ کی دعوت دیتا حسن نظامی کا حضرت مصلح موعود ۵۰۰ کا اظہار خوشنودی مذہب مذہب کی غرض کسی مذہب کی سچائی کس طرح ثابت ہو سکتی ہے مذہب کی غرض کو اسلام پورا کرتا ہے اسلام کی دوسرے مذاہب پر فضیلت دنیا کا آئندہ مذہب کون سا ہو گا دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا موازنہ or'or ہر ایک مذہب میں کوئی نہ کوئی خوبی ہے کسی ایک مذہب کے سچا ہونے م ۱۴۰ گناه کو مسالمہ کی دعوت دینا گناہ جرأت اور دلیری کے نہ مبلغ نیز دیکھیں " تبلیغ " ۵۶۰ سے باقی مذاہب بیہودہ اور لغو نہیں ٹھر جاتے ۵۵

Page 630

11 مذہب کی حکومت دنیا سے نہیں اٹھ سکتی مذہب کے کسی حصہ سے انکار اس مذہب سے نکلنا ہے ایک آریہ پروفیسر کا اعتراض کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام نہیں ہو سکتا سب غیرتوں میں سے بڑی مذہب کی غیرت ہوتی ہے مساوات ۳۴۹ FAI Mar ۱۵ لجہ اسلامیہ " بنانے کی تجویز موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی گری ہوئی حالت مسلمان کہلانے والوں کا خود اسلام کے خلاف باتیں کرنا مسلمانوں کی موجودہ پستی کا نتیجہ اور وجہ مطلق العنان کیا حریت اور مساوات اسلام کے منافی ہے بنیادی اصولوں میں سے ہے شریعت میں " مساوات " کی کوئی اصطلاح نہیں مساوات ہر جگہ کیوں نہیں؟ rar Par ۳۳۴ IAF 11+I+A 1+q امتی نبی رکھا یہ کہنا کہ نبی کے آنے سے رسول کریم کی جنگ ہے یہ زمانہ تقاضا کرتا ہے ایک مصلح کا ایک " شاہد " (نبی) کے آنے کی ضرورت انبیاء کا احترام اور عزت مارا فرض ہے ۱۳۵ 401 111 ۲۷ انبیاء سے علمی اختلاف نہیں ہو سکتا ۵۲۳ یہ لفظ خدا تعالی کے بارے میں شخ استعمال کرنا اس کی شان کے ۳۳۳۰۳۱۳ ہم قرآن میں شیخ کے قائل نہیں ۳۲۳ ملائکہ دیکھیں " فرشتے " مؤرخین نشہ سے پر ہیز کرو یہ قوموں کو ملاک کر دیتا ہے عیسائی مورخین کا کہنا کہ آنحضرت" نشانات حضرت مسیح موعود کے نشانات مرد اور عورت میں ہر رنگ میں مساوات نہیں اسلامی مساوات کی ایک مثال اموال کی تقسیم اور مساوات ۳۱۲٬۳۰۸ مسجد مسجد کی برکات مسجد مذہب کا قلعہ ہوتی ہے تبلیغ میں مسجد کا بنیادی کردار مسجد نہ ہونے کے نقصان 16 14 کے وقت میں فتح کے سامان سیا تھے اس لئے آپ کو کامیابی ہو گئی....۲۳ مؤمنین کے وعدے مومنین کے متعلق اللہ تعالٰی ن نبوت خدائی کا دعوئی اور نبوت کا مسجد لندن کی تعمیر کی تحریک 'اہمیت دعوی کرنے والوں میں فرق اور جماعت کا اخلاص ۴۱۱۴۴۱۰۱۷۴ آنحضرت کا فرمانا کہ میں مسلمان دوسرے مسلمانوں کو نصیحت کہ خاتم النبین ہوں آخری نبی کا مطلب اجرائے نبوت کی حقیقت ۴۶۰ دراصل آنحضرت کی ہدایت کے نشانات ہیں نصیحت - نصائح احمد ی جوانوں کو نصائح " تو نہالان جماعت " نظم اور اس کی تشریح ۱۸۹ ۱۹۴۲ احمدی عورتوں کو نصائح طلباء کو نصائح 114 عورتوں کو نصائح ۱۴۳ حضور کی نظم نو نهالان جماعت...۱۳۴ مع مختصر تشریح مهم کی سے کام لیں.....مسلمانوں کی ایک عالمگیر تنظیم حضرت مسیح موعود نے اپنا نام نفس ۱۲۲۲۱۴۵ 44042 ۱۶۲۲۱۴۵ ۱۹۴۲۱۸۹

Page 631

١٢ نفس کی اصلاح کی طرف توجہ کریں ۴۲۵ احمدی نوجوانوں کو نصائح نفس کی اصلاح کی اقسام نماز ۴۲۹ نماز کی پابندی نہایت ضروری ہے ۱۵۸ نماز با جماعت پڑھیں اور وقت کر پڑھیں سلم سلام بم نیوگ نیوگ کے خلاف بعض ہندو لوگوں کا اظہار خیال جو شخص مسجد میں جا سکتا ہے مگر گھر وحدت میں نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی عید کرد کہ آئندہ نماز نہ چھوڑیں گی...( عورتوں کو خاص نصیحت) ۱۵۹ آنحضرت کا فرمانا کہ جو لوگ عشاء کی نماز میں نہیں آتے ان کے گھروں کو مع انکے آگ لگادوں نماز کا ترجمہ سیکھو نوافل قرب الہی کے مدارج کی ترقی کا ذریعہ نوجوان ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے ۴۵ ۴۵۳ 1A4 دولت کی تقسیم اور وحدت وراثت وراثت میں مرد عورت کی مساوات کا مسئلہ ورزش ورزش کرنا صحت کے قیام کیلئے ضروری ہے وفاداری ہم گورنمنٹ انگریز کے وفادار ہیں 0 ہجرت ہجرت کی ضرورت اور فائدہ ۱۸۹ ۳۳۵ 14 129 یہ عذر کہ ہجرت کا حکم صرف آنحضرت کے زمانہ سے خاص ہے ۲۴۱ ہمدردی مخلوق کی ہمدردی ہندو ہندو مہ جب سینکڑوں مذاہب کا مجموعہ ہے ہند ہند سب کے خلاف بعض ہندو فاضلوں کی آراء ہند رند ہب کے بعض فرقے جو لاش کو جلاتے نہیں میگ کنونشن کے اصول ۳۵۸ ۲۰۰

Page 632

۱۳ الفاتحة سورۂ فاتحہ (اتا ہے) ۴۰۵ آیات قرآنیہ يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِيَامُ (۱۸۴) ۵ م بم ۲۶۱ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا (19)...38 لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكَفِرِينَ أَوْلِيَاءَ (۳۹) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (۹۲) البقرة الم ذلِكَ الْكِتَبُ لا رَيْبَ فيه (اتام) ۱۳۴ ۴۴۱ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى...(۲۱۸) وَيَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله (۳۳) +9 أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ (۲۵) وَعَلَّمَ أَدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا قُلِ الْعَفْوَ (۳۲۰) ثُمَّ عَرَضَهُمْ (۳۳۳۲) وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا عَلَيْهِنَّ...(۲۲۹) لأدم..(۳۵) ثُمَّ انْتُمْ هُؤُلاء تَقْتُلُونَ انْفُسَكُمْ..(۸۷) مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ.(۱۰۷) وَقَالَتِ الْيَهُودَ لَيْسَتِ النصري...(۱۴) لا يَنَالُ عَهْدِي.الظَّلِمِينَ (۱۲۵) ۵۲۳ ۲۱۶ ۳۲۳ ۲۳۲ ۳۴۴ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ايَةٌ ملكه..(۲۴۹) فَمَنْ يَكْفُرُ ۵۶۱ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ وَلا يَنْظُرُ الَيْهِمْ (۷۸) كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ...(1) يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالا ۵۵۸ ٢٠٩ ۳۲۷ ۵۹۴٬۴۵۷ بالطَّاغُوتِ..(۲۵۷) ۵۲۲٬۵۲۱ تَتَّخِذُوا بِطَانَةٌ (۱۹) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ..(۲۶۵) وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي انفُسِكُم...(۲۸۵) ۵۴۶ إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ الَنْ يُكْفِيكُمْ(۱۳۵) وَمَا مُحَمَّدٌ الأَرَسُول...(۱۴۵) سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ...(۱۳۹) ال عمران ۲۳۴ 0+

Page 633

۲۳۵ ٣٣٨ ۲۱۰ ۲۳۰ ۲۱۰ ۲۲۱ ۴۳۵ ۴۹۰ ۲۲۷ ۴۹۴ ۱۴ ۵۰۰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (1) الينا..(۱۸۴) وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيْثَاقَ الَّذِينَ...(۱۸۸) إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ النِّسَاء ۲۹۸ ۲۹۹ كَفَرُوا (۱۵۳) وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوا قَاتِلُوا..(۱۶۸) ۲۴۴ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ الألبقاع (١٥) الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ (۷۰) وَجَعَلَكُمْ مُّلُوكا..(۳۱) Fre يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالا ۱۳۵ تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ (۵۴) إِنَّ الَّذِيْنَ تَوَقُهُمُ الْمَلَئِكَةُ لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ (۹۸ تا ۱۰) ۴۹ دِيْنَكُمْ هُزُوا وَلَعِباً (۵۸) وَمَنْ يَكْفُرُ بِاللهِ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ..(۷۸) ومليكيه (۱۳۷) ۲۹۱ ۲۵۷ وَالْعُدْوَانِ (۳) لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا...لِسَانِ ۴۰۵ بَشِّرِ الْمُنْفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ داود (۸۰۷۹) عَذَاباً أَلِيماً (۱۳۹ ۱۳۰) ۲۰۹ تَرَى كَثِيراً مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنْ وَقَدْ نَزِّلَ عَلَيْكُمْ فِي الَّذِينَ كَفَرُوا (۸۲٬۸۱) ۳۴۱ الكتب (۱۴۱ ۱۴۴) ۲۳۷٬۲۲۱ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً (۸۳) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالا مَا جَعَلَ اللهُ مِنْ تَتَّخِذُو الْكَفِرِينَ أَوْلِيَا (٣٥) بَحِيرَة (۱۳) الانعام وَلَوْ جَعَلْنَهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ رجلا (10) وَرُسُلِهِ (۱۵۱ ۱۵۳) ۲۹۱ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِيْنَ ۳۰۴ ۵۲۵ النِّسَاء (۴) وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ (۱۳) إِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا (۳۶) وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَنُ لَهُ فَرِيْناً أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا لَكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أُنْزِلَ يَخُوضُونَ (۲۹) نَصِيباً (۵۲) كُلَّمَا نَضِحَتْ جُلُودُهُمْ ۲۳۲ إِلَيْكَ (۱۶۷) المائدة وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ ۵۰۱ وَلَوْ تَرَى إِذا الظَّلِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ (۹۴) أَوْمَنْ كَانَ مَيْتاً...(۱۳۳)

Page 634

أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ (۱۳۱) وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِئ مُسْتَقِيمًا...(۱۵۳) ۲۵۹ ۵۴۳ ۱۵ مرة (۱۳) لا تَتَّخِذُوا أَباءَ كُمْ وَالْحَوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ (۳۳) قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ وَابْنَا وَ كُمْ (۲۴) المليكة (١٥٩) الاعراف ۴۹۹ ۲۴۶ ۲۳۴ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ (١٠٩) يوسف اجْعَلْنِي عَلَى عَزَائِنِ الْأَرْضِ (۵۶) وَالَّذِينَ يَكْبِرُونَ الذَّهَبَ كَذلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ وَالْفِضَّة (۳۴) (كك) وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَمِنْهُمْ مَّنْ يُلْمِرُكَ فِي الرعد ۴۶۴ ۲۶۰ بعد إصلاحها (۵۷).رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ ۲۶۱ الصَّدَقَتِ (۵۸) سلام سلام سلام لَهُ مُعَقِّبت من بين وَعَدَا اللهُ الْمُؤْمِنِينَ يَدَيْهِ (۱۳) ۵۳۵ شی (۱۵۷) من الانفال وَالْمُؤْمِنَتِ (۷۳) يَايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيرُ مَا بِقَوْم (۱۳) ۴۷۳ حاشیہ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ الْكُفَّارَ (۳) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَالرَّسُولِ (۳) إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لكُمْ فُرقانا (۳۰) وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ منْ شَي (۳۲) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا (۷۴۴۷۳) وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ وَجْهِ رَبِّهِمْ (۲۳ تا ۲۵) ۳۶۵٬۵۳۵ ۴۶۲ بِاحْسَانِ (۱۰۰) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ ابراهيم وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا (۲۴) ក ۲۵۶ التوبة صَدَقَة (۱۰۳) كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ...(۱۹) يونس فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمْراً (ا) هود ۴۵۲ الحجر ٥٥ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا...112 (۲) لَوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَئِكَةِ (۸) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرُ (1) 044 ۱۲۸ هُمْ بَدَهُ وَكُمْ أَوَّلَ أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيْنَةٍ (۱۸) ۱۰۵ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيْكَة

Page 635

14 إِنِّي خَالِقٌ (۳۰٬۲۹) ٥٥۸٬۵۰۵ اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَئِكَةِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ (۱۳) ٢٩٩٢٩٣ التحل وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ (۱۳) ۵۱۴ رُسُلاً (۷۶) المؤمنون فَقَالَ الْمَلَؤُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا ۴۹۸ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لهم (۱۸) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً (۳۷) وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (۵) بنی اسراءیل قُلْ لَّوْ كَانَ فِي مِنْ قَوْمِهِ (۲۵) وَمَنْ حَفَّتْ مَوَازِينُهُ ۴۸۹ ۴۹۲ فَأُولئِكَ (۱۰۴تا۱۱۳) Mar النور وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا الْأَرْضِ مَليكة (1) ۵۵۷ مِنْكُمْ (۵۶) ۴۶۲ ظة قُولَا لَهُ قَوْلاً لينا (۴۵) ۴۳۷ الانبياء هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرَ القصص رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (۲۵) العنكبوت وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ ٥٨٨ وَأَمَّا الَّذِيْنَ فَسَقُوْا (۲۲٬۳۱) وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الكتب (۲۴) الاحزاب لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ (٣٣) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا الله ذكراً كَثِيراً (۴۲ تا ۴۴) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَيْكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبي (۵۷) إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ (۵۹٬۵۸) مثْلُكُمْ () ٢٩٩ النبوة (۳۸) ۳۲۴٬۳۰۷ يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلا تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً رجالاً (۸) وَالْمُنْكَرِ (۳۶) سَدِيدًا (۷۲۷۱) ه نام مهم الحج كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ (۷۰) مِنْهَا مِنْ غَمَ (۲۳) ٢٠ | السجدة أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ (۳۰) ۲۱۳ قُلْ يَتَوَفَّكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ ۵۴۳۵۳۴ سبا وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً (۳۳۴۱) فاطر MYA ۲۹۲ ۵۵۷

Page 636

16 الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَوَاتِ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَئِكَةِ وَلَا السَّيِّئَة (٣٥) (۲) وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (۲۵) أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَئِكَةُ إِنَاثاً (101) ۴۹۷ ۲۷ الشورى وَالْمَلَئِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ (1) وَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (۳۱) ۴۹۰٬۳۸۹ | محمد مَا ذَا قَالَ أَيْفاً (۱۷) ص مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلا (0) ۴۹۶ الفتح مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ الزمر اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ (۴۴) وَتَرَى الْمَلَئِكَةُ حَافِينَ (21) المؤمن ۲۶۴ ۵۰۲ ۴۷۹ المجادلة لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (۳۳) الحشر مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ (۸) الممتحنة يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالا تَتَّخِذُوا عَدُوّى (۳۲) لا يَنْهَكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ (3) ۲۱۰ ۳۱۳ ma'ru وَالَّذِينَ مَعَهُ (۳۰) ۴۹۲ يأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَ كَ الحجرات الْمُؤْمِنَتُ (۱۳) ۲۹۵ ۵۷ ه يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا التحريم كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ (۱۳) ۴۳۱ لا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ الذريت وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (4) ۴۸۸ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ ۵۵۶٬۴۹۵٬۴۹۳٬۴۹۲ ۱۵۰ الحاقة الَّذِيْنَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ الا لِيَعْبُدُونِ (۵۷) وَمَنْ حَوْلَهُ (۸) ۵۵۸٬۵۰۳٬۳۹۱ القمر حم السجدة إِنَّ الْمُحْرِمِينَ فِي إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ضَلل وشعرٍ (۴۹۴۴۸) ثُمَّ اسْتَقَامُوا (۳۲۳۱) ۲۹۹٬۴۶۱ ۴۶۹ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا...(۴۵ تا ۴۷) ۱۱۸ المعارج يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِى (۱۲ تا ۱۶)

Page 637

۴۲۸۴۲ ١٨ المدثر الانفطار وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحْفِظِينَ الا هو (٣٢) (۱۱تا۱۳) ۵۰۴ الصحى وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ (۱ تا ۱۳) التبا (۲۲ تا ۲۷) ۴۶۸ حافظ (۵) الطارق الناس إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا سورة الناس ۵۳۴۵۲۶

Page 638

۱۹ احادیث (ترتیب بلحاظ حروف تیجی) إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ میں ایک گروہ کا ساتھ دیا اور اكذَبُ الْحَدِيثِ الْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ ۵۴۸ ۲۹۳ دوسرے گروہ کا مقابلہ چھوڑ دیتا مسجد میں تھوکنا نہیں چاہئے إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ الْعَبْدَ نَادَى يُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ بچہ کے پیدا ہوتے ہی کان جبْرِيلُ إِنَّ الله الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ الله وَلَا تُشْرِكَ بِهِ الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ الْإِمَامُ سُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ ورائه انا سيد ولد ادم ۵۰۴ ۲۹۳ MYA ٣٣١ عَلَيْكَ السَّمْعَ وَالطَّاعَةَ فِي الْقَلْبِ لَمَّتَانِ ۲۶۰ ۳۳۷ لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا لا فَضْلَ لِعَرَبِّي عَلَى أَعْجَمِي لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حين مَنْ كَانَ لَهُ مِنْ قَلْبِهِ وَاعِظُ Irriry ۵۳۹ میں اذان کا حکم جس گھر میں تصویر نہیں ہوں وہاں فرشتے نہیں جاتے کتوں سے کھیلنا فرشتوں کی رکاوٹ کا باعث بنتا ہے خطبہ شروع ہونے سے پہلے جو مسجد میں جاتے ہیں فرشتے ان کے نام لکھتے ہیں جہاں قرآن پڑھا جائے وہاں فرشتے اترتے ہیں جہاں خدا کا ذکر ہو وہاں فرشتے نازل ہوتے ہیں يَا نَبِيُّ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ جو اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے الثلث والثلث حير خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ حَيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ نَا يَسْأَلُوْنَا خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَ حَقَّنَا وَاللَّيْلَةِ يَجِي أَحَدُكُمْ بِمَالِهِ فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں ۵۹۲ ۵۸۵ ۵۶۷ ۵۶۲ ۵۶۲ ۵۶۱ ۵۶۰ ۵۵۹ 004 يَتَصَدِّقُ بهِ الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ F I ۲۶۰ وہ دعا جس میں خدا کی حمد اور مجھ پر درود نہ ہو وہ قبول نہ ہو گی کوئی بھی نہیں جس کے لئے شیطان مقرر نہیں ۵۵۳ ساری رات تہجد پڑھنے اور سارا احادیث بالمعنیٰ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ آنحضرت کا تیراندازی کے مقابلہ دن روزہ رکھنے والے کو پسند نہ فرمایا ۵۴۹ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ 11 ایک وقت آئے گا کہ سب جہنم

Page 639

A ۱۶۱ ۱۳۹ IMY ۱۳۴ ۱۳۳ سے نکل آئیں گے نماز کا شیطان ہے جس کا نام خنرب ہے وضوء کا شیطان ہے جس کا نام ولہان ہے ۵۴۴ ۵۳۸ ora ایک صحابی کا آنحضرت سے بدلہ فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار لینے کے بہانے آپ کے جسم مبارک کا بوسہ لینا مکہ اور مدینہ کی نمازوں کا اور بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے ۴۷۲۴۴۷۱ ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں آپ نے جگہ کی نماز میں مقابلہ نہیں کر سکتیں ٤٥٠ فرمایا.ہاں پھر دوسرے نے کہا معراج کی حدیث میں جبریل کا کہنا کہ حضرت ابو بکر کا منکرین زکوة آگے آپ ہی جائیں میں نہیں جا سکتا جب تک تشد نه اترا تھا صحابہ کیا کرتے تھے ؟ ۵۲۹ ۵۰۹ سے جہاد کرنے کا عزم صحابہ آپس میں کہا کرتے تھے کہ آئیں ایمان تازہ کریں ۴۵۲ ۴۴۹ تو فرمایا وہ وقت گزر گیا آنحضرت کا فرمانا کہ ممکن ہے کہ میری رائے درست نہ ہو آنحضرت کا دو قبروں کے پاس سے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر گزرنا اور فرمانا کہ یہ جہنمی ہیں اور دو معمولی باتوں سے.ایک پیشاب آنحضرت کا حضرت عائشہ سے فرمانا فرمایا کہ مجھے لیلتہ القدر کی گھڑی کہ جبریل آپ کو سلام کہتے ہیں جبریل کا آنحضرت کے پاس آکر ཉ་ بتائی گئی لیکن لڑائی دیکھ کر بھول گیا ۴۳۶ کے چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہیں ایک شخص کا چار گناہوں کا ذکر کرنا بچاتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا پوچھنا کہ یہ ایمان کیا ہے؟ ۵۰۵۲۹۲ کہ میں نہیں چھوڑ سکتا.فرمایا ایک عورتیں مرنے والے پر بین کرتی ساتوں آسمانوں پر ایک بالشت بھی تو چھوڑ دے تین میں چھڑا دوں گا.ہیں.فرشتے اس کو گر ز مار کر جگہ نہیں کہ سب جگہ فرشتے عبادت جھوٹ چھوڑ دو ۵۰۴ پوچھتے ہیں جس پانی سے آنحضرت وضو کرتے آنحضرت کی پشت مبارک پر...کر رہے ہیں ایک شخص کا ابو جہل کے قرض کے صحابہ اس پانی کو حاصل کرنے میں لئے آنحضرت سے درخواست کرنا سبقت لے جانے کی کوشش کرتے خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کہ وہ میرا قرض نہیں دیتا آپ لے دیں جبریل کے چھ (۱۰۰) سوپر ہیں ཆ་ ۴۹۸ کو پسند کرتا ہے نماز میں صف سیدھی رکھنے کا قیامت کے دن میں اپنی امت پر فخر کروں گا حضرت عائشہ کا پوچھنا کہ یا رسول حکم اور حکمت اللہ احد کے دن سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی ۴۹۷ ۴۵ AY ۸۶ ۴۶ میری مسجد آخری مسجد ہے فرمانا کہ میں خاتم النبین ہوں صحابہ کا یہ کہنا کہ اگر ہم کفار سے قطع تعلق کر لیں تو ہماری رشته داریاں اور تجار تیں ختم ہو جائیں گی.تب سورہ توبہ کی یہ آیات نازل ہوئیں غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے ایک شخص کا تو بہ سے مایوس ہو جاتا جو عشاء کی نماز میں مسجد نہیں آتے والے صحابی حضرت کعب بن مالک کہ اتنے گناہ اور قتل کرنے کے باوجو د کیا بخشش ہوگی میرا دل چاہتا ہے کہ میں انکے کا واقعہ گھروں کو ان سمیت جلا کر ۴۵ راکھ کر دوں

Page 640

آ MI اسماء تک نہیں دے گا میں اس سے جہاد ۴۵ حوالے لیکر اسلام کے خلاف کروں گا پیش کرنا حضرت آدم ۵۲۵ ۴۵۲ سید امیر علی کی تصنیف کی اہمیت ۳۷۳ آدم ثانی ( حضرت مسیح موعود) ۵۲۵ ابو جهل ابراہیم" oro اہر من زرتشتیوں کاریوتا ۴۸۳ ۳۳۵٬۳۳۴ الحضور کا اس سے کسی کا قرض ۵۰۱ ایڈیسن ۵۰۵ ۵۵۱٬۵۰۹٬۴۸۷ دلوانا چار پرندوں کے اشارہ سے آپ کو اس کو قتل کرنے کے لئے دو مسلمان ۳۵ ب یہ سمجھایا گیا کہ آپ کی قوم بھی چار بچوں کا جذ بہ شوق دفعہ اٹھے گی ۴۲۷٬۴۲۶ ابو درداء ابراہیم پاشا رک جرنیل ۱۴ ابوذر.حضرت ۳۳۱ +A ۳۳۹۳۲۰۳۰۹ ابلیس ابلیس ملک نہ تھا ۵۲۳ | احمد بن حنبل - امام ابن عربی.محی الدین اسامہ.حضرت آپ کو ملائکہ کے ذریعہ علوم کا ۵۰۷ اسماعیل.حضرت ڈاکٹر میر محمد سکھایا جاتا ابو بکر.حضرت آپ کا گھر کا سارا اثاثہ خدا کی راہ میں دے دیتا ۹۵ اسماعیل مولوی محمد ۵۲۳۰۳۴۱۴۲۵۲ اصیل - راوی حدیث آنحضرت کی وفات پر حضرت ابو بکر کا صحابہ سے خطاب.۲۲ امیر علی.سید ۲۱۹ ۲۵۲ ۴۰۸ ۲۸۹٬۲۸۱ ۲۹۲ ۱۳۸۶٬۳۸۴٬۳۷۸۲۳۷۵۳۷۲ ۳۹۶۴۳۹۱۴۳۹۰٬۳۸۹٬۳۸۷ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا ٢٠٠٣٩ سید امیر علی کی تصنیف ”سپرٹ آف آپ کا فرمانا کہ جو اونٹ کی ری اسلام " سے غیر مسلم آریہ کا کچھ بخاری حضرت امام ( محمد اسماعیل) برکلے برهما بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت مرزا ۲۷۵ ۲۷۵ II روزنامہ " آفتاب " میں ایک شخص ۱۷۵ کا آپ کے بارے میں خط شائع کرنا اور اس کی تردید آپ کی ظاہری تعلیم نہ ہونے کے برابر ہونا آپ کی تقریر و تحریر خدا تعالی کی ۹۴ ۹۵ خاص تائید و نصرت آپ کا یہ دھوئی کہ جو بھی قرآن ۳۶۶ کریم کا منکر ہو اس کے ہر اعتراض کا جواب دے سکتا ہوں

Page 641

۲۲ سلام اگر کسی کو فرشتوں کے وجود کے ۳۶۶ آپ کا تقریر کرتے ہوئے محسوس ۱۴۴ | خلاف کوئی اعتراض ہو تو میں اس کرنا کہ ایک نور آسمان سے اترا کے شکوک کا ازالہ کر سکتا ہوں ہے اور میرے اندر داخل ہو گیا ایک آریہ کو اسلام کی سچائی پر بحث ۳۷۲ آپ کا ایک اور رویا کا چیلنج اور اس کی تفصیل ۲۰۱۳۹۳ مکیلے بو علی سینا حسن نظامی کا مباہلہ کا چیلنج اور اس کی رسوائی ۵۰۱٬۵۰۰ ۱۴۳ ۲۷۵ حالی مسلمانوں کی درد ناک حالت کا ۱۰۹ اشعار میں بیان کرنا حسام الدین.میر 112 بو علی سینا کو حضرت مسیح موعود کا ۴۱۲ حسان بن ثابت.حضرت ۱۳۱۴۴۰ جب بھی کوئی دعا کرتا ہوں تو میر محمد خواب میں دیکھنا اسماعیل صاحب مجھے دکھائے جاتے بیج ناتھ رائے بہادر لالہ ہیں یا خدا کسی فرشتہ کے ذریعہ بتا دیتا ہے اور کبھی خود جلوہ صمیم سین لاله نمائی کرتا ہے پاشا ابراهیم، ترک جرنیل ٹوگو.ایڈمرل ج ۳۶۱ ۳۵۲ ۳۵۲ 11 حسن.مولوی میر حسن نظامی حسن نظامی کا حضرت مصلح موعود 112 سے مباہلہ اور اس کی رسوائی ۵۰۱٬۵۰۰ خ خدا بخش ایم اے ۳۶۵٬۳۵۶ اس کا قرآن مجید کو آنحضرت کی ڈائری قرار دیتا جس میں وہ اپنے خیالات لکھا کرتے تھے آپ کا فرشتہ کے ذریعہ فاتحہ کی ۵۰۶ تغییر اور علوم سیکھنے کا تجربہ الها مأسورۃ الناس کی تفسیر اور ایک ۴۴۶ سجدے میں کئی معارف سکھا دینا میری فطرت میں بدلنی کا مادہ رکھا ۴۳۲ ٹاکاماری.مارشل ہی نہیں گیا حضرت عمر کو شعروں کا شوق تھا ۴۴۱ میری طبیعت کو بھی اشعار سے مناسبت ہے آپ کا پنجابی میں ایک تقریر کرنا آپ کے رویا اور کشوف.مزید دیکھیں " رؤیا " ۱۴۷ ۴۱۲ امریکہ اور بخارا کے متعلق رویا آپ کا کشف مچھر کا کہنا تپ ٹوٹ ۵۱۰ جائے گا آپ کا خدا سے محبت کے رنگ میں ۴۵۹ خلیل احمد.عیم جارج لائیڈ' وزیر اعظم انگلستان ۱۷۸٬۲۴ خوارزم - بادشاه جبریل ۵۲۶٬۵۰۰٬۵۰۸٬۵۰۵٬۵۰۴٬۴۹۸ ۵۳۰۲۵۲۷ ۲۹۲ آپ کا آنحضرت سے اسلام کے بارے میں سوال کرنا زمین پر سونا شروع کر دینا اور کشفاً جنید بغدادی ZJ ۶۶ جس کی تیر کمان حضرت مسیح موعود نے رویا میں اپنے ہاتھ میں لی اور ایک شیر کا شکار بھی کیا دانیال داؤد علیہ السلام - حضرت زبر دستی چارپائی پر ملانا جيمز ۲۷۵ ۴۹ AAT ۴۱۲ ۴۸۷

Page 642

۲۳ در گاو تا جوشی.پڑت روشن علی.حضرت حافظ پنڈت در گار تا جوشی کی ویدوں کے ۳۶۲ خلاف رائے دیانند.پنڈت Cray ز زار زار روس آپ کے خاندان کی ایک عابدہ عورت کا تذکرہ جو ذکر الہی کو نماز سے زیادہ اہم سمجھتی تھی اور ٹھوکر کھائی....شریف احمد.حضرت مرزا ۵۵۸٬۳۹۱۳۷۱۳۶۳۳۵۸ دیو راؤ ناٹک راد بهادر دیو راؤ ناٹک راؤ بہادر کی دیدوں کے خلاف رائے اس کا سونیا حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں ہونا رویا میں اس کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی س ۴۱۴ اک ڈارون } ڈارون تھیوری جنرل ڈائر ڈوئی الیگزینڈر ۳۵۵٬۲۷۵ ۲۰۱ ۲۰۰ ۴۸ رام دیو.ایک آریہ پروفیسر ۳۵۳ پنسر ستیندر ناتھ ٹیگور.۲۵۵۲۷۵ صدر الدین - مولوی ستیند رناتھ ٹیگور - آئی سی ایس کی صدر الدین سیکرٹری انجمن احمد سیہ کو ہات ہندو مذہب کے بارے میں رائے b سعد بن وقاص.حضرت طلحہ بن عبید الله سعید - شیخ سکندر ۲۵۳ ۵۸۴ ظفر اللہ خان.۳۸۶۲۳۸۳۳۷۰ ۳۶۵٬۳۵۶۲ پروفیسر رام دیو کے اسلام پر سید احمد - سر ش ۵۴۷ حضرت چوہدری مجھ ظہیر الدین اردپی ع ۵۴۷ DAY ۲۹۳ ۵۱۰ ۵۰۵ اعتراضات اور ان کا جواب شادی خان.حضرت خشی عائشہ.حضرت بعض اعتراضات کو بدل لیتا اختلافی مسائل پر حضرت مصلح موعود کا انتاج ۳۷۰.۵۲۳٬۴۹۷ آپ کا منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے میدے کی روٹی سامنے آنے پر آپ ۲۲۰ گھر کا سارا سامان بیچ کر چندہ دے کی آنکھوں میں آنسو آجاتا دینا اور حضرت مسیح موعود کا رجب الدین - صاحب خلیفہ ۵۹۷ تعریف کرنا رشید رضا.سید محمد ایڈیٹر المنار شافعی.امام شاہ ولی الله ۴۷۸ جبریل کا آپ کو سلام کہنا ۵۰۹ عباد الله اختر - خواجہ ۳۱۸٬۲۹۱٬۲۸۹ عبادہ بن الصامت - حضرت

Page 643

عمرہ.حضرت ۲۴ ۹۵٬۳۹٬۳۳ مرزا، مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ۲۲ عبد اللہ الہ دین.سیٹھ عبد اللہ بن سبا ۴۱۶ ۳۲۱۳۰۸ ۴۳۴۱۴۲۵۵٬۲۵۴٬۴۵۳۲۵۱۱۳۱ orr'mor آپ کی اسلامی مساوات قائم عبد اللہ بن عمر.حضرت کرنے کی مثال آپ کا سنت نبوی کے لئے اظہار محبت عبد اللہ جیما پوری ۴۵ ۵۰۵ آپ کا جنگ احد میں آنحضرت کی شہادت کی خبر سن کر افسردہ حالت میں ایک طرف بیٹھ جاتا ་་ ۱۵۴ ۵۹۷۵۶۶٬۵۰۶۴۴۸۷۴۵۶۴۲۰ ۶۰۰٬۵۹۹ مسیح موعود جس کی انتظار صدیوں ے تھی آپ کی سچائی کا معیار ۱۱۳٬۲۸۴۴۲ آپ کا عیسائیوں کو جلا وطن کرنا اور ۲۵۴ کے متعلق رائے عبدالباری فرنگی محل متبادل جگہ فراہم کرنا مولوی عبد الرحمان حضرت بن عون * عبد الکریم.حضرت مولوی عبد الكريم عبدالکریم جنہیں باؤلے کتے نے کاٹ لیا اور حضور کی دعا سے معجزانہ شفا ہوئی عبدیالیل - ۱۷۳ آپ کو شعروں کا شوق ہوتا ۱۱ عمرو بن عاص - حضرت ۷۵ عیسی - حضرت مسیح ناصری یسوع مسیح ۴۴۱ 41 TA Mzʻrrira'ra ۵۷۶٬۵۵۱٬۵۳۱٬۵۲۸٬۳۲۷ آپ کے مخالفین کی آپ کی سچائی آپ کی سچائی کی ایک دلیل دعوئی سے پہلے کی زندگی دیکھیں عمر بخش مستری آپ کی سچائی کا ایک نشان.غرباء عمر بخش مستری کے حضور کی نسبت کی جماعت دین کیلئے قربانیاں کچھ الزامات اور ان کی تردید ۱۷۶۱۶۵ آنحضرت کی بنک کا باعث ہے ย عثمان - حضرت ۳۰۸٬۲۱۲٬۹۵ ۳۴۱۴۳۳۹۳۲۱۴۳۲۰ آپ کے زمانہ خلافت میں ۳۳۹ اختلافات کی وجوہ حضرت عیسی کا امت کی اصلاح کیلئے آنا آنحضرت کی توہین ہے وفات مسیح غ غلام احمد قادیانی - حضرت ۳۹ ۱۳۲۱۲۹ A کرنے والی پیدا کی آپ کی سچائی کی ایک دلیل.وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى آپکی بعثت سے اسلام کی صداقت کا ثبوت آپ کی صداقت کی دلیل.وَلَوْ تَقَوْلَ عَلَيْنَا آپ کے دعوی نبوت کے بعد خدا کا حسن سلوک آپ کی صداقت کی ایک دلیل ہے کیا حضرت مسیح موعود غلطی خورده یا مجنون تھے ؟ آپ کے نشانات آنحضرت کی صداقت کے نشانات ہیں آپ کے ذریعے لاعلاج مریضوں کا شفا پاتا آپ کا ایسے وقت میں اسلام کا دفاع کرنا جبکہ اسلام سائنس اور عزیز احمد حضرت مرزا علی.حضرت ۴۹۷ ۳۲۱ ۱۴۳ وفات مسیح کی اہمیت حیات صحیح کا عقیدہ خدا اور ۱۳۹ ۲۳ IIA 119°42 19'110 ៩។

Page 644

r&A YA ۵۲۵ IPIYA AL TAA 14 ۴۳۷ Ar ۲۵ علوم جدیدہ کے خطرناک حملہ کی زد میں تھا آپ کے آنے سے رسول کریم کی کیا فضیلت ظاہر ہوئی บ ۱۲۵ آپ کے ذریعے اسلام کی اشاعت ۶۹ آپ کا دعوی نبوت ۱۲۷ آپ کی کتابیں خوب پڑھیں ، یہ برپا کر دیا قرآن کی تفسیریں ہیں ۴۷ الهامات حضرت مسیح تیرہ سو سال کے بعد ایک رسول دیکھنے کی صورت پیدا ہوئی ۹۳ موعود آپ کو ایک انگریز نے خواب میں تُؤْبِي تُؤْبِي فَإِنَّ الْبَلَاءَ دیکھا Ʌr آپ کی کتب پڑھ کر ایک انگریز کا آپ کے دعوی نبوت سے رسول لخط لکھنا جس میں اسلام کی اعلیٰ کریم کی فضیلت آپ کی رسول کریم اور اسلام تعلیمات کا اقرار کیا کے بارے میں غیرت اور چند واقعات آپ کے علمی کارنامے آپ کے اتنے نام رکھنے میں ۱۱۵ ۱۱۳۴۴ وہ دلائل جو اسلام کی صداقت میں عَلى عَقِبِك فَحَانَ أَن تُعَانَ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاكَ آپ نے پیش کئے ہیں کوئی مذہب يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ان کے سامنے ٹھر نہیں سکتا آپ اُسترے سے منڈے ہوئے سمر حکمت - کرشن ، مهدی ، مسیح و غیره ۷ ۱۲۹٬۱۲ کو نا پسند فرماتے ۱۱۴ آپ کی وفات پر اخبار وکیل کا آرٹیکل آپ کا اپنی اولاد سے اعلیٰ درجہ کا حسن سلوک خدا تعالی کی محبت کا آپ سے اظہار ۴۵۹ پیشگوئیاں آپ کی پیشگوئی احمد بیگ کے بارے میں آپ پر ڈاک کا مقدمہ اور بریت ۴۳۴ آپ کا ملائکہ کے ذریعہ علوم حاصل At ۵۸۵ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ اردو الهامات آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں ۷۶ تا ۸۰ حاشیہ کی غلام ہے دنیا میں ایک نذیر آیا...لاہور میں ہمارے پاک ممبر کرتا ملائکہ کے بارے میں آپ کی تحریرات آپ کی شعرت دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ کوئی دلیل نہیں ۵۰۸ CAT ۶۹ اسلام کی صداقت کے متعلق ۷۳ پیشگوئی زار روس کے متعلق پیشگوئی آپ کے رویا اور کشوف ایک سکھ طالب علم کا آپ کی کشف جس میں ایک لاکھ فرشتے خدمت میں درخواست کرنا کہ خدا سے مانگے میرے اندر خدا کی ہستی کے بارے خوارزم بادشاہ کی تیر کمان اور شیر میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں آپ کا کا شکار فرمانا کہ کلاس روم میں جگہ بدل لو.اور اس کا صحیح ہو جاتا جہاد اور حضرت مسیح موعود ۴۳۷ ۳۱۳ بخارا اور امریکہ کے بارے میں آپ کی بعثت فتح و خوشخبری کی قرباء ہے جس نے دنیا میں ایک حشر ۷۴ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اء فاک فتح محمد - سیال صاحب ' چوہدری ۲۸۶ فرعون MAY ۴۱۲ ۴۱۴ نیستم انگریز جس نے حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھا ق

Page 645

۲۶ مادہ.حضرت قیصر هند کرشن ۲۶۶ ++1 IFA حضرت مسیح موعود کار عمومی کرشن ۱۳۷ لوڈ ڈکنس لوئی کو ہنی لیفرائے.پادری پادری بیفرائے کو حضرت مسیح موعود کا چیلنج کعب بن مالک - حضرت کفایت اللہ دھلوی.مولوی اه خواجه گاندھی لیکھرام ۲۶۵ م ۲۱۱ امام مالک.DAY ۲۴۹۱۲۴۸ ۵۸۵٬۳۱۷٬۲۵۰ مارکونی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۲۵۵ ۴۷۸ ۳۵۵ ۱۳ فرانس کے ایک مورخ کا آپ کی سچائی کے بارے میں رائے کا اظہار کرنا آنحضرت کی ذات پر مخالفین کے حملے جو پہلے زمانہ میں تھے آپ کا صفا پہاڑی پر چڑھ کر اعلان کرنا ۲۴ 1.4 ۱۵۳ ۱۵۲ آپ کی کفار کو جزیرہ عرب سے نکال دینے کی وصیت آپ نے کبھی بھی کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھرایا مخالفین اسلام کا آنحضرت " کے خلاف بعض مسلمانوں کی کتب سے اعتراضات پیش کرنا جن میں ۲۵۱ مید امیر علی اور خدا بخش شامل ہیں ۳۵۰ آپ کی وفات پر حضرت عمر اور حضرت ابوبکر کا رد عمل گاندھی کو اپنا لیڈ ربنا نا اسلامی غیرت کے خلاف ہے گوکل داس گوندا داس.بابو ل ۲۷۳ Fyr ۲۶۶٬۴۵۵۱۲۱۱۱۶۷۸۳۷۶۶۷۶۵ ۴۱۳٬۳۸۸٬۳۳۱۴۳۱۹۲۷۵۲۷۳ محمد حسین شاہ صاحب ڈاکٹر ۲۵۶ ۷۱٬۴۵۰٬۴۲۷ ۵۲۳٬۵۰۵٬۴۸۰۰۴ محمد صادق.حضرت مفتی آپ کا امریکہ جاتا اور امریکی حکومت کا نا ہونے سے آپ آپ کے زمانہ بعثت کی تاریکی کا حال آپ کی صداقت کے نشان ۵۲۹٬۵۲۸ لاجپت رائے.لالہ ۲۵۷٬۳۵۵ خدا کے بعد رسول کریم سے بڑھ آریہ مت کے خلاف رائے ۳۷ ۳۹۲ کر کسی کو درجہ نہ دو ۳۵۴ آپ کا شعر سنانے کی بجائے سورۃ ۴۴۱ بقرہ سناتا خاتم النبین کے معانی 1+p ۱۰۵ 106 Ira آپ کی فضیلت و عظمت ۱۰۴٬۳۰٬۲۷ توحید و تبلیغ کے لئے آپ کی غیرت کا واقعہ عیسائی مورخین کا یہ کہنا کہ آپ کے وقت میں فتح کے سامان مہیا تھے ۱۵ ۲۳ کو روکنا محمد علی خان نواب حضرت نواب مالیر کوٹلہ محمود الحسن دیا بندی.مولوی ۷۵ ۲۰۹ ۲۴۵٬۲۳۷ ۲۳۶٬۲۱۷ ۲۱۱ محی الدین ابن عربی مسلم امام 11 ۲۷۵

Page 646

۲۵۵ ۳۵۵ ۲۷۲ Fol 7299 ۲۷۵ 121 ۲۵۴ ۲۵۹ ۲۷ مسیح ناصری.دیکھیں " مینی " مولراج للہ ایم اے مسیح موعود دیکھیں " مرزا غلام احمد قادیانی" مسیلمہ کذاب مصلح موعود دیکھیں " مرزا بشیر الدین محمود احمد ۱۴۱۳ مظہر الحق.بیرسٹر ۳۸۴۰۳۷۴۴۳۶۵ آپ کا گوشت خوری کے خلاف لکھنا ۳۵۰ لالہ مولراج ایم اے کا آریہ 721 مذہب کے خلاف خیالات کا اظہار ۳۷۱ موہن رائے.رام میکائیل نبی بخش.میاں ن نواس ائنگر ایم اے.ایف.۵۵۸ MAK › ។ ។ ۳۵۹ ہر برٹ ہکسلے ہلا کو خان 0-0 بلا کو خان کا بغداد کو تباہ کرنا ہلال بن امیہ " میگل ایم مسٹر بیانی سری نوح - حضرت نورالدین.حضرت خلیفہ المسیح الاول ، حکیم - مولوی ۵۰۶٬۴۵۶٬۱۱۵ ۴۸۸٬۱۲۸ میله یسوع مسیح.دیکھیں " میلی " یعلی بن امیه ۵۸۶٬۵۸۴٬۵۴۷ یوسف - حضرت 04° والٹر AQ ۵۹۷ ។ ។ ۳۵۸٬۳۵۶ 11% مظہر جان جاناں حضرت معراج الدین.میاں معین الدین چشتی خشی رام.لالہ منصور (حلاج) موسیٰ.حضرت موسیو زر بھی.۵۸۷٬۵۵۱۵۲۸ زرتشتی کتب میں آنے والے کا نام ۱۲۷ ایک انگریز کا قادیان میں آنا حضرت مصلح موعود سے سوالات کرنا اور تائید الہی سے اس انگریز کا لا جواب ہوتا...

Page 647

ㄚ ۲۸

Page 648

For ٥٨٠ ۴۱۲ ۲۹ مقامات امریکہ سے حقہ لایا گیا امریکہ کی بابت حضرت مصلح موعود کا رویا امریکی حکومت کا حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو داخل ہونے سے ۴۱۲ ایشیا جاتا.دریا روک دینا اور حضرت مصلح موعود بٹالہ کا فرمانا کہ امریکہ کو ضرو ر نیچا دیکھنا بخارا پڑے گا چنانچہ یہ بات خدا کے ۲۰۵٬۱۸۲٬۱۸۰۱۷۷ ۲۱۳ ۵۶ IZA آرمینیا آسٹریا آسٹریلیا اٹلی ارض مقدس.فضل سے پوری ہوئی ۴۱۲ برطانیہ.دیکھیں " انگلستان" ارض مقدس کے بارے میں نوشتے ۲۷۷ اندلس افریقہ ۵۸۲۴۲۱۷۴۷۰۱۷۱۷۱۲ انگلستان - نیز دیکھیں "لندن" افغانستان یہ لوگ جب احمدی ہوں گے تو ۲۵۵ بغداد it ۲۴۹٬۱۹۹٬۱۸۱۲۱۷۸ ۱۷۵ ۱۸ ۱۷ ۱۶ ۲۶۸۲۶۲ ہمیتی بنارس بنگال ۲۷۲۲۵۳ ۲۵۱ ۲۶۲ انگلستان کے لوگوں کو یورپ کی تمام اقوام میں سے مذہب کا بہت خیال ہے ایک شخص کا خواب کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کو دیکھنا یہاں (مسجد لندن ) کی تعمیر میں حصہ لینے والوں کی تاریخی اہمیت ایک عیسائی کا مسلمان ہوتا اور ہندوستان آکر محرم کی تقریبات دیکھ کر مرتد ہو جاتا ایران Ar 1+4 ۳۶۶۲۵۲٬۲۳ بہار پنجاب ترکی ۲۵۵٬۲۵۳٬۱۷۳ ترکی حکومت کے متعلق اتحادیوں کا فیصلہ اور اس پر تبصرہ ترکی سے صلح کی شرائط پر تبصرہ ترک افواج کی یونان کے ساتھ ۲۰۴ 122 AAI ۱۷۳ اکٹھے ہی ہوں گے الہ آباد امر تر بندے ماترم بال امرتسر امریکہ ۵۰۷٬۲۸۹٬۹۸٬۲۳ ۵۴ ۵۶۴۷۱۷۱۶٬۱۲ ۴۳۸۴۴۱۲۴۴۱۱۴۳۵۵٬۱۷۵٬۷۰٬۶۰ ۴۱۱ امریکہ میں احمد یہ مشن کا قیام امریکہ کے ایک مصنف کا کام کرنے والے لوگوں کی دو قسموں کا ذکر کرنا

Page 649

roo'ror ۲۵۳٬۲۰۵۱۷۷۱۷۵ Far'root 120 عدن عراق عرب - جزیرۂ عرب ۴۵۲٬۳۶۶۳۵۱۲۵۵٬۲۵۳۲۲۵۱ QAI لفظ جزیرہ کے مفہوم پر بحث ۲۵۵ جزیره عرب سے کفار کو نکالنے کی ۲۵۱ دمیت علی گڑھ عمان غسان غ ۲۶۳۱۱۰ ۴۲ ۲۶۶ ۲۵۵ ۱۷۵۱۰۸۷۲٬۲۳ ۲۱۸٬۲۵۵٬۱۸۰۱۷ 124 - CIA'Z ۲۵۵ ٣٥٠ ۴۱۲ ۲۵۵۱۰۸ 12A دجله و مالی روس زار روس کا سونا حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں ہوتا روم ۱۴ IZA جنگ میں غیرت اور بہادری کی مثال تھریں ج جاپان ۳۵۱٬۲۶۲۱۷۵۱۷ ۴۳۸٬۳۵۲ ۵۸۴۵۸۳ ۲۱۹۴۴۱۸٬۲۱۳ چین ۳۰۱٬۳۸۶ سمرنا سیالکوٹ 114' 'AY ۴۱۲۱۴۷ ۱۴۴ ۱۴۳ ۱۳۹۱۲۵ سیلون فرات ش فرانس 11 جاوا جرمنی جلیانوالہ باغ جلیانوالہ باغح کا واقعہ اور اس پر تبره جموں ۴۸۳٬۴۳۸۱۷ ror'ror شام ۱۷۵ ۱۰۲۵۴٬۲۵۲٬۲۰۵٬۱۷۷ فرانس کے ایک مورخ کی ۲۵۱ شملہ صحرائے اعظم صنعاء ع ۵۰۰ ۲۵۳ ۲۵۳ آنحضرت کی سچائی کے بارے میں تحریر فلسطین فیروزپور قادیان ق جہلم چین حجاز خ آنحضرت کا یہود کو خیبر سے نکالنے کی خواہش کا اظہار

Page 650

۳۱ ۵۸۰٬۳۱۰٬۲۸۹٬۱۶۵ قادیان آؤ یہاں آنے کے بے ل لاہور مسجد نور ۷۷۳۲٬۲۷۲۳۷ مصر شمار فوائد ہیں.سات فواکه ۴۵۱٬۴۴۸ ۱۱۴٬۹۳٬۹۲۴۸۷۲۸۵ ۳۱۷٬۲۶۳۴۱۱۵ مکہ قادیان آنا برکات کا موجب ہے قادیان کے لوگوں کا لندن مسجد کی تعمیر میں اخلا" کا مظاہرہ ۴۵۰ ۵۸۰٬۴۱۴۴ ۴۱۰۳۸۲۳۴۷ لاہور میرے لئے گھر کی حیثیت رکھتا ہے AY قتبه تب قططنيه کامل کنار پور کریلا کولی شمیر کلکتہ کوفه کو ہاٹ کوئٹہ کھیری گجرات گوجرانوالہ گورداسپور ۲۵۳ FIA 4+ 40 ۱۰۸ لاہور کی جماعت اخلاص میں بہت اعلی درجہ کی ہے لبنان لندن.نیز دیکھیں "انگلستان" ۴۱۴ 122 IA'IN ۵۱۱۷۰٬۴۸٬۱۹ لندن.عیسائیت کا مرکز اس میں مسجد کی تعمیر کی اہمیت ماریشس ។ ۱۵۴۱۵۲٬۳۸۳۲ ۴۵۰٬۴۳۹٬۲۵۲٬۲۴۰٬۲۳۹٬۲۳۷ ۴۹۷ ناصره ن نجران نجرانیه عیسائیوں کا جلاوطنی کے بعد نیا قصبہ نجران کی یاد میں آباد کرنا و چھو والی ۵۸۰ مالیر کوٹلہ ۲۵۴ مدراس ۱۶۶ ۱۶۵ میشه ه ولایت.دیکھیں " انگلستان ".۳۱۷ ۲۴۱۲۲۲۳۴ ۴۵۰٬۳۰۸٬۲۵۳ FAQ'FAI ۲۴۵ 19 14 مری.کوہ مری مسجد اقصیٰ.قادیان کا مقام مسجد حرام ۲۳۷ ۲۱۰ مسجد لندن.دیکھیں " لندن " ہندوستان ۲۵۴ ۲۵۴ ۳۵۵ ۴۵۰ ۲۸۳٬۲۶۳ ۲۶۳ ۲۶۱۴۲۵۷ ۲۵۰ ۲۵۱ ۳۶۰٬۳۵۹٬۳۵۵٬۳۵۱٬۳۱۷٬۲۸۵ ۵۹۴٬۵۵۸٬۳۸۲٬۳۷۶۳۶۴۳۶۳

Page 651

ہینگ ہینگ کنونشن کے اصول یروشلم ی کے دشلم کو فتح کرنے کے لئے عیسائیوں کا کم عمر بچوں کی فوج تیار کرنا یمن ۲۰۰ ۱۵۱۲ ۱۵ roo'ror ۳۲ یوپی یورپ ۲۶۲ ۱۵۲۱۲ ۱۸۳۱۷۸۱۷۵۱۷۴۶۹۶۰۴۴۱۷ یورپ سے ایک انگریز کا خط جس میں حضرت مسیح موعود کی کتب کو پڑھ کر اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کا اقرار کیا ۳۵۲٬۳۵۱٬۳۵۰٬۳۱۷۲۸۳۴۲۶۲ یوگنڈا ۴۳۸٬۳۰۹٬۳۶۶۳۹۴٬۳۵۷۲۳۵۵ Sar ۵۱۰۰۲۳۹ یونان ۱۸۲ ۱۸۰۱۷۸٬۲۰ ۴۸۴٬۴۶۶ Par یونانیوں کے ساتھ جنگ میں ترکوں کی غیرت کی ایک تاریخی مثال اسلام غالب آکر رہے گا اور یورپ کی نفرت کو محبت سے بدل کر رہے گا

Page 652

MAA ۱۲۷ ۳۳ آ آریہ پتر اخبار لاہور ٣٥٦ کتابیات ۴۳۰۴۳۱۴۳۱۱۴۳۰۷۲۹۴۲۹۳ ۵۶۰٬۵۴۹٬۴۹۸٬۴۵۲۴۴۹۴۴۳۶ توضیح مرام آریہ گزٹ ۳۷۱۳۵۷ البدایه و النهایه ۴۹۷۲۵۲ | جامایی آفتاب - روزنامه ۱۶۵ براہین احمدید ۴۸۸ ۵۰۹٬۳۰ ۵۶۰ ج - ح - خ زرتشتی مذہب کی کتاب حقيقة الوحي بندے ماترم - اخبار لاہور ۳۲۰ ۳۷۲٬۳۷۰٬۳۵۷٬۳۵۵٬۳۵۰ خطبه الهامیه آئینہ کمالات اسلام ابن ماجه ازالہ اوہام الحکم - اخبار الفضل ١٣٣ ۴۱۵ PIA FIZN ۳۱۵٬۰۰۱٬۳۹۴٬۳۷۰ یران دافع البلاء 20 109 ۱۳۵ پرکاش - اخبار ۲۰۱٬۳۷۰٬۳۵۶ دیوان حسان بن ثابت ۱۳۱۴۰ الاصابة في تمييز الصحابه ۴۴۱ تاج العروس ۴۶۲ ت ۲۵۵ راماتن تاریخ احمدیت (جلد سوم) ۸۰۳۷ ریویو آف ریلیجنز انجام آتھم انجیل ۲۹۴۱۵ تذکره ترندی انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا بائیل 122 O''''ır• ۲۵۱۱۴۹٬۴۴۲۱ ۵۶۷٬۵۳۸٬۵۰۸ س سپرٹ آف اسلام مصنفہ سید امیر علی سمرتی PA ۴۱۵ ۳۸۵٬۳۷۷ ۳۶۲ ۵۶۲٬۵۵۷ تشحيذ الاذهان ۲۵۷۴۴۱۵ تفسیر ابن کثیر ۴۸۸ سنن ابو داؤد ۹۴٬۸۶٬۴۵٬۳۵ بخاری

Page 653

۵۶۲ A4 MIA موطا امام مالک نبراس.ن شرح الشرح العقائد نسفی نور - اخبار وکیل.اخبار ' امرتسر ۳۷ ۳۵۷۴۳۱۸٬۳۰۵٬۲۸۹۴ ۷۷ ۳۶۲۳۵۹٬۳۵۸٬۳۵۴ ۵۰۰٬۳۹۷٬۳۷۸٬۳۲ ۲۵۸ ۳۵۴ دید دید لباشیہ.پنڈت دیانند ہمالیہ - آریہ اخبار الیواقیت والجواهر ۵۹۲۵۷۳۱ ق قرآن کریم ۴۰۱۲۳۹۳٬۳۸۸٬۳۲۷۳۲۳۴۳۱۹ ۵۵۹ rox 11 ۲۵۵ ۲۶۰۱۳۴ کانپور گزٹ ک کلیات آریہ مسافر تصنیف لیکھرام لسان العرب ل ۵۵۹٬۵۵۳٬۵۳۸۴۴۹۶ مسلم.سیچ مسند احمد بن حنبل ۵۸۵٬۵۶۱٬۵۴۸٬۳۲۷۲۶۷ المنار - اسید محمد رشید رضا ایڈیٹی ۲۲۹ سنن الدارمی سنن نسائی سول ملٹری اینڈ گزٹ 0+4 LL سیرت ابن ہشام ۳۴۰۳۳٬۱۵ ۵۰۱۴۷۲۱۵۴ ۱۵۳ rar MAL ۳۰۸۲۵۴ ۴۱۵ ۲۶۰۳۴۱ ۲۵۴ ۵۰۷ b شاستر طالمود طبری - تاریخ ف فاروق - اخبار فتح البیان.تغیر فتوح البلدان فتوحات مکیه

Page 653